Maktaba Wahhabi

آیت نمبرترجمہسورہ نام
1 ام ال کتاب کے فضائل ونکات : قرآن مجید میں اس کا نام ” سبع مثانی ہے ۔ احادیث میں فاتحہ ، کافیہ ‘ ام ال کتاب اور کنز وغیرہ کے ناموں سے موسوم ہے ۔ اس لئے کہ نماز میں اسے بار بار پڑھا جاتا ہے ہے : سبع مثانی “ ہے اس لئے کہ قرآن حکیم کی ابتدا اس سے ہوتی ہے : ” فاتحہ “ ہے اس لئے کہ معارف کا گنج گراں مایہ اس میں پوشیدہ ہے ۔ : کنز “ کہلاتی ہے اس لئے کہ تمام اس لئے کہ تمام اساسی وضروری اصول اس میں مذکور ہیں ۔ ام ال کتاب یا کافیہ کے نام سے یاد کی جاتی ہے یہ سارے قرآن ذی شان کا عطر سمجھئے ، تمام باتیں بالاجمال اس میں آگئی ہیں ۔ (لا) : رب کائنات کی حمد وستائش جس کی رحمتیں وسیع اور ہمہ گیر ہیں جو فیصلے کے دن کا تنہا مالک ہے ۔ (ب) : ایک خدا کی پرستش کا اعتراف اور ہر کام میں اسی سے استعانت کا اقرار ۔ (ج) : صراط مستقیم یا جادہ ہدایت کی طلب جس پر چل کر تمام برگزیدہ لوگوں نے انعام حاصل کئے اور جس سے ہٹ کر چاہ غضب وضلالت میں گر گئے ۔ اسی وجہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ۔ یہ قرآن میں عظیم ترین سورۃ ہے ۔ (ی) : امام المفسرین حضرت ابن عباس (رض) جو مفسر امت اور پہلے مفسر قرآن صحابی ہیں ‘ فرماتے ہیں فاتحہ دو ثلث تقریبا آجاتے ہیں یعنی دو تہائی مضامین (ف ١) بسم اللہ سے قرآن کا آغاز ہوتا ہے اور یہ ہر نوع کے آغاز کے لئے اس درجہ موزوں ہے کہ بسم اللہ کے معنی ہی آغاز یا شروع کے ہوگئے ۔ حدیث شریف میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کل امر ذی بال لم یبدا باسم اللہ فھو ابتر “۔ یعنی ہر کام کا آغاز بسم اللہ سے ہو ‘ ورنہ ناکامی ہوگی ۔ اس کا فلسفہ یہ ہے کہ ہر کام میں مندرجہ ذیل امور کا خیال رکھا جائے جو بسم اللہ میں بتائے گئے ہیں ۔ بسم اللہ ایک پیغام عمل ہے جسے غلطی سے ایک فسوں سمجھ لیا گیا ہے ۔ (١) کام کا مقصد نیک ہو اللہ کی رضا اس میں مستتر ہو (٢) خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے قانون کے ماتحت شروع کیا جائے یعنی بتدرئھ استقلال اور رجا کو ہاتھ سے دیا جائے ۔ (٣) مایوسی اور قنوط طبیعت پر نہ چھا جائے ۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ رحمن ورحیم ہے ۔ وہ کسی طرح بھی ہمارے نیک اعمال ضائع ہونے نہیں دیتا ۔ یہ سہ گانہ اصول ہیں جو بسم اللہ میں بتائے گئے ۔ ظاہر ہے انہیں ہر وقت ملحوظ رکھنا ہر کام میں کامیابی حاصل کرنے کے مترادف ہے ۔ الفاتحة
2 (ف ٢) خدا کے متعلق قرآنی تخیل یہ ہے کہ وہ ساری کائنات کا رب ہے ۔ اس کی خدائی زمان ومکان کی قیود سے بالا و بلند ہے ۔ حل لغات : الحمد ، مصدر تعریف وستائش اس صورت میں جبکہ ممدوح مختار اور فعل جمیل وخیر ہو ۔ رب : اسم صفت جو تخلیق واختراع کے بعد کائنات کا ہر منزل میں خیال رکھے یعنی ایجاد و تصویر سے لیکر تکمیل و تزئین تک ہر مرحلے میں اس کا التفات کرم فرما رہے ۔ العلمین : جمع عالم اسم آلہ خلاف قیاس ، دنیا یا کائنات ، ہر شے ہر جگہ ، ہر چیز ، الرحمن ، رحم رحمنہ سے اسم صفت رحم سے مطلق ہے یعنی ماورانہ شفقت کی انتہائی تنزیہی صورت ، مہرومحبت کا پاکیزہ ترین پیکر ، اھد ۔ مصدر ہدایت ، صیغہ امر لطف ومحبت سے رہنمائی کرتا ۔ دھیرے دھیرے پیار سے منزل مقصود تک پہنچانا ۔ الصراط المستقیم : سیدھی ، قریب ترین اور بےخوف ومضطرراء ۔ الفاتحة
3 الفاتحة
4 (ف ٣) مکافات عمل کی آخر صورت فیصلے کا دن ہے جس میں کسی کو مداخلت کا حق نہیں ۔ تمام جھگڑوں کو نپٹائے گا ۔ والامر یومئذ للہ الفاتحة
5 (ف ٤) قرآن کا یہ احسان ہے ساری دنیائے انسانیت پر کہ اس نے بندہ و خدا کے درمیان جتنے پردے حائل تھے چاک کر دئے ، اب ہر شخص براہ راست اسے پکار سکتا ہے ، نہ عبادت کے لئے کسی وسیلے کی ضرورت ہے نہ استعانت کے لئے کسی شفیع کی حاجت الفاتحة
6 (ف ٥) اللہ نے راہ طلب کی وسعتوں کو غیر محدود بنایا ہے مسلمان عرفان وسلوک کے ہر منصب کے بعد بھی ” طالب “ کے درجہ سے آگے نہیں بڑھتا یعنی خدا کا انعام وفضل بےپایاں وبیحد ہے ‘ اس لئے ایک عاصی سے لیکر حضور علیہ الصلوۃ والسلام تک یہی دعا مانگتے چلے آئے ہیں کہ اے خدا ہمیں صراط مستقیم پرچلا ۔ راہ اکرام وافضال کے دروازے بند نہ ہوں ۔ الفاتحة
7 (ف ٦) ضال ومغضوب سے وہ لوگ مراد ہیں جو صراط مستقیم سے بھٹک گئے ہیں اور پھر تمرود سرکشی کی وجہ سے کسی نہ کسی طرح عذاب میں گرفتار ہیں ۔ الفاتحة
0 البقرة
1 البقرة
2 حروف مقطعات کا فلسفہ : قرآن کی انتیس سورتوں کے آغاز میں یہ حروف آتے ہیں ، مفسرین نے مختلف معانی ان کے بیان فرمائے ہیں جو کھلا ہوا ثبوت ہے اس بات کا کہ یہ حروف بےمعنی نہیں ۔ قطرب ، مبرو ۔ فراء اور محققین کا ایک عظیم القدر گروہ اس بات پر متفق ہے کہ یہ حروف قرآن کے ان حروف تہجی سے مرکب ہیں جس سے قرآن کے الفاظ بنے ہیں ، مقصد یہ ہے کہ قرآن اپنے طرز بیان الفاظ کی شوکت اور معنویت کے اعتبار سے جو معجزہ ہے تو اس کی ترتیب میں انہیں روز مرہ کے حروف سے کام لیا گیا ہے تمہیں اگر اس کی ساحری ومعجز نمائی سے انکار ہے تو آؤ ایک سورۃ ہی ایسی لکھ دو جو قرآن کی کسی سورت سے لگاؤ کھا سکے ، علامہ زمخشری نے کشاف میں ایک باریک نکتہ یہ بیان کیا ہے کہ یہ حروف جو مقطعات کی شکل میں آئے ہیں سب قسم کے حروف کا یک بہترین اور زیادہ تر استعمال ہونے والا مجموعہ ہے ، غور کرکے دیکھو ان حروف کے بعد جہاں جہاں یہ آئے ہیں عموما کتاب آیات ‘ ذکر ‘ تنزیل قرآن وغیرہ کا ذکر ہے جو اس بات پر دال ہے کہ یہ آیات بینات ‘ ذکر جمیل ‘ یہ قرآن معجزہ طراز انہیں حروف کے الٹ پھیر کا نتیجہ ہے حوصلہ ہے تو تم بھی میدان میں آکر دیکھو ، ان حروف کا فلسفہ یہ بھی ہے کہ قرآن نے جس طرح اپنے ادب کو ملحوظ رکھا ہے ، جس اس کا لغت اس کی تشریح ، اس کی تفسیر اور اس کا انداز بیان بغیر کسی تغیر وتبدل کے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سینوں میں محفوظ ہے ، اسی طرح اس کے حروف کا تلفظ بھی محفوظ رہنا چاہیے تھا ۔ حروف مقطعات سے یہ ضرورت پوری ہوجاتی ہے ، گویا قرآن تلفظ وترتیل سے لے کر تشریح وتوضیح تک سب کچھ اپنے اندر رکھتا ہے اور کسی چیز بیرونی چیز کا مرہون منت نہیں ۔ (ف ١) سورۃ سجدہ میں فرمایا (آیت) ” تنزیل ال کتاب لا ریب فیہ من رب العلمین یعنی اس صحیفہ ہدی کے الہامی ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں طرز بیان کی دلربائی ، دلائل کا احصاء ضروریات انسانی کا لحاظ اور فطرت حق سے تطابق یہ سب چیزیں پڑھنے اور سننے والے کے دماغ کو اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہیں پھر یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ یہ کلام خدا کا غیر مشکوک کلام ہے ۔ (ف ٢) : ہدایت کے چار مرتبے ہیں ، الہام فطرت یا معارف ضروریہ کا علم جیسے (آیت) ” ربنا الذی اعطی کل شیء خلقہ ثم ھدی “۔ یا وحی نبوت جیسے (آیت) ” وجعلنا منھم ائمۃ یھدون بامرنا “۔ یا توفیق و تیسیر جیسے (آیت) ” والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا “۔ اور یا اللہ کے انعامات کی طرف راہنمائی جیسے اہل فردوس یہ کہیں گے ۔ (آیت) ” الحمد للہ الذی ھدانا لھذا “۔ یہاں یہ آخری معنی مراد ہیں ، مطلقا راہنمائی مقصود نہیں ، وہ تو ہر شخص کے لئے ہے چاہے مانے چاہے نہ مانے ۔ حل لغات : تقوی ۔ وقایۃ سے مشتق ہے جس کے معنی بچاؤ کے ہیں ۔ مراد ایسی حالت ہے نفس کی جو گناہوں اور لغزشوں سے بچائے ، غیب : ہر وہ جو ہمارے جوارح کی دسترس سے بالا ہو ۔ اقامت الصلوۃ ۔ پوری طرح خشوع وخضوع کے ساتھ نماز ادا کرنا ۔ البقرة
3 (ف ٣) : اللہ کا وہ انعام جسے وہ کلام کے لفظ سے تعبیر کرتا ہے ‘ یونہی نہیں مل جاتا ، اس کے لئے تمام مغیبات پر ایمان لانے کی ضرورت ہے اور پھر صحیح معنوں میں نماز پڑھنے کی حاجت ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ اللہ کی راہ میں کچھ دینے کی بھی اور پھر یہ بھی خیال رہے کہ قرآن پر پورا پورا ایمان ہو ۔ سابقہ کتب کی بھی احترام کی نگاہ سے دیکھے اور نظام اخروی پر غیر متزلزل یقین رکھے یعنی ایمان وعمل دونوں تابحد کمال ہوں ۔ البقرة
4 البقرة
5 البقرة
6 البقرة
7 البقرة
8 ناقابل اصلاح گروہ : آفتاب نبوت جب چمکتا ہے تو چند آنکھیں بینائی کھو بیٹھتی ہیں اور ایسے شپرہ چشم لوگ پیدا ہوجاتے ہیں جنہیں نصف النہار کے وقت بھی حق سوجھائی نہیں دیتا ، جب اللہ کی عنایت وکرم کے بادل گھر کے آتے ہیں تو ایسی زمین بھی ہوتی ہے جو شور اور سنگلاح ہو ، وہاں روئیدگی کی قطعا امید نہیں ہوتی ، کفر وعناد کا زقوم تو وہاں اگتا ہے ، مگر ایمان کا گل وریحان نہیں اگتا ، یہاں اسی چیز کا ذکر ہے ۔ ایک ناقابل اصلاح گروہ جس کا تمرد حد سے بڑھ گیا ہے تو تیئیس سال تک چشمہ فیض سے سیراب ہوتا ہے لیکن انکار وناشکری سے باز نہیں آتا جو خود کہتا ہے (آیت) ” قلوبنا غلف “ کہ ہمارے دلوں میں حق کے لئے کوئی جگہ نہیں کیونکر ہدایت پذیر ہو سکتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے اور ان کے کانوں پر بھی ، نہ کان حق کی آواز کو سنتے ہیں اور نہ دل ہی حق نیوش ہے ، آنکھوں کی بصیرت بھی نہیں رکھتے ، اس پر بھی تعصب وعناد کی پٹی بندھی ہے ۔ یعنی یہ لوگ صحیح استعداد کھو بیٹھے ہیں ۔ آپ ان کی مخالفت سے نہ کڑھیں ، یہاں چند نکات ملحوظ رہیں : ۔ (ا) ختم کا لفظ محض ان کی حالت کو واضح کرنے کے اختیار کیا گیا ہے ‘ ورنہ اللہ تعالیٰ ایک طبیب کی طرح کسی حالت میں بھی مریض کفر سے مایوس نہیں ہوتا ہے ۔ (ب) قلب ، سمع اور بصر کا ذکر بجائے خود دلیل ہے اس بات کی ، مراد دل انقلاب پذیر ہے جو ٹھس گیا ہے ۔ اور اس کے کان جن میں فطرت نے سماعت کی قوت رکھی تھی اب نہیں رہی اور ایسی آنکھیں ہیں جو بصارت سے بہرہ ور تھیں اب محروم ہوگئی ہیں ۔ ورنہ قلب کی جگہ فواد اور سمع کی جگہ اذن اور بصر کی جگہ عین کا استعمال کیا جاتا ۔ (ج) اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ آپ تبلیغ واشاعت روک دیں یہ کہا کہ ان کی حالت یہ ہے کہ نہ مانیں گے ، نہ یہ کہ آپ بھی اپنے فرائض سے تغافل برتیں ، یعنی (آیت) ” سوآء علیھم فرمایا سواء لک نہیں کہا ۔ کیونکہ مصلح کو کسی وقت بھی مایوس نہ ہونا چاہئے (د) حدیث میں اس انداز بیان کی تشریح نہایت حکیمانہ طرز میں مذکور ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جب کوئی انسان پہلی دفعہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو دل پر ایک سیاہ نقطہ سا پڑجاتا ہے ، دوسری دفعہ دو نقطے پڑجاتے ہیں اور بار بار اکتساب معصیت سے دل سیاہ دھبوں سے اٹ جات ہے یعنی پہلے پہل اقدام گناہ پر ضمیر ملامت کرتا ہے اور عادت ہونے پر اس کی زندگی ختم ہوجاتی ہے ۔ ان آیات کا یہی مفہوم ہے کہ یہ لوگ مردہ ضمیر ہوچکے ہیں گناہ کا احساس باقی نہیں رہا ۔ (ف ١) یہ وہ گروہ ہے جو منہ سے تو اسلام کا اعتراف کرتا ہے لیکن دلوں میں بدستور کفر کی غلاظت موجود ہے ۔ اس لئے فرمایا کہ درحقیقت یہ لوگ مومن نہیں یہ کوشش کرتے ہیں کہ خدا اور خدا پر ست لوگوں کو دھوکہ میں رکھیں ۔ لیکن اس حرکت کا کیا فائدہ ؟ زہر تو تریاق سمجھ لینے سے اس کی مضرت تو زائل نہیں ہوجاتی ، جب دلوں میں کفر ہے تو زبان کا اقرار اور اعتراف کسی طرح بھی مفید نہیں ۔ حل لغات : کفروا : جمع کفر فعل ماضی معلوم ، مذکر غائب ، مصدر کفر کے معنی اصل میں چھپانے کے ہیں کسان کو ، رات کو ، گھنے جنگل کو ، پڑ ہول وادی کو بھی کافر کے لفظ میں تعبیر کرتے ہیں ، کیونکہ یہ سب چیزیں کسی نہ کسی طرح مفہوم کی حامل ہیں مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ بار بار وضاحت کے باوجود بھی جانتے ہوئے خود صداقت کو چھپاتے ہیں ۔ (آیت) ” یخدعون “۔ فعل مضارع ، باب مفاعلہ اصل خدع کے معنی ہوتے ہیں ، مخالف کو ایسی بات کے یقین دلانے کی کوشش کرتا جو اس کا مقصد نہیں اور ایسے طریق سے کہ وہ بظاہر فریب دہ نہ ہو ۔ البقرة
9 البقرة
10 (ف ١) مقصد یہ ہے کہ یہ جتنا اسلام کی کامیابی پر کڑھتے ہیں ، اللہ تعالیٰ اسی سے اسلام کو کامیابی بخش رہا ہے نتیجہ یہ ہے کہ دل میں نفاق وحسد کا مرض بڑھتا ہی جاتا ہے کم نہیں ہوتا اس کو اپنی طرف منسوب کرنا یہ بتانا ہے کہ سب کام اللہ کی قدرت سے ہوتے ہیں گو اس کا منشاء یہ نہیں کہ لوگ کفر اختیار کریں ۔ البقرة
11 البقرة
12 البقرة
13 (ف ٢) ایمان وکفر میں ہمیشہ دانائی وسفاہت کی حدود الگ الگ رہی ہیں ، ایمان کی دعوت عقل وبصیرت کی دعوت ہے اور کفر وضلالت کی طرف بلانا درحقیقت بےعلمی وجہالت پر آمادہ کرنا ہے کفر والے ہمیشہ اس غلط فہمی میں رہے کہ ایمان قبول کرنا گھاٹے اور خسارے کو خواہ مخواہ مول لینا ہے ، قرآن حکیم کا ارشاد ہے ۔ (آیت) ” الا انھم ھم السفھآء “۔ درحقیقت وہ خود بےوقوف ہیں نفع و نقصان کو صرف مادیات تک محدود سمجھتے ہیں ، نگاہوں میں بلندی نہیں ہے ‘ ورنہ دین ودنیا کی نعمتوں کا حصول کسی طرح بھی خسارہ نہیں ۔ اور مذہب تو کہتے ہیں اس نظام عمل کو جس کو مان کر فلاح دارین حاصل ہوجائے ، حل لغات : السفھآء ۔ جمع سفیہ ، کم عقل ، بےوقوف ۔ خلوا ۔ ماضی مصدر خلوا ۔ خلا الیہ کے معنی ہیں گزرنے کے ۔ شیطین جمع شیطن ، ایک شخص مبتدع جو رشد و ہدایت سے محروم ہے اور خدا کی رحمتوں سے دور ، یہاں مراد شریر لوگ ہیں جو شیطان کی طرح مفسد ہیں ۔ البقرة
14 (ف ١) یہ بےعلم منافق اس قدر دلوں کے کمزور اور بودے ہیں کہ نہ کفر پر ثبات واستقلال ہے اور نہ ایمان واستحکام جب مسلمانوں سے ملتے ہیں تو منہ پر ایمان کے نعرے ہوتے ہیں اور جب اپنے لگے بندھوں سے تنہائی میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ تو محض مذاق تھا ، مانتا کون ہے ، دل کا یہ مرض لاعلاج ہے اور اس سے دلوں کی آلودگی خطرناک اور مہلک ہے ۔ البقرة
15 البقرة
16 البقرة
17 (ف ٢) اللہ ایسے لوگوں سے دنیا وآخرت میں سلوک بھی اسی طرح کا روا رکھتے ہیں کہ جو بجائے خود ایک قسم کا مذاق ہو نہ ایمان وذوق کی شیرینی سے یہ جماعت بہرہ ور ہوتی ہے اور نہ کفر والحاد کے فوائد ظاہری سے متمتع ، کفر اگر تذبذب کے خرخشوں سے معرا ہو تو کم از کم ظاہری وعارضی لذات سے محروم نہیں اور ایمان و عقیدت اگر شک وارتباب سے پاک ہو تو پھر دونوں جہان کے مزے ہیں ۔ اللہ بھی خوش ہے اور دنیا بھی تابع ۔ امام المفسرین حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ قیامت کے دن جب یہ جنت کی طرف بڑھیں گے اور یہ سمجھیں گے کہ یہ مقام سرور وجسور ہمارے لئے ہے تو یکایک ان میں اور جنات نعیم مین ایک دیوار حائل ہوجائے گی اور گویا یہ بتایا جائے گا کہ یہ جواب ہے تمہارے اس مذاق و استہزاء کا جسے تم فخریہ اپنے رؤساء دین سے ظاہر کیا کرتے تھے ۔ منافق کا نفسی تذبذب : ان آیات میں نہایت ہی بلیغ انداز میں منافقین کے نفسی تذبذب کو واضح کیا گیا ہے کہ وہ کبھی تو ایمان کی مشعل فروزاں سے مستیز ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی پھر کفر کی تاریکیوں میں جا کرتے ہیں ، ان کی مثال ایسے متحیر اور پریشان شخص کی ہے جو آگ جلا کے روشنی پیدا کرلے اور پھر یکایک اندھیرا ہوجانے پر اندھیاری میں ٹامک ٹونیاں مارتا پھرے ۔ ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ ایمان روشنی ہے اور نفاق ظلمت وتاریکی ، مسلمان کے سامنے اس کا مستقبل ‘ اس کا نصب العین واضح اور بین طور پر موجود ہوتا ہے ، بخلاف منافق کے کہ اس کی زندگی کا کوئی روشن مقصد نہیں ہوتا ۔ حل لغات : یستھزی ۔ مضارع معلوم ، مصدر استہزاء ، مذاق کرنا ، توہین کرنا ۔ یمدھم ، مضارع معلوم ، ڈھیل دیتا ہے ، یعمھون ۔ مضارع معلوم ، اصل العمہ ، دل کا بصیرت سے معلوم ہوتا ۔ بصیرت کے اندھے کو اعمہ ۔ کہتے ہیں ، صمم ، بہرہ جس کے کان میں نقص ہو ، بکم ۔ جمع ابکم ، گونگا ، قوت گویائی سے محروم ، عمی ۔ جمع اعمی ، اندھا ، صیب ۔ بارش ، پانی سے لبریز بادل ، رعد ۔ بجلی کی کڑک اور گرج ، برق ، بجلی کی لمعاتی چمک ۔ البقرة
18 البقرة
19 البقرة
20 (ف ١) پہلی مثال تو کفر کے تحیر کی تھی ، اس مثال میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ یہ لوگ بہرحال مطلب کے پورے ہیں ۔ جب اسلام لانے سے کچھ مطلب براری ہوتی ہے تو پھر انہیں بھی اعلان کرنے میں دریغ نہیں ہوتا اور جب آزمائش وابتلا کا وقت ہو تو صاف انکار کردیتے ہیں یعنی جہاں ان کا ذاتی مفاد روشن طور پر نظر آرہا ہو ، مسلمانوں کا ساتھ دیتے ہیں اور جہاں مشکلات کی تاریکی نظر آئی ، رک گئے ، انہیں تنبیہہ فرمائی کہ ایسا نہ کرو ، ورنہ اللہ کا عذاب آجائے گا اور پھر تم میں یہ استعداد بھی باقی نہ رہے گی ، دعوت عبادت واتقاء : قرآن نے ساری کائنات کو دعوت دی ہے کہ وہ رب خالق کی عبادت کرے اور اس طرح تمام انسانوں کو ایک مرکز پر جمع کرنے کی کوشش کی ہے ، وہ کہتا ہے جب تمہارا اور تمہارے آباؤ اجداد کا خدا ایک ہے تو پھر یہ اختلافات کیسے ؟ ایک خدا کے سامنے جھکو ایک کی محبت اپنے دل میں رکھو ، اس طرح تم سب میں اتقاء پیدا ہوجائے گا اور تم سب ایک صف میں جمع ہوجاؤ گے ، رنگ وبو کا اختلاف ، نون ونسل کے قضیئے ایک دم مٹ جائیں گے ۔ حل لغات : اصابع ، جمیع اصبع ، انگلی ، کانوں میں انگلی کا اگلا حصہ ٹھونسا جاتا ہے جسے عربی میں انملۃ کہتے ہیں لیکن یہاں قرآن حمید اصابع ۔ کہہ کے گویا اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ بصورت مبالغہ رعد وگرج سے ڈرتے ہیں اور پوری انگلیاں کانوں میں ڈال دیتے ہیں ۔ اذان ۔ جمع اذن ، کان ، صواعق ، جمع صاعقۃ ، بجلی یا کڑک ، وہ آواز جو ابر کے اعتکاک سے پیدا ہوتی ہے ۔ حذر ۔ ڈر ، خوف ، اندیشہ ، محیط ۔ گھیرے ہوئے ، اسم فاعل ہے ، اصل ہے احاطہ ۔ یعنی گھیرنا ، مقصد یہ ہے کہ یہ نافرمان اس کے علم میں ہیں اور ہر وقت اس کے قبضہ واختیار میں ہیں جیسے کوئی چاروں طرف سے گھر گیا ہو ۔ یخطف ۔ مضارع مصدر خطف ۔ اچک لینا ۔ اعبدوا ، امر مصدر عبادت مذقل وانکسار طریق معبد ۔ پامال راستہ شرعا مراد ہے ، وہ طریق عجزوانکسار جس کا اظہار اپنے رب کے سامنے قیام وکوع کی صورت میں کیا جائے یا دوسرے فرائض کی ادائیگی ، ہر وہ بات جو جذبہ عبودتیت کو ابھارے ۔ خلق ، فعل ماضی مصدر ، خلق ۔ پیدا کرنا بنانا ، اختراع وایجاد کرنا ۔ فراش ، اسم بچھی ہوئی چیز ، زمین کو فرش سے تشبیہہ دی ہے جس طرح بچھونے میں آرام حاصل ہوتا ہے اسی طرح زمین بھی ہمیں آسودگی بخشتی ہے ۔ بنآء ۔ چھت بنی ہوئی چیز ، مقصد یہ ہے کہ آسمان بھی اللہ تعالیٰ نے تمہارے فائدے کے لئے بنایا ہے جو بظاہر چھت کی طرح تمہیں گھیرے ہوئے ہے ، محض تشبیہہ ہے ۔ یہ مطلب نہیں کہ آسمان واقعی چھت ہے ۔ انزل ۔ ماضی مصدور انزال ، مادہ نزول ، اتارا ، نازل کیا ۔ البقرة
21 البقرة
22 (ف ١) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے انعام گنائے ہیں اور توجہ دلائی ہے غافل انسان کو یہ کہ وہ زمین کی طرف دیکھے کس قدر آرام دہ ہے آسمان کی طرف نظر دوڑائے کیونکہ چھت کی طرح ہم پر سایہ فگن ہے ۔ آسمان کی طرف سے پانی پرستا ہے اور ہمارے روکھے سوکھے باغ لہلہا اٹھتے ہیں اور اثمار ونتائم کا انبار لگ جاتا ہے ، کیا یہ نعمتیں ایک خدا کی طرف سے نہیں ؟ قرآن حکیم روزہ مرہ کے مشاہدات کی طرف ہماری توجہ مبذول کرتا ہے ، اور قیمتی نتائج پیدا کردیتا ہے ، وہ کہتا ہے ، ان سب چیزوں کو بنظر غور وتعمق دیکھو ، ایک خدا کی خدائی کس طرح واضح اور بین طور پر نظر آ رہی ہے ، قرآن حکیم کا اصرار ہے کہ اس کی پیش گاہ جلالت میں کوئی دوسرا خدا نہ ہو ، مسلمان کے دل میں صرف اسی کی محبت ہو ۔ وہ صرف اسی رب اکبر سے ڈرے اور اپنی حاجتوں کو اسی سے وابستہ سمجھے ، وہ توحید کا پیغام ہے ۔ وحدہ کے سوا کوئی کسی دوسری چیز پر مطمئن نہیں اس کے ہاں شرک کائنات انسانیت کے لئے بدترین لعنت ہے ۔ لاجواب کتاب : یوں تو خدا کے کلام کو لاجواب ہونا ہی چاہئے مگر قرآن حکیم بالتخصیص بےنظیر ہے ، اس وقت جبکہ عرب کا بچہ بچہ شاعر تھا ۔ خطابت تکلم پر ان کو ناز تھا ، اس وقت قرآن حکیم نازل ہوتا ہے اور اس تحدی کے ساتھ کہ یہ قطعا انسانی کلام نہیں ہمت ہے تو اس کا مقابلہ کر دیکھو ، مگر تیرہ صدیاں گزر جاتی ہیں اب تک جواب تو کیا سنجیدگی کے ساتھ مقابلہ ہی نہیں کیا گیا ، عربوں کی غیرت وحمیت مشہور ہے ، مگر قرآن حکیم کی اس تحدی کے بعد ان کی گردنیں جھک گئیں اور وہ جو مخالف تھے وہ بھی کہہ اٹھے ۔ ان لہ لحلاوۃ وان علیہ الطلاوۃ وان اصلہ لمغدق وان اعلاہ لمثر ۔ کہ قرآن کیا ہے عسل وشرینی کا مجموعہ ہے ۔ الفاظ میں تازگی اور جمال ہے ۔ نہایت پر مغز اور نتیجہ آفرین کلام ہے ۔ قرآن کا دوسرا دعوی یہ تھا کہ انسانی ہمتیں ایسا نہ کرسکیں گی ۔ چنانچہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسا نہ ہوسکا ، قرآن تیئس سال کی مدت میں نازل ہوا اور ان کو موقع دیا گیا کہ وہ آسانی کے ساتھ مقابلہ کرسکیں ، مگر تاریخ شاہد ہے ، قرآن کے زور فصاحت کے سامنے زبانیں طمنگ ہوگئیں ۔ یہ قرآن کا بےنظیر معجزہ ہے جو قیامت تک قائم رہے گا ، قرآن لوگوں کو دعوت دیتا ہے کہ وہ ایسی پر مغز ، حکیمانہ ، قابل عمل ، فصیح وبلیغ کتاب لکھیں جو اس کی ہم پایہ ہو سکے ، جو ایسی شیریں ‘ بااثر اور پرکیف ہو ، جو اسی طرح قوموں کو بدل دینے کی قدرت رکھتی ہو ، جو انقلاب آفرین ہو ۔ جو ہر حالت میں پڑھنے اور یاد رکھنے کے قابل ہو جس میں صحیح معنوں میں رہنمائی کی تمام قوتیں رکھ دی گئی ہوں ، جس کا تعلق زمانہ اور زماضیات سے نہ ہو ، ہر وقت ہر زمانے میں ہر قوم کے لئے یکساں قابل ہو ۔ زبان کی قید نہیں ۔ وقت کا خیال نہیں ۔ صرف ایک شخص کو مقابلہ کے لئے نہیں بلایا گیا ، سب مل کر کسی زبان میں قیامت تک کوئی کتاب لکھیں جو اس درجہ بلند اور سحر آفرین ہو ، کتنا بڑا ، کتنا عظیم الشان اور حیران کن دعوی ہے ، کیا دنیا اس کا جواب دے گی ؟ (آیت) ” ولن تفعلوا ۔ حل لغات : اخرج ۔ ماضی مصدر اخراج مادہ خروج ، نکالا ، ثمرات ، واحد ثمرۃ ۔ پھل ، اندادا ۔ جمع ند ، شریک وسہیم ، ندیدا اور ند دونوں کا ایک ہی معنی ہے ۔ شھدآء ۔ جمع شھید ، ساتھی دوست ، مددگار ، رفیق ، وقود ، ایندھن جس سے آگ جلائی جائے ۔ حجارۃ ۔ پتھر ۔ البقرة
23 البقرة
24 البقرة
25 جنت (ف ١) ودوزخ کی حقیقت : جس طرح دنیا میں دو جماعتیں ہیں ، ایک ماننے اور عمل کرنے والی ، دوسری انکار کرنے والی اور فسق وفجور میں مبتلا رہنے والی ۔ اسی طرح اللہ کی رضا اور غضب کے دو مقام ہیں ، دوزخ یا جہنم نام ہے کے مقام غضب وجلال کا اور جنت کہتے ہیں اس کی رضا ومحبت کے مظہر اتم کو ۔ چونکہ انسان روح ومادہ سے مرکب حقیقت کا نام ہے اور اس میں دونوں کے الگ الگ مقتضیات ہیں ‘ اس لئے ضروری ہے کہ سزا اور جزا میں دونوں چیزوں کا خیال رکھا جائے ، نہ صرف مادہ متاثر ہو اور نہ صرف روح منفعل ۔ قرآن حکیم نے اس نکتے کو بڑی وضاحت سے بیان فرمایا ہے ، وہ کہتا ہے جہنم میں تمہارے جسم کو بھی ایذا دی جائے گی اور تمہاری روح کو بھی ، اسی طرح جنت میں صرف روحانی کوائف نہ ہوں گے ، بلکہ جسمانی لذائذبھی ہوں گے ، مگر پاکیزگی اور نزاکت کے ساتھ ، وہ تمام چیزین جو ہمارے لئے باعث سرور وعیش ہیں ‘ وہاں ملیں گی ، مگر اس طور پر کہ ہم نہ پہچان سکیں ۔ حدیث میں آتا ہے کہ جنت میں وہ کچھ ملے گا جسے ان کی آنکھوں نے کبھی نہیں دیکھا اور جن کے متعلق ان کانوں نے کچھ نہیں سنا اور اب تک وہ انسان کے دل میں بھی نہیں کھٹکا ، مالا عین رات ولا اذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر ۔ ایک تمثیل : جنت کا ذکر کرکے یہ فرمایا ہے کہ یہ نعمتیں جو بیان کی گئی ہیں ان کی حقیقت اصل میں ایک حقیر مچھر سے بھی کم ہے مگر یہ کور باطن لوگ جنت کے لذائذ کو سن کر معترض ہوتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ یہی چیزیں تو ہم چاہتے ہیں مگر وہ لوگ جو اہل حق وصداقت ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہمارے سمجھانے کے لئے ہے ، ورنہ جنت کے کوائف نہایت لطیف ‘ پاکیزہ اور بالا از حواس ہیں ۔ سورۃ مدثر میں اہل جہنم کا ذکر کرکے بالکل انہیں کلمات کو دہرایا ہے کہ یہ لوگ یہ چیزیں جہنم کے متعلق سن کر کہتے ۔ (آیت) ” ماذا اراداللہ بھذا مثلا “۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تمثیل سے مراد جنت ودوزخ کے کوائف کی تمثیل ہے ، ورنہ سارے قرآن میں خدا تعالیٰ نے کہیں مچھر کا ذکر نہیں کیا اور ربط آیات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس کے یہی معنے لئے جائیں ۔ واللہ اعلم ۔ حل لغات : جنت : جمع جنۃ ، باغ ۔ محفوظ ۔ خلدون ۔ جمع خالد ، ہمیشہ رہنے والا ۔ مادہ خلود بمعنی دوام ۔ البقرة
26 خائب (ف ١) وخاسر لوگ : فلاح وسعادت کی راہ ایمان وعمل کی راہ ہے ۔ وہ جو فاسق ہیں اللہ کی حدود کی پرواہ نہیں کرتے ، ان کے لئے خسارہ ہے ۔ نہ دنیا میں وہ کامیابی کی زندگی بسر کرسکتے ہیں اور نہ آخرت میں ان کا کوئی حصہ ہے ، منافق کی تین علامتیں ہیں : ۔ (ا) نقض عہد ، یعنی خدا کے بنائے ہوئے اور بندھے ہوئے قوانین کا توڑتا ۔ (ب) علائق ضرورت سے قطع تعلق یعنی ان تمام رشتوں سے تغافل جو انسانی فلاح وبہبود کے لئے از بس ضروری ہیں ۔ (ج) فساد فی الارض ۔ ظاہر ہے کہ جو لوگ رب فاطر کے بتائے ہوئے قوانین کا خیال نہیں رکھتے جو اپنوں سے دشمنوں کا سا سلوک کرتے ہیں ، جو ساری زمین میں فتنہ وفساد کی آگ کو روشن رکھتے ہیں ، ان سے کوئی بھلائی کرے گا اور وہ کس طرح ایک سعادت مند انسان کی زندگی بسر کرسکیں گے ۔ البقرة
27 حل لغات : ینفضون : مضارع معلوم ، مصدر نقض ، توڑنا ، قطع کرنا ۔ الخاسرون : گھاٹے میں رہنے والے جمع خاسر ۔ استوی : قصد کیا ، توجہ فرمائی ، اصلاح وتزئین کے لئے ۔ البقرة
28 (ف ٢) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ زبان سے تو اللہ تعالیٰ کا انکار کیا جا سکتا ہے ، مگر حقیقتا انکار ممکن نہیں ، جب تک موت وحیات کا ہمہ گیر قانون موجود ہے اور فنا وزیست کے واقعات سے بہرحال مفر نہیں ‘ اس وقت تک ایک زبردست حی وقیوم خدا پر ایمان ضروری ہے ۔ پھر جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کائنات کی تمام چیزیں انسان کے لئے پیدا کی گئی ہیں ، آفتاب سے لے کر ذرہ تک اور ذرہ سے پہاڑ تک سب اسی کے لئے زندہ ومصروف عمل ہیں ، تو ہمیں واشگاف طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ اس سارے نظام آفادہ کے پس پردہ کوئی رحمن ورحیم کرم فرما ہے ۔ (آیت) ” خلق لکم ما فی الارض جمیعا “۔ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان ساری کائنات کا مخدوم و مقصد ہے ۔ البقرة
29 البقرة
30 (ف ١) پہلا انسان : سلسلہ انسانیت کا پہلا بطل وہ ہے جسے کائنات ارض کا مالک بنانے والا ہے ۔ اللہ کی عنایات اسے زمین کا تاج وتخت بخشنے والی ہیں ۔ اس کی استعداد وقوت فرشتوں سے بھی زیادہ شاندار ہے ۔ وہ اس لئے بنایا جارہا ہے تاکہ خدا کے جلال وجمال کو دنیا کے کونوں تک پہنچائے اور ساری زمین پر خدا کی بادشاہت ہو ۔ یعنی وہ خلیفۃ اللہ فی الارض ہے ۔ (ف ٢) فرشتوں کو اعتراض ہے کہ ایسے انسان کی کیا ضرورت ہے وہ کہتے ہیں ، جب کائنات کے روحانی نظام کو ہم چلا رہے ہیں ، تیری تسبیح وتقدیس کے کلمے ہر وقت ہمارے لبوں پر نغمہ زن رہتے ہیں جب تیری حمد وستائش کے بےریا ترانے ہم ہر وقت الاپتے رہتے ہیں اور جب ہماری قدوسیت وپاکیزگی کے چار دانگ عالم میں چرچے ہیں تو پھر ایک انسان کو پیدا کرکے کن چیزوں میں اضافہ ہوگا ؟ وہ کہتے ہیں ، انسان زمین میں خود غرضی کی وجہ سے فساد پھیلائے گا ۔ اپنی قوت کا ناجائز استعمال کرے گا اور نتیجہ یہ ہوگا کہ ساری زمین جنگ وجدال کا میدان بن جائے گی ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، چپ رہو مصلحت یہی ہے ۔ (آیت) ” انی اعلم مالا تعلمون “۔ فرشتوں کو انسانی مستقبل کی دھندلی سی تصویر خود انسان کی ساخت سے نظر آجاتی ہے ۔ وہ جان جاتے ہیں کہ جو انسان مختلف عناصر سے بنایا جائے گا ، اس کی فطرت میں اختلاف رہے گا ۔ مگر خدائے حکیم کا جواب یہ ہے کہ ہم وحدت ویکسانی کی خوبصورتی دیکھ چکے ، اب اختلاف وتنوع کے جمال کو ملاحظہ کرنے دو اور یہ پہلے سے اللہ کے علم میں ہے اور اس لئے مقدرات میں سے ہے ۔ فرشتوں کو یونہی بتا دیا گیا ہے تاکہ وہ انسانی شرف ومجد سے آگاہ ہوجائیں ۔ البقرة
31 (ف ٣) پہلا انسان عالم تھا : اللہ نے ایک جواب تو فرشتوں کو یہ دیا کہ تم خاموش رہو ۔ دوسرا جواب آدم (علیہ السلام) کی قوتوں کا مظاہرہ تھا ، اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی فطرت میں علم کا جذبہ رکھا ، اسے تمام ضروریات سے آگاہ کیا ، معارف حیات بتلائے اور فرشتوں کے سامنے بحیثیت ایک عالم کے پیش کیا ۔ فرشتے بھی عالم تھے مگر تسبیح وتقدیس کے آئین وقانون کے فرمانبرداری واطاعت کے طریقوں کے ، انہیں حیات وفنا کے اسرار سے ناآشنا رکھا گیا ، موت وزیست کے جھمیلوں سے الگ ، یہ بغیر کسی کھٹکے اور خرخشے کے عبادت واطاعت میں مصروف تھے ، آدم (علیہ السلام) کو جو علم دیا گیا وہ فرشتوں کے علم سے بالکل مختلف تھا ، اسے مقتضیات انسانی بتائے گئے ، موت وحیات کا فرق سمجھایا گیا ، عبادت واطاعت کے علاوہ دنیا کی آبادی وعمران کے اسرار ورموز سے بہرہ ور کیا گیا ۔ سیاست وحکمرانی کے اصول وضوابط انہیں سکھائے گئے اور وہ تمام چیزیں بتلائی گئیں جو اسے خلیفۃ اللہ بنا سکیں ، فرشتوں کی حیثیت مطیع وفرمانبردار کی تھی اور آدم کی خلافت اس کے وارث کی ، اس لئے جب موازنہ کے وقت فرشتوں کو آدم (علیہ السلام) کے منصب رفیع کا علم ہوا تو معذرت خواہ ہوئے ، اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نہ کہتا تھا ۔ (آیت) ” انی اعلم غیب السموت والارض “۔ کو غیوب کا لعم صرف مجھے ہے تم نہیں جانتے ۔ حل لغات : ملآئکۃ : جمع ملک ، فرشتہ ، یسفک مضارع معلوم ، مصدر ، سفک ۔ خون بہانا ، انبؤنی ، مجھے بناؤ ، مادہ انباء ، خبر دینا ۔ البقرة
32 البقرة
33 البقرة
34 (ف ١) مسجودانسان : پھر اس لئے کہ فرشتوں کو انسان کو حقیقی قدر ومنزلت کا علم ہو ‘ اللہ نے تمام کو آدم (علیہ السلام) کے سامنے سجدہ کرنے کا کہا ، سب کو آدم (علیہ السلام) کے سامنے جھکایا ، اسلامی فلسفہ تخلیق ہی یہی ہے کہ تمام کائنات انسان کے لئے پیدا کی گئی ہے ۔ (آیت) ” وخلق لکم ما فی الارض جمیعا “۔ ذرہ سے آفتاب تک اور زمین سے آسمان تک سب کچھ حضرت انسان کے لئے ، حتی کہ شمس و قمر بھی اسی کے خادم ہیں ۔ (آیت) ” وسخرلکم الشمس والقمر دآئبین “۔ یوں سمجھ لیجئے کہ آدم قبلہ مقصود ہے ہر چیز کا ، ساری کائنات کا محور انسان ہے ، شیطان جو ایک مشخص برائی ہے ، اس حقیقت کو نہ سمجھا اور اکڑ بیٹھا ، قرآن حکیم نے بتایا ہے کہ وہ اپنی فطرت سے مجبور تھا ۔ (آیت) ” وکان من الکافرین “۔ اس لئے ضروری تھا کہ وہ انسانی شرف ومجد کا انکار کر دے ۔ البقرة
35 (ف ٢) : پہلے انسان کی پہلی جگہ : قرآن حکیم ، انسانی خلافت ‘ انسانی علم کے بعد پہلے انسان کے لئے جو جگہ تجویز فرماتا ہے ، وہ جنت ہے یعنی رضائے الہی کا آخری مظہر ۔ یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ انسان کی اصلی جگہ جنت ہے فطرت نے پیدا اسے اس لئے کیا ہے کہ وہ بارگارہ رحمت وفیض میں عیش وخلود کی زندگی بسر کرے ، چنانچہ ارشاد باری ہے کہ تم یہیں رہو ۔ مگر اس درخت کو استعمال میں نہ لانا ورنہ رحمت باری سے دور ہوجاؤ گے اور تمہیں کچھ عرصے کے لئے اپنے اصلی مقام سے الگ رہنا پڑے گا ۔ یہ قید اس لئے لگا دی تاکہ آدم (علیہ السلام) کو معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ بعض افعال کے ارتکاب سے ناراض ہوجاتا ہے ، اس کا خیال رہے یہی مطلب ہے اس حدیث کا ۔ ان الجنۃ حفت بالمکارہ “۔ یہ جنت میں آدمی ابتلاء وآزمائش میں پورا اترنے کے بعد جا سکتا ہے ، ان سب آیات سے واضح ہوتا ہے کہ انسان کا جو مرتبہ قرآن کے بیان کیا ہے وہ دنیا کی کسی کتاب میں مذکور نہیں ہے ، قرآن کہتا ہے پہلا انسان اللہ کا نائب ہے ۔ عالم اشیاء وحقائق ہے ، مکین جنت وفردوس ہے اور ساری کائنات کا مرکز مقصود ہے ، فرشتوں کا مسجود ہے ۔ (ف ١) آدم (علیہ السلام) بوجہ بشریت شیطان کے بھرے میں آگئے اور درخت کے متعلق انہیں غلط فہمی ہوگئی وہ نیک نیتی کے ساتھ یہ سمجھے کہ خدا کا منشاء کسی خاص درخت سے ممانعت کرتا ہے ، حالانکہ خدا کا منشاء مطلقا اس نوع کے اشجار سے روکنا تھا ، چنانچہ حضرت آدم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نیکی نیتی پر خدا نے شہادت دی ۔ (آیت) ” فنسی ولم نجدلہ عزما “۔ اس لئے یہ لغزش محض منشاء یا مفہوم کے اعتبار سے ہے ۔ الفاظ کی مخالفت نہیں ۔ حل لغات : تبدون وتکتمون : ظاہر کرتے ہو اور چھپاتے ہو ۔ مصدر ابدا وکتم ، سجدوا ، فعل ماضی مادہ سجدہ ، جھکنا ، اظہار تذلل کرنا ۔ ابلیس ، شیطان کا نام ہے ، ابلاس کے معنی ناکامی کے ہوتے ہیں ابلیس چونکہ خائب وخاسر شخص کا نام ہے اس لئے ابلیس کہا جاتا ہے ۔ رغدا : فراوانی ، بےکھٹکے ۔ البقرة
36 البقرة
37 البقرة
38 گناہ عارضی ہے : (ف ٢) : آدم (علیہ السلام) اجتہادی لغزش کی بنا پر جنت سے الگ کردیئے گئے اور انہیں کہہ دیا گیا کہ تم میں اور شیطان میں باہمی عداوت ہے ، اس لئے کچھ ومدت تک زمین پر رہو ‘ وہاں دونوں کا صحیح طور پر مقابلہ رہے گا ، پھر اگر تم وہاں اس کی گرفت سے بچ گئے تو اس اصلی وحقیقی مقام میں آجاؤ گے ، ورنہ تمہارا بھی وہی حشر ہوگا جو شیطان کا ہوا ہے ۔ آدم (علیہ السلام) کو عارضی طور پر اس لئے بھی زمین پر اتارا گیا ، تاکہ وہ شیطان کی تمام گھاتوں سے واقف ہوجائے اور پھر کبھی اس کی گرفت میں نہ آئے اور مقابلہ سے اس میں روحانیت کی ایک خاص کیفیت پیدا ہوجائے جو اس کو بارگاہ قدس کے قریب ہونے کے لائق بنا دے ، یہ سزا نہ تھی ، جیسا کہ بعض لوگوں نے سمجھا ہے بلکہ علاج تھا آدم (علیہ السلام) کی بشری وفطری کمزوریوں کا ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی درخواست پر انہیں معاف کردیا ، لیکن پھر بھی انہیں مقررہ وقت سے پہلے جنت میں جانے کی اجازت نہیں دی ۔ توبہ کی قبولیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ گناہ بالکل عارضی اور غیر مستقل کیفیت کا نام ہے ، رب العزت کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف بجائے خود بخشش کی ضمانت ہے ۔ (آیت) ” ان اللہ یغفر الذنوب جمیعا “۔ قرآن حکیم کا اعلان عام ہے کہ گناہوں سے لدے ہوئے انسان اس کے عتبہ جلال پر جب بوسہ دیتے ہیں تو وہ ان کے تمام گناہوں پر خط عفو کھینچ دیتا ہے ۔ (آیت) ” الا من تاب وامن وعمل عملا صالحا “۔ کا استثناء قرآن میں بار بار دہرایا گیا ہے جس کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ گناہ انسانی سرشت کا جزو لاینفک نہیں ‘ بلکہ ایک عارضی کیفیت ہے جو ندامت کے آنسوؤں سے زائل ہو سکتی ہے ۔ (ف ١) ان آیات میں بتایا کہ اللہ تعالیٰ کا جذبہ فیض ربوبیت تمہیں زمین کی پستی سے اٹھانے میں ہمیشہ کوشاں رہے گا ۔ اس کی طرف سے رہنمائی کے سارے سامان مہیا ہوں گے ، رسول بھی آئیں گے ، مصلح اور ہادی بھی پیدا ہوں گے ، تمہارا فرض ہے کہ ان کو مانو اور یاد رکھو ، وہی لوگ جو ایمان دار ہوں گے ، بےخوف وخطر زندگی بسر کرسکیں گے اور وہ جو اللہ کے احکام کی تکذیب کریں گے اور رسولوں کو جھٹلائیں گے کسی طرح بھی اللہ کے عذاب سے نہ بچ سکیں گے ۔ الشجرۃ : درخت ، عربی میں جھگڑنے کے معنی ہیں ۔ شجرۃ بالتاء استعمال نہیں ہوتا ، عدد : دشمن ، مخالف ، مستقر : ٹھکانا ، جائے استقرار ، فتلقی : حاصل کرنا ، لینا ، تاب علیہ : اس نے معاف کیا ۔ بخشا ، اصل ، توب : ہے یعنی رجوع کرنا ۔ لوٹنا ۔ اھبطوا ۔ اتر جاؤ ، مصدر ھبوط ، اترنا ، نازل ہونا ۔ البقرة
39 البقرة
40 (ف ٢) اولاد یعقوب (علیہ السلام) کو بنی اسرائیل کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ، ان میں متعدد رسول آئے ہیں اور ان پر بےشمار نعمتیں ہیں کہ جن کا ظہور ہوا ، لیکن یہ ویسے کے ویسے ہی رہے ، ان آیات میں زمانہ رسالت کے بنی اسرائیل کو مخاطب کرکے کہا گیا ہے کہ اللہ کی نعمتوں کو مت بھولو ۔ اس کے عہد کی تصدیق کرو ، یعنی تم میں سے وعدہ تھا کہ ہر سچائی کو قبول کرو گے ، پھر تمہیں یہ کیا ہوگیا ہے کہ اس بہت بڑی صداقت کا انکار کرتے ہو ۔ البقرة
41 قرآن حکیم تمام سچائیوں کا معترف ہے : (ف ٣) ان آیات میں بنی اسرائیل کو دعوت دی ہے کہ وہ قرآن کی آواز پر لبیک کہیں ، کیونکہ قرآن حکیم تمام پہلی کتابوں کا مصدق ہے تمام سبابقہ سچائیوں کا معترف ہے وہ اس پر ایمان لائیں ، کیونکہ اس میں وہی روشنی ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کو وادی ایمن میں نظر آئی اس میں وہی صداقت ہے ‘ جس کا اظہار صبح ناصری نے کیا ، اس کے بعد ان کے تجر قلبی پر انہیں ملامت کی اور فرمایا کہ دنیا طلبی کو صرف سفلی خواہشات تک محدود رکھو ، مذہب کو اور صداقت کو کسی قیمت پر بھی نہ بیچو ، اس لئے دیانتداری کو جس قیمت پر بھی فروخت کیا جائے گا وہ غلط ہوگی اور کم ہوگی اور فرمایا کہ صرف مجھ سے ڈرو ، رسم ورواج کے ڈر کو قوم کی مخالفت کے ڈر کو ، دلوں سے نکال دو ۔ اگر اسلام میں تمہیں کوئی نقص نظر نہیں آتا تو پھر قوم کی مخالفت کی چنداں پروا نہیں ، قبول کرلو ۔ (آیت) ” ولا تکونوا اول کافر بہ “۔ البقرة
42 (ف ٤) اپنے مطالب اور اپنی خواہشات کے لئے نفس مذہب کو بدل دنیا بہت بری عادت ہے ، یہودی اس میں مبتلا تھے اسی طرح کتمان حق کسی حالت میں بھی درست نہیں لیکن یہودی اس سے بھی باز نہیں آتے تھے ، قرآن حکیم نے انہیں اس عادت پر متنبہ کیا اور کہا تم جانتے بوجھتے اس قسم کی بدقماشی کا ارتکاب کیوں کرتے ہو ، یہ تو گوارا کیا جا سکتا ہے کہ تم مجرم بن جاؤ ، اللہ کے حکموں کی مخالفت کرو ، لیکن اللہ تعالیٰ کے حکموں کو تاویل وتعمق سے بدل ڈالنا تو کسی طرح برداشت نہیں کیا جا سکتا ۔ حل لغات : اولئک اصحاب النار : جہنم میں رہنے والے ۔ اول : پہلے یعنی تم کفر میں اوروں کے لئے نمونہ نہ بنو ، اول کے معنی ہیں ، من یؤول الیہ الامر کے لا تلبسوا : نہ ملاؤ ، نہ مختلط کرو ، مصدر لبس ، ملا دینا مختلط کردنیا ۔ البقرة
43 (ف ١) جماعتی زندگی ہمیشہ سے ایک ممدوح اور شان وار زندگی رہی ہے ۔ کوئی قوم جماعتی احساس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی ، قرآن حکیم نے اس ظرف بالخصوص توجہ فرمائی ہے ، غور کرو ، جماعتوں کو اپنے بقا وتحفظ کے لئے دو چیزوں کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ، اتحاد کی اور سرمایہ کی یعنی ایسے اسباب وعوامل پیدا ہوجائیں جس سے تمام افراد جماعت ایک مسلک میں منسلک ہوجائیں اور ساری جماعت میں ایک وحدت قومی نظر آئے ، پھر ایسا مشترک سرمایہ ہو جس کو قومی ضروریات پر خرچ کیا جا سکے ، تاکہ قوم بحیثیت ایک قوم کے دوسروں سے بالکل بےنیاز ہوجائے ، سوچو کیا نماز باجماعت سے زیادہ کوئی مؤثر بہتر اور آسان طریق تنظیم وملت کا ہو سکتا ہے ؟ اسی طرح قومی فنڈ کی کیا زکوۃ سے اچھی قابل عمل اور اعلی صورت ہو سکتی ہے ؟ اسی طرح بنی اسرائیل کو بھی نماز باجماعت کی تلقین فرمائی ہے اور قیام زکوۃ کی طرف توجہ دلائی کیونکہ ان چیزوں کے بغیر قوموں کی تعمیر ناممکن ہے ۔ البقرة
44 تنظیم جماعت کے اصول : (ف ٢) قرآن حکیم بار بار جس غلط فہمی کو دور کردینا چاہتا ہے وہ قول وعمل میں عدم توافق ہے قرآن کہتا ہے کہ تبلیغ واشاعت کا آغاز ، رہنمائی اور قیادت کا شروع اپنے نفس سے ہو ، اپنے قریبی ماحول سے ہو ، ورنہ محض شعلہ مقال کوئی چیز نہیں (آیت) ” لم تقولون ما لا تفعلون “۔ یہودیوں اور عیسائیوں میں بےعملی کا مرض عام ہوچکا تھا ، ان کے علماء واولیاء محض باتوں کے علماء تھے عمل سے معرا ‘ اخلاق سے کورے اور زبان کے رسیلے لوگ خدا کو پسند نہیں ۔ وہ تو عمل چاہتا ہے جدوجہد کا طالب ہے ، اس کے حضور میں کم گو لیکن ہمہ کاہش لوگ زیادہ مقرب ہیں البقرة
45 (ف ٣) ان آیات میں کشاکشہائے دنیا کا علاج بیان فرمایا ہے ، یعنی جب تم گھبرا جاؤ یا کسی مصیبت میں مبتلا ہوجاؤ تو پھر صبر کے فلسفے پر عمل کرو ۔ (آیت) ” وبشرالصابرین “۔ اور عقل وتوازن کو نہ کھو بیٹھو ، تاکہ مشکلات کا صحیح حل تلاش کیا جا سکے ، وہ جو مصیبت کے وقت اپنے آپے میں نہیں رہتے ، کبھی کامیاب انسان کی زندگی نہیں بسر کرسکتے قرآن حکیم چونکہ ہمارے نوع کے اضطراب کا علاج ہے ‘ اس لئے وہ ہمیں نہایت حکیمانہ مشورہ دیتا ہے جس سے یقینا ہمارے مصائب کا بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے ، پھر دوسری چیز جو ضروری ہے وہ نماز ودعا ہے ، (آیت) ” الا بذکر اللہ تطمئن القلوب “۔ اس وقت جب دنیا کے امانت کے سب دروازے بند ہوجائیں ، جب لوگ سب کے سب ہمیں بالکل مایوس کردیں ، اللہ کی بارگاہ رحمت میں آجانے سے دل کو تسکین ہوجاتی ہے ، حدیث میں آتا ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب کوئی مشکل پیش آجاتی تو آپ نماز کے لئے کھڑے ہوجاتے ، امام المفسرین حضرت ابن عباس (رض) کا واقعہ ہے ، وہ سفر میں تھے کسی نے آکر آپ کو آپ کے لخت جگر کے انتقال کی خبر سنائی ، وہ سواری سے اترے اور جناب باری کے عتبہ وجلال وجبروت پر جھک گئے ، حل لغات : زکوۃ ، اصلی معنی نشونما کے ہیں ، چونکہ اس نظام شرعی سے مال و دولت میں برکات نازل ہوتی ہیں اس لئے اس کا نام زکوۃ ہے ۔ البر : نیکی ، حسن سلوک ، شریعت کی اطاعت ، تنسون ، مادہ نسیان ، بھول جانا ، تتلون : پڑھتے ہو ، مادہ تلاوۃ ، الخشعین : خدا سے ڈرنے والے عاجز ومنکسر بندے ۔ البقرة
46 البقرة
47 البقرة
48 (ف ١) ان آیات میں دوبارہ بنی اسرائیل کو مخاطب کیا ہے تاکہ ان پر وہ تمام انعام جو کئے گئے ہیں ، گنائے جائیں اور انہیں دین حنیف کی طرف مائل کیا جائے ، اولا یہ فرمایا کہ تمہیں ہم نے اپنے تمام معاصرین پر مادی وروحانی فضیلت دی ، ثانیا ان کو ان کے موجودہ مزعومات سے باز رہنے کی تلقین فرمائی کہ تم یہ نہ سمجھو کہ تمہارے احباء وعلماء تمہارے اولیاء وشہداء تمہیں مکافات عمل کے ہمہ گیر قانون کی گرفت سے بچا لیں گے ، اس قسم کی سفارش جو ذاتی عمل سے معرا ہو ۔ قطعا سود مند نہیں ہے ۔ قرآن حکیم نے عام طور پر شفاعت کی نفی کی ہے اور کہیں کہیں (آیت) ” الا من اذن لہ الرحمن “ کہہ کر ایک نوع کے لوگوں کو مستثنے قرار دیا ہے جس کا صاف اور واضح مطلب یہ ہے کہ سفارش کا وہ مفہوم جو یہ لوگ سمجھے ہوئے تھے ‘ بالکل غیر موزوں ہے یعنی شریعت کی مخالفت کے باوجود شفاعت پر بھروسہ ، یہ محض فریب نفس ہے ، جس میں یہ لوگ مبتلا تھے ، اس لئے قرآن حکیم نے اس عقیدے کی پرزور تردید کی اور انہیں عمل پر آمادہ کیا ۔ البقرة
49 (ف ٢) یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ سے بنی اسرائیل مصر میں آکر آباد ہوئے ، موسیٰ (علیہ السلام) تک ان کو تقریبا چار صدیاں ہوئی ہیں ، اس عرصے میں قبطیوں نے تمام مناصب پر قبضہ جما لیا اور سارے نظام حکومت پر چھا گئے ، بنی اسرائیل کے لئے سوائے محنت ومزدوری اور کوئی کام باقی نہ رہا ، ادھر فراعنہ نے جب یہ دیکھا کہ بنی اسرائیل زیادہ قوی اور ذہین ہیں تو انہیں خطرہ پیدا ہوا کہ کہیں ساری حکومت ہی ان کے ہاتھ میں نہ آجائے ، عموما حکومتیں زور آور توانا قوموں سے خائف رہتی ہیں ، اس لئے انہوں نے اور زیادہ مظالم توڑے تاکہ ان میں رہی سہی قوت بھی جاتی رہے ، بالاخر جب کاہنوں نے فرعون کو ڈرایا کہ بنی اسرائیل میں ایک شان دار انسان پیدا ہونے والا ہے جس سے تیری جابرانہ حکومت خطرہ میں پڑجائے گی تو اس نے بچوں کے قتل عام کا حکم دے دیا اور بچیوں کو خدمت وغیرہ کے لئے زندہ باقی رکھا ، ان آیات میں ان ہی واقعات کی طرف اشارہ ہے کہ دیکھو کس طرح اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس ذلت وخفت سے نجات دی ، تم میں موسیٰ (علیہ السلام) کو بھیجا جس نے تمہیں آزادی وحریت کی نعمتوں سے بہرہ ور کیا ۔ البقرة
50 (ف ٣) البحر سے مراد یہاں دریائے قلزم ہے ، موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو آمادہ کرلیا کہ وہ راتوں رات ارض مصر سے نکل جائیں نہ یہ ہجرت اس لئے تھی کہ تاکہ فرعون کے اثر سے الگ رہ کر ان میں صحیح طریق پر دین کی روح پھونکی جائے ، غلامی سے دماغی اور ذہنی قوی کمزور ہوجاتے ہیں ‘ اس لئے ضرورت تھی کہ آزاد آب و ہوا میں انہیں لے جایا جائے ، فرعون کو جب یہ معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل ہاتھ سے نکلے جاتے ہیں تو اس نے باقاعدہ بنی اسرائیل کا تعاقب کیا اور دریائے قلزم پر ان کو جالیا ، وہ دریا کے پھٹ جانے کی وجہ سے پار اتر گئے اور فرعون بمعہ اپنے لشکر کے دریا میں ڈوب گیا ، یہ اس لئے تھا کہ بنی اسرائیل اپنی آنکھوں سے دشمن کا عبرت ناک انجام دیکھ لیں اور ان میں جرات پیدا ہو ‘ انہیں خدا کے بھیجے ہوئے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتوں پر یقین ہو اور وہ دیکھ لیں کہ جو قوم اپنی فلاح وبہبود کے لئے ذرا بھی کوشاں ہوتی ہے اللہ کی رحمتیں اس کے ساتھ ہوتی ہیں ، دریا کا پھٹ جانا اور بنی اسرائیل کو راستہ دے دینا محض اتفاقی نہ تھا بلکہ بطور خرق عادت کے تھا صرف حسن اتفاق ہوتا تو فرعون بھی اس سے فائدہ اٹھالیتا ، حل لغات : عدل : معاوضہ ، بدل ، قسمت ، یسومون : تکلیف دیتے تھے ، دکھ دیتے تھے ۔ بلاء : امتحان ، آزمائش ۔ تکلیف ۔ فوقنا : فعل ماضی جمع متکلم ، مادہ فوق ، پھاڑنا ۔ البقرة
51 (ف ١) موسیٰ (علیہ السلام) سے چالیس دن کے لئے وعدہ لیا گیا کہ وہ چالیس دن تک طور پر زہد وعبادت کی زندگی اختیار کریں اور اپنے آپ کو نبوت کے بارگراں کے لئے تیار کریں ، جب جا کے توریت کا نزول ہوگا ۔ موسیٰ (علیہ السلام) اس کے لئے تیار ہوگئے اور ہارون (علیہ السلام) کو بنی اسرائیل میں چھوڑ گئے بنی اسرائیل مصر سے بت پرستی کے جذبات لے کر آئے تھے ، جب سامری نامی ایک شخص نے بچھڑا جس میں آواز پیدا کی گئی تھی ، اسرائیلیوں کے سامنے پیش کیا تو وہ سب اسے پوجنے لگے ، ان آیات میں انہیں واقعات کی طرف اشارہ ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وقت یہودیوں کو بتایا گیا ہے کہ تم ہمیشہ سے ایسے ہی رہے ہو کہ ذرا شریعت کا احتساب تم سے اٹھا اور تم پھرگئے ، اس کے بعد اس کا ذکر ہے کہ ہم نے باوجود اتنی بڑی جرات کے تمہیں تھوڑی سی سزا دے کر معاف کردیا جس کی تفصیل آگے آئے گی اور پھر تمہیں زندگی کے نشیب وفراز سمجھنے کے لئے مکمل دستور العمل عنایت کیا لیکن تم اس پر بھی امل نہ رہے ۔ البقرة
52 البقرة
53 البقرة
54 (ف ٢) قوموں کا آپریشن : جس طرح بدن کے بعض حصے اس لئے کاٹ دینا پڑتے ہیں کہ وہ سارے نظام بدن کو بیکار نہ کردیں ، اسی طرح قوموں میں جب ناقابل اصلاح خرابیاں پیدا ہوجائیں تو پھر آپریشن کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ، بنی اسرائیل کی ایک جماعت نے باوجود ہارون (علیہ السلام) کے موجود ہونے دوبارہ بچھڑے کی پوجا شروع کردی جس کے وہ مصر میں عادی تھے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ ان لوگوں کو جن کی رگ رگ میں شرک کے مہلک جراثیم موجود ہیں ‘ ہلاک کردیا جائے ، ورنہ خطرہ ہے کہ تمام بنی اسرائیل اس روحانی مرض میں مبتلا نہ ہوجائیں اور پھر اصلاح کی کوئی توقع نہ رہے گی ۔ اس میں شک نہیں کہ خدا رحیم ہے لیکن یہ بھی یقین ہے کہ وہ حکیم بھی ہے ، رحمت کا تقاضا یہ تھا کہ بنی اسرائیل کو کسی طرح اس مرض سے بچا لیا جائے اور حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ بدن کے متعفن حصے کو الگ کردیا جائے ، اس لئے جو کچھ ہوا ، یہ ضروری تھا ، اسی لئے ارشاد ہے ، (آیت) ” ذالکم خیرلکم عند بارئکم “۔ حل لغات : العجل : بچھڑا ۔ جھرۃ : بالمشافہ رودر رو ، بالکل سامنے ، الفرقان : حق وباطل میں امتیاز کرنے والا معجزہ بین اور واضح دستور العمل ۔ بارئکم : ابلاری خدا کا نام ہے پیدا کرنے والا ۔ البقرة
55 البقرة
56 (ف ١) بنی اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) سے مطالبہ کیا کہ ہمیں جس خدا کی طرف تو بلاتا ہے ‘ وہ بالمشافہ دکھا ، تاکہ ہم دیکھ کر اس پر ایمان لائیں ، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ خدا کے متعلق نہایت ہی ناقص فہم کا تخیل رکھتے تھے ، ان کا خیال تھا کہ خدا بھی انسانوں کی طرح مجسم ہے اور اسے دیکھا جا سکتا ہے ، اس مطالبہ کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ متواتر ومسلسل بت پرستی کی وجہ سے وہ مشاہدات سے زیادہ مرغوب تھے اور کوئی تنزیہی تخیل جو بالا از تجربہ واحساس ہو ‘ انہیں اپنی طرف جذب نہ کرسکتا تھا ، موسیٰ (علیہ السلام) نے جب خدائے تعالیٰ کی توحید کی جانب ان کو ملتفت کرنا چاہا تو وہ اکڑ گئے کہ جب تک خدا کو صورت تمثال کے رنگ میں نہ دیکھ لیں گے نہ مانیں گے ، موسیٰ (علیہ السلام) ہرچند اس ضد کی معقولیت کو سمجھتے تھے تاہم بطور اتمام حجت کے ان کے چند آدمیوں کو لے کر پیش گاہ جبروت میں حاضر ہوگئے ، وہاں جب اللہ تعالیٰ نے اپنے جلال وحشمت کا ادنی سا اظہار فرمایا تو عقل وحواس کی دنیا میں کھلبلی سی مچ گئی ، ابھی حریم اقدس ونور کے چند پردے ہیں چاک ہوئے تھے کہ قلب ودماغ کا توازن کھو بیٹھے اور موت آگئی ، اس کے بعد اللہ کے فضل سے وہ سنبھلے ، جان میں جان آئی تو فرمایا ، جاؤ خدا کا شکریہ ادا کرو ، عقل واستعداد کو کام میں لاؤ اور خدائے قدوس پر غائبانہ ایمان رکھو ۔ البقرة
57 (ف ٢) سب سے بڑا فضل جو بنی اسرائیل پر ہوا ، وہ فکر معاش سے بےنیازی تھی ، تاکہ وہ پورے انہماک کے ساتھ دینی کاموں میں مشغول ہو سکیں ، ان پر من وسلوی کی نعمتیں نازل کی گئیں ، انہیں عام تکالیف سے بھی بچایا گیا ، جنگل کی دھوپ سے بچنے کے لئے ابر کا سایہ مہیا کیا گیا ، تاکہ انہیں کوئی شکایت باقی نہ رہے اور وہ پورے وقت ، قوت اور استعداد کے ساتھ اللہ کے مشن کو پورا کریں لیکن وہ انعامات الہیہ سے صحیح صحیح استفادہ نہ کرسکے ، شہریت کے تین اصول : بنی اسرائیل کو جب امام المفسرین حضرت ابن عباس (رض) کی روایت کے مطابق اریحاء میں داخلے کی اجازت مل گئی ، جو عمالقہ کا ایک مشہور شہر تھا تو ان پر چند قیود عائد کردی گئیں جو تمدن صحیح کی جان ہیں اور شہری زندگی کے لوازم میں ہے ، ورنہ خطرہ تھا کہ وہ شہریت وتمدن کی تعیش وفجور کا ہم معنی نہ سمجھ لیں ، وہ تین چیزیں قرآن کی الفاظ میں یہ ہیں : ۔ (ا) ۔ اللہ سے بہرحال تعلق قائم رہے ۔ اس کا آستانہ جلال ہمارے سجدہ ہائے خلوص سے ہمیشہ معمور رہے ۔ (ب) ہم اپنے گناہوں کا جائزہ لیتے رہیں ، تمدن وشہریت کو مذہب کے کناروں میں محصور رکھیں اور ہر وقت اللہ کی رحمت ومغفرت کے جویاں رہیں ۔ (ج) ۔ احسان اور جذبہ اصلاح وتکمیل پیش نظر رہے ۔ ان سہ گانہ اصولوں کو قرآن حمید نے اپنی معجزانہ زبان میں اس طرح ادا فرمایا ہے ۔ (آیت) ” وادخلوا الباب سجدا “۔ کے شہر میں عجزوانیاز مندی لئے ہوئے رہنا ، (آیت) ” وقولوا حطۃ “ اور ہر آن بخشش مانگتے رہنا ، اور جان رکھو کہ وہ لوگ جو محسن ہیں ان کے درجے ہم اور بڑھائیں گے ، ظاہر ہے یہ باتیں نہایت قیمتی نصائح کی حیثیت رکھتی تھیں ، مگر بنی اسرائیل نے تغافل سے کام لیا ، شہری فسق فجور میں مبتلا ہوگئے نتیجہ یہ ہوا کہ عذاب الہی نے آگھیرا ۔ بعض آثار میں آتا ہے کہ عذاب طاعون کی شکل میں آیا مسلم میں حدیث ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ۔ طاعون بقیہ قوموں کا عذاب ہے جس کسی جگہ آجائے تو تم بھاگو نہیں اور نہ مطعونہ شہر میں جاؤ ۔ حل لغات : ظللنا : ماضی معلوم ۔ مادہ الضل ، سایہ ۔ المن : ترنجبین (جمہور مفسرین) ایک قسم کا میٹھا گوند (قاموس) شہد ۔ کوئی میٹھی چیز ۔ ابن عباس (رض) کی رائے بالکل صاف ہے وہ کہتے ہیں ۔ من : مصدر ہے تمام ان چیزوں کو شامل ہے جو بلاتعب وکسب حاصل ہوجائیں ، بخاری ومسلم میں حدیث ہے ، ان الکماۃ من المن “۔ جس سے اس عموم کی توضیح ہوجاتی ہے ۔ سلوی : بٹیریں (جمہور مفسرین) شہد (علامہ جوہری) بٹیرایک ایسا پرندہ (ابن عطیہ) ایک طرح کا پرندہ (ابن عباسرضی اللہ تعالیٰ عنہ) صحیح چیز یہ ہے کہ یہ بھی من کی طرح عام المعنی ہے ، ہر وہ شے موزون جس کے کھانے سے تسکین وتسلی حاصل ہو (راغب) ۔ القریۃ : شہر ۔ البقرة
58 البقرة
59 البقرة
60 (ف ١) بارہ چشمے : جنگل میں بنی اسرائیل موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ آئے تھے ، وہ بےآب وگیاہ جنگل تھا ، پانی کی سخت تکلیف تھی ، اس لئے ان کی درخواست پر موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ سے درخواست کی حکم ہوا پتھر پر معجز طراز لٹھ رسید کرو تعمیل کی گئی اور بطور اعجاز کے بارہ چشمے پتھر سے پھوٹ نکلے جو بنی اسرائیل کے بارہ قبائل کے لئے کافی تھے ۔ قرآن حکیم کے انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض اتفاق نہ تھا ، درخواست تھی ، پھر تکمیل درخواست کو اس معجزانہ شکل میں پیش کیا ، وہ لوگ جو اس کی تاویل کرتے تھے ، صحیح مسلک پر نہیں ہیں قرآن حکیم کے الفاظ کسی تاویل کے مستحق نہیں اور نہ متحمل ۔ حل لغات : رجز : عذاب تکلیف ۔ اضرب : مار ۔ امر ہے ضرب سے ، چلنے معنی اس وقت ہوتے ہیں جب اس کا صلہ فی ہو ، جیسے ضرب فی الارض ۔ جب اس کا صلہ با ہو تو اس کے معنی بجز مارنے کے اور کچھ نہیں ہوتے ۔ عین : متعدد معانی ہیں ، یہاں مراد ہر چشمہ ہے ۔ البقرة
61 (ف ١) شوق تنوع : من وسلوی کھا کھا کے بنی اسرائیل اکتا گئے ، جنگل کی زندگی سے طبیعت بیزار ہوگئی تو انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا ، ہم ایک ہی طرح کی طرز معیشت پر قانع نہیں رہ سکتے ، اللہ سے دعا کیجئے ہمیں پھر گہیؤں عنایت ہوں ہم خود زراعت کریں گے ، اللہ ہمارے کھیتوں میں برکت دے یہ شوق تنوع تھا ۔ (ف ٢) اللہ نے جواب عنایت فرمایا کہ تم بلا تعب ومشقت اب آزوقہ حیات فراہم کرلیتے ہو ، پھر تمہیں محنت کرنا پڑے گی کہ تم اس آسانی اور یسر کو مشکلات سے تبدیل کرنا چاہتے ہو مقصد یہ تھا کہ پیٹ کے دھندوں سے فارغ ہو کر صحیح تربیت حاصل کرو ، مگر وہ برابر مصر تھے ، وہ پہلی سی مادی اور جدوجہد کی زندگی بسر کرنا چاہتے تھے ، وہ تزکیہ وطن سے بھاگتے تھے ، انہیں اس نوع کی تربیت سے نفرت تھی ، وہ کسی طرح بھی اس خست سے نکلنے کے تیار نہ تھے ، اللہ تعالیٰ یہ چاہتے تھے کہ تربیت واصلاح کے بعد شہری زندگی میں پڑ کر بگڑ گئے ، دماغوں میں کفر و طغیان کے خیالات پیدا ہوئے ، طبیعتوں میں معصیت وتشدد کا زور ہوا ۔ اللہ کے حکموں کو ٹھکرایا گیا ، انبیاء علیہم السلام جو انہیں سمجھانے بجھانے کے لئے آئے تھے ، ان کی زیادتیوں کی آماجگاہ بن گئے ، وہ ان سے لڑے انہیں ناکام رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی ، ان کی جان کے لاگو ہوئے ، یہ سب کچھ اس لئے تھا کہ وہ تربیت واصلاح سے پہلے شہروں میں آباد ہوگئے اور تعیش وتفحش میں ملوث ہو کر راہ راست سے بھٹک گئے ، انبیاء علیہم السلام کی آمد کا مقصد اللہ کے پیغام کو پہنچانا ہوتا ہے تو وہ زندہ رہ کر اس مقصد کی تکمیل میں کوشش کرتے ہیں اور کبھی خدا کی راہ میں شہید ہو کر اپنی تعلیمات کو پایندہ وتابندہ بنا جاتے ہیں ، اس لئے ان سے جنگ وجدال اگر مضر ہے تو ان کے مخالفین کے لئے وہ تو بہرحال کامیاب رہتے ہیں ۔ (ف ٣) اس انتہائی قساوت قلبی اور بےدینی کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہودی رشد وہدایت کی تمام صلاحیتوں سے محروم ہوگئے ، اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا اور ذلت ومسکنت کی زنجیروں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے باندھ دیئے گئے ، یہودیوں کی ساری تاریخ ان کی یبوست ، کور باطنی اور بےدینی کا مرقع ہے ، مادی طور پر بھی وہ آج تک ذلیل وخوار ہیں ، آج باوجود اعلی تعلیم اور کافی سرمایہ کے دنیا میں ان کی حیثیت کیا ہے ؟ خدا کی ساری زمین میں ان کے لئے کوئی گوشہ عافیت نہیں جسے وہ اپنا وطن کہہ سکیں ، اس سے زیادہ ذلت ومسکنت اور کیا ہو سکتی ہے ؟ حل لغات : بقل : ہر وہ حشیشہ ارض جو سردیوں میں نہ اگے (راغب) ہر چیز جو زمین میں آگے (زمخشری) جس کے ساق نہ ہو (عام لغت میں) قتاء : بالکسر والضم ککڑی ، فوم : گندم ، گیہوں ۔ لہسن (ابن عباس رضی اللہ عنہ) عدس : مسور ، بصل : پیاز ۔ ھادوا ۔ ماضی معنوم ، یہودی ہوئے ، مادہ یھودا ۔ البقرة
62 ہمہ گیر دعوت : (ف ١) مذہب کا مقصد نوع انسانی میں وحدت ویگانگت کا عظیم الشان مظاہرہ ہے انبیاء علیہم السلام اس لئے تشریف لائے کہ ان تمام جماعتوں اور گروہوں کے خلاف جہاد کریں جنہوں نے ردائے انسانیت کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے ہیں خدا ایک ہے اور اس کا منشاء تخلیق یہی ہے کہ سب لوگ اس کے آستانہ عظمت پر جھکیں ، تفرق وتشثت کا کوئی نشانی نظر نہ آئے چنانچہ خدا کے ہر محبوب فرستادہ نے لوگوں کے سامنے ایسا کامل واکمل پروگرام رکھا کہ اسے مان کر رنگ وقومیت کا کوئی اختلاف باقی نہیں رہتا ، وہ آتے ہیں تاکہ جو بکھر گئے ہیں انہیں ایک روحانی رشتے میں منسلک کردیں ، ان کے سامنے کوئی مادی رشتہ نہیں ہوتا ، وہ اخوت انسانی کی بنیادیں ایمان وعمل کی مضبوط چٹان پر رکھتے ہیں جسے کوئی تعصب نقصان نہیں پہنچا سکتا ، چنانچہ قرآن حکیم یہودیوں اور عیسائیوں کو کہتا ہے ، تم سب اسلام قبول کرسکتے ہو اور سب اس ہمہ گیر دعوت پر ایمان لا سکتے ہو ۔ یہ کسی خاص فرقے کو موروثی مذہب نہیں ع : صلائے عام ہے یاران نکتہ دان کے لئے : یہ یاد رہے کہ قرآن حکیم جہاں جہاں ایمان وعمل کی دعوت دیتا ہے وہاں مقصود قرآن حکیم کا پیش کردہ پورا نظام اسلامی ہوتا ہے ، اس لئے اس کے سوا کوئی ایسا لائحہ عمل نہیں جس میں تمام انسانوں کو ایک سلک میں منسلک کردینے کی پوری پوری صلاحیت ہو ، (آیت) ” ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ “۔ البقرة
63 میثاق بنی اسرائیل : (ف ٢) اسی پارے میں اس میثاق کی تشریح فرما دی ہے کہ وہ کن باتوں پر مشتمل ہے ، (١) خدا کی عبادت (آیت) ’’ واذا اخذنا میثاق بنی اسرآء یل لا تعبدون الا اللہ ‘‘۔ (٢) ماں باپ سے حسن سلوک ۔ (آیت) ’’ وبالوالدین احسانا ‘‘۔ (٣) اقربا سے اور یتامی ومساکین سے اچھا برتاؤ ۔ (آیت) ’’ وقولوا للناس حسنا ‘‘۔ (٥) صلوۃ وزکوۃ کا قیام وتنظیم ۔ (آیت) ’’ واقیموا الصلوۃ واتوا الزکوۃ ‘‘۔ یہ عہد تھا جو بنی اسرائیل سے لیا گیا ۔ وہ دامن کوہ میں رہتے تھے اس لئے پہاڑ کو اٹھا کر ان کے سامنے کیا اور کہا ، اگر ان باتوں پر عمل کرتے رہو گے تو پہاڑ کی طرف مضبوط وسربلند رہو گے اور اگر انکار کرو گے تو پھر مصائب وحوادث کا پہاڑ تمہیں پیس کر رکھ دے گا ۔ اس آیت میں اس طرف اشارہ ہے ۔ (آیت) ’’ خذوا ما اتینکم بقوۃ ‘‘۔ قرآن میں یہ کہیں نہیں آیا کہ پہاڑ ان کی مرعوب کرنے کے لئے اکھاڑا گیا تھا ، اس لئے کہ دل میں تسکین وطمانیت جب تک موجود نہ ہو ، محض جبرواکراہ سے کیا فائدہ ؟ دودھ بھی اگر عدم اشتہاء کے وقت پیا جائے تو مضر پڑتا ہے ۔ حل لغات : والنصاری : عیسائی ، منسوب بہ ناصرہ ۔ صائبین ۔ صابی ایک فرقہ تھا جس کی چند باتیں بظاہر اسلام سے ملتی جلتی تھیں ، لیکن اکثر باتوں میں وہ مجوسی تھے ۔ طور : پہاڑ ایک خاص پہاڑ ۔ تولیتم : ماضی معروف ، مصدر تولی ۔ اباو ، انکار اقرار کر کے پھر جانا ۔ البقرة
64 البقرة
65 بنی اسرائیل کی طبع حیلہ جو ۔ (ف ١) یہودیوں نے مذہب کے بارے میں سخت ٹھوکریں کھائی ہیں ، انہوں نے سمجھ لیا کہ خدا کا مقصد صرف الفاظ کے ظاہری مفہوم کو پورا کرتا ہے ، چاہے اصل منشاء کی مخالفت ہی ہو ۔ چنانچہ جب سبت کے دن کام کاج سے ان کو روکا گیا تو وہ ایک اور حیلے تراشنے میں کامیاب ہوگئے ، یعنی دریا کے کنارے کنارے کچھ حوض کھود رکھے تاکہ مچھلیاں سبت کے دن بھی ہاتھ نہ جانے پائیں ، اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب موزوں دیا ، ان کو ان کی ظاہری صورت سے محروم کردیا اور ان کو باطنی معنویت سے بالکل الگ شکل میں تبدیل کردیا اور بتایا کہ اللہ کی آیات کو مسخ کرنے کا یہ نتیجہ ہے ، مذہب صرف الفاظ وظاہر کی پابندی کا نام نہیں ‘ بلکہ معنویت وبطون کا خیال بھی رکھنا چاہئے وہ جو بےعمل وملحد ہوتے ہیں وہ یا تو اتنے ظاہر پرست ہوجاتے ہیں کہ صرف الفاظ کو سامنے رکھتے ہیں اور یا پھر اس قدر تعمق وتفکر کے عادی کہ ظاہر و باہر مفہوم سے تغافل اختیار کرلیتے ہیں اور انہیں محسوس بھی نہیں ہوتا ۔ اسلام کی ہدایت اس باب میں یہ ہے کہ کسی قسم کا حیلہ جو نفس منشائے الہی کے خلاف ہو ، الحاد ہے اور کفر ، الفاظ ومعانی میں ایک ربط رہنا چاہئے ، جہاں یہودی ظاہر پرستی کی وجہ سے خشک اور یا بس ہو کر رہ گئے وہاں عیسائیوں نے یہ بڑی غلطی کی کہ روحانیت میں خلوکی وجہ سے بےپرواہ ہوگئے اور شریعت کے احکام کو لعنت سے تعبیر کرنے لگے ، اسلام نے آکر بتایا کہ ہمیشہ سے مزہب کا مقصد ظاہروباطن کا تزکیہ رہا ہے : جس طرح وہ وکیل جو قانون کے الفاظ سے ناجائز فائدہ اٹھائے اور قانون کے مقصد کی مخالفت کرے ‘ حکومت کا مجرم ہوتا ہے ، اسی طرح وہ علمائے دین جو ظاہری الفاظ سے اپنے مفاد کے ماتحت حیلہ تراش لیں ‘ خدا تعالیٰ کے مخالف ہوں گے ، دین دار اور متورع اشخاص تو کسی طرح بھی اس نوع کے حیل کی اجازت نہیں دے سکتے ، البتہ اصحاب حرص وآزا اور ارباب عزت وجاہ جن کا مقصد ارذل ترین دنیا کا حصول ہوتا ہے ۔ وہ ضرور کوشاں رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح دین کو جلب زر کا ذریعہ بنایا جائے ، جب کسی قوم کی یہ ذہینت ہوجائے کہ وہ دنیا کو مقدم رکھے اور دین کو محض اپنے سلسلۃ العیش کی ایک کڑی سمجھے تو پھر ہلاکت قریب ہے ، اس وقت دین کا احترام اٹھ جاتا ہے ، زیادہ سے زیادہ الفاظ کے ظاہری مفہوم کو ادا کرلینا ہی وہ کافی سمجھتے ہیں طرح طرح کے حیلوں سے اپنے مفاد ووقار کو قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بنی اسرائیل کے قصہ ہمیں سنائے جارہے ہیں ان کے اقبال وادبار کی پوری داستانیں دہرائی جارہی ہیں ۔ تاکہ ہم ان کے نقش قدم پر نہ چلیں اور آنے والی ہلاکت سے بچیں ۔ حل لغات : اعتدوا : مصدر اعتداء زیادتی کرنا ، السبت : اصل معنی قطع کرنے کے ہیں ، رات کے متعلق ارشاد ہے ۔ وجعل اللیل سباتا : یعنی رات انکار سے چھڑا دینے والی ہے ۔ سبت کے معنی ہوئے اس دن کے جس میں کام کاج نہ کیا جائے ، مراد ہفتہ کا دن ہے ، نکالا : عبرت انگیز سزا ۔ قررۃ : بندر ۔ خاسئین : جمع خاسئہ بمعنی ذلیل ورسوا ۔ بقرۃ ۔ گائے اور بیل ۔ ھزوا ، مذاق ، فارض : عمررسیدہ ۔ عوان : جوان ۔ البقرة
66 البقرة
67 البقرة
68 اخفائے جرم : بنی اسرائیل کی قوم میں جہاں صدہا عیوب پیدا ہوگئے تھے وہاں سب سے بڑا عیب اخفائے جرم کا جذبہ تھا اور ظاہر ہے اس کا مطلب صاف صاف یہ ہے کہ قوم میں احساس گناہ نہیں رہا اور وہ بدمذہبی کے اس دور میں سے گزر رہی ہے جس کی اصلاح از بس دشوار ہے ۔ بائیبل میں لکھا ہے کہ جب کوئی شخص قتل ہوجاتا اور اس کے قاتل کا کوئی پتہ نہ چل سکتا تو پھر وہ ایک بیل ذبح کرتے اور اس کے خون سے ہاتھ دھوتے ، قاتل اگر اس جماعت میں ہوتا تو وہ اس سے انکار کردیتا ، خیال یہ تھا کہ قاتل اگر دھوئے گا تو وہ ضرور نقصان اٹھائے گا ، یہ کوئی شرعی بات نہ تھی ، محض ان کا وہم تھا جس پر ان کو یقین تھا جس طرح جاہل قوموں کے معتقدات ہوتے ہیں کہ ان کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی ، تاہم اس پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے ، جب بنی اسرائیل میں سے ایک شخص قتل ہوگیا اور انہوں نے عمدا اخفائے جرم کی ٹھان لی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے مسلمہ قانون کے مطابق بیل ذبح کرنے کا حکم دیا ، اس پر چونکہ ان کے دلوں میں چور تھا ، اس لئے حیلے تراشے ، بار بار سوال کیا بیل کس طرح کا ہو ، کیا رنگ ڈھنگ ہو کس نوع کا ہو نیت یہ تھی کہ کسی طرح بات آئی گئی ہوجائے ، حدیث میں آتا ہے کہ اگر وہ کوئی سا بیل ذبح کردیتے تو منشائے الہی کی تکمیل ہوجاتی مگر یہ سب تفاصیل تو اس لئے پوچھی جا رہی تھیں کہ عمل کی نوبت ہی نہ آئے ، اس طرز عمل مین باریک اشارہ اس طرف بھی ہے کہ وہ قومیں جن میں تفصیل طلبی کا جذبہ پیدا ہوجائے وہ عمل سے محروم ہوجاتی ہیں ، جب تک مذہب اپنی سادہ حالت میں رہے لوگوں میں جوش عمل موجود رہتا ہے اور جب ہر بات ایک معمہ بن جائے ، ہر مسئلہ ایک مستقل بحث قرار پائے اس وقت عمل کے لئے طبیعتوں میں کوئی جذبہ موجود نہیں رہتا ۔ بہرحال بنی اسرائیل آخر مجبور ہوگئے بیل ذبح کرنا پڑا اور معجزانہ طور پر بیل کے لمس سے وہ مقتول زندہ ہوگیا اور اس نے قاتل کا پتہ بتادیا ۔ اس معجزہ نے حکیمانہ طور پر انسان کی نفسیات پر روشنی ڈالی کہ وہ حتی الوسیع جرائم کے باب میں اخفا سے کام لیتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتلایا کہ فطرت ہمیشہ مجرم کو بےنقاب کرکے رہتی ہے گویا جرم و گناہ میں اور علام الغیوب خدا کے بتائے ہوئے منصفانہ قوانین میں ایک جنگ برپا ہے ، ناممکن ہے کوئی گناہ سرزد ہو اور فطرت کی طرف سے ان پر سزا نہ ملے ۔ (ف ١) ان آیات سے معلوم ہوا کہ استہزاء علم ومتانت کے شایان شان نہیں ، البتہ مزاح ہو پاکیزہ ہو ، جس سے کسی کا دل نہ دکھے اور جو خلاف واقع نہ ہو ‘ جائز ہے ۔ (ف ٢) (آیت) ” فافعلوا ما تؤمرون “۔ کا مقصد یہ ہے کہ ان کو صحیح مذہب سے متعارف کرایا جائے ، انہیں بتایا جائے کہ مذہب کی اصل روح تسلیم ورضا ہے ، جرح ونقد نہیں ، ایک دفعہ ایک نظام عمل کو مان لینے کے بعد صرف عمل کے لئے گنجائش رہ جاتی ہے پس تم سے بھی یہی مطالبہ ہے البقرة
69 حل لغات : لون ۔ رنگ ۔ صفرآء : زرد ، فاقع : گہرا ، واضح صاف ۔ ذلول : ہل میں جتا ہوا ۔ تثیرالارض : مادہ الشارۃ ۔ زمین درست کرنا ۔ شیۃ : داغ ، دھبا ، عیب ۔ البقرة
70 البقرة
71 البقرة
72 البقرة
73 (ف ١) اصل میں ایک ہی واقعہ ہے لیکن قرآن حمید نے کچھ اس طرح ذکر فرمایا ہے کہ شبہ ہوتا ہے کہ شاید دو الگ الگ قصے ہیں ، اس طرز بیان کو اختیار کرنے کی حکمت یہ ہے کہ بنی اسرائیل کی دو بہت بری عادتوں پر بالتفصیل روشنی پڑ سکے اور یہ معلوم ہو سکے کہ ان میں یہ دونوں مرض بالاستقلال موجود ہیں ، ایک بلا وجہ بلاضرورت تفاصیل میں جانے کا ، دوسرے اخفاء جرم کا ، آیات کے پہلے حصے کو اس بات پر ختم کیا کہ (آیت) ” وما کادوا یفعلون “۔ کہ وہ کسی طرھ بھی عمل پر آمادہ نہ تھے ۔ دوسرے حصہ کے آخر میں فرمایا (آیت) ” ویریکم ایتہ لعلکم تعقلون “۔ کہ خدا اپنے نشان تمہیں دکھاتا ہے تاکہ تم جان لو ، غرض یہ ہے کہ ایک طرف تو ان کی حیلہ جوئی اور کسل اور تساہل فی الدین کو بےنقاب کیا جائے اور دوسری طرف اخفائے جرم اور اللہ کے قانون پر روشنی ڈالی جائے کہ جرائم بجائے خود اعلان اعتراف کی دوسری شکل ہے ۔ البقرة
74 قساوت قلبی کی آخری حد : (ف ٢) جب کسی قوم کی مذہبی حس مردہ ہوجائے تو پھر احساس وتاثر کی تمام قوتیں سلب کرلی جاتی ہیں ، بنی اسرائیل پہیم انکار وتمرد کی وجہ سے اس درجہ قاسی القلب ہوگئے کہ انہیں متاثر کرنا ناممکن ہوگیا ، ان آیات میں قدرت کے ایک ہمہ گیر قانون کی طرف غافل انسانوں کو متوجہ کیا گیا ہے ، بتایا گیا ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ رب خاطر کی بنائے ہوئے قوانین میں بندھا ہوا ہے اور اپنے احساس کے لئے مجبور ہے کہ ان قوانین کی پیروی کرے ، پتھر ایسی ٹھس اور ٹھوس چیز بھی اس احساس اطاعت سے محروم نہیں ، دیکھو بعض پتھروں میں سے پانی رستا ہے بعض میں سے سوتے کے سوتے پھوٹتے ہیں اور دریائے ذخار کی شکل اختیار کرلیتے ہیں ، پھر دیکھو ایسے بھی ہیں جو چند مختص قوانین کی اطاعت کرتے ہوئے اونچی اونچی جگہ چھوڑ دیتے ہیں اور لڑھک کر نیچے آرہتے ہیں ۔ کیا بنی اسرائیل پتھروں سے بھی گئے گزرے ہیں ، عقل وبصیرت کے علاوہ انہیں بےدرپے انبیاء کے ذریعہ سے الہام ووحی کی برکات سے نوازا گیا ہے مگر اس کی قساوت قلبی کی یہ حد ہے کہ یہ بالکل غیر متاثر رہے ۔ اس مفہوم کو عجیب بلیغ استعارہ تبیعہ تمثیلہ کے رنگ میں بیان کیا گیا ہے ، یہ مقصد نہیں کہ پتھر بھی دل ودماغ رکھتے ہیں ، البتہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ ساری کائنات کا ایک مذہب ہے ، اشجار سے لے کر انسان تک ایک حی وقیوم کے فرمانبردار ہیں ، دانستہ یا نادانستہ سب اس کے قوانین طبیعہ کی اطاعت میں مصروف ہیں ، مگر انسان بالخصوص مجرم انسان اس کو محسوس نہیں کرتا ۔ حل لغات : قسمت : مادہ قساوۃ ۔ دل کا غیر متاثر ہوجانا ۔ یتفجر : اصل تفجر ، پھوٹنا ، نکلنا ، بہنا ، جھرنا ، یھبط : مصدر ھبوط ، بمعنے گرنا : البقرة
75 تحریف بائبل : (ف ١) یہودیوں میں ایک جماعت ایسی بھی تھی جن کا وظیفہ حیات احکام خدا وندی میں تحریف کرنا تھا ، ادھر وہ کلام الہی کو سنتے ، ادھر اپنی مرضی کے موافق ڈھال لیتے ، نتیجہ یہ ہوا کہ بائبل ایک غیر محفوظ کتاب ہو کر رہ گئی ، موجودہ بائبل ہر طرح مشکوک ہے ، صحائف کی تعداد میں اختلاف ہے یقین میں اختلاف ہے اور پھر خود توریت کے بعض حصوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحیفے ضائع ہوگئے ہیں بخت نصر نے جب یروشلم میں آگ لگا دی ، بنی اسرائیل کی کثیر تعداد کو ما ڈالا اور بائبل کے تمام نسخوں کو جلا دیا تو عزرا نامی ایک شخص نے از سر نو بطور یاد دا اشت کے چند کتابیں لکھیں ، یہی موجودہ توریت ہے ، اس لئے یہ کسی طرح بھی محفوظ اور یقینی نہیں شمار کی جاسکتی ۔ یہودیوں کا تعصب : تعصب کی آخری حد کتمان حق ہے یہودی جو اس وصف میں ممتاز تھے ، اعلان حق سے بہت گھبراتے ، ایک مختصر گروہ ان کا مسلمانوں میں بددلی پیدا کرنے کے لئے بظاہر مسلمان ہوگیا ، اب جو ان کے منہ سے کبھی کوئی سچی بات نکل گئی اسلام کی تعریف میں تو دوسرے یہودیوں نے ملامت کرنا شروع کردی کہ یہ تم کیا غضب ڈھاتے ہو ؟ ایسا کبھی نہ کرنا ، مسلمان دلیر ہوجائیں گے ، گویا ان کے نزدیک حق وصداقت کی کوئی قیمت نہیں بجز اسلام دشمنی کے ، عبداللہ بن سلام جب مسلمان ہوئے تو انہوں نے فرمایا ذرا میری قوم سے میرے متعلق کچھ پوچھئے ، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعیان یہود سے پوچھا کہ عبداللہ بن سلام میں کیسے آدمی ہیں ؟ انہوں نے کہا ، بہت خوب آدمی ہیں ، مگر جب انہیں بتایا گیا کہ وہ مسلمان ہوگئے ہیں تو اسی ” بہترین “ انسان کو محض تعصب کی بنا پر گالیاں دینے لگے ۔ البقرة
76 البقرة
77 البقرة
78 (ف ٢) جاہل یہودی صرف عقائد پر قانع تھے ، ہر قسم کی بےعملی کے باوجود انہیں اپنی نجات کا یقین تھا ، فرمایا یہ محض ایک خوش کن امید ہے جو کبھی شرمندہ عمل نہ ہوگی ، نجات کے لئے عمل کی ضرورت ہے ، بتائے ہوئے قوانین پر چلنا ضروری ہے ، صرف خوش اعتقادی کافی نہیں ۔ حل لغات : یحرفون : تحریف سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں بدلنے کے ، ایک بات کی جگہ دوسری بات کہنے کے ، فتح ، مصدر فتح کھولنا ، مگر فتح اللہ علیہ کے معنی ہوتے ہیں ، خدا نے اسے بتایا ۔ امیون : جمع امی ، ان پڑھ یعنی ابتدائی حالت میں ، جس حالت میں کہ اس کی ماں نے اسے پیدا کیا ۔ امانی : جمع امنیۃ ، بمعنی خواہش ، اندازہ اور پڑھنا ۔ البقرة
79 البقرة
80 فریب خیال : (ف ١) یہودی اس فریب خیال میں مبتلا تھے کہ چونکہ ہم انبیاء کی اولاد سے ہیں ، اس لئے اللہ کے زیادہ سے زیادہ مقرب ہیں ، (آیت) ” نحن ابناء اللہ واحباء ہ “۔ اور اس لئے ضروری ہے کہ ہماری نجات ہو ۔ اور ہم جو چند دن جہنم میں رہیں گے بھی تو وہ محض تزکیہ اور گناہوں کے کفارہ کے لئے ورنہ درحقیقت کوئی یہودی جہنم کے لئے پیدا نہیں کیا گیا ، گویا وہ مذہب کی حقیقت صرف اس قدر سمجھتے تھے کہ یہ ایک قسم کا انتساب تھا اور بس ، عیسائی بھی اس نوع کے غرور نفس میں یہودیوں سے کسی طرح پیچھے نہیں ، انجیل میں لکھا ہے کہ ” تو خداوند خدا پر ایمان لا تاکہ تو اور تیرا گھرانا نجات پائے “۔ گویا صرف مسیح (علیہ السلام) کی قربانی کا اعتراف سارے گھرانے کی نجات کے لئے کافی ہے ، اسلام کہتا ہے کہ اللہ نے کسی قوم سے کبھی اس قسم کا وعدہ نہیں کیا ، نجات قول وعمل کے اجتماع کانام ہے اور مجرم چاہے کون ہو ، سزاوار تعزیر ہے ۔ (آیت) ” لیس بامانیکم ولا امانی اھل الکتب من یعمل سوء یجزبہ ۔ اس آیت میں یہ بھی بتایا کہ خدا کے وعدے جھوٹے ثابت نہیں ہوتے کیونکہ خدائی دعوی کے معنی یہ ہیں کہ وہ پورے علم وقدرت کے ساتھ ظہور پذیر ہوا ہے ۔ تکمیل عہد کا مطالبہ : بنی اسرائیل سے کہا گیا ہے کہ صرف ایک خدا کی عبادت کرو ، والدین اور دیگر اقرباومساکین کے ساتھ حسن سلوک روا رکھو ، اور لوگوں کو اچھے الفاظ میں مخاطب کرو ، نماز پڑھو اور زکوۃ دو ، اور آپس میں لڑو جھگڑو نہیں ، مگر وہ تھے کہ ان باتوں سے روگردان رہے ، حل لغات : ویل : خرابی ۔ ہلاکت ، مصیبت ۔ خطیئۃ : لغزش ۔ گناہ ۔ البقرة
81 البقرة
82 البقرة
83 (ف ١) خدا کی عبادت کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک اور سب اقرباء ومستحقین کے ساتھ مشفقانہ تعلقات کو اس لئے ضروری قرار دیا گیا کہ مذہب کی تکمیل بلا اس طرز کے ناممکن ہے ، وہ انسان جو خدا پرست ہے ، لازمی ہے کہ کائنات کے ساتھ اس کا نہایت گہرا اور محبانہ تعلق ہو ۔ بالخصوص والدین اور عزیز جو قریبی رشتہ ، الفت وشفقت رکھتے ہیں ضرور ہماری توجہ کے مستحق ہیں ، اور یاد رکھو جو اپنے عزیزوں اور بزرگوں کے حق میں بھی اچھا انسان نہیں وہ خدا کے حق میں بھی نیک انسان نہیں ہوسکتا ، گویا قرآن تقوی وصلاح کا معیار ظاہری رسوم دین نہیں قرار دیتا ، بلکہ اس کے نزدیک فلاح ونجات موقوف ہے حسن معاملت اور حقوق شناسی پر وہ کہتا ہے تم لوگوں کو محراب ومنبر میں نہ دیکھو کہ بدترین لوگ بھی زہد ورورع کے مقدس مقامات میں زینت افروز ہو سکتے ہیں ، صحیح معیار گھر کی چار دیواری ہے جو اپنے قریب ترین ماحول میں بےحسن ہے ‘ وہ معرفت الہی کی فضاء بعید اور اطراف میں کیونکر سانس لے سکتا ہے ؟ اس طور پر قرآن حکیم نے مسجد اور گھر میں ، دنیا ودین میں ایک مضبوط ربط قائم کردیا ہے اور وہ کسی قابل اخفاء زندگی کا قائل نہیں ، البقرة
84 (ف ٢) (آیت) ” دمآء کم اور انفسکم “ کے معنی یہ ہیں کہ سارے بنی اسرائیل ایک قوم اور ایک جسم ہیں ، ان سب میں انبیاء کا خون موجزن ہے ، اس لئے ان کا آپس میں جنگ وجدل میں مصروف رہنا وحدت قومی کو شدید نقصان پہنچاتا ہے ، نیز اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ کوئی قوم اس وقت تک قوم کہلانے کی مستحق نہیں ہوسکتی جب تک وہ قومی حرمت واعزاز کو محسوس نہ کرے ، مذہب کا مقصد جہاں نسلی اور قبائلی نقیضات کو ختم کرتا ہے ، وہاں ایک مضبوط اور غیور اور باحمیت قوم کی تخلیق وتعمیر بھی ہے ، تاکہ وہ خدا کے مشن کو دلیرانہ پورا کرسکے ، وہ لوگ جو قوم کے رشتہ قومیت کو توڑتے ہیں ، وہ قوم کے مجرم ہیں اور خدا کے بھی ، اس لئے بنی اسرائیل کو لڑائی جھگڑے سے سختی کے ساتھ روکا گیا ہے کہ اس سے زیادہ قومی وقار کو ختم کردینے والی اور کوئی چیز نہیں ۔ اسلام نے قتل مومن کی سزا نہایت سنگین رکھی ہے ، (آیت) ” ومن یقتل مؤمنا متعمدا فجزآءہ جہنم “۔ کیونکہ قتل مومن کے معنی یہ ہیں کہ اس کے دل میں اسلام کا کوئی وقار نہیں مسلمانوں کی محبت نہیں وہ نفس خدا اور قوم کے سامنے غدار وخائن کی حییثت رکھتا ہے اس کا جرم قطعا ناقابل معافی ہے اور اسی لئے ناقابل عفو بھی ۔ حل لغات : احسانا : حق واجبی سے زائد یعنی والدین کے احکام کی بجا آوری ہی کافی نہیں ، بلکہ حقوق سے بہت کچھ زیادہ ، از راہ احسان ومحبت ان سے سلوک کیا جائے جو کسی طرح بھی معمولی نہ ہو ۔ الیتمی : جمع ، یتیم ، وہ بچہ جو شفقت مادری وپدری سے محروم ہوجائے ، وہ عورت جس کا خاوند نہ رہے ، ۔ المسکین : جمع مسکین کی ، سکون سے نکلا ہے ، وہ شخص جو بےبسی کے باعث کوئی حرکت نہ کرسکے یا جسے افلاس وناداری نے ہر طرح کی شوخی سے روک رکھا ہو ۔ تشھدون : شھادۃ ۔ سے نکلا ہے معنی ہیں تم دیکھتے ہو ، گواہ ہو ۔ البقرة
85 ایمان بالبعض وکفر بالبعض : (ف ١) یہودیوں کا یہ وطیرہ مذہب کے باب میں اس مذہبی اہلیت کا پتہ دیتا ہے جو ان کے دلوں میں مستتر تھی ، غالبا وہ برائے نام یہودی تھے اور کسی نہ کسی طرح مذہبی رکھ رکھاؤ کا خیال تھا ، ورنہ مذہب کے صحیح ذوق سے وہ محض کورے تھے ۔ مدینے میں اوس وخزرج نامی دو قومیں آباد تھیں جن میں آئے دن کوئی نہ کوئی جنگ رہتی ، یہودی بحیثیت حلیف ہونے کے ان کا ساتھ دیتے رہے ، کچھ لوگ اوس کی طرف ہوجاتے اور کچھ خزرج کا ساتھ دیتے ۔ اور اس بےدریغی سے لڑتے کہ گویا یہی اصل فریق متخاصم ہیں اور جب ایک دوسرے کے ہاتھ میں بحیثیت قیدی کے پیش ہوتے تو پھر توریت کے اس حکم کا خیال آتا کہ یہودی یہودیوں کے ہاتھوں غلام نہیں رہ سکتا ، لہذا کچھ روپیہ بطور فدیہ کے دے کر قیدی چھڑا لیتے ، قرآن حکیم کہتا ہے کہ یہ کیا مذاق ہے ؟ اور تلعب ہے توراۃ کے احکام کے ساتھے کہ جب آپس میں لڑنا ہی جائز نہیں تو پھر فدیہ کا سوال کیوں پیدا ہوتا ہے ، مگر تمہارے دلوں میں یہودیت کی اتنی عزت ہے کہ تم اس کی ذلت ورسوائی نہیں دیکھ سکتے تو پھر تم لڑتے ہی کیوں ہو ؟ جو اس کا سب سے بڑا باعث ہے ، یہ فعل بالکل اس قسم کا ہے کہ ایک شخص کو بلاوجہ مار ڈالا جائے اور پھر اس کے بچوں کی تربیت کی حمایت کی جائے کہ بےچارے یتیم ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ان کے یتیم ہونے کا باعث کون ہے ؟ تم جو قیدیوں سے اتنی ہمدردی رکھتے ہو اور اس کا اظہار فدیہ کی صورت میں کرتے ہو ‘ اس سے کیا فائدہ ؟ جبکہ ایک یہودی کو قتل کردینا عملا تمہارے ہاں درست اور جائز ہے ۔ قرآن حکیم کہتا ہے ، ایمان کی یہ شکل کہ بعض حصے مان لئے جائیں اور بعض کا انکار کردیا جائے قطعی سود مند نہیں ، ایمان نام ہے ایک کامل نظام عمل کا ، اگر اس میں ایک چیز کو بھی عمدا چھوڑ دیا جاتا ہے تو ایمان نہیں رہے گا ، البتہ اس کو تجارت کہیئے جو چیز پسند آئی ، خرید لی ، جو مرغوب نہ ہوئی ، ترک کردی ، اور مذہب کے بارے میں اس قسم کی تجارت الحاد وزندقہ ہے جو قطعی برداشت نہیں کیا جاسکتا ، یہ نرمی لامذہبی اور کفر ہے ، ایسے لوگ خدا کے ہاں کبھی کامیاب نہیں رہتے جن کے پاس نہ کفر خالص ہے اور نہ ایمان ہی کامل ۔ چنانچہ یہودی اس بےاعتقادی کی بنا پر اور اس تشتت وافتراق کی وجہ سے اپنی تمام نو آبادیوں سے محروم ہوگئے ، ان کے نخلستان چھین لئے گئے ، ان کی بستیاں نذر آتش کردی گئیں اور آخرت میں ان کے لئے جو مقدرو متعین ہے وہ اس سے زیادہ سخت اور ہولناک ہے ۔ حل لغات : تضھرون علیھم : تظھر علیہ ، اس کے خلاف دشمن کو مدد دی ، ظھیر : کے معنی ہوتے ہیں مددگار اور ناصر کے ۔ اسری : جمع اسیر بمعنی قیدی ۔ خزی : ذلت ورسوائی ۔ البقرة
86 البقرة
87 انبیاء علیہم السلام عوام کے جذبات کی پرواہ نہیں کرتے : (ف ١) موسیٰ (علیہ السلام) کو توریت نامی کتاب دی گئی جو الواح کی صورت میں تھی خط مسماری کا ان دنوں رواج تھا ، اس لئے کتابیں عموما پتھروں پر کندہ ہوتیں موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد مسلسل بنی اسرائیل میں انبیاء علیہم السلام آئے ، تاکہ اللہ کے پیغام کو پوری وسعت وقوت کے ساتھ بندوں تک پہنچا سکیں ، مگر بنی اسرائیل برابر جہل وجمود کے تاریک گڑھوں میں گرے رہے ، زیادہ سے زیادہ چند ظاہری رسوم ان کا متاع تدین تھا روح اور مفر سے محروم تھے ، اس لئے فسق وفجور کے باوجود اپنے آپ کو اللہ کے مقرب ہی سمجھتے رہے ، بالآخر اللہ تعالیٰ نے مسیح (علیہ السلام) کو بھیجا ایک کتاب مقدس دے کر جو ان کے تاریک دلوں میں اجالا کر دے ، جو ان کے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دے اور جو ان کے اخلاق پاکیزہ تر بنا دے ، روح کا اطلاق قرآن میں کتاب پر ہوا ہے ، قرآن حکیم کے متعلق ارشاد (آیت) ” وکذلک اوحینا الیک روحا من امرنا “۔ یعنی قرآن بھی ایک روح ہے جسے تمہاری طرف نازل کیا گیا ہے ، اس لئے روح القدس سے مؤید ہونے کے معنی صرف یہی ہوں گے کہ انہیں انجیل جیسا پاک صحیفہ دیا گیا جس میں تذکروتزکیہ کی پوری قوت ہے ، مگر بنی اسرائیل نے انجیل کی پاک اور بلند اخلاق تعلیم پر بھی عمل نہ کیا ، اس لئے کہ اس میں انہوں ان کی کاریوں پر صاف صاف ٹوکا گیا تھا ، لیکن اس سے خدا کا قانون اصلاح ورشد نہیں بدل سکتا ، انبیاء کی بعثت کا مقصد عوام کے جذبات کی رعایت نہیں بلکہ اصلاح ہے ، البقرة
88 (ف ٢) صاف صاف اعتراف کہ ہماری دلوں میں نور وہدایت کے لئے کوئی جگہ نہیں ‘ انتہائی بدبختی کی دلیل ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ دل کی تمام خوبیاں ان سے چھین لی گئی ہیں ۔ خدا کی لعنت کے معنی گالی دینا نہیں ، بلکہ اپنی آغوش رحمت سے دور رکھنا ہے اور وہ لوگ جو اپنے لئے زحمت وشقاوت پسند کریں رحمت ومؤدت کو ٹھکرا دیں ، ظاہر ہے کہ خود بخود رؤف ورحیم خدا سے دور ہوجاتے ہیں ۔ حل لغات : ۔ یخفف ، مصدر تخفیف ۔ کم کرنا ۔ وقفینا : فعل ماضی معلوم مصدر تقفیۃ مسلسل یکے بعد دیگرے بھیجنا ۔ البینت : جمع بینۃ ، واضح ظاہر وباہر دلائل وہ نشان جو روشن تر ہوں ۔ تھوی : مصدر ھوی ، خواہش نفس ۔ فریقا : ایک گروہ ، جماعت : غلف : جمع اغلف ، غیر مختون ، محجوب ، ڈھکا ہوا ، مستور ۔ البقرة
89 (ف ١) نزول قرآن سے پہلے یہودی ایک سرخ وسپید ” نبی کے منتظر تھے ، جس کے ہاتھ میں آتشین شریعت ہو ، بحری ممالک جس کی راہ تکیں ، جو فاران کی چوٹیوں پر سے چمکے ، دس ہزار قدوسی جس کے ساتھ ہوں ، مگر جب وہ گورا چٹا نبی صحرائے عرب کی جھلس دینے والی فضا میں ظہور پذیر ہوا ، جس کے ہاتھ میں آتشین شریعت تھی جس کی فتوحات سمندروں تک پہنچیں تو انہوں نے انکار کردیا ، حالانکہ اس سے پہلے وہ مخالفین سے ہمیشہ یہ کہتے کہ جب ہمارا موعود نبی آئے گا تو ہم غالب ہوجائیں گے اور ہماری موجودہ پستی بلندی سے بدل جائے گی ، قرآن حکیم پہلی کتابوں کا مصدق ہے ، وہ تمام صداقتوں کی تائید کرتا ہے ، تمام سچائیاں اس کے نزدیک قابل قبول ہیں ، مگر اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ وہ باقبل کو حرف بحرف صحیح سمجھتا ہے ، وہ ان مشترک سچائیوں کی تائید وتصدیق کرتا ہے جو مختلف فیہ نہیں ، ورنہ سینکڑوں ایسی باتیں ہیں کہ یہود نے محض بربنائے تعصب بدل دی ہیں ، تاکہ ان کا کوئی وقار قائم نہ رہے ۔ البقرة
90 معیار نبوت : (ف ٢) بفی الجرح محاورہ ہے جس کے معنی ہیں ، زخم بگڑگیا ، بنی اسرائیل کے مرض انکار کو بھی بگڑے ہونے زخم سے تشبیہہ دی ہے یعنی ان کی ذہنیت ناقابل اصلاح ہے اور اچھے سے اچھا مرہم بھی ان کے ناسور کے لئے مفید نہیں ۔ اعتراض یہ تھا ان کا کہ کیوں نبوت کسی اسرائیل کو نہیں ملی ؟ اور اس کے لئے مکہ کے ایک یتیم ونادار انسان کو کیوں منتخب کیا گیا کیا بنی اسرائیل کے گھرانے سے برکت اٹھ گئی ہے یا پھر کوئی اور سرمایہ دار اس کا مستحق نہ تھا ؟ قرآن حکیم نے ان آیات میں اس کا جواب یہ دیا کہ نبوت اللہ کا ایک فضل ہے ، یہ موہبت کبری ہے جو خاص حالات میں خاص اشخاص کو دی جاتی ہے ، اس میں کسب واکتساب کو اور جدوجہد کو کوئی دخل نہیں ، اسرائیل جب اس بار امانت کے متحمل نہ رہے تو یہ امانت اسمعیل کے گھرانے کے سپرد کردی گئی اس میں تم اعتراض کرنے والے کون ہو ؟ یہ ضروری نہیں کہ انبیاء کا انتخاب سرمایہ داروں میں سے ہو ، تمہارے نزدیک تو دنیوی وجاہت قابل اعتنا ہے لیکن خدا کی نگاہ میں اس کی کوئی وقعت نہیں ، یہ درست ہے کہ انبیاء قوموں کو دین ودنیا کی نعمتوں سے مالا مال کرنے کے لئے مبعوث ہوتے ہیں لیکن خود دنیا میں ان کا بہت کم حصہ ہوتا ہے گو وہ روپیہ پیسہ نہیں رکھتے لیکن ایمان وتیقن کی گراں قدر پونجی ان کے پاس سب سے زیادہ ہوتی ہے ، وہ حوصلے کے بلند اور دل کے مطمئن ہوتے ہیں سیم وزر ان کے پاؤں چومتا ہے اور وہ کبھی روپے کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے ، اس لئے تمہارا محض اس بنا پر انکار کہ رسول بنی اسرائیل کے گھرانے میں پیدا نہیں ہوا اور یہ کہ وہ سرمایہ دار نہیں محض غیر معقول ہے ۔ حل لغات : مصدقا : تصدیق کرنے والا ، یستفتحون ، مصدر استفتاح ، فتح طلب کرنا ، بغیا : تمردوسرکشی ، مھین : اھانۃ کے معنی ہوتے ہیں کمزور کردینے کے ۔ ہڈی توڑنے کے ۔ عذاب مھین : سے سخت ضعف وذلت آفرین عذاب مراد ہے ۔ البقرة
91 (ف ١) جب یہودیوں کو قرآن حکیم کی دعوت دی گئی تو انہوں نے توریت کے سوا اور سب چیزوں کے ماننے سے انکار کردیا ، انہوں نے کہا ، ہم تو وہی ماننے کے مکلف ہیں جو ہمارے نبی پر نازل ہوا ہے ، اس پر قرآن حکیم نے دو اعتراض کئے ہیں ایک یہ کہ اگر یہ واقعہ ہے تو تمہاری پہلے انبیاء سے کیوں جنگ رہی ؟ گزشتہ انبیاء کیوں تمہارے ظلم وستم کا نشانہ بنے رہے ؟ وہ تو سب اسرائیلی تھے ، دوسرا یہ کہ توریت وقرآن کے پیغام میں کیا اختلاف ہے قرآن حکیم تو وہی پیغام پیش کرتا ہے جو توراۃ کا موضوع اشاعت تھا پھر انکار کیوں ؟ بات اصل میں یہ ہے کہ تم نے نہ کبھی توراۃ کو مانا ہے اور نہ اب قرآن کو ماننے کے لئے تیار ہو ، ورنہ ان دونوں میں کوئی اختلاف نہیں ، پیغام ایک ہے مقصد ایک ہے تعلیم ایک ہے ، فرق صرف اجمال وتفصیل کا ہے یا نقص وکمال کا قرآن حکیم مصدق ہے مہیمن ہے اور ساری کائنات کے لئے اتحاد عمل ہے ، اس میں کوئی تعصب نہیں کوئی جانب داری نہیں ۔ البقرة
92 (ف ٢) موسیٰ (علیہ السلام) معجزات ونبوت کے تمام آلات سے مسلح ہو کر آئے لیکن تم نے پھر بھی نہ مانا اور گوسالہ پرستی شروع کردی ، معلوم ہوتا ہے ، مصر میں گائے کی پرستش کا عام رواج تھا ، جیسا کہ آج کی اثری تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے مصر کے قدیم معاہد میں سے اس قسم کی کثیر التعداد تصوریں نکلی ہیں جن سے ان کا ذوق بت پرستی ظاہر ہوتا ہے ۔ البقرة
93 (ف ٣) (آیت) ” سمعنا وعصینا “ کے معنی یہ نہیں کہ وہ ایک دم سنتے بھی تھے اور انکار بھی کردیتے تھے ، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ ان کی ساری مزہبیت سماع تک محدود تھی ، جہاں عمل کا وقت ہوتا ، وہ یکسر عصیاں ہوجاتے ، (آیت) ” سمعنا وعصینا “ ان کی ساری تاریخ مذہبیت کی پوری پوری اور صحیح تفسیر ہے ، ہمیشہ وہ باتوں اور موشگافیوں کے شائق رہے اور عمل سے بیزار ، مختصر سے مختصر لفظوں میں یہودیوں کی ذلت ونفسیات کا جو مرقع قرآن حکیم نے ان دو لفظوں میں کھینچا ہے وہ ناقابل اضافہ ہے ۔ حل لغات : الحق : سچا معقول اور مفید مصلحت ۔ البقرة
94 فیصلہ کا ایک طریق : (ف ١) یہودیوں کا تفاخر دینی مشہور ہے ، وہ کہتے تھے ، آسمان کی بادشاہت میں ہمارے سوا اور کسی کا حصہ نہیں ، بہشت کے دروازے صرف بنی اسرائیل کے لئے کھولے جائیں گے ، قرآن نے اس غور کو بار بار توڑا ہے اور ایک آخری طریق فیصلہ یہ پیش کیا ہے کہ تم موت کی خواہش کرو ، یعنی جھوٹے کے لئے ہلاکت کی دعا کرو ، جیسا کہ امام المفسرین حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے اس صورت میں معلوم ہوجائے گا کہ تمہیں اپنے سچا اور پاکباز ہونے پر کتنا یقین ہے ، یہ طریقہ فیصلہ ایک شدید تیقن ، محکم اور مضبوط ایمان کی خبر دیتا ہے جو نبی اسلام کے سینہ میں موجود تھا ، دلائل وبراہین سے جب فیصلہ نہ ہو سکے ، افہام وتفہیم کے تمام دروازے جب بند ہوجائیں تو اس وقت بھی یہی ایک صورت فیصلہ باقی رہ جاتی ہے کہ اپنے آپ کو رب عادل کے عتبہ حق وانصاف پر جھکا دیا جائے ، مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ خدا پر ایمان واثق ہو ، اس پر اور اس کی عدالت پر پورا پورا وثوق اور یقین ہو ، ایک کمزور ایمان والا انسان کبھی اس قسم کے فیصلے کے لئے آمادہ نہیں ہو سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے پہلے سے اعلان فرما دیا کہ یہودیوں کو اپنی سیہ کارویوں کے سبب ان سے کبھی اس نوع کے ایمان طلب فیصلے پر لبیک کہنے کی جرات نہ ہوسکی ، تاریخ شاہد ہے ، تیرہ صدیاں گزرنے پر بھی یہ قوم اس کے جواب کے لئے تیار نہیں ہوئی ، یہ چیلنج یہودیوں سے مخصوص نہیں ، جنگ خدا پرست اور باطل پرست گروہ کے درمیان ہے پس ہر وہ شخص جو حق والوں کا مقابلہ کرنا چاہے ، آخری طریق فیصلہ کے لئے آمادہ ہو سکتا ہے ، خدا کا نہ ٹلنے والا وعدہ ہے ، (آیت) ” حقا علینا نصر المؤمنین “۔ حل لغات : بئسما : بہت برا ۔ لن یتمنوا : مصدر تمنی ، خواہش ، آرزو اور چاہت ۔ احرص : حریص ترین ۔ یود : مصدر ود ۔ دوستی ، محبت ۔ البقرة
95 البقرة
96 حریص ترین قوم : (ف ١) حق وباطل میں ، شرک وتوحید میں ایک متمائز فرق ہے ، مشرک وباطل پرست کی خواہشیں بےانتہا ہوتی ہیں اور موحد حق پرست انسان بالطبع قانع ہوتا ہے ، یہودیوں کی دنیا پر ستی قرآن حکیم کے ان الفاظ سے واضح ہوتی ہے کہ (آیت) ” سمعون للکذب اکلون السحت “۔ کہ پرلے درجے کے جھوٹے اور سود خوار ہیں ۔ آج بھی یہودی سود خواری میں اس درجہ مشہور ہے کہ مغربی ممالک میں یہودی اور سود خوار باہم مترادف لفظ ہیں ۔ قرآن حکیم نے یہاں انہیں (آیت) ” احرص الناس “۔ قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ ہزار سال کی عمر بھی یہ پائیں تو بھی دین کے لئے یہ کچھ کرسکیں گے ۔ البقرة
97 البقرة
98 (ف ٢) جہلا نے یہود جبرائیل (علیہ السلام) کے نام سے بہت پریشان ہوتے تھے ، ان کا خیال تھا کہ یہ فرشتہ ہماری بربادی اور بدبختی کا باعث ہوا ہے اس لئے اب اس کے لائے ہوئے پیغام کو ہم کبھی نہ مانیں گے ، یہ ایک ضد اور جاہلانہ خیال تھا ، ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ جبرائیل (علیہ السلام) اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا ، وہ جو کچھ لاتا ہے پیغام خدا کے نظام وحی وتنزیل کا انکار ہے ۔ البقرة
99 (ف ٣) قرآن حکیم کے متعدد نام قرآن میں مذکور ہیں ، ان میں سے آیات بینات بھی ہے یعنی واضح اور روشن آیات جو لوگ اللہ کی اس کتاب کے ساتھ لگاؤ رکھتے ہیں ، وہ جانتے ہیں کہ اس کے دلائل اس کا طرز بیان ، اس کا پیغام سب واضح ہیں اور روشن ، یہ حقائق ومعارف کا وہ سمندر بےساحل ہے کہ جس کی ہر موج صد ہزار موتی اپنے وامان گہر بار میں لئے ہوئے ہے ، ہمہ آفادہ اور ہمہ خوبی اگر کوئی کتاب ہو سکتی ہے تو وہ یہ قرآن حکیم ہے ، اس کے وضوح پر درخشندہ مثال یہ ہے کہ اس طویل عرصے کے بعد بھی یہ ویسی ہی سمجھی جا سکتی ہے ، جیسے قرون اولی میں نفس تعلیم میں کوئی تحریف نہیں ، حالانکہ انجیل دو سو سال کے بعد بالکل بدل گئی اور وید چند صدیاں بھی حوادث کا مقابلہ نہ کرسکا ۔ حل لغات : الف : ایک ہزار ۔ مزحزح : ہٹانے والا ، دور کرتے والو ۔ بشری : خوش خبری ۔ البقرة
100 (ف ١) بنی اسرائیل ایک آنے والے نبی کے منتظر تھے اور انہوں نے اس کی اعانت ونصرت کا عہد کر رکھا تھا ، لیکن جب وہ آگیا جس کا انتظار تھا تو منکر ہوگئے ، وجہ یہ تھی کہ ان کے دل دولت ایمان سے محروم تھے ، مال ودولت کے سوا انکی زندگی کا اور کوئی مقصد نہ تھا (آیت) ” اکثرھم “ کہہ کر قرآن نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ کچھ لوگ یہودیوں میں ایسے بھی تھے جو نیک سرشت تھے ، یہ حالت اکثریت کی نہ تھی ۔ البقرة
101 (ف ٢) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے من عند اللہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس کا پیغام براہ راست مستفادہ ہوتا ہے ، جناب قدس سے (آیت) ” وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی “ اس کی ساری زندگی آئینہ ہوتی ہے ، رضائے الہی کا (آیت) ” وھم بامرہ یعملون “ اور وہ تمام پہلی تعلیمات کا مصدق ہوتا ہے لیکن اہل کتاب کی شومی عقل ملاحظہ ہو کہ باوجود ان سب چیزوں کے دیکھنے کے منکر ہی رہے ۔ البقرة
102 سحر کفر ہے : (ف ٣) حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا عہد حکومت نہایت شاندار عہد حکومت تھا جن وانس کی ایک کثیر التعداد فوج ان کے زیر قیادت تھی ، ان کی دانائی اور حکمت زبان زد عوام وخواص تھی ، اس لئے بعض لوگوں کو یہ خیال کرنے کا موقع ملا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) جادو جانتے تھے جس سے ہمزاد ان کے قبضے میں تھے ، قرآن حکیم اس خیال کی تغلیط کرتا ہے ، اس لئے کہ تقدیس انبیاء اس کا فرض ہے وہ کہتا ہے سحر کفر ہے اور سلیمان (علیہ السلام) ہرگز کفر کی تعلیم نہیں دے سکتے ، اس کے کفر ہونے کی دو بڑی وجہ ہیں ، ایک تو یہ کہ ساحر کا ایمان اللہ تعالیٰ پر پختہ اور مضبوط نہیں ہوتا ۔ توکل وصبر کے جذبات نہیں رہتے ، اور دوسرے یہ کہ اس سے فسق وفجور میں بہت مدد ملتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ اس قماش کے لوگ ہمیشہ آوارہ اور بدکردار ہوئے ہیں ان کا مقصد جلب زر اور لوگوں کے ناموس وعزت کو خطرہ میں ڈالنا ہوتا ہے اور اس کے لئے وہ عجیب عجیب حیلے تراشتے ہیں ، سحر کے معنی اصل میں باریک اور رقیق الفہم چیز کے ہیں ، ان کے شعبدے عام اذہان کی دسترس سے چونکہ بالا ہوتے ہیں ، اس لئے سحر کے لفظ سے تعبیر کئے جاتے ہیں ۔ جادو سیکھنے کا دوسرا ذریعہ ہاروت ماروت نامی دو فرشتے تھے ، جنہیں بابل میں رکھا گیا تھا اور جن کے متعلق مشہور تھا کہ وہ جادو سکھاتے ہیں ، قرآن حکیم ان کی بھی برات کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ پہلے لوگوں کو روک دیتے تھے اور کہہ دیتے تھے کہ یہ کفر کا کام ہے لیکن جب وہ بضد ہوتے تو انہیں سکھا دیا جاتا ، مگر وہ سیکھتے کیا ؟ عورت و مرد میں نفاق ڈالنے کے طریقے ، آج بھی اس قسم کے شعبدہ باز مسلمانوں میں کثرت سے ہیں جو حب کے تعویذ لکھ کردیتے ہیں جن سے ہزاروں گھروں میں نااتفاقی اور ناچاقی بڑھتی ہے ، سینکڑوں گھرانے ان کی بدمعاشیوں کی وجہ سے برباد ہوجاتے ہیں اور یہ ہیں کہ لوگوں کی بیوقوفی سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ قرآن حکیم سحر وجادو کی تاثیرات کے متعلق فرماتا ہے (آیت) ” وما ھم بضآرین بہ من احد الا باذن اللہ “ کہ اس سے کچھ نہیں ہوتا ، نہ نقصان اور نہ نفع ، البتہ خدا جب چاہتا ہے تو اپنے کسی بندے کو آزمائش میں ڈال دیتا ہے اور جب چاہتا ہے اسے آزمائش کے کڑے لمحات سے نکال لے جاتا ہے ، حدیث میں آتا ہے کہ اگر ساری دنیا مل کر کسی کو نقصان پہنچانا چاہے ، اور اللہ کی مرضی نہ ہو تو وہ اس پر قادر نہیں ہو سکتے ، اسی طرح اگر ساری کائنات جمع ہو کر کسی کو کوئی فائدہ پہنچانا چاہے اور قدرت کا منشا نہ ہو تو وہ ناکام رہیں گے ، اس لئے مسلمانوں کو اسے ہتھکنڈوں سے بچنا چاہئے اور قطعا ان لوگوں سے خائف نہ ہونا چاہئے ، ان لوگوں کے اختیار میں کچھ ہو تو وہ اپنی حالت نہ سنوار لیں ، یوں مارے مارے کیوں پھریں اور کیوں بھیک مانگیں ۔ وہ لوگ جو شعبدہ بازی ان مذموم اغراض کے لئے سیکھتے ہیں وہ آخرت میں خائب وخاسر رہیں گے اور جنت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ، اس لئے کہ دنیا میں انہوں نے اپنا محور ہمیشہ فریب وجہل رکھا ہے اور کبھی اس پر غور نہیں کیا کہ اس کے نتائج ان کی روحانی زندگی کے لئے کس حد تک خطرناک ہو سکتے ہیں ۔ حل لغات : نبذ ، پھینکا ، نظر انداز کیا ، ماضی مصدر نبذ ۔ ورآء : پیچھے ۔ ظھور ، جمع ظھر پشت ، پیٹھ ، تتلوا : مصدر تلاوۃ : پڑھنا ، اطاعت کرنا ۔ علی ملک سلیمان : سلیمان کے عہد حکومت میں ۔ شیطین : جمع شیطان ، فطرت کی راہ مستقیم سے دور ، برا دوست ۔ یہاں مراد شریر اور مذموم شخص ہے ۔ (ف ١) تھوڑی عقل کے لوگ شعبدے اور کرشمے دیکھ کر جلد متاثر ہوجاتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ چیزیں صرف سحر وجادو کے ذریعہ ہی سے انجام دی جا سکتی ہیں ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، ایمان وتقوی اگر دلوں میں موجود ہو تو اس کے نتائم سحر وجادو سے زیادہ محیر اور باثمر ہو سکتے ہیں ، وہ ہر شے جو کاہن اور جادوگر کفر وخیانت کے وسائل سے حاصل کرتے ہیں ‘ وہ مومن اللہ کی رضا جوئی میں حاصل کرلیتا ہے ، اور یہ اس لئے کہ جو رب کائنات کا پیارا ہوجائے ، کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے تابع ہوجاتا ہے ، مگر یہ لوگ اس سراطاعت و ایمان سے غافل ہیں ۔ حل لغات : فتنۃ : آزمائش ۔ اصل میں سونے کو آگ میں ڈال کر دیکھنا ہے ۔ اس لئے سنار کو فتان کہتے ہیں ۔ آزمائش کے معنی میں اس لئے استعمال ہوتا ہے کہ یہ بھی ایک قسم کی آگ ہے جس سے کھرے کھوٹے میں امتیاز ہوجاتا ہے ۔ ضآرین : جمع ضار ، نقصان دہ ۔ خلاق : خصہ ، بہرہ ۔ مثوبۃ : اجر ۔ انجام اور ثمر ۔ البقرة
103 البقرة
104 حرمت رسول : (ف ١) مسلمانوں کے نزدیک حب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ گرانمایہ متاع ہے جس سے وہ کسی حالت میں بھی دست بردار ہونے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ والہانہ شیفتگی اصل ایمان ہے ، صحابہ کرام (رض) عنہم اجمعین جب دربار رسالت میں ہوتے اور مختلف مسائل کے سلسلہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی توجہ عالی کو اپنی طرف مبذول کرانا ہوتا تو کہتے (آیت) ” راعنا “۔ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارا بھی خیال رہے لیکن بدباطن اور بدعقیدہ یہودی مسلمانوں کی اس عقیدت کو برداشت نہ کرسکے ، انہوں نے از راہ تمسخر وتحقیر راعنا ، کہنا شروع کردیا ، جس کے معنی ان کے ہاں کم عقل کے ہوتے ہوتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، تم اس موقع پر (آیت) ” انظرنا “ کہا کرو ، یعنی دیکھئے تو ، اس میں انہیں خبث باطن کے اظہار کا کوئی موقع نہیں ملے گا ، اس آیت سے حرمت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت مقصود ہے اور یہ تلقین ہے کہ کوئی ایسا کلمہ جو توہین کا موہم بھی ہو ‘ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے استعمال نہ کرو ، ایسا نہ ہو کہ دلوں سے عقیدت مندی وارادت کے جذبات محو ہوجائیں اور بجائے ایمان کے نرا کفر ہمارے حصہ میں آئے ، البقرة
105 (ف ٢) ان آیات میں کفار واہل کتاب کی ذہنیت بتائی ہے کہ وہ کسی طرح بھی مسلمانوں کو اچھی حالت میں نہیں دیکھ سکتے ، کفر و ایمان کی یہ آویزش آج بھی موجود ہے ، مسلمان کی ہر بات کفر کے سینہ تنگ میں کھٹکتی ہے ، غیر مسلم ہرگز برداشت نہیں کرسکتے کہ مسلمانوں پر رحمت باری کا نزول ہو اور برکات الہیہ کا مہبط بن جائیں لیکن خدا صاحب فضل عنایات ہے ، اس کی مہربانیاں احاطہ شمار سے باہر ہیں ۔ وہ جسے چاہے جب چاہے نواز دے ۔ پچھلی کتابوں کا نعم البدل : جیسے عالم انسانیت میں ترقی ہوتی گئی ، صحائف آسمانی بدلتے رہے بلکہ یوں کہئے کہ کتب الہیہ نے آہستہ آہستہ کائنات انسانی میں رفعت وتقدم پیدا کیا اور ہر صحیفہ آسمانی میں حالات وفضا کا خیال رکھا گیا تاکہ کوئی چیز بھی ان لوگوں کے لئے غیر مانوس نہ ہو ۔ جب سلسلہ ارتقاء دین کی آخری کڑی قرآن مجید نازل ہوا تو ضرور تھا کہ پہلی تعلیمات یا تو فراموش ہو چکتیں یا پھر فضا وحالات کے ناموافق ہونے کی وجہ سے منسوخ ، کیونکہ ارتقاء وتقدم کا فطری قانون یہی چاہتا ہے ، مگر اہل کتاب نے اس پر اعتراض کیا کہ یہ کیا بات ہے ، قرآن حکیم کے نزول کے بعد توراۃ وانجیل منسوخ ہوجائے ؟ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا ، تم یہ نہ دیکھو کہ توریت کے بعض احکام کو بدل دیا گیا ہے یا انجیل کی بعض تعلیمات میں اصلاح کی گئی ہے ، تم یہ دیکھو کہ جو چیز تمہیں دی گئی ہے ‘ وہ کسی طرح بھی توریت وانجیل سے رتبہ وشرف میں کم ہے ؟ یا پھر یہ بتایا کہ جب مادہ کے ذرہ ذرہ پر خدا کی حکومت ہے اور تم ساری کائنات میں وقت وحالات کے موافق تبدیلی وتغیر روز دیکھتے ہو تو پھر اخلاق وشریعت کے قانون میں کیوں تبدیلی نہیں ہو سکتی ؟ قرآن حکیم ان تمام کتابوں کا جو اس سے پہلے نازل کی گئیں بہترین بدل ہے اور بہترین مجموعہ ، ارتقاء وتدریج کی یہ آخری کڑی ہے جس کے بعد کوئی کتاب نہ اترے گی اور نہ کوئی نبی ہی پیدا ہوگا ۔ حل لغات : ننسخ : مادہ نسخ ۔ بدلنا ، ازالۃ شی بشیء یتلقیہ (مفردات) ننسھا ۔ تاخیر میں ڈالتے ہیں مادہ انساء بمعنی تاخیر وتمہیل : البقرة
106 البقرة
107 البقرة
108 (ف ١) ابو مسلم کا خیال ہے کہ اس آیت کے مخاطب نئے نئے مسلمان ہیں ، وہ کہتے تھے ، ہمیں بھی عجم کی طرف بت پرستی کی اجازت دی جائے ، امام المفسرین حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اس کے مخاطب مشرکین مکہ ہیں ۔ ان میں کا ایک معزز عبداللہ بن امیہ مخرومی ایک جماعت کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اس وقت تک ہم ایمان نہیں لانے کے جب تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں چشمے نہ بہا دیں ، یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے باغات کی سرسبزی وشادابی ہو ‘ یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قصر ومحل سونے کا ہو ‘ اور یا پھر آپ آسمان پر چڑھ کر قرآن حکیم نہ اتار لائیں ، سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد یہودی ہیں ، اس لئے کہ اس کے آگے پیچھے انہیں کا ذکر ہے ، اور اس لئے بھی کہ یہ سورۃ مدنی ہے ، یوں جواب میں عموم ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے از خود بلا ضرورت کچھ نہ پوچھو وہ اللہ کی طرف سے مامور ہے ، بجز اس کی اجازت کے اسے بولنے کی اجازت نہیں ۔ یہودیوں میں یہ بری عادت تھی کہ وہ انبیاء علیہم السلام کو عموما سوالات کا تختہ مشق بنائے رکھتے اور عمل کم کرتے تھے ، موشگافیاں اور تفاصیل طلبی کا شوق حد سے زیادہ تھا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، رشد وہدایت کے آجانے کے بعد یہ کج بحثیاں کیوں اختیار کرتے ہو ؟ یاد رکھو کہ جس قوم میں یہ ذہنیت پیدا ہوجائے اس سے عملی قوت چھین لی جاتی ہے اور وہ راہ راست سے بھٹک جاتی ہے ۔ حل لغات : ملک : بادشاہت ، سلطنت : ولی : دوست ۔ نصیر : مددگار ۔ سوآء السبیل : راہ راست ۔ یردون : مادہ رد لوٹاتا ، کفارا جمع کافر ۔ البقرة
109 (ف ١) مخاض بن عاذ وراء اور زید بن قیس یہودی نے جب دیکھا کہ غزوہ احد میں عارضی شکست ہوگئی ہے تو انہوں نے حضرت حذیفہ (رض) اور حضرت عمار (رض) سے کہا ، آؤ پھر سے یہودی ہوجاؤ ، کیوں ہزیمت اٹھاتے ہو مسلمان رہ کر حضرت عمار (رض) نے فرمایا ، تمہارے مذہب میں نقض عہد کو کس نظر سے دیکھا جاتا ہے ؟ انہوں نے کہا ۔ بہت بری نظر سے ، فرمایا تو سن رکھو ، میں نے یہ عہد کر رکھا ہے کہ جیتے جی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیزار نہیں ہونے کا ، حضرت حذیفہ (رض) نے فرمایا ، میں تو بہرحال اللہ سے خوش ہوں ، اس کے دین سے خوش ہوں ‘ اس کی کتاب سے خوش ہوں ، اس کے بنائے ہوئے قبلہ سے خوش ہوں اور مسلمانوں کی ہمہ گیر اخوت پر خوش ہوں ، یہ سن کر وہ مایوس ہوگئے بہرحال ان کی کوشش یہی تھی کہ کسی نہ کسی طرح مسلمانوں میں اسلام کے متعلق بدظنی پیدا کی جائے ، ان آیات میں فرمایا کوئی مضائقہ نہیں ، تم ان سب سیاہ کاریوں کو برداشت کرو اور معاف کر دو وقت آئے گا کہ حق خود بخود ظاہر ہوجائے گا ، اس لئے کہ اللہ کے لئے حالات کا بدل دینا کوئی مشکل نہیں ۔ البقرة
110 عفوعمیم کی تعلیم : (ف ٢) حسد وجمود بدترین لعنتیں ہیں ۔ حدیث میں آتا ہے ، ھی الحالقۃ لا اقول حالقۃ ولکن حالقۃ الدین یعنی حسد وبغض دین ودیانت کو بیخ وبن سے اکھاڑ دینے والی چیز ہے ، ایک حدیث میں فرمایا ہے ، یہ واء الامم ہے یعنی تمام قوموں کی مشترکہ بیماری جس سے قومیں ہلاکت کے قریب پہنچ جاتی ہیں ، ضرور تھا کہ اس کی روک تھام کے لئے کوئی عملی قدم اٹھایا جائے اور بالخصوص جب کہ اس سے پہلی آیتوں میں یہودیوں کے راہ راست سے بھٹک جانے کا ذکر ہے اور اس کا سبب بتایا ہے کہ حسد وبغض کی انتہا ۔ ان آیات میں تین چیزوں کی ہدایت کی گئی ہے ، نماز ، زکوۃ اور تقدیم خیر کی ، نماز سے روح کی جلا ہوتی ہے ، قلب سے دوئی کا خیال اٹھ جاتا ہے ، سب خدا کے حضور میں بلا امتیاز جھک جاتے ہیں اس لئے حسد وبغض کی گنجائش نہیں رہتی ، زکوۃ سے محتاج وغنی میں رشتہ مودت واخوت قائم ہوجاتا ہے ، اور تقدیم خیر سے عام تعاون باہمی پر آمادہ کیا گیا ہے ، ظاہر ہے کہ ان تینوں چیزوں کے ہونے کے بعد کسی قوم میں حسد و بغض کی مہلک وبا نہیں رہتی ۔ ان آیات میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کوئی نیکی ضائع نہیں جاتی تم جو کچھ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کرو گے ‘ اس کا بہترین ثمرہ ضرور ملے گا ، اس لئے کہ خدا ہمارے اعمال کو دیکھ رہا ہے ۔ البقرة
111 مذہب دلائل پرمبنی ہے : (ف ٣) اہل دین کی یہ خطرناک غلطی ہے کہ وہ ظاہری رسوم کو اصل دین سمجھ لیتے ہیں کہ اور اس کی روح سے ناواقف ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان میں اختلا واقع ہوتا ہے ۔ ورنہ روح وروائح کے لحاظ سے تمام آسمانی ادیان ایک ہیں اور اسلام ان سب ادیان کی آخری اور مکمل صورت ہے یہودی نے اسی بنا پر عیسائیت کا انکار کای اور عیسائی نے یہودیت کا ، اور پھر غرور مذہبی کی بھی حد ہوگئی کہ دونوں نے اپنے فرقوں کو نجات کا واحد اجارہ دار سمجھ لیا ، قرآن حکیم کہتا ہے ، تم اپنے تعصب کو عقل وبرہان کی روشنی میں دیکھو ، کیا اس کی کچھ بھی قیمت رہ جاتی ہے ، اگر خدا ایک ہے ، آدم (علیہ السلام) سے لے کر اسرائیل تک تو پھر اس کا دین بھی ایک ہونا چاہئے ۔ اگر موسیٰ (علیہ السلام) نبی ہیں تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ مسیح (علیہ السلام) خدا کے برگزیدہ نبی نہ ہوں ۔ دلائل وبراہین کا استعمال کرو ، ان تعصبات کا خاتمہ ہوجائے گا ، اس کے بعد اصل دین ، روح ، مذہب اور خالص روحانی تخیل پیش کیا ، جس کا جاننا مدار نجات ہے اور انکار کفر ، اور وہ ہے ، اسلام “ یعنی کامل نظام کے ساتھ اللہ کے سامنے جھک جانا ۔ اس کے سوا نہ یہودیت کسی کام کی ہے اور نہ عیسائیت ” خلوص واسلام “ ہونا چاہئے ، پھر دنیا وعقبی کی ہر منزل بےخوف وخطر طے ہوجائے گی ۔ حل لغات : تبین : ظاہر ہوا ۔ فاعفوا واصفحوا ، مادہ عفو ، معاف کردینا ، اور صفح ، درگزر کردینا ہے امر : بات حکم ، چیز ۔ بلی : ہاں ضرور ۔ البقرة
112 البقرة
113 تعصب جہالت ہے : (ف ١) اس کشاکش کو جو یہودی اور عیسائی میں مدت سے قائم ہے ، قرآن مجید جہالت سے تعبیر کرتا ہے ، تعجب ہے کہ ایک قوم توریت کو جانتے ہوئے کس طرح اس درجہ گمراہ ہو سکتی ہے کہ ایک دوسرے کو کافر کہے ، بجز اس کے کہ وہ توریت کو پڑھتے تو ہوں مگر اس کی تعلیمات کو حقیقۃ نہ جانیں ۔ بالکل یہی مرض آج مسلمانوں میں ہے ، قرآن مجید پڑھتے ہیں ، لیکن پھر شغل تکفیر سے باز نہیں آتے ، ایک خدا ۔ ایک رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ایک کتاب کو مان کر آپس میں کیوں مختلف ہیں ، صرف اس لئے کہ تعصب ہے اور حرص شہرت نے انہیں آپس میں ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا ہے ، یہ سب جہالت کی باتیں ہیں ، دانا اور علم رکھنے والی قومیں تعصب نہیں رکھتیں ، ان میں رواداری اور مساوات کا مادہ ہوتا ہے ، وہ عمل کے بارے میں تو ضرور متعصب ہوتے ہیں مگر زبان کے میٹھے اور بات کے رسیلے ہوتے ہیں ، حل لغات : یحکم : فیصلہ کرے گا ، مادہ حکم ۔ یوم القیمۃ : وقت مکافات ، جب لوگ جی اٹھیں گے ، سعی : کوشش کی ، مادہ سعی : البقرة
114 اسلامی مساجد انسانی اتحاد کا مرکز ہیں : (ف ١) مختلف معاہدنے ہمیشہ انسانی جماعتوں کو مختلف فرقوں اور گروہوں میں تقسیم کردیا ہے ، زہرہ کے پجاری مشتری کے ماننے والوں کو اپنے مندروں میں نہیں گھسنے دیتے اور موسیٰ (علیہ السلام) کے نام لیوا عیسائیوں کو نازک سمجھتے ہیں اور اپنے کلیساؤں میں انہیں وہ محل ہونے کی اجازت نہیں دیتے ، غرضیکہ معاہدجن کی غرض انسانیت کا تزکیہ وتطہیر ہوسکتی ہے بجائے خود محاذ جنگ کی حیثیت رکھتے ہیں ، ہر عبادت گاہ اپنے پس پشت ایک جماعت رکھتی ہے جو اس کے نام پر نسل انسانی میں تفریق پیدا کرے ، پھر معزز اور غیر معزز کا سوال بھی ہزاروں سال سے قائم ہے ہر مندر میں ‘ ہر معبد میں ‘ ہر کلیسا و کنیسا میں ہر حیثیت کا انسان داخل نہیں ہو سکتا ، بلکہ رنگ وبو کے ہزاروں دیوتا ہیں جن کی پرستش کرنا پڑتی ہے اور جو عبد و معبود کے پاک اور براہ راست راستہ میں روک ہیں ، اسلام کہتا ہے ، خدا کے تمام بندے ‘ ہر نوع کے انسان اگر خدا کے نام پر کسی معبد میں جمع ہوتے ہیں تو انہیں قطعا نہ روکو ، اس سے بڑھ کر اور کوئی ظلم نہیں ہوسکتا کہ ایک چاکر اپنے مالک کے پاس آئے اور روکا جائے ، وہ جو اس کے آستانہ رحمت پر سجدہ کرنا چاہتا ہے ‘ اس کی اعانت کرو ، تم کون ہو جو اللہ کے بندوں کو اللہ کے گھر سے نکالتے ہو ، مسجدیں دنیا میں ہمہ گیر پیغام اخوت کے مراکز ہیں ، یہاں رنگ ونسل کے تمام بت توڑوئے جاتے ہیں ہر شخص کو ہر وقت ہر مسجد میں ماللہ کے سامنے رکوع و سجود کا اختیار ہے اور حق ۔ البقرة
115 البقرة
116 خدا کا کوئی ولد نہیں : (ف ٢) اسلام سے پہلے مشرک فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دیتے تھے ، حضرت مسیح (علیہ السلام) خدا کے اکلوتے اور پہلوٹھے بیٹے ہیں ، قرآن حکیم کہتا ہے سبحانہ یعنی اللہ جل جلالہ اس قسم کے مشرکانہ اوصاف سے پاک ہیں : دلیل یہ ہے کہ ساری کائنات اس کے قبضہ قدرت میں ہے ، ہر چیز اس کی تسبیح وقنوت میں مصروف ہے ، آفتاب سے لے کر ذرہ تک سب اس کی حمد وثنا کر رہے ہیں ، کیا تمہیں آسمانوں اور زمینوں میں کوئی اور قوت کار فرما نظر آتی ہے ؟ فرشتے بھی اس کے محکوم ہیں ، حضرت عزیز (علیہ السلام) اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کو بھی اس نے پیدا کیا ہے اور دوسری مخلوق کو بھی ، کیا ایک قانون بھی قدرت کا ایسا ہے جس سے فرشتے بےنیاز ہوں اور عزیز ومسیح علیہما السلام الگ ‘ کیا فرشتے اس کے حکموں کے ماتحت نہیں ؟ اور کیا عزیر (علیہ السلام) ومسیح (علیہ السلام) تمام انسانی عوارض سے مبرا ہیں ؟ پھر (آیت) ” کل لہ قانتون “۔ کی اس صداقت کے بعد شرک کے لئے کیا گنجائش رہ جاتی ہے ، دوسری دلیل اس کی توحید وتفرید پر یہ ہے کہ اسے اقنوم وشریک کی کیا ضرورت ہے ، جبکہ اس کی قدرتیں غیر محدود طور پر وسیع ہیں ، اس نے آسمان وزمین کی تمام کائنات بغیر کسی ساجھی اور دوست کی اعانت کے پیدا کی ہے ، اگر کوئی دوسرا خدا ہوتا تو اس کی ضرورت اس آفرینش کے وقت تھی نہ اس وقت جبکہ وہ سب کچھ پیدا کرچکا اس کی قدرت کا غیر مبہم کمال یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کے پیدا کرنے کا فیصلہ کرلے ‘ وہ پیدا ہوجاتی ہے ، اسے کسی مادہ یا کسی مستعد تخلیق چیز کی حاجت نہیں ہوتی ، وہ اپنے ارادے سے اپنی قدرت سے اپنے کمال الوہیت سے ساری کائنات کو پیدا کرلیتا ہے پھر ایسے قادر مطلق ، ایسے مرید باجبروت اور ایسے کامل خدا کے لئے اقانیم کی کیا حاجت ہے ؟ کن کہنا اور دنیا کا پیدا ہوجانا یہ ایک انداز بیان ہے ، مقصد یہ ہے کہ کہا اور چیز بن گئی ، وہاں کوئی مختلف یا انتظار نہیں ہوتا ، یہ مراد نہیں کہ واقعی اسے تخلیق کے لئے کن کہنا پڑتا ہے یا کن کوئی طلسم ہے جس کے ورد سے وہ دنیا پیدا کرتا ہے ، معلوم ہوتا ہے کہ توریت میں بھی اسی اعلی قسم کے الفاظ آئے ہوں گے جس سے عیسائیوں کو ٹھوکر لگی ، انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ کلام کوئی الگ صفت ہے جس سے دنیا کو پیدا کیا گیا ، چنانچہ انجیل میں ہے کہ ابتدا میں کلام تھا اور پھر یہ لکھا ہے کہ کلام کے وسیلے سے ساری چیزیں پیدا ہوئیں ، حالانکہ اس احکم الحاکمین خدا کو بجز ایک ارادے کے اور کسی چیز کی کیا حاجت ہے ؟ یہ درست ہے کلام اس کی صفت ہے ، قدرت بھی اس کی صفت ہے یعنی وہ قادر ہے اور اپنے خاص بندوں پرکلام نازل کرنے والا بھی ، یہ نہیں کہ کلام یا قدرت کوئی الگ چیزیں ہیں اور وہ خدا ہیں ۔ بلکہ خدا نام ہی ہے اس ذات اقدس کا جس میں علم قدرت ارادہ ایسا صفات کمال بدرجہ غایت موجود ہوں ۔ حل لغات : وجہ اللہ : رخ اور منہ ، کنایہ ہے اللہ کے فضل وکرم سے ۔ بدیع : بلا مددواستعانت پیدا کرنے والا ۔ البقرة
117 البقرة
118 (ف ١) ان آیات میں بتلایا گیا ہے کہ قریش مکہ کو معجزہ طلبی اور کرشمہ پسندی کا ایک مرض تھا ، یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح وہ یہ کہتے کہ خدا ہم سے براہ راست کیوں گفتگو نہیں کرتا اور وہ کیوں ہمیں نشان نہیں دکھلاتا ، فرمایا : (آیت) ” تشابھت قلوبھم “۔ یعنی ان نسب کی ذہنیت ایک ہی ہے ، کیا وہ نہیں دیکھتے کہ قرآن کی ایک ایک آیت معجزہ ہے ، رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کا ہر لمحہ وثانیہ اپنے اندر ایک جہان عقل وبصیرت رکھتا ہے ، بات یہ ہے کہ یقین ایمان کا ” ذوق “ ان میں نہیں رہا ۔ البقرة
119 بشیر ونذیر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : (ف ٢) تمام انبیاء (علیہ السلام) کی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا منصب بھی بشارت ونذار ہے ، یعنی وہ جو ان کی اطاعت کریں ، دین واخری کی خوشخبریاں اور مژدے ان کے لئے ہیں اور جو انکار ومخالفت میں پیش پیش ہیں ، دونوں جہان کی رسوائیاں انکے حصہ میں ہیں ۔ البقرة
120 (ف ٣) یعنی یہودی اور عیسائی اپنے غلط عقائد پر قانع ہیں ، چاہتے ہیں کہ آپ انکی گمراہیوں کا ساتھ دیں ، مگر یہ کیسے ممکن ہے ، آپ کا یہ منصب نہیں کہ آپ ان کے خیالات کو کوئی وقعت دیں ۔ حل لغات : جحیم : دوزخ : (ف ١) وہ جن کو کتاب دی گئی اور وہ اسے پڑھتے ہیں ، اس کے مصداق کون لوگ ہیں ؟ مفسرین کا اس میں اختلاف ہے ، بعض کے خیال میں اس سے مراد مسلمان ہیں ، کیونکہ اس کے بعد فرمایا ہے کہ یہی لوگ اس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کے بعد یہ فرمایا کہ جو شخص انکار کرے گا ‘ وخائب وخاسر رہے گا ، ظاہر ہے کہ قرآن حکیم کے سوا کوئی کتاب اس درجہ شائستہ عمل نہیں کہ اسے چھوڑ کر خسران لازمی طور پر ہو ، بعض کی رائے ہے کہ ” کتاب “ سے مراد توریت وانجیل ہے ، آیات کا سیاق وسباق یہی بتاتا ہے کہ اس صورت میں مرقومہ بالاشبہات کا جواب یہ ہوگا کہ توراۃ وانجیل گو انسانی وبشری ودستبرد سے محفوظ نہیں ، دونوں محرف ومبذل ہیں تاہم ان میں اتنی سچائیاں ضروری ہیں کہ یہودی وعیسائی فراخ دلی اور تعمق سے کام لیں تو پھر ان میں اور مسلمانوں میں زیادہ اختلاف نہ رہے اور وہ اسلام و ایمان کے زیادہ قریب ہوجائیں گے ، وجہ یہ ہے کہ قرآن اس صداقت مثقلہ اور حق مجرد کا نام ہے جس کا انکار ہر اس شخص کے لئے ناممکن ہے جسے ذرا بھی الہامی کتب سے ذوق وعقیدت ہے ، اسی وجہ سے قرآن حکیم کہتا ہے کہ اہل کتاب اگر اپنی ہی کتابوں کو بغور پڑھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اسلام سے دور رہیں ۔ حل لغات : ولی : دوست کلمت : جمع کلمۃ ، بات ۔ البقرة
121 البقرة
122 البقرة
123 البقرة
124 منصب امام و نبوت : (ف ١) ان آیات میں تین باتیں بتائی ہیں ۔ حضرت ابراہیم کا ابتلا ، امامت کی خوشخبری ، حضرت ابراہیم کا مطالبہ اور اس کا جواب ابتلا کے متعلق حضرت ابن عباس کا خیال ہے کہ وہ دس خصائل ہیں جنہیں فطرت انسانی کی اصلاح سے گہرا تعلق ہے اور حضڑت ابراہیم ان میں کامیاب نکلے ۔ یعنی ان پر پوری طرح عمل کیا ، دس باتیں یہ ہیں ۔ (١) کلی کرنا (٢) ناک میں پانی دینا (٣) کنگھار کرنا (٤) مونچھیں تراشوانا (٥) مسواک کا استعمال کرنا (٦) ختنہ کرانا (٧) بغل کو صاف رکھنا (٨) بال زیر ناف صاف کرنا (٩) ناخن کٹوانا (١٠) اور پانی سے طہارت کرنا ۔ اللہ تعالیٰ نے جب دیکھا کہ حضرت ابراہیم فطرت کے قوانین کو سمجھتے ہیں اور ان پر عمل پیرا ہوتے ہیں تو امامت کی خوش خبری سنائی ۔ امامت سے مراد وہ امامت ہے جو نبوت کے مترادف ہے اس لیے کہ نبی کہتے ہی ایک کامل اور جامع امام کو ہیں جسے اللہ لوگوں کی اصلاح کے لیے مامور فرمائے ۔ حضرت ابراہیم نے درخواست کی کہ خدایا یہ منصب و نبوت میری اولاد میں رہے یعنی میری اولاد کو بھی توفیق دے کہ وہ تیرے نام کی اشاعت کریں اور تیرے دین کو چار دانگ عالم میں پھیلائیں ۔ اللہ نے جواب دیا ، نبوت و امامت ایسی شیے نہیں جو وراثۃ خاندانوں میں منقتل ہوتی رہے ۔ نبوت کے لیے ایک خاص استعداد ، ایک خاص کردار اور ایک خاص دل و دماغ کی ضرورت ہے ۔ پھر یہ بھی ضروری ہے کہ اللہ کا ارادہ بھی ہو ، صرف کمالات نبوت کا جمیع ہوجانا کافی نہیں ۔ اس لیے جو لوگ تیری اولاد میں ہمارے معیار انتخاب میں آئیں گے ، وہ تو لئیے جاسکیں گے لیکن ضڑوری نہیں کہ ہر شخص کو عہد نبوت سے سرفراز کیا جائے ، وہ جو ظالم ہیں قطعا محروم رہیں گے ۔ قرآن حکیم میں انبیاء علیہم السلام کے متعلق جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، وہ یہ ہیں یصطفی ، یجتبی ، ارسل یعنی ایک خاص انتخاب ہے ، اور ایک خاص عنایت ، یعنی نبوت اکتسابی نہیں ، کہ جدو جہد اور حسن عمل سے حاصل ہوسکے ، بلکہ وہی ہے ، یعنی خدا کی بخشش ، گویا درست ہے کہ انبیا کا عمل نبوت سے پہلے حسن و خوبی اور کمال و جامعیت کا بہترین نمونہ ہوتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر نیک اور صالح شخص نبی قرار پائے ۔ البقرة
125 کائنات کا مرکز عبادت : (ف ٢) مثابۃ کے معنی مرجع عام اور جاذب مرکز کے ہیں جس طرف لوگ کسی مضبوط تعلق کی وجہ سے کھینچے آئیں ، اسلام کی صداقت کی بہت بڑی دلیل اس کی ہمہ گیری جاذبیت بھی ہے ، اور جذب و کشش کا سب سے بڑا مرکز بیت اللہ ہے ، آج سے کئی ہزار سال پہلے دانیال نبی نے بطور مکاشفہ کہا تھا میں آسمان سے نیا یروشلم اترتا ہوا دیکھتا ہوں ۔ حضرت ابراہیم نے کئی سو سال پہلے وادی غیر ذی زرع میں بےآب و گیاہ زمین میں اللہ کا ایک گھر بنایا اور دعا کی ، فاجعل افئدۃ من الناس تھوی الیھم کہ ساری کائنات کے دل اللہ کے اس گھر کے ساتھ وابستہ ہو یہ امن و سعادت کا بہت بڑا مقام قرار پائے ۔ یہاں کے لوگ دنیوی لذائذ و ثمرات سے ہمیشہ متمع رہیں ، دیکھو یہ دعا کس درجہ قبول ہوئی ، لوگ دور دراز سفر طے کر کے جاتے ہیں کارواں در کارواں روانہ ہوتے ہیں ، مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک کوئی قطعہ ارض ایسا نہیں جہاں دعوت ابراہیمی پر لبیک نہ کہا جاتا ہو ، یہ مرکزیت عالم زائرین کا یہ عظیم و مقدس ہجوم جس کا مقصد طواف و عکوف اور رکوع و سجود کے سوا کچھ نہیں کیا کسی اور جگہ بھی ہے ؟ ان آیات میں یہ دکھانا بھی مقصود ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) جن کی تم سب مشترکہ عزت کرتے ہو ان کے صحیح جانشین ہم ہیں واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی پر ہمارے سوا کون عامل ہے اور یہ کہ خدا کے پرستاروں کی یہ جماعت موحدین کا یہ گروہ یقینا ابراہیم (علیہ السلام) کی دعاؤں کا نتیجہ ہے اس لیے اسے درخور اعتنا نہ سمجھیں اور باطل جاننا درست نہیں ۔ حل لغات : امام : قائد ، قابل پیروی شخص مثابۃ : مرجع عام ، مرکز ، معبد مصلی : جائے نماز ، عھدنا : مادہ عھد ، معنی حفظ الشیئ و مراعاتہ حالا بعد حال یعنی کسی شے کی مسلسل و پیہم حفاظت کرنا یہاں مراد قابل رعایت و عمل حکم ہے ۔ البقرة
126 البقرة
127 خلوص کا پھل : ( ف ١) ابراہیم (علیہ السلام) جس وقت تعمیر کعبہ میں مصروف تھے ان کے منہ سے جو کلمات نکل رہے تھے وہ یہ تھے کہ ربنا تقبل منا یعنی اے خدا ہمارے خلوص و ایثار کو قبول فرما ، گو وہ نہیں جانتے تھے کہ کعبہ کی تعمیر ایک قوم و ملت کی تعمیر ہے ، انسنایت کے مرکز عظمی کی بنیدیں ہیں جو رکھی جارہی ہیں ، لیکن خدا کو یہی منظور تھا کہ حضرت ابراہیم کے منہ سے نکلے ہوئے کلمات قبولیت کا خلعت فاخرہ پہنیں ، تاکہ دنیا کو معلوم ہوجائے کہ خلوص کی خدا کے نزدیک کیا قیمت ہے ۔ یہ محض فریب نفس ہے کہ مخلص انسان کی قدر نہیں ہوتی ، یہ خدا کے بنائے ہوئے قانون کے خلاف ہے ، خدا کے نزدیک خلوص اور صرف خلوص ایسی چیز ہے جو اجر کے قابل ہے ۔ دیکھو حضرت ابراہیم ایسے وقت میں جو بالکل غیر تاریخی زمانہ ہے ایسی جگہ پر جو اپنے اندر کوئی جاذبیت نہیں رکھتی ، ایک اللہ کا گھر بناتے ہیں جو آخر میں مرجع انام بن جاتا ہے ۔ کیا یہ صرف ابراہیم (علیہ السلام) کے خلوص کا نتیجہ نہیں ۔ قبولیت کے لیے ظاہری اذرات اور ذرائع کی قطعا ضرورت نہیں اخبار و رسائل یا محراب و منبر گو اس وقت شہرت کا ایک کامیاب ذریعہ ہیں لیکن اللہ کے نزدیک اس نوع کی شہرت جس میں خلوص و حسن نیت نہ ہو ۔ وبال ایمان ہے ، ایک اللہ کا بندہ شہروں سے دور جنگلوں میں اگر خلوص و حسن نیت کے ساتھ کہیں ڈیرہ ڈال کے بیٹھ جائے تو تم آج بھی دیکھ لو گے کہ شہر اور شہر کے تمام اسباب شہرت اس کے قدم چومیں گے اور جنگل میں منگل کا لطف پیدا ہوجائے گا ۔ بات یہ ہے کہ ہم مخلص نہیں اور پھر یہ گلہ بھی ہے کہ کوششیں رائیگاں جاتی ہیں ربنا تقبل منا کا منظر اگر آج بھی دیکھنا ہو تو ابراہیمی ذوق و شوق پیدا کرو ۔ حل لغات : قواعد : بنیادیں ، اساس مناسک : جمع منسک ، احکام و آداب البقرة
128 البقرة
129 دعائے خلیل اور نوید مسیحا : (ف ١) حضرت ابراہیم نے سات دعائیں اللہ سے کیں ۔ (١) رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا (٢) وَّارْزُقْ اَھْلَہٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ (٣) رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا (٤) رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ (٥) وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا (٦) وَتُبْ عَلَیْنَا (٧) رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلًا ۔ پہلی دعا بلد امین کے متعلق ہے ۔ دوسری وہاں کے رہنے والوں کے لیے ، تیسری میں قبولیت کے لیے استدعا ہے ، چوتھی میں اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے اسلام و اخلاص طلب کیا ۔ پانچویں میں مناسک و احکام کی تشریح چاہی ہے ، چھٹی میں توبہ و رحمت کی درخواست کی ہے اور ساتویں میں فرمایا کہ اللہ ان میں ایک ایسا شان دار رسول بھی جو تیرے احکام انہیں سنائے ۔ جو کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور جو ان کے دلوں اور دماغوں کو پاک اور بلند کردے ۔ اب سوال یہ ہے کہ جب چھ کی چھ دعائیں قبول ہوگئیں جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو ۔ پھر ساتویں کیوں قبول نہیں ہوئی ، قرآن مجید کہتا ہے یہ بھی قبول ہوئی ، بلد حرام کو کس نے حرمت بخشی ، تین سو ساٹھ بتوں کو نکال کر کس نے خدا کے گھر میں عبادت کی اور وہ کون ہے جس نے بیت اللہ کو ، شوکت کا گھر ، بنایا جس نے ساری دنیا کے لیے اسے مفید قرار دیا اور جس نے کائنات کے ہر انسنا کو اس کے آستانہ جلال پر جھکا دیا ، جواب ملے گا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، پھر یہ بھی دیکھو کہ اللہ کی آیات کون دکھاتا ہے ، کون خدا کے کلمے پڑھ پڑھ کر سناتا ہے ، کتاب و حکمت کے دریا کون بہاتا ہے اور کون ہے جو دلوں اور دماغوں کی اصلاح کرتا ہے ۔ وہ مذکر و معلم اس کے سوا کون ہے جس نے حضرت ابراہیم کی طرح مکہ جیسی زمین کو دعوت و اشاعت کا مرکز بنایا اور دیکھتے ہی دیکھتے لوگ اس کو ماننے لگے ، قبولیت عامہ کا یہ فخر کیا فریب کار اور جھوٹوں کو بھی دیا جاتا ہے جس طرح کعبہ تمام معاہد ارضی کا مرکز ہے اسی طرح محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ساری کائنات کا آخری فقط عقیدت و محبت ہے ۔ البقرة
130 (ف ٢) ان آیات میں بتایا ہے کہ دعوت ابراہیم کا انکار نری حماقت ہے اور یہ کہ سلام ہر لحاظ سے دعوت ابراہیمی کا دوسرا نام ہے ۔ البقرة
131 (ف ٣) ان آیات میں یہ بتایا ہے حضرت ابراہیم کس قدر سلیم الفطرت تھے ، صحیح بات مانتے ہیں انہیں کبھی تامل نہیں ہوا ، خدا نے جب انہیں اسلام و توحید کی دعوت دی تو ابراہیم فورا اسلمت پکار اٹھے اور اس کے بعد ساری زندگی تسلیم و رضا کی زندگی ہے ۔ خواب میں بھی دیکھ پایا کہ خدا کی راہ میں بچے کی قربانی ضروری ہے ۔ تو آمادہ ہوگئے اور بیٹے کی گردن پر چھری رکھ دی ، قوم نے جب مخالفت کی اور حرقوہ کی صدائیں چاروں طرف سے آنے لگیں اس وقت آپ ڈرے نہیں تسلیم و رضا کا پیکر بنے ہوئے آگ میں کود پڑے ۔ حل لغات : الحکمۃ : دانائی کی بات ، اسوہ رسول ویزکیھم : مصدر تزکیہ ، پاک کرنا ، دلوں اور دماغوں میں لطافت و نزاکت پیدا کرنا یعنی جذبہ و خیال میں آخری ارتقا کے سامان بہم پہنچانا ۔ یرغب : رغبت کا صلہ ، جب عن ہو تو اس کے معنی نفرت کے ہوجاتے ہیں اصطفینہ : مصدر اصطفاء ، چننا ، انتخاب کرنا البقرة
132 البقرة
133 (ف ١) پھر اولاد کو بھی یہی بتایا کہ خدا نے تمہارے اسلام کو بہترین دین قرار دیا ہے ، اسے ہاتھ سے نہ دینا ، جو تو اس کے لیے وہ تو اس کو سینے سے لگاتے ہوئے تمہارے آخری لمحات زندگی بھی خڈا کے تشکر و حمد میں بسر ہوں ، مایوسی کی وجہ نہیں آخری سانس تک اللہ کی عنایتوں کے امیدار ہو ، اور مرو تو یہ یقین لے کر مرو کہ مصلحت اسی میں ہے اور اللہ کا دین سچا ہے اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ، ان آیات میں اس چیز کی طرف اشارہ ہے کہ مسلمان بالطبع راجی پیدا کیا گیا ہے اور موت جیسی مہیب چیز بھی اس کے پائے استقلال میں لغزش نہیں پیدا کرسکتی ۔ البقرة
134 بہترین جائیداد : (ف ٢) جس طرح حضرت ابراہیم نے اپنی اولاد کو اسلام پر قائم رہنے کی تلقین کی اسی طرح حضرت یعقوب نے بھی اپنے آخری لمحات زندگی میں اپنے بیٹوں کو بلا کر پوچھا کہ تم میرے بعد کس کی پرستش کرو گے ؟ وجہ یہ تھی کہ مصر میں جہاں حضرت یعقوب آرہے تھے ، کثرت سے بت پرست رائج تھی ، آپ نے اس لیے کہ ان میں توحید کا احساس باقی رہے ، بلا کر پوچھا اور غرض یہ تھی کہ اولاد کسی حالت میں بھی اعلاء کلمۃ اللہ سے غافل نہ ہو ۔ حضرت ابراہیم و یعقوب علیہما السلام کی وصیت اس چیز کا پتہ چلتا ہے کہ ان کی ساری زندگی کس کے حصول میں گزری ، وہ اپنے آخری اوقات میں مال و دولت سپرد نہیں کرتے ، جائیداد کے متعلق ہدایات نہیں دیتے ، کوئی خانگی بات نہیں جو ان کو کھٹک رہی ہو ، دنیا سے قلب مطمئن لے کر جاتے ہیں ۔ البتہ اگر کوئی چیز بےچین کرنے والی ہے تو وہ اولاد کی روحانی تربیت ہے ۔ اس میں یہ جلیل القدر اسوہ ہے کہ شفیق اور بزرگ باپ اولاد کے لیے کیا چھوڑ کر مرے ، دنیوی مال و دولت بھی اچھی چیز ہے ، مگر اصل دولت ایمان تقوی کی دولت ہے جو اولاد کے لیے بہترین سرمایہ حیات ہے اور والدین کے لیے باعث سکون و برکت ، وہ والدین جو مال و دولت کے انبار تو اولاد کے لیے جمع کرجاتے ہیں لیکن ان کی تربیت روحانی کی طرف سے غافل رہ جاتے ہیں ، وہ اولاد پر کوئی احسان نہیں کرتے ، بلکہ یہ ایک قسم کا ظلم ہے کہ ان کی ساری جدوجہد اولاد کی ظاہری آسائش کے لیے ہے اور باطنی اصلاح کے لیے وہ کچھ نہیں کرتے ۔ سعادت مند اور صالح اولاد بجائے خود ایک جائیداد ہے اور بدکردار کے پاس اگر قارون کے خزانے بھی ہوں تو بھی وہ ان کا جائز وارث ثابت نہیں ہوتا ۔ بہرحال حضرت یعقوب کی اولاد نے انہیں یقین دلایا کہ ہم توحٰد کے جادہ مستقیم سے نہیں ہٹیں گے ، اور اسماعیل و اسحاق کے بتائے ہوئے مسلک توحید پر قائم رہیں گے ۔ وہ باپ کتنا خوش قسمت ہے جو یہ یقین لے کر مرے کہ میرے بعد میری اولاد صالح و سعادت مند رہے گی اور کس درجہ سعادت مند ہے وہ اولاد جنہیں حضرت ابراہیم و یعقوب علیہما السلام جیسا بزرگ باپ ملے جو آخری وقت تک ان کی روحانیت کا خیال رکھتا ہے ۔ حل لغات : شھداء : جمع شھید بمعنی حاضر امۃ : گروہ ، جماعت ، کسی ایک بات پر متفق ہونے والے لوگ وصی : مصدر توصیۃ وصیت کرنا ، ضروری بات بتانا البقرة
135 (ف ١) ان آیات میں یہودیوں اور عیسائیوں کے اس زعم باطل کی تردید ہے کہ انبیاء سے انتساب انہیں نجات دلا سکے گا ، فرمایا تم ان لوگوں کے اعمال کے ذمہ دار نہیں ہو ، تم سے صرف تمہارے اعمال کی بابت پوچھا جائے گا ، پھر یہ بتایا کہ اسلام میں قطعا تخرب وتفریق کی گنجائش نہیں ، نجات یہودیت وعیسائیت کے محدود دائروں مین نہیں بلکہ توحید واسلام کے وسیع حلقہ میں ہے جس میں بت پرستی وشرک کی تنگ دلانہ ذہنیت کی بجائے توحید وتفرید کی آزادی ووسعت قلبی ہے ۔ البقرة
136 البقرة
137 حلقہ توحید کی سعتیں : (ف ٢) اسلام ہر قسم کی تنگ دلی سے بالا ہے ، وہ کسی خاص تعلیم پر ایمان لانے کی تاکید نہیں کرتا ، بلکہ وہ کہتا ہے کہ تم ہر صداقت کو مانو ، ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی مانو اور اسمعیل (علیہ السلام) کو بھی موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی اور مسیح (علیہ السلام) کو بھی علیہم السلام اجمعین ۔ اور ہر اس چیز پر یقین رکھو جو اللہ کے پیغمبروں کی وساطت سے ہم تک پہنچی ہے ، اس لئے کوئی تفصیل نہیں مسلمان مجبور ہے کہ وہ ہر سچائی کا احترام کرے ، اس لئے اسے تو اللہ سے محبت ہے ، اور جب اس کی اطاعت وفرمانبرداری کا جوا جو اپنے کندھوں پر ڈال لیا تو پھر ہر حکم جو اس کی طرف سے وصول ہوا شائستہ اعتناء ہے وہ لوگ جو خدا کی محبت کا دعوی تو کرتے ہیں لیکن محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لاتے تو اپنے دعوے میں سچے نہیں ۔ کیونکہ آپ خدا کے سب سے بڑے دوست اور محب ہیں ۔ البقرة
138 انکار کا نتیجہ : (ف ٣) ان آیات میں بتایا کہ ایمان وہی ثمر و سود مند ہے جو کامل ہو ، یعنی پورے نظام اسلامی کو مانا جائے ورنہ راہ راست سے بھٹک جانے کا خطرہ ہے اور وہ لوگ جو اسلام کے نظام وحدت پر عمل پیرا نہیں ہیں ، ان کا شقاق واختلاف کے مرض ہیں مبتلا رہنا لازمی وناگزیر ہے ، اس لئے کہ اسلام کے سوا جتنی راہیں ہیں ‘ ان سب میں تعصب وجہالت کے کانٹے بچھے ہیں ، سب غیر مستقیم ہیں ، اسلام اور صرف اسلام ہی رواداری ، مسالمت اور اطاعت حق کا سچا مبلغ ہے ۔ الہی رنگ : حضرت قتادہ (رض) سے روایت ہے کہ صبغ فلان سے مراد کسی خاص عقیدہ کی تلقین کرنا ہے یعنی صبغۃ اللہ سے مراد اللہ کا دین ہے ، دین کو اللہ کے رنگ سے تشبیہہ دینا یہ ظاہر کرتا ہے کہ دل بمنزلہ سفید کپڑے کے ہے اسی لئے (آیت) ” وثیابک فطھر “ میں کپڑوں سے مراد دل ہے جس کو مختلف انواع کے رنگوں سے رنگ لیا جاتا ہے کوئی یہودی ہے اور کوئی عیسائی کوئی مجوسی ہے اور کوئی آتش پرست ، قرآن حکیم کہتا ہے ، اللہ کا رنگ ان سب الوان سے جدا ہے اور بہتر ہے اس میں یہودیت بھی ہے اور عیسائیت بھی ، اس میں تعصب وجہالت کا کوئی رنگ نہیں (آیت) ” ونحن لہ عبدون “ کہہ کر یہ بتایا ہے کہ مسلمان جس رنگ میں ظاہر ہوتا ہے ‘ وہ عبودیت اور خاکساری ہے ، وہ ہر وقت اللہ کی فرمانبرداری واطاعت میں مصروف نظرآئے گا اس کی زندگی کو کوئی لمحہ ضائع نہیں ہوتا ۔ اس کی پہچان خدا کی عبادت ‘ اس کی محبت اور اپنی عبودیت کا اظہار ہے نیز اس کی طرف بھی اشارہ ہے کہ عیسائی جو اصطباغ کو بہت بڑی دینداری سمجھتے ہیں ‘ وہ جان لیں کہ ظاہر داری کے رنگ چھڑک دینے سے کوئی نجات کا مستحق نہیں بن سکتا ، رسم اصطباغ سے کپڑے تو رنگے جا سکتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ دل بھی خدا کے رنگ میں ڈوب جائیں ، اس لئے ان ظاہر پرستیوں کو چھوڑ کر روح وباطن کی طرف عود کرو اور رسوم و رواجات سے پلٹ کر حقائق ومعارف کی جانب بڑھو کہ خدا کو ظاہر داریاں پسند نہین جن میں ذرہ بھر شائبہ خلوص نہ ہو وہ تو دل کی گہرائیوں میں خلوص ومحبت کے خزانے دیکھنا چاہتا ہے ۔ حل لغات : اسباط : جمع سبط ، ۔ اولاد ، شقاق ، اختلاف ۔ صبغۃ : رنگ ، احسن ، اچھا مادہ حسن ۔ البقرة
139 (ف ١) اس آیت میں یہودیوں ‘ عیسائیوں اور مشرکوں سے مشترکہ خطاب ہے کہ تم خدا کے احکام ونواہی کے متعلق ہم سے کیوں بحث ومناظرہ کرتے ہو جبکہ ہم سب کا وہ رب ہے ، جو مناسب سمجھتا ہے وہ فرماتا ہے اور فرماتا ہے اور جس کو مناسب سمجھتا ہے اس منصب کے لئے منتخب فرمالیتا ہے ہم اور تم اعتراض کرنے والے کون ؟ یہ تو خالصتا اس کے اختیار میں ہے پھر اگر بفرض محال عہدہ نبوت کا تعلق اعمال اکتساب سے بھی ہو تو بھی کیا تم سے زیادہ اخلاص وعادات کو سنوارو ، پھر اسلام پر اعتراض کرو ۔ البقرة
140 (ف ٢) ان آیات میں پھر اس وہم کی تردید ہے کہ سابقہ ابنیاء یہودی تعصب اور عیسائی جہالت کے متعقد تھے ، فرمایا کہ یہ سب خرافات اور غلط عقائد جو ان میں رائج ہوگئے ہیں اور جن سے یہ آج دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں کتمان شہادت کا نتیجہ ہیں ، اگر یہ خدا کے احکام صحیح صحیح صورت میں رہنے دیتے اور اپنی نفسانی خواہشات کے تابع نہ بناتے تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ جو کچھ کہا گیا ہے ‘ اس میں کسی طرح شک وشبہ نہیں ، فرمایا تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری ہر بات کو دیکھ رہے ہیں ، وہ تمہاری بداعمالیوں سے غافل نہیں ، تمہیں غرہ ہے اپنی مال ودولت کا اور تم یہ سمجھتے ہو کہ مال ودولت سے بہرہ وری تمہارے حسن اعمال کا نتیجہ ہے حالانکہ یہ ڈھیل ہے تمہیں دی جا رہی ہے تمہاری ایک ایک حرکت رب ذوانتقام کی نگاہ میں ہے ، اس لئے تم رب الافواج کے قہر سے ڈرو اور اپنی اصلاح کرلو ۔ حل لغات : عبدون : جمع عابد ، بمعنی پر ستار ، تحاجون تم جھگڑا کرتے ہو مادہ حجۃ ۔ دلیل ۔ مخلصون ، جمع مخلص ، بےریا ، بےغرض ، غافل : بےخبرغیر آگاہ ۔ البقرة
141 البقرة
142 تعیین قبلہ : (ف ١) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت تھی کہ جب تک صاف وصریح حکم کسی چیز کے متعلق نازل نہ ہوجاتا ، اہل کتاب کی موافقت فرماتے اس لئے کہ وہ بہرحال مشرکین مکہ سے زیادہ راہ راست پر تھے ، اسی بنا پر جب تک قبلہ کی تعین نہ ہوئی آپ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نمازیں پڑھتے رہے سترہ اٹھارہ ماہ تک تو بیت المقدس کو قبلہ بنائے رکھا ، اب انکار ہے قرآن حکیم نے ان شبہات کے متعلق فرمایا کہ یہ محض سفاہت وعدم تدبر پر مبنی ہیں ، ورنہ صرف تعیین قبلہ کا مسئلہ اتنا اہم نہ تھا کہ یہ اس پر اس قدر معاندانہ توجہ صرف کرتے ، جب کہ اصول میں اور عقائد میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی اور جب کہ اب بھی مسلمان ویسے نماز اور خدا کے فرمانبردار ہیں جیسے کہ پہلے تھے ، کیا صرف جہت کی تبدیلی سے مسلک تبدیل ہوجاتا ہے ؟ کیا صرف اس لئے کہ مسلمان اب کعبہ کو مرکز سمجھتے ہیں تمام خوبیوں سے معرا ہوگئے ہیں ؟ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم ان اعتراضات کو بیوقوفی سے تعبیر کرتا ہے ، کیونکہ ان میں سے کوئی بات بھی اصول اسلامی پربراہ راست اثرانداز نہیں ہوتی ۔ اصولا جواب یہ دیا کہ خدائے تعالیٰ جہاں تک جہت الکعبہ کا تعلق ہے کسی جہت خاص سے کوئی اختصاص نہیں رکھتا مشرق ومغرب اور شمال وجنوب سب یکساں حیثیت رکھتے ہیں ، البتہ خدا نے کعبہ کو قبلہ عبادت ٹھہرایا تاکہ ہماری نیاز مندیاں ایک نظام میں منسلک ہوجائیں اور مسلمان ہر لحاظ سے وحدت کا جو اس کا فطری خاصہ ہے ، مظہراتم ہو ، نہ اس لئے کہ جہت مغربی مشرق سے زیادہ مقدس ہے ، صراط مستقیم سے مراد یہی ہے کہ وہ چند نفوس ہوتے ہیں جنہیں مسئلہ کی حیثیت پر غور کرنے کی توفیق ارزانی ہوتی ہے ، وہ ہمیشہ مغزوحقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، فروع میں الجھ کر ایمان ضائع نہیں کرتے ۔ البقرة
143 زمین میں خدا کے مبلغ : (ف ٢) اس آیت میں مسلمان کے منصب ودرجہ کی توضیح ہے ۔ ” کذلک “ سے یہ مراد ہے کہ جس طرح کعبہ تمام کائنات کا روحانی مرکز ہے ، اسی طرح مسلمان کو خدا نے تمام انسانوں کا مرکز عمل بنایا ہے ، لوگوں کو چاہئے کہ وہ مسلمانوں کے نقش قدم پر چلیں ، اس لئے کہ اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں جسے عمل وتبلیغ کی ذمہ داریاں سونپی گئی ہوں وہ دنیا کے لئے حیات وعمل کا بہترین نمونہ ہے (آیت) ” شھدآء علی الناس کی تفسیر ہے ، مبلغین وعاملین کی جماعت سے اسی آیت کی تشریح میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو فرمایا کہ ” انتم شھدآء اللہ فی الارض “ یعنی تم زمین میں خدا کے مبلغ ہو ۔ تحویل قبلہ کا فلسفہ : (ف ٣) تبدیلی قبلہ سے غرض یہ بھی تھی کہ اہل ایمان کو امتحان ہوجائے کہ کون رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) برحق کا بہرحال ساتھ دیتا ہے اور وہ کون ہے جو شبہات وسواس میں گرفتار ہوجاتا ہے ، قاعدہ ہے کہ سالک مرشد کامل کی ہدایات کو حسن ظن کی نظر سے دیکھے ورنہ اندیشہ محرومی ہے ع بہ مئے سجادہ رنگین کن گرت پیر مغاں گوید ۔ چنانچہ اہل ایمان وسلوک کی ایک جماعت نے جب تبدیلی قبلی کی خبر پائی تو نماز ہی میں گھوم گئے ، بتلانا یہ مقصود تھا کہ غیر مسلم دیکھیں کہ خدا کے یہ بندے کس درجہ جذبہ اطاعت سے سرشار ہیں ۔ دوسری آیت میں اس شبہ کا جواب ہے کہ وہ لوگ جو تعیین قبلہ سے پہلے مر گئے ہیں ان کا کیا حشر ہوگا ؟ فرمایا خدا ایمان صحیح کے ساتھ ہر عمل کو قبول کرلیتا ہے ، ان لوگوں تک چونکہ یہ حکم پہنچا ہی نہیں اس لئے معذور ہیں ۔ حل لغات : قبلۃ : اصل معنی جانب وطرف کے ہیں جو جاذب التفات ہو اصطلاھات وہ بیت العبادۃ ہے جس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی جائے ، وسطہ : درمیان ، بہترین ، افراط تفریط سے پاک ، عادل ۔ البقرة
144 ملکہ نبوت : (ف ١) ان آیات میں بتایا کہ تحویل قبلہ کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ تم (یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) یہی چاہتے تھے ہم نے تمہاری رضا مندی کو ملحوظ رکھتے ہوئے قبلہ بدل دیا ، بات یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام میں ایک ملکہ نبوت ہوتا ہے جو پہلے سے موجود رہتا ہے اور جس کی روشنی سے انبیاء علیہم السلام استفادہ کرتے ہیں ، یہ سراج نبوت ان کے دماغ میں ہر وقت روشن رہتا ہے ۔ صحف انبیاء اور قبلہ : (ف ٢) اس آیت میں ” تحویل قبلہ “ کو حق کہا ہے اور فرمایا ہے اہل کتاب اس کو جانتے ہیں لیکن انہیں یہ منظور نہیں کہ بیت المقدس کی تقدیس چھین کر بیت اللہ کو دے دی جائے بائیبل میں ” شوکت کا گھر “ بیت الحرام کا ٹھیٹھہ ترجمہ ہے ، دانیال (علیہ السلام) کے مکاشفہ میں ہے کہ میں نے آسمان سے نیا یروشلم اترتا ہوا دیکھا ، جس پر خدا کا نیا نام کندہ ہے ، کیا یہ تبدیل قبلہ کی پیش گوئی نہیں ۔ زبور میں حضرت داؤد (علیہ السلام) اسی گھر کی زیارت کے شوق میں گیت گاتے ہیں ۔ حل لغات : شطر : جانب ، طرف ۔ البقرة
145 (ف ١) ان آیات میں فرمایا کہ یہودی باوجود جاننے کے اعتراض ضرور کریں گے وہ کسی بات پر مطمئن نہیں ہوں گے ، ان کی ذہنیت مسخ ہوچکی ہے اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جماعت بلا کسی خدشہ کے حق کے تابع رہے اور ان کے شبہات اور اعتراضات کی جانب بالکل توجہ نہ کرے ، ورنہ خطرہ ہے کہ خدا کے ہاں ظالم نہ ٹھہرائے جائیں گے ، آیت کا خطاب گو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے لیکن مراد عام مسلمان ہیں لیکن ان کا منصب انہیں ہر نافرمانی سے روکتا ہے ، وہ بحیثیت نبی ہونے کے خدا کی منشاء کے خلاف کوئی حرکت کر ہی نہیں سکتے ۔ (آیت) ” بل ھم عباد مکرمون لا یسبقونہ بالقول وھم بامرہ یعملون “۔ یعنی گروہ انبیاء خدا کا وہ نیک گروہ ہے جو اس کی مخالفت نہیں کرتا ، بلکہ اس کے اوامر کا ماننے والا ہے ، اس طرز خطاب سے یہ بتانا مقصود نہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اب بھی یہود کی خواہشات کو مان کر خدا کی نافرمانی کا ارتکاب کرسکتے ہیں بلکہ یہ ان کے جذبات کی پاسداری وضوح حق کے بعد اتنا بڑا جرم ہے کہ اگر تم بھی اس کا ارتکاب کرو تو بایں جلالت قدر ہرگز معافی کے مستحق نہیں ہو ، یعنی بحث امکان ظلم سے نہیں ‘ بلکہ جرم کی اہمیت سے ہے کہ کس قدر زیادہ ہے ۔ البقرة
146 (ف ٢) (آیت) ” یعرفونہ “ کی ضمیر یا تو تحویل قبلہ کی طرف راجع ہے ، جیسا کہ ظاہر سباق سے واضح ہے اور یا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف جو گو مذکور نہیں لیکن سننا سمجھے جا سکتے ہیں یعنی جس طرح یہ اپنے بچوں کو بغیر کسی دلیل منطقی کے پہنچان لیتے ہیں اور کبھی انہیں شبہ نہیں ہوتا اسی طرح یہ خوب جانتے ہیں کہ تحویل قبلہ درست وصحیح ہے یعنی ان کی مذہبی کتابوں میں جب اس کا ذکر ہے تو پھر شک وشبہ کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے ۔ اگر ضمیر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو طرف راجع ہو تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اس قدر جلی اور اظہر ہے کہ کم از کم ان لوگوں کے لئے انکار کی کوئی وجہ نہیں ، وہ جو صبح ومساتین سال تک متواتر آپ کے انوار وتجلیات کو برملا دیکھتے ہیں وہ کیسے انکار کرسکتے ہیں جس طرح ایک باپ اپنی اولاد کے متعلق قطعی وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ یہ میری اولاد ہے اور جس طرح اسے نفسیاتی یقین ہوتا ہے ، جسے کوئی منطق اور کوئی فلسفہ شک وشبہ سے نہیں بدل سکتا ، اسی طرح ان میں کے اہل حق وبصیرت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر یقین رکھتے ہیں اور وہ نفسیاتی طور پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہچانتے ہیں ، مگر باطل اور کتمان حق کی مرتکب جماعت جن کا شیوہ حیات ہی لوگوں کو گمراہ کرنا ہے ‘ انہیں روکتی ہے ۔ البقرة
147 البقرة
148 (ف ٣) ان آیات میں بتایا ہے کہ ہر امت وگروہ کا ایک قبلہ عبادت ہوتا ہے ، اس لئے بحث ومناظرہ کی ضرورت نہیں ، تم جہاں کہیں بھی ہو اور جس قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے ہو بہرحال اپنے اعمال کے جواب دہ ہو اس میں اشارہ ہے کہ صرف استقبال سے تم نے کیوں سمجھ لیا کہ مسلمان صحیح راستے پر نہیں رہے تم یہ دیکھو کہ ان میں سبقت الی الخیرات کا جذبہ موجود ہے یا نہیں یعنی نمازوں کا مقصد وفائدہ اکثر قائم ہے اور مسلمان حسب سابق خدا کی اطاعت میں سرگرم ہیں اور حصول تقوی میں وہ پہلے کی طرح پرجوش ہیں تو صرف اس لئے انہوں نے جہت کی تبدیلی کرلی ہے اور وہ بھی خدا کے حکم اور اجازت سے محروم ہوگئے ہیں ، یعنی اصل شے جو صداقت کا معیار ہے نمازوں کی کیفیت وترتیب نہیں ، بلکہ حسن عمل ہے تم دیکھو کہ ان میں جذبہ اطاعت کس درجہ مضبوط ہے کہ سترہ اٹھارہ مہینے کے عمل کو اللہ کے ایک اشارہ سے بدل دیا ہے ۔ حل لغات : اھوآئ: جمع ھوآء یعنی خواہش ۔ یعرفون : مادہ عرفان بمعنی پہچاننا ۔ ممترین ، مصدر امتراء بمعنی شک وشبہ ۔ وجھہ : طرف ۔ جانب ۔ مولی : منہ پھیرے ۔ وجہ : منہ چہرہ ۔ البقرة
149 البقرة
150 آیات کے تکرار کا سبب : (ف ١) فول وجہ : کو تین دفعہ ذکر کیا ہے ، اس لئے بھی کہ مقصود تاکید ہے جو ان مواقع میں ضرور ہوجاتی ہے جبکہ کوئی اہم اور موجب شبہات حکم نازل ہو اور اس کے لئے ضروری تھا کہ ہر وجہ کے بعدمعلول بھی ذکر کیا جائے یا یہ کہ پہلی صورت میں اس حالت کا ذکر ہے جب آپ کعبہ کے سامنے ہوں ، دوسری صورت وہ ہے جس میں آپ شہر کی دیگر مساجد میں نماز پڑھیں اور تیسری صورت میں مراد یہ ہے کہ جب تم مسافر ہو تو بھی تمہارا قبلہ کعبہ ہی رہے یعنی بہرحال مسلمان کا ہر جسدہ اور اس کی ہر عبادت نہایت درجہ منسلک اور ایک نظام کے ماتحت ہونی چاہئے ، ان آیات میں یہ بتایا کہ تحویل قبلہ سے دو فائدے یہ بھی ہیں کہ یہودیوں اور مشرکین مکہ کا اعتراض اٹھ گیا ، یہودی پہلے کہا کرتے تھے کہ مسلمان بھی عجیب ہیں ، نماز تو ہمارے بیت المقدس کی طرف منہ کرکے پڑھتے ہیں اور ہمارے مذہب کی مخالفت کرتے ہیں ۔ مشرکوں کا اعتراض تھا کہ دیکھئے دعوی تو یہ ہے کہ ہم مذہب ابراہیمی کے پابند ہیں اور مرکز عبادت بیت المقدس ہے ، اب جبکہ بیت المقدس سے منہ موڑ کر کعبہ کو قبلہ مان لیا گیا تو دونوں گروہوں کو تشفی ہوگئی ، پھر اتمام نعمت اور ہدایت ارزانی کا بھی سامان ہوگیا یعنی سارے دنیائے انسانیت کو ایک مرکز پر جمع ہونے کی دعوت دی اور عملا حج میں اس طرح کے وظائف اور ارکان داخل کئے جنہیں دیکھ کر قلب میں رقت طاری ہوجائے اور اسلام کی حقیقی شان وجدت وانکسار آنکھوں میں پھرجائے ، جن لوگوں نے حج کے کوائف پر نفسیانی غور کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ اس میں کس قدر بصائر ومعارف پنہاں ہیں اور کس طرح ہر نوع کے انسانوں کو چن چن کر اکٹھا کیا ہے اور سب کو ایک خدا کے سامنے جھکا دیا ہے ، لبیک لبیک کی مخلصانہ آوازیں کتنی ایمان پرور اور روح میں نزہت پیدا کرنے والی ہیں ۔ حل لغات : حجۃ : اصل میں معنی دلیل کے ہیں یعنی مراد اعتراض ہے ۔ البقرة
151 وظیفہ رسالت : (ف ١) (آیت) ” کما ارسلنا “۔ سے مقصد یہ ہے کہ کعبہ کی ہادیانہ حیثیت اسی طرح ہے کہ جس طرح ایک رسول آیت اللہ کی تلاوت کرے اور تعلیم وتزکیہ کے رموز سمجھائے ، یا یہ بتانا مقصد ہے کہ تعین اس طرح کی ایک نعمت ہے جس طرح کہ بعثت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ضمنا یہ بتایا ہے کہ وظیفہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ہے ، یا انبیاء اور عام مصلحین میں کیا بین امتیاز ہے ؟ وہ یہ کہ عام مصلحین صرف کہتے ہیں ، صرف تعلیم دیتے ہیں ، لیکن انبیاء علیہم السلام تعلیم وتدریس کے ساتھ ساتھ قلوب کو جلا بھی دیتے ہیں ، جیسے دماغوں کو معارف وحکم سے منور کرتے ہیں ‘ ویسے دلوں کی تاریک دیا کو بھی اجالے بخشتے ہیں ، ان کی نگاہیں علم ومعرفت کی سطح پر ہی مرکوز ہو کر نہیں رہ جاتیں ، بلکہ وجدان وطمانیت کی گرائیوں تک نفوذ کر جاتی ہیں ، وہ دنیا میں قول وعمل کا ایک بہترین امتزاج ہوتے ہیں یعنی جوامع الکلم کے ساتھ مکارم اخلاق کا اجتماع صرف انکے ساتھ ہی مخصوص ہوتا ہے ۔ البقرة
152 البقرة
153 (ف ٢) ان آیات میں دعوت ذکر ہے اور فلسفہ یاد الہی کا یہ بتایا ہے کہ جس طرح کا ایمان کسی شخص کے دل میں ہوگا اسی درجہ اللہ کی عنایات اس پر زیادہ ہوں گی ، حدیث میں آتا ہے ۔ انا عند ظن عبدی بی “ کہ میں بالکل ویسا ہی لوگوں سے سلوک روا رکھتا ہوں ‘ جیسا کہ وہ مجھ سے متوقع ہیں ، اس کے بعد اس کا ذکر ہے کہ جب تم کسی مصیبت میں گرفتار ہوجاؤ تو صبر سے کام لو ، گھبراؤ نہیں ، یعنی مصیبتیں اس لئے نہیں آتیں کہ مرد و مومن کے مضبوط دل میں رخنہ انداز ہوں اور اسے جادہ عافیت سے دور ہٹا دیں ، بلکہ اس لئے کہ وہ برداشت کرنے کا عادی ہوجائے اور خدا کے آستانہ پر وہ اور عبادت کے لئے جھک جائے ، یعنی کسی حالت میں بھی مسلمان مایوس نہیں ہوتا ، ہر وقت اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا امیداوار رہتا ہے ۔ البقرة
154 شہید زندہ ہیں : (ف ٣) جو لوگ خدا کی راہ میں مارے جائیں اور خدا کے حضور اپنے خون کا ارمغان ثمین پیش کریں ‘ وہ ہر گو نہیں مرتے ، تاریخ کے صفحات میں ‘ دل کی گہرائیوں میں ‘ بہادروں کے تذکرے ہیں اور اللہ کے ہاں وہ زندہ ہوتے ہیں ، یعنی میدان جنگ میں مرنا موت نہیں ، بستر مرگ پر بزدلانہ جان دینا موت ہے کفار ان لوگوں کو جو جہاد میں شہید ہوجائیں ، کہتے ہیں کہ وہ ناحق مر گئے ، منافقین کا خیال تھا کہ وہ اگر میدان جنگ میں نہ جاتے تو موت کے مضبوط چنگل سے بچ جاتے ، قرآن حکیم کہتا ہے تم جسے موت سمجھتے ہو ‘ اس پر ہزار زندگیاں قربان ، اللہ کے ہاں جو ان کے مرتبے ہیں وہ تمہارے نہیں ، یہ زندگی جو شہدا کے لئے ‘ عام مادی زندگی سے مختلف ہے ، یہ مدارج ومراتب کی زندگی ہے نہ معمولی محسوس زندگی ، اس لئے فرمایا کہ تم اس زندگی کے لطف کو نہیں جان سکتے ۔ حل لغات : اصوات : جمع میت ۔ مردہ مرا ہوا نبلون : مصدر بلآء آزمائیں ۔ خوف : ڈر : البقرة
155 البقرة
156 البقرة
157 بلند نصب العین : (ف ١) الہی کتب کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ وہ انسان کو کشاکش ہائے حیات کے لئے پوری طرح تیار کر دے ، یعنی اس کے دل ودماغ کو اتنا بلند اور آمادہ صبر کر دے کہ وہ سخت سے سخت مصیبت کے وقت بھی مرکز عقل ودانش سے نہ ہٹیں ، قرآن حکیم نے اس مقصد کو جس خوبی سے پورا کیا ہے ، دنیا کی کوئی کتاب اس کی اس میں شریک وسہیم نہیں ، قرآن حکیم کا نظریہ حیات یہ ہے کہ دنیا میں مصائب وحوادث کا وقوع فطری اور ناگزیر ہے ، کبھی خوف وہراس سے دل دہل جاتے ہیں اور پھر کبھی ایسابھی ہوتا ہے کہ عزیز جانوں کا ضیاع ہونا اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں ۔ غرضکہ جب تک اس دنیا میں ہیں ‘ ان مصائب سے خلاصی نہیں ۔ البتہ وہ جو ” صابر “ ہیں ، انہیں کوئی خطرہ نہیں ۔ ان کے لئے یہ ابتلاء امتحان کا یہ خارمستان بھی گل کدہ عیش ہے ، کیونکہ وہ اپنی زہنی افق کو اس درجہ بلند ابتلا کرلیتے ہیں کہ وہاں مصائب کا کوئی خیال تکدر پیدا نہیں کرسکتا ، اس لئے یقین ہوتا ہے کہ ہماری زندگی اور موت سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے ، اس لئے اگر سکھی ہیں تو بہرحال اس کو اپنے فرائض عبودیت سے غافل نہیں ہونا چاہئے ، اس ایمان کے بعد کوئی بڑے سے بڑا دکھ بھی تکلیف دہ نہیں ہوسکتا ، اس لئے الم کا تعلق ہونے والے واقعات سے نہیں ، بلکہ احساسات سے ہے قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ اس قسم کے لوگ ہی راہ راست پر ہیں اور یہی وہ ہیں جو اللہ کی رحمتوں کے سزاوار اور مستحق ہیں ۔ البقرة
158 اللہ کے شعائر : (ف ٢) صفا اور مروہ دو پہاڑیاں ہیں جن کے درمیان دوڑ ہوتی ہے ، یہ ان معنوں میں اللہ کے شعائر ہیں کہ ان سے مناسک کا وہ حصہ وابستہ ہے جس کی ادائیگی سے عجیب طرح کی للہیت پیدا ہوتی ہے اور اس لئے بھی کہ یہ مقام خلوص و ایمان کے بےپناہ جذبات کے پیدا کرنے میں ممدو معاون ہیں ۔ انہیں اللہ کے شعائر اس لئے کہا کہ ہم مناسک کی روحانیت کو فراموش نہ کریں اور صرف ظاہری رسوم کو صحیح نہ سمجھیں ، بلکہ اس کی روحانیت اور اثر کو برقرار رکھیں ، (آیت) ” لا جناح “ اس لئے کہا کہ پہلے ان دو پہاڑیوں پر بت رکھتے تھے ، صحابہ (رض) عنہم اجمعین نے اس لئے کہ شائبہ شرک نہ ہو ‘ طواف کرنے سے تامل کیا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، کوئی مضائقہ نہیں مسلمان مشرک نہیں ہوسکتا ، اس لئے اس انداز بیان سے مضائقہ نہیں مسلمان مشرک نہیں ہو سکتا ، اس لئے اس انداز بیان سے وجوب سعی پر کوئی اثر نہیں پڑتا ، نفی تخرج کی ہے نہ عدم سعی کی ، اس لئے جمہور وفقہا کا مذہب ہے کہ سعی واجب ہے ، عبداللہ بن عمر (رض) ، حضرت جابر (رض) اور جناب عائشہ صدیقہ (رض) ابھی اس طرح گئی ہیں ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے ۔ اور اس کی تائید صحیحین کی اس حدیث سے ہوئی ، جس میں لا جناح کی تشریح حضرت عائشہ (رض) نے فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ مسلمان انصار اسلام سے پہلے مناۃ کی پوجا اور اعزاز میں سعی کرتے تھے ، جب اسلام لائے تو انہوں نے سعی وطواف میں تامل کیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ کوئی مضائقہ نہیں تمہاری نیتیں نیک ہیں ۔ حل لغات : صلوات : جمع صلوۃ بمعنی رحمت البقرة
159 (ف ٣) ان آیات میں اس بات کی طرف اشارہ ہے ” مروہ “ کا ذکر بائیبل میں موجود ہے لیکن یہودی اپنی عادت کتمان کے بموجب اس کو چھپاتے ہیں ، اس لئے ان پر اللہ کی لعنت ہے اور تمام لوگوں کی یعنی کتمان حق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے دور ہیں اور تمام ایماندار اشخاص بھی انہیں قابل رحم نہیں سمجھتے ، یہی وجہ ہے کہ یہودی آج بھی باوجود تمول وتعلیم کی فراوانی کے تمام دنیا کی نظروں میں ذلیل ہیں اور انہیں کوئی اخلاقی وروحانی درجہ نہیں دیا جاتا ، بلکہ مغرب میں ” یہودی “ ایک قسم کی گالی ہے جسے کوئی غیر یہودی سننے کے لئے تیار نہیں ہوتا ۔ البقرة
160 (ف ١) خدا تعالیٰ کی جہاں اور صفات حسنہ ہیں ‘ وہاں اس کا تواب ورحیم ہونا بھی ایک صفت ہے یعنی وہ ہمارے گناہوں کی توبہ ‘ گناہوں سے کامل نفرت کے بعد بخش دیتا ہے ، ان آیات میں یہودیوں کو دعوت استغفار ہے کہ وہ اگر سچے دل سے اپنی بداعمالیوں کا اقرار کرلیں اور آئندہ کے لئے اصلاح کرلیں اور پھر اپنی تمام شرارتیں جو انہوں نے کتاب کی تحریف کے سلسلہ میں کی ہیں ۔ ظاہر بھی کردیں تو اللہ انہیں اپنی آغوش رحمت میں لے لے گا اور ان کے گناہ معاف کر دے گا ۔ اس لئے کہ گناہ کرنے سے خدا کی ذات کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا اور نہ سعی کرنے سے اس کی خدائی میں کچھ اضافہ ہوتا ہے ، یہ سب اعمال تو انسان کی اپنی اصلاح کے لئے ہیں ، اس لئے بڑے سے بڑا گناہ کرنے کے بعد بھی اگر ہم اصلاح کرلیں تو اللہ تعالیٰ معاف فرماتے ہیں ۔ البقرة
161 البقرة
162 (ف ٢) وہ لوگ جو کفر وعصیان کی حالت میں مرتے ہیں اور حقائق ودلائل کے باوجود انکار پر مصر رہتے ہیں ‘ ان کے لئے نجات کی کوئی گنجائش نہیں ۔ وہ ہمیشہ اللہ کے غضب اور پاک سرشت فرشتوں کی ناراضگی میں اور تمام لوگوں کی نگاہ نفرت میں زندگی بسر کرتے ہیں اور اللہ کی رحمتوں سے دور ‘ ملائکہ کی توجہات روحانی سے محروم اور پاکباز گروہ کی عنایات سے الگ ذلت ولعنت کے عمیق گڑھوں میں رہیں گے ، نہ تو ان کے عذاب میں کوئی تخفیف ہوگی اور نہ ان کے فرد واعمال پر نظر ثانی کی جائے گی ، وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی ساری زندگی میں حق کی طرف کبھی نہیں جھکے اور اسلام کی عالمگیر صداقتوں پر انہیں نے اپنے اوقات کا ایک لمحہ صرف نہیں کیا ، لہذا انہیں سزا بھگتنے کے لئے آزاد چھوڑ دیا جائے گا ۔ (آیت) ” ولا ھم ینظرون “ سے مراد یہ نہیں کہ اللہ کی نظریں ان پر نہیں پڑیں گی ، یا وہ اللہ کے احاطہ علم ونظر سے دور ہوجائیں گے ، بلکہ مقصد یہ ہے کہ شفقت ورحمت کی نظروں سے محروم رہیں گے ، یعنی خدا تعالیٰ کا جذبہ رحم ان کے لئے موجزن نہ ہوگا اور جس طرح دنیا میں وہ اللہ سے کھچے کھچے رہے ہیں ، اللہ بھی آخرت میں ان سے بےنیازی سے رہے گا ۔ البقرة
163 (ف ٣) ان آیات میں یہ بتایا ہے کہ جس طرح اس کا کوئی شریک وسہیم نہیں اسی طرح اس کا رحم وکرم بےپایاں ہے ۔ وہ رحمن ہے وہ رحیم ہے ، اس لئے وہ نہیں چاہتا کہ ایک نفس منصوص بھی جہنم میں جائے یا اس کے غضب وجلال کا مستحق ہو ، کیونکہ یہ اس کی ذات کرم آیات کے خلاف ہے ، اس لئے اگر کوئی خواہ مخواہ اس کی مخالفت کرے ، یا اس کی آغوش رحمت سے نکلنا چاہے تو وہ مجبور نہیں کرتا ۔ البقرة
164 قرآن کا اسلوب تفہیم : (ف ١) قرآن کا طرز استدلال اس قدر جاذب ، فطری اور سادہ ہے کہ منطق ہزار جان سے بلائیں لیتی ہے ۔ وہ مصنوعی اصطلاحات کے گورکھ دھندوں میں ہمیں نہیں پھنساتا ، بلکہ روز مرہ کے اصولیی مشاہدات اس طور پر ہمارے سامنے رکھ دیتا ہے کہ غور وفکر کی تمام قوتیں بیدار ہوجائیں اور معارف وحکم کے دریا بہنے لگیں ، اس طرز استدلال کی مثال یہ ہے کہ وہ سمندر کی تعریف نہیں کرتا اس شخص کے سامنے جس نے سمندر نہیں دیکھا یعنی وہ یہ نہیں کہتا کہ سمندر ایک بہت بڑا ذخیرہ جس نے سمندر نہیں دیکھا یعنی وہ یہ نہیں کہتا کہ سمندر ایک بہت بڑا ذخیرہ آب ہے بلکہ براہ راست طالب کو ساحل سمندر پر لا کھڑا کرتا ہے ، تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے سمندر کے تلاطم و تموج کو دیکھے ، طریق تفہیم اس درجہ کامیاب وصحیح ہے کہ کوئی شخص وشبہ نہیں رہتا ، مثلا ان آیات میں خدا تعالیٰ کو اپنی ذات کا اظہار اور ثبوت بتانا ہے ، یہ بتانا ہے کہ وہ صرف ایک ہے ۔ یہ بتانا ہے کہ کائنات کی تخلیق کا ایک مقصد ہے اور نظام حشر و قیامت ایک حقیقت ثابتہ ہے تو وہ الگ موضوع قائم نہیں کرتا ۔ دلائل کی مصنوعی تحلیل وتقریب میں نہیں الجھتا ، بلکہ مشاہدات کو اس طرح نظروں کے سامنے رکھ دیتا ہے کہ مضرات عقل میں خود بخود تحریک پیدا ہوجاتی ہے اور ذہن انسانی ان تمام باتوں کو خود بخود جان جاتا ہے اور اس کے بعد بھی غور وفکر کی وسعتیں ختم نہیں ہوتیں ، یعنی وہ کہتا ہے کہ رات ودن کے اختلاف میں ‘ جہاز وکشتی کے چلنے میں ‘ ابروباراں کے حیات بخش ماثرات میں ‘ زمین پر مختلف النوع حیوانات کے رہنے میں ‘ ہواؤں کے ادھر سے ادھر جانے میں اور ابر کی تسخیر میں عقل مندوں کے لئے دلائل ہیں ، دیکھئے کس سادگی سے قرآن حکیم نے کلام وفلسفہ کے تمام مدارج طے کردیئے ہیں ۔ اس حیثیت سے کہ یہ ساری چیزیں ایک افادہ ونظام کے ماتحت ہیں ایک باشعور وباارادہ ذات کو چاہتی ہیں ، یہ اثبات باری ہے اس حیثیت سے کہ ان میں ایک وحدت پر پردہ کار فرما ہے ، توحید کی متقاضی ہیں اور پھر اس لئے کہ ان سب میں ایک نفع ہے مقصد ومنتہا کر چاہتی ہیں ۔ اثبات حشرونشر ہے ۔ کیا کوئی کتاب اتنا بلیغ ، واقعی اور جاذب غور وفکر ، نہج استدلال اپنے طرز تفہیم وتبیین میں رکھتی ہے ۔ ؟ حل لغات : الفلک : کشتی ۔ بث : پھیلایا ، آباد کیا ۔ دآبۃ : ہر جان دار ۔ انداد : شرکاء ، ساجھی ، جمع ند ۔ البقرة
165 مشرک کی بیچارگی : (ف ١) یہ محبوب ومہربان خدا جو اپنی طرف سے کسی کو تکلیف میں نہیں دیکھنا چاہتا ۔ ہر گناہ کو بخش سکتا ہے ، مگر شرک کو نہیں ، اس میں اس کی عظمت وکبریائی کی توہین ہے ، اس کا غضب جوش میں آجاتا ہے وہ کہتا ہے کہ یہ ظالم قیامت کے دن سخت ترین عذاب کے مستحق ہوں گے اور اس وقت یہ محسوس کریں گے کہ آج قوت واختیار کے تمام خزانے صرف خدا کے ہاتھ میں ہیں ۔ وہ جنہیں دنیا میں اپنی قسمتوں کا مالک ومختار سمجھتے تھے ، آج انتہائی بےچارگی میں پائیں گے ، تمام رشتے اور تمام تعلقات ٹوٹ جائیں گے ، مشیخت وارادت کے علائق منقطع ہوجائیں گے ، وہ جنہیں دنیا میں رہبر ورہنما سمجھتے تھے ، ہٹ مار اور مجرم ثابت ہوں گے ، وہ جن کی پرستش کرتے تھے آج ان سے ابتری اور بےزاری کا اظہار کریں گے ، کوئی باپ بیٹے کی سفارش نہ کرسکے گا ، کوئی شیخ اپنے مرید کو اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکے گا ، ہر شخص اپنے اعمال کا آپ ذمہ دار ہوگا ، مشرکین کی حالت اس وقت عجیب بےچارگی کی ہوگی ، اس کی تمام توقعات باطلہ خاک میں مل جائیں گی ، وہ چاہے گا کہ اسے دوبارہ دنیا میں جانے کا موقع ملے تاکہ وہ اعمال کی اصلاح کرسکے ، لیکن یہ خدا کے مقرر کردہ قانون کی توہین ہے ، وہ کسی کو دوبارہ موقع نہیں دیتا ، وقت کے جو لمحات گزر جاتے ہیں ‘ وہ پھر واپس نہیں آتے ، شاخ گل مرجھا جانے کے بعد کاٹ لی جاتی ہے ، دوبارہ ہری نہیں ہوتی ، بچہ مرنے کے بعد دوبارہ بطن مادر میں نہیں بھیجا جاتا ، زندگی کا تیز قدم آگے ہے ۔ پیچھے ہٹنا قدرت کی تیز روی کے متناقض ہے ، اس لئے ان کا یہ مطالبہ مسترد کردیا جائے گا اور ان کے یہ اعمال بد ان کے لئے ہمہ حسرت بن جائیں گے ۔ حل لغات : الاسباب : رشتے ، جمع سبب ۔ کرۃ : دوبارہ ، دوسری دفعہ ۔ نتبرا : اصل مادہ تبراء یعنی اظہار ۔ جرات : البقرة
166 البقرة
167 البقرة
168 اکل حلال : (ف ١) عرب میں ایسے قبائل بھی تھے ثقیف وخزاعہ کی طرح جو حلال چیزوں کو حرام قرار دے لیتے تھے اور ایسے بھی تھے جو حرام اور مکروہ چیزیں استعمال میں لاتے تھے ، قرآن حکیم نے ان آیات میں اکل حلال کی طرف توجہ دلائی ہے ۔ حلت وحرمت کا مسئلہ اس نے قابل لحاظ ہے کہ خوراک کا مسئلہ براہ راست ہمارے اخلاق سے تعلق رکھتا ہے ، اباحت مطلقہ جہاں صحت کے لئے مضر ہے ‘ وہاں اخلاق کے بھی مفید نہیں ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ خاص خاص قسم کی غذائیں خاص خاص نوع کے اخلاق وعادات پیدا کرنے میں ممدومعاون ہوتی ہیں اس لئے وہ مذہب جو اصلاح اخلاق کا مدعی ہے ، ضرور ہے کہ خوراک کے مسئلے سے شدید تعرض کرے ، ماکولات ومشروبات استعمال نہیں کرتی اور ذوق سلیم گوارا نہیں کرتا (ب) وہ چیزیں جو سخت مضر ہیں وہ بھی حرام ہیں (ج) وہ اشیاء جو مضر اخلاق وعادات پیدا کریں ، ان کا استعمال سے شرک پھیلنے کا اندیشہ ہو ۔ ان کے علاوہ ہر چیز جو پاکیزہ ہو ، ذوق سلیم پر اس کا کھانا گراں نہ ہو ، حلال ہے طیب کے معنی یہ ہیں کہ اسے جائز وسائل سے حاصل کیا گیا ہو ، یعنی ایک چیز اگر حلال ہے لیکن اسے چوری سے حاصل کیا گیا ہو تو اس کا کھانا درست نہیں ۔ اسلام چونکہ دنیا کا پاکیزہ ترین مذہب ہے ، اس لئے وہ زندگی ہر شعبے میں پاکیزگی چاہتا ہے ، نیز ان آیات میں بتایا ہے کہ خواہ مخواہ لذائذ کو اپنے نفس پرحرام قرار دے لینا درست نہیں ہر چیز جو اللہ نے پیدا کی ہے ، اگر وہ حلال وطیب ہے تو اس کے کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ، پرہیزگاری یا تورع اس پر موقوف نہیں کہ خدا کی نعمتوں کو نہ استعمال کیا جائے بلکہ اس میں ہے کہ باندازہ نعمت اللہ کا شکریہ ادا کیا جائے اور شیطان کی اطاعت سے گریز کیا جائے اس کی تمام راہوں سے احتراز کیا جائے ، وہ جو لذائذ سے محروم ہے ‘ وہ بھی گناہ گار ہو سکتا ہے اور وہ جس کو سب نعمتیں حاصل ہیں وہ بھی اللہ کی نافرمانی کرسکتا ہے اس لئے اصل چیز ترک لذت نہیں بلکہ اللہ کا ڈر ہے ۔ البقرة
169 البقرة
170 (ف ٢) ان آیات میں مشرکین مکہ کے ہر دو تقلد کو واضح کیا گیا ہے کہ کس طرح وہ وضوح حق کے باطل پر اڑے رہتے ہیں اور کسی طرح بھی آباد وعلماء کے غلط مذہب سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں ہوتے ، خواہ ان کے مقتدا کتنے ہی بےسمجھ وگمراہ ہوں حالانکہ معیار قبول وہدایت ہے ‘ نہ کورا نہ اطاعت ۔ حل لغات : خطوت : جمع خطوۃ ، دو قدموں کے درمیان ، فاصلہ نقش پا ، قدم بہ قدم ۔ السوٓء : برائی ۔ الفحشآء : بہت بری بات ۔ ینعق : مادہ فعوق ، مال ڈھور کے پیچھے چلانا ۔ البقرة
171 البقرة
172 (ف ١) ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ محرمات منصوصہ کے سوا اللہ کی تمام نعمتیں قابل استعمال ہیں ، تمام پاکیزہ چیزیں حلال ہیں ، اللہ کی عبادت کا مفہوم بجزا ادائے شکر کے اور کچھ نہیں ، ترک لذات غیر اسلامی اصول ہے ، قرآن حکیم نے کھانے پینے کی چیزوں میں کوئی مضائقہ نہیں رکھا ، البتہ حرام اور ناجائز اشیاء سے پرہیز ضروری ہے ، شریعت کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان تمام قوموں سے زیادہ خدا کا شکر گذار ہو زیادہ خدا کا شکر گذار ہو زیادہ مطیع وفرماں بردار ہو ، نہ یہ کہ خدا کی نعمتوں کا استعمال نہ کرے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو زہد وتقوی کا آخری نمونہ ہیں ، کبھی اس قسم کا پرہیز نہیں کیا ، بہتر سے بہتر چیز میسر آگئی تو وہ کھالی اور جب کچھ نہیں ملا ، کئی کئی دن کے فاقے ہیں اور پرواہ نہیں ۔ البقرة
173 زندہ رہنے کی کوشش کرو : (ف ٢) محرمات کے سلسلے میں مفصل بتایا جا چکا ہے کہ اس میں ذوق سلیم صحت انسانی اور اخلاق کا خیال رکھا گیا ہے ، اس لئے محرمات کی جو فہرست بتائی ہے ‘ اس کے لئے دلائل کا ذکر غیر ضروری سمجھا ہے ، کیونکہ ہر شخص جسے ذوق صحیح سے بہرہ وافر ملا ہو ‘ وہ اسی نتیجہ پر پہنچے گا کہ ان کی حرمت بین وظاہر ہے ، سب سے پہلے مردار کی حرمت کو لیجئے کیا کوئی مہذب اور شائستہ قوم مردار کھالے کے لئے آمادہ ہو سکتی ہے ، یہ ازمنہ وحشیہ کی یادگار ہے ، چنانچہ اب بھی وہ قومیں جو تہذیب وتمدن کی برکات سے محروم ہیں ، مردار کھاتی ہیں اور شرفاء اسی وجہ سے ان سے نفرت کرتے ہیں نیز مردار خوری سے پست وذلیل قسم کے اخلاق پیدا ہوتے ہیں جن میں کوئی زندگی نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ مردار خوار قومیں ادنی درجہ کی عادات میں مبتلا رہتی ہیں ، خون کھانا بھی اسی قبیل سے ہے ، اس میں بھی وحشت وبربریت مترشح ہے اور اس سے خوانخواری کے جذبات بڑھتے ہیں ۔ نیز خون صحت انسانی کے لئے سخت مضر ہے ، بالخصوص معدے اور دانتوں کے لئے ، عرب خون کو باقاعدہ منجمد کرکے کھاتے تھے اس لئے اس کا ذکر فرمایا سور کے کھانے میں کئی خرابیاں ہیں ، ایک تو یہ کہ اس کے گوشت میں جراثیم کثرت سے ہوتے ہیں جنہیں رودۃ الخنزیر کہتے ہیں اور وہ مضر ہوتے ہیں ، دوسرے اس سے قلب کے گردا گرد ایک خاص قسم کی چربی پیدا ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے قلب کی حرکت میں خلل آجاتا ہے ، اسے ” تشحم “ کہتے ہیں ، اطبائے امریکہ کا خیال ہے کہ فوری موت جو حرکت قلب بندہ ہونے سے واقع ہوتی ہے اکثر وبیشتر نتیجہ ہوتی ہے سور کھانے کا یہی وجہ ہے کہ وہاں کی ایک سوسائٹی نے اس کے خلاف علم جہاد بلند کردیا ہے اور وہ اس کی سخت مخالفت کر رہے ہیں ۔ اور ایک وجہ یہ ہے کہ خنزیر کھانے سے بےغیرتی پیدا ہوتی ہے دیکھ لو خنزیر کھانے والی قومیں غیرت وحمیت کے تمام جذبات سے محروم ہیں اور فواحش ان میں حد اعتدال سے بڑھ رہا ہے ، (آیت) ” وما اھل “ میں وہ سب چیزیں داخل ہیں جنہیں غیر اللہ کے ناموں پر تبرکا مشہور کیا جائے ، یہ اس لئے کہ ایسی چیزیں گو فی نفسہ حلال ہوں ، لیکن شرک پھیلانے کا موجب بنتی ہیں ۔ اس کے بعد مخصوص حالات میں جب کہ ہم مجبور ہوجائیں اور ہمارے سامنے موت وحیات کا سوال در پیش ہو ‘ بقدر ضرورت ان کے استعمال کی اجازت مرحمت فرمائی ہے کہ مسلمان کی جان بہرحال عزت واحترام کے قابل ہے لیکن یہ وہ وقت ہوگا جبکہ ایک طرف کامل اضطرار ہو مثلا سخت بھوک ہو اور سوائے ان محرمات کے کوئی چیز میسر نہ ہو اور موت کا خدشہ بلکہ یقینی ہو ، دوسروی طرف اس کا یقین ہو کہ ان کے استعمال سے میں بچ سکتا ہوں ، اس کے علاوہ معمولی حالات میں جب کہ ان کا بدل مل سکے اور شفاء قطعی نہ ہو ، استعمال ممنوع ہے ۔ البقرة
174 البقرة
175 البقرة
176 (ف ١) قوم کے لئے جب کتاب اللہ سے تمسک قائم رہے ، فرق وجماعات الگ اگل نہیں بنتیں اور جب کتاب اللہ میں تحریف وتاویل کے ذریعہ مختلف قسم کے فرقے بناتے جائیں تو پھر وحدت دینی اور اخوت مذہبی مفقود ہوجاتی ہے ، یہودیوں نے جب تک توراۃ کو اللہ کی کتاب سمجھا ، غالب رہے اور تعصب نے انہیں مختلف قوموں میں بانٹ دیا ، قومی حیثیت سے مٹ گئے ، اس لئے اصل شے جو مدار قومیت ہے ، جب وہی نہیں تو پھر قومیت کہاں ؟ ان آیات میں یہی بتایا گیا ہے کہ ان لوگوں نے تورایت کی جو کتاب حق ہے ، مخالفت کی ، اس لئے اب ان میں اختلافات اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ مٹائے نہیں جا سکتے ۔ حل لغات : بطون : جمع بطن ۔ پیٹ ۔ شقاق : پھوٹ ۔ بر : نیکی ۔ وجھہ : منہ جمع وجوہ ۔ البقرة
177 نیکی کا مفہوم : (ف ١) عام لوگ رسوم ظاہری تک ہی تقوی کا مفہوم محدود رکھتے ہیں اور دیگر حالات پر غور نہیں کرتے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب دین کی روح باقی نہ رہے اور قشہ وظاہر پر سختی سے عمل ہو ، جب کسی قوم کی یہ حالت ہو تو سمجھ لیجئے وہ حقائق دین سے قطعا محروم اور برائے نام مسائل پر محض رکھ رکھاؤ کے لئے عامل ہے ، نزول قرآن مجید کے وقت یہودیوں اور عیسائیوں کی بالکل یہی کیفیت تھی فسق وفجور میں ہر وقت سرشاری کے باوجود ایک دوسرے کو کافر کہتے ، چھوٹے چھوٹے مسائل پر جھگڑتے ، معمولی اختلافات ڈالتے یا اختلاف عمل ان کے لئے ناقابل برداشت ہوجاتا لیکن عملی زندگی میں بڑی سے بڑی بدمعاشی ان کے لئے نہ صرف گوارا ہوتی بلکہ راحت جان ، تحویل قبلہ کے موقع پر ان لوگوں نے شور مچا دیا کہ دیکھئے مسلمان بدل گئے ، انبیاء کے مسلمہ قبلہ سے روگردان ہوگئے اور الحاد وزندقہ میں مبتلا ہوگئے ، قرآن حکیم نے اس اعتراض کے متعدد جواب دیئے اور آخر جواب وہ دیا جو ان آیات میں مذکور ہے کہ مدار مذاہب ظاہر شعائرہ رسوم نہیں ، ان کس مغز اصل ہے ، بیت المقدس یا کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھ لینا ہی کافی نہیں ‘ بلکہ ان کے لئے ضروری ہے لوازم کا بھی خیال رہے کیا تم سمجھتے ہو کہ بیت المقدس کو قبلہ مان کر تم شریعت کی ہر ذمہ داری سے سبکدوش ہوجاتے ہو ؟ کیا اس کے بعد تمہارے لئے ہر برائی جائز ودرست ہوجاتی ہے ؟ کیا تمہارا خیال ہے کہ جب تک مشرق ومغرب کی تعیین نہ ہو ، نیکی کا مفہوم ہی غلط رہتا ہے ؟ نہیں ، کعبہ ہو یا بیت المقدس ، ان کو قبلہ بنانے کا مقصد یہ نہیں جو تم سمجھتے ہو کہ ظواہر پر اکتفا کردیا جائے ، اور بس بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ تمہارے دل میں شریعت کا پورا پورا احترام ہو ، ظاہر کے ساتھ باطن کی باریکیوں پر بھی تمہاری نظر ہو ، جذبہ عمل پورے جوش کے ساتھ کار فرما ہو ، جہاں دل کی گہرائیاں ایمان باللہ کی روشنی سے روشن ہوں ‘ وہاں اس کے نتائج بھی عیاں ہونے چاہئیں ، تم ادعائے پاک باطنی کے ساتھ بظاہر بھی پاک بننے کی کوشش کرو ۔ دس احکام : اس توضیح کے بعد وہ دس چیزیں بتائیں جو اساس الدین ہیں اور جو حقیقی معنوں میں صلاح وتقوی کا معیار ہیں اور جن سے صدق وصفا کو واقعی طور پر پرکھا جا سکتا ہے ۔ (١) ایمان باللہ ، یعنی اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ ، اس سے پوری پوری محبت ۔ یہ احساس اخلاق ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے بےنیازی قطعا صحیح اخلاق پیدا کرنے میں ممدو معاون نہیں ہو سکتی ۔ (٢) ایمان بالاخرۃ : یعنی مکافات عمل کے نظام پر محکم ایمان ۔ ظاہر ہے جب تک اعمال کے اثمار ونتائج کو قطعی نہ مانا جائے ، نیکی کے لئے دل میں کوئی تحریک پیدا نہیں ہو سکتی اور نہ برائی سے کوئی خوف پیدا ہو سکتا ہے ۔ (٣) ایمان بالملئکۃ : یعنی فرشتوں کے وجود وظائف پر ایمان ہو ، یہ ایمان بالکتب کی تمہید ہے ۔ (٤) ایمان بالکتب : یعنی خدا کے نوشتوں پر ایمان کہیں ہوں ، کسی زبان میں ہوں ، اللہ کا کوئی رسول لے کر آیا ہو ۔ (٥) ایمان بالنبین : یعنی سلسلہ انبیاء کی تمام کڑیوں کو ماننا ، تمام فرستادوں کا بلاتخصیص احدے احترام کرنا کہ تعصب پیدا نہ ہو اور سارے انسان متحد ومتفق ہو کر رہ سکیں ۔ (٦) خدا کی راہ میں دینا یعنی بخل وامساک کی عادت نہ ہو ، فیاضی وسیر چشمی پیدا کرے ، اپنے اقربا کی حتی الوسع مدد کرے ، مسکینوں اور یتیموں کی ضروریات کو پورا کرے ، مسافر اور دیگر سائلین کی حاجات کا مداوا بننے اور غلاموں کی آزادی میں ساعی ہو ۔ (٧) اقامت الصلوۃ : یعنی پابندی اور شرائط ولوازم کے ساتھ نماز پڑھے ، تاکہ اس میں سچے معنوں میں روحانیت پیدا ہو ۔ (٨) اداء زکوۃ ۔ (٩) ایفائے عہد ۔ (١٠) صبر واستقامت : ظاہر ہے کہ جس میں یہ دس صفات ہوں گی وہ خدا کا محبوب ہوگا نہ وہ جو صرف ظواہر ورسوم پر مغرور ہو ، خطاب یہود سے ہے کہ دیکھو یہ چیزیں مسلمانوں میں موجود ہیں یا نہیں ، اگر موجود ہیں تو معلوم ہوا تحویل قبلہ نے ان کے اعمال اور ان کی خدا پرستی میں کوئی مضرت پیدا نہیں کی ۔ حل لغات : الرقاب : جمع رقبۃ ، گردن یعنی وہ جس کی گردن میں غلامی کا جوا ہو ۔ البقرة
178 آزاد کے بدلے آزاد : (ف ١) اسلام سے پہلے قصاص وانتقام کا مفہوم بھی صاف نہیں تھا یہودی اگر قاتل امیر ہوتا تو چھوڑ دیتے اور اگر غریب ہوتا تو کچھ روپیہ لے کر معاف کردیتے اور اگر غلام ہوتا تو پھر ان کی شریعت نوازی جوش میں آجاتی جس کے معنی یہ ہیں کہ تعزیرات کا باب صرف غربا کے لئے ہے اور روپیہ خدا کے قانون میں نرمی پیدا کرسکتا ہے ، قریش مکہ بھی اس مذموم ذہنیت سے آلودہ تھے ، ان کے سردار وصنادید بھی محض سرمایہ داری کے بل پر ہر تعزیر سے بچ جاتے ، قرآن حکیم جو عدل وانصاف کا اعلان ہے ، بھلا کب اس ظلم اور جنبہ داری کو برداشت کرسکتا تھا ۔ چنانچہ اس نے فرمایا کہ قصاص کے معاملے میں کوئی رعایت نہیں آزاد کے بدلے آزاد مارا جائے اور عزت وسرمایہ کو کوئی درجہ نہ دیا جائے ، اس لئے کہ خدا کے ہاں سب کا درجہ یکساں ہے اس کے کسی ایک بندے کو حقوق زندگی سے محروم کردینا بہرحال سزاوار تعزیر ہے ۔ عفو بہتر ہے : قاتل کے ورثاء اگر مقتول کو کچھ دے دلا کر راضی کرلیں یا مقتول کے ورثاء انتقام نہ لینا چاہیں اور معاف کردیں تو فرمایا یہ بہتر ہے ۔ (آیت) ” من اخیہ “ کہہ کر گویا ترغیب دی ہے کہ عام حالات میں معاف کردیا کرو ، اخوت وہمدردی کا یہی تقاضا ہے اس سے معلوم ہوا کہ اسلام عفو کو بہرحال مقدم سمجھتا ہے ، بات بھی یہی درست ہے کہ تاحد مقدور حسن سلوک بجائے خدا ایک کڑی سزا ہے جس اثر نہایت گہرا ہوتا ہے مگر ہر حالت میں نہیں بعض حالات میں ۔ قصاص ہی میں عافیت ہے : وہ طبیعتیں جو شریر اور فتنہ پرداز ہیں وہ کسی طرح معافی سے متاثر نہیں ہوتیں ‘ بلکہ بعض دفعہ اس قسم کی نرمی کا اثر ان کے طبائع پر الٹا پڑتا ہے وہ اس حسن سلوک کو جبن وبزدلی سے تعبیر کرتی ہیں ، ان کا علاج بجز انتقام وقصاص کے کوئی نہیں ، تعزیرات کے باب میں اسلام کی خصوصیت دیگر مذاہب سے یہ ہے کہ اس میں عام نفسیات کا پوری طرح خیال رکھا جاتا ہے جن مذاہب میں ” دانت کے بدلے دانت “ کی کی سزا مقرر ہے اور معافی کے لئے کوئی گنجائش نہیں وہ بھی فطرت انسانی سے دور ہیں اور وہ جو ہمیشہ ہمہ عفو ہے ‘ اسے بھی صحیح نہیں کہا جاسکتا ، اسلام میں یہ جامعیت ہے کہ وہ ہر شے کا لحاظ رکھتا ہے ، اسے معلوم ہے کہ بعض دفعہ معاف کردینا نتائج کے لحاظ سے زیادہ بہتر ہوتا ہے اور بعض دفعہ سزا دینا جب فطرت انسانی قبول وتاثر کے لحاظ سے مختلف ہے تو پھر ایک سچے فطری مذہب کے لئے اس کی رعایت رکھنا نہایت ضروری ہے ” دشمن سے بھی پیار کرو “۔ نہایت اچھے لفظ ہیں ، یقینا ان سے بلند اخلاق کا اظہار ہوتا ہے لیکن عملی دنیا میں اس پر کہاں تک عمل ہو سکتا ہے ، اس کا پتہ لگانا ہو تو یورپ کا موجودہ طرز سیاست دیکھو اس میں جس اصول پر عمل کیا جاتا ہے ‘ وہ یہ ہے کہ ” دوستوں کو بھی دشمن سمجھو “۔ کیا اس حقیقت کے بعد بھی مسحی مبلغین اس تعلیم پر نازل کریں گے جس پر کبھی عمل نہیں کیا گیا ، عیسائیت اور اسلام میں بڑا امتیاز یہ ہے کہ اخلاق وتعزیرات کے بارے میں عیسائیت نے صرف فرد کو ملحوظ رکھا ہے جماعتی مصالح اس کے پیش نظر نہیں ، مگر اسلام نے فرد وجماعت ہر دو کی تکمیل کو مد نظر رکھا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات بہرحال قابل عمل ہیں ، مثلا یہ تو ہو سکتا ہے کہ ایک کامل اور بردبار انسان شریر کا مقابلہ نہ کرے اور مار کھاتا رہے ، لیکن شریر سے یہ توقع کیوں رکھی جائے کہ وہ بھی شرافت سے متاثر ہوگا ، کیا یہ نری سادگی نہیں ؟ اور پھر یہ اصول قوموں میں رائج کیسے ہو سکتا ہے ؟ یورپ کے مستعمرانہ اعتراض ہرگز اس کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ نہی پر عمل کرے ، یہ عجیب بات ہے کہ دولوگ جنہیں عفو وصلح کی تعلیم دی گئی تھی وہی سب سے بڑھ کر ظالم وسفاک ثابت ہوئے ، ان کی تاریخ کا ہر ورق بربریت ووحشت کا بدترین نمونہ ہے ، اور وہ جنہیں بقول عیسائیوں کے سوا جہاد اور قصاص کے کچھ سکھایا نہیں گیا اور دنیا میں سب سے زیادہ شائستہ ‘ غیر متعصب اور صلح جو رہے ۔ کیا یہ واقعہ نہیں ؟ حل لغات : القصاص : بدلہ ، مجازات ، انتقام ۔ الحر : آزاد ۔ العبد غلام ۔ البقرة
179 البقرة
180 وصیت : (ف ١) ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ کوئی شخص مال کثیر رکھتا ہو (خیرا سے مراد مال کثیر ہے) تو وہ والدین اور اقرباء کے لئے علاوہ مقرر حصوں کے کچھ اور بھی بطور احسان ومونت کے وصیت کرے بعض لوگوں نے اس حکم کو آیہ وارثت کی وجہ سے منسوخ سمجھا ہے لیکن یہ صحیح نہیں اس لئے کہ آیت کا انداز بیان اس کی مخالفت کرتا ہے ، (آیت) ” حقا علی المتقین “ کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ یہ غیر منسوخ آیت ہے اور یہ مال کی بہتات کی صورت میں کوئی حرج نہیں کہ وصی والدین کے لئے کچھ زائد وصیت کر جائے ، کیونکہ اس صورت میں دوسرے ورثا گھاٹے میں نہیں رہتے ، بعض کے خیال میں یہاں والدین واقربا سے وہ مراد ہیں جو بسبب غیر مسلم ہونے کے وارث نہ ہو سکیں ، مگر آیت میں اس قسم کا کوئی قرینہ موجود نہیں ۔ البقرة
181 البقرة
182 البقرة
183 فرضیت صیام : (ف ١) صیام کے لفظی معنے رکنے اور باز رہنے کے ہیں ، اصطلاح قرآن میں مراد ہے روزہ رکھنا یعنی ضبط نفس کی بہترین شکل اسلام سے پہلے روزہ رکھنے کا رواج کم وبیش تمام قوموں میں موجود تھا اور سب اس کی تقدیس کے قائل تھے ، روما والے بھی روزہ رکھتے تھے اور اہل کتاب بھی ، ہنود کی کتابوں میں بھی برت کا ثبوت ملتا ہے لیکن جس تکمیل کے ساتھ اسلام نے روزہ کا مفہوم پیش کیا ہے وہ پہلی قوموں میں نہیں ملتا پہلے روزہ اور فاقہ میں کوئی فارق شے نہ تھی ، اسلام نے بتایا کہ روزہ سے مقصود فاقہ نہیں تزکیہ نفس ہے ۔ فرضیت صیام کا واقعہ ہجرت سے تقریبا دو سال بعد کا ہے اس لئے کہ اس میں ایک طرح کی روحانی ریاضت ہے اور جب تک نفوس میں اس اہم قربانی کے لئے ایک استعداد پیدا نہ ہوجاتی ، اس کی تلقین بےموقع تھی ، ان آیات میں اعلان فرضیت ہے اور یہ بتایا ہے کہ روزہ قدیم روایات ودستور کی ایک مکمل صورت ہے کوئی بالکل نئی چیز نہیں ، تاکہ مسلمانوں کے دل میں اس کی اہمیت پیدا ہوجائے ۔ روزہ کا فلسفہ : یہ بتایا ہے کہ (آیت) ” لعلکم تتقون “۔ یعنی روزہ تم میں تقوی واصلاح کی محض قوتوں کو پیدا کرنے کے لئے فرض کیا گیا ہے ، اسلامی علم الاخلاق میں تقوی اور روزہ کی حیثیت ایک ہے ، تقوی کے معنی تمام ممکن محاسن کا حصول اور تمام برائیوں سے احتراز جس کے معنی یہ ہیں کہ روزہ اخلاق وروح کی آخری معراج ہے ، دیکھئے تو کامل ایک ماہ تک ضبط خواہش کتنا مشکل کام ہے لیکن مسلمان صرف اللہ کی رضا جوئی کے لئے تیار ہوجاتا ہے ۔ خالص روحانی واصلاحی تدبیر سے کھانے پینے کی بےاعتدالیوں اور بےضابطگیوں پر ایک ناقدانہ نظر اور ان کا مکمل مداوا ، روزہ دار اور غیر روزہ دار میں ایک محسوس اور بین فرق ہوتا ہے ، حدیث میں آیا ہے ” روزہ دار وہ ہے جو گالی گلوچ سے پرہیز کرے اور اگر اسے کوئی مجبور کرے تو کہہ دے کہ میں صائم ہوں “ روزخالص اللہ کے لئے ہے ، اس لئے اللہ فرماتا ہے ۔ ” الصوم لی وانا اجزی بہ “ یعنی روزہ دار بھوک پیاس کی تلخیوں کو صرف میرے لئے برداشت کرتا ہے اس لئے اسے مخصوص اجر سے نوازوں گا یعنی مسلمان گرمیوں کے موسم میں جن کے ہونٹ سوکھ رہے ہوں ‘ پیاس کی شدت بےچین کر رہی ہو اور اس طاقت ووسعت میں ہو کہ برفاب کے کو زے منہ سے لگا لے ، مگر خدا سے ڈرتا ہے اور پیاس ہی کو آب سرد سمجھ کر پی جاتا ہے اور کامل ایک ماہ تک اس ریاضت کو جاری رکھتا ہے ، تاکہ خدا کے لئے بھوک اور پیاس کی سختیوں کو برداشت کیا جا سکے ، روزہ امیر اور غریب کو ایک ماہ کے لئے ایک سطح پر لے آتا ہے ، سب خدا کی راہ میں بھوک اور پیاسے رہتے ہیں ۔ گویا روزہ مساوات انسانی کا ایک عظیم مظاہرہ ہے اور خالص تربیت ہے جس سے مقصود سال بھر کی تیاری ہے کہ روزہ دار غریبوں کی بھوک اور پیاس کا خیال رکھے ۔ البقرة
184 بیمار کے لئے رخصت : (ف ٢) جو شخص بیمار ہو اور روزہ رکھنا اس کے لئے مضر ہو یا وہ مسافر ہو ، اس کے لئے یہ رعایت رکھی ہے کہ وہ صحت وحضر کے دنوں میں روزہ رکھ لے اور وہ لوگ جو قطعا روزے نہیں رکھ سکتے وہ ایک آدمی کو کھانا کھلا دیں ، تاکہ فرض کا احساس باقی رہے اور وہ بہرحال اس نظام صوم میں منسلک رہیں ، اس رعایت میں حاملہ ومرضعہ عورت بھی داخل ہے ۔ البقرة
185 رمضان کے فضائل : (ف ١) قرآن حکیم جو ساری دنیا کے لئے رحمت وہدایت ہے جس کے تمام مضامین دلائل وبراہین پرمبنی ہیں ‘ وہ ایام رمضان ہی میں نازل ہونا شروع ہوا ، اس لئے روزوں کی فضیلت اور بڑھ جاتی ہے اور اس میں باریک اشارہ اس طرف بھی ہے کہ روزہ رکھنے سے قرآن حکیم کے حقائق ومعارف قلب پر زیادہ روشن ہوتے ہیں اور دل کلام الہٰی کے ذوق وشوق سے معمور ہوجاتا ہے اس لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن حکیم کی تلاوت ان دنوں میں کثرت سے فرماتے اور اس لئے تراویح میں قرآن شریف پڑھا جاتا ہے تاکہ لوگ سال میں ایک ماہ بالالتزام قرآن پاک سنیں اور اپنی زندگی کو قرآن حکیم کے موافق بنائیں ۔ البقرة
186 (ف ٢) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے بندوں کو دعا کے لئے یقین دلایا ہے کہ وہ سنی جاتی ہے ، سابق رمضان میں اس کو اس لئے ذکر فرمایا ، تاکہ معلوم ہو کہ روزہ میں کثرت سے ذکر ودعا کا سلیلہ جاری رہے ، فرمایا کہ میں قریب ہوں اجابت وقبولیت کے لحاظ سے تم مجھ پر ایمان واعتماد رکھو پھر دیکھو میں کسی طور تمہاری التجاؤں کو شرف قبول بخشتا ہوں ۔ البقرة
187 روزہ کا مقصد : (ف ٣) ازدواجی تعلقات کو رات کے وقت برقرار رکھتا قرآن حکیم نے جائز ومباح قرار دیا ، اس لئے کہ روزہ کا مقصد رہبانیت یا فاقہ نہیں ، بلکہ تحسین اخلاق ہے اور کیا بیوی سے پیار بہترین اور پاکیزہ تر حسن اخلاق نہیں ؟ حدیث میں جو آتا ہے کہ دن کے وقت بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ازواج مطہرات سے محبانہ پیش آتے اور بوس وکنار میں کوئی مضائقہ نہ سمجھتے تھے تو اس کے یہ ہیں کہ روزہ زاہدانہ یبوست نہیں ، خشک ریاضت نہیں بلکہ ہر خواہش میں اور ہر جذبہ میں تابحد لطافت اعتدال پیدا کرتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ کھانا پینا ممنوع ہے لیکن نہانا دھونا اور دیگر پاک تفریح کی چیزوں کی اجازت دیتا ہے اسی طرح صنفی جذبات کی تکمیل تو ممنوع ہے دن کو البتہ لطافت کے ساتھ ان کے اظہار میں کوئی حرج نہیں ، رات کو بھی تکمیل میں کوئی مضائقہ نہیں ، مطلب بہرحال یہ ہے کہ روزہ ایک قسم کی شگفتہ ریاضت ہے اسلام فطرت انسانی کا بہترین نمونہ اور نباض ہے اس میں اس کی تمام کمزوریاں ملحوظ رکھی گئی ہیں اور کہیں بھی ناقابل برداشت تکلیف نہیں دی گئی ، وظائف زوجیت بھی ایک خلقی وفطری ضرورت ہے ، جس سے بےنیازی ناممکن ہے اور یا مضر ہے اس لئے اس ناگریز حقیقت کو ان الفاظ میں ظاہر کیا کہ تم میں اور عورتوں میں چولی دامن کا ساتھ ہے کس طرح تم ایک دوسرے سے الگ رہ سکتے ہو ؟ عورت کا درجہ : (ف ١) (آیت) ” ھن لباس لکم وانتم لباس لھن “۔ کہہ کر فلسفہ تدبیر منزل کے بہترین نکات بتائے ہیں ، قرآن حکیم کا یہ مخصوص انداز بیان ہے کہ وہ باتوں ہی باتوں میں معاشرت واخلاق کی مشکل ترین گتھیاں سلجھا دیتا ہے ، لبات کی تین اغراض ہوتی ہیں ۔ : (١) بچاؤ ۔ (٢) اخفائے ستر ۔ (٣) تزئین وآرائش ۔ اس لئے گویا مرد و عورت کی حیثیت صحیح معنوں میں شریک حیات کی ہے ، دونوں ایک دوسرے کے لئے لباس کی مانند زمانہ کے سرد وگرم کا مقابلہ کرنے والے ہیں ، دونوں ایک دوسرے کے عیب پوش باعث عزت وآبرو ہیں اور دونوں کے وجود سے سوسائٹی کی عزت وآبرو ہے ، کس خوبصورتی سے قرآن حکیم نے دونوں کے منصب وفرائض کی تشریح فرمائی ہے ، تاکہ ان میں کوئی ایک دوسرے سے بےنیاز نہ رہ سکے ۔ عام مسائل : روزہ میں سحری دیر سے کھانا اور افطار میں جلدی کرنا مسنون ہے کیونکہ مقصد اطاعت ہے مشقت نہیں ، کھانے پینے کی چیزیں استعمال کرنا ممنوع ہے ، مسواک کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ رات کو تراویح پڑھنا بہت اجر کا باعث ہے ، حدیث میں آتا ہے ، آپ نے فرمایا کہ من قام رمضان ایمانا واحتسابا غفرلہ ما تقدم من ذبنہ “۔ یعنی جو شخص رمضان میں قیام لیل کو اختیار کرے گا اور شرائط عبادت کو ملحوظ رکھے گا ۔ حل لغات : تختانون : مادہ خیانت بمعنے نقصان یعنی تم اپنے جائز فطری حق سے محروم تھے ۔ البقرة
188 (ف ١) ان آیات میں نیک چلن رہنے کی تلقین فرمائی ہے اس لئے کہ روزہ مقصد ہی کردار واخلاق میں پاکیزگی پیدا کرنا ہے ، فرمایا کہ باطل اور مضر اخلاق وسائل سے روپیہ حاصل نہ کرو یعنی خواہ مخواہ کی مقدمہ بازی اور دلالی جس سے مقصود روپیہ کا حصول ہو ، ناجائز ہے ۔ وکالت کی موجودہ صورت جس میں صرف قانون کی نزاکت اور لچک کا خیال رکھا جاتا ہے ، اس ضمن آجاتی ہے موجودہ تہذیب کی متعدد لعنتوں میں سے ایک لعنت وکالت بھی ہے جو قوم کے اخلاق کو بدرجہ غائت تباہ کرنے والی ہے ، اس کا مقصد اکثر جلب زر ہوتا ہے ، چاہے اسکی سچے انسان کا خون ہوجائے ، ان آیات میں تصریح موجود ہے کہ کسی جرم کے علم ہوجانے کے بعد اس کی حمایت ناجائز ہے ، صرف یہ عذر کہ قانون میں گنجائش ہے ، کافی نہیں ، اس لئے وکلاء یقینا جانتے ہیں کہ بعض اوقات قانون کے الفاظ ہمارا ساتھ نہیں دیتے یا کم از کم ان کا منشا یہ نہیں ۔ اس لئے اسلام کے نظام عدالت میں پیشہ ور وکیلوں کا کہیں ذکر نہیں ۔ کیونکہ اس سے براہ راست جرائم پھیلتے ہیں ۔ جب مجرم کو یہ معلوم ہو کہ ہر جرم کے لئے چاہے وہ کتنا ہی سنگین ہو ‘ ایک قابل وکیل مل سکتا ہے جو اس کا جرم ثابت نہ ہونے دے گا تو اس کے شوق جرم میں اضافہ ہوجاتا ہے اور اس طرح دنیا میں جرائم کی افزائش ہوتی ہے جو عدل وانصاف کے خلاف ہے ۔ البقرة
189 قمری مہینوں کا فلسفہ : (ف ٢) معاذ بن جبل (رض) اور ثعلبہ بن عتبہ (رض) نے سوال کیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاند کیوں بڑھتا اور گھٹتا ہے ، اس پر یہ جواب دیا گیا کہ (آیت) ” قلھی مواقیت للناس والحج “۔ یعنی بجائے اس کے کہ لم بیان کی جائے ، حکمت و فلسفہ بیان کردیا اور اس طریق سے یہ بتایا کہ سوال غلط ہے ، یہ مذہب کے موضوع سے متعلق نہیں ، البتہ یہ پوچھ سکتے ہو کہ چاند کے بڑھنے اور گھٹنے سے شرعی طور پر کیا فوائد مرتب ہوتے ہیں ؟ اسلام نے حج ، صوم اور دیگر ضروریات دین کے لئے قمری مہینوں کو پسند فرمایا ہے ، حالانکہ شمسی مہینے مہینے زیادہ واضح اور متعین ہوتے ہیں ، اس کی متعدد وجوہ ہیں : (١) اس لئے کہ اسلام دین فطرت ہے جس میں اہل حضر سے لے کر اہل بادیہ تک سب لوگوں کی رعایت رکھی گئی ہے شمسی مہینے شہر کے متمدن لوگوں کو تو معلوم ہو سکتے ہیں لیکن خانہ بدوش اور غیر شہری نہیں جان سکتے ۔ (٢) اس لئے بھی کہ اسلام کا مقصد صرف تعین وتقرر ہی نہیں ، جبکہ تشویق وترغیب بھی ہے ، مثلا رمضان اگر شمسی تاریخوں میں ہوتا تو بلا کسی انتظار کے کھٹ سے آموجود ہوتا اور اس وجہ سے دلوں میں پہلے سے کوئی شوق واضطراب نہ ہوتا لیکن اب لوگ ماہ صیام کا چاند دیکھنے کے لئے بےتاب ہوجاتے ہیں اور اس طرح طبیعتوں میں ماہ صیام کے لئے زبردست شوق پیدا ہوجاتا ہے یعنی مقصد بھی حاصل ہوجاتا ہے اور خود بخود تحریک بھی پیدا ہوجاتی ہے ۔ (٣) پھر ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس سے موسم بدلتے رہتے ہیں ، شمسی مہینوں میں رمضان ہمیشہ ایک ہی موسم میں ہوا کرتا ، یا گرما میں یا سرما میں ، اس طریق سے موقع ملتا ہے اور تنوع قائم رہتا ہے ، ان اسباب وجوہ کی بنا پر ضروری تھا کہ مہینوں کا حساب چاند سے متعلق ہو ۔ (ف ٣) انصار جب اثنائے حج میں گھروں کو لوٹتے تو دروازوں سے داخل نہیں ہوتے تھے ، بلکہ پچھواڑے سے دیواریں پھاند کر آتے تھے ، ان کا خیال تھا کہ محرم کے سر پر سوا آسمان کے اور کسی چیز کا سایہ نہ ہونا چاہئے قرآن حکیم نے بتایا کہ یہ محض وہم ہے ، دروازوں سے داخل ہونا بہت ہے ۔ حج کا مقصد تو تقوی واصلاح کے جذبات کو پیدا کرنا ہے ، وہ ان ادہام وظنون سے پیدا نہیں ہوتے ، ہوسکتا ہے یہ ایک ضرب المثل ہو ، مطلب یہ ہے کہ ہر کام اس طریق سے کرنا چاہئے جو درست وصحیح ہو اور جس کام سے کوئی فائدہ ہوتا ہو ، بیکار کاوش سے حاصل ؟ پہلی آیت سے اس کا تعلق یہ ہوگا کہ چاند کے متعلق ایسے سوال کرنا جو شرعی لحاظ سے غیر صحیح اور غیر مفید ہیں ، محض بےسود ہے تم یہ پوچھو کہ قمری مہینوں میں ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟ البقرة
190 جنگ کن سے ہے ؟ (ف ٤) ہجرت سے پہلے مسلمان کفر کی طرف سے ہر زیادتی کو برداشت کرتے رہے اور ان کا عمل (آیت) ” فاعف عنھم واصفح “ کی تصویر رہا ، مگر جب ان کی زیادیتاں حد سے بڑھ گئیں اور مسلمانوں کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ تم ان لوگوں سے مصروف جہاد ہوجاؤ جو تمہیں دق کرتے ہیں یعنی وہ لوگ جو مسلمانوں سے تعرض نہیں کرتے اور ان سے دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں ان سے جنگ درست نہیں ، وہ لوگ جو اسلام کو بدنام کرنے میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھتے ، وہ ان آیات کو غور سے پڑھیں اور یہ دیکھیں کہ اسلام نے جہاد میں بھی آداب واخلاق کی پابندی کو ضروری قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ دیکھنا دشمن پرکسی قسم کی زیادتی نہ ہونے پائے کیا آج مہذب سے مہذب قوم بھی جنگ میں ” اخلاق “ کو ملحوظ رکھتی ہے ؟ جنگ عظیم کی روئیداد تمہارے سامنے ہے ، دیکھوکس طرح تہذیب واخلاق کا گلا گھونٹا گیا ہے ۔ البقرة
191 شرارگ جنگ سے زیادہ خطرناک ہے : (ف ١) فتنہ کے معنی ابتلا وآزمائش کے ہیں ، کفار مکہ نے مسلمانوں پر اتنی سختیاں روا رکھیں کہ وہ سخت امتحان میں پڑگئے وہ سوچنے لگے کہ کیا کریں کیا وہ ان ادہام وظنون کو قبول کر کے راحت کی زندگی بسر کریں یا خدا کی راہ میں جان دے دیں اور شہادت کے درجہ عظمی کو حاصل کریں ۔ قرآن حکیم نے کفار مکہ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ یہ پوزیشن ناقابل برداشت ہے ، شرارت جب اس حد سے بڑھ جائے تو پھر جنگ ناگزیر ہوجاتی ہے اور جنگ اس صورت میں یقینا اس مسلسل وپہیم شرارت وفتنہ انگیزی سے کہیں کم اہمیت رکھتی ہے ، اس لئے جب انہوں نے تمہیں گھروں سے نکال دیا اور تکلیف پر تکلیف پہنچا رہے ہیں تو تم بھی مردانہ وار میدان میں نکل آؤ اور انہیں کچل دو ، جہاں پاؤ قتل کرو ۔ ان نااہلوں کی یہی سزا ہے البتہ حرم کے قرب ونواح میں جنگ نہ ہو ، اور اگر وہ مجبور کریں تو پھر وہاں بھی کوئی مضائقہ نہیں جنگ اس وقت تک جاری رہے جب تک کہ اس شرارت کا کلی استیصال نہ ہوجائے اور پرامن فضا نہ پیدا نہ ہوجائے ، جس میں ایک خدا کی کھلے بندوں پرستش کی جائے اور اگر وہ باز آجائیں تو پھر تم بھی رک جاؤ البقرة
192 البقرة
193 البقرة
194 جنگ اور رعایت اخلاق : (ف ١) اسلام نے جہاں زندگی کے ہر شعبہ میں اصلاح کی ہے ، وہاں شعبہ حرب کو بھی فراموش نہیں کیا ، اسلام سے پہلے لوگ جن میں کسی قسم کی رعایت کو ملحوظ رکھنا ضروری نہیں سمجھتے تھے ، اسلام نے بتایا کہ جنگ میں بھی اخلاق وتدین کو ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہئے ، اس لئے کہ جنگ اخلاق مندوں سے نہیں ‘ بلکہ ایک اخلاق باختہ قوم سے ہے ، مقصد یہ ہے کہ اخلاق دین کے تحفظ کے لئے آخری قطرہ خون بھی بہا دیا جائے ، مکہ والے ذی قعد ، ذی الحجہ ، محرم اور رجب میں جنگ کو روک دیتے تھے اور ان چار مہینوں کو احترام کے قابل سمجھتے تھے ، قرآن حکیم نے بھی ان کی اس حرمت کو برقرار رکھا اور فرمایا کہ اگر وہ زیادتی کریں اور ان مہینوں کی حرمت کا خیال نہ رکھیں تو پھر تم بھی مجبور نہیں ہو ، بہرحال اتقاء وخشیت الہی کو ہر آن مد نظر رکھو اور جان رکھو کہ فتح ونصرت ہمیشہ اخلاق ودین داری کے ساتھ ہے وہ لوگ جو اخلاق کو کھو کر غلبہ حاصل کرتے ہیں درحقیقت ان کی شکست ہے اور وہ بظاہر مغلوب رہتے ہیں اور کسی مرحلے پر بھی تہذیب ومتانت کو ہاتھ سے نہیں دیتے وہ غالب ہیں ، ان کی فتح ہے ، اس لئے کہ اصل فتح روح کی فتح ہے نہ کہ مادہ کی ۔ البقرة
195 بزدلی ہلاکت ہے : (ف ٢) جہاد کے لئے جس طرح سرفرشی ضروری ہے ، اسی طرح مالی اعانت بھی لابدی ہے ان آیات مین یہ بتایا گیا ہے کہ وہ قومیں جو خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے دریغ کرتی ہیں ان کی ہلاکت قطعی ہے ان کا پنپنا اور دنیا میں رہنا محال ہے قوموں کی زندگی ان کے جذبہ ایثار وقربانی سے وابستہ ہے ، اس لئے وہ لوگ جو قومی احساس نہیں رکھتے جن کے دل تو قوم کے مصائب پر نہیں پسیجتے وہ غورکریں کہ ان کے زندہ رہنے کی کیا صورت ہے ۔ بعض فریب خوردہ لوگ (آیت) ” ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ “ کے معنی یہ سمجھتے ہیں کہ جہاد میں شرک نہ کی جائے اور جن بچائی جائے اس لئے کہ ہلاکت میں پڑنے سے اللہ تعالیٰ منع فرماتا ہے ، حالانکہ یہ غلط ہے وہ نہیں سوچتے کہ سیاق جہاد میں اس کا ذکر کرنا اس پر دال ہے کہ جہاد میں شرکت نہ کرنا اور مال ودولت سے حد سے زیادہ پیار کرنا ہلاکت ہے ، چنانچہ حضرت ابو ایوب انصاری (رض) جو اسلام کے ایک باہمت مجاہد ہیں فرماتے ہیں کہ ہم (یعنی صحابہ (رض) عنہم اجمعین) ہمیشہ بزدلی اور تکلف عن الجہاد کو ہی ہلاکت سمجھتے رہے ، وہ موت وہلاکت جو خدا کی راہ میں آئے جس سے اسلام اور مسلم کی عزت میں اضافہ ہوتا ہو ‘ ہزار زندگی سے بہتر ہے اور وہ زندگی جو بزدلی اور آسائش میں گزرے موت سے بھی بدتر ہے ۔ البقرة
196 آداب حج : (ف ١) حج فرض ہے اور عمرہ محض تطوع ، عمرہ دراصل آداب زیارت کا نام ہے ، آیت کا مقصد یہ ہے کہ حج وعمرہ جب شروع کیا جائے تو پھر اس میں شروط ولوازم کا خیال رکھا جائے اور کوئی بات ایسی نہ اختیار کی جائے جس سے نقص لازم آئے اور اجر وثواب میں کمی ہو ۔ اگر راستے میں کسی سبب سے زائر یا حاجی رک جائے اور آگے نہ جا سکے تو وہیں احرام کھول دے اور میسر قربانی کر دے ۔ احصار میں چونکہ لغۃ اختلاف ہے ، اس لئے قضا میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک احصار عام ہے ، مرض اور دشمن دونوں اس میں داخل ہیں اور بعض کے نزدیک صرف دشمن ، بہرحال جب لغوی معنوں میں وسعت موجود ہے تو پھر اس کو قائم رکھنا چاہئے اس کے بعد ایک عام حکم ہے کہ جب تک قربانی کا جانور حرم میں نہ پہنچ جائے تم احرام باندھے رہو ، البتہ اگر کوئی شخص بیمار ہوجائے یا اس کے سر میں تکلیف ہو اور وہ سر منڈانا چاہے تو پھر وہ بطور فدیہ کہ تین روزے رکھے یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلائے اور یا ایک بکری ذبح کرے جیسا کہ کعب بن عمرہ (رض) کے واقعہ سے ظاہر ہے کہ جب اس کے سر میں جوئیں پڑگئیں تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سرمنڈانے کی ان شرائط کے ماتحت اجازت دیدی جو اوپر مزکور ہیں ۔ حج کی تین قسمیں : (ف ٢) حج کی تین قسمیں ہیں ۔ افراد ، تمتع اور قران ۔ افراد وہ حج ہے جس میں قران وتمتع نہ ہو ۔ تمتع کی صورت یہ ہے کہ شہر حج میں کوئی عمرہ کے آداب سے ظاہر ہوجائے پھر انہیں مہینوں میں حج کا احرام باندھے ۔ قران یہ ہے کہ نسکین کو اکٹھا ادا کرے ۔ فقہاء کا اختلاف ہے اس امر میں کہ تینوں صورتوں میں افضل کون ہے ، بعض کے نزدیک افراد افضل ہے ، بعض کے نزدیک تمتع اور بعض کے نزدیک قران ، ان آیات میں تمتع کا ذکر ہے اور یہ اس لئے کہ قریش تمتع کو درست نہیں جانتے تھے ، تمتع میں چونکہ ترتیب حج پر اثر پڑتا ہے اس لئے ہدی ضروری قرار دی ہے جو شخص معذور ہو یعنی وہ ہدی نہ لاسکے وہ دس روزے رکھے ، تین ایمان حج میں اور ساتھ لوٹ کر یا لوٹتے ہوئے اس میں اختلاف ہے ۔ تلک عشرۃ کاملۃ : سوال پیدا ہوتا ہے کہ عشرہ کہہ دینے کے بعد کاملہ کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے ؟ کیا کوئی عشرہ ناقصہ بھی ہوتا ہے ؟ جب اعداد میں تعیین یقینی و قطعی ہے تو پھر اس زیارت کا فائدہ :؟ جواب یہ ہے کہ عشرہ کی صورت میں ہوسکتا تھا کہ کوئی تغیر کا مفہوم لے لے یعنی یہ سمجھ لے کہ تین یا سات میں جس صورت کو چاہے ، اختیار کرلے ، حالانکہ مطلب یہ نہیں ۔ مبرد کا خیال ہے ، یہ تاکید ہے جو عربی اصول کے بالکل مطابق ہے ، عرب کہتے ہیں ۔ کتبت بیدی حالانکہ ہمیشہ ہاتھ سے ہی لکھا جاتا ہے ، ہو سکتا ہے کہ مقصد یہ ہو کہ اس میں کوئی کمی نہ ہوگی ، یہ روزے قربانی کی پوری نیابت کریں گے ، ذلک کا مشارالیہ یا تو نفس تمتع ہے اور یا حکم ، پہلی صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ مقامی لوگوں کو تمتع کی اجازت نہیں ، امام ابو حنفیہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہی مذہب ہے ، دوسری صورت میں مقصد یہ ہوگا کہ مقامی آدمی کے لئے تمتع کی صورت میں قربانی ضروری نہیں ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے تلامذہ اسی طرف گئے ہیں اس کے بعد تقوی کی طرف سب کو دعوت دی ہے اور فرمایا ہے کہ عدم تقوی شعائر اللہ کی توہین ناقابل برداشت ہے اور موجب غضب الہی ہے ۔ البقرة
197 ملحوضات حج : (ف ١) ان آیات میں بتایا کہ حج تطہیر روحانیات کا بہترین ذریعہ ہے ، اس لئے اس میں لغویات وممنوعات سے بکلی احتراز لازم ہے اس لئے اس میں نہ تو رفث درست ہے یعنی مقاربت وتعلقات جنسی نہ فسوق درست ہے یعنی حدود شرعی سے تجاوز ، نہ جدل وبغض ، بلکہ کوشش کرنا چاہئے کہ روحانی حالت نہایت بہتر رہے ، زیادہ سے زیادہ رضائے الہی کو تلاش کیا جائے اور حاصل کیا جائے ۔ بہترین زاد راہ : بعض لوگ بلا زاد راہ کے حج کے لئے روانہ ہوجاتے ہیں ، وہ کہتے ہیں ہم متوکل ہیں اور اس کے بعد دوسرے حجاج کے لئے تکلیف کا موجب ثابت ہوتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، یہ حرکت خلاف تقوی ہے ، جب تک زاد راہ میسر نہ ہو حج فرض نہیں ، نہ توکل اس طرح کا جو تعطل کے مترادف ہے باعث فضیلت نہیں ہے بلکہ تقوی باعث اجر ہے اور یہی بہترین زاد راہ ہے ۔ البقرة
198 ایام حج میں تجارت : (ف ٢) اسلامی عبادات میں اور دیگر مذاہب کے نظام عبادت میں ایک بہت بڑا امتیاز یہ ہے کہ اسلامی عبادات صرف ذکر خدا تک محدود نہیں ، بلکہ وہ وسیع تر مفہوم اپنے اندر پنہاں رکھتی ہے ، اسلامی عبادت ذکر الہی کے علاوہ ضروریات تمدن پر حاوی ہے ، اس لئے حج میں جو خالصہ ذکر وریاضت کی ایک اعلی صورت ہے ، تجارت کی اجازت دی اور فرمایا اس میں کوئی مضائقہ نہیں ، بلکہ اپنے فضل کے لفظ سے تعبیر کرکے ترغیب دی کہ مسلمان اس عظیم الشان اجتماع سے مادی فائدہ بھی اٹھائیں اور یہ اجتماع ہر محافظ سے مسلمانوں کے لئے باعث برکت وسعادت ہو ۔ (ف ٣) عربوں کا قاعدہ تھا کہ جب مناسک حج سے فارغ ہوتے تو ایک مجلس مفاخرہ قائم کرتے جس میں اشعار پڑھتے اور اپنے اپنے آباؤ واجداد کے مناقب وفضائل بیان کرتے جس سے حج کا مقصد بالکل فوت ہوجاتا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فخر وغرور کے یہ نعرے جائز نہیں ، حج کا مقصد تو اعلائے کلمۃ اللہ ہے ، اس لئے اسی کا ذکر اور اسی کی تمحید وتقدیس میں تمہاری زبانیں مصروف رہنی چاہئیں اور خدا نے بزرگ وبرتر یقینا تمہارے آباؤ اجداد سے زیادہ حمد وثنا کا استحقاق رکھتے ہیں ، اس لئے تم کیوں غیر اللہ کی مدح وستائش میں اپنی زبانوں کو آلودہ کرتے ہو ، کیونکہ تمہارے دلوں میں خدا کی محبت نہیں ۔ حل لغات : اشھر : جمع شھر ، مہینہ ، رفث : ہر وہ حرکت جو عورتوں سے متعلق ہو ، فسوق : حدود اصلیہ سے تجاوز ۔ جدال ، بےسود جھگڑا ، لڑائی جنگ ۔ زاد : راستے کا خرچ ، افضتم : مصدر افاضۃ ۔ لوٹنا ، پھرنا ۔ البقرة
199 البقرة
200 دو گروہ : (ف ١) اس کے بعد دو جاعتوں کا ذکر فرمایا ، ایک تو وہی ہیں جن کی دعائیں اور مطالبے صرف دنیا طلبی تک محدود رہتے ہیں ، جو سوا دنیا کی آسائش وکشائش کے اور کچھ نہیں چاہتے ، جو حرص وآز کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں جن کے طائر خواہشات کی پرواز بالکل سطح ارض تک ہے جو مادہ پرست ہیں اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے فرمایا ہو سکتا ہے ، ان کی دنیا میں سن لی جائے اور یہاں سیم وزر کے انبار کے انبار ان کے سپرد کردیئے جائیں لیکن یہ جان لیں کے آخرت یعنی دوسری زندگی میں ان کے لئے حصہ نہیں ، چونکہ اس دنیا میں ان کی خواہشیں بلند نہیں ہوتیں اور آخرت کے لئے عملا انہوں نے کچھ نہیں کیا ، اس لئے وہ اس سے زیادہ کے مستحق نہیں ، دوسرے وہیں جو دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کا بھی خیال رکھتے ہیں ، جو روح ومادہ کے درمیان توازن قائم رکھتے ہیں جن کی خواہشیں دنیا تک ہی محدود نہیں بلکہ آخری زندگی بھی ان کے مد نظر رہتی ہے ، وہ جہاں دولت وسرمایہ کے ڈھیر جمع کرتے ہیں ، وہاں زاد آخرت کا بھی حصہ وافر حاصل کرلیتے ہیں ، یہ لوگ زیادہ کامیاب ہیں ، ان کے ایک ہاتھ میں دنیا کی نعمتیں ہوتی ہیں اور دوسرے ہاتھ میں دین کی سعادتیں ، ان آیات میں بتلایا کہ مسلمان اور غیر مسلم میں فرق کیا ہے ، غیر مسلم کا نصب العین پست اور ذلیل ہوتا ہے اور مسلمان کی نظریں بلند ہوتی ہیں غیر مسلم کی ساری کاوشیں اور کوششیں مادی خواہشات کے لئے ہوتی ہیں ، اور مسلم دنیا کے لئے بھی کوشاں ہوتا ہے اور آخرت کے لئے بھی گویا ‘ نصب العین اور نتائج کے لحاظ سے مسلمان کافر سے اچھا رہتا ہے مسلم کے معروف معنی غلط ہیں ، وہ جو یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کے معنی دنیا کی نعمتوں سے محرومی ہے ‘ وہ اپنے خیال کی تصحیح کرلیں ، اللہ تعالیٰ نے کہیں بھی افلاس کو پسند نہیں فرمایا ۔ حل لغات : مناسک : جمع منسک ۔ احکام حج ۔ خلاف : حصہ ۔ نصیب : بہرہ بخرہ ۔ البقرة
201 البقرة
202 البقرة
203 (ف ١) مکہ والے تعجیل کی صورت کو برا جانتے تھے ، اللہ تعالیٰ نے مسلمان کو رعایت بخشی کہ اگر وہ جلد فارغ ہو سکے ، اس سے تو کوئی مضائقہ نہیں اور اس طرح اگر تیسرے دن پر اٹھا رکھے تو بھی حرج نہیں دونوں صورتوں میں جائز ومباح ہیں ۔ مکہ والے چھوٹی چھوٹی چیزوں پر اصرار کرتے تھے اور بڑی بڑی چیزوں کو فراموش کردیتے تھے ، وہ تاجیل وتعجیل کو تو بڑی اہمیت دیتے تھے ، لیکن توحید ان کے نزدیک بےوقعت چیز تھی ، اہتمام بالصغائر اور تساہل عن الکبائر ، یہ وہ مرض ہے جو مردہ اور بےحس قوموں میں پیدا ہوجاتا ہے ، وہ مقاصد واصول کو پس پشت ڈال دینے میں کوئی باک نہیں سمجھتے اور غیر اہم جزئیات کو اہمیت دیتے ہیں اور اسی کو دین ومذہب کا نام دینے لگتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان جزئیات کو بالخصوص بیان فرمایا اور بتایا کہ ان کا درجہ بہرحال جزئیات سے زیادہ نہیں ۔ اصل شے تقوی وصلاح ہے ، جو تم میں نہیں اور جس کے حصول کے لئے تمہیں کوشاں رہنا چاہئے ، البقرة
204 خوش گفتار منافق : (ف ٢) بعض لوگ زبان کے اتنے میٹھے اور رسیلے ہوتے ہیں کہ ان کے خبث باطن کا کسی طرح علم نہیں ہو سکتا ، یہ بہت خطرناک ثابت ہوتے ہیں ، ان کا ظاہر بڑا فریب وہ ہوتا ہے ، مگر دل میں دنیا جہان کی خرابیاں پنہاں ہوتی ہیں ، قرآن حکیم جو علیم بذات اللہ اور خدا کی کتاب ہے ، وہ تمام برائیاں واشگاف کرکے رکھ دیتا ہے ، جو دل کی پنہائیوں میں پوشیدہ ہے وہ کہتا ہے کہ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو دنیا داری کے لحاظ سے نہایت اچھے معلوم ہوتے ہیں لیکن حق کے قبول کرنے کے لئے ان میں ذرہ بھر بھی استعداد نہیں ، ان کی قلبی خباثتوں پر گواہ ہے ، ان کا وطیرہ خدا کی پرامن زمین میں فساد پھیلانے ہے اور جب انہیں اللہ سے ڈرنے کی دعوت دی جاتی ہے تو اسی وقت دنیوی عزت وجاہ ان کو قبول حق میں آڑے آتی ہے ۔ یعنی اس لئے کہ انہیں سچائی کے لئے کچھ ایثار کرنا پڑے گا اس سے محروم رہتے ہیں ۔ فرمایا کہ یہ لوگ یاد رکھیں ، قیامت کے دن یہ جھوٹی عزتیں اور مصنوعی وقار کام نہ آسکیں گے اور یہ مع اپنی تمام عزتوں کے جہنم کا ایندھن بنیں گے ۔ حل لغات : الدالخصام : سخت جھگڑالو ۔ حرث : کھیتی : البقرة
205 البقرة
206 البقرة
207 جاں فروش مومن : (ف ١) ان آیات میں بتایا کہ کچھ لوگ مخلص بھی ہیں اور اس درجہ مخلص ہیں کہ وہ اپنی جانیں خدا کی راہ میں دینے سے بھی دریغ نہیں ۔ جہاں منافقین عزت نفس کے لئے ایمان کی گرانمایہ پونجی کو ضائع کردیتے ہیں ۔ وہاں یہ لوگ جان تک خدا کی مرضی کے بھینٹ چڑھا دینے میں تامل نہیں کرتے ، اس لئے یہ خدا کی آغوش رحمت میں رہیں گے انہیں عبودیت کے مرتبہ سے نوازا جائے گا اور خدائے رؤف کی تمام رحمتیں ان کے شامل حال رہیں گی ۔ البقرة
208 پورا پورا اسلام : (ف ٢) اسلام ایک نظام عمل عقائد ہے ، جب تک کسی نظام کو پوری طرح نہ مانا جائے متوقع فوائد کا مرتب ہونا ناممکن ہے ، اسی طرح وہ لوگ جو چند باتوں کو تو مان لیتے ہیں لیکن اکثر کا عملا انکار کردیتے ہیں ، وہ اسلام کو بحیثیت ایک نظام کے نہیں مانتے ، یہودیوں اور عیسائیوں میں آخر کار یہی مرض پیدا ہوگیا تھا ، جس پر قرآن حکیم نے ڈانٹا (آیت) ” افتؤمنون ببعض الکتب وتکفرون ببعض “۔ (کہ تم کتاب کے بعض مفید مطلب حصوں پر تو عمل پیرا ہو ، مگر اہم اور ایثار طلب حصے تمہارے دائرہ عمل سے خارج ہیں ، یہ کیا تماشہ ہے ؟ مسلمانوں سے بھی قرآن حکیم کا مطالبہ یہی ہے کہ اگر اسلام ہمہ صداقت ہے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ وہ تمہارے لئے مشعل راہ نہ ہو ، مانو تو پورا پورا مانو ۔ ورنہ شیطان کی راہیں کشادہ کشادہ ہیں اور جان لو کہ اسلام کو چھوڑ کر مسلمان کے لئے اس آسمان کے نیچے کہیں فلاح وبہبود کی امید نہیں کی جاسکتی ، شیطان انسان کا کھلا ہوا دشمن ہے ۔ اس کی پیروی خدا سے مخالفت کرتا ہے مسلمان کے سامنے صرف دو راہیں ہیں ، یا تو اسلام کی راہ اور یا شیطان کی درمیان میں کوئی تیسری راہ نہیں ۔ وہ شخص جو زندگی کے کسی شعبہ میں مسلمان نہیں ‘ وہ شیطان کی پیروی کر رہا ہے اور خدا کی اطاعت شیطان کی پیروی کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتی پس ضروری ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو کاملا اسلام کے گہرے رنگ میں ڈبو دیں اور ہمارے اعمال ہر طرح اسلامی ہوں ۔ حل لغات : بشری : مصدر شرآء بعضے بیچنا ۔ زللتم : مصدر ذلۃ ، پھسلنا ، پاؤں کا رپٹ جانا ۔ البقرة
209 البقرة
210 خدا کی آمد : (ف ١) وہ لوگ جو منکر ہیں ان کو ہرچند دلائل وبراہین سے قائل کرنے کی کوشش کی گئی ، لیکن وہ بغض وعناد پر ہی قانع رہے یعنی جب انہیں عاقبت کی سختی سے ڈرایا جاتا تو وہ کہتے ، ہم نہیں ماننے کے ، ہم پر کیوں عذاب نہیں آجاتا ، آخر اس میں تامل کیا ہے ؟ چنانچہ قرآن حکیم نے ان کے اس مقولے کو نقل فرمایا کہ (آیت) ” فاسقط علینا کسفا “۔ یعنی ہم پر آسمان ٹوٹے پڑے ، ہم بالکل اس کے لئے آمادہ ہیں ۔ اس آیت میں بھی ان کی اس ذہنیت کو ظاہر کیا گیا ہے کہ ان کی سرکشیاں حد سے گزر گئی ہیں اور عذاب الہی کے سوا یہ مجاز ہے مقصد عذاب الہی کی آمد ہے ، قرآن حکیم نے اس طرح کے انداز بیان کو دوسری جگہوں میں استعمال کیا ہے ۔ جیسے (آیت) ” فاتی اللہ بنیانھم من القواعد “۔ یا (آیت) ” فاتھم اللہ من حیث لم یحتسبوا “۔ ورنہ وہ ہر طرح کی جسمانیت سے پاک اور برتر ہے ۔ البقرة
211 البقرة
212 شاہان فقر : (ف ٢) ابتدائے اسلام میں مسلمان بیچارے غریب اور مفلس تھے ، روسائے قریش انہیں دیکھ دیکھ کر ہنستے اور کہتے کیا وہ لوگ ہیں جو دنیا کو بدل دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں ان کے خیال میں غربت وافلاس ایک جرم تھا ناقابل عفو ، قرآن حکیم نے بتایا کہ ان کے پاس گو دولت دنیا کی فراوانی نہیں ، مگر ان کے دل ایمان کی دولت گرانمایہ سے مالا مال ہیں ، گو وہ بیش قیمت ملبوسات سے محروم ہیں ، مگر رضائے الہی کا پر فخر تاج انہیں کے لئے تکلیف دہ ہے مگر جنات ونعیم اور کوثر وتسنیم کی نعمتیں انہیں شاہان فقر کے حصہ میں آئیں گی اور تم جو سرداریوں کے مالک اور خزانوں کے سمیٹنے والے ہو ، خدا کی بادشاہت میں مفلس وقلاش ٹھہرائے جاؤ گے ، تمہارے ہاتھ میں ایک حبہ نہیں ہوگا ۔ تمہارا کبر وغرور تمہیں بےحد ذلیل ورسوا کر دے گا ، تم دیکھو گے کہ وہ جو مطاعن واستہزاء کی آماجگاہ ہیں آج سلام وتحیات کے تحفے وصول کر رہے ہیں اور تم ہر طرف سے لعن وطعن سن رہے ہو ۔ معیار عروج وصدقات : تم اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کہ دولت کی کثرت معیار عروج وصداقت ہے ، حالانکہ یہ غلط ہے ، اللہ کی بخششوں کا کوئی خاص معیار نہیں ، وہ جسے چاہے ‘ دولت کے انبار بخش دے اور جس سے چاہے چشم زدن میں چھین لے ، بڑے بڑے قابل وشریف اور معزز بھوکوں مرتے ہیں اور جو کمینے اور ذلیل ہیں ان کی تجوریاں بھری رہتی ہیں ۔ اسی طرح کفار وفساق کے خزانے معمور ہیں اور مومن ومسلم کوڑی کوڑی کا محتاج ہے ، یہ اس کی بےنیازیاں ہیں کہ وہ بلاحساب ومعیار کے دیتا ہے جس کو چاہے دے ، جتنا چاہے دے ، اس کا ہاتھ روکنے والا کون ؟ البتہ اس چیز کو سلبا یا ایجابا معیار حق وباطل نہ سمجھنا چاہئے ، ایک اللہ کا پیارا بندہ سلیمان (علیہ السلام) ایسی حکومت بھی حاصل کرسکتا ہے اور مسیح (علیہ السلام) ایسا فقیر پیٹ پر پتھر بھی باندھ سکتا ہے ، اور کونین کی بادشاہتیں بھی حاصل کرسکتا ہے ، اس لئے وہ جن کے پاس دولت ہے مگر ایمان کی دولت سے محروم ہیں ‘ مغرور نہ ہوں اور وہ مسلمانوں کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھیں ، اور وہ جو ایمان کے گنج گراں مایہ سے بہرہ ور ہیں ‘ وہ قلت وفقر کی شکایت نہ کریں اور کفر کے غنا کو دیکھ کر جلیں نہیں ، اس لئے کہ نہ دینے میں اسے دیر لگتی ہے اور نہ چھیننے میں ۔ البقرة
213 (ف ١) ان آیات میں پہلی بات تو یہ بتلائی کہ ابتداء تمام لوگ ایک ہی خیال وفکر کے تھے ، آہستہ آہستہ ضروریات بڑھیں اور اختلاف ہوتا گیا اور جب اختلاف حد سے بڑھ گیا تو اللہ تعالیٰ نے انبیاء مبعوث فرمائے ، تاکہ وہ اختلافات میں انسانی جماعت کی صحیح رہنمائی فرمائیں ، دوسری بات یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کو کتابیں اور صحیفے دیئے گئے ، اس لئے کہ ان کے بغیر اختلاف کا مٹنا ناممکن تھا اور میری بات یہ کہ مومنین کی جماعت میں اختلاف نہیں ہوتا ، وہ مشکوۃ نبوت کی روشنی مین اپنے خیالات وانکار کو پرکھتے رہتے ہیں ۔ اس لئے ان میں کسی اختلاف کی گنجائش نہیں رہتی ، ان آیات سے مندرجہ ذلیل اصول معلوم ہوئے : ۔ (١) انبیاء علیہم السلام شدید اختلاف رونما ہونے کے وقت آتے رہے ۔ (٢) انہیں فیصلہ کن کتابیں دی جاتی رہیں جس سے اختلافات مٹ جائیں ۔ (٣) ان کے آنے کے بعد متحد الخیال والفکر جماعت پیدا ہوجاتی ہے اور یہی صراط مستقیم ہے ۔ یہ خیال رہے کہ مسیح (علیہ السلام) کے متعلق جو عیسائیوں نے غلو اختیار کیا وہ ان کی غیر حاضری میں پیدا ہوا ، وہ جو کتاب لائے ، اس میں کسی طرح شرک کی تعلیم نہ تھی اور ان کے سچے حواری جن کا قرآن حکیم میں ذکر ہے وہ متحد ومشفق تھے ۔ حل لغات : امۃ : ہر وہ جماعت جو کسی ایک بات میں اشتراک رکھتی ہے ۔ بعث : بھیجا ۔ البقرة
214 راہ عشق کی دشواریاں : (ف ١) غزوہ احزاب میں جب مسلمانوں کے خلاف عرب کی تمام قومیں جمع ہو کر چڑھ آئیں اور اسلام کفر کے عین درمیان گھر گیا تو اس وقت بعض کمزور دل مسلمان گھبرا گئے ، منافقین کو موقع ملا اور انھوں نے ان کی کمزوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کو اسلام سے برگشتہ کرنے کی ٹھانی اور کہا کہ دیکھو اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچے ہوتے تو آج اس طرح کیونکر کفار کے نرغے میں پھنس جاتے ، اس پر یہ آیات نازل ہوئیں ، جس سے دل مضبوط ہوگئے اور نور یقین سے جگمگا اٹھے اور منافقین کا پھیلایا ہوا ہم رنگ زمین جال تار تار ہوگیا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، اتنی سی آزمائش میں گھبرا گئے ہو ، ہم تک پہنچنے کے لئے کس قدر مصائب جھیلنا پڑتے ہیں ؟ تم سے پہلی قوموں لے کیا کیا دکھ اٹھا لئے ؟ کیا کیا سختیاں برداشت کیں ؟ جانتے ہو ان پر مصائب وحوادث کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ، انہیں دار پر کھینچا گیا ، انہیں زندہ جلایا گیا ، انہیں تنگدستی وافلاس کے ہولناک دوروں سے گزرنا پڑا ، مگر پھر بھی ایمان کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا ، مصیبتیں اس قدر آئیں کہ ان کے پاؤں اکھڑ گئے ابتلا اور آزمائش کی سخت گھڑیوں میں ان کے پاؤں نہیں جمتے تھے ۔ رسول جو پیکر صبر وعزیمت ہوتے ہیں ، چلا اٹھے کہ (آیت) ” متی نصر اللہ “۔ خدایا ! کب مدد پہنچے گی ؟ جب جا کر اللہ نے ان کی سنی اور نصرت واعانت سے انہیں نوازا اور تم ہو کہ یونہی گھبرا گئے ہو ۔ یہ قاعدہ ہے کہ مقصد یا نصب العین جس قدر بلند اور عظیم ہوگا ، اس کا حصول اسی قدر کٹھن ہوگا ۔ اللہ کی رضا ، اس کی خوشی جس پر ہماری تمہاری مسرتیں قربان ہیں ‘ کتنا بلند مقصد ہے ، اس لئے ضرور ہے کہ اس کا حصول بھی مشکل ہو ، ان آیات میں یہی بتایا گیا ہے کہ راہ کی دشواریوں سے سالک گھبرا نہ جائے ، راستے میں قدم قدم پر ابتلاء وآزمائش کے کانٹے بچھے ہیں ، سب سے الجھنا ہوگا ، چپہ چپہ اور گوشے گوشے میں حرص وآز کے جال میں بچھے ہیں جن سے ایک دم دامن بچا کے نکل جانا ہوگا اور یہ کہنا ہوگا ۔ ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے : البقرة
215 (ف ٢) یہ ضروری نہیں کہ (آیت) ” یسئلونک “ سے پہلے کوئی سوال بھی ہو ۔ بات یہ ہے کہ قرآن حکیم ضروریات انسانی کے موافق نازل ہوا ۔ اس لئے وہ چیزیں جن کی ہم کو ضرورت ہوتی ہے ‘ وہ اسے (آیت) ” یسئلونک “ کے رنگ میں ذکر کردیتا ہے ، یہ انداز بیان ہے اس لئے اچھے ہر موقع پر شان نزول کی تلاش چنداں مفید نہیں ۔ یہ بھی قرآن حکیم کا مخصوص طرز بیان ہے کہ وہ سوالات جو پیدا ہوتے ہیں ان کا رخ زیادہ اہم اور زیادہ سائستہ اعتناباتوں کی طرف پھیر دیتا ہے ۔ ان آیات میں سوال بظاہر یہ ہے کہ کیا خرچ کریں ، جواب یہ ہے کہ ان ان مقامات پر خرچ کرو ، مقصد یہ ہے کہ بتایا جائے کہ کچھ بھی خرچ کرو ، بہرحال اس کا مصرف صحیح ہونا چاہئے بعض اوقات گراں قدر صدقات بھی صحیح مصرف نہ ہونے کی وجہ سے بیکار ہوجاتے ہیں ، مصرف یہ ہیں ، سب سے پہلے والدین ‘ اس کے بعد اقربا ‘ اس کے بعد یتمی اور مساکین اور اس کے بعد مسافر ، مگر آج ان آیات پر کن کا عمل ہے ہمارے یتیم خانے کہاں ہیں ، مقروض اور مسکین مسلمانوں کے لئے کہاں ٹھکانا ہے ؟ مسافر خانے کس قوم نے تعمیر کئے ہیں ؟ ان سوالات کے جواب مسلمان قرآن حکیم کی روشنی میں سوچیں ۔ حل لغات : الباساء : تکلیف ۔ الضرآء : نقصان ، خیر : بھلائی ۔ مال ۔ ابن السبیل : مسافر ۔ البقرة
216 فرضیت جہاد : (ف ١) ان آیات میں یہ بتایا ہے کہ منجملہ تمام آزمائشوں کے سب سے بڑی آزمائش جہاد ہے ، مال ودولت کی قربانی آسان ہے ، گر سربکف ہو کر میدان جہاد میں نکل آنا مشکل ۔ ہوسکتا ہے کہ بعض طبیعتیں اسے زیادہ کڑی آزمائش تصور کریں ، لیکن اس کے فوائد کے مقابلہ میں یہ کوئی چیز نہیں ، قوموں کی زندگی ان کے جذبہ جہاد سے وابستہ ہے ، وہ جو جنگ سے جی چراتے ہیں ، ان کا قدرت سخت ترین امتحان لیتی ہے ، وہ جن کے ہاتھ اپنی حفاظت میں نہیں رہتے ‘ وہ کچل دیئے جاتے ہیں ، بزدیوں اور کمزوریوں کو جو اپنے سامنے حق کا خون ہوتا دیکھیں اس دنیا میں رہنے کا کوئی حق نہیں ۔ البقرة
217 (ف ١) مکہ والے مسلمانوں کو ان کے گھروں سے نکال چکے انہیں ہر طرح کی تکلیفیں پہنچا چکے ، اب الٹے مسلمانوں پر معترض ہیں کہ یہ کیوں شہرحرام میں ہم سے نبرد آزمائیں ۔ اعتراض کا جواب یہ دیا کہ اشہر حرم کی حرمت وعزت مسلم ، و لیکن تمہاری شرارتیں کیا اس جہاد سے زیادہ خطرناک نہیں ؟ مقصد یہ ہے کہ مسلمان ہر رواداری کے لئے تیار ہے ، مگر حق کی فی بین وہ ایک لمحہ کے لئے بھی برداشت نہیں کرسکتا ۔ حل لغات : صد : روکنا ۔ مرتد کے عمل ضائع جاتے ہیں : (ف ٢) کفر کی ہمیشہ یہ کوشش وہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اسلام کو اپنا ہمنوا بنالے ۔ کفار مکہ اور یہودیوں نے ارتداد کے لئے ذلیل سے ذلیل وسائل اختیار کئے ، مگر ایمان کے پکے اور عقائد کے مضبوط مسلمان ہمیشہ ایمان کو بچائے گئے اور وہ خائب وخاسر رہے جو مسلمانوں کے ارتداد کا خواب دیکھا کرتے تھے ۔ ان آیات میں بتایا کہ مرتد جو دین حنیف کا انکار کر دے صراط مستقیم سے دور ہٹ جائے اور جادہ صدق وصفا کو چھوڑ کر نفاق وکفر کی پگڈنڈیوں پر ہولے ، وہ کبھی منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتا ، اس کی کوشش رائیگاں جائے گی اور اس کے اعمال اسے ذرہ برابر فائدہ نہیں پہنچائیں گے ، ارتداد اسلام کا بحیثیت مجموعی انکار کرتا ہے ، اس کی سزا عقبی میں سخت ترین ہوگی ، دنیا میں قتل ہے ، چنانچہ بنی اسرائیل جب موسیٰ (علیہ السلام) کی غیر حاضری میں مرتد ہوگئے اور بچھڑے کو پوجنے لگے تو (آیت) ” فاقتلوا انفسکم “ کی سزا ان کے لئے تجویز کی گئی ، عرنینن جب جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں مرتد ہو کر بھاگ گئے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی انہیں قتل کی سزا دی ، اور یہ بھی فرمایا کہ (آیت) ” من بدل دینہ فاقتلوہ “ کہ مرتد کی سزا قتل ہے ، اس آیت میں بھی (آیت) ” حبطت اعمالھم فی الدنیا “۔ کا لفظ ان کے قتل کی طرف اشارہ کر رہا ہے اور یہ اس لئے کہ اسلام عقل ودانش کا دین ہے ، وہ پکار پکار کر کہتا ہے کہ سوچ سمجھ کر اسلام کو قبول کرو ، اور جب تک سوفی صدی یقین نہ آجائے ، ایمان نہ لاؤ اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص اسلام کو ترک کرتا ہے تو وہ توہین مذہب کا مرتکب ہوتا ہے جس کی سزا قطعی قتل ہونا چاہئے ۔ البقرة
218 (ف ٢) مجاہدین ومہاجرین ہی اللہ تعالیٰ کی بیش قیمت نعمتوں کے سزا وار ومستحق ہیں ، اس لئے کہ یہی پاک نفوس وہ ہیں جنہوں نے لذات نفس سے کنارہ کشی کی اور حق کے لئے ہر طرح کی مصیبت کو گوارا کیا ، اسلام مسلمانوں کے لئے دو راہیں تجویز کرتا ہے ، یا تو وہ باطل سے معرکہ آراہوں اور یا اس زمین کو چھوڑ دیں جو ان کے لئے فتنہ کا باعث ہو ، گویا مسلمان ضمیر کا آزاد پیدا کیا گیا ، وہ غلامی اور بزدلی کو قطعا برداشت نہیں کرسکتا ۔ وہ اپنے آرام وآسائش کو ترک کرسکتا ہے ، مگر حق سے کنارہ کشی وعلیحدگی اس کے لئے سخت مشکل ہے ، (آیت) ” واللہ غفور رحیم “۔ کے معنی یہ ہیں کہ جہاد سب سے بڑی عبادت ہے اور مجاہد سب سے بڑا مرتاض ، اس لئے خدا کی رحمتیں اس کے لئے نسبتا زیادہ وسیع ہوں گی ، اس لئے چاہئے کہ مسلمان بھی مجاہدین کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے متہم نہ کریں ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی بڑی منزلت ہے ، وہ شخص جو اپنا سر لے کر خدا کے حضور میں پہنچ جائے ، اس سے اور کس چیز کی امید رکھتے ہو ؟ کیا اس سے کوئی اور بڑی قربانی ہو سکتی ہے ؟ البقرة
219 شراب اور جوا : (ف ٣) اسلام سے پہلے جوئے اور شراب کے سختی سے عادی تھے اور وہ شخص جو شراب نہ پئے اور جوا نہ کھیلے اسے کہتے تھے ‘ یہ ” برم “ ہے یعنی کمینہ ہے اور سوسائٹی کے لئے باعث توہین ہے ۔ حضرت عمر (رض) جو انوار نبوت کے اکتساب میں یدطولی رکھتے تھے اس کو بہت برا جانتے تھے ، انہوں نے دعا کی ، اے اللہ ! شراب کے متعلق فیصلہ کن حکم نازل فرما ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ شراب اور جوئے میں گو عارضی فائدے بہت ہیں ، لیکن مستقل نقصان کہیں زیادہ ہے ، اس لئے یہ دونوں چیزیں بری ہیں ۔ اس کے بعد حضرت عمر (رض) نے فرمایا ، اس سے بھی زیادہ واضح حکم نازل ہو تو سورۃ نساء کی یہ آیات نازل ہوئیں ۔ (آیت) ” یایھا الذین امنوا لا تقربوا الصلوۃ وانتم سکری “۔ مگر اس میں بھی تھوڑی سی رعایت تھی ، اس لئے پھر مطالبہ کیا گیا تو آخری اور فیصلہ کن آیت نازل ہوئی کہ (آیت) ” فھل انتم منتھون “ کہ رکتے بھی ہو یہ نہیں ۔ اس پر انتھینا انتھینا کی صدائیں بلند ہوئیں ، ساغر ومینا کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے گئے اور صدیوں کے رسیا ایک دم پارسا بن گئے یہ اسلام کا اعجاز ہے ۔ حل لغات : یرتدد : ارتداد ، پھر جانا ۔ الخمر : ہر وہ چیز جو دماغ وعقل کو بےقابو کر دے ۔ میسر : جوا ۔ قمار بازی ۔ (ف ١) جوئے اور شراب کی حرمت کے بعد جذبہ سخاوت کو کہاں صرف کیا جائے ، ان آیات میں اس کا جواب دیا ہے کہ جو ضروریات سے زائد ہو ، اسے شراب وقمار کی بجائے نیک کاموں میں صرف کرو ۔ البقرة
220 (ف ٢) یتامی کے متعلق اسلام نے سختی سے ان کے اولیا اور سرپرستوں کو ڈانٹا کہ ان کا مال کھانے سے باز آؤ چنانچہ فرمایا (آیت) ” ولا تقربوا مال الیتیم “۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ وہ لوگ جو دیانت دار تھے اور یتامی سے سچی ہمدردی رکھتے تھے ، ڈرے اور ان کے لئے یتامی کی تربیت سخت مشکل مسئلہ بن گئی ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اگر مقصد اصلاح ہو تو پھر مخاطب میں جو ناگزیر حالات تک ہو مضائقہ نہیں اس لئے کہ وہ بھی تو آخر تمہارے بھائی ہیں اور اچھے سلوک کے مستحق ہیں ، البتہ یہ ملحوظ رہے کہ ادنی سی بےانصافی بھی اللہ تعالیٰ سے چھپی نہیں رہ سکتی ، وہ خوب جانتا ہے کون اصلاح کے ارادہ سے یتامی پرداری کر رہا ہے اور کون وہ ہے جس کی نیت ان کو لوٹنے کی ہے ، اسلام نے یتامی کی تربیت پر بہت زور دیا ہے ، اس لئے کہ یہ قوم کے بچے ہوتے ہیں اور کوئی قوم اس وقت تک کود دار قوم نہیں کہلا سکتی جب تک وہ اپنے یتیم بچوں کی پرورش نہ کرے ۔ حل لغات : امۃ : لونڈی ۔ باندی بندی ۔ البقرة
221 مشرکین سے رشتہ ناطہ ممنوع ہے : (ف ١) مشرک اور مشرکہ کی اصطلاح قرآن حکیم میں غیر کتاب یا غیر الہامی قوموں میں ہے ، عیسائی بھی مشرک ہیں اور یہودی بھی لیکن قرآن حکیم نے ان سے رشتہ مناکحت کو جائزتصور فرمایا ہے (اس صورت میں کہ مرد مسلم ہو) اس کی ایک معقول وجہ ہے عام طور پر ازدواجی تعلقات وحدت خیال اور وحدت مذاق کو دوسری تمام ترجیحات سے ضروری قرار دیا جاتا ہے اور یہ اس لئے کہ اس کے بغیر یہ رشتہ قائم نہیں رہتا ، شادی کا مقصد ہی جب کامل سکون ہے اور بیوی ہوتی ہی یہ ہیں کہ اس کے ساتھ وابستہ ہو کر مرد تمام پریشانیوں کو بھول جائے جیسا کہ قرآن حکیم نے فرمایا (آیت) ” لتسکنوا الیھا “۔ تو ضروری ہے کہ جانبین زیادہ سے زیادہ حدتک خیالات اور رجحانات میں ہم آہنگ ہوں ۔ اہل کتاب اصولا توحید کے قائل ہیں ، کم از کم ان کی کتابوں میں تو ذکر ہے سلسلہ نبوت کو جانتے ہیں ، حشر ونشر پر ان کا اعتقاد ہے تمام انبیاء سے متعارف ہیں ، اس لئے وحدت خیال کے بہت سے موقع موجود ہیں ۔ اس لئے اسلام نے اجازت دے دی کہ ان سے ازدواجیات کے تعلقات ہو سکتے ہیں ۔ مگر مشرک مرد اور مشرک عورت کے طبیعت اور خیالات میں زمین وآسمان کا فرق ہے ، اس لئے ان سے رشتہ ناطہ ممنوع ہے اور اس حد تک ممنوع ہے کہ مال ودولت یا حسن وجمال کی فراوانی بھی وجہ جواز نہیں بن سکتی ۔ قرآن حکیم نے فرمایا کہ ہوسکتا ہے کہ مشرک عورتیں تمہیں زیادہ جاذب اور خوبصورت معلوم ہوں یہ بھی ممکن ہے کہ مشرک مرد تمہیں زیادہ کامیاب اور فارغ البال نظر آئیں مگر اس لئے کہ روح کی خوبصورتی سے محروم ہیں اور دولت ایمان نہیں رکھتے ، یہ کسی طرح بھی مومن مرد اور مومن عورت کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ اس قسم کے رشتہ جن میں عقائد وخیالات کی چنداں پرواہ نہیں کی جاتی تربیت اولاد کے حق میں سخت مضر ثابت ہوتے ہیں بچے عام طور پر والدہ اور والد کے خیالات کے تابع ہوتے ہیں اور اگر وہ دیکھیں کہ دونوں ماں اور باپ مذہب کے اعتبار سے مختلف ہیں تو وہ کسی خاص خیال کو دل میں جگہ نہیں دیتے اور دہریت والحاد میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ (آیت) ” اولئک یدعون الی النار “ ۔ میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ رشتہ مناکحت بجائے خود ایک دعوت ہے اس لئے وہ لوگ جو کامل مسلمان نہیں ہیں ‘ عیسائی عورتوں سے حتی الوسع بچیں ، ایسا نہ ہو کہ وہ انہیں بھی عیسائیت کے سیلاب میں بہا کرلے جائیں اعاذنا اللہ ۔ البقرة
222 (ف ٢) قرآن حکیم ایسی کتاب ہے جس میں ہماری تمام ضروریات زندگی کو برملا بیان کردیا گیا ہے اور تمام آداب حیات کو واضح طور پر ظاہر کردیا گیا ہے تاکہ مسلمان کسی بات میں جاہل نہ رہیں ۔ حسن معاشرت اخلاق کا ایک اہم حصہ ہے اور وظائف جنسی کی تشریح وتوضیح ان حالات میں اور بھی ضروری ہوجاتی ہے ، جبکہ قوم میں شہوانی جذبات زیادہ ہوں ، قرآن حکیم کے زمانہ میں ایسے لوگ تھے جو اس معاملے میں جائز وناجائز کا خیال نہیں رکھتے تھے ، جیسا کہ ابو الاجداح کے سوال سے مترشح ہوتا ہے ، اس لئے فرمایا کہ حیض کے دنوں میں مباشرت ممنوع ہے ، اخلاقا بھی اور طبعا بھی ” اذی کا لفظ وسیع ہے اور ان دونوں معنوں کو شامل ہے ۔ حل لغات : عبد : غلام خدا کا بندہ ۔ محیض : بمعنی حیض ۔ البقرة
223 تربیت اولاد : (ف ١) اس لئے پیشتر کی آیات میں بتایا گیا تھا کہ عورت کی عزت وحرمت کے یہ منافی ہے کہ تم اس سے ہر حال میں جنسی جذبات کی توقع رکھو ان آیات میں بتایا کہ عورت کی حیثیت ودرجہ کیا ہے ۔ اسلام سے پہلے عورتوں سے نہایت برا سلوک کیا جاتا تھا ، اسلام نے آکر بتایا کہ عورتیں عزت واحترام کی مستحق ہیں اور کھیتی کی مانند ہیں ، جس طرح ایک کسان اور زمیندار اپنی کھیتی کا خیال رکھتا ہے اس کی حفاظت کرتا ہے اور اسے اپنی قیمتی متاع سمجھتا ہے اسی طرح مسلمان کو عورت کی عزت کرنا چاہئے ، جس طرح کھیتی سے ہمارے لئے مختلف النوع چیزیں مہیا ہوتی ہیں ، اسی طرح عورتیں ہمارے لئے ہماری اولاد پیدا کرتی ہیں اور جس طرح ایک کاشت کار کی غرض یہ ہوتی ہے کہ پیداوار قیمتی ہو ، اسی طرح مرد کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ نیک اور تندرست نسل پیدا کرے جو اس کے لئے اور امت مسلمہ کے لئے باعث برکت ثابت ہو ، یعنی ان کی تربیت میں شدید سے شدید محنت برداشت کرے ، بالکل کسان کی طرح کہ وہ سخت جاڑوں میں بھی صبح صبح کھیت میں پہنچ جاتا ہے ، (آیت) ” وقدموا لانفسکم ، وبشرالمؤمنین “ کا مطلب صاف صاف یہ ہے کہ تم اس رشتہ کی اہمیت کو سمجھو ، صرف وضائف جنسی کا کسی نہ کسی طرح ادا کردینا کوئی قابل اجر بات نہیں ، البتہ نیک ومستعد اولاد پیدا کرنا ضرور لائق بشارت وتبریک ہے ۔ البقرة
224 (ف ٢) ان آیات میں یہ بتلایا گیا ہے کہ خدا کی قسم سے ناجائز فائدہ نہ اٹھاؤ ، یعنی اگر کسی اچھے کام کے نہ کرنے پر قسم کھالو تو اسے توڑ دو میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ حدیث میں آیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب کوئی شخص کسی بات کے متعلق قسم کھالے اور اس کے بعد اسے محسوس ہو کہ اس نے غلطی کی ہے تو قسم توڑ دے اور کفار دے دے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی حالت میں بھی مسلمان کو نیکی کرنے سے نہیں روکتے ۔ البقرة
225 (ف ٣) قسم کھانے کی ایک قسم وہ ہے جس کا تعلق قصد وارادہ سے نہیں ہوتا ، بلکہ عادۃ یونہی اس نوع کے کلمات منہ سے نکل جاتے ہیں قضاءً اور عنداللہ بہ حلف نہیں سمجھا جائے گا ۔ البقرة
226 ایلاء کا حکم : (ف ١) ایلاء کے مفہوم میں اختلاف ہے لغۃ قسم کھانے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ، شرعا متفق علیہ مفہوم جس پر جمہور کا اتفاق ہے ، وہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی عورت کی مقاربت سے چار مہینے سے زائد مدت کے لئے پرہیز کا عہد کرلے اور ہم کھالے کہ وہ اس عرصے میں عورت کے نزدیک نہیں جائے گا اور چار مہینے یا اس سے کم مدت کے لئے قسم کھائے تو اس کا حکم یمین بعض کا حکم ہوگا ایلاء کا نہیں ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر فقہائے عظام کا یہی مذہب ہے ۔ جب یہ صورت حالات پیدا ہوجائے تو پھر یا تو چار مہینے صبر کرکے رجوع کرلے تو اس صورت میں کوئی کفارہ نہ ہوگا اور یا اگر مدت سے پہلے رجوع کرلے تو کفارہ یمین دے اور اگر کوئی طور پر انقطاع کا قصد ہو تو طلاق دے دے ، رجوع کے متعلق فرمایا (آیت) ” واللہ غفور حلیم “۔ یعنی نباہ کرنا بہرحال بہتر ہے قسم کی پرواہ نہ کرو ۔ اللہ تعالیٰ معاف فرما دیں گے اور طلاق کے متعلق فرمایا ۔ (آیت) ” فان اللہ سمیع علیم “۔ یعنی اللہ تعالیٰ مانتے اور سنتے ہیں کہ تم دونوں میں سے کون ظالم اور کون مظلوم ہے لہذا طلاق کے معاملے میں احتیاط ضروری ہے ، ذرا سی غفلت میں دونوں زندگیاں تباہ ہوجاتی ہیں ۔ البقرة
227 البقرة
228 مطلقہ اور اس کی عدت : (ف ٢) اسلام نے جہاں عورت کی عزت وحرمت کا جائز اعتراف کیا ہے وہاں اس نے اس کی نفسیات کا بھی گہرا مطالعہ کیا ہے اور جو بات کہی ہے وہ عین فطرت نسوانی کے لئے مفید ہے ، مثلا طلاق اصولا دونوں دونوں طرف سے ہو سکتا ہے اور دونوں کو ایک دوسرے سے اس درجہ شکایت ہو سکتی ہے کہ وہ علیحدہ ہوجانے پر مجبور ہوں ، مگر عورت از خود اس کی مجاز نہیں اور یہ اس لئے کہ عورت فطرتا عقل سے جذبات کی زیادہ تابع ہوتی ہے ، اسے اگر طلاق وتخلی کے اختیارات دے دیئے جائیں تو وہ اپنی زندگی نہایت تکلیف میں بسر کرے اور تلخ کرلے ۔ وہ لوگ جنہوں نے اسلامی نظام طلاق کا مطالعہ نہیں کیا ، معترض ہیں کہ دیکھئے اسلام نے کس طرح عورت کے حق ازواج کو چھین لیا ہے اور ہر وقت اسے طلاق کے ڈر سے سہما رکھا ہے ، حالانکہ طلاق کی حیثیت بغض المباحات کی ہے یعنی ناپسندیدہ مگر ناگزیر علیحدگی کی کیا اس قسم ونوع کے حالات پیدا نہیں ہوتے ، کہ میاں بیوی الگ ہوجائیں ، اس سے دونوں کی عزت محفوظ ہوجاتی ہے ، دونوں ایک دوسرے کی جانب سے عافیت میں ہوجاتے ہیں اور دونوں آزاد ہوجاتے ہیں کیا شادی کرلینے کے بعد مرد بہرحال نباہ کرنے پر مجبور ہے جبکہ اس کا دل نہیں چاہتا ۔ بات یہ ہے کہ ہم معاملات کو واقعات اور انسانی فطرت کی روشنی میں نہیں دیکھتے بلکہ ان کی محض منطق وقیاس کی رو سے دیکھتے ہیں ۔ یعنی ہم صرف معاملہ کے اس پہلو کو بھول جاتے ہیں کہ ایسا کبھی نہیں ہوا ۔ قرآن حکیم نے مطلقات کو تین قروء کی جو رعایت دی ہے اس لئے ہے کہ شاید دونوں میں صلح ہوجائے اور دونوں پھر بدستور میاں بیوی رہیں ، مطلقات سے مراد وہ عورتیں ہیں جو مدخولہ ہوں اور حاملہ نہ ہوں ، غیر مدخولہ کا حکم الگ ہے ، اس کے متعلق فرمایا (آیت) ” فمالکم علیھن من عدۃ تعتدونھا “۔ حاملہ کے متعلق ارشاد فرمایا : (آیت) ” واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن “۔ قروہ کے متعلق اختلاف ہے ، بعض کے نزدیک اس سے مراد مدت ظہر ہے اور بعض کے نزدیک مدت حیض اور اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظ قروء زوات الاضداد میں سے ہے ، اس کا اطلاق حیض اور ظہر دونوں پر ہوتا ہے ، قروء کے اصل معنی مدت واجل کے ہیں جیسے ھبت الریاح لقرونھا ، چونکہ ظہر وحیض دونوں ایک قسم کی مدت ہیں ‘ اس لئے دونوں پر لغوا اطلاق درست ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن و احادیث میں یہ لفظ دونوں معانی میں برابر استعمال ہوا ہے حیض کے لئے جیسے فرمایا ” دعی الصلوۃ ایام اقرائک بالطلاق الامۃ تطلیقتان وعدتھا حیضتان “۔ ظہر کے لئے جیسے قرآن میں فرمایا (آیت) ” فطلقوھن لعدتھن “ اور ظاہر ہے کہ عدت طلاق طہر ہے ، مگر مقصد چونکہ مہلت دینا ہے ‘ اس لئے اوسع اور تین مراد لیا اور یہ منشائے شریعت کے زیادہ مطابق ہوگا ، لہذا حیض زیادہ قرین قیاس ہے اور یوں دونوں معانی کے لئے گنجائش ہے ، عورت کو یہ ہدایت کی کہ ہو جو کچھ اس کے رحم میں ہے چھپائے نہیں ، اس لئے کہ فیصلہ اس صورت میں صرف عورت کی بات پر ہوگا ۔ یہ بھی فرمایا کہ اثنائے عدت میں مردوں کو اختیار رجوع ہے ، اگر وہ اصلاح چاہیں ، اس کے بعد یہ بتایا کہ عورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے ، بجز اس کے کہ مردوں کے ذمہ نفقہ وقیام کی ذمہ داریاں ڈال دی گئی ہیں ، اس لئے معمولی باتیں طلاق وتخلی کا باعث نہ بنیں اور حتی الوسع صلح کرلی جائے ۔ البقرة
229 (ف ١) ان آیات میں طلاق کی تحدید فرما دی ، زمانہ جاہلیت میں لوگ بار بار طلاق دیتے اور رجوع کرلیتے جس کی وجہ سے عورتیں بیچاری مردوں کے مظالم کی تختہ مشق بنی رہتیں ، اسلام نے عورتوں پر یہ احسان کیا کہ طلاق کی تحدید کردی ، (آیت) ” تسریح باحسان “ کے معنی یہ ہیں کہ حسن معاشرت اور اخلاق عالیہ بہرحال قائم رہیں ، عورت کو طلاق دینے کے معنی صرف یہ ہونا چاہئیں کہ وہ باعزت طور پر رشتہ مناکحت کو توڑ دے اور بس عورت کو بدنام کرنا یا اس کی توہین کرنا درست نہیں ، بلکہ اگر ایسے مواقع پر عورت کو کچھ دے دے ، بطور الوداعی تحفے اور یادگار کے طور پر تو یہ زیادہ موزوں ہے ، وہ عورت جو مدتوں تمہاری رفیق حیات رہی ہے ‘ کیا اس وقت تمہارے حسن اخلاق کی مستحق نہیں ۔ احسان کی ایک صورت یہ ہے کہ جو کچھ اسے دیا گیا ہے طلاق کے وقت واپس نہ لیا جائے ، حل لغات : تسریح : چھوڑ دینا ۔ افتدت : فدیہ یا معاوضہ دیا ۔ البقرة
230 حق خلع : البتہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ اگر عورت کی طرف سے مطالبہ تخلی ہو تو وہ دے دلا کر مرد کو راضی کرلے اور طلاق حاصل کرلے ، اس کا نام اسلامی اصطلاح میں خلع ہے ، یہ عورت کا حق ہے جو اسلام نے بخشا ہے مگر افسوس کہ آج عورتیں اس حق سے محروم ہیں ۔ (ف ١) ان آیات میں بتایا ہے کہ جب عدت میں رجوع کی گنجائش ہو اور اس وقت دو ہی صورتیں ہیں ، یا تو حقوق زوجیت ادا کیا جائے اور پھر انہیں باقاعدہ شرافت کے ساتھ الگ کردیا جائے ، انہیں محض دیکھ دینے کے لئے بار بار رجوع کرنا ، جیسے جاہلیت کے زمانہ میں کرتے تھے ، ناجائز ہے کیونکہ نکاح ایک مقد عہد ہے جس کی رعایت حتی الوسع ضروری ہے اور جب آدمی مجبور ہی ہوجائے تو پھر الگ ہوجائے ، مگر تکلیف نہ دے ، اس لئے یہ اخلاق وتقوی کے خلاف ہے ۔ (آیت) ” بلغن اجلھن سے مراد اس زمانہ آخری کے قریب قریب پہنچنا ہے کیونکہ وقت گزر جانے کے بعد تو اسلام نے رجوع کا حق ہی نہیں رکھا ، تاوقتیکہ وہ مطلقہ عورت کسی دوسرے مرد سے شادی نہ کرے اور وہ اپنی مرضی سے اسے دوبارہ طلاق نہ دے دے ، جسے فرمایا (آیت) ” حتی تنکح زوجا غیرہ “۔ اس صورت میں دوبارہ نکاح ہو سکے گا ۔ اسلام نے یہ سختی اس لئے روا رکھی کہ جانبین کو طلاق کی خرابیوں کا پورا پورا احساس ہو اور وہ جان لیں کہ ایک دوسرے سے باقاعدہ الگ ہوجانے کے بعد مل بیٹھنے کا پھر کوئی موقع نہیں ، تاکہ ان کے جذبہ وغیرت وحمیت کو ٹھیس لگے اور وہ اس مشنوم اقدام سے باز آجائیں اور تاکہ دونوں کو معلوم ہوجائے کہ کس طرح ایک دوسرے سے باقاعدہ الگ رہ کر زندگی کے دن پورے لئے جا سکتے ہیں ، یوں جہاں تک نظام طلاق کا تعلق ہے ، اسلام نے اسے نہایت مشکل مسئلہ بنا دیا ہے ، مرد و عورت کو اصلاح حالات کا پورا پورا موقع دیا ہے ، مثلا یہ فرمانا کہ (آیت) ” فطلقوھن لعدتھن “ ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی عارضی نفرت نہ ہو جو مرد کو طلاق پر آمادہ کرے ، (آیت) ” الطلاق مرتن “۔ کہہ کر گویا مہلت دی ہے کہ اس عرصے میں رجوع کرلے ، پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمانا کہ ” الطلاق ابغض المباحات “۔ کہ طلاق بدترین جواز ہے ، بجائے خود یہ ترغیب مصالحت ہے ، ان حالات کے بعد بھی اگر کوئی مجبور ہوجائے تو پھر ظاہر ہے کہ ان کو ایک مدت تک الگ ہوجانا چاہئے اور انتظار کرنا چاہئے ، اگر عورت بیوہ ہوجائے یا دوسرا خاوند طلاق دیدے اور عورت پر نکاح پر راضی ہو تو پھر رشتہ ازدواجی میں منسلک ہوجائیں ، ورنہ اپنے کئے کی سزا بھگتیں ۔ البقرة
231 آیات اللہ سے استہزا : (ف ١) ان آیات میں بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کو استخفاف واستہزاء کی صورت میں نہ بدل دینا چاہئے جاہلیت میں عرب طلاق دے دیتے اور بعد میں کہتے کہ میں تو محض مذاق کر رہا تھا ، یہ ممنوع ہے ، آج کل بھی تحلیل کے لئے حیلے تراشے جاتے ہیں ‘ وہ نہایت مضحکہ خیز ہیں اور ان سے شریعت غزا کی توہین ہوتی ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حلالہ سے منع کیا ہے اور محلل کو ملعون قرار دیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس سے زیادہ اللہ کی حدود کی توہین نہیں کی جا سکتی ، بعض لوگ درخت سے مرغے سے اور اس قسم کی دوسری چیزوں سے نکاح کردیتے ہیں ‘ اور بعد میں کہتے ہیں کہ اب تحلیل کا مقصد پورا ہوگیا ہے حالانکہ یہ شریعت اسلامیہ سے محض مذاق ہے ، اسلام جو ہمہ حکمت وموعظت ہے اور جس کی کوئی بات فلسفہ ولم سے خالی نہیں ۔ ہرگز اس نوع کی باتوں کا متحمل نہیں ، یہ بالکل وہی مرض ہے جو یہودیوں میں پایا جاتا تھا ، اس سے نصوص کا احترام اٹھ جاتا ہے اور بدعملی والحاد پھیلتا ہے ۔ اعاذنا اللہ منھا ۔ البقرة
232 (ف ٢) عضل کے معنی روکنے اور مشکل میں ڈالنے کے ہیں دجاجۃ معضلۃ اس مرغی کو کہتے ہیں بمشکل انڈے دے : مضلت الناقۃ اس وقت بولتے ہیں جب اونٹنی کے لئے بچہ جننا مشکل ہوجائے ، داء عضال اس بیماری کا نام ہے جو بمشکل دور ہو ۔ مقصد یہ ہے کہ عدت ختم ہونے کے بعد عورت کو دوسرے نکاح کا حق حاصل ہے اور تمہارے لئے جائز و درست نہیں کہ تم انکے نکاح میں روڑ اٹکاؤ اور ان کی مشکلات میں نہ ڈالو ۔ آیت کا روئے سخن یا تو پہلے خاوندوں سے ہے اور یہ اولیاء سے ، عام طور پر جاہل خاوند طلاق دینے کے بعد کوشش کرتے ہیں کہ ان کی سابقہ بیوی کسی دوسرے سے نکاح نہ کرسکے اس لئے کہ یہ بظاہر ان کی عزت کے خلاف ہے ، وہ ان کے خلاف لوگوں کو اکساتے ہیں ، یہ ناجائز ہے ، اولیاء اور عورت کے دوسرے بزرگ بھی بعض دفعہ انہیں دوسرے نکاح سے روکتے ہیں یہ بھی مصالح کے خلاف ہے ، اس لئے فرمایا کہ ایسا نہ کرو حالات ومستقبل کا علم تمہیں نہیں ، اللہ کو ہے ، وہ خوب جانتا ہے کہ نتیجہ کیا ہوگا ، اس لئے جو حق اللہ نے انہیں دے رکھا ہے ، تمہیں اس سے محروم رکھنا کسی طرح زیبا وجائز نہیں ۔ البقرة
233 مدت رضاعت : (ف ١) اسلام ایسا کامل نظام مذہب ہے کہ اس میں جزئیات تک خاموش نہیں کیا گیا ، لیکن اس حد تک کہ شگفتگی باقی رہے ۔ بظاہر رضاعت کا مسئلہ اتنا اہم نہیں کہ قرآن حکیم ایسی اصولی اسلوب اس کی تفاصیل پر روشنی ڈالے ، مگر جب بغور دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یقینا اس کی ضرورت تھی ۔ دودھ انسانی کی پہلی خوراک ہے جس سے بچے کے ہونٹ مضبوط ہوتے ہیں اور یہ پہلا غذا ہے جو تولید لحم ودم میں بیشتر حصہ بنتا ہے ، اگر اسے زیادہ عرصہ تک جاری رکھا جائے تو بعض اعضا رونما سے بالکل رک جائیں گے اور بچہ باوجود بڑھنے کے اور طاقتور ہونے کے کمزور وناتواں رہے گا یہی وجہ ہے کہ حیوانات بھی دو سال سے زیادہ بچوں کو دودھ نہیں پلاتے ، امکان یہ تھی کہ ماں بتقاضائے محبت رضاعت کو زیادہ وسیع نہ کرے ، اس لئے قرآن حکیم نے جو بجائے خوش شفائے کامل ہے دو سال کی تحدید کردی دوددھ کون پلائیں ۔ (آیت) ” والوالدات یرضعن “ کہہ کر قرآن حکیم نے اخلاق کے بہت پیچیدے مسئلے کو حل فرما دیا ہے ، عام طور پر لوگوں کی نگاہیں اخلاق کے اس پہلو تک نہیں پہنچیں حالانکہ تربیت اطفال کے لئے یہ ایک ہم نکتہ ہے ” ماں کی گود بچے کی تعلیم گاہ ہے “ مشہور فقرہ ہے مگر بہت کم لوگ ہیں جو اس کی حقیقت کو سمجھتے ہیں ۔ قرآن حکیم فرماتا ہے کہ بےشک ماں درسگاہ اطفال میں پہلی معلمہ ہے مگر اس کا طریق تعلیم دودھ ہے ۔ وہ اپنے دودھ کے ذریعے سے بچے کی رگ رگ میں عادات واخلاق غیر محسوس طریق پر داخل کردیتی ہے ، اسلئے ضروری ہے کہ تعلیم یافتہ مائیں اور نیک عورتیں بچوں کو اپنا دودھ پلائیں اور ادنی درجہ کے اخلاق کی عورتوں کے سپرد نہ کریں ۔ ایک اور فائدہ : اس طرح اگر مائیں اپنے بچوں کو اپنی چھاتی سے دودھ پلائیں تو ایک بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ بچوں کے دل میں ابتدا ہی سے محبت وشفقت مادری کے گہرے نقوش کندہ ہوجائیں گے جو آئندہ زندگی میں انہیں سعادت مند اور نیک ” اولاد “ ظاہر کرنے میں زیادہ ممدو معاون ہوں گے بخلاف اس کے وہ بچے جو پیدا ہوتے ہیں نرسوں کے سپرد ہوجائیں ، بڑے ہو کر کسی سکول میں محصور کر دئے جائیں اور جب ہوش آئے تو یورپ کے کالجوں میں پڑھ رہے ہوں ۔ کیا ان سے سعادت مندی اور نیاز مندی کے جذبات کی توقع رکھی جا سکتی ہے ؟ موجودہ تہذیب کے لاتعداد امراض میں سے ایک مرض احساس ” انفرادیت “ بھی ہے جس کے بقا سے مہر ومحبت کا قدرتی نظام درہم برہم ہوجاتا ہے ، قرآن حکیم اسی لئے فرماتا ہے کہ مائیں بچوں کو حتی الوسع اپنی آغوش شفقت سے الگ نہ کریں اور ابتداء سے ان کو ” اجتماعیت “ کا عملی درست دیں ، تربیت اور اخلاق کا یہ کتنا اہم نکتہ ہے جو قرآن حکیم نے یونہی بیان فرما دیا ہے ، (ف ٢) ان آیات میں مندرجہ ذیل مسائل بتائے ہیں : ۔ (١) باپ بچوں کی ماں کا کفیل ہے ، رزق وکوست اس کے ذمہ ہے ۔ (٢) رزق وکسوت عرف عام کے تحت ہونا چاہئے اور اس میں وسعت وطاقت کا پورا پورا خیال رہے ۔ (٣) بچہ کی وجہ سے ماں خاوند کو کوئی ناجائز تکلیف نہ دے اور نہ باپ بیوی کو ۔ (٤) بچے کے دودھ چھڑانے میں دونوں کی رضا جوئی ضروری ہے ۔ (٥) بچے دایہ کے سپرد کئے جاسکتے ہیں ، بشرطیکہ اس کا حق اسے دیدیا جائے ، ۔ (٦) ان سب معاملات میں اتقاء ضروری ہے ۔ ان مسائل کو سیاق طلاق میں اس لئے بیان فرمایا کہ درحقیقت طلاق ہی کی صورت میں بچہ کے متعلق مشکلات پیش آتی ہیں ۔ حل لغات : الرضاعۃ : دودھ پلانا ۔ المولودلہ : باپ ، تشاور : باہم مشورہ کرنا ۔ تسترضعوا : مصدر استرضاع ۔ دودھ پلوانا ۔ البقرة
234 بیوہ کی عدت : (ف ١) قرآن حکیم کی اصطلاح میں زوج کا اطلاق بیوی اور خاوند پر یکساں ہوتا ہے ، اس لئے کہ دونوں ایک دوسرے کے لئے سرمایہ راحت وسکون ہیں اور دونوں کا وجود ایک دوسرے کے لئے ضروری وناگزیر ہے موجودہ تہذیب عورت کو ” نصف بہتر “ سے حیثیت دینے کے لئے تیار نہیں ۔ مگر قرآن حکیم عورت کو ” کل بہتر “ کہتا ہے اور اس لئے اس کے لئے زوج کے لفظ کو استعمال کرتا ہے ، تاکہ معلوم ہو کہ خاوند بیوی سے الگ ومستقل کوئی وجود ہی نہیں رکھتا کہ اس کا کوئی دوسرا نام ہے ۔ ان آیات میں ازواج کا ذکر ہے ، اس سے مراد بیوہ عورتیں ہیں انکی لذت کا ذکر ہے ، چار مہینے دس دن تک انتظار کریں ، اس کے بعد انہیں اختیار ہے ۔ اس مدت میں جنین کا پتہ چل سکتا ہے تین ماہ کے بعد عام طور پر جنین مذکر میں حرکت پیدا ہوجاتی ہے اور جنین مؤنث بھی چار ماہ تک متحرک ہوجاتا ہے ، دس دن اس لئے بڑھا دیئے ہیں کہ تاکہ اگر جنین زیادہ کمزور ہو تو بھی ظاہر ہوجائے ۔ جمہور فقہاء کا مذہب یہ ہے کہ حاملہ کی عدت الگ ہے یعنی اگر ایک عورت بیوہ اور حاملہ ہو تو اس کی عدت بیوہ کی مدت نہیں ہوگی ، چار مہینے اور دس دن ، بلکہ وضع حمل کی عدت ہوگی ، چنانچہ خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سبیعہ ، سلمیہ کو وضع حمل کے بعد نکاح کی اجازت دے دی ، بعض اہل علم کا خیال ہے کہ اسے بعد الوجلین کو عدت ٹھہرانا چاہئے ، تاکہ عموم وخصوص میں جمع ہوجائے ، یعنی اگر وضع حمل کی مدت زیادہ ہے تو وہ عدت ٹھہرے گی اور اگر عدت کی مدت زیادہ ہے تو وہ سلسلہ جنبانی : بیوہ سے نکاح کے لئے یہ ہدایات دیں کہ تعریض یعنی اشاروں کنایوں میں اظہار مطلب کرنا گناہ نہیں ۔ البتہ ان کی رائے پر جبر کرکے الگ ان سے کوئی وعدہ لے لینا مذموم ہے اور یہ کہ اثنائے عدت میں نکاح کے لئے کوئی پختہ عہد کرنا بھی درست نہیں جب عدت گزر جائے تو پھر اختیار ہے ، اس میں حکمت یہ ہے کہ ایسے معاملات میں جلدی اور انجام کار عجلت اچھی نہیں ہوتی ، بیوہ کو موقع دینا چاہئے کہ وہ اچھی طرح سوچ سمجھ لے ، اس کی رائے آزادنہ ہونی چاہئے دباؤ کسی صورت بھی مفید نہیں ہو سکتا ۔ ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن حکیم نے نکاح کے معاملے میں عورت کی آزادی رائے کی کس قدر حفاظت کی ہے اور نسوانی حرمت وعزت کا کس قدر خیال رکھا ہے ، وہ لوگ جو معاملات میں ان باریکیوں کا خیال نہیں رکھتے بالعموم تکلیف اٹھاتے ہیں اور پشیمان ہوتے ہیں ۔ نکاح بیوگان ایک ایسا قانون ہے جس کی صحت اب مخالف حلقوں میں تسلیم کی جارہی ہے ، اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لئے اس نے آج سے چودہ سوسال پہلے اجازت مرحمت فرما دی اور بات بھی معقول ہے جب نکاح ایک دفعہ درست ہے اور سوسائٹی اسے معیوب قرار نہیں دیتی تو پھر یہ دوسری دفعہ کیوں درست نہیں ؟ نکاح بیوگان کی مخالفت قانون فطرت کے خلاف ہے جس سے بہت سی برائیاں پیدا ہونے کا امکان ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمسایہ قومیں اس کو بشدت محسوس کونے لگی ہیں اور عملا اسلام کی اس سچائی کی معترف ہو رہی ہیں ۔ البقرة
235 البقرة
236 البقرة
237 البقرة
238 نماز اور معاملات خانگی : (ف ١) ان آیات میں جو بات قابل غور ہے ، وہ یہ ہے کہ نکاح وطلاق کے عین درمیان نماز کا ذکر ہے ، اس سیاق کا فلسفہ کیا ہے ؟ نکاح وطلاق کے مسائل جو یکسر خانگی معاملات ہیں ‘ نماز سے کیا تعلق وربط رکھتے ہیں جو خالص روحانی عبادت ہے اور کیوں نماز کو عین ان مسائل کے درمیان بیان کیا ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ قرآن حکیم مضامین کے بیان کرنے میں کسی اکتسابی اسلوب بیان کا محتاج نہیں ، اس کا انداز بیان اپنا ہے اور فطری ہے ، جس طرح انسان سوچتے وقت کسی خاص منطقی طریق کا پابند نہیں ہوتا اور خیالات تنوع کے ساتھ دماغ میں آتے ہیں ، اسی طرح قرآن حکیم کے مضامین اپنے اندر ایک عجیب تنوع لئے ہوئے ہیں جن میں گو مصنوعی ترتیب نہیں ہوتی ، مگر قدرتی ربط اس نوع کا ہوتا ہے کہ پڑھنے میں دلچسپی قائم رہتی ہے ۔ دوسری خاص وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بتانا یہ مقصود ہے کہ نماز ومعاملات میں ایک گہرا ربط ہے ، وہ لوگ جو نماز تو پڑھتے ہیں ، مگر معاملات خانگی ہیں اچھے ثابت نہیں ہوتے ، وہ نماز کا مفہوم نہیں سمجھتے ، نماز ایک خاص نوع کی روحانی ریاضت ہی کانام نہیں ، بلکہ اس کا تعلق اعمال کے ساتھ ہے اور اس حد تک ہے کہ وہ لوگ جو حقوق الناس کا خیال نہیں رکھتے صحیح معنوں میں عبادالرحمن نہیں ، نماز کے معنی ایک ذہنی عملی انفرادی اور اجتماعی انقلاب کے ہیں جو نماز میں پیدا ہوجاتا ہے یعنی نماز پڑھنے سے نماز کا ہر حصہ زندگی متاثر ہوتا ہے ، بلکہ بدلتا ہے ۔ (آیت) ” ان الصلوۃ تنھی عن الفحشآء والمنکر “۔ کا یہی مفہوم ہے ۔ صلوۃ وسطی سے مراد بہتر ، زیادہ مراتب ودرجات کی حامل نماز کے ہیں ، اس لئے لفظ وسط جس کے معنی درمیان کے ہوتے ہیں ، اس سے تفصیل کا صیغہ مشتق نہیں ہوتا ، پھر اس کے مصدوق میں اختلاف ہے ۔ زیادہ قرین صحت یہ ہے کہ اس سے مراد عصر کی نماز ہے ۔ نماز کی تاکید اس قدر زیادہ ہے کہ حالت جنگ میں بھی اسے ترک نہیں کیا جاسکتا ، اگر سواری کی صورت میں ممکن ہو تو سواری پر پڑھ لے ، ورنہ کھڑے کھڑے ادا کرلے ، بہرحال معاف نہیں ہو سکتی ، اس لئے کہ یہی تو وہ چیز ہے جس سے فرائض کا احساس ہوتا رہتا ہے اور جس سے مسلمانوں کی فلاح وبہبود وابستہ ہے ۔ البقرة
239 البقرة
240 (ف ٢) ان آیات میں یہ بتایاس ہے کہ اگر بیوہ عورتوں کے متعلق ان کے خاوند وصیت کرجائیں کہ انہیں ایک سال تک مکان سے نہ نکالا جائے تو اس پر عمل کیا جائے ، اگر وہ خود اس عرصہ میں نکلنا چاہیں تو مضائقہ نہیں ۔ سلف میں اس آیت کے متعلق اختلاف ہے کہ یہ منسوخ ہے یا محکم ، اکثریت کی رائے ہے کہ منسوخ ہے ، آیت وصیت کی وجہ سے اور آیت عدت کی وجہ سے ۔ مگر ان آیات میں تطبیق بھی ممکن ہے آیت وصیت وعدت میں احکام ہیں اور اس آیت میں فوق الاحکام ، حسن سلوک یعنی اگر کوئی شخص حقوق سے زیادہ کچھ دینا چاہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ حل لغات : قنتین : خشوع وخضوع ، مادہ قنوت : البقرة
241 (ف ١) (آیت) ” وللمطلقت متاع “۔ کے معنی ہیں کہ طلاق محض اختلاف رائے کا نتیجہ ہے ، کسی بغض وعناد کا نتیجہ نہیں ، یعنی اگر طلاق دو تو اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ تم بعض وجوہ کی بنا پر اکٹھے نہیں رہ سکتے ۔ نہ یہ کہ مطلقہ حسن سلوک کی مستحق نہیں رہی ، قرآن حکیم کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان بہرحال اخلاق عالیہ کا مظاہرہ کرے اور کسی حالت میں بھی حسن سلوک کی فضیلت کو فراموش نہ کرے ۔ حل لغات : الوف : ہزاروں ، جمع الف ۔ حذر : خوف ، ڈر ۔ البقرة
242 البقرة
243 (ف ١) اس سے پیشتر کی آیات میں قوم بنی اسرائیل کا واقعہ ذکر فرمایا ہے کہ کس طرح وہ جہاد سے ڈر کر بھاگ کھڑے ہوئے اور کس طرح موت کے چنگل میں گرفتار ہوگئے اور پھر کیونکر اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ زندگی بخشی مقصد یہ ہے کہ جہاد کی اہمیت بتلائی جاوے اور یہ بتلایا جاوے کہ موت بہرحال آنے والی چیز ہے ، اس سے مفر نہیں ، اس لئے کوشش کرنی چاہئے کہ موت خدا کی راہ میں آئے ۔ اس کے بعد دعوت جہاد ہے اور اس کا ذکر ہے ، کہ خدا کو قرض دو ، تاکہ قیامت کے دن اسے کئی گنا زیادہ کرکے تمہیں اجر کی صورت میں بدل دے ۔ اللہ تعالیٰ بےنیاز ہے ۔ اسے ہمارے مال ودولت کی ضرورت نہیں ، اس کے خزانے بھرے پڑے ہیں ، البتہ ہمیں توشہ آخرت کی سخت حاجت ہے ، اس لئے فرمایا کہ تم اپنے لئے اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں اعمال کی دولت کو جمع کراؤ وہ اسے بڑھاتا رہے گا اور تمہیں کئی گنا نفع کے ساتھ واپس کرے گا ۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت ابوالاجداح انصاری (رض) نے پوچھا کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض مانگتے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” ہاں “ تو کہا ہاتھ بڑھائیے ، اس کے بعد باغ کو اللہ کی راہ میں دینے کا اعلان فرما دیا جس میں تقریبا چھ سو درخت کھجور کے تھے ۔ آیت کو ان الفاظ پر ختم فرمایا کہ (آیت) ” واللہ یقبض ویبصط والیہ ترجعون “۔ مقصد یہ ہے کہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے آدمی مفلس وقلاش نہیں ہوجاتا ، یہ تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور یہ جان لو کہ تمہیں اس کے حضور میں پیش ہونا ہے ، تم چاہتے ہو کہ تم احکم الحاکمین کی جناب میں خالی ہاتھ جاؤ ۔ حل لغات : الملا : شرفاء کی جماعت ۔ البقرة
244 البقرة
245 البقرة
246 بنی اسرائیل کی بزدلی : (ف ١) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد جب عنان نبوت حضرت شموئیل (علیہ السلام) کے ہاتھ میں آئی تو بنی اسرائیل نے کہا ، ہمیں جہاد کرنے میں کوئی تامل نہیں ، آپ ایک امیر مقرر فرما دیجئے ، اس پر کہا گیا کہ اس کی کیا ضمانت ہے کہ تم بالضرور جہاد پر آمادہ ہوجاؤ گے ، تو ایسا تو نہیں کہ فرضیت جہاد کے بعد تمہاری ہمتیں جواب دے جائیں ، انہوں نے کہا ایسا کیونکر ممکن ہے ؟ جبکہ ہم مظلوم ہیں اور مہاجر ہیں ، مگر جب جہاد فرض کردیا گیا اور حکم آگیا کہ اب لڑو تو بجز چند بہادروں کے سب پھرگئے ، اس سارے قصہ سے جو بہت طوالت کے ساتھ دہرایا گیا ہے مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو ہر طرح جہاد کے لئے آمادہ وتیار کردیا جائے اور پہلے راہ کی مشکلات بتا دی جائیں ، تاکہ بعد میں وہ بھی بنی اسرائیل کی طرح عذرومعذرت نہ کریں اس سے مراد امیر جماعت ہے جو نبی کی غیر حاضری میں سالار عسکر ہو ، یہ غلط ہے کہ اس وقت چونکہ حضرت شموئیل بوڑھے تھے ، اس لئے ایک امیر کی ضرورت پڑی کیونکہ نبی جب تک دنیا میں رہتا ہے اس کی قوتیں جوان رہتی ہیں اور وہ ایک لمحہ کے لئے بےکار نہیں ہوتا ، یہ بھی غلط ہے کہ بنی اسرائیل میں نبوت وامارت دو الگ الگ شعبے تھے ، اس لئے نبی وہ جامع کمال شخصیت ہوتی ہے جس کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے مستقل وجود کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ۔ حل لغات : بعث : بھیجا ، مقرر کیا ۔ انی : کیونکر ، کیسے سعۃ : فراوانی ، کشائش ۔ البقرة
247 معیار امارت : (ف ١) جناب طالوت (علیہ السلام) کو حضرت شموئیل (علیہ السلام) نے امیر مقرر کردیا اور بنی اسرائیل سے کہا ، تمہارا مطالبہ پورا ہوا ۔ اب جہاد کے لئے تیار ہوجاؤ تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ طالوت کو ہم پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ، اعتراض یہ تھا کہ طالوت (علیہ السلام) کے پاس مال ودولت کے ڈھیر نہیں اور وہ سرمایہ دار نہیں آپ نے جواب دیا کہ میں نے ایسا اللہ کی اجازت سے کیا ہے اور وہ قوت وعلم میں تم سب پر فائق ہے ، جس کے معنی یہ ہیں کہ معیار امارت نسل ونسب کا امتیاز نہیں اور نہ دولت وسرمایہ کی فراوانی بلکہ علم وقوت ہے ، جو زیادہ عالم ، زیادہ بہادر اور جسور ہے ، وہی امارت کا اہل ہے ۔ البقرة
248 تابوت بنی اسرائیل : (ف ٢) اس کے حضرت شموئیل (علیہ السلام) نے فرمایا طالوت (علیہ السلام) کی اہلیت امارت کو ثابت کرنے کے لئے کیا یہ کافی نہیں کہ وہ تابوت جو تم سے عمالقہ بزور چھین کرلے گئے ہیں وہ واپس لے آئے ۔ اس تابوت میں انبیاء سابقہ کے وصایا وہدایات تھیں اور وہ بنی اسرائیل کے لئے طمانیت وسکون کا روحانی سامان تھا ، حضرت شموئیل (علیہ السلام) نے فرمایا ، یہ تابوت واپس آجائے گا ، اگر تم نے جناب طالوت (علیہ السلام) کا ساتھ دیا تو (آیت) ” تحملہ الملئکۃ “ کے معنی یا تو یہ ہیں کہ فرشتے اس تابوت کو بطور اعجاز وتائید کھینچ کرلے آئیں گے اور یا جیسا کہ بائیبل میں لکھا ہے ، اس تابوت پر فرشتوں کی تصویریں کندہ تھیں اور یہ دکھایا گیا تھا کہ فرشتے اس صندوق کو اٹھائے ہوئے ہیں ، یعنی صندوق جس کی یہ علامتیں ہیں واپس آجائے گا ۔ البقرة
249 قلت کی فتح کثرت پر : (ف ١) ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل بالآخر قائل ہوگئے اور بجبر واکراہ طالوت کی امارت قبول کرلی ، وہ ان کو لے کر نکلا ، راستے میں اردن وفسطین کے درمیان ایک دریا پڑتا تھا ، آپ نے فرمایا دیکھو دریا سے سیر کر پانی پینا تمہارے لئے ممنوع ہے ۔ البتہ اگر چلو سے منہ تر کرلو تو مضائقہ نہیں مقصد ان کا امتحان لینا تھا کہ ان میں مجاہدانہ جفاکشی کی عادت بھی ہے یا نہیں اس امتحان میں چند آدمیوں کے سوا سب ناکام رہے ، آگے بڑھ کر جالوت کا لشکر جرار تھا ، یہ دیکھ کر گھبراگئے اور کہہ اٹھے کہ ہم میں تو جنگ کی ہمت نہیں سوا ان قلیل نفوس کے جن کے دلوں میں صحیح ایمان جاگزین تھا اور وہ سوا اللہ کے اور کسی سے نہیں ڈرتے تھے ، وہ ثابت قدم ہے ، اس لئے کہ وہ سمجھتے تھے فتح کثرت تعداد یا سازوسامان کی چمک دمک سے نہیں ، بلکہ اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت سے ہے بہت سی قلیل التعداد جماعتیں اپنے ایمان واستقلال کی وجہ سے بڑی بڑی جماعتوں پر غالب آئی ہیں اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس کی صحت میں کوئی شبہ نہیں ۔ البقرة
250 اللہ سے طلب اعانت : (ف ٢) اس آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ صرف مادی سازوسامان پر بھروسہ درست نہیں ، اللہ تعالیٰ کی اعانت خاص کا بھی متوقع رہنا چاہئے ، اس لئے کہ حالات کی تبدیلی اسی کے اختیار میں ہے ، وہ چاہئے تو ابرہہ کے لشکر جرار کو چھوٹی چھوٹی چڑیوں سے غارت کر دے اور غیب سے کچھ سامان پیدا کر دے جس کا کوئی مداوا نہ ہو سکے ۔ مومن و کافر کی ذہنیت میں یہی عظیم فرق ہے کافر ظاہری آلات حیات کو دیکھ کر مطمئن ہوجاتا ہے اور کسی دوسری چیز کی خواہش نہیں رکھتا ، مگر تمام ممکن تیاریوں کے بعد طالب نصرت رہتا ہے ۔ وہ ہر دم افراغ صبر اور ثابت قدمی کی دعائیں کرتا رہتا ہے اور جب ان مختلف ذہنیت رکھنے والوں میں تصادم ہوگا ، فتح انہیں لوگوں کی ہوگی جن کا نصب العین بلند ہے اور جن کی ہمتوں کے ساتھ تائید ایزدی بھی کار فرما ہے ، اس لئے جب بھی طالوت کے لشکر کی جالوت کے ساتھ مڈ بھیڑ ہوئی تو فتح ونصرت انہیں کے حصہ میں آئی جو خدا کے فرمانبردار تھے اور اس طرح لشکر طالوت کے سامنے جالوت مقتول ہوا جو بہت شان وشوکت کا سالار عسکر تھا ۔ اس قصے میں جتنے نام آتے ہیں ، کوئی ضروری نہیں کہ بائیبل ان سے متفق ہو ، اس لئے کہ قرآن حکیم بجائے خود اقوام سابقہ کی تاریخ ہے جس پر اس زمانے کے اہل کتاب نے کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا ۔ حل لغات : غرفۃ : چلو بھرنا ۔ جنود : لشکر جمع جند ۔ فئۃ : گروہ ۔ البقرة
251 جہاد کیوں ضروری ہے ؟ (ف ١) قرآن حکیم نے جہاد پر بڑا زور دیا ہے اور یہ اس لئے کہ اگر ظالم کے خلاف جنگ نہ کی جائے ، سرکش کی زیادیتوں کو نہ روکا جائے مظلوم کی حمایت نہ کی جائے اور ہر متمرد وفرعون کو موقع دیا جائے کہ وہ جس طرح چاہے ، اپنے ملوکیت پر ستانہ اغراض پورے کرلے تو پھر عدل وانصاف کا قیام ناممکن ہوجائے گا دنیا کا نظام درہم برہم ہوجائے گا ، اور اللہ کی وسیع وعریض زمین پر کوئی عافیت کی جگہ نہیں رہے گی ۔ البقرة
252 (ف ٢) ان آیات میں بتایا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو خود امی ہیں اور امی ماحول میں پلے ہیں ، جب ایسے ایسے معرکۃ الآرا مسائل حل فرما دیتے ہیں اور اخلاق ، سیاست ، مذہب کے باریک نکات سلجھاتے ہیں تو لامحالہ یہ غیب خداوندی پر اطلاع ہے اللہ تعالیٰ براہ راست حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آیات وبراہین تلقین فرماتے ہیں ، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا علم قطعی کسی انسانی استفادہ کا نتیجہ نہیں ۔ کیا یہ ممکن ہے ، کوئی انسان صحرائے عرب کے قلب میں بیٹھا ہوا معرفت وحکمت کے چشمے بہائے کیا ہو سکتا ہے کہ بجز اللہ کی تائید کے کوئی شخص اس ترتیب ، اس نظم کے ساتھ تعلیمات کو پیش کرے ؟ کیا بجز رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خدا کے فرستادہ کے ممکن ہے کہ وہ اقوام گزشتہ کے حالات بہ تفصیل بیان کرے اور ان کے اغلاط پر انہیں برملا متنبہ کرے ۔ حل لغات : ھزموا : شکست دی ۔ البقرة
253 انبیاء کے درجے : (ف ١) نفس نبوت میں تو اللہ تعالیٰ کے تمام رسول (علیہ السلام) برابر کے شریک وسہیم ہیں ، مگر حالات واستعداد کے ماتحت سب ایک دوسرے سے مختلف اور الگ الگ ہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) وصف خلت میں ممتاز ہیں ، (آیت) ” اتخذ اللہ ابراہیم خلیلا “۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو شرف مکاملہ سے سرفراز کیا گیا ، (آیت) ” وکلم اللہ موسیٰ تکلیما “۔ اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کو روح القدس کی تخصیص سے نوازا گیا اور بعض ایسے بھی ہیں جن کا ذکر نہیں کیا گیا ، مگر ان کے مراتب بھی اعلی بلند ہیں (آیت) ” ورفع بعضھم درجت “۔ مقصد یہ ہے کہ سب خداے فرستادہ ہیں ، سب اس کے پیارے ہیں سب کو درجہ محبوبیت پر فائز کیا گیا ہے ، اس لئے ان کے نام نزاع اور جنگ جائز نہیں یہی مقصد ہے اس حدیث کا جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” لا تفصلوا بین الانبیآئ“ یعنی انبیاء کے درمیان مفاصلہ پیدا نہ کرو ، روح القدس سے یا تو جبرائیل (علیہ السلام) مراد ہیں ، حضرت حسان (رض) کا شعر ہے ۔ وجبریل رسول اللہ فینا ورح القدس لیس لہ کفاء : جبریل (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے رسول اور روح القدس ہماری تائید کے لئے میں موجود ہیں ، ان کا مقابلہ کرنا ناممکن ہے ، اور یا روح سے مراد انجیل ہے کیونکہ اس میں زیادہ تر روحانی اصلاح سے تعرض کیا گیا ہے ۔ چنانچہ قرآن حکیم کو بھی روح اللہ کا خطاب دیا گیا ہے ارشاد ہے (آیت) ” وکذلک اوحینا الیک روحا من امرنا “۔ اقدس کے معنی مقدس کے ہوں گے ، یعنی ایسی کتاب جو تزکیہ وتقدیس کے لئے نازل کی گئی ہو ، مطلب بہرحال یہ ہے کہ تمام انبیاء احترام کرو ، سب میں فضائل ومزا یا کا معتد بہ حصہ ہے ۔ تمام انبیاء میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا درجہ کیا ہے ؟ بس یہ سمجھ لو ، ان تمام خوبیوں کا جو فردا فردا تمام رسل میں پائی جاتی ہیں ، اگر کسی ایک انسان میں جمع کردی جائیں تو وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں ع آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری : اس لئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جتنے پیغمبر آئے وہ محدود وقت اور متعین گروہوں کے لئے مبعوث ہو کر آئے تھے ، مگر آپ کی نبوت زمان وقوم کی حدود سے باہر ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر قوم اور ہر زمانے کے لئے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فضائل غیر محدود اور لاتحصی ہیں ۔ (ف ٢) ان آیات میں بتایا کہ باوجود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فضیلت ودرجات کے بعد لوگ منکر رہے ۔ یہ اس لئے کلیۃ کفر کا اٹھ جانا اللہ کی مرضی پرموقوف ہے ۔ وہ چاہے تو دنیا میں کوئی اختلاف باقی نہ رہے ، مگر وہ کسی شخص کو ایمان پر مجبور نہیں کرتا ، ہر شخص اپنے عقیدہ میں آزاد ہے ، اس لئے کفر ومخالفت کا ہونا بھی ناگزیر ہے ۔ البقرة
254 (ف ١) انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب قرآن حکیم کی متعدد آیات میں مزکور ہے جس کے دو معنی ہیں ، ایک تو یہ کہ مسلمان دنیا میں دولت وسرمایہ کے لحاظ سے مستعفی ہو ، اس کی حیثیت دینے والے کی نہ ہو ۔ العید العلیا خیر من ید التغلی ۔ دوسرے یہ کہ جو کچھ بھی اس کے پاس ہو وہ اللہ کی راہ میں خرچ ہو سکے ۔ وہ لوگ جو قومی طور پر فیاض نہیں ہوتے اور قومی ضروریات کو محسوس نہیں کرتے قطعی طور پر زندہ رہنے کی اہلیت اور استعداد نہیں رکھتے ، قیامت کے دن پورا پورا محاسبہ ہوگا نہ تو سرمایہ کام آسکے گا اور نہ کوئی دوستی ہی ، اور وہ لوگ جنہوں نے یہاں بخل وکفر سے کام لیا ہے ‘ وہاں بھی کسی بخشش اور رحمت کے متوقع نہ رہیں ، اس لئے کہ انہوں نے شرک وانکار کی وجہ سے اپنے آپ کو بالکل محروم کر رکھا ہے ۔ ” شفاعت “ کی قرآن حکیم نے عام طور پر نفی کی ہے اور مستقلا سارے قرآن مجید میں ایک جگہ بھی ” شفاعت “ کے مسئلہ کی تائید نہیں ملتی ، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہودی اور عیسائی جس سفارش اور شفاعت کے قائل تھے ، اس کے معنی یہ ہیں کہ یہودیت اور عیسائیت کے اقرار کرلینے کے بعد ہر معصیت اور ہر گناہ جائز ہے ، قرآن مجید اس نوع کی شفاعت کی کلیۃ نفی کرتا ہے ، البتہ اللہ کے نیک بندوں کو اذان دیا جا سکتا ہے اور وہ ایک دوسرے کی سفارش کرسکیں گے ۔ اسی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی پابند صوم وصلوۃ مسلمانوں کی سفارش کریں گے جن سے بتقاضائے بشریت گناہ سرزد ہوگئے ہوں ۔ البقرة
255 بیدار خدا : (ف ٢) ان آیات میں اللہ کی توحید وصفات کو نہایت خوبصورتی اور نزاکت سے بیان فرمایا ہے جس سے ایک طرف تو رب ذوالجلال کی عظمت وعزت دلوں میں پیدا ہوتی ہے اور دوسری طرف تمام شبہات جو اس کے متعلق یہودیوں اور عیسائیوں کے دلوں میں تھے ‘ دور ہوجاتے ہیں ۔ (آیت) ” اللہ لا الہ الا ھو “۔ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک وسہیم نہیں ہے اللہ اپنی وحدت وقدرت میں بےنظیر ہے ۔ ایک ہے ، اس کا کوئی اقنوم نہیں ‘ جسے اس کا حصہ وعنصر ٹھہرایا جائے ۔ الحی کے معنی یہ ہیں کہ وہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے اور کائنات میں جو زندگی نظر آ رہی ہے ‘ وہ اس کا عطیہ وفیضان ہے ، اسی کیوجہ سے وہ قائم ہے ۔ ” القیوم “ کا مقصد یہ ہے کہ وہ صرف خالق ہی نہیں اور صرف زندگی عطا کرنے والا ہی نہیں ، بلکہ تربیت وتقویم بھی اسی کا حصہ ہے ، وہ پیدا کرتا ہے ۔ زندگی بخشتا ہے اور اس کے بعد اس کی تربیت اور اصلاح کا بھی خیال رکھتا ہے ۔ (آیت) ” لا تاخذہ سنۃ ولا نوم “۔ ایک شبہ کا ازالہ ہے ۔ جاہلوں کی طرف سے سوال پیدا ہوتا تھا کہ وہ خدا جس کی سلطنت اتنی وسیع ہے ، اور کیا سوتا بھی ہے ؟ فرمایا کہ وہ تو جھپکی بھی نہیں لیتا یعنی وہ ہمہ آن بیدار رہتا ہے ، اس کا علم ہر وقت اپنا کام کرتا رہتا ہے ۔ (آیت) ” لہ ما فی السموت “۔ اس کے وسیع اختیارات پر دال ہے ، آسمان کی بلندیاں اور زمین کی پستیاں سب اس کے احاطہ ، اختیار وملک میں ہیں ۔ اس لئے ایسے خدا کے سامنے جھوٹی سفارش کی کسے جرات ہو سکتی ہے جو آگے پیچھے کی ہر چیز کو جانتا ہو ۔ (آیت) ” وسع کرسیہ السموت “۔ کے معنی علامہ ابن جریر الطبری نے علم کی وسعت کے لئے ہیں ، یعنی اللہ کا علم ہمہ گیر ہے ، اس سے کوئی چیز خارج نہیں ، چنانچہ کراسی علماء کی جماعت کو کہتے ہیں اور کراسیۃ اس کتاب کو کہتے ہیں جس میں علم کی باتیں لکھی جائیں ۔ (آیت) ” ولا یؤدہ حفظھما “ میں یہودیوں اور عیسائیوں کی تردید ہے ، توراۃ میں لکھا ہے کہ خدا نے سبت کے دن آرام کیا جس کے معنی یہ ہیں کہ خدا بھی انسانوں کی طرح کثرت کام سے تھک جاتا ہے ، قرآن حکیم فرماتا ہے ، یہ مادی صفات خدا کے وقار کے لئے باعث توہین ہیں ، وہ بلند وبالا ہے ، اس نوع کی صفات کا انتساب اس کی جانب گناہ ہے ۔ حل لغات : کرسی : اصل معنی تکرس کے جمع ہونے کے ہیں کتاب کو چونکہ ورق ورق جمع کر کے بنایا جاتا ہے ، اس لئے کہتے ہیں ۔ ثانوی معنی اس کے علم کے ہیں ۔ البقرة
256 اسلام میں جبر نہیں : (ف ١) ان آیات میں بتایا ہے کہ اسلام حقائق وبراہین کی حیثیت سے اس درجہ واضح وبین ہے کہ ہر سلیم الفطرت انسان اسے قبول کرے گا اور اس کی صداقت پر ایمان لائے گا ، اس لئے جبرواکراہ کی قطعا کوئی حاجت نہٰں ، وہ لوگ جو اسلام پر تلوار کے زور سے پھیلنے کا الزام لگاتے ہیں ، اس آیت پر غور کریں کہ قرآن حکیم کس فصاحت سے اعلان کرتا ہے کہ دین ومذہب کے بارے میں کسی جبر کی احتیاج نہیں ۔ اسلام بجائے خود اتنا روشن ‘ اتنا سچا اور اتنا مدلل مذہب ہے کہ بجز طاغوت پرست لوگوں کے کوئی اس کا انکار نہیں کرسکتا ، اسلام اللہ تک پہنچانے کا وہ مضبوط وسیلہ ہے جو تشکیک وارتباب کے حملوں سے ٹوٹتا نہیں ، مگر اسے قبول وہی کرتا ہے جو اللہ پر ایمان رکھے اور طاغوت سے انکار کرے ۔ البقرة
257 مسلمان روشنی میں کافر تاریکی میں : (ف ٢) اللہ تعالیٰ کی نصرتیں ، اعانتیں اور تائیدیں صرف مسلمانوں کے شامل حال رہتی ہیں ، کفر اس سے محروم ہے ، لہذا اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو کفر وشرک کی تاریکی سے نکالتا ہے اور ایمان وبصیرت کی روشنی میں داخل کرتا ہے ، مگر وہ لوگ جو خدا کے دوست نہیں ہیں ، جنہیں طاغوت سے محبت ہے وہ ہر وقت تاریکی اور ظلمت میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہیں ۔ البقرة
258 حجت ابراہیمی امام (علیہ السلام) : (ف ١) قاعدہ ہے کہ چھوٹے دل کے لوگ بڑی عزت کو برداشت نہی کرسکتے ، نمرود کو بابل ونینوا کی حکومت جب دی گئی تو آپے سے باہر ہوگیا اور لگا خدائی کا دعوی کرنے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جو خدا کی طرف سے اس تمرد و غرور کے لئے تازیانہ عبرت ہو کر آئے تھے توحید کا وعظ کہا اور لوگوں کو اس خدا کی چوکھٹ پر جھکنے کی دعوت دی جس نے نمردوں اور فرعونوں کو پیدا کیا ہے اور چشم زون میں ان کو کس طرح مار کر آپ قلزم میں غرق کرسکتا ہے ۔ اس وقت کے نمرود نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بلایا اور پوچھا میرے سوا اور کس کی بادشاہت کا تم اعلان کرتے ہو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا ، موت وزندگی کے مختار کی بادہشاہت کا اعلان مقصد یہ تھا کہ اگر تو مجھے سزائے موت دے تو میں ڈرنے والا نہیں میں تو اپنی زندگی کو اپنے رب کے ہاتھ میں سمجھتا ہوں ۔ اس پر اس نے چمک کر کہا میں بھی تو احیاء واماتت کا اختیار رکھتا ہوں جس کو چاہوں صلیب پر کھینچ دوں اور جس کی چاہوں جان بخشی کر دوں ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تاڑ گئے کہ موت کی دھمکی دی جارہی ہے پہلو بدل کر فرمایا کہ میرا رب تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے ، تو بھی اگر خدا ہے تو اس نظام کو تبدیل کر کے دکھا اس عقل وفرزانگی اور اس اخلاق پر نمرود بھونچکا سا رہ گیا اور ایمان کی بصیرت کفر کی چالاکیوں پر غالب آگئی ۔ بات یہ ہے کہ نمرود کو ہرگز توقع نہ تھی کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس طرح میری کج حجتیوں کا جواب کامیابی سے دیں گے ، وہ انہیں اتنا دانا اور زیرک نہ سمجھتا تھا ۔ غور کرو ، ایک باجبروت بادشاہ کی عدالت میں توحید کا اعلان اس خوبصورتی سے کیا بجز انبیاء کے کسی دوسرے شخص نے ممکن ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا طریق بحث یہ نہیں کہ وہ پیش کردہ دلیل پر معارضہ کریں اور اس سے کہیں دیکھئے صاحب آپ موضوع بحث کے خلاف جارہے ہیں ، بلکہ جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ایک دلیل اس کے لئے فہم کا موجب نہیں ہوئی تو فورا دوسری دلیل پیش کردی ، یہ طریق بحث خالصا پیغمبرانہ ہے یعنی مقصد مخالف کی تسلی کرنا ہے ‘ نہ کہ چپ کرانا ۔ حل لغات : بھت : متحیر ہوا ، خلاف توقع نادم ہوا ؟ مر : گزرا مصدر مرور ۔ خاویۃ : گرا ہوا ۔ عروش : جمع عرش بمعنی چھت ۔ البقرة
259 (ف ١) (آیت) ” اوکالذی کا مطلب یہ ہے کہ ہدایت خدا کی دین ہے ‘ جسے چاہے دے اور جس طریق سے چاہے دے ، نمرود کو تم نے دیکھا کیونکر دلائل ہی سے گھبرا گیا ، اب اس شخص کا قصہ سنو جس نے جب تک موت وزندگی کو تجربۃ نہ دیکھ لیا ، یقین نہیں کیا ۔ یہ کون شخص ہے جس پر موت وزندگی وارد ہوئی ؟ اس میں اختلاف ہے ، کوئی صحیح حدیث ایسی نہیں ملی جو تعین کرسکے ۔ بعض کا خیال ہے ، حضرت عزیر (علیہ السلام) مراد ہیں ، بعض کے نزدیک حضرت خضر (علیہ السلام) کا قصہ ہے ، بائیبل میں لکھا ہے ، حضرت خزقیل (علیہ السلام) نے بحالت کشف ہڈیوں کو زندہ ہوتے دیکھا ، قرآن حکیم کا انداز بیان بتا رہا ہے کہ یہ واقعہ ہے کشف نہیں ، زیادہ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بیت المقدس جب بخت نصر میں ظالمانہ تاخت کے بعد تباہ وبرباد ہوگیا تو یہودی بہت مایوس ہوگئے اور انہیں خدا کی نصرت وتائید کی کوئی توقع نہ رہی ، حضرت خزقیل (علیہ السلام) کو بھیجا گیا ، تاکہ وہ یہود کو بتائیں یہ تمہاری نافرمانی کی سزا تھی ، ورنہ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اب بھی تمہارے شامل حال ہوسکتی ہیں ، بشرطے کہ تم دین دار بن جاؤ ، حضرت خزقیل (علیہ السلام) نے فرمایا ، ایسی مردہ قوم کی رگوں میں ہدایت وتقوی کی روح کس طرح دوڑائی جا سکے گی ، البتہ اللہ تعالیٰ نے خود حضرت خزقیل (علیہ السلام) کو (١٠٠) سوسال کی موت سے دوچار کیا اور پھر زندگی بخشی ، مقصد یہ تھا کہ انہیں معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ جب حقیقی طور پر موت کو زندگی میں تبدیل کرسکتے ہیں تو یہ بھی ان کے امکان میں ہے کہ اجڑے ہوئے بیت المقدس کو دوبارہ عزت وحشمت بخش دیں ، اور ان کے دیکھتے دیکھتے گدھے کی ھڈیاں گوشت پوست میں تبدیل ہونا شروع ہوگئیں اور مرا ہوا گدھا اللہ تعالیٰ کی عنایت خاص سے زندہ ہوگیا ، حضرت خزقیل (علیہ السلام) یہ دیکھ کر پکار اٹھے کہ بےشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ اس سارے قصہ میں پرلطف بات یہ ہے کہ لیل ونہار کے تاثرات نے کھانے پر کوئی اثر نہیں کیا اور وہ بدستور (١٠٠) سوسال تک تازہ ہی رہا ۔ خدائے ذوالجلال کے لئے کوئی بات بھی ناممکن نہیں جس نے زمانہ کو پیدا کیا ہے ‘ وہ اس کے اثرات کو بھی روک سکتا ہے ، البتہ اس کے ذکر کرنے سے ایک لطیف اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ باوجود بنی اسرائیل کی اخلاقی موت کے اب تک ان کی خوراک یا تعلیمات میں کوئی فرق پیدا نہیں ہوا اور کوئی قوم حقیقی موت اس وقت اختیار کرتی ہے جب وہ روحانی غذا سے محروم ہوجائے ، اس کے بعد پھر واقعی نپپنے کی کوئی امید نہیں رہتی ۔ حل لغات : لبثت : مصدر لبت ۔ رہنا ۔ لم یتسنہ : نہیں گلا سڑا ۔ تسمنہ کے معنی کھانے کے بگڑ جانے کے ہوتے ہیں ، ننشوز : مصدر انشاز بمعنی ترکیب واصلاح ۔ البقرة
260 ولکن لیطمئن قلبی : (ف ١) انبیاء علیہم السلام ایک مضبوط ومحکم عقیدہ لے کر مبعوث ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں قوت تاثیر نسبتا دوسرے لوگوں کے بہت زیادہ ہوتی ہے ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے اسے یقین واثق کی توثیق چاہی جو مشاہدات پر مبنی ہو اور جو قطعی محسوس اور غیر مشکوک ہو ، تاکہ جب وہ نظام آخرت کی طرف لوگوں کو دعوت دیں تو دل کی گہرائیوں کے ساتھ خود بھی اس پر ایمان رکھتے ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا کیا اس حقیقت پر ایمان نہیں رکھتے کہ مزید مشاہدہ کی ضرورت پڑے ؟ آپ (علیہ السلام) نے جوابا عرض کیا ، ایمان تو موجود ہے ، اطمینان خاطر مطلوب ہے ، تو اللہ تعالیٰ نے اس پر ایمان مشہود کی ایک صورت پیدا کردی ، فرمایا ، چار پرندے لو انہیں ہلا لو اور ان کے ٹکڑے ہر پہاڑ پر رکھ دو پھر بلاؤ ، دیکھو قدرت ایزدی سے دوڑے ہوئے آئے گے ، اس کے بعد کا واقعہ محذوف ہے ، اور قرآن حکیم کا عام انداز بیان ہے کہ وہ غیرضروری واقعات کو حذف کردیتا ہے ، اس لئے انہیں خود سیاق کلام سے سمجھا جاسکتا ہے ، بعض مفسرین کا خیال ہے کہ پرندوں کو ذبح نہیں کیا گیا ، یونہی مانوس کرکے بلایا گیا اور وہ آ گئے جس سے مقصد یہ تھا کہ جس طرح وہ تھوڑے تعلق کی وجہ سے تمہارے پاس آگئے ہیں ‘ اس طرح ہم چونکہ ساری کائنات کے رب ہیں جب بلائیں گے تو انہیں زندہ ہونا پڑے گا اور ہماری طرف آنا پڑے گا ۔ مگر یہ تاویل دو وجہ سے زیادہ قرین یقین نہیں ، ایک اس لئے کہ (آیت) ” کیف تحی الموتی “۔ کا سوال زندگی اور مشاہدہ طلب ہے ، اور ” اطمینان خاطر “ کی غرض کا تقاضا یہ ہے کہ جواب سرسری نہ ہو ۔ دوسرے اس لئے کہ اجعل کا لفظ زندہ پرندوں کے لئے نہیں بولا جاتا ، جزءا کے لفظ میں تو گنجائش ہے ، لیکن اجعل کا لفظ قطعا ناقابل تاویل ہے ، اب سوال یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ایسے بلند مرتبہ نبی طمانیت قلب کی نعمت سے کیوں محروم تھے اس کا جواب اس اصول کے سمجھنے پر موقوف ہے کہ نبی باوجود جلالت قدر کے انسان ہوتا ہے اور اس میں دو طرح کی نفسیات ہوتی ہیں ، انسانی وبشری اور نبوی و پیغمبرانہ ، اور دونوں تقاضوں کا باہمی اختلاف بالکل ظاہر ہے ، اس لئے گو بحیثیت نبی و پیغمبر ہونے کے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حشر ونشر کے کوائف پرپورا پورا ایمان تھا مگر بحیثیت بشروانسان کے وہ چاہتے تھے کہ اس کو دیکھ بھی لیا جائے ۔ البقرة
261 (ف ٢) ان آیات میں بتایا ہے کہ جس طرح فطرت کا قانون ہر دانے کو جو بویا جانے ، کمیت وکیفیت میں بڑھاتا رہتا ہے ، اسی طرح ہمارے اعمال میں بھی ثمر جاری رہتا ہے اور یہ نمود واضافہ اللہ کی رحمت بےپایاں پر موقوف ہے ، ورنہ ہمارے اعمال ہرگز اس درجہ کے نہیں ہوتے کہ انہیں قبول بھی کیا جائے ۔ حل لغات : صر : اصل صیر بمعنی قطع کرنا ، مگر جب اس کا صلہ نفی ہو تو اس کے معنی ہلانے اور مانوس کرنے کے ہوتے ہیں ۔ البقرة
262 (ف ١) اچھے سے اچھا عمل اگر اگر سوء نیت کا نتیجہ ہے تو اللہ تعالیٰ کی نظر میں کوئی قیمت نہیں رکھتا ، مال ودولت کے ڈھیر بھی خدا کی راہ میں خرچ کردیئے جائیں اور دل میں خلوص نہ ہو تو اجر نہیں ملے گا ، (آیت) ” لکل امرء ما نوی “۔ البقرة
263 (ف ٢) ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ اگر دل میں وسعت نہ ہو اور فراخ دلی سے خدا کی راہ میں خرچ نہ کرسکو تو یہی بہتر ہے کہ نرمی سے سائل کو مطمئن کردو ۔ اسے جھڑکنا اور گالیاں دینا اور دل آزار کلمات سے مخاطب کرنا درست نہیں (آیت) ” واللہ غنی حلیم “۔ کہہ کے یہ بتایا ہے کہ خدا کے راہ میں دینا اپنے نفس کی پاکیزگی کے لئے ہے ، خدا کو تمہارے صدقات کی ضرورت نہیں ‘ اس لئے جب کبھی بھی دو تو یہ دیکھ لو کہ تمہارے دل کی اصلاح کس حد تک اس سے وابستہ ہے ۔ البقرة
264 (ف ٣) پیشتر کی آیات میں انفاق فی سبیل اللہ کے ساتھ ساتھ خلوص وحسن نیت کی بزور تاکید کی ہے اور فرمایا ہے کہ احسان جتلا کر اپنے اعمال کو ضائع نہ کروان آیات میں معیار اعمال کی نہایت بلیغ مثال سے تشریح کی ہے ۔ فرمایا ہے کہ وہ شخص جو خدا پر ایمان نہیں رکھتا جس کا آخرت پر عقیدہ نہیں ، اس کے اعمال ہرگز درخور اعتنانہیں ، اس کے اعمال کی مثال پتھر کی ایک چٹان کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو اور مینہ کا ایک پرزور چھینٹا اسے بہا کرلے جائے ، اور وہ لوگ جو خدا کی رضا جوئی کے لئے اور دل کی پاکیزگی وطہارت کے لئے روپیہ صرف کرتے ہیں ان کا فعل ثمر آوری میں اس سرسبز وشاداب باغ کی طرح ہے جو عام زمین سے ذرا بلندی پرواقع ہو ، تاکہ کھلی ہو اور تازہ روشنی ہر وقت وہاں پہنچ سکے ، وہاں پانی برسے اور باغ میں شان دار تازگی پیدا کر دے ، پیداوار کے اعتبار سے وہ دوگنا چوگنا ہوجائے یعنی اعمال کا معیار حسن نیت وارادہ ہے ، نہ حسن عمل ریا کاری کی چٹان پر حسن اعمال کے بیج نہیں بوئے جاسکتے ، البتہ خلوص وللہیت کے جذبات اعمال کی خوبصورتی میں اضافہ کردیتے ہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا کے ہاں مشقت وکوفت کی کوئی قدر نہیں ، وہاں تو دلی کوائف کی عزت ہے ، وہ جو دل کا پاک اور سخی ہے ، اس کا تھوڑا بھی بہت ہے اور وہ جو خلوص وحسن نیت کی نعمت سے محروم ہے ، وہ اگر سیم وزر کے انبار بھی تقسیم کرے تو لائق اجر نہیں ، کیونکر اس طرح کے ریا کارانہ صدقات سے اسکی طبیعت میں کوئی اصلاح نہیں ہوتی ۔ اعمال حسنہ کے لئے قرآن حکیم نے ایمان باللہ کو ضروری قرار دیا ہے ، اس لئے کہ جب تک ایمان صحیح موجود نہ ہو ‘ دنیا میں اخلاق کا کوئی معیار ہی نہیں رہتا ۔ اور ہر شخص حالات وظروف کے ماتحت اپنے اعمال کی کوئی نہ کوئی تاویل کرلے گا غور کرو ، اگر نظام آخرت پر اعتقاد نہ ہو تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر اعمال صالحہ کا ارتکاب ہی کیوں کیا جائے ؟ صرف اس لئے کہ لوگ اچھا کہیں ؟ اور وہ سوسائٹی جس میں ہم رہتے ہیں ‘ خوش رہے ، یا یہ کہ دنیا کا نظام برقرار رہے اور اس میں کوئی برہمی پیدا نہ ہو ، مگر سوال یہ ہے کہ ہم اپنی مسرتوں کو دوسروں کی اغراض کے لئے کیوں قربان کریں ، سوسائٹی کی ناخوشی سے ہم ذاتی لذائذ وحظوظ کی شاد کامی سے کیوں محروم رہیں ، کیا یہ سراسر بےوقوفی نہیں ؟ اور اس کا کیوں فکر کریں کہ دنیا کا نظام برقرار رہے ، کیا ہم کائنات کے اجارہ دار ہیں ؟ جس نے دنیا کو بنایا ہے وہ اس کی خود حفاظت کرے گا ، ہم تو وہی کریں گے جس سے ہم کو فائدہ ہو ، تو گویا اللہ تعالیٰ کے انکار کے بعد ” انفرادیت “ اور ” ذاتیت “ کا دور دورہ شروع ہوجاتا ہے ، اور نیک اعمال کا کوئی معیار ہی قائم نہیں رہتا ، اس لئے ضروری ہے کہ ایمان باللہ کی قید کو بڑھایا جائے ، جس سے اعمال کی قیمت مقرر ہو اور دلوں میں نیکی کے لئے ترغیب پیدا ہو اور نصب العین بلند ہوجائے ، شہرت دریا کاری نہایت پست قسم کے جذبات ہیں ، (آیت) ” وتثبیتا من انفسھم “۔ کہہ کر یہ بتایا ہے کہ صدقات اس طرح کے ہونے چاہئیں کہ ان سے واقعی نفس سے ایک جنگ کرنا پڑے اور بالآخر ضمیر مطمئنہ نفس خادمہ پر غالب آجائے نہ یہ کہ کم قیمت اور غیر ضروری چیزیں اللہ کی راہ میں دے دی جائیں ۔ حل لغات : صفوان : چٹان بعض کے نزدیک جمع ہے اور بعض کے نزدیک مفرد ۔ وابل : موسلادھار بارش ۔ صلدا : صاف پتھر : حل لغات : طل : پھوار شبنم ۔ نخیل : کھجور ۔ اعناب : انگور ۔ البقرة
265 البقرة
266 البقرة
267 (ف ١) ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ خدا کی راہ میں پاکیزہ چیزیں دو گری پڑی اشیاء کا تصدق کسی طرح موزوں نہیں ۔ اس لئے کہ جب تک اللہ کی راہ میں دینے سے دل تکلیف محسوس نہ کرے نفس اور ضمیر میں ایک جنگ بپانہ ہو ، نفس کی اصلاح نہیں ہو سکتی اور نہ بخل دور ہو سکتا ہے ، یہ ظاہر ہے کہ خدائے تعالیٰ رب السموت والارض ہے جس کے خزانے معمور ہیں ، ہمارے صدقات کا قطعا محتاج نہیں ، وہ تو غنی ہے ، بےنیاز ہے ، اس لئے تقاضا یہ ہے کہ خدا کی راہ میں دے کر ہمیں کیا ملتا ہے ؟ کیا طبعیت کا بخل دور ہوگیا ہے ؟ کیا دل میں خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے آمادگی کا احساس بڑھ گیا ہے یا کیا ؟ پھر فرمایا کہ تم دنیا میں تحائف وصول کرتے ہو تمہیں بھی چیزیں دی جاتی ہیں تمہاری خواہش یہ نہیں ہوتی کہ بہترین چیزیں تمہیں دی جائیں نقص اور نکمی چیز کو تم اپنے لئے ہرگز پسند نہیں کرتے پھر اللہ تعالیٰ کے لئے تم معمولی اور غیر ضروری اشیاء کیوں پسند کرتے ہو ؟ جس چیز کی تمہیں ضرورت نہیں ، اس کی اللہ تعالیٰ کو کیا حاجت ہے ؟ البقرة
268 افلاس کا ڈر : (ف ٢) جب خدا کی راہ میں خرچ کیجئے شیطان وسوسہ اندازی کرتا ہے اور کہتا ہے کیوں مال ضائع کرتے ہو ، اس طرح تو تم غریب ہوجاؤ گے ، البتہ اگر فضول خرچی اور اسراف کا سوال ہو یا برائی کی اعانت کا موقع ہو تو اس وقت شیطان کہتا ہے کہ دل کھول کر کیوں خرچ نہیں کرتے کیا چند روپے عزت وناموس کے لئے خرچ کردینے سے تم مفلس وقلاش ہوجاؤ گے ، مگر اللہ تعالیٰ کی جانب سے مغفرت وفضل کا وعدہ ہے ، وہ کہتا ہے کہ تم میری راہ میں خرچ کرو ، میں تمہارے مال ودولت میں برکت دوں گا ۔ میں تمہارے لئے رزق کے مواقع پیدا کروں گا جس قدر تم مجھے دو کے میں اس سے کہیں زیادہ دوں گا غرضیکہ شیطان افلاس پر آمادہ کرتا ہے اور خدا تعالیٰ فضل ودولت پر ، دیکھ لو وہ لوگ جو خدا کی سیدھی سادی شریعت پر چلتے ہیں عیش وکامرانی کے لطف اٹھاتے ہیں اور جو رسوم ورواج کے پیچھے دوڑتے ہیں تباہ و برباد ہوجاتے ہیں ۔ البقرة
269 حکمت اللہ کی نعمت ہے : (ف ١) اسراف وامساک میں فرق محسوس کرنا ، بخل وسخاوت میں تفاوت جاننا اور ہر برائی کے نقصانات اور نیکی کے فوائد کا علم رکھنا حکمت ہے پس وہ لوگ جو دنیا کی بےثباتی و بےوقعتی اور آخرت کی اہمیت وحرمت کو جانتے ہیں حکیم ہیں اور سمجھ دار ہیں اور وہ جو اپنی تگ ودو صرف دنیا تک محدود رکھتے ہیں بےوقوف ہیں ، کیونکہ عاجل کو صرف اس لئے ترجیح دیتا ہے کہ وہ نقد ہے اور آجل کو ترک کردینا کہ وہ نسیہ ہے بغیر یہ جاننے کے کہ دونوں میں کوئی نسبت ہی نہیں ‘ حماقت ہے ، قرآن حکیم حکمت کو پسند کرتا ہے ، اس کے مخاطب بھی سمجھ دار لوگ ہیں ، جو نفع ونقصان پر گہری نظر رکھتے ہیں ، بےپرواہ اور بےخوف انسان اپنے متعلق کچھ نہیں سوچ سکتا ، اس لئے اس سے کوئی توقع ہی نہیں رکھنی چاہئے ۔ قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ جسے یہ دانش عطا ہو ‘ وہ گویا دنیا کا بہترین نعمتوں سے بہرہ وار ہے اور وہ جو حکیمانہ مزاج نہیں رکھتا ، وہ اگر دنیا جہان کی چیزیں بھی رکھتا ہو تو حقیقی مسرت سے محروم ہے ، البقرة
270 البقرة
271 (ف ٢) ان آیات میں بتایا ہے کہ صدقات کا اظہار واعلان اگر نیک نیتی کے ساتھ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ، اسی طرح اگر اخفاء ریا کے ڈر سے ہو تو بہتر ہے اور یہ کہ اس سے تکفیریات ہوتی رہتی ہے یعنی جب ہم دوسروں کی ضروریات کو پورا کردیتا ہے اور ہمارے گناہوں پر خط عفو کھینچ دیتا ہے ، کتنی بڑی حوصلہ افزائی ہے ۔ حل لغات : الباب : جمع لب بمعنی عقل ۔ نذر : منت ماننا ۔ تبدوا مصدر ابدآء بمعنی اظہار ۔ البقرة
272 ہدایت خدا کے ہاتھ میں ہے : (ف ١) پیغمبر یا رسول کا کام صرف اعلان حق ہے ، ماننا نہ ماننا لوگوں کا اختیار ہے اس آیت میں اس حقیقت کی وضاحت کی گئی ہے کہ جب یہ توفیق صحیح سے محروم ہیں تو تیرے احاطہ اختیار سے باہر ہے کہ تو انہیں ہدایت دے دے ، راہنمائی وراسموئی تو فرائض نبوت میں ہے ، مگر شرح صدر اور توفیق یہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور یہ اس کو عطا ہوتی ہے جو اس کے حصول کی کوشش کرے ۔ (ف ٢) ان آیات کا مقصد یہ ہے کہ نیک نیتی کے ساتھ تمہارا ہر صدقہ قبول ہے اور تمہیں پورا پورا اجر دے گا ، چاہے وہ فعل موزوں پر خرچ ہوا ہے اور چاہے موزوں پر ، اس لئے کہ تمہارا مقصد بہرحال اصلاح ہے ، ممکن ہے تمہاری نیک نیتی کا اثر اس کے اعمال پر بھی پڑے اور وہ ان کاموں کو چھوڑ دے البتہ زکوۃ صرف مسلمانوں کا حصہ ہے ۔ اپنی طرف سے کوشش کرنی چاہئے کہ لفظ جو آئے ” لا یاکل طعامک وتقی “ عام صدقات سے مسلمانوں کی امانت ہے ۔ البقرة
273 (ف ٣) مستحق کون ہے ؟: ان آیات میں فقراء ومجاہدین کا ذکر ہے جو مجاہدانہ مشاغل کی وجہ سے کسب معاش سے محروم ہیں ، ان میں عفت اور پاس عزت اس قدر ہے کہ بظاہر غنی معلوم ہوتے ہیں ، مگر وہ ہیں اعانت کے مستحق ، فرمایا ان لوگوں کی بالخصوص اعانت کرو ، رسالتمآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں ایک گروہ اصحاب صفہ کا تھا جس کا کام صحبت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شرف استفادہ کرنا تھا وہ دن رات ارشاد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اکتساب ضوء میں مصروف رہتے اور ایک لمحہ غفلت ان کے نزدیک ناقابل تلافی محرومی کے حصول کا مترادف تھا وہ مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں رہتے ۔ ذرائع معاش کو برروئے کار لانے کے لئے ان کے پاس وقت ہی نہیں تھا ، ان لوگوں کے لئے عام مسلمانوں میں اعلان کیا کہ وہ انہیں اپنی امانتوں کا سب سے زیادہ مستحق سمجھیں ، مگر آیت کا عموم باوجود خصوص محل کے باقی ہے ، اس میں بتایا ہے کہ پیشہ ور گداگر جنہوں نے بھیک مانگنے کو ایک فن بنا لیا ہے اور وہ ہر طرح سے لوگوں کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ‘ وہ ہرگز اعانت کے مستحق نہیں ، اعانت کے مستحق وہ باوضع مجاہدین اور خدام دین ہیں جن کا کوئی ذریعہ معاش نہیں اور وہ رات دن خدمت دین میں مصروف ہیں ، قوم کو چاہئے کہ ان کی مدد کریں اور انہیں بےنیاز بنا دیں ، تاکہ وہ اپنا پورا وقت خدا کی راہ میں صرف کرسکیں ، اور پورے طریق پر دین کی خدمت بجا لا سکیں ، اسلام بھیک مانگنے کے حق میں نہیں ہے ، وہ کہتا ہے جو بھیک مانگتا ہے قیامت کے دن اس کا چہرہ بےرونق ہوگا اور محروم ہوگا ، اس لئے دنیا میں اس نے اپنی عزت کی پرواہ نہیں کی اور شرف انسانیت کی توہین کی ، اس لئے قیامت کے دن بالکل اس کے مساوی اور متبادل سزا دی جائے گی ، اس کا چہرہ بےآب اور زخم خوردہ ہوگا ۔ البقرة
274 (ف ١) امام المفسرین حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ اس سے مقصود ارباب خیل ہیں یعنی وہ لوگ جو جہاد کے لئے گھوڑے رکھتے ہیں اور دن رات ان کی خدمت کرتے ہیں ، تاکہ جہاد کے لئے تیار ہوجاتے ہیں ، حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ یہ آیت جناب عثمان (رض) اور عبدالرحمن بن عوف (رض) کے حق میں نازل ہوئی ، اس لئے کہ انہوں نے جیش عسرت کی تیاری میں مدد دی ، مگر آیت کا مفہوم عام ہے ، اس میں ایک تو یہ بتایا گیا ہے کہ وہ لوگ انفاق فی سبیل اللہ جن کی عادت ثانیہ ہوگیا ہے اور وہ مسلسل دن رات جب ضرورت محسوس ہو خرچ کرنے سے دریغ نہیں کرتے ، اللہ کی حقیقی نعمتوں کے سزاوار ہیں اور یہ کہ اعلان واخفاء دونوں حالتوں میں ان کے دل میں ریا ، و شہرت کے جذبات نہیں ہوتے ، بلکہ دو طریق ہیں ادا کے ‘ جسے حالات کے موافق تصور کرنے میں اختیار کرتے ہیں ، اس لئے یہ بحث کہ دونوں طریقوں میں سے افضل کونسا طریق ہے غیر ضروری ہے بعض لوگ اخفاء کی صورت میں بھی ریاکاری کا شکار ہوجاتے ہیں اور بعض اتنے مخلص ہوتے ہیں کہ اعلان میں بھی ان کا دل ملوث نہیں ہوتا ۔ اس لئے اپنی اپنی طبیعت اور موقع ومحل پرموقوف ہے کبھی اخفاء افضل ہے اور کبھی اعلان ۔ البقرة
275 سود خوار کی حالت نفسی : (ف ٢) انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب کے بعد سود کی حرمت کا ذکر کیا ، تاکہ معلوم ہو کہ سود خوری باہمی تعاون کے جذبے کو روک دیتی ہے اور سود خواری کے جواز کے معنی انسانی ہمدردی سے فقدان وضیاع کے ہیں ۔ ان آیات میں نہایت بلیغ انداز سے سود خوار کی حالت نفسی کی تشریح کی ہے کہ وہ اس طرح فنا فی المال رہتے ہیں جس طرح کوئی آسیب کی لپیٹ میں آگیا ہو ، ایک ہی دھن ہے اور ایک ہی خیال یعنی وہ حرص وآز کے اس درجہ پر پہنچ گئے ہیں کہ جہاں دماغی توازن برقرار نہیں رہتا ، گویا ان کا دماغ بجز سرمایہ کے کسی چیز پر غور کرنے کا اہل نہیں ، آپ دیکھیں گے قرآن کریم نے کس درجہ سچی تصویر پیش کی ہے ، سود خوار مہاجن اور یہودی صحیح معنوں میں مسرت وسعادت سے محروم رہتا ہے ، وہ گو دولت کے خزانے جمع کرلیتا ہے ، مگر طمانیت قلب جو صرف قناعت سے حاصل ہوتی ہے کھو بیٹھتا ہے ، وہ ہر وقت ایک سوچ اور فکر میں ڈوبا رہتا ہے ، اس کے لئے ” آسامی “ کا وجود ہی ایک معصیت رہ جاتا ہے ، وہ سوچتا رہتا ہے کہیں اسامی مر نہ جائے ، کہیں دیوالہ نہ نکال دے ، غریبوں کے خون میں ہاتھ رنگنا اس کے لئے بہترین مشغلہ ہے وہ دوسروں کے لئے روپیہ ضرور جمع کرجاتا ہے ، مگر اپنے لئے اس کے پاس سوائے کفاف وخساست اور کچھ نہیں ہوتا ۔ کیا یہ جنون نہیں ؟ سود اور تجارت : (ف ١) اور یہ خرابی اس لئے پیدا ہوئی کہ تجارت وسود میں جو فرق تھا وہ نظر انداز کردیا گیا ، خدا نے تجارت کی تو اجازت دی ہے مگر سود کو حرام قرار دیا ہے ، اس لئے کہ اس سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور انسان اپنے بہترین جوہر تعاون کو کھو دیتا ہے ۔ البقرة
276 یمحق اللہ الربوا : (ف ٢) اس آیت اک ایک سیدھا سادا مفہوم تو یہ ہے ربو یا سود میں برکت نہیں ہوتی اور صدقات میں خدا اضافہ ونمود کی استعداد پیدا کردیتا ہے یعنی سود خوار کا مال بالآخر برباد ہوتا ہے ، اس کی نالائق اولاد اہل اور عیاش ہوجاتی ہے ، جس سے مال ودولت جو محنت سے جمع کیا جاتا ہے ، سرعت سے برباد ہوجاتا ہے ، بخلاف مرد مومن کے جو اپنا منتہائے نظر بلند اور وسیع رکھتا ہے ، اس کے مال میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اس کی اولاد صالح ہوتی ہے ، وہ دیکھتی ہے ہمارا والد کس درجہ اصالح تھا ، وہ اس کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتی ہے ، اس لئے کہ ان کا باپ ان کے لئے ایک بہترین اسوہ حیات چھوڑ کر مرتا ہے ، وہ مال ودولت کے ڈھیر گو اولاد کو سونپ کر نہیں جاتا ، مگر اخلاق وسادات کا متاع گرانمایہ وہ ضرور اولاد کے ہاتھوں میں دے جاتا ہے جس سے وہ اپنی زندگی سنوار لیتے ہیں ، اس سے زیادہ برکت وسعادت اور کیا ہوسکتی ہے ؟ دوسرا مفہوم ذرا زیادہ دقیق ہے اور وہ یہ ہے کہ سود سے اصل سرمایہ میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا اور قوم کے لئے یہ خسران مبین کا باعث ہوتا ہے ، اقتصادیات کا یہ اصول ہے کہ دولت میں اس وقت اضافہ ہوتا ہے ، جب اسے زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے ، اور سود سے روپیہ بجائے پھیلنے کے چند ہاتھوں میں سمٹ کے رہ جاتا ہے ، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قوم کی تمدنی ترقی رک جاتی ہے ، بخلاف اس کے اگر تعاونی جذبات کی ترقی ہو ، روپیہ محدود ہاتھوں میں نہ رہے اور پھیلتا رہے تو قوم کے سرمایہ میں اضافہ ہوگا ۔ دیکھئے قرآن حکیم نے کس خوب صورتی سے سرمایہ کے مسئلہ کو آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے حل کردیا ہے ، (آیت) ” فھل من مدکر “۔ حل لغات : سلف : گزر چکا ۔ یمحق : مٹاتا ۔ یربی : بڑھانا ۔ البقرة
277 البقرة
278 البقرة
279 سود خوار سے اعلان جنگ : (ف ١) ان آیات میں بتایا ہے کہ مسلمان تحریم سے پیشتر کے سودی معاہدات توڑ دیں اور اصل مال لے لینے پر اکتفا کریں ، ورنہ خدا سے اعلان جنگ ہے ، سود خوار قومیں صحیح مذہبی روح سے قطعا خالی ہوتی ہیں ، یہودیوں کی ساری تاریخ سامنے ہے کیا کبھی انہوں نے ایثار وقربانی سے کام لیا ہے ؟ یہ حقیقت ہے کہ سرمایہ کی محبت اور خدا کی محبت ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتی ۔ البقرة
280 رحم دل مسلمان : (ف ٢) اس سے پہلے کی آیت میں اصل مال لینے کی اجازت دی تھی اور فرمایا تھا کہ (آیت) ” لا تظلمون ولا تظلمون “ یعنی مسلمان نہ تو بحیثیت ظالم کے اللہ کو پسند ہے اور نہ بحیثیت مظلوم کے ، نہ تو وہ اپنا نقصان کرے ‘ نہ دوسرے کا ، یعنی جس طرح ظالم بننا اور سود لینا گناہ ہے ‘ بالکل اس کے متوازی سود دینا گناہ ہے ، کیونکہ مسلمان کو عادل اور ایک بہترین نمونہ بنا کر بھیجا گیا ہے ، اس کی زندگی کا مقصد دوسروں سے کہیں بلند ہے ، وہ اس لئے دنیا میں آیا ہے کہ خیر محض کا درس دے اور اپنے اعمال سے دوسروں کے لئے ایک ممتاز شاہراہ قائم کرے ، یہی وجہ ہے کہ اسے معاملات میں نہایت صالح رہنے کی تعلیم دی گئی ہے اور اسے کہا گیا ہے کہ حسن معاملہ بھی نصف دین ہے ، اس آیت میں فرمایا کہ اگر روس اموال واپس میں کرنے میں انہیں دقت ہو تو تم فراغت وکشائش تک انتظار کرو ۔ یعنی اسے موقع دو کہ وہ بآسانی قرض اتار دے ، مقروض کو تنگ کرنا مسلمان کے بلند اخلاق کے منافی ہے اور معاف کردینا تو بہت زیادہ بہتر ہے ، (آیت) ” ان کنتم تعلمون “۔ میں اشارہ ہے اس روحانی لذت کی طرف جو معاف کردینے کے بعد مسلمان کو حاصل ہوتی ہے اور اس اجر عظیم کی طرف جس کا وہ مستحق ہوجاتا ہے ۔ اس آیت میں جس رحم دل مگر سرمایہ دار مسلمان کا تخیل خدا نے پیش کیا ہے وہ دنیا کے لئے درجہ عافیت پسند اور مفید ہو سکتا ہے کیا ان ہدایات کے بعد بھی کسی دوسری تعلیم کی ضرورت باقی رہتی ہے ۔ حل لغات : رء وس اموالکم : اصل مال ۔ ذوعسرۃ : تنگ دست ۔ میسرۃ : فراغت ۔ البقرة
281 البقرة
282 حساب میں باقاعدگی : (ف ١) قرآن حکیم ایک ایسا مکمل دستور العمل ہے کہ اس کی ہدایات ہر طرح ضروریات انسانی کے لئے کفیل ہیں ، اس میں معاملات کی جزئیات تک جو ضروری ہیں ۔ مکمل ومفصل بیان کردی گئی ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اس پر کوئی عمل کرے ‘ فائدہ اٹھائے ، یہ دودھ ہے خالص ‘ جو پئے گا ، قوت وتوانائی کرے گا ۔ عام طور پر مسلمان کے متعلق خیال یہ ہے کہ وہ روزانہ معاملات میں نہایت بےضابطہ ہوتا ہے اور اس بےضابطی کی وجہ سے اکچر نقصان بھی اٹھاتا ہے ، اخیار اس کی سادگی اور سادہ لوحی سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اسے دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں ، مگر یہ ہے کہ کبھی قرآن حکیم اٹھا کر نہیں دیکھتا کہ اس نسخہ کیمیا میں اس کے لئے کیا کیا قیمتی پندونصائح درج ہیں اور یہ کہ قرآن حکیم کے اوراق میں اس کو کس قسم کا مسلمان بننے کی ہدایت کی گئی ہے ، قرآن حکیم جس نوع کا مسلمان پیش کرتا ہے ‘ اور نہایت دانا ‘ یرک اور محتاط ہے ، وہ بذریعہ غایت باضابطہ اور بااصول ہے ، وہ کبھی دوسروں کو دھوکا نہیں دیتا اور نہ خود دھوکا کھاتا ہے اس کا حساب متعین اور صاف ہوتا ہے ، وہ کبھی بےاصولی بات نہیں کہتا چنانچہ اسے مندرجہ ذیل ہدایات پر عمل پیرا ہونا پڑتا ہے : ۔ ١۔ لین دین کے معاملہ میں باقاعدہ حساب رکھے ۔ ٢۔ کاتب یعنی لکھنے والا عدل وانصاف سے کام لے اور فریقین میں سے کسی کو بھی گھاٹے میں رکھنے کی کوشش نہ کرے ۔ ٣۔ دستاویز کی عبارت وہ لکھائے جو لے رہا ہے ، کیونکہ جھگڑے کے وقت اسی کی شہادت معتبر ہوگی ۔ ٤۔ اگر خود معاملہ فہم نہ ہو تو اس کے ولی لکھائیں ، مگر ایمان اور دیانت کا خیال رہے ۔ ٥۔ دو گواہ ہوں مرد ، اگر دو مرد میسر نہ ہوں تو پھر ایک مرد اور دو عورتیں ہوں ، تاکہ اگر ایک کو بھول جائے تو دوسری یاد دلا دے ۔ مرد افضل ہے یا عورت ؟ (ف ٢) اسلام نے عورت کے درجہ ومنصب کی تعیین میں کوئی مبالغہ نہیں کیا ، اس کے نزدیک عورت ہر اس اعزاز کی مستحق ہے جو مردوں کا حصہ ہے ، اس کے نزدیک دونوں کے دائرہ حیات الگ الگ ہیں ، دونوں ایک دوسرے کے محتاج ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے رفیق ، وہ نفس وروح کے لحاظ سے دونوں میں سے کسی کو بھی فضیلت نہیں دیتا ۔ البتہ وہ کہتا ہے ، مرد بعض ذمہ داریوں کی وجہ سے قوام ہے اور عورت نہیں ، مرد عقل وفرزانگی میں عورت سے آگے ہے اور عورت جذبات وخواطر میں ۔ اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس پر جدید علمائے نفسیات وتشریح کا کلی اتفاق ہے ، ایک مرد کا بھیجا ایک عورت کے بھیجے سے زیادہ وزنی ہوتا ہے ۔ ہاں وہ یہ کہتے کہ عورت کو بھی اگر مرد کی طرح آزاد کردیا جائے تو وہ ایک صدی کے بعد مرد کے برابر عقل مند ہوجائے گی اور جذبات اس میں کم ہوتے جائیں گے ، مگر سوال یہ ہے کہ آزادی کے بعد عورت اپنی دوسری نسوانی خصوصیات کھو بیٹھے گی اور جب تک اس کا بھیجا مرد کے برابر ہو ، مجلس کا سارا نظام درہم برہم ہوجائے گا ، اس لئے ضروری ہے کہ اسے فطرت کی حدود کے اندر رکھا جائے ، خدا جانے ان لوگوں کس نے بتا دیا ہے کہ تنہا عقل وفرزانگی معیار فضیلت ہے جس کے لئے تمام دوسری خوبصورتیوں کو قربان کردیا جائے ، کیا پاکیزہ جذبات کی اتنی بھی ضرورت نہیں ، جتنی کہ عقل کی ، کیا خشک پروفیسری اور معلمی کے سلیقے سے بچوں کی تربیت کے جذبات زیادہ قابل قدر نہیں ؟ کیا ماں بننا لائق فخر نہیں ؟ کیا بیوی ہونا سہل ہے ؟ یعنی ان جذبات سے جو فطرت انسان کا لاریب حسن ہیں ، قطع نظر کی جا سکتی ہے ؟ یہ ٹھیک ہے عقل وتجربہ میں مرد بڑھا ہوا ہے ، مگر دنیا کی مسرتوں میں اضافہ کرنے میں عورت برابر کی شریک نہیں ؟ مرد صرف اس لئے اچھا پڑتا ہے کہ وہ عورت سے زیادہ عقل مند ہے اور عورت یہ سن کر ملول ہوجاتی ہے کہ وہ عقلی لحاظ سے مرد سے بالمعموم پیچھے ہے ، حالانکہ اس سے علاوہ بھی وجہ فضیلت تلاش کی جا سکتی ہیں ، اور اس کا فیصلہ کرنا سخت دشوار ہے کہ دنیا کو عقل کی ضرورت زیادہ ہے یا جذبہ کی ، اور جب تک اس کا فیصلہ نہ کرلیا جائے ، مرد کو کفی افضل قرار دینا مشکل ہے ۔ اسلام جو فطرت کا دوسرا نام ہے ‘ وہ کسی طرح بھی دونوں کو دھوکا میں نہیں رکھنا چاہتا ، وہ صاف صاف بتا دیتا ہے کہ مرد اور عورت میں کیا فرق ہے اور معاملات میں ان کو کیا درجہ دیا جائے ؟ اس آیت میں ایک مرد کے مقابلہ میں دو عورتوں کو رکھا ہے ، اس لئے کہ یہاں سوال بالکل برابری کا نہیں ‘ معاملات کا ہے اور عورتیں معاملات میں زیادہ ہشیار نہیں ہوتیں ، ان کے دوسرے مشاغل انہیں ان جھنجٹوں میں پھنسنے کی اجازت نہیں دیتے ، اس لئے شہادت میں بجائے ایک عورت کے دو کو رکھا ، تاکہ اگر ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے ، کتنا صحیح اور فطری فیصلہ ہے ۔ ان آیات میں بتایا ہے کہ مسلمان نہایت محتاط اور باضابطہ ہے چھوٹے سے چھوٹے معاملہ میں بھی تساہل نہ کرے اور لکھ لے ، اس سے آئندہ جھگڑے کا امکان نہیں ہے ، البتہ اگر لین میں قرض وسودا سلف کا ذکر نہیں تو نہ لکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ (ف ٣) گواہوں کو اور لکھنے والوں کو بےایمانی اور تخریف پر مجبور نہ کیا جائے ، کیونکہ ایسا کرنا خود فسق میں مبتلا ہونا ہے ۔ (آیت) ” واتقوا اللہ “۔ کے معنی یہ ہیں کہ معاملات میں صفائی اور پاکیزگی ہی اتقاء ہے اور وہ لوگ جو دینداری کا مفہوم یہ سمجھتے ہیں کہ ظواہر کو ادا کریں اور معاملات کی پرواہ نہ کریں ‘ وہ غلطی پر ہیں ۔ حل لغات : تداینتم : مصدر تداین ، قرض لینا دینا ۔ اشتقاق دین سے بمعنی قرض ۔ یملل : مصدر اضلال ، لکھانا ۔ قسئموا : مادہ سامۃ اکتا جانا ۔ اقسط : مادہ قسط زیادہ قرین انصاف ۔ اقوم : زیادہ درست ۔ البقرة
283 (ف ٢) ان آیات میں رہن کی اجازت دی ہے ، اس لئے ناواقفی کے وقت اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں ۔ البتہ یہ ہدایت کی ہے کہ اگر یونہی اعتبار پر کوئی شخص قرض دے دے تو مدیون کو چاہئے کہ اس کے حسن سلوک کا خیال رکھے اور اس کی پائی پائی چکا دے ۔ اس کے بعد عام ہدایت ہے کہ کتمان شہادت اسلام میں درست وجائز نہیں کیونکہ اس سے باہمی اعتماد اٹھ جاتا ہے ۔ حل لغات : اثم : مصدر اثم ، مجرم ۔ اثم : بمعنی گناہ ۔ البقرة
284 محاسبہ نفس : (ف ١) اس سے پہلے کی آیات میں کتمان شہادت سے منع فرمایا اور بتایا کہ ہر دھوکے اور فریب سے بچو ، اس آیت میں اعلان کیا ہے کہ دوسروں کے متعلق برے خیالات رکھنا بھی موجب گناہ ہے یعنی مسلمان کو اعمال وجوارح سے لے کر قلب وخیال کی گہرائیوں تک پاکیزہ ہونا چاہئے ، مطلب صاف اور واضح ہے مگر چونکہ اس کے بعد ہی (آیت) ” لا یکلف اللہ نفس الا وسعھا “ کی آیت ہے یعنی خدا تکلیف مالایطاق نہیں دیتا ، اور حدیث میں آتا ہے کہ ” ان اللہ غفر لھذہ الامۃ ما حدثت بہ انفسھم “۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اس امت پر فضل کیا ہے کہ وساوس کو قابل عضو ٹھہرایا ہے ، اس لئے شبہ پیدا ہوا کہ پھر نفس کے خیالات وافکار پر محاسبہ کیسا ؟ بعض نے اس کی تاویل یہ فرمائی کہ اس سے مراد کتمان شہادت ہے بعض نے فرمایا ، اس کا مقصد کفر ونفاق کا خیال ہے ، کہا یہ منسوخ ہے آیت ما بعد سے مگر اگر غور کیا جائے اور خیال وفکر کے نتائج پر نظر معان نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ ایک حقیقت نفسی ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہے اور کسی آیت وحدیث سے معنا اس کا تصادم نہیں ہوتا ، اس لئے تخصیص اور تنسیخ کا سوال ہی غلط ہے ، دماغ وقلب میں جتنے خیالات وجذبات پیدا ہوتے ہیں ان کا اثر ہوتا ہے جو بعض دفعہ نہایت لطیف وکمزور ہونے کی وجہ سے جوارح تک منتقل نہیں ہوتا ، اور نفس کی اگر تحلیل کی جائے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ خیالات وافکار میں محاسبہ کا عمل کار فرما ہے ، چھوٹے سے چھوٹا خیال جو برا ہو ‘ وہ بلا ذہنی تعزیر کے نہیں رہتا ، اسی طرح اچھا خیال وجذبہ ذہن کے لئے باعث مسرت ہوتا ہے ، کیا یہ حقیقت نہیں کہ تمام برے اعمال برے خیالات کا نتیجہ ہوتے ہیں اور کیا برائی برے خیال کی عملی سزا نہیں ؟ اس آیت میں اسی نفسیاتی اصول محاسبہ کو بیان فرمایا ہے اور مقصد یہ ہے کہ مسلمان جذبہ تاثر کے لحاظ سے بھی بہترین انسان ثابت ہو ۔ حدیث وآیت ما بعد کا تعلق اس نفس محاسبہ سے نہیں ، بلکہ اس محاسبہ سے ہے تو قضا یا خارج سے تعلق رکھتا ہے یعنی کسی چور کو محض اس لئے سزا نہیں دی جائے گی کہ اس کے دل میں چوری کے خیالات ہیں ، بلکہ اس وقت وہ سزا کا مستحق ہوگا ، جب یہ خیالات اسے چوری کے لئے مجبور کردیں ، البتہ خدا کے نزدیک اسے پاکیزہ دماغ اور پاکیزہ نفس انسان نہیں کہا جا سکے گا اور ایسے انسان میں جس کے دل میں چوری کا کوئی خیال نہیں ، یقینا زیادہ فضیلت ہے ۔ البقرة
285 (ف ٢) ان آیات میں بتایا ہے کہ ان حقائق پر جو اس سورۃ میں بیان کئے گئے ہیں ، سب ایمان رکھتے ہیں اور مسلمان حق وصداقت کا اس درجہ شیدائی ہے کہ بلاتفریق احد دوسرے ہر پیغمبر کو ماننا ہے ، اس کا شیوہ انکار وتمرد نہیں ، سمع واطاعت ہے ، وہ ہر وقت خدا کی بخشش ورحمت کا جویاں رہتا ہے اور حق کے قبول کرنے میں کوئی تعصب اس کے حائل نہیں ہوتا ۔ حل لغات : المصیر : انجام ۔ البقرة
286 (ف ١) ان آیات میں مسلمانوں کو ایک نہایت ہی عجیب دعا سکھائی گئی ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ مسلمان ان تمام گمراہیوں اور لغزشوں سے بچے جن کی وجہ سے پہلی قومیں ہلاک ہوئیں یعنی وہ خطاء نسیان سے بچے ، خواہ مخواہ تعمق کی وجہ سے مصائب کے بوجھ کر اپنے سر پر نہ لاوے جیسے پہلی قوموں نے کیا اور ہر وقت اللہ تعالیٰ سے نصرت وعفو کا طالب رہے اور کوشش کرے کہ طاقت وقوت میں کفر اس سے بازی نہ لے جائے ۔ البقرة
0 ال عمران : یہ سورۃ قرآن حکیم کی تیسری سورۃ ہے ، مدینہ میں ٩ ھ ؁ میں نازل ہوئی ، اس میں وفد نجران کے عقائد ومعترضات سے بحث کی ہے عام طور پر اس کے مخاطب عیسائی ہیں ۔ آل عمران
1 آل عمران
2 (ف ٢) ان آیات میں بتایا ہے کہ خدائے واحد کے سوا کوئی عبادت ونیاز کا مستحق نہیں ، سارے سجدے اور تمام عبادتیں اسی کو زیبا ہیں ، اس لئے کہ زندہ اور قیوم خدا وہی ہے ، اس کے سوا سب فنا کے گھاٹ اترنے والے ہیں ، سب فانی اور حادث ہیں سب احاطہ امکان کے اندر ہیں اور سب ایسے ہیں جو اس کی عبادت کرنا باعث فخر ومباحات سمجھتے ہیں ، سب کا وظیفہ زندگی اس کی پرستش کرنا اور تسبیح و تقدیس کے مشغلوں میں مست رہنا ہے ، آل عمران
3 قرآن مصدق ہے : (ف ٣) نزول قرآن کے وقت متعدد صحائف موجود تھے جن کے متعلق خیال تھا کہ یہ الہامی ہیں ، قرآن حکیم جب نازل ہوا ہے طبعا یہ سوال اٹھا کہ قرآن کریم کی حیثیت کیا ہے ؟ فرمایا کہ یہ پہلی تمام کتابوں کا جو خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہیں ‘ مصدق ہے ۔ تصدیق کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ جس قدر سچائیاں اور صداقتیں پہلے موجود ہیں ، قرآن حکیم ان کا بکمال وسعت قلبی اعتراف کرتا ہے مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ توریت وانجیل کو بالکل تخریف ونصیحت سے مبرا مانتا ہے تصدیق صحیح اور درست کتاب کی ہے نہ اغلاط وتخریفات کی ، جیسا کہ قرآن حکیم کے دوسرے مواضع سے صاف ظاہر ہے ، وہ باوجود تصدیق کے ان کے غلط عقائد پر انہیں متنبہ کرتا ہے اور سختی کے ساتھ ٹوکتا ہے اور برملا کہتا ہے کہ (آیت) ” لقد کفرالذین قالوا ان اللہ ثالث ثلثۃ “۔ یعنی جہاں تک پیغام کی روح اور مغز کا تعلق ہے ۔ وہ ہمیشہ ایک ہی رہا ہے ، اس میں کبھی کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی اسی وجہ سے ہر الہامی کتاب کا فرض ہے کہ اس روح و رانحہ کی تائید کرے ۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ توراۃ وانجیل کے انجیل کے نزول کے بعد بھی روح انسانی تشنہ فیض تھی کہ وہ حسب وعدہ ایک مکمل شریعت سے بہرہ ور ہو ، یہ تشنگی اور ضرورت مسیح (علیہ السلام) کے ان الفاظ سے واضح ہے کہ ” دیکھو دنیا کا سردار آتا ہے “ ۔ اور یہ کہ ” میں بعض چیزیں تمہیں نہیں بتلاتا ، مگر وہ روح تمہیں سب کچھ بتائے گی ، موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تھا کہ اللہ کا فرمان ہے کہ میں تیرے بھائیوں میں سے تجھ جیسا ایک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نازل کروں گا ، حضرت داؤد (علیہ السلام) اپنی ایک زبور میں اس سرخ وسفید شاہ عرب کے انتظار میں عزل سرا ہیں ۔ دانیال (علیہ السلام) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک مکاشفے میں دیکھتے ہیں اور یسعیاہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کتاب میں اس قدوسی کی تعریف ہے ‘ جس کے ہاتھ میں آتشین شریعت ہے اور جس کی فتوحات روحانی سمندروں تک پھیل جائیں گی ، قرآن حکیم کہتا ہے میں مصدق ہوں ، یعنی ان تمام وعدوں ، امیدوں اور تمناؤں کو پورا کرنے کے لئے آیا ہوں ۔ تصدیق کا لفظ ان معنوں میں ادبیات عربی میں بکثرت مستعمل ہے ۔ ایک شاعر چند شاہسواروں کے متعلق کہتا ہے ۔ ع فوارس صدقت فیھم ظنونی : یعنی ان لوگوں نے میری تمام امیدوں کو پورا کردیا ۔ حل لغات : اصرا : بوجھ ۔ مولی : کارساز ۔ آل عمران
4 آل عمران
5 آل عمران
6 (ف ١) (آیت) ” المصور “۔ خدا تعالیٰ کی لاتعداد صفات ہیں ، ان میں سے ایک صفت مصور بھی ہے ، یعنی کائنات کو ایک موزون شکل میں پیدا کرنے والا ہے ، انسان ہی کو دیکھ لیجئے ، احسن تقویم کا کتنا اچھا مرقع ہے ۔ الہام روحی کے سیاق میں اس کا ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے ، ہم مذہب کی اہمیت کو پورا محسوس کریں ، اور جانیں کہ تعلق اللہ کے سوا عالم انسانیت کی جو شکل بھی ہوگی ، وہ غیر فطری اور بھونڈی ہوگی ، وہ خدا جو ہمیں مادی صورت میں پیدا کرتا ہے وہ چاہتا ہے ، ہماری روح کی تشکیل بھی ایک خاص ڈھب پر ہو ، اللہ کے پیغمبر ‘ اس کی کتابیں ‘ ان سب کا مقصد انسانیت کی مصوری ہے یعنی انسان کو جسم وروح کے لحاظ سے خوبصورت بنایا ۔ حل لغات : محکمت : واضح ، حکیمانہ اور قابل تاویل آیات ۔ متشابھات : محل تاویل وتفسیر ۔ متشابہات : آل عمران
7 متشابہات : (ف ٢) قرآن حکیم کی تقسیم محکمات ومتشابہات میں دائر ہے ، وہ لوگ جن کے دل نور ہدایت سے مستتیز ہیں ‘ اس تقسیم کو قدرتی اور طبعی خیال کرتے ہیں ، مگر وہ لوگ جن کا مقصد راہ راست سے بھٹک جانا ہے ، وہ محکمات کو جو اساس دین میں چھوڑ دیتے ہیں اور متشابہات جو محض برسبیل استطرادوتوثیق کے لئے بیان کی گئی ہیں ، وجہ نزاع ومخاصمت بنا لیتے ہیں اور گمراہ ہوجاتے ہیں ۔ قرآن حکیم میں عقائد سے لے کر معاشرت کے ادنی سے ادنی مسائل تک سب کو بیان کیا گیا ہے اور پھر ایک ایک مطلب ومقصد کو متعدد وسائل اور اسالیب بیان سے ادا کیا گیا ہے کبھی تشبیہ سے کام لیا جاتا ہے اور کبھی استعارے سے کبھی حقیقت جلوہ آرا ہے اور کبھی مجاز اور پھر ہر طریق ادا میں ظاہر ہے کچھ اختلاف بھی ہے اور یہی نوع بلاغت کی جان ہے ، مگر بایں ہمہ اس اختلاف وتنوع کے ایک وحدت جھلک رہی ہے اور ایک مخصوص رنگ یکساں نمایاں ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قرآن حکیم کے سامنے کچھ چیزیں بطور اساس ومرکز کے ہیں اور کچھ ایسی ہیں جن کا مرتبہ توثیق وتوقیع کے سوا اور کچھ نہیں ، اب چاہیے تو یہ کہ قرآن فہمی کے لئے ان اساسی ومرکزی عقائد کو سامنے رکھا جائے اور دوسری آیات کو توضیح وتشریح کے لئے سمجھا جائے ، حقیقت کو مجاز پر قربان نہ کیا جائے اور وہ چیز جو واشگاف طور پر کہی گئی ہے اسے اصل قرار دیا جائے اور جو استعارے کے رنگ میں ادا کی گئی ہے ‘ اسے اس کی تائید کے لئے استعمال کیا جائے ، مگر اہل زیغ والحاد جن کے دل بصیرت سے محروم ہیں ‘ ہمیشہ الٹا چلتے ہیں ، وہ حقائق کو چھوڑ کر اساسی مرکز سے قطع نظر کر کے چند عقیدے از خود تراش لیتے ہیں اور پھر اس کے بعد آیات تلاش کرتے ہیں جو ان کی تائید کریں ۔ قرآن حکیم ہی کی یہ خصوصیت نہیں ، ہر کلام بلیغ میں یہ تنوع موجود ہوتا ہے ، صاحب فہم وبصیرت حضرات یہ دیکھتے ہیں کہ کیا اس تنوع میں کسی وحدت کو ڈھونڈا جا سکتا ہے ؟ اور وہ جو مخالف ہوتے ہیں وہ اس تنوع کو رفتار پر محمول کرتے ہیں ۔ اور اصل شے سے بالکل الگ ایک مفہوم تراش لیتے ہیں ۔ ہر فرقہ جو گمراہ ہوتا ہے وہ اسی سبب سے کہ محکمات ومتشابہات میں فرق وامتیاز اٹھا دیتا ہے ، مثلا عیسائی کیوں تثلیث کی طرف مائل ہوئے ؟ اس لئے کہ جب وہ یونانی عقائد ذمیمہ سے دوچار ہوئے اور متاثر ہوئے تو انہوں نے انجیل سے اس بت پرستانہ عقیدہ کو استنباط کرنا چاہا ، انہوں نے دیکھا کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے لئے ” ابن اللہ “ کا لفظ اکثر استعمال کیا گیا ہے اور یہ کہ خدا اپنے لئے اکثر متکلم مع الغیر کا صیغہ استعمال کرتا ہے ۔ لہذا وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ تثلیت ایک درست اور صحیح عقیدہ ہے ، حالانکہ یہ صحیح نہیں ، اگر وہ مرکز واساس کو ہاتھ سے نہ دیتے اور حقیقت ومجاز میں فرق وامتیاز قائم رکھتے تو ایسی خطرناک ٹھوکر ہرگز نہ کھاتے ۔ ” ابن اللہ “ بطور مجاز کے مستعمل ہوا ہے جس کے معنی محبوب وپیارے کے ہیں ۔ انجیل اور دیگر کتب سماویہ کی مرکزی تعلیم توحید ہی ہے ، انجیل میں صاف لکھا ہے کہ کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خدا ، توریت میں بار بار یہودیوں کو بت پرستی پر ٹوکا گیا ہے ۔ غرضیکہ قرآن حکیم جو کفر وزندقہ کے تمام احتمالات کو بیان فرماتا ہے ، یہ کہتا ہے کہ فتنہ وتاویل کے لئے قرآن حکیم کی ورق گردانی نہ کرو عمل و ایمان کے لئے قرآن حکیم محکمات وبینات سے معمور ہے ، متشابہات اور قابل تاویل واحتمال آیات کو انہیں بینات پر ڈھالنے کی کوشش کرو اور کہو کہ (آیت) ” کل من عند ربنا “۔ اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ ہمارے دل میں زیغ والحاد کی آلودگیاں پیدا نہ ہوں اور یہ کہ ہم قرآن حکیم پر عمل کرنے کی وجہ سے اس کی رحمتوں کے سزاوار اور مستحق ہوں ۔ حل لغات : الراسخون فی العلم : علم میں کامل دستگاہ رکھنے والے ۔ آل عمران
8 آل عمران
9 آل عمران
10 آل عمران
11 (ف ١) ان آیات میں یہ بتایا ہے کہ کذب وافترا کی آخری حد عذاب الہی ہے ، وہ لوگ جو اب تک اسلام کے پیغام صداقت شعار کا انکار کرتے چلے آرہے ہیں ‘ وہ متنبہ رہیں کہ ان کا مال ودولت انہیں ہرگز اللہ کی پکڑ سے نہ بچا سکے گا ، یہ خدا کا قانون ہے ‘ اس کی سنت ہے وہ نافرمانوں کو ہمیشہ سخت سزائیں دیتا رہا ہے ۔ دیکھ لو فرعون کس جاہ وحشم اور کس ٹھاٹھ سے رہتا تھا ، مگر ضرب موسوی کی تاب نہ لا سکا اور بنی اسرائیل کے سامنے دریا میں ڈوب گیا ۔ آل عمران
12 ایمان کی فتح اور کفر کی شکست : (ف ٢) (آیت) ” قل للذین کفروا ستغلبون “ میں یہود کو مخاطب کرکے فرمایا گیا کہ تم عنقریب مسلمانوں کے غلبہ واقتدار کے قائل ہو جاؤگے ، تمہیں تمہاری بستیوں سے نکال دیا جائے گا اور تمہارے باغات ویران کر دئے جائیں گے ، یہ اس لئے یہود کو اپنے مال ودولت پر بہت نازل تھا اور وہ قوت وعظمت کے نشہ میں سرشار تھے ، ضرورت تھی کہ انہیں خواب غفلت سے بیدار کیا جائے ، ضمنا اس آیت میں کفر کی دائمی مغلوبیت کی طرف اشارہ کردیا ، یعنی علو واقتدار ‘ بلندی وقوت صرف ایمان کے حصہ میں آئی ہے ، کفر ہمیشہ ہمیشہ پست اور ذلیل رہے گا ، چنانچہ ان کے سامنے بدر کا نقشہ رکھا ۔ مسلمان کل تین سوتیرہ تھے ، ستر اونٹ ‘ دو گھوڑے ‘ سات زرہیں اور آٹھ تلواریں زاد حرب سمجھئے ، دوسری طرف کفار کا لشکر جرار پوری تیاری کے ساتھ صف آراء تھا ، جس کے تمام سرداروں نے اس فراغ دلی اور فیاضی کے ساتھ حصہ لیا تھا ، فخر وغرور تکبر وتمکنت اور قوت وکثرت کا یہ طوفان مسلمانوں کو ” مشت غبار “ کی طرح منتشر کردینا چاہتا تھا ، کفر وضلالت کے تاریک اور سیاہ بادل آمادہ تھے کہ خرمن ایمان وبصیرت پر بجلیاں گرائیں ، کفر و ایمان کی یہ پہلی اور خطرناک سازش تھی ، ایمان کی بےبضاعتی اور باب کفر کے لیے باعث صد خندہ تھی شیطان ہنس رہا تھا ، اور خوش تھا کہ اللہ والے آج مٹنے کو ہیں ، مگر رب ذوانتقام کی ظاہر فوجیں مسلمانوں کے ساتھ تھیں ، تائیدغیبی نے ان کے دلوں کو فولاد بنا دیا ، وہ لڑے اور اس بےجگری کے ساتھ کہ کفر بایں کثرت وحشمت بری طرح ذلیل اور رسوا ہوا ، ایمان ہمیشہ کے لئے سربلند ہوگیا اور کفر سرنگوں ، کیا یہ واقعہ اس بات کی دلیل نہیں کہ ایمان بجائے خود فاتح ومنصور ہے اور کفر مغلوب ومقہور ۔ آل عمران
13 آل عمران
14 ذلت کے اسباب : (ف ١) یہ مژدہ ایمان پرور سننے کے بعد کہ مسلمان ہمیشہ مظفر وکامران رہتا ہے ، سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر کون سی چیزیں مسلمان کو ذلت وپستی کی طرف کھینچ لے جاتی ہیں ، اور وہ کیوں بعض حالات میں اپنے اصلی مقام رفعت وعظمت کو چھوڑ کر قفل وتعبد کی گرانبار زنجیروں کو زینت غلو بنا لیتا ہے ، قرآن حکیم کی زبان میں اس کا سبب ایک اور صرف ایک ہے ، یعنی خواہشات نفس کا ضرورت سے زیادہ احترام ۔ مسلمان خار زار دنیا میں بھیجا گیا ہے ، تاکہ آبلہ پائی کی تمام کی تمام مصیبتوں کو وہ برداشت کرے ، کانٹے کانٹے سے الجھے ، مگر دامن ایمان کو صاف بچا لے جائے ، وہ دنیا کی ہر لذت سے استفادہ کرے مگر جائز حد تک ، وہ عدل ومساوات اور ضبط ونظم کا محسوس پیکر بنے مسلمان کی زندگی جب عیش وعشرت کا رنگ اختیار کرے ، بیوی اور بچے جب اس کی تمام توجہات کو اپنی طرف جذب کرلیں ، سونے چاندی کا ڈھیر اس کا مقصد ٹھہریں اور خیل وحشم اس کا منہائے نظر کھیت اور باغات سے آگے اس کی جولانیاں نہ ہوں تو سمجھ لیجئے کہ متاع غرور نے اس کے پاؤں پکڑ لئے ہیں اور اس کی نگاہیں پاور گل ہو کر رہ گئی ہیں ، اب حسن مآب سے قطعا بیگانہ ہوگیا ہے اور آخری زندگی کی شادکامیاں اس کی نظر سے اوجھل ہوگئی ہیں ، ہاں اگر وہ ان رنگین زنجیروں کو زیب گلو نہ بنائے تو پھر فتح وظفر صرف اسی کا حصہ ہے ۔ حسن الماب : (ف ٢) ان آیات میں بتایا ہے کہ مادی خواہشات سے زیادہ قابل قدر جنات نعیم کی نعمتیں اور اللہ کی رضا مندی ہے ، وہ لوگ جو متقی ہیں ، جن کی طبیعتیں ایمان وبصیرت کی طرف زیادہ مائل ہیں ، وہ جو بالا صالت صرف خدا اور خدا کے دین سے محبت رکھتے ہیں ، جو دنیا سے بلند و بالا ہو کر رہتے ہیں ، جنہیں دنیا کی دلفریبیاں اپنی طرف نہیں کھینچتیں وہ اس کے مستحق ہوتے ہیں ، ان کی زندگی دائمی مسلسل اور پہیم خوشیوں کا نام ہے ۔ حل لغات : شھوت : جمع شھوۃ ، خواہش ، طلب ۔ القناطیر : جمع قنطار ، ایک ہزار اوقیہ یا مال کثیر ۔ الخیل المسومۃ : خوبصورت اور شان دار گھوڑے ۔ آل عمران
15 آل عمران
16 آل عمران
17 اللہ کے بندے : (ف ١) اس سے پہلے کی آیت میں اللہ بندوں کے انعامات گنائے گئے تھے ۔ اس آیت میں یہ بتایا کہ اللہ کے بندے کون ہیں ؟ وہ مومن جنہیں احساس گناہ ہر وقت طلب مغفرت پر مجبور کرتا رہے ، وہ جو صابر ہوں یعنی صبر علی الطاعات ہو ، صبر علی المحارم ہو ، تکلیفوں پر برداشت کی قوت رکھتے ہوں ، باطل کا مقابلہ کرنے کے لئے آمادہ ہوں ، یہ سب چیزیں صبر کے مفہوم میں داخل ہیں ، وہ جو صادق ہوں ، زبان ودل میں ان کے کوئی اختلاف نہ وہ ، سرا وجہرا ان میں کوئی تفاوت نہ پایا جائے ، ان کی خلوتیں جلوتوں سے بہتر ہوں ، وہ جو قانتین ہوں ، فرائض کی بجا آوری میں ہمہ تن رضا کار ہوں ، وہ جو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے ہوں اللہ کے بندوں سے انہیں الفت ہو ، ان کی ضروریات کو وہ سمجھتے ہوں اور ہنگام سحر جب لوگ میٹھی نیند سو رہے ہوں ‘ ان کے پہلو بستروں سے جدا ہوں ، وہ رات کی تاریکیوں میں دل کے اجالے مانگ رہے ہوں ، بخشش وطلب کے لئے بےچین ہوں اور مضطرب ہوں ، ایسے لوگ اللہ کے بندے ہیں ، اس کے پیارے ہیں ۔ اور انعامات کے مستحق ہیں ۔ حل لغات : القسط : انصاف وعدل ۔ آل عمران
18 خدا کی گواہی : (ف ١) خدا کی توحید ایک اصل اور حقیقی عقیدہ ہے ، جس میں کبھی اختلاف نہیں ہوا لیکن مشرکین بایں ہمہ اس محسوس صداقت سے ہمیشہ محروم رہتے ہیں ، اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ خدا کی شہادت ، فرشتوں کی شہادت اور علماء کی شہادت ہمیشہ توحید ہی کے حق میں رہی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ خدا برست موحدوں کی اعانت کی ہے انبیاء بھی توحید ہی کا پیغام لے کر زمین پر آئے ہیں اور علماء حق نے بھی عجز توحید کے کسی پر قناعت نہیں کی یہ تین شہادتیں ہیں اور ان کے اثبات کے لئے تین زبردست دلائل ہیں ، کفر و ایمان کی ساری تاریخ پڑھ جاؤ ، تمہیں کبھی بھی حق دبتا ہوا نظر نہ آئے گا ، کتابیں اور صحیفے جو خدا کی طرف سے ہیں ، توحید کے پیغام سے پر ہیں ، اسی طرح وہ لوگ جو صحیح معنوں میں عالم ہیں ، ہمیشہ توحید ہی کے قائل رہے ہیں ، کیا توحید پر ان سے زیادہ صاف ، اور مضبوط اور کھلی شہادت پیش کی جا سکتی ہے ؟ آل عمران
19 صداقت کی ایک ہی راہ : (ف ٢) سچائی اور صداقت کی ایک ہی راہ ہے جس کا نام اسلام کی منزل مقصود تک اور شاہد عرفان تک بجز اسلام کے اور کوئی راستہ نہیں جاتا ، اللہ کی محبت ، اس کی توحید اور نسل انسانی کی فلاح وبہبود کا سامان جس قدر اسلام میں میسر ہے ، دوسرا کوئی مذہب اس کا مدعی نہیں ہو سکتا ، اس لئے اسلام کے سوا جس قدر راستے ہیں وہ مخدوش ہیں ، منزل مقصود سے دور لے جانے والے ہیں اور گمراہ کرنے والے ہیں ، اس لئے کہ نسل انسانی کا مشترکہ مذہب صرف اسلام ہے ، ساری دنیا کو یہی مذہب عنایت کیا گیا ، سب کو یہی پیغام ہدایت سنایا گیا ، وہ پیغام جو آسمان سے زمین پر نازل ہوا ، وہ ایک ہے ، اس میں کوئی اختلاف نہیں ، تمام انبیاء اور تمام مصلح ایک ہی پیغام لے کر آئے ہیں اور یہ جو اختلاف نظر آرہا ہے ‘ خواہشات کا اختلاف ہے نفس امارہ کی بوقلمونیاں ہیں اور اہل کتاب کی ہوا وہوس کا نتیجہ ہے ، ورنہ آدم (علیہ السلام) سے لے کر مسیح (علیہ السلام) تک سب اسی حقیقت ثابتہ کی منادی کرتے آئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی مخالف حلقے اسلام کی تعریف میں رطب اللسان ہیں اور نادانستہ اسلام کو قبول کرتے چلے جاتے ہیں ، سب اس کی صداقتوں کو محسوس کرتے ہیں اور عملا کوشاں ہیں کہ اسلام کی تمام مجوزہ اصلاحات کو قبول کرلیں ، وہ وقت نہایت قریب ہے جب ساری دنیا میں اسلام کو بطور ایک مشاہدہ اور نظریہ کے تسلیم کرلیا جائے گا اور شاید لفظی اختلاف باقی نہیں رہے گا ۔ حل لغات : العزیز : غالب ۔ زبردست ۔ آل عمران
20 آل عمران
21 شہید انبیاء : (ف ١) قساوت قلبی اور شومئی قسمت کی بدترین صورت ہے کہ کوئی شخص اپنے محسن سے دشمن کا ساسلوک کرے ۔ انبیاء علیہم السلام نسل انسانی کے سب سے بڑے محسن ہوتے ہیں ، کیونکہ وہ روح وجسم کی تربیت واصلاح کے لئے آتے ہیں اور ہر مصیبت کو برداشت کرنے کے لئے آمادہ ہوتے ہیں ، مگر حق وصداقت اور فلاں وبہبود انسانی سے دستبردار ہونے کے لئے ہرگز تیار نہیں ہوتے ۔ یہودی ہمیشہ ضدی رہے ہیں ، ان کی طرف اللہ تعالیٰ نے پہیم اور مسلسل نبی بھیجے ، تاکہ وہ راہ راست پر آجائیں ، مگر وہ وہیں رہے اور ان کے جمود وتساہل میں ذرہ برابر تحریک پیدا نہیں ہوئی بلکہ تمرد ہوگئے اور بعض کو شہید ہی کر ڈالا ، اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، ان کے تمام اعمال ضائع ہوگئے ، اور وہ ایک زبردست عذاب کے لئے تیار رہیں ۔ (آیت) ” ومالھم من نصرین “۔ چنانچہ خدا کی غیرت حرکت میں آئی ، اس کا غضب وجلال بھڑکا اور طے ہوگیا کہ بنی اسرائیل کو اس قساوت قلبی کی بدترین سزا دی جائے بخت نصر آیا اور کشت وخون کا بازار گرم ہوگیا ، یہودی بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کئے گئے یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ، تورات کے اوراق الاؤ کا ایندھن بنے اور قتل وسفاکا وہ طوفان اٹھا کہ دنیا چلا اٹھی ، اکثر یہودی مارے گئے ، جو بچ گئے انہیں بابل ونینوا کے جیل خانوں میں بند کردیا گیا اور مدت تک قیدوبند کی سختیاں جھیلتے رہے ، یہ کیوں ہوا ؟ اس لئے کہ وہ خدا کی طاقت کے سامنے جھکیں اور عبرت حاصل کریں ۔ بعض لوگوں نے یہ حرمت نبوت کے منافی خیال کیا ہے کہ نبی شہید ہوجائے اس لئے ان کی خیال میں (آیت) ” یقتلون “ کے معنی باہمی آویزش وتصادم کے ہیں ، مگر یہ صحیح نہیں ، ایک تو قرآن کے الفاظ صاف ہیں دوسرے تورات میں قتل انبیاء کی کئی مثالیں ملتی ہیں ، تیسرے یہ کوئی ضروری نہیں کہ انبیاء طبعی موت سے ہی دوچار ہوں اور شہادت سے محروم رہین ۔ یہ درست ہے کہ حق ہمیشہ غالب رہتا ہے مگر حق کو سربلند رکھنے کے لئے کبھی کبھی جان تک کو پیش کرنا پڑتا ہے ، شہید ہوجانا اس وقت وظیفہ نبوت کے منافی ہوتا ہے جب نبی اپنے مشن کو پیش کرنے سے قاصر رہے اور اس سے پیشتر کہ لوگوں تک اپنا پیغام پہنچائے ، زندگی سے محروم کردیا جائے اور اگر وہ سب کچھ پہنچا چکا ہو ، ضرورت صرف اس بات کی رہ جائے کہ وہ اس باغ کی آبیاری اپنے خون سے کرے جس کو اس نے اپنے ہاتھوں بڑی محنت سے لگایا ہے تو اس وقت سے کرے جس کو اس نے اپنے ہاتھوں بڑی محنت سے لگایا ہے تو اس وقت اس کا فرض ہوتا ہے کہ اپنی جان پر کھیل جائے ، جب بستر مرگ پر جان دینا منصب نبوت کے منافی نہیں تو میدان جنگ میں شہادت سے سرفراز ہونا کیوں منافی ہو ؟ اصل شبہ عصمت انبیاء کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے مگر یہ یاد رہے کہ ” مجرد نبوت “ اس کے لئے کافی نہیں ، وہ انبیاء جنہیں اس کا وعدہ دیا گیا ہے وہی دشمنوں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رہتے اور دوسرے کوئی ضروری نہیں کہ محفوظ رہیں ، یہی وجہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (آیت) ” واللہ یعصمک من الناس “ کی ایک خصوصیت بخشی ورنہ کہہ دینا کافی تھا کہ آپ نبی ہیں اور انبیاء دشمنوں سے ہمیشہ محفوظ رہتے ہیں ۔ حل لغات : بشرھم : خوشخبری سنا ، بطور طنز کے ہے نصیب : ایک حصہ : آل عمران
22 آل عمران
23 آل عمران
24 یہودیوں کا غرور مذہبی : (ف ١) یہودیوں کو قرآن مجید کی طرف دعوت دی جاتی اور کہا کہ اس چشمہ فیض سے استفادہ کرو تو وہ اعتراض کرتے رہو کہتے کہ جہنم میں اگر جائیں گے بھی تو چند روز کے لئے ، اس لئے میں کسی دوسرے مذہب کو قبول کرنے کی ضرورت ہی نہیں ۔ فرمایا ، یہ فریب نفس ہے ، اللہ تعالیٰ کے ہاں بخشش ومغفرت ہی کے لئے جو حق کو قبول کرتا ہے اور نیک رہتا ہے ، صرف یہودی یا عیسائی کہلانا کافی نہیں ۔ آل عمران
25 آل عمران
26 مالک الملک : (ف ٢) یہودیوں کو اپنے مال ودولت پر فخر تھا ، مدینہ اور آس پاس بستیاں ان کے اقتدار میں تھیں اس لئے وہ فاقہ مست مسلمانوں طرف کوئی توجہ نہ دیتے ، قاعدہ ہے ایک باعروج قوم اپنے تمدن وتہذیب پر قانع ہوتی ہے ، قرآن حکیم میں بطور دعا کے اس حقیقت کو واضح کیا کہ مالک الملک صرف خدا ہے جس کی بادشاہتیں ہمیشہ رہیں گی اس کے خزانے کبھی ختم نہ ہوں گے ، وہ جسے چاہے اور نگ وپہیم کا مالک بنا دے اور جس سے چاہے تاج ونگین چھین لے ، عزت وذلت صرف اس کے قبضے میں ہے ! اس لئے کوئی تاجور اس کا انکار نہ کرے اور حکومت کے نشے میں احکم الحاکمین کی بادشاہت کو تحقیر کی نظروں سے نہ دیکھے کہ وہ پل بھر میں حکومت کے تختے کو الٹ سکتا ہے اس کی قدرت کے یہ ادنی کرشمے ہیں کہ وہ چشم زدن میں بڑے بڑے فرعونوں اور نمرودوں کو غرق وہلاک کردے ، اسی طرح غلام ومفلس اپنے مقدر سے مایوس نہ ہوں کہ وہ پستیوں کو بلندیوں میں تبدیل کرسکتا ہے ، وہ خارستان کو ابر رحمت کے چند قطروں سے باغ ارم بنا سکتا ہے اور اس کی دلیل لیل ونہار کے اختلاف میں ظاہر ہے ، دیکھ لو کس طرح دن کی روشنی رات کی تاریکی میں تبدیل ہوجاتی ہے ، اور کس طرح شب دیجور کی گود میں خورشیدتاباں کھیلنے لگتا ہے اور پھر کس طرح ایک قطرہ آب حیوان ناطق بن جاتا ہے ، غرضیکہ وہ بادشاہوں کا بادشاہ اور مالکوں کا مالک ہے ، سب اس کی چاکری کا اعتراف کرتے ہیں ، پس یہودی اپنے مال ودولت پر نہ اترائیں کہ خدا انہیں کفر وذلت کے مصائب میں مبتلا کرسکتا ہے اور مسلمان نہ گھبرائیں کہ خدا ان کی مایوسیوں کا امیدوں اور کامرانیوں میں بدل سکتا ہے ، یہ انداز بیان کتنا خدا پرستانہ اور موحدانہ ہے ، کس قدر مؤثر اور دلپذیر ہے ؟ مقصد یہ ہے کہ لوگ غلط فہمی میں نہ رہیں اور اللہ تعالیٰ کی بےانداز قدرتوں کا اعتراف کریں ، یہ کہ حکومت وعزت صرف خدا کی دین ہے اور اس میں ہمارے کسب واختیار کو کوئی دخل نہیں ، اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے حصول کے لئے قواعد بنا رکھے ہیں ، ان کی رعایت رکھنا نہایت ضروری ہے عزت وغلبہ اور حکومت واختیار یونہی بلا محنت حاصل ہونے والی چیزیں نہیں ، بلکہ یہ موقوف ہیں حاکمانہ اخلاق کے حصول پر ، اسی طرح غلامی ونکبت کے لئے بھی اسباب ہیں ، البتہ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو پستی سے اٹھانا چاہتے ہیں تو ایسے اسباب کے حصول کی جو ضروری ہیں انہیں توفیق دے دیتے ہیں ۔ آل عمران
27 آل عمران
28 کفار سے موالات : (ف ١) اس آیت میں بتایا ہے کہ مسلمان کافروں سے موالات نہ کریں اور ہرگز کسی غیر کو لائق محبت نہ سمجھیں ، اس مضمون کو متعدد آیات میں واضح کیا گیا ہے ، (آیت) ” لایتخذوا بطانۃ من دونکم “۔ پھر یہ بھی فرمایا (آیت) ” ومن یتولھم منکم فانہ منھم “۔ اس آیت میں ارشاد ہے کہ (آیت) ” ومن یفعل ذلک فلیس من اللہ فی شیئ“۔ یعنی کفر سے دوستی ایمان سے ’ دشمنی کے مترادف ہے ، وہ جو اسلامی مفاد کو چھوڑ کر اور مسلمانوں سے رشتہ اخوت توڑ کر کفار سے تعلقات محبت استوار کرتا ہے ‘ وہ اسلام اور مسلمانوں کا غدار ہے اور ہرگز قابل اعتماد نہیں اور اس موالات میں کسی قوم وفرقہ کی تخصیص نہیں ، سارے کافر اسلام سے دشمنی رکھتے ہیں ، اور سچ اور جھوٹ میں کبھی اتحاد ممکن نہیں ، اگر رات اور دن ایک نہیں ہو سکتے تو ضرورت ہے کہ کفر اور اسلام میں بھی کوئی تعلق نہ ہو ۔ مقصد یہ ہے کہ مسلمان نہایت محتاط بن کر رہیں اور کسی طرح کے فریب کا شکار نہ ہوں یہی مطلب ہے ان الفاظ کا کہ (آیت) ” الا ان تتقوا منھم تقۃ “۔ البتہ ناگزیز معاشی وسیاسی تعلقات میں مضائقہ نہیں ، اسلام یہ نہیں چاہتا ہے کہ مسلمان کا کوئی حقیقی دوست نہیں ، اپنے مصالح کے لئے وہ مسلمانوں سے محبت کا اظہار کرتے ہیں ورنہ ان کے دل بغض وحسد سے معمور ہیں (آیت) ” وما تخفی صدورھم اکبر “۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ مسلمان نے اس سے تغافل برت کر سخت نقصان اٹھایا ہے ہمیشہ اغیار نے دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے ، اس لئے ضرورت تھی کہ اس حقیقت کا اظہار کردیا جائے ۔ وہ لوگ جو مخلصانہ مسلمانوں سے تعلقات رکھتے ہیں قرآن حکیم نے کھلے الفاظ میں ان کی تعریف کی ہے اور اپنے متعلقین کو تلقین کی ہے کہ ان کے ساتھ حسن سلوک روا رکھا جائے ۔ حل لغات : اولیائ: حقیقی دوست ۔ نفسہ : یہاں اس کے معنی بذات خود کے ہیں ۔ آل عمران
29 آل عمران
30 آل عمران
31 تقرب الہی کا واحد ذریعہ : (ف ١) انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ قول وفعل سے اللہ کے بندوں میں اللہ کی محبت پیدا کردیں اور گم کردہ راہ لوگوں کو جادہ مستقیم پر ڈال دیں ، وہ انسانوں کو ہدایت ورہنمائی کا پہلا اور آخری وسیلہ ہیں ، اس لئے ان سے قطع نظر کسی طرح جائز ودرست نہیں ۔ اس آیت میں محبت الہی کے دعوے داروں کو اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اتباع سید الابرار (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب دعوت دی ہے اور کہا ہے کہ خدا تک پہنچنے کے لئے بجز اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اور کوئی طریق نہیں ، قیامت تک کے لئے محبوبیت ومقبولیت کا تاج فرق اقدس کے سوا اور کسی کے سر پر زیب نہیں دیتا ، وہ جو تقرب وتالف کے مدارج طے کرنا چاہتے ہیں وہ آئیں اور اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی راہوں پر گامزن ہوں کہ اس کے سوا منزل تک پہنچنے کے لئے کوئی راہ نہیں اسلام کی شاہراہ کے عام کے لئے وا ہوجانے کے کے بعد رشد وہدایت کے تمام راستے مسدود ہیں ، سلوک ومعرفت کے تمام مروجہ طریقے غلط ہیں اور گمراہ کن ہیں ‘ اگر ان میں اطاعت واتباع کا خیال نہیں رکھا گیا اور خدا رسی کے تمام ذرائع باطل ہیں ‘ اگر ان میں مشکوۃ نبوت کی روشنی نظر نہیں آتی ۔ اگر اطاعت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جذبہ دلوں میں موجزن ہے تو پھر اللہ کی محبت ومغفرت بہرحال شامل حال ہے اور اگر اس سے محرومی ہے تو یہ جان لو کہ (آیت) ” فان اللہ لا یحب الکافرین “۔ حل لغات : امد : فاصلہ ۔ عباد : جمع عبد ۔ بندے اصطفے : مصدر اصطفا ۔ انتخاب ، چننا ۔ آل عمران
32 آل عمران
33 آل عمران
34 آل عمران
35 تین قصے : (ف ١) رسالت مآب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر یہودیوں کا سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ وہ اسرائیل نہیں اور اللہ تعالیٰ نے کیوں بنی اسرئایل اسمعیل سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت کے عہدہ جلیلہ کے لئے منتخب کیا ، یہودی چونکہ حد درجہ ظاہر پرست تھے ، اس لئے وہ اس خرق عادت کو باور نہ کرسکے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذیل میں تین قصے بیان کئے ہیں جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مصالح کو کوئی نہیں جانتا اور اس قسم ونوع کے خوارق اکثر پیش آتے رہتے ہیں اور یہ کہ خود یہودی ان واقعات کو تسلیم کرتے ہیں ، اس لئے چاہئے کہ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سلسلہ اسماعیلیہ میں ہونا بھی قابل اعتراض نہ سمجھیں ، نبوت اللہ کی دین ہے ، جب تک اسرائیل اس بار امانت کو اٹھانے کے اہل رہے ‘ اللہ نے انہیں میں سے انبیاء بھیجے ، جب ان میں یہ اہلیت نہ رہی تو بنی اسمعیل کو اس شرف سے نوازا گیا ۔ یہ پہلا قصہ حضرت مریم علیہا السلام کی نذر کا ہے ، ان کی والدہ چاہتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں فرزند نرینہ بخشیں تو وہ یروشلم کی خدمت کے لئے اسے وقف کردیں ، مگر اللہ تعالیٰ کا یہ رسم توڑنا مقصود تھا ، اس لئے بجائے لڑکے کے لڑکی پیدا ہوئی اور اسے خلاف روایات یہود بہت المقدس کی خدمت کے لئے حضرت زکریا (علیہ السلام) کے سپرد کردیا گیا یہ قدیم روایات کے خلاف ایک خرق ہے ۔ دوسرا قصہ حضرت یحیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کا ہے یعنی حضرت یحیٰ بھی اس وقت پیدا ہوئے جبکہ بظاہر کوئی توقع نہیں کی جا سکتی تھی یہ دوسرا خرق ہے ، تیسرا قصہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی ولادت باسعادت کا کہ بلا باپ پیدا ہوئے یہ تیسرا خرق ہے ۔ جب اتنے خوارق کو مان لینے میں یہودیوں کو کوئی تامل نہیں ہے تو پھر وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا صرف اس لئے کیوں انکار کرتے ہیں کہ وہ مقررہ عادت کے خلاف تشریف لائے ہیں کہ کیا رسم عادت مصالح کے تابع نہیں اور کیا اللہ ہی مصالح کو بہتر طریق پر نہیں جاوے پھر کیا وجہ سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کردیا جائے ، ان آیات میں پہلے قصے کی توضیح کی ہے کہ کس طرح حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ نے منت مانی اور کس طرح حضرت مریم علیہا السلام زکریا (علیہ السلام) کی کفالت میں آئیں ۔ حل لغات : محررا : آزاد ۔ آل عمران
36 آل عمران
37 آل عمران
38 حضرت زکریا کی دعا : (ف ١) حضرت مریم علیہا السلام کی حضرت زکریا (علیہ السلام) کی کفالت میں اس لئے دیا گیا تاکہ وہ بہترین تربیت حاصل کریں اور آیندہ چل کر اخلاق کے متعلق انہیں مہتم نہ کیا جائے ، مریم علیہما السلام ابھی بچی ہی تھیں کہ ان کا دل معرفت وسلوک کی تمام منزلیں طے کرچکا تھا ، زکریا (علیہ السلام) نے جب ان سے پوچھا کہ بچی ، یہ رزق کہاں سے آیا ہے تو آپ نے جواب دیا ، اللہ کی جانب سے ۔ یہ جواب سن کر حضرت زکریا (علیہ السلام) نہایت محفوظ ہوئے اور دل میں اس خواہش نے چٹکی لی کہ میرے گھر میں بھی ایسی ہی روح آئے ، چنانچہ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے دعا کی کہ اے مولا ! تو دعاؤں کا سننے والا اور قبول کرنے والا ہے ، مجھے بھی نیک اولاد عنایت کر ۔ اس دعا میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ انبیاء علیہم السلام اولاد چاہتے بھی ہیں تو ایسی جس سے نسل انسانی کا فائدہ ہو ، اور اولاد کے لئے صرف باری تعالیٰ کا باب اجابت کھٹکھٹاتے ہیں ، دوسروں کے دروازوں پر جبہ سائی نہیں کرتے ۔ حل لغات : للمحراب : حجرہ ۔ عبادت گاہ ، بالاخانہ ۔ آل عمران
39 (ف ١) دعا چونکہ دل سے نکلی تھی اور بلند خواہشات کے ماتحت کی گئی تھی ، اس لئے فورا شرف قبولیت سے نوازی گئی ، فرشتے حضرت زکریا (علیہ السلام) کے پاس آئے اور کہا کہ خدا تمہیں حضرت یحی کے تولد کی بشارت دیتا ہے جو خدا کے کلام کی تصدیق کرے گا قوم میں اس کی سیادت وقیادت مسلم ہوگی ، پاکباز اور نبی ہوگا ۔ آل عمران
40 (ف ٢) حضرت زکریا (علیہ السلام) نبی ہونے کے ساتھ ساتھ چونکہ انسان بھی تھے ، اس لئے بشری نفسیت برابر کام کرتی رہی ، آپ نے از راہ استبعاد اور تعجب پوچھا ، اللہ ! یہ کیسے ممکن ہے جب کہ میں حد سے زیادہ بوڑھا ہوچکا اور میری بیوی بھی جوان نہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” کذلک اللہ یفعل ما یشآء “۔ یعنی یہ معتاد قوانین تمہارے لئے ہیں اللہ تعالیٰ کسی قانون کا پابند اور محتاج نہیں وہ کبھی کبھی اپنی قدرت کے اظہار کے لئے ایسے خوارق ضرور پیدا کرتا ہے ، تاکہ بےدین اور ملحد لوگ اس کی جلالت قدر کا صحیح اندازہ کریں ، جب لوگ اسباب ووسائل کی غیر معمولی اہمیت دے دیتے ہیں اور ہر بات کو مادی ذرائع کے ماتحت سمجھتے ہیں اس وقت اللہ تعالیٰ ایسی محیر العقول باتیں ظاہر فرماتے ہیں جن سے یہ معلوم ہو کہ ایک عزیز وقاہر ہستی ایسی بھی ہے جو ہر قانون سے بالا اور بلند ہے اور تمام باتیں جس کے اشارے سے ظہور پذیر ہوتی ہیں ۔ آل عمران
41 روحانی وسائل : (ف ٣) حضرت زکریا (علیہ السلام) نے بشارت کی تحقیق کے لئے پوچھا کہ اس کے وقوع کی علامات کیا ہوں گی ؟ خدا نے فرمایا ، تیری زبان گنگ ہوجائے گی اور تو تین دن تک بجز اشارات کے اظہار مطلب نہ کرسکے گا اور اس اثنا میں تو رب العزت کی صبح وشام تسبیح وتقدیس کر ، ان آیات میں یہ بتایا کہ مرد مومن محض مادی اسباب ووسائل پر بھروسہ نہیں رکھتا ، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ سے روحانی وسائل کا طالب رہتا ہے ، ایک مادہ پرست انسان تلقین سن کر ہنس دے گا کہ وظیفہ تولید کو عبادت سے کیا تعلق ؟ لیکن جن کے دماغ فلسفہ سے یا بس اور خشک نہیں ہوگئے ، اس بات کو تسلیم کریں گے کہ ہر مادی نتیجہ معلول ہوتا ہے روحانی اسباب ووسائل کا ، یہ درست ہے کہ ہماری نظریں صرف مادیت تک محدود رہتی ہیں ، مگر اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ کائنات میں صرف مادیت ہی مادیت ہے ، اللہ والے اور نیک لوگ ظاہری اسباب ووسائل سے کام تو لیتے ہیں ، مگر ان کے تابع نہیں رہتے ۔ حل لغات : مصدقا بکلمۃ من اللہ : یعنی پیغام الہی کے مصدق ۔ حصور : پاکباز ، مناہی سے پرہیز کرنے والا ، اپنے آپ کو خواہشات نفس سے محفوظ رکھنے والا ، محتاط ضابطہ ۔ عاقر : وہ عورت جس کے اولاد نہ ہو ، جو عمر کے ایسے حصے میں جہاں اولاد نہیں ہوتی ۔ رمز ۔ اشارہ کنایہ ۔ ابکار : صبح ۔ آل عمران
42 مریم کاملہ (علیہ السلام) : (ف ١) حدیث میں آیا ہے ، ” مکمل من الرجال کثیر ولم مکمل من النسآء الا مریم بنت عمران واسیۃ امرۃ فرعون وافضل عائشۃ علی النسآء کفضل الثرید علی الطعام “۔ (مجتبائی : ص ٤٢) یعنی مردوں میں سے تو بہتیرے درجہ بنوع وکمال تک فائز ہوئے ہیں ، مگر عورتوں میں مریم علیہا السلام ، آسیہ (رض) اور عائشہ (رض) کے سوا اور کوئی اس فضیلت کو حاصل نہیں کرسکی ، دوسری حدیث میں حضرت خدیجہ (رض) اور حضرت فاطمۃ الزہرا (رض) کا نام بھی آیا ہے ، مقصد یہ ہے کہ ہر زمانے میں حالات واستعداد کے مطابق عورتیں بھی کمال وفضل سے بہرہ وافر حاصل ہوسکتی ہیں ، اس آیت میں حضرت مریم علیہا السلام کا ذکر ہے ۔ بالخصوص حضرت مریم علیہا السلام کی تقدیس وتطہیر اس لئے فرمائی کہ یہود ان کی نسبت نہایت ہی ناپاک خیالات رکھتے تھے ، یہ قرآن حکیم کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے حضرت مریم علیہا السلام کے دامن عفت کو ہر آلودگی سے پاک رکھا ۔ اصطفاء کا نقطہ قرآن حکیم میں خاص انتخاب یا ہم خدمات کے لئے چن لینے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ حضرت مریم علیہا السلام کے متعلق اس آیت میں دو دفعہ اصطفاء کا لفظ آیا ہے ، پہلے اصطفاء سے مراد ذاتی فضائل کا اظہار ہے دوسرے سے مقصود یہ ہے کہ مسیح (علیہ السلام) کی والدہ ہونے کا شرف حاصل کرنا بجز مریم کاملہ کے اور کسی کے بس کی بات نہ تھی ، آپ نے محض اللہ کے لئے ہر نوع کی گستاخیوں اور ملامتوں کو برداشت کیا ، صرف اللہ کے دین کی خدمت کے لئے دلخراش طعنوں کو سنا ۔ آل عمران
43 آل عمران
44 قصوں کا مقصد : (ف ٢) (آیت) ” ذلک من انبآء الغیب “۔ کہہ کر قرآن حکیم نے بتایا ہے کہ یہ قصے بطور دیل وبرہان کے بیان کئے گئے ہیں غور کرو سینکڑوں برس پہلے واقعات جن پر تصحیف وتحریف کے کئی پردے پڑچکے ہیں کس طریق پر ایک امی کے منہ سے واشگاف طور پر ظاہر ہو رہے ہیں کیا یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر زبردست دلیل نہیں ؟ آل عمران
45 کلمتہ اللہ : (ف ٣) ابن مریم علیہا السلام کو کلمۃ اللہ اس لئے فرمایا کہ ان کی پیدائش غیر مادی اسباب کی بنا پر ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے خرق عادت کے طور پر محض اختیار کن فیکون سے کام لیتے ہوئے آپ کو مادہ پرست لوگوں کے لئے ایک زبردست نشان بنایا ۔ بارعب اور وجہ مسیح (علیہ السلام) : (ف ٤) ان کو جلال ورعب عنایت کیا یہودی باوجود وسیع مادی قوت کے مسیح (علیہ السلام) کو گرفتار نہ کرسکے ، انجیل میں جو یہ لکھا ہے کہ مسیح (علیہ السلام) کو دو چوروں کے ساتھ صلیب پر لٹکا دیا گیا یہ سراسر غلط اور جاہت ووقار کے خلاف ہے ، کوئی نبی اپنے آپ کو اس بےچارگی کے ساتھ کفر کے سپرد نہیں کردیتا نبی آخر وقت تک باطل سے لڑتا اور جہاد کرتا ہے ۔ آل عمران
46 (ف ١) اس آیت میں حضرت مریم علیہا السلام کو خوشخبری سنائی ہے کہ تیرا بیٹا اللہ کا نبی ہوگا اور اس کا کام لوگوں کی اصلاح وتربیت ہوگا ۔ جھولے میں گفتگو کرنے کا مطلب وہ نہیں جو بعض قرآن نا آشنا لوگوں نے سمجھا ہے کہ وہ معمولی اور عادی گفتگو ہے ، اس لئے کہ مقام بشارت میں اس کا ذکر خصوصیت فاضلہ چاہتا ہے اور پھر ” الناس “ کی طرف تکلم کا انتساب متقاضی ہے کہ اس سے مراد وہ گفتگو ہو جس کا تعلق منصب اصلاح ورشد سے ہے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ مسیح (علیہ السلام) کے علاوہ تین اور بچوں نے بھی بچپن میں باقاعدہ گفتگو کی ہے ، شاہد یوسف ، صاحب جریج اور ماشتہ صاحب فرعون نے ، بات یہ ہے کہ انبیاء فطرۃ ملکہ نبوت لے کر پیدا ہوتے ہیں ابتدا ہی سے ان کے دلوں میں نبوت کے انوار روشن رہتے ہیں اور حسب موقع ان کا اظہار ہوتا ہے ۔ کھلا سے مراد یہ ہے کہ مسیح (علیہ السلام) کی عمر تا بکہولت پہنچے گی اور وہ عمر کے آخری لمحوں میں بھی تبلیغ واشاعت میں مصروف رہیں گے ۔ حل لغات : المھد : گہوارہ ۔ اخلق : مادہ ومصدر خلق ، بنانا ۔ ھیئۃ : صورت ۔ آل عمران
47 آل عمران
48 آل عمران
49 حضرت مسیح (علیہ السلام) کا عہد رسالت : (ف ١) یہودیوں میں جب حضرت مسیح (علیہ السلام) کو رسول بنا کر بھیجا گیا ہے ، اس وقت ان کی حالت نہایت بگڑ چکی تھی ، ان میں مادیت کے جراثیم بری طرح سرایت کرچکے تھے اور سرمایہ کا حصول ان کی زندگی کا سب سے بڑا نصب العین تھا ، وہ دنیا میں سب سے زیادہ مال دار تھے ، اور چاہتے تھے کہ دنیا بھر کے ذخائر وخزائن ان کے پاس جمع رہیں اور ساری دنیا ان کی محتاج ہو ، اس مادیت کے ساتھ ساتھ وہ مذہبیت کے دعوے دار بھی تھے چند رسوم وظواہر کے سوا ان کے پاس اور کچھ نہ تھا ، روحانیت اور اخلاق حمیدہ سے وہ کوسوں دور تھے ۔ اس لئے ان کے ہاں مسیح (علیہ السلام) ایسے روحانی شخص کو بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ ان کی مادیت کے طلسم کو توڑ دے اور انہیں یقین دلادے کہ ایک قوت مادہ سے وراء اور بلند بھی ہے جس کے اختیارات زیادہ وسیع ہیں چنانچہ مسیح (علیہ السلام) نے انہیں چند معجزات وخوارق دکھائے جو مادیت کے قلعہ عقل وفلسفہ پرکاری ضرب کی حیثیت رکھتے ہیں ، پرندے بنائے ، مادرزاد اندھے اور کوڑھیوں کو شفا بخشی اور ان کو بتایا کہ تمہاری ضروریات اکل وشرب کے لئے کتنا کافی ہے اور کس قدر تم جمع کرتے ہو حضرت مسیح (علیہ السلام) کے یہ روحانی کرشمے ان کی مادیت کا صحیح جواب تھے ، نقطہ نگاہ کی غلطی : وہ لوگ جو مسیح (علیہ السلام) کے معجزات کا انکار کرتے ہیں اس لئے کہ خیال میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معاذ اللہ توہین ہوتی ہے ، انہیں ان آیات پر دیانتداری سے غور کرنا چاہئے اور صرف یہ دیکھنا چاہئے کہ قرآن حکیم کے الفاظ کیا پیش کرتے ہیں ، اگر ان آیات کے الفاظ میں تاویل کی کوئی گنجائش نہ ہو تو پھر محض تمہاری محدود عقل جو قدم قدم پر ٹھوکریں کھاتی ہے ، ہرگز قابل اعتنا نہیں ، ایک مسلمان کو سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ قرآن حکیم کے الفاظ کیا چاہتے ہیں اور ان کا سادے سے سادہ مطلب کیا ہے ؟ اس کے بعد وہ اپنے ذخیرہ علم کا جائزہ لے اور اس کی عقلی تحلیل کرے ۔ اور یہ کہنا کہ اس سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی توہین کا پہلو نکلتا ہے ، غلط ذہنیت پر مبنی ہے یہ درست ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام فضائل وکمالات کے جامع ہیں اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مطلقا منصب نبوت کے آئینہ ہیں جس میں نبوت کے تمام کمالات کو بیک نظر دیکھا جا سکتا ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معجزات وخوارق دکھانے میں بھی سابق ماحول کے پابند ہیں ، حضرت مسیح (علیہ السلام) کا ان معجزات کی نسبت باذن اللہ کہنا تمام شبہات کو دور کردیتا ہے ، اس لئے کہ خدا کی اجازت سے سب کچھ ہو سکتا ہے اور اس کے بعد اعتراض وتاویل کی قطعا ضرورت محسوس نہیں ہوتی ۔ ترجمہ : آل عمران
50 آل عمران
51 حضرت مسیح (علیہ السلام) کی تعلیم : (ف ١) آپ (علیہ السلام) نے فرمایا میں تورات کی تصدیق کرتاہوں اور ان پابندیوں کو اٹھاتا ہوں جن کو خواہ مخواہ تم نے اپنے اوپر عاید کرلیا ہے ، اور فرمایا کہ میرا رب اور تمہارا رب صرف ایک ہے ، اسی کی پوجا اور پرستش صراط مستقیم ہے ۔ آل عمران
52 آپ (علیہ السلام) کے اصحاب ارادت : (ف ٢) حضرت مسیح (علیہ السلام) کی یہ تعلیم توحید وروحانیت یہودیوں کو ناگوار محسوس ہوئی ، اس لئے انہوں نے پوری طرح مخالفت کی ٹھان لی حکومت وقت کو آپ کے خلاف آمادہ تعزیر کیا ۔ اس پر آپ (علیہ السلام) نے مخلصین کی ایک جماعت کو دعوت ارادت دی اور (آیت) ” من انصاری الی اللہ “۔ کا نعرہ لگایا ، جس کو سن کر حواریین نے لبیک کہا اور نصرت واعانت کا مضبوط عہد کیا ۔ قرآن حکیم نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کو تقدیس کے ساتھ ساتھ حواریوں کو بھی شرف خلعت سے نوازا ، مگر انجیل میں لکھا ہے کہ مسیح (علیہ السلام) کے حواریوں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کو دھوکا دیا اور گرفتار کرا دیا اور انکار کیا ، معلوم ہوتا ہے یہ تحریف ہے ۔ حل لغات : حواریون : جمع حواری ، مخلص دوست ، ارادت مند ۔ مکروا : مصدر مکر ، معنی تدبیر محکم وخفیہ ۔ توفنی : پورا پورا دے گا ، (آیت) ” انی متوفیک “۔ کے معنی پورا پورا لے لینا بھی ہے یعنی میں تمہیں بحفاظت تمام لے لوں گا ۔ ورافعک : کے معنی ہوں گے تعبین نوع کے عینی ، توفی بصورت رفع واقع ہوگی ۔ آل عمران
53 آل عمران
54 آل عمران
55 حیات مسیح (علیہ السلام) : (ف ١) ایک طرف یہودیوں نے مسیح (علیہ السلام) کے خلاف وسیع پیمانے پر سازش کی اور حکومت وقت کو مجبور کردیا کہ وہ انہیں باغی سمجھے اور سزا دے ، اسی کا نام قرآن حکیم کی زبان میں ” مکر “ ہے ، یعنی تدبیر محکم اور خفیہ ارادہ ، دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے ارادے کام کر رہے تھے ، اللہ تعالیٰ حضرت مسیح (علیہ السلام) کو دشمنوں کی زد سے صاف بچا لینا چاہتے تھے ، اور یہودیوں کو دکھانا چاہتے تھے کہ آسمانوں پر ایک زبردست اور علیم وحکیم خدا بھی موجود ہے جو تمہاری سازش کو جانتا ہے اور اس کی قدرت واختیار میں ہے کہ تمہیں تمہارے ارادوں میں ناکام رکھے ، (آیت) ” واللہ خیر الماکرین “۔ جب مقابلہ ہوا انسانی تدابیر وحیل کا اور مادی وارضی منصوبوں کا احکم الحاکمین رب عرش عظیم کی قدرت ومنشا سے تو ظاہر ہے الہی ارادے کامیاب رہیں گے اور شیطان خائب وخاسر ، اگر مان لیا جائے کہ مسیح (علیہ السلام) یہود کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے اور صلیب پر لٹک گئے تو بتاؤ فتح کس کی ہے خدا کی یا شیطان کی ؟ خدا نے واشگاف طور پر فرما دیا ہے کہ ہم نے یہودیوں کو ناکام رکھنے کے لئے مضبوط ومستحکم ارادہ کرلیا اور یہ بھی فرما دیا کہ ہمارے ارادے زیادہ بہتر اور کامیاب ہوتے ہیں تو پھر اس بےچارگی وبے بسی کے کیا معنی کہ مسیح (علیہ السلام) کو دشمنوں کے ہاتھ میں دے دیا جائے ، مسیح (علیہ السلام) اگر صلیب پر لٹک کر بچ بھی جائیں تو اس میں یہودیوں کے دعوے (آیت) ” انا قتلنا المسیح “۔ پر کیا اثر پڑتا ہے وہ اس سے زیادہ اور کیا کرسکتے تھے کہ مسیح (علیہ السلام) کو موت کے دروازے پر لا کھڑا کریں ، ایک دشمن جو کچھ کرسکتا ہے ‘ وہ بقول بعض کیا جا چکا پھر خدا کی تدبیریں کیا ہوئیں ؟ خدا کے ارادے کہاں گئے ؟ مسیح (علیہ السلام) اگر مرہم لگا کر جانبر ہوگئے تو یہ ان کی خوش بختی کی ہے ، خدا کی فتح مندی ونصرت کی دلیل نہیں ؟ حالانکہ کہا گیا ہے کہ خدا ان کے تمام منصوبوں کے مقابلہ میں زیادہ کامیاب ہے ، بتاؤ اس صورت میں زیادہ کامیاب کون رہتا ہے ؟ کیا وہ جس کے اختیار میں ہے کہ مسیح (علیہ السلام) کو اپنے برگزیدہ کو کوئی گزند نہ پہنچنے دے ، یا وہ جو مسیح (علیہ السلام) کو موت کے قریب لا سکتے تھے وہ جنہوں نے مسیح (علیہ السلام) کو دار تک لاکھڑا کیا اور وہ تمام سزائیں دیں جو ان کے اختیار میں تھیں ، مگر خدا نے اپنے وسیع اختیارات سے کوئی کام نہ لیا ، بتاؤ اس میں یعنی اس صورت میں مقابلہ میں کس کا پلہ زیادہ بھاری رہتا ہے ؟ چاروعدے : (ف ٢) ان حالات میں جبکہ یہودی حضرت مسیح (علیہ السلام) کے مشن کو تباہ کردینا چاہتے تھے اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کے دشمن ہو رہے تھے ، اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح (علیہ السلام) سے چار وعدے کئے اور انہیں بشارت دی کہ تم مطلقا کوئی فکر نہ کرو ، ہم تمہارے ساتھ ہیں ۔ ٍ پہلا وعدہ : یہ تھا کہ (آیت) ” انی متوفیک “ یعنی تیری موت طبعی ہوگی تو دشمنوں کے ہاتھوں محفوظ رہے گا اور وہ تجھے کوئی نقصان یا گزند نہ پہنچا سکیں گے ۔ دوسرا وعدہ : یہ تھا کہ (آیت) ” ورافعک الی “۔ یعنی میں تمہیں اٹھالوں گا ” رفع “ کے معنی عزت ورفعت دینے کے بھی ہوتے ہیں ، مگر بصلہ الی نہیں اگر یہاں مقصود عزت ورفعت ہوتی تو عبارت یوں ہوتی ” ورافعک لدی “۔ تیسرا وعدہ : یہ تھا کہ (آیت) ” ومطھرک “۔ یعنی کفرونفاق کی تمام تہمتوں سے تمہیں پاک رکھوں گا ، اس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کی طرف نہایت باریک اشارہ ہے ۔ چوتھا وعدہ : یہ تھا کہ (آیت) ” وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا “۔ یعنی تیرے ماننے والے تیرے نہ ماننے والوں پر غالب رہیں گے کفر واتباع دونوں کو قرآن حکیم نے مطلق رکھا ہے ، اس لئے دونوں کا عموم بحال رہے گا ، یعنی مسیح کا ہر ماننے والا اس کے ہر منکر پر غالب رہے گا اس صورت میں اس میں مسلمان بھی شامل ہیں ۔ آل عمران
56 آل عمران
57 آل عمران
58 آل عمران
59 آل عمران
60 آل عمران
61 مباہلہ : (ف ١) مسیح (علیہ السلام) کے متعلق آیات سابقہ میں بکرات یہ بیان کیا جا چکا کہ ان کی حیثیت ایک محترم ومکرم رسول سے زائد نہیں مگر عیسائی ہیں کہ غلو سے کام لیتے ہوئے انہیں ابن اللہ سمجھنے پر مصر ہیں ، ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ایک عجیب مگر آخری فیصلہ کی طرف دعوت دی ہے اور وہ یہ ہے کہ دونوں متخاصم مل کر اللہ سے جھوٹے کی ہلاکت چاہیں اور دیکھیں کہ خدا کس کی تائید میں ہے ، کون باقی رہتا ہے اور کس کے حق میں ہلاکت مقدر ہے ، یہ طریق فیصلہ اس وقت اختیار کیا گیا جب منطق وبرہان کے تمام حربے ناکام رہے اور عقیدت میں غلو ہر دلیل وفلسفہ پر غالب رہا ، جب بحث کے تمام دروازے بند ہوگئے اور غور وفکر کے لئے تمام راہیں تعصب وجہالت کی وجہ سے مسدود ہوگئیں ، ظاہر ہے ان حالات میں ایک زبردست انسان کے لئے سوا اس کے چارہ ہی کیا رہتا ہے کہ وہاحکم الحاکمین کی پیشگاہ وعدل وانصاف میں حاضر ہو اور داد خواہ ہو ۔ احادیث میں آیا ہے کہ جب وفد نجران سے گفتگو ہوئی اور نجران کے عیسائیوں نے ضد سے کام لیا ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعوت مباہلہ دی ، انہوں نے کہا ہم سوچ کر کل اس کا جواب دیں گے اور دوسرے دن مقابلہ میں آنے سے انکار کردیا ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ، اگر وہ میدان مباہلہ میں آجاتے تو ان پر آسمان سے آگ برسائی جاتی اور ایک بھی ان میں سے بچ کر نہ جاتا ، اسلام سے پہلے طریق فیصلہ میں مباہلہ کا ذکر نہیں ، جس کے معنی یہ ہیں کہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس کو اپنی حقانیت پربیش از بیش یقین ہے اور اصرار ہے اور وثوق ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت اس کی تائید ونصرت میں کار فرما ہے ، کیا عین الیقین کی یہ صورت کوئی دوسرا مذہب پیش کرسکتا ہے ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد پھر مباہلہ جائز ہے یا نہیں ۔ علامہ دوانی نے اس پر ایک مستقل رسالہ لکھا ہے اور ثابت کیا ہے کہ امور مہمہ شرعیہ میں مباہلہ کرنا اب بھی درست ہے ۔ (کذا فی ردالمختار المعروف بہ شامی) آیت کے الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ مباہلہ ان امور میں ہونا چاہئے جو اصولی ہوں اور کفر واسلام میں دائر ہوں اور انکا مبنی برحق ہونا از قبیل قطعیات ہو ، اس لئے فرمایا (آیت) ” من بعدما جآءک من العلم “۔ اور مجتہدات فقہیہ میں اختلاف رائے مباہلہ تک نہ پہنچے تو اچھا ہے ۔ (آیت) ” نسآء نا ونسآء کم میں پہلی ازواج اور پھر دوسری عورتیں ثانوی حیثیت سے داخل ہیں ، اسی طرح ” ابنآء نا “ کا لفظ مجازا دوہتوں اور پوتوں کے لئے استعمال ہوا ہے ، مقصد یہ ہے کہ امہات المومنین آیت مباہلہ میں بطور اولین مفہوم کے داخل ہیں ، یہ الگ بات ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں انتخاب میں نہیں لیا اور صرف حضرت فاطمہ (رض) پر اکتفا کیا ۔ حل لغات : نبتھل : مادہ ابتھال ۔ بتضرع آرزو کرنا ۔ آل عمران
62 آل عمران
63 آل عمران
64 دعوت اتحاد : (ف ١) قرآن حکیم دنیا سے تفریق واختلاف کو مٹانے آیا ہے وہ چاہتا ہے کہ ساری دنیا کو ایک مرکز پر لا کھڑا کرے اور جتنے فتنے تشدد وافتراق کی وجہ سے بپا ہیں یکسر محو ہوجائیں اور اگر یہ نہ ہو سکے تو بھی تعصبات ختم ہوجائیں مہمات مسائل پر اتفاق ہوجائے اور کم از کم چند چیزیں ایسی مسلمانہ میں سے ہوں جس پر دنیا کے تمام انسان متفق ہوں ، کتنا سچا اور مقدس مسلک ہے ، اس آیت میں اسی دعوت اتحاد کی تشریح ہے ، اہل کتاب کے ہر دو فرقوں کو مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ آؤ ہم دونوں مسلمات پر اتفاق کریں اور وہ یہ ہیں کہ ایک اللہ کی پرستش کریں ، کسی دوسرے کو عبادت اور پرستش کے قابل نہ سمجھیں اور اپنے جیسے انسانوں کو (آیت) ” اربابا من دون اللہ “ تصور نہ کریں ، ایک خدا کی بادشاہت ہو اور وہ ایک ہیہو جو ساری دنیا کا رب ٹھہرے ۔ حل لغات : القصص : بیان ، بات ، قصہ ، معاملہ ، تعالوا : آؤ ۔ آل عمران
65 آل عمران
66 آل عمران
67 حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مذہب : (ف ١) مکہ کے مشرک ، مدینے کے یہودی اور جاہل عیسائی یہ سمجھتے تھے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) میں تقریبا ایک ہزار سال کا وقفہ ہے ، پھر کس طرح یہ ممکن ہے کہ انہیں یہودی یا عیسائی کہا جائے ؟ مشرکین سے کہا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پورے موحد تھے ان کا دین شرک کی آلودگیوں سے قطعا پاک تھا ۔ ان کی ساری عمر شرک کے خلاف جہاد کرنے میں گزری پھر یہ کیونکر قرین قیاس ہے کہ انہیں لات وہبل کے پرستاروں میں شامل کیا جائے ۔ بات یہ ہے کہ انبیاء کا مسلک ٹھیٹ اسلام ہوتا ہے ، وہ بجز توحید اور عدل وانصاف کے اور کسی چیز کے وادار نہیں ہوتے ، انہیں ما بعد کے تعصبات میں گھیرنا سوء فہم ہے ، وہ یہودیت ‘ عیسائیت اور اس نوع کے دوسرے تعصبات سے بالا ہوتے ہیں ، وہ اسلام اور صرف اسلام پیش کرنے کے لئے تشریف لاتے ہیں ، ان کے نزدیک خدا کے بتائے ہوئے طریق کے سوا کوئی دوسرا طریق قابل اطاعت نہیں ہوتا ۔ آل عمران
68 (ف ٢) اس آیت میں بتایا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے اختصاص رکھنے والے تم نہیں ہو ، بلکہ وہ لوگ جنہوں نے ان کی اطاعت کی اور یہ نبی ہیں جو انکے مسلک کی تشریح کر رہے ہیں اور تمام مسلمان ہیں جو رہتی دنیا تک تو حیاء کے علمبردار رہیں گے ۔ اللہ کن کو دوست رکھتا ہے ؟ (آیت) ” اللہ ولی المؤمنین “۔ کہہ کر یہ بتایا ہے کہ خدا کی دوست اور محبت صرف مسلمانوں کے حصہ میں آئی ہے ، اس کی رحمتوں انعاموں کے مستحق صرف رب کعبہ کے پرستار ہیں ، مگر اس وقت جب ان کے دل واقعی ماسوی اللہ سے متنفر ہوں اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ اور ایمان ہو ۔ حل لغات : حنیف : عام روش سے الگ چلنے والا ، لوگوں کے مزعومات کا ساتھ نہ دینے والا ۔ آل عمران
69 آل عمران
70 آل عمران
71 اہل کتاب کا تعصب : (ف ١) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب اسلام کی روشنی سے سارا عالم بقعہ نور سا بنا دیا تو سپرہ چشم یہودی برداشت نہ کرسکے اور حیلوں اور بہانوں سے اس شمع ہدایت کو بجھانے میں ہوگئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تلبیس سے کیوں کام لیتے ہو حق وباطل کو کیوں ملا دیتے ہو اس کہ دونوں میں کوئی تمیز نہ رہے تم جانتے ہوئے اور علم رکھتے ہوئے بھی حق پوشی سے کام لیتے ہو ، کیا یہ نری بدبختی نہیں ؟ بات یہ تھی کہ یہودی ایک طرف تو اسلام کے متعلق غلط باتیں مشہور کرتے اور عوام میں اسے بدنام کرنے کی کوشش کرتے ، دوسری طرف توریت کی ان آیات میں تحریف سے کام لیتے جن میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا تذکرہ ہے ، قرآن حکیم نے ان کی اس دو گونہ تحریف کو کتمان حق سے تعبیر کیا ہے یعنی وہ سچائی محض اس لئے چھپاتے ہیں کہ اسے واشگاف صورت میں بیان کردینے کی صورت میں ان کا وقار جاتا رہتا ہے اور انکی جاگیریں چھن جاتی ہیں ۔ آل عمران
72 ایک سازش : (ف ٢) دین حنیف کی یہ ایک خصوصیت ہے کہ ایک دفعہ جو اسے سمجھ سوچ کر قبول کرلے ، پھر ارتداد اختیار نہیں کرتا اس لئے کہ اس سے زیادہ سادہ صحیح اور معقول مذہب دنیا میں موجود ہی نہیں ، یہ انسانی بیماریوں کی آخری دوا ہے ، وہ جو اسلام سے مطمئن نہیں وہ بجزدہریت کے کسی دوسرے عقیدے پر مطمئن نہیں ہو سکتا اور دنیا کا دوسرا مذہب اسے اپنی طرف نہیں کھینچ سکتا ، یہی وجہ ہے کہ ہرقل نے ابو سفیان سے منجملہ دیگر سوالات کے یہ بھی پوچھا کہ کوئی اسلام کو قبول کرکے مرتد تو نہیں ہوجاتا ؟ ابو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے ، ہرقل کے پاس اسلامی سفیر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مکتوب گرامی لے کر پہنچا تھا جس میں اسے مسلمان ہونے کی دعوت دی گئی تھی ، اس لئے اس نے مناسب سمجھا کہ ابو سفیان سے رسول عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حالات پوچھے جائیں ، ابو سفیان نے جوابا کہا کہ نہین ! ہرقل جو نہایت سمجھ دار بادشاہ تھا ‘ بول اٹھا کہ ایمان صادق کی یہی علامت ہے کہ ایک دفعہ دل جب اس کی چاشنی سے لطف اندوز ہوجائے تو پھر کبھی محروم ذوق نہیں رہتا بات یہ ہے کہ فطرت انسانی کے سانچے میں بجز اعتقاد وصحیح کے اور کوئی چیز نہیں ڈھل سکتی اور انسان بالطبع صرف ایک ہی مذہب کے قبول کرنے کے لئے پیدا ہوا ہے ، وہ اس وقت تک بھٹکتا رہتا ہے جب تک فطری مذہب اسے اپنی طرف نہیں کھینچ لیتا اور جہاں وہ اسلام کی طرف آگیا ‘ پھر اس کا اس کی چوکھٹ سے ہٹنا ناممکن ہے ، ۔ یہودی اسلام کی اس جاذبیت سے واقف تھے وہ چاہتے تھے کہ عوام میں اسلام کی طرف سے بددلی اور بد اعتمادی پیدا کی جائے چنانچہ عبداللہ بن الصیف ‘ عدی بن زید اور حارث بن عوف ایسے ذلیل لوگ اس سازش پر آمادہ ہوگئے کہ بظاہر اسلام قبول کرلو اور پھر یہ کہہ کر انکار کر دو کہ ہمیں اسلام طمانیت قلب نہیں بخش سکا ، تاکہ عام لوگ جو اسلام کی طرف مائل ہوگئے ہیں ، وہ متنفر ہوجائیں اور یہ کہیں کہ جب ایسے سمجھ دار لوگ مرتد ہوگئے تو ضرور اسلام میں کوئی نقص ہے ، اللہ تعالیٰ نے جو علام الغیوب ہے ‘ اس سازش کا بھانڈہ پھوڑ دیا اور بتا دیا کہ ان لوگوں کے ارادے مخلصانہ نہیں ۔ حل لغات : تلبسون : مادہ لیس ۔ ملانا ، مختلط کرنا ۔ آل عمران
73 آل عمران
74 (ف ١) ان آیات میں بتایا ہے کہ یہودیوں کی مخالفت محض اس بنا پر تھی کہ مسلمان کیوں اس نعمت اسلام ہے سے بہرہ اندوز ہیں یعنی بجز تعصب کے نہ روکے ، اور کوئی چیز انہیں اسلام کی صداقتوں کے قبول کرنے سے نہیں روکتی ، وہ نہیں سوچتے کہ یہ خدا کی دین ہے ، جسے محروم رکھے ، اس کی مصلحتوں کو اس کے سوا اور کون جانتا ہے ۔ حل لغات : قنطار : خزانہ ، مال کثیر ۔ سبیل : اصل معنی راہ اور راستے کے ہیں ، یہاں مراد ہے کہ ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ، کوئی طریق اعتراض والزام نہیں ۔ آل عمران
75 بدترین تعصب : (ف ١) اہل کتاب میں یہودی بدترین تعصب کے حامل تھے ان کی ہر وقت یہ کوشش رہتی کہ مسلمانوں کو لوٹا جائے اور ان کے خون سے ہاتھ رنگے جائیں ، مسلمانوں کے باب میں وہ ہر قسم کے عذر اور خداع کو جائز قرار دیتے اور کہتے ، یہ ان پڑھ اور غیر سرمایہ دار لوگ ہر وقت ہماری جوع البقری کا شکار ہو سکتے ہیں اور ان کو دھوکا دینے اور لوٹنے میں مذہبا کوئی مضائقہ نہیں گویا یہ اصول کہ اقوی اضعف کو پامال کرے ‘ بڑا اصول ہے موجودہ یورپ نے اسے یہودیوں سے سیکھا ہے یہی وجہ ہے کہ تمام سفید فام اور باقتدار حکومتیں ضعیف اور ناتوانوں کو اپنا آزوقہ حیات سمجھتی ہیں اور اخلاقا وعرفا انہیں محکم دینے میں کوئی مضائقہ خیال نہیں کرتیں ۔ قرآن حکیم کہتا ہے کہ یہ طرز عمل اللہ تعالیٰ کے قانون انصاف وعدل کے خلاف ہے اور خدائے قدوس پر یہ زبردست الزام ہے اللہ تعالیٰ کسی حالت میں بھی تعصب کو جائز ودرست قرار نہیں دیتے ، انصاف وعدل بہرحال قابل لحاظ ہے ۔ آل عمران
76 آل عمران
77 (ف ٢) اس آیت میں بتایا ہے کہ حق فروشی چاہے کسی قیمت پر ہو ‘ اس کی حیثیت ثمن قلیل سے زائد نہیں ، سچائی اور صداقت کی محبت بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ اسے مانا جائے اور اس کی تائید کی جائے ، وہ لوگ جو دنیوی مفاد کے لئے آخرت کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور دین مستقیم کی صداقتوں پر کان نہیں دھرتے ان کا عالم جودانی میں کوئی حصہ نہیں ، جس طرح انہوں نے اللہ کی آواز سنی اور پکارنے والے کی آواز پر توجہ نہ دی ‘ خدا بھی اس دن ان سے کوئی رعایت ومحبت کی گفتگو نہیں کرے گا اور انہیں ہر نوع کے مکالمہ شفقت سے محروم رکھے گا ، جس طرح انہوں نے آنکھیں رکھتے ہوئے خدا کے پھیلائے ہوئے دلائل وشواہد کو نہ دیکھا اور اندھے بن گئے ‘ اسی طرح وہ بھی انہیں نظرالتفات سے محروم رکھے گا اور قطعا ان کی طرف دھیان نہیں دے گا ، پھر جس طرح انہوں نے تزکیہ وتطہیر کی طرف کبھی التفات نہیں کیا ، اللہ تعالیٰ بھی مکافات کے طور پر انہیں پاکیزگی کا موقع نہیں دے گا اور وہ اپنے گناہوں کی غلاظتوں میں پھنسے ہوئے عذاب الیم سے دوچار رہیں گے ، حل لغات : ایمان : جمع یمنہ بمعنی قسم ۔ خلاق : حصہ ۔ آل عمران
78 بددیانتی : (ف ١) لی کے معنی میل وانحراف کے ہیں نری براسہ کے معنی سر کو ایک طرف جھکا دینے کے ہیں ، (آیت) ” یلون السنتھم بالکتب “۔ کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ الفاظ کو اس طرح پڑھتے ہیں کہ معانی میں ایک قسم کی تحریف وانحراف پیدا ہوجاتا ہے ۔ یعنی اہل کتاب میں ایک فریق یہودیوں کا ایسا ہے جو اپنی طرف سے کچھ عبارتیں وضع کرلیتا ہے اور اسے تورات کی طرف منسوب کردیتا ہے ، یا وہ تورات کے الفاظ کو اس طرح پڑھتا ہے جس سے معانی میں تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے ، بات یہ ہے کہ عبرانی رسم الخط اس قسم کا ہے کہ بعض حروف تھوڑی سی صوتی تبدیلی سے کیا سے کیا ہوجاتے ہیں ، اس لئے محرفین کو موقع ملتا ہے کہ وہ اس کمزوری سے جو رسم الخط سے تعلق رکھتی ہے ‘ اپنی خواہشات کے مطابق ناجائز فائدہ اٹھائیں ۔ قرآن کریم یہودیوں کی اس بددیانتی پر انہیں برملا ٹوکتا ہے اور کہتا ہے کہ اس افترا اور جھوٹ سے باز آؤ اور جانتے بوجھتے اس فعل شنیع کے مرتکب نہ بنو ۔ آل عمران
79 تحریف وبدیانتی کی روشن ممثال : (ف ٢) اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ کوئی نبی جسے کتاب وحکمت کی پر از معارف نعمت سے نوازا گیا ہے ‘ ناممکن ہے کہ اپنی پوجا کرائے اور غیر اللہ کی پرستش کا حکم دے ، اس لئے جو لوگ انبیاء کی طرف اس نوع کی تعلیمات کو منسوب کرتے ہیں ‘ وہ راہ راست پر نہیں اور انہوں نے اپنی تعلیمات کو بدل لیا ہے ، انبیاء علیہم السلام تو اس لئے تشریف لاتے ہیں کہ بھٹکے ہوئے اور روٹھے ہوئے لوگوں کو پھر سے خدا کے حضور میں لا کھڑا کریں اور ان کے دلوں میں خدا کی محبت و عقیدت کے بےپناہ جذبات پیدا کردیں ، وہ دنیا میں خدا پرستی کی تعلیم دینے کے لئے آتے ہیں ، بالذات ان کا کوئی اپنی مقصد نہیں ہوتا ، وہ محض وسائل وذرائع سے اللہ تک پہنچتے ہیں ، وہ کبھی حدود بشریت سے تجاوز نہیں کرتے ، اس لئے کہ نبوت معراج انسانیت ہے ، اور علم کی آخری حد یہ ہے کہ خدا کی لامحدود قدرتوں کا بزور اعتراف کیا جائے اور اپنی بےچارگی اور عجز کو زیادہ سے زیادہ محسوس کیا جائے ، انبیاء علیہم السلام ” عبودیت “ کے اس بلند مفہوم کو سمجھتے ہیں اس لئے وہ کبھی اس قسم کی غلطی میں نہیں مبتلا ہوتے کہ لوگوں سے اپنی پرستش کرائیں ۔ پس وہ کتابیں جن میں کسی نبی کو خدا کو درجہ دیا گیا ہے ظاہر ہے محرف تھیں اور خدائے ذوالجلال کی طرف سے نہیں تھیں ، اس طریق سے قرآن حکیم نے ثابت کردیا کہ جب تک تثلیث کا عقیدہ بقول عیسائیوں کے موجودہ اناجیل میں موجود ہے ‘ اس وقت تک اسے تحریف سے مبر خیال نہیں کیا جاسکتا ۔ حل لغات : الحکمۃ : حکمت ۔ دانائی ۔ ربانیون : جمع ربانی ، خدا پرست ۔ اللہ والا ۔ تدرسون : مضارع ، مصدر درس پڑھا ۔ آل عمران
80 آل عمران
81 نبیوں علیہم السلام کا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ف ١) تمام نبیوں علیہم السلام کا دائرہ تبلیغ عام انسانوں تک ہے اور وہ صرف اس حد تک مکلف ہیں کہ وضیفہ رشد وہدایت کو مفروضہ قوم کے لئے جاری رکھتیں ، یعنی سب کے مخاطب عام انسان ہیں جن کو ان پر ایمان لانا ضروری ہے ، مگر پیغمبر کون خواجہ عالم وعالمیان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت عام انسانوں سے گزر کر انبیاء علیہم السلام کے لئے بھی ضروری ہے ، اس آیت میں یہی بتایا گیا ہے کہ جب انبیاء علیہم السلام کو عالم برزخ میں پیدا کیا گیا تو ان سے کہا گیا کہ باوجود اس کتاب وحکمت کے جو تمہیں دی گئی ہے ‘ تم پر لازم ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منصہ شہود پر آئیں تو ان پر ایمان لاؤ اور ان کی نصرت میں اقدام کرو ، سب نے کہا منظور ہے اور ہم اس حقیقت نیرہ کے شاہد وگواہ ہیں ، گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کو مانا جس کے معنی یہ ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیغمبروں کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور نبیوں کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیغمام تمام صداقتوں کا حامل اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت تمام انبیاء کی مصدقہ ہے ۔ بات یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جس قدر انجم فلک کائنات پر جلوہ گر ہوئے وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد کا اعلان تھے اور اس کتاب ہدی کا مقدمہ یا دیباچہ تھے جو حضرت انسان کو عنایت ہونے والی تھی ، جس طرح سپیدئہ سحری صبح جان نواز کا پیشہ خیمہ ہوتی ہے ، اسی طرح سابقہ نبوتیں پہلے پیغام ‘ سب اس نبی اکبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خاتم پیغمبران کی تمہید سمجھئے یا سرمانہ خط ۔ وہ جو مقصود حاصل ہے وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات بالشمائل ہے یہی وجہ ہے کہ تمام سابقہ کتابوں میں اس محبوب اصل کے خدوخال کا ذکر پایا جاتا ہے ، کہیں اسے ” سرخ وسفید “ کہا گیا ہے کہیں ” فارقلیط “۔ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ۔ کہیں ” آتشیں شریعت کا پیش کرنے والا “ کہا گیا ، کہیں صاف صاف ” محمدیم “ کہہ کر ہر شبہ کو اڑا دیا گیا اور ہر پردہ کو چاک کردیا ۔ مگر باجود اس وضاحت اور صراحت کے بعد طبیعتیں ایسی ہیں جو بجز انکار اور سرکشی کے کسی چیز پر قانع نہیں ہوتیں ۔ فرمایا وہ لوگ جو آفتاب عقل کی درخشانی کے بعد بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ماننے میں متامل ہیں ‘ ان سے زیادہ بدقسمت اور فاسق کون ہے ؟ حل لغات : اقررتم : مصدر اقرار بمعنی ماننا ، اعتراف کرنا اور قبول کرلینا ۔ اصر : عہد قول ۔ آل عمران
82 آل عمران
83 اللہ کا دین : (ف ١) وہ پیام تسکین جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس دنیائے اضطراب کے لئے لے کر آئے وہ اللہ کا خالص دین ہے اور اللہ وہ ہے جسے آسمانوں اور زمینوں کا ذرہ ذرہ مانتا ہے اور جس کا اقرار طوعا وکرہا کسی نہ کسی طرح کرنا ہی پڑتا ہے ۔ جس طرح اس کی ربوبیت عامہ کا انکار فطرت انسانی سے نہیں بن پڑتا ، اسی طرح اس کے دین سے ابا جو ربوبیت کا خاصہ ہے ناممکن ہے کسی نہ کسی وقت اور مشکل میں ہر انسان اس کی اطاعت پر مجبور ہے ، یہ الگ بات ہے کہ وہ زبان سے اس کا اقرار نہیں کرتا ، مگر وہ اپنے افعال وحرکات سے ہمیشہ یہ ثابت کرتا رہتا ہے کہ اس میں اللہ کے بنائے ہوئے قانون کی مخالفت کا کوئی جذبہ نہیں ۔ آل عمران
84 (ف ٢) اللہ کا دین وہ ہے جسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے لے کر حضرت مسیح (علیہ السلام) تک سب نے پیش کیا ، اس لئے ضروری ہے کہ ہر مسلم بلاتفریق احدے سب پر ایمان لائے اور یہ یقین رکھے کہ خدا کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) برحق ہیں اور یہ کہ حق تمام قوموں میں مشترکہ حقیقت کی حیثیت رکھتا ہے ، سچائی اور صداقت کو جہاں پائے جس صورت میں پائے قابل قبول سمجھے اور کسی تعصب وجہالت سے کام نہ لے ۔ حل لغات : الاسباط : جمع سبط ۔ بمعنی اولاد ۔ الاسلام ، عاجزی وفروتنی ، یہاں دین کامل مراد ہے ۔ آل عمران
85 دین مقبول : (ف ١) اس آیت میں بتایا ہے کہ خدا پرستی کے تمام راستے جو شاہراہ اسلام سے الگ ہیں شاہد حقیقت تک رسائی نہیں رکھتے اور بجز دین حنیف کے تمام ادیان باطل ‘ محدوش اور غیر محفوظ ہیں ، اس لئے جو چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حریم عزت وعظمت تک پہنچے ، ضرور ہے کہ اپنے لئے اسلام کی سیدھی اور محفوظ رہ اختیار کرلے ، ورنہ ہر طریق غیر مصائب ‘ نادرست اور نامکمل ہے ، اسلام سے پہلے جس قدر تعلیمات موجود تھیں ، وہ وقتی ضروریات کے لئے تھیں اور جب تک ان کی ضروریات کے لئے تھیں اور جب تک ان کی ضرورت رہی ‘ ان کو باقی رکھی گیا ، مگر آفتاب حقیقت کے طلوع ہونے پر یہ انجم باوجود اپنی تابانی کے آنکھوں سے اوجھل ہوگئے اور اب بجز اس کے طالبان حق کے لئے اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ اسی شمس بازغہ سے اکتساب ضوء کریں ، جیسے ایک اور ایک کا جواب دو ہے اور دو اور دو کا چار ، اسی طرح انسانی مشکلات کا حل اسلام ہے یعنی اسلام اور کفر میں کوئی تیسری راہ نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر قوم وملت کے ارباب فکر وتامل اپنی قوم کے لئے ایسے مذہب کی طرح ڈال رہے ہیں جسے دوسرے لفظوں میں اسلام کہا جا سکتا ہے ، وہ نادانستہ طور پر ایسی اصلاحات نافذ کررہے ہیں جو خالص اسلامی اصلاحات ہیں ، جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ” دین مقبول “ کے راز کو پاگئے ہیں اور جانتے ہیں کہ کون کون چیزیں قوم کے روشن خیال طبقے میں مقبول ہو سکتی ہیں ، اور وہ وقت قطعا دور نہیں جب قوموں کے تجربے انہیں اسلامی حقانیت کا ثبوت بہم پہنچا دیں گے اور وہ خود عملا اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ بجز اسلامی نقطہ نگاہ کے کوئی دوسری تعلیم قبولیت فائقہ کا درجہ حاصل نہیں کرسکتی ۔ حل لغات : لعنۃ : دوری اور بعد ۔ آل عمران
86 آل عمران
87 آل عمران
88 آل عمران
89 آل عمران
90 مرتد : (ف ١) وہ لوگ جو اسلام کو قبول کرکے چھوڑ دیتے ہیں ، قرآن کی اصطلاح میں مرتد ہیں ، قرآن حکیم کہتا ہے ، یہ نوع کی ہدایت سے محروم رہتے ہیں ، ان پر اللہ کا غضب ہوتا ہے ، یہ فرشتوں اور تمام نیک لوگوں کی ناراضگی خریدتے ہیں ، یہ لوگ جہنم کا کندہ ہیں ، ان کے عذاب میں کوئی تخفیف نہ ہوگی اور نہ یہ اس قابل ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی طرف نظر التفات کرے ، البتہ وہ لوگ جو توبہ کرلیں اور پھر سے اسلام میں داخل ہو کر اصلاح اعمال میں مصروف ہوجائیں ‘ ان کے لئے اللہ کی بخشیش عام ووسیع ہیں اور وہ جو معاند ہوں اور کفر کے بعد ان کا بغض وعناد زیادہ ترقی کرجائے ، ان کی توبہ ہرگز قبول نہیں ۔ آخرت میں مرتدین کے لئے کوئی روحانی اعانت قبول نہ کی جائے گی اور نہ کوئی مادی صلہ ان کو عذاب الہیم سے نہ بچا سکے گا ۔ یہ اس لئے کہ انہوں نے اسلام ایسی سچائی کو ٹھکرا دیا اور ایک ایسے نظام عمل و ایمان کی توہین کی جو ساری دنیا کے لئے مشترکہ آئیں کی حیثیت رکھتا ہے ، ترک اسلام کے معنی یہ ہیں کہ اس نے ساقی ازل کی بخشش عام کی تحقیر کی ہے اور مئے معرفت کے ساغر کا انکار کیا ہے جس کا ہر قطرہ وجرعہ آب حیات ہے ۔ حل لغات : ذھب : سونا ۔ آل عمران
91 آل عمران
92 ایثار : (ف ١) محبت کا اشتقاق حبۃ سے کیا گیا ہے جس کے معنی سودائے قلب کے ہیں ، اس لئے اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ کدا کی راہ میں وہ چیزیں دو جنہیں تم دل کی گہرائیوں سے چاہتے اور عزیز رکھتے ہو یہی وجہ ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ (رض) عنہم اجمعین نے مختلف طریق ایثار کے استعمال کئے ، حضرت ابو طلحہ (رض) نے فرمایا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے ہر برحا زیادہ پسند ہے ، اسے قبول فرمائیے ، عبداللہ بن عمر (رض) نے ارشاد فرمایا کہ مجھے میری لونڈی مرجانہ بہت مرغوب ہے ، اسے آزاد کئے دیتا ہوں اور زید بن حارثہ (رض) نے کہا ، مجھے اپنے گھوڑے سبل سے عشق ہے ، یہ مجاہدین کے لئے صدقہ ہے ، گویا جو جن کے پاس تھا وہ خدا کی راہ میں دے دیا گیا آیت کا مفہوم بھی یہی ہے کہ بلا کسی تخصیص کے ہر محبوب اور عزیز شے اس قابل ہے کہ خدا کی راہ میں اسے دے دیا جائے ، مقام بروتقوی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ مال ودولت عزت وجاہ ہر چیز کو اس کے حصول کے لئے وقف کردیا جائے ، آل عمران
93 (ف ٢) خدا کا دین چونکہ فطرت انسانی کی کمزوریوں کو سامنے رکھ کر تجویز کیا گیا ہے اس لئے اس میں کوئی بات بھی مضر یا غیر مرغوب نہیں ، البتہ بعض وقت علماء فکر ونظر اپنی طرف سے اس میں بعض تفاصیل ایسی پیدا کردیتے ہیں جو آیندہ چل کر دین کی سہولت وشگفتگی کے لئے مضر پڑتی ہیں ، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں توضیح فرما دی کہ اصل دین میں یہودیوں کے لئے تمام پاکیزہ چیزیں حلال تھیں اور کھانے پینے کے معاملہ میں کوئی ناجائز پابندی نہ تھی ، مگر انہوں نے از راہ احتیاط بعض چیزیں تقشف اور زہد کو بڑھانے کے لئے اپنے اوپر حرام قرار دے لیں ، مثلا اونٹ کا گوشت حضرت یعقوب (علیہ السلام) عرق النساء کی وجہ سے استعمال نہیں فرماتے تھے ، مگر ان لوگوں نے مطلقا اس سے احتراز مناسب سمجھا ، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اسے حلال قرار دیا تھا ۔ فرمایا اس نوع کی زیادتیاں افتراعلی اللہ کے مترادف ہیں اور وہ شخص ظالم ہے جو زہد وتقشف کے نام پر خواہ مخواہ دین میں دشواریاں پیدا کرتا ہے ۔ (ف ٣) یہودیوں کو مسلک ابراہیمی پر گامزن ہوجانے کی تلقین کی ہے جو توحید وفطرت کی راہ ہے جس میں شرک وبدعات کی رسوم کو قطعا دخل نہیں ، واضح ، سہل اور بالکل صحیح مذہب ہے ۔ حل لغات : البر : بھلائی ، کامل نیکی ۔ حل : حلال : جائز ودرست ۔ آل عمران
94 آل عمران
95 آل عمران
96 پہلا گھر : (ف ١) خدا کا گھر جو تمام نسل انسانی کا مرکز عبادت ہے ‘ وہ صرف بیت اللہ الحرام ہے ، جہاں برکات وہدایات کے ہزاروں چشمے پھوٹتے ہیں اور جس میں عبادت ونیاز مندی کی لاکھوں نشانیاں پنہاں ہیں ، جو مقام ابراہیم (علیہ السلام) کے شرف سے مفتحز ہے اور جو روح وقلب کی عام سعادتوں کی ضامن وکفیل ہے اس لئے یہ دلیل ہے ، اس بات کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) خدا کے سچے پیغمبر تھے اور وہ لوگ جو ان کے نقش قدم پر چلتے ہیں ‘ وہ بھی صداقت وصفا کے پیکر ہیں ، غور کرو ایک غیر معروف شخص ایک بنجر اور سنگلاخ زمین میں ایک عبادت گاہ بناتا ہے ، جو بالکل سادہ ہے فن تعمیر کے لحاظ سے جس میں کوئی خوبی نہیں لیکن اس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ دنیا کے ہر گوشے سے زائرین وعقیدت مند کھینچے چلے آتے ہیں ، کیا یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے خلوص وجاذبیت کی بہترین دلیل نہیں ؟ اور کیا یہ اسلام کی صداقت کا بولتا ہوا ثبوت نہیں کہ اس گھر کو ساری دنیا کا گھر بنانے والے وہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جو مکے جیسے گمنام شہر میں رہنے والے ہیں جن کے پاس نشرواشاعت کے وسائل قطعا موجود نہیں جو امی محض ہیں اور یتیم ہیں کہ باپ کے ظل شفقت ومحبت بالکل محروم ! ایسا انسان کعبۃ اللہ کی طرف لوگوں کو دعوت دیتا ہے ، اس کی مرکزیت کی طرف بلاتا ہے اور کہتا ہے آؤ سب ابراہیم (علیہ السلام) کے خلوص کو زندہ کریں ، سب رب بیت کی چوکھٹ پر جھک جائیں ، نتیجہ یہ ہے کہ ستر کروڑ انسان پانچ وقت مسجدوں میں پہنچتے اور کعبہ کی طرف سجدہ کناں ہوجاتے ہیں ، (آیت) ” فیہ ایت بینت مقام ابرھیم “۔ آل عمران
97 حج بیت اللہ : (ف ٢) اسلام کے ارکان خمسہ میں سے حج ایک بہت اہم رکن ہے ، اس آیت میں اس کی فرضیت پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ ہر شخص جو استطاعت رکھتا ہو ، مکلف ہے کہ بیت اللہ پہنچے اور مناسک حج ادا کرے مگر استطاعت کیا ہے ؟ اس کے مفہوم میں اختلاف ہے ، بعض کے نزدیک صرف زاد راہ اور راحلہ کافی ہے ، اکثر اہل علم کا یہی مذہب ہے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نددیک نفس قوت کفایت کرتی ہے ، اگرچہ زاد راہ نہ ہو ، ابن زبیر شعبی رحمۃ اللہ علیہ اور عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ اسی طرف گئے ہیں ، ضحاک رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ اگر کوئی شخص مضبوط اور تندرست ہو تو حج کے لئے چاکری یا ملازمت اختیار کرے ، جب ازاد راہ کا سامان ہوجائے تو حج کو چلا جائے ، گویا ان کے نزدیک بھی صرف جسمانی قوت واستعداد ہی استطاعت کے مفہوم میں داخل ہے ۔ اصل چیز یہ ہے کہ استطاعت سبیل کا لفظ عام ہے ، جس میں جسمانی قوت واستعداد سے لے کر زاد راہ ‘ راحلہ اور دیگر سفر تک سب چیزیں شامل ہیں ۔ یعنی ہر وہ چیز جس کا حصول سفر کے امکانات میں سہولت پیدا کردے ‘ وہ استطاعت کے دائرے میں موجود ہے اور احادیث میں جو زاد وراحلہ کو استطاعت سے تعبیر کیا ہے تو وہ بطور تفسیر کے ہے ‘ تحدید کے نہیں یعنی عام طور پر چونکہ یہی وہ چیزیں اولا خیال کی جاتی ہیں ‘ اس لئے ان موجود ہونا ضروری ہے ۔ (آیت) ” ومن کفر فان اللہ غنی عن العلمین “۔ کا مطلب یہ ہے کہ حج مبرور سے جس کا صلہ حیات ونعیم کی لازوال نعمتیں ہیں ، محرومی کفر ہے یعنی اگر کوئی شخص باوجود استطاعت کے فریضہ حج ادا نہیں کرتا تو پھر اسے اپنے اسلام کا جائز لینا چاہئے ، قرآن حکیم اس کے لئے کفر کا خوفناک لفظ تجویز کرتا ہے اس سے اس کی اہمیت واضح ہے اور یہ اس لئے ہے کہ حج میں صرف عبادت وزہد کا سامان فراواں ہی موجود نہیں ‘ بلکہ ایمان وعقیدت کے لئے مکہ کا ذرہ ذرہ وادی ویمن ہے اور پھر وہ اجتماع عظیم ہوتا ہے جس میں ملک ووطن کی تمام تفریقیں اٹھ جاتی ہیں اور سارے انسان ایک خاص لباس میں رب اکبر کے سامنے جھک جاتے ہیں ، اور وحدت ویکسانی کا ایک متلاطم سمندر ہوتا ہے ، بادشاہ سے لے کر فقیر تک ہیں کہ ایک ساتھ مناسک حج ادا کرتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ اجتماع ابراہیمی کا سب سے بڑا اجتماع ہے اس لئے حج کا مسئلہ صرف عبادت وزہد کا مسئلہ نہیں ، بلکہ اس کا تعلق اجتماعات سے بھی ہے ، اس لئے اس کا انکار چاہے وہ حکم سے ہو اور چاہے قول سے ‘ ایک بہت بڑا گناہ ہے ، آل عمران
98 آل عمران
99 آل عمران
100 (ف ١) ان آیات میں اہل کتاب کی مخالفانہ اور معاندانہ کوششوں کا ذکر ہے کہ وہ جانتے ہوئے بھی حق وصداقت کا انکار کرتے ہیں اور صرف انکار پر ہی کفایت نہین کرتے بلکہ چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ دوسرے مسلمان بھی شریک ہوجائیں اور اراتداد اختیار کرلیں ، فرمایا مسلمانوں سے اس قسم کی توقعات رکھنا درست نہیں ، اس لئے کہ وہ صبح وشام قرآن حکیم کی آیات سنتے ہیں جن میں تمہارے ہر فریب کی تشریح موجود ہے اور ان کے شبہات دور کرنے کے لئے خود اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں موجود ہے جو بجائے خود ہر کفر ونفاق کا ایک مستقل جواب ہے ، جب تک اس کا وجود مسعود مسلمانوں میں موجود ہے ، انہیں ارتداد کا خوف نہیں ، اور اگر کوئی بخت پہلے سے دل میں نفاق وکفر پوشیدہ رکھتا ہو یا ذوق ایمان نے اسے یقین واستقلال کی دولت گرانمایہ نہ بخشی ہو ، ایسی صورتوں میں تو ارتداد ممکن ہے ، کیونکہ اصل میں یہ ارتداد ہی نہیں ‘ بلکہ اندرونی کفر ونفاق کا اظہار ہے ، پس وہ شخص جو درحقیقت مومن ہے ، جس کا دل ودماغ قرآن کے حقائق ومعارف سے منور وروشن ہے ‘ وہ کبھی بھی صراط مستقیم سے منحرف نہیں ہو سکتا ۔ حل لغات : شھید : گواہ ، جاننے والا ۔ تصدون : روکتے ہو ، مصدر ۔ : بمعنے روکنا ، منع کرنا ، عوجا ، ٹیڑھا پن ، کجی ، یعتصم : مصدر ومادہ ۔ اعتصام ۔ کسی چیز کو مضبوطی سے پکڑ لینا تھامنا اور پکڑنا ۔ آل عمران
101 آل عمران
102 آل عمران
103 پیغام اخوت : (ف ١) پہلے یہ بتایا گیا ہے کہ مسلمان بجز اسلام کے اور کسی چیز پر قانع نہیں رہ سکتا اور اس کی فطرت کے موافق اسلام کے سوا اور کوئی پیغام نہیں ، اس لئے اسے حکم دیا گیا کہ (آیت) ” ولا تموتن الا وانتم مسلمون “۔ یعنی اگر موت بھی آئے تو اسلام پر ، اس کے بعد (آیت) ” واعتصموا بحبل اللہ “ کی تائید کی ہے یعنی مسلمان کا خدا کے ساتھ اتنا مضبوط تعلق ہو اور اس درجہ وابستگی ہو کہ دنیا کا کوئی اور رشتہ اسے منقطع نہ کرسکے ، وہ صرف خدا کے لئے زندہ رہے اور خدا کے لئے مرے اس کا اپنا مفاد اپنے اغراض یکسر مٹ جائیں ، اور اس کے تمام تعلقات اسلام وصداقت کے لئے ہوں ، کفر اور جھوٹ سے اسے قطعا محبت نہ ہو اور وہ دنیا کے تمام مادی رشتوں کو کاٹ دے اور اسلام کے حبل متین سے اپنے آپ کو وابستہ کرلے ۔ ظاہر ہے اس درجہ اخلاص کے بعد جبکہ سچائی اور صداقت کے سوا اور کوئی چیز اپنی نہ رہے ‘ اختلاف اٹھ جاتا ہے اور تفریق وتشتت کے امراض پیدا نہیں ہوتے ، اس لئے قرآن حکیم مسلمانوں کو کہتا ہے کہ دیکھو تم میں تفریق وانتشار کے جھکڑ نہ چلنے لگیں تم ہمیشہ ہی اخلاص پر قائم رہو ‘ جسے اللہ نے اسلام کے ذریعہ تم میں پیدا کیا ، عربوں میں اسلام کے پیغام اخوت سے پہلے انتہادرجہ کی تھیں وہ ہمیشہ ایک دوسرے سے برسرپیکار رہتے اور اپنے دلوں میں صدہا سال کے کینوں کو پالتے رہتے اور اس فطرت کینہ توزی پر فخر کرتے ، ایک دفعہ جب لڑائی کی آگ سلگتی تو پھر اس وقت تک اس کے شعلے نہ بجھتے جب تک کہ سارا عرب اس سے نہ جھلس جاتا وہ اپنے ان ” ایام غرر “ پر نازاں تھے اور اس وصف زبوں کو بہادری اور جماست سے تعبیر کرتے ، ذرا ذرا سی بات پر ان کا غم وغصہ مستقل جنگ کی شکل اختیار کرلیتا اور وہ برسوں تک اس شغل وتفریق کو جاری رکھتے ، اس وجہ سے وہ بالکل تباہ ہوچکے ، اور ہلاکت وموت کے عمیق غار میں گرنے ہی کو تھے کہ اسلام پیام مودت ومحبت نے ان کے دلوں کو جوڑ دیا اور سارے عمر اخوت وبرادری کی ایک لہر دوڑا دی ۔ وہ جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے (آیت) ” رحمآء بینھم کے لقب سے نوازے گئے اور اخوت ودوستی کے وہ روح پرور نظارے دنیا والوں کے سامنے پیش کئے کہ آنکھیں اس سے پہلے اس نوع کے نظاروں سے قطعی محروم تھیں ، اس آیت میں تالیف قلب کے اسی موضوع کی طرف مسلمان کی توجہ کو مبذول کیا گیا ہے اور اس سے کہا گیا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی تاریخ میں اس قسم کے واقعات دہراتا رہے اور بھول کر بھی جماعت بندی اور گروہ بندی کے جھگڑوں میں نہ پھنسے اس لئے کہ اسے بجز تباہی کے اور کچھ حاصل نہیں ۔ آل عمران
104 فریضہ تبلیغ : (ف ١) (آیت) ” ولتکن منکم “ میں من بیانہ ہے یعنی تم سارے مسلمان تبلیغ واشاعت کے لئے مکلف ہو اور تم میں ہر مسلمان مبلغ ہے اس مفہوم کو دوسری جگہ ان الفاظ میں ظاہر فرمایا ہے ۔ (آیت) ” کنتم خیر امت اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر “۔ کہ تم میں اور دیگر جماعتوں میں فرق یہ ہے کہ تم سب کے سب خدا کے دین کے پھیلانے والے ہو اور وہ نہیں ، یہی وجہ ہے کہ مسلمان کو شھدآء اللہ فی الارض “ کا معزز خطاب دیا گیا ہے یعنی تبلیغ واشاعت فرض کفایہ نہیں کہ صرف علماء تک محدود ہو ، بلکہ ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ بقدر استطاعت اسلام سیکھے اور بقدر امکان اس کو دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرے ۔ حل لغات : اعدآء : جمع عدو ۔ بمعنی دشمن ۔ الف : مصدر تالیف ، محبت پیدا کرنا ، دلوں کو جوڑنا ۔ شفا : کنارہ ۔ حفرۃ : گڑھا خار ۔ آل عمران
105 آل عمران
106 آل عمران
107 آل عمران
108 آل عمران
109 آل عمران
110 حدود تبلیغ : (ف ١) اس آیت میں تمام مسلمانوں کو فریضہ تبلیغ کی ادائیگی کے لئے آمادہ کیا ہے مگر خود تبلیغ کی حدود کیا ہیں ؟ یہ ایک سوال ہے ۔ قرآن حکیم نے تبلیغ واشاعت کو دو لفظوں سے تعبیر کیا ہے ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ۔ یعنی نیکی ‘ بھلائی اور سچائی کی تلقین اور برائی سے اظہار نفرت وتحقیر ۔ ظاہر ہے یہ دو لفظ انتہا درجہ کی وسعت اپنے اندر پنہاں رکھتے ہی ، معروف کا اطلاق نیک اقدام پر ہو سکتا ہے اور منکر کا ہر برے اقدام پر ، چونکہ ان دو لفظوں میں فرد وجماعت کی تمام نیکیاں اور برائیاں آجاتی ہیں ، اس لئے جواب بالکل آسان اور واضح ہے کہ تبلیغ کی حدود فرد وجماعت کی تمام وسعتوں پر حاوی ومحیط ہیں ، دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان ایک ایسی پاکیزہ اور بلند عادات رکھنے والی جماعت کا نام ہے جس کا ہر فرد مبلغ ہے ، صالح ہے اور مصلح ہے اور پھر تبلیغ کا طریق صرف پندوموعظت ہی نہیں ‘ بلکہ طاغوت کے خلاف جنگ بھی اس مفہوم میں داخل ہے مسلمان صرف محراب ومنبر ہی میں محدود رہ کر اعلاء کلمۃ اللہ کا سامان پیدا نہیں کرتا بلکہ کبھی کبھی وہ دارورسن کو بھی دعوت امتحان دیتا ہے اس کا امکان تبلیغ صرف پرشور جلسے اور ہنگامہ خیز مجھے ہی نہیں ہوتے بلکہ سیف وسنان کے مرکز اور توپ وتفنگ کے میدان بھی اس کے دائرہ فتوحات میں شامل ہیں ، وہ صرف قلم وزبان کو ہی جنبش نہیں دیتا بلکہ وقت پڑنے پر نیزہ بھالا اور برچھی سب اس کے اشارہ پر رقص کناں ہوتے ہیں ۔ حل لغات : الفاسقون : حدود اصلیہ اسلامیہ سے تجاوز کرنے والا ۔ الادبار : جمع دبر بمعنی پشت ۔ آل عمران
111 آل عمران
112 کفر کی شکت : ان آیات میں بتایا ہے کہ یہ لوگ مسلمانوں کو کوئی مادی فائدہ نہیں پہنچا سکتے ، جب مسلمانوں کے مقابلہ میں آئیں گے تو خائب وخاسر ہی لوٹیں گے ، ان کے کفر والحاد کی وجہ سے کہ انہوں وحدت حق کو ٹھکرایا ہے اور انبیاء کی مخالفت کی ہے ، انہیں ذلت ومسکنت سے دو چار ہونا پڑے گا ، الا یہ کہ خدا کے جبل متین کو مضبوطی سے پکڑ لیں ، دیکھو ! قرآن حکیم کی یہ پیشگوئی کس قدر واضح طور پر ثابت ہوئی ، اہل کتاب باوجود کثرت کے شکست کھا گئے ان کے علم رفیع کے سامنے سرنگوں ہوگئے ، قرآن حکیم علی الاعلان یہ کہتا ہے کہ کفر ہمیشہ مغلوب رہے گا ان کی ہمیشہ فتح ہوگی ، اس لئے کہ حق وباطل کی آویزش میں حق کا پلہ بھاری رہتا ہے ۔ اور باطل کے پاؤں نہیں ہوتے ۔ یہ وقت ہے جب مقابلہ صحیح مومن اور کافر کے درمیان ہو ۔ مسلمان برائے نام ہو اور کافر تمام اچھی صفات صفات سے متصف ہونا وقت ضروری نہیں کہ خدا کی رحمتیں ایسے مسلمانوں کے شامل رہیں ۔ آج کل بالکل یہی کیفیت ہے ، وہ جو غیر مسلم ہیں ‘ ان میں اکثر اسلامی خوبیاں موجود ہیں ، وہ آپس میں اتفاق رکھتے ہیں ، ان میں تعاون وہمدردی کا مادہ موجود ہے ، وہ تعلیم وحرفت میں ‘ دولت وسرمایہ میں مسلمان سے کہیں آگے ہیں ، اور مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ دست وگریبان ہے ، مفلس ہے اور جاہل ، بتائیے ان حالات میں کیونکر وہ خدا کی نعمتوں کا مستحق ٹھہر سکتا ہے کیا اس لئے کہ اس کا نام عبداللہ یا عبدالرحمان ہے یا اس لئے کہ وہ موروثی طور پر مسلمان ہے ۔ آل عمران
113 آل عمران
114 ایمان باللہ کے معنی : (ف ٢) ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ جہاں ایک کتاب میں یہودی ذلت ومسکنت کے عذاب الیم میں گرفتار ہیں ‘ وہاں چند سعید روحیں بھی ہیں جو بدرجہ غایت خدا پرست ہیں ، ان کے دلوں میں ایمان واتقاء کی قندیل روشن ہے ، وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر اللہ کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں اور اعلان حق میں ہر آن کوشاں رہتے ہیں ، یہ صالح اور نیک لوگوں کی جماعت ہے ، ان کی نیکیاں محض اس لئے ضائع نہیں ہونگی کہ وہ پہلے یہودی تھے ، خدا علیم بذات الصدور ہے ، وہ خوب جانتا ہے کہ یہ خدا پرست اور متقی ہیں ‘ اس لئے انکی ہر سعی مقبول وماجور ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں تعصب وانتقام کو کوئی دخل نہیں ، کوئی انسان کسی وقت بھی حق کو قبول کرلے ، اللہ کا مقبول بندہ بن جاتا ہے ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ اپنی کمزوریوں کا احساس ہو اور بس توبہ وانابت کے بعد اس کے دامن میں پناہ لینے کا سب کو استحقاق ہے ۔ یہی مفہوم ہے جس کو آیات میں واضح کیا گیا ہے ، بعض لوگوں کو اس قبیل کی آیات سے دھوکا ہوا ہے اور انہوں نے سمجھا ہے کہ شاید ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کے بعد ایمان بال رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ضروری نہیں اور بغیر مسلمان ہونے کے ہر شخص نجات حاصل کرسکتا ہے ، مگر یہ صحیح نہیں ، قرآن حکیم ایک مستقل پیام نجات ہے ، وہ لوگ جو اسے نہیں مانتے ، وہ کسی طرح بھی حق پرست نہیں ہیں ، قرآن حکیم اخلاق ومعاشرت کا ایک معین پروگرام ہے ‘ اس لئے اس سے قطع نظر عنوان بھی درست نہیں ، یہی مقصد ہے اس آیت کا (آیت) ” ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ “۔ اسلام کے سوا کوئی راہ نجات نہیں ، صرف ایمان باللہ جو کوئی شخص پیام نہ رکھتا ہو ، یہ ناکافی ہے ۔ بات یہ ہے کہ دھوکا ‘ ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کے الفاظ سے ہوتا ہے ۔ ان کا عموم ان کے لئے وجہ لغزش بن جاتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک اصطلاح ہے ، قرآن حکیم میں متقی و مومن کا اطلاق اسی شخص پر ہوتا ہے جو کاملا اسلام کو مان لیتا ہے ، علامہ رازی رحمۃ اللہ علیہ نے اس نکتہ کو کس طرح بھانپ لیا ہے ، وہ لکھتے ہیں : ” وقد بینا ان ال ایمان باللہ یستلزم ال ایمان بجمیع انبیآئہ ورسلہ وال ایمان بالیوم الاخر یستلزم الحذر من المعاصی “۔ یعنی ایمان باللہ مستلزم ہے تمام انبیاء ورسل پر ایمان لانے کو اور ایمان بالاخرت کے معنی ہیں تمام برائیوں سے بچنا ۔ اور یہ کوئی تک نہیں قرآن حکیم کے عمیق مطالعہ سے یہی معلوم ہوتا ہے جسے فاضل رازی رحمۃ اللہ علیہ کی دقیقہ رس نگاہوں نے سرسری طور پر معلوم کرلیا ہے ۔ آل عمران
115 آل عمران
116 (ف ١) قریش مکہ کے بڑے بڑے رئیسوں کو اور بنو نضیر کے بڑے بڑے مہاجنوں کو مال ودولت کی کثرت اور اہل وعیال کی فراخ بالی پر بڑا ناز تھا اور انہیں مسلمان نہایت ذلیل نظر آتے تھے ، وہ کہتے تھے جو یہاں اللہ کی نعمتوں سے محروم ہیں ، انہیں قیامت کے دن کیا ملے گا ؟ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بتایا ہے کہ مال ودولت کی فراوانی وہاں کام نہیں آئے گی اور نہ اولاد وعیال خدا کے عتاب سے چھڑا سکیں گے ، وہاں اعمال حسنہ ہی پونجی سمجھی جائے گی اور وہ ان کے پاس ہے نہیں ۔ حل لغات : ریح : ہوا ۔ صر : تیز سردی ، ٹھنڈک ۔ آل عمران
117 (ف ١) ان مال داروں کی تمام کوششیں رائیگاں جائیں گی ، ان لوگوں کی طرح جن کا کھیت سرد ہوا کے جھونکوں سے تباہ ہوجائے کیونکہ ان کے دلوں میں ایمان وانصاف کا جذبہ موجود نہیں مقصود اعمال نہیں بلکہ اعمال حسنہ ہیں جو خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ادا کئے جائیں ۔ آل عمران
118 نفاق سے دوستی : (ف ٢) (آیت) ” بطانۃ “ کے معنی رابطہ قلبی کے ہیں (آیت) ” من دونکم کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی مفاد کو ٹھکرا کر ایسے تعلقات کفر کے ساتھ وابستہ رکھے جائیں ، اس لئے ظاہر ہے کہ آیت کا مقصد عام معاشی ومجلسی تعلقات سے روکنا نہیں ، بلکہ یہ ہے کہ کفر پر کلی اعتماد نہ کیا جائے اور کبھی غیر مسلموں کو اپنا سچا خیر خواہ نہ سمجھا جائے ، یہ بہترین سیاسی سبق ہے جو مسلمانوں کو دیا گیا ہے اور اس کی وجوہ یہ بیان فرمائیں کہ (آیت) ” لا یالونکم خبالا “۔ تم کو نقصان پہنچانے میں انہوں نے کبھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ، تم چاہے کتنا ہی اخلاص کا ثبوت دو ‘ وہ تمہارے ساتھ دھوکے ہی سے پیش آئیں گے ، (آیت) ” ودواماعنتم “ یہ ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں کہ تمہیں مصائب میں مبتلا رکھا جائے ، (آیت) ” قد بدت البغضآء من افواھہم “۔ دشمنی کی باتیں باوجود اخفا کے ان کے منہ سے نکل جاتی ہیں (آیت) ” وما تخفی صدورھم اکبر “ اور ان کے دلوں میں اس سے زیادہ بغض وعناد بھرا ہے جتنا کہ ظاہر ہوتا ہے ، باوجود اس کے (آیت) ” اولآء تحبونھم “ تم ان سے محبت کرتے ہو ، وہ بظاہر گو نہایت مخلص نظر آتے ہیں ، مگر بباطن تم پر دانت پیستے ہیں اور خوشی سے پھولے نہیں سماتے اور اگر تم کامیابی ومسرت سے دو چار ہوجاؤ تو جلتے ہیں اور غیظ وغضب میں بھر جاتے ہیں ۔ کہئے ان حالات کے بعد بھی ان سے تعلقات رکھے جائیں ؟ آج بھی کفر کی ہی حالت ہے مسلمان کی سادگی کی حد ہے کہ وہ سب کے ساتھ مخلصانہ ملتا ہے ، اس کے دل میں تعصب وعناد کے لیے کوئی جگہ نہیں ۔ وہ انتہا درجہ کا روادار ہے ، مگر ساری دنیائے کفر اس کی مخالف ہے ، مسلمان کو جب کبھی بھی کوئی تکلیف پہنچی ہے ، کفر کی باچھیں کھل گئی ہیں اور ان کے اخبارات اس خوشی کو چھپا نہیں سکتے ۔ حل لغات : بطانۃ : ولی دوستی ، قلبی رابطہ : الی یالوا : کے معنی اصل میں کسی کام میں کمی رکھنے کے ہیں ۔ لایالون : کے معنی بہ ہیں کہ کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھتے ۔ خبال : فساد ، نقصان ۔ آل عمران
119 آل عمران
120 (ف ١) قرآن حکیم علیم بذات الصدور خدا کی کتاب ہے ‘ اس لئے ضرور ہے کہ مخالفین کی ایک ایک نفسیت کو بیان کیا جائے اور بتایا جائے کہ مخالف مخالف ہے اور موافق موافق ، تاکہ مسلمان کسی دھوکے میں نہ رہیں ، ان کے نفاق کا علاج بھی بتا دیا فرمایا (آیت) ” وان تصبروا وتتقوا لا یضرکم کیدھم شیئا “ یعنی اگر تم گھبرا نہ جاؤ اور پوری استقامت سے کام لو اور محتاط رہو تو تمہیں کوئی نقصان نہیں ۔ مسلمان کو جس قدر تدبر ‘ استقلال اور احتیاط واعتدال کی تلقین کی گئی ہے ، وہ اسی قدر بےوقوف کاہل اور غیر معتدل ہے ۔ حالات یہ ہیں کہ مسلمانوں نے یہودیون پر ضرورت سے زیادہ اعتماد کیا ، انہوں نے دھوکا دیا ، منافقین کے ساتھ وفق ومسالمت سے کام لیا ، وہ مخالفین کے ساتھ مل گئے ، عیسائیوں کی تعریف کی ‘ وہ بگڑ گئے ، اس صورت میں ضروری تھا کہ ان سب سے ایک دم تعلقات منقطع کر لئے جائیں اور انہیں بتا دیا جائے کہ ہم تمہاری تمام منافقانہ چالوں سے واقف ہیں ۔ حل لغات : حسنۃ : نیکی ، یہاں مراد مسرت ہے ۔ مساعد : نشستیں ، مورچے ، بیٹھنے کی جگہیں ۔ آل عمران
121 آل عمران
122 آل عمران
123 غزوہ احد : (ف ١) غزوہ بدر کے بعد مقام احد پر کفار جمع ہوئے مقصود یہ تھا کہ بدر کا انتقام لیا جائے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع ملی تو صحابہ (رض) عنہم اجمعین سے مشورہ طلب کیا اور عبداللہ بن ابی ابن سلول کو خصوصیت سے بلایا ، اس نے مشورہ دیا کہ آپ مدینہ ہی میں رہ کر مدافعت کریں ، اس لئے کہ ہم جب بھی مدینہ سے باہر رہ کر لڑے ہیں ہمارا نقصان ہوا ہے مقصد یہ تھا کہ مخالف آسانی سے مدینہ پر قبضہ کرلیں ، یہ ایک چال تھی ، دیگر صحابہ (رض) عنہم اجمعین نے فرمایا ، ہم چاہتے ہیں کہ میدان میں نکل کر جام شہادت پئیں ، ایسا نہ ہو کہ مخالف ہمیں بزدل سمجھیں ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں نے خواب مین دیکھا ہے کہ گائے ذبح کی جا رہی ہے اس سے میں نیک فال اخذ کی ہے ، میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ میری تلوار آگے سے ٹوٹ گئی ہے ، اس سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ قدرے شکست ہوگی ، صحابہ (رض) عنہم اجمعین نے زور دیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر نکل کر لڑیں ، انہیں شوق شہادت نے بےقرار کر رکھا تھا ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اندر گئے اور مسلح ہو کر باہر نکلے ، اب صحابہ (رض) عنہم اجمعین بچھتائے کہ کہیں ہم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارادہ کے خلاف تو انہیں مجبور نہیں کیا ، کہنے لگے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جو خواہش ہو وہ بہتر ہے ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ، خدا کا بہادر پیغمبر جب ایک دفعہ مسلح ہوجائے تو ہتھیار نہیں اتارتا ، اس کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوچ فرمایا ، صحابہ (رض) عنہم اجمعین ساتھ ساتھ چلے ۔ عبداللہ بن ابی نے جب یہ دیکھا کہ مسلمان میدان میں نکل کھڑے ہوئے ہیں تو سخت مایوس ہوا اور اپنے تین سو آدمی لے کر الگ ہوگیا ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں پہنچے ، صفیں درست کیں ایک ایک سپاہی کی جگہ مقرر کی ، عبداللہ بن جبیر (رض) کو تیراندازوں کا امیر مقرر کیا اور فرمایا ، اس درے پر مضبوطی سے کھڑے رہنا ۔ جب جنگ شروع ہوئی اور مسلمان مخالفین پر چھاگئے تو غنیمت کے لالچ میں اور یہ سمجھ کر کہ اب تو میدان ہمارے ہی ہاتھ میں ہے مسلمان مال غنیمت سمیٹنے میں مصروف ہوگئے ، مخالفین نے مسلمانوں کے تغافل سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور مسلمانوں پر پل پڑے ، نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں میں بھاگڑ مچ گئی ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چوٹیں آئیں ، اگلے دانٹ ٹوٹ گئے اور چہرہ مبارک لہولہان ہوگیا ، عام مسلمانوں میں یہ مشہور کردیا گیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شہید کردیئے گئے ہیں جس سے سخت بددلی پھیل گئی ، اس کے بعد چند جان نثار حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچ گئے اور بڑی بےجگری سے لڑے ۔ ان آیات میں یہی بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نصرتیں ہمیشہ مسلمانوں کے ساتھ رہی ہیں ، دیکھو بدر میں تمہاری تعداد بہت کم تھی اور کفار کا ایک لشکر جرار مقابلہ پر تھا پھر بھی فتح اسلام کے شیدائیوں کو ہوئی ، فرشتوں کا نزول خدا پرستوں کی تائید وتثبیت کے لئے تھا مادیت پر ست لوگ ممکن ہے اس کو تسلیم نہ کریں ، مگر واقعہ یہ ہے کہ خدا ہمیشہ اپنے عقیدت مندوں کو عزت وغلبہ سے نوازتا رہتا ہے ۔ فرشتے بدر میں نازل ہوئے تھے جیسا کہ جمہور مفسرین کا خیال ہے اور سیاق کلام سے بھی ظاہر ہوتا ہے ، احد میں نہیں ۔ (آیت) ” اذ غدوت من اھلک “۔ الخ میں یہ بتایا ہے کہ نبی صرف محراب ومنبر میں ہی نہیں گرجتا ‘ بلکہ میدان جنگ میں بھی وہ سپاہیانہ حصہ لیتا ہے ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ جامعیت کبری کے وصف سے متصف تھے ، اس لئے ضروری تھا کہ وہ تدابیر جنگ سے بھی کما حقہ ‘ واقف ہوں ، یہی وجہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں دین ودنیا کی خوبیاں جمع ہیں ، ایک طرف مسجد میں امام ہیں اور دوسری طرف جنگ میں بطل فنا ۔ آل عمران
124 آل عمران
125 آل عمران
126 آل عمران
127 آل عمران
128 آل عمران
129 اللہ کی شان بےنیازی : (ف ١) اس آیت میں بتایا ہے کہ آسمان وزمین جو کچھ ہے وہ خدائے متعال کے قبضہ قدرت میں ہے ، زمین کی بستیان اور آسمان کی بلندیاں سب اس کی قوت وعظمت پردال ہیں ۔ اور کوئی نہیں جو اس کی خدائی سے باہر ہو ۔ وہ اگر بدترین لوگوں کو اپنی آغوش رحمت میں لے لے اور جنت ونعیم کی نعمتوں سے بہرہ ور ہونے کا موقع دے تو کوئی شخص اسے روک نہیں سکتا اور اگر محبوب ترین اشخاص کو دہکتے ہوئے جہنم میں ڈال دے تو کوئی قوت اسے روک نہیں سکتی وہ باجبروت وباملکوت خدا ہے ، یہ صحیح ہے کہ وہ ایسا نہیں کرے گا ، اس کا عدل ورحم اسے شفقت ورحم پر مجبور کریگا مگر جہاں تک اس کے جلال وقدرت کا تعلق ہے ‘ وہ ہر ضابطہ اور قانون سے اعلی وارفع ہے اور جو چاہے کرسکتا ہے ۔ (آیت) ” یغفرلمن یشآء ویعذب من یشآء واللہ غفور رحیم “ ۔ حل لغات : طرف : حصہ جانب ۔ پہلو ۔ یکبتھم ، مصدر کبت ، ذلیل کرنا ۔ خآئیبین ، جمع خآئب ۔ نامراد اور ذلیل وناکام ۔ آل عمران
130 اضعافا مضاعفۃ : (ف ١) سود کی مکمل بحث سورۃ بقرہ میں گزر چکی ہے یہاں اس کی مزید شناعت آئی ہے کہ یہ کیا انصاف ہے ، تم اصل رقم سے کئی گنا زیادہ وصول کرلیتے ہو اور پھر تمہارا قرض باقی رہتا ہے ، بات یہ ہے کہ جاہلیت میں ایک شخص متعین حد تک کے لئے سود پر روپیہ دیتا ، جب وہ مقررہ وقت آتا اور مقروض نہ دے سکتا تو اس سے کہا جاتا کہ اصل رقم میں اضافہ کرو تو مدت بڑھائی جا سکتی ہے ، اسی طرح سود (آیت) ” اضعافا مضاعفۃ “ ہوجاتا جو قطعا ناقابل برداشت ہے ، اسلام نے اس سے روکا ہے ، اس کا یہ مقصد نہیں کہ جائز مقدار میں سود کا لینا دینا جائز ہے ، جیسا کہ بعض نافہم لوگوں نے سمجھا ہے ، یہ قید (آیت) ” اضعافا مضاعفۃ “۔ کی امر واقعہ کے اظہار کے لیے ہے ، نہ تعبین وتحدید کے لئے ، آل عمران
131 مزید ناراضی : (ف ٢) سورۃ بقر میں سود خور کو خدا کے خلاف اعلان جنگ کرنے والا بتایا تھا ، یہاں اسے مستحق عذاب قرار دیا ہے اور عذاب بھی وہ جو کفار کے ساتھ مخصوص ہے جس کے صاف صاف معنی یہ ہیں کہ اسلام سود کو کسی صورت میں بھی جائز قرار نہیں دیتا ، اس لئے کہ سود خوری نسل انسانی کو بےکار بنا دیتی ہے اور ایک ایسا گروہ پیدا کردیتی ہے جو جماعت کے لئے نہایت مضر ثابت ہوتا ہے ، عوام میں جس قدر برائیاں پھیلتی ہیں ، وہ گروہ امراء کی بدولت پھیلتی ہیں ، انکی تعیش پسندانہ زندگی عوام کے اخلاق کے لئے مستقلا خطرہ ہے ، اسلام جو اخلاق واصلاح کا علمبردار ہے کیسے سود کی اجازت دے سکتا ہے ۔ حل لغات : اضعافا مضاعفۃ : زائد از زائد ۔ والکاظمین الغیظ : غصہ پی جانے والے ، کظم کے اصل معنی روکنے اور بند کرنے کے ہیں ۔ آل عمران
132 آل عمران
133 آل عمران
134 آل عمران
135 (ف ١) ان آیات میں مسلمان کے نصب العین کو واضح کیا ہے کہ وہ مجسمہ اطاعت ہوتا ہے ، اس کا ہر ارادہ اللہ اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ماتحت ہوتا ہے ، اور وہ دنیا کی دلفریبیوں پر نہیں ریجھتا ، وہ جنت ومغفرت سے کم کسی چیز پر راضی نہیں ہوتا ، مغفرت کے معنی مختلف آئے ہیں ، امام المفسرین حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں اس سے مراد اسلام ہے ، حضرت علی (رض) کا ارشاد ہے کہ اس سے مقصود ادائے فرائض ہے ، حضرت عثمان (رض) فرماتے ہیں ، پانچ نمازیں ہیں ، سعید بن جبیر (رض) کہتے ہیں ، تکبیر اعلی سے تعبیر ہے ۔ مگر لفظ کی وسعتیں کسی تخصیص کی متحمل نہیں ، ان اقوال میں بھی تضاد نہیں ، ان بزرگوں نے اپنے اپنے مذاق کے مطابق جس طرز عمل کو زیادہ اچھا سمجھا ، مغفرت کا اولین مصداق قرار دیا ، مقصود بہرحال یہ ہے کہ مسلمان کی نگاہیں بہت بلند ہیں ، وہ مقام رضا ومغفرت کو لپک لپک کر اور دوڑ دوڑ کر حاصل کرنا چاہتا ہے ، (آیت) ” عرضہا السموت “۔ سے مراد وسعت وکشادگی کی تشریح ہے ، ” بلاد عریضہ “۔ بڑے بڑے ملکوں کو کہتے ہیں ۔ مقصود یہ ہے کہ زمین وآسمان کی بلندیاں اور پہنائیاں جنت کی وسعت بےپایاں کا ایک حصہ ہیں ، بعض لوگوں نے ” عرض “ کے بھی کہئے ہیں ، مگر عربیت کے لحاظ سے کچھ زیادہ جچتے نہیں ۔ آل عمران
136 ستہ ضروریہ : (ف ٢) ان آیات میں چھ ان صفات کی توضیح کی گئی ہے جن سے مغفرت کا حصول ہوتا ہے ، (١) عسرویسر حالت میں خدا کی راہ میں خرچ کرنا ۔ (٢) مقدر وقوت کے باوجود غصہ کو ضبط کرلینا ، مبروجو بڑے نجومی ہیں ‘ کہتے ہیں کظلم کا لفظ اس وقت بولا جاتا جب مشکیزہ بھر جائے اور بہتے ہوئے پانی کو بند کیا جائے چنانچہ کظم السقاء کے معنی ہوتے ہیں ، کتم علی امتلائہ منہ “ یعنی خوبی جب ہے جب غصہ سے آنکھوں میں خون اتر آئے ، بدن میں کپکپی اور تھرتھری پیدا ہوجائے اور پھر خدا کا ڈر اور حسن سلوک کا جذبہ تمہیں انتقام سے روک دے ، یہ وہ جذبہ ہے جو انسان کو حقیقی معنوں میں بہادر بنا دیتا ہے ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ پہلوان وہ نہیں جو دشمن کو گرا دے ، بلکہ وہ ہے جو غصہ کو پچھاڑ دے ، (٣) معاف کردینے کا درجہ غصہ پی جانے سے زیادہ بلند ہے ، یعنی انتقام نہ لینے کے بعد دل سے بھی بغض وعناد کے خیالات کو دور کر دے اور پوری پاکیزگی کے ساتھ دشمن سے ملے (٤) احسان یعنی حسن سلوک سے کام لے ، فرمایا ، خدا کو ایسے ہی بندے پسند ہیں ، (آیت) ” واللہ یحب المحسنین “۔ (٥) احساس زیاں یعنی برائی کے بعد فورا پشیمانی ۔ (٦) عدم اسرار وقبول واعتراف کا جذبہ ۔ ظاہر ہے یہ وہ ستہ ضروریہ ہے جس پر اسلامی اخلاق کی بنیاد ہے اور جو مقام جنت کے حصول کے لئے از بس ضروری ہے کیا اس کے بعد بھی کوئی کہہ سکتا ہے کہ اسلام آئیڈیل اخلاق پیش نہیں کرتا ۔ آل عمران
137 (٣) اس آیت میں مسلمان کو تلقین کی ہے کہ وہ عبرت وبصائر کو ڈھونڈے اور تلاش کرے اور دیکھے کہ وہ لوگ جو آسمانی ہدایات کو نہیں مانتے اور اخلاق واصلاح کی مخالفت کرتے ہیں ان کا کتنا عبرت ناک حشر ہوتا ہے اور کس طرح وہ آنے والی نسلوں کے لئے سرمایہ بصیرت بنتے ہیں اور زبان حال سے کہتے ہیں ۔ ان اثار ما تدل علینا فانظروا بعدنا الی الاثار : حل لغات : سنن : طریق ۔ رستے ۔ آل عمران
138 آل عمران
139 انتم الاعلون : (ف ١) اس آیت میں مسلمانوں کو بشارت دائمی کی خبر سنائی ہے کہ مسلمان اگر مسلمان ہے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ وہ کفر سے مغلوب رہے اور یہ اس لئے کہ اسلام نام ہی ایک ایسے زندہ طرز عمل کا ہے جو فلاح دارین کا کفیل وضامن ہے ، اس کے اصول اتنے پاکیزہ اور حیات بخش ہیں کہ مان لینے کے بعد علو واختیار کی تمام نصیحتیں از خود حاصل ہوجاتی ہیں ، مگر شرط وہی ایمان کامل ہے جس سے عمل پہیم الگ نہیں ، قرآن حکیم کی اصطلاح میں ” مومن “ صرف چند اصول وفروع کو مان لینے والے کا نام نہیں ‘ بلکہ ایسے زبردست خدا پرست انسان کا نام ہے جس کی رگوں میں خون کی بجائے اسلام کی کہریائی رو دوڑ رہی ہو ‘ جو بےچین اور مضطرب داغ دماغ کا مالک ہو ‘ جس کی عملیت فولاد کو برما دے اور پتھر اور چٹانوں میں جان پیدا کردے ‘ جو انتہا درجہ کا صابر ، منتظم اور باقاعدہ ہو جس میں پوری عسکری روح ہو ، جو دنیا کو تہ وبالا کردینے کا عزم صمیم اپنے اندر رکھتا ہو ‘ وہ نہ جامد اور غیر متحرک ہو جو غلام اور ذلیل ہو ‘ جس میں کوئی ارادہ نہ ہو اور جس کا ایمان منطقی حدود سے آگے نہ بڑھے ۔ آل عمران
140 (ف ٢) ان آیات میں بزدل مسلمانوں کو تسلی دی ہے کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ، جیسے چوٹیں تم نے کھائی ہیں ‘ ویسے ہی تمہارے دشمن بھی زخمی ہوئے ہیں اور یہ عارضی غلبہ جو کفار کو ہوگیا ہے ، اس لئے ہے ، تاکہ مخلصین کا امتحان ہوجائے ، (آیت) ” تلک الایام نداولھا بین الناس “۔ سے مراد یہ نہیں کہ غلبہ کبھی تمہیں میسر ہوتا ہے اور کبھی کفار کو بلکہ مقصود یہ ہے کہ یہ تکلیف کے دن اور آزمائش کی گھڑیاں سب کے لئے یکساں ہیں ، مومن کے لئے ابتلا ہے اور کافر کے لئے عذاب ، ورنہ اصل نصرت وفتح صرف مسلمانوں کے لئے مختص ہے ۔ حل لغات : قرح : زخم ۔ چوٹ ۔ یمحص : مصدر تمحیص ۔ خالص بنانا ۔ آل عمران
141 آل عمران
142 آل عمران
143 گمان باطل : (ف ١) اسلام قبول کرنے کے معنی یہ ہیں کہ تمام باطل قوتوں کے ساتھ جنگ چھڑ جائے ، اس لئے کہ جو شخص حق نواز ہوگا ‘ ضرور ہے کہ طاغوت کا دشمن ہو ، شیطان کی دوستی اور اسلام یہ دو مختلف چیزیں ہیں جو کبھی ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتیں اس لئے جو مومن ہے اور جس کا نصب العین جنت کا حصول ہے ، وہ اس گمان باطل میں نہ مبتلا رہے کہ بغیر جہاد کئے اور مصیبتیں جھیلے خدا کی رضا کو حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ ان آیات میں مسلمانوں کو عام جماعت کو مخاطب کیا ہے کہ تم غزوہ احد سے پہلے شوق شہادت میں بےچین تھے ، اب تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟ کیوں نہیں اٹھ کر اپنی عزیمیت وقوت کا ثبوت دیتے اور کیوں ثابت نہیں کردیتے کہ ہم جنت کے وارث ومستحق ہیں ۔ (آیت) ” ولما یعلم “ سے مراد یہ ہے کہ مجاہدین وصابرین کا گروہ متمیز طور پر الگ ہوجائے اور واضح طور پر الگ ہوجائے کون خدا کی راہ میں جان دیتا ہے اور کون ہے جو جی چراتا ہے ، نہ یہ کہ خدا جان لے اس لئے کہ اس کے علم میں واقعات وحوادث سے کوئی اضافہ نہیں ہوتا ۔ اس کا علم ہمیشہ سے کامل اور ہمہ گیر ہے ۔ حل لغات : خلت : خلایۃ کے معنی ہوتے ہیں ، وہ خلوت میں اس سے ملا ، رجل خلی بےکار آدمی کو کہتے ہیں ، خلا کے معنی ہیں ہو گزرا مجازا اس کا اطلاق موت پر بھی ہوتا ہے ۔ آل عمران
144 آل عمران
145 آل عمران
146 تلقین عزیمت : (ف ١) جب غزوہ احد میں بھاگڑ مچی اور عبداللہ ابن قیمہ نے یہ مشہور کردیا کہ رسالتمآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شہید ہوگئے ہیں تو بعض مسلمان ہمتیں ہار بیٹھے اور جم کر نہ لڑ سکے ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” الی عباداللہ “ کہ خدا کے بندو ادھر آؤ ، لوگ حضور کے گردا گرد جمع ہوگئے ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ یہ تمہیں ہوگیا جو تم بھاگ کھڑے ہوئے ؟ انہوں نے کہا ، ہم نے جب سنا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم میں نہیں رہے تو ہم گھبرا گئے ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی حیثیت ایک پیغمبر سے زائد نہیں ، اس سے پہلے بہت سے پیغمبر ہو گزرے ہیں ، ہوسکتا ہے آپ اس دنیا کو چھوڑ جائیں ، کیا اس صورت میں تم دین مستقیم کو چھوڑ دو گے ؟ دوسرے لفظوں میں بتانا یہ مقصود تھا کہ انبیاء علیہم السلام ایک خاص مشن کی تکمیل کے لئے تشریف لاتے ہیں اور جب وہ تکمیل پذیر ہو چکتا ہے ‘ رفیق اعلی سے جاملتے ہیں ، یہ قطعا ضروری نہیں ہے کہ وہ قیامت تک امت میں زندہ رہیں اور امت کو راہ راست پر لاتے رہیں ، بلکہ ہر نبی کے لئے ایک وقت مقرر ہوتا ہے ، جب وہ وقت آجاتا ہے تو پھر عام انسانوں کی طرح قفس عنصری کو چھوڑ جاتے ہیں ، اس لئے یہ عذر قرین دانش نہیں کہ چونکہ پیغمبر ہم میں نہیں ‘ اس لئے دین چھوڑ دیا جائے یا ان کی حمایت چھوڑ دی جائے چنانچہ حضرت انس بن نضر (رض) اس نکتہ کو بھانپ لئے ، جب لوگ بھاگ رہے تھے اس وقت انہوں نے للکار کر کہا کہ اے قوم آؤ ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد جی کر کیا کرو گے ؟ اگر وہ فوت ہوگئے تو ان کا خدا تو زندہ ہے ہم اس کی محبت میں مر جائیں ، یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد زندہ رہنے کی ذلت سے زیادہ موزوں ہے ، تقریبا اسی قسم کے جرات آموز الفاظ صدیق اکبر (رض) کے تھے ، جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال ہوا ۔ آپ (رض) نے یہی آیت صحابہ (رض) عنہم اجمعین کے سامنے پیش کی اور بتایا کہ یہ خدا کا زبردست قانون ہے کہ جو اس دنیا میں آیا ہے ، وہ ضرور ایک نہ ایک دن اس دنیا کو چھوڑنے پر مجبور ہوگا ۔ یہ آیت کا سلیس اور صحیح مطلب ہے بعض لوگوں نے خواہ مخواہ اسے وفات مسیح (علیہ السلام) پر چسپاں کرنے کی کوشش کی ہے ، آیت مذکورہ صرف اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے بھی انبیاء ہو گزرے ہیں وہ بھی انسان تھے اور انسانی حوادث سے ہو کر گزرے ہیں ، اس لئے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اوروں سے الگ حقیقت نہیں رکھتے ۔ اس آیت میں مسیح (علیہ السلام) کا کہیں ذکر نہیں ، البتہ عموم ہے ، کلیت واستغراق نہیں اور دوسرے مواضح پر جہاں ان کا نام ہے ، وضاحت سے حیات مسیح (علیہ السلام) کا ثبوت ملتا ہے ، منطقی طور پر مخصوص ومتعین دعوی کے لئے ومتعین دلائل ضروری ہیں ، مگر ہمارے مخالفین ہمیشہ خطابیات سے کام لیتے ہیں ۔ آل عمران
147 آل عمران
148 اللہ والوں کا جہاد : (ف ٢) جس طرح ایک مادہ پرست انسان کے نصب العین میں زمین وآسمان کا فرق اسی طرح ان کے طریق کار ہیں اور عام لوگوں کی روش میں عظیم امتیاز پایا جاتا ہے ، مادیت پرست لوگ مادی خواہشات کے حصول کے لئے لڑتے ہیں اور اللہ والے بلند نصب العین کے ماتحت میدان جہاد میں کودتے ہیں ۔ دنیا داروں کے سامنے خدا کی بادشاہت پھیلانے کا مقصد ہوتا ہے ، ظالم اپنے نفس امارہ کے لئے لڑتے ہیں اور خدائی مجاہد اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے ، پھر جس طرح ان کے مقاصد میں اختلاف ہے ، اسی طرح ان کے طریق جنگ میں بھی اختلاف ہے ۔ دنیا کے قیاصر واکاسرہ مادی قوتوں کو جمع کرتے ہیں اور اقلیم ایمان عقیدت کے شہنشاہ بصیرت ونیاز مندی کے متاع عزیز کو ۔ ان آیات میں اسی نقشہ کو پیش کیا ہے کہ انبیاء کا ساتھ دینے والے سپاہی جنگ ولے کے نغموں سے مست ہو کر نہیں لڑتے ، شراب و لے سے مخمور ہو کر دشمنوں کا مقابلہ نہیں کرتے ، بلکہ ایمان ومغفرت کا افشردہ پیتے ہوئے جنگ میں نبرد آزما ہوتے ہیں ، خدا سے ڈرتے ہوئے اپنی لغزشوں سے معافی چاہتے ہوئے (آیت) ” ثبت اقدامنا “۔ کے نعرے لگاتے ہوئے جنگ کی آگ میں کودتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خدا دنیا کا ثواب اور عقبی وآخرت کی فیروز مندیاں ان پر سے نچھاور کردیتا ہے ، اس لئے کہ وہ جنگ میں بھی جہاں عام سپاہی اخلاق پش پشت ڈال دیتے ہیں ، احسان ومروت کا پیکر ہوتے ہیں ، ان کی دشمنی سوائے باطل اور باطل پرست کے اور کسی شے سے نہیں ہوتی ، وہ اللہ کے لئے لڑتے ہیں اور اللہ کے لئے لڑتے ہیں اور اللہ کے لئے جیتے ہیں ، ان کی کوئی حرکت اور ان کا کوئی اقدام ان کے اپنے لئے نہیں ہوتا ، وہ پوری بےغرضی اور بےلوثی کے ساتھ رہتے ہیں ۔ (آیت) ” واللہ یحب المحسنین “۔ آل عمران
149 (ف ١) ان آیات کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان اپنے فرائض دینی میں پوری توجہ سے منہمک رہیں اور ان کفار کی قطعا پرواہ نہ کریں ، یہ تو چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح مسلمانوں کو ضرور گمراہ کرلیا جائے ، فرمایا اگر تم خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی ہدایات پڑھتے رہے تو وہ بہترین معاون وناصر ہے ۔ آل عمران
150 آل عمران
151 اسلامی رعب : (ف ٢) ان آیات میں وعدہ ہے کہ ہم کفار کے دل میں مسلمانوں کی طرف سے ہمیشہ رعب طاری رکھیں گے اور یہ اس لئے کہ وہ مشرک ہیں اور مشرک ہمیشہ بزدل ہوتا ہے یعنی بت پرست اور مشرک انسان ہر قوت وعظمت کے سامنے جھکتا ہے وہ دشمن کی بھی پوجا کرتا ہے ، اور دوست کی بھی اس لئے اس میں تاب مقاومت نہیں رہتی ، بخلاف مسلمان کے کہ وہ موحد ہے اور بجز خدا تعالیٰ کے اور کسی کے سامنے نہیں جھکتا ۔ یہی چیز اسے دلیر بنائے رکھتی ہے ۔ دیکھ لو آج بھی مسلمان مخالفین کے لئے کتنا مرعوب کن ہے ، یہ مانا کہ وہ اس وقت دم توڑ رہا ہے ، مگر کون ہے جو میرے ہوئے شیر کا سامنا گوارا کرتا ہے ؟ (آیت) ” مالم ینزل بہ سلطنا “۔ کے معنی یہ ہیں کہ شرک اور بت پرستی کے لئے شروع سے کوئی دلیل ہی نہیں یعنی یا تو خدا ایک ہے اور یا پھر دنیا میں کوئی خدا نہیں عقل وبرہان کے لئے تیسری راہ نہیں ، یہی وجہ ہے کہ اسلامی کلمہ توحید ” لا الہ الا اللہ “ ہے یعنی اگر اللہ تعالیٰ کا وجود ہے اور یقینا ہے تو وہ ” الا “ کے ساتھ ہے ، ورنہ ” لا الہ الا اللہ “ کی دہریت ۔ حل لغات : اعقاب : جمع عقب بمعنی ایڑی ۔ تحسون : اوجس ، جڑ سے کاٹنا کلی استیصال بےدریغ قتل ۔ آل عمران
152 آل عمران
153 عصیاں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نتیجہ : (ف ١) احد میں جب مسلمانوں کو شکست ہوئی تو ضعیف ال ایمان لوگ ڈگمگا گئے ، انہیں شک نے آگھیرا کہ خدا نے جو نصرت واعانت کا وعدہ کیا تھا ‘ وہ پورا نہیں ہوا ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ خدا کا وعدہ سچا ہے ، اس میں کبھی تخلف نہیں ہوا ، کیا تم نے جب تک پارس اطاعت کو ملحوظ رکھا ، کامیاب نہیں رہے ؟ اولا تو ایسا ہوا کہ مسلمان مخالفین پر چھا گئے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ میدان حرب اب انہیں کا حصہ ہے ، وہ لوگ جنہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیر اندازی کے لئے درہ پر متعین کردیا تھا اور فرمایا تھا کہ آخر تک تم یہیں رہنا ۔ ان میں بعض لوگ غنیمت کے لالچ ہیں ایک ہوگئے اور لگے مال غنیمت لوٹنے ، خالد بن ولید (رض) نے جو اس وقت کفار کے لشکر کے سردار تھے ، اور درہ کی طرف سے مسلمانوں پر حملہ کردیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت ترک کردی اور دنیا طلبی کے جذبہ سے متاثر ہو کر مال ودولت جمع کرنے میں مصروف ہوگئے ، یہ درست ہے کہ نصرت کا وعدہ تھا ، اور یہ بھی درست ہے کہ وعدہ کو ہر حال میں پورا ہونا چاہئے مگر یہ تو سوچئے ، وعدہ کن سے تھا ، کیا وعدے کے مخاطب صرف وہی لوگ نہیں تھے جو ہر حال میں فرمودہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قابل اتباع سمجھیں ، اس صورت حال میں ظاہر ہے کہ منافقین کا اعتراض بالکل لغو ہوجاتا ہے ، (آیت) ” ولقد عفاعنکم “ کے معنی یہ ہیں کہ آکر مسلمانوں کو اپنی اس نافرمانی کا احساس ہوا اور وہ بارگاہ ایزدی میں توبہ کے لئے جھک گئے ، اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کردیا ، اس لئے کہ اس کا شیوہ ہی عفو ورحم ہے ، اس آیت کے بعد بھاگنے والوں پر کوئی الزام نہیں جب اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کردیا تو ہم اعتراض کرنے والے کون ؟ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں شرف صحبت حاصل ہے ۔ جنہوں نے براہ راست انوار وتجلیات نبوی کا مشاہدہ کیا ہے اور جمال یار کو بالمشافہ دیکھا ہے ، اس لغزش بشری پر انہیں موردالزام محض الحاد ہے ، وہ آنکھیں جو بعقیدت چہرہ اقدس کو دیکھتی رہی ‘ وہ کبھی محروم دیدار نہیں رہیں گی ، اس کے بعد بھاگر کا نقشہ کھینچا ہے کہ کس طرح تم بھاگے چلے جاتے تھے ، فرط بدحواسی میں تم نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز کو بھی نہیں سنا ، وہ تمہیں (آیت) ” الی عباد اللہ “ کی پکار سے اپنی طرف متوجہ کر رہا تھا اور تم تھے کہ بھاگے چلے جا رہے تھے ، تمہاری ان غلطیوں کا خمیازہ آلام وہموم تھے جن سے تمہیں دو چار ہونا پڑا ، تم نے دیکھا کہ تمہارے سامنے کئی مسلمان جام شہادت پی گئے ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرہ اقدس کو لہولہان کردیا گیا اور اس پر مستزاد یہ کہ مشہور کردیا گیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شہید ہوگئے ہیں ۔ یہ سب کچھ صرف اس لئے ہوا کہ تم جادہ اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے الگ ہوگئے اور تم نے پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہدایات کی پروا نہیں کی اور یہ نہیں سوچا کہ فتح ونصرت تو محض رہن اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے ۔ حل لغات : تصعدون : اصفاد فی الارض کے معنی ہیں ۔ اوپر کی طرف چڑھے چلے جانا ۔ آل عمران
154 سکون خاطر کی حیران کن مثال : (ف ١) باوجود ان مصائب کے جن سے مسلمانوں کو غزوہ احد میں گزرنا پڑا ، سکون خاطر کی یہ حالت ہے کہ عین حالت جنگ میں نیند نے آگھیرا کیا ، اس سے بہتر طمانیت قلب کی کوئی مثال پیش کی جا سکتی ہے ؟ میدان جنگ میں جہاں اچھوں اچھوں کے حواس باختہ ہوجاتے ہیں ، اللہ والے کچھ اس طرح داد شجاعت دے رہے ہیں کہ تلواریں ہاتھ سے چھوٹ رہی ہیں ، اونگھ رہے ہیں اور نبرد آزمائیاں ہو رہی ہیں ، اس طرح نیند کا آجانا اللہ کا خاص فضل تھا جس کا ان آیات میں اظہار ہے ، اس سے مسلمان کچھ دیر کے بعد بالکل تازہ دم ہوگئے اور تمام کوفت بھول گئے ۔ حل لغات : نعاس ۔ اونگھ ، جھپکی ۔ ظن الجاھلیۃ : زمانہ جاہلیت کے خیالات ، برز : مصدر بروز ، بمعنی ظاہر ہونا ، مضاجع : جمع مضجع ۔ خواب گاہ ۔ آل عمران
155 تقدیر : (ف ١) عبداللہ بن ابی اور دوسرے منافق احد کی شکست کو اسلام کے خلاف بطور دلیل استعمال کرتے اور کہتے کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) سچے ہوتے تو ضرور فتح ہوتی اور ہمارے ساتھی کبھی میدان جنگ میں نہ مارے جاتے ، اس شبہ کا جواب گزشتہ آیات میں دیا جا چکا ہے کہ شکست نافرمانی ومعصیت کا نتیجہ ہے ۔ اگر تیر انداز درہ نہ چھوڑتے تو کبھی شکست نہ ہوتی میدان مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا ۔ ان آیات میں ان کی دوسری کج حجتی کا جواب دیا ہے ، وہ یہ کہ مسلمان اگر جہاد کے لئے نہ نکلتے تو نہ مارے جاتے ، دوسرے لفظوں میں وہ ضعیف الاعتقاد مسلمانوں میں بد دلی اور بزدلی کے جذبات پیدا کرنا چاہتے تھے کہ موت وحیات ہمارے اختیار میں ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، یہ غلط وہم ہے ، زندگی اور اس سے محرومی اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے ، جب خدا تمہاری موت کا فیصلہ کرچکا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ تم بچے رہو ۔ تقدیر الہی قطعی اور حتمی ہے جس میں ذرہ برابر شک وشبہ نہیں ، وہ جو خدا کے علم میں ہے ہو کر رہے گا ۔ دنیا کی کوئی قوت اسے روک نہیں سکتی ، بڑے سے بڑا انسان بھی اپنی پوری دانش وعقل کے ساتھ تقدیر کے فیصلوں کے سامنے بیچارہ وعاجز ہے ، جس وقت سے انسان عرصہ شہود پر آیا ہے ، موت کے آہنی پنجہ میں گرفتار ہے اور یہ وہ قید ہے جس سے قطعا رہائی نہیں ۔ بڑے بڑے نماردہ اور فراعنہ اور وہ جنہیں خدا پر یقین نہیں ؟ موت کا شکار ہوتے ہیں اور اس ذلت کے ساتھ کہ سارا کبر وغرور خاک میں مل گیا ہے ، مگر مجبوری کے یہ معنی نہیں کہ ہمیں کبھی بھی اختیار نہیں ۔ مسلمانوں میں تقدیر وتدبیر کے متعلق دو گروہ ہیں ، ایک مطلقا اپنے آپ کو مجبور سمجھتے ہیں ، ایک وہ ہیں جو افعال میں اپنے آپ کو مختار سمجھتے ہیں ، دونوں کا منشانیک ہے ، مگر صحیح راہ درمیان واعتدال کی ہے یعنی نہ تو ہم اس درجہ مجبور ہیں کہ تکلیف شرعی سے ہی بےنیاز ہوجائیں اور نہ اس درجہ آزاد وخود مختار ہیں کہ خدا کی قدرت مطلقہ پر حرف آئے ، ان دونوں کے بین بین ہمیں اختیار بھی حاصل ہے ، اور قدرے مجبور بھی ہیں ، اور جس حد تک ہم مختار ہیں ‘ اپنے افعال کے ذمہ دار ہیں ، کوئی سمجھ دار انسان اس سے انکار نہیں کرسکے گا کہ ہمارے بعض افعال ضرور ایسے ہیں جنہیں ذمہ دارانہ افعال کہا جا سکتا ہے اور یہی وہ قدر ہے جس پر جزا وسزا مرتب ہوگی ۔ (ف ٢) ان آیات میں دوبارہ بعض صحابہ (رض) عنہم اجمعین کی لغزش کو ظاہر کیا ہے اور ساتھ ہی اعلان عفو بھی فرمایا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اب ان پر اعتراض کرنا گناہ ہے اور ہم تو قطعی اسحقاق نہیں رکھتے کہ صحابہ کرام (رض) عنہم اجمعین کے طرز عمل پر تنقید کریں ، ہم جو سر سے پاؤں تک گناہوں میں لتھڑے ہوئے ہیں ، کیونکر ان پاکیزہ روح لوگوں پر اعتراض کریں جو (آیت) ” عفا اللہ عنھم “ کا درجہ حاصل کرچکے ہیں ، ہمارے اعمال کی حقیقت یہ ہے کہ ہمارے تمام نیکیاں ان کے ایثار وخلوص کے مقابلہ میں پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ اپنی جگہ وہ بتقاضائے بشری اپنی کمزوریوں سے واقف ہوں اور خائف ہوں ہم جس مقام میں ہیں ہمیں قطعا زیبا نہیں کہ مزکی اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ (رض) عنہم اجمعین پر زبان طعن دراز کریں ۔ اعاذنا اللہ عنہ ۔ آل عمران
156 آل عمران
157 آل عمران
158 بہترین پونجی : (ف ١) خدا کی راہ میں مر جانا اور جان سے کھیل جانا بہترین زاد راہ ہے جو آخرت کی کٹھن منزل میں ہمارے کام آئے گا ، وہ لوگ جو دنیا کی لذات میں ” خود فراموشی “ کا درجہ حاصل کرلیتے ہیں اور اپنے نصب العین کو بھول جاتے ہیں ‘ ایسے بےوقوف مسافر کی طرح ہیں جو راہ کی دلچسپیوں میں پڑ کر مقصود سفر کر کھو دیتے ہیں ، اور جو شاہد مقصود تک پہنچنے کے لئے اپنی پوری قوتوں کے ساتھ کوشاں ہوتے ہیں ، وہ قطعی ساحل مراد پر پہنچ کر رہتے ہیں ، ان دو آیتوں میں شہادت کے اس متاع ثمین کو حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے ۔ آل عمران
159 بادشاہ اقلیم وعفو : (ف ٢) عسکری قانون یہ ہے کہ جو لوگ میدان چھوڑ کر بھاگ جائیں ، انہیں جان سے مار دیا جائے ، مگر شہنشاہ اخلاق چونکہ صرف سالار عسکر ہی نہیں تھے ‘ طبیب امراض قلوب بھی تھے ‘ اس لئے لوگوں کو معاف کردیا اور خندہ پیشانی سے پیش آئے ، اس آیت میں اسی خلق عظیم کی تشریح ہے کہ آپ رحمت خداوندی کے مظہر اتم ہیں اور بالخصوص خدائے رحیم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوائے عفو واخلاص دے کر بھیجا ہے ، یہی وجہ ہے کہ ہزاروں پروانے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گردا گرد جمع ہیں اور اکتساب ضو میں مصروف ہیں ، پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے عفو واستغفار کا سلوک روا رکھیں اور ہر بات میں ان سے مشورہ کرلیں تاکہ ایک طرف ان کی دلجوئی ہوجائے اور دوسری طرف یہ لوگ اپنی ذمہ داری محسوس کریں ۔ شورائی نظام حکومت : (ف ٣) باوجود اس کے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صاحب الہام ووحی ہیں ، ہر آن مظہر مہبط انوار وتجلیات ہیں ، مجبور ہیں کہ نظام حکومت شورائی رکھیں ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نطق ، نطق خدا ہے ، پھر بھی خطاکاروں سے مشورہ طلبی کا حکم ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اسلام بہرحال ایک ایسے نظام حکومت کا مؤید ہے جس میں تمام قوم کے جذبات وخیالات کی صحیح صحیح ترجمانی ہو ۔ یورپ آج جمہوریت کے تخیل کو وضع کرسکا ہے اور اس میں بھی صدہا نقائص ہیں ، مگر اسلام آج سے تیرہ صدیاں پہلے اس حقیقت کو بیان کرچکا ہے ۔ صدر شورائیہ کے اختیارات : (ف ١) (آیت) ” فاذا عزمت فتوکل علی اللہ “۔ میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب فرمایا ہے ، یعنی مشورہ طلبی کا مطلب صرف یہ ہے کہ قوم کے خیالات معلوم کئے جائیں ، مگر آخری اختیارات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حاصل ہیں ۔ اس سے موجودہ نظام جمہوریت کا بنیادی نقص واضح ہے یعنی امیر جماعت یا خلیفہ صرف نمائندہ ہی نہیں ہوتا ، بلکہ قائد بھی ہوتا ہے ، اس لئے صرف کام لینا چاہئے موجودہ نظام میں سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ صدر محض نمائندہ ہوتا ہے اور اس طرح ووٹ دیانتداری پر مبنی نہیں ہوتے ، محض پارٹی بازی کے لئے ووٹ بڑھائے جاتے ہیں ، صدر کو آخری اختیارات تفویض کردینے کے معنی یہ ہیں کہ پارٹی بازی ختم ہوجائے گی ، آل عمران
160 آل عمران
161 (ف ٢) اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ نبی (علیہ السلام) انتہا درجہ کا دیانت دار ہوتا ہے ، اس کی طرف ادنی خیانت کا انتساب بھی گناہ ہے ، امام المفسرین حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ بعض شرفاء نے خواہش کی تھی کہ بعض شرفاء نے خواہش کی تھی کہ ہمیں ہمارے مقررہ حق سے کچھ زاید دیا جائے ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ نبی (علیہ السلام) اس نوع کی غیر منصفانہ تقسیم کا ارتکاب نہیں کرسکتا ۔ لفظ غلول بہرحال عام ہے نبی (علیہ السلام) ہر نوع کی خیانت سے بالا ہے ۔ حل لغات : یغل : مصدر غلول ، خیانت ، بددیانتی ۔ بآء ، لوٹا ۔ پھرا ۔ ماوی : ٹھکانا ، جگہ ۔ آل عمران
162 آل عمران
163 (ف ١) اس آیت میں بتایا ہے کہ مجاہدین جو اللہ کی رضا جوئی کے لئے اپنے آرام وآسائش کو چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے ہیں وہ ان سے یقینا بہتر ہیں جو گھروں میں بیٹھے ہوئے مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے ہیں ۔ مجاہدین کی نسبت ارشاد ہے کہ (آیت) ” ھم درجت “ یعنی وہ اپنی جانفروشیوں کی قیمت آپ ہیں ، وہ مجسمہ اجر وثواب ہیں ۔ آل عمران
164 نوع انسانی کا سب سے بڑا محسن : (ف ٢) اس آیت میں اللہ نے اس احسان عظیم کی طرف مسلمانوں کو متوجہ کیا ہے جس کی وجہ سے انہیں نے کونین کی لذتوں کو حاصل کیا ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد سے پہلے مطلع عالم پر جہل وجمود کے تاریک بادل چھا رہے تھے ، دنیا اخلاقی برائیوں کی انتہا کو پہنچ چکی تھی ، قتل وغارت گری کا بازار گرم تھا ، ایران سے لے کر روم تک انسانیت کا کہیں نام ونشان نہ تھا ، ہندوستان جو حکمت و دانائی کے لئے ہمیشہ سے مشہور ہے ‘ اس وقت عقیم ہوچکا تھا ۔ زبردست زیردستوں کا خون چوس رہے تھے اور زیر دست نہایت انکسار کے ساتھ زندگی کے دن گزار رہے تھے ، علم کا آفتاب غروب ہوچکا تھا ، سارے عرب میں چند لوگ تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے ، باقی جزیرہ جہل ونادانی کے اتھاہ سمندر میں غرق تھا ، ان حالات میں دنیا کا ہر ذرہ ایک آفتاب ہدایت کا منتظر تھا ، جو آئے اور دنیا والوں کو ثور وعرفان سیمجلی کو دے ، چنانچہ وہ آیا ، فاران کی چوٹیوں سے طلوع ہوا رات کو ظلمت دن کی تابندگی سے بدل گئی ، خلاق واصلاح کا غوغا بلند ہوا ، امن وصلح عام کی طرح ڈالی گئی اور ایک دفعہ پھر انسانیت کو معراج کمال پر پہنچا دیا گیا ، ساری دنیا حکمت ومعرفت کے نشے میں چور ہوگئی ، زیردست زبردست ہوگئے اور قلم کا پرچم نہایت شان سے لہرانے لگا ، یہ کیوں ہوا ؟ اس لئے جو رسول آیا ‘ وہ کامل تھا ، جہاں اس نے اللہ کی آیات کے تفصیل وتوضیح کی ‘ وہاں تزکیہ وتطہیر سے بھی کام لیا ، جہاں دماغوں کو روشنی بخشی وہاں دلوں کی دنیا کو بھی جلوؤں سے معمور کردیا ۔ حل لغات : من : احسان کیا ۔ آل عمران
165 آل عمران
166 (ف ١) ان آیات میں مسلمانوں کو تسلی دی گئی ہے کہ عارضی شکست پر گھبراؤ نہیں ۔ یہ سب کچھ خدائے متعال کی مرضی وارادے سے ہوا ہے مقصد یہ تھا کہ ایمان دار اور منافق میں امتیاز ہوجائے اور تم دوست اور دشمن کو پہچان لو ۔ آل عمران
167 (ف ٢) اس آیت میں ترک جہاد کو کفر سے تعبیر کیا ہے ، یعنی وہ لوگ جو وقت آنے پر حیل وتدابیر تراشتے رہتے ہیں ‘ ان کی دوں ہمتی انہیں میدان جہاد میں نکلنے نہیں دیتی ، انہیں اپنے ایمان کی تجدید کرنا چاہئے ، مسلمان روز ازل سے توحید کا اقرار کرچکا ہے ، اس کے لئے ناممکن ہے کہ ایک لمحہ بھی کفر سے موالات رکھے ، کم از کم اس کے دل میں ضرور کفر واستبداد کے خلاف جذبات نفرت وحقارت موجزن رہتے ہیں اور اگر یہ بھی نہیں تو قرآن حمید کی یہ ڈانٹ سن رکھیں (آیت) ” ھم للکفر یومئذ اقرب منھم لل ایمان “۔ یعنی اس دن وہ لوگ ایمان کی نسبت کفر کے زیادہ قریب تھے ۔ آل عمران
168 (ف ١) قعود استعارہ ہے تخلف عن الجہاد سے ، یعنی وہ منافقین جو جہاد میں شریک نہیں ہوتے اور طرح طرح کے فلسفے چھانٹتے ہیں ، جن کی حیثیت فریب نفس سے زیادہ نہیں ، وہ کہتے ہیں اگر مجاہدین جہاد میں شرکت نہ اختیار کرتے تو ضرور بچ جاتے آج بھی منافقین اور پست ہمت لوگوں کا یہی وطیرہ ہے ۔ جہاد اور قربانی کے نام سے کانپ اٹھتے ہیں اور جب مجاہدین پابجولاں کشاں کشاں جیلوں میں جاتے ہیں تو یہ ناصح مشفق بن کر نہایت ہمدردانہ انداز میں کہتے ہیں کہ اس شورش کا کیا صلہ ملا ؟ یہی ناکہ یہ لوگ قید وبند کی سختیاں جھیلیں گے ۔ قرآن حمید نے ان کے ان اعذار باردہ کو اس لئے دوبارہ سہ بارہ ذکر کیا ہے ‘ تاکہ مسلمان ہر زمانہ میں منافقین کی وسوسہ پردازیوں سے محفوظ رہیں ، کیونکہ یہ گروہ دشمنوں سے بھی زیادہ مضر ہے ، دشمن تو واشگاف طور پر مقابلہ پر آتا ہے ، یہ مسلمان بن کر شجر اسلامی کی بیخ کنی میں مصروف رہتے ہیں ۔ جو سامنے سے آئے ، اس کا علاج تو ممکن ہے ، مگر گھن کا کیا علاج اس لئے اس گروہ سے بچنا نہایت ضروری ہے ۔ آل عمران
169 شہید زندہ ہیں : (ف ٢) منافقین نے جب عام مسلمانوں میں موت کا ڈر پیدا کرنا چاہا تو اللہ تعالیٰ نے شہداء کو حیات جاوید کی خوش خبری سنائی اور منافقین کو بتایا کہ جس کو تم موت سمجھتے ہو وہ قابل صد رشک زندگی ہے اور تمہیں کوئی حق نہیں کہ تم انہیں عام انسانوں کی طرح مردہ قرار دو ، جو لوگ اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیتے ہیں ‘ خدا انہیں بہترین زندگی سے نوازتا ہے اور وہ صبح وشام اللہ تعالیٰ کے حضور میں انواع واقسام کے مرزوقات سے کام ودہن کی تواضع کرتے رہتے ہیں ۔ یہ یاد رہے کہ شہیدجس نوع کی زندگی بسر کرتے ہیں وہ ہماری زندگی سے مختلف ہے ، اتنا تو مسلم ہے کہ شہداء مرنے کے بعد شہید قرار پاتے ہیں ، اس لئے انہیں یہ کہنا کہ وہ میرے ہی نہیں یہ سراسر غلط ہے ، البتہ مرنے کے بعد ان کی روحانی زندگی اتنی پاکیزہ ‘ بلند اور شان دار ہے کہ اسے عام موت سے تعبیر کرنا جس سے تحقیر وتوہین ٹپکتی ہو ، گناہ ہے ۔ شہید زندہ ہیں ‘ خدا کے حضور میں ‘ تاریخ کے اوراق میں اور لوگوں کے دلوں کی گہرائیوں میں ۔ ع ثبت است برجریدہ عالم دوام ما ۔ حل لغات : فرحین : جمع فرح ۔ خوش وخرم ۔ آل عمران
170 آل عمران
171 (ف ١) حدیث میں آیا ہے کہ شہداء کی سب روحیں طیور خوش منظر کی شکل میں شاداں وفرحاں جنت کے آب رواں پر مصروف پرواز رہتی ہیں ، اس وقت انہیں احساس ہوتا ہے کہ اے کاش ہم اس حیات جادواں کے کوائف روح پرور کو اپنے اعزء واقربا تک پہنچا سکتے اور ان کے اعمال میں بھی شہادت کے جام ارغوانی کے لئے گدگدی پیدا کرسکتے ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ انہیں بھی اس زندگی سے مطلع کردیا گیا ہے ، اس لئے ان کی خواہشوں میں اور اضافہ ہوجاتا ہے ، (آیت) ” ویستبشرون بالذین لم یلحقوا بھم “۔ آل عمران
172 (ف ٢) مسلمان جب غزؤہ احد سے واپس ہوئے ہیں ، ابو سفیان (رض) کو خیال آیا کہ ہم نے کیوں نہ مسلمانوں کو بالکل مار ڈالا ، اس نے ارادہ کیا کہ چل کر ایک دفعہ پھر مسلمانوں سے جنگ ہو اور جو بچے کھچے رہ گئے ہیں ‘ انہیں بھی موت کے گھاٹ اتار دیا جائے ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس ارادہ کی اطلاع ہوگئی ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چند جانباز صحابہ (رض) عنہم اجمعین کو بلایا اور کہا وہی لوگ میرے ساتھ نکلیں جو پہلے ثابت قدم رہے ہیں اس پر مسلمان باوجودیکہ مجروح تھے اور زخموں سے چور چور تھے ‘ اٹھ کھڑے ہوئے ان کی شان منفعت نشان میں یہ آیت نازل ہوئی ۔ آل عمران
173 مجاہدین کا نعرہ مستانہ : (ف ٣) بدر صغری کا واقعہ ہے ، ابو سفیان نے جب محسوس کیا کہ حسب وعدہ مسلمان مقام جنگ تک پہنچ جائیں گے تو اس نے نعیم کو بھیجا تاکہ مدینہ میں جا کر مسلمانوں کو مرغوب کرے ، اس نے آکر کہا ، مسلمانو ! تم کیا غضب کر رہے ہو ، ابو سفیان پوری تیاری کے ساتھ آرہا ہے ، مدینہ سے باہر قدم رکھا تو یاد رکھو ایک بھی تم میں سے بچ کر نہیں آ سکے گا ، اگر مسلمان مجاہدانہ نکلے اور سالم وفائم واپس مدینہ لوٹے اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں کہ فوج کی کثرت ‘ سازوسامان کی چمک دمک مسلمان کے لئے مرعوب کن نہیں ہو سکتی ، اس سے تو اس کے دل میں اور قوت وتوانائی پیدا ہوجاتی ہے ، اور وہ (آیت) ” حسبنا اللہ “ کا نعرہ مستانہ لگا کر میدان جنگ میں کود پڑتا ہے ۔ حل لغات : استجابوا : قبول کیا ، مان لیا ۔ لبیک کہا الفرح : زخم ، حسبنا : ہمیں بس ہے ۔ ہمارے لئے کافی ہے ۔ سوء : تکلیف ۔ آل عمران
174 آل عمران
175 (ف ١) اس آیت میں بتایا ہے کہ خوف وحزن شیطان کی طرف سے ہے ۔ وہ رگوں کو بزدل بنا دیتا ہے اور عواقب ونتائج کی بھیانک اور خوفناک تصویر پیش کرکے کم حوصلہ اور پست ہمت لوگوں کو ولولہ جہاد سے روک دیتا ہے ، مگر وہ لوگ جو خدا پرست ہیں ‘ وہ بجز احکم الحاکمین کے اور کسی سے نہیں ڈرتے ، ان کا دل ہر قسم کے خوف وہراس اور ہر نوع کے حزن سے پاک ہوتا ہے ، وہ دنیا میں پوری بےخوفی سے رہتے ہیں ، وہ انجام سے بےپرواہ ہوتے ہیں ، وہ صرف یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ فی الحال ان کے فرائض کیا ہیں وہ اس چیز کی مطلقا پرواہ نہیں کرتے کہ انہیں اس کے بعد کن نتائج وعواقب سے دوچار ہونا پڑے گا ، وہ پورا پورا یقین رکھتے ہیں کہ خدا انکا ہر آن معاون ومددگار ہے ۔ آل عمران
176 (ف ٢) انبیاء علیہم السلام کو جو محبت اپنی قوم کے ساتھ ہوتی ہے ‘ اس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ہر وقت قوم کے درد میں بےچین رہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب یہ دیکھتے کہ باوجود میری ہر ممکن سعی اصلاح کے یہ لوگ کفر وطغیان کی جانب زیادہ مائل ہیں اور برے کاموں سے انہیں زیادہ رغبت ہے تو مارے دکھ اور تکلیف کے بےقرار ہوجاتے ، اس پر اللہ تعالیٰ بطور تسلی فرمایا کہ آپ بےکل نہ ہوں ، یہ لوگ اپنی معاندانہ روش سے اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے آپ جس مشن کو لے اٹھے ہیں ‘ ضرور کامیابی عنایت ہوگی اور لوگ جوق در جوق دین حنیف کو قبول کرلیں گے اور بہت سی سعید روحیں ایسی ہیں جو اس سعادت سے بہرہ ور ہونے کے لئے تڑپ رہی ہیں ، یہ اگر نہیں مانتے تو نہ ان کا اپنا ہی نقصان ہے ۔ حل لغات : اولیآء : دوست ، بھائی بند ۔ حضا : حصہ ۔ بہرہ بخرہ ۔ آل عمران
177 آل عمران
178 آل عمران
179 امتیاز حق وباطل : (ف ١) یہ آیت بھی سیاق احد میں ہے مقصد یہ ہے کہ یہ تمام مصائب جو اس جنگ میں برداشت کرنے پڑے ہیں ‘ یہ سب اس لئے تھے ، تاکہ حق وباطل میں فرق ہوجائے ، اللہ تعالیٰ نہیں چاہتے کہ زیادہ دیر تک منافقین کم ہمت لوگ مسلمانوں میں طے جلے رہیں اور مسلمانوں کو دھوکا دیتے رہیں ۔ وقت آگیا ہے کہ دونوں فریق الگ الگ اور ممتاز ہوجائیں ۔ (آیت) ” وما کان اللہ لیطلعکم علی الغیب “ کہہ کر یہ بتایا ہے مخلص وغیر مخلص میں جو اختلاف ہے ‘ یہ تمہاری نظروں سے اوجھل ہے یہ نہیں جانتے تھے کہ کون دل میں ایمان کی پونجی مستتر رکھتا ہے اور کون ہے جس کا دل خبث ونفاق سے متعفن ہے ، اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وساطت سے تمہیں آگاہ اور یہ خدا کا قانون ہے کہ وہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وساطت سے ہی امور طلب کی اطلاع دیا کرتا ہے ، اس سے مقصود پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اہمیت محسوس کرانا ہے کہ اس کا وجود مسعود کتنا باعث برکت وسعادت ہے اس آیت میں چند نکات قابل غور ہیں : ۔ ١۔ یہ کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بجائے خود محبت ودلیل ہے ، اس کی وساطت تشریحات امور غیبیہ کے لئے از بس ضروری ہے ، اس کا ہر قول اور ہر فعل شریعت وقانون ہے جس سے بےنیازی الحاد ہے ۔ ٢۔ یہ کہ نبوت اجتباء الہی کا ثمرہ و نتیجہ ہے ‘ کسب واجتہاد کا نہیں ۔ ٣۔ یہ کہ بجز رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ” اطلاع علی الغیب “ یقینی وحتمی طور پر اور کسی کے لئے نہ ماننا چاہئے ۔ (آیت) ” فامنوا باللہ ورسلہ “ میں عام دعوت ایمان ہے ، رسل کو بصیغہ جمع رکھنے میں مصلحت یہ پیش نظر ہے کہ اسلام انبیاء علیہم السلام میں تفریق کو پسند نہیں کرتا ، وہ بیک وقت اسلام اور تمام انبیاء علیہم السلام پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے ، اس کے نزدیک ایک سچے نبی کا انکار تمام انبیاء علیہم السلام کا انکار ہے ، فاضل رازی کہتے ہیں ” فمن اقربنبوۃ واحد منھم لزمۃ الاقرار بنبوۃ الکل “۔ بعض فریب خوردہ جہلا نے یہ سمجھا ہے کہ شاید حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد آنے والے انبیاء علیہم السلام کی طرف اشارہ ہے ، یہ بھی فرقان حمید کے نظام عقائد کے خلاف ہے ، قرآن حکیم میں واضح طور پر نبوت کے دروازوں کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ہمیشہ کے لئے مسدود کردیا گیا ہے ۔ ” الغیب “ کے معنی قرآن کی اصطلاح میں امور شرعیہ ہیں جو عام انسان اپنی عقل وتدبر سے نہیں جان سکتے ، مطلقا امور کون مراد نہیں کیونکہ ان کا علم بجز خدا کے کسی کو حاصل نہیں ۔ (آیت) ” ولا یعلم الغیب الا ھوہ “۔ حل لغات : نملی : مصدر املاء ڈھیل دینا ۔ الخبیث : ناپاک ۔ آل عمران
180 (ف ١) ان آیات میں سرمایہ داری کی مخالفت نہایت مؤثر انداز میں بیان کی گئی ہے اور بتایا ہے کہ مال ودولت کا وہ حصہ جو خدا کی راہ میں خرچ نہ ہو ‘ قیامت کے دن ان کے لئے طوق وسلاسل ہوجائے گا ۔ (ف ٢) اس آیت میں اشتراکیت کا وہ بلند اصول بتایا گیا ہے جس تک ہنوز ہمارے سوشلسٹ نہیں پہنچ سکے ۔ قرآن حکیم کہتا ہے کہ میراث وملک حقیقۃ صرف رب السموت کے لئے ہے ، البتہ دنیاداروں کو بطور امانت کے سپرد کردیا گیا ہے ‘ تاکہ وہ اس کا صحیح استعمال کریں ۔ آل عمران
181 (ف ٣) بعض دفعہ یہودی سرمایہ داری کے نشے میں بےخود ہو کر ایسے کلمات کہہ جاتے ہیں جس سے خداوند ذوالجلال کی توہین مترشح ہوتی ، مثلا جب حضرت ابوبکر (رض) کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعوت تامہ دے کر قبیلہ بنی قینقاع کی طرف بھیجا ، جس میں لکھا تھا کہ تم اسلام قبول کرلو اور صلوۃ وزکوۃ ادا کرو ، تو انہوں نے از راہ مزاح کہا ۔ ” کیا خدا فقیر ہے کہ اسے ہمارے صدقات کی ضرورت ہے “۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ یہ سخت گستاخی ہے ۔ یاد رکھو تمہاری اس گستاخی کا علاج سخت ترین عذاب ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ جلال میں اس نوع کے کلمات بہت برے ہیں ۔ حل لغات : یطوقون : مادہ تطویق ، طوق پہنانا ۔ بغیر حق : نادرست طور پر ، ناحق ، ناجائز ۔ آل عمران
182 آل عمران
183 سوختی قربانی : (ف ١) امام المفسرین حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ کعب اشرف ‘ کعب بن اسد اور دوسرے اکابر یہود حضور انور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ توراۃ میں لکھا ہے جب تک کوئی نبی سوختی قربانی کا معجزہ نہ دکھائے ، قابل تسلیم نہیں ۔ اور اس کی صورت یہ ہے کہ ذبیحر ایک مخصوص مکان میں رکھا جائے جس کی چھت نہ ہو ۔ آسمان سے آگ نازل ہو جسے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور وہ آکر اس ذبیحہ کو جلا دے ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ اس نوع کا مطالبہ یہودیوں کی طرف سے بعید نہیں اس لئے کہ وہ سخت جامد اور ادہام پرست تھے ، مگر مشکل یہ ہے کہ توراۃ میں سرے سے نبوت کا یہ معیار ہی مذکور نہیں اور قرآن حکیم کے الفاظ یہ ہیں کہ یہودی کہتے تھے ۔ (آیت) ” ان اللہ عھد الینا “ ۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہودیوں کو اپنے مذہبی عقیدہ کی بنا پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے متعلق شبہ تھا مگر وہ مذہبی عقیدہ کیا تھا ؟ اس کی پوری تفصیل قرآن حکیم میں مذکور نہیں ۔ توراۃ کے عمیق مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سوختی قربانی کا یہودیوں میں بہت رواج تھا ، ممکن ہے یہودیوں نے جب یہ دیکھا ہو کہ مسلمان قربانی کو جلاتے نہیں کھاتے ہیں تو ان کے دل میں شبہ پیدا ہوا ہو کہ یہ ہماری روایات مذہبی کے خلاف ہے اس لئے صحیح نہیں ۔ قرآن حکیم کے الفاظ میں آگ کے آسمان سے اترنے کا کہیں ذکر نہیں اور نہ کسی صحیح حدیث میں مذکور ہے کہ پہلے آگ آسمان سے اترا کرتی تھی ، (بجز اس قسم کی روایات کے جو تفسیر کی کتابوں میں مذکور ہیں اور مستند نہیں) اس لئے صاف ظاہر معنی یہ ہوں گے کہ یہودیوں کا مطالبہ تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوختی قربانی کو ان کے سامنے پیش کریں ۔ اس شبہ کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ تم ان سے پوچھو کہ انہوں نے پہلے انبیاء علیہم السلام کیوں انکار کیا ؟ حالانکہ انہوں نے ان کے عام مطالبات کو پورا کیا تھا ۔ بات یہ ہے کہ لوگ انکار کرنے کے بعد دل کو تسلی دینے کے لئے اس قبیل کے بہانے گھڑ لیتے ہیں ، ورنہ خدا کے سچے پیغمبروں علیہم السلام نے ان کے اطمینان کے لئے کیا کیا نہیں کیا ۔ دلائل وبراہین کا انبار لگا دیا ۔ معجزات وخوارق سے یہ ورطہ حیرت میں گم ہوگئے مگر پھر بھی انکار بدستور رہا اور یہی کہتے رہے ، یہ جادو ہے اور ہماری آنکھیں عمل سحر سے متاثر کرلی گئی ہیں ۔ حل لغات : تاکلہ النار : آگ نے اسے بھسم کردیا ، جلا دیا ۔ زبر : کتابیں ، صحیفے ۔ آل عمران
184 آل عمران
185 (ف ١) اس آیت میں حیات فانی کی بےثباتی کا نقشہ کھینچا ہے کہ ہر شخص جرعہ موت سے کام ودہن تر کرے گا ، اس لئے وہ جو مقصود اصلی ہے نظروں سے اوجھل نہ ہو ، عمر عزیز کا ایک ایک لمحہ نصب العین کی طرف اقدام میں صرف ہو ۔ وہ شخص جو دائمی واخروی زندگی میں آگ کے عذاب سے بچ گیا اور جنت کے زینوں پر چڑھ گیا ، جان لیجئے کہ وہ کامیاب ہے اور جس کی ساری تگ ودو دنیا کے حصول تک محدود رہی ‘ وہ دھوکے میں ہے ۔ دنیا کو (آیت) ” کہنا درست واقعہ ہے ، بڑے بڑے سمجھ دار لوگ دنیا کی صحیح حیثیت سمجھنے سے قاصر ہیں ، قرآن حکیم کا مطلب یہ نہیں کہ دنیا سے فائدہ نہ اٹھایا جائے ، بلکہ یہ ہے کہ دنیا کو نصب العین کا درجہ نہ دیا جائے جس کی تشریح آیندہ آیات میں مذکور ہے ۔ آل عمران
186 (ف ٢) یعنی مال ودولت کا حصول گناہ نہیں البتہ اللہ کے امتحانوں میں پورا نہ اتروا معصیت وکجروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان آیات میں فرماتا ہے کہ مسلمان کے لئے کڑی مصیبتیں آئیں گی ، وہ مجبور ہے کہ برداشت کرے ، شرک وکفر کے حلقوں سے اسے دکھ پہنچے گا ، مگر وہ صبر اور استقامت سے کام لے ، یہی بات اللہ کو پسند ہے اور یہی عزیمت ہے ۔ حل لغات : زحزح : دور کیا گیا ، ہٹا دیا ۔ متاع الغرور : فریب والا سودا ۔ آل عمران
187 (ف ١) اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ ہر اہل کتاب مکلف ہے کہ خدا کے احکام کو بالوضاحت دوسروں تک پہنچائے اور کسی قسم کی تحریف سے کام نہ لے مگر یہودیوں نے محض اس لئے حقائق کو بدل دیا کہ اس سے ان کا دنیوی مفاد متعلق تھا ۔ ہر معاوضہ جو حق وصداقت کے بدلے قبول کیا جائے ، قرآن مجید کی اصطلاح میں وہ ثمن قلیل ہے یعنی ایک ایسی حقیر رقم جو بمقابلہ اخروی انعام کے نہایت کم ہے ۔ آل عمران
188 (ف ٢) آیت کے نزول میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک یہ منافقین کے حق میں نازل ہوئی ہے ۔ جیسے حضرت ابی سعید خدری (رض) سے روایت ہے اور بعض کے نزدیک اس سے مراد محرفین یہود ہیں اور اصل بات یہ کہ دنای کا ہر بدباطن اور برا آدمی قدرتی طور پر چاہتا ہے کہ میرے ایمان کی تعریف کی جائے قرآن نے درحقیقت اسی نفسیت ستائش طلب کی توضیح کی ہے اور بتایا ہے کہ اہل حق وصداقت سے ان لوگوں کی اس قسم کی توقعات ناجائز ہیں وہ ان کے نفاق تحریف اور مداہنت کی تعریف نہیں کرسکتے ۔ (ف ٣) مقصد یہ ہے خدا کی قدرتیں نہایت وسیع ہیں ، یہ لوگ دھوکے میں نہ رہیں ، وہ ان کے حالات کو خوب جانتا ہے اور اس میں یہ طاقت ہے کہ ایک لمحہ میں زمین وآسمان کو الٹ دے اور ان کو پیس کر رکھ دے ۔ آل عمران
189 آل عمران
190 (ف ١) یعنی جس طرح نظام کواکب میں ہر آن تبدیلی ہوتی رہتی ہے ، اور وقت وزمانہ صبح ومسا کے تغیرات سے محفوظ نہیں اسی طرح کفر و ایمان میں باہمی آویزش سے اور ضرور ہے کہ کفر کی تاریکی کے بعد ایمان کی روشنی کا زمانہ آئے اور پھر جس طرح رات اور دن میں اختلاف ہے ، اسی طرح حق وباطل میں بین اور واضح امتیاز ہے اور جس طرح رات کے بعد سپیدہ سحر نمودار ہوتا ہے ‘ اس طرح مایوسیوں کے بعد امیدوں کا افتاب طلوع ہوتا ہے اور جس طرح یہ درست ہے کہ تاریکیاں اجالے سے بدل جاتی ہیں ‘ اسی طرح موت کے اندھیرے حیات ما بعد کی صورت اختیار کریں گے اور جس طرح یہ حقیقت ہے کہ آفتاب صبح کے طلوع ہونے کے بعد آسمان پر کوئی ستارہ نہیں چمکتا ایس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد جو خاور نبوت ہیں آسمان ہدایت پر کوئی اور ستارہ طلوع نہیں ہوگا ۔ اسی طرح کے کئی دلائل وشواہد ہیں جو روز مرہ کے اختلاف لیل ونہار میں مخفی ہیں ، ضرورت اس کی ہے کہ اہل عقل ودانش اس جانب متوجہ ہوں ۔ یہ قرآن حکیم کا اعجاز بیان ہے کہ وہ ایک جملہ میں معارف ونکات کا دریا بہا دیتا ہے ۔ آل عمران
191 فسلفہ مذہب : (ف ٢) اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ عقل مند اور خوردودانش وہ لوگ ہیں جو اٹھتے بیٹھتے اور ہر حالت میں خدائے ذوالجلال کی تعریف وتوصیف میں رطب اللسان رہتے ہیں ، جو آسمان وزمین کے اسرار وخفایا کے متعلق غور وفکر سے کام لیتے ہیں اور بےاختیار کہہ اٹھتے ہیں کہ اے رب ! تونے کسی چیز کو بےکار نہیں پیدا کیا اور اس کے بعد وہ اپنی زندگی بالکل قدرتی اور طبعی بنا لیتے ہیں ، تاکہ عذاب وسخط الہی سے بچ جائیں ۔ مقصد یہ ہے کہ طبیعات اور ناموسات الہیہ میں غوروفکر انسان کو خدا پرست بنا دیتا ہے اور اس میں یہ یقین پیدا کردیتا ہے کہ کائنات کی چیزیں بخت واتفاق کا نتیجہ نہیں ، بلکہ زبردست قدرت وعقل کا کرشمہ ہیں ۔ اور وہ لوگ جو حکم وفلسفہ کو مذہب کے منافی خیال کرتے ہیں وہ یا تو مذہب کی روح سے ناواقف ہیں یا عقل وفکر کی حدود سے نابلد اور بےبہرہ ! آل عمران
192 آل عمران
193 دعوت ایمان : (ف ١) ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ آسمان وزمین کے متعلق صحیح غور وفکر ذوق عبادت و ایمان کی روح پیدا کردیتا ہے ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو اٹھتے ، آسمان کی طرف چشم بصیرت سے دیکھتے اور غور و فکر کی وجہ سے بےاختیار پکار اٹھتے کہ (آیت) ” ربنا ما خلقت ھذا باطلا “۔ اور سوچو کیا یہی وہ نتیجہ نہیں جو ایک مفکر طبیعات کے دماغ میں پہلے پہل چمکتا ہے ، تم خود کائنات کے اسرار وکفایا کے متعلق حکیمانہ تدبر سے کام لو ذرہ ذرہ سے یہی صدا سنائی دے گی (آیت) ” ربنا ما خلقت ھذا باطلا ۔ قرآن حکیم کا یہ مخصوص انداز دلائل ہے کہ وہ ایسے حقائق پیش کرتا ہے جو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ہی غور وفکر کے نتائج ہیں ۔ یہ آیات فلسفہ ومذہب کے قریب ترین حدود سے ہمارا تعارف کراتی ہے ، ہر صحیح الدماغ اور عقل مند انسان جب دعوت ایمان وایقان پر غور کرتا ہے تو کہہ اٹھتا ہے ” امنا “ کہ اے رب ہم نے تیری طرف بلانے والے کی آواز کو سنا ، اس لئے ہم آج سے ایمان کے شیدائی ہیں ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے مطالبہ استغفار وتکفیر گناہ ہے ، اور خدا کا وعدہ ہے کہ ہم تمہارے اعمال کو ضائع نہیں کریں گے تمہیں جنت میں جگہ دیں گے اور تمام گناہوں کو معاف کردیں گے یہ اس لئے تم نے صرف ہماری خاطر آرام وآسائش کو چھوڑا ۔ ہجرت اختیار کی اور کڑی سے کڑی مصیبتیں جھیلیں ، اہل کفر سے لڑے اور جام شہادت نوش کیا ، یعنی حسن ماب یا بہترین زندگی ایثار وقربانی ہی سے حاصل ہوتی ہے اور صحیح ایمان وہی ہے جو مسلمان کو کفر والحاد پر آتش زیر پا کر دے ، وہ مجبور ہوجائے کہ اس سے لڑے ۔ حل لغات : الابرار : نیک ۔ صالح ۔ آل عمران
194 آل عمران
195 آل عمران
196 (ف ١) یعنی اہل کفر کا مختلف شہروں میں رہنا ، ان کی وسعت مادی ۔ سازوسامان کی کثرت درحقیقت کوئی چیز نہیں ۔ بات یہ تھی کہ قریش مکہ تجارت کے سلسلہ میں سارے ملک میں گھومتے پھرتے ، یہودی بھی دولت مند ہونے کی وجہ سے عیش وعشرت سے بسر کرتے تھے ، مسلمان جب دیکھتے تو انہیں خیال ہوتا کہ ہم خدا کو ماننے والے ہیں اور عسرت وتنگ دستی میں بسر کرتے ہیں اور جو مستحق عذاب ہیں ، رفاہت سے ہیں یہ کیا بات ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، یہ چند دنوں تک ایسا ہے تم اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے کہ ان کی امارت وتمول برباد ہوگیا اور نہایت ذلت اور مسکنت سے زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا یہ قاعدہ ہے کہ وہ اہل کفر کو اس وقت تک ڈھیل دیتے ہیں جب تک وہ معصیت وسرکشی کی حدود سے نہیں گزر جاتے اور جب تک وہ معصیت وسرکشی کی حدود سے نہیں گزر جاتے اور جب تک کہ وہ خود اپنی ہلاکت کا سامان پیدا نہیں کرلیتے ، اور جب وہ بالکل آمادہ موت ہوتے ہیں تو زمانہ کی ایک ہی گردش سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے فنا ہوجاتے ہیں ۔ آل عمران
197 آل عمران
198 آل عمران
199 (ف ٢) اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ بعض اہل کتاب ایسے بھی ہیں جو قطعا متعصب نہیں ، وہ جب کتاب اللہ کو سنتے اور سمجھتے ہیں تو ایمان لے آنے میں انہیں کوئی تامل نہیں ہوتا اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جن آیات میں اہل کتاب کے ایمان لے آنے کا ذکر ہے ‘ اس سے مراد کامل اسلام قبول کرنا ہے نہ کہ صرف ایمان باللہ کیونکہ اس آیت میں (آیت) ” وما انزل علیکم “ کی تصریح موجود ہے ۔ حل لغات : تقلب : چلنا پھرنا ۔ نزل : مہمانی ، جو شے سب سے پہلے مہمان کے سامنے رکھی جائے ، اہل جنت کو مہمان کہنے کا یہ مطلب ہے کہ جس طرح مہمان کی خاطر ومدارات میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا جاتا ، اسی طرح یہ لوگ مہمانوں کی طرح خدا کے ہاں رہیں گے ۔ آل عمران
200 (ف ١) اس آیت میں سورۃ ال عمران کا اختتام ہے اور اس میں تقریبا تمام ان اوصاف کا ذکر کیا ہے جو کامیاب انسان کے لئے ضروری ہے ، صبر ‘ مصابرہ اور رباط ، یہ تین چیزیں ہیں جن کا اس آیت میں ذکر ہے صبر کے معنی حسب ذیل ہیں :۔ ١۔ توحید ومعرفت میں غور وفکر ۔ ٢۔ فرائض ومندوبات پر مدامت ۔ ٣۔ مشتبہات سے احتراز ۔ کیونکہ ان ہر سہ معافی میں مشقت وکوفت ہے جس کا برداشت کرلینا صبر ہے ، وقت نظر کی مشکلات سے کون ناواقف ہے ، فرائض ومندوبات پرمداومت بھی دشوار ہے ، اور منہیات سے احتراض سے احتراز تو بہت ہی مشکل امر ہے ۔ اس کے بعد ” مصابرہ “ کا درجہ ہے ، مصابرہ کہتے ہیں ہر اس تکلیف کے برداشت کرنے کو جس کا تعلق دوسرے نفس سے ہے یعنی اعزہ واقارب کی تکلیفیں ‘ اہل ملک وملت کی تکلیفیں اور مخالفین غیر حکومت کے مصائب ومظالم ، جو شخص ان مشکلات کو برداشت کرلے وہ مصابر ہے ۔ اس کے بعد ” رباط “ کی تلقین ہے ، رباط لغۃ گھوڑے باندھنے کو کہتے ہیں مقصد یہ ہے کہ مخالفین کے لئے ہر وقت خیل وحشم کے ساتھ تیار رہو ۔ آل عمران
0 سورۃ نسآء : یہ سورۃ مدنی ہے جس فلسفہ تدبیر منزل سے بحث ہے اور بتایا ہے کہ وہ کون سے رشتے ہیں جو قابل لحاظ ومروت ہیں اور عورتوں کے حقوق واجبات کیا ہیں ۔ درمیان میں کئی مسائل آگئے مگر چونکہ سورت کا اہم مضمون عورتوں کا منصب ودرجہ کی تعیین ہے ‘ اس لئے سورت کا نام ہی نساء رکھ دیا قرآن حکیم اس حیثیت سے دنیائے مذاہب کی پہلی اور آخری کتاب ہے جس میں بالخصوص عورتوں کو قابل درجہ درجہ دیا گیا ہے اور ان کے نام پر قرآن مجید کا ایک حصہ موسوم کردیا گیا ہے ۔ النسآء
1 (ف ٢) اس آیت میں اس عظیم حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ سارا عالم انسانیت ایک کنبہ ہے جس کے تمام افراد مرد و عورت اور اطفال اولاد کی شکل میں زمین پر پھیلے ہوئے ہیں ، اس لئے ضروری ہے کہ خدا کی عبادت کے ساتھ ساتھ بندوں پر شفقت کا جذبہ بھی موجود رہے ، اور دین ومذہب کا منشاء اس وقت تک پورا نہیں ہوتا جب تک کہ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کا بھی خیال نہ رکھا جائے ، اسلام نے اس مسئلہ پر بڑا زور دیا ہے کہ مذہب کے مفہوم کو صرف عبادت پر محصور وموقوف نہ سمجھا جائے ، بلکہ اس میں اتنی وسعت دے کہ تمام مدنی ضروریات سما جائیں ۔ حل لغات : رقیبا ۔ نگہبان اور محافظ : النسآء
2 (ف ١) اس آیت میں یتامی کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم ہے ۔ لوگ عام طور پر تربیت کے نام پر ان کا مال کھاتے یا بدل لیتے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے روکا اور بتایا ہے کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے ۔ النسآء
3 تعددازو واج : (ف ٢) اسلام نے عورت کو جو حقوق دیئے ہیں دنیا کا قانون حیران وششدر ہے ، اس نے اس کا درجہ اتنا بلند اور رفیع قرار دیا ہے کہ وہاں تک غیر مسلم عورتوں کی رسائی ناممکن ہے ، مگر تعدد ازواج ایک مسئلہ ہے جو بظاہر عقل وانصاف رکھنے والوں کے دل میں کھٹکتا ہے اور غیر مسلم دنیا کے دل میں عورت کی حیثیت کی نسبت شکوک پیدا کردیتا ہے ، اور وہ یہ دیکھ کر کہ اسلام بیک وقت چار عورتوں سے شادی کرنے کی اجازت دیتا ہے ، کہہ اٹھتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں سے کوئی اچھا سلوک روا نہیں رکھا ، حالانکہ ایسا نہیں ، تعدد ازواج کے متعلق مندرجہ ذیل حقائق سامنے رکھنے چاہئیں ۔ اسلام سے پہلے کثرت بعول اور کثرت ازواج کی بلا تعین اجازت تھی ، یعنی مرد جس قدر چاہتے ، عورتیں نکاح میں رکھتے اور اسی طرح عورتیں جس قدر چاہتیں ‘ خاوند بنا لیتیں ۔ ١۔ اسلام نے کثرت بعول کی جو درحقیقت غیر مہذب زمانے کی رسم ہے قطعی ممانعت کردی اور کثرت ازواج کی تحدید کردی ، اس لئے اسلام تعدد ازواج کا حامی بصورت تعیین ہے ‘ نہ موجد ومخترع کی حیثیت سے ۔ ٢۔ اسلام سے پہلے عدل وانصاف کی شرط غیر ضروری تھی ، سلام نے اس شرط کو ضروری قرار دیا ۔ ٣۔ تعدد ازواج کو ہر حال میں اسلام نے اچھا نہیں سمجھا البتہ حالات کے مطابق اس کو موزوں قرار دیا ۔ ٤۔ مرد بالطبع تنوع پسند ہے اور یہی وجہ ہے یورپ میں وحدت زوج کی سکیم کامیاب نہیں رہی ۔ ٥۔ عورت ایک آلہ تولید ہے جس کی کثرت میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ ٦۔ مرد مادی حیثیت سے اتنا قوی ہے کہ بعض اوقات وہ ایک عورت پر اکتفا نہیں کرسکتا ۔ ٧۔ ملکی حالات بعض دفعہ مجبور کردیتے ہیں کہ کثرت ازدواج کی رسم کو جاری کیا جائے ، جسے یورپ میں جنگ عظیم کے بعد ، کیا ان حقائق کی روشنی میں کثرت ازواج کی اجازت نہ دینا انسانیت پر بہت بڑا ظلم نہیں ؟ اور آج جب کہ ” اقلیت واکثریت “ کا مسئلہ دنیا کی سیاسیات کا اہم عنصر ہے ‘ تعدد ازواج کی خوبیوں سے کون انکار کرسکتا ہے ہندوستان میں اگر مسلمان کثرت ازدواج پر عمل کرنے لگیں تو صرف پچاس سال کے بعد اقلیت بغیر کسی تبلیغ کے مبذل بہ اکثریت ہوجائے ۔ عورت کی صنفی کمزوریاں اور بیماریاں بجائے خود تعددازواج کی دعوت ہیں ، مگر چونکہ ہندوستان میں اس کا رواج نہیں ۔ اس لئے ہم اسے اچھا نہیں سمجھتے اور یہ ہماری غلطی ہے ، یورپ آج کثرت اولاد پر بڑا زور دے رہا ہے ، مگر اسلام نے پہلے سے لوگوں کو اس کی ترغیب دلائی ہے اور اس کی صورت تعدد ازواج ہے عام عورتوں میں کوئی خاص تعداد معین نہیں ۔ (آیت) ” الا تقسطوا فی الیتمی “ کے معنی یہ ہیں کہ اگر تم یتیم عورتوں کو اپنے عقد میں لا کر انصاف نہ کرسکو تو پھر دوسری عورتوں کے ساتھ جو تمہیں پسند ہوں نکاح کرلو ، تاکہ بےانصافی کا موقع نہ رہے ۔ (آیت) ” ماطاب “۔ میں بتایا ہے کہ جو عورت جسم وروح دونوں کے لحاظ سے تمہیں اچھی معلوم ہو ‘ اور اس قابل ہے کہ رفیقہ حیات بنائی جائے ۔ النسآء
4 شادی کا تحفہ : (ف ١) اسلام جس حسن سلوک کو میاں بیوی میں دیکھنا چاہتا ہے ‘ اس کا اندازہ رسم ” صداق “ سے ہو سکتا ہے یعنی عہد مؤدت وصداقت کی یاد گار ۔ مسلمان شوہر مجبور ہے کہ حسب توفیق عورت کو شادی کا تحفہ یعنی مہر دے ۔ النسآء
5 النسآء
6 (ف ٢) ان آیات میں بھی یتامی کے ساتھ بہتر سلوک کی تعلیم دی ہے اور ہدایت کی ہے کہ ان کے مال کو حتی الامکان نقصان نہ پہنچایا جائے اور اس وقت تک انہیں ان کا مال واپس نہ دیا جائے ‘ جب تک کہ وہ خود اس سے استفادہ کے قابل نہ ہوجائیں اور صاحب حیثیت امراء اگر بہت کم ضروریات پر ان کا مال صرف کریں اور خود اس میں سے کچھ نہ لیں تو زیادہ بہتر ہے ، اور جب مال دیں تو گواہ مقرر کرلیں ، تاکہ آیندہ چل کر کوئی خرابی نہ نکلے ۔ النسآء
7 اسلام اور تقسیم میراث : (ف ١) نوع انسانی کے لئے اجتماعی زندگی میں ایسے روابط کی سخت ضرورت ہے جو باہمی تعاون وتوافق کے زیادہ سے زیادہ ترغیب کا باعث ہو سکیں اور جو یہ بتا سکیں کہ انسانی عائلہ کس طریق پر ایک دوسرے سے وابستہ ہے اور ان کے آپس کے تعلقات کس درجہ فطری اور طبعی ہیں ، اسلام جو اجتماعی فلاح وسعادت کا سب سے بڑا حامی ہے کیونکر ایسے اہم رشتے کو فراموش کرسکتا تھا ۔ اس نے سب سے پہلے باہمی انس وتعاون کی بنیاد ڈالی اور ہر مسلمان کو ” وصیت “ پر آمادہ کیا چنانچہ اول اول لوگ اپنے مال سے کچھ حصہ بطور ” وصیت “ کے بلا تخصیص قرابت وضع کر جاتی تھی ، مقصد یہ تھا کہ مسلمان اس جذبہ تعاون وتوافق کی اہمیت کو محسوس کریں بعد میں میراث کی آیتیں نازل ہوئیں ، جن میں قرابت والوں کے حصے بیان کئے گئے اور یہ اس وقت نازل ہوئیں جب فتوحات اسلامی بہت وسیع ہوگئیں اور مسلمان خاصے مال دار ہوگئے ، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسلام کے نزدیک عام انسانی تعلق زیادہ قابل اعتناء ہے ۔ زمانہ جاہلیت میں عورتیں حقوق میراث سے محروم قرار دی جاتیں ، عرب کہتے تھے ، میراث کا وہ حق دار ہے جو میدان جنگ میں قومی عزت کے لئے لڑے اور مال غنیمت جمع کرے ، عورتیں ہرگز اس کی مستحق نہیں ۔ موجودہ کتب مذہبی بھی تقریبا تمام عورتوں کو حقوق میراث سے محروم رکھتی ہیں ، قرآن مجید نے بیان کیا کہ عورتیں بھی اسی طرح حق دار ہیں جس طرح مرد ۔ اس لئے کہ فطرت نے سوا جنسی عوارض ولوازم کے عورت اور مرد میں اور کوئی تقسیم جائز نہیں رکھی ، تمام عورتیں نفس انسانیت میں مرد کے برابر ہیں ، اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ انہیں اس انسانی حق سے محروم رکھا جائے ، وہ مذاہب جو عورت کے اس طبعی وفطری حق کے حامی نہیں وہ کس منہ سے اس کے احترام کا دعوی کرسکتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے سوا اور کسی مذہب نے مرد اور عورت کے صحیح معنوں کو نہیں سمجھا ۔ النسآء
8 (ف ٢) اس آیت میں بتایا ہے کہ بانٹتے وقت اگر کچھ لوگ اپنے عزیز یا دوسرے محتاج ومستحق جمع ہوجائیں تو انہیں بھی کچھ نہ کچھ دے دو ‘ تاکہ وہ دل شکستہ نہ ہوجائیں اور ان سے اس طرح پیش آؤ جس سے کہ ان کے وقار اور ناموس کو ٹھیس نہ پہنچے ۔ حل لغات : نصیب : حصہ ۔ فروضا : مقرر ومتعین ۔ غیر مشکوک ۔ النسآء
9 (ف ١) یہ خطاب ان لوگوں سے ہے جو مریض کے پاس بیٹھتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ وہ دوسروں کے لئے زیادہ سے زیادہ وصیت لکھوا لیں اور اصل ورثا کو محروم رکھیں ، فرمایا یہ حرکت نہایت مذموم ہے ، ان کو سوچنا چاہئے کہ اگر یہی پوزیشن انکی ہو تو وہ کیا کریں ، یعنی یعنی اگر ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ہوں تو کیا یہ گوارا کریں گے کہ ان کے لئے کچھ نہ چھوڑ جائیں ۔ النسآء
10 (ف ٢) ان آیات میں بتایا ہے کہ یتیموں سے ناجائز وسائل کی بنا پر مال حاصل نہ کیا جائے ، عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ یتامی کو وراثت سے محروم رکھنے کے لئے طرح طرح کی چالیں چلی جاتی ہیں ، فرمایا جو یتیموں کے مال کو کھائے گا ، اسے یقین رکھنا چاہئے کہ وہ جہنم کی آگ نگل رہا ہے یعنی اس سے بڑا گناہ اور کیا ہوگا کہ تم ان لوگوں کو نقصان پہنچاؤ جو سچے سرپرستوں کو ضائع کرچکے ہیں ، ان کے ماں باپ زندہ نہیں اور تم بجائے اس کے کہ ان کا خیال رکھو ان کو لوٹتے ہو ۔ النسآء
11 تقسیم حصص : (ف ٣) حضرت سعد (رض) شہید ہوئے تو ان کی دو بچیاں ‘ ایک بیوہ اور ایک بھائی زندہ تھے بھائی نے تمام جائیداد پر قبضہ کرلیا ، سعد (رض) کی بیوی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں شکایت لے کر آئیں ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انتظار کر ، اس پر یہ آیات نازل ہوئیں ۔ (آیت) ” یوصیکم اللہ “ کے معنی یہ ہیں کہ تقسیم جائیداد بھی ایک اہم ضرورت دینی ہے اور وہ لوگ جو اس میں تساہل وتغافل برتتے ہیں ‘ یقینا اللہ کے ہاں مجرم ہیں ، (آیت) ” للذکر مثل حظ الانثینین “ کہہ کر یہ بتایا ہے کہ لڑکیاں تقسیم میراث کے سلسلہ میں اصل ومعیار کی حیثیت رکھتی ہیں ، زمانہ جاہلیت میں جس طرح عورتیں زندگی کے تمام لوازم سے محروم تھیں ، اسی طرح حق وراثت سے بھی محروم تھیں ، اسلام جب دنیا میں آیا ہے اور اس کا آفتاب نصف شعار چمکا ہے تو تاریکیاں چھٹ گئیں اور عدل وانصاف دور دورہ ہوا ۔ اسلام نے آکر بتایا کہ لڑکوں کے ساتھ لڑکیاں بھی تمہاری جائیداد میں شریک ہیں اور انہیں جائیداد سے محروم رکھنا کسی طرح زیبا و درست نہیں ۔ آج بھی بعض سرمایہ دار زمیندار زمانہ جاہلیت کی نخوت وبغاوت اپنے سینوں میں مضمر رکھتے ہیں اور عدالتوں میں جا کر صاف صاف کہہ دیتے ہیں ہم رواج کو شریعت پر مقدم سمجھتے ہیں ، یہ کھلا ارتداد ہے ، ان کے سامنے دو راہیں ہیں ، یاتو اسلام کو پوری طرح قبول کرلیں اور لڑکیوں کو حصہ دیں اور یا اسلام کو چھوڑ دیں ، تیسری کوئی راہ نہیں ، یہ بےوقوف یہ نہیں سمجھتے کہ جس طرح ہماری جائیداد دوسروں کے گھروں میں جائیگی ، اسی طرح دوسروں کی جائیداد بھی تو تمہارے ہاں آئیگی ، ضرورت شریعت کے احکام کو رواج دینے کی ہے ۔ اس سے کوئی شخص گھاٹے میں نہیں رہتا ۔ لڑکی کا حصہ لڑکے سے آدھا ہوتا ہے اس کے یہ معنی نہیں کہ اسلام کے نزدیک لڑکیاں سرے سے احترام وعزت کی مستحق ہی نہیں ، بلکہ بات یہ ہے کہ اسلام کے سامنے چونکہ ہر طرح کی مشکلات ہیں جن سے مرد دو چار ہوتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ سرمایہ کی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں ، اس لئے ان سے لڑکوں کو زیادہ حصہ دلایا ہے ۔ (آیت) ” من بعد وصیۃ یوصین بھا اودین “۔ کے معنی یہ ہیں کہ مال موروثہ اس وقت تک تقسیم نہ ہو سکے گا جب تک کہ میت کے سر سے قرض نہ اتر جائے ، وصیت وقرض کے بعد جو مال بچے گا ‘ اس میں ورثا کو تقسیم کا حق ہے ۔ قرآن حکیم نے جو حصص مقرر فرمائے ہیں ضرور حکیمانہ ہیں اور ان میں ہر ایک حصہ کی ایک وجہ ہے مگر ہمارا تجربہ چونکہ محدود ہے اور ہمارا علم قاصر ‘ اس لئے ہم قطعی اور حتمی رائے نہیں قائم کرسکتے ، اس لئے فرمایا ۔ (آیت) ” لا تدرون ایھم اقرب لکم نفعا “۔ یعنی تم نہیں جانتے تمہارے لئے کون زیادہ مفید ہے اور کس کو زیادہ حصہ دیا جائے یعنی حصص کی تقسیم توفیقی ہے منطقی نہیں ۔ حل لغات : قولا سدیدا : ڈھب کی بات ۔ حظ : حصہ ۔ النسآء
12 النسآء
13 (ف ١) ان آیات میں اللہ کے احکام ونواہی کو حدود سے تعبیر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ ان حدود سے تجاوز کرنا گناہ ہے اس لئے کہ یہ فرائض ومنکرات حق وباطل اور جنت ودوزخ کے درمیان بطور حدود کے ہیں کہ وہ لوگ جو ان کا خیال رکھتے ہیں اور ہر لحظہ خدا اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت میں مصروف رہتے ہیں ، وہ فوز عظیم پالیتے ہیں اور وہ جن کے خمیر میں معصیت وکبر سرشت ہے ، وہ انکار کردیتے ہیں ، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ سخت ترین عذاب میں مبتلا ہوں گے ۔ حل لغات : کللۃ : اس مرد یا عورت کو کہتے ہیں جس کا کوئی اصل وفرع موجود نہ ہو ۔ النسآء
14 النسآء
15 فاحشہ کی سزا : (ف ١) اس آیت میں فاحشہ کی سزا کا ذکر ہے کہ اگر کوئی عورت فحش کا ارتکاب کرے اور ثابت ہوجائے تو اسے گھر میں بند کر دو تاکہ آیندہ فتنہ کی گنجائش نہ رہے ۔ اور اگر مرد برائی کا ارتکاب کرے تو اسے سزا دو ، تاآنکہ وہ توبہ کرلے ، پھر اس سے تعرض نہ کرو ۔ ان ہر دو آیات کے مصداق ومحل میں اختلاف ہے جمہور مفسرین کی رائے یہ ہے کہ اس سے مراد زانی مرد اور عورت ہے اور یہ حکم تقرر حد سے پہلے کا ہے چنانچہ جب حد کا تقرر ہوا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” خذوا عنی قد جعل اللہ لھن سبیلا “۔ کہ آؤ میں بتاؤں اللہ تعالیٰ نے ان کے فیصلہ کی سبیل بتا دی ہے اس صورت میں یہ حدیث آیت کی مخصص ہوجائے گی ، ابومسلم کہتے ہیں ، یہ دونوں آیتیں تفاحش جنسی کے بیان میں ہیں ، اس میں زنا کا ذکر نہیں یعنی اگر دو عورتیں مل کر ارتکاب فحش کریں اور شہادت ہوجائے تو پھر انہیں بطور سزا کے گھروں میں محبوس رکھا جائے ، اور اگر مرد شہوت جنسی کا ارتکاب کرے تو اسے سزا دی جائے ، مگر یہ تاویل گو چلتی ہوئی ہے لیکن درست نہیں ، اس لئے کہ حدیث میں توضیح آچکی ہے اور اس لئے بھی کہ زانیہ کے لئے تو گواہوں کی ضرورت ہے ، اس کے لئے تو ذرا سختی کے ساتھ تادیب کافی ہے ۔ حل لغات : الفاحشۃ : برائی زنا ۔ النسآء
16 نفسیات اخلاق کاباریک نکتہ : (ف ١) (آیت) ” فاعرضوا عنھما “۔ میں اخلاق کے اس دقیق نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ بعض دفعہ حد سے زیادہ سزا اور ملامت ذوق گناہ کو اور بھڑکا دیتی ہے ، مقصد یہ ہے کہ مجرموں کے دل میں شدید احساس پیدا کردیا جائے اور بس جب یہ پیدا ہوجائے تو انہیں زیادہ تنگ نہ کرنا چاہئے ، اس طرح وہ خود بخود رک جاتے ہیں ۔ النسآء
17 (ف ٢) فرمایا ، تائب وہ ہے جو نادانستہ گناہ کر بیٹھے اور پھر فورا ہی جان لینے کے بعد توبہ کرلے ، وہ نہیں جو عمدا توبہ کے بھروسہ پر گناہ کرے ، حدیث میں آیا ہے ، التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ “۔ کے صحیح معنوں میں توبہ کرنے والا بالکل معصوم انسان کی طرح ہوجاتا ہے ۔ النسآء
18 توبہ کا وقت : (ف ٣) فحش وحرام کاری کے بعد ضروری تھا کہ فلسفہ توبہ پرروشنی ڈالی جائے اس آیت میں یہی بتایا ہے کہ توبہ اس وقت مفید ہو سکتی ہے جب گناہ کے ارتکاب کی پوری ہمت موجود ہو اور وقت مساعد ہو ، ورنہ اس وقت جب کاروان منزل تک پہنچ چکا ہو اور ہمت وقوت جواب دے چکی ہو ، توبہ سے کیا حاصل ؟ اس وقت کی توبہ کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ اپنے گناہوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے ہیں ، جب زندگی ہی نہیں تو ارتکاب گناہ کیسا ؟ بات یہ ہے کہ اسلامی فرائض ومناہی استدلال ومنطق پر مبنی ہیں اور جب عالم غیب کی بہت سی چیزیں بلاغور وفکر کئے آنکھوں کے سامنے آموجود ہوں اور فطرت کے راز ہائے سربستہ خود اپنی چہرہ کشائی پر آمادہ ہوں تو اس وقت خیر وشر میں تمیز کی ضرورت ہی نہیں رہتی ۔ حل لغات : اذوھما : تکلیف دو ، سزا دو ، مادہ ایذا ۔ اعرضوا : پیچھا چھوڑ دو ۔ النسآء
19 عورتیں مال ڈھور نہیں : (ف ١) جاہلیت میں عورت مال ڈھور کی طرح قابل بیع وشرا تھی اور جب کوئی ؤدمی مر جاتا تو اس کی سوتیلی اولاد اس کی وارث ٹھہرتی ، ان آیات میں بتایا کہ تم ان پر جبر وستم روا نہیں رکھ سکتے ، وہ تمہاری طرح جذبہ عزت نفس سے بہرہ ورہ ہیں اور انہیں بھی تمہاری طرح پوری عزت کے ساتھ زندہ رہنے کا حق ہے اور یہ طریق بالکل ناجائز ہے کہ تم انہیں محض اس لئے تنگ رکھو کہ وہ تمہیں کچھ دے کر طلاق حاصل کریں ۔ (آیت) ” وعاشروھن بالمعروف “ کے معنی یہ ہیں کہ عورت سے حسن سلوک از قبیل فرائض وواجبات ہے ۔ (آیت) ” فعسی ان تکرھوا “ میں ازدواجی زندگی کا ایک بیش قیمت نکتہ بیان فرمایا ہے یعنی بیوی میں اگر کوئی امر نقیض نہ ہو تو حتی الوسع چشم پوشی اور ایثار سے کام لینا چاہئے ، ہو سکتا ہے کہ تمہارا یہ ایثار بیوی کے دل میں تمہارے لئے بہت زیادہ احترام پیدا کر دے جس سے تمہاری زندگی مزے سے کٹے گی ، بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اکثر اس بات سے ملول رہتے ہیں کہ ان کی بیوی ان کے معیار مطابق قبول صورت نہیں یا اتنی مال دار نہیں ، جیسا کہ وہ چاہتے ہیں ، اور یا وہ اس درجہ تعلیم یافتہ نہیں جو ان کے لئے باعث فخر ہو سکے ، یہ لوگ اگر تھوڑے سے ایثار سے کام لیں تو یہ ملال دور ہو سکتا ہے کیا ان لوگوں نے کبھی یہ غور کیا ہے کہ خود ان کی کیا قوت ہے ۔ ہندوستان اور پاکستا کی شریف اور اطاعت گزار عورتیں بدصورتی ، غربت اور بدوضعی کے تمام عیوب کے باوجود اپنے خاوندوں سے محبت رکھتی ہیں ، کیا یہ رویہ قابل صد تحسین نہیں ۔ حل لغات : کرھا : بجبر ۔ زبردستی ۔ النسآء
20 مہر واپس نہ لو : (ف ١) اس آیت میں بتایا ہے کہ بیوی لو طلاق دینے کے بعد مہر یا وہ تحائف جو تم نے وقتا فوقتا اسے دیئے ہیں واپس نہ لو کہ یہ مروت اور حسن معاشرت کے منافی ہے یعنی طلاق کے معنی باقاعدہ اور آداب کے مطابق علیحدگی کے ہیں ، نہ اظہار بغض وعداوت کے ۔ اسلام نے ہر مرحلہ پر انسان کو اخلاق کی بلند شاہراہ پر قائم رہنے کی تلقین کی ہے ، اسی لئے وہ کہتا ہے کہ تم طلاق وعلیحدگی کے بعد بھی حسن سلوک کے اصول کو نہ بھولو ۔ النسآء
21 النسآء
22 النسآء
23 کن کن عورتوں سے نکاح درست نہیں ؟ (ف ٢) اسلام میں خوبی یہ ہے کہ وہ الہیات کی مشکل گتھیاں بھی سلجھاتا ہے اور معاشرت کے نکات بھی اس کے ریاض توحید میں عالم غیب کے اسرار بھی ہیں اور عالم شہود کے واقعات بھی ، اخلاق کے دقیق ابواب معاشرت کے چھوٹے چھوٹے مسائل تک ہے اور بہرحال یہ دعوی درست ہے کہ اسلام ایک کامل ومفصل مذہب ہے ، یہ بات کتنی افسوسناک ہے کہ وہ مذاہب جن میں الہیات کے اسرار وغوامض پر تو بحث ہے مگر روز مرہ کے واقعات سے تعرض نہیں ‘ عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اور وہ مسلک جس میں جامعیت وکمال تابحد مبالغہ ہے ، بدنام ہے ۔ ان آیات میں محرمۃ النکاح عورتوں کا بیان ہے ۔ یعنی وہ عورتیں جن سے نکاح درست نہیں ۔ اور وہ یہ ہیں : ١۔ منکوحہ آب ، یعنی باپ کی بیوی امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے خیال میں ” مزنیہ اب بھی اس میں داخل ہے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اسے صرف جائز ازواج تک محدود رکھتے ہیں ، قرآن حکیم کے الفاظ سے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تائید ہوتی ہے اور مفہوم ومنشاء کے اعتبار سے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ۔ (آیت) ” الا ما قد سلف “۔ سے مراد یہ ہے کہ گزشتہ واقعات اس تعزیر میں شامل نہیں جو ہو شکا سو ہوچکا ، مگر نزول کے بعد ایسا شادیاں ناجائز ہیں ۔ اس لئے حضور نے بہت سے ایسے واقعات میں تفریق کرا دیں ۔ ٢۔ مائیں ، بیٹیاں ، بہنیں ، پھپھیاں ، خالائیں ، بھتیجیاں اور بھانجیاں ‘ اس لئے کہ فطرت انسانی ان رشتوں کو احترام وشفقت کی نظر سے دیکھتی ہے ، اس لئے طبیعت اس طرف مائل ہی نہیں ہوتی ۔ ٣۔ رضاعی رشتے یعنی وہ عورتیں جن سے دودھ کا رشتہ ہو ، ظاہر ہے رضاعت سے لڑکے کے دل میں وہی جذبات پیدا ہوجاتے ہیں جو حقیقی ماں کی نسبت اس لئے ان رشتوں کو بھی احترام وعزت کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے ، ٤۔ ساس اس لئے کہ ساس بھی بمنزلہ ماں کے ہے ، ٥۔ ربائب ، یعنی وہ زیر تربیت بچیاں جو تمہاری بیویوں کی آغوش شفقت میں رہی ہوں ، حرمت کی وجہ ظاہر ہے ۔ ٦۔ بہو ۔ ٧۔ (آیت) ” جمع بین الاختین “ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں فطرت نے جو دو بہنوں میں محبت رکھی ہے ، وہ رقابت کے بدترین جذبے سے بدل جائے گی اور اسلام یہ نہیں چاہتا کہ کوئی تعلق کسی بدمزگی کا باعث ہو ، اسلام تو دنیا میں محبت ورفائیت پیدا کرنے آیا ہے نہ رقابت ودشمنی کے لئے ۔ حل لغات : قنطارا : مال کثیر ۔ افضی بعضکم الی بعض : سے مراد ہے تعلقات جنسی ۔ سلف : جو گزر چکا ، جو ہوچکا ۔ مقت : نفرت وناراضگی ۔ حجور : جمع حجر ۔ گود ۔ حلآئل : جمع حلیلۃ بمعنی بیوی ۔ النسآء
24 متعہ حرام ہے : (ف ١) ان آیات میں بتایا ہے کہ شادی شدہ عورتیں کسی طرح بھی دوسروں کے لئے جائز نہیں البتہ مملوکہ عورتیں چونکہ بوجہ عین بمنزلہ منکوحات کے ہیں اور ان کا سابقہ نکاح فسخ ہوچکا ہے ، اس لئے وہ ” محصنات “ کی فہرست میں داخل نہیں ۔ ذیل کے الفاظ سے بعض لوگوں نے متعہ کا جواز نکالا ہے ، (آیت) ” ان تبتغوا باموالکم فما استمتعتم بہ منھن فاتوھن اجورھن “۔ حالانکہ آیت کے سیاق وسباق سے ظاہر ہے کہ بیان نکاح کا ہو رہا ہے جس کے معنی دائما کسی کو حبالہ عقد میں لے آنے کے ہیں نہ متعہ کا ، جو وقتی جذبات کے ماتحت یکسر حیوانی حرکت ہے ، (آیت) ” محصنین غیر مسافحین “ کی تصریح ہرگز کسی شک وشبہ کی متحمل نہیں ، اس میں واضح طور پر مفہوم مضمر ہے کہ مرد اور عورت کا تعلق باہمی یا بصورت احصان ودوام ہے اور یا بصورت زنا وسفاح ۔ تیسری کوئی صورت نہیں ، یہ درست ہے کہ زمانہ جاہلیت میں متعہ کا عام رواج تھا اور عہد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں بھی بعض لوگ اسے جائز جانتے رہے مگر قرآن حکیم کا ایسے طرز ازواج کو پیش کرنا جو دائمی ہو جس میں عورت کا تمام حقوق زوجیت حاصل ہوں جس میں (آیت) ” عاشروھن بالمعروف “ کی تلقین ہو صاف طور پر متعہ کی مخالفت ہے ، اس لئے یہ کہنا کہ قرآن حکیم میں متعہ کی ممانعت موجود نہیں ‘ تجاہل ہے ۔ زیر خط الفاظ اس وقت موجب وہم وشک ہو سکتے ہیں جب پہلے سے ذہن میں متعہ کے جواز کا خیال ہو ، ورنہ ظاہر ہے ” ابتغآء بللال تمتع اور اجور ۔ ان میں کوئی شے بھی متعہ کے ساتھ مختص نہیں ۔ نکاح میں بھی روپیہ خرچ ہوتا ہے اور متہ میں بھی ، مہر ” صداق “ جس میں ہدیہ محبت وصداقت ہوتا ہے ، اسی طرح ایک قسم کا اجر بھی ، یعنی حلیہ مہر ووفا بھی اور تمتع تو ظاہر ہے جس قدر نکاح میں ہے متعہ میں نہیں ، پھر یہ کہاں سے لازم آگیا کہ ان الفاظ سے متعہ ثابت ہے ، ان الفاظ میں تو نکاح کے لوازم سے بحث ہے ۔ اصل میں غلط فہمی کا منبع یہ مسئلہ ہے کہ مہر بدل استحلال ہے ۔ حالانکہ یہ صحیح نہیں ، مہر تو شادی کا تحفہ ہے ، فتماء نے اسے خواہ مخواہ ” معاوضہ حیوانیت “ سمجھ لیا ہے جس سے اس کی پاکیزگی میں فرق پڑگیا ہے اور اسی بنا پر حضرت تشیع نے متعہ کا جواز نکالا ہے کہ چونکہ اجرت متحقق ہے ، اس لئے تمتع ازدواج کا حق ثابت ہوا ، وہ یہ نہیں جانتے کہ اسلام اس سے بہت بلند ہے کہ صرف چند نقرئی سکوں کے معاوضہ میں استحلال کا حق دے دے ، گو وہ اسے لازمی قرار دیتا ہے مگر اسے ” معاوضہ حیوانیت “ قرار نہیں دیتا اسلام جس شکل اتحاد کو پیش کرتا ہے وہ نہایت بلند اخلاق اساسوں پر قائم ہے ، اس میں دوام اور توریث شرط ہے ۔ حل لغات : المحصنت : آزاد ۔ شادی شدہ ، عفیف اور مسلمان عورتیں ، قرآن حکیم نے چاروں معنوں میں اس کا اطلاق فرمایا ہے ، مسافحین : مادہ سفاح بمعنی پہالا ۔ طول : مقدور گنجائش اور وسعت ۔ النسآء
25 ولا تخذات اخدان : (ف ١) ان آیات میں بتایا ہے کہ جو لوگ آزاد عورتوں سے قلت سرمایہ کی وجہ سے نکاح نہ کرسکیں ، وہ غلام عورتوں سے نکاح کرلیں ، کیونکہ وہ سستے داموں رشتہ ازدواجی میں منسلک ہوجاتی ہیں ، مگر اس میں چار باتیں ملحوظ رکھیئے ۔ ١۔ مومن ہو ۔ ٢۔ مالک کی اجازت حاصل کرلی جائے ۔ ٣۔ انہیں مہر دیا جائے ۔ ٤۔ اور یہ کہ وہ مالک سے الگ آشنا نہ رکھتی ہوں ۔ یعنی وہ عورتیں جو مالک کے سوا اور احباب ودوست بھی رکھتی ہیں ، ان سے رشتہ مناکحت درست نہیں موجودہ تمدن اس دفعہ کی مکمل تشریح ہے ، فرق یہ ہے کہ اس زمانے میں شرفا کی عورتیں اس سے محفوظ تھیں ، اب شریف وہ ہے جو دس بانچ دوست رکھتی ہو ۔ اللہ اکبر ! اخلاق کی دنیا میں کتنا بڑا انقلاب پیدا ہوگیا ہے ، اب ہر برائی شرافت وتہذیب کے نام پر جائز ہے ، لونڈی کی سزا نصف اس لئے رکھی ہے کہ اسے برائی سے بچنے کے مواقع بہت کم ملتے ہیں ، اب بھی وہ عورتیں جو گھروں میں کام کاج کرتی ہیں بمشکل برائی سے محفوظ رہتی ہیں اور وہ عورتیں جو کونسلوں ، ملوں اور ایوانوں میں مردوں کے پہلو بہ پہلو مل کر بیٹھتی ہیں کیونکر ردا عصمت کو بچا سکتی ہیں ؟ یہ حقیقت ہے کہ مرد و عورت کا اجتماع کسی صورت میں بھی خوش آئندہ نہیں ۔ وہ لوگ جو اس کا دعوی کرتے ہیں ‘ فریب نفس میں مبتلا ہیں میں نہیں کہتا کہ اس میں عورت کا قصور ہے اور نہ مرد کو ملزم ٹھہراتا ہوں ، مگر یہ واقعہ ہے کہ ہر مرد اور عورت کے درمیان تیسرا شیطان ہوتا ہے ۔ صلی اللہ علی محمد ۔ حل لغات : اخدان : جمع خذن ۔ خفیہ آشنا ۔ دوست ۔ العنت : بدکاری ۔ النسآء
26 (ف ١) ان آیات میں بتایا ہے کہ اسلام میں کوئی الگ صحیفہ شریعت نہیں ، اس میں وہی قواعد بتائے گئے ہیں جن کو بار بار دہرایا گیا ہے ، یہ وہی صداقت قدیمہ ہے ، جسے زمانہ کی ہر کروٹ کے ساتھ پرکھا گیا ہے ، مقصد یہ ہے ، کہ تم لوگ اسے قبول کرکے اللہ کی وسیع رحمتوں میں شامل ہوجاؤ ، شہوات سے بچو اور اپنی جبلی وفطری کمزوریوں کا خیال رکھو ، بجز خدا کے فضل وعفو کے تم برائیوں سے نہیں بچ سکتے ، اس لئے اس راستہ پر مضبوطی سے گامزن ہوجاؤ جو خدائے غفور نے تمہارے لئے تجویز کیا ہے ۔ النسآء
27 النسآء
28 النسآء
29 (ف ٢) اس آیت میں بتایا ہے کہ ناجائز وسائل سے مال حاصل کرنا گناہ ہے ، البتہ باہم رضا مندی سے تجارت میں کوئی مضائقہ نہیں ، یعنی تجارت کل حلال کا بہترین ذریعہ ہے افسوس ! آج مسلمان تجارت نہ کر کے دنیا بھر میں ذلیل ورسوا ہے ۔ حالانکہ خدا تعالیٰ نے مسلمان کو تاجر پیدا کیا تھا (آیت) ” ولا تقتلوا انفسکم “ کا مطلب یا تو یہ ہے کہ عام طور پر چونکہ جعل وفریب سے لڑائیاں ہوتی ہیں ، اس لئے تم ایک دوسرے کو دھوکا نہ دو اور باہمی رضا جوئی سے کام لو اور یا یہ کہ جو قوم تجارت کو ترک کردیتی ہے وہ مردہ ہے ، اس میں کوئی زندگی باقی نہیں رہتی ۔ دیکھ لیجئے ، آج مسلمان کیا محض اس لئے حقیر نہیں شمار کئے جاتے کہ ان کے پاس دولت نہیں اور کیا صرف مردہ قوموں میں ان کا شمار نہیں کہ یہ تہی دست ہیں ۔ حل لغات : یرید ان یتوب علیکم تاب علیہ : کے معنی حسن التفات کے ہیں ۔ النسآء
30 النسآء
31 اسلامی کفارہ : (ف ١) مذہب کا مقصد یہ ہے کہ گناہگار انسان کو خدا کی بادشاہت تک کامیابی کے ساتھ پہنچا دے اور اس میں ایسی قابلیت اور استعداد پیدا کر دے کہ وہ خدا کی بخشش بےحد کا مستحق ٹھہرے ، قرآن حکیم ایک ایسے ہی مسلک کی طرف بلاتا ہے جو بالکل فطری اور معقول ہے اور جس پر چلنے کے بعد لامحالہ انسان میں ” نجات “ کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے ، چنانچہ وہ کہتا ہے کبائر سے بچنے کی کوشش کرو ، یہ طے کرلو کہ موٹے موٹے اور عام سمجھ میں آجانے والے گناہ ہم سے سرزد نہیں ہوں گے ، نتیجہ یہ ہوگا کہ طبیعت میں پرہیزواتقاء کے جذبات پیدا ہونے لگیں گے اور انسان باقاعدہ اور باضابطہ طور پر گناہوں سے نفرت کرنے لگے گا اور اسے ایک ایسی زندگی عطا ہوگی جو یکسر روحانی اور اعلی زندگی ہے ، یہ اسلامی کفارہ ہے جو بالکل واضح اور یقینی ہے ۔ دوسرا کفارہ وہ ہے جو عیسائی پیش کرتے ہیں کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) نے صلیب پر جان دے کر ہمارے تمام گناہوں کو اپنے اوپر اٹھا لیا ہے ، یہ کس قدر غلط اور غیر منطقی عقیدہ ہے ۔ کیا کسی انسان کی موت دوسروں کے لئے باعث نجات ہو سکتی ہے ؟ اور کیا کوئی انسان تمام لوگوں کو اپنے ذمے لے سکتا ہے ؟ بات یہ ہے کہ یہ ایک بت پرسانہ عقیدہ ہے جو عیش وعشرت کے لئے ایک طرح کی دلیل صحت ہے اور بس یار لوگوں نے مذہب کے نام تعیش وفسق کے لئے ایک وجہ جواز پیدا کرلی ہے ۔ النسآء
32 (ف ٢) اس آیت میں بتایا ہے کہ مرد و عورت کے لئے کسب واکتساب کا ایک وسیع میدان موجود ہے ، دونوں کے الگ الگ فرائض ہیں اور الگ الگ دائرہ عمل ، اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں خدا کی رضا جوئی مشترکہ طور پر حاصل کریں ، نہ یہ کہ مرد تانث کے زیور سے آراستہ ہوں اور عورتیں مردانہ اسلحہ سے مسلح ۔ حل لغات : تجتنبوا : مصدر ومادہ اجتناب بچنا ۔ پہلو تہی کرنا ۔ نکفر : مادہ تکفیر ۔ گناہ مٹانا ، دور کرنا بعض لوگ اس لفظ کو ” اکفار “ بمعنی کافر گرداننے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں یہ غلط ہے ۔ النسآء
33 (ف ١) مقصد یہ ہے کہ میراث میں سب کے ورثہ ہیں اور ان میں باہمی تفاوت ہے ، خدا خوب جانتا ہے کون کتنے حصے کا مستحق ہے ، تم ان کا حصہ بہرحال حسب ہدایت ان تک پہنچا دو ۔ آیت کی ترکیب کچھ اس طرح ہے کہ والدین واقربا وغیرہ وارث بھی قرار دیئے جا سکتے ہیں اور موروث بھی ۔ (آیت) ” والذین عقدت ایمانکم “ سے مراد میاں بیوی ہیں ۔ النسآء
34 الرجال قوامون : (ف ٢) قوام یاقیم کے معنی ہوتے ہیں منصرم یا منتظم کے اس آیت میں فلسفہ تدیبر منزل کی مشکلات کا حل ہے ، عائلہ یا فیملی ایک قسم کی چوٹی سی ریاست ہے جس کے متعدد رکن ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ان کا منتظم ومنصرم کون ہے ، قرآن حکیم کا فیصلہ یہ ہے کہ مرد ۔ اور اس کی وجہ سے مرد عورت کے لئے آذوقہ حیات بہم پہنچانے پر مجبور ہے ، عورت نہیں ، اور اس لئے بھی کہ فطری طور پر مرد ہی منتظم بننے کی صلاحیتیں موجود ہیں ۔ یہ درست ہے عورتیں بھی کام کرسکتی ہیں مگر وہ ہر وقت وہ ایسا نہیں کرسکتیں ان کی جنسی کمزوریاں انہیں بہرحال منصرم رہنے کی اجازت نہیں دیتیں ، بخلاف مرد کے کہ وہ کڑی سے کڑی مصیبتیں برداشت کرلیتا ہے ۔ پس نیک عورتیں وہ ہیں جو اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتی ہیں اور خاوند کی دل سے قدر کرتی ہیں ۔ یہ یاد رہے کہ اس ریاست کا نظام یکسر جمہوری ہے گھر کے چھوٹے چھوٹے کام بھی بلامشورہ نہ ہونے چاہئیں چنانچہ دودھ پلانے کا مسئلہ دوسرے پارے میں گزر چکا ہے کہ وہ بھی باہمی تشاور وتراضی سے ہو ۔ حل لغات : موالی : جمع مولی ۔ آزاد کنندہ ، آزاد شدہ غلام حلیف ابن عم ولی اور عصبہ تمام معانی میں اس کا استعمال ہوتا ہے ۔ (ف ١) یہ حقیقت ہے جس کا بارہا اعتراف کرنا پڑا ہے کہ قرآن حکیم ہماری تمام مشکلات کا حل اس خوبصورتی اور جامعیت سے پیش کرتا ہے کہ بےاختیار دل سے کلمات تحسین نکل جاتے ہیں ، یہ ایک ایسی کتاب ہے جو معاشرت کے تمام ابواب وفصول ہمارے لئے واشگاف کرکے رکھ دیتی ہے ، اس میں فلسفہ وحکمت کے ساتھ ساتھ وہ چھوٹی چھوٹی باتیں جن پر انسانی سعادت وفلاح کا دارومدار ہے ، اس طرح مذکور ہیں کہ قربان جائیے اور پھر بھی جذبہ احترام میں کمی نہ پیدا ہو ۔ اس آیت میں عورت کے نشوز وتمرد کا علاج بتایا ہے ، بہت سے لوگ ایسے ہیں جو باوجود تعلیم یافتہ ہونے ان رموزواسرار سے واقف نہیں اور بہت سے ایسے ہیں جو کافی سرمایہ دار ہیں ‘ لیکن پھر بھی ان کی بیویاں ان سے ناراض رہتی ہیں اور وہ نہایت اضطراب وبے چینی کی زندگی بسر کرتے ہیں ۔ قرآن حکیم ایک طرف تو مرد سے کہتا ہے (آیت) ” وعاشروھن بالمعروف “ ، دوسری طرف عورت کو خاوند کی اطاعت پر مجبور کرتا ہے لیکن اس کے بعد بھی اگر نشوز واختلاف کا خوف ہو تو قرآن کی ہدایت یہ ہے کہ عظوھن “ سب سے پہلے انہیں ” وعظ “ سے بدلنے کی کوشش کی جائے ، ” وعظ “ سے مراد ناصحانہ گفتگو ہی نہیں بلکہ مشفقانہ برتاؤ بھی ہے یعنی اپنے قول وفعل کے لحاظ سے عورت کے لئے اس درجہ محبوب ودل پسند بننے کی کوشش کرو کہ وہ لامحالہ متاثر ہو ، تمہارے بلند اخلاق اسے مجبور کردیں کہ وہ اپنی غلطی کو محسوس کرے اور عورت اگر اس قدر سمجھ دار نہ ہو تو پھر اس کے ” جذبات “ سے اپیل کرو اور اس کا بہترین طریق یہ ہے کہ اسے بستر پر تنہا چھوڑ دو ۔ اور یہ اس وقت زیادہ موزوں ہوگا جب تم اکٹھا ایک بستر پر استراحت اختیار کرو ، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ اس انقطاع کو برداشت نہیں کرے گی ۔ عورت کی یہ فطرت میں داخل ہے کہ وہ ہر چیز برداشت کرسکتی ہے ، بجز اپنے محبوب کے غصہ کے ، اور اگر اس پر بھی تبدیلی نہ ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ بالکل عام عورت ہے ، اس لئے عامیانہ سلوک کی مستحق ہے اسے پٹینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں مگر یہ تیسرا درجہ ہے ۔ جو لوگ ان نکات ازدواج نہیں جانتے ، نہایت معمولی باتوں پر اپنے گھر کو دوزخ بنا لیتے ہیں ورنہ اگر وہ اسلامی اور قرآنی زندگی بسر کریں تو ان کا گھر اس دنیا میں بہشت کا نمونہ بن جائے ، النسآء
35 تدبیر منزل کے تین زرین اصول : آخری صورت : (ف ٢) اگر میاں بیوی میں اختلاف اس درجہ تک بڑھ جائے کہ دونوں اسے مٹانے پر قادر نہ ہوں تو بہترین طریق یہ ہے کہ وہ حکم مقرر کرلیں ، ایک عورت کا عزیز ہو اور اس ایک مرد کا ، دونوں غیر جانبداری سے واقعات کو سنیں اور معاملہ نپٹانے کی کوشش کریں ، اگر مسلمان اس تجویز پر عمل پیرا ہوجائیں تو ان کابہت سا روپیہ عدالتوں میں برباد ہونے سے بچ جائیے ۔ حل لغات : شقاق : اختلاف ۔ النسآء
36 (ف ١) ان آیات میں خدا سے لے کر غلام تک کے ساتھ صحیح تعلق رکھنے کی تلقین ہے کہ جہاں اللہ کی عبادت کرو ‘ وہاں اس کا مظاہرہ تمہارے اعمال سے بھی ہو ۔ حل لغات : وما ملکت ایمانکم : جو تمہارے قبضہ ملک میں ہوں ۔ مختال : مکتبر ۔ فخور : شیخی بگھارنے والا ۔ النسآء
37 النسآء
38 النسآء
39 (ف ١) ان آیات میں بتایا ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کے معنی یہ ہیں کہ اس میں کسی ریا کاری کو دخل نہ ہو اور نہ کوئی شیطانی جذبہ اس میں کار فرما ہو ۔ خالصۃ اللہ کے لئے ، اللہ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق خرچ کیا جائے ، اگر خدا پر یقین نہ ہو اور آخرت سے دل لرزاں نہ ہو تو یاد رکھیے کوئی عمل قابل قبول نہیں ۔ النسآء
40 (ف ٢) خدائے تعالیٰ اس درجہ رؤف ورحیم ہے کہ باوجود حق واختیار کے وہ کسی کی حق تلفی نہ کرے گا اور نیکیوں کو بڑھاتا رہے گا ار اپنی طرف سے اجر عظیم عنایت فرمائے گا یعنی وہ ہمہ احسان وجمال ہے ‘ ہمارے گناہوں کو بنظر ترحم دیکھے گا اور ہماری حسنات کو بہ نگاہ فضل امتنان ۔ بات یہ ہے کہ اس کی شان کریمی بہر حال آمدہ بخشش ہے ۔ وہ نہیں چاہتا کہ اس کا ایک بھی بندہ جہنم میں جائے ، یہ نیکیوں کو بڑھانا اور گناہ کی تکفیر تو بہانے ہیں اور وسائل وذرائع اپنی آغوش رحمت میں لینے کے اور ظاہر ہے جب تک وہ زائد از استحقاق فضل وعنایات سے کام نہ لے ، عاصی وگنہگار انسان کے لئے نجات کی کیا امید ہو سکتی ہے ، اس کی نعمتیں اس قدر وسیع وبے حد ہیں کہ ساری زندگی کی عبادتیں اور ریاضتیں ” شکریہ “ کے مرتبے سے آگے نہیں بڑھتیں ، پھر یہ اس کا کتنا بڑا احسان ہے کہ وہ ہماری حقیر ” خدمات “ کو درخور اعتناء جانتا ہے اور ہمیں بخشش عام کا مستحق قرار دیتا ہے ۔ النسآء
41 شاہد اکبر : (ف ٣) اس آیت میں شان رسالت پناہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر جمیل ہے اور آپ کے رتبہ ختمیت وکمال کا تذکرہ ہے ۔ قیامت کے دن جب تمام لوگ جناب باری کے سامنے پیش کئے جائیں گے تو بطور اتمام حجت کے پوچھا جائے گا کہ بتاؤ تمتک ہمارے احکام پہنچے تھے یا نہیں ؟ اور اس کے بعد انبیاء علیہم السلام ورسل کی جماعت فردا فردا بطور گواہ وشاہد کے پیش ہوگی اور کہے گی کہ خداوند ! ہم نے تیرے احکام بلاکم وکاست تیرے بندوں تک پہنچا دیئے ، اور اس کے بعد شاہد اکبر جلوہ فرما ہوگا یعنی خواجہ کون ومکان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور گواہی دے گا کہ سارے نبی سچ کہتے ہیں ۔ انہوں نے تبلیغ حق میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وجود بجائے خود تصدیق ہے تمام نبوتوں کی ، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبیوں کے نبی اور تمام رسولوں کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق کے بغیر تمام نبوتیں ناقص ہیں ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو درجہ کمال وختمیت عطا کیا گیا ہے کہ آخری فیصلہ شہادت پر موقوف ہے ۔ النسآء
42 (ف ٤) اس وقت وہ لوگ جنہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مرتبہ ودرجہ کو نہیں پہچاتا ، پچتائیں گے اور کھلے لفظوں میں اپنے کتمان حق کا اعتراف کریں گے ۔ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) حل لغات : شھید : گواہ ۔ مبلغ ، حاضر ۔ النسآء
43 (ف ١) اس آیت میں بتایا ہے کہ نماز کے وقت سکرو مستی میں نہ رہو ۔ بات یہ تھی کہ تحریم خمر کی آیات کے نزول سے پہلے شراب عام طور پر استعمال کی جاتی تھی ، حضرت عبداللہ بن عوف (رض) نے صحابہ (رض) عنہم اجمعین کی دعوت کی اور اس میں شراب میں بھی انتظام کیا ، سب نے پی اور مست ہوگئے ، مغرب کی نماز میں امام جب قرآن پڑھنے لگا تو غلط ملط آیا پڑھ گیا جس پر یہ آیات نازل ہوئیں ۔ (آیت) ” حتی تعلموا ما تقولون “ ۔ کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ الفاظ کی صحت کا خیال رہے اور دوسرے معنی یہ ہیں کہ نماز پڑھتے وقت نماز کی روح ومعنویت سے واقف رہنا نہایت ضروری ہے ۔ وہ شخص جو نماز کا سادہ سے سادہ ترجمہ بھی نہیں جانتا وہ کیونکر صحیح معنوں میں نماز کے کوائف روحانیہ سے لطف اندوز ہو سکتا ہے ! جہاں تک الفاظ کا تعلق ہے یہ اتنے سخت ہیں کہ بلا ترجمہ وعلم نماز پڑھنا قرآن کے نزدیک بمنزلہ سکرومستی کے ہے ، اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے اور ہماری نمازوں کو قبول فرمائے ۔ فلسفہ تیمم : (ف ٢) معذوری کی حالت میں جب پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرلینا کافی ہے مقصد یہ ہے کہ مسلمان خدا کی عبادت میں بہرحال کوشاں رہے اور کوئی معذوری اس کے لئے رکاوٹ کا باعث نہ ہو سکے ، چونکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمان کو باقاعدہ وباضابطہ رہنے کی تلقین کی ہے اس لئے ضروری ہے کہ وہ بہرحال ضبط وانتظام میں فرق نہ آنے دے ۔ تیمم کے معنی قصد وارادہ کے ہیں ۔ یعنی ضرورت اس بات کی ہے کہ ارادہ پاک وبلند رہے ۔ یہ کوئی ضروری نہیں کہ ہر حالت وکیفیت میں پانی ضروری ہو ۔ النسآء
44 (ف ٣) (آیت) ” اوتوا نصیبا من الکتب “۔ سے اس طرف اشارہ ہے کہ اہل کتاب کے پاس احکام خداوندی کا کوئی کامل وصحیح صحیفہ نہیں ۔ گردش روزگار اور ان کی اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے چند صداقتیں اور سچائیاں ان کے پاس محفوظ رہ گئی ہیں ۔ مگر یہ ہیں کہ ان کو بھی پس پشت ڈال رہے ہیں اور دنیا کی جھوٹی خواہشات کے لئے حق وصداقت کو قربان کر رہے ہیں ، فرمایا یہ تمہارے اور حق کے لئے کھلے دشمن ہیں یہ جان رکھیں کہ خدائے ذوالجلال تمہیں دیکھ رہا ہے ۔ حل لغات : سکری : جمع سکران ۔ بدمست جنبا ، جنبی ، ناپاک ۔ الغآئط : جائے ضرور ، قضائے حاجت ۔ صعیدا : مٹی ۔ النسآء
45 النسآء
46 تحریف کلمات : (ف ١) ان آیات میں یہود کی عادت تحریف کی طرف اشارہ ہے کہ یہ لوگ ذوق حق سے قطعا محروم ہیں ، یہ باتیں سنتے ہیں اور اسے بالکل بدل دیتے ہیں پھر طبعتیں اس درجہ مسخ ہوچکی ہیں کہ گستاخی ودل آزاری سے بھی باز نہیں آتے ۔ راعنا کی تفصیل گزر چکی ہے ، ان کا مقصد بہرحال ایذاء رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اپنی گستاخی کا اظہار ہوتا تھا ۔ وہ اس لفظ کو ذرا زبان داب کر کہتے ہیں جس سے ذم کا پہلو زیادہ نمایاں ہوجاتا اور اتنی سی بات سے خوش ہوجاتے ۔ قرآن حکیم کہتا ہے کہ ایسے لوگ اللہ کی رحمت سے دور رہتے ہیں اور بوجہ اپنی گستاخی وملعونیت کے نور ایمان سے ہمیشہ دور رہتے ہیں ۔ حل لغات : مواضع : جمع موضع ، جگہ ، مقام ۔ راعنا : ہماری طرف التفات فرمائیے ۔ کلمہ ترغیب ہے ۔ انظرنا : دیکھیے ، ملاحظہ فرمائیے ۔ النسآء
47 (ف ١) اس آیت میں یہود کو دعوت ایمان دی ہے اور کہا ہے قرآن حکیم سابقہ حقائق ومعارف کا مصدق ہے ۔ یہ انہیں معارف وحکم کو پیش کرتا ہے جن سے تمہارے کان آشنا ہیں ۔ اس لئے تم پرلازم ہے کہ اس کو مانو اور یاد رکھو ، نہ مانو گے تو ایک وقت ایسا آئے گا جب تمہارے چہرے مسخ کر دئے جائیں گے ۔ طمس کے معنی مٹانے کے ہیں ” مفازۃ طامسۃ “ اس جنگل کو کہتے ہیں جس میں کوئی اثرونشان نہ رہ گیا ہو ۔ طمس اللہ علی بصرہ “ سے مراد ہے خدا نے اس کی بصارت کو ضائع کردیا ، وجوہ ۔ وجہ کی جمع ہے جس کے معنی چہرے کے ہیں ۔ کبھی کبھی وجوہ کا اطلاق اعیان وزعماء قوم پر بھی ہوتا ہے ۔ اس لئے بعض لوگوں نے اس کے یہ معنی بھی لئے ہیں کہ وقت سے پہلے پہلے ایمان لے آؤ جب تمہارے اعیان ووجوہ کو ذلت وحقارت سے نکال دیا جائے اور ان کی عزت خاک میں مل جائے ، چنانچہ عبدالرحمن بن زید کہتے کہ یہ پیش گوئی پوری ہوچکی ۔ یہود قریضہ ونضیر کو ان کی بستیوں سے نکال کر اور ھات ویمانء میں جلا وطن کردیا گیا ۔ یہ معنی درست ہیں مگر تھوڑے سے تکلف کے ساتھ ، قرآن حکیم کی زبان کی شگفتگی اور سادگی ان معنوں کی زیادہ مؤید نہیں ۔ اگر مقصد یہی ہوتا تو فنردھا کی بجائے فنردھم علی ادبارھم ہونا چاہئے تھا ۔ بات یہ ہے کہ قیامت کے دن جو سزائیں مقرر ہیں وہ اعمال سیئہ کے بالکل متناسب ہیں ، دنیا میں ان لوگوں نے چوں کہ قرآن حکیم کی جانب کوئی توجہ نہیں کی ‘ اس لئے آخرت میں ان کے چہروں کو مسخ کردیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہی تمہاری عدم توجہی کی عملی سزا ہے ۔ النسآء
48 ناقابل معافی جرم : (ف ٢) اس آیت میں بتایا ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک وسہیم ٹھہرانا ناقابل عفو گناہ ہے ، سارے گناہ ، تمام عیب بخشے جا سکتے ہیں ، مگر جو اللہ کے جلال وجبروت پر کھلا حملہ ہے کسی طرح بھی نہیں بخشا جا سکتا ہے ۔ النسآء
49 تین بڑے بڑے عیب : (ف ٣) یوں تو یہودی دین فطرت سے کوسوں دور تھے اور ان کی کوئی بات بھی دینی اور مذہبی نہ تھی ، مگر ان کو ہمیشہ یہ وہم رہتا کہ وہ ساری دنیا کے لوگوں سے بہتر وافضل ہیں ، وہ علی الاعلان کہتے ۔ (آیت) ” نحن ابنآء اللہ واحبآء ہ “ کہ ہم خدا کے فرزند اور مقرب ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ، اس تزکیہ نفس اور کبر کی تمہیں اجازت نہیں ۔ دوسرا عیب ان میں یہ تھا کہ وہ اپنی خواہشات نفس کے لئے تورات کے احکام بدل دیتے ۔ تیسری برائی مداہنت کی برائی تھی ، وہ مشرکین مکہ کے احوال عواطف کا ہمیشہ ساتھ دیتے اور مسلمانوں کی مخالفت میں اپنے اصول دینیہ کی بھی چنداں پروانہ کرتے ۔ حل لغات : ادبار : جمع دبر پیچھا ، پیٹھ ، اصحب السبت : ہفتہ کے دن خدا کی ہدایات کو پس پشت ڈالنے والے اسرائیلی ۔ النسآء
50 النسآء
51 النسآء
52 (ف ١) ان آیات میں اس منافقانہ ذہنیت کا اظہار ہے فرمایا کہ یہ خدا کی رحمت سے دور ہیں اور جو لوگ اس کی رحمت سے دور ہیں ‘ ان کا کوئی دوست نہیں ۔ حل لغات : الجبت : بت ۔ الطاغوت : کاہن ۔ نقیرا : اقل ۔ قلیل ۔ النسآء
53 النسآء
54 راز حیات : (ف ١) ان آیات میں یہودی بخل وحسد کا ذکر ہے کہ یہ قومیں اخلاق حسنہ سے بالکل عاری ہیں ، اسلام کا انکار بھی اسی جذبہ حسد وبخل کے ماتحت ہے ، یہ نہیں چاہتے کہ دنیا کی کوئی قوم سرفرازی وسربلندی سے مفتحز ہو ۔ اس بناء پر جب یہ دیکھتے ہیں کہ مسلمان خدا کے فضل وعنایات سے بہر کیف بہرہ ور ہیں اور دین ودنیا کی نعمتیں اور کرامتیں انہیں حاصل ہیں تو مارے حسد وبخل کے جل اٹھتے ہیں ، قرآن حکیم ارشاد فرماتا ہے آل ابراہیم (علیہ السلام) کی زندگی تمہارے سامن ہے ، کیا ہم نے انہیں کتاب وحکمت کے ساتھ ساتھ حکومت وخلافت نہیں بخشی اور کیا وہ وعظ وارشاد کے علاوہ تاج وتخت کے وارث نہیں تھے ؟ پھر تمہیں یہ کیا ہوگیا ہے کہ مسلمانوں میں جب دنیا ودین کا اجتماع دیکھتے ہو تو چلا اٹھتے ہو ۔ یہ تو ہماری سنت وطریق ہے کہ جو قوم صحیح معنوں میں ہمارے پیغام کو سمجھ لیتی ہے ہم انہیں کتاب حکیم بھی دیتے ہیں اور فتح عظیم بھی ۔ بات یہ ہے کہ خدائی احکام وشریعت کا منشا صرف جذبہ نیاز مندی کا امتحان ہی نہیں ‘ بلکہ ہماری تمام قوتوں کو ابھارنا بھی ہے وہ قومیں جو اس راز حیات کو سمجھ لیتی ہیں ‘ ہمیشہ فراز ترقی تک پہنچ جاتی ہیں اور جن کے نزدیک مذہب محض جمود قسفل کا نام ہے وہ نکمے اور ذلیل رہتے ہیں ، خیرالقرون میں دیکھئے کہ ایک نکمی ، ذلیل اور جاہلی قوم انہیں نمازوں ، روزوں اور فرائض ونواہی سے ساری دنیا پر چھا جاتی ہے اور اس کی رگ رگ میں زندگی کا خون دوڑنے لگتا ہے ان کا دماغی افق اتنا بلند ہوجاتا ہے کہ اقبال حشمت کا آفتاب انہیں سجدہ کر کے طلوع ہوتا ہے ، ایسا کیوں ہوا ؟ اس لئے کہ انہوں نے مذہب کی صحیح روح کو سمجھا اور اس پر عمل کیا ، آج بھی اگر مسلمان اسلام کے صحیح روح کو سمجھا اور اس پر عمل کیا ، آج بھی اگر مسلمان اسلام کے صحیح اور سلجھے ہوئے قانون کو مان لیں ، تو ان میں وہی پہلی زندگی پیدا ہو سکتی ہے ۔ النسآء
55 (ف ٢) اس آیت میں بتایا ہے کہ جب حق وصداقت کا آفتاب سطح ارض پر چمکا ہے بعض لوگوں نے اسے چشم بصیرت سے دیکھا اور محسوس کیا ہے اور بعض اندھوں نے انکار کیا ہے ، اس لئے اسلام کے متعلق بھی یہ تقسیم ناگزیر تھی ، آپ (یعنی حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ان کے انکار وتمرد پر متعجب نہ ہو ۔ النسآء
56 (ف ٣) مقصد یہ ہے کہ مجرموں کی سزائیں تجدید پذیر ہوتی رہیں گی اور ہر گاہ انہیں تکلیف محسوس ہوتی رہے گی ، قیامت کے دن ہمیں ایک خاص قسم کا جسم عنایت کیا جائے گا جو تفخصات وتعینات کے اعتبار سے بالکل ہمارا یہی جسم ہوگا ۔ مگر بعض خصوصیات اس میں زائد ہوں گی اور انہیں خصوصیات کے مطابق جن کی تفصیل ہم اس دنیا میں نہیں جان سکتے ، وہ اجسام عذاب وثواب کے متحمل ہوں گے ، (آیت) ” سوف نصلیھم “۔ سے مراد تحقیق وقوع ہے یعنی یہ عذاب ضرور آکے رہے گا ، اس کے وقوع وتحقق میں کوئی شک وشبہ نہیں ۔ حل لغات : ملک : بادشاہی ۔ حکومت ، سعیرا : بھڑکتا ہوا ۔ جلود : جمع جلد ، کھلڑی ۔ النسآء
57 (ف ١) اہل ایمان وفلاح کا ذکر ہے کہ انہیں باغات وانہار میں جگہ دی جائے گی اور ان کے لئے گھنے سائے مہیا کئے جائیں گے ۔ یعنی وہاں نظر وقلب کی مسرت کے لئے ہر وہ چیز جو ضروری ہے ، حاصل ہوگی اور عروسان فطرت پوری طرح بن سنور کر اہل جنت حضرات کے لئے جلوہ آراء ہوں گی اور پھر وہاں سب سے بڑی مسرت یہ ہوگی کہ پاک بیویاں بھی زینت دہ آغوش ہوں گی ، یعنی دنیا میں جتنی مسرتیں اور سعادتیں ہیں وہاں سب کا حصول ہوگا اور علی وجہ الکمال کہ کسی طرح کا نقص وتکدر ان میں موجود نہ ہو ۔ النسآء
58 اداء امانت : (ف ٢) امانت کا لفظ جہاں معاملات میں امانت حقوق پر بولا جاتا ہے وہاں پورے دین وضابطہ شرع پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے ، چنانچہ ارشاد ہے (آیت) ” انا عرضنا الامانۃ علی السموت والارض والجبال فابین ان یحملنھا “۔ الخ یعنی ذمہ داری کا یہ پروگرام جس کا نام اسلام وفطرت ہے بجز انسانوں نے اور سی کے حصہ میں نہیں آیا ۔ پس ادائے امانت کے معنی نہایت وسیع وعریض ہیں یعنی ہر حق اور فرض کی ادائیگی ۔ اسی لئے اس کی ایک صورت یہ بیان کی کہ جب لوگوں میں فیصلہ کرو تو عدل کو ہاتھ سے نہ جانے دو یعنی مسلمان کی ہر بات عادلانہ ومنصفانہ ہو ، بڑی سے بڑی قوت انہیں حق کے اظہار سے مانع نہ ہو ۔ کوئی لالچ ، کوئی ترغیب اور کوئی ڈر مسلمان کو جورو تعدی پر آمادہ نہیں کرسکتا ، مسلمان دنیا میں پیکر عدل امانت بن کر آیا ہے ، اس لئے اس سے کسی مداہنت ومنافقت کی توقع اس کی فطرت کے خلاف ایک مطالبہ ہے جس کی کبھی تکمیل نہیں ہو سکتی ۔ حل لغات : اولی الامر : صاحب امرونفوذ جماعت ۔ لقد امر امرا ابن ابی کشہ ۔ تنازعتم : مراد اختلاف ہے ۔ النسآء
59 جذبہ اطاعت کا صحیح حل : (ف ١) اس آیت اطاعت میں دراصل اداء امانت کی صحیح تشریح مذکور ہے یعنی ہر شخص کے دل میں ایک جذبہ اطاعت پنہاں ہے ، ہر انسان فطرتا چاہتا ہے کہ وہ کسی زبردست کے سامنے اپنی تمام قوتوں کے ساتھ جھک جائے ، اسے ایک ایسے فارقلیط یا تسلی دینے والے کی ضرورت ہے جو ہر اضطراب اور پریشانی کے وقت اس کے لئے سرمایہ تسکین مہیا کرے ، یعنی جذبہ اطاعت وانقیاد کی تکمیل کیونکر ہو ؟ یہ ایک سوال ہے جو دل میں پیدا ہوتا ہے ۔ قرآن حکیم نے آیت مذکورہ میں اس سوال کا جواب دیا ہے ، فرمایا ، خدا ‘ رسول اور حاکم عادل جو مسلم ہو ‘ اطاعت کے قابل ہیں ۔ یعنی شرعیات واخلاق میں خدا اور رسول کی باتیں مانو اور وقتی اور ہنگامی مصالح میں اپنے میں سے صاحب حکم وامر کی اطاعت کرو ، اور اگر تم میں اور حاکم وقت میں کوئی اختلاف پیدا ہوجائے تو پھر بطور آخری حکم کے صرف اللہ کے رسول کو سمجھو ، مقصد یہ ہے کہ بطور حجت وفیصلہ کے مسلمان صرف خدا اور اس کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تابع ہے اور اسے حق حاصل ہے کہ حاکم یا قوت حاکمہ سے دیانت داری کے ساتھ اختلاف رکھ سکے ۔ اولوالامر کون ہیں : اس لفظ کے مصداق ومحل میں اختلاف ہے اور مندرجہ ذلیل معانی مراد لئے جاتے ہیں ۔ ١۔ اجماع امت ۔ ٢۔ خلفائے راشدین ۔ ٣۔ سالار عسکر ۔ ٤۔ علمائے حق ۔ ٥۔ آئمہ معصومین ۔ اگر تھوڑے سے غور وفکر کو بروئے کار لایا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس سے مراد صاحب نفوذ قوت حاکمہ ہے ، چاہے وہ بصورت اجماع ہو اور چاہے بصورت حکومت ، چاہے علمائے حق کو یہ حاصل ہو اور چاہے آئمہ معصومین کو ، اس لئے کہ امر کے معنی لغۃ اثر ونفوذ کی قوت کے ہیں ۔ مطلقا حاکم وقت اولوالامر نہیں ۔ البتہ جائز امور میں ان کی اطاعت بحکم اطاعت رسول ضروری ہے ۔ النسآء
60 (ف ٢) طاغوت سے مراد ہر غیر شرعی ادارہ حکومت ہے ، مسلمان مجبور ہے کہ اس کی مخالفت کرے ، البتہ شیطان یہ چاہتا ہے کہ مسلمان بزدل رہے اور اس کی گردن ہمیشہ ماسوی اللہ کے ڈر سے جھکی رہے ۔ حل لغات : تاویل : انجام نتیجہ ۔ صدود : رکنا ہٹنا ۔ النسآء
61 النسآء
62 (ف ١) ان آیات میں منافقین کی نفسیات کو بیان کیا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت سے کتراتے ہیں ، اور حتی الوسع کوشش کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں حب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جذبہ دن بدن کم ہوتا جائے اور جب عناد رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے عذاب میں مبتلا ہوتے ہیں تو پھر اخلاص ومودت کی قسمیں کھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو محض احسان وتوفیق کے حامی ہیں ، ہماری تمام تگ ودو اس لئے ہے کہ دونوں گروہوں میں صلح وامن قائم ہوجائے ۔ فرمایا یہ منافقت ہے ، خدا خوب جانتا ہے اس لئے آپ (یعنی حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ان سے تعرض نہ کریں اور وعظ وحکمت سے انہیں متاثر کرنے کی کوشش نہ کریں ۔ النسآء
63 النسآء
64 رسول بجائے خود مطاع ہے : (ف ٢) اس آیت میں بتایا ہے کہ منافقین اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر سچے دل سے طلب مغفرت کریں اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے خلوص سے متاثر ہو کر ان کے لئے استغفار کرے تو پھر اللہ تعالیٰ انہیں بخش دیں گے ۔ یعنی جب تک ان کے خلوص پر مہر رسالت ثبت نہ ہو اور جب تک خدا کا پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ نہ کہہ دے کہ یہ خالصۃ اب میرے ہمنوا ہوگئے ہیں ‘ اللہ تعالیٰ انہیں عفو توبہ کا مستحق قرار نہیں دیتا ۔ (آیت) ” الا لیطاع باذن اللہ “ سے مراد یہ ہے کہ رسول مطاع مطلق ہے ، اس کا وجود بجائے خود حجت وسند ہے ، اس کی ہر ادا صبغۃ اللہ میں رنگین ہوتی ہے ۔ اس کا ہر قول وفعل مستفاد ہوتا ہے منشائے الہی سے (آیت) ” وما ینطق من الھوی ان ھو الا وحی یوحی “۔ اس لئے یہ کہنا کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات وافعال لازم اطاعت نہیں قرآن ناطق کی توہین ہے ۔ وہ لوگ جو منصب نبوت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں ، کسی طرح بھی اسوہ حسنہ کو قرآن سے الگ کوئی چیز قرار نہیں دے سکتے ۔ النسآء
65 حکم مطلق : (ف ١) اس آیت میں ربوبیت مطلقہ کی قسم کھا کر بیان کیا ہے کہ اطاعت رسول لازمی ولابدی شے ہے ، یعنی ربوبیت عامہ کا تقاضا یہ ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہر حکم کے سامنے گردنیں جھک جائیں ، جب تک اطاعت وتسلیم کا رضا کارانہ جذبہ دلوں میں موجود نہ ہو ‘ ایمان ویقین کی شمع روشن نہیں ہو سکتی ۔ قرآن حکیم یہی نہیں فرماتا کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اپنی گردنوں کو جھکادو ‘ بلکہ وہ یہاں تک اس کی تائید وتوثیق فرماتا ہے کہ دل کے کسی گوشے میں بدعقیدگی کی تاریکی موجود نہ رہے ۔ یقین وثبات کے پورے جذبات کے ساتھ نیاز مندی وعقیدت کے تمام ولولوں کے ساتھ مومن کے لئے ضروری ہے کہ آستانہ رسالت پر جھک جائے ، یعنی جوارح واعضاء کے ساتھ دل کا کونا کونا ضیاء اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بقعہ نور بن جائے ، ورنہ الحاد زندقہ کا خطرہ ہے ۔ وہ لوگ جو قرآن کو تو بظاہر مانتے ہیں لیکن سنت واسوہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرتے ہیں ‘ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ نصوص قرآن کی مخالفت کر رہے ہیں اور وہ اسلام کی اس عملی زندگی سے محروم ہیں جو اصل دین ہے ۔ النسآء
66 النسآء
67 (ف ٢) ان آیات میں نفاق و ایمان کی نفسیات بیان فرمائی ہیں کہ منافق میدان جہاد میں سربکف نہیں نکل سکتے اور تثبت واستقلال کی نعمتوں سے محروم ہوتے ہیں ، یہ اس لئے کہ جہاد وقربانی موقوف ہے جذبہ ایمان وایقان کی مضبوطی پر اور وہ دل جن میں ایمان کی شمع فروزاں کبھی روشن ہی نہیں ہوئی ، کیونکر ایثار وتضحیہ کے لئے آمادہ ہو سکتے ہیں ، پس جہاد و ہجرت اور ایثار وقربانی معیار ہے ایمان کی گہرائیوں کا جس درجہ کوئی نفس زکیہ پرجوش اور مجاہد ہے اسی درجہ اس کا قلب ایمان کی نعمتوں سے مالا مال ہے اور جس قدر اس میں دون ہمتی اور بزدلی ہے وہ نفاق ہے ۔ النسآء
68 النسآء
69 حسن رفاقت (ف ١) آیت کے شان نزول میں معتدد واقعات بیان کئے جاتے ہیں ۔ ١۔ ثوبان (رض) کا اشتیاق رفاقت یعنی اس کا دریافت کرنا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ہم بھی شرف زیارت سے اس وقت محفوظ ہو سکیں گے جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ” مقام محمود “ کی بلندیاں مختص ہوں گی ؟ ثوبان (رض) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک ادنی غلام تھے ۔ ٢۔ چند انصار کا پوچھنا کہ ہم کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت ورفاقت حاصل کرسکتے ہیں ؟ ٣۔ ایک عاشق رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انصاری کا کہنا کہ حضور ! ہم اس دنیا میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ادنی سی مفارقت گوارا نہیں کرسکتے ، قیامت کے دن کیا ہوگا چہرہ انور سے اکتساب مسرت کا موقع کیونکر ملے گا ؟ ٤۔ عام مسلمانوں کا مطالبہ رفاقت وصحبت : مقصد بہرحال یہ ہے کہ جذبہ اطاعت سے سرشار مومنی کے لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں رفاقت کے بہترین درجہ اور مواقع ہیں اور ظاہر ہے صرف صحب ورفاقت ہی ایک گراں قیمت اعزاز ہے ، جو رب ودود کی طرف سے بخشا جائے گا ، یعنی وہ لوگ جو ” صلحائ“ کے درجہ علیا تک نہیں پہنچے ، بجز جذبہ اطاعت وحب صلاح صلحاء کے رفیق ہوں گے اور وہ صلحاء جنہیں مرتبہ ” صدیقیت “ حاصل نہیں ہوا ۔ اور وہ جو ” صدیق “ تو ہیں مگر جام شہادت نوش نہیں کیا ‘ وہ شوق شہادت کی وجہ سے شہداء کی پرانوار محبت سے استفادہ کرسکیں گے ۔ اور جو وہ شہید ہیں پرانبیاء کے مقام رفیع کو نہیں پایا ، انبیاء کے زمرہ عالی قدر میں رہیں گے ۔ جس طرح ستارے ماہتاب کے جلو میں رہنے سے ماہتاب نہیں بن جاتے اسی طرح محض رفاقت انہیں ان درجات پر فائز نہیں کرسکتی اور جس طرح باوجود رفاقت وصحبت کے انجم تاباں اور مہرمنیر میں ایک واضح فرق ہے ‘ اسی طرح ان مدارج میں ایک بین امتیاز باقی رہے گا ۔ یہاں اعطاء مدارج کاسوال نہیں ‘ اعطاء رفاقت کا ذکر ہے یہی وجہ ہے پہلے انبیاء کا ذکر فرمایا ہے ، حالانکہ اگر ذکر مراتب ومدارج کا ہوتا تو پہلے صلحاء کا ذکر چاہئے تھا اور (آیت) ” حسن اولئک رفیقا “۔ کے معنی تو ہرگز ہر گز کسی سلسلے کے متحمل نہیں ۔ النسآء
70 النسآء
71 حذواحذرکم : (ف ٢) حذر کے معنی علامہ زمحشری نے یہ کہے ہیں کہ وہ ہر شے جو تمہیں دشمنوں سے محفوظ رکھے ، چاہے وہ از قبیل تدابیر ہو چاہے از قسم اسلحہ ، یعنی مسلمان بہرحال محتاط ‘ بیدار اور خطرناک رہے ، دشمن اس کے داب وجلال سے لرزہ براندام ہو ، آہ ! آج مسلمان کا علم ان آیات پر بالکل نہیں ، نتیجہ یہ ہے کہ ہر نوع کی ذلتوں اور حقارتوں کا مرکز بنا ہوا ہے ۔ حل لغات : لیبطئن : کسل اور سستی ۔ النسآء
72 (ف ١) منافق میں دون ہمتی اور خود غرضی بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے جبکہ جہاد کے مواقع آتے ہیں ، یہ عملا کسل وتاخیر سے کام لیتا ہے اور پھر اگر مسلمانوں کو کوئی حادثہ پیش آجائے تو خوش ہوتا ہے کہ میں اس میں شریک نہیں تھا اور اگر انہیں حریت وآزادی کی نعمتوں سے کچھ حصہ ملے تو یہ بھی الجھتا ہے کہ اے کاش میں بھی اس کے شریک حال ہوتا ۔ اس آیت میں انہیں منافقین کا حال بیان کیا ہے کہ دیکھئے اپنی اس ذلیل ذہنیت پر کس درجہ قانع ہے ۔ النسآء
73 النسآء
74 النسآء
75 نفیر عام : (ف ٢) ہجرت کے بعد بعض لوگ مکہ میں ایسے رہ گئے جو نہ ہجرت پر قادر تھے نہ جہاد پر مکہ والے انہیں مجبور کرتے کہ وہ اسلام کو چھوڑ دیں ، ان کا ایمان انہیں ہر ابتلاء وآزمائش کو برداشت کرلینے کی تلقین کرتا ۔ ان آیات میں مسلمانوں کو اعلان عام کے ذریعہ سے جہاد پرآمادہ کیا ہے کہ ان کمزور وناتواں مسلمانوں کی حفاظت کے لئے سینہ سپر ہوجائیں ، اس لئے کہ مسلمان ” مظلوم وضعیف “ ہو کر دنیا میں نہیں رہ سکتا ، وہ ضعف وظلم کے خلاف اعلان جنگ ہے ، اس کا ذرہ ذرہ بغاوت وانقلاب میں سمویا ہوا ہے ، اس کی رگوں میں خون کی جگہ آزادی وخلافت کی بجلیاں دوڑ رہی ہیں ، ناممکن ہے کہ وہ مسلمانوں کو کمزور ومضحل دیکھے اور اس کے دل میں غیرت وغصہ کا طوفان نہ بپا ہوجائے ، اس کی فطرت حق وصدق کی تائید کے لئے ہے ، وہ منصہ شہود پر آیا ہی اسی لئے ہے کہ اللہ کی نیابت کا حق ادا کرے اور ظلم وعدوان کے خلاف پرزور آواز بلند کرے ، بلکہ طغیان وسرکشی کے خلاف خود رعد وصاعقہ بن جائے اور زمین استبداد کے لئے تہلکہ کی شکل اختیار کرلے ، یہی وہ توقعات ہیں جو مسلمانوں سے وابستہ ہیں اور اسی لئے خدائے غیور کا خطاب ہے ۔ (آیت) ” ومالکم لا تقاتلون فی سبیل اللہ “۔ یعنی اے جہاد سے پیچھے رہنے والے انسانو ! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم باوجود مسلمان ہونے کے اس فریضہ سے غافل ہوگئے ہو ۔ گویا ظالموں سے جہاد کرنا مرد ، مومن کی شریعت میں داخل ہے جس سے ایک لمحہ بھی تغافل جائز نہیں اس آیت میں تعجب وتوبیخ کو باہم ملا دیا ہے (آیت) ” ومالکم “ کہہ کر اظہار تعجب بھی کیا ہے اور ڈانٹا بھی ہے کہ کیوں جہاد پر آمادہ نہیں ہوتے ۔ حل لغات : فوز : کامیابی وکامرانی ۔ یشرون : شراء : بمعنی بیع بھی آتا ہے ، ابن مصرع کہتا ہے ۔ وشروبرادالیمنی من بعد بردکنت ھامہ ۔ النسآء
76 کید شیطان : (ف ١) اس آیت میں بتایا ہے کہ مومن ہمیشہ طاغوت و شیطان کے خلاف صف آراء رہتا ہے اور یہ کہ ظلم وعدوان کے پاؤں نہیں ہوتے ، بڑے سے بڑا جابر وقاہر مومن کی ایمانی قوتوں کے سامنے محض ناچیز وحقیر ہے ، بشر طے کہ مومن خود اپنی عظمتوں اور صلاحیتوں سے واقف ہو یعنی مسلمان کو چاہئے کہ وہ کسی نمرود اور کسی فرعون سے مرعوب نہ ہو ، ایمان وہ قوت ہے جو فولاد ہے زیادہ مضبوط اور بارود سے زیادہ مؤثر ہے ۔ حل لغات : کید : تدبیر ۔ حیلہ ۔ النسآء
77 (ف ١) ان آیات میں بتایا ہے کہ منافقین کی جماعت جب تک جہاد فرض نہیں ہوا تھا ، شور مچا رہی تھی کہ ہمیں لڑنے کی اجازت دی جائے اس وقت انہیں روکا گیا اور کہا گیا کہ صلوۃ وزکوۃ ہی پر اپنی تمام قوتیں مرکوز رہنے دو اور جہاد کا مطالبہ نہ کرو ، کیونکہ یہ ایک ہنگامی و وقتی چیز ہے ، مگر یہ تھے کہ اظہار ایمان وایقان کے لئے بیقرار تھے اور جب جہاد فرض قرار دیا گیا ، وقت آگیا کہ کفر کے خلاف اعلان جنگ کردیا جائے تو یہ انتہا درجے کے بزدل ثابت ہوئے ان کے دلوں میں لوگوں کا ڈر اس درجہ سرایت کر گیا کہ یہ بہانے تلاش کرنے لگے ، حالانکہ مومن سوائے خدا کے اور کسی شخصیت سے مرعوب نہیں ہوتا ، وہ اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ تمام قوتیں اس سے ڈریں اور مرعوب رہیں ، نہ اس لئے کہ وہ خود غیر اللہ اشخاص سے خائف ہو ، فرضیت جہاد کے بعد جس اضطراب اور گھبراہٹ کا اظہار لوگوں نے کیا ، قرآن حکیم نے بتفصیل اسکا ذکر کیا ہے تاکہ ان لوگوں کی جلد بازی اور وقت پر کم ہمتی ہمیشہ یاد رکھیں ، یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ لوگ جو صلح کے زمانے میں زیادہ پرجوش ہوتے ہیں ، جنگ کے زمانے میں نہایت عافیت پسند رہنے کی کوشش کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ دیکھو دنیا میں چند دن رہنا ہے ، اس چند روزہ زندگی کے لئے لیت ولعل نہ کرو ، وقت آگیا ہے تو کود پڑو ، انجام وعاقبت ایسے ہی جانبازوں کے لئے ہے ۔ النسآء
78 موت کی ہمہ گیری : (ف ٢) اس آیت میں موت کی ہمہ گیری کا تذکرہ ہے ، مقصد یہ ہے کہ موت کا ڈر وجہ تخلیف نہ ہو ، موت جھونپڑے سے لے کر قصر سفید تک سب کو شامل ہے ، اس کی فرمانروائی اتنی وسیع ہے کہ وہ لوگ بھی جو ہزاروں قسمتوں کے مالک ہیں ، اس سے نہیں بچتے ۔ (ف ٣) منافقین کی بےسمجھی کا ذکر ہے کہ وہ ہر ابتلاء کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تشادم تفاول نہیں بن سکتا ۔ حل لغات : ثقیل : باریک ریشہ جو کھجور کی گٹھلی میں ہوتا ہے ۔ بروج : جمع برج کے معنی ظہر کے ہوتے ہیں ، اس لئے اس سے مراد نمایاں عمارت ہے ۔ النسآء
79 رفع تناقض : (ف ١) ان دو آیتوں میں بظاہر تناقض معلوم ہوتا ہے کہ مصائب کہ من عند اللہ بھی کہا ہے اور من نفسک بھی ، مگر خدا کا کلام ہر تناقض وتعارض سے پاک ہے ، پہلی آیت سے تشادم کی تردید مقصود ہے ، دوسری سے منشا یہ ہے کہ مصائب کے ذمہ دار خود انسان ہیں ، جہاں تک کسی واقعہ کے سبب اول کا تعلق ہے وہ ظاہر ہے خدا کے سوا اور کوئی نہیں اور جہاں اسباب قریبہ کا بیان ہے ‘ واضح ہو کہ وہ انسان خود پیدا کرتا ہے یعنی گوہر مصیبت خدا کی طرف سے ہے مگر ہم حاصل اسے خود اپنے عمل سے کرتے ہیں ۔ اس لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آنے سے تم مصیبتوں میں مبتلا ہوگئے ہو تو اس کی وجہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری نہیں ، تمہاری بدبختی اور انکار ہے ۔ النسآء
80 رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے ۔ (ف ٢) منصب نبوت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک آدمی کو تمامی اور اقتدار کے لئے چن لیتا ہے ، اس کی ہر بات فشائے الہی میں ڈھل کے نکلتی ہے ، اس کا دل و دماغ انوار و تجلیات سے معمور ہوتا ہے ، اس کی ہر حرکت ترجمان ہوتی ہے رضائے حق کی ، اس لئے کسی شخص کو رسول یا نبی کہہ دینا بجائے خود اسے صحت مند قرار دینا ہے ، مگر بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ذوق عربیت سے محروم ہیں ، اور قرآن کے اسلوب بدیع سے محض نا آشنا ۔ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کو ضروری نہیں جانتے ، ان کے خیال میں قرآن حکیم اپنے موجودہ الفاظ کے ساتھ بالکل کافی ہے اور جو وسائل وذرائع قرآن فہمی کے لئے ضروری ہیں وہ چند لغت وادب کی کتابیں ہیں اور بس ، یہ نادان اتنی سی سمجھ بھی نہیں رکھتے کہ اگر کسی کتاب کو بلا کسی زبردست عمل کے سمجھا جا سکتا ہے تو پھر ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں کود پڑنے کی تکلیف کیوں دی ؟ موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون سے لڑنے کا کیوں حکم ہوا اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بدر و حنین کے معرکے کیوں برروئے کار لانا پڑے ؟ بات یہ ہے کہ دنیا میں کبھی باتوں اور نظروں سے انقلاب پیدا نہیں ہوا ۔ اس کے لئے ضرورت ہوتی ہے زبردست عملی قوت کی ۔ اس آیت میں یہی بتایا گیا ہے کہ جو شخص آپ کے نفش قدم پر چلے گا ، صراط مستقیم پر گامزن رہے اور جو انکار کرتا ہے وہ جان لے کہ اس کی اپنی بدبختی ہے ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجبور نہیں کہ اس کو راہ راست پر لے آئیں اور یہ کہ آپ کی اطاعت براہ راست خدا کی اطاعت ہے ۔ النسآء
81 (ف ٣) طاعۃ بصورت رفع اس کے معنی یہ ہیں کہ اطاعت کا مکہ میں کوئی انقطاع وتجدد نہیں یعنی جب کہ منافق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ہوتے ہیں ، اس وقت غیر مشروط اور غیر متغیر اطاعت کا یقین دلاتے ہیں اور جب الگ ہوتے ہیں اسلام کے خلاف حبل وتدابیر تلاش کرتے ہیں ، فرمایا آپ ان سے زیادہ تعرض نہ فرمائیں ، توکل رکھیں ، اللہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ناصر ووکیل ہے ۔ حل لغات : حسنۃ سیئۃ : نیکی اور برائی ، انعام اور مصیبت ۔ النسآء
82 (ف ١) اس آیت میں دعوت تدبر وتفکر ہے جو شخص قرآن حکیم پر دیانت داری کے ساتھ غور کرے گا ، ضرور ہے کہ اس کی عظمت وصداقت پر یقین لے آئے سب سے بڑی بات جو قرآن پاک کی معجزانہ دلیل ہے وہ اس کی وحدت ویکسائی ہے ۔ سارا قرآن پڑھ جاؤ ۔ اس میں ہزاروں نکات و معارف بیان کئے ہیں ، کہیں تضاد وتعارض کانام نہیں ، ایک دریا ہے جو برابر بہتا چلا جاتا ہے اور پڑھنے والے کو بہائے لئے جارہا ہے ، اسلوب بیان بھی بیسوں اختیار کئے ہیں مگر سب میں حیران کن بلاغت ہے کہیں زور کلام کم نہیں ہوتا ، توحید والہیات سے لے کر اخلاق ومعاشرت کے باریک اور نازک مسائل تک بیان کئے ہیں مگر کیا مجال ہے جو شگفتگی وپاکیزگی میں فرق آجائے ، وہی نزاہت وزور جو اس کا مخصوص خاصہ ہے ‘ ہر جگہ نمایاں ہے ۔ النسآء
83 پروپیگنڈا : (ف ٢) منافقین پروپیگنڈا کی مؤثریت سے خوف واقف تھے ۔ جب کبھی کوئی بات ان کے ہاتھ لگتی ، خوب پھیلاتے ، وہ چاہتے تھے کہ نشرواشاعت کا یہ طریق نہایت کارگر ہے ، چنانچہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس کے اثرات کو تسلیم کیا ہے فرمایا (آیت) ” ولولا فضل اللہ علیکم ورحمتہ لاتبعتم الشیطن الا قلیلا “۔ یعنی اگر خدا کی رحمتیں مسلمانوں کے شامل حال نہ ہوتیں تو وہ بجز چند سمجھ دار انسانوں کے ضرور گمراہ ہوجاتے ۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اکاذیب اراجیف کی اشاعت یکسر شیطانی فعل ہے ، اسلامی طریق اشاعت پروپیگنڈا کا مترادف نہیں ، حالانکہ اس کی وسعت دنیا کی تمام زبانوں سے زیادہ ہے ۔ حل لغات : حرص : مصدر تحریض ۔ آمادہ کرنا ۔ ابھارنا ۔ النسآء
84 النسآء
85 (ف ١) شفع ووتر جوڑا اور ایکائی کو کہتے ہیں شفاعت کے معنی ہیں کسی دوسرے کے ساتھ ہو کر کسی مسئلے کو طے کرنے کے ۔ آیت کا مقصد یہ ہے کہ اچھی باتوں کی طرف لوگوں کو مائل کرنا اچھی بات ہے اور برائی کی طرف دعوت دینا برا ہے یعنی جہاد کی ترغیب واشاعت از قبیل حسنات ہے اور وہ لوگ جو مسلمانوں کو کسل ودون ہمتی کی تعلیم دیتے ہیں ، مجرم ہیں ۔ النسآء
86 سلام : (ف ٢) تحیۃ کے معنی اصل میں کلمات دعائیہ کے ہیں جن مخاطب کی درازی عمر مقصود ہو ۔ اسلامی اصطلاح میں مراد اسلام علیکم کہنا ہے ۔ بات یہ ہے کہ جہاد میں بعض دفعہ مسلمان باوجود ” اسلام علیکم “ سننے کے مخاطب کو تلوار کے گھاٹ اتار دیتے ہیں اس شبہ میں کہ یہ کہیں منافق نہ ہو ۔ قرآن حکیم نے فرمایا جو شخص تمہیں سلام کہے ، تمہارا فرض ہے کہ اسے مسلمان سمجھو اور اسے اس سے سے بہتر ہدیہ سلام پیش کرو ۔ یعنی مسلمان کو کسی حالت میں بھی زیبا نہیں کہ وہ سوء ظن سے کام لے اور خواہ مخواہ مسلمانوں کو کافر سمجھے ہر وہ شخص جو اسلام کا اظہار کرتا ہے ، مسلمان ہے ، باہمی ملاقات کے وقت یہ لفظ اسلام نے ایسا تجویز کیا ہے جو بےحد موزون ہے اور مشرقی لٹریچر کا جزو بن گیا ہے ، یہ دلیل ہے اس بات کی کہ اسلام دنیا کا کامل ترین مذہب ہے ۔ النسآء
87 شغل تکفیر : (ف ٣) اس آیت کا ماقبل کے ساتھ ایک لطیف ربط ہے اور وہ یہ کہ سابقہ آیت میں شغل تکفیر سے منع کیا ہے اور کہا ہے کہ ہر وہ شخص جو ہدیہ سلام پیش کرتا ہے ، زائد از زائد عزت واکرام کا مستحق ہے تم مجاز نہیں کہ اسے غیر مسلم یا منافق سمجھو ۔ (آیت) ” اللہ لا الہ الا ھو “ ۔ کہہ کر اس مفہوم کی تائید فرمائی ہے یعنی جب خدا وہ ہے جس کی پرستش ضروری ہے اور جو غلام الغیوب ہے تو تمہیں کیا حق حاصل ہے کہ کسی کے باطن کے متعلق فیصلہ کرو اور خواہ مخواہ ناجائز بدظنی سے کام لو ، تم کسی کے خدا نہیں کہ جسے کافر کہہ دو ‘ کافر ہوجائے ، (آیت) ” لیجمعنکم الی یوم القیمۃ “ میں زجر وتوبیخ ہے ان لوگوں کے لئے جو خدائی اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں ۔ ظاہر ہے کفر واسلام کا صحیح اور سچا فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے ، اس لئے تکفیر میں حتی الوسع محتاط سے رہنا چاہئے ۔ النسآء
88 منافق گمراہ ہیں : (ف ١) اس آیت میں بتایا ہے کہ منافق گمراہ ہیں اس لئے کہ ان کے نفاق کی شہادت خود خدا نے دی ہے ، ان کے متعلق مسلمانوں کو دوگونہ حکمت عملی سے کام لینا چاہئے یہ کھلے کافر ہیں ۔ البتہ فرق اسلام جو دیانت داری کے ساتھ جزئیات اسلام میں مختلف ہیں ‘ ان کی تکفیر وتفسیق درست نہیں ۔ اگر اصول ونصوص میں اتفاق ہے ، جزئیات کا اختلاف کوئی وزنی چیز نہیں ۔ ہاں وہ لوگ جو مسلمہ نصوص وحقائق کے متوازی الگ اصول واساس کو مانتے ہیں وہ ہرگز مسلمان نہیں ، اگرچہ ان کو دعوائے اسلام ہی کیوں نہ ہو ۔ النسآء
89 جہاد و ہجرت : (ف ٢) ان آیات میں بتایا ہے کہ ان کفار کی جو تم سے برسرپیکار ہیں ، خواہشات کیا ہیں ؟ یہ چاہتے ہیں کہ تمہیں اپنی طرح کفر وظلمت کی وادیوں میں ٹامک ٹوٹیاں مارتے دیکھیں ایسے لوگ ہرگز کسی دوستی اور تعلق کا استحقاق نہیں رکھتے ، یہ اس قابل ہیں کہ ان سے کامل بیزاری کا اظہار کیا جائے ۔ ہجرت سے مراد ان آیات میں مخلصانہ اسلام کو قبول کرنا ہے اسلام و ہجرت باہم اس لئے لازم ہیں کہ قبول حق وحقانیت کے بعد باطل سے جنگ قطعی اور واجبی ہے ۔ وہ لوگ جو اسلام قبول کرکے بھی کفروشرک میں بھرے رہتے ہیں ، درحقیقت مسلمان نہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے ” انا بری من کل مسلم اقام بین اظھر المشرکین “۔ مجبوری اور اضطرار دوسری بات ہے ، دل میں کفر کی خلاف زبردست غصہ وغضب موجود ہونا چاہئے یہی مطلب ہے اس حدیث کا کہ ” لاھجرۃ بعد الفتح ولکن جھاد “۔ یعنی فتح مکہ کے بعد ہجرت کا اب کوئی موقع نہیں ، مگر دل میں مجاہدانہ ولولے ضرور موجزن رہیں اور قصد وارادہ میں زور ہجرت باقی ہو ۔ مسلمان کسی حالت میں بھی جمود وتسفل کی زندگی پر قانع نہیں رہتا ، وہ مجسم بےچینی اور اضطراب ہے ۔ اس کے نزدیک اس نوع کی قناعت کفر ہے ، وہ یہ چاہتا ہے کہ پوری آزادی کے ساتھ زندگی بسر کرے ، کفر اسے دیکھ دیکھ کر جلے ، شرک اس کے موخدانہ اقدامات سے کانپ اٹھے ۔ ظلمت وتاریکیاں اس کے نام سے کافور ہوجائیں ۔ یعنی اس کا وجود ہمہ قہر وغلبہ ہے ۔ وہ مقہور ہونا جانتا ہی نہیں ۔ ہوسکتا ہے بعض حالات کی موجودگی وہ ہاتھ میں تلوار نہ لے سکے ، مگر یہ ناممکن ہے کہ اس کا دل ظلم وتسلط کو برداشت کرلے ، وہ آزاد پیدا ہوتا ہے اور حاکم ومسلط رہ کر جیتا ہے ۔ النسآء
90 (ف ١) اس آیت میں بتایا ہے کہ مسلمان جہاں بہادر وغیور ہے وہاں منصف وروادار بھی ہے ، اس لئے وہ عہد وذمہ داری کی ہر رعایت کو ملحوظ رکھتا ہے اور کسی طرح بھی صلح جو انسانوں کو جنگ کی آگ میں نہیں ڈالتا ۔ حل لغات : حصرت صدورھم : یعنی وہ جو لڑتے ہچکچاتے ہیں ، حصر کے اصلی معنی رکنے کے ہیں ۔ السلم : صلح وصفائی ۔ النسآء
91 (ف ١) ان آیات میں ان لوگوں سے جنگ کی اجازت دی ہے جو بظاہر امن پسند ہیں مگر موقع پیدا ہونے پر ہمیشہ کفر کا ساتھ دیتے ہیں اور جانب داری سے باز نہیں آتے ایسے لوگ قطعی سزا کے مستحق ہیں ۔ النسآء
92 خون بہا : (ف ٢) (آیت) ” وماکان لمؤمن “۔ کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان کی شان کے شایان نہیں کہ اس کا ہاتھ کسی مسلمان پر اٹھے بھول چوک ہوجائے تو دوسری بات ہے ورنہ مسلمان ہرگز مسلمان پر ہاتھ نہیں اٹھاتا ۔ جہاں وہ کفرکے لئے صاعقہ جان سوز ہوتا ہے مسلمان کے لئے نسیم جاں فزا (آیت) ” اشدآء علی الکفار رحمآء بینھم “۔ اس کی ساری عداوتیں اور دشمنیاں کافروں اور منکروں کے لئے ہیں اور مسلمان کے لئے اس کا وجود رافت ورحمت ہے حتی الوسع وہ کوشش کرتا ہے کہ مسلمان کے ساتھ کوئی اختلاف پیدا نہ ہو ۔ قتل کی تین صورتیں ہیں (١) عمد (٢) شبہ عمد (٣) خطائ۔ عمد سے مراد یہ ہے کہ قصدا آلات قتل سے مارا جائے ۔ شبہ عمد سے مقصد یہ ہے کہ مادے تو قصدا مگر آلہ ضرب مقضی الی الموت نہ ہو ۔ خطاء سے مراد یہ ہے کہ بھول چوک سے قتل کیا جائے ، یہاں مراد خطاء ہے ۔ چونکہ خون بہرحال گراں قیمت ہے اس لئے اس کا ضیاع وفقدان کسی صورت میں بلا کفارے کے نہیں رکھا ۔ دیت تخمینا ڈھائی ہزار روپیہ ہے ۔ حل لغات : سلطان : دلیل حجت ۔ غلبہ ۔ تحریر : آزاد کرنا ، رقبۃ ۔ گردن یعنی وہ غلام جس کی گردن میں غلامی کا جوا پڑا ہے ۔ النسآء
93 خون مسلم کی گرانمائیگی : (ف ١) اس آیت میں بتایا ہے کہ خون مسلم اس قدر گرانمایہ ہے کہ اس کا ضیاع وسفک موجب علو ونار ہے یعنی بلاوجہ مشروح مسلمان کا قتل اتنا بڑا گناہ ہے کہ قابل عفو نہیں ، یہ اس لئے کہ مومن ومسلم دنیا میں حق کا علمبردار ہے ، خدا کی خلافت ونیابت اس سے وابستہ ہے ، وہ اس لئے زندہ ہے کہ خدا کے نام کو بلند کرے اس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ دین فطرت کی خدمت واعلاء کے لئے خریدا جا چکا ہے ، اس کا ہر سانس خدائے ذوجلال کی صداقت وحقانیت کا اعلان ہے اور وہ بچپن سے لیکر بڑھاپے کے آخری وقت تک وقف ہے ، اس کا قتل خدا سے بغاوت ہے حق وصداقت میں جنگ ہے انسانیت عظمی کی توہین ہے اور حقوق الہیہ میں زبردست خیانت ۔ النسآء
94 (ف ٢) اس آیت میں بتایا ہے کہ جہاد کے سلسلہ میں بعض دفعہ ایسے لوگ مل جاتے ہیں جن کو تم نہیں جانتے اور وہ السلام علیکم کہتے ہیں اور تم مال غنیمت کی ہوس میں انہیں کافر سمجھ کر قتل کردیتے ہو یہ درست نہیں ، مسلمان کے متعلق پوری احتیاط چاہئے خوب دیکھ بھال لو کہ کوئی شخص تمہاری بدظنی کا شکار نہ ہوجائے تھوڑی سی غفلت میں ایک مسلمان کا خون نہ بہہ جائے ۔ (آیت) ” فتبینوا “ میں ایک باریک نکتہ بھی مضمر ہے کہ بدظنی بری چیز ہے مگر حسن ظن کے معنی کا مل اطمینان کے نہیں باوجود مشرک آدمی کو مسلمان سمجھنے کے تحقیقات وتجسس جاری رکھو ۔ حل لغات : توبۃ من اللہ : یہاں توبہ سے مراد تخفیف ہے ۔ عرض : سامان ۔ مغانم : غنیمتیں ۔ النسآء
95 (ف ١) پیشتر آیات میں قتل خطاء وعمد کی برائی بیان فرمائی تھی ، اس کے بعد جہاد کے لئے سفر کا تذکرہ ہے ان آیات میں براہ راست مجاہد کے فضائل کا احصار ہے ۔ مجاہد کے معنی جدوجہد اور کوشش کے ہیں قرآن حکیم کی اصطلاح میں ضعف واضحلال کے خلاف مؤثر احتجاج کانام جہاد ہے یعنی وہ لوگ مجاہد ہیں جو قوم میں قوت اور رفعت پیدا کرنے کے لئے لڑتے ہیں ۔ قائدین کی جماعت وہ ہے جو عافیت کوش ہیں جن کے دل میں ضعف اور بےبسی کے خلاف کوئی جذبہ نفرت نہیں ، ظاہر ہے پرجوش مجاہدین کے مقابلہ میں کاہل اور کم ہمت بزدل کوئی حیثیت نہیں رکھتے ، ان آیات میں اسی حقیقت جان بخش کا اظہار ہے کہ خدائے قوی وتوانا نے باہمت اور بہادر انسانوں کو بےغیرت اور بےحس لوگوں پر ترجیح دی ہے اور آخرت وعقبی کی زندگی میں ان لوگوں کے درجات وفضائل کے بےشمار انواع ہیں ۔ (آیت) ” اولی الضرر “ سے مراد وہ معذور لوگ ہیں جو جہاد میں شریک نہیں ہو سکتے ۔ (آیت) ” اذا نصحوا للہ ورسلہ “۔ کی شرط کے ساتھ اتفاق رکھتے ہیں یعنی ان کے دل میں خدا اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے بےپناہ اخلاص ہے ، ایسے لوگ مجاہدین کے ساتھ برابر کے شریک ہیں ، انہیں بھی مجاہدین کا سا درجہ ملے گا ۔ حل لغات : من : احسان وامتنان فرمانا ۔ النسآء
96 النسآء
97 غلامی عذاب ہے : (ف ١) ان آیات میں بتایا ہے کہ غلامی وبے بسی اللہ کا عذاب ہے اور وہ لوگ سخت ظالم ہیں جو حریت وآزادی جیسی نعمت سے محروم ہیں ، یہ وہ بخشش ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو عطا کر رکھی ہے ، فرشتے موت کا پیغام لاتے وقت ایسے لوگوں سے پوچھیں گے بتاؤ تم نے اس ضعف وبے بسی کے خلاف جہاد کیوں نہ کیا ؟ اور تم کیوں آزاد مطلق العنان ہو کر نہ رہے ؟ وہ کہیں گے ، ہمارے پاس جرات وجسارت نہ تھی ہم ایسے ملک میں رہتے تھے جہاں رہ کر مقابلہ ناممکن تھا ، فرشتوں کا یہ جواب ہوگا کیا خدا کی ساری زمین تمہارے ارادوں کی تکمیل کے لئے ناکافی تھی ؟ کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ تم اس ملک وقوم کو چھوڑ دیتے جو تمہیں غلام رکھے ہوئے ہے اور وہاں جا بستے جہاں آزادی کے ساتھ تم اعلاء کلمۃ اللہ کے فریضے کو ادا کرسکتے ۔ بات یہ ہے کہ اسلام ایک زندہ وکامل نظام عمل اپنے ساتھ لایا ہے اور اس وقت تک اس کی برکات سے پوری طرح متمتع نہیں ہوا جا سکتا جب تک اس کے لئے آزاد فضا نہ پیدا کردی جائے ، اس لئے جہاد خارجی یا غیر متعلق مسئلہ نہیں بلکہ اسلامی نشوا اور تبلیغ واشاعت کے لئے اساس واصل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ النسآء
98 غیر مستطیع کون ہیں ؟ (ف ٢) ہجرت سے وہ لوگ معذور سمجھے جا سکتے ہیں جو غیر مستطیع ہوں یعنی ہجرت کے لئے کوئی حیلہ وامکان ان کے بس میں نہ ہو اور کاملا انکی باغ ڈور دوسروں کے ہاتھ میں ہو یا وہ جسمانی طور اس قابل نہ ہوں کہ ہجرت کرسکیں ، مگر جسمانی ضعف واضمحلال کا معیار کیا ہے ، اس کا اندازہ ذیل کے واقعہ سے کیجئے : حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ میں بچے کھچے لوگوں کو پیغام ہجرت بھیجا اور کہا تم مکہ چھوڑ دو ، یہ آیات ہجرت ان تک پہنچیں ، جندب بن حمزہ (رض) جو شیخ فانی تھے شوق ہجرت میں بےتاب ہوگئے ، کہنے لگو ، بچو ، مجھے چارپائی پر لاد کر مدینے لے چلو ، میں غیر مستطیع ہوں ۔ بوڑھے صحابی کا یہ ولولہ ایمان کیا ہمارے نوجوانوں کو نہ شرمائے گا ؟ النسآء
99 النسآء
100 (ف ١) مراغم کا اشتقاق رغم سے ہے جس کے معنی خاک آلودہ کرنے کے ہیں ۔ علی رغم الف فلاں کا محاورہ اسی سے ماخوذ ہے ، یعنی مہاجرین جب ظلم واستبداد کے خلاف اجتجاج کرتے ہوئے ملک چھوڑ دیں گے تو انہیں ایسی جگہیں مل جائیں گی جو دشمنوں کی پائمالی اور تحقیر کا باعث بنیں گی اور جس کی وجہ سے ظالم وسرکش کا تمام کبر وغرور خاک میں مل جائے گا ۔ ہجرت کے معنی جہاں یہ ہیں کہ بطور احتجاج کے ظالم ومستبد حکومت کا ملک چھوڑ دیاجائے ، وہاں یہ بھی ہیں کہ مسلمان نہایت شریف النفس اور آزاد قوم ہے ضمیر ومذہب کی غلامی اس کے نزدیک بدترین گناہ ہے مسلمان اجنبی ممالک میں رہ کر تکلیف وتنگ دستی کے مصائب کو برداشت کرسکتا ہے مگر ایک لمحہ کی غلامی اس کے لئے ناقابل برداشت ہے ۔ (آیت) ” فقد وقع اجرہ علی اللہ “۔ سے مراد یہ ہے کہ اصل میں جہاد و ہجرت کا تعلق قلب ودماغ کی بےچینی سے ہے ، وہ لوگ جو احساسات وخیالات میں کفر کے لئے سخت اضطراب ونفرت پنہاں رکھتے ہیں وہ مجاہد ہیں گو حالات انہیں منزل مقصود تک پہنچنے کی اجازت نہ دیں ۔ حل لغات : عفو ۔ بدرجہ قصوی معاف کرنے والا ۔ مراغما : ایسی جگہ جو دشمنوں کے لئے باعث توہین وتحقیر ثابت ہو ۔ النسآء
101 فلسفہ صلوۃ خوف : (ف ١) ان آیات میں صلوۃ خوف کا ذکر ہے کہ جب میدان جنگ ہو ، دشمن کی طرف سے زبردست خطرہ ہو تو اس وقت فریضہ نماز کس طرح ادا کیا جائے ؟ مقصد یہ ہے کہ جنگ وجہاد مقصود بالذات نہیں ، دین کا اصل واساس عبادت ونیاز مندی ہے ، اس لئے ضروری ہے کہ نماز وعبادت کو بہرحال محفوظ رکھا جائے ، جہاد تو اس لئے ہے کہ مسلمان کو خدا کی عبادت کا آزادانہ حق ہو ۔ یعنی مسلمان میدان جنگ میں نماز پڑھ کر یہ ثابت کردیتا ہے کہ وہ بجز خدائے قہار کے اور کسی کے سامنے نہیں جھکتا اور کوئی جنگ اور لڑائی اسے غیر اللہ کی پرستش پر مجبور نہیں کرسکتی ۔ صلوۃ خوف کا فلسفہ یہ بھی ہے کہ مسلمان عین اس وقت جب حیوانی قوتیں بزور ہوتی ہیں اور جب دونوں طرف غیظ وغضب کے شعلے اٹھے ہوئے ہوتے ہیں ، اتنا خدا پرست اور حق وانصاف کے سامنے جھک جانے والا ہوتا ہے کہ ” نماز “ کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا ۔ اس کا دل ان حالات میں بھی ملکی قوتوں سے معمور ہوتا ہے ۔ جس مذہب میں تلوار کے سایہ میں بھی شوق عبادت کی تکمیل ضروری ہو ، کیا وہ مادی وحیوانی مذہب ہو سکتا ہے ؟ حل لغات : طائفۃ : گروہ ۔ النسآء
102 مسلح رہو !: (ف ١) (آیت) ” وخذواحذرکم “۔ میں یہ بتایا ہے کہ بجز عذر کے ہر وقت تمہیں مسلح رہنا چاہئے تاکہ سپاہیانہ زندگی میں ہر وقت محسوس کی جائے ۔ مطلقا سفر میں بھی قصر درست ہے ، ان اور اذا کی قیود واظہار واقعہ کے لئے ہیں ، تحدید حکم کے لئے نہیں ، سفر کی حد میں اختلاف ہے ، حضرت عمر (رض) کے نزدیک پورے دن کا سفر ، سفر ہے امام المفسرین حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں ‘ دن اور رات دونوں ہوں تو سفر کا اطلاق ہوگا انس بن مالک (رض) کہتے ہیں پانچ فرسخ کا اعتبار ہے ، حضرت امام حسین (رض) کا ارشاد ہے دو راتیں ہونا چاہئیں ۔ شعبی ، نخعی اور سعید بن جبیر (رض) کا قول ہے ۔ کوفہ سے مدائن تک کا فاصلہ سفر ہے یعنی تقریبا تین دن کا سفر ۔ غرضے کہ سفر کی تعریف میں اختلاف صاف صاف بتا رہا ہے کہ ان بزرگوں کے سامنے کوئی متفقہ فیصلہ نہیں جو جس نے عرف سفر کا مطلب سمجھا کہہ دیا ، بات بھی یہی ہے ۔ اصل میں اعتبار صرف عرف کا حاصل ہے ۔ النسآء
103 نماز فرض موقوت ہے : (ف ٢) اس آیت میں بتایا ہے کہ نماز فرض موقوت ہے ، اس کا مقصد باوقت احساس فرائض ہے اور جب ہی حاصل ہوتا ہے جب پوری پابندی کے ساتھ نماز ادا کی جائے ۔ النسآء
104 ولا تھنوا : (ف ١) مقصد یہ ہے کہ مسلمان جہاد وجنگ میں دلیر اور بہادر ثابت ہو ، اس لئے کہ اس کے سامنے جو نصب العین ہے ‘ وہ زیادہ بلند اور پاکیزہ ہے ۔ کفار دنیائے دوں کے لئے لڑتے ہیں اور مسلمان اعلاء حق کے لئے ۔ مسلمان کے سامنے توقعات ویقین کا انبار ہے اور کافر عقبی کی جانب یکسر مایوس ۔ النسآء
105 قرآن حقائق محسوسہ کا نام ہے : (ف ٢) (آیت) ” انا انزلنا الیک الکتب بالحق “ کے معنی یہ ہیں کہ جو کچھ افق اعلی سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب اقدس پر نازل ہوا ہے وہ حق یعنی قطعی صلت وصفا سے حالات وظروف کے بالکل مطابق ہے ، علوم ومحسوسات کے موافق ہے اور کوئی چیز اس میں غیر موزوں اور غیر متناسب نہیں ۔ (آیت) ” بما ارک اللہ “ ۔ سے مراد یہ ہے ‘ یہ قرآن حتما وسعت ومشاہدہ کے ہم پلہ ہے ، اس کی قطعیت میں کوئی احتمال شک وشبہ نہیں ، یہ محسوس حقیقت ہے جس کی تجلیات قلب اطہر پر جلوہ کناں ہیں ۔ (آیت) ” ولا تکن للخآئنین خصیما “۔ اور اس قبیل کی تمام آیات جو اس کے بعد مذکور ہیں ، منصب نبوت کی توضیح کے لئے ہیں یعنی بتانا یہ مقصود ہے کہ نبی دنیا میں سچا حکم ہو کر آتا ہے اس سے غدر وخیانت کی توقعات اس کے منصب کی توہین ہے وہ ہر وقت جانب باری سے طالب عفو وبرکات رہتا ہے ، وہ کبھی خائن اور جھوٹے گروہ کی حمایت نہیں کرتا ، مگر انداز بیان اس نوع کا اختیار ہے جس سے وہ لوگ جو قرآن کے اسالیب بیان کی حکمتوں اور لطافتوں سے واقف نہیں ‘ بدظن ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں دیکھئے آپ کے پیغمبر معصوم نہیں ۔ قرآن حکیم آپ کو استغفار دے رہا ہے وہ نادان یہ نہیں سمجھتے کہ عصمت ومحفوظیت تو شرط اول ہے ۔ کسی بشر کا عہدہ نبوت پر سرفراز ہونا اس کے معنی ہی یہ ہیں کہ اب وہ لوگوں کو گناہوں سے پاک کرے گا اور معصوم بنائے گا (آیت) ” ویزکیھم “۔ کے عمل تطہیر سے دلوں کی پاکیزگی اور نیکی سے معمور کر دے گا ، اس لئے خود اس کے متعلق عصمت کا درجہ ثابت کرنا ایسا ہی ہے جیسے خدا کے لئے کامل علم وحکمت یا توحید : تفرید ۔ کیونکہ خدا تو کہتے ہی اس ذات والا صفات کو ہیں جو علیم وحکیم ہو اور جس کا کوئی شریک نہ ہو ۔ نبی کا اشتقاق نبوۃ سے ہے جس کے معنی رفعت اور بلندی کے ہیں ۔ یعنی وہ انسان جو عام انسانوں سے بہت بلند وارفع ہے ۔ اصل میں ان آیات میں ایک خاص واقع کی طرف اشارہ ہے ۔ طعمہ ایک شخص تھا جس نے ایک زرہ چرائی اور کہا کہ یہودی نے چرائی ہے اور مسلمانوں کی ایک جماعت کو آمادہ کرلیا کہ وہ اس کی برات کا اظہار کریں اور یہودی کو متہم ٹھہرائیں ۔ یہ بات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچی ، آپ متاتل رہے تاآنکہ یہ آیات نازل ہوئیں جس سے طعمہ اور اس کے گروہ کو کامل مایوسی ہوئی ۔ النسآء
106 النسآء
107 النسآء
108 النسآء
109 النسآء
110 (ف ١) اس آیت میں ترغیب استغفار ہے یعنی ہر گناہ بارگاہ عفو میں قابل بخشش ہے ، ضرورت صرف اقدام توبہ کی ہے ، ایک دفعہ گناہوں سے نفرت ہوجائے اور نیکی کے لئے مضبوط عہد کرلے پھر فکر تعزیر نہیں ، خدا غفور اور رحیم ہے ۔ حل لغات : خصیم : جھگڑالو ۔ جھگڑا کرنے والا ۔ یختانون : مصدر اختیان ۔ خیانت کرنا ، نقصان پہنچانا ۔ خوان : بہت خیانت کرنے والا ۔ اثیم : مجرم ۔ النسآء
111 گناہ کی حقیقت : (ف ١) اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ گناہ چونکہ ذات باری سے متعلق نہیں اور اس کا نقصان صرف انسان کی اپنی ذات تک محدود ہے ‘ اس لئے تلافی ناممکن ہے ، یہ غلط عقیدہ ہے کہ گناہ بہرحال قابل تعزیر ہے اور خدا گناہوں کو بوجہ عادل ومنصف ہونے کے بخش نہیں سکتا ، اس طرح کے عقیدے سے ایک طرف تو کامل مایوسی پیدا ہوتی ہے اور دوسری جانب خدا کی توہین لازم آتی ہے ، کیونکہ وہ قادر ومختار کریم ہر وقت ہمارے گناہوں پر خط تنسیخ کھینچ سکتا ہے ، اس کا رحم وکرم ہر آن اسے بخشش وعفو پر آمادہ کرتا رہتا ہے ۔ اس کی ادنی توجہ ہمارے دفتر عصیاں کو پاکیزہ کرسکتی ہے ، اس کے متعلق یہ کہنا کہ وہ گناہوں کو معاف نہیں کرسکتا ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ” قانون عدل وانصاف “ کی قوت اس سے زیادہ بڑی ہے ، حالانکہ عدل وانصاف کا مطلب محض خدا کا حکم وارادہ ہے جو کہہ دے وہ انصاف ہے اور جو کر دے وہ عدل ۔ کوئی قانون وضابطہ ایسا نہیں جسے وہ ماننے کے لئے مجبور ہو ۔ وہ بےنیاز ومتعال ہے ، وہ متعنن اور قانون ساز ہے اور کوئی بات ایسی نہیں جو اس کی ذات عالیہ سے بالا ہو ۔ النسآء
112 (ف ٢) اس آیت میں اتہام کے متعلق فرمایا ہے کہ کھلا گناہ ہے ۔ النسآء
113 (ف ٣) مقصد یہ ہے کہ طعمہ اور اس کی جماعت چاہتی یہ تھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خائن لوگوں کی حمایت کریں اور یہودی کو محض اس لئے کہ وہ یہودی ہے ‘ مجرم قرار دیں ، مگر اس لئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وحی والہام اور تعلیم واکتشاف کی نعمتوں سے بہرہ وافر رکھتے تھے ، ان کے فریب سراسر پاک دامن رہے ۔ حل لغات : یرم : باب رمی یرمی ، مصدر رمی ، معنی پھینکنا ۔ ڈالنا ۔ نجوی : سرگوشی ۔ کاناپھوسی ۔ النسآء
114 (ف ١) اس آیت میں منافقانہ سرگرمیوں سے روکا ہے منافقین کا قاعدہ یہ تھا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف ہمیشہ حیلے اور تدبیریں سوچتے رہتے ، قرآن حکیم نے فرمایا کوئی اہم نیکی کی بات ہو تو اس کے اخفا میں مضائقہ نہیں اور نہ عام سرگوشیاں اور کانا پھوسیاں ممنوع ہیں ۔ النسآء
115 الحاد : (ف ٢) طعمہ بن ایبرق نے جب دیکھا کہ قرآن حکیم نے ہماری چالوں کو واشگاف طور پر بیان کردیا ہے کہ تو مرتد ہوگیا اور مکہ میں جا کر مر گیا ، ایسے لوگوں کے متعلق ارشاد ہے کہ یہ وہ ہیں جو ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد پھر بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرتے ہیں ۔ آیت کا عام مفہوم یہ ہے کہ قرآن حکیم اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ہدایت ورشد کے تمام طریق واضح ہوجاتے ہیں ، اس لئے لازم ہے کہ ہر شخص کتاب وسنت کے مستحکم اصول سے تمسک اختیار کرے اور اس سلسلے میں جمہور مسلمانوں کے خلاف الگ عقائد وآراء نہ رکھے ۔ (آیت) ” غیر سبیل المومنین “۔ سے مراد مسلمانوں کے متفقہ اور متحدہ نظام عقائد وعمل کے خلاف الگ راستہ تجویز کرنا ہے بلاشبہ مسلمانوں کی روش عام کے متضاد متوازی عقائد الحاد وزندقہ کے مترادف ہیں جن سے منع کیا گیا ہے ۔ النسآء
116 غیر مغفور گناہ : (ف ٣) اس آیت میں واضح الفاظ میں بتا دیا ہے کہ شرک ناقابل عفو گناہ ہے کیونکہ اس سے زیادہ گمراہ کن جاذب ادہام اور کوئی عقیدہ نہیں ، فطرت انسان کو اللہ تعالیٰ نے اتنا پاکیزہ اور بلند پیدا کیا ہے کہ وہ کسی طرح بھی شرک جیسی ذلت کو برداشت نہیں کرسکتی ۔ حل لغات : مرضات اللہ : خدا کی رضا مندیاں ۔ النسآء
117 (ف ١) جہالت کی حد کہ پوجتے بھی ہیں تو اناث کو ، جیسے لات ‘ عزے ، منات یعنی ذہنی پستی کی یہ آخری مثال ہے کہ شرک نے انکے دماغوں کو ماؤف کردیا ہے اب انہیں دیویاں بھی خدا نظر آتی ہیں ۔ حالانکہ خدا کے لئے غلبہ وقوت ایسے خصائل ہیں جو بدیہی ہیں ۔ اناث کے معنی بعض لوگوں نے بتوں کے بھی لئے ۔ قال الحسن لم یکن حتی من احیاء العرب الاولھم صنم یبدونہ ولسمونہ اثنی بن فلان ۔ حضرت عائشہ (رض) کی قرات میں اوثانا بھی آیا ہے ، مگر صحیح وہی معنی ہیں جو قرات متواترہ میں مذکور ہیں ، ہوسکتا ہے کہ حضرت عائشہ (رض) وحضرت حسن (رض) نے اوثانا کو بطور تشریح معنی کے لکھا ہو ۔ النسآء
118 النسآء
119 (ف ٢) ان آیات میں شیطان کے کام بتائے ہیں کہ وہ گمراہی کے کیا کیا وسائل اختیار کرتا ہے ۔ کہیں جھوٹی امیدیں دلاتا ہے ۔ کہیں تبرک وقربانی کے لئے جانوروں کے کان ، ناک چھدواتا ہے کہیں تغیر خلق وتبدیل فطرت پر آمادہ کرتا ہے ۔ فرمایا کہ ایسے لوگ جو اس کے جھانسے میں آگئے ہیں صریح گھاٹے میں ہیں اور ان کے لئے قیامت کے دن جہنم ٹھکانا ہے ۔ حل لغات : اناث : جمع انثی ۔ مادہ عورت ۔ مرید : سرکش ۔ یبتکن : کان کاٹ دینا مشرکین مکہ کا قاعدہ تھا کہ جب اونٹنی پانچ بچے دے اور پانچواں بچہ نر ہو تو وہ اس کا کان چیر دیتے تھے اور اسے عزت وحرمت کے قابل سمجھتے تھے اس پر سوار نہ ہوتے تھے ، اس لفظ سے اسی رسم کی طرف اشارہ ہے ۔ النسآء
120 النسآء
121 النسآء
122 النسآء
123 معیار نجات : (ف ١) اسلام اور دیگر مذاہب کے تصور نجات میں بڑا فرق ہے ، سب مذاہب میں نجات کہتے ہیں ‘ روحانی مسرت اور عقبی کی کامیابی کو مگر اسلام کے نزدیک نجات ایک ارتقائی صورت فلاح کا نام ہے جس میں ولادت سے لے کر موت کی آغوش تک کا سامان آسائش پہناں ہے وہ مذہب جو عقبی کی بخششوں کا تو ذمہ دار ہے ، مگر دنیا کی کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگاتا ‘ وہ غلط ہے ، اسلام کہتا ہے ، تمہاری نجات اسی دنیا سے شروع ہوتی ہے ، جو یہاں خوش ہے اس کے لئے آسمانوں میں بھی مسرت بےپایاں کے سامان موجود ہیں اور جو یہاں مطمئن نہیں اس میں قطعا استعداد نہیں کہ وہ آخری کی نعمت ہائے جادوانی سے بہرہ وافر حاسل کرسکے ۔ یہ وجہ ہے کہ اسلام جب نجات وکامیابی کی دعوت دیتا ہے تو صرف عقائد واعتراف پر زور نہیں دیتا ، بلکہ عمل صالح اس کے نزدیک بمنزلہ اساس واصل کے ہے ، اس لئے یہی ایک طریق ہے جو بالکل منطقی اور واضح ہے بغیر عمل صالح کے نجات ایسے ہی ناممکن ہے جیسے بغیر وسائل طبعی کے کامیابی (آیت) ” لیس بامانیکم ولا امانی اھل الکتب “۔ کہہ کر گویا ہر نوع کے غرور مذہبی ونسبی کا خاتمہ کردیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ کدا کی پیش گاہ عدوانصاف میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تفریق نہیں ۔ (آیت) ” من یعمل کی تعمیم کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسلام عورت ومرد میں کوئی امتیاز نہیں کرتا ، دونوں روحانیت وسلوک کے بلند ترین مدارج تک پہنچ سکتے ہیں اور دونوں اس قابل ہیں کہ زہد وعرفان کے انتہائی زینوں پر چڑھ جائیں دونوں کی روح پاک ہے ، دونوں میں یکساں استعداد عمل ہے ۔ حل لغات : محیص : جائے فرار امانی : جمع امنیہ ۔ خواہش دل ۔ آرزو ۔ النسآء
124 النسآء
125 اچھا دین : (ف ١) اسلام کے معنی پوری توجہ اور پورے التفات کے ساتھ بارگاہ جلال میں جھک جانے کے ہیں ۔ اس کے سارے احکام پورا نظام عمل ‘ اطاعت وتسلیم کا مرقع ہے ۔ اس کی تعلیمات کا مقصد وعطر اسوہ ابراہیم (علیہ السلام) کی اشاعت ہے یعنی تمام خواہشات نام ونمود کو پس پشت ڈال کر کفر وطاغوت کی بھٹی میں جلنا ، ایمان وتوحید کے قیام دین کے سلسلہ میں ہر مصیبت وابتلاء کو برداشت کرنا ، نمرود سے لڑجانا اور ناروا التہاب سے کھیل جانا ، ملت ابراہیمی نام ہے سرفروشی وجانبازی کا ‘ ایثار وخلوص کا ، توحید ومعرفت کی مئے آتشین کے جامہائے لبالب کا ۔ پس وہدین جو ہمہ جہاد وحریت ہو ، وہ ملت جو جانبازوں اور جانثاروں کا عظیم گروہ ہو ‘ اس قابل ہے کہ شائستہ تسلیم ہو ۔ کیا اسلام کے سوا کوئی اور دین ایسا اچھا دین ہے اور کیا ملت ابراہیم (علیہ السلام) کے علاوہ کہیں مجاہدوں اور مخلصوں کا کوئی اور گروہ تمہیں نظر آتا ہے جو خدا کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دے ۔ النسآء
126 النسآء
127 (ف ٢) مقصد یہ ہے کہ عورتوں اور یتیم بچوں کے ساتھ برا سلوک اس بات کا متقاضی ہے کہ خاص ہدایات نازل کی جائیں جس میں مسلمانوں کو حسن معاشرت کا درس دیا جائے ۔ یہ ضروری نہیں کہ جہاں قرآن حکیم میں استفتاء یا سوال کا ذکر ہے وہاں درحقیقت سائلین کی ایک جماعت بھی موجود ہے یہ قرآن حکیم کا طرز بیان ہے کہ وہ سوال طلب حالات کو استفتاء سے تعبیر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ طبیعتوں میں چونکہ تشویش استفسار کی بین علامتیں موجود ہیں اس لئے اس کا جواب یہ ہے ۔ (آیت) ” یستفتونک “۔ سے مراد یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام بجائے خود حجت وسند ہوتے ہیں اور ان کی یہ حیثیت اس قدر واضح ہے کہ غیر مسلم تک معترف ہیں ۔ (ف ١) عرب نہایت حریص وطمع تھے یتامی کی تربیت محض اس لئے اپنے ذمہ لیتے تاکہ ان کے مال ودلوت سے ناجائز فائدہ اٹھایا جائے اور اس کی کئی صورتیں تھیں (آیت) ” وان تقوموا لیتمی بالقسط “۔ کہہ کر عدل وانصاف پر آمادہ کیا ہے (آیت) ” وما تفعلوا من خیر “۔ میں یہ بتایا ہے کہ تمہیں تو یتیم بچوں اور بچیوں سے عدل وانصاف کے علاوہ حسن سلوک اختیار کرنا چاہئے تھا ، نہ کہ جوروستم ڈھانے لگو ۔ حل لغات : نقیر : حقیر ترین ۔ ذرہ برابر ۔ خلیل : دوست ۔ النسآء
128 (ف ٢) مرد و عورت میں بعض اوقات شکر رنجی ہوجاتی ہے اور عدم التفات کے باعث وہ خوف ناک نتائج پر منتج ہوتی ہے ، قرآن حکیم جو فلسفہ تدبیر منزل کو بالخصوص اہمیت ووضاحت سے بیان کرتا ہے اس باب میں یہ ہدایت دیتا ہے (آیت) ” ان یصلحا بینھما “۔ کہ دونوں صلح ومحبت کی فضا پیدا کرنے میں ایک دوسرے کے ممد ومعاون ہوں ۔ قرآن کے پیش نظریہ حقیقت نفسی بھی ہے کہ بالطبع لوگ ذات وبخل میں زیادہ رغبت رکھتے ہیں یعنی اپنے حقوق سے دست بردار ہونے کے لئے قطعا تیار نہیں ، اس لئے اس کا ارشاد یہ ہے کہ احسان واقعتا اختیار کریں اور دونوں ایثار وخلوص سے کام لیں ۔ یہ واقعہ ہے کہ میاں بیوی دونوں اگر اپنے حقوق سے زیادہ فرائض کی تکمیل پر زور دیں تو کبھی اختلاف پیدا نہ ہو ۔ حل لغات : نشوز : عورت کا خاوند سے موافقت نہ کرنا ۔ الشح : بخل حرص آز ۔ النسآء
129 ممکن عدل : (ف ١) آیت نشوز کے بعد تعدد ازدواج کا ذکر اس بات کی طرف لطیف اشارہ ہے کہ یہ بجائے خود اختلاف اور عداوت کا باعث ہے ، اس لئے بجز مخصوص حالات کے کسی معمولی قوت ونفوذ کے آدمی کو تعدد وازدواج کی جرات نہ ہونی چاہئے ۔ (آیت) ” ولن تستطیعوا “۔ کے معنی یہ ہیں کہ حقیقی عدل ممکن نہیں جس کا تعلق جذبات سے ہجے ، اس لئے کہ دنای کا سب سے بڑا انسان جو اسوہ جمیل کے ساتھ نوازا گیا ہے ، ان الفاظ میں معذرت خواہ ہے ” ھذا قسمی فبما املک والت اعلم بما لا املک “۔ یعنی اے خدا جہاں میرے امکان میں ہے میں انصاف وعدل کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا مگر بعض منزلیں ایسی بھی ہیں جہاں مساوات قطعا ناممکن ہے ۔ (آیت) ” فلا تمیلوا کل المیل “۔ کہہ کر امکانی حدود کی توضیح فرما دی ہے کہ ایک بیوی پرایسا نہ ریجھ جاؤ کہ دوسری بالکل ہی فراموش ہوجائے ، جن لوگوں نے تعدد ازدواج کی ممانعت اس آیت سے سمجھی ہے وہ غلطی پر ہیں آیت کا انداز بیان صاف طور پر اسے ایک حقیقت مسلمہ قرار دیتا ہے ۔ النسآء
130 (ف ٢) اختلاف جب حد سے بڑھ جائے تو مناسب یہی ہے کہ دونوں ہوجائیں اور پوری بےنیازی سے اپنے اپنے مصالح کے ماتحت زندگی بسرکریں ۔ اس آیت میں اسی حکیمانہ اصول کی وضاحت ہے ۔ حل لغات : وصینا : مادہ وصیۃ ، تاکید اکید ۔ النسآء
131 وصیت کبری : (ف ١) قرآن حکیم اور دوسری مذہبی کتابوں میں سب سے بڑا پیغام تقوی وصلاح کا پیغام ہے یعنی قلب وباطن کی تنویر وتطہیر ۔ ان آیات میں اسی وصیت کبری کی طرف توجہ مبذول کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ اللہ سے عشق وخشیت کے تعلقات استوار کرلو ۔ ورنہ جان لو کہ اس کی شان بےنیازی تمہارے کفر وفسق کو زیادہ دیر گوارار نہ کرے گی ۔ وہ چشم زدن میں بڑے بڑے فرعونوں کو قلزم میں بہا دیتا ہے اس کی ادنی جنبش عقاب بستیوں کی بستیاں الٹ دیتی ہے ، عادوثمود کے شہر اور بابل ونینوا کے خوش سواد دیہات آج کہاں ہیں ؟ اس کا کوئی کنبہ نہیں اس کی ذات لم لید کسی قوم وملت سے تعلق خاص نہیں رکھتی ، وہ رب العالمین ہے ، اس کی ربوبیت اسی سے متعلق ہے جن کو باقی رہنے کی صلاحت واستعداد ہے اور وہ جو سرکش اور نافرمانہیں ‘ ہرگز زندہ رہنے کی اہلیت نہیں رکھتے ۔ النسآء
132 (ف ٢) مقصد یہ ہے کہ خدا کے خزانوں میں دین وعقبی کی نعمتوں سے بہرہ کثیر ہے ، مبارک ہیں وہ لوگ جو اپنے نصب العین کو بلند رکھتے ہیں اور جن کی نظریں زمین کی بستی سے گزر کر آسمانوں کی بلندیوں کا جائزہ لیتی ہیں یعنی وہ جو دنیا کی سعادتوں اور مسرتوں کو اپنا مقصود نظر نہیں بناتے بلکہ اخری کی روحانی کیفیتیں ان کا حاصل ہیں ۔ حل لغات : قومین بالقسط : تابحد مبالغہ ۔ انصاف کا حامی ۔ النسآء
133 النسآء
134 النسآء
135 (ف ١) ان آیات میں مسلمان کو ہر حالت میں منصف وعادل رہنے کی تلقین کی ہے ۔ یہ بالکل آسان ہے کہ ہم دوسروں کے معاملات میں حکیم بن جائیں اور عدل وانصاف کے تقاضوں سے ان کا ناک میں دم کردیں مشکل یہ ہے کہ جب سچ بولنے سے اپنے نفس پر زد پڑتی ہو اور اپنے اعزا واقرباء مصائب سے دو چار ہوتے نظر آتے ہوں ‘ اس وقت عادل رہیں اور سچی شہادت دیں ۔ قرآن حکیم نے مسلمان کا جو تخیل پیش کیا ہے ‘ وہ اتنا پاکیزہ اور بلند ہے کہ بےاختیار بلائیں لینے کو جی چاہتا ہے ۔ یعنی قوام بالقسل پیکر عدل وانصاف ، سچائی کے لئے اپنے آپ کو خطرات میں ڈالنے والا ۔ النسآء
136 دعوت تجدید : (ف ٢) ایمان کے کئی درجے اور مقام ہیں سرسری ایمان یہ ہے کہ اسلامی نظام عقائد وعمل کو مان لیاجائے ، ایثار وخلوص شرط نہیں ، اس حالت میں اس نوع کے لوگ سیاسی اعتبار سے مسلمان ہی شمار کئے جائیں گے ، مگر حقیقی اور واقعی ایمان یہ ہے کہ دلوں میں یقین وثبات کہر با دوڑ جائے اور مسلمان درد واضطراب کا مرقع بن جائے ، اس کے ہر بن ومو سے اسلامی شان وشوکت کے فوارے پھوٹیں ، اس آیت کا یہی مقصود ہے کہ مسلمانو ! قشر اور چھلکے کو چھوڑ کر حقیقت ومغز کو پہچانو ! اجمال وابہام سے نکل کر تفصیل وتشریح کی روشنی میں اپنے ایمان کا جائزہ لو اور دیکھو کیا واقعی اللہ کی تمام کتابوں پر تمہارا یمان ہے ؟ اور کیا تم اس کے تمام پیغمبروں کو برابر مانتے ہو ؟ اور کیا آخرت کے لئے تم نے کوئی تیاری کر رکھی ہے ؟ اگر ان میں سے کسی ایک صداقت کا بھی انکار ہے تو جان لو کہ یہ بدترین گمراہی ہے ۔ النسآء
137 النسآء
138 النسآء
139 (ف ١) اس قسم کے لوگ منافق ہیں ، ان کے تعلقات ہمیشہ کفار سے رہتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ وہ دورخی حکمت عملی سے فریقین میں مقبول ومعزز رہیں ۔ ارشاد ہے کہ عزت کے تمام وسائل وذرائع اللہ کے ہاتھ میں ہیں ، وہ جسے چاہے چشم زدن میں عزت ووقار کے عرش بریں سے اتار دے اور جسے چاہے تاج ودہیم کا مالک بنا دے ، اس لئے جھوٹی عزتوں کے لئے منافقت ومداہنت کی کیا ضرورت ہے ۔ النسآء
140 (ف ٢) نزول قرآن کے وقت کفر ونفاق کے جمگھٹے ہوتے ، لوگ چھوٹے چھوٹے گرہوں میں بٹ بٹ کر مذاق واستہزاء کی محفلیں جماتے اور ان میں پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اللہ کی آیات پر پھبتیاں سوجھتیں مقصد یہ ہوتا کہ مقصدیہ ہوتا کہ عام مسلمانوں کے دلوں میں قرآن اور صاحب قرآن کے متعلق کوئی عقیدت باقی نہ رہے ۔ اور ان کے جذبہ حمیت وعصبیت کو ٹھیس لگائی جائے ۔ اس آیت میں بتایا ہے کہ جب اس قسم کے مواقع ہوں تو تم بھٹک جاؤ اور شرک اختیار نہ کرو ‘ ورنہ تم بھی ایسے ہی ہوجاؤ گے ۔ قاعدہ ہے جب کثرت سے کسی عقیدے کے متعلق اعتراضات وملامتیں سنی جائیں تو دل میں اس کے لئے کوئی وقعت نہیں رہتی اور یہ مداہنت آہستہ آہستہ ارتداد تک پہنچا کے رہتی ہے ۔ اس لئے عوام کے لئے احتراز ضروری ہے کہ جو چپکے بیٹھے رہتے ہیں ، اور مدافعت پر قادر نہیں ہوتے ، مگر وہ جو صاحب علم وحمیت ہیں اور ان کے نفاق وکفر کا دندان شکن جواب دے سکتے ہیں اور دیتے ہیں اس سے مستثنی ہیں کیونکہ اسلام تحقیق وتنقید سے نہیں گھبراتا بلکہ وہ چاہتا ہے کہ عوام کا ایمان محفوط رہے اور وہ نہ جانتے ہوئے سادگی سے بدعقیدگی کا شکار نہ ہوجائیں خواص کے لئے اجازت ہے کہ جہاں چاہیں جائیں اور اسلام کے معارف کی اشاعت کریں ۔ حل لغات : ثم کا تکرار تکرار فعل کے لئے ہے یعنی وہ لوگ جو شک وارتیاب کی وادیوں میں بھٹکتے رہتے ہیں اور جن کے لئے کہیں ثبات وقرار نہیں ۔ اولیآء : دوست واحباب ۔ النسآء
141 مسلمان ابدا غالب ہے : (ف ١) مقصد یہ ہے کہ منافقین دونوں جماعتوں سے بنائے رکھتے ہیں ، مسلمان غالب رہیں تو کہتے ہیں کیا ہم مسلمان نہیں اور اگر دیکھیں کہ کفر عارضی طور پر غالب ہوگیا ہے تو انہیں پھر یہ یقین دلانا پڑتا ہے کہ ہم نے ہر طرح تمہاری جماعت کو مسلمانوں کے حملوں سے بچانے کی کوشش کی ہے ۔ (آیت) ” ولن یجعل اللہ للکفرین علی المؤمنین سبیلا “۔ میں مسلمان کے دائمی غلبہ وتسلط کا اعلان ہے یعنی حجت وبراہین سے لے کر قوت ومنفعت کے تمام ذرائع تک مسلمان کے قبضہ میں ہیں ۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ ابدا کفر ونفاق پر غالب وقاہر رہے گا ، اس کی قوتیں بےپناہ اور غیر محدود ہیں ۔ وہ دنیا میں ایک لمحہ غلامی کے لئے آمادہ نہیں ۔ آزادی وخلافت اس کی وفادار کنیزیں ہیں ، مگر اس وقت جب اس کا ایمان صحیح معنوں میں ایمان ہو ، جب اس کے ایمان کی درخشانی والمعانی چاند اور سورج کو شرمائے جب اس کے ایمان کی حرارت اس کے سینے میں ہمیشہ سوزان وتپاں رہے اور جب اس کے بازو میں قوت حیدری (رض) اور زور عمر (رض) موجود ہو ، نہ اس وقت جبکہ ایمان کی روشنی کفر کی ظلمت کے مشابہ ہوجانے اور نہ اس وقت جب اس کی حرارت کفر کی بردت سے بدل جائے اور نہ اس وقت جب بازوشل ہوجائیں اور قوت جواب دے جائے ، حل لغات : یخوضوا : مصدر خوض ۔ غور فکر بحث وتمحیص ۔ النسآء
142 (ف ١) (آیت) ” وھو خادعھم “۔ سے مراد یہ نہیں کہ خدا ان سے فی الواقع خادعانہ سلوک کرے گا ، بلکہ یہ کہ وہ اس عذاب کو جس سے وہ دو چار ہوں گے ، خادعانہ تصور کریں گے اور وہ ٹھیک ان کی منافقت ومداہنت کو جواب ہوگا ۔ خدع کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف تجوز ومجاز ہے ، جیسے (آیت) ” وجزآء سیئۃ سیئۃ مثلھا “۔ النسآء
143 النسآء
144 (ف ٢) ان آیات میں کفار کی دوستی اور مودت سے منع کیا ہے مگر اس صورت میں جب مسلمانوں کو نقصان پہنچے ، یوں شہری تعلقات میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ (آیت) ” من دون المؤمنین “۔ کا یہی مطلب ہے اور یہ بتایا ہے کہ اپنے بدترین اعمال کی وجہ سے ان کا درجہ درک اسفل ہے ۔ حل لغات : کسالی : جمع کسلان ، سست اور کاہل ، یعنی نمازیں نہایت بےدلی اور بےتوجہی سے پڑتے ہیں ۔ مذبذبین : مادہ ذبہ بمعنی مدافعت ، تکرار حروف ، تکرار فعل پر دال ہے یعنی وہ ہر دو فریق کی طرف مدافعت کرتے ہیں ۔ قلیلا : سے مراد عدیما یعنی قطعا خدا کو یاد نہیں کرتے ۔ النسآء
145 النسآء
146 النسآء
147 خدا کو عذاب پسند نہیں : (ف ١) اس آیت میں اس حقیقت کی وضاحت ہے کہ اللہ کا غیظ وغضب بےسبب نہیں بھرتا لوگ اگر اس کی نعمتوں کا جائز استعمال کریں اور ہر وقت اظہار تشکر میں مصروف رہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ خواہ مخواہ عذاب بھیج دے ، اس کا عذاب تو اس وقت آتا ہے جب سرکشیاں حد سے بڑھ جائیں اور قوم میں ناشکری کی وبا عام ہوجائے اور ضرورت محسوس ہو کہ اصلاح وعبرت کے لئے ازمائشیں نازل کی جائیں ۔ گویا وہ پیکر رحمت وعفو ہے بجز ضروری اور ناگزیر حالات کے سزا نہیں دیتا ۔ حل لغات : الدرک : طبقہ ، درجہ شاکر : شکریہ قبول کرنے والا ۔ النسآء
148 اظہار اساء ت : (ف ١) پیشتر کی آیات میں منافقین کی ایک ایک برائی کو واشگاف بیان کیا ہے تاکہ مسلمان انکے شر سے محفوظ رہیں ۔ ان دو آیتوں میں معذرت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تنقیص وتحقیر پسند نہیں ۔ الا یہ کہ شر واساءت حد سے بڑھ جائے اس صورت میں نقائص وقبائح کے اظہار میں کوئی مضائقہ نہیں پس منافقین کی مذمت وتذلیل محض مظلومانہ ہے ، ورنہ عیب پوشی اور عفو وحلم ہی بہترین جذبہ ہے ۔ (آیت) ” الجھر بالسوئ“۔ سے مراد وہ افعال ہیں جو فریق ثانی کو صورت تکلف محسوس ہوگا ، یہاں نہیں کیونکہ ان کا جواز کسی حال مین بھی درست نہیں ، قرآن حکیم نے اس سے بشدت روکا ہے چنانچہ ارشاد ہے ۔ (آیت) ” ولا تنبزوا بالالقاب بئس الاسم الفسوق بعد ال ایمان “۔ النسآء
149 النسآء
150 النسآء
151 (ف ٢) ان آیات میں بتایا ہے کہ وہ لوگ جو تفریق وکفر کے حامی ہیں ‘ دراصل اور حقیقتا کفر کا مصداق ہیں کیونکر اسلام نام ہے آئین فطرت کا اور حقائق ومحسوسات کا اور پیغمبر کہتے ہیں ترجمان رحمن کو ، اس لئے اس میں کسی تفریق واصلاح کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ، جس طرح سے سورج ایک ہے ، آسمان ایک ہے اسی طرح ادیان مختلفہ میں وحدت ویکسانی ہے البتہ حالات وظروف کے اختلاف وتضاد کی وجہ سے ہمیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا پیغام انتقام مسیح ناصری کے پیغام عفو سے الگ اور جدا معلوم ہوتا ہے ، ورنہ مقصد ومصداق کے لحاظ سے دونوں ایک ہیں دونوں کا مقصد اصلاح نفس وانسانیت ہے ۔ سارے مذاہب اور سارے پیغمبر اس لئے منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئے ہیں تاکہ افق انسانیت کو زیادہ سے زیادہ تابندہ وروشن بنا دیا جائے سب کا موضوع اصلی اور مقصود انسان کی خدمت ورہنمائی ہے پس یہ کس درجہ ظلم وجہل ہے کہ اس سلسلہ کے ایک مؤید کو تو مانا جائے اور دوسروں کا انکار کردیا جائے ۔ اسلام کہتا ہے کہ تعصب وجہالت کو چھوڑ دو اور یہ جان لو کہ صداقت ہمہ گیر ہے ، اللہ کی رحمتیں ہرگز گوشہ زمین پر پھیلی ہوئی ہیں ، جس عقیدت اور نیاز مندی سے تم موسیٰ (علیہ السلام) کو مانتے ہو اسی طرح محبت وشیفتگی سے مسیح (علیہ السلام) پر ایمان لاؤ اور جس طرح تمہارے ہاں مسیح ناصری فخر ومباحات کے اہل ہیں ‘ اسی طرح تمام پیغمبرانہ ستائشوں اور تعریفوں کے حامل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اس لئے ضرورت ہے کہ تم سب کو یکساں اللہ کی جانب سے تصور کرو اور ہر تعصب وتخرب کا خاتمہ کرو ۔ حل لغات : السوئ: برائی ۔ عفو : بخشش وعفو کا بحربیکراں ۔ النسآء
152 (ف ١) یہاں ایسے گروہ کا ذکر ہے جو تمام اختلافات سے بالا ہے اور جس کے ہاں تمام پیغمبر (علیہ السلام) تمام صداقتیں اور تمام حقائق یکسان واجب ال ایمان ہیں ، جو سلسلہ نبوت کی پہلی کڑی سے لے کر آخری کڑی تک سب کو مانتے ہیں ۔ النسآء
153 (ف ٢) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب حق وصداقت کے جلوے چاروں طرف بکھیرنے شروع کئے اور یہودیوں نے دیکھا کہ لوگ قرآن کی روشنی سے استفادہ کر رہے ہیں تو مہمل اور لغو اعتراضات سے قرآن کی عظمت واہمیت کو مٹانا چاہا کہنے لگے اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واقعی اللہ کے رسول ہیں اور مہیط انوار الہی ہیں تو کتاب کو آسمان سے اترتے ہوئے دکھائیے ، اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس کہنہ عادت کرشمہ پسندی اور معجزہ طلبی کا ذکر فرمایا ہے ، (آیت) ” فقد سالوا موسیٰ اکبر من ذلک “ کہ انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے بھی یہ بڑا مطالبہ کیا تھا کہ ہمیں محسوس شکل میں خدا دیکھا دیجئے نتیجہ یہ ہوا کہ حریم جلال و جبروت سے حجابات اٹھنے شروع ہوئے اور یہ تاب نظر کھو کر عقل وہوش بھی ضائع کر بیٹھے ، اب کہتے ہیں ’ کتاب نازل ہوتی ہوئی دیکھائیے کیا اس مطالبہ تنزیل کے بعد وہ ایمان لے آئیں گے ؟ حالانکہ موسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیم وتوحید کے بعد یہ فورا گوسالہ پرستی میں مبتلا ہوگئے ، بات یہ ہے کہ اس نوع کے لوگ طلب صادق نہیں رکھے ان کے مقصد محض راہ حق وسلوک میں مشکلات پیدا کرنا ہوتا ہے ۔ حل لغات : مھین : خوار رکھنے والا ، رسوائی دینے والا ۔ جھرۃ : واضح طور پر روبرو ۔ الصعقۃ : بجلی ۔ النسآء
154 (ف ١) رفع طور کا مقصد یہ بتانا تھا کہ اگر میثاق وعہد کو ملحوظ رکھو گے تو طور کی بلندی واستقلال تمہیں عطا کیا جائے گا اور اگر انکار کرو گے تو یاد رکھو کہ باجود مادی قوت وشوکت کے ہلاک کئے جاؤ گے (تفصیل کے لئے دیکھو حواشی سورۃ بقر) سجدہ اور اعتدافی السبت کی کیفیت مفصل گزر چکی ہے ۔ النسآء
155 النسآء
156 بہتان عظیم : (ف ٢) ان آیات میں یہودیوں کے موٹے موٹے جرائم بیان کئے ہیں کہ کیونکر وہ خدا کے غضب وغصہ کے مستحق بنے فرمایا نقض میثاق کی وجہ سے یعنی اس لئے انہوں نے ہمیشہ شریعت کی مخالفت کی اور کفر کی وجہ سے دائما اللہ کی نشانیوں کو جھٹلایا اور اس لئے بھی کہ انبیاء علیہم السلام سے مخاصمت ومقاتلہ جاری رکھا ، یہ سب اس لئے کہ وہ کہتے تھے (آیت) ” قلوبنا غلف “۔ یعنی ہمیں تیری باتیں نہیں بھاتیں ، دلوں میں پردے حائل ہیں ، فرمایا ۔ درست کہتے ہیں ان کے دل حق ویقین کی صلاحیت سے قطعا محروم ہوچکے ہیں اور خدا نے مسمرہ قانون کے ماتحت ان کے دلوں پر بالآخر مہر کردی ہے ۔ سب سے بڑا گناہ ان کا یہ خبث نفس ہے کہ مریم علیہا السلام عذرا کو متہم گردانتے ہیں ، حالانکہ ان کو اس حالت میں اس لئے ” والدہ “ کے اعزاز نواز گیا کہ تمہاری مادہ پرست آنکھیں کھلے مجاز کو دیکھیں اور اس لئے بھی کہ تم خرق عادات کو زیادہ اہمیت نہ دو اور مصالح اللہ کے ماتحت خیال کرو تفصیل کے لئے دیکھو سورۃ آل عمران ۔ حل لغات : سبت : ہفتہ ۔ غلف : جمع غلاف ۔ غیر ۔ النسآء
157 النسآء
158 مسیح (علیہ السلام) غیر مصلوب ہیں : (ف ١) قرآن حکیم مکمل صحیفہ آسمانی ہے اس میں جس طرح عقائد وعمل کی گتھیوں کو سلجھایا گیا ہے اسی طرح صدیوں کے شبہات وظنون کو فیصلہ کن صورت میں پیش کیا گیا ہے ، یہ وہ مصحف روشن ہے جس کی برق افگن تجلیاں باطن ومغر تک نفوذ کر جاتی ہیں اور کوئی چیز ظلمت وتاریکی میں نہیں رہتی ۔ سات سوسال سے یہ متفقہ عقیدہ چلا آرہا تھا کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) مصلوب ہوگئے ہیں ، یہودی بھی فخر وغرور سے کہتے تھے (آیت) ” انا قتلنا المسیح “۔ اور عیسائی بھی معترف تھے کہ وہ دار پر کھینچے گئے ہیں ۔ قرآن اعظم نازل ہوا تو اس نے کہا ، یہ افسانہ ہی غلط ہے ، بات یہ ہے کہ یہودی سپاہی جب مسیح (علیہ السلام) کو کشاں کشاں صلیب تک لے گئے تو غیرت خداوندی جوش میں آگئی اور مسیح (علیہ السلام) کو آسمان پر زندہ اٹھالیا گیا ، سپاہی جو مسیح (علیہ السلام) کو سزا دینے پر متعین تھے حیران ہونے پھر تدبیریں یہ کی کہ کسی دوسرے آدمی کو سولی دے کر مشہور کردیا کہ ہم نے مسیح (علیہ السلام) کو صلیب پر چڑھا دیا ہے مقصد یہ تھا کہ ہمارے خلاف کوئی محکمانہ کاروائی نہ کی جائے ۔ صدیاں گزر گئیں اور یہ واقعہ اسی طرح تسلیم کیا جاتا رہا ، حتی کہ عیسائیوں نے مسیح (علیہ السلام) کی موت پر کفارے کی بنیادیں رکھیں اور یہودی اپنی اس کور باطنی پر نازاں رہے قرآن حکیم نے (آیت) ” ولکن شبہ لھم “۔ کہہ کر واقعہ کی حیثیت کو ہی بدل دیا ، نتیجہ یہ ہوا کہ کفارہ کی بنیادیں ہل گئیں اور یہودں کا فخر وغرور بھی خاک میں مل گیا ۔ یہ کہنا کہ مسیح صلیب پر لٹکائے تو گئے تھے ، مرے نہیں قرآن وادب کی مخالفت کرنا ہے ۔ (آیت) ” ماقتلوہ وما صلبوہ “۔ کے صاف معنی یہ ہیں کہ مسیح (علیہ السلام) غیر مقتول ہیں ۔ کیونکر افعال میں ہمیشہ ابتدا و آغاز کا اعتبار ہے اور نفی کی صورت میں سب سے پہلے اس کی زد ابتداہی پر پڑتی ہے مثلا اکل کے معنی ہیں کھانا شروع کیا اور کھایا ، شرب کا مطلب ہے پانی پینا شروع کیا اور پیا ، جب یہ کہیں گے کہ ما اکل زید ۔ تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ زید نے سرے سے کھایا ہی نہیں اور جب یہ کہیں گے کہ ماشرب عمرو ۔ تو اس کا مطلب بھی یہی ہوگا کہ عمرو نے فعل کا آغاز ہی نہیں کیا ۔ پس (آیت) ” وما قتلوہ وما صلوہ “ کے معنی یہ ہوں گے کہ مسیح (علیہ السلام) کو انہوں نے سولی پر چڑھایا ہی نہیں اور نہ ہی قتل کیا ہے ۔ (آیت) ” بل رفعہ اللہ “ سے مراد یہ ہے کہ خدا نے اپنے ہاں مسیح (علیہ السلام) کو بلا لیا یعنی آسمان جو خدا کی تدبیرات کا مرکز ودفتر ہے (آیت) ” یدبر الامر من السمآئ“۔ مسیح (علیہ السلام) کا عارضی مستقر ٹھہرا ۔ النسآء
159 (ف ٢) یہ آیت حیات مسیح (علیہ السلام) پر زبر دست دلیل ہے (آیت) ” قبل موتہ “ کا مرجع اہل کتاب نہیں مسیح (علیہ السلام) ہے اور (آیت) ” لیؤمنن سے مراد زمانہ مستقبل ہے ، یعنی ایک وقت آئے گا جب یہودیوں کو قرآن کی بتائی ہوئی صداقتوں پر ایمان لانا پڑے گا ۔ النسآء
160 النسآء
161 (ف ١) مقصد یہ ہے کہ یہودی تمام جائز نعمتوں سے اس لئے محروم ہوگئے کہ انہوں نے خود اس لئے لئے کوشش کی اور زہد وورع کے نام سے کئی چیزیں جو حلال تھیں کھانا چھوڑیں ، پھر جرائم اس قسم کے کئے کہ سزا کے مستحق ٹھہرے ۔ النسآء
162 (ف ٢) اس آیت میں ان علمائے حق کا ذکر ہے جو گو یہود میں پیدا ہوئے مگر ان کا علم وتقوی انہیں حق کے تسلیم کرنے پر مجبور کرتا ہے اور وہ برابر اسلامی وظائف وعمل کو ادا کرتے ہیں ، ان کا ایمان ہے کہ قرآن جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا ہے خدا کی سچی کتاب ہے ۔ حل لغات : صد : روکنا ۔ النسآء
163 (ف ١) یعنی نفس نبوت اور مقام صداقت میں کوئی فرق نہیں حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر حضرت مسیح (علیہ السلام) تک اور حضرت مسیح (علیہ السلام) سے لے کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک سب نے ایک ہی منزل کی طرف لوگوں کو دعوت دی ہے ، پس وہ لوگ جو انصاف پسند ہیں ، انبیاء علیہم السلام ومذاہب کے نام پر انسانیت کو تقسیم نہیں کرتے ، بلکہ کوشش کرتے ہیں کہ سلسلہ حق وصداقت کی تمام کیوں کو مشترکہ مانا جائے ۔ النسآء
164 (ف ٢) مختلف انبیاء علیہم السلام کا ذکر کرکے اب یہ فرمایا ہے کہ تمام دنیا میں خدا کے پیغمبر (علیہ السلام) آئے ہیں اور ہر گوشہ ارض ان کے قدوم برکت لزوم سے مفتحز ہوا ہے اور یہ کوئی ضروری نہیں کہ قرآن حکیم میں سب انبیاء علیہم السلام کا نام بنام ذکر ہو پس یہ جان لیجئے کہ تمہیں انہیں پیغمبروں کے نام اور حالات بتائے گئے ہیں جن سے تمہارے کان آشنا ہیں ۔ النسآء
165 (ف ٣) اس آیت میں بتایا ہے کہ تمام نبی بشارت وڈرانے کا انداز لے کر آئے ہیں ، تاکہ ہر زمانہ میں لوگ براہ راست ان سے استفادہ کرسکیں اور یہ نہ کہہ سکیں کہ ہمارے پاس خدا کا کوئی پیغام ہدایت موجود نہیں ۔ حل لغات : اوحینا : وحی کے معنی اشارہ خفیہ کے ہیں ۔ اصطلاح قرآن میں چپکے سے کوئی بات دل میں ڈال دینا مراد ہے ۔ زبور : مطلقا کتاب کو کہتے ہیں ۔ حجۃ : دلیل ۔ عذر ۔ الزام ۔ النسآء
166 خدا اور فرشتوں کی گواہی : (ف ١) ان دو آیتوں میں قرآن حکیم کی عظمت واہمیت کی طرف توجہ دلائی ہے ، کہا ہے کہ خدا نے قرآن کے الہامی ہونے پر اعلی شہادتیں مرتب کی ہیں اور فرشتے بھی اس سچائی اور صداقت پر گواہ ہیں ، یعنی خدا نے جان بوجھ کر علی وجہ البصیرت قرآن حکیم کو نازل کای ہے اور تم اس میں بےشمار علمی خوارق دیکھ سکتے ، فرشتے بھی شاہد ہیں اور بےشمار علمی خوارق دیکھ سکتے ، فرشتے بھی شاہد ہیں اور یہی وجہ ہے ، فرشتوں نے ہمیشہ قرآن کی تائید کی ہے اور عین جنگ میں ان لوگوں کی حمایت کی ہے جو حامل قرآن ہیں پس وہ لوگ کہ جو اس صداقت مشہود کا انکار کرتے ہیں کھلی گمراہی میں مبتلا ہیں ۔ النسآء
167 النسآء
168 النسآء
169 النسآء
170 (ف ٢) اس آیت میں تمام لوگوں کو ایمان کی دعوت دی ہے کہ آؤ سب رسول برحق (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مان لیں کیونکہ انسانی فلاح وخیر اسی ایمان پر موقوف ہے ۔ (آیت) ” وان تکفروا فان للہ مافی السموت والارض “۔ سے مراد یہ ہے کہ مذہب کا تعلق تمہاری اصلاح ورہنمائی ہے ، ورنہ خدا کو ضرورت نہیں کہ تم ضرور اسے مانو ۔ کیونکہ آسمان کی بلندیاں اور زمین کی وسعتیں سب خدا کے قبضہ قدرت میں ہیں ، وہ بےنیاز ہے اسے ہماری عبادتوں اور ریاضتوں کی قطعا حاجت نہیں ۔ النسآء
171 تثلیث وتوحید : (ف ١) اس آیت میں بتایا ہے کہ تثلیث کا عقیدہ غیر معقول اور غیر منطقی عقیدہ ہے اور یہ نتیجہ ہے عقیدت ومحبت میں غلو اور مبالغہ کا ۔ مسیح (علیہ السلام) کی صحیح صحیح حیثیت یہ ہے کہ وہ ابن مریم علیہا السلام ہیں یعنی مریم علیہا السلام عذرا کے بیٹے اور کلمہ تکوین کا اثر کیونکہ آپ کی تخلیق خارق عادات کن فیکونی اختیارات سے ہوئی ہے ، (آیت) ” وروح منہ “ سے مراد تشریف وتفصیل ہے ، جیسے قرآن حکیم کے متعلق فرمایا (آیت) ” وروحا من امرنا “۔ (آیت) ” انتھوا خیرالکم “۔ سے مراد یہ ہے کہ عقیدۃ تثلیث بوقلمون مصائب کا پیشہ خیمہ ہے اس میں توحید ووھدت کا وہ پیغام نہیں جو عقیدہ ” لا الہ الا اللہ “ میاں ہے ۔ (آیت) ” انما اللہ الہ واحد “۔ کہہ کر اس حقیقت ثانیہ کی طرف توجہ دلائی ہے کہ عقل انسانی بجز توحید وتفرید کے کسی عقیدے کو سمجھنے سے قاصر ہے یعنی وجہ ہے ۔ اہل تثلیث آج تک کوئی متصفہ اور متبعین صورت تثلیث کی پیش نہیں کرسکے کبھی تثلیث کے معنی صفات ثلاثہ کے لئے جاتے ہیں اور کبھی ذات ثلاثہ کے ، پھر کبھی ملول واتحاد کا دعوی کیا جاتا ہے اور کبھی لعت ومنوت کا سبحانہ میں یہ باریک نکتہ مضمر ہے کہ خدا کا تصور صحیح اس درجہ پاکیزہ اور بلند ہے کہ کسی کثرت وتثلیث کی گنجائش نہیں رہتی ، یعنی خدا کے معنی ہی ایک بار صرف ایک ذات برحق کے ہیں ۔ حل لغات : لا تغلوا : مادہ غلوا ، بمعنی زیادتی اور مبالغہ ۔ الحق : صداقت : موافق آئین عقل ۔ انتھوا : مصدر ، انتہاء رک جانا ۔ النسآء
172 (ف ١) مقصد یہ ہے کہ بڑے سے بڑا مرتبہ ” عبودیت “ اور غلامی سے آگے نہیں بڑھتا مسیح (علیہ السلام) اور خدا کے تمام مقرب فرشتے اس کے حلقہ بگوش اور فرمانبردار ہیں ، سب اس کے جلال وجبروت کے سامنے خائف ولرزاں ہیں ، کسی کو مجال ادعاء نہیں ، سب یہ چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اس کی رضا ومحبت کو حاصل کیا جائے ، پس مسیح یا کسی دوسرے شخص کو سر پر لاہوت پر لا بٹھانا اس کے منصب الوہیت کی توہین ہے ۔ حل لغات : عبد ، غلام ، حلقہ بگوش ، فرماں بردار ۔ یستنکف : مصدر استنکاف ، انکار کرنا ۔ النسآء
173 النسآء
174 نور وبرہان : (ف ١) قرآن حکیم اور دیگر کتب مذہبی میں ایک ممتاز فرق یہ ہے کہ قرآن عقل ودانش کی مضبوط چٹان پر کھڑا ہے ، اس میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے منطق وفکر کے مطابق ہے دیگر کتب خطابت وسلسلہ کا مجموعہ ہے ان میں کہا گیا ہے کہ پہلے مانو ، پھر سمجھنے کی کوشش کرو ، مگر قرآن غور وفکر کے بحربیکراں میں کود پڑنے کی دعوت دیتا ہے ، وہ بار بار اعلان کرتا ہے ۔ (آیت) ” افلا یتدبرون القرآن “۔ یعنی قرآن جس نظام مذہب کو پیش کرتا ہے ‘ وہ فوق الفہم اساسات پر مبنی نہیں بلکہ مشاہدہ وتجربہ اس کے سب سے بڑے شاہد ہیں ، اس لئے آؤ اور عقل وخرد کی تمام طاقتوں سے مسلح ہو کر قرآن کے حقائق کو پرکھو ۔ النسآء
175 (ف ٢) اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو اس پیکر نور اور برہان نشان کتاب کو مانتے ہیں ، یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کی رحمتوں کے سزاوار ہیں اور جن کے لئے اللہ کی آغوش فضل واہے اور جو صراط مستقیم پر گامزن ہیں ، مگر یاد رہے کہ ایمان کے ساتھ اعتصام شرط ہے ، یعنی استقلال اور عزم کے ساتھ جوش عمل ۔ حل لغات : برھان : واضح دلیل ۔ کلالۃ : بوجھ مرد یا عورت جس کا وارث اصلی موجود نہ ہو یعنی جس کے ماں باپ یا اولاد نہ ہو ۔ النسآء
176 النسآء
0 سورۃ مائدہ : مدینہ میں نازل ہوئی ، بہت سے عظیم المرتبت مسائل پر حاوی ہے ، مائدہ کے معنی خوان نعمت کے ہیں ۔ بنی اسرائیل نے کہا تھا (آیت) ” انزل علینا مائدۃ “۔ اس لئے سورۃ کا نام ہی مائدہ ہوا یعنی یہ سورۃ اہل کتاب کی دنیوی ذہنیت کی آئینہ دار ہے ، اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح ان لوگوں نے ہمیشہ دنیا کو دین پر ترجیح دی ، ہے اور کیونکر ان کی تمام تگ ودوکام ودہن کی تواضع تک محدود رہی ہے ۔ المآئدہ
1 ایفائے عقد : (ف ١) قرآن حکیم نے دائما ایمان وعمل کے معنی یہ بتائے ہیں کہ ادخلوا فی السلم کآفۃ “۔ یعنی کاملا متعقدات واعمال کے لحاظ سے اسلام قبول کیا جائے ۔ اس آیت میں اسی حقیقت قیمہ کی طرف دعوت دی گئی ہے ۔ عقد کے معنی کسی مضبوط ذمہ داری کے ہیں جو انسانیت اخلاق عامہ اور خدا کی جانب سے مائد ہو مقصد یہ ہے کہ ہر فریضہ ووظیفہ کو ادا کیا جائے ۔ بات ایک ہے ، پیرایہ ہائے بیان مختلف ہیں ، کبھی فرمایا ۔ (آیت) ” اوفوا بعھد اللہ “ کبھی ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ولا تنقصوا ال ایمان “۔ اور کبھی کہا جاتا ہے ، (آیت) ” ان تؤدالامنت الی اھلھا “۔ یعنی مختلف طریقوں اور راہوں سے بتانا یہ مقصود ہے کہ دنیا ومذہبی ضرورتوں اور ذمہ داریوں کو محسوس کرو ، یہی احساس ذمہ داری اللہ کا عہد ہے اور یمین اور اسی کا دوسرا نام امانت ہے ، کیونکہ جذبہ واطاعت وانقیاد دراصل اللہ کی گرانقدر ودیعت ہے جو حضرت انسان کو بطور امانت عطا کی گئی ہے ۔ (ف ١) اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ تمام چارپائے باستثناء محرمات حلال وطیب ہیں ، ان کے استعمال میں مضائقہ نہیں فلسفہ ، تحلیل وتحریم کی بحث مفصل گزر چکی ہے ، تفصیل کے لئے دیکھو اوراق گزشتہ ۔ (آیت) ” بھیمۃ الانعام “۔ میں اضافت بیانیہ ہے ، جیسے خاتم فضۃ ۔ امام المفسرین حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں اس سے مراد وہ جانور ہیں جو جنین ہیں اور اند الذبح مادہ کے پیٹ سے برآمد ہوتے ہیں ۔ (آیت) ” وانتم حرم “۔ دونوں صورتوں کو شامل ہے ، اس صورت کو بھی کہ آپ احرام باندھے ہوئے ہوں اور اس صورت کو بھی کہ آپ حدود حرم میں ہوں ۔ حل لغات : عقود : جمع عقد ، گانٹھ ۔ بھیمۃ : حیوان لایعقل ، ابہام واستبہام اسی سے ماخوذ ہے ۔ انعام : جمع نعم ، بمعنی چارپائے جیسے اونٹ گائے وغیرہ یا وہ جانور جو عام طور پر بطور نعمت کے خیال کئے جاتے ہیں اور پالے جاتے ہیں ۔ المآئدہ
2 (ف ٢) اس آیت میں شعائر اللہ کی تفصیل بیان کی ہے یعنی ارض حرم میں ہر نوع کی تکلیف وضرار ممنوع ہے ، اس لئے اگر شکار کی ضرورت محسوس ہو تو اس وقت جائز ہے جب فرائض حج سے فارغ ہوجاؤ ۔ (آیت) ” یبتغون فضلا من ربھم ورضوانا “۔ سے مراد حجاج بیت اللہ ہیں ، کیونکہ ان کے مقاصد میں اتنہا درجے کی وسعت ہوتی ہے وہ جہاں خدا کی رضا ومحبت حاصل کرنے کے لئے ارض بابرکت کا سفر اختیار کرتے ہیں وہاں مال ودولت کا حصول بھی ان کے پیش نظر ہوتا ہے ۔ کسب وتجارت کو فضل سے تعبیر کرنا زبردست ترغیب ہے کہ مسلمان اس کو حاصل کرنے میں ازحد کوشاں رہیں ، حتی کہ عین اس زمانے میں جب وہ مناسک حج ادا کر رہے ہوں ‘ تجارت وتمول کے اسباب پر غور کریں ۔ انتہائی تصفت شعاری : (ف ١) مسلمان جب تک مکے میں رہے ‘ بیت اللہ کے تمامتر اختیارات مشرکین مکہ کے ہاتھ میں رہے اور وہ اجازت نہیں دیتے تھے کہ خدا کے فرمانبردار بندے اس کے اس مقام جلیل میں اکٹھا ہو کر اس کا نام بلند کریں ، ہجرت کے بعد بھی مسلمانوں کو ایک دفعہ مقام حدیبہ پر روک دیا گیا اور اجازت نہ دی گئی کہ وہ مناسک حج کو پوری آزادی سے ادا کرسکیں ، مگر جب مکہ دس ہزار قدوسیوں کے ہاتھ فتح ہوچکا اور مسلمان پوری آزادی سے حج بیت اللہ کو روانہ ہوئے تو انہیں تلقین کی گئی کہ تم ان کو گزشتہ عداتوں اور دشمنیوں کے سبب زیارت وعبادت سے نہ روکنا کیونکہ تمہارا مشن تصفت شعاری اور عدل گستری ہے ۔ حل لغات : شنان : دلی بغض ۔ المآئدہ
3 (ف ٢) ان آیات میں حرام اشیاء کا تذکرہ ہے تفصیل گزشتہ اوراق میں گزر چکی ہے ، خون اس لئے حرام ہے کہ ذوق سلیم اسے گوارا نہیں کرتا ، نیز وحشت وبربریت پیدا کرتا ہے اور مضر صحت بھی ہے سؤر ندارد مہیج اور بداخلاقی کا موجب ہے نیز اس سے ایک مرض تشحم پیدا ہوتا ہے جس سے عام طور پر فوری موت واقع ہوجاتی ہے ، (آیت) ” وما اھل بہ لغیر اللہ “ سے نظام شرک کی تائید ہوتی ہے ۔ منخنقہ اور موقوذہ وغیرہ میں خون اچھی طرح سے نہیں بہتا ۔ شرک کے تھان اور جوئے کے تیروں سے متعلقہ گوشت چونکہ قمار بازی اور شرک کی تائید ہے اس لئے ممنوع ہے ، غرضیکہ تمام حرام چیزیں صرف تعبدی طور پر ہی حرام نہیں ، بلکہ خاص خاص وجوہ کی بنا پر حرام ہیں ۔ تین خوشخبریاں !: (ف ١) اس آیت میں تین شاندار بشارتیں ہیں ، تکمیل دین کی بشارت اتمام نعمت کی بشارت اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رضائے الہی کے حصول کی بشارت : یعنی اسلام بہمہ وجوہ کامل ہے نبوت وحی کی نعمتیں بشکل اتم حاصل ہیں اور خدا خوش ہے کہ تم مسلمان ہو ۔ اس آیت کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ جب تک اسلام موجود ہے ، کتاب وسنت کے اوراق ہمارے لئے رہنما ہیں ، ہیں رضائے الہی کے حصول کے لئے کسی جدید نبوت وتشریح کی ضرورت نہیں ۔ حل لغات : المنخنقۃ : مادہ خنق ، گلا گھونٹنا ۔ الموقوذہ : مادہ وقذ ، چوٹ وضرب ۔ المتردیۃ : مادہ تردی ، معنے گرنا ، النصب : جمع نصبۃ ، تھان ۔ المآئدہ
4 شکار : (ف ٢) مقصد یہ ہے ہر پاکیزہ چیز جو ذوق سلیم پر گراں نہ گزرے اور اخلاقی وبدنی مضرتوں سے خالی ہو ۔ حلال ہے ، (آیت) ” مما علمکم اللہ “ کہہ کر شکار کی فضیلت بیان کی ہے ۔ (آیت) ” واتقوا اللہ “ سے مراد یہ ہے کہ شکار بلا ضرورت مستحسن نہیں کیونکہ اس سے قساوت قلبی کے پیدا ہونے کا اندیشہ نہیں کیونکہ اس سے قساوت قلبی کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہے ، یوں حاجت وضرورت کے مطابق بہترین ورزش ہے جس سے حوصلہ وجرات کے جذبات پیدا ہوتے ہیں صحابہ (رض) عنہم اجمعین میں متعدد لوگ شکار سے ذوق رکھتے تھے ، عدی بن حاتم (رض) کو جو ایک مشہور شکاری ہیں ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں :۔ ” جب کتے کو شکار کے لئے دوڑاؤ تو بسم اللہ کہہ لو ، اگر وہ صحیح سلامت تم تک شکار لے آئے تو ذبح کرلو اگر مجروح ہو تو دیکھ لو کہ راستے میں اس نے اس میں سے کچھ کھایا تو نہیں ، اگر کھاچکاہو تو پھر تم نہ کھاؤ اور اگر نہ کھایا ہو تو وہ تمہارے لئے حلال ہے ، بلاخرخشہ کھاؤ ۔ “ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ضرورتا کتوں کو رکھنا جائز ہے ۔ حل لغات : مخمصۃ : بھوک ۔ الجوارح : ہر شکاری جانور ۔ المآئدہ
5 (ف ١) طعام سے مراد ذبیحہ ہے کیونکہ عام کھانا اگر پاکیزہ برتنوں میں پکایا جائے تو بہرحال حلال ہے ۔ مطلب یہ ہے اہل کتاب میں اور تم میں بتائن نہ رہنا چاہئے اور حتی الوسع کوشش کرنی چاہئے کہ تم اور وہ لوگ جن میں اکثر باتیں مشرک ہیں مل جل کر رو ، تاکہ باہمی موانست سے وہ اسلام کی برکات سے واقف ہوں اور اختلاف قطعی ختم ہوجائے ، اہل کتاب کی عورتوں سے ازدواجی تعلقات رکھنا بھی درست ہے کیونکہ بہت سی باتوں میں اصولا وہ ہمارے ساتھ ہیں اور اکثر روایات وتہذیب میں کوئی وجہ اختلاف نہیں حشر ونشر کو وہ مانتے ہیں فرشتوں کو تسلیم کرتے ہیں انبیاء ان کے اور ہمارے قریبا مشترک ہیں ، توحید کے بھی قائل ہو سکتے ہیں ، کیونکہ ان کی کتابوں میں بھی سوائے ایک ذات کی پرستش کے کسی کا ذکر نہیں اور یہی وہ چیزیں ہیں جو اتحاد خیال کو پیدا کرتی ہیں اور جن کی وجہ سے ازدواجی تعلقات میں عملا کوئی دشواری پیدا نہیں ہوتی ۔ اسلام کی غرض وغایت یہ ہے کہ مسلمان ہر ممکن طریق سے کفر کو اپنے قریب لانے کی کوشش کرے اور دنیا کو بتائے کہ وہ اختلاف دین کو محض اختلافات رائے کا درجہ دیتا ہے اور اس کے نزدیک عقیدہ کا اختلاف بغض وعناد کا ہرگز باعث نہیں ۔ حل لغات : المحصنت : پاک دامن عورتیں ۔ المآئدہ
6 ٹخنوں تک : (ف ١) وضو کی تفصیلات اس لئے بیان کی ہیں کہ سابقہ مذاہب میں عبادت کے لئے یہ طریق نظافت مذکور نہیں ، وضو سے جس طرح میں بالیدگی اور ایک خاص نوع کی روحانی مسرت محسوس ہوتی ہے یہ مقتضی تھی کہ اسے شرط عبادت قرار دیا جائے ، پانچ وقت وضو کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان حد سے زیادہ پاک اور ستھرا رہنے پر مجبور ہے ۔ اعضاء ظاہر کے ہر وقت پاک رہنے سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جراثیم اثر نہیں کرتے ۔ شرط عبادت اس لئے قرار دیا ، تاکہ طبیعت میں ایک خاص قسم کی آمادگی پیدا ہوجائے اور مسلمان ظاہر وباطن کے ساتھ خدا کے سامنے جھک جائے ، وضو کے مسائل میں اہم اختلاف یہ ہے پاؤں دھوئے جائیں یا ان پر مسح کیا جائے ، ۔ اصحاب امامیہ مسح کے قائل ہیں اور جمہور علماء غسل کے ، بات یہ ہے کہ ” ارجلکم “ کا لفظ محل نزاع ہے ، حضرات تشیع اسے ” فامسحوا “ کے ماتحت خیال کرتے ہیں اور جمہور علماء ” فاغسلوا “ کے ، دونوں کے دلائل کتب تفسیر میں مذکور ہیں اور دونوں محل نظر وبحث ۔ قرآن حکیم کا انداز بیان اہل السنت کی تائید میں ہے کیونکہ (آیت) ” الی الکعبین “ ٹخنوں کی تقلید مسح کی صورت میں بالکل مہمل ہوجاتی ہے یہی وجہ ہے کہ (آیت) ” وامسحوا برء وسکم “ میں الی القفاء وغیرہ کی کوئی قید مذکور نہیں ، کیونکہ مسح میں صحیح تعین اکثر دشوار ہوتی ہے ۔ البتہ یہ محل غور ہے کہ ” ارجلکم “ کو خواہ مخواہ کیوں ” وامسحوا “ کے سیاق میں ذکر کیا ۔ غالبا اس کی دو وجہ ہیں ، ایک تو یہ کہ عبادت کی موسیقی قائم رہے اور قرآن حکیم کے مخصوص ترنم میں فرق نہ آئے ۔ اور یایہ کہ پاؤں دھونے میں زیادہ اہتمام نہ کیا جائے اور پاؤں کا غسل بمنزلہ مسح کے ہو ، عام طور پر عادت یہ ہے کہ لوگ پاؤں دھونے میں زیادہ اسراف سے کام لیتے ہیں ۔ (ف ١) تیمم کا ذکر ہے اور بات کو اسلام میں تکلف وتخرج قطعا موجود نہیں ، تفصیل کے لئے دیکھو اوراق گزشتہ ۔ حل لغات : المرافق : کہنیاں ۔ جنب : ناپاک ناپاک ۔ جنبی الغائط : جائے ضرور ۔ المآئدہ
7 المآئدہ
8 (ف ٢) ان آیات میں احصائے نعمت کے بعد مسلمانوں کو تلقین کی ہے کہ وہ اللہ کے فرمانبردار بندے بنے رہیں اور یہ کہ کسی حالت میں بھی عدل وانصاف کو ہاتھ سے نہ دیں ۔ حل لغات : شنان : بغض وعداوت : المآئدہ
9 المآئدہ
10 (ف ١) ان آیات کفر و ایمان کے مال کی طرف توجہ دلائی ہے کہ مومن ” اجر عظیم “ اور مغفرت وبخشش کا مستحق ہے اور کافر ومنکر دوزخ و جہنم کا ، اس لئے کہ دنیا میں مومن نے اپنے اعمال سے اور ایمان مستحکم سے ہمیشہ حصول جنت کی کوشش کی ہے اور کافر تکذیب وانکار کی وجہ سے آتشکدہ جحیم کے قریب ہوتا گیا ہے پس یہ ضرور تھا کہ آخرت میں یہ تفاوت راہ بین اور متمائز ہو ۔ بات یہ ہے کہ ایمان وعمل صالح مرد مومن میں ایک زبردست قوت حیات پیدا کردیتے ہیں جس کی وجہ سے اس کی آخروی زندگی کامیابی وکامرانی سے گزرتی ہے اور کفر انکار چونکہ نام ہے مقدان عیش کے اسباب موجہ کا ، اس لئے لازما دوزخ و جہنم کی زندگی ہی کافر کے لئے سزاوار ہے ۔ حل لغات : یبسطوا الیکم : بسط اللہ یدہ کے معنی دراز دستی کے ہیں ۔ المآئدہ
11 توکل کی حیران کن قوت تاثیر : (ف ١) مسلمان جب تک مسلمان رہیں اور خدا پر زبردست اعتماد رکھیں ، غیب سے ان کی اعانت کی جاتی ہے اور قدرت اپنے سارے انتظام کے ساتھ ان کی مدد پرکمر بستہ ہوجاتی ہے ۔ کفار نے ہمیشہ کوشش کی کہ اسلام کے چراغ ہدایت کو بجھا دے ، مگر اللہ نے اس کی روشنی کو اور زیادہ پرانوار بنا دیا ۔ بنی نضیر کے یہودیوں نے ایک دفعہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ (رض) عنہم اجمعین کو فریب سے مار ڈالنا چاہا ، مگر آپ پیغمبرانہ فراست سے معاملہ کی اصلیت کو پاگئے اور بچ گئے ، مقام عسفان میں ایک دفعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وظیفہ نماز میں مشغول تھے کہ اہل شرک کے تیور بدلے مگر اس وقت بھی تدبیر الہی نے ان کو ناکام رکھا ، غزوہ ذات الرقاع سے واپسی کے وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک درخت کے نیچے سستانے کے لئے بیٹھے تھے کہ جھپکی آگئی ، غورث بن حارث وہاں تھا ، اٹھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تلوار ہاتھ میں لے لی ، کہنے لگا کہیئے اس وقت کون بچائے گا ؟ آپ نے فرمایا ” اللہ “ ۔ اس زبردست ایمان وتوکل کو دیکھ کر گھبرا گیا ، کیونکہ ایسے اضطراب کے وقت ضبط نفس کی اس سے بہتر مثال پیش کرنا ناممکن ہے غرضے کہ ایمان وتوکل کی قوتیں بےپناہ ہیں مگر شرط یہ ہے کہ ایمان وتوکل جمود وبے عملی کا خاکہ نہ ہو ، بلکہ نام ہو زندگی اور حیات دائمی کا ۔ المآئدہ
12 (ف ٢) اس آیت میں اسی حقیقت کا اعادہ ہے کہ بنی اسرائیل کے تمام گروہوں سے نصرت واعانت کا وعدہ تھا بشرطیکہ وہ دین قیم کی اطاعت اختیار کریں اور ایمان وعمل کی سیدھی راہ سے بھٹک نہ جائیں ۔ حل لغات : نقیب : صاحب اسرار سردار ، قوم میں ذمہ دار آدمی ۔ وعزرتموھم : مادہ تعزیر ، تائید کرنا ، اور قوت بازو رہنا ۔ المآئدہ
13 (ف ١) یہودیوں کے مسلسل تمردوطغیان کی وجہ سے دلوں میں بےحسی اور مداہنت کے جذبات پیدا ہوگئے جنہیں قرآن (آیت) ” وجعلنا قلوبھم قاسیۃ “۔ کے الفاظ سے تعبیر کرتا ہے نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے احباء وعلماء نے بےدریغ تورات وصحف انبیاء کو بدلنا شروع کیا اور کوشش کی کہ احکام ونواہی کو حسب اغراض ڈھال لیا جائے (آیت) ” لا تزال تطلع علی خآئنۃ “ کے معنی یہ ہیں کہ عہد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ایسے لوگ موجود تھے جو دیانت داری کے ساتھ تورات میں خیانت کا ارتکاب کرتے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ اس دین کی عظیم خدمت بجا لا رہے ہیں ۔ (آیت) ” فاعف عنھم واصفح “ ۔ سے مراد یہ ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ پیکر عفو ورحم ہیں ، اس لئے باوجود ان کی غداریوں اور افتراپردازیوں کے ہمیشہ اغماض وچشم پوشی سے کام لیتے ہیں ۔ تحریف بائیبل کے متعلق علماء کا اختلاف ہے کہ معنوی ہے یا لفظی ، بعض معنوی کے قائل ہیں ، کیونکہ ان کے نزدیک انتہائی بدعملی کے باوجود بھی کتابیں نہیں بدلی جا سکتیں البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ تاویلات فاسدہ سے کتاب کی اصل روح کو تبدیل کردیا جائے ۔ مگر صحیح بات یہ ہے کہ معنوی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ یہ تبدیلیاں بھی موجودہ تورات میں موجود ہیں اور اس کے کئی اسباب ہیں : ١۔ بائیبل کی زبان کا زندہ نہ رہنا ۔ ٢۔ یہود کی تباہیاں ۔ ٣۔ بخت نصر کا تمام صحف انبیاء کو سپرد آتش کردینا ۔ ٤۔ ہمہ گیر جہالت ۔ اور ان سب اسباب کو قرآن حکیم کے جامع الفاظ میں قساوت قلبی سے تعبیر کرسکتے ہیں کیونکہ جب تک دلوں میں مذہبی حس موجود ہے ، کتاب سینوں میں محفوظ رہتی ہے ، اس کی زبان زندہ ہے اور کوئی عنصر اسے تباہ کرنے پر قادر نہیں ہو سکتا ۔ حل لغات : خآئنۃ : خیانت یا خائن گروہ ۔ المآئدہ
14 اغراء عداوت : (ف ١) عیسائی بھی یہودیوں کی طرح اصل پیغام کو چھوڑ بیٹھے اور لاطائل بت پرستانہ مسائل میں الجھ گئے اور مذہب یہ قرار دیا کہ یہودیوں کی مخالفت کی جائے نتیجہ یہ ہوا کہ یہودی بھی عیسائیوں کے خلاف دل میں کینہ اور بغض رکھنے لگے ۔ قرآن کریم نے اس آویزش کا نام اغراء عداوت وبغض رکھا ہے ۔ (آیت) ” الی یوم القیمۃ “ ۔ سے مراد یہ نہیں کہ یہ دونوں قیامت تک باقی بھی رہیں گے بلکہ مدت سے کنایہ ہے کیونکہ (آیت) ” لیظھرہ علی الدین کلہ “ کے ماتحت ایک وقت آئے گا جب کہ اسلام کی عالم افروزروشنی ساری دنیا کو جگمگا دے گی ۔ المآئدہ
15 المآئدہ
16 روشنی کا لیمپ : (ف ٢) اس آیت میں بتایا ہے کہ قرآن روشنی کا لیمپ ہے جو جہل وتعصب کی تاریکیوں سے نکلتا ہے اور علم ورواداری کی پر نور وادیوں میں جگہ دیتا ہے یہی وہ روشنی ہے جو صراط مستقیم کی طرف ہماری رہنمائی کرتی ہے اور یہی وہ پیغام ہے جس کی لمعانی سے دل کے تمام اندھیرے کافور ہوجاتے ہیں ۔ حل لغات : البغضآء : دشمنی ۔ سبل : جمع سبیل ۔ راہ ۔ المآئدہ
17 (ف ١) مقصد یہ ہے کہ مسیح ابن مریم علیہا السلام کو اقنوم اور خدا ماننا نرا وہم اور کفر ہے کوئی سمجھ دار انسان اس عقیدے کو قبول نہیں کرسکتا ، کیونکہ خدا ساری دنیا کا مالک ہے ، چاہے تو چشم زدن میں مسیح (علیہ السلام) اور مسیح (علیہ السلام) کے ماننے والے تمام لوگوں کو تباہ کر دے اس کی شان جلالی کے سامنے کون ہے جواب کشائی کرسکے ۔ کیا اس کے بنائے ہوئے قانون ہمہ گیر نہیں ؟ کیا یہ درست نہیں کہ مسیح (علیہ السلام) بھی باوجود دعوئے پیغمبری ومصطفائی کے اس کے بنائے ہوئے تمام قاعدوں کا پابند ہے ، جو مسیح (علیہ السلام) ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے کھاتا اور پیتا ہے اور سارے حوائج بشری سے متصف ہے اور جو ہمہ احتیاج ہے وہ بےنیاز کیسے ہو سکتا ہے ؟ اسے رب اور اقنوم اول کیونکر کہا جائے ۔ بات یہ ہے کہ عقیدت ونیاز مندی میں غلو کی وجہ سے لوگوں نے مسیح (علیہ السلام) کو خدا کا شریک وسہیم قرار دیا ورنہ وہ خود ہمیشہ ” عبودیت “ اور ” غلامی “ پر ہی نازاں رہے ۔ دوسری صدی مسیحی تک لوگ توحید کے قائل رہے ۔ تیسری صدی مسیحی ہیں جب قسطنطین اعظم بعض سیاسی مصالح کی بنا پر عیسائی ہوگیا تو رومی علم اوصنام کے شیوع کے باعث عیسائی لٹریچر میں تثلیث واقانیم کی بحثیں آنے لگیں اور پھر آہستہ آہستہ تثلیث کو مذہبی عقیدہ قرار دے دیا گیا ۔ المآئدہ
18 (ف ٢) ان آیات میں یہودونصاری کے پندار مذہبی کا ذکر ہے کہ وہ اپنے آپ کو خدا کے نہایت مقرب خیال کرتے ۔ اور اس وجہ سے اسلام کی برکات سے تمتع اندوز ہونے سے قاصر رہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں تم ہرگز کوئی امتیازی شان نہیں رکھتے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا جہان کی ذلتیں تمہارے شامل حال ہیں ، خدا کا تقرب علو عظمت کا مترادف ہے ، یہ ناممکن ہے کہ کوئی قوم خدا کے ہاں معزز ہو اور پھر دنیا میں اس کے لئے کوئی نعمت نہ ہو اور وہ حقارت وغلامی کی زندگی بسر کرے ۔ حل لغات : ابنآء اللہ ۔ خدا کے بیٹے ۔ احبآؤہ : اسکے دوست ۔ المآئدہ
19 (ف ١) فترۃ کے معنی السکون بعد الحدۃ کے ہیں ، یعنی مسیح (علیہ السلام) تک دمادم رسو آتے رہے اور تقریبا ساڑھے چھ سو سال تک پھر کسی کو خلعت بعثت سے نہیں نوازا گیا ، مقصد یہ تھا کہ عالم انسانیت پر پوری تاریکی چھا جائے اور لوگ بےچینی اور اضطراب کے ساتھ اس آفتاب نبوت کا انتظار کریں جو ایک دم آکر کفر وحبل کی تاریکیوں کو روشنی ونور سے بدل دے ۔ المآئدہ
20 نبوت اور بادشاہت : (ف ٢) یہ واقعہ اس لئے بیان کیا ہے تاکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم ہو کہ بنی اسرائیل ہمیشہ سے بزدل اور دون ہمت ہیں ۔ ان کی طرف سے اگر گرمجوشی کا اظہار نہیں ہوا تو مضائقہ نہیں آپ بدستور دعوت وتبلیغ کے فرائض ادا کئے جائیں ۔ اس آیت میں بتایا ہے کہ نبوت وبادشاہت اللہ کے زبردست انعام ہیں جن سے بنی اسرائیل کو افتخار بخشا گیا ، مگر یہ ہیں کہ پستی اور ذلت پر قانع ہیں ، حرکت واقدام کی صلاحیتیں قطعا مفقود ہیں اور نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ کے فیوض وبرکات سے استفادہ کریں ۔ نبوت کا مقصد دراصل دنیا میں صحیح اور عادلانہ بادشاہت کا قیام ہے ، ایک نبی کے فرائض میں داخل ہے کہ وہ افراد واشخاص کی تمام مخفی طاقتوں کو روبکار لائے اور انہیں اس قابل بنا دے کہ وہ دنیا میں ٹھاٹھ اور پاکیزگی کی زندگی بسر کرسکیں ۔ حل لغات : فترۃ : انقطاع : انبیآء : جمع نبی ۔ المآئدہ
21 (ف ١) اس آیت میں موسیٰ (علیہ السلام) نے قوم کو دعوت جہاد دی اور فرمایا کہ اگر خزاں وناکامی سے بچنا چاہتے ہو تو مقام رایما میں بےدریغ داخل ہوجاؤ ، مقصود یہ تھا کہ قوم میں بادشاہت وملوکیت کے جذبات پیدا ہوں اور وہ حاکمانہ زندگی بسر کرنا سکھیں ، (آیت) ” کتب اللہ لکم ُ“ سے مراد فرضیت جہاد ہے ، وعدہ نہیں ۔ المآئدہ
22 (ف ٢) بنی اسرائیل چونکہ کئی سال تک غلام رہے تھے اس لئے تاب مقاومت جاتی رہی تھی ، جب انہوں نے دیکھا کہ رایما کے رہنے والے ہم سے زیادہ زور آور اور قوی ہیں تو لڑنے سے انکار کردیا ۔ بات یہ ہے کہ غلامی کے اثرات دیر تک قوموں اور نسلوں کو متالم بنائے رکھتے ہیں اور عرصہ تک احساس آزادی بیدار نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ باوجود موسیٰ (علیہ السلام) کی ترغیب وترتیب کے ان میں جرات اقدام پیدا نہیں ہوئی ۔ المآئدہ
23 (ف ٣) یوشع بن نون اور کالب بن یوحنا صرف یہ دو آدمی تھے جو مجاہدانہ ولولوں کے ساتھ میدان جنگ میں آکودے ۔ (آیت) ” وعلی اللہ فتوکلوا “ سے مراد یہ ہے کہ خدا پر پورا بھروسہ اور اعتماد مترادف ہے جذبہ جہاد کے وہ لوگ جو کفر کے خلاف توکلا علی اللہ “ صف آراء ہوجاتے ہیں ‘ وہی لوگ غلبہ ونصرت سے دوچار ہوتے ہیں اور وہ جو قلت وکثرت اسلحہ وسامان کے جھگڑوں میں مصروف رہتے ہیں ان کے لئے کامیابی کا کوئی امکان نہیں ۔ حل لغات : ملوک : جمع ملک بمعنی بادشاہ ۔ صاحب اختیار ۔ جبارین : جمع جبار ۔ زبردست ، توانا اور قوی ۔ الباب : شہر کا دروازہ ۔ المآئدہ
24 (ف ١) بدبختی اور شقاوت کی یہ انتہائی مثال ہے کہ قوم اس رکھائی سے خدا کے پیغمبر (علیہ السلام) کو جواب دیتی ہے ان کو معلوم ہونا چاہئے تھا کہ خدا اپنے فرستادوں کو ذلت ورسوائی سے کبھی دوچار نہیں ہونے دیتا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کی دعوت وشمولیت کے معنی یہ تھے کہ بنی اسرائیل قید غلامی سے نکل کر اوج حکومت پر جلوہ آراء ہوجائیں ، مگر وہ لوگ جو ذلت وحقارت کی تمام منزلیں طے کرچکے ہوں کہاں اس درجہ فریس ودانا ہو سکتے ہیں ۔ بات یہ ہے کہ غلامی جرات وجسارت ہی کو غارت نہیں کرتی عقل وہوش کو بھی مٹادیتی ہے ۔ المآئدہ
25 المآئدہ
26 (ف ٢) آزادی وحکومت کے مواقع سے ایک لمحہ غفلت بعض دفعہ برسوں تک کی مسلسل غلامی پر منتج ہوتی ہے بنی اسرائیل نے جب جہاد سے انکار کیا تو انہیں آبادیوں میں سے دور جنگل میں چالیس سال کے لئے حیران وسرگردان چھوڑ دیا گیا تاکہ انکار وتمرد کی تلخیاں برداشت کریں اور یہ محسوس کریں کہ حکومت واختیار خدا کی زبردست نعمت ہے اور نیز یہ کہ اس طویل عرصے میں بیکار اور مردہ صفت لوگ مٹ مٹا جائیں گے اور آئیندہ نئی نسل مجاہد اور جفاکش پیدا ہو گویا چالیس برس کسی قوم کی ٹرینگ اور تربیت کے لئے ہیں جو بالکل مردہ ہوچکی ہو اس کے بعد ان سے توقع کی جا سکتی ہے کہ پامردی سے جہاد میں حصہ لیں گے ، حل لغات : یتیھون : مادہ تیہ ، حیرانی وسرگردانی ۔ قربان : نیاز ، ہر وہ عبادت جو انسان کو خدا کے قریب کر دے ۔ المآئدہ
27 پہلا انتقام : (ف ١) حسد وبغض پرانا جذبہ ہے ، قابیل نے جب دیکھا کہ اس کی قربانی خدا کے حضور میں مقبول نہیں ہوئی تو مارے غصے کے بےتاب ہوگیا ، کہنے لگا میں تمہیں ضرور قتل کر دوں گا ، ہابیل نے کہا ، اگر چاہتے ہو کہ تمہاری عبادتیں اور نیازیں اللہ کے ہاں قبول ہوں تو اخلاص وتقوی پیدا کرو ۔ المآئدہ
28 عدم تشدد : (ف ٢) ہابیل نے جب دیکھا کہ تیور اچھے نہیں تو پورے تقوی واستقلال سے کہا کہ دیکھو میں تم پر ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا اور کوشش کروں گا کہ تمہیں ظلم وسفاکی کا موقع دوں ۔ بات یہ تھی کہ ہابیل جہاں ایک متقی انسان تھا وہاں اس کے دل میں اخوت وبرادری کے جذبات بھی موجزن تھے ، وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کے ہاتھ بھائی کے خون سے آلود ہوں (آیت) ” لاقتلنک “۔ سے مراد یہ ہے کہ ہابیل نے مدافعت تو کی مگر نقصان نہیں پہنچایا ، کیونکہ ایسا عدم تشدد جس میں ظلم کے خلاف کوئی مدافعانہ کوشش نہ کی جائے اسلام میں جائز نہیں ۔ حل لغات : بسطت الی یدک : دست درازی کرنا ہاتھ اٹھانا ۔ المآئدہ
29 المآئدہ
30 المآئدہ
31 سنت تدفین : (ف ١) اسلام چونکہ دین فطرت اور خالص حق سے اس لئے ضروری ہے کہ اس کی ہر بات عدل کے ترازو میں تل کر نکلے اصول سے لے کر فروع تک ہر چیز میں ایک قدرتی نکھار ہو اور کوئی حصہ مذہب ایسا نہ ہو جسے انانی دماغ کا کرشمہ واختراع کہا جا سکے ، مردوں کے متعلق قدیم سے مختلف زاویہ ہائے نگاہ رہے ہیں ، قدیم مصری لاشوں کو مخفی کر کے خواب گاہوں میں بحفاظت تام رکھتے تھے ہندوؤں کا خیال ہے کہ لاش کو گھی وغیرہ ڈال کر جلا دیا جائے ، اسلام اس باب میں بالکل سادہ اور فطری طریق اختیار کرتا ہے یعنی تدفین ، کوے کا قصہ اس لئے بیان کیا ہے تاکہ ابن آدم کا ذہن فورا تدفین کی طرف منتقل ہو سکے چنانچہ یہی ہوا ۔ المآئدہ
32 (ف ٢) (آیت) ” من اجل ذلک “ سے یہ مراد ہے کہ جب ابن آدم حسد وبغض کے جذبات سے متاثر ہو کر اپنے سگے بھائی کو موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے تو عام انسانوں کے لئے اس نوع کے اقدام میں کوئی باک نہ ہوگا ۔ لہذا ضروری ہے کہ انہیں اس کی اہمیت جتا دی جائے ، چنانچہ ارشاد ہے کہ انسان کے خون کی قیمت نہایت گراں اور پیش بہا ہے ایک فرد کو قتل کرنا پوری قوم وامت کے قتل کے مترادف ہے اور اسی طرح کسی شخص کو مہلکات سے بچانا پوری ملت کو بچانا ہے ۔ (ف ٣) (آیت) ” ولقد جآء تھم رسلنا “۔ سے یہودیوں کی مذمت مقصود ہے کہ یہ لوگ باوجود انبیاء کی زبان فیض التیام سے امن وعافیت کے برکات سننے کے اور باوجود قتل وسفک کے خلاف تعلیمات سے آگاہ ہونے کے پھر بھی اہل حق وصداقت سے الجھتے ہیں اور اسراف وظلم کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ حل لغات : یبحث : مادہ بحث ، کریدنا تلاش کرنا ۔ یواری ، مصدرمواراۃ ، چھپانا ، سوء ۃ : امام راغب فرماتے ہیں : وکنی بہ سوءۃ عن الفرح کما قال بدت لھما سواتھما لیبدی لھما مادوی عنھما سواتھما ۔ احیائ: مصدر احیاء زندہ کرنا اور زندہ رکھنا اور بچانا ۔ المآئدہ
33 (ف ١) اس آیت سے پہلے انفرادی قتل واقدام کی مذمت کی تھی اب یہ بتایا ہے کہ یہی جذبہ عصیان اگر فساد فی الارض کی صورت اختیار کرے اور لوگ دین قدیم کی مخالفت کے جوش میں امن وعافیت کے تمام طریقے چھوڑ دیں اور فتنہ وہلاکت کی آگ لگا دیں تو ضروری ہے کہ امام یا ہیئت حاکمہ انہیں سخت سے سخت سزا دے ، چاہے قتل کردے ، چاہے سولی پر چڑھا دے ، چاہے ہاتھ پاؤں آڑے ترچھے کاٹ دے ، اور چاہے ملک بدر کر دے ، اسے اختیار ہے کہ حالات وظروف کے ماتحت انہیں موزوں سزا دے ، المآئدہ
34 (ف ٢) مقصد یہ ہے کہ مجرم اگر عدالت سے پہلے پہلے گناہ سے تائب ہوجائے تو مواخذہ نہیں یعنی ہر گناہ کے بعد توبہ وانابت کے دروازے کھلے ہیں ۔ المآئدہ
35 وسیلہ کیا ہے : (ف ٣) اس آیت میں دعوت اتقاء ہے مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ تم تمام کے تمام متقی اور خدا ترس بن جاؤ اور خدا کے ہاں تقرب وتزلف کے تمام وسائل ڈھونڈو اور کوشش کرو کہ تمہیں اس کے حریم قدس تک رسائی ہوجائے اور وہ تمہیں اپنا پیارا اور محبوب بنا لے ، مگر سوال یہ ہے کہ وہ وسائل وذرائع کیا ہیں جو اس بارگاہ جلال تک ہم گنہ گاروں کو پہنچا دیں اور جن کے حصول کے بعد ابدی حیات اور زندگی جاوید عطا ہو ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر وہ سعی واقدام جو اعلاء حق کے لئے روبراء آئے اور بالخصوص جہاد فی سبیل اللہ کہ اس کے بعد خدا کی رضا کے دروازے از خود کھل جاتے ہیں ۔ حل لغات : مسرفون : مصدر اسراف ، زیادتی کرنا ۔ حدود جائزہ سے تجاوز کرنا ۔ الوسیلۃ : ہر وہ چیز جو تقرب میں آگے بڑھا دے یعنی تمام اعمال حسنہ ۔ المآئدہ
36 (ف ١) اس آیت میں بتایا ہے کہ کفر وہ بندنصیبی ہے جس کی تلافی ساری کائنات دے کر بھی نہیں ہو سکتی ، وہ لوگ جو اس دنیا میں حقائق سے منہ پھیر لیتے ہیں ، حشر میں شفقت ورحمت کے چشموں کو سوکھا ہوا پائیں گے اور کوئی کوشش انہیں جہنم کے عذاب مقیم سے باہر نہ نکال سکے گی ۔ المآئدہ
37 المآئدہ
38 قطع ید کی حکمت : (ف ٢) اسلامی قانون تعزیرات کا مقصد یہ ہے عام انسانوں کو مضرت ونقصان سے بچایا جائے اور اگر اس سلسلے میں چند افراد کڑی سے کڑی سزا بھی جھیل لیں تو مضائقہ نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ قرون اولی میں جرائم کی رفتار تقریبا معدوم ہے اور جو چند ایسی مثالیں ملتی ہیں جن کی اخلاقی لحاظ سے مذموم کیا جا سکتا ہے تو وہاں بھی مذامت واعتراف کا یہ شان دار مظاہرہ ہے کہ مجرم خود عدالت میں آگیا ہے تاکہ اسے موزوں ومناسب سزا دی جائے ، یہ درست ہے کہ اسلامی سزائیں ذرا سخت ہیں مگر کیا سختی ہی برکات وسعادات کا موجب نہیں ، بات یہ ہے کہ اگر ایک شخص ہاتھ کٹوا کرناکارہ ہوجاتا ہے تو سیکڑوں انسان اس کی وجہ سے عبرت حاصل کرتے ہیں ۔ اس لیے یہ کہنا سراسر ناانصافی ہے کہ اسلامی سزائیں ازمنہ وحشیہ کی یادگار ہیں ، کیونکہ وحشت تو وہ ہے جس کی وجہ سے دنیا میں مظالم کی کثرت ہو ۔ نہ وہ نظام جو جرائم کو بیخ وبن سے اکھاڑ دے ، آج یورپ کو اپنی انسانیت پر ناز ہے مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ وہاں تمام دنیا سے زیادہ جرائم کا ارتکاب کیا جاتا ہے ۔ یہ ٹھیک ہے انسانی عزت وحرمت کا تقاضا ہے کہ زیادہ ہولناک سزا دی جائے ، مگر کیا سوسائٹی کی عزت وحرمت سے زیادہ بیش قمیت نہیں ، یہ یاد رہے کہ سزا دینا کافی نہیں ، ساتھ ساتھ تربیت بھی ہونا چاہئے تزکیہ وتطہیر کو چھوڑ کر صرف تعزیز اکثر مضر پڑتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ اسلام میں اخلاق کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور تعزیرات کو مزہب کے ماتحت رکھا ہے تاکہ لوگوں میں روحانیت کی وجہ سے اعلی درجے کی عادات پیدا ہوں اور وہ گناہوں سے از خود نفرت کرنے لگیں ۔ حل لغات : عذاب مقیم : عذاب دائم ۔ نکالا : سزا ۔ المآئدہ
39 المآئدہ
40 (ف ١) بات یہ ہے کہ اسلام چونکہ ایک کامل اور ہمہ گیر دستور العمل کا نام ہے ، اس لئے ضروری ہے کہ اس میں اخلاق وروحانیت کے پہلو بہ پہلو سیاست ملکی اور تعزیرات کی بھی بہ تفصیل بیان کیا جائے اور چونکہ اس کا انتساب اس ذات گرامی سے ہے جو پاتال سے لے کر طوبی تک حکمران ہے اس لئے لازما اس میں ہمہ گیری کا رنگ نمایاں نظر آنا چاہئے اور یہی وہ چیز ہے جو اسے دوسرے مذاہب سے ممتاز ومتبائن قرار دیتی ہے ۔ (آیت) ” لہ ملک السموت والارض واللہ علی کل شیء قدیر “۔ میں اسی وسعت وتفصیل کی طرف اشارہ ہے یعنی چونکہ خدائے اسلام کی قدرتیں اور اختیارات لامحدود اور وسیع ہیں اس لئے وہ دین بھی جو سچا اور حقیقی دین ہے ، اسی تناسب سے ہمہ گیر اور وسیع ہونا چاہئے ۔ المآئدہ
41 انبیاء علیہم السلام کی بےچینی : (ف ٢) مقصد یہ ہے کہ رسول چونکہ پیکر ہوتا ہے خلوص اور شفقت کا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ختم الرسل ہیں یعنی خلوص اور شفقت کی انتہائی اور آخری صورت اس لئے ضرور ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفر ونفاق سب سے زیادہ تکلیف دہ محسوس ہو ۔ (آیت) ” لایحزنک “ میں تلقین یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس درد سے بےچین ہیں ‘ اس میں تخفیف پیدا کیجئے کیونکہ جب یہی لوگ کفر ونفاق کی وجہ سے دکھ محسوس نہیں کرتے تو آپ کیوں حزن وملال سے کام لیں ۔ باوجود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفقتوں کے یہ منافقین کا گروہ ہمیشہ اسلام کی برکات سے محروم رہا اور ان کے دل آیات وبراہین دیکھنے کے باوجود خبث وکفر کے حامل رہے ، اس لئے خدا نے فرمایا کہ جب یہی اصلاح و ایمان کے ذوق سے آشنا نہیں ہونا چاہتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیوں ان کے لئے بےقرار ہیں ۔ بات یہ ہے کہ نبی اپنے عہدے ومنصب کے لحاظ سے مجبور ہے کہ قوم کے لئے بےپناہ درد اپنے سینے مین پنہاں رکھے وہ دن اور رات ہمہ وقت ملت کی اصلاح کے لئے بےچین رہتا ہے اور باوجود سخت تکالیف کے بجز ” اللھم اھد قومی فانھم لا یعلمون “ اور کچھ نہیں کہتا ۔ اس کے بعد یہودیوں کے جرائم گنائے ہیں کہ دیکھو ، یہ کم بخت کتنے جھوٹے ہیں اور کس طرح جاسوسی جیسے فعل شنیع کا ارتکاب کرتے ہیں اور کیونکر احکام الہی کو اپنی حسب منشا بدل لیتے ہیں ان سے خدا نے ہدایت کی توفیق چھین لی ہے اور دنیا اور آخرت میں ان کے سوائے ذلت اور رسوائی کے اور کوئی چیز مقدر نہیں ۔ یہ لوگ جھوٹے اور حرام خور ہیں ، ان کی فطرت مسخ ہوچکی ہے مقصد یہ ہے کہ ایسے لوگ اگر اسلام کی روشنی کو قبول نہ کریں تو مضائقہ نہیں یہ اس درجہ ہدایت ورشد سے دور ہوچکے ہیں کہ اب ان کا راہ راست پر آنا از قبیل محالات ہے ۔ حل لغات : یسارعون ، مصدر یسارعۃ ۔ جلد بازی کرنا لپک کر اور دوڑ کر کسی چیز میں حصہ لینا ۔ ھادوا ، یعنی یہودی ، یہودا کی طرف منسوب کرنا ۔ فاحذروہ : مادہ حذر ، بچو احتراز کرو ۔ فتنۃ : ۔ آزمائش ۔ ابتلاء ۔ المآئدہ
42 قضیہ تحکیم : (ف ١) یہودی پستی اور ذلت کی اس حد تک پہنچ چکے تھے جہاں احکام الہی کا وقار باقی نہیں رہتا اور طبیعتیں مداہنت وتحریف کی طرف مائل ہوجاتی ہیں اور جہاں مذہب کا مقصود محض ریاکاری اور فریب رہ جاتا ہے ، اس لئے جب ان میں کا کوئی معزز آدمی گناہ کا ارتکاب کرتا تو یہودی علماء تورات میں تحریف معنوی سے کام لیتے اور کہتے ، اس جرم کی سزا زیادہ سنگین نہیں اور جب کوئی غریب اور بےکس انسان بتقاضائے بشریت بھول چوک سے دو چار ہوجاتا تو ان کا جذبہ علم وقضا پورے جوش میں آجاتا ، اور اسے سنگین سے سنگین سزا دیتے ، قصہ یہ ہوا کہ بنو قریظہ اور بنو نضیر میں کسی بات پر جھگڑا ہوگیا اور جھگڑے نے طول کھینچا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک قریظی مارا گیا ، بنو قریظہ کا مطالبہ یہ تھا کہ اس کے معاوضے میں یا تو قتل کی اجازت دی جائے اور یا ودیت دلائی جائے ، بنو نضیر چونکہ ان سے نسبتا زیادہ معزز تھے اس لئے رعایت کے طالب ہوئے ، علماء یہود نے بنی نضیر کا ساتھ دیا اور کہ ہمارا فیصلہ بالکل درست ہے شک ہو تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم بنالو ۔ اس آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تخاطب ہے کہ اگر آپ کے پاس یہ لوگ فیصلہ لائیں تو انہیں ہرگز کسی جانب داری کی توقع نہ رکھنی چاہئے آپ صاف صاف بےلاگ فیصلہ کردیں ، مقصود یہ ہے کہ خدا کا نبی تمہاری مداہنتوں اور منافقتوں کا ساتھ نہیں دے گا ۔ المآئدہ
43 (ف ٢) (آیت) ” وکیف یحکمونک “۔ میں اظہار تعجب ہے یعنی جب تورات میں قتل کی سزا واضح طور پر مرقوم ہے تو پھر یہ کیا سمجھ کر آپ کو حکم بنا رہے ہیں مقصد یہ ہے کہ رعایت کے طالب ہیں ، ورنہ صحیح فیصلہ پر انہیں اطمینان خاطر نہیں ۔ حل لغات : بالقسط : یعنی بلارعایت وجانب داری کے شریعت وآئین کے بالکل مطابق ۔ یحکمون : مصدر تحکیم ۔ حکم بنانا ، منصف بنانا ، ربانیون : اللہ والے ۔ المآئدہ
44 (ف ١) یعنی تورات میں ہدایت ونور کا کافی سامان ہے ، تمام گزشتہ انبیاء کا دستور العمل تورات ہی رہی ہے ، احبار وعلماء بھی مکلف تھے کہ تورات کو یاد رکھیں اور بلالومۃ لائم اس کے موافق فیصلہ کریں اور دنیوی اغراض کے لئے خدا کے احکام کو بیچ نہ دیں ۔ آیت کا یہ مقصد نہیں کہ تورات مسلمانوں کے لئے حجت ہے یا اب بھی یہودی تو رات ہی کو ماننے کے مکلف ہیں ، کیونکہ آفتاب ہدایت کے بعد ستاروں کی روشنی ماند پڑجاتی ہے اور دن نکل آنے کے بعد کوئی گھروں میں چراغ نہیں جلاتا ، غرض صرف یہ ہے کہ مسلمات میں تحریف بدترین بدیانتی ہے جس کا یہودی ارتکاب کرتے ہیں ۔ (آیت) ” بما انزل اللہ “ سے مراد صرف قرآن نہیں بلکہ اسوہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ہے کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت قرآن حکیم کی رو سے لازم وواجب ہے (آیت) ” ما اتکم ال رسول فخذوہ وما نھکم عنہ فانتھوا “۔ المآئدہ
45 (ف ٢) اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ یہود میں قتل کا قصاص واجب ہے اور اس میں بڑے چھوٹے کی کوئی تخصیص نہیں اور یہودی اس لحاظ سے سخت مجرم ہیں کہ وہ حدود تعزیرات میں تحریف سے کام لیتے ہیں ۔ حل لغات : الانف : ناک ۔ الاذن : کان ۔ السن : دانت ۔ الجروح : جمع جرح ۔ بمعنی زخم ۔ المآئدہ
46 (ف ١) مسیح (علیہ السلام) کی تعلیمات تورات سے قدرے مختلف ہیں اور اس کی وجہ یہ نہیں کہ انبیاء علیہم السلام کے غرض ومقصد میں اختلاف وتضاد ہے بلکہ یہ ہے کہ حالات وواقعات کے ماتحت تعلیمات کا بظاہر فروع میں مختلف ہونا لابدی اور ضروری ہے مگر اصول واساس میں پوری وحدت ویکسانی ہوتی ہے جس طرح یہ ضروری ہے کہ قدرت کے دوسرے مظاہر مادیہ میں وحدت یکجہتی ہو اسی طرح شرائع اور ادعیان بھی باوجود تنوع کے ایک محسوس وحدت اپنے اندر پنہاں رکھتے ہیں سب کی غرض وغایت یہ ہوتی ہے کہ انسان کو روح وجسم سمیت ارتقاء کی سب سے اونچی سیڑھی پر چڑھایا جائے اور اس میں حالات وظروف کے ماتھت اس نوع کی استعداد پیدا کی جائے کہ وہ دنیا و عقبی کی سعادتوں کا حامل ثابت ہو یہی وجہ ہے کہ ہر لاحق سابق کی تائید کرتا ہے اور ہر پچھلا پہلے کا مصدق قرار پاتا ہے ۔ (اس آیت میں اسی حقیقت ثابتیہ کی طرف اشارہ ہے کہ تورات وانجیل دونوں کتابیں اللہ کی ہیں اور دونوں پر ایمان لانا اور دونوں کو خدا کی طرف سے ماننا ضروری ہے ۔ المآئدہ
47 انجیلی فیصلے : (ف ٢) ولیحکم سے قبل قلنا محذوف ہے یعنی ہم نے انجیل دینے کے بعد اہل انجیل سے کہا کہ تم ہمیشہ انجیلی فیصلوں کے ماتحت اپنی زندگی گزارو اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ” والیحکم کتبنا “ اور قفینا “ کے سیاق میں درج ہے اور قرآن حکیم میں ایسے مواقع پر الفاظ زائدہ کو محذوف رکھا جاتا ہے ، جیسے اہل جنت کے ذکر میں فرمایا (آیت) ” ولملٓئکۃ یدخلون علیھم من کل باب سلام علیکم “ یعنی جب فرشتے جنت والوں کے پاس آئیں گے تو کہیں گے تم پر سل امتی ہو یہاں ” یقولون “ کا لفظ محذوف ہے ۔ (آیت) ” ومن یحکم بما انزل اللہ “ سے مراد یہ ہے کہ انجیل والے مکلف ہیں کہ اپنی آراء کو شریعت کے باب میں مطلقا ترک کردیں اور صرف خدا کے نازل کردہ احکام کی پیروی کریں ورنہ فسق وکفر کا خلعت انہیں پہنایا جائے گا ۔ حل لغات : قفینا : مصدر تقفی اصل قفا ۔ یعنی پیچھے لگایا ۔ المآئدہ
48 مصدق ومہیمن کتاب : (ف ١) قرآن حکیم کے متعلق یہاں ارشاد ہے کہ وہ حق وصداقت ہے یعنی حالات وضروریات کے بالکل موافق اور مطابق ہے اور مصدق ہے یعنی تمام پیشگوئیاں جو پہلی کتابوں میں مرقوم تھیں ، قرآن پاک کے نزول سے ثابت ومتحقق ہوگئی ہیں یعنی تصدیق کے معنی یہاں سچا ثابت کرنے کے ہیں جیسے شاعر کہتا ہے ۔ ع فوارس صدقت فیھم ظنونی : اور مھیمن بھی ہے یعنی پہلی کتابوں کی صداقت پر شاہد اکبر جیسے حضرت حسان (رض) فرماتے ہیں ۔ ان ال کتاب مھیمن بیننا والحق العرفہ ذوالالباب : (ترجمہ) تورات وانجیل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت پر گواہ ہیں اور سچائی کو سب عقلمند جانتے پہچانتے ہیں ۔ مقصد یہ کہ قرآن حکیم کی حیثیت گواہ اور شاہد کی ہے یہ نہ ہو تو پہلی کتابیں یکسر مشکوک ٹھہریں (آیت) ” فاحکم بینھم بما انزل اللہ “۔ سے مراد یہ ہے کہ اب قرآن حکیم کے نزول کے بعد قرآن ہی حکم رہے گا ، آپ مجاز نہیں کہ کسی دوسری چیز کو کوئی وقعت دیں ۔ (آیت) ” لکل جعلنا منکم شرعۃ ومنھا جا “۔ سے مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کو حالات وظروف کے ماتحت ایک طریق نجات بتایا ہے ، اس لئے یہ اختلاف ادیان بہرحال باقی رہے ، آپ گھبرائیں نہیں خدا کی مشیت کا تقاضا اگر یہ ہوتا کہ سب آپ کی دعوت کو قبول کرلیں تو سرے سے اختلاف ہی پیدا نہ ہوتا اور تمام قومیں ایک قوم کی شکل میں نظر آتیں ، اور جب ایسا نہیں ہے تو معلوم ہوا کہ مقصد اپنے اپنے زمانے میں خیرات وحسنات کی طرف سبقت لے جانا ہے ۔ اس لئے آپ بدستور (آیت) ” ما انزل اللہ “ کی تبلیغ میں مصروف رہیں اور یہود ونصاری کے جذبات وامیال سے کامل احتراز اختیار کریں ۔ حل لغات : مھیمن : شاہد ۔ اھوآء ھم : خواہشات نفس ۔ المآئدہ
49 المآئدہ
50 (ف ١) جاہلیت کا زمانہ وہ ہے جب آفتاب اسلام طلوع نہیں ہوا تھا اور وہ لوگ پوری تاریکی میں تھے ، اس وقت قاعدہ یہ تھا کہ امراء ومعززین کی رعایت کی جائے اور غربا وبے کس لوگوں کو سزائیں دی جائیں ۔ قرآن حکیم کہتا ہے کیا اہل کتاب بھی اس قسم کے فیصلوں کو چاہتے ہیں جس میں عدل وانصاف کیا گیا ہو ؟ یعنی بنو قریظہ اور بنو نضیر کے معاملہ میں ناانصافی نہیں کی جاسکتی ، دونوں یہودی ہیں اور دونوں یکساں عزت وحرمت کے مالک ہیں ہیں ۔ المآئدہ
51 (ف ٢) اولیآء سے مراد وہ دوست ہیں جو تمہیں بددیانتی اور بداخلاقی پر مجبور کردیں ورنہ عام معاشی اور شہری تعلقات میں کوئی مضائقہ نہیں ، ۔ حل لغات : فاسقون : جمع فاسق ۔ احکام خدواندی کی مخالفت کرنے والے ۔ المآئدہ
52 (ف ١) اگر وہ مناقین در پردہ یہود ونصاری سے ملا رہتا اور وجہ جواز یہ پیش کرتا کہ یہ لوگ مال دار ہیں وقت پڑنے پر کام آئیں گے ۔ اس آیت میں اس وہم کا جواب ہے فرمایا کہ کم بختو ! تمہیں کیا معلوم کہ مسلمانوں کی قسمت چمکنے والی ہے اور وہ زمانہ قریب ہے جب فتوحات کا دائرہ وسیع ہوجائے گا اور غریب ومفلس مسلمان لوگوں کی قسمت کے مالک ٹھہریں گے ، اس وقت ندامت وحسرت سے دو چار ہونا پڑے گا ، اس لئے مداہنت سے باز آجاؤ اور عارضی اعانت کے بھروسے پر ایمان جیسی متاع گراں قدر ہاتھ سے نہ دو ۔ المآئدہ
53 (ف ٢) پہلی آیت سے متعلق ہے ، یعنی جب مسلمانوں کا افلاس عزت وشرف سے بدل جائے گا تو اس وقت وہ منافقین کو مخاطب کرکے از راہ تعجب وتحقیر کہیں گے کیا یہی وہ لوگ ہیں جو ایمان کا منافقانہ اظہار کرتے تھے اور آج یہ کیفیت ہے کہ تمام اعمال ضائع اور تمام کوششیں رائیگاں ہیں ۔ حل لغات : دآئرۃ : پھیر ۔ گردش گردوں ۔ اسروا : مصدر اسرار چھپانا ، ظاہر کرنا ذوات الاضداد سے ہے ، یہاں مراد چھپانا ہے ۔ جھدایمانھم : مضبوط حلف ۔ المآئدہ
54 اسلام ہرگز خطرہ میں نہیں : (ف ١) ایک طرف یہودیوں کی یہ سازش تھی کہ سادہ لوح مسلمانوں کو ارتداد پرآمادہ کیا جائے ، دوسری طرف جھوٹے مدعیان نبوت کوشاں تھے کہ کسی طرح نادان اور بےوقوف لوگوں کے متاع ایمان پر ڈاکہ ڈالا جائے ، نتیجہ یہ تھا کہ چند بےوقوف جن کے دل ذوق ایمان سے صحیح طور پر آشنا نہ تھے ، ارتداد اختیار کرنے لگے ۔ اس آیت میں بتایا کہ یاد رکھو ، تمہاری ان حرکتوں سے اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا ، تم اگر ارتداد اختیار کرلو لے تو خدا اپنے دین کی حمایت کے لئے اور پرجوش اور مخلص مسلمان پیدا کر دے گا جنہیں اللہ اور اس کے دین سے عشق ہوگا اور جو مسلمانوں کے لئے نہایت شفیق ورحیم ہوں گے ، مگر کفر کے لئے صاعقہ جانسوز وہ مجاہد ہوں گے اور خدا کی راہ میں کسی ملامت ولوم کی پرواہ نہیں کریں گے ۔ یعنی اسلام اللہ کا دین ہے ، اسے کسی نقصان اور سازش کا ڈر نہیں وہ بڑھے گا کفر کی ساری کوششیں طاغوت کا سارا زور اسے ترقی سے نہیں روک سکتا ، وہ صرف اس لئے آیا ہے تاکہ سب پر غالب رہے اور تمام لوگ اسے اختیار کرلیں ۔ حل لغات : اذلۃ : جمع ذلیل ۔ اعزۃ : جمع عزیز ۔ المآئدہ
55 المآئدہ
56 (ف ١) اس آیت میں بتایا ہے کہ مسلمانوں کو اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تمام مخلص مسلمانوں کی تائید حاصل ہے ، اس لئے یہ گروہ خدا کا گروہ ہے جس کی قسمت میں ابدا نصرت وغلبہ مقدر ہے ۔ المآئدہ
57 المآئدہ
58 (ف ٢) مکے میں جہاں ماننے والے مخلص ایمان دار موجود تھے ، وہاں وہ بھی تھے جو شعائر دین کا مضحکہ اڑاتے ، جب اذان ہوتی اور بندگان خدا کو پیش گاہ عزت وجلال میں دعوت عبادت ونیاز مندی دی جاتی تو ہنستے اور کہتے ، دیکھنے مسلمانوں کی عبادت کتنی خندہ آفرین ہے یعنی رکوع وسجود اور تسبیح وتہلیل کا یہ شان دار مظاہرہ جسے قرآن کی اصطلاح میں صلوۃ سے تعبیر کیا جاتا ہے ان کے لئے ناقابل فہم عمل تھا ۔ قرآن حکیم فرماتا ہے جو لوگ اس نوع کے بد ذوق ہیں اور ایمان واتقاء کی نعمتوں سے انکے دامن یکسر خالی ہیں ‘ ہرگز اس قابل نہیں کہ مسلمانوں کے لئے کوئی جاذبیت اپنے اندر پیدا کرسکیں اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ ان کی صحبت و دوستی سے پرہیز کریں تاکہ نفاق ومداہنت کی باتین سن سن کر ان کی حس مذہبی مردہ نہ ہوجائے ، المآئدہ
59 دشمن کیوں ہو ؟ : (ف ٣) اس آیت میں اہل کتاب سے انکار واستہزاء کا سبب دریافت کیا ہے یعنی ان سے پوچھا ہے کہ ہم آخر مورد عتاب کیوں ہیں ؟ کیا اس لئے کہ ہمارے دلوں میں ایمان باللہ کی آگ روشن ہے اور ہم تمام انبیاء علیہم السلام کا یکساں احترام کرتے ہیں ، نیز ہمارے نزدیک ہر سچائی قابل اعتراف واحترام ہے اس لئے کہ ہم کسی خدا پرست پیغمبر کا انکار نہیں کرتے اور سب کو فیوض وبرکات الہیہ کا حامل ومتکف سمجھتے ہیں کیا توحید جرم ہے اس طلعت حق کا جمال ہر جبین رسالت میں جلوہ آراہ نہیں اور کیا یہ جھوٹ ہے کہ سب رسول اسی کے بحارقدرت وعلم کے شناور ہیں ؟ وجہ کیا ہے کہ ہم پر اتہام وایزا کے تمام تیر برسائے جاتے ہیں یعنی جب تمہاری حالت خود یہ ہے کہ فسق وفجور کا منبع ومخزن ہو تو پھر حق پرستوں سے یہ دشمنی کیوں ؟ حل لغات : ھزوا : ٹھٹھا ۔ مذاق ۔ نادیتم مصدر مناداۃ ۔ بلانا پکارنا ۔ یعنی اذان دینا ۔ تنقمون : مادہ تقمۃ ، عذاب تکلیف ، کینہ ۔ المآئدہ
60 (ف ١) (آیت) ” بشر من ذلک “ سے مراد یہ ہے کہ اگر تم عقائد صحیحہ کو درست اور ٹھیک خیال نہیں کرتے اور توحید تمہارے نزدیک برائی کا نام ہے تو بتاؤ اللہ کی لعنتیں اور غضب وغضہ کو کیا کہو گے ؟ کیا تم ہی وہ نہیں ہو جنہیں نافرمانی وعصیان کے معاوضے میں بندر اور سور بنا دیا گیا اور طاغوت پرستی تمہاری گھٹی میں ڈال دی گئی ؟ پھر کیا تم ہی بدترین اور گمراہ تر نہیں ہو ؟ مقصد یہ ہے ” بشر “ کا لفظ بطور مفروضے کے ہے حقیقت کے نہیں ۔ (آیت) ” وعبدالطاغوت “۔ میں لوگوں نے مختلف قرات کا ذکر کیا ہے جو تمام تر شاذ ہیں اور ساقط الاعتبار یہ خالص عربی انداز بیان ہے جس میں کوئی الجھن نہیں اس لئے یہی موزوں ہے کہ قرات متواترہ کو ترجیح دی جائے اور عبد کو بصورت فعل پڑھا جائے ، المآئدہ
61 (ف ٢) یہودویں میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بغرض استفادہ آتے اور بظاہر ارشادات گرامی سن کر تاثر و ایمان کا اظہار بھی کرتے مگر دلوں میں بدستور کفر وخبث کا انبار پنہاں رکھتے ، اس آیت میں انہیں بدبختوں کا ذکر ہے کہ یہ لوگ معارف وحکم کا دریا بہتا ہوا دیکھتے ہیں ، مگر ان کے لب ہنوز تشنہ ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منہ سے سچائی اور صداقت کے پھول گرتے ہوئے دیکھتے ہیں مگر قلوب میں کوئی تاثر پیدا نہیں ہوتا ۔ بات یہ ہے کہ نفاق کا حجاب کثیف ایمان کی روشنی میں حائل ہے ورنہ آفتاب نکلے اور تمازت محسوس نہ ہو کیسے ممکن ہے ؟ حل لغات : مثوبۃ : جزائے خیر ، اجر ۔ القردۃ : جمعر قرد ۔ بندر ۔ خنازیر : جمع خنزیر ۔ سور ۔ المآئدہ
62 (ف ١) اس آیت میں یہودیوں کی مذہبی بےحسی اور بدعملی کا ذکر ہے کہ یہ لوگ بےدریغ جھوٹ بولتے ہیں حرام کار ہیں اور حرام خوری ہیں قطعا تامل نہیں کرتے ۔ المآئدہ
63 (ف ٢) اس آیت میں یہودیوں کے علماء کو ڈانٹ پلائی ہے کہ یہ کم بخت کیوں قوم کو جرائم پیشگی پر آمادہ کرتے ہیں ، ان کا منصب اصلاح ورہنمائی انہیں کیوں مجبور نہیں کرتا کہ وہ میدان عمل میں کودیں اور قوم میں تقوی وتورع کی روح پھونک دیں ۔ المآئدہ
64 خدا کے ہاتھ کشادہ ہیں : (ف ٣) (آیت) ” یداللہ مغلولۃ “۔ کنایہ ہے بخل سے یعنی یہودی جاہ وتمول کے نشے میں مخمور ہو کر مسلمانوں سے کہتے تھے تمہارا خدا تمہارے حق میں کشادہ دست نہیں ۔ فرمایا ۔ اس مذاق کا جواب یہ ہے کہ تم پر خدا کا عذاب آئے گا اور سیم وزر کے یہ انبار چھین لئے جائیں گے جن پر تمہارا قبضہ ہے اور جن کی وجہ سے تمہاری آنکھیں بند ہوگئی ہیں ، ہماری جناب میں یہ گستاخی ناقابل عفو ہے یاد رکھو ‘ خدا کے ہاتھ کشادہ ہیں ‘ مگر وہ مجبور نہیں کہ تمہاری مرضی وارادے کے موافق خرچ کرے ، وہ جب چاہے گا مسلمانوں کے لئے رزق کے دروازے کھول دے گا اور تم کو تمہاری سرسبز وشاداب وادیوں سے نکال دے گا ۔ اس کے بعد فرمایا کہ ان لوگوں میں قبولیت کی کوئی استعداد باقی نہیں رہی ، جب بھی خدا کے فیوض کا اظہار ہوگا ان کا تمرد وانکار بڑھتا جائے گا کیونکہ ان کی طبیعتیں مسخ ہوچکی ہیں اور دل سیاہ اس کے بعد ان کے باہمی اختلاف کا تذکرہ ہے کہ یہ لوگ قیامت تک آپس میں دست وگریبان رہیں گے ۔ حل لغات : الاثم : مطلقا برائی ۔ بری بات ۔ ید اللہ : بطور مجاز کے ہے ۔ المآئدہ
65 المآئدہ
66 (ف ١) اس آیت میں یہودیوں اور عیسائیوں کو اقامت دین کے لئے دعوت دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ اگر تم صحیح معنوں میں اہل کتاب ہوجاؤ اور اپنے اعمال سے ثابت کر دو کہ تمہیں دینداری سے بہرہ وافر ملا ہے تو اللہ کی بخششوں کے دروازے کھل جائیں گے ، یعنی ایک طرف اخروی زندگی میں (آیت) ” جنت ونعیم “۔ کے مزے ہیں اور دوسری طرف دنیا میں رزق وعیش کی فراوانی ، مقصد یہ ہے کہ دیندار انسان کسی طرح بھی گھاٹے میں نہیں رہتا ، دنیا وعاقب دونوں جہان کی بشارتیں اس کے لئے مخصوص ہیں ۔ (آیت) ” وما انزل الیہم “ کی تعمیم میں قرآن اور اس کی تمام صداقتیں داخل ہیں ۔ کیونکہ اس وقت تک توریت وانجیل پر عمل نہیں ہو سکتا ، جب تک اس صداقت مشہود کا اقرار نہ کیا جائے جس کا نام قرآن ہے ۔ حل لغات : (آیت) ” الی یوم القیمۃ “۔ کنایہ ہے مدت دید سے ، مراد تابید نہیں ، کیونکہ ایک وقت آئے گا جب سب لوگ اسلامی ہدایات کو قبول کریں گے اور دنیا میں کوئی تفرقہ باقی نہیں رہے گا ۔ ارجلھم : جمع رجل ۔ پاؤں ۔ مقتصدۃ : اعتدال پسند یعنی مسلمان ۔ المآئدہ
67 منصب دعوت اور وعدہ عصمت : (ف ١) نبوت کے معنی یہ ہیں کہ ایک شخص انسانیت کے فراز اعلی پر جلوہ گر ہے اور اس کا دل مہیط انوار الہی ہے اسے حکم ہے کہ اس روشنی کو جو تمہارے قلب پر پر تو فگن ہے عام کر دے اور دیدہ بینا کو موقع دے کہ وہ اس نور خالص سے بقدر تاب وتواں استفادہ کریں ۔ اس آیت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت کی گئی ہے کہ خدا کے احکام ومعارف بندوں تک بےکم وکاست پہنچا دیں ورنہ منصب دعوت ورسالت کے خلاف ہوگا ۔ آیت کا مقصد یہ نہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی بخل سے کام لیں گے اور فیوض وانوار سے محروم رکھیں گے کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسبت بتصریح مذکور ہے ۔ (آیت) ” وما ھو علی الغیب بضنین “۔ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خزینہ غیب تقسیم کرنے میں ممسک نہیں ہیں ۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق اخفاء واسرار کا عقیدہ رکھنا عہدہ رسالت سے ناواقفیت کی دلیل ہے یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمی فیض وافادہ ہیں یہ محض غلط ہے کہ آپ نے چند چیزیں عوام سے پوشیدہ رکھی ہیں اور وہ سینہ بسینہ منتقل ہوتی چلی آرہی ہیں اسلام میں کوئی راز داری نہیں وہ صاف واضح روشن طریق عمل کا نام ہے ۔ (آیت) ” واللہ یعصمک “ میں عصمت ومحفوظیت کا وعدہ ہے یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات دشمنوں کی ہر سیہ کاری سے محفوظ ہیں ۔ قریش مکہ نے جب چاہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے معاذ اللہ ختم کردیا جائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وعدہ عصمت کی بنا پر ان کی آنکھوں میں دھول ڈالتے ہوئے صاف نکل گئے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات بھی باوجود ہر سعی الحاد کے ویسی کی ویسی تابندہ وروشن ہیں ۔ المآئدہ
68 (ف ٢) آیت کا مقصد یہ ہے کہ زبانی دعوے دینداری کوئی چیز نہیں ، جب تک تمام منزل من اللہ کتب پر یکساں ایمان نہ ہو ۔ حل لغات : حتی تقیموالتورۃ : اقامت توریت کے معنی اس پر پوری پوری طرح عمل کرنا ہے ۔ المآئدہ
69 من امن باللہ : (ف ١) آیت کے عموم سے بعض روشن خیال لوگوں نے دھوکا کھایا ہے اور یہ سمجھا ہے کہ اسلام صرف ایمان وعمل صالح کا نام ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ماننا ضروری نہیں مگر یہ عقیدہ بوجوہ غلط اور گمراہ کن ہے ۔ ١۔ اس لئے کہ قرآن حکیم نے ایک مستقل نظام حیات پیش کیا ہے جس میں عقائد سے لے کر اعمال کی جزئیات پر تک تلقین کی ہے اور جو تمام انسانی ضروریات پر حاوی ومشتمل ہے صرف عقائد وتوحید کا نام اسلام نہیں کہ مذکورہ بالا عقیدہ کو درست تسلیم کرلیا جائے ۔ ٢۔ قرآن حکیم ایک مرتب اور مربوط کلام ہے اس میں سیاق کا خیال نہ رکھنا انتہا درجہ کی گمراہی ہے ، بیشتر کی آیات میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ قرآن حکیم کو نہ ماننے والے کافر ہیں ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) افسوس نہ کریں (آیت ) ” فلا تاس علی القوم الکفرین “۔ ٣۔ ایمان باللہ کے معنی قرآن حکیم کی اصطلاح میں اسلام کو اس کی کامل شکل میں ماننے کے ہیں نہ کہ سرسری عقیدہ توحید کے کیونکہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے کمال وتفصیل کے ساتھ ایمان کی تشریح فرمائی ہے ، دیکھئے وہ مقامات جہاں ایمان باللہ کا ذکر ہے ، آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ خدائے تعالیٰ مومن باللہ سے وہی توقعات وابستہ کئے ہوئے ہیں جو ایک مصلح مسلمان سے کی جا سکتی ہیں ۔ ٤۔ اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس قدر تاکید ہے اور اس کے انکار پر صاف صاف وعیدیں ہیں کہ تاویل کی کوئی گنجائش نہیں ۔ المآئدہ
70 (ف ٢) مقصد یہ ہے کہ بنی اسرائیل سے اطاعت انبیاء کا عہد لیا گیا مگر وہ ہمیشہ منکر رہے اور صرف انکار ہی نہیں کیا بلکہ بعض اللہ کے پرستاروں کو شہید بھی کر ڈالا اور یہ قطعا نہ سوچا کہ اس ظلم عظیم کی ہمیں کوئی سزا بھی ملے گی ، نتیجہ یہ ہوا کہ خدا کی غیرت جوش میں آئی اور بخت نصر کے ہاتھوں انہیں ہولناک عذاب میں مبتلا کیا گیا جس سے سارے اسرائیلی لرز اٹھے ۔ حل لغات : فریقا : گروہ ۔ جماعت ۔ فعموا : اندھے ہوگئے ، مصدر عمی ۔ صموا : بہرے ہوگئے ، مصدر صمم : المآئدہ
71 المآئدہ
72 (ف ١) اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ ابن مریم علیہا السلام کو خدا کے مقام رفیع پر فائز سمجھنا بڑا کفر ہے ، حضرت مسیح (علیہ السلام) جب تک زندہ رہے اپنی عبودیت کا اعلان فرماتے رہے اور کہتے رہے کہ اے آل اسرائیل صرف رب اکبر کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا دونوں کا مشترک رب ہے اور کسی شخص کو اس کا ساجھی اور شریک نہ ٹھہراؤ ورنہ جنت کی نعمتوں سے یکسر محروم رکھے جاؤ گے ، المآئدہ
73 ثالث ثلثۃ : (ف ٢) عقیدہ تثلیث کے معنی یا تو یہ ہیں کہ عیسائی مریم علیہا السلام ، مسیح (علیہ السلام) اور خدا کو لاہوت کے اقانیم مانتے ہیں جیسے قرآن حکیم نے فرمایا (آیت) ” انت قلت للناس اتخذونی وامی الھین من دون اللہ “۔ اور یا یہ مقصود ہے کہ باپ بیٹا اور روح القدس یہ تینوں مل کر اقانیم بنتے ہیں ۔ دونوں صورتوں میں عقیدہ غیر منطقی گمراہ کن اور غلط ہے ، اس لئے فرمایا لقد کفر الذین قالوا ان اللہ ثالث ثلثۃ ۔ یعنی خڈا کے متعلق تثلیث کا عقیدہ رکھنا اس کی تفریط و توحید کی توہین کرنا ہے جو بدترین قسم کا کفر ہے ۔ بات یہ ہے کہ خدا کی ذات والا صفات کا تقاضا یہ ہے کہ سوائے توحید وتفرید کے کوئی عقیدہ اس کی طرف منسوب نہ کیا جائے ، کیونکہ یہی ایک عقیدہ ہے جو بلند ، صحیح اور جمیل قرار دیا جا سکتا ہے ، اس کے علاوہ مزعومات غلط اور معاندانہ ہیں ۔ (تفصیل کے لئے دیکھو اوراق گزشتہ) حل لغات : ماوی : جگہ ، ٹھکانہ ۔ المآئدہ
74 المآئدہ
75 (ف ١) اس آیت میں الوہیت مسیح (علیہ السلام) کے عقیدے پر روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ وہ مسیح (علیہ السلام) جو لوازم بشری کے ساتھ متصف ہے کیونکر فکر خدا ہو سکتا ہے اور وہ مریم علیہا السلام جو حوائج انسانی کی حاصل ہے ، کس طرح لاہوت کا ایک اقنوم قرار دی جا سکتی ہے ۔ یعنی جسے بھوک بےقرار کر دے ، جو پیاس کی شدت کو برداشت نہ کرسکے اور قدرت کے تمام قواعد کے سامنے بےبس وبے کس ہو کس طور سے خدائی کا مستحق ٹھہر سکتا ہے ؟ مسیح (علیہ السلام) بھی گزشتہ رسولوں کی طرح ایک رسول ہے جو انسان ہے اور تمام بشری اوصاف ولواحق سے وابستہ پھر کیونکر اور کس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ وہ خدائے مجسم ہے ۔ المآئدہ
76 (ف ٢) مقصد یہ ہے کہ سمع اور علم کی تمام قدرتیں خدا کو حاصل ہیں وہی ہے جو مضطر اور بےقرار انسانوں کی سنتا ہے اور حاجت روائی کرتا ہے وہی ہے جو ضرر ونفع کا مالک ہے اور جس کے اختیارات وسیع ہیں پھر تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ ایسے قادر وعلیم خدا کو چھوڑ کر ان کی عبادت میں مصروف ہو جو تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے اور نہ ان کے اختیار میں ہے کہ تمہارا کچھ بگاڑ سکیں ۔ حل لغات : قد خلت : خلو کے معنی مطلقا ہو گزرنے کے ہیں موت کے نہیں ۔ لا تغلوا : مادہ غلوا ، زیادتی ۔ افراط ۔ المآئدہ
77 (ف ١) آیت کا مطلب یہ ہے کہ عقیدہ تثلیث محض غلو فی الدین کا نتیجہ ہے جسے حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور یہ کہ گمراہ قوموں سے ماخوذ ہے ۔ المآئدہ
78 ناز بےجا : (ف ٢) بنی اسرائیل کو سب سے بڑا غرور اس بات پر تھا کہ ہماری رگوں میں انبیاء اور صلحاء کا خون دوڑ رہا ہے اور ہم (آیت) ” ابنآء اللہ واحبآء ہ “۔ کے لقب سے متفخر ہیں ۔ قرآن حکیم نے متعدد مواقع پر اس ناز بےجا کا جواب دیا ہے اس آیت میں بھی ان کے طلسم پندار کو توڑا ہے اور کہا ہے کہ کیا تم وہی نہیں جنہوں نے سبت کے معاملہ میں خدا کی صریح نافرمانی کی اور اس کی پاداش میں حضرت داؤد (علیہ السلام) کی زبان فیض ترجمان سے ملعون کا خطاب ملا ، اور کیا یہ واقعہ نہیں کہ تم نے نزول مائدہ کی درخواست کی ، اور اس کے بعد پھر روگردانی کی جس کی وجہ سے حضرت مسیح (علیہ السلام) نے تمہیں لعنتی ٹھہرایا ۔ جب یہ واقعات ہیں تو پھر تمہیں غرور بےجاکا کیا حق حاصل ہے ؟ المآئدہ
79 المآئدہ
80 (ف ٣) ان دو آیتوں میں بیان فرمایا ہے کہ یہودی باوصف اہل کتاب ہونے کے اور بہت سی باتوں میں مسلمانوں کے ساتھ اشتراک رکھنے کے کفار کے زیادہ دوست ہیں ، حالانکہ ان کے تعلقات مسلمانوں سے کہیں مضبوط ہونے چاہئیں ۔ بات یہ ہے کہ یہود کو اسلام کی دشمنی نے اندھا کر رکھا تھا وہ بغض وحسد سے برے اور بھلے میں کوئی تمیز نہ کرسکتے تھے اور فسق وفجور کی وجہ سے انکی مذہبی حس مردہ ہوچکی تھی یہی وجہ ہے کہ وہ خدا کی ناراضگی اور عذاب مخلد کے مستحق ٹھہرے ۔ حل لغات : سوآء السبیل : صرط مستقیم ۔ جادہ معتدل ۔ سیدھی اور آسان راہ ، یتناھون : مادہ تناھی ، رکنا ۔ باز رہنا ۔ المآئدہ
81 المآئدہ
82 (ف ١) قرآن حکیم نے جہاں یہودیوں کی قساوت قلبی کا تذکرہ کیا ہے اور مشرکین مکہ کی عداوتوں کو بیان کیا ہے وہاں نہایت فراخ دلی کیی ساتھ عیسائیوں کی تعریف بھی کی ہے ، فرمایا ہے کہ یہودی اور مشرک مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن ہیں ، مگر عیسائیوں میں ایسے فقیر اور صلح جو لوگ موجود ہیں جو کبر وپندار کے مرض سے آلودہ نہیں ہوتے اور جن کے تعلقات مسلمانوں کے ساتھ زیادہ دوستانہ اور محبانہ ہیں ۔ وجہ یہ تھی کہ یہودی مال ودولت کے نشے میں مخمور تھے دینداری اور تورع کے لئے ان کے دلوں میں کوئی جذبہ نہ تھا ، اس لئے وہ طبعا ہر اس تحریک سے متنفر تھے جو انہیں پاکبازی کی دعوت دے اور عیسائی چونکہ رہبانیت کی طرف مائل تھے اس لئے نسبتا زیادہ متاثر اور روادار تھے ۔ حل لغات : مودۃ : دوستی ومحبت ۔ قسیس : اصل میں کشیش تھا جس کے معنی پہلوی میں میرآتشکدہ یا عالم دین کے ہیں ، ممکن ہے ‘ یہ لفظ سنسکرت کے لفظ شیش سے بگڑا ہو جس کے معنی شاگرد کے ہیں ، عربی میں قسیس کے معنی عالم باعمل کے ہیں ۔ المآئدہ
83 جادواثر قرآن : (ف ١) ۔ اہل کتاب میں حق وصداقت کے شیدائی جب قرآن حکیم کی آیات کو سنتے تو سینوں میں عرفان وحقیقت کا دریا مؤجزن ہوجاتا اور آنکھیں بادہ کیف ، سے چھلکنے لگتیں ، یا قرآن کی جادو اثر ہی اس درجہ مسلم ہے کہ کوئی ذی ہوش اور خرد مند انسان اسے سن کر غیر متاثر نہیں رہ سکتا ، شاہ حبشہ نے جب پہلے پہل حضرت جعفر (رض) تیار کی زبان فیض ترجمان سے کلام اللہ کی چند آیتیں سنیں تو بےقرار ہوگیا ، اور دیر تک رقت وانفعال کے تاثرات میں مستغرق رہا ، بات یہ ہے کہ خدا کی باتیں حقیقت سادگی اور جمال کا مرقع ہوتی ہیں ، ناممکن ہے کہ ان کے جلوہ ہائے عریاں کو دیکھا جائے اور (آیت) ” خر موسیٰ صیعقا “۔ کا منظر نہ کھنچ جائے ، (آیت) ” فاکتبنا مع الشھدین “ سے مراد یہ ہے ہمین بھی امت میں تبیغ اشاعت کی توفیق سے شہادت کے معنی عربی میں حق کی گواہی اور بلیغ کے ہیں اسی مناسبت سے مسلمانوں کو شھد اللہ فی الارض کہا گیا ہے اور یہ وجہ ہے کہ انہیں (آیت) ” لتکونوا شھدآئ“ کے دلنواز فخر سے نوازا گیا ہے مقصد یہ ہے وہ اہل کتاب جو تبتل وانقطاع کی زندگی بسر کرتے ہیں ، جب قرآن کی دعوت کو سنتے ہیں ، تو طبیعتوں میں ایک جوش پیدا ہوجاتا ہے اور وہ بدل چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طریق سے اللہ انہیں برزور مبلغ بنا دے اور وہ قرآن یسے چشمہ فیض کو ہر تشنہ کام حقیقت تک پہنچا دیں ، اس دعوت کو عام کردیں یعنی کاغ اہبار سے لے کر قصر امراء تک یہ روشنی پھیل جائے (آیت) ” ویکون الدین کلہ للہ ۔ المآئدہ
84 (ف ٢) اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ قرآن ایمان باللہ اور حق کے دعوت ہے اس لیے اقرار و اعتراف نہ کرنا ، شقاوت وہ بدبختی کے متراوف ہے ۔ حل لغات : تفیض ، مادہ فیض پانی کافراوانی کی وجہ سے چھلک جانا ، فاثاب : مصدر ثواب ، بمعنی اجر ۔ المآئدہ
85 المآئدہ
86 (ف ١) مقصد یہ ہے کہ نیکی اور برائی کچھ زیادہ فاصلہ نہیں ، ایک قدم کا آگا پیچھا ہے ، حق کی طرف ذرا کھسک جائیے فردوس و جنت کی نعمتیں ہیں ، اور تم ہو ، ورنہ تکذیب وکفر کی وجہ سے ہولناک جہنم ۔ المآئدہ
87 (ف ٢) بیشتر کی آیات میں ” تسلیما اور رھبان “ کی تعریف مذکور ہے صحابہ کی دل میں طبعا دینا سے علیحدگی کی خواہش پیدا ہوئی ، اور انہوں نے ترک لذات کا عہد کرلیا ، گوش نبوت تک جب یہ معاملہ پہنچا ، تو زبان وحی نے اس آیت میں روک دیا اور کہا تحریم لذات جائز نہیں ، دین ترک لذائذ اور تعذیب نفس کا نام نہیں ، بلکہ جذبات میں اعتدال پیدا کرنے کا اس لئے خدا کی سب نعمتیں تمہارے لئے حلال وطیب ہیں ساری اچھی چیزیں کھاؤ ، مگر ایمان والتقاء کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے ، المآئدہ
88 المآئدہ
89 (ف ٣) مقصد یہ ہے کہ اسلام کا تعلق قلب وارادہ سے ہے ، وہ حرکات جو اضطراری ہیں ، لائق مواخذہ نہیں ، حفظ ایمان کے لئے کفارہ مقرر فرمایا ہے تاکہ مسلمان پاس عہد کی اہمیت کو محسوس کرے ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ میں بااختلاف ہے کہ اطعام وکسوت سے مراد تملیک ہے ، ، یا محض تغذیہ واعطاء ، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کھانا کھلا دینا کافی سمجھتے ہیں ، اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ تملک ضروری خیال فرماتے ہیں ۔ حل لغات : ولا تعتدوا : مصدر اعتداء ، زیادتی ، حد ااعتدال سے تجاوز ، عقدتم : عقد ، گرہ دینا ۔ ال ایمان : جمع یمین ، بمعنی قسم ۔ المآئدہ
90 شراب اور جوا : (ف ١) قرآن حکیم نے اخلاق انسانی کی پوری طرح حفاظت کی ہے اور ان تمام چیزوں کو ناجائز ٹھہرایا ہے ، جو اخلاقی طور پر مذموم ہیں اور جن کا استعمال نسل انسانی کے لئے تباہ ہے ، شراب اور جوا دو بہت پرانی بیماریاں ہیں ، عرب کے جاہل سے لے کر یورپ کے مہذب تک اس میں مبتلا ہیں ، آج باوجود تعلیم وتربیت کے ارتقاء کے یہ دونوں چیزیں سوسائٹی کا جزو قرار پاگئی ہیں ، اس لئے ضرورت ہے کہ ان کی برائیاں تفصیل کے ساتھ بیان کی جائیں ۔ قرآن حکیم نے جو برائیاں گنائی ہیں وہ اس درجہ اہم اور درست ہیں کہ ان میں شک وشبہ کی قطعا گنجائش نہیں ، یعنی بعض وعداوت کی تخلیق اور نماز سے تغافل ، شراب پینے اور جوا کھیلنے سے ہمیشہ لڑائیاں ہوتی ہیں ، اور انسانی رقابتیں بروئے کار آتی ہیں ، جس کی وجہ سے امن وسعادت کو ہمیشہ خطرہ ہے نیز نیک جذبات کا خاتمہ ہوجاتا ہے ، ہر وقت دل ودماغ پر بہیمانہ خیالات چھائے رہتے ہیں ، اور انسان کوشاں رہتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح آتش ہوس کو ٹھنڈا کیا جائے ، دماغی اور اخلاقی نشونما رک جاتا ہے ، فضا کے زہن میں شہوانی خیالات کے طوفان اٹھتے ہیں ، اور آندھیاں چلتی ہیں ۔ تابش حق کے لئے کوئی جگہ باقی نہیں رہتی ، دل مردہ اور تاریک ہوجاتا ہے ، اللہ کی یاد اور محبت کا کوئی جذبہ نہیں رہتا یعنی مسجود ملائک انسان ہمہ ہوس وشہوت ہو کر رہ جاتا ہے ۔ حل لغات : تحریر : آزاد کرنا غلام اور کنیزک کا ۔ الانصاب : تھاں ، بت پرستی کے مقامات : الازلام : قرعہ کے پانسے ۔ المآئدہ
91 (ف ١) صحابہ کرام (رض) عنہم اجمعین کی اطاعت دیکھئے ، (آیت) ” فھل انتم منتھون “ کی آواز کو سنتے ہیں اور تسلیم ورضا کا پیکر بن جاتے ہیں ، برسوں کے رسیا ایک دم شراب چھوڑ دیتے ہیں ، اور ساغر ومینا توڑ دیتے ہیں ، وہ مجلسیں جن میں شراب وصہبا کے دور چلتے تھے ، اب ذکر وشغل کے حلقوں میں تقسیم ہوگئی ہیں ، صحابہ کرام (رض) عنہم اجمعین مسجدوں میں بیٹھ کر کوثر وتسنیم کے جام لنڈھاتے ہیں اور بادہ کیف آور سے مخمور ہوجاتے ہیں ، یہ ساقی مدینہ کا فیض ہے یثرب کی بھٹی سے وہ خانہ سازا اور تیز وتند شراب پلائی کہ مست ” احسنت “ (آفرین) پکارا اٹھے ہیں ۔ المآئدہ
92 المآئدہ
93 بے علم معذور ہیں : (ف ٢) تکالیف شرعیہ کا اطلاق علم کے بعد ہوتا ہے ایک شخص جو یہ نہیں جانتا کہ اسلامی تعلیمات کیا ہیں ، وہ مکلف بھی نہیں کہ اسلامی احکام کو بجا لائے ۔ جب حرمت شراب کی آیات نازل ہوئیں ، تو صحابہ کرام (رض) عنہم اجمعین کو بالطبع ان لوگوں کو خیال آیا ، جو شراب کی مضرت سے آگاہ نہیں ‘ یا جو ان آیات کے نزول سے پہلے فوت ہوچکے ہیں اور شراب کے عادی تھے ، اس لئے پوچھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کا کیا حشر ہوگا ، کیا وہ بھی ماخوذ ہوں گے ؟ جوابا یہ آیت نازل ہوئی کہ اگر مے نوشی نے ان کے اخلاق پر برا اثر نہیں ڈالا ، اور وہ پاکباز رہے ہیں ، تو عند اللہ معذور ہیں ، بعض ملاحدہ نے آیت کا مفہوم یہ سمجھا ہے ، کہ اس میں خواص اور اتقیاء کو مئے نوشی کی اجازت دی ہے ، یعنی اگر کوئی شخص شراب پی کر محتاط رہے ، اور صلاح وتقوے کو ہاتھ سے نہ دے تو اس کے لئے اجازت ہے ، مگر یہ بوجوہ غلط ہے ۔ ١۔ اسلام جس نظام تقوی کو پیش کرتا ہے شراب بجائے خود اس میں منافی ہے ، اس غرض کے جو ملحوظ و متعین ہے ، ٢۔ اسلام میں خواص وعوام کی قطعا تقسیم موجود نہیں ، تمام مسلمان تکالیف شرعیہ کے مکلف ہیں ۔ ٣۔ احادیث میں بصراحت تام شراب کا استعمال بہر طور ناجائز قرار دیا گیا ہے ، حتی کہ دوا کے لئے بھی آپ نے فرمایا ، کہ حرام میں شفا نہیں ، ٤۔ دراصل شبہ آیت کے طرز بیان سے پیدا ہوتا ہے لیس کا استعمال ما کے موقع پر اور پھر اذا حرف شرط جو استقبال کے لئے مختص ہے ، اس کا ذکر ‘ یہ قرائن ہیں جن سے اہل زندقہ کو الحاد کے لئے راہ نظر آتی ہے ۔ اس کا ایک جواب تو وہ ہے جو علامہ رازی رحمۃ اللہ علیہ نے دیا ہے ‘ کہ آیت مستقبل کے معنی کو بھی شامل یعنی ، وہ لوگ جو حرمت شراب کے حکم سے آگاہ نہیں ، وہ اس وقت تک معذور ہیں جب تک کہ انہیں اس کا علم نہیں ہوجاتا ، صحیح جواب یہ ہے کہ سرے سے اس آیت میں شراب کا ذکر ہی موجود نہیں ، بلکہ مقصد یہ ہے کہ نیک اور صالح لوگ جو کچھ بھی کھائیں پیئیں ، صلاح وتقوی کو ملحوظ رکھیں جس کا ادنی درجہ یہ ہے کہ حلال وحرام کی تفریق کو سمجھیں ، تو ان کے لئے پر تکلف اور پرتنعم ملعومات جائز اور درست ہیں یعنی شراب کی حرمت جذبہ رہبانیت کے ماتحت نہیں ، بلکہ اس لئے کہ یہ تقوی واحسان کے خلاف ہے ۔ حل لغات : الصید : شکار ۔ النعم : چہار پایہ ، قتل گائے بکری اونٹ کے ، یعنی وہ جانور جو عربوں کے لئے آسائش کا سبب تھے ، السیارۃ : مسافر ، چلنے پھرنے والے لوگ ، مادہ سیر ۔ المآئدہ
94 المآئدہ
95 المآئدہ
96 (ف ١) ان آیات میں اور اس قبیل کی آیات میں آداب حرم کا ذکر ہے کہ احرام کی حالت میں شکار کے لئے تعرض ناجائز ہے ، البتہ دریا کا شکار یعنی مچھلی پکڑنا اور کھانا درست ہے ، اس میں اختلاف ہے کہ اگر غیر محرم شکار کرے ، تو احرام والے کے لئے کھانا جائز ہے ، یا نہیں ۔ حضرت علی (رض) ، ابن عباس (رض) ، ابن عمر (رض) ، سعد بن جبیر (رض) ، اور طاؤس قطعی حرمت کے قائل ہیں ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ محرم اس دقت کھا سکتا ہے ، جبکہ وہ خود شکار نہ کرے اور اس کے ایماء پر شکار کیا جائے ، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ محرم بالواسطہ اعانت نہ کرے ‘ تو جائز ہے ، بصورت اعانت ناجائز ۔ المآئدہ
97 کعبہ ضروریات عامہ کا کفیل ہے : (ف ٢) اس آیت میں بیت الحرام کو (آیت) ” قیام للناس “ ، قرار دیا ہے ، یعنی اس کے ساتھ لوگوں کی ضروریات دینی اور دینوی وابستہ ہیں ، یہ روحانیت اور معارف اللہ کا منبع اور مرکز ہے ، یہ بین الملی اور بین الدینی مصالح کا کفی ہے ، دنیا کے طول وعرض سے لوگ آتے ہیں جو مختلف بولیاں بولتے ہیں ، رنگ وبوکے کے لحاظ سے ان میں کوئی رشتہ موجود نہیں ہوتا ، مگر باوجود اس کے سب لوگ ایک میدان میں ایک لباس میں ، ایک مقصد لئے ہوئے مصروف عبادت نظر آتے ہیں ۔ کون جانتا تھا کہ ایسی غیر آباد بستی کو یہ فروغ حاصل ہوگا اور تم ساری کائنات کا محور قرار پائے گی ، یہ محبوبیت ، یہ ہمہ گیر قبولیت گواہ ہے ، کہ خدا سب کچھ جانتا ہے ، اور اس کا علم نہایت وسیع ہے ۔ المآئدہ
98 (ف ٣) یعنی اللہ تعالیٰ مجرموں اور گنہ گاروں کے لئے جہاں سخت گیر ہے ، وہاں اپنے بندوں کے لئے غفور اور رحیم بھی بدرجہ اتم ہے ، حل لغات : الحرام : عزت ، بیت الحرام ، یعنی عزت کا گھر ۔ المآئدہ
99 المآئدہ
100 المآئدہ
101 غیر ضروری موشگافیاں ممنوع ہیں ! (ف ١) اسلام دین فطرت ہے ، اسے نہایت سادہ اور جامع قرار دیا گیا ہے ، اس میں اصول ومعانی کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کردیا گیا ہے ، زندگی کے ان ابواب سے بحث کی ہے جو ضروری اور واقعی ہیں ۔ اور غیر ضروری تفصیلات کو ترک کردیا گیا ہے ، تاکہ قوائے عمل بیکار نہ ہوجائیں ۔ اس آیت میں اسی تفصیل طلبی کے جذبہ سے روکا ہے ، بات یہ تھی کہ بعض لوگوں نے ایسے سوالات پوچھے ، جن کا جواب ان کے لئے تکلیف دہ تھا ، مثلا عبداللہ بن حذافہ نے پوچھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرا باپ کون ہے ؟ یہ مشکوک النسب تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ، حذافہ بن قیس ، ایک صاحب بول اٹھے ، میرے ابا کہاں ہیں ، حضور نے جواب دیا جہنم میں ، سراقہ بن مالک نے پوچھا نے پوچھا کیا حج ہر سال ہم پر فرض ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ، انما ھلک من کان قبلکم بکثرۃ سوالھم “۔ یعنی پہلی قومیں محض ان موشگافیوں کی وجہ سے ہلاک ہوئیں ، میں جو کچھ تم سے کہوں ، بلاکم وکاست مان لو ، اور جن منکرات سے روکوں ، رک جاؤ ۔ المآئدہ
102 المآئدہ
103 (ف ١) یہ مشرکانہ رسوم ہیں ، عرب ان مواشی کو مقدس سمجھنے اور بربنائے عظمت نہ ان کو ذبح کرتے اور انہ اپنے استعمال میں لاتے ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس عقیدہ کی تردید کی ہے ، اور فرمایا ہے ، کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب جانور یکساں ہیں ، اور ان میں قطعا تقدیس موجود نہیں ، ہر جانور بہرحال جانور ہے ، اور کوئی خوبی ان میں ایسی نہیں ، جس کی وجہ سے ان میں سے کسی کو قابل تعظیم سمجھا جائے ، مصیبت یہ تھی کہ وہ محض آباؤ واجداد کی پیروی کرتے تھے ، جب انہیں غور وفکر کی دعوت دی گئی ، انکار کردیا ، اور کہہ دیا ، ہم تو قدیم روایات کو نہیں چھوڑیں گے ، حل لغات : بحیرۃ : جب اونٹنی پانچ بچے جنے ، اور آخری بچہ نر ہو ، تو اس کا کان پھاڑ دیتے تھے ، یہ تقدیس کی علامت ہے ، اس کے بعد حرمت لازم ہوجاتی ، بحر کے معنی پھاڑنے کے ہیں ۔ السآئبۃ : بیماری ، تکلیف ، یا خوشی اور مسرت میں جب کسی اونٹ کو آزاد کردیتے تو سائبہ کہلاتا ، یعنی آزادی سے پھرنے چلنے والا ، ۔ وصیلۃ : بھیڑ بکری کے بطن سے اگر نر اور مادہ دونوں اکٹھے پیدا ہوتے ، تو اسے وصیلہ کہتے یعنی نر اور مادہ کو باہم ملا دینے والی ، حام : معنی حمایت کرنے والا اور بچانے والا اور اونٹنی جو دس بچے جنے ، وہ حام کہلاتی اور مقدس ٹھہرتی ۔ المآئدہ
104 المآئدہ
105 علیکم انفسکم : (ف ١) اس آیت میں بتایا ہے کہ اصلاح سے قبل صلاح وتقوی کی ضرورت ہے ، اگر ہر شخص بجائے خود نیک اور متقی ہوجائے تو تبلیغ واشاعت کی قطعا ضرورت نہیں ، سب سے پہلے خود پرہیزگار اور صالح بننے کی حاجت ہے نہ یہ کہ اصلاح اور قیادت کے میدان میں آجائے اور ذاتی طور پر تقوی اور اصلاح نفس کے اسرار سے نامحرم ہو ، وہ شخص جو عامل نہیں ہے ، کتاب وسنت کی پروا نہیں کرتا فرائض میں سست وکاہلی ہے ، معاملات میں اچھا نہیں تھا ایک کو چنداں اہمیت نہیں دیتا ، اس سے کیا توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں ، وہ جو کچھ کہے گا اور جو کچھ کرے گا ، ریا کاری اور دکھلاوے کے لئے جس کا بالکل اثر نہیں ہوتا ، لہذا قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ پہلے خود نفس کی اصلاح کرو ، عادات واخلاق کو سنوارو ، اچھے اور نیک بنو ، شریعت پر عمل کرو ، خلوص وایثار ، کا شیوہ اختیار کرو ، پھر دیکھو کفر ومعصیت سے تمہیں قطعا نقصان نہیں پہنچے گا تم کامیاب رہو گے ، اور تمہاری ہدایت گمراہی اور ضلالت پر غالب آجائے گی ، المآئدہ
106 (ف ٢) اس سے پیشتر کی آیت میں حفظ مال کا ، واقعہ یہ ہے کہ تمیم انصاری اور اس کا بھائی تجارت کی غرض سے ملک شام کی جانب نکلے ، اس کے ساتھ بدیل عمرو بن عاص کا غلام بھی تھا ، جو مسلمان تھا راستے میں بدیل یکایک بیمار ہوگیا ، اس لئے احتیاطا اس نے اپنے سامان کی ایک فہرست مرتب کرلی ، اور وصیت کی کہ اگر میں مرجاؤں تو میری چیزیں میرے گھر پہنچا دینا ، چنانچہ وہ مر گیا ، اور ان کی نیت میں فرق آگیا ، کچھ چیزیں انہوں نے دیں اور کچھ رکھ لیں ، اتفاقا چیزوں کی فہرست جو انہوں نے دیکھی تو خیانت ظاہر ہوگئی مقدمہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روبرو پیش ہوا ، اس پر یہ آیات نازل ہوئیں ۔ حل لغات : شھادۃ : گواہی ، عثر : معلوم ہوجائے ، عام طور پر مجہول استعمال ہوتا ہے ۔ المآئدہ
107 المآئدہ
108 المآئدہ
109 (ف ١) مقصد یہ ہے ، کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انبیاء سے ان کی امتوں کے سامنے انہیں نادم کرنے کے لئے پوچھیں گے کہ تمہارے ساتھ ان لوگوں نے کیا سلوک روا رکھاوہ کہیں گے ۔ اللہ تعالیٰ تو خوب جانتا ہے ، ہمارا علم ناقص ہے ، ہم صرف ظواہر کو جانتے ہیں ، دل کے بھید اور اسرار سے بجز تیری ذات کے اور کون آگاہ ہے یعنی اپنے علم کو اللہ تعالیٰ کی تفویض میں دے دیں گے ، اور منتظر رہیں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کی امتوں کے متعلق کیا فیصلہ صادر فرماتا ہے ۔ یہ انبیاء کا کمال ترحم ہے ، کہ اگر خدا ان کی گنہ گار امتوں کو بخش دے ، تو وہ خوش ہوں گے ، اور انہیں کوئی اعتراض نہ ہوگا یہی وجہ ہے ، وہ اپنے علم کو نامستند قرار دیتے ہیں ، اور اللہ تعالیٰ سے فیصلہ کے متعلق ہیں ۔ حل لغات : الغیوب : جمع غیب ، جمع سے مقصد تنوع فی العلوم والا حوال ہے یعنی تو ہر طرح کے احوال اور علوم سے آگاہ ہے ۔ المآئدہ
110 (ف ١) مھد وکھل : چونکہ متقابل ہیں اس لئے اطراف میں انتہا مقصود ہے ، یعنی عہد طفولیت میں اور عمر کے آخری حصے میں مسیح گفتگو فرمائیں گئے ، گفتگو سے مراد تبلیغ واشاعت ہے ۔ (ف ٢) میسح (علیہ السلام) کے معجزات ہیں کوڑھی اور اندھے کو اچھا کرنا مقصود ہے ، بلکہ ملا حدہ نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ مسیح (علیہ السلام) کوڑھی اور اندھوں کو آزاد بخشتے تھے ، یہ عربیت کے منافی ہے قرآن کے الفاظ سے اس مفہوم کی تائید نہیں ہوتی ” رجل باریٌ کے معنے تندرست آدمی کے ہوتے ہیں ، آزاد کے ۔ نعمت حیات : (ف ٣) آیت کا مقصد یہ ہے کہ مسیح (علیہ السلام) کو جب یہودیوں نے مار ڈالنا چاہا ، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں نعمت حیات سے بہرور کیا اور وہ اپنے ارادوں میں کامیاب ہو سکجے ۔ حل لغات : الاکمہ : مادر زاد اندھا : الابرص ۔ کوڑھی ، مبروس ۔ المآئدہ
111 مسیح کے حواری : (ف ١) موجودہ اناجیل میں مسیح (علیہ السلام) کے حواریوں کا جو تذکرہ ہے ، وہ نہایت قابل اعتراض ہے ۔ اناجیل میں لکھا ہے کہ مسیح (علیہ السلام) کے تمام حواری غیر مخلص تھے ، اب مسیح (علیہ السلام) کو گرفتار کرنے کے لئے جستجو ہوئی تو ایک حواری نے اپنی خدمات پیش کیں اور کہا جس سے میں زیادہ عقیدت کا اظہار کروں ، وہی مسیح ہے ، اس کو پکڑ لینا تعدیت اور انجیل روایات کے ماتحت مسیح (علیہ السلام) انہیں حواریوں کی وجہ سے گرفتار ہوئے اور صلیب پر لٹکائے گئے ۔ قرآن کہتا ہے مسیح (علیہ السلام) کے حواری پاکباز اور مخلص تھے ، جب حضرت مسیح (علیہ السلام) نے ایمان وتائید کے لئے انہیں مخاطب کیا فورا آمادہ ہوگئے ۔ جس کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ قرآن حکیم موجودہ اناجیل کی نسبت مسیح کا زیادہ اخلاص وعظمت سے تذکرہ کرتا ہے ۔ عیسائیوں کو چاہئے کہ وہ قرآن مجید کے ممنون ہوں ۔ المآئدہ
112 مائدہ : (ف ٢) معجزہ طلبی کی عادت قدیم سے بنی اسرائیل میں موجود ہے یہی وجہ ہے انہوں نے اکثر انبیاء سے خوراق ومعجزات طلب کئے ، اللہ تعالیٰ کی عادت قدیم سے بنی اسرائیل میں موجود ہے یہی وجہ ہے انہوں نے اکثر انبیاء سے خوارق ومعجزات طلب کئے ، اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی چیز مشکل نہیں وہ سب کچھ کرسکتا ہے مگر یہ ذہنیت اسے پسند نہیں کہ بات بات پر معجزہ طلب کیا جائے ، اسی لئے جب ان لوگوں نے مائدہ کے نزول کی خواہش کی تو (آیت) ” اتقوا اللہ “ کی تلقین کی گئی یعنی راسخ العقیدہ انسانوں کے لئے زیبا نہیں کہ عجائب پسندی اور کرشمہ آرائی کو مذہب کا احصل قرار دے لیں ، نزول مائدہ کے لئے مسیح (علیہ السلام) نے دعا کی ، اور کہا اس کے بعد تمہیں مزید موقع نہیں دیا جائے گا کیونکہ حجت تمام ہوچکے گی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اطعمہ لذیذ کے خوان بھیج رہا ہوں اس کے بعد بھی انکار وکفر کا اظہار کیا ، تو عذاب شدید کی وعید سن رکھو ، معلوم ہوتا ہے ، اس کڑی شرط کو سن کر حواری راہ راست پر آگئے اور نزول مائدہ کی پھر خواہش نہیں کی ، حل لغات : مائدہ : خوان ، مید سے مشتق ہے ، یعنی حرکت میں رہنے والی چیز خوان مختلف مہانوں کے پیش کیا جاتا ہے ، اس لئے مائدہ کہا جاتا ہے ۔ عید : جشن ، یوم مسرت ۔ المآئدہ
113 المآئدہ
114 المآئدہ
115 المآئدہ
116 المآئدہ
117