Maktaba Wahhabi

آیت نمبرترجمہسورہ نام
1 بسم اللہ سورہ نمل کی ایک آیت یا؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اللہ کی کتاب کو اسی یعنی ( «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» ) سے شروع کیا ۔ علماء کا اتفاق ہے کہ آیت «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» سورۃ نمل کی ایک آیت ہے ۔ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ وہ ہر سورت کے شروع میں خود مستقل آیت ہے ؟ یا ہر سورت کی ایک مستقل آیت ہے جو اس کے شروع میں لکھی گئی ہے ؟ یا ہر سورت کی آیت کا جزو ہے ؟ یا صرف سورۃ فاتحہ ہی کی آیت ہے اور دوسری سورتوں کی نہیں ؟ صرف ایک سورت کو دوسری سورت سے علیحدہ کرنے کے لیے لکھی گئی ہے ؟ اور خود آیت نہیں ہے ؟ علماء سلف اور خلف کا ان آرا میں اختلاف چلا آتا ہے ان کی تفصیل اپنی جگہ پر موود ہے ۔ سنن ابوداؤد میں صحیح سند کے ساتھ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورتوں کی جدائی نہیں جانتے تھے جب تک آپ پر «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» نازل نہیں ہوتی تھی} ۱؎ ۔ (سنن ابوداود:788،قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ حدیث مستدرک حاکم میں بھی ہے ۲؎ (مستدرک حاکم:231/1) ایک مرسل حدیث میں یہ روایت سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے بھی مروی ہے ۔ چنانچہ صحیح ابن خزیمہ میں سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «بِسْمِ اللہِ » کو سورۃ فاتحہ کے شروع میں نماز میں پڑھا اور اسے ایک آیت شمار کیا} ۳؎ (ابن خزیمہ:493:ضعیف) لیکن اس کے ایک راوی عمر بن ہارون بلخی ضعیف ہیں اسی مفہوم کی ایک روایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے ۴؎ ۔ (دارقطنی:312/1:ضعیف) سیدنا علی ، سیدنا ابن عباس ، سیدنا عبداللہ بن عمر ، سیدنا عبداللہ بن زبیر ، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہم ، عطا ، طاؤس ، سعید بن جبیر ، مکحول اور زہری رحمہم اللہ کا یہی مذہب ہے کہ «بِسْمِ اللہِ » ہر سورت کے آغاز میں ایک مستقل آیت ہے سوائے سورۃ برات کے ۔ ان صحابہ اور تابعین کے علاوہ عبداللہ بن مبارک ، امام شافعی ، امام احمد اور اسحٰق بن راہویہ اور ابوعبیدہ قاسم بن سلام رحمہم اللہ کا بھی یہی مذہب ہے ۔ البتہ امام مالک رحمہ اللہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے ساتھی کہتے ہیں ۔ کہ «بِسْمِ اللہِ » الخ نہ تو سورۃ فاتحہ کی آیت ہے نہ کسی اور سورت کی ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا ایک قول یہ بھی ہے کہ «بِسْمِ اللہِ » الخ سورۃ فاتحہ کی تو ایک آیت ہے لیکن کسی اور سورۃ کی نہیں ۔ ان کا ایک قول یہ بھی ہے کہ ہر سورت کے اول کی آیت کا حصہ ہے لیکن یہ دونوں قول غریب ہیں ۔ داؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ ہر سورت کے اول میں «بِسْمِ اللہِ » ایک مستقل آیت ہے سورت میں داخل نہیں ۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے بھی یہی روایت ہے ۱؎ اور ابوبکر رازی رحمہ اللہ نے ابوحسن کرخی رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب بیان کیا ہے جو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بڑے پایہ کے ساتھی تھے ۔ یہ تو تھی بحث «بِسْمِ اللہِ » کے سورۃ فاتحہ کی آیت ہونے یا نہ ہونے کی ۔ [ صحیح مذہب یہی معلوم ہوتا ہے کہ جہاں کہیں قرآن پاک میں یہ آیت شریفہ ہے وہاں مستقل آیت ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» مترجم ] بسم اللہ با آواز بلند یا دبی آواز سے؟ اب اس میں بھی اختلاف ہے کہ آیا اسے با آواز بلند پڑھنا چاہیئے یا پست آواز سے ؟ جو لوگ اسے سورۃ فاتحہ کی آیت نہیں کہتے وہ تو اسے بلند آواز سے پڑھنے کے بھی قائل نہیں ۔ اسی طرح جو لوگ اسے سورۃ فاتحہ سے الگ ایک آیت مانتے ہیں وہ بھی اس کے پست آواز سے پڑھنے کے قائل ہیں ۔ رہے وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ یہ ہر سورت کے اول سے ہے ۔ ان میں اختلاف ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا تو مذہب ہے کہ سورۃ فاتحہ اور ہر سورت سے پہلے اسے اونچی آواز سے پڑھنا چاہیئے ۔ صحابہ ، تابعین اور مسلمانوں کے مقدم و مؤخر امامین کی جماعتوں کا یہی مذہب ہے صحابہ میں سے اسے اونچی آواز سے پڑھنے والے سیدنا ابوہریرہ ، سیدنا ابن عمر ، سیدنا ابن عباس ، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہم ہیں ۔ بیہقی رحمہ اللہ اور ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے سیدنا عمر اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما سے بھی روایت کیا ۱؎ اور سیدنا ابوبکر ، سیدنا عمر ، سیدنا عثمان اور سیدنا علی رضی اللہ عنہم سے بھی غریب سند سے امام خطیب بغدادی نے نقل کیا ہے۔ تابعین میں سے سعید بن جبیر ، عکرمہ ، ابوقلابہ ، زہری ، علی بن حسن ان کے لڑکے محمد ، سعید بن مسیب ، عطاء ، طاؤس ، مجاہد ، سالم ، محمد بن کعب قرظی ، عبید ، ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم ، ابووائل ابن سیرین ، محمد بن منکدر ، علی بن عبداللہ بن عباس ان کے صاحبزادے محمد نافع ابن عمر کے مولیٰ زید بن اسلم ، عمر بن عبدالعزیز ، ارزق بن قیس ، حبیب بن ابی ثابت ، ابوشعثا ، مکحول ، عبداللہ بن معقل بن مقرن اور بروایت بیہقی ، عبداللہ بن صفوان ، محمد بن حنفیہ اور بروایت ابن عبدالبر عمرو بن دینار رحمہم اللہ سب کے سب ان نمازوں میں جن میں قرأت اونچی آواز سے پڑھی جاتی ہے «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» بھی بلند آواز سے پڑھتے تھے ۔ ایک دلیل تو اس کی یہ ہے کہ جب یہ آیت سورۃ فاتحہ میں سے ہے تو پھر پوری سورت کی طرح یہ بھی اونچی آواز سے ہی پڑھنی چاہیئے ۔ علاوہ ازیں سنن نسائی ، صحیح ابن خزیمہ ، صحیح ابن حبان ، مستدرک حاکم میں مروی ہے کہ {سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی اور قرأت میں اونچی آواز سے «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» بھی پڑھی اور فارغ ہونے کے بعد فرمایا میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں مشابہ ہوں} ۱؎ ۔ (سنن نسائی:906،تخریج دارالدعوہ:صحیح) اس حدیث کو دارقطنی ، خطیب اور بیہقی وغیرہ نے صحیح کہا ہے ۲؎ ۔ ابوداؤد اور ترمذی میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کو «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» سے شروع کیا کرتے تھے} ۳؎ ۔ (سنن ترمذی:245،قال الشیخ الألبانی:ضعیف الإسناد) امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ حدیث ایسی زیادہ صحیح نہیں ۔ مستدرک حاکم میں انہی سے روایت ہے کہ {نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» کو اونچی آواز سے پڑھتے تھے} ۴؎ ۔ (مستدرک حاکم:208/1:ضعیف جدا) امام حاکم نے اسے صحیح کہا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انداز قرات صحیح بخاری میں ہے کہ {انس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کس طرح تھی ۔ فرمایا کہ ہر کھڑے لفظ کو آپ لمبا کر کے پڑھتے تھے پھر «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» پڑھ کر سنائی «بِسْمِ اللہِ » پر مد کیا «الرَّحْمٰنِ» پر مد کیا «الرَّحِیمِ» پر مد کیا} ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:5046) مسند احمد ، سنن ابوداؤد ، صحیح ابن خزیمہ اور مستدرک حاکم میں سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہر آیت پر رکتے تھے اور آپ کی قرأت الگ الگ ہوتی تھی جیسے «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» پھر ٹھہر کر «الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ» پھر ٹھہر کر «لرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» پھر ٹھہر کر «مَالِکِ یَوْمِ الدِّینِ»} ۲؎ ۔ (سنن ترمذی:2927،قال الشیخ الألبانی:صحیح) دارقطنی اسے صحیح بتاتے ہیں ۳؎ ۔ امام شافعی ، امام حاکم نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ {معاویہ رضی اللہ عنہ نے مدینہ میں نماز پڑھائی اور «بِسْمِ اللہِ » نہ پڑھی تو جو مہاجر اصحاب رضی اللہ عنہم وہاں موجود تھے انہوں نے ٹوکا ۔ چنانچہ پھر وہ جب نماز پڑھانے کو کھڑے ہوئے تو «بِسْمِ اللہِ » پڑھی} ۴؎ ۔ (مسند شافعی:80/1:حسن) غالباً اتنی ہی احادیث و آثار اس مذہب کی حجت کے لیے کافی ہیں ۔ باقی رہے اس کے خلاف آثار ، روایات ، ان کی سندیں ، ان کی تعلیل ، ان کا ضعف اور ان کی تقاریر وغیرہ ان کا دوسرے مقام پر ذکر اور ہے ۔ دوسرا مذہب یہ ہے کہ نماز میں «بِسْمِ اللہِ » کو زور سے نہ پڑھنا چاہیئے ۔ خلفاء اربعہ اور عبداللہ بن معقل رضی اللہ عنہم ، تابعین اور بعد والوں کی جماعتوں سے یہ ثابت ہے ۔ امام ابوحنیفہ ، امام ثوری ، امام احمد بن حنبل کا بھی یہی مذہب ہے ۔ امام مالک کا مذہب ہے کہ سرے سے «بِسْمِ اللہِ » پڑھے ہی نہیں نہ تو آہستہ نہ بلند ۱؎ ۔ ان کی دلیل ایک تو صحیح مسلم والی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کو تکبیر سے اور قرأت کو «الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ» سے ہی شروع کیا کرتے تھے} ۲؎ ۔ (صحیح مسلم:498) صحیحین میں ہے انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں {میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر اور عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے پیچھے نماز پڑھی یہ سب «الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ» سے ہی شروع کرتے تھے} ۳؎ ۔ (صحیح بخاری:743) صحیح مسلم میں ہے کہ {«بِسْمِ اللہِ » نہیں پڑھتے تھے نہ تو قرأت کے شروع میں نہ اس قرأت کے آخر میں} ۴؎ ۔ (صحیح مسلم:399) سنن میں عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے بھی یہی مروی ہے ۵؎ ۔ (سنن ترمذی:244،قال الشیخ الألبانی: ضعیف) یہ ہے دلیل ان ائمہ کے «بِسْمِ اللہِ » آہستہ پڑھنے کی ۔ یہ خیال رہے کہ یہ کوئی بڑا اختلاف نہیں ہر ایک فریق دوسرے کی نماز کی صحت کا قائل ہے ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» [ «بِسْمِ اللہِ » کا مطلق نہ پڑھنا تو ٹھیک نہیں ۔ بلند و پست پڑھنے کی احادیث میں اس طرح تطبیق ہو سکتی ہے کہ دونوں جائز ہیں ۔ گو پست پڑھنے کی احادیث قدرے زور دار ہیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ مترجم ] فصل بسم اللہ کی فضیلت کا بیان تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے کہ {عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے «بِسْمِ اللہِ » کی نسبت سوال کیا آپ نے فرمایا : ”یہ اللہ تعالیٰ کا نام ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے بڑے ناموں اور اس میں اس قدر نزدیکی ہے جیسے آنکھ کی سیاہی اور سفیدی میں“} ۱؎ ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:21/1:موضوع باطل) ابن مردویہ میں بھی اسی طرح کی روایت ہے ۔ اور یہ روایت بھی ابن مردویہ میں ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جب عیسیٰ علیہ السلام کو ان کی والدہ نے معلم کے پاس بٹھایا تو اس نے کہا لکھئے «بِسْمِ اللہِ » عیسیٰ علیہ السلام نے کہا «بِسْمِ اللہِ » کیا ہے ؟ استاد نے جواب دیا میں نہیں جانتا ۔ آپ نے فرمایا : «ب» سے مراد اللہ تعالیٰ کا «بہا» یعنی بلندی ہے اور «س» سے مراد اس کی «سنا» یعنی نور اور روشنی ہے اور «م» سے مراد اس کی مملکت یعنی بادشاہی ہے اور «اللہ» کہتے ہیں معبودوں کے معبود اور اور «رحمن» کہتے ہیں دنیا اور آخرت میں رحم کرنے والے کو «رحیم» کہتے ہیں ۔ آخرت میں کرم و رحم کرنے والے کو“} ۲؎ ۔ (الکامل لابن عدی:303/1:موضوع باطل) ابن جریر میں بھی یہی روایت ہے ۳؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:140:موضوع باطل) لیکن سند کی رو سے یہ بے حد غریب ہے ، ممکن ہے کسی صحابی وغیرہ سے مروی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ بنی اسرائیل کی روایتوں میں سے ہو ۔ مرفوع حدیث نہ ہو «وَاللہُ اَعْلَمُ»۔ ابن مردویہ میں منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ پر ایک ایسی آیت اتری ہے جو کسی اور نبی پر سوائے سلیمان علیہ السلام کے نہیں اتری ۔ وہ آیت «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» ہے ۔ جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب یہ آیت «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» اتری بادل مشرق کی طرف چھٹ گئے ۔ ہوائیں ساکن ہو گئیں ۔ سمندر ٹھہر گیا جانوروں نے کان لگا لیے ۔ شیاطین پر آسمان سے شعلے گرے اور پروردگار عالم نے اپنی عزت و جلال کی قسم کھا کر فرمایا کہ جس چیز پر میرا یہ نام لیا جائے گا اس میں ضرور برکت ہو گی ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جہنم کے انیس داروغوں سے جو بچنا چاہے وہ «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» پڑھے ، اس کے بھی انیس حروف ہیں ، ہر حرف ہر فرشتے سے بچاؤ بن جائے گا ۔ اسے ابن عطیہ نے بیان کیا ہے ۔ اس کی تائید ایک اور حدیث سے بھی کی ہے جس میں {آپ نے فرمایا :”میں نے تیس سے اوپر فرشتوں کو دیکھا کہ وہ جلدی کر رہے تھے یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمایا تھا جب ایک شخص نے «رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ حَمْدًا کَثِیرًا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیہِ» پڑھا تھا“} ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:799) اس میں بھی تیس سے اوپر حروف ہیں اتنے ہی فرشتے اترے اسی طرح «بِسْمِ اللہِ » میں بھی انیس حروف ہیں اور وہاں فرشتوں کی تعداد بھی انیس ہے وغیرہ وغیرہ ۔ مسند احمد میں ہے {نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے جو صحابی سوار تھے ، ان کا بیان ہے کہ آپ کی اونٹنی ذرا پھسلی تو میں نے کہا شیطان کا ستیاناس ہو ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”یہ نہ کہو اس سے شیطان پھولتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ گویا اس نے اپنی قوت سے گرایا ۔ ہاں «بِسْمِ اللہِ » کہنے سے وہ مکھی کی طرح ذلیل و پست ہو جاتا ہے“} ۱؎ ۔ (سنن ابوداود:4982،قال الشیخ الألبانی:صحیح) نسائی نے اپنی کتاب «عمل الیوم واللیلہ» میں اور ابن مردویہ نے اپنی تفسیر میں بھی اسے نقل کیا ہے اور صحابی کا نام اسامہ بن عمیر بتایا ہے اس میں یہ لکھا ہے کہ {«بِسْمِ اللہِ » کہہ کر «بِسْمِ اللہِ » کی برکت سے شیطان ذلیل ہو گا} ۲؎ ۔ (النسائی فی عمل الیوم واللیہ:559:صحیح بالشواھد) اسی لیے ہر کام اور ہر بات کے شروع میں «بِسْمِ اللہِ » کہہ لینا مستحب ہے ۔ خطبہ کے شروع میں بھی «بِسْمِ اللہِ » کہنی چاہیئے ۔ حدیث میں ہے کہ {جس کام کو «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» سے شروع نہ کیا جائے وہ بے برکتا ہوتا ہے} ۳؎ ۔ (سنن ابن ماجہ:1894،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) بیت الخلاء [پاخانہ] میں جانے کے وقت «بِسْمِ اللہِ » پڑھ لے ۱؎ ۔ (سنن ترمذی:606،قال الشیخ الألبانی: صحیح) حدیث میں یہ بھی ہے کہ وضو کے وقت بھی پڑھ لے ۔ مسند احمد اور سنن میں ابوہریرہ ، سعید بن زید اور ابوسعید رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو شخص وضو میں اللہ کا نام نہ لے اس کا وضو نہیں ہوتا“} ۲؎ ۔ (سنن ابن ماجہ:399،قال الشیخ الألبانی:حسن) یہ حدیث حسن ہے بعض علماء تو وضو کے وقت آغاز میں «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» پڑھنا واجب بتاتے ہیں ۔ بعض مطلق وجوب کے قائل ہیں ۔ جانور کو ذبح کرتے وقت بھی اس کا پڑھنا مستحب ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور ایک جماعت کا یہی خیال ہے ۔ بعض نے یاد آنے کے وقت اور بعض نے مطلقاً اسے واجب کہا ہے اس کا تفصیلی بیان عنقریب آئے گا «ان شاءاللہ تعالیٰ» ۔ امام رازی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں اس آیت کی فضیلت میں بہت سی احادیث نقل کی ہیں ۔ ایک میں ہے کہ ” جب تو اپنی بیوی کے پاس جائے اور «بِسْمِ اللہِ » پڑھ لے اور اللہ کوئی اولاد بخشے تو اس کے اپنے اور اس کی اولاد کے سانسوں کی گنتی کے برابر تیرے نامہ اعمال میں نیکیاں لکھی جائیں گی ۔“ لیکن یہ روایت بالکل بے اصل ہے ، میں نے تو یہ کہیں کسی معتبر کتاب میں نہیں پائی ۔ کھاتے وقت بھی «بِسْمِ اللہِ » پڑھنی مستحب ہے ۔ صحیح مسلم [و بخاری] میں ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ”[ جو آپ کی پرورش میں ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے اگلے خاوند سے تھے ] کہ «بِسْمِ اللہِ » کہو اور اپنے داہنے ہاتھ سے کھایا کرو اور اپنے سامنے سے نوالہ اٹھایا کرو“} ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:5376) بعض علماء اس وقت بھی «بِسْمِ اللہِ » کا کہنا واجب بتلاتے ہیں ۔ بیوی سے ملنے [جماع] کے وقت بھی «بِسْمِ اللہِ » پڑھنی چاہیئے ۔ صحیحین میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے ملنے کا ارادہ کرے تو یہ پڑھے «بِاسْمِ اللہِ ، اللہُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ، وَجَنِّبْ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا» یعنی اے اللہ ہمیں اور جو ہمیں تو دے اسے شیطان سے بچا ۔“ فرماتے ہیں کہ اگر اس جماع سے حمل ٹھہر جائے تو اس بچہ کو شیطان کبھی نقصان نہ پہنچا سکے گا} ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:141) یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ «بِسْمِ اللہِ » کی «ب» کا تعلق کس سے ہے نحویوں کے اس میں دو قول ہیں اور دونوں ہی تقریباً ہم خیال ہیں ۔ بعض اسم کہتے ہیں اور بعض فعل ، ہر ایک کی دلیل قرآن سے ملتی ہے جو لوگ اسم کے ساتھ متعلق بتاتے ہیں وہ تو کہتے ہیں کہ «بِسْمِ اللہِ اِبْتِدَائِی» یعنی اللہ کے نام سے میری ابتداء ہے ۔ قرآن میں ہے «وَقَالَ ارْکَبُوا فِیہَا بِسْمِ اللہِ مَجْرَاہَا وَمُرْسَاہَا إِنَّ رَبِّی لَغَفُورٌ رَحِیمٌ» ۲؎ (11-ہود:41) اس میں اسم یعنی مصدر ظاہر کر دیا گیا ہے اور جو لوگ فعل مقدر بتاتے ہیں چاہے وہ امر ہو یا خبر ۔ جیسے کہ «أَبْدَأُ بِسْمِ اللہِ » اور «ابتدات بِسْمِ اللہِ » ان کی دلیل آیت «قْرَأْ بِاسْمِ» ۳؎ الخ ہے۔ دراصل دونوں ہی صحیح ہیں ، اس لیے کہ فعل کے لیے بھی مصدر کا ہونا ضروری ہے تو اختیار ہے کہ فعل کو مقدر مانا جائے اور اس کے مصدر کو مطابق اس فعل کے جس کا نام پہلے لیا گیا ہے ۔ کھڑا ہونا ہو، بیٹھنا ہو ، کھانا ہو ، پینا ہو ، قرآن کا پڑھنا ہو ، وضو اور نماز وغیرہ ہو ، ان سب کے شروع میں برکت حاصل کرنے کے لیے امداد چاہنے کے لیے اور قبولیت کے لیے اللہ تعالیٰ کا نام لینا مشروع ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم میں روایت ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ {جب سب سے پہلے جبرائیل علیہ السلام ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی لے کر آئے تو فرمایا : اے محمد ! کہئے «أَسْتَعِیذ بِاَللَّہِ السَّمِیع الْعَلِیم مِنْ الشَّیْطَان الرَّجِیم» پھر کہا کہئے «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» مقصود یہ تھا کہ اٹھنا ، بیٹھنا ، پڑھنا سب اللہ کے نام سے شروع ہو} ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:137:ضعیف منقطع) بے معنی بحث اسم یعنی نام ہی «مُسَمَّی» یعنی نام والا ہے یا کچھ اور اس میں اہل علم کے تین قول ہیں ایک تو یہ کہ اسم ہی «مُسَمَّی» ہے ۔ ابوعبیدہ کا اور سیبویہ کا بھی یہی قول ہے ۔ باقلانی اور ابن فورک کی رائے بھی یہی ہے ۔ ابن خطیب رازی اپنی تفسیر کے مقدمات میں لکھتے ہیں ۔ حشویہ اور کرامیہ اور اشعریہ تو کہتے ہیں اسم نفس «مُسَمَّی» ہے اور نفس «تَّسْمِیَۃ» کا «غَیْر» ہے اور معتزلہ کہتے ہیں کہ اسم «مُسَمَّی» کا «غَیْر» ہے اور نفس «تَّسْمِیَۃ» ہے ۔ ہمارے نزدیک اسم «مُسَمَّی» کا بھی «غَیْر» ہے اور «تَّسْمِیَۃ»ہ کا بھی ۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر اسم سے مراد لفظ ہے جو آوازوں کے ٹکڑوں اور حروف کا مجموعہ ہے تو بالبداہت ثابت ہے کہ یہ «مُسَمَّی» کا «غَیْر» ہے اور اگر اسم سے مراد ذات «مُسَمَّی» ہے تو یہ وضاحت کو ظاہر کرتا ہے جو محض بیکار ہے ۔ ثابت ہوا کہ اس بیکار بحث میں پڑنا ہی فضول ہے ۔ اس کے بعد جو لوگ اسم اور «مُسَمَّی» کے فرق پر اپنے دلائل لائے ہیں ، ان کا کہنا ہے محض اسم ہوتا ہے «مُسَمَّی» ہوتا ہی نہیں ۔ جیسے «مَعْدُوم» کا لفظ ۔ کبھی ایک «مُسَمَّی» کے کئی اسم ہوتے ہیں جیسے مترادف کبھی اسم ایک ہوتا ہے اور «مُسَمَّی» کئی ہوتے ہیں جیسے مشترک ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسم اور چیز ہے اور «مُسَمَّی» اور چیز ہے یعنی نام الگ ہے ۔ اور نام والا الگ ہے ۔ اور دلیل سنئیے کہتے ہیں اسم تو لفظ ہے دوسرا عرض ہے ۔ «مُسَمَّی» کبھی ممکن یا واجب ذات ہوتی ہے ۔ اور سنئیے اگر اسم ہی کو «مُسَمَّی» مانا جائے تو چاہیئے کہ آگ کا نام لیتے ہی حرارت محسوس ہو اور برف کا نام لیتے ہی ٹھنڈک ۔ جبکہ کوئی عقلمند اس کی تصدیق نہیں کرتا ۔ اور دلیل سنئیے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے «وَلِلہِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَیٰ فَادْعُوہُ بِہَا» کہ ’اللہ کے بہت سے بہترین نام ہیں ، تم ان ناموں سے اسے پکارو‘ ۱؎ ۔ (7-الأعراف:180) حدیث شریف ہے کہ ’اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں‘ ۲؎ (صحیح مسلم:2677) تو خیال کیجئے کہ نام کس قدر بکثرت ہیں حالانکہ «مُسَمَّی» ایک ہی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ «وحدہ لاشریک لہ» ہے اسی طرح «اسماء» کو اللہ کی طرف اس آیت میں مضاف کرنا ۔ اور جگہ فرمانا : «فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیمِ» ۳؎ (56-الواقعۃ:74) وغیرہ یہ اضافت بھی اسی کا تقاضا کرتی ہے کہ اسم اور ہو اور «مُسَمَّی» اور کیونکہ اضافت کا مقتضا مغائرت کا ہے ۔ اسی طرح یہ «وَلِلہِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَیٰ فَادْعُوہُ بِہَا» یعنی ’اللہ تعالیٰ کو اس کے ناموں کے ساتھ پکارو‘ ۴؎ (7-الأعراف:180) یہ بھی اس امر کی دلیل ہے کہ نام اور ہے نام والا اور ۔ اب ان کے دلائل بھی سنئیے جو اسم اور «مُسَمَّی» کو ایک ہی بتاتے ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : «تَبَارَکَ اسْمُ رَبِّکَ ذِی الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ» ’جلال و اکرام والے تیرے رب کا بابرکت نام ہے‘ ۵؎ (55-الرحمن:78) تو نام برکتوں والا فرمایا حالانکہ خود اللہ تعالیٰ برکتوں والا ہے ۔ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ اس مقدس ذات کی وجہ سے اس کا نام بھی عظمتوں والا ہے ۔ ان کی دوسری دلیل یہ ہے کہ جب کوئی شخص کہے کہ زینب پر طلاق ہے تو طلاق اس کی بیوی جس کا نام زینب ہے ہو جاتی ہے ۔ اگر نام اور نام والے میں فرق ہوتا تو نام پر طلاق پڑتی ، نام والے پر کیسے پڑتی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے مراد یہی ہوتی ہے کہ اس ذات پر طلاق ہے جس کا نام زینت ہے ۔ تسمیہ کا اسم سے الگ ہونا اس دلیل کی بنا پر ہے کہ تسمیہ کہتے ہیں کسی کا نام مقرر کرنے کو اور ظاہر ہے یہ اور چیز ہے اور نام والا اور چیز ہے ۔ رازی کا قول یہی ہے کہ یہ سب کچھ تو لفظ «باسم» کے متعلق تھا ۔ اب لفظ «اللہ» کے متعلق سنئے ۔ اللہ خاص نام ہے رب تبارک و تعالیٰ کا ۔ کہا جاتا ہے کہ اسم اعظم یہی ہے اس لیے کہ تمام عمدہ صفتوں کے ساتھ ہی موصوف ہوتا ہے ۔ جیسے کہ قرآن پاک میں ہے «ہُوَ اللہُ الَّذِی لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ ہُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیمُ * ہُوَ اللہُ الَّذِی لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْمَلِکُ الْقُدٰوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُہَیْمِنُ الْعَزِیزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُ سُبْحَانَ اللہِ عَمَّا یُشْرِکُونَ * ہُوَ اللہُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَہُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَیٰ یُسَبِّحُ لَہُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَہُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ» ۶؎ (59-الحشر:22-23-24) یعنی ’وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو ظاہر و باطن کا جاننے والا ہے ، جو رحم کرنے والا مہربان ہے ، وہی اللہ جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، جو بادشاہ ہے پاک ہے ، سلامتی والا ہے ، امن دینے والا ہے ، محافظ ہے ، غلبہ والا ہے ، زبردست ہے ، بڑائی والا ہے ، وہ ہر شرک سے اور شرک کی چیز سے پاک ہے ۔ وہی اللہ پیدا کرنے والا ، مادہ کو بنانے والا ، صورت بخشنے والا ہے ۔ اس کے لیے بہترین پاکیزہ نام ہیں ، آسمان و زمین کی تمام چیزیں اس کی تسبیح بیان کرتی ہیں ۔ وہ عزتوں اور حکمتوں والا ہے‘ ۔ ان آیتوں میں تمام نام صفاتی ہیں ، اور لفظ اللہ ہی کی صفت ہیں یعنی اصلی نام «اللہ» ہے ۔ دوسری جگہ فرمایا کہ اللہ ہی کے لیے ہیں پاکیزہ اور عمدہ عمدہ نام ۔ اللہ تعالٰی نے اپنے تمام (صفاتی) نام خود تجویز فرمائے ہیں پس تم اس کو ان ہی ناموں سے پکارو ۔ اور فرماتا ہے «ادْعُوا اللہَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ أَیًّا مَا تَدْعُوا فَلَہُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَیٰ» الخ یعنی ’اللہ کو پکارو ۔ یا رحمن کو پکارو ، جس نام سے پکارو ، اسی کے پیارے پیارے اور اچھے اچھے نام ہیں‘ ۱؎ (17-الإسراء:110) بخاری و مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں ۔ ایک کم ایک سو جو انہیں یاد کر لے جنتی ہے} ۲؎ ۔ (صحیح بخاری:7392) ترمذی اور ابن ماجہ کی روایت میں ان ناموں کی تفصیل بھی آئی ہے ۳؎ ۔ (سنن ترمذی:3507،قال الشیخ الألبانی:صحیح، ضعیف بسرد الأسماء) اور دونوں کی روایتوں میں الفاظ کی کچھ تبدیلی کچھ کمی زیادتی بھی ہے ۔ رازی نے اپنی تفسیر میں بعض لوگوں سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پانچ ہزار نام ہیں ۔ ایک ہزار تو قرآن شریف اور صحیح حدیث میں ہیں اور ایک ہزار توراۃ میں اور ایک ہزار انجیل میں اور ایک ہزار زبور میں اور ایک ہزار لوح محفوظ میں ۔ اللہ کے مترادف المعنی کوئی نام نہیں «اللہ» ہی وہ نام ہے جو سوائے اللہ تبارک و تعالیٰ کے کسی اور کا نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک عرب کو یہ بھی معلوم نہیں کہ اس کا اشتقاق کیا ہے اس کا باب کیا ہے بلکہ ایک بہت بڑی نحویوں کی جماعت کا خیال ہے کہ یہ اسم جامد ہے اور اس کا کوئی اشتقاق ہے ہی نہیں ۔ قرطبی رحمہ اللہ نے علماء کرام کی ایک بڑی جماعت کا یہی مذہب نقل کیا ہے جن میں امام شافعی رحمہ اللہ، امام خطابی رحمہ اللہ، امام الحرمین امام غزالی رحمہ اللہ بھی شامل ہیں ۔ خلیل اور سیبویہ سے روایت ہے کہ «الف لام» اس میں لازم ہے ۔ امام خطابی رحمہ اللہ نے اس کی ایک دلیل یہ دی ہے کہ «یااللہ» تو کہہ سکتے ہیں مگر «یاالرَّحْمٰنِ» کہتے کسی کو نہیں سنا اگر لفظ «اللہ» میں «الف لام» اصل کلمہ کا نہ ہوتا تو اس پر ندا کا لفظ «یا» داخل نہ ہو سکتا کیونکہ قواعد عربی کے لحاظ سے حرف ندا کا لفظ لام والے اسم پر داخل ہونا جائز نہیں ۔ بعض لوگوں کا یہ قول بھی ہے کہ یہ مشتق ہے اور اس پر روبہ بن عجاج کا ایک شعر دلیل لاتے ہیں جس میں «مَصْدَرِ التَّأَلٰہ» ، کا بیان ہے جس کا ماضی مضارع «أَلِہ» «یَأْلَہُ» ، «إِلَاہَۃً» اور «تَأَلٰہًا» ہے جیسے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ «وَیَذَرَکَ وَإِلَاہَتَکَ» پڑھتے تھے ، مراد اس سے عبادت ہے ۔ یعنی اس کی عبادت کی جاتی ہے اور وہ کسی کی عبادت نہیں کرتا ۔ مجاہد وغیرہ کہتے ہیں ۔ بعض نے اس پر اس آیت سے دلیل پکڑی ہے کہ آیت «وَہُوَ اللہُ فِی السَّمَاوَاتِ وَفِی الْأَرْضِ» ۱؎ (6-الأنعام:3) الخ یعنی ’وہی اللہ ہے آسمانوں میں اور زمین میں‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَہُوَ الَّذِی فِی السَّمَاءِ إِلٰہٌ وَفِی الْأَرْضِ إِلٰہٌ» ۲؎ (43-الزخرف:84) الخ یعنی ’وہی ہے جو آسمان میں معبود ہے اور زمین میں معبود ہے‘ ۔ سیبویہ خلیل سے نقل کرتے ہیں کہ اصل میں یہ «إِلَاہٌ» تھا جیسے «فِعَالٍ» پھر ہمزہ کے بدلے «الف و لام» لایا گیا جیسے «النَّاسِ» کہ اس کی اصل «أُنَاسٌ» ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس لفظ کی اصل «إِلَاہٌ» ہے «الف لام» حرف تعظیم کے طور پر لایا گیا ہے ۔ سیبویہ کا بھی پسندیدہ قول یہی ہے ۔ عرب شاعروں کے شعروں میں بھی یہ لفظ ملتا ہے ۔ کسائی اور فرا کہتے ہیں کہ اس کی اصل «الْإِلَہُ» تھی ہمزہ کو حذف کیا اور پہلے «لام» کو دوسرے میں ادغام کیا جیسے کہ آیت «لٰکِنَّا ہُوَ اللہُ رَبِّی وَلَا أُشْرِکُ بِرَبِّی أَحَدًا» ۳؎ (18-الکہف:38) میں «لَکِنَّ أَنَا» کا «لَکِنَّا» ہوا ہے ۔ چنانچہ حسن کی قرأت میں «لَکِنَّ أَنَا» ہی ہے اور اس کا اشتقاق «وَلِہَ» سے ہے اور اس کے معنی «تَحَیَّرَ» ہیں «وَلَہُ» عقل کے چلے جانے کو کہتے ہیں ۔ عربی میں «رَجُلٌ وَالِہٌ» اور «امْرَأَۃٌ وَلْہَی» اور «مَاءٌ مُولَہٌ» اس وقت کہتے ہیں جب وہ جنگل میں بھیج دیا جائے ۔ چونکہ ذات باری تعالیٰ میں اور اس کی صفتوں کی تحقیق میں عقل حیران و پریشان ہو جاتی ہے اس لیے اس پاک ذات کو اللہ کہا جاتا ہے ۔ اس بنا پر اصل میں یہ لفظ «وَلَّاہُ» تھا ۔ «واؤ» کو «ہمزہ» سے بدل دیا گیا جیسے کہ «وِشَاحٌ» اور «وَوِسَادَۃٍ» میں «أَشَاحُ» اور «أَسَادَۃٌ» کہتے ہیں ۔ رازی کہتے ہیں کہ یہ لفظ «أَلِہْتُ إِلَی فُلَانٍ» سے مشتق ہے جو کہ معنی میں «سَکَنْتُ» کے ہے ۔ یعنی میں نے فلاں سے سکون اور راحت حاصل کی ۔ چونکہ عقل کا سکون صرف ذات باری تعالیٰ کے ذکر سے ہے اور روح کی حقیقی خوشی اسی کی معرفت میں ہے اس لیے کہ علی الاطلاق کامل وہی ہے ، اس کے سوا اور کوئی نہیں اسی وجہ سے اللہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن مجید میں ہے : «اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَـطْمَیِٕنٰ الْقُلُوْبُ» ۴؎ (13-الرعد:18) یعنی ’ایمانداروں کے دل صرف اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ہی اطمینان حاصل کرتے ہیں‘ ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ «لَاہَ یَلُوہُ» سے ماخوذ ہے جس کے معنی چھپ جانے اور حجاب کرنے کے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ «أَلِہَ الْفَصِیلُ» سے ہے چونکہ بندے اسی کی طرف تضرع اور زاری سے جھکتے ہیں اسی کے دامن رحمت کا پلہ ہر حال میں تھامتے ہیں ، اس لیے اسے اللہ کہا گیا ایک قول یہ بھی ہے کہ عرب «أَلِہَ الرَّجُلُ یَأْلُہُ» اس وقت کہتے ہیں جب کسی اچانک امر سے کوئی گھبرا اٹھے اور دوسرا اسے پناہ دے اور بچا لے چونکہ تمام مخلوق کو ہر مصیبت سے نجات دینے والا اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہے ، اس لیے اس کو اللہ کہتے ہیں ۔ جیسے کہ قرآن کریم میں ہے : «وَّہُوَ یُجِیْرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْہِ» ۱؎ (23-المؤمنون:89) الخ یعنی ’وہی بچاتا ہے اور اس کے مقابل میں کوئی نہیں بچایا جاتا‘ ۔ «وَہُوَ الْمُنْعِمُ» حقیقی «الْمُنْعِمُ» وہی ہے ، فرماتا ہے «وَمَا بِکُمْ مِنْ نِعْمَۃٍ فَمِنَ اللہِ » ۲؎ (16-النحل:53) الخ یعنی ’تمہارے پاس جنتی نعمتیں ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہیں‘ ، وہی «مُطْعِمُ» ہے ، فرمایا ہے «وَہُوَ یُطْعِمُ وَلَا یُطْعَمُ» ۳؎ (6-الأنعام:14) الخ یعنی ’وہ کھلاتا ہے اور اسے کوئی نہیں کھلاتا‘ ۔ وہی «موجد» ہے فرماتا ہے «قُلْ کُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللہِ » ۴؎ (4-النساء:78) الخ یعنی ’ہر چیز کا وجود اللہ کی طرف سے ہے‘ ۔ رازی کا مختار مذہب یہی ہے کہ لفظ اللہ مشتق نہیں ہے ۔ خلیل ، سیبویہ اکثر اصولیوں اور فقہاء کا یہی قول ہے ، اس کی بہت سی دلیلیں بھی ہیں اگر یہ مشتق ہوتا تو اس کے معنی میں بہت سے افراد کی شرکت ہوتی حالانکہ ایسا نہیں ۔ پھر اس لفظ کو موصوف بنایا جاتا ہے اور بہت سی اس کی صفتیں آتی ہیں جیسے « اللہُ» ، «الرَّحْمَنُ» ، «الرَّحِیمُ» ، «الْمَلِکُ» ، «الْقُدٰوسُ» وغیرہ تو معلوم ہوا کہ یہ مشتق نہیں ۔ قرآن میں ایک جگہ «الْعَزِیزِ الْحَمِیدِ اللہ» ۱؎ (14-إبراہیم:1-2) الخ جو آتا ہے وہاں یہ «عَطْفِ» بیان ہے ۔ ایک دلیل ہے اس کے مشتق نہ ہونے کی یہ بھی ہے «ہَلْ تَعْلَمُ لَہُ سَمِیًّا» ۲؎ (19-مریم:65) الخ یعنی ’کیا اس کا ہم نام بھی کوئی جانتے ہو ؟‘ لیکن یہ غور طلب ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ لفظ عبرانی ہے لیکن رازی رحمہ اللہ نے اس قول کو ضعیف کہا ہے اور فی الواقع ضعیف ہے بھی ۔ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مخلوق کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جو معرفت الٰہی کے کنارے پر پہنچ گئے دوسرے وہ جو اس سے محروم ہیں جو حیرت کے اندھیروں میں اور جہالت کی پرخار وادیوں میں پڑے ہیں وہ تو عقل کو رو بیٹھے اور روحانی کمالات کو کھو بیٹھے ہیں لیکن جو ساحل معرفت پر پہنچ چکے ہیں جو نورانیت کے وسیع باغوں میں جا ٹھہرے جو کبریائی اور جلال کی وسعت کا اندازہ کر چکے ہیں وہ بھی یہاں تک پہنچ کر حیران و ششدر رہ گئے ہیں ۔ غرض ساری مخلوق اس کی پوری معرفت سے عاجز اور سرگشتہ و حیران ہے ۔ ان معانی کی بنا پر اس پاک ذات کا نام اللہ ہے ۔ ساری مخلوق اس کی محتاج ، اس کے سامنے جھکنے والی اور اس کی تلاش کرنے والی ہے ۔ اس حقیقت کی وجہ سے اسے اللہ کہتے ہیں ۔ جیسا کہ خلیل کا قول ہے عرب کے محاورے میں ہر اونچی اور بلند چیز کو «لَاہً» کہتے ہیں ۔ سورج جب طلوع ہوتا ہے تب بھی وہ کہتے ہیں «الشَّمْسُ لَاہَتْ» چونکہ پروردگار عالم بھی سب سے بلند و بالا ہے اس کو بھی اللہ کہتے ہیں ۔ اور «الْإِلَہُ» کے معنی عبادت کرنے اور «تَأَلَّہَ» کے معنی حکم برداری اور قربانی کرنے کے ہیں اور رب عالم کی عبادت کی جاتی ہے اور اس کے نام پر قربانیاں کی جاتی ہیں اس لیے اسے اللہ کہتے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی قرأت میں ہے «وَیَذَرک وَإِلَاہَتک» اس کی اصل «الْإِلَہ» ہے پس صرف کلمہ کی جگہ جو ہمزہ ہے وہ حذف کیا گیا ۔ پھر نفس کلمہ کا «لام» زائد «لام» سے جو تعریف کے لیے لایا گیا ہے مل گیا اور پھر ایک کو دوسرے میں مدغم کر دیا تو ایک لازم مشدد رہ گیا اور تعظیماً اللہ کہا گیا ۔ یہ تو تفسیر لفظ «اللہ» کی تھی ۔ اَلرَّحمن اور الرحیم کے معنی «الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» کا بیان آئے گا یہ دونوں نام رحمت سے مشتق ہیں ۔ دونوں میں مبالغہ ہے «الرَّحْمٰنِ» میں «الرَّحِیمِ» سے زیادہ مبالغہ ہے ۔ علامہ ابن جریر رحمہ اللہ کے قول سے معلوم ہوتا ہے وہ بھی ان معنوں سے متفق ہیں گویا اس پر اتفاق ہے ۔ بعض سلف کی تفسیروں سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے ان معنوں پر مبنی عیسیٰ علیہ السلام کا قول بھی پہلے گزر چکا ہے کہ «الرَّحْمٰنِ» سے مراد دنیا اور آخرت میں رحم کرنے والا اور «الرَّحِیمِ» سے مراد آخرت میں رحم کرنے والا ہے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ «رحمٰن» مشتق نہیں ہے اگر یہ اس طرح ہوتا تو مرحوم کے ساتھ ملتا ۔ حالانکہ قرآن میں «بِالْمُؤْمِنِینَ رَحِیمًا» ۱؎ (33-الأحزاب:43) الخ آیا ہے ۔ مبرد کہتے ہیں «رحمٰن» عبرانی نام ہے عربی نہیں ۔ ابواسحاق زجاج معانی القرآن میں کہتے ہیں کہ احمد بن یحییٰ کا قول ہے کہ «رحیم» عربی لفظ ہے اور «رحمٰن» عبرانی ہے دونوں کو جمع کر دیا گیا ہے ۔ لیکن ابواسحٰق فرماتے ہیں ” اس قول کو دل نہیں مانتا “ ۔ قرطبی فرماتے ہیں اس لفظ کے مشتق ہونے کی یہ دلیل ہے کہ ترمذی کی صحیح حدیث ہے {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں رحمٰن ہوں میں نے رحم کو پیدا کیا اور اپنے نام میں سے ہی اس کا نام مشتق کیا ۔ اس کے ملانے والے کو میں ملاؤں گا اور اس کے توڑنے والے کو کاٹ دوں گا} ۲؎ (سنن ترمذی:1908،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اس صریح حدیث کے ہوتے ہوئے مخالفت اور انکار کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ رہا کفار عرب کا اس نام سے انکار کرنا یہ محض ان کی جہالت کا ایک کرشمہ تھا ۔ قرطبی کہتے ہیں کہ ” «رحمٰن» اور «رحیم» کے ایک ہی معنی ہیں اور جیسے «نَدْمَانَ» اور «نَدِیمٍ» “ ابوعبید کا بھی یہی خیال ہے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ «فَعْلَانَ فَعِیلٍ» کی طرح نہیں ۔ «فَعْلَانَ» میں مبالغہ ضروری ہوتا ہے جیسے «غَضْبَانُ» اسی شخص کو کہہ سکتے ہیں ۔ جو بہت ہی غصہ والا ہو اور «فَعِیلٌ» صرف فاعل اور صرف مفعول کے لیے بھی آتا ہے ۔ جو مبالغہ سے خالی ہوتا ہے ۔ ابوعلی فارسی کہتے ہیں کہ ” «رحمٰن» عام اسم ہے جو ہر قسم کی رحمتوں کو شامل ہے اور صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے ۔ «رحیم» باعتبار مومنوں کے ہے فرمایا ہے «وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا» ۱؎ (33-الأحزاب:43) ’مومنون کے ساتھ رحیم ہے‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” یہ دونوں رحمت و رحم والے ہیں ، ایک میں دوسرے سے زیادہ رحمت و رحم ہے ۔ “ ۱؎ (تفسیر قرطبی:105/1) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس روایت میں لفظ «ارق» ہے اس کے معنی خطابی وغیرہ «أَرَقٰ» کرتے ہیں جیسے کہ حدیث میں ہے کہ {اللہ تعالیٰ «رفق» یعنی شفیق اور مہربانی والا ہے وہ ہر کام میں نرمی اور آسانی کو پسند کرتا ہے وہ دوسروں پر نرمی اور آسانی کرنے والے پر وہ نعمتیں مرحمت فرماتا ہے جو سختی کرنے والے پر عطا نہیں فرماتا} ۲؎ ۔ (صحیح مسلم:2593) ابن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” «رحمٰن» اسے کہتے ہیں کہ جب اس سے جو مانگا جائے عطا فرمائے اور «رحیم» وہ ہے کہ جب اس سے نہ مانگا جائے وہ غضبناک ہو ۔ “ ترمذی کی حدیث میں ہے {جو شخص اللہ تعالیٰ سے نہ مانگے اللہ تعالیٰ اس پر غضبناک ہوتا ہے} ۳؎ ۔ (سنن ترمذی:3373،قال الشیخ الألبانی:حسن) بعض شاعروں کا قول ہے : « اللہُ یَغْضَبُ إِنْ تَرَکْت سُؤَالَہُ ... وَبُنَیٰ آدَمَ حِینَ یُسْأَلُ یَغْضَبُ» یعنی اللہ تعالیٰ سے نہ مانگو تو وہ ناراض ہوتا ہے اور بنی آدم سے مانگو تو وہ بگڑتے ہیں ۔ عزرمی فرماتے ہیں کہ «رحمٰن» کے معنی تمام مخلوق پر رحم کرنے والا اور «رحیم» کے معنی مومنوں پر رحم کرنے والا ہے ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:127/1) دیکھئیے قرآن کریم کی دو آیتوں «ثُمَّ اسْتَوَیٰ عَلَی الْعَرْشِ» ۲؎ (25-الفرقان:59) اور «الرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوَیٰ» ۳؎ (20-طہ:5) میں «اسْتَوَیٰ» کے ساتھ «رحمٰن» کا لفظ ذکر کیا تاکہ تمام مخلوق کو یہ لفظ اپنے عام رحم و کرم کے معنی سے شامل ہو سکے اور مومنوں کے ذکر کے ساتھ لفظ «رحیم» فرمایا :«وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا» ۴؎ (33-الأحزاب:43) الخ پس معلوم ہوا کہ «رحمٰن» میں مبالغہ بہ نسبت «رحیم» کے بہت زیادہ ہے ۔ لیکن حدیث کی ایک دعا میں «رَحْمَنَ الدٰنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَرَحِیمَہُمَاا» ۵؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:5287،موضوع) بھی آیا ہے ۔ «رحمٰن» یہ نام بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے ، اس کے سوا کسی دوسرے کا نام نہیں ۔ جیسے کہ فرمان ہے کہ «اللہ» کو پکارو یا «رحمٰن» کو جس نام سے چاہو اسے پکارو اس کے بہت اچھے اچھے نام ہیں ۔ ایک اور آیت میں ہے : «وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رُسُلِنَا أَجَعَلْنَا مِنْ دُونِ الرَّحْمٰنِ آلِہَۃً یُعْبَدُونَ» ۶؎ (43-الزخرف:45) یعنی ’ان سے پوچھ لو کہ تجھ سے پہلے ہم نے جو رسول بھیجے تھے کیا انہوں نے «رحمٰن» کے سوا کسی کو معبود کہا تھا کہ ان کی عبادت کی جائے‘ ۔ جب مسیلمہ ، کذاب نے بڑھ چڑھ کر دعوے شروع کئے اور اپنا نام «رحمٰن العیامہ» رکھا تو پروردگار نے اسے بے انتہا رسوا اور برباد کیا ، وہ جھوٹ اور کذب کی علامت مشہور ہو گیا ۔ آج اسے مسیلمہ کذاب کہا جاتا ہے اور ہر جھوٹے دعویدار کو اس کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے ۔ ہر دیہاتی اور شہری ہر کچے پکے گھر والا اسے بخوبی جانتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ «رحیم» میں «رحمٰن» سے زیادہ مبالغہ ہے اس لیے کہ اس لفظ کے ساتھ اگلے لفظ کی تاکید کی گئی ہے اور تاکید بہ نسبت اس کے کہ جس کی تاکید جائے زیادہ قوی ہوتی ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں تاکید ہے ہی نہیں بلکہ یہ تو صفت ہے اور صفت میں یہ قاعدہ نہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا جس نام میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں ، سب سے پہلے اس کی صفت «رحمٰن» بیان کی گئی اور یہ نام رکھنا بھی دوسروں کو ممنوع ہے جیسے فرما دیا کہ «اللہ» کو یا «رحمٰن» کو پکارو جس نام سے چاہو پکارو اس کے لیے اسماء حسنیٰ بہت سارے ہیں ۔ مسیلمہ نے بدترین جرأت کی لیکن برباد ہوا اور اس کے گمراہ ساتھیوں کے سوا اس کی کسی قدر کسی کے دل میں نہ آئی ۔ «رحیم» کے وصف کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے دوسروں کو بھی موصوف کیا ہے ، فرماتا ہے : «لَقَدْ جَاءَکُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِکُمْ عَزِیزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتٰمْ حَرِیصٌ عَلَیْکُم بِالْمُؤْمِنِینَ رَءُوفٌ رَّحِیمٌ» ۷؎ (9-التوبۃ:128) اس آیت میں اپنے نبی کو رحیم کہا ، اسی طرح اپنے بعض ایسے ناموں سے دوسروں کو بھی اس نے یاد کیا ہے ۔ جیسے آیت «إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نٰطْفَۃٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِیہِ فَجَعَلْنَاہُ سَمِیعًا بَصِیرًا» ۸؎ (76-الإنسان:2) میں انسان کو «سمیع» اور «بصیر» کہا ہے ۔ حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعض نام تو ایسے ہیں کہ دوسروں پر بھی ہم معنی ہونے کا اطلاق ہو سکتا ہے اور بعض ایسے ہیں کہ نہیں ہو سکتا جیسے «اللہ» اور «رحمٰن» ، «خالق» اور «رزاق» وغیرہ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنا پہلا نام اللہ پھر اس کی صفت «رحمٰن» سے کی ۔ اس لیے کہ «رحیم» کی نسبت یہ زیادہ خاص ہے اور زیادہ مشہور ہے ۔ قاعدہ ہے کہ اول سب سے زیادہ بزرگ نام لیا جاتا ہے ، اس لیے سب سے پہلے سب سے زیادہ خاص نام لیا گیا پھر اس سے کم ، پھر اس سے کم ، اگر کہا جائے کہ جب «رحمٰن» میں «رحیم» سے زیادہ مبالغہ موجود ہے پھر اسی پر اکتفا کیوں نہ کیا گیا ؟ تو اس کے جواب میں عطا خراسانی کا یہ قول پیش کیا جا سکتا ہے کہ چونکہ کافروں نے «رحمٰن» کا نام بھی غیروں کا رکھ لیا تھا اس لیے «رحیم» کا لفظ بھی ساتھ لگایا گیا تاکہ کسی قسم کا وہم ہی نہ رہے ۔ «رحمٰن و رحیم» صرف اللہ تعالیٰ ہی کا نام ہے ۔ ابن جریر نے تاہم اس قول کی تصدیق کی ہے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جاہلیت کے زمانے کے عرب «رحمٰن» سے واقف ہی نہ تھے ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی آیت «قُلِ ادْعُوا اللہَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ أَیًّا مَا تَدْعُوا فَلَہُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَیٰ» ۱؎ (17-الإسراء:110) نازل فرما کر ان کی تردید کی ۔ حدیبیہ والے سال جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» لکھو تو کفار نے کہا تھا کہ ہم «رحمٰن» اور «رحیم» کو نہیں جانتے ۲؎ ۔ (صحیح بخاری:حدیث2731) بخاری میں یہ روایت موجود ہے ۔ بعض روایتوں میں ہے کہ انہوں نے کہا تھا کہ ہم «رحمٰن یمامہ» کو جانتے ہیں کسی اور «رحمٰن» کو نہیں جانتے ۔ اسی طرح قرآن پاک میں ہے «وَإِذَا قِیلَ لَہُمُ اسْجُدُوا لِلرَّحْمٰنِ قَالُوا وَمَا الرَّحْمٰنُ أَنَسْجُدُ لِمَا تَأْمُرُنَا وَزَادَہُمْ نُفُورًا» ۳؎ (25-الفرقان:60) یعنی ’جب ان سے کہا جاتا ہے کہ «رحمٰن» کے سامنے سجدہ کرو تو وہ حیران زدہ ہو کر جواب دیتے ہیں کہ «رحمٰن» کون ہے ؟ جسے ہم تیرے قول کی وجہ سے سجدہ کریں‘ ۔ درحقیقت یہ بدکار لوگ صرف عناد ، تکبر ، سرکشی اور دشمنی کی بنا پر «رحمٰن» سے انکار کرتے تھے نہ کہ وہ اس نام سے ناآشنا تھے ۔ اس لیے کہ جاہلیت کے زمانے کے پرانے اشعار میں بھی اللہ تعالیٰ کا نام «رحمٰن» موجود ہے جو انہی کے شاعروں کے شعر ہیں ۔ سلامہ اور دوسرے شعراء کے اشعار میں ملاحظہ ہو ۔ تفسیر ابن جریر میں ہے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ «رحمٰن» «فعلان» کے وزن پر رحمت سے ماخوذ ہے اور کلام عرب سے ہے ۔ وہ اللہ رفیق اور رقیق ہے جس پر رحم کرنا چاہے اور جس سے غصے ہو اس سے بہت دور اور اس پر بہت سخت گیر بھی ہے اسی طرح اس کے تمام نام ہیں ۔ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں «رحمٰن» کا نام دوسروں کے لیے منع ہے ۔ خود اللہ تعالیٰ کا نام ہے لوگ اس نام پر کوئی حق نہیں رکھتے ۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا والی حدیث جس میں کہ {ہر آیت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہرا کرتے تھے} ۴؎ ۔ (سنن ابوداود:4001،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پہلے گزر چکی ہے ۔ اور ایک جماعت اسی طرح «بِسْمِ اللہِ » کو آیت قرار دے کر آیت «الْحَمْدُ» کو الگ پڑھتی ہے اور بعض ملا کر پڑھتے ہیں ۔ «میم» کو دو ساکن جمع ہو جانے کی وجہ سے زیر دیتے ہیں ۔ جمہور کا بھی یہی قول ہے ۔ کوفی کہتے ہیں کہ بعض عرب «میم» کے زیر سے پڑھتے ہیں ، ہمزہ کی حرکت زبر «میم» کو دیتے ہیں ۔ جیسے آیت «الم» * « اللہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیٰ الْقَیٰومُ» ۵؎ (3-آل عمران:1-2) ابن عطیہ کہتے ہیں کہ زبر کی قرأت کسی سے بھی میرے خیال میں مروی نہیں ۔ آیت «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» کی تفسیر ختم ہوئی ۔ اب آگے سنئیے ۔ الفاتحة
2 الحمد اللہ کی تفسیر ساتوں قاری «الْحَمْدُ» کو دال پر پیش سے پڑھتے ہیں اور «الْحَمْدُ لِلہِ» کو مبتدا خبر مانتے ہیں ۔ سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ اور روبہ بن عجاج رحمہ اللہ کا قول ہے کہ «دال» پر زبر کے ساتھ ہے اور فعل یہاں مقدر ہے ۔ ابن ابی عبلہ رحمہ اللہ «الْحَمْدُ» کی «دال» کو اور «اللہ» کے پہلے «لام» دونوں کو پیش کے ساتھ پڑھتے ہیں اور اس «لام» کو پہلے کے تابع کرتے ہیں اگرچہ اس کی شہادت عربی زبان میں ملتی ہے ، مگر شاذ ہے ۔ حسن رحمہ اللہ اور زید بن علی رحمہ اللہ ان دونوں حرفوں کو زیر سے پڑھتے ہیں اور «لام» کے تابع «دال» کو کرتے ہیں ۔ ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں «الْحَمْدُ لِلہِ» کے معنی یہ ہیں کہ صرف اللہ تعالیٰ کا شکر ہے اس کے سوا کوئی اس کے لائق نہیں ، خواہ وہ مخلوق میں سے کوئی بھی ہو اس وجہ سے کہ تمام نعمتیں جنہیں ہم گن بھی نہیں سکتے ، اس مالک کے سوا اور کوئی ان کی تعداد کو نہیں جانتا اسی کی طرف سے ہیں ۔ اسی نے اپنی اطاعت کرنے کے تمام اساب ہمیں عطا فرمائے ۔ اسی نے اپنے فرائض پورے کرنے کے لیے تمام جسمانی نعمتیں ہمیں بخشیں ۔ پھر بےشمار دنیاوی نعمتیں اور زندگی کی تمام ضروریات ہمارے کسی حق بغیر ہمیں بن مانگے بخشیں ۔ اس کی لازوال نعمتیں ، اس کے تیار کردہ پاکیزہ مقام جنت کو ہم کس طرح حاصل کر سکتے ہیں ؟ یہ بھی اس نے ہمیں سکھا دیا پس ہم تو کہتے ہیں کہ اول آخر اسی مالک کی پاک ذات ہر طرح کی تعریف اور حمد و شکر کے لائق ہے ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:125/1) «الْحَمْدُ لِلہِ» یہ ثنا کا کلمہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ثنا و خود آپ کی ہے اور اسی ضمن میں گویا یہ فرما دیا ہے کہ تم کہو «الْحَمْدُ لِلہِ» بعض نے کہا کہ «الْحَمْدُ لِلہِ» کہنا اللہ تعالیٰ کے پاکیزہ ناموں اور اس کی بلند و بالا صفتوں سے اس کی ثنا کرنا ہے ۔ اور «الشٰکْرُ لِلہِ» کہنا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے احسان کا شکریہ ادا کرنا ہے ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:138/1) لیکن یہ قول ٹھیک نہیں ۔ اس لیے کہ عربی زبان کو جاننے والے علماء کا اتفاق ہے ۔ کہ شکر کی جگہ حمد کا لفظ اور حمد کی جگہ شکر کا لفظ بولتے ہیں ۔ جعفر صادق رحمہ اللہ ، ابن عطا صوفی رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ہر شکر کرنے والے کا کلمہ «الْحَمْدُ لِلہِ» ہے ۔ قرطبی رحمہ اللہ نے ابن جریر رحمہ اللہ کے قول کو معتبر کرنے کے لیے یہ دلیل بھی بیان کی ہے کہ اگر کوئی «الْحَمْدُ لِلہِ شُکْرًا» کہے تو جائز ہے ۔ دراصل علامہ ابن جریر رحمہ اللہ کے اس دعویٰ میں اختلاف ہے ، پچھلے علماء میں مشہور ہے کہ «حَمْدَ» کہتے ہیں زبانی تعریف بیان کرنے کو خواہ جس کی حمد کی جاتی ہو اس کی لازم صفتوں پر ہو یا متعدی صفتوں پر اور شکر صرف متعدی صفتوں پر ہوتا ہے اور وہ دل زبان اور جملہ ارکان سے ہوتا ہے ۔ عرب شاعروں کے اشعار بھی اس پر دلیل ہیں ۔ ہاں اس میں اختلاف ہے کہ «حَمْدَ» کا لفظ عام ہے یا «شٰکْر» کا اور صحیح بات یہ ہے کہ اس میں عموم اس حیثیت سے خصوص ہے کہ «حَمْدَ» کا لفظ جس پر واقع ہو وہ عام طور پر «شٰکْر» کے معنوں میں آتا ہے ۔ اس لیے کہ وہ لازم اور متعدی دونوں اوصاف پر آتا ہے شہ سواری اور کرم دونوں پر «حَمِدْتُہُ» کہہ سکتے ہیں لیکن اس حیثیت سے وہ صرف زبان سے ادا ہو سکتا ہے یہ لفظ خاص اور «شٰکْر» کا لفظ عام ہے کیونکہ وہ قول ، فعل اور نیت تینوں پر بولا جاتا ہے اور صرف متعدی صفتوں پر بولے جانے کے اعتبار سے «شٰکْر» کا لفظ خاص ہے ۔ شہ سواری کے حصول پر «شَکَرْتُہُ» نہیں کہہ سکتے البتہ «شَکَرْتُہُ عَلَی کَرَمِہِ وَإِحْسَانِہِ إِلَیَّ» کہہ سکتے ہیں ۔ یہ تھا خلاصہ متاخرین کے قول کا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ابونصر اسماعیل بن حماد جوہری کہتے ہیں «حمد» مقابل ہے «ذم» کے ۔ لہٰذا یوں کہتے ہیں کہ «حَمِدْتُ الرَّجُلَ أَحْمَدُہُ حَمْدًا وَمَحْمَدَۃً فَہُوَ حَمِیدٌ وَمَحْمُودٌ» تحمید میں «حمد» سے زیادہ مبالغہ ہے ۔ «حمد» «شکر» سے عام ہے ۔ کسی محسن کی دی ہوئی نعمتوں پر اس کی ثنا کرنے کو «شکر» کہتے ہیں ۔ عربی زبان میں «شَکَرْتُہُ» اور «شَکَرْتُ لَہُ» دونوں طرح کہتے ہیں لیکن «لام» کے ساتھ کہنا زیادہ فصیح ہے ۔ مدح کا لفظ «حمد» سے بھی زیادہ عام ہے اس لیے کہ زندہ مردہ بلکہ جمادات پر بھی مدح کا لفظ بول سکتے ہیں ۔ کھانے اور مکان کی اور ایسی اور چیزوں کی بھی مدح کی جاتی ہے احسان سے پہلے ، احسان کے بعد ، لازم صفتوں پر ، متعدی صفتوں پر بھی اس کا اطلاق ہو سکتا ہے تو اس کا عام ہونا ثابت ہوا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» حمد کی تفسیر اقوال سلف سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ «سُبْحَانَ اللہِ » اور «لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ» اور بعض روایتوں میں ہے کہ « اللہُ أَکْبَرُ» کو تو ہم جانتے ہیں لیکن یہ «الْحَمْدُ لِلہِ» کا کیا مطلب ؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اس کلمہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے پسند فرما لیا ہے اور بعض روایتوں میں ہے کہ اس کا کہنا اللہ کو بھلا لگتا ہے ۱؎ ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:15/1:ضعیف) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہ کلمہ شکر ہے اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میرا شکر کیا ۲؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:151) اس کلمہ میں شکر کے علاوہ اس کی نعمتوں ، ہدایتوں اور احسان وغیرہ کا اقرار بھی ہے ۔ کعب احبار رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ یہ کلمہ اللہ تعالیٰ کی ثنا ہے ۔ ضحاک کہتے ہیں یہ اللہ کی چادر ہے ۔ ایک حدیث میں بھی ایسا ہی ہے {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب تم «الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ» کہہ لو گے تو تم اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کر لو گے اب اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے گا} ۳؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:152:ضعیف) {اسود بن سریع ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ میں نے ذات باری تعالیٰ کی حمد میں چند اشعار کہے ہیں اگر اجازت ہو تو سناؤں فرمایا : اللہ تعالیٰ کو اپنی حمد بہت پسند ہے} ۴؎ ۔ (مسند احمد:435/3:حسن) ترمذی ، نسائی اور ابن ماجہ میں سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ افضل ذکر «لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ» ہے اور افضل دعا «الْحَمْدُ لِلہِ» ہے } ۱؎ ۔ (سنن ترمذی:3383،قال الشیخ الألبانی:حسن) امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن غریب کہتے ہیں ۔ ابن ماجہ کی ایک حدیث ہے کہ {جس بندے کو اللہ تعالیٰ نے کوئی نعمت دی اور وہ اس پر «الْحَمْدُ لِلہِ» کہے تو دی ہوئی نعمت لے لی ہوئی سے افضل ہو گی} ۲؎ ۔ (سنن ابن ماجہ:3805،قال الشیخ الألبانی:حسن) فرماتے ہیں اگر میری امت میں سے کسی کو اللہ تعالیٰ تمام دنیا دے دے اور وہ «الْحَمْدُ لِلہِ» کہے تو یہ کلمہ ساری دنیا سے افضل ہو گا ۔ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ساری دنیا دے دینا اتنی بڑی نعمت نہیں جتنی «الْحَمْدُ لِلہِ» کہنے کی توفیق دینا ہے اس لیے کہ دنیا تو فانی ہے اور اس کلمہ کا ثواب باقی ہی باقی ہے ۱؎ ۔ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:876،ضعیف) جیسے کہ قرآن پاک میں ہے «الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِینَۃُ الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا وَالْبَاقِیَاتُ الصَّالِحَاتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَخَیْرٌ أَمَلًا» ۲؎ (18-الکہف:46) الخ یعنی ’مال اور اولاد دنیا کی زینت ہے اور نیک اعمال ہمیشہ باقی رہنے والے ، ثواب والے اور نیک امید والے ہیں‘ ۔ ابن ماجہ میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایک شخص نے ایک مرتبہ کہا «یَا رَبِّ ، لَکَ الْحَمْدُ کَمَا یَنْبَغِی لِجَلَالِ وَجْہِکَ وَعَظِیمِ سُلْطَانِکَ» تو فرشتے گھبرا گئے کہ ہم اس کا کتنا اجر لکھیں ۔ آخر اللہ تعالیٰ سے انہوں نے عرض کی کہ تیرے ایک بندے نے ایک ایسا کلمہ کہا ہے کہ ہم نہیں جانتے اسے کس طرح لکھیں ، پروردگار نے باوجود جاننے کے ان سے پوچھا کہ اس نے کیا کہا ہے ؟ انہوں نے بیان کیا کہ اس نے یہ کلمہ کہا ہے ، فرمایا : ”تم یونہی اسے لکھ لو میں اس اسے اپنی ملاقات کے وقت اس کا اجر دے دوں گا“} ۳؎ ۔ (سنن ابن ماجہ:3801،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) قرطبی رحمہ اللہ ایک جماعت علماء سے نقل کرتے ہیں کہ «لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ» سے بھی «الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ» افضل ہے کیونکہ اس میں توحید اور حمد دونوں ہیں ۔ اور علماء کا خیال ہے کہ «لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ» افضل ہے اس لیے کہ ایمان و کفر میں یہی فرق کرتا ہے ، اس کے کہلوانے کے لیے کفار سے لڑائیاں کی جاتی ہیں ۔ جیسے کہ صحیح بخاری و مسلم حدیث میں ہے ۱؎ (صحیح بخاری:1399) ایک اور مرفوع حدیث میں ہے کہ {جو کچھ میں نے اور مجھ سے پہلے کے تمام انبیاء کرام نے کہا ہے ان میں سب سے افضل «لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ» ہے} ۲؎ ۔ (سنن ترمذی:3585،قال الشیخ الألبانی:حسن) سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی ایک مرفوع حدیث پہلے گزر چکی ہے کہ {افضل ذکر «لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ» ہے اور افضل دعا «الْحَمْدُ لِلہِ» ہے} ۳؎ ۔ (سنن ترمذی:3383،قال الشیخ الألبانی:حسن) ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے ۔ الحمد میں «الف» «لام» استغراق کا ہے یعنی حمد کی تمام تر قسمیں سب کی سب صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ثابت ہیں ۔ جیسے کہ حدیث میں ہے کہ باری تعالیٰ تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں اور تمام ملک ہے ۔ تیرے ہی ہاتھ تمام بھلائیاں ہیں اور تمام کام تیری ہی طرف لوٹتے ہیں ۱؎ ۔ (مسند احمد:346/5:ضعیف) «رب» کہتے ہیں «مَالِکُ» اور «مُتَصَرِّفُ» کو لغت میں اس کا اطلاق سردار اور اصلاح کے لیے تبدیلیاں کرنے والے پر بھی ہوتا ہے اور ان سب معانی کے اعتبار سے ذات باری تعالیٰ کے لیے یہ خوب جچتا ہے ۔ «رب» کا لفظ بھی سوائے اللہ تعالیٰ کے دوسرے پر نہیں کہا جا سکتا ہاں اضافت کے ساتھ ہو تو اور بات ہے جیسے «رَبٰ الدَّارِ» یعنی گھر والا وغیرہ ۔ بعض کا تو قول ہے کہ اسم اعظم یہی ہے ۔ عالمین سے مراد «الْعَالَمِینَ» جمع ہے «عَالَمٍ» کی اللہ تعالیٰ کے سوا تمام مخلوق کو «عَالَمٍ» کہتے ہیں ۔ لفظ «عَالَمٍ» بھی جمع ہے اور اس کا واحد لفظ ہے ہی نہیں ۔ آسمان کی مخلوق خشکی اور تری کی مخلوقات کو بھی «عَوَالِمُ» یعنی کئی «عَالَمٍ» کہتے ہیں ۔ اسی طرح ایک ایک زمانے ، ایک ایک وقت کو بھی «عَالَمٍ» کہا جاتا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ اس سے مراد کل مخلوق ہے خواہ آسمانوں کی ہو یا زمینوں کی یا ان کے درمیان کی ، خواہ ہمیں اس کا علم ہو یا نہ ہو ۔ «علی ہذا القیاس» اس سے جنات اور انسان بھی مراد لیے گئے ہیں ۔ سعید بن جیر مجاہد اور ابن جریح رحمہ اللہ علیہم سے بھی یہ مروی ہے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی غیر معتبر سند سے یہی منقول ہے اس قول کی دلیل قرآن کی آیت «لِیَکُونَ لِلْعَالَمِینَ نَذِیرًا» ۱؎ (25-الفرقان:1) بھی بیان کی جاتی ہے یعنی تاکہ وہ «عَالَمِینَ» یعنی جن اور انس کے لیے ڈرانے والا ہو جائے ۔ فراء اور ابوعبید کا قول ہے کہ سمجھدار کو عالم کہا جاتا ہے ۔ لہٰذا انسان ، جنات ، فرشتے ، شیاطین کو عالم کہا جائے گا ۔ جانوروں کو نہیں کہا جائے گا ۔ سیدنا زید بن اسلم رضی اللہ عنہ ، ابو محیص رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہر روح والی چیز کو عالم کہا جاتا ہے ۔ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں ۔ ہر قسم کو ایک عالم کہتے ہیں مروان بن محمد عرف جعد جن کا لقب حمار تھا جو بنوامیہ میں سے اپنے زمانے کے خلیفہ تھے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سترہ ہزار عالم پیدا کئے ہیں ۔ آسمانوں والے ایک عالم ، زمینوں والے سب ایک عالم اور باقی کو اللہ ہی جانتا ہے مخلوق کو ان کا علم نہیں ۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں انسان کل ایک عالم ہیں ، سارے جنات کا ایک عالم ہے اور ان کے سوا اٹھارہ ہزار یا چودہ ہزار عالم اور ہیں ۔ فرشتے زمین پر ہیں اور زمین کے چار کونے ہیں ، ہر کونے میں ساڑھے تین ہزار عالم ہیں ۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے ۔ یہ قول بالکل غریب ہے اور ایسی باتیں جب تک کسی صحیح دلیل سے ثابت نہ ہوں ماننے کے قابل نہیں ہوتیں ۔ حمیری رحمہ اللہ کہتے ہیں ایک ہزار امتیں ہیں ، چھ سو تری میں اور چار سو خشکی میں ۔ سعید بن مسیب سے یہ بھی مروی ہے ۔ ایک ضعیف روایت میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانے میں ایک سال ٹڈیاں نہ نظر آئیں بلکہ تلاش کرنے کے باوجود پتہ نہ چلا ۔ آپ غمگین ہو گئے یمن ، شام اور عراق کی طرف سوار دوڑائے کہ کہیں بھی ٹڈیاں نظر آتی ہیں یا نہیں تو یمن والے سوار تھوڑی سی ٹڈیاں لے کر آئے اور امیر المؤمنین کے سامنے پیش کیں آپ نے انہیں دیکھ کر تکبیر کہی اور فرمایا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ، آپ فرماتے تھے اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار امتیں پیدا کی ہیں جن میں سے چھ سو تری میں ہیں اور چار سو خشکی میں ان میں سے سب سے پہلے جو امت ہلاک ہو گی وہ ٹڈیاں ہوں گی بس ان کی ہلاکت کے بعد پے در پے اور سب امتیں ہلاک ہو جائیں گی جس طرح کہ تسبیح کا دھاگا ٹوٹ جائے اور ایک کے بعد ایک سب موتی جھڑ جاتے ہیں ۱؎ ۔ (مجمع الزوائد:322/7:باطل موضوع) اس حدیث کے راوی محمد بن عیسیٰ ہلالی ضعیف ہیں ۔ سعید بن میب رحمہ اللہ سے بھی یہ قول مروی ہے ۔ وہب بن منبہ فرماتے ہیں اٹھارہ ہزار عالم ہیں ، دنیا کی ساری کی ساری مخلوق ان میں سے ایک عالم ہے ۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں چالیس ہزار عالم ہیں ساری دنیا ان میں سے ایک عالم ہے ۔ زجاج کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے دنیا آخرت میں جو کچھ پیدا کیا ہے وہ سب عالم ہے ۔ قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ قول صحیح ہے اس لیے کہ یہ تمام عالمین پر مشتمل لفظ ہے ۔ جیسے فرعون کے اس سوال کے جواب میں رب العالمین کون ہے ؟ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ «رَبٰ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا» ۱؎ (26-الشعراء:23) ”آسمانوں زمینوں اور دونوں کے درمیان جو کچھ ہے ان سب کا رب“ ۔ «عالم» کا لفظ علامت سے مشتق ہے اس لیے کہ «عالم» یعنی مخلوق اپنے پیدا کرنے والے اور بنانے والے پر نشان اور اس کی وحدانیت پر علامت ہے ۲؎ ۔ (تفسیر قرطبی:139/1) جیسے کہ ابن معتز شاعر کا قول ہے ۔ «فَیَا عَجَبًا کَیْفَ یُعْصَی الْإِلَہُ ... أَمْ کَیْفَ یَجْحَدُہُ الْجَاحِدُ ... وَفِی کُلِّ شَیْءٍ لَہُ آیَۃً ... تَدُلٰ عَلَی أَنَّہُ وَاحِدُ» یعنی تعجب ہے کس طرح اللہ کی نافرمانی کی جاتی ہے اور کس طرح اس سے انکار کیا جاتا ہے حالانکہ ہر چیز میں نشانی ہے جو اس کی وحدانیت پر دلالت کرتی ہے «الْحَمْدُ» کے بعد اب «الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» کی تفسیر سنئے ۔ الفاتحة
3 بہت بخشش کرنے والا بڑا مہربان اس کی تفسیر پہلے پوری گزر چکی ہے اب اعادہ کی ضرورت نہیں ۔ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں آیت «رَبِّ الْعَالَمِینَ» کے وصف کے بعد آیت «الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» کا وصف ترہیب یعنی ڈراوے کے بعد ترغیب یعنی امید ہے ۔ جیسے فرمایا : «نَبِّئْ عِبَادِی أَنِّی أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِیمُ» ۱؎ (15-الحجر:49) الخ یعنی ’میرے بندوں کو خبر دو کہ میں ہی بخشنے والا مہربان ہوں اور میرے عذاب بھی درد ناک عذاب ہیں‘ ۔ اور فرمایا «إِنَّ رَبَّکَ سَرِیعُ الْعِقَابِ وَإِنَّہُ لَغَفُورٌ رَحِیمٌ» ۲؎ (6-الأنعام:165) الخ یعنی ’تیرا رب جلد سزا کرنے والا اور مہربان اور بخشش بھی کرنے والا ہے‘ ۔ «رب» کے لفظ میں ڈراوا ہے اور «رحمن» اور «رحیم» کے لفظ میں امید ہے ۔ صحیح مسلم میں بروایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اگر ایماندار اللہ کے غضب و غصہ سے اور اس کے سخت عذاب سے پورا وقف ہوتا [تو اس وقت] اس کے دل سے جنت کی طمع ہٹ جاتی اور اگر کافر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کی رحمتوں کو پوری طرح جان لیتا تو کبھی ناامید نہ ہوتا“} ۳؎ ۔ (صحیح مسلم:2755) الفاتحة
4 حقیقی وارث مالک کون ہے؟ بعض قاریوں نے «مَلِکِ» پڑھا ہے اور باقی سب نے «مَالِکِ» اور دونوں قراتیں صحیح اور متواتر ہیں اور سات قراتوں میں سے ہیں اور «مَالِکِ» کے «لام» کے زیر اور اس کے سکون کے ساتھ ۔ اور «مَلِیکٌ» اور «مَلَکِی» بھی پڑھا گیا ہے پہلے کی دونوں قراتیں معانی کی رو ترجیح ہیں اور دونوں صحیح ہیں اور اچھی بھی ۔ زمخشری نے «مَلِکِ» کو ترجیح دی ہے اس لیے کہ حرمین والوں کی یہ قرأت ہے ۔ اور قرآن میں بھی «لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ» ۱؎ (40-غافر:16) اور «قَوْلُہُ الْحَقٰ وَلَہُ الْمُلْکُ» ۲؎ (6-الأنعام:73) ہے ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے بھی حکایت بیان کی گئی ہے کہ انہوں نے «مَلِکِ» پڑھا اس بنا پر کہ «فِعْلٌ» اور «فَاعِلٌ» اور «مَفْعُولٌ» آتا ہے لیکن یہ شاذ اور بےحد غریب ہے ۔ ابوبکر بن داؤد رحمہ اللہ نے اس بارے میں ایک غریب روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے تینوں خلفاء اور معاویہ رضی اللہ عنہم اور ان کے لڑکے «مَالِکِ» پڑھتے تھے ۔ ابن شہاب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے مروان نے «مَالِکِ» پڑھا ۔ میں کہتا ہوں مروان کو اپنی اس قرأت کی صحت کا علم تھا راوی راوی حدیث ابن شہاب رحمہ اللہ کو علم نہ تھا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ابن مردویہ نے کئی سندوں سے بیان کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم «مَالِکِ» پڑھتے تھے ۔ «مَالِکِ» کا لفظ «مَلِکِ» سے ماخوذ ہے جیسے کہ قرآن میں ہے : «إِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْأَرْضَ وَمَنْ عَلَیْہَا وَإِلَیْنَا یُرْجَعُونَ» ۱؎ (19-مریم:40) الخ یعنی ’زمین اور اس کے اوپر کی تمام مخلوق کے مالک ہم ہی ہیں اور ہماری ہی طرف سب لوٹا کر لائے جائیں گے‘ ۔ اور فرمایا : «قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ * مَلِکِ النَّاسِ» ۲؎ (114-الناس:1-2) الخ یعنی ’کہہ کہ میں پناہ پکڑتا ہوں لوگوں کے رب اور لوگوں کے مالک کی‘ ۔ اور «مَلِکِ» کا لفظ «مُلْکُ» سے ماخوذ ہے ، جیسے فرمایا : «لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ لِلہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ» ۳؎ (40-غافر:16) الخ یعنی ’آج ملک کس کا ہے صرف اللہ واحد غلبہ والے کا‘ ۔ اور فرمایا : «قَوْلُہُ الْحَقٰ وَلَہُ الْمُلْکُ» ۱؎ (6-الأنعام:73) الخ یعنی ’اسی کا فرمان ہے اور اسی کا سب ملک ہے‘ ۔ اور فرمایا : «الْمُلْکُ یَوْمَئِذٍ الْحَقٰ لِلرَّحْمٰنِ وَکَانَ یَوْمًا عَلَی الْکَافِرِینَ عَسِیرًا» ۲؎ (25-الفرقان:26) یعنی ’آج ملک رحمن ہی کا ہے اور آج کا دن کافروں پر بہت سخت ہے‘ ۔ اس فرمان میں قیامت کے دن ساتھ ملکیت کی تخصیص کرنے سے یہ نہ سمجھنا چاہیئے کہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے ، اس لیے کہ پہلے اپنا وصف «رَبٰ الْعَالَمِینَ» ہونا بیان کر چکا ہے دنیا اور آخرت دونوں کو شامل ہے ۔ قیامت کے دن کے ساتھ اس کی تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ اس دن تو کوئی ملکیت کا دعویدار بھی نہ ہو گا ۔ بلکہ بغیر اس حقیقی مالک کی اجازت کے زبان تک نہ ہلا سکے گا ۔ جیسے فرمایا : «یَوْمَ یَقُومُ الرٰوحُ وَالْمَلَائِکَۃُ صَفًّا لَا یَتَکَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا» ۳؎ (78-النبأ:38) یعنی ’جس دن روح القدس اور فرشتے صف بستہ کھڑے ہوں گے اور کوئی کلام نہ کر سکے گا ۔ یہاں تک کہ رحمن اسے اجازت دے اور وہ ٹھیک بات کہے گا‘ ۔ دوسری جگہ ارشاد ہے : «وَخَشَعَتِ الْأَصْوَاتُ لِلرَّحْمٰنِ فَلَا تَسْمَعُ إِلَّا ہَمْسًا» ۴؎ (20-طہ:108) الخ یعنی ’سب آوازیں رحمن کے سامنے پست ہوں گی اور گنگناہٹ کے سوا کچھ نہ سنائی دے گا‘ ، اور فرمایا : «یَوْمَ یَأْتِ لَا تَکَلَّمُ نَفْسٌ إِلَّا بِإِذْنِہِ فَمِنْہُمْ شَقِیٌّ وَسَعِیدٌ» ۵؎ (11-ہود:105) یعنی ’جب قیامت آئے گی اس دن بغیر اللہ تبارک و تعالیٰ کی اجازت کے کوئی شخص نہ بول سکے گا ۔ بعض ان میں سے بدبخت ہوں گے اور بعض سعادت مند‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس دن اس کی بادشاہت میں اس کے سوا کوئی بادشاہ نہ ہو گا جیسے کہ دنیا میں مجازاً تھے ۔ «یَوْمِ الدِّینِ» سے مراد مخلوق کے حساب کا یعنی قیامت کا دن ہے جس دن تمام بھلے برے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا ہاں اگر رب کسی برائی سے درگزر کر لے یہ اس کا اختیاری امر ہے ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم ، تابعین اور سلف صالحین رحمہ اللہ علیہم سے بھی یہی مروی ہے ۔ بعض سے یہ بھی منقول ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت قائم کرنے پر قادر ہے ۔ ابن جریر رحمہ اللہ نے اس قول کو ضعیف قرار دیا ہے ۔ لیکن بظاہر ان دونوں اقوال میں کوئی تضاد نہیں ، ہر ایک قول کا قائل دوسرے کے قول کی تصدیق کرتا ہے ہاں پہلا قول مطلب پر زیادہ دلالت کرتا ہے ۔ جیسے کہ فرمان ہے : «لْمُلْکُ یَوْمَئِذٍ الْحَقٰ لِلرَّحْمٰنِ» ۱؎ (25-الفرقان:26) الخ اور دوسرا قول اس آیت کے مشابہ ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : «وَیَوْمَ یَقُولُ کُنْ فَیَکُونُ» ۲؎ (6-الأنعام:73) الخ یعنی ’جس دن کہے گا ”ہو جا“ بس اسی وقت ”ہو جائے گا“ ‘ ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» حقیقی بادشاہ اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ جیسے فرمایا : «ہُوَ اللہُ الَّذِی لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْمَلِکُ الْقُدٰوسُ السَّلَامُ» ۱؎ (59-الحشر:23) صحیحین میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”بدترین نام اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس شخص کا ہے جو شہنشاہ کہلائے حقیقی بادشاہ اللہ کے سوا کوئی نہیں“} ۲؎ ۔ (صحیح بخاری:6205) ایک اور حدیث میں ہے کہ {اللہ تعالیٰ زمین کو قبضہ میں لے لے گا اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے پھر فرمائے گا میں بادشاہ ہوں کہاں گئے زمین کے بادشاہ کہاں ہیں تکبر والے} ۳؎ (صحیح بخاری:4812) قرآن عظیم میں ہے «لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ لِلہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ» الخ یعنی ’کس کی ہے آج بادشاہی ؟ فقط اللہ اکیلے غلبہ والے کی‘ اور کسی کو «مَلِکِ» کہہ دینا یہ صرف مجازاً ہے ۔ جیسے کہ قرآن میں طالوت کو «مَلِکِ» کہا گیا اور «وَکَانَ وَرَاءَہُمْ مَلِکٌ» ۴؎ (18-الکہف:79) کا لفظ آیا ۔ اور بخاری مسلم میں «مُلُوکِ» کا لفظ آیا ہے ۵؎ (صحیح مسلم:1912) اور قرآن کی آیت میں «إِذْ جَعَلَ فِیکُمْ أَنْبِیَاءَ وَجَعَلَکُمْ مُلُوکًا» ۶؎ (5-المائدۃ:20) الخ یعنی ’تم میں انبیاء کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا‘ ، آیا ہے ۔ دین کے معنی بدلے جزا اور حساب کے ہیں ۔ جیسے قرآن پاک میں ہے : «یَوْمَئِذٍ یُوَفِّیہِمُ اللہُ دِینَہُمُ الْحَقَّ وَیَعْلَمُونَ» ۷؎ (24-النور:25) الخ یعنی ’اس دن اللہ تعالیٰ انہیں پورا پورا بدلہ دے گا اور وہ جان لیں گے‘ ۔ اور جگہ ہے : «أَإِنَّا لَمَدِینُونَ» ۸؎ (37-الصافات:53) الخ یعنی ’کیا ہم کو بدلہ دیا جائے گا ؟‘ حدیث میں ہے {دانا وہ ہے جو اپنے نفس سے خود حساب لے اور موت کے بعد کام آنے والے اعمال کرے} ۹؎ (سنن ترمذی:2459،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) جیسے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ تم خود اپنی جانوں سے حساب لو اس سے پہلے کہ تمہارا حساب لیا جائے اور اپنے اعمال کا خود وزن کر لو اس سے پہلے کہ وہ ترازو میں رکھے جائیں اور اس بڑی پیشی کے لیے تیار ہو جاؤ جب تم اس اللہ کے سامنے پیش کئے جاؤ گے جس سے تمہارا کوئی عمل پوشیدہ نہیں جیسے خود رب عالم نے فرما دیا : «یَوْمَئِذٍ تُعْرَضُونَ لَا تَخْفَیٰ مِنْکُمْ خَافِیَۃٌ» ۱۰؎ (69-الحاقۃ:18) یعنی ’جس دن تم پیش کئے جاؤ گے کوئی چھپی ڈھکی بات چھپے گی نہیں‘ ۔ الفاتحة
5 عبادت کا مفہوم ساتوں قاریوں اور جمہور نے اسے «إِیَّاکَ» پڑھا ہے ۔ عمرو بن فائد نے «اِیَاکَ» پڑھا ہے ۔ لیکن یہ قراۃ شاذ اور مردود ہے ۔ اس لیے کہ «اِیاَ» کے معنی سورج کی روشنی کے ہیں اور بعض نے «أَیَّاکَ» پڑھا ہے اور بعض نے «ہَیَّاکَ» پڑھا ہے ۔ عرب شاعروں کے شعر میں بھی «َھیَّاکَ» ہے ۔ «نَسْتَعِینُ» کی یہی قرأت تمام کی ہے ۔ سوائے یحییٰ بن وثاب اور اعمش کے ۔ یہ دونوں پہلے نون کو زیر سے پڑھتے ہیں ۔ قبیلہ بنو اسد ، ربیعہ بنت تمیم کی لغت اسی طرح پر ہے ۔ لغت میں عبادت کہتے ہیں ذلت اور پستی کو طریق معبد اس راستے کو کہتے ہیں جو ذلیل ہو ۔ اسی طرح «بَعِیرٌ مُعَبَّدٌ» اس اونٹ کو کہتے ہیں جو بہت دبا اور جھکا ہوا ہو اور شریعت میں عبادت نام ہے محبت ، خشوع ، خضوع اور خوف کے مجموعے کا ۔ لفظ «اِیَّاکَ» کو جو مفعول ہے پہلے لائے اور پھر اسی کو دہرایا تاکہ اس کی اہمیت ہو جائے اور عبادت اور طلب مدد اللہ تعالیٰ ہی کے لیے مخصوص ہو جائے تو اس جملہ کے معنی یہ ہوئے کہ ہم تیرے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے اور نہ کریں گے اور تیرے سوا کسی پر بھروسہ نہیں کرتے اور نہ کریں گے ۔ کامل اطاعت اور پورے دین کا حاصل صرف یہی دو چیزیں ہیں ۔ بعض سلف کا فرمان ہے کہ سارے قرآن کا راز سورۃ فاتحہ میں ہے اور پوری سورت کا راز اس آیت «إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِینُ» میں ہے ۔ آیت کے پہلے حصہ میں شرک سے بیزاری کا اعلان ہے اور دوسرے جملہ میں اپنی طاقتوں اور قوتوں کے کمال کا انکار ہے اور اللہ عزوجل کی طرف اپنے تمام کاموں کی سپردگی ہے ۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں قرآن پاک میں موجود ہیں ۔ جیسے فرمایا : «فَاعْبُدْہُ وَتَوَکَّلْ عَلَیْہِ وَمَا رَبٰکَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ» ۱؎ (11-ہود:123) الخ یعنی ’اللہ ہی کی عبادت کرو اور اسی پر بھروسہ کرو تمہارا رب تمہارے اعمال سے غافل نہیں‘ ۔ فرمایا : «قُلْ ہُوَ الرَّحْمٰنُ آمَنَّا بِہِ وَعَلَیْہِ تَوَکَّلْنَا» ۲؎ (67-الملک:29) الخ یعنی ’کہہ دے کہ وہی رحمان ہے ہم اس پر ایمان لے آئے اور اسی پر ہم نے توکل کیا‘ ۔ فرمایا : «رَبٰ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ فَاتَّخِذْہُ وَکِیلًا» ۳؎ (73-المزمل:9) الخ یعنی ’مشرق مغرب کا رب وہی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں تو اسی کو اپنا کارساز سمجھ‘ ۔ یہی مضمون اس آیۃ کریمہ میں ہے اس سے پہلے کی آیات میں تو خطاب نہ تھا لیکن اس آیت میں اللہ تعالیٰ سے خطاب کیا گیا ہے جو نہایت لطافت اور مناسبت رکھتا ہے اس لیے کہ جب بندے نے اللہ تعالیٰ کی صفت و ثنا بیان کی تو قرب الہٰی میں حاضر ہو گیا اللہ جل جلالہ کے حضور میں پہنچ گیا ، اب اس مالک کو خطاب کر کے اپنی ذلت اور مسکینی کا اظہار کرنے لگا اور کہنے لگا کہ ”الہٰ“ ہم تو تیرے ذلیل غلام ہیں اور اپنے تمام کاموں میں تیرے ہی محتاج ہیں ۔ اس آیت میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ اس سے پہلے کے تمام جملوں میں خبر تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی بہترین صفات پر اپنی ثناء آپ کی تھی اور بندوں کو اپنی ”ثناء“ انہی الفاظ کے ساتھ بیان کرنے کا ارشاد فرمایا تھا اسی لیے اس شخص کی نماز صحیح نہیں جو اس سورت کو پڑھنا جانتا ہو اور پھر نہ پڑھے ۔ جیسے کہ بخاری مسلم کی حدیث میں سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اس شخص کی نماز نہیں جو نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھے“} ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:756) صحیح مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان [نصف نصف] بانٹ لیا ہے اس کا آدھا حصہ میرا ہے اور آدھا حصہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ طلب کرے ۔ جب بندہ «الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ» کہتا ہے ، تو اللہ فرماتا ہے «حَمِدَنِی عَبْدِی» میرے بندے نے میری حمد بیان کی ۔ جب کہتا ہے «الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» ، اللہ فرماتا ہے «أَثْنَی عَلَیَّ عَبْدِی» میرے بندے نے میری ثنا کی ۔ جب وہ کہتا ہے «مَالِکِ یَوْمِ الدِّینِ» ، اللہ فرماتا ہے «مَجَّدَنِی عَبْدِی» میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی ۔ جب وہ «إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِینُ» کہتا ہے ، تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «ہَذَا بَیْنِی وَبَیْنَ عَبْدِی وَلِعَبْدِی مَا سَأَلَ» یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے ۔ پھر وہ آخر سورت تک پڑھتا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «ہَذَا لِعَبْدِی وَلِعَبْدِی مَا سَأَلَ» یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرا بندہ جو مجھ سے مانگے اس کے لیے ہے“} ۲؎ ۔ (صحیح مسلم:395) عبادت اور طلب مدد سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں «إِیَّاکَ نَعْبُدُ» کے معنی یہ ہیں کہ اے ہمارے رب ہم خاص تیری ہی توحید مانتے ہیں اور تجھ سے ڈرتے ہیں اور تیری اسی ذات سے امید رکھتے ہیں تیرے سوا کسی اور کی نہ ہم عبادت کریں ، نہ ڈریں ، نہ امید رکھیں ۔ اور «إِیَّاکَ نَسْتَعِینُ» سے یہ مراد ہے کہ ہم تیری تمام اطاعت اور اپنے تمام کاموں میں تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:19/1) قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا حکم ہے کہ تم سب اسی کی خالص عبادت کرو اور اپنے تمام کاموں میں اسی سے مدد مانگو ۲؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:20/1) «إِیَّاکَ نَعْبُدُ» کو پہلے لانا اس لیے ہے کہ اصل مقصود اللہ تعالیٰ کی عبادت ہی ہے اور مدد کرنا یہ عبادت کا وسیلہ اور اہتمام اور اس پر پختگی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ زیادہ اہمیت والی چیز کو مقدم کیا جاتا ہے اور اس سے کمتر کو اس کے بعد لایا جاتا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اگر یہ کہا جائے کہ یہاں جمع کے صیغہ کو لانے کی یعنی ہم کہنے کی کیا ضرورت ہے ؟ اگر یہ جمع کے لیے ہے تو کہنے والا تو ایک ہے اور اگر تعظیم کے لیے ہے تو اس مقام پر نہایت نامناسب ہے کیونکہ یہاں تو مسکینی اور عاجزی ظاہر کرنا مقصود ہے اس کا جواب یہ ہے کہ گویا ایک بندہ تمام بندوں کی طرف سے خبر دے رہا ہے ۔ بالخصوص جبکہ وہ جماعت میں کھڑا ہو یا امام بنا ہوا ہو ۔ پس گویا وہ اپنی اور اپنے سب مومن بھائیوں کی طرف سے اقرار کر رہا ہے کہ وہ سب اس کے بندے ہیں اور اسی کی عبادت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں اور یہ ان کی طرف سے بھلائی کے لیے آگے بڑھا ہوا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ تعظیم کے لیے ہے گویا کہ بندہ جب عبادت میں داخل ہوتا ہے تو اسی کو کہا جاتا ہے کہ تو شریف ہے اور تیری عزت ہمارے دربار میں بہت زیادہ ہے تو اب «إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِینُ» کہا یعنی اپنے تئیں عزت سے یاد کر ۔ ہاں اگر عبادت سے الگ ہو تو اس وقت ہم نہ کہے چاہے ہزاروں لاکھوں میں ہو کیونکہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کے محتاج اور اس کے دربار کے فقیر ہیں ۔ بعض کا قول ہے کہ «إِیَّاکَ نَعْبُدُ» میں جو تواضع اور عاجزی ہے وہ «إِیَّاکَ عَبَدنَا» میں نہیں اس لیے کہ اس میں اپنے نفس کی بڑائی اور اپنی عبادت کی اہلیت پائی جاتی ہے حالانکہ کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کی پوری عبادت اور جیسی چاہے ویسی ثنا و صفت بیان کرنے پر قدرت ہی نہیں رکھتا ۔ کسی شاعر کا قول ہے [ترجمہ] کہ مجھے اس کا غلام کہہ کر ہی پکارو کیونکہ میرا سب سے اچھا نام یہی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول [ صلی اللہ علیہ وسلم ] کا نام عبد یعنی غلام ان ہی جگہوں پر لیا جہاں اپنی بڑی بڑی نعمتوں کا ذکر کیا جیسے قرآن نازل کرنا ، نماز میں کھڑے ہونا ، معراج کرانا وغیرہ ، فرمایا : «الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِی أَنْزَلَ عَلَیٰ عَبْدِہِ الْکِتَابَ» ۱؎ (18-الکہف:1) الخ ، فرمایا : «وَأَنَّہُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللہِ یَدْعُوہُ» ۲؎ (72-الجن:19) الخ ، فرمایا : «سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَیٰ بِعَبْدِہِ لَیْلًا» ۳؎ (17-الإسراء:1) الخ ، ساتھ ہی قرآن پاک نے یہ تعلیم دی کہ اے نبی جس وقت تمہارا دل مخالفین کے جھٹلانے کی وجہ سے تنگ ہو تو تم میری عبادت میں مشغول ہو جاؤ ۔ فرمان ہے : «وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّکَ یَضِیقُ صَدْرُکَ بِمَا یَقُولُونَ» * «فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَکُنْ مِنَ السَّاجِدِینَ» * «وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتَّیٰ یَأْتِیَکَ الْیَقِینُ» ۴؎ (15-الحجر:97-98-99) یعنی ’ہم جانتے ہیں کہ مخالفین کی باتیں تیرا دل دکھاتی ہیں تو ایسے وقت اپنے رب کی تسبیح اور حمد بیان کر اور سجدہ کر اور موت کے وقت تک اپنے رب کی عبادت میں لگا رہ‘ ۔ رازی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں بعض لوگوں سے نقل کیا ہے کہ عبودیت کا مقام رسالت کے مقام سے افضل ہے کیونکہ عبادت کا تعلق مخلوق سے خالق کی طرف ہوتا اور رسالت کا تعلق حق سے خلق کی طرف ہوتا ہے اور اس دلیل سے بھی کہ عبد کی کل اصلاح کے کاموں کا متولی خود اللہ تبارک و تعالیٰ ہوتا ہے اور رسول اپنی امت کی مصلحتوں کا والی ہوتا ہے ۔ لیکن یہ قول غلط ہے اور اس کی یہ دونوں دلیلیں بھی بودی اور لاحاصل ہیں ۔ افسوس رازی نے نہ تو اس کو ضعیف کہا نہ اسے رد کیا ۔ بعض صوفیوں کا قول ہے کہ عبادت یا تو ثواب حاصل کرنے کے لیے ہوتی ہے یا عذاب دفع کرنے کے لیے ، وہ کہتے ہیں یہ کوئی فائدے کی بات نہیں اس لیے کہ اس وقت مقصود خود اپنی مراد کا حاصل کرنا ٹھہرا ۔ اس کی تکالیف کے لیے آمادگی کرنا یہ بھی ضعیف ہے ۔ اعلیٰ مرتبہ عبادت یہ ہے کہ انسان اس مقدس ذات کی جو تمام کامل صفتوں سے موصوف ہے محض اس کی ذات کے لیے عبادت کرے اور مقصود کچھ نہ ہو ۔ اسی لیے نمازی کی نیت نہ نماز پڑھنے کی ہوتی ہے اگر وہ ثواب پانے اور عذاب سے بچنے کے لیے ہو تو باطل ہے ۔ دوسرا گروہ ان کی تردید کرتا ہے اور کہتا ہے کہ عبادت کا اللہ تعالیٰ کے لیے ہونا کچھ اس کے خلاف نہیں کہ ثواب کی طلب اور عذاب کا بچاؤ مطلوب نہ ہو اس کی دلیل یہ ہے کہ {ایک اعرابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ اے اللہ کے رسول ! میں نہ تو آپ جیسا پڑھنا جانتا ہوں نہ معاذ جیسا ، میں تو اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرتا ہوں اور جہنم سے نجات چاہتا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اسی کے قریب قریب ہم بھی پڑھتے ہیں“} ۵؎ ۔ (سنن ابوداود:792،قال الشیخ الألبانی:صحیح) الفاتحة
6 حصول مقصد کا بہترین طریقہ جمہور نے «صِّرَاطَ» پڑھا ہے ۔ بعض نے «ِسرَاطَ» کہا ہے اور «زے» کی بھی ایک قراۃ ہے ۔ فراء کہتے ہیں بنی عذرہ اور بنی کلب کی قراۃ یہی ہے چونکہ پہلے ثنا و صفت بیان کی تو اب مناسب تھا کہ اپنی حاجت طلب کرے ۔ جیسے کہ پہلے حدیث میں گزر چکا ہے کہ اس کا آدھا حصہ میرے لیے ہے اور آدھا میرے بندے کے لیے اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ طلب کرے ۔ خیال کیجئے کہ اس میں کس قدر لطافت اور عمدگی ہے کہ پہلے پروردگار عالم کی تعریف و توصیف کی ، پھر اپنی اور اپنے بھائیوں کی حاجت طلب کی ۔ یہ وہ لطیف انداز ہے جو مقصود کو حاصل کرنے اور مراد کو پا لینے کے لیے تیر بہدف ہے ، اس کامل طریقہ کو پسند فرما کر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کی ہدایت کی ۔ کبھی سوال اس طرح ہوتا ہے کہ سائل اپنی حالت اور حاجت کو ظاہر کر دیتا ہے ۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام نے کہا تھا : «رَبِّ إِنِّی لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیرٌ» ۱؎ (28-القصص:24) الخ یعنی ’پروردگار جو بھلائیاں تو میری طرف نازل فرمائے میں اس کا محتاج ہوں‘ ۔ یونس علیہ السلام نے بھی اپنی دعا میں کہا : «لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِینَ» ۲؎ (21-الأنبیاء:87) الخ یعنی ’الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے میں ظالموں میں سے ہوں‘ ۔ کبھی سوال اس طرح بھی ہوتا ہے کہ سائل صرف تعریف اور بزرگی بیان کر کے چپ ہو جاتا ہے جیسے کسی شاعر کا قول ہے «أَأَذْکُرُ حَاجَتِی أَمْ قَدْ کَفَانِی ... حَیَاؤُکَ إِنَّ شِیمَتَکَ الْحَیَاءُ ... إِذَا أَثْنَی عَلَیْکَ الْمَرْءُ یَوْمًا ... کَفَاہُ مِنْ تَعَرٰضِہِ الثَّنَاءُ» کہ مجھے اپنی حاجت کے بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تیری مہربانیوں بھری بخشش مجھے کافی ہے میں جانتا ہوں کہ داد و دہش تیری پاک عادتوں میں داخل ہے لیکن تیری پاکیزگی بیان کر دینا ، تیری حمد و ثنا کرنا ہی مجھے اپنی حاجت پوری کرنے کے لیے کافی ہے ۔ ہدایت کے معنی یہاں پر ارشاد اور توفیق کے ہیں ۔ کبھی تو ہدایت بنفسہ متعدی ہوتی ہے جیسے یہاں ہے تو معنی «أَلْہِمْنَا ، وَفِّقْنَا ، ارْزُقْنَا» اور «اعْطِنَا» یعنی ہمیں عطا فرمائے ہوں گے اور جگہ ہے : «وَہَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ» ۳؎ (90-البلد:10) الخ یعنی ’ہم نے اسے دونوں راستے دکھا دئیے‘ بھلائی اور برائی دونوں کے ۔ اور کبھی ہدایت «الیٰ» کے ساتھ متعدی ہوتی ہے ، جیسے فرمایا : «اجْتَبَاہُ وَہَدَاہُ إِلَیٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ» ۴؎ (16-النحل:121) اور فرمایا : «فَاہْدُوہُمْ إِلَیٰ صِرَاطِ الْجَحِیمِ» ۵؎ (37-الصافات:23) یہاں ہدایت ارشاد اور دلالت کے معنی میں ہے ۔ اسی طرح فرمان ہے : «وَإِنَّکَ لَتَہْدِی إِلَیٰ صِرَاطٍ مٰسْتَقِیمٍ» ۶؎ (42-الشوری:52) الخ یعنی ’تو البتہ سیدھی راہ دکھاتا ہے‘ ، اور کبھی ہدایت «لام» کے ساتھ متعدی ہوتی ہے جیسے جنتیوں کا قول قرآن کریم میں ہے : «الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِی ہَدَانَا لِہٰذَا» ۷؎ (7-الأعراف:43) الخ یعنی ’اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس کی راہ دکھائی یعنی توفیق دی اور ہدایت والا بنایا‘ ۔ «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِیمُ» کے معنی سنئے ۔ امام ابو جعفر بن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں مراد اس سے واضح اور صاف راستہ ہے جو کہیں سے ٹیڑھا نہ ہو ۔ عرب کی لغت میں اور شاعروں کے شعر میں یہ معنی صاف طور پر پائے جاتے ہیں اور اس پر بےشمار شواہد موجود ہیں ۔ «صِّرَاطَ» کا استعمال بطور استعارہ کے قول اور فعل پر بھی آتا ہے اور پھر اس کا وصف استقامت اور ٹیڑھ پن کے ساتھ بھی آتا ہے ۔ سلف اور متاخرین مفسرین سے اس کی بہت سی تفسیریں منقول ہیں اور ان سب کا خلاصہ ایک ہی ہے اور وہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور تابعداری ہے ۔ صراط مستقیم کیا ہے؟ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ {صراط مستقیم کتاب اللہ ہے} ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:174:ضعیف جدا) ابن ابی حاتم اور ابن جریر نے بھی روایت کی ہے ۔ فضائل قرآن کے بارے میں پہلے حدیث گزر چکی ہے کہ {اللہ تعالیٰ کی مضبوط رسی ، حکمتوں والا ذکر اور سیدھی راہ یعنی صراط مستقیم یہی اللہ کی کتاب قرآن کریم ہے} ۲؎ ۔ (سنن ترمذی:2906،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول بھی یہی ہے اور مرفوع حدیث کا بھی موقوف ہونا ہی زیادہ مشابہ ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے بھی یہی روایت ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم «اہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ» کہئے یعنی ہمیں ہدایت والے راستہ کا الہام کر اور اس دین قیم کی سمجھ دے جس میں کوئی کجی نہیں ۔ آپ سے یہ قول بھی مروی ہے کہ اس سے مراد اسلام ہے ۔ سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھی یہی تفسیر منقول ہے ۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِیمُ» سے مراد اسلام ہے جو ہر اس چیز سے جو آسمان اور زمین کے درمیان ہے زیادہ وسعت والا ہے ۔ ابن حنفیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ دین ہے جس کے سوا اور دین مقبول نہیں ۔ عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ کا قول ہے کہ «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِیمُ» اسلام ہے ۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں بھی مروی ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مثال بیان کی کہ «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِیمُ» کے دونوں طرف دو دیواریں ہیں ، ان میں کئی ایک کھلے ہوئے دروازے ہیں اور دروازوں پر پردے لٹک رہے ہیں ، «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِیمُ» کے دروازے پر ایک پکارنے والا مقرر ہے ، جو کہتا ہے کہ اے لوگو ! تم سب کے سب اسی سیدھی راہ پر چلے جاؤ ، ٹیڑھی ترچھی ادھر ادھر کی راہوں کو نہ دیکھو نہ ان پر جاؤ ۔ اور اس راستے سے گزرنے والا کوئی شخص جب ان دروازوں میں سے کسی ایک کو کھولنا چاہتا ہے تو ایک پکارنے والا کہتا ہے خبردار اسے نہ کھولنا ۔ اگر کھولا تو اس راہ لگ جاؤ گے اور «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِیمُ» سے ہٹ جاؤ گے ۔ پس «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِیمُ» تو اسلام ہے اور دیواریں اللہ کی حدیں ہیں اور کھلے ہوئے دروازے اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزیں ہیں اور دروازے پر پکارنے والا قرآن کریم ہے ، اور راستے کے اوپر سے پکارنے والا زندہ ضمیر ہے جو ہر ایماندار کے دل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور واعظ کے ہوتا ہے} ۱؎ ۔ (سنن ترمذی:2859،قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ حدیث ابن ابی حاتم ، ابن جریر ، ترمذی اور نسائی میں بھی ہے اور اس کی اسناد حسن صحیح ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد حق ہے ۔ ان کا قول سب سے زیادہ مقبول ہے اور مذکورہ اقوال کا کوئی مخالف نہیں ۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد کے آپ کے دونوں خلیفہ ہیں ۔ حسن رحمہ اللہ اس قول کی تصدیق اور تحسین کرتے ہیں ۔ دراصل یہ سب اقوال صحیح ہیں اور ایک دوسرے سے ملے جلے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دونوں خلفاء صدیق و فاروق رضی اللہ عنہما کا تابعدار حق کا تابع ہے اور حق کا تابع اسلام کا تابع ہے اور اسلام کا تابع قرآن کا مطیع ہے اور قرآن اللہ کی کتاب اس کی طرف سے مضبوط رسی اور اس کی سیدھی راہ ہے ۔ لہٰذا «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِیمُ» کی تفسیر میں یہ تمام اقوال صحیح ہیں اور ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِیمُ» وہ ہے جس پر ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑا ۔ امام ابوجعفر بن جریر رحمہ اللہ کا فیصلہ ہے کہ میرے نزدیک اس آیت کی تفسیر میں سب سے اولیٰ یہ ہے کہ ہم کو توفیق دی جائے اس کی جو اللہ کی مرضی کی ہو اور جس پر چلنے کی وجہ سے اللہ اپنے بندوں سے راضی ہوا ہو اور ان پر انعام کیا ہو ، «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِیمُ» یہی ہے ۔ اس لیے کہ جس شخص کو اس کی توفیق مل جائے ، جس کی توفیق اللہ کے نیک بندوں کو تھی جن پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہوا تھا جو نبی ، صدیق ، شہید اور صالح لوگ تھے انہوں نے اسلام کی اور رسولوں کی تصدیق کی ، کتاب اللہ کو مضبوط تھام رکھا ، اللہ تعالیٰ کے احکام کو بجا لائے ۔ اس کے منع کیے ہوئے کاموں سے رک گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے چاروں خلیفوں رضی اللہ عنہم اور تمام نیک بندوں کی راہ کی توفیق مل جائے گی تو یہی «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِیمُ» ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ مومن کو تو اللہ کی طرف سے ہدایت حاصل ہو چکی ہے پھر نماز اور غیر نماز میں ہدایت مانگنے کی کیا ضرورت ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مراد اس سے ہدایت پر ثابت قدمی اور رسوخ اور بینائی اور ہمیشہ کی طلب ہے اس لیے کہ بندہ ہر ساعت اور ہر حالت میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا محتاج ہے وہ خود اپنی جان کے نفع نقصان کا مالک نہیں بلکہ دن رات اپنے اللہ کا محتاج ہے اسی لیے اسے سکھایا کہ ہر وقت وہ اللہ تعالیٰ سے ہدایت طلب کرتا رہے اور ثابت قدمی اور توفیق چاہتا رہے ۔ بھلا اور نیک بخت انسان وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنے در کا بھکاری بنا لے وہ اللہ ہر پکارنے والے کی پکار کے قبول کرنے کا کفیل ہے ۔ بالخصوص بےقرار محتاج اور اس کے سامنے اپنی حاجت دن رات پیش کرنے والے کی ہر پکار کو قبول کرنے کا ضامن ہے ۔ اور جگہ قرآن کریم میں ہے : «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا آمِنُوا بِ اللہِ وَرَسُولِہِ وَالْکِتَابِ الَّذِی نَزَّلَ عَلَیٰ رَسُولِہِ وَالْکِتَابِ الَّذِی أَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ» ۱؎ (4-النساء:136) الخ یعنی ’اے ایمان والو ! اللہ پر ، اس کے رسولوں پر ، اس کی اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول کی طرف نازل فرمائی اور جو کتابیں اس سے پہلے نازل ہوئیں ، سب پر ایمان لاؤ ۔ اس آیت میں ایمان والوں کو ایمان لانے کا حکم دینا اور ہدایت والوں کو ایمان لانے کا حکم دینا ایسا ہی ہے جیسے یہاں ہدایت والوں کو ہدایت کی طلب کرنے کا حکم دینا ۔ مراد دونوں جگہ ثابت قدمی اور اور استمرار ہے اور ایسے اعمال پر ہمیشگی کرنا جو اس مقصد کے حاصل کرنے میں مدد پہنچائیں ۔ اس پر یہ اعتراض وارد ہو بھی نہیں سکتا کہ یہ حاصل شدہ چیز کا حاصل کرنا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اور دیکھئیے اللہ رب العزت نے اپنے ایماندار بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ کہیں : «رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ ہَدَیْتَنَا وَہَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْکَ رَحْمَۃً إِنَّکَ أَنْتَ الْوَہَّابُ» ۱؎ (3-آل عمران:8) الخ یعنی ’اے ہمارے رب ہمارے دلوں کو ہدایت کے بعد ٹیڑھا نہ کر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما تو بہت بڑا دینے والا اور عطا کرنے والا ہے‘ ۔ یہ بھی وارد ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نماز مغرب کی تیسری رکعت سورۃ فاتحہ کے بعد اس آیت کو پوشیدگی سے پڑھا کرتے تھے پس «اہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ» کے معنی یہ ہوئے کہ الہٰ ہمیں صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھ اور اس سے ہمیں نہ ہٹا ۔ الفاتحة
7 انعام یافتہ کون؟ اس کا بیان پہلے گزر چکا ہے کہ بندے کے اس قول پر اللہ کریم فرماتا ہے یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کے لیے ہے جو کچھ وہ مانگے یہ آیت «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِیمُ» کی تفسیر ہے اور نحویوں کے نزدیک یہ اس سے بدل ہے اور عطف بیان بھی ہو سکتی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اور جن پر اللہ کا انعام ہوا ان کا بیان سورۃ نساء میں آ چکا ہے فرمان ہے : «وَمَنْ یُطِعِ اللہَ وَالرَّسُولَ فَأُولٰئِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشٰہَدَاءِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولٰئِکَ رَفِیقًا» * «ذٰلِکَ الْفَضْلُ مِنَ اللہِ وَکَفَیٰ بِ اللہِ عَلِیمًا» ۱؎ (4-النساء:69-70) الخ یعنی ’اللہ اور اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کہے پر عمل کرنے والے ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ کا انعام ہے جو نبی ، صدیق ، شہید ، صالح لوگ ہیں ، یہ بہترین ساتھی اور اچھے رفیق ہیں ۔ یہ فضل ربانی ہے اور اللہ جاننے والا کافی ہے‘ ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ اللہ جل شانہ تو مجھے ان فرشتوں ، نبیوں ، صدیقوں ، شہیدوں اور صالحین کی راہ پر چلا جن پر تو نے اپنی اطاعت و عبادت کی وجہ سے انعام نازل فرمایا ۔ یہ آیت ٹھیک «وَمَنْ یُطِعِ اللہَ وَالرَّسُولَ فَأُولٰئِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللہُ عَلَیْہِمْ» ۱؎ (4-النساء:69) کی طرح ہے ۔ ربیع بن انس رحمہ اللہ کہتے ہیں اس سے مراد انبیاء ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد مومن ہیں ۔ وکیع رحمہ اللہ کہتے ہیں مسلمان مراد ہیں ۔ عبدالرحمٰن رحمہ اللہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ مراد ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول زیادہ معقول اور قابل تسلیم ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» جمہور کی قرأت میں «غَیْرِ» «رے» کے زیر کے ساتھ ہے اور صفت ہے ۔ زمحشری کہتے ہیں «رے» کی زبر کے ساتھ پڑھا گیا ہے اور حال ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی قرأت یہی ہے اور ابن کثیر رحمہ اللہ سے بھی یہی روایت کی گئی ہے ۔ «عَلَیْہِمْ» میں جو ضمیر ہے وہ اس کا ذوالحال ہے اور «أَنْعَمْتَ» عامل ہے ۔ معنی یہ ہوئے کہ اللہ جل شانہ تو ہمیں سیدھا راستہ دکھا ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا ۔ جو ہدایت اور استقامت والے تھے اور اللہ ، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اطاعت گزار ، اس کے حکموں پر عمل کرنے والے ، اس کے منع کئے ہوئے کاموں سے رک رہنے والے تھے ۔ مغضوب کون؟ ان کی راہ سے بچا ، جن پر غضب و غصہ کیا گیا ، جن کے ارادے فاسد ہو گئے ، حق کو جان کر پھر اس سے ہٹ گئے اور گم گشتہ راہ لوگوں کے طریقے سے بھی ہمیں بچا لے جو سرے سے علم نہیں رکھتے مارے مارے پھرتے ہیں راہ سے بھٹکے ہوئے حیران و سرگرداں ہیں اور راہ حق کی طرف رہنمائی نہیں کئے جاتے «لَا» کو دوبارہ لا کر کلام کی تاکید کرنا اس لیے ہے کہ معلوم ہو جائے کہ یہاں دو غلط راستے ہیں ، ایک یہود کا دوسرا نصاریٰ کا ۔ بعض نحوی کہتے ہیں کہ «غَیْرَ» کا لفظ یہاں پر استثناء کے لیے ہے تو استثناء منقطع ہو سکتا ہے کیونکہ جن پر انعام کیا گیا ہے ان میں سے استثناء ہونا تو درست ہے ۔ مگر یہ لوگ انعام والوں میں داخل ہی نہ تھے لیکن ہم نے جو تفسیر کی ہے یہ بہت اچھی ہے ۔ عرب شاعروں کے شعر میں ایسا پایا جاتا ہے کہ وہ موصوف کو حذف کر دیتے ہیں اور صرف صفت بیان کر دیا کرتے ہیں ۔ اسی طرح اس آیت میں بھی صفت کا بیان ہے اور موصوف محذوف ہے ۔ «غَیْرِ الْمَغْضُوبِ» سے مراد «غَیْرِ صِرَاطِ الْمَغْضُوبِ» ہے ۔ مضاف «إِلَیْہِ» کے ذکر سے کفایت کی گئی اور مضاف بیان نہ کیا گیا اس لیے کہ نشست الفاظ ہی اس پر دلالت کر رہی ہے ۔ پہلے دو مرتبہ یہ لفظ آ چکا ہے ۔ بعض کہتے ہیں «وَلَا الضَّالِّینَ» میں «لَا» زائد ہے اور ان کے نزدیک تقدیر کلام اس طرح ہے «غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَالضَّالِّینَ» اور اس کی شہادت عرب شاعروں کے شعر سے بھی ملتی ہے لیکن صحیح بات وہی ہے جو ہم پہلے لکھ چکے ہیں ۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے «غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَغَیْرِ الضَّالِّینَ» پڑھنا صحیح سند سے مروی ہے اور اسی طرح سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے اور یہ محمول ہے اس پر کہ ان بزرگوں سے یہ بطور تفسیر صادر ہوا ۔ تو ہمارے قول کی تائید ہوئی کہ «لَا» نفی کی تاکید کے لیے ہی لایا گیا ہے تاکہ یہ وہم ہی نہ ہو کہ یہ «أَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ» پر عطف ہے اور اس لیے بھی کہ دونوں راہوں کا فرق معلوم ہو جائے تاکہ ہر شخص ان دونوں سے بھی بچتا رہے ۔ اہل ایمان کا طریقہ تو یہ ہے کہ حق کا علم بھی ہو اور حق پر عمل بھی ہو ۔ یہودیوں کے ہاں علم نہیں اور نصاریٰ کے ہاں عمل نہیں اسی لیے یہودیوں پر غضب ہوا اور نصرانیوں کو گمراہی ملی ۔ اس لیے کہ علم کے باوجود عمل کو چھوڑنا غضب کا سبب ہے اور نصرانی گو ایک چیز کا قصد تو کرتے ہیں مگر اس کے باوجود صحیح راستہ کو نہیں پا سکتے اس لیے کہ ان کا طریقہ کار غلط ہے اور اتباع حق سے ہٹے ہوئے ہیں یوں تو غضب اور گمراہی ان دونوں جماعتوں کے حصہ میں ہے لیکن یہودی غضب کے حصہ میں پیش پیش ہیں ۔ جیسے کہ اور جگہ قرآن کریم میں ہے : «مَنْ لَعَنَہُ اللہُ وَغَضِبَ عَلَیْہِ» ۱؎ (5-المائدۃ:60) الخ اور نصرانی ضلالت میں بڑھے ہوئے ہیں ۔ فرمان الٰہی ہے : «قَدْ ضَلٰوا مِنْ قَبْلُ وَأَضَلٰوا کَثِیرًا وَضَلٰوا عَنْ سَوَاءِ السَّبِیلِ» ۲؎ (5-المائدۃ:77) الخ یعنی ’یہ پہلے ہی سے گمراہ ہیں اور بہتوں کو گمراہ کر بھی چکے ہیں اور سیدھی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں‘ ۔ اس کی تائید میں بہت سی حدیثیں اور روایتیں پیش کی جا سکتی ہیں ۔ مسند احمد میں ہے ۔ سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر نے میری پھوپھی اور چند اور لوگوں کو گرفتار کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تو میری پھوپھی نے کہا میری خبرگیری کرنے والا غائب ہے اور میں عمر رسیدہ بڑھیا ہوں جو کسی خدمت کے لائق نہیں آپ مجھ پر احسان کیجئے اور مجھے رہائی دیجئیے ۔ اللہ تعالیٰ آپ پر بھی احسان کرے گا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ تیری خیر خبر لینے والا کون ہے ؟ اس نے کہا عدی بن حاتم آپ نے فرمایا وہی جو اللہ اور اس کے رسول سے بھاگتا پھرتا ہے ؟ پھر آپ نے اسے آزاد کر دیا ۔ جب لوٹ کر آپ آئے تو آپ کے ساتھ ایک شخص تھے اور غالباً وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ تھے آپ نے فرمایا : لو ان سے سواری مانگ لو ۔ میری پھوپھی نے ان سے درخواست کی جو منظور ہوئی اور سواری مل گئی ۔ وہ یہاں سے آزاد ہو کر میرے پاس آئیں اور کہنے لگیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت نے تیرے باپ حاتم کی سخاوت کو بھی ماند کر دیا ۔ آپ کے پاس جو آتا ہے وہ خالی ہاتھ واپس نہیں جاتا ۔ یہ سن کر میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے دیکھا کہ چھوٹے بچے اور بڑھیا عورتیں بھی آپ کی خدمت میں آتی جاتی ہیں اور آپ ان سے بھی بےتکلفی کے ساتھ بولتے چالتے ہیں ۔ اس بات نے مجھے یقین دلایا دیا کہ آپ قیصر و کسریٰ کی طرح بادشاہت اور وجاہت کے طلب کرنے والے نہیں ۔ آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا : ”عدی «لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ» کہنے سے کیوں بھاگتے ہو ؟ کیا اللہ کے سوا اور کوئی عبادت کے لائق ہے ؟ « اللہُ أَکْبَرُ» کہنے سے کیوں منہ موڑتے ہو ؟ کیا اللہ عزوجل سے بھی بڑا کوئی ہے ؟“ مجھ پر ان کلمات نے آپ کی سادگی اور بےتکلفی نے ایسا اثر کیا کہ میں فوراً کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا ۔ جس سے آپ بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے «الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ» سے مراد یہود ہیں اور «الضَّالِّینَ» سے مراد نصاریٰ ہیں} ۱؎ ۔ (سنن ترمذی:2954،قال الشیخ الألبانی:حسن) ایک اور حدیث میں ہے کہ سیدنا عدی رضی اللہ عنہ کے سوال پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تفسیر ارشاد فرمائی تھی ۲؎۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:209،195:حسن) اس حدیث کی بہت سی سندیں ہیں اور مختلف الفاظ سے مروی ہے ۔ بنوقین کے ایک شخص نے وادی القریٰ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سوال کیا آپ نے جواب میں یہی فرمایا ۳؎ ۔ (مسند احمد:5/32:حسن بالشواھد) بعض روایتوں میں ان کا نام عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ابن مردویہ میں سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے بھی یہی روایت ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور بہت سے صحابیوں رضی اللہ عنہم سے بھی یہ تفسیر منقول ہے ۔ ربیع بن انس ، عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم وغیرہ بھی یہی فرماتے ہیں بلکہ ابن ابی حاتم تو فرماتے ہیں مفسرین میں اس بارے میں کوئی اختلاف ہی نہیں ۔ ان ائمہ کی اس تفسیر کی دلیل ایک تو وہ حدیث ہے جو پہلے گزری ۔ دوسری سورۃ البقرہ کی یہ آیت جس میں بنی اسرائیل کو خطاب کر کے کہا گیا ہے : «بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِہِ أَنْفُسَہُمْ أَنْ یَکْفُرُوا بِمَا أَنْزَلَ اللہُ بَغْیًا أَنْ یُنَزِّلَ اللہُ مِنْ فَضْلِہِ عَلَیٰ مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ فَبَاءُوا بِغَضَبٍ عَلَیٰ غَضَبٍ وَلِلْکَافِرِینَ عَذَابٌ مُہِینٌ» ۱؎ (2-البقرۃ:90) اس آیت میں ہے کہ ان پر غضب پر غضب نازل ہوا ۔ اور سورۃ المائدہ کی آیت «قُلْ ہَلْ أُنَبِّئُکُمْ بِشَرٍّ مِنْ ذٰلِکَ مَثُوبَۃً عِنْدَ اللہِ مَنْ لَعَنَہُ اللہُ وَغَضِبَ عَلَیْہِ وَجَعَلَ مِنْہُمُ الْقِرَدَۃَ وَالْخَنَازِیرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوتَ أُولٰئِکَ شَرٌّ مَکَانًا وَأَضَلٰ عَنْ سَوَاءِ السَّبِیلِ» ۲؎ (5-المائدۃ:60) میں بھی ہے کہ ان پر غضب الہٰی نازل ہوا اور جگہ فرمان الہٰی ہے : «لُعِنَ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ عَلَیٰ لِسَانِ دَاوُودَ وَعِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَکَانُوا یَعْتَدُونَ * کَانُوا لَا یَتَنَاہَوْنَ عَنْ مُنْکَرٍ فَعَلُوہُ لَبِئْسَ مَا کَانُوا یَفْعَلُونَ» ۳؎ (5-المائدۃ:79) یعنی ’بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ان پر لعنت کی گئی ۔ دواؤد علیہ السلام اور عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کی زبانی یہ ان کی نافرمانی اور حد سے گزر جانے کی وجہ سے ہے ۔ یہ لوگ کسی برائی کے کام سے آپس میں روک ٹوک نہیں کرتے تھے یقیناً ان کے کام بہت برے تھے‘ ۔ اور تاریخ کی کتابوں میں ہے کہ زید بن عمرو بن نفیل جو کہ دین خالص کی تلاش میں اپنے ساتھیوں سمیت نکلے اور ملک شام میں آئے تو ان سے یہودیوں نے کہا کہ آپ ہمارے دین میں تب تک داخل نہیں ہو سکتے جب تک غضب الہٰی کا ایک حصہ نہ پا لو ۔ انہوں نے جواب دیا کہ اس سے بچنے کے لیے تو دین حق کی تلاش میں نکلے ہیں پھر اسے کیسے قبول کر لیں ؟ پھر نصرانیوں سے ملے انہوں نے کہا جب تک اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مزا نہ چکھ لو تب تک آپ ہمارے دین میں نہیں آ سکتے ۔ انہوں نے کہا ہم یہ بھی نہیں کر سکتے چنانچہ وہ اپنی فطرت پر ہی رہے ۔ بتوں کی عبادت اور قوم کا دین چھوڑ دیا لیکن یہودیت یا نصرانیت اختیار نہ کی ۔ البتہ زید کے ساتھیوں نے عیسائی مذہب قبول کر لیا ۔ اس لیے کہ یہودیوں کے مذہب سے یہ ملتا جلتا تھا ۔ انہی میں ورقہ بن نوفل تھے انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا زمانہ ملا اور ہدایت الہٰی نے ان کی رہبری کی اور یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور جو وحی اس وقت تک اتری تھی اس کی تصدیق کی [رضی اللہ عنہ] ۔ مسئلہ «ضَّادِ» اور «ظَّاءِ» کی قرأت میں بہت باریک فرق ہے اور ہر ایک کے بس کا نہیں ۔ اس لیے علمائے کرام کا صحیح مذہب یہ ہے کہ یہ فرق معاف ہے ، «ضَّادِ» کا صحیح مخرج تو یہ ہے کہ زبان کا اول کنارہ اور اس کے پاس کی داڑھیں اور «ظَّاءِ» کا مخرج زبان کا ایک طرف اور سامنے والے اوپر کے دو دانت کے کنارے ۔ دوسرے یہ کہ یہ دونوں حرف «مَجْہُورَۃِ» اور «رِّخْوَۃِ» اور «مُطْبَقَۃِ» ہیں پس اس شخص کو جسے ان دونوں میں تمیز کرنی مشکل معلوم ہو ، اسے معاف ہے کہ «ضَّادِ» کو «ظَّاءِ» کی طرح پڑھ لے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ {میں «ضَّادِ» کو سب سے زیادہ صحیح پڑھنے والا ہوں} ۱؎ (کشف الخفاء:200/1:لااصل لہ) لیکن یہ حدیث بالکل بے اصل اور لاپتہ ہے ۔ الحمد کا تعارف و مفہوم یہ مبارک سورت نہایت کار آمد مضامین کا مجموعہ ہے ان سات آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی حمد ، اس کی بزرگی ، اس کی ثنا و صفت اور اس کے پاکیزہ ناموں اور اس کی بلند و بالا صفتوں کا بیان ہے ساتھ ہی قیامت کے دن کا ذکر ہے اور بندوں کو ارشاد ہے کہ وہ اس مالک سے سوال کریں اس کی طرف تضرع و زاری کریں اپنی مسکینی اور بےکسی اور بےبسی کا اقرار کریں اور اس کی عبادت خلوص کے ساتھ کریں اور اس کی توحید الوہیت کا اقرار کریں ۔ اسے شریک، نظیر اور مثل سے پاک اور برتر جانیں۔ صراط مستقیم اور اس پر ثابت قدمی اس سے طلب کریں تاکہ یہی ہدایت انہیں قیامت والے دن پل صراط سے بھی پار اتارے اور نبیوں ، صدیقوں ، شہیدوں اور صالحوں کے پڑوس میں جنت الفردوس میں جگہ دلائے ۔ ساتھ ہی اس سورت میں نیک اعمال کی ترغیب ہے تاکہ قیامت کے دن نیکوں کا ساتھ ملے اور باطل راہوں پر چلنے سے ڈراوا پیدا ہو تاکہ قیامت کے دن بھی یہ باطل پرست یہود و نصاریٰ کی جماعت سے دور ہی رہیں ۔ اس باریک نکتہ پر بھی غور کیجئے کہ انعام کی اسناد تو اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی اور «أَنْعَمْتَ» کہا گیا لیکن غضب کی اسناد اللہ کی طرف نہیں کی گئی یہاں فاعل حذف کر دیا اور «الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ» کہا گیا اس میں پروردگار عالم کی جناب میں ادب کیا گیا ہے ۔ دراصل حقیقی فاعل اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ جیسے اور جگہ ہے : «غَضِبَ اللہُ عَلَیْہِمْ» ۱؎ (58-المجادلۃ:14) اور اسی طرح ضلالت کی اسناد بھی ان کی طرف کی کئی جو گمراہ ہیں ۔ حالانکہ اور جگہ ہے : «وَمَنْ یَہْدِ اللہُ فَہُوَ الْمُہْتَدِ وَمَنْ یُضْلِلْ» ۲؎ (17-الإسراء:97) الخ یعنی ’اللہ جسے راہ دکھائے وہ راہ یافتہ ہے اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا رہنما کوئی نہیں‘ ۔ اور جگہ فرمایا : «مَنْ یُضْلِلِ اللہُ فَلَا ہَادِیَ لَہُ» (7-الأعراف:186) ۳؎ الخ یعنی ’جسے اللہ گمراہ کر دے اس کا ہادی کوئی نہیں وہ تو اپنی سرکشی میں بہکے رہتے ہیں‘ ۔ اسی طرح کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں جن سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ راہ دکھانے والا گمراہ کرنے والا صرف سبحانہ و تعالیٰ ہی ہے ۔ قدریہ فرقہ جو ادھر ادھر کی متشابہ آیتوں کو دلیل بنا کر کہتا ہے کہ بندے خود مختار ہیں وہ خود جو پسند کرتے ہیں وہی کرتے ہیں ۔ یہ غلط ہے ، صریح اور صاف صاف آیتیں ان کے رد میں موجود ہیں لیکن باطل پرست فرقوں کا یہی قاعدہ ہے کہ صراحت کو چھوڑ کر متشابہ کے پیچھے لگا کرتے ہیں ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیتوں کے پیچھے لگتے ہیں تو سمجھ لو کہ انہی لوگوں کا اللہ تعالیٰ نے نام لیا ہے تم ان کو چھوڑ دو ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:4547) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ اس فرمان میں اس آیت شریف کی طرف ہے «فَأَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِیلِہِ» ۲؎ (3-آل عمران:7) الخ یعنی ’جن لوگوں کے دل میں کجی ہے وہ متشابہ ہے کے پیچھے لگتے ہیں فتنوں اور تاویل کو ڈھونڈنے کے لیے‘ ۔ پس «الْحَمْدُ لِلّٰہ» بدعتیوں کے لیے قرآن پاک میں صحیح دلیل کوئی نہیں ۔ قرآن کریم تو حق و باطل ہدایت و ضلالت میں فرق کرنے کے لیے آیا ہے اس میں تناقض اور اختلاف نہیں ۔ یہ تو اللہ حکیم و حمید کا نازل کردہ ہے ۔ آمین اور سورہ فاتحہ سورۃ فاتحہ کو ختم کر کے آمین کہنا مستحب ہے ۔ آمین مثل «یاسین» کے ہے اور آمین بھی کہا گیا ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ ”اے اللہ تو قبول فرما“ ۔ آمین کہنے کے مستحب ہونے کی دلیل وہ حدیث ہے جو مسند احمد ، ابوداؤد اور ترمذی میں سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں {میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم «غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّینَ» کہہ کر «آمِینَ» کہتے تھے اور آواز دراز کرتے تھے} ۱؎ ۔ (سنن ترمذی:248،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابوداؤد میں ہے {آواز بلند کرتے تھے} ۲؎ ۔ (سنن ابوداود:392،قال الشیخ الألبانی:صحیح) امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کو حسن کہتے ہیں ۔ سیدنا علی ، سیدنا ابن مسعود ، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمین پہلی صف والے لوگ جو آپ کے قریب ہوتے سن لیتے} ۳؎ ۔ (سنن ابوداود:934،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ابوداؤد اور ابن ماجہ میں یہ حدیث ہے ۔ ابن ماجہ میں یہ بھی ہے کہ {آمین کی آواز سے مسجد گونج اٹھتی تھی} ۴؎ ۔ (سنن ابن ماجہ:853،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) دارقطنی میں بھی یہ حدیث ہے ۵؎ ۔ (دارقطنی:335/1:حسن) اور امام دارقطنی رحمہ اللہ بتاتے ہیں کہ {سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے ۔ مجھ سے پہلے آمین نہ کہا کیجئے} ۶؎ ۔ (سنن ابوداود:937،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) حسن بصری اور جعفر صادق رحمہ اللہ علیہم سے آمین کہنا مروی ہے ۔ جیسے کہ «آمِّینَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ» ۷؎ (5-المائدۃ:2) قرآن میں ہے ۔ ہمارے اصحاب وغیرہ کہتے ہیں جو نماز میں نہ ہو اسے بھی آمین کہنا چاہیئے ۔ ہاں جو نماز میں ہو اس پر تاکید زیادہ ہے ۔ نمازی خود اکیلا ہو ، خواہ مقتدی ہو ، خواہ امام ہو ، ہر حالت میں آمین کہے ۔ صحیحین میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جب امام آمین کہے تم بھی آمین کہو جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل جائے اس کے تمام سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں“} ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:786) صحیح مسلم میں ہے کہ {نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جب تم میں سے کوئی اپنی نماز میں آمین کہتا ہے اور فرشتے آسمان میں آمین کہتے ہیں اور ایک کی آمین دوسرے کی آمین سے مل جاتی ہے تو اس کے تمام پہلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں“} ۲؎ ۔ (صحیح مسلم:410) مطلب یہ ہے کہ اس کی آمین کا اور فرشتوں کی آمین کا وقت ایک ہی ہو جائے یا موافقت سے مراد قبولیت میں موافق ہونا ہے یا اخلاص میں ۔ صحیح مسلم میں سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ {جب امام «وَلَا الضَّالِّینَ» کہے تو آمین کہو اللہ قبول فرمائے گا} ۳؎ ۔ (صحیح مسلم:404) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے {نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا آمین کے کیا معنی ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اے اللہ تو کر“} ۱؎ ۔ (تفسیر کشاف:18/1:ضعیف) جوہری کہتے ہیں اس کے معنی ”اسی طرح ہو“ ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں اس کے معنی ہیں کہ ”ہماری امیدوں کو نہ توڑ“ ۔ اکثر علماء فرماتے ہیں اس کے معنی ”اے اللہ تو ہماری دعا قبول فرما“ کے ہیں ۔ مجاہد ، جعفر صادق ، ہلال بن سیاف رحمہ اللہ علیہم فرماتے ہیں کہ آمین اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً بھی یہ مروی ہے لیکن صحیح نہیں ۲؎ ۔ (عبدالرزاق:2651) امام مالک رحمہ اللہ کے اصحاب کا مذہب ہے کہ امام آمین نہ کہے مقتدی آمین کہے کیونکہ موطا مالک کی حدیث میں ہے کہ {جب امام «وَلَا الضَّالِّینَ» کہے تو تم آمین کہو} ۳؎ ۔ (صحیح بخاری:796) اسی طرح ان کی دلیل کی تائید میں صحیح مسلم والی سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی یہ روایت بھی آتی ہے کہ {نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جب امام «وَلَا الضَّالِّینَ» کہے تو تم آمین کہو“} ۴؎ ۔ (صحیح مسلم:404) لیکن بخاری و مسلم کی حدیث پہلے بیان ہو چکی کہ {جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو} ۵؎ ۔ (صحیح بخاری:786) اور یہ بھی حدیث میں ہے کہ {نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم «وَلَا الضَّالِّینَ» پڑھ کر آمین کہتے تھے} ۶؎ ۔ (سنن ترمذی:248،قال الشیخ الألبانی:صحیح) آمین باآواز بلند جہری نمازوں میں مقتدی اونچی آواز سے آمین کہے یا نہ کہے ، اس میں ہمارے ساتھیوں کا اختلاف ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر امام آمین کہنی بھول گیا ہو تو مقتدی باآواز بلند آمین کہیں ۔ اگر امام نے خود اونچی آواز سے آمین کہی ہو تو نیا قول یہ ہے کہ مقتدی باآواز بلند نہ کہیں ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے ۔ اور ایک روایت میں امام مالک رحمہ اللہ سے بھی مروی ہے اس لیے کہ نماز کے اور اذکار کی طرح یہ بھی ایک ذکر ہے تو نہ وہ صرف بلند آواز سے پڑھے جاتے ہیں نہ یہ بلند آواز سے پڑھا جائے ۔ لیکن پہلا قول یہ ہے کہ آمین بلند آواز سے کہی جائے ۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب ہے اور امام مالک رحمہ اللہ کا بھی دوسری روایت کے اعتبار سے یہی مذہب ہے اور اس کی دلیل وہی حدیث ہے جو پہلے بیان ہو چکی کہ آمین کی آواز سے مسجد گونج اٹھتی تھی ۔ ہمارے یہاں پر ایک تیسرا قول بھی ہے کہ اگر مسجد چھوٹی ہو تو مقتدی باآواز بلند آمین نہ کہیں اس لیے کہ وہ امام کی قرأت سنتے ہیں اور اگر بڑی ہو تو اونچی آواز سے آمین کہیں تاکہ مسجد کے کونے کونے میں آمین پہنچ جائے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» [صحیح مسئلہ یہ ہے کہ جن نمازوں میں اونچی آواز سے قرأت پڑھی جاتی ہے ان میں اونچی آواز سے آمین کہنی چاہیئے ۔ خواہ مقتدی ہو خواہ امام ہو ، خواہ منفرد ، مترجم] مسند احمد میں صرف سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہودیوں کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ ہماری تین چیزوں پر یہودیوں کو اتنا بڑا حسد ہے کہ کسی اور چیز پر نہیں ۔ ایک تو جمعہ پر کہ اللہ نے ہمیں اس کی ہدایت کی اور یہ بہک گئے دوسرے قبلہ ، تیسرے ہمارا امام کے پیچھے آمین کہنا} ۱؎ ۔ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:691،صحیح بالشواھد) ابن ماجہ کی حدیث میں یوں ہے کہ {یہودیوں کو سلام پر اور آمین پر جتنی چڑ ہے اتنی کسی اور چیز پر نہیں} ۲؎ ۔ (سنن ابن ماجہ:856،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا جس قدر حسد یہودی آمین پر کرتے ہیں اس قدر حسد اور امر پر نہیں کرتے تم بھی آمین بکثرت کہا کرو} ۳؎ ۔ (سنن ابن ماجہ:857،قال الشیخ الألبانی:ضعیف جدا) اس کی اسناد میں طلحہ بن عمرو راوی ضعیف ہیں ۔ ابن مردویہ میں بروایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ {آپ نے فرمایا آمین اللہ تعالیٰ کی مہر ہے اپنے مومن بندوں پر} ۴؎ ۔ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:1487،ضعیف) سیدنا انس رضی اللہ عنہ والی حدیث میں ہے کہ {نماز میں آمین کہنی اور دعا پر آمین کہنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے عطا کی گئی ہے جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئی ۔ ہاں اتنا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی ایک خاص دعا پر ہارون علیہ السلام آمین کہتے تھے ۔ تم اپنی دعاؤں کو آمین پر ختم کیا کرو۔ اللہ تعالیٰ انہیں تمہارے حق میں قبول فرمایا کرے گا} ۵؎ ۔ (ابن خزیمہ:1586:ضعیف) اس حدیث کو پیش نظر رکھ کر قرآن کریم کے ان الفاظ کو دیکھئے جن میں موسیٰ علیہ السلام کی دعا : «رَبَّنَا إِنَّکَ آتَیْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَأَہُ زِینَۃً وَأَمْوَالًا فِی الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا رَبَّنَا لِیُضِلٰوا عَنْ سَبِیلِکَ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَیٰ أَمْوَالِہِمْ وَاشْدُدْ عَلَیٰ قُلُوبِہِمْ فَلَا یُؤْمِنُوا حَتَّیٰ یَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِیمَ» ۶؎ (10-یونس:88) ہے الخ یعنی ’الہٰی تو نے فرعون اور فرعونیوں کو دنیا کی زینت اور مال دنیا زندگانی میں عطا فرمایا ہے جس سے وہ تیری راہ سے دوسروں کو بہکا رہے ہیں ۔ اللہ ان کے مال برباد کر اور ان کے دل سخت کر ، جب تک درد ناک عذاب نہ دیکھ لیں یہ ایمان نہ لائیں‘ ۔ موسیٰ علیہ السلام کی اس دعا کی قبولت کا اعلان ان الفاظ میں ہوتا ہے : «قَدْ أُجِیبَتْ دَعْوَتُکُمَا فَاسْتَقِیمَا وَلَا تَتَّبِعَانِّ سَبِیلَ الَّذِینَ لَا یَعْلَمُونَ» ۷؎ (10-یونس:89) الخ یعنی ’تم دونوں کی دعا قبول کی گئی ، تم مضبوط رہو اور بےعلموں کی راہ نہ جاؤ‘ ۔ دعا صرف موسیٰ علیہ السلام کرتے تھے اور ہارون علیہ السلام صرف آمین کہتے تھے لیکن قرآن نے دعا کی نسبت دونوں کی طرف کی ۔ اس سے بعض لوگوں نے استدلال کیا ہے کہ جو شخص کسی دعا پر آمین کہے وہ گویا خود وہ دعا کر رہا ہے ۔ اب اس استدلال کو سامنے رکھ کر وہ قیاس کرتے ہیں کہ مقتدی قرأت نہ کرے ، اس لیے کہ اس کا سورۃ فاتحہ کے بعد آمین کہنا پڑھنے کے قائم مقام ہے اور اس حدیث کو بھی دلیل میں لاتے ہیں کہ جس کا امام ہو تو اس کے امام کی قرأت اس کی قرأت ہے ۔ ( مسند احمد ) سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آمین میں مجھ سے سبقت نہ کیا کیجئے اس کھینچا تانی سے مقتدی پر جہری نمازوں میں «الْحَمْدُ» کا نہ پڑھنا ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» [یہ یاد رہے کہ اس کی مفصل بحث پہلے گزر چکی ہے] سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جب امام «غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّینَ» کہہ کر آمین کہتا ہے آسمان والوں کی آمین زمین والوں کی آمین سے مل جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ بندے کے تمام پہلے گناہ معاف فرما دیتا ہے ۔ آمین نہ کہنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص ایک قوم کے ساتھ مل کر غزوہ کرے ، غالب آئے ، مال غنیمت جمع کرے ، اب قرعہ ڈال کر حصہ لینے لگے تو اس شخص کے نام قرعہ نکلے ہی نہیں اور کوئی حصہ نہ ملے وہ کہے ” یہ کیوں ؟ “ تو جواب ملے تیرے آمین نہ کہنے کی وجہ سے “} ۱؎ ۔ (ابویعلی فی مسندہ:6411:ضعیف) الفاتحة
0 البقرة
1 حروف مقطعات اور ان کے معنی «الم» جیسے حروف مقطعات ہیں جو سورتوں کے اول میں آئے ہیں ۔ ان کی تفسیر میں مفسرین کا اختلاف ہے بعض تو کہتے ہیں ان کے معنی صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہیں اور کسی کو معلوم نہیں ۔ اس لیے وہ ان حروف کی کوئی تفسیر نہیں کرتے ۔ قرطبی رحمہ اللہ نے سیدنا ابوبکر ، سیدنا عمر ، سیدنا عثمان ، سیدنا علی ، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہم اجمعین سے یہی نقل کیا ہے ۔ عامر ، شعبی ، سفیان ثوری ، ربیع بن خیثم رحمہم اللہ بھی یہی کہتے ہیں ابوحاتم بن حبان رحمہ اللہ کو بھی اسی سے اتفاق ہے ۔ بعض لوگ ان حروف کی تفسیر بھی کرتے ہیں لیکن ان کی تفسیر میں بہت کچھ اختلاف ہے ۔ عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ سورتوں کے نام ہیں ۔ علامہ ابوالقاسم محمود بن عمر زمحشری رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں اکثر لوگوں کا اسی پر اتفاق ہے ۔ سیبویہ نے بھی یہی کہا ہے اور اس کی دلیل بخاری و مسلم کی وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن صبح کی نماز میں «الم السجدۃ» اور «ہَلْ أَتَیٰ عَلَی الْإِنْسَان» پڑھتے تھے } ۔ (صحیح بخاری:891) مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں «الم» اور «حم» اور «المص» اور «ص» یہ سب سورتوں کی ابتداء ہے جن سے یہ سورتیں شروع ہوتی ہیں ۔ انہی سے یہ بھی منقول ہے کہ «الم» قرآن کے ناموں میں سے ایک نام ہے ۔ قتادہ اور زید بن اسلم رحمہ اللہ علیہم کا قول بھی یہی ہے اور شاید اس قول کا مطلب بھی وہی ہے جو عبدالرحمٰن بن زید اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ سورتوں کے نام ہیں اس لیے کہ ہر سورت کو قرآن کہہ سکتے ہیں اور یہ نہیں ہو سکتا کہ سارے قرآن کا نام «المص» ہو کیونکہ جب کوئی شخص کہے کہ میں نے سورۃ «المص» پڑھی تو ظاہر یہی سمجھا جاتا ہے کہ اس نے سورۃ الاعراف پڑھی نہ کہ پورا قرآن ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نام ہیں ۔ شعبی ، سالم بن عبداللہ ، اسماعیل بن عبدالرحمٰن ، سدی کبیر رحمہ اللہ علیہم یہی کہتے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ «الم» اللہ تعالیٰ کا بڑا نام ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ «حم» ، «طس» اور «الم» یہ سب اللہ تعالیٰ کے بڑے نام ہیں ۔ سیدنا علی اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما دونوں سے یہ مروی ہے ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قسم ہے اور اس کا نام بھی ہے ۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ قسم ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ اس کے معنی «أَنَا اللہُ أَعْلَمُ» ہیں یعنی ’میں ہی ہوں اللہ زیادہ جاننے والا‘ ۔ حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے بھی یہ مروی ہے ۔ سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں کے الگ الگ حروف ہیں ۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ تین حرف «الف» اور «لام» اور «میم» انتیس حرفوں میں سے ہیں جو تمام زبانوں میں آتے ہیں ۔ ان میں سے ہر ہر حرف اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کی بلا کا ہے اور اس میں قوموں کی مدت اور ان کے وقت کا بیان ہے ۔ عیسیٰ علیہ السلام کے تعجب کرنے پر کہا گیا تھا کہ وہ لوگ کیسے کفر کریں گے ان کی زبانوں پر اللہ تعالیٰ کے نام ہیں ۔ اس کی روزیوں پر وہ پلتے ہیں ۔ «الف» سے اللہ کا نام ، «اللہ» شروع ہوتا ہے اور «لام» سے اس کا نام «لطیف» شروع ہوتا ہے اور «میم» سے اس کا نام «مجید» شروع ہوتا ہے اور «الف» سے مراد «آلَاء» یعنی نعمتیں ہیں اور «لام» سے مراد اللہ تعالیٰ کا «لُطْف» ہے اور «میم» سے مراد اللہ تعالیٰ کا «مَجْد» یعنی بزرگی ہے ۔ «الف» سے مراد ایک سال ہے «لام» سے تیس سال اور «میم» سے چالیس سال ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:28/1) امام ابن جریر رحمہ اللہ نے ان سب مختلف اقوال میں تطبیق دی ہے یعنی ثابت کیا ہے کہ ان میں ایسا اختلاف نہیں جو ایک دوسرے کے خلاف ہو ۔ ہو سکتا ہے یہ سورتوں کے نام بھی ہوں اور اللہ تعالیٰ کے نام بھی ، سورتوں کے شروع کے الفاظ بھی ہوں اور ان میں سے ہر ہر حرف سے اللہ تعالیٰ کے ایک ایک نام کی طرف اشارہ بھی ، اور اس کی صفتوں کی طرف اور مدت وغیرہ کی طرف بھی ہو ۔ ایک ایک لفظ کئی کئی معنی میں آتا ہے ۔ جیسے لفظ «أُمَّۃٍ» کہ اس کے ایک معنی ہیں «دِّینُ» جیسے قرآن میں ہے : «إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَیٰ أُمَّۃٍ» (43-الزخرف:22) الخ یعنی ’ہم نے اپنے باپ دادوں کو اسی دین پر پایا‘ ۔ دوسرے معنی ہیں ، اللہ کا اطاعت گزار بندہ ، جیسے فرمایا : «إِنَّ إِبْرَاہِیمَ کَانَ أُمَّۃً قَانِتًا لِلہِ حَنِیفًا وَلَمْ یَکُ مِنَ الْمُشْرِکِینَ» (16-النحل:120) یعنی ’ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے مطیع اور فرمانبردار اور مخلص بندے تھے اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے‘ ۔ تیسرے معنی ہیں «الْجَمَاعَۃُ» ، جیسے فرمایا : «وَجَدَ عَلَیْہِ أُمَّۃً مِنَ النَّاسِ یَسْقُونَ» (28-القصص:23) الخ یعنی ’ایک جماعت کو اس کنویں پر پانی پلاتے ہوئے پایا‘ ۔ اور جگہ ہے : «وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِی کُلِّ أُمَّۃٍ رَسُولًا» (16-النحل:36) الخ یعنی ’ہم نے ہر جماعت میں کوئی رسول یقیناً بھیجا‘ ۔ چوتھے معنی ہیں مدت اور زمانہ ۔ فرمان ہے : «وَادَّکَرَ بَعْدَ اُمَّۃٍ» (12-یوسف:45) یعنی ’ایک مدت کے بعد اسے یاد آیا‘ ۔ پس جس طرح یہاں ایک لفظ کے کئی معنی ہوئے اسی طرح ممکن ہے کہ ان حروف مقطعہ کے بھی کئی معنی ہوں ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ کے اس فرمان پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابوالعالیہ رحمہ اللہ نے جو تفسیر کی ہے اس کا مطلب تو یہ ہے کہ یہ ایک لفظ ، ایک ساتھ ، ایک ہی جگہ ان سب معنی میں ہے اور لفظ امت وغیرہ جو کئی کئی معنی میں آتے ہیں جنہیں اصطلاح میں الفاظ مشترکہ کہتے ہیں ۔ ان کے معنی ہر جگہ جدا جدا تو ضرور ہوتے ہیں ، لیکن ہر جگہ ایک ہی معنی ہوتے ہیں جو عبارت کے قرینے سے معلوم ہو جاتے ہیں ایک ہی جگہ سب کے سب معنی مراد نہیں ہوتے اور سب کو ایک ہی جگہ محمول کرنے کے مسئلہ میں علماء اصول کا بڑا اختلاف ہے اور ہمارے تفسیری موضوع سے اس کا بیان خارج ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» دوسرے یہ کہ امت وغیرہ الفاظ کے معنی بہت سارے ہیں اور یہ الفاظ اسی لیے بنائے گئے ہیں کہ بندش کلام اور نشست الفاظ سے ایک معنی ٹھیک بیٹھ جاتے ہیں لیکن ایک حرف کی دلالت ایک ایسے نام پر ممکن ہے جو دوسرے ایسے نام پر بھی دلالت کرتا ہو اور ایک کو دوسرے پر کوئی فضیلت نہ ہو نہ تو مقدر ماننے سے ، نہ ضمیر دینے سے ، نہ وضع کے اعتبار سے اور نہ کسی اور اعتبار سے ایسی بات علمی طور پر تو نہیں سمجھی جا سکتی البتہ اگر منقول ہو تو اور بات ہے لیکن یہاں اختلاف ہے اجماع نہیں ہے اس لیے یہ فیصلہ قابل غور ہے ۔ اب بعض اشعار عرب کے جو اس بات کی دلیل میں پیش کئے جاتے ہیں ایک کلمہ کو بیان کرنے کے لیے صرف اس کا پہلا حرف بول دیتے ہیں ۔ یہ ٹھیک ہے لیکن ان شعروں میں خود عبارت ایسی ہوتی ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے ۔ ایک حرف کے بولتے ہی پورا کلمہ سمجھ میں آ جاتا ہے لیکن یہاں ایسا بھی نہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں ایک حدیث میں ہے کہ {جو مسلمان کے قتل پر آدھے کلمہ سے بھی مدد کرے}(سنن ابن ماجہ:2620 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف جدا) مطلب یہ ہے کہ «اقْتُلْ» پورا نہ کہے بلکہ صرف «إِقْ» کہے مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں : سورتوں کے شروع میں جو حروف ہیں مثلاً «ق» ، «ص» ، «حم» ، «طسم الر» وغیرہ یہ سب حروف «ہِجَا» ہیں ۔ بعض عربی دان کہتے ہیں کہ یہ حروف الگ الگ جو اٹھائیس ہیں ان میں سے چند ذکر کر کے باقی کو چھوڑ دیا گیا ہے جیسے کوئی کہے کہ میرا بیٹا «ا ب ت ث» لکھتا ہے تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ تمام اٹھائیس حروف لکھتا ہے لیکن ابتداء کے چند حروف ذکر کر دئیے اور باقی کو چھوڑ دیا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:208/1) سورتوں کے شروع میں اس طرح کے کل چودہ حروف آئے ہیں «ا ل م ص ر ک ہ ی ع ط س ح ق ن» ان سب کو اگر ملا لیا جائے تو یہ عبارت بنتی ہے ۔ «نَصٌّ حَکِیمٌ قَاطِعٌ لَہُ سِرٌّ» تعداد کے لحاظ سے یہ حروف چودہ ہیں اور جملہ حروف اٹھائیس ہیں اس لیے یہ پورے آدھے ہوئے بقیہ جن حروف کا ذکر نہیں کیا گیا ان کے مقابلہ میں یہ حروف ان سے زیادہ فضیلت والے ہیں اور یہ صناعت تصریف ہے ایک حکمت اس میں یہ بھی ہے کہ جتنی قسم کے حروف تھے اتنی قسمیں باعتبار اکثریت کے ان میں آ گئیں یعنی مہموسہ مجہورہ وغیرہ ۔ سبحان اللہ ہر چیز میں اس مالک کی حکمت نظر آتی ہے ۔ یہ یقینی بات ہے کہ اللہ کا کلام لغو ، بے ہودہ ، بےکار ، بےمعنی الفاظ سے پاک ہے جو جاہل لوگ کہتے ہیں کہ سرے سے ان حروف کے کچھ معنی ہی نہیں وہ بالکل خطا پر ہیں ۔ اس کے کچھ نہ کچھ معنی یقیناً ہیں ۔ اگر نبی معصوم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے معنی کچھ ثابت ہوں ، تو ہم وہ معنی کریں گے اور سمجھیں گے ورنہ جہاں کہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ معنی بیان نہیں کئے ہم بھی نہ کریں گے اور ایمان لائیں گے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تو اس بارہ میں ہمیں کچھ نہیں ملا ۔ اور علماء کا بھی اس میں بےحد اختلاف ہے ۔ اگر کسی پر کسی قول کی دلیل کھل جائے تو خیر وہ اسے مان لے ورنہ بہتر یہ ہے کہ ان حروف کے کلام اللہ ہونے پر ایمان لائے اور یہ جانے کہ اس کے معنی ضرور ہیں جو اللہ ہی کو معلوم ہیں اور ہمیں معلوم نہیں ہوئے ۔ دوسری حکمت ان حروف کے لانے میں یہ بھی ہے کہ ان سے سورتوں کی ابتداء معلوم ہو جائے لیکن یہ وجہ ضعیف ہے اس لیے کہ اس کے بغیر ہی سورتوں کی جدائی معلوم ہو جاتی ہے جن سورتوں میں ایسے حروف ہی نہیں کیا ان کی ابتداء انتہا معلوم نہیں ؟ پھر سورتوں سے پہلے «بِسْمِ اللہِ » الخ کا پڑھنے اور لکھنے کے اعتبار سے موجود ہونا کیا ایک سورت کو دوسری سے جدا نہیں کرتا ؟ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اس کی حکمت یہ بھی بیان کی ہے کہ چونکہ مشرکین کتاب اللہ کو سنتے ہی نہ تھے اس لیے انہیں سنانے کے لیے ایسے حروف لائے گئے تاکہ جب ان کا دھیان کان لگ جائے تو باقاعدہ تلاوت شروع ہو لیکن یہ وجہ بھی بودی ہے اس لیے اگر ایسا ہوتا تو تمام سورتوں کی ابتداء انہی حروف سے کی جاتی حالانکہ ایسا نہیں ہوا ۔ بلکہ اکثر سورتیں اس سے خالی ہیں پھر جب کبھی مشرکین سے کلام شروع ہو یہی حروف چاہئیں ۔ نہ کہ صرف سورتوں کے شروع میں ہی یہ حروف ہوں ۔ پھر اس پر بھی غور کر لیجئے کہ یہ سورت یعنی سورۃ البقرہ اور اس کے بعد کی سورت یعنی سورۃ آل عمران یہ تو مدینہ شریف میں نازل ہوتی ہیں اور مشرکین مکہ ان کے اترنے کے وقت وہاں تھے ہی نہیں پھر ان میں یہ حروف کیوں آئے ؟ ہاں یہاں پر ایک اور حکمت بھی بیان کی گئی ہے کہ ان حروف کے لانے میں قرآن کریم کا ایک معجزہ ہے جس سے تمام مخلوق عاجز ہے ۔ باوجود یہ کہ یہ حروف بھی روزمرہ کے استعمالی حروف سے ترکیب دئیے گئے ہیں لیکن مخلوق کے کلام سے بالکل نرالے ہیں ۔ مبرد رحمہ اللہ اور محققین کی ایک جماعت اور فراء رحمہ اللہ اور قطرب رحمہ اللہ سے بھی یہی منقول ہے ، زمخشری رحمہ اللہ نے تفسیر کشاف میں اس قول کو نقل کر کے اس کی بہت کچھ تائید کی ہے ۔ شیخ امام علامہ ابوالعباس ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور حافظ مجتہد ابوالحاج مزی رحمہ اللہ نے بھی یہی حکمت بیان کی ہے ۔ زمحشری رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہی وجہ ہے کہ تمام حروف اکٹھے نہیں آئے ۔ ہاں ان حروف کو مکرر لانے کی یہ وجہ ہے کہ باربار مشرکین کو عاجز اور لاجواب کیا جائے اور انہیں ڈانٹا اور دھمکایا جائے جس طرح قرآن کریم میں اکثر قصے کئی کئی مرتبہ لائے گئے ہیں اور باربار کھلے الفاظ میں بھی قرآن کے مثل لانے میں ان کی عاجزی کا بیان کیا گیا ہے ۔ بعض جگہ تو صرف ایک حرف آیا ہے جیسے «ص» «ن» «ق» کہیں دو حروف آئے ہیں جیسے «حم» کہیں تین حروف آئے ہیں جیسے «الم» کہیں چار آئے ہیں جیسے «المر» اور «المص» اور کہیں پانچ آئے ہیں جیسے «کھیعص» اور «حم عسق» اس لیے کہ کلمات عرب کے کل کے کل اسی طرح پر ہیں یا تو ان میں ایک حرفی لفظ ہیں یا دو حرفی یا سہ حرفی یا چار حرفی یا پانچ حرفی کے پانچ حرف سے زیادہ کے کلمات نہیں ۔ جب یہ بات ہے کہ یہ حروف قرآن شریف میں بطور معجزے کے آئے ہیں تو ضروری تھا کہ جن سورتوں کے شروع میں یہ حروف آئے ہیں وہاں ذکر بھی قرآن کریم کا ہو اور قرآن کی بزرگی اور بڑائی بیان ہو چنانچہ ایسا ہی انتیس سورتوں میں یہ واقع ہوا ہے ۔ سنیے فرمان ہے : «الم» * «ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیہِ ہُدًی لِلْمُتَّقِینَ» (2-البقرۃ:1-2) یہاں بھی ان حروف کے بعد ذکر ہے کہ اس قرآن کے اللہ جل شانہ کا کلام ہونے میں کوئی شک نہیں۔ اور جگہ فرمایا : «الم» « اللہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیٰ الْقَیٰومُ» * «نَزَّلَ عَلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیْہِ وَأَنْزَلَ التَّوْرَاۃَ وَالْإِنْجِیلَ» (3-آل عمران:1-2-3) یعنی ’وہ اللہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو زندہ اور دائم و قائم ہے جس نے تم پر حق کے ساتھ یہ کتاب تھوڑی تھوڑی نازل فرمائی ہے جو پہلے کی کتابوں کی بھی تصدیق کرتی ہے‘ یہاں بھی ان حروف کے بعد قرآن کریم کی عظمت کا اظہار کیا گیا ۔ اور جگہ فرمایا : «المص» * «کِتَابٌ أُنْزِلَ إِلَیْکَ فَلَا یَکُنْ فِی صَدْرِکَ حَرَجٌ مِنْہُ لِتُنْذِرَ بِہِ وَذِکْرَیٰ لِلْمُؤْمِنِینَ» (7-الأعراف:1-2) یعنی ’یہ کتاب تیری طرف اتاری گئی ہے تو اپنا دل تنگ نہ رکھ ‘ ۔ اور جگہ فرمایا: «الر کِتَابٌ أَنْزَلْنَاہُ إِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظٰلُمَاتِ إِلَی النٰورِ بِإِذْنِ رَبِّہِمْ إِلَیٰ صِرَاطِ الْعَزِیزِ الْحَمِیدِ» (14-إبراہیم:1) یعنی ’ یہ کتاب ہم نے تیری طرف نازل کی تاکہ تو لوگوں کو اپنے رب کے حکم سے اندھیروں سے نکال کر اجالے میں لائے ، زبردست اور تعریفوں والے اللہ کی طرف ‘ ۔ ارشاد ہوتا ہے : «الم» * «تَنْزِیلُ الْکِتَابِ لَا رَیْبَ فِیہِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِینَ» (32-السجدۃ:1-2) یعنی ’اس کتاب کے رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں‘ ۔ فرماتا ہے : «حم» * «تَنْزِیلٌ مِنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» (41-فصلت:1-2) ’بخششوں اور مہربانیوں والے اللہ نے اسے نازل فرمایا ہے‘ ۔ فرمایا : «حم» * «عسق» * «کَذٰلِکَ یُوحِی إِلَیْکَ وَإِلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکَ اللہُ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ» (42-الشوری:1-2-3) یعنی ’اسی طرح وحی کرتا ہے اللہ تعالیٰ غالب حکمتوں والا تیری طرف اور ان نبیوں کی طرف جو تجھ سے پہلے تھے‘ ۔ اسی طرح اور ایسی سورتوں کے شروع کو بغور دیکھئیے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان حروف کے بعد کلام پاک کی عظمت و عزت کا ذکر ہے جس سے یہ بات قوی معلوم ہوتی ہے کہ یہ حروف اس لیے لائے گئے ہیں کہ لوگ اس کے لیے معارضے اور مقابلے میں عاجز ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ان حروف سے مدت معلوم کرائی گئی ہے اور فتنوں لڑائیوں اور دوسرے ایسے ہی کاموں کے اوقات بتائے گئے ہیں ۔ لیکن یہ قول بھی بالکل ضعیف معلوم ہوتا ہے اس کی دلیل میں ایک حدیث بھی بیان کی جاتی ہے ۔ لیکن اول تو وہ ضعیف ہے دوسرے اس حدیث سے اس قول کی پختگی کا ایک طرف اس کا باطل ہونا زیادہ ثابت ہوتا ہے ۔ وہ حدیث محمد بن اسحاق بن یسار نے نقل کی ہے جو تاریخ کے مصنف ہیں ۔ اس حدیث میں ہے کہ ابویاسر بن اخطب یہودی اپنے چند ساتھیوں کو لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت سورۃ البقرہ کی شروع آیت «الم» * «ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیہِ» (2-البقرۃ:1-2) الخ تلاوت فرما رہے تھے وہ اسے سن کر اپنے بھائی حیی بن اخطب کے پاس آیا اور کہا میں نے آج آپ [صلی اللہ علیہ وسلم] کو اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے ۔ وہ پوچھتا ہے تو نے خود سنا ؟ اس نے کہا : ہاں میں نے خود سنا ہے ۔ حیی ان سب یہودیوں کو لے کر پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے حضور کیا یہ سچ ہے کہ آپ اس آیت کو پڑھ رہے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سچ ہے ۔ اس نے کہا سنیے ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جتنے نبی آئے کسی کو بھی نہیں بتایا گیا تھا ۔ کہ اس کا ملک اور مذہب کب تک رہے گا لیکن آپ کو بتا دیا گیا پھر کھڑا ہو کر لوگوں سے کہنے لگا سنو ! «الف» کا عدد ہوا ایک ، «لام» کے تیس ، «میم» کے چالیس ۔ کل اکہتر ہوئے ۔ کیا تم اس نبی کی تابعداری کرنا چاہتے ہو جس کے ملک اور امت کی مدت کل اکہتر سال ہو ؟ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہو کر دریافت کیا کہ کیا کوئی اور آیت بھی ایسی ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں «المص» ، کہنے لگا یہ بڑی بھاری اور بہت لمبی ہے ۔ «الف» کا ایک ، «لام» کے تیس ، «میم» کے چالیس ، «صواد» کے نوے یہ سب ایک سو اکسٹھ سال ہوئے ۔ کہا اور کوئی بھی ایسی آیت ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں ۔ «الر» کہنے لگا یہ بھی بہت بھاری اور لمبی ہے ۔ «الف» کا ایک ، «لام» کے تیس اور «رے» کے دو سو ۔ جملہ دو سو اکتیس برس ہوئے ۔ کیا اس کے ساتھ کوئی اور بھی ایسی ہے ۔ آپ نے فرمایا «المر» ہے کہا یہ تو بہت ہی بھاری ہے «الف» کا ایک ، «لام» کے تیس ، «میم» کے چالیس ، «رے» کے دو سو ، سب مل کر دو سو اکہتر ہو گئے ۔ اب تو کام مشکل ہو گیا اور بات خلط ملط ہو گئی ۔ ” لوگو ! اٹھو ، ابویاسر نے اپنے بھائی سے اور دوسرے علماء یہود سے کہا ۔ “ کیا عجب کہ ان سب حروف مجموعہ کی مدت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی ہو اکہتر ایک ، سو ایک ، ایک سو اکتیس ایک ، دو سو اکتیس ایک ، دو سو اکہتر ایک ، یہ سب مل کر سات سو چار برس ہوئے ۔ انہوں نے کہا اب کام خلط ملط ہو گیا ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ آیتیں انہی لوگوں کے حق میں نازل ہوئیں : «ہُوَ الَّذِی أَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتَابَ مِنْہُ آیَاتٌ مُحْکَمَاتٌ ہُنَّ أُمٰ الْکِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِہَاتٌ» (3-آل عمران:7) یعنی الخ ’وہی اللہ جس نے تجھ پر یہ کتاب نازل فرمائی جس میں محکم آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور دوسری آیتیں مشابہت والی بھی ہیں‘ ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:216/1:ضعیف جدا) اس حدیث کا دارومدار محمد بن سائب کلبی پر ہے اور جس حدیث کا یہ اکیلا راوی ہو محدثین اس سے حجت نہیں پکڑتے اور پھر اس طرح اگر مان لیا جائے اور ہر ایسے حرف کے عدد نکالے جائیں تو جن پر چودہ حروف کو ہم نے بیان کیا ان کے عدد بہت ہو جائیں گے اور جو حروف ان میں سے کئی کئی بار آئے ہیں اگر ان کے عدد کا شمار بھی کئی کئی بار لگایا جائے تو بہت ہی بڑی گنتی ہو جائے گی ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» البقرة
2 تحقیقات کتاب سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہاں «ذَلِکَ» معنی میں «ہَذَا» کے ہیں ۔ مجاہد ، عکرمہ ، سعید ، جبیر سدی ، مقاتل بن حیان ، زید بن اسلم اور ابن جریج کا بھی یہی قول ہے ۔ یہ دونوں لفظ ایک دوسرے کے قائم مقام عربی زبان میں اکثر آتے رہتے ہیں ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ابوعبیدہ رحمہ اللہ سے بھی یہی نقل کیا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ «ذَلِکَ» اصل میں ہے تو دور کے اشارے کے لیے جس کے معنی ہیں ”وہ“ لیکن کبھی نزدیک کے لیے بھی لاتے ہیں اس وقت اس کے معنی ہوتے ہیں ”یہ“ یہاں بھی اس معنی میں ہے ۔ زمخشری کہتے ہیں اس سے اشارہ «الم» کی طرف ہے ۔ جیسے اس آیت میں ہے «لَا فَارِضٌ وَلَا بِکْرٌ عَوَانٌ بَیْنَ ذٰلِکَ» ۱؎ (2-البقرۃ:68) الخ یعنی ’نہ تو وہ گائے بڑھیا ہے نہ بچہ ہے بلکہ اس کے درمیانی عمر کی جوان ہے‘ ۔ دوسری جگہ فرمایا : «ذٰلِکُمْ حُکْمُ اللہِ یَحْکُمُ بَیْنَکُمْ وَ اللہُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ» ۲؎ (60-الممتحنۃ:10) الخ یعنی ’یہ ہی ہے اللہ کا حکم جو تمہارے درمیان حکم کرتا ہے‘ ۔ اور جگہ فرمایا : «ذٰلِکُمُ اللہُ» ۳؎ (6-الأنعام:102) یہ ہی ہے اللہ تعالیٰ اور اس کی مثال اور مواقع پہلے گزر چکے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ اشارہ قرآن کریم کی طرف ہے جس کے اتارنے کا وعدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تھا ۔ بعض نے توراۃ کی طرف کسی نے انجیل کی طرف بھی اشارہ بتایا ہے اور اسی طرح کے دس قول ہیں لیکن ان کو اکثر مفسرین نے ضعیف کہا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» «کِتَابُ» سے مراد قرآن کریم ہے جن لوگوں نے کہا ہے کہ آیت «ذٰلِکَ الْکِتَابُ» کا اشارہ توراۃ اور انجیل کی طرف ہے انہوں نے انتہائی بھول بھلیوں کا راستہ اختیار کیا ، بڑی تکلیف اٹھائی اور خواہ مخواہ بلا وجہ وہ بات کہی جس کا انہیں علم نہیں ۔ «رَیْبَ» کے معنی ہیں شک و شبہ ۔ سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور کئی ایک صحابہ رضی اللہ عنہم سے یہی معنی مروی ہیں ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:228/1) سیدنا ابودرداء ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم ، مجاہد ، سعید بن جبیر ، ابو مالک نافع جو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے مولا ہیں ، عطا ، ابوالعالیہ ، ربیع بن انس ، مقاتل بن حیان ، سدی ، قتادہ ، اسماعیل بن ابوخالد سے بھی یہی مروی ہے ۔ ابن ابی حاتم فرماتے ہیں مفسرین میں اس میں اختلاف نہیں ۲؎ ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:31/1) «رَیْبَ» کا لفظ عرب شاعروں کے شعروں میں تہمت کے معنی میں بھی آیا ہے اور حاجت کے معنی میں بھی اس کا استعمال ہوا ہے ۔ اس جملہ کے معنی یہ ہوئے کہ اس قرآن کو اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہونے میں کچھ شک نہیں ۔ جیسے سورہ سجدہ میں ہے : «الم» * «تَنْزِیلُ الْکِتَابِ لَا رَیْبَ فِیہِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِینَ» ۳؎ (32-السجدۃ:1-2) یعنی ’بیشک یہ قرآن کریم تمام جہانوں کے پالنے والے اللہ کی طرف سے ہے‘ ، یعنی اس میں شک نہ کرو ۔ بعض قاری «لَا رَیْبَ» پر وقف کرتے ہیں اور «فِیہِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِینَ» کو الگ جملہ پڑھتے ہیں ۔ لیکن «لَا رَیْبَ فِیہِ» پر ٹھہرنا بہت بہتر ہے کیونکہ یہی مضمون اسی طرح سورۃ السجدہ کی آیت میں موجود ہے اور اس میں بہ نسبت «فِیہِ ہُدًی» کے زیادہ مبالغہ ہے ۔ «ہُدًی» نحوی اعتبار سے صفت ہو کر مرفوع ہو سکتا ہے اور حال کی بنا پر منصوب بھی ہو سکتا ہے ۔ اس جگہ ہدایت کو متقیوں کے ساتھ مخصوص کیا گیا ۔ جیسے دوسری جگہ فرمایا : «قُلْ ہُوَ لِلَّذِینَ آمَنُوا ہُدًی وَشِفَاءٌ وَالَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ فِی آذَانِہِمْ وَقْرٌ وَہُوَ عَلَیْہِمْ عَمًی أُولٰئِکَ یُنَادَوْنَ مِنْ مَکَانٍ بَعِیدٍ» ۴؎ (41-فصلت:44) الخ یعنی ’یہ قرآن ہدایت اور شفاء ہے ایمان والوں کے لیے اور بے ایمانوں کے کان بوجھل ہیں اور آنکھیں اندھی ہیں یہ بہت دور کی جگہ سے پکارے جاتے ہیں‘ ۔ اور فرمایا : «وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا ہُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَۃٌ لِلْمُؤْمِنِینَ وَلَا یَزِیدُ الظَّالِمِینَ إِلَّا خَسَارًا» ۵؎ (17-الإسراء:82) الخ یعنی ’یہ قرآن ایمان داروں کے لیے شفاء اور رحمت ہے اور ظالم لوگ تو اپنے خسارے میں ہی بڑھتے جاتے ہیں‘ ۔ اسی مضمون کی اور آیتیں بھی ہیں ان سب کا مطلب یہ ہے کہ گو قرآن کریم خود ہدایت اور محض ہدایت ہے اور سب کے لیے ہے لیکن اس ہدایت سے نفع اٹھانے والے صرف نیک بخت لوگ ہیں ۔ جیسے فرمایا : «یَا أَیٰہَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْکُمْ مَوْعِظَۃٌ مِنْ رَبِّکُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِی الصٰدُورِ وَہُدًی وَرَحْمَۃٌ لِلْمُؤْمِنِینَ» ۶؎ (10-یونس:57) یعنی ’تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی نصیحت اور سینے کی بیماریوں کی شفاء آ چکی جو مومنوں کے لیے شفاء اور رحمت ہے‘ اور سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ ہدایت سے مراد نور ہے ۔ متقین کی تعریف سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : متقی وہ ہیں جو ایمان لا کر شرک سے دور رہ کر اللہ تعالیٰ کے احکام بجا لائیں ۔ ایک اور روایت میں ہے متقی وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے عذابوں سے ڈر کر ہدایت کو نہیں چھوڑتے اور اس کی رحمت کی امید رکھ کر اس کی طرف سے جو نازل ہوا اسے سچا جانتے ہیں ۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”متقی وہ ہے جو حرام سے بچے اور فرائض بجا لائے ۔ “ اعمش ابوبکر بن عیاش سے سوال کرتے ہیں ۔ ”متقی کون ہے ؟ “ آپ یہی جواب دیتے ہیں پھر میں نے کہا ”ذرا کلبی سے بھی تو دریافت کر لو ! “ وہ کہتے ہیں متقی وہ ہیں جو کبیرہ گناہوں سے بچیں ۔ اس پر دونوں کا اتفاق ہوتا ہے ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں متقی وہ ہے جس کا وصف اللہ تعالیٰ نے خود اس آیت کے بعد بیان فرمایا کہ «الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیمُونَ الصَّلَاۃَ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنْفِقُونَ» ۱؎ (2-البقرۃ:3) امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ سب اوصاف متقیوں میں جمع ہوتے ہیں ۔ ترمذی اور ابن ماجہ کی حدیث میں ہے {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بندہ حقیقی متقی نہیں ہو سکتا جب تک کہ ان چیزوں کو نہ چھوڑ دے جن میں حرج نہیں اس خوف سے کہ کہیں وہ حرج میں گرفتار نہ ہو جائے} ۲؎ ۔ (سنن ترمذی:2451،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) امام ترمذی اسے حسن غریب کہتے ہیں ۔ ابن ابی حاتم میں ہے ، سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جبکہ لوگ ایک میدان میں قیامت کے دن روک لیے جائیں گے ، اس وقت ایک پکارنے والا پکارے گا کہ متقی کہاں ہیں ؟ اس آواز پر وہ کھڑے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ اپنے بازو میں لے لے گا اور بےحجاب انہیں اپنے دیدار سے مشرف فرمائے گا ۔ ابوعفیف نے پوچھا متقی کون لوگ ہیں ؟ آپ نے فرمایا جو لوگ شرک اور بت پرستی سے بچیں اور اللہ کی خالص عبادت کریں وہ اسی عزت کے ساتھ جنت میں پہنچائے جائیں گے ۔ ہدایت کی وضاحت ہدایت کے معنی کبھی تو دل میں ایمان پیوست ہو جانے کے آتے ہیں ایسی ہدایت پر تو سوائے اللہ جل و علا کی مہربانی کے کوئی قدرت نہیں رکھتا ۔ فرمان ہے : «إِنَّکَ لَا تَہْدِی مَنْ أَحْبَبْتَ» ۱؎ (28-القصص:56) الخ یعنی ’اے نبی جسے تو چاہے ہدایت نہیں دے سکتا‘ ۔ فرماتا ہے : «لَیْسَ عَلَیْکَ ہُدَاہُمْ» ۲؎ (2-البقرۃ:272) الخ یعنی ’تجھ پر ان کی ہدایت لازم نہیں‘ ۔ فرماتا ہے : «مَنْ یُضْلِلِ اللہُ فَلَا ہَادِیَ لَہُ» ۳؎ (7-الأعراف:186) الخ یعنی ’جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت پر لانے والا نہیں‘ ۔ فرمایا : «مَنْ یَہْدِ اللہُ فَہُوَ الْمُہْتَدِ وَمَنْ یُضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَہُ وَلِیًّا مُرْشِدًا» ۴؎ (18-الکہف:17) الخ یعنی ’جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت والا ہے اور جسے وہ گمراہ کرے تم ہرگز نہ اس کا کوئی ولی پاؤ گے نہ مرشد‘ ۔ اس قسم کی اور آیتیں بھی ہیں اور ہدایت کے معنی کبھی حق کے اور حق کو واضح کر دینے کے اور حق پر دلالت کرنے اور حق کی طرف راہ دکھانے کے بھی آتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : «وَإِنَّکَ لَتَہْدِی إِلَیٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ» ۵؎ (42-الشوری:52) الخ یعنی ’تو یقیناً سیدھی راہ کی رہبری کرتا ہے‘ ۔ اور فرمایا : «إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ وَلِکُلِّ قَوْمٍ ہَادٍ» ۶؎ (13-الرعد:7) الخ یعنی ’تو صرف ڈرانے والا ہے اور ہر قوم کے لیے کوئی ہادی ہے‘ ۔ اور جگہ فرمان ہے : «وَأَمَّا ثَمُودُ فَہَدَیْنَاہُمْ فَاسْتَحَبٰوا الْعَمَیٰ عَلَی الْہُدَیٰ» ۷؎ (41-فصلت:17) الخ یعنی ’ہم نے ثمودیوں کو ہدایت دکھائی لیکن انہوں نے اندھے پن کو ہدایت پر ترجیح دے کر پسند کر لیا ۔ فرماتا ہے : «وَہَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ» ۱؎ (90-البلد:10) ’ہم نے اسے دونوں راہیں دکھائیں‘ یعنی بھلائی اور برائی کی ۔ تقویٰ کے اصلی معنی بری چیزوں سے بچنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ «وقوی» ہے «وقایت» سے ماخوذ ہے نابغہ وغیرہ کے اشعار میں بھی آیا ہے ۔ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ تقویٰ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کبھی کانٹے دار راستے میں چلے ہو ؟ جیسے وہاں کپڑوں کو اور جسم کو بچاتے ہو ایسے ہی گناہوں سے بال بال بچنے کا نام تقویٰ ہے ۔ ابن معتز شاعر کا قول ہے ۔ «خل الذنوب صغیرھا .... وکبیرھا ذاک التقی .... واصنع کماش فوق ارض .... الشوک یحدذر مایری .... لا تحقرن صغیرۃ .... ان الجبال من الحصی» یعنی چھوٹے اور بڑے اور سب گناہوں کو چھوڑ دو یہی تقویٰ ہے ۔ ایسے رہو جیسے کانٹوں والی راہ پر چلنے والا انسان ۔ چھوٹے گناہ کو بھی ہلکا نہ جانو ۔ دیکھو پہاڑ کنکروں سے ہی بن جاتے ہیں ۔ سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ اپنے اشعار میں فرماتے ہیں انسان اپنی تمناؤں کا پورا ہونا چاہتا ہے اور اللہ کے ارادوں پر نگاہ نہیں رکھتا حالانکہ ہوتا وہی ہے جو اللہ کا ارادہ ہو ۔ وہ اپنے دینوی فائدے اور مال کے پیچھے پڑا ہوا ہے حالانکہ اس کا بہترین فائدہ اور عمدہ مال اللہ سے تقویٰ ہے ۔ ابن ماجہ کی حدیث میں ہے {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے عمدہ فائدہ جو انسان حاصل کر سکتا ہے وہ اللہ کا ڈر ہے ۔ اس کے بعد نیک بیوی ہے کہ خاوند جب اس کی طرف دیکھے وہ اسے خوش کر دے اور جو حکم دے اسے بجا لائے اور اگر قسم دے دے تو پوری کر دکھائے اور جب وہ موجود نہ ہو تو اس کے مال کی اور اپنے نفس کی حفاظت کرے} ۲؎ ۔ (سنن ابن ماجہ:1857،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) البقرة
3 ایمان کی تعریف سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ”ایمان کسی چیز کی تصدیق کرنے کا نام ہے“ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی یہی فرماتے ہیں ۔ زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”ایمان کہتے ہیں عمل کو“ ، ربیع بن انس رحمہ اللہ کہتے ہیں ۔ ”یہاں ایمان لانے سے مراد ڈرنا ہے“ ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:235/1) ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔ یہ سب اقوال مل جائیں تو مطلب یہ ہو گا کہ زبان سے ، دل سے ، عمل سے ، غیب پر ایمان لانا اور اللہ سے ڈرنا ۔ ایمان کے مفہوم میں اللہ تعالیٰ پر ، اس کی کتابوں پر ، اس کے رسولوں پر ایمان لانا شامل ہے اور اس اقرار کی تصدیق عمل کے ساتھ بھی کرنا لازم ہے ۔ میں کہتا ہوں لغت میں ایمان کہتے ہیں صرف سچا مان لینے کو ، قرآن میں بھی ایمان اس معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ جیسے فرمایا «یُؤْمِنُ بِ اللہِ وَیُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِینَ» ۲؎ (9-التوبۃ:61) الخ یعنی ’اللہ کو مانتے ہیں اور ایمان والوں کو سچا جانتے ہیں‘ ۔ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنے باپ سے کہا تھا «وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ کُنَّا صَادِقِینَ» ۳؎ (12-یوسف:17) الخ یعنی ’تو ہمارا یقین نہیں کرے گا اگرچہ ہم سچے ہوں‘ ۔ اس طرح ایمان یقین کے معنی میں آتا ہے جب اعمال کے ذکر کے ساتھ ملا ہوا ہو ۔ جیسے فرمایا : «إِلَّا الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ» ۴؎ (84-الانشقاق:25) ہاں جس وقت اس کا استعمال مطلق ہو تو ایمان شرعی جو اللہ کے ہاں مقبول ہے وہ اعتقاد قول اور عمل کے مجموعہ کا نام ہے ۵؎ ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:35/1) اکثر ائمہ کا یہی مذہب ہے بلکہ امام شافعی ، امام احمد اور امام ابوعبیدہ رحمہ اللہ علیہم وغیرہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ ایمان نام ہے زبان سے کہنے اور عمل کرنے کا ۔ ایمان بڑھتا گھٹتا رہتا ہے اور اس کے ثبوت میں بہت سے آثار اور حدیثیں بھی آئی ہیں جو ہم نے بخاری شریف کی شرح میں نقل کر دی ہیں ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» بعض نے ایمان کے معنی اللہ سے ڈر خوف کے بھی کیے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے : «إِنَّ الَّذِینَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَیْبِ» ۱؎ (67-الملک:12) الخ یعنی ’جو لوگ اپنے رب سے در پردہ ڈرتے رہتے ہیں‘ ۔ اور جگہ فرمایا : «مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ وَجَاءَ بِقَلْبٍ مُنِیبٍ» ۲؎ (50-ق:33) یعنی ’جو شخص اللہ تعالیٰ سے بن دیکھے ڈرے اور جھکنے والا دل لے کر آئے‘ ۔ حقیقت میں اللہ کا خوف ایمان کا اور علم کا خلاصہ ہے ۔ جیسے فرمایا : «إِنَّمَا یَخْشَی اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاءُ» ۳؎ (35-فاطر:28) الخ یعنی ’جو بندے ذی علم ہیں صرف اللہ سے ہی ڈرتے ہیں‘ ۔ بعض کہتے ہیں وہ غیب پر بھی ایسا ہی ایمان رکھتے ہیں جیسا حاضر پر اور ان کا حال منافقوں جیسا نہیں کہ جب ایمان والوں کے سامنے ہوں تو اپنا ایماندار ہونا ظاہر کریں لیکن جب اپنے والوں میں ہوتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو ان کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ ان منافقین کا حال اور جگہ اس طرح بیان ہوا ہے : «إِذَا جَاءَکَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْہَدُ إِنَّکَ لَرَسُولُ اللہِ وَ اللہُ یَعْلَمُ إِنَّکَ لَرَسُولُہُ وَ اللہُ یَشْہَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِینَ لَکَاذِبُونَ» ۴؎ (63-المنافقون:1) یعنی ’منافق جب تیرے پاس آئیں گے تو کہیں گے کہ ہماری تہ دل سے شہادت ہے کہ تو اللہ کا رسول ہے اللہ خوب جانتا ہے کہ تو اس کا رسول ہے لیکن اللہ کی گواہی ہے کہ یہ منافق تجھ سے جھوٹ کہتے ہیں‘ ۔ اس معنی کے اعتبار سے «بِالْغَیْبِ» حال ٹھہرے گا یعنی وہ ایمان لاتے ہیں درآنحالیکہ لوگوں سے پوشیدہ ہوتے ہیں ۔ «غیب» کا لفظ جو یہاں ہے ، اس کے معنی میں بھی مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں اور وہ سب صحیح ہیں اور جمع ہو سکتے ہیں ۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد اللہ تعالیٰ پر ، فرشتوں پر ، کتابوں پر ، رسولوں پر ، قیامت پر ، جنت دوزخ پر ، ملاقات اللہ پر ، مرنے کے بعد جی اٹھنے پر ، ایمان لانا ہے ۔ قتادہ رحمہ اللہ کا یہی قول ہے ۔ سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور بعض دیگر اصحاب رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ اس سے مراد وہ پوشیدہ چیزیں ہیں جو نظروں سے اوجھل ہیں جیسے جنت ، دوزخ وغیرہ ۔ وہ امور جو قرآن میں مذکور ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اللہ کی طرف سے جو کچھ آیا ہے وہ سب غیب میں داخل ہے ۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس سے مراد قرآن ہے ۔ عطا ابن ابورباح رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ پر ایمان لانے والا ، غیب پر ایمان لانے والا ہے ۔ اسماعیل بن ابوخالد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اسلام کی تمام پوشیدہ چیزیں مراد ہیں ۔ زید بن اسلم رحمہ اللہ کہتے ہیں مراد تقدیر پر ایمان لانا ہے ۔ پس یہ تمام اقوال معنی کی رو سے ایک ہی ہیں اس لیے کہ سب چیزیں پوشیدہ ہیں اور غیب کی تفسیر ان سب پر مشتمل ہے اور ان سب پر ایمان لانا واجب ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی مجلس میں ایک مرتبہ صحابہ کے فضائل بیان ہوتے ہیں تو آپ فرماتے ہیں ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھنے والوں کو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ہی تھا لیکن اللہ کی قسم ایمانی حیثیت سے وہ لوگ افضل ہیں جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں ۔ پھر آپ نے «الم» سے لے کر «مُفْلِحُونَ» تک آیتیں پڑھیں ۱؎ ۔ (سنن سعید بن منصور:544/2) [ابن ابی حاتم ، ابن مردویہ ، مستدرک ، حاکم] ۲؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:34/1) امام حاکم رحمہ اللہ اس روایت کو صحیح بتاتے ہیں ۔ مسند احمد میں بھی اس مضمون کی ایک حدیث ہے ۔ ابو جمعہ صحابی رضی اللہ عنہ سے ابن محریز رحمہ اللہ نے کہا کہ کوئی ایسی حدیث سناؤ جو آپ نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو ۔ فرمایا : میں تمہیں ایک بہت ہی عمدہ حدیث سناتا ہوں ، {ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک مرتبہ ناشتہ کیا ، ہمارے ساتھ ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہا بھی تھے ، انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! کیا ہم سے بہتر بھی کوئی اور ہے ؟ ہم آپ پر اسلام لائے ، آپ کے ساتھ جہاد کیا ، آپ نے فرمایا ہاں وہ لوگ جو تمہارے بعد آئیں گے ، مجھ پر ایمان لائیں گے حالانکہ انہوں نے مجھے دیکھا بھی نہ ہو گا} ۱؎ ۔ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:907) تفسیر ابن مردویہ میں ہے ۔ صالح بن جبیر کہتے ہیں کہ ابو جمعہ انصاری رضی اللہ عنہ ہمارے پاس بیت المقدس میں آئے ۔ رجاء بن حیوہ رضی اللہ عنہ بھی ہمارے ساتھ ہی تھے ، جب وہ واپس جانے لگے تو ہم انہیں چھوڑنے کو ساتھ چلے ، جب الگ ہونے لگے تو فرمایا تمہاری ان مہربانیوں کا بدلہ اور حق مجھے ادا کرنا چاہیئے ۔ سنو ! میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے ہم نے کہا اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے ضرور سناؤ ۔ کہا سنو ! {ہم رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے ساتھ تھے ، ہم دس آدمی تھے ، معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بھی ان میں تھے ، ہم نے کہا یا رسول اللہ ! کیا ہم سے بڑے اجر کا مستحق بھی کوئی ہو گا ؟ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور آپ کی تابعداری کی ۔ آپ نے فرمایا تم ایسا کیوں نہ کرتے ؟ اللہ کا رسول تم میں موجود ہے ، وحی الٰہی آسمان سے تمہارے سامنے نازل ہو رہی ہے ۔ ایمان تو ان لوگوں کا افضل ہو گا جو تمہارے بعد آئیں گے دو گتوں کے درمیان یہ کتاب پائیں گے ، اس پر ایمان لائیں گے اور اس پر عمل کریں گے ، یہ لوگ اجر میں تم سے دگنے ہوں گے} ۱؎ ۔ (طبرانی کبیر:3540:ضعیف) اس حدیث میں «وجاوہ» کی قبولت کی دلیل ہے جس میں محدثین کا اختلاف ہے ۔ میں نے اس مسئلہ کو بخاری شریف میں خوب واضح کر دیا ہے بعد والوں کی تعریف اسی بنا پر ہو رہی ہے اور ان کا بڑے اجر والا ہونا اسی حیثیت کی وجہ سے ہے ورنہ علی الاطلاق ہر طرح سے بہتر اور افضل تو صحابہ رضی اللہ عنہم ہی ہیں ۔ ایک اور حدیث میں ہے {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ سے پوچھا : ”تمہارے نزدیک ایمان لانے میں کون زیادہ افضل ہے “ ، انہوں نے کہا ، فرشتے ۔ فرمایا : ”وہ ایمان کیوں نہ لائیں وہ تو اپنے رب کے پاس ہی ہیں “ ، لوگوں نے پھر کہا انبیاء ، فرمایا : ”وہ ایمان کیوں نہ لائیں ان پر تو وحی نازل ہوتی ہے “ ۔ کہا پھر ہم ۔ فرمایا : ” تم ایمان کو قبول کیوں نہ کرتے ؟ جب کہ میں تم میں موجود ہوں سنو ! میرے نزدیک سب سے زیادہ افضل ایمان والے وہ لوگ ہوں گے جو تمہارے بعد آئیں گے ۔ صحیفوں میں لکھی ہوئی کتاب پائیں گے اس پر ایمان لائیں گے “} ۲؎ ۔ (مسند ابویعلی:160:ضعیف) اس کی سند میں مغیرہ بن قیس ہیں ۔ ابوحاتم رازی انہیں منکر الحدیث بتاتے ہیں ۔ لیکن اسی کے مثل ایک اور حدیث ضعیف سند ہے ۔ مسند ابویعلیٰ تفسیر ابن مردویہ مستدرک حاکم میں بھی مروی ہے اور حاکم اسے صحیح بتاتے ہیں ۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بھی اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے ۳؎ ۔ (مسند بزار:2840:ضعیف) «وَاللہُ اَعْلَمُ» ابن ابی حاتم میں ہے {سیدہ بدیلہ بنت اسلم رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ، بنو حارثہ کی مسجد میں ہم ظہر یا عصر کی نماز میں تھے اور بیت المقدس کی طرف ہمارا منہ تھا دو رکعت ادا کر چکے تھے کہ کسی نے آ کر خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ شریف کی طرف منہ کر لیا ہے ہم سنتے ہی گھوم گئے ۔ عورتیں مردوں کی جگہ آ گئیں اور مرد عورتوں کی جگہ چلے گئے اور باقی کی دو رکعتیں ہم نے بیت اللہ شریف کی طرف ادا کیں ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا : ” یہ لوگ ہیں جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں “} ۱؎ ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:36/1:ضعیف جدا) یہ حدیث اس اسناد سے غریب ہے ۔ قیام صلوٰۃ کیا ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : فرائض نماز بجا لانا ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:241/1) رکوع سجدہ ، تلاوت خشوع اور توجہ کو قائم رکھنا نماز کو قائم رکھنا ہے ۔ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں وقتوں کا خیال رکھنا ، وضو اچھی طرح کرنا ، رکوع ، سجدہ پوری طرح کرنا ، اقامت صلوٰۃ ہے ۔ مقاتل رحمہ اللہ کہتے ہیں وقت کی نگہبانی کرنا ۔ مکمل طہارت کرنا ، رکوع ، سجدہ پورا کرنا ، تلاوت اچھی طرح کرنا ۔ التحیات اور درود پڑھنا اقامت صلوٰۃ ہے ۲؎ ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:37/1) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : «وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ» ۳؎ (2-البقرۃ:3) کے معنی زکوٰۃ ادا کرنے کے ہیں ۔ ۴؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:243/1) سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا ہے اس سے مراد آدمی کا اپنے بال بچوں کو کھلانا پلانا ہے ، خرچ میں قربانی دینا جو قرب الہٰی حاصل کرنے کے لیے دی جاتی ہے ۔ اپنی استعداد کے مطابق بھی شامل ہے جو زکوٰۃ کے حکم سے پہلے کی آیت ہے ۔ ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ کی سات آیتیں جو سورۃ برأت میں ہیں ان کے نازل ہونے سے پہلے یہ حکم تھا کہ اپنی اپنی طاقت کے مطابق تھوڑا بہت جو میسر ہو دیتے رہیں ۵؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:243/1) قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ مال تمہارے پاس اللہ کی امانت ہے عنقریب تم سے جدا ہو جائے گا ۔ اپنی زندگی میں اسے اللہ کی راہ میں لگا دو ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت عام ہے زکوٰۃ کو اہل و عیال میں خرچ اور جن لوگوں کو دینا ضروری ہے ان سب کو دنیا بھی شامل ہے اس لیے کہ پروردگار نے ایک عام وصف بیان فرمایا اور عام تعریف کی ہے ۔ لہٰذا ہر طرح کا خرچ شامل ہو گا ۔ میں کہتا ہوں قرآن کریم میں اکثر جگہ نماز کا اور مال خرچ کرنے کا ذکر ملا جلا آتا ہے اس لیے کہ نماز اللہ کا حق اور اس کی عبادت ہے جو اس کی توحید ، اس کی ثناء ، اس کی بزرگی ، اس کی طرف جھکنے ، اس پر توکل کرنے ، اس سے دعا کرنے کا نام ہے اور خرچ کرنا مخلوق کی طرف احسان کرنا ہے جس سے انہیں نفع پہنچے ۔ اس کے زیادہ حقدار اہل و عیال اور غلام ہیں ، پھر دور والے اجنبی ۔ لہٰذا تمام واجب خرچ اخراجات اور فرض زکوٰۃ اس میں داخل ہیں ۔ صحیحین میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اسلام کی بنیادیں پانچ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی توحید اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دینا ۔ نماز قائم رکھنا ، زکوٰۃ دینا ، رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا ۱؎ (صحیح بخاری:8) ، اس بارے میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں ۔ عربی لغت میں «صلوٰۃ» کے معنی دعا کے ہیں ۔ عرب شاعروں کے شعر اس پر شاہد ہیں ۔ پھر شریعت میں اس لفظ کا استعمال نماز کے لیے ہونے لگا جو رکوع سجود اور دوسرے خاص افعال کا نام ہے جو مخصوص اوقات میں جملہ شرائط صفات اور اقسام کے ساتھ بجا لائی جاتی ہے ۔ ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔ نماز کو «صلوٰۃ» اس لیے کہا جاتا ہے کہ نمازی اللہ تعالیٰ سے اپنے عمل کا ثواب طلب کرتا ہے اور اپنی حاجتیں اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ جو دو رگیں پیٹھ سے لے کر ریڑھ کی ہڈی کی دونوں طرف آتی ہیں انہیں عربی میں «صلوین» کہتے ہیں چونکہ نماز میں یہ ہلتی ہیں اس لیے اسے «صلوٰۃ» کہا گیا ہے ۔ لیکن یہ قول ٹھیک نہیں بعض نے کہا یہ ماخوذ ہے «صلی» سے ، جس کے معنی ہیں جھک جانا اور لازم ہو جانا ۔ جیسے قرآن میں آیت «لَا یَصْلَاہَا إِلَّا الْأَشْقَی» ۲؎ (92-اللیل:15) الخ یعنی ’جہنم میں ہمیشہ نہ رہے گا مگر بدبخت‘ ۔ بعض علماء کا قول ہے کہ جب لکڑی کو درست کرنے کے لیے آگ پر رکھتے ہیں تو عرب «تصلیہ» کہتے ہیں چونکہ نمازی بھی اپنے نفس کی کجی کو نماز سے درست کرتا ہے اس لیے اسے «صلوٰۃ» کہتے ہیں ۔ جیسے قرآن میں ہے : «إِنَّ الصَّلَاۃَ تَنْہَیٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِ» ۳؎ (29-العنکبوت:45) الخ یعنی ’نماز ہر بےحیائی اور برائی سے روکتی ہے‘ لیکن اس کا دعا کے معنی میں ہونا ہی زیادہ صحیح اور زیادہ مشہور ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» لفظ زکوٰۃ کی بحث «ان شاءاللہ تعالیٰ» اور جگہ آئے گی ۔ البقرة
4 اعمال مومن سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : مطلب یہ ہے کہ جو کچھ اللہ کی طرف سے تم پر نازل ہوا اور تجھ سے پہلے کے انبیاء پر نازل ہوا وہ ان سب کی تصدیق کرتے ہیں ایسا نہیں کہ وہ کسی کو مانیں اور کسی سے انکار کریں بلکہ اپنے رب کی سب باتوں کو مانتے ہیں اور آخرت پر بھی ایمان رکھتے ہیں یعنی بعث و قیامت ، جنت و دوزخ ، حساب و میزان سب کو مانتے ہیں ۱؎ ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:39/1) قیامت چونکہ دنیا کے فنا ہونے کے بعد آئے گی اس لیے اسے آخرت کہتے ہیں ۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ جن کی پہلے ایمان بالغیب وغیرہ کے ساتھ صفت بیان کی گئی تھی انہی کی دوبارہ یہ صفتیں بیان کی گئی ہیں ۔ یعنی ایماندار خواہ عرب مومن ہوں خواہ اہل کتاب وغیرہ ۔ مجاہد ، ابوالعالیہ ، ربیع بن انس اور قتادہ کا یہی قول ہے ۔ بعض نے کہا ہے یہ دونوں ہیں تو ایک مگر مراد اس سے صرف اہل کتاب ہی نہیں ۔ ان دونوں صورتوں میں «واؤ» عطف کو ہو گا اور صفتوں کا عطف صفتوں پر ہو گا جیسے «سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی» * «الَّذِی خَلَقَ فَسَوَّیٰ» * «وَالَّذِی قَدَّرَ فَہَدَیٰ» * «وَالَّذِی أَخْرَجَ الْمَرْعَیٰ» * «فَجَعَلَہُ غُثَاءً أَحْوَیٰ» ۲؎ (87-الأعلی:1-5) میں صفتوں کا عطف صفتوں پر ہے اور شعراء کے شعروں میں بھی آیا ہے ۔ تیسرا قول یہ ہے کہ پہلی صفتیں تو ہیں عرب مومنوں کی اور آیت «وَالَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَیْکَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَبِالْآخِرَۃِ ہُمْ یُوقِنُونَ» ۳؎ (2-البقرۃ:4) سے مراد اہل کتاب مومنوں کی صفتیں ہیں ۔ سدی رحمہ اللہ نے سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نقل کیا ہے اور ابن جریر رحمہ اللہ نے بھی اسی سے اتفاق کیا ہے اور اس کی شہادت میں یہ آیت لائے ہیں : «وَإِنَّ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ لَمَنْ یُؤْمِنُ بِ اللہِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَیْکُمْ وَمَا أُنْزِلَ إِلَیْہِمْ خَاشِعِینَ لِلہِ لَا یَشْتَرُونَ بِآیَاتِ اللہِ ثَمَنًا قَلِیلًا» ۴؎ (3-آل عمران:199) الخ یعنی ’اہل کتاب میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور اس وحی پر جو تمہاری طرف نازل ہوئی اور اس وحی پر جو اس سے پہلے ان کی طرف اتاری گئی ایمان لاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو تھوڑی تھوڑی قیمت پر بیچتے بھی نہیں‘ ۔ اور جگہ ارشاد ہے : «الَّذِینَ آتَیْنَاہُمُ الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِہِ ہُمْ بِہِ یُؤْمِنُونَ» * «وَإِذَا یُتْلَیٰ عَلَیْہِمْ قَالُوا آمَنَّا بِہِ إِنَّہُ الْحَقٰ مِنْ رَبِّنَا إِنَّا کُنَّا مِنْ قَبْلِہِ مُسْلِمِینَ» * «أُولٰئِکَ یُؤْتَوْنَ أَجْرَہُمْ مَرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوا وَیَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنْفِقُونَ» ۵؎ (28-القصص:52-54) یعنی ’جنہیں اس سے پہلے ہم نے کتاب دی تھی وہ اس کے ساتھ ایمان رکھتے اور جب ان کو [یہ قرآن] پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو کہتے ہیں ۔ ہم اس پر بھی ایمان لائے اور اور اسے اپنے رب کی طرف سے حق جانا ۔ ہم تو اس سے پہلے ہی مسلمان تھے ۔ انہیں ان کے صبر کرنے اور برائی کے بدلے بھلائی کرنے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی وجہ سے دوہرا اجر ملے گا یہ نیکی سے بدی کو ٹال دیتے ہیں اور ہم نے جو انہیں دے رکھا ہے اس میں سے دیتے رہتے ہیں‘ ۔ بخاری و مسلم میں ہے {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تین شخصوں کو دوہرا اجر ملے گا ، ایک اہل کتاب جو اپنے نبی پر ایمان لائیں اور مجھ پر بھی ایمان رکھیں ۔ دوسرا وہ غلام جو اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرے اور اپنے مالک کا بھی ۔ تیسرا وہ شخص جو اپنی لونڈی کو اچھا ادب سکھائے پھر اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کر لے} ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:97) امام جریر رحمہ اللہ کے اس فرق کی مناسبت اس سے بھی معلوم ہوتی ہے کہ سورت کے شروع میں مومنوں اور کافروں کا بیان ہوا ہے تو جس طرح کفار کی دو قسمیں ہیں کافر اور منافق ۔ اسی طرح مومنوں کی بھی دو قسمیں ہیں ۔ عربی مومن اور کتابی مومن ۔ میں کہتا ہوں ظاہراً یہ ہے کہ مجاہد رحمہ اللہ کا یہ قول ٹھیک ہے کہ سورۃ البقرہ کی اول چار آیتیں مومنوں کے اوصاف کے بیان میں ہیں اور دو آیتیں اس کے بعد کی کافروں کے بارے میں ہیں اور ان کے بعد کی تیرہ آیتیں منافقوں سے متعلق ہیں پس یہ چاروں آیتیں ہر مومن کے حق میں عام ہیں ۔ عربی ہو یا عجمی ، کتابی ہو یا غیر کتابی ، انسانوں میں سے ہو یا جنات میں سے ۔ اس لیے کہ ان میں سے ہر ایک وصف دوسرے کو لازم اور شرط ہے ایک بغیر دوسرے کے نہیں ہو سکتا ۔ غیب پر ایمان لانا ، نماز قائم کرنا ، اور زکوٰۃ دینا اس وقت تک صحیح نہیں جب تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور اگلے انبیاء پر جو کتابیں اتری ہیں ۔ ان پر ایمان نہ ہو اور ساتھ ہی آخرت کا یقین کامل نہ ہو جس طرح پہلی تین چیزیں بغیر پچھلی تین چیزوں کے غیر معتبر ہیں ۔ اسی طرح پچھلی تینوں بغیر پہلی تینوں کے صحیح نہیں ۔ اسی لیے ایمان والوں کو حکم الٰہی ہے : «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا آمِنُوا بِ اللہِ وَرَسُولِہِ وَالْکِتَابِ الَّذِی نَزَّلَ عَلَیٰ رَسُولِہِ وَالْکِتَابِ الَّذِی أَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ» ۱؎ (4-النساء:136) الخ یعنی ’ایمان والو اللہ پر ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اور جو کتاب اس پر اتری ہے اس پر اور جو کتابیں ان سے پہلے اتری ہیں ان پر ایمان لاؤ‘ ۔ اور فرمایا : «وَلَا تُجَادِلُوا أَہْلَ الْکِتَابِ إِلَّا بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْہُمْ وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِی أُنْزِلَ إِلَیْنَا وَأُنْزِلَ إِلَیْکُمْ وَإِلٰہُنَا وَإِلٰہُکُمْ وَاحِدٌ» ۲؎ (29-العنکبوت:46) الخ یعنی ’اہل کتاب سے جھگڑنے میں بہترین طریقہ برتو اور کہو کہ ہم ایمان لائے ہیں اس پر جو ہم پر نازل کیا گیا اور جو تمہاری طرف اتارا گیا ہے ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہی ہے‘ ۔ ارشاد ہے : «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ آمِنُوا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِمَا مَعَکُمْ» ۳؎ (4-النساء:47) یعنی ’اے اہل کتاب جو ہم نے اتارا ہے اس پر ایمان لاؤ اس کو سچا کرنے والا ہے جو تمہارے پاس ہے‘ ۔ اور فرمایا : «قُلْ یَا أَہْلَ الْکِتَابِ لَسْتُمْ عَلَیٰ شَیْءٍ حَتَّیٰ تُقِیمُوا التَّوْرَاۃَ وَالْإِنْجِیلَ وَمَا أُنْزِلَ إِلَیْکُمْ مِنْ رَبِّکُمْ» ۴؎ (5-المائدۃ:68) الخ یعنی ’اے اہل کتاب تم کسی چیز پر نہیں ہو جب تک توراۃ ، انجیل اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے اتارا گیا ہے قائم نہ رکھو‘ ۔ دوسری جگہ تمام ایمان والوں کی طرف سے خبر دیتے ہوئے قرآن پاک نے فرمایا : «آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَیْہِ مِنْ رَبِّہِ وَالْمُؤْمِنُونَ کُلٌّ آمَنَ بِ اللہِ وَمَلَائِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِہِ» ۵؎ (2-البقرۃ:285) الخ یعنی ’ہمارے رسول ایمان لائے اس پر جو ان کی طرف ان کے رب کی طرف سے نازل ہوا اور تمام ایمان والے بھی ہر ایک ایمان لایا اللہ تعالیٰ پر ، اس کے فرشتوں پر ، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ۔ ہم رسولوں میں فرق اور جدائی نہیں کرتے‘ ۔ اسی طرح ارشاد ہوتا ہے : «وَالَّذِینَ آمَنُوا بِ اللہِ وَرُسُلِہِ وَلَمْ یُفَرِّقُوا بَیْنَ أَحَدٍ مِنْہُمْ أُولٰئِکَ سَوْفَ یُؤْتِیہِمْ أُجُورَہُمْ» ۶؎ (4-النساء:152) الخ یعنی ’جو لوگ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور رسولوں میں سے کسی میں تفریق نہیں کرتے‘ ۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں جن میں ایمان والوں کا اللہ تعالیٰ پر اس کے تمام رسولوں اور سب کتابوں پر ایمان لانے کا ذکر کیا گیا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ اہل کتاب کے ایمان والوں کی ایک خاص خصوصیت ہے کیونکہ ان کا ایمان اپنے ہاں کتابوں میں تفصیل کے ساتھ ہوتا ہے اور پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر وہ اسلام قبول کرتے ہیں تو قرآن کریم پر بھی تفصیل کے ساتھ ایمان لاتے ہیں ۔ اس لیے ان کو دوہرا اجر ملتا ہے اور اس امت کے لوگ بھی اگلی کتابوں پر ایمان لاتے ہیں لیکن ان کا ایمان اجمالی طور پر ہوتا ہے ۔ جیسے صحیح حدیث میں ہے کہ {جب تم سے اہل کتاب کوئی بات کریں تو تم نہ اسے سچ کہو نہ جھوٹ بلکہ کہہ دیا کرو کہ ہم تو جو کچھ ہم پر اترا اسے بھی مانتے ہیں اور جو کچھ تم پر اترا اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں} ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:4485) بعض موقع پر ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتے ہیں ان کا ایمان بہ نسبت اہل کتاب کے زیادہ پورا ، زیادہ کمال والا ، زیادہ راسخ اور زیادہ مضبوط ہوتا ہے اس حیثیت سے ممکن ہے کہ انہیں اہل کتاب سے بھی زیادہ اجر ملے چاہے وہ اپنے پیغمبر اور پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے سبب دوہرا اجر پائیں لیکن یہ لوگ کمال ایمان کے سبب اجر میں ان سے بھی بڑھ جائیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» البقرة
5 ہدایت یافتہ لوگ یعنی وہ لوگ جن کے اوصاف پہلے بیان ہوئے مثلاً غیب پر ایمان لانا ، نماز قائم رکھنا ، اللہ کے دئیے ہوئے میں سے دینا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو اترا اس پر ایمان لانا ، آپ سے پہلے جو کتابیں اتریں ان کو ماننا ، دار آخرت پر یقین رکھ کر وہاں کام آنے کے لیے نیک اعمال کرنا ۔ برائیوں اور حرام کاریوں سے بچنا ۔ یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں جنہیں اللہ کی طرف سے نور ملا ، اور بیان و بصیرت حاصل ہوا اور انہی لوگوں کے لیے دنیا اور آخرت میں فلاح و نجات ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ہدایت کی تفسیر ”نور“ اور ”استقامت“ سے کی ہے اور ”فلاح“ کی تفسیر اپنی چاہت کو پا لینے اور برائیوں سے بچ جانے کی کی ہے ۔ ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے رب کی طرف سے نور ، دلیل ، ثابت قدمی ، سچائی اور توفیق میں حق پر ہیں اور یہی لوگ اپنے ان پاکیزہ اعمال کی وجہ سے نجات ، ثواب اور دائمی جنت پانے کے مستحق ہیں اور عذاب سے محفوظ ہیں ۔ ابن جریر رحمہ اللہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ دوسرے «أُولٰئِکَ» کا اشارہ اہل کتاب کی طرف ہے جن کی صفت اس سے پہلے بیان ہو چکی ہے جیسے پہلے گزر چکا ۔ اس اعتبار سے آیت «وَالَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَیْکَ» ۱؎ (2-البقرۃ:4) الخ ، پہلے کی آیت سے جدا ہو گا اور مبتدا بن کر مرفوع ہو گا اور اس کی خبر آیت «وَأُولٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ» ۲؎ (2-البقرۃ:5) ہو گی لیکن پسندیدہ قول یہی ہے کہ اس کا اشارہ پہلے کے سب اوصاف والوں کی طرف ہے اہل کتاب ہوں یا عرب ہوں ۔ سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ آیت «یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْبِ» ۳؎ (2-البقرۃ:3) سے مراد عرب ایماندار ہیں اس کے بعد کے جملہ سے مراد اہل کتاب ایماندار ہیں ۔ پھر دونوں کے لیے یہ بشارت ہے کہ یہ لوگ ہدایت اور فلاح والے ہیں ۔ اور یہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ یہ آیتیں عام ہیں اور یہ اشارہ بھی عام ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ مجاہد ، ابوالعالیہ ، ربیع بن انس ، اور قتادہ سے یہی مروی ہے ۔ {ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ اے اللہ کے رسول! قرآن پاک کی بعض آیتیں تو ہمیں ڈھارس دیتی ہیں اور امید قائم کرا دیتی ہیں اور بعض آیتیں کمر توڑ دیتی ہیں اور قریب ہوتا ہے کہ ہم ناامید ہو جائیں ۔ آپ نے فرمایا ”لو میں تمہیں جنتی اور جہنمی کی پہچان صاف صاف بتا دوں“ ، پھر آپ نے «الم» سے «مُفْلِحُونَ» ۴؎ (2-البقرۃ:1-5) تک پڑھ کر فرمایا یہ تو جنتی ہیں صحابہ رضی اللہ عنہم نے خوش ہو کر فرمایا «الْحَمْدُ لِلّٰہ» ہمیں امید ہے کہ ہم انہی میں سے ہوں ، پھر آیت «إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا» سے «عَظِیمٌ» ۱؎ (2-البقرۃ:6-7) تک تلاوت کی اور فرمایا یہ جہنمی ہیں ، انہوں نے کہا ہم ایسے نہیں آپ نے فرمایا ” ہاں ۔ “ } ۶؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:40/1:ضعیف) البقرة
6 بدقسمت لوگ یعنی جو لوگ حق کو پوشیدہ کرنے یا چھپا لینے کے عادی ہیں اور ان کی قسمت میں یہی ہے کہ انہیں نہ آپ کا ڈرانا سود مند ہے اور نہ ہی نہ ڈرانا ۔ یہ کبھی اللہ تعالیٰ کی اس وحی کی تصدیق نہیں کریں گے جو آپ پر نازل ہوئی ہے ۔ جیسے اور جگہ فرمایا : «إِنَّ الَّذِینَ حَقَّتْ عَلَیْہِمْ کَلِمَتُ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُونَ» * «وَلَوْ جَاءَتْہُمْ کُلٰ آیَۃٍ حَتَّیٰ یَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِیمَ» ۱؎ (10-یونس:96-97) یعنی ’جن لوگوں پر اللہ کی بات ثابت ہو چکی ہے وہ ایمان نہ لائیں گے اگرچہ تمام آیتیں دیکھ لیں یہاں تک کہ درد ناک عذاب دیکھیں‘ ۔ ایسے ہی سرکش اہل کتاب کی نسبت فرمایا : «وَلَیِٕنْ اَتَیْتَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ بِکُلِّ اٰیَۃٍ مَّا تَبِعُوْا قِبْلَتَکَ» ۲؎ (2-البقرۃ:145) الخ یعنی ’ان اہل کتاب کے پاس اگرچہ تمام دلائل لے آؤ تاہم وہ تمہارے قبلہ کو نہیں مانیں گے‘ ۔ یعنی ان بدنصیبوں کو سعادت حاصل ہی نہیں ہو گی ۔ ان گمراہوں کو ہدایت کہاں ؟ تو اے نبی ان پر افسوس نہ کر ، تیرا کام صرف رسالت کا حق ادا کر دینا اور پہنچا دینا ہے ۔ ماننے والے نصیب ور ہیں وہ مالا مال ہو جائیں گے اور اگر کوئی نہ مانے تو نہ سہی ۔ «فَإِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلَاغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُ» ۳؎ (13-الرعد:40) ’تیرا فرض ادا ہو گیا ہم خود ان سے حساب لے لیں گے‘ ۔ «إِنَّمَا أَنْتَ نَذِیرٌ وَ اللہُ عَلَیٰ کُلِّ شَیْءٍ وَکِیلٌ» ۴؎ (11-ہود:12) ’تو صرف ڈرانے والا ہے ، ہر چیز پر اللہ تعالیٰ ہی وکیل ہے‘ ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کو اس بات کی بڑی ہی حرص تھی کہ تمام لوگ ایماندار ہو جائیں اور ہدایت قبول کر لیں لیکن پروردگار نے فرمایا کہ یہ سعادت ہر ایک کے حصہ نہیں ۔ یہ نعمت بٹ چکی ہے جس کے حصے میں آئی ہے وہ آپ کی مانے گا اور جو بدقسمت ہیں وہ ہرگز ہرگز اطاعت کی طرف نہیں جھکیں گے ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:253/1) پس مطلب یہ ہے کہ جو قرآن کو تسلیم نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ہم اگلی کتابوں کو مانتے ہیں انہیں ڈرانے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ اس لیے کہ وہ تو خود اپنی کتاب کو بھی حقیقتاً نہیں مانتے کیونکہ اس میں تیرے ماننے کا عہد موجود ہے تو جب وہ اس کتاب کو اور اس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت کو نہیں مانتے جس کے ماننے کا اقرار کر چکے تو بھلا وہ اے نبی ! تمہاری باتوں کو کیا مانیں گے ؟ ابوالعالیہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ یہ آیت جنگ احزاب کے ان سرداروں کے بارے میں اتری ہے جن کی نسبت فرمان باری ہے : «اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ کُفْرًا وَّاَحَلٰوْا قَوْمَہُمْ دَارَ الْبَوَارِ» ۲؎ ۔ (14-إبراہیم:28) الخ لیکن جو معنی ہم نے پہلے بیان کیے ہیں وہ زیادہ واضح ہیں اور دوسری آیتوں کے مطابق ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اس حدیث پر جو ابن ابی حاتم کے حوالے سے ابھی بیان ہوئی ہے دوبارہ نظر ڈال جائیے «لَا یُؤْمِنُونَ» پہلے جملہ کی تاکید ہے یعنی ڈرانا نہ ڈرانا دونوں برابر ہیں ، دونوں حالتوں میں ان کا کفر نہ ٹوٹے گا ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ «لَا یُؤْمِنُونَ» خبر ہو اس لیے کہ تقدیر کلام «إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَیْہِمْ أَأَنذَرْتَہُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْہُمْ لَا یُؤْمِنُونَ» ۳؎ (2-البقرۃ:6) ہے اور «سَوَاءٌ عَلَیْہِمْ» جملہ معترضہ ہو جائے گا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» البقرة
7 مہر کیوں لگا دی گئی؟ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں «ختم» سے مراد «طبع» ہے یعنی مہر لگا دی ۱؎ ، (تفسیر ابن ابی حاتم:44/1) قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یعنی ان پر شیطان غالب آ گیا وہ اسی کی ماتحتی میں لگ گئے یہاں تک کہ مہر لگا دی قتادہ فرماتے ہیں یعنی ان پر شیطان غالب آ گیا وہ اسی کی ماتحتی میں لگ گئے یہاں تک کہ مہر الٰہی ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر لگ گئی اور آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ۔ ہدایت کو نہ دیکھ سکتے ہیں ، نہ سن سکتے ہیں ، نہ سمجھ سکتے ہیں ۲؎ ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ گناہ لوگوں کے دلوں میں بستے جاتے ہیں اور انہیں ہر طرف سے گھیر لیتے ہیں ۔ بس یہی «طبع» اور «ختم» یعنی مہر ہے ۳؎ ۔ دل اور کان کے لیے محاورہ میں مہر آتی ہے ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں قرآن میں «رَاَن» کا لفظ ہے «طبع» کا لفظ ہے اور «اقفال» کا لفظ ہے ۔ «رَاَن» ، «طبع» سے کم ہے اور «طبع» ، «اقفال» سے کم ہے ، «اقفال» سب سے زیادہ ہے ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:259/1) مجاہد رحمہ اللہ نے اپنا ہاتھ دکھا کر کہا کہ دل ہتھیلی کی طرح ہے اور بندے کے گناہ کی وجہ سے وہ سمٹ جاتا ہے اور بند ہو جاتا ہے ، اس طرح کہ ایک گناہ کیا تو گویا چھنگلیا بند ہو گئی پھر دوسرا گناہ کیا دوسری انگلی بند ہو گئی یہاں تک کہ تمام انگلیاں بند ہو گئیں اور اب مٹھی بالکل بند ہو گئی جس میں کوئی چیز داخل نہیں ہو سکتی ۔ اسی طرح گناہوں سے دل پر پردے پڑ جاتے ہیں مہر لگ جاتی ہے پھر اس پر کسی طرح حق اثر نہیں کرتا ۔ اسے «زین» بھی کہتے ہیں مطلب یہ ہوا کہ تکبر کی وجہ ان کا حق سے منہ پھیر لینا بیان کیا جا رہا ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص اس بات کے سننے سے بہرا بن گیا ۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ تکبر اور بےپرواہی کر کے اس نے اس بات کی طرف دھیان نہیں دیا ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ مطلب ٹھیک نہیں ہو سکتا اس لیے کہ یہاں تو خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ۔ زمحشری رحمہ اللہ نے اس کی تردید کی ہے اور پانچ تاویلیں کی ہیں لیکن سب کی سب بالکل بےمعنی اور فضول ہیں اور صرف اپنے معتزلی ہونے کی وجہ سے اسے یہ تکلفات کرنے پڑے ہیں کیونکہ اس کے نزدیک یہ بات بہت بری ہے کہ کسی کے دل پر اللہ قدوس مہر لگا دے لیکن افسوس اس نے دوسری صاف اور صریح آیات پر غور نہیں کیا ۔ ایک جگہ ارشاد ہے : «فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللہُ قُلُوبَہُمْ وَ اللہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِینَ» ۱؎ (61-الصف:5) یعنی ’جب وہ ٹیڑھے ہو گئے تو اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کر دئیے‘ ۔ اور فرمایا : «وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَہُمْ وَأَبْصَارَہُمْ کَمَا لَمْ یُؤْمِنُوا بِہِ أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَنَذَرُہُمْ فِی طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُونَ» ۲؎ (6-الأنعام:110) ’ہم ان کے دلوں کو اور ان کی نگاہوں کو الٹ دیتے ہیں گویا کہ وہ سرے سے ایمان ہی نہ لائے تھے اور ہم انہیں ان کی سرکشی میں بھٹکتے ہوئے ہی چھوڑ دیتے ہیں‘ ، اس قسم کی اور آیتیں بھی ہیں ۔ جو صاف بتاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے اور ہدایت کو ان سے دور کر دیا ہے ۔ ان کے حق کو ترک کرنے اور باطل پر جم رہنے کی وجہ سے جو یہ سراسر عدل و انصاف ہے اور عدل اچھی چیز ہے نہ کہ بری ۔ اگر زمخشری بھی بغور ان آیات پر نظر ڈالتے تو تاویل نہ کرتے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : امت کا اجماع ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی ایک صفت مہر لگانا بھی بیان کی ہے جو کفار کے کفر کے بدلے ہے ۔ فرمایا ہے : «بَلْ طَبَعَ اللّٰہُ عَلَیْہَا بِکُفْرِہِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا» ۱؎ (4-النساء:155) بلکہ ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان پر مہر لگا دی ۔ حدیث میں بھی ہے کہ { اللہ تعالیٰ دلوں کو الٹ پلٹ کرتا ہے ۔ دعا میں ہے «یَا مُقَلِّبَ القُلُوبِ ثَبِّت قَلْبِی عَلَی دِینِکَ» یعنی ” اے دلوں کے پھیرنے والے ہمارے دلوں کو اپنے دین پر قائم رکھ “ } ۲؎ ۔ (سنن ابن ماجہ:199،قال الشیخ الألبانی:صحیح) حذیفہ رضی اللہ عنہا والی حدیث میں ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دلوں پر فتنے اس طرح پیش ہوتے ہیں جیسے ٹوٹے ہوئے بورے کا ایک ایک تنکا جو دل انہیں قبول کر لیتا ہے اس میں ایک سیاہ نکتہ ہو جاتا ہے اور جس دل میں یہ فتنے اثر نہیں کرتے ، اس میں ایک سفید نکتہ ہو جاتا ہے جس کی سفیدی بڑھتے بڑھتے بالکل صاف سفید ہو کر سارے دل کو منور کر دیتی ہے ۔ پھر اسے کبھی کوئی فتنہ نقصان نہیں پہنچا سکتا اسی طرح دوسرے دل کی سیاہی [جو حق قبول نہیں کرتا] پھیلتی جاتی ہے یہاں تک کہ سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے ۔ اب وہ الٹے کوزے کی طرح ہو جاتا ہے ، نہ اچھی بات اسے اچھی لگتی ہے نہ برائی بری معلوم ہوتی ہے } ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:6497) امام ابن جریر رحمہ اللہ کا فیصلہ وہی ہے جو حدیث میں آ چکا ہے کہ {مومن جب گناہ کرتا ہے اس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ ہو جاتا ہے اگر وہ باز آ جائے توبہ کر لے اور رک جائے تو وہ نکتہ مٹ جاتا ہے اور اس کا دل صاف ہو جاتا ہے اور اگر وہ گناہ میں بڑھ جائے تو وہ سیاہی بھی پھیلتی جاتی ہے یہاں تک کہ سارے دل پر چھا جاتی ہے ، یہی وہ «رَاَن» ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہے «کَلَّا بَلْ رَانَ عَلَیٰ قُلُوبِہِمْ مَا کَانُوا یَکْسِبُونَ» ۲؎ (83-المطففین:14) یعنی ’ یقیناً ان کے دلوں پر «رَاَن» ہے ، ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے ‘ } ۳؎ ۔ (سنن ترمذی:3334،قال الشیخ الألبانی:حسن) [ترمذی ، نسائی ، ابن جریر] امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے تو معلوم ہوا کہ گناہوں کی زیادتی دلوں پر غلاف ڈال دیتی ہے اور اس کے بعد مہر الہٰی لگ جاتی ہے جسے «ختم» اور «طبع» کہا جاتا ہے ۔ اب اس دل میں ایمان کے جانے اور کفر کے نکلنے کی کوئی راہ باقی نہیں رہتی ۔ اسی مہر کا ذکر اس آیت : «خَتَمَ اللہُ عَلَیٰ قُلُوبِہِمْ وَعَلَیٰ سَمْعِہِمْ» ۱؎ (2-البقرۃ:6) میں ہے ، وہ ہماری آنکھوں دیکھی حقیقت ہے کہ جب کسی چیز کا منہ بند کر کے اس پر مہر لگا دی جائے تو جب تک وہ مہر نہ ٹوٹے نہ اس میں کچھ جا سکتا ہے نہ اس سے کوئی چیز نکل سکتی ہے ۔ اسی طرح جن کفار کے دلوں اور کانوں پر مہر الہٰی لگ چکی ہے ان میں بھی بغیر اس کے ہٹے اور ٹوٹے نہ ہدایت آئے ، نہ کفر جائے ۔ «سَمْعِہِمْ» پر پورا وقف ہے اور آیت «وَعَلَیٰ أَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌ» ۲؎ (2-البقرۃ:7) الگ پورا جملہ ہے ۔ «ختم» اور «طبع» دلوں اور کانوں پر ہوتی ہے اور «غِشَاوَۃ» یعنی پردہ آنکھوں پر پڑتا ہے ۔ جیسے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس ، سیدنا عبداللہ بن مسعود اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے ۳؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:266/1) قرآن میں ہے : «فَإِنْ یَشَإِ اللہُ یَخْتِمْ عَلَیٰ قَلْبِکَ وَیَمْحُ اللہُ الْبَاطِلَ وَیُحِقٰ الْحَقَّ بِکَلِمَاتِہِ» ۔ ۴؎ (42-الشوری:24) اور جگہ ہے : «وَخَتَمَ عَلَیٰ سَمْعِہِ وَقَلْبِہِ وَجَعَلَ عَلَیٰ بَصَرِہِ غِشَاوَۃً» ۵؎ (45-الجاثیۃ:23) ان آیتوں میں دل اور کان پر «ختم» کا ذکر ہے اور آنکھ پر «غِشَاوَۃً» پردے کا ۔ بعض نے یہاں «غِشَاوَۃً» زبر کے ساتھ بھی پڑھا ہے تو ممکن ہے کہ ان کے نزدیک فعل «جَعَلَ» مقصود ہو اور ممکن ہے کہ نصب محل کی اتباع سے ہو جیسے «وَحُورٌ عِینٌ» ۱؎ (56-الواقعۃ:22) میں ۔ شروع سورت کی چار آیتوں میں مومنین کے اوصاف بیان ہوئے پھر ان دو آیتوں میں کفار کا حال بیان ہوا ۔ اب منافقوں کا ذکر ہوتا ہے جو بظاہر ایماندار بنتے ہیں لیکن حقیقت میں کافر ہیں چونکہ ان لوگوں کی چالاکیاں عموماً پوشیدہ رہ جاتی ہیں ۔ اس لیے ان کا بیان ذرا تفصیل سے کیا گیا اور بہت کچھ ان کی نشانیاں بیان کی گئیں انہی کے بارے میں سورۃ برات اتری اور انہی کا ذکر سورۃ النور وغیرہ میں بھی کیا گیا تاکہ ان سے پورا بچاؤ ہو اور ان کی مذموم خصلتوں سے مسلمان دور رہیں ۔ البقرة
8 منافقت کی قسمیں دراصل نفاق کہتے ہیں بھلائی ظاہر کرنے اور برائی پوشیدہ رکھنے کو ۔ نفاق کی دو قسمیں ہیں اعتقادی اور عملی ۔ پہلی قسم کے منافق تو ابدی جہنمی ہیں اور دوسری قسم کے بدترین مجرم ہیں ۔ اس کا بیان تفصیل کے ساتھ ان شاءاللہ کسی مناسب جگہ ہو گا ۔ امام ابن جریج رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” منافق کا قول اس کے فعل کے خلاف ، اس کا باطن ظاہر کے خلاف اس کا آنا جانے کے خلاف اور اس کی موجودگی عدم موجودگی کے خلاف ہوا کرتی ہے ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:270/1) نفاق مکہ شریف میں تو تھا ہی نہیں بلکہ اس کے الٹ تھا یعنی بعض لوگ ایسے تھے جو زبردستی بہ ظاہر کافروں کا ساتھ دیتے تھے مگر دل میں مسلمان ہوتے تھے ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مکہ چھوڑ کر مدینہ تشریف لائے اور وہاں پر اوس اور خزرج کے قبائل نے انصار بن کر آپ کا ساتھ دیا اور جاہلیت کے زمانہ کی مشرکانہ بت پرستی ترک کر دی اور دونوں قبیلوں میں سے خوش نصیب لوگ مشرف بہ اسلام ہو گئے لیکن یہودی اب تک اللہ تعالیٰ کی اس نعمت سے محروم تھے ۔ ان میں سے صرف سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے اس سچے دین کو قبول کیا تب تک بھی منافقوں کا خبیث گروہ قائم نہ ہوا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یہودیوں اور عرب کے بعض قبائل سے صلح کر لی تھی ۔ غرض اس جماعت کے قیام کی ابتداء یوں ہوئی کہ مدینہ شریف کے یہودیوں کے تین قبیلے تھے بنو قینقاع ، بنو نضیر اور بنو قریظہ ۔ بنو قینقاع تو خزرج کے حلیف اور بھائی بند بنے ہوئے تھے اور باقی دو قبیلوں کا بھائی چارہ اوس سے تھا ۔ جب جنگ بدر ہوئی اور اس میں پروردگار نے اپنے دین والوں کو غالب کیا ۔ شوکت و شان اسلام ظاہر ہوئی ، مسلمانوں کا سکہ جم گیا اور کفر کا زور ٹوٹ گیا تب یہ ناپاک گروہ قائم ہوا چنانچہ عبداللہ بن ابی بن سلول تھا تو خزرج کے قبیلے سے لیکن اوس اور خزرج دونوں اسے اپنا بڑا مانتے تھے بلکہ اس کی باقاعدہ سرداری اور بادشاہت کے اعلان کا پختہ ارادہ کر چکے تھے کہ ان دونوں قبیلوں کا رخ اسلام کی طرف پھر گیا اور اس کی سرداری یونہی رہ گئی ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:4566) یہ خار تو اس کے دل میں تھا ہی ، اسلام کی روز افزوں ترقی میں لڑائی اور کامیابی نے اسے مخبوط الحواس بنا دیا ۔ اب اس نے دیکھا کہ یوں کام نہیں چلے گا اس نے بظاہر اسلام قبول کر لینے اور باطن میں کافر رہنے کی ٹھانی اور جس قدر جماعت اس کے زیر اثر تھی سب کو یہی ہدایت کی ، اس طرح منافقین کی ایک جمعیت مدینہ اور مدینہ کے آس پاس قائم ہو گئی ۔ ان منافقین میں بحمدللہ مکی مہاجر ایک بھی نہ تھا بلکہ یہ بزرگ تو اپنے اہل و عیال ، مال و متاع کو نام حق پر قربان کر کے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دے کر آئے تھے ۔ «فرضی اللہ عنہم اجمعین» سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں ” یہ منافق اوس اور خزرج کے قبیلوں میں سے تھے اور یہودی بھی جو ان کے طریقے پر تھے ۲؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:269/1) قبیلہ اوس اور خزرج کے نفاق کا ان آیتوں میں بیان ہے ۔ “ ابوالعالیہ ، حسن ، قتادہ ، سدی رحمہ اللہ علیہم نے یہی بیان کیا ہے ۔ پروردگار عالم نے منافقوں کی بہت سی بدخصلتوں کا یہاں بیان فرمایا ۔ تاکہ ان کے ظاہر حال سے مسلمان دھوکہ میں نہ آ جائیں اور انہیں مسلمان خیال کر کے اپنا نہ سمجھ بیٹھیں ۔ جس کی وجہ سے کوئی بڑا فساد پھیل جائے ۔ یہ یاد رہے کہ بدکاروں کو نیک سمجھنا بھی بجائے خود بہت برا اور نہایت خوفناک امر ہے جس طرح اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ زبانی اقرار تو ضرور کرتے ہیں مگر ان کے دل میں ایمان نہیں ہوتا ۔ اسی طرح سورۃ المنافقون میں بھی کہا گیا ہے کہ «إِذَا جَاءَکَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْہَدُ إِنَّکَ لَرَسُولُ اللہِ وَ اللہُ یَعْلَمُ إِنَّکَ لَرَسُولُہُ وَ اللہُ» ۱؎ (63-المنافقون:1) الخ یعنی ’منافق تیرے پاس آ کر کہتے ہیں کہ ہماری گواہی ہے کہ آپ رسول اللہ ہیں اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تو اس کا رسول ہے‘ لیکن چونکہ حقیقت میں منافقوں کا قول ان کے عقیدے کے مطابق نہ تھا اس لیے ان لوگوں کے شاندار اور تاکیدی الفاظ کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں جھٹلا دیا ۔ اور سورۃ المنافقون میں فرمایا : «وَاللّٰہُ یَشْہَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَکٰذِبُوْنَ» ۲؎ (63-المنافقون:1) یعنی ’اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ بالیقین منافق جھوٹے ہیں‘ اور یہاں بھی فرمایا : «وَمَا ہُم بِمُؤْمِنِینَ» ۳؎ (2-البقرۃ:8) یعنی دراصل ’وہ ایماندار نہیں‘ وہ اپنے ایمان کو ظاہر کر کے اور اپنے کفر کو چھپا کر اپنی جہالت سے اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دیتے ہیں اور اسے نفع دینے والی اور اللہ کے ہاں چل جانے والی کاریگری خیال کرتے ہیں ۔ جیسے کہ بعض مومنوں پر ان کا یہ مکر چل جاتا ہے ۔ قرآن میں اور جگہ ہے : «یَوْمَ یَبْعَثُہُمُ اللہُ جَمِیعًا فَیَحْلِفُونَ لَہُ کَمَا یَحْلِفُونَ لَکُمْ وَیَحْسَبُونَ أَنَّہُمْ عَلَیٰ شَیْءٍ أَلَا إِنَّہُمْ ہُمُ الْکَاذِبُونَ» ۴؎ (58-المجادلۃ:18) یعنی ’قیامت کے دن جبکہ اللہ تعالیٰ ان سب کو کھڑا کرے گا تو جس طرح وہ یہاں ایمان والوں کے سامنے قسمیں کھاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے بھی قسمیں کھائیں گے اور سمجھتے ہیں کہ وہ بھی کچھ ہیں ، خبردار یقیناً وہ جھوٹے ہیں‘ ۔ یہاں بھی ان کے اس غلط عقیدے کی وضاحت میں فرمایا کہ دراصل وہ اپنے اس کام کی برائی کو جانتے ہی نہیں ۔ یہ دھوکہ خود اپنی جانوں کو دے رہے ہیں ۔ جیسے کہ اور جگہ ارشاد ہوا : «اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ» ۵؎ (4-النساء:142) یعنی ’منافق اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں حالانکہ وہ انہیں کو دھوکہ میں رکھنے والا ہے‘ ۔ بعض قاریوں نے «یَخْدَعُوْنَ» پڑھا ہے اور بعض «یُخَادِعُونَ» مگر دونوں قرأتوں کے معنی کا مطلب ایک ہی ہوتا ہے ۔ ابن جریر رحمہ اللہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کو اور ایمان والوں کو منافق دھوکہ کیسے دیں گے ؟ وہ جو اپنے دل کے خلاف اظہار کرتے ہیں وہ تو صرف بچاؤ کے لیے ہوتا ہے تو جواباً کہا جائے گا کہ اس طرح کی بات کرنے والے کو بھی جو کسی خطرہ سے بچنا چاہتا ہے عربی زبان میں «مُخَادِع» کہا جاتا ہے چونکہ منافق بھی قتل ، قید اور دنیاوی عذابوں سے محفوظ رہنے کے لیے یہ چال چلتے تھے اور اپنے باطن کے خلاف اظہار کرتے تھے اس لیے انہیں دھوکہ باز کہا گیا ۔ ان کا یہ فعل چاہے کسی کو دنیا میں دھوکا دے بھی دے لیکن درحقیقت وہ خود اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں ۔ کیونکہ وہ اسی میں اپنی بھلائی اور کامیابی جانتے ہیں اور دراصل یہ سب ان کے لیے انتہائی برا عذاب اور غضب الہٰی ہو گا جس کے سہنے کی ان میں طاقت نہیں ہو گی پس یہ دھوکہ حقیقتاً ان پر خود وبال ہو گا ۔ وہ جس کام کے انجام کو اچھا جانتے ہیں وہ ان کے حق میں برا اور بہت برا ہو گا ۔ ان کے کفر ، شک اور تکذیب کی وجہ سے ان کا رب ان سے ناراض ہو گا لیکن افسوس انہیں اس کا شعور ہی نہیں اور یہ اپنے اندھے پن میں ہی مست ہیں ۔ ابن جریج رحمہ اللہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ «لا الہ الا اللہ» کا اظہار کر کے وہ اپنی جان اور مال کا بچاؤ کرنا چاہتے ہیں ، یہ کلمہ ان کے دلوں میں جاگزیں نہیں ہوتا ۱؎ ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:46/1) قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں منافقوں کی یہی حالت ہے کہ زبان پر کچھ ، دل میں کچھ ، عمل کچھ ، عقیدہ کچھ ، صبح کچھ اور شام کچھ کشتی کی طرح جو ہوا کے جھونکے سے کبھی ادھر ہو جاتی ہے کبھی ادھر ۲؎ ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:47/1) البقرة
9 البقرة
10 شک و شبہ بیماری ہے بیماری سے مراد یہاں شک و شبہ ہے ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:280/1) سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور چند صحابہ رضی اللہ عنہم سے یہی مروی ہے ۔ مجاہد عکرمہ ، حسن بصری ، ابوالعالیہ ، ربیع بن انس ، قتادہ رحمہ اللہ علیہم کا بھی یہی قول ہے ۔ ۲؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:48/1) عکرمہ اور طاؤس رحمہ اللہ علیہم نے اس کی تفسیر سے ریا اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کی تفسیر نفاق بھی مروی ہے ۔ عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہاں دینی بیماری مراد ہے نہ کہ جسمانی ۔ انہیں اسلام میں شک کی بیماری تھی اور ان کی ناپاکی میں اللہ تعالیٰ نے اور اضافہ کر دیا ۳؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:280/1) جیسے قرآن میں اس کا ذکر ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ ہے «فَأَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا فَزَادَتْہُمْ إِیمَانًا وَہُمْ یَسْتَبْشِرُونَ» ۴؎ (9-التوبۃ:124) «وَأَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِم مَّرَضٌ فَزَادَتْہُمْ رِجْسًا إِلَیٰ رِجْسِہِمْ» ۵؎ (9-التوبۃ:125) یعنی ’ایمان والوں کے ایمان کو تقویت پہنچاتی اور وہ خوشیاں مناتے ہیں لیکن بیماری والوں کی ناپاکی اور پلیدی کو اور زیادہ کر دیتی ہے‘ یعنی اس کی ابدی اور گمراہی بڑھ جاتی ہے ، یہ بدلہ بالکل ان کے عمل کے مطابق ہے ۔ یہ تفسیر ہی درست ہے ، ٹھیک اسی کے مثل یہ فرمان بھی ہے : «وَالَّذِیْنَ اہْتَدَوْا زَادَہُمْ ہُدًی وَّاٰتٰیہُمْ تَقْوٰیہُمْ» ۶؎ (47-محمد:17) یعنی ’ہدایت والوں کو ہدایت میں بڑھا دیتا ہے اور ان کو تقویٰ عطا فرماتا ہے‘ ۔ «یَکْذِبُونَ» کو «یُکَّذِبُونَ» بھی قاریوں نے پڑھا ہے ، یہ دونوں خصلتیں ان میں تھیں جھٹلاتے بھی تھے اور جھوٹے بھی تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض منافقوں کو اچھی طرح جاننے کے باوجود بھی قتل نہ کرنے کی وجہ وہی ہے جو بخاری و مسلم کی روایت میں ہے کہ {نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ لوگوں میں یہ چرچے ہوں کہ محمد رسول اللہ [صلی اللہ علیہ وسلم] اپنے ساتھیوں کو قتل کر ڈالتے ہیں } ۷؎ ، (صحیح بخاری:3518) مطلب یہ ہے کہ جو اعرابی آس پاس ہیں انہیں یہ تو معلوم نہ ہو گا کہ ان منافقوں کے پوشیدہ کفر کی بنا پر انہیں قتل کیا گیا ہے ان کی نظریں تو صرف ظاہر داری پر ہوں گی جب ان میں یہ بات مشہور ہو جائے گی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو قتل کر ڈالتے ہیں تو خوف ہے کہ کہیں وہ اسلام کے قبول کرنے سے رک نہ جائیں ۔ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہمارے علماء وغیرہ کا بھی یہی قول ہے ۔ ٹھیک اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم «مولفتہ القلوب» کو جن کے دل اسلام کی جانب مائل کئے جاتے تھے ۔ مال عطا فرمایا کرتے تھے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ ان کے اعتقاد بد ہیں ۔ امام مالک رحمہ اللہ بھی منافقوں کو قتل نہ کرنے کی یہی وجہ بیان فرماتے ہیں جیسے محمد بن جہم ، قاضی اسماعیل اور ابہری رحمہ اللہ علیہم نے نقل کیا ہے ۔ امام مالک رحمہ اللہ سے بقول ابن ماجشون رحمہ اللہ ایک وجہ یہ بھی نقل کی گئی ہے کہ یہ اس لیے تھا کہ آپ کی امت کو معلوم ہو جائے کہ حاکم صرف اپنے علم کی بناء پر فیصلہ نہیں کر سکتا ۔ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ علماء کو تمام مسائل میں اختلاف ہو لیکن اس مسئلہ میں سب کا اتفاق ہے کہ قاضی صرف اپنی ذاتی معلومات کی بناء پر کسی کو قتل نہیں کر سکتا ۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے ایک اور وجہ بھی بیان کی ہے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا منافقین کو قتل کرنے سے رکنے کا سبب ان کا اپنی زبان سے اسلام کو ظاہر کرنا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم تھا کہ ان کے دل اس کے الٹ ہے لیکن ظاہری کلمہ اس پہلی بات کی تردید کرتا تھا جس کی تائید میں بخاری و مسلم وغیرہ کی یہ حدیث بھی پیش کی جا سکتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ {مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ وہ «لا الہ الا اللہ» کہیں جب وہ اسے کہہ دیں تو وہ مجھ سے اپنی جان اور مال کی امان پا لیں گے اور ان کا حساب اللہ عزوجل پر ہے} ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:25) مطلب یہ ہے کہ اس کلمہ شریف کے کہتے ہی ظاہری احکام اسلام ان پر جاری ہو جائیں گے ۔ اب اگر ان کا عقیدہ بھی اس کے مطابق ہے تو آخرت والے دن نجات کا سبب ہو گا ورنہ وہاں کچھ بھی نفع نہ ہو گا لیکن دنیا میں تو مسلمانوں کے احکام ان پر جاری رہیں گے گو یہ لوگ یہاں مسلمانوں کی صفوں میں اور ان کی فہرست میں نظر آئیں گے لیکن آخرت میں عین پل صراط پر ان سے دور کر دئیے جائیں گے اور اندھیروں میں حیران و پریشان ہوتے ہوئے با آواز بلند مسلمانوں کو پکار کر کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے ؟ لیکن انہیں جواب ملے گا کہ تھے تو سہی مگر تم فتنوں میں پڑ گئے اور انتظار میں ہی رہ گئے اور اپنی من مانی خواہشوں کے چکر میں پڑ گئے یہاں تک کہ حکم الہٰی آ پہنچا ۔ غرض دار آخرت میں بھی مسلمانوں کے پیچھے پڑے لپٹے رہیں گے لیکن بالآخر ان سے الگ کر دئیے جائیں گے اور ان کی امیدوں پر پانی پھر جائے گا وہ چاہیں گے کہ مسلمانوں کے ساتھ سجدے میں گر پڑیں لیکن سجدہ نہیں کر سکیں گے ۔ جیسے کہ احادیث میں مفصل بیان آ چکا ہے ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:7439) بعض محققین نے کہا ہے کہ ان کے قتل نہ کیے جانے کی یہ وجہ تھی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ان کی شرارتیں چل نہیں سکتی تھیں ۔ مسلمانوں کو باری تعالیٰ اپنی وحی کے ذریعہ ان کی برائیوں سے محفوظ کر لیتا تھا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر اللہ نہ کرے ایسے لوگ ہوں کہ ان کا نفاق کھل جائے اور مسلمان بخوبی معلوم کر لیں تو وہ قتل کر دئیے جائیں گے ۔ امام مالک رحمہ اللہ کا فتویٰ ہے کہ نفاق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا لیکن آج کل وہ بےدینی اور زندیقیت ہے یہ بھی یاد رہے کہ زندیق کے بارے میں بھی علماء کا اختلاف ہے کہ جب وہ کفر ہی پر مرے تو اس کے قتل سے پہلے توبہ پیش کی جائے یا نہیں؟ اور وہ زندیق جو لوگوں کو بھی اس کی تعلیم دیتا ہو اور وہ زندیق جو معلم نہ ہو ان دونوں میں فرق کیا جائے گا یا نہیں ؟ اور یہ ارتداد کئی کئی مرتبہ ہوا تب یہ حکم ہے یا صرف ایک مرتبہ ہونے پر ہی ؟ پھر اس میں بھی اختلاف ہے کہ اسلام لانا اور رجوع کرنا خود اس کی اپنی طرف سے ہو یا اس پر غلبہ پا لینے کے بعد بھی یہی حکم ہے ؟ غرض اس باتوں میں اختلاف ہے لیکن اس کے بیان کی جگہ احکام کی کتابیں ہیں نہ کہ تفسیریں ۔ چودہ شخصوں کے نفاق کا تو آپ کو قطعی علم تھا ، یہ وہ بدباطن لوگ تھے جنہوں نے غزوہ تبوک میں مشورہ کر کے یہ امر طے کر لیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دغا بازی کریں اور آپ کے قتل کی پوری سازش کر چکے تھے طے ہوا تھا کہ رات کے اندھیرے میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فلاں گھاٹی کے قریب پہنچیں تو آپ کی اونٹنی کو بدکا دیں وہ بھڑک کر بھاگے گی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھاٹی میں گر پڑیں گے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی طرف اسی وقت وحی بھیج کر ان کی اس ناپاک سازش کا علم عطا کر دیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کو بلا کر اس واقعہ کی خبر دی اور ان غداروں کے نام بھی بتلا دئیے پھر بھی آپ نے ان کے قتل کے احکام صادر نہ فرمائے ۱؎ ۔ (صحیح مسلم:2779) ان کے سوا اور منافقوں کے ناموں کا آپ کو علم نہ تھا ۔ چنانچہ قرآن کہتا ہے : «وَمِمَّنْ حَوْلَکُمْ مِنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ وَمِنْ أَہْلِ الْمَدِینَۃِ مَرَدُوا عَلَی النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُہُمْ نَحْنُ نَعْلَمُہُمْ» ۲؎ (9-التوبۃ:101) الخ یعنی ’تمہارے آس پاس کے بعض اعرابی منافق ہیں اور بعض سرکش منافق مدینہ میں بھی ہیں تم انہیں نہیں جانتے لیکن ہم جانتے ہیں‘ ، اور دوسری جگہ فرمایا : «لَئِنْ لَمْ یَنْتَہِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِینَ فِی قُلُوبِہِمْ مَرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِی الْمَدِینَۃِ لَنُغْرِیَنَّکَ بِہِمْ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُونَکَ فِیہَا إِلَّا قَلِیلًا» ۳؎ (33-الأحزاب:60) یعنی ’اگرچہ منافق گندے دل والے اور فساد و تکبر والے اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے تو ہم بھی انہیں نہ چھوڑیں گے اور مدینہ میں بہت کم باقی رہ سکیں گے‘ ، فرمایا : «مَلْعُونِینَ أَیْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِیلًا» ۴؎ (33-الأحزاب:61) یعنی ’بلکہ ان پر لعنت کی جائے گی جہاں پائے جائیں گے ، پکڑے جائیں گے اور ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے جائیں گے‘ ۔ ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان منافقوں کا علم نہ تھا کہ کون کون ہے ؟ ہاں ان کی مذموم خصلتیں جو بیان ہوئی تھیں یہ جس میں پائی جاتی تھیں اس پر نفاق صادق آتا تھا ۔ جیسے اور جگہ ارشاد فرمایا : «وَلَوْ نَشَاءُ لَأَرَیْنَاکَہُمْ فَلَعَرَفْتَہُمْ بِسِیمَاہُمْ وَلَتَعْرِفَنَّہُمْ فِی لَحْنِ الْقَوْلِ» ۱؎ (47-محمد:30) الخ یعنی ’اگر ہم چاہیں تو ہم تمہیں ان کو دکھا دیں لیکن تم ان کی نشانیوں اور ان کی دبی بچی زبان سے ہی انہیں پہچان لو گے‘ ، ان منافقوں میں سب سے زیادہ مشہور عبداللہ بن ابی بن سلول تھا ۔ سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے اس کی منافقانہ خصلتوں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گواہی بھی دی تھی ۲؎ (صحیح بخاری:4900) ، باوجود اس کے جب وہ مر گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جنازے کی نماز پڑھائی اور اس کے دفن میں شرکت کی ۳؎ (صحیح بخاری:1269) ، ٹھیک اسی طرح جس طرح اور مسلمان صحابیوں کے ساتھ بلکہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ذرا زور سے یاد دلایا تو {آپ نے فرمایا : ” میں نہیں چاہتا کہ لوگ چہ میگوئیاں کریں کہ محمد [صلی اللہ علیہ وسلم] اپنے صحابیوں کو مار ڈالا کرتے ہیں“} ۴؎ (صحیح بخاری:3518) ، اور ایک صحیح روایت میں ہے {استغفار کرنے یا نہ کرنے کا مجھے اختیار دیا گیا ، تو میں نے استغفار کو پسند کیا} ۵؎ (صحیح بخاری:1366) ، ایک اور روایت میں ہے {اگر ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کرنے میں بھی اس کی بخشش جانتا تو یقیناً اس سے زیادہ مرتبہ استغفار کرتا} ۶؎ ۔ (صحیح بخاری:1366) البقرة
11 سینہ زور چور سیدنا عبداللہ بن عباس ، سیدنا عبداللہ بن مسعود اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ یہ بیان بھی منافقوں سے ہی متعلق ہے ان کا فساد ، کفر اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی تھی ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:288/1) مطلب یہ ہے کہ زمین میں اللہ کی نافرمانی کرنا یا نافرمانی کا حکم دینا زمین میں فساد کرنا ہے اور زمین و آسمان میں اصلاح سے مراد اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے ۲؎ ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:50/1) مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ انہیں جب اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے روکا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو ہدایت و اصلاح پر ہیں ۔ سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس خصلت کے لوگ اب تک نہیں آئے ۔ مطلب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ بدخصلت لوگ تھے تو سہی لیکن اب جو آئیں گے وہ ان سے بھی بدتر ہوں گے یہ نہ سمجھنا چاہیئے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ اس وصف کا کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھا ہی نہیں ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” ان منافقوں کا فساد برپا کرنا یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کرتے تھے جس کام سے اللہ تعالیٰ منع فرماتا تھا ، اسے کرتے تھے ۔ فرائض ربانی ضائع کرتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ کے سچے دین میں شک و شبہ کرتے تھے ۔ اس کی حقیقت اور صداقت پر یقین کامل نہیں رکھتے تھے ۔ مومنوں کے پاس آ کر اپنی ایمانداری کی ڈینگیں مارتے تھے حالانکہ دل میں طرح طرح کے وسوسے ہوتے تھے موقع پا کر اللہ کے دشمنوں کی امداد و اعانت کرتے تھے اور اللہ کے نیک بندوں کے مقابلہ میں ان کی پاسداری کرتے تھے اور باوجود اس مکاری اور مفسدانہ چلن کے اپنے آپ کو مصلح اور صلح کل کے حامی جانتے تھے “ ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:20/1) قرآن کریم نے کفار سے موالات اور دوستی رکھنے کو بھی زمین میں فساد ہونے سے تعبیر کیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : «وَالَّذِینَ کَفَرُوا بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاءُ بَعْضٍ إِلَّا تَفْعَلُوہُ تَکُنْ فِتْنَۃٌ فِی الْأَرْضِ وَفَسَادٌ کَبِیرٌ» ۱؎ (8-الأنفال:73) یعنی ’کفار آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اگر تم ایسا نہ کرو گے یعنی آپس میں دوستی نہ کرو گے تو اس زمین میں بھاری فتنہ اور بڑا فساد پھیل جائے گا‘ ، اس آیت نے مسلمان اور کفار کے دوستانہ تعلقات منقطع کر دئیے اور جگہ فرمایا : «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْکَافِرِینَ أَوْلِیَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِینَ أَتُرِیدُونَ أَنْ تَجْعَلُوا لِلہِ عَلَیْکُمْ سُلْطَانًا مُبِینًا» ۲؎ (4-النساء:144) یعنی ’اے ایمان والو ! مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بناؤ کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کی تم پر کھلی حجت ہو جائے‘ یعنی تمہاری دلیل نجات کٹ جائے ، پھر فرمایا : «إِنَّ الْمُنَافِقِینَ فِی الدَّرْکِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَن تَجِدَ لَہُمْ نَصِیرًا» ۳؎ (4-النساء:145) یعنی ’منافق لوگ تو جہنم کے نچلے طبقے میں ہوں گے اور ہرگز تم ان کے لیے کوئی مددگار نہ پاؤ گے‘ ۔ چونکہ منافقوں کا ظاہر اچھا ہوتا ہے ، اس لیے مسلمانوں سے حقیقت پوشیدہ رہ جاتی ہے وہ ایمانداروں کو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے دھوکہ دے دیتے ہیں اور ان کے بےحقیقت کلمات اور کفار سے پوشیدہ دوستیوں سے مسلمانوں کو خطرناک مصائب جھیلنے پڑتے ہیں پس بانی فساد یہ منافقین ہوئے ۔ اگر یہ اپنے کفر پر ہی رہتے تو ان کی خوفناک سازشوں اور گہری چالوں سے مسلمانوں کو اتنا نقصان ہرگز نہ پہنچتا اور اگر پورے مسلمان ہو جاتے اور ظاہر باطن یکساں کر لیتے تب تو دنیا کے امن و امان کے ساتھ آخرت کی نجات و فلاح بھی پا لیتے باوجود اس خطرناک پالیسی کے جب انہیں یکسوئی کی نصیحت کی جاتی تو جھٹ کہ اٹھتے کہ ہم تو صلح کن ہیں ، ہم کسی سے بگاڑنا نہیں چاہتے ، ہم فریقین کے ساتھ اتفاق رکھتے ہیں ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ وہ کہتے تھے ”ہم ان دونوں جماعتوں یعنی مومنوں اور اہل کتاب کے درمیان صلح کرانے والے ہیں ۴؎ “ (تفسیر ابن ابی حاتم:52/1) لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ ان کی نری جہالت ہے جسے یہ صلح سمجھتے ہیں وہ عین فساد ہے لیکن انہیں شعور ہی نہیں ۔ البقرة
12 البقرة
13 خود فریبی کے شکار لوگ مطلب یہ ہے کہ جب ان منافقوں کو صحابہ کی طرح اللہ تعالیٰ پر ، اس کے فرشتوں پر ، کتابوں اور رسولوں پر ایمان لانے ، موت کے بعد جی اٹھنے پر ، جنت دوزخ کی حقانیت کے تسلیم کرنے پر ، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کر کے نیک اعمال بجا لانے اور برائیوں سے رکے رہنے کو کہا جاتا ہے تو یہ ملعون فرقہ ایسے ایمان والوں کو بےوقوف قرار دیتا ہے ۔ سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم ، ربیع بن انس ، عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ علیہم وغیرہ نے یہی تفسیر بیان کی ہے ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:293/1) «سٰفَہَاءٌ» «سَفِیْہٌ» کی جمع ہے جیسے «حکماء» «حکیم» کی اور «حلماء» «حلیم» کی ۔ جاہل ، کم عقل اور نفع نقصان کے پوری طرح نہ جاننے والے کو «سفیہ» کہتے ہیں ۔ قرآن میں اور جگہ ہے : «وَلَا تُؤْتُوا السٰفَہَاءَ أَمْوَالَکُمُ الَّتِی جَعَلَ اللہُ لَکُمْ قِیَامًا» ۲؎ (4-النساء:5) الخ یعنی ’بیوقوفوں کو اپنے وہ مال نہ دے بیٹھو جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے قیام کا سبب بنایا ہے‘ ۔ عام مفسرین کا قول ہے کہ اس آیت میں «سٰفَہَاءُ» سے مراد عورتیں اور بچے ہیں ۔ ان منافقین کے جواب میں یہاں بھی خود پروردگار عالم نے جواب دیا اور تاکیداً «حصر» کے ساتھ فرمایا کہ بیوقوف تو یہی ہیں لیکن ساتھ ہی جاہل بھی ایسے ہیں کہ اپنی بیوقوفی کو جان بھی نہیں سکتے ۔ نہ اپنی جہالت و ضلالت کو سمجھ سکتے ہیں ، اس سے زیادہ ان کی برائی اور کمال اندھا پن اور ہدایت سے دوری اور کیا ہو گی ؟ البقرة
14 فریب زدہ لوگ مطلب یہ ہے کہ یہ بدباطن مسلمانوں کے پاس آ کر اپنی ایمان دوستی اور خیر خواہی ظاہر کر کے انہیں دھوکے میں ڈالنا چاہتے ہیں تاکہ مال و جان کا بچاؤ بھی ہو جائے ، بھلائی اور غنیمت کے مال میں حصہ بھی قائم ہو جائے ۔ اور جب اپنے والوں میں ہوتے ہیں تو ان ہی کی سی کہنے لگتے ہیں ۔ «خَلَوْا» کے معنی یہاں ہیں «انْصَرَفُوا» «اذَہَبُوا» «خَلَصُوا» اور «مَضَوْا» یعنی لوٹتے ہیں اور پہنچتے ہیں اور تنہائی میں ہوتے ہیں اور جاتے ہیں پس «خَلَوْا» جو کہ «إِلَی» کے ساتھ متعدی ہے اس کے معنی لوٹ جانے کے ہیں ۔ فعل مضمر اور ملفوظ دونوں پر یہ دلالت کرتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں «إِلَی» معنی میں «مَعَ» کے مترادف ہے مگر اول ہی ٹھیک ہے ، ابن جریر رحمہ اللہ کے کلام کا خلاصہ بھی یہ ہے کہ شیاطین سے مراد «رؤسا» بڑے اور سردار ہیں جیسے یہود علماء اور سرداران کفار قریش و منافقین ۔ سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کا قول ہے کہ یہ شیاطین ان کے امیر امراء اور سرداران کفر تھے اور ان کے ہم عقیدہ لوگ بھی ۔ شیاطین یہود بھی انہیں پیغمبری کے جھٹلانے اور قرآن کی تکذیب کرنے کا مشورہ دیا کرتے تھے ۔ مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں «شَیَاطِینِ» سے مراد ان کے وہ ساتھی ہیں جو یا تو مشرک تھے یا منافق ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو برائیوں میں اور شرک میں ان کے سردار تھے ۔ ابوالعالیہ ، سدی ، ربیع بن انس رحمہ اللہ علیہم بھی یہی تفسیر کرتے ہیں ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” ہر بہکانے اور سرکشی کرنے والے کو شیطان کہتے ہیں ۔ جنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے ۔ قرآن میں بھی «وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیَاطِینَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ یُوحِی بَعْضُہُمْ إِلَیٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا » ۱؎ (6-الأنعام:112) آیا ہے “ ۔ حدیث شریف میں ہے کہ {ہم جنوں اور انسانوں کے شیطانوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں ، ابوذر رضی اللہ عنہ نے پوچھا : یا رسول اللہ ! کیا انسان کے شیطان بھی ہیں ؟ آپ نے فرمایا ” ہاں “ } ۱؎ (سنن نسائی:5509،قال الشیخ الألبانی:ضعیف الإسناد) جب یہ منافق مسلمانوں سے ملتے تو کہتے ہیں «قَالُوا إِنَّا مَعَکُمْ» ’ہم تمہارے ساتھ ہیں‘ یعنی جیسے تم ہو ویسے ہی ہم ہیں ۔ اور اپنوں سے کہتے ہیں کہ ہم تو ان کے ساتھ ہنسی کھیل کرتے ہیں ۲؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:300/1) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ، ربیع بن انس رحمہ اللہ اور قتادہ رحمہ اللہ کی یہی تفسیر ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کو جواب دیتے ہوئے ان کے اس مکروہ فعل کے مقابلہ میں فرماتا ہے : «یَوْمَ یَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِینَ آمَنُوا انْظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُورِکُمْ قِیلَ ارْجِعُوا وَرَاءَکُمْ فَالْتَمِسُوا نُورًا فَضُرِبَ بَیْنَہُمْ بِسُورٍ لَہُ بَابٌ بَاطِنُہُ فِیہِ الرَّحْمَۃُ وَظَاہِرُہُ مِنْ قِبَلِہِ الْعَذَابُ» ۳؎ (57-الحدید:13) ’اللہ تعالیٰ بھی ان سے ٹھٹھا کرے گا اور انہیں ان کی سرکشی میں بہکنے دے گا جیسے دوسری جگہ ہے ، کہ قیامت کے روز منافق مرد و عورت ایمان والوں سے کہیں گے ذرا ٹھہر جاؤ ہم بھی تمہارے نور سے فائدہ اٹھائیں ، کہا جائے گا اپنے پیچھے لوٹ جاؤ اور نور کی تلاش کرو ، اس کے لوٹتے ہی درمیان میں ایک اونچی دیوار حائل کر دی جائے گی جس میں دروازہ ہو گا ، اس طرف تو رحمت ہو گی اور دوسری طرف عذاب ہو گا‘ ۔ فرمان الٰہی ہے : «وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا أَنَّمَا نُمْلِی لَہُمْ خَیْرٌ لِأَنْفُسِہِمْ إِنَّمَا نُمْلِی لَہُمْ لِیَزْدَادُوا إِثْمًا وَلَہُمْ عَذَابٌ مُہِینٌ» ۴؎ (3-آل عمران:178) یعنی ’کافر لوگ ہماری دی ہوئی مہلت کو اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں، یہ مہلت تو اس لئے ہے کہ وہ گناہوں میں اور بڑھ جائیں، ان ہی کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے‘ پس قرآن میں جہاں «اسْتِہْزَاءِ» «سُخْرِیَّتِہِ» مسخریت یعنی مذاق ، «مَکْرِ» ، «خَدِیعَتِ» یعنی دھوکہ کے الفاظ آئے ہیں وہاں یہی مراد ہے ۔ ایک اور جماعت کہتی ہے کہ یہ الفاظ صرف ڈانٹ ڈپٹ اور تنبیہہ کے طور پر استعمال کئے گئے ہیں ان کی بدکرداریوں اور کفر و شرک پر انہیں ملامت کی گئی ہے ۔ اور مفسرین کہتے ہیں یہ الفاظ صرف جواب میں لائے گئے ہیں جیسے کوئی بھلا آدمی کسی مکار کے فریب سے بچ کر اس پر غالب آ کر کہتا ہے کہو میں نے کیسا فریب دیا حالانکہ اس کی طرف سے فریب نہیں ہوتا ۔ اسی طرح یہ فرمان الٰہی ہے کہ «وَمَکَرُوا وَمَکَرَ اللہُ وَ اللہُ خَیْرُ الْمَاکِرِینَ» ۱؎ (3-آل عمران:54) اور آیت «اَللّٰہُ یَسْتَہْزِیُٔ بِہِمْ وَیَمُدٰھُمْ فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَھُوْنَ» ۲؎ (2-البقرۃ:15) ورنہ اللہ کی ذات مکر اور مذاق سے پاک ہے ، مطلب یہ ہے کہ ان کا فن فریب انہی کو برباد کرتا ہے ۔ ان الفاظ کا یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ اللہ ان کی ہنسی ، دھوکہ ، تمسخر اور بھول کا ان کو بدلہ دے گا تو بدلے میں بھی وہی الفاظ استعمال کئے گئے دونوں لفظوں کے دونوں جگہ معنی جدا جدا ہیں ۔ دیکھئیے قرآن کریم میں ہے : «وَجَزَاءُ سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِثْلُہَا» ۳؎ (42-الشوری:40) یعنی ’برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے‘ ، «فَمَنِ اعْتَدَیٰ عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوا عَلَیْہِ» ۴؎ (2-البقرۃ:194) یعنی ’جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر زیادتی کرو‘ تو ظاہر ہے کہ برائی کا بدلہ لینا حقیقتاً برائی نہیں ۔ زیادتی کے مقابلہ میں بدلہ لینا زیادتی نہیں ۔ لیکن لفظ دونوں جگہ ایک ہی ہے حالانکہ پہلی برائی اور زیادتی ”ظلم“ ہے اور دوسری برائی اور زیادتی ”عدل“ ہے لیکن لفظ دونوں جگہ ایک ہی ہے ۔ اسی طرح جہاں جہاں کلام اللہ میں ایسی عبارتیں ہیں وہاں یہی مطلب ہے ۔ ایک اور مطلب بھی سنیے دنیا میں یہ منافق اپنی اس ناپاک پالیسی سے مسلمانوں کے ساتھ مذاق کرتے تھے اللہ نے بھی ان کے ساتھ یہی کیا کہ دنیا میں انہیں امن و امان مل گیا اور یہ مست ہو گئے حالانکہ یہ عارضی امن ہے ، قیامت والے دن انہیں کوئی امن نہیں ملے گا گو یہاں ان کے مال اور جانیں بچ گئیں لیکن اللہ کے ہاں یہ درد ناک عذاب کا شکار بنیں گے ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اسی قول کو ترجیح دی ہے اور اس کی بہت تائید کی ہے اس لیے کہ مکر ، دھوکہ اور مذاق جو بلاوجہ ہو اس سے تو اللہ کی ذات پاک ہے ہاں انتقام ، مقابلے اور بدلے کے طور پر یہ الفاظ اللہ کی نسبت کہنے میں کوئی حرج نہیں ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بھی یہی فرماتے ہیں کہ یہ ان کا بدلہ اور سزا ہے ۔ «یَمُدٰہُمْ» کا مطلب ڈھیل دینا اور بڑھانا بیان کیا گیا ہے ۵؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:311/1) جیسے فرمایا : «أَیَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدٰہُمْ بِہِ مِنْ مَالٍ وَبَنِینَ» ۶؎ (23-المؤمنون:55) ، «نُسَارِعُ لَہُمْ فِی الْخَیْرَاتِ بَلْ لَا یَشْعُرُونَ» ۷؎ (23-المؤمنون:56) یعنی ’کیا یہ یوں سمجھ بیٹھے ہیں کہ ان کے مال اور اولاد کی کثرت ان کے لیے باعث خیر ہے نہیں ! نہیں ! انہیں صحیح شعور ہی نہیں ‘ ۔ اور فرمایا : «سَنَسْـتَدْرِجُہُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَ» ۸؎ (7-الأعراف:182) الخ یعنی ’اس طرح ہم انہیں آہستہ آہستہ پکڑیں گے کہ انہیں پتہ بھی نہ چلے‘ غرض کہ ادھر یہ گناہ کرتے ہیں ادھر دنیوی نعمتیں زیادہ ہوتی ہیں جن پر یہ پھولے نہیں سماتے حالانکہ وہ حقیقت میں عذاب ہی کی ایک صورت ہوتی ہے ۔ قرآن پاک نے اور جگہ فرمایا : «فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُکِّرُوا بِہِ فَتَحْنَا عَلَیْہِمْ أَبْوَابَ کُلِّ شَیْءٍ حَتَّیٰ إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاہُمْ بَغْتَۃً فَإِذَا ہُمْ مُبْلِسُونَ» ۹؎ (6-الأنعام:44) یعنی ’پھر جب وہ لوگ ان چیزوں کو بھولے رہے جن کی ان کو نصیحت کی جاتی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کشادہ کردئے یہاں تک کہ جب ان چیزوں پر جو کہ ان کو ملی تھیں وہ خوب اترا گئے ہم نے ان کو دفعتاً پکڑ لیا، پھر تو وہ بالکل مایوس ہو گئے‘ «فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِینَ ظَلَمُوا وَالْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ» ۱۰؎ (6-الأنعام:45) یعنی ’ظالموں کی بربادی ہوئی اور کہہ دیا گیا کہ تعریفیں رب العالمین کے لیے ہی ہیں‘ ۔ ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ انہیں ڈھیل دینے اور انہیں اپنی سرکشی اور بغاوت میں بڑھنے کے لیے ان کو مہلت دی جاتی ہے ۔ جیسے اور جگہ فرمایا «وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَہُمْ وَأَبْصَارَہُمْ کَمَا لَمْ یُؤْمِنُوا بِہِ أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَنَذَرُہُمْ فِی طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُونَ» ۱؎ (6-الأنعام:110) «طٰغْیَانُ» کہتے ہیں کسی چیز میں گھس جانے کو ۲؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:307/1) جیسے فرمایا : «إِنَّا لَمَّا طَغَی الْمَاءُ حَمَلْنَاکُمْ فِی الْجَارِیَۃِ» ۳؎ (69-الحاقۃ:11) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں وہ اپنے کفر میں گرے جاتے ہیں ۔ «عمہ» کہتے ہیں گمراہی کو ۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ضلالت و کفر میں ڈوب گئے اور اس ناپاکی نے انہیں گھیر لیا اب یہ اسی دلدل میں اترتے جاتے ہیں ، اسی ناپاکی میں پھنسے جاتے ہیں اور اس سے نجات کی تمام راہیں ان پر بند ہو جاتی ہیں ۔ بھلا ایسی دلدل میں جو ہو اور پھر اندھا بہرا اور بیوقوف ہو وہ کیسے نجات پا سکتا ہے ۔ آنکھوں کے اندھے پن کے لیے عربی میں «عمی» کا لفظ آتا ہے اور دل کے اندھاپے کے لیے «عمہ» کا لیکن کبھی دل کے اندھے پن کے لیے بھی «عمی» کا لفظ آتا ہے جیسے قرآن میں ہے :« وَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصٰدُوْرِ» ۴؎ (22-الحج:46) ۔ البقرة
15 البقرة
16 ایمان فروش لوگ سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ رضوان اللہ علیہم سے مروی ہے کہ انہوں نے ہدایت چھوڑ دی اور گمراہی لے لی ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں انہوں نے ایمان کے بدلے کفر قبول کیا ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ایمان لائے پھر کافر ہو گئے ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” ہدایت پر گمراہی کو پسند کرتے ہیں ۔ “ جیسے اور جگہ قوم ثمود کے بارے میں ہے «وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَہَدَیْنٰہُمْ فَاسْتَــحَبٰوا الْعَمٰی عَلَی الْہُدٰی» (32-السجدۃ:17) یعنی ’ باوجود اس کے کہ ہم نے قوم ثمود کو ہدایت سے روشناس کر دیا مگر پھر بھی انہوں نے اس رہنمائی کی جگہ اندھے پن کو پسند کیا ‘ ۔ مطلب یہ ہوا کہ منافقین ہدایت سے ہٹ کر گمراہی پر آ گئے اور ہدایت کے بدلے گمراہی لے لی گویا ہدایت کو بیچ کر گمراہی خرید لی ۔ اب ایمان لا کر پھر کافر ہوئے ہوں خواہ سرے سے ایمان ہی نصیب نہ ہوا ہو اور ان منافقین میں دونوں قسم کے لوگ تھے ۔ چنانچہ قرآن میں ہے آیت« ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا فَطُبِعَ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ» ۱؎ (63-المنافقون:3) ’ یہ اس لیے ہے کہ یہ لوگ ایمان لا کر پھر کافر ہو گئے پس ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ‘ اور ایسے بھی منافق تھے جنہیں ایمان نصیب ہی نہ ہوا پس نہ تو انہیں اس سودے میں فائدہ ہوا ، نہ راہ ملی ، بلکہ ہدایت کے چمنستان سے نکل کر گمراہی کے خارزار میں ، جماعت کے مضبوط قلعہ سے نکل کر تنہائیوں کی تنگ جیل میں ، امن کے وسیع میدان سے نکل کر خوف کی اندھیری کوٹھری میں اور سنت کے پاکیزہ گلشن سے نکل کر بدعت کے سنسان جنگل میں آ گئے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:316/1) البقرة
17 شک، کفر اور نفاق کیا ہے؟ مثال کو عربی میں «مثیل» بھی کہتے ہیں اس کی جمع «امثال» آتی ہے ۔ جیسے قرآن میں ہے : «وَتِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ وَمَا یَعْقِلُہَآ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ» (29-العنکبوت:43) یعنی ’ یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں جنہیں صرف عالم ہی سمجھتے ہیں ‘ ۔ اس آیت شریف کا مطلب یہ ہے کہ جو منافق گمراہی کو ہدایت کے بدلے اور اندھے پن کو بینائی کے بدلے مول لیتے ہیں ان کی مثال اس شخص جیسی ہے جس نے اندھیرے میں آگ جلائی اس کے دائیں بائیں کی چیزیں اسے نظر آنے لگیں ، اس کی پریشانی دور ہو گئی اور فائدے کی امید بندھی کہ دفعتاً آگ بجھ گئی اور سخت اندھیرا چھا گیا نہ تو نگاہ کام کر سکے ، نہ راستہ معلوم ہو سکے اور باوجود اس کے وہ شخص خود بہرا ہو ۔ کسی کی بات کو نہ سن سکتا ہو ۔ گونگا ہو کسی سے دریافت نہ کر سکتا ہو ، اندھا ہو جو روشنی سے کام نہ چلا سکتا ہو ۔ اب بھلا یہ راہ کیسے پا سکے گا ؟ ٹھیک اسی طرح یہ منافق بھی ہیں کہ ہدایت چھوڑ کر راہ گم کر بیٹھے اور بھلائی چھوڑ کر برائی کو چاہنے لگے ۔ اس مثال سے پتہ چلتا ہے کہ ان لوگوں نے ایمان قبول کر کے کفر کیا تھا ۔ جیسے قرآن کریم میں کئی جگہ یہ صراحت موجود ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» امام رازی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں سدی رحمہ اللہ سے یہی نقل کیا ہے ۔ پھر کہا ہے کہ یہ تشبیہ بہت ہی درست اور صحیح ہے ، اس لیے کہ اولاً تو ان منافقوں کو نور ایمان حاصل ہوا پھر ان کے نفاق کی وجہ سے وہ چھن گیا اور یہ حیرت میں پڑ گئے اور دین گم ہو جانے کی حیرت سے بڑی حیرت اور کیا ہو گی ؟ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جن کی یہ مثال بیان کی گئی ہے انہیں کسی وقت بھی ایمان نصیب ہی نہ ہوا تھا کیونکہ پہلے فرمان الٰہی گزر چکا ہے کہ «وَمَا ہُم بِمُؤْمِنِینَ» (2-البقرۃ:8) یعنی گو یہ زبان سے اللہ تعالیٰ پر اور قیامت پر ایمان لانے کا اقرار کرتے ہیں مگر حقیقتاً یہ ایماندار نہیں ۔ درحقیقت اس آیۃ مبارکہ میں ان کے کفر و نفاق کے وقت کی خبر دی گئی ہے اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ اس حالت کفر و نفاق سے پہلے کبھی انہیں ایمان حاصل ہی نہیں ہوا ۔ ممکن ہے ایمان لائے ہوں ، پھر اس سے ہٹ گئے ہوں اور اب دلوں میں مہریں لگ گئی ہوں ۔ دیکھئیے دوسری جگہ قرآن کریم میں ہے «ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا فَطُبِعَ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ فَہُمْ لَا یَفْقَہُوْنَ» (63-المنافقون:3) الخ یعنی ’ یہ اس لیے ہے کہ انہوں نے ایمان کے بعد کفر کیا ، پھر ان کے دلوں پر مہر لگ گئی ۔ اب وہ کچھ نہیں سمجھتے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس مثال میں روشنی اور اندھیرے کا ذکر ہے یعنی کلمہ ایمان کے ظاہر کرنے کی وجہ سے دنیا میں کچھ نور ہو گیا ، کفر کے چھپانے کی وجہ سے پھر آخرت کے اندھیروں نے گھیر لیا ۔ ایک جماعت کی مثال شخص واحد سے اکثر دی جاتی ہے۔ قرآن پاک میں اور جگہ ہے «رَاَیْتَہُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ تَدُوْرُ اَعْیُنُہُمْ کَالَّذِیْ یُغْشٰی عَلَیْہِ مِنَ الْمَوْتِ» (32-السجدۃ:19) یعنی ’ تو دیکھے گا کہ وہ تیری طرف آنکھیں پھیر پھیر کر اس طرح دیکھتے ہیں جس طرح وہ شخص جو سکرات موت میں ہو ‘ ۔ اور اس آیت کو بھی دیکھئیے «مَا خَلْقُکُمْ وَلَا بَعْثُکُمْ اِلَّا کَنَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ» (31-لقمان:28) یعنی ’ تم سب کا پیدا کرنا اور مار ڈالنے کے بعد پھر زندہ کر دینا ایسا ہی ہے جیسے ایک جان کو دوبارہ زندہ کرتا ‘ ۔ تیسری جگہ توراۃ سیکھ کر عملی عقیدہ اس کے مطابق نہ رکھنے والوں کی مثال میں کہا گیا ہے «کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا» (62-الجمعۃ:5) یعنی ’ گدھے کی مانند ہیں جو کتابیں لادے ہوئے ہو ‘ ۔ سب آیتوں میں جماعت کی مثال ایک ہی دی گئی ہے ۔ اسی طرح مذکورہ بالا آیت میں منافقوں کی جماعت کی مثال ایک شخص سے دی گئی ۔ بعض کہتے ہیں تقدیر کلام یوں ہے «مثل قصتھم کقصۃ الذین استو قدوا نارا» یعنی ان کے واقعہ کی مثال ان لوگوں کے واقعہ کی طرح ہے جو آگ روشن کریں ۔ بعض کہتے ہیں کہ آگ جلانے والا تو ایک ہے ۔ لیکن مجموعی طور پر پوری جماعت اس سے محظوظ ہوتی ہے جو اس کے ساتھ ہے اور اس قسم کا اور «الذی» یہاں «الذین» کے معنی میں ہیں جیسے کہ شاعروں کے شعروں میں بھی میں بھی آتا ہے میں کہتا ہوں اس مثال میں بھی واحد کے صیغہ کے بعد ہی جمع کے صیغہ بھی ہیں ۔ «بنورھم» اور «ترکھم» اور «لا یرجعون» ملاحظہ ہوں ۔ اس طرح کلام میں اعلیٰ فصاحت اور بہترین خوبی بھی آ گئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کی روشنی لے گیا اس سے مطلب یہ ہے کہ جو نور نفع دینے والا تھا وہ تو ان سے ہٹا لیا اور جس طرح آگ کے بجھ جانے کے بعد تپش اور دھواں اور اندھیرا رہ جاتا ہے اسی طرح ان کے پاس نقصان پہنچانے والی چیز یعنی شک و کفر و نفاق رہ گیا تو راہ راست کو نہ خود دیکھ سکیں نہ دوسرے کی بھلی بات سن سکیں نہ کسی سے بھلائی کا سوال کر سکیں ۔ اب پھر لوٹ کر ہدایت پر آنا محال ہو گیا ۔ اس کی تائید میں مفسرین کے اقوال سنئیے ۔ سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور بعض اور صحابہ رضوان اللہ علیہم فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کے بعد کچھ لوگ اسلام لے آئے مگر پھر منافق بن گئے ۔ ان کی مثال اس شخص جیسی ہے جو اندھیرے میں ہو پھر آگ جلا کر روشنی حاصل کرے اور آس پاس کی بھلائی برائی کو سمجھنے لگے اور معلوم کرے کہ کس راہ میں کیا ہے ؟ کہ اچانک آگ بجھ جائے روشنی جاتی رہے ۔ اب معلوم نہیں ہو سکتا کہ کس راہ میں کیا کیا ہے ؟ اسی طرح منافق شرک و کفر کی ظلمت میں تھے پھر اسلام لا کر بھلائی برائی یعنی حلال حرام وغیرہ سمجھنے لگے مگر پھر کافر ہو گئے اور حرام و حلال خیر و شر میں کچھ تمیز نہ رہی ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں نور سے مراد ایمان اور ظلمت سے مراد ضلالت و کفر ہے یہ لوگ ہدایت پر تھے لیکن پھر سرکشی کر کے بہک گئے ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ایمانداری اور ہدایت کی طرف رخ کرنے کو اس مثال میں آس پاس کی چیز کے روشنی کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ عطا خراسانی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ منافق کبھی کبھی بھلائی کو دیکھ لیتا ہے اور پہچان بھی لیتا ہے لیکن پھر اس کے دل کی کور چشمی اس پر غالب آ جاتی ہے ۔ حضرت عکرمہ ، عبدالرحمٰن ، حسن ، سدی اور ربیع رحمہ اللہ علیہم سے بھی یہی منقول ہے ۔ عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں منافقوں کی یہی حالت ہے کہ ایمان لاتے ہیں اور اس کی پاکیزہ روشنی سے ان کے دل جگمگا اٹھتے ہیں جیسے آگ کے جلانے سے آس پاس کی چیزیں روشن ہو جاتی ہیں لیکن پھر کفر اس روشنی کو کھو دیتا ہے جس طرح آگ کا بجھ جانا پھر اندھیرا کر دیتا ہے ۔ مندرجہ بالا اقوال تو ہماری اس تفسیر کی تائید میں تھے کہ جن منافقوں کی یہ مثال بیان کی گئی ہے وہ ایمان لا چکے تھے پھر کفر کیا ۔ اب امام ابن جریر رحمہ اللہ کی تائید میں جو تفسیر ہے اسے بھی سنئے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ یہ مثال منافقوں کی ہے کہ وہ اسلام کی وجہ سے عزت پا لیتے ہیں ۔ مسلمانوں میں نکاح ، ورثہ اور تقسیم مال غنیمت میں شامل ہوتے ہیں لیکن مرتے ہی یہ عزت چھن جاتی ہے جس طرح آگ کی روشنی آگ بجھتے ہی جاتی رہتی ہے ۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب منافق «لا الہ الا اللہ» پڑھتا ہے تو دل میں نور پیدا ہوتا ہے پھر جہاں شک کیا وہ نور گیا ، جس طرح لکڑیاں جب تک جلتی رہیں روشنی رہی ، جہاں بجھ گئیں نور گیا ۔ ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں نور سے مراد یہاں ایمان ہے جو ان کی زبانوں پر تھا ۔ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں «لا الہ الا اللہ» ان کے لیے روشنی کر دیتا تھا امن و امان ، کھانا پینا ، بیوی بچے سب مل جاتے تھے لیکن شک و نفاق ان سے یہ تمام راحتیں چھین لیتا ہے جس طرح آگ کا بجھنا روشنی دور کر دیتا ہے ۔ قتادہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ «لا الہ الا اللہ» کہنے سے منافق کو ( دنیوی نفع مثلاً مسلمانوں میں لڑکے لڑکی کا لین دین ، ورثہ کی تقسیم ، جان و مال کی حفاظت وغیرہ ) مل جاتا ہے لیکن چونکہ اس کے دل میں ایمان کی جڑ اور اس کے اعمال میں خلوص نہیں ہوتا اس لیے موت کے وقت وہ سب منافع سلب ہو جاتے ہیں جیسے آگ کی روشنی بجھ جائے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اندھیروں میں چھوڑ دینا سے مراد مرنے کے بعد عذاب پانا ہے ۔ یہ لوگ حق کو دیکھ کر زبان سے اس کا اقرار کرتے ہیں اور ظلمت کفر سے نکل جاتے ہیں لیکن پھر اپنے کفر و نفاق کی وجہ سے ہدایت اور حق پر قائم رہنا ان سے چھن جاتا ہے ۔ سدی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اندھیرے سے مراد ان کا نفاق ہے ۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں موت کے وقت منافقین کی بد اعمالیاں اندھیروں کی طرح ان پر چھا جاتی ہیں اور کسی بھلائی کی روشنی ان کے لیے باقی نہیں رہتی جس سے ان کی توحید کی تصدیق ہو ۔ وہ بہرے ہیں ، حق کے سننے اور راہ راست کو دیکھنے اور سمجھنے سے اندھے ہیں ۔ ہدایت کی طرف لوٹ نہیں سکتے ۔ نہ انہیں توبہ نصیب ہوتی ہے نہ نصیحت حاصل کر سکتے ہیں ۔ البقرة
18 البقرة
19 منافقین کی ایک اور پہچان یہ دوسری مثال ہے جو دوسری قسم کے منافقوں کے لیے بیان کی گئی ہے ۔ یہ وہ قوم ہے جن پر کبھی حق ظاہر ہو جاتا ہے اور کبھی پھر شک میں پڑ جاتے ہیں تو شک کے وقت ان کی مثال برسات کی سی ہے ۔ صیب کے معنی مینہ اور بارش کے ہیں ۔ بعض نے بادل کے معنی بھی بیان کئے ہیں لیکن زیادہ مشہور معنی بارش کے ہی ہیں جو اندھیرے میں برسے ۔ ظلمات سے مراد شک ، کفرو نفاق ہے اور رعد سے مراد یعنی گرج ہے جو اپنی خوفناک آواز سے دل دہلا دیتی ہے ۔ یہی حال منافق کا ہے کہ اسے ہر وقت ڈر خوف گھبراہٹ اور پریشانی ہی رہتی ہے ۔ جیسے کہ اور جگہ فرمایا آیت «یَحْسَبُوْنَ کُلَّ صَیْحَۃٍ عَلَیْہِمْ» ( 63 ۔ المنافقون : 4 ) یعنی ہر آواز کو اپنے اوپر ہی سمجھتے ہیں ایک اور جگہ ارشاد ہے کہ «وَیَحْلِفُونَ بِ اللہِ إِنَّہُمْ لَمِنکُمْ وَمَا ہُم مِّنکُمْ وَلٰکِنَّہُمْ قَوْمٌ یَفْرَقُونَ لَوْ یَجِدُونَ مَلْجَأً أَوْ مَغَارَاتٍ أَوْ مُدَّخَلًا لَّوَلَّوْا إِلَیْہِ وَہُمْ یَجْمَحُونَ» ( 9-التوبۃ : 56 ، 57 ) یہ منافقین اللہ کی قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ وہ تم میں سے ہیں دراصل وہ ڈرپوک لوگ ہیں اگر وہ کوئی جائے پناہ یا راستہ پا لیں تو یقیناً اس میں سمٹ کر گھس جائیں ۔ بجلی کی مثال سے مراد وہ نور ایمان ہے جو ان کے دلوں میں کسی وقت چمک اٹھتا ہے ، اس وقت وہ اپنی انگلیاں موت کے ڈر سے کانوں میں ڈال لیتے ہیں لیکن ایسا کرنا انہیں کوئی نفع نہ دے گا ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی ارادے کے ماتحت ہیں ، یہ بچ نہیں سکتے ۔ جیسا کہ اور جگہ فرمایا آیت «ہَلْ اَتٰیکَ حَدِیْثُ الْجُــنُوْدِ فِرْعَوْنَ وَثَمُــوْدَ بَلِ الَّذِینَ کَفَرُوا فِی تَکْذِیبٍ وَ اللہُ مِن وَرَائِہِم مٰحِیطٌ» ( 85 ۔ البروج : 20-17 ) یعنی کیا تمہیں لشکر کی ، فرعون اور ثمود کی روایتیں نہیں پہنچیں ، بیشک پہنچی تو ہیں لیکن یہ کافر پھر بھی تکذیب ہی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی انہیں ان کے پیچھے سے گھیر رہا ہے ۔ بجلی کا آنکھوں کو اچک لینا ، اس کی قوت اور سختی کا اظہار ہے اور منافقین کی بینائی کی کمزوری اور ان کا ضعف ایمان ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ قرآن کی مضبوط آیتیں ان منافقوں کی قلعی کھول دیں گی اور ان کے چھپے ہوئے عیب ظاہر کر دیں گی اور اپنی نورانیت سے انہیں مبہوت کر دیں گی ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:349/1) جب ان پر اندھیرا ہو جاتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں یعنی جب ایمان ان پر ظاہر ہو جاتا ہے تو ذرا روشن دل ہو کر پیروی بھی کرنے لگتے ہیں لیکن پھر جہاں شک و شبہ آیا ، دل میں کدورت اور ظلمت بھر گئی اور بھونچکے ہو کر کھڑے رہ گئے ۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ اسلام کو ذرا عروج ملا تو ان کے دل میں قدرے اطمینان پیدا ہوا لیکن جہاں اس کے خلاف نظر آیا یہ الٹے پیروں کفر کی طرف لوٹنے لگے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:349/1) جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے آیت «وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرْفٍ» ( 22 ۔ الحج : 11 ) یعنی بعض لوگ وہ بھی ہیں جو کنارے پر ٹھہر کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں اگر بھلائی ملے تو مطمئن ہو جائیں اور اگر برائی پہنچے تو اسی وقت پھر گئے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ بھی فرماتے ہیں کہ ان کا روشنی میں چلنا حق کو جان کر کلمہ اسلام پڑھنا ہے اور اندھیرے میں ٹھہر جانا کفر کی طرف لوٹ جانا ہے ۔ دیگر بہت سے مفسرین کا بھی یہی قول ہے اور زیادہ صحیح اور ظاہر بھی یہی قول ہے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:75/1) «وَاللہُ اَعْلَمُ» روز قیامت بھی ان کا یہی حال رہے گا کہ جب لوگوں کو ان کے ایمان کے اندازے کے مطابق نور ملے گا بعض کو کئی کئی میلوں تک کا ، بعض کو اس سے بھی زیادہ ، کسی کو اس سے کم ، یہاں تک کہ کسی کو اتنا نور ملے گا کہ کبھی روشن ہو اور کبھی اندھیرا کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو ذرا سی دور چل سکیں گے پھر ٹھہر جائیں گے پھر ذرا سی دور کا نور ملے گا پھر بجھ جائے گا اور بعض وہ بے نصیب بھی ہوں گے کہ ان کا نور بالکل بجھ جائے گا یہ پورے منافق ہوں گے جن کے بارے میں فرمان الٰہی ہے آیت «یَوْمَ یَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِینَ آمَنُوا انظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِن نٰورِکُمْ قِیلَ ارْجِعُوا وَرَاءَکُمْ فَالْتَمِسُوا نُورًا فَضُرِبَ بَیْنَہُم بِسُورٍ لَّہُ بَابٌ بَاطِنُہُ فِیہِ الرَّحْمَۃُ وَظَاہِرُہُ مِن قِبَلِہِ الْعَذَابُ» ( 57 ۔ الحدید : 13 ) یعنی جس دن منافق مرد اور منافق عورتیں ایمان والوں کو پکاریں گے اور کہیں گے ذرا رکو ! ہمیں بھی آ لینے دو تاکہ ہم بھی تمہارے نور سے فائدہ اٹھائیں تو کہا جائے گا کہ اپنے پیچھے لوٹ جاؤ اور نور ڈھونڈ لاؤ ۔ مومنوں کے بارے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت «یَوْمَ تَرَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ یَسْعٰی نُوْرُہُمْ بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَبِاَیْمَانِہِمْ بُشْرٰیکُمُ الْیَوْمَ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا» ( 57 ۔ الحدید : 12 ) یعنی اس دن تو دیکھے گا کہ مومن مرد اور عورتوں کے آگے آگے اور دائیں جانب نور ہو گا اور کہا جائے گا تمہیں آج باغات کی خوشخبری دی جاتی ہے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ۔ اور فرمایا جس دن نہ رسوا کرے گا اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور ان لوگوں کو جو ان کے ساتھ ایمان لائے ، ان کا نور ان کے آگے اور دائیں ہو گا ۔ وہ کہہ رہے ہوں گے اے ہمارے رب ! ہمارے لیے ہمارا نور پورا کر اور ہمیں بخش یقیناً تو ہرچیز پر قادر ہے ۔ (66-التحریم:8) ان آیتوں کے بعد اب اس مضمون کی حدیثیں بھی سنئے ۔ احادیث میں تذکرۂ نور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں “ بعض مومنوں کو مدینہ سے لے کر عدن تک نور ملے گا ۔ بعض کو اس سے کم یہاں تک کہ بعض کو اتنا کم کہ صرف پاؤں رکھنے کی جگہ ہی روشن ہو گی ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:33614:ضعیف و مرسل) سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایمان والوں کو ان کے اعمال کے مطابق نور ملے گا بعض کو کھجور کے درخت جتنا ، کسی کو قد آدم جتنا ، کسی کو صرف اتنا ہی کہ اس کا انگوٹھا ہی روشن ہو ، کبھی بجھ جاتا ہو ، کبھی روشن ہو جاتا ہو ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:179/23) سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں “ انہیں نور ملے گا ان کے اعمال کے مطابق جس کی روشنی میں وہ پل صراط سے گزریں گے ۔ بعض لوگوں کا نور پہاڑ جتنا ہو گا ، بعض کا کھجور جتنا اور سب سے کم نور والا وہ ہو گا جس کا نور اس کے انگوٹھے پر ہو گا کبھی چمک اٹھے گا اور کبھی بجھ جائے گا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں “ کہ تمام اہل توحید کو قیامت کے دن نور ملے گا ۔ جب منافقوں کا نور بجھ جائے گا تو موحد ڈر کر کہیں گے آیت «رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَا» ( 66 ۔ التحریم : 8 ) ” یا رب ہمارے نور کو پورا کر ۔ (حاکم:490/2) ضحاک رحمہ اللہ بن مزاحم کا بھی یہی قول ہے ۔ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ قیامت والے دن لوگ کئی قسم کے ہوں گے ۔ خالص مومن وہ جن کا بیان اگلی چار آیتوں میں ہوا ، خالص کفار جن کا ذکر اس کے بعد کی دو آیتوں میں ہے اور منافق جن کی دو قسمیں ہیں ۔ ایک تو خالص منافق جن کی مثال آگ کی روشنی سے دی گئی ۔ دوسرے وہ منافق جو تردد میں ہیں کبھی تو ایمان چمک اٹھتا ہے کبھی بجھ جاتا ہے ، ان ہی کی مثال بارش سے دی گئی ہے یہ پہلی قسم کے منافقوں سے کچھ کم ہیں ۔ ٹھیک اسی طرح سورۃ النور میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے مومن کی اور اس کے دل کے نور کی مثال اس منور چراغ سے دی ہے جو روشن فانوس میں ہو اور خود فانوس بھی چمکتے ہوئے تارے کی طرح ہو ۔ چنانچہ ایماندار کا ایک تو خود دل روشن ، دوسرے خالص شریعت کی اسے امداد ، بس روشنی پر روشنی ، نور پر نور ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح دوسری جگہ کافروں کی مثال بھی بیان کی جو اپنی نادانی کی وجہ سے اپنے آپ کو کچھ سمجھتے ہیں اور حقیقت میں وہ کچھ نہیں ہوتے ۔ فرمایا کافروں کے اعمال کی مثال ریت کے چمکیلے ٹیلوں کی طرح ہے جنہیں پیاسا پانی سمجھتا ہے یہاں تک کہ پاس آ کر دیکھتا ہے تو کچھ بھی نہیں پاتا ۔ (24-النور:39) ایک اور جگہ پر ان جاہل کافروں کی مثال بیان کی جو جہل بسیط میں گرفتار ہیں ۔ فرمایا مانند سخت اور اندھیروں کے جو گہرے سمندر میں ہوں جو موجوں پر موجیں مار رہا ہو پھر ابر سے ڈھکا ہوا ہو اور اندھیروں پر اندھیرے چھائے ہوئے ہوں ، ہاتھ نکالے تو دیکھ بھی نہیں سکتا ۔ حقیقت یہ ہے کہ جس کے لیے اللہ کی طرف بلانے والے دوسرے ان کی تقلید کرنے والے ۔ جیسے سورۃ الحج کے شروع میں ہے آیت «وَمِنَ النَّاسِ مَن یُجَادِلُ فِی اللہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَلَا ہُدًی وَلَا کِتَابٍ مٰنِیرٍ» ( 22 ۔ الحج : 8 ) بعض وہ لوگ ہیں جو اللہ کے بارے میں بغیر علم کے جھگڑتے ہیں اور ہر سرکش شیطان کی پیروی کرتے ہیں ۔ ایک اور جگہ فرمایا آیت «وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یٰجَادِلُ فِی اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّیَتَّبِـعُ کُلَّ شَیْطٰنٍ مَّرِیْدٍ» ( 22 ۔ الحج : 3 ) بعض لوگ علم ہدایت اور روشن کتاب کے بغیر اللہ کی بارے میں لڑتے جھگڑتے ہیں ۔ سورۃ الواقعہ کے شروع اور آخر میں اور سورۃ انسان میں مومنوں کی بھی دو قسمیں بیان کی ہیں ۔ سابقین اور اصحاب یمین یعنی مقربین بارگاہ ربانی اور پرہیزگار و نیک کار لوگ ۔ پس ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ مومنوں کی دو جماعتیں ہیں مقرب اور ابرار ۔ اور کافروں کی بھی دو قسمیں ہیں کفر کی طرف لانے والے اور ان کی تقلید کرنے والے ۔ منافقوں کی بھی دو قسمیں ہیں خالص اور پکے منافق اور وہ منافق جن میں نفاق کی ایک آدھ شاخ ہے ۔ صحیحین میں حدیث ہے سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ ” تین خصلتیں ایسی ہیں جس میں یہ تینوں ہوں وہ پختہ منافق ہے اور جس میں ایک ہو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے جب تک اسے نہ چھوڑے ۔ بات کرنے میں جھوٹ بولنا ، وعدہ خلافی کرنا ، امانت میں خیانت کرنا ، (صحیح بخاری:34:صحیح) اس سے ثابت ہوا کہ انسان میں کبھی نفاق کا کچھ حصہ ہوتا ہے خواہ وہ نفاق عملی ہو خواہ اعتقادی جیسے کہ آیت و حدیث سے معلوم ہوتا ہے ۔ سلف کی ایک جماعت اور علماء کرام کے ایک گروہ کا یہی مذہب ہے اس کا بیان پہلے بھی گزر چکا ہے اور آئندہ بھی آئے گا ۔ ان شاءاللہ تعالیٰ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “ دل چار قسم کے ہیں ایک تو صاف دل جو روشن چراغ کی طرح چمک رہا ہو دوسرے وہ دل جو غلاف آلود ہیں ، تیسرے وہ دل جو الٹے ہیں ، چوتھے وہ دل جو مخلوط ہیں پہلا دل مومن کا ہے جو پوری طرح نورانی ہے ، دوسرا کافر کا دل ہے جس پر پردے پڑے ہوئے ہیں ، تیسرا دل خالص منافقوں کا ہے جو جانتا ہے اور انکار کرتا ہے ، چوتھا دل اس منافق کا ہے جس میں ایمان و نفاق دونوں جمع ہیں ۔ ایمان کی مثال اس سبزے کی طرح ہے جو پاکیزہ پانی سے بڑھ رہا ہو اور نفاق کی مثال اس پھوڑے کی طرح ہے جس میں پیپ اور خون بڑھتا ہی جاتا ہو اب جو مادہ بڑھ جائے وہ سرے پر غالب آ جاتا ہے ۔ (مسند احمد:17/3:ضعیف) اس حدیث کی اسناد بہت ہی عمدہ ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اگر اللہ چاہے تو ان کے کان اور آنکھیں برباد کر دے ۔ مطلب یہ ہے کہ جب انہوں نے حق کو جان کر اسے چھوڑ دیا تو اللہ ہر چیز پر قادر ہے یعنی اگر چاہے تو عذاب و سزا دے چاہے تو معاف کر دے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:76/1) یہاں قدرت کا بیان اس لیے کیا کہ پہلے منافقوں کو اپنے عذاب ، اپنی جبروت سے ڈرایا اور کہہ دیا کہ وہ انہیں گھیر لینے پر قادر ہے اور ان کے کانوں کو بہرا کرنے اور آنکھوں کو اندھا کرنے پر قادر ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:361/1) قدیر کے معنی قادر کے ہیں جیسے علیم کے معنی عالم کے ہیں ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ دو مثالیں ایک ہی قسم کے منافقوں کی ہیں او معنی میں و کے ہے جیسے فرمایا آیت «وَلَا تُطِعْ مِنْہُمْ اٰثِمًا اَوْ کَفُوْرًا» ( 76 ۔ الانسان : 24 ) یا لفظ او اختیار کے لیے ہے یعنی خواہ یہ مثال بیان کرو ، خواہ وہ مثال بیان کرو اختیار ہے ۔ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اور یہاں پر تساوی یعنی برابری کے لیے ہے جیسے عربی زبان کا محاورہ ہے ” جالس الحسن او ابن سیرین “ زمخشری بھی یہی توجیہ کرتے ہیں تو مطلب یہ ہو گا کہ ان دونوں مثالوں میں سے جو مثال چاہو بیان کرو دونوں ان کے مطابق ہیں ۔ میں کہتا ہوں یہ باعتبار منافقوں کی اقسام کے ہے ، ان کے احوال و صفات طرح طرح کے ہیں ۔ جیسے کہ سورۃ برات میں «وَمِنْھُمْ ، وَمِنْھُمْ ، وَمِنْھُمْ» کر کے ان کی بہت سی قسمیں بہت سے افعال اور بہت سے اقوال بیان کئے ہیں ۔ تو یہ دونوں مثالیں دو قسم کے منافقوں کی ہیں جو ان کے احوال اور صفات سے بالکل مشابہ ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» جیسے کہ سورۃ النور میں دو قسم کے کفار کی مثالیں بیان کیں ۔ ایک کفر کی طرف بلانے والے دوسرے مقلد ۔ فرمایا آیت «وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَعْمَالُہُمْ کَسَرَابٍ بِقِیْعَۃٍ یَّحْسَبُہُ الظَّمْاٰنُ مَاءً حَتَّیٰ إِذَا جَاءَہُ لَمْ یَجِدْہُ شَیْئًا وَوَجَدَ اللہَ عِندَہُ فَوَفَّاہُ حِسَابَہُ وَ اللہُ سَرِیعُ الْحِسَابِ» (24-النور:39) پھر فرمایا آیت «أَوْ کَظُلُمَاتٍ فِی بَحْرٍ لٰجِّیٍّ یَغْشَاہُ مَوْجٌ مِّن فَوْقِہِ مَوْجٌ مِّن فَوْقِہِ سَحَابٌ ظُلُمَاتٌ بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْضٍ إِذَا أَخْرَجَ یَدَہُ لَمْ یَکَدْ یَرَاہَا وَمَن لَّمْ یَجْعَلِ اللہُ لَہُ نُورًا فَمَا لَہُ مِن نٰورٍ» ( 24 ۔ النور : 40 ) پس پہلی مثال یعنی ریت کے تودے کی کفر کی طرف بلانے والوں کی ہے جو جہل مرکب میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ دوسری مثال مقلدین کی ہے جو جہل بسیط میں مبتلا ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» البقرة
20 البقرة
21 تعارف اللہ بزبان اللہ یہاں سے اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی الوہیت کا بیان شروع ہوتا ہے وہی اپنے بندوں کو عدم سے وجود میں لایا ، اسی نے ہر طرح کی ظاہری و باطنی نعمتیں عطا فرمائیں ، اسی نے زمین کو فرش بنایا اور اس میں مضبوط پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں اور آسمان کو چھت بنایا ۔ جیسے کہ دوسری آیت میں آیا کہ آیت «وَجَعَلْنَا السَّمَاءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا ښ وَّہُمْ عَنْ اٰیٰـتِہَا مُعْرِضُوْنَ» ( 21 ۔ الانبیآء : 32 ) یعنی آسمان کو محفوظ چھت بنایا اس کے باوجود وہ نشانیوں سے منہ موڑ لیتے ہیں ، آسمان سے پانی اتارنے کا مطلب بادل نازل فرمانا ہے ۔ اس وقت جبکہ لوگ اس کے پورے محتاج ہوں ۔ پھر اس پانی سے طرح طرح کے پھل پھول پیدا کرنا ہے جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور ان کے جانور بھی ۔ جیسے کہ قرآن مجید میں جگہ جگہ اس کا بیان آیا ہے ۔ ایک جگہ فرمایا ہے آیت «اَللّٰہُ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّالسَّمَاءَ بِنَاءً وَّصَوَّرَکُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَکُمْ وَرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ» ( 40 ۔ غافر : 64 ) اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور تمہیں پیاری پیاری صورتیں عطا فرمائیں اور طرح طرح کی غذائیں پہنچائیں یہی اللہ ہے جو برکتوں والا اور تمام عالم کو پالنے والا ہے پس سب کا خالق ، سب کا رازق ، سب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اور اس لیے شرک سے مبرا ہر قسم کی عبادت کا وہی مستحق ہے ۔ اور فرمایا اللہ تعالیٰ کے شریک نہ ٹھہراؤ جبکہ تم جانتے ہو ۔ “ صحیحین میں حدیث ہے “ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑا گناہ کون سا ہے ۔ فرمایا اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو تمہارا خالق ہے کسی کو شریک ٹھہرانا ۔ “ (صحیح بخاری:6001:صحیح) سیدنا معاذ رضی اللہ عنہما والی حدیث میں ہے جانتے ہو کہ اللہ کا حق بندوں پر کیا ہے ؟ یہ کہ اسی کی عبادت کریں اور کسی کو اس کی عبادت میں شریک نہ کریں ۔ “ (صحیح بخاری:3856:صحیح) دوسری حدیث میں ہے ” تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ جو اللہ چاہے اور فلاں چاہے بلکہ یوں کہے جو کچھ اللہ اکیلا چاہے ، پھر جو فلاں چاہے ۔ “ (سنن ابوداود:4980 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) طفیل بن سنجرہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوتیلے بھائی فرماتے ہیں میں نے خواب میں چند یہودیوں کو دیکھا اور ان سے پوچھا تم کون ہو ؟ انہوں نے کہا تم بھی اچھے لوگ ہو لیکن افسوس تم کہتے ہو جو اللہ چاہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں پھر میں نصرانیوں کی جماعت کے پاس گیا اور ان سے بھی اسی طرح پوچھا انہوں نے بھی یہی جواب دیا ۔ میں نے ان سے کہا افسوس تم بھی مسیح علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا مانتے ہو ۔ انہوں نے بھی یہی جواب دیا میں نے صبح اپنے اس خواب کا ذکر کچھ لوگوں سے کیا پھر دربار نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہی خواب بیان کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا کسی اور سے بھی تم نے اس کا ذکر کیا ہے ؟ میں نے کہا ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اب آپ کھڑے ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا طفیل رضی اللہ عنہ نے ایک خواب دیکھا اور تم میں سے بعض کو بیان بھی کیا میں چاہتا تھا کہ تمہیں اس کلمہ کے کہنے سے روک دوں لیکن فلاں فلاں کاموں کی وجہ سے میں اب تک نہ کہہ سکا ۔ یاد رکھو ” اب ہرگز ہرگز اللہ چاہے اور اس کا رسول “ کبھی نہ کہنا بلکہ یوں کہو کہ صرف اللہ تعالیٰ اکیلا جو چاہے ۔ (مسند احمد:72/5:صحیح) ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جو اللہ تعالیٰ چاہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو مجھے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتا ہے یوں کہہ جو اللہ تعالیٰ اکیلا چاہے ۔ (النسائی فی السنن الکبرٰی:10825:حسن) ایسے تمام کلمات توحید کے سراسر خلاف ہیں ۔ توحید باری کی اہمیت کے بارے میں یہ سب احادیث بیان ہوئی ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» تمام کفار اور منافقوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم دیا اور فرمایا اللہ کی عبادت کرو یعنی اس کی توحید کے پابند ہو جاؤ ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو جو نہ نفع دے سکے نہ نقصان پہنچا سکے اور تم جانتے ہو کہ اس کے سوا کوئی رب نہیں جو تمہیں روزی پہنچا سکے اور تم جانتے ہو کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں اس توحید کی طرف بلا رہے ہیں جس کے حق اور سچ ہونے میں کوئی شک نہیں ۔ شرک اس سے بھی زیادہ پوشیدہ ہے جیسے چیونٹی جو رات کے اندھیرے میں کسی صاف پتھر پر چل رہی ہو ، قسم ہے اللہ کی اور قسم ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کی یہ بھی شرک ہے ، انسان کا یہ کہنا اگر یہ کتیا نہ ہوتی تو چور رات کو ہمارے گھر میں گھس آتے یہ بھی شرک ہے ۔ آدمی کا یہ قول کہ اگر بطخ گھر میں نہ ہوتی تو چوری ہو جاتی یہ بھی شرک کا کلمہ ہے ، کسی کا یہ قول کہ جو اللہ چاہے اور آپ یہ بھی شرک ہے ، کسی کا یہ کہنا کہ اگر اللہ نہ ہوتا اور فلاں نہ ہوتا ۔ یہ سب کلمات شرک ہیں ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جو اللہ چاہے اور جو آپ چاہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو مجھے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتا ہے ؟ دوسری حدیث میں ہے تم اچھے لوگ ہوتے اگر تم شرک نہ کرتے تم کہتے ہو جو اللہ چاہے اور فلاں چاہے ۔ (مسند احمد:394/1) ابو العالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں «اَنْدَاداً» کے معنی شریک اور برابر کے ہیں ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں تم توراۃ و انجیل پڑھتے ہو اور جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ ایک اور لا شریک ہے ، پھر جانتے ہوئے کیوں اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہو ؟ پانچ احکام مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ عزوجل نے یحییٰ علیہ السلام کو پانچ چیزوں کا حکم دیا کہ ان پر عمل کرو اور بنی اسرائیل کو بھی ان پر عمل کرنے کا حکم دو ، قریب تھا کہ وہ اس میں غفلت کریں تو عیسیٰ علیہ السلام نے انہیں یاد دلایا کہ آپ علیہ السلام کو پروردگار عالم کا حکم تھا کہ ان پانچ چیزوں پر خود کاربند ہو کر دوسروں کو بھی حکم دو ۔ لہٰذا یا تو آپ علیہ السلام کہہ دیجئیے یا میں پہنچا دوں ۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام نے فرمایا مجھے ڈر ہے کہ اگر آپ سبقت لے گئے تو کہیں مجھے عذاب نہ دیا جائے یا زمین میں دھنسا نہ دیا جاؤں پس یحییٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو بیت المقدس کی مسجد میں جمع کیا ، جب مسجد بھر گئی تو آپ علیہ السلام اونچی جگہ پر بیٹھ گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کر کے کہا اللہ تعالیٰ نے مجھے پانچ باتوں کا حکم کیا ہے کہ خود بھی عمل کروں تم سے بھی ان پر عمل کراؤں ۔ ایک یہ کہ اللہ ایک کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص خاص اپنے مال سے کسی غلام کو خریدے اور غلام کام کاج کرے لیکن جو کچھ حاصل ہوا ہے اسے کسی اور کو دیدے ۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا غلام ایسا ہو ؟ ٹھیک اسی طرح تمہارا پیدا کرنے والا ، تمہیں روزی دینے والا ، تمہارا حقیقی مالک اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک ہے ۔ پس تم اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ۔ دوسری یہ کہ نماز کو ادا کرو اللہ تعالیٰ کی نگاہ بندے کی طرف ہوتی ہے ۔ جب تک کہ وہ نماز میں ادھر ادھر منہ پھیرے جب تم نماز میں ہو تو خبردار ادھر ادھر التفات نہ کرنا ۔ تیسرا حکم یہ ہے کہ روزے رکھا کرو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص کے پاس مشک کی تھیلی بھری ہوئی ہو جس سے اس کے تمام ساتھیوں کے دماغ معطر رہیں ۔ یاد رکھو روزے دار کے منہ کی خوشبو اللہ تعالیٰ کو مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسند ہے ۔ چوتھا حکم یہ ہے کہ صدقہ دیتے رہا کرو ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص کو دشمنوں نے قید کر لیا اور گردن کے ساتھ اس کے ہاتھ باندھ دئیے گردن مارنے کے لیے لے جانے لگے تو وہ کہنے لگا کہ تم مجھ سے فدیہ لے اور مجھے چھوڑ دو چنانچہ جو کچھ تھا کم زیادہ دے کر اپنی جان چھڑا لی ۔ پانچواں اس کا حکم یہ ہے کہ بکثرت اس کے نام کا ذکر کیا کرو اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس کے پیچھے تیزی کے ساتھ دشمن دوڑتا آتا ہے اور وہ ایک مضبوط قلعہ میں گھس جاتا ہے اور وہاں امن و امان پا لیتا ہے اسی طرح بندہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے وقت شیطان سے بچا ہوا ہوتا ہے یہ فرما کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب میں بھی تمہیں پانچ باتوں کا حکم کرتا ہوں جن کا حکم جناب باری نے مجھے دیا ہے مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑے رہنا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان حاکم وقت کے احکام سننا اور جاننا ہجرت کرنا اور جہاد کرنا جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھر نکل جائے گویا وہ اسلام کے پٹے کو اپنے گلے سے اتار پھینکے گا ہاں یہ اور بات ہے کہ رجوع کر لے جو شخص جاہلیت کی پکار پکارے وہ جہنم کا کوڑا کرکٹ ہے ، لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ وہ روزے دار اور نمازی ہو فرمایا اگرچہ نماز پڑھتا ہو اور روزے بھی رکھتا ہو اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہو ۔ مسلمانوں کو ان کے ان ناموں کے ساتھ پکارتے رہو جو خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے رکھے ہیں مسلمین مومنین اور عباد اللہ ۔ (مسند احمد:123/4-202:صحیح) یہ حدیث حسن ہے اس آیت میں بھی یہی بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے تمہیں پیدا کیا ہے وہی تمہیں روزی دیتا ہے پس عبادت بھی اسی کی کرو ۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ عبادت میں توحید باری تعالیٰ کا پورا خیال رکھنا چاہیئے کسی اور کی عبادت نہ کرنی چاہیئے ہر ایک عبادت کے لائق صرف وہی ہے ۔ اثبات وجود الہ العلمین امام رازی رحمہ اللہ وغیرہ نے اللہ تعالیٰ کے وجود پر بھی اس آیت سے استدلال کیا ہے ۔ اور فی الواقع یہ آیت «أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللہَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِہِ ثَمَرَاتٍ مٰخْتَلِفًا أَلْوَانُہَا وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌ بِیضٌ وَحُمْرٌ مٰخْتَلِفٌ أَلْوَانُہَا وَغَرَابِیبُ سُودٌ وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ وَالْأَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُہُ کَذٰلِکَ إِنَّمَا یَخْشَی اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاءُ إِنَّ اللہَ عَزِیزٌ غَفُورٌ» ( 35-فاطر : 27 ، 28 ) اللہ تعالیٰ کے وجود پر بہت بڑی دلیل ہے زمین اور آسمان کی مختلف شکل و صورت مختلف رنگ مختلف مزاج اور مختلف نفع کی موجودات ان میں سے ہر ایک کا نفع بخش ہونا اور خاص حکمت کا حامل ہونا ان کے خالق کے وجود کا اور اس کی عظیم الشان قدرت ، حکمت ، زبردست سطوت اور سلطنت کا ثبوت ہے کسی بدوی سے پوچھا گیا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی موجودگی کی کیا دلیل ہے ؟ تو اس نے کہا دعا «یا سبحان اللہ ان البعر لیدل علی البعیر ۔ وان اثر الا قدام لیدل علی المسیر ۔ فسماء ذات ابراج وارض ذات فجاج ۔ وبحار ذات امواج الا یدل ذالک علی وجود اللطیف الخبیر ۔ » یعنی مینگنی سے اونٹ معلوم ہو سکے اور پاؤں کے نشان زمین پر دیکھ کر معلوم ہو جائے کہ کوئی آدمی گیا ہے تو کیا یہ برجوں والا آسمان یہ راستوں والی زمین یہ موجیں مارنے والے سمندر اللہ تعالیٰ باریک بین اور باخبر کے وجود پر دلیل نہیں ہو سکتے ؟(تفسیر الفخر الرازی «المعروف بمفاتیح الغیب» :91/2) امام مالک رحمہ اللہ سے ہارون رشید نے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کے وجود پر کیا دلیل ہے آپ رحمہ اللہ نے فرمایا زبانوں کا مختلف ہونا ، آوازوں کا جداگانہ ہونا ، نغموں کا الگ ہونا ، ثابت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہے ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے بھی یہی سوال ہوتا ہے تو آپ رحمہ اللہ جواب دیتے ہیں کہ چھوڑو میں کسی اور سوچ میں ہوں ۔ لوگوں نے مجھ سے کہا ہے کہ ایک بہت بڑی کشتی جس میں طرح طرح کی تجارتی چیزیں ہیں نہ کوئی اس کا نگہبان ہے نہ چلانے والا ہے باوجود اس کے وہ برابر آ جا رہی ہے اور بڑی بڑی موجوں کو خودبخود چیرتی پھاڑتی گزر جاتی ہے ٹھہرنے کی جگہ پر ٹھہر جاتی ہے چلنے کی جگہ چلتی رہتی ہے نہ اس کا کوئی ملاح ہے نہ منتظم ۔ سوال کرنے والے دہریوں نے کہا آپ کس سوچ میں پڑ گئے کوئی عقلمند ایسی بات کہہ سکتا ہے کہ اتنی بڑی کشتی اتنے بڑے نظام کے ساتھ تلاطم والے سمندر میں آئے جائے اور کوئی اس کا چلانے والا نہ ہو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا افسوس تمہاری عقلوں پر ایک کشتی تو بغیر چلانے والے کے نہ چل سکے لیکن یہ ساری دنیا آسمان و زمین کی سب چیزیں ٹھیک اپنے کام پر لگی رہیں اور ان کا مالک حاکم خالق کوئی نہ ہو ؟ یہ جواب سن کر وہ لوگ ہکا بکا ہو گئے اور حق معلوم کر کے مسلمان ہو گئے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ سے بھی یہی سوال ہوا تو آپ رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ توت کے پتے ایک ہی ہیں ایک ہی ذائقہ کے ہیں کیڑے اور شہد کی مکھی اور گائیں بکریاں ہرن وغیرہ سب اس کو چباتے کھاتے اور چرتے چگتے ہیں اسی کو کھا کر ریشم کا کیڑا ریشم تیار کرتا ہے مکھی شہد بناتی ہے ، ہرن میں مشک پیدا ہوتا ہے اور گائیں بکریاں مینگنیاں دیتی ہیں ۔ کیا یہ اس امر کی صاف دلیل نہیں کہ ایک پتے میں یہ مختلف خواص پیدا کرنے والا کوئی ہے ؟ اور اسی کو ہم اللہ تبارک و تعالیٰ مانتے ہیں وہی موجد اور صانع ہے ۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے بھی ایک مرتبہ وجود باری تعالیٰ پر دلیل طلب کی گئی تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا ۔ سنو یہاں ایک نہایت مضبوط قلعہ ہے جس میں کوئی دروازہ نہیں نہ کوئی راستہ ہے بلکہ سوراخ تک نہیں باہر سے چاندی کی طرح چمک رہا ہے اور اندر سے سونے کی طرح دمک رہا ہے اوپر نیچے دائیں بائیں چاروں طرف سے بالکل بند ہے ہوا تک اس میں نہیں جا سکتی اچانک اس کی ایک دیوار گرتی ہے اور ایک جاندار آنکھوں کانوں والا خوبصورت شکل اور پیاری بولی والا چلتا پھرتا نکل آتا ہے ۔ بتاؤ اس بند اور محفوظ مکان میں اسے پیدا کرنے والا کوئی ہے یا نہیں ؟ اور وہ ہستی انسانی ہستیوں سے بالاتر اور اس کی قدرت غیر محدود ہے یا نہیں ؟ آپ کا مطلب یہ تھا کہ انڈے کو دیکھو چاروں طرف سے بند ہے پھر اس میں پروردگار خالق یکتا جاندار بچہ پیدا کر دیتا ہے ۔ یہی دلیل ہے اللہ کے وجود پر اور اس کی توحید پر ۔ حضرت ابو نواس رحمہ اللہ سے جب یہ مسئلہ پوچھا گیا تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا آسمان سے بارش برسنا ، اس سے درختوں کا پیدا ہونا اور ان ہری ہری شاخوں پر خوش ذائقہ میووں کا لگنا ہی اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی وحدانیت کی کافی دلیل ہے ابن المعتز رحمہ اللہ فرماتے ہیں افسوس اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کی تکذیب پر لوگ کیسے دلیر ہو جاتے ہیں حالانکہ ہر چیز اس پروردگار کی موجود اور لاشریک ہونے پر گواہ ہے ۔ بزرگوں کا مقولہ ہے کہ آسمانوں کو دیکھو ان کی بلندی ان کی وسعت ، ان کے چھوٹے بڑے چمکیلے اور روشن ستاروں پر نظریں ڈالو ۔ ان کے چمکنے دمکنے ان کے چلنے پھرنے ، ٹھہر جانے ، ظاہر ہونے اور چھپ جانے کا مطالعہ کرو ۔ سمندروں کو دیکھو ، جو موجیں مارتے ہوئے زمین کو گھیرے ہوئے ہیں ۔ اونچے نیچے مضبوط پہاڑوں کو دیکھو جو زمین میں گڑے ہوئے ہیں اور اسے ہلنے نہیں دیتے ، جن کے رنگ ، جن کی صورتیں مختلف ہیں ۔ قسم قسم کی دوسری مخلوقات پر نظر ڈالو ، ادھر سے ادھر پھر جانے والی کھیتیوں اور باغوں کو شاداب کرنے والی خوشنما نہروں کو دیکھو ۔ کھیتوں ، باغوں کی سبزیوں٠ اور ان کے طرح طرح کے پھل پھول مزے مزے کے میووں پر غور کرو زمین ایک پانی ایک ، لیکن شکلیں صورتیں ، خوشبوئیں ، رنگ ذائقہ ، فائدہ الگ الگ ۔ کیا یہ تمام مصنوعات تمہیں نہیں بتاتیں کہ ان کا صانع کوئی ہے ؟ کیا یہ تمام موجودات با آواز بلند نہیں کہہ رہیں کہ ان کا موجد کوئی ہے ؟ کیا یہ ساری مخلوق اپنے خالق کی ہستی اس کی ذات اور اس کی توحید پر دلالت نہیں کرتی ۔ یہ ہیں وہ زور دار دلائل جو اللہ جل و علا نے اپنی ذات کے منوانے کے لیے ہر نگاہ کے سامنے پیش کر دئیے ہیں جو اس کی زبردست قدرتوں ، اس کی پرزور حکمتوں ، اس کی لاثانی رحمتوں ، اس کے بے نظیر انعاموں ، اس کے لازوال احسانوں پر دلالت کرنے کے لیے کافی وافی ہیں ۔ ہم اقرار کرتے ہیں کہ نہ اس کا کوئی پالنے والا ہے ، نہ اس کے سوا کوئی پیدا کرنے اور حفاظت کرنے والا ، نہ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہ اس کے سوا کوئی مسجود لاشک ۔ ہاں دنیا کے لوگو ! سن لو میرا توکل اور بھروسہ اسی پر ہے میری انابت اور التجا اسی کی طرف ہے ، میرا جھکنا اور پست ہونا اسی کے سامنے ہے ، میری تمناؤں کا مرکز ، میری امیدوں کا آسرا ، میرا ماویٰ ، ملجا وہی ایک ہے اس کے دست رحمت کو تکتا ہوں اور اسی کا نام جپتا ہوں ۔ البقرة
22 البقرة
23 تصدیق نبوت اعجاز قرآن توحید کے بعد اب نبوت کی تصدیق کی جا رہی ہے کفار مکہ کو خطاب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ ہم نے جو قرآن پاک اپنے بندے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا ہے اسے اگر تم ہمارا کلام نہیں مانتے تو تم اور تمہارے مددگار سب مل کر پورا قرآن نہیں صرف ایک سورت تو اس جیسی بنا لاؤ ۔ جب تم ایسا نہیں کر سکتے اور اس سے عاجز ہو تو پھر اس قرآن کے کلام اللہ ہونے میں کیوں شک کرتے ہو ؟ «شُھَدَاءَ» سے مراد مددگار اور شریک ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:376/1) جو ان کی مدد اور موافقت کیا کرتے تھے ، مطلب یہ ہے کہ جنہیں تم اپنا معبود بنا رکھا ہے انہیں بھی بلا لو اور اان سے بھی مدد چاہو پھر اس جیسی ایک سورت ہی تو بنا لاؤ ۔ حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تم اپنے حاکموں اور اپنے زبان دانوں فصیح و بلیغ لوگوں سے بھی مدد لے لو ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:85/1) قرآن پاک کے اس معجزے کا اظہار اور ایسا انداز خطاب کئی جگہ ہے سورۃ قص میں ہے آیت «قُلْ فَاْتُوْا بِکِتٰبٍ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ ہُوَ اَہْدٰی مِنْہُمَآ اَتَّبِعْہُ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ» ( 28 ۔ القصص : 49 ) یعنی اگر تم سچے ہو تو ان دونوں سے ( یعنی توریت و قرآن سے ) زیادہ ہدایت والی کوئی اور اللہ کی کتاب لاؤ تو میں بھی اس کی تابعداری کروں گا ۔ سورۃ بنی اسرائیل میں فرمایا آیت «قُلْ لَّیِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنٰ عَلٰٓی اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْرًا» ( 17 ۔ الاسراء : 88 ) یعنی اگر تمام جنات اور انسان جمع ہو کر اور ہر ایک دوسرے کی مدد کے ساتھ یہ چاہیں کہ اس جیسا قرآن بنائیں تو بھی ان کے امکان میں نہیں سورۃ ہود میں فرمایا آیت «اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰیہُ قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِہٖ مُفْتَرَیٰتٍ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ» (11-ہود:13) یعنی کیا یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ قرآن کو خود اس پیغمبر نے گھڑ لیا تم کہو کہ اگر تم سچے ہو تو تم سب مل کر اور اللہ کے سوا جنہیں تم بلا سکتے ہو بلا کر اس جیسی دس سورتیں ہی بنا لاؤ ۔ سورۃ یونس میں ہے آیت «وَمَا کَانَ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ اَنْ یٰفْتَرٰی مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلٰکِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ وَتَفْصِیْلَ الْکِتٰبِ لَا رَیْبَ فِیْہِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ أَمْ یَقُولُونَ افْتَرَاہُ قُلْ فَأْتُوا بِسُورَۃٍ مِّثْلِہِ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللہِ إِن کُنتُمْ صَادِقِینَ» ( 10 ۔ یونس : 38 ، 37 ) یعنی یہ قرآن اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کی طرف سے گھڑا ہوا نہیں بلکہ یہ اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا اور کتاب تفصیل ہے جس کے اللہ کا کلام ہونے میں کوئی شک نہیں جو رب العالمین کی طرف سے ہے کیا یہ لوگ اسے خود ساختہ کہتے ہیں ان سے کہو کہ اللہ کے سوا ہر شخص کو بلا کر اس قرآن کی سینکڑوں سورتوں میں سے ایک چھوٹی سی سورت جیسی سورت تو بنا لاؤ تاکہ تمہارا سچ ظاہر ہو ۔ یہ تمام آیتیں مکہ مکرمہ میں نازل ہوئیں اور اہل مکہ کو اس کے مقابلہ میں عاجز ثابت کر کے پھر مدینہ شریف میں بھی اس مضمون کو دہرایا گیا اوپر کی آیت «َمْثِلہِ» کی ضمیر کو بعض نے قرآن کی طرف لوٹایا ہے یعنی کوئی سورت اس قرآن جیسی لاؤ ۔ بعض نے یہ ضمیر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹائی ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کوئی امی ایسا ہو ہی نہیں سکتا ہے کہ کچھ پڑھا ہوا نہ ہونے کے باوجود وہ کلام کہے جس کا مثل کسی سے نہ بن سکے لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے ۔ مجاہد ، قتادہ رحمہ اللہ علیہما ، سیدنا عمرو بن مسعود ابن عباس رضی اللہ عنہما ، حسن بصری رحمہ اللہ اور اکثر محققین کا یہی قول ہے امام ابن جریر ، طبری ، زمحشری ، رازی رحمہ اللہ علیہم نے بھی اسی کو پسند کیا ہے اس کی ترجیح کی وجوہات بہت سی ہیں ۔ ایک تو یہ کہ اس میں سب کو ڈانٹ ڈپٹ بھی ہے اجتماعی اور الگ الگ بھی ۔ خواہ وہ امی اور ان پڑھ ہوں یا اہل کتاب اور پڑھے لکھے ہوں اس میں اس معجزے کا کمال ہے اور بہ نسبت اس کے کہ صرف ان پڑھ لوگوں کو عاجز کیا جائے اس میں زیادہ مبالغہ ہے پھر دس سورتوں کا مطالبہ کرنا اس کی مثل نہ لا سکنے کی پیشنگوئی کرنا بھی اسی حقیقت کو ثابت کرتا ہے کہ اس سے مراد قرآن ہے نہ کہ ذات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پس اس عام اعلان سے جو باربار کیا گیا اور ساتھ ہی پیشنگوئی بھی کر دی گئی کہ یہ لوگ اس پر قادر نہیں ۔ مکہ میں اور مدینہ میں بار ہا اس کا اعادہ کیا گیا اور وہ لوگ جن کی مادری زبان عربی تھی جنہیں اپنی فصاحت اور بلاغت پر ناز تھا جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی دشمنی پر ادھار کھا بیٹھے تھے وہ درحقیقت اس سے عاجز آ گئے نہ پورے قرآن کا جواب دے سکے نہ دس سورتوں کا ، نہ ایک سورت کا ۔ پس ایک معجزہ تو یہ ہے کہ اس جیسی ایک چھوٹی سی سورت بھی وہ نہ بنا سکے دوسرا معجزہ یہ ہے کہ پیشنگوئی سچ ثابت ہوئی کہ یہ ہرگز اس جیسا نہیں بنا سکتے چاہے سب جمع ہو جائیں اور قیامت تک محنت کر لیں ۔ پس ایسا ہی ہوا نہ تو اس زمانہ میں کسی کی یہ جرات ہوئی نہ اس کے بعد سے آج تک اور نہ قیامت تک کسی سے یہ ہو سکے گا اور بھلا کیسے ہو سکتا ؟ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات بے مثل اسی طرح اس کا کلام بھی ۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ قرآن پاک کو بیک نظر دیکھنے سے ہی اس کے ظاہری اور باطنی لفظی اور معنوی ایسے ایسے کمالات ظاہر ہوتے ہیں جو مخلوق کے بس کے نہیں خود رب العالمین فرماتا ہے آیت «الرٰ کِتٰبٌ اُحْکِمَتْ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ خَبِیْرٍ» (11-ہود:1) یعنی اس کتاب کی آیتیں جو حکمت والے ہر طرح کی خبریں جاننے والے اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے محکم مضبوط اور مفصل الگ الگ ہیں ۔ پس الفاظ محکم اور معانی مفصل یا الفاظ مفصل اور معانی محکم پس قرآن اپنے الفاظ میں اور اپنے مضامین میں بے نظیر ہے جس کے مقابلے ، معارضے اور مثل سے دنیا عاجز اور بے بس ہے ۔ اس پاک کلام میں اگلی خبریں جو دنیا سے پوشیدہ تھیں وہ ہو بہو بیان کی گئیں آنے والے امور کے تذکرے کئے گئے جو لفظ بہ لفظ پورے اترے ۔ تمام بھلائیوں کا حکم تمام برائیوں سے ممانعت اس میں ہے ۔ سچ ہے آیت «وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا وَّعَدْلًا» ( 6 ۔ الانعام : 115 ) یعنی خبروں میں صداقت اور احکام میں عدل تیرے رب کے کلام میں پورا پورا ہے ۔ پاکیزہ قرآن تمام تر حق و صداقت و ہدایت سے پر ہے نہ اس میں واہی تواہی باتیں ہیں نہ ہنسی مذاق نہ کذب و افترا جو شاعروں کے کلام میں عموماً پایا جاتا ہے بلکہ ان کے اشعار کی قدر و قیمت ہی اس پر ہے مقولہ مشہور ہے کہ «اعذبہ اکذبہ» جوں جھوٹ زیادہ اتنا ہی مزید ۔ سر تم دیکھو گے کہ لمبے لمبے پر زور قصیدے مبالغہ اور کذب آمیز یا تو عورتوں کی تعریف و توصیف میں ہوں گے یا گھوڑوں کی اور شراب کی ستائش میں ہوں گے یا کسی انسان کی بڑھی چڑھی مدح و تعریف میں ہوں گے یا اونٹنیوں کی آرائش و زیبائش یا بہادری کے مبالغہ آمیز گیت یا لڑائیوں کی چالبازیوں یا ڈر خوف کے خیالی منظروں کے بیان میں ہوں گے جن سے کوئی فائدہ نہیں ۔ نہ دین کا نہ دنیا کا صرف شاعر کی زبان دانی اور اس کی قدرت کلام ظاہر ہوتی ہے ۔ نہ اخلاق پر ان سے کوئی عمدہ اثر نہ اعمال پر ۔ پھر نفس مضمون کے ساتھ پورے قصیدے میں بمشکل دو ایک شعر ہوتے ہیں ۔ باقی سب بھرتی کے اور ادھر ادھر کی لایعنی اور فضول بکواس برخلاف اس کے قرآن پاک کے اس پر نظر ڈالو تو دیکھو گے کہ اس کا ایک ایک لفظ فصاحت و بلاغت سے دین و دنیا کے نفع سے ، خیر و برکت سے پر ہے ۔ پھر کلام کی ترتیب و تہذیب الفاظ کی بندش ، عبارت کی روانی ، معانی کی نورانیت ، مضمون کی پاکیزگی ، سونے پر سہاگہ ہے ۔ اس کی خبروں کی حلاوت ، اس کے بیان کردہ واقعات کی سلاست ، مردہ دلوں کی زندگی ہے ۔ اس کا اختصار کمال کا اعلیٰ نمونہ اور اس کی تفصیل معجزے کی جان ہے اس کا کسی چیز کا دہرانا قند مکرر کا مزہ دیتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے گویا سچے موتیوں کی بارش برس رہی ہے ۔ باربار پڑھو دل نہ اکتائے ، مزے لیتے جاؤ اور ہر وقت نیا مزہ پاؤ ۔ مضامین سمجھتے جاؤ اور ختم نہ ہوں ۔ یہ قرآن پاک کا ہی خاصہ ہے اس چاشنی کا ذائقہ ، اس مٹھاس کا مزہ کوئی اس سے پوچھے جنہیں عقل و حواس علم و فضل کا کچھ حصہ قدرت نے عطا فرمایا ۔ اس کی تنذیر دھمکاوا تعذیب اور پکڑ دھکڑ کا بیان مضبوط پہاڑوں کو ہلا دے ۔ انسانی دل کیا ہیں اس کے وعدے اور خوشخبریاں ، نعمتوں اور رحمتوں کا بیان دلوں کی پژمردہ کلی کو کھلا دینے والا ، شوق و تمنا کے دبے جذبات کو ابھار دینے والا جنتوں اور راحتوں کے پیارے پیارے مناظر کو آنکھوں کے سامنے لانے والا ہے ۔ دل کِھل جاتے ہیں کان لگ جاتے ہیں اور آنکھیں کھُل جاتی ہیں ۔ رغبت دیتے ہوئے وہ فرماتا ہے آیت «فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَاءً بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ» ( 22 ۔ السجدہ : 17 ) کوئی کیا جانے کہ اس کے نیک اعمال کے بدلے اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا کیا سامان چپکے چپکے تیا کیا جا رہا ہے ۔ فرماتا ہے : «وَفِیہَا مَا تَشْتَہِیہِ الْأَنفُسُ وَتَلَذٰ الْأَعْیُنُ» (43-الزخرف:71) الخ اس دائمی جنت میں ہر وہ چیز ہے جو دل کو بھائے اور آنکھوں میں اتر جائے ۔ ڈراتے اور دھمکاتے ہوئے فرمایا آیت «اَفَاَمِنْتُمْ اَنْ یَّخْسِفَ بِکُمْ جَانِبَ الْبَرِّ» ( 17 ۔ الاسرآء : 68 ) فرمایا «ءَاَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَاءِ اَنْ یَّخْسِفَ بِکُمُ الْاَرْضَ فَاِذَا ہِیَ تَمُوْرُ اَمْ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَاءِ اَنْ یٰرْسِلَ عَلَیْکُمْ حَاصِبًا فَسَتَعْلَمُوْنَ کَیْفَ نَذِیْرِ» ( 67 ۔ الملک : 17-16 ) کیا تم اپنے دھنسائے جانے یا آسمان سے پتھر برسائے جانے سے نڈر ہو گئے ہو ؟ کیا آسمانوں والا اس پر قادر نہیں ؟ اسے محض دھمکی ہی نہ سمجھو بلکہ اس کی حقیقت عنقریب تم پر کھل جائے گی ۔ زجر و تو بیخ ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے ۔ آیت «فَکُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْبِہٖ» ( 29 ۔ العنکبوت : 40 ) ایک ایک کو ہم نے اس کی بدکرداریوں میں پکڑ لیا ۔ بطور وعظ و نصیحت بیان ہوتا ہے آیت «أَفَرَأَیْتَ إِن مَّتَّعْنَاہُمْ سِنِینَ ثُمَّ جَاءَہُم مَّا کَانُوا یُوعَدُونَ مَا أَغْنَیٰ عَنْہُم مَّا کَانُوا یُمَتَّعُونَ» ( 26 ۔ الشعرآء : 207-205 ) اگر ہم نے کچھ سال انہیں فائدہ نہیں دیا تو کیا ہوا ؟ آخر وعدے کی گھڑی آ پہنچی اور اس جاہ و جلال نے کوئی نفع نہ بخشا ۔ غرض کوئی کہاں تک بیان کرے جس مضمون کا ذکر کیا ۔ اسے کمال تک پہنچا کر چھوڑا اور طرح طرح کی فصاحت و بلاغت ، حلاوت و حکمت سے معمور کر دیا احکام کے حکم اور روک ٹوک کو دیکھئیے ہر حکم اچھائی بھلائی نفع اور پاکیزگی کا جامع ہے ۔ ہر ممانعت قباحت رذالت اور خباثت کی قاطع ہے ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہا وغیرہ اسلاف امت کا قول ہے کہ جب قرآن میں آیت «یا أَیٰہَا الَّذینَ آمَنُوا» آئے تو کان لگا دو یا تو کسی اچھائی کا حکم ہو گا یا کسی برائی سے منع کیا جائے گا خود پروردگار عالم فرماتا ہے آیت «یَاْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہٰیہُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلٰ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَـبٰیِٕثَ وَیَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْہِمْ» (7-الأعراف:157) یعنی بھلائیوں کا حکم دیتا ہے برائیوں سے روکتا ہے پاکیزہ چیزیں حلال قرار دیتا ہے خبیث چیزیں حرام کرتا ہے وہ بوجھل بیڑیاں جو پاؤں میں تھیں وہ سخت طوق جو گلوں میں تھے اتار پھینکتا ہے قیامت کے بیان کی آیتیں ہیں کہ ہولناک مناظر جنت و دوزخ کا بیان رحمتوں اور زحمتوں کا پورا پورا وصف ۔ اولیاء اللہ کے لیے طرح طرح کی نعمتیں ۔ دشمنان اللہ کے لیے طرح طرح کے عذاب ۔ کہیں بشارت ہے کہیں ڈراوا ہے کہیں نیکیوں کی طرف رغبت ہے ۔ کہیں بدکاریوں سے ممانعت ہے ۔ کہیں دنیا کی طرف سے زہد کرنے کی ، کہیں آخرت کی طرف رغبت کرنے کی تعلیم ہے ۔ یہی وہ تمام آیتیں ہیں جو راہ راست دکھاتی ہیں اور بہتر رہنمائی کرتی ہیں اللہ کی پسندیدہ شریعت کی طرف جھکاتی ہیں اور دلوں کو جلا دیتی ہیں اور شیطانی دروازوں کو بند کر دیتی ہے اور برے اثرات کو زائل کرتی ہیں ۔ صحیح بخاری مسلم میں بروایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر نبی کو ایسے معجزے دئیے گئے کہ جنہیں دیکھ کر لوگ اس پر ایمان لائے اور میرا معجزہ اللہ کی وحی یعنی قرآن پاک ہے اس لیے مجھے امید ہے کہ میرے تابعدار بہ نسبت اور نبیوں کے بہت زیادہ ہوں گے ۔ (صحیح بخاری:4981:صحیح) اس لیے کہ اور انبیاء علیہم السلام کے معجزے ان کے ساتھ چلے گئے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معجزہ قیامت تک باقی رہے گا ۔ لوگ اسے دیکھتے جائیں گے اور اسلام میں داخل ہوتے جائیں گے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ میرا معجزہ وحی ہے جو مجھ کو دی گئی ہے کا مطلب یہ ہے کہ مجھ کو اس کے ساتھ مخصوص کیا گیا ہے اور قرآن کریم مجھی کو ملا ہے جو اپنے معارضے اور مقابلے میں تمام دنیا کو عاجز کر دینے والا ہے ۔ بخلاف دوسری آسمانی کتابوں کے وہ اکثر علماء کے نزدیک اس وصف سے خالی ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور دین اسلام کی حقانیت پر اس معجزے کے علاوہ بھی اس قدر دلائل ہیں جو گنے بھی نہیں جا سکتے ۔ للہ الحمد والمنتہ ۔ بعض متکلمین نے قرآن کریم کے اعجاز کو ایسے انداز سے بیان کیا ہے جو اہل سنت کے اور معتزلہ کے قول پر مشترک ہے وہ کہتے ہیں کہ یا تو یہ قرآن فی نفسہ معجزہ ہے جو انسان کے امکان میں ہی نہیں کہ اس جیسا بنا لا سکے انہیں اس کا معارضہ کرنے کی قدرت و طاقت ہی نہیں ۔ یا یہ کہ گو اس کا معارضہ ممکن ہے اور انسانی طاقت سے باہر نہیں لیکن باوجود اس کے انہیں معارضہ کا چیلنج دیا جاتا ہے اس لیے کہ وہ عداوت اور دشمنی میں بڑھے ہوئے ہیں دین حق کو مٹانے ، ہر وقت ہر طاقت کے خرچ کرنے اور ہر چیز کے برباد کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن تاہم قرآن کا معارضہ اور مقابلہ ان سے نہیں ہو سکتا ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن اللہ کی جانب سے ہے اگر قدرت و طاقت ہو بھی تو بھی وہ انہیں روک دیتا ہے اور وہ قرآن کی مثل پیش کرنے سے عاجز ہو جاتے ہیں ۔ گو یہ پچھلی وجہ اتنی پسندیدہ نہیں تاہم اگر اسے بھی مان لیا جائے تو اس سے بھی قرآن پاک کا معجزہ ہونا ثابت ہوئے جو بطریق تنزل حمایت حق اور مناظرے کی خاطر صلاحیت رکھتا ہے ۔ امام رازی رحمہ اللہ نے بھی چھوٹی چھوٹی سورتوں کے سوال کے جواب میں یہی طریقہ اختیار کیا ہے ۔ جہنم کا ایندھن وقود کے معنی ایندھن کے ہیں جس سے آگ جلائی جائے ۔ جیسے چپٹیاں لکڑیاں وغیرہ قرآن کریم میں ایک جگہ ہے آیت «وَأَمَّا الْقَاسِطُونَ فَکَانُوا لِجَہَنَّمَ حَطَبًا» ( 72 ۔ الجن : 15 ) ظالم لوگ جہنم کی لکڑیاں ہیں اور جگہ فرمایا تم اور تمہارے معبود جو اللہ کے سوا ہیں جہنم کی لکڑیاں ہیں تم سب اس میں وارد ہو گے اگر وہ سچے معبود ہوتے تو وہاں وارد نہ ہوتے دراصل یہ سب کے سب اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ۔ اور حجارہ کہتے ہیں پتھر کو یہاں مراد گندھک کے سخت سیاہ اور بڑے بڑے اور بدبودار پتھر ہیں جن کی آگ بہت تیز ہوتی ہے اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ رکھے ۔ (آمین) سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ان پتھروں کو زمین و آسمان کی پیدائش کے ساتھ ہی آسمان اول پر پیدا کیا گیا ہے ۔ ( ابن جریر ابن ابی حاتم مستدرک حاکم ) سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور چند اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے سدی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ جہنم میں یہ سیاہ گندھک کے پتھر بھی ہیں جن کی سخت آگ سے کافروں کو عذاب کیا جائے گا ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ان پتھروں کی بدبو مردار کی بو سے بھی زیادہ ہے محمد بن علی اور ابن جریج رحمہ اللہ بھی کہتے ہیں کہ مراد گندھک کے بڑے بڑے اور سخت پتھر ہیں ۔ بعض نے کہا ہے مراد وہ پتھر جن کی مورتیاں بنائی جاتی ہیں اور پھر ان کی پرستش کی جاتی تھی جیسے اور جگہ ہے آیت «اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ اَنْتُمْ لَہَا وٰرِدُوْنَ» ( 21 ۔ الانبیآء : 98 ) تم اور تمہارے وہ معبود جو اللہ کے سوا ہیں جہنم کی لکڑیاں ہیں ، قرطبی اور رازی رحمہ اللہ نے اسی قول کو ترجیح دی ہے اور کہا ہے کہ گندھک کے پتھر جو کسی شکل میں بھی اللہ کے سوا پوجے جاتے ہوں لیکن یہ وجہ کوئی قوی وجہ نہیں اس لیے کہ جب آگ گندھک کے پتھروں سے سلگائی جائے تو ظاہر ہے کہ اس کی تیزی اور حرارت معمولی آگ سے بہت زیادہ ہو گی اس کا بھڑکنا جلنا سوزش اور شعلے بھی بہت زیادہ ہوں گے علاوہ اس کے پھر سلف سے بھی اس کی تفسیر یہی مروی ہے اسی طرح ان پتھروں میں آگ کا لگنا بھی ظاہر ہے ۔ اور آیت کا مقصود آگ کی اور اس کی سوزش کا بیان کرنا ہے اور اس کے بیان کے لیے بھی یہاں پتھر سے مراد گندھک کے پتھر لینا زیادہ مناسب ہے تاکہ وہ آگ تیز ہو اور اس سے بھی عذاب میں سختی ہو قرآن کریم میں ہے آیت «کُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰہُمْ سَعِیْرًا» ( 17 ۔ الاسرآء : 97 ) جہاں شعلے ہلکے ہوئے کہ ہم نے اور بھڑکا دیا ۔ ایک حدیث میں ہے ہر موذی آگ میں ہے لیکن یہ حدیث محفوظ اور معروف نہیں ۔ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کے دو معنی ہیں ایک یہ کہ ہر وہ شخص جو دوسروں کو ایذاء دے جہنمی ہے دوسرے یہ کہ ہر ایذاء دہندہ چیز جہنم کی آگ میں موجود ہو گی جو جہنمیوں کو عذاب دے گی ۔ اعدت یعنی تیار کی گئی ہے مراد بظاہر یہی معلوم ہوتی ہے کہ وہ آگ کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مراد پتھر ہوں یعنی وہ پتھر جو کافروں کے لیے تیار کئے گئے ہیں ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما کا یہی قول ہے اور فی الحقیقت دونوں معنی میں کوئی اختلاف نہیں اس لیے کہ پتھروں کا تیار کیا جانا آگ کے جلانے کے لیے ہے ۔ لہٰذا آگ کی تیاری کے لیے پتھروں کا تیار کیا جانا ضروری ہے ۔ پس دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ہر وہ شخص جو کفر پر ہو اس کے لیے وہ آگ تیار ہے ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:383/1) اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے کہ جہنم اب موجود اور پیدا شدہ ہے کیونکہ ”اعدت“ کا لفظ ہی اس کی دلیل میں آیا ہے بہت سی حدیثیں بھی ہیں ۔ ایک مطول حدیث میں ہے جنت اور دوزخ میں جھگڑا ہوا ، (صحیح بخاری:4850:صحیح) دوسری حدیث میں ہے جہنم نے اللہ تعالیٰ سے دو سانس لینے کی اجازت چاہی اور اسے سردی میں ایک سانس لینے اور گرمی میں دوسرا سانس لینے کی اجازت دے دی گئی ۔ (صحیح بخاری:537) تیسری حدیث میں ہے صحابہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں ہم نے ایک مرتبہ بڑے زور کی ایک آواز سنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یہ کس چیز کی آواز ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ستر سال پہلے ایک پتھر جہنم میں پھینکا گیا تھا آج وہ تہہ کو پہنچا ۔ (صحیح مسلم:2844) چوتھی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج گرہن کی نماز پڑھتے ہوئے جہنم کو دیکھا ۔ (صحیح بخاری:1052) پانچویں حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج میں جہنم کو اس میں عذابوں کے سلسلے کو ملاحظہ فرمایا اسی طرح اور بہت سی صحیح متواتر حدیثیں مروی ہیں معتزلہ اپنی جہالت کی وجہ سے انہیں نہیں مانتے قاضی اندلس منذر بن سعید بلوطی نے بھی ان سے اتفاق کیا ہے ۔ مگر یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ یہاں اور سورۃ یونس میں جو کہا گیا ہے کہ ایک ہی سورت کے مانند لاؤ اس میں ہر چھوٹی بڑی آیت شامل ہے اس لیے عربیت کے قاعدے کے مطابق جو اسم نکرہ ہو اور شرط کے طور پر لایا گیا ہو وہ عمومیت کا فائدہ دیتا ہے جیسے کہ نکرہ نفی کی تحت میں استغراق کا فائدہ دیتا ہے پس لمبی سورتوں اور چھوٹی سورتوں سب میں اعجاز ہے اور اس بات پر سلف و خلف کا اتفاق ہے ۔ امام رازی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اگر کوئی کہے کہ سورت کا لفظ سورۃ الکوثر اور سورۃ العصر اور سورۃ «قُلْ یَا أَیٰہَا الْکَافِرُونَ» جیسی چھوٹی سورتوں پر بھی مشتمل ہے اور یہ بھی یقین ہو کہ اس جیسی یا اس کے قریب قریب کسی سورت کا بنا لینا ممکن ہے تو اسے انسانی طاقت سے خارج کہنا نری ہٹ دھرمی اور بے جا طرف داری ہے تو ہم جواب دیں گے کہ ہم نے اس کے معجزہ نما ہونے کے دو طریقے بیان کر کے دوسرے طریقہ کو اسی لیے پسند کیا ہے ۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر یہ چھوٹی سورتیں بھی فصاحت و بلاغت میں اسی پایہ کی ہیں کہ وہ معجزہ کہی جا سکیں اور انکار تعارض ممکن نہ ہو تو مقصود حاصل ہو گیا اور اگر یہ سورتیں ایسی نہیں تو بھی ہمارا مقصود حاصل ہے اس لیے کہ ان جیسی سورتوں کو بنانے کی انسانی قدرت ہونے پر بھی سخت دشمنی اور زبردست کوششوں کے باوجود ناکام رہنا ہے ۔ اس بات کی صاف دلیل ہے کہ یہ قرآن مع اپنی چھوٹی چھوٹی سورتوں کے سراسر معجزہ ہے یہ تو رازی رحمہ اللہ کا کہنا ہے ۔ لیکن صحیح قول یہ ہے کہ قرآن پاک کی ہر بڑی چھوٹی سورت فی الواقع معجزہ ہے اور انسان اس کی مانند بنانے سے محض عاجز اور بالکل بے بس ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر لوگ غورو تدبر سے عقل و ہوش سے سورۃ والعصر کو سمجھ لیں تو انتہائی کافی ہے ۔ سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ جب وفد میں شامل مسیلمہ کذاب کے پاس گئے ( تب یہ خود بھی مسلمان نہیں ہوئے تھے ) تو مسیلمہ نے ان سے پوچھا کہ تم مکہ سے آ رہے ہو بتاؤ تو آج کل کوئی تازہ وحی بھی نازل ہوئی ہے ؟ انہوں نے کہا ابھی ابھی ایک مختصر سی سورت نازل ہوئی ہے جو بے حد فصیح و بلیغ اور جامع اور مانع ہے ۔ پھر سورۃ والعصر پڑھ کر سنائی تو مسلیمہ نے کچھ دیر سوچ کر اس کے مقابلے میں کہا ۔ مجھ پر بھی ایک ایسی ہی سورت نازل ہوئی ہے انہوں نے کہا ہاں تم بھی سناؤ تو اس نے کہا «یاوبریا وبرانما انت اذنان وصدر وسائک حقر فقر» یعنی اے جنگلی چوہے اے جنگلی چوہے تیرا وجود سوائے دو کانوں اور سینے کے اور کچھ بھی نہیں باقی تو سراسر بالکل ناچیز ہے پھر فخریہ کہنے لگا کہو اے عمرو کیسی کہی ؟ انہوں نے کہا مجھ سے کیا پوچھتے ہو تو خود جانتا ہے کہ یہ سراسر کذب و بہتان ہے بھلا کہاں یہ فضول کلام اور کہاں حکمتوں سے بھرپور وہ کلام ؟ البقرة
24 البقرة
25 اعمال وجہ بشارت چونکہ پہلے کافروں اور دشمنان دین کی سزا عذاب اور رسوائی کا ذکر ہوا تھا اس لیے یہاں ایمانداروں اور نیک صالح لوگوں کی جزا ثواب اور سرخروئی کا بیان کیا گیا ہے ۔ قرآن کے مثانی ہونے کے ایک معنی یہ بھی ہیں جو صحیح تر قول بھی ہے کہ اس میں ہر مضمون تقابلی جائزہ کے ساتھ ہوا ہے اس کا مفصل بیان بھی کسی مناسب جگہ آئے گا مطلب یہ ہے کہ ایمان کے ساتھ ہی کفر کا ۔ کفر کے ساتھ ایمان کا ۔ نیکوں کے ساتھ بدوں کا ۔ اور بدوں کے ساتھ نیکوں کا ذکر ضرور آتا ہے جس چیز کا بیان ہوتا ہے اس کے مقابلہ کی چیز کا بھی ذکر کر دیا جاتا ہے چاہے معنی میں متشابہ ہوں ، یہ دونوں لفظ قرآن کے اوصاف میں وارد ہوئے ہیں اسے مثانی بھی کہا گیا ہے اور متشابہ بھی فرمایا گیا ہے ۔ جنتوں میں نہریں بہنا اس کے درختوں اور بالاخانوں کے نیچے بہنا ہے حدیث شریف میں ہے کہ نہریں بہتی ہیں لیکن گڑھا نہیں ، (ابو نعیم فی الحلیۃ:205/6:صحیح موقوفاً ضعیف مرفوعاً) اور حدیث میں ہے کہ نہر کوثر کے دونوں کنارے سچے موتیوں کے قبے ہیں اس کی مٹی مشک خالص ہے اور اس کی کنکریاں لولو اور جواہر ہیں ۔ (صحیح بخاری:6581:صحیح) اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں بھی یہ نعمتیں عطا فرمائے وہ احسان کرنے والا بڑا رحیم ہے ۔ حدیث میں ہے جنت کی نہریں مشکی پہاڑوں کے نیچے سے جاری ہوتی ہیں ۔ (صحیح ابن حبان:7408:حسن صحیح) سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی یہ مروی ہے جنتیوں کا یہ قول کہ پہلے بھی ہم کو یہ میوے دیے گئے تھے اس سے مراد یہ ہے کہ دنیا میں بھی یہ میوے ہمیں ملے تھے صحابہ رضی اللہ عنہم اور ابن جریر رحمہ اللہ نے بھی اس کی تائید کی ہے بعض کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ہم اس سے پہلے یعنی سابقہ کل بھی یہی دیے گئے تھے ، یہ اس لیے کہیں گے کہ ظاہری صورت و شکل میں وہ بالکل مشابہ ہوں گے ۔ یحییٰ بن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک پیالہ آئے گا کھائیں گے پھر دوسرا آئے گا تو کہیں گے یہ تو ابھی کھایا ہے فرشتے کہیں گے کھائیے تو اگرچہ صورت شکل میں یکساں ہیں لیکن مزہ اور ہے ۔ فرماتے ہیں جنت کی گھاس زعفران ہے اس کے ٹیلے مشک کے ہیں ۔ چھوٹے چھوٹے خوبصورت غلمان ادھر ادھر سے میوے لا لا کر پیش کر رہے ہیں وہ کھا رہے ہیں وہ پھر پیش کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں اسے تو ابھی کھایا ہے وہ جواب دیتے ہیں رنگ روپ ایک ہے لیکن ذائقہ اور ہی ہے چکھ کر دیکھئیے کھاتے ہیں تو اور ہی لطف پاتے ہیں یہی معنی ہیں کہ ہم شکل لائیں جائیں گے ۔ دنیا کے میووں سے بھی اور نام شکل اور صورت میں بھی ملتے جلتے ہوں گے لیکن مزہ کچھ دوسرا ہی ہو گا ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:90/1) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ صرف نام میں مشابہت ہے ورنہ کہاں یہاں کی چیز کہاں وہاں کی ؟ یہاں تو فقط نام ہی ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:392/1) عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ کا قول ہے دنیا کے پھلوں جیسے پھل دیکھ کر کہہ دیں گے کہ یہ تو دنیا میں کھا چکے ہیں مگر جب چکھیں گے تو لذت کچھ اور ہی ہو گی ۔ وہاں جو بیویاں انہیں ملیں گی وہ گندگی ناپاکی حیض و نفاس پیشاب ، پاخانہ ، تھوک ، رینٹ ، منی وغیرہ سے پاک صاف ہوں گی ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:396/1) حواء علیہما السلام بھی حیض سے پاک تھیں لیکن نافرمانی سرزد ہوتے ہی یہ بلا آ گئی (تفسیر ابن جریر الطبری:550) یہ قول سنداً غریب ہے ایک غریب مرفوع حدیث میں ہے کہ حیض پاخانہ تھوک رینٹ سے وہ پاک ہیں ۔ (ابو نعیم فی صفۃ الجنۃ:363) اس حدیث کے راوی عبدالرزاق بن عمر یزیعی ہیں مستدرک حاکم میں بیان کیا جنہیں ابوحاتم البستی نے احتجاج کے قابل نہیں سمجھا ۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مرفوع حدیث نہیں بلکہ قتادہ رحمہ اللہ کا قول ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ان تمام نعمتوں کے ساتھ اس زبردست نعمت کو دیکھئیے کہ نہ یہ نعمتیں فنا ہوں ۔ نہ نعمتوں والے فنا ہوں نہ نعمتیں ان سے چھنیں نہ یہ نعمتوں سے الگ کئے جائیں ۔ نہ موت ہے نہ خاتمہ ہے نہ آخر ہے نہ ٹوٹنا اور کم ہونا ہے ، اللہ رب العالمین جواد و کریم برورحیم سے التجا ہے کہ وہ مالک ہمیں بھی اہل جنت کے زمرے میں شامل کرے اور انہیں کے ساتھ ہمارا حشر کرے ۔ (آمین) ۔ البقرة
26 اللہ جل شانہ کی مثالیں اور دنیا سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور چند صحابہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ جب اوپر کی تین آیتوں میں منافقوں کی دو مثالیں بیان ہوئیں یعنی آگ اور پانی کی تو وہ کہنے لگے کہ ایسی ایسی چھوٹی مثالیں اللہ تعالیٰ ہرگز بیان نہیں کرتا ۔ اس پر یہ دونوں آیتیں نازل ہوئیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:398/1) قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب قرآن پاک میں مکڑی اور مکھی کی مثال بیان ہوئی تو مشرک کہنے لگے بھلا ایسی حقیر چیزوں کے بیان کی قرآن جیسی اللہ کی کتاب میں کیا ضرورت تو جواباً یہ آیتیں اتریں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:399/1) اور کہا گیا کہ حق کے بیان سے اللہ تعالیٰ نہیں شرماتا خواہ وہ کم ہو یا زیادہ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مکہ میں اتری حالانکہ ایسا نہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اور بزرگوں سے بھی اس طرح کا شان نزول مروی ہے ۔ ربیع بن انس رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ خود ایک مستقل مثال ہے جو دنیا کے بارے میں بیان کی گئی ۔ مچھر جب تک بھوکا ہوتا ہے زندہ رہتا ہے جہاں موٹا تازہ ہوا مرا ۔ اسی طرح یہ لوگ ہیں کہ جب دنیاوی نعمتیں دل کھول کر حاصل کر لیتے ہیں وہیں اللہ کی پکڑ آ جاتی ہے جیسے اور جگہ فرمایا آیت «فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُکِّرُوْا بِہٖ فَتَحْنَا عَلَیْہِمْ اَبْوَابَ کُلِّ شَیْءٍ» ( 6 ۔ الانعام : 44 ) جب یہ ہماری نصیحت بھول جاتے ہیں تو ہم ان پر تمام چیزوں کے دروازے کھول دیتے ہیں یہاں تک کہ اترانے لگتے ہیں اب دفعتہً ہم انہیں پکڑ لیتے ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:398/1) امام ابن جریر رحمہ اللہ نے پہلے قول کو پسند فرمایا ہے اور مناسبت بھی اسی کی زیادہ اچھی معلوم ہوتی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» تو مطلب یہ ہوا کہ مثال چھوٹی سے چھوٹی ہو یا بڑی سے بڑی بیان کرنے سے اللہ تعالیٰ نہ رکتا ہے نہ جھجھکتا ہے ۔ لفظ ما یہاں پر کمی کے معنی بتانے کے لیے ہے اور «بعوضۃ» کا زیر بدلیت کی بنا پر عربی قاعدے کے مطابق ہے جو ادنیٰ سے ادنیٰ چیز پر صادق آ سکتا ہے یا ” ما “ نکرہ موصوفہ ہے اور «بعوضہ» صفت ہے ابن جریر ” ما “ کا موصولہ ہونا اور “ بعوضہ “ کا اسی اعراب سے معرب ہونا پسند فرماتے ہیں اور کلام عرب میں یہ بکثرت رائج ہے کہ وہ ما اور من کے صلہ کو انہی دونوں کا اعراف دیا کرتے ہیں اس لیے کہ کبھی یہ نکرہ ہوتے ہیں اور کبھی معرفہ جیسے سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے شعروں میں ہے ۔ «یکفی بنا فضلا علی من غیرنا حب النبی محمد ایانا» ہمیں غیروں پر صرف یہی فضیلت کافی ہے کہ ہمارے دل حُبِّ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پر ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ “ بعوضہ “ منصوب ہو حذف جار کی بنا پر اور اس سے پہلے اور بین کا لفظ مقدر مانا جائے ۔ کسائی رحمہ اللہ اور فراء رحمہ اللہ اسی کو پسند کرتے ہیں ضحاک رحمہ اللہ اور ابراہیم بن عبلہ رحمہ اللہ «بعوضہ» پڑھتے ہیں ۔ ابن جنبی رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ «ما» کا صلہ ہو گا اور عائد حذف مانی جائے گی جیسے آیت «تَمَامًا عَلَی الَّذِی أَحْسَنَ» ( 6-الأنعام : 154 ) میں «فما فوقھا» کے دو معنی بیان کئے ہیں ایک تو یہ کہ اس سے بھی ہلکی اور ردی چیز ۔ جیسے کسی شخص کی بخیلی کا ایک شخص ذکر کرے تو دوسرا کہتا ہے وہ اس سے بھی بڑھ کر ہے تو مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ اس سے بھی زیادہ گرا ہوا ہے ۔ کسائی رحمہ اللہ اور ابوعبیدہ رحمہ اللہ یہی کہتے ہیں ۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ اگر دنیا کی قدر اللہ کے نزدیک ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتا ۔ (سنن ترمذی:2320 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) دوسرے یہ معنی ہیں کہ اس سے زیادہ بڑی اس لیے کہ بھلا مچھر سے ہلکی اور چھوٹی چیز اور کیا ہو گی ؟ قتادہ بن دعامہ رحمہ اللہ کا یہی قول ہے ۔ ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں ۔ صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ جس کسی مسلمان کو کانٹا چبھے یا اس سے زیادہ تو اس پر بھی اس کے درجے بڑھتے ہیں اور گناہ مٹتے ہیں ۔ (صحیح مسلم:2572:صحیح) اس حدیث میں بھی یہی لفظ «فوقھا» ہے تو مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ ان چھوٹی بڑی چیزوں کے پیدا کرنے سے شرماتا نہیں اور نہ رکتا ہے ۔ اسی طرخ انہیں مثال کے طور پر بیان کرنے سے بھی اسے عار نہیں ۔ ایک جگہ قرآن میں کہا گیا ہے «یَا أَیٰہَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَہُ إِنَّ الَّذِینَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللہِ لَن یَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَہُ وَإِن یَسْلُبْہُمُ الذٰبَابُ شَیْئًا لَّا یَسْتَنقِذُوہُ مِنْہُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ» ( 22-الحج : 73 ) کہ اے لوگو ایک مثال بیان کی جاتی ہے کان لگا کر سنو جنہیں اللہ کے سوا پکار سکتے ہو وہ سارے کے سارے جمع ہو جائیں تو بھی ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے بلکہ مکھی اگر ان سے کچھ چھین لے جائے تو یہ اس سے واپس نہیں لے سکتے ۔ عابد اور معبود دونوں ہی بے حد کمزور ہیں ۔ دوسری جگہ فرمایا «مَثَلُ الَّذِینَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللہِ أَوْلِیَاءَ کَمَثَلِ الْعَنکَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَیْتًا وَإِنَّ أَوْہَنَ الْبُیُوتِ لَبَیْتُ الْعَنکَبُوتِ لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ» ( 29-العنکبوت : 41 ) ان لوگوں کی مثال جو اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو مددگار بناتے ہیں مکڑی کے جالے جیسی ہے جس کا گھر تمام گھروں سے زیادہ بودا اور کمزور ہے ۔ اور جگہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے «أَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَفَرْعُہَا فِی السَّمَاءِ ؤْتِی أُکُلَہَا کُلَّ حِینٍ بِإِذْنِ رَبِّہَا وَیَضْرِبُ اللہُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُونَ مَثَلُ کَلِمَۃٍ خَبِیثَۃٍ کَشَجَرَۃٍ خَبِیثَۃٍ اجْتُثَّتْ مِن فَوْقِ الْأَرْضِ مَا لَہَا مِن قَرَارٍ یُثَبِّتُ اللہُ الَّذِینَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا وَفِی الْآخِرَۃِ وَیُضِلٰ اللہُ الظَّالِمِینَ وَیَفْعَلُ اللہُ مَا یَشَاءُ» ( 14-إبراہیم : 24 - 27 ) کلمہ طیبہ کی مثال پاک درخت سے دی جس کی جڑ مضبوط ہو اور جس کی شاخیں آسمان میں ہوں جو بحکم اللہ ہر وقت پھل دیتا ہو ۔ ان مثالوں کو اللہ تعالیٰ لوگوں کے غورو تدبر کے لیے بیان فرماتا ہے اور ناپاک کلام کی مثال ناپاک درخت جیسی ہے جو زمین کے اوپر اوپر ہی ہو اور جڑیں مضبوط نہ ہوں اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو مضبوط بات کے ساتھ دنیا اور آخرت میں برقرار رکھتا ہے اور ظالموں کو گمراہ کرنا ہے اللہ جو چاہے کرے ۔ دوسری جگہ فرمایا «ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا عَبْدًا مَّمْلُوکًا لَّا یَقْدِرُ عَلَیٰ شَیْءٍ وَمَن رَّزَقْنَاہُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا» ( 16-النحل : 75 ) اللہ تعالیٰ اس مملوک غلام کی مثال پیش کرتا ہے جسے کسی چیز پر اختیار نہیں ۔ اور جگہ فرمایا «وَضَرَبَ اللہُ مَثَلًا رَّجُلَیْنِ أَحَدُہُمَا أَبْکَمُ لَا یَقْدِرُ عَلَیٰ شَیْءٍ وَہُوَ کَلٌّ عَلَیٰ مَوْلَاہُ أَیْنَمَا یُوَجِّہہٰ لَا یَأْتِ بِخَیْرٍ ہَلْ یَسْتَوِی ہُوَ وَمَن یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ » ( 16-النحل : 76 ) دو شخصوں کی مثال اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے جن میں سے ایک تو گونگا اور بالکل گرا پڑا بےطاقت ہے جو اپنے آقا پر بوجھ ہے جہاں جائے برائی ہی لے کر آئے اور دوسرا وہ جو عدل و حق کا حکم کرے ، کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ دوسری جگہ ہے «ضَرَبَ لَکُم مَّثَلًا مِّنْ أَنفُسِکُمْ ہَل لَّکُم مِّن مَّا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُم مِّن شُرَکَاءَ فِی مَا رَزَقْنَاکُمْ» ( 30-الروم : 28 ) اللہ تعالیٰ تمہارے لیے خود تمہاری مثال بیان فرماتا ہے کیا تم اپنی چیزوں میں اپنے غلاموں کو بھی اپنا شریک اور برابر کا حصہ دار سمجھتے ہو ؟ اور جگہ ارشاد ہے «ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا رَّجُلًا فِیہِ شُرَکَاءُ مُتَشَاکِسُونَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ» ( 39-الزمر : 29 ) ان مثالوں کو ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں اور «وَتِلْکَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ وَمَا یَعْقِلُہَا إِلَّا الْعَالِمُونَ» ( 29-العنکبوت : 43 ) انہیں ( پوری طرح ) صرف علم والے ہی سمجھتے ہیں ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی مثالیں قرآن پاک میں بیان ہوئی ہیں ۔ بعض سلف صالحین فرماتے ہیں جب میں قرآن کی کسی مثال کو سنتا ہوں اور سمجھ نہیں سکتا تو مجھے رونا آتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ ان مثالوں کو صرف عالم ہی سمجھ سکتے ہیں ۔ مجاہدرحمہ اللہ فرماتے ہیں مثالیں خواہ چھوٹی ہوں خواہ بڑی ایماندار ان پر ایمان لاتے ہیں اور انہیں حق جانتے ہیں اور ان سے ہدایت پاتے ہیں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:93/1) قتادہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ وہ انہیں اللہ کا کلام سمجھتے ہیں ۔ «انہ» کی ضمیر کا مرجع مثال ہے یعنی مومن اس مثال کو اللہ کی جانب سے اور حق سمجھتے ہیں اور کافر باتیں بناتے ہیں جیسے سورۃ المدثر میں آیت «وَمَا جَعَلْنَآ اَصْحٰبَ النَّارِ اِلَّا مَلٰیِٕکَۃً» ( 74 ۔ المدثر : 31 ) یعنی ہم نے آگ والے فرشتوں کی گنتی کو کفار کی آزمائش کا سبب بنایا ہے ۔ اہل کتاب یقین کرتے ہیں اور ایماندار ایمان میں بڑھ جاتے ہیں ۔ ان دونوں جماعتوں کو کوئی شک نہیں رہتا لیکن بیمار دل اور کفار کہہ اٹھتے ہیں کہ اس مثال سے کیا مراد ؟ اسی طرح اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے ۔ تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ یہاں بھی اسی ہدایت و ضلالت کو بیان کیا ۔ ایک ہی مثال کے دو ردعمل کیوں؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ اس سے گمراہ منافق ہوتے ہیں اور مومن راہ پاتے ہیں ۔ گمراہ اپنی گمراہی میں بڑھ جاتے ہیں کیونکہ اس مثال کے درست اور صحیح ہونے کا علم ہونے کے باوجود اسے جھٹلاتے ہیں اور مومن اقرار کر کے ہدایت ایمان کو بڑھا لیتے ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:408/1) فاسقین سے مراد منافق ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کافر مراد ہیں جو پہچانتے ہیں اور انکار کرتے ہیں ۔ سعد کہتے ہیں مراد خوارج ہیں ۔ اگر اس قول کی سند سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تک صحیح ہو تو مطلب یہ ہو گا کہ یہ تفسیر معنوی ہے اس سے مراد خوارج نہیں ہیں بلکہ یہ ہے کہ یہ فرقہ بھی فاسقوں میں داخل ہے ۔ جنہوں نے نہروان میں سیدنا علی رضی اللہ عنہما پر چڑھائی کی تھی تو یہ لوگ گو نزول آیت کے وقت موجود نہ تھے لیکن اپنے بدترین وصف کی وجہ سے معناً فاسقوں میں داخل ہیں ۔ انہیں خارجی اس لیے کہا گیا ہے کہ امام کی اطاعت سے نکل گئے تھے اور شریعت اسلام کی پابندی سے آزاد ہو گئے تھے ۔ لغت میں فاسق کہتے ہیں اطاعت اور فرمانبرداری سے نکل جانے کو ۔ جب چھلکا ہٹا کر خوشہ نکلتا ہے تو عرب کہتے ہیں «فسقت» چوہے کو بھی «فویسقہ» کہتے ہیں کیونکہ وہ اپنے بل سے نکل کر فساد کرتا ہے ۔ صحیحین کی حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانچ جانور فاسق ہیں حرم میں اور حرم سے باہر کے قتل کر دئیے جائیں ۔ کوا ، چیل ، بچھو ، چوہا اور کالا کتا ۔ (صحیح بخاری:3314:صحیح) پس لفظ فاسق کافر کو اور ہر نافرمان کو شامل ہے لیکن کافر فسق زیادہ سخت اور زیادہ برا ہے اور آیت میں مراد فاسق سے کافر ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اس کی بڑی دلیل یہ ہے کہ بعد میں ان کا وصف یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا عہد توڑتے ہیں ۔ اس کے فرمان کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور یہ سب اوصاف کفار کے ہیں ۔ مومنوں کے اوصاف تو اس کے برخلاف ہوتے ہیں جیسے سورۃ الرعد میں بیان ہے کہ آیت «أَفَمَن یَعْلَمُ أَنَّمَا أُنزِلَ إِلَیْکَ مِن رَّبِّکَ الْحَقٰ کَمَنْ ہُوَ أَعْمَیٰ إِنَّمَا یَتَذَکَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ الَّذِینَ یُوفُونَ بِعَہْدِ اللہِ وَلَا یَنقُضُونَ الْمِیثَاقَ وَالَّذِینَ یَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللہُ بِہِ أَن یُوصَلَ وَیَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ وَیَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ» ( 13-الرعد : 19 - 21 ) کیا پس وہ شخص جو جانتا ہے کہ جو کچھ تیرے رب کی طرف سے تجھ پر اترا وہ حق ہے کیا اس شخص جیسا ہو سکتا ہے جو اندھا ہو ؟ نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں جو اللہ کے وعدوں کو پورا کرتے ہیں اور میثاق نہیں توڑتے اور اللہ تعالیٰ نے جن کاموں کے جوڑنے کا حکم دیا ہے انہیں جوڑتے ہیں اپنے رب سے ڈرتے رہتے ہیں اور حساب کی برائی سے کانپتے رہتے ہیں ۔ آگے چل کر فرمایا «وَالَّذِینَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْہِ رَبِّہِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاہُمْ سِرًّا وَعَلَانِیَۃً وَیَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ أُولٰئِکَ لَہُمْ عُقْبَی الدَّارِ جَنَّاتُ عَدْنٍ یَدْخُلُونَہَا وَمَن صَلَحَ مِنْ آبَائِہِمْ وَأَزْوَاجِہِمْ وَذُرِّیَّاتِہِمْ وَالْمَلَائِکَۃُ یَدْخُلُونَ عَلَیْہِم مِّن کُلِّ بَابٍ سَلَامٌ عَلَیْکُم بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ وَالَّذِینَ یَنقُضُونَ عَہْدَ اللہِ مِن بَعْدِ مِیثَاقِہِ وَیَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللہُ بِہِ أَن یُوصَلَ وَیُفْسِدُونَ فِی الْأَرْضِ أُولٰئِکَ لَہُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَہُمْ سُوءُ الدَّارِ» ( 13-الرعد : 22 - 25 ) جو لوگ اللہ کے عہد کو اس کی مضبوطی کے بعد توڑ دیں اور جس چیز کو ملانے کا اللہ کا حکم ہو وہ اسے نہ ملائیں اور زمین میں فساد پھیلائیں ان کے لیے لعنتیں ہیں اور ان کے لیے برا گھر ہے ۔ یہاں عہد سے مراد وہ وصیت ہے جو اللہ نے بندوں کو کی تھی جو اس کے تمام احکام بجا لانے اور تمام نافرمانیوں سے بچنے پر مشتمل ہے ۔ اس کا توڑ دینا اس پر عمل نہ کرنا ہے ۔ بعض کہتے ہیں عہد توڑنے والے اہل کتاب کے کافر اور ان کے منافق ہیں اور عہد وہ ہے جو ان سے تورات میں لیا گیا تھا کہ وہ اس کی تمام باتوں پر عمل کریں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کریں جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار کریں اور جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی جانب سے لے کر آئیں اس کی تصدیق کریں اور اس عہد کو توڑ دینا یہ ہے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا علم ہونے کے باوجود الٹا اطاعت سے انکار کر دیا اور باوجود عہد کا علم ہونے کے اسے چھپایا دنیاوی مصلحتوں کی بنا پر اس کا الٹ کیا ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ اس قول کو پسند کرتے ہیں اور مقاتل بن حیان رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد کوئی خاص جماعت نہیں بلکہ شک و کفر و نفاق والے سب کے سب مراد ہیں ۔ عہد سے مراد توحید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار کرانا ہے جن کی دلیل میں کھلی ہوئی نشانیاں اور بڑے بڑے معجزے موجود ہیں اور اس عہد کو توڑ دینا توحید و سنت سے منہ موڑنا اور انکار کرنا ہے یہ قول اچھا ہے زمحشری رحمہ اللہ کا میلان بھی اسی طرح ہے وہ کہتے ہیں عہد سے مراد اللہ تعالیٰ کی توحید ماننے کا اقرار ہے جو فطرت انسان میں داخل ہونے کے علاوہ روز میثاق بھی منوایا گیا ہے ۔ فرمایا گیا تھا کہ آیت «وَإِذْ أَخَذَ رَبٰکَ مِن بَنِی آدَمَ مِن ظُہُورِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَأَشْہَدَہُمْ عَلَیٰ أَنفُسِہِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوا بَلَیٰ شَہِدْنَا» (7-الأعراف:172) کیا میں تمہارا رب ہوں ؟ تو سب نے جواب دیا تھا «بَلَیٰ» بیشک تو ہمارا رب ہے ۔ پھر وہ کتابیں دی گئیں ان میں بھی اقرار کرایا گیا جیسے فرمایا آیت «وَأَوْفُوا بِعَہْدِی أُوفِ بِعَہْدِکُمْ وَإِیَّایَ فَارْہَبُونِ» ( البقرۃ : 40 ) میرے عہد کو نبھاؤ میں بھی اپنے وعدے پورے کروں گا ۔ بعض کہتے ہیں وہ عہد مراد ہے جو روحوں سے لیا گیا تھا جب وہ آدم علیہ السلام کی پیٹھ سے نکالی گئی تھیں جیسے فرماتا ہے آیت «وَاِذْ اَخَذَ رَبٰکَ مِنْ بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَاَشْہَدَہُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ قَالُوا بَلَیٰ ۛ شَہِدْنَا» (7-الأعراف:172) جب تیرے رب نے اولاد آدم سے وعدہ لیا کہ میں ہی تمہارا رب ہوں اور ان سب نے اقرار کیا ۔ اور اس کا توڑنا اس سے انحراف ہے ۔ یہ تمام اقوال تفسیر ابن جریر میں منقول ہیں ۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں عہد اللہ کو توڑنا منافقوں کا کام ہے جن میں یہ چھ خصلتیں ہوتی ہیں ۔ بات کرنے میں جھوٹ بولنا ، وعدہ خلافی کرنا ، امانت میں خیانت کرنا ، اللہ کے عہد کو مضبوطی کے بعد توڑ دینا ، اللہ تعالیٰ نے جن رشتوں کے ملانے کا حکم دیا ہے ، انہیں نہ ملانا ، زمین میں فساد پھیلانا ۔ یہ چھ خصلتیں ان کی اس وقت ظاہر ہوتی ہیں جب کہ ان کا غلبہ ہو اور جب وہ مغلوب ہوتے ہیں تو تین اگلے کام کرتے ہیں ۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں قرآن کے احکام کو پڑھنا جاننا سچ کہنا پھر نہ ماننا بھی عہد کو توڑنا تھا اللہ تعالیٰ نے جن کاموں کے جوڑنے کا حکم دیا ہے ان سے مراد صلہ رحمی کرنا ، قرابت کے حقوق ادا کرنا وغیرہ ہے ۔ جیسے اور جگہ قرآن مجید میں ہے آیت «فَہَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُـقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْ» ( 47 ۔ محمد : 22 ) قریب ہے کہ تم اگر لوٹو تو زمین میں فساد کرو اور رشتے ناتے توڑ دو ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:416/1) ابن جریر رحمہ اللہ اسی کو ترجیح دیتے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آیت عام ہے یعنی جسے ملانے اور ادا کرنے کا حکم دیا تھا انہوں نے اسے توڑا اور حکم عدولی کی ۔ «خاسرون» سے مراد آخرت میں نقصان اٹھانے والے ہیں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:101/1) جیسے فرمان باری ہے ۔ آیت «اُولٰیِٕکَ لَہُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَہُمْ سُوْءُ الدَّارِ» ( 13 ۔ الرعد : 25 ) ان لوگوں کے لیے لعنت ہے اور ان کے لیے برا گھر ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ اہل اسلام کے سوا جہاں دوسروں کے لیے یہ لفظ آیا ہے وہاں مراد گنہگار ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:417/1) خاسرون جمع ہے خاسر کی ۔ چونکہ ان لوگوں نے نفسیاتی خواہشوں اور دنیوی لذتوں میں پڑ کر رحمت اللہ سے علیحدگی کر لی اس لیے انہیں نقصان یافتہ کہا گیا جیسے وہ شخص جسے اپنی تجارت میں گھاٹا آئے اسی طرح یہ کافر و منافق ہیں یعنی قیامت والے دن جب رحم و کرم کی بہت ہی حاجت ہو گی اس دن رحمت الٰہی سے محروم رہ جائیں گے ۔ البقرة
27 البقرة
28 ٹھوس دلائل پر مبنی دعوت اس بات کا ثبوت دیتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ موجود ہے وہ قدرتوں والا ہے ۔ وہی پیدا کرنے والا اور اختیار والا ہے ۔ اس آیت میں فرمایا تم اللہ تعالیٰ کے وجود سے انکار کیسے کر سکتے ہو ؟ یا اس کے ساتھ دوسرے کو عبادت میں شریک کیسے کر سکتے ہو ؟ جبکہ تمہیں عدم سے وجود میں لانے والا ایک وہی ہے ۔ دوسری جگہ فرمایا کیا یہ بغیر کسی چیز کے پیدا کئے گئے ؟ یا یہ خود پیدا کرنے والے ہیں ؟ انہوں نے زمین و آسمان بھی پیدا کیا ہے ؟ ہرگز نہیں بلکہ یہ بےیقین لوگ ہیں ۔ اور جگہ ارشاد ہوتا ہے آیت «ہَلْ أَتَیٰ عَلَی الْإِنسَانِ حِینٌ مِّنَ الدَّہْرِ لَمْ یَکُن شَیْئًا مَّذْکُورًا» ( 76-الإنسان : 1 ) یقیناً انسان پر وہ زمانہ بھی آیا ہے جس وقت یہ قابل ذکر چیز ہی نہ تھا ۔ اور بھی اس طرح کی بہت سی آیتیں ہیں ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کفار جو کہیں گے آیت «قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ وَأَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَہَلْ إِلَیٰ خُرُوجٍ مِّن سَبِیلٍ» ( 40 ۔ غافر : 11 ) اے اللہ دو دفعہ تو نے ہمیں مارا اور دو دفعہ جلایا ہمیں اپنے گناہوں کا اقرار ہے ۔ اس سے مراد یہی ہے جو اس آیت «وَکُنتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیکُمْ ثُمَّ إِلَیْہِ تُرْجَعُونَ» ( 2 ۔ البقرہ : 28 ) میں ہے مطلب یہ ہے کہ تم اپنے باپوں کی پیٹھ میں مردہ تھے یعنی کچھ بھی نہ تھے ۔ اس نے تمہیں زندہ کیا یعنی پیدا کیا پھر تمہیں مارے گا یعنی موت ایک روز ضرور آئے گی پھر تمہیں قبروں سے اٹھائے گا ۔ پس ایک حالت مردہ پن کی دنیا میں آنے سے پہلے پھر دوسری دنیا میں مرنے اور قبروں کی طرف جانے کی پھر قیامت کے روز اٹھ کھڑے ہونے کی ۔ دو زندگیاں اور دو موتیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:419/1) ابوصالح رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قبر میں انسان کو زندہ کر دیا جاتا ہے ۔ عبدالرحمٰن بن زید رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ آدم علیہ السلام کی پیٹھ میں انہیں پیدا کیا پھر ان سے عہد و پیمان لے کر بے جان کر دیا پھر ماں کے پیٹ میں انہیں پیدا کیا پھر دنیوی موت ان پر آئی پھر قیامت والے دن انہیں زندہ کرے گا لیکن یہ قول غریب ہے ۔ پہلا قول ہی درست ہے ۔ سیدنا ابن مسعود ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور تابعین رحمہ اللہ کی ایک جماعت کا یہی قول ہے ۔ قرآن میں اور جگہ ہے آیت «قُلِ اللّٰہُ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یَجْمَعُکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لَا رَیْبَ فِیْہِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ» ( 45 ۔ الجاثیۃ : 26 ) اللہ ہی تمہیں پیدا کرتا ہے پھر مارتا ہے پھر تمہیں قیامت کے دن جمع کرے گا ۔ ان پتھروں اور تصویروں کو جنہیں مشرکین پوجتے تھے قرآن نے مردہ کہا ۔ فرمایا اموات غیر احیاء وہ سب مردہ ہیں زندہ نہیں ۔ زمین کے بارے میں فرمایا آیت «وَآیَۃٌ لَّہُمُ الْأَرْضُ الْمَیْتَۃُ أَحْیَیْنَاہَا وَأَخْرَجْنَا مِنْہَا حَبًّا فَمِنْہُ یَأْکُلُونَ» ( 36 ۔ یس : 33 ) ان کے لیے مردہ زمین بھی ہماری صداقت کی نشانی ہے جسے ہم زندہ کرتے ہیں اور اس سے دانے نکالتے ہیں جسے یہ کھاتے ہیں ۔ البقرة
29 کچھ اور دلائل اوپر کی آیات میں ان دلائل قدرت کا بیان تھا جو خود انسان کے اندر ہیں اب اس مبارک آیت میں ان دلائل کا بیان ہو رہا ہے جو روز مرہ آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ «اسْتَوَیٰ» یہاں قصد کرنے اور متوجہ ہونے کے معنی میں ہے اس لیے کہ اس کا صلہ «الی» ہے «سَوَّاہُنَّ» کے معنی درست کرنے اور ساتوں آسمان بنانے کے ہیں «سماء» اسم جنس ہے ۔ پھر بیان فرمایا کہ اس کا کا علم محیط کل ہے جیسے ارشاد آیت «اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ» ( 67 ۔ الملک : 14 ) وہ بےعلم ہو کیسے سکتا ہے جو خالق ہو ؟ سورۃ حم سجدہ کی آیت «قُلْ أَئِنَّکُمْ لَتَکْفُرُونَ بِالَّذِی خَلَقَ الْأَرْضَ فِی یَوْمَیْنِ وَتَجْعَلُونَ لَہُ أَندَادًا ذٰلِکَ رَبٰ الْعَالَمِینَ وَجَعَلَ فِیہَا رَوَاسِیَ مِن فَوْقِہَا وَبَارَکَ فِیہَا وَقَدَّرَ فِیہَا أَقْوَاتَہَا فِی أَرْبَعَۃِ أَیَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِینَ ثُمَّ اسْتَوَیٰ إِلَی السَّمَاءِ وَہِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا أَوْ کَرْہًا قَالَتَا أَتَیْنَا طَائِعِینَ فَقَضَاہُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِی یَوْمَیْنِ وَأَوْحَیٰ فِی کُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَہَا وَزَیَّنَّا السَّمَاءَ الدٰنْیَا بِمَصَابِیحَ وَحِفْظًا ذٰلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ» ( 41-فصلت : 9 - 12 ) گویا اس آیت کی تفصیل ہے جس میں فرمایا ہے کیا تم اس اللہ کے ساتھ کفر کرتے ہو ؟ جس نے زمین کو صرف دو دن میں پیدا کیا تم اس کے لیے شریک ٹھہراتے ہو ؟ جو رب العالمین ہے جس نے زمین میں مضبوط پہاڑ اوپر سے گاڑ دئیے جس نے زمین میں برکتیں اور روزیاں رکھیں اور چار دن میں زمین کی سب چیزیں درست کر دیں ۔ جس میں دریافت کرنے والوں کی تشفی ہے پھر آسمانوں کی طرف متوجہ ہو کر جو دھویں کی شکل میں تھے فرمایا کہ اے زمینو اور آسمانو خوشی یا ناخوشی سے آؤ تو دونوں نے کہا باری تعالیٰ ہم تو برضا و خوشی حاضر ہیں ۔ دو دن میں ان ساتوں آسمانوں کو پورا کر دیا اور ہر آسمان میں اس کا کام بانٹ دیا اور دنیا کے آسمان کو ستاروں کے ساتھ مزین کر دیا اور انہیں ( شیطانوں سے ) بچاؤ کا سبب بنایا ۔ یہ ہے اندازہ اس اللہ کا جو بہت بڑا غالب اور بہت بڑے علم والا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ پہلے زمین پیدا کی پھر ساتوں آسمان ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر عمارت کا یہی قاعدہ ہے کہ پہلے نیچے کا حصہ بنایا جائے پھر اوپر کا مفسرین نے بھی اس کی تصریح کی ہے جس کا بیان بھی ابھی آئے گا ۔ ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ لیکن یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے ۔ آیت «ءَاَنْتُمْ اَشَدٰ خَلْقًا اَمِ السَّمَاءُ بَنٰیہَا» ( 79 ۔ النازعات : 27 ) تمہاری پیدائش مشکل ہے یا آسمانوں کی ؟ اللہ تعالیٰ نے اس کے خلا کو بلند کر کے اسے ٹھیک ٹھاک کیا اور ان میں سے رات دن پیدا کئے پھر اس کے بعد زمین پھیلائی اس سے پانی اور چارہ نکالا اور پہاڑوں کو گاڑا جو سب تمہارے اور تمہارے جانوروں کے کام کی چیزیں ہیں ۔ اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ زمین کی پیدائش آسمان کے بعد ہے تو بعض بزرگوں نے تو فرمایا ہے کہ مندرجہ بالا آیت میں «ثم» صرف عطف خبر کے لیے ہے عطف فعل کے لیے نہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:437/1) یعنی یہ مطلب نہیں کہ زمین کے بعد آسمان کی پیدائش شروع کی بلکہ صرف خبر دینا مقصود ہے کہ آسمانوں کو بھی پیدا کیا اور زمینوں کو بھی ۔ عرب شاعروں کے اشعار میں یہ موجود ہے کہ کہیں «ثم» صرف خبر کا خبر پر عطف ڈالنے کے لیے ہوتا ہے تقدیم تاخیر مراد نہیں ہوتی ۔ اور بعض بزرگوں نے فرمایا ہے کہ آیت «ءَاَنْتُمْ» میں آسمانوں کی پیدائش کے بعد زمین کا پھیلانا اور بچھانا وغیرہ بیان ہوا ہے نہ کہ پیدا کرنا ۔ تو ٹھیک یہ ہے کہ پہلے زمین کو پیدا کیا پھر آسمان کو پھر زمین کو ٹھیک ٹھاک کیا اس طرح دونوں آیتیں ایک دوسرے کے مخالف نہ رہیں گی ۔ اس عیب سے اللہ کا کلام بالکل محفوظ ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہی معنی بیان فرمائے ہیں ( یعنی پہلے زمین کی درستی وغیرہ یہ بعد کی چیز ہے ) سیدنا ابن مسعود ، سیدنا ابن عباس اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا اور کسی چیز کو پیدا نہیں کیا تھا جب اور مخلوق کو پیدا کرنا چاہا تو پانی سے دھواں بلند کیا وہ اونچا چڑھا اور اس سے آسمان بنائے پھر پانی خشک ہو گیا اور اس کی زمین بنائی پھر اس کو الگ الگ کر کے سات زمینیں بنائیں اتوار اور پیر کے دو دن میں یہ ساتوں زمینیں بن گئیں ۔ زمین مچھلی پر ہے اور مچھلی وہ ہے جس کا ذکر قرآن مجید کی اس آیت میں ہے آیت ( ن والقلم ) مچھلی پانی میں ہے اور پانی صفاۃ پر ہے اور صفاۃ فرشتے پر اور فرشتے پتھر پر زمین کانپنے لگی تو اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو گاڑ دیا اور وہ ٹھہر گئی ۔ یہی معنی میں اللہ تعالیٰ کے فرمان آیت «وَجَعَلْنَا فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِہِمْ» ( 21 ۔ الانبیآء : 38 ) زمین نہ ہلے اس لیے ہم نے اس میں پہاڑ جما دئیے ہیں ۔ پہاڑ زمین کی پیداوار درخت وغیرہ زمین کی کل چیزیں منگل اور بدھ کے دو دنوں میں پیدا کیں اسی کا بیان آیت «قُلْ أَئِنَّکُمْ لَتَکْفُرُونَ بِالَّذِی خَلَقَ الْأَرْضَ فِی یَوْمَیْنِ وَتَجْعَلُونَ لَہُ أَندَادًا ذٰلِکَ رَبٰ الْعَالَمِینَ وَجَعَلَ فِیہَا رَوَاسِیَ مِن فَوْقِہَا وَبَارَکَ فِیہَا وَقَدَّرَ فِیہَا أَقْوَاتَہَا فِی أَرْبَعَۃِ أَیَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِینَ ثُمَّ اسْتَوَیٰ إِلَی السَّمَاءِ وَہِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا أَوْ کَرْہًا قَالَتَا أَتَیْنَا طَائِعِینَ فَقَضَاہُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِی یَوْمَیْنِ وَأَوْحَیٰ فِی کُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَہَا وَزَیَّنَّا السَّمَاءَ الدٰنْیَا بِمَصَابِیحَ وَحِفْظًا ذٰلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ» ( 41-فصلت : 9 - 12 ) والی آیت میں ہے پھر آسمان کی طرف توجہ فرمائی جو دھواں تھا آسمان بنایا پھر اسی میں ساتھ آسمان بنائے جمعرات اور جمعہ کے دو دنوں میں جمعہ کے دن کو اس لیے جمعہ کہا جاتا ہے کہ اس میں زمین و آسمان کی پیدائش جمع ہو گئی ہر آسمان میں اس نے فرشتوں کو پیدا کیا اور ان ان چیزوں کو جن کا علم اس کے سوا کسی کو نہیں کہ دنیا آسمان کو ستاروں کے ساتھ زینت دی اور انہیں شیطان سے حفاظت کا سبب بنایا ان تمام چیزوں کو پیدا کر کے پروردگار نے عرش عظیم پر قرار پکڑا ۔ جیسے فرماتا ہے آیت «خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ» (7-الأعراف:54) یعنی چھ دن میں آسمانوں اور زمین کو پیدا کر کے پھر عرش پر مستوی ہو گیا اور جگہ فرمایا آیت «کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰہُمَا» ( 21 ۔ الانبیآء : 30 ) یعنی یہ دونوں دھواں سے تھے ہم نے انہیں پھاڑا اور پانی سے ہر چیز کو زندگی دی ( تفسیر سدی ) ( یہ موقوف قول جس میں کئی قسم کا احتمال ہے بہ ظاہراً ایسی اہم بات میں حجت تامہ نہیں ہو سکتا ) ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ابن جریر رحمہ اللہ میں ہے سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اتوار سے مخلوق کی پیدائش شروع ہوئی ۔ دو دن میں زمینیں پیدا ہوئیں دو دن میں ان میں موجود تمام چیزیں پیدا کیں اور دو دن میں آسمانوں کو پیدا کیا جمعہ کے دن آخری وقت ان کی پیدائش ختم ہوئی اور اسی وقت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور اسی وقت میں قیامت قائم ہو گی ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو آسمان سے پہلے پیدا کیا اس سے جو دھواں اوپر چڑھا اس کے آسمان بنائے جو ایک پر ایک اس طرح سات ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:436/1) اور زمینیں ایک نیچے ایک اوپر اس طرح سات ہیں ۔ اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ زمین کی پیدائش آسمانوں سے پہلے ہے جیسے سورۃ السجدہ کی آیت میں ہے ۔ علماء کی اس پر متفق ہیں ۔ صرف قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آسمان زمین سے پہلے پیدا ہوئے ہیں ۔ قرطبی رحمہ اللہ اس میں توقف کرتے ہیں آیت «وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذٰلِکَ دَحَاہَا أَخْرَجَ مِنْہَا مَاءَہَا وَمَرْعَاہَا وَالْجِبَالَ أَرْسَاہَا» ( 79-النازعات : 30 - 32 ) کی آیت کی وجہ سے یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہاں آسمان کی پیدائش کا ذکر زمین سے پہلے ہے ۔ صحیح بخاری میں ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے جب یہ سوال ہوا تو آپ رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ زمین پیدا تو آسمانوں سے پہلے کی گئی ہے لیکن بعد میں پھیلائی گئی ہے ۔ (صحیح بخاری:555/8-مع الفتح) یہی جواب اگلے پچھلے علماء کا ہے ۔ سورۃ النازعات کی تفسیر میں بھی اس کا بیان آئے گا ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ حاصل امر یہ ہے کہ زمین کا پھیلانا اور بچھانا بعد میں ہے اور «دحھا» کا لفظ قرآن میں ہے اور اس کے بعد جو پانی چارہ پہاڑ وغیرہ کا ذکر ہے یہ گویا اس لفظ کی تشریح ہے جن جن چیزوں کی نشوونما کی قوت اس زمین میں رکھی تھی ان سب کو ظاہر کر دیا اور زمین کی پیداوار طرح طرح کی مختلف شکلوں اور مختلف قسموں میں نکل آئی ۔ اسی طرح آسمان میں بھی ٹھہرے رہنے والے چلنے والے ستارے وغیرہ بنائے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» صحیح مسلم اور نسائی میں حدیث میں ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا مٹی کو اللہ تعالیٰ نے ہفتہ والے دن پیدا کیا ، پہاڑوں کو اتوار کے دن ، درختوں کو پیر کے دن ، برائیوں کو منگل کے دن نور کو ، بدھ کے دن ، جانوروں کو جمعرات کے دن ، آدم کو جمعہ کے دن اور عصر کے بعد جمعہ کی آخری ساعت میں عصر کے بعد سے رات تک ۔ (صحیح مسلم:2789:صحیح) یہ حدیث غرائب میں سے ہے ۔ امام ابن مدینی رحمہ اللہ ، امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ نے اس پر بحث کی ہے اور فرمایا ہے کہ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کا اپنا قول اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما نے سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کا یہ قول سنا ہے اور بعض راویوں نے اسے غلطی سے مرفوع حدیث قرار دے لیا ہے ۔ امام بیہقی رحمہ اللہ یہی کہتے ہیں ۔ البقرة
30 خلافت آدم کا مفہوم اللہ تعالیٰ کے اس احسان کو دیکھو کہ اس نے آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے سے پہلے فرشتوں میں ان کا ذکر کیا جس کا بیان اس آیت میں ہے ۔ فرماتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم یاد کرو اور اپنی امت کو یہ خبر پہنچاؤ ۔ ابوعبیدہ تو کہتے ہیں کہ لفظ «اِذْ» یہاں زائد ہے لیکن ابن جریر رحمہ اللہ وغیرہ مفسرین اس کی تردید کرتے ہیں خلیفہ سے مراد یہ ہے کہ ان کے یکے بعد دیگرے بعض کے بعض جانشین ہوں گے اور ایک زمانہ کے بعد دوسری زمانہ میں یونہی صدیوں تک یہ سلسلہ رہے گا ۔ جیسے اور جگہ ارشاد ہے ۔ آیت «ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلٰیِٕفَ فِی الْاَرْضِ» ( 35 ۔ فاطر : 39 ) دوسری جگہ فرمایا آیت «وَیَجْعَلُکُمْ خُلَـفَاءَ الْاَرْضِ» ( 27 ۔ النمل : 62 ) یعنی تمہیں اس نے زمین کا خلیفہ بنا دیا اور ارشاد ہے کہ ان کے بعد ان کے خلیفہ یعنی جانشین برے لوگ ہوئے ۔ (19-مریم:59) ایک شاذ قرأت میں خلیفہ بھی ہے ۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ خلیفہ سے مراد صرف آدم ہیں لیکن اس بارے میں تفسیر رازی کے مفسر نے اختلاف کو ذکر کیا ہے ۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مطلب نہیں ۔ اس کی ایک دلیل تو فرشتوں کا یہ قول ہے کہ وہ زمین میں فساد کریں گے اور خون بہائیں گے تو ظاہر ہے کہ انہوں نے اولاد آدم علیہ السلام کی نسبت یہ فرمایا تھا نہ کہ خاص آدم کی نسبت ۔ یہ اور بات ہے کہ اس کا علم فرشتوں کو کیونکر ہوا ؟ یا تو کسی خاص ذریعہ سے انہیں یہ معلوم ہوا یا بشری طبیعت کے اقتضا کو دیکھ کر انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہو گا کیونکہ یہ فرما دیا گیا تھا کہ اس کی پیدائش مٹی سے ہو گی یا لفظ خلیفہ کے مفہوم سے انہوں نے سمجھ لیا ہو گا کہ وہ فیصلے کرنے والا مظالم کی روک تھام کرنے والا اور حرام کاموں اور گناہوں کی باتوں سے روکنے والا ہو گا یا انہوں نے پہلی مخلوق کو دیکھا تھا اسی بنا پر اسے بھی قیاس کیا ہو گا ۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ فرشتوں کی یہ عرض بطور اعتراض نہ تھی نہ بنی آدم سے حسد کے طور پر تھی ۔ جن لوگوں کا یہ خیال ہے وہ قطعی غلطی کر رہے ہیں ۔ فرشتوں کی شان میں قرآن فرماتا ہے آیت «لَا یَسْبِقُوْنَہٗ بِالْقَوْلِ وَہُمْ بِاَمْرِہٖ یَعْمَلُوْنَ» ( 21 ۔ الانبیآء : 27 ) یعنی جس بات کے دریافت کرنے کی انہیں اجازت نہ ہو اس میں وہ لب نہیں ہلاتے ( اور یہ بھی ظاہر ہے کہ فرشتوں کی طبیعت حسد سے پاک ہے ) بلکہ صحیح مطلب یہ ہے کہ یہ سوال صرف اس حکمت معلوم کرنے کے لیے اور اس راز کے ظاہر کرانے کے لیے تھا جو ان کی سمجھ سے بالاتر تھا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:464/1) یہ تو جانتے تھے کہ اس مخلوق میں فسادی لوگ بھی ہوں گے تو اب با ادب سوال کیا کہ پروردگار ایسی مخلوق کے پیدا کرنے میں کون سی حکمت ہے ؟ اگر عبادت مقصود ہے تو عبادت تو ہم کرتے ہی ہیں ، تسبیح و تقدیس و تحمید ہر وقت ہماری زبانوں پر ہے اور پھر فساد وغیرہ سے پاک ہیں تو پھر اور مخلوق جن میں فسادی اور خونی بھی ہوں گے کس مصلحت پر پیدا کی جا رہی ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے ان کے سوال کا جواب دیا کہ باوجود اس کے فساد کے اسے جن مصلحتوں اور حکمتوں کی بنا پر میں پیدا کر رہا ہوں انہیں میں ہی جانتا ہوں تمہارا علم ان حکمتوں تک نہیں پہنچ سکتا میں جانتا ہوں کہ ان میں انبیاء اور رسول ہوں گے ان میں صدیق اور شہید ہوں گے ۔ ان میں عابد ، زاہد ، اولیاء ، ابرار ، نیکوکار ، مقرب بارگاہ ، علماء ، صلحاء ، متقی ، پرہیزگار ، خوف الٰہی ، حب باری تعالیٰ رکھنے والے بھی ہوں گے ۔ میرے احکام کی بسر و چشم تعمیل کرنے والے ، میرے نبیوں کے ارشاد پر لبیک پکارنے والے بھی ہوں گے ۔ صحیحین کی حدیث میں ہے کہ دن کے فرشتے صبح صادق کے وقت آتے ہیں اور عصر کو چلے جاتے ہیں ۔ تب رات کے فرشتے آتے ہیں اور صبح کو جاتے ہیں ۔ آنے والے جب آتے ہیں تب بھی اور جب جاتے ہیں تب بھی صبح کی اور عصر کی نماز میں لوگوں کو پاتے ہیں اور دربار الٰہی میں پروردگار کے سوال کے جواب میں دونوں جماعتیں یہی کہتی ہیں کہ گئے تو نماز میں پایا اور آئے تو نماز میں چھوڑ کر آئے ۔ (صحیح بخاری:555:صحیح) یہی وہ مصلحت اللہ ہے جسے فرشتوں کو بتایا گیا کہ میں جانتا ہوں اور تم نہیں جانتے ۔ ان فرشتوں کو اسی چیز کو دیکھنے کے لیے بھیجا جاتا ہے اور دن کے اعمال رات سے پہلے اور رات کے دن سے پہلے الٰہ العالمین کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں ۔ (صحیح مسلم:179:صحیح) غرض تفصیلی حکمت جو پیدائش انسان میں تھی اس کی نسبت فرمایا کہ یہ میرے مخصوص علم میں ہے ۔ جو تمہیں معلوم نہیں بعض کہتے ہیں یہ جواب فرشتوں کے اس قول کا ہے کہ ہم تیری تسبیح وغیرہ کرتے رہتے ہیں تو انہیں فرمایا گیا کہ میں ہی جانتا ہوں تم جیسا سب کو یکساں سمجھتے ہو ایسا نہیں بلکہ تم میں ایک ابلیس بھی ہے ۔ ایک تیسرا قول یہ ہے کہ فرشتوں کا یہ سب کہنا دراصل یہ مطلب رکھتا تھا کہ ہمیں زمین میں بسایا جائے تو جواباً کہا گیا کہ تمہاری آسمانوں میں رہنے کی مصلحت میں ہی جانتا ہوں اور مجھے علم ہے کہ تمہارے لائق جگہ یہی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» حسن رحمہ اللہ قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو خبر دی ۔ سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں مشورہ لیا ۔ لیکن اس کے معنی بھی خبر دینے کے ہو سکتے ہیں ۔ اگر نہ ہوں تو پھر یہ بات بے وزن ہو جاتی ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مکہ سے زمین پھیلائی اور بچھائی گئی تو بیت اللہ شریف کا طواف سب سے پہلے فرشتوں نے کیا اور زمین میں خلیفہ بنانے سے مراد مکہ میں خلیفہ بنانا ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:599:ضعیف جداً) یہ حدیث مرسل ہے پھر اس میں ضعف ہے اور مدرج ہے یعنی زمین سے مراد مکہ لینا راوی کا اپنا خیال ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ زمین سے ساری زمین مراد ہے ۔ فرشتوں نے جب یہ سنا تو پوچھا تھا کہ وہ خلیفہ کیا ہو گا ؟ اور جواب میں کہا گیا تھا کہ اس کی اولاد میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جو زمین میں فساد کریں ، حسد و بغض کریں ، قتل و خون کریں ان میں وہ عدل و انصاف کرے گا اور میرے احکام جاری کرے گا تو اس سے مراد آدم ہیں ۔ جو ان کے قائم مقام اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور مخلوق میں عدل و انصاف کرنے کی بنا پر فساد پھیلانے اور خون بہانے والے خلیفہ نہیں ۔ لیکن یہ یاد رہے کہ یہاں مراد خلافت سے ایک زمانہ جو دوسرے زمانہ کے بعد آتا ہے ۔ خلیفہ فعیلہ ، کے وزن پر ہے ۔ جب ایک کے بعد دوسرا اس کے قائم مقام ہو تو عرب کہتے ہیں ۔ «خَلَفَ فُلاَنٌ فُلاَنًا» فلاں شخص کا خلیفہ ہوا جیسے قرآن میں ہے کہ ہم ان کے بعد تمہیں زمین کا خلیفہ بنا کر دیکھتے ہیں کہ تم کیسے عمل کرتے ہو ۔ (10-یونس:14) اور اسی لیے سلطان اعظم کو خلیفہ کہتے ہیں اس لیے کہ وہ اگلے بادشاہ کا جانشین ہوتا ہے محمد بن اسحٰق رحمہ اللہ کہتے ہیں مراد یہ ہے کہ زمین کا ساکن اس کی آبادی کرنے والا ہے ۔ یہ آثار اہل کتاب سے لیے گئے ہیں ان میں سے کوئی چیز حجت نہیں اور ضحاک کی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ملاقات ثابت نہیں نیز بشر بن عمارہ ضعیف ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں پہلے زمین میں جنات بستے تھے ۔ انہوں نے اس میں فساد کیا اور خون بہایا اور قتل و غارت کیا ابلیس کو بھیجا گیا اس نے اور اس کے ساتھیوں نے انہیں مار مار کر جزیروں اور پہاڑوں میں بھگا دیا آدم علیہ السلام کو پیدا کر کے زمین میں بسایا تو گویا یہ ان پہلے والوں کے خلیفہ اور جانشین ہوئے ۔ پس فرشتوں کے قول سے مراد اولاد آدم علیہ السلام ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:603) جس وقت ان سے کہا گیا کہ میں زمین کو اور اس میں بسنے والی مخلوق کو پیدا کرنا چاہتا ہوں ۔ اس وقت زمین تھی لیکن اس میں آبادی نہ تھی ۔ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے یہ بھی مروی ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معلوم کروا دیا تھا کہ اولاد آدم ایسے ایسے کام کرے گی تو انہوں نے یہ پوچھا ، اور یہ بھی مروی ہے کہ جنات کے فساد پر انہوں نے بنی آدم کے فساد کو قیاس کر کے یہ سوال کیا ۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آدم علیہ السلام سے دو ہزار سال پہلے سے جنات زمین میں آباد تھے ۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں فرشتے بدھ کے دن پیدا ہوئے اور جنات کو جمعرات کے دن پیدا کیا اور جمعہ کے دن آدم علیہ السلام پیدا ہوئے حسن اور قتادہ رحمہ اللہ علیہما کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں خبر دی تھی کہ ابن آدم ایسا ایسا کریں گے ، اس بنا پر انہوں نے سوال کیا ۔ ابو جعفر محمد بن علی رحمہ اللہ فرماتے ہیں سجل نامی ایک فرشتہ ہے جس کے ساتھی ہاروت ماروت تھے ۔ اسے ہر دن تین مرتبہ لوح محفوظ پر نظر ڈالنے کی اجازت تھی ۔ ایک مرتبہ اس نے آدم علیہ السلام کی پیدائش اور دیگر امور کا جب مطالعہ کیا تو چپکے سے اپنے ان دونوں ساتھیوں کو بھی اطلاع کر دی ۔ اب جو اللہ تعالیٰ نے اپنا ارادہ ظاہر فرمایا تو ان دونوں نے یہ سوال کیا لیکن یہ روایت غریب ہے اور صبح مان لینے پر بھی ممکن ہے کہ ابو جعفر رحمہ اللہ نے اسے اہل کتاب یہود و نصاریٰ سے اخذ کیا ہو ۔ بہر صورت یہ ایک واہی تواہی روایت ہے اور قابل تردید ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر اس روایت میں ہے کہ دو فرشتوں نے یہ سوال کیا ۔ یہ قرآن کی روانی عبارت کے بھی خلاف ہے ۔ یہ بھی روایت مروی ہے کہ یہ کہنے والے فرشتے دس ہزار تھے اور وہ سب کے سب جلا دئیے گئے ۔ یہ بھی بنی اسرائیلی روایت ہے اور بہت ہی غریب ہے امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سوال کی انہیں اجازت دی گئی تھی اور یہ بھی معلوم کرا دیا گیا تھا کہ یہ مخلوق نافرمان بھی ہو گی تو انہوں نے نہایت تعجب کے ساتھ اللہ کی مصلحت معلوم کرنے کے لیے یہ سوال کیا نہ کہ کوئی مشورہ دیا یا انکار کیا یا اعتراض کیا ہو ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب آدم علیہ السلام کی پیدائش شروع ہوئی تو فرشتوں نے کہا ناممکن ہے کہ کوئی مخلوق ہم سے زیادہ بزرگ اور عالم ہو تو اس پر یہ امتحان اللہ کی طرف سے آیا اور کوئی مخلوق امتحان سے نہیں چھوٹی ۔ زمین اور آسمان پر بھی امتحان آیا تھا اور انہوں نے سرخم کر کے اطاعت الٰہیہ کے لیے آمادگی ظاہر کی فرشتوں کی تسبیح و تقدیس سے مراد اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنا نماز پڑھنا بے ادبی سے بچنا ، بڑائی اور عظمت کرنا ہے ۔ فرماں برداری کرنا «سبوح قدوس» وغیرہ پڑھنا ہے ۔ قدس کے معنی پاک کے ہیں ۔ پاک زمین کو مقدس کہتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ کون سا کلام افضل ہے جواب دیتے ہیں وہ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کے لیے پسند فرمایا سبحان اللہ وبحمدہ ( صحیح مسلم:2731:صحیح ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج والی رات آسمانوں پر فرشتوں کی یہ تسبیح سنی «سبحان العلی الاعلی سبحانہُ تعالیٰ» ۔ خلیفہ کے فرائض اور خلافت کی نوعیت امام قرطبی رحمہ اللہ وغیرہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ خلیفہ کا مقرر کرنا واجب ہے تاکہ وہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کرے ، ان کے جھگڑے چکائے ، مظلوم کا بدلہ ظالم سے لے ، حدیں قائم کرے ، برائیوں کے مرتکب لوگوں کو ڈانٹے ڈپٹے وغیرہ ، وہ بڑے بڑے کام جو بغیر امام کے انجام نہیں پا سکتے ۔ چونکہ یہ کام واجب ہیں اور یہ بغیر امام کے پورے نہیں ہو سکتے اور جس چپز کے بغیر واجب پورا نہ ہو وہ بھی واجب ہو جاتی ہے لہٰذا خلیفہ کا مقرر کرنا واجب ثابت ہوا ۔ امامت یا تو قرآن و حدیث کے ظاہری لفظوں سے ملے گی جیسے کہ اہل سنت کی ایک جماعت کا سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نسبت خیال ہے کہ ان کا نام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت کے لیے لیا تھا یا قرآن و حدیث سے اس کی جانب اشارہ ہو ۔ جیسے اہل سنت ہی کی دوسری جماعت کا خلیفہ اول کی بابت یہ خیال ہے کہ اشارۃً ان کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت کے لیے کیا ۔ یا ایک خلیفہ اپنے بعد دوسرے کو نامزد کر جائے جیسے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا ۔ یا وہ صالح لوگوں کی ایک کمیٹی بنا کر انتخاب کا کام ان کے سپرد کر جائے جیسے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا یا اہل حل و عقد ( یعنی بااثر سرداران لشکر علماء و صلحاء وغیرہ ) اس کی بیعت پر اجماع کر لیں یا ان میں سے کوئی اس کی بیعت کر لے تو جمہور کے نزدیک اس کا لازم پکڑنا واجب ہو جائے گا ۔ امام الحرمین نے اس پر اجماع نقل کیا ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ یا کوئی شخص لوگوں کو بزور و جبر اپنی ماتحتی پر بے بس کر دے تو بھی واجب ہو جاتا ہے کہ اس کے ہاتھ پر بیعت کر لیں تاکہ پھوٹ اور اختلاف نہ پھیلے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے صاف لفظوں میں فیصلہ کیا ہے ۔ اس بیعت کے وقت گواہوں کی موجودگی کے واجب ہونے میں اختلافات ہے بعض تو کہتے ہیں یہ شرط نہیں ، بعض کہتے ہیں شرط ہے اور دو گواہ کافی ہیں ۔ جبائی کہتا ہے بیعت کرنے والے اور جس کے ہاتھ پر بیعت ہو رہی ہے ان دونوں کے علاوہ چار گواہ چاہئیں ۔ جیسے کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ نے شوریٰ کے چھ ارکان مقرر کئے تھے پھر انہوں نے سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کو مختار کر دیا اور آپ رضی اللہ عنہ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر باقی چاروں کی موجودگی میں بیعت کی لیکن اس استدلال میں اختلاف ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» امام کا مرد ہونا ، آزاد ہونا ، بالغ ہونا ، عقلمند ہونا ، مسلمان ہونا ، عادل ہونا ، مجتہد ہونا ، آنکھوں والا ہونا ، صحیح سالم اعضاء والا ہونا ، فنون جنگ سے اور رائے سے خبردار ہونا ، قریشی ہونا واجب ہے اور یہی صحیح ہے ۔ ہاں ہاشمی ہونا اور خطا سے معصوم ہونا شرط نہیں ۔ یہ دونوں شرطیں متشدد رافضی لگاتے ہیں امام اگر فاسق ہو جائے تو اسے معزول کر دینا چاہیئے یا نہیں ؟ اس میں اختلاف ہے اور صحیح یہ ہے کہ معزول نہ کیا جائے کیونکہ حدیث میں آ چکا ہے کہ جب تک ایسا کھلا کفر نہ دیکھ لو جس کے کفر ہونے کی ظاہر دلیل اللہ کی طرف سے تمہارے پاس ہو ، (صحیح بخاری:7056:صحیح) اسی طرح خود امام اپنے آپ معزول ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ اس میں بھی اختلاف ہے ۔ سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما خودبخود آپ ہی معزول ہو گئے تھے اور امر امامت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو سونپ دیا تھا لیکن یہ عذر کے باعث تھا جس پر ان کی تعریف کی گئی ہے ۔ روئے زمین پر ایک سے زیادہ امام ایک وقت میں نہیں ہو سکتے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جب تم میں اتفاق ہو اور کوئی اگر تم میں جدائی ڈالنی چاہے تو اسے قتل کر دو خواہ کوئی بھی ہو ۔ (صحیح مسلم:1856:صحیح) جمہور کا یہی مذہب ہے اور بہت سے بزرگوں نے اس پر اجماع نقل کیا ہے جن میں سے ایک امام الحرمین ہیں ۔ کرامیہ ( شیعہ ) کا قول ہے کہ دو اور زیادہ بھی ایک وقت میں امام ہو سکتے ہیں جیسے کہ سیدنا علی اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہما دونوں اطاعت کے لائق تھے ۔ یہ گروہ کہتا ہے کہ جب ایک وقت میں دو دو اور زیادہ نبیوں کا ہونا جائز ہے تو اماموں کا جائز ہونا جائز کیوں نہ ہو ؟ نبوت کا مرتبہ تو یقیناً امامت کے مرتبے سے بہت زیادہ ہے ( لیکن صحیح مسلم والی حدیث آپ ابھی اوپر چڑھ چکے ہیں کہ دوسرے کو قتل کر ڈالو ۔ اس لیے صحیح مذہب وہی ہے جو پہلے بیان ہوا ) امام الحرمین نے استاذ ابواسحاق رحمہ اللہ سے بھی حکایت کی ہے کہ وہ دو اور زیادہ اماموں کا مقرر کرنا اس وقت جائز جانتے ہیں جب مسلمانوں کی سلطنت بہت بڑی وسیع ہو اور چاروں طرف پھیلی ہوئی ہو اور دو اماموں کے درمیان کئی ملکوں کا فاصلہ ہو ۔ امام الحرمین اس میں تردد میں ہیں ، خلفائے بنی عباس کا عراق میں اور خلفائے بنی فاطمہ کا مصر میں اور خاندان بنی امیہ کا مغرب میں میرے خیال سے یہی حال تھا ۔ اس کی بسط و تفصیل ان شاءاللہ کتاب الاحکام کی کسی مناسب جگہ ہم کریں گے ۔ البقرة
31 آدم علیہ السلام کی وجہ فضیلت یہاں سے اس بات کا بیان ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک خاص علم میں آدم علیہ السلام کو فرشتوں پر بھی فضیلت دی ۔ یہ واقعہ فرشتوں کے سجدہ کرنے کے بعد کا ہے لیکن اللہ کی جو حکمت آپ علیہ السلام کے پیدا کرنے میں تھی اور جس کا علم فرشتوں کو نہ تھا اور اس کا اجمالی بیان اوپر کی آیت میں گزرا ہے اس کی مناسبت کی وجہ سے اس واقعہ کو پہلے بیان کیا اور فرشتوں کا سجدہ کرنا جو اس سے پہلے واقعہ ہوا تھا بعد میں بیان کر دیا تاکہ خلیفہ کے پیدا کرنے کی مصلحت اور حکمت ظاہر ہو جائے اور یہ معلوم ہو جائے کہ یہ شرافت اور فضیلت آدم کو اس لیے ملی کہ انہیں وہ علم حاصل ہے جس سے فرشتے خالی ہیں ۔ فرمایا کہ آدم علیہ السلام کو تمام نام بتائے یعنی ان کی تمام اولاد کے علاوہ سب جانوروں ، زمین ، آسمان ، پہاڑ ، تری ، خشکی ، گھوڑے ، گدھے ، برتن ، چرند ، فرشتے ، تارے وغیرہ تمام چھوٹی بڑی چیزوں کے (تفسیر ابن جریر الطبری:458/1) ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ فرشتوں اور انسانوں کے نام معلوم کرائے گئے تھے کیونکہ اس کے بعد «عرضھم» آتا ہے اور یہ ذی عقل لوگوں کے لیے آتا ہے ۔ لیکن یہ کوئی ایسی معقول وجہ نہیں جہاں ذی عقل اور غیر ذی عقل جمع ہوتے ہیں وہاں جو لفظ لایا جاتا ہے وہ عقل و ہوش رکھنے والوں کا ہی لایا جاتا ہے جیسے قرآن میں ہے آیت «وَاللّٰہُ خَلَقَ کُلَّ دَابَّۃٍ مِّنْ مَّاءٍ» ( 24 ۔ النور : 45 ) اللہ تعالیٰ نے تمام جانوروں کو پانی سے پیدا کیا جن میں سے بعض تو پیٹ کے بل گھسٹتے ہیں بعض دو پیروں پر چلتے ہیں بعض چارپاؤں پر چلتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے پس اس آیت سے ظاہر ہے کہ غیر ذی عقل بھی داخل ہیں مگر صیغے سب ذی عقل کے ہیں ۔ علاوہ ازیں «عَرْضَھُنَّ» بھی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کی قرأت میں ہے اور سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی قرأت میں «عَرَضھَا» بھی ہے ۔ صحیح قول یہی ہے کہ تمام چیزوں کے نام سکھائے تھے ذاتی نام بھی صفاتی نام بھی اور کاموں کے نام بھی ، جیسے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ گوز کا نام تک بھی بتایا گیا تھا ۔ صحیح بخاری کتاب التفسیر میں اس آیت کی تفسیر میں امام بخاری رحمہ اللہ یہ حدیث لائے ہیں ۔ مسئلہ شفاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایماندار قیامت کے دن جمع ہوں گے اور کہیں گے کیا اچھا ہو گا اگر کسی کو ہم اپنا سفارشی بنا کر اللہ کے پاس بھیجیں چنانچہ یہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور ان سے کہیں گے کہ آپ ہم سب کے باپ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اپنے فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرایا آپ کو تمام چیزوں کے نام سکھائے ۔ آپ اللہ تعالیٰ کے سامنے ہماری سفارش لے جائیں ۔ جو ہم اس سے راحت پائیں ۔ آدم علیہ السلام یہ سن کر جواب دیں گے کہ میں اس قابل نہیں ۔ انہیں اپنا گناہ یاد آ جائے گا ۔ تم نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ وہ پہلے رسول ہیں جنہں اللہ تعالٰی نے زمین والوں کی طرف بھیجا ۔ سب لوگ یہ جواب سن کر حضرت نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے آپ بھی یہی جواب دیں گے اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف اپنے بیٹے کے لیے اپنا دعا مانگنا یاد کر کے شرما جائیں گے اور فرمائیں گے تم خلیل الرحمن ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ ۔ یہ سب آپ علیہ السلام کے پاس آئیں گے لیکن یہاں سے بھی یہی جواب پائیں گے ۔ آپ علیہ السلام فرمائیں گے تم موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ جن سے اللہ نے کلام کیا اور جنہیں تورات عنایت فرمائی ۔ یہ سن کر سب کے سب موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور آپ سے بھی یہی درخواست کریں گے لیکن یہاں سے بھی جواب پائیں گے آپ علیہ السلام کو بھی ایک شخص کو بغیر قصاص کے مار ڈالنا یاد آ جائے گا اور شرمندہ ہو جائیں گے اور فرمائیں گے تم عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول اور کلمۃ اللہ اور روح اللہ ہیں ۔ یہ سب ان کے پاس بھی جائیں گے لیکن یہاں سے بھی یہی جواب ملے گا کہ میں اس لائق نہیں تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ جن کے تمام اگلے پچھلے گناہ بخش دئیے گئے ہیں ۔ اب وہ سارے کے سارے میرے پاس آئیں گے میں آمادہ ہو جاؤں گا اور اپنے رب سے اجازت طلب کروں گا ۔ مجھے اجازت دے دی جائے گی میں اپنے رب کو دیکھتے ہی سجدے میں گر پڑوں گا جب تک اللہ کو منظور ہو گا سجدے میں ہی پڑا رہوں گا پھر آواز آئے گی کہ سر اٹھائیے سوال کیجئے پورا کیا جائے گا ، کہئے سنا جائے گا ، شفاعت کیجئے قبول کی جائے گی ۔ اب میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اللہ تعالیٰ کی وہ تعریفیں بیان کروں گا جو اسی وقت اللہ تعالیٰ مجھے سکھائے گا پھر میں شفاعت کروں گا ۔ میرے لیے حد مقرر کر دی جائے گی میں انہیں جنت میں پہنچا کر پھر آؤں گا ۔ پھر اپنے رب کو دیکھ کر اسی طرح سجدہ میں گر پڑوں گا ۔ پھر شفاعت کروں گا پھر حد مقرر ہو گی انہیں بھی جنت میں پہنچا کر تیسری مرتبہ آؤں گا پھر چوتھی بار ضرور ہوں گا یہاں تک کہ جہنم میں صرف وہی رہ جائیں گے جنہیں قرآن نے روک رکھا ہو اور جن کے لیے جہنم کی مداومت واجب ہو گئی ہو (صحیح بخاری:4476:صحیح) ( یعنی شرک و کفر کرنے والے ) صحیح مسلم شریف میں نسائی میں ابن ماجہ وغیرہ میں یہ حدیث شفاعت موجود ہے ۔(صحیح مسلم:193:صحیح) یہاں اس کے وارد کرنے سے مقصود یہ ہے کہ اس حدیث میں یہ جملہ بھی ہے کہ لوگ آدم علیہ السلام سے کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام چیزوں کے نام سکھائے ۔ پھر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور ان سے فرمایا کہ لو اگر تم اپنے قول میں سچے ہو کہ تم ساری مخلوق سے زیادہ علم والے ہو یا اپنی اس بات میں سچے ہو کہ اللہ تعالیٰ زمین میں خلیفہ نہ بنائے گا تو ان چیزوں کے نام بتاؤ ۔ یہ بھی مروی ہے کہ اگر تم اپنی اس بات میں کہ ” بنی آدم فساد کریں گے اور خون بہائیں گے “ سچے ہو تو ان کے نام بتاؤ ۔ (عبدالرزاق:42/1) لیکن قول پہلا ہی ہے ۔ گویا اس میں انہیں ڈانٹا گیا کہ بتاؤ تمہارا قول کہ تم ہی زمین کی خلافت کے لائق ہو اور انسان نہیں ۔ تم ہی میرے تسبیح خواں اور اطاعت گزار ہو اور انسان نہیں ۔ اگر تم صحیح ہو تو لو یہ چیزیں جو تمہارے سامنے موجود ہیں ۔ انہی کے نام بتاؤ ۔ اور اگر تم نہیں بتا سکتے تو سمجھ لو کہ جب موجودہ چیزوں کے نام بھی تمہیں معلوم نہیں تو آئندہ آنے والی چیزوں کی نسبت تمہیں علم کیسے ہو گا ؟ فرشتوں نے یہ سنتے ہی اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی اور بڑائی اور اپنے علم کی کمی بیان کرنا شروع کر دی اور کہہ دیا کہ جسے جتنا کچھ اے اللہ تو نے سکھا دیا اتنا ہی علم اسے حاصل ہے تمام چیزوں پر احاطہٰ رکھنے والا علم تو صرف تجھی کو ہے تو ہر چیز کا جاننے والا ہے اپنے تمام احکام میں حکمت رکھنے والا ہے جسے جو سکھائے وہ بھی حکمت سے اور جسے نہ سکھائے وہ بھی حکمت سے تو حکمتوں والا اور عدل والا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں سبحان اللہ کے معنی اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی کے ہیں کہ وہ ہر برائی سے منزہ ہے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہما اور اپنے پاس کے دوسرے اصحاب سے ایک مرتبہ سوال کیا کہ آیت «لا الہ الا اللہ» تو ہم جانتے ہیں لیکن دعا «سبحان اللہ» کیا کلمہ ہے ؟ تو سیدنا علی رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ اس کلمہ کو باری تعالیٰ نے اپنے نفس کے لیے پسند فرمایا ہے اور اس سے وہ خوش ہوتا ہے اور اس کا کہنا اسے محبوب ہے ۔ میمون بن مہران رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی تعظیم ہے اور تمام برائیوں سے پاکیزگی کا بیان ہے ۔ آدم نے نام بتا دیے کہ تمہارا نام جبرائیل ہے تمہارا نام میکائیل ہے ، تم اسرافیل ہو یہاں تک کہ چیل کوے وغیرہ سب کے نام بھی جب ان سے پوچھے گئے تو انہوں نے بتا دیے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:118/1-119) جب آدم علیہ السلام کی یہ فضیلت فرشتوں کو معلوم ہوئی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا دیکھو میں نے تم سے پہلے نہ کہا تھا کہ میں ہر پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہوں ۔ جیسے اور جگہ ہے آیت «وَاِنْ تَجْــہَرْ بِالْقَوْلِ فَاِنَّہٗ یَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰی» ( 20 ۔ طہٰ : 7 ) تم بلند آواز سے کہو ( یا نہ کہو ) اللہ تو پوشیدہ سے پوشیدہ حیز کو جانتا ہے اور ارشاد فرمایا آیت «أَلَّا یَسْجُدُوا لِلہِ الَّذِی یُخْرِجُ الْخَبْءَ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَیَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ اللہُ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ رَبٰ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ» ( 27-النمل : 25 ، 26 ) کیوں یہ لوگ اس اللہ تعالیٰ کو سجدہ نہیں کرتے جو آسمانوں اور زمین کی چھپی چیزوں کو نکالتا ہے اور جو تمہارے ہر باطن اور ظاہر کو جانتا ہے اللہ تعالیٰ اکیلا ہی معبود ہے اور وہی عرش عظیم کا رب ہے ۔ جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے تھے اسے بھی میں جانتا ہوں ۔ مطلب یہ ہے کہ ابلیس کے دل میں جو تکبر اور غرور تھا اسے میں جانتا تھا ۔ فرشتوں کا یہ کہنا کہ زمین میں ایسی شخصیت کو کیوں پیدا کرتا ہے جو فساد کرے اور خون بہائے یہ تو وہ قول تھا جسے انہوں نے ظاہر کیا تھا اور جو چھپایا تھا وہ ابلیس کے دل میں غرور اور تکبر تھا ۔ سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہم اور سعید بن جبیر اور مجاہد اور سدی اور ضحاک اور ثوری رحمہ اللہ علیہم کا یہی قول ہے ۔ ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں اور ابوالعالیہ رحمہ اللہ ربیع بن انس حسن اور قتادہ رحمہ اللہ علیہم کا قول ہے کہ ان کی باطن بات ان کا یہ کہنا تھا کہ جس مخلوق کو اللہ تعالیٰ پیدا کرے گا ہم اس سے زیادہ عالم اور زیادہ بزرگ ہوں گے لیکن بعد میں ثابت ہو گیا اور خود انہوں نے بھی جان لیا کہ آدم علیہ السلام کو علم اور فضیلت دونوں میں ان پر فوقیت حاصل ہے ۔ عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا جس طرح تم ان چیزوں کے ناموں سے بے خبر ہو اسی طرح تم یہ بھی نہیں جان سکتے کہ ان میں بھلے برے ہر طرح کے ہوں گے ۔ فرمانبردار بھی ہوں گے اور نافرمان بھی ۔ اور میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ مجھے جنت دوزخ دونوں کو بھرنا ہے لیکن تمہیں میں نے اس کی خبر نہیں دی ۔ اب جب کہ فرشتوں نے آدم کو دیا ہوا علم دیکھا تو ان کی بندگی کا اقرار کر لیا ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں سب سے اولیٰ قول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ہے کہ آسمان و زمین کے غیب کا علم تمہارے ظاہر و باطن کا علم مجھے ہے ان کے ظاہری قول کو اور ابلیس کے باطنی عجب و غرور کو بھی جانتا تھا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:498/1) اس میں چھپانے والا صرف ایک ابلیس ہی تھا لیکن صیغہ جمع کا لایا گیا ہے اس لیے کہ عرب میں یہ دستور ہے اور ان کے کلام میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ ایک کے یا بعض کے ایک کام کو سب کی طرف نسبت کر دیا کرتے وہ کہتے ہیں کہ لشکر مار ڈالا گیا یا انہیں شکست ہوئی حالانکہ شکست اور قتل ایک کا یا بعض کا ہوتا ہے اور صیغہ جمع کا لاتے ہیں ۔ بنو تمیم کے ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے کے آگے سے پکارا تھا لیکن قرآن میں اس کا بیان ان لفظوں میں ہے کہ آیت «اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَکَ مِنْ وَّرَاءِ الْحُـجُرٰتِ» ( 49 ۔ الحجرات : 4 ) جو لوگ تمہیں اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجروں کے آگے سے پکارتے ہیں تو دیکھئیے کہ پکار نے والا ایک تھا اور صیغہ جمع کا لایا گیا ۔ اسی طرح آیت «وَاللّٰہُ مُخْرِجٌ مَّا کُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ» ( 2 ۔ البقرہ : 72 ) میں بھی اپنے دل میں بدی کو چھپانے والا صرف ایک ابلیس ہی تھا لیکن صیغہ جمع کا لایا گیا ۔ البقرة
32 البقرة
33 البقرة
34 آدم علیہ السلام پر اللہ تعالٰی کے احسانات حضرت آدم علیہ السلام کی اس بہت بڑی بزرگی کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر اپنا بہت بڑا احسان فرمایا اور خبر دی کہ اس نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں ۔ اس کی تصدیق میں بہت سی حدیثیں ہیں ایک تو حدیث شفاعت جو ابھی بیان ہوئی ۔ دوسری حدیث میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ میری ملاقات آدم علیہ السلام سے کرا دیجئیے جو خود بھی جنت سے نکلے اور ہم سب کو بھی نکالا ۔ جب دونوں پیغمبر جمع ہوئے تو موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ تم وہ آدم علیہ السلام ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی روح تم میں بھی پھونکی اور اپنے فرشتوں سے تمہیں سجدہ کرایا(سنن ابوداود:4702 ، قال الشیخ الألبانی:حسن) ( آخر تک ) پوری حدیث عنقریب بیان ہو گی ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ابلیس فرشتوں کے ایک قبیلہ میں سے تھا جنہیں جن کہتے تھے جو آگ کے شعلوں سے پیدا ہوئے تھے ۔ اس کا نام حارث تھا اور جنت کا خازن تھا ۔ اس قبیلے کے سوا اور فرشتے سب کے سب نوری تھے ۔ قرآن نے بھی ان جنوں کی پیدائش کا ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے آیت «وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ» ( 55 ۔ الرحمن : 15 ) آگ کے شعلے کی جو تیزی سے بلند ہوتے ہیں اسے مارج کہتے ہیں جس سے جن پیدا کئے گئے تھے اور انسان مٹی سے پیدا کیا گیا ۔ زمین میں پہلے جن بستے تھے ۔ انہوں نے فساد اور خون ریزی شروع کی تو اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو فرشتوں کا لشکر دے کر بھیجا انہی کو ” جن “ کہا جاتا تھا ۔ ابلیس نے لڑ بھڑ کر مارتے اور قتل کرتے ہوئے انہیں سمندر کے جزیروں اور پہاڑوں کے دامنوں میں پہنچا دیا اور ابلیس کے دل میں یہ تکبر سما گیا کہ میں نے وہ کام کیا ہے جو کسی اور سے نہ ہو سکا ۔ چونکہ دل کی اس بدی اور اس پوشیدہ خودی کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو تھا ۔ جب پروردگار نے فرمایا کہ زمین میں خلیفہ پیدا کرنا چاہتا ہوں تو ان فرشتوں نے عرض کیا کہ ایسے کو کیوں پیدا کرتا ہے جو اگلی قوم کی طرح فساد و خونریزی کریں تو انہیں جواب دیا گیا کہ میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے یعنی ابلیس کے دل میں جو کبر و غرور ہے اس کا مجھی کو علم ہے تمہیں خبر نہیں ۔ پھر آدم علیہ السلام کی مٹی اٹھائی گئی جو چکنی اور اچھی تھی ۔ جب اس کا خمیر اٹھا تب اس سے آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور چالیس دن تک وہ یونہی پتلے کی شکل میں رہے ابلیس آتا تھا اور اس پر لات مار کر دیکھتا تھا تو وہ بجتی مٹی ہوتی جیسے کوئی کھوکھلی چیز ہو پھر منہ کے سوراخ سے گھس کر پیچھے کے سوراخ سے اور اس کے خلاف آتا جاتا رہا اور کہتا رہا کہ درحقیقت یہ کوئی چیز نہیں اور اگر میں اس پر مسلط کیا گیا تو اسے برباد کر کے چھوڑ دوں گا اور اسے مجھ پر مسلط کیا گیا تو میں ہر گز تسلیم نہ کروں گا ۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے ان میں روح پھونکی اور وہ سر کی طرف سے نیچے کی طرف آئی تو جہاں جہاں تک پہنچتی گئی خون گوشت بنتا گیا ۔ جب ناف تک روح پہنچی تو اپنے جسم کو دیکھ کر خوش ہوئے اور فوراً اٹھنا چاہا لیکن نیچے کے دھڑ میں روح نہیں پہنچتی تھی اس لیے اٹھ نہ سکے اسی جلدی کا کا بیان اس آیت میں ہے آیت «وَکَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا» ( 17 ۔ الاسرآء : 11 ) یعنی انسان بےصبرا اور جلد باز ہے نہ تو خوشی نہ رنج میں ۔ جب روح جسم میں پہنچی اور چھینک آئی تو کہا آیت «الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ» اللہ تعالیٰ نے جواب دیا دعا «یرحمک اللہ» پھر صرف ابلیس کے ساتھی فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کے سامنے سجدہ کرو تو ان سب نے سجدہ کیا لیکن ابلیس کا وہ غرور و تکبر ظاہر ہو گیا اس نے نہ مانا اور سجدے سے انکار کر دیا اور کہنے لگا میں اس سے بہتر ہوں اس سے بڑی عمر والا ہوں ۔ اور اس سے قوی اور مضبوط ہوں ۔ یہ مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اور میں آگ سے بنا ہوں اور آگ مٹی سے قوی ہے ۔ اس کے انکار پر اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی رحمت سے ناامید کر دیا اور اسی لیے اسے ابلیس کہا جاتا ہے ۔ اس کی نافرمانی کی سزا میں اسے راندہ درگاہ شیطان بنا دیا ۔ پھر آدم علیہ السلام کو انسان جانور زمین سمندر پہاڑ وغیرہ کے نام بتا کر ان کو ان فرشتوں کے سامنے پیش کیا جو ابلیس کے ساتھی تھے اور آگ سے پیدا شدہ تھے اور ان سے فرمایا کہ اگر تم اس بات میں سچے ہو کہ میں زمین میں اسے خلیفہ نہ بناؤں تو ذرا مجھے ان چیزوں کے نام تو بتا دو ۔ جب ان فرشتوں نے دیکھا کہ ہماری اگلی بات سے الٰہ العالمین ناراض ہے تو وہ کہنے لگے کہ اللہ عزوجل تو اس بات سے پاک ہے کہ تیرے سوا کوئی اور غیب کو جانے ہماری توبہ ہے اور اقرار ہے کہ ہم غیب داں نہیں ۔ ہم تو صرف وہی جان سکتے ہیں جس کا علم تو ہمیں دیدے ۔ جیسے تو نے ان کے نام صرف آدم علیہ السلام کو ہی سکھائے ہیں ۔ اب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے فرمایا کہ تم انہیں ان تمام چیزوں کے نام بتا دو چنانچہ انہوں نے بتا دئیے تو فرمایا اے فرشتو ! کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ آسمان و زمین کے غیب کا جاننے والا صرف میں اکیلا ہی ہوں اور کوئی نہیں ۔ میں ہر پوشیدہ چیز کو بھی ویسا ہی جانتا ہوں جیسے ظاہر کو اور تم سب اس سے بے خبر ہو لیکن یہ قول بھی غریب ہے اور اس میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جن میں خامیاں ہیں ہم اگر انہیں الگ الگ بیان کریں تو مضمون بہت بڑھ جائے گا اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما تک اس اثر کی سند بھی وہی ہے جس سے ان کی مشہور تفسیر مروی ہے ۔ ایک اور حدیث میں بھی اسی طرح مروی ہے جس کے متن میں کچھ کمی زیادتی بھی ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ زمین کی مٹی لینے کے لیے جب جبرائیل علیہ السلام گئے تو زمین نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتی ہوں کہ تو مجھ میں سے کچھ گھٹائے وہ واپس چلے گئے پھر ملک الموت کو بھیجا ۔ زمین نے ان سے بھی یہی کہا لیکن انہوں نے جواب دیا کہ میں بھی اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتا ہوں کہ میں اللہ کا حکم پورا کئے بغیر واپس چلا جاؤں چنانچہ انہوں نے تمام روئے زمین سے ایک ایک مٹھی مٹی لی ۔ چونکہ مٹی کا رنگ کہیں سرخ تھا کہیں سفید کہیں سیاہ اسی وجہ سے انسانوں کی رنگتیں بھی طرح طرح کی ہوئیں لیکن یہ روایت بھی بنو اسرائیل کی روایات سے ماخوذ ہے غالباً اس میں بہت سی باتیں نیچے کے لوگوں کی ملائی گئی ہیں ۔ صحابی کا بیان ہی نہیں اگر صحابی کا قول بھی ہو تو بھی انہوں نے بعض اگلی کتابوں سے لیا ہو گا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» تعارف ابلیس حاکم اپنی مستدرک میں بہت سی ایسی روایتیں لائے ہیں اور ان کی سند کو بخاری سے مشروط کیا ہے ۔ (مستدرک حاکم:261/2:صحیح) مقصد یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم آدم کو سجدہ کرو تو اس خطاب میں ابلیس بھی داخل تھا اس لیے کہ گو وہ ان میں سے نہ تھا لیکن ان ہی جیسا اور ان ہی جیسے کام کرنے والا تھا اس لیے اس خطاب میں داخل تھا اور پھر نافرمانی کی سزا بھگتی ۔ اس کی تفصیل ان شاءاللہ تعالیٰ آیت «إِلَّا إِبْلِیسَ کَانَ مِنَ الْجِنِّ» ( 18-الکہف : 50 ) کی تفسیر میں آئے گی ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں نافرمانی سے پہلے وہ فرشتوں میں تھا ۔ عزازیل اس کا نام تھا زمین پر اس کی رہائش تھی اجتہاد اور علم میں بہت بڑا تھا اور اسی وجہ سے دماغ میں رعونت تھی اور اس کی جماعت کا اور اس کا تعلق جنوں سے تھا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:502/1) اس کے چار پر تھے ۔ جنت کا خازن تھا زمین اور آسمان دونوں کا سلطان تھا ۔ حسن فرماتے ہیں ابلیس کبھی فرشتہ نہ تھا اس کی اصل جنات سے ہے جیسے کہ آدم علیہ السلام کی اصل انس سے ہے اس کی اسناد صحیح ہے ۔ عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم اور شہر بن حوشب رحمہ اللہ علیہما کا بھی یہی قول ہے ۔ سعد بن مسعود رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ فرشتوں نے جنات کو جب مارا تب اسے قید کیا تھا اور آسمان پر لے گئے تھے وہاں کی عبادت کی وجہ سے رہ پڑا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ پہلے ایک مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا انہیں آدم کو سجدہ کرنے کو کہا ۔ انہوں نے انکار کیا جس پر وہ جلا دئیے گئے پھر دوسری مخلوق پیدا کی ان کا بھی یہی حشر ہوا پھر تیسری مخلوق پیدا کی انہوں نے تعمیل ارشاد کی لیکن یہ اثر بھی غریب ہے اور اس کی اسناد بھی تقریباً غیر صحیح ہے ۔ اس میں ایک راوی مبہم ہے اس وجہ سے یہ روایت قابل حجت نہیں کافرین سے مراد نافرمان ہے ۔ ابلیس کی ابتداء آفرینش ہی کفر و ضلالت پر تھی کچھ دن ٹھیک ٹھاک رہا لیکن پھر اپنی اصلیت پر آ گیا ۔ سجدہ کرنے کا حکم بجا لانا اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور آدم علیہ السلام کا اکرام تھا ۔ بعض لوگوں کا قول ہے کہ یہ سجدہ سلام اور عزت و اکرام کا تھا جیسے کہ یوسف علیہ السلام کے بارے میں فرمان ہے ۔ کہ انہوں نے اپنے ماں باپ کو تخت پر بٹھا لیا اور سب کے سب سجدہ میں گر پڑے اور یوسف علیہ السلام نے فرمایا ابا جان یہی میرے اس خواب کی تعبیر ہے جسے میرے رب نے سچا کر دکھایا ۔ (12-یوسف:100) اگلی امتوں میں سجدہ تعظیم جائز تھا لیکن ہمارے دین میں یہ منسوخ ہو گیا ۔ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے شامیوں کو اپنے سرداروں اور علماء کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی کہ یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم آپ اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کیا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں کسی انسان کو کسی انسان کے سامنے سجدہ کرنے کی اجازت دینے والا ہوتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوندوں کو سجدہ کریں کیونکہ ان کا ان پر بہت بڑا حق ہے ۔ (سنن ابن ماجہ:1852 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) امام رازی رحمہ اللہ نے اسی کو ترجیح دی ہے بعض کہتے ہیں کہ سجدہ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے تھا ۔ آدم بطور قبلہ ( یعنی سمت ) کے تھے جیسے قرآن کریم میں ہے آیت «اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ» ( 17 ۔ الاسرآء : 78 ) لیکن اس میں بھی اختلاف ہے اور پہلے ہی قول کا زیادہ صحیح ہونا اچھا معلوم ہوتا ہے ۔ یہ سجدہ آدم علیہ السلام کے اکرام بڑائی احترام اور سلام کے طور پر تھا اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ماتحت تھا کیونکہ اس کا حکم تھا جس کی بجا آوری ضروری تھی ۔ امام رازی رحمہ اللہ نے بھی اسی قول کو قوی قرار دیا ہے اور اس کے سوا دوسرے اقوال کو ضعیف قرار دیا ہے ایک تو آدم علیہ السلام کا بطور قبلہ کے ہونا جس میں کوئی بڑا شرف ظاہر نہیں ہوتا ۔ دوسرے سجدے سے مراد پست عاجز ہونا نہ کہ زمین میں ماتھا ٹکا کر حقیقی سجدہ کرنا لیکن یہ دونوں تاویلیں ضعیف ہیں ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں سب سے پہلا گناہ یہی تکبر ہے جو ابلیس سے سرزد ہوا ۔ صحیح حدیث میں ہے جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہو گا وہ جنت میں داخل نہ ہو گا ۔ (صحیح مسلم:91:صحیح) اسی تکبر کفرو عناد کی وجہ سے ابلیس کے گلے میں طوق لعنت پڑا اور رحمت سے مایوس ہو کر جناب باری سے دھتکارا گیا ۔ یہاں «کان صار» کے معنی میں بتلایا گیا ہے جیسے کہ آیت «فَکَانَ مِنَ الْمُغْرَقِیْنَ» (11-ہود:43) اور آیت «فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ» (7-الأعراف:19) شاعروں کے شعروں میں بھی اس کا ثبوت ہے تو معنی یہ ہوئے کہ وہ کافر ہو گیا ابن فورک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں کافروں میں سے تھا ۔ قرطبی رحمہ اللہ اسی کو ترجیح دیتے ہیں اور یہاں ایک مسئلہ بیان فرماتے ہیں کہ کسی شخص کے ہاتھ سے کچھ کرامتیں سرزد ہو جانا اس کے ولی اللہ ہونے کی دلیل نہیں گو بعض صوفی اور رافضی اس کے خلاف بھی کہتے ہیں کہ اس لیے کہ ہم اس بات کا کسی کے لیے فیصلہ نہیں کر سکتے کہ وہ ایمان ہی کی حالت میں اللہ سے جا ملے گا اسی شیطان کو دیکھئیے ولی ہی نہیں بلکہ فرشتہ بنا ہوا تھا لیکن آخر سردار کفر و کفار ہو گیا ۔ علاوہ ازیں ایسی خلاف عادت و عقل باتیں جو بظاہر کرامات نظر آتی ہیں اولیاء اللہ کے سوا اور لوگوں کے ہاتھوں سے بھی سرزد ہوتی ہیں بلکہ فاسق فاجر مشرک کافر سے بھی ظاہر ہو جاتی ہیں ۔ مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «فَارْتَـقِبْ یَوْمَ تَاْتِی السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مٰبِیْنٍ» (44-الدخان:10) کی آیت دل میں سوچ کر جب ابن صیاد کافر سے پوچھا کہ میں نے کیا سوچا ہے تو اس نے کہا تھا دُخْ ۔ (صحیح بخاری:1354:صحیح) بعض روایات میں ہے کہ غصہ کے وقت وہ اتنا پھول جاتا کہ اس کے جسم سے تمام راستہ رک جاتا تھا ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اسے مارا ۔ (صحیح مسلم:2932:صحیح) دجال کی تو ایسی بہت سی باتیں احادیث میں وارد ہیں مثلاً اس کا آسمان سے بارش برسانا زمین سے پیداوار اگانا زمین کے خزانوں کا اس کے پیچھے لگنا ایک نوجوان کو قتل کر کے پھر جلانا وغیرہ وغیرہ ۔ (صحیح بخاری:7122:صحیح) سیدنا لیث بن سعد رضی اللہ عنہما اور امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر تم کسی کو پانی پر چلتے ہوئے اور ہواؤں میں اڑتے ہوئے دیکھو تو اسے ولی نہ سمجھ بیٹھو جب تک کہ اس کے تمام اعمال و افعال قرآن و حدیث کے مطابق نہ پاؤ ۔ اس سجدے کا حکم زمین و آسمان کے تمام فرشتوں کو تھا گو ایک جماعت کا قول یہ بھی ہے کہ صرف زمین کے فرشتوں کو یہ حکم تھا لیکن یہ ٹھیک نہیں قرآن کریم میں ہے آیت «فَسَجَدَ الْمَلٰیِٕکَۃُ کُلٰہُمْ اَجْمَعُوْنَ» ( 15 ۔ الحجر : 31-30 ) یعنی ابلیس کے سوا تمام فرشتوں نے سجدہ کیا پس اول تو جمع کا صیغہ لانا پھر «کلھم» سے تاکید کرنا پھر «اجمعون» کہنا اس کے بعد صرف ابلیس کا استثناء کرنا ان چاروں وجوہات سے صاف ظاہر ہے کہ یہ حکم عام تھا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» البقرة
35 اعزاز آدم علیہ السلام آدم علیہ السلام کی یہ اور بزرگی بیان ہو رہی ہے کہ فرشتوں سے سجدہ کرانے کے بعد انہیں جنت میں رکھا اور ہر چیز کی رخصت دے دی ابن مردویہ کی روایت کردہ حدیث میں ہے کہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آدم علیہ السلام نبی تھے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ! نبی بھی ، رسول بھی ، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان سے آمنے سامنے بات چیت کی اور انہیں فرمایا کہ تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو ۔ (ابن حبان:361:صحیح) عام مفسرین کا بیان ہے کہ آسمانی جنت میں انہیں بسایا گیا تھا لیکن معتزلہ اور قدریہ کہتے ہیں کہ یہ جنت زمین پر تھی ۔ سورۃ الاعراف میں اس کا بیان آئے گا ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ اس عبارت قرآنی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں رہنے سے پہلے حواء پیدا کی گئی تھیں ۔ محمد بن اسحاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اہل کتاب وغیرہ کے علماء سے بروایت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما مروی ہے کہ ابلیس کے مردود قرار دینے کے بعد آدم علیہ السلام کے علم کو ظاہر کر کے پھر ان پر اونگھ کی فوقیت طاری کر دی گئی اور ان کی بائیں پسلی سے حواء کو پیدا کیا ۔ جب آنکھ کھول کر آدم علیہ السلام نے انہیں دیکھا تو اپنے خون اور گوشت کی وجہ سے ان میں انس و محبت ان کے دل میں پیدا ہوئی ۔ پھر پروردگار نے انہیں ان کے نکاح میں دیا اور جنت میں رہائش کا حکم عطا فرمایا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:514/1) بعض کہتے ہیں کہ آدم علیہ السلام کے جنت میں داخل ہو جانے کے بعد حواء پیدا کی گئیں ۔ سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود وغیرہ صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ ابلیس کو جنت سے نکالنے کے بعد آدم علیہ السلام کو جنت میں جگہ دی گئی ۔ لیکن تن تنہا تھے اس وجہ سے ان کی نیند میں حواء کو ان کی پسلی سے پیدا کیا گیا ۔ جاگے ، انہیں دیکھا تو پوچھا تم کون ہو اور کیوں پیدا کی گئی ہو ؟ حواء علیہا السلام نے فرمایا میں ایک عورت ہوں اور آپ علیہ السلام کے ساتھ رہنے اور تسکین کا سبب بننے کے لیے پیدا کی گئی ہوں تو فوراً فرشتوں نے پوچھا فرمائیے ان کا نام کیا ہے ؟ آدم علیہ السلام نے کہا «حوا» انہوں نے کہا اس نام کی وجہ تسمیہ کیا ہے ؟ فرمایا اس لیے کہ یہ ایک زندہ سے پیدا کی گئی ہیں ۔ اسی وقت اللہ تعالیٰ کی آواز آئی ، اے آدم اب تم اور تمہاری بیوی جنت میں با آرام و اطمینان رہو اور جو چاہو کھاؤ ۔ لیکن ایک خاص درخت سے روکنا دراصل امتحان تھا ۔ بعض کہتے ہیں یہ انگور کی بیل تھی ۔ کوئی کہتا ہے ۔ گیہوں کا درخت تھا ۔ کسی نے سنبلہ کہا ہے ۔ کسی نے کھجور ، کسی نے انجیر کہا ہے ۔ کسی نے کہا ہے اس درخت کے کھانے سے انسانی حاجت ہوتی تھی جو جنت کے لائق نہیں ۔ کسی نے کہا ہے ، اس درخت کا پھل کھا کر فرشتے ہمیشہ کی زندگی پا گئے ہیں ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کوئی ایک درخت تھا جس سے اللہ نے روک دیا ۔ نہ قرآن سے اس کا تعین ثابت ہوتا ہے نہ کسی صحیح حدیث سے ۔ مفسرین میں اختلاف ہے اور اس کے معلوم ہونے سے کوئی اہم فائدہ اور نہ معلوم ہونے سے کوئی نقصان نہیں ۔ لہٰذا اس کی جستجو کی کیا ضرورت ؟ اللہ ہی کو اس کا بہتر علم ہے ۔ امام رازی رحمہ اللہ وغیرہ نے بھی یہی فیصلہ کیا ہے اور ٹھیک بات بھی یہی معلوم ہوتی ہے ۔ «عنھا» کی ضمیر کا مرجع بعض نے جنت کہا ہے اور بعض نے شجرہ ۔ ایک قرأت «فازالھما» بھی ہے تو معنی یہ ہوئے کہ اس جنت سے ان دونوں کو بے تعلق اور الگ کر دیا اور دوسرے معنی یہ بھی ہوئے کہ اسی درخت کے سبب شیطان نے انہیں بہکا دیا ۔ سفر ارضی کا آغاز لفظ «عن» سبب کے معنی میں بھی آیا ہے آیت «یُؤْفَکُ عَنْہُ» میں ۔ (51-الذاریات:9) اس نافرمانی کی وجہ سے جنتی لباس اور وہ پاک مکان ، نفیس روزی وغیرہ سب چھن گئی اور دنیا میں اتار دئیے گئے اور کہہ دیا گیا کہ اب تو زمین میں ہی تمہارا رزق ہے ، قیامت تک یہیں پڑے رہو گے اور اس سے فائدہ حاصل کرتے رہو گے ۔ سانپ اور ابلیس کا قصہ ، یعنی ابلیس کس طرح جنت میں پہنچا ۔ کس طرح وسوسہ ڈالا وغیرہ ، اس کے بارے میں لمبے چوڑے قصے مفسرین نے لکھے ہیں لیکن وہ سب بنی اسرائیل کے ہاں کا خزانہ ہے ، تاہم ہم انہیں سورۃ الاعراف میں بیان کریں گے کیونکہ اس واقعہ کا بیان وہاں کسی قدر تفصیل کے ساتھ ہے ۔ ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے کہ درخت کا پھل چکھتے ہی جنتی لباس اتر گیا ۔ اپنے تئیں ننگا دیکھ کر ادھر ادھر دوڑنے لگے لیکن چونکہ قد طویل تھا اور سر کے بال لمبے تھے ، وہ ایک درخت میں اٹک گئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے آدم کیا مجھ سے بھاگتے ہو ؟ عرض کیا نہیں الٰہی میں تو شرمندگی سے منہ چھپائے پھرتا ہوں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:139/1) ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے آدم ! میرے پاس سے چلے جاؤ ، مجھے میری عزت کی قسم میرے پاس میرے نافرمان نہیں رہ سکتے ، اگر اتنی مخلوق تم میں پیدا کروں کہ زمین بھر جائے اور پھر وہ میری نافرمانی کرے تو یقیناً میں اسے بھی نافرمانوں کے گھر میں پہنچا دوں ۔ یہ روایت غریب ہے اور ساتھ ہی اس میں انقطاع بلکہ اعضال بھی ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آدم علیہ السلام نماز عصر کے بعد سے لے کر سورج کے غروب ہونے تک کی ایک ساعت ہی جنت میں رہے ۔ (مستدرک حاکم: 542/2: حسن) حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ ایک ساعت ایک سو تیس سال کی تھی ۔ ربیع بن انس رحمہ اللہ فرماتے ہیں نویں یا دسویں ساعت میں آدم کا اخراج ہوا ۔ ان کے ساتھ جنت کی ایک شاخ تھی اور جنت کے درخت کا ایک تاج سر پر تھا ۔ سدی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ آدم ہند میں اترے ، آپ علیہ السلام کے ساتھ حجر اسود تھا اور جنتی درخت کے پتے جو ہند میں پھیلا دئیے اور اس سے خوشبودار درخت پیدا ہوئے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ہند کے شہر ” دھنا “ میں اترے تھے ۔ (مستدرک حاکم: 542/2: ضعیف) ایک روایت میں ہے کہ مکہ اور طائف کے درمیان اترے تھے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:131/1) حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں آدم علیہ السلام ہند میں اور مائی حوا جدہ میں اتریں اور ابلیس بصرہ سے چند میل کے فاصلہ پر دست میساں میں پھینکا گیا اور سانپ اصفہان میں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:132/1) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ آدم علیہ السلام صفا پر اور حواء مروہ پر اترے ۔ اترتے وقت دونوں ہاتھ گھٹنوں پر تھے اور سر جھکا ہوا تھا اور ابلیس انگلیوں میں انگلیاں ڈالے آسمان کی طرف نظریں جمائے اترا ۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تمام صفتیں سکھا دیں اور پھلوں کا توشہ دیا ۔ (مستدرک حاکم543/2:موقوف) ایک حدیث میں ہے کہ تمام دنوں میں بہتر دن جمعہ کا دن ہے ، اسی میں آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے ، اسی میں جنت میں داخل کئے گئے ۔ اور اسی دن نکالے گئے ملاحظہ ہو صحیح مسلم اور نسائی ۔ (صحیح مسلم:854:صحیح) امام رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی ناراضی کی وجوہات مضمر ہیں ۔ اول تو یہ سوچنا چاہیئے کہ ذرا سی لغزش پر آدم علیہ السلام کو کس قدر سزا ہوئی ۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ تم گناہوں پر گناہ کئے جاتے ہو اور جنت کے طالب ہو کیا تم بھول گئے کہ تمہارے باپ آدم علیہ السلام کو محض ایک ہلکے سے گناہ پر جنت سے نکال دیا گیا ۔ ہم تو یہاں دشمن کی قید میں ہیں ، دیکھئیے ! کب صحت و سلامتی کے ساتھ اپنے وطن پہنچیں ۔ فتح موصلی کہتے ہیں ہم جنتی تھے ، ابلیس کے بہکانے میں آ کر دنیا کی قید میں آ پھنسے ، اب سوائے غم و رنج کے یہاں کیا رکھا ہے ؟ یہ قید و بند اسی وقت ٹوٹے گی جب ہم وہیں پہنچ جائیں جہاں سے نکالے گئے ہیں ۔ اگر کوئی معترض اعتراض کرے کہ جب آدم علیہ السلام آسمانی جنت میں تھے اور ابلیس راندہء درگاہ ہو چکا تھا تو پھر وہ وہاں کیسے پہنچا ؟ تو اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ وہ جنت زمین میں تھی لیکن اس کے علاوہ اور بھی بہت سے جواب ہیں کہ بطور اکرام کے اس کا داخل ہونامنع تھا نہ کہ بطور اہانت اور چوری کے ۔ چنانچہ توراۃ میں ہے کہ سانپ کے منہ میں بیٹھ کر جنت میں گیا اور یہ بھی جواب ہے کہ وہ جنت میں نہیں گیا تھا بلکہ باہر ہی سے اس نے وسوسہ ان کے دل میں ڈالا تھا ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ زمین سے ہی وسوسہ ان کے دل میں ڈالا ۔ قرطبی رحمہ اللہ نے یہاں پر سانپوں کے بارے میں اور ان کے مار ڈالنے کے حکم سے متعلق حدیثیں بھی تحریر کی ہیں جو بہت مفید اور باموقع ہیں ۔ البقرة
36 البقرة
37 اللہ تعالٰی کے عطا کردہ معافی نامہ کا متن جو کلمات آدم علیہ السلام نے سیکھے تھے ان کا بیان خود قرآن میں موجود ہے ۔ آیت «قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ» (7-الأعراف:23) یعنی ان دونوں نے کہا اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اگر تو ہمیں نہ بخشے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو یقیناً ہم نقصان والے ہو جائیں گے ۔ اکثر بزرگوں کا یہی قول ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:543/1) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے احکام حج سیکھنا بھی مروی ہے ۔ عبید بن عمیر کہتے ہیں وہ کلمات یہ تھے کہ انہوں نے کہا الٰہی جو خطا میں نے کی کیا اسے میرے پیدا کرنے سے پہلے میری تقدیر میں لکھ دیا گیا تھا ؟ یا میں نے خود اس کی ایجاد کی ؟ جواب ملا کہ ایجاد نہیں بلکہ پہلے ہی لکھ دیا گیا اسے سن کر آپ علیہ السلام نے کہا پھر اے اللہ مجھے بخشش اور معافی مل جائے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی روایت ہے کہ آدم علیہ السلام نے کہا الٰہی کیا تو نے مجھے اپنے ہاتھ سے پیدا نہیں کیا ؟ اور مجھ میں اپنی روح نہیں پھونکی ؟ میرے چھینکنے پر «یرحمک اللہ» نہیں کہا ؟ کیا تیری رحمت غضب پر سبقت نہیں کر گئی ؟ کیا میری پیدائش سے پہلے یہ خطا میری تقدیر میں نہیں لکھی تھی ؟ جواب ملا کہ ہاں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:543/1) یہ سب میں نے کیا ہے تو کہا پھر یا اللہ میری توبہ قبول کر کے مجھے پھر جنت مل سکتی ہے یا نہیں ؟ جواب ملا کہ ہاں ۔ یہ کلمات یعنی چند باتیں تھیں جو آپ علیہ السلام نے اللہ سے سیکھ لیں ۔ ابن ابی حاتم ایک ایک مرفوع روایت میں ہے کہ آدم علیہ السلام نے کہا الٰہی اگر میں توبہ کروں اور رجوع کروں تو کیا جنت میں پھر بھی جا سکتا ہوں ؟ جواب ملا کہ ہاں ۔ اللہ سے کلمات کی تلقین حاصل کرنے کے یہی معنی ہیں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:410:منقطع و ضعیف) لیکن یہ حدیث غریب ہونے کے علاوہ منقطع بھی ہے ۔ بعض بزرگوں سے مروی ہے کہ کلمات کی تفسیر ربنا ظلمنا اور ان سب باتوں پر مشتمل ہے مجاہد رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ وہ کلمات یہ ہیں دعا «اللھم لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فاغفرلی انک خیر الغافرین اللھم لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فارحمنی انک خیرالراحمین اللھم لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فتب علی انک انت التواب الرحیم» قرآن کریم میں اور جگہ ہے کیا لوگ نہیں جانتے کہا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے ؟ اور جگہ ہے جو شخص کوئی برا کام کر گزرے یا اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے پھر توبہ استغفار کرے تو وہ دیکھ لے گا کہ اللہ اس کی توبہ قبول کر لے گا اور اسے اپنے رحم و کرم میں لے لے گا ۔ (4-النساء:110) اور جگہ ہے آیت «وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّہٗ یَتُوْبُ اِلَی اللّٰہِ مَتَابًا» ( 25 ۔ الفرقان : 71 ) ان سب آیتوں میں ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے ، اسی طرح یہاں بھی یہی فرمان ہے کہ وہ اللہ توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول کرنے والا اور بہت بڑے رحم و کرم والا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے اس عام لطف و کرم ، اس کے اس فضل و رحم کو دیکھو کہ وہ اپنے گنہگار بندوں کو بھی اپنے در سے محروم نہیں کرتا ۔ سچ ہے اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، نہ اس سے زیادہ کوئی مہر و کرم والا نہ اس سے زیادہ کوئی خطا بخشنے والا اور رحم و بخشش عطا فرمانے والا ۔ البقرة
38 جنت کے حصول کی شرائط جنت سے نکالتے ہوئے جو ہدایت آدم علیہ السلام حواء اور ابلیس کو دی گئی اس کا بیان یہاں ہو رہا ہے کہ ہماری طرف سے کتابیں انبیاء اور رسول بھیجے جائیں گے ، معجزات ظاہر کئے جائیں گے ، دلائل بیان فرمائے جائیں گے ، راہ حقوق واضح کر دی جائے گی ، نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی آئیں گے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم بھی نازل فرمایا جائے گا ، جو بھی اپنے زمانے کی کتاب اور نبی کی تابعداری کرے گا اسے آخرت کے میدان میں کوئی خوف نہ ہو گا اور نہ ہی دنیا کے کھو جانے پر کوئی غم ہو گا ۔ سورۃ طہٰ میں بھی یہی فرمایا گیا ہے کہ میری ہدایت کی پیروی کرنے والے نہ گمراہ ہوں گے ، نہ بدبخت و بے نصیب ۔ مگر میری یاد سے منہ موڑنے والے دنیا کی تنگی اور آخرت کے اندھا پن کے عذاب میں گرفتار ہوں گے ۔ یہاں بھی فرمایا کہ انکار اور تکذب کرنے والے ہمیشہ جہنم میں رہیں گے ۔ ابن جریر رحمہ اللہ کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو اصلی جہنمی ہیں انہیں تو جہنم میں نہ موت آئے گی ، نہ ہی خوشگوار زندگی ملے گی ، ہاں جن موحد ، متبع سنت لوگوں کو ان کی بعض خطاؤں پر جہنم میں ڈالا جائے گا یہ جل کر کوئلے ہو ہو کر مر جائیں گے اور پھر شفاعت کی وجہ سے نکال لیے جائیں گے ۔ (صحیح مسلم185) صحیح مسلم شریف میں بھی یہ حدیث ہے کہ بعض تو کہتے ہیں دوسری دفعہ جنت سے نکل جانے کے حکم کو ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ یہاں دوسرے احکام بیان کرنا تھے اور بعض کہتے ہیں پہلی مرتبہ جنت سے آسمان اول اتار دیا گیا تھا دوبارہ آسمان اول سے زمین کی طرف اتارا گیا لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» البقرة
39 البقرة
40 بنی اسرائیل سے خطاب ان آیتوں میں بنی اسرائیل کو اسلام قبول کرنے اور حضور علیہ السلام کی تابعداری کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور انتہائی لطیف پیرایہ میں انہیں سمجھایا گیا ہے کہ تم ایک پیغمبر کی اولاد میں سے ہو تمہارے ہاتھوں میں کتاب اللہ موجود ہے اور قرآن اس کی تصدیق کر رہا ہے پھر تمہیں نہیں چاہیئے کہ سب سے پہلے انکار تمہیں سے شروع ہو ۔ اسرائیل یعقوب علیہ الصلٰوۃ والسلام کا نام تھا تو گویا ان سے کہا جاتا ہے کہ تم میرے صالح اور فرمانبردار بندے کی اولاد ہو ۔ تمہیں چاہیئے کہ اپنے جدِامجد کی طرح حق کی تابعداری میں لگ جاؤ ۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ تم سخی کے لڑکے ہو سخاوت میں آگے بڑھو تم پہلوان کی اولاد ہو داد شجاعت دو ۔ تم عالم کے بچے ہو علم میں کمال پیدا کرو ۔ دوسری جگہ اسی طرز کلام کو اسی طرح ادا کیا گیا ہے ۔ آیت «ذُرِّیَّــۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ اِنَّہٗ کَانَ عَبْدًا شَکُوْرًا» ( 17 ۔ الاسرآء : 3 ) یعنی ہمارے شکر گزار بندے نوح کے ساتھ جنہیں ہم نے ایک عالمگیر طوفان سے بچایا تھا یہ ان کی اولاد ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ اسرائیل یعقوب علیہ السلام کا نام تھا ۔ وہ سب قسم کھا کر کہتے ہیں کہ واللہ یہ سچ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اے اللہ تو گواہ رہ ۔ (ابو داؤد طیالسی:356:حسن) اسرائیل کے لفظی معنی عبداللہ کے ہیں ، (تفسیر ابن جریر الطبری:553/1) ان نعمتوں کو یاد دلایا جاتا ہے جو قدرت کاملہ کی بڑی بڑی نشانیاں تھیں ۔ مثلاً پتھر سے نہروں کو جاری کرنا ۔ من و سلٰوی اتارنا ۔ فرعونیوں سے آزاد کرنا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:556/1) انہیں میں سے انبیاء اور رسولوں کو مبعوث کرنا ۔ ان میں سلطنت اور بادشاہی عطا فرمانا وغیرہ ان کو ہدایت دی جاتی ہے میرے وعدوں کو پورا کرو یعنی میں نے جو عہد تم سے لیا تھا کہ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پاس آئیں اور ان پر میری کتاب قرآن کریم نازل ہو تو تم اس پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر ایمان لانا ۔ وہ تمہارے بوجھ ہلکے کریں گے اور تمہاری زنجیریں توڑ دیں گے اور تمہارے طوق اتار دیں گے اور میرا وعدہ بھی پورا ہو جائے گا کہ میں تمہیں اس دین کے سخت احکام کے متبادل آسان دین دوں گا ۔ دوسری جگہ اس کا بیان اس طرح ہوتا ہے آیت «وَقَالَ اللّٰہُ اِنِّیْ مَعَکُمْ لَیِٕنْ اَقَمْــتُمُ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَیْتُمُ الزَّکٰوۃَ وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ وَعَزَّرْتُمُوْہُمْ وَاَقْرَضْتُمُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَـنًا» (5-المائدۃ:12) یعنی اگر تم نمازوں کو قائم کرو گے ، زکوٰۃ دیتے رہو گے میرے رسولوں کی ہدایت مانتے رہو گے ، مجھے اچھا قرضہ دیتے رہو گے ، تو میں تمہاری برائیاں دور کر دونگا اور تمہیں بہتی ہوئی نہروں والی جنت میں داخل کروں گا ۔ یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ توراۃ میں وعدہ کیا گیا تھا کہ میں اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک اتنا بڑا عظیم الشان پیغمبر پیدا کر دونگا جس کی تابعداری تمام مخلوق پر فرض ہو گی ان کے تابعداروں کو بخشوں گا انہیں جنت میں داخل کروں گا اور دوہرا اجر دوں گا ۔ امام رازی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں بڑے بڑے انبیاء علیہم السلام سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت پیشنگوئی نقل کی ہے یہ بھی مروی ہے کہ اللہ کا عہد اسلام کو ماننا اور اس پر عمل کرنا تھا ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:558/1) اللہ کا اپنے عہد کو پورا کرنا ان سے خوش ہونا اور جنت عطا فرمانا ہے ۔(تفسیر ابن ابی حاتم:143/1) مزید فرمایا مجھ سے ڈرو ایسا نہ ہو جو عذاب تم سے پہلے لوگوں پر نازل ہوئے کہیں تم پر بھی نہ آ جائیں ۔ اس لطیف پیرایہ کو بھی ملاحظہ فرمائیے کہ ترغیب کے بیان کے ساتھ ہی کس طرح ترہیب کے بیان کو ملحق کر دیا گیا ہے ۔ رغبت و رہبت دونوں جمع کر کے اتباع حق اور نبوت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت دی گئی ۔ قرآن کے ساتھ نصیحت حاصل کرنے اس کے بتلائے ہوئے احکام کو ماننے اور اس کے روکے ہوئے کاموں سے رک جانے کی ہدایت کی گئی ۔ اسی لیے اس کے بعد ہی فرمایا کہ تم اس قرآن حکیم پر ایمان لاؤ جو تمہاری کتاب کی بھی تصدیق اور تائید کرتا ہے جسے لے کر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آئے ہیں جو امی ہیں عربی ہیں ، جو بشیر ہیں ، جو نذیر ہیں ، جو سراج منیر ہیں جن کا اسم شریف محمد ہے صلی اللہ علیہ وسلم ۔ جو توراۃ کی سچائی کی دلیل تھی اس لیے کہا گیا کہ وہ تمہارے ہاتھوں میں موجود کتابوں کی تصدیق کرتے ہیں ۔ علم ہونے کے باوجود تم ہی سب سے پہلے انکار نہ کرو۔ بعض کہتے ہیں «بِہِ» کی ضمیر کا مرجع قرآن ہے اور پہلے آ بھی چکا ہے «بما انزلت» اور دونوں قول درحقیقت سچے اور ایک ہی ہیں ۔ قرآن کو ماننا رسول کو ماننا ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق قرآن کی تصدیق ہے ۔ اول کافر سے مراد بنی اسرائیل کے اولین منکر ہیں کیونکہ کفار قریش بھی انکار اور کفر کر چکے تھے ۔ لہٰذا بنی اسرائیل کا انکار اہل کتاب میں سے پہلی جماعت کا انکار تھا اس لیے انہیں اول کافر کہا گیا ان کے پاس وہ علم تھا جو دوسروں کے پاس نہ تھا ۔ میری آیتوں کے بدلے تھوڑا مول نہ لو یعنی دنیا کے بدلے جو قلیل اور فانی ہے میری آیات پر ایمان لانا اور میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنا نہ چھوڑو اگرچہ دنیا ساری کی ساری بھی مل جائے جب بھی وہ آخرت کے مقابلہ میں تھوڑی بہت تھوڑی ہے اور یہ خود ان کی کتابوں میں بھی موجود ہے ۔ سنن ابوداؤد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص اس علم کو جس سے اللہ کی رضا مندی حاصل ہوئی ہے اس لیے سیکھے کہ اس سے دنیا کمائے وہ قیامت کے روز جنت کی خوشبو تک نہ پائے گا ۔(سنن ابوداود:3664،قال الشیخ الألبانی:صحیح) علم سکھانے کی اجرت بغیر مقرر کئے ہوئے لینا جائز ہے اسی طرح علم سکھانے والے علماء کو بیت المال سے لینا بھی جائز ہے تاکہ وہ خوش حال رہ سکیں اور اپنی ضروریات پوری کر سکیں ۔ اگر بیت المال سے کچھ مال نہ ملتا ہو اور علم سکھانے کی وجہ سے کوئی کام دھندا بھی نہ کر سکتے ہوں تو پھر اجرت مقرر کر کے لینا بھی جائز ہے اور امام مالک امام شافعی ، امام احمد اور جمہور علماء رحمہ اللہ علیہم کا یہی مذہب ہے اس کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جو صحیح بخاری شریف میں سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہما کی روایت سے ہے کہ انہوں نے اجرت مقرر کر لی اور ایک سانپ کے کاٹے ہوئے شخص پر قرآن پڑھ کر دم کیا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ قصہ پیش ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حدیث «ان احق ما اخذتم علیہ اجرا کتاب اللہ» یعنی جن چیزوں پر تم اجرت لے سکتے ہو ان سب میں زیادہ حقدار کتاب اللہ ہے ۔(صحیح بخاری:5737:صحیح) دوسری مطول حدیث میں ہے کہ ایک شخص کا نکاح ایک عورت سے آپ کر دیتے ہیں اور فرماتے ہیں حدیث «زوجتکھا بما معک من القران» میں نے اس کو تیری زوجیت میں دیا۔(صحیح بخاری:5149:صحیح) اور تو اسے قرآن حکیم جو تجھے یاد ہے اسے بطور حق مہر یاد کرا دے ۔ ابو داؤد کی ایک حدیث میں ہے ایک شخص نے اہل صفہ میں سے کسی کو کچھ قرآن سکھایا اس نے اسے ایک کمان بطور ہدیہ دی اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تجھے آگ کی کمان لینی ہے تو اسے لے چنانچہ اس نے اسے چھوڑ دیا ۔ (سنن ابوداود:3416 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہما سے بھی ایسی ہی ایک مرفوع حدیث مروی ہے ۔ (سنن ابن ماجہ:2158 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) ان دونوں احادیث کا مطلب یہ ہے کہ جب اس نے خالص اللہ کے واسطے کی نیت سے سکھایا پھر اس پر تحفہ اور ہدیہ لے کر اپنے ثواب کو کھونے کی کیا ضرورت ہے ؟ اور جبکہ شروع ہی سے اجرت پر تعلیم دی ہے تو پھر بلا شک و شبہ جائز ہے جیسے اوپر کی دونوں احادیث میں بیان ہو چکا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» صرف اللہ ہی ہے ڈرنے کے یہ معنی ہیں کہ اللہ کی رحمت کی امید پر اس کی عبادت و اطاعت میں لگا ہے اور اس کے عذابوں سے ڈر کر اس کی نافرمانیوں کو چھوڑ دے اور دونوں حالتوں میں اپنے رب کی طرف سے دئیے گئے نور پر گامزن رہے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:147/1) غرض اس جملہ سے انہیں خوف دلایا گیا کہ وہ دنیاوی لالچ میں آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کو جو اس کی کتابوں میں ہے نہ چھپائیں اور دنیوی ریاست کی طمع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پر آمادہ نہ ہوں بلکہ رب سے ڈر کر اظہار حق کرتے رہیں ۔ البقرة
41 البقرة
42 بدخو یہودی یہودیوں کی اس بدخصلت پر ان کو تنبہیہ کی جا رہی ہے کیونکہ وہ جاننے کے باوجود کبھی تو حق و باطل کو خلط ملط کر دیا کرتے تھے کبھی حق کو چھپا لیا کرتے تھے ۔ کبھی باطل کو ظاہر کرتے تھے ۔ لہٰذا انہیں ان ناپاک عادتوں کے چھوڑنے کو کہا گیا ہے اور حق کو ظاہر کرنے اور اسے کھول کھول کر بیان کرنے کی ہدایت کی حق و باطل سچ جھوٹ کو آپس میں نہ ملاؤ اللہ کے بندوں کی خیر خواہی کرو ۔ یہودیت و نصرانیت کی بدعات کو اسلام کی تعلیم کے ساتھ نہ ملاؤ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت پیشنگوئیاں جو تم کتابوں میں پاتے ہو انہیں عوام الناس سے نہ چھپاؤ ۔ «تَکْتُمُوْا» مجزوم بھی ہو سکتا ہے اور منصوب بھی یعنی اسے اور اسے جمع نہ کرو ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما کی قرأت میں «تَکْتُمُونْ» بھی ہے ۔ یہ حال ہو گا اور اس کے بعد کا جملہ بھی حال ہے معین یہ ہوئے کہ حق کو حق جانتے ہوئے ایسی بے حیائی نہ کرو ۔ اور یہ بھی معنی ہیں کہ علم کے باوجود اسے چھپانے اور ملاوٹ کرنے کا کیسا عذاب ہو گا ۔ اس کا علم ہو کر بھی افسوس کہ تم بدکرداری پر آمادہ نظر آتے ہو ۔ پھر انہیں حکم دیا جاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازیں پڑھو زکوٰۃ دو اور امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رکوع و سجود میں شامل رہا کرو ، انہیں میں مل جاؤ اور خود بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی امت بن جاؤ ، (تفسیر الکشاف:133/1) اطاعت و اخلاص کو بھی زکوٰۃ کہتے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں یہی فرماتے ہیں زکوٰۃ دو سو درہم پر ۔ پھر اس سے زیادہ رقم پر واجب ہوتی ہے نماز و زکوٰۃ و فرض و واجب ہے ۔ اس کے بغیر سبھی اعمال غارت ہیں ۔ زکوٰۃ سے بعض لوگوں نے فطرہ بھی مراد لیا ہے ۔ رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو سے مراد یہ ہے کہ اچھے اعمال میں ایمانداروں کا ساتھ دو اور ان میں بہترین چیز نماز ہے اس آیت سے اکثر علماء نے نماز باجماعت کے فرض ہونے پر بھی استدلال کیا ہے اور یہاں پر امام قرطبی رحمہ اللہ نے مسائل جماعت کو سبط سے بیان فرمایا ہے ۔ البقرة
43 البقرة
44 دوغلاپن اور یہودی یعنی اہل کتاب اس علم کے باوجود جو کہے اور نہ کرے “ اس پر کتنا عذاب نازل ہوتا ہے پھر تم خود ایسا کرنے لگے ہو ؟ جیسا دوسروں کو تقویٰ طہارت اور پاکیزگی سکھاتے ہو خود بھی تو اس کے عامل بن جاؤ لوگوں کو روزے نماز کا حکم دینا اور خود اس کے پابند نہ ہونا یہ تو بڑی شرم کی بات ہے دوسروں کو کہنے سے پہلے انسان کو خود عامل ہونا ضروری ہے اپنی کتاب کے ساتھ کفر کرنے سے لوگوں کو روکتے ہو لیکن اللہ کے اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلا کر تم خود اپنی ہی کتاب کے ساتھ کفر کیوں کرتے ہو ؟ یہ بھی مطلب ہے کہ دوسروں کو اس دین اسلام کو قبول کرنے کے لیے کہتے ہو مگر دنیاوی ڈر خوف سے خود قبول نہیں کرتے ۔ سیدنا ابوالدردا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں انسان پورا سمجھ دار نہیں ہو سکتا جب تک کہ لوگوں کو اللہ کے خلاف کام کرتے ہوئے دیکھ کر ان کا دشمن نہ بن جائے اور اپنے نفس کا ان سے بھی زیادہ ۔ ان لوگوں کو اگر رشوت وغیرہ نہ ملتی تو حق بتا دیتے لیکن خود عامل نہ تھے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی مذمت کی ۔ مبلغین کے لئے خصوصی ہدایت یہاں پر یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ اچھی چیز کا حکم دینے پر ان کی برائی نہیں کی گئی بلکہ خود نہ کرنے پر برائی بیان کی گئی ہے اچھی بات کو کہنا تو خود اچھائی ہے بلکہ یہ تو واجب ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ انسان کو خود بھی اس پر عمل کرنا چاہیئے جیسے شعیب علیہ السلام نے فرمایا تھا آیت «وَمَا أُرِیدُ أَنْ أُخَالِفَکُمْ إِلَیٰ مَا أَنْہَاکُمْ عَنْہُ إِنْ أُرِیدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیقِی إِلَّا بِ اللہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَإِلَیْہِ أُنِیبُ» ( 11-ہود : 88 ) یعنی میں ایسا نہیں ہوں کہ تمہیں جس کام سے روکوں وہ خود کروں میرا ارادہ تو اپنی طاقت کے مطابق اصلاح کا ہے میری توفیق اللہ کی مدد سے ہے میرا بھروسہ اسی پر ہے اور میری رغبت و رجوع بھی اسی کی طرف ہے ۔ پس نیک کاموں کے کرنے کے لیے کہنا بھی واجب ہے اور خود کرنا بھی ۔ ایک واجب کو نہ کرنے سے دوسرا بھی چھوڑ دینا نہیں چاہیئے ۔ علماء سلف و خلف کا قول یہی ہے گو بعض کا ایک ضعیف قول یہ بھی ہے کہ برائیوں والا دوسروں کو اچھائیوں کا حکم نہ دے لیکن یہ قول ٹھیک نہیں ، پھر ان حضرات کا اس آیت سے دلیل پکڑنا تو بالکل ہی ٹھیک نہیں بلکہ صحیح یہی ہے کہ بھلائی کا حکم کرے اور برائی سے روکے اور خود بھی بھلائی کرے اور برائی سے رکے ۔ اگر دونوں چھوڑے گا تو دوہرا گنہگار ہو گا ایک کے ترک پر اکہرا ۔ طبرانی کی معجم کبیر میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو عالم لوگوں کو بھلائی سکھائے اور خود عمل نہ کرے اس کی مثال چراغ جیسی ہے کہ لوگ اسی کی روشنی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ لیکن وہ خود جل رہا ہے ۔ (طبرانی کبیر:1681:جید) یہ حدیث غریب ہے مسند احمد کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔ معراج والی رات میں نے دیکھا کہ کچھ لوگوں کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے ہیں میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں تو کہا گیا کہ یہ آپ کی امت کے خطیب اور واعظ اور عالم ہیں جو لوگوں کو بھلائی سکھاتے تھے مگر خود نہیں کرتے تھے علم کے باوجود سمجھتے نہیں تھے ۔ (مسند احمد:12879:صحیح بالشواھد) دوسری حدیث میں ہے کہ ان کی زبانیں اور ہونٹ دونوں کاٹے جا رہے تھے یہ حدیث صحیح ہے ابن حبان ابن ابی حاتم ابن مردویہ وغیرہ میں موجود ہے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:476:صحیح) سیدنا ابووائل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ آپ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما سے کچھ نہیں کہتے آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ تمہیں سنا کر ہی کہوں تو ہی کہنا ہو گا میں تو انہیں پوشیدہ طور پر ہر وقت کہتا رہتا ہوں لیکن میں کسی بات کو پھیلانا نہیں چاہتا اللہ کی قسم میں کسی شخص کو سب سے افضل نہیں کہوں گا اس لیے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ایک شخص کو قیامت کے دن لایا جائے گا اور اسے جہنم میں ڈالا جائے گا اس کی آنتیں نکل آئیں گی اور وہ اس کے اردگرد چکر کھاتا رہے گا جہنمی جمع ہو کر اس سے پوچھیں گے کہ آپ تو ہمیں اچھی باتوں کا حکم کرنے والے اور برائیوں سے روکنے والے تھے یہ آپ کی کیا حالت ہے ؟ وہ کہے گا افسوس میں تمہیں کہتا تھا لیکن خود نہیں کرتا تھا میں تمہیں روکتا تھا لیکن خود نہیں رکتا تھا ( مسند احمد ) بخاری مسلم میں بھی یہ روایت ہے ۔ (صحیح بخاری:3267:صحیح) مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پڑھ لوگوں سے اتنا درگزر کرے گا جتنا جاننے والوں سے نہیں کرے گا بعض آثار میں یہ بھی وارد ہے کہ عالم کو ایک دفعہ بخشا جائے تو عام آدمی کو ستر دفعہ بخشا جاتا ہے عالم جاہل یکساں نہیں ہو سکتے قرآن کریم میں ہے آیت «قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِینَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِینَ لا یَعْلَمُونَ إِنَّمَا یَتَذَکَّرُ أُوْلُوا الأَلْبَابِ» ( 39-سورۃ الزمر : 9 ) جاننے والے اور انجان برابر نہیں نصیحت صرف عقلمند لوگ ہی حاصل کر سکتے ہیں ابن عساکر میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (طبرانی کبیر:150:22:ضعیف) نے فرمایا ۔ جنتی لوگ جہنمیوں کو دیکھ کر کہیں گے کہ تمہاری نصیحتیں سن سن کر ہم تو جنتی بن گئے مگر تم جہنم میں کیوں آ پڑے وہ کہیں گے افسوس ہم تمہیں کہتے تھے لیکن خود نہیں کرتے تھے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک شخص نے کہا میں بھلائیوں کا حکم کرنا اور برائیوں سے لوگوں کو روکنا چاہتا ہوں آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا کیا تم اس درجہ تک پہنچ گئے ہو ؟ اس نے کہا ہاں آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا اگر تم ان تینوں آیتوں کی فضیحت سے نڈر ہو گئے ہو تو شوق سے وعظ شروع کرو ۔ اس نے پوچھا وہ تین آیتیں کیا ہیں ؟ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا ایک تو آیت «أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَکُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْکِتَابَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ» ( البقرہ : 44 ) کیا تم لوگوں کو بھلائیوں کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے تئیں بھولے جا رہے ہو ؟ دوسری آیت آیت «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ کَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللہِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ» ( 61-سورۃ الصف-2 ، 3 ) کیوں تم وہ کہتے ہو جو خود نہیں کرتے ؟ اللہ کے نزدیک یہ بڑی ناپسندیدہ بات ہے کہ تم وہ کہو جو خود نہ کرو ۔ تیسری آیت شعیب علیہ السلام کا فرمان آیت «وَمَا أُرِیدُ أَنْ أُخَالِفَکُمْ إِلَیٰ مَا أَنْہَاکُمْ عَنْہُ إِنْ أُرِیدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیقِی إِلَّا بِ اللہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَإِلَیْہِ أُنِیبُ» ( 11-ہود : 88 ) یعنی میں جن کاموں سے تمہیں منع کرتا ہوں ان میں تمہاری مخالفت کرنا نہیں چاہتا ، میرا ارادہ صرف اپنی طاقت بھر اصلاح کرنا ہے کہو تم ان تینوں آیتوں سے بے خوف ہو ؟ اس نے کہا نہیں فرمایا پھر تم اپنے نفس سے شروع کرو ۔ ( تفسیر مردویہ ) ایک ضعیف حدیث طبرانی میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو لوگوں کو کسی قول و فعل کی طرف بلائے اور خود نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کے غضب و غصہ میں رہتا ہے یہاں تک کہ وہ خود آپ عمل کرنے لگ جائے ۔ (ابو نعیم فی الحلیۃ7/2:ضعیف) ابراہیم نخعی رحمہ اللہ (تفسیر قرطبی:367/1) نے بھی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما والی تینوں آیتیں پیش کر کے فرمایا ہے کہ میں ان کی وجہ سے قصہ گوئی پسند نہیں کرتا ۔ البقرة
45 صبر کا مفہوم اس آیت میں حکم فرمایا جاتا ہے کہ تم دنیا اور آخرت کے کاموں پر نماز اور صبر کے ساتھ مدد طلب کیا کرو ، فرائض بجا لاؤ اور نماز کو ادا کرتے رہو روزہ رکھنا بھی صبر کرنا ہے اور اسی لیے رمضان کو صبر کا مہینہ کہا گیا ہے ۔ (مسند احمد:263/2-384:) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں روزہ آدھا صبر ہے - (سنن ترمذی:3519 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) صبر سے مراد گناہوں سے رک جانا بھی ہے ۔ اس آیت میں اگر صبر سے یہ مراد لی جائے تو برائیوں سے رکنا اور نیکیاں کرنا دونوں کا بیان ہو گیا ، نیکیوں میں سب سے اعلیٰ چیز نماز ہے ۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں صبر کی دو قسمیں ہیں مصیبت کے وقت صبر اور گناہوں کے ارتکاب سے صبر اور یہ صبر پہلے سے زیادہ اچھا ہے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:155/1:منقطع) حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں انسان کا ہر چیز کا اللہ کی طرف سے ہونے کا اقرار کرنا ۔ ثواب کا طلب کرنا اللہ کے پاس مصیبتوں کے اجر کا ذخیرہ سمجھنا یہ صبر ہے اللہ تعالیٰ کی مرضی کے کام پر صبر کرو اور اسے بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت سمجھو نیکیوں کے کاموں پر نماز سے بڑی مدد ملتی ہے خود قرآن میں ہے «اتْلُ مَا أُوحِیَ إِلَیْکَ مِنَ الْکِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاۃَ إِنَّ الصَّلَاۃَ تَنْہَیٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنکَرِ وَلَذِکْرُ اللہِ أَکْبَرُ وَ اللہُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ» ( 29 ۔ العنکبوت : 45 ) ۔ نماز کو قائم رکھ یہ تمام برائیوں اور بدیوں سے روکنے والی ہے اور یقیناً اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے ۔ سیدنا حذیفہ فرماتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی کام مشکل اور غم میں ڈال دیتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا کرتے فوراً نماز میں لگ جاتے ۔ (سنن ابوداود:1319 ، قال الشیخ الألبانی:حسن) چنانچہ جنگ خندق کے موقع پر رات کے وقت جب سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ خدمت نبوی میں حاضر ہوتے ہیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں پاتے ہیں ۔ (تعظیم قدر الصلاۃ) سیدنا علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ بدر کی لڑائی کی رات میں نے دیکھا کہ ہم سب سو گئے تھے مگر اللہ کے رسول «اللھم صلی وسلم علیہ» ساری رات نماز میں مشغول رہے صبح تک نماز میں اور دعا میں لگے رہے ۔ (تعظیم قدر الصلاۃ:213:حسن) ابن جریر رحمہ اللہ میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ بھوک کے مارے پیٹ کے درد سے بیتاب ہو رہے ہیں آپ نے ان سے ( فارسی زبان میں ) دریافت فرمایا کہ درد شکم داری ؟ کیا تمہارے پیٹ میں درد ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں آپ نے فرمایا اٹھو نماز شروع کر دو اس میں شفاء ہے ۔ (سنن ابن ماجہ:3458 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو سفر میں اپنے بھائی قثم کے انتقال کی خبر ملتی ہے تو آپ رضی اللہ عنہما «إِنَّا لِلہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ» ( البقرہ : 156 ) پڑھ کر راستہ سے ایک طرف ہٹ کر اونٹ بٹھا کر ، نماز شروع کر دیتے ہیں اور بہت لمبی نماز ادا کرتے ہیں پھر اپنی سواری کی طرف جاتے ہیں اور اس آیت کو پڑھتے ہیں غرض ان دونوں چیزوں صبرو صلوٰت سے اللہ کی رحمت میسر آتی ہے ۔ اِنَّھاَ کی ضمیر کا مرجع بعض لوگوں نے تو صلوٰۃ یعنی نماز کو کہا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ کہ مدلول کلام یعنی وصیت اس کا مرجع ہے جیسے قارون کے قصہ میں «وَلَا یُلَقَّاہَا(28-القصص:80)» کی ضمیر اور برائی کے بدلے بھلائی کرنے کے حکم میں «وما یلقھا» کی ضمیر ۔ مطلب یہ ہے کہ صبرو صلوٰۃ ہر شخص کے بس کی چیز نہیں یہ حصہ اللہ کا خوف رکھنے والی جماعت کا ہے ۔ یعنی قرآن کے ماننے والے سچے مومن کانپنے والے متواضع اطاعت کی طرف جھکنے والے وعدے وعید کو سچا ماننے والے ہیں اس وصف سے موصوف ہوتے ہیں جیسے حدیث میں ایک سائل کے سوال پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا یہ بری چیز ہے لیکن جس پر اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہو اس پر آسان ہے ، (سنن ترمذی:2616 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن جریر رحمہ اللہ نے اس آیت کے معنی کرتے ہوئے اسے بھی یہودیوں سے ہی خطاب قرار دیا ہے لیکن ظاہر بات یہ ہے کہ گو یہ بیان انہی کے بارے میں لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» آگے چل کر خاشعین کی صفت ہے اس میں ظن معنی میں یقین کے ہے گو ظن شک کے معنی میں بھی آتا ہے جیسے کہ سدفہ اندھیرے کے معنی میں بھی آتا ہے اور روشنی کے معنی میں بھی اور صارخ کا لفظ بھی فریاد رس اور فریاد کن دونوں کے لیے بولا جاتا ہے اور اسی طرح کے بہت سے نام ہیں جو ایسی دو مختلف چیزوں پر بولے جاتے ہیں ۔ «ظن» یقین کے معنی میں عرب شعراء کے شعروں میں بھی آیا ہے خود قرآن کریم میں «وَرَأَی الْمُجْرِمُونَ النَّارَ فَظَنٰوا أَنَّہُم مٰوَاقِعُوہَا وَلَمْ یَجِدُوا عَنْہَا مَصْرِفًا» ( 18 ۔ الکہف : 53 ) یعنی گنہگار جہنم کو دیکھ کر یقین کر لیں گے کہ اب ہم اس میں جھونک دئیے جائیں گے یہاں بھی «ظن» یقین کے معنی میں ہے بلکہ مجاہد فرماتے ہیں قرآن میں ایسی جگہ «ظن» کا لفظ یقین اور علم کے معنی میں ہے ابوالعالیہ بھی یہاں «ظن» کے معنی یقین کرتے ہیں ۔ حضرت مجاہدرحمہ اللہ ، سدی رحمہ اللہ ، ربیع رحمہ اللہ بن انس اور قتادہ رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے ۔ ابن جریج بھی یہی فرماتے ہیں ۔ قرآن میں دوسری جگہ ہے «اِنِّیْ ظَنَنْتُ اَنِّیْ مُلٰقٍ حِسَابِیَہْ» ( 69 ۔ الحاقہ : 20 ) یعنی مجھے یقین تھا کہ مجھے حساب سے دو چار ہونا ہے ۔ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن ایک گنہگار بندے سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا میں نے تجھے بیوی بچے نہیں دئیے تھے ؟ کیا تجھ پر طرح طرح کے اکرام نہیں کئے تھے ؟ کیا تیرے لیے گھوڑے اور اونٹ مسخر نہیں کئے تھے ؟ کیا تجھے راحت و آرام کھانا پینا میں نے نہیں دیا تھا ؟ یہ کہے گا ہاں پروردگار یہ سب کچھ دیا تھا ۔ پھر کیا تیرا علم و یقین اس بات پر نہ تھا کہ تو مجھ سے ملنے والا ہے ؟ وہ کہے گا ہاں اللہ تعالیٰ اسے نہیں مانتا تھا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا بس تو جس طرح مجھے بھول گیا تھا آج میں بھی تجھے بھلا دوں گا ۔ (صحیح مسلم:2968) اس حدیث میں بھی لفظ ظن کا ہے اور معنی میں یقین کے ہیں اس کی مزید تحقیق و تفصیل ان شاءاللہ تعالیٰ آیت «نَسُوا اللّٰہَ فَاَنْسٰـیہُمْ اَنْفُسَہُمْ» ( 59 ۔ الحشر : 19 ) کی تفسیر میں آگے آئے گی ۔ البقرة
46 البقرة
47 بنی اسرائیل کے آباؤ اجداد پر اللہ تعالٰی کے انعامات بنی اسرائیل کے آباؤ اجداد پر جو نعمت الٰہیہ انعام کی گئی تھی اس کا ذکر ہو رہا ہے کہ ان میں سے رسول ہوئے ان پر کتابیں اتریں انہیں ان کے زمانہ کے دوسرے لوگوں پر مرتبہ دیا گیا جیسے فرمایا «وَلَــقَدِ اخْتَرْنٰہُمْ عَلٰی عِلْمٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ» ( 44 ۔ الدخان : 32 ) یعنی انہیں ان کے زمانے کے ( اور لوگوں پر ) ہم نے علم میں فضیلت دی ۔ اور فرمایا «وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ یٰقَوْمِ اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ اَنْبِیَاءَ وَجَعَلَکُمْ مٰلُوْکًا ڰ وَّاٰتٰیکُمْ مَّا لَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ» (5-المائدۃ:20) یعنی موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اے میری قوم تم اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو جو تم پر انعام کی گئی ہے تم میں اس نے پیغمبر پیدا کئے تمہیں بادشاہ بنایا اور وہ دیا جو تمام زمانے کو نہیں دیا ۔ تمام لوگوں پر فضیلت ملنے سے مراد ان کے زمانے کے تمام اور لوگ ہیں اس لیے کہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے یقیناً افضل ہے اس امت کی نسبت فرمایا گیا ہے «کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ» ( 3 ۔ آل عمران : 110 ) تم بہتر امت ہو جو لوگوں کے لیے بنائی گئی ہو تم بھلائیوں کا حکم کرنے والے اور برائیوں سے روکنے والے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو اگر اہل کتاب بھی ایمان لاتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا ۔ مسانید اور سنن میں مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تم سترویں امت ہو اور سب سے بہتر اور بزرگ ہو ۔ (مسند احمد:447/4:حسن) اس قسم کی اور بہت سی احادیث کا ذکر ان شاءاللہ «کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ» ( 3 ۔ آل عمران : 110 ) کی تفسیر میں آئے گا اور کہا گیا ہے کہ تمام لوگوں پر خاص قسم کی فضیلت مراد ہے جس سے ہر قسم کی فضیلت لازم نہیں آتی ، رازی نے یہی کہا ہے مگر یہ غور طلب بات ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کی فضیلت اور تمام امتوں پر ہے اس لیے کہ انبیاء کرام انہی میں سے ہوتے چلے آئے ہیں لیکن اس میں بھی غورو خوض کی ضرورت ہے اس لیے کہ اس طرح کے اطلاق کے اجتماعی اعزاز کو اگلے لوگوں پر بھی ہوتا ہے ۔ اور حقیقت میں اگلے انبیاء ان میں شمار نہ تھے جیسے ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام اور نبی کریم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جو ان سب کے بعد ہوئے لیکن تمام مخلوق سے افضل تھے اور جو تمام اولاد آدم علیہ السلام کے سردار ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ، «صلوٰۃ اللہ وسلامہ علیہ» ۔ البقرة
48 حشر کا منظر نعمتوں کو بیان کرنے کے بعد عذاب سے ڈرایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ کوئی کسی کو کچھ فائدہ نہ دے گا جیسے فرمایا آیت «وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی» ( 35 ۔ فاطر : 18 ) یعنی کسی کا بوجھ کسی پر نہ پڑے گا اور فرمایا «لِکُلِّ امْرِۍ مِّنْہُمْ یَوْمَیِٕذٍ شَاْنٌ یٰغْنِیْہِ» ( 80 ۔ عبس : 37 ) یعنی اس دن ہر شخص نفسا نفسی میں پڑا ہوا ہو گا اور فرمایا ، اے لوگو اپنے رب کا خوف کھاؤ اور اس دن سے ڈرو جس دن باپ بیٹے کو اور بیٹا باپ کو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا ۔ ارشاد ہے «وَّلَا یُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ وَّلَا یُؤْخَذُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّلَا ھُمْ یُنْصَرُوْنَ» ( 2 ۔ البقرہ : 48 ) یعنی کسی کافر کی نہ کوئی سفارش کرے نہ اس کی سفارش قبول ہو اور فرمایا ان کفار کو شفاعت کرنے والوں کی شفاعت فائدہ نہ دے گی.(74-المدثر:48) دوسری جگہ اہل جہنم کا یہ مقولہ نقل کیا گیا ہے کہ افسوس آج ہمارا نہ کوئی سفارشی ہے نہ دوست ۔ (26-الشعراء:101-100) یہ بھی ارشاد ہے فدیہ بھی نہ لیا جائے گا اور جو لوگ کفر پر مر جاتے ہیں وہ اگر زمین بھر کر سونا دیں اور ہمارے عذابوں سے چھوٹنا چاہیں تو یہ بھی نہیں ہو سکتا.(3-آل عمران:91) اور جگہ ہے کافروں کے پاس اگر تمام زمین کی چیزیں اور اس کے مثال اور بھی ہوں اور قیامت کے دن وہ اسے فدیہ دے کر عذابوں سے بچنا چاہیں تو بھی کچھ قبول نہ ہو گا اور درد ناک عذابوں میں مبتلا رہیں گے.(5-المائدۃ:36) اور جگہ ہے ۔ گو وہ زبردست فدیہ دیں پھر بھی قبول نہیں ۔ (6-الأنعام:70) دوسری جگہ ہے آج تم سے نہ بدلہ لیا جائے نہ ہی کافروں سے تمہارا ٹھکانا جہنم ہے اسی کی آگ تمہاری وارث ہے ۔ (57-الحدید:15) مطلب یہ ہے کہ ایمان کے بغیر سفارش اور شفاعت کا آسرا بیکار محض ہے قرآن میں ارشاد ہے اس دن سے پہلے نیکیاں کر لو جس دن نہ خرید و فروخت ہو گی نہ دوستی (2-البقرۃ:254) اور شفاعت مزید فرمایا «یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْہِ وَلَا خِلٰلٌ» ( 14 ۔ ابراہیم : 31 ) اس دن نہ بیع ہو گی نہ دوستی ۔ عدل کے معنی یہاں بدلے کے ہیں اور بدلہ اور فدیہ ایک ہے علی والی حدیث میں صرف کے معنی نفل اور دل کے معنی فریضہ مروی ہیں ۔(صحیح بخاری:1870) لیکن یہ قول یہاں غریب ہے اور صحیح قول پہلا ہی ہے ایک روایت میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عدل کے کیا معنی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فدیہ ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:887:مرسل و منقطع) ان کی مدد بھی نہ کی جائے گی یعنی کوئی حمایتی نہیں ہو گا ، قرابتیں کٹ جائیں گی جاہ و حشم جاتا رہے گا کسی کے دل میں ان کے لیے رحم نہ رہے گا نہ خود ان میں کوئی قدرت و قوت رہے گی اور جگہ ہے « وَّہُوَ یُجِیْرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْہِ» ( 23 ۔ المؤمنون : 88 ) وہ پناہ دیتا ہے اور اس کی پکڑ سے نجات دینے والا کوئی نہیں ، ایک جگہ ہے آج کے دن نہ اللہ کا سا کوئی عذاب دے سکے نہ اس کی سی قید و بند ۔ ارشاد ہے آیت« مَا لَکُمْ لَا تَنَاصَرُونَ بَلْ ہُمُ الْیَوْمَ مُسْتَسْلِمُونَ» ( 37-الصافات : 25 ، 26 ) تم آج کیوں ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے بلکہ وہ سب کے سب آج گردنیں جھکائے تابع فرمان بنے کھڑے ہیں۔ اور آیت میں ہے « فَلَوْلَا نَــصَرَہُمُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ قُرْبَانًا اٰلِہَۃً فَلَوْلَا نَصَرَہُمُ الَّذِینَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللہِ قُرْبَانًا آلِہَۃً ۖ بَلْ ضَلٰوا عَنْہُمْ ۚ وَذٰلِکَ إِفْکُہُمْ وَمَا کَانُوا یَفْتَرُونَ » ( 46 ۔ الاحقاف : 28 ) اللہ کے نزدیکی کے لیے وہ اللہ کے سوا جن کی پوجا پاٹ کرتے تھے آج وہ معبود اپنے عابدوں کی مدد کیوں نہیں کرتے ؟ بلکہ وہ تو غائب ہو گئے مطلب یہ ہے کہ محبتیں فنا ہو گئیں رشوتیں کٹ گئیں ، شفاعتیں مٹ گئیں ، آپس کی امداد و نصرت نابود ہو گئی معاملہ اس عادل حاکم جبار و قہار اللہ تعالیٰ مالک الملک سے پڑا ہے جس کے ہاں سفارشیوں اور مددگاروں کی مدد کچھ کام نہ آئے بلکہ اپنی تمام برائیوں کا بدلہ بھگتنا پڑے گا ، ہاں یہ اس کی کمال بندہ پروری اور رحم و کرم انعام و اکرام ہے کہ گناہ کا بدلہ برابر دے اور نیکی کا بدلہ کم از کم دس گنا بڑھا کر دے ۔ قرآن کریم میں ایک جگہ ہے کہ«وَقِفُوہُمْ ۖ إِنَّہُم مَّسْئُولُونَ مَا لَکُمْ لَا تَنَاصَرُونَ بَلْ ہُمُ الْیَوْمَ مُسْتَسْلِمُونَ» ( 37-الصافات : 24 - 26 ) وقفہ لینے دو تاکہ ان سے ایک سوال کر لیا جائے گا کہ آج یہ ایک دوسرے کی مدد چھوڑ کر نفسا نفسی میں کیوں مشغول ہیں ؟ بلکہ ہمارے سامنے سر جھکائے اور تابع فرمان ہیں ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:35/1) البقرة
49 احسانات کی یاد دہانی ان آیتوں میں فرمان باری ہے کہ اے اولاد یعقوب علیہ السلام میری اس مہربانی کو بھی یاد رکھو کہ میں نے تمہیں فرعون کے بدترین عذابوں سے چھٹکارا دیا ، فرعون نے ایک خواب دیکھا تھا کہ بیت المقدس کی طرف سے ایک آگ بھڑکی جو مصر کے ہر ہر قبطی کے گھر میں گھس گئی اور بنی اسرائیل کے مکانات میں وہ نہیں گئی جس کی تعبیر یہ تھی کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص پیدا ہو گا جس کے ہاتھوں اس کا غرور ٹوٹے گا اس کے ” اللہ “ کے دعویٰ کی بدترین سزا اسے ملے گی اس لیے اس ملعون نے چاروں طرف احکام جاری کر دئیے کہ «یَسُومُونَکُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَیُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَکُمْ وَیَسْتَحْیُونَ نِسَاءَکُمْ » ( 14-إبراہیم : 6 ) بنی اسرائیل میں جو بچہ بھی پیدا ہو ، سرکاری طور سے اس کی دیکھ بھال رکھی جائے اگر لڑکا ہو تو فوراً مار ڈالا جائے اور لڑکی ہو تو چھوڑ دی جائے ۔ علاوہ ازیں بنی اسرائیل سے سخت بیگار لی جائے ہر طرح کی مشقت کے کاموں کا بوجھ ان پر ڈال دیا جائے ۔ یہاں پر عذاب کی تفسیر لڑکوں کے مار ڈالنے سے کی گئی اور سورۃ ابراہیم میں ایک کا دوسری پر عطف ڈالا جس کی پوری تشریح ان شاءاللہ سورۃ قصص کے شروع میں بیان ہو گی اللہ تعالیٰ ہمیں مضبوطی دے ہماری مدد فرمائے اور تائید کرے آمین ۔ «یَسُومُونَکُمْ» کے معنی مسلسل اور کرنے کے آتے ہیں یعنی وہ برابر دکھ دئیے جاتے تھے چونکہ اس آیت میں پہلے یہ فرمایا تھا کہ میری انعام کی ہوئی نعمت کو یاد کرو اس لیے فرعون کے عذاب کی تفسیر کو لڑکوں کے قتل کرنے کے طور پر بیان فرمایا اور سورۃ ابراہیم علیہ السلام کے شروع میں فرمایا تھا کہ تم اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو ۔ (14-إبراہیم:5) اس لیے وہاں عطف کے ساتھ فرمایا تاکہ نعمتوں کی تعداد زیادہ ہو ۔ یعنی متفرق عذابوں سے اور بچوں کے قتل ہونے سے تمہیں موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں نجات دلوائی ۔ مصر کے جتنے بادشاہ عمالیق وغیرہ کفار میں سے ہوئے تھے ان سب کو فرعون کہا جاتا تھا جیسے کہ روم کے کافر بادشاہ کو قیصر اور فارس کے کافر بادشاہ کو کسریٰ اور یمن کے کافر بادشاہ کو تبع اور حبشہ کے کافر بادشاہ کو نجاشی اور ہند کے کافر بادشاہ کو بطلیموس ۔ اس فرعون کا نام ولید بن مصعب بن ریان تھا ۔ بعض نے مصعب بن ریان بھی کہا ہے ۔ عملیق بن اود بن ارم بن سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے تھا اس کی کنیت ابومرہ تھی ۔ اصل میں اصطخر کے فارسیوں کی نسل میں تھا اللہ کی پھٹکار اور لعنت اس پر نازل ہو ۔ پھر فرمایا کہ اس نجات دینے میں ہماری طرف سے ایک بڑی بھاری نعمت تھی «بَلَاءٌ» کے اصلی معنی آزمائش کے ہیں لیکن یہاں پر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ، مجاہد ، ابوالعالیہ ، ابومالک سدی رحمہ اللہ علیہم وغیرہ سے نعمت کے معنی منقول ہیں ، امتحان اور آزمائش بھلائی برائی دونوں کے ساتھ ہوتی ہے لیکن «بلوتہ بلاء» کا لفظ عموماً برائی کی آزمائش کے لیے اور «ابلیہ, ابلا ,وبلاء» کا لفظ بھلائی کے ساتھ کی آزمائش کے لیے آتا ہے یہ کہا گیا ہے کہ اس میں تمہاری آزمائش یعنی عذاب میں اور اس بچوں کے قتل ہونے میں تھی ۔ قرطبی اس دوسرے مطلب کو جمہور کا قول کہتے ہیں تو اس میں اشارہ ذبح وغیرہ کی طرف ہو گا اور بلاء کے معنی برائی کے ہوں گے پھر فرمایا کہ ہم نے فرعون سے بچا لیا ۔ تم موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ شہر سے نکلے اور فرعون تمہیں پکڑنے کو نکلا تو ہم نے تمہارے لیے پانی کو پھاڑ دیا اور تمہیں اس میں سے پار اتار کر تمہارے سامنے فرعون کو اس کے لشکر سمیت ڈبو دیا ۔ ان سب باتوں کا تفصیل وار بیان سورۃ الشعراء میں آئے گا ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ عمرو بن میمون اودی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر نکلے اور فرعون کو خبر ہوئی تو اس نے کہا کہ جب مرغ بولے تب سب نکلو اور سب کو پکڑ کر قتل کر ڈالو لیکن اس رات اللہ تعالیٰ کی قدرت سے صبح تک کوئی مرغ نہ بولا مرغ کی آواز سنتے ہی فرعون نے ایک بکری ذبح کی اور کہا کہ اس کی کلیجی سے میں فارغ ہوں اس سے پہلے چھ لاکھ قبطیوں کا لشکر جرار میرے پاس حاضر ہو جانا چاہیئے چنانچہ حاضر ہو گیا اور یہ ملعون اتنی بڑی جمعیت کو لے کر بنی اسرائیل کی ہلاکت کے لیے بڑے کروفر سے نکلا اور دریا کے کنارے انہیں پا لیا ۔ اب بنی اسرائیل پر دنیا تنگ آ گئی پچھے ہٹیں تو فرعونیوں کی تلواروں کی بھینٹ چڑھیں آگے بڑھیں تو مچھلیوں کا لقمہ بنیں ۔ اس وقت یوشع بن نون نے کہا کہ اے اللہ کے نبی اب کیا کیا جائے ؟ آپ نے فرمایا حکم الٰہی ہمارا راہنما ہے ، یہ سنتے ہی انہوں نے اپنا گھوڑا پانی میں ڈال دیا لیکن گہرے پانی میں جب غوطے کھانے لگا تو پھر کنارے کی طرف لوٹ آئے اور پوچھا اے موسیٰ علیہ السلام رب کی مدد کہاں ہے ؟ ہم نہ آپ علیہ السلام کو جھوٹا جانتے ہیں نہ رب جلیل کو تین مرتبہ ایسا ہی کہا ۔ اب موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی آئی کہ اپنا عصا دریا پر مارو عصا مارتے ہی پانی نے راستہ دے دیا اور پہاڑوں کہ طرح کھڑا ہو گیا۔(26-الشعراء:63) موسیٰ علیہ السلام اور آپ کے ماننے والے ان راستوں سے گزر گئے انہیں اس طرح پار اترتے دیکھ کر فرعون اور فرعونی افواج نے بھی اپنے گھوڑے اسی راستہ پر ڈال دئیے ۔ جب تمام کے تمام میں داخل ہو گئے پانی کو مل جانے کا حکم ہوا پانی کے ملتے ہی تمام کے تمام ڈوب مرے بنی اسرائیل نے قدرت الٰہی کا یہ نظارہ اپنی آنکھوں سے کنارے پر کھڑے ہو کر دیکھا جس سے وہ بہت ہی خوش ہوئے اپنی آزادی اور فرعون کی بربادی ان کے لیے خوشی کا سبب بنی ۔ یہ بھی مروی ہے کہ یہ دن عاشورہ کا تھا یعنی محرم کی دسویں تاریخ ۔ مسند احمد میں حدیث ہے کہ جب حضور علیہ السلام مدینہ شریف میں تشریف لائے تو دیکھا کہ یہودی عاشورہ کا روزہ رکھتے ہیں پوچھا کہ تم اس دن کا روزہ کیوں رکھتے ہو ؟ انہوں نے کہا اس لیے کہ اس مبارک دن میں بنی اسرائیل نے فرعون کے ظلم سے نجات پائی اور ان کا دشمن غرق ہوا جس کے شکریہ میں موسیٰ علیہ السلام نے یہ روزہ رکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سے زیادہ حقدار موسیٰ علیہ السلام کا میں ہوں پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اس دن روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔ بخاری مسلم نسائی ابن ماجہ وغیرہ میں بھی یہ حدیث موجود ہے ۔ (صحیح بخاری:2004) ایک اور ضعیف حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لیے سمندر کو پھاڑ دیا تھا اس حدیث کے راوی زید العمی ضعیف ہیں اور ان کے استاد یزید رقاشی ان سے بھی زیادہ ضعیف ہیں ۔ (مسند ابویعلیٰ:4094:ضعیف جدًا) البقرة
50 البقرة
51 چالیس دن کا وعدہ یہاں بھی اللہ برترو اعلیٰ اپنے احسانات یاد دلا رہا ہے جب کہ تمہارے نبی موسیٰ علیہ السلام چالیس دن کے وعدے پر تمہارے پاس سے گئے اور اس کے بعد تم نے گوسالہ پرستی شروع کر دی پھر ان کے آنے پر جب تم نے اس شرک سے توبہ کی تو ہم نے تمہارے اتنے بڑے کفر کو بخش دیا اور قرآن میں ہے «وَوَاعَدْنَا مُوسَیٰ ثَلَاثِینَ لَیْلَۃً وَأَتْمَمْنَاہَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیقَاتُ رَبِّہِ أَرْبَعِینَ لَیْلَۃً » (7-الأعراف:142) یعنی ہم نے موسیٰ سے تیس راتوں کا وعدہ کیا اور دس بڑھا کر پوری چالیس راتوں کا کیا ، کہا جاتا ہے کہ یہ وعدے کا زمانہ ذوالقعدہ کا پورا مہینہ اور دس دن ذوالحجہ کے تھے یہ واقعہ فرعونیوں سے نجات پا کر دریا سے بچ کر نکل جانے کے بعد پیش آیا تھا ۔ کتاب سے مراد توراۃ ہے اور فرقان ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو حق و باطل ہدایت و ضلالت میں فرق کرے یہ کتاب بھی اس واقعہ کے بعد ملی جیسے کہ سورۃ الاعراف اس کے اس واقعہ کے طرز بیان سے ظاہر ہوتا ہے دوسری جگہ آیت «مِنْ بَعْدِ مَآ اَہْلَکْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰی» ( 28 ۔ القصص : 43 ) بھی آیا ہے یعنی ہم نے اگلے لوگوں کو ہلاک کرنے کے بعد موسیٰ علیہ السلام کو وہ کتاب دی جو سب لوگوں کے لیے بصیرت افزا اور ہدایت و رحمت ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ واؤ زائد ہے اور خود کتاب کو فرقان کہا گیا ہے لیکن یہ غریب ہے بعض نے کہا ہے کتاب پر ” فرقان “ کا عطف ہے یعنی کتاب بھی دی اور معجزہ بھی دیا ۔ دراصل معنی کے اعتبار سے دونوں کا مفاد ایک ہی ہے اور ایسی ایک چیز دو ناموں سے بطور عطف کے کلام عرب میں آیا کرتی ہے شعراء عرب کے بہت سے اشعار اس کے شاہد ہیں ۔ البقرة
52 البقرة
53 البقرة
54 سخت ترین سزا یہاں ان کی توبہ کا طریقہ بیان ہو رہا ہے انہوں نے بچھڑے کو پوجا اور اس کی محبت نے ان کے دلوں میں گھر کر لیا پھر موسیٰ علیہ السلام کے سمجھانے سے ہوش آیا اور نادم ہوئے اور اپنی گمراہی کا یقین کر کے توبہ استغفار کرنے لگے تب انہیں حکم ہوا کہ تم آپس میں قتل کرو ۔ چنانچہ انہوں نے یہی کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کی اور قاتل و مقتول دونوں کو بخش دیا ۔ اس کا پورا بیان سورۃ طہٰ کی تفسیر میں آئے گا ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ موسیٰ علیہ السلام کا یہ فرمان کہ اپنے خالق سے توبہ کرو بتا رہا ہے کہ اس سے بڑھ کر ظلم کیا ہو گا کہ تمہیں پیدا اللہ تعالیٰ کرے اور تم پوجو غیروں کو ۔ ایک روایت میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے انہیں حکم الٰہی سنایا اور جن جن لوگوں نے بچھڑا پوجا تھا انہیں بٹھا دیا اور دوسرے لوگ کھڑے رہ گئے اور قتل کرنا شروع کیا قدرتی طور پر اندھیرا چھایا ہوا تھا جب اندھیرا ہٹا تو انہیں روک دیا گیا ۔ شمار کرنے پر معلوم ہوا کہ ستر ہزار آدمی قتل ہو چکے ہیں اور ساری قوم کی توبہ قبول ہوئی ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:167/1-168) یہ ایک سخت فرمان تھا جس کی ان لوگوں نے تعمیل کی اور اپنوں اور غیروں کو یکساں تہہ تیغ کیا یہاں تک کہ رحمت الٰہی نے انہیں بخشا اور موسیٰ علیہ السلام سے فرما دیا کہ اب بس کرو ۔ مقتول کو شہید کا اجر دیا قاتل کی اور باقی ماندہ تمام لوگوں کی توبہ قبول فرمائی اور انہیں جہاد کا ثواب دیا ۔ موسیٰ علیہ السلام اور ہارون نے جب اسی طرح اپنی قوم کا قتل دیکھا تو دعا کرنی شروع کی کہ اللہ عزوجل اب تو بنی اسرائیل مٹ جائیں گے چنانچہ انہیں معاف فرما دیا گیا اور پروردگار عالم نے فرمایا کہ اے میرے پیغمبر مقتولوں کا غم نہ کرو وہ ہمارے پاس شہیدوں کے درجہ میں ہیں وہ یہاں زندہ ہیں اور غذا پا رہے ہیں اب آپ علیہ السلام کو اور آپ کی قوم کو صبر آیا اور عورتوں اور بچوں کی گریہ و زاری موقوف ہوئی ۔ تلواریں نیزے چھرے اور چھریاں چلنی بند ہوئیں آپس میں باپ بیٹوں بھائیوں ، بھائیوں میں قتل و خون موقوف ہوا اور اللہ تواب و رحیم نے ان کی توبہ قبول فرمائی ۔ البقرة
55 ہم بھی اللہ عزوجل کو خود دیکھیں گے موسیٰ علیہ السلام جب اپنے ساتھ بنی اسرائیل کے ستر شخصوں کو لے کر اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق کوہ طور پر گئے اور ان لوگوں نے کلام الٰہی سنا تو موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگے ہم تو جب مانیں جب اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے خود دیکھ لیں ۔ اس گستاخانہ سوال پر ان پر آسمان سے ان کے دیکھتے ہوئے بجلی گری اور ایک سخت ہولناک آواز ہوئی جس سے سب کے سب مر گئے ۔ موسیٰ علیہ السلام یہ دیکھ کر گریہ و زاری کرنے لگے اور رو رو کر جناب باری میں عرض کرنے لگے کہ اللہ بنی اسرائیل کو میں کیا جواب دوں گا یہ جماعت تو ان کے سرداروں اور بہترین لوگوں کی تھی پروردگار اگر یہی چاہت تھی تو انہیں اور مجھے اس سے پہلے ہی مار ڈالتا ۔ اللہ تعالیٰ بیوقوفوں کی بیوقوفی کے کام پر ہمیں نہ پکڑ ۔ (7-الأعراف:155) یہ دعا مقبول ہوئی اور آپ کو معلوم کرایا گیا کہ یہ بھی دراصل بچھڑا پوجنے والوں میں سے تھے انہیں سزا مل گئی ۔ پھر انہیں زندہ کر دیا اور ایک کے بعد ایک کر کے سب زندہ کئے گئے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:173/1) ایک دوسرے کے زندہ ہونے کو ایک دوسرا دیکھتا رہا ۔ محمد بن اسحاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کے پاس آئے اور انہیں بچھڑا پوجتے ہوئے دیکھا اور اپنے بھائی کو اور سامری کو تنبیہہ کی ۔ بچھڑے کو جلا دیا اور اس کی راکھ دریا میں بہا دی اس کے بعد ان میں سے بہترین لوگوں کو چن کر اپنے ساتھ لیا جن کی تعداد ستر تھی اور کوہ طور پہ توبہ کرنے کے لیے چلے ان سے کہا کہ تم توبہ کرو ورنہ روزہ رکھو پاک صاف ہو جاؤ کپڑوں کو پاک کر لو جب بحکم الٰہی طور سینا پر پہنچے تو ان لوگوں نے کہا کہ اے اللہ کے پیغمبر اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ اپنا کلام ہمیں بھی سنائے جب موسیٰ علیہ السلام پہاڑ کے پاس پہنچے تو ایک بادل نے آ کر سارے پہاڑ کو ڈھک لیا اور آپ اسی کے اندر اندر اللہ تعالیٰ کے قریب ہو گئے جب کلام رب ذوالجلال شروع ہوا تب موسیٰ علیہ السلام کی پیشانی نور سے چمکنے لگی اس طرح کہ کوئی اس طرف نظر اٹھانے کی تاب نہیں رکھتا تھا ۔ بادل کی اوٹ ہو گئی اور سب لوگ سجدے میں گر پڑے اور موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے آپ کے ساتھی بنی اسرائیل بھی اللہ تعالیٰ کا کلام سننے لگے کہ انہیں حکم احکام ہو رہے ہیں جب کلام الہ العالمین ختم ہوا بادل چھٹ گیا اور موسیٰ علیہ السلام ان کے پاس چلے آئے تو یہ لوگ کہنے لگے موسیٰ ہم تو ایمان نہ لائیں گے جب تک اپنے رب کو اپنے سامنے نہ دیکھ لیں ۔ اس گستاخی پر ایک زلزلہ آیا اور سب کے سب ہلاک ہو گئے ۔ اب موسیٰ علیہ السلام نے خلوص دل کے ساتھ دعائیں شروع کیں اور کہنے لگے اس سے تو یہی اچھا تھا کہ ہم سب اس سے پہلے ہی ہلاک ہو جاتے ۔ بیوقوفوں کے کاموں پر ہمیں ہلاک نہ کر یہ لوگ ان کے چیدہ اور پسندیدہ لوگ تھے جب میں تنہا بنی اسرائیل کے پاس جاؤں گا تو انہیں کیا جواب دوں گا کون میری بات اس کو سچا سمجھے گا اور پھر اس کے بعد کون مجھ پر ایمان لائے گا ؟ اللہ ہماری توبہ ہے ۔ تو قبول فرما ۔ اور ہم پر فضل و کرم کر ، موسیٰ علیہ السلام یونہی خشوع و خضوع سے دعا مانگتے رہے یہاں تک کہ پروردگار نے ان کی اس دعا کو قبول فرمایا اور ان مردوں کو زندہ کر دیا ، اب سب نے ایک زبان ہو کر بنی اسرائیل کی طرف سے توبہ شروع کی ان سے فرمایا گیا کہ جب تک یہ اپنی جانوں کو ہلاک نہ کریں اور ایک دوسرے کو قتل نہ کریں میں ان کی توبہ قبول نہیں فرماؤں گا ۔ سدی کبیر کہتے ہیں یہ واقعہ بنی اسرائیل کے آپس میں لڑانے کے بعد کا ہے ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ خطاب گو عام ہے لیکن حقیقت میں اس سے مراد وہی ستر شخص ہیں ۔ رازی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں ان ستر شخصوں کے بارے میں لکھا ہے کہ انہوں نے اپنے جینے کے بعد کہا کہ اے نبی اللہ علیہ السلام ، اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں نبی بنا دے ۔ آپ علیہ السلام نے دعا کی اور وہ قبول بھی ہوئی لیکن یہ قول غریب ہے موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں سوائے ہارون علیہ السلام کے اور اس کے بعد یوشع بن نون علیہ السلام کے کسی اور کی نبوت ثابت نہیں ۔ اہل کتاب کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ان لوگوں نے اپنی دعا کے مطابق اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے اسی جگہ دیکھا یہ بھی غلط ہے اس لیے کہ خود موسیٰ علیہ السلام نے جب دیدار باری تعالیٰ کا سوال کیا تو انہیں منع کر دیا گیا پھر بھلا یہ ستر اشخاص دیدار باری تعالیٰ کی تاب کیسے لاتے ؟ اس آیت کی تفسیر میں ایک دوسرا قول بھی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام توراۃ لے کر آئے جو احکام کا مجموعہ تھی اور ان سے کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اس پر عمل کرو اور مضبوطی کے ساتھ اس کے پابند ہو جاؤ تو وہ کہنے لگے کہ ہمیں کیا خبر اللہ تعالیٰ خود آ کر ظاہر ہو کر ہم سے کیوں نہیں کہتا ؟ کیا وجہ ہے کہ وہ آپ سے باتیں کرے اور ہم سے نہ کرے ؟ جب تک ہم اللہ کو خود نہ دیکھ لیں ہرگز ایمان نہ لائیں گے اس قول پر ان کے اوپر غضب الٰہی نازل ہوا اور ہلاک کر دئیے گئے پھر زندہ کئے گئے پھر موسیٰ علیہ السلام نے انہیں کہا کہ اب تو اس توراۃ کو تھام لو انہوں نے پھر انکار کیا اب کی مرتبہ فرشتے پہاڑ اٹھا کر لائے اور ان کے سروں کے اوپر معلق کر دیا کہ اگر نہ مانو گے تو یہ پہاڑ تم پر گرا دیا جائے گا اور تم سب پیس ڈالے جاؤ گے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:88/2 ) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مرنے کے بعد یہ جی اٹھے اور پھر بھی مکلف رہے یعنی احکام الٰہی ان پر پھر بھی جاری رہے ماوردی نے کہا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی یہ زبردست نشانی دیکھ لی مرنے کے بعد زندہ ہوئے تو پھر تکلیف شرعی ان پر سے ہٹ گئی اس لیے کہ اب تو یہ مجبور تھے کہ سب کچھ مان لیں ۔ خود ان پر یہ واردات پیش آئی اب تصدیق ایک بے اختیاری امر ہو گیا ۔ دوسری جماعت کہتی ہے کہ نہیں بلکہ باوجود اس کے وہ احکام شرع کے مکلف رہے کیونکہ ہر عاقل مکلف ہے ۔ قرطبی کہتے ہیں ٹھیک قول یہی ہے یہ امور ان پر قدرتی طور سے آئے تھے جو انہیں پابندی شرع سے آزاد نہیں کر سکتے خود بنی اسرائیل نے بھی بڑے بڑے معجزات دیکھے خود ان کے ساتھ ایسے ایسے معاملات ہوئے جو بالکل نادر اور خلاف قیاس اور زبردست معجزات تھے باوجود اس کے وہ بھی مکلف رہے اسی طرح یہ بھی ٹھیک قول ہے اور واضح امر بھی یہی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» البقرة
56 البقرة
57 یہود پر احسانات الہیہ کی تفصیل سابقہ آیات میں بیان ہوا تھا کہ فلاں فلاں بلائیں ہم نے تم پر سے دفع کر دیں اب بیان ہو رہا ہے کہ فلاں فلاں نعمتیں بھی ہم نے تمہیں عطا فرمائیں «غمام» «غمامتہ» کی جمع ہے چونکہ یہ آسمان کو چھپا لیتا ہے اس لیے اسے غمامہ کہتے ہیں یہ ایک سفید رنگ کا بادل تھا جو وادی تیہ میں ان کے سروں پر سایہ کئے رہتا تھا جیسے نسائی وغیرہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک لمبی حدیث میں مروی ہے ، ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ، ربیع بن انس ابو مجاز ضحاک اور سدی رحمہ اللہ علیہم نے بھی یہی کہا ہے حسن اور قتادہ رحمہ اللہ علیہما بھی یہی کہتے ہیں اور لوگ کہتے ہیں کہ یہ بادل عام بادلوں سے زیادہ ٹھنڈک والا اور زیادہ عمدہ تھا ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ وہی بادل تھا جس میں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آئے گا ابوحذیفہ کا قول بھی یہی ہے «ھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ یَّاْتِیَہُمُ اللّٰہُ فِیْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلٰیِٕکَۃُ وَقُضِیَ الْاَمْرُ وَاِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ» ( 2 ۔ البقرہ : 210 ) اس آیت میں اس کا ذکر ہے کہ کیا ان لوگوں کو اس کا انتظار ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے بادل میں آئے ۔ یہی وہ بادل ہے جس میں بدر والے دن فرشتے نازل ہوئے تھے ۔ جو ” من “ ان پر اترا وہ درختوں پر اترا تھا ۔ یہ صبح جاتے تھے اور جمع کر کے کھا لیا کرتے تھے وہ گوند کی قسم کا تھا ۔ کوئی کہتا ہے شبنم کی وضع کا تھا قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اولوں کی طرح ” من “ ان کے گھروں میں اترتا تھا جو دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا تھا ۔ صبح صادق سے لے کر آفتاب نکلنے تک اترتا رہتا تھا ہر شخص اپنے گھربار کے لیے اتنی مقدار میں جمع کر لیتا تھا جتنا اس دن کافی ہو اگر کوئی زیادہ لیتا تو بگڑ جاتا تھا ۔ جمعہ کے دن وہ دو دن کا لے لیتے تھے جمعہ اور ہفتہ کا اس لیے کہ ہفتہ ان کا بڑا دن تھا ربیع بن انس کہتے ہیں من شہد جیسی چیز تھی جس میں پانی ملا کر پیتے تھے شعبی فرماتے ہیں تمہارا یہ شہد اس ” من “ کا سترواں حصہ ہے شعروں میں یہی ” من “ شہد کے معنی میں آیا ہے یہ سب اقوال قریب قریب ہیں غرض یہ ہے کہ ایک ایسی چیز تھی جو انہیں بلا تکلیف و تکلف ملتی تھی اگر صرف اسے کھایا جائے تو وہ کھانے کی چیز تھی اور اگر پانی میں ملا لی جائے تو پینے کی چیز تھی اور اگر دوسری چیزوں کے ساتھ مرکب کر دی جاتی تو اور چیز ہو جاتی تھی ۔ لیکن یہاں ” من “ سے مراد یہی ” من “ مشہور نہیں ۔ صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کھمبی من میں سے ہے اور اس کا پانی آنکھ کے لیے شفاء ہے ۔ (صحیح بخاری:4478) ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں ترمذی میں ہے کہ عجوہ جو مدینہ کی کھجوروں کی ایک قسم ہے وہ جنتی چیز ہے اور اس میں زہر کا تریاق ہے اور کھمبی من میں سے ہے اور اس کا پانی آنکھ کے درد کی دوا ہے ۔ (سنن ترمذی:2066 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ حدیث حسن غریب ہے ۔ دوسرے بہت سے طریقوں سے بھی مروی ہے ۔ ابن مردویہ کی حدیث میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس درخت کے بارے میں اختلاف کیا جو زمین کے اوپر ہوتا ہے جس کی جڑیں مضبوط نہیں ہوتیں ۔ بعض کہنے لگے کھمبی کا درخت ہے آپ نے فرمایا کھمبی تو “ من “ میں سے ہے اور اس کا پانی آنکھ کے لیے شفاء ہے ۔ (ابن عدی فی الکامل 370/2صحیح بالشواھد) «سلویٰ» ایک قسم کا پرند ہے چڑیا سے کچھ بڑا ہوتا ہے ۔ سرخی مائل رنگ کا جنوبی ہوائیں چلتی تھی اور ان پرندوں کو وہاں لا کر جمع کر دیتی تھیں بنی اسرائیل اپنی ضرورت کے مطابق انہیں پکڑ لیتے تھے اور ذبح کر کے کھاتے تھے اگر ایک دن گزر کر بچ جاتا تو وہ بگڑ جاتا تھا اور جمعہ کے دن دو دن کے لیے جمع کر لیتے تھے کیونکہ ہفتہ کا دن ان کے لیے عید کا دن ہوتا تھا اس دن عبادتوں میں مشغول رہنے اور شکار وغیرہ سے بچنے کا حکم تھا ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:179/1) بعض لوگوں نے کہا ہے کہ یہ پرند کبوتر کے برابر ہوتے تھے ایک میل کی لمبائی چوڑائی میں ایک نیزے کے برابر اونچا ڈھیر ان پرندوں کا ہو جاتا تھا ۔ یہ دونوں چیزیں ان پر وادی تیہ میں اتری تھیں ۔ جہاں انہوں نے اپنے پیغمبر علیہ السلام سے کہا تھا کہ اس جنگل میں ہمارے کھانے کا بندوبست کیسے ہو گا تب ان پر «مَنَّ وَالسَّلْوَیٰ» اتارا گیا اور پانی کے لیے جب موسیٰ علیہ السلام سے درخواست کی گئی تو پروردگار عالم نے فرمایا کہ ” اس پتھر پر اپنا عصا مارو “ (2-البقرۃ:60) عصا لگتے ہی اس سے بارہ چشمے جاری ہو گئے اور بنی اسرائیل کے بارہ ہی فرقے تھے ۔ ہر قبیلہ نے ایک ایک چشمہ اپنے لیے بانٹ لیا ، پھر سایہ کے طالب ہوئے کہ اس چٹیل میدان میں سایہ بغیر گزر مشکل ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے طور پہاڑ کا ان پر سایہ کر دیا ، رہ گیا لباس تو قدرت الٰہی سے جو لباس وہ پہنے ہوئے تھے وہ ان کے قد کے بڑھنے کے ساتھ بڑھتا رہتا تھا ایک سال کے بچہ کا لباس جوں جوں اس کا قدوقامت بڑھتا لباس میں بڑھتا جاتا نہ پھٹتا نہ خراب ہوتا نہ میلا ہوتا ، ان تمام نعمتوں کا ذکر مختلف جگہ قرآن پاک میں موجود ہے جیسے یہ آیت اور آیت «وَإِذِ اسْتَسْقَیٰ مُوسَیٰ لِقَوْمِہِ فَقُلْنَا اضْرِب بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ» ( البقرہ : 60 ) والی آیت وغیرہ ۔ ہذلی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سلویٰ شہد کو کہتے ہیں لیکن ان کا یہ قول غلط ہے اور جوہری نے بھی یہی کہا ہے اور اس کی شہادت میں عرب شاعروں کے شعر اور بعض لغوی محاورے بھی پیش کئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ ایک دوا کا نام ہے ۔ کسائی رحمہ اللہ کہتے ہیں سلویٰ واحد کا لفظ ہے اور اس کی جمع سلاوی آتی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ جمع میں اور مفرد میں یہی صیغہ رہتا ہے یعنی لفظ سلویٰ ۔ غرض یہ اللہ کی دو نعمتیں تھیں جن کا کھانا ان کے لیے مباح کیا گیا لیکن ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کی ناشکری کی اور یہی ان کا اپنی جانوں پر ظلم کرنا تھا باوجودیکہ اس سے پہلے بہت کچھ اللہ کی نعمتیں ان پر نازل ہو چکی تھیں ۔ تقابلی جائزہ بنی اسرائیل کی حالت کا یہ نقشہ آنکھوں کے سامنے رکھ کر پھر اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت پر نظر ڈالو کہ باوجود سخت سے سخت مصیبتیں جھیلنے اور بے انتہا تکلیفیں برداشت کرنے کے وہ اتباع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اور عبادت الٰہی پر جمے رہے نہ معجزات طلب کئے نہ دنیا کی راحتیں مانگیں نہ اپنے تعیش کے لیے کوئی نئی چیز پیدا کرنے کی خواہش کی ، جنگ تبوک میں جبکہ بھوک کے مارے بیتاب ہو گئے اور موت کا مزہ آنے لگا تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یا رسول اللہ اس کھانے میں برکت کی دعا کیجئے اور جس کے پاس جو کچھ بچا کھچا تھا جمع کر کے حاضر کر دیا جو سب مل کر بھی نہ ہونے کے برابر ہی تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے قبول فرما کر اس میں برکت دی انہوں نے خوب کھایا بھی اور تمام توشے دان بھر لیے ، پانی کے قطرے قطرے کو جب ترسنے لگے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے ایک ابر آیا اور ریل پیل کر دی ، پیا پلایا اور مشکیں اور مشکیزے سب بھر لیے ۔ پس صحابہ رضی اللہ عنہم کی اس ثابت قدمی اوالوالعزمی کامل اتباع اور سچی توحید نے ان کی اصحاب موسیٰ علیہ السلام پر قطعی فضیلت ثابت کر دی ۔ البقرة
58 یہود کی پھر حکم عدولی جب موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے آئے اور انہیں ارض مقدس میں داخل ہونے کا حکم ہوا جو ان کی موروثی زمین تھی ان سے کہا گیا کہ یہاں جو عمالیق ہیں ان سے جہاد کرو تو ان لوگوں نے نامردی دکھائی جس کی سزا میں انہیں میدان تیہ میں ڈال دیا گیا جیسے کہ سورۃ المائدہ میں ذکر ہے «یَا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِی کَتَبَ اللہُ» ( 5-المائدۃ : 21 - 24 ) الخ ، قریہ سے مراد بیت المقدس ہے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:181/1) سدی ، ربیع ، قتادہ ، ابو مسلم رحمہ اللہ علیہم وغیرہ نے یہی کہا ہے ، قرآن میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم اس پاک زمین میں جاؤ جو تمہارے لیے لکھ دی گئی ہے بعض کہتے ہیں اس سے مراد ” اریحا “ ہے بعض نے کہا ہے مصر مراد ہے لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے کہ مراد اس سے بیت المقدس ہے یہ واقعہ تیہ سے نکلنے کے بعد کا ہے جمعہ کے دن شام کو اللہ تعالیٰ نے انہیں اس پر فتح عطا کی بلکہ سورج کو ان کے لیے ذرا سی دیر ٹھہرا دیا تھا تاکہ فتح ہو جائے فتح کے بعد انہیں حکم ہوا کہ اس شہر میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہوں ۔ جو اس فتح کی اظہار تشکر کا مظہر ہو گا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سجدے سے مراد رکوع لیا ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:113/2) راوی کہتے ہیں کہ سجدے سے مراد یہاں پر خشوع خضوع ہے کیونکہ حقیقت پر اسے محمول کرنا ناممکن ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں یہ دروازہ قبلہ کی جانب تھا اس کا نام باب الحطۃٰ تھا ۔ رازی رحمہ اللہ نے یہ بھی کہا ہے کہ دروازے سے مراد جہت قبلہ ہے ۔ بجائے سجدے کے اس قوم نے اپنی رانوں پر کھسکنا شروع کیا اور کروٹ کے بل داخل ہونے لگے سروں کو جھکانے کے بجائے اور اونچا کر لیا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:183/1) حطتہ کے معنی بخشش کے ہیں ۔ (ایضاً) بعض نے کہا ہے کہ یہ امر حق ہے عکرمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں اس سے مراد ( لا الہٰ الا اللہ ) کہنا ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں ان میں گناہوں کا اقرار ہے حسن اور قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کے معنی یہ ہیں اللہ ہماری خطاؤں کو ہم سے دور کر دے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:185/1)پھر ان سے وعدہ کیا جاتا ہے کہ اگر تم اسی طرح یہی کہتے ہوئے شہر میں جاؤ گے اور اس فتح کے وقت بھی اپنی پستی اور اللہ کی نعمت اور اپنے گناہوں کا اقرار کرو گے اور مجھ سے بخشش مانگو تو چونکہ یہ چیزیں مجھے بہت ہی پسند ہیں میں تمہاری خطاؤں سے درگزر کر لوں گا ۔ فتح مکہ کے موقع پر فرمان الٰہی سورۃ اذا جاء نازل ہوئی تھی ۔ (110-النصر:1) اور اس میں بھی یہی حکم دیا گیا تھا کہ جب اللہ کی مدد آ جائے مکہ فتح ہو اور لوگ دین اللہ میں فوج در فوج آنے لگیں تو اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم اپنے رب کی تسبیح اور حمد و ثنا بیان کرو اس سے استغفار کرو وہ توبہ قبول کرنے والا ہے ۔ اس سورت میں جہاں ذکرو استغفار کا ذکر ہے وہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری وقت کی خبر تھی ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہم کے سامنے اس سورت کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا تھا ۔ (صحیح بخاری:4294) جسے آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا جب مکہ فتح ہونے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہر میں داخل ہوئے تو انتہائی تواضع اور مسکینی کے آثار آپ پر تھے یہاں تک کے سر جھکائے ہوئے تھے اونٹنی کے پالان سے سر لگ گیا تھا ۔ شہر میں جاتے ہی غسل کر کے ضحیٰ کے وقت آٹھ رکعت نماز ادا کی ۔ (صحیح بخاری:1103 ) جو ضحیٰ کی نماز بھی تھی اور فتح کے شکریہ کی بھی دونوں طرح کے قول محدثین کے ہیں ۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے جب ملک ایران فتح کیا اور کسری کے شاہی محلات میں پہنچے تو اسی سنت کے مطابق آٹھ رکعتیں پڑھیں دو دو رکعت ایک سلام سے پڑھنے کا بعض کا مذہب ہے اور بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ آٹھ ایک ساتھ ایک ہی سلام سے پڑھیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بنی اسرائیل کو حکم کیا گیا کہ وہ سجدہ کرتے ہوئے اور (حِطَّۃٌ) کہتے ہوئے دروازے میں داخل ہوں لیکن انہوں نے بدل دیا اور اپنی رانوں پر گھسٹتے ہوئے اور (حِطَّۃٌ) کے بجائے (حَبَّۃٌ فِیْ شَعْرَۃٍ) کہتے ہوئے جانے لگے ۔ (صحیح بخاری:4479) نسائی ، عبدالرزاق ، ابوداؤد ، مسلم اور ترمذی میں بھی یہ حدیث بہ اختلاف الفاظ موجود ہے اور سنداً صحیح ہے ۔ (صحیح بخاری:4479) سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہے تھے ۔ ذات الحنطل نامی گھاٹی کے قریب پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس گھاٹی کی مثال بھی بنی اسرائیل کے اس دروازے جیسی ہے جہاں انہیں سجدہ کرتے ہوئے اور حِطَّۃٌ کہتے ہوئے داخل ہونے کو کہا گیا تھا اور ان کے گناہوں کی معافی کا وعدہ کیا گیا تھا ۔ (مسند بزار 1812:ضعیف) برآء فرماتے ہیں سَیَقُوْلُ السٰفَہَاءُ میں السٰفَہَاءُ یعنی جاہلوں سے مراد یہود ہیں جنہوں نے اللہ کی بات کو بدل دیا تھا سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حِطَّۃٌ کے بدلے انہوں نے حنطۃ حبتہ حمراء فیھا شعیرۃ کہا تھا ان کی اپنی زبان میں ان کے الفاظ یہ تھے ھطا سمعانا ازبتہ مزبا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی ان کی اس لفظی تبدیلی کو بیان فرماتے ہیں کہ رکوع کرنے کے بدلے وہ رانوں پر گھسٹتے ہوئے اور حِطَّۃٌ کے بدلے حنطۃ کہتے ہوئے داخل ہوئے عطا ، مجاہد ، عکرمہ ، ضحاک ، حسن ، قتادہ ، ربیع ، یحییٰ رحمہ اللہ علیہم نے بھی یہی بیان کیا ہے مطلب یہ ہے کہ جس قول و فعل کا انہیں حکم دیا گیا تھا انہوں نے مذاق اڑایا جو صریح مخالفت اور معاندت تھی اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنا عذاب نازل فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے ظالموں پر ان کے فسق کی وجہ سے آسمانی عذاب نازل فرمایا ۔ رجز سے مراد عذاب ہے کوئی کہتا ہے غضب ہے کسی نے طاعون کہا ہے ایک مرفوع حدیث ہے طاعون رجز ہے اور یہ عذاب تم سے اگلے لوگوں پر اتارا گیا تھا ۔ (صحیح مسلم:2218) بخاری اور مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب تم سنو کہ فلاں جگہ طاعون ہے تو وہاں نہ جاؤ الخ(صحیح بخاری:5728) ابن جریر میں ہے کہ یہ دکھ اور بیماری رجز ہے تم سے پہلے لوگ انہی سے عذاب دئیے گئے تھے ۔ (صحیح بخاری:3473) البقرة
59 البقرة
60 یہود پر تسلسل احسانات یہ ایک اور نعمت یاد دلائی جا رہی ہے کہ جب تمہارے نبی علیہ السلام نے تمہارے لیے پانی طلب کیا تو ہم نے اس پتھر سے چشمے بہا دئیے جو تمہارے ساتھ رہا کرتا تھا اور تمہارے ہر قبیلے کے لیے اس میں سے ایک ایک چشمہ ہم نے جاری کرا دیا جسے ہر قبیلہ نے جان لیا اور ہم نے کہہ دیا کہ من و سلویٰ کھاتے رہو اور ان چشموں کا پانی پیتے رہو بے محنت کی روزی کھا پی کر ہماری عبادت میں لگے رہو نافرمانی کر کے زمین میں فساد مت پھیلاؤ ورنہ یہ نعمتیں چھن جائیں گی ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہ ایک چکور پتھر تھا جو ان کے ساتھ ہی تھا ۔ موسیٰ علیہ السلام نے بحکم اللہ اس پر لکڑی ماری چاروں طرف سے تین تین نہریں بہ نکلیں ۔ یہ پتھر بیل کے سر جتنا تھا جو بیل پر لاد دیا جاتا تھا ۔ جہاں اترتے رکھ دیتے اور عصا کی ضرب لگتے ہی اس میں سے نہریں بہ نکلیں ۔ جب کوچ کرتے اٹھا لیتے نہریں بند ہو جاتیں اور پتھر کو ساتھ رکھ لیتے ۔ یہ پتھر طور پہاڑ کا تھا ایک ہاتھ لمبا اور ایک ہاتھ چوڑا تھا بعض کہتے ہیں یہ جنتی پتھر تھا دس دس ہاتھ لمبا چوڑا تھا دو شاخیں تھیں جو چمکتی رہتی تھیں ۔ ایک اور قول میں ہے کہ یہ پتھر آدم کے ساتھ جنت سے آیا تھا اور یونہی ہاتھوں ہاتھ پہنچتا ہوا شعیب کو ملا تھا انہوں نے لکڑی اور پتھر دونوں موسیٰ علیہ السلام کو دئے تھے بعض کہتے ہیں یہ وہی پتھر ہے جس پر موسیٰ علیہ السلام اپنے کپڑے رکھ کر نہا رہے تھے اور بحکم الٰہی یہ پتھر آپ کے کپڑے لے کر بھاگا تھا اسے موسیٰ علیہ السلام نے جبرائیل علیہ السلام کے مشورے سے اٹھا لیا تھا جس سے آپ کا معجزہ ظاہر ہوا ۔ زمخشری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حجر پر الف لام جنس کے لیے ہے عہد کے لیے نہیں یعنی ک سی ایک پتھر پر عصا مارو یہ نہیں کہ فلاں پتھر ہی پر مارو حسن سے بھی یہی مروی ہے اور یہی معجزے کا کمال اور قدرت کا پورا اظہار ہے آپ کی لکڑی لگتے ہی وہ بہنے لگتا اور پھر دوسری لکڑی لگتے ہی خشک ہو جاتا بنی اسرائیل آپس میں کہنے لگے کہ اگر یہ پتھر گم ہو گیا تو ہم پیاسے مرنے لگیں گے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم لکڑی نہ مارو صرف زبانی کہو تاکہ انہیں یقین آ جائے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ہر ایک قبیلہ اپنی اپنی نہر کو اس طرح جان لیتا کہ ہر قبیلہ کا ایک ایک آدمی پتھر کے پاس کھڑا رہ جاتا اور لکڑی لگتے ہی اس میں سے چشمے جاری ہو جاتے جس شخص کی طرف جو چشمہ جاتا وہ اپنے قبیلے کو بلا کر کہہ دیتا کہ یہ چشمہ تمہارا ہے یہ واقعہ میدان تیہ کا ہے سورۃ الاعراف میں بھی اس واقعہ کا بیان ہے«وَقَطَّعْنَاہُمُ اثْنَتَیْ عَشْرَۃَ أَسْبَاطًا أُمَمًا ۚ وَأَوْحَیْنَا إِلَیٰ مُوسَیٰ إِذِ اسْتَسْقَاہُ قَوْمُہُ أَنِ اضْرِب بِّعَصَاکَ الْحَجَرَفَانبَجَسَتْ» (7-الأعراف:160) لیکن چونکہ وہ سورت مکی ہے اس لیے وہاں ان کا بیان غائب کی ضمیر سے کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے جو احسانات ان پر نازل فرمائے تھے وہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دہرائے ہیں اور یہ سورت مدنی ہے اس لیے یہاں خود انہیں خطاب کیا گیا ہے ۔ سورۃ الاعراف میں «فَانبَجَسَتْ»(7-الأعراف:160) کہا اور یہاں «فَانفَجَرَتْ» کہا اس لیے کہ وہاں اول اول جاری ہونے کے معنی میں ہے اور یہاں آخری حال کا بیان ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اور ان دونوں جگہ کے بیان میں دس وجہ سے فرق ہے جو فرق لفظی بھی ہے اور معنوی بھی زمخشری نے اپنے طور پر ان سب وجوہ کو بیان کیا ہے اور حقیقت اس میں قریب ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» البقرة
61 احسان فراموش یہود یہاں بنی اسرائیل کی بے صبری اور نعمت اللہ کی ناقدری بیان کی جا رہی ہے کہ من و سلویٰ جیسے پاکیزہ کھانے پر ان سے صبر نہ ہو سکا اور ردی چیزیں مانگنے لگے ایک طعام سے مراد ایک قسم کا کھانا یعنی من و سلویٰ ہے ۔ «فوم» کے معنی میں اختلاف ہے سیدنا ابن مسعود کی قرأت میں «ثوم» ہے ، مجاہدرحمہ اللہ نے «فوم» کی تفسیر «ثوم» کے ساتھ کی ہے ۔ یعنی لہسن ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی یہ تفسیر مروی ہے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:193/1) اگلی لغت کی کتابوں میں «فوموالنا» کے معنی «اختبروا» یعنی ہماری روٹی پکاؤ کے ہیں امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر یہ صحیح ہو تو یہ حروف مبدلہ میں سے ہیں جیسے «عاثور شر» ، «عافور شر» ، «اثافی» ، «اثاثی» ، «مفافیر» ، «مغاثیر» وغیرہ جن میں ف سے ث اور ث سے ف بدلا گیا کیونکہ یہ دونوں مخرج کے اعتبار سے بہت قریب ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» (تفسیر ابن جریر الطبری:130/2) اور لوگ کہتے ہیں فوم کے معنی گیہوں کے ہیں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی یہی تفسیر منقول ہے اور احیحہ بن جلاح کے شعر میں بھی فوم گیہوں کے معنی میں آیا ہے بنی ہاشم کی زبان میں فوم گیہوں کے معنی میں مستعمل تھا ۔ فوم کے معنی روٹی کے بھی ہیں بعض نے سنبلہ کے معنی کئے ہیں ۔ حضرت قتادہ اور عطا رحمہ اللہ علیہما فرماتے ہیں جس اناج کی روٹی پکتی ہے اسے فوم کہتے ہیں بعض کہتے ہیں فوم ہر قسم کے اناج کو کہتے ہیں موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو ڈانٹا کہ تم ردی چیز کو بہتر کے بدلے کیوں طلب کرتے ہو ؟ پھر فرمایا شہر میں جاؤ وہاں یہ سب چیزیں پاؤ گے جمہور کی قرأت «مصرا» ہی ہے اور تمام قرأتوں میں یہی لکھا ہوا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ شہروں میں سے کسی شہر میں چلے جاؤ ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:194/1) سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا ابن مسعود سے مصر کی قراء ت بھی ہے اور اس کی تفسیر مصر شہر سے کی گئی ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مصراً سے بھی مراد مخصوص شہر مصر لیا گیا ہو اور یہ الف مصرا کا ایسا ہو جیسا «قواریرا قواریرا» (76-الإنسان:15-16)میں ہے مصر سے مراد عام شہر لینا ہی بہتر معلوم ہوتا ہے تو مطلب یہ ہوا کہ جو چیز تم طلب کرتے ہو یہ تو آسان چیز ہے جس شہر میں جاؤ گے یہ تمام چیزیں وہاں پا لو گے میری دعا کی بھی کیا ضرورت ہے ؟ کیونکہ ان کا یہ قول محض تکبر سرکشی اور بڑائی کے طور پر تھا اس لیے انہیں کوئی جواب نہیں دیا گیا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» پاداش عمل مطلب یہ ہے کہ ذلت اور مسکینی ان پر کا مقدر بنا دی گئی ۔ اہانت و پستی ان پر مسلط کر دی گئی جزیہ ان سے وصول کیا گیا مسلمانوں کے قدموں تلے انہیں ڈال دیا گیا فاقہ کشی اور بھیک کی نوبت پہنچی اللہ کا غضب و غصہ ان پر اترا “ بَآءَ “ کے معنی لوٹنے اور “ رجوع کیا “ کے ہیں بَآءَ کبھی بھلائی کے صلہ کے ساتھ اور کبھی برائی کے صلہ کے ساتھ آتا ہے یہاں برائی کے صلہ کے ساتھ ہے یہ تمام عذاب ان کے تکبر عناد حق کی قبولیت سے انکار ، اللہ کی آیتوں سے کفر انبیاء اور ان کے تابعداروں کی اہانت اور ان کے قتل کی بنا پر تھا اس سے زیادہ بڑا کفر کون سا ہو گا ؟ کہ اللہ کی آیتوں سے کفر کرتے اور اس کے نبیوں علیہ السلام کو بلاوجہ قتل کرتے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تکبر کے معنی حق کو چھپانے اور لوگوں کو ذلیل سمجھنے کے ہیں ۔ (صحیح مسلم:91) ۔ مالک بن مرارہ رہاوی رضی اللہ عنہ ایک روز خدمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں خوبصورت آدمی ہوں میرا دل نہیں چاہتا کہ کسی کی جوتی کا تسمہ بھی مجھ سے اچھا ہو تو کیا یہ تکبر اور سرکشی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ تکبر اور سرکشی حق کو رد کرنا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے ۔ (مسند احمد:385/1:صحیح) چونکہ بنی اسرائیل کا تکبر کفرو قتل انبیاء تک پہنچ گیا تھا اس لیے اللہ کا غضب ان پر لازم ہو گیا ۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک ایک بنی اسرائیل ان میں موجود تین تین سو نبیوں کو قتل کر ڈالتے تھے پھر بازاروں میں جا کر اپنے لین دین میں مشغول ہو جاتا ۔ ( ابوداؤد طیالسی ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے زیادہ سخت عذاب قیامت کے دن اس شخص کو ہو گا جسے کسی نبی نے قتل کیا ہو یا اس نے کسی نبی کو مار ڈالا ہو اور گمراہی کا وہ امام جو تصویریں بنانے والا یعنی مصور ہو گا ۔(مسند احمد:47/1:صحیح) یہ ان کی نافرمانیوں اور ظلم و زیادتی کا بدلہ تھا یہ دوسرا سبب ہے کہ وہ منع کئے ہوئے کام ہی کرتے تھے اور حد سے بڑھ جاتے تھے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» البقرة
62 فرماں برداروں کے لئے بشارت اوپر چونکہ نافرمانوں کے عذاب کا ذکر تھا تو یہاں ان میں جو لوگ نیک تھے ان کے ثواب کا بیان ہو رہا ہے نبی کی تابعداری کرنے والوں کے لیے یہ بشارت تاقیامت ہے کہ نہ مستقبل کا ڈر نہ یہاں حاصل نہ ہونے والی اشیاء کا افسوس و حسرت ۔ آیت «اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَاءَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ» ( 10 ۔ یونس : 62 ) یعنی اللہ کے دوستوں پر کوئی خوف و غم نہیں اور وہ فرشتے جو مسلمان کی روح نکلنے کے وقت آتے ہیں یہی کہتے ہیں «اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ» ( 41 ۔ فصلت : 30 ) تم ڈرو نہیں تم اداس نہ ہو تمہیں ہم اس جنت کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا تم سے وعدہ کیا تھا ۔ سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے سے پہلے جن ایمان والوں سے ملا تھا ان کی عبادت اور نماز روزے وغیرہ کا ذکر کیا تو یہ آیت اتری ( ابن ابی حاتم ) ایک اور روایت میں ہے کہ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ نے ان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ نمازی روزہ دار ایماندار اور اس بات کے معتقد تھے کہ آپ مبعوث ہونے والے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جہنمی ہیں ، (تفسیر ابن جریر الطبری:1114:ضعیف و منقطع) سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کو اس سے بڑا رنج ہوا وہیں یہ آیت نازل ہوئی لیکن یہ واضح رہے کہ یہودیوں میں سے ایماندار وہ ہے جو توراۃ کو مانتا ہو اور سنت موسیٰ علیہ السلام کا عامل ہو لیکن جب عیسیٰ علیہ السلام آ جائیں تو ان کی تابعداری نہ کرے تو پھر بےدین ہو جائے گا ۔ اسی طرح نصرانیوں میں سے ایماندار وہ ہے جو انجیل کو کلام اللہ مانے شریعت عیسوی پر عمل کرے اور اگر اپنے زمانے میں پیغمبر آخرالزمان محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو پا لے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کرے اگر اب بھی وہ انجیل کو اور اتباع عیسوی کو نہ چھوڑے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو تسلیم نہ کرے تو ہلاک ہو گا ۔ ( ابن ابی حاتم ) سدی رحمہ اللہ نے یہی روایت کی ہے اور سعید بن جبیر رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں ، مطلب یہ ہے کہ ہر نبی کا تابعدار اس کا ماننے والا ایماندار اور صالح ہے اور اللہ کے ہاں نجات پانے والا لیکن جب دوسرا نبی آئے اور وہ اس سے انکار کرے تو کافر ہو جائے گا ۔ قرآن کی ایک آیت تو یہ جو آپ کے سامنے ہے اور دوسری وہ آیت جس میں بیان ہے آیت «وَمَنْ یَّبْتَـغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یٰقْبَلَ مِنْہُ وَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ» ( 3 ۔ آل عمران : 85 ) یعنی جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا طالب ہو اس سے قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ نقصان اٹھانے والا ہو گا ۔ ان دونوں آیتوں میں یہی تطبیق ہے کسی شخص کا کوئی عمل کوئی طریقہ مقبول نہیں تاوقتیکہ وہ شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق نہ ہو مگر یہ اس وقت ہے جب کہ آپ مبعوث ہو کر دنیا میں آ گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جس نبی کا جو زمانہ تھا اور جو لوگ اس زمانہ میں تھے ان کے لیے ان کے زمانے کے نبی کی تابعداری اور اس کی شریعت کی مطابقت شرط ہے ۔ یہود کون ہیں؟ لفظ یہود «ہوداۃ» سے ماخوذ ہے جس کے معنی «مودۃ» اور دوستی کے ہیں یا یہ ماخوذ ہے «تہود» سے جس سے کے معنی توبہ کے ہیں جیسے قرآن میں ہے «إِنَّا ہُدْنَا إِلَیْکَ» (7-الأعراف:156) موسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں ہم اے اللہ تیری طرف توبہ کرتے ہیں پس انہیں ان دونوں وجوہات کی بنا پر یہود کہا گیا ہے یہودا یعقوب کے بڑے لڑکے کا نام تھا ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ توراۃ پڑھتے وقت ہلتے تھے ۔ اس بنا پر انہیں یہود یعنی حرکت کرنے والا کہا گیا ہے ۔ جب عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا زمانہ آیا تو بنی اسرائیل پر آپ کی نبوت کی تصدیق اور آپ علیہ السلام کے فرمان کی اتباع واجب ہوئی تب ان کا نام نصاریٰ ہوا کیونکہ انہوں نے آپس میں ایک دوسرے کی نصرت یعنی تائید اور مدد کی تھی انہیں انصار بھی کہا گیا ہے ۔ عیسیٰ علیہ السلام کا قول ہے «مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ قَالَ الْحَوَارِیٰوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ» ( 3 ۔ آل عمران : 52 ) اللہ کے دین میں میرا مددگار کون ہے ؟ حواریوں نے کہا ہم ہیں بعض کہتے ہیں یہ لوگ جہاں اترتے تھے اس زمین کا نام ناصرہ تھا اس لیے انہیں نصاریٰ کہا گیا قتادہ اور ابن جریج رحمہ اللہ علیہما کا یہی قول ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» نصاریٰ «نصران» کی جمع ہے جیسے «نشوان» کی جمع نشاوی اور سکران کی جمع سکاری اس کا مونث نصراتہ آتا ہے اب جبکہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا کی طرف رسول و نبی بنا کر بھیجے گئے تو ان پر بھی اور دوسرے سب پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق و اتباع واجب قرار دی گئی اور ایمان و یقین کی پختگی کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا نام مومن رکھا گیا اور اس لیے بھی کہ ان کا ایمان تمام اگلے انبیاء پر بھی ہے اور تمام آنے والی باتوں پر بھی ۔ صابی کے معنی ایک تو بےدین اور لامذہب کئے گئے ہیں اور اہل کتاب کے ایک فرقہ کا نام بھی یہ تھا جو زبور پڑھا کرتے تھے ۔ اسی بنا پر ابوحنیفہ اور اسحٰق رحمہ اللہ علیہما کا مذہب ہے کہ ان کے ہاتھ کا ذبیحہ ہمارے لیے حلال ہے اور ان کی عورتوں سے نکاح کرنا بھی ۔ حسن اور حکم فرماتے ہیں یہ گروہ مجوسیوں کے مانند ہے یہ بھی مروی ہے کہ یہ لوگ فرشتوں کے پجاری تھے ۔ زیاد نے جب یہ سنا تھا کہ یہ لوگ پانچ وقت نماز قبلہ کی جانب رخ کر کے پڑھا کرتے ہیں تو ارادہ کیا کہ انہیں جزیہ معاف کر دے لیکن ساتھ ہی معلوم ہوا کہ وہ مشرک ہیں تو اپنے ارادہ سے باز رہے ۔ ابوالزناد رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ لوگ عراقی ہیں ۔ بکوثی کے رہنے والے سب نبیوں کو مانتے ہیں ہر سال تیس روزے رکھتے ہیں اور یمن کی طرف منہ کر کے ہر دن میں پانچ نماز ہیں پڑھتے ہیں وہب بن منبہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو یہ لوگ جانتے ہیں لیکن کسی شریعت کے پابند نہیں اور کفار بھی نہیں عبدالرحمٰن بن زید رحمہ اللہ کا قول ہے کہ یہ بھی ایک مذہب ہے جزیرہ موصل میں یہ لوگ تھے ( لا الہٰ الا اللہ ) پڑھتے تھے اور کسی کتاب یا نبی کو نہیں مانتے تھے اور نہ کوئی خاص شرع کے عامل تھے ۔ مشرکین اسی بنا پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو ( لا الہ اللہ صابی ) کہتے تھے یعنی کہنے کی بنا پر ۔ ان کا دین نصرانیوں سے ملتا جلتا تھا ان کا قبلہ جنوب کی طرف تھا یہ لوگ اپنے آپ کو نوح علیہ السلام کے دین پر بتاتے تھے ایک قول یہ بھی ہے کہ یہود مجوس کے دین کا خلط ملط یہ مذہب تھا ان کا ذبیحہ کھانا اور کی عورتوں سے نکاح کرنا ممنوع ہے قرطبی فرماتے ہیں مجھے جہاں تک معلوم ہوا ہے کہ یہ لوگ موحد تھے لیکن تاروں کی تاثیر اور نجوم کے معتقد تھے ۔ ابوسعید اصطخری نے ان پر کفر کا فتویٰ صادر کیا ہے رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ ستارہ پرست لوگ تھے کشرانبین میں سے تھے جن کی جانب ابراہیم علیہ السلام بھیجے گئے تھے حقیقت حال کا علم تو محض اللہ تعالیٰ کو ہے مگر بظاہر یہی قول اچھا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ نہ یہودی تھے نہ نصرانی نہ مجوسی نہ مشرک بلکہ یہ لوگ فطرت پر تھے کسی خاص مذہب کے پابند نہ تھے اور اسی معنی میں مشرکین اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صابی کہا کرتے تھے یعنی ان لوگوں نے تمام مذاہب ترک کر دئیے تھے بعض علماء کا قول ہے کہ صابی وہ ہیں جنہیں کسی نبی کی دعوت نہیں پہنچی ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» البقرة
63 عہد شکن یہود ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کو ان کے عہد و پیمان یاد دلا رہا ہے کہ میری عبادت اور میرے نبی کی اطاعت کا وعدہ میں تم سے لے چکا ہوں اور اس وعدے کو پورا کرانے اور منوانے کے لیے میں نے طور پہاڑ کو تمہارے سروں پر لا کر کھڑا کر دیا تھا جیسے اور جگہ ہے «وَاِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَہُمْ کَاَنَّہٗ ظُلَّـۃٌ وَّظَنٰوْٓا اَنَّہٗ وَاقِعٌ بِہِمْ» (7-الأعراف:171) جب ہم نے ان کے سروں پر سائبان کی طرح پہاڑ لا کر کھڑا کیا اور وہ یقین کر چکے کہ اب پہاڑ ان پر گر کر انہیں کچل ڈالے گا اس وقت ہم نے کہا ہماری دی ہوئی چیز کو مضبوط تھامو اور اس میں جو کچھ ہے اسے یاد کرو تو بچ جاؤ گے “ طور “ سے مراد پہاڑ ہے جیسے سورۃ الاعراف کی آیت میں ہے اور جیسے صحابہ اور تابعین نے اس کی تفسیر کی ہے(تفسیر ابن ابی حاتم:203/1) .ثابت یہی ہے کہ طور اس پہاڑ کو کہتے ہیں جس پر سبزہ اگتا ہو ۔ (ایضاً) حدیث فتون میں بروایت ابن عباس مروی ہے کہ جب انہوں نے اطاعت سے انکار کرنے کے باعث ان کے سر پر پہاڑ آ گیا لیکن اسی وقت یہ سب سجدے میں گر پڑے اور مارے ڈر کے کنکھیوں سے اوپر کی طرف دیکھتے رہے اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم فرمایا اور پہاڑ ہٹا لیا اسی وجہ سے وہ اسی سجدے کو پسند کرتے ہیں کہ آدھا دھڑ سجدے میں ہو اور دوسری طرف سے اونچے دیکھ رہے ہوں ۔ جو ہم نے دیا اس سے مراد توراۃ ہے قوت سے مراد طاعت ہے یعنی توراۃ پر مضبوطی سے جم کر عمل کرنے کا وعدہ کرو ورنہ پہاڑ تم پر گرا دیا جائے گا اور اس میں جو ہے اسے یاد کرو اور اس پر عمل کرو یعنی توراۃ پڑھتے پڑھاتے رہو ۔ لیکن ان لوگوں نے اتنے پختہ میثاق اتنے اعلیٰ عہد اور اس قدر زبردست وعدے کے بعد بھی کچھ پرواہ نہ کی ۔ اور عہد شکنی کی اب اگر اللہ تعالیٰ کی کرم فرمائی اور رحمت نہ ہوتی اگر وہ توبہ قبول نہ فرماتا اور نبیوں کے سلسلہ کو برابر جاری نہ رکھتا تو یقیناً تمہیں زبردست نقصان پہنچتا اس وعدے کو توڑنے کی بنا پر دنیا اور آخرت میں تم برباد ہو جاتے ۔ البقرة
64 البقرة
65 صورتیں مسخ کر دی گئیں اس واقعہ کا بیان تفصیل کے ساتھ سورۃ الاعراف میں ہے جہاں فرمایا «وَسْــــَٔـلْہُمْ عَنِ الْقَرْیَۃِ الَّتِیْ کَانَتْ حَاضِرَۃَ الْبَحْرِ» (7-الأعراف:163) وہیں اس کی تفسیر بھی پوری بیان ہو گی ۔ ان شاءاللہ تعالیٰ یہ ایلہ بستی کے باشندے تھے ان پر ہفتہ کے دن تعظیم ضروری کی گئی تھی اس دن کا شکار منع کیا گیا تھا ۔ اور حکم باری تعالیٰ سے مچھلیاں اسی دن بکثرت آیا کرتی تھیں تو انہوں نے مکاری کی ۔ گڑھے کھود لیے ۔ رسیاں اور کانٹے ڈال دئیے ۔ ہفتہ والے دن وہ آ گئیں ۔ یہاں پھنس گئیں ۔ اتوار کی رات کو جا کر پکڑ لیا ۔ اس جرم پر اللہ نے ان کی شکلیں بدل دیں ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں صورتیں نہیں بدلی تھیں بلکہ دل مسخ ہو گئے تھے یہ صرف بطور مثال کے ہے ، جیسے «کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ أَسْفَارًا» ( 62-الجمعۃ : 5 ) عمل نہ کرنے والے علماء کو گدھوں سے مثال دی ہے ، لیکن یہ قول غریب ہے اور عبارت قرآن کے ظاہر الفاظ کے بھی خلاف ہے اس آیت پر پھر سورۃ الاعراف کی آیت «وَسْــــَٔـلْہُمْ عَنِ الْقَرْیَۃِ الَّتِیْ» (7-الأعراف:163) اور آیت «وَجَعَلَ مِنْہُمُ الْقِرَدَۃَ وَالْخَـنَازِیْرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوْتَ» (5-المائدۃ:60) پر نظر ڈالو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جوان لوگ بندر بن گئے اور بوڑھے سور بنا دئیے گئے ۔(تفسیر ابن ابی حاتم:210/1) حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ تمام مرد اور عورت دم والے بندر بنا دئیے گئے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:209/1)آسمانی آواز آئی کہ تم سب بندر بن جاؤ چنانچہ سب کے سب بندر بن گئے جو لوگ انہیں اس مکروہ حیلہ سے روکتے تھے وہ اب آئے اور کہنے لگے دیکھو ہم پہلے سے تمہیں منع کرتے تھے ؟ تو وہ سر ہلاتے تھے یعنی ہاں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں تھوڑی مدت میں وہ سب ہلاک ہو گئے ان کی نسل نہیں ہوئی ۔(تفسیر ابن ابی حاتم:209/1) تین دن سے زیادہ کوئی مسخ شدہ قوم زندہ نہیں رہتی یہ سب بھی تین دن میں ہی یونہی ناک رگڑتے رگڑتے مر گئے کھانا پینا اور نسل سب منقطع ہو گئی ۔ یہ بندر جو اب ہیں اور جو اس وقت بھی تھے یہ تو جانور ہیں جو اسی طرح پیدا کئے گئے تھے اللہ تعالیٰ جو چاہے اور جس طرح چاہے پیدا کرتا ہے اور جسے جس طرح کا چاہے بنا دیتا ہے۔(تفسیر ابن ابی حاتم:2/167) اللہ اپنے غضب و غصہ سے اور اپنی پکڑ دھکڑ سے اور اپنے دینوی اور اخروی عذاب سے نجات دے ۔ ( آمین ) «خاسین» کے معنی ذلیل اور کمینہ ۔ ان کا واقعہ تفصیل کے ساتھ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ نے جو بیان کیا ہے وہ سب سن لیجئے ۔ ان پر جمعہ کی عزت و ادب کو فرض کیا گیا لیکن انہوں نے جمعہ کے دن کو پسند نہ کیا اور ہفتہ کا دن رکھا اس دن کی عظمت کے طور پر ان پر شکار کھیلنا وغیرہ اس دن حرام کر دیا گیا ۔ ادھر اللہ کی آزمائش کی بنا پر ہفتہ والے دن تمام مچھلیاں اوپر آ جایا کرتی تھیں اور کودتی اچھلتی رہتی تھیں لیکن باقی دنوں میں کوئی نظر ہی نہیں آتی تھی ۔ ایک مدت تک تو یہ لوگ خاموش رہے اور شکار کرنے سے رکے رہے ۔ بعد ازاں ان میں سے ایک شخص نے یہ حیلہ نکالا کہ ہفتہ والے دن مچھلی کو پکڑ لیا اور پھندے میں پھانس کر ڈوری کو کنارے پر کسی چیز سے باندھ دیا اتوار والے دن جا کر نکال لایا اور پکا کر کھائی ۔ لوگوں نے خوشبو پا کر پوچھا تو اس نے کہا میں نے تو آج اتوار کو شکار کیا ہے آخر یہ راز کھلا تو اور لوگوں نے بھی اس حیلہ کو پسند کیا اور اس طرح وہ سب مچھلیوں کا شکار کرنے لگے پھر تو بعض نے دریا کے آس پاس گڑھے کھود لیے ہفتہ والے دن جب مچھلیاں اس میں آ جاتیں تو اسے بند کر دیتے اور اتوار والے دن پکڑ لاتے کچھ لوگ جو ان میں نیک دل اور سچے مسلمان تھے وہ انہیں روکتے اور منع کرتے رہے لیکن ان کا جواب یہی ہوتا تھا کہ ہم ہفتہ کو شکار ہی نہیں کھیلتے ہم تو اتوار والے دن پکڑتے ہیں ان شکار کھیلنے والوں اور ان کو منع کرنے والوں کے سوا ایک گروہ ان میں اور بھی تھا جو مصلحت وقت برتنے والا اور دونوں فرقوں کو راضی رکھنے والا وہ تو پورا ساتھ دیتا تھا ۔ ان کا نہ شکار کھیلتے تھے نہ شکاریوں کو روکتے تھے بلکہ روکنے والوں سے کہتے تھے کہ اس قوم کو کیوں وعظ و نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرے گا یا سخت عذاب کرے اور تم اپنا فرض بھی ادا کر چکے انہیں منع کر چکے جب نہیں مانتے تو اب انہیں چھوڑو ۔ یہ جواب دیتے کہ ایک تو اللہ کے ہاں ہم معذور ہو جائیں اس لیے اور دوسرے اس لیے بھی کہ شاید آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں یہ مان جائیں اور عذاب اللہ سے نجات پائیں ۔ بالآخر اس مسلم جماعت نے اس حیلہ کو جو فرقہ کا بالکل بائیکاٹ کر دیا اور ان سے بالکل الگ ہو گئے ۔ بستی کے درمیان ایک دیوار کھینچ لی اور دروازہ اپنے آنے جانے کا رکھا اور ایک دروازہ ان حیلہ جو نافرمانوں کے لیے اس پر بھی ایک مدت اسی طرح گزر گئی ایک دن صبح مسلمان جاگے دن چڑھ گیا لیکن اب تک ان لوگوں نے اپنا دروازہ نہیں کھولا تھا اور نہ ان کی آوازیں آ رہی تھیں یہ لوگ متحیر تھے کہ آج کیا بات ہے ؟ آخر جب زیادہ دیر لگ گئی تو ان لوگوں نے دیوار پر چڑھ کر دیکھا تو وہاں عجب منظر نظر آیا دیکھا کہ وہ تمام لوگ مع عورتوں بچوں کے بندر بن گئے ہیں ان کے گھر جو راتوں کو بند تھے اسی طرح بند ہیں اور اندر وہ کل انسان بندر کی صورتوں میں ہیں جن کی دمیں نکلی ہوئی ہیں ۔ بچے چھوٹے بندروں کی شکل میں مرد بڑے بندروں کی صورت میں عورتیں بندریاں بنی ہوئی ہیں اور ہر ایک پہچانا جاتا ہے کہ یہ فلاں مرد ہے یہ فلاں عورت ہے یہ فلاں بچہ ہے وغیرہ یہ بھی یاد رہے کہ جب یہ عتاب آیا تو نہ صرف وہی ہلاک ہوئے جو شکار کھیلتے تھے بلکہ ان کے ساتھ وہ بھی ہلاک ہوئے جو انہیں منع نہ کرتے تھے اور خاموش بیٹھے ہوئے تھے اور میل جول ترک نہ کیا تھا صرف وہ بچے جو انہیں منع کرتے رہے اور ان سے الگ تھلگ ہو گئے تھے یہ تمام اقوال اور قرآن کریم کی کئی ایک آیتیں وغیرہ شاہد ہیں کہ صحیح بات یہی ہے کہ ان کی صورتیں بدل دی گئی تھیں سچ مچ بندر بنا دئیے گئے نہ یہ کہ معنوی مسخ تھا یعنی ان کے دل بندروں جیسے ہو گئے تھے جیسے کہ مجاہد کا قول ہے ٹھیک تفسیر یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں سور اور بندر بنا دیا تھا اور ظاہری صورتیں بھی ان کی ان بدجانوروں جیسی ہو گئیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» «فجعلناھا» میں «ھا» کی ضمیر کا مرجع «قِرَدَۃً» ہے یعنی ہم نے ان بندروں کو سبب عبرت بنایا اس کا مرجع «حَیتان» ہے یعنی ان مچھلیوں کو یا اس کا مرجع «عُقُوْبَۃ» ہے یعنی اس سزا کو اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس مرجع کا «قِرَدَۃً» ہے یعنی اس بستی کو ہم نے اگلے پچھلوں کے لیے عبرتناک امر واقعہ بنا دیا اور صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ قریہ مراد ہے اور قریہ سے مراد اہل قریہ ہیں ۔ «نَکَالَ» کہتے ہیں عذاب و سزا کو جیسے اور جگہ ہے «فَاَخَذَہُ اللّٰہُ نَکَالَ الْاٰخِرَۃِ وَالْاُوْلٰی» ( 79 ۔ النازعات : 25 ) اس کو عبرت کا سبب بنایا آگے پیچھے والی بستیوں کے لیے جیسے اور جگہ ہے «وَلَقَدْ اَہْلَکْنَا مَا حَوْلَکُمْ مِّنَ الْقُرٰی وَصَرَّفْنَا الْاٰیٰتِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ» ( 46 ۔ الاحقاف : 27 ) ہم نے تمہارے آس پاس کی بستیوں کو ہلاک کیا اور اپنی نشانیاں بیان فرمائیں تاکہ وہ لوگ لوٹ آئیں اور ارشاد ہے «اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُہَا مِنْ اَطْرَافِہَا» ( 13 ۔ الرعد : 41 ) اور یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ اس وقت کے موجود لوگوں کے لیے اور بعد میں آنے والوں کے لیے یہ عبرت ناک واقعہ دلیل راہ بن جائے ۔ گو بعض لوگوں کے یہ بھی کہا ہے کہ اگلوں بعد میں آنے والوں کے لیے یہ واقعہ گو کتنا ہی زبردست عبرتناک ہو دلیل نہیں بن سکتا اس لیے کہ وہ تو گزر چکے تو ٹھیک قول یہی ہے کہ یہاں مراد مکان اور جگہ ہے یعنی آس پاس کی بستیاں اور یہی تفسیر ہے ابن عباس رضی اللہ عنہا اور سعید بن جبیر رحمۃ اللہ کی ۔ واللہ اعلم ۔ اور یہ بھی معنی بیان کئے گئے ہیں کہ ان کے اگلے گناہ اور ان کے بعد آنے والے لوگوں کو ایسے ہی گناہوں کے لیے ہم نے اس سزا کو عبرت کا سبب بنایا ، لیکن صحیح قول وہی ہے جس کی صحت ہم نے بیان کی ، یعنی آس پاس کی بستیاں ، قرآن فرماتا ہے «وَلَقَدْ اَہْلَکْنَا مَا حَوْلَکُمْ مِّنَ الْقُرٰی وَصَرَّفْنَا الْاٰیٰتِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ» ( 46 ۔ الاحقاف : 27 ) اور فرمان ہے «وَلَا یَزَالُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ مِرْیَۃٍ مِّنْہُ حَتّٰی تَاْتِیَہُمُ السَّاعَۃُ بَغْتَۃً اَوْ یَاْتِیَہُمْ عَذَابُ یَوْمٍ عَقِیْمٍ» ( 22 ۔ الحج : 55 ) اور فرمان ہے آیت «اَفَلَا یَرَوْنَ اَنَّا نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُہَا مِنْ اَطْرَافِہَا اَفَـہُمُ الْغٰلِبُوْنَ» ( 21 ۔ الانبیآء : 44 ) ۔ غرض یہ عذاب ان کے زمانے والوں کے لیے اور بعد میں آنے والوں کے لیے ایک سبق ہے ۔ اور اسی لیے فرمایا «وَمَوْعِظَۃً لِّلْمُتَّقِیْنَ» ( 2 ۔ البقرہ : 66 ) یعنی یہ جو بعد میں آئیں گے ان پرہیزگاروں کے لیے موجب نصیحت ہو ۔ موجب نصیحت یہاں تک کہ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی کہ یہ لوگ ڈرتے رہیں کہ جو عذاب و سزائیں ان پر ان کے حیلوں کی وجہ سے ، ان کے مکر و فریب سے حرام کو حلال کر لینے کے باعث نازل ہوئیں ان کے بعد بھی جو ایسا کریں گے ایسا نہ ہو کہ وہی سزا اور وہی عذاب ان پر بھی آ جائیں ۔ ایک صحیح حدیث امام ابوعبداللہ بن بطہٰ رحمہ اللہ نے وارد کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حدیث «لا ترتکبوا ما ارتکبت الیھود فستحلوا محارم اللہ بادنی الحیل» یعنی تم وہ نہ کرو جو یہودیوں نے کیا یعنی حیلے حوالوں سے اللہ کے حرام کو حلال نہ کر لیا کرو ۔ یعنی شرعی احکام میں حیلہ جوئی سے بچو ۔ یہ حدیث بالکل صحیح ہے ۔ (تحذیب السنن :103/5:جید )اور اس کے سب راوی ثقہ ہیں۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» البقرة
66 البقرة
67 قاتل کون؟ اس کا پورا واقعہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص بہت مالدار اور تونگر تھا اس کی کوئی نرینہ اولاد نہ تھی صرف ایک لڑکی تھی اور ایک بھیتجا تھا بھتیجے نے جب دیکھا کہ بڈھا مرتا ہی نہیں تو ورثہ کے لالچ میں اسے خیال آیا کہ میں ہی اسے کیوں نہ مار ڈالوں ؟ اور اس کی لڑکی سے نکاح بھی کر لوں قتل کی تہمت دوسروں پر رکھ کر دیت بھی وصول کروں اور مقتول کے مال کا مالک بھی بن جاؤں اس شیطانی خیال میں وہ پختہ ہو گیا اور ایک دن موقع پا کر اپنے چچا کو قتل کر ڈالا ۔ بنی اسرائیل کے بھلے لوگ ان کے جھگڑوں بکھیڑوں سے تنگ آ کر یکسو ہو کر ان سے الگ ایک اور شہر میں رہتے تھے شام کو اپنے قلعہ کا پھاٹک بند کر دیا کرتے تھے اور صبح کھولتے تھے کسی مجرم کو اپنے ہاں گھسنے بھی نہیں دیتے تھے ، اس بھتیجے نے اپنے چچا کی لاش کو لے جا کر اس قلعہ کے پھاٹک کے سامنے ڈال دیا اور یہاں آ کر اپنے چچا کو ڈھونڈنے لگا پھر ہائے دہائی مچا دی کہ میرے چچا کو کسی نے مار ڈالا ۔ آخر کار ان قلعہ والوں پر تہمت لگا کر ان سے دیت کا روپیہ طلب کرنے لگا انہوں نے اس قتل سے اور اس کے علم سے بالکل انکار کیا ، لیکن یہ اڑ گیا یہاں تک کہ اپنے ساتھیوں کو لے کر ان سے لڑائی کرنے پر تل گیا یہ لوگ عاجز آ کر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے اور واقعہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ شخص خواہ مخواہ ہم پر ایک قتل کی تہمت لگا رہا ہے حالانکہ ہم بری الذمہ ہیں ۔ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی وہاں سے وحی نازل ہوئی کہ ان سے کہو ایک گائے ذبح کریں انہوں نے کہا اے اللہ کے نبی علیہ السلام کہاں قاتل کی تحقیق اور کہاں آپ گائے کے ذبح کا حکم دے رہے ہیں ؟ کیا آپ ہم سے مذاق کرتے ہیں ؟ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اعوذ باللہ ( مسائل شرعیہ کے موقع پر ) مذاق جاہلوں کا کام ہے۔ اللہ عزوجل کا حکم یہی ہے اب اگر یہ لوگ جا کر کسی گائے کو ذبح کر دیتے تو کافی تھا لیکن انہوں نے سوالات کا دروازہ کھولا اور کہا وہ گائے کیسی ہونی چاہیئے ؟ اس پر حکم ہوا کہ وہ نہ بہت بڑھیا ہے نہ بچہ ہے جوان عمر کی ہے انہوں نے کہا ایسی گائیں تو بہت ہیں یہ بیان فرمائیے کہ اس کا رنگ کیا ہے ؟ وحی اتری کہ اس کا رنگ بالکل صاف زردی مائل ہے باہر دیکھنے والے کی آنکھوں میں اترتی جاتی ہے پھر کہنے لگے ایسی گائیں بھی بہت سی ہیں کوئی اور ممتاز وصف بیان فرمائیے وحی نازل ہوئی کہ وہ کبھی ہل میں نہیں جوتی گئی ، کھیتوں کو پانی نہیں پلایا ہر عیب سے پاک ہے یک رنگی ہے کوئی داغ دھبہ نہیں جوں جوں وہ سوالات بڑھاتے گئے حکم میں سختی ہوتی گئی ۔ احترام والدین پر انعام الٰہی اب ایسی گائے ڈھونڈنے کو نکلے تو وہ صرف ایک لڑکے کے پاس ملی ۔ یہ بچہ اپنے ماں باپ کا نہایت فرمانبردار تھا ایک مرتبہ جبکہ اس کا باپ سویا ہوا تھا اور نقدی والی پیٹی کی کنجی اس کے سرہانے تھی ایک سوداگر ایک قیمتی ہیرا بیچتا ہوا آیا اور کہنے لگا کہ میں اسے بیچنا چاہتا ہوں لڑکے نے کہا میں خریدوں گا قیمت ستر ہزار طے ہوئی لڑکے نے کہا ذرا ٹھہرو جب میرے والد جاگیں گے تو میں ان سے کنجی لے کر آپ کو قیمت ادا کر دونگا اس نے کہا ابھی دے دو تو دس ہزار کم کر دیتا ہوں اس نے کہا نہیں میں اپنے والد کو جگاؤں گا نہیں تم اگر ٹھہر جاؤ تم میں بجائے ستر ہزار کے اسی ہزار دوں گا یونہی ادھر سے کمی اور ادھر سے زیادتی ہونی شروع ہوتی ہے یہاں تک کہ تاجر تیس ہزار قیمت لگا دیتا ہے کہ اگر تم اب جگا کر مجھے روپیہ دے دو میں تیس ہزار میں دیتا ہوں لڑکا کہتا ہے اگر تم ٹھہر جاؤ یا ٹھہر کر آؤ میرے والد جاگ جائیں تو میں تمہیں ایک لاکھ دوں گا آخر وہ ناراض ہو کر اپنا ہیرا واپس لے کر چلا گیا باپ کی اس بزرگی کے احساس اور ان کے آرام پہنچانے کی کوشش کرنے اور ان کا ادب و احترام کرنے سے پروردگار اس لڑکے سے خوش ہو جاتا ہے اور اسے یہ گائے عطا فرماتا ہے ۔ جب بنی اسرائیل اس قسم کی گائے ڈھونڈنے نکلتے ہیں تو سوا اس لڑکے کے اور کسی کے پاس نہیں پاتے اس سے کہتے ہیں کہ اس ایک گائے کے بدلے دو گائیں لے لو یہ انکار کرتا ہے پھر کہتے ہیں تین لے لو چار لے لو لیکن یہ راضی نہیں ہوتا دس تک کہتے ہیں مگر پھر بھی نہیں مانتا یہ آ کر موسیٰ سے شکایت کرتے ہیں آپ فرماتے ہیں جو یہ مانگے دو اور اسے راضی کر کے گائے خریدو آخر گائے کے وزن کے برابر سونا دیا گیا تب اس نے اپنی گائے بیچی یہ برکت اللہ نے ماں باپ کی خدمت کی وجہ سے اسے عطا فرمائی جبکہ یہ بہت محتاج تھا اس کے والد کا انتقال ہو گیا تھا اور اس کی بیوہ ماں غربت اور تنگی کے دن بسر کر رہی تھی غرض اب یہ گائے خرید لی گئی اور اسے ذبح کیا گیا اور اس کے جسم کا ایک ٹکڑا لے کر مقتول کے جسم سے لگایا گیا تو اللہ تعالیٰ کی قدرت سے وہ مردہ جی اٹھا اس سے پوچھا گیا کہ تمہیں کس نے قتل کیا ہے اس نے کہا میرے بھتیجے نے اس لیے کہ وہ میرا مال لے لے اور میری لڑکی سے نکاح کر لے بس اتنا کہہ کر وہ پھر مر گیا اور قاتل کا پتہ چل گیا اور بنی اسرائیل میں جو جنگ وجدال ہونے والی تھی وہ رک گئی اور یہ فتنہ دب گیا اس بھتیجے کو لوگوں نے پکڑ لیا اس کی عیاری اور مکاری کھل گئی اور اسے اس کے بدلے میں قتل کر ڈالا گیا یہ قصہ مختلف الفاظ سے مروی ہے بہ ظاہراً یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بنی اسرائیل کے ہاں کا واقعہ ہے جس کی تصدیق ، تکذیب ہم نہیں کر سکتے ہاں روایت جائز ہے تو اس آیت میں یہی بیان ہو رہا ہے کہ اے بنی اسرائیل میری اس نعمت کو بھی نہ بھولو کہ میں نے عادت کے خلاف بطور معجزے کے ایک گائے کے جسم کو لگانے سے ایک مردہ کو زندہ کر دیا اس مقتول نے اپنے قاتل کا پتہ بتا دیا اور ایک ابھرنے والا فتنہ دب گیا ۔ البقرة
68 حجت بازی کا انجام بنی اسرائیل کی سرکشی سرتابی اور حکم اللہ امر الٰہی وضاحت کے ساتھ یہاں بیان ہو رہا ہے کہ حکم پاتے ہی اس پر عمل نہ کر ڈالا بلکہ شقیں نکالنے اور باربار سوال کرنے لگے ۔ ابن جریج فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے { کہ حکم ملتے ہی وہ اگر کسی گائے کو بھی ذبح کر ڈالتے تو کافی تھا لیکن انہوں نے پے در پے سوالات شروع کئے اور کام میں سختی بڑھتی گئی یہاں تک کہ آخر میں وہ ان شاءاللہ نہ کہتے تو کبھی بھی سختی نہ ٹلتی اور مطلوبہ گائے ملنا اور مشکل ہو جاتی ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:1246) پہلے سوال کے جواب میں کہا گیا کہ نہ تو وہ بڑھیا ہے نہ بالکل کم عمر ہے ۔ بلکہ درمیانی عمر کی ہے پھر دوسرے سوال کے جواب میں اس کا رنگ بیان کیا گیا کہ وہ زرد اور چمکدار رنگ کی ہے جو دیکھنے والوں کے دل کو بہت پسند آئے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ جو زرد جوتی پہنے وہ ہر قیمت خوش و خرم رہے گا اور اس جملہ سے استدلال کیا ہے تسر الناظرین بعض نے کہا ہے کہ مراد سخت سیاہ رنگ ہے لیکن اول قول ہی صحیح ہے ہاں یہ اور بات ہے کہ ہم یوں کہیں کہ اسی کی شوخی اور چمکیلے پن سے وہ مثل کالے رنگ کے لگتا تھا ۔ وہب بن منبہ رحمہ اللہ کہتے ہیں اس کا رنگ اس قدر شوخ اور گہرا تھا کہ یہ معلوم ہوتا تھا گویا سورج کی شعائیں اس سے اٹھ رہی ہیں ۔ توراۃ میں اس کا رنگ سرخ بیان کیا گیا ہے لیکن شاید عربی کرنے والوں کی غلطی ہے ۔ «واللہ اعلم» چونکہ اس رنگ اور اس عمر کی گائیں بھی انہیں بکثرت نظر آئیں تو انہوں نے پھر کہا اے اللہ کے نبی کوئی اور نشانی بھی پوچھئے تاکہ شبہ مٹ جائے ان شاءاللہ اب ہمیں رستہ مل جائے گا ، اگر یہ ان شاءاللہ نہ کہتے تو انہیں قیامت تک پتہ نہ چلتا اور اگر یہ سوالات ہی نہ کرتے تو اتنی سختی ان پر عائد نہ ہوتی بلکہ جس گائے کو ذبح کر دیتے کفایت ہو جاتی ۔ یہ مضمون ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:727:ضعیف) لیکن اس کی سند غریب ہے صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ یہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہما کا اپنا کلام ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اب کی مرتبہ اس کے اوصاف بیان کئے گئے کہ وہ ہل میں نہیں جتی ، پانی نہیں سینچا ، اس کے چمڑے پر کوئی داغ دھبہ نہیں ، یک رنگی ہے ، سارے بدن میں کہیں دوسرا رنگ نہیں ، اس کے ہاتھ پاؤں اور کل اعضاء بالکل درست اور توانا ہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ گائے کام کرنے والی نہیں ہاں کھیتی کا کام کرتی ہے لیکن پانی نہیں پلاتی مگر یہ قول غلط ہے اس لیے کہ { ذَلُوْلٌ} کی تفسیر یہ ہے کہ وہ ہل نہیں جوتتی اور نہ پانی پلاتی ہے ، اس میں نہ کوئی داغ دھبہ ہے اب اتنی بڑی کدوکاوش کے بعد بادل ناخواستہ وہ اس کی قربانی کی طرف متوجہ ہوئے اسی لیے فرمایا کہ یہ ذبح کرنا نہیں چاہتے تھے اور ذبح نہ کرنے کے بہانے تلاش کرتے تھے ۔ کسی نے کہا ہے اس لیے کہ انہیں اپنی رسوائی کا خیال تھا کہ نہ جانیں کون قاتل ہو بعض کہتے ہیں اس کی قیمت سن کر گھبرا گئے تھے لیکن بعض روایتوں میں آیا ہے کہ کل تین دینار اس کی قیمت لگی تھی لیکن یہ تین دینار والی گائے کے وزن کے برابر سونے والی دونوں روایتیں بنی اسرائیل روایتیں ہیں ۔ ٹھیک بات یہی ہے کہ ان کا ارادہ حکم کی بجا آوری کا تھا ہی نہیں لیکن اب اس قدر وضاحت کے بعد اور قتل کا مقدمہ ہونے کی وجہ سے انہیں یہ حکم ماننا ہی پڑا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اس آیت سے اس مسئلہ پر بھی استدلال ہو سکتا ہے کہ جانوروں کو دیکھے بغیر ادھار دینا جائز ہے اس لیے کہ صفات کا حصر کر دیا گیا اور اوصاف پورے بیان کر دیئے گئے ، جیسے امام مالک ، امام اوزاعی امام لیث ، امام شافعی ، امام احمد اور جمہور علماء رحمہ اللہ علیہم کا مذہب ہے اسلاف اور متاخرین کا بھی اور اس کی دلیل بخاری و مسلم کی یہ حدیث بھی ہے کہ { کوئی عورت کسی اور عورت کے اوصاف اس طرح اپنے خاوند کے سامنے بیان نہ کرے کہ گویا وہ اسے دیکھ رہا ہے ۔ } (صحیح بخاری:5240) ایک حدیث میں { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیت کے اونٹوں کے اوصاف بھی بیان فرمائے ہیں قتل خطا اور وہ قتل جو مشابہ “ عمد “ کے ہے ۔ } (سنن ابوداود:4547 ، قال الشیخ الألبانی:حسن) ہاں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور دوسرے کوفی اور امام ثوری رحمہ اللہ وغیرہ بیع مسلم کے قائل نہیں وہ کہتے ہیں کہ جانوروں کے اوصاف و احوال پوری طرح ضبط نہیں ہو سکتے اسی طرح کی حکایت ابن مسعود ، حذیفہ بن یمان اور عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہم وغیرہ سے بھی کی جاتی ہے ۔ البقرة
69 البقرة
70 البقرة
71 البقرة
72 بلاوجہ تجسس موجب عتاب ہے صحیح بخاری شریف میں «فَادَّارَأْتُمْ» کے معنی تم نے اختلاف کیا کے ہیں ۔ (صحیح بخاری:کتاب احادیث الانبیاء) مجاہد رحمہ اللہ وغیرہ سے بھی یہی مروی ہے ۔ مسیب بن رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جو شخص سات گھروں میں چھپ کر بھی کوئی نیک عمل کرے گا اللہ اس کی نیکی کو ظاہر کر دے گا اسی طرح اگر کوئی سات گھروں میں گھس کر بھی کوئی برائی کرے گا اللہ تعالیٰ اسے بھی ظاہر کر دے گا ۔ پھر یہ آیت تلاوت کی «وَاللّٰہُ مُخْرِجٌ مَّا کُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ» ( 2 ۔ البقرہ : 72 ) یہاں وہی واقعہ چچا بھتیجے کا بیان ہو رہا ہے جس کے باعث انہیں ذبیحہ گاؤ کا حکم ہوا تھا اور کہا جاتا ہے کہ اس کا کوئی ٹکڑا لے کر مقتول کے جسم پر لگاؤ وہ ٹکڑا کون سا تھا ؟ اس کا بیان تو قرآن میں نہیں ہے نہ کسی صحیح حدیث میں اور نہ ہمیں اس کے معلوم ہونے سے کوئی فائدہ ہے اور معلوم نہ ہونے سے کوئی نقصان ہے سلامت روی اسی میں ہے کہ جس چیز کا بیان نہیں ہم بھی اس کی تلاش و تفتیش میں نہ پڑیں بعض نے کہا ہے کہ وہ غضروف کی ہڈی نرم تھی کوئی کہتا ہے ہڈی نہیں بلکہ ران کا گوشت تھا کوئی کہتا ہے دونوں شانوں کے درمیان کا گوشت تھا کوئی کہتا ہے زبان کا گوشت کوئی کہتا ہے دم کا گوشت وغیرہ لیکن ہماری بہتری اسی میں ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مبہم رکھا ہے ہم بھی مبہم ہی رکھیں ۔ اس ٹکڑے کے لگتے ہی وہ مردہ جی اٹھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے جھگڑے کا فیصلہ بھی اسی سے کیا اور قیامت کے دن جی اٹھنے کی دلیل بھی اسی کو بنایا ۔ اسی سورت میں پانچ جگہ مرنے کے بعد جینے کا بیان ہوا ہے ایک تو «ثُمَّ بَعَثْنٰکُمْ مِّنْ بَعْدِ مَوْتِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ» ( 2 ۔ البقرہ : 56 ) میں اور دوسرا اس قصے میں ، تیسرے ان کے قصے میں جو ہزاروں کی تعداد میں نکلے تھے اور ایک اجاڑ بستی پر ان کا گزر ہوا تھا چوتھے ابراہیم علیہ السلام کے چار پرندوں کے مار ڈالنے کے بعد زندہ ہو جانے میں پانچویں زمین کی مردنی کے بعد روئیدگی کو موت و زیست سے تشبیہ دینے میں ۔ ابو داؤد طیالسی کی ایک حدیث میں ہے { ابوزرین عقیلی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو اللہ تعالیٰ کس طرح جلائے گا فرمایا کبھی تم بنجر زمین پر گزرے ہو ؟ کہاں ہاں فرمایا پھر کبھی اس کو سرسبز و شاداب بھی دیکھا ہے ؟ کہا ہاں فرمایا اسی طرح موت کے بعد زیست ہے ۔} ۱؎ (مسند طیالسی:1089:حسن) قرآن کریم میں اور جگہ ہے «وَآیَۃٌ لَّہُمُ الْأَرْ‌ضُ الْمَیْتَۃُ أَحْیَیْنَاہَا وَأَخْرَ‌جْنَا مِنْہَا حَبًّا فَمِنْہُ یَأْکُلُونَ وَجَعَلْنَا فِیہَا جَنَّاتٍ مِّن نَّخِیلٍ وَأَعْنَابٍ وَفَجَّرْ‌نَا فِیہَا مِنَ الْعُیُونِ لِیَأْکُلُوا مِن ثَمَرِ‌ہِ وَمَا عَمِلَتْہُ أَیْدِیہِمْ أَفَلَا یَشْکُرُ‌ونَ» ۱؎ (36-یس:33) یعنی ’ ان منکرین کے لیے مردہ زمین میں بھی ایک نشانی ہے جسے ہم زندہ کرتے ہیں اور اس میں سے دانے نکالتے ہیں جسے یہ کھاتے ہیں اور جس میں ہم کھجوروں اور انگوروں کے باغ پیدا کرتے ہیں اور چاروں طرف نہروں کی ریل پیل کر دیتے ہیں تاکہ وہ ان پھلوں کو مزے مزے سے کھائیں حالانکہ یہ ان کے ہاتھوں کا بنایا ہوا یا پیدا کیا ہوا نہیں کیا پھر بھی یہ شکر گزاری نہ کریں گے ؟ ‘ اس مسئلہ پر اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے اور امام مالک رحمہ اللہ کے مذہب کو اس سے تقویت پہنچائی گئی ہے اس لیے مقتول کے جی اٹھنے کے بعد اس نے دریافت کرنے پر جسے قاتل بتایا اسے قتل کیا گیا اور مقتول کا قول باور کیا گیا ظاہر ہے کہ دم آخر ایسی حالت میں انسان عموماً سچ ہی بولتا ہے اور اس وقت اس پر تہمت نہیں لگائی جاتی ۔ { سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کا سر پتھر پر رکھ کر دوسرے پتھر سے کچل ڈالا اور اس کے کڑے اتار لے گیا جب اس کا پتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس لڑکی سے پوچھو کہ اسے کس نے مارا ہے ۔ لوگوں نے پوچھنا شروع کیا کہ کیا تھے فلاں نے مارا فلاں نے مارا ؟ وہ اپنے سر کے اشارے سے انکار کرتی جاتی تھی یہاں تک کہ جب اسی یہودی کا نام آیا تو اس نے سر کے اشارے سے کہا ہاں ، چنانچہ اس یہودی کو گرفتار کیا گیا اور باصرار پوچھنے پر اس نے اقرار کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس کا سر بھی اس طرح دو پتھروں کے درمیان کچل دیا جائے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:6879) امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک جب یہ برانگیختگی کے باعث ہو تو مقتول کے وارثوں کو قسم کھلائی جائے گی بطور قسامہ کے لیکن جمہور اس کے مخالف اور مقتول کے قول کو اس بارے میں ثبوت نہیں جانتے ۔ البقرة
73 البقرة
74 پتھر دل لوگ اس آیت میں بنی اسرائیل کو زجر و توبیخ کی گئی ہے کہ اس قدر زبردست معجزے اور قدرت کی نشانیاں دیکھ کر پھر بھی بہت جلد تمہارے دل سخت پتھر بن گئے ۔ اسی لیے ایمان والوں کو اس طرح کی سختی سے روکا گیا اور کہا گیا « أَلَمْ یَأْنِ لِلَّذِینَ آمَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُہُمْ لِذِکْرِ‌ اللہِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَا یَکُونُوا کَالَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ مِن قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْہِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُہُمْ وَکَثِیرٌ‌ مِّنْہُمْ فَاسِقُونَ » ۱؎ (57-الحدید:16) یعنی ’ کیا اب تک وہ وقت نہیں آیا کہ ایمان والوں کے دل اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اللہ کے نازل کردہ حق سے کانپ اٹھیں ؟ اور اگلے اہل کتاب کی طرح نہ ہو جائیں جن کے دل لمبا زمانہ گزرنے کے بعد سخت ہو گئے اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں ۔ ‘ ۔ { سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اس مقتول کے بھتیجے نے اپنے چچا کے دوبارہ زندہ ہونے اور بیان دینے کے بعد جب مر گیا تو کہا کہ اس نے جھوٹ کہا ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:234/2) اور پھر کچھ وقت گزر جانے کے بعد بنی اسرائیل کے دل پھر پتھر سے بھی زیادہ سخت ہو گئے کیونکہ پتھروں سے تو نہریں نکلتی اور بہنے لگتی ہیں بعض پتھر پھٹ جاتے ہیں ان سے چاہے وہ بہنے کے قابل نہ ہوں بعض پتھر خوف اللہ سے گر پڑتے ہیں لیکن ان کے دل کسی وعظ و نصیحت سے کسی پند و موعظت سے نرم ہی نہیں ہوتے ۔ یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پتھروں میں ادراک اور سمجھ ہے اور جگہ ہے «تُسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْہِنَّ وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّایُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰکِنْ لَّا تَفْقَہُوْنَ تَسْبِیْحَہُمْ اِنَّہٗ کَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا» ۱؎ ( 17 ۔ الاسرآء : 44 ) یعنی ’ ساتوں آسمان اور زمینیں اور ان کی تمام مخلوق اور ہر ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے لیکن تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو ۔ اللہ تعالیٰ حلم و بردباری والا اور بخشش و عفو والا ہے ‘ ۔ ابوعلی جیانی نے پتھر کے خوف سے گر پڑنے کی تاویل اولوں کے برسنے سے کی ہے لیکن یہ ٹھیک نہیں رازی رحمہ اللہ بھی غیر درست بتلاتے ہیں اور فی الواقع یہ تاویل صحیح نہیں کیونکہ اس میں لفظی معنی بے دلیل کو چھوڑنا لازم آیا ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ نہریں بہہ نکلنا زیادہ رونا ہے ۔ پھٹ جانا اور پانی کا نکلنا اس سے کم رونا ہے گر پڑنا دل سے ڈرنا ہے ، بعض کہتے ہیں یہ مجازاً کہا گیا جیسے اور جگہ ہے «یُرِ‌یدُ أَن یَنقَضَّ فَأَقَامَہُ» ۱؎ (18-الکہف:77) یعنی ’ دیوار گر پڑنا چاہ رہی تھی ‘ ۔ ظاہر ہے کہ یہ مجاز ہے ۔ حقیقتاً دیوار کا اردہ ہی نہیں ہوتا ۔ رازی قرطبی رحمہ اللہ علیہما وغیرہ کہتے ہیں ایسی تاویلوں کی کوئی ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ جو صفت جس چیز میں چاہے پیدا کر سکتا ہے ۔ دیکھئیے اس کا فرمان ہے «اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَہَا وَاَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْاِنْسَانُ» ۱؎ ( 33 ۔ الاحزاب : 72 ) یعنی ’ ہم نے امانت کو آسمانوں زمینوں اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا انہوں نے اس کے اٹھانے سے مجبوری ظاہر کی اور ڈر گئے ، اور آیت گزر چکی کہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے ‘ ۔ اور جگہ ہے «وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسْجُدَانِ» ۱؎ ( 55-سورۃ الرحمن-6 ) یعنی ’ اکاس بیل اور درخت اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے ہیں ‘ ۔ اور فرمایا «یَتَفَیَّأُ ظِلَالُہُ عَنِ الْیَمِینِ وَالشَّمَائِلِ سُجَّدًا لِّلَّـہِ وَہُمْ دَاخِرُونَ» ۱؎ ( 16-النحل-48 ) اور فرمایا «قَالَتَآ اَتَیْنَا طَایِٕعِیْنَ» ۱؎ ( 41 ۔ فصلت : 11 ) یعنی ’ زمین و آسمان نے کہا ہم خوشی خوشی حاضر ہیں ‘ ۔ اور جگہ ہے کہ پہاڑ بھی قرآن سے متاثر ہو کر ڈر کے مارے پھٹ پھٹ جاتے اور جگہ فرمان ہے «وَقَالُوا لِجُلُودِہِمْ لِمَ شَہِدتٰمْ عَلَیْنَا قَالُوا أَنطَقَنَا اللہُ الَّذِی أَنطَقَ کُلَّ شَیْءٍ وَہُوَ خَلَقَکُمْ أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَإِلَیْہِ تُرْجَعُونَ» ۱؎ ( 41-سورۃ فصلت-21 ) یعنی ’ گناہ گار لوگ اپنے جسموں سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف شہادت کیوں دی ؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم سے اس اللہ نے بات کرائی جو ہر چیز کو بولنے کی طاقت عطا فرماتا ہے ‘ ۔ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ احد پہاڑ کی نسبت { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم بھی اس سے محبت رکھتے ہیں ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:2889) ایک اور حدیث میں ہے کہ { جس کھجور کے تنے پر ٹیک لگا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ پڑھا کرتے تھے جب منبر بنا اور وہ تنا ہٹا دیا گیا تو وہ تنا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:918) صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں مکہ کے اس پتھر کو پہچانتا ہوں جو میری نبوت سے پہلے مجھے سلام کیا کرتا تھا ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2277) { حجر اسود کے بارے میں ہے کہ جس نے اسے حق کے ساتھ بوسہ دیا ہو گا یہ اس کے ایمان کی گواہی قیامت والے دن دے گا ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:961 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور اس طرح کی بہت سی آیات اور حدیثیں ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان چیزوں میں ادراک و حس ہے اور یہ تمام باتیں حقیقت پر محمول ہیں نہ کہ مجاز پر ۔ آیت میں لفظ «او» جو ہے اس کی بابت قرطبی اور رازی رحمہ اللہ علیہما تو کہتے ہیں کہ یہ تخییر کے لیے ہے یعنی ان کے دلوں کو خواہ جیسے پتھر سمجھ لو یا اس سے بھی زیادہ سخت ۔ رازی رحمہ اللہ نے ایک وجہ یہ بھی بیان کی ہے کہ یہ ابہام کے لیے ہے گویا مخاطب کے سامنے باوجود ایک بات کا پختہ علم ہونے کے دو چیزیں بطور ابہام پیش کی جا رہی ہیں ۔ بعض کا قول ہے کہ مطلب یہ ہے کہ بعض دل پتھر جیسے اور بعض اس سے زیادہ سخت ہیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اس لفظ کے جو معنی یہاں پر ہیں وہ بھی سن لیجئے اس پر تو اجماع ہے کہ آؤ شک کے لیے نہیں یا تو یہ معنی میں واو کے ہے یعنی ان کے دل پتھر جیسے اور اس سے بھی زیادہ سخت ہو گئے جیسے «وَلَا تُطِعْ مِنْہُمْ اٰثِمًا اَوْ کَفُوْرًا» ۱؎ ( 76 ۔ الانسان : 24 ) میں اور «عُذْرًا أَوْ نُذْرًا» ۱؎ ( المرسلات : ٦ ) میں شاعروں کے اشعار میں اور واؤ کے معنی میں جمع کے لیے آیا ہے یا او یہاں پر معنی میں بل یعنی بلکہ کے ہے جیسے «کَخَشْیَۃِ اللّٰہِ اَوْ اَشَدَّ خَشْـیَۃً» ۱؎ ( 4 ۔ النسآء : 77 ) میں اور «وَاَرْسَلْنٰہُ اِلٰی مِائَۃِ اَلْفٍ اَوْ یَزِیْدُوْنَ» ۱؎ ( 37 ۔ الصافات : 147 ) میں اور «فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی» ۱؎ ( 53 ۔ النجم : 9 ) میں بعض کا قول ہے کہ مطلب یہ ہے کہ وہ پتھر جیسے ہیں یا سختی میں تمہارے نزدیک اس سے بھی زیادہ بعض کہتے ہیں صرف مخاطب پر ابہام ڈالا گیا ہے اور یہ شاعروں کے شعروں میں بھی پایا جاتا ہے کہ باوجود پختہ علم و یقین کے صرف مخاطب پر ابہام ڈالنے کے لیے ایسا کلام کرتے ہیں ۔ قرآن کریم میں اور جگہ ہے «وَاِنَّآ اَوْ اِیَّاکُمْ لَعَلٰی ہُدًی اَوْ فِیْ ضَلٰلٍ مٰبِیْنٍ» ۱؎ ( 34 ۔ سبأ : 24 ) یعنی ’ ہم یا تم صاف ہدایت یا کھلی گمراہی پر ہیں ‘ ۔ تو ظاہر ہے کہ مسلمانوں کا ہدایت پر ہونا اور کفار کا گمراہی پر ہونا یقینی چیز ہے لیکن مخاطب کے ابہام کے لیے اس کے سامنے کلام مبہم بولا گیا ۔ یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ تمہارے دل ان دو سے خارج نہیں یا تو وہ پتھر جیسے ہیں یا اس سے بھی زیادہ سخت یعنی بعض ایسے اس قول کے مطابق یہ بھی ہے «کَمَثَلِ الَّذِی اسْـتَوْقَدَ نَارًا» ۱؎ ( 2 ۔ البقرہ : 17 ) پھر فرمایا «او کصیب» اور فرمایا ہے «کسراب» پھر فرمایا «او کظلمات» مطلب یہی ہے کہ بعض ایسے اور بعض ایسے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ تفسیر ابن مردویہ میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ کے ذکر کے سوا زیادہ باتیں نہ کیا کرو کیونکہ کلام کی کثرت دل کو سخت کر دیتی ہے اور سخت دل والا اللہ سے بہت دور ہو جاتا ہے۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:2411،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو بیان فرمایا ہے اور اس کے ایک طریقہ کو غریب کہا ہے ۔ بزار میں انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ { چار چیزیں بدبختی اور شقاوت کی ہیں خوف اللہ سے آنکھوں سے آنسو نہ بہنا ، دل کا سخت ہو جانا ، امیدوں کا بڑھ جانا ، لالچی بن جانا ۔ } ۱؎ (بزار فی کشف الاستار:343:ضعیف) البقرة
75 یہودی کردار کا تجزیہ اس گمراہ قوم یہود کے ایمان سے اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو ناامید کر رہے ہیں جب ان لوگوں نے اتنی بڑی نشانیاں دیکھ کر بھی اپنے دل سخت پتھر جیسے بنا لیے اللہ تعالیٰ کے کلام کو سن کر سمجھ کر پھر بھی اس کی تحریف اور تبدیلی کر ڈالی تو ان سے تم کیا امید رکھتے ہو ؟ ٹھیک اس آیت کی طرح اور جگہ فرمایا «فَبِمَا نَقْضِہِمْ مِّیْثَاقَہُمْ لَعَنّٰہُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوْبَہُمْ قٰسِـیَۃً» ۱؎ ( 5 ۔ المائدہ : 13 ) یعنی ’ ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دل سخت کر دئے یہ اللہ کے کلام کو رد و بدل کر ڈالا کرتے تھے ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہاں اللہ تعالیٰ نے کلام اللہ سننے کو فرمایا اس سے مراد موسیٰ علیہ السلام کے صحابیوں کی وہ جماعت ہے جنہوں نے آپ علیہ السلام سے اللہ کا کلام اپنے کانوں سے سننے کی درخواست کی تھی اور جب وہ پاک صاف ہو کر روزہ رکھ کر موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ طور پہاڑ پر پہنچ کر سجدے میں گر پڑے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا کلام سنایا جب یہ واپس آئے اور نبی اللہ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا یہ کلام بنی اسرائیل میں بیان کرنا شروع کیا تو ان لوگوں نے اس کی تحریف اور تبدیلی شروع کر دی ۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ان لوگوں نے توراۃ میں تحریف کی تھی یہی عام معنی ٹھیک ہیں جس میں وہ لوگ بھی شامل ہو جائیں گے اور اس بدخصلت والے دوسرے یہودی بھی ۔ قرآن میں ہے «فَأَجِرْہُ حَتَّیٰ یَسْمَعَ کَلَامَ اللہِ ثُمَّ أَبْلِغْہُ مَأْمَنَہُ» ۱؎ ( 9-التوبہ-69 ) یعنی ’ مشرکوں میں سے کوئی اگر تجھ سے پناہ طلب کرے تو تو اسے پناہ دے یہاں تک کہ وہ کلام اللہ سن لے ‘ ۔ تو اس سے یہ مراد نہیں کہ اللہ کا کلام اپنے کانوں سے سنے بلکہ قرآن سنے تو یہاں بھی کلام اللہ سے مراد توراۃ ہے ۔ یہ تحریف کرنے والے اور چھپانے والے ان کے علماء تھے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:245/2) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جو اوصاف ان کی کتاب میں تھے ان سب میں انہوں نے تاویلیں کر کے اصل مطلب دور کر دیا تھا اسی طرح حلال کو حرام ، حرام کو حلال ، حق کو باطل ، باطل کو حق لکھ دیا کرتے تھے ۔ رشوتیں لینی اور غلط مسائل بتانے کی عادت ڈال لی تھی ہاں کبھی کبھی جب رشوت ملنے کا امکان نہ ہوتا ، ریاست جانے کا خوف نہ ہوتا ، مریدوں سے الگ ہوتے تو حق بات بھی کہہ دیا کرتے تھے ۔ مسلمانوں سے ملتے تو کہہ دیا کرتے کہ تمہارے نبی علیہ السلام سچے ہیں ۔ یہ برحق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:250/2) لیکن پھر آپس میں بیٹھ کر کہتے ، عربوں سے یہ باتیں کیوں کہتے ہو ۔ پھر تو یہ تم پر چھا جائیں گے ۔ اللہ کے ہاں بھی تمہیں لاجواب کر دیں گے ۔ تو ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان بیوقوفوں کو اتنا علم نہیں کہ ہم پوشیدہ اور ظاہر سب جانتے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” مدینہ میں ہمارے پاس سوائے ایمان والوں کے اور کوئی نہ آئے “ ۔ تو ان کافروں اور یہودیوں نے کہا کہ جاؤ کہہ دو ہم بھی ایمان لاتے ہیں اور جب یہاں آؤ تو ویسے ہی رہے جیسے تھے ۔ پس یہ لوگ صبح آ کر ایمان کا دعویٰ کرتے تھے اور شام کو جا کر کفار میں شامل ہو جاتے تھے ۔ قرآن میں ہے «وَقَالَتْ طَّایِٕفَۃٌ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اٰمِنُوْا بِالَّذِیْٓ اُنْزِلَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَجْہَ النَّہَارِ وَاکْفُرُوْٓا اٰخِرَہٗ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ» ( 3 ۔ آل عمران : 72 ) یعنی ’ اہل کتاب کی ایک جماعت نے کہا ایمان والوں پر جو اترا ہے اس پر دن کے شروع حصہ میں ایمان لاؤ پھر آخر میں کفر کرو تاکہ خود ایمان والے بھی اس دین سے پھر جائیں ‘ ۔ یہ لوگ اس فریب سے یہاں کے راز معلوم کرنا اور انہیں اپنے والوں کو بتانا چاہتے تھے اور مسلمانوں کو بھی گمراہ کرنا چاہتے تھے مگر ان کی یہ چالاکی نہ چلی اور یہ راز اللہ نے کھول دیا جب یہ یہاں ہوتے اور اپنا ایمان اسلام و ظاہر کرتے تو صحابہ ان سے پوچھتے کیا تمہاری کتاب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت وغیرہ نہیں ؟ وہ اقرار کرتے ۔ جب اپنے بڑوں کے پاس جاتے تو وہ انہیں ڈانٹتے اور کہتے اپنی باتیں ان سے کہہ کر کیوں ان کی اپنی مخالفت کے ہاتھوں میں ہتھیار دے رہے ہو ؟ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریظہ والے دن یہودیوں کے قلعہ تلے کھڑے ہو کر فرمایا اے بندر اور خنزیر اور طاغوت کے عابدوں کے بھائیو ! تو وہ آپس میں کہنے لگے یہ ہمارے گھر کی باتیں انہیں کس نے بتا دیں خبردار اپنی آپس کی خبریں انہیں نہ دو ورنہ انہیں اللہ کے سامنے تمہارے خلاف دلائل میسر آ جائیں گے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:1348:مرسل) اب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ گو تم چھپاؤ لیکن مجھ سے تو کوئی چیز چھپ نہیں سکتی تم جو چپکے چپکے اپنوں سے کہتے ہو کہ اپنی باتیں ان تک نہ پہنچاؤ اور اپنی کتاب کی باتیں کو چھپاتے ہو تو میں تمہارے اس برے کام سے بخوبی آگاہ ہوں ۔ تم جو اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہو ۔ تمہارے اس اعلان کی حقیقت کا علم بھی مجھے اچھی طرح ہے ۔ البقرة
76 البقرة
77 البقرة
78 امی کا مفہوم اور ویل کے معنی امی کے معنی وہ شخص جو اچھی طرح لکھنا نہ جانتا ہو امیون اس کی جمع ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتوں میں ایک صفت «أمی» بھی آئی ہے اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی لکھنا نہیں جانتے تھے ۔ قرآن کہتا ہے «وَمَا کُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِہٖ مِنْ کِتٰبٍ وَّلَا تَخُــطٰہٗ بِیَمِیْنِکَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ» ۱؎ ( 29 ۔ العنکبوت : 48 ) یعنی ’ تو اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے پہلے نہ تو پڑھ سکتا نہ لکھ سکتا تھا اگر ایسا ہوتا تو شاید ان باطل پرستوں کے شبہ کی گنجائش ہو جاتی ‘ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہم امی اور ان پڑھ لوگ ہیں نہ لکھنا جانیں نہ حساب ، مہینہ کبھی اتنا ہوتا ہے اور کبھی اتنا پہلی بار تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھوں کی کل انگلیاں تین بار نیچے کی طرف جھکائیں یعنی تیس دن کا دوبار اور تیسری مرتبہ میں انگوٹھے کا حلقہ بنا لیا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1913) یعنی انتیس دن کا ، مطلب یہ ہے کہ ہماری عبادتیں اور ان کے وقت حساب کتاب پر موقوف نہیں ۔ قرآن کریم نے ایک اور جگہ فرمایا «ہُوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الْأُمِّیِّینَ رَسُولًا مِّنْہُمْ» ۱؎ ( 62-الجمعۃ : 2 ) یعنی ’ اللہ تعالٰی نے ان پڑھوں میں ایک رسول انہی میں سے بھیجا ‘ ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس لفظ میں بےپڑھے آدمی کو ماں کی طرف منسوب کیا گیا ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک روایت ہے کہ یہاں پر “ امی “ نہیں کہا گیا ہے جنہوں نے نہ تو کسی رسول علیہ السلام کی تصدیق کی تھی نہ کسی کتاب کو مانا تھا اور اپنی لکھی ہوئی کتابوں کو اوروں سے کتاب اللہ کی طرح منوانا چاہتے تھے لیکن اول تو یہ قول محاورات عرب کے خلاف ہے دوسرے اس قول کی سند ٹھیک نہیں ۔ امانی کے معنی باتیں اور اقوال ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ” کذب “ ” آرزو “ ” جھوٹ کے “ معنی بھی کئے گئے ہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:261/2) تلاوت اور ظاہری الفاظ کے معنی بھی مروی ہیں جیسے قرآن مجید میں اور جگہ سے «إِلَّا إِذَا تَمَنَّیٰ» ۱؎ ( 22-الحج : 52 ) یہاں تلاوت کے معنی صاف ہیں شعراء کے شعروں میں بھی یہ لفظ تلاوت کے معنی میں ہے اور وہ صرف گمان ہی پر ہیں یعنی حقیقت کو نہیں جانتے اور اس پر ناحق کا گمان کرتے ہیں اور اوٹ پٹانگ باتیں بناتے ہیں ۔ پھر یہودیوں کی ایک دوسری قسم کا بیان ہو رہا ہے جو پڑھے لکھے لوگ تھے اور گمراہی کی طرف دوسروں کو بلاتے تھے اور اللہ پر جھوٹ باندھتے تھے اور مریدوں کا مال ہڑپ کرتے تھے ۔ ویل کے معنی ہلاکت اور بربادی کے ہیں اور جہنم کے گڑھے کا نام بھی ہے جس کی آگ اتنی تیز ہے کہ اگر اس میں پہاڑ ڈالے جائیں تو دھول ہو جائیں ۔ ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جہنم کی ایک وادی کا نام ویل ہے جس میں کافر ڈالے جائیں گے چالیس سال کے بعد تلے میں پہنچیں گے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3164 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اتنی گہرائی ہے لیکن سند کے اعتبار سے یہ حدیث غریب بھی ہے منکر بھی ہے اور ضعیف بھی ہے ۔ اور ایک غریب حدیث میں ہے کہ جہنم کے ایک پہاڑ کا نام ویل ہے یہودیوں نے توراۃ کی تحریف کر دی اس میں کمی یا زیادتی کی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نکال ڈالا اس لیے اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا اور توراۃ اٹھا لی گئی اور اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ ان کے ہاتھوں کے لکھے اور ان کی کمائی برباد اور ہلاک ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:1389:ضعیف) ویل کے معنی سخت عذاب برائی ، ہلاکت ، افسوس ، درد ، دکھ ، رنج و ملال وغیرہ کے بھی آتے ہیں ۔ ویل ، ویح ، ویش ، ویہ ، ویک ، ویب سب ایک ہی معنی میں ہیں گو بعض نے ان الفاظ کے جدا جدا معنی بھی کئے ہیں لفظ ویل نکرہ ہے اور نکرہ مبتدا نہیں بن سکتا لیکن چونکہ یہ معنی میں بد دعا کے ہے اس لیے اسے مبتدا بنا دیا گیا ہے بعض لوگوں نے اسے نصب دینا بھی جائز سمجھا ہے لیکن ویلا کی قرأت نہیں ۔ یہاں یہودیوں کے علماء کی بھی مذمت ہو رہی ہے کہ وہ اپنی باتوں کو اللہ تعالیٰ کا کلام کہتے تھے اور اپنے والوں کو خوش کر کے دنیا کماتے تھے ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ تم اہل کتاب سے کچھ بھی کیوں پوچھو ؟ اللہ تعالیٰ کی تازہ کتاب تمہارے ہاتھوں میں ہے ۔ اہل کتاب نے تو کتاب اللہ میں تحریف کی اپنی ہاتھ کی لکھی ہوئی باتوں کو اللہ عزوجل کی طرف منسوب کر دیا اس کی تشہیر کی پھر تمہیں اپنی محفوظ کتاب کو چھوڑ کر ان کی تبدیل کردہ کتاب کی کیا ضرورت ؟ افسوس کہ وہ تم سے نہ پوچھیں اور تم ان سے دریافت کرتے پھرو ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2685) تھوڑے مول سے مراد ساری دنیا مل جائے تو بھی آخرت کے مقابلہ میں کمتر ہے اور جنت کے مقابلہ میں بے حد حقیر چیز ہے ۔پھر فرمایا کہ ان کے اس فعل کی وجہ سے کہ وہ اپنی باتوں کو اللہ رب العزت کی باتوں کی طرح لوگوں سے منواتے ہیں اور اس پر دنیا کماتے ہیں ہلاکت اور بربادی ہے ۔ البقرة
79 البقرة
80 چالیس دن کا جہنم سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہودی لوگ کہا کرتے تھے کہ دنیا کل مدت سات ہزار سال ہے ۔ ہر سال کے بدلے ایک دن ہمیں عذاب ہو گا تو صرف سات دن ہمیں جہنم میں رہنا پڑے گا اس قول کی تردید میں یہ آیتیں نازل ہوئیں ، بعض کہتے ہیں یہ لوگ چالیس دن تک آگ میں رہنا مانتے تھے ۱؎ .(تفسیر ابن جریر الطبری:276/2) کیونکہ ان کے بڑوں نے چالیس دن تک بچھڑے کی پوجا کی تھی بعض کا قول ہے کہ یہ دھوکہ انہیں اس سے لگا تھا کہ وہ کہتے تھے کہ توراۃ میں ہے کہ جہنم کے دونوں طرف زقوم کے درخت تک چالیس سال کا راستہ ہے تو وہ کہتے تھے کہ اس مدت کے بعد عذاب اٹھ جائیں گے ۔ ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آ کر کہا کہ چالیس دن تک تو ہم جہنم میں رہیں گے پھر دوسرے لوگ ہماری جگہ آ جائیں گے یعنی آپ کی امت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سروں پر ہاتھ رکھ کر فرمایا نہیں بلکہ تم ہی تم ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں پڑے رہو گے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:1409:ضعیف و مرسل) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں فتح خیبر کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خدمت میں بطور ہدیہ بکری کا پکا ہوا زہر آلود گوشت آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہاں کے یہودیوں کو جمع کر لو پھر ان سے پوچھا تمہارا باپ کون ہے انہوں نے کہا فلاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جھوٹے ہو بلکہ تمہارا باپ فلاں ہے انہوں نے کہا بجا ارشاد ہوا وہی ہمارا باپ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو اب میں کچھ اور پوچھتا ہوں سچ سچ بتانا انہوں نے کہا اے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم اگر جھوٹ کہیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نہ چل سکے گا ہم تو آزما چکے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بتاؤ جہنمی کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے کہا کچھ دن تو ہم ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غلو ہرگز نہیں پھر فرمایا اچھا بتلاؤ اس گوشت میں تم نے زہر ملایا ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں تو یہ زہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرگز ضرر نہ دے گا اور اگر جھوٹے ہیں تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نجات حاصل کر لیں گے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3169 ) البقرة
81 جہنمی کون؟ مطلب یہ ہے کہ جس کے اعمال سراسر بد ہیں جو نیکیوں سے خالی ہے وہ جہنمی ہے اور جو شخص اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور سنت کے مطابق عمل کرے وہ جنتی ہے ۔ جیسے ایک جگہ فرمایا «لَّیْسَ بِأَمَانِیِّکُمْ وَلَا أَمَانِیِّ أَہْلِ الْکِتَابِ مَن یَعْمَلْ سُوءًا یُجْزَ بِہِ وَلَا یَجِدْ لَہُ مِن دُونِ اللہِ وَلِیًّا وَلَا نَصِیرًا» ۱؎ ( 4 ۔ النسآء : 123 ) یعنی ’ نہ تو تمہارے منصوبے چل سکیں گے اور نہ اہل کتاب کے ۔ ہر برائی کرنے والا اپنی برائی کا بدلہ دیا جائے گا اور ہر بھلائی کرنے والا ثواب پائے گا اپنی نیکو کاری کا اجر پائے گا مگر برے کا کوئی مددگار نہ ہو گا ‘ ۔ کسی مرد کا ، عورت کا ، بھلے آدمی کا کوئی عمل برباد نہ ہو گا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہاں برائی سے مطلب کفر ہے اور ایک روایت میں ہے کہ مراد شرک ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:252/1:ضعیف) ابووائل ابوالعالیہ ، مجاہد ، عکرمہ ، حسن ، قتادہ ، ربیع بن انس رحمہ اللہ علیہم وغیرہ سے یہی مروی ہے ۔ سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں مراد کبیرہ گناہ ہیں جو تہ بہ تہ ہو کر دل کو گندہ کر دیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:153/2) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں مراد شرک ہے جس کے دل پر بھی قابض ہو جائے ۔ ربیع بن خثیم رحمہ اللہ کا قول ہے جو گناہوں پر ہی مرے اور توبہ نصیب نہ ہو ۔ مسند احمد میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں گناہوں کو حقیر نہ سمجھا کرو وہ جمع ہو کر انسان کی ہلاکت کا سبب بن جاتے ہیں دیکھتے نہیں ہو کہ اگر کئی آدمی ایک ایک لکڑی لے کر آئیں تو انبار لگ جاتا ہے پھر اگر اس میں آگ لگائی جائے تو بڑی بڑی چیزوں کو جلا کر خاکستر کر دیتی ہے ۔ ۱؎ (مسند احمد:402/1:صحیح لغیرہ) پھر ایمانداروں کا حال بیان فرمایا کہ جو تم جیسا عمل نہیں کرتے بلکہ تمہارے کفر کے مقابلہ میں ان کا ایمان پختہ ہے تمہاری بد اعمالیوں کے مقابلہ میں ان کے پاکیزہ اعمال مستحکم ہیں انہیں ابدی راحتیں اور ہمیشہ کی مسکن جنتیں ملیں گی ۔اور اللہ کے عذاب و ثواب دونوں لازوال ہیں ۔ البقرة
82 البقرة
83 معبودان باطل سے بچو بنی اسرائیل کو جو حکم احکام دیئے گئے اور ان سے جن چیزوں پر عہد لیا گیا ان کا ذکر ہو رہا ہے ان کی عہد شکنی کا ذکر ہو رہا ہے انہیں حکم دیا گیا تھا کہ وہ توحید کو تسلیم کریں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کی عبادت نہ کریں ، یہ حکم نہ صرف بنو اسرائیل کو ہی دیا گیا بلکہ تمام مخلوق کو دیا گیا ہے فرمان ہے «وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ» ۱؎ ( 21 ۔ الانبیآء : 25 ) یعنی ’ تمام رسولوں کو ہم نے یہی حکم دیا کہ وہ اعلان کر دیں کہ عبادت کے لائق میرے سوا اور کوئی ، نہیں سب لوگ میری ہی عبادت کریں ‘ ۔ اور فرمایا «وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ» ۱؎ ( 16 ۔ النحل : 36 ) یعنی ’ ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے سوا دوسرے معبودان باطل سے بچو ‘ ۔ سب سے بڑا حق اللہ تعالیٰ ہی کا ہے اور اس کے تمام حقوق میں بڑا حق یہی ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور دوسرے کسی کی عبادت نہ کی جائے اب حقوق اللہ کے بعد حقوق العباد کا بیان ہو رہا ہے ۔ بندوں کے حقوق میں ماں باپ کا حق سب سے بڑا ہے اسی لیے پہلے ان کا حق بیان کیا گیا ہے ارشاد ہے «اَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْکَ» ۱؎ ( 31 ۔ لقمان : 14 ) یعنی ’ میرا شکر کرو اور اپنے ماں باپ کا بھی احسان مانو ‘ ۔ اور جگہ فرمایا «وَقَضَیٰ رَبٰکَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا» ۱؎ ( 17-الإسراء : 23 ) یعنی ’ تیرے رب کا فیصلہ ہے کہ اس کے سوا دوسرے کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ احسان اور سلوک کرتے رہو ‘ ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ { سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہا نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کون سا عمل سب سے افضل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز کو وقت پر ادا کرنا پوچھا اس کے بعد فرمایا ماں باپ کے ساتھ سلوک و احسان کرنا پوچھا پھر کون سا پھر اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:527) { ایک اور صحیح حدیث میں ہے کسی نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں کس کے ساتھ اچھا سلوک اور بھلائی کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی ماں کے ساتھ ، پوچھا پھر کس کے ساتھ ؟ فرمایا اپنی ماں کے ساتھ ، پھر پوچھا کس کے ساتھ ؟ فرمایا ! اپنے باپ کے ساتھ اور قریب والے کے ساتھ پھر اور قریب والے کے ساتھ ۔} ۱؎ (صحیح بخاری:5971) آیت میں «لا تعبدون» فرمایا اس لیے کہ اس میں بہ نسبت «لاتعبدوا» کے مبالغہ زیادہ ہے ۔ «طلب» یہ خبر معنی میں ہے بعض لوگوں نے «ان لا تعبدوا» بھی پڑھا ہے ابی اور ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ وہ «لا تعبدوا» پڑھتے تھے یتیم ان چھوٹے بچوں کو کہتے ہیں جن کا سر پرست باپ نہ ہو ۔ مسکین ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اپنی اور اپنے بال بچوں کی پرورش اور دیگر ضروریات پوری طرح مہیا نہ کر سکتے ہوں اس کی مزید تشریح ان شاءاللہ العظیم سورۃ نساء کی اس معنی کی آیات میں آئے گی پھر فرمایا لوگوں کو اچھی باتیں کہا کرو ۔ یعنی ان کے ساتھ نرم کلامی اور کشادہ پیشانی کے ساتھ پیش آیا کرو بھلی باتوں کا حکم اور برائی سے روکا کرو ۔ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں بھلائی کا حکم دو ۔ برائی سے روکو ۔ بردباری ، درگزر اور خطاؤں کی معافی کو اپنا شعار بنا لو یہی اچھا خلق ہے جسے اختیار کرنا چاہیئے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:258/1) { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اچھی چیز کو حقیر نہ سمجھو اگر اور کچھ نہ ہو سکے تو اپنے بھائیوں سے ہنستے ہوئے چہرے سے ملاقات تو کر لیا کرو } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2626) پس قرآن کریم نے پہلے اللہ کی عبادت کا حکم دیا پھر لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنے کا ۔ پھر اچھی باتیں کہنے کا ۔ پھر بعض اہم چیزوں کا ذکر بھی کر دیا نماز پڑھو زکوٰۃ دو ۔ پھر خبر دی کہ ان لوگوں نے عہد شکنی کی اور عموماً نافرمان بن گئے مگر تھوڑے سے پابند عہد رہے ۔ اس امت کو بھی یہی حکم دیا گیا فرمایا «وَاعْبُدُوا اللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَـیْـــــًٔـا وَّبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا» ( 4 ۔ النسآء : 36 ) یعنی ’ اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ۔ ماں باپ کے ساتھ رشتہ داروں کے ساتھ یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ ، قرابت دار پڑوسیوں کے ساتھ ، اجنبی پڑوسیوں کے ساتھ ، ہم مشرب مسلک کے ساتھ مسافروں کے ساتھ لونڈی غلاموں کے ساتھ ، حسن سلوک احسان اور بھلائی کیا کرو ۔ یاد رکھو تکبر اور فخر کرنے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا ۔ «اَلْحَمْدُ لِلہِ» کہ یہ امت بہ نسبت اور امتوں کے ان فرمانوں کے ماننے میں اور ان پر عمل پیرا ہونے میں زیادہ مضبوط ثابت ہوئی ۔ اسد بن وداعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ یہودیوں اور نصرانیوں کو سلام کیا کرتے تھے اور یہ دلیل دیتے تھے کہ فرمان باری ہے «وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْـنًا وَّاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ» ( 2 ۔ البقرہ : 83 ) لیکن یہ اثر غریب ہے اور حدیث کے خلاف ہے حدیث میں صاف موجود ہے کہ یہود نصاریٰ کو ابتداً سلام علیک نہ کیا کرو ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2167) «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ البقرة
84 اوس و خزرج اور دیگر قبائل کو دعوت اتحاد اوس اور خزرج انصار مدینہ کے دو قبیلے تھے اسلام سے پہلے ان دونوں قبیلوں کی آپس میں کبھی بنتی نہ تھی ہمیشہ آپس میں جنگ و جدال رہتا تھا ۔ مدینے کے یہودیوں کے بھی تین قبیلے تھے بنی قینقاع بنو نضیر اور بنو قریظہ ، بنو قینقاع اور بنی نضیر تو خزرج کے طرف دار اور ان کے بھائی بند بنے ہوئے تھے ، بنی قریظہ کا بھائی چارہ اوس کے ساتھ تھا ۔ جب اوس و خزرج میں جنگ ٹھن جاتی تو یہودیوں کے یہ تینوں گروہ بھی اپنے اپنے حلیف کا ساتھ دیتے اور ان سے مل کر ان کے دشمن سے لڑتے ، دونوں طرف کے یہودی یہودیوں کے ہاتھ مارے بھی جاتے اور موقعہ پا کر ایک دوسرے کے گھروں کو بھی اجاڑ ڈالتے ، دیس نکالا بھی دے دیا کرتے تھے اور مال و دولت پر بھی قبضہ کر لیا کرتے تھے ۔ جب لڑائی موقوف ہوتی تو مغلوب فریق کے قیدیوں کا فدیہ دے کر چھڑا لیتے اور کہتے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ہم میں سے جب کوئی قید ہو جائے تو ہم فدیہ دے کر چھڑا لیں اس پر جناب باری تعالیٰ انہیں فرماتا ہے کہ اس کی کیا وجہ کہ میرے اس ایک حکم کو تو تم نے مان لیا لیکن میں نے کہا تھا کہ آپس میں کسی کو قتل نہ کرو گھروں سے نہ نکالو اسے کیوں نہیں مانتے ؟ کسی حکم پر ایمان لانا اور کسی کے ساتھ کفر کرنا یہ کہاں کی ایمانداری ہے ؟ آیت میں فرمایا کہ اپنے خون نہ بہاؤ اور اپنے آپ کو اپنے گھروں سے نہ نکالو یہ اس لیے کہ ہم مذہب سارے کے سارے ایک جان کے مانند ہیں حدیث میں بھی ہے کہ تمام ایماندار دوستی ، اخوت ، صلہ رحمی اور رحم و کرم میں ایک جسم کے مثل ہیں کسی ایک عضو کے درد سے تمام جسم بیتاب ہو جاتا ہے بخار چڑھ جاتا ہے راتوں کی نیند اچاٹ ہو جاتی ہے ۔ (صحیح بخاری:6011 ) اسی طرح ایک ادنیٰ مسلمان کے لیے سارے جہان کے مسلمانوں کو تڑپ اٹھنا چاہیئے ۔ عبد خیر رحمہ اللہ کہتے ہیں ہم سلمان بن ربیعہ رحمہ اللہ کی ماتحتی میں “ بلنجر “ میں جہاد کر رہے تھے محاصرہ کے بعد ہم نے اس شہر کو فتح کیا جس میں بہت سے قیدی بھی ملے ۔ سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہما نے ان میں سے ایک یہودیہ لونڈی کو سات سو میں خریدا ۔ راس الجالوت کے پاس جب ہم پہنچے تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہما اس کے پاس گئے اور فرمایا یہ لونڈی تیری ہم مذہب ہے میں نے اسے سات سو میں خریدا ہے اب تم اسے مجھ سے خرید لو اور آزاد کر دو اس نے کہا بہت اچھا میں چودہ سو دیتا ہوں آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تو چار ہزار سے کم نہیں بیچوں گا اس نے کہا پھر میں نہیں خریدتا آپ رضی اللہ عنہ نے کہا سن یا تو تو اسے خرید ورنہ تیرا دین جاتا رہے گا توراۃ میں لکھا ہوا ہے کہ بنو اسرائیل کا کوئی بھی شخص گرفتار ہو جائے تو اسے خرید کر آزاد کیا کرو ۔ اگر وہ قیدی ہو کر تمہارے پاس آئیں تو فدیہ دے کر چھڑا لیا کرو اور انہیں ان کے گھر سے بےگھر بھی نہ کیا کرو اب یا تو توراۃ کو مان کر اسے خرید یا توراۃ کا منکر ہونے کا اقرار کر ! وہ سمجھ گیا اور کہنے لگا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم شاید عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ہو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں چنانچہ وہ چار ہزار لے آیا آپ رضی اللہ عنہ نے دو ہزار لے لیے اور دو ہزار لوٹا دیئے ۔ بعض روایتوں میں ہے کہ راس الجالوت کوفہ میں تھا یہ ان لونڈیوں کا فدیہ نہیں دیتا تھا جو عرب سے نہ بچی ہوں اس پر سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اسے توراۃ کی یہ آیت سنائی غرض آیت میں یہودیوں کی مذمت ہے کہ وہ احکام الٰہیہ کو جانتے ہوئے پھر بھی پس پشت ڈال دیا کرتے تھے امانت داری اور ایمانداری ان سے اٹھ چکی تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نشانیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے پیدائش جائے ہجرت وغیرہ وغیرہ سب چیزیں ان کی کتاب میں موجود تھیں لیکن یہ ان سب کو چھپائے ہوئے تھے اور اتنا ہی نہیں بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے تھے اسی باعث ان پر دنیوی رسوائی آئی اور کم نہ ہونے والے اور دائمی آخرت کا عذاب بھی ۔ البقرة
85 البقرة
86 البقرة
87 خود پرست اسرائیلی بنی اسرائیل کے عناد و تکبر اور ان کی خواہش پرستی کا بیان ہو رہا ہے کہ توراۃ میں تحریف و تبّدل کیا موسیٰ علیہ السلام کے بعد انہی کی شریعت آنے والے انبیاء کی بھی مخالفت کی چنانچہ فرمایا «اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰیۃَ فِیْہَا ہُدًی وَّنُوْرٌ» ( 5 ۔ المائدہ : 44 ) یعنی ہم نے توراۃ نازل فرمائی جس میں ہدایت اور نور تھا جس پر انبیاء علیہ السلام بھی خود بھی عمل کرتے اور یہودیوں کو بھی ان کے علماء اور درویش ان پر عمل کرنے کا حکم کرتے تھے غرض پے در پے یکے بعد دیگرے انبیاء کرام بنی اسرائیل میں آتے رہے یہاں تک کہ یہ سلسلہ عیسیٰ علیہ السلام پر ختم ہوا انہیں انجیل ملی جس میں بعض احکام توراۃ کے خلاف بھی تھے اسی لیے انہیں نئے نئے معجزات بھی ملے جیسے مردوں کو بحکم رب العزت زندہ کر دینا مٹی سے پرند بنا کر اس میں پھونک مار کر بحکم رب العزت اڑا دینا ، بیماروں کو اپنے دم جھاڑے سے رب العزت کے حکم سے اچھا کر دینا ، بعض بعض غیب کی خبریں رب العزت کے معلوم کرانے سے دینا وغیرہ ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:268/1) آپ کی تائید پر روح القدس یعنی جبرائیل علیہ السلام کو لگا دیا لیکن بنی اسرائیل اپنے کفر اور تکبر میں اور بڑھ گئے اور زیادہ حسد کرنے لگے اور ان تمام انبیاء کرام کے ساتھ برے سلوک سے پیش آئے ۔ کہیں جھٹلاتے اور کہیں مار ڈالتے تھے محض اس بنا پر کہ انبیاء علیہ السلام کی تعلیم ان کی طبیعتوں کے خلاف ہوا کرتی تھی ان کی رائے اور انہیں ان کے قیاسات اور ان کے بنائے ہوئے اصول و احکام ان کی قبولیت سے ٹکراتے تھے اس لیے دشمنی پر تل جاتے تھے ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ محمد بن کعب اسمٰعیل بن خالد سدی ربیع بن انس عطیہ عوفی اور قتادہ رحمہ اللہ علیہم وغیرہ کا قول یہی ہے کہ روح القدس سے مراد جبرائیل ہیں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:270/1) جیسے قرآن شریف میں اور جگہ ہے «نَزَلَ بِہِ الرٰوْحُ الْاَمِیْنُ» ( 26 ۔ الشعرآء : 193 ) یعنی اسے لے کر روح امین اترے ہیں ۔ صحیح بخاری میں تعلیقاً مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان شاعر کے لیے مسجد میں منبر رکھوایا وہ مشرکین کی ہجو کا جواب دیتے تھے اور آپ ان کے لیے دعا کرتے تھے کہ اے اللہ عزوجل حسان کی مدد روح القدس سے فرما جیسے کہ یہ تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جواب دیتے ہیں ۔ (سنن ابوداود:5015 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح ) بخاری و مسلم کی ایک اور حدیث میں ہے کہ سیدنا حسان رضی اللہ عنہا خلافت فاروقی کے زمانے میں ایک مرتبہ مسجد نبوی میں کچھ اشعار پڑھ رہے تھے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کی طرف تیز نگاہیں اٹھائیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تو اس وقت بھی ان شعروں کو یہاں پڑھتا تھا جب یہاں تم سے بہتر شخص موجود تھے پھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہا کی طرف دیکھ کر فرمایا سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تمہیں اللہ کی قسم کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے نہیں سنا ؟ کہ اے حسان تو مشرکوں کے اشعار کا جواب دے اے اللہ تعالیٰ تو حسان رضی اللہ عنہ کی تائید روح القدس سے کر ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں اللہ کی قسم میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے ۔ (صحیح بخاری:3212 ) بعض روایتوں میں یہ بھی ہے کہ حضور نے فرمایا حسان رضی اللہ عنہ تم ان مشرکین کی ہجو کرو جبرائیل علیہ السلام بھی تمہارے ساتھ ہیں ۔ (صحیح بخاری:3213) سیدنا حسان رضی اللہ عنہ کے شعر میں بھی جبرائیل کو روح القدس کہا گیا ہے ایک اور حدیث میں ہے کہ جب یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کی بابت پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں اللہ کی قسم اللہ کی نعمتوں کو یاد کر کے کہو کیا خود تمہیں معلوم نہیں کہ وہ جبرائیل علیہ السلام ہیں اور وہی میرے پاس بھی وحی لاتے ہیں ان سب نے کہا بیشک ( ابن اسحاق ) ابن حبان میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جبرائیل علیہ السلام نے میرے دل میں کہا کہ کوئی شخص اپنی روزی اور زندگی پوری کئے بغیر نہیں مرتا ۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور دنیا کمانے میں دین کا خیال رکھو ۔ (بغوی فی شرح السنۃ:4111:صحیح بالشواھد) بعض نے روح القدس سے مراد اسم اعظم لیا ہے بعض نے کہا ہے فرشتوں کا ایک سردار فرشتہ ہے بعض کہتے ہیں قدس سے مراد اللہ تعالیٰ اور روح سے مراد جبرائیل علیہ السلام ہے کسی نے کہا ہے قدس یعنی برکت کسی نے کہا ہے پاک کسی نے کہا ہے روح سے مراد انجیل ہے جیسے فرمایا «وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا» ( 42 ۔ الشوری : 52 ) یعنی اسی طرح ہم نے تیری طرف روح کی وحی اپنے حکم سے کی ۔ امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ کا فیصلہ یہی ہے کہ یہاں مراد روح القدس سے جبرائیل ہیں جیسے اور جگہ ہے «إِذْ قالَ اللہُ یا عِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ اذْکُرْ نِعْمَتِی عَلَیْکَ وَعَلی والِدَتِکَ إِذْ أَیَّدْتُکَ بِرُوحِ الْقُدُسِ» ( 5-المائدہ-110 ) اس آیت میں روح القدس کی تائید کے ذکر کے ساتھ کتاب و حکمت توراۃ و انجیل کے سکھانے کا بیان ہے معلوم ہوا کہ یہ اور چیز ہے اور وہ اور چیز علاوہ ازیں روانی عبارت بھی اس کی تائید کرتی ہے ۔ قدس سے مراد مقدس ہے جیسے [ ھَاتِمٌ جُوْدٌ اور رَجُلٌ صِدٗقٌ] میں روح القدس کہنے میں اور رُوحٌ مِّنْہُ ۔ (4-النساء:171) کہنے میں قربت اور بزرگی کی ایک خصوصیت پائی جاتی ہے یہ اس لیے بھی کہا گیا ہے کہ یہ روح مردوں کی پیٹھوں اور حیض والے رحموں سے بے تعلق رہی ہے ۔ بعض مفسرین نے اس سے مراد عیسیٰ علیہ السلام کی پاکیزہ روح لی ہے پھر فرمایا کہ ایک فرقے کو تم نے جھٹلایا اور ایک فرقے کو تم قتل کرتے ہو جھٹلانے میں ماضی کا صیغہ لائے لیکن قتل میں مستقبل کا اس لیے کہ ان کا حال آیت کے نزول کے وقت بھی یہی رہا چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الموت میں فرمایا کہ اس زہر آلود لقمہ کا اثر برابر مجھ پر رہا جو میں نے خیبر میں کھایا تھا اس وقت اس نے رک رک کر جان کاٹ دی ۔ (صحیح بخاری:4428) البقرة
88 غلف کے معنی یہودیوں کا ایک قول یہ بھی تھا کہ ہمارے دلوں پر غلاف ہیں یعنی یہ علم سے بھرپور ہیں اب ہمیں نئے علم کی کوئی ضرورت نہیں ۔ (تفسیر قرطبی:25/2) اس لیے جواب ملا کہ غلاف نہیں بلکہ لعنت الہیہ کی مہر لگ گئی ہے ایمان نصیب ہی نہیں ہوتا خلف کو خلف بھی پڑھا گیا ہے یعنی یہ علم کے برتن ہیں اور جگہ قرآن کریم میں ہے «وَقَالُوا قُلُوبُنَا فِی أَکِنَّۃٍ مِّمَّا تَدْعُونَا إِلَیْہِ وَفِی آذَانِنَا وَقْرٌ وَمِن بَیْنِنَا وَبَیْنِکَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ إِنَّنَا عَامِلُونَ» ( 41 ۔ فصلت : 5 ) یعنی جس چیز کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو اس چیز سے ہمارے دل پردے اور آڑ میں اور ہمارے دلوں کے درمیان پردہ ہے آڑ ہے ان پر مہر لگی ہوئی ہے وہ اسے نہیں سمجھتے اسی بنا پر وہ نہ اس کی طرف مائل ہوتے ہیں نہ اسے یاد رکھتے ہیں ۔ایک حدیث میں بھی ہے کہ بعض دل غلاف والے ہوتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہوتا ہے یہ کفار کے دل ہوتے ہیں۔(مسند احمد:17/3-18:ضعیف) سورۃ نساء میں بھی ایک آیت اسی معنی کی ہے «وَقَوْلِہِمْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ» ( 4-النسأ-155 ) تھوڑا ایمان لانے کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ ان میں سے بہت کم لوگ ایماندار ہیں اور دوسرے معنی یہ بھی ہیں کہ ان کا ایمان بہت کم ہے یعنی قیامت ثواب عذاب وغیرہ کا قائل ۔ موسیٰ علیہ السلام پر ایمان رکھنے والے توراۃ کو اللہ تعالیٰ کی کتاب مانتے ہیں مگر اس پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کو مان کر اپنا ایمان پورا نہیں کرتے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کفر کر کے اس تھوڑے ایمان کو بھی غارت اور برباد کر دیتے ہیں تیسرے معنی یہ ہیں کہ یہ سرے سے بے ایمان ہیں کیونکہ عربی زبان میں ایسے موقعہ پر بھی ایسے الفاظ بولے جاتے ہیں مثلاً میں نے اس جیسا بہت ہی کم دیکھا مطلب یہ ہے کہ دیکھا ہی نہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ البقرة
89 انکار کا سبب جب کبھی یہودیوں اور عرب کے مشرکین کے درمیان لڑائی ہوتی تو یہود کہا کرتے تھے کہ عنقریب اللہ تعالیٰ کی سچی کتاب لے کر اللہ عزوجل کے ایک عظیم الشان پیغمبر تشریف لانے والے ہیں ہم ان کے ساتھ مل کر تمہیں ایسا قتل و غارت کریں گے کہ تمہارا نام و نشان مٹ جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کیا کرتے تھے کہا اے اللہ تو اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جلد بھیج جس کی صفتیں ہم توراۃ میں پڑھتے ہیں تاکہ ہم ان پر ایمان لا کر ان کے ساتھ مل کر اپنا بازو مضبوط کر کے تیرے دشمنوں سے انتقام لیں ۔ مشرکوں سے کہا کرتے تھے کہ اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ اب بالکل قریب آ گیا ہے لیکن جس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تمام نشانیاں آپ میں دیکھ لیں ۔ پہچان بھی لیا ۔ دل سے قائل بھی ہو گئے ۔ مگر چونکہ آپ عرب میں سے تھے ۔ حسد کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے انکار کر دیا اور اللہ تعالیٰ کے لعنت یافتہ ہو گئے بلکہ وہ مشرکین مدینہ جو ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بارے میں سنتے چلے آتے تھے انہیں تو ایمان نصیب ہوا اور بالاخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر وہ یہود پر غالب آ گئے ۔ ایک مرتبہ سیدنا معاذ بن جبل بشر بن براء داؤد بن سلمہ رضی اللہ عنہم نے ان یہود مدینہ سے کہا بھی کہ تم تو ہمارے شرک کی حالت میں ہم سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ذکر کیا کرتے تھے بلکہ ہمیں ڈرایا کرتے تھے اور اب جب کہ وہ عام اوصاف جو تم بیان کرتے تھے وہ تمام اوصاف آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں ہیں ۔ پھر تم خود ایمان کیوں نہیں لاتے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ کیوں نہیں دیتے ؟ تو سلام بن مشکم نے جواب دیا کہ ہم ان کے بارہ میں نہیں کہتے تھے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:333/2) اسی کا ذکر اس آیت میں ہے کہ پہلے تو مانتے تھے منتظر بھی تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کے بعد حسد اور تکبر سے اپنی ریاست کے کھوئے جانے کے ڈر سے صاف انکار کر بیٹھے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:276/1 ) البقرة
90 برا ہو حسد کا مطلب یہ ہے کہ ان یہودیوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کے بدلے تکذیب کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے بدلے کفر کیا ۔ آپ کی نصرت و امداد کے بدلے مخالفت اور دشمنی کی اس وجہ سے اپنے آپ کو جس غضب الٰہی کا سزاوار بنایا وہ بدترین چیز ہے جو بہترین چیز کے بدلے انہوں نے لی اور اس کی وجہ سے سوائے حسد و بغض تکبر و عناد کے اور کچھ نہیں چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے قبیلہ میں سے نہ تھے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرب میں سے تھے اس لیے یہ منہ موڑ کر بیٹھ گئے حالانکہ اللہ پر کوئی حاکم نہیں وہ رسالت کے حقدار کو خوب جانتا ہے وہ اپنا فضل و کرم اپنے جس بندے کو چاہے عطا فرماتا ہے پس ایک تو توراۃ کے احکام کی پابندی نہ کرنے کی وجہ سے ان پر غضب نازل ہوا دوسرا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کفر کرنے کے سبب نازل ہوا ۔ یا یوں سمجھ لیجئے کہ پہلا غضب عیسیٰ علیہ السلام کو پیغمبر نہ ماننے کی وجہ سے اور دوسرا غضب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغمبر تسلیم نہ کرنے کے سبب ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:278/1) سدی رحمہ اللہ کا خیال ہے ۔ کہ پہلا غضب بچھڑے کے پوجنے کے سبب تھا دوسرا غضب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی بناء پر ۔ چونکہ یہ حسد و بغض کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے منکر ہوئے تھے اور اس حسد بغض کا اصلی باعث ان کا تکبر تھا اس لیے انہیں ذلیل عذابوں میں مبتلا کر دیا گیا تاکہ گناہ کا بدلہ پورا ہو جائے جیسے فرمان ہے «اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِیْنَ» ( 40 ۔ غافر : 60 ) میری عبادت سے جو بھی تکبر کریں گے وہ ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں متکبر لوگوں کا حشر قیامت کے دن انسانی صورت میں چیونٹیوں کی طرح ہو گا جنہیں تمام چیزیں روندتی ہوئی چلیں گی اور جہنم کے ” بولس “ نامی قید خانے میں ڈال دیئے جائیں گے جہاں کی آگ دوسری تمام آگوں سے تیز ہو گی اور جہنمیوں کا لہو پیپ وغیرہ انہیں پلایا جائے گا ۔ (سنن ترمذی:2492 ، قال الشیخ الألبانی:حسن ) البقرة
91 خود پسند یہودی مورد عتاب یعنی جب ان سے قرآن پر اور نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کو کہا جاتا ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں توراۃ انجیل پر ایمان رکھنا کافی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ اس میں بھی جھوٹے ہیں قرآن تو ان کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے اور خود ان کی کتابوں میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق موجود ہے ، جیسے فرمایا «اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ یَعْرِفُوْنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَاءَھُمْ» ( 2 ۔ البقرہ : 146 ) یعنی اہل کتاب آپ کو اس طرح جانتے ہیں جس طرح اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں پس آپ سے انکار کا مطلب توراۃ انجیل سے بھی انکار کے مترادف ہے ۔ اس حجت کو قائم کر کے اب دوسری طرح حجت قائم کی جاتی ہے کہ اچھا توراۃ اور انجیل پر اگر تمہارا ایمان ہے پھر اگلے انبیاء جو انہی کی تصدیق اور تابعداری کرتے ہوئے بغیر کسی نئی شریعت اور نئی کتاب کے آئے تو تم نے انہیں قتل کیوں کیا ؟ معلوم ہوا کہ تمہارا ایمان نہ تو اس کتاب پر ہے نہ اس کتاب پر ۔ تم محض خواہش کے بندے نفس کے غلام اپنی رائے قیاس کے غلام ہو ۔ پھر فرمایا کہ اچھا موسیٰ علیہ السلام سے تو تم نے بڑے بڑے معجزے دیکھے طوفان ، ٹڈیاں ، جوئیں ، مینڈک ، خون وغیرہ جو ان کی بد دعا سے بطور معجزے ظاہر ہوئے لکڑی کا سانپ بن جانا ہاتھ کا روشن چاند بن جانا ، دریا کو چیر دینا اور پانی کو پتھر کی طرح بنا دینا ، بادلوں کا سایہ کرنا ، من و سلویٰ کا اترنا ، پتھر سے نہریں جاری کرنا وغیرہ تمام بڑے بڑے معجزات جو ان کی نبوت کی اور اللہ کی توحید کی روشن دلیلیں تھیں سب اپنی آنکھوں سے دیکھیں لیکن ادھر موسیٰ علیہ السلام طور پہاڑ پر گئے ادھر تم نے بچھڑے کو اللہ بنا لیا اب بتاؤ کہ خود توراۃ پر اور خود موسیٰ علیہ السلام پر بھی تمہارا ایمان کہاں گیا ؟ کیا یہ بدکاریاں تمہیں ظالم کہلوانے والی نہیں ؟ «مِن بَعْدِہِ» سے مراد موسیٰ علیہ السلام کے طُور پر جانے کے بعد ہے ۔ دوسری جگہ ارشاد ہے «وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَیٰ مِن بَعْدِہِ مِنْ حُلِیِّہِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّہُ خُوَارٌ» ( 7-الاعراف-148 ) یعنی موسیٰ علیہ السلام کے طور پر جانے کے بعد آپ علیہ السلام کی قوم نے بچھڑے کو معبود بنا لیا اور اپنی جانوں پر اس گوسالہ پرستی سے واضح ظلم کیا جس کا احساس بعد میں خود انہیں بھی ہوا جیسے فرمایا «وَلَمَّا سُقِطَ فِی أَیْدِیہِمْ وَرَأَوْا أَنَّہُمْ قَدْ ضَلٰوا قَالُوا لَئِن لَّمْ یَرْحَمْنَا رَبٰنَا وَیَغْفِرْ لَنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِینَ» ( 7-الاعراف-149 ) یعنی جب انہیں ہوش آیا نادم ہوئے اور اپنی گمراہی کو محسوس کرنے لگے اس وقت کہا اے اللہ اگر تم ہم پر رحم نہ کرے اور ہماری خطا نہ بخشے تو ہم زیاں کار ہو جائیں گے ۔ البقرة
92 البقرة
93 صدائے باز گشت اللہ تبارک و تعالیٰ بنی اسرائیل کی خطائیں مخالفتیں سرکشی اور حق سے روگردانی بیان فرما رہا ہے کہ طور پہاڑ جب سروں پر دیکھا تو اقرار کر لیا جب وہ ہٹ گیا تو پھر منکر ہو گئے ۔ اس کی تفسیر بیان ہو چکی ہے بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں رچ گئی ۔ جیسے کہ حدیث میں ہے کہ کسی چیز کی محبت انسان کو اندھا بہرا بنا دیتی ہے ۔ (سنن ابوداود:5130 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) موسیٰ علیہ السلام نے اس بچھڑے کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے جلا کر اس کی راکھ کو ہوا میں اڑا کر دریا میں ڈال دیا تھا جس پانی کو بنی اسرائیل نے پی لیا اور اس کا اثر ان پر ظاہر ہوا گو بچھڑا نیست و نابود کر دیا گیا لیکن ان کے دلوں کا تعلق اب بھی اس معبود باطل سے لگا رہا دوسری آیت کا مطلب یہ ہے کہ تم ایمان کا دعویٰ کس طرح کرتے ہو ؟ اپنے ایمان پر نظر نہیں ڈالتے ؟ باربار کی عہد شکنیاں کئی بار کے کفر بھول گئے ؟ موسیٰ علیہ السلام کے سامنے تم نے کفر کیا ان کے بعد کے پیغمبروں کے ساتھ تم نے سرکشی کی یہاں تک کہ افضل الانبیاء ختم المرسلین محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو بھی نہ مانا جو سب سے بڑا کفر ہے ۔ البقرة
94 مباہلہ اور یہودی مع نصاریٰ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کہ ان یہودیوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زبانی پیغام دیا گیا کہ اگر تم سچے ہو تو مقابلہ میں آؤ ہم تم مل کر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہم میں سے جو جھوٹا ہے اسے ہلاک کر دے ۔ لیکن ساتھ ہی پیشنگوئی بھی کر دی کہ یہ لوگ ہرگز اس پر آمادہ نہیں ہوں گے چنانچہ یہی ہوا کہ یہ لوگ مقابلہ پر نہ آئے اس لیے کہ وہ دل سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آسمانی کتاب قرآن کریم کو سچا جانتے تھے اگر یہ لوگ اس اعلان کے ماتحت مقابلہ میں نکلتے تو سب کے سب ہلاک ہو جاتے ۔ روئے زمین پر ایک یہودی بھی باقی نہ رہتا ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی آیا ہے کہ اگر یہودی مقابلہ پر آتے اور جھوٹے کے لیے موت طلب کرتے تو سب کے سب مر جاتے اور اپنی جگہ جہنم میں دیکھ لیتے اسی طرح جو نصرانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے وہ بھی اگر مباہلہ کے لیے تیار ہوتے تو وہ لوٹ کر اپنے اہل و عیال اور مال و دولت کا نام و نشان بھی نہ پاتے ۔ (مسند احمد:248/1:صحیح) سورۃ الجمعہ میں بھی اسی طرح کی دعوت انہیں دی گئی ہے آیت «قُلْ یٰٓاَیٰہَا الَّذِیْنَ ہَادُوْٓا اِنْ زَعَمْتُمْ اَنَّکُمْ اَوْلِیَاءُ لِلہِ مِنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ» ( 62 ۔ الجمعہ : 6 ) آخر تک پڑھئے ان کا دعویٰ تھا کہ آیت «نَحْنُ اَبْنٰؤُا اللّٰہِ وَاَحِبَّاؤُہٗ» ( 5 ۔ المائدہ : 18 ) ہم تو اللہ کی اولاد اور اس کے پیارے ہیں یہ کہا کرتے تھے آیت «لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّۃَ اِلَّا مَنْ کَانَ ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی» ( 2 ۔ البقرہ : 111 ) جنت میں صرف یہودی اور نصاریٰ ہی جائیں گے اس لیے انہیں کہا گیا کہ آؤ اس کا فیصلہ اس طرح کر لیں کہ دونوں فریق میدان میں نکل کر اللہ سے دعا کریں کہ اسے جھوٹے کو ہلاک کر لیکن چونکہ اس جماعت کو اپنے جھوٹ کا علم تھا اس لیے تیار نہ ہوئی اور اس کا کذب سب پر کھل گیا اسی طرح جب نجران کے نصرانی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے بحث مباحثہ ہو چکا تو ان سے بھی یہی کہا گیا کہ آیت «تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَاءَنَا وَاَبْنَاءَکُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَکُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ» ( 3 ۔ آل عمران : 61 ) آؤ ہم تم دونوں اپنی اپنی اولادوں بیویوں کو لے کر نکلیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ جھوٹوں پر اپنی لعنت نازل فرمائے لیکن وہ آپس میں کہنے لگے کہ ہرگز اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مباہلہ نہ کرو فوراً برباد ہو جاؤ گے چنانچہ مباہلہ سے انکار کر دیا جھک کر صلح کر لی اور دب کر جزیہ دینا منظور کر لیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسیدنا بوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہا کو ان کے ساتھ امین بنا کر بھیج دیا ۔ اسی طرح مشرکین عرب سے بھی کہا گیا آیت «قُلْ مَن کَانَ فِی الضَّلَالَۃِ فَلْیَمْدُدْ لَہُ الرَّحْمٰنُ مَدًّا» ( 19 ۔ مریم : 75 ) یعنی ہم میں سے جو گمراہ ہو اللہ تعالیٰ اس کی گمراہی بڑھا دے اس کی پوری تفسیر اس آیت کے ساتھ بیان ہو گی ان شاءاللہ تعالیٰ مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں ایک مرجوع قول یہ بھی ہے کہ تم خود اپنے جانوں کے لیے موت طلب کرو کیونکہ بقول تمہارے آخرت کی بھلائیاں صرف تمہارے لیے ہی ہیں انہوں نے اس سے انکار کیا لیکن یہ قول کچھ دل کو نہیں لگتا ۔ اس لیے کہ بہت سے اچھے اور نیک آدمی بھی زندگی چاہتے ہیں بلکہ حدیث میں ہے کہ تم میں سے بہتر وہ ہے جس کی لمبی عمر ہوئی ہو اور اعمال اچھے ہوں ۔ (سنن ترمذی:2330 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) علاوہ ازیں یہی قول یہودی بھی کہہ سکتے تھے تو بات فیصلہ کن نہ ہوتی ٹھیک تفسیر وہی ہے جو پہلے بیان ہوئی کہ دونوں فریق مل کر جھوٹ کی ہلاکت اور اس کی موت کی دعا کریں اور اس اعلان کے سنتے ہی یہود تو ٹھنڈے پڑ گئے اور تمام لوگوں پر ان کا جھوٹ کھل گیا اور وہ پیشنگوئی بھی سچی ثابت ہوئی کہ یہ لوگ ہرگز موت طلب نہیں کریں گے اس مباہلہ کا نام اصطلاح میں «تمنی» رکھا گیا کیونکہ ہر فریق باطل پرست کی موت کی آرزو کرتا ہے ۔ پھر فرمایا کہ یہ تو مشرکین سے بھی زیادہ طویل عمر کے خواہاں ہیں کیونکہ کفار کے لیے دنیا جنت ہے اور ان کی تمنا اور کوشش ہے کہ یہاں زیادہ رہیں خواجہ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں منافق کو حیات دنیوی کی حرص کافر سے بھی زیادہ ہوتی ہے یہ یہودی تو ایک ایک ہزار سال کی عمریں چاہتے ہیں حالانکہ اتنی لمبی عمر بھی انہیں ان عذابوں سے نجات نہیں دے سکتی چونکہ کفار کو تو آخرت پر یقین ہی نہیں ہوتا مگر انہیں یقین تو تھا لیکن ان کی اپنی سیاہ کاریاں بھی ان کے سامنے تھیں اس لیے موت سے بہت زیادہ ڈتے تھے ۔ لیکن ابلیس کے برابر بھی عمر پالی تو کیا ہوا عذاب سے تو نہیں بچ سکتے ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:376/2) اللہ تعالیٰ ان کے اعمال سے بیخبر نہیں تمام بندوں کے تمام بھلے برے اعمال کو وہ بخوبی جانتا ہے اور ویسا ہی بدلہ دے گا ۔ البقرة
95 البقرة
96 البقرة
97 خصومت جبرائیل علیہ السلام موجب کفر و عصیان امام جعفر طبری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس پر تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ جب یہودیوں نے جبرائیل علیہ السلام کو اپنا دشمن اور میکائیل علیہ السلام کو اپنا دوست بتایا تھا اس وقت ان کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔(تفسیر ابن جریر الطبری:377/2) لیکن بعض کہتے ہیں کہ امر نبوت کے بارے میں جو گفتگو ان کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی تھی اس میں انہوں نے یہ کہا تھا ۔ بعض کہتے ہیں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کا جو مناظرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بارے میں ہوا تھا اس میں انہوں نے یہ کہا تھا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہودیوں کی ایک جماعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے چند سوال کرتے ہیں جن کے صحیح جواب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کوئی نہیں جانتا اگر آپ سچے نبی ہیں تو ان کے جوابات دیجئیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہتر ہے جو چاہو پوچھو مگر عہد کرو کہ اگر میں ٹھیک ٹھیک جواب دوں گا تو تم میری نبوت کا اقرار کر لو گے اور میری فرمانبرداری کے پابند ہو جاؤ گے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کیا اور عہد دیا ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یعقوب کی طرح اللہ جل شانہ کی شہادت کے ساتھ ان سے پختہ وعدہ لے کر انہیں سوال کرنے کی اجازت دی ، انہوں نے کہا پہلے تو یہ بتائے کہ توراۃ نازل ہونے سے پہلے اسرائیل علیہ السلام نے اپنے نفس پر کس چیز کو حرام کیا تھا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب یعقوب علیہ السلام عرق السناء کی بیماری میں سخت بیمار ہوئے تو نذر مانی کہ اگر اللہ مجھے اس مرض سے شفاء دے تو میں اپنی کھانے کے سب سے زیادہ مرغوب چیز اور سب سے زیادہ محبوب چیز پینے کی چھوڑ دوں گا جب تندرست ہو گئے تو اونٹ کا گوشت کھانا اور اونٹنی کا دودھ پینا جو آپ علیہ السلام کو پسند خاطر تھا چھوڑ دیا ، تمہیں اللہ کی قسم جس نے موسیٰ علیہ السلام پر تورات اتاری بتاؤ یہ سچ ہے ؟ ان سب نے قسم کھا کر کہا کہ ہاں حضور سچ ہے بجا ارشاد ہوا اچھا اب ہم پوچھتے ہیں کہ عورت مرد کے پانی کی کیا کیفیت ہے ؟ اور کیوں کبھی لڑکا پیدا ہوتا ہے اور کبھی لڑکی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو مرد کا پانی گاڑھا اور سفید ہوتا ہے اور عورت کا پانی پتلا اور زردی مائل ہوتا ہے جو بھی غالب آ جائے اسی کے مطابق پیدائش ہوتی ہے اور شبیہ بھی ۔ جب مرد کا پانی عورت کے پانی پر غالب آ جائے تو حکم الٰہی سے اولاد نرینہ ہوتی ہے اور جب عورت کا پانی مرد کے پانی پر غالب آ جائے تو حکم الٰہی سے اولاد لڑکی ہوتی ہے تمہیں اللہ تعالیٰ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں سچ بتاؤ میرا جواب صحیح ہے ؟ سب نے قسم کھا کر کہا بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بجا ارشاد فرمایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو باتوں پر اللہ تعالیٰ کو گواہ بنایا ۔ انہوں نے کہا اچھا یہ فرمائیے کہ تورات میں جس نبی امی کی خبر ہے اس کی خاص نشانی کیا ہے ؟ اور اس کے پاس کون سا فرشتہ وحی لے کر آتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی خاص نشانی یہ ہے کہ اس کی آنکھیں جب سوئی ہوئی ہوں اس وقت میں اس کا دل جاگتا رہتا ہے تمہیں اس رب کی قسم جس نے موسیٰ علیہ السلام کو توراۃ دی بتاؤ تو میں نے ٹھیک جواب دیا ؟ سب نے قسم کھا کر کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل صحیح جواب دیا ۔ اب ہمارے اس سوال کی دوسری شق کا جواب بھی عنایت فرما دیجئیے اسی پر بحث کا خاتمہ ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرا ولی جبرائیل علیہ السلام ہے وہی میرے پاس وحی لاتا ہے اور وحی تمام انبیاء کرام علیہ السلام کے پاس پیغام باری تعالیٰ لاتا رہا ۔ سچ کہو اور قسم کھا کر کہو کہ میرا یہ جواب بھی درست ہے ؟ انہوں نے قسم کھا کر کہا کہ جواب تو درست ہے لیکن چونکہ جبرائیل علیہ السلام ہمارا دشمن ہے وہ سختی اور خون ریزی وغیرہ لے کر آتا رہتا ہے اس لیے ہم اس کی نہیں مانیں گے نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مانیں ہاں اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس میکائیل صلی اللہ علیہ وسلم وحی لے کر آتے جو رحمت ، بارش ، پیداوار وغیرہ لے کر آتے ہیں اور ہمارے دوست ہیں تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری اور تصدیق کرتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔(طیالسی:2331:حسن) بعض روایتوں میں ہے کہ انہوں نے یہ بھی سوال کیا تھا کہ رعد کیا چیز ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ ایک فرشتہ ہے جو بادلوں پر مقرر ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق انہیں ادھر ادھر لے جاتا ہے ۔ انہوں نے کہا یہ گرج کی آواز کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ اسی فرشتے کی آواز ہے ملاحظہ ہو مسند احمد وغیرہ ۔(مسند احمد:274/1:حسن) صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے اس وقت سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہما اپنے باغ میں تھے اور یہودیت پر قائم تھے ۔ انہوں نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خبر سنی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور کہا یا رسول اللہ !صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمائیے کہ قیامت کی پہلی شرط کیا ہے ؟ اور جنتیوں کا پہلا کھانا کیا ہے ؟ اور کون سی چیز بچہ کو کبھی ماں کی طرف کھینچتی ہے اور کبھی باپ کی طرف ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان تینوں سوالوں کے جواب ابھی ابھی جبرائیل صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بتلائے ہیں سنو ، عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا وہ تو ہمارا دشمن ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی پھر فرمایا پہلی نشانی قیامت کی ایک آگ ہے جو لوگوں کے پیچھے لگے گی اور انہیں مشرق سے مغرب کی طرف اکٹھا کر دے گی ۔ جنتیوں کی پہلی خوراک مچھلی کی کلیجی بطور ضیافت ہو گی ۔ جب مرد کا پانی عورت کے پانی پر سبقت کر جاتا ہے تو لڑکا پیدا ہوتا ہے اور جب عورت کا پانی مرد کے پانی سے سبق لے جاتا ہے تو لڑکی ہوتی ہے یہ جواب سنتے ہی عبداللہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہو گئے اور پکار اٹھے حدیث «اشھدان لا الہٰ الا اللہ وانک رسولہ اللہ» پھر کہنے لگے حضور یہودی بڑے بیوقوف لوگ ہیں ۔ اگر انہیں میرا اسلام لانا پہلے معلوم ہو جائے گا تو وہ مجھے کہیں گے آپ پہلے انہیں ذرا قائل کر لیجئے ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب یہودی آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ تم میں کیسے شخص ہیں ؟ انہوں نے کہا بڑے بزرگ اور دانشور آدمی ہیں بزرگوں کی اولاد میں سے ہیں وہ تو ہمارے سردار ہیں اور سرداروں کی اولاد میں سے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا اگر وہ مسلمان ہو جائیں پھر تو تمہیں اسلام قبول کرنے میں کوئی تامل تو نہیں ہو گا ؟ کہنے لگے اعوذ باللہ اعوذ باللہ وہ مسلمان ہی کیوں ہونے لگے ؟ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ جو اب تک چھپے ہوئے تھے باہر آ گئے اور زور سے کلمہ پڑھا ۔ تو تمام کے تمام شور مچانے لگے کہ یہ خود بھی برا ہے اس کے باپ دادا بھی برے تھے یہ بڑا نیچے درجہ کا آدمی ہے خاندانی کمینہ ہے ۔ سیدنا عبداللہ نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی چیز کا مجھے ڈر تھا ۔ (صحیح بخاری:3329) صحیح بخاری میں ہے عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں «جبر ، میک ، اسراف ، » کے معنی «عبد» یعنی بندے کے ہیں ۔ (صحیح بخاری:4480) اور «ایل» کے معنی اللہ کے ہیں تو جبرائیل وغیرہ کے معنی عبداللہ ہوئے بعض لوگوں نے اس کے معنی الٹ بھی کئے ہیں وہ کہتے ہیں ایل کے معنی عبد کے ہیں اور اس سے پہلے کے الفاظ اللہ کے نام ہیں ، جیسے عربی میں «عبداللہ ، عبدالرحمٰن ، عبدالملک ، عبدالقدوس ، عبدالسلام ، عبدالکافی ، عبدالجلیل» وغیرہ لفظ «عبد» ہر جگہ باقی رہا اور اللہ کے نام بدلتے رہے اس طرح «ایل» ہر جگہ باقی ہے اور اللہ کے اسماء حسنہ بدلتے رہتے ہیں ۔ غیر عربی زبان میں مضاف الیہ پہلے آتا ہے اور مضاف بعد میں ۔ اسی قاعدے کے مطابق ان ناموں میں بھی ہے جیسے جبرائیل میکائیل اسرافیل عزرائیل علیہم السلام وغیرہ ۔ اب مفسرین کی دوسری جماعت کی دلیل سنیے جو لکھتے ہیں کہ یہ گفتگو جناب عمر رضی اللہ عنہ سے ہوئی تھی شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں سیدنا عمررضی اللہ عنہ روحاء میں آئے ۔ دیکھا کہ لوگ دوڑ بھاگ کر ایک پتھروں کے تودے کے پاس جا کر نماز ادا کر رہے ہیں پوچھا کہ یہ کیا بات ہے جواب ملا کہ اس جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی ہے ، آپ بہت ناراض ہوئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جہاں کہیں نماز کا وقت آتا تھا پڑھ لیا کرتے تھے پہلے چلے جایا کرتے تھے اب ان مقامات کو متبرک سمجھ کر خواہ مخواہ وہیں جا کر نماز ادا کرنا کس نے بتایا ؟ پھر آپ اور باتوں میں لگ گئے فرمانے لگے میں یہودیوں کے مجمع میں کبھی کبھی چلا جایا کرتا اور یہ دیکھتا رہتا تھا کہ کس طرح قرآن توراۃ کی اور توراۃ قرآن کو سچائی کی تصدیق کرتا ہے یہودی بھی مجھ سے محبت ظاہر کرنے لگے اور اکثر بات چیت ہوا کرتی تھی ۔ ایک دن میں ان سے باتیں کر ہی رہا تھا تو راستے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نکلے انہوں نے مجھ سے کہا تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ جا رہے ہیں ۔ میں نے کہا میں ان کے پاس جاتا ہوں لیکن تم یہ تو بتاؤ تمہیں اللہ وحدہ کی قسم اللہ جل شانہ برحق کو مدنظر رکھو اس کی نعمتوں کا خیال کرو ۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب تم میں موجود ہے رب کی قسم کھا کر بتاؤ کیا تم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول نہیں مانتے ؟ اب سب خاموش ہو گئے ان کے بڑے عالم نے جو ان سب میں علم میں بھی کامل تھا اور سب کا سردار بھی تھا اس نے کہا اس شخص نے اتنی سخت قسم دی ہے تم صاف اور سچا جواب کیوں نہیں دیتے ؟ انہوں نے کہا آپ ہی ہمارے بڑے ہیں ذرا آپ ہی جواب دیجئیے ۔ اس بڑے پادری نے کہا سنئے جناب ! آپ نے زبردست قسم دی ہے لہٰذا سچ تو یہی ہے کہ ہم دل سے جانتے ہیں کہ حضور اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں میں نے کہا افسوس جب یہ جانتے ہو تو پھر مانتے کیوں نہیں کہا صرف اس وجہ سے کہ ان کے پاس آسمانی وحی لے کر آنے والے جبرائیل علیہ السلام ہیں جو نہایت سختی ، تنگی ، شدت ، عذاب اور تکلیف کے فرشتے ہیں ہم ان کے اور وہ ہمارے دشمن ہیں اگر وحی لے کر میکائیل علیہ السلام آتے جو رحمت و رافت تخفیف و راحت والے فرشتے ہیں تو ہمیں ماننے میں تامل نہ ہوتا ۔ میں نے کہا اچھا بتاؤ تو ان دونوں کی اللہ کے نزدیک کیا قدر و منزل ہے ؟ انہوں نے کہا ایک تو جناب باری کے داہنے بازو ہے اور دوسرا دوسری طرف میں نے کہا اللہ کی قسم جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں جو ان میں سے کسی کا دشمن ہو ۔ اس کا دشمن اللہ بھی ہے اور دوسرا فرشتہ بھی کیونکہ جبرائیل علیہ السلام کے دشمن سے میکائیل علیہ السلام دوستی نہیں رکھ سکتے اور میکائیلعلیہ السلام کا دشمن جبرائیل علیہ السلام کا دوست نہیں ہو سکتا ۔ نہ ان میں سے کسی ایک کا دشمن اللہ تبارک و تعالیٰ کا دوست ہو سکتا ہے نہ ان دونوں میں سے کوئی ایک باری تعالیٰ کی اجازت کے بغیر زمین پر آ سکتا ہے نہ کوئی کام کر سکتا ہے ۔ واللہ مجھے نہ تم سے لالچ ہے نہ خوف ۔ سنو جو شخص اللہ تعالیٰ کا دشمن ہو اس کے فرشتوں اس کے رسولوں اور جبرائیل و میکائیل علیہم السلام کا دشمن ہو تو اس کافر کا اللہ وحدہ لاشریک بھی دشمن ہے اتنا کہہ کر میں چلا آیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھتے ہی فرمایا اے ابن خطاب رضی اللہ عنہ مجھ پر تازہ وحی نازل ہوئی ہے میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سنائیے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت پڑھ کر سنائی ۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول !صلی اللہ علیہ وسلم آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں یہی باتیں ابھی ابھی یہودیوں سے میری ہو رہی تھیں ۔ میں تو چاہتا ہی تھا بلکہ اسی لیے حاضر خدمت ہوا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع کروں مگر میری آنے سے پہلے لطیف و خبیر سننے دیکھنے والے اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچا دی ملاحظہ ہو ابن ابی حاتم وغیرہ مگر یہ روایت منقطع ہے سند متصل نہیں شعبی رحمہ اللہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ (تفسیر ابن جریر الطبری:390/3:مرسل) کا زمانہ نہیں پایا ۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جبرائیل علیہ السلام اللہ کے امین فرشتے ہیں اللہ کے حکم سے آپ کے دل میں اللہ کی وحی پہنچانے پر مقرر ہیں ۔ وہ فرشتوں میں سے اللہ کے رسول ہیں کسی ایک رسول سے عداوت رکھنے والا سب رسولوں سے عداوت رکھنے والا ہوتا ہے جیسے ایک رسول پر ایمان سب رسولوں پر ایمان لانے کا نام ہے اور ایک رسول کے ساتھ کفر تمام نبیوں کے ساتھ کفر کرنے کے برابر ہے خود اللہ تعالیٰ نے بعض رسولوں کے نہ ماننے والوں کو کافر فرمایا ہے ۔ فرماتا ہے آیت «اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ یٰفَرِّقُوْا بَیْنَ اللّٰہِ وَرُسُلِہٖ وَیَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَّیُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا» ( 4 ۔ النسآء : 150 ) یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کرنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے دوسری آیت کے آخر تک پس ان آیتوں میں صراحتاً لوگوں کو کافر کہا جو کسی ایک رسول کو بھی نہ مانیں ۔ اسی طرح جبرائیل علیہ السلام کا دشمن اللہ کا دشمن ہے کیونکہ وہ اپنی مرضی سے نہیں آتے قرآن فرماتا ہے «وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّکَ» ( 19-المریم-64 ) فرماتا ہے آیت «وَإِنَّہُ لَتَنزِیلُ رَبِّ الْعَالَمِینَ» ( 26 ۔ الشعرآء : 192 ) یعنی ہم اللہ کے حکم کے سوا نہیں اترتے ہیں نازل کیا ہوا رب العالمین کا ہے جسے لے کر روح الامین آتے ہیں اور تیرے دل میں ڈالتے ہیں تاکہ تو لوگوں کو ہوشیار کر دے. صحیح بخاری کی حدیث قدسی میں ہے میرے دوستوں سے دشمنی کرنے والا مجھ سے لڑائی کا اعلان کرنے والا ہے ۔ (صحیح بخاری:6502) قرآن کریم کی یہ بھی ایک صفت ہے کہ وہ اپنے سے پہلے کے تمام ربانی کلام کی تصدیق کرتا ہے اور ایمانداروں کے دلوں کی ہدایت اور ان کے لیے جنت کی خوشخبری دیتا ہے جیسے فرمایا آیت «قُلْ ہُوَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ہُدًی وَّشِفَاءٌ» ( 41 ۔ فصلت : 44 ) فرمایا آیت «وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ہُوَ شِفَاءٌ وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَلَا یَزِیْدُ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا خَسَارًا» ( 17 ۔ الاسرآء : 82 ) یعنی یہ قرآن ایمان والوں کے لیے ہدیات و شفاء ہے ۔ رسولوں میں انسانی رسول اور ملکی رسول سب شامل ہیں جیسے فرمایا آیت «اَللّٰہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلٰیِٕکَۃِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ بَصِیْرٌ» ( 22 ۔ الحج : 75 ) اللہ تعالیٰ فرشتوں میں سے اور انسانوں میں سے اپنے رسول چھانٹ لیتا ہے جبرائیل علیہ السلام اور میکائیل علیہ السلام بھی فرشتوں میں ہیں لیکن ان کا خصوصاً نام لیا تاکہ مسئلہ بالکل صاف ہو جائے اور یہ بھی جان لیں کہ ان میں سے ایک کا دشمن دوسرے کا دشمن ہے بلکہ اللہ بھی اس کا دشمن ہے میکائیل علیہ السلام بھی کبھی کبھی انبیاء کے پاس آتے رہے ہیں جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شروع شروع میں تھے لیکن اس کام پر مقرر جبرائیل علیہ السلام ہیں جیسے میکائیل علیہ السلام روئیدگی اور بارش وغیرہ پر اور جیسے اسرافیل علیہ السلام صور پھونکنے پر ۔ ایک صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو جب تہجد کی نماز کے لیے کھڑے ہوتے تب یہ دعا پڑھتے ۔ دعا « اللہُمَّ رَبَّ جِبْرِیلَ , وَمِیکَائِیلَ , وَإِسْرَافِیلَ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ , عَالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ أَنْتَ تَحْکُمُ بَیْنَ عِبَادِکَ فِیمَا کَانُوا فِیہِ یَخْتَلِفُونَ ، اللہُمَّ اہْدِنِی لِمَا اخْتُلِفَ فِیہِ مِنَ الْحَقِّ , إِنَّکَ تَہْدِی مَنْ تَشَاءُ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ» اے اللہ اے جبرائیل میکائیل اسرافیل علیہم السلام کے رب اے زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے اے ظاہر باطن کو جاننے والے اپنے بندوں کے اختلاف کا فیصلہ تو ہی کرتا ہے ، اے اللہ اختلافی امور میں اپنے حکم سے حق کی طرف میری رہبری کر تو جسے چاہے سیدھی راہ دکھا دیتا ہے ۔(صحیح مسلم:770) لفظ جبرائیل علیہ السلام وغیرہ کی تحقیق اور اس کے معانی پہلے بیان ہو چکے ہیں ۔ حضرت عبدالعزیز بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں فرشتوں میں جبرائیل علیہ السلام کا نام خادم اللہ ہے ۔ ابوسلیمان دارانی یہ سن کر بہت ہی خوش ہوئے اور فرمانے لگے یہ ایک روایت میری روایتوں کے ایک دفتر سے مجھے زیادہ محبوب ہے ۔ جبرائیل علیہ السلام اور میکائیل علیہ السلام کے لفظ میں بہت سارے لغت ہیں اور مختلف قرأت ہیں جن کے بیان کی مناسب جگہ کتب لغت ہیں ہم کتاب کے حجم کو بڑھانا نہیں چاہتے کیونکہ کسی معنی کی سمجھ یا کسی حکم کا مفاد ان پر موقف نہیں ۔ اللہ ہماری مدد کرے ۔ ہمارا بھروسہ اور توکل اسی کی پاک ذات پر ہے ۔ آیت کے خاتمہ میں یہ نہیں فرمایا کہ اللہ بھی ان لوگوں کا دشمن ہے بلکہ فرمایا اللہ کافروں کا دشمن ہے ۔ اس میں ایسے لوگوں کا حکم بھی معلوم ہو گیا اسے عربی میں مضمر کی جگہ مظہر کہتے ہیں اور کلام عرب میں اکثر اس کی مثالیں شعروں میں بھی پائی جاتی ہیں گویا یوں کہا جاتا ہے کہ جس نے اللہ کے دوست سے دشمنی کی اس نے اللہ سے دشمنی کی اور جو اللہ کا دشمن اللہ بھی اس کا دشمن اور جس کا دشمن خود اللہ قادر مطلق ہو جائے اس کے کفر و بربادی میں کیا شبہ رہ گیا ؟ صحیح بخاری کی حدیث پہلے گزر چکی کہ اللہ فرماتا ہے میرے دوستوں سے دشمنی رکھنے والے کو میں اعلان جنگ دیتا ہوں ۔(صحیح بخاری:6502) میں اپنے دوستوں کا بدلہ لے لیا کرتا ہوں اور حدیث میں ہی ہے جس کا دشمن میں ہو جاؤں وہ برباد ہو کر ہی رہتا ہے ۔(سنن ابن ماجہ:2442،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) البقرة
98 البقرة
99 سلیمان علیہ السلام جادوگر نہیں تھے یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے ایسی نشانیاں جو آپ کی نبوت کی صریح دلیل بن سکیں نازل فرما دی ہیں یہودیوں کی مخصوص معلومات کا ذخیرہ ان کی کتاب کی پوشیدہ باتیں ان کی تحریف و تبدیل احکام وغیرہ سب ہم نے اپنی معجزہ نما کتاب قرآن کریم میں بیان فرما دیئے ہیں جنہیں سن کر ہر زندہ ضمیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے ہاں یہ اور بات ہے کہ یہودیوں کو ان کا حسد و بغض روک دے ورنہ ہر شخص جان سکتا ہے کہ ایک امی شخص سے ایسا پاکیزہ خوبیوں والا حکمتوں والا کلام کہا نہیں جا سکتا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابن صوریا قطوبنی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ آپ بطور نبوت کوئی ایسی چیز نہیں لائے جس سے ہم پہچان لیں نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی ایسی خاص روشن دلیلیں ہیں اس پر یہ آیت پاک نازل ہوئی چونکہ یہودیوں نے اس بات سے انکار کر دیا تھا کہ ہم سے پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت کوئی عہد لیا گیا ہے اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تو ان کی عادت ہی ہے کہ عہد کیا اور توڑا بلکہ ان کے اکثریت تو ایمان سے بالکل خالی ہے ” نَبَذَ “ کا معنی پھینک دینا ہے چونکہ ان لوگوں نے کتاب اللہ کو اور عہد باری تعالیٰ کو اس طرح چھوڑ رکھا تھا گویا پھینک دیا تھا اس لیے ان کی مذمت میں یہی لفظ لایا گیا البقرة
100 البقرة
101 1 دوسری جگہ صاف بیان ہے کہ ان کی کتابوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر موجود تھا فرمایا آیت «یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَہُمْ فِی التَّوْرٰیۃِ وَالْاِنْجِیْلِ» ( 7 ۔ الاعراف : 157 ) یعنی یہ لوگ توراۃ وانجیل میں حضور کا ذکر موجود پاتے ہیں یہاں بھی فرمایا ہے کہ جب ان کی کتاب کی تصدیق کرنے والا ہمارے پیغمبر ان کے پاس آیا تو ان کے ایک فریق نے اللہ رب العزت کی کتاب سے بےپرواہی برت کر اس طرح اسے چھوڑ دیا جیسے کوئی علم ہی نہیں ۔ البقرة
102 1 بلکہ جادو کے پیچھے پڑ گئے اور خود حضور پر جادو کیا جس کی اطلاع آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جناب باری تعالیٰ نے دی اور اس کا اثر زائل ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شفاء ملی ۔ توراۃ سے تو حضور کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے اس لیے کہ وہ تو اس کی تصدیق والی تھی تو اسے چھوڑ کر دوسری کتابوں کی پیروی کرنے لگے اور اللہ کی کتاب کو اس طرح چھوڑ دیا کہ گویا کبھی جانتے ہی نہ تھے نفسانی خواہشیں سامنے رکھ لیں اور کتاب اللہ کو پیٹھ پیچھے ڈال دیا یہ بھی کہا گیا ہے کہ راگ باجے کھیل تماشے اور اللہ کے ذکر سے روکنے والی ہر چیز آیت «وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّیَاطِینُ عَلَیٰ مُلْکِ سُلَیْمَانَ وَمَا کَفَرَ سُلَیْمَانُ وَلٰکِنَّ الشَّیَاطِینَ» ( 2-البقرہ : 102 ) میں داخل ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس سیدنا فرماتے ہیں کہ سلیمان علیہ السلام کے پاس ایک انگوٹھی تھی جب آپ علیہ السلام بیت الخلاء جاتے تو اپنی بیوی جرادہ کو دے جاتے جب سلیمان علیہ السلام کی آزمائش کا وقت آیا اس وقت ایک شیطان جن آپ علیہ السلام کی صورت میں آپ علیہ السلام کی بیوی صاحبہ کے پاس آیا اور انگوٹھی طلب کی جو دے دی گئی اس نے پہن لی اور تخت سلیمانی پر بیٹھ گیا تمام جنات وغیرہ حاضر خدمت ہو گئے حکومت کرنے لگا ادھر جب سلیمان علیہ السلام واپس آئے اور انگوٹھی طلب کی تو جواب ملا تو جھوٹا ہے انگوٹھی تو سلیمان لے گئے آپ علیہ السلام نے سجھ لیا کہ یہ اللہ کی طرف سے آزمائش ہے ان دنوں میں شیاطین نے جادو ، نجوم ، کہانت ، شعر و اشعار اور غیب کی جھوٹی سچی خبروں کی کتابیں لکھ لکھ کر سلیمان علیہ السلام کی کرسی تلے دفن کرنی شروع کر دیں آپ علیہ السلام کی آزمائش کا یہ زمانہ ختم ہو گیا آپ پھر تخت و تاج کے مالک ہوئے عمر طبعی کو پہنچ کر جب رحلت فرمائی تو شیاطین نے انسانوں سے کہنا شروع کیا کہ سلیمان کا خزانہ اور وہ کتابیں جن کے ذریعہ سے وہ ہواؤں اور جنات پر حکمرانی کرتے تھے ان کی کرسی تلے دفن ہیں چونکہ جنات اس کرسی کے پاس نہیں جا سکتے تھے اس لیے انسانوں نے اسے کھودا تو وہ کتابیں برآمد ہوئیں بس ان کا چرچا ہو گیا اور ہر شخص کی زبان پر چڑھ گیا کہ سلیمان علیہ السلام کی حکومت کا راز یہی تھا بلکہ لوگ سلیمان علیہ السلام کی نبوت سے منکر ہو گئے اور آپ علیہ السلام کو جادوگر کہنے لگے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو عقدہ کشائی کی اور فرمان باری تعالیٰ نازل ہوا کہ جادوگری کا یہ کفر تو شیاطین کا پھیلایا ہوا ہے سلیمان علیہ السلام اس سے بری الذمہ ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس ایک شخص آیا آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہاں سے آئے ہو ؟ اس نے کہا عراق سے ! فرمایا عراق کے کس شہر سے ؟ اس نے کہا کوفہ سے ! پوچھا وہاں کی کیا خبریں ہیں ؟ اس نے کہا وہاں باتیں ہو رہی ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ انتقال نہیں کر گئے بلکہ زندہ روپوش ہیں اور عنقرب آئیں گے آپ کانپ اٹھے اور فرمانے لگے اگر ایسا ہوتا تو ہم ان کی میراث تقسیم نہ کرتے اور ان کی عورتیں اپنا دوسرا نکاح نہ کرتیں سنو شیاطین آسمانی باتیں چرا لایا کرتے تھے اور ان میں اپنی باتیں ملا کر لوگوں میں پھیلایا کرتے تھے ، سلیمان علیہ السلام نے یہ تمام کتابیں جمع کر کے اپنی کرسی تلے دفن کر دیں ۔ آپ علیہ السلام کے انتقال کے بعد جنات نے وہ پھر نکال لیں وہی کتابیں عراقیوں میں پھیلی ہوئی ہیں اور ان ہی کتابوں کی باتیں وہ بیان کرتے اور پھیلاتے رہتے ہیں اسی کا ذکر اس آیت «وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّیَاطِینُ عَلَیٰ مُلْکِ سُلَیْمَانَ» ( 2-البقرہ : 102 ) میں ہے ۔ اس زمانہ میں یہ بھی مشہور ہو گیا تھا کہ شیاطین علم غیب جانتے ہیں سلیمان علیہ السلام نے ان کتابوں کو صندوق میں بھر کر دفن کر دینے کے بعد یہ حکم جاری کر دیا کہ جو یہ کہے گا اس کی گردن ماری جائے گی بعض روایتوں میں ہے کہ جنات نے ان کتابوں کو سلیمان علیہ السلام کے انتقال کے بعد آپ علیہ السلام کی کرسی تلے دفن کیا تھا اور ان کے شروع صفحہ پر لکھ دیا تھا کہ یہ علمی خزانہ آصف بن برخیا کا جمع کیا ہوا ہے جو سلیمان بن داؤد علیہ السلام کے وزیر اعظم مشیر خاص اور دلی دوست تھے. یہودیوں میں مشہور تھا کہ سلیمان علیہ السلام نبی نہ تھے بلکہ جادوگر تھے اس بنا پر یہ آیتیں نازل ہوئیں اور اللہ کے سچے نبی علیہ السلام نے ایک سچے نبی کی برات کی اور یہودیوں کے اس عقیدے کا ابطال کیا وہ سلیمان علیہ السلام کا نام نبیوں کے زمرے میں سن کر بہت بدکتے تھے اس لیے تفصیل کے ساتھ اس واقعہ کو بیان کر دیا ۔ ایک وجہ یہ بھی ہوئی کہ سلیمان نے تمام موذی جانوروں سے عہد لیا تھا جب انہیں وہ عہد یاد کرایا جاتا تھا تو وہ ستاتے نہ تھے پھر لوگوں نے اپنی طرف سے عبارتیں بنا کر جادو کی قسم کے منتر تنتر بنا کر ان سب کو آپ علیہ السلام کی طرف منسوب کر دیا جس کا بطلان ان آیات کریمہ میں ہے یاد رہے کہ «علی» یہاں پر «فی» کے معنی میں ہے یا «تتلو» متضمن ہے تکذب کا ، یہی اولیٰ اور احسن ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» خواجہ حسن بصری رحمہ اللہ کا قول ہے کہ سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں جادوگروں کا ہونا قرآن سے ثابت ہے اور سلیمان علیہ السلام کا موسیٰ علیہ السلام کے بعد ہونا بھی قرآن سے ظاہر ہے ۔ داؤد علیہ السلام اور جالوت کے قصے میں ہے «أَلَمْ تَرَ إِلَی الْمَلَإِ مِن بَنِی إِسْرَائِیلَ مِن بَعْدِ مُوسَیٰ» ( البقرہ : 246 ) بلکہ ابراہیم علیہ السلام سے بھی پہلے صالح علیہ السلام کو ان کی قوم نے کہا تھا آیت «قَالُوا إِنَّمَا أَنتَ مِنَ الْمُسَحَّرِینَ» ( 26-الشعرأ : 153 ) یعنی تو جادو کئے گئے لوگوں میں سے ہے ۔ پھر فرماتا ہے آیت «وَمَا أُنزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْنِ بِبَابِلَ ہَارُوتَ وَمَارُوتَ» ( البقرہ : 102 ) الخ بعض تو کہتے ہیں یہاں پر «ما »نافیہ ہے یعنی انکار کے معنی میں ہے اور اس کا عطف «ماکفر سلیمان» پر ہے یہودیوں کے اس دوسرے اعتقاد کی کہ جادو فرشتوں پر نازل ہوا ہے اس آیت میں تردید ہے ۔ ہاروت ، ماروت لفظ شیاطین کا بدل ہے تثنیہ پر بھی جمع کا اطلاق ہوتا ہے جیسے آیت «فَإِن کَانَ لَہُ إِخْوَۃٌ» ( 4-النساء : 11 ) میں یا اس لیے جمع کیا گیا کہ ان کے ماننے والوں کو بھی شامل کر لیا گیا ہے اور ان کا نام ان کی زیادہ سرکشی کی وجہ سے سرفہرست دیا گیا ہے قرطبی تو کہتے ہیں کہ اس آیت کا یہی ٹھیک مطلب ہے اس کے سوا کسی اور معنی کی طرف التفات بھی نہ کرنا چاہیئے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:419/2) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جادو اللہ عزوجل کا نازل کیا ہوا نہیں ۔ سیدنا ربیع بن انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ان پر کوئی جادو نہیں اترا ۔ (ایضاً) اس بناء پر آیت کا ترجمہ اس طرح پر ہو گا کہ ان یہودیوں نے اس چیز کی تابعداری کی جو سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں شیطان پڑھا کرتے تھے سلیمان علیہ السلام نے کفر نہیں کیا نہ اللہ تعالیٰ نے جادو کو ان دو فرشتوں پر اتارا ہے ( جیسے اے یہودیوں تمہارا خیال جبرائیلعلیہ السلام و میکائیل علیہ السلام کی طرف ہے ) بلکہ یہ کفر شیطانوں کا ہے جو بابل میں لوگوں کو جادو سکھایا کرتے تھے اور ان کے سردار دو آدمی تھے جن کا نام ہاروت و ماروت تھا ۔ عبدالرحمٰن بن ابزی رحمہ اللہ اسے اس طرح پڑھتے تھے آیت «وما انزل علی الملکین داود وسلیمان» یعنی داؤد و سلیمان دونوں بادشاہوں پر بھی جادو نہیں اتارا گیا یا یہ کہ وہ اس سے روکتے تھے کیونکہ یہ کفر ہے ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اس کا زبردست رد کیا ہے وہ فرماتے ہیں «ما» معنی میں «الذی» کے ہے اور ہاروت ماروت دو فرشتے ہیں جنہیں اللہ نے زمین کی طرف اتارا ہے اور اپنے بندوں کی آزمائش اور امتحان کے لیے انہیں جادو کی تعلیم دی ہے لہٰذا ہاروت ماروت اس فرمان باری تعالیٰ کو بجالا رہے ہیں ۔ ایک غریب قول یہ بھی ہے کہ یہ جنوں کے دو قبیلے ہیں مَلِکیٗنِ یعنی دو بادشاہوں کی قرأت پر انزال خلق کے معنی میں ہو گا جیسے فرمایا آیت «وَأَنزَلَ لَکُم مِّنَ الْأَنْعَامِ ثَمَانِیَۃَ أَزْوَاجٍ» ( 39-الزمر : 6 ) اور فرمایا آیت «وَأَنزَلْنَا الْحَدِیدَ فِیہِ بَأْسٌ شَدِیدٌ» ( 57-الحدید : 25 ) اور کہا آیت «وَیُنَزِّلُ لَکُم مِّنَ السَّمَاءِ رِزْقًا» ( 40 ۔ غافر : 13 ) یعنی ہم نے تمہارے لیے آٹھ قسم کے چوپائے پیدا کئے ، لوہا بنایا ، آسمان سے روزیاں اتاریں ۔ حدیث میں ہے دعا «مَا أَنْزَلَ اللَّہُ دَاءً إِلا أَنْزَلَ لَہُ شِفَاءً» یعنی اللہ تعالیٰ نے جتنی بیماریاں پیدا کی ہیں ان سب کے علاج بھی پیدا کئے ہیں مثل مشہور ہے کہ بھلائی برائی کا نازل کرنے والا اللہ ہے یہاں سب جگہ انزال یعنی پیدائش کے معنی میں ہے ایجاد یعنی لانے اور اتارنے کے معنی میں نہیں اسی طرح اس آیت میں بھی اکثر سلف کا مذہب یہ ہے کہ یہ دونوں فرشتے تھے ایک مرفوع حدیث میں بھی یہ مضمون بسط و طول کے ساتھ ہے جو ابھی بیان ہو گی ان شاءاللہ تعالیٰ کوئی یہ اعتراض نہ کرے کہ فرشتے تو معصوم ہیں وہ گناہ کرتے ہی نہیں چہ جائیکہ لوگوں کو جادو سکھائیں جو کفر ہے اس لیے کہ یہ دونوں بھی عام فرشتوں میں سے خاص ہو جائیں گے ۔ جیسے کہ ابلیس کی بابت آپ آیت «وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِکَۃِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِیسَ» ( البقرہ : 34 ) الخ ، کی تفسیر میں پڑھ چکے ہیں ۔ سیدنا علی ابن مسعود ابن عباس ابن عمر کعب احبار رضی اللہ عنہم ، سدی ، کلبی رحمہ اللہ علیہما یہی فرماتے ہیں ۔ اب اس حدیث کو سنیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے زمین پر اتارا اور ان کی اولاد پھیلی اور زمین میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہونے لگی تو فرشتوں نے کہا کہ دیکھو یہ کس قدر برے لوگ ہیں کیسے نافرمان اور سرکش ہیں ہم اگر ان کی جگہ ہوتے تو ہرگز ہرگز اللہ کی نافرمانی نہ کرتے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اچھا تم اپنے میں سے دو فرشتوں کو پسند کر لو میں ان میں انسانی خواہشات پیدا کرتا ہوں اور انہیں انسانوں میں بھیجتا ہوں پھر دیکھتا ہوں کہ وہ کیا کرتے ہیں چنانچہ انہوں نے ہاروت و ماروت کو پیش کیا اللہ تعالیٰ نے ان میں انسانی طبیعت پیدا کی اور ان سے کہہ دیا کہ دیکھو بنی آدم کو تو میں نبیوں کے ذریعہ اپنے حکم احکام پہنچاتا ہوں لیکن تم سے بلاواسطہ خود کہہ رہا ہوں کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا زنا نہ کرنا ، شراب نہ پینا ، اب یہ دونوں زمین پر اترے اور زہرہ کو ان کی آزمائش کے لیے حسین و شکیل عورت کی صورت میں ان کے پاس بھیجا جسے دیکھ کر یہ مفتوں ہو گئے اور اس سے زنا کرنا چاہا اس نے کہا اگر تم شرک کرو تو میں منظور کرتی ہوں انہوں نے جواب دیا کہ یہ تو ہم سے نہ ہو سکے گا وہ چلی گئی پھر آئی اور کہنے لگی اچھا اس بچے کو قتل کر ڈالو تو مجھے تمہاری خواہش پوری کرنی منظور ہے انہوں نے اسے بھی نہ مانا وہ پھر آئی اور کہا کہ اچھا یہ شراب پی لو انہوں نے اسے ہلکا گناہ سمجھ کر اسے منظور کر لیا ۔ اب نشہ میں مست ہو کر زناکاری بھی کی اور اس بچے کو بھی قتل کر ڈالا جب ہوش حواس درست ہوئے تو اس عورت نے کہا جن جن کاموں کا تم پہلے انکار کرتے تھے سب تم نے کر ڈالے ۔ یہ نادم ہوئے انہیں اختیار دیا گیا کہ یا تو عذاب دنیا کو اختیار کرو یا عذاب اخروی کو ۔ انہوں نے دنیا کے عذاب پسند کیے ۔ صحیح ابن حبان مسند احمد ابن مردویہ ابن جریر عبدالرزاق میں یہ حدیث مختلف الفاظ سے مروی ہے ۔ (مسند احمد:134/2:باطل) مسند احمد کی یہ روایت غریب ہے اس میں ایک راوی موسیٰ بن جبیر انصاری سلمی کو ابن ابی حاتم نے مستور الحال لکھا ہے ۔ ابن مردویہ کی روایت میں یہی ہے کہ ایک رات کو اثناء سفر میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا نے حضرت نافع رحمہ اللہ سے پوچھا کہ کیا زہرہ تارا نکلا ؟ اس نے کہا نہیں دو تین مرتبہ سوال کے بعد کہا اب زہرہ طلوع ہوا تو فرمانے لگے اس سے نہ خوشی ہو نہ بھلائی ملے ۔ حضعر نافع رحمہ اللہ نے کہا ایک ستارہ جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے طلوع و غروب ہوتا ہے آپ رضی اللہ عنہ اسے برا کہتے ہیں ؟ فرمایا میں وہی کہتا ہوں اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے پھر اس کے بعد مندرجہ بالا حدیث باختلاف الفاظ سنائی ۔ (الموضوعات لابن الجوزی:187/1:باطل) لیکن یہ بھی غریب ہے سیدنا کعب رضی اللہ عنہ والی روایت مرفوع سے زیادہ صحیح موقوف ہے اور ممکن ہے کہ وہ بنی اسرائیلی روایت ہو ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ صحابہ اور تابعین سے بھی اس قسم کی روایتیں بہت کچھ منقول ہیں بعض میں ہے کہ زہرہ ایک عورت تھی اس نے ان فرشتوں سے یہ شرط کی تھی کہ تم مجھے وہ دعا سکھا دو جسے پڑھ کر تم آسمان پر چڑھ جاتے ہو انہوں نے سکھا دی یہ پڑھ کر چڑھ گئی اور وہاں تارے کی شکل میں بنا دی گئی ۔ (مستدرک حاکم:265/2) بعض مرفوع روایتوں میں بھی یہ ہے لیکن وہ منکر اور غیر صحیح ہیں ۔ ایک اور رویات میں ہے کہ اس واقعہ سے پہلے تو فرشتے صرف ایمان والوں کی بخشش کی دعا مانگتے تھے لیکن اس کے بعد تمام اہل زمین کے لیے دعا شروع کر دی بعض روایتوں میں ہے کہ جب ان دونوں فرشتوں سے یہ نافرمانیاں سرزد ہوئیں تب اور فرشتوں نے اقرار کر لیا کہ بنی آدم جو اللہ تعالیٰ سے دور ہیں اور بن دیکھے ایمان لاتے ہیں جن سے خطاؤں کا سرزد ہو جانا کوئی ایسی انوکھی چیز نہیں ان دونوں فرشتوں سے کہا گیا کہ اب یا تو دنیا کا عذاب پسند کر لو یا آخرت کے عذابوں کو اختیار کر لو ۔ انہوں نے دنیا کا عذاب چن لیا چنانچہ انہیں بابل میں عذاب ہو رہا ہے ۔ ایک رویات میں ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے جو احکام دیئے تھے ان میں قتل سے اور مال حرام سے ممانعت بھی کی تھی اور یہ حکم بھی تھا کہ حکم عدل کے ساتھ کریں یہ بھی وارد ہوا ہے کہ یہ تین فرشتے تھے لیکن ایک نے آزمائش سے انکار کر دیا اور واپس چلا گیا پھر دو کی آزمائش ہوئی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہ واقعہ سلیمان علیہ السلام کے زمانہ کا ہے ۔ یہاں بابل سے مراد بابل دنیاوند ہے اس عورت کا نام عربی میں زہرہ تھا اور نبطی زبان میں اس کا نام بیدخت تھا اور فارسی میں ناہید تھا ۔ یہ عورت اپنے خاوند کے خلاف ایک مقدمہ لائی تھی جب انہوں نے اس سے برائی کا ارادہ کیا تو اس نے کہا پہلے مجھے میرے خاوند کے خلاف حکم دو تو مجھے منظور ہے انہوں نے ایسا ہی کیا پھر اس نے کہا مجھے یہ بھی بتا دو کہ تم کیا پڑھ کر آسمان پر چڑھ جاتے ہو اور کیا پڑھ کر اترتے ہو ؟ انہوں نے یہ بھی بتا دیا چنانچہ وہ اسے پڑھ کر آسمان پر چڑھ گئی اترنے کا وظیفہ بھول گئی اور وہیں ستارے کی صورت میں مسخ کر دی گئی ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر جب کبھی زہرہ ستارے کو دیکھتے تو لعنت بھیجا کرتے تھے اب ان فرشتوں نے جب چڑھنا چاہا تو نہ چڑھ سکے سمجھ گئے کہ اب ہم ہلاک ہوئے ۔ حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں پہلے پہل چند دنوں تک تو فرشتے ثابت قدم رہے صبح سے شام تک فیصلہ عدل کے ساتھ کرتے رہتے شام کو آسمان پر چڑھ جاتے پھر زہرہ کو دیکھ کر اپنے نفس پر قابو نہ رکھ سکے زہرہ ستارے کو ایک خوبصورت عورت کی شکل میں بھیجا الغرض ہاروت ماروت کا یہ قصہ تابعین میں سے بھی اکثر لوگوں نے بیان کیا ہے جیسے مجاہد ، سدی ، حسن بصری ، قتادہ ، ابوالعالیہ ، زہری ، ربیع بن انس ، مقتل بن حیان وغیرہ وغیرہ رحم اللہ اجمعین اور متقدمین اور متاخیرن مفسرین نے بھی اپنی اپنی تفسیروں میں اسے نقل کیا ہے لیکن اس کا زیادہ تر دار و مدار بنی اسرائیل کی کتابوں پر ہے کوئی صحیح مرفوع متصل حدیث اس بات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں اور نہ قرآن کریم میں اس قدر بسط و تفصیل ہے پس ہمارا ایمان ہے کہ جس قدر قرآن میں ہے صحیح اور درست ہے اور حقیقت حال کا علم اللہ تعالیٰ کو ہی ہے ( قرآن کریم کے ظاہری الفاظ مسند احمد ابن حبان بیہقی وغیرہ کی مرفوع حدیث علی ابن عباس بن مسعود وغیرہ کی موقوف روایات تابعین وغیرہ کی تفاسیر وغیرہ ملا کر اس واقعہ کی بہت کچھ تقویت ہو جاتی ہے نہ اس میں کوئی محال عقلی ہے نہ اس میں کسی اصول اسلامی کا خلاف ہے پھر ظاہر سے بیجا ہٹ اور تکلفات اٹھانے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ۔ واللہ اعلم ) ( فتح البیان ) ابن جریر میں ایک غریب اثر اور ایک عجیب واقعہ ہے اسے بھی سنیے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ دومتہ الجندل کی ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے تھوڑے ہی زمانہ کے بعد آپ کی تلاش میں آئی اور آپ کے انتقال کی خبر پا کر بے چین ہو کر رونے پیٹنے لگی میں نے اس سے پوچھا کہ آخر کیا بات ہے ؟ تو اس نے کہا کہ مجھ میں اور میرے شوہر میں ہمیشہ ناچاقی رہا کرتی تھی ایک مرتبہ وہ مجھے چھوڑ کر لاپتہ کہیں چلا گیا ، ایک بڑھیا سے میں نے یہ سب ذکر کیا اس نے کہا جو میں کہوں وہ کر وہ خودبخود تیرے پاس آ جائے گا میں تیار ہو گئی وہ رات کے وقت دو کتے لے کر میرے پاس آئی ایک پر وہ خود سوار ہوئی اور دوسرے پر میں بیٹھ گئی ۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم دونوں بابل پہنچ گئیں میں نے دیکھا کہ دو شخص ادھر لٹکے ہوئے ہیں اور لوہے میں جکڑے ہوئے ہیں اس عورت نے مجھ سے کہا ان کے پاس جا اور ان سے کہہ کہ میں جادو سیکھنے آئی ہوں ۔ میں نے ان سے کہا انہوں نے کہا سن ہم تو آزمائش میں ہیں تو جادو نہ سیکھ اس کا سیکھنا کفر ہے میں نے کہا میں تو سیکھوں گی انہوں نے کہا اچھا پھر جا اور اس تنور میں پیشاب کر کے چلی آ میں گئی ارادہ کیا لیکن کچھ دہشت سی طاری ہوئی میں واپس آ گئی اور کہا میں فارغ ہو آئی ہوں انہوں نے پوچھا کیا دیکھا ؟ میں نے کہا کچھ نہیں انہوں نے کہا تو غلط کہتی ہے ابھی تو کچھ نہیں بگڑا تیرا ایمان ثابت ہے اب بھی لوٹ جا اور کفر نہ کر میں نے کہا مجھے تو جادو سیکھنا ہے انہوں نے پھر کہا جا اور اس تنور میں پیشاب کر آ میں پھر گئی لیکن اب کی مرتبہ بھی دل نہ مانا واپس آئی پھر اسی طرح سوال جواب ہوئے میں تیسری مرتبہ پھر تنور کے پاس گئی اور دل کڑا کر کے پیشاب کرنے کو بیٹھ گئی میں نے دیکھا کہ ایک گھوڑے سوار منہ پر نقاب ڈالے نکلا اور آسمان پر چڑھ گیا ہے ۔ واپس چلی آئی ان سے ذکر کیا انہوں نے کہا ہاں اب کی مرتبہ تو سچ کہتی ہے وہ تیرا ایمان تھا جو تجھ میں سے نکل گیا اب جا چلی جا میں آئی اور اس بڑھیا سے کہا انہوں نے مجھے کچھ بھی نہیں سکھایا اس نے کہا بس تجھے کچھ آ گیا اب تو جو کہے گی ہو جائے گا میں نے آزمائش کے لیے ایک دانہ گیہوں کا لیا اسے زمین پر ڈال کر کہا اگ جا وہ فوراً اگ آیا میں نے کہا تجھ میں بال پیدا ہو جائے چنانچہ ہو گئے میں نے کہا سوکھ جا وہ بال سوکھ گئے میں نے کہا الگ الگ دانہ ہو جا وہ بھی ہو گیا پھر میں نے کہا سوکھ جا تو سوکھ گیا پھر میں نے کہا آٹا بن جا تو آٹا بن گیا میں نے کہا روٹی پک جا تو روٹی پک گئی یہ دیکھتے ہی میرا دل نادم ہونے لگا اور مجھے اپنے بے ایمان ہو جانے کا صدمہ ہونے لگا ۔ اے ام المؤمنین قسم اللہ کی نہ میں نے اس جادو سے کوئی کام لیا نہ کسی پر کیا میں یونہی روتی پیٹتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہوں لیکن افسوس بدقستمی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی میں نے نہ پایا اب میں کیا کروں ؟ اتنا کہہ کر چپ ہو گئی سب کو اس پر ترس آنے لگا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی متحیر تھے کہ اسے کیا فتویٰ دیں ؟ آخر بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا اب اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ تم اس فعل کو نہ کرو توبہ استغفار کرو اور اپنے ماں باپ کی خدمت گزاری کرتی رہو ۔ یہاں یہ بھی خیال رکھنا چاہیئے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فتویٰ دینے میں بہت احتیاط کرتے تھے کہ چھوٹی سی بات بتانے میں تامل ہوتا تھا آج ہم بڑی سے بڑی بات بھی اٹکل اور رائے قیاس سے گھڑ گھڑا کر بتانے میں بالکل نہیں رکتے اس کی اسناد بالکل صحیح ہیں بعض لوگ کہتے ہیں کہ «عین» چیز جادو کے زور سے پلٹ جاتی ہے اور بعض کہتے ہیں نہیں صرف دیکھنے والے کو ایسا خیال پڑتا ہے اصل چیز جیسی ہوتی ہے ویسی ہی رہتی ہے جیسے قرآن میں ہے آیت «سَحَرُوا أَعْیُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْہَبُوہُمْ وَجَاءُوا بِسِحْرٍ عَظِیمٍ» ( 7-الأعراف : 116 ) یعنی انہوں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کر دیا اور فرمایا آیت «یُخَیَّلُ إِلَیْہِ مِن سِحْرِہِمْ أَنَّہَا تَسْعَیٰ» ( 20-طہ : 66 ) موسیٰ علیہ السلام کی طرف خیال ڈالا جاتا تھا کہ گویا وہ سانپ وغیرہ ان کے جادو کے زور سے چل پھر رہے ہیں ۔ اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آیت میں لفظ بابل سے مراد بابل عراق ہے بابل دنیاوند نہیں ۔ ابن ابی حاتم کی ایک روایت میں ہے کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما بابل کی زمین میں جا رہے تھے عصر کی نماز کا وقت آ گیا لیکن آپ رضی اللہ عنہ نے وہاں نماز ادا نہ کی بلکہ اس زمین کی سرحد سے نکل جانے کے بعد نماز پڑھی اور فرمایا میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے قبرستان میں نماز پڑھنے سے روک دیا ہے اور بابل کی زمین میں نماز پڑھنے سے بھی ممانعت فرمائی ہے یہ زمین ملعون ہے ۔ ابوداؤد میں بھی یہ حدیث مروی ہے ۔ (سنن ابوداود:490 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اور امام صاحب نے اس پر کوئی کلام نہیں کیا اور جس حدیث کو امام ابوداؤد اپنی کتاب میں لائیں اور اس کی سند پر خاموشی کریں تو وہ حدیث امام صاحب کے نزدیک حسن ہوتی ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ بابل کی سر زمین میں نماز مکروہ ہے جیسے کہ ثمودیوں میں نہ جاؤ اگر اتفاقاً جانا پڑے تو خوف الٰہ سے روتے ہوئے جاؤ ۔ (صحیح بخاری:433) ہئیت دانوں کا قول ہے کہ بابل کی دوری بحر غربی اوقیانوس سے ستر درجہ لمبی اور وسط زمین سے نوب کی جانب بخط استوا سے تئیس درجہ ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ چونکہ ہاروت ماروت کو اللہ تعالیٰ نے خیر و شر کفر و ایمان کا علم دے رکھا ہے اس لیے ہر ایک کفر کی طرف جھکنے والے کو نصیحت کرتے ہیں اور ہر طرح روکتے ہیں جب نہیں مانتا تو وہ اسے کہہ دیتے ہیں اس کا نور ایمان جاتا رہتا ہے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے شیطان اس کا رفیق کار بن جاتا ہے ایمان کے نکل جانے کے بعد اللہ تعالیٰ کا غضب اس کے روم روم میں گھس جاتا ہے حضرت ابن جریج رحمہ اللہ فرماتے ہیں سوائے کافر کے اور کوئی جادو سیکھنے کی جرات نہیں کرتا ۔ فتنہ کے معنی یہاں پر بلا آزمائش اور امتحان کے ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:443/2) موسیٰ علیہ السلام کا قول قرآن پاک میں مذکور ہے آیت «إِنْ ہِیَ إِلَّا فِتْنَتُکَ» ( 7-الاعراف : 155 ) اس آیت سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ جادو سیکھنا کفر ہے حدیث میں بھی ہے جو شخص کسی کاہن یا جادوگر کے پاس جائے اور اس کی بات کو سچ سمجھے اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری ہوئی وحی کے ساتھ کفر کیا (مجمع الزوائد:117/5) یہ حدیث صحیح ہے اور اس کی تائید میں اور حدیثیں بھی آئی ہیں ۔ پھر فرمایا کہ لوگ ہاروت ماروت سے جادو سیکھتے ہیں جس کے ذریعہ برے کام کرتے ہیں عورت مرد کی محبت اور موافقت کو بغض اور مخالفت سے بدل دیتے ہیں ۔ صحیح مسلم میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں شیطان اپنا عرش پانی پر رکھتا ہے پھر اپنے لشکروں کو بہکانے کے واسطے بھیجتا ہے سب سے زیادہ مرتبہ والا اس کے نزدیک وہ ہے جو فتنے میں سب سے بڑھا ہوا ہو ۔ یہ جب واپس آتے ہیں تو اپنے بدترین کاموں کا ذکر کرتے ہیں کوئی کہتا ہے میں نے فلاں کو اس طرح گمراہ کر دیا ۔ کوئی کہتا ہے میں نے فلاں شخص سے یہ گناہ کرایا ۔ شیطان ان سے کہتا ہے ۔ کچھ نہیں یہ تو معمولی کام ہے یہاں تک کہ ایک آ کر کہتا ہے کہ میں نے فلاں شخص کے اور اس کی بیوی کے درمیان جھگڑا ڈال دیا یہاں تک کہ جدائی ہو گئی شیطان اسے گلے لگا لیتا ہے اور کہتا ہے ہاں تو نے بڑا کام کیا اسے اپنے پاس بٹھا لیتا ہے اور اس کا مرتبہ بڑھا دیتا ہے ۔ (صحیح مسلم:2813) پس جادوگر بھی اپنے جادو سے وہ کام کرتا ہے جس سے میاں بیوی میں جدائی ہو جائے مثلاً اس کی شکل صورت اسے بری معلوم ہونے لگے یا اس کے عادات و اطوار سے جو غیر شرعی نہ ہوں یہ نفرت کرنے لگے یا دل میں عداوت آ جائے وغیرہ وغیرہ رفتہ رفتہ یہ باتیں بڑھتی جائیں اور آپس میں چھوٹ چھٹاؤ ہو جائے “ مرا “ کہتے ہیں اس کا مذکر مونث اور تثنیہ تو ہے جمع نہیں بنتا پھر فرمایا یہ کسی کو بھی بغیر اللہ کی مرضی کے ایذاء نہیں پہنچا سکتے یعنی اس کے اپنے بس کی بات نہیں اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر اور اس کے ارادے کے ماتحت یہ نقصان بھی پہنچتا ہے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:311/1) اگر اللہ نہ چاہے تو اس کا جادو محض بے اثر اور بے فائدہ ہو جاتا ہے یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ یہ جادو اسی شخص کو نقصان دیتا ہے جو اسے حاصل کرے اور اس میں داخل ہو پھر ارشاد ہوتا ہے وہ ایسا علم سیکھتے ہیں جو ان کے لیے سراسر نقصان دہ ہے جس میں کوئی نفع نہیں اور یہ یہودی جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری چھوڑ کر جادو کے پیچھے لگنے والوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:314/1) نہ ان کی قدر و وقعت اللہ تعالیٰ کے پاس ہے نہ وہ دیندار سمجھے جاتے ہیں پھر فرمایا اگر یہ اس کام کی برائی کو محسوس کرتے اور ایمان و تقویٰ برتتے تو یقیناً ان کے لیے بہت ہی بہتر تھا مگر یہ بےعلم لوگ ہیں اور فرمایا کہ اہل علم نے کہا تم پر افسوس ہے اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ثواب ایمانداروں اور نیک اعمال والوں کے لیے بہت ہی بہتر ہے لیکن اسے صبر کرنے والے ہی پا سکتے ہیں ۔ اس آیت سے یہ بھی استدلال بزرگان دین نے کیا ہے کہ جادوگر کافر ہے کیونکہ آیت میں آیت «وَلَوْ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَمَثُوْبَۃٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ خَیْرٌ» ( 2 ۔ البقرہ : 103 ) فرمایا ہے امام احمد اور سلف کی ایک جماعت بھی جادو سیکھنے والے کو کافر کہتی ہے بعض کافر تو نہیں کہتے لیکن فرماتے ہیں کہ جادوگر کی حد یہ ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے ۔ بجالہ بن عبید کہتے ہیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک فرمان میں لکھا تھا کہ ہر ایک جادوگر مرد عورت کو قتل کر دو چنانچہ ہم نے تین جادوگروں کی گردن ماری ۔ (صحیح بخاری:3156) صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا پر ان کی ایک لونڈی نے جادو کیا جس پر اسے قتل کیا گیا ۔ (مؤطا:871/2:کتاب العقول:باب ما جآء فی الغیلۃ و سحر ، 14) امام احمد حنبل رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں تین صحابیوں سے جادوگر کے قتل کا فتویٰ ثابت ہے ۔ (تفسیر قرطبی:48/2) ترمذی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جادوگر کی حد تلوار سے قتل کر دینا ہے ۔ (سنن ترمذی:1460 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اس حدیث کے ایک راوی اسمعیل بن مسلم ضعیف ہیں صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ غالباً یہ حدیث موقوف ہے لیکن طبرانی میں ایک دوسری سند سے بھی یہ حدیث مرفوع مروی ہے ۔ [ الطبرانی فی الکبیر(1666)] «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ولید بن عقبہ کے پاس ایک جادوگر تھا جو اپنے کرتب بادشاہ کو دکھایا کرتا تھا بظاہر ایک شخص کا سر کاٹ لیتا پھر آواز دیتا تو سر جڑ جاتا اور وہ موجود ہو جاتا مہاجرین صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ایک بزرگ صحابی نے یہ دیکھا اور دوسرے دن تلوار باندھے ہوئے آئے جب ساحر نے اپنا کھیل شروع کیا آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی تلوار سے خود اس کی گردن اڑا دی اور فرمایا لے اب اگر سچا ہے تو خود جی اٹھ پھر قرآن پاک کی یہ آیت پڑھ کر لوگوں کو سنائی آیت «اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ» ( 21 ۔ الانبیآء : 3 ) کیا تم دیکھتے بھالتے جادو کے پاس جاتے ہو ؟ چونکہ اس بزرگ صحابی رضی اللہ عنہ نے ولید کی اجازت اس کے قتل میں نہیں لی تھی اسلئے بادشاہ نے ناراض ہو کر انہیں قید کر دیا پھر چھوڑ دیا ۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کے فرمان اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ کے متعلق یہ کہا ہے کہ یہ حکم اس وقت ہے جب جادو شرکیہ الفاظ سے ہو ۔ معتزلہ جادو کے وجود کے منکرین وہ کہتے ہیں جادو کوئی چیز نہیں بلکہ بعض لوگ تو بعض دفعہ اتنا بڑھ جاتے ہیں کہ کہتے ہیں جو جادو کا وجود مانتا ہو وہ کافر ہے لیکن اہل سنت جادو کے وجود کے قائل ہیں یہ مانتے ہیں کہ جادوگر اپنے جادو کے زور سے ہوا پر اڑ سکتے ہیں اور انسان بظاہر گدھا اور گدھے کو بظاہر انسان بنا ڈالتے ہیں مگر کلمات اور منتر تنتر کے وقت ان چیزوں کو پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے آسمان کو اور تاروں کو تاثیر پیدا کرنے والا اہل سنت نہیں مانتے ، فلسفے اور نجوم والے اور بےدین لوگ تو تاروں کو اور آسمان کو ہی اثر پیدا کرنے والا جانتے ہیں اہل سنت کی ایک دلیل تو آیت «وما ہم بضارین» ہے اور دوسری دلیل خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا جانا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کا اثر ہونا ہے تیسرے اس عورت کا واقعہ جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا ہے جو اوپر ابھی ابھی گزرا ہے ۔ اور بھی بیسیوں ایسے ہی واقعات وغیرہ ہیں ۔ رازی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ جادو کا حاصل کرنا برا نہیں محققین کا یہی قول ہے اس لیے کہ وہ بھی ایک علم ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت «قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ» ( 39 ۔ الزمر : 9 ) یعنی علم والے اور بےعلم برابر نہیں ہوتے اور اس لیے کہ یہ علم ہو گا تو اس سے معجزے اور جادو میں فرق پوری طرح واضح ہو جائے گا اور معجزے کا علم واجب ہے اور وہ موقوف ہے جادو کے سیکھنے پر جس سے فرق معلوم ہو پس جادو کا سیکھنا بھی واجب ہوا رازی رحمہ اللہ کا یہ قول سرتا پا غلط ہے اگر عقلاً وہ اسے برا نہ بتائیں تو معتزلہ موجود ہیں جو عقلاً بھی اس کی برائی کے قائل ہیں اور اگر شرعاً برا نہ بتاتے ہوں تو قرآن کی یہ آیت شرعی برائی بتانے کے لیے کافی ہے صحیح حدیث میں ہے جو کسی شخص کسی جادوگر یا کاہن کے پاس جائے وہ کافر ہو جائے گا ۔ (صحیح مسلم:2230) جادو کے جواز اور عدم جواز کی بحث سنن میں حدیث ہے کہ جس نے گرہ لگائی اور اس میں پھونکا ، اس نے جادو کیا ۔ (سنن نسائی:4084 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) لہٰذا رازی رحمہ اللہ کا یہ کہنا کہ محققین کا قول یہی ہے یہ بھی ٹھیک نہیں آخر ان محققین کے ایسے اقوال کہاں ہیں ؟ ائمہ اسلام میں سے کس نے ایسا کہا ہے ؟ پھر آیت ( ھل یستوی الذین ) آیت کو پیش کرنا بھی نری جرات ہے کیونکہ آیت میں علم سے مراد دینی علم ہے اسی آیت میں شرعی علم والے علماء کی فضیلت بیان ہوئی ہے ، پھر ان کا یہ کہنا کہ اسی علم سے کہ اسی سے معجزے کا علم تقابلی حاصل ہوتا ہے یہ تو بالکل واہی محض غلط اور فاسد ہے اس لیے کہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ قرآن پاک ہے جو باطل سے سراسر محفوظ ہے لیکن اس کا معجزہ ماننے کے لیے جادو جاننا ضروری نہیں ہے وہ لوگ جنہیں جادو سے دور کا بھی تعلق نہیں وہ بھی اسے معجزہ مان گئے صحابہ تابعین ائمہ مسلمین بلکہ عام مسلمان بھی اسے معجزہ مانتے ہیں حالانکہ ان تمام میں سے کوئی ایک بھی جادو جانتا تو کیا جادو کے پاس تک نہیں پھٹکا جادو سیکھا نہ سیکھایا ۔ نہ کیا نہ کرایا ۔ بلکہ ان سب کاموں کو کفر کہتے رہے پھر یہ دعویٰ کرنا کہ جادو کا جاننا واجب ہے اس لیے کہ جادو کے علم سے معجزہ کا فرق معلوم ہو سکتا ہے اس لیے اس کا سیکھنا واجب ۔ کس قدر مہمل دعویٰ ہے ۔ جادو کی اقسام اب جادو کی قسمیں سنیے جنہیں ابوعبداللہ رازی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے ( ا ) ایک جادو تو ستارہ پرست فرقہ کا ہے وہ سات ستاروں کی نسبت عقیدہ رکھتے ہیں کہ بھلائی برائی انہی کے باعث ہوتی ہے اس لیے ان کی طرف خطاب کے مقرر الفاظ پڑھا کرتے ہیں اور انہیں کی پرستش کرتے ہیں اسی قوم میں ابراہیم علیہ السلام آئے اور انہیں ہدایت کی ۔ رازی رحمہ اللہ نے اس فن میں ایک خاص کتاب تصنیف کی ہے جس کا نام السر المکتوم فی مخاطبہ الشمس والنجوم رکھا ہے ملاحظہ ہو ابن خلکان وغیرہ بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے بعد میں اس سے توبہ کر لی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ صرف لوگوں کو اس علم سے آشنا کرنے اور خود کو اس کا عالم ثابت کرنے کیلئے یہ کتاب لکھی تھی ورنہ ان کا اپنا اعتقاد یہ تھا جو سراسر کفر ہے اس کتاب میں ان لوگوں کے طور طریقے لکھے ہیں ۔ ( 2 ) دوسرا جادو قوی نفس اور قوت واہمہ کے طاقتور لوگوں کا فن ہے وہم اور خیال کا زندگی میں بڑا اثر ہوتا ہے دیکھئیے اگر ایک تنگ پل زمین پر رکھ دیا جائے تو اس انسان پر سے بہ آسانی گزر جائے گا لیکن یہی تنگ پل اگر کسی دریا پر ہو تو نہیں گزر سکے گا اس لیے کہ اس وقت خیال ہو گا کہ اب گرا اب گرا تو واہمہ کی کمزوری کے باعث جتنی جگہ پر زمین میں چل پھر سکتا تھا اتنی جگہ پر ایسے ڈر کے وقت نہیں چل سکتا حکیموں اور طبیبوں نے بھی مرعوف ( جس کو نکسیر بہنے کی بیماری ہو ) شخص کو سرخ چہروں کو دیکھنے سے روک دیا ہے اور مرگی والوں کو زیادہ روشنی والی اور تیز حرکت کرنے والی چیزوں کے دیکھنے سے منع کیا ہے جس سے ظاہر ہے کہ قوت واہمہ کا ایک خاص اثر طبیعت پر پڑتا ہے عقلمند لوگوں کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ نظر لگتی ہے ۔ صحیح حدیث میں بھی آیا ہے کہ نظر کا لگنا حق ہے اگر کوئی چیز تقدیر ہے سبقت کرنے والی ہوتی تو نظر ہوتی ۔ (صحیح مسلم:2188) اب اگر نفس قوی ہے تو ظاہری سہاروں اور ظاہری کاموں کی کوئی ضرورت نہیں اور اگر اتنا قوی نہیں تو پھر اسے آلات کی بھی ضرورت پڑتی ہے جس قدر نفس کی قوت بڑھتی جائے گی وہ روحانیات میں ترقی کرتا جائے گا اور تاثیر میں بڑھتا جائے گا اور جس قدر یہ قوت کم ہوتی جائے گی اسی قدر گھٹتا جائے گا یہ کیفیت کبھی غذا کی کمی سے اور لوگوں کے میل جول سے ترک کرنے سے بھی حاصل ہو جاتی ہے کبھی تو قوت کو حاصل کر کے انسان نیکی کے کام یعنی شریعت کے مطابق اس سے کام لیتا ہے اس حال کو شریعت کی اصطلاح میں کرامت کہتے ہیں جادو نہیں کہتے اور کبھی اس حال سے باطل میں اور خلاف شرع کاموں میں مدد لیتا ہے اور دین سے دور پڑ جاتا ہے ایسے لوگوں کے ایسے قابل حیرت کاموں سے کسی کو دھوکا کھا کر انہیں ولی نہ سمجھ لینا چاہیئے کیونکہ شریعت کے خلاف چلنے والا ولی اللہ نہیں ہو سکتا آپ دیکھتے نہیں کہ صحیح احادیث میں دجال کی بابت کیا کچھ آیا ہے ؟ وہ کیسے کیسے خلاف عادت کام کر کے دکھائے گا لیکن ان کی وجہ سے وہ اللہ کا ولی نہیں بلکہ ملعون و مردود ہے ۔ ( 3 ) تیسری قسم کا جادو جنات کے ذریعہ زمین والوں کی روحوں سے امداد و اعانت طلب کرنے کا ہے معتزلہ اور فلاسفہ اس کے قائل نہیں ان روحوں سے بعض مخصوص الفاظ اور اعمال سے تعلق پیدا کرتے ہیں اسے سحر یا بالعزائم اور عمل تسخیر بھی کہتے ہیں ۔ ( 4 ) چوتھی قسم خیالات کا بدل دینا آنکھوں پر اندھیرا ڈال دینا اور شعبدہ بازی کرنا ہے جس سے حقیقت کے خلاف دکھائی دینے لگتا ہے تم نے دیکھا ہو گا کہ شعبدہ باز پہلے ایک کام شروع کرتا ہے جب لوگ دلچسپی کے ساتھ اس طرف نظریں جما دیتے ہیں اور ان کی باتوں کی طرف متوجہ ہو کر ہمہ تن اس میں مصروف ہو جاتے ہیں وہ پھرتی سے ایک دوسرا کام کر ڈالتا ہے جو لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رہتا ہے اور اسے دیکھ کر وہ حیران رہ جاتے ہیں ، بعض مفسرین کا قول ہے کہ فرعون کے جادوگروں کا جادو بھی اسی قسم کا تھا اسی لیے قرآن میں ہے آیت «سَحَرُوْٓا اَعْیُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْہَبُوْہُمْ وَجَاءُوْ بِسِحْرٍ عَظِیْمٍ» ( 7 ۔ الاعراف : 116 ) لوگوں کی آنکھوں پر جادو کر دیا اور ان کے دلوں میں ڈر بٹھا دیا اور جگہ ہے یخیل الیہ موسیٰ علیہ السلام کے خیال میں وہ سب لکڑیاں اور رسیاں سانپ بن کر دوڑتی ہوئی نظر آنے لگیں حالانکہ درحقیقت ایسا نہ تھا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ( 5 ) پانچویں قسم بعض چیزوں کی ترکیب دے کر کوئی عجیب کام اس سے لینا مثلاً گھوڑے کی شکل بنا دیا اس پر ایک سوار بنا کر بٹھا دیا اس کے ہاتھ میں ناقوس ہے جہاں ایک ساعت گزری اور اس ناقوس میں سے آواز نکلی حالانکہ کوئی اسے نہیں چھیڑتا ، اسی طرح انسانی صورت اس کاریگری سے بنائی کہ گویا اصلی انسان ہنس رہا ہے یا رو رہا ہے ، فرعون کے جادوگروں کا جادو بھی اسی قسم میں سے تھا کہ وہ بنائے ہوئے سانپ وغیرہ زئبق کے باعث زندہ حرکت کرنے والے دکھائی دیتے تھے گھڑی اور گھنٹے اور چھوٹی چھوٹی چیزیں جن سے بڑی بڑی وزنی چیزیں کھینچ آتی ہیں سب اسی قسم میں داخل ہیں حقیقت میں اسے جادو ہی نہ کہنا چاہیئے کیونکہ یہ تو ایک ترکیب اور کاریگری ہے جس کے اسباب بالکل ظاہر ہیں جو انہیں جانتا ہو وہ ان اسباب و فنون سے یہ کام لے سکتا ہے اسی طرح کا وہ حیلہ بھی ہے کہ جو بیت المقدس کے نصرانی کرتے تھے کہ پر اسرار طریقہ سے گرجے کی قندیلیں جلا دیں اور اسے گرجے کی کرامت مشہور کر دی یا اور لوگوں کو اپنے دین کی طرف جھکا لیا بعض کرامیہ صوفیوں کا بھی خیال ہے کہ اگر ترغیب و ترہیب کی حدیثیں گھڑ لی جائیں اور لوگوں کو عبادت کی طرف مائل کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ، لیکن یہ بڑی غلطی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ” فرماتے ہیں جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولے وہ اپنی جگہ جہنم میں مقرر کر لے۔(صحیح بخاری:110) اور فرمایا میری حدیثیں بیان کرتے رہو لیکن مجھ پر جھوٹ نہ باندھو مجھ پر جھوٹ بولنے والا قطعاً جہنمی ہے “ ۔(صحیح بخاری:106) ایک نصرانی پادری نے ایک مرتبہ دیکھا کہ ایک پرند کا چھوٹا سا بچہ جسے اڑنے اور چلنے پھرنے کی طاقت نہیں ایک گھونسلے میں بیٹھا ہے جب وہ اپنی ضعیف اور پست آواز نکالتا ہے تو اور پرندے اسے سن کر رحم کھا کر زیتون کا پھل اس گھونسلے میں لا لا کر رکھ جاتے ہیں اس نے اسی صورت کا ایک پرندہ کسی چیز کا بنایا اور نیچے سے اسے کھوکھلا رکھا اور ایک سوراخ اس کی چونچ کی طرف رکھا جس سے ہوا اس کے اندر گھستی تھی پھر جب نکلتی تھی تو اسی طرح کی آواز اس سے پیدا ہوتی تھی اسے لا کر اپنے گرجے میں ہوا کے رخ رکھ دیا چھت میں ایک چھوٹا سوراخ کر دیا تاکہ ہوا اس سے جائے اب جب ہوا چلتی اور اس کی آواز نکلتی تو اس قسم کے پرندے جمع ہو جاتے اور زیتون کے پھل لا لا کر رکھ جاتے اس نے لوگوں میں شہرت دینی شروع کی کہ اس گرجے میں یہ کرامت ہے یہاں ایک بزرگ کا مزار ہے اور یہ کرامت انہی کی ہے لوگوں نے بھی جب اپنی آنکھوں یہ ان ہونی عجیب بات دیکھی تو معتقد ہو گئے اور اس قبر پر نذر نیاز چڑھانے لگے اب کرامت دور دور تک مشہور ہو گئی حالانکہ کہ کوئی کرامت نہ تھی نہ معجزہ تھا صرف ایک پوشیدہ فن تھا جسے اس ملعون شخص نے پیٹ بھرنے کے لیے پوشیدہ طور پر رکھا تھا اور ایک لعنتی فرقہ اس پر ریجھا ہوا تھا ۔ ( 6 ) چھٹی قسم جادو کی بعض دواؤں میں عجیب عجیب خاصیتیں ہیں مقناطیس ہی کو دیکھو کہ لوہا کس طرح اس کی طرف کھچ جاتا ہے اکثر صوفی اور فقیر اور درویش انہی حیلہ سازیوں کو کرامت کر کے لوگوں کو دکھاتے ہیں اور انہیں مرید بناتے پھرتے ہیں ۔ ( 7 ) ساتویں قسم دل پر ایک خاص قسم کا اثر ڈال کر اس سے جو چاہنا منوا لینا ہے مثلاً اس سے کہدیا کہ مجھے اسم اعظم یاد ہے یا جنات میری قبضہ میں ہیں اب اگر سامنے والا کمزور دل کچے کانوں اور بودے عقیدے والا ہے تو وہ اسے سچ سمجھ لے گا اور اس کی طرف سے ایک قسم کا خوف ڈر ہیبت اور رعب اس کے دل پر بیٹھ جائے گا جو اس کو ضعیف بنا دے گا اب اس وقت جو چاہے کرے گا اور اس کا کمزور دل اسے عجیب عجیب باتیں دکھاتا بیٹھ جائے گا جو اس کو ضعیف بنا دے گا اب اس وقت جو چاہے کرے گا اور اس کا کمزور دل اسے عجیب عجیب باتیں دکھاتا جائے گا اسی کو تمبلہ ( عام زبان میں اسے معمول ) کہتے ہیں اور یہ اکثر کم عقل لوگوں پر ہو جایا کرتا ہے اور علم فراست سے کامل عقل والا اور کم عقل والا انسان معلوم ہو سکتا ہے اور اس حرکت کا کرنے والا اپنا یہ فعل اپنی قوت قیافہ کے ذریعہ سے کم عقل شخص کو پہچان کر کے ہی کرتا ہے ۔ ( 8 ) آٹھویں قسم چغلی کرنا جھوٹ سچ ملا کر کسی کے دل میں اپنا گھر کر لینا اور خفیہ چالوں سے اسے اپنا گرویدہ کر لینا یہ چغل خوری اگر لوگوں کو بھڑکانے بدکانے اور ان کے درمیان عداوت و دشمنی ڈالنے کے لیے ہو تو شرعاً حرام ہے جب اصلاح کے طور پر اور آپس میں ایک دوسرے مسلمان کو ملانے کے لیے کوئی ایسی بات ظاہر کہہ دی جائے جس سے ایک فریق دوسرے فریق سے خوش ہو جائے یا کوئی آنے والی مصیبت مسلمانوں پر سے ٹل جائے یا کفار کی قوت زائل ہو جائے ان میں بد دلی پھیل جائے اور مخالف و پھوٹ پڑے تو یہ جائز ہے جیسے حدیث میں ہے کہ وہ شخص جھوٹا نہیں جو بھلائی کے لیے ادھر کی ادھر لے جاتا ہے ۔ (صحیح بخاری:2692) اور جیسے حدیث میں ہے کہ لڑائی مکر کا نام ہے ۔ (صحیح بخاری:3030) اور جیسے سیدنا نعیم بن مسعود رضی اللہ عنہما نے جنگ احزاب کے موقعہ پر کفار عرب اور کفار یہود کے درمیان کچھ ادھر ادھر کی اوپری باتیں کہہ کر جدائی ڈلوا دی تھی اور انہیں مسلمانوں کے مقابلہ میں شکست ہوئی یہ کام بڑے عالی دماغ زیرک اور معاملہ فہم شخص کا ہے ۔ یہ یاد رہے کہ امام رازی رحمہ اللہ نے جادو کی جو یہ آٹھ قسمیں بیان کی ہیں یہ صرف با اعتبار لفظ کے ہیں کیونکہ عربی زبان میں سحر یعنی جادو ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو بہت لطیف اور باریک ہو اور ظاہربین انسان کی نگاہوں سے اس کے اسباب پوشیدہ رہ جائیں اسی واسطے ایک حدیث میں ہے کہ بعض بیان بھی جادو ہوتا ہے ۔ (صحیح بخاری:5146) اور اسی لیے صبح کے اول وقت کو سحور کہتے ہیں کہ و مخفی ہوتا ہے اور اس رگ کو بھی سحر کہتے ہیں جو غذا کی جگہ ہے ۔ ابوجہل نے بدر والے دن یہی کہا تھا کہ اس کی سحر یعنی رگ طعام مارے خوف کے پھول گئی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میرے سحر و نحر کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے ۔ (صحیح بخاری:3100) تو نحرے سے مراد سینہ اور سحر سے مراد رنگ غذا ۔ قرآن میں بھی ہے آیت «سَحَرُوْٓا اَعْیُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْہَبُوْہُمْ وَجَاءُوْ بِسِحْرٍ عَظِیْمٍ» ( 7 ۔ الاعراف : 116 ) یعنی لوگوں کی نگاہوں سے اپنا جادو کے وقت جو چاہتا ہے کہ دیتا ہے کہ معتزلہ اور ابواسحاق اسفراینی شافعی اس کے قائل نہیں اور جادو کبھی ہاتھ کی چالاکی سے بھی ہوتا ہے اور کبھی ڈوروں دھاگوں سے بھی کبھی اللہ کا نام پڑھ کر دم کرنے سے بھی اس میں ایک خاص اثر ہوتا ہے ۔ جادو اور شعر کبھی شیاطین کا نام لے کر شیطانی کام سے بھی لوگ کرتے ہیں کبھی دواؤں وغیرہ کے ذریعہ سے بھی جادو کیا جاتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق کہ بعض بیان جادو ہیں دو مطلب ہو سکتے ہیں ایک تو یہ کہ بطور تعریف کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ بطور مذمت کے یہ ارشاد ہوا ہو کہ وہ اپنی غلط بات اس طرح بیان کرتا ہے کہ سچ معلوم ہوتی ہے جیسے ایک اور حدیث میں ہے کہ کبھی میرے پاس تم مقدمہ لے کر آتے ہو تو ایک اپنی چرب زبانی سے اپنے غلط دعویٰ کو صحیح ثابت کر دیتا ہے ۔ (صحیح بخاری:2458) وزیر ابو المظفر یحییٰ بن محمد بن ہبیر رحمتہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب ” الاشراف علی مذاہب الاشراف “ میں سحر کے باب میں کہا ہے کہ اجماع ہے کہ جادو ایک حقیقت ہے لیکن ابوحنیفہ رحمہ اللہ اس کے قائل نہیں جادو کے سیکھنے والے اور اسے استعمال میں لانے والے کو امام ابوحنیفہ امام مالک اور امام احمد رحمہم اللہ تو کافر بتاتے ہیں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بعض شاگردوں کا قول ہے کہ اگر جادو کو بچاؤ کے لیے سیکھے تو کافر نہیں ہوتا ہاں جو اس کا اعتقاد رکھے اور نفع دینے والا سمجھے ۔ وہ کافر ہے ۔ اور اسی طرح جو یہ خیال کرتا ہے کہ شیاطین یہ کام کرتے ہیں اور اتنی قدرت رکھتے ہیں وہ بھی کافر ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں جادوگر سے دریافت کیا جائے اگر وہ بابل والوں کا سا عقیدہ رکھتا ہو اور سات سیارہ ستاروں کو تاثیر پیدا کرنے والا جانتا ہو تو کافر ہے اور اگر یہ نہ ہو تو بھی اگر جادو کو جائز جانتا ہو تو بھی کافر ہے امام مالک اور امام احمد رحمہ اللہ علیہما کا قول یہ بھی ہے کہ جادوگر نے جب جادو کیا اور جادو کو استعمال میں لایا وہیں اسے قتل کر دیا جائے امام شافعی اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہما فرماتے ہیں کہ اس کا قتل بوجہ حد کے ہے مگر امام شافعی رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ بوجہ قصاص کے ہے ۔ امام مالک امام ابوحنفیہ رحمہ اللہ علیہما اور ایک مشہور قول میں امام احمد رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ جادوگر سے توبہ بھی نہ کرائی جائے اس کی توبہ سے اس پر سے حد نہیں ہٹے گی اور امام شافعی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اس کی توبہ مقبول ہو گی ۔ امام احمد رحمہ اللہ کا ہی صحیح قول ہے ۔ ایک روایت میں یہ ہے کہ اہل کتاب کا جادوگر بھی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک قتل کر دیا جائے گا لیکن تینوں اور اماموں کا مذہب اس کے برخلاف ہے لبید بن اعصم یہودی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کرنے کو نہیں فرمایا۔(صحیح بخاری:5763) اگر کوئی مسلمان عورت جادوگرنی ہو تو اس کے بارے میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ قید کر دی جائے اور تینوں کہتے ہیں اسے بھی مرد کی طرح قتل کر دیا جائے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» حضرت زہری رحمہ اللہ کا قول ہے کہ مسلمان جادوگر قتل کر دیا جائے اور مشرک قتل نہ کیا جائے ۔ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر ذمی کے جادو سے کوئی مر جائے تو ذمی کو بھی مار ڈالنا چاہیئے یہ بھی آپ سے مروی ہے کہ پہلے تو اسے کہا جائے کہ توبہ کر اگر وہ کر لے اور اسلام قبول کرے تو خیر ورنہ قتل کر دیا جائے اور یہ بھی آپ سے مروی ہے کہ اگرچہ اسلام قبول کر لے تاہم قتل کر دیا جائے اس جادوگر کو جس کے جادو میں شرکیہ الفاظ ہوں اسے چاروں امام کافر کہتے ہیں کیونکہ قرآن میں ہے «فَلَا تَکْفُرْ» (2-البقرۃ:102) امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب اس پر غلبہ پا لیا جائے پھر وہ توبہ کرے تو توبہ قبول نہیں ہو گی جس طرح زندیق کی توبہ قبول نہیں ہو گی ہاں اس سے پہلے اگر توبہ کر لے تو قبول ہو گی اگر اس کے جادو سے کوئی مر گیا پھر تو بہر صورت مارا جائے گا امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر وہ کہے کہ میں نے اس پر جادو مار ڈالنے کے لیے نہیں کیا تو قتل کی خطا کی دیت ( جرمانہ ) لے لیا جائے ۔ جادوگر سے اس کے جادو کو اتروانے کی سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے اجازت دی ہے جیسے صحیح بخاری شریف میں ہے ۔ (صحیح بخاری:تعلیقاکتاب الطب ھل یستخرج السحر) عامر شعبی رحمہ اللہ بھی اس میں کوئی حرج نہیں بتلاتے لیکن خواجہ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ اسے مکروہ بتاتے ہیں ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا تھا کہا آپ کیوں جادو کو افشاء نہیں کرتے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے تو اللہ تعالیٰ نے شفاء دے دی اور میں لوگوں پر برائی افشاء کرنے سے ڈرتا ہوں ۔ (صحیح بخاری:5766) حضرت وہب رحمہ اللہ فرماتے ہیں بیری کے سات پتے لے کر سل بٹے پر کوٹ لیے جائیں اور پانی ملا لیا جائے پھر آیت الکرسی پڑھ کر اس پر دم کر دیا جائے اور جس پر جادو کیا گیا ہے اسے تین گھونٹ پلا دیا جائے اور باقی پانی سے غسل کرا دیا جائے ان شاءاللہ جادو کا اثر جاتا رہے گا یہ عمل خصوصیت سے اس شخص کے لیے بہت ہی اچھا ہے جو اپنی بیوی سے روک دیا گیا ہو جادو کو دور کرنے اور اس کے اثر کو زائل کرنے کے لیے سب سے اعلیٰ چیز آیت «قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِکِ النَّاسِ إِلٰہِ النَّاسِ مِن شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ الَّذِی یُوَسْوِسُ فِی صُدُورِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ» ( 114-سورۃ الناس : 1-6 ) اور آیت «قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ وَمِن شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ وَمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِی الْعُقَدِ وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ» ( 113-الفلق : 1-5 ) کی سورتیں ہیں حدیث میں ہے کہ ان جیسا کوئی تعویذ نہیں ۔ (سنن نسائی:544 ، قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) اسی طرح آیت الکرسی بھی شیطان کو دفع کرنے میں اعلیٰ درجہ کی چیز ہے ۔ (صحیح بخاری:0) البقرة
103 البقرة
104 مسلمانوں کافروں کی صورت لباس اور زبان میں مشابہت سے بچو! اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو کافروں کی بول چال اور ان کے کاموں کی مشابہت سے روک رہا ہے یہودی بعض الفاظ زبان دبا کر بولتے تھے اور مطلب برا لیتے تھے جب انہیں یہ کہنا ہوتا کہ ہماری سنیے تو کہتے تھے راعنا اور مراد اس سے رعونت اور سرکشی لیتے تھے جیسے اور جگہ بیان ہے آیت «مِّنَ الَّذِینَ ہَادُوا یُحَرِّفُونَ الْکَلِمَ عَن مَّوَاضِعِہِ وَیَقُولُونَ سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا وَاسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ وَرَاعِنَا لَیًّا بِأَلْسِنَتِہِمْ وَطَعْنًا فِی الدِّینِ وَلَوْ أَنَّہُمْ قَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانظُرْنَا لَکَانَ خَیْرًا لَّہُمْ وَأَقْوَمَ وَلٰکِن لَّعَنَہُمُ اللہُ بِکُفْرِہِمْ فَلَا یُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِیلًا» ( 4-النساء : 46 ) یعنی یہودیوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو باتوں کو اصلیت سے ہٹا دیتے ہیں اور کہتے ہیں ہم سنتے ہیں لیکن مانتے نہیں اپنی زبانوں کو موڑ توڑ کر اس دین میں طعنہ زنی کے لیے «راعنا» کہتے ہیں اگر یہ کہتے کہ ہم نے سنا اور مانا ہماری بات سنیے اور ہماری طرف توجہ کیجئے تو یہ ان کے لیے بہتر اور مناسب ہوتا لیکن ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے انہیں اپنی رحمت سے دور پھینک دیا ہے اس میں ایمان بہت ہی کم ہے ۔ احادیث میں یہ بھی آیا ہے کہ جب یہ لوگ سلام کرتے ہیں تو السام علیکم کہتے ہیں اور سام کے معنی موت کے ہیں تو تم ان کے جواب میں وعلیکم کہا کرو ۔ (صحیح بخاری:6257) ہماری دعا ان کے حق میں قبول ہو گی اور ان کی بد دعا ہمارے حق میں مقبول نہیں ہو گی ۔ (صحیح مسلم:2166) الغرض قول و فعل میں ان سے مشابہت کرنا منع ہے مسند احمد کی حدیث میں ہے میں قیامت کے قریب تلوار کے ساتھ بھیجا گیا ہوں میری روزی حق تعالیٰ نے میرے نیزے تلے لکھی ہے اس کے لیے ذلت اور پستی ہے مگر جو میرے احکام کے خلاف چلے کرے اور جو شخص کسی ( غیر مسلم ) قوم سے مشابہت کرے وہ انہی میں سے ہے ۔ (مسند احمد:50/2:حسن بالشواھد) ابوداؤد میں بھی یہ پچھلا حصہ مروی ہے ۔ (سنن ابوداود:4031 ، قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) اس آیت اور حدیث سے ثابت ہوا کہ کفار کے اقوال وافعال لباس عید اور عبادت میں ان کی مشابہت کرنا جو ہمارے لیے مشروع اور مقرر نہیں سخت منع ہے ایسا کرنے والوں کو شریعت میں عذاب کی دھمکی سخت ڈراوا اور حرمت کی اطلاع دی گئی ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب تم قرآن کریم میں آیت «یا أَیٰہَا الَّذینَ آمَنُوا» سنو تو کان لگا دو اور دل سے متوجہ ہو جایا کرو کیونکہ یا تو کسی بھلائی کا حکم ہو گا یا کسی برائی سے ممانعت ہو گی خیثمہ فرماتے ہیں توراۃ میں بنی اسرائیل کو خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے «یَا أَیّہَا الْمَسَاکِین» فرمایا ہے لیکن امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آیت «یا أَیٰہَا الَّذینَ آمَنُوا» کے معزز خطاب سے یاد فرمایا ہے «راعنا» کے معنی ہماری طرف کان لگانے کے ہیں بروزن «عاطنا» ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:461/2) مجاہد فرماتے ہیں اس کے معنی خلاف کے بھی ہیں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:318/1) یعنی خلاف نہ کہا کرو اس سے یہ بھی مروی ہے کہ مطلب یہ کہ آپ ہماری سنئے اور ہم آپ کی سنیں ۔ انصار نے بھی یہی لفظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کہنا شروع کر دیا تھا جس سے قرآن پاک نے انہیں روک دیا ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:318/1) حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں «راعن» کہتے ہیں ( راعن مذاق کی بات کو کہتے ہیں ) یعنی تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں اور اسلام سے مذاق نہ کیا کرو ۔ ابو صخررحمہ اللہ کہتے ہیں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جانے لگتے تو جنہیں کوئی بات کہنی ہوتی وہ کہتے اپنا کان ادھر کیجئے اللہ تعالیٰ نے اس بےادبی کے کلمہ سے روک دیا اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کرنے کی تعلیم فرمائی ۔ سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں رفاعہ بن زید یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کرتے ہوئے یہ لفظ کہا کرتا تھا مسلمانوں نے بھی یہ خیال کر کے یہ لفظ ادب کے ہیں یہی لفظ استعمال کرنے شروع کر دیئے جس پر انہیں روک دیا گیا جیسے سورۃ نساء میں ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ اس کلمہ کو اللہ نے برا جانا اور اس کے استعمال سے مسلمانوں کو روک دیا جیسے حدیث میں آیا ہے کہ انگور کو کرم اور غلام کو عبد نہ کہو وغیرہ ۔ (صحیح مسلم:2248) اب اللہ تعالیٰ ان بد باطن لوگوں کے حسد و بغض کو بیان فرماتا ہے کہ اے مسلمانو ! تمہیں جو اس کامل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ کامل شریعت ملی ہے اس سے یہ تو جل بھن رہے ہیں ان سے کہہ دو کہ یہ تو اللہ کا فضل ہے جسے چاہے عنایت فرمائے وہ بڑے ہی فضل و کرم والا ہے ۔ البقرة
105 البقرة
106 تبدیلی یا تنسیخ ، اللہ تعالٰی مختار کل ہے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نسخ کے معنی بدل کے ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:473/2) حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں مٹانے کے معنی ہیں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:321/1) جو ( کبھی ) لکھنے میں باقی رہتا ہے اور حکم بدل جاتا ہے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگرد اور ابوالعالیہ اور محمد بن کعب قرظی رحمہ اللہ سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:322/1) ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں بھلا دینے کے معنی ہیں عطا فرماتے ہیں چھوڑ دینے کے معنی ہیں سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں اٹھا لینے کے معنی ہیں جیسے «الشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ إِذَا زَنَیَا فَارْجُمُوہُمَا الْبَتَّۃَ» یعنی زانی مرد و عورت کو سنگسار کر دیا کرو ۔ (سنن نسائی:7145 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور جیسے «لَوْ کَانَ لِابْنِ آدَمَ وَادِیَانِ مِنْ مَالٍ لَابْتَغَی وَادِیًا ثَالِثًا»(صحیح بخاری:6440) یعنی ابن آدم کو اگر دو جنگل سونے کے مل جائیں جب بھی وہ تیسرے کی جستجو میں رہے گا ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:324/1) امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ احکام میں تبدیلی ہم کر دیا کرتے ہیں حلال کو حرام حرام کو حلال جائز کو ناجائز ناجائز کو جائز وغیرہ امر و نہی روک اور رخصت جائز اور ممنوع کاموں میں نسخ ہوتا ہے ہاں جو خبریں دی گئی ہیں واقعات بیان کئے گئے ہیں ان میں رد و بدل و ناسخ و منسوخ نہیں ہوتا ۔ نسخ کے لفظی معنی نقل کرنے کے بھی ہیں جیسے کتاب کے ایک نسخے سے دوسرا نقل کر لینا ۔ اسی طرح یہاں بھی چونکہ ایک حکم کے بدلے دوسرا حکم ہوتا ہے اس لیے نسخ کہتے ہیں خواہ وہ حکم کا بدل جانا ہو خواہ الفاظ کا ۔ علماء اصول کی عبارتیں اس مسئلہ میں گو مختلف ہیں مگر معنی کے لحاظ سے سب قریب قریب ایک ہی ہیں ۔ نسخ کے معنی کسی حکم شرعی کا پچھلی دلیل کی رو سے ہٹ جانا ہے کبھی ہلکی چیز کے بدلے بھاری اور کبھی بھاری کے بدلہ ہلکی اور کبھی کوئی بدل ہی نہیں ہوتا ہے نسخ کے احکام اس کی قسمیں اس کی شرطیں وغیرہ ہیں اس کے لیے اس فن کی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیئے تفصیلات کی بسط کی جگہ نہیں طبرانی میں ایک روایت ہے کہ دو شخصوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سورت یاد کی تھی اسے وہ پڑھتے رہے ایک مرتبہ رات کی نماز میں ہر چند اسے پڑھنا چاہا لیکن یاد نے ساتھ نہ دیا گھبرا کر خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ منسوخ ہو گئی اور بھلا دی گئی دلوں میں نکال لی گئی تم غم نہ کرو ۔ بے فکر ہو جاؤ ۔ حضرت زہری رحمہ اللہ نون خفیفہ پیش کے ساتھ پڑھتے تھے اس کے ایک راوی سلیمان بن ارقم ضعیف ہیں ۔ (مجمع الذوائد:11592) ابوبکر انباری نے بھی دوسری سند سے اسے مرفوع روایت کیا ہے ۔ (تفسیر قرطبی:62/2-619) جیسے قرطبی رحمہ اللہ کا کنا ہے ۔ «ننسھا» کو «ننساھا» بھی پڑھا گیا ہے ۔ «ننساھا» کے معنی مؤخر کرنے پیچھے ہٹا دینے کے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں یعنی ہم اسے چھوڑ دیتے ہیں منسوخ کرتے ہیں ابن کے شاگرد کہتے ہیں یعنی ہم اس کے الفاظ کو باقی رکھتے ہیں لیکن حکم کو بدل دیتے ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:473/2) عبد بن عمیر ، مجاہد ، اور عطا رحمہ اللہ علیہم سے مروی ہے ہم اسے مؤخر کرتے ہیں اور ملتوی کرتے ہیں عطیہ عوفی رحمہ اللہ کہتے ہیں ۔ یعنی منسوخ نہیں کرتے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:477/2) سدی اور ربیع رحمہ اللہ علیہما بھی یہی کہتے ہیں ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں ناسخ کو منسوخ کے پیچھے رکھتے ہیں ابوالعالیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں اپنے پاس اسے روک لیتے ہیں عمر نے خطبہ میں «نُنٗسِھَا» پڑھا اور اس کے معنی مؤخر ہونے کے بیان کئے «ننسھا» جب پڑھیں تو یہ مطلب ہو گا کہ ہم اسے بھلا دیں ۔ اللہ تعالیٰ جس حکم کو اٹھا لینا چاہتا تھا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھلا دیتا تھا اس طرح وہ آیت اٹھ جاتی تھی ۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ «ننسھا» پڑھتے تھے تو ان سے قسم بن ربیعہ رحمہ اللہ نے کہا کہ سعید بن مسیب رحمہ اللہ تو «ننساھا» پڑھتے ہیں تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا سعید پر یا سعید کے خاندان پر تو قرآن نہیں اترا ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت «سَنُقْرِئُکَ فَلَا تَنْسٰٓی» ( 87 ۔ الاعلی : 6 ) ہم تجھے پڑھائیں گے جسے تو نہ بھولے گا اور فرماتا ہے آیت «وَاذْکُرْ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیْتَ» ( 18 ۔ الکہف : 24 ) جب بھول جائے تو اپنے رب کو یاد کر ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے ہیں اور ابی رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ اچھے قرآن کے قاری ہیں اور ہم ابی رضی اللہ عنہ کا قول چھوڑ دیتے ہیں اس لیے کہ ابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے تو جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اسے نہیں چھوڑوں گا اور فرماتے ہیں «مَا نَنسَخْ مِنْ آیَۃٍ أَوْ نُنسِہَا نَأْتِ بِخَیْرٍ مِّنْہَا أَوْ مِثْلِہَا» ( البقرہ : 106 ) یعنی ہم جو منسوخ کریں یا بھلا دیں اس سے بہتر لاتے ہیں یا اس جیسا (صحیح بخاری:4481) اس سے بہتر ہوتا ہے یعنی بندوں کی سہولت اور ان کے آرام کے لحاظ سے یا اس جیسا ہوتا ہے لیکن مصلحت الٰہی اس سابقہ چیز میں ہوتی ہے ۔ مخلوق میں تغیر و تبدل کرنے والا پیدائش اور حکم کا اختیار رکھنے والا ۔ ایک اللہ تعالیٰ ہی ہے جس طرح جسے چاہتا ہے بناتا ہے جسے چاہے نیک بختی دیتا ہے جسے چاہے بدبختی دیتا ہے جسے چاہے تندرستی جسے چاہے بیماری ، جسے چاہے توفیق جسے چاہے بے نصیب کر دے ۔ بندوں میں جو حکم چاہے جاری کرے جسے چاہے حلال جسے چاہے حرام فرما دے جسے چاہے رخصت دے جسے چاہے روک دے وہ حاکم مطلق ہے جیسے چاہے احکام جاری فرمائے کوئی اس کے حکم کو رد نہیں کر سکتا جو چاہے کرے کوئی اس سے بازپرس نہیں کر سکتا وہ بندوں کو آزماتا ہے اور دیکھتا ہے کہ وہ نبیوں اور رسولوں کے کیسے تابعدار ہیں کسی چیز کا کسی مصلحت کی وجہ سے حکم دیا پھر مصلحت کی وجہ سے ہی اس کو ہٹا دیا اب آزمائش ہو جاتی ہے نیک لوگ اس وقت بھی اطاعت کے لیے کمربستہ تھے اور اب بھی ہیں لیکن بدباطن لوگ باتیں بناتے ہیں اور ناک بھوں چڑھاتے ہیں حالانکہ تمام مخلوق کو اپنے خالق کی تمام باتیں ماننی چاہئیں اور ہر حال میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنی چاہیئے اور جو وہ کہے اسے دل سے سچا ماننا چاہیئے ، جو حکم دے بجا لانا چاہیئے جس سے روکے رک جانا چاہیئے ۔ اس مقام پر بھی یہودیوں کا زبردست رد ہے اور ان کے کفر کا بیان ہے کہ وہ نسخ کے قائل نہ تھے بعض تو کہتے تھے اس میں عقلی محال لازم آتا ہے اور بعض نقلی محال بھی مانتے تھے اس آیت میں گو خطاب فخر عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے مگر دراصل یہ کلام یہودیوں کو سنانا ہے جو انجیل کو اور قرآن کو اس وجہ سے نہیں مانتے تھے کہ ان میں بعض احکام توراۃ کے منسوخ ہو گئے تھے اور اسی وجہ سے وہ ان نبیوں کی نبوت کے بھی منکر ہو گئے تھے اور صرف عناد و تکبر کی بنا تھی ورنہ عقلاً نسخ محال نہیں اس لیے کہ جس طرح وہ اپنے کاموں میں با اختیار رہے اسی طرح اپنے حکموں میں بھی با اختیار رہے جو چاہے اور جب چاہے پیدا کرے جسے چاہے اور جس طرح چاہے اور جس وقت چاہے رکھے ۔ اسی طرح جو چاہے اور جس وقت چاہے حکم دے اس حاکموں کے حاکم کا حاکم کون ؟ اسی طرح نقلاً بھی یہ ثابت شدہ امر ہے اگلی کتابوں اور پہلی شریعتوں میں موجود ہے ۔ حضرت آدم کی بیٹیاں بیٹے آپس میں بھائی بہن ہوتے تھے لیکن نکاح جائز تھا پھر اسے حرام کر دیا نوح علیہ السلام جب کشتی سے اترتے ہیں تب تمام حیوانات کا کھانا حلال تھا لیکن پھر بعض کی حلت منسوخ ہو گئی دو بہنوں کا نکاح اسرائیل اور ان کی اولاد پر حلال تھا لیکن پھر توراۃ میں اور اس کے بعد حرام ہو گیا ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے کی قربانی کا حکم دیا پھر قربان کرنے سے پہلے ہی منسوخ کر دیا بنو اسرائیل کو حکم دیا جاتا ہے کہ بچھڑا پوجنے میں جو شامل تھے سب اپنی جانوں کو قتل کر ڈالیں لیکن پھر بہت سے باقی تھے کہ یہ حکم منسوخ ہو جاتا ہے اسی طرح کے اور بہت سے واقعات موجود ہیں اور خود یہودیوں کو ان کا اقرار ہے لیکن پھر بھی قرآن اور نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہہ کر نہیں مانتے کہ اس سے اللہ کے کلام میں نسخ لازم آتا ہے اور وہ محال ہے ۔ بعض لوگ جو اس کے جواب میں لفظی بحثوں میں پڑ جاتے ہیں وہ یاد رکھیں کہ اس سے دلالت نہیں بدلتی اور مقصود وہی رہتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت یہ لوگ اپنی کتابوں میں پاتے تھے آپ کی تابعداری کا حکم بھی دیکھتے تھی یہ بھی معلوم تھا کہ آپ کی شریعت کے مطابق جو عمل نہ ہو وہ مقبول نہیں ہو گا یہ اور بات ہے کہ کوئی کہے کہ اگلی شریعتیں صرف آپ کے آنے تک ہی تھیں اس لیے یہ شریعت ان کی ناسخ نہیں یا کہے کہ ناسخ ہے بہر صورت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری کتاب اللہ کے پاس سے ابھی ابھی لے کر آئے ہیں پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نسخ کے جواز کو بیان فرما کر اس ملعون گروہ یہود کا رد کیا ۔ سورۃ آل عمران میں بھی جس کے شروع میں بنی اسرائیل کو خطا کیا گیا ہے نسخ کے واقع ہونے کا ذکر موجود ہے فرماتا ہے آیت «کُلٰ الطَّعَامِ کَانَ حِلًّا لِّبَنِی إِسْرَائِیلَ إِلَّا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِیلُ عَلَیٰ نَفْسِہِ مِن قَبْلِ أَن تُنَزَّلَ التَّوْرَاۃُ» ( 3-آل عمران : 93 ) یعنی سبھی کھانے بنی اسرائیل پر حلال تھے مگر جس چیز کو اسرائیل علیہ السلام نے اپنے اوپر حرام کر لیا تھا اس کی مزید تفسیر وہیں آئے گی ان شاءاللہ تعالیٰ مسلمان کل کے کل متفق ہیں کہ احکام باری تعالیٰ میں نسخ کا ہونا جائز ہے بلکہ واقع بھی ہے اور پروردگار کی حکمت بالغہ کا دستور بھی یہی ہے ابو مسلم اصبہانی مفسر نے لکھا ہے کہ قرآن میں نسخ واقع نہیں ہوتا لیکن اس کا یہ قول ضعیف اور مردود اور محض غلط اور جھوٹ ہے جہاں نسخ قرآن موجود ہے اس کے جاب میں گو بعض نے بہت محنت سے اس کی تردید کی ہے لیکن محض بےسود دیکھیے پہلے اس عورت کی عدت جس کا خاوند مر جائے ایک سال تھی لیکن پھر چار مہینے دس دن ہوئی اور دونوں آیتیں قرآن پاک میں موجود ہیں قبلہ پہلے بیت المقدس تھا ۔ پھر کعبۃ اللہ ہوا اور دوسری آیت صاف اور پہلا حکم بھی ضمناً مذکور ہے پہلے کے مسلمانوں کو حکم تھا کہ ایک ایک مسلمان دس دس کافروں سے لڑے اور ان کے مقابلے سے نہ ہٹے لیکن یہ پھر حکم منسوخ کر کے دو دو کے مقابلہ میں صبر کرنے کا حکم ہوا اور دونوں آیتیں کلام اللہ میں موجود ہیں پہلے حکم تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کرنے سے پہلے کچھ صدقہ دیا کرو پھر یہ حکم منسوخ ہوا اور دونوں آیتیں قرآن کریم میں موجود ہیں وغیرہ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ البقرة
107 البقرة
108 کثرت سوال حجت بازی کے مترادف ہے! اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو روکتے ہوئے فرماتا ہے کہ کسی واقعہ کے ہونے سے پہلے میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فضول سوال نہ کیا کو ۔ یہ کثرت سوال کی عادت بہت بری ہے جیسے اور جگہ ارشاد ہے آیت «یٰٓاَیٰھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْــــَٔـلُوْا عَنْ اَشْیَاءَ» ( 5 ۔ المائدہ : 101 ) ایمان والو ان چیزوں کا سوال نہ کیا کرو جو اگر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں برا لگے گا اور اگر تم قرآن کے نازل ہونے کے زمانہ میں ایسے سوالوں کا سلسلہ جاری رکھو گے تو یہ باتیں ظاہر کر دی جائیں گی ۔ کسی بات کے واقع ہونے سے پہلے اس کی نسبت سوال کرنے میں خوف یہ ہے کہ کہیں اس سوال کی وجہ سے وہ حرام نہ ہو جائیں صحیح حدیث میں ہے کہ مسلمانوں میں سے بڑا مجرم وہ ہے جو اس چیز کے بارے میں سوال کرے جو حرام نہ تھی پھر اس کے سوال سے حرام ہو گئی ۔ (صحیح بخاری:7289) ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا ۔ کہ ” ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ غیر مرد کو پائے تو کیا کرے ؟ اگر لوگوں کو خبر کرے تو یہ بھی بڑی بے شرمی کی بات ہے اور اگر چپ ہو جائے تو بڑی بے غیرتی کی بات ہے ؟ “ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ سوال بہت برا معلوم ہوا آخر اسی شخص کو ایسا واقعہ پیش آیا اور لعان کا حکم نازل ہوا ۔ (صحیح بخاری:5259) صحیحین کی ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فضول بکواس ، مال کو ضائع کرنے اور زیادہ پوچھ گچھ سے منع فرمایا کرتے تھے ۔ (صحیح بخاری:2408) صحیح مسلم میں ہے میں جب تک کچھ نہ کہوں ، تم بھی نہ پوچھو تم سے پہلے لوگوں کو اسی بدخصلت نے ہلاک کر دیا کہ وہ بکثرت سوال کرتے تھے اور اپنے نبیوں کے سامنے اختلاف کرتے تھے ۔ جب میں تمہیں کوئی حکم دوں تو اپنی طاقت کے مطابق بجا لاؤ اور اگر منع کروں تو رک جایا کرو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمایا تھا جب لوگوں کو خبر دی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے تو کسی نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے اس نے پھر پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہ دیا اس نے تیسری دفعہ پھر یہی سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر سال نہیں لیکن اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال فرض ہو جاتا اور پھر تم کبھی بھی اس حکم کو بجا نہ لا سکتے ۔ (صحیح مسلم:1337) پھر آپ نے مندرجہ بالا فرمان ارشاد فرمایا ۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب ہمیں آپ سے سوال کرنے سے روک دیا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے ہیں ہیبت کھاتے تھے چاہتے تھے کہ کوئی بادیہ نشین ناواقف شخص آ جائے وہ پوچھے تو ہم بھی سن لیں ۔ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں کوئی سوال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کرنا چاہتا تھا تو سال سال بھر گزر جاتا تھا کہ مارے ہیبت کے پوچھنے کی جرات نہیں ہوتی تھی ہم تو خواہش رکھتے تھے کہ کوئی اعرابی آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کر بیٹھے پھر ہم بھی سن لیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر کوئی جماعت نہیں انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف بارہ ہی مسئلے پوچھے جو سب سوال مع جواب کے قرآن پاک میں مذکورہ ہیں جیسے شراب وغیرہ کا سوال حرمت والے مہینوں کی بابت کا سوال ، یتیموں کی بابت کا سوال وغیرہ وغیرہ ۔ یہاں پر «ام» یا تو «بل» کے معنی میں ہے یا اپنے اصلی معنی میں ہے یعنی سوال کے بارے میں جو یہاں پر انکاری ہے یہ حکم مومن کافر سب کو ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سب کی طرف تھی قرآن میں اور جگہ ہے آیت «یَسْأَلُکَ أَہْلُ الْکِتَابِ أَن تُنَزِّلَ عَلَیْہِمْ کِتَابًا مِّنَ السَّمَاءِ فَقَدْ سَأَلُوا مُوسَیٰ أَکْبَرَ مِن ذٰلِکَ فَقَالُوا أَرِنَا اللہَ جَہْرَۃً فَأَخَذَتْہُمُ الصَّاعِقَۃُ بِظُلْمِہِمْ» ( 4 ۔ النسآء : 153 ) اہل کتاب تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ تو ان پر کوئی آسمانی کتاب اتارے انہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے اس سے بھی بڑا سوال کیا تھا کہ اللہ کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں جس ظلم کی وجہ سے انہیں ایک تند و تیز آواز سے ہلاک کر دیا گیا ۔ رافع بن حرملہ اور وہب بن زید نے کہا تھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی آسمانی کتاب ہم پر نازل کیجئے جسے ہم پڑھیں اور ہمارے شہروں میں دریا جاری کر دیں تو ہم آپ کو مان لیں اس پر یہ آیت اتری ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:490/2) ابو العالیہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاش کہ ہمارے گناہوں کا کفارہ بھی اسی طرح ہو جاتا جس طرح بنی اسرائیل کے گناہوں کا کفارہ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنتے ہی تین دفعہ جناب باری تعالیٰ میں عرض کی کہ ” نہیں اللہ نہیں “ ہم یہ نہیں چاہتے پھر فرمایا سنو بنو اسرائیل میں سے جہاں کوئی گناہ کرتا اس کے دروازے پر قدرتاً لکھا ہوا پایا جاتا اور ساتھ ہی اس کا کفارہ بھی لکھا ہوا ہوتا تھا اب یا تو دنیا کی رسوائی کو منظور کر کے کفارہ ادا کر دے اور اپنے پوشیدہ گناہوں کو ظاہر کرے یا کفارہ نہ دے اور آخرت کی رسوائی منظور کرے لیکن تم سے اللہ تعالیٰ نے فرما دیا آیت «وَمَنْ یَّعْمَلْ سُوْءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا» ( 4 ۔ النسآء : 110 ) یعنی جس سے کوئی برا کام ہو جائے یا وہ اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے پھر استغفار کرے تو وہ اللہ کو بہت بڑا بخشش اور مہربانی کرنے والا پائے گا ۔ اسی طرح ایک نماز دوسری نماز تک گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے پھر جمعہ دوسرے جمعہ تک کفارہ ہو جاتا ہے۔(صحیح مسلم:233) سنو جو شخص برائی کا ارادہ کرے لیکن برائی نہ کرے تو برائی لکھی نہیں جاتی اور اگر کر گزرے تو ایک ہی برائی لکھی جاتی ہے اور اگر بھلائی کا ارادہ کرے پھر گو نہ کرے لیکن بھلائی لکھ لی جاتی ہے اور اگر کر بھی لے تو دس بھلائیاں لکھی جاتی ہیں اب بتاؤ تم اچھے رہے یا بنی اسرائیل ؟ تم بنی اسرائیل سے بہت ہی اچھے ہو ہاں باوجود اتنے کرم اور رحم کے پھر بھی کوئی ہلاک ہو تو سمجھو کہ یہ خود ہلاک ہونے والا ہی تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:1786:مرسل و ضعیف) قریشیوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اگر صفا پہاڑ سونے کا ہو جائے تو ہم ایمان لاتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا لیکن پھر مائدہ ( آسمانی دستر خوان ) مانگنے والوں کا جو انجام ہوا وہی تمہارا بھی ہو گا اس پر وہ انکاری ہو گئے اور اپنے سوال کو چھوڑ دیا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:1783:مرسل و ضعیف) مراد یہ ہے کہ تکبر عناد سرکشی کے ساتھ نبیوں سے سوال کرنا نہایت مذموم حرکت ہے جو کفر کو ایمان کے بدلے مول لے اور آسانی کو سختی سے بدلے وہ سیدھی راہ سے ہٹ کر جہالت و ضلالت میں گھر جاتا ہے اسی طرح غیر ضروری سوال کرنے والا بھی جیسے اور جگہ ہے آیت «اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ کُفْرًا وَّاَحَلٰوْا قَوْمَہُمْ دَارَ الْبَوَارِ جَہَنَّمَ یَصْلَوْنَہَا وَبِئْسَ الْقَرَارُ» ( 14-إبراہیم : 28 ، 29 ) کیا تو انہیں نہیں دیکھتا جو اللہ کی نعمت کو کفر سے بدلتے ہیں اور اپنی قوم کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں وہ جہنم میں داخل ہوں گے اور وہ بڑی بری قرار گاہ ہے ۔ البقرة
109 قومی عصبیت باعث شقاوت ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حی بن اخطب اور ابویاسر بن اخطب یہ دونوں یہودی سب سے زیادہ مسلمانوں کے حاسد تھے لوگوں کو اسلام سے روکتے تھے اور عربوں سے جلتے تھے ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کعب بن اشرف کا بھی یہی شغل تھا زہری رحمہ اللہ کہتے ہیں اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے یہ بھی یہودی تھا اور اپنے شعروں میں صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کیا کرتا تھا ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:331/1) گو ان کی کتاب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق موجود تھی اور یہ بخوبی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتیں جانتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھی طرح پہچانتے تھے پھر یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ قرآن ان کی کتاب کی تصدیق کر رہا ہے ایک امی اور ان پڑھ وہ کتاب پڑھتا ہے جو سراسر معجزہ ہے لیکن صرف حسد کی بنا پر کہ یہ عرب میں آپ کیوں مبعوث ہوئے کفر و افکار پر آمادہ ہو گئے بلکہ اور لوگوں کو بھی بہکانا شروع کر دیا پس اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو حکم دیا کہ تم درگزر کرتے رہو اور اللہ کے حکم کا اور اس کے فیصلے کا انتظار کرو ۔ جیسے اور جگہ فرمایا تمہیں مشرکوں اور اہل کتاب سے بہت کڑوی باتیں سننی پڑیں گی مگر بعد میں حکم نازل فرما دیا کہ ان مشرکین سے اب دب کر نہ رہو ان سے لڑائی کرنے کی تمہیں اجازت ہے ۔ (9-التوبۃ:5) سیدنا اسامہ بن زید کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم مشرکین اور اہل کتاب سے درگزر کرتے تھے اور ان کی ایذاء اور تکلیف سہتے تھی اور اس آیت پر عمل پیرا تھے یہاں تک کہ دوسری آیتیں اتریں اور یہ حکم ہٹ گیا اب ان سے بدلہ لینے اور اپنا بچاؤ کرنے کا حکم ملا اور پہلی ہی لڑائی جو بدر کے میدان میں ہوئی اس میں کفار کو شکست فاش ہوئی اور ان کے بڑے بڑے سرداروں کی لاشیں میدان میں بچھ گئیں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:333/1) پھر مومنوں کو رغبت دلائی جاتی ہے کہ تم نماز اور زکوٰۃ وغیرہ کی حفاظت کرو یہ تمہیں آخرت کے عذابوں سے بچانے کے علاوہ دنیا میں بھی غلبہ اور نصرت دے گی پھر فرمایا کہ اللہ تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہر نیک و بدعمل کا بدلہ دونوں جہاں میں دے گا اس سے کوئی چھوٹا ، بڑا ، چھپا ، کھلا ، اچھا ، برا ، عمل پوشیدہ نہیں یہ اس لیے فرمایا کہ لوگ اطاعت کی طرف توجہ دیں اور نافرمانی سے بچیں «مبصر» کے بدلے «بصیر» کہا جیسے «مبدع» کے بدلے «بدیع» اور «مولم» کے بدلے «الیم» ۔ ابن ابی حاتم میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت میں «سَمِیعٌ بَصِیرٌ» پڑھتے تھے اور فرماتے تھے اللہ تعالیٰ ہر چیز کو دیکھتا ہے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:336/1) البقرة
110 البقرة
111 شیطان صفت مغرور یہودی یہاں پر یہودیوں اور نصرانیوں کے غرور کا بیان ہو رہا ہے کہ وہ اپنے سوا کسی کو کچھ بھی نہیں سمجھتے اور صاف کہتے ہیں کہ ہمارے سوا جنت میں کوئی نہیں جائے گا سورۃ المائدہ میں ان کا ایک قول یہ بھی بیان ہوا ہے کہ«نَحْنُ أَبْنَاءُ اللہِ وَأَحِبَّاؤُہُ» ( 5-المائدہ : 18 ) ہم اللہ تعالیٰ کی اولاد اور اس کے محبوب ہیں ،(5-المائدۃ:18) جس کے جواب میں قرآن نے کہا کہ پھر تم پر قیامت کے دن عذاب کیوں ہو گا ؟ اسی طرح کے مفہوم کا بیان پہلے بھی گزرا ہے کہ ان کا دعویٰ یہ بھی تھا کہ ہم چند دن جہنم میں رہیں گے جس کے جواب میں ارشاد باری ہوا کہ یہ دعویٰ بھی محض بے دلیل ہے اسی طرح یہاں ان کے ایک دعویٰ کی تردید کی اور کہا کہ لاؤ دلیل پیش کرو ، انہیں عاجز ثابت کر کے پھر فرمایا کہ ہاں جو کوئی بھی اللہ کا فرمانبردار ہو جائے اور خلوص و توحید کے ساتھ نیک عمل کرے اسے پورا پورا اجر و ثواب ملے گا ، جیسے اور جگہ فرمایا کہ«فَإِنْ حَاجٰوکَ فَقُلْ أَسْلَمْتُ وَجْہِیَ لِلہِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ» ( 3-آل عمران : 20 ) یہ اگر جھگڑیں تو ان سے کہ دو کہ میں اور میرے ماننے والوں نے اپنے چہرے اللہ کے سامنے متوجہ کر دیئے ہیں ۔(3-آل عمران:20) غرض یہ ہے کہ اخلاص اور مطابقت سنت ہر عمل کی قبولیت کے لیے شرط ہے تو «أَسْلَمَ وَجْہَہ» سے مراد خلوص(تفسیر ابن ابی حاتم:3371/1) اور «وَہُوَ مُحْسِنٌ» سے مراد اتباع سنت ہے نرا خلوص بھی عمل کو مقبول نہیں کرا سکتا جب تک سنت کی تابعداری نہ ہو حدیث شریف میں ہے جو شخص ایسا عمل کرے جس پر ہمارا حکم نہ ہو وہ مردود ہے ۔ (صحیح مسلم:1718) پس رہبانیت کا عمل گو خلوص پر مبنی ہو لیکن تاہم اتباع سنت نہ ہونے کی وجہ سے وہ مردود ہے ایسے ہی اعمال کی نسبت قرآن کریم کا ارشاد ہے آیت «وَقَدِمْنَآ اِلٰی مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَـعَلْنٰہُ ہَبَاءً مَّنْثُوْرًا» ( 25 ۔ الفرقان : 23 ) یعنی انہوں نے جو اعمال کئے تھے ہم نے سب رد کر دیئے دوسری جگہ فرمایا کافروں کے اعمال ریت کے چمکیلے تودوں کی طرح ہیں جنہیں پیاسا پانی سمجھتا ہے لیکن جب اس کے پاس جاتا ہے تو کچھ نہیں پاتا ۔ (24-النور:39) اور جگہ ہے کہ قیامت کے دن بہت سے چہروں پر ذلت برستی ہو گی جو عمل کرنے والے تکلیفیں اٹھانے والے ہوں گے اور بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے اور گرم کھولتا ہوا پانی انہیں پلایا جائے گا ۔ (88-الغاشیۃ:2-5)امیر المؤمنین عمر بن خطاب نے اس آیت کی تفسیر میں مراد یہود و نصاریٰ کے علماء اور عابد لیے ہیں ۔ یہ بھی یاد رہے کہ کوئی عمل گو بظاہر سنت کے مطابق ہو لیکن عمل میں اخلاص نہ ہو مقصود اللہ کی خوشنودی نہ ہو تو وہ عمل بھی مردود ہے ریا کار اور منافق لوگوں کے اعمال کا بھی یہی حال ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ «إِنَّ الْمُنَافِقِینَ یُخَادِعُونَ اللہَ وَہُوَ خَادِعُہُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَی الصَّلَاۃِ قَامُوا کُسَالَیٰ یُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا یَذْکُرُونَ اللہَ إِلَّا قَلِیلًا» ( 4-النسأ : 142 ) منافق اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں اور وہ انہیں دھوکہ دیتا ہے اور نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سستی سے کھڑے ہوتے ہیں صرف لوگوں کو دکھانے کے لیے عمل کرتے ہیں اور اللہ کا ذکر بہت ہی کم کرتے ہیں اور فرمایا آیت «فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّینَ الَّذِینَ ہُمْ عَن صَلَاتِہِمْ سَاہُونَ» ( 107-الماعون : 4 ، 7 ) ان نمازیوں کے لیے ویل ہے جو اپنی نماز سے غافل ہیں جو ریاکاری کرتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی روکتے پھرتے ہیں اور جگہ ارشاد ہے آیت «فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَاءَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا» ( 18 ۔ الکہف : 110 ) جو شخص اپنے رب کی ملاقات کا آرزو مند ہو اسے نیک عمل کرنا چاہیئے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرنا چاہیئے ۔ پھر فرمایا انہیں ان کا رب اجر دے گا اور ڈر خوف سے بچائے گا آخرت میں انہیں ڈر نہیں اور دنیا کے چھوڑنے کا ملال نہیں ۔ پھر یہود و نصاریٰ کی آپس کی بغض و عداوت کا ذکر فرمایا ، نجران کے نصرانیوں کا وفد جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو ان کے پاس یہودیوں کے علماء بھی آئے اس وقت ان لوگوں نے انہیں اور انہوں نے ان کو گمراہ بتایا حالانکہ دونوں اہل کتاب ہیں توراۃ میں انجیل کی تصدیق اور انجیل میں توراۃ کی تصدیق موجود ہے پھر ان کا یہ قول کس قدر لغو ہے ، اگلے یہود و نصاریٰ دین حق پر قائم تھے لیکن پھر بدعتوں اور فتنہ پردازیوں کی وجہ سے دین ان سے چھن گیا اب نہ یہود ہدایت پر تھے نہ نصرانی ۔ پھر فرمایا کہ نہ جاننے والوں نے بھی اسی طرح کہا اس میں بھی اشارہ انہی کی طرف ہے اور بعض نے کہا مراد اس سے یہود و نصاریٰ سے پہلے کے لوگ ہیں ۔ بعض کہتے ہیں عرب لوگ مراد ہیں ۔ امام ابن جریر اس سے عام لوگ مراد لیتے ہیں گویا سب شامل ہیں اور یہی ٹھیک بھی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر فرمایا کہ اختلاف کا فیصلہ قیامت کو خود اللہ تعالیٰ کرے گا جس دن کوئی ظلم و زور نہیں ہو گا اور یہی مضمون دوسری جگہ بھی آیا ہے سورۃ الحج میں ارشاد ہے آیت «اِنَّ اللّٰہَ یَفْصِلُ بَیْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ» ( 22 ۔ الحج : 17 ) یعنی مومنوں اور یہودیوں اور صابیوں اور نصرانیوں اور مجوسیوں اور مشرکوں میں قیامت کے دن اللہ فیصلہ فرمائے گا اللہ تعالیٰ ہر چیز پر گواہ اور موجود ہے اور جگہ ارشاد ہے آیت «قُلْ یَجْمَعُ بَیْـنَنَا رَبٰنَا ثُمَّ یَفْتَـحُ بَیْـنَنَا بِالْحَقِّ وَہُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِـیْمُ» ( 34 ۔ سبأ : 26 ) کہہ دے کر ہمارا رب ہمیں جمع کرے گا پھر حق کے ساتھ فیصلہ کرے گا ۔ وہ باخبر فیصلے کرنے والا ہے ۔ البقرة
112 البقرة
113 البقرة
114 نصاریٰ اور یہودی مکافات عمل کا شکار! اس آیت کی تفسیر میں دو قول ہیں ایک تو یہ کہ اس سے مراد نصاریٰ ہیں دوسرا یہ کہ اس سے مراد مشرکین ہیں نصرانی بھی بیت المقدس کی مسجد میں پلیدی ڈال دیتے تھے اور لوگوں کو اس میں نماز ادا کرنے سے روکتے تھے ، بخت نصر نے جب بیت المقدس کی بربادی کے لیے چڑھائی کے تھی تو ان نصرانیوں نے اس کا ساتھ دیا تھا اور مدد کی تھی ، بخت نصر بابل کا رہنے والا مجوسی تھا اور یہودیوں کی دشمنی پر نصرانیوں نے بھی اس کا ساتھ دیا تھا اور اس لیے بھی کہ بنی اسرائیل نے یحییٰ بن زکریا علیہ السلام کو قتل کر ڈالا تھا اور مشرکین نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حدیبیہ والے سال کعبۃ اللہ سے روکا تھا یہاں تک کہ ذی طویٰ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قربانیاں دینا پڑیں اور مشرکین سے صلح کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہیں سے واپس آ گئے حالانکہ یہ امن کی جگہ تھی باپ اور بھائی کے قاتل کو بھی یہاں کوئی نہیں چھیڑتا تھا اور ان کی کوشش یہی تھی کہ ذکر اللہ اور حج و عمرہ کرنے والی مسلم جماعت کو روک دیں ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:521/2) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہی قول ہے ابن جریر رحمہ اللہ نے پہلے قول کو پسند فرمایا ہے اور کہا ہے کہ مشرکین کعبۃ اللہ کو برباد کرنے کی سعی نہیں کرتے تھے یہ سعی نصاری کی تھی کہ وہ بیت المقدس کی ویرانی کے درپے ہو گئے تھے ۔ لیکن حقیقت میں دوسرا قول زیادہ صحیح ہے ، ابن زید رحمہ اللہ اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کا قول بھی یہی ہے اور اس بات کو بھی نہ بھولنا چاہیئے کہ جب نصرانیوں نے یہودیوں کو بیت المقدس سے روکا تھا اس وقت یہودی بھی محض بےدین ہو چکے تھے ان پر تو داؤد اور عیسیٰ بن مریم علیہم السلام کی زبانی لعنتیں نازل ہو چکی تھیں وہ نافرمان اور حد سے متجاوز ہو چکے تھے اور نصرانی مسیح کے دین پر تھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت سے مراد مشرکین مکہ ہیں اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ اوپر یہود و نصاریٰ کی مذمت بیان ہوئی تھی اور یہاں مشرکین عرب کی اس بدخصلت کا بیان ہو رہا ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابیوں کو مسجد الحرام سے روکا مکہ سے نکالا پھر حج وغیرہ سے بھی روک دیا ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ کا یہ فرمان کہ مکہ والے بیت اللہ کی ویرانی میں کوشاں نہ تھے اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو وہاں سے روکنے اور نکال دینے اور بیت اللہ میں بت بٹھا دینے سے بڑھ کر اس کی ویرانی کیا ہو سکتی ہے ؟ خود قرآن میں موجود ہے آیت «وَہُمْ یَصُدٰوْنَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ» ( 8 ۔ الانفال : 34 ) اور جگہ فرمایا آیت «مَا کَانَ لِلْمُشْرِکِیْنَ اَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰہِ شٰہِدِیْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ بِالْکُفْرِ أُولٰئِکَ حَبِطَتْ أَعْمَالُہُمْ وَفِی النَّارِ ہُمْ خَالِدُونَ إِنَّمَا یَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللہِ مَنْ آمَنَ بِ اللہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاۃَ وَآتَی الزَّکَاۃَ وَلَمْ یَخْشَ إِلَّا اللہَ فَعَسَیٰ أُولٰئِکَ أَن یَکُونُوا مِنَ الْمُہْتَدِینَ» ( التوبۃ : 17 ، 18 ) یعنی یہ لوگ مسجد الحرام سے روکتے ہیں مشرکوں سے اللہ کی مسجدیں آباد نہیں ہو سکتیں جو اپنے کفر کے خود گواہ ہیں جن کے اعمال غارت ہیں اور جو ہمیشہ کے لیے جہنمی ہیں مسجدوں کی آبادی ان لوگوں سے ہوتی ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والے اور نماز و زکوٰۃ کے پابند اور صرف اللہ ہی سے ڈرنے والے ہیں یہی لوگ راہ راست والے ہیں اور جگہ فرمایا آیت «ہُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدٰوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْہَدْیَ مَعْکُوْفًا اَنْ یَّبْلُغَ مَحِلَّہٗ» ( 48 ۔ الفتح : 25 ) ان لوگوں نے بھی کفر کیا اور تمہیں مسجد الحرام سے بھی روکا اور قربانیوں کو ان کے ذبح ہونے کی جگہ تک نہ پہنچنے دیا اگر ہمیں ان مومن مردوں عورتوں کا خیال نہ ہوتا جو اپنی ضعیفی اور کم قوتی کے باعث مکہ سے نہیں نکل سکے ۔ جنہیں تم جانتے بھی نہیں ہو تو ہم تمہیں ان سے لڑ کر ان کے غارت کر دینے کا حکم دیتے لیکن یہ بےگناہ مسلمان پیس نہ دیئے جائیں اس لیے ہم نے سردست یہ حکم نہیں دیا لیکن یہ کفار اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے تو وہ وقت دور نہیں جب ان پر ہمارے درد ناک عذاب برس پڑیں ۔ پس جب وہ مسلمان ہستیں جن سے مسجدوں کی آبادی حقیقی معنی میں ہے وہ ہی روک دیئے گئے تو مسجدوں کے اجاڑنے میں کون سی کمی رہ گئی ؟ مسجدوں کی آبادی صرف ظاہری زیب و زینت رنگ و روغن سے نہیں ہوتی بلکہ اس میں ذکر اللہ ہونا اس میں شریعت کا قائم رہنا اور شرک اور ظاہری میل کچیل سے پاک رکھنا یہ ان کی حقیقی آبادی ہے پھر فرمایا کہ انہیں لائق نہیں کہ بے خوف ہو کر یہ مسجد میں آئیں ۔ مطلب یہ ہے کہ اے مسلمانو انہیں بے خوفی اور بے باکی کے ساتھ بیت اللہ میں آنے دو ہم تمھیں غالب کر دیں گے اس وقت یہی کرنا چنانچہ جب مکہ فتح ہو گیا اگلے سال ۹ہجری اعلان کرا دیا کہ اس سال کے بعد حج میں کوئی مشرک نہ آنے پائے اور بیت اللہ شریف کا طواف کوئی ننگا ہو کر نہ کرے جن لوگوں کے درمیان صلح کی کوئی مدت مقرر ہوئی ہے وہ قائم ہے ۔ (صحیح بخاری:365) یہ حکم دراصل تصدیق اور عمل ہے اس آیت پر آیت «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِکُونَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِہِمْ ہٰذَا» ( 9 ۔ التوبہ : 28 ) یعنی مشرک لوگ نجس ہیں اس سال کے بعد انہیں مسجد الحرام میں نہ آنے دو اور یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ چاہیئے تو یہ تھا کہ یہ مشرک کانپتے ہوئے اور خوف زدہ مسجد میں آئیں لیکن برخلاف اس کے الٹے یہ مسلمانوں کو روک رہے ہیں یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ ایمانداروں کو بشارت دیتا ہے کہ عنقریب میں تمہیں غلبہ دوں گا اور یہ مشرک اس مسجد کی طرف رخ کرنے سے بھی کپکپانے لگیں گے چنانچہ یہی ہوا اور حضور علیہ السلام نے وصیت کی کہ جزیرہ عرب میں دو دین باقی نہ رہنے پائیں اور یہود و نصاریٰ کو وہاں سے نکال دیا جائے ۔(مؤطا:کتاب الجامع892/2:مرسل) الحمداللہ کہ اس امت کے بزرگوں نے اس وصیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل بھی کر دکھایا اس سے مسجدوں کی فضیلت اور بزرگی بھی ثابت ہوئی بالخصوص اس جگہ کی اور مسجد کی جہاں سب سے بڑے اور کل جن و انس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھیجے گئے تھے ۔ ان کافر پر دنیا کی رسوائی بھی آئی ، جس طرح انہوں نے مسلمانوں کو روکا جلا وطن کیا ٹھیک اس کا پورا بدلہ انہیں ملا یہ بھی روکے گئے ، جلا وطن کئے گئے اور ابھی اخروی عذاب باقی ہیں کیونکہ انہوں نے بیت اللہ شریف کی حرمت توڑی وہاں بت بٹھائے غیر اللہ سے دعائیں اور مناجاتیں شروع کر دیں ۔ ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف کیا وغیرہ اور اگر اس سے مراد نصرانی لیے جائیں تو بھی ظاہر ہے کہ انہوں نے بھی بیت المقدس کی بے حرمتی کی تھی ، بالخصوص اس صخرہ ( پتھر ) کی جس کی طرف یہود نماز پڑھتے تھے ، اسی طرح جب یہودیوں نے بھی نصرانیوں سے بہت زیادہ ہتک کی اور تو ان پر ذلت بھی اس وجہ سے زیادہ نازل ہوئی دنیا کی رسوائی سے مراد امام مہدی کے زمانہ کی رسوائی بھی ہے اور جزیہ کی ادائیگی بھی ہے حدیث شریف میں ایک دعا وارد ہوئی ہے ۔ دعا «اَللّٰھُمَّ اَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِیْ الْاُمُوْرِ کُلِّھَا وَاَجِرْ نَا مِنْ خِزْیِ الدٰنْیَا وَعَذَابِ الْآخِرَۃِ» اے اللہ تو ہمارے تمام کاموں کا انجام اچھا کر اور دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے نجات دے ۔ (مسند احمد:181/4:ضعیف) یہ حدیث حسن ہے مسند احمد میں موجود ہے صحاح ستہ میں نہیں اس کے راوی بسر بن ارطاۃ رضی اللہ عنہ بن ارطاۃ صحابی ہیں ۔ ان سے ایک تو یہ حدیث مروی ہے دوسری وہ حدیث مروی ہے جس میں ہے کہ غزوے اور جنگ کے موقعہ پر ہاتھ نہ کاٹے جائیں ۔ (سنن ابوداود:4408 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) البقرة
115 کعبہ صرف علامت وحدت و سمت ہے اللہ کا جمال و جلال غیر محدود ہے اس آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان اصحاب رضی اللہ عنہم کو تسلی دی جاری ہے جو مکہ سے نکالے گئے اور اپنی مسجد سے روکے گئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ شریف میں نماز بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھتے تو کعبۃ اللہ بھی سامنے ہی ہوتا تھا جب مدینہ تشریف لائے تو سولہ سترہ ماہ تک تو ادھر ہی نماز پڑھتے رہے مگر پھر اللہ تعالیٰ نے کعبۃ اللہ کی طرف متوجہ ہونے کا حکم دیا ۔ (صحیح بخاری:399) امام ابوعبیدہ قاسم بن سلام رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ناسخ منسوخ میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ سے روایت کی ہے کہ قرآن میں سب سے پہلا منسوخ حکم یہی قبلہ کا حکم ہے «وَلِلہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ» والی آیت نازل ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھنے لگے پھر آیت «وَمِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ» ( 2 ۔ البقرہ : 149 ) نازل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کی طرف متوجہ ہو کر نماز ادا کرنی شروع کی ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:346/1) مدینہ میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے لگے تو یہود بہت خوش ہوئے لیکن جب یہ حکم چند ماہ کے بعد منسوخ ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی چاہت ، دعا اور انتظار کے مطابق کعبۃ اللہ کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا تو ان یہودیوں نے طعنے دینے شروع کر دیئے کہ اب اس قبلہ سے کیوں ہٹ گئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ مشرق و مغرب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے پھر یہ اعتراض کیا ؟ جدھر اس کا حکم ہو پھر جانا چاہیئے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:1835:ضعیف و منقطع) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ مشرق مغرب میں جہاں کہیں بھی ہو منہ کعبہ کی طرف کرو ، بعض بزرگوں کا بیان ہے کہ یہ آیت کعبہ کی طرف متوجہ ہونے کے حکم سے پہلے اتری ہے اور مطلب یہ ہے کہ مشرق مغرب جدھر چاہو منہ پھیرو سب جہتیں اللہ کی ہیں اور سب طرف اللہ موجود ہے اس سے کوئی جگہ خالی نہیں جیسے فرمایا آیت «وَلَآ اَدْنٰی مِنْ ذٰلِکَ وَلَآ اَکْثَرَ اِلَّا ہُوَ مَعَہُمْ اَیْنَ مَا کَانُوْا» ( 58 ۔ المجادلہ : 7 ) تھوڑے بہت جو بھی ہوں اللہ ان کے ساتھ ہے ۔ پھر یہ حکم منسوخ ہو کر کعبۃ اللہ کی طرف متوجہ ہونا فرض ہوا ۔ اس قول میں جو یہ لفظ ہیں کہ اللہ سے کوئی جگہ خالی نہیں اگر اس سے مراد علم اللہ ہو تو صحیح ہے کوئی مکان اللہ کے علم سے خالی نہیں اور اگر ذات باری مراد ہو تو ٹھیک نہیں اللہ تعالیٰ کی پاک ذات اس سے بہت بلند و بالا ہے کہ وہ اپنی مخلوق میں سے کسی چیز میں محصور ہو ایک مطلب آیت کا یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ یہ آیت سفر اور راہ روی اور خوف کے وقت کے لیے ہے کہ ان وقتوں میں نفل نماز کو جس طرف منہ ہو ادا کر لیا کرو ۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ان کی اونٹنی کا منہ جس طرح ہوتا تھا نماز پڑھ لیتے تھے اور فرماتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہی تھا اور اس آیت کا مطلب بھی یہی ہے آیت کا ذکر کئے بغیر یہ حدیث مسلم ترمذی نسائی ابن ابی حاتم ابن مردویہ وغیرہ میں مروی ہے اور اصل اس کی صحیح بخاری صحیح مسلم میں بھی موجود ہے ۔ (صحیح بخاری:1096) صحیح بخاری شریف میں ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے جب نماز خوف کے بارے میں پوچھا جاتا تو نماز خوف کو بیان فرماتے اور کہتے کہ جب اس سے بھی زیادہ خوف ہو تو پیدل اور سوار کھڑے پڑھ لیا کرو منہ خواہ قبلہ کی جانب ہو خواہ نہ ہو نافع رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما میرے خیال سے اسے مرفوع بیان کرتے تھے ۔ (صحیح بخاری:4535) امام شافعی رحمہ اللہ کا مشہور فرمان اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ سفر خواہ پر امن ہو خواہ خوف ڈر اور لڑائی کا ہو سواری پر نفل ادا کر لینے جائز ہیں امام مالک رحمہ اللہ اور آپ رحمہ اللہ کی جماعت اس کے خلاف ہے ۔ امام ابو یوسف رحمہ اللہ اور ابوسعید اصطخری بغیر سفر کے بھی اسے جائز کہتے ہیں ۔ سیدنا انس سے بھی یہ روایت ہے امام ابو جعفر طبری رحمہ اللہ بھی اسے پسند فرماتے ہیں یہاں تک کہ وہ تو پیدل چلنے والے کو بھی رخصت دیتے ہیں ۔ بعض اور مفسرین کے نزدیک یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہیں قبلہ معلوم نہ ہو سکا اور انہوں نے قیاس سے مختلف جہتوں کی طرف نماز پڑھی جس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ان کی وہ نماز ادا شدہ بتائی گئی سیدنا ربیعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے ایک منزل پر اترے رات اندھیری تھی لوگوں نے پتھر لے لے کر بطور نشان کے قبلہ رخ رکھ کر نماز پڑھنی شروع کر دی صبح اٹھ کر روشنی میں دیکھا تو نماز قبلہ کی طرف ادا نہیں ہوئی تھی ، ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی ، یہ حدیث ترمذی شریف میں ہے ۔(سنن ترمذی:345،قال الشیخ الألبانی:حسن) امام صاحب نے اسے حسن کہا ہے اس کے دو راوی ضعیف ہیں ایک اور روایت میں ہے کہ اس وقت گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا تھا اور ہم نے نماز پڑھ کر اپنے اپنے سامنے خط کھینچ دیئے تھے تاکہ صبح روشنی میں معلوم ہو جائے کہ نماز قبلہ کی طرف ادا ہوئی یا نہیں ؟ صبح معلوم ہوا کہ قبلہ جاننے میں ہم نے غلطی کی لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں وہ نماز لوٹانے کا حکم نہیں دیا اور یہ آیت نازل ہوئی اس روایت کے بھی دو راوی ضعیف ہیں یہ روایت دارقطنی وغیرہ میں موجود ہے ۔(دار قطنی:271/1:ضعیف) ایک روایت میں ہے کہ ان کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ تھے یہ بھی سنداً ضعیف ہے ایسی نماز کے لوٹانے کے بارے میں علماء کے دو قول میں سے ٹھیک قول یہی ہے کہ دوہرائی نہ جائے اور اسی قول کی تائید کرنے والی یہ حدیثیں ہیں جو اوپر بیان ہوئیں ۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اس کے نازل ہونے کا باعث نجاشی ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی موت کی خبر دی اور کہا ان کے جنازہ کی غائبانہ نماز پڑھو تو بعض نے کہا کہ وہ تو مسلمان نہ تھا نصرانی تھا اس پر آیت نازل ہوئی کہ آیت «وَإِنَّ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ لَمَن یُؤْمِنُ بِ اللہِ وَمَا أُنزِلَ إِلَیْکُمْ وَمَا أُنزِلَ إِلَیْہِمْ خَاشِعِینَ لِلہِ لَا یَشْتَرُونَ بِآیَاتِ اللہِ ثَمَنًا قَلِیلًا» ( 3-آل عمران : 199 ) یعنی بعض اہل کتاب اللہ تعالیٰ پر اور اس چیز پر جو اے مسلمانو تمہاری طرف نازل ہوئی اور اس چیز پر جو ان پر نازل کی گئی ایمان لاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہتے ہیں (تفسیر ابن جریر الطبری:1846:ضعیف و مرسل) صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم وہ قبلہ کی طرف تو نماز نہیں پڑھتا تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی لیکن یہ روایت غریب ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اس کے معنی یہ بھی کئے گئے ہیں کہ وہ بیت المقدس کی طرف اس لیے نمازیں پڑھتے رہے کہ انہیں اس کے منسوخ ہو جانے کا علم نہیں ہوا تھا ، قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ان کے جنازے کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی اور یہ دلیل ہے کہ جنازے کی نماز غائبانہ ادا کرنی چاہیئے ۔ اور اس کے نہ ماننے والے اس حکم کو مخصوص جانتے ہیں اور اس کی تین تاویلیں کرتے ہیں ایک تو یہ کہ آپ نے اس کے جنازے کو دیکھ لیا زمین آپ کے لیے سمیٹ لی گئی تھی ، دوسری یہ کہ چونکہ وہاں ان کے پاس ان کے جنازہ کی نماز پڑھنے والا اور کوئی نہ تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں غائبانہ ادا کی ابن عربی اسی جواب کو پسند کرتے ہیں قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ ناممکن ہے کہ ایک بادشاہ مسلمان ہو اور اس کی قوم کا کوئی شخص اس کے پاس مسلمان نہ ہو ، ابن عربی اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ شاید ان کے نزدیک جنازے کی نماز ان کی شریعت میں نہ ہو ، یہ جواب بہت اچھا ہے ، تیسری یہ کہ نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے ادا کی کہ دوسرے لوگوں کی رغبت کا سبب ہو اور اس جیسے دوسرے بادشاہ بھی دین اسلام کی طرف مائل ہوں ۔ ( لیکن یہ تینوں تاویلیں ظاہر کے خلاف ہونے کے علاوہ صرف احتمالات کی بنا پر ہیں اور انہیں مان لینے کے بعد بھی مسئلہ وہیں رہتا ہے کیا جنازہ غائبانہ پڑھنا چاہیئے کیونکہ گو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جنازے کا مشاہدہ کر لیا لیکن صحابہ رضی اللہ عنہم کی نماز تو غائبانہ ہی رہی ۔ اگر ہم دوسرا جواب مان لیں تو بھی جنازہ تو غائبانہ نہ ہی ہوا جو لوگ سرے سے نماز جنازہ غائبانہ کے قائل ہی نہیں وہ تو اس صورت میں بھی قائل نہیں ہیں اور یہ بات تو دل کو لگتی ہی نہیں کہ ان کے نزدیک نماز جنازہ شروع نہ ہو شریعت ان کی بھی اسلام ہی تھی نہ کہ کوئی اور تیسرا جواب بھی کچھ ایسا ہی ہے اور برتقدیر تسلیم اب بھی وہ وجہ باقی ہے کہ جنازہ غائبانہ ادا کیا کریں تاکہ دوسرے لوگوں کی رغبت اسلام کا باعث ہو «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ مترجم ) ابن مردویہ میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اہل مدینہ اہل شام اہل عراق کا قبلہ مشرق و مغرب کے درمیان ہے ۔ (سنن ترمذی:342 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ روایت ترمذی میں بھی دوسرے الفاظ سے مروی ہے اور اس کے ایک راوی ابومعشر کے حافظہ پر بعض اہل علم نے کلام کیا ہے امام ترمذی نے اسے ایک اور سند سے بھی وارد کیا ہے اور اسے حسن صحیح کہا ہے ۔ (سنن ترمذی:344 ، قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ابن ابوطالب سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی یہ مروی ہے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب تو مغرب کو اپنی دائیں جانب اور مشرق کو بائیں جانب کر لے تو تیرے سامنے کی جہت قبلہ ہو جائے گا عمر سے بھی اوپر کی طرح حدیث مروی ہے کہ مشرق و مغرب کے درمیان قبلہ ہے (سنن ترمذی:344) ملاحظہ ہو دارقطنی بیہقی وغیرہ (دار قطنی :270/1)امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ مطلب بھی اس آیت کا ہو سکتا ہے کہ تم مجھ سے دعائیں مانگنے میں اپنا منہ جس طرف بھی کرو میرا منہ بھی اسی طرف پاؤ گے اور میں تمہاری دعاؤں کو قبول فرماؤں گا ، مجاہد سے مروی ہے کہ جب یہ آیت «ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ» ( 40 ۔ غافر : 60 ) مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا اتری تو لوگوں نے کہا کس طرف رخ کر کے دعا کریں اس کے جواب میں آیت «فَاَیْنَـمَا تُوَلٰوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ» ( 2 ۔ البقرہ : 115 ) نازل ہوئی پھر فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام وسعتوں پر غالب ، گنجائش والا اور علم والا ہے جس کی کفایت سخاوت اور فضل و کرم نے تمام مخلوق کا احاطہٰ کر کھا ہے وہ سب چیزوں کو جانتا بھی ہے کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی اس کے علم سے باہر نہیں بلکہ وہ تمام چیزوں کا عالم ہے ۔ البقرة
116 اللہ ہی مقتدر اعلیٰ ہے کے دلائل یہ اور اس کے ساتھ کی آیت نصرانیوں کے رد میں ہے اور اس طرح ان جیسے یہود و مشرکین کی تردید میں ہے جو اللہ کی اولاد بتاتے تھے ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین و آسمان وغیرہ تمام چیزوں کا تو اللہ مالک ہے ان کا پیدا کرنے والا انہیں روزیاں دینے والا ان کے اندازے مقرر کرنے والا انہیں قبضہ میں رکھنے والا ان میں ہر تغیر و تبدل کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے پھر بھلا اس مخلوق میں سے کوئی اس کی اولاد کیسے ہو سکتا ہے ؟ نہ عزیر اور نہ ہی عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے بن سکتے ہیں جیسے کہ یہود و نصاریٰ کا خیال تھا نہ فرشتے اس کی بیٹیاں بن سکتے ہیں جیسے کہ مشرکین عرب کا خیال تھا ۔ اس لیے دو برابر کی مناسبت رکھنے والے ہم جنس سے اولاد ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا نہ کوئی نظیر نہ اس کی عظمت و کبریائی میں اس کا کوئی شریک نہ اس کی جنس کا کوئی اور «بَدِیعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنَّیٰ یَکُونُ لَہُ وَلَدٌ وَلَمْ تَکُن لَّہُ صَاحِبَۃٌ وَخَلَقَ کُلَّ شَیْءٍ وَہُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ» ( 6-الانعام : 101 ) وہ تو آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کرنے والا ہے اس کی اولاد کیسے ہو گی ؟ اس کی کوئی بیوی بھی نہیں وہ ہر چیز کا خالق اور ہر چیز کا عالم ہے ۔ «وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا لَّقَدْ جِئْتُمْ شَیْئًا إِدًّا تَکَادُ السَّمَاوَاتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَتَنشَقٰ الْأَرْضُ وَتَخِرٰ الْجِبَالُ ہَدًّا أَن دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا وَمَا یَنبَغِی لِلرَّحْمٰنِ أَن یَتَّخِذَ وَلَدًا إِن کُلٰ مَن فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا لَّقَدْ أَحْصَاہُمْ وَعَدَّہُمْ عَدًّا وَکُلٰہُمْ آتِیہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَرْدًا» ( 19-مریم : 88 - 95 ) یہ لوگ رحمن کی اولاد بتاتے ہیں یہ کتنی بے معنی اور بے ہودہ بے تکی بات تم کہتے ہو ؟ اتنی بری بات زبان سے نکالتے ہو کہ اس سے آسمانوں کا پھٹ جانا اور زمین کا شق ہو جانا اور پہاڑوں کا ریزہ ریز ہو جانا ممکن ہے ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ صاحب اولاد ہے اللہ کی اولاد تو کوئی ہو ہی نہیں سکتی اس کے سوا جو بھی ہے سب اس کی ہی ملکیت ہے زمین و آسمان کی تمام ہستیاں اس کی غلامی میں ظاہر ہونے والی ہیں جنہیں ایک ایک کر کے اس نے گھیر رکھا ہے اور شمار کر رکھا ہے ان میں سے ہر ایک اس کے پاس قیامت والے دن تنہا تنہا پیش ہونے والی ہے ۔ پس غلام اولاد نہیں بن سکتا ملکیت اور ولدیت دو مختلف اور متضاد حیثیتیں ہیں دوسری جگہ پوری سورت میں اس کی نفی فرمائی ارشاد ہوا آیت «قُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ اللہُ الصَّمَدُ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ وَلَمْ یَکُن لَّہُ کُفُوًا أَحَدٌ» ( 112-الاخلاص : 1-4 ) کہ دو کہ اللہ ایک ہی ہے اللہ بے نیاز ہے اس کی نہ اولاد ہے نہ ماں باپ اس کا ہم جنس کوئی نہیں ۔ ان آیتوں اور ان جیسی اور آیتوں میں اس خالق کائنات نے اپنی تسیح و تقدیس بیان کی اور اپنا بے نظیر بے مثل اور لا شریک ہونا ثابت کیا اور ان مشرکین کے اس گندے عقیدے کو باطل قرار دیا اور بتایا کہ وہ تو سب کا خالق و رب ہے پھر اس کی اولاد بیٹے بیٹیاں کہاں سے ہوں گی ؟ سورۃ البقرہ کی اس آیت کی تفسیر میں صحیح بخاری شریف کی ایک قدسی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے ابن آدم جھٹلاتا ہے اسے یہ لائق نہ تھا مجھے وہ گالیاں دیتا ہے اسے یہ نہیں چاہیئے تھا اس کا جھٹلانا تو یہ ہے کہ وہ خیال کر بیٹھتا ہے کہ میں اسے مار ڈالنے کے بعد پھر زندہ کرنے پر قادر نہیں ہوں اور اس کا گالیاں دینا یہ ہے کہ وہ میری اولاد بتاتا ہے حالانکہ میں پاک ہوں اور میری اولاد اور بیوی ہو,(صحیح بخاری:4482) اس سے بہت بلند و بالا ہوں یہی حدیث دوسری سندوں سے اور کتابوں میں بھی با اختلاف الفاظ مروی ہے صحیین میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بری باتیں سن کر صبر کرنے میں اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی کامل نہیں ۔ لوگ اس کی اولاد بتائیں اور وہ انہیں رزق و عافیت دیتا رہے,(صحیح بخاری:6099) پھر فرمایا ہر چیز اس کی اطاعت گزار ہے اس کی غلامی کا اقرار کئے ہوئے ہے اس کے لیے مخلص ۔ اس کی سرکار میں قیامت کے روز دست بستہ کھڑی ہونے والی اور دنیا میں بھی عبادت گزار ہے جس کو کہے یوں ہو جاؤ یا اس طرح بن ۔ فوراً وہ اسی طرح ہو جاتی اور بن جاتی ہے ۔ اس طرح ہر ایک اس کے سامنے پست و مطیع ہے کفار نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے مطیع ہیں ہر موجود کے سائے اللہ کے سامنے جھکتے رہتے ہیں ، قرآن نے اور جگہ فرمایا آیت « وَلِلہِ یَسْجُدُ مَن فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَکَرْہًا وَظِلَالُہُم بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ» ( 13-سورۃ الرعد : 15 ) آسمان و زمین کی کل چیزیں خوشی ناخوشی اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتی ہیں ان کے سائے صبح شام جھکتے رہتے ہیں۔ ایک حدیث میں مروی ہے کہ جہاں کہیں قرآن میں «قنوت» کا لفظ ہے وہاں مراد اطاعت ہے ۔(تفسیر ابن ابی حاتم:1135:ضعیف) لیکن اس کا مرفوع ہونا صحیح نہیں ممکن ہے صحابی کا یا اور کسی کا کلام ہو اس سند سے اور آیتوں کی تفسیر بھی مرفوعاً مروی ہے لیکن یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ ضعیف ہے کوئی شخص اس سے دھوکہ میں نہ پڑے۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر فرمایا وہ آسمان و زمین کو بغیر کسی سابقہ نمونہ کے پہلی ہی بار کی پیدائش میں پیدا کرنے والا ہے لغت میں بدعت کے معنی نو پیدا کرنے نیا بنانے کے ہیں حدیث میں ہے ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔ (سنن ابوداود:4607 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ تو شرعی بدعت ہے کبھی بدعت کا اطلاق صرف لغتہً ہوتا ہے شرعاً مراد نہیں ہوتی ۔ جیسے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز تراویح پر جمع کیا اور پھر اسے اسی طرح جاری دیکھ کر فرمایا تھا اچھی بدعت ہے ۔ (صحیح بخاری:2010) بدیع کا مبدع سے تصرف کیا گیا ہے جیسے «مولم» سے «الیم» اور «مسمع» سے «سمیع» معنی مبدع کے انشا اور نو پیدا کرنے والے کے ہیں بغیر مثال بغیر نمونہ اور بغیر پہلی پیدائش کے پیدا کرنے والے بدعتی کو اس لیے بدعتی کہا جاتا ہے کہ وہ بھی اللہ کے دین میں وہ کام یا وہ طریقہ ایجاد کرتا ہے جو اس سے پہلے شریعت میں نہ ہو اسی طرح کسی نئی بات کے پیدا کرنے والے کو عرب مبتدع کہتے ہیں ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ اولاد سے پاک ہے وہ آسمان و زمین کی تمام چیزوں کا مالک ہے ہر چیز اس کی وحدانیت کی دلیل ہے ہر چیز اس کی اطاعت گزاری کا اقرار کرتی ہے ۔ سب کا پیدا کرنے والا ، بنانے والا ، موجود کرنے والا ، بغیر اصل اور مثال کے انہیں وجود میں لانے والا ، ایک وہی رب العالمین ہے اس کی گواہی ہر چیز دیتی ہے خود مسیح علیہ السلام بھی اس کے گواہ اور بیان کرنے والے ہیں جس رب نے ان تمام چیزوں کو بغیر نمونے کے اور بغیر مادے اور اصل کے پیدا کیا اس نے عیسیٰ علیہ السلام کو بھی بے باپ پیدا کر دیا پھر کوئی وجہ نہیں کہ انہیں تم خواہ مخواہ اللہ کا بیٹا مان لو پھر فرمایا اس اللہ کی قدرت سلطنت سطوت و شوکت ایسی ہے کہ جس چیز کو جس طرح کی بنانا اور پیدا کرنا چاہیئے اسے کہہ دیتا ہے کہ اس طرح کی اور ایسی ہو جا وہ اسی وقت ہو جاتی ہے جیسے فرمایا آیت «اِنَّمَآ اَمْرُہٗٓ اِذَآ اَرَادَ شَـیْـــــًٔا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ» ( 36 ۔ یس : 82 ) دوسری جگہ فرمایا آیت «اِنَّمَا قَوْلُــنَا لِشَیْءٍ اِذَآ اَرَدْنٰہُ اَنْ نَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ» ( 16 ۔ النحل : 40 ) اور ارشاد ہوتا ہے آیت «وَمَآ اَمْرُنَآ اِلَّا وَاحِدَۃٌ کَلَمْحٍۢ بِالْبَصَرِ» ( 54 ۔ القمر : 50 ) شاعر کہتا ہے ۔ «ذا ما اراد اللہ امرا فانما یقول لہ کن قولہ فیکون» مطلب اس کا ہے کہ ادھر کسی چیز کا اللہ نے ارادہ فرمایا اس نے کہا ہو جا وہیں وہ ہو گیا اس کے ارادے سے مراد جدا نہیں۔ پس مندرجہ بالا آیت میں عیسائیوں کو نہایت لطیف پیرایہ میں یہ بھی سمجھا دیا گیا کہ عیسیٰ علیہ السلام بھی اسی کن کے کہنے سے پیدا ہوئے ہیں دسری جگہ صاف صاف فرما دیا آیت «اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ۭخَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ» ( 3 ۔ آل عمران : 59 ) یعنی عیسیٰ علیہ السلام کی مثال اللہ تعالیٰ کے نزدیک آدم جیسی ہے جنہیں مٹی سے پیدا کیا پھر فرمایا ہو جا وہ ہو گئے ۔ البقرة
117 البقرة
118 طلب نظارہ ، ایک حماقت رافع بن حریملہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ اگر آپ سچے ہیں تو اللہ تعالیٰ خود ہم سے کیوں نہیں کہتا ؟ ہم بھی تو خود اس سے اس کا کلام سنیں ، اس پر یہ آیت اتری (تفسیر ابن ابی حاتم:352/1:) مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ بات نصرانیوں نے کہی تھی ، ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہی ٹھیک بھی معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ آیت انہی سے متعلق بیان کے دوران میں ہے لیکن یہ قول سوچنے کے قابل ہے قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے کہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی اطلاع خود جناب باری ہمیں کیوں نہیں دیتا ؟ یہی بات ٹھیک ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ بعض اور مفسر کہتے ہں یہ قول کفار عرب کا تھا اسی طرح بےعلم لوگوں نے بھی کہا تھا ان سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں ، (تفسیر ابن ابی حاتم:353/1) قرآن کریم میں اور جگہ ہے آیت «وَإِذَا جَاءَتْہُمْ آیَۃٌ قَالُوا لَن نٰؤْمِنَ حَتَّیٰ نُؤْتَیٰ مِثْلَ مَا أُوتِیَ رُسُلُ اللہِ ۘ اللہُ أَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہُ سَیُصِیبُ الَّذِینَ أَجْرَمُوا صَغَارٌ عِندَ اللہِ وَعَذَابٌ شَدِیدٌ بِمَا کَانُوا یَمْکُرُونَ» ( 6 ۔ الانعام : 124 ) ان کے پاس جب کبھی کوئی نشانی آتی ہے تو کہتے ہیں ہم تو نہیں مانیں گے جب تک ہم کو بھی وہ نہ دیا جائے جو اللہ کے رسولوں کو دیا گیا اور جگہ فرمایا آیت «وَقَالُوْا لَنْ نٰؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْبُوْعًا» ( 17 ۔ الاسرآء : 90 ) یعنی انہوں نے کہا کہ ہم آپ پر ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک کہ آپ ہمارے لیے ان زمینوں میں چشمے جاری نہیں کر دیں اور جگہ فرمایا آیت «وَقَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَاءَنَا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْمَلٰیِٕکَۃُ اَوْ نَرٰی رَبَّنَا» ( 25 ۔ الفرقان : 21 ) یعنی ہماری ملاقات کے منکر کہتے ہیں ہم پر فرشتے کیوں نہیں اتارے جاتے اللہ تعالیٰ ہمارے سامنے کیوں نہیں آتا اور جگہ فرمایا آیت «بَلْ یُرِیْدُ کُلٰ امْرِۍ مِّنْہُمْ اَنْ یٰؤْتٰی صُحُفًا مٰنَشَّرَۃً» ( 74 ۔ المدثر : 52 ) ان میں سے ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کے پاس کھلی ہوئی کتاب آئے وغیرہ وغیرہ ۔ آیتیں جو صاف بتاتی ہیں کہ مشرکین عرب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف تکبر و عناد کی بنا پر ایسی ایسی چیزیں طلب کیں اسی طرح یہ مطالبہ بھی انہی مشرکین کا تھا ، ان سے پہلے اہل کتاب نے بھی ایسے ہی بے معنی سوالات کئے تھے ارشاد ہوتا ہے آیت «یَسْــَٔــلُکَ اَہْلُ الْکِتٰبِ اَنْ تُنَزِّلَ عَلَیْہِمْ کِتٰبًا مِّنَ السَّمَاءِ فَقَدْ سَاَلُوْا مُوْسٰٓی اَکْبَرَ مِنْ ذٰلِکَ» ( 4 ۔ النسآء : 153 ) اہل کتاب تم سے چاہتے ہیں کہ تم ان پر کوئی آسمانی کتاب اتارو اور موسیٰ علیہ السلام سے انہوں نے اس سے بھی بڑا سوال کیا تھا ان سے تو کہا تھا کہ ہمیں اللہ کو ہماری آنکھوں سے دکھا اور جگہ فرمان ہے کہ «وَإِذْ قُلْتُمْ یَا مُوسَیٰ لَن نٰؤْمِنَ لَکَ حَتَّیٰ نَرَی اللہَ جَہْرَۃً» ( البقرۃ : 55 ) جب تم نے کہا اے موسیٰ علیہ السلام ہم تجھ پر ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک اپنے رب کو سامنے نہ دیکھ لیں پھر فرمایا ان کے اور ان کے دل یکساں اور مشابہ ہو گئے یعنی ان مشرکین کے دل سابقہ کفار جیسے ہو گئے اور جگہ فرمایا ہے کہ «کَذٰلِکَ مَا أَتَی الَّذِینَ مِن قَبْلِہِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا قَالُوا سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ» ( 53-الذاریات : 52 ) پہلے گزرنے والوں نے بھی اپنے انبیاء کو جادوگر اور دیوانہ کہا تھا انہوں نے بھی ان ہی باتوں کو دہرایا تھا ۔ پھر فرمایا ہم نے یقین والوں کے لیے اپنی آیتیں اسی طرح بیان کر دیں ہیں جن سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق عیاں ہے کسی اور چیز کی وضاحت باقی نہیں رہی یہی نشانیاں ایمان لانے کے لیے کافی ہیں ہاں جن کے دلوں پر مہر لگی ہوئی ہو انہیں کسی آیت سے کوئی فائدہ نہ ہو گا جیسے فرمایا آیت «إِنَّ الَّذِینَ حَقَّتْ عَلَیْہِمْ کَلِمَتُ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُونَ وَلَوْ جَاءَتْہُمْ کُلٰ آیَۃٍ حَتَّیٰ یَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِیمَ» ( 10-یونس : 96 ، 97 ) جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہو چکی ہے وہ ایمان نہ لائیں گے گو ان کے پاس تمام آیتیں آ جائیں جب تک کہ وہ درد ناک عذاب نہ دیکھ لیں ۔ البقرة
119 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نصیحت کی حد تک مسؤل ہیں حدیث میں ہے خوشخبری جنت کی اور ڈراوا جہنم سے (تفسیر ابن ابی حاتم:354/1) «لا تسئل» کی دوسری قرأت ما تسئل بھی ہے اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت میں «لن تسئل» بھی ہے یعنی تجھ سے کفار کی بابت سوال نہیں کیا جائے گا جیسے فرمایا آیت «فَإِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلَاغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُ» ( 13-الرعد : 40 ) یعنی تجھ پر صرف پہنچا دینا ہے حساب تو ہمارے ذمہ ہے اور فرمایا آیت «فَذَکِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَکِّرٌ لَّسْتَ عَلَیْہِم بِمُصَیْطِرٍ» 88 ۔ الغاشیہ : 22 ، 21 ) تو نصیحت کرتا رہ تو صرف نصیحت کرنے والا ہے ان پر داروغہ نہیں اور جگہ فرمایا آیت «نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا یَقُولُونَ وَمَا أَنتَ عَلَیْہِم بِجَبَّارٍ فَذَکِّرْ بِالْقُرْآنِ مَن یَخَافُ وَعِیدِ» ( 50-ق : 45 ) ہم ان کی باتیں بخوبی جانتے ہیں تم ان پر جبر کرنے والے نہیں ہو تو قرآن کی نصیحتیں انہیں سنا دو جو قیامت سے ڈرتے ہوں اسی مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں ایک قرأت اس کی «ولا تسائل» بھی ہے یعنی ان جہنمیوں کے بارے میں اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے کچھ نہ پوچھو ۔ عبدالرزاق میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کاش کہ میں اپنے ماں باپ کا حال جان لیتا ، کاش کہ میں اپنے ماں باپ کا حال جان لیتا ، کاش کہ میں اپنے ماں باپ کا حال جان لیتا ۔ اس پر یہ فرمان نازل ہوا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:1877:ضعیف و مرسل) پھر آخری دم تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے والدین کا ذکر نہ فرمایا ابن جریر رحمہ اللہ نے بھی اسے بروایت موسیٰ بن عبیدہ وارد کیا ہے لیکن اس راوی پر کلام ہے قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ جہنمیوں کا حال اتنا بد اور برا ہے کہ تم کچھ نہ پوچھو ، تذکرہ میں قرطبی رحمہ اللہ نے ایک روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین زندہ کئے گئے اور ایمان لے آئے اور صحیح مسلم میں جو حدیث ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے سوال پر فرمایا ہے کہ میرا باپ اور تیرا باپ آگ میں ہیں ۔ (صحیح مسلم:203) ان کا جواب بھی وہاں ہے لیکن یاد رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماں باپ کے زندہ ہونے کی روایت کتب صحاح ستہ وغیرہ میں نہیں اور اس کی اسناد ضعیف ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ابن جریر رحمہ اللہ کی ایک مرسل حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن پوچھا کہ میرے باپ کہاں ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی ، (تفسیر ابن جریر الطبری:1879:مرسل و ضعیف) ابن جریر رحمہ اللہ نے اس کی تردید کی ہے اور فرمایا ہے کہ یہ محال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ماں باپ کے بارے میں شک کریں پہلی ہی قرأت ٹھیک ہے لیکن ہمیں امام ہمام پر تعجب آتا ہے کہ انہوں نے اسے محال کیسے کہہ دیا ؟ ممکن ہے یہ واقعہ اس وقت کا ہو جب آپ اپنے ماں باپ کے لیے استفسار کرتے تھے اور انجام معلوم نہ تھا پھر جب ان دونوں کی حالت معلوم ہو گئی تو آپ اس سے ہٹ گئے اور بیزاری ظاہری فرمائی اور صاف بتا دیا کہ وہ دونوں جہنمی ہیں جیسے کہ صحیح حدیث سے ثابت ہو چکا ہے اس کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاصی رضی اللہ عنہما سے عطا بن یسار رحمہ اللہ نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت و ثنا توراۃ میں کیا ہے تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا ہاں اللہ کی قسم جو صفتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرآن میں ہیں وہی توراۃ میں بھی ہیں ، توراۃ میں بھی ہے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے تجھے گواہ اور خوشخبریاں دینے والا اور ڈرانے والا اور ان پڑھوں کا بچاؤ بنا کر بھیجا ہے تو میرا بندہ اور میرا رسول ہے میں نے تیرا نام متوکل رکھا ہے تو نہ بدزبان ہے نہ سخت گو نہ بدخلق نہ بازاروں میں شور غل کرنے والا ہے نہ تو برائی کے بدلے برائی کرنے والا ہے بلکہ معاف اور درگزر کرنے والا ہے اللہ تعالیٰ انہیں دنیا سے نہ اٹھائے گا جب تک کہ تیرے دین کو تیری وجہ سے بالکل ٹھیک اور درست نہ کر دے اور لوگ «لا الہ الہ اللہ» کا اقرار نہ کر لیں اور ان کی اندھی آنکھیں کھل نہ جائیں اور ان کے بہرے کان سننے نہ لگ جائیں اور ان کے زنگ آلود دل صاف نہ ہو جائیں ۔ (مسند احمد:174/2:صحیح) بخاری کی کتاب البیوع میں بھی یہ حدیث ہے اور کتاب التفسیر میں بھی ابن مردویہ میں اس روایت کے بعد مزید یہ ہے کہ میں نے پھر جا کر سیدنا کعب رضی اللہ عنہ سے یہی سوال کیا تو انہوں نے بھی ٹھیک یہی جواب دیا ۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی:373/1-374) البقرة
120 دین حق کا باطل سے سمجھوتہ جرم عظیم ہے آیت بالا کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ تجھ سے ہرگز راضی نہیں ہوں گے لہٰذا تو بھی انہیں چھوڑ اور رب کی رضا کے پیچھے لگ جا تو نے انہیں دعوت رسالت پہنچا دیں ۔ دین حق وہی ہے جو اللہ نے تجھے دیا ہے تو اس پر جم جا ۔ حدیث شریف میں ہے میری امت کی ایک جماعت حق پر جم کر دوسروں کے مقابلہ میں رہے گی اور غلبہ کے ساتھ رہے گی یہاں تک کہ قیامت آئے ۔ (صحیح مسلم:156) پھر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے دھمکایا کہ ہرگز ان کی رضا مندی اور ان سے صلح جوئی کے لیے اپنے دین میں سست نہ ہونا ان کی طرف نہ جھکنا ان کی نہ ماننا فقہاء کرام نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ کفر ایک ہی مذہب ہے خواہ وہ یہود ہوں نصرانی ہوں یا کوئی اور ہوں اس لیے کہ ملت کا لفظ یہاں مفرد ہی رکھا جیسے اور جگہ ہے آیت «لَکُمْ دِینُکُمْ وَلِیَ دِینِ» ( 109-الکافرون : 6 ) تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین ہے اس استدلال پر اس مسئلہ کی بنا ڈالی ہے کہ مسلمان اور کفار آپس میں وارث نہیں ہو سکتے اور کفر آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہو سکتے ہیں گو وہ دونوں ایک ہی قسم کے کافر ہوں یا دو الگ الگ کفروں کے کافر ہوں ، امام شافعی اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہما کا یہی مذہب ہے اور امام احمد رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت میں یہی قول منقول ہے اور دوسری روایت میں امام احمد رحمہ اللہ کا اور امام مالک رحمہ اللہ کا یہ قول مروی ہے کہ دو مختلف مذہب والے آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں ایک صحیح حدیث میں بھی یہی مضمون ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ (سنن ابن ماجہ:2731قال الشیخ الألبانی:صحیح) حق تلاوت سے کیا مراد ہے؟ پھر فرمایا کہ جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ حق تلاوت ادا کرتے ہوئے پڑھتے ہیں ، قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں اس سے مراد یہود نصاریٰ ہیں اور روایت میں ہے کہ اس سے مراد اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حق تلاوت یہ ہے کہ جنت کے ذکر کے وقت جنت کا سوال کیا جائے اور جہنم کے ذکر کے وقت اس سے پناہ مانگی جائے(تفسیر قرطبی:95/2) سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حلال و حرام کو جاننا کلمات کو ان کی جگہ رکھنا تغیر و تبدل نہ کرنا وغیرہ یہی تلاوت کا حق ادا کرنا ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:567/2) حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کھلی آیتوں پر عمل کرنا متشابہ آیتوں پر ایمان لانا مشکلات کو علماء کے سامنے پیش کرنا حق تلاوت کے ساتھ پڑھنا ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس کا مطلب حق اتباع بجا لانا بھی مروی ہے پس تلاوت بمعنی اتباع ہے جیسے آیت «وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰیہَا» ( 91 ۔ الشمس : 2 ) میں ایک مرفوع حدیث میں بھی اس کے یہی معنی مروی ہیں لیکن اس کے بعض راوی مجہول ہیں گو معنی ٹھیک ہے سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں قرآن کی اتباع کرنے والا جنت کے باغیچوں میں اترنے والا ہے ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی تفسیر کے مطابق یہ بھی مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی رحمت کے ذکر کی آیت پڑھتے تو ٹھہر جاتے اور اللہ سے رحمت طلب کرتے اور جب کبھی کسی عذاب کی آیت تلاوت فرماتے تو رک کر اللہ تعالیٰ سے پناہ طلب فرماتے ۔ (صحیح مسلم:772 ) پھر فرمایا اس پر ایمان یہی لوگ رکھتے ہیں یعنی جو اہل کتاب اپنی کتاب کی سوچ سمجھ کر تلاوت کرتے ہیں وہ قرآن پر ایمان لانے پر مجبور ہو جاتے ہیں جیسے اور جگہ آیت «وَلَوْ اَنَّہُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰیۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِمْ مِّنْ رَّبِّہِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِہِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِہِمْ» ( 5 ۔ المائدہ : 66 ) اگر یہ توراۃ انجیل پر اور اللہ کی ان کی طرف نازل کردہ چیز پر قائم رہتے تو ان کے اوپر سے اور پیروں تلے سے انہیں کھانا ملتا اور فرمایا «قُلْ یَا أَہْلَ الْکِتَابِ لَسْتُمْ عَلَیٰ شَیْءٍ حَتَّیٰ تُقِیمُوا التَّوْرَاۃَ وَالْإِنجِیلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَیْکُم مِّن رَّبِّکُمْ» ( 5-المائدۃ : 68 ) اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ و انجیل کو اور جو تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے اترا اس کو قائم نہ کر لو تب تک تم کسی چیز پر نہیں ہو ۔ ان کا قائم کرنا مستلزم ہے کہ تم اس میں جو ہے اسے سچا جانو اور اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کی صفات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کا حکم آپ کی اتباع کی رغبت سب کچھ موجود ہے ۔ اور جگہ«الَّذِینَ یَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِیَّ الْأُمِّیَّ الَّذِی یَجِدُونَہُ مَکْتُوبًا عِندَہُمْ فِی التَّوْرَاۃِ وَالْإِنجِیلِ» ( 7-الأعراف : 157 ) فرمایا جو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم امی کی تابعداری کرتے ہیں جس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اور تصدیق اپنی کتاب توراۃ و انجیل میں بھی لکھا دیکھتے ہیں اور جگہ فرمایا آیت «اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِہٖٓ اِذَا یُتْلٰی عَلَیْہِمْ یَخِرٰوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا وَیَقُولُونَ سُبْحَانَ رَبِّنَا إِن کَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولًا» ( 17 ۔ الاسرآء : 108 ، 107 ) یعنی تم ایمان لاؤ یا نہ لاؤ جنہیں اس سے پہلے علم دیا گیا ہے ان پر جب اللہ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں منہ کے بل سجدے میں گر پڑتے ہیں اور زبانی کہتے ہیں کہ ہمارا رب پاک ہے ہمارے رب کا وعدہ بالکل سچا اور صحیح ہے اور جگہ ہے جنہیں ہم نے اس سے اگلی کتاب دی ہے وہ بھی اس پر ایمان لاتے ہیں اور ان پر یہ پڑھی جاتی ہیں منہ کے بل سجدے میں گر پڑتے ہیں اور زبانی کہتے ہیں کہ ہمارا رب پاک ہے ہمارے رب کا وعدہ بالکل سچا اور صحیح ہے اور جگہ ہے«الَّذِینَ آتَیْنَاہُمُ الْکِتَابَ مِن قَبْلِہِ ہُم بِہِ یُؤْمِنُونَ وَإِذَا یُتْلَیٰ عَلَیْہِمْ قَالُوا آمَنَّا بِہِ إِنَّہُ الْحَقٰ مِن رَّبِّنَا إِنَّا کُنَّا مِن قَبْلِہِ مُسْلِمِینَ أُولٰئِکَ یُؤْتَوْنَ أَجْرَہُم مَّرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوا وَیَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُونَ » ( 28-القص : 52 - 54 ) جنہیں ہم نے اس سے اگلی کتاب دی ہے وہ بھی اس پر ایمان لاتے ہیں اور ان پر یہ پڑھی جاتی ہے تو اپنے ایمان کا اقرار کر کے کہتے ہیں ہم تو پہلے ہی سے ماننے والوں میں ہیں انہیں ان کے صبر کا دوہرا اجر دیا جائے گا یہ لوگ برائی کو بھلائی سے ہٹاتے ہیں اور ہمارے دیئے ہوئے میں سے دوسروں کو دیتے ہیں اور جگہ ارشاد ہے آیت «وَقُلْ لِّلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ وَالْاُمِّیّٖنَ ءَاَسْلَمْتُمْ ۭ فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اھْتَدَوْا» ( 3 ۔ آل عمران : 20 ) یعنی پڑھے لکھے اور بے پڑھے لوگوں سے کہہ دو کہ کیا تم اسلام قبول کرتے ہو ؟ اگر مان لیں تو راہ پر ہیں اور اگر نہ مانیں تو تجھ پر صرف تبلیغ ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو خوب دیکھ رہا ہے اسی لیے یہاں فرمایا کہ ساتھ کفر کرنے والے خسارے والے ہیں ، جیسے فرمایا آیت «وَمَنْ یَّکْفُرْ بِہٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُہٗ» ( 11 ۔ ہود : 17 ) جو بھی اس کے ساتھ کفر کرے اس کے وعدے کی جگہ آگ ہے صحیح حدیث میں اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس امت میں سے جو بھی مجھے سنے خواہ یہودی ہو خواہ نصرانی ہو پھر مجھ پر ایمان نہ لائے وہ جہنم میں جائے گا ۔(صحیح مسلم:153) البقرة
121 البقرة
122 انتباہ پہلے بھی اس جیسی آیت شروع سورت میں گزر چکی ہے اور اس کی مفصل تفسیر بھی بیان ہو چکی ہے یہاں صرف تاکید کے طور پر ذکر کیا گیا اور انہیں نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کی رغبت دلائی گئی جن کی صفتیں وہ اپنی کتابوں میں پاتے تھے جن کا نام اور کام بھی اس میں لکھا ہوا تھا بلکہ ان کی امت کا ذکر بھی اس میں موجود ہے پس انہیں اس کے چھپانے اور اللہ کی دوسری نعمتوں کو پوشیدہ کرنے سے ڈرایا جا رہا ہے اور دینی اور دنیوی نعمتوں کو ذکر کرنے کا کہا جا رہا ہے اور عرب میں جو نسلی طور پر بھی ان کے چچا زاد بھائی ہیں اللہ کی جو نعمت آئی ان میں جس خاتم الانبیاء کو اللہ نے مبعوث فرمایا ان سے حسد کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اور تکذیب پر آمادہ نہ ہونے کی ہدایت کی گئی ہے ۔ البقرة
123 البقرة
124 امام توحید اس آیت میں خلیل اللہ ابراہیم علیہ السلام کی بزرگی کا بیان ہو رہا ہے جو توحید میں دنیا کے امام ہیں انہوں نے تکالیف پر صبر کر کے اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری میں ثابت قدمی اور جوان مردی دکھائی. فرماتا ہے اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم ان مشرکین اور اہل کتاب کو جو ملت ابراہیم کے دعویدار ہیں ذرا ابراہیم علیہ السلام کی فرماں برداری اور اطاعت گزاری کے واقعات تو سناؤ تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ دین حنیف پر اسوۂٕٕ ابراہیمی پر کون قائم ہے وہ یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم ؟ قرآن کریم کا ارشاد ہے آیت «وَاِبْرٰہِیْمَ الَّذِیْ وَفّیٰٓ» ( 53 ۔ النجم : 37 ) ابراہیم وہ ہیں انہوں نے پوری وفاداری دکھائی اور فرمایا آیت «اِنَّ اِبْرٰہِیْمَ کَانَ اُمَّۃً قَانِتًا لِّلّٰہِ حَنِیْفًا وَلَمْ یَکُ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ شَاکِرًا لِّأَنْعُمِہِ اجْتَبَاہُ وَہَدَاہُ إِلَیٰ صِرَاطٍ مٰسْتَقِیمٍ وَآتَیْنَاہُ فِی الدٰنْیَا حَسَنَۃً وَإِنَّہُ فِی الْآخِرَۃِ لَمِنَ الصَّالِحِینَ ثُمَّ أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ إِبْرَاہِیمَ حَنِیفًا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِینَ» ( 16-النحل : 120 ، 123 ) ابراہیم لوگوں کے پیشوا اللہ تعالیٰ کے فرماں بردار مخلص اور نعمت کے شکر گزار تھے جنہیں اللہ عزوجل نے پسند فرما کر راہ راست پر لگا دیا تھا جنہیں ہم نے دنیا میں بھلائی دی تھی اور آخرت میں بھی صالح اور نیک انجام کار بنایا تھا ۔ «قُلْ إِنَّنِی ہَدَانِی رَبِّی إِلَیٰ صِرَاطٍ مٰسْتَقِیمٍ دِینًا قِیَمًا مِّلَّۃَ إِبْرَاہِیمَ حَنِیفًا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِینَ» ( 6-الانعام : 161 ) پھر ہم نے تیری طرف اے نبی وحی کی کہ تو بھی ابراہیم حنیف کی ملت کی پیروی کر جو مشرکین میں سے نہ تھے ۔ اور جگہ ارشاد ہے کہ «مَا کَانَ إِبْرَاہِیمُ یَہُودِیًّا وَلَا نَصْرَانِیًّا وَلٰکِن کَانَ حَنِیفًا مٰسْلِمًا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِینَ إِنَّ أَوْلَی النَّاسِ بِإِبْرَاہِیمَ لَلَّذِینَ اتَّبَعُوہُ وَہٰذَا النَّبِیٰ وَالَّذِینَ آمَنُوا وَ اللہُ وَلِیٰ الْمُؤْمِنِینَ» ( 3-آل عمران : 67 ، 68 ) ابراہیم علیہ السلام نہ تو یہودی تھے نہ نصرانی تھے نہ مشرک تھے بلکہ خالص مسلمان تھے ان سے قربت اور نزدیکی والا وہ شخص ہے جو ان کی تعلیم کا تابع ہو اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ایمان والے ان ایمان والوں کا دوست اللہ تعالیٰ خود ہے ۔ ابتلاء کے معنی امتحان اور آزمائش کے ہیں ۔ کلمات سے مراد شریعت حکم اور ممانعت وغیرہ ہے کلمات سے مراد کلمات تقدیریہ بھی ہوتی ہے جیسے مریم علیہما السلام کی بابت ارشاد ہے صدقت بکلمات ربھا یعنی انہوں نے اپنے رب کے کلمات کی تصدیق کی ۔ کلمات سے مراد کلمات شرعیہ بھی ہوتی ہے ۔ آیت «وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا وَّعَدْلًا لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ» ( 6 ۔ الانعام : 115 ) یعنی اللہ تعالیٰ کے شرعی کلمات سے سچائی اور عدل کے ساتھ پورے ہوئے یہ کلمات یا تو سچی خبریں ہیں یا طلب عدل ہے غرض ان کلمات کو پورا کرنے کی جزا میں انہیں امامت کا درجہ ملا ، ان کلمات کی نسبت بہت سے اقوال ہیں مثلاً احکام حج ، مونچھوں کو کم کرنا ، کلی کرنا ، ناک صاف کرنا ، مسواک کرنا ، سر کے بال منڈوانا یا رکھوانا تو مانگ نکالنا ، ناخن کاٹنا ، زیر ناف کے بال کاٹنا ، ختنہ کرانا ، بغل کے بال کاٹنا ، پیشاب پاخانہ کے بعد استنجاء کرنا ، جمعہ کے دن غسل کرنا ، طواف کرنا ، صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا ، رمی جمار کرنا ، طواف افاضہ کرنا ۔ مکمل اسلام سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس سے مراد پورا اسلام ہے جس کے تیس حصے ہیں دس کا بیان سورہ براءت میں ہے «التَّائِبُونَ الْعَابِدُونَ الْحَامِدُونَ السَّائِحُونَ الرَّاکِعُونَ السَّاجِدُونَ الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاہُونَ عَنِ الْمُنکَرِ وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللہِ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِینَ» (9-التوبۃ:112) یعنی ’ توبہ کرنا ، عبادت کرنا ، حمد کرنا ، اللہ کی راہ میں پھرنا ، رکوع کرنا ، سجدہ کرنا ، بھلائی کا حکم دینا ، برائی سے روکنا ، اللہ کی حدود کی حفاظت کرنا ، ایمان لانا ‘ ۔ دس کا بیان «قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ» * «الَّذِینَ ہُمْ فِی صَلَاتِہِمْ خَاشِعُونَ» * «وَالَّذِینَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ» * «وَالَّذِینَ ہُمْ لِلزَّکَاۃِ فَاعِلُونَ» * «وَالَّذِینَ ہُمْ لِفُرُوجِہِمْ حَافِظُونَ» * «إِلَّا عَلَیٰ أَزْوَاجِہِمْ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُہُمْ فَإِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُومِینَ» * «فَمَنِ ابْتَغَیٰ وَرَاءَ ذٰلِکَ فَأُولٰئِکَ ہُمُ الْعَادُونَ» * «وَالَّذِینَ ہُمْ لِأَمَانَاتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رَاعُونَ» * «وَالَّذِینَ ہُمْ عَلَیٰ صَلَوَاتِہِمْ یُحَافِظُونَ» * «أُولٰئِکَ ہُمُ الْوَارِثُونَ» (23-سورۃالمؤمنون:1-10) «یُحَافِظُونَ» تک ہے ۔ اور سورۃ المعارج میں ہے یعنی نماز کو خشوع خضوع سے ادا کرنا لغو اور فضول باتوں اور کاموں سے منہ پھیر لینا ، زکوٰۃ دیتے رہا کرنا ، شرمگاہ کی حفاظت کرنا ، امانت داری کرنا ، وعدہ وفائی کرنا ، نماز پر ہمیشگی اور حفاظت کرنا قیامت کو سچا جاننا ، عذابوں سے ڈرتے رہنا سچی شہادت پر قائم رہنا ۔ اور دس کا بیان سورۃ الاحزاب میں آیت «اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِیْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّایِٕـمِیْنَ وَالـﮩـیِٕمٰتِ وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَہُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّالذّٰکِرٰتِ اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا» (33۔الاحزاب:35) تک ہے یعنی اسلام لانا ، ایمان رکھنا ، قرآن پڑھنا ، سچ بولنا ، صبر کرنا ، عاجزی کرنا ، خیرات دینا ، روزہ رکھنا ، بدکاری سے بچنا ، اللہ تعالیٰ کا ہر وقت بکثرت ذکر کرنا ، ان تینوں احکام کا جو عامل ہو وہ پورے اسلام کا پابند ہے اور اللہ کے عذابوں سے بری ہے ۔ کلمات ابراہیمی میں اپنی قوم سے علیحدگی کرنا بادشاہ وقت سے نڈر ہو کر اسے بھی تبلیغ کرنا پھر اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو مصیبت آئے اس پر صبر کرنا سہنا پھر وطن اور گھربار کو اللہ کی راہ میں چھوڑ کر ہجرت کرنا مہمانداری کرنا اللہ کی راہ میں جانی اور مالی مصیبت راہ اللہ برداشت کرنا یہاں تک کہ بچہ کو اللہ کی راہ قربان کرنا اور وہ بھی اپنے ہی ہاتھ سے یہ کل احکام خلیل الرحمن علیہ السلام بجا لائے ۔ سورج چاند اور ستاروں سے بھی آپ علیہ السلام کی آزمائش ہوئی امامت کے ساتھ بیت اللہ بنانے کے حکم کے ساتھ حج کے حکم اور مقام ابراہیم کے ساتھ بیت اللہ کے رہنے والوں کی روزیوں کے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ علیہ السلام کے دین پر بھیجنے کے ساتھ بھی آزمائش ہوئی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے خلیل میں تمہیں آزماتا ہوں دیکھتا ہوں تم کیا ہو ؟ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا مجھے لوگوں کا امام بنا دے ، اس کعبہ کو لوگوں کے ثواب اور اجتماع کا مرکز بنا دے ، یہاں والوں کو پھلوں کی روزیاں دے یہ تمام باتیں اللہ عزوجل نے پوری کر دیں اور یہ سب نعمتیں آپ علیہ السلام کو عطا ہوئیں صرف ایک آرزو پوری نہ ہوئی وہ یہ کہ میری اولاد کو بھی امامت ملے تو جواب ملا ظالموں کو میرا عہد نہیں پہنچتا کلمات سے مراد اس کے ساتھ کی آیتیں بھی ہیں ۔ موطا وغیرہ میں ہے کہ سب سے پہلے ختنہ کرانے والے سب سے پہلے مہمان نوازی کرنے والے سب سے پہلے ناخن کٹوانے والے سب سے پہلے مونچھیں پست کرنے والے سب سے پہلے سفید بال دیکھنے والے ابراہیم ہی ہیں علیہ السلام سفید بال دیکھ کر پوچھا کہ اے اللہ یہ کیا ہے ؟ جواب ملا وقار و عزت ہے کہنے لگے پھر تو اے اللہ اسے اور زیادہ کر ۔ (مؤطا:کتاب صفۃ النبی922/2:مقطوع) سب سے پہل منبر پر خطبہ کہنے والے ، سب سے پہلے قاصد ، بھیجنے والے ، سب سے پہلے تلوار چلانے والے ، سب سے پہلے مسواک کرنے والے سب سے پہلے پانی کے ساتھ استنجاء کرنے والے ، سب سے پہلے پاجامہ پہننے والے ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام ہیں ۔ ایک غیر ثابت حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میں منبر بناؤں تو میرے باپ ابراہیم علیہ السلام نے بھی بنایا تھا اور اگر میں لکڑی ہاتھ میں رکھوں تو یہ بھی میرے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ۔ (بزار:633:منکر و ضعیف) مختلف بزرگوں سے کلمات کی تفسیر میں جو کچھ ہم نے نقل کر دیا اور ٹھیک بھی یہی ہے کہ یہ سب باتیں ان کلمات میں تھیں کسی خاص تخصیص کی کوئی وجہ ہمیں نہیں ملی ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» صحیح مسلم شریف میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے دس باتیں فطرت کی اور اصل دین کی ہیں مونچھیں کم کرنا ، داڑھی بڑھانا ، مسواک کرنا ، ناک میں پانی دینا ، ناخن لینا ، پوریان دھونی ، بغل کے بال لینا ، زیر ناف کے بال لینا ، استنجاء کرنا راوی کہتا ہے میں دسویں بات بھول گیا شاید کلی کرنا تھی ۔ (صحیح مسلم:261) صحین میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں پانچ باتیں فطرت کی ہیں ختنہ کرانا ، موئے ( بال ) زہار لینا ، مونچھیں کم کرنا ، ناخن لینا ، بغل کے بال لینا ۔ (صحیح بخاری:5889) ایک حدیث میں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کو وفا کرنے والا اس لیے فرمایا ہے کہ وہ ہر صبح کے وقت پڑھتے تھے آیت «فَسُـبْحٰنَ اللّٰہِ حِیْنَ تُمْسُوْنَ وَحِیْنَ تُصْبِحُوْنَ وَلَہُ الْحَمْــدُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَعَشِـیًّا وَّحِیْنَ تُظْہِرُوْنَ یُخْرِجُ الْـحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْـحَیِّ وَیُـحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَکَذٰلِکَ تُخْرَجُوْنَ» ( 30 ۔ الروم : 17 ) ایک اور روایت میں ہے کہ ہر دن چار رکعتیں پڑھتے تھے ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:15/3:ضعیف جدا) لیکن یہ دونوں حدیثیں ضعیف ہیں اور ان میں کئی کئی راوی ضعیف ہیں اور ضعف کی بہت سی وجوہات ہیں بلکہ ان کا بیان بھی بیبیان ضعف جائز نہیں متن بھی ضعف پر دلالت کرتا ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی امت کی خوشخبری سن کر اپنی اولاد کے لیے بھی یہی دعا کرتے تھے جو قبول تو کی جاتی ہے لیکن ساتھ ہی خبر کر دی جاتی ہے کہ آپ کی اولاد میں ظالم بھی ہوں گے جنہیں اللہ تعالیٰ کا عہد نہ پہنچے گا وہ امام نہ بنائے جائیں گے نہ ان کی اقتدار اور پیروی کی جائے گی سورۃ العنکبوت کی آیت میں اس مطلب کو واضح کر دیا گیا ہے کہ خلیل اللہ کی یہ دعا بھی قبول ہوئی وہاں ہے آیت «وَجَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِہِ النٰبُوَّۃَ وَالْکِتٰبَ وَاٰتَیْنٰہُ اَجْرَہٗ فِی الدٰنْیَا» ( 29 ۔ العنکبوت : 27 ) یعنی ہم نے ان کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھ دی ۔ ابراہیم علیہ السلام کے بعد جتنے انبیاء اور رسول آئے وہ سب آپ علیہ السلام ہی کی اولاد میں تھے اور جتنی کتابیں نازل ہوئیں سب آپ علیہ السلام ہی کی اولاد میں ہوئی دعا «صلوات اللہ وسلامہ علیہم اجمعین» یہاں یہ بھی خبر دی گئی ہے کہ آپ علیہ السلام کی اولاد میں ظلم کرنے والے بھی ہوں گے ، ظالم سے مرد بعض نے مشرک بھی لیا ہے عہد سے مراد امر ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ظالم کو کسی چیز کا والی اور بڑا نہ بنانا چاہیئے گو وہ اولاد ابراہیم علیہ السلام میں سے ہو ، خلیل اللہ کی دعا ان کی نیک اولاد کے حق میں قبول ہوئی ہے یہ بھی معنی کئے گئے ہیں کہ ظالم سے کوئی عہد نہیں کہ اس کی اطاعت کی جائے اس کا عہد توڑ دیا جائے پورا نہ کیا جائے اور یہ بھی مطلب ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نے اسے کچھ دینے کا عہد نہیں کیا دنیا میں تو کھا پی رہا ہے اور عیش و عشرت کر رہا ہے ۔ بس یہی ہے عہد سے مراد دین بھی ہے یعنی تیری کل اولاد دیندار نہیں جیسے اور جگہ ہے آیت «ووَمِن ذُرِّیَّتِہِمَا مُحْسِنٌ وَظَالِمٌ لِّنَفْسِہِ مُبِینٌ» ( 37 ۔ الصافات : 113 ) یعنی ان کی اولاد میں بھلے بھی ہیں اور برے بھی اطاعت کے معنی بھی کئے گئے ہیں یعنی اطاعت صرف معروف اور بھلائی میں ہی ہو گی اور عہد کے معنی نبوت کے بھی آئے ہیں ابن خویز منذاذ مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ظالم شخص نہ تو خلیفہ بن سکتا ہے نہ حاکم نہ مفتی نہ گواہ نہ راوی ۔ البقرة
125 شوق زیارت اور بڑھتا ہے «مثابتہ» سے مراد باربار آنا ۔ حج کرنے کے بعد بھی دل میں لگن لگی رہتی ہے گویا حج کرنے کے بعد بھی ہر بار دل میں ایک بار اور حج کرنے کی تمنا رہتی ہے دنیا کے ہر گوشہ سے لوگ بھاگے دوڑے اس کی طرف جوق در جوق چلے آ رہے ہیں یہی جمع ہونے کی جگہ ہے اور یہی امن کا مقام ہے جس میں ہتھیار نہیں اٹھایا جاتا جاہلیت کے زمانہ میں بھی اس کے آس پاس تو لوٹ مار ہوتی رہتی لیکن یہاں امن و امان ہی رہتا کوئی کسی کو گالی بھی نہیں دیتا ۔ یہ جگہ ہمیشہ متبرک اور شریف رہی ۔ نیک روحیں اس کی طرف مشتاق ہی رہتی ہیں گو ہر سال زیارت کریں لیکن پھر بھی شوق زیارت کم نہیں ہوتا ہے ۔ یہ ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا اثر ہے ۔ آپ علیہ السلام نے دعا مانگی تھی کہ آیت «فَاجْعَلْ اَفْیِٕدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہْوِیْٓ اِلَیْہِمْ وَارْزُقْہُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّہُمْ یَشْکُرُوْنَ» ( 14 ۔ ابرہیم : 37 ) تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف جھکا دے ۔ یہاں باپ اور بھائی کے قاتل کو بھی کوئی دیکھتا تو خاموش ہو جاتا ۔ سورۃ المائدہ میں «جَعَلَ اللہُ الْکَعْبَۃَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیَامًا لِّلنَّاسِ» ( 5-المائدۃ : 97 ) یعنی یہ لوگوں کے قیام کا باعث ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگر لوگ حج کرنا چھوڑ دیں تو آسمان زمین پر گرا دیا جائے ۔ اس گھر کے اس شرف کو دیکھ کر پھر اس کے بانی اول ابراہیم خلیل علیہ السلام کے شرف کو خیال فرمائے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت «وَاِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰہِیْمَ مَکَانَ الْبَیْتِ اَنْ لَّا تُشْرِکْ بِیْ شَیْـــــًٔا وَّطَہِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّایِٕفِیْنَ وَالْقَایِٕمِیْنَ وَالرٰکَّعِ السٰجُوْدِ» ( 22 ۔ الحج : 26 ) ہم نے بیت اللہ کی جگہ ابراہیم کو بتا دی ( اور کہہ دیا ) کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور جگہ ہے آیت «اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وٰضِــعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّھُدًی لِّـلْعٰلَمِیْنَ فِیہِ آیَاتٌ بَیِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاہِیمَ وَمَن دَخَلَہُ کَانَ آمِنًا» ( 3 ۔ آل عمران : 97 ، 96 ) اللہ جل شانہ کا پہلا گھر مکہ میں جو برکت و ہدایت والا نشانیوں والا مقام ابراہیم والا امن و امان والا ہے مقام ابراہیم بھی ہے ۔ اور حج کل کا کل بھی ہے مثلاً عرفات ، مشعر الحرام ، منیٰ ، رمی ، جمار ، صفا مروہ کا طواف ، مقام ابراہیم دراصل وہ پتھر ہے جسے اسمٰعیل علیہ السلام کی بیوی صاحبہ نے ابراہیم علیہ السلام کے نہانے کے لیے ان کے پاؤں کے نیچے رکھا تھا ، (تفسیر ابن جریر الطبری:35/3) لیکن سعید بن جیر رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ غلط ہے ۔ دراصل وہ یہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرات ابراہیم علیہ السلام کعبہ بناتے تھے سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ کی لمبی حدیث میں ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کر لیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مقام ابراہیم کی طرف اشارہ کر کے کہا ۔ کیا یہی ہمارے باپ ابراہیم علیہ السلام کا مقام ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں کہا پھر ہم اسے قبلہ کیوں نہ بنا لیں ؟ اس پر آیت نازل ہوئی ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:35/3) ایک اور روایت میں ہے کہ فاروق رضی اللہ عنہ کے سوال پر تھوڑی ہی دیر گزری تھی جو حکم نازل ہوا۔(النسائی فی السنن الکبریٰ:10998) ایک اور حدیث میں ہے کہ فتح مکہ والے دن مقام ابراہیم کے پتھر کی طرف اشارہ کر کے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا یہی ہے جسے قبلہ بنانے کا ہمیں حکم ہوا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں یہی ہے ۔(تفسیر ابن ابی حاتم:370:صحیح) صحیح بخاری شریف میں ہے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے اپنے رب سے تین باتوں میں موافقت کی جو اللہ تعالیٰ کو منظور تھا وہی میری زبان سے نکلا میں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاش کہ ہم مقام ابراہیم علیہ السلام کو قبلہ بنا لیتے تو حکم آیت «وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّی» ( 2 ۔ البقرہ : 125 ) نازل ہوا میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاش کہ آپ امہات المؤمنین کو پردے کا حکم دیں اس پر پردے کی آیت اتری جب مجھے معلوم ہوا کہ آج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں سے خفا ہیں تو میں نے جا کر ان سے کہا کہ اگر تم باز نہ آؤ گی تو اللہ تعالیٰ تم سے اچھی بیویاں تمہارے بدلے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دے گا اس پر فرمان بازی نازل ہوا کہ آیت «عَسَیٰ رَبٰہُ إِن طَلَّقَکُنَّ أَن یُبْدِلَہُ أَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنکُنَّ» ( 66-التحریم : 5 ) اس حدیث کی بہت سی اسناد ہیں اور بہت سی کتابوں میں مروی ہے ۔(صحیح مسلم:2399)ایک روایت میں بدر کے قیدیوں کے بارے میں بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی موافقت مروی ہے آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ اس سے فدیہ نہ لیا جائے بلکہ انہیں قتل کر دیا جائے اللہ سبحانہ تعالیٰ کو بھی یہی منظور تھا ۔ (صحیح مسلم:1218) عبداللہ بن ابی بن سلول منافق جب مر گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے جنازے کی نماز ادا کرنے کے لیے تیار ہوئے تو میں نے کہا تھا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس منافق کافر کا جنازہ پڑھیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ڈانٹ دیا اس پر آیت «وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓی اَحَدٍ مِّنْہُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ» ( 9 ۔ التوبہ : 84 ) نازل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسوں کے جنازے سے روکا گیا ۔ ابن جریج میں روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے طواف میں تین مرتبہ رمل کیا یعنی دوڑ کی چال چلے اور چار پھیرے چل کر کئے پھر مقام ابراہیم کے پیچھے آ کر دو رکعت نماز ادا کی اور یہ آیت تلاوت فرمائی آیت «وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّی» ( 2 ۔ البقرہ : 125 ) سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ مقام ابراہیم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اور بیت اللہ کے درمیان کر لیا تھا ۔ ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مقام ابراہیم سے مراد وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر ابراہیم علیہ السلام کعبہ بنا رہے تھے اسماعیل علیہ السلام آپ کو پتھر دیتے جاتے تھے اور آپ علیہ السلام کعبہ کی بنا کرتے جاتے تھے اور اس پتھر کو سرکاتے جاتے تھی جہاں دیوار اونچی کرنی ہوتی تھی وہاں لیجاتے تھے اسی طرح کعبہ کی دیواریں پوری کیں اس کا پورا بیان ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ میں آئے گا ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ اس پتھر پر آپ علیہ السلام کے دونوں قدموں کے نشان ظاہر تھے عرب کی جاہلیت کے زمانہ کے لوگوں نے بھی دیکھے تھے ۔ ابوطالب نے اپنے مشہور قصیدہ میں کہا ہے و «موطی ابراہیم فی الصخر رطبتہ» «علی قدمیہ حایا غیر ناعل» یعنی اس پتھر میں ابراہیم علیہ السلام کے دونوں پیروں کے نشان تازہ بتازہ ہیں جن میں جوتی نہیں بلکہ مسلمانوں نے بھی اسے دیکھا تھا سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے مقام ابراہیم میں خلیل اللہ کے پیروں کی انگلیوں اور آپ علیہ السلام کے تلوے کا نشان دیکھا تھا پھر لوگوں کے چھونے سے وہ نشان مٹ گئے حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں حکم اس کی جانب نماز ادا کرنے کا ہے تبرک کے طور پر چھونے اور ہاتھ لگانے کا نہیں اس امت نے بھی اگلی امتوں کی طرح بلا حکم الہ العالمین بعض کام اپنے ذمہ لازم کر لیے جو نقصان رساں ہیں وہ نشان لوگوں کے ہاتھ لگانے سے مٹ گئے ۔ یہ مقام ابراہیم پہلے دیوار کعبہ کے متصل تھا کعبہ کے دروازے کی طرف حجر اسود کی جانب دروازے سے جانے والے کے دائیں جانب مستقل جگہ پر تھا جو آج بھی لوگوں کو معلوم ہے خلیل اللہ نے یا تو اسے یہاں رکھوا دیا تھا یا بیت اللہ بناتے ہوئے آخری حصہ یہی بنایا ہو گا اور یہیں وہ پتھر رکھا ہے ۔ امیرالمؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں اسے پیچھے ہٹا دیا اس کے ثبوت میں بہت سی روایتیں ہیں پھر ایک مرتبہ پانی کے سیلاب میں یہ پتھر یہاں سے بھی ہٹ گیا تھا خلیفہ ثانی نے اسے پھر اپنی جگہ رکھوا دیا حضرت سفیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں مجھے معلوم نہیں ہوا کہ یہ اصلی جگہ سے ہٹایا گیا اس سے پہلے دیوار کعبہ سے کتنی دور تھا ایک روایت میں ہے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اصلی جگہ سے ہٹا کر وہاں رکھا تھا جہاں اب ہے لیکن یہ روایت مرسل ہے ٹھیک بات یہی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسے پیچھے رکھا ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ عہد جو مترادف حکم ہے یہاں عہد سے مراد وہ حکم ہے جس میں کہا گیا ہے گندی اور نجس اور بری چیزوں سے پاک رکھنا ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:373/1) عہد کا تعدیہ الی سے ہو تو معنی ہم نے وحی کی اور پہلے سے کہہ دیا کہ پاک رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اسے بتوں سے بچانا غیر اللہ کی عبادت نہ ہونے دینا لغو کاموں فضول بکواس جھوٹی باتوں شرک و کفر ، ہستی اور مذاق سے اسے محفوظ رکھنا بھی اسی میں شامل ہے ۔ طائف کے ایک معنی طواف کرنے والوں کے ہیں دوسرے معنی باہر سے آنے والوں کے ہیں اس تقدیر پر عاکفین کے معنی مکہ کے باشندے ہوں گے ایک مرتبہ لوگوں نے کہا کہ امیر وقت سے کہنا چاہیئے کہ لوگوں کو بیت اللہ شریف میں سونے سے منع کریں کیونکہ ممکن ہے کوئی کسی وقت جنبی ہو جائے ممکن ہے کبھی آپس میں فضول باتیں کریں تو ہم نے سنا کہ انہیں نہ روکنا چاہیئے ۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ انہیں بھی عاکفین کہتے تھے ایک صحیح حدیث میں ہے کہ مسجد نبوی فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے عبداللہ رضی اللہ عنہ سویا کرتے تھے وہ جوان اور کنوارے تھے ۔ (صحیح بخاری:440) رکع السجود سے مراد نمازی ہیں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:376/1) پاک رکھنے کا حکم اس واسطے دیا گیا کہ اس وقت بھی بت پرستی رائج تھی دوسرے اس لیے کہ یہ بزرگ اپنی نیتوں میں خلوص کی بات رکھیں دوسری جگہ ارشاد ہے آیت «وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاہِیمَ مَکَانَ الْبَیْتِ أَن لَّا تُشْرِکْ بِی شَیْئًا وَطَہِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّائِفِینَ وَالْقَائِمِینَ وَالرٰکَّعِ السٰجُودِ» ( 22-الحج : 26 ) اس آیت میں بھی حکم ہے کہ میرے ساتھ شریک نہ کرنا اور میرے گھر کو پاک صاف رکھنا فقہاء کا اس میں اختلاف ہے کہ بیت اللہ کی نماز افضل ہے یا طواف ؟ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں باہر والوں کے لیے طواف افضل ہے اور جمہور کا قول ہے کہ ہر ایک کے لیے نماز افضل ہے اس کی تفصیل کی جگہ تفسیر نہیں ۔ مقصد اس سے مشرکین کو تنبیہ اور تردید ہے کہ بیت اللہ تو خاص اللہ کی عبادت کے لیے بنایا گیا ہے اس میں اوروں کی عبادت کرنا اور خالص اللہ کی عبادت کرنے والوں کو اس سے روکنا کس قدر صریح بےانصافی ہے اور اسی لیے قرآن میں فرمایا کہ ایسے ظالموں کو ہم درد ناک عذاب چکھائیں گے مشرکین کی اس کھلی تردید کے ساتھ ہی یہود و نصاریٰ کی تردید بھی اس آیت میں ہو گئی کہ اگر وہ ابراہیم و اسماعیل سلام اللہ علیہما کی افضیلت ، بزرگی اور نبوت کے قائل ہیں اور یہ بھی جانتے اور مانتے ہیں کہ یہ شریف گھرانے کے متبرک ہاتھوں کا بنا ہوا ہے جب وہ اس کے بھی قائل ہیں کہ یہ محض نماز و طواف و دعا اور عبادت اللہ کے لیے بنایا گیا ہے حج و عمرے اور اعتکاف وغیرہ کے لیے مخصوص کیا گیا ہے تو پھر ان نبیوں کی تابعداری کے دعوے کے باوجود کیوں حج و عمرے سے رکے ہوئے ہیں ؟ کیوں بیت اللہ شریف میں حاضری نہیں دیتے ؟ بلکہ خود موسیٰ علیہ السلام نے اس گھر کا حج کیا جیسا کہ حدیث میں صاف موجود ہے ۔ (صحیح مسلم:166) آیۃ کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اور مسجدوں کو بھی پاک صاف رکھنا چاہیئے اور جگہ قرآن میں ہے آیت «فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْہَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ» ( 24 ۔ النور : 36 ) اللہ تعالیٰ نے مسجدوں کو بلند کرنے کی اجازت دی ہے ان میں اس کا نام ذکر کیا جائے ان میں صبح شام اس کی تسبیح اس کے نیک بندے کرتے ہیں ۔ حدیث شریف میں بھی ہے کہ مسجدیں اسی کام کے لیے ہیں ۔ (صحیح مسلم:285) اور احادیث میں بہت ہی تاکید کے ساتھ مسجدوں کی پاکیزگی کا حکم آیا ہے امام ابن کثیر نے اس بارے میں ایک خاص رسالہ تصنیف فرمایا ہے ۔ بعض لوگ تو کہتے ہیں سب سے پہلے کعبۃ اللہ فرشتوں نے بنایا تھا لیکن یہ سنداً غریب ہے بعض کہتے ہیں آدم علیہ السلام نے سب سے پہلے بنایا تھا حرا ، طور سینا ، طور زیتا ، جبل لبنان اور جودی ان پانچ پہاڑوں سے بنایا تھا لیکن یہ بھی سنداً غریب ہے بعض کہتے ہیں شیث علیہ السلام نے سب سے پہلے بنایا تھا لیکن یہ بھی اہل کتاب کی بات ہے ۔ حدیث شریف میں ہے ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرام بنایا اور فرمایا میں مدینہ منورہ کو حرام قرار دیتا ہوں ۔ اس میں شکار نہ کھیلا جائے یہاں کے درخت نہ کاٹے جائیں یہاں ہتھیار نہ اٹھائے جائیں ۔ (صحیح مسلم:1362) صحیح مسلم شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ لوگ تازہ پھل لے کر خدمت نبوی میں حاضر ہوتے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے لے کر دعا کرتے کہ اے اللہ ہمارے پھلوں میں ہمارے شہر میں ہمارے ناپ تول میں بھی برکت دے ۔ اے اللہ ابراہیم علیہ السلام تیرے بندے تیرے خلیل اور تیرے رسول تھے میں بھی تیرا بندہ تیرا رسول ہوں انہوں نے تجھ سے مکہ کے لیے دعا کی تھی میں تجھ سے مدینہ ( منورہ ) کے لیے دعا کرتا ہوں جیسے انہوں نے مکہ مکرمہ کے لیے کی تھی بلکہ ایسی ہی ایک اور بھی ۔ آپ کسی چھوٹے بچہ کو بلا کر وہ پھل اسے عطا فرما دیا کرتے ۔ (صحیح مسلم:1373) سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ جاؤ اپنے بچوں میں سے کسی ایک کو ہماری خدمت کے لیے آؤ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ مجھے لے کر حاضر ہوئے میں اب سفرو حضر میں حاضر خدمت رہنے لگا ۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر سے آ رہے تھے جب احد پہاڑ پر نظر پڑی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ پہاڑ ہم سے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں ۔ جب مدینہ نظر آیا تو فرمانے لگے یا اللہ میں اس کے دونوں کنارے کے درمیان کی جگہ کو حرم مقرر کرتا ہوں جیسے ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم بنایا اے اللہ ان کے مد اور صاع میں اور ناپ میں برکت دے ۔ (صحیح بخاری:2889) اور روایت میں ہے یا اللہ جتنی برکت تو نے مکہ میں دی ہے اس سے دگنی برکت مدینہ میں دے ۔ (صحیح بخاری:1885) اور روایت میں ہے مدینہ میں قتل نہ کیا جائے اور چارے کے سوا اور پتے بھی یہاں کے درختوں کے نہ جھاڑے جائیں اسی مضمون کی حدیثیں جن سے ثابت ہوتا ہے مدینہ بھی مثل مکہ کے حرم ہے اور بھی بہت سی ہیں ۔ یہاں ان احادیث کے وارد کرنے سے ہماری غرض مکہ شریف کی حرمت اور یہاں کا امن بیان کرنا ہے ، بعض تو کہتے ہیں کہ یہ شروع سے حرم اور امن ہے بعض کہتے ہیں خلیل اللہ کے زمانہ سے لیکن پہلا قول زیادہ ظاہر ہے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ والے دن فرمایا جب سے اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین پیدا کئے تب سے اس شہر کو حرمت و عزت والا بنایا ہے اب یہ قیامت تک حرمت و عزت والا ہی رہے گا اس میں جنگ وقتال کسی کو حلال نہیں میرے لیے بھی آج کے دن ہی ذرا سی دیر کے لیے حلال تھا اب وہ حرام ہی حرام ہے سنو اس کے کانٹے نہ کاٹے جائیں اس کا شکار نہ بھگایا جائے اس میں کسی کی گری پڑی چیز نہ اٹھائی جائے جو پہنچوائی جائے اس کے لیے اٹھانا جائز ہے اس کی گھاس نہ کاٹی جائے دوسری روایت میں ہے کہ یہ حدیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اثنائے خطبہ میں بیان فرمائی تھی اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے سوال پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذخر نامی گھاس کے کاٹنے کی اجازت دی تھی ۔ (صحیح بخاری:1834) سیدنا ابن شریح عدوی رضی اللہ عنہ نے عمر بن سعید سے اس وقت کہا جب وہ مکہ کی طرف لشکر بھیج رہا تھا کہ اے امیر سن فتح مکہ والے دن صبح ہی صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ میں فرمایا جسے میرے کانوں نے سنا دل نے یاد رکھا اور میں نے آنکھوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ مکہ کو رب ذوالجلال نے حرام کیا ہے لوگوں نے نہیں کیا ، کسی ایماندار کو اس میں خون بہانا اس کا درخت کاٹنا حلال نہیں ۔ اگر کوئی میری اس لڑائی کو دلیل بنائے تو کہہ دینا کہ میرے لیے صرف آج ہی کے دن کی ایسی ساعت یہاں جہاد حلال تھا ۔ پھر اس شہر کی حرمت آ گئی ہے جیسے کل تھی ۔ خبردار ہر حاضر غائب کو یہ پہنچا دے لیکن عمرو نے یہ حدیث سن کر صاف جواب دے دیا کہ میں تجھ سے زیادہ اس حدیث کو جانتا ہوں ۔ حرم نافرمان کو اور خونی کو اور بربادی کرنے والے کو نہیں بچانا ۔ (صحیح بخاری:1832) ان دونوں احادیث میں کوئی تعارض نہ سمجھے تطبیق یوں ہے کہ مکہ روز اول سے حرمت والا تھا لیکن اس حرمت کی تبلیغ خلیل اللہ نے کی جس طرح نبی کریم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو اس وقت سے تھے جب کہ آدم علیہ السلام کا خمیر گوندھ رکھا تھا بلکہ آپ اس وقت بھی خاتم الانبیاء لکھے ہوئے تھے ۔ (مسند احمد:127/4صحیح بالشواھد) لیکن تاہم ابراہیم علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی دعا کی کہ آیت «رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ» ( 2 ۔ البقرہ : 129 ) ان ہی میں سے ایک رسول ان میں بھیج جو اللہ نے پوری کی اور تقدیر کی لکھی ہوئی وہ بات ظاہر و باہر ہوئی ۔ ایک حدیث میں ہے کہ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ابتداء نبوت کا تو کچھ ذکر کیجئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے باپ ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی بشارت اور میری ماں کا خواب وہ دیکھتی ہیں کہ ان سے گویا ایک نور نکلا جس نے شام کے محلات کو روشن کر دیا اور وہ نظر آنے لگے ۔ (طیالسی:1140:حسن) مدینہ منورہ افضل یامکہ مکرمہ؟ اس بات کا بیان کہ مکہ افضل ہے یا مدینہ ؟ جیسا کہ جمہور کا قول ہے جیسے کہ حضرت امام مالک رحمہ اللہ اور ان کے تابعین کا مذہب ہے مدینہ افضل ہے مکہ سے ۔ اسے دونوں طرف کے دلائل کے ساتھ عنقریب ہم بیان کریں گے ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ ابراہیم علیہ السلام دعا کرتے ہیں کہ باری تعالیٰ اس جگہ کو امن والا شہر بنا یعنی یہاں کے رہنے والوں کو نڈر اور بے خوف رکھ ۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرماتا ہے جیسے کہ فرمایا آیت «وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا» ( 3 ۔ آل عمران : 97 ) اس میں جو آیا وہ امن والا ہو گیا اور جگہ ارشاد ہے آیت «أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا وَیُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِہِمْ أَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَۃِ اللہِ یَکْفُرُونَ» ( 29-العنکبوت : 67 ) کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو امن والا بنایا لوگ اس کے آس پاس سے اچک لیے جاتے ہیں اور یہاں وہ پر امن رہتے ہیں ۔ اسی قسم کی اور آیتیں بھی ہیں اور اس مضمون کی بہت سی حدیثیں بھی اوپر گزر چکی ہیں کہ مکہ شریف میں قتال حرام ہے ۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کسی کو حلال نہیں کہ مکہ میں ہتھیار اٹھائے (صحیح مسلم:1356) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا حرمت کعبۃ اللہ کی بنا سے پہلے تھی اس لیے کہا کہ اے اللہ اس جگہ کو امن والا شہر بنا ، سورۃ ابراہیم میں یہی دعا ان لفظوں میں ہے آیت «رَبِّ اجْعَلْ ہٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا» ( 14 ۔ ابراہیم : 35 ) شاید یہ دعا دوبارہ کی تھی ۔ جب بیت اللہ شریف تیار ہو گیا اور شہر بس گیا اور اسحاق علیہ السلام جو اسمٰعیل علیہ السلام سے تین سال چھوٹے تھے تولد ہو چکے اسی لیے اس دعا کے آخر میں ان کی پیدائش کا شکریہ بھی ادا کیا ۔ «ومن کفر» سے آخر تک اللہ تعالیٰ کا کلام ہے بعض نے اسے بھی دعا میں دخل کیا ہے تو اس تقدیر پر یہ مطلب ہو گا کہ کفار کو بھی تھوڑا سا فائدہ دے پھر انہیں عذاب کی طرف بی بس کر اس میں بھی حضرات ابراہیم علیہم السلام کی خلت ظاہر ہوتی ہے کہ وہ اپنی بری اولاد کے بھی مخالف ہیں اور اسے کلام اللہ ماننے کا یہ مطلب ہو گا کہ چونکہ امامت کا سوال جب اپنی اولاد کے لیے کیا اور ظالموں کی محرومی کا اعلان سن چکے اور معلوم ہو گیا کہ آپ پیچھے آنے والوں میں بھی اللہ کے نافرمان ہوں گے تو مارے ڈر کے ادب کے ساتھ بعد میں آنے والی نسلوں کو روزی طلب کرتے ہوئے صرف ایماندار اولاد کے لیے کہا ۔ ارشاد باری ہوا کہ دنیا کا فائدہ تو کفار کو بھی دیتا ہے جیسے اور جگہ ہے آیت «کُلًّا نٰمِدٰ ہٰٓؤُلَاءِ وَہٰٓؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّکَ وَمَا کَانَ عَطَاءُ رَبِّکَ مَحْظُوْرًا» ( 17 ۔ الاسرآء : 20 ) یعنی ہم انہیں اور ان کو بھی فائدہ دیں گے تیرے رب کی بخشش محدود نہیں ۔ اور جگہ ہے جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ فلاح نہیں پاتے دنیا کا کچھ فائدہ گو اٹھا لیں لیکن ہماری طرف آ کر اپنے کفر کے بدلے سخت عذاب چکھیں گے ۔ (10-یونس:70) اور جگہ ہے کافروں کا کفر تجھے غمگین نہ کرے جب یہ ہماری طرف لوٹیں گے تو ان کے اعمال پر ہم انہیں تنبیہ کریں گے اللہ تعالیٰ سینوں کی چھپی باتوں کو بخوبی جانتا ہے ہم انہیں یونہی سا فائدہ پہنچا کر سخت غلیظ عذابوں کی طرف بے قرار کریں گے اور جگہ ہے آیت «وَلَوْلَآ اَنْ یَّکُوْنَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً لَّجَعَلْنَا لِمَنْ یَّکْفُرُ بِالرَّحْمٰنِ لِبُیُوْتِہِمْ سُقُفًا مِّنْ فِضَّۃٍ وَّمَعَارِجَ عَلَیْہَا یَظْہَرُوْنَ» ( 43 ۔ الزخرف : 33 ) اگر یہ خطرہ نہ ہو تاکہ لوگو ایک ہی امت ہو جائیں تو ہم کافروں کی چھتیں اور سیڑھیاں چاندی کی بنا دیتے اور ان کے گھر کے دروازے اور تخت جن پر ٹیکے لگائے بیٹھے رہتے اور سونا بھی دیتے لیکن یہ سب دنیوی فوائد ہیں آخرت کا بھلا گھر تو صرف پرہیزگاروں کے لیے ہے ۔ یہی مضمون پرہیز گاروں کے لیے ہے یہی مضمون اس آیت میں بھی ہے کہ ان کا انجام برا ہے یہاں ڈھیل پا لیں گے لیکن وہاں سخت پکڑ ہو گی ۔ جیسے اور جگہ ہے آیت «فَکَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اَہْلَکْنٰہَا وَہِیَ ظَالِمَۃٌ فَہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوْشِہَا وَبِئْرٍ مٰعَطَّلَۃٍ وَّقَصْرٍ مَّشِیْدٍ» ( 22 ۔ الحج : 45 ) بہت سی ظالم بستیوں کو ہم نے مہلت دی پھر پکڑ لیا انجام کو تو ہمارے ہی پاس لوٹنا ہے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے گندی باتوں کو سن کر صبر کرنے میں اللہ سے بڑھ کر کوئی نہیں لوگ اس کی اولاد بتاتے ہیں لیکن تاہم وہ انہیں رزق و عافیت دے رہا ہے (صحیح بخاری:6099) اور حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا ہے پھر اسے اچانک پکڑ لیتا ہے (فتح الباری:205/8) پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی آیت «وَکَذٰلِک