Maktaba Wahhabi

آیت نمبرترجمہسورہ نام
1 فہم القرآن: اللہ کائنات کے رب نے اپنی مخلوق کی پرورش کا بندوبست ایسے مضبوط نظام کے ساتھ فرمایا ہے کہ ہر چیز کو زندگی اور اس کی بقا کے لیے جو کچھ اور جس قد رچاہیے اسے اسی حالت اور مقام پر پہنچایا جارہا ہے۔ پتھر کا کیڑا چاروں طرف بند چٹان کے اندر اپنی خوراک لے رہا ہے، مرغی کا بچہ انڈے میں پل رہا ہے، مچھلیاں دریا میں، پرندے فضا میں اور درندے صحرا میں اپنی اپنی خوراک لے رہے ہیں اور اپنے ماحول میں مطمئن اور خوش وخرم دکھائی دیتے ہیں۔ ہر دانہ اپنی آغوش میں زندگی اور ہر بیج اپنے سینے میں نشوونما کا سامان لیے ہوئے ہے۔ یہاں تک کہ پھول کی کلی کو جس ہوا اور فضا کی ضرورت ہے اسے مہیا کی جارہی ہے۔ زندگی کے لیے ہوا اور پانی اس قدر لازمی جزہیں کہ ان کے بغیر زندگی لمحوں کی مہمان ہوتی ہے۔ یہ اتنے ارزاں اور وافر ہیں کہ اس کا اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے قرآن نے اللہ کی ہستی کا تعارف رب اور اس کے نظام ربوبیت سے بات کا آغاز کیا ہے تاکہ انسان کا وجدان پکار اٹھے کہ مجھے اس ہستی کا شکر ادا کرنا اور تابع فرمان رہنا ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔ اور یہ نظام اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کسی منتظم کے بغیر جاری اور قائم نہیں رہ سکتا ایک زندہ ضمیر شخص جب اپنے چاروں طرف رب کی ربوبیت کے اثرات ونشانات دیکھتا ہے تو اس کے دل کا ایک ایک گوشہ پکار اٹھتا ہے۔ ﴿فَتَبَارَکَ اللّٰہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ﴾ } المؤمنون : 14 { ” اللہ تعالیٰ برکت والا اور بہترین پیدا کرنے والا ہے۔“ مانگنے کا صحیح طریقہ اور اسلامی تہذیب کا جزو لازم ہے کہ انسان ہر حال میں اپنے رب کا حمد خواں اور شکر گزار رہے۔ حمدگوئی سے یہ بات خود بخود ثابت ہوتی ہے کہ یہ سب کچھ اللہ ہی کی عطا اور ملکیت ہے۔ اور انسان انتہائی ناتواں اور بے بس ہے۔ اس سے انسان کے دل میں یہ عقیدہ بھی جڑ پکڑتا ہے کہ جمال وکمال کسی کا اپنا نہیں بلکہ اللہ ہی کا عطا کردہ ہے۔ اس لیے حقیقی اور ہمہ وقتی حمد وستائش اسی مالک کو زیبا ہے۔ پھر مالک بھی ایسا جو صرف انسانوں اور جنّات کا ہی نہیں وہ تو حیوانات، جمادات، نباتات حتی کہ ارض وسمٰوٰت کا رب ہے۔ جو ابتدا سے انتہا تک ہر چیز کی ضرورت کو کمال رحمت اور ربوبیت سے پورا کررہا ہے۔ حمد میں دوسرے کی ذات کی بڑائی اور اس کے احسانات کا احساس و اعتراف پایا جاتا ہے۔ قرآن مجید ابتداہی میں انسان کو یہ باور کرواتا ہے کہ کائنات کا ذرّہ ذرّہ اپنے رب کی تعریف وتوصیف اور حمد وشکر بیان کرنے میں لگا ہوا ہے۔ ﴿سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ } الحشر : 1 {” زمین و آسمان میں موجود ہر چیز اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے اور وہ غالب حکمت والاہے۔“ اے انسان! اشرف المخلوقات ہونے کی حیثیت سے تجھے مانگنے سے پہلے اپنے رب کی حمد وشکر اور اس کی عنایت و عطا کا اعتراف کرتے ہوئے پہلے اپنے رب کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ کیونکہ شکر گزار ہی تابع فرمان ہوا کرتے ہیں۔ رسول کریم {ﷺ}اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا یوں بیان کیا کرتے تھے : (أَللّٰھُمَّ أَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَبِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوْبَتِکَ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ لَآأُحْصِیْ ثَنَاءً عَلَیْکَ أَنْتَ کَمَآ أَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکَ) } رواہ مسلم : کتاب الصلاۃ، باب مایقال فی الرکوع والسجود{ ” اے اللہ! میں تیری رضا مندی کے ذریعے تیری ناراضی سے اور تیری معافی کے ذریعے تیری سزا سے پناہ مانگتاہوں اور میں تجھ سے تیری پناہ مانگتاہوں میں اس طرح تیری تعریف نہیں کرسکتا جس طرح تیری شایان شان ہے۔“ (سُبْحَان اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ عَدَدَ خَلْقِہٖ وَرِضَانَفْسِہٖ وَزِنَۃَ عَرْشِہٖ وَمِدَادَ کَلِمَاتِہٖ) } رواہ مسلم : کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والإستغفار، باب التسبیح أول النھار وعند النوم { ” اللہ کی پاکی اس کی تعریف کے ساتھ اس کی مخلوق کی تعداد، اس کے نفس کی رضا، اس کے عرش کے وزن اور اس کے کلمات کی مقدار کے برابر۔“ مسائل : 1۔ تمام تعریفات اللہ کے لیے ہیں اور کائنات کا ذرّہ ذرّہ اس کی حمد وستائش کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : حمد اللہ تعالیٰ کے لیے ہے : 1۔ تمام تعریفیں جہانوں کو پالنے والے کے لیے ہیں۔ }الانعام : 45 { 2۔ اللہ کی حمدوثنا بیان کرنا مومنوں کی صفت ہے۔ } التوبۃ: 112 { 3۔ صبح وشام اللہ کی حمد بیان کرنے کا حکم ہے۔ } فاطر : 55 { 4۔ بجلی کی کڑک اور فرشتے بھی اللہ کی حمد بیان کرتے ہیں۔ } الرعد : 13 { 5۔ کائنات کی ہر چیز اللہ کی ثنا خواں ہے۔ }بنی اسرائیل : 44 { الفاتحة
2 فہم القرآن : رحمن فعلان کے وزن پر مبالغے یعنی سپر ڈگری (Super Degree) اور رحیم فعیل کے وزن پر اسم صفت مشبہ کے صیغے ہیں۔ اہل علم کے نزدیک رحمن کی صفت سب کے لیے ہے اور اللہ تعالیٰ کا رحیم ہونا صرف مومنوں کے لیے خاص ہے۔ ’’الرحمن ‘‘ لامتناہی اور رحمت مجسم کا ترجمان ہے اور لفظ ” الرحیم“ کائنات پر نازل ہونے والی مسلسل اور دائمی رحمت کی ترجمانی کرتا ہے۔ اس لحاظ سے معنٰی یہ ہوا کہ وہ ” اللہ“ بے انتہا مہربان‘ ہمہ وقت اور ہر حال میں رحم فرمانے والا ہے۔ فرق یہ ہے کہ رحیم کسی مشفق شخصیت کو کہا جاسکتا ہے مگر کسی کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ ” الرحمن“ کہنا بہت بڑا گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور رحیمیت کسی اضطرار اور مجبوری کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ اس کی رحمانیت کا عین تقاضا ہے۔ اس صفت کا تذکرہ قرآن مجید میں مختلف الفاظ اور انداز میں پایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان جس قدر سرکشی اور بغاوت پر اتر آئے لیکن جب اللہ کے حضور یہ کہتے ہوئے آب دیدہ ہوتا ہے کہ الٰہی! میرے جرائم اور خطاؤں کی آندھیوں نے میرے گلشن حیات کو برباد کردیا ہے۔ جس طرح تو ویران وادیوں، تپتے ہوئے صحراؤں اور اجڑے ہوئے باغوں کو اپنے کرم کی بارش سے سرسبز وشاداب بنا دیتا ہے اسی طرح مجھے بھی حیات نو سے ہمکنار کردے۔ بندۂ مومن کی عاجزی اور سرافگندگی پر رحمن ورحیم کی رحمت کے سمندر میں ایک تلاطم برپا ہوجاتا ہے۔ جس کی وسعتوں کا تذکرہ رسول کریم {ﷺ}یوں فرمایا کرتے تھے کہ اللہ کی رحمت اس قدر وسیع وعریض ہے جیسے بحر بیکراں میں سوئی ڈبو کر نکال لی جائے تو اس سے سمندر کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایسے ہی کائنات کے تمام جن وانس کی حاجات اور تمناؤں کو پورا کردیا جائے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سمندر میں سوئی ڈبو کر باہر نکال لینے کے برابربھی کمی واقع نہیں ہوتی۔ } رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ و الآداب، باب تحریم الظلم{ اللہ تعالیٰ معافی اور درگزر سے کام لیتا ہے کیونکہ اس نے ابتدائے آفرینش سے لکھ رکھا ہے کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب رہے گی۔ } رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ ﴿ویحذرکم اللہ نفسہ﴾{ مومنوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میری رحمت وشفقت ہر آن ان کے قریب رہتی ہے۔ ﴿رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ﴾[ الأعراف : 156] ” میری رحمت تمام اشیاء پر محیط ہے۔“ ﴿کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ﴾[ الأنعام : 54] ” تمہارے رب نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کرلیا ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ {ﷺ}یَقُوْلُ لَنْ یُّدْخِلَ أَحَدًا عَمَلُہُ الْجَنَّۃَ قَالُوْا وَلَآ أَنْتَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ لَا وَلَآ أَنَا إِلَّا أَنْ یَّتَغَمَّدَنِیَ اللّٰہُ بِفَضْلٍ وَّرَحْمَۃٍ فَسَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا وَلَا یَتَمَنَّیَنَّ أَحَدُکُمُ الْمَوْتَ إِمَّامُحْسِنًا فَلَعَلَّہٗ أَنْ یَّزْدَادَ خَیْرًا وَإِمَّا مُسِیْئًا فَلَعَلَّہٗ أَنْ یَّسْتَعْتِبَ) } رواہ البخاری : کتاب المرضٰی، باب تمنی المریض الموت{ ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ {ﷺ}سے سنا آپ فرماتے تھے کہ کسی کو اس کے عمل جنت میں داخل نہیں کریں گے۔ صحابہ کرام {رض}نے عرض کیا اے اللہ کے پاک نبی! آپ بھی نہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! میں بھی نہیں سواۓ اس کے کہ اللہ اپنے فضل و رحمت سے مجھے نوازدے۔ اس لیے میانہ روی اختیار کرو اور قریب قریب چلو۔ تم میں کوئی شخص موت کی تمنا نہ کرے کیونکہ وہ نیک ہوگا تو اس کے اعمال میں اضافہ ہوجائے گا۔ اگر وہ برا ہے تو ممکن ہے وہ توبہ کرلے۔“ رسول اکرم {ﷺ}کی دعا : (اَللّٰھُمَّ رَحْمَتَکَ أَرْجُو فَلَا تَکِلْنِیْ إِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ وَّأَصْلِحْ لِیْ شَأْنِیْ کُلَّہٗ لَآإِلٰہَ إِلَّآ أَنْتَ) } رواہ ابوداؤد : کتاب الأدب، باب مایقول إذا أصبح { ” اے اللہ! میں تیری رحمت کا طلب گار ہوں مجھے آنکھ جھپکنے کے برابر بھی میرے نفس کے سپرد نہ کرنا اور میرے سب کاموں کی اصلاح فرما تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نہایت ہی مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ 2۔ اللہ کی شفقت ومہربانی نے زمین و آسمان کا احاطہ کر رکھا ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ کی رحمت کی وسعتیں : 1-اللہ ایک ہے،بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ } البقرۃ: 163{ 2۔ سب کچھ جاننے کے باوجود نہایت ہی مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ }الحشر : 22{ 3-اس کی رحمت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔ }الاعراف : 156{ 4۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر مہربانی کرنا از خود اپنے آپ پر لازم قرار دے لیا ہے۔ }الانعام : 54{ 5۔ اس کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ }الزمر : 53{ 6۔ اللہ کی رحمت نیک لوگوں کے قریب ہوا کرتی ہے۔ }الاعراف : 56{ 7 - اللہ کی رحمت نے ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے۔} المؤمن: 7{ الفاتحة
3 فہم القرآن : اس سورۃ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کی چوتھی صفت جو بیان ہورہی ہے وہ قرآن مجید کا تیسرا مرکزی مضمون ہے۔ اللہ جزاء وسزا کے دن کا مالک ہے۔ قیامت کے دن پر ایمان لانا اسلام کے بنیادی عقائد اور اس کی ابتدائی تعلیم میں شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت یعنی اس کی ان گنت نعمتوں اور بے پایاں رحمتوں کے تذکرے کے بعد ﴿مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ﴾کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ کہیں انسان اس کی رحمت و شفقت دیکھ کر اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوجائے کہ مجھے میرے کیے دھرے پر پوچھا ہی نہیں جائے گا اور انسان کو دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے۔ اس فرمان میں یہ بتلایا گیا ہے کہ اے انسان! ناصرف تجھے موت آنی ہے بلکہ موت کے بعد تو اٹھایا اور اللہ کے حضور پیش کیا جائے گا پھر تجھے اپنی ایک ایک حرکت اور عمل کا پورا پورا حساب دینا ہے اور جزا یا سزا سے تیرا واسطہ پڑنا ہے۔ قرآن مجید کے عظیم مفسر اور نکتہ دان حضرت امام فخر الدین رازی }رح{ لکھتے ہیں کہ سورۃ الفاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اسم اعظم کے ساتھ چار صفات کا ذکر فرمایا ہے۔ جس میں یہ واضح کیا ہے کہ اے انسان! میں ہی وہ اللہ ہوں جس نے تجھے پیدا کیا اور میں ہی اپنی آغوش نعمت میں تیری پرورش کرتا ہوں۔ تجھ سے کوئی خطا ہوجائے تو بے پایاں رحمت کے ساتھ تیری پردہ پوشی کرتا ہوں۔ جب تو میری بارگاہ میں معذرت پیش کرتا ہے تو میں ہی تیری خطاؤں کو معاف کرنے والا ہوں۔﴿مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ﴾کی صفت میں یہ اشارہ دیا ہے کہ نیک اعمال کے بدلے قیامت کے دن تجھے پوری پوری جزائے خیر سے نوازا جائے گا۔ مالک کا لفظ استعمال فرما کر یہ واضح کردیا گیا کہ اس دن کا برپا ہونا بدیہی امر ہے۔ اس دن نیک وبد کو سزا دلوانے یا معاف کروانے کا کسی کو اختیار نہیں ہوگا۔ بڑے بڑے سرکش اور نافرمان خمیدہ کمر اور سر جھکائے رب کبریا کی عدالت میں ذلت ورسوائی کی حالت میں پیش کئے جائیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا دوسرا عکس ہے کیونکہ اس کے بغیر نیکوں کو پوری پوری جزا اور نافرمانوں کو ٹھیک ٹھیک سزا نہیں مل سکتی۔ اس لیے عقیدۂ آخرت ایمان کا اہم جزقرار پایا ہے۔ اس دن انبیائے کرام }علیہ السلام{ بھی نفسا نفسی کے عالم میں ہوں گے اور رب ذوالجلال دنیا کے سفّاک، ظالم اور متکبر حکمرانوں اور انسانوں کو اس طرح خطاب کرے گا۔ حضرت عبداللہ بن عمر {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم {ﷺ}نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ زمینوں اور آسمانوں کو یکجا کرکے اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے فرمائیں گے کہ میں ہی بادشاہ ہوں۔ ظالم وسفّاک اور نخوت وغرور رکھنے والے آج کہاں ہیں ؟ (یَقُوْلُ اَنَا الْمَلِکُ اَیْنَ الْجَبَّارُوْنَ أَیْنَ الْمُتَکَبِّرُوْنَ.) (رواہ مسلم : کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار ) دین کے معانی : اطاعت وبندگی۔ (الزمر : 11) شریعت : (یونس : 104) قانون : (یوسف : 76) حکمرانی : (المومن : 56) جزاء وسزا (بدلہ): (الذاریات : 6) مسائل : 1۔ قیامت کے برپا ہونے میں کوئی شک نہیں اس دن نیکوں کو جزا اور بروں کو سزا ملے گی۔ 2۔ قیامت کے دن پر ایمان لانا فرض ہے۔ تفسیر بالقرآن : قیامت برپا ہو کر رہے گی : 1- قیامت قریب ہے۔ (الحج : ١) 2-قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سوال کرے گا کہ آج کس کی بادشاہی ہے؟۔ (المومن : 16) 3- قیامت کے دن کوئی کسی کو فائدہ نہیں دے سکے گا۔ (الانفطار : 19) 4-قیامت کے دن ” اللہ“ ہی کی بادشاہی ہوگی۔ (الفرقان : 26) 5- قیامت کے دن ” اللہ“ ہی فیصلے صادر فرمائے گا۔ (الحج : 56) مختلف مراحل کے حوالے سے قیامت کے اہم ترین نام: اَلسَّاعَۃُ (الاعراف : 187) گھڑی ( مقرر وقت) 2- یَوْمُ الْقِیَامَۃِ (البقرۃ:113) کھڑے ہونے کا دن (مردوں کے کھڑے ہونے کا دن) 3- اَلْیَوْمُ الْحَقُّ (النباء : 39) سچا دن (جس کے آنے میں نہ کوئی شک ہے اور نہ اس دن کسی فیصلہ میں کوئی غلطی ہوگی) 4- یَوْمٌ مَّعْلُوْمٌ (الشعراء :38) جانا ہوا دن یا مقررہ دن 5- اَلْوَقْتُ الْمَعْلُوْمُ (الحجر :38) جانا ہوا وقت یا مقررہ وقت 6- اَلْیَوْمُ الْمَوْعُوْدُ (البروج :2) وعدے کا دن 7- اَلْیَوْمُ الْاٰخِرُ (النساء :38) آخری دن 8- یَوْمُ الْاٰزِفَۃِ (المومن :18) قریب آنے والی مصیبت کا دن 9- یَوْمٌ عَسِیْرٌ (المدثر :9) سخت دن 10- یَوْمٌ عَظِیْمٌ (الانعام :15) بڑا دن 11- یَوْمٌ عَصِیْبٌ (ہود :77) سخت دن 12- یَوْمُ الْبَعْثِ (الروم :56) جی اٹھنے کا دن 13- یَوْمُ التَّلَاقِ (المومن :15) افسوس کا دن 14- یَوْمُ التَّنَادِ (المومن :32) پکار کا دن 16- یَوْمُ الْجَمْعِ (الشوری :7) اکٹھا ہونے کا دن 17- یَوْمُ الْحِسَابِ (ص :16) حساب کا دن 18-یَوْمُ الْحَسْرَۃِ (مریم :39) حسرت کا دن 19- یَوْمُ الْخُرُوْجِ (ق :42) قبروں سے نکلنے کا دن 20-یَوْمُ الْفَصْلِ (الدخان :4) فیصلے کا دن 21- اَلْقَارِعَۃُ (القارعۃ: 1) کھڑکھڑانے والی 22-اَلْغَاشِیَۃُ (الغاشیۃ: 1) چھا جانے والی 23-اَلطَّآمَّۃُ الْکُبْریٰ (النازعات :34) بڑی مصیبت 24-اَلنَّبَأُ الْعَظِیْمُ (النباء :2) بڑی خبر 25-اَلْحَآقَّۃُ (الحاقۃ: 1) ضرور آنے والی گھڑی 26- اَلْوَعْدُ (الانبیاء :38) وعدہ 27- اَلْوَاقِعَۃُ (الواقعۃ:1) وقوع پذیرہونے والا 28- اَمْرُ اللّٰہِ (الحدید :14) اللہ کا حکم 29- اَلصَّآخَّۃُ (عبس :34) بہرہ کرنے والی گھڑی 30-یَوْمُ الدِّیْنِ (الفاتحۃ:3) بدلے کا دن 31- یَوْمٌ کَبِیْرٌ (ہود :3) بڑا دن 32- یَوْمٌ اَلِیْمٌ (ہود :26) دردناک دن 33-یَوْمٌ مُّحِیْطٌ (ہود :84) گھیرنے والا دن 34- یَوْمٌ مَّشْہُوْدٌ (ہود :104) حاضری کا دن الفاتحة
4 فہم القرآن : ” اللہ“ کے حضور نمازی غلامانہ انداز میں ہاتھ باندھ کر اور سراپا عجزو انکساری کے ساتھ اس بات کا اقرار اور اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہے کہ اے اللہ ! تو ہی میرا معبود ہے اس لیے میں تیری ہی عبادت کرتاہوں۔ اس میں نہ کسی کو سہیم سمجھتا ہوں اور نہ کسی کو آپ کے ساتھ شریک کرتا ہوں۔ نمازی یہ عہد واقرار ابتداءً قیام کی حالت میں اور آخر میں تشہد میں بیٹھ کر کرتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ ابتدا میں اس نے جامع الفاظ میں اقرار کیا تھا اور تشہد میں فقیروں کی طرح دامن پھیلا کر عرض کرتا ہے کہ میری تمام مناجات وعبادات اور نذرو نیاز اللہ وحدہ لا شریک کے لیے ہیں۔ (اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوٰتُ وَالطَّیِّبٰتُ) [ رواہ البخاری : باب التَّشَہُّدِ فِی الآخِرَۃِ] ” ہمہ قسم کی لسانی‘ بدنی اور مالی عبادات اللہ ہی کے لیے ہیں“۔ یہی وہ مطالبہ ہے جو رسالت مآب {ﷺ}کی زبان اطہر سے کروایا گیا ہے۔ اس میں یہ تقاضا بھی کیا گیا ہے کہ اللہ کی عبادت نہایت اخلاص اور بلا شرکت غیرے ہونی چاہیے۔ ﴿قُلْ إِنَّ صَلٰوتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ أُمِرْتُ وَاَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ۔ (الانعام :162-163) ” آپ اعلان کریں! یقیناً میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ رب العالمین کے لیے ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی بات کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے سر تسلیم خم کرنے والا ہوں۔“ اس کے بعد مومن دل کی اتھاہ گہرائیوں اور انتہائی عاجزی کے ساتھ عرض گزار ہوتا ہے کہ الٰہی ! یہ حاضری اور عاجزی تیری توفیق اور عنایت کا نتیجہ ہے کیونکہ کتنے ہی انسان ہیں جو صحت، فرصت اور تونگری کے باوجود تیری بارگاہ میں حاضر ہونے کی سعادت نہیں پاتے۔ اے اللہ! تیری مدد ہمیشہ میرے شامل حال رہے۔ میرا ایمان ہے کہ تیرے بغیر کوئی میری مدد نہیں کرسکتا۔ لہٰذا میں ہر دم تجھ سے مدد کا طلبگار اور تیری دستگیری کا خواستگار ہوں۔ میرا تیرے حضور یہ عہد ہے کہ میں تجھے مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے ہوئے تجھ ہی سے نصرت وحمایت کا طلبگارر ہوں گا کیونکہ تو داتا ہے میں محتاج، تو غنی ہے میں تیرے در کا فقیر، تو بے نیاز ہے میں نیاز مند، تو بادشاہ ہے میں فقیر بے نوا۔ اس لیے میری مدد فرما۔ میں تیری دستگیری اور مدد کے بغیر نہ اپنا ایمان سلامت رکھ سکتاہوں اور نہ اپنی عزت وجان کی حفاظت کرسکتاہوں۔ یہی عقیدہ رسول گرامی {ﷺ}نے سکھلایا اور اسی عقیدہ کو نماز کے بعد دعا کی صورت میں دہراتے اور مانگتے تھے۔ (اَللّٰھُمَّ لَامَانِعَ لِمَآ أَعْطَیْتَ وَلَامُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ۔۔) (بخاری : کتاب الأذان، باب الذکر بعد الصلوۃ) ” اے اللہ! جو چیز تو دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو چیز تو نہ دے اسے کوئی دینے والا نہیں۔“ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ {رض}قالَ کُنْتُ خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ {ﷺ}یَوْمًا فَقَالَ یَاغُلَامُ إِنِّیْ أُعَلِّمُکَ کَلِمَاتٍ احْفَظِ اللّٰہَ یَحْفَظْکَ احْفَظِ اللّٰہَ تَجِدْہُ تُجَاھَکَ إِذَ ا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللّٰہَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ باللّٰہِ وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّۃَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلآی أَنْ یَنْفَعُوْکَ بِشَیْءٍ لَمْ یَنْفَعُوْکَ إِلَّا بِشَیْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ لَکَ وَلَوِ اجْتَمَعُوْا عَلٰی أَنْ یَّضُرُّوْکَ بِشَیْءٍ لَمْ یَضُرُّوْکَ إِلَّا بِشَیْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ عَلَیْکَ رُفِعَتِ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتِ الصُّحُفُ.) (رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ و الرقائق والورع، باب منہ) ” حضرت عبداللہ بن عباس {رض}بیان کرتے ہیں ایک دن میں رسول کریم {ﷺ}کے پیچھے سوار تھا آپ {ﷺ}نے فرمایا : بچے! میں تجھے چند کلمات سکھاتا ہوں۔ اللہ کو یاد رکھنا وہ تجھے یاد رکھے گا، تو اللہ تعالیٰ کو یادرکھے گا تو اسے اپنے سامنے پائے گا، جب تو سوال کرے تو اللہ ہی سے سوال کر، جب تو مدد طلب کرے تو اللہ تعالیٰ ہی سے مدد طلب کر اور یقین رکھ کہ اگر پوری مخلوق تجھے کچھ نفع دینے کے لیے جمع ہوجائے تو وہ اتنا ہی نفع دے سکتی ہے جتنا اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھ رکھا ہے اور اگر وہ تجھے نقصان پہنچانے پر تل جائے تو تجھے اتنا ہی نقصان پہنچے گا جتنا تیرے حق میں لکھا گیا ہے، قلمیں اٹھالی گئیں ہیں اور صحیفے خشک ہوگئے ہیں۔“ مسائل : 1-ہر شخص کو صرف اللہ کی عبادت کرنا اور اس سے مدد کا طلب گار ہونا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : عبادت صرف اللہ کی ہونی چاہیے : 1- جنوں اور انسانوں کو اللہ نے صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ (الذّاریات :56) 2- ہر رسول، اللہ کی عبادت کی دعوت دیتا تھا۔ (النحل :36) 3- اللہ ہی کے لیے رکوع و سجود اور ہر عبادت ہونی چاہیے۔ (الحج :77) 4-اللہ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ (النساء :36) 5- اللہ کی عبادت اخلاص کے ساتھ کرنی چاہیے۔ (الزمر :6) 6-اللہ کے سوا کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ (الانفال :10) 7- اللہ ہی سے مدد مانگنا چاہیے۔ (البقرۃ :45) 8-اللہ تعالیٰ غنی اور کائنات کے سارے انسان اس کے در کے فقیر ہیں۔ (فاطر :15) الفاتحة
5 فہم القرآن : اہل علم نے ہدایت کے مدارج کی بہت سی قسمیں بیان فرمائی ہیں لیکن بنیادی طور پر اس کی چار اقسام ہیں : 1 ۔طبعی اور فطری ہدایت ۔2 الہامی ہدایت 3 ۔توفیقی ہدایت 4 ۔ہدایت وحی۔ طبعی اور فطری ہدایت : چاند، سورج اور سیارے طبعی رہنمائی کے مطابق اپنے مدار میں رواں دواں ہیں۔ ہوائیں اسی اصول کی روشنی میں رخ بدلتی اور چلتی ہیں۔ بادل فطری رہنمائی سے ہی راستے تبدیل کرتے اور برستے ہیں حتیٰ کہ اسی اصول کے تحت درخت روشنی کی تلاش میں ایک دوسرے سے اوپر نکلتے ہیں۔ فطری ہدایت کے مطابق ہی مرغی کا بچہ انڈے سے نکلتے ہی ماں کے قدموں میں پڑجاتا ہے، بطخ کا بچہ خود بخود پانی کی طرف چلتا اور انسان کا نومولود ماں کی چھاتی کے ساتھ چمٹتا ہے۔ اس طبعی اور فطری ہدایت کی قرآن نے اس طرح رہنمائی فرمائی ہے : ﴿وَھَدَیْنَاہ النَّجْدَیْنِ۔[ البلد :10] ” ہم نے اسے دو واضح راستے دکھا دیئے۔“ الہامی ہدایت : الہام وحی کی ایک قسم ہے لیکن وحی اور الہام میں فرق یہ ہے کہ وحی صرف انبیاء کے ساتھ خاص ہے جب کہ الہام انبیاء کے علاوہ نیک اور عام آدمی حتی کہ قرآن مجید نے شہد کی مکھیوں کے لیے بھی وحی یعنی الہام کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس کا معنٰی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کے دل میں کوئی بات القا فرما دیتا ہے۔ اسے ہدایت وہبی بھی کہا جاتا ہے۔ ہدایت بمعنٰی توفیق اور استقامت : ہدایت کی تیسری قسم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی عنایت اور توفیق سے اپنے بندے کی رہنمائی کرتے ہوئے اسے صراط مستقیم پر گامزن رہنے کی توفیق عطا فرما دے۔ رسول اللہ {ﷺ}اکثر یہ دعا کرتے تھے۔ (یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ) (رواہ الترمذی : کتاب الدعوات) ” اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھنا۔“ (اَللّٰھُمَّ اَلْھِمْنِیْ رُشْدِیْ وَأَعِذْنِیْ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ) (رواہ الترمذی : کتاب الدعوات، باب ماء فی جامع الدعوات) ” اے اللہ! میری راہنمائی فرما اور مجھے میرے نفس کے شر سے محفوظ فرما۔“ وحی اور حقیقی ہدایت : یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اس ہدایت کی دو شکلیں ہیں اور دونوں آپس میں لازم وملزوم اور ضروری ہیں۔ ایک ہدایت ہے ہر نیکی کی ظاہری حالت اور اس کی ادائیگی کا طریقہ جو ہر حال میں سنت نبوی کے مطابق ہونا چاہیے۔ دوسری اس کی روح اور اصل۔ اسے قرآن نے اخلاص سے تعبیر فرمایا ہے۔ اخلاص کے اثرات دل پر اثرا نداز ہوں گے تو اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل ہوگی جس کا بدلہ جنّت ہے۔ کردار پر مرتب ہوں گے تو نفس اور معاشرے میں پاکیزگی پیدا ہوگی جس سے آدمی کو دنیا میں نیک نامی اور کامیابی حاصل ہوگی۔ بندہ اللہ کے حضور ہاتھ باندھے، نظریں جھکائے، نہایت عاجزی اور بے بسی کے عالم میں عرض کرتا ہے۔ میرے خالق ومالک ! میں تیری بارگاہ میں عرض گزارہوں کہ میں دنیا کی رزم گاہ میں کمزور اور ناتواں ہوں۔ میرا دشمن بڑا ذلیل، طاقت ور، عیّار اور چالاک ہے جو چاروں طرف سے اپنے لشکروں کے ساتھ ہر آن مجھ پر حملہ آور ہو رہا ہے۔ اور میں اسے دیکھ بھی نہیں سکتا۔ وہ ہر دم مجھے پھسلانے کے درپے ہے۔ تیری دست گیری اور رہنمائی کے بغیر نہ میں اس کا مقابلہ کرسکتاہوں اور نہ ہی سیدھی راہ پر گامزن رہ سکتاہوں۔ دنیا کے گھٹا ٹوپ اندھیروں، مسائل کے طوفانوں اور مشکلات کے جھکڑوں میں میری عاجزانہ درخواست ہے کہ مجھے لمحہ لمحہ اور قدم قدم پر صراط مستقیم کی رہنمائی اور اس پر ثابت قدمی کی توفیق نصیب فرما۔ مومن اپنے ساتھ دوسروں کے لیے بھی ہدایت اور مدد کا طالب ہوتا ہے تاکہ ایک فرد کی بجائے ہدایت یافتہ لوگوں کا ایک قافلہ اور کارواں ہوتاکہ شیطانی لشکروں کا مقابلہ کرنا اور غلبۂ دین آسان ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم {ﷺ}کو گفتگو کا ملکہ اور ایسامعجزانہ اسلوب عنایت فرمایا تھا جو بنی نوع انسان میں کسی کو نہ حاصل ہوا نہ ہوگا۔ آپ نے بڑے بڑے پیچیدہ مسائل چند الفاظ اور انتہائی سادہ انداز میں بیان فرمادیے ہیں۔ لیکن صراط مستقیم کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظراس مسئلہ کو ایک نقشہ کے ذریعے سمجھانے کا طریقہ اختیار فرمایا تاکہ کوئی ابہام باقی نہ رہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ {رض}قَالَ خَطَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ {}خَطًّا بِیَدِہٖ ثُمَّ قَالَ ھٰذَا سَبِیْلُ اللّٰہِ مُسْتَقِیْمًا قَالَ ثُمَّ خَطَّ عَنْ یَّمِیْنِہٖ وَشِمَالِہٖ ثُمَّ قَالَ ھٰذِہِ السُّبُلُ وَلَیْسَ مِنْھَا سَبِیْلٌ إِلَّا عَلَیْہِ شَیْطَانٌ یَدْعُوْ إِلَیْہِ ثُمَّ قَرَأَ ﴿وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ﴾) (مسند احمد : کتاب مسند المکثرین من الصحابۃ، باب مسند عبدا اللہ بن مسعود) ” حضرت عبداللہ بن مسعود {رض}بیان کرتے ہیں رسول اللہ {ﷺ}نے اپنے ہاتھ سے ایک لکیر کھینچی پھر فرمایا یہ اللہ کا سیدھا راستہ ہے پھر اس کے دائیں اور بائیں خط کھینچ کر فرمایا یہ راستے ہیں۔ ان میں ہر ایک پر شیطان کھڑا ہے اور وہ اس کی طرف بلاتا ہے پھر آپ {ﷺ}نے اس آیت کی تلاوت کی (بے شک یہ میرا سیدھا راستہ ہے اسی پر چلتے رہنا اور پگڈنڈیوں پر نہ چلنا۔“ قرآن مجید نے اس راستے کو نبی {ﷺ}کا راستہ قرار دیا اور اسے بصیرت سے تعبیر کیا ہے۔ ﴿قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِیْ أَدْعُو إِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ﴾ (یوسف :108) ” آپ فرمادیجئے یہ میرا راستہ ہے میں اور میرے پیرو کار بصیرت کی بنیاد پر اللہ کی طرف بلاتے ہیں۔“ (عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِیَۃَ یَقُوْلُ وَعَظَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ {}مَوْعِظَۃً ذَرَفَتْ مِنْھَا الْعُیُوْنُ وَوَجِلَتْ مِنْھَا الْقُلُوْبُ فَقُلْنَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ إِنَّ ھٰذِہٖ لَمَوْعِظَۃُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْھَدُ إِلَیْنَا قَالَ قَدْ تَرَکْتُکُمْ عَلَی الْبَیْضَآءِ لَیْلُھَا کَنَھَارِھَا لَایَزِیْغُ عَنْھَا بَعْدِیْ إِلَّاھَالِکٌ مَنْ یَّعِشْ مِنْکُمْ فَسَیَرٰی اخْتِلَافًا کَثِیْرًا فَعَلَیْکُمْ بِمَا عَرَفْتُمْ مِنْ سُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَاء الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیْنَ عَضُّوْا عَلَیْھَا بالنَّوَاجِذِ وَعَلَیْکُمْ بالطَّاعَۃِ وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِیًّا فَإِنَّمَا الْمُؤْمِنُ کَالْجَمَلِ الْأَنِفِ حَیْثُمَا قِیْدَانْقَادَ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب المقدمۃ، باب اتباع سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین] ” حضرت عرباض بن ساریہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ {ﷺ}نے ایسا وعظ فرمایا جس سے آ نکھیں بہہ پڑیں اور دل ڈر گئے ہم نے کہا اللہ کے رسول یقیناً یہ تو الوداعی وعظ لگتا ہے لہٰذا آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا میں تمہیں واضح دین پر چھوڑ کر جارہا ہوں جس کی رات بھی دن کی مانند ہے ہلاک ہونے والے کے علاوہ کوئی اس سے نہیں ہٹے گا تم میں سے جو زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا۔ تم پر جو میرا اور میرے صحابہ کا طریقہ پر چلنا لازم ہے اسے داڑھوں کے ساتھ مضبوطی سے پکڑنا اور امیر کی اطاعت کرتے رہنا اگرچہ وہ حبشی ہی کیوں نہ ہو۔ مومن نکیل والے اونٹ کی طرح ہوتا ہے اسے جہاں بھی لے جایا جائے وہ جاتا ہے۔“ مسائل : 1- اللہ تعالیٰ سے ہر لمحہ اور ہر قدم پر صراط مستقیم کی درخواست کرتے رہنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : صراط مستقیم : 1- صراط مستقیم کی بنیاد۔ (آل عمران :101) 2- اللہ تعالیٰ کو ایک ماننا صراط مستقیم ہے۔ (آل عمران :51) 3- صراط مستقیم کے سنگ میل۔ (الانعام : 151تا153) 4-ہر کسی کو صراط مستقیم کی ہی دعوت دینا چاہیے۔ ( الانعام :154) 5-اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا صراط مستقیم پر ہے۔ (یٰس :61) الفاتحة
6 فہم القرآن : (آیت 6 سے 7) اب انعام یافتہ اور ہدایت یافتہ جماعت کا راستہ، ان کے ساتھ محبت اور ان کی معیت کی درخواست کی جاتی ہے جب کہ دوسرے گروہ سے اجتناب اور نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ جس کارواں کے راستہ کی دعا کی جارہی ہے وہ محض عقیدت کی بنیاد پر ہی نہیں بلکہ ان کے کردار اور اعلیٰ مقام کی وجہ سے ہے۔ جو خدا کے فرستادہ، پسندیدہ اور انعام یافتہ انبیائے کرام علیہم السلام ہیں ان پر سب سے بڑا انعام یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے پیغام اور کام کے لیے منتخب فرمایا تاکہ وہ لوگوں کو سیدھا راستہ بتلائیں اور اس پر چل کر دکھائیں۔ اس قافلۂ قدسیہ کے معزز افراد ایک مشن کے داعی، خاندان نبوت کے افراد اور رشتۂ رسالت کے حوالے سے ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ رسالت مآب {ﷺ}نے فرمایا : (اَنَا اَوْلَی النَّاسِ بِعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَالْأَنْبِیَآءُ إِخْوَۃٌ لِعَلَّاتٍ اُمَّھَاتُھُمْ شَتّٰی وَدِیْنُھُمْ وَاحِدٌ) (رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ ﴿وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ﴾) ” لوگو! میں عیسیٰ بن مریم {علیہ السلام}کے دنیا وآخرت میں سب سے زیادہ قریب ہوں اور انبیاء کی جماعت علاتی بھائی ہیں ان کی مائیں جدا جدا ہیں لیکن دین ایک ہے۔“ انعام یافتہ لوگوں کا تذکرہ : ﴿فَأُولٰئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ أَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآءِ وَالصّٰلِحِیْنَ وَحَسُنَ أُولٰئکَ رَفِیْقًا۔(النساء :69) ” تو وہ لوگ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ۔ رفیق ہونے کے لحاظ سے یہ لوگ کتنے اچھے ہیں۔“ پہلے انبیاء کی نبّوتوں اور شخصیتوں کی تائید کرنا ہمارے لیے ضروری اور ہمارے ایمان کا حصہ ہے لیکن سمع واطاعت صرف نبی آخر الزمان محمد رسول اللہ {ﷺ}کی کرنا ہوگی۔ اس سے اس نظریہ کی از خود نفی ہوجاتی ہے جو رسالت مآب {ﷺ}کے ارشادات کے مقابلہ میں کسی نبی یا شخصیت کے اقوال پیش کرتے ہیں۔ فاتحہ کے آخر میں جس گروہ سے نفرت کا اظہار اور جن کی عادات اور رسومات سے بچنے کی دعا کی جارہی ہے وہ صرف گروہ بندی کی بنیاد پر نہیں بلکہ ان سے اس لیے الگ رہنا ہے کہ وہ اپنی بے اعتدالیوں اور بد اعمالیوں کی وجہ سے اللہ کے غضب کے سزا وار ٹھہرے ہیں۔ ” آمین“ : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}أَنَّ النَّبِیَّ {}قَالَ إِذَا أَمَّنَ الْإِمَامُ فَأَمِّنُوْا فَإِنَّہٗ مَنْ وَّافَقَ تَأْمِیْنُہٗ تَامِیْنَ الْمَلآئِکَۃِ غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ) (رواہ البخاری : کتاب الأذان، باب جھر الإمام بالتأمین) ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ نبی {ﷺ}نے فرمایا : جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے ہم آہنگ ہوگئی اس کے پہلے تمام گناہ معاف کردیے گئے۔“ آمین کی فضیلت واہمیت : (عَنْ أَبِیْ مُصَبِّحِ الْمَقْرَائِیِّ قَالَ کُنَّا نَجْلِسُ إِلٰی أَبِی زُھَیْرٍ النُّمَیْرِیِّ وَکَانَ مِنَ الصَّحَابَۃِ فَیَتَحَدَّثُ أَحْسَنَ الْحَدِیْثِ فَإِذَا دَعَا الرَّجُلُ مِنَّا بِدُعَاءٍ قَالَ اخْتِمْہُ بآمِیْنَ فَإِنَّ آمِیْنَ مِثْلُ الطَّابِعِ عَلَی الصَّحِیْفَۃِ )]رواہ ابوداوٗد : کتاب الصلاۃ، باب التأمین وراء الإمام[ ” حضرت ابو مصبح المقرائی {رض}فرماتے ہیں ہم ابو زہیر نمیری {رض}کے ہاں بیٹھے تھے جو صحابی تھے وہ اچھی اچھی باتیں بیان کرتے تھے۔ ہم میں سے ایک آدمی نے دعاشروع کی تو صحابی نے فرمایا دعا ” آمین“ کے ساتھ ختم کرو کیونکہ دعا کو آمین کے ساتھ ختم کرنا ایسے ہی ہے جیسے خط پر مہر لگادی جائے۔“ سورہ فاتحہ کی آیات کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے امام شافعی کے نزدیک بسم اللہ سورۃ فاتحہ کا حصہ ہے اور یہی ساتویں آیت ہے اور اس کا پڑھناواجب ہے۔ لیکن راجح قول کے مطابق بسم اللہ سورۃ فاتحہ کا حصہ نہیں بلکہ ﴿صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ﴾ الگ آیت ہے اور ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ﴾ الگ آیت ہے۔ (دیکھیے ایسر التفاسیرجلد 1صفحہ نمبر10) مسائل : 1- صراط مستقیم کے ساتھ دنیا اور آخرت میں انعام یافتہ لوگوں کی رفاقت کی دعا کرنا چاہیے۔ 2- مغضوب لوگوں کے طریقے سے اجتناب کرنا اور اللہ تعالیٰ کے غضب سے پناہ مانگنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : انعام یافتہ اور مغضوب لوگ : 1- انبیاء، صدیق، شہداء اور صالحین انعام یافتہ لوگ ہیں۔ (النساء :69) 2- حضرت آدم، نوح، ابراہیم اور یعقوب (علیہ السلام) انعام یافتہ حضرات تھے۔ (مریم :58) 3- مشرکوں پر اللہ کا غضب ہوتا ہے۔ (الاعراف :152) 4-بنی اسرائیل مغضوب لوگ ہیں۔ (البقرۃ:61) 5- مغضوب لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت برستی ہے۔ (الفتح: 6) 6-گمراہ اور مغضوب کو دلی دوست نہیں بنانا چاہیے۔ (الممتحنۃ :13) الفاتحة
7 الفاتحة
0 بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ البقرۃ کا تعارف : ” سورۃ البقرۃ“ کے چالیس رکوع اور دو سو چھیاسی آیات، چھ ہزار اکتیس الفاظ اور بیس ہزار حروف بنتے ہیں۔ اس سورۃ مبارکہ کی چند آیات کے سوا باقی تمام آیات مدینہ طیبہ میں نازل ہوئیں۔ اس میں بنی اسرائیل کے ایک مقتول کو دوسرے مقتول یعنی ذبیحہ گائے کے ذریعہ زندہ کیا گیا۔ جس سے بنی اسرائیل کے اندھے قتل کا فیصلہ سنایا گیا ہے اس لیے اس سورۃ کا نام ” البقرۃ“ قرار پایا۔ اس میں شرک کی نفی اور موت کے بعد جی اٹھنے کے عملی ثبوت پیش کیے گئے ہیں۔ اس سورۃ مبارکہ کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے بارے میں دوٹوک الفاظ میں بتایا ہے کہ اس کے من جانب اللہ ہونے، رشد وہدایت اور اس کی رہنمائی میں کسی قسم کے شبہ کی گنجائش اور نقصان کا اندیشہ نہیں لیکن اس سے وہی لوگ مستفید ہو پائیں گے جو اپنے رب کی رہنمائی کی چاہت، پیروی اور اس کی ممنوع کردہ چیزوں کو مسترد کریں گے۔ اس کے بعد ایمان اور اسلام کے بنیادی ارکان اور ان پر عمل کرنے والوں کو دنیا و آخرت کی کامیابی کا مژدہ سنایا گیا ہے۔ قرآن مجید کا انکار کرنے والوں کو ان کے انجام سے ڈرایا اور رسول اللہ {ﷺ}کو فرمایا ہے کہ خدا کے منکروں کو جس طرح چاہیں سمجھائیں یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ بعد ازاں متذبذب اور دو غلے کردار کے حامل اور مفاد پرست لوگوں کی نشان دہی اور ان کے انجام کے بارے میں واضح فرمایا ہے کہ یہ خطرناک‘ کذاب اور مسلمانوں کی آستینوں کے سانپ ہیں۔ ان سے بچ کر رہنا اور یہ دھوکہ باز اور ابن الوقت اللہ کی پکڑ سے نہیں بچ سکیں گے۔ اس کے بعد قرآن مجید اور انبیاء کی دعوت یعنی اللہ کی توحید اور اس کے ایسے آفاقی اور ٹھوس دلائل دیئے ہیں۔ جن سے شہری‘ دیہاتی‘ ان پڑھ‘ تعلیم یافتہ غرض کہ ہر انسان کو واسطہ پڑتا ہے اور وہ ان سے استفادہ کرتا ہے اور ہر کوئی جانتا ہے کہ زمین و آسمان اور دنیا و مافیہا کی چیزوں کو بنانے اور سجانے والا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ہے۔ ان دلائل کے بعد ہر انسان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسے صرف ایک رب کی عبادت کرنا چاہیے پھر قرآن مجید کے بارے میں چیلنج دیا ہے کہ اگر تمہیں اس کے من جانب اللہ ہونے میں شک ہے تو اللہ تعالیٰ کے سوا سب مل کر کوئی ایک سورۃ بنا لاؤ۔ چوتھے رکوع میں آدم (علیہ السلام) کا مقام ومرتبہ بیان کرنے کے بعد شیطان کی شرارتوں اور سازشوں اور حضرت آدم (علیہ السلام) کے ساتھ اس کی عداوت اور کش مکش کا ذکر کرتے ہوئے آدم (علیہ السلام) کے پھسلنے اور ان کو زمین پر بھیجنے کا مقصد واضح فرمایا ہے کہ اگر شیطان کی شیطنت اور دنیا وآخرت کے خوف وخطر سے بچنا اور اپنا کھویا ہوا مقام جنت حاصل کرنا چاہتے ہو تو صرف اور صرف اللہ کی ہدایات کی پیروی کرتے رہنا۔ جس سے تمہیں دنیا میں امن نصیب ہوگا اور آخرت کے خوف و غم سے مامون ہوجاؤ گے۔ پھر دنیا کی اقوام میں ایک معزز اور منفرد قوم کے عروج وزوال کے اسباب کا نہایت ہی تنقیدی جائزہ پیش کرتے ہوئے اس پر ناصحانہ انداز میں تبصرہ کیا گیا ہے۔ بنی اسرائیل کے سیاسی، جہادی اور مذہبی پیشواؤں کے کردار پر روشنی ڈالی گئی کہ وہ اس قدر دین کی حقیقت اور اخلاق کی دولت سے تہی دامن ہوئے کہ انہوں نے دین واخلاق کو دنیا کے حصول کا ذریعہ بنا لیا۔ پھر بنی اسرائیل کی مذہبی، اخلاقی اور سیاسی پستیوں کی نشاندہی فرمائی کہ جس وقت بنی اسرائیل پستیوں کا شکار ہوئے اور جب کبھی انہیں اپنی عزت رفتہ کا احساس ہو اتو انہوں نے اپنے کردار کو سنوارنے اور جدو جہد کا راستہ اپنا نے کے بجائے جادو ٹونے کے ذریعے عزت وعظمت کو پانے کی کوشش کی اور پھر اس سارے دھندے کو اللہ کے عظیم پیغمبرحضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ذمہ لگایا۔ حالانکہ جادو کفر ہے اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) ہرگز کفر نہیں کرتے تھے۔ کبھی اپنے بوسیدہ اور پراگندہ خیالات کی تائید کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا سہارا لینے کی کوشش کی اور مقدس شخصیات کو اپنے ہم عقیدہ ثابت کرنے کی مذموم کوششیں کیں یہاں تک کہ ان زمینی حقائق کا بھی انکار کیا جو دنیا کے سینے پر بیت اللہ، صفا ومروہ اور زمزم کی شکل میں خاندان ابراہیم (علیہ السلام) کی خدمات کا منہ بولتا ثبوت اور ان کی قبلہ گاہ ہے۔ بنی اسرائیل کے کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو سمجھایا گیا کہ اگر دنیا وآخرت کی بلندیوں کے طلب گار ہو تو پھر ابتلاء اور آزمائشوں کے لیے اپنے آپ کو تیار کرو کیونکہ آزمائش ایمان کی بلندی اور دنیا کی ترقی کا پیش خیمہ ہے جو لوگ حق و باطل کی رزم گاہ میں شہیدہوں انہیں مردہ مت کہو کیونکہ انہوں نے عظیم مقصد کے لیے قربانی دی ہے لہٰذا وہ زندہ ہیں لیکن ان کی زندگی کے بارے میں رائے زنی کرنے کی اجازت نہیں ہے اور تمہارے لیے بنی اسرائیل کے جرائم سے بچنا لازم ہے۔ اس کے بعد اس سورۃ مبارکہ میں انسانی زندگی کے مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے۔ جس میں معاشی، سماجی، جہادی، معاشرتی، اخلاقی، خاندانی اور انفرادی مسائل کے ساتھ ساتھ زندگی کے ہر شعبے کے لیے اصولوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ معاشی مسائل کے حل اور ان میں ناہمواری ختم کرنے کے لیے صدقہ و خیرات کی ترغیب مؤثر اور مدلل انداز میں دیتے ہوئے فرمایا کہ غریبوں‘ مسکینوں اور اعزاء و اقربا کی مالی خدمت کرنا اللہ تعالیٰ کو قرض دینے کے مترادف ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ سات سو گنا سے بھی زیادہ کر کے قیامت کے دن واپس لوٹائے گا۔ جس دن نیکی کے علاوہ کوئی چیز کار آمد نہ ہوگی۔ صدقہ کی تحریک دینے کے بعد سود کو نہ صرف حرام قرار دیا بلکہ اسے اللہ اور اس کے رسول {ﷺ}کے ساتھ جنگ قرار دیا ہے۔ جس سے ثابت ہوا کہ اسلام سے بڑھ کر کوئی دین غریبوں اور مستحقین کا ہمدرد اور خیر خواہ نہیں ہو سکتا۔ سود کے خاتمہ کے ساتھ صدقات اور تجارت کو فروغ دینے کی ترغیب دیتے ہوئے لین دین کے معاملات کو احاطۂ تحریر میں لانے کا حکم دیا۔ اس سورۃ کی ابتدا اسلام کے ارکان اور ایمان کے مدارج سے ہوئی اس کا اختتام بھی دین و ایمان کے بنیادی اصولوں پر کیا گیا ہے۔ آخر میں مومنوں کو ایک دعا سکھلائی گئی ہے کہ اپنے رب کے حضور یہ درخواست کرتے رہو کہ اے مولائے کریم! ہمارے عمل میں دانستہ و غیر دانستہ طور پر جو کوتاہی سرزد ہو تو اسے معاف اور صرف نظر فرماتے ہوئے کفار پر ہمیں غلبہ عطا فرما۔ یہی مسلمان کی زندگی کا مقصد ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سرخروہوجائے اور دنیا میں اسلام کا پرچم سر بلند رکھتے ہوئے کامیاب انسان کے طور پر زندگی بسر کرے۔ اللہ تعالیٰ ایسا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یاربّ العالمین۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ {رض}أَنَّ رَسُول اللَّہِ {ﷺ}قَالَ لاَ تَجْعَلُوا بُیُوتَکُمْ مَقَابِرَ إِنَّ الشَّیْطَانَ یَنْفِرُ مِنَ الْبَیْتِ الَّذِی تُقْرَأُ فیہِ سُورَۃُ الْبَقَرَۃِ) (رواہ مسلم : باب استحباب صلوۃ النافلۃ) ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ۔ بیشک اس گھر سے شیطان بھاگ جاتا ہے جس میں سورۃ بقرۃ کی تلاوت کی جاتی ہے۔“ البقرة
1 فہم القرآن : ربط سورۃ: فاتحہ دعا ہے اور قرآن اس کا جواب، فاتحہ خلاصہ ہے اور قرآن اس کی تفصیل۔ اپنے حجم اور مضامین کے لحاظ سے یہ فرقان حمید کی سب سے بڑی سورت ہے۔ الٓــمٓ حروف مقطعات ہیں جن کے مفسرین نے اپنی اپنی فہم و دانش کے مطابق کئی معانی لکھے اور بتلائے ہیں جن کی تفصیل مختلف تفاسیر میں موجود ہے۔ جن میں سے چند ایک یہ ہیں۔ عبدالرحمن بن زید بن اسلم {رض}فرماتے ہیں یہ سورتوں کے نام ہیں۔ حضرت ابن عباس {رض}فرماتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی قسموں میں سے قسمیں ہیں۔ دوسری جگہ فرماتے ہیں ” الٓــمٓ “ اللہ تعالیٰ کے اسمائے اعظم میں سے ہے۔ جب کہ کچھ لوگ کہتے ہیں یہ قرآن کے اعجازکا نمونہ ہیں۔ لیکن اس بات پر تمام اہل علم متفق ہیں کہ یہ حروف مقطعات ہیں ان کا کوئی معنٰی رسول اللہ {ﷺ}سے ثابت نہیں البتہ جو مفہوم عقل کے قریب تر نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ اس زمانے میں اہل زبان حروف مقطعات کا استعمال کرنے کے بعد اپنی فصیح اللسانی اور شستہ کلامی کا مظاہرہ کرتے اور سامعین ان حروف کا معنٰی پوچھنے کی ضرورت نہیں سمجھتے تھے۔ گویا کہ صاحب زبان ایسے الفاظ طرح مصرعہ کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ اسی وجہ سے صحابہ کرام {رض}نے نبی محترم {ﷺ}سے ان حروف کا معنٰی پوچھنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ کیونکہ ان کا شریعت کے مسائل اور معاملات سے کوئی تعلق نہیں لہٰذا امت کا اتفاق ہے کہ ان حروف کا معنٰی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ البتہ یہ قرآن مجید کا حصہ ہیں۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ {رض}یَقُوْلُ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ {}مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِّنْ کِتَاب اللّٰہِ فَلَہٗ بِہٖ حَسَنَۃٌ وَالْحَسَنَۃُ بِعَشْرِ أَمْثَالِھَا لَآ أَقُوْلُ الم حَرْفٌ وَلٰکِنْ أَلْفٌ حَرْفٌ وَلَامٌ حَرْفٌ وَمِیْمٌ حَرْفٌ) (رواہ الترمذی : کتاب فضائل القرآن، باب ماجاء فیمن قرأ حرفا من القرآن مالہ من الأجر) ” حضرت عبداللہ بن مسعود {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا جس نے اللہ کی کتاب کا ایک حرف پڑھا اسے اس کے بدلے ایک نیکی ملے گی اور ہر نیکی دس نیکیوں کے برابر ہے آپ {ﷺ}فرماتے ہیں کہ میں یہ نہیں کہتا کہ ” الم“ ایک حرف ہے بلکہ ” الف“ ایک حرف ہے اور ” لام“ ایک حرف ہے ” اور ” میم“ ایک حرف ہے۔“ الٓــمٓ “ چھ سورتوں کی ابتدا میں استعمال ہوا ہے۔ البقرۃ، آل عمران، العنکبوت، الروم، لقمان، السجدۃ۔ البقرة
2 فہم القرآن : ربط الکلام: فاتحہ دعا ہے اور قرآن اس کا جواب، فاتحہ خلاصہ ہے اور قرآن اس کی تفصیل۔ یہ عظیم سورت مدینہ طیبہ میں نازل ہوئی۔ یہاں یہود ونصارٰی آپ کے مخاطبین تھے۔ اس لیے ہٰذَاکی بجائے اسم اشارہ بعید ذَالِکَ استعمال کیا گیا ہے کہ یہ وہی کتاب ہے جس کا بیان اور تذکرہ تم توراۃ اور انجیل میں پاتے ہو۔ ذَالِکَ کا استعمال اس لیے بھی کیا گیا ہے کہ اس زمانے میں اہل عرب کسی عظیم چیز کی طرف توجہ دلاتے وقت دور کا اشارہ قریب کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔ اس دور میں اہل فارس بھی اپنی زبان میں قریب چیز کے لیے دور کے اشارات استعمال کرتے تھے اور انہی سے متاثر ہو کر اردو میں بھی آں جناب کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ پہلی امتوں بالخصوص یہود و نصارٰی نے آسمانی کتابوں میں اپنے رجحانات اور مفادات کی خاطر کئی قسم کے اضافے‘ التباسات اور مغالطے پیدا کردیے تھے۔ اس وجہ سے ان کتابوں پر لوگوں کا اعتماد ختم ہوچکا تھا۔ اس لیے آغاز ہی میں قرآن مجید کے بارے میں دو ٹوک الفاظ میں یہ وضاحت فرما دی گئی ہے کہ اس کے منزل من اللہ ہونے اور اس کے احکامات اور ارشادات میں کسی قسم کا شک اور تردّد کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس کے نفاذ اور اس پر عمل کرنے سے کسی نقصان کا اندیشہ نہیں ہے بلکہ اس پر عمل کرنے سے یقینا تمہیں دنیا و آخرت میں بہترین نتائج اور ثمرات حاصل ہوں گے۔ یہ کتاب ہر لحاظ سے قیامت تک قابل اعتماد اور اس پر عمل کرنا فرض ہے۔ قرآن مجید کے من جانب اللہ اور مستند ہونے کے بارے میں جرمنی کی بین الاقوامی یونیورسٹی کی رپورٹ۔ ” یونانی زبان میں انجیل کے جتنے نسخے دنیا میں پائے جاتے تھے کامل ہوں یا جزئی ان سب کو جمع کرکے ان کے ایک ایک لفظ کا باہم مقابلہ (موازنہ) (Collation) کیا گیا۔ اس کی جو رپورٹ شائع ہوئی اس کے الفاظ یہ ہیں ” کوئی دو لاکھ اختلافی روایات ملتی ہیں“ اس کے بعد یہ جملہ ملتا ہے ” یہ ہے انجیل کا قصہ“ اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد کچھ لوگوں کو قرآن کے متعلق حسد پیدا ہوا۔ اس لیے جرمنی کی میونخ یونیورسٹی میں ایک ادارہ قائم کیا گیا ” قرآن مجید کی تحقیقات کا ادارہ“ اس کا مقصد یہ تھا کہ ساری دنیا سے قرآن مجید کے قدیم ترین دستیاب نسخے خرید کر یا اس کے فوٹو لے کر جس طرح بھی ممکن ہو جمع کیے جائیں۔ جمع کرنے کا یہ سلسلہ کئی سال تک جاری رہا۔ جب 1933ء میں پیرس یونیورسٹی میں تھا تو اس کا تیسرا ڈائریکٹر پریتسل (Pretzl) پیرس آیا تھا کہ پیرس کی پبلک لائبریری میں قرآن مجید کے جو قدیم نسخے پائے جاتے ہیں ان کے فوٹو حاصل کرے۔ اس پروفیسر نے بیان کیا کہ اس وقت ہمارے انسٹی ٹیوٹ میں قرآن مجید کے بیالیس ہزار نسخوں کے فوٹو موجود ہیں اور مقابلے (Collection) کا کام جاری ہے۔ بعد ازاں اس ادارہ نے رپورٹ شائع کی جس کے الفاظ یہ ہیں کہ ” قرآن مجید کے نسخوں میں مقابلے کا جو کام ہم نے شروع کیا تھا اس کا اب تک جو نتیجہ نکلا ہے وہ یہ ہے کہ ان نسخوں میں کہیں کہیں کتابت کی غلطیاں تو ملتی ہیں لیکن اختلاف روایت ایک بھی نہیں۔ گویا کہ قرآن مجید ہر قسم کے ردّ وبدل سے مبرّا ہے۔“ (ماخوذ : خطبات بہاولپور از ڈاکٹر حمیداللہ) بلاشبہ قرآن مجید عظیم اور شک وشبہ سے بالا، انسانوں کی راہنمائی اور خیر خواہی کے لیے آخری آسمانی کتاب ہے لیکن اس سے ہدایت پانے کے لیے تقو ٰی لازم قرار پایا ہے۔ تقویٰ کے بارے میں امیر المومنین حضرت عمر فاروق {رض}نے جناب ابی بن کعب {رض}سے استفسار فرمایا کہ تقویٰ کیا ہے؟ حضرت ابی بن کعب {رض}نے اس سوال کا جواب دینے کی بجائے امیر المومنین سے عرض کی کہ جب آپ کسی ایسی پگڈنڈی پر گزرنے کا موقع پائیں جس کے چاروں طرف خار دار جھاڑیاں ہوں تو اس پر آپ کس طرح گزریں گے؟ امیر المومنین نے فرمایا اس راستے کا راہی دامن بچا کر ہی گزرے گا۔ ابی بن کعب {رض}فرمانے لگے کہ اسی کا نام تقو ٰی ہے۔ اور ایسے شخص کو متقی کہا جائے گا جو گناہوں کی آلائشوں سے بچ کر صراط مستقیم پر ثابت قدمی سے چل کر اپنی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر) بعض لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر یہ کتاب پرہیزگاروں کے لیے ہے تو پھر اس کا کیا کمال ہے؟ شاید ان کا مقصد یہ ہے کہ کتاب تو ایسی ہونی چاہیے تھی جو فاسقوں‘ فاجروں اور مجرموں کو کھینچ کر صراط مستقیم پر گامزن کر دے۔ دراصل یہ لوگ اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل و شعور کی صلاحیتوں سے ہمکنار فرما کر یہ اختیار دیا ہے کہ وہ نیکی اور بدی، نفع اور نقصان، دائمی اور عارضی فوائد میں جس کا چاہے انتخاب کرے۔ برائی سے اجتناب نہ کرنے والے کی مثال اس مریض کی طرح ہے جس کو ایک خیر خواہ حکیم اور مہربان والدین بار بار دوائی کھلانے کی کوشش کریں لیکن مریض دوائی کھانے کی بجائے اپنا منہ بند کرلے اور اس کے مرض میں اضافہ ہی ہوتا چلا جائے۔ ایسے حضرات سے پوچھنا چاہیے کہ اس میں حکیم کی حکمت، ماں کی مامتا اور والد کی شفقت کا کیا قصور ہے؟ اس لیے جاننا چاہیے کہ انسان کے لیے ہدایت کو جبری کی بجائے اختیاری بنایا گیا ہے۔ اگر ہدایت آدمی پر مسلط کردی جاتی تو اس کو قبول کرنے میں انسان کا کیا کمال ہوتا؟ پھر حیوان اور انسان میں امتیاز چہ معنی دارد؟ لہٰذا یہ کتاب انہی کے لیے ہدایت ہے جو ہدایت کے طالب اور گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مسائل : 1- قرآن مجید میں کوئی عیب اور نقص نہیں اور اس کے منجانب اللہ ہونے میں کسی شک کی گنجائش نہیں۔ 2- اللہ سے ڈرنے اور گناہوں سے بچنے والوں کے لیے قرآن مجید سر چشمۂ ہدایت ہے۔ تفسیر بالقرآن : تقویٰ کیا ہے؟ 1- اللہ کی ذات، احکام اور اس کے شعائرکے احترام کرنے کا نام تقویٰ ہے۔ (الحج :32) 2-تقویٰ نام ہے اللہ کے احکام پر عمل پیرا ہونے اور اس کی نافرمانیوں سے بچنے کا۔ (النور :52) 3- تقویٰ نام ہے سمع و اطاعت کے باوجود اپنے رب سے ڈرتے رہنے کا۔ (التغابن :16) قرآن مجید کی عظمت وصداقت : 1-قرآن مجید سراپا رحمت اور کتاب ہدایت ہے۔ ( لقمان :3) 2-یہ بابرکت اور پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے۔ ( الانعام :92) 3-اس میں ہدایت کے متعلقہ ہر چیز واضح کی گئی ہے۔ ( النحل :98) 4-یہ روشن اور بین کتاب ہے۔ ( المائدۃ:15) 5-پہلی کتابوں کی حقیقی تعلیم کی نگہبان ہے۔ (المائدۃ:48) قرآن مجید کے اسمائے گرامی : 1-القرآن (الاسراء :88) 2-الفرقان (الفرقان :1) 3-الذکر (الانبیاء :50) 4-التنزیل (الشعراء :192) 5-الحدیث (الزمر :23) 6-الموعظۃ (یونس :57) 7-الحکمۃ (القمر :5) 8-الحکم (الرعد :37) 9-الحکیم (یٰس :2) 10-المحکم (ھود :1) 11-الشفاء (الاسراء :82) 12-الھدیٰ (البقرۃ:2) 13-الھادی (الاسراء :9) 14-الصراط المستقیم (المائدۃ:16) 15-الحبل (آل عمران :103) 16-الرحمۃ (الاسراء :82) 17-الروح (الشوریٰ:52) 18-القصص (یوسف :3) 19-البیان (آل عمران :138) 20-التبیان (النحل :89) 21-المبین (یوسف :1) 22-البصائر (الاعراف :203) 23-قول الفصل (الطارق :13) 24-المثانی (الزمر :23) 25-النعمۃ (الضحی :11) 26-البرہان (النساء :174) 27-البشیر (فصلت :4) 28-النذیر (فصلت :4) 29-القیم (الکھف :2) 30-المھیمن (المائدۃ:48) 31-النور (الاعراف :157) 32-العزیز (فصلت :41) 33-الکریم (الواقعہ :77) 34-العظیم (الحجر :87) 35-المبارک (الانبیاء :50) (بحوالہ تفسیررازی ) البقرة
3 فہم القرآن : ربط کلام : کتاب حق کے تعارف کے بعد اس کے پیغام کا بیان اور ہدایت پانے والوں کے چھ جامع اور مرکزی اوصاف کا تذکرہ۔ ایمان کا اولیّن تقاضا یہ ہے کہ انسان ان دیکھی حقیقتوں کا اقرار کرے۔ جس میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان لانا اور اس کے حکم کے مطابق ہر بات کو ماننا شرط اول ہے۔ یہی انسانیت کا شرف اور اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد کی پاسداری ہے۔ ان حقیقتوں پر ان دیکھے ایمان لانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ آدمی میں یہ استعداد اور طاقت نہیں کہ وہ اپنی آنکھوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی زیارت کرسکے اور نہ ہی اس میں ملائکہ اور قبر کے عذاب کو دیکھنے کی ہمت ہے حتی کہ انسان تو ان آنکھوں کے ساتھ جنت کے حسن و جمال کی جھلک بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ رسول محترم {ﷺ}کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ جب آپ {ﷺ}نے جبرئیل امین (علیہ السلام) کو اصلی حالت میں ملاحظہ فرمایا تو آپ کا جسم اطہر تھر تھرانے لگا، رونگٹے کھڑے ہوگئے آپ {ﷺ}اپنے آپ میں شدید خطرہ محسوس کرتے ہوئے گھر آ کر شدید گرمی کے موسم کے باوجود کمبل لے کرلیٹ گئے اور کچھ سکون کے بعد اپنی زوجہ مکرمہ سے اظہار فرمایا کہ میں اپنے بارے میں شدید اندیشہ محسوس کر رہا ہوں۔ (رواہ البخاری : کتاب بدء الوحی) قبر کے عذاب کے بارے میں فرمایا : ” اگر انسان اور جن قبر کا عذاب سن لیں تو بے ہوش ہوجائیں۔“ (رواہ البخاری : کتاب الجنائز، باب المیت) جنت کی حور کے بارے میں ارشاد ہوا : ” اگر وہ آسمان سے نیچے جھانکے تو ہر چیز منور ہوجائے۔“ (رواہ البخاری : کتاب الجہاد، باب الحور العین) گویا کہ انسان اپنی ہمت سے بڑھ کر نہ حسن و جمال دیکھ سکتا ہے اور نہ ہیبت ناک منظر برداشت کرسکتا ہے اس بنا پر غیب پر ایمان لانا ایمان کی اولین شرط ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کا بندہ اور غلام ہے۔ غلام کا کام اپنے آقا کا حکم ماننا ہے، ہر حکم کی حقیقت جاننا نہیں۔ اقامت صلوٰۃ : اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ عبادت کا لفظ بڑا جامع ہے عبادت کی سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ صورت نماز ہے۔ اسی لیے پہلے انبیاء اور امتوں کو نماز قائم کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اور امت محمدیہ کو بھی یہی حکم ہوا ہے کہ وہ نماز قائم کریں(النور: 52)۔ دین اجتماعیت کا سبق دیتا ہے اور نماز اس کا عملی نمونہ پیش کرتی ہےتاکہ مسلمانوں میں وحدت اور اجتماعیت کا شعور پیدا ہو۔ اقامت صلوٰۃ سے مراد اس کے ظاہری آداب و شرائط بجا لانے کے ساتھ ساتھ معاشرتی اور روحانی فوائد کا حصول ہے۔ اس لیے یہاں ” اقرء وا الصلوٰۃ“ یا صرف ” صلوا“ کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ ﴿ اقیموا الصلوٰۃ﴾ کا جامع لفظ استعمال فرما کر واضح کیا گیا ہے کہ نماز پڑھنے اور ادا کرنے کے لحاظ سے جامع اور مکمل ہونی چاہیے۔ اس میں طہارت، ارکان کی صحیح ادائیگی، اخلاص اور جماعت کے ساتھ پڑھنے کا حکم شامل ہے۔ اس طرح یہ پانچ وقت کا اجتماعی عمل ہے۔ ﴿اَقِیْمُوا الدِّیْنَ﴾ (الشوریٰ:13) کا لفظ پورے دین کے لیے بھی استعمال ہوا۔ جس طرح دین کا تقاضا صرف اس کے احکامات پڑھ لینے سے پورا نہیں ہوتا جب تک اسے پورے طور پر نافذ نہ کیا جائے ایسے ہی نماز پوری جامعیت کے ساتھ اس وقت قائم ہوگی جب اس کے تقاضے پورے کیے جائیں گے۔ نمازی کو حکم ہے کہ نماز میں نظر کو ادھر ادھر نہ اٹھائے۔ یہی حکم نماز کے بعد ہے کہ غیر محرم عورتیں سامنے آئیں تو مرد اپنی نگاہوں کو نیچے رکھا کریں۔ تشہد میں نمازی درود اور التحیات میں سب کی سلامتی کی دعائیں مانگتا ہے۔ یہی جذبہ اسے نماز کے بعد بھی اختیار کرنا چاہیے۔ اسی طرح نماز کے اور بھی تقاضے ہیں جن کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ نماز میں اس قدر انہماک اور تعلق باللہ قائم ہونا چاہیے جیسے بندہ اپنے رب کی زیارت کر رہا ہو۔ (أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ فَإِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَإِنَّہٗ یَرَاکَ) (رواہ البخاری : کتاب الایمان، باب سؤال جبریل النبی {}عن الإیمان والإسلام والإحسان) ” اپنے رب کی عبادت اس تصور کے ساتھ کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو۔ اگر یہ تصور پیدا نہیں ہوسکتا تو کم از کم یہ خیال کرو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔“ زکوٰۃ کی فرضیت : قرآن نے لوگوں کو نماز با جماعت کی شکل میں مسجد میں پانچ وقت اکٹھا ہونے کا حکم دیا ہے تو یہ بات کس طرح گوارا ہوسکتی تھی کہ ایک شخص خوشحال زندگی بسر کر رہا ہو اور اس کے ساتھ کھڑا ہونے والا جسم پر چیتھڑے لپیٹے ہوئے زندگی کے تھپیڑے کھاتا رہے اور صاحب ثروت اس کی پرواہ نہ کرے۔ اسلام کا اجتماعی نظام دو بنیادوں پر قائم کیا گیا ہے ایک روحانی اور دوسری مادی معاشرے کی تطہیر، تزکیۂ نفس اور تعلق باللہ کے لیے پانچ وقت نماز قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ باہمی ہمدردی، قرابت اور معاشی استحکام کے لیے زکوٰۃ فرض قرار دی گئی تاکہ معاشرتی اونچ نیچ اور معاشی افراط و تفریط کو توازن کے پیمانے کے قریب رکھتے ہوئے باہمی محبت و اخوت کی فضاء قائم کی جائے۔ قرآن مجید نے بار بار صدقہ کرنے کی ترغیب دی ہے۔ اس تحریک کو محض لوگوں کی مرضی پر نہیں چھوڑا کہ جس کا دل چاہے خرچ کرے ورنہ مال پر مست ہو کر پھرتا رہے۔ زکوٰۃ کو فرض قرار دیتے ہوئے اسے ایمان کی مبادیات میں شامل فرمایا۔ قرآن مجید میں زکوٰۃ اور نماز کا چھبیس مرتبہ اکٹھا ذکر ہوا ہے۔ نماز حقوق اللہ کی ترجمان ہے اور زکوٰۃ حقوق العباد کی پاسبان۔ یہاں لفظ زکوٰۃ کی بجائے ﴿رَزَقْنٰھُمْ﴾ استعمال فرما کر اشارہ دیا کہ اجتماعی زندگی کا میابی کے ساتھ گزارنے کے لیے زکوٰۃ ہی نہیں بلکہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اسے عطا فرمایا ہے اس میں سے دوسروں پر خرچ اور صرف کرتا رہے۔ جسمانی قوت ہے تو نحیف اور ناتواں بندوں کی خدمت کرے، مالی استعداد ہے تو غریبوں اور ناداروں پر خرچ کرے، علم و بصیرت ہے تو لوگوں کی راہنمائی کرے، اقتدار اور اختیار ہے تو مجبوروں اور کمزوروں کی مدد کرتارہے۔ حضرت ابوبکر {رض}کا زکوٰۃ نہ دینے والوں کے متعلق حکم : (فَقَالَ وَاللَّہِ لأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَیْنَ الصَّلاَۃِ وَالزَّکَاۃِ، فَإِنَّ الزَّکَاۃَ حَقُّ الْمَالِ، وَاللَّہِ لَوْ مَنَعُونِی عَنَاقًا کَانُوا یُؤَدُّونَہَا إِلَی رَسُول اللَّہِ {}لَقَاتَلْتُہُمْ عَلَی مَنْعِہَا ) (رواہ البخاری : باب وجوب الزکٰوۃ) ” حضرت ابو بکر صدیق نے کہا اللہ کی قسم ! میں ان لوگوں سے ضرور لڑائی کروں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کریں گے۔ یقیناً زکوٰۃ مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم ! اگر لوگوں نے بکری کا بچہ دینے سے انکار کیا جو وہ اللہ کے رسول کے عہد میں دیا کرتے تھے۔ میں اس کے روکے جانے پہ لڑائی کروں گا۔“ مسائل : 1-غائب پر ایمان لاناضروری ہے۔ 2-نماز قائم کرنافرض ہے۔ 3-اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے رزق سے خرچ کرنا چاہیے۔ 4-قرآن مجید اور پہلی کتابوں پر ایمان لانا اور آخرت کو یقینی جاننا ایمان کے بنیادی ارکان ہیں۔ 5-ارکان اسلام کے تقاضے پورے کرنے والے لوگ ہدایت یافتہ اور کامیاب ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن : نماز کی اہمیت : یہاں نماز اور زکوٰۃ کی فرضیت واہمیت کے چند دلائل پیش کیے جاتے ہیں۔ ان شاء اللہ تفصیلی مسائل مرحلہ وار موقعہ بموقعہ بیان ہوں گے۔ 1- رسول اللہ {ﷺ}کو نماز کا حکم۔ (العنکبوت :45) 2-حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور نماز۔ (ابراہیم :37) 3-حضرت موسیٰ {ﷺ}کو نماز کا حکم۔ (یونس :87) 4-حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور نماز۔ (مریم :31) 5- بنی اسرائیل کو نماز کا حکم۔ (البقرۃ:83) 6- تمام امتوں کو اقامت صلوٰۃ کا حکم۔ (البینۃ:5) 7-نماز کا نظام قائم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ (الحج :44) البقرة
4 فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ ایمان کے مرکزی ارکان کا ذکر کرنے کے بعد لفظ ” ما“ استعمال فرما کر ایمان کی ان تمام مبادیات وشروعات کا احاطہ کیا گیا ہے جو ایمان کی تکمیل کے لیے ضروری ہیں۔ اس کی تفصیلات کے لیے رسول کریم {ﷺ}کا ارشاد ملاحظہ فرمائیں جس میں آپ نے یہی لفظ ” مَا“ استعمال فرما کر اس بات کا واضح اشارہ دیا ہے کہ ایمان کی تکمیل اس جامع تصور کے بغیر ممکن نہیں۔ ( لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبَعًا لِّمَا جئْتُ بِہٖ) (مشکوٰۃ : کتاب العلم : فصل ثالث) ” تم میں سے کوئی مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنی خواہشات کو میرے لائے ہوئے دین کے تابع نہ کر دے۔“ اسلام کی وسعت تعلیم کا اندازہ لگائیں کہ وہ صرف قرآن مجید پر ہی نہیں بلکہ پہلی تمام آسمانی کتابوں پر ایمان لانا ضروری سمجھتا ہے۔ حالانکہ نزول قرآن کے بعد وہ منسوخ ہوچکی ہیں۔ اس کے باوجود قرآن مجید ان کی حقیقی تعلیمات اور پہلے انبیاء کی تائید کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی تمام انبیاء کی شان اور مقام کے اعتراف و احترام کا حکم دیتا ہے کیونکہ پہلے انبیاء اللہ تعالیٰ کے فرستادہ تھے‘ ان پر نازل ہونے والی کتابیں من جانب اللہ تھیں اور دین کے بنیادی ارکان ہمیشہ سے ایک ہی رہے ہیں لیکن ہدایت کے لیے اب قرآن اور اس پر کماحقہ عمل کرنے کے لیے جناب محمد {ﷺ}کی ذات گرامی واجب الاتباع قرار پائی ہے۔ ایمان کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے آپ {ﷺ}نے جبریل امین (علیہ السلام) کے سوال کے جواب میں فرمایا : (اَنْ تُؤْمِنَ باللّٰہِ وَمَلائکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَتُؤْمِنَ بالْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ)(رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب بیان الإیمان والإسلام والإحسان) ” تو اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، قیامت کے دن، اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لائے۔“ دوسرے مقام پر رسول محترم {ﷺ}نے فرمایا : (اَلْإِیْمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُوْنَ شُعْبَۃً فَأَفْضَلُھَا قَوْلُ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَدْنَاھَا إِمَاطَۃُ الْأَذٰی عَنِ الطَّرِیْقِ وَالْحَیَاءُ شُعْبَۃٌ مِّنَ الْإِیْمَانِ) (رواہ مسلم : باب بیان عدد شعب الإیمان وأفضلھا وأدناھاوفضیلتُہُ) ” ایمان کے ستر سے کچھ اوپر اجزاء ہیں۔ ان میں افضل ترین ” لَا اِلٰہَ اِلَّااﷲُ“ کا اقرار ہے اور سب سے ادنیٰ تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان میں شامل ہے۔“ ایمان کا معنٰی : ایمان کا معنٰی ہے دل سے تصدیق کرنا، زبان سے اس کا اظہار کرنے کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہونا۔ ایقان کا معنٰی : کسی سچائی کو دل کی اتھاہ گہرائیوں کے ساتھ اس طرح تسلیم کرنا کہ اس میں شک اور تردد کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔ یہ ایقان کا درجہ ہے جو لوگ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو اس طرح مانتے اور عمل پیرا ہوتے ہیں وہی ایمان دارہیں۔ جب تک آدمی آخرت پر سچا ایمان نہ لائے اس وقت تک اس کی زندگی پر قرآن و سنت کے پورے اثرات مرتب نہیں ہو سکتے۔ قرآن مجید نے اللہ اور اس کے رسول {ﷺ}کی اطاعت کے بعد سب سے زیادہ عقیدۂ آخرت پر زور دیا ہے کیونکہ اس کے بغیر نیکو کاروں کو پورا پورا اجر اور نافرمانوں کو ٹھیک ٹھیک سزا نہیں مل سکتی۔ آخرت کی جواب دہی کا تصور ہی انسان کو درست رکھ سکتا ہے۔ مسائل : 1- قرآن مجید‘ پہلی آسمانی کتب اور آخرت پر ایمان لانا فرض ہے۔ تفسیر بالقرآن : آخرت پر یقین محکم ہونا چاہیے : 1- آخرت برحق اور اس کے برپا ہونے میں کوئی شک نہیں۔ (الکہف :21) 2- ایمانداروں کی نشانی یہ ہے کہ وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ (البقرہ :3) 3- اللہ تعالیٰ کی آیات اور آخرت کو جھٹلانے والوں کے اعمال ضائع ہوجائیں گے۔ (الاعراف :147) 4- آخرت کے منکروں کی خواہشات کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ ( الانعام :151) 5- اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے۔ (العنکبوت :64) 6- اللہ اور آخرت پر یقین رکھنے والے کو کوئی ڈر نہیں ہوگا۔ (المائدۃ: 69) 7- آخرت کے مقابلے میں دنیاوی زندگی کی کوئی حقیقت نہیں۔ (الرعد: 26) 8-اخروی زندگی ہی بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔ (الاعلی: 18) البقرة
5 فہم القرآن : ربط کلام : ایمان کے چھ اوصاف اپنانے اور ان کے تقاضے پورے کرنے والوں کو کامیابی کا مژدہ سنایا جاتا ہے۔ کتاب مبین کے الفاظ اور اس کی ہدایت پر کسی شک وتردد کے بغیر یقین کرنا، قرآن مجید کے بتلائے ہوئے ان دیکھے حقائق پر ایمان لانا، نماز کی شرائط کے مطابق اس کی ادائیگی اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کا انفاق، قرآن و حدیث کی صورت میں جو کچھ جناب محمد کریم {ﷺ}پر نازل ہوا ہے اسے اعتقاداً، قولًا اور عملًاتسلیم کرنا، انبیاء کرام (علیہ السلام) اور پہلی کتب آسمانی کی تصدیق کرتے ہوئے آخرت کی جواب دہی پر یقین کامل رکھنے والوں کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ یہی وہ خوش نصیب ہیں جو اپنے رب کی ہدایت پر ہیں اور یہی فلاح و کامیابی سے سر فراز ہونے والے ہیں۔ فلاح کسی ادھوری اور جزوی کامیابی کو نہیں کہتے بلکہ فلاح اس مکمل کامیابی کو کہا جاتا ہے جس کے دامن میں دنیا و آخرت کی سعادتیں اور برکتیں سمٹ آئی ہوں۔ لیس فی کلام العرب کلہ اجمع من لفظۃ الفلاح لخیری الدنیا و الاخرۃ کما قالہ ائمۃ اللغۃ.“ [ تاج العروس] ” ائمہ لغت نے تصریح کی ہے کہ عربی زبان میں فلاح کے لفظ سے زیادہ اور کوئی جامع لفظ نہیں جو دنیا وآخرت دونوں کی خیرات و برکات پر دلالت کرتا ہو۔“ مسائل : 1-اللہ تعالیٰ اور غائب پر ایمان لانا، نماز قائم کرنا۔ 2-اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے رزق سے خرچ کرنا۔ 3-قرآن مجید، پہلی کتابوں اور انبیاء کرام پر ایمان لانا۔ 4-آخرت کو یقینی جاننا ایمان کے بنیادی ارکان ہیں۔ تفسیر بالقرآن : کامیاب کون؟ 1- ایمان کے تقاضے پورے کرنے والے کامیاب ہوں گے۔ ( الاعراف :157) 2- رسول محترم {ﷺ}پر ایمان لانے اور آپ {ﷺ}کی عزت و تکریم کرنے والے کامیاب ہوں گے (الاعراف :157) 3-اللہ کے راستے میں مال و جان کے ساتھ جہاد کرنے والے کامیاب ہوں گے۔ (التوبۃ:88) 4-غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرنے والے کامیاب ہوں گے۔ (الروم :38) البقرة
6 فہم القرآن : (آیت 6 سے 7) ربط کلام : لوگوں کی دوسری قسم جنہوں نے حق کا انکار کیا ان کے مزاج اور انجام کا بیان۔ لغت میں کفر کا معنٰی ہے کسی شے کو چھپانا۔ جو شخص نعمت کو چھپائے اور اس کا شکرادا نہ کرے اس کے فعل کو کفر اور کفران نعمت کہتے ہیں۔ سب سے بڑا کفر اللہ کی وحدانیت اور شریعت، نبوت کا انکار ہے۔ قرآن مجید میں کفر کا لفظ کفران نعمت اور کفر باللہ دونوں کے لیے استعمال ہوا ہے۔ (اَلْکُفْرُ عَدَمُ تَصْدِیْقِ الرَّسُوْلِ فِیْمَا عُلِمَ بالضَّرُوْرَۃِ مَجِیْئُہٗ بِہٖ) (تفسیر رازی : ص 306، ج1) ” کفر کے معنٰی یہ ہیں کہ رسول اور پیغمبر کی اس بات میں تصدیق نہ کرنا جس کا بدیہی اور قطعی طور پر دین سے ہونا معلوم ہوچکا ہے۔“ حقائق کا مسلسل انکار اور ہٹ دھرمی پر قائم رہنے والوں کی یہ حالت ہوچکی ہوتی ہے کہ ان کے لیے سمجھانا اور نہ سمجھانا یکساں ہوجاتا ہے۔ ان آیات میں ایک طرف نبی کریم {ﷺ}کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ کا کام ” اللہ“ کا پیغام پہنچانا اور لوگوں کو سمجھانا ہے۔ اگر یہ لوگ حق کا مسلسل انکار کئے جا رہے ہیں تو آپ کو دل گرفتہ نہیں ہونا چاہیے۔ اور نہ ہی ایسے ہٹ دھرم لوگوں پر مزید صلاحیتوں کو صرف کرنا چاہیے کیونکہ ان کے سچ اور حق کو قبول کرنے والے اعضاء بے کار کردیے گئے ہیں۔ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اگر اللہ نے ہی ان کی قوت فہم و سماعت ختم کردی ہے اور ان کی بصارت پر پردے ڈال دیے ہیں تو ان کا کیا قصورہے ؟ در حقیقت یہ لوگ آیات کے سیاق و سباق سے ہٹ کر یہ معنٰی نکال کر اپنی کم فہمی یا منفی سوچ کا اظہار کرتے ہیں۔ جبکہ ان آیات کا مفہوم سمجھنے کے لیے ایک مشفق و مہربان حکیم کی مثال سامنے رکھنی چاہیے جو کسی مریض کو مرض کے نقصانات بتلا اور دوائی کے فائدے سمجھا کر بار بار دوائی کھلانے کی کوشش کرتا ہے لیکن مریض نہ صرف اپنا منہ بند کرلیتا ہے بلکہ ہر قسم کی بد پرہیزی اور حکیم کے ساتھ بد تمیزی کرنے میں آگے ہی بڑھتا جاتا ہے۔ مریض کی بد تمیزی اور ہٹ دھرمی دیکھ کر اگر حکیم یہ کہہ دے کہ مریض اپنی موت کو دعوت دے رہا ہے لہٰذا اسے مرنے ہی دینا چاہیے تو اس میں حکیم کا قصور سمجھا جائے گا یا مریض کا؟ دوسرے مقام پر قرآن مجید نے واضح فرمایا ہے کہ ان کے گناہوں اور کفر کی وجہ سے ان کے کان بہرے، آنکھیں اندھی اور دلوں پر مہریں لگ چکی ہیں۔ (الاعراف :179) ان آیات میں کفر و شرک کے مریض کی حالت اور نبی کریم {ﷺ}کی بھر پورکوششوں کا نقشہ پیش فرما کر رب کریم نے آپ {ﷺ}کو تسلی دی ہے اور انکار کرنے والوں پر ہمیشہ کی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ان کو اس قدر ہولناک اور اذیت ناک عذاب ہوگا کہ وہ دنیا کی سب نعمتوں اور سہولتوں کو بھول جائیں گے۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ {رض}قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ {}یُؤْتٰی بِأَنْعَمِ أَھْلِ الدُّنْیَا مِنْ أَھْلِ النَّارِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُصْبَغُ فِی النَّارِ صَبْغَۃً ثُمَّ یُقَالُ یَاابْنَ آدَمَ ھَلْ رَأَیْتَ خَیْرًا قَطُّ ھَلْ مَرَّبِکَ نَعِیْمٌ قَطُّ فَیَقُوْلُ لَاوَاللّٰہِ یَارَبِّ وَیُؤْتٰی بِأَشَدِّ النَّاسِ بُؤْسًا فِی الدُّنْیَا مِنْ أَھْلِ الْجَنَّۃِ فَیُصْبَغُ صَبْغَۃً فِی الْجَنَّۃِ فَیُقَالُ لَہٗ یَا ابْنَ آدَمَ ھَلْ رَأَیْتَ بُؤْسًا قَطُّ ھَلْ مَرَّ بِکَ شِدَّۃٌ قَطُّ فَیَقُوْلُ لَا وَاللّٰہِ یَارَبِّ مَا مَرَّ بِیْ بُؤْسٌ قَطُّ وَلَا رَأَیْتُ شِدَّۃً قَطُّ) (رواہ مسلم : کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار، باب صبغ أنعم أھل الدنیا فی النار.....) ” حضرت انس بن مالک {رض}بیان کرتے ہیں اللہ کے رسول {ﷺ}نے فرمایا : روز قیامت دنیا میں سب سے زیادہ ناز و نعمت میں پلنے والے جہنمی کو لا کر آگ میں غوطہ دیا جائے گا پھر اس سے پوچھا جائے گا کہ کیا تو نے کبھی کوئی بہتری دیکھی؟ کیا تجھے کوئی نعمت ملی؟ تو وہ کہے گا : اللہ کی قسم! اے میرے رب میں نے کوئی نعمت نہیں دیکھی۔ پھر ایک جنتی کو لایا جائے گا جو دنیا میں سب سے زیادہ تکلیفوں میں رہا اسے جنت میں داخل کر کے پوچھا جائے گا اے ابن آدم! کیا تو نے کبھی کوئی تکلیف اور سختی دیکھی؟ وہ عرض کرے گا نہیں اللہ کی قسم! مجھے کبھی کوئی تکلیف اور مصیبت نہیں آئی۔“ مسائل : 1- کفر پر پکے لوگوں کو سمجھانا یا نہ سمجھانا ایک جیسا ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : جن لوگوں کے دلوں پر اللہ نے مہریں لگائی ہیں : 1- ہم اسی طرح حد سے نکل جانے والوں کے دلوں پر مہر لگا دیا کرتے ہیں۔ (یونس: 74) 2- اللہ تعالی نے انکے کفر کی وجہ سے انکے دلوں پر مہر لگا دی۔ (النساء: 155) 3- اللہ کفار کے دلوں پر مہر ثبت کرتا ہے۔ (الأعراف: 101) 4- جو لوگ ایمان لائے اور اس کے بعد کفر کیا اللہ نے انکے دلوں پر مہر لگا دی۔ (المنافقون: 3) 5- اللہ ہر تکبر کرنے والے سرکش کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ (المؤمن: 35) 6-اللہ نے ان کے دلوں پر مہر ثبت فرمادی سو وہ نہیں جانتے۔ (التوبہ: 93) البقرة
7 البقرة
8 فہم القرآن : (آیت 8 سے 9) ربط کلام : ایمان کی مبادیات تسلیم کرنے سے انکار کرنے والوں کے بیان کے بعد تیرہ آیات میں منافقوں یعنی دوغلے لوگوں کے کردار کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ معلوم ہو کہ نبی {ﷺ}اور ہر داعی حق کو تین قسم کے لوگوں سے سابقہ پیش آئے گا۔ لہٰذا گھبرانے اور حوصلہ ہارنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس میدان کے غازی کو اپنا کام جاری رکھنا چاہیے۔ نفاق : دل میں کفر اور ظاہر میں اسلام کا اظہار کرنا نفاق کہلاتا ہے۔ نفاق کی دو قسمیں ہیں، اعتقادی نفاق اور عملی نفاق دونوں احکام کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ تین قسم کے لوگ : نظریاتی اعتبار سے دنیا میں تین قسم کے لوگ ہوا کرتے ہیں۔ (1) حق اور سچ قبول کرنے والے۔ (2) حق کا انکار کرنے والے (3) ذاتی مفاد یا فکری انتشار کی وجہ سے ہمیشہ تذبذب کا شکار اور دنیوی مفاد کی خاطر اعراض کرنے والے لوگ جنہیں قرآن مجید نے منافق قرار دیا ہے۔ یہ ڈبل چہرے اور دوہرے کردار کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایسا شخص نہ قول کا سچا اور نہ کردار کا پختہ ہوتا ہے۔ اسے ہر بات میں دنیا کا مفاد عزیزہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے مقدّس نام اور دین کے پاکیزہ کام کو بھی اپنی ذات اور مفاد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ حتی کہ آخرت کے عقیدے کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتا۔ منافق، مومنوں کی آستینوں میں گھسے ہوئے سانپ ہیں جو ہر وقت اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں اور شرارتوں میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ اللہ اور مومنوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ درحقیقت یہ اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں۔ کتنا برا اور بد بخت ہے وہ آدمی جو اپنی ذات کو دھوکے میں مبتلا رکھے۔ کیونکہ منافق اللہ کے رسول کو دھوکہ دیتے، دین اور دین داروں کو مذاق کرتے ہیں۔ دین اللہ تعالیٰ نے بھیجا اور رسول کریم {ﷺ}کو بھی اسی نے مبعوث فرمایا ہے اور مومنوں کو بھی دین کی وجہ سے استہزا کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے منافقوں کے دھوکہ کو اپنی ذات کے ساتھ دھوکہ اور مذاق قرار دیا ہے۔ رسول محترم {ﷺ}نے منافق کے کردار کو اس طرح بیان فرمایا ہے : (عَنِ ابْنِ عُمَرَ {رض}عَنِ النَّبِیِّ {}قَالَ مَثَلُ الْمُنَافِقِ کَمَثَلِ الشَّاۃِ الْعَائرَۃِ بَیْنَ الْغَنَمَیْنِ تَعِیْرُإِ لٰی ھٰذِہٖ مَرَّۃً وَ إِلٰی ھٰذِہٖ مَرَّۃً) (رواہ مسلم : کتاب صفات المنافقین وأَحکامھم) ” حضرت عبداللہ بن عمر {رض}نبی کریم {ﷺ}سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا منافق کی مثال اس بکری کی طرح ہے جو دو ریوڑوں کے درمیان پھرتی ہے کبھی ایک ریوڑکی طرف جاتی ہے کبھی دوسرے کی طرف۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ()۔۔ قَالَ مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنِّیْ) (رواہ مسلم : کتاب الإیمان باب قول النبی { }من غشنا فلیس منا) ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا جس نے دھوکہ دیا وہ مجھ سے نہیں۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ {}قَالَ آیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلاَثٌ إِذَا حَدَّثَ کَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ) (رواہ البخاری : باب علامۃ المنافق) ” حضرت ابوہریرہ {رض}نبی کریم {ﷺ}سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے وعدہ خلافی کرتا ہے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جاتی ہے تو خیانت کرتا ہے۔“ مسائل : 1-منافق اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن حقیقتاً وہ ایمان دار نہیں ہوتا۔ 2- منافق اللہ تعالیٰ اور ایمان داروں کو دھوکا دیتا ہے۔ 3۔ منافق حقیقی فہم و شعور سے عاری ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : منافق کا جھوٹا دعویٰ : 1- منافق دعوی ایمان کے باوجود ایمان دار نہیں۔ ( البقرۃ:8) 2- اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافق دعویٰ ایمانی میں جھوٹے ہیں۔ ( المنافقون :1) 3- منافقین نے ایمان کے بعد کفر اختیار کیا ہوا ہے۔ ( المنافقون :3) 4- منافق ایمان کے دعویٰ کی جھوٹی قسمیں اٹھاتے ہیں۔ ( التوبۃ:56) منافق کی دھوکہ بازیاں : 1- منافق اللہ اور مومنوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ( البقرۃ:9) 2- منافق رسول {ﷺ}کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ( المنافقون :1) 3- منافق نماز بھی دھوکہ دینے کی خاطر پڑھتے ہیں۔ ( النساء :142) البقرة
9 البقرة
10 فہم القرآن : ربط کلام : منافقت ایک روحانی بیماری ہے جس سے کئی جرائم جنم لیتے ہیں۔ منافق جھوٹ بولنے کا عادی ہوتا ہے۔ اس لیے اس کی روحانی اور اخلاقی بیماریوں میں اضافہ ہی ہوا جاتا ہے بالکل اس مریض کی طرح جس کے لیے بہترین خوراک بھی بیماری میں اضافے کا سبب بنتی ہو۔ یہاں یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ انسان جسمانی طور پر ہی بیمار نہیں ہوتا اس کی روح بھی بیمار ہوتی ہے جسم مادی عناصر سے بنا ہے۔ اس کا علاج مادی عوامل سے ہوتا ہے۔ روح اللہ تعالیٰ کا حکم اور ملکوتی ہے۔ اس کا علاج روحانی یعنی اللہ تعالیٰ کے کلام اور اس کے نبی کی تابعداری سے ہوتا ہے۔ (إِنَّ الْحَلَالَ بَیِّنٌ وَإِنَّ الْحَرَامَ بَیِّنٌ وَبَیْنَھُمَا مُشْتَبِھَاتٌ لَایَعْلَمُھُنَّ کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ فَمَنِ اتَّقَی الشُّبُھَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِیْنِہٖ وَعِرْضِہٖ وَمَنْ وَقَعَ فِی الشُّبُھَاتِ وَقَعَ فِی الْحَرَامِ کَالرَّاعِیْ یَرْعٰی حَوْلَ الْحِمٰی یُوْشِکُ أَنْ یَّرْتَعَ فِیْہِ أَلَا وَإِنَّ لِکُلِّ مَلِکٍ حِمًی أَلَا وَإِنَّ حِمَی اللّٰہِ مَحَارِمُہٗ أَلَا وَإِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ وَإِذَ فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ أَلَا وَھِیَ الْقَلْبُ) (رواہ مسلم : کتاب المساقاۃ، باب أخذ الحَلال وترک الشبھات) ” یقیناً حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی۔ ان کے درمیان کچھ متشابہات ہیں جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے جو شبہات سے بچ گیا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا اور جو شبہات میں پڑگیا وہ حرام میں مبتلا ہوگیا۔ یہ اس چرواہے کی طرح ہے جو چراگاہ کے قریب جانور چراتا ہے ہوسکتا ہے وہ جانور چراگاہ میں چرنا شروع ہوجائیں۔ خبردار! ہر بادشاہ کی چراگاہ ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ سنو! یقیناً جسم میں ایک ٹکڑا ہے وہ ٹھیک ہو تو سارا جسم درست ہوتا ہے اور وہ فاسد ہو تو سارا جسم خراب ہوجاتا ہے یاد رکھو! وہ دل ہے۔“ رسول اللہ {ﷺ}سے استفسار کیا گیا کہ کیا مومن جھوٹ بول سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہرگز نہیں۔ (مؤطا امام مالک : کتاب الجامع، باب أن عبداللہ بن مسعود کان یقول علیکم بالصدق ) (إِیَّاکُمْ وَ الْکَذِبَ فَإِنَّ الْکَذِبَ یَھْدِیْ إِلَی الْفُجُوْرِ وَإِنَّ الْفُجُوْرَ یَھْدِیْ إِلَی النَّارِ وَمَایَزَال الرَّجُلُ یَکْذِبُ وَیَتَحَرَّی الْکَذِبَ حَتّٰی یُکْتَبَ عِنْدَ اللّٰہِ کَذَّابًا) (رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ والآداب) ” تم جھوٹ سے کنارہ کش رہو۔ اس لیے کہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ دوزخ میں پہنچا دیتا ہے۔ جب ایک شخص ہمیشہ جھوٹ بولتا اور جھوٹ کا عادی ہوجاتا ہے تو وہ اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔“ دل کی حالت : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ {}قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِیْئَۃً نُکِتَتْ فِیْ قَلْبِہٖ نُکْتَۃٌ سَوْدَآءُ فَإِذَا ھُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُہٗ وَإِنْ عَادَ زِیْدَ فِیْھَا حَتّٰی تَعْلُوَ قَلْبَہٗ وَھُوَ الرَّانُ الَّذِیْ ذَکَرَ اللّٰہُ ﴿کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَّاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَ﴾) (رواہ الترمذی : کتاب تفسیر القرآن) ” حضرت ابوہریرہ {رض}رسول اللہ {ﷺ}سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب بندہ کوئی غلطی کرتا ہے تو اس کے دل پرسیاہ نکتہ پڑجاتا ہے جب وہ گناہ چھوڑ دے اور توبہ و استغفار کرے تو اس کا دل پالش ہوجاتا ہے۔ اگر وہ دوبارہ گناہ کی طرف پلٹے تو سیاہی اس کے دل پر چڑھ جاتی ہے یہی وہ زنگ ہے جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے کہ (ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے گناہوں کی وجہ سے زنگ چڑھ چکا ہے۔) “ مسائل: 1- منافقت دل کی بیماری ہے۔ 2- منافق جھوٹا ہوتا ہے۔ 3-منافقت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ منافق کی بیماری کو بڑھا دیتا ہے۔ 4- منافق کو اذیت ناک عذاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن : روحانی بیماریاں : 1- ریاکاری۔ ( البقرۃ: 264، النساء : 142، الأنفال : 47، الماعون : 4تا 6 ) 2- قساوت قلب۔ (المائدۃ: 13، الزمر :22) 3- کفر۔ (البقرۃ:10) 4-تکبر۔ (النحل : 22، لقمان : 18، النساء :172) 5- کجی۔ ( التوبۃ: 117، آل عمران : 7، الصف :5) 6- دل کا زنگ آلود ہونا۔ ( المطففین :14) 7-حسد۔ ( البقرۃ: 109، النساء :54) 8- سرکشی۔ ( البقرۃ: 90، 213، یونس :90) 9- بغض۔ (آل عمران : 118، المائدۃ: 91، الممتحنۃ:4) البقرة
11 فہم القرآن : (آیت 11 سے 12) ربط کلام : منافقت کی بیماری کی وجہ سے منافق کو اصلاح اور بگاڑ کے درمیان شعور نہیں رہتا۔ اصلاح و فساد کی ابتدا انسان کے ضمیر سے ہوتی ہے۔ ضمیر بگڑتا ہے تو طبیعت میں برائی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ جو آدمی کے کردار پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ جس سے اکثر اوقات سوچ کے زاویے اس قدر بگڑ جاتے ہیں کہ آدمی کو اصلاح اور بگاڑ میں فرق محسوس نہیں ہوتا۔ خاص کر ایسا شخص جو اپنے مفاد کے لیے اللہ تعالیٰ کے مقدس نام اور آخرت کے عقیدہ کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہوئے جھوٹ بولتا ہے۔ اس کا ضمیر اس حد تک پستی کا شکار ہوجاتا ہے کہ اس سے ہر گناہ اور جرم کی توقع کی جا سکتی ہے۔ ایسے لوگوں پر جتنے نگران مقرر کردیے جائیں اور انہیں لاکھ سمجھائیں۔ اصلاح کی بجائے ان کے بگاڑ میں اضافہ ہی ہوا کرتا ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ رشوت کے خاتمہ کے لیے انسداد رشوت ستانی کے محکمہ سے رشوت کے ریٹ بڑھ جاتے ہیں۔ فروغ تعلیم کے نام پر جہالت، معلومات عامہ کے نام پر گندہ لٹریچر، کلچر کے نام پر بے حیائی، عدل و انصاف کے نام پر ججز اور وکلاء کی قانونی موشگافیاں، شیطان کی آنت کی طرح پھیلا ہوا عدالتی نظام بگڑتاہی چلا جاتا ہے۔ ملک و ملت کے وسیع تر مفاد کے نام پر وسیع تر فساد کا جال بچھا دیا جاتا ہے۔ امن و امان قائم کرنے کے نام پر بے گناہوں کا قتل عام، یہ سب اصلاح اور فلاح کے نام پر ہی تو کیا جاتا ہے۔ ایسی حکومتوں، افسروں اور اداروں کے ذمہ داران کو سمجھا کر دیکھ لیجئے۔ جواب یہی ملے گا کہ ہم تو اصلاح احوال اور فلاح عوام کے لیے سب کچھ کر رہے ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ یہ لوگ فسادی ہیں مگر حقیقی شعور سے محروم ہونے کی وجہ سے اصلاح اور فساد میں فرق نہیں سمجھتے جس وجہ سے اپنے آپ کو مصلح سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے مسلمانوں کو خبردار اور ہوشیار رہنے کا حکم دیا گیا کہ ان منافقوں اور فسادیوں سے بچتے رہنا۔ مسائل: 1- منافق فسادی ہونے کے باوجود اپنے آپ کو مصلح سمجھتا ہے۔ 2- منافق حقیقی سمجھ سے تہی دامن ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : فسادی کون؟ 1-منافقین (البقرۃ:11) 2-زمین میں فساد لوگوں کے اعمال کا نتیجہ ہے (الروم :41) 3- یاجوج و ماجوج (الکہف : ٩٤) 4-فرعون (یونس :91) 5-یہودی (المائدۃ:64) 6-بچوں کے قاتل (القصص :4) البقرة
12 البقرة
13 فہم القرآن : ربط کلام : منافق دوغلا، جھوٹا اور فسادی ہی نہیں ہوتا بلکہ اپنی منافقت کے کھوٹ کی وجہ سے مخلص مسلمانوں کو بیوقوف کہتا اور سمجھتا ہے۔ منافق ابن الوقت اور مفاد پرست ہوتا ہے۔ اسی لیے مخلص، ایثار پیشہ اور با اصول شخص کو پسند نہیں کرتا۔ صحابہ کرام {رض}ایثار کے پیکر اور قربانی کے خوگر تھے۔ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی محبت اور اسلام کی سر بلندی کی خاطر ہر چیز قربان کرنے کی بے مثال اور لا زوال مثالیں قائم کیں تھیں۔ منافقین ایسے مخلص حضرات کو کس طرح پسند کرسکتے تھے؟ ربِّ کریم نے جب منافقوں کو حکم دیا کہ تم بھی نبی {ﷺ}کے اصحاب کی طرح مخلصانہ ایمان اور فدا کاری کا رویہ اختیار کرو۔ منافقین نے تسلیم و رضا کا روّیہ اپنانے کی بجائے کہا : کیا ہم ان بے وقوفوں کی طرح کاروبار تباہ کرلیں اور اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دیں؟ یہ تو سراسر حماقت کا راستہ ہے۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا ہے کہ اپنے خالق و مالک کا فرمان تسلیم کرنا اور اس کے حکم پر سب کچھ قربان کردینا بے وقوفی نہیں۔ حماقت اور بے وقوفی تو یہ ہے کہ آدمی اپنے رب کا نافرمان اور اس کے ساتھ عدم اخلاص کا رویّہ اور فانی دنیا کے لیے ہمیشہ کی زندگی کو برباد کرلے۔ اس فرمان میں رہتی دنیا تک صحابہ کرام {رض}کے ایمان کو جہان والوں کے لیے معیار قرار دیتے ہوئے صحابہ کو برا کہنے والوں کو احمق، منافق اور علم و آگہی سے نا بلد قرار دیا گیا ہے۔ مسائل: 1-منافق صحابہ کرام {رض}کو بیوقوف سمجھتے ہیں۔ 2- حقیقتاً منافق بے وقوف ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : بیوقوف کون؟ 1- ملت ابراہیم سے اعراض کرنے والابیوقوف ہے۔ (البقرۃ:130) 2- صحابہ کو برا کہنے والابیوقوف ہے۔ (البقرۃ:12) 3- حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقہ سے انحراف کرنے والابیوقوف ہے۔ (البقرۃ:13) 4- قبلہ پر اعتراض کرنے والے بیوقوف ہے۔ (البقرۃ:142) البقرة
14 فہم القرآن : ربط کلام : منافقت کے سبب اور حقیقی شعور سے تہی دامن ہونے کی وجہ سے کردار میں کھوکھلہ پن پیدا ہوجاتا ہے۔ جس وجہ سے منافق ایسی گفتگو کرتا ہے۔ منافق جب ایمان داروں سے ملتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور اسلام کی خوبیاں، رسول محترم {ﷺ}کے اوصاف اور مومنوں کے حسن کردار کا ذکر کرتے ہوئے ایمان کے دعویدار بنتے ہیں۔ لیکن جب اپنے لیڈروں کی طرف پلٹتے ہیں تو ان کو تسلی دیتے ہیں کہ ہمارے بارے میں فکر نہ کرنا ہم تمہارے ہی ہیں ہم تو مسلمانوں کے ساتھ شغل اور دکھاوے کے لیے ہم آہنگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہاں قرآن مجید نے ان کے بڑوں کو شیطان قرار دیا ہے کیونکہ ان کے بڑے شیطان کی طرح نہ صرف خود گمراہ ہیں بلکہ دوسروں کو بھی گمراہ کر رہے ہیں۔ منافق اخلاقی لحاظ سے اس قدر سفلہ مزاجی کا شکار ہوتا ہے کہ وہ ایمان جیسے گراں قدر اور حساس معاملے کو بھی مذاق سمجھتا ہے۔ ایسے لوگوں کو ان کے گناہ کی طرف توجہ دلائی جائے تو وہ اپنی خفت مٹانے اور شرمندگی چھپانے کے لیے کہتے ہیں کہ تم تو خواہ مخواہ سنجیدہ ہو رہے ہو ہم تو خوش طبعی کے طور ایسا کر رہے تھے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ {رض}قَالَ قَال النَّبِیُّ {}تَجِدُ مِنْ شَرِّ النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عِنْدَ اللَّہِ ذَا الْوَجْہَیْنِ، الَّذِی یَأْتِی ہَؤُلاَءِ بِوَجْہٍ وَہَؤُلاَءِ بِوَجْہٍ) (رواہ البخاری : باب ما قیل فی ذی الوجہین) ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا قیامت کے دن اللہ کے نزدیک لوگوں میں سے بدترین شخص دوچہروں والا (منافق) ہوگا۔ جو اس طرف ایک چہرے کے ساتھ آتا ہے اور دوسری طرف دوسرے چہرے سے۔“ مسائل: 1-منافق دوغلی پالیسی اختیار کرتے ہیں۔ 2- بڑے منافق شیطان کے قائم مقام ہوتے ہیں۔ 3- منافق اللہ اور اہل ایمان کو مذاق کرتے ہیں۔ البقرة
15 فہم القرآن : ربط کلام : منافقت اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ یہاں منافقین کے کردار کے بارے میں لفظ طغیان استعمال کیا ہے جو ایک محاورہ بھی ہے کہ دریا میں طغیانی ہے۔ یعنی دریا اپنی حد سے آگے بڑھ گیا ہے۔ یہی حالت گناہ کے وقت انسان کی ہوتی ہے۔ اس لیے کہ وہ اپنی فطرت سلیم سے آگے بڑھ کر گناہ کرتا ہے۔ مذاق کرنا اللہ تعالیٰ کی شان کے خلاف ہے لیکن منافقوں پر ناراضگی اور مومنوں سے مذاق کرنے کی وجہ سے منافقوں کے مذاق کو اللہ تعالیٰ اپنی طرف منسوب فرما رہا ہے۔ کیونکہ مومنوں کو اللہ پر ایمان لانے کی وجہ سے مذاق نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ مذاق کرنے کے مترادف سمجھتا ہے۔ نبی کریم {ﷺ}نے اس بات کو وسیع ترین تناظر میں یوں بیان فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اعلان جنگ : (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ {رض}قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ {}إنّ اللّٰہَ قَالَ مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ آذَنْتُہٗ بالْحَرْبِ وَمَا تَقَرَّبَ إِلَیَّ عَبْدِیْ بِشَیْءٍ أَحَبَّ إِلیَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَیْہِ وَمَا یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ إِلَیَّ بالنَّوَافِلِ حَتّٰی أُحِبَّہٗ فَإِذَا أَحْبَبْتُہٗ کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ وَبَصَرَہُ الَّذِیْ یَبْصُرُبِہٖ وَیَدَہُ الَّتِیْ یَبْطِشُ بِھَا وَرِجْلَہُ الَّتِیْ یَمْشِیْ بِھَا وَإِنْ سَأَلَنِیْ لَأُعْطِیَنَّہٗ وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِیْ لَأُعِیْذَنَّہٗ وَمَا تَرَدَّدْتُّ عَنْ شَیْءٍ أَنَا فَاعِلُہٗ تَرَدُّدِیْ عَنْ نَّفْسِ المُؤْمِنِ یَکْرَہُ الْمَوْتَ وَأَنَا أَکْرَہُ مَسَاءَ تَہٗ) (رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب التواضع ) ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس نے میرے دوست سے دشمنی کی میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں۔ میں نے جو چیزبندے پر فرض کی اس سے زیادہ مجھے کوئی چیز محبوب نہیں جس سے وہ میرا قرب حاصل کرے۔ بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں۔ جب میں اس کے ساتھ محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ سوال کرے تو میں اسے ضرور عطا کرتاہوں‘ اگر مجھ سے پناہ طلب کرے تو میں اسے پناہ دیتاہوں۔ میں اپنے کسی کام میں اتنا تردُّد نہیں کرتاجتنا ایک مومن کی جان قبض کرنے میں کرتا ہوں کیونکہ بندہ موت کو ناپسند کرتا ہے اور مجھے اس کی تکلیف اچھی نہیں لگتی جس نے ولی کو تکلیف دی۔“ کوئی مجرم اللہ تعالیٰ کی دسترس سے باہر نہیں ہوسکتا اس کے باوجود اس نے منافق کو دین اور دین داروں کے ساتھ مذاق کرنے کی مہلت دے رکھی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے مطابق ہے۔ سخت ناراضگی کے اظہار کے طور پر مذاق کا لفظ ذات کبریا نے اپنی طرف منسوب کیا ہے جب ان کے لیڈر سازشوں کے بے نقاب ہونے کے خوف سے ان کو روکتے ہیں۔ تو ان کے چیلے چانٹے یہ کہہ کر ان کو مطمئن کرتے ہیں کہ ہم تو مسلمانوں کو مذاق کے طور پر ایسی باتیں کرتے ہیں۔ اس عیاری اور چالاکی کی وجہ سے ان کی عقل پر پردہ پڑچکا ہے۔ یہ جھوٹ، سازش اور منافقت کے پردہ چاک ہونے کے خوف سے دل ہی دل میں پریشان رہتے ہیں اور ایسی باتوں اور ساتھیوں پر خوش ہوتے ہیں۔ یاد رکھیے! گناہ کا نقصان صرف یہی نہیں کہ دنیا میں ذلّت اور آخرت میں سزا ہوگی بلکہ گناہ کا پہلا نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان کا دل گناہ کی وجہ سے پریشان رہتا اور گناہ سے آدمی کی طبیعت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ گناہ گار ضمیر کا چور اور بزدل ہوجاتا ہے۔ جبکہ نیکی میں اطمینان ہے اور گناہ میں پریشانی۔ کبھی جرائم پیشہ اور بد کا رکو ٹٹول کر دیکھو بظاہر ہشاش بشاش نظر آنے کے باوجودوہ کس طرح پریشان ہوتا ہے۔ قرآن مجید اسی قلبی اضطراب کا ذکر کر رہا ہے کہ وہ اپنے نفس کی طغیانیوں اور نافرمانیوں میں پریشان رہتے ہیں۔ نفسیات کے معلّم اعظم {ﷺ}نے گناہ کی تعریف اس طرح فرمائی ہے : (اَلْإِثْمُ مَا حَاکَ فِیْ صَدْرِکَ وَکَرِھْتَ أَنْ یَّطَّلِعَ عَلَیْہِ النَّاسُ) (رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ، باب تفسیر البر والإثم) ” گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور لوگوں کو اس کا علم ہونا تجھے ناگوار محسوس ہو۔“ مسائل: 1- منافق کو روز قیامت استہزا کی سزا دی جائے گی۔ 2۔ اللہ تعالیٰ منافق اور کافر کو دنیا میں ڈھیل دیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : استہزا اور اس کی سزا : 1-انبیاء کے ساتھ استہزا کیا گیا۔ (الزخرف :7) 2-اللہ اور اس کی آیات سے مذاق کیا گیا۔ (التوبۃ:65) 3- نماز کے ساتھ استہزا کیا گیا۔ ( المائدۃ:58) 4-کفار نے نبی کریم {ﷺ}سے استہزا کیا۔ ( الأنبیاء :36) 5- استہزا کرنے والوں کو رسوا کن عذاب ہوگا۔ ( الجاثیۃ:9) 6-اللہ کی آیات کو مذاق نہ بناؤ۔ ( البقرۃ:231) 7- اللہ کی آیات اور انبیاء سے مذاق کی سزا جہنم ہے۔ ( الکہف :106) 8- اے نبی {ﷺ}ہم آپ سے مذاق کرنے والوں سے نمٹ لیں گے۔ (الحجر: 95) 9- جہاں اللہ کی آیات سے مذاق کیا جائے وہاں نہ بیٹھو۔ ( النساء :140) البقرة
16 فہم القرآن : ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے سورۃ الصف میں ایمان، نیک اعمال اور جہاد کو اپنے ساتھ تجارت کرنے کے مترادف قرار دیا ہے منافق ایمان اور اعمال میں مخلص نہیں ہوتے اس لیے وہ اس تجارت میں ہدایت کے بدلے گمراہی کے خریدار بن جاتے ہیں اور دھوکہ باز کی تجارت دینی ہو یا دنیوی اس کا انجام آخر خسارہ ہوتا ہے۔ ایمان کے جھوٹے دعوے اور اس جھوٹ کے ذریعے مومنوں کو دھوکہ دینے کی بنا پر منافقوں کے دل ایمان کی روشنی اور صحیح فیصلہ کرنے کی بصیرت سے محروم ہوچکے ہیں۔ منافق کی حالت اس شخص جیسی ہوچکی ہے جو نقص بصر کی وجہ سے ہر چیز کو ٹیڑھا دیکھتا ہے۔ اسی بنا پر منافق ایمان اور بصیرت سے محروم ہونے کی وجہ سے فساد کو اصلاح اور صحابہ کے ایمان کو غیر دانشمندانہ اقدام اور بے وقوفی قرار دیتے ہیں۔ مزید برآں کہ اللہ کی طرف سے ان کی رسی دراز ہوچکی ہے۔ جس بنا پر یہ عقل و دانش سے اندھے حقیقی اور دائمی نفع ونقصان میں فرق کرنے کی صلاحیت سے تہی دامن ہوچکے ہیں۔ اس وجہ سے نفع کی بجائے نقصان پانے والے سوداگر بن چکے ہیں۔ حالانکہ کم سے کم عقل رکھنے والا انسان بھی وہ کام کرتا ہے جس میں اسے زیادہ سے زیادہ فائدہ دکھائی دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو نفع و نقصان کا اس قدر شعور بخشا ہے کہ ایک گنوار اور اَن پڑھ ریڑھی لگانے والے محنت کش کو معلوم ہوجائے کہ اس کے مال کی قیمت فلاں بازار یا شہر میں زیادہ ہے۔ تو وہ وہاں جانے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ لیکن اللہ اور اس کے بندوں کو دھوکہ دینے والے منافق اس قدر کوتاہ چشمی کا شکار ہوچکے ہوتے ہیں کہ انہیں ایمان وایقان اور کفر و نفاق، آخرت اور دنیا کی نعمتوں میں فرق دکھائی نہیں دیتا۔ جب کہ دنیا آخرت کی کھیتی اور نیک اعمال آخرت کی نعمتوں کی قیمت ہیں۔ دنیا دارالعمل اور تجارت گاہ ہے اس بنا پر فطری طور پر انسان کے ہر عمل کے پیچھے نفع اور نقصان کی سوچ کار فرما ہوتی ہے۔ اچھی سوچ کے بدلے ہدایت نصیب ہوتی ہے ہدایت اور نیک عمل کے بدلے جنت عطا ہوگی۔ قرآن مجید نے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا اور مال و جان کے ساتھ دین کی سر بلندی کے لیے کوشش کرنے کو بہترین نیکی اور تجارت قرار دیا ہے۔ (الصف : 11تا13) قتال فی سبیل اللہ کے بیان میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانوں کے بدلے جنت کا سودا کرلیا ہے۔ (التوبۃ:111) مومن اپنے رب کی تابعداری کرکے اس کی رضا کا طلب گار اور جنت کا خریدار بن جاتا ہے۔ منافق اپنی منافقت اور کافر اپنے کفر کی وجہ سے اس سودا گری میں دنیا کی ذلت اور آخرت کی سزا کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ منافق جس عارضی عزت اور منفعت کے لیے جو کچھ کرتا ہے وہ حقیقت میں نقصان اور ہدایت سے محرومی کا نتیجہ ہے۔ جب کوئی شخص جان بوجھ کر خسارے کی تجارت کرنے سے باز نہ آئے تو اسے نفع کیونکر ہوسکتا ہے؟ یہی ہدایت کا معاملہ ہے لہٰذا گمراہی کا طالب ہدایت کس طرح پاسکتا ہے؟ اس لئے ارشاد ہوا کہ یہ لوگ ہدایت نہیں پائیں گے۔ اللہ تعالیٰ سے ہدایت طلب کرتے رہنا چاہیے : (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ عَنِ النَّبِیِّ {}أَنَّہُ کَانَ یَقُول اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ الْہُدَی وَالتُّقَی وَالْعَفَافَ وَالْغِنَی) (رواہ البخاری : باب التَّعَوُّذِ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلَ وَمِنْ شَرِّ مَا لَمْ یَعْمَلْ) ” حضرت عبداللہ {رض}نبی کریم {ﷺ}سے بیان کرتے ہیں کہ آپ {ﷺ}یہ دعا کیا کرتے تھے۔ اے اللہ ! میں تجھ سے ہدایت، پرہیزگاری، تندرستی اور خوشحالی کا سوال کرتا ہوں۔“ سابقہ آیات میں منافقین کی نشانیاں : 1-منافق دعوی ایمان میں جھوٹا ہوتا ہے۔ 2-منافق شعور سے تہی دامن ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو دھوکہ دیتا ہے۔ 3-منافقت دل کی بیماری ہے۔ 4-منافق اصلاح کے نام پر فساد پھیلاتا ہے۔ 5-منافق احمق ہونے کے باوجود مومنوں کو بے عقل سمجھتا ہے۔ 6-منافق ایمان جیسی گراں قدر نعمت کو مذاق سمجھتا ہے۔ 7-منافق ہدایت کی بجائے گمراہی کا طلب گار ہوتا ہے۔ مسائل : 1- منافقین ہدایت کے بدلے گمراہی کے خریدار ہیں۔ 2- منافقین کی یہ تجارت سود مند نہ ہوگی۔ تفسیر بالقرآن : منافق کا کردار اور انجام : 1- منافق دغا باز، ریا کار اور بے توجہگی کے ساتھ نماز پڑھتا ہے۔ (النساء :142) 2- منافق کے کلمہ پر اعتبار نہیں کیونکہ وہ جھوٹا ہوتا ہے۔ (المنافقون :1) 3- منافق کی قسم پر اعتبار نہیں کیونکہ وہ اسے ڈھال کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ (المنافقون :2) 4- منافق جہنم کے نچلے طبقہ میں ہوں گے۔ (النساء :145) 5- منافق کفار سے دوستی رکھتا ہے۔ (البقرۃ: 14) البقرة
17 فہم القرآن : ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ منافق کے کردار کی مثال اس مثال کے ذریعے اسلام اور نفاق، منافقین اور سرور گرامی {ﷺ}کے درمیان فرق بیان کیا گیا ہے۔ آپ نے دن رات کی جدوجہد سے اسلام کے چہرۂ تاباں کو ایسے پیش فرمایا جس سے کفر اور اسلام، گمراہی اور ہدایت کے درمیان اس طرح امتیاز پیدا ہوا جس طرح روشنی اور اندھیرے کے درمیان فرق ہوا کرتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود منافقوں کے لیے ان کے کفر و نفاق کی تاریکیاں اسلام کی روشن تعلیمات اور آپ {ﷺ}کی درخشاں سیرت کے درمیان حائل ہوگئیں یہ سب کچھ اس طرح ہوا جیسے ایک آدمی نے آگ جلا کر گھٹا ٹوپ راستے کو منور کردیا ہو۔ تاکہ اس راستے پر چلنے والے کو نشیب و فراز کا پتہ چل جائے۔ جونہی مسافر اس راستے پر چلنے کے لیے آمادہ ہوا تو اس کے خبث باطن کی وجہ سے اچانک راستہ خطرناک اندھیروں میں چھپ گیا۔ ذرا سوچیے اس مسافر کی کیا حالت ہوگی ؟ بالکل یہی کیفیت منافقوں کے ساتھ پیش آئی کہ نبی معظم {ﷺ}کی ذات اور آپ کی تعلیمات کو سچ جاننے کے باوجود ان کا کفرو نفاق اور دنیاوی مفاد اس طرح حائل ہواکہ اسلام کا راستہ روشن ہونے کے باوجود ان کو تاریک نظر آیا۔ اس کی وجہ ان کی منافقت اور گھناؤنا کردار تھا۔ جس بنا پر اللہ تعالیٰ نے انہیں اندھیروں میں چھوڑ دیا۔ اب صراط مستقیم کو دیکھنا اور اس پر چلنا ان کے بس کی بات نہیں کیونکہ اندھیروں میں کوئی چیز دکھائی نہیں دیا کرتی۔ یاد رہے کہ روشنی یعنی ہدایت ایک ہی ہے لیکن کفروضلالت کے اندھیرے کئی قسم کے ہوتے ہیں اس لیے اندھیرے کے لیے جمع کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ منافق کا محشر کے دن حال : قرآن مجید نے دوسرے مقام پر اس کی یوں وضاحت فرمائی ہے کہ جن لوگوں نے دنیا میں نور ہدایت سے منہ موڑ لیا۔ ان کا محشر میں اس طرح حشر ہوگا کہ ﴿یَوْمَ یَقُوْلُ الْمُنَافِقُوْنَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِیْنَ آَمَنُوْا انْظُرُوْنَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُوْرِکُمْ قِیْلَ ارْجِعُوْا وَرَاءَ کُمْ فَالْتَمِسُوْا نُوْرًا فَضُرِبَ بَیْنَہُمْ بِسُورٍ لَہُ بَابٌ بَاطِنُہُ فِیْہِ الرَّحْمَۃُ وَظَاہِرُہُ مِنْ قِبَلِہِ الْعَذَابُ﴾ (الحدید :13) ” اس دن منافق مرد اور منافق عورتیں مومنوں سے کہیں گے کہ ہماری طرف دیکھو ہم بھی تمہارے نور سے روشنی حاصل کریں۔ تو ان سے کہا جائے گا کہ پیچھے کو لوٹ جاؤ اور وہاں نور تلاش کرو۔ پھر ان کے بیچ میں ایک دیوار کھڑی کردی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا اس کی اندرونی جانب تو رحمت ہے اور بیرونی جانب عذاب۔“ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ {رض}قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ {}مَثَلِیْ کَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَوْقَدَ نَاراً فَلَمَّا اَضَآءَ تْ مَا حَوْلَھَا جَعَلَ الْفِرَاشُ وَھٰذِہِ الدَّوَآبُّ الَّتِی تَقَعُ فِی النَّارِ یَقَعْنَ فِیْھَا وَجَعَلَ یَحْجُزُھُنَّ وَیَغْلِبْنَہٗ فَیَتَقَحَّمْنَ فِیْھَا فَاَنَا اٰخِذٌ بِحُجَزِکُمْ عَنِ النَّارِ وَأَ نْتُمْ تَقَحَّمُوْنَ فِیْھَا ھٰذِہٖ رِوَایَۃُ الْبُخَارِیِّ وَلِمُسْلِمٍ نَحْوُھَا وَقَالَ فِیْ اٰخِرِھَا قَالَ فَذَالِکَ مَثَلِیْ وَمَثَلُکُمْ اَنَا اٰخِذٌ بِحُجَزِکُمْ عَنِ النَّارِ ہَلُّمَ عَنِ النَّارِ ھَلُمَّ عَنِ النَّارِ فَتَغْلِبُوْنِیْ تَقَحَّمُوْنَ فِیْھَا) (رواہ البخاری : کتاب الرقاق، رواہ مسلم : کتاب الفضائل) ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم {ﷺ}نے فرمایا : میری مثال آگ روشن کرنے والے شخص کی طرح ہے۔ جب آگ سے اس کا آس پاس روشن ہوگیا تو پروانے اس میں گرنے لگے۔ آگ جلانے والے نے انہیں بچانے کی سر توڑ کوشش کی لیکن وہ اس سے بے قابو ہو کر گرتے رہے۔ بس میں تمہیں آگ سے بچانے کے لیے پیچھے سے پکڑتا ہوں لیکن تم ہو کہ اس میں گرتے جا رہے ہو۔ یہ بخاری کے الفاظ ہیں اور مسلم میں اس طرح ہے کہ میری اور تمہاری مثال ایسے ہے کہ میں تمہیں پیچھے سے پکڑ کر آگ سے بچانے کی کوشش کرتے ہوئے کہہ رہا ہوں کہ میری طرف آؤ اور آگ سے بچو، لوگو! آگ کی بجائے میری طرف آؤ۔ لیکن تم مجھ سے بے قابو ہو کر آگ میں گرے جا رہے ہو۔“ مسائل: 1-اسلام ایک روشنی ہے۔ 2- نفاق اور کفر اندھیرے ہیں۔ 3- نور ایمان کے بغیر ہدایت نصیب نہیں ہوتی۔ تفسیر بالقرآن : دین ایک روشنی ہے : 1-اسلام ایک روشنی ہے۔ (الصف :7) 2۔ ایمان اور دین نور ہے۔ (التغابن :8) 3۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) روشنی کی دعوت دیتے تھے۔ (ابراہیم :5) 4۔ نبی کریم {ﷺ}کی دعوت روشنی اور نور ہے۔ (ابراہیم :1) 5۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کو کفر کے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے۔ (البقرۃ:257) 6۔ اللہ تعالیٰ کی ذات زمین و آسمان کانورہے (النور :35) 7- جس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا گیا وہ اللہ تعالی کی روشنی پر ہے۔ ( الزمر: 22) البقرة
18 فہم القرآن : ربط کلام : منافقوں کا تذکرہ جاری ہے۔ منافقت کی بیماری کے ظاہری اعضا پر منفی اثرات۔ جو لوگ رسالت مآب {ﷺ}کی ذات اقدس کو پہچاننے اور دین اسلام کے اوصاف کو جاننے کے باوجود کفر و نفاق پر ڈٹے ہوئے ہیں وہ تو اس شخص کی طرح ہیں جو آنکھوں سے اندھا، کانوں سے بہرا اور زبان سے گونگا ہے۔ یعنی ایسے لوگ نہ عبرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں نہ نصیحت کی زبان سنتے ہیں اور نہ ہی سبق آموزی کے لیے سوچنے پر تیار ہیں۔ یہ تو چلتے پھرتے انسانی ڈھانچے اور لکڑی یا پتھر کے ستون کی طرح ہیں اس کے سوا کچھ نہیں۔ لکڑی اور پتھر تو نہیں سنا کرتے ہدایت پائیں تو کس طرح؟ کان، آنکھ اور لمس ہدایت پانے اور راہنمائی حاصل کرنے کے انسان کے جسمانی ذرائع ہیں یہ مفلوج ہوجائیں تو ایسے شخص کو کوئی بھی ہدایت نہیں دے سکتا۔ گونگا، بہرہ اور اندھا شخص کسی کا ہاتھ پکڑے بغیر تو کہیں جا نہیں سکتا۔ یہی حالت منافق کی ہوچکی ہوتی ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ {}قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِیْئَۃً نُکِتَتْ فِیْ قَلْبِہٖ نُکْتَۃٌ سَوْدَآءُ فَإِذَا ھُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُہٗ وَإِنْ عَادَ زِیْدَ فِیْھَا حَتّٰی تَعْلُوَ قَلْبَہٗ وَھُوَ الرَّانُ الَّذِیْ ذَکَرَ اللّٰہُ ﴿کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ﴾) (رواہ الترمذی : باب ومن سورۃ ویل للمطففین) ” حضرت ابوہریرہ {رض}نبی کریم {ﷺ}سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا : آدمی جب بھی کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک کالا نکتہ لگادیا جاتا ہے جب وہ بے چین ہو کر توبہ واستغفار کرتا ہے تو اس کے دل کو پالش کردیا جاتا ہے اور اگر پھر وہ گناہ کرتا ہے تو وہ نکتہ بڑھادیا جاتا ہے حتی کہ وہ پورے دل پر غالب آجاتا ہے اور یہی وہ زنگ ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے کہ (ہرگز نہیں بلکہ جو وہ کماتے تھے اس کے سبب ان کے دلوں پر زنگ چڑھ گیا ہے)۔“ مسائل : 1۔ کافر اور منافق اندھے، بہرے، گُونگے ہونے کی وجہ سے اسلام کی روشنی سے مستفید نہیں ہو سکتے۔ تفسیر بالقرآن : کان، آنکھ اور دل سے کام نہ لینے والے لوگ : 1۔ کفار کان، آنکھ اور دل کو استعمال نہیں کرتے۔ (الاعراف :179) 2۔ دل، آنکھ اور کان سے استفادہ نہ کرنے والے جانوروں سے بدتر ہیں۔ (الاعراف :179) 3۔ جہنمی سماعت وبصیرت استعمال نہ کرنے پر افسوس کا اظہار کریں گے۔ (الملک :10) البقرة
19 فہم القرآن: (آیت 19 سے 20) ربط کلام : دین کے بارے میں دوسری مثال، دین اسلام ایک ابر باراں ہے مگر اس میں منافق کی حالت زار بیان کی گئی ہے۔بارش کی تمثیل کے ساتھ اسلام کی روشنی اور نفاق کی تاریکیوں کا فرق واضح کیا جا رہا ہے۔ جس طرح بارش اوپر سے نازل ہوتی ہے اللہ کا دین بھی آسمانوں سے نازل ہوا ہے۔ اس سے نہایت لطیف انداز میں کفار کے الزام کی تردید ہو رہی ہے کہ دین کسی شخص کے ذہن کی اختراع اور زمین کی پیداوار نہیں یہ تو اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ ہے۔ بارش سے بیک وقت ہر چیز تر و تازہ ہوجاتی ہے ایسے ہی دین اسلام سے دل شاداب‘ کردار میں نکھار اور دنیا میں برکات نازل ہوتی ہیں جیسے بارش میں بسا اوقات اندھیرا اور گرج وچمک بھی ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح ہی دین اسلام اختیار کرنے، اس کے نفاذ سے اس کے متبعین کو دنیا میں فوائد بھی ملتے ہیں اور انہیں امتحانات اور کچھ دینوی نقصانات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ لیکن سچے اور پکے مسلمان ان مشکلات کو قبول کرتے ہوئے آگے ہی بڑھا کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ دنیا و آخرت میں اپنی منزل مراد کو پہنچ جاتے ہیں۔ اس کے برعکس منافق بارش میں چلنے والے اس مسافر کی طرح ہوتا ہے جو بادل کی گرج اور بجلی کی چمک کی وجہ سے کانوں میں انگلیاں ڈال کر اپنے آپ کو بجلی کی چکا چوند روشنی سے چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ حالانکہ ایسا کرنے سے نہ روشنی اس سے دور ہو سکتی ہے اور نہ وہ آسمانی بجلی کی چمک کڑک سے بچ سکتا ہے۔ جس طرح ساری دنیا مل کر بھی بارش کو نہیں روک سکتی ایسے ہی منافق اور کفار جتنی چاہیں کوشش کریں نہ یہ اسلام کی روشنی مٹا سکتے ہیں اور نہ ہی غلبۂ اسلام میں ان کی کوششیں اور سازشیں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ منافق کا کردار یہ ہوتا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں سے فائدہ حاصل ہونے کی توقع ہو تو منافق مسلمانوں کے ساتھ ہوتا ہے بلکہ مخلص مسلمانوں سے بھی چار قدم آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن جوں ہی اس کے مفاد کو ٹھیس پہنچنے کا خدشہ ہو تو اس کے قدم جم جاتے ہیں۔ منافقوں کی حرکات اور منافقت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی سمع و بصر کی حقیقی صلاحیتیں سلب کرلی ہیں۔ اگر ربِّ ذوالجلال چاہے تو ان کے کان اور آنکھوں کی جسمانی صلاحیتوں کو بھی مسخ کر دے کیونکہ قادر مطلق کی طاقت سے کوئی چیز بھی باہر نہیں ہے۔ (عَنْ أَبِیْ مُوْسٰی {رض}عَنِ النَّبِیِّ {}قَالَ مَثَلُ مَابَعَثَنِیَ اللّٰہُ بِہٖ مِنَ الْھُدٰی وَالْعِلْمِ کَمَثَلِ الْغَیْثِ الْکَثِیْرِ أَصَابَ أَرْضًا فَکَانَ مِنْھَا نَقِیَّۃٌ قَبِلَتِ الْمَآءَ فَأَنْبَتَتِ الْکَلَأَ وَالْعُشْبَ الْکَثِیْرَ وَکَانَتْ مِنْھَآ أَجَادِبُ أَمْسَکَتِ الْمَآءَ فَنَفَعَ اللّٰہُ بِھَا النَّاسَ فَشَرِبُوْا وَسَقَوْا وَزَرَعُوْا وَأَصَابَتْ مِنْھَا طَائِفَۃٌ أُخْرٰی إِنَّمَا ھِیَ قِیْعَانٌ لَاتُمْسِکُ مَاءً وَلَاتُنْبِتُ کَلَأً فَذٰلِکَ مَثَلُ مَنْ فَقُہَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ وَنَفَعَہٗ مَابَعَثَنِیَ اللّٰہُ بِہٖ فَعَلِمَ وَعَلَّمَ وَمَثَلُ مَنْ لَّمْ یَرْفَعْ بِذٰلِکَ رَأْسًا وَلَمْ یَقْبَلْ ھُدَی اللّٰہِ الَّذِی أُرْسِلْتُ بِہٖ) (رواہ البخاری : کتاب العلم، باب فضل من علم) ” حضرت ابوموسیٰ {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم {ﷺ}نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے جس علم اور ہدایت کے ساتھ مجھے بھیجا ہے اس کی مثال زمین پر مسلسل برسنے والی بارش کی طرح ہے۔ زمین کا جو قطعہ اچھا تھا اس نے اسے قبول کیا۔ اس نے گھاس اور سبزے کو خوب اگایا۔ دوسری زمین سخت تھی پانی جذب ہونے کی بجائے اس پر کھڑارہا۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچایا۔ لوگوں نے خود پانی پیا اور جانوروں کو پلایا اور پھر اس سے کھیتی باڑی کی جبکہ تیسرا زمین کاٹکڑا چٹیل میدان تھا نہ اس نے پانی جذب کیا اور نہ ہی پانی اس کے اوپر ٹھہرا۔ اللہ تعالیٰ نے جو دین دے کر مجھے مبعوث فرمایا اس دین کی فہم حاصل کرنے والے اور اس سے نفع اٹھانے والے کی مثال ایسے ہے کہ اس نے علم سے فائدہ اٹھایا خود سیکھا اور لوگوں کو بھی تعلیم دی۔ دوسری مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے بے پرواہی سے علم کی طرف توجہ نہ کی اور نہ ہی اس بات کو قبول کیا جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا۔“ مسائل: 1۔ دین اسلام باران رحمت ہے۔ 2۔ ا سلام پر عمل پیرا ہونے میں آزمائشیں بھی آتی ہیں۔ 3۔ منافق صرف فائدے کی بنیاد پر اسلام پر عمل کرتا ہے۔ 4۔ منافق کسی آزمائش میں پورا نہیں اترتا۔ 5۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو منافقین کے سمع وبصر ختم کردے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت وسطوت رکھنے والاہے۔ 7۔ اللہ تعالیٰ کافروں کی گرفت کرنے والاہے۔ البقرة
20 البقرة
21 فہم القرآن : (آیت 21 سے 22) ربط کلام : ایمانداروں، کفار اور منافقین کے ذکر کے بعد توحید اور عبادت کا بیان ہوتا ہے۔ قرآن مجید کا مرکزی پیغام ” اللہ“ کی توحید اور اس کی ربوبیت کا اقرار ہے جس کا منطقی نتیجہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے۔ اکثر مفسرین نے عبادت کا معنی تذلّل یعنی نہایت عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی پرستش کرنا بیان کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عبادت میں عاجزی اور انتہا درجے کی انکساری ضروری ہے کہ آدمی اللہ کے حضور قیام کرے تو نا صرف زبان سے اقرار کرنے کے ساتھ اس کا پورا جسم خاموش گواہی دے کہ میرے جسم کا ایک ایک ریشہ تیرے حضور عاجز و بے بس ہے۔ جبین نیاز جھکائے تو اپنے آپ کو عجز و انکساری کی انتہا تک لے جائے گویا کہ وہ پستیوں کے سمندر میں ڈوب چکا ہے۔ زبان جنبش کرے تو اس کی حمد و ثنا کے گیت گائے، دست سوال دراز کرے تو سراپا التجا بن جائے۔ مال خرچ کرے تو اس عاجزی کے ساتھ کہ میں تو مالک کی ملکیت ہی واپس لوٹا رہا ہوں نہ میرا مال ہے اور نہ اس میں میرا کمال ہے۔ اس عہد کو نمازی پانچ وقت تشہد کی زبان میں دہراتا ہے کیوں کہ عبادت تین ہی طریقوں سے ہو سکتی ہے۔ (اَلتَّحَیَاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوٰاتُ وَالطَّیِّبَاتُ) (رواہ البخاری : باب التَّشَہُّدِ فِی الآخِرَۃِ ) ” تمام قسم کی قولی، فعلی اور مالی عبادات اللہ کے لیے ہیں۔“ عبادت کا جامع تصور: ﴿قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ﴾ (الانعام : 162تا163) ” کہہ دیجیے! یقیناً میری نماز‘ میری قربانی‘ میری زندگی اور میری موت اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘ اس کا کوئی شریک نہیں اسی بات کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں پہلا اسلام لانے والا ہوں۔“ اس تصور کے ساتھ قرآن مجید نے عبادت کا وسیع تر تخیل پیش کیا ہے کہ آدمی منڈی اور بازار میں ہو تو امانت و دیانت کا نمونہبن جائے، کسی کے ہاں مزدور اور خدمت گزار ہو تو وفاداری کا پیکر ہوجائے، حکمران ہو یا کوئی ذمہ داری اٹھائے تو قوم کا خادم اور مالک حقیقی کا غلام بن کر رہے۔ غرضیکہ زندگی کا ایک ایک لمحہ اور شعبہ رب کی غلامی اور سرافگندگی کے لیے وقف کرنے کا نام ہی عبادت ہے۔ یہی انسان کی تخلیق کا مقصد اور اسی کے لیے انسان کا ہر عمل وقف ہونا چاہیے۔ انبیائے عظام {علیہ السلام}اپنی دعوت کا آغاز اسی سے کیا کرتے تھے۔ اس تصور عبادت سے ہٹنا مقصد حیات کی نفی اور غیر اللہ کی عبادت کرنے کے مترادف ہے۔ جس کا آدمی کو کسی حال میں بھی حق نہیں پہنچتا۔ ایمان، کفر اور نفاق کی بڑی بڑی نشانیاں ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے بلا امتیاز تمام طبقات انسانی کو عبادت کا حکم دیتے ہوئے اپنی عبادت کے استحقاق کی یہ دلیل دی ہے کہ اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں، تمہارے آباؤ اجداد اور سب لوگوں کو پیدا فرمایا۔ اسی نے تمہارے لیے زمین کو فرش بنایا اور آسمان کو سائبان، پھر آسمان سے پانی نازل کیا جس سے تمہارے رزق کا بندوبست فرمایا۔ یہ سب کچھ ایک رب نے پیدا کیا اور وہی تمہارا خالق و مالک ہے۔ یہ حقائق تم بھی جانتے ہو کہ تخلیقِ کائنات اور ان امور میں اللہ تعالیٰ کا دوسرا کوئی شریک اور سہیم نہیں ہے پھر ایسے رب کے ساتھ دوسروں کو شریک بنانے کی کس طرح جرأت کرتے ہو ؟ جس کی تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں لہٰذا تمہیں صرف ایک اللہ کی ہی عبادت کرنا چاہیے۔ توحید ربوبیت اور خالقیت کا شعور دلا کر انسان کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے کہ انسان یہ سمجھے کہ کسی غیر کی نہیں بلکہ میں اپنے خالق، رازق اور مالک کی ہی عبادت کر رہا ہوں۔ ابتدا میں توحید کے طبعی‘ فطری اور آفاقی دلائل دئیے گئے ہیں تاکہ انسان کو توحید سمجھنے میں آسانی ہو۔ اسی سے قرآن مجید کا آغاز ہوا ہے کیونکہ توحید فطرت کی آواز اور انسان کے ضمیر کی ترجمان ہے۔ ﴿إِقْرَأْ باسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ﴾ (العلق :1) ” اپنے پیدا کرنے والے رب کے نام سے پڑھیے۔“ ایک مبلغ کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے سامع کے سامنے او لاً ایسی دلیل پیش کرے جس کو سمجھنے اور تسلیم کرنے میں سننے والے کو آسانی ہو۔ لہٰذا یہاں پانچ دلائل ایسے بیان ہوئے ہیں جن کا بدترین منکر بھی انکار نہیں کرسکتا۔ یہاں تخلیق انسانی کے مختلف دلائل دیے جاتے ہیں باقی دلائل کی تفصیل اپنے اپنے مقام پر بیان ہوگی۔ ” اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا۔ پھر اس کو ایک محفوظ جگہ میں نطفہ بنا کر رکھا۔ پھر نطفے کا لوتھڑا بنایا۔ پھر لوتھڑے کی بوٹی بنائی، پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر اس کو نئی صورت بنا دیا۔ اللہ جو سب سے بہترین بنانے والا بڑا بابرکت ہے۔“ [ المومنون : 12تا14] اَنْدَادًا ” ند“ کی جمع ہے جس کا معنٰی ہے ہمسر اور شریک۔ رسول اللہ {ﷺ}نے اس کا سدِّ باب کرنے کے لیے ہر ایسے قول وفعل سے منع فرمایا ہے جس میں شرک کا شائبہ بھی پایا جاتاہو۔ ایک آدمی نے رسول اللہ {ﷺ}سے کہا :” مَاشَآء اللّٰہُ وَشِئْتَ“” جس طرح اللہ اور آپ چاہیں۔“ اس پر آپ نے فرمایا : ” جَعَلْتَ لِلّٰہِ نِدًّا“ ” تو نے مجھے اللہ کا شریک ٹھہرادیا ہے کہو ” مَا شَآء اللّٰہُ وَحْدَہٗ“ ” جو اللہ اکیلا چاہے۔“ (مسند احمد) مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ ہی تمام انسانوں کا خالق اور پالنے والا ہے۔ سب کو اپنے رب کی عبادت کرنا چاہیے۔ 2۔ اللہ ہی نے زمین کو فرش، آسمان کو چھت بنایا اور وہی آسمان سے بارش نازل کرتا اور ہمارے لیے رزق پیدا کرتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرنا چاہیے۔ 4۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں۔ تفسیر بالقرآن : عبادت اور انبیاء {علیہ السلام}کی دعوت : 1۔ جن اور انسان اللہ کی عبادت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ (الذّاریات :56) 2۔ تمام انبیاء اللہ تعالیٰ کی عبادت کی دعوت دیتے اور شیطان کی عبادت سے روکتے تھے۔ (الاعراف : 59، 65، 73) 3۔ عبادت کا مفہوم۔ (انعام :163) 4۔ اللہ کی عبادت کرنے میں کامیابی ہے۔ (الحج :77) تخلیق انسانی کے مراحل : 1۔ حضرت آدم (علیہ السلام) مٹی سے پیدا کیے گئے۔ (آل عمران :59) 2۔ حضرت حوا، حضرت آدم {علیہ السلام}سے پیدا ہوئی۔ (النساء :1) 3۔ انسان کی تخلیق کے مختلف مراحل۔ (المؤمنون : 12تا14) 4۔ یقیناً ہم نے انسان کو کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔ (الحجر :26) 5۔ اللہ نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا۔ (الدھر :2) 6۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر اسے نطفہ بنایا، پھر اس سے خون کا لوتھڑا، پھر اس سے بوٹی بنا کر۔ (الحج :5) 7۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ، پھر لوتھڑا بنا کر تمہیں پیدا کرتا ہے کہ تم بچے ہوتے ہو۔ (المومن :67) 8-کیا تو اس ذات کا کفر کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے پیدا فرمایا۔ (الکہف :37) البقرة
22 البقرة
23 فہم القرآن (آیت 23 سے 24) ربط کلام : توحید کے بیان کے بعد قرآن مجید کے بارے میں چیلنج دیا گیا ہے کیونکہ قرآن نے ہی توحید کے دلائل اور دیگر مسائل بتلائے ہیں اس لیے ابتدا میں قرآن کی حقانیت کے بارے میں شک کرنے والوں کو چیلنج دیا گیا ہے کہ یہ قرآن من جانب اللہ ہے کسی انسان کی ذہنی اختراع نہیں ہے اگر پھر بھی تمہیں یقین نہیں آتا تو تم ایسا کلام بنا کر دکھاؤ۔ اہل مکہ جناب رسالت مآب {ﷺ}کی نبوت کے انکار کے لیے مختلف بہانے بنایا کرتے تھے۔ کبھی کہتے کہ نبوت کے منصب جلیلہ کے لیے معاشی اعتبار سے خوشحال، سیاسی لحاظ سے طاقتور اور خاندانی اعتبار سے کسی بڑے قبیلے کا سردار ہونا چاہیے تھا۔ پھر مکہ میں ابو الحکم بن ہشام یعنی ابوجہل اور کبھی طائف کے مختلف سرداروں کے نام لیتے تھے حالانکہ لوگوں کی نظروں میں آپ {ﷺ}کے مقابلہ میں کسی دوسرے کا نام جچتاہی نہیں تھا۔ کیونکہ سیرت و صورت کے حوالے سے آپ کا پلہ سب پر بھاری تھا۔ جب اس میں ناکامی کا منہ دیکھتے تو یہ پروپیگنڈہ کرتے کہ روم کے فلاں شخص سے خفیہ پیغام رسانی کے ذریعہ یہ کلام پیش کیا جا رہا ہے۔ قرآن مجید نے پہلے اور دوسرے اعتراض کا یہ جواب دیا کہ نبوت تو سراسر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا انتخاب ہوا کرتا ہے۔ وہی بہتر جانتا ہے کہ کون سا دل نور الٰہی کا اہل، کونسی زبان اس کے بیان کرنے پر قادر، اور کون سے کندھے اس بار گراں کو اٹھانے کے متحمل ہو سکتے ہیں۔[ الانعام :124] دوسرے اعتراض کا جواب فقط اتنا دیا کہ جس شخص کو تم محمد {ﷺ}کا معلم و مرشد کہتے ہو وہ تو عربی کے حروف ابجد سے بھی واقف نہیں جبکہ قرآن مجید فصاحت و بلاغت کا سر چشمہ، حقائق و ہدایت کا بے مثل منبع اور عربی ادب کا شاہکار ہے۔[ النحل :103] ان دلائل کے باوجود کفار کو کئی کھلے چیلنج دیے جن میں یہ زور دار چیلنج مدینہ طیبہ میں دیا گیا کہ ہم نے اپنے محبوب بندے پر قرآن نازل کیا ہے اگر اس کے من جانب اللہ ہونے پر تمہیں شک ہے اور تم اپنے دعوی میں سچے ہو تو اللہ تعالیٰ کے سوا دنیا جہاں کے جن و انس اور جس کو چاہو اور جب چاہو اپنے ساتھ ملا کر انفرادی یا اجتماعی طور پر ایک ہی سورت بنا کرلے آؤ لیکن یاد رکھنا اب تک یہ نہ ہوا اور نہ قیامت تک ایسا ہو سکے گا۔ کیونکہ جس طرح اللہ تعالیٰ اپنی ذات و صفات کے لحاظ سے اعلیٰ و ارفع، لازوال اور بے مثال ہے اسی طرح اس کا کلام اعلیٰ، ارفع، لازوال اور بے مثال ہے۔ انسانوں کی اصلاح اور فلاح کے لیے اللہ کریم کی طرف سے نبی محترم {ﷺ}کو قرآن مجید کی شکل میں ایسا معجزہ عطا کیا گیا ہے جس کی طاقت سے نبی معظم {ﷺ}نے دنیا کے سخن وروں، قانون دانوں، شاعروں اور ادیبوں کو لا جواب کردیا ہے۔ اس کے باوجود ہر دور کے کافر قرآن مجید‘ فرقان حمید کی مخالفت کرتے آرہے ہیں لیکن بالآخر انہیں اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرنا پڑا ہے۔ جس کی چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں تاکہ قرآن کے طالب علم کو معلوم ہوجائے کہ منکرین قرآن کس طرح اپنی نا کامی کا اعتراف کرتے آئے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ اس لیے ارشاد ہوا کہ قرآن کا مقابلہ کرنا تمہارے بس کا روگ نہیں تو اس آگ سے بچو جس میں پتھروں اور انسانوں کو جھونکا جائے گا جو کفار کے لیے تیار کی گئی ہے۔ فرانس کا مشہور مستشرق ڈاکٹر مارڈریس جس کو حکومت فرانس کی وزارت معارف نے قرآن حکیم کی باسٹھ سورتوں کا ترجمہ فرانسیسی زبان میں کرنے پر مامور کیا تھا اس نے اعتراف کیا : ” بے شک قرآن کا طرز بیان اللہ تعالیٰ کا طرز بیان ہے، بلا شبہ جن حقائق ومعارف پر یہ کلام حاوی ہے وہ کلام الٰہی ہی ہوسکتا ہے، اور واقعہ یہ ہے کہ اس میں شک وشبہ کرنے والے بھی جب اس کی عظیم تاثیر کو دیکھتے ہیں تو تسلیم واعتراف پر مجبور ہوجاتے ہیں، پچاس کروڑ مسلمان (اس تحریر کے وقت مسلمانوں کی تعداد اتنی ہی تھی 2005 میں یہ تعداد سوا ارب سے زائد ہے) جو سطح زمین کے ہر حصہ پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں قرآن کی خاص تاثیر کو دیکھ کر مسیح مشن میں کام کرنے والے بالاجماع اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے۔“ [ معارف القرآن مفتی محمد شفیع ] ڈاکٹر گستادلی بان نے اپنی کتاب ” تمدن عرب“ میں قرآن کی حیرت انگیزی کا اعتراف کیا، ان کے الفاظ یہ ہیں : ” پیغمبر نبی اُمّی اسلام کی ایک حیرت انگیز سر گزشت ہے، جس کی آواز نے ایک قوم ناہنجار کو جو اس وقت تک کسی ملک کے زیر حکومت نہ آئی تھی رام کیا، اور اس درجہ پر پہنچا دیا کہ اس نے عالم کی بڑی بڑی سلطنتوں کو زیر و زبر کر ڈالا۔“ مسٹر وڈول جس نے قرآن مجید کا ترجمہ اپنی زبان میں کیا لکھتے ہیں : ” جتنا بھی ہم اس کتاب یعنی قرآن کو الٹ پلٹ کر دیکھیں اسی قدر پہلے مطالعہ میں اس کی مرغوبیت نئے نئے پہلوؤں سے اپنا رنگ جماتی ہے، فوراً ہمیں مسخر اور متحیر کردیتی ہے، اور آخر میں ہم سے تعظیم کرا کر چھوڑتی ہے، اس کا طرز بیان با عتبار اس کے مضامین کے، عفیف، عالی شان اور تہدید آمیز ہے اور جا بجا اس کے مضامین سخن کی غایت رفعت تک پہنچ جاتے ہیں، غرض یہ کتاب ہر زمانہ میں اپنا پر زور اثر دکھاتی رہے گی۔“ (شہادۃ الاقوام، ص13) مصر کے مشہور مصنف احمد فتحی بک زا غلول نے 1898ء میں مسٹرکونٹ ہنروی کی کتاب الاسلام کا ترجمہ عربی میں شائع کیا تھا، اصل کتاب فرنچ زبان میں تھی۔ اس میں مسٹر کونٹ نے قرآن کے متعلق اپنے تأثرات ان الفاظ میں بیان کئے ہیں : ” عقل حیران ہے کہ اس قسم کا کلام ایسے شخص کی زبان سے کیونکرادا ہوا جو بالکل ان پڑھ تھا، تمام مشرق نے اقرار کرلیا ہے کہ نوع انسانی لفظاً و معنا ہر لحاظ سے اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے۔ یہ وہی کلام ہے جس کی بلند انشاء پردازی نے عمر بن خطاب {رض}کو مطمئن کیا اور ان کو خدا کا معترف ہونا پڑا۔ یہ وہی کلام ہے کہ جب عیسیٰ {علیہ السلام}کی ولادت کے متعلق اس کے جملے جعفر بن ابی طالب {رض}نے حبشہ کے بادشاہ کے دربار میں پڑھے تو اس کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو جاری ہوگئے، اور بشپ چلّااٹھا کہ یہ کلام اسی سر چشمہ سے نکلا ہے جس سے عیسیٰ (علیہ السلام) کا کلام نکلا تھا۔“ (شہادۃ الاقوام ص14) انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا، جلد 16میں تحریر ہے : ” قرآن کے مختلف حصص کے مطالب ایک دوسرے سے بالکل موافق ہیں، بہت سی آیات دینی و اخلاقی خیالات پر مشتمل ہیں، مظاہر قدرت، تاریخ، الہامات، انبیاء کے ذریعہ اس میں خدا کی عظمت، مہربانی اور صداقت کی یاد دلائی گئی ہے، بالخصوص حضرت محمد {ﷺ}کے واسطہ سے خدا کو واحد اور قادر مطلق ظاہر کیا گیا ہے، بت پرستی کو بلا لحاظ ناجائز قرار دیا گیا ہے، قرآن کی نسبت یہ بالکل بجا کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا بھر کی موجودہ کتابوں میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے حضرت محمد {ﷺ}پر قرآن نازل فرمایا۔ 2۔ ساری مخلوق مل کر بھی قرآن کی ایک سورت جیسی سورت نہیں بنا سکتی۔ 3۔ جہنم میں پتھر اور ” اللہ“ کے نافرمان جھونکے جائیں گے۔ 4۔ رسول محترم {ﷺ}بشر تھے۔ 5۔ قرآن کے منکر جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ تفسیر بالقرآن : قرآن کا چیلنج : 1۔ جن اور انسان مل کر اس جیسا قرآن بنا لاؤ۔ (بنی اسرائیل :88) 2۔ کوئی دس سورتیں بنا لاؤ۔ (ھود :13) 3۔ کوئی اس جیسی ایک سورت بنا لاؤ۔ (یونس :28) 4۔ قیامت تک نہیں بنا سکتے۔ (البقرۃ:23) 5- اس جیسی کوئی آیت لے آؤ اگر تم سچے ہو۔ (الطور: 34) البقرة
24 البقرة
25 فہم القرآن : ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک، قرآن مجید اور نبوت کے بارے میں شک و انکار کرنے والوں کو سخت ترین عذاب کا انتباہ کرنے کے بعد اب ان لوگوں کو کامیابی کی نوید اور پیغام مسرت دیا جا رہا ہے جو ایمان خالص کے ساتھ نیک عمل کرتے ہیں۔ یاد رہے نیکی میں ایمان باللہ کے بعد تین چیزیں لازم ہیں : (1)۔ اخلاصِ نیّت (2)۔ سنت کی اتباع (3)۔ فرائض کی ہمیشہ ادائیگی نوافل میں پہلی دو شرائط لازمی ہیں اور تیسری شرط افضل ہے ضروری نہیں۔ جنت کے پھل شکل و صورت کے اعتبار سے دنیا کے پھلوں سے ہم رنگ اور ہم شکل ہوں گے۔ جنہیں دیکھتے ہی اہل جنت پکار اٹھیں گے کہ ان جیسے پھل تو دنیا میں بھی ہمیں دیے گئے تھے۔ شاید یہ اس لیے ہوگا کہ جنتیوں کو اتنی بھی زحمت اور پریشانی نہ اٹھانا پڑے کہ وہ جنت کے باغات اور پھلوں کے بارے میں ملائکہ یا ایک دوسرے سے پوچھنے کی زحمت اٹھائیں۔ یہ کیا ہے؟ اور وہ کونسا پھل ہے اور اسے کس طرح کھانا ہے؟ لہٰذا پہلے سے ہی ان کی شکلوں اور ناموں سے متعارف اور مانوس ہوں گے تاکہ انہیں ایک ناواقف کی طرح شرمندگی نہ اٹھانا پڑے۔ تاہم جنت کے پھل رنگت، حجم، لذت اور خوشبو کے اعتبار سے دنیا کے پھلوں سے ہمارے تصورات سے کہیں بڑھ کر مختلف ہوں گے۔ اسی طرح جنت کی عورتیں جسمانی آلائشوں اور بیماریوں سے پاک، خاوندوں کی نافرمانی سے محفوظ اور سوتنوں کے باہم حسدو رشک سے مبرا ہوں گی۔ ان کے حسن و جمال کے بارے میں رسول اللہ {ﷺ}اس طرح فرمایا کرتے تھے : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ {}قَال اللّٰہُ تَعَالٰی اَعْدَدْتُّ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَآ اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ وَّاقْرَءُ وْٓا إِنْ شِئْتُمْ ﴿فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآاُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ﴾) (رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وأنھا مخلوقۃ ) ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں رسول محترم {ﷺ}نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ نعمتیں تیار کی ہیں، جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ ہی ان کے متعلق کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال پیدا ہوا۔ اگر چاہو تو اس آیت کی تلاوت کرو۔ (کوئی نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا چیز چھپا کے رکھی گئی ہے)۔“ (وَلَوْ اَنَّ اِمْرَاَۃً مِّنْ نِّسَآءِ أَھْلِ الْجَنَّۃِ اطَّلَعَتْ اِلَی الْاَرْضِ لَاَضَآءَ تْ مَا بَیْنَھُمَا وَلَمَلَاَتْ مَا بَیْنَھُمَا رِیْحًا وَلَنَصِیْفُھَا یَعْنِی الْخِمَارَ خَیْرٌ مِّنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا) (رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار) ” اگر اہل جنت کی عورتوں سے کوئی زمین کی طرف جھانک لے تو مشرق و مغرب اور جو کچھ اس میں ہے روشن اور معطر ہوجائے۔ نیز اس کے سر کا دوپٹہ دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے اس سے قیمتی ہے۔“ قرآن مجید نے ” ازواج“ کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس کا معنٰی ہے جوڑا۔ جو اس طرح ہوگا کہ اگر نیک خاتون کا خاوند جہنم رسید ہوا تو اسے دوسرے جنتی کی زوجہ بنا دیا جائے گا اور جس کی بیوی جہنمی ہوگی اسے دنیا کی نیک خاتون عطا کی جائے گی۔ قرآن مجید نے عورتوں کی حیا کے پیش نظر یہ نہیں فرمایا کہ ان کے لیے خوبصورت مرد ہوں گے۔ ایسا کہنا قرآن کے اسلوب بیان کے خلاف تھا۔ مرد طبعی طور پر عورت سے نسبتاً کم حیا رکھتا ہے اس لیے فرمایا گیا کہ جنت میں ان کے لیے پاک بیویاں ہوں گی۔ یہ اس لیے بھی ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے مردوں کودنیا میں نگران بنایا ہے اور جنت میں بھی ان کو عورتوں پر سردار بنائے گا۔ جنتیوں کو یہ خوشخبری بھی دی جا رہی ہے کہ جنت اور اس کی نعمتیں ان کے لیے ہمیشہ اور جنتیوں کو حیات جاوداں حاصل ہوگی۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}عَنِ النَّبِیِّ {}قَالَ إِنَّ فِی الْجَنَّۃِ لَشَجَرَۃً یَسِیْرُ الرَّاکِبُ فِیْ ظِلِّھَا مائَۃَ سَنَۃٍ وَاقْرَءُ وْٓا إِنْ شِئْتُمْ ﴿وَظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ﴾) (رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وأنھا مخلوقۃ) ” حضرت ابوہریرہ {رض}نبی کریم {ﷺ}سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا : جنت میں ایک ایسا درخت ہے کہ گھوڑے پر سوار شخص اس کے سائے میں سو سال تک چل سکتا ہے۔ اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھو : اور سائے ہیں لمبے لمبے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ قَیْسٍ {رض}عَنْ أَبِیْہِ عَنِ النَّبِیِّ {}قَالَ إِنَّ لِلْمُؤْمِنِ فِی الْجَنَّۃِ لَخَیْمَۃً مِنْ لُؤْلُؤَۃٍ وَاحِدَۃٍ مُجَوَّفَۃٍ طُوْلُھَا سِتُّوْنَ مِیْلًا لِلْمُؤْمِنِ فِیْھَا أَھْلُوْنَ یَطُوْفُ عَلَیْھِمُ الْمُؤْمِنُ فَلَا یَرٰی بَعْضُھُمْ بَعْضًا) (رواہ مسلم : باب فی صفۃ خیام الجنۃ ....) ” حضرت عبداللہ بن قیس {رض}اپنے باپ سے اور وہ نبی کریم {ﷺ}سے بیان کرتے ہیں آپ {ﷺ}کا فرمان ہے کہ جنت میں مومن کے لیے موتی کا ایک ایسا خیمہ ہوگا جس کی لمبائی ساٹھ میل ہوگی وہاں مومن کے گھر والے ہوں گے جن کے ہاں وہی جائے گا۔ کوئی کسی کو نہ دیکھ سکے گا۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}عَنِ النَّبِیِّ {}أَوَّلُ زُمْرَۃٍ تَدْخُلُ الْجَنَّۃَ عَلٰی صُوْرَۃِ الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ وَالَّذِیْنَ عَلٰی آثَارِھِمْ کَأَحْسَنِ کَوْکَبٍ دُرِّیٍّ فِی السَّمَآءِ إِضَآءَ ۃً قُلُوْبُھُمْ عَلٰی قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍلَاتَبَاغُضَ بَیْنَھُمْ وَلَاتَحَاسُدَ لِکُلِّ امْرِیءٍ زَوْجَتَانِ مِنَ الْحُوْرِ الْعِیْنِ یُرٰی مُخُّ سُوْقِھِنَّ مِنْ وَرَآءِ الْعَظْمِ وَاللَّحْمِ) (رواہ البخاری : باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وأنھامخلوقۃ) ” حضرت ابوہریرہ {رض}نبی کریم {ﷺ}سے بیان کرتے ہیں پہلا گروہ جنت میں چودھویں رات کے چاند کی صورت میں داخل ہوگا ان کے بعد کے لوگ آسمان میں چمکدار اور حسین ستارے کی مانند ہوں گے ان کے دل ایک ہی آدمی کے دل کی طرح ہوں گے ان کے درمیان نہ کوئی بغض ہوگا اور نہ ہی حسد۔ ہر ایک جنتی کے لیے حور العین میں سے دو بیویاں ہوں گی جن کی ہڈیوں کا گودا، گوشت اور ہڈیوں کے درمیان سے نظر آئے گا۔“ مسائل : 1۔ صاحب ایمان اور نیک اعمال کرنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت، ہرقسم کے پھل، پاکیزہ بیویاں اور جنت میں ہمیشہ رہنے کی خوشخبری ہے۔ تفسیر بالقرآن : جنت کی ازواج : 1۔ حوریں نوجوان، کنواریاں اور ہم عمرہوں گی۔ (الواقعہ : 25تا38) 2۔ یا قوت و مرجان کی مانند ہوں گی۔ (الرحمن :58) 3۔ خوبصورت اور خوب سیرت ہوں گی۔ (الرحمن :70) 4۔ خیموں میں چھپی ہوئی ہوں گی۔ (الرحمن :72) 5- شرم و حیا کی پیکر اور انہیں کسی نے چھوا نہیں ہوگا۔ (الرحمن :56) 6- خوبصورت بڑی بڑی آنکھوں والیاں ہوں گی۔ (الصافات: 48، 49) 7- جنتیوں کی ہم عمر ہوں گی۔ ( ص: 52) البقرة
26 فہم القرآن : ربط کلام : قرآن مجید کی ابتدا میں مرکزی اور بنیادی باتوں کا تذکرہ ہوا یہاں قرآن مجید میں بیان ہونے والی امثال کی وضاحت اور ان کے ردِّ عمل کا بیان ہوتا ہے۔ انسانی فطرت شروع سے اس بات کی متقاضی رہی ہے کہ جو بات مشکل یا لطیف ہو وہ مثال کے ذریعے سمجھائی جائے تو نہ صرف بات اس کی سمجھ میں آ جاتی ہے بلکہ وہ آدمی کو مدت تک یاد رہتی ہے۔ فطرت کے اس تقاضے اور فہم کی آسانی کے لیے قرآن مجید میں کئی مسائل کو امثال کے ذریعے سمجھایا گیا ہے۔ بالخصوص توحید کی حقانیت اور شرک کی ناپائیداری اور بے بضاعتی سمجھانے کے لیے جب یہ مثال دی گئی کہ شرک کا عقیدہ اور اس کے متعلقات مکڑی کے جالے کی طرح نا پائیدار اور کمزور ہیں جیسے مضبوط چھت کے ہوتے ہوئے مکڑی کا تانہ بانہ کمزور ہوتا ہے۔[ العنکبوت :41] جو نہ ہوا کو روکتا ہے اور نہ ہی مکڑی کا سردی اور گرمی میں دفاع کرتا ہے۔ بلکہ معمولی ہوا بھی جالے سمیت مکڑی کو اٹھا کر دور پھینک دیتی ہے۔ یہی مشرک کے عقیدے کی مثال ہے کہ اللہ تعالیٰ کا مضبوط سہارا چھوڑ کر کبھی مردوں کو پکارتا ہے اور کبھی بے جان شجر و حجر کو وسیلہ بناتا ہے۔ حالانکہ معبود ان باطل سے مکھی کوئی چیز اٹھا کرلے جائے تو وہ اس سے واپس نہیں لے سکتے۔ کس قدر طالب و مطلوب کمزور ہیں۔[ الحج :73] مکھی کی مثال سے یہ بھی واضح ہوا کہ جس طرح عام مکھی پھول اور گندگی پر بیٹھنے سے پرہیز نہیں کرتی۔ ایسے ہی مشرک توحید اور شرک میں فرق نہیں کرتا اور جگہ جگہ ٹکریں مارتا پھرتا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ مشرک اور کافر ان مثالوں پر غور کرتے ہوئے اپنے باطل نظریہ پر نظر ثانی کرتے۔ اُلٹا انہوں نے یہ کہا کہ ربِّ جلیل کو اتنی حقیر چیزوں کی مثال نہیں دینا چاہیے تھی یہ امثال ذات کبریا کو زیبانہ تھیں۔ اس کے جواب میں فرمایا جا رہا ہے کہ مخلوق ہونے کے ناطے تم سب یکساں ہو۔ اللہ تعالیٰ چھوٹی بڑی مخلوق کا واحد خالق ہے۔ اس فرق کو سمجھنے کے لیے ذرا اپنی طرف غور کیجئے کہ ایک باپ کے بچے حسن و جمال‘ طاقت و صلاحیت اور اخلاق و کردار کے اعتبار سے ایک جیسے نہیں ہوتے اس کے باوجود باپ ہونے کے ناطے وہ سب سے ایک جیسا پیار کرتا ہے۔ بلکہ فطرتاً کمزور اولاد کے ساتھ زیادہ شفقت کرتا ہے۔ جب فطرت تمہیں ایسا کرنے پر مجبور کرتی ہے تو خالق اپنی مخلوق کو کیوں حقیر سمجھے وہ تو سب سے زیادہ رحیم وکریم ہے۔ قرآن نے مچھر کی مثال بیان نہیں کی صرف اشارہ فرما کر کفار کو چوکنّا اور ذلیل کیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے کہ کسی چیز کی مثال بیان کرے یا اس کی طرف اشارہ فرمائے بہر حال ساری کی ساری مخلوق اسی کی ہے۔ خالق اپنی مخلوق کے تذکرہ میں عار نہیں سمجھتا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایمان داروں کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور انکار کرنے والوں کا کفر و تمرد اور زیادہ ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا مالک ہے وہ چیز مادی ہو یا روحانی انسان کو نظر آئے یا اس کی آنکھیں اسے دیکھنے سے قاصر ہوں۔ سب کی سب اللہ تعالیٰ کی ملکیت اور اس کے اختیار میں ہے اسی لیے وہ ہدایت اور گمراہی کو اپنی ملکیت قرار دے کر اسے اپنی طرف منسوب کرتا ہے کہ میں جس کو چاہوں ہدایت دوں اور جس کو چاہوں گمراہ کروں لیکن اللہ تعالیٰ لوگوں کی ہدایت کا طلبگار ہے۔ اسی لیے اس نے انبیاء بھیجے اور کتابیں نازل فرمائیں تاکہ لوگ ہدایت پاجائیں لیکن لوگوں کی اکثریت ہمیشہ گمراہی کو پسند کرتی رہی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کو اختیاری قرار دیا ہے وہ جبرًا کسی کو ہدایت دیتا ہے اور نہ گمراہ کرتا ہے اس لحاظ سے ﴿ یُضِلُّ﴾ کا معنٰی ہوگا کہ جو گمراہ ہونا چاہتا ہے۔ اسے وہ گمراہی میں آگے بڑھنے دیتا ہے۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے کوئی مثال دینے میں عار محسوس نہیں کرتا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ مثال پر ایمان والوں کا ایمان بڑھتا ہے اور کافر مزید گمراہ ہوجاتے ہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر اعتراض کرنے والا فاسق ہوتا ہے۔ 4۔ فاسق ہدایت پانے کی بجائے مزید گمراہ ہوجاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : توحید و شرک کے بارے میں چند امثال : 1۔ ایک غلام کے دو مالک ہوں تو؟۔ (الزمر :29) 2۔ ناکارہ اور کار آمد غلام کی مثال۔ (النحل :76) 3۔ مشرک کی تباہی کی مثال۔ (الحج :31) 4۔ باطل معبودوں اور مکھی کی مثال۔ (الحج :73) 5۔ دھوپ اور سایہ کی مثال۔ (فاطر :21) 6۔ اندھیرے اور روشنی کی مثال۔ (فاطر :20) 7۔ اندھے بہرے، دیدے اور سننے والے کی مثال۔ (ھود :24) البقرة
27 فہم القرآن : ربط کلام : جیسا کہ پہلے ذکر کیا جاچکا ہے کہ قرآن مجید کی ابتدا اور البقرۃ کے آغاز میں ابتدائی‘ بنیادی اور مرکزی باتوں کا بیان ہوا ہے یہاں اس عہد کا ذکر ہورہا ہے جس کی پاسداری کا حکم ہے جو روز اول ہی سے بنی نوع انسان سے لیا گیا تھا۔ تمام مفسرین نے اللہ کے عہد سے مراد وہی عہد لیا ہے جس کا تفصیلی تذکرہ سورۃ الاعراف 172میں آیا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا تو آدم (علیہ السلام) اور اس کی پوری اولاد سے عہد لیا کہ کیا میں تمہارا رب ہوں؟ سب نے عہد کیا کہ تو ہی ہمارا رب ہے۔ اسی عہد کی یاد اور وفا داری کے لیے انبیاء عظام مبعوث فرمائے گئے۔ جنہوں نے ہر انداز سے تجدید عہد اور اس کے تقاضے پورے کرنے کے لیے لوگوں کو آمادہ کرنے کی کوششیں فرمائیں۔ لیکن ہر دور کی اکثریت نے اس عہد کی پاسداری کرنے کی بجائے کفر و شرک اور نافرمانی وسرکشی کو اختیار کیا۔ حالانکہ یہ عہد انسان کی جبلت میں اس حد تک رچا بسا ہے کہ انتہا درجہ کے مشرک، کافر کو بھی شرک اور اس کے کفر کی نشاندہی کی جائے تو وہ چونک اٹھتا ہے اور اس سے انکار کرتا ہے کیونکہ شرک وکفر فطرت کے خلاف ہے اور توحید فطرت کی آواز ہے۔ قرآن مجید نے عہد کے ساتھ میثاق کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ جس کا معنٰی ہے انتہائی پختہ عہد، لہٰذا توحید سے بڑھ کر پختہ عہد کوئی نہیں ہو سکتا۔ فطرت کے خلاف کرنا، رشتہ داریوں کو توڑنا، باہمی محبتوں کو قطع کرنا اور عہد شکنی کرنا۔ یہ امور فساد کی جڑ ہیں اور دنیا میں انہی کی وجہ سے فساد برپا ہوتا ہے ایسے لوگ دنیا اور آخرت میں ناقابل تلافی نقصان پائیں گے۔ (عَنْ أَنَسٍ {رض}قَالَ قَلَّمَا خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ {}إِلَّا قَالَ لَاإِیْمَانَ لِمَنْ لَّآ أَمَانَۃَ لَہٗ وَلَادِیْنَ لِمَنْ لَّا عَھْدَ لَہٗ) (مسند احمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب مسند أنس بن مالک) ” حضرت انس {رض}فرماتے ہیں ہمیں جب بھی رسول اللہ {ﷺ}خطبہ ارشاد فرماتے تو کہتے کہ جو امانت دار نہیں وہ ایمان دار نہیں اور جو بدعہد ہے وہ دین دار نہیں۔“ (عَنْ عَائِشَۃَ {رض}قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ {}الرَّحِمُ مُعَلَّقَۃٌ بالْعَرْشِ تَقُوْلُ مَنْ وَصَلَنِیْ وَصَلَہُ اللّٰہُ وَمَنْ قَطَعَنِیْ قَطَعَہُ اللّٰہُ) (رواہ مسلم : باب صلۃ الرحم وتحریم قطیعتھا) ” حضرت عائشہ {رض}بیان کرتی ہیں کہ رسول کریم {ﷺ}فرماتے ہیں رحم عرش کے ساتھ لپٹ کر کہتا ہے جو مجھے ملائے ” اللہ“ اسے ملائے اور جو مجھے کاٹے ” اللہ“ اسے کاٹ ڈالے۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کے عہد اور رشتہ داریوں کو توڑنے والے فسادی ہیں۔ 2۔ فساد کرنے والے دنیا و آخرت میں نقصان پائیں گے۔ تفسیر بالقرآن : نقصان پانے والے لوگ : 1۔ اسلام کا انکار کرنے والے نقصان پائیں گے۔ (البقرۃ :121) 2۔ اسلام کے بغیر دین تلاش کرنے والے نقصان پائیں گے۔ (آل عمران :85) 3۔ شیطان کی تابعداری کرنے والے نقصان پائیں گے۔ (المجادلۃ:19) 4۔ مشرک نقصان پائیں گے۔ (الزمر :65) 5۔ کافر نقصان پائیں گے۔ (النحل :109) فسادی لوگ : 1۔ فساد کرنے سے رک جاؤ۔ (الاعراف :85) 2۔ حق کو خواہشات کے مطابق کرنا فساد کرنے کے مترادف ہے۔ (المومنون :71) 3۔ منافق فسادی ہوتے ہیں۔ (البقرۃ:11) 4۔ خدا کے نافرمان فسادی ہیں۔ (الروم :41) 5۔ یاجوج و ماجوج فسادی ہیں۔ (الکہف :94) 6۔ فرعون فساد کرنے والا تھا۔ (یونس :91) 7۔ یہودی فساد پھیلانے والے ہیں۔ (المائدۃ:64) 8۔ بچوں کا قتل فساد ہے۔ (القصص :4) 9۔ فسادیوں کی سزا۔ (المائدۃ:33) البقرة
28 فہم القرآن : ربط کلام : بنی آدم کا اللہ تعالیٰ سے کیا ہوا عہد توڑنے یعنی توحید کا انکار کرنے کا کوئی جواز نہیں اس پر سوا لیہ انداز میں انتباہ کیا گیا ہے کہ تمہارے پاس اس سے انکار کی کوئی عقلی، نقلی اور فطری دلیل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفروشرک، رسالت مآب {ﷺ}کا انکار، اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے ہوئے ابدی اور ازلی عہد کو توڑنا، باہمی تعلقات کو قطع کرنا اور زمین پر دنگا فساد کرنا یہ ایسے کام ہیں جن میں اعتقادی اور عملی طور پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور انکار پایا جاتا ہے۔ جس کا انسان کو کسی اعتبار سے حق نہیں پہنچتا۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عدم سے وجود بخشا اور اس کے بعد موت سے ہمکنار کرکے دوبارہ زندہ کرنے کے بعد ابدی زندگی کے لیے اٹھائے گا یہ سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کے اختیار میں نہیں۔ انسان اپنے خالق کے سامنے بے بس ہے جب انسان اپنی موت و حیات اور وجود پر اختیار نہیں رکھتا تو اسے اتنی جرأت کیونکر کہ وہ قادر مطلق کا انکار کرے۔ حالانکہ اس کا اپنے اعمال سمیت رب ذو الجلال کے حضور پیش ہونا یقینی امر ہے جس میں ذرہ برابر شک کی گنجائش نہیں ہو سکتی۔ بے شک انسان کا جسم راکھ کی شکل اختیار کر کے ہواؤں کی نذر ہوجائے یا پانی میں حل ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ ان ذرّات کو مجتمع فرما کر انسانی جسم کو روح سمیت اپنے حضور پیش ہونے کا حکم صادر فرمائے گا۔ اس حقیقت کو قرآن اور رسول معظم {ﷺ}نے ان الفاظ میں بیان فرمایا : ﴿قُلْ کُوْنُوْاحِجَارَۃً أَوْ حَدِیْدًا۔ أَوْ خَلْقًا مِّمَّا یَکْبُرُ فِیْ صُدُوْرِکُمْ﴾ (بنی اسرائیل :50) ” آپ فرمائیے تم پتھر بن جاؤ یا لوہا۔ یا اس سے بڑی مخلوق جو تمہارے دل میں آئے۔“ ﴿مِنْھَا خَلَقْنٰکُمْ وَ فِیْھَا نُعِیْدُکُمْ وَ مِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی﴾ (طٰہٰ:55) ” اس زمین سے ہی ہم نے تمہیں پیدا کیا اس میں لوٹائیں گے اور اسی سے دوبارہ نکالیں گے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}عَنِ النَّبِیِّ {}قَالَ کَانَ رَجُلٌ یُسْرِفُ عَلٰی نَفْسِہٖ فَلَمَّا حَضَرَہُ الْمَوْتُ قَالَ لِبَنِیْہِ إِذَا أَنَا مُتُّ فَأَحْرِ قُوْنِی ثُمَّ اطْحَنُوْنِی ثُمَّ ذَرُوْنِی فِی الرِّیْحِ فَوَ اللّٰہِ لَئِنْ قَدَرَ عَلَیَّ رَبِّی لَیُعَذِّبَنِّی عَذَابًا مَا عَذَّبَہُ أَحَدًا فَلَمَّا مَاتَ فُعِلَ بِہٖ ذٰلِکَ فَأَمَرَ اللّٰہُ الْأَرْضَ فَقَالَ اجْمَعِی مَا فِیْکِ مِنْہُ فَفَعَلَتْ فَإِذَا ھُوَ قَآئِمٌ فَقَالَ مَا حَمَلَکَ عَلٰی مَا صَنَعْتَ قَالَ یَا رَبِّ خَشْیَتُکَ فَغَفَرَ لَہُ) (رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء) ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں نبی کریم {ﷺ}نے فرمایا کہ ایک آدمی اپنے آپ پر بڑا ظلم و ستم کرتا تھا۔ موت کے قریب اس نے اپنے بیٹوں کو کہا جب میں فوت ہوجاؤں تو میری لاش کو جلا کر راکھ ہواؤں میں اڑا دینا۔ اللہ کی قسم ! اگر مجھ پر میرے رب نے قابو پالیا تو مجھے ایسا عذاب دے گا کہ اس سے پہلے اس نے کسی کو عذاب نہ دیا ہوگا۔ چنانچہ اس کی موت پر اس کے ساتھ ایسے ہی کیا گیا اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا کہ تیرے پاس جو کچھ ہے سب جمع کر دے۔ جمع کرنے کے بعد اس آدمی سے پوچھاکہ تو نے اس طرح کیوں کیا؟ جواباً اس نے عرض کی۔ اے اللہ! تیرے ڈر کی وجہ سے میں نے ایسا کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے معاف فرما دیا۔“ جہنمیوں کا اعتراف : ﴿قَالُوْارَبَّنَآ أَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ وَأَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَھَلْ إِلٰی خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِیْلٍ﴾ (المؤمن :11) ” کہیں گے اے ہمارے رب! تو نے ہمیں دو مرتبہ موت دی اور دو مرتبہ زندہ کیا ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں تو کیا یہاں سے نکلنے کی کوئی راہ ہے؟۔“ تمام مفسرین نے دو اموات سے مراد ایک وہ موت لی ہے جب انسان عدم کی حالت میں ہوتا ہے، دوسری موت انسانی زندگی کا خاتمہ ہے اسی طرح دنیوی زندگی اور دوسری جنت یا جہنم کی زندگی ہے۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کو ہی موت و حیات پر اختیار ہے اور اسی کی طرف سب نے جمع ہونا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے اقتدار اور اختیار کا انکار کرنا کفر ہے۔ 3۔ انسان کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے رب کی ذات اور صفات کا انکار کرے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنے کا کوئی جواز نہیں : 1۔ ” اللہ“ ہی خالق ہے اس کے ساتھ کفر کیوں؟ (البقرہ :85) 2۔ ” اللہ“ کی آیات پڑھی جانے کے باوجود کفر کا کیا معنی؟ (آل عمران :101) 3۔ زمین و آسمان بنانے اور بارش اتارنے والا ” اللہ“ ہے اس کے ساتھ دوسرا الٰہ کیوں؟ (النمل :60) 4۔ بحرو بر میں رہنمائی کرنے والا ” اللہ“ ہے اس کا انکار کیوں؟ (النمل :63) 5۔ زندہ کرنے والے اور رزق عطا فرمانے والے ” اللہ“ کے ساتھ کفر چہ معنی دارد؟ (النمل :64) 6۔ پریشانیوں کا مداوا کرنے والا صرف ” اللہ“ ہے اس کا انکار کیوں؟ (النمل :62) البقرة
29 فہم القرآن : ربط کلام : اللہ تعالیٰ موت وحیات کا مالک ہے اس نے انسان کو بے اختیار خلیفہ نہیں بنایا بلکہ سب کو اس کے لیے پیدا کیا اور ایک حد تک زمین کا نظام انسان کے حوالے کیا تاکہ اس کی آزمائش کرے۔ اس رکوع کی ابتدا توحید اور انسانی تخلیق کے تذکرے سے ہوئی تھی اب اس خطاب کا اختتام اللہ کی توحید پر کرتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ وہی تمہاری موت و حیات اور فناو بقا کا مالک ہے اور اسی کے سامنے تم نے پیش ہونا ہے۔ اس نے فقط تمہیں ہی پید انہیں فرمایا بلکہ زمین کی ہر چیز تمہارے لیے پیدا فرمائی۔ اس کے بعد عرش معلّٰی پر متمکن ہوا۔ جس طرح اس کی شایان شان ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کے احترام و مقام کے پیش نظر یہ چیزیں پہلے اس لیے بنائی اور سجائی گئیں تاکہ مکیں سے پہلے مکاں، مہمان سے پہلے دسترخواں، مخدوم سے پہلے خدام، حاکم سے پہلے اس کی ریاست تشکیل پائے۔ نہ صرف ان کو آدم (علیہ السلام) کے لیے بنایا گیا بلکہ ان کو بنا کر بنی نوع انسان کے لیے مسخر بھی کردیا گیا ہے۔ (الجاثیۃ:13) استواء کا معنٰی اللہ تعالیٰ کا آسمانوں پر متمکن ہونا ہے۔ جس کی یہ وضاحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کا عرش پہلے پانی پر تھا۔ پھر جس طرح اس کی شایان شان ہے عرش پر مستوی ہوا۔ آیت کے آخر میں واضح کردیا گیا کہ اے انسان! اللہ تعالیٰ کا آسمانوں کے اوپر عرش پر استوا ہونے کا یہ معنی نہیں کہ اب وہ زمین اور اس کے ما فیہا سے بے خبر ہے۔ نہیں! کان کھول کر سن لو! اللہ تعالیٰ پل پل کی خبر اور ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمان کی ہر چیز انسان کے لیے پیدا فرمائی ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ عرش پر متمکن ہے جس طرح اس کی شان کے لائق ہے۔ 3۔ اللہ ہی نے سات آسمان بنائے وہی ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن : 1۔ سورج اور چاند کو تمہارے لیے مسخر کیا۔ (ابراہیم :33) 2۔ رات دن کو تمہارے لیے مسخر کیا۔ (النحل :12) 3۔ نہروں اور کشتیوں کو مسخر فرمایا۔ (ابراہیم :33) 4۔ اللہ نے زمین و آسمان کی ہر چیز کو مسخر کردیا۔ (الحج :65) 5۔ زمین کی ہر چیز انسان کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ (البقرۃ:29) البقرة
30 فہم القرآن : ربط کلام : جس مکین کے لیے ہر چیز بنائی اور سجائی گئی اس کی تخلیق کا مقصد بیان کیا گیا ہے۔ زمین و آسمان کو بنانے اور سجانے کے بعد کائنات کی اعلیٰ ترین مخلوق ملائکہ کے پر شکوہ اجتماع میں پورے جلال و کمال کے ساتھ رب کائنات نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق اور خلافت کا اعلان فرمایا۔ اللہ اللہ کیا احترام و مقام ہے جناب آدم (علیہ السلام) کا! اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے ہاتھ سے پیدا کیا۔ اس کو بہترین سانچے میں استوار فرمایا۔ اپنی روح کو اس میں القاء کیا اور پھر خلافت کے منصب پر فائزفرماکراعلیٰ ترین مخلوق سے سجدہ کروایا اور اس کی خلافت کا اعلان فرمایا خلافت کا اعلان سنتے ہی ملائکہ نے اللہ کے حضور اس خدشہ کا اظہار کیا کہ یہ تو ایسی مخلوق ہے کہ جو زمین میں قتل و غارت اور دنگا فساد کرے گی جب کہ ہم تیری حمد وستائش کرتے ہیں۔ خلافت سے مراد اللہ تعالیٰ کی خلافت نہیں بلکہ زمین میں حضرت آدم (علیہ السلام) کی حکمرانی ہے یا پھر حضرت آدم جنات کے خلیفہ ہیں کیونکہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے پہلے زمین کا نظام جنات کے سپرد تھا۔ ملائکہ کی تشویش کی تین وجوہات ہو سکتی ہیں : (1) آدم کا متضاد عناصر سے تخلیق پانا۔ (2) قبل ازیں جنّات کی قتل و غارت گری اور نافرمانیوں کا مشاہدہ کرنا۔ (3) آدم کا اعلیٰ منصب پر فائز ہونا اور اس کو وسیع اختیارات ملنا۔ بعض مفسرین نے ملائکہ کے اس خدشہ سے یہ استدلال کیا ہے کہ وہ خود خلافت کے منصب کے امیدوار تھے جس کی وجہ سے انہوں نے جناب آدم (علیہ السلام) کی تخلیق اور تقرری پر اعتراض کیا تھا۔ ملائکہ حرص وہوس اور رشک و حسد سے پاک پیدا کیے گئے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا غلط اور ایسا کہنے کی ان کے پاس کوئی دلیل بھی نہیں۔ پھر کسی کی کیا مجال ہے کہ وہ اللہ کے کسی کام پر معترضانہ گفتگو کرسکے : ﴿لَایُسْاَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَھُمْ یُسْاَلُوْنَ﴾ (الانبیاء :23) ” اللہ تعالیٰ کے کسی کام پر سوال نہیں ہوتا البتہ مخلوق سے سوال کیا جاتا ہے“ ﴿وَکُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ﴾ کا مفہوم جاننے کے لیے ہر ذی شعور سمجھتا ہے کہ جب چھوٹا آدمی کسی بڑے کے سامنے اس کے فرمان یا کام پر اظہار خیال کرتا ہے۔ بے شک اس ہستی نے ہی اظہار خیال یا تبصرہ کا موقعہ فراہم کیا ہو تو پھر بھی چھوٹا آدمی نہایت ادب اور دبی زبان بلکہ اکثر دفعہ اشارے، کنائے سے بات کرتا ہے۔ یہاں بھی سلسلۂ کلام سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملائکہ نے ذات کبریا کے حضور چند الفاظ اور معمولی جذبات کا اظہار کیا تھا۔ جس کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ جو تم نے چھپایا میں اسے بھی جانتا ہوں۔ کچھ لوگوں نے ملائکہ کے سامنے تخلیق آدم کے تذکرے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مشاورت کا رنگ دینے کی کوشش کی ہے۔ ذات کبریا کے متعلق مشورہ کے لفظ استعمال کرنا کئی لحاظ سے محل نظر اور اس سے گستاخی کا پہلو نکلتا ہے۔ کیونکہ مشورہ کرنے میں کسی نہ کسی سطح پر حاجت اور کمزوری پائی جاتی ہے۔ اگر مشورہ لینے والے میں کسی قسم کی کمزوری نہ بھی ہو اور وہ دل جوئی کے لیے دوسرے سے مشورہ لے رہا ہو تو اس دل جوئی کے پیچھے بھی مروت قائم رکھنے کی محتاجی پائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان تمام حاجتوں اور احتیاطوں سے مبرّاہے۔ میرے نقطہء نگاہ سے تخلیق آدم کے تذکرہ کو ایک اطلاع یا شاہانہ سرکاری اعلان کہنا چاہیے۔ اس بنا پر ہی ملائکہ کے اظہار تشویش پر فرمایا گیا کہ تمہیں کیا معلوم میں سب کچھ اور بہتر جانتا ہوں۔ مسائل: 1۔ انسان زمین میں اللہ تعالیٰ کا کی طرف سے حکمران ہے اسے دنگا فساد کرنے کی بجائے خلافت کا حق ادا کرنا چاہیے۔ 2۔ ملائکہ ہر دم اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تہلیل کرتے ہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن : خلافت اور اس کی ذمہ داریاں : 1۔ خلافت نیک لوگوں کا استحقاق ہے۔ (النور :55) 2۔ خلافت آزمائش ہے۔ (الانعام :165) 3۔ خلافت اللہ ہی عطا کرتا ہے۔ (الانعام : 133، الاعراف :129) 4۔ اللہ ہی لوگوں کو ایک دوسرے کا خلیفہ بناتا ہے۔ (فاطر :29) 5۔ خلافت کی ذمہ داریاں۔ (ص : 26‘ الحج :41) البقرة
31 فہم القرآن : (آیت 31 سے 33) ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ خلیفہ کی علمی برتری اور فضیلت کا بیان۔ جناب آدم (علیہ السلام) کو ان تمام چیزوں کے ناموں سے آگاہ کردیا گیا جن سے انہیں واسطہ پڑناتھا۔ پھر ان اشیاکو ملائکہ کے سامنے پیش کرکے حکم دیا کہ اگر تم سچے ہو تو مجھے ان کے نام بتلاؤ۔ ملائکہ نے نام بتلانے سے معذوری ظاہر کی اور عرض کی کہ بار الٰہا! تیری ذات، احکام اور کام ہر کمزوری اور نقص سے پاک ہے ہم تو فقط اتنا ہی جانتے ہیں جو کچھ آپ نے ہمیں بتلایا ہے بلاشبہ تو ہر چیز کا علم بھی رکھنے والا ہے۔ ثابت ہوا کہ ملائکہ بھی غیب نہیں جانتے۔ اس کے بعد آدم (علیہ السلام) کو حکم فرمایا کہ ملائکہ کو ان چیزوں کے نام بتلاؤ حکم پاتے ہی حضرت آدم (علیہ السلام) نے بلا تأمل ان کے نام بتلا دئیے۔ اس کے بعد ارشاد ہوا کیا میرا پہلے سے یہ فرمان نہیں تھا کہ میں زمین و آسمان کے ظاہر اور باطن کو جانتا ہوں؟ اور وہ کچھ بھی مجھے معلوم ہے جو تم ظاہر کر رہے تھے اور جو تم چھپائے ہوئے ہو۔ اس میں واضح طور پر ملائکہ کے لیے اشارہ ہے کہ یہ چیزیں تمہارے سامنے ہونے کے باوجود تم ان کے نام نہیں بتلا سکے تو تم آدم (علیہ السلام) کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو کیسے جان سکتے ہو اور جس طرح آدم (علیہ السلام) نے میرے عطا کردہ علم کے ذریعے تم پر برتری حاصل کرلی ہے اسی طرح ہی میری ہدایت کی روشنی میں خیر و شر اور نیکی و بدی میں امتیاز کرکے برتری حاصل کرے گا۔ بعض مفسرین غیر مستند روایات اور دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر لکھتے ہیں کہ آدم (علیہ السلام) کو ان چیزوں کے نام ملائکہ سے الگ کرکے اور بعض کا خیال ہے کہ ملائکہ کی موجودگی میں ہی بتلائے گئے تھے۔ فرشتے اہلیت نہ ہونے کی وجہ سے یہ نام بھول گئے جبکہ آدم (علیہ السلام) اپنی لیاقت کی بنیاد پر ان چیزوں کے نام یاد رکھنے اور بتلانے میں کامیاب رہے۔ قرآن مجید لا حاصل موشگافیوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتا کیونکہ اس طرح انسان اصل مقصود اور عملی زندگی سے نکل کر قیل و قال کا ہو کررہ جاتا ہے۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو تمام چیزوں کے نام بتلائے۔ 2۔ ملائکہ وہی کچھ جانتے ہیں جو اللہ تعالیٰ انہیں بتلاتا ہے۔ 3۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے ملائکہ کو تمام چیزوں کے نام بتلادیے۔ 4۔ جس بات کا علم نہ ہو اس کے بارے میں عدم علم کا اعتراف کرنا ملکوتی صفت ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز جاننے والا ہے اور اس کا ہر کام اور حکم پُر حکمت ہے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ ظاہر اور پوشیدہ سب کچھ جانتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : مخلوق کے علم کا ماخذ : 1۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء {علیہ السلام}کی طرف وحی بھیجی۔ (الانبیاء: 25) 2۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ {ﷺ}کو پڑھنا سکھایا۔ (العلق :1) 3۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو وہ کچھ بتلایا جو یہ نہیں جانتا تھا۔ (العلق :5) 4۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو لکھنا سکھایا۔ (العلق :4) 5۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بولنا اور بیان کرنا سکھلایا۔ (الرحمن :5) 6۔ انسان کو رحمٰن نے قرآن سکھایا۔ (الرحمن :6) 7۔ آدم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے علم دیا۔ (البقرۃ:31) 8۔ فرشتوں نے بھی سب کچھ اللہ تعالیٰ سے سیکھا۔ (البقرۃ:32) 9۔ سدھائے ہوئے جانوروں کا علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ (المائدۃ:4) البقرة
32 البقرة
33 البقرة
34 فہم القرآن : ربط کلام : خلیفہ کی علمی برتری اور شان کے سامنے کائنات کی اعلیٰ اور مقدس ترین مخلوق ملائکہ کو جھکنے کا حکم۔ سجدہ کا حکم ہوتے ہی تمام ملائکہ آدم (علیہ السلام) کے حضور سر بسجود ہوئے لیکن شیطان نے حضرت آدم (علیہ السلام) کا احترام و مقام دیکھ کر حسد اور تکبر کی وجہ سے سجدہ ریز ہونے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ وہ جرم پر جرم اور گستاخی پر گستاخی کرتا چلا گیا۔ اس جگہ اجمال ہے جبکہ دوسرے مقامات پر شیطان کے انکار کی تفصیلات یوں بیان کی گئی ہیں۔ ﴿ وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلآئِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِیْسَ قَالَ ءَ اَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًا۔ (الاسراء :61) ” اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا اور اس نے کہا کہ کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔“ ﴿ اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ﴾ (الاعراف :12) ” میں آدم سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے اور اسے مٹی سے پیدا کیا ہے۔“ ﴿ قَالَ لَمْ اَکُنْ لِّاَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَہ‘ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ﴾ (الحجر :33) ” شیطان نے کہا میں ایسا نہیں کہ انسان کو سجدہ کروں جسے تو نے کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا ہے۔“ ﴿ قَالَ اَرَءَ یْتَکَ ھٰذَا الَّذِیْ کَرَّمْتَ عَلَیَّ لَئِنْ اَخَّرْتَنِ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لَاَحْتَنِکَنَّ ذُرِّیَّتَہ اِلَّا قَلِیْلًا۔ (الاسراء :62) ” شیطان کہنے لگایہی وہ ہے جسے تو نے مجھ پر فضیلت دی ہے۔ اگر تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں تھوڑے شخصوں کے سوا اس (آدم (علیہ السلام) کی تمام اولاد کی جڑ کاٹتا رہوں گا۔“ ﴿قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَأُغْوِیَنَّہُمْ اَجْمَعِیْنَ﴾ (ص :82) ” کہنے لگا تیری عزت کی قسم! میں ان سب کو بہکا دوں گا۔“ حسد اور تکبر وہ بری چیز ہے کہ جس سے انسان کے تمام اعمال غارت اور بسا اوقات دنیا ہی میں ذلت و رسوائی سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ سرور دو عالم {ﷺ}نے تکبر کا مفہوم اور اس کے نقصانات یوں ذکر فرمائے ہیں : (اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ) (رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ) ” تکبر حق بات کو چھپانا اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ {رض}عَنِ النَّبِیِّ {}قَالَ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِّنْ کِبْرٍ) (رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ) ” حضرت عبداللہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ نبی {ﷺ}نے فرمایا : جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبرہوا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}أَنَّ النَّبِیَّ {}قَالَ إِیَّاکُمْ وَالْحَسَدَ فَإِنَّ الْحَسَدَ یَأْکُلُ الْحَسَنَاتِ کَمَا تَأْکُلُ النَّارُ الْحَطَبَ) (رواہ ابوداؤد : کتاب الادب، باب فی الحسد) ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ نبی {ﷺ}نے فرمایا : حسد سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ سوکھی لکڑیوں کو کھا جاتی ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ {}یَقُوْلُ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ الْکِبْرِیَاءُ رِدَائِیْ وَالْعَظْمَۃُ إِزَارِیْ مَنْ نَازَعَنِیْ وَاحِدًا مِّنْھُمَا أَلْقَیْتُہٗ فِیْ جَھَنَّمَ) (رواہ ابن ماجۃ: کتاب الزھد، باب البراء ۃ من الکبر والتواضع ) ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تکبر میری چادر ہے اور عظمت میرا ازار ہے جو ان میں سے کوئی ایک مجھ سے چھیننے کی کوشش کرے گا میں اس کو جہنم میں پھینک دوں گا۔“ غیر اللہ کو سجدہ کرنا جائز نہیں : (عَنْ قَیْسِ بْنِ سَعْدٍ {رض}قَالَ أَتَیْتُ الْحِیْرَۃَ فَرَأَیْتُھُمْ یَسْجُدُوْنَ لِمَرْزُبَانٍ لَّھُمْ فَقُلْتُ رَسُوْلُ اللّٰہِ أَحَقُّ أَنْ یُّسْجَدَ لَہٗ قَالَ فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ {}فَقُلْتُ إِنّی أَتَیْتُ الْحِیْرَۃَ فَرَأَیْتُھُمْ یَسْجُدُوْنَ لِمَرْزُبَانٍ لَّھُمْ فَأَنْتَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ أَحَقُّ أَنْ نَسْجُدَ لَکَ قَالَ أَرَأَیْتَ لَوْ مَرَرْتَ بِقَبْرِیْ أَکُنْتَ تَسْجُدُ لَہٗ قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ فَلَا تَفْعَلُوْا لَوْ کُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ یَّسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ النِّسَآءَ أَنْ یَسْجُدْنَ لِأَزْوَاجِھِنَّ لِمَا جَعَلَ اللّٰہُ لَھُمْ عَلَیْھِنَّ مِنَ الْحَقِّ) (رواہ أبوداوٗد : کتاب النکاح، باب فی حق الزوج علی المرأۃ) ” حضرت قیس بن سعد {رض}بیان کرتے ہیں کہ میں حیرہ گیا تو میں نے وہاں کے لوگوں کو بادشاہ کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔ میں نے سوچا کہ اللہ کے رسول سجدے کے زیادہ لائق ہیں۔ میں نبی {ﷺ}کے پاس آیا تو میں نے عرض کی : میں نے حیرہ میں دیکھا کہ وہ اپنے بادشاہ کو سجدہ کرتے ہیں۔ اللہ کے رسول ! آپ زیادہ حقدار ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کریں۔ آپ {ﷺ}نے فرمایا : بتلائیے! اگر تم میری قبر کے پاس سے گزرو تو کیا اسے سجدہ کرو گے؟ میں نے کہا : نہیں۔ آپ نے فرمایا : ایسے نہ کرو اگر میں نے کسی کو کسی کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا حکم دینا ہوتا تو اللہ تعالیٰ نے مردوں کا عورتوں پر جو حق رکھا اس وجہ سے عورتوں کو حکم دیتاکہ وہ اپنے خاوندوں کے سامنے سجدہ ریز ہوں۔“ بریلوی مکتبہ فکر کے جید عالم پیر محمد کرم شاہ صاحب الأزھری کی نظر میں تعظیمی سجدہ حرام ہے : ” جب فرشتوں نے آدم (علیہ السلام) کی وسعت علم اور اپنے عجز کا اعتراف کرلیا تو پروردگار عالم نے انہیں حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ سجدہ کا لغوی معنی ہے تذلّل اور خضوع اور شریعت میں اس کا معنٰی ہے۔ ” وضع الجبھۃ علی الأرض“ پیشانی کا زمین پر رکھنا۔ بعض علماء کے نزدیک یہاں سجدہ کا لغوی معنٰی مراد ہے کہ فرشتوں کو ادب واحترام کرنے کا حکم دیا گیا لیکن جمہور علماء کے نزدیک شرعی معنیٰ مراد ہے۔ یعنی فرشتوں کو حکم دیا گیا کہ آدم (علیہ السلام) کے سامنے پیشانی رکھ دیں۔ اب اس سجدہ کی دو صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ پیشانی جھکانے والا یہ اعتقاد کرے کہ جس کے سامنے میں پیشانی جھکا رہا ہوں وہ خدا ہے تو یہ عبادت ہے اور یہ بھی کسی نبی کی شریعت میں جائز نہیں بلکہ انبیاء کی بعثت کا مقصد اولین تھا ہی یہی کہ وہ انسانوں کو صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم دیں اور دوسروں کی عبادت سے منع کریں تو یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ جس چیز سے روکنے کے لیے انبیاء تشریف لائے اس فعل کا ارتکاب خود کریں یا کسی کو اجازت دیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ جس کے سامنے سجدہ کیا جارہا ہے اس کی عزت واحترام کے لیے ہو عبادت کے لیے نہ ہو تو اس کو سجدہ تحیہ کہتے ہیں۔ یہ پہلے انبیاء کرام کی شریعتوں میں جائز تھا لیکن حضور کریم {ﷺ}نے اس سے بھی منع فرمادیا۔ اب تعظیمی سجدہ بھی ہماری شریعت میں حرام ہے۔“ [ ضیاء القرآن، جلد اول‘ البقرہ :34] مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ملائکہ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کیا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے انکار اور تکبر کرنے والا کافر ہوجاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : متکبرین : 1۔ سب سے پہلے شیطان نے تکبر کیا۔ (ص :74) 2۔ تکبر کرنا فرعون اور اللہ کے باغیوں کا طریقہ ہے۔ (القصص :39) 3۔ تکبر کرنے والے کے دل پر اللہ مہر لگا دیتا ہے۔ (المؤمن :39) 4۔ متکبر کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔ (النحل :23) 5۔ تکبر کرنے والے جہنم میں جائیں گے۔ (المومن :76) البقرة
35 فہم القرآن : ربط کلام : مسجود ملائکہ بننے کے بعد آدم (علیہ السلام) کے جنت میں قیام و طعام کا انتظام و انصرام اور خاص درخت سے احتیاط کا حکم۔ ارشاد ہوا کہ اے آدم! تو اور تیری بیوی جنت میں قیام کرو اور اس درخت کے سوا تم جو چاہو کھا پی سکتے ہو۔ ہاں اگر تم اس کے قریب چلے گئے تو ظالموں کی صف میں شامل ہوجاؤ گے۔1 ۔جنت میں رکھنے کی یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) اور ان کی زوجہ جنت کی سہولتوں، بہاروں اور نعمتوں کو اچھی طرح دیکھ لیں اور ان سے لطف اندوز ہولیں۔ تاکہ دنیا کی عارضی نعمتوں کو جنت کے مقابلے میں خاطر میں نہ لائیں اور دوبارہ یہاں آنے کی کوشش کریں۔ 2 ۔شاید یہ اس لیے بھی موقع دیا گیا کہ وہ آسمانی نظام کا براہ راست مشاہدہ کرسکیں تاکہ بحیثیت خلیفہ زمین کے انتظامات کرنے میں انہیں سہولت رہے۔ 3 ۔بطور آزمائش اس درخت سے اس لیے منع کیا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے منع کردہ امور سے بچنے کی تربیت پائیں اور غلطی ہونے کی صورت میں معذرت کا رویہ اختیار کریں۔ 4 ۔اس میں یہ حکمت بھی ہو سکتی ہے کہ انہیں شیطان کی عداوت اور دشمنی کا مزید مشاہدہ ہو۔ تاکہ دنیا میں جا کر شیطانی اثرات وحرکات سے بچنے کی ہر وقت کوشش کرتے رہیں۔ مسائل : 1۔ آدم (علیہ السلام) اور ان کی بیوی دنیا میں آنے سے پہلے جنت میں رہائش پذیر ہوئے۔ 2۔ اللہ کی نافرمانی کرکے انسان ظالم ہوجاتا ہے۔ تفسیر بالقر آن : ظالم کون؟ 1۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے والا ظالم ہے۔ (الانعام :21) 2۔ شرک کرنے والا ظالم ہے۔ (لقمان :13) 3۔ اللہ کی مسجدوں سے روکنے اور ان میں خرابی پیدا کرنے والا ظالم ہے۔ (البقرۃ:114) 4۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والا ظالم ہے۔ (الزمر :32) 5۔ اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ (آل عمران :57) 6۔ ظالم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ (الانعام :21) 7۔ ظالم کی سزا جہنم ہوگی۔ (الانبیاء :29) البقرة
36 فہم القرآن : ربط کلام : حضرت آدم (علیہ السلام) سے شیطان کا پہلا انتقام۔ حکم تھا کہ اے آدم! تم میاں، بیوی نے اس درخت کے قریب نہیں جانا۔ اس کے باوجود دونوں نے درخت کا پھل کھالیا۔ اس طرح آدم (علیہ السلام) اور ان کی زوجہ کو بالآخر شیطان پھسلانے میں کامیاب ہوا۔ جس کی پاداش میں حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا کو جنت سے نکل جانے کا حکم صادر ہوا۔ ان کے ساتھ ہی شیطان کو بھی زمین پر دھتکار دیا گیا۔ خروج کا حکم دیتے ہوئے پھر فرمایا تم ایک دوسرے کے دشمن ہو لہٰذا ایک مدت کے لیے اب زمین ہی تمہارے لیے جائے قرار ہوگی۔ سورۃ الاعراف کی آیت 189میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ حضرت حوا {علیہ السلام}کو آدم (علیہ السلام) سے ہی پیدا کیا گیا تھا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) شیطان کے پھسلاوے میں آ کر اللہ تعالیٰ کا حکم بھول گئے اور اس درخت سے نہ بچ سکے۔ یہ واقعہ بیان فرما کر شیطان کے ہتھکنڈوں اور اس کے خوشنما مغالطوں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود آدم (علیہ السلام) کے بیٹے اور بیٹیاں شیطان کی فریب کاریوں میں مبتلا ہوتے رہیں گے۔ ان سے وہی خوش نصیب بچ سکیں گے جنہوں نے اپنے باپ حضرت آدم (علیہ السلام) اور اپنی والدہ حضرت حوا [ کے واقعہ کو پوری غیرت کے ساتھ ذہن میں رکھا اور شیطان کو اپنا دشمن سمجھا : (وَنَسِیَ اٰدَمُ فَنَسِیَتْ ذُرِّیَتُہٗ وَخَطِئَ اٰدَمُ فَخَطِئَتْ ذُرِّیَتُہٗ) (رواہ الترمذی : تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ الأعراف) ” آدم (علیہ السلام) بھول گئے ان کی اولاد بھی بھولتی رہے گی آدم (علیہ السلام) سے خطا ہوئی اس کی اولاد بھی خطا کرے گی۔“ (عَنْ عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنٍ {رض}أَنَ النَّبِیَّ {}قَالَ۔۔إِنَّ الشَّیْطَانَ یَجْرِیْ مِنَ الْإِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ۔۔) (رواہ البخاری : کتاب الإعتکاف، باب زیارۃ المرأۃ زوجھا فی اعتکافہ ) ” حضرت علی بن حسین {رض}بیان کرتے ہیں نبی کریم {ﷺ}نے فرمایا یقیناً شیطان انسان کے جسم میں خون کی طرح گردش کرتا ہے۔“ بعض مفسرین نے علمی موشگافیوں کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے چونکہ شیطان کا جنت میں داخلہ ممنوع تھا اس لیے وہ سانپ کی شکل اختیار کرکے جنت میں داخل ہوا اور اس نے حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حواء کو ورغلایا۔ حالانکہ سانپ بننے کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں کیونکہ شیطان کو اللہ تعالیٰ نے یہ قوت دی ہے کہ وہ انسان کے جسم میں داخل ہوئے بغیر اس پر منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے اس لیے شیطان کا سانپ بننا ضروری نہیں اور نہ ہی کسی حدیث میں اس کا ثبوت ملتا ہے۔ (عَنْ أَنَسٍ {رض}أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ {ﷺ}قَالَ لَمَّا صَوَّرَ اللّٰہُ اٰدَمَ فِی الْجَنَّۃِ تَرَکَہٗ مَاشَآء اللّٰہ أَنْ یَّتْرُکَہٗ فَجَعَلَ إِبْلِیْسُ یُطِیْفُ بِہٖ یَنْظُرُ مَاھُوَ فَلَمَّا رَآہُ أَجْوَفَ عَرَفَ أَنَّہٗ خُلِقَ خَلْقًا لَایَتَمَالَکُ) (رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ والآداب، باب خلق الانسان خلقا لایتمالک) ” حضرت انس {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ نے جنت میں آدم (علیہ السلام) کی صورت گری کی تو اس کے بعد جتنی دیر اللہ تعالیٰ نے چاہا اس کو چھوڑے رکھا۔ شیطان ان کے ارد گرد چکر لگانے لگا اور دیکھنے لگا کہ یہ کیا ہے؟ جب اس نے آدم (علیہ السلام) کا پیٹ دیکھا تو اس نے پہچان لیا کہ یہ ایسی مخلوق ہے جو اپنے آپ پر کنڑول نہیں رکھ سکے گی۔“ مسائل : 1۔ حضرت آدم (علیہ السلام) اور حوا کو شیطان نے پھسلادیا تھا۔ 2۔ درخت کا پھل چکھنے کی وجہ سے انہیں جنت سے نکال دیا گیا۔ 3۔ شیطان بنی نوع انسان کا ازلی دشمن ہے۔ 4۔ زمین میں انسان نے ہمیشہ نہیں رہنا۔ تفسیر بالقرآن : آدم (علیہ السلام) کو جنت سے نکالنے کے شیطانی ہتھکنڈے : 1۔ شیطان نے حضرت آدم (علیہ السلام) کے دل میں وسوسہ ڈالا اور انہیں پھسلا دیا۔ (الاعراف :20) 2۔ شیطان نے آدم (علیہ السلام) کی غلط رہنمائی کی۔ (الاعراف :22) 3۔ آدم (علیہ السلام) کو ورغلانے کے لیے شیطان نے قسمیں اٹھائیں۔ (الاعراف :21) 4۔ شیطان نے اپنے آپ کو آدم (علیہ السلام) کا خیر خواہ ثابت کیا۔ (الأعراف :21) 5۔ جنت میں ہمیشہ رہنے کا جھانسہ دیا۔ (طہ :120) البقرة
37 فہم القرآن : ربط کلام : حضرت آدم (علیہ السلام) کا سنبھلنا اور اپنے رب سے معافی کا خواستگار ہونا اور رب کریم کا انہیں معاف فرما دینا۔ جب آدم (علیہ السلام) کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو نہ صرف وہ اپنے رب کے حضور معافی کے خوستگار ہوئے بلکہ معافی کا طریقہ، انداز اور الفاظ کی درخواست بھی کر رہے تھے تاکہ اللہ تعالیٰ ان کی خطا کو اپنے بے پایاں کرم سے معاف کر دے۔ اس مقام پر تینوں بڑی مخلوقات کی فطرت کا فرق نمایاں ہوتا ہے۔ ملائکہ نے معمولی لغزش پر لفظ ” سبحان“ کے ذریعے معذرت کی اور انہیں اسی طرح تقرب حاصل رہا۔ شیطان اپنے جرم پر ڈٹا رہا تو ہمیشہ کے لیے پھٹکار کا مستحق اور راندۂ درگاہ ہوا۔ آدم (علیہ السلام) اپنی غلطی پر معذرت خواہ ہوئے تو ان کی معذرت نے شرف قبولیت پایا۔ کیونکہ ربِّ کریم ہمیشہ سے توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔ اس کا وعدہ ہے کہ جب بھی میری بارگاہ میں کوئی معذرت کا دامن پھیلائے گا تو میں اسے معاف ہی کرتا رہوں گا۔ (مَنْ تَابَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَّغْرِبِھَا تَاب اللّٰہُ عَلَیْہِ) (رواہ مسلم : کتاب الذکر والدعاء، باب إستحباب الإستغفار والإستکثار منہ) ” جس نے مغرب سے سورج طلوع ہونے سے پہلے تو بہ کرلی اللہ اس کی توبہ قبول کرے گا۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ {رض}عَنِ النَّبِیِّ {ﷺ}قَالَ إِِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ لَیَقْبَلُ تَوْبَۃَ الْعَبْدِ مَالَمْ یُغَرْغِرْ) (رواہ ابن ماجۃ: کتاب الزھد، باب ذکرا لتوبۃ) ” حضرت عبداللہ بن عمر {رض}نبی کریم {ﷺ}سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا یقینًا اللہ عزوجل بندے کی توبہ قبول کرتارہتا ہے جب تک جان حلق تک نہ پہنچ جائے۔“ بعض لوگوں نے اپنا من گھڑت عقیدہ ثابت کرنے کے لیے لکھا ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی توبہ نبی محترم {ﷺ}کے وسیلہ سے قبول ہوئی تھی۔ حالانکہ قرآن و حدیث میں اس کا بالکل کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ قرآن مجید نے سورۃ الاعراف : 22، 23میں یہاں تک بیان فرمایا ہے کہ درخت کا پھل چکھنے کے بعد حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوّا کا لباس اتر گیا، برہنہ ہوجانے کی بنا پر وہ اپنی شرم گاہوں کو جنت کے پتوں سے ڈھانپ رہے تھے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے آدم ! کیا میں نے تمہیں اس درخت کے قریب جانے سے نہیں روکا تھا؟ اگر حضرت آدم (علیہ السلام) نے نبی محترم {ﷺ}کا وسیلہ پیش کیا ہوتا تو قرآن مجید اس کا ضرور تذکرہ کرتا۔ کیا اللہ تعالیٰ نے اصل حقیقت کو اپنے بندوں سے چھپا لیا ہے ؟ (نعوذ باللہ من ذالک) یہ ایسا الزام اور بہتان ہے جس کا ایک مومن تصور بھی نہیں کرسکتا۔ جن کلمات کے ذریعے توبہ قبول ہوئی ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے کہ آدم (علیہ السلام) نے وہ کلمات اپنے رب سے سیکھ لیے جو یہ تھے : ﴿رَبَّنَا ظَلَمْنَآ أَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ﴾ (الأعراف :23) ” اے ہمارے رب ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے اگر تو نے ہمیں معاف نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو ہم گھاٹا پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔“ اللہ کا اپنے بندوں کو معاف کرنے کے لیے قسمیں اٹھانا : (فَأَقُولُ یَا رَبِّ ائْذَنْ لِی فیمَنْ قَالَ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ فَیَقُولُ وَعِزَّتِی وَجَلاَلِی وَکِبْرِیَائِی وَعَظَمَتِی لأُخْرِجَنَّ مِنْہَا مَنْ قَالَ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ) (رواہ البخاری : باب کلاَمِ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَعَ الأَنْبِیَاءِ وَغَیْرِہِمْ ) ” آپ {ﷺ}فرماتے ہیں میں عرض کروں گا اے میرے پروردگار ! مجھے توحید پرست لوگوں کے متعلق سفارش کی اجازت دیجیے۔ اللہ فرمائیں گے مجھے میری عزت، جلال، کبریائی اور عظمت کی قسم ! میں توحید پرستوں کو خود جہنم سے نکالوں گا۔“ مسائل: 1۔ انسان کو اپنے رب کے حضور توبہ کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ رحم کرنے اور توبہ قبول کرنے والا ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ غفور ہے۔ (الحجر :49) 2۔ اللہ تعالیٰ رحیم ہے۔ (الزمر :53) 3۔ اللہ تعالیٰ رحمن ہے۔ (الفاتحہ :2) 4۔ اللہ ہی بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔ (الشورٰی :25) 5۔ اللہ بخشنے اور رحمت کرنے والا ہے۔ (الکہف :58) 6۔ اللہ کی رحمت ہر چیز سے وسیع ہے۔ (الاعراف :156) 7۔ کشتیوں کا غرق ہونے سے بچنا اللہ کی رحمت کا نتیجہ ہے۔ (یٰس :43) 8۔ اللہ کی رحمت سے گمراہ ہی مایوس ہوتے ہیں۔ (الحجر :56) 9۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ (الزمر :53) 10۔ اللہ تعالیٰ کی مومنوں پر خاص رحمت ہوتی ہے۔ (الاحزاب :43) البقرة
38 فہم القرآن : ربط کلام : خلافت کے قیام کے لیے آدم (علیہ السلام) کو زمین پراُترنے کا حکم اور خلافت کی ذمہ داریاں پوری کرنے پر بے خوف اور تابناک مستقبل کی ضمانت۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہاری توبہ قبول ہوئی لیکن آسمان سے اترنا تمہارا یقینی ہے لہٰذا جنت سے نکل جاؤ اور تم زمین پر جا کر شیطان کی سازشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقہ سے نبھانے کی کوشش کرو۔ یاد رکھنا تمہارا زمین پر جانے کا یہ معنٰی نہیں کہ تم شتر بے مہار کی طرح جدھر چاہو نکل کھڑے ہو بلکہ تمہیں مسلسل ہدایات اور ایک دستور حیات دیا جائے گا جس کے مطابق تم نے انفرادی، اجتماعی، سماجی، معاشرتی، معاشی، سیاسی زندگی کا ہر گوشہ اور زاویہ اس کے مطابق ڈھالنا ہوگا یہی خلافت کا تقاضا اور تمہاری زندگی کا مقصد ہے۔ جس نے اس ہدایت نامے کی پابندی کی اسے دنیا کی زندگانی میں امن و سکون ملے گا اور آخرت میں کوئی خوف اور کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوگی۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے والا خوف و غم سے محفوظ رہے گا۔ 2۔ انسان اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ دستور حیات کا پابند ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت ہی کامل اور حقیقی ہدایت ہے۔ تفسیر بالقرآن: بے خوف کون؟ 1۔ اللہ کی ہدایت پر عمل کرنے والا بے خوف ہوگا۔ (البقرۃ:38) 2۔ ا ولیاء اللہ کو کوئی خوف نہیں ہوگا۔ (یونس :62) 3۔ اللہ اور آخرت پر یقین رکھنے والے کو کوئی ڈر نہیں ہوگا۔ (المائدۃ:69) 4۔ ایمان لانے کے بعد استقامت دکھلانے والوں پر کوئی خوف نہیں ہوگا۔ (الاحقاف :13) 5۔ رب کے سامنے اپنے آپ کو مطیع کردینے والا بے خوف ہوگا۔ (البقرۃ:112) البقرة
39 فہم القرآن : ربط کلام : جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی نہ کی ان کا انجام۔ قرآن مجید کا یہ انداز فکر اور اسلوب بیان ہے کہ جب انعام و اکرام کا تذکرہ کرتا ہے تو ساتھ ہی برائی کے مضمرات وعواقب کے انجام کے بارے میں بھی انتباہ کرتا ہے تاکہ قرآن کا مطالعہ کرنے والا بیک وقت یہ سمجھ جائے کہ نیکی کے کیا فوائدہیں اور برائی کے نقصانات کیا ہیں؟ یہاں اللہ تعالیٰ کے احکام و ارشادات کا انکار اور ان کی تکذیب کرنے والوں کو خبردار کیا جا رہا ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی ذات کے منکر اور اس کے احکامات کا انکارو تکذیب کرتے رہے تو تمہیں جہنم کی آگ میں ہمیشہ رہنا ہوگا۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ {}قَالَ نَارُکُمْ جُزْءٌ مِّنْ سَبْعِیْنَ جُزْءً ا مِّنَ نَّارِ جَھَنَّمَ قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنْ کَانَتْ لَکَافِیَۃً قَالَ فُضِّلَتْ عَلَیْھِنَّ بِتِسْعَۃٍ وَّتِسْعِیْنَ جُزْءً ا کُلُّھُنَّ مِثْلُ حَرِّھَا) (رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب صفۃ النار وأنھا مخلوقۃ) ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں یقیناً اللہ کے رسول {ﷺ}نے فرمایا تمہاری یہ آگ جہنم کی آگ کا سترواں حصہ ہے۔ عرض کیا گیا اللہ کے رسول! یہی آگ جلانے کے لیے کافی تھی۔ آپ {ﷺ}نے فرمایا اس آگ سے وہ انہتر حصے زیادہ ہے ان میں سے ہر حصے کی گرمی اس جیسی ہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے احکامات کا انکار اور تکذیب کرنے والے ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ تفسیر بالقرآن : جہنم میں ہمیشہ رہنے والے لوگ : 1۔ مشرک جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ (البقرۃ:39) 2۔ کافر اور تکذیب کرنے والے جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ (الزخرف :74) 3۔ منافق ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (التوبہ :68) 4۔ اللہ و رسول کی نافرمانی جہنم میں ہمیشگی کا سبب ہوگی۔ (الجن :23) 5۔ اللہ کے دشمن جہنم میں ہمیشہ جلتے رہیں گے۔ (فصّلت :28) البقرة
40 فہم القرآن: ربط کلام : حضرت آدم (علیہ السلام) کی نسل میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد یعنی بنی اسرائیل کو امت محمدیہ سے پہلے دنیا میں سب سے زیادہ عزت و عظمت اور اقتدارو اختیار ملا مگر انہوں نے اس کی ناقدری اور ناشکری کی جس کی وجہ سے وہ ذلیل و خوار ہوئے ان کی ذلت و رسوائی کے اسباب کی تفصیل سورۃ البقرۃ کی سو آیات میں بیان ہوئی ہے۔ (عہد کی تفصیل دیکھیں البقرۃ :83) ہر دور میں اہل علم کا اس بات پر اتفاق رہا ہے کہ اسرائیل حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا لقب ہے جس کا عبرانی زبان میں معنٰی ہے۔ ” اللہ کا بندہ“ لہٰذا بنی اسرائیل کا معنٰی ہوا کہ اللہ کے بندے کی اولاد۔ تاریخ کے اوراق سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور ان کی اولاد کا اصلی وطن کنعان، فلسطین تھا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانے میں یہ لوگ مصر میں آباد ہوئے۔ ان کے آنے کے بعد ان کے آبائی وطن کنعان، فلسطین اور پورے شام پر عمالقہ نامی قوم نے قبضہ کرلیا۔ جناب یعقوب (علیہ السلام) کے بارہ بیٹے تھے جن میں چوتھے بیٹے کا نام یہودہ تھا۔ اسی نسبت سے بنی اسرائیل کو یہودی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اپنے دور میں بڑی معزز اور محترم قوم تھی ان میں ہزاروں جلیل القدر انبیاء ہوئے ہیں جن میں سب سے نمایاں حضرت موسیٰ اور آخر میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہوئے ہیں۔ مصر میں جب بنی اسرائیل پر فرعون نے مظالم ڈھانے شروع کیے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انتھک اور بے مثال جدو جہدکرکے ان کو فرعون کے جور وستم سے نجات دلوائی۔ فرعون دریا میں غرق ہوا تو اس کے بعد بنی اسرائیل کو عمالقہ سے جہاد کا حکم ہوا۔ بنی اسرائیل فلسطین کی طرف چلے تو قریب جا کر جب انہیں عمالقہ کی طاقت کا علم ہوا تو انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے صاف کہہ دیا کہ اے موسیٰ تم اور تمہارا خدا لڑو ہم تو یہیں ٹھہریں گے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بہت سمجھایا مگر انہوں نے جہاد سے انکار کردیا۔ جس کی پاداش میں انہیں چالیس سال تیہ کے صحرا میں بطور سزا رہنا پڑا۔ یہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) فوت ہوئے پھر انہوں نے یوشع بن نون کی زیر کمان جہاد کیا اور فاتحانہ انداز میں فلسطین داخل ہوئے۔ بنی اسرائیل میں مجموعی طور پر یہودی اور عیسائی دونوں شامل ہیں۔ لیکن بعض مقامات پر بنی اسرائیل سے مراد صرف یہودی ہوتے ہیں۔ جس کا علم قرآن مجید کے سیاق وسباق سے ہوتا ہے۔ اس کے سیاسی ومذہبی راہنماؤں‘ حکمرانوں اور عوام کے گھناؤنے کردار کا قرآن مجید کی ابتدا میں بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نزول قرآن کے وقت دنیا میں یہ دو بڑے مذاہب تھے۔ باقی مذاہب ان کی بگڑی ہوئی شکلیں تھیں۔ ہندوستان میں جسے قدیم تاریخ میں بلادالہند کہا جاتا ہے ہندو اپنے مذہب کو تین ہزار سال پرانا مذہب ثابت کرتے ہیں اس مذہب کی اکثر رسومات اور گائے پرستی کا تصور یہودی مذہب سے ہی لیا گیا ہے۔ ہندو مذہب کی اصلاح کے لیے بدھ مت کی تحریک چلی جو اپنی عادات و رسومات کے لحاظ سے عیسائیت کے زیادہ قریب ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ انہی وجوہات کی بنیاد پر سورۃ بقرۃ کو قرآن مجید کی ابتدا میں رکھا گیا ہے۔ تاکہ قرآن مجید کا مطالعہ کرنے والے شخص کے ذہن میں شروع ہی سے بنیادی امور اور یہ بات منقش ہوجائے کہ پہلی اقوام بالخصوص بنی اسرائیل کے عروج و زوال کے اسباب کیا تھے؟ وہ کیوں ذلت و رسوائی کے اندھے کنویں میں الٹے ہو کر گرے؟ اس کے پیچھے ان کے علماء اور سیاسی راہنماؤں کا کیا کردار تھا؟ بنی اسرائیل کے حوالے سے امت مسلمہ کو سمجھایا جا رہا ہے کہ اس عظیم قوم کا کردار سامنے رکھو کہ بزرگوں کی گدی نشینی‘ صاحب زادگی، مذہبی امتیازات‘ ابناء اللہ کے بھاری بھرکم دعوے، اقتدار اور وسیع اختیار ات بھی اس قوم کو ذلت سے نہ بچا سکے۔ اس سبق کے ساتھ ہی یہ بتلانا مقصود ہے کہ مدینہ اور اس کے گرد و پیش جتنے قبائل اور قومیں آباد تھیں وہ یہودیوں کو بزرگوں کی اولاد اور انبیاء کے وارث تصور کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے یہ قبائل یہودیوں کے نظریات کو سچ اور حق کی کسوٹی سمجھتے تھے۔ ان اسباب کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے انہیں بڑے دلربا انداز میں سمجھاتے ہوئے یہ احساس دلانے کی کوشش کی ہے کہ اے میرے بندے یعقوب کی اولاد! میری عطا کردہ نعمتوں، فضیلتوں اور رفعتوں کا احساس کرتے ہوئے تمہارا اولین فرض بنتا ہے کہ نبی آخر الزماں {ﷺ}کی مخالفت کرنے کی بجائے ان کی نصرت و حمایت کرتے ہوئے حلقۂ اسلام میں داخل ہو کر اس عہد سے وفا کرو جو تم سے توحید اور خاتم النبیین کے بارے میں لیا گیا ہے۔ میں بھی ایفائے عہد کے بدلے تمہیں دوبارہ نعمتوں اور عزتوں سے سرفراز کروں گا۔ یاد رکھنا اگر سابقہ مقام کی بحالی اور عزت رفتہ کے خواہش مند ہو تو تمہیں نبی آخر الزماں {ﷺ}کی قیادت میں آئے بغیر یہ شرف نہیں مل سکتا۔ اس کے لیے درج ذیل امور کو بجا لانا ہوگا۔ چنانچہ بنی اسرائیل کو پہلے خطاب میں ابتدائی سبق اور تورات و انجیل کی بنیادی تعلیمات کی یاد دہانی کے طور پر سولہ باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ 1۔ میری نعمتوں کو ہر دم یاد رکھا کرو۔ 2۔ تم عہد وفا کرو گے تو تمہارے ساتھ بھی ایفائے عہد ہوگا۔ 3۔ ہمیشہ اللہ ہی سے ڈرتے رہو۔ 4۔ قرآن مجید پر ایمان لاؤ۔ کیونکہ یہ تورات و انجیل کی تصدیق کرتا ہے۔ 5۔ سب سے پہلے تم ہی کفر کرنے والے نہ بنو۔ 6۔ دنیا کے معمولی مفاد کے بدلے اللہ کی آیات کو فروخت نہ کرو۔ 7۔ حق اور باطل کے التباس سے اجتناب کرو۔ 8۔ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش نہ کرو۔ 9۔ نماز ادا کرو۔ 10۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام کرتے رہو۔ 11۔ رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کیا کرو۔ یاد رہے کہ یہودیوں نے رکوع کو نماز سے نکال رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے رکوع کا خاص طور پر حکم دیا گیا ہے۔ 12۔ لوگوں کو نیکی کا حکم کرو مگر اپنے آپ کو بھول جانے سے بچو۔ 13۔ اللہ کی دی ہوئی عقل کا صحیح استعمال کرتے رہو۔ 14۔ مصائب پر صبر کرو۔ 15۔ اللہ تعالیٰ سے صبر اور نماز کے ذریعے مدد طلب کیا کرو۔ 16۔ اللہ تعالیٰ سے ملاقات اور اس کی بارگاہ میں پیش ہونے کا عقیدہ پختہ اور اس کے تقاضے پورے کرو۔ ان میں سے ہر فرمان ایک مضمون کا حامل اور اصلاح ذات اور فلاح جماعت کا جامع پروگرام پیش کر رہا ہے۔ پہلی آسمانی کتابوں پر ایمان کے دعوے دار کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ایسی بات کا انکار کرے جو اس کے نظریہ کی تائید کر رہی ہو گویا کہ اہل علم کی یہ شان نہیں کہ وہ کفر کے امام بنیں انہیں تو ہدایت کا پیش رو ہونا چاہیے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد رکھنا چاہیے۔ 2۔ اللہ سے کیے ہوئے وعدوں کی پاسداری کرنی چاہیے۔ 3۔ اس کا خوف دل و جان میں بسائے رکھنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن وعدہ پورا کرنا چاہئے: 1-اللہ کے بندے وعدہ ایفاء کرتے ہیں۔ (البقرۃ: 177) 2-اللہ کے ساتھ کیے ہوئے عہد کو پورا کرو۔ (الانعام: 152) 3-ایماندار اللہ تعالی کے ساتھ اپنا عہد پورا کرتے ہیں۔ (الرعد: 20) 4-اللہ کے عہد کا ایفاء ضروری ہے۔ (النحل: 91) 5-قیامت کے دن ایفائے عہد کے بارے میں سوال ہوگا۔ (الاسراء: 34) 6-اے ایمان والو عہد پورے کرو۔ (المائدہ: 1) 7-جو اللہ کا عودہ پورا کرے گا اللہ تعالی اسکے ساتھ اپنا وعدہ پورا فرمائے گا۔ (البقرہ: 40) البقرة
41 فہم القرآن : ربط کلام : بنی اسرائیل کو عظمت رفتہ کی یاد دہانی اور اللہ کا خوف دلانے کے بعد نصیحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کو بلا چون و چرا تسلیم کرو اور دنیا کے مفاد کی خاطر ان سے روگردانی نہ کرو۔ سچائی کو قبول کرنے میں سب سے پہلے جو رکاوٹ پیش آیا کرتی ہے وہ دنیاوی مفاد، گروہی تعصبات اور آدمی کا قدیم رسومات ونظریات پر قائم رہنا ہے جنہیں چھوڑنا نہایت ہی مشکل ہوتا ہے۔ اس میں انسان کو وقتی مفادات، ماضی کے نظریات، آباء واجداد کی روایات اور معاشرے کی فرسودہ رسومات کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ ان کو چھوڑنے سے کئی قسم کے الزامات برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ آدمی ہمیشہ سے انہی زنجیروں میں جکڑا رہتا ہے۔ ان جکڑ بندیوں سے نجات پانا اور حقیقت کو قبول کرنا بڑی جرأت و جوا نمردی کا کام ہے۔ اہل کتاب کو دعوت دی جا رہی ہے کہ تمہیں سب لوگوں سے پہلے قرآن مجید پر ایمان لانا چاہیے کیونکہ قرآن کوئی نیا دین پیش نہیں کرتا یہ تو تمہاری بنیادی تعلیمات کی تائید کرتا ہے۔ لہٰذا رکاوٹ بننے کی بجائے ہر اول دستے کا کردار ادا کرتے ہوئے آگے بڑھ کر قرآن کا پیغام سینے سے لگاؤ اور پرچم اسلام کو تھام لو۔ تمہیں وہ سب کچھ عزت کے ساتھ مل جائے گا جس کے چھن جانے کا تمہیں خوف ہے۔ لہٰذا دونوں آیات کے آخر میں تلقین کی گئی ہے کہ مفادات کے چھن جانے کا ڈر، لوگوں کا خوف اور مستقبل کے خدشات سے ڈرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے ڈرو کیونکہ دنیا کے مفادات وتحفظات اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے مقابلے میں نہایت ہی معمولی چیزہیں۔ ” اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو تھوڑے داموں میں فروخت نہ کرو اور اگر منہ مانگے دام ملیں تو بیچ دو بلکہ مقصد یہ ہے کہ کسی قیمت پر حق کو نہ بیچو۔ کیونکہ ساری دنیا کے خزانے بھی اس کے مقابلے میں حقیر ترین معاوضہ ہیں۔“ [ ضیاء القرآن] بنی اسرائیل کو یہ کہہ کر سمجھایا جا رہا ہے کہ تمہیں میرے سوا کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں اور تمہیں اس لیے بھی خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ قرآن تمہاری بنیادی اور صحیح باتوں کی تصدیق کرتا ہے اور اسے میں نے ہی اپنے بندے محمد عربی {ﷺ}پر نازل کیا ہے لہٰذا تمہارے لیے اس سے انکار کرنے کا کوئی علمی واخلاقی جواز نہیں بنتا۔ اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی بجائے آگے بڑھ کر اسے قبول کرو دنیا کے معمولی مفاد اور عارضی وقار کی خاطر میری آیات کے ساتھ سودے بازی نہ کرو کیونکہ میرے ارشادات کے مقابلے میں دنیا کی حیثیت ذرہ کے برابر بھی نہیں ہے۔ اس حقیقت کو نبی محترم {ﷺ}نے ایک موقعہ پریوں بیان فرمایا ہے : (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ {رض}أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ {}مَرَّ بالسُّوْقِ دَاخِلًا مِّنْ بَعْضِ الْعَالِیَۃِ وَالنَّاسُ کَنَفَتُہٗ فَمَرَّ بِجَدْیٍ أَسَکَّ مَیِّتٍ فَتَنَاوَلَہٗ فَأَخَذَ بِأُذُنِہٖ ثُمَّ قَالَ أَیُّکُمْ یُحِبُّ أَنَّ ھٰذَا لَہٗ بِدِرْھَمٍ فَقَالُوْا مَانُحِبُّ أَنَّہٗ لَنَا بِشَیْءٍ وَمَا نَصْنَعُ بِہٖ قَالَ أَتُحِبُّوْنَ أَنَّہٗ لَکُمْ قَالُوْا وَاللّٰہِ لَوْکَانَ حَیًّاکَانَ عَیْبًا فِیْہِ لِأَنَّہٗ أَسَکَّ فَکَیْفَ وَھُوَ مَیِّتٌ فَقَالَ فَوَاللّٰہِ لَلدُّنْیَا أَھْوَنُ عَلَی اللّٰہِ مِنْ ھٰذَا عَلَیْکُمْ) (رواہ مسلم : کتاب الزھد والرقائق، باب ) ” حضرت جابر بن عبداللہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ {ﷺ}بازار کی ایک جانب سے داخل ہوئے آپ کے ساتھ لوگ بھی تھے آپ ایک مردہ بکری کے بچے کے پاس سے گزرے آپ نے اس کے ایک کان کو پکڑ کر پوچھا کون اسے ایک درہم کے بدلے لینا پسند کرے گا؟ صحابہ کرام {رض}نے کہا : ہم تو اسے کسی چیز کے بدلے بھی لینا نہیں چاہتے اور ہم اس کا کیا کریں گے؟ آپ نے فرمایا : کیا تم اسے پسند کرتے ہو کہ یہ بکری کا بچہ تمہارا ہوتا؟ صحابہ کرام {رض}نے کہا : اللہ کی قسم ! اگر یہ زندہ بھی ہوتا تو کان چھوٹے ہونے کی وجہ سے اسے قبول نہ کیا جاتا۔ اب یہ مرا ہوا ہے تو ہم کیسے اسے پسند کریں گے۔ آپ نے فرمایا : جیسے تمہارے نزدیک یہ بکری کا مردہ بچہ بڑا ہی حقیر ہے۔ اللہ کی قسم! دنیا اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ حقیر اور ذلیل ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ {}قَالَ إِنَّہٗ لَیَأْتِی الرَّجُلُ الْعَظِیْمُ السَّمِیْنُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَایَزِنُ عِنْدَ اللّٰہِ جَنَاحَ بَعُوْضَۃٍ وَقَالَ اقْرَءُ وْا ﴿فَلَا نُقِیْمُ لَھُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَزْنًا﴾) (رواہ البخاری : کتاب تفسیر القرآن، باب أولئک الذین کفروا بآیات ربھم ولقاۂ) ” حضرت ابوہریرہ {رض}رسول اللہ {ﷺ}سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا : یقینًا روز قیامت ایک بڑا اور موٹا آدمی لایا جائے گا اللہ کے ہاں اس کا مچھر کے پر کے برا بر بھی وزن نہ ہوگا اور فرمایا : یہ آیت پڑھو ( قیامت کے دن ہم ان کافروں کے لیے ترازوقائم نہیں کریں گے)۔“ پادریوں کی دنیا پرستی : جس تورات و انجیل کی قرآن نے تصدیق کی وہ وہی تھیں جو موسیٰ و عیسیٰ {علیہ السلام}پر نازل ہوئیں۔ مگر نزول قرآن تک ان کتابوں کے کچھ حصے آمیزش اور تحریف و تناقص کا شکار ہوچکے تھے جبکہ بعض حصے بالکل ناپید ہوگئے تھے۔ لہٰذا قرآن نے جہاں ان کتابوں کی مجمل تصدیق کی‘ وہاں یہ بھی بتایا کہ وہ تحریف اور تبدل کا شکار ہوچکی ہیں۔ گویا قرآن کے اپنے الفاظ میں اگر وہ ان کتابوں کا ” مصدق“ ہے تو وہ ان کا ” مہیمن“ بھی ہے۔ یعنی ان کی اصلی تعلیم کا محافظ و نگران اور اسے درست طور پر پیش کرنے والا ﴿وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتَابِ وَمُہَیْمِنًا عَلَیْہِ﴾ ” قرآن کی عظمت یہ ہے کہ اس نے ان حقائق کا اعلان اس وقت کیا جب یہودی اور عیسائی انہیں کسی قیمت پر ماننے کو تیار نہ تھے۔“ پاپاؤں اور کارڈینلوں کی ہوس زر‘ دنیا طلبی اور عیش پرستیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے تاریخ پاپائیت کا مستند مورخ کریٹن پوپ بونی فیس نہم کے بارے میں لکھتا ہے : His ends were purely temporal and had no care for the higher intrests of the Church. (M.Creighton: History of the Papacy, vol. 1, p. 182,183) ” اس کے مقاصد سراسر دنیاوی تھے اور اسے کلیسا کے اعلیٰ مفادات کی کوئی پرواہ نہ تھی۔“ حتیٰ کہ جب اس کے آخری وقت (last hour) پوچھا گیا کہ وہ کیسا ہے تو اس نے جواب دیا : If I had more money I should be wellenough. (M.Crieghton: History of the Papacy, vol. 1, p. 182,183) ” اگر مجھے مزید دولت مل جائے تو میں (اب بھی) ٹھیک ٹھاک ہوسکتا ہوں۔“ صلیبی جنگوں کا ایک اہم محرک بھی جلب زر اور حصول جاہ تھا۔ پوپ اربن دوم (1088) ء نے پہلی صلیبی جنگ پر ابھارتے ہوئے مسیحی شہزادوں اور بہادروں کو کہا تھا : The wealth of our enemies will be yours and you will despoil them of their treasures. ” ہمارے دشمنوں کی دولت تمہاری ہوجائے گی‘ اور تم انہیں ان کے خزانوں سے محروم کر دو گے۔“ [ عیسائیت تجزیہ ومطالعہ از پروفیسر ساجد میر ] مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو چھوڑ کر دنیا کمانا اس کی آیات کو معمولی قیمت پر فروخت کرنے کے مترادف ہے۔ 2۔ اللہ کی کتابوں پر پورا یقین رکھنا چاہیے۔ 3۔ اللہ سے ہی ڈرتے رہنا چاہیے۔ البقرة
42 فہم القرآن : (آیت 42 سے 43) ربط کلام : بنی اسرائیل کو خطاب جا ری ہے۔ دنیا کے فائدے کی خاطر حق و باطل کا التباس نہ کرو۔ بلکہ نماز کی صورت میں حقوق اللہ اور زکوٰۃ کی شکل میں حقوق العباد کا اہتمام کرتے ہوئے نماز میں رکوع کرتے ہوئے اسے جماعت کے ساتھ پڑھا کرو۔ بنی اسرائیل کے علماء اور سیاسی رہنما نہ صرف اپنے مفادات پر شریعت کے احکامات قربان کرتے بلکہ جو احکامات ان کی ” انا“ گروہی مفادات اور سیاسی سوچ کے خلاف ہوتے ان کو ہر ممکن چھپانے کی کوشش کرتے تھے۔ بصورت دیگر اپنے دھڑے کی حمایت کی خاطر ان کی تاویلات کرتے ہوئے اس طرح اپنے عقیدے کے سانچے میں ڈھالتے اور اس طرح التباسِ حق و باطل کرتے کہ پڑھنے اور سننے والا آسمانی کتاب اور علماء کی فقہ‘ فتاو ٰی جات، ذاتی نظریات کے بارے میں فرق نہیں کرسکتا تھا کہ ان میں تورات و انجیل کی اصل عبارت کونسی ہے۔ بلکہ وہ ان کے فروعی مسائل‘ فقہی تاویلات اور اصطلاحات کو بنیادی اور اصل دین تصور کرتا تھا۔ ان کے منصف مزاج لوگ اس بات کا کھلا اعتراف کرتے ہیں۔ (عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: «مَكْتُوبٌ فِي التَّوْرَاةِ صِفَةُ مُحَمَّدٍ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ يُدْفَنُ مَعَهُ) (رواہ الترمذی: باب فی فضل النبی ﷺ ]ضعیف[) محمد بن یوسف اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ تورات میں محمد (ﷺ) اور عیسی بن مریم (علیہ السلام) کی صفات لکھی ہوئی ہیں کہ عیسی (علیہ السلام) حضرت محمد (ﷺ) کے ساتھ دفن ہونگے۔ چنانچہ ایک مسیحی فاضل لکھتا ہے : Careful comparison of the Bibles published recently with the first and other early versions will show great differences; but by whose authority the sechanges havebeen made, no one seems to know. (J.R. Dore: op.cit., p.98) ” حال میں (یہ بات 1876میں کہی گئی تھی) شائع ہونے والے بائبل کے نسخوں کا اگر پہلے اور ابتدائی نسخوں سے مقابلہ کیا جائے، تو ان میں بہت زیادہ اختلافات ظاہر ہوں گے۔ لیکن یہ بات کوئی نہیں جانتا کہ یہ تبدیلیاں کس سند اور اختیار کی رو سے کی گئی ہیں۔“ برنارڈ ایلن (Bernard M.Allen) نے درج ذیل تبصرہ اناجیل اربعہ پر کیا تھا‘ مگر یہی بات عہد عتیق اور بائبل کے دوسرے حصوں پر بھی صادق آتی ہے : We have, therefore, no security that the narratives and sayings as given in the Gospels necessarily represent what actually happened or what was actually said. (B.M. Allen: op. cit., p.9) ” ہمارے پاس اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ اناجیل میں دیے ہوئے واقعات و اقوال لازماً وہی کچھ پیش کرتے ہیں جو حقیقت میں واقع ہوا اور جو کہا گیا تھا۔“ [ عیسائیت تجزیہ ومطالعہ] یہاں نماز کی تلقین اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم دے کر انہیں سبق دیا جا رہا ہے۔ تمہیں اپنے مفادات کے سامنے جھکنے کی بجائے اللہ کے حضور سر نگوں ہونا چاہیے اور لوگوں سے مال بٹورنے کی بجائے زکوٰۃ کی صورت میں خرچ کرنے کی عادت اپنانی چاہیے۔ کیونکہ اللہ کی رضا کی خاطر پوری زکوٰۃ ادا کرنے والا نہ بخیل ہوتا اور نہ لوگوں کا مال بٹورتا ہے۔ تنہا نماز پڑھنے کے بجائے مسلمانوں کے ساتھ مل کر رکوع کیا کرو۔ یہودیوں نے اپنی نماز میں رکوع کو خارج کردیا تھا۔ اس لیے رکوع کی ادائیگی کا بالخصوص ذکر فرما کر جماعت کی اہمیت کا احساس دلایا جارہا ہے کہ دین میں صرف نماز پڑھ لینا ہی کافی نہیں بلکہ نماز با جماعت ادا کرنے کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ نماز باجماعت : (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ {رض}أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ {}قَالَ صَلَاۃُ الْجَمَاعَۃِ تَفْضُلُ صَلَاۃَ الْفَذِّ بِسَبْعٍ وَّعِشْرِیْنَ دَرَجَۃً) (رواہ البخاری : کتاب الأذان، باب فضل صلاۃ الجماعۃ) ” حضرت عبداللہ بن عمر {رض}بیان کرتے ہیں رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا : جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا اکیلے نماز پڑھنے سے ستائیس گنا زیادہ افضل ہے۔“ رسول اللہ {ﷺ}نے جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھنے والوں کے بارے میں اپنے ارادے کا یوں بھی اظہار فرمایا : (وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَقَدْ ھَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ فَیُحْطَبَ ثُمَّ آمُرَ بالصَّلَاۃِ فَیُؤَذَّنَ لَھَا ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا فَیَؤُمَّ النَّاسَ ثُمَّ أُخَالِفَ إِلٰی رِجَالٍ فَأُحَرِّقَ عَلَیْھِمْ بُیُوْتَھُمْ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَوْ یَعْلَمُ أَحَدُھُمْ أَنَّہٗ یَجِدُ عَرْقًا سَمِیْنًا أَوْ مِرْمَاتَیْنِ حَسَنَتَیْنِ لَشَھِدَ الْعِشَآءَ) (رواہ البخاری : کتاب الاذان، باب وجوب صلاۃ الجماعۃ) ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقیناً میں نے ارادہ کیا ہے کہ میں لکڑیاں اکٹھی کرنے کا حکم دوں جب اکٹھی ہوجائیں تو میں نماز کا حکم دوں نماز کے لیے اذان دی جائے پھر میں کسی آدمی کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کی امامت کروائے اور میں نماز سے پیچھے رہ جانے والے لوگوں کے پاس جاؤں۔ ان پر ان کے گھروں کو جلا کر راکھ کردوں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر ان میں سے کوئی یہ جانتا کہ اسے نماز کے بدلے موٹی ہڈی یا دو پائے ملیں گے تو وہ عشاء کی نماز میں ضرور حاضر ہوتے۔“ مسائل : 1۔ سچ اور جھوٹ کو خلط ملط کرنا بڑا گناہ ہے اور یہ یہودیوں کی عادت ہے۔ 2۔ حق جاننے کے باوجود حق بات کو چھپانابڑا گناہ ہے۔ 3۔ زکوٰۃ کی ادائیگی اور نماز باجماعت پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : اقامت صلوٰۃ کے تقاضے : 1۔ پہلے وضو کیا جائے۔ (المائدۃ:6) 2۔ نماز مقررہ اوقات پر ادا کی جائے۔ (النساء :103) 3۔ نشے کی حالت میں نماز نہ پڑھو۔ ( النساء :43) 4۔ نماز میں غفلت اور ریا کاری نہیں ہونی چاہیے۔ ( الماعون : 5، 6) 5۔ نماز جماعت کے ساتھ پڑھی جائے۔ ( البقرۃ:43) 6۔ نماز میں عاجزی ہونی چاہیے۔ ( البقرۃ:238) 7۔ نماز خشوع کے ساتھ پڑھنی چاہیے۔ ( المؤمنون :2) 8۔ اقامت صلوٰۃ کا صلہ۔ (العنکبوت :45) زکوۃ کا حکم اور اسکے فائدے: 1-حضرت ابراہیم، لوط، اسحاق ویعقوب (علیھم السلام) کو زکوۃ کا حکم ۔ (الانبیاء: 73) 2-حضرت اسماعیل علیہ السلام کا اپنے اہل خانہ کو زکوۃ کا حکم۔ (مریم: 55) 3-حضرت عیسی علیہ السلام کو زکوۃ کاحکم۔ (مریم: 31) 4-بنی اسرائیل کو زکوۃ کاحکم۔ (البقرہ: 83) 5-تمام امتوں کو زکوۃ کاحکم۔ (البینۃ: 5) 6-زکوۃمال کا تزکیہ کرتی کرتی ہے۔ (التوبۃ: 103) 7-ایمان، نماز اور زکوۃ مومن کو بے خوفاور بے غم کرتی ہے۔ (البقرۃ: 277) البقرة
43 البقرة
44 فہم القرآن : ربط کلام : بنی اسرائیل کے مذہبی راہنماؤں کا کردار کہ وہ لوگوں کو نیکی کا حکم کرتے مگر اپنے آپ کو بھول جاتے تھے جو دانشمندی کے خلاف ہے۔ بنی اسرائیل کے علماء نے دین اور اس کی تبلیغ کو پیشہ کے طور پر اختیار کر رکھا تھا۔ بظاہر ان کا اوڑھنا بچھونا دین ہی تھا۔ لیکن دین کو محض ڈیوٹی اور پیشہ کے طور پر اختیار کئے ہوئے تھے۔ دینی فرائض کی بظاہرادائیگی اور نیکی کی نمائش کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ ایسے لوگوں کو سمجھایا جا رہا ہے کہ دینی مشغلے سے تمہیں وقتی مفاد تو حاصل ہوجائے گا۔ لیکن حقیقی اور دائمی فائدے سے محروم رہو گے۔ کتاب اللہ کا علم جاننے اور منصب امامت سنبھالنے کے باوجود ایسا کرنا عقل مندی کا تقاضا نہیں۔ اہل کتاب کے مذہبی پیشواؤں کا کردار : ” تاریخ اخلاق یورپ“ کے فاضل مؤلف نے اس شرمناک اور وحشت ناک صورت حال کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے : ... that inveterate prevalanceof incest among theclergy, which rendered it necessary angain and again to issue the most stringent enactments that priests should not be permitted to livewith their mothers and sisters. (W.Lecky: op.cit., p.231 -- H.C.Lea:op.cit., p.138) ” اہل کلیسا میں محرمات سے مباشرت کا چلن اتنا پختہ ہوچکا تھا کہ پادریوں کو اپنی ماؤں اور بہنوں کے ساتھ رہنے سے روکنے کی خاطر بار بار انتہائی سخت قوانین جاری کرنے کی ضرورت پیش آئی۔“ گریگوری دہم نے لے اونر (Lyons) کی دوسری کونسل میں شریک ہونے والے معزز ترین پادریوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا : You are the ruin of the world. (Ibid., p.353) ” تم دنیا کی اخلاقی تباہی کے باعث ہو۔“ The History of Christian monasticism ...... during the1,000 years of the Church's complete domination of europe, is the most sordid chapter in the history of civilized religions ....... at least four-fiths of themonasteries of europe during the1,000 years were corrupt ..... a monastery was generally a nursery of sloth, sensuality and vice. (Rationalist encyclopaedia pp.398-399) ” مسیحی رہبانیت کی ان ہزار سالوں کی تاریخ جب یورپ پر کلیسا کا مکمل تسلط تھا‘ مہذب مذاہب کی تاریخ کا تاریک ترین باب ہے۔۔ ان ہزار سالوں کے دوران کم از کم 4/5 راہب خانے بدمعاشی کے اڈے تھے۔ ایک راہب خانہ عموماً کاہلی‘ شہوت پرستی اور اخلاقی خرابی کا گہوارہ ہوتا تھا۔“ [ عیسائیت تجزیہ ومطالعہ : مؤلف پروفیسر ساجد میر] بد عمل علماء کے بارے میں رسول اللہ {ﷺ}کا فرمان : (یُجَآء بالرَّجُلِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُلْقٰی فِی النَّارِ فَتَنْدَلِقُ أَقْتَابُہٗ فِی النَّارِ فَیَدُوْرُ کَمَا یَدُوْرُ الْحِمَارُ بِرَحَاہُ فَیَجْتَمِعُ أَھْلُ النَّارِ عَلَیْہِ فَیَقُوْلُوْنَ أَیْ فُلَانُ مَاشَأْنُکَ أَلَیْسَ کُنْتَ تَأْمُرُنَا بالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَانَا عَنِ الْمُنْکَرِ قَالَ کُنْتُ آمُرُکُمْ بالْمَعْرُوْفِ وَلَآ اٰتِیْہِ وَأَنْھَاکُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَآتِیْہِ) (رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب صفۃ النار...) ” قیامت کے دن ایک آدمی کو لا کر آگ میں ڈالا جائے گا اس کی انتڑیاں آگ میں باہر نکل آئیں گی وہ ان کے گرد ایسے چکر کاٹے گا جیسے گدھا چکی کے گرد چکر کاٹتا ہے جہنمی اس کے پاس جمع ہو کر پوچھیں گے اے فلاں! تجھے کیا ہوا کیا تو ہمیں اچھی باتوں کا حکم اور برے کاموں سے منع نہیں کرتا تھا؟ وہ کہے گا میں تمہیں اچھی باتوں کا حکم دیتا تھا لیکن خود نیکی نہیں کرتا تھا اور میں تمہیں برے کاموں سے روکتا تھا لیکن خود نہیں رکتا تھا۔“ مسائل: 1۔ لوگوں کو نیکی کا حکم دینا خود اس پر عمل نہ کرنا بے عقلی کی دلیل ہے۔ 2۔ مبلغ کو سب سے پہلے نیکی کے کام پر عمل کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: قول وفعل کے تضاد کی ممانعت : 1۔ ایمان داروں کے قول وفعل میں تضاد کیوں؟۔ (الصف :2) 2۔ عمل نہ کرنے والوں کی مثال گدھوں جیسی ہے۔ ( الجمعۃ:5) 3۔ کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو۔ (البقرۃ:44) البقرة
45 فہم القرآن : ربط کلام : دوغلا پن اختیار کرنے کی بجائے، عُسرویُسر میں دین پر قائم رہو اور نماز اور صبر کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی مدد کے طالب بنو۔ اے بنی اسرائیل ! تمہیں اپنے آپ کو شریعت کا پابند صبر و شکر کا خوگر اور نماز قائم کرنے والا بننا چاہیے لیکن یاد رکھو یہ کام نسبتاً مشکل ہیں۔ اس پر عمل کرنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ صبر و شکر اور نماز کی ادائیگی وہی لوگ کیا کرتے ہیں جن کے دل ” اللہ“ کے خوف سے لرزاں و ترساں رہتے ہیں اور انہیں یقین ہوتا ہے کہ ہم نے دنیا میں ہمیشہ نہیں بیٹھ رہنا بلکہ آخر کار ہمیں اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کے خوف اور فکر آخرت کے نتیجہ میں آدمی سے نیک اعمال کا ظہور ہوتا ہے۔ اس فکرکے بغیر دینی کام اچھی عادت اور پیشہ توہو سکتے ہیں مگر توشۂ آخرت نہیں ہو سکتے اور نہ ہی کردار میں اچھی تبدیلی کا باعث بن سکتے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا نماز کے ذریعے مدد طلب کرنا : (إِذْ أَتٰی عَلٰی جَبَّارٍ مِّنَ الْجَبَابِرَۃِ فَقِیلَ لَہٗٓ إِنَّ ہَا ہُنَا رَجُلًا مَعَہُ امْرَأَۃٌ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ فَأَرْسَلَ إِلَیْہِ فَسَأَلَہٗ عَنْہَا فَقَالَ مَنْ ہٰذِہٖ قَالَ أُخْتِیْ فَأَتٰی سَارَۃَ قَالَ یَا سَارَۃُ لَیْسَ عَلٰی وَجْہِ الْأَرْضِ مُؤْمِنٌ غَیْرِی وَغَیْرَکِ وَإِنَّ ھٰذَا سَأَلَنِی فَأَخْبَرْتُہُ أَنَّکِ أُخْتِیْ فَلَا تُکَذِّبِیْنِیْ فَأَرْسَلَ إِلَیْہَا فَلَمَّا دَخَلَتْ عَلَیْہِ ذَہَبَ یَتَنَاوَلُہَا بِیَدِہٖ فَأُخِذَ فَقَالَ ادْعِی اللّٰہَ لِیْ وَلَا أَضُرُّکِ فَدَعَتِ اللّٰہَ فَأُطْلِقَ ثُمَّ تَنَاوَلَہَا الثَّانِیَۃَ فَأُخِذَ مِثْلَہَا أَوْ أَشَدَّ فَقَالَ ادْعِی اللّٰہَ لِیْ وَلَآ أَضُرُّکِ فَدَعَتْ فَأُطْلِقَ فَدَعَا بَعْضَ حَجَبَتِہٖ فَقَالَ إِنَّکُمْ لَمْ تَأْتُونِی بِإِنْسَانٍ إِنَّمَآ أَتَیْتُمُونِی بِشَیْطَانٍ فَأَخْدَمَہَا ہَاجَرَ فَأَتَتْہُ وَہُوَ قَآئِمٌ یُّصَلِّیْ فَأَوْمَأَ بِیَدِہٖ مَہْیَا قَالَتْ رَدَّ اللّٰہُ کَیْدَ الْکَافِرِ أَوِ الْفَاجِرِ فِیْ نَحْرِہٖ وَأَخْدَمَ ہَاجَرَ قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ تِلْکَ أُمُّکُمْ یَا بَنِیْ مَاء السَّمَاءِ) (رواہ البخاری :، باب قول اللہ تعالیٰ ﴿واتخذ اللّٰہ ابراھیم خلیلا﴾) ” جب ( حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور بی بی سارہ) ایک ظالم حکمران کے ملک سے گزرے تو اس کے نوکر چاکروں نے بادشاہ کو کہا کہ ہمارے شہر میں ایک مسافر آیا ہے جس کی عورت بہت ہی زیادہ خوبصورت ہے۔ ظالم بادشاہ نے حکم دیا۔ ابراہیم کو فوراً میرے سامنے پیش کرو۔ ان سے پوچھا یہ عورت کون ہے؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا یہ میری بہن ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بادشاہ سے فارغ ہو کر حضرت سارہ کے پاس آئے اور کہا اے سارہ! اس سرزمین میں میرے اور تیرے سوا کوئی مومن نہیں۔ اس ظالم بادشاہ نے مجھے پوچھا ہے کہ یہ تیرے ساتھ عورت کون ہے؟ تو میں نے تجھے اپنی بہن کہا ہے کیونکہ دینی رشتہ کے اعتبار سے تو میری بہن ہے، تجھے اس کے سامنے یہی کہنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو میں جھوٹا ثابت ہوجاؤں۔ اس ظالم بادشاہ نے حضرت سارہ کو جبراً منگوایا جب وہ اس کے پاس پہنچائی گئی تو ظالم نے دست اندازی کی کوشش کی لیکن دھڑام نیچے گرا اور فریاد کرنے لگا اے نیک خاتون! اپنے رب سے میری عافیت کی دعا کر میں تجھے کچھ نہیں کہوں گا۔ حضرت سارہ کی دعا سے وہ اچھا ہوگیا پھر دوسری مرتبہ زیادتی کی کوشش کی دوبارہ پہلے کی طرح یا اس سے بھی زیادہ اللہ کی گرفت میں آیا۔ اب پھر التجا کی کہ اے نیک عورت ! اب کے بار پھر دعا کر میں اچھا ہوجاؤں تو میں تجھے کچھ نہیں کہوں گا۔ حضرت سارہ نے دعا کی تو اللہ کے فضل وکرم سے وہ پھر صحیح ہوگیا۔ اس بار اس نے اپنے نوکر کو بلا کر کہا تم کیسی عورت میرے پاس لائے ہو یہ عورت ہے یا شیطان ؟ ( بے شرم اپنی بے شرمی کو مٹانے کے لیے ایسا کہہ رہا تھا۔ (حالانکہ شیطان خودتھا) اس نے ہاجرہ کو حضرت سارہ کی خدمت میں دے دیا۔ جب حضرت سارہ جناب ابراہیم {علیہ السلام}کی خدمت میں آئیں تو آپ ” اللہ“ کے حضور نماز میں مصروف تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نماز کی حالت میں اشارہ سے پوچھتے ہیں کیا معاملہ ہوا؟ حضرت سارہ نے عرض کیا : اللہ ذوالجلال نے کافرو فاجر کی شرارت کو اس پر الٹ دیا ہے پھر سارا ماجرا ذکر کیا اور کہا بالآخر اس نے اپنی اس بیٹی کو خادمہ کے طور پر میرے حوالے کردیا ہے۔ جناب حضرت ابوہریرہ {رض}نے یہ حدیث مبارکہ ذکر کرنے کے بعد کہا اے بارش پر پلنے والو۔ (یعنی اے عرب قوم!) یہی تو تمہاری والدہ ہاجرہ ہیں۔“ مسائل: 1۔ مشکل کے وقت حوصلہ اور نماز کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنی چاہیے۔ 2۔ مشکل کے وقت صبر کرنا اور نماز پڑھنا بھاری کام ہیں مگر اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے آسان ہیں۔ 3۔ ہر شخص کی اللہ تعالیٰ کے حضور حاضری یقینی ہے۔ البقرة
46 البقرة
47 فہم القرآن : ربط کلام : بنی اسرائیل کو دوسراخطاب۔ بنی اسرائیل سے پہلے خطاب میں کچھ باتوں کا حکم دیا اور کچھ کاموں سے منع کیا تھا۔ اب دوسرے خطاب کا آغاز بھی نہایت دل کش انداز میں کرتے ہوئے نعمتوں کی یاد دہانی کروانے کے بعد قیامت کے دن کی ہولناکیوں سے ڈراتے ہوئے بتلایا ہے کہ دنیا کی عدالتوں میں اثر ورسوخ، سفارش، رشوت یا جرمانہ دے کر تم چھوٹ جاتے ہو۔ رب کبریا کی عدالت میں مجرموں کا چھوٹنا محال اور ناممکن ہے وہاں سچا ایمان اور نیک اعمال کے علاوہ کچھ بھی کام نہیں آئے گا۔ یہاں سے بنی اسرائیل کے عدالتی نظام کا اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے کس قدر اسے تباہی کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ آدمی کے ضمیر کو راغب کرنے اور جھنجھوڑنے کے لیے انعامات کا وعدہ اور خوف نہایت مؤثر ثابت ہوتے ہیں۔ یہاں خوف دلانے کے بعد احسانات کا ذکر کیا گیا ہے۔ کیونکہ پچھلے خطاب میں فرمایا تھا اگر تم عہد کی پاسداری کرو گے تو ہم تمہیں دوبارہ نعمتیں عطا کریں گے تاکہ ان کے ضمیر میں احساس اور حیا پیدا ہوجس بنا پر وہ اسلام کی مخالفت سے باز آجائیں۔ بنی اسرائیل پر عظیم الشان احسانات جور و استبداد سے نجات : ﴿وَلَقَدْ نَجَّیْنَا بَنِیْٓ اِسْرَاءِیْلَ مِنَ الْعَذَابِ الْمُہِیْنِ﴾ ( الدخان :30) ” ہم نے بنی اسرائیل کو ذلت آمیز عذاب سے نجات دی۔“ دریا میں راستہ بنانا : ﴿وَ اِذْ فَرَقْنَا بِکُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَیْنٰاکُمْ﴾(البقرۃ:50) ” جب ہم نے تمہارے لیے دریا کو پھاڑا اور تمہیں نجات دی۔“ بچھڑے کی پرستش کے بعد توبہ قبول کی : ﴿ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْکُمْ﴾ (البقرۃ:52) ” پھر ہم نے تمہیں معاف کردیا۔“ دوبارہ زندگی عطا کرنا : ﴿ثُمَّ بَعَثْنٰکُمْ مِّنْ بَعْدِ مَوْتِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ۔ (البقرۃ:56) ” پھر ہم نے تمہاری موت کے بعد تم کو زندہ کیا تاکہ تم شکر ادا کرو۔“ بادلوں کا سایہ کیا : ﴿وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْغَمَامَ﴾(البقرۃ:51) ” اور ہم نے تم پر بادلوں کا سایہ کیا۔“ من و سلویٰ اتارا : ﴿وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰی﴾(البقرۃ:57) ” اور ہم نے تم پر من و سلویٰ نازل کیا۔“ بارہ چشمے جاری کیے : ﴿فَانْفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَۃَ عَیْنًا﴾ (البقرۃ:60) ” پتھر سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے۔“ دنیا میں حکمران بنایا : ﴿وَ جَعَلَکُمْ مُّلُوْکًا﴾ (المائدۃ:20) ” اور تمہیں بادشاہ بنایا“ اقوام عالم پر عزت عطا فرمائی : ﴿وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ﴾ البقرۃ:47) ” میں نے تمہیں اقوام عالم پر فضیلت دی۔“ 10۔ جو کچھ بنی اسرائیل کو دیاوہ کسی اور کو نہ دیا : ﴿وَ اٰتٰکُمْ مَا لَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ﴾ (المائدۃ:20) ” اور جو کچھ تمہیں دیا سارے عالم میں سے کسی کو نہیں دیا۔“ 11۔ تواتر کے ساتھ انبیاء (علیہ السلام) بھیجے گئے : ﴿وَ قَفَّیْنَا مِنْ بَعْدِہٖ بالرُّسُلِ﴾ (البقرۃ:87) ” ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد بہت سے رسول بھیجے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ انسان کو نعمت اور فضل سے نوازے تو اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ 2-اللہ تعالی کی نعمتوں کو یاد رکھنا چاہئے۔ 3-اللہ تعالی کی نعمتوں کو شمار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ (ابراہیم: 34) 4-اگر لوگ اپنے رب کا شکر ادا کریں تو وہ مزید انعامات سے نوازے گا۔ (ابراہیم: 7) (اللَّهُم أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ، وحُسنِ عِبَادتِك) (رواه أَبُو داودباب في الاستغفار( صحيحٌ)) الہی !اپنے ذکر شکر اور بہترین طریقے سے عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔ البقرة
48 فہم القرآن : ربط کلام : بنی اسرائیل سے دوسرا خطاب جاری ہے۔ دنیا کی عدالتوں میں مجرم جن طریقوں سے بچ نکلتے ہیں وہ چار ہیں۔ (1)۔ حقیقی مجرم کی جگہ دوسرے کو پھنسا دینا۔ (2)۔ شخصی سفارش کے ذریعے مجرم کو بچا لینا۔ (3)۔ رشوت کے ذریعے بچ نکلنے میں کامیاب ہونا۔ (4)۔ سیاسی دباؤ کے ذریعے مجرم کا رہائی پانا۔ یہاں بنی اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے ہر فرد کو باور کرایا جا رہا ہے کہ یہ ہتھکنڈے دنیا کی بے انصاف عدالتوں‘ رشوت خورججوں، کمزور اور غلط عدالتی نظام میں تو چل سکتے ہیں۔ جس وجہ سے مظلوم سر چھپاتے اور ظالم دندناتے پھرتے ہیں۔ لیکن اللہ کی عدالت میں ان باتوں کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ محشر کے میدان میں کسی مجرم کو دم مارنے اور آنکھ اٹھا کر دیکھنے اور بلا اجازت بولنے کی بھی جرأت نہ ہوگی۔ اس دن کوئی نفس اور کوئی متاع کام نہ آئے گا۔ قرآن مجید نے ان اصولوں کو مختلف مقامات اور انداز میں بڑی تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے تاکہ کسی مجرم کے دل میں چھوٹ جانے کا تصور بھی پیدا نہ ہوسکے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}قَالَ قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ {}حِیْنَ أَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ ﴿وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَقْرَبِیْنَ﴾ قَالَ یَامَعْشَرَ قُرَیْشٍ أَوْ کَلِمَۃً نَحْوَھَا اشْتَرُوْٓا أَنْفُسَکُمْ لَآأُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیئًا یَابَنِیْ عَبْدِ مَنَافٍ لَآأُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیئًا یَاعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَآأُغْنِیْ عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیئًا وَیَاصَفِیَّۃُ عَمَّۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ لَآأُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیئًا وَیَافَاطِمَۃُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ سَلِیْنِیْ مَاشِئْتِ مِنْ مَالِیْ لَآأُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیئًا) (رواہ البخاری : کتاب الوصایا، باب ھل یدخل النساء والولد فی الأقارب) ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں جب یہ آیت (اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے) نازل ہوئی تو رسول اللہ {ﷺ}کھڑے ہوئے اور فرمایا : اے قریش کے لوگو! اپنے لیے کچھ کر لومیں تمہیں اللہ کے عذاب سے کوئی فائدہ نہیں دے سکوں گا، اے بنی عبد منا ف میں تمہیں اللہ کے عذاب سے بچا نہیں سکوں گا‘ اے عباس بن عبدالمطلب ! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکوں گا، اور اے صفیہ ! رسول کی پھوپھی! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکوں گا اور اے فاطمہ بنت محمد! میرے مال سے جو چاہتی ہے مانگ لے میں تجھے اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکوں گا۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ {}لِکُلِّ نَبِیٍّ دَعْوَۃٌ مُسْتَجَابَۃٌ فَتَعَجَّلَ کُلُّ نَبِیٍّ دَعْوَتَہٗ وَإِنِّی اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِیْ شَفَاعَۃً لِأُمَّتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَھِیَ نَآئِلَۃٌ إِنْ شَآء اللّٰہُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِیْ لَایُشْرِکُ باللّٰہِ شَیئًا) (رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب اختباء النبی دعوۃ الشفاعۃ لأمتہ ) ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا : ہر نبی کی ایک مقبول دعا ہوتی ہے ہر نبی نے اپنی دعا کرنے میں جلدی کی میں نے اپنی دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کی سفارش کے لیے بچا کر رکھا ہوا ہے وہ میری امت کے ہر اس شخص کو فائدہ دے گی جو اس حال میں مرا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا تھا۔“ مسائل: 1۔ قیامت کے دن رشتہ دار، غلط سفارش اور مال مجرم کو کوئی فائدہ نہیں دیں گے۔ تفسیر بالقرآن سفارش کی گنجائش نہیں : 1۔ کون ہے جو اللہ کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے۔ (البقرۃ:255) 2۔ دوستی اور سفارش کام نہ آئے گی۔ (البقرۃ:254) 3۔ مجرموں کو سفارش کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی۔ (المدثر :48) 4۔ ظالموں کا کوئی دوست ہوگا اور نہ سفارشی۔ (المؤمن :18) 5۔ کافروں کا کوئی سفارشی نہیں ہوگا۔ (انعام :51) 6۔ بزرگ اور سرداربھی سفارش نہ کریں گے۔ (الروم :13) نوٹ : فدیہ کے بارے میں البقرۃ:123 دیکھیے۔ البقرة
49 فہم القرآن : (آیت 49 سے 50) ربط کلام : بنی اسرائیل سے خطاب جاری ہے اس میں دو احسانات کا تذکرہ فرما کرنصیحت کی گئی ہے۔ اہل تاریخ بنی اسرائیل پر فرعون کے بد ترین مظالم کی دو وجوہات تحریر کرتے ہیں۔ ایک جماعت کا نقطۂ نگاہ یہ ہے کہ اس وقت کے نجومیوں نے فرعون کو اس بات کی خبر دی کہ بنی اسرائیل میں ایک ایسا بچہ پیدا ہونے والا ہے جو بڑا ہو کر تیرے اقتدار کو چیلنج کرے گا۔ دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ بنی اسرائیل کی بڑھتی ہوئی افرادی قوت کے خوف سے فرعون نے ان کے بچوں کو قتل کرنے اور عورتوں کو باقی رکھنے کا حکم جاری کیا تھا۔ یاد رہے بنی اسرائیل کے جوانوں کا قتل عام اور ان کی بیٹیوں کو باقی رکھنے کا معاملہ دو ادوار میں ہوا ایک مرتبہ موسیٰ {علیہ السلام}کی پیدائش کے وقت اور دوسری مرتبہ موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کے بعد۔ (المؤمن :23) یہاں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اپنی نعمتوں کا احساس‘ آخرت کا خوف اور ان کے ماضی کے الم ناک دور کا حوالہ دیتے ہوئے سمجھایا ہے کہ آج تم کمزور اور بے خانماں مسلمانوں پر ظلم کررہے ہو تمہیں وہ وقت بھی یاد رکھنا چاہیے جب فرعون تمہارے جوانوں اور نونہالوں کو سر عام ذبح کرتا تھا اور تمہاری ماؤں اور بہو‘ بیٹیوں کو باقی رہنے دیتا تھا۔ قرآن مجید نے اسے بلائے عظیم قرار دے کر ان تمام مضمرات کی طرف اشارہ کیا ہے جو مظلوم اور غلام قوم کو پیش آیا کرتے ہیں اور ظالم مظلوم کی بہو بیٹیوں کے ساتھ وہ سلوک کیا کرتے ہیں جس کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اے بنی اسرائیل ! پھر اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان عظیم کرتے ہوئے ان مظالم سے تمہیں نجات دلائی اور تمہاری آنکھوں کے سامنے تمہارے بد ترین دشمن کو ذلت کی موت دیتے ہوئے اسے ہمیشہ کے لیے نشان عبرت بنا دیا۔ اس سے دنیا میں تمہاری عظمت و سچائی اور بزرگی کی دھوم مچ گئی کہ بنی اسرئیل کے لیے دریا رک گیا اور ان کی آنکھوں کے سامنے دنیا کا بد ترین مغروروسفّاک، خدائی اور مشکل کشائی کا دعوی کرنے والاڈبکیاں لیتے ہوئے دہائی دیتا رہا کہ لوگو! میں موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے رب پر ایمان لاتا ہوں لیکن آواز آئی کہ تیرا ایمان ہرگز قبول نہیں ہوگا اب تجھے آئندہ نسلوں کے لیے نشان عبرت بنا دیا جائے گا۔[ یونس :91] قیامت کے دن مظلوم بچیاں اس طرح سوال کریں گی : ﴿وَإِذَا الْمَوْءٗ دَۃُ سُئِلَتْ۔ بِأَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ۔ (التکویر : 8، 9) ” اور زندہ در گورلڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس جرم میں ماری گئی تھی؟۔“ یہاں انتباہ کیا گیا ہے کہ جو بچوں کو قتل کرتے ہیں قیامت کے دن وہ بچہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں فریاد کرے گا کہ مولائے کریم ! آج اس ظالم سے پوچھا جائے کہ مجھے کس جرم کی پاداش میں قتل کیا گیا تھا بے شک قاتل والدین ہی کیوں نہ ہوں۔ ظلم کے بارے میں رسول محترم {ﷺ}کا ارشاد ہے : (اَلظُّلْمُ ظُلُمَاتٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ) (رواہ البخاری : کتاب المظالم والغصب، باب الظلم ...) ” ظلم قیامت کے دن اندھیرے ہوں گے۔“ مسائل : 1۔ فرعون بنی اسرائیل پر ظلم کرتا تھا۔ 2۔ فرعون بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل اور لڑکیوں کو زندہ رکھتا تھا۔ 3۔ ظلم مظلوم پر بھاری آزمائش ہوتی ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون کو ڈبویا اور بنی اسرائیل کو بچایا لیا۔ تفسیر بالقرآن فرعون کے مظالم : 1۔ فرعون نے اپنی قوم میں طبقاتی کشمکش پیدا کی۔ (القصص :4) 2۔ بنی اسرائیل قتل وغارت کے عذاب میں دو مرتبہ مبتلا کئے گئے۔ (الاعراف : 127 تا 129) 3۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اقتدار بخشا تاکہ فرعون کو اپنی قدرت دکھلائے۔ (القصص : 5، 6) 4۔ فرعون نے ظلم کرنے کے لیے میخیں تیار کی ہوئی تھیں۔ (الفجر :10) 5۔ فرعون نے اپنی بیوی پر اس لیے ظلم کیا کہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئی تھی۔ (التحریم :11) البقرة
50 البقرة
51 فہم القرآن : (آیت 51 سے 53) ربط کلام : بنی اسرائیل پر تیسرا اور چوتھا احسان۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مدین کے علاقہ سے واپسی کے وقت سفر کے دوران نبوت سے سرفراز فرمایا اور دو معجزے عطا فرمائے۔ لاٹھی کا اژدہا بن جانا اور ہاتھ کا روشن ہونا۔ ان معجزات کے ساتھ موقع بموقع حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ہدایات ملتی رہیں۔ جن میں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون {علیہ السلام}کو فرعون کے پاس جا کر نہایت نرمی کے ساتھ سمجھانے کی ہدایت‘ توحید کے دلائل‘ بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ مظلوم بنی اسرائیل کو صبر اور نماز کی تلقین اور ہر قسم کی راہنمائی کا بندوبست، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے مجادلہ کے نتیجہ میں جادوگروں سے مقابلہ‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عظیم کامیابی کا حصول جس کے نتیجے میں جادوگروں کا موقعہ پرہی اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہونا اور برملا موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے کا اعلان۔ جس کی تفصیل اپنے مقام پر بیان ہوگی۔ بالآخر فرعون اور اس کے لشکروں کا غرقاب ہونا۔ اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ فلسطین پر حملہ آور ہوجاؤ۔ اللہ اسے تمہارے ہاتھوں فتح کرے گا لیکن بزدل قوم نے کہا کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) تم اور تمہارا خدا لڑو ہم تو اتنے طاقت وروں کے ساتھ نہیں لڑ سکتے اس کی پاداش میں انہیں سینا کے ریگستان میں چالیس سال کے لیے انہیں مقید کردیا گیا۔ اب موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ آپ کوہ طور پر تیس دن کے لیے حاضری دیں تاکہ آپ کو تحریری طور پر تختیوں کی شکل میں تورات عنایت کی جائے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) طور سینا پر فرو کش ہوئے تو تیس دن کی مدت کو چالیس دن میں تبدیل کردیا گیا۔ بنی اسرائیل اس قدر احسان فراموش اور سنگ دل قوم تھی کہ جوں ہی ان کا دشمن غرقاب ہوا۔ یہ دریا عبور کر کے ابھی تھوڑی ہی دیر چلے تھے کہ راستہ میں انہوں نے ایسے لوگوں کو دیکھا جو بتوں کے سامنے مراقبہ‘ اعتکاف اور طواف کر رہے تھے۔ بنی اسرائیل اللہ تعالیٰ کے احسانات کو فراموش کرتے ہوئے بنی اسرائیل موسیٰ (علیہ السلام) سے مطالبہ کرنے لگے کہ ہمیں بھی ایساہی معبود بنادیجیے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے شرک کے نقصانات بتاتے ہوئے فرمایا کہ یہ قوم تو ہلاکت اور بربادی کے کنارے پر کھڑی ہے۔ جن کی یہ پوجا کر رہے ہیں وہ باطل اور ان کا یہ عمل شرک ہے۔ کیا تم اللہ کے بغیر کسی اور کو معبود مانتے ہو؟ جبکہ اس نے تمہارے دشمن کو غرق کرکے پوری دنیا میں تمہیں ممتاز کردیا ہے۔ اس وقت تو یہ لوگ باز آئے لیکن غلامانہ ذہن رکھنے والی قوم شرک سے کس طرح باز آ سکتی تھی؟ جوں ہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) چالیس دن کے لیے کوہ طور پر تشریف لے گئے تو سامری نام کے ایک آدمی نے سونے کا ایک بچھڑا بنا کر انہیں کہا کہ یہی وہ خدا ہے جس کی تلاش میں موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور پر بیٹھے ہیں۔ انہوں نے سب کچھ فراموش کرتے ہوئے بچھڑے کی عبادت شروع کردی۔[ طٰہٰ: 87، 88] مسائل: 1۔ غیر اللہ کی پوجا یعنی شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ آدمی کو ڈھیل دے تو اسے توبہ اور شکر کرنا چاہیے۔ 3۔ تورات موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی جو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت کا سرچشمہ تھی۔ 4۔ حضرت موسیٰ کو بڑے بڑے معجزات عنایت کیے گئے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ کا موسیٰ (علیہ السلام) سے وعدہ : 1۔ موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے تیس راتوں کا وعدہ ہوا پھر مزید دس راتوں کا اضافہ کردیا گیا۔ (الاعراف :142) 2۔ اسی مدت میں انہیں تختیوں کی شکل میں تورات عنایت کی گئی۔ (الاعراف :143 تا 145) فرقان کیا ہے؟ 1۔ فرقان سے مراد معجزات۔ (البقرۃ :53) 2۔ قرآن مجید فرقان ہے۔ (الفرقان :1) 3۔ یوم بدر یوم فرقان ہے۔ (الانفال :41) 4۔ تقو یٰ فرقان کا ذریعہ ہے۔ (الانفال :29) البقرة
52 البقرة
53 البقرة
54 فہم القرآن : ربط کلام : سنگین جرم معاف کرتے ہوئے پانچواں احسان۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور سے اتر کر اپنی قوم کی طرف آئے تو انہوں نے بچھڑے کو جلا کر دریا میں پھینک دیا اور فرمایا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ جن لوگوں نے شرک کا ارتکاب کیا ہے ان کے رشتہ داروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ انہیں اپنے ہاتھوں سے قتل کردیں۔ یہی تمہاری توبہ ہے اور یہی توبہ کا طریقہ تمہارے رب کے ہاں مقبول ہے۔ جب مشرک ہزاروں کی تعداد میں قتل ہوچکے تو اللہ کی بار گاہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کی معافی کی درخواست پیش کی جس کو قبول کرتے ہوئے رب کریم نے باقی ماندہ لوگوں کی توبہ قبول فرمائی کیونکہ اللہ تائب ہونے والوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔ بنی اسرائیل کے مشرکوں کو ختم کرنے اور ایمانداروں کے ایمان کو پرکھنے کے لیے توبہ کا یہ طریقہ اس لیے مقرر کیا گیا تاکہ لوگ شرک کے بدترین گناہ اور اس کی سنگینی سے آگاہ ہوں اور آئندہ شرک کرنے کا تصور بھی ان کے دل میں پیدا نہ ہو سکے۔ توبہ کے متعلق نبی اکرم {ﷺ}کے ارشادات : 1۔ (عَنْ أَبِیْ مُوْسٰی {رض}عَنِ النَّبِیِّ {}قَالَ إِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یَبْسُطُ یَدَہٗ باللَّیْلِ لِیَتُوْبَ مُسِیْءُ النَّھَارِ وَیَبْسُطُ یَدَہٗ بالنَّھَارِ لِیَتُوْبَ مُسِیْءُ اللَّیْلِ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِھَا) (رواہ مسلم : کتاب التوبۃ، باب قبول التوبۃ من الذنوب وإن تکررت الذنوب والتوبۃ) ” حضرت ابوموسیٰ {رض}نبی کریم {ﷺ}سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : یقیناً اللہ عزوجل رات کو اپنا ہاتھ بڑھاتے ہیں تاکہ دن کو خطائیں کرنے والا توبہ کرلے اور دن کو ہاتھ پھیلاتے ہیں تاکہ رات کو گناہ کرنے والا توبہ کرلے یہ سلسلہ سورج کے مغرب سے طلوع ہونے تک جاری رہے گا۔“ 2۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ {رض}قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ {}التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَہٗ) (رواہ ابن ماجۃ: کتاب الزھد، باب ذکرا لتوبۃ) ” حضرت عبداللہ بن مسعود {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا گناہ سے توبہ کرنے والا ایسے ہی پاک ہوجاتا ہے جیسے اس نے کوئی گناہ نہیں کیا۔“ 3۔ (قَالَ رَسُول اللَّہِ {}اَللّٰہُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَۃِ عَبْدِہٖ حینَ یَتُوبُ إِلَیْہِ مِنْ أَحَدِکُمْ کَانَ عَلٰی رَاحِلَتِہٖ بِأَرْضِ فَلَاۃٍ فَانْفَلَتَتْ مِنْہُ وَعَلَیْہَا طَعَامُہٗ وَشَرَابُہٗ فَأَیِسَ مِنْہَا فَأَتٰی شَجَرَۃً فَاضْطَجَعَ فِی ظِلِّہَا قَدْ أَیِسَ مِنْ رَاحِلَتِہٖ فَبَیْنَا ہُوَکَذَلِکَ إِذَا ہُوَ بِہَا قَائِمَۃً عِنْدَہٗ فَأَخَذَ بِخِطَامِہَا ثُمَّ قَالَ مِنْ شِدَّۃِ الْفَرَحِ اللّٰہُمَّ أَنْتَ عَبْدِیْ وَأَنَا رَبُّکَ أَخْطَأَ مِنْ شِدَّۃِ الْفَرَحِ) (رواہ مسلم : کتاب التوبۃ، باب فی الحض علی التوبۃ والفرح بھا) ” رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا : جب بندہ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے توبہ کرنے پر اس بندے سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں جو چٹیل میدان میں اپنی سواری پر تھا اور اس کی سواری گم ہوگئی جس پر اس کا کھانا، پینا تھا۔ وہ سواری اور زندگی سے ناامید ہو کر ایک درخت کے نیچے لیٹ گیا۔ اچانک اس کی سواری مل گئی وہ خوشی میں آکر غلطی سے یہ بات کہہ دیتا ہے کہ : اے اللہ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں۔“ مسائل: 1۔ شرک کرنے والا اپنے اپ پر ظلم کرتا ہے۔ 2۔ ہر دم اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرنی چاہیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ تفسیر بالقرآن: توبہ کی اہمیت : 1۔ توبہ کرنا مومن کا شیوہ ہے۔ (التوبۃ:112) 2۔ توبہ کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے۔ (البقرۃ:222) 3۔ توبہ قبول کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ (البقرۃ:160) 4۔ توبہ کرنے والوں کے لیے فرشتے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ (المؤمن :7 تا 9) 5۔ توبہ کرنے والے کے گناہ نیکیوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ (الفرقان :70) 6۔ توبہ کرنے والے کا میاب ہوں گے۔ (القصص :67) البقرة
55 فہم القرآن: (آیت 55 سے 56) ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی بدترین گستاخی معاف کرتے ہوئے ان پر چھٹا احسان فرمایا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے آسمانی دستاویزات یعنی تورات کو یہ کہہ کر تسلیم کرنے سے انکار کردیا کہ جب تک ہم اللہ کے ساتھ ہم کلام اور اس کو خود نہیں دیکھ لیتے اس وقت تک ہم اس کتاب کی تصدیق نہیں کریں گے۔ اس نازک صورت حال کے پیش نظر موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد کی کہ اے رب کریم! انہیں اپنی ہم کلامی اور زیارت سے مشرف فرما۔ اس کے جواب میں موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ آپ اپنی قوم کے ستر نمائندہ لوگوں کو کوہ طور پر لے آئیں۔ جب یہ لوگ طور سینا پر پہنچے تو زور دار آسمانی دھماکے سے مرگئے۔ تب موسیٰ (علیہ السلام) نے ” اللہ“ کے حضور عجز و انکساری سے فریاد کی کہ اے رب جلیل! ان لوگوں کی حماقت کی وجہ سے آپ نے انہیں تباہ کردیا ؟ اگر ایسا ہی کرنا تھا تو پہلے مار دیا ہوتا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا قبول ہوئی اور انہیں دوبارہ زندہ کردیا گیا۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ اس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کو دوبارہ زندہ فرمائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی زیارت کے بارے میں نبی {ﷺ}کا ارشاد : (عَنْ أَبِیْ ذَرٍّ {رض}قَالَ سَأَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ {}ھَلْ رَأَیْتَ رَبَّکَ قَالَ نُوْرٌ أَنّٰی أَرَاہُ) (رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب فی قولہ نور أنی أراہ وفی قولہ رأیت نورا) ” حضرت ابوذر {رض}بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ {ﷺ}سے استفسار کیا کہ کیا آپ اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوئے ہیں؟ جواباً آپ نے فرمایا وہ تو نور ہے میں اسے کیسے دیکھ سکتاہوں۔“ شکر کا جامع مفہوم یہ ہے کہ آدمی کو جو کچھ میسّر ہو اس کی قدر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے۔ یہ ایسی صفت ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات والا صفات کی طرف منسوب فرمایا ہے۔ سورۃ النساءآیت 147میں ارشاد ہوا کہ لوگو! تمہیں عذاب کرنے سے اللہ تعالیٰ کو کچھ حاصل نہیں ہوتا اگر تم اس پر ایمان لاؤ اور اس کا شکریہ ادا کرو تو اللہ تعالیٰ تمہارا قدر دان ہوگا۔ یہاں شاکر کا لفظ استعمال فرما کر شکر کی اہمیت کو دو چند کردیا ہے۔ سورۃ ابراہیم آیت ٧ میں یہ خوشخبری عطا فرمائی کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو گے تو وہ تمہیں مزید عنایات سے نوازے گا۔ سورۃ ابراہیم میں شکر کے بالمقابل کفر کا لفظ استعمال کیا ہے جس کے معانی ناقدری اور احسان فراموشی کے ہیں اس لیے ہر زبان میں ناشکری کو کفران نعمت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ابلیس لعین کو جب اس کے جرم کی پاداش میں ہمیشہ کے لیے راندہ درگاہ قرار دیا گیا تو اس نے بنی نوع انسان کے بارے میں ان الفاظ میں اپنے خبث باطن کا اظہار کیا تھا : ” جس وجہ سے مجھے راندہ درگاہ قرار دیا گیا ہے میں اس کے لیے صراط مستقیم میں رکاوٹ بنوں گا اور میں ان کے آگے، پیچھے، دائیں اور بائیں سے حملہ آور ہوں گا۔ اے اللہ! تو ان کی اکثریت کو شکر گزار نہیں پائے گا۔“ (الاعراف :16، 17) بنی آدم کو ناشکری کے گناہ سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بار بار اپنی نعمتوں کی قدر کرنے اور ہر دم شکر گزار رہنے کا حکم دیا ہے۔ نبی اکرم {ﷺ}اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کا اس قدر خیال رکھتے کہ آپ تہجد کی نماز میں اس قدر قیام کرتے کہ آپ کے قدم مبارک پر ورم آجایا کرتا تھا جنہیں دیکھ کر آپ کے اہل خانہ نے عرض کی کہ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف کردیے ہیں تو آپ اس قدر کیوں مشقت اٹھاتے ہیں جس کے جواب میں آپ نے فرمایا کیا میں ان نعمتوں پر اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟[ رواہ البخاری : کتاب الجمعۃ، باب قیام النبی اللیل] اسی بنا پر آپ {ﷺ}فرض نماز کے بعد اس دعا کا اہتمام کیا کرتے تھے : (أَللّٰھُمَّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ) (رواہ أبوداوٗد : کتاب الصلاۃ، باب فی الإستغفار) ” الٰہی ! اپنے ذکر، شکر اور بہترین طریقے سے عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ موت دے کر زندہ کرنے پر قادر ہے۔ 2۔ ہر دم اللہ کا شکر گزار رہنا چاہیے۔ 3۔ کسی کی عظمت اور احسان مندی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اس کا شکر ادا کرے۔ تفسیر بالقرآن : شکر کی اہمیت : 1۔ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ رزق پر اس کا شکریہ ادا کرو۔ (الانفال :26) 2۔ اللہ تعالیٰ نے سمندر کو تمہارے تابع کیا جس سے تازہ مچھلی، زیبائش کا سامان نکلتا ہے اس پر اللہ کا شکریہ ادا کرو۔ (النحل :14) 3۔ اللہ تعالیٰ نے رات کو باعث سکون اور دن کو کسب معاش کا ذریعہ بنایا ہے تاکہ اس کا شکر ادا کرو۔ (القصص :73) 4۔ شکر کے بارے میں حضرت داؤد اور سلیمان (علیہ السلام) کی دعائیں۔ (صٓ: 35، النمل :19) 5۔ اللہ تعالیٰ شکر گزار لوگوں کو زیادہ دیتا ہے۔ (ابراہیم :7) البقرة
56 البقرة
57 فہم القرآن : ربط کلام : بنی اسرائیل پر من و سلویٰ کی شکل میں ساتواں اور آٹھواں احسان۔ بنی اسرائیل کا آزادی کے بعدشکر کی بجائے شرک کرنا، جناب موسیٰ (علیہ السلام) پر عدم اعتماد کا اظہار اور اللہ تعالیٰ کو خود دیکھنے کا گستاخانہ مطالبہ، وطن کی آزادی کے لیے جہاد فی سبیل اللہ سے انکار جیسے پے در پے سنگین جرائم کرنے کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ ان کو صحرائے سینا میں تڑپ تڑپ کر بھوک سے مرنے دیا جاتا۔ لیکن اس کے باوجود رحیم و کریم رب نے انہیں پہلے سے زیادہ عمدہ و لذیذ کھانا‘ گھنے بادلوں کا سایہ، پینے کے لیے میٹھے اور صاف و شفاف چشموں کا پانی عنایت کرتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے ہم پر زیادتی نہیں کی وہ خود اپنے آپ پر ظلم کرنے والے تھے۔ یعنی جو کچھ وہ کرتے تھے اللہ تعالیٰ کی ذات پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا۔ وہ اپنے جرائم کے بدلے خود ہی ذلیل وخوار ہوتے رہے۔ چنانچہ حکم دیا کہ بس میری عبادت کرو، امن سے رہو اور دشمن کے مقابلے میں اپنے آپ کو جہاد کے لیے تیار کرو۔ اس میں یہ حکمت پنہاں تھی کہ فرعون کی غلامی میں پلنے والی نسل ختم ہو اور نئی نسل کھلی فضا اور آزاد ماحول میں پروان چڑھے جو جسمانی لحاظ سے تنو مند و کڑیل جوان اور فکری طور پر آزادی کے متوالے، اعتقاد و کردار کے اعتبار سے انتہائی پختہ ہوں اور جو قابض قوم عمالقہ سے نبرد آزما ہو کر اپنا آبائی وطن ملک فلسطین آزاد کروانے کی ہمت اور جرأت رکھتے ہوں۔ صحرائے سینا کا حدود اربعہ : یہ مثلث نما جزیرہ ہے جو بحر الکاہل (بحیرہ روم) (شمال کی طرف) اور ریڈسی (جنوب کی طرف) کے درمیان مصر میں واقع ہے اور اس کا رقبہ ساٹھ ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ اس کی زمینی سرحدیں سویز نہر مغرب کی طرف اور اسرائیل۔ مصر سرحد‘ شمال مشرق کی طرف ہیں۔ سینائی جزیرہ نما جنوب مغربی ایشیا میں واقعہ ہے۔ اسے مغربی ایشیا بھی کہتے ہیں یہ زیادہ درست جغرافیائی اصطلاح ہے جبکہ مصر کا باقی حصہ شمالی افریقہ میں واقعہ ہے جغرافیائی و سیاسی مقاصد کے لیے سینائی کو اکثر افریقہ کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ سینائی تقریباً مکمل طور پر صحرا ہے اور تبا (Taba) میں سباہ ساحل (Sabah Coast) کے ساتھ ساتھ واقعہ ہے۔ (موجودہ اسرائیل قصبہ ایلٹ ( eilat) کے نزدیک) جہاں ایک ہوٹل اور رقص گاہ (Casino) ہے جب ساحل کے ساتھ ساتھ جنوب کی طرف حرکت کی جائے تو وہاں نیو ویبا (Nuweiba) داھاب (Dahab) اور شرم الشیخ (Sharmel Sheikh) و اقع ہیں سینائی العریش (el Arish) میں غزہ پٹی کے نزدیک شمالی ساحل پر بھی واقع ہے۔ جبل موسیٰ جسے جبل سینائی بھی کہتے ہیں۔ تورات میں اہمیت کا حامل ہے۔ اس جگہ جہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے خدائی احکام وصول کیے جنوبی سینائی جزیرہ نما میں واقع ہے۔ جس کے لیے دعویٰ ہے کہ یہ تورات کے سینائی پہاڑکی جگہ ہے۔ اس قصے کی تفصیلات بائبل کی کتاب‘ گنتی استثناء اور یشعو میں ملیں گی۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دشت فاران سے بنی اسرائیل کے بارہ سرداروں کو فلسطین کا دورہ کرنے کے لیے بھیجا تاکہ وہاں کے حالات معلوم کر کے آئیں۔ یہ لوگ چالیس دن دورہ کر کے وہاں سے واپس آئے اور انہوں نے قوم کے مجمع عام میں بیان کیا کہ واقعی وہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں۔ لیکن جو لوگ وہاں بسے ہوئے ہیں وہ زور آور ہیں۔ ہم اس لائق نہیں ہیں کہ ان لوگوں پر حملہ کریں وہاں جتنے آدمی ہم نے دیکھے وہ سب بڑے قد آور ہیں اور ہم نے وہاں بنی عناق کو بھی دیکھا جو جبار ہیں اور جباروں کی نسل سے ہیں اور ہم تو اپنی ہی نگاہ میں ایسے تھے جیسے ٹڈے ہوتے ہیں اور ایسے ہی ان کی نگاہ میں تھے۔ یہ بیان سن کر سارا مجمع چیخ اٹھا کہ ” اے کاش ہم مصر ہی میں مر جاتے یا کاش اس بیابان میں ہی مرتے۔ خداوند کیوں ہمیں اس ملک میں لے جا کر تلوار سے قتل کرانا چاہتا ہے؟ پھر تو ہماری بیویاں اور بال بچے لوٹ کا مال ٹھہریں گے۔ کیا ہمارے لیے بہتر نہ ہوگا کہ ہم مصر واپس چلے جائیں؟ پھر وہ آپس میں کہنے لگے کہ آؤ ہم کسی کو اپنا سردار بنا لیں اور مصر لوٹ چلیں۔ اس پر ان بارہ سرداروں میں سے جو فلسطین کے دورے پر بھیجے گئے تھے۔ دو سردار یوشع اور کالب اٹھے اور انہوں نے اس بزدلی پر قوم کو ملامت کی۔ کالب نے کہا ” چلو ہم یک دم جا کر اس ملک پر قبضہ کرلیں کیونکہ ہم اس قابل ہیں کہ اس پر تصرف کریں۔“ پھر دونوں نے یک زبان ہو کر کہا ” اگر خداوند ہم سے راضی رہے تو وہ ہمیں اس ملک میں پہنچائے گا فقط اتنا ہو کہ تم خداوند سے بغاوت نہ کرو اور نہ اس ملک کے لوگوں سے ڈرو اور ہمارے ساتھ خداوند ہے سو ان کا خوف نہ کرو۔“ مگر قوم نے جواب یہ دیا کہ ” انہیں سنگسار کردو۔“ آخر کار اللہ تعالیٰ کا غضب بھڑکا اور اس نے فیصلہ فرمایا کہ اچھا اب یوشع اور کالب کے سوا اس قوم کے بالغ مردوں میں سے کوئی بھی اس سر زمین میں داخل نہ ہونے پائے گا۔ یہ قوم چالیس برس تک بے خانماں پھرتی رہے گی یہاں تک کہ جب ان میں سے بیس برس سے لے کر اوپر کی عمر تک کے سب مرد مر جائیں گے اور نئی نسل جوان ہو کر اٹھے گی تب انہیں فلسطین فتح کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ اس دوران وہ سب لوگ مر کھپ گئے جو جوانی کی عمر میں مصر سے نکلے تھے۔ شرق اردن فتح کرنے کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا بھی انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد یوشع بن نون کے عہد خلافت میں بنی اسرائیل اس قابل ہوئے کہ فلسطین فتح کرسکیں۔ ” من“ کے بارے میں نبی {ﷺ}کا ارشاد : (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ {رض}قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ { }الْعَجْوَۃُ مِنَ الْجَنَّۃِ وَفِیہَا شِفَاءٌ مِّنَ السُّمِّ وَالْکَمْأَۃُ مِنَ الْمَنِّ وَمَاؤُہَا شِفَاءٌ لِلْعَیْنِ) (رواہ الترمذی : باب ماجاء فی الکمأۃ والعجوۃ) ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا : عجوہ (کھجور کی ایک خاص قسم) جنت سے ہے اور اس میں زہر کے لیے شفا ہے اور کھنبی ” مَنْ“ سے ہے اور اس کا پانی آنکھوں کے لیے شفا کا باعث ہے۔“ مسائل: 1۔ صحرائے سینا میں بنی اسرائیل پر بادل سایہ فگن رہتا تھا۔ 2۔ اللہ نے حلال اور طیب چیزیں کھانے کا حکم دیا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کسی پر زیادتی نہیں کرتا۔ 4۔ لوگ اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ 5۔ من کا معنٰی ہے میٹھی چیز، سلو ٰی نمکین تھا۔ 6۔ اللہ ہی رزق دینے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن : ظالم کون؟ 1-اللہ تعالی کی آیات کو جھٹلانے والا ظالم ہے۔ (الانعام: 21) 2-شرک کرنے والا ظالم ہے۔ (لقمان: 13) 3- اللہ کی مسجدوں سے روکنے اور ان میں خرابی پیدا کرنے والا ظالم ہے۔ (البقرۃ: 114) 4- اللہ تعالی پر جھوٹ بولنے والا ظالم ہے۔ (الزمر: 32) 5-اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ (آل عمران : 57) 6- ظالم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ (الانعام: 21) 7- ظالم کی سزا جہنم ہوگی۔ (الانبیاء: 29) ظالم کی سزا : 1۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ (الحج :10) 2۔ اللہ تعالیٰ ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔ (آل عمران :140) 3۔ ظالموں پر اللہ تعالیٰ کی پھٹکار ہوتی ہے۔ ( الاعراف :44) 4۔ ظالم کامیاب نہیں ہوں گے۔ (الانعام :21) 5۔ قیامت کو ظالموں کا کوئی عذر قبول نہیں ہوگا۔ (المؤمن :52) 6- ظالم پر لعنت ہوتی ہے۔ (ھود: 18) البقرة
58 فہم القرآن : (آیت 58 سے 59) ربط کلام : نواں احسان : دشمن پر غلبہ عطا فرمایا لیکن بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے ناشکری کی اور ظلم وزیادتی کا بازار گرم رکھا۔ بیت المقدس میں بنی اسرائیل کے داخل ہونے کے واقعہ کے بارے میں مفسرین کے دو نقطہ نگاہ ہیں۔ ایک مکتب فکر کا خیال ہے کہ ان کا داخلہ جناب موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کے بعد ہوا تھا اور دوسروں کا نقطہ نظر یہ ہے کہ بنی اسرائیل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قیادت میں بیت المقدس میں داخل ہوئے تھے لیکن ٹھوس حقائق کی بنیاد پر اکثریت کا خیال یہ ہے کہ بنی اسرائیل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد بیت المقدس میں داخل ہوئے تھے۔ ” حطۃ“ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور سر جھکائے اس سے معافی مانگتے ہوئے اور لوگوں کے ساتھ در گزر کا رویہ اختیار کرتے ہوئے داخل ہونا لیکن انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو یکسر تبدیل کردیا اور خدا فراموشی اور تکبر کا رویہ اختیار کر کے دنیا دار فاتحین کی طرح قتل و غارت اور لوٹ کھسوٹ کا مظاہرہ کیا جس کے بدلے میں ان پر طاعون کی بیماری مسلط کی گئی جس سے ان کی فتح کی خوشیاں غارت ہوئیں اور یہ ہزاروں کی تعداد میں موت کے گھاٹ اتر گئے۔ اللہ تعالیٰ ظالموں اور نافرمانوں کو ایسے بھی سزا دیا کرتا ہے۔ بظاہر بنی اسرائیل کا واقعہ بیان ہوا ہے لیکن اس میں ہر طاقت ور اور فاتح کے لیے ہدایت ہے کہ وہ متکبر اور ظالم بننے کے بجائے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے مفتوحہ قوم کے ساتھ زیادہ سے زیادہ درگزر کا مظاہرہ کرے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}عَنِ النَّبِیِّ {}قَالَ قِیْلَ لِبَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ ﴿ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُوْلُوْا حِطَّۃٌ﴾ فَدَخَلُوْا یَزْحَفُوْنَ عَلٰی أَسْتَاھِھِمْ فَبَدَّلُوْا وَقَالُوْا حِطَّۃٌ حَبَّۃٌ فِیْ شَعَرَۃٍ) (رواہ البخاری : کتاب تفسیر القرآن، باب وإذقلنا ادخلوا ھذہ القریۃ۔۔) ” حضرت ابوہریرہ {رض}نبی کریم {ﷺ}سے بیان فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل کو کہا گیا : (دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہونا اور بخشش مانگنا) تو وہ اپنی پیٹھوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اور ” حطۃ“ کی جگہ ” حَبَّۃٌ فِیْ شَعَرَۃٍ“ کہتے ہوئے داخل ہوئے۔“ (عَنْ أُسَامَۃَ {رض}قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ {}إِنَّ ہٰذَا الطَّاعُونَ رِجْزٌ سُلِّطَ عَلٰی مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ أَوْ عَلٰی بَنِیْ إِسْرَائِیلَ فَإِذَاکَانَ بِأَرْضٍ فَلَا تَخْرُجُوْا مِنْہَا فِرَارًا مِّنْہُ وَإِذَاکَانَ بِأَرْضٍ فَلَا تَدْخُلُوہَا) (رواہ مسلم : کتاب السلام، باب الطاعون والطیرۃ والکھانۃ ونحوھا) ” حضرت اسامہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا : طاعون کی بیماری وہ عذاب ہے جسے تم سے پہلے کسی قوم یا بنی اسرائیل پر مسلط کیا گیا تھا۔ جب طاعون کی بیماری کسی علاقے میں پھیلی ہوئی ہو تو اس بیماری کی وجہ سے وہاں سے نہ نکلو اور جب کسی علاقے میں طاعون پھیلا ہوا ہو تو وہاں مت جاؤ۔“ رسول کریم {ﷺ}اور صحابہ کرام {رض}کا کردار فتح مکہ کے موقع پر ملاحظہ فرمائیں کہ جب آپ نے مکہ فتح کیا تو اتنی عاجزی اور انکساری کے ساتھ شہر میں داخل ہوئے کہ آپ کا سر مبارک اس حد تک جھکا جا رہا تھا کہ آپ کی مبارک داڑھی سواری کے پلان کے ساتھ لگ رہی تھی اور آپ کی زبان اطہر سے اللہ تعالیٰ کے شکرانے کے الفاظ جاری تھے۔ اس موقع پر مجاہدین کو حکم صادر فرمایا کہ جو مخالف بیت اللہ یا ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو یا اپنے گھر کے کواڑ بند کرلے اس پر کسی قسم کی دست درازی نہیں کرنا یہاں تک کہ مکہ سے نکل جانے والوں کا بھی پیچھا کرنے سے منع فرمایا۔ (ابن ہشام) مسائل: 1۔ نیکی کرنے والوں کو اللہ زیادہ دیتا ہے۔ 2۔ ظالم اللہ کے احکام تبدیل کردیتے ہیں۔ 3۔ نافرمانوں پر اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے۔ 4۔ فتح حاصل ہونے پر اللہ کا شکرادا کرنا چاہیے۔ 5۔ فتح حاصل ہونے پر اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے۔ 6۔ فاتح کو مفتوح قوم کے ساتھ زیادہ سے زیادہ درگزر کرنی چاہیے۔ البقرة
59 البقرة
60 فہم القرآن : (آیت 60 سے 61) ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ دسواں احسان : قبائل کی تعداد کا لحاظ رکھتے ہوئے ٹھنڈے، میٹھے پانی کے بارہ چشمے جاری فرمائے لیکن اس قوم نے صبح وشام من وسلوی اور ٹھنڈا پانی ملنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی کی۔ قرآن مجید کا اسلوب بیان ہے کہ وہ کسی واقعہ کو زیب داستان اور حکایت گوئی کے لیے بیان نہیں کرتا یہی وجہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے واقعہ کے سوا باقی تمام واقعات کو مختلف اجزاء کی صورت میں موقع محل کے مطابق بیان کیا گیا ہے اور کبھی یوں ہوتا ہے کہ کسی واقعہ کی کڑیوں اور اجزا کو تقدم و تاخر کے ساتھ بیان کرتے ہوئے ایک خاص نصیحت اور کیفیت پیدا کردی جاتی ہے۔ یہاں بھی ایسا ہی کیا گیا ہے تاکہ اس واقعہ میں یہودیوں کے مظالم اور نافرمانیوں کی فہرست یکجا بیان کی جائے قرآن کی تلاوت کرنے والا شخص فاسقوں اور نافرمانوں کی سرشت سے مکمل طور پر آگاہ ہو سکے۔ چنانچہ صحرائے سینا میں جب موسیٰ (علیہ السلام) سے پانی کا مطالبہ کیا گیا تو بنی اسرائیل کے قبائل کی تعداد کے مطابق بارہ چشمے جاری کیے گئے اس لیے کہ یہ پانی پینے پلانے پر جھگڑا کرنے کی بجائے پر امن طریقے سے اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں اور دشمن کے خلاف بھرپور انداز میں جہاد کی تیاری کرسکیں لہٰذا حکم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اکل و شرب سے لطف اندوزی حاصل کرولیکن دنگا فساد سے بچو۔ اس حکم کے باوجود ناہنجار قوم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مطالبہ کر ڈالا کہ ایک ہی قسم کے کھانے پر اکتفا کرنا ہمارے لیے ہرگز ممکن نہیں ہمیں تو زمین کی پیدوار، ساگ، ترکاری، کھیرا، ککڑی، گیہوں، لہسن، پیاز اور دال چاہیے۔ جناب موسیٰ (علیہ السلام) نے بہت سمجھایا کہ تم ادنیٰ کو اعلیٰ اور بہتر کو کم تر کے ساتھ بدلنا چاہتے ہو؟ اس مطالبہ سے باز آجاؤ اور اللہ تعالیٰ کی ناشکری سے بچو لیکن بنی اسرائیل اپنے مطالبہ پر مصر رہے جس کے نتیجے میں انہیں حکم ہوا کہ شہر میں داخل ہوجاؤ جو کچھ تم نے چاہا ہے وہ تمہیں مل جائے گا۔ لیکن یاد رکھنا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری اور ناشکری کی وجہ سے تم پر ذلت اور غربت مسلط کردی گئی ہے اس طرح وہ اللہ کے غضب اور مسکینی کے مستحق ٹھہرے۔ کیونکہ یہ بار بار اللہ تعالیٰ کے احکام کا انکار کرنے والے اور انبیا کو قتل کرنے والے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ یہودی ارب پتی ہونے کے باوجود نہ سیر چشم ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی ہوس کی آگ ماند پڑتی ہے اور دنیا میں اس قوم کو کبھی قرار نہیں حاصل ہوا۔ کبھی بخت نصر نے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کیا اور کبھی اہل روم نے انہیں اپنے ملک سے نکال دیا۔ سورۃ آل عمران آیت 112میں وضاحت فرمائی ہے کہ انہیں دنیا میں قرار دو ہی وجہ سے حاصل ہوسکتا ہے اللہ کے ہو کر رہیں یا پھر دوسروں کے دست نگر ہو کر زندگی بسر کریں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی مدت کے بعد یہودی اسرائیل کے نام پر امریکہ اور یورپ کے سیاسی گداگر بلا کر اسرائیل کی ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ خوردونوش کی فراوانی عطا فرمائے تو دنگا فساد کرنے کی بجائے اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ 2۔ اعلیٰ کی بجائے ادنیٰ چیز کی طلب کرنا مغضوب قوم کا طریقہ ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری کرنے والے لوگ دنیا میں ذلیل اور آخرت کو سخت عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ البقرة
61 البقرة
62 فہم القرآن: ربط کلام : انعام واحسان کا ادراک اور ذلت و رسوائی کا احساس دلانے کے بعد حقیقی ایمان اور عمل صالح کا صلہ بتلایا گیا ہے۔ اس فرمان میں اس بات کی دو ٹوک انداز میں وضاحت کی گئی ہے کہ خالی خولی ایمان‘ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد ہونے کے حوالے سے یہودی کہلوانا‘ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ نسبت جوڑنا یا اپنے آپ کو صابی کہلوانے سے نجات نہیں ہوگی۔ نجات اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے اور صالح اعمال سے ہوگی۔ مفسرین نے صابی کے دو معنیٰ کیے ہیں۔ آتش پرست یا بےدین یعنی سیکولر۔ بعض لوگوں نے زرتشت مراد لیے ہیں جو نبی {ﷺ}کی بعثت سے پہلے کا فرقہ ہے اور ایران میں پایا جاتا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ زرتشت بھی اللہ کے نبی تھے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایسے دعوؤں اور حسب ونسب کی کوئی حقیقت نہیں۔ اس کے حضور قابل قدر‘ اور لائقِ اجر بات اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور آخرت کی جواب دہی کی تیاری ہے۔ یہاں رسالت مآب {ﷺ}پر ایمان لانے کا اس لیے تذکرہ نہیں کیا کہ ایک تو ایمان باللہ مکمل ہی ایمان بالرسالت اور اس کے تقاضوں سے ہوتا ہے۔ دوسرا اس سے پہلے بنی اسرائیل کو یہی تو دعوت دی گئی ہے کہ جو کچھ ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا اس پر ایمان لاؤ۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ آدمی یہودی ہو یا عیسائی یا کسی اور عقیدے پرہو اس کے لیے صرف اللہ پر ایمان لانا اور نیک اعمال ہی کافی ہیں۔ ان کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے قرآن مجید نے کئی مقامات پر اس بات کو کھول کر بیان کیا ہے کہ جب تک نبی آخر الزماں {ﷺ}پر ایمان اور اس کی اطاعت نہیں کرو گے تمہارا ایمان قابل قبول نہیں ہوگا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کو نبی آخر الزماں کی اطاعت کے ساتھ مشروط فرما دیا ہے۔ سورۃ آل عمران کی آیت ٣١ میں فرمایا کہ اگر تم میری محبت کے طلب گار ہو تو میرے رسول محمد مصطفی {ﷺ}کی اتباع کرو۔ اس سے نہ صرف تمہیں میری محبت حاصل ہوگی بلکہ تمہارے گناہ معاف اور تم پر رحم کیا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ ﴿یَٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا أَطِیْعُوا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْا أَعْمَالَکُمْ﴾ (محمد :33) ” اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال برباد نہ کرو۔“ (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ {رض}أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ {رض}أَتَی النَّبِیَّ {}بِکِتَابٍ أَصَابَہٗ مِنْ بَعْضِ أَھْلِ الْکُتُبِ فَقَرَأَ ہُ النَّبِیُّ {}فَغَضِبَ فَقَالَ أَمُتَھَوَّکُوْنَ فِیْھَا یَاابْنَ الْخَطَّابِ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَقَدْ جِئْتُکُمْ بِھَا بَیْضَاءَ نَقِیَّۃً لَاتَسْأَلُوْھُمْ عَنْ شَیْءٍ فَیُخْبِرُوْکُمْ بِحَقٍّ فَتُکَذِّبُوْہُ بِہٖ أَوْ بِبَاطِلٍ فَتُصَدِّقُوْا بِہٖ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَوْ أَنَّ مُوسٰی {علیہ السلام}کَانَ حَیًّا مَاوَسِعَہٗ إِلَّا أَنْ یَّتَّبِعَنِیْ) (مسند احمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب باقی المسند السابق) ” حضرت جابر بن عبداللہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر {رض}کے پاس اہل کتاب میں سے کچھ لوگ ایک کتابچہ لے کر آئے۔ حضرت عمر {رض}وہ کتابچہ نبی کریم {ﷺ}کے پاس لائے۔ نبی {ﷺ}کے سامنے پڑھا اور جس پر آپ {ﷺ}نے غضب ناک ہو کر فرمایا : ابن خطاب ! کیا تم اس میں ذوق وشوق اور رغبت رکھتے ہو ؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! یقیناً میں تمہارے پاس صاف اور واضح شریعت لے کر آیا ہوں تم اہل کتاب سے جس چیز کے بارے میں بھی سوال کرو گے وہ تمہیں سچ بتائیں تم اس اسلام کو ان کی سچی خبر کی وجہ سے جھٹلادو یا ان کی جھوٹی خبر کی وجہ سے تصدیق کربیٹھو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر موسیٰ (علیہ السلام) بھی زندہ ہوجائیں تو انہیں بھی میری اتباع کے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہوگا۔ مسائل: 1۔ قیامت کے دن نجات کا دارومدار خالی خولی ایمان یا کسی مذہبی نسبت پر نہیں بلکہ نجات کا انحصار سچے ایمان اور صالح اعمال پر ہے، ایسے لوگ ہی خوف و غم سے آزاد ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن : ہدایت یافتہ لوگ پریشانیوں سے محفوظ ہوں گے : 1۔ ہدایت کی پیروی کرنے والے کو کوئی خوف نہیں۔ (البقرۃ :38) 2۔ اللہ کے لیے خرچ کرنے والے کو کوئی خوف نہیں۔ (البقرۃ :262) 3۔ نماز اور زکوٰۃ ادا کرنے والے کو کوئی خوف نہیں۔ (البقرۃ :277) 4۔ اللہ کے دوستوں کو کوئی خوف نہیں۔ (یونس :62) 5۔ ایمان پر استقامت دکھلانے والوں کو کوئی خوف نہیں۔ (الاحقاف :13) 6۔ متقی اور مصلح کو کوئی خوف نہیں۔ (الاعراف :35) البقرة
63 فہم القرآن : (آیت 63 سے 64) ربط کلام : گیا رھواں احسان۔ بار بار جرائم کرنے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو معافی دی اور اللہ تعالیٰ کا انہیں اپنے فضل و کرم سے نوازنا۔ بعض لوگوں کا نقطۂ نگاہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو جبراً ہدایت کیوں نہیں دیتا ؟ حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ انسان کو عقل و شعور کی دولت سے اس لیے مالا مال کیا گیا ہے کہ وہ حیوانوں اور جانوروں کے مقابلے میں اپنے نفع و نقصان کا خود فیصلہ کرسکے۔ تاکہ انسان اور حیوان کا فرق نمایاں رہے۔ اس لیے جبراً ہدایت دینے کا طریقہ اللہ تعالیٰ نے پسند نہیں فرمایا۔ لیکن پھر بھی ربِّ کریم نے لوگوں کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے بنی اسرائیل کا واقعہ پیش فرمایا ہے۔ کیونکہ جبری ہدایت دیرپا نہیں ہوتی یہ اسی وقت تک رہتی ہے جب تک جبر کا ماحول قائم رہتا ہے۔ جونہی جبر کا خاتمہ ہوگا ہدایت کو دل سے قبول نہ کرنے والا انسان پھر گمراہی کی طرف پلٹ جائے گا۔ دائمی اور دیر پاہدایت وہی ہوتی ہے جو دل کی گہرائی اور عقل و شعور کی رسائی سے حاصل ہو۔ جبری ہدایت کا مطالبہ کرنے والوں کے لیے بنی اسرائیل کے واقعات نظر کشائی کے لیے کافی ہیں۔ یہاں اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ بنی اسرائیل کی مسلسل نا فرمانیوں اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ان کے سروں پر کوہ طورمنڈلا کر حکم دیا گیا کہ مانتے ہو یا پہاڑ گرا کر تمہیں زمین کے ساتھ چپکا دیا جائے۔ اس موقعہ پر حکم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی نصیحت یاد کرو اور اللہ کا خوف اختیار کرتے ہوئے گناہوں سے بچ جاؤ۔ یہ لوگ اس وقت تو ایمان لے آئے لیکن جونہی ان کے سروں سے پہاڑ ٹل گیا وہ پہلے کی طرح سر کشی پر اتر آئے۔ اس عہد شکنی کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و رحمت سے انہیں مہلت عطا فرمائی تاکہ وہ از خود اپنی اصلاح کی طرف پلٹ آئیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم نہ ہوتا اور اے بنی اسرائیل ! تمہیں مہلت نہ دی جاتی تو تمہارا انجام تو اسی وقت ہی بدترین ہوتا اور تم ہمیشہ کے لیے نقصان پانے والوں میں سے ہوجاتے۔ یہاں واقعہ تو ماضی کا بیان کیا جا رہا ہے لیکن ضمائر مخاطب کی استعمال کی گئی ہیں۔ جس کا معنی یہ ہے کہ تمہارے اور تم سے پہلے لوگوں کے اعمال ایک جیسے ہوچکے ہیں۔ اور تم اپنے آپ کو انہی کا جانشین سمجھتے اور ان کا دفاع کرتے ہو۔ اگر ان کے سروں پر پہاڑ رکھا جا سکتا ہے تو تم پر عذاب نازل کرنا اللہ تعالیٰ کی قوت و سطوت سے کس طرح باہر ہو سکتا ہے۔ اس واقعہ سے یہ مسئلہ بھی واضح ہوا کہ ایمان کا دعویٰ کرنے والوں کو مسلم اتھارٹی جبراً اسلام کے احکام پر عمل کر وا سکتی ہے۔ اس لیے اسلامی حکومت پر حدود اللہ کا نفاذ فرض قرار دیا گیا ہے۔ جو حکمران اس کا نفاذ نہیں کرتے انہیں ظالم‘ فاسق اور کافر شمار کیا گیا ہے۔ [ المائدۃ:44 تا 47] بچوں کو جبراً نماز پڑھانا چاہیے : (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ {}مُرُوْا أَوْلَادَکُمْ بالصَّلَاۃِ وَھُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِیْنَ وَاضْرِبُوْھُمْ عَلَیْھَا وَھُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ وَفَرِّقُوْا بَیْنَھُمْ فِی الْمَضَاجِعِ) (رواہ ابوداوٗد : کتاب الصلاۃ، باب متی یؤمر الغلام بالصلاۃ) ” حضرت عمر و بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے دادا {رض}سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا : اپنی اولاد کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو اور دس سال کی عمر میں انہیں نماز کی وجہ سے سزا دو اور ان کے بستر جدا کر دو۔“ مسائل : 1۔ ایمان کے دعوے دار کو جبراً عمل کروانا چاہیے۔ 2۔ اللہ کے احکام پر عمل کرنے سے پرہیزگاری پیدا ہوتی ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر ہر انسان گھاٹے میں ہے۔ تفسیر بالقرآن : بنی اسرائیل کے منحرف ہونے کے واقعات : 1۔ اللہ کے احکام پر عمل کرنے کا وعدہ کرنے کے بعد انحراف کیا۔ (البقرۃ:64) 2۔ اللہ کی عبادت، والدین، قریبی رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے، لوگوں کو اچھی بات کہنے اور صوم و صلاۃ کی پابندی کا عہد کرنے کے بعد انحراف کیا۔ (البقرۃ:83) 3۔ اپنوں کا خون بہانے اور قتل نہ کرنے کے عہد کے بعد منحرف ہوگئے۔ (البقرۃ:85) 4۔ قیدیوں کو رشوت دے کر چھڑانے کی ممانعت کے باوجود باز نہ آئے۔ (البقرۃ:85) 5۔ ہفتہ کے دن مچھلیاں پکڑنے کی ممانعت کے باوجود مچھلیاں پکڑنا۔ (البقرۃ:65) البقرة
64 البقرة
65 فہم القرآن : (آیت 65 سے 66) ربط کلام : بنی اسرائیل کے انحراف کا مشہور واقعہ شکر گزاری کی بجائے بد عہدی کرتے ہوئے ہفتہ کے دن کی بے حرمتی کی اور اس کی سزا۔ بنی اسرائیل میں یہ واقعہ نسل در نسل زبان زدعام اور تورات وانجیل کے کئی صفحات پر پھیلا ہو اہے۔ اس لیے اس کی یاد دہانی کے لیے تفصیلات ذکر کرنے کے بجائے ایک اشارہ ہی کافی سمجھا گیا ہے۔ تاہم سورۃ الاعراف میں اس کی کچھ تفصیل بیان ہوئی ہے کہ تم وہ لوگ ہو کہ جب تمہاری ہی خواہش کے مطابق تمہارے لیے عبادت کا دن ” ہفتہ“ مقرر کیا گیا کہ اس دن تمہیں عبادت کرنے کے سوا کچھ نہیں کرنا چاہیے۔ تم نے اس دن میں بھی سر کشی اور تمرّد کے کئی راستے نکال لیے۔ ہوا یہ کہ مچھلیاں دوسرے دنوں کے بجائے ہفتہ کے روز کثرت کے ساتھ سمندر کی تہ پر تیرتی ہوئی دکھائی دیتی تھیں۔ انہوں نے ہفتہ کے دن مچھلی کا شکار نہ کیا لیکن سمندر کے متصل اس طرح کے بڑے بڑے گھاٹ تیار کیے کہ مچھلیاں خود بخود تالابوں میں بھر جاتیں اگلے دن انہیں پکڑ لیا جاتا۔ اس طرح انہوں نے ہفتہ کے دن کی بے حرمتی اور اللہ تعالیٰ کے قانون کی روح کو پامال کیا۔ جس کی پاداش میں ان کے چہروں کو تبدیل کر کے بندر کی شکل میں تبدیل کردیا تاکہ ان کے جیسے ذہن ہیں شکلیں بھی ویسی ہوجائیں۔ ان کے چہروں کو مسخ کر کے بستی کے گرد و جوار اور بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے نشان عبرت بنا دیا گیا۔ اتنی ذلّت و رسوائی کے باوجودان کی اولادیں گناہوں سے بچنے کی بجائے اللہ کی نافرمانی میں آگے ہی بڑھتی چلی گئیں۔ نصیحت تو اللہ سے ڈرنے اور گناہوں سے بچنے والے ہی حاصل کرتے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بندروں کی نسل انہی لوگوں سے ہے۔ حالانکہ حدیث میں وضاحت پائی جاتی ہے کہ وہ بندر بننے کے تین دن بعد مر گئے۔ (رواہ مسلم : کتاب الجمعۃ) (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}أَنَّہٗ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ {}یَقُوْلُ نَحْنُ الْآخِرُوْنَ السَّابِقُوْنَ یَوْمَ القِیَامَۃِ بَیْدَ أَنَّھُمْ أُوْتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا ثُمَّ ھٰذَا یَوْمُھُمُ الَّذِیْ فُرِضَ عَلَیْھِمْ فَاخْتَلَفُوْا فِیْہِ فَھَدَانَا اللّٰہُ فَالنَّاسُ لَنَا فِیْہِ تَبَعٌ الْیَھُوْدُ غَدًا وَالنَّصَارٰی بَعْدَ غَدٍ) (رواہ البخاری : کتاب الجمعۃ، باب فرض الجمعۃ) ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ {ﷺ}کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہم آخر میں آنے والے قیامت کے دن پہلے ہوں گے بے شک یہود ونصارٰی ہم سے پہلے کتاب دیئے گئے ہیں پھر ہفتہ اور اتوار کے دن کی عبادت ان پر فرض کی گئی انہوں نے اس میں اختلاف کیا تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہدایت سے نواز دیا یہودی اور عیسائی ایام کے معاملہ میں ہمارے تابع ہیں یعنی شمار کرنے میں جمعہ کا دن پہلے ہفتہ اور اتوارکے دن بعد میں آتے ہیں۔ یہود ہفتہ اور عیسائی اتوار کے روز عبادت کرتے ہیں اور ہمارے لیے جمعہ افضل قرار دیا گیا ہے۔“ جمعہ کی فضیلت واہمیت : (عَنْ أَبِی الْجَعْدِ الضَّمْرِیِّ وَکَانَتْ لَہٗ صُحْبَۃٌ عَنِ النَّبِیِّ {}قَالَ مَنْ تَرَکَ ثَلَاثَ جُمَعٍ تَھَاوُنًا بِھَا طَبَعَ اللّٰہُ عَلٰی قَلْبِہٖ) (رواہ النسائی : باب التشدید فی التخلف عن الجمعۃ) ” حضرت ابو الجعد الضمری کو نبی کریم {ﷺ}کی رفاقت حاصل رہی وہ نبی {ﷺ}سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جو آدمی تین جمعے سستی کی وجہ سے چھوڑ دیتا ہے اللہ رب العزت اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔“ (عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِیِّ {رض}قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ {}مَنِ اغْتَسَلَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَتَطَھَّرَ بِمَا اسْتَطَاعَ مِنْ طُھْرٍ ثُمَّ ادَّھَنَ أَوْ مَسَّ مِنْ طِیْبٍ ثُمَّ رَاحَ فَلَمْ یُفَرِّقْ بَیْنَ اثْنَیْنِ فَصَلّٰی مَاکُتِبَ لَہٗ ثُمَّ إِذَاخَرَجَ الْإِمَامُ أَنْصَتَ غُفِرَ لَہٗ مَابَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْجُمُعَۃِ الْأُخْرٰی) (رواہ البخاری : کتاب الجمعۃ، باب لایفرق بین اثنین یوم الجمعۃ) ” حضرت سلمان فارسی {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اور حسب توفیق صفائی کی پھر اس نے تیل یا خوشبو لگائی پھر وہ مسجد آیا اس نے دو آدمیوں کے درمیان جدائی نہ ڈالی اور اس نے جو اس کے لیے لکھی گئی نماز ادا کی پھر جب امام نکلا خاموش رہا تو اس کے ایک جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک کے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ { }قَال الصَّلَوَاۃُ الْخَمْسُ وَالْجُمْعَۃُ إِلَی الْجُمْعَۃِ کَفَّارَۃٌ لِّمَا بَیْنَھُنَّ مَالَمْ تُغْشَ الْکَبَائِرُ) (رواہ مسلم : باب الصلواۃ الخمس والجمعۃ إلی الجمعۃ۔۔) ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا جب کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کیا جائے تو پانچ نمازیں اور جمعہ۔ جمعہ تک کے گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے۔“ مسائل: 1۔ یہودیوں کے لیے ہفتے کے دن مچھلیاں پکڑنا ممنوع تھا۔ 2۔ یہودیوں نے ہفتہ کے دن کا احترام نہیں کیا۔ 3۔ شعائر اللہ کا احترام نہ کرنے سے قومیں ذلیل ہوجاتی ہیں۔ البقرة
66 البقرة
67 فہم القرآن : ربط کلام : بنی اسرائیل کے جرائم کی فہرست کا تسلسل جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کو توڑنا اور تعمیل حکم سے روگردانی کرنے بنانے والوں نے حضرت موسیٰ کو غیر سنجیدہ ہونے کا الزام دیا۔ حضرت موسیٰ نے ایک اندھے قتل (Blind Murder) کا فیصلہ کرنے کے لیے قوم کے مشکوک افراد کو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا تمہیں حکم ہے کہ کوئی ایک گائے ذبح کر کے اس کے گوشت کا کوئی ٹکڑا مقتول کی لاش کے ساتھ لگاؤ تو مردہ زندہ ہو کر اپنے قاتل کا پتہ بتلادے گا۔ لیکن موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم بڑی گستاخ اور بہانہ ساز تھی۔ انہوں نے قتل چھپانے اور قاتلوں کو بچانے کے لیے الٹا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کہا کہ آپ تو سراسر مذاق کر رہے ہیں۔ کبھی اس طرح بھی قتل کے مقدمہ کا فیصلہ ہوا ہے اور مردے زندہ ہوا کرتے ہیں ان کے انکار کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ پہلے گائے پرستی کا شرک کرچکے تھے۔ جس کے اثرات باقی ہونے کی وجہ سے بہانے تراشنے لگے۔ مسائل: 1۔ شرعی اور سنجیدہ مسئلہ یا پریشان حال کو مذاق کرنا پرلے درجے کی جہالت ہے۔ 2۔ جہالت سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے رہنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : جاہل کون؟ 1۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ الٰہ بنانے والے جاہل ہیں۔ (الاعراف :138) 2۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کے ساتھ مذاق کرنا جہالت ہے۔ (البقرۃ:67) 3۔ اغلام بازی کرنے والے جاہل ہیں۔ (النمل :55) 4۔ نبی محترم کو جاہلوں سے اعراض کی ہدایت تھی۔ (اعراف :199) 5۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے جہالت سے پناہ مانگی۔ (البقرۃ:67) 6۔ حضرت نوح کو جہالت سے بچنے کا حکم۔ (ہود :46) 7۔ جاہلوں سے بحث کی بجائے اجتناب اور اعراض کرنا چاہیے۔ (الفرقان :63) البقرة
68 فہم القرآن : (آیت 68 سے 71) ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے نام پر آپ کے ساتھ غلط بیانی اور مذاق کروں۔ کیونکہ پریشانی کے وقت مذاق کرنا اور قتل جیسے مقدمے کو غیر سنجیدہ طور پر لینا سراسر جہالت ہے۔ پیغمبر کی شان تو انتہائی اعلیٰ اور ارفع ہوتی ہے۔ ایک ادنیٰ درجے کے معقول آدمی سے بھی توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ پریشانی کے موقعہ پر اس قسم کا مذاق کرے۔ لیکن حیلہ ساز اور مشرکانہ عقائد رکھنے والی قوم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ تم ہمارے ساتھ مذاق کر رہے ہو۔ مکمل حکم آنے کے باوجود اپنا جرم چھپانے کے لیے۔ وہ سوال پر سوال کرتے چلے گئے۔ جن کے جواب میں یہ کہہ کر گائے کا تعین کیا گیا کہ وہ بوڑھی ہو نہ بچی بلکہ بھر پور جوان ہونی چاہیے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اگر تم مجرموں کا سراغ لگانے میں سنجیدہ ہو تو تمہیں اس حکم پر عمل کرنا چاہیے۔ لیکن انہوں نے گائے کی رنگت کے بارے میں سوال کر ڈالا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اس کا رنگ گہرا زرد ہونا چاہیے تاکہ دیکھنے والوں کو بھلی اور خوبصورت لگے۔ رنگ اور عمرپوچھ لینے کے باوجود کہنے لگے یہ اوصاف تو کئی گائیوں میں پائے جاتے ہیں۔ اس کی مزید وضاحت ہونی چاہیے۔ بار بار کے حیلوں اور بہانوں کی وجہ سے ان کے ضمیر پر ایک بوجھ تھا۔ ضمیر کا بوجھ ہلکا کرنے، اپنی شرمندگی مٹانے اور گھمبیر صورت حال سے بچنے کے لیے انہوں نے کہا انشاء اللہ اس سوال کے بعد ہم اس حکم پر عمل کر گزریں گے۔ اب موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے پھر وضاحت فرمائی کہ اس گائے کو آج تک ہل جوتنے اور کنواں چلانے میں استعمال نہ کیا گیا ہو۔ مزید یہ کہ اس کے پورے جسم پر کسی قسم کا کوئی داغ نہیں ہونا چاہیے۔ اس قدر بحث و تکرار اور سوالات واستفسارات کے بعد گائے ذبح کی۔ جس کے گوشت کا ایک ٹکڑا انہوں نے مقتول کی لاش کو لگایا تو اللہ تعالیٰ نے اس مردہ کو زندہ کیا۔ قتل کا گناہ : (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ {رض}قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ {}لَاتُقْتَلُ نَفْسٌ ظُلْمًا إِلَّا کَانَ عَلَی ابْنِ آدَمَ الْأَوَّلِ کِفْلٌ مِّنْ دَمِھَا لِأَنَّہٗ أَوَّلُ مَنْ سَنَّ الْقَتْلَ) (رواہ البخاری : باب خلق آدم وذریتہ ) ” حضرت عبداللہ {رض}بیان کرتے ہیں رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا : جو بھی نفس ظلماً قتل کیا جاتا ہے اس کے خون کا گناہ آدم (علیہ السلام) کے پہلے بیٹے کو بھی ہوتا ہے کیونکہ اسی نے سب سے پہلا قتل کیا تھا۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ {رض}قَالَ قَال النَّبِیُّ {}أَوَّلُ مَایُقْضٰی بَیْنَ النَّاسِ فِی الدِّمَاءِ) (رواہ البخاری : باب قول اللہ تعالیٰ ﴿وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ ﴾) ” حضرت عبداللہ {رض}بیان کرتے ہیں نبی کریم {ﷺ}نے فرمایا : قیامت کے دن لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خون کا فیصلہ کیا جائے گا۔“ مسائل : 1۔ شریعت کے احکام میں قیل و قال اور بہانے تلاش کرنا یہودیوں کا طریقہ ہے جس سے اجتناب کرنا لازم ہے۔ البقرة
69 البقرة
70 البقرة
71 البقرة
72 فہم القرآن : (آیت 72 سے 73) ربط کلام : بنی اسرائیل کی شریعت کے بارے میں عادات اور حیلہ سازیوں کے ذکر کے بعداصل واقعہ کا ذکر۔ چچاکی دولت پر قبضہ کرنے کے لیے رات کی تاریکیوں میں بھتیجوں نے چچا کو قتل کرکے اس کی لاش اپنے مخالفوں کے محلہ میں پھینک دی۔ جب صبح ہوئی تو خود ہی مدعی بن کر بے گناہوں کو اس قتل کا ذمہ دار ٹھہرانے لگے۔ قریب تھا کہ اس کے رد عمل میں مزید قتل و غارت شروع ہوجاتی لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے قاتلوں کا سراغ لگانے کے لیے ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کا حکم رکھا کہ ایک گائے ذبح کرکے اس کے گوشت کا ایک ٹکڑا مقتول کی لاش کو لگایا جائے اس طرح مردہ زندہ ہو کر اپنے قاتلوں کی نشاندہی کردے گا۔ متعدد سوالات کے جواب میں مجبورًاانہوں نے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے گائے ذبح کر کے اس کے گوشت کا ٹکڑا مقتول کی لاش کو لگایا۔ مقتول نے زندہ ہو کر اپنے قاتل کا نام بتلایا جس سے یہ لوگ مزید قتل و غارت سے محفوظ ہوئے اور مجرموں کو سزا ہوئی۔ اس حکم کی تعمیل پر ان کے گائے پرستی کے تصور کو کاری ضرب لگی جس سے اس بات کا مشاہدہ کر وایا گیا کہ گائے مشکل کشا اور معبود نہیں ہے جو اپنی جان نہیں بچا سکتی وہ مشکل کشا کس طرح ہو سکتی ہے اور یہ بھی واضح ہوا کہ جس طرح اس مقتول نے زندہ ہو کر قتل کی واردات اور اپنے قاتل کا نام بتلایا ہے ایسے ہی سب انسان قبروں سے زندہ ہو کر اپنے اپنے اعمال کا اقرار کریں گے اور بالآخر ہر کسی کو اس کے عمل کے مطابق جزاء وسزا ملے گی۔ مسائل: 1-مقتول کا زندہ ہونا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ ہے جو مرنے کے بعد زندہ ہونے پر واضح دلیل ہے۔ نوٹ : موت کے بعد زندہ ہونے کے ثبوت ” البقرۃ آیت 259“ کے تحت تفسیر بالقرآن میں ملاحظہ فرمائیں۔ البقرة
73 البقرة
74 فہم القرآن: ربط کلام : احکام الٰہی کے مقابلہ میں حیلے بہانے کرنے سے دل پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہوجاتے ہیں۔ انسان جب اللہ کے احکام سے سر تابی، مسلسل نافرمانیوں کا ارتکاب اور مسائل کی کھال اتارنے کی عادت اختیار کرلیتا ہے تو اس کا دل سخت سے سخت ہوجاتا ہے بالآخر مستقل طور پر گمراہی کے راستے پر چل نکلتا ہے۔ دل کی سختی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی علامت ہے۔ دل سخت ہوجائے تو ایمان کا بیج جسے آگے چل کر اعمال کی صورت میں پھل پھول لانے ہوتے ہیں وہ ابتدا ہی میں مردہ ہوجاتا ہے۔ جس طرح پتھروں کی کئی اقسام ہیں اسی طرح انسانوں کے دلوں کا حال ہے۔ پتھروں سے نہریں نکلتی، چشمے پھوٹتے اور خوف خدا سے ٹنوں وزنی پہاڑ سر کے بل زمین پر آ گرتے ہیں۔ لیکن افسوس انسانی دل گوشت کا ایک ٹکڑا ہونے کے باوجود پتھر سے سخت، پتھر سے سخت تر خوف خدا سے عاری ہوجاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنے اور اس کے حکم کے سامنے سرنگوں ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتا اور اس پر کوئی نصیحت اثر نہیں کرتی۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک گرنے والے پتھروں اور بہنے والے چشموں کی وہ قدرو منزلت نہیں جو انسان کے دل سے نکلنے والی آہوں، اس کی آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں اور اس کے حضور جھکنے والی پیشانیوں کی ہے۔ آخر میں یہ اشارہ فرمایا کہ اے انسان ! جو اللہ فلک بوس پہاڑوں کی اقسام، میلوں تک پھیلی غاروں، چٹانوں اور ان میں سے پھوٹنے والے چشموں‘ چلنے والی آبشاروں اور بہنے والے پانی کے قطرات کو جانتا ہے وہ تیرے دل اور اعمال سے کس طرح بے خبر ہوسکتا ہے ؟ دل نرم کرنے کا طریقہ : 1۔ یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرنا : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}أَنَّ رَجُلًا شَکَا إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ {}قَسْوَۃَ قَلْبِہٖ فَقَالَ لَہٗ إِنْ أَرَدْتَّ تَلْیِیْنَ قَلْبِکَ فَأَطْعِمِ الْمِسْکِیْنَ وَامْسَحْ رَأْسَ الْیَتِیْمِ) (مسند احمد : باب مسند أبی ھریرۃ) ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ {ﷺ}سے اپنے دل کی سختی کے متعلق شکایت کی تو آپ نے فرمایا : اگر تو اپنے دل کو نرم کرنا چاہتا ہے تو مسکین کو کھانا کھلا اور یتیم کے سر پر ہاتھ پھیر۔“ 2۔ اللہ کا ذکر کرنا : (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو {رض}عَنِ النَّبِیِّ { }أَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ إِنَّ لِکُلِّ شَیْءٍ صِقَالَۃٌ وَإِنَّ صِقَالَۃَ الْقُلُوْبِ ذِکْرُ اللّٰہِ وَمَا مِنْ شَیْءٍ أَنْجٰی مِنْ عَذَاب اللّٰہِ مِنْ ذِکْرِ اللّٰہِ۔۔) (صحیح الترغیب للألبانی :1495) ” حضرت عبداللہ بن عمرو {رض}نبی کریم {ﷺ}سے بیان کرتے ہیں آپ فرمایا کرتے تھے ہر چیز کی پالش ہوتی ہے دلوں کی پالش اللہ کا ذکر ہے اور اللہ کے ذکر سے زیادہ کوئی چیز اللہ کے عذاب سے نجات دینے والی نہیں ہے۔“ 3۔ قرآن کی تلاوت کرنا : ﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ إِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْھُمْ إِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ﴾ (الأنفال :2) ” مومن تو وہ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں اور جب انہیں اللہ کی آیات سنائی جائیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔“ مسائل: 1۔ گناہوں سے دل سخت ہوجاتے ہیں۔ 2۔ اللہ کے ذکر سے دل نرم ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : دل کی سختی کے اسباب : 1۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے سے دل سخت ہوتا ہے۔ (البقرۃ:74) 2۔ عہد شکنی کی وجہ سے دل سخت ہوتا ہے۔ (المائدۃ:13) 3۔ اللہ کی یاد سے غافل ہونے والے دلوں کے لیے جہنم ہے۔ ( الزمر :22) 4۔ برے اعمال کی وجہ سے دل زنگ آلود ہوجاتے ہیں۔ (المطففین :14) البقرة
75 فہم القرآن: ربط کلام : جن کے دلوں پر مہر قساوت لگ چکی ہو ان سے ایمان لانے کی توقع کرنا عبث ہے۔ اے امت محمدیہ کے لوگو! کیا تم اب بھی بہانہ باز، پتھر دل اور کلام اللہ کی تحریف کرنے والے لوگوں سے ایمان لانے کی امید باندھے ہوئے ہو ؟ حالانکہ ان کے جرائم اور عادات کا تفصیلی ریکارڈ تمہارے سامنے رکھ دیا گیا ہے۔ ایسے لوگوں سے ایمان اور خیر کی توقع رکھنا فضول ہے جو جان بوجھ کر قرآن مجید کا مفہوم ہی نہیں بدلتے بلکہ انہوں نے تورات و انجیل کے الفاظ تک بدل ڈالے ہیں۔ جس سے تورات و انجیل کے نزول کا مقصد فوت ہوگیا۔ یہودیوں نے تورات میں قطع و بریدکر کے بیت اللہ کے ساتھ اس کے بانی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تعلق منقطع کیا۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی جگہ جناب اسحاق (علیہ السلام) کو ذبیح اللہ ثابت کرنے کے لیے تاریخ کا ریکارڈ بدل ڈالا پھر اس سے بڑھ کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے یہودی اور عیسائی ہونے کے جھوٹے دعوے کیے۔ حالانکہ ابراہیم (علیہ السلام) تورات اور انجیل کے نزول سے سینکڑوں سال پہلے رحلت فرما چکے تھے۔ ایسا وہ کسی غفلت یا لاعلمی کی بنا پر نہیں کرتے بلکہ جان بوجھ کر کرتے ہیں۔ مسائل: 1۔ کلام اللہ کی تحریف کرنے والے سے خیر کی توقع رکھنا فضول ہے۔ 2۔ پتھر دل، بہانہ ساز انسان کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں دیتا۔ تفسیر بالقرآن : کلام اللہ میں اہل کتاب کی تحریف کے مختلف طریقے : 1۔ آیات کو ان کے محل سے آگے پیچھے کردینا۔ (النساء :46) 2۔ اپنی طرف سے کچھ باتیں گھڑ کر شامل کرنا۔ (البقرۃ:79) 3۔ زبان مروڑ کر مفہوم بدل ڈالنا۔ (آل عمران :78) 4۔ بنیادی باتیں چھوڑ کر مشتبہات کے پیچھے لگنا۔ (آل عمران :7) البقرة
76 فہم القرآن : (آیت 76 سے 77) ربط کلام : جس طرح یہودی بہانہ ساز اور متلوّن مزاج ہیں، منافقوں کی بھی یہی عادات ہیں۔ منافقوں کی عادات کا ذکر کرتے ہوئے آیت ١٣ میں یہ بتلایا گیا تھا کہ یہ لوگ ایمان والوں کو ملتے ہیں تو ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے ایمان کے دعویدار بنتے ہیں اور جب اپنے مذہبی پیشواؤں اور لیڈروں کے پاس جاتے ہیں تو انہیں یقین دہانیاں کرواتے ہیں کہ ہم تمہارے ہی ساتھی ہیں۔ یہاں اہل کتاب کے اندرون خانہ کا انکشاف کرتے ہوئے بتلایا جارہا ہے کہ ان کے مذہبی رہنما ان سے کہتے ہیں کہ تورات و انجیل میں بیان ہونے والے حقائق جن میں نبی آخر الزماں {ﷺ}اور قرآن مجید کی تصدیق پائی جاتی ہے۔ ان کا مسلمانوں کے سامنے ذکر کرنا دانشمندی کے خلاف ہے۔ پھر یہ کہہ کر انہیں خوفزدہ کرتے ہیں کہ اس طرح دنیا میں مسلمانوں کے سامنے لا جواب اور آخرت میں تمہارے رب کے ہاں مسلمان تمہارے خلاف گواہی دیں گے۔ اپنی بات کو مؤثر بنانے کے لیے ان کے خطبا اور پیشوا بڑے معصوم بن کر اپنے تقو ٰی کی دھاک بٹھاتے ہوئے فکر آخرت کا تصوردے کر لوگوں کو حقائق کے انکشاف سے روکتے تھے۔ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ لوگ ان حقائق کا انکشاف نہ کریں تو اللہ تعالیٰ سے یہ حقیقت چھپی رہ جائے گی؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہی تورات‘ انجیل نازل فرمائی ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید، لوگوں کی اعلانیہ اور پوشیدہ حرکات و افعال کو جانتا ہے۔ انہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے جو وہ چھپاتے اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں۔ آخرت میں ان کے ظاہر اور باطن کو طشت ازبام کردیا جائے گا۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ انسان کے باطن اور ظاہر سے واقف ہے۔ یہ عقیدہ انسان کو گناہوں سے بچاتا ہے۔ البقرة
77 البقرة
78 فہم القرآن : ربط کلام : اہل کتاب کے علماء کی دیکھا دیکھی ان کا ان پڑھ طبقہ یعنی عوام الناس بھی بے بنیاداُمیدیں لگائے ہوئے ہے۔ یاد رہے کہ مذہبی پیشواؤں اور سیاسی راہنماؤں کے منفی اور مثبت اثرات عوام پر ضرور اثر انداز ہوا کرتے ہیں۔ علمائے یہود نے حسب ونسب، مصنوعی تقدُّس اور مذہب کا نام لے کر خود ساختہ رسومات کو عوام کے ذہن پر اس طرح مسلط کردیا تھا جس سے عوام سمجھنے لگے کہ فقط بزرگوں کا احترام‘ علماء کی خدمت اور مذہبی رسومات ہی اصل دین ہے۔ حالانکہ ان تصورات کی کوئی بنیاد نہیں تھی کہ جس اساس پر وہ اپنے آپ کو جنت کا ٹکٹ ہولڈر سمجھتے اور یہ امید لگابیٹھے تھے کہ بخشش کے لیے بزرگوں سے محبت اور ان کے دامن کے ساتھ وابستہ ہونا ہی کافی ہے۔ یہاں ان کے بے بنیاد نظریات کی نفی کرتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ دین صرف جذبات اور خوش کن تصورات کا نام نہیں ہے۔ اس کے لیے تو باطل نظریات کو چھوڑنا‘ بے بنیاد تصورات سے نجات پانا اور جان و مال کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ ( عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ قِرَادٍ {رض}أَنَّ النَّبِیَّ {}تَوَضَّأَ یَوْمًا فَجَعَلَ أَصْحَابُہٗ یَتَمَسَّحُوْنَ بِوَضُوْءِہٖ فَقَالَ لَھُمُ النَّبِیُّ {}وَمَاحَمَلَکُمْ عَلٰی ھٰذَا قَالُوْا حُبُّ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ فَقَال النَّبِیُّ {}مَنْ سَرَّہٗ أَنْ یُّحِبَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ أَوْ یُحِبُّہُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ فَلْیَصْدُقْ حَدِیْثَہٗ إِذَا حَدَّثَ وَلْیُؤَدِّ أَمَانَتَہٗ إِذَا ائْتُمِنَ وَلْیُحْسِنْ جَوَارَ مَنْ جَاوَرَہٗ) (بیھقی فی شعب الإیمان۔1533) ” حضرت عبدالرحمن بن ابی قراد {رض}بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم {ﷺ}نے ایک دن وضو کیا۔ آپ {ﷺ}کے اصحاب آپ کے وضو کے پانی کو اپنے جسموں پر ملنے لگے۔ نبی محترم {ﷺ}نے ان سے استفسار فرمایا تم اس طرح کیوں کررہے ہو؟ انہوں نے عرض کی، اللہ اور اس کے رسول کی محبت کی بنا پر۔ نبی کریم {ﷺ}نے فرمایا جس شخص کو یہ بات اچھی لگتی ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرے یا اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کریں تو اسے چاہیے کہ جب بات کرے تو سچ بولے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو امانت کا حق ادا کرے اور اپنے ہمسائیوں سے اچھا برتاؤ کرے۔“ مسائل: 1۔ بے بنیاد خواہشات نجات کا ذریعہ نہیں بن سکتیں۔ البقرة
79 فہم القرآن: ربط کلام : اہل کتاب کا حال یہ ہے کہ ایک طرف اپنے نیک اور جنتی ہونے کے بلند و بالا دعوے کرتے ہیں اور دوسری طرف خود ساختہ تصورات اور ذاتی خیالات کو تورات و انجیل کی زبان میں ڈھال بنا کر لوگوں کا مال بٹورتے اور سیاسی مفادات حاصل کرتے ہیں۔ یہودونصاریٰ کے علماء اور ان کے حکام نے اپنی کتابوں کی صرف تاویلات و تحریفات اور ان کے الفاظ میں تغیر و تبدل ہی نہیں کیا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اپنی تاویلات اور نظریات کو وحی الٰہی کا رنگ دے کر تورات وانجیل میں اس کا اندراج کردیا تھا۔ قرآن مجید کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے ذمہ لیا ہے جس کی وجہ سے امت محمدیہ کے پیشہ ورعلماء اور مفاد پرست حکمران قرآن مجید میں کمی بیشی اور تبدیلی تو نہیں کرسکے البتہ تشریح و تفسیر کے پردے میں قرآن مجید کے معانی ومفاہیم میں تبدیلی کرنے سے گریز نہیں کرتے اور اپنے اپنے گروہی نظریات اور شخصی تفردات کو قرآن وسنت بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ذاتی اور جماعتی مفادات اٹھاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی کمائی اور ان کے اعمال جہنم میں داخلے کا باعث ہوں گے۔ تورات و انجیل میں ترمیم و اضافے : One story tells that man was created before the animals, while another tells us that the animals were created before man. (George Barcaly: The Making and Meaningof the Bible, p.48) ” ایک کہانی یہ بیان کرتی ہے کہ انسان جانوروں سے پہلے پیدا کیا گیا جبکہ دوسری ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جانور انسانوں سے پہلے بنائے گئے۔“ کتاب پیدائش کے دوسرے باب کے پہلے باب سے اس فرق کے بارے میں کیتھولک بائبل میں نوٹ لکھا ہے : This account ...... comes from a different source and is composed in a very differnt style. (Catholic Bible (RSV) p.995) ” یہ بیان کسی دوسرے ذریعے سے آیا ہے اور پہلے باب سے بالکل مختلف طرز تحریر میں لکھا ہوا ہے۔“ ایک اور مسیحی مصنف لکھتا ہے : So many different minds are represented in the pages of the New testament, so many writ ers with differing personalities and points of view. (William Neil: The Bible Story, London, 1975, p.215 --- Also see" Interprentation" --- A Journal of Bible The ecology, Viginia vol. 37 (July 1983) p.20) ” عہد جدید (اور بائبل کے دوسرے حصوں) کے صفحات بہت سے مختلف دماغوں اور بہت سے لکھنے والوں (کی کاوش) کا نتیجہ ہیں‘ جن کی شخصیات اور نقطہ ہائے نظر آپس میں مختلف ہیں۔“ ول ڈیورنٹ نے لکھا : It is clear that there are many contradictions between one Gospel and another, many dubious statements of history............ (Will Dusrant : The story of Civilisation, New York, 1957, vol. 3) ” یہ بات واضح ہے کہ ایک انجیل کے دوسری انجیل سے بہت تضادات ہیں‘ اور ان کے بہت سے بیانات تاریخی طور پر مشکوک ہیں۔“ [ عیسائیت تجزیہ ومطالعہ از ساجد میر] (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ { }مَرَّ بِسَخْلَۃٍ جَرْبَاءَ قَدْ أَخْرَجَہَا أَہْلُہَا قَالَ تُرَوْنَ ہَذِہِ ہَیِّنَۃً عَلَی أَہْلِہَا؟ قَالُوا نَعَمْ قَالَ وَاللَّہِ لَلدُّنْیَا أَہْوَنُ عَلَی اللَّہِ مِنْ ہَذِہِ عَلَی أَہْلِہَا) (سنن دارمی : باب فی ہو ان الدنیا علی اللہ) ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ {ﷺ}کا گزر بکری کے مردہ بچے کے پاس سے ہوا۔ جس کو اسکے اہل والوں نے باہر پھینک دیا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ تم ا سے اس کے اہل والوں پر بے فائدہ تصور کرتے ہو ؟ انہوں نے کہا ہاں! آپ نے فرمایا اللہ کی قسم! دنیا اللہ کے نزدیک اس مردہ بکری کے بچے سے بھی کم تر ہے۔“ مسائل: 1۔ دین کی غلط تشریح کرکے دنیا کمانے والوں کے لیے جہنم اور ہلاکت ہے۔ تفسیر بالقرآن: آخرت کے مقابلے میں دنیا کی حیثیت : 1۔ آخرت بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔ (الاعلیٰ:17) 2۔ دنیا کھیل اور تماشا ہے۔ (الانعام :32) 3۔ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی عارضی ہے۔ (الرعد :26) 4۔ دنیا کی زندگی محض دھوکے کا سامان ہے۔ (الحدید :20) 5۔ دنیا عارضی اور آخرت پائیدار ہے۔ (المؤمن :39) البقرة
80 فہم القرآن : ربط کلام : نبی اکرم {ﷺ}کے زمانے میں اہل کتاب خود ساختہ عقائد کی بنیاد پر یہ دعویٰ کرتے تھے اور آج ان کا دعوٰی ہے کہ ہم گنتی کے چند دن جہنم میں ڈالے جائیں گے۔ اس کے بعد جنت ہماری اور ہم جنت کے وارث ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک‘ نبی آخر الزماں {ﷺ}کی نبوت کا انکار اور بھاری جرائم میں ملوث ہونے کے باوجود یہودیوں کی خوش فہمیوں کی انتہا یہ تھی اور ہے کہ وہ بڑی بے باکی کے ساتھ تورات کے حوالے سے دعویٰ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اولاد ہونے کے ناطے سے ہم جہنم میں نہیں جا سکتے۔ سوائے ان چند دنوں کے جن دنوں میں ہمارے بزرگوں نے بچھڑا پوجنے کی غلطی کی تھی۔ اس دعویٰ کی قلعی کھولنے کے لیے ان سے سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا تم نے اللہ تعالیٰ سے یہ عہد لے رکھا ہے کہ جس کی خلاف ورزی کی اللہ تعالیٰ سے توقع نہیں کی جا سکتی؟ اگر تم اس دعویٰ میں سچے ہو تو تمہیں کوئی ثبوت پیش کرنا چاہیے۔ درحقیقت یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے بارے میں بے بنیاد اور جہالت کی بات کرتے ہیں۔ فرقہ پرستی کے مضمرات میں سے ایک یہ بات بھی ہے کہ ہمارے بعض علماء اور مشائخ نے اس سے دو قدم آگے بڑھ کر اپنے عقیدت مندوں اور مریدوں میں یہ تاثر پیدا کر رکھا ہے کہ جنت میں جانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کسی پیر کا مرید یا کسی امام کا مقلد ہوجائے۔ حالانکہ اس نظریہ کی دلیل قرآن وسنت میں نہیں پائی جاتی۔ مسائل : 1۔ یہودیوں کا عقیدہ شرعی حقائق کے منافی اور عدل و انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے۔ 2۔ من گھڑت دینی مسائل اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہیں۔ تفسیر بالقرآن : قیامت کے دن کا معاملہ : 1۔ ہر ایک کو اس کے اپنے اعمال کام آئیں گے۔ (البقرۃ:134) 2۔ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (الانعام :164) 3۔ کوئی کسی کے اعمال کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جائے گا۔ (فاطر :43) 4۔ کسی کے گناہ کے متعلق کسی دوسرے سے نہیں پوچھا جائے گا۔ ( الرحمن :39) البقرة
81 فہم القرآن : (آیت 81 سے 82) ربط کلام : من گھڑت تصورات اور بد اعمالیاں آدمی کو جہنم میں لے جائیں گی جبکہ جنت کے وارث تو صاحب ایمان اور صالح اعمال کرنے والے لوگ ہی ہوں گے۔ اہل کتاب اور ہر فرد کو یہ باور کروایا جا رہا ہے کہ بلند بانگ دعوے، دل کش نعرے، حسب ونسب کے امتیازات اور بزرگوں کے ساتھ نسبت اس شخص کو کچھ فائدہ نہیں دے سکتے جو ایمان سے عاری اور تادم مرگ شرک وبدعت میں ملوث رہا ہو اسے ہر حال میں جہنم کے دہکتے ہوئے انگاروں میں جانا ہے اور ان میں ہمیشہ رہنا ہوگا۔ اس کے برعکس کوئی شخص اعلیٰ حسب و نسب اور بڑے بڑے امتیازات و القابات سے محروم‘ مگر صاحب ایمان وکردار ہو۔ ایسے لوگ جہاں کہیں کے رہنے والے اور جو بھی ہوں اگر ان کا دامن ایمان کی نعمت اور کردار کی دولت سے مالا مال ہے تو وہ جنت میں ضرور جائیں گے اور وہاں انہیں حیات جاوِداں حاصل ہوگی۔ یاد رہے کہ یہاں زندگی بھر گناہوں میں گھرے ہوئے سے مراد کفر و شرک اور بدعات میں ملوّث ہونے والا شخص ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ {رض}قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ {}لَایَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ مِّنْ کِبْرٍ وَّلَا یَدْخُلُ النَّارَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ حَبَّۃٍ مِّنْ إِیْمَانٍ ) (رواہ الترمذی : کتاب البر والصلۃ، باب ماجاء فی الکبر) ” حضرت عبداللہ بن مسعود {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا اور جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہوگا جہنم میں داخل نہیں ہوگا۔“ مسائل: 1۔ کفرو شرک اور کبیرہ گناہ کا مرتکب اگر توبہ کے بغیر مرجائے تو وہ جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔ 2۔ ایمان خالص اور عمل صالح اپنانے والے لوگ ہمیشہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔ البقرة
82 البقرة
83 فہم القرآن: ربط کلام : یہودی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ سے وعدہ لیا حالانکہ یہود نے اللہ تعالیٰ سے کوئی وعدہ نہیں لیا البتہ اللہ تعالیٰ نے ضرور ان سے ان باتوں کا وعدہ لیا ہوا ہے۔ ہر دور میں دین کے بنیادی ارکان اور احکام ایک ہیں اور ان کی ترتیب بھی ایک جیسی ہی رہی ہے۔ سب سے پہلے خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا جسے حقوق اللہ کہا جاتا ہے۔ حقوق اللہ کے بعد والدین کی تابعداری اور ان کے ساتھ احسان کرنا ہے۔ اور ان کے ساتھ قریبی رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، لوگوں سے اچھی بات کہنا، نماز کا اہتمام کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ رب اور خالق ہے لیکن اس نے اپنی تخلیق اور ربوبیت کا ذریعہ والدین کو بنایا ہے اس لیے اپنی ذات کے بعد اس نے اس مقدس رشتہ کو تقدیس و تکریم دیتے ہوئے ہدایات فرمائیں کہ اولاد کو چاہیے کہ اپنے والدین کے ساتھ ہر دم اچھا سلوک کرتی رہے۔ نبی کریم {ﷺ}نے قرآن مجید کی اسی ترتیب کا خیال رکھتے ہوئے ارشادات فرمائے : (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ {رض}قَالَ سَأَلْتُ النَّبِیَّ {}أَیُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ قَال الصَّلَاۃُ عَلٰی وَقْتِہَا قَالَ ثُمَّ اَیٌّ قَالَ ثُمَّ بِرُّ الْوَالِدَیْنِ قَالَ ثُمَّ اَیٌّ قَالَ الْجِہَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ) (رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلوۃ ) ” حضرت عبداللہ بن مسعود {رض}بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم {ﷺ}سے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا : نمازوقت پر ادا کرنا۔ پھر پوچھا تو فرمایا والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ اس کے بعد پوچھنے پر آپ نے فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔“ (عَنْ بَھْزِ بْنِ حَکِیْمٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ {}مَنْ أَبَرّقَالَ أُمَّکَ ثُمَّ أُمَّکَ ثُمَّ أُمَّکَ ثُمَّ أَبَاکَ ثُمَّ الْأَقْرَبَ فَالْأَقْرَبَ) (رواہ ابو داؤد : باب فی بر الوالدین) ” بہز بن حکیم اپنے باپ سے اور وہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا : میں نے پوچھا اللہ کے رسول {ﷺ}! میں کس سے اچھا سلوک کروں؟ آپ {ﷺ}نے فرمایا : اپنی ماں سے پھر اپنی ماں سے پھر اپنی ماں سے پھر اپنے باپ سے اور پھر قریبی رشتہ داروں سے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ {}کَافِلُ الْیَتِیْمِ لَہٗ أَوْلِغَیْرِہٖ أَنَا وَھُوَ کَھَاتَیْنِ فِی الْجَنَّۃِ وَأَشَارَ مَالِکٌ بالسَّبَابَۃِ وَالْوُسْطٰی) (رواہ مسلم : باب الإحسان إلی الأرملۃ۔۔) ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا اپنے رشتہ دار یا کسی دوسرے یتیم کی پرورش کرنے والا اور میں جنت میں ایسے ہوں گے۔ راوی نے درمیانی اور انگشت شہادت سے اشارہ کیا۔“ (عَنْ عَائِشَۃَ {رض}أَنَّ الْیَھُوْدَ دَخَلُوْا عَلَی النَّبِیِّ {}فَقَالُوْا أَلسَّامُ عَلَیْکَ فَلَعَنَتْھُمْ فَقَالَ مَالَکِ قُلْتُ أَوَلَمْ تَسْمَعْ مَاقَالُوْا قَالَ فَلَمْ تَسْمَعِیْ مَاقُلْتُ وَعَلَیْکُمْ) (رواہ البخاری : باب الدعاء علی۔۔ ) اچھی بات کا حکم : ” حضرت عائشہ {رض}بیان کرتی ہیں کہ یہودیوں نے نبی {ﷺ}کے پاس آکر کہا : السّام علیک کہ تجھ پر ہلاکت ہو۔ حضرت عائشہ {رض}نے ان پر لعنت کی۔ آپ {ﷺ}نے پوچھا : عائشہ ! تجھے کیا ہوا ؟ حضرت عائشہ {رض}نے عرض کیا کہ آپ نے ان کی بات نہیں سنی۔ فرمایا تو نے میری بات نہیں سنی میں نے وعلیکم کہا کہ تم پر بھی ہو۔“ بیوہ اور مسکین کے ساتھ حسن سلوک کی فضیلت : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}قَالَ قَال النَّبِیُّ {}السَّاعِیْ عَلَی الْأَرْمَلَۃِ وَالْمِسْکِیْنِ کَالْمُجَاھِدِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَوِ الْقَائِمِ اللَّیْلَ الصَّائِمِ النَّھَارَ) (رواہ البخاری : باب فضل النفقۃ علی الأھل] ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا بیوہ اور مسکین پر نگران اللہ کی راہ میں مجاہد کی طرح ہے یا رات کو قیام اور دن کو روزہ رکھنے والے کی طرح ہے۔“ مسائل: 1۔ صرف ایک اللہ کی عبادت کرنا، والدین سے حسن سلوک کرنا، رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں سے اچھا برتاؤ کرنا اور ہمیشہ اچھی بات کہنا، نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام کرنا اللہ تعالیٰ سے عہد نبھانے کے مترادف ہے۔ تفسیر بالقرآن : مقام والدین : 1۔ بنی اسرائیل سے والدین کے ساتھ احسان کا عہدلیا گیا۔ (البقرۃ:83) 2۔ والدین سے نیکی کرنے کا حکم۔ (بنی اسرائیل :23) 3۔ والدین کو اف کہنا اور جھڑکناجائز نہیں۔ (بنی اسرائیل :23) 4۔ والدین کے سامنے عاجزی سے رہنا اور ان کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ (بنی اسرائیل :24) 5۔ غیر مسلم والدین کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنا چاہیے۔ (لقمان :15) (دیگر احکام کے بارے میں اگلے مقامات پر وضاحت ہوگی) البقرة
84 فہم القرآن : ربط کلام : گزشتہ عہد کا حصہ۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح بنی اسرائیل سے اپنی بندگی اور والدین کے ساتھ حسن سلوک، یتامٰی و مساکین کے ساتھ تعاون اور لوگوں سے خوش اخلاقی و خوش گفتاری کے ساتھ پیش آنے، نماز اور زکوٰۃ کا عہد لیا تھا۔ اسی طرح ان سے یہ عہد بھی لیا تھا کہ آپس میں دنگا فساد کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے صلح وآشتی کے ساتھ رہنا۔ لیکن انہوں نے نہ صرف اس عہد کی مخالفت کی بلکہ قتل و غارت اور ظلم و زیادتی کا بازار گرم کیا۔ طاقت ور کمزور کے لیے وحشی درندے کی شکل اختیار کر گیا۔ ماضی میں جو کچھ فرعون ان کے ساتھ کیا کرتا تھا انہوں نے اس سے بڑھ کر اپنے لوگوں پر ظلم ڈھائے کہ کمزور طبقات کو ان کے گھروں سے نکلنے پر مجبور کردیا۔ طاقتور قبائل اپنی برتری قائم رکھنے کے لیے ایک دوسرے کو لڑایا کرتے اور پھر لوگوں کے سامنے سچا ہونے اور اپنے آپ کو مظلوموں کا خیر خواہ ثابت کرنے کے لیے حقوق انسانیت کے علمبردار بن جاتے اور مغلوب قبیلے کے قیدیوں کو رہائی دلانے کے لیے فدیے کا بندوبست کرتے تاکہ یہ لوگ ہمیشہ کے لیے ان کے ممنون رہیں۔ جس طرح امریکہ، برطانیہ اور دیگر اتحادیوں نے پہلے 2001 ء میں افغانستان اور عراق کے لاکھوں بے گناہ لوگوں کو شہید کیا اور پھر انسانیت اور تعمیر نو کے نام پر اپنے مفاد کے لیے کروڑوں ڈالر خرچ کیے اور لوگوں کو خوراک اور ادویات مہیا کیں تاکہ دنیا کو باور کرایا جائے کہ ہم ظالم نہیں خیر خواہ اور انسان دوست لوگ ہیں۔ مسائل : 1۔ بنی اسرائیل سے کشت و خون نہ کرنے کا عہد لیا گیا۔ 2۔ بنی اسرائیل سے اپنے لوگوں کو دربدر نہ کرنے کا عہد لیا گیا۔ البقرة
85 فہم القرآن: ربط کلام : بنی اسرائیل نے نہ صرف اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد کو توڑا بلکہ اس حد تک عہد شکن ثابت ہوئے کہ انہوں نے باہمی تعلقات کو توڑتے ہوئے اپنوں میں سے کمزور لوگوں کو ان کے گھروں سے نکال باہر کیا۔ اس بات پر یہودیوں کو سمجھایا گیا ہے کہ مظلوموں کی حالت زار تمہاری سیاست اور مذموم منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے جبکہ تورات میں تمہیں اس بات سے منع کیا اور تم سے عہد لیا گیا تھا کہ اپنوں کو قتل کرنا اور کمزوروں کو ان کے گھروں سے نکالنا سنگین اخلاقی اور معاشرتی جرم ہے۔ یہاں بار بار مخاطب کی ضمیر لا کر انہیں شرم دلائی جارہی ہے کہ یہ تمہارے ہی ہم نسب اور ہم وطن ہیں۔ جن میں سے کچھ کو تم قتل کردیتے ہو اور کچھ کو ان کے گھروں سے نکال کر باہر پھینکتے ہو۔ تمہاری سازشوں کی وجہ سے وہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے جاتے ہیں۔ اس کے بعد فدیہ دے کر چھڑاتے ہو۔ ایسا کرنا نہ صرف اخلاقی جرم ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے کہ کلام اللہ کے جس حصہ پر چاہا عمل کرلیا اور جس سے دنیا کے نقصان کا اندیشہ ہوا اسے چھوڑ دیا۔ اس طرح نہ صرف شریعت بازیچۂ ا طفال بن جاتی ہے بلکہ آدمی کی طبیعت میں مستقل طور پر منافقت اور مفاد پرستی پیدا ہوجاتی ہے۔ جس کی سزا دنیا میں ذلت و رسوائی اور آخرت میں شدید ترین عذاب ہے۔ جو لوگ دین کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دیتے ہیں اور خیر خواہی کرنے کی بجائے ایک دوسرے پر ظلم کرتے ہیں ان پر نہ آخرت کا عذاب ہلکا ہوگا اور نہ ہی کوئی ان کی مدد کرنے والا ہوگا۔ ” نبی کریم {ﷺ}کے زمانہ میں انصار ( جو اسلام سے قبل مشرک تھے) کے دو قبیلے تھے۔ اوس اور خزرج، ان کی آپس میں آئے دن جنگ رہتی تھی، اسی طرح یہود مدینہ کے تین قبیلے تھے۔۔ بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ۔ یہ بھی آپس میں لڑتے رہتے تھے، بنو قریظہ اوس کے حلیف تھے اور بنو قینقاع اور بنو نضیر خزرج کے حلیف تھے، جنگ میں یہ اپنے اپنے حلیفوں کی مدد کرتے اور اپنے ہی ہم مذہب یہودیوں کو قتل کرتے، ان کے گھروں کو لوٹتے اور انہیں جلاوطن کردیتے۔ حالانکہ تورات کے مطابق ایسا کرنا ان کے لیے حرام تھا، پھر جو لوگ مغلوب ہونے کی وجہ سے قیدی بن جاتے تو انہیں فدیہ دے کر چھڑاتے اور کہتے کہ ہمیں تورات میں یہی حکم دیا گیا ہے۔ ان آیات میں یہودیوں کے اسی کردار کو بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے شریعت کو موم کی ناک بنالیا تھا، مرضی سے حکم پر عمل کرلیتے اور مرضی کے خلاف حکم کو کوئی اہمیت نہ دیتے۔ قتل، لوگوں کو ان کے گھروں سے نکالنا اور ایک دوسرے کی ظلم پر مدد کرنا، ان کی شریعت میں حرام تھا، ان جرائم کا انہوں نے کھلم کھلا ارتکاب کیا اور جو فدیہ دے کر چھڑا لینے کا حکم تھا اس پر عمل کیا۔ حالانکہ اگر وہ پہلے تین امور کا لحاظ رکھتے (قتل وغارت گری سے باز رہتے، دوسروں کو جلاوطن نہ کرتے، ظلم وستم سے رک جاتے) تو فدیہ دے کر چھڑانے کی نوبت ہی نہ آتی۔“ (ماخوذ از ” تفسیر احسن البیان“ ) اہل کتاب کے ایک دوسرے پر مظالم : ہربرٹ ملر نے لکھا ہے : ” رومی بادشاہ تھیوڈو سیس نے دوسرے مذاہب کی عبادت گاہیں حکماً بند کردیں اور کیتھولک عیسائیت کو ملک کا واحد قانونی مذہب قرار دیتے ہوئے ان سب ” دیوانوں“ (madmen) سے ہر قسم کے شہری حقوق چھین لیے جو کیتھولک عیسائیت سے متفق نہ تھے۔“ When The odosius deprived heretics of civil rights, religious orthodoxy became the price of citizenship for the first time in history. (Herbert Muller: op.cit pp.86-87; Cambridge Modern History (1907) vol.10 p.152) ” جب تھیوڈو سیس نے ملحدین کو شہری حقوق سے محروم کیا‘ تو عقیدہ کی تبدیلی شہریت کی قیمت قرار پائی۔“ اور پوپ لیو دواز دہم نے تو رواداری (Toleration) کو صاف الفاظ میں سچے مذہب سے بے پروائی (Indifference) سے تعبیر کرتے ہوئے بتا دیا کہ عیسائیت میں نقطۂ نظر کے اختلاف کو برداشت کرنے کی قوت و صلاحیت کہاں تک ہے۔ عملاً بھی اس نے تنخواہ دار مخبرین (Informers) کی مدد سے مسلمہ عقائد سے ہٹے ہوئے افراد سے اپنی جیلیں بھر دیں۔ ” مشرکین“ (pagans) اور ” ملحدین“ (heretics) کے بعد جو طبقہ مسیحی عدم رواداری اور تشدد کا پہلا نشانہ بنا‘ وہ یہودی تھے۔ یہودیوں سے مسیح کے ” خون کا بدلہ“ لینے کے لیے انجیل کی اس آیت کا حوالہ استعمال کیا گیا جس میں مسیح کے وقت کے یہودیوں نے رومی حاکم پیلاطس کی مسیح کو مصلوب کرنے پر ہچکچاہٹ دیکھتے ہوئے کہا تھا ” اس کا خون ہماری اور ہماری اولاد کی گردن پر!“ (متی27:25) : With the triumph of Christianity, the children of Israel had to repay his duffering a million fold. (Herbert Muller : op.cit., p.91) ” عیسائیت کے غلبہ کے بعد بنی اسرائیل کو مسیح کی تکالیف کا کئی لاکھ گنا بدلہ چکانا پڑا۔“ ملحدین‘ مشرکین اور یہود وغیرہ پر ظلم وتشدد اور ان کے قتل و غارت پر عیسائی حکمرانوں اور امراء کو اکساتے ہوئے ایک مشہور پوپ ہلڈر برینڈ (Hilderbrand) نے کہا تھا : Cursed be he that refraineth his sword from blood. (H.C.Lea: A history of the Inquisition in spain (New York 1906) vol. 1, pp.81, 115) ” جو اپنی تلوار کو (ان لوگوں کا) خون کرنے سے روک رکھے وہ لعنتی ہے۔“ (عیسائیت تجزیہ ومطالعہ) مسائل : 1۔ بنی اسرائیل عہد توڑنے والی قوم ہے۔ 2۔ بنی اسرائیل پر رشوت لینا حرام تھا۔ 3۔ دین کے کچھ ارکان پر عمل کرنا اور کچھ کو چھوڑ دینادنیا میں ذلت اور آخرت میں عذاب جہنم کا سبب ہوگا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے اعمال سے بے خبر نہیں ہے۔ البقرة
86 فہم القرآن : ربط کلام : یہود و نصاریٰ کی یہ عہد شکنیاں اس لیے تھیں کہ انہوں نے آخرت کو فراموش کر کے دنیا کو مقدم کرلیا تھا۔ دنیا کے لیے وہ تمام اخلاقی اور دینی حدیں پھاندنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ کفار اور مشرکین کے بارے میں قرآن مجید بار بار اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ ان لوگوں پر نہ عذاب ہلکا ہوگا اور نہ ہی انہیں جہنم سے نجات ملے گی۔ جس شخص کے بارے میں عذاب ہلکا ہونے کا امکان ہے وہ جناب ابو طالب ہیں۔ ان کے بارے میں نبی کریم {ﷺ}نے اس امید کا اظہار کیا ہے۔ (عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ {رض}أَنَّہُ سَمِعَ النَّبِیَّ {}وَذُکِرَ عِنْدَہُ عَمُّہُ فَقَالَ لَعَلَّہُ تَنْفَعُہُ شَفَاعَتِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، فَیُجْعَلُ فِی ضَحْضَاحٍ مِنَ النَّارِ، یَبْلُغُ کَعْبَیْہِ، یَغْلِی مِنْہُ دِمَاغُہُ) (رواہ البخاری : کتاب المناقب، باب قصۃ ابی طالب) ” حضرت ابو سعید خدری {رض}بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ {ﷺ}سے سنا۔ آپ {ﷺ}کے پاس آپ کے چچا ابو طالب کا تذکرہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا شاید اسے میری شفاعت قیامت کے دن فائدہ دے۔ اسے آگ پر کھڑا کیا جائے گا۔ وہ آگ اس کے ٹخنوں تک پہنچتی ہوگی جس سے اس کا دماغ کھولے گا۔“ ” جن لوگوں نے ہماری آیات کا انکار کیا یقیناً ہم انہیں جہنم واصل کریں گے جب ان کے جسموں کی کھال گل جائے گی تو ہم دوسری کھال سے بدل دیں گے تاکہ عذاب کا مزا چکھتے رہیں اللہ تعالیٰ یقینًا زبردست اور حکمت والا ہے۔“ (النساء :56) مسائل: 1۔ آخرت کی زندگی پر دنیا کو ترجیح دینے والوں پر جہنم کا عذاب ہلکا نہیں ہوگا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کے بدلے مال اور منصب حاصل کرناحرام ہے۔ 3۔ دوزخیوں کی کوئی کچھ بھی مدد نہیں کرسکے گا۔ البقرة
87 فہم القرآن : (آیت 87 سے 88) ربط کلام : بنی اسرائیل سے عہد لینے کے بعد اس کی یاد دہانی کے لیے مسلسل انبیاء مبعوث کیے گئے مگر یہ لوگ تکبر اور ظلم میں آگے ہی بڑھتے گئے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے ہوئے پختہ عہد سے انحراف، قومی جرائم اور اجتماعی ذلت کا احساس دلا کر بنی اسرائیل کو یاد کروایا گیا ہے کہ اپنی تاریخ کا ریکارڈ ذہن میں لاؤ۔ جب ہم نے تمہاری رہنمائی کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات عنایت کی اور ان کے بعد اس عہد کی یاد دہانی اور ایفا کے لیے متواتر انبیائے کرام مبعوث فرمائے۔ یہاں تک کہ عیسیٰ {علیہ السلام}ایسے معجزات کے ساتھ مبعوث ہوئے کہ جن کے سامنے حاذق اطبا، معروف دانشور اور بڑے بڑے اہل علم طفل مکتب دکھائی دیتے تھے۔ لیکن اے اہل کتاب! تم نے ہر اس بات کا انکار کیا جو تمہارے رواج اور مزاج کے خلاف تھی۔ تم نے نا صرف روشن معجزات اور ٹھوس دلائل کا متکّبرانہ جواب دیا بلکہ انبیاء کی کثیر تعداد کی تکذیب کرتے ہوئے انہیں ماننے سے انکار کردیا اور کچھ انبیاء کو شہید ہی کر ڈالا۔ اب تم گناہوں اور اپنے استکبار کو چھپانے کے لیے کہتے ہو کہ ہم قرآن اور اس نبی کی رسالت کو اس لیے تسلیم نہیں کرتے کہ ہمارے دل علم و دانش کے گہوارے ہیں اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمیں اس نبی کی باتوں کی سمجھ ہی نہیں آتی۔ ہمارے اور اس کے درمیان پردہ حائل ہوچکا ہے۔ یہی وہ بہانے ہیں جو ہر دور میں نام نہاد دانشور اور متعصب مذہبی لوگ کرتے آئے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دلائل سمجھنے اور حقائق کو جاننے کے باوجود یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ علم و معرفت رکھتے ہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے ان پر خدا کی پھٹکار پڑچکی ہے۔ تکبر کا معنٰی اور انجام : (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ {رض}عَنِ النَّبِیِّ {}قَالَ لَایَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِّنْ کِبْرٍ قَالَ رَجُلٌ إِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ أَنْ یَّکُوْنَ ثَوْبُہٗ حَسَنًا وَّنَعْلُہٗ حَسَنَۃً قَالَ إِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ یُّحِبُّ الْجَمَالَ الْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ) (رواہ مسلم : باب تحریم الکبر وبیانہ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود {رض}نبی کریم {ﷺ}سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ ایک آدمی نے کہا کہ آدمی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اور اس کے جوتے اچھے ہوں۔ آپ {ﷺ}نے فرمایا : اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ تکبر حق کو جھٹلانا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔“ (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ {رض}عَنِ النَّبِیِّ {}قَالَ یُحْشَرُ الْمُتَکَبِّرُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَمْثَال الذَّرِّ فِیْ صُوَرِ الرِّجَالِ یَغْشَاھُمُ الذُّلُّ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ فَیُسَاقُوْنَ إِلٰی سِجْنٍ فِیْ جَھَنَّمَ یُسَمّٰی بُوْلَسَ تَعْلُوْھُمْ نَارُ الْأَنْیَارِ یُسْقَوْنَ مِنْ عُصَارَۃِ أَھْلِ النَّارِ طِیْنَۃَ الْخَبَالِ) (رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب منہ ) ” حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے دادا {رض}سے وہ نبی کریم {ﷺ}سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : قیامت کے دن متکبر لوگ چیونٹیوں کی صورت میں لائے جائیں گے انہیں ہر طرف سے ذلت ڈھانپے ہوئے ہوگی اور انہیں بولس نامی جہنم کی جیل میں لے جایا جائے گا۔ ان پر آگ کے شعلے بلند ہورہے ہوں گے اور انہیں جہنمیوں کی زخموں کی پیپ پلائی جائے گی۔“ مسائل: 1۔ بنی اسرائیل نے کچھ انبیاء کو شہید کیا اور اکثر کو جھٹلا دیا۔ 2۔ منکرین حق بات ماننے کی بجائے یہ کہتے ہیں کہ ہمارے دل پردہ میں ہیں۔ تفسیر بالقرآن: لعنتی کون؟ 1۔ شیطان لعنتی ہے۔ (النساء :118) 2۔ کافر لعنتی ہیں۔ (الاحزاب :64) 3۔ اصحاب السبت لعنتی ہیں۔ ( النساء :47) 4۔ یہودی لعنتی ہیں۔ (المائدۃ:64) 5۔ جھوٹے لعنتی ہیں۔ (آل عمران :61) 6۔ ظالم پر لعنت ہوتی ہے۔ (ھود :18) 7۔ حق چھپانے والے لعنتی ہیں۔ (البقرۃ :159) 8۔ اللہ اور رسول کو تکلیف دینے والے لعنتی ہیں۔ (الاحزاب :57) البقرة
88 البقرة
89 فہم القرآن : ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ اہل کتاب ہمیشہ سے حق پہچاننے کے باوجود اس کے انکاری رہے ہیں اسی کا سبب ہے کہ ان پر اللہ کی پھٹکار برستی ہے۔ یہود اہل ثروت ہونے اور سماجی اثر و رسوخ رکھنے کے باوجود عرب میں سیاسی اقتدار سے محروم تھے۔ اس وجہ سے وہ عیسائیوں، مشرکوں اور دوسرے مذاہب والوں کے ساتھ بحث و تکرار کرتے ہوئے کہا کرتے کہ عنقریب نبی آخر الزماں {ﷺ}تشریف لانے والے ہیں ہم اس کی رہنمائی اور قیادت میں تم سب پر غلبہ پائیں گے۔ اس کے لیے وہ اللہ تعالیٰ کے حضور ہاتھ اٹھا کر نہایت آہ و زاری سے دعائیں کیا کرتے تھے اور لوگوں کے سامنے حلف دیتے کہ ہمارے پاس آخری نبی تشریف لائے تو ہم اس کی نصرت و حمایت کریں گے۔ [ البقرۃ:89] اسی اثناء میں محمد عربی {ﷺ}مدینہ طیبہ تشریف لائے اور آپ نے انہیں کتاب الٰہی کا پیغام دیتے ہوئے اپنے آپ پر ایمان لانے کی دعوت دی تو انہوں نے آپ کو اس طرح پہچان لیا جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے تھے۔ علامہ ابن کثیر ان آیات کی تفسیر میں حضرت ابن عباس {رض}کے حوالے سے لکھتے ہیں : ” رسول اللہ {ﷺ}کے مبعوث ہونے سے پہلے یہودی اوس اور خزرج پر فتح کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ {ﷺ}کو نبوت سے سرفراز فرمایا تو یہودیوں نے اپنی بات کا انکار کردیا۔ معاذ {رض}اور بشر بن براء {رض}نے کہا اے یہودیو! اللہ سے ڈرو اور مسلمان ہوجاؤکیونکہ جب ہم مشرک تھے تو تم ہمیں نبی آخر الزماں {ﷺ}کا حوالہ دے کر فتح کی دعائیں کرتے تھے۔ اور تم ہمیں مبعوث ہونے والے نبی اور اس کی صفات کے متعلق بتلاتے رہتے تھے۔ سلام بن مشکم کہنے لگا : ہمارے پاس تو کوئی ایسی چیز نہیں آئی کہ جسے ہم پہچانتے ہوں۔ وہ کون سی چیز ہے جس کے متعلق ہم تمہیں بتلاتے تھے؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ﴿ولما جاء ھم﴾نازل فرمادی۔“ مولانا صفی الرحمن مبارکپوری ” الرحیق المختوم“ میں لکھتے ہیں : ” رسول اللہ {ﷺ}شرف وعظمت اور فضل وکمال کی سب سے بلند چوٹی پر جلوہ فگن تھے۔ عفت وامانت، صدق وصفا اور جملہ امور خیر میں آپ {ﷺ}کا وہ امتیازی مقام تھا کہ آپ {ﷺ}کے دشمنوں کو بھی آپ کی یکتائی وانفرادیت پر کبھی شک نہ گزرا۔ آپ کی زبان سے جو بات نکلی دشمنوں کو یقین ہوگیا کہ وہ سچی ہے اور ہو کررہے گی۔ واقعات اس کی شہادت دیتے ہیں۔ ایک بار قریش کے ایسے تین آدمی اکٹھے ہوئے جن میں سے ہر ایک نے اپنے بقیہ دوساتھیوں سے چھپ چھپا کر تن تنہا قرآن مجید سنا۔ لیکن بعد میں ہر ایک کا راز دوسرے پر فاش ہوگیا۔ ان تینوں میں سے ایک ابو جہل بھی تھا۔ تینوں اکٹھے ہوئے تو ایک نے ابوجہل سے دریافت کیا کہ بتاؤ تم نے جو کچھ محمد {ﷺ}سے سنا ہے اس کے بارے میں تمہاری رائے کیا ہے؟ ابوجہل نے کہا : میں نے کیا سنا ہے؟ بات دراصل یہ ہے کہ ہم نے اور بنو عبدِمناف نے شرف وعظمت میں ایک دوسرے کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے غرباء ومساکین کو کھلایا تو ہم نے بھی کھانا کھلایا، انہوں نے دادو دہش میں سواریاں عطا کیں تو ہم نے بھی دیں، انہوں نے لوگوں کو عطیات سے نوازا تو ہم نے بھی ایسا کیا، یہاں تک کہ جب ہم اور وہ ایک دوسرے کے ہم پلہ ہوگئے اور ہماری اور ان کی حیثیت ریس کے دو مدِّ مقابل گھوڑوں کی ہوگئی تو اب بنو عبد مناف کہتے ہیں کہ ہم میں ایک نبی ہے جس کے پاس آسمان سے وحی آتی ہے۔ بھلا بتائیے ہم اسے کب پاسکتے ہیں؟ خدا کی قسم! ہم اس شخص پر کبھی ایمان نہ لائیں گے اور اس کی ہرگز تصدیق نہ کریں گے۔“ مسائل: 1۔ رسول اللہ {ﷺ}کے ساتھ حسد و بغض کی وجہ سے بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کا غضب، اور عذاب مسلّط ہوا۔ 2۔ حق کا انکار کرنے والے پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے۔ تفسیر بالقرآن : رسول اللہ {ﷺ}کی تشریف آوری کا انتظار: 1۔ بنی اسرائیل رسول اللہ {ﷺ}کی رسالت کے منتظر تھے۔ (فاطر :42) 2۔ یہود و نصاریٰ رسول اللہ {ﷺ}کو اپنے بیٹوں کی طرح پہچانتے ہیں۔ (البقرۃ :146) 3۔ رسول اللہ {ﷺ}کی آمد کی بنیاد پر لوگوں پر فتح یاب ہونے کی خواہش رکھتے تھے۔ (البقرۃ :89) البقرة
90 فہم القرآن : ربط کلام : یہود کے گھناؤنے کردار کے پیچھے دنیا کے مفاد کے ساتھ حسدو بغض بھی شامل ہے جس کی بنا پر نبی آخر الزماں {ﷺ}پر ایمان لانے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ ﴿بغیًا﴾ کا معنٰی ہے کسی کام یا بات پر خواہ مخواہ اڑ جانا۔ یہ لفظ حقیقت کے برعکس کام کرنے کے لیے زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ یہود نے رسول کریم {ﷺ}کی اطاعت و حمایت کرنے کی بجائے اس بنا پر تمرّد اور انکار کا راستہ اختیار کیا کہ نبی تو ہم میں سے ہونا چاہیے تھا۔ کیونکہ نبوت صرف بنی اسرائیل کا استحقاق ہے۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا ہے کہ نبوت کسی خاندان یا قوم اور علاقے کا استحقاق نہیں یہ تو سراسر اللہ تعالیٰ کا اپنا انتخاب اور فضل ہے۔ وہ اپنے پیغام اور کام کے لیے جس کو چاہے پسند کرتا ہے۔ اہل کتاب دنیا کی حشمت اور آپ {ﷺ}سے بغض کی بنا پر کفر کا راستہ اختیار کرکے ہمیشہ کے لیے خدا کی پھٹکار اور ذلت کے مستحق قرار پائے۔ ایسے منکروں کے لیے ذلّت ناک عذاب تیار ہوچکا ہے۔ تورات کے منکر، انبیاء کے قاتل اور مزید یہ کہ سرور گرامی {ﷺ}کے ساتھ عداوت اور کتاب مبین کے ساتھ حسد کر کے ﴿غَضَبٌ عَلٰی غَضَبٍ﴾ کے کٹہرے میں کھڑے ہوئے یہ لوگ دنیا کی ذلت اور آخرت کے ذلیل ترین عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ مسائل: 1۔ یہودی دنیا میں بھی ذلیل ہو کر رہیں گے۔ 2۔ ضد انسان کو کفر تک پہنچا دیتی ہے۔ 3۔ نبوت کسی کا استحقاق نہیں یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کا اپنا انتخاب ہوتا ہے۔ 4۔ حق کا انکار کرنیوالوں کے لیے رسوا کن عذاب ہوگا۔ 5۔ اللہ تعالیٰ نے آخری انتخاب نبی {ﷺ}کا فرمایا۔ البقرة
91 فہم القرآن : (آیت 91 سے 92) ربط کلام : اہل کتاب اپنے گھناؤنے کردار اور بغض کو چھپانے کے لیے یہ بہانہ بناتے ہیں کہ ہم اسی بات کو مانیں گے جو ہم پر نازل ہوئی اس کا جواب یہ دیا گیا کہ پھر تم نے پہلے انبیاء کو کیوں قتل کیا تھا؟ یہودیوں کو جب بھی دعوت دی گئی کہ اس کتاب پر ایمان لاؤ جو اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد {ﷺ}پر نازل فرمائی ہے تو انہوں نے مذہبی عصبیت اور خود ساختہ علمی مقام کی بنا پر اعلان کیا کہ ہم تورات کے سوا ہر چیز کا انکار کرتے رہیں گے۔ بے شک اس میں ہماری تائید ہی کیوں نہ پائی جاتی ہو۔ اس انکار پر ان سے پوچھا جا رہا ہے اگر تم تورات پر فی الحقیقت ایمان رکھتے ہو تو تمہیں ان سوالات کا جواب دینا چاہیے۔ کیونکہ یہ باتیں تو سراسر تمہارے عقیدے کے مطابق اور تورات میں پائی جاتی ہیں ان سے انحراف کا تمہارے پاس کیا جواز ہے؟ جس بات میں تمہاری تائید ہوتی ہو اس کے انکار کا کیا جواز ہے؟ تم نے انبیاء کرام کو کیوں قتل کیا جب کہ وہ تمام کے تمام بنی اسرائیل میں سے تھے؟ حضرت موسیٰ {ﷺ}کی چالیس دن کی غیر حاضری میں بچھڑے کی پرستش کیوں کی اور اب تک گائے پرستی کے کیوں قائل ہو جب کہ تورات میں واضح طور پر گائے پرستی سے منع کیا گیا ہے؟ در اصل تم حقیقی ایمان سے تہی دامن ہوچکے ہو اور تم نے باطل نظریات کو ایمان کا درجہ دے دیا ہے جس میں گائے پرستی کا گھٹیا عقیدہ بھی شامل ہے۔ حالانکہ شرک تمام گناہوں کا منبع اور سب سے بڑا ظلم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا : ﴿وَإِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لابْنِہٖ وَھُوَ یَعِظُہٗ یٰبُنَیَّ لَاتُشْرِکْ باللّٰہِ إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ﴾ (لقمان :13) ” اور جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کررہا تھا کہ پیارے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنانا کیونکہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔“ (عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ : أَوْصَانِي خَلِيلِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ " لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ شَيْئًا , وَإِنْ قُطِّعْتَ وَحُرِّقْتَ) (رواہ ابن ماجہ: باب الصبر علی البلاء] حسن[) ’’حضرت ابو درداء }رض{ بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے خلیل (ﷺ) نے وصیت کی کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرانااگرچہ تیرے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے جائیں اور تجھے آگ میں جلادیا جائے۔‘‘ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ {رض}أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ {}قَالَ أَشَدُّ النَّاسِ عَذَابًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ رَجُلٌ قَتَلَہٗ نَبِیٌّ أَوْ قَتَلَ نَبِیًّا وَإِمَامُ ضَلَالَۃٍ وَمُمَثِّلٌ مِّنَ الْمُمَثِّلِیْنَ) (مسندا حمد : کتاب مسند المکثرین من الصحابۃ، باب مسند عبداللہ بن مسعود) ” حضرت عبداللہ بن مسعود {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا : قیامت کے دن سخت ترین عذاب اس شخص کو ہوگا جس کو نبی نے قتل کیا یا اس نے نبی کو قتل کیا اور گمراہ امام اور تصویریں بنانے والے کو عذاب ہوگا۔“ مسائل: 1۔ یہودی تورات، قرآن اور کسی آسمانی کتاب کو نہیں مانتے وہ صرف اپنے خود ساختہ نظریات کو مانتے ہیں۔ 2۔ قرآن مجید پہلی کتب سماوی کی تصدیق کرتا ہے۔ 3۔ گائے پرستی شرک اور ظلم ہے۔ تفسیر بالقرآن : قتل انبیاء بد ترین جرم : 1۔ یہود انبیاء کے قاتل ہیں۔ (آل عمران :112) 2۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کی دھمکی دی۔ ( المؤمن :36) 3۔ یہودیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو پھانسی چڑھانے کی کوشش کی۔ (النساء :157) 4۔ کفار نے رسول اللہ {ﷺ}کو قتل کرنے کی سازش کی۔ (الانفال :30) بنی اسرائیل کے بچھڑے کا انجام : 1۔ بچھڑا کس نے بنایا ؟ (طٰہٰ:95، 96) 2۔ بچھڑا کس چیز سے بنایا گیا؟ (طٰہٰ:96) 3۔ بچھڑا آواز نکالتا تھا۔ (طٰہٰ:88) 4۔ بچھڑے کا انجام کیا ہوا۔ (طٰہٰ97) 5۔ بچھڑا پوجنے والوں پر ” اللہ“ کی لعنت برستی ہے۔ (طٰہٰ:87) البقرة
92 البقرة
93 فہم القرآن: ربط کلام : یہود کہتے ہیں کہ ہم تو وہی مانیں گے جو ہم پر نازل ہوا یہ اس بات میں بھی سچے نہیں کیونکہ ان پر طور پہاڑ بلند کرکے عہد لیا گیا تھا اس کے باوجود انہوں نے انکار کردیا تھا۔ ان کے شرک اور دنیا کی ہوس کا نتیجہ ہے۔ اس آیت کی تفسیر آیت 63کے ساتھ ملا کر پڑھیے جس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے جبری ہدایت کی بجائے اختیاری ہدایت کا طریقہ پسند فرمایا ہے۔ جبری ہدایت کے نظریے کی تردید کے لیے بنی اسرائیل کا عملی تجربہ پیش فرمایا ہے جس میں یہ ثابت کیا ہے کہ جبری ہدایت دیر پا نہیں ہوا کرتی جب تک انسان اخلاص اور دل کی صفائی کے ساتھ حقیقت قبول نہ کرے۔ یہودیوں کے سر پر کوہ طور اٹھانے اور ان کے سننے اور سمجھنے کے باوجود انہوں نے ” اللہ“ کی نافرمانی کا اعلان کیا۔ جس کا بنیادی سبب شرک بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے کہ میں نے ہر انسان کے سینے میں دو کی بجائے ایک دل رکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک دل میں توحید اور شرک، اللہ کی محبت اور غیر کی محبت بیک وقت نہیں رہ سکتی۔ اللہ کی محبت غالب ہوگی تو انسان توحید کا اقرار کرتے ہوئے اللہ کی غلامی میں لذت محسوس کرے گا اور تابعداری میں آگے ہی بڑھتا جائے گا اگر غیر اللہ کی محبت غالب ہوگی تو انسان اللہ تعالیٰ سے دور اور اس کی نافرمانی کا راستہ اختیار کرے گا کیونکہ شرک توحید کے متوازی نظریے کا نام ہے اسی بنا پر یہودیوں نے بار بار اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی کیونکہ ان کے دلوں میں گائے پرستی کا نظریہ گھر کرچکا تھا۔ انسان کی ہر حرکت وعمل کے پیچھے نظریہ کی قوت ہی کارفرما ہوتی ہے اور انسان ویسا ہی عمل کرتا ہے جیسے اس کی فکری قوت اس کی راہنمائی کرتی ہے۔ اس لیے فرمایا ہے کہ جس طرح تمہارے عقائد ہیں جنہیں تم نے ایمان کا درجہ دے رکھا ہے ویسے ہی تمہارے اعمال برے ہوچکے ہیں۔ جس وجہ سے تم حقیقی ایمان سے تہی دامن ہوچکے ہو۔ کیونکہ ایمان ایک ایسی چیز ہے اگر وہ مضبوط ہو تو آدمی کے کردار میں نکھار پیدا ہوتا ہے آدمی کے اعمال اچھے ہوں تو ایمان میں تازگی اور احساس بڑھتا ہے۔ آدمی کا کردار اچھانہ ہو تو اس سے اس کا ایمان بھی متاثر ہوتا ہے ۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لینے کے لیے ان پر طور پہاڑ کو بلند کیا۔ 2۔ کفر کی وجہ سے بنی اسرائیل کے دلوں میں بچھڑے کی محبت جاگزیں ہوچکی۔ 3۔ اسلام قبول کرنے کے بعد شرک کرنا برے عقیدہ کی نشانی ہے۔ تفسیر بالقرآن : یہودیوں کے جرائم : 1۔ یہودی اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں۔ (آل عمران :117) 2۔ اللہ کی کتاب میں تحریف کرنا ظلم ہے۔ (البقرۃ:75) 3۔ دیہودیوں کا مریم صدیقہ پر الزام لگانا ظلم ہے۔ (النساء :156) 4۔ یہودیوں کا عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کا دعویٰ کرنا ظلم ہے۔ (النساء :157) 5۔ آیات اللہ کا انکار کرناظلم ہے۔ (النساء :153) 6۔ یہودیوں کا انبیاء کو بغیر حق کے قتل کرنا ظلم ہے۔ (النساء :155) 7۔ یہودیوں کا ہفتہ کے دن میں زیادتی کرنا ظلم ہے۔ (النساء :154) 8۔ اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کرنا ظلم ہے۔ (النساء :160) البقرة
94 فہم القرآن : (آیت 94 سے 96) ربط کلام : یہود یوں کے من گھڑت عقیدہ اور خود ساختہ دعویٰ کا جواب اور دنیا کے بارے میں ان کی حرص۔ یہودیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ ہم اللہ کے محبوب اور انبیاء کی اولاد ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جنت کو ہمارے لیے ہی بنایا اور سجایا ہے بالفرض اگر ہمیں جہنم میں جانا بھی پڑا تو یہ چند دنوں کے لیے جانا ہوگا بالآخرہم جنت کے لیے اور جنت ہمارے ہی لیے ہے۔ ہم ہی اس کے وارث ہوں گے۔ وہ یہ بات اتنی شدّو مد کے ساتھ کہتے تھے اور کہتے ہیں کہ جس کی وجہ سے عوام الناس یہ سمجھ بیٹھے کہ جنت میں جانے کے لیے یہودی ہونا از حد ضروری ہے۔ اس کے بغیر کسی کو جنت کا خیال بھی دل میں نہیں لانا چاہیے۔ یہ یہودیوں کے باطل عقیدہ کے اثرات ہیں کہ جس بنا پر مسلمانوں میں ایک ایسا طبقہ پیدا ہوچکا ہے جس کا خیال ہے کہ آدمی کے عمل جیسے بھی ہوں جنت میں جانے کے لیے بزرگوں سے نسبت اور محبت ہی جنت میں داخلے کی ضمانت ہے۔ لوگوں کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے یہود کو مخاطب کرتے ہوئے چیلنج دیا گیا ہے کہ بزعم خود اگر تم جنت کے وارث اور اللہ کے پیارے ہو تو پھر تمہیں موت سے ڈرنے کی بجائے اس کا آرزو مند ہونا چاہیے تاکہ تم اپنے رب سے ملاقات کا شرف اور جنت کی ابدی نعمتوں سے لطف اندوز ہو سکو۔ مگر تمہاری حالت یہ ہے کہ تم موت کے تصور سے کانپتے اور دنیا کی لذّت کی خاطر ہر ذلت برداشت کرنے کے لیے آمادہ رہتے ہو۔ تم اپنے نظریے اور جنت کی خاطر کوئی قربانی دینے کے لیے تیار نہیں ہو حالانکہ جس آدمی کے سامنے ایک مقصد اور منزل ہوتی ہے وہ تو اس کے لیے سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ تم تو موت کے بارے میں مشرکوں سے بھی زیادہ ڈرتے ہوحالانکہ زندگی ہزار سال ہو یا اس سے زیادہ۔ وہ مجرم کو خدا کے عذاب سے نہیں بچا سکتی اور نہ ہی زندگی کے طویل ہونے سے انسان کا کوئی گوشہ حیات خدائے علیم و بصیر سے اوجھل ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پل پل کی خبر رکھنے والا اور تمہاری جلوت و خلوت سے خوب واقف ہے۔ (عَنْ ثَوْبَانَ {رض}قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ {}یُوْشِکُ الْأُمَمُ أَنْ تَدَاعٰی عَلَیْکُمْ کَمَا تَدَاعَی الْأَکَلَۃُ إِلٰی قَصْعَتِھَا فَقَالَ قَائِلٌ وَمِنْ قِلَّۃٍ نَحْنُ یَوْمَئِذٍ قَالَ بَلْ أَنْتُمْ یَوْمَئِذٍ کَثِیْرٌ وَلٰکِنَّکُمْ غُثَاءٌ کَغُثَاء السَّیْلِ وَلَیَنْزَعَنَّ اللّٰہُ مِنْ صُدُوْرِ عَدُوِّکُمُ الْمَھَابَۃَ مِنْکُمْ وَلَیَقْذِفَنَّ اللّٰہُ فِیْ قُلُوْبِکُمُ الْوَھْنَ فَقَالَ قَائِلٌ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَا الْوَھْنُ قَالَ حُبُّ الدُّنْیَا وَکَرَاھِیَۃُ الْمَوْتِ) (رواہ ابوداوٗد : کتاب الملاح، باب فی تداعی الأمم علی الإسلام) ” حضرت ثوبان {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا : قریب ہے کہ قومیں تمہارے خلاف ایک دوسرے کو ایسے دعوت دیں جیسے میزبان کھانے کی طرف دعوت دیتا ہے۔ پوچھنے والے نے عرض کی : کیا اس وقت ہماری تعداد کم ہوگی آپ نے فرمایا : بلکہ تم اس وقت بہت زیادہ ہوگے لیکن تمہاری حیثیت سیلاب کے تنکوں جیسی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ تمہارا رعب تمہارے دشمن کے دلوں سے نکال دے گا۔ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں وہن ڈال دے گا۔ پوچھنے والے نے پوچھا : اللہ کے رسول وہن کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : دنیا کی محبت اور موت سے نفرت۔“ (عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ {رض}عَنِ النَّبِیِّ {}قَالَ مَنْ أَحَبَّ لِقَاء اللّٰہِ أَحَبَّ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ وَمَنْ کَرِہَ لِقَاء اللّٰہِ کَرِہَ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ قَالَتْ عَائِشَۃُ أَوْ بَعْضُ أَزْوَاجِہٖ إِنَّا لَنَکْرَہُ الْمَوْتَ قَالَ لَیْسَ ذَاکِ وَلٰکِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا حَضَرَہُ الْمَوْتُ بُشِّرَ بِرِضْوَان اللّٰہِ وَکَرَامَتِہِ فَلَیْسَ شَیْءٌ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِمَّا أَمَامَہٗ فَأَحَبَّ لِقَاء اللّٰہِ وَأَحَبَّ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ وَإِنَّ الْکَافِرَ إِذَا حُضِرَ بُشِّرَ بِعَذَاب اللّٰہِ وَعُقُوبَتِہٖ فَلَیْسَ شَیْءٌ أَکْرَہَ إِلَیْہِ مِمَّا أَمَامَہٗ کَرِہَ لِقَاء اللّٰہِ وَکَرِہَ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ) (رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب، من أحب لقاء اللّٰہ أحَب اللّٰہ لقاء ہ) ” حضرت عبادہ بن صامت {رض}نبی کریم {ﷺ}سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جو اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اللہ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور جو اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔ حضرت عائشہ {رض}یا آپ {ﷺ}کی بیویوں میں سے کسی نے کہا کہ ہم تو موت کو ناپسند کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا بات یہ نہیں حقیقت یہ ہے کہ جب مومن کی موت کا وقت ہوتا ہے تو اس کو اللہ کی رضامندی اور انعام و اکرام کی بشارت دی جاتی ہے۔ اس بشارت کی وجہ سے موت اسے تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوتی ہے اس وجہ سے وہ اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور اللہ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے۔ جب کافر کی موت کا وقت آتا ہے تو اسے اللہ کے عذاب اور گرفت کی وعید سنائی جاتی ہے۔ یہ وعید اسے اپنے سامنے چیزوں سے سب سے زیادہ ناپسند ہوتی ہے اسی وجہ سے وہ اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔ جہاں تک بزرگوں سے نسبت اور محبت کا تعلق ہے اگر ان کے صالح اعمال وتعلیمات کو نہ اپنایا جائے تو یہ نسبتیں اور محبتیں کوئی کام نہ آئیں گی۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}قَالَ قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ {}حِیْنَ أَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ ﴿وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَقْرَبِیْنَ﴾ قَالَ یَامَعْشَرَ قُرَیْشٍ أَوْ کَلِمَۃً نَحْوَھَا اشْتَرُوْٓا أَنْفُسَکُمْ لَآأُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا یَابَنِیْ عَبْدِ مَنَافٍ لَآأُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیئًا یَاعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَآأُغْنِیْ عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا وَیَاصَفِیَّۃُ عَمَّۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ لَآأُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا وَیَافَاطِمَۃُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ سَلِیْنِیْ مَاشِئْتِ مِنْ مَالِیْ لَآأُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا) (رواہ البخاری : باب ھل یدخل النساء والولد فی الأقارب) ” حضرت ابوہریرہ {رض}فرماتے ہیں جب یہ آیت (اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے) نازل ہوئی تو رسول اللہ {ﷺ}کھڑے ہوئے اور فرمایا : اے قریش کے لوگو! اپنے لیے کچھ کر لومیں تمہیں اللہ کے عذاب سے کوئی فائدہ نہیں دے سکوں گا، اے بنی عبد منا ف میں تمہیں اللہ کے عذاب سے بچا نہیں سکوں گا‘ اے عباس بن عبدالمطلب میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکوں گا، اور اے صفیہ رسول کی پھوپھی! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکوں گا اور اے فاطمہ بنت محمد! میرے مال سے جو چاہتی ہے مانگ لے میں تجھے اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکوں گا۔“ مسائل: 1۔ شرک اور دنیا کی بے جا محبت آدمی کو بزدل بنادیتی ہے۔ 2۔ مشرک اور یہودی دنیا کے بارے میں سب سے زیادہ حریص ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: موت یقینی ہے : 1۔ ہر شے فنا ہوجائے گی۔ (الرحمن : 26، القصص :88) 2۔ قلعہ بند ہونے کے باوجود موت نہیں چھوڑتی۔ (النساء :78) 3۔ موت کی جگہ اور وقت مقرر ہے۔ (الاعراف :24) 4۔ پہلے انبیاء فوت ہوئے۔ (آل عمران :144) 5۔ رسول اللہ {ﷺ}بھی موت سے ہمکنار ہوں گے۔ (الزمر :30) البقرة
95 البقرة
96 البقرة
97 فہم القرآن : (آیت 97 سے 98) ربط کلام : اہل کتاب کے دیگر حیلوں کے ساتھ یہ حیلہ اور بہانہ بھی تھا کہ جبریل ہمارے ذاتی دشمن ہیں جس کی وجہ سے ہم رسول اللہ {ﷺ}کو تسلیم کرنے کے لیے اپنے آپ کو آمادہ نہیں پاتے۔ یہاں اس بات کا جواب دیا گیا ہے۔ بیّن حقائق اور ٹھوس دلائل کا مسلسل انکار کرنے کی وجہ سے یہود اس قدر بد حواس ہوچکے تھے کہ وہ نبی {ﷺ}سے پوچھتے ہیں اچھا یہ بتائیں کہ آپ پر کون سا فرشتہ وحی لاتا ہے؟ آپ {ﷺ}نے فرمایا : جبرائیل (علیہ السلام) جو ملائکہ کا سردار، امانت دار اور اللہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ پسندیدہ اور مقرب فرشتہ ہے۔ یہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات لایا اور اسی نے ہی اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر انجیل اتاری۔ یہودی جبریل امین (علیہ السلام) کا نام سنتے ہی کہنے لگے اب تو آپ پر ایمان لانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ جبرائیل تو ہمارا ازلی دشمن ہے۔ اس نے ہمارے بزرگوں کے سروں پر کوہ طور رکھا تھا اور یہی ہمیں مشکلات اور عذاب میں مبتلا کرتا رہا ہے۔ ہاں اگر میکائیل ہوتے تو کچھ غور کیا جاسکتا تھا۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا ہے کہ جبرئیل امین ہو یا میکائیل پیغام رسانی کا سلسلہ ہو یا قہر الٰہی کا معاملہ۔ جو کچھ بھی جبرائیل امین نے کیا ہے یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوا ہے۔ جبرائیل امین سے دشمنی دراصل اللہ تعالیٰ اور اس کے تمام ملائکہ سے دشمنی رکھنے کے مترادف ہے کیونکہ حضرت جبرائیل اور ملائکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کچھ نہیں کرتے۔ اگر تمہارے آباء واجداد پر عذاب نازل ہوا تو یہ ان کے اعمال کا نتیجہ تھا اور تم اسی روش پر چلتے رہے تو تمہارا انجام ان سے مختلف نہیں ہوگا۔ یہودی اپنے خبث باطن کی وجہ سے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی اس لیے مخالفت کرتے ہیں کہ جب جبرائیل امین کو مشکوک ثابت کردیں گے تو محمد {ﷺ}کی نبوت کا معاملہ از خود ختم ہوجائے گا۔ ہمارے ہاں بھی یہودیوں کی طرح کچھ نام نہاد مسلمان اہل بیت کا نام لے کر مختلف بہانے بنا کر خلفائے راشدین اور اکابر صحابہ کرام کی تحقیر کرتے ہیں تاکہ اسلام کی پوری تاریخ کو مسخ کردیا جائے۔ کچھ لوگ حدیث کے ذخیرہ کو مشکوک بنانے کی سعی لاحا صل میں لگے ہوئے ہیں۔ بعض حضرات یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ قرآن کے ہوتے ہوئے ہمیں حدیث کی ضرورت نہیں۔ قرآن ہی کافی ہے۔ اسی سازش کا تسلسل ہے کہ اسلام دشمن لوگ چند علماء کو نشانہ بنا کر علمائے حق کو بدنام کرتے ہیں تاکہ دین کے سپوتوں کو لوگوں کی نظروں میں حقیر اور مشکوک کردیا جائے جس بنا پر لوگ از خود اسلام سے دور ہوجائیں گے۔ اس آیت کے آخر میں فرمایا جارہا ہے کہ جبریل (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ قرآن آپ {ﷺ}کے قلب اطہر پر اتارا ہے۔ جو پہلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اور تسلیم و رضا اختیار کرنے والوں کو ہدایت اور خوشیوں کا پیغام دیتا ہے۔ کیونکہ جبریل (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کا پیغام رساں اور نمائندہ ہے کسی کے نمائندہ کے ساتھ دشمنی اصل اتھارٹی کے ساتھ دشمنی کرنے کے مترادف ہوتی ہے جس کا دفاع یا بدلہ لینا اتھارٹی کی ذمہ داری بنتی ہے اسی بنیاد پر نبی محترم {ﷺ}نے صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت عثمان {رض}کے لیے بیعت لی تھی اور اسی وجہ سے آپ نے اردن میں موتہ کے مقام پر تین ہزار کا لشکر جرار حضرت زید بن حارثہ {رض}کی زیر کمان بھیجا۔ کیونکہ شرجیل بن عمرو غسانی نے آپ کے نمائندے حارث بن عمیر ازدی {رض}کو شہید کردیا تھا جو اس زمانے میں اعلان جنگ سے بڑھ کر اقدام تصور کیا جاتا تھا لہٰذا اس کا بدلہ لینا آپ {ﷺ}نے اپنی ذمہ داری سمجھی۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید حضرت جبریل کے ذریعے جناب محمد {ﷺ}کے قلب اطہر پر نازل کیا۔ 2۔ قرآن مجید مومنوں کو دنیا و آخرت میں خوشخبری کا پیغام دیتا ہے۔ 3۔ انبیاء، ملائکہ، میکائیل اور حضرت جبریل امین سے دشمنی رکھنا اللہ تعالیٰ سے دشمنی رکھنے کے مترادف ہے۔ 4- جبریل امین ملائکہ کے سردار ہیں۔ تفسیر بالقرآن : جبریل امین (علیہ السلام) کا مرتبہ ومقام : 1۔ جبریل (علیہ السلام) ملائکہ کے سردار ہیں۔ (التکویر :21) 2۔ جبریل (علیہ السلام) مقرب ترین فرشتہ ہے۔ (النجم :8) 3۔ جبریل (علیہ السلام) طاقتور فرشتہ ہے۔ (النجم :5) 4۔ جبریل (علیہ السلام) دیانت دار ہیں۔ (الشعراء :193) 5۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے آپ {ﷺ}کے قلب اطہر پر قرآن اتارا ہے۔ (البقرۃ :97) 6۔ حضرت جبریل امین (علیہ السلام) ملائکہ کے سردار ہیں۔ (نبا :38) 7۔ شب قدر کی رات فرشتے اور جبریل اپنے پروردگار کے حکم سے اترتے ہیں۔ (القدر :4) البقرة
98 البقرة
99 فہم القرآن : (آیت 99 سے 101) ربط کلام : گزشتہ مضمون کا تسلسل جس میں یہودیوں کا کردار پیش کیا جا رہا ہے۔ اے پیغمبر {ﷺ}! ہم نے آپ کی طرف واضح ہدایت اور احکامات نازل فرمائے۔ اس کے باوجود یہ لوگ ہدایت کا راستہ اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں ہو رہے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ ” اللہ“ کی ہدایات میں کوئی الجھاؤ اور پیچیدگی پائی جاتی ہے ایسا ہرگز نہیں ہماری ہدایات تو بدر منیر کی طرح روشن اور اس کے دلائل ناقابل تردید ہیں۔ ایسی ہدایات اور بیّن دلائل کا انکار تو وہی لوگ کرتے ہیں جنہوں نے دانستہ طور پر نافرمانی کا وطیرہ اپنا لیا ہو۔ ان کی تاریخ یہ ہے کہ جب بھی ان سے عہد لیا گیا تو ان کی اکثریت نے اس عہد کو توڑدیا۔ جب بھی اس وعدے کی یاد دہانی اور تجدید عہد کے لیے اللہ کے برگزیدہ رسول ان کے پاس آئے تو ان کے ایک طبقہ نے حقائق جاننے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے احکام سے اس طرح روگردانی اور ایسی لاپرواہی کے ساتھ اسے پس پشت ڈالا جیسا کہ ان کے پاس کوئی ہدایت پہنچی ہی نہیں۔ انسان کی اخلاقی پستی کی اس وقت انتہا ہوجاتی ہے جب اسے اپنے منہ سے نکلی ہوئی بات کا پاس اور کئے ہوئے وعدہ کا احترام نہ رہے۔ (عَنْ أَنَسٍ {رض}قَالَ قَلَّمَا خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ {}إِلَّاقَالَ لَاإِیْمَانَ لِمَنْ لَّاأَمَانَۃَ لَہٗ وَلَا دِیْنَ لِمَنْ لَّا عَھْدَ لَہٗ) (مسند احمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب مسند أنس بن مالک) ” حضرت انس بن مالک {رض}بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی {ﷺ}نے ہمیں جب بھی خطبہ ارشاد فرمایا آپ نے یہ کلمات ضرور ارشاد فرمائے جو امانت دار نہیں وہ ایماندار نہیں اور جو عہد کا پاسدار نہیں وہ دیندار نہیں۔“ عہد شکن کی سزا : (عَنِ ابْنِ عُمَرَ {رض}عَنِ النَّبِیِّ {}قَالَ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یُعْرَفُ بِہٖ) (رواہ البخاری : باب إذا غصب جاریۃ فزعم أنھاماتت فقضی بقیمۃ) ” حضرت عبداللہ بن عمر {رض}نبی کریم {ﷺ}سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ہر غدار کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہوگا جس سے وہ پہچانا جائے گا۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات کا انکار کرنا پرلے درجے کی نافرمانی ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کے احکام بڑے واضح اور بیّن ہیں۔ 3۔ یہودی پرلے درجے کے عہد شکن اور کتاب اللہ سے پیٹھ پھیرنے والے ہیں۔ 4۔ یہود و نصاریٰ نے تورات و انجیل کو یکسر فراموش کردیا ہے۔ 5۔ لوگوں کی اکثریت ہمیشہ ایمان سے تہی دامن ہوا کرتی ہے۔ 6۔ یہود ونصار یٰ اپنے تصدیق کرنے والے کو بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ تفسیر بالقرآن : عہد شکن کون اور اس کی سزا ؟ 1۔ کافر عہد کی پروا نہیں کرتا۔ (الانفال :56) 2۔ بنی اسرائیل عہد شکن تھے۔ (النساء :155) 3۔ فاسق عہد شکن ہوتا ہے۔ (البقرۃ:27) 4۔ عہد شکنی کے باعث آدمی ملعون اور اس کا دل سخت ہوجاتا ہے۔ (المائدۃ:13) 5۔ عہد شکن کو آخرت میں عذاب ہوگا۔ (الرعد :25) 6- عہد شکن اور دغا باز لوگوں سے لڑنے کی اجازت ہے۔ (الانفال: 56، 57) البقرة
100 البقرة
101 البقرة
102 فہم القرآن : (آیت 102 سے 103) ربط کلام : اہل کتاب اپنے باطل نظریات کو ہی انبیاء کی طرف منسوب نہیں کرتے تھے بلکہ اپنی بد اعمالیاں بھی انبیاء کے ذمہ لگاتے ہیں جیسے کہ انہوں نے جادو کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ذمہ لگا رکھا ہے۔ آیت کے پہلے حصے کے بارے میں بنی اسرائیل کی روایات کی بنا پر بعض مفسرین نے بڑی بے ہودہ باتیں درج کی ہیں جن کا عقل و نقل کے ساتھ دور کا بھی واسطہ دکھائی نہیں دیتا البتہ بنیادی اختلاف اہل علم کا یہ ہے کہ جو لوگ دوسرے ” ما“ کو نافیہ بناتے ہیں ان کے نزدیک معنٰی یہ بنتا ہے کہ ہاروت اور ماروت فرشتے ہونے کی بجائے شیطان تھے۔ جن کے ہاں لفظ ” ما“ موصولہ ہے وہ سمجھتے ہیں کہ جادو فرشتوں پر نازل کیا گیا تھا۔ ہم دونوں تفاسیر پیش کررہے ہیں تاکہ قارئین کو دونوں کا نقطۂ نگاہ سمجھنے میں آ سانی ہو۔ ہمارے نزدیک قرآن مجید کا یہ مقام بھی مشتبہات میں سے ہے۔ تفہیم القرآن : اس آیت کی تاویل میں مختلف اقوال ہیں مگر جو کچھ میں نے سمجھا ہے وہ یہ ہے کہ جس زمانے میں بنی اسرائیل کی پوری قوم بابل میں قیدی اور غلام بنی ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے دو فرشتوں کو انسانی شکل میں ان کی آزمائش کے لیے بھیجا ہوگا۔ جس طرح قوم لوط کے پاس فرشتے خوبصورت لڑکوں کی شکل میں گئے تھے‘ اسی طرح ان اسرائیلیوں کے پاس وہ پیروں اور فقیروں کی شکل میں گئے ہوں گے۔ وہاں ایک طرف انہوں نے بازار ساحری میں اپنی دکان لگائی ہوگی اور دوسری طرف وہ اتمام حجت کے لیے ہر ایک کو خبردار بھی کرتے ہوں گے کہ دیکھو‘ ہم تمہارے لیے آزمائش کی حیثیت رکھتے ہیں‘ تم اپنی عاقبت خراب نہ کرو۔ مگر اس کے باوجود لوگ ان کے پیش کردہ عملیات اور نقوش و تعویذات پر ٹوٹ پڑتے ہوں گے۔ فرشتوں کے انسانی شکل میں آ کر کام کرنے پر کسی کو حیرت نہ ہو۔ وہ سلطنتِ الٰہی کے کار پرداز ہیں۔ اپنے فرائضِ منصبی کے سلسلے میں جس وقت جو صورت اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے وہ اسے اختیار کرسکتے ہیں۔ ہمیں کیا خبر کہ اس وقت بھی ہمارے گردو پیش کتنے فرشتے انسانی شکل میں آ کر کام کر جاتے ہوں گے۔ رہا فرشتوں کا ایک ایسی چیز سکھانا جو بجائے خود بری تھی‘ تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے پولیس کے بے وردی سپاہی کسی رشوت خوار حاکم کو نشان زدہ سِکّے اور نوٹ رشوت کے طور پر دیتے ہیں تاکہ اسے عین حالت ارتکاب جرم میں پکڑیں اور اس کے لیے بے گناہی کے عذر کی گنجائش باقی نہ رہنے دیں۔ تفسیر ثنائی : جو ترجمہ میں نے اختیار کیا ہے وہی قرطبی نے پسند کیا ہے۔ چنانچہ تفسیر ابن کثیر اور فتح البیان وغیرہ میں مذکور ہے مولانا نواب محمد صدیق حسن خان صاحب مرحوم نے بھی نقل کیا ہے بلکہ ترجیح دی ہے کہ ہاروت وماروت شیاطین سے بدل ہے جس کو دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہیے کہ شیاطین سے دو شخص ہاروت وماروت مراد ہیں۔ اگر قرآن مجید کی آیات پر غور کریں تو یہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ پہلی آیات میں خدا نے شیاطین کا فعل تعلیم سحر فرمایا ہے ﴿یُعَلِّمُوْنَ النَّاس السِّحْرَ﴾ دوسری میں اسی تعلیم سحر کی کیفیت بتلائی ہے یعنی ﴿وَمَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰی یَقُوْلَآ﴾ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دونوں تعلیمات کے معلم ایک ہی ہے یعنی شیاطین، کیونکہ یہ نہایت قبیح اور فصاحت کے خلاف ہے کہ مجمل فعل کے ذکر کے موقع پر تو ایک کو فاعل بتلایا جائے اور تفصیل کے موقع پر کسی اور کو بتلایا جائے۔ رہا یہ سوال کہ یہ مبدل منہ جمع ہے یعنی شیاطین اور بدل تثنیہ ہے یعنی ہاروت ماروت سو اس کا جواب یہ ہے کہ مبدل میں جمعیت با عتبار اتباع کے ہیں اور بدل تثنیہ با عتبار ذات کے ہے۔ ضیاء القرآن : اس آیت میں دو احتمال ہیں پہلا یہ کہ اس میں ” ما“ نا فیہ ہے اور یہ جملہ معترضہ ہے۔ اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہود کا یہ کہنا کہ جادو بھی آسمان سے فرشتوں پر نازل ہوا اور فرشتوں نے ہی ہمیں یہ سکھایا۔ اس لیے یہ بھی صحائف آسمانی کی طرح آسمانی چیز ہے اور مقدس ہے۔ یہود کا یہ کہنا سراسر باطل ہے ﴿وَمَا اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْنِ﴾ فرشتوں پر ہرگز کوئی جادو نازل نہیں کیا گیا۔ ہاروت اور ماروت بدل بعض ہوگا شیاطین سے یعنی شیاطین جن کے دو سر کردوں کے نام ہاروت اور ماروت ہیں وہ جادو سکھایا کرتے تھے۔ علامہ قرطبی {رض}نے لکھا ہے ( ہٰذَا أَوْلٰی مَاحَمِلَتْ عَلَیْہِ الْاٰیَۃِ مِنَ التَّاْوِیْلِ وَ اَصَحَّ مَا قِیْلَ فِیْہَا وَلاَ یَلْتَفِتُ اِلٰی سِوَاہٍ) یعنی آیت کی یہی تاویل کرنا چاہیے۔ یہی سب سے زیادہ صحیح قول ہے اور اس کے علاوہ کسی قول کی طرف التفات نہ کرنا چاہیے۔ واقعی اس تاویل سے کئی شبہات کا ازالہ ہوجاتا ہے۔ لیکن جمہور علماء کا قول یہ ہے کہ ﴿مَا اُنْزِلَ﴾ میں ما موصولہ ہے اور اس کا عطف ﴿اتِبَّعُوْا﴾ کے تحت ہے یعنی یہودی فلسطین میں مروج جادو پر بھی عمل پیرا تھے اور جب بخت نصربیت المقدس کو تاخت وتاراج کرنے کے بعد بنی اسرائیل کو جنگی قیدی بنا کر بابل لے گیا تو بجائے اس کے کہ اس کفر و الحاد کی بجائے دنیا میں وہ توحید کی تبلیغ کرتے الٹا وہاں کے لوگوں سے انہوں نے جادو سیکھا اور اس پر بھی عمل پیرا ہوئے۔ اب یہاں یہ خدشہ ہوتا ہے کہ ہاروت و ماروت جو معصوم فرشتے تھے انہیں کیونکر جادو کی تعلیم دینے کے لیے بابل میں اتارا گیا۔ تو اس کی حکمت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس وقت ساری دنیا میں خصوصاً بابل کی مملکت میں جادو کا بہت رواج تھا۔ جادو کے زور سے لوگ طرح طرح کے کرشمے دکھاتے جس سے سادہ لوح لوگ دنگ رہ جاتے تھے۔ ان کے نزدیک جادو اور معجزہ میں کوئی فرق نہیں رہ گیا تھا۔ بلکہ وہ جادو کو علم کی ایک مفید ترین شاخ تصور کرنے لگے تھے اور جادو گروں کو مقدس ماننے لگے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے دو فرشتے نازل کیے جو لوگوں کو جادو کی اصلیت سے آگاہ کریں تاکہ وہ آسانی سے جادو کی فریب کاری اور معجزہ کی حقیقت میں تمیز کرسکیں اور اگر انہوں نے جادو سیکھ کر اس پر عمل کرنا شروع کردیا تو یہ ان کی اپنی غلطی تھی۔ فرشتے تو انہیں صاف طور پر بتا دیتے کہ ہمیں تو فقط تمہاری آزمائش کے لیے بھیجا گیا ہے۔ اگر تم نے جادو پر عمل شروع کردیا تو خوب سن لو کہ ایمان رخصت ہوجائے گا اور کافر ہوجاؤ گے۔ فہم القرآن : قرآن مجید یہودیوں کی تاریخ کا تذکرہ کرتے ہوئے بتلاتا ہے کہ یہودی اس قدر دولت انصاف سے تہی دامن ہوگئے کہ اپنی حمایت میں آنے والے پیغمبروں کی تائید بھی ان کی طبیعتوں پر گراں اور ناگوار ثابت ہوئی اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی کتاب کو اس طرح پس پشت ڈالا اور اس حد تک لا پرواہی کا مظاہرہ کیا جیسا کہ کتاب ہدایت کے ساتھ ان کی کبھی نسبت ہی نہیں تھی۔ آسمانی ہدایت سے محروم ہونے کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ وہ جادو اور کفریہ وظائف کرنے لگے اور پھر اس کو عظیم پیغمبر اور منصف ترین حکمران جناب سلیمان (علیہ السلام) کے دامن پاک پر یہ کہہ کر داغ لگانے کی کوشش کی کہ وہ بھی تو جادو کے ذریعے ہی ہواؤں اور فضاؤں پر حکومت کیا کرتے تھے۔ جس کی وضاحت کرتے ہوئے اس کتاب عظیم میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی صفائی پیش کرنے کے ساتھ جادو کی حقیقت بتلائی جارہی ہے کہ جادو تو کفر ہے اور سلیمان (علیہ السلام) ہرگز ایسا نہیں کرسکتے تھے۔ جادو کی تاریخ : اہل لغت‘ مفسرین اور محدثین نے تحریر فرمایا ہے کہ جادو ایسا عجیب و غریب علم اور فن ہے جس سے سب سے پہلے لوگوں کی فکر ونظر کو متاثر کیا جاتا ہے اسی بناء پر انبیاء کرام (علیہ السلام) پر لگنے والے الزامات میں ایک سنگین الزام یہ بھی ہوا کرتا تھا کہ یہ رسول نہیں بلکہ جادو گر ہے۔ انبیاء کے مخالف اسی الزام کی بنیاد پر بہت سے لوگوں کو ان سے دور رکھنے میں کامیاب ہوا کرتے تھے کیونکہ ہر نبی کی گفتگو اس قدر مؤثر اور مدلّل ہوا کرتی تھی جس سے لوگوں کی سوچ کے زاویے تبدیل ہوجایا کرتے تھے اس لیے مخالف یہ کہہ کر لوگوں میں پروپیگنڈا کرتے کہ اس نبی کے قریب ہونے کی کوشش نہ کرنا کیونکہ اس کی زبان میں جادو ہے۔ جادو کا معنٰی : عربی ڈکشنری کے حوالے سے اہل لغت نے سحر کے کئی معانی بیان کیے ہیں۔ سحر ایسا عمل جس کے ذریعے شیطان کی قربت یا اس کی مدد طلب کی جائے۔ الازھری کا خیال ہے کسی چیز کو اس کی اصلیت سے بدل دینے کا نام سحر ہے (تہذیب اللغتہ) صاحب المعجم الوسیط سحرکا مطلب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ایسا علم جس کی بنیاد انتہائی لطیف ہو۔ محیط المحیط کے مصنف لکھتے ہیں کہ سحر ایسا فن ہے جس سے کسی چیز کو اس طرح پیش کیا جائے جس سے لوگ ششدر رہ جائیں۔ شریعت کے حوالے سے علماء نے جادو کی مختلف تشریحات کی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے : ( اَلسِّحْرُ ہُوَ عَقْدٌ وَرُقیً وَکَلَامٌ یُتَکَلَّمُ بِہٖ اَوْ یَکْتُبُہُ اَوْیَعْمَلُ شَیْئًا یُؤَ ثَّرُ فِیْ بَدَنِ الْمَسْحُوْرِ اَوْ قَلْبِہٖ اَوْ عَقْلِہٖ) (المغنی لابن قدامہ ) ” جادو! گرہ، دم اور ایسی تحریر یا حرکات پر مشتمل ہوتا ہے جس کے ذریعے دوسرے کے وجود اور دل و دماغ پر اثر انداز ہوا جاتا ہے۔“ علامہ ابن قیم {رض}جادو کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ( وَالسِّحْرُہُوَ مُرَکَّبُ مِّنْ تَأْ ثِیْرَاتِ الْاَرْوَاحِ الْخَبِیْثَۃِ وَانْفِعَالِ الْقُوَی الطَّبِیْعِیَّۃِ عَنْھَا) (زادالمعاد) ” جادو خبیث جنات کے ذریعے کیا جاتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے علاوہ خبیث جنات سے مدد طلب کی جاتی ہے۔ جس سے لوگوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔“ جادو کی اقسام : مشہور مفسر امام رازی {رض}نے جادو کو آٹھ قسموں میں تقسیم کیا ہے۔ ان کی تقسیم سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں جادوگروں نے اپنے فن کے لیے کون کون سے طریقے ایجاد کر رکھے تھے۔ جادو کوئی مستقل اور مستند علم نہیں کہ جس کو کرنے کے لیے کوئی خاص طریقہ متعین کیا گیا ہو کیونکہ جادو تصنّع بازی کا نام ہے اس لیے ہر دور میں اس کی کرشمہ سازی اور اثر انگیزی میں اضافہ کرنے کے لیے نئے نئے طریقے ایجاد کیے گئے۔ مندرجہ بالا بحث کا خلاصہ : 1۔ کفر یہ، شرکیہ الفاظ کے ہیر پھیر کے ذریعے جادو کرنا۔ 2۔ برے لوگوں، خبیث جنّات اور شیاطین کے ذریعے کسی پر اثر انداز ہونا۔ 3۔ علم نجوم کے ذریعے غیب کی خبریں دینا اور دوسرے کو متاثر کرنا۔ 4۔ توجہ سمریزم کی مخصوص حرکات، (ہیپناٹزم) کے ساتھ حواس خمسہ کو قابو کرنا۔ جادو کے انگلش میں نام : کالا جادو Black Magic سفید جادو White Magic قوت ارادی Will Power توجہ مرکوز کرنا Concentrate Pay heed, Pay attention مسمریزم Spell pound Force to concentrate by magic توجہ دینا‘ توجہ دلانا Concentrate= Focus = جادوگر بننے کے گھٹیا طریقے : غلط و ظائف، بھرپور شعبدہ بازی اور فنی مہارت کے باوجود جادوگر اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک جادوگر اللہ تعالیٰ کی کسی حلال کردہ چیز کو اپنے لیے حرام قرار نہ دے۔ اس کے ساتھ ہی اسے خاص قسم کی غلاظت اور بدترین قسم کا گناہ کرنا پڑتا ہے۔ اسی وجہ سے جادوگرمرد ہو یا عورت اس سے خاص قسم کی بو آیا کرتی ہے۔ یہ لوگ جسمانی طور پر جس قدر گندے ہوں گے اسی رفتار سے ان کے شیطانی عمل دوسروں پر اثرانداز ہوں گے یہی وجہ ہے کہ ایک جادوگر اپنے شاگرد کو اپنا پیشاب پینے کا سبق دیتا ہے اور دوسرا پاخانہ کھانے کا حکم دیتا ہے اور کوئی غسل واجب سے منع کرتا ہے۔ گویا کہ کوئی نہ کوئی غلاظت اختیار کرنا جادوگر کے لیے ضروری ہے۔ البتہ آج کل لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے اس قسم کی باتیں چھپاتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے بغیر جادو اثرانداز نہیں ہوتا۔ بے شک جادوگر کتنا اچھا لباس پہنے ہوئے ہو۔ اس طرح ہی جادو کفریہ اور شرکیہ وظائف کے بغیر اثر انداز نہیں ہوتا۔ جادو کی فتنہ انگیزیاں : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جادو سے خوف زدہ ہوگئے : ﴿وَجَآء السَّحَرَۃُ فِرْعَوْنَ قَالُوْا اِنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ کُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِیْنَ قَالَ نَعَمْ وَاِنَّکُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ۔ قَالُوْ ا یَامُوْسٰٓی اِمَّا اَنْ تُلْقِیَ وَاِمَّا اَنْ نَّکُوْنَ نَحْنُ الْمُلْقِیْنَ۔ قَالَ اَلْقُوْا فَلَمَّا اَلْقَوْا سَحَرُوْا اَعْیُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْہَبُوْ ھُمْ وَجَآءُ وْا بِسِحْرٍ عَظِیْمٍ﴾ (الاعراف : 113تا116) ” جادوگر فرعون کے پاس آکر کہنے لگے اگر ہم غالب آگئے تو کیا ہمیں صلہ بھی ملے گا؟ فرعون نے کہا ہاں میرے دربار میں منصب ملیں گے۔ پھر جادو گر کہنے لگے موسیٰ تم پھینکتے ہو یا ہم پھینکیں؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا تم ہی ڈالو۔ پھر انہوں نے اپنی رسیاں وغیرہ پھینکیں تو انہوں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا اور لوگ ان سے دہشت زدہ ہوگئے کیونکہ وہ زبردست جادو کے ساتھ آئے تھے۔“ ﴿فَاَجْمِعُوْاکَیْدَ کُمْ ثُمَّ ائْتُوْا صَفًّا وَقَدْ اَفْلَحَ الْیَوْمَ مَنِ اسْتَعْلٰی . قَالُوْا یٰمُوْسٰٓی اِمَّا اَنْ تُلْقِیَ وَاِمَّا اَنْ نَّکُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَلْقٰی۔ قَالَ بَلْ اَلْقُوْا فَاِذَا حِبَالُھُم وَعِصِیُّھُمْ یُخَیَّلُ اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِہِمْ اَنَّھَا تَسْعٰی۔ فَاَوْجَسَ فِیْ نَفْسِہٖ خِیْفَۃً مُّوْسٰی۔ قُلْنَا لَاتَخَفْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی﴾ ( طٰہٰ: 63تا68) ” اپنی سب تدبیریں جمع کرو اور متحد ہو کر مقابلہ میں آؤ اور سمجھ لو کہ آج جو غالب رہا وہ جیت گیا۔ کہنے لگے موسیٰ تم ڈالتے ہو یا پہلے ہم ڈالیں؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا تم ہی ڈالو“ پھر ان کے جادو کے اثر سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کی رسیاں اور لاٹھیاں یک دم دوڑنے لگی ہیں۔ یہ دیکھ کر موسیٰ (علیہ السلام) اپنے دل میں خوف زدہ ہوگئے ہم نے موسیٰ سے کہا ڈرو نہیں تم ہی غالب رہو گے۔“ رسول کریم {ﷺ}پر جادو کے اثرات : رسول اللہ {ﷺ}کی عمر مبارک تقریباً 60سال ہوچکی تھی یہود و نصاریٰ اور اہل مکہ ہر طرف سے ناکام و نامراد ہوگئے۔ تب اہل یہود نے آپ کی ذات پر جادو کے ذریعے اثر انداز ہونے کی کوشش کی جس کے لیے لبیدبن اعصم نے اپنی بہنوں یا بیٹیوں سے مل کر کسی طریقے سے آپ {ﷺ}کے سر مبارک کے بال حاصل کیے اور ان میں گرہیں ڈالتے ہوئے کھجور کے گابے کا ایک پتلا بنا کر ہر گرہ میں ایک ایک سوئی داخل کردی اور ان پر جادو کیا۔ اس جادو کے اثرات کی وجہ سے آپ {ﷺ}کی طبیعت ایک مہینہ تک مضمحل رہی۔ اس تکلیف کے آخری ایام میں آپ رات کو بھی بے سکونی محسوس کرتے تھے۔ اس کیفیت کو حضرت عائشہ صدیقہ {رض}اس طرح بیان کرتی ہیں کہ جب آپ {ﷺ}صلح حدیبیہ سے واپس لوٹے تو آپ پر جادو کا شدید ترین حملہ ہوا جس کا آپ کے ذہن پر یہ اثرہواکہ آپ خیال کرتے کہ میں یہ کام کرچکا ہوں جبکہ آپ نے وہ کام کیا نہیں ہوتا تھا۔ اس صورت حال میں آپ اللہ کے حضور اٹھتے بیٹھتے دعائیں کرتے، بالآخر آپ {ﷺ}کو وحی کے ذریعے اس کربناک صورت حال سے آگاہ کردیا گیا۔ آپ {ﷺ}فرماتے ہیں : عائشہ ! اللہ تعالیٰ نے مجھے اس تکلیف سے نکلنے کی تدبیر بتا دی ہے۔ اب میں اس سے شفایاب ہوجاؤں گا وہ اس طرح کہ میرے پاس خواب میں دو فرشتے آئے ان میں ایک میرے سر کی طرف اور دوسرا پاؤں کی طرف کھڑا ہوا۔ ایک نے دوسرے سے میری تکلیف کے بارے میں پوچھا۔ وہ جواب دیتا ہے۔ آپ {ﷺ}کو جادو ہوگیا ہے۔ پہلے نے پوچھا جادو کس نے کیا ؟ دوسرے نے جواب دیا لبید بن اعصم یہودی نے۔ وہ پوچھتا ہے کہ کس چیز سے جادو کیا گیا ہے؟ دوسرے نے کہا آپ {ﷺ}کے بالوں اور نرکھجور کے خوشے میں کیا گیا ہے۔ یہ کہاں رکھا گیا ہے؟ فلاں ویران کنویں میں رکھا ہوا ہے۔ اس خواب کے بعد رسول اللہ {ﷺ}چند صحابہ کے ساتھ اس کنویں پر تشریف لے گئے۔ حضرت عائشہ {رض}کا فرمان ہے کہ اس کنویں کے درختوں سے بھی خوف محسوس ہوتا تھا۔ جب وہ پتلا وہاں سے نکالا گیا توحضرت جبرائیل امین تشریف لائے انہوں نے بالوں کی گرہیں کھولنے اور جادو کے اثرات ختم کرنے کے لیے فرمایا آپ سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کی ایک ایک آیت پڑھتے جائیں یہ گیارہ آیات ہیں اس طرح گیارہ گرہیں کھولتے ہوئے سوئیاں نکال دی جائیں۔ آپ کی نگرانی میں صحابہ کرام {رض}نے ایسا کیا تو آپ {ﷺ}کی طبیعت اس طرح ہشاش بشاش ہوگئی جس طرح کسی جکڑے ہوئے انسان کو کھول دیا جائے۔ اس کے بعدآپ {ﷺ}کا معمول تھا کہ رات سوتے وقت ان سورتوں کی تلاوت کر کے جہاں تک آپ کے ہاتھ پہنچتے اپنے آپ کو دم کیا کرتے تھے جس کی تفصیل معوّذات کے باب میں بیان کی جائے گی۔ (رواہ البخاری : کتاب الطب، باب السحر) اس واقعہ پر ہونے والے اعتراضات اور ان کے جوابات : غیرمسلم اور منکرین حدیث اس واقعہ پر اعتراضات کرتے ہوئے درج ذیل سوالات اور شبہات پیدا کرتے ہیں : اعتراض : آپ {ﷺ}پر جادو کے اثرات تسلیم کرلیے جائیں تو کفار کے اس اعتراض کا جواب دینا مشکل ہوگا۔ ﴿وَقَال الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلاً مَّسْحُوْرًا﴾ (الفرقان :8) ” اور ظالموں نے کہا کہ تم صرف ایک جادو کے مارے ہوئے آدمی کی پیروی کرتے ہو۔“ جواب : 1۔ اہل مکہ نے آپ پر جادو ہونے کا الزام نبوت کے ابتدائی دور میں لگایا تھا اور یہ واقعہ مدینہ طیبہ میں صلح حدیبیہ کے بعد نبوت کے بیسویں سال پیش آیا یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی شخص نے اپنی تائید کے لیے اوپر دلیل کو پیش نہیں کیا۔ 2۔ نبی پر جادو ہونا ناممکن نہیں کیونکہ آپ زندگی میں بیمار بھی ہوئے اور غزوہ احد میں زخمی بھی ہوئے تھے بحیثیت انسان زندگی میں آپ کو متعدد بار روحانی پریشانیاں اور جسمانی تکالیف بھی اٹھانی پڑی تھیں۔ لہٰذا آپ پر جادو کا اثر انداز ہوناعقل وفکر اور فطرت کے خلاف نہیں۔ 3۔ جادو کے اثرات نبوت کے امور پر اثر انداز نہیں ہوئے تھے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے کار نبوت کی ادائیگی کا ذمّہ لیا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس تکلیف کے دوران کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ {ﷺ}نے کوئی مسئلہ پہلے سے الٹ بیان کردیا ہو۔ جادو، ٹونے کا شرعی علاج: جو شخص جادو یا جنات کے اثرات محسوس کرے اسے درج ذیل اقدامات کرنے چاہییں۔ کیونکہ دین نے ایسا کرنے کی رہنمائی فرمائی ہے۔ طہارت کا اہتمام : طہارت اور صفائی کا خصوصی اہتمام کیا جائے اور ہر وقت باوضو رہنا سنّت بھی ہے اور مفید بھی۔ خوشبو کا استعمال : خوشبو سنت سمجھ کر لگائیں گے تو دنیا میں شفا اور آخرت میں جزا ملے گی۔ تلاوت قرآن مجید اور کثرت ذکر : ہر وقت اللہ کا ذکر کرتے رہنا چاہیے خاص کر گھر میں قرآن مجید کی تلاوت اور نوافل پڑھنا۔ یاد رکھیے کہ قرآن مجید کی تلاوت کم از کم اتنی آواز میں ہونی چاہیے کہ پڑھنے والے کو قرآن مجید کے الفاظ سنائی دیں۔ دَم : سورۃ البقرۃ، آیت الکرسی اور آخری تین سورتیں یعنی معوذات کے ساتھ صبح‘ شام تین تین مرتبہ پڑھ کر اپنے آپ کو دم کرنا سنت ہے۔ مسلسل دعا : (عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: سُحِرَ رَسُولُ اللهِ () حَتَّى أَنَّهُ لَيُخَيَّلُ لَهُ) (رواہ احمد: مسند عائشۃ ] صحیح[) حضرت عائشہ {رض}فرماتی ہیں کہ رسول کریم {ﷺ}پر جب جادو ہوا تو آپ بار بار اللہ تعالیٰ سے جاد و کے اثرات کو ختم کرنے کی دعا کرتے تھے۔ لہٰذا ایسی صورت حال میں مریض کو اٹھتے بیٹھتے ہر وقت دل اور زبان سے اللہ کے حضور اس مصیبت سے نجات کی التجائیں کرنی چاہیں۔ اذان دینا : (عَنْ أَبي هُريْرَةَ   (رض) قَال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (ﷺ) إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ أدْبَرَ الشَّيْطَانُ) (رواہ البخاری: باب فضل التأذین) اثرات زدہ گھر میں اذان کہنی چاہیے کیونکہ آپ {ﷺ}کا فرمان ہے کہ اذان سن کر شیطان دور بھاگ جاتا ہے۔ لعنت بھیجنا : جادو کرنے، کروانے والے اور شیطان کو ذہن میں رکھتے ہوئے کثرت کے ساتھ درج ذیل الفاظ پڑھنا چاہییں کیونکہ جب نماز کی حالت میں ایک جن نے آگ کا بگولہ آپ {ﷺ}کے چہرہ مبارک کے قریب کیا تھا تو آپ نے اس پر یہ الفاظ کہے تھے (عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ () يُصَلِّي فَسَمِعْنَاهُ يَقُولُ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ ثُمَّ قَالَ أَلْعَنُكَ بِلَعْنَةِ اللَّهِ ) ( رواہ مسلم: جواز لعن الشیطان فی اثناء الصلاۃوالتعوذمنہ )آپ کا ارشاد ہے کہ جب کوئی لعنت کرنے والا لعنت کرتا ہے اگر واقعتا مظلوم ہے تو اس کی لعنت ظالم پر ضرور اثر انداز ہوگی۔ ” عَلَیْھِمْ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلَآئِکَۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ“ تفصیل کے لیے دیکھیے میری کتاب جادو کی تباہ کاریاں (عَنِ الْقَعْقَاعِ اَنَّ کَعْبَ الْاَحْبَارِ قَالَ لَوْلَاکَلِمَاتٌ اَقُوْلُہُنَ لَجَعَلَتْنِیْ یَہُوْدُ حِمَارًافَقِیْلَ لَہٗ مَاہُنَّ قَالَ اَعُوْذُ بِوَجْہِ اللّٰہِ الْعَظَیْمِ الَّذِیْ لَیْسَ شَیْءٌ اَعْظَمَ مَنْہُ وَبِکَلِمَات اللّٰہِ التَّامَاتِ الَّتِیْ لَایُجَاوِزُہُنَّ بَرٌّ وَلَافَاجِرٌ وَبِاَسْمَاء اللّٰہِ الْحُسْنیٰ مَا عَلِمْتُ مِنْہَاوَمَالَمْ اَعْلَمُ مِنْ شَرِّ مَاخَلَقَ وَذَرَاءَ وَبَرَاءَ) (رواہ مالک: باب ما یؤمر بالتعوذ ]صحیح[) ” حضرت قعقاع {رض}بیان کرتے ہیں کہ حضرت کعب احبار {رض}نے فرمایا اگر میں یہ دعا نہ پڑھتا ہوتا تو یہودی مجھے گدھا بنادیتے۔ حضرت کعب سے ان کلمات کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا وہ کلمات یہ ہیں : میں پناہ چاہتا ہوں تیرے عظیم چہرے کی بدولت جس سے بڑھ کر کوئی عظیم چیز نہیں اور اللہ کے ان کامل کلمات کے ساتھ جن سے کوئی نیک وفاجر سبقت نہیں لے جاسکتا اور اللہ کے اسمائے حسنیٰ کے ساتھ جو میں جانتا ہوں اور جو میں نہیں جانتا ہر اس چیز کی شر سے جسے اس نے پیدا کیا اور پھیلایا یا جس کے پاس سے میرا گزر ہوتا ہے۔“ مسائل : 1۔ جادو کرنا اور سیکھنا کفر ہے۔ 2۔ جادو گر شیطان سے مدد طلب کرتا ہے۔ 3۔ جادو بذات خود کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ 4۔ جادوگرقیامت کے دن عذاب سے دوچار ہوگا۔ تفسیر بالقرآن جادو کیا ہے ؟: 1۔ جادوکفر ہے۔( البقرۃ: 102) 2۔ جادو کی اصلیت نہیں ہوتی۔ (الاعراف :116) 3۔ جادو شیاطین کے ذریعے ہوتا ہے۔ (البقرۃ :102) 4۔ جادوگر کامیاب نہیں ہوتا۔ (طٰہٰ:69) البقرة
103 البقرة
104 فہم القرآن : ربط کلام : یہودی جبریل امین، حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور پہلے انبیاء کے بدترین گستاخ تھے اور ہیں اسی عادت خبیثہ کی وجہ سے نبی آخر الزماں {ﷺ}کی گستاخیاں کیا کرتے ہیں جس کی سزا جہنم قرار دی گئی ہے۔ ہر زبان میں کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں جو دوسری زبان سے ملتے جلتے اور ہم آواز ہوتے ہیں۔ عربی کے جو الفاظ عبرانی زبان سے مشابہت اور مماثلت رکھتے ہیں ان میں ایک لفظ ﴿راعنا﴾ ہے۔ جس کو ذرا کھینچ کر ادا کیا جائے تو اس کے معانی بنتے ہیں احمق‘ اجڈ اور چرواہا۔ مسلمانوں کی عزت، اسلام کی عظمت ورفعت اور نبی محترم {ﷺ}کے احترام واکرام میں روز افزوں اضافہ دیکھ کر یہودی اپنے دلوں میں کڑھتے اور جلتے رہتے اور اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے وہ کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ نبی کریم {ﷺ}کے زمانے میں آپ کی مجلس میں آتے تو آپ کی گفتگو کے دوران ﴿راعنا﴾ کا لفظ استعمال کر کے یہ تأثر دینے کی کوشش کرتے کہ ہم آپ کی بات کو سمجھ نہیں سکے۔ بسا اوقات فہم کلام کے لیے مسلمان بھی آپ کی خدمت میں ﴿راعنا﴾ عرض کرتے لیکن دونوں کی ادائیگی اور نیت میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ صحابہ کا مقصد یہ تھا کہ رسول کریم {ﷺ}تھوڑاسا توقف فرمائیں تاکہ آپ کا ارشاد سمجھنے میں آسانی ہو۔ یہودی گستاخی کے انداز میں بولتے اور بعد ازاں اپنی مجلسوں میں مسلمانوں کا مذاق اڑاتے کہ دیکھو ان کا نبی اور یہ لوگ کس قدر نادان اور بیوقوف ہیں کہ انہیں اس لفظ کا مفہوم سمجھ نہیں آتا۔ اس موقع پر ارشاد خداوندی نازل ہوا کہ اے مسلمانو! اب کے بعد اس ذو معنیٰ لفظ کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دو۔ اس کی بجائے ﴿ انظرنا﴾ کا لفظ استعمال کیا کرو جس کا معنٰی ہے اے رسول کریم {ﷺ}ہماری طرف نظر التفات فرمائیں۔ پھر جو کچھ آپ کی زبان اقدس سے الفاظ جاری ہوں انہیں پوری توجہ اور اخلاص کے ساتھ سنا کرو۔ ﴿وَاسْمَعُوْا﴾ کا لفظ استعمال فرما کر یہ اشارہ بھی دیا کہ دوران خطاب متکلم کو ٹوکنا سننے والے کی عدم توجہ کی دلیل ہوا کرتا ہے۔ لہٰذا سامع کا فرض ہے کہ وہ دوسرے کے کلام کو ایسے انہماک کے ساتھ سنے کہ حتی الوسع اسے استفسار کرنے کی حاجت پیش نہ آئے۔ اس آیت میں فرمایا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے کلام کو عدم توجہ اور بد نیتی کے ساتھ سننے کی بجائے ہمہ تن گوش ہو کر سننا اور ماننا چاہیے۔ یہ بھی انتباہ فرمایا کہ رسول خدا کی گستاخی کرنا کفر ہے۔ یہودی انبیاء کے گستاخ نوح (علیہ السلام) اور شراب : بائبل میں لکھا ہے کہ ” اس نے مے پی اور اسے نشہ آیا اور وہ اپنے ڈیرے میں برہنہ ہوگیا۔“ اس کے بیٹے حام نے انہیں اس حالت میں دیکھا۔ (پیدائش6: 9‘9: 20۔22) لوط (علیہ السلام) اور ان کی بیٹیاں : بائبل کے بیان کے مطابق‘ لوط (علیہ السلام) کی دو سگی بیٹیوں نے انہیں شراب پلائی اور پھر باری باری ان سے ہم آغوش ہوئیں۔ (نعوذ باللہ) حتی کہ لوط (علیہ السلام) کی یہ دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں اور ان سے ایک ایک بیٹا پیدا ہوا۔ (پیدائش19: 30۔38) حضرت داؤد (علیہ السلام) کے بیٹوں پر الزام : بائبل کے بیان کے مطابق‘ داؤد کا بیٹا امنون بھی عشق اور زناکاری کے مرحلہ سے گزرا‘ اور اس نے یہ کام اپنی سوتیلی بہن تمر سے کیا۔ اس نے مقصد برآوری کے لیے فریب اور جھوٹ سے کام لیا اور دھوکہ سے بہن کو الگ کمرہ میں بلا کر اس سے زبردستی کی۔ داؤد نے یہ سب سنا تو ” نہایت غصہ ہوا“ مگر امنون کو پورے دو سال تک کوئی سزا نہ ملی۔ یہاں تک کہ داؤد کے ایک دوسرے بیٹے اور تمر کے سگے بھائی ابی سلوم نے دھوکہ سے امنون کو مروا کر اپنی بہن کا بدلہ لے لیا۔ (سموئیل۔ باب13) حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر شرک کا الزام : ” اور سلیمان بادشاہ فرعون کی بیٹی کے علاوہ بہت سی اجنبی عورتوں سے محبت کرنے لگا اور اس کے پاس سات سو شہزادیاں اور تین سو حر میں تھیں۔ اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیر معبودوں کی طرف مائل کرلیا اور اس کا دل خداوند کے ساتھ کامل نہ رہا، جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا دل تھا۔۔ سلیمان نے خداوند کے آگے بدی کی اور اس نے خداوند کی پوری پیروی نہ کی جیسی اس کے باپ داؤد نے کی تھی۔ (سلاطین1: 1۔4) گستاخ اور شاتم رسول کی سزا : نبی کریم {ﷺ}کی عظمت و تکریم مسلمان کے ایمان کا بنیادی جزو ہے۔ آپ کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والا آخرت میں سخت ترین عذاب میں مبتلا ہوگا اور دنیا میں واجب القتل ہے۔ نبی کریم {ﷺ}نے اپنے اور اسلام کے بے شمار دشمنوں کو معاف فرما دیا لیکن چند بدبختوں کے بارے میں فرمایا کہ اگر وہ کعبہ کے پردوں سے چمٹ جائیں تو بھی انہیں قتل کردیا جائے۔ یہ فرمان ذاتی انتقام پسندی کی وجہ سے نہ تھا کیونکہ آپ {ﷺ}کے بارے میں حضرت عائشہ {رض}اور صحابہ کرام {رض}کی گواہی ہے کہ آپ {ﷺ}نے کبھی کسی سے ذاتی انتقام نہیں لیا۔ یہ اس وجہ سے تھا کہ شاتم رسول دوسروں کے دلوں سے عظمت و احترام رسول گھٹانے کی کوشش کرتا اور ان میں کفر و نفاق کے بیج بوتا ہے۔ اس لیے توہین رسول کو برداشت کرلینا، ایمان سے ہاتھ دھونے اور دوسروں کے ایمان چھن جانے کا راستہ کھولنے کرنے کے مترادف ہے۔ نیز رسالت مآب {ﷺ}چونکہ ہر زمانے کے مسلمانوں کی محبت عقیدت کا مرکز و محور ہے اور اس کے بغیر مسلمان کا ایمان اللہ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہے اس لیے جو زباں رسول اللہ {ﷺ}پر طعن کے لیے کھلتی ہے۔ اگر اسے کاٹا نہ جائے اور جو قلم آپ کی گستاخی کے لیے اٹھتا ہے اگر اسے توڑا نہ جائے تو اسلامی معاشرہ اعتقادی و عملی فساد کا شکار ہو کر رہ جائے گا۔ نبی کریم {ﷺ}کو نازیبا الفاظ کہنے والا امام ابن تیمیہ {رض}کے الفاظ میں ساری امت کو گالی دیتا ہے نبی اکرم {ﷺ}نے مسلمانوں کے ایمان اور غیرت کی خاطر گستاخی کرنے والے کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ امام ابن تیمیہ {رض}اپنی کتاب ” الصارم المسلول علی شاتم الرسول“ میں فرماتے ہیں کہ ائمہ اہلحدیث امام احمد {رح}اور امام مالک {رح}کے نزدیک شاتم رسول کی توبہ اسے قتل کی سزا سے نہیں بچا سکتی جبکہ امام شافعی {رح}سے اس سلسلہ میں توبہ کے قبول و عدم قبول کے دونوں قول منقول ہیں۔ البتہ امام ابو جعفر {رح}کے نزدیک اگر وہ سزا سے پہلے توبہ کرے تو سزا سے بچ سکتا ہے۔ امام ابن تیمیہ {رح}اکثر محدثین اور فقہا کی طرح اس بات کے قائل ہیں کہ شاتم رسول توبہ کے باوجود قتل کی سزا کا مستحق ہے۔ انہوں نے اس سلسلہ میں اپنی کتاب کے مختلف مقامات پر جو دلائل دیے ہیں ان کا خلاصہ حسب ذیل ہے۔ (1)۔ شاتم رسول فساد فی الارض کا مرتکب ہوتا ہے اور اس کی توبہ سے اس بگاڑ کی تلافی نہیں ہوسکتی جو اس نے لوگوں کے دلوں میں پیدا کیا ہے۔ (2)۔ اگر توبہ کی وجہ سے سزا نہ دی جائے تو اس سے دوسرے بدبختوں کو جرأت ہوگی کہ وہ جب چاہیں توہین رسول کا ارتکاب کریں اور جب چاہیں توبہ کر کے سزا سے بچ جائیں۔ اس طرح غیروں کو موقع ملے گا کہ وہ مسلمانوں کی غیرت ایمانی کو بازیچۂ طفلاں بنا لیں گے۔ (3)۔ نبی کریم {ﷺ}کی اہانت وتحقیر کے جرم کا تعلق حقوق اللہ سے بھی ہے اور حقوق العباد سے بھی۔ حقوق اللہ اللہ تعالیٰ چاہے معاف کر دے مگر حقوق العباد میں زیادتی اس وقت تک معاف نہیں ہوتی جب تک متعلقہ مظلوم اسے معاف نہ کرے۔ نبی اکرم {ﷺ}اپنی حیات مبارکہ میں اگر کسی کا یہ جرم معاف کرنا چاہتے تو کرسکتے تھے۔ مگر اب اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ امت مسلمہ یا مسلمان حاکم آپ {ﷺ}کی طرف سے نیابۃً اس جرم کو معاف کرنے کا حق نہیں رکھتے۔ (4)۔ قتل، زنا، سرقہ جیسے جرائم کے بارے میں بھی اصول یہی ہے کہ ان کا مجرم سچی توبہ کرنے سے آخرت کی سزا سے بچ سکتا ہے‘ مگر دنیاوی سزا سے نہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ قاتل‘ زانی یا چور گرفتار ہوجائے اور کہے کہ میں نے جرم تو کیا ہے مگر اب توبہ کرتا ہوں تو اسے چھوڑ دیا جائے اسے ہر صورت سزا دی جائے گی۔ اسی طرح شاتم رسول کا مرتکب بھی جرم کے بعد توبہ کا اظہار کرے تو دنیاوی سزا سے نہیں بچ سکتا اور اس کا جرم مذکورہ جرائم سے زیادہ سنگین ہے۔ گستاخ رسول کے بارے میں احکامات: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَاَعدَّلَہُمْ عَذَابًا مُہِیْنًا﴾(الأحزاب :57) ” بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول {ﷺ}کو تکلیف دیتے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا و آخرت میں ان پر لعنت ہے اور ان کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔“ گستاخ رسول کا قتل : ( اِنَّ أعْمٰی کَانَتْ لَہٗ اُمُّ وَلَدٍ تَشْتُمُ النَّبِیَّ {}وَ تَقَعُ فِیْہِ فَیَنْہَا ہَا فَلَا تَنْتَہِیْ وَیَزْجُرُہَا فَلَا تَنْزَجِرُ فَلَمَّا کَانَتْ ذَاتَ لَیْلَۃٍ جَعَلَتْ تَقَعُ فِی النَّبِیِّ {}وَتَشْتُمُہٗ فَاخَذَا لْمِغْوَلَ فَوَ ضَعَہٗ فِیْ بَطْنِہَا وَتَّکَأَ عَلَیْہَا فَقَتَلَہَا فَلَمَّا أَصْبَحَ ذُکِرَ ذَلِکَ للنَّبِیِّ {}فَجَمَعَ النَّاسَ فَقَالَ اُنْشِدُ رَجُلًا فَعَل مَا فَعَلَ لِیْ عَلَیْہِ حَقُّٗ اِلَّا قَامَ قَالَ فَقَامَ الْاَعْمٰی یَتَخَطَّی النَّاسَ وَہُوَ یَتَدَلْدَلُ حَتّٰی قَعَدَبَیْنَ یَدَیِ النَّبِیِّ {}فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَنَا صَاحِبُہَا کَانَتْ تَشْتُمُکَ وَتَقَعُ فِیْکَ فَاَنْہَاہَا فَلَا تَنْتَہِیْ وَأَزْجُرُہَا فَلاَ تَنْزَجِرُ وَلِیَ مِنْہَا اِبْنَانِ مِثْلُ الْلُؤلُؤَتَیْنِ وَکَانَتْ بِیْ رَفِیْقَۃً فَلَمَّا کَانَ الْبَارِحَۃُ جَعَلَتْ تَشْتُمُکَ وَتَقَعُ فِیْکَ فَاخَذْتُ الْمِغْوَلَ فَوَضَعْتُہُ فِیْ بَطْنِہَا وَاتَّکَأْتُ عَلَیْہِ حَتّٰی قَتَلْتُہَا فَقَال النَّبِیُّ {}أَلَا أَشْہِدُوْا أَنَّ دَمَہَا ہَدَرٌ) (رواہ ابوداؤد : کتاب الحدود باب الحکم فیمن سب النبی) ” ایک اندھے شخص کی ایک ام ولد لونڈی تھی جو رسول اللہ {ﷺ}کو گالیاں دیا کرتی تھی وہ اسے منع کرتا۔ وہ گالیاں دینے سے باز نہیں آتی تھی وہ اسے جھڑکتا تھا۔ مگر وہ نہ رکتی تھی۔ ایک رات اس لونڈی نے رسول اللہ {ﷺ}کو گالیاں دینا شروع کیں تو نابینا صحابی نے ایک چھرا لے کر اس کے پیٹ میں پیوست کرتے ہوئے اسے زور سے دبایا جس سے وہ مر گئی۔ صبح اس کا ذکر رسول اللہ {ﷺ}کے پاس ہوا تو آپ نے لوگوں کو جمع کر کے فرمایا۔ میں اس آدمی کو قسم دیتا ہوں جس نے کیا‘ جو کچھ کیا۔ میرا اس پر حق ہے کہ وہ کھڑا ہوجائے۔ رسول اللہ {ﷺ}کی یہ بات سن کر ایک نابینا صحابی کھڑا ہوا۔ اضطراب کی کیفیت میں لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا نبی اکرم {ﷺ}کے سامنے بیٹھ گیا۔ اس نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول ! میں اسے منع کرتا تھا مگر وہ اس کی پروا نہیں کرتی تھی۔ اس کے بطن سے میرے دو ہیروں جیسے بیٹے ہیں اور وہ میری رفیقۂ حیات تھی۔ گزشتہ رات جب وہ آپ کو گالیاں دینے لگی تو میں نے چھرا لے کر اس کے پیٹ میں پیوست کرتے ہوئے اسے زور سے دبایا یہاں تک کہ وہ مر گئی۔ رسول اللہ {ﷺ}نے گفتگو سننے کے بعد فرمایا تم گواہ رہنا کہ اس عورت کا خون رائیگاں ہوا۔“ حضرت علی {رض}فرماتے ہیں : (قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ { }مَنْ سَبَّ نَبِّیًا قُتِلَ وَمَنْ سَبَّ اَصْحَابَہٗ جُلِدَ) (رواہ الطبرانی فی الصغیر صفحہ 236 جلد 1) ” رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا جس نے نبی {ﷺ}کو گالی دی اسے قتل کیا جائے اور جس نے اس کے صحابہ کو گالی دی اسے کوڑے مارے جائیں۔“ مشرک گستاخ رسول کا قتل : (اِنَّ رَجُلًا مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ شَتَمَ رَسُوْلَ اللّٰہِ {}فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ {}مَنْ یَّکْفِیْنِیْ عَدُوِّی فَقَام الزُّبَیْرُ بْنُ الْعَوَّامِ فَقَالَ اَنَا فَبَارَزَہٗ فَاَعْطَاہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ { }سَلَبَہٗ) (الصارم المسلول177) ” مشرکین میں سے ایک آدمی نے رسول اللہ {ﷺ}کو گالی دی تو رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا میرے اس دشمن کی کون خبر لے گا؟ تو حضرت زبیر بن عوام کھڑے ہو کر عرض کرنے لگے یا رسول اللہ ! میں حاضر ہوں۔ حضرت زبیر {رض}نے اسے قتل کردیا۔ تو رسول اللہْ {ﷺ}نے اس کا سامان زبیر کو دے دیا۔“ ابو لہب کا عبرت ناک انجام : سورۃ لہب کے نزول پر ابھی آٹھ سال ہی گزرے تھے کہ جنگ بدر میں بڑے بڑے سرداران قریش مارے گئے۔ مکہ میں بدر کی شکست کی اطلاع پہنچی تو سب سے زیادہ دکھ اور رنج ابولہب کو ہوا۔ یہ اسی صدمے اور رنج میں بیمار پڑگیا۔ ساتویں روز بیماری کوڑھ کی شکل اختیار کرگئی۔ جس وجہ سے اس کے گھر والوں نے اسے چھوڑ دیا اور اس کے بیٹوں نے اس کے ساتھ کھانا پینا ترک کردیا۔ بالآخر وہ نہایت بے کسی کی موت مرا۔ مرنے کے بعد بھی اس کے بیٹے اس کے قریب نہ گئے یہاں تک کہ اس کی لاش سے بو پھیلنے لگی۔ تب لوگوں نے اس کے بیٹوں کو طعنے دیے تو انہوں نے ایک حبشی کو مزدوری دی۔ جس نے گڑھا کھودا اور لکڑی سے لاش کو دھکیل کر گڑھے میں پھینکا اور مٹی ڈال دی۔ گستاخ رسول کو قبر نے باہر پھینک دیا : حضرت انس {رض}فرماتے ہیں : (کَانَ رَجُلٌ نَصْرانِیًّا فَأسْلَمَ وَقَرَأَ الْبَقَرَۃَ وَآلَ عِمْرَانَ فَکَانَ یَکْتُبُ للنَّبِیِّ {}فَعَادَ نَصْرَانِیًّا فَکَانَ یَقُوْلُ مَایَدْرِی مُحَمَّدٌ الاَّ مَا کَتَبْتُ لَہٗ فَأَمَاتَہُ اللّٰہُ فَدَ فَنُوْہُ فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْہُ الْاَرْضُ فَقَالُوْ ہَذَا فِعْلُ مُحَمَّدٍ وَ اَصْحَابِہٖ لَمَّا ہَرَبَ مِنْہُمْ نَبَشُوْا عَنْ صَاحِبِنَا فَأَلْقَوْہُ فَحَفَرُوْا لَہٗ فَأَعْمَقُوْا فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْہُ الْاَرْضُ فَقَالُوْا ہَذَا فِعْلُ مُحَمَّدٍ وَاَصْحَابِہٖ نَبَشُوْا عَنْ صَاحِبِنَا لَمَّا ہَرَبَ مِنْہُمْ فَأَلْقَوْہُ فَحَفَرُوْا لَہٗ وَأَعْمَقُوْا لَہٗ فِی الْاَرْضِ مَاسْتَطَاعُوْا فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْہُ الْاَرْضُ فَعَلِمُوْا اَنَّہُ لَیْسَ مِنَ النَّاسِ فَالْقَوْہُ) (رواہ البخاری : کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام) ” ایک شخص عیسائی تھا وہ مسلمان ہوگیا سورۃ بقرۃ اور آل عمران پڑھ چکا تھا وہ کاتب وحی تھا۔ پھر وہ مرتد ہو کر عیسائی ہوگیا اور کہنے لگا کہ محمد {ﷺ}کے لیے جو کچھ میں نے لکھ دیا ہے اس کے سوا اسے کچھ معلوم نہیں۔ اس کی موت واقع ہوگئی تو اس کے ساتھیوں نے اسے دفن کیا۔ جب صبح ہوئی تو انہوں نے دیکھا کہ اس کی لاش قبر کی بجائے زمین کے اوپر پڑی ہے۔ عیسائیوں نے کہا کہ یہ محمد {ﷺ}اور ان کے ساتھیوں کا کام ہے چونکہ ان کا دین اس نے چھوڑ دیا تھا۔ اس لیے انہوں نے قبر کھود کر لاش کو باہر پھینک دیا ہے۔ چنانچہ دوسری قبر کھودی جو بہت گہری تھی لیکن جب صبح ہوئی تو پھر لاش باہر تھی۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے یہی کہا کہ یہ محمد اور ان کے ساتھیوں کا کام ہے چونکہ ان کا دین اس نے چھوڑ دیا تھا اس لیے اس کی قبر کھود کر انہوں نے لاش باہر پھینک دی ہے۔ پھر انہوں نے قبر کھودی جتنی گہری ان کے بس میں تھی اور اس میں ڈال دیا لیکن جب صبح ہوئی تو پھر لاش باہر پڑی تھی۔ اب انہیں یقین ہوگیا کہ یہ کسی انسان کا کام نہیں بلکہ یہ آدمی عذاب خداوندی میں گرفتار ہے۔ چنانچہ انہوں نے اسے یونہی زمین پر پھینک دیا۔“ امام احمد بن حنبل (رح): (کُلُّ مَنْ شَتَمَ النَّبِیَّ {}اَوْ تَنَقَّصَہٗ مُسْلِمًا کَانَ اَوْ کَافِرًا فَعَلَیْہِ الْقَتْلُ وَأَرٰی اَنْ یُقْتَلَ وَلَا یُسْتَتَابَ) (الصارم المسلول :33) ” جو آدمی نبی {ﷺ}کو گالی دیتا ہے یا آپ کی شان میں گستاخی کرتا ہے وہ مسلمان ہو یا کافر اس کا قتل کرنا واجب ہے اور میری رائے یہ ہے کہ اسے توبہ کرنے کی مہلت نہ دی جائے بلکہ فوراً قتل کردیا جائے۔“ امام مالک (رح) : خلیفہ ہارون الرشید نے امام مالک {رض}سے نبی اکرم {ﷺ}کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والے کے بارے میں پوچھا۔ امام مالک (رح) نے فرمایا : (مَابَقَاءَ الْاُمَّۃِ بَعْدَ شَتْمِ نَبِیِّہَا) (الشفاء للقاضی عیاض : 2/233) ” اس امت کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں جس کے نبی کو گالیاں دی جائیں۔“ امام ابن تیمیہ (رح) : (اِنَّ مَنْ سَبَّ النَّبِیَّ {}مِنْ مُسْلِمٍ اَوْ کَافِرٍ فَاِنَّہ یَجِبُ قَتْلُہُ ہَذَا مَذْہَبُ عَامَۃِ اَہْلِ الْعِلْمِ) (الصارم المسلول :31) ” جو آدمی نبی {ﷺ}کو گالی دے خواہ مسلمان ہو یا کافر اس کو قتل کرنا واجب ہے۔“ ستمبر 2005ء میں ڈنمارک کے بدنام زمانہ صحافی نے رسول محترم {ﷺ}کے خاکے شائع کیے جس سے تو پورے عالم اسلام میں ایسا اضطراب پیدا ہوا کہ مسلمان تڑپ اٹھے اور پوری دنیا میں جلوس، ہڑتالیں اور بے مثال مظاہرے ہوئے اس میں سعودی عرب نے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا۔ ڈنمارک کے گستاخانہ عمل کی وجہ سے سعودی عرب نے عالم اسلام کی ترجمانی کرتے ہوئے 26جنوری کو ڈنمارک سے اپنا سفیر واپس بلا لیا اور سعودی عرب سے ڈنمارک کی اشیاء کے بائیکاٹ کا آغاز ہوگیا جو تمام عرب ریاستوں‘ مصر‘ لیبیا‘ ایران اور دوسرے مسلمان ممالک تک پھیل گیا۔ ٤ فروری کو پاکستان نے ڈنمارک‘ ناروے‘ فرانس‘ جرمنی‘ اٹلی‘ سپین‘ سوئٹزر لینڈ‘ ہینگری‘ ہالینڈ اور جمہوریہ چیک ری پبلک کے سفیروں کو طلب کر کے گستاخانہ خاکوں کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ پاکستان نے خاکوں کے شائع کرنے والے ممالک سے ادویات درآمد کرنے پر پابندی لگا دی‘ فرانس اور ڈنمارک کی چار میڈیسن کمپنیوں کی تقریباً ایک سو گیارہ ادویات پاکستانی میڈیکل سٹورز پر فروخت کی جاتی تھیں۔ ڈاکٹرز صاحبان نے ان ادویات کے بجائے متبادل ادویات تجویز کردیں۔ شام، لبنان اور لیبیا میں ڈنمارک کے سفارت خانوں کو آگ لگا دی گئی۔ مسلم ممالک نے ڈنمارک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کردیا۔ بس جس ملک سے جو بن پڑا اور جس دینی‘ سیاسی اور رفاہی تنظیم سے جو ہوسکا اس نے اپنی اسلامی غیرت کا ثبوت فراہم کرکے اپنے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ جس کو دیکھ کر عالم کفر کے بعض حکمرانوں اور اخبارات کے ایڈیٹرز اور مالکان نے معذرت کا رویہ اپنایا جن میں چند ایک یہ ہیں : ناروے کے اخبار کے ایڈیٹر انچیف ” ویجیو ان سیلبک“ نے معافی مانگی جس کو ناروے کی اسلامی کونسل نے قبول کرلیا۔ فرانس کے اخبار کے مالک نے ایڈیٹر کو نوکری سے برطرف کردیا۔ 31جنوری کو ڈنمارک کے اخبار نے معافی نامہ جاری کیا اور دنیا بھر کے مسلمانوں سے معافی مانگی۔ مسائل: 1۔ ذو معنٰی لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ 2۔ کلام اللہ اور حدیث رسول توجہ کے ساتھ سننی چاہیے۔ 3۔ رسول محترم {ﷺ}کا گستاخ کافر اور واجب القتل ہے۔ البقرة
105 فہم القرآن : ربط کلام : اہل کتاب کی ساری خرابیوں کی جڑ یہ ہے کہ وہ کسی طرح بھی مسلمانوں کو ملنے والی بھلائی کو پسند نہیں کرتے اس کے لیے وہ ہر جرم کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ نبی آخر الزمان {ﷺ}کی شان میں گستاخیاں بھی کرتے رہتے ہیں۔ قرآن مجید مسلمانوں کو باربار باور کرواتا ہے کہ اہل کتاب اور مشرکوں کو اپنا خیر خواہ اور دوست نہ سمجھو کیونکہ ان کی سر توڑ کوشش اور دلی خواہش ہے کہ مسلمانوں کو کوئی بھلائی حاصل نہ ہوسکے۔ اسی منفی سوچ کے پیش نظر وہ اس فکر میں رہتے ہیں کہ جہاں تک ہوسکے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا جائے۔ حالانکہ چاہیے تو یہ تھا کہ اہل کتاب مذہب کے دعوے دار ہونے کے پیش نظر مسلمانوں کے ہمدرد اور ان کے قریب ہوتے لیکن ان کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ یہ لوگ ہر آڑے وقت میں مسلمانوں کا ساتھ دینے کی بجائے کفار اور مشرکوں کا ساتھ دیا کرتے ہیں۔ تاریخ عالم اٹھا کر دیکھیں کہ اہل کتاب نے ہمیشہ مسلمانوں کے مقابلے میں کفار اور مشرکین کا ساتھ دیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ ہندوستان کے مقابلے میں پاکستان امریکہ کے زیادہ قریب رہا ہے۔ اور ہر آڑے وقت میں امریکہ کی حمایت کی لیکن پاکستان پر جب مشکل وقت آیا تو امریکہ نے ہمیشہ ہندوستان کا ساتھ دیا ہے۔ اس سے ارباب سیاست کو قرآنی حقائق کا اندازہ کرنا چاہیے۔ لہٰذا امت مسلمہ کو آگاہ کیا جارہا ہے کہ تمہیں ایسے لوگوں سے چوکس اور چوکنا رہنا چاہیے جو تمہیں ہر وقت نقصان پہنچانے کے درپے رہتے ہیں۔ اس فرمان میں یہ اشارہ بھی موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کو اپنی رحمت کے ساتھ مخصوص فرمالیا تھا۔ اس لیے اب اہل کتاب کی سازشیں، کفار اور مشرکوں کی شرارتیں مسلمانوں کو چنداں نقصان نہیں پہنچا سکتیں کیونکہ جس پر اللہ تعالیٰ فضل فرمانے کا فیصلہ فرما لیتا ہے دنیا کی کوئی طاقت اس کے فضل اور فیصلے کے درمیان رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ رحمت سے مراد بعض اہل علم نے نبوت لی ہے کہ اہل کتاب رسول اللہ {ﷺ}کا نبی ہونا پسند نہیں کرتے حالانکہ نبوت کا انتخاب اللہ تعالیٰ کی رحمت کا اختصاص ہے وہ جسے چاہے نبوت کے لیے منتخب فرمائے۔ اب سلسلہ نبوت حضرت محمد {ﷺ}پر قیامت تک ختم ہوچکا ہے۔ مسائل : 1۔ یہود و نصاریٰ اور مشرک نہیں چاہتے کہ مسلمانوں پر خیر نازل ہو۔ 2۔ اللہ تعالیٰ صاحب فضل وکرم ہے جسے چاہتا ہے، اپنی رحمت سے نوازتا ہے۔ البقرة
106 فہم القرآن : ( آیت 106 سے 107) ربط کلام : اہل کتاب اس قدر بے باک اور مسلمانوں کی دشمنی میں آگے جا چکے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اختیارات میں مداخلت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو کوئی اختیار نہیں کہ وہ اپنی کتاب میں ترمیم و اضافہ کرے۔ اس بہانے وہ کتاب اللہ پر اعتراض اور نبی اکرم {ﷺ}کی نبوت پر تنقید کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کے دلوں میں حسد ہے جس بنا پر ایسی باتیں کرتے ہیں۔ نسخ کا معنٰی ہے کسی بات کو مٹانا یا اس کا ازالہ کرنا ہے۔ اس کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں : (1) ایک حکم خاص مدت کے لیے ہو، دوسری مدت کے لیے دوسرا حکم نازل ہوجائے۔ (2) تربیت اور خاص مصلحت کی خاطر پہلے حکم میں نرمی اور کچھ گنجائش رکھی گئی ہو بعد ازاں مکمل اور دائمی حکم نازل کردیا جائے۔ جس طرح شراب کی حرمت، قبلہ کی تبدیلی اور دوسرے معاملات کے بارے میں تدریجاً احکامات نازل ہوئے۔ قرآن مجید میں اس کے برعکس بھی مثال موجود ہے کہ قتال کے سلسلہ میں پہلا حکم سخت تھا لیکن اس کے بعد اس میں نرمی کردی گئی۔ (3) پہلا حکم لوگوں کی خاص حالت کے بارے میں ہوبعدازاں حالات کی تبدیلی کی وجہ سے اسے کلیۃً منسوخ کردیا جائے اور اس کی جگہ اس سے ملتا جلتا یا اس سے جامع اور کثیر المقاصد حکم نازل ہو۔ قرآن مجید میں تینوں اقسام کی امثال موجود ہیں۔ جن علماء نے ان تینوں اقسام کو ناسخ اور منسوخ میں شامل کیا ہے انہوں نے درجنوں آیات کو اس زمرہ میں شامل کردیا حالانکہ ناسخ‘ منسوخ کو حقیقی اور کلی معنوں میں لیا جائے تو ان کی تعداد چند آیات سے زیادہ نہیں ہے۔ اس بنا پر شاہ ولی اللہ {رض}نے صرف پانچ آیات کو منسوخ شمار کیا ہے۔ ناسخ اور منسوخ کے حوالے سے اہل کتاب اور مشرک دو قسم کے اعتراض کیا کرتے ہیں تاکہ مسلمانوں کو فکری الجھاؤ میں مبتلا کر کے ان کے ایمان وا یقان میں تذبذب پیدا کیا جا سکے۔ پہلا اعتراض یہ ہے کہ تورات اور انجیل اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہیں اور یہ قرآن ان کی تائید کرتا ہے تو پھر انہیں منسوخ کرنے اور الگ کتاب نازل کرناچہ معنی دارد؟ دوسرا اعتراض یہ تھا اور ہے کہ قرآن مجید میں فلاں مقام پر یہ مسئلہ پہلے اس طرح تھا اور اب اس میں ترمیم و اضافہ کیوں کیا گیا ہے؟ ان اعتراضات کا جواب دینے سے پہلے یہاں بنیادی بات یہ ارشادفرمائی کہ یہ حاکم مطلق کی مرضی اور اس کی مشیّت ہے کہ شریعت کے جس حکم کو چاہے معطل یا منسوخ کرے۔ اس میں مخلوق کا نہ تو عمل دخل ہے اور نہ ہی کسی کو اعتراض کرنے کی گنجائش ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کو منسوخ کرنا کسی شخص کا اختیار نہیں۔ یہاں تک کہ جس شخصیت گرامی پر اللہ کی کتاب نازل ہوئی ہے حضرت محمد {ﷺ}بھی اس میں زیروزبر کی تبدیلی کا اختیار نہیں رکھتے۔ یہ تو اس قادر مطلق اور شہنشاہ عالم کا اختیار ہے کہ وہ اپنے حکم کو جس طرح چاہے جب چاہے اور جس قدر چاہے اس میں تبدیلی کرے۔ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے احکامات اور اختیارات پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اس لیے ان آیات کے آخر میں پر جلال اور حاکمانہ انداز میں فرمایا ہے کہ اللہ ہی قادر مطلق با اختیار اور زمین و آسمان کا مالک ہے وہ تمہاری خیر خواہی کے لیے اپنے ضابطوں میں تبدیلی کرتا ہے۔ اس کے بغیر کوئی تمہارا خیر خواہ نہیں ہو سکتا۔ یہود و نصاریٰ اور مشرکین ومنکرین کسی خیر خواہی کی بنیاد پر نہیں بلکہ یہ بد نیتی وبددیانتی کی بنا پر اس قسم کے اعتراضات اٹھاتے ہیں۔ متعدد مقامات پر قرآن مجید نے پہلے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اے اہل کتاب تم نے اپنی کتابوں میں اس قدر تحریف کی کہ ان کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا اور یہ بھی یاد رکھو کہ وہ مخصوص مدت کے لیے ہی نازل کی گئیں تھیں۔ جس طرح حکومتوں کے بدلنے سے قانون بدلتے ہیں اس طرح ایک رسول کے بعد دوسرے رسول کے آنے پر شریعت میں تبدیلی لائی جاتی رہی ہے۔ یہ تو محمد عربی {ﷺ}کا اعزازوا کرام ہے کہ آپ قیامت تک کے لیے رسول ہیں اور آپ پر نازل کردہ قرآن بھی قیامت تک رہے گا۔ اس میں ترمیم و اضافہ کرنے کا کوئی مجاز نہیں اور اللہ تعالیٰ نے تا قیام قیامت اس کی حفاظت کا ذمہ لے لیا ہے۔ دوسرے سوال کا جواب یہ عنایت فرمایا کہ تمہارے لیے بہت سی چیزیں حرام تھیں اب انہیں حلال کردیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ تمہاری بہتری کے لیے ہی کیا گیا ہے۔ لہٰذا یہ اعتراض بھی تمہیں زیب نہیں دیتا۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے احکام منسوخ کرنے یا ان میں ردّ وبدل کرنے کا پورا حق ہے۔ 2۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ملک ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکتا۔ البقرة
107 البقرة
108 فہم القرآن : ربط کلام : ایک طرح نبی {ﷺ}اور مسلمانوں کو تسلی دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر اعتراض یہودیوں کے لیے معمول کی بات ہے کیونکہ انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی کتاب پر اس سے زیادہ نامناسب اعتراضات وسوالات کیے تھے۔ حصول علم اور طلب ہدایت کے لیے سوال کرنا‘ ناصرف جائز ہے بلکہ شریعت نے اس کی ترغیب دیتے ہوئے فرض قرار دیا ہے۔ البتہ خواہ مخواہ اور حیلہ سازی کے لیے سوال کرنا ناجائز قرار دیا ہے۔ یہودیوں کی یہ عادت تھی کہ وہ تعمیل حکم سے بچنے کے لیے مختلف بہانے تراشا کرتے تھے۔ ان کا ایک انداز یہ بھی تھا کہ وہ پے در پے بے مقصد سوال پر سوال کیے جاتے تھے تاکہ کسی طرح اس مسئلے سے ان کی جان چھوٹ جائے۔ ایک قتل کی تفتیش کے دوران جب انہیں گائے ذبح کرنے کا حکم صادر ہوا تو انہوں نے گائے ذبح کرنے کی بجائے کئی قسم کے سوال کر ڈالے بالآخر مجبور ہو کر گائے ذبح کرنے کے لیے تیار ہوئے۔ سوال کرنے کی عادت میں یہودی اس قدر عادی مجرم تھے کہ انہوں نے جناب موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ سوال بھی کیا کہ آپ اس قدر حیاکیوں اختیار کرتے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کو جنسی مرض لاحق ہوچکا ہو اور اس بات کو اس قدر اچھالا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی برأت فرمائی۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}عَنِ النَّبِیِّ {}قَالَ کَانَتْ بَنُوْ إِسْرَائِیْلَ یَغْتَسِلُوْنَ عُرَاۃً یَنْظُرُ بَعْضُھُمْ إِلٰی بَعْضٍ وَکَانَ مُوْسٰی یَغْتَسِلُ وَحْدَہٗ فَقَالُوْا وَاللّٰہِ مَایَمْنَعُ مُوْسٰی أَنْ یَّغْتَسِلَ مَعَنَا إِلَّا أَنَّہٗ آدَرُ فَذَھَبَ مَرَّۃً یَغْتَسِلُ فَوَضَعَ ثَوْبَہٗ عَلٰی حَجَرٍ فَفَرَّ الْحَجَرُ بِثَوْبِہٖ فَخَرَجَ مُوْسٰی فِیْ إِثْرِہٖ یَقُوْلُ ثَوْبِیْ یَاحَجَرُ حَتّٰی نَظَرَتْ بَنُوْ إِسْرَائِیْلَ إِلٰی مُوْسٰی فَقَالُوْا وَاللّٰہِ مَابِمُوْسٰی مِنْ بَأْسٍ وَأَخَذَ ثَوْبَہٗ فَطَفِقَ بالْحَجَرِ ضَرْبًا) (رواہ البخاری : باب من اغتسل عریاناوحدہ ) ” حضرت ابوہریرہ {رض}نبی کریم {ﷺ}سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا بنی اسرائیل کے لوگ ننگے نہایا کرتے اور ایک دوسرے کو دیکھا کرتے تھے لیکن موسیٰ (علیہ السلام) اکیلے ہی غسل کرتے تھے۔ یہودیوں نے کہا اللہ کی قسم ہمارے ساتھ موسیٰ (علیہ السلام) اس وجہ سے غسل نہیں کرتے کہ ان کے خصیتین میں بیماری ہے۔ ایک مرتبہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنے کپڑے پتھر پر رکھ کر غسل کررہے تھے تو پتھر کپڑے لے کر بھاگ کھڑا ہواچنانچہ موسیٰ (علیہ السلام) پتھر کے پیچھے یہ کہتے ہوئے بھاگے کہ اے پتھر ! میرے کپڑے دے دے۔ یہاں تک کہ بنی اسرائیل کے لوگوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو برہنہ حالت میں دیکھ کر کہا : اللہ کی قسم ! موسیٰ (علیہ السلام) کو کوئی تکلیف نہیں اور موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے کپڑے پکڑ کر پتھر کو مارنا شروع کردیا۔“ بہانہ سازی کی عادت خبیثہ سے مسلمانوں کو محفوظ و مامون رکھنے کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) کا حوالہ دے کر منع کیا جارہا ہے کہ کیا تم رسول {ﷺ}سے ایسے ہی سوالات کرنا چاہتے ہوجس طرح بے مقصد اور بے ہودہ سوال یہودیوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کیے تھے؟ رسول اللہ {ﷺ}نے مسلمانوں کو بے جا سوال کرنے سے منع فرمایا ہے : (ذَرُوْنِیْ مَاتَرَکْتُکُمْ فَإِنَّمَا ھَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ بِکَثْرَۃِ سُؤَالِھِمْ وَاخْتِلَافِھِمْ عَلٰی أَنْبِیَائِھِمْ فَإِذَا أَمَرْتُکُمْ بِشَیْءٍ فَأْتُوْا مِنْہُ مَااسْتَطَعْتُمْ وَإِذَا نَھَیْتُکُمْ عَنْ شَیْءٍ فَدَعُوْہُ) (رواہ مسلم : کتاب الحج، باب فرض الحج مرۃ ( ” مجھے چھوڑے رکھو جب تک میں تمہیں چھوڑے رکھوں یقیناتم سے پہلے لوگ زیادہ سوال کرنے کی وجہ اور انبیاء سے اختلاف کرنے کی بنا پر تباہ وبرباد ہوگئے۔ جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو اپنی طاقت کے مطابق اس پر عمل کرو اور جب میں تمہیں کسی چیز سے منع کروں تو اس کو چھوڑ دو۔“ مسائل: 1۔ یہودیوں کی طرح شریعت میں قیل و قال اور اعتراض وسوال نہیں کرنے چاہئیں۔ 2۔ شریعت کو بدلنے والا پرلے درجے کا گمراہ ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : یہودیوں کے بے ہودہ سوالات : 1۔ گائے کے متعلق موسیٰ (علیہ السلام) سے سوالات۔ (البقرۃ: 67تا71) 2۔ موسیٰ (علیہ السلام) سے مطالبہ کہ اللہ ہمیں سامنے دکھایا جائے۔ (النساء :153) 3۔ ہمارے لیے بھی مشرکوں کی طرح معبود بنائے جائیں۔ (الاعراف :138) 4۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا اپنی قوم کے لیے پانی طلب کرنا۔ (البقرۃ:60) 5۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مقتول کے بارے میں سوال کرنا۔ (البقرۃ:72) البقرة
109 فہم القرآن : ربط کلام : تمام اعتراضات کے پیچھے یہود ونصاریٰ کا ایک ہی مقصد ہے کہ تم سچے دین سے مرتد ہوجاؤ اور اس کے پیچھے دنیاوی مفادات کے ساتھ ان کا حسد بھی کار فرما ہے ان سے درگزر کرتے ہوئے اپنا کام جاری رکھو۔ رسول کریم {ﷺ}کی رسالت سے یہود و نصاریٰ کے انکار کابنیادی سبب یہ تھا کہ وہ سمجھتے تھے نبوت ہماری وراثت ہے کیونکہ نبوت کا سلسلہ صدیوں سے ہماری نسل میں چلا آ رہا ہے اب ہماری وراثت بنی اسماعیل کو کیوں منتقل کردی گئی ہے؟ اس صورت میں چاہیے تو یہ تھا کہ اہل مکہ یہود و نصاریٰ کے حسد و بغض کا ادراک کرتے ہوئے سرور دو عالم {ﷺ}کے ہم رکاب اور ہم زبان ہوجاتے لیکن وہ شرک و کفر کے مرض میں مبتلا ہو کر کہنے لگے منصب رسالت تو کسی سرمایہ دار، وڈیرے اور نواب کو ملنا چاہیے تھا اتنا بڑا منصب ایسے شخص کو کیونکر مل سکتا ہے؟ جو مالی لحاظ سے کنگال اور سماجی اعتبار سے یتیم ہے۔ اس سوچ کے پیش نظر اہل مکہ اور اہل کتاب سر توڑ کوشش میں لگ گئے کہ کسی طرح مسلمانوں کو رسالت مآب {ﷺ}سے برگشتہ اور ایمان کی متاع گراں مایہ سے محروم کردیا جائے۔ یہاں مسلمانوں کو یہ بتلایا اور سمجھایا جا رہا ہے کہ تمہارے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے یہ کسی غلط فہمی کی بنیاد پر نہیں بلکہ حق تو بالکل نمایاں ہوچکا ہے۔ اہل کتاب محض حسد کی بنیاد پر تمہاری مخالفت کے در پے ہیں لہٰذا انہیں معاف یا ان سے صرف نظر کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کو غالب کر دے۔ اس فرمان کا مقصد یہ ہے اے مسلمانوں ابھی تم کمزور ہو اس لیے صبر کرو اور وقت کا انتظار کرو۔ حسد ایسی مہلک اور منفی قوت ہے اس میں جو بھی مبتلا ہوتا ہے وہ کسی کی بھی عزت وعظمت کو برداشت نہیں کرپاتا۔ مزید یہ کہ وہ کسی بڑی سے بڑی حقیقت کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ بسا اوقات یہ بیماری اس قدر خطرناک صورت اختیار کرلیتی ہے کہ حاسد کو اپنی عزت کا خیال بھی نہیں رہتا۔ یہی حالت آپ کے مخالفوں کی تھی۔ اس لیے قرآن مجید کے اختتام سے پہلے سورۃ الفلق میں حاسد اور اس کے حسد سے پناہ مانگنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ آپ {ﷺ}نے امت کو حسد سے بچنے کی تلقین اور اس کے مضرات سے متنبہ فرمایا۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}أَنَّ النَّبِیَّ { }قَالَ إِیَّاکُمْ وَالْحَسَدَ فَإِنَّ الْحَسَدَ یَأْکُلُ الْحَسَنَاتِ کَمَا تَأْکُلُ النَّارُ الْحَطَبَ) (رواہ ابو داؤد : کتاب الادب، باب فی الحسد) ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں نبی معظم {ﷺ}نے فرمایا : حسد سے بچو کیونکہ وہ نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے سوکھی لکڑیوں کو آگ بھسم کردیتی ہے۔“ حضرت ابوہریرہ {رض}بیمار ہوئے تو رسول اللہ {ﷺ}نے ان کی عیادت کے وقت فرمایا : ابوہریرہ! میں تجھے وہی دم کروں جو مجھے جبریل (علیہ السلام) نے کیا تھا؟ انہوں نے عرض کی کیوں نہیں میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ آپ {ﷺ}نے یہ دم تین مرتبہ کیا : (بِسْمِ اللّٰہِ أَرْقِیْکَ وَاللّٰہُ یَشْفِیْکَ مِنْ کُلِّ دَاءٍ فِیْکَ مِنْ شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِی الْعُقَدِ وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ) (رواہ ابن ماجۃ: کتاب الطب، باب ماعوذ بہ النبی {}وماعوذ بہ) ” اللہ کے نام سے تجھے دم کرتاہوں اللہ تجھے ہر بیماری سے شفادے جو تجھے لاحق ہے اور گرہوں میں پھونک مارنے والیوں کے شر سے اور حاسد کے شر سے جب وہ حسد کرے۔“ مسائل: 1۔ یہود و نصاریٰ حسد و بغض کی وجہ سے مسلمانوں کو مرتد کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ 2۔ یہود و نصاریٰ اچھی طرح دین اسلام اور نبی کریم {ﷺ}کی ذات کو پہچانتے ہیں۔ 3۔ اہل کتاب سے بحث و تکرار کرنے کی بجائے انہیں صرف نظر کردینا چاہیے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کا حکم غالب ہو کر رہتا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : حسد وبغض اور اس کا علاج : 1۔ اہل کتاب کی مذموم سوچ اور حاسدانہ کردار۔ (البقرۃ:120) 2۔ کسی سے حسد کرنے کی بجائے اللہ سے مانگنا چاہیے۔ (النساء :32) 3۔ حسد سے پناہ مانگنی چاہیے۔ (الفلق :5) 4۔ شیطان چاہتا ہے کہ تمھارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے۔ (المائدۃ:91) 5۔ اللہ نے یہود و نصاریٰ کے درمیان بغض اور دشمنی قیامت تک کے لیے ڈال دی ہے۔ (المائدۃ:14) البقرة
110 فہم القرآن : ربط کلام : اہل کتاب کے پیچھے پڑ کر وقت اور صلاحیتیں ضائع کرنے کی بجائے اپنے دین کی طرف توجہ دو اور نماز کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑو اور زکوٰۃ ادا کر کے اپنے بھائیوں کی مدد کرو۔ پچھلی آیت میں فرمایا گیا ہے کہ ایسے لوگوں سے الجھنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی نصرت و حمایت کا انتظار کرو۔ اللہ ہر بات اور ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ لیکن یاد رکھنا اللہ کی مدد کی اولین شرائط میں سچے ایمان کے بعد نماز اور زکوٰۃ ادا کرنا ہے کیونکہ نماز اللہ تعالیٰ کے قرب اور باہمی اتحاد کا ذریعہ ہے۔ زکوٰۃ ایک دوسرے سے تعاون اور اللہ تعالیٰ کی محبت کا زینہ ہے۔ جن لوگوں میں یہ اوصاف ہوں گے وہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی نصرت کے حقدار اور آخرت میں سرخرو ہوں گے۔ جو کچھ بھی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اللہ کے ہاں محفوظ پاؤ گے۔ محکم یقین رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔ تیسویں پارے میں فرمایا کہ جس نے ذرہ برابر نیکی کی وہ اسے پا لے گا۔ اور جس نے ذرہ برابر برائی کی وہ بھی اسے اپنے سامنے پائے گا۔[ زلزال : 7،8] نماز اللہ تعالیٰ کی قربت کا ذریعہ ہے : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ {}إِنَّ اللّٰہَ قَالَ مَنْ عَادٰ ی لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ آذَنْتُہٗ بالْحَرْبِ وَمَا تَقَرَّبَ إِلَیَّ عَبْدِیْ بِشَیْءٍ أَحَبَّ إِلَیَّ مِمَّا افْتَرَضْتُہٗ عَلَیْہِ وَمَا یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ إِلَیَّ بالنَّوَافِلِ۔۔) (رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب التواضع) ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا : بے شک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس نے میرے ولی سے دشمنی کی میں اس کے ساتھ اعلان جنگ کرتاہوں اور میرا بندہ کسی چیز کے ساتھ بھی میرا قرب حاصل نہیں کرسکتا جو مجھے اس سے زیادہ محبوب ہوں جو میں نے اس پر فرض کی ہیں اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا ہے۔۔“ زکوٰۃ تعاون کا ذریعہ ہے : ) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ {رض}أَنَّ النَّبِیَّ {}بَعَثَ مُعَاذًا إِلَی الْیَمَنِ فَقَالَ ادْعُھُمْ إِلٰی شَھَادَۃِ أَنْ لَّاإِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ فَإِنْ ھُمْ أَطَاعُوْا لِذٰلِکَ فَأَعْلِمْھُمْ أَنَّ اللّٰہَ قَدِ افْتَرَضَ عَلَیْھِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِیْ کُلِّ یَوْمٍ وَّلَیْلَۃٍ فَإِنْ ھُمْ أَطَاعُوْا لِذٰلِکَ فَأَعْلِمْھُمْ أَنَّ اللّٰہَ افْتَرَضَ عَلَیْھِمْ صَدَقَۃً فِیْ أَمْوَالِھِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِیَائِھِمْ وَتُرَدُّ عَلٰی فُقَرَائِھِمْ) (رواہ البخاری : کتاب الزکوٰۃ، باب وجوب الزکوٰۃ) ” حضرت عبداللہ بن عباس {رض}بیان کرتے ہیں نبی کریم {ﷺ}نے حضرت معاذ {رض}کو یمن کی طرف بھیجتے ہوئے فرمایا انہیں دعوت دو کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور یقینًا میں اللہ کا رسول ہوں اگر وہ تیری بات مان لیں تو انہیں بتلائیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں اگر وہ تیری اس بات میں اطاعت کریں تو انہیں بتائیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے اموال میں زکوٰۃ فرض کی ہے جو ان کے امیروں سے لے کر ان کے غریبوں کو دی جائے گی۔“ مسائل : 1۔ مسلمانوں کو دین، نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی پر کاربند رہنا چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو دنیا اور آخرت میں اجرو ثواب سے نوازیں گے۔ تفسیر بالقرآن : نماز کا حکم : 1۔ (البقرۃ:43، 83، 110) 2۔ (النساء : 77، 103) 3۔ (الانعام :72) 4۔ (یونس :87) 5۔ (الحج :78) 6۔ (النور :56) 7۔ (الروم :31) 8۔ (المجادلۃ :13) 9۔ (المزمل :20) زکوٰۃ کی اہمیت : 1۔ حضرت ابراہیم، لوط، اسحاق و یعقوب (علیہ السلام) کو زکوٰۃ کا حکم۔ (الانبیاء :73) 4۔ بنی اسرائیل کو زکوٰۃ کا حکم۔ ( البقرۃ:83) 2۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا اپنے اہل خانہ کو زکوٰۃ کا حکم۔ (مریم :55) 5۔ تمام امتوں کو زکوٰۃ کا حکم۔ (البینۃ:5) 3۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو زکوٰۃ کا حکم۔ (مریم :31) 6۔ زکوٰۃ مال کا تزکیہ کرتی ہے۔ (التوبۃ:103) البقرة
111 فہم القرآن : (آیت 111 سے 112) ربط کلام : اہل کتاب قرآن کے منکر‘ مسلمانوں کے دشمن اور ایک دوسرے کو کافر کہنے کے باوجود جنت کے ٹھیکیدار بنتے تھے۔ یہاں ان کے دعوے کی قلعی کھولتے ہوئے ایک اصول بیان کیا گیا ہے کہ نیک اور جنت کا وارث وہ ہے جس نے اپنے آپ کو اللہ کے حکم کے تابع کردیا۔ انبیاء کے نافرمان اور نبی آخر الزماں {ﷺ}کے گستاخ اللہ تعالیٰ کے اختیارات پر اعتراضات کرنے والے حسد و بغض کے پیکر یہود و نصاریٰ مسلمانوں کو دولت ایمان سے محروم کرنے کی سازشیں کرنے اور صلوٰۃ و زکوٰۃ سے عملاً انحراف کرنے کے باوجود سمجھتے ہیں کہ ہم ہی جنت کے مالک ہوں گے۔ حالانکہ ” اللہ“ کی جنت اتنی ارزاں اور کم حیثیت نہیں کہ جو چاہے اپنے من ساختہ تصورات، دعوؤں اور نعروں کی بنیاد پر اسے حاصل کرلے یہ تو ایمان، اخلاص کی دولت اور اعمال کی گراں قدر قیمت پیش کرنے سے ہی مل سکے گی۔ لہٰذا اگر تم جنت کے حقدار ہو تو اس کے لیے کوئی ثبوت اور سرمایۂ عمل پیش کرو۔ ہاں جنت میں وہ شخص ضرور جائے گا جس نے اپنے چہرے اور عمل کو اپنے رب کے لیے حوالے کردیا ہے۔ چہرہ حوالے کرنے سے مراد کلی طور پر تابع فرمان ہونا ہے۔ جس میں یہ امر بھی لازم ہے کہ اس کے عمل پر خاتم النبیین {ﷺ}کی سنت کی مہر لگی ہوئی ہو۔ یہودی عیسائی گٹھ جوڑ : 1492 ء تک سارے مغرب میں یہودیوں کا داخلہ بند تھا۔ یہودیوں کے بارے میں عیسائی یہ یقین رکھتے تھے کہ اللہ کی پیدا کردہ مخلوقات میں سب سے بدترین اور شریر ترین مخلوق یہودی ہیں۔ یہودیوں پر سب سے زیادہ تشدد اور ظلم عیسائیوں ہی نے کیا ہے عیسائی انہیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا قاتل سمجھتے تھے یہ دور یہودیوں پر عیسائیوں کے بدترین تشدد کا دور تھا۔ ان کے لیے دنیا میں کوئی جائے پناہ نہ تھی۔ لیکن عجیب اتفاق ہے کہ 1948 ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد عیسائیوں کی یہود دشمنی آہستہ آہستہ ختم ہونے لگی۔ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر وہ یہودیوں سے بھی زیادہ اسرائیل کی توسیع اور استحکام کے وکیل بنے ہوئے ہیں۔ ان کے بڑے بڑے مبلّغین مثلاً جیری فال ویل اور جمی سوا گراٹ جنہیں امریکہ کی بہت بڑی اکثریت انتہائی انہماک سے سنتی ہے امریکی اسے اپنا مذہبی راہنما قرار دیتے ہیں۔ یہودیوں کی وکالت کر رہے ہیں سابق صدر جمی کارٹر کا کہنا ہے کہ ” اسرائیل کا قیام بائبل کی پیشین گوئی کی تکمیل ہے۔“ اسی طرح سابق صدر رونالڈ ریگن نے بھی کہا تھا کہ ” عنقریب دنیا فنا ہوجائے گی۔“ (صرف عیسائی اور یہودی زندہ رہیں گے) حالانکہ حیرت انگیز طور پر صدر کینیڈی تک امریکہ کے بیشتر صدور اسرائیل اور یہودیوں کے سخت ترین مخالف تھے۔ صدر آئزن ہاور یہودیوں کی توسیع پسندی کے سخت دشمن تھے۔ امریکہ کے ایک صدر جارج بش واشنگٹن نے اپنے عوام کو متنبہ کیا تھا کہ ” یہودی خون چوسنے والی چمگادڑیں ہیں اور اگر تم نے انہیں امریکہ بدر نہ کیا تو دس سال سے بھی کم عرصہ میں یہ تمہارے ملک پر حکمرانی کرنے لگیں گے اور تمہاری آزادی کو سلب کرلیں گے۔“ (بیان ایمسٹرڈم چیمبر 22-9-1654) خوش قسمتی سے اسی زمانے میں کو لمبس نے امریکہ دریافت کیا تھا۔ چنانچہ یہودیوں نے خود کو محفوظ رکھنے کی خاطر امریکہ کو اپنا وطن بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ انہوں نے دور اندیشی کی بنیاد پر نیویارک کی بندرگاہوں کو اپنے لیے منتخب کیا تاکہ سمندری و تجارتی راستے سے وہ پہلے امریکہ اور پھر ساری دنیا پر قبضہ کرسکیں۔ ان کے اسی فیصلے کے بعد آج نیو یارک کو جیویارک بھی کہا جاتا ہے۔ دوسری طرف پروٹسٹنٹ عیسائی بھی امریکہ چلے گئے۔ اس طرح امریکہ میں آج تک یہی فرقہ اکثریت میں موجود رہا۔ یہ پروٹسٹنٹ عیسائی ہی تھے جنہوں نے یہودیوں کے لیے عیسائیوں کے دلوں میں نرم گوشہ پیدا کیا اور ان کی حمایت کی۔ ان کے اثرات ہی کی وجہ سے عیسائیوں کی بڑی آبادی اس بات کی قائل ہوئی کہ فلسطین کو یہودیوں کی سرزمین قرار دیا جائے۔ یہودیوں کے ساتھ ان کی ہمدردی کا یہ حال تھا کہ صیہونی (اسرائیلی) تحریک سے پہلے قیام اسرائیل کا مطالبہ کرنے والے یہودی نہیں بلکہ خود عیسائی تھے۔ عیسائیوں کا کہنا تھا کہ ارض مقدس میں یہودیوں کی واپسی نزول مسیح کا پیش خیمہ ہے۔ عیسائیوں کو یہودیوں سے اس لیے بھی ہمدردی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی آمد کے بعد تمام یہودی آخر کار عیسائیت اختیار کرلیں گے۔ مسائل: 1۔ یہود و نصاریٰ ایمان و عمل کے بغیر جنت میں جانے کے دعوے دار بنتے ہیں۔ 2۔ جنت میں جانے کے لیے نبی آخرالزماں {ﷺ}پر ایمان اور عمل صالح کی ضرورت ہے۔ تفسیر بالقرآن جنت کے تقاضے : 1۔ جنت دعووں اور نعروں کی بنیاد پر نہیں ملے گی۔ (البقرۃ:111) 2۔ جنت مشکلات برداشت کئے بغیر نہیں ملے گی۔ (البقرۃ :214) 3۔ ایمان اور عمل صالح کی بنیاد پر جنت الفردوس حاصل ہوگی۔ (الکہف :107) 4۔ جنت آزمائش میں گزرے بغیر حاصل نہیں ہوگی۔ (العنکبوت :3) البقرة
112 البقرة
113 فہم القرآن : ربط کلام : اہل کتاب مسلمانوں کے خلاف شروع سے ہی متحد ہیں حالانکہ ان کی باہمی منافرت اور فرقہ واریت کا عالم یہ ہے کہ ایک دوسرے کو کافر گردانتے ہیں۔ مسلمانوں کے مقابلے میں یہود و نصاریٰ اکٹھے ہو کر کہا کرتے تھے کہ ہماری جماعتوں کے علاوہ کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہو پائے گا۔ حالانکہ مسلمانوں کے خلاف اتحاد کے باوجود ان کی باہمی منافرت اور فرقہ وارانہ کشیدگی کا عالم یہ تھا کہ وہ آپس کے جنگ وجدال میں اس حد تک آگے بڑھ چکے تھے کہ یہودیوں نے انجیل کے بارے میں کہا یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہی نہیں ہوئی۔ پھر تعصب میں اس قدر اندھے ہوئے کہ جناب عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ ماجدہ پر رقیق حملے کیے۔ عیسائیوں نے دو ہاتھ آگے بڑھتے ہوئے نہ صرف تورات کا منزل من اللہ ہونے کا انکار کیا بلکہ حضرت موسیٰ کلیم اللہ کی ذات گرامی پر بھی تہمتیں لگائیں۔ ان کی دیکھا دیکھی مشرکین بھی کہنے لگے کہ جب تک یہ لوگ ہمارے معبودوں کو مشکل کشا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں انہیں وسیلہ قرار نہیں دیں گے اس وقت تک ان کی نجات مشکل ہوگی۔ اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ یہ تو اللہ ہی فیصلہ کرے گا کہ کس کے پلے میں کیا ہے؟ اور حق و باطل کے حوالے سے کوئی کس مقام پر کھڑا تھا؟ اس فرمان میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ امّتِ محمدیہ کے خلاف ابتداء ہی سے کفر کے حامی یکجارہے ہیں۔ تفسیر ابن کثیر میں عبداللہ بن عباس {رض}سے مروی ہے : ” جب نجران کے عیسائی رسول اللہ {ﷺ}کے پاس آئے تو ان کے پاس یہودیوں کے علماء بھی آئے اور انہوں نے رسول اللہ {ﷺ}کے پاس جھگڑا کیا۔ رافع بن حریملہ نے کہا : تم کسی دین پر نہیں ہو اور ساتھ ہی عیسیٰ (علیہ السلام) اور انجیل کے ساتھ کفر کردیا اور اہل نجران کے عیسائیوں میں سے ایک شخص نے یہودیوں کو کہا : تم کسی دین پر نہیں اور اس کے ساتھ ہی موسیٰ (علیہ السلام) اور تورات کے ساتھ کفر کا اظہار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہی باتوں کے متعلق فرمایا اور یہ آیت نازل فرمائی کہ ( یہود کہتے ہیں کہ نصاریٰ حق پر نہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ یہودی حق پر نہیں حالانکہ یہ لوگ تورات پڑھتے ہیں)۔“ عیسائیوں اور یہودیوں کی باہم ہرزہ سرائی : یہودیوں اور عیسائیوں کی دشمنی ہزاروں سال پرانی ہے۔ یہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دور سے شروع ہوئی تھی اور رسول اللہ {ﷺ}کی بعثت سے تقریباً سو سال پہلے شدو مد سے جاری تھی عیسائیوں کے نزدیک یہودیوں کے درج ذیل بڑے بڑے یہ جرائم تھے اور جن کی بنیاد پریہودی قابل گردن زدنی سمجھے جاتے تھے۔ 1۔ یہودی حضرت مریم ( علیھا السلام) پر (نعوذ باللہ) بدکاری کا الزام لگاتے ہیں۔ 2۔ یہودی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو تختۂ دار پر لٹکانے کا دعو ٰی کرتے ہیں۔ 3۔ یہودی عیسیٰ (علیہ السلام) کو (نعوذ باللہ) (خاکم بدہن) ناجائز بچہ قرار دیتے ہیں۔ 4۔ قرب قیامت یہودی عیسیٰ (علیہ السلام) کی آمد کو (نعوذ باللہ) دجال کی آمد تصور کرتے ہیں۔ 5۔ یہودی عیسائیت کا انکار کرتے ہیں۔ 6۔ عیسائیوں کے خیال کے مطابق یہودی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قاتل ہیں۔ چنانچہ انہی جرائم کی بنیاد پر عیسائیوں کے نزدیک یہودی قوم انتہائی قابل نفرت قوم رہی ہے۔ عیسائی انہیں روئے زمین پر سب سے شریر اور خبیث مخلوق قرار دیتے تھے اور جہاں پاتے تھے قتل کردیتے تھے۔ حال یہ تھا کہ ابتدائی دور میں جب یورپ میں طاعون (یا کالی وبا) پھیلی جس کے باعث لاتعداد ہلاکتیں ہوئیں تو عیسائیوں نے اس کا سبب یہودیوں کو ٹھہرایا حالانکہ خود عیسائی بھی اس مرض میں ہلاک ہو رہے تھے۔ یہودیوں کی جلاوطنی : 586 ء میں شاہ بابل نے یروشلم پر قبضہ کیا اور عبادت خانے کو تباہ کردیا۔ 472 ق م میں یونانی بادشاہ انہولنس نے یروشلم پر حملہ کر کے سلیمانی ہیکل کا نام و نشان مٹا دیا اور اسے بت خانے میں تبدیل کردیا۔ 135 میں رومی بادشاہ ہیڈریان نے یروشلم کو ایک بار پھر تباہ و برباد کردیا۔ 1228 ء اسپین میں یہودیوں کو قانونی طور پر لباس کے اوپر نمایاں نشان آویزاں کرنے کا حکم دیا گیا۔ 1266 ء پولینڈ کے گرجاؤں نے فیصلے صادر کئے کہ یہودی عیسائیوں کے ساتھ اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ 1321 ء فرانس میں ایک گڑھے میں 160 یہودی دفن کئے گئے۔ 1355 ء اسپین میں ایک مشتعل ہجوم نے بارہ ہزار یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ 1391 ء میجور کا جزیرے میں پچاس ہزار یہودی تہ تیغ کئے گئے۔ 1391 ء سسلی میں بڑے پیمانے پر یہودیوں کا قتل عام کیا گیا۔ 1422 ء ” کیسٹائل“ میں یہودیوں کو علیحدہ علاقے میں رہنے اور امتیازی پٹی پہننے پر مجبور کیا گیا۔ 1420 ء لیؤن : فرانس سے یہودیوں کو نکال باہر کیا گیا۔ 1492 ء اسپین میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار یہودی ملک بدر کئے گئے۔ 1492 ء سسلی اور مالٹا سے یہودیوں کو نکال باہر کیا گیا۔ پولینڈ نے پہلی مرتبہ یہودی حد بندی کا آغاز کیا۔ (یہودیوں کو ایک مخصوص علاقہ میں محدود کرنے کو یورپ میں Ghetto کی اصطلاح سے پکارا جاتا ہے۔) 1498 ء پرتگال میں ایک بھی یہودی باقی نہ رہنے دیا گیا۔ 1935 ء تا 1941 ء۔ ہٹلر نے ہزاروں یہودیوں کو انسانیت سوز سلوک سے دو چار کر کے عظیم تباہی مچائی۔ (یہودی اس سانحے کو ہولو کاسٹ Holocaust کہہ کر پکارتے اور بے حد مبالغے سے کام لے کر دنیا کی ہمدردیاں سمیٹتے ہیں۔ (حوالہ کتاب : عرب اور اسرائیل‘ ازرون ڈیوڈ صفحہ 75 اور صفحہ 108) مسائل : 1۔ یہود و نصاریٰ اپنے آپ کو جنت کا وارث سمجھنے کے باوجود ایک دوسرے کو کافر گردانتے ہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ روز قیامت ہر قسم کے اختلافات کا فیصلہ فرمائیں گے۔ تفسیر بالقرآن: یہود ونصاریٰ کے باہمی اختلافات : 1۔ مسلمان یہودیوں اور عیسائیوں کو متحد سمجھتے ہیں۔ حالانکہ وہ باہم ایک دوسرے کے خلاف ہیں۔ (البقرۃ:113) 2۔ یہود و نصاری قیامت تک باہم اختلاف کرتے رہیں گے۔ (المائدۃ:14) 3۔ یہودیوں کا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ پر الزام۔ (النساء :156) 4۔ یہودی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کے دعویدار ہیں۔ (النساء :157) البقرة
114 فہم القرآن : ربط کلام : نیا خطاب شروع ہوا ہے جس میں اہل کتاب کے ساتھ مشرکین مکہ کو مخاطب کیا گیا ہے۔ یہود و نصاریٰ نے نا صرف ایک دوسرے کی آسمانی کتابوں کی نفی کی بلکہ اس سے آگے بڑھ کرانبیاء کرام (علیہ السلام) کی عظیم شخصیات کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہاں تک کہ عبادت گاہوں کو فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے مذہبی منافرت کے مورچے بنا لیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک دوسرے کے معبد خانوں پر حملہ آور ہوئے اور طاقتوروں نے عبادت گاہوں کے تقدس و احترام کو پامال کیا۔ بسا اوقات ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی جیسا کہ بیت المقدس کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے۔ ایسا ہی کردار مشرکین مکہ کا تھا۔ بیت اللہ جس کی تعمیر کا مقصد ہی اس میں اللہ کی عبادت کرنا اور اسے زیارت گاہ قرار دیتے ہوئے مرکزِتوحید ٹھہرایا گیا ہے۔ ایک عرصہ تک نبی محترم {ﷺ}اور مسلمانوں کو اس کی زیارت سے محروم رکھا اور اس میں عبادت کرنے سے منع کردیا گیا۔ یہ تو اسلام کی خصوصیت ہے کہ جس نے نظریاتی اختلافات کے باوجود ہر عبادت گاہ کو احترام کی نظر سے دیکھنے کا حکم دیا ہے۔ جس کی آپ نے اس وقت عملاً اعلیٰ مثال قائم فرمائی جب نجران کے عیسائی آپ سے اسلام کے بارے میں مذاکرات کرنے لیے مسجد نبوی میں حاضر ہوئے گفتگو کے دوران ظہر کی نماز کا وقت ہوا تو آپ {ﷺ}یہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے کہ ہمیں اب نماز پڑھنا ہے۔ یہ سنتے ہی وفد کہنے لگا کہ اگر اجازت ہو تو ہم بھی اپنے طریقے اور قبلہ کے مطابق آپ کی مسجد میں نماز ادا کرلیں؟ آپ نے بڑی خوشی کے ساتھ انہیں نماز پڑھنے کی اجازت دے کر عملًا یہ ثابت کیا کہ واقعتا مسجدیں اللہ کا گھر ہیں اور ان میں ہر کسی کو اللہ کی عبادت کرنے کا حق ہے اور ملنا چاہیے۔ [ تفسیر ابن کثیر : آل عمران :61] بشرطیکہ باطل نظریات کا پرچار اور اس میں بد نظمی نہ کی جائے کیونکہ کسی شخص کو دوسرے کی عبات گاہ میں جا کر اپنے نظریات پھیلانے کا حق نہیں پہنچتا۔ مسلمانوں کی چودہ سو سالہ تاریخ میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتاکہ انہوں نے کسی علاقے میں بھی اپنے دور حکومت میں دوسروں کے معبد خانوں میں جا کر تبلیغ کی ہو بلکہ مسلم حکمرانوں نے ان کو ہر قسم کا تحفظ فراہم کیا۔ البتہ کسی کو مسجدوں میں شور و غل اور بدنظمی پیدا کرنے کا حق نہیں دیا جا سکتا۔ مسجد بالخصوص بیت اللہ کا ماحول خراب کرنے والے کو اللہ تعالیٰ دنیا میں ذلیل اور آخرت میں شدید عذاب میں مبتلا کرے گا۔ مسجدوں کا ماحول اتنا سنجیدہ اور عبادت گزاری کا ہونا چاہیے کہ کوئی بد تمیزی اور شر پسندی کی کوشش کرے تو اپنے آپ میں خفّت اور ذلّت محسوس کیے بغیر نہ رہ سکے جو لوگ مسجدوں میں بحث و تکرار اور لڑائی جھگڑا کرتے ہیں ایسے لوگ بالآخر لوگوں کی نظروں میں ذلیل ہوجاتے ہیں۔ آپ نے مسجد اور بازار کا فرق بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ مسجدوں میں اس طرح بلند آواز سے گفتگو نہیں کرنا چاہیے جس طرح منڈی اور بازار میں کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ قرآن مجید کی تلاوت مناسب آواز سے کرنا چاہیے تاکہ ہر آدمی یکسوئی اور پورے انہماک کے ساتھ ذکر و فکر اور اللہ کی عبادت کرسکے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ {رض}قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ {}لِیَلِیَنِیْ مِنْکُمْ أُولُوا الْأَحْلَامِ وَالنُّھٰی ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثَلَاثًا وَّإِیَّاکُمْ وَھَیْشَاتِ الْأَسْوَاقِ) [ رواہ مسلم : کتاب الصلوۃ، باب تسویۃ الصفوف وإقامتھا] ” حضرت عبداللہ بن مسعود {رض}نبی کریم {ﷺ}سے بیان کرتے ہیں کہ آپ {ﷺ}نے فرمایا میرے قریب عقلمند لوگ کھڑے ہوا کریں۔ پھر ان سے کم۔ یہ کلمات آپ نے تین دفعہ دہرائے اور فرمایا مسجدوں میں بازاروں کی طرح شور و غوغا نہ کیا کرو۔“ مسائل: 1۔ اللہ کے گھروں سے لوگوں کو روکنے والا ظالم ہے وہ دنیا و آخرت میں ذلیل ہوگا۔ 2۔ شرارتی لوگوں پر کڑی نظر رکھنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: مسجد کا مقام واحترام : 1۔ مسجدیں صرف اللہ کی عبادات کے لیے ہیں۔ (الجن :18) 2۔ مسجدیں شرک سے پاک ہونی چاہییں۔ (الحج :26) 3۔ مسجدوں کی صفائی کا خیال رکھنا چاہیے۔ (الحج :26) 4۔ مسجدیں نماز اور اعتکاف کے لیے ہوتی ہیں۔ (البقرۃ:125) 5۔ مسجدیں آباد کرنا صرف ایمانداروں کا حق ہے۔ (التوبۃ:18) 6۔ مشرک کو بیت اللہ میں داخل ہونے کا حق نہیں ہے۔ (التوبۃ:28) البقرة
115 فہم القرآن : ربط کلام : سابقہ آیات میں مساجد کے احترام و اکرام اور ان کا مقصد بیان فرمایا کہ ان میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہونا چاہیے۔ یہاں اس بات کی وضاحت فرمائی گئی کہ اللہ تعالیٰ کی توجہ صرف مسجدوں تک محدود نہیں بلکہ پوری زمین مشرق سے لے کر مغرب تک اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے۔ اس کی توجہ زمین کے چپے چپے اور ذرّے ذرّے پر ہے۔ اسلام حقیقت پسندی کا مذہب ہے اور اس کی تعلیم یہ ہے کہ شعائر کا احترام اور خیال رکھنے کے باوجود آدمی کی نظر ہمیشہ حقائق اور اصلیت پر رہنی چاہیے۔ کیونکہ قومیں جب ظاہر پرستی میں مبتلا ہوجائیں تو ان میں حقیقی روح اور جذبہ ختم ہوجایا کرتا ہے۔ یہی صورت حال عیسائیوں اور یہودیوں میں پیدا ہوئی جس کی وجہ سے عیسائیوں نے بیت المقدس میں اس جگہ کو زیادہ افضل قرار دیا جس مشرقی کونے میں حضرت مریم (علیہا السلام) نے اپنے آپ کو عبادت کے لیے وقف کیا تھا اور جہاں عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش ہوئی تھی جسے بیت اللحم کہا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں یہودیوں نے مغربی جانب کو اپنے لیے زیادہ محترم قرار دیا کہ ہیکل سلیمان یہاں واقع ہے۔ مسلمانوں پر بھی ایسا دور گزرا ہے کہ جب بیت اللہ کو فکری اور جغرافیائی طور پر تقسیم کردیا گیا۔ ملک عبد العزیز آل سعود کی حکومت سے پہلے ترکوں کی طرف سے مکہ کے گورنر جسے شریف مکہ کہا جاتا ہے اس کے دور میں بد قسمتی سے اتحاد کے نام پر بیت اللہ میں چار مصلے بچھا دیے گئے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حطیم کی طرف کھڑے ہونے والے اس لیے دوسرے امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے تھے کہ ہم فلاں ہیں اور ہماری جائے نماز زیادہ افضل ہے۔ ان کے مقابلے میں رکن یمانی کی جانب کھڑے ہونے والے اپنے آپ کو زیادہ حق پر سمجھتے کہ ہماری جانب حجر اسود کی طرف ہے۔ علی ھٰذا القیاس افسوس ! مرکز توحید و اتحاد میں بھی ملت تقسیم ہو کر رہ گئی۔ یہاں وضاحت فرمائی گئی ہے کہ بے شک تمہارے لیے ایک قبلہ مقرر کردیا گیا ہے جو تمہارے لیے یکسوئی اور اتحاد کی علامت بنایا گیا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی توجہ اس میں محدود نہیں ہوگی۔ اس کی توجہ ہر جانب یکساں اور متواتر ہوا کرتی ہے۔ انسان کوتاہ نظر اور کم ظرف ہے۔ ورنہ اللہ کے فضل وعطاکی وسعتیں اور عفو ودرگزر کی جہتیں بے مثال ولا محدود ہیں۔ مسائل: 1۔ انسان جدھر بھی منہ کرے اللہ تعالیٰ کی اس طرف توجہ ہوتی ہے۔ 2۔ اللہ مشرق و مغرب کا مالک اور ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ نوٹ : قبلہ کے بارے میں بحث دوسرے پارے کی ابتدا میں ملاحظہ فرمائیں۔ البقرة
116 فہم القرآن : (آیت 116 سے 117) ربط کلام : جب زمین و آسمان کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ تو اسے اولاد کی کیا ضرورت وہ تو کن کہتا ہے اور ہر چیز اس کی مرضی کے مطابق معرض وجود میں آجاتی اور اس کی غلامی میں لگ جاتی ہے۔ اولاد کی حاجت انسان کو ہے اللہ تعالیٰ ان حاجات اور کمزوریوں سے پاک ہے۔ سلسلۂ کلام سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ یہود و نصاریٰ انبیاء کے گستاخ، دین کے لیے ننگ و عار‘ عبادت خانوں کی بے رونقی کا باعث اور اللہ تعالیٰ کی توہین کرنے والے ہیں۔ جس کی بنا پر یہودیوں نے جناب عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا کہا اور عیسائیوں نے اس میں اضافہ کرتے ہوئے حضرت مریم کو خدا کی بیوی اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو ان کا بیٹا ٹھہرایا۔ مشرکین مکہ نے بتوں کو خدا کا اوتار تصور کیا اور کچھ اقوام نے ملائکہ کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیا۔ یہاں اس بات کی سختی کے ساتھ تردید کی جا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد نہیں وہ اس کمزوری سے بالکل مبرّا اور پاک ہے کیونکہ اولاد سلسلۂ نسب کے تسلسل کے لیے ضروری‘ انسان کی ضرورت اور اس کی طبعی محبت کا تقاضا ہے۔ آدمی کی اولاد نہ ہو تو وہ اپنے گھر ہی میں ویرانی، بے رونقی اور تنہائی محسوس کرتا ہے اور اپنے آپ کو کمزور اور بے سہارا سمجھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو ان تمام کمزوریوں سے مبرّا ہے۔ اسے کسی لحاظ سے بھی نہ سہارے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اسے تنہائی اور کمزوری کا احساس ہوتا ہے اور نہ ہی وہ کسی کی محبت میں مبتلا ہے۔ حاکم کل اور قادر مطلق ہے۔ کیونکہ جو کچھ زمین و آسمانوں میں ہے ہر چیز اس کی غلام اور تابع فرمان ہے۔ اس نے زمین و آسمان کو بغیر نقشے اور میٹریل کے پیدا کیا وہ تو صرف اتنا حکم دیتا ہے کہ ہو جاوہ چیز ٹھیک ٹھیک اس کے حکم کے مطابق معرض وجود میں آ جاتی ہے۔ اس سے ان اقوام اور سائنسدانوں کے نظریے کی تردید ہوتی ہے جن کا کہنا ہے کہ روح اور مادہ تو پہلے ہی موجود چلا آ رہا ہے۔ خدا تو صرف اسے ایک شکل اور وجود دینے والا ہے۔ (قَال النَّبِیُّ {}قَال اللّٰہُ کَذَّبَنِی ابْنُ آدَمَ وَلَمْ یَکُنْ لَہٗ ذٰلِکَ وَشَتَمَنِیْ وَلَمْ یَکُنْ لَہٗ ذٰلِکَ فَأَمَّا تَکْذِیْبُہٗ إِیَّایَ فَقَوْلُہٗ لَنْ یُعِیْدَنِیْ کَمَا بَدَأَنِیْ وَلَیْسَ أَوَّلُ الْخَلْقِ بِأَھْوَنَ عَلَیَّ مِنْ إِعَادَتِہٖ وَأَمَّا شَتْمُہٗ إِیَّایَ فَقَوْلُہُ اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا وَأَنَاالْأَحَدُ الصَّمَدُ لَمْ أَلِدْ وَلَمْ أُوْلَدْوَلَمْ یَکُنْ لِیْ کُفْوًا أَحَدٌ) [ رواہ البخاری : کتاب تفسیرا لقرآن، باب یقال لاینون أحد أی واحد] ” نبی {ﷺ}نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے ابن آدم جھٹلاتا ہے یہ اس کے لیے جائز نہیں۔ وہ مجھے برا کہتا ہے اسے یہ بھی زیب نہیں دیتا۔ اس کا یہ کہنا کہ جس طرح اللہ نے مجھے پیدا کیا ہے دوبارہ ہرگز نہیں لوٹائے گا مجھے جھٹلانے کے مترادف ہے حالانکہ پہلی بار پیدا کرنا دوسری بار لوٹانے سے مجھ پر بھاری نہیں۔ ابن آدم کا یہ کہنا کہ اللہ کی اولاد ہے مجھے برا کہنا ہے حالانکہ میں ایک اور بے نیاز ہوں نہ میں والد ہوں اور نہ ہی مولود اور نہ ہی کوئی میرا ہمسر ہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کو اولاد کی ضرورت نہیں کیونکہ زمین و آسمان کی ہر چیز اس کی ملک اور تابعدار ہے۔ 2۔ ہر کام اس کے ” کن“ کہنے سے ہوجاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ ایک ہے : 1۔ اللہ اولاد سے پاک ہے۔ (الانعام :101) 2۔ عیسیٰ (علیہ السلام) اور مریم ( علیہا السلام) اِلٰہ نہیں اللہ کے بندے تھے۔ (المائدۃ:75) 3۔ اللہ کی اولاد قرار دینا سنگین ترین جرم ہے۔ (مریم : 91، 92) 4۔ اللہ تعالیٰ کو کسی نے جنم نہیں دیا نہ اس نے کسی کو جنم دیا ہے۔ (الاخلاص :3) زمین و آسمان کی تخلیق : 1۔ اللہ تعالیٰ نے بغیر نمونے کے زمین و آسمان بنائے۔ (البقرۃ :117) 2۔ اللہ تعالیٰ نے سات آسمان اور سات زمینیں بنائیں۔ (البقرۃ:29) 3۔ اس نے آسمان و زمین کو برابر کیا۔ (البقرۃ:29) 4۔ آسمان کو چھت اور زمین کو فرش بنایا۔ (البقرۃ :22) 5۔ زمین اور آسمانوں کو چھ دنوں میں بنایا۔ (الاعراف :54) البقرة
117 البقرة
118 فہم القرآن : (آیت 118 سے 119) ربط کلام : جس طرح لوگوں کا اللہ تعالیٰ کی اولاد ٹھہرانا غلط ہے۔ اسی طرح ان کا براہ راست اللہ تعالیٰ کو دیکھنے یا اس سے براہ راست بات کرنے کا مطالبہ بھی غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ کی زیارت دنیا کی آنکھوں سے کرنا نا ممکنات میں سے ہے۔ اہل کفر کی ہمیشہ سے یہ عادت رہی ہے کہ جب بھی وہ انبیاء کے مقابلے میں لا جواب ہوئے تو یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ جس خدا نے آپ کو نبی بنایا ہے وہ براہ راست ہمیں اپنے آپ پر ایمان لانے کا حکم کیوں نہیں دیتا؟ یا پھر ہمارے پاس ایسے دلائل و معجزات کیوں نہیں آتے؟ جن کو دیکھتے ہی ہم آپ کی رسالت اور خدا کی خدائی پر ایمان لانے کے لیے مجبور ہوجائیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہم کلامی کے مطالبہ کو اس لیے در خور اعتناء نہیں سمجھا گیا کیونکہ اس سے زیادہ جہالت پر مبنی کوئی مطالبہ نہیں ہو سکتا۔ مشرکین مکہ سے پہلے بنی اسرائیل نے مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے کوہ طور پر خدا کے نور کی ایک جھلک دیکھی تو سارے کے سارے بے ہوش ہوگئے۔ قرآن مجید صاف‘ صاف بتلاتا ہے کہ دنیا کی زندگی میں انسان کی آنکھ ربِّ کبریا کو نہیں دیکھ سکتی جب کہ اللہ تعالیٰ سب کو دیکھ رہا ہے۔ (الانعام :103) اگر اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو براہ راست حکم دینا اور بات کرنی ہے اور ہر کوئی انبیاء کی طرح پاکباز اور با صلاحیت ہو تو پھر پیغمبروں کی آمد کا مقصد ہی باقی نہیں رہتا۔ اس بے ہودہ سوال کا جواب دینے کی بجائے فقط اتنا فرمایا کہ ان کی زبان اور دل ان لوگوں کی طرح ہوچکے ہیں جنہوں نے ہمیشہ انکار اور تمرّد کا راستہ اختیار کرتے ہوئے ایسا مطالبہ کیا ہے۔ جہاں تک کھلے اور واضح دلائل اور معجزات کا تعلق ہے وہ اس سے زیادہ کیا ہو سکتے ہیں کہ ان کے سامنے چاند کا دو ٹکڑے ہونا‘ آپ کا آسمانوں کی رفعتوں سے بلند سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچنا، قرآن مجید کی ایک ایک پیش گوئی کا حرف بحرف سچ ہونا، معجزات اور آیات کا نازل ہونا۔ پھر آپ {ﷺ}کی ذات گرامی کی شکل میں ایک چلتا پھرتا معجزۂ مجسم بھی ان کے سامنے تھا۔ جس کی نظیر و مثال قیامت تک کوئی پیش نہیں کرسکتا اتنے واضح و بیّن براہین ودلائل پر ایمان تو وہی لوگ لاتے ہیں جو یقین و اعتماد کی صلاحیتوں سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ بلا شبہ ہم نے آپ {ﷺ}کو ایسی سچائی کے ساتھ جلوہ گر کیا ہے کہ جس پر ایمان لانے والوں کے لیے دنیا و آخرت کی بشارتیں اور منکروں کے لیے دنیا میں پریشانیاں اور آخرت میں پشیمانیاں ہوں گی۔ میرے نبی! آپ اپنا کام کرتے جائیں۔ آپ برے کاموں پر انتباہ کرنے اور اچھے کاموں کی اچھی خوشخبری دینے والے ہیں۔ ہم قیامت کے دن یہ سوال نہیں کریں گے کہ آپ کے ہوتے ہوئے یہ جہنم کے سزا وار کیوں ٹھہرے؟ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ {رض}أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہ {}قَالَ أُعْطِیْتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطَھُنَّ نَبِیٌّ قَبْلِیْ وَلَا أَقُوْلُھُنَّ فَخْرًا بُعِثْتُ إِلَی النَّاسِ کَافَّۃً الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ وَنُصِرْتُ بالرُّعْبِ مَسِیْرَۃَ شَھْرٍ وَأُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَائِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِیْ وَجُعِلَتْ لِیَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَھُوْرًا وَّأُعْطِیْتُ الشَّفَاعَۃَ فَأَخَّرْتُھَا لِأُمَّتِیْ فَھِیَ لِمَنْ لَّایُشْرِکُ باللّٰہِ شَیْئًا) [مسند احمد : کتاب ومن مسند بنی ھاشم، باب بدایۃ مسند عبداللہ بن العباس] ” حضرت عبداللہ بن عباس {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا مجھے ایسی پانچ چیزیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں اور میں ان کے بارے میں فخر سے بات نہیں کرتا میں تمام سرخ وسیاہ لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں اور ایک مہینے کی مسافت تک میری رعب کے ساتھ مدد کی گئی ہے اور میرے لیے غنیمت کا مال حلال قرار دیا گیا ہے جب کہ مجھ سے پہلے کسی امت کے لیے حلال نہ تھا اور میرے لیے زمین مسجد اور طہارت کا ذریعہ بنادی گئی ہے اور مجھے شفاعت عطا کی گئی میں نے اسے اپنی امت کے لیے مؤخر کردیا ہے اور وہ ہر اس شخص کی نجات کا ذریعہ بنے گی جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا تھا۔“ مسائل: 1۔ جاہل اور کافر لوگ اللہ تعالیٰ کو براہ راست دیکھنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ 2۔ انبیاء کا کام لوگوں کو جہنم سے کھینچنا نہیں بلکہ ان کو اچھے، برے سے آگاہ کرنا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم {ﷺ}کو خوشخبری دینے اور انتباہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کا کلام کرنا : 1۔ بنی اسرائیل نے اللہ کو دیکھنے اور اس سے ہم کلامی کا مطالبہ کیا۔ (النساء :153) 2۔ اللہ تعالیٰ براہ راست کسی سے کلام نہیں فرماتا۔ (الشورٰی :51) 3۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ پر دے میں بات کرتا تھا۔ ( الشورٰی :51) البقرة
119 البقرة
120 فہم القرآن : (آیت 120 سے 121) ربط کلام : اہل کفر اور یہود و نصاریٰ کے تمام کے تمام مطالبات بھی مان لیے جائیں تب بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے لہٰذا اے رسول ! آپ اپنا کام کرتے رہیں کیونکہ آپ {ﷺ}کو ان کا ہر مطالبہ پورا کرنے اور ہر حال میں انہیں راضی کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا۔ آپ حق کی شہادت اور ان کے برے کاموں کے انجام سے ڈراتے ہیں۔ ہدایت تو وہی لوگ پائیں گے جو کتاب اللہ کو اخلاص نیت کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ صحابہ کرام {رض}کو رہ رہ کر یہ خیال آتا تھا کہ اہل کتاب پڑھے لکھے اور اپنے دین پر قائم ہونے کے دعویدار ہونے کے باوجود رسالت مآب {ﷺ}پر ایمان کیوں نہیں لاتے؟ انہی کو تسلی دینے کے لیے براہ راست رسول محترم {ﷺ}کو خطاب کرتے ہوئے یہود و نصاریٰ کی فطرت خبیثہ کے بارے میں آگاہ کیا جا رہا ہے کہ یہ لوگ اس وقت تک آپ سے خوش نہیں ہو سکتے جب تک آپ لوگ اپنا دین چھوڑ کر ان کے دین کو قبول نہ کرلیں۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہدایت تو وہی ہے جس پر وہ قائم ہیں۔ اے نبی! ان سے فرما دیجیے جسے تم ہدایت سمجھتے ہو وہ ہرگز ہدایت نہیں۔ ہدایت تو وہ ہے جس کی رہنمائی اور توفیق اللہ تعالیٰ عطا کرتا ہے۔ یہاں ہمیشہ کے لیے یہ اصول بیان کردیا کہ ہدایت وہ نہیں جس کو کوئی انسان‘ قوم یا کوئی پارلیمنٹ متعین کرے بلکہ حقیقی ہدایت وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی صورت میں آپ پر نازل فرمایا ہے۔ اگر علم و معرفت کے باوجود آپ ان کی طرف جھک گئے تو یاد رکھیں کہ جن لوگوں کی حمایت اور خوشی کے لیے آپ ایسا کریں گے وہ تو در کنار کوئی بھی ذات کبریا کے سوا آپ کا خیر خواہ اور مددگار ثابت نہیں ہوگا۔ اس فرمان کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو پیش نگاہ رکھنا چاہیے۔ اگر مسلمان دوسروں کو خوش کرنے کے لیے اپنا دین اور تہذیب چھوڑدیں گے تو اس طرح یہود و نصاریٰ تو وقتی طور پر خوش ہوں گے لیکن مسلمان اللہ تعالیٰ کی نصرت و حمایت سے محروم ہوجائیں گے۔ جو اللہ تعالیٰ کی نصرت وحمایت سے محروم ہوا اس کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ اس کے ساتھ ہی اس بات کی وضاحت فرمائی جا رہی ہے کہ اہل کتاب میں وہی لوگ محمد عربی {ﷺ}کی رسالت اور قرآن کی صداقت پر ایمان لائیں گے جو ذہنی تحفظات اور گروہی تعصبات سے بالا تر ہو کر تورات‘ انجیل اور قرآن مجید پر ایمان لاتے ہیں۔ حصول ہدایت کا یہی وہ بنیادی اصول ہے جس کے لیے قرآن بار بار اس بات کی دعوت دیتا ہے۔ کہ اے دنیا جہاں کے لوگو ! کتاب ہدایت میں تدبر وتفکر کرو تاکہ تمہارے لیے ہدایت کا راستہ واضح اور آسان ہوجائے۔ جنہوں نے کتاب اللہ میں تدبر و تفکر سے اجتناب اور اس کے حقائق کا انکار کیا وہ بالآخر نقصان پائیں گئے۔ (عَنْ أَبِی ذَرٍ {رض}قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ {}إِنَّ بَعْدِی مِنْ أُمَّتِی أَوْ سَیَکُونُ بَعْدِیْ مِنْ أُمَّتِی قَوْمٌ یَقْرَءُ وْنَ الْقُرْآنَ لَا یُجَاوِزُ حَلَاقِیمَہُمْ یَخْرُجُونَ مِنْ الدِّینِ کَمَا یَخْرُجُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ ثُمَّ لَا یَعُوْدُوْنَ فیہِ ہُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِیقَۃِ) [ رواہ مسلم : کتاب الزکوۃ، باب الخوارج شر الخلق والخلیقۃ] ” حضرت ابوذر {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا : میرے بعد ایک قوم آئے گی وہ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلقوں سے تجاوز نہیں کرے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر اپنے ہدف سے نکل جاتا ہے۔ پھر وہ دین کی طرف نہیں لوٹ سکیں گے۔ وہ انسانوں اور جانوروں میں سے بدترین ہوں گے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ {رض}عَنِ النَّبِیِّ {}قَالَ مَا أَذِنَ اللّٰہُ لِشَیْءٍ مَا أَذِنَ للنَّبِیِّ أَنْ یَّتَغَنّٰی بالْقُرْآنِ) [ رواہ البخاری : کتاب، فضائل القرآن، باب من لم یتغن بالقرآن] ” حضرت ابوہریرہ {رض}نبی کریم {ﷺ}سے بیان فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے کسی اور چیز کی نبی کو اتنی اجازت نہیں دی جتنی کہ قرآن کو خوبصورت آواز کے ساتھ پڑھنے کی اجازت دی ہے۔“ (عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ {رض}قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ {}زَیِّنُوا الْقُرْآنَ بِأَصْوَاتِکُمْ) [ رواہ ابوداوٗد : کتاب الصلاۃ، باب استحباب الترتیل فی القراء ۃ ] ” حضرت براء بن عازب {رض}بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا : قرآن کو اپنی آوازوں کے ساتھ مزین کرو۔“ مسائل : 1۔ جب تک مسلمان یہودی یا عیسائی نہ ہوجائیں یہود ونصاریٰ راضی نہیں ہو سکتے۔ 2۔ کتاب و سنت کی اتباع کے بغیر اللہ تعالیٰ کی ہدایت نصیب نہیں ہوسکتی۔ 3۔ قرآن و سنت کی اتباع کیے بغیر خدا کی نصرت و حمایت حاصل نہیں ہوتی۔ 4۔ قرآن مجید کی تلاوت اس کے تقاضے پورے کرتے ہوئے کرنی چاہیے۔ 5۔ قرآن کی راہنمائی کا انکار کرنے والے دنیا و آخرت میں نقصان اٹھائیں گے۔ تفسیر بالقرآن : خواہشات کی پیروی کرنا جرم ہے : 1۔ اللہ کی راہنمائی آجانے کے بعد اپنی خواہشات کی پیروی نہیں کرنا چاہیے۔ (ص :26) 2۔ فیصلہ کرتے وقت خواہشات کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ (المائدۃ:49) 3۔ علم کے باوجود خواہشات کی پیروی کرنے والا اللہ کی ضمانت سے نکل جاتا ہے۔ (الرعد :27) 4۔ اپنی خواہش کی پیروی کرنا اپنے نفس کو رب بنانا ہے۔ (الفرقان : 43) 5۔ حق کو خواہشات کے تابع کرنے سے نظام کائنات درہم برہم ہوجائے گا۔ (المؤمنون :71) 6۔ نبی کی بات نہ ماننا اپنی خواہش کی پیروی کی علامت ہے۔ (القصص :50) تلاوت قرآن کے آدا ب : 1۔ قرآن کی تلاوت کا حق ادا کرنا چاہیے۔ (البقرۃ:121) 2۔ قرآن کی تلاوت کے وقت تدبر کرنا چاہیے۔ (النساء :82) 3۔ سحری کے وقت تلاوت کرنا افضل ہے۔ (الاسراء:78) البقرة
121 البقرة
122 فہم القرآن : ربط کلام : سورۃ البقرۃ میں اہل کتاب بنی اسرائیل کو تیسری بار خطاب کیا جار ہا ہے۔ جس میں بیت اللہ کی تاریخ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعاؤں کا ذکر خاص کر اس دعا کا ذکر ہے جس میں انہوں نے مکہ میں مبعوث ہونے والے آخری پیغمبر کے لیے اللہ کے حضور کی تھی۔ اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کو تیسری مرتبہ اپنی عطا کردہ نعمتیں اور فضیلتیں یاد کرواکر احساس دلا رہا ہے کہ تم جس عزت رفتہ کے حصول کے خواہش مند ہو وہ نبی آخر الزماں {ﷺ}کی مخالفت کے راستے پر چل کر حاصل نہیں ہوسکتی۔ آج تم مسلمانوں کے خلاف ایک دوسرے کے معاون اور مددگار بن رہے ہو اس دن کی ہولناکیاں اپنے احاطۂ خیال میں لاؤ جس دن تم رائی کے دانے کے برابر بھی ایک دوسرے کی مدد نہیں کر سکوگے۔ تمہارے لیے یہ بات کہیں بہتر ہے کہ تم خواہ مخواہ مخالفت اور نا شکری کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے اپنے جدِّ امجد کا راستہ اختیار کرو اور خاتم المرسلین {ﷺ}کی اتباع کروتاکہ تمہیں پہلے کی طرح عزت وعظمت سے نوازا جائے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ میرے بندے یعقوب (علیہ السلام) کے فرزندو اور میرے خلیل ابراہیم (علیہ السلام) کے خانوادے کے ساتھ تعلق رکھنے والو ! سنو، غور کرو اور میری نعمتوں کو ایک دفعہ پھر اپنے ذہن میں تازہ کرو جو میں نے دنیا کے تمام لوگوں سے بڑھ کر تمہیں عنایت فرمائی تھیں۔ اگر تم عزت رفتہ اور انعامات گزشتہ کا اعادہ اور حصول چاہو تو پھر یوم احتساب سے پہلے اپنے کردار پر نظر ثانی کرو۔ چہ جائے کہ وہ دن وارد ہوجائے جب عزیز اپنے عزیز‘ ماں اپنے جگر گوشے اور باپ اپنے لخت جگر کو کوئی فائدہ نہ پہنچا سکے گا اور نہ ہی دولت مند کی دولت اس کے کام آئے گی اور نہ کسی کی سفارش اور اثر و رسوخ دوسرے کا معاون اور مددگار ثابت ہو سکے گا۔ اسی کے پیش نظر رسول کریم {ﷺ}نے اپنے جگر گوشہ بتول حضرت فاطمہ {رض}کو مخاطب کرتے ہوئے نصیحت فرمائی تھی : (یَافَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ یَاصَفِیَّۃَ بِنْتَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ یَابَنِیْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَاأَمْلِکُ لَکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا سَلُوْنِیْ مِنْ مَّالِیْ مَا شِئْتُمْ) [ رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب فی قولہ وأنذر عشیرتک الأقربین[ ” اے محمد کی بیٹی فاطمہ اور عبدالمطلب کی بیٹی صفیہ اور اے عبدلمطلب کی اولاد میں تمہارے لیے اللہ کے ہاں کسی چیز کا مالک نہیں ہوں گا البتہ میرے مال میں سے جتنا چاہو مطالبہ کرسکتے ہو۔“ ﴿یَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ یَفْتَدِیْ مِنْ عَذَابِ یَوْمِئِذٍ بِبَنِیْہِ۔ وَصَاحِبَتِہٖ وَأَخِیْہِ۔ وَفَصِیْلَتِہِ الَّتِیْ تُؤْوِیْہِ وَمَنْ فِی الْأَرْضِ جَمِیْعًا ثُمَّ یُنْجِیْہِ۔ کَلَّا﴾ [ المعارج : 11تا15] ” مجرم چاہے گا کہ اس دن بیٹوں کا فدیہ دے کر عذاب سے بچ جائے اور اپنی بیوی، اپنے بھائی اور اپنے اس کنبہ کا جو اسے پناہ دیا کرتے تھے اور جو کچھ بھی زمین میں ہے سب کچھ دے کر نجات پالے ہرگز ایسا نہیں ہوگا۔“ ﴿اَلْأَخِلَّآءُ یَوْمَئِذٍ م بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِیْنَ﴾ [ الزخرف :67] ” اس دن متقین کے علاوہ سب دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دنیا کی نعمتوں اور عظمتوں سے سرفراز فرمایا تھا۔ 2۔ قیامت کے دن مجرموں کی کوئی کسی لحاظ سے مدد نہیں کرسکے گا۔ 3۔ انسان کو ہر وقت اپنے دل میں قیامت کا ڈر رکھنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : قیامت کے دن فدیہ اور سفارش قبول نہ ہوگا : 1۔ کسی جان سے قیامت کے دن فدیہ قبول نہ ہوگا۔ (البقرہ :48) 2۔ کفار سے عذاب کے بدلے زمین بھر سونا بھی قبول نہ ہوگا۔ (آل عمران :91) 3۔ ہر جان اپنا بوجھ خود اٹھائے گی۔ (النجم :38) 4۔ قیامت کے دن کسی کی چالیں کفایت نہ کریں گی۔ (الطور :46) البقرة
123 البقرة
124 فہم القرآن : ربط کلام : بنی اسرائیل کے جد امجد ابراہیم (علیہ السلام) کا کردار اور ان کا اللہ تعالیٰ کی آزمائشوں میں پورا اترنے کے بعد مقام ومرتبہ۔ اے بنی اسرائیل آج تم اپنے فرسودہ نظریات‘ مذہبی تعصبات اور معمولی مفادات کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ تمہارے جد امجد ابراہیم (علیہ السلام) کی شان تو یہ تھی کہ جب اس کے رب نے اسے امتحانات کے ذریعے آزمایا تو اس نے اولاد‘ وطن‘ عزت و اقبال گویا کہ ہر چیز اللہ کے راستے میں قربان کردی۔ اس طرح وہ آزمائشوں سے گزر کر اپنے رب کے ہاں سرخرو ہوئے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بھاری آزمائشوں کے لیے چند کلمات کا لفظ استعمال فرما کر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے مقابلے میں یہ بڑے مختصر اور معمولی امتحانات تھے۔ چند کلمات کے الفاظ میں یہ راز بھی مضمر ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو انسان کو ایک ایک نعمت کے بدلے آزما لے تاکہ دنیا میں ہی فیصلہ ہوجائے کے کون سا انسان کس نعمت کا قدر دان اور کس کی ناقدری کرتا ہے۔ آزمائش کا مقصد بندے کو تکلیف دینا نہیں ہوتا بلکہ اسے اور اس کے حوالے سے دوسروں کو نعمتوں کا احساس دلانا، اس کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا اور آزمائشوں کی گزر گاہ سے گزار کردنیا اور آخرت کی ترقیوں سے سرفراز کرنا ہوتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جب ابتلا کی دشوار گزار گھاٹیوں کو عبور کرچکے تو ان کو رہتی دنیا تک کے لوگوں کا قائد اور امام بنا دیا گیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پدری اور فطری جذبے کا اظہار کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور عرض کی کہ یہ اعزازواکرام اور منصب و مقام میری اولاد کو بھی ملنا چاہیے۔ جواباً ارشاد ہوا کہ منصب امامت اور حقیقی عزت ظالموں کو نہیں ملا کرتی۔ لہٰذا فاسق و فاجر لوگوں کے ساتھ ہمارا وعدہ نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد جس قدر شریعتیں نازل ہوئیں اور جتنے انبیاء مبعوث ہوئے وہ سب کے سب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقے کے پابند کردیئے گئے۔ یہاں تک کہ حضرت محمد مصطفی {ﷺ}کو بھی یہی حکم ہوا کہ آپ بھی ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقے کو اپنے اور اپنی امت کے لیے لازم ٹھہرائیں۔ ﴿ثُمَّ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًاوَّمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ﴾ [ النحل :123] ” پھر ہم نے تیری طرف وحی کی کہ یکسو رہنے والے ابراہیم کی ملت کی اتباع کرو اور وہ مشرک نہ تھا۔“ ﴿قُلْ صَدَقَ اللّٰہُ فَاتَّبِعُوْا مِلَّۃَ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًا وَّ مَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ﴾ [ آل عمران :95] ” فرمادیں اللہ نے سچ فرمایا ہے لہٰذا تمہیں ابراہیم کے طریقہ کی اتباع کرنی چاہیے جو اللہ ہی کے ہوگئے تھے اور مشرک نہیں تھے۔“ مسائل : 1۔ ابراہیم (علیہ السلام) تمام امتحانات میں کامیاب ہوئے۔ 2۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو آزمائشوں میں سرخروئی کے بدلے دنیا کی امامت عطا ہوئی۔ 3۔ حقیقی عزت و سرفرازی ظالم لوگوں کو نصیب نہیں ہوا کرتی۔ تفسیر بالقرآن: حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے امتحانات اور ان کا مقام ومنزلت : 1۔ ( ابرہیم (علیہ السلام) کا اسماعیل (علیہ السلام) کو قربانی کے لیے پیش کرنا) بہت بڑا امتحان تھا۔ (الصٰفٰت :106) 2۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو توحید کی خاطر آگ میں پھینکا جانابہت بڑی آزمائش تھا۔ (الانبیاء :68) 3۔ ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنی بیوی اور نو مولود بچے کو بے آب وگیاہ وادی میں چھوڑ کر آنا بہت بڑی آزمائش تھا۔ (ابرہیم :37) 4۔ ابراہیم (علیہ السلام) امت محمدیہ کے لیے نمونہ ہیں۔ (الممتحنۃ:4) 5۔ ابراہیم (علیہ السلام) نبی کریم {ﷺ}کے مقتدٰی ہیں۔ (النحل :123) 6۔ ابراہیم (علیہ السلام) امت کے مقتدٰی ہیں۔ (آل عمران :95) 7۔ ابراہیم (علیہ السلام) اکیلے ہی ایک جماعت تھے۔ (النحل :120) 8۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے دوست بنایا۔ (النساء :125) 9۔ ابراہیم (علیہ السلام) یہودی تھے نہ عیسائی۔ (آل عمران :67) 10۔ ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) بیت اللہ کے بانی ہیں۔ (البقرۃ:127) 11۔ ابراہیم (علیہ السلام) پر مصحف نازل کیے گئے۔ (الاعلیٰ:19) 12۔ ابراہیم (علیہ السلام) بردبار اور نرم خو تھے۔ ( التوبۃ:114) البقرة
125 فہم القرآن : ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ اس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) کے بیت اللہ کا متولی ہونے کا ثبوت فراہم کیا گیا۔ اس جہان رنگ و بو میں بے شمار خوبصورت سے خوبصورت ترین عمارات و محلات موجود ہیں۔ جن کے حسن و جمال میں اضافہ کرنے کے لیے لاکھوں، کروڑوں، اربوں روپے خرچ ہوئے اور کیے جا رہے ہیں۔ ان کو دیکھو تو عقل دنگ رہ جاتی ہے لیکن کوئی ایسی جگہ یا عمارت نہیں جس کے دیدار کو اہل جہاں کے لیے لازم قرار دیا گیا ہو اور جس کے لیے اتنی دنیا کے دل تڑپتے ہوں یہ اکرام و اعزازصرف ایک عمارت کو نصیب ہوا جس کو عام پتھروں سے اٹھایا گیا ہے۔ اللہ رب العزت نے اس کو بیت اللہ قرار دیا یعنی اللہ کا گھر۔ ﴿وَلِلّٰہِ عَلٰی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیْلًا﴾[ آل عمران :97] ” اور اللہ کے لیے ان لوگوں پر بیت اللہ کا حج کرنا فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی طاقت رکھتے ہوں۔“ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دین حنیف کی تبلیغ کے لیے اردن‘ شام اور حجاز مقدس کو مرکز قرار دیا تھا اردن میں حضرت لوط، حجاز میں حضرت اسماعیل اور شام فلسطین میں بذات خود اور حضرت اسحاق (علیہ السلام) دین حنیف کی خدمت کررہے تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) گاہے گاہے ان مراکز کا دورہ کرتے اور ہدایات فرماتے رہتے تھے۔ اس طرح آپ حسب معمول حکم خداوندی حضرت ہاجرہ[ اور جناب اسماعیل (علیہ السلام) کی خبر گیری کے لیے تشریف لے جایا کرتے تھے اسی اثنا میں تعمیر کعبہ کا حکم ہوا جس کی نبی رحمت {ﷺ}کی زبان اطہر سے بخاری شریف میں ان الفاظ میں تفصیل موجود ہے : (ثُمَّ لَبِثَ عَنْہُمْ مَّاشَآء اللّٰہُ ثُمَّ بَعْدَ ذَلِکَ وَ إسْمٰعِیْلُ یُبْرِیْ نَبْلًا لَّہٗ تَحْتَ دَوْحَۃٍ قَرِیْبًا مِّنْ زَمْزَمَ فَلَمَّا رَاٰہٗ قَامَ إلَیْہِ فَصَنَعَا کَمَا یَصْنَعُ الْوَالِدُ بالْوَلَدِ ثُمَّ قَالَ یَا إسْمَاعِیْلُ إِنَّ اللّٰہَ أَمَرَنِیْ أَنْ اَبْنِیَ ہٰہُنَا بَیْتًا وَأَشَارَ إلٰی اَکْمَۃٍ مُرْتَفِعَۃٍ عَلٰی مَا حَوْلَہَا قَالَ فَعِنْدَ ذٰلِکَ رَفَعَا الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ فَجَعَلَ إسْمَاعِیْلُ یَأْتِیْ بالْحِجَارَۃِ وَ اِبْرَاہِیْمُ یَبْنِیْ حَتّٰی اِذَا ارْتَفَعَ الْبِنَاءُ جَآءَ بِہٰذَا الْحَجَرِ فَوَضَعَہٗ لَہٗ فَقَامَ عَلَیْہِ وَہُوَ یَبْنِیْ وَ إسْمَاعِیْلُ یُنَاوِلُہُ الْحِجَارَۃَ) [ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ﴿ وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا ﴾] ” پھر جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے ملک (فلسطین) میں ٹھہرے رہے اس کے بعد جب اسماعیل (علیہ السلام) کے پاس تشریف لائے تو اسماعیل (علیہ السلام) زمزم کے پاس ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر تیر ٹھیک کر رہے تھے۔ جب اسماعیل (علیہ السلام) نے اپنے والد مکرم کو دیکھا تو اٹھ کر استقبال کیا چنانچہ دونوں اس طرح ملے جس طرح باپ اپنے بیٹے سے ملتا ہے پھر فرمانے لگے : بیٹا اسماعیل! مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اس اونچی جگہ پر بیت اللہ کو تعمیر کروں۔ اسماعیل (علیہ السلام) نے عرض کی میں حاضر خدمت ہوں۔ نبی اکرم {ﷺ}ارشاد فرماتے ہیں اسی جگہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) نے بیت اللہ کی بنیادیں اٹھائیں۔ اسماعیل (علیہ السلام) پتھر لائے جا رہے تھے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تعمیر فرما رہے تھے جب دیواریں اونچی ہوگئیں اور زمین پر کھڑے ہو کر پتھر لگانا مشکل ہوگیا تو جبرائیل (علیہ السلام) یہ پتھر لے کر آئے جس کو مقام ابراہیم کہا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس پتھر پر چڑھ کر کعبہ کی تکمیل فرمائی اور اسماعیل (علیہ السلام) معاونت کرتے رہے۔“ ﴿وَإذْ یَرْفَعُ إبْرَاہِیْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَ إسْمٰعِیْلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ﴾ [ البقرہ :127] اور یاد کرو جب ابراہیم اور اسماعیل {علیہ السلام}بیت اللہ کی دیواریں اٹھا رہے تھے تو دعا کرتے جاتے اے ہمارے پروردگار ! ہماری یہ خدمت قبول فرما تو سب کی سننے اور جاننے والا ہے۔“ پاک صاف رکھنے کا معنٰی صرف یہی نہیں کہ اس کو کوڑے کرکٹ سے پاک صاف رکھا جائے بلکہ اس کے ساتھ اس کو شرک وبدعات کی روحانی گندگی اور فتنہ فساد سے بھی محفوظ رکھا جائے جیسا کہ قرآن مجید کے دوسرے مقام میں واضح ارشاد موجود ہے کہ مشرک کو حرم میں داخل نہ ہونے دیا جائے کیونکہ مشرک روحانی طور پر گندہ اور پلید ہوتا ہے۔ ﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا إِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِھِمْ ھٰذَا۔۔ [ التوبۃ:28] ” اے ایمان والو! مشرکین ناپاک ہیں اس سال کے بعد یہ مسجد حرام کے قریب نہ پھٹکنے پائیں۔“ ﴿مَاکَانَ لِلْمُشْرِکِیْنَ أَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰہِ شٰھِدِیْنَ عَلٰٓی أَنْفُسِھِمْ بالْکُفْرِ أُولٰئِکَ حَبِطَتْ أَعْمَالُھُمْ وَفِی النَّارِ ھُمْ خَالِدُوْنَ﴾ [ التوبۃ:18] ” مشرکین کو کوئی حق نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدوں کے معمار بنیں درآں حالیکہ وہ اپنے اوپر خود کفر کی شہادت دے رہے ہیں۔ ان کے تو سارے اعمال ضائع ہوگئے اور جہنم میں ان کو ہمیشہ رہنا ہوگا۔“ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا مانگی تھی خدایا مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی عبادت سے بچائے رکھنا۔ ﴿وَإِذْ قَالَ إِبْرَاھِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجْنُبْنِیْ وَبَنِیَّ أَنْ نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ۔ رَبِّ إِنَّھُنَّ أَضْلَلْنَ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ۔۔[ ابراہیم : 35، 36] ” اور جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے رب کے حضور دعا کی کہ پروردگار اس شہر کو امن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا۔ یارب ! اس لیے کہ ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کردیا ہے۔“ اس لیے نبی اکرم {ﷺ}نے جب مکہ فتح کیا تو تمام بتوں کو مسمار کردیا اور کعبہ میں داخل ہو کر ان تصویروں کو بھی مٹایا جو مشرکین نے دیواروں پر ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) کی بنائی ہوئی تھیں۔ رسول اللہ {ﷺ}نے فتح مکہ کے موقع پر ارشاد فرمایا : ” یقینا اللہ تعالیٰ نے مکہ کو حرمت والا بنایا ہے جب سے اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا ہے یہ اللہ کی حرمت کی وجہ سے قیامت تک محترم ہے نہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال ہوا نہ ہی بعد میں کسی کے لیے حلال ہوگا میرے لیے بھی تھوڑی دیر کے علاوہ کبھی حلال نہ ہوگا۔ نہ اس کا شکار بھگایا جائے نہ اس کا کانٹا اکھاڑا جائے اور نہ ہی گھاس کاٹی جائے اور وہاں کسی کی گری ہوئی چیز اعلان کرنے والے کے علاوہ کوئی نہ اٹھائے۔ حضرت عباس بن عبدالمطلب {رض}کہنے لگے اللہ کے رسول! اذخر نامی گھاس مستثنیٰ کریں کیونکہ وہ لوہاروں اور گھروں کے لیے ضروری ہے آپ خاموش رہے پھر فرمایا ہاں اذخر گھاس حلال ہے۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الجزیۃ، باب إثم الغادر] مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو مرکز خلائق اور جائے امن بنایا ہے۔ ٢۔ مقام ابراہیم کو جائے نماز بنانا چاہیے۔ 2۔ بیت اللہ کو ہر آلائش سے پاک صاف رکھنا لازم ہے۔ تفسیر بالقرآن بیت اللہ کا مقام ومرتبہ : 1۔ بیت اللہ ہدایت کا مرکز ہے۔ (آل عمران :96) 2۔ اہل مکہ کو بیت اللہ کی وجہ سے امن، رزق اور احترام ملاہے۔ (قریش : 3، 4) 3۔ بیت اللہ جائے امن ہے۔ (آل عمران :97) 4۔ بیت اللہ جائے ثواب ہے۔ (البقرۃ:125) 5۔ بیت اللہ قبلہ ہے۔ (البقرۃ:144) البقرة
126 فہم القرآن : ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا اور مکہ کے مرکز ہونے کا ثبوت اور ان کی اہل مکہ کے لیے خصوصی دعائیں۔ سورۃ ابراہیم آیت ٣٧ میں بیان ہوا ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے اہل خانہ کو بیت اللہ کے پڑوس میں چھوڑ کر جا رہے تھے۔ تو انہوں نے دوسری دعاؤں کے ساتھ یہ بھی التجا اور دعا کی تھی کہ بار الہٰا ! میں اپنی رفیقۂ حیات اور لخت جگر کو ایسی سر زمین پر چھوڑ رہا ہوں جو بنجر اور غیر آباد ہے۔ اس لیے ان کی روزی کا انتظام فرما۔ ساکنین مکہ کے لیے رزق کی دعا کرتے ہوئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تخصیص کے ساتھ عرض کی کہ الٰہی! رزق صرف ان لوگوں کو ملنا چاہیے جو تیری ذات کبریا اور آخرت کی جزا و سزا پر یقین رکھتے ہوں۔ اس تخصیص کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ پہلی غیرت ایمانی کی بنا پر جس کی وجہ سے بسا اوقات خدا کے منکروں کی عیش و عشرت دیکھ کر مومن محسوس کرتا ہے کہ ان وسائل سے یہ لوگ اور زیادہ نافرمان ہوئے جا رہے ہیں۔ انہیں تو رزق ملنے کی بجائے بھوکا مرنا چاہیے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جب جناب ابرہیم (علیہ السلام) کو امامت کے منصب سے نوازا گیا تھا تو انہوں نے یہ اعزاز اپنی اولاد کے لیے بھی مانگا تھا۔ جس کی وضاحت میں ارشاد ہوا تھا کہ ظالموں کو یہ اعزاز حاصل نہیں ہو پائے گا۔ تب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سوچا کہ شاید رزق کا معاملہ بھی ایساہی ہو لہٰذا انہوں نے مومنوں کے لیے ہی رزق کی دعا کی۔ جس کے جواب میں فرمایا گیا ہے کہ رزق تو سب کو دیا جائے گا لیکن ناشکروں اور نافرمانوں کو قیامت کے دن ان کے کفر و شرک کی وجہ سے جہنم میں دھکیل دیا جائے گا۔ یہاں جہنمی کو جہنم میں داخل کرنے کے لیے اضطرار کا لفظ استعمال فرمایا ہے کیونکہ جہنم کو دیکھ کر جہنمی چیخیں چلائیں گے کہ ہمیں جہنم میں داخل نہ کیا جائے لیکن یہ چیخ و پکار انہیں جہنم سے نہیں بچا سکے گی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اہل مکہ کے لیے رزق کی دعا کرتے ہوئے ثمرات کا لفظ استعمال کیا ہے اس کا معنٰی صرف میوہ جات وثمرات نہیں بلکہ ہر قسم کی آمدنی ہے۔ جیسا کہ ہر زبان میں محاورہ ہے کہ یہ اجر فلاں محنت کا نتیجہ و ثمرہ ہے۔ اس کی وضاحت سورۃ قصص آیت 57میں فرمائی گئی ہے : ﴿وَقَالُوْا إِنْ نَتَّبِعِ الْہُدٰی مَعَکَ نُتَخَطَّفْ مِنْ أَرْضِنَا أَوَلَمْ نُمَکِّنْ لَہُمْ حَرَمًا آَمِنًا یُجْبَی إِلَیْہِ ثَمَرَاتُ کُلِّ شَیْءٍ رِزْقًا مِنْ لَدُنَّا وَلٰکِنَّ أَکْثَرَہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ﴾[ القصص :57] ” اور کہتے ہیں اگر ہم تمہارے ساتھ ہدایت کی پیروی کریں تو اپنے ملک سے اچک لیے جائیں۔ کیا ہم نے ان کو حرم میں جو امن کا مقام ہے، جگہ نہیں دی۔ جہاں ہر قسم کے میوے پہنچائیں جاتے ہیں اور رزق ہماری طرف سے ہے۔ لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔“ یاد رہے پھل کے لیے قرآن میں فَاکِھَۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کی جمع عربی میں ”فَوَاکِھَۃ“ آتی ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی رفیقۂ حیات حضرت ہاجرہ اور لخت جگر کو مکہ میں چھوڑتے وقت سب سے پہلے جو دعا کی وہ امن وا مان کے بارے میں تھی۔ کیونکہ اس وقت حضرت ہاجرہ اور ان کے لخت جگر اسماعیل کے سوا کوئی اور یہاں آباد نہ تھا۔ اتنے لق ودق صحرا اور سنگلاخ بیابان میں بس ماں بیٹا ہی تو تھے۔ اس لیے ان کے حفظ و امان کی فکر ایک فطری بات تھی۔ اس دعا میں یہ بات بھی عیاں ہوتی ہے کہ جس مقام پر امن و امان نہ ہو وہاں بسنے والے زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتے۔ لہٰذا کسی جگہ پر ٹھہرنے کے لیے پہلی ضرورت یہی ہوا کرتی ہے کہ وہاں کے باسیوں کو ہر قسم کا سکون میسر ہو۔ اس کے بغیر کوئی علاقہ ترقی نہیں کرسکتا۔ اس لیے چادر اور چار دیواری کی حفاظت حکومت کی اوّلین ترجیح ہونا چاہیے۔ اس دعا کے جواب میں ارشاد ہوا کہ رزق اور دنیا کے فائدے تو ان لوگوں کو بھی عطا کروں گا جو سرے سے میری ذات کے انکاری ہوں گے کیونکہ میں خالق و رازق ہوں۔ البتہ آخرت میں کفر و الحاد اور انکار واعراض کی وجہ سے انہیں سخت عذاب میں دھکیل دیا جائے گا۔ مسائل : 1۔ اہل مکہ کو ہر قسم کے پھل ملنا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ رزق عطا کرنے میں کافرو مسلمان کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتا کیونکہ وہ سب کا رازق ہے۔ 3۔ آخرت کے مقابلے میں پوری دنیا متاع قلیل ہے۔ ٤۔ قیامت کے دن کافر جہنم میں دھکیلے جائیں گے۔ تفسیر بالقرآن : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعائیں : 1۔ نیک اولاد کے لیے دعا۔ (الصفت :100) 2۔ اللہ تعالیٰ سے قوت‘ حکم اور جنت کی دعا۔ (الشعراء : 82تا85) 3۔ باپ کے لیے بخشش کی دعا جو قبول نہیں ہوئی۔ (الشعراء :86) البقرة
127 فہم القرآن : (آیت 127 سے 128) ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا بانی کعبہ ہونے کا مزید ثبوت کیونکہ باقاعدہ بیت اللہ کا حج انہی کے زمانے سے شروع ہوا اور انہی پر مناسک حج اتارے گئے تھے۔ تاریخ عالم میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ وہ بانئ کعبہ کے نام سے مشہور ہیں اس اعزاز پر فخر کرنے کی بجائے اپنے رب کے سامنے حضور قلب اور عجز کے ساتھ فریاد کر رہے ہیں اے رب کریم! تیرے گھر کی تولیّت اور تعمیر محض تیرے فضل و کرم کا نتیجہ ہے۔ ورنہ ہماری کیا حیثیت کہ ہم تیرے گھر کی تعمیر اور خدمت کا اعزاز پائیں۔ ہماری التجا ہے کہ اسے دنیا میں سکون کا گہوارہ‘ مرکزہدایت اور لوگوں کی عقیدت و احترام کا مرجع بنادے اور ہماری طرف سے دنیا و آخرت میں یہ معمولی اور ناچیز محنت تیرے حضور شرف قبولیت پائے۔ نیکی کا حقیقی معیار اور مقام یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور منظور ہوجائے۔ تکمیل کعبہ کے بعد عظیم باپ اور اس کے کریم بیٹے نے مل کر یہ دعائیں بھی کیں کہ بارِ الٰہ! ہمیں ہمیشہ اپنا تابع فرمان رکھنا اور ہماری اولادبھی آپ کی تابع فرمان رہے تاکہ ہمارے بعد اس مشن کی پشتیبانی کرتے رہیں اور یہ سلسلۂ ہدایت قیامت تک قائم و دائم رہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے بیت اللہ کی حاضری کے آداب اور حج کے مناسک کی راہنمائی کے لیے درخواست پیش کرتے ہوئے یہ بھی فریاد کی کہ اے ہمارے خالق و مالک ! ہم پر ہمیشہ اپنے کرم کی توجہ فرماناکیونکہ تیری نظر کرم اور مہربانی سے ہی ہماری خطائیں معاف اور دنیاوآخرت میں سرخروئی حاصل ہوگی۔ بے شک آپ توبہ قبول کرنے والے اور نہایت مہربان ہیں۔ تاریخ کعبۃ اللہ : ﴿إِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ للنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًاوَّ ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ﴾ [ آل عمران :96] ” بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی۔ وہ مکہ مکرمہ میں ہے اس کو خیر وبرکت دی گئی ہے اور اہل دنیا کے لیے مرکز ہدایت بنایا گیا ہے۔“ حافظ ابن حجر عسقلانی {رض}نے فتح الباری شرح جامع صحیح بخاری میں ایک روایت ذکر کی ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بیت اللہ کی سب سے پہلی اساس حضرت آدم (علیہ السلام) کے ہاتھوں رکھی گئی اور اللہ کے فرشتوں نے ان کو اس جگہ کی نشاندہی کی پھر طوفان نوح اور ہزاروں سال کے حوادث نے اس کو بے نشان کر دیاتھا۔ (عَنْ عَبْد اللَّہ بن عَمْرو {رض}مَرْفُوعًا : بَعَثَ اللَّہ جِبْرِیل إِلَی آدَم فَأَمَرَہُ بِبِنَاءِ الْبَیْت فَبَنَاہُ آدَم، ثُمَّ أَمَرَہُ بالطَّوَافِ بِہِ وَقِیلَ لَہُ أَنْتَ أَوَّل النَّاس وَہَذَا أَوَّل بَیْت وُضِعَ للنَّاسِ ) [ شرح فتح الباری : ج 10، ص146] ” حضرت عبداللہ بن عمرو بیان مرفوع روایت بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو آدم (علیہ السلام) کے پاس بھیجا اور انہیں بیت اللہ بنانے کا حکم دیا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے بیت اللہ کی تعمیر کی، پھر انہیں طواف کا حکم ہوا اور ان سے کہا گیا تو لوگوں میں سے سب سے پہلا ہے اور یہ پہلا گھر ہے جو لوگوں کے لیے تعمیر کیا گیا ہے۔“ مسائل : 1۔ نیکی قبول ہونے کی دعا کرنا چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نیتوں کو جانتا اور ہر بات کو سننے والا ہے۔ 3۔ اپنے اور اولاد کے لیے مسلمان رہنے کی دعا کرتے رہنا چاہیے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ سے حج کی توفیق مانگنا چاہیے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ تو بہ قبول کرنے والا، نہایت ہی شفیق و رحیم ہے۔ تفسیر بالقرآن : بیت اللہ کی فضیلت : 1۔ بیت اللہ کی نشاندہی اللہ تعالیٰ نے فرمائی۔ (الحج :26) 2۔ دنیا میں سب سے پہلے تعمیر ہونے والا گھر بیت اللہ ہے۔ (آل عمران :96) 3۔ بیت اللہ کو ابراہیم و اسماعیل {علیہ السلام}نے تعمیر کیا۔ (البقرۃ:127) 4۔ بیت اللہ کی زیارت ہر صاحب استطاعت پر فرض ہے۔ (آل عمران :97) البقرة
128 البقرة
129 فہم القرآن : ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نبی آخر الزماں جناب محمد رسول اللہ {ﷺ}کی نبوت کے لیے خصوصی دعا جس میں واضح ثبوت ہے کہ آخری نبی بنی اسماعیل میں سے مکہ میں ہوگا۔ قرآن مجید کے الفاظ سے ثابت ہورہا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پہلی دعا اس وقت کی جب انہوں نے اپنی رفیقۂ حیات اور لخت جگر کو بیت اللہ کے قریب ٹھہرایا تھا۔ کچھ دعائیں تعمیر کعبہ کے دوران اور باقی تکمیل کے بعد اللہ کے حضور کی گئیں۔ آخری دعا میں ایک ایسے نبی کی ضرورت کا تذکرہ ہے جو نا صرف اسی قوم سے ہو بلکہ اس کی پیدائش بھی مکہ معظمہ میں ہونے کی درخواست کی گئی ہے۔ اس دعا میں نبوت کی غرض و غایت اور اس کے چار بنیادی فرائض کا ذکر ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دوسری دعاؤں کے ساتھ اس دعا کو بھی شرف قبولیت بخشتے ہوئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو نبی آخر الزماں کی بشارت سے نوازا۔ (قَدْ أُسْتُجِیْبَ لَکَ وَہُوَ کَائِنٌ فِیْ آخِرِ الزَّمَانِ) [ تفسیر ابن کثیر ] ” کہ تیری دعا مقبول ہے اور وہ نبی آخر زمانہ میں ہوگا۔“ (عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَ {رض}قَالَ قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ مَا کَانَ أَوَّلُ اَمْرِکَ قَالَ دَعْوَۃُ أَبِیْ إِبْرَاہِیْمَ وَبُشْرٰی عِیْسٰی وَرَأَتْ أُمِّیْ أَنَّہٗ یَخْرُجُ مِنْھَا نُوْرٌ أَضَاءَ تْ مِنْھَا قُصُوْرُ الشَّامِ) [ مسند احمد : کتاب باقی مسند الانصار، باب حدیث أبی امامۃ الباہلی الصدی بن عجلان] ” حضرت ابو امامہ {رض}بیان کرتے ہیں میں نے رسول محترم {ﷺ}سے پوچھا کہ آپ کی نبوت کی ابتدا کس چیز سے ہوئی؟ آپ {ﷺ}نے فرمایا : میرے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا‘ عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت اور میری ماں نے دیکھا کہ ان سے ایک نور نکلا جس سے شام کے محل روشن ہوگئے۔“ مسائل : 1۔ کتاب اللہ کی تبلیغ، تعلیم، لوگوں کو دانش سکھلانا اور تربیت کرنا نبوت کے بنیادی کام ہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب اور اس کے ہر کام اور حکم میں حکمت ہوتی ہے۔ البقرة
130 فہم القرآن : (آیت 130 سے 132) ربط کلام : سابقہ آیات میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے عقیدے کی وضاحت ان کو بیت اللہ کا بانی ثابت کرنا ان کا اہل مکہ سے خصوصی تعلق اور نبی کریم کی نبوت کے بارے میں واضح ثبوت دیتے ہوئے یہ وضاحت کی جارہی ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو بھی اسی عقیدے کی وصیت فرمائی تھی جس کی دعوت نبی آخر الزمان {ﷺ}پیش کررہے ہیں۔ جو شخص ابراہیم (علیہ السلام) کے عقیدہ اور ان حقائق کو نہیں مانتا اس کی حماقت میں کیا شک ہوسکتا ہے؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اپنے رب کے حضور اطاعت گزاریاں‘ قربانیاں‘ دعائیں بالخصوص یہ ا لتجا جس میں نبی آخر الزماں کی بعثت کی آرزو کی گئی ہے ان سے وہی شخص اعراض و انحراف کرسکتا ہے جس نے اپنے آپ کے لیے حماقت اور نقصان کا راستہ پسند کرلیا ہو۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی خدمات اور امتحانات کی وجہ سے انہیں دنیا میں نیک نامی‘ عظمت اور رہتی دنیا تک امامت کے منصب سے سرفراز فرمایا ہے اور آخرت میں یقیناً وہ خدا کے پسندیدہ اور برگزیدہ لوگوں میں ہوں گے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اطاعت شعاری کا یہ حال تھا کہ جب بھی ان کے رب نے انہیں حکم فرمایا کہ تابعدار ہوجاؤ۔ وہ یہ کہتے ہوئے پورے اخلاص اور مکمل انہماک کے ساتھ اپنے رب کے فرمانبردار ہوئے کہ فرمانبرداری میرا کمال اور احسان نہیں میں تو اس رب کی فرمانبرداری کر رہا ہوں جس کی سب کو فرمانبرداری کرنا چاہیے۔ کیونکہ وہ تو سب کو پالنے والا اور تمام جہانوں کا مالک ہے۔ یہ فرمانبرداریاں ان کی ذات اور بیٹوں تک محدود نہیں تھیں بلکہ ان کے پوتے حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے بھی اپنی نسل کو اسی طریقے اور دین پر مر مٹنے کی ہدایت کی تھی۔ لیکن اے اہل کتاب ! تمہاری حالت یہ ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی وراثت کے دعویدار ہونے کے باوجود حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بنائے ہوئے گھر کو تسلیم نہیں کرتے ہو اور نہ ہی ان کی دعا کے صلہ میں مبعوث ہونے والے محمد عربی خاتم النبیین {ﷺ}کو ماننے کے لیے تیار ہو۔ تم ہی بتاؤ اس سے زیادہ حماقت اور کیا ہو سکتی ہے؟ آدمی کے انجام کا دارومدار اس کے خاتمہ پر ہے لہٰذا آدمی کو اپنے انجام کی فکر کرنی چاہیے۔ جس کے بارے میں نبی کریم {ﷺ}یوں فرمایا کرتے تھے : (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ {رض}أَنَّ رَسُول اللّٰہِ {}قَالَ إِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ الزَّمَنَ الطَّوِیلَ بِعَمَلِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ ثُمَّ یُخْتَمُ لَہٗ عَمَلُہٗ بِعَمَلِ أَہْلِ النَّارِ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ الزَّمَنَ الطَّوِیلَ بِعَمَلِ أَہْلِ النَّارِثُمَّ یُخْتَمُ لَہٗ عَمَلُہٗ بِعَمَلِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ) [ رواہ مسلم : کتاب القدر، باب کیفیۃ خلق الآدمی فی بطن امہ۔۔] ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا : آدمی طویل عرصہ جنتیوں والے اعمال کرتارہتا ہے پھر اس کا خاتمہ جہنمیوں والے اعمال پر ہوجاتا ہے اور ایک آدمی لمبا عرصہ جہنمیوں والے اعمال کرتارہتا ہے پھر اس کا خاتمہ جنتیوں والے اعمال پر ہوجاتا ہے۔“ مسائل : 1۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرز حیات سے منہ پھیرنے والا احمق ہوگا۔ 2۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دنیا میں معزز ترین اور آخرت میں صالحین میں سے ہیں۔ 3۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) زندگی بھر اپنے رب کے تابع فرمان رہے۔ 4۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے پوتے حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو مرتے دم تک مسلمان رہنے کی وصیت فرمائی۔ تفسیر بالقرآن : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سب کے پیشواہیں : 1۔ ابراہیم (علیہ السلام) سب کے پیشوا ہیں۔ (البقرۃ :124) 2۔ ابراہیم (علیہ السلام) سب کے لیے اسوہ ہیں۔ (الممتحنۃ:4) 3۔ نبی آخر الزمان {ﷺ}کو ابراہیم (علیہ السلام) کی اتباع کا حکم ہوا ہے۔ (النحل :123) 4۔ ملت ابراہیم (علیہ السلام) کی اتباع کا سب کو حکم ہے۔ ( آل عمران :95) البقرة
131 البقرة
132 البقرة
133 فہم القرآن : (آیت 133 سے 134) ربط کلام : پہلی آیات میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی وصیتکا بیان تھا۔ جس کا اہل کتاب انکار کرتے ہیں۔ لہٰذا ان سے سوال کیا گیا ہے کہ کیا تم ان کی وفات کے وقت موجود تھے کہ انہوں نے یہ نصیحت نہیں کی تھی؟ انبیائے عظام کے ذمہ قوموں کی رہنمائی کا فریضہ ہوا کرتا ہے۔ اس جان کٹھن اور ہمہ وقت بھاری ذمہ داری کے باوجود انبیاء اپنے اہل خانہ کی ذمہ داریوں سے لمحہ بھر کے لیے غافل نہیں ہوا کرتے تھے۔ ان کی کوشش ہوتی کہ ان کی ذات اہل خانہ اور لوگوں کے لیے بہترین نمونہ ثابت ہوں۔ اس بارے میں وہ اس قدر فکر مند ہوتے تھے کہ جب موت کا فرشتہ سرہانے کھڑا جان قبض کرنے کی اجازت لے رہا ہوتا۔ جن نازک لمحات میں انسان کی نگاہیں دنیا کی بجائے اگلی منزل پر مرکوز ہوتی ہیں دوسری کوئی چیز سوجھائی نہیں دیتی۔ انبیاء اس وقت بھی اپنی ذمہ داری کے بارے میں فکر مند ہوتے تھے۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) اسی فکر مندی میں اپنے بیٹوں کو وصیت کرتے ہوئے ایک عہد لے رہے ہیں کہ جان پدر! میرے چل چلاؤ کا وقت آن پہنچا ہے۔ لیکن میں اس اطمینان اور تسلی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہونا چاہتا ہوں وعدہ کیجیے کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی دعاؤں اور کوششوں کا نتیجہ تھا کہ ان کی اولاد بیک زبان عرض کرتی ہے ہم آپ کے معبود اور اپنے عظیم آباء حضرت ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق (علیہ السلام) کے معبود کی عبادت کیا کریں گے۔ ان سب کا ایک ہی معبود تھا لہٰذا ہم ایک ہی الٰہ کے تابع فرمان اور اس کی عبادت کریں گے۔ اس واقعہ میں بتلایا جا رہا ہے کہ والدین کو اپنی ذمہ داریوں کا کس قدر خیال رکھنا چاہیے۔ ساتھ ہی اہل کتاب کو باور کروایا گیا ہے کہ اگر تم واقعی اپنے آپ کو اس عظیم خاندان کا وارث سمجھتے ہو تو تمہیں صالح اولاد کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے باپ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی وصیت اور عہد کا خیال رکھنا چاہیے۔ ان کا عقیدہ توحید پر مبنی اور کردار اللہ تعالیٰ کے فرمان کے تابع تھا۔ اگر تم نے اپنے عقیدہ اور کردار کو ان جیسا بنانے کی کوشش نہ کی اور آخرالزمان نبی {ﷺ}پر ایمان نہ لائے تو قیامت کے دن محض عقیدت اور نسبت کچھ کام نہ آسکے گی اور دنیا میں بھی کوئی قوم صرف حسب ونسب کی بنیاد پر عزت و رفعت حاصل نہیں کرسکتی۔ نبی معظم {ﷺ}نے اس اصول کا اس طرح تذکرہ فرمایا ہے۔ (۔۔ مَنْ بَطَّأَ بِہٖ عَمَلُہٗ لَمْ یُسْرِعْ بِہٖ نَسَبُہٗ) [ رواہ مسلم : کتاب الذکر والدعاء ] ” جو اعمال کی وجہ سے پیچھے رہ گیا اسے حسب ونسب کام نہیں دے گا۔“ اس کے ساتھ یہ اصول بھی بیان فرما دیا گیا کہ کوئی کسی کے اعمال کی وجہ سے نہ پکڑا جائے گا اور نہ بخشا جائے گا اور یہی اصول اسلامی حکومت کے لیے لازم قرار پایا۔ رسول اللہ {ﷺ}کا ارشاد ہے : (لا يُقادُ والدٌ بوَلَدِه ) [ مسند احمد : کتاب مسند العشرۃ المبشرین بالجنۃ ] ” باپ کے بدلے بیٹا نہیں پکڑا جا سکتا۔“ مسائل : 1۔ ماں باپ کو اپنی اولاد سے توحید اور خدا کی عبادت کا عہد لینا چاہیے۔ 2۔ تمام انبیاء ایک اللہ کی عبادت کیا کرتے تھے۔ 3۔ لوگوں کو قیامت کے دن ان کے اپنے اپنے اعمال کے بارے میں سوال ہوگا۔ تفسیر بالقرآن : اللہ کا پسندیدہ دین اسلام ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کو پسند فرمایا ہے۔ (المائدۃ:3) 2۔ اللہ تعالیٰ اسلام کی دعوت دیتا ہے۔ (یونس :25) 3۔ اسلام فرمانبرداری کا نام ہے۔ (آل عمران :83) 4۔ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہونا چاہیے۔ (البقرۃ:208) 5۔ اسلام پر ہی مرمٹنا چاہیے۔ (آل عمران :102) 6۔ یوسف (علیہ السلام) بھی یہی دعا کرتے تھے۔ ( یوسف :101) البقرة
134 البقرة
135 فہم القرآن : ( آیت 135 سے 136) ربط کلام : اہل کتاب لوگوں کو یہودی اور عیسائی ہونے کی دعوت دیتے ہیں حالانکہ لوگوں کو ملت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت دینا چاہیے۔ لہٰذا اے نبی آخر الزماں حضرت محمد {ﷺ}آپ لوگوں کو وہی دعوت دیں جو ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد عالی دیا کرتی تھی۔ وہ دعوت توحید خالص اور دین اسلام کی دعوت تھی۔ فکر و عمل کے لحاظ سے کمزور جماعتیں لوگوں کو اپنی طرف راغب رکھنے اور اپنے بوسیدہ نظریات کو منوانے کے لیے ہمیشہ سے بزرگوں کا نام ناجائز استعمال کرتی آئی ہیں۔ ایسے لوگ فکری دولت سے اس قدر محروم ہوتے ہیں کہ وہ صدیوں پہلے فوت شد گان بزرگوں کو بھی اپنے بوسیدہ نظریات کا حامل ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہود و نصاریٰ بھی اسی فکری بیچارگی کا شکار تھے اور ہیں۔ لہٰذا جب بھی انہیں دین اسلام کی دعوت پیش کی جاتی ہے تو وہ اپنے آپ کو مطمئن کرنے کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور جناب یعقوب (علیہ السلام) کو یہودی ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ یہاں ایک بار پھر واضح کیا جا رہا ہے کہ جن بزرگوں کو تم اپنے نظریات کا حامل ثابت کر رہے ہو ان کا تو تمہارے نظریات کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں تھا اور نہ ہی مشرکین کے ساتھ ان کا تعلق جوڑا جا سکتا ہے لہٰذا سرور گرامی {ﷺ}کو حکم دیا جا رہا ہے کہ آپ دو ٹوک انداز میں اس بات کا اظہار فرمائیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے بعد آنے والے انبیاء کا نظریہ یہود و نصاریٰ اور اہل مکہ کے نظریات سے یکسر مختلف تھا۔ وہ تو ایک رب کی توحید کو ماننے والے اور زندگی بھر اسی کے تابع فرمان رہنے والے تھے۔ اسی دعوت کا اقرار اور اظہار مسلمانوں سے کروایا جا رہا ہے کہ ہم اسی عقیدے کے حامل اور اسی دعوت کے داعی ہیں جو عظیم المرتبت ہستیاں اور ان کی نیک اولاد پھر انہی کی پیروی کرنے والے جلیل القدر پیغمبر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) دیا کرتے تھے۔ ہم بلا تفریق ان کی پیغمبرانہ حیثیت کو تسلیم اور ان کی شریعتوں کی تائید کرتے ہیں۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ {رض}قَالَ کَانَ أَہْلُ الْکِتَابِ یَقْرَءُ وْنَ التَّوْرَاۃَ بالْعِبْرَانِیَّۃِ وَیُفَسِّرُونَہَا بالْعَرَبِیَّۃِ لِأَہْلِ الْإِسْلَامِ فَقَالَ رَسُول اللَّہِ {}لَا تُصَدِّقُوا أَہْلَ الْکِتَابِ وَلَا تُکَذِّبُوْہُمْ وَقُوْلُوْا﴿ آمَنَّا باللّٰہِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَیْنَا﴾ الْآیَۃَ) [ رواہ البخاری : کتاب تفسیر القرآن، باب ﴿قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا ﴾] ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ اہل کتاب تورات کو عبرانی زبان میں پڑھتے اور مسلمانوں کے لیے اس کی تفسیر عربی زبان میں کرتے تھے تو رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا : نہ تم اہل کتاب کی تصدیق کرو اور نہ ان کو جھٹلاؤ بلکہ تم کہو کہ ہم اللہ پر اور جو ہماری طرف اتارا گیا اس پر ایمان لے آئے ہیں۔“ مسائل : 1۔ ہدایت کا سرچشمہ صرف ملت ابراہیم ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ اور قرآن مجید، پہلی آسمانی کتابوں پر ایمان لانا اور تمام انبیاء کو بلا تفریق تسلیم کرنا ہی اسلام ہے۔ 3۔ انبیاء کے درمیان فرق کرنا کفر ہے۔ 4۔ انبیاء میں سے کسی کی گستاخی کرناجائز نہیں۔ تفسیر بالقرآن : انبیاء کا مقام اور کتب آسمانی کا احترام : 1۔ تمام انبیاء پر ایمان لانا فرض ہے۔ (البقرۃ:136) 2۔ پہلی کتب آسمانی پر ایمان لانا لازم ہے۔ (البقرۃ:4) 3۔ اللہ تعالیٰ اور انبیاء کے درمیان فرق کرنا کفر ہے۔ (النساء :150) البقرة
136 البقرة
137 فہم القرآن : (آیت 137 سے 138) ربط کلام : صحابہ کرام {رض}نبی {ﷺ}کی دعوت کے وارث اور اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے جس وجہ سے ان کے ایمان کو ایمان کی کسوٹی قرار دیا گیا ہے۔ اے یہود و نصاریٰ اور دنیا کے لوگو! اگر تم صحابہ کرام {رض}کی طرح ایمان اور تسلیم و رضا کا رویہ اختیار کرلو تو ہدایت پا جاؤ گے۔ اگر لوگ نبی کی دعوت اور صحابہ کے طریقہ کا انکار کریں تو پھر سمجھ جائیے کہ یہ لوگ مخالفت برائے مخالفت کی روش کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔ مسلمانو! بے پرواہ ہوجاؤ کفار کا حسد و بغض اور اختلاف تم کو حقیقی اور دائمی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی شرارتوں سے تمہیں محفوظ رکھنے کا ذمہ لے رکھا ہے۔ اللہ ان کی زبان درازیوں اور سازشوں کو جاننے اور سننے والا ہے۔ دنیا کے مختلف مذاہب نے اپنی پہچان کے لیے اپنے طور پر کچھ شعار اور نشان مقرر کر رکھے ہیں نبی اکرم {ﷺ}کے دور میں غیر یہودی یہودیت میں داخل ہوتا تو یہودی اسے خاص طریقے سے غسل دیتے اور عیسائی اپنے مذہب میں داخل ہونے والے کو رنگ دار پانی کے ساتھ نہانے کا حکم دیتے۔ جسے اصطباع کا نام دیا گیا تھا۔ بعدازاں یہودیوں نے مذہبی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے آہستہ آہستہ یہ عقیدہ بنا لیا کہ نسلی یہودی کے علاوہ غیر مذہب کا کوئی شخص یہودی مذہب قبول نہیں کرسکتا عیسائیوں نے بپتسمہ کی رسم ایجاد کی ان کی دیکھا دیکھی ہندوؤں نے تلک ایجاد کیا کہ جب کوئی ہندو مذہب قبول کرے تو باقی رسومات کے ساتھ اس کے ماتھے پر صنوبر کا نشان لگایا جائے جسے وہ تلک کا نام دیتے ہیں۔ ہندوؤں اور دوسرے مذاہب سے منفرد ہونے کے لیے سکھوں نے اپنے لیے پانچ نشان مقرر کیے۔ کیس‘ کرپان‘ کلائی میں کڑا‘ جیب میں کنگھا اور کچھا اپنا مذہبی نشان قرار دیا ہے۔ زرتشت جو ایران میں پائے جاتے ہیں چین‘ جاپان‘ ہندوستان‘ سری لنکا اور دیگر ممالک میں بسنے والے بدھ مت کے پیرو کاروں نے اپنے لیے ایک عہد تیار کیا ہے۔ ان کے مذاہب میں داخل ہونے والا۔ مخصوص الفاظ میں ایک عہد کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن اسلام ایسا دین ہے جس نے مسلمان ہونے کے لیے کلمہ پڑھنا لازم قرار دیا ہے۔ جس کا مختصر مفہوم یہ ہے کہ مسلمان ہونے والا اقرار کرتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو اپنا معبود‘ خالق‘ مالک‘ رازق‘ حاکم‘ حاجت روا اور مشکل کشا نہیں سمجھتا اور میرے راہنما‘ مرشد اور قائد حضرت محمد رسول اللہ {ﷺ}ہیں جو میرے لیے کامل واکمل نمونہ ہیں اور میں اسی کو دنیاوآخرت کی فوزوفلاح کا ذریعہ سمجھتاہوں اور اسی طریقہ پر زندگی بسر کروں گا جب اس عقیدے کا رنگ انسان کے کردار پر چڑھ جائے تو اسے کوئی خوف اور لالچ اپنے مقصد سے نہیں ہٹا سکتا۔ اس عقیدہ کو ” صِبْغَۃَاللّٰہِ“ کا نام دیا گیا ہے۔ جس کے مختلف شیڈ (Shade) ہیں جن کا تذکرہ سورۃ الاحزاب کی آیت 22اور سورۃ التوبہ کی آیات 20تا 22میں کیا گیا ہے۔ زرتشت اور بدھ کا عہد : بپتسمہ عیسائیوں کی وہ رسم ہے جو عیسائی مذہب میں شامل ہونے کے وقت ادا کی جاتی ہے اور اس رسم کی ادائیگی کے بغیر کوئی عیسائیت میں داخل نہیں ہوسکتا اور اس رسم کا تعلق ایک طرح سے عقیدہ کفارہ سے ہے۔ ان کے خیال میں اس رسم کی ادائیگی کے بعد انسان گناہوں سے بالکل پاک ہوجاتا ہے اسے مختلف انداز سے سر انجام دیا جاتا ہے۔ عام طور پر ایسے شخص کو جسے بپتسمہ دیا جائے ایک کمرے میں لٹا کر اس کے پورے جسم پر تیل کی مالش کی جاتی ہے جس کے بعد اسے غسل دیا جاتا ہے اور اس سے پوچھا جاتا ہے۔ کیا تم باپ بیٹے اور روح القدس پر مکمل ایمان رکھتے ہو؟ اس کے اقرار کرنے کے بعد اسے سفید کپڑے پہنائے جاتے ہیں اور پھر وہ تمام اشخاص جو بپتسمہ لے چکے ہیں اجتماعی طور پر کلیسا میں جاتے ہیں اور عشائے ربانی میں شرکت کرتے ہیں۔ بپتسمہ کا ذکر انجیل مارک میں ملتا ہے۔ ” یوحنا لوگوں کو بپتسمہ دیتا اور لوگوں کو ان کے گناہوں سے پاک کرتا تھا۔ یروشلم کے بہت سے لوگ اس کے پاس آئے اور اپنے گناہوں کا اقرار کرکے بپتسمہ لیا اور یوحنا اس بات کا اقرار کرتا تھا کہ میرے بعد وہ شخص آئے گا جو مجھ سے زیادہ طاقت والا ہوگا اور تمہیں روح القدس سے بپتسمہ دے گا۔“ اس انجیل میں بھی اس بات کا ذکر ہے کہ حضرت مسیح نے یوحنا سے بپتسمہ لیا۔ عشائے ربانی : عیسائی عقیدہ میں اس رسم کی بڑی اہمیت ہے کیونکہ بقول عیسائی حضرات اس رسم کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بنفس نفیس محفل میں تشریف لاتے ہیں۔ اس کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ اتوار کو گرجا میں سروس اور پھر دعا وغیرہ کے بعد پادری باپ بیٹے اور روح القدس کی برکت سے دعا کرتا ہے اور روٹی شراب میں بھگو کر تقسیم کی جاتی ہے۔ تاکہ عقیدہ کفارہ کی یاد تازہ کی جائے اور یہ روٹی اور شراب عیسائی حضرات کے عقیدہ کے مطابق حضرت مسیح کا گوشت اور خون بنتے ہیں۔ یہ عبادت اس یاد میں کی جاتی ہے کہ جب گرفتاری سے قبل یسوع مسیح نے حواریوں کے ساتھ کھانا کھایا تھا اور ان سے کہا کہ : And as they were eating, Jesus took bread, and blessed it, and brake it, and gave it to the discibles, and said Take, eat; this is my body. And he took the cup, and gave thanks, and gave it to them, saying, Drink ye all of it: For this is my blood of the new testament, which is shed for many for the remission of sins. ” جب وہ کھا رہے تھے تو یسوع نے روٹی لی اور برکت دے کر توڑی اور شاگردوں کو دے کر کہا لو کھاؤ یہ میرا بدن ہے پھر پیالہ لے کر شکر کیا اور ان کو دے کر کہا کہ تم سب اس میں سے پیو کیونکہ یہ میرا وہ عہد کا خون ہے جو بہتیروں کے لیے گناہوں کی معافی کے واسطے بہایا جاتا ہے۔“ (ادیان ومذاہب کا تقابلی مطالعہ، ڈاکٹر عبدالرشید، کراچی یونیورسٹی) مسائل : 1۔ ہدایت کا سرچشمہ صرف ملت ابراہیم ہے۔ 2۔ صحابہ کرام کا ایمان امت کے لیے کسوٹی ہے۔ صحابہ کے ساتھ حسد، بغض اور اختلاف رکھنے والا دین کا دشمن ہے۔ 3۔ صحابہ کے دشمنوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ حفاظت کرنے والا ہے۔ 4۔ خدا کی عبادت اور توحید کا رنگ دنیا کے ہر رنگ اور نشان سے خوبصورت ہے، پورے اخلاص کے ساتھ اسے اختیار کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : شان صحابہ {رض}: 1۔ اللہ نے صحابہ کے ایمان کو آزمالیا۔ (الحجرات :3) 2۔ صحابہ ایمان کا معیار ہیں۔ (البقرۃ :137) 3۔ صحابہ اللہ کی جماعت ہیں۔ (المجادلۃ:22) 4۔ صحابہ {رض}کو براکہنے والے بیوقوف ہیں۔ (البقرۃ :13) 5۔ صحابہ {رض}دنیا و آخرت میں کامیاب ہوئے۔ (المجادلۃ:22) 6۔ صحابہ {رض}کو اللہ نے اپنی رضا کی ضمانت دی ہے۔ (البینۃ:8) 7۔ صحابہ {رض}بھی اللہ پر راضی ہوگئے۔ (البینۃ:8) البقرة
138 البقرة
139 فہم القرآن : ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی عبادت سے انحراف اور اس کے احکام کا انکار کرنے والا عملًا اللہ تعالیٰ سے جھگڑا کرتا ہے۔ اے نبی {ﷺ}! اب ان سے پوچھیے کیا تم ہمارے ساتھ اللہ تعالیٰ کے بارے میں جھگڑتے ہو جس کی توحید اور اطاعت کا رنگ ہم نے اختیار کرلیا ہے جو ہمارا مالک‘ ہمیں پالنے والا اور تمہارا مالک اور تمہیں بھی روزی مہیا کرنے والا ہے۔ جب ہم ایک ہی مالک کی مخلوق اور ایک ہی رازق کے در کے سوالی اور محتاج ہیں تو پھر اس ذات کبریا کے بارے میں ہمارے ساتھ کیوں جھگڑتے ہو؟ ایک مالک‘ خالق اور ایک ہی رازق ماننے والوں کو ایک ہی امت ہونا چاہیے اگر تم دنیا وآخرت کی سب سے بڑی سچائی توحید کو ماننے کے لیے آمادہ نہیں اور اللہ تعالیٰ کی غلامی میں آنے کے لیے تیار نہیں تو پھر ہم نے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے اور تم اپنے کردار کے بارے میں جواب دہ ہو گے۔ ہاں ہم تمہاری طرح اپنے فکر و عمل میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کی شراکت اور عقیدۂ توحید میں کوئی ملاوٹ گوارا نہیں کرتے۔ ہمارا عمل اور عقیدہ اسی ذات کے لیے خالص اور بلا شرکت غیرے ہے جو سب کا رب ہے۔ یہی وہ جھگڑا ہے جس بنا پر ہر زمانے میں کافر اور مشرک اللہ کے مخلص بندوں سے ٹکراتے آ رہے ہیں۔ اس فرمان میں ایک مخصوص انداز میں مسلمانوں کو تسلی دی جا رہی ہے کہ ان سے الجھنے کی بجائے ان کو انہی کے حال پر چھوڑ دو کیونکہ ہر شخص اپنے ہی اعمال کا جواب دہ ہے۔ مسائل : 1۔ سب کا رب ایک اللہ ہے۔ 2۔ ہر کوئی اپنے اعمال کا جواب دہ ہے۔ 3۔ سچا مسلمان وہ ہے جو اپنے رب کے لیے مخلص ہوجائے۔ تفسیر بالقرآن : اخلاص کی اہمیت : 1۔ نبی {ﷺ}کو اخلاص کا حکم۔ (الزمر :11) 2۔ تمام امتوں کو اخلاص کا حکم۔ (الاعراف : 29) 3۔ اخلاص والے مومن ہیں۔ (النساء :146) 4۔ مخلص بندوں پر شیطان قابو نہ پاسکے گا۔ (ص :83) البقرة
140 فہم القرآن : (آیت 140 سے 141) ربط کلام : انبیائے کرام فرقہ واریت سے مبرّا حضرات تھے اور ان کو فرقہ واریت میں گھسیٹنا اللہ تعالیٰ کی شہادت کو ٹھکرانے اور چھپانے کے مترادف ہے۔ یہود ونصاریٰ انتہائی ہٹ دھرم لوگ ہیں جو جغرافیائی حقائق‘ تاریخی شواہد اور الہامی دلائل سننے کے باوجود بھی رسول معظم {ﷺ}کے زمانے سے لے کر آج تک اپنی ضد پر قائم اور جھوٹا دعو ٰی کیے جا رہے ہیں کہ ہدایت کا راستہ یہودی اور عیسائی ہونے میں ہے اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کے لیے حضرت ابراہیم‘ حضرت اسماعیل‘ حضرت اسحاق‘ حضرت یعقوب {علیہ السلام}اور ان کے بعد آنے والے انبیاء کو یہودی اور عیسائی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لہٰذا آپ {ﷺ}کو حکم دیا جارہا ہے کہ اے نبی {ﷺ}! آپ ان سے استفسار فرمائیں کہ ان پیغمبروں کے متعلق اور ان کے عقائد کے بارے میں تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ علیم و خبیر اور علام الغیوب زیادہ جانتا ہے؟ یہ اللہ کی وہ شہادت ہے جس پر تورات‘ انجیل اور قرآن گواہی دے رہے ہیں۔ وہ شخص انتہا درجے کا ظالم ہے جو اللہ تعالیٰ کی اس عظیم شہادت کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے جو ہر اعتبار سے کامل اور اکمل ہے۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ تمہارے کسی قول و فعل سے غافل وبے خبر نہیں ہے۔ جن ہستیوں کو تم اپنے کھاتہ میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہو وہ اللہ تعالیٰ کی ایک برگزیدہ جماعت تھی جو گزر چکی۔ ان کے اعمال کا صلہ انہی کے لیے ہے اور تمہارے اعمال کا نتیجہ تمہارے سامنے ہوگا۔ تمہیں ان کے اعمال کی بجائے اپنے اعمال کی فکر کرنا چاہیے۔ کیونکہ تمہیں ہرگز ان کے اعمال کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی عدالت کا ایسا اصول ہے جس سے ہر انسان میں احساس ذمہ داری پیدا کرنے کے ساتھ ان تمام سہاروں کو کاٹ دیتا ہے جن سے افراد اور قوموں میں بد عملی پیدا ہوا کرتی ہے۔ ﴿مَا کَانَ إِبْرَاہِیمُ یَہُودِیًّا وَلَا نَصْرَانِیًّا وَلَکِنْ کَانَ حَنِیفًا مُسْلِمًا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِینَ [ آل عمران :67) ” ابراہیم یہودی اور عیسائی نہ تھے۔ لیکن وہ توحید پرست مسلمان تھے اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔“ مسائل : 1۔ حضرت ابراہیم، حضرت اسماعیل، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور ان کی اولاد یہودی اور عیسائی نہیں تھے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کی قائم کی ہوئی شہادت کو چھپانا بڑا گناہ اور ظلم ہے۔ 3۔ فوت شدگان کے بارے میں ہمیں اور ہمارے بارے میں انہیں نہیں پوچھا جائے گا۔ 4۔ ہر شخص اپنے اعمال کا جواب دہ ہوگا۔ تفسیر بالقرآن : بڑا ظالم کون؟ 1۔ اللہ کی مساجد کو ویران کرنے والا۔ (البقرۃ:114) 2۔ اللہ کی گواہی کو چھپانے والا۔ (البقرۃ:140) 3۔ اللہ پر جھوٹ باندھنے والا۔ (الانعام :12) 4۔ نبوت کا دعو ٰی کرنے والا۔ (الانعام :93) 5۔ اللہ کی آیات کو جھٹلانے والا۔ (الاعراف :37) 6۔ اللہ کی آیات سن کر اعراض کرنے والا۔ (الکہف :57) 7۔ حق بات کو جھٹلانے والا۔ (العنکبوت :68) 8۔ سچ بات کو جھٹلانے والا۔ (الزمر :32) 9۔ نوح (علیہ السلام) کی قوم ظالم تھی۔ (النجم :52) 10۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے مانگنے والا۔ (یونس :106) 11۔ قرآن کی نصیحت سے منہ موڑنے والا۔ (الکہف :57) البقرة
141 البقرة
142 فہم القرآن : ربط کلام : پہلے پارہ کے اختتامی رکوعات میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے خاندان کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے وضاحت فرمائی تھی کہ بیت اللہ ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے صاحبزادے نے تعمیر کیا تھا۔ پھر یہود و نصارٰی کو ملت ابراہیم پر متفق ہوجانے کی دعوت دی تھی۔ پارہ کی آخری آیت میں ارشاد ہوا کہ یہ ایک امت تھی جن کے عقائد و نظریات ایک ہی تھے اور وہ اس دنیا سے جہان آخرت کی طرف رخت سفر باندھ چکے لہٰذا اب ان کی شریعت کے حوالہ سے کوئی ثبوت دینا، اس پر مصر ہونا اور بیت المقدس کے قبلہ ہونے پر اصرار کرنا بڑی بے وقوفی کی علامت ہے جس کا یہ لوگ عنقریب برملا اظہار کریں گے۔ لیکن اے مسلمانو! گھبرانے کی بجائے اس سچائی پر قائم رہنا۔ یہاں یہود و نصارٰی کے پروپیگنڈہ کے مقابلہ کے لیے رسول محترم {ﷺ}اور صحابہ کرام {رض}کو ذہنی طور پر تیار کیا گیا ہے۔ قبلہ کا لفظی معنی جانب اور سمت ہے۔ شرعی اصطلاح میں نماز کے وقت مسجد حرام کی جانب منہ کرنے کی سمت کو قبلہ کہا گیا ہے۔ اب بیت اللہ کو مسلمانوں کا قبلہ قرار دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح مسلمان اعتقادی طور پر ایک رب کی عبادت کرنے والے ہیں اسی طرح عبادت کے وقت بھی ان کا رخ ایک ہی طرف ہونا چاہیے تاکہ فکری اور عملی طور پر امت میں وحدت ویگانگت پیدا ہوسکے۔ تحویل قبلہ کے وقت دنیا کے دو بڑے مذہب عیسائی اور یہودی عبادت کے وقت بیت المقدس کی طرف رخ کرتے تھے اور مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد نبی کریم {ﷺ}بھی سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے۔ لیکن آپ کی خواہش اور تمنا یہ تھی کہ جس طرح ہمیں ملت ابراہیم کی اتباع کا پابند کیا گیا ہے اسی طرح ہمارا قبلہ بھی بیت اللہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے مرکز ہدایت اور مرجع خلائق بنایا ہے۔ اس خواہش کی تکمیل سے پہلے آپ اور مسلمانوں کو اتنی بڑی تبدیلی کے لیے ذہنی طور پر تیار کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ عنقریب نادان لوگ کہرام مچائیں گے کہ تبدیلئ قبلہ کی کیا ضرورت تھی؟ پہلے قبلہ میں کونسی خرابی واقع ہوئی ہے؟ یہ تو محض مخالفت برائے مخالفت کا نتیجہ ہے۔ اس کے جواب میں اعتراض کرنے والوں کو سمجھایا کہ مشرق ومغرب اللہ تعالیٰ کی ملکیت اور اسی کے اختیار میں ہے وہ جس طرف چاہے رخ پھیرنے کا حکم صادر فرمائے۔ وہ بھی ایک سمت تھی اور یہ بھی ایک جانب اور سمت ہے۔ لیکن فرق اتنا بڑا ہے کہ پہلے آپ اپنی مرضی سے بیت المقدس کی طرف رخ کرتے تھے اب اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھتے ہوئے بیت اللہ کی طرف رخ پھیرلیں۔ ہدایت رسم ورواج، پرانی اور غیر مستند روایات کوا پنا نے کا نام نہیں۔ ہدایت تو وہ ہے جس کی اللہ تعالیٰ نشاندہی اور رہنمائی فرماتا ہے۔ یہ انہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے تابع فرمان اور ہدایت کے طالب ہوا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم پر اعتراض کرنے والے بیوقوف ہوتے ہیں اور جان بوجھ کر بے وقوف بننے والوں کو ہدایت نصیب نہیں ہوا کرتی۔ مسائل: 1۔ اللہ ہی کے لیے مشرق ومغرب ہے۔ 2۔ اللہ کے حکم پر اعتراض کرنا بے وقوفی ہے۔ 3۔ اللہ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت دیتا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہی صراط مستقیم ہے۔ تفسیر بالقرآن : ہدایت اللہ کے اختیار میں ہے : 1۔ ہدایت وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ ہدایت قرار دے۔ (البقرۃ:120) 2۔ ہدایت اللہ کے اختیار میں ہے۔ (القصص :56) 3۔ وہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ (البقرۃ :213) 4۔ اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کے بغیر کوئی ہدایت نہیں پا سکتا۔ (الاعراف :43) 5۔ ہدایت جبری نہیں اختیاری چیز ہے۔ (الدھر :3) 6۔ نبی اکرم {ﷺ}بھی کسی کو ہدایت نہیں دے سکتے۔ (القصص :56) 7۔ ہدایت پانا اللہ تعالیٰ کا احسان ہے۔ (الحجرات :17) 8۔ رسولِ اکرم {ﷺ}کی تابعداری انسان کی ہدایت کی ضمانت ہے۔ (النور :57) 9۔ صحابہ کرام {رض}کا ایمان ہدایت کی کسوٹی ہے۔ (البقرۃ:137) 10۔ ہدایت پر استقامت کی دعا کرنا چاہیے۔ (آل عمران :8) البقرة
143 فہم القرآن : ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ مستقبل قریب میں تحویل قبلہ کی طرف اشارہ فرما تے ہوئے لفظ ” کَذٰلِکَ‘ ا ستعمال کیا ہے۔ اصل لفظ ” ذَالِکَ“ ہے جس میں حرف ” ک“ کا اضافہ فرمایا گیا ہے۔ اسے عربی زبان میں حرف تشبیہ کہا جاتا ہے‘ جس کا معنی’ مانند‘ جیسے ہے۔ یہاں اشارتاً یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ جس طرح جغرافیائی لحاظ سے تمہارا قبلہ زمین کے وسط میں واقع ہے اسی طرح ہی ہدایت اور فکر وعمل کے اعتبار سے تمہیں امت عدل اور وسط بنایا گیا ہے۔ محشر کے دن جب پہلی امتوں سے ان کے انبیاء کے بارے میں سوال ہوگا کہ انبیاء نے میرا پیغام آپ تک پہنچایا تھا یا نہیں؟ بعض اُمتیں واضح طور پر اپنے نبیوں کی جدوجہد کی نفی کردیں گی۔ اس کے بعد انبیاء (علیہ السلام) کو اپنی تائید کے لیے گواہ لانے کا حکم ہوگا۔ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کریں گے کہ ہماری گواہی امّتِ محمد یہ کے لوگ دیں گے۔ تب آپ {ﷺ}کی امت کے لوگ عرض کریں گے کہ یا الٰہی! یہ لوگ غلط بیانی کررہے ہیں ان کے انبیاء نے توتیرا پیغام ٹھیک ٹھیک ان تک پہنچایا تھا۔ (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِنِ الْخُدْرِیِّ {رض}قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ {}یُدْعٰی نُوْحٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُقَالُ لَہٗ ھَلْ بَلَّغْتَ فَیَقُوْلُ نَعَمْ فَیُدْعٰی قَوْمُہٗ فَیُقَالُ لَھُمْ ھَلْ بَلَّغَکُمْ فَیَقُوْلُوْنَ مَا اَتَانَا مِنْ نَّذِیْرٍ أَوْ مَآ أَتَانَا مِنْ أَحَدٍ قَالَ فَیُقَالُ لِنُوْحٍ مَنْ یَّشْھَدُ لَکَ فَیَقُوْلُ مُحَمَّدٌ وَأُمَّتُہٗ قَالَ فَذٰلِکَ قَوْلُہٗ ﴿وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَّسَطًا﴾) [ مسند أحمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب : مسند أبی سعید الخدری] ” حضرت ابو سعید خدری {رض}بیان کرتے ہیں رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا روز قیامت نوح (علیہ السلام) کو بلا کر پوچھا جائے گا کہ کیا تو نے میرا پیغام پہنچا دیا تھا؟ وہ جواب دیں گے ہاں پھر ان کی قوم کو بلا کر پوچھا جائے گا کیا نوح (علیہ السلام) نے تمہیں تبلیغ کی اور میرا پیغام پہنچایاتھا۔ وہ کہیں گے ہمارے پاس تو ڈرانے والا کوئی بھی نہیں آیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) سے کہا جائے گا آپ کی گواہی کون دے گا؟ وہ کہیں گے، محمد {ﷺ}اور اس کی امّت۔ آپ {ﷺ}نے فرمایا یہی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ (اسی طرح ہم نے تمہیں امّتِ وسط بنایا ہے)۔“ امت محمدیہ امت عدل اور وسط ہے: اسی لیے اس امت کو عدل کا لقب عطا کیا گیا۔ کیونکہ عدالت میں عادل کی گواہی معتبر ہوا کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تو ہجرت مدینہ کے ابتدائی ایام میں تحویل قبلہ کا حکم دے سکتا تھا۔ لیکن ایسا اس لیے نہیں کیا گیا تاکہ تحویل قبلہ کے ذریعے لوگوں کو آزمایا جائے کہ کون اللہ کا حکم سمجھ کر اپنا قبلہ تبدیل کرتا ہے کیونکہ ہدایت یافتہ لوگ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مقابلے میں حالات اور سمت نہیں دیکھا کرتے۔ تحویل قبلہ بہت بڑی آزمائش اور اقدام تھا۔ اللہ تعالیٰ کا کرم وفضل دیکھیے کہ بیت اللہ قبلہ مقرر فرمانے کے باوجود اسے سمت مقرر نہیں کیا گیا بلکہ مسجد حرام کی جانب چہرے کرنے کا حکم دیا تاکہ قبلہ کی سمت متعین کرنے میں دقّت نہ اٹھانی پڑے۔ رسول اللہ {ﷺ}نے اس میں اور وسعت کرتے ہوئے فرمایا : (بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَۃٌ) [ رواہ الترمذی : کتاب الصلوۃ] ” قبلہ مشرق ومغرب کے درمیان ہے۔“ تحویل قبلہ کے بارے میں فرمایا جارہا ہے کہ بے شک یہ بڑا مشکل مسئلہ اور مرحلہ ہے لیکن ان کے لیے معمولی کام ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت سے سرفراز فرمایا ہے۔ جہاں تک شہادت کا حق ادا کرنے کا معاملہ ہے آپ {ﷺ}نے اسے اس طرح ذمہ داری اور شاندار طریقہ سے ادا کیا کہ امّت کا ایک ایک فرد پکار اٹھا کہ اے رسول {ﷺ}! آپ نے کمال طریقے سے یہ حق ادا فرمادیا ہے۔ لہٰذا اب امّت کا فرض ہے کہ وہ اس ذمہ داری میں کوتاہی نہ کرے۔ آپ (ﷺ) نے ابلاغ کا حق ادا کردیا ہے: (عَنْ أَبِیْ بَکْرَۃَ {رض}قَالَ خَطَبَنَا النَّبِیُّ {}یَوْمَ النَّحْرِ فَإِنَّ دِمَآئَکُمْ وَأَمْوَالَکُمْ عَلَیْکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ھٰذَا فِیْ شَھْرِکُمْ ھٰذَا فِیْ بَلَدِکُمْ ھٰذَا إِلٰی یَوْمِ تَلْقَوْنَ رَبَّکُمْ أَلَا ھَلْ بَلَّغْتُ قَالُوْا نَعَمْ۔۔) [ رواہ البخاری : کتاب الحج، باب الخطبۃ أیام منی] ” حضرت ابو بکرہ {رض}بیان کرتے ہیں نبی {ﷺ}نے حج کا خطبہ دیتے ہوئے فرمایا یقیناً تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر ایسے ہی حرام ہیں جیساکہ تمہارے لیے آج کا دن، مہینہ اور یہ شہر قیامت تک کے لیے حرام ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کیا میں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام تم تک پہنچا دیا ہے؟ تو لوگوں نے جواب دیا ہاں۔“ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے صفت رؤف کا ذکر فرما کر مخلص اور تابعدار بندوں کو تسلی دی ہے کہ مخالف جس قدر چاہیں پروپیگنڈہ کریں تمہاری پہلی نمازیں ہرگز ضائع نہیں ہوں گی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ انتہائی رحم اور شفقت فرمانے والا ہے۔ اَلرَّءُ وْفَ: کہتے ہیں جو کسی کو نقصان سے بچا کر مزید نوازنے والا ہو۔ یہاں نماز اور ایمان کو باہم مترادف قرار دیا گیا ہے۔ نماز کی اہمیت سمجھنے کے لیے رسول اللہ {ﷺ}کا ارشاد ملاحظہ فرمائیں : (بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ الشِّرْکِ وَالْکُفْرِ تَرْکُ الصَّلٰوۃِ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب بیان إطلاق إسم الکفر علی من ترک الصلاۃ] ” مسلمان اور کفر و شرک کے درمیان ترک نماز کا فرق ہے۔“ مسائل : 1۔ آپ {ﷺ}کی امت معزز اور عدل کرنے والی ہے۔ 2۔ یہ امت فکر و عمل کے لحاظ سے معتدل قرار پائی ہے۔ 3۔ امّتِ محمدیہ پہلی امتوں پر اور آپ {ﷺ}اس امت پر گواہ ہوں گے۔ 4۔ تحویل قبلہ بہت بڑی آزمائش اور اتباع رسول کی کسوٹی ہے۔ 5۔ نماز اور ایمان باہم مترادف ہیں۔ 6۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بخشنے والے اور انتہائی مہربان ہیں۔ تفسیر بالقرآن : شہادتِ حق امت محمدیہ کا اعزاز : 1۔ نبی {ﷺ}کی امت تمام امتوں میں امّتِ خیر قرارپائی۔ (آل عمران :110) 2۔ آپ {ﷺ}کی امت نے امّتِ وسط کا اعزاز پایا۔ (البقرۃ:143) 3۔ آپ کی امت کو داعی الی الخیر کا منصب ملا۔ (آل عمران :104) 4۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو شاہد، مبشر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ (الفتح :8) 5۔ آپ {ﷺ}کا منصب لوگوں پر شہادت قائم کرنا ہے۔ (المزمل :15) 6۔ آپ {ﷺ}اور دوسرے انبیاء {علیہ السلام}اپنی اپنی امت کے بارے میں گواہی دیں گے۔ (النساء :41) 7۔ امت محمدیہ لوگوں پر گواہی دے گی۔ (البقرۃ:143) البقرة
144 فہم القرآن : ( آیت 144 سے 145) ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ بیت اللہ میں رسول محترم {ﷺ}نماز کے لیے اس طرح کھڑے ہوتے کہ بیک وقت آپ کا رخ بیت اللہ اور بیت المقدس کی جانب ہوا کرتا تھا۔ جب ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو وہاں متضاد جوانب کے ساتھ واسطہ پڑا۔ اگر آپ بیت اللہ کی طرف رخ کرتے تو بیت المقدّس پیٹھ کی طرف ہوتا اور اگر بیت المقدّس کی طرف رخ کرتے تو بیت اللہ پیچھے کی جانب ہوتا تھا۔ اس صورت حال میں رسول کریم {ﷺ}کی تمنّا تھی کہ ہمارا قبلہ مرکز ابراہیمی یعنی بیت اللہ ہونا چاہیے۔ اسی انتظار میں سولہ سترہ ماہ گزر گئے۔ اس دوران آپ کے اشتیاق اور اضطراب میں اضافہ ہی ہوتا رہا جس کی وجہ سے بسا اوقات آپ کا چہرہ بے ساختہ آسمان کی طرف اٹھ جایا کرتا تھا۔ آپ دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے تبدیلئ قبلہ کی آرزو کرتے۔ یہ اشتیاق ربِّ رحیم کو اس قدر بھلا لگا کہ قیامت تک اس کا منظر قرآن مجید میں محفوظ فرما دیا۔ جو نہی تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا کہ آپ {ﷺ}اور آپ کی امت کے لوگ نماز میں اپنے چہرے بیت اللہ کی طرف کیا کریں۔ تو اہل کتاب نے پروپیگنڈہ کا طوفان برپا کردیا جس کا ذکر پارے کی ابتدا میں کیا گیا ہے۔ اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا جارہا ہے کہ اہل کتاب یہ جانتے ہیں کہ نبئ آخر الزماں {ﷺ}کا قبلہ بیت المقدس کی بجائے بیت اللہ ہوگا۔ یہ سب کچھ وہ تورات وانجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ یہ حقیقت جاننے کے باوجود ان کا اعتراض کرناحق چھپانے اور اظہار حسد کا بہانہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے کسی صورت بھی چھپا نہیں سکتے۔ اب فیصلہ ہوچکا ہے لہٰذا میرے پیغمبر! آپ جتنے بھی دلائل دیں اور انہیں جس انداز سے سمجھائیں یہ مسجد حرام کو قبلہ نہیں مانیں گے۔ بیت المقدس کو قبلہ تسلیم کرنے کے باوجود ان کی حالت یہ ہے کہ یہودی بیت المقدس میں کھڑے ہوتے وقت اپنا منہ دیوار گریہ کی طرف کرتے ہیں جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ یہ ہیکل سلیمانی کی بنیاد ہے۔ عیسائی عبادت کے دوران اپنے چہرے اس جانب کرتے ہیں جہاں عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے تھے۔ گویا کہ ایک قبلہ ہونے کے باوجود یہ ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔ جب یہ اپنے قبلہ پر متفق نہیں ہیں تو آپ ان سے یہ کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ یہ آپ کے قبلہ پر اتفاق کریں گے لہٰذاقیامت تک آپ بھی ان کے قبلہ کو تسلیم کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا حکم معلوم ہوجانے کے بعد اگر آپ خوش کرنے کے لیے ان کی خواہشات کے پیچھے لگیں گے تو یاد رکھیں آپ اس وقت ظالموں میں شمار ہوں گے۔ آپ {ﷺ}کی ذات اقدس کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ آپ اللہ تعالیٰ کا حکم جاننے کے باوجود اس کے برعکس کوئی قدم اٹھا سکتے ہیں۔ کیونکہ رسول براہ راست اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں زندگی گزارتا ہے۔ یہاں مسئلہ کی اہمیت اور بنیادی اصول کی وضاحت کے پیش نظر آپ کو مخاطب کیا گیا ہے کہ حق کے مقابلے میں اپنی خواہشات کی پیروی کرنا، اپنے آپ پر ظلم کرنے کے مترادف ہے۔ یہ ایسا بنیادی مسئلہ ہے جس کے بارے میں رسول معظم {ﷺ}فرمایا کرتے تھے : (لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبَعًا لِّمَا جِئْتُ بِہٖ) [ مشکوٰۃ : باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ] ” تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک ایماندار نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنی خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ کردے۔“ رسول اللہ {ﷺ}اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد کیا کرتے تھے : (اَللّٰھُمَّ انِّیْ أَعُوْذُبِکَ مِنْ مُّنْکَرَاتِ الْأَخْلَاقِ وَالْأَعْمَالِ وَالْأَھْوَآءِ) [ رواہ الترمذی : کتاب الدعوات، باب الدعوات] ” الٰہی میں برے اخلاق، اعمال اور خواہشات کی پیروی سے تیری پناہ چاہتاہوں۔“ آپ {ﷺ}نے فرمایا : اہل کتاب کے بہتر فرقے تھے اور میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوگی۔ (وَإِنَّہٗ سَیَخْرُجُ مِنْ أُمَّتِیْ أَقْوَامٌ تَتَجَارٰی بِھِمْ تِلْکَ الْأَہْوآءُ کَمَا یَتَجَارَی الْکَلْبُ بِصَاحِبِہٖ لَا یَبْقٰی مِنْہُ عِرْقٌ وَلَا مَفْصِلٌ إِلَّا دَخَلَہٗ) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب السنۃ، باب شرح السنۃ] ” عنقریب میری امت میں ایسی قومیں ظہور پذیر ہوں گی کہ خواہشات ان میں ایسے سماجائیں گی جیسے باؤلے کتے کے کاٹنے سے لاحق ہونے والی بیماری رگ رگ اور ہر جوڑ میں سرایت کر جاتی ہے۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے آپ {ﷺ}کی پسند کے مطابق قبلہ تبدیل فرمادیا۔ 2۔ مسلمان جہاں کہیں بھی ہوں‘ نماز میں مسجد الحرام کی طرف ہی منہ کیا کریں۔ 3۔ اہل کتاب علمی طور پر مانتے ہیں کہ خانہ کعبہ ہی قبلۂ حق ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ یہود و نصارٰی اور کسی شخص کے کردار سے غافل نہیں ہے۔ 5۔ حق اور سچ ہونے کے باوجود یہود و نصارٰی بیت اللہ کو قبلہ تسلیم نہیں کرتے۔ 6۔ حقیقت کا علم ہونے کے باوجود اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والا ظالم ہے۔ تفسیر بالقرآن : خواہشات کی پیروی کرنے کے نقصانات : 1۔ علم ہونے کے باوجود دوسروں کے خیالات کی پیروی کرنیوالا اللہ کی نصرت سے محروم ہوجاتا ہے۔ (البقرۃ:120) 2۔ علم ہونے کے باوجود کفار کے خیالات کو اپنانا ظالموں میں شامل ہونا ہے۔ (البقرۃ:145) 3۔ کتاب اللہ کے مقابلے میں لوگوں کی خواہشات پر عمل نہیں کرنا چاہیے۔ (المائدۃ:48) 4۔ خواہشات کی اتباع کے بجائے کتاب اللہ کے مطابق فیصلے ہونے چاہییں۔ (المائدۃ:29) 5۔ لوگوں کی خواہشات کے پیچھے لگنے والا گمراہ ہوجاتا ہے۔ (صٓ:26) 6۔ اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والا تباہ ہوجاتا ہے۔ (طٰہٰ:16) 7۔ سب سے بڑا گمراہ اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والا ہے۔ (القصص :50) 8۔ خواہشات کی پیروی کرنے والا خواہشات کو الٰہ بنا لیتا ہے۔ (الفرقان :43) 9۔ حق کو چھوڑ کر خواہشات کی پیروی کرنے سے زمین و آسمان میں فساد پیدا ہوتا ہے۔ (المؤمنون :71) البقرة
145 البقرة
146 فہم القرآن : (آیت 146 سے 147) ربط کلام : یہاں معنوی ربط ہے کہ اہل کتاب جس طرح رسول اللہ {ﷺ}کی نبوت کو پہچانتے ہیں اسی طرح بیت اللہ کو قلبی طور پر قبلہ تسلیم کرتے ہیں۔ جہاں تورات و انجیل میں آپ کی نبوت کے ثبوت ہیں وہاں بیت اللہ کے قبلہ ہونے کا ثبوت بھی موجود ہے۔ اظہارِ حق اور نبی کریم {ﷺ}کے اطمینان اور مسلمانوں کی تسلی کے لیے مزید فرمایا جا رہا ہے کہ اہل کتاب آپ {ﷺ}کی ذات اور حیثیت کو اس طرح پہچانتے ہیں جیسے کوئی باپ اپنے بیٹے کو پہچاننے میں ذرّہ برابر شک نہیں کرتا، جب انہوں نے آپ کو اچھی طرح پہچان لیا ہے تو پھر آپ کی نبوت سے انحراف اور قبلہ کے انکار کا کیا معنیٰ ؟ لیکن اس کے باوجود کتمانِ حق کا جرم ہمیشہ سے ان میں سے ایک فریق کرتا آرہا ہے۔ لہٰذا قبلہ کی تبدیلی اور سلسلۂ وحی آپ کے رب کی طرف سے ہے اس لیے آپ کو رائی کے دانے کے برابر بھی اس میں شک نہیں کرنا چاہیے۔ (عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ {رض}قَالَ قَالَ یَھُوْدِیٌّ لِصَاحِبِہِ اذْھَبْ بِنَآ إِلٰی ھٰذَا النَّبِیِّ فَقَالَ صَاحِبُہٗ لَا تَقُلْ نَبِیٌّ إِنَّہٗ لَوْ سَمِعَکَ کَانَ لَہٗ أَرْبَعَۃُ أَعْیُنٍ فَأَتَیَارَسُوْلَ اللّٰہِ {}فَسَاَلَاہُ عَنْ تِسْعِ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ فَقَالَ لَھُمْ لَا تُشْرِکُوْا باللّٰہِ شَیْئًا وَلَا تَسْرِقُوْا وَلَا تَزْنُوْا وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ إِلَّا بالْحَقِّ وَلَا تَمْشُوْابِبَرِیءٍ إِلٰی ذِیْ سُلْطَانٍ لِیَقْتُلَہٗ وَلَا تَسْحَرُوْا وَلَا تَأْکُلُوا الرِّبَا وَلَا تَقْذِفُوْا مُحْصَنَۃً وَلَا تُوَلُّوا الْفِرَارَ یَوْمَ الزَّحْفِ وَعَلَیْکُمْ خَآصَّۃَ الْیَھُوْدَ أَنْ لَّاتَعْتَدُوْا فِی السَّبْتِ قَالَ فَقَبَّلُوْا یَدَہٗ وَرِجْلَہٗ فَقَالَا نَشْھَدُ أَنَّکَ نَبِیٌّ قَالَ فَمَا یَمْنَعُکُمْ أَنْ تَتَّبِعُوْنِیْ قَالُوْا إِنَّ دَاوٗدَ دَعَا رَبَّہٗ أَنْ لاَّ یَزَالَ فِیْ ذُرِّیَتِہٖ نَبِیٌّ وَإِنَّا نَخَافُ إنْ تَبِعْنَاکَ أَنْ تَقْتُلَنَا الْیَھُوْدُ) [ رواہ الترمذی : کتاب الإستئذان، باب ماجاء فی قبلۃ الید والرجل] ” حضرت صفوان بن عسال {رض}کہتے ہیں ایک یہودی نے اپنے ساتھی سے کہا کہ مجھے اس نبی کے پاس لے چلو اس نے کہا تو اسے نبی نہ کہہ اس لیے کہ اگر اس نے سن لیا تو اس کی چار آنکھیں ہوجائیں گی یعنی بہت خوش ہوگا۔ ان دونوں نے رسول اللہ {ﷺ}کے پاس آکرنو آیات بیّنات کے متعلق سوال کیے تو رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا : تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، چوری نہ کرو، زنانہ کرو اور قتل ناحق نہ کرو، کسی بے گناہ کو حاکم کے ہاں اسے قتل کرانے کے لیے نہ لے جاؤ، جادونہ کرو، سود نہ کھاؤ، پاکدامن عورت پر تہمت نہ لگاؤ، میدان جنگ سے پیٹھ پھیر کر نہ بھاگو ” اور یہودیو! تم پر خصوصی طور پر لازم ہے کہ ہفتے کے دن زیادتی نہ کرو۔“ راوی کہتے ہیں دونوں نے آپ کے ہاتھ اور پاؤں کو بوسہ دیا اور کہا ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نبی ہیں۔ رسول کریم {ﷺ}نے فرمایا : پھر میری اتباع کرنے سے کونسی چیز مانع ہے؟ انہوں نے جواب دیاحضرت داود (علیہ السلام) نے اپنے رب سے دعا کی تھی کہ نبوت انہی کے خاندان میں رہے اور ہمیں خطرہ ہے کہ اگر ہم نے آپ کی اتباع کرلی تو یہودی ہمیں قتل کردیں گے۔“ حضرت صفیہ {رض}بیان کرتی ہیں کہ میرے والد حیی بن اخطب اور چچا ابو یاسر صبح کے وقت رسول محترم {ﷺ}کی خدمت میں پہنچ کر اسلام کے بارے میں مذاکرات کرتے ہیں اور انہیں یقین ہوگیا کہ حقیقتًا آپ {ﷺ}نبی آخر الزماں ہیں۔ جب آپ سے گفتگو کرنے کے بعد مغرب کے وقت واپس آئے تو نہایت تھکے ماندے دکھائی دے رہے تھے۔ چچا ابو یاسر میرے والد سے پوچھتے ہیں :أَھُوَ ھُوَ ؟ ” کیا یہی وہ نبی ہے جس کا تذکرہ تورات وانجیل میں پایا جاتا ہے؟“ والد کہتے ہیں کیوں نہیں یہ وہی رسول ہے۔ پھر وہ پوچھتے ہیں :أَتَعْرِفُہٗ وَتُثَبِّتُہٗ ؟ ” کیا واقعی تو اسے پہچانتا ہے؟“ تو انہوں نے کہا : ہاں میں اچھی طرح پہچانتاہوں۔ چچا ابویاسر کہتے ہیں : فَمَافِیْ نَفْسِکَ مِنْہُ ؟ ” پھر آپ کا کیا ارادہ ہے؟“ تو میرے والد جواب دیتے ہیں : عَدَاوَۃٌ وَاللّٰہِ مَابَقِیْتُ ” کہ اللہ کی قسم! جب تک زندہ ہوں مخالفت کرتا رہوں گا“۔ [ ابن ہشام : شہادۃ عن صفیۃ] یہی حالت اہل مکہ کی تھی کہ وہ اچھی طرح پہچان چکے تھے کہ محمد {ﷺ}واقعی ہی اللہ تعالیٰ کے فرستادہ ہیں لیکن اپنی انا اور باطل عقیدہ کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ بدر کے معرکہ کے موقعہ پر ابو جہل سے کسی نے یہ سوال کیا کہ کیا محمدنے زندگی میں ہم سے جھوٹ بولاہے؟ اس نے کہا : ہرگز نہیں اس شخص نے پھر کہا کہ جو شخص لوگوں کے ساتھ جھوٹ نہیں بولتا وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں کس طرح غلط بیانی کرسکتا ہے ؟ خصوصًا جب اس کی کنپٹیوں کے بال بھی سفید ہوچکے۔ اس پر ابوجہل نے کہا کہ دراصل ہمارے اور ان کے قبیلے کی آپس میں ہر معاملے میں مقابلہ بازی رہی ہے اس لیے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم اس کی سربراہی قبول کرلیں۔ مسائل : 1۔ یہود ونصارٰی رسول اکرم {ﷺ}کی ذات اور رسالت کو اپنے بیٹوں کی طرح پہچانتے ہیں۔ 2۔ اہل کتاب جان بوجھ کر حق چھپالیتے ہیں۔ 3۔ قرآن مجید اور بیت اللہ کے قبلہ ہونے پر شک نہیں کرنا چاہیے۔ البقرة
147 البقرة
148 فہم القرآن : (آیت 148 سے 149) ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ ہر مذہب کے لوگوں نے عبادت کے لیے ایک جہت مقرر کر رکھی ہے۔ وہ اسی طرف ہی راغب اور رخ کیے ہوئے ہیں۔ ہندو اپنے عبادت خانوں میں مورتی (بت) کی طرف اور اگر مورتی یعنی بت نہ ہو تو سورج کی طرف منہ کرتے ہیں۔ سکھ اپنی کتاب گرنتھ کی جانب منہ کرتے ہیں۔ کتاب موجود نہ ہونے کی صورت میں جس طرف چاہیں چہرہ کرلیتے ہیں۔ بدھ مت بدھا کی مورتی کی طرف، یہودی بیت المقدس میں بھی دیوار گریہ کی طرف اور عیسائی مسجد اقصیٰ کی اس جانب منہ کرتے ہیں جہاں عیسیٰ (علیہ السلام) نے جنم لیا تھا۔ یہ تو مسلمانوں کا امتیاز ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی ہوں بیت اللہ کی طرف منہ کرتے ہیں۔ اس لیے ارشاد ہورہا ہے کہ تمہارے رب نے تمہارے چہروں کو اپنے گھر کی طرف پھیرنے کا حکم دیا ہے بس تم اسے قبول کرنے میں سبقت حاصل کرو۔ کیونکہ کا رِ خیر میں سبقت اختیار کرنے سے ایک ولولۂ تازہ پیدا ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ امّتِ مسلمہ کو صرف نیکی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا ارشاد ہوا ہے۔ کیونکہ دنیا میں کوئی شعبہ اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک اس میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا صحت مند رجحان پیدا نہ ہو۔ سبقت کے جذبہ کے بغیر قوموں کی زندگی میں مردگی پیدا ہوجاتی ہے۔ بالآخر زندگی مردہ ہو کر رہ جاتی ہے۔ زندہ اور بیدار قومیں اسی لیے مختلف شعبوں میں مقابلے کروا یا کرتی ہیں۔ قرآن مجید نے جذبۂ مسابقت کو پروان چڑھانے کے لیے ” سَابِقُوْا اور سارِعُوْا“ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ نیکیوں میں سب سے بڑی نیکی نماز ہے‘ جس کے بارے میں رسول اللہ {ﷺ}سے پوچھا گیا : (أَیُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ) ” کونسا عمل اللہ کے ہاں زیادہ پسندیدہ ہے ؟“ آپ {ﷺ}نے فرمایا : اَلصَّلَاۃُ عَلٰی وَقْتِھَا :” وقت پر نماز ادا کرنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔“ [ رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلوۃ] یہاں ہر قسم کی نیکی میں سبقت اور سورۃ الحدید آیت 21میں مغفرت اور جنت کے لیے یہ الفاظ استعمال کیے گئے۔ جب کہ سورۃ آل عمران : آیت 123میں رب تعالیٰ کی مغفرت اور جنت کے حصول کے لیے تیزروی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ پھر سورۃ الواقعہ : آیت ١٠ تا ١٢ میں اس کا نتیجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا : نیکیوں میں سبقت کرنے والے ہی قیامت کے دن سب سے آگے ہوں گے۔ جس طرح آج تمہیں اللہ تعالیٰ کے گھر کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا جارہا ہے، قیامت کے روز تمہیں اسی گھر کے مالک کے حضور پیش ہونے کا حکم ہوگا اور تم سب کے سب اس کی بارگاہ میں سر جھکائے حاضر ہوگے۔ اب تو تبدیلی قبلہ کا حکم آنے کے باوجود لوگ مختلف سمتوں کی طرف چہرے کیے ہوئے ہیں لیکن وہاں ہر حال میں سب کو ایک ہی بار گاہ اور ایک ہی عدالت میں جمع ہونا ہوگا۔ بلا شک اللہ تعالیٰ تمہیں اور تمہارے اعمال کو اپنے حضور پیش کرنے پر قادر ہے کیونکہ وہ قطرے قطرے، پتّے پتّے اور ذرّے ذرّے پر قدرت رکھتا ہے۔ تحویل قبلہ کا حکم آتے ہی صحابۂ کرام {رض}نے سمع واطاعت کا وہ نمونہ پیش کیا کہ جس کی دنیا کی تاریخ میں مثال ملنا مشکل ہے۔ ” حضرت عبداللہ بن عمر {رض}فرماتے ہیں کہ لوگ مسجد قبا میں صبح کی نماز ادا کررہے تھے کہ ان کے پاس ایک آدمی نے آکرکہاکہ نبی {ﷺ}پر آج رات قرآن نازل ہوا۔ اس میں حکم دیا گیا ہے کہ وہ کعبہ کی طرف منہ کریں لہٰذا تمہیں بھی کعبہ کی طرف رخ کرنا چاہیے۔ لوگوں کے چہرے شام کی طرف تھے۔ اسی وقت انہوں نے اپنے چہروں کو کعبہ کی طرف پھیرلیا۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الصلاۃ، باب ماجاء فی القبلۃ .....] مسائل : 1۔ نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنا چاہیے۔ 2۔ لوگ جہاں کہیں بھی ہوں گے اللہ تعالیٰ انہیں اپنے پاس جمع کرلے گا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ذرّے ذرّے اور چپّے چپّے پر قادر ہے۔ تفسیر بالقرآن: ہر امت کا قبلہ : 1۔ نبی {ﷺ}کو بھی قبلہ کی طرف منہ کرنے کا حکم ہے۔ (البقرۃ:149) 2۔ ہر امّت نے اپنے لیے ایک جہت مقرر کرلی ہے۔ (البقرۃ :148) 3۔ آدمی مسجد حرام میں ہو یا باہر اسے حالت نماز میں قبلہ کی طرف ہی منہ کرنا چاہیے۔ (البقرۃ:144) البقرة
149 البقرة
150 فہم القرآن: ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ : پہلے بھی بیان ہوا ہے کہ تحویل قبلہ معمولی اقدام نہیں تھا۔ اس لیے رسول کریم {ﷺ}کو تیسری مرتبہ اور صحابہ {رض}کو دوسری بار مخاطب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ تم نماز کے وقت جہاں کہیں ہوبہر حال اپنے چہروں کو مسجد حرام کی طرف پھیرلو۔ قرآن مجید میں صرف یہی ایسا مسئلہ ہے جس پر عمل درآمد کروانے کے لیے آپ کو تین بار حکم دیا گیا ہے۔ اس تاکید کے باوجود فرمان کے آخر میں مزید حکم دیا ہے کہ لوگوں سے ڈرنے کے بجائے صرف مجھ سے ڈرو۔ کیونکہ آدمی جب اللہ کا ڈر اپنے آپ میں پید اکرلیتا ہے تو پھر کسی کا خوف اس پر غلبہ نہیں پاسکتا۔ قبول حق اور اس کے ابلاغ کے لیے یہ بات شرط اول کی حیثیت رکھتی ہے کہ انسان صرف اپنے رب سے ڈرتا رہے۔ مسائل : 1۔ اللہ ہی سے ڈرنا چاہیے۔ 2۔ اللہ سے ڈرنے کی وجہ سے نعمتوں کا اتمام اور ہدایت نصیب ہوتی ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا حکم اور اس کا صلہ : 1۔ لوگ اللہ سے ڈرنے کے بجائے لوگوں سے زیادہ ڈرتے ہیں۔ (النساء :77) 2۔ اللہ سے خلوت میں ڈرنے والے کے لیے جنت کی خوشخبری ہے۔ (یٰس :11) 3۔ لوگوں سے ڈرنے کے بجائے اللہ سے ہی ڈرنا چاہیے۔ (آل عمران :175) البقرة
151 فہم القرآن : ربط کلام : خوف خدا کے بغیر آدمی نعمت ہدایت نہیں پاسکتا اور ہدایت کے لیے سنت رسول اور تعلیم نبوت لازم ہے۔ یہ فرد کی اصلاح اور قوموں کی فلاح کا راستہ ہے۔ اور یہی رسول محترم {ﷺ}کی بعثت کا مقصد ہے۔ نبوّت کے مرکزی فرائض (1) تلاوت آیات : تلاوت سے مراد اللہ تعالیٰ کے ارشادات واحکامات سے لوگوں کو آگاہ کرنا ہے، قرآن مجید کے ظاہری و باطنی آداب بتلانا، اس پر عمل کرنے اور اس کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ اس کی تلاوت کرنا اور تحفیظ القرآن کی ترغیب دینا ہے۔ (2) تعلیم : تعلیم سے مراد باقاعدہ قرآن مجید کے اسراروعلوم سمجھنا ہے۔ کیونکہ آدمی کسی علم میں مہارت اور اس کے حقیقی مطالب حاصل نہیں کرسکتا جب تک متعلقہ علم کے ماہر کے سامنے زانوئے تلمذ طے نہ کرے۔ یہ تو صرف اور صرف رسول کی شان ہوا کرتی ہے کہ وہ کسی آدمی سے علم سیکھنے کے بجائے اللہ تعالیٰ سے براہ راست علم اور معرفت حاصل کرتا ہے۔ لہٰذا نبی کے علاوہ ہر انسان اس بات کا محتاج ہے کہ وہ جو سیکھنا چاہتا ہے اس کے لیے متعلقہ استاد سے استفادہ کرے۔ جیسا کہ قرآن مجید نے وضاحت فرمائی ہے کہ رسول اکرم {ﷺ}نے براہ راست اپنے رب سے تعلیم پائی ورنہ آپ اس سے پہلے کچھ نہیں جانتے تھے۔ اسی کے بارے میں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو وہ کچھ سکھلاتا ہے جو آپ پہلے نہیں جانتے تھے۔ جن لوگوں کا یہ دعو ٰی ہے کہ قرآن مجید کے بعد حدیث کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ وہ ایسی بات کہتے ہیں جس کی کسی زمانے میں بھی اہل عقل و فکر نے تائید نہیں فرمائی۔ کیونکہ محض کتاب کسی کے ہاتھ میں تھما دینے سے کوئی شخص ٹھیک ٹھیک اس سے استفادہ نہیں کرسکتا بے شک وہ اس کتاب کی زبان سے کتنا ہی واقف کیوں نہ ہو؟ اس حقیقت کو جاننے کے لیے آج بھی کسی انگریزی دان کو انجینئرنگ یا طبّ کے متعلق کوئی کتاب دے کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس نے استاد کے بغیر طب اور انجینئرنگ میں کیا دسترس حاصل کی ہے اس لیے نبوت کے کار منصبی میں یہ فرض شامل ہے کہ نبی لوگوں کو باضابطہ طور پر کتاب اللہ کی تعلیم سے ہمکنار کرے تاکہ نبوت کا کام نسل در نسل چلتا رہے۔ لہٰذا رسول مقبول {ﷺ}نے تلاوت قرآن اور وعظ وخطاب کے ساتھ باقاعدہ طور پر مردوں کے لیے مسجد نبوی میں صفہ کے مقام پر اور خواتین کے لیے الگ تعلیم کا سلسلہ جاری فرمایا۔ ” ابو سعید خدری {رض}بیان کرتے ہیں ایک عورت نے نبی {ﷺ}سے آکر کہا کہ مرد ہم سے تعلیم کی وجہ سے آگے بڑھ گئے ہیں‘ آپ ہمارے لیے بھی کوئی دن مقرر کریں جس میں آپ ہمیں وہ کچھ سکھائیں جو اللہ نے آپ کو سکھایا آپ نے فرمایا فلاں فلاں دن جمع ہوجایا کرو۔ آپ تشریف لا کر انہیں اللہ تعالیٰ کا بتلایا ہوا علم سکھلاتے۔“ [ رواہ البخاری : کتاب العلم، باب : ھل یجعل للنساء یوم علی حدۃ فی العلم] ( عَنْ اَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ {}طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃُ ٗ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ) [ مشکوۃ کتاب العلم] ” حضرت انس {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے“ علم کی عظمت وفضیلت : علم وہ نعمت ہے جس سے ایک انسان ہی نہیں بلکہ حیوان بھی اپنی جنس میں ممتاز ہوجاتا ہے جیسا کہ کتے کی مثال ہے کہ اگر برتن چاٹ جائے تو اسے سات دفعہ دھونا ضروری قرار دیا گیا ہے لیکن اگر کتا سدھایا ہوا ہو تو اس کا پکڑا ہوا شکار حلال ہوتا ہے۔ (المائدۃ:4) بے شک انسان اشرف المخلوقات ہے لیکن تعلیم کے بغیر اندھا ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کا پہلا شرف علم ہی تھا جس کی وجہ سے انہوں نے ملائکہ پر برتری حاصل کی تھی۔ نبی کریم {ﷺ}کی نبوت کا آغاز ہی ” اِقْرَأ“ سے ہوا ہے۔ اس لیے آپ {ﷺ}نے اپنی امت کو زیور علم سے آراستہ کرنے کے لیے خصوصی توجہ فرمائی اور ان پڑھ قوم میں وہ علمی تحریک پیدا فرمائی کہ صحابہ کرام {رض}میں ایک شخص بھی ایسا نہ تھا جو اپنے بنیادی فرائض سے غافل اور ناواقف ہو۔ بے شک علوم میں سب سے اعلی اور دنیا وآخرت میں مفید ترین علم قرآن وسنت کا علم ہے لیکن قرآن و حدیث میں ہر اس علم کی حوصلہ افزائی پائی جاتی ہے جس سے انسانیت کو فائدہ پہنچے اس لیے آپ {ﷺ}علم میں اضافے کے لیے دعا کیا کرتے تھے ” رَبِّ زِدْنِیْ عِلْماً“ ” اے رب! میرے علم میں اضافہ فرما“ اور امت کو ہدایت فرمائی کہ اگر کسی کو قرآن وسنت کا ایک فرمان بھی یاد ہو تو اس کا فرض ہے کہ وہ اسے آگے پہنچائے گویا کہ قیامت تک یہ تحریک جاری رہے اور اس طرح دیے سے دیا جلتا رہنا چاہیے۔ (عَنْ مُّعَاوِیَۃَ {رض}قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ {}مَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ بِہٖ خَیرًا یُّفَقِّھْہُ فِی الدِّیْنِ وَاِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَّاللّٰہُ یُعْطِیْ) [ رواہ البخاری : کتاب العلم، باب من یرد اللہ بہ خیرا یفقہ فی الدین] ” حضرت معاویہ {رض}رسول اکرم {ﷺ}سے بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم {ﷺ}نے فرمایا اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ خیر خواہی کرنا چاہتے ہیں اسے دین کی سمجھ عنا یت فرماتے ہیں میں تقسیم کرنے والاہوں اور اللہ مجھے عنایت فرمانے والا ہے۔“ (عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ {رض}قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ {}لَا حَسَدَ اِلَّا فِی اثْنَیْنِ رَجُلٌ اٰتَاہ اللّٰہُ مَالًا فَسَلَّطَہُ عَلٰی ھَلَکَتِہٖ فِی الْحَقِّ وَرَجُلٌ اَتَاہ اللّٰہُ الْحِکْمَۃَ فَھُوَ یَقْضِیْ بِھَا وَیُعَلِّمُھَا)[ رواہ البخاری : کتاب الزکوۃ، باب انفاق المال فی حقہ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود {رض}بیان کرتے ہیں رسول مکرم {ﷺ}نے فرمایا صرف دو آدمیوں پر رشک کرنا جائز ہے ایک وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے مال عنایت فرمایا اور اسے نیکی کے کاموں پر خرچ کرنے کی توفیق دی، دوسرا جس کو اللہ تعالیٰ نے دانشمندی عطاکی وہ اس کی روشنی میں فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے۔“ سلسلہ تعلیم کو آپ {ﷺ}کے اصحاب نے وقت کے ساتھ ساتھ اس قدر وسعت سے ہمکنار کیا کہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق {رض}نے مدارس ومساجد قائم کرنے کے ساتھ مملکت کے سول اور فوجی عہدے داران کو حکم دیا کہ وہ عوام اور فوج میں قرآن وسنت کی تعلیم کو عام کرنے کے لیے خصوصی اقدامات کریں۔ اس کوشش اور توجہ کا ثمرہ تھا کہ حضرت عمر {رض}نے جب فوجی افسروں کو خط لکھا کہ حفاظ کرام کی فہرست میرے پاس بھیجو تو حضرت سعد بن ابی وقاص {رض}نے جواب میں لکھا کہ صرف میری چھاؤنی میں تین سو حفاظ کرام موجود ہیں۔ (الفاروق) (3) تزکیۂ نفس : نفس مضمون اور علم کتنا ہی اہم اور اعلیٰ کیوں نہ ہو اس وقت تک اس کے مقاصد حاصل نہیں کیے جاسکتے جب تک اس کے مطابق تربیت کا انتظام نہ کیا جائے۔ تربیت کے لیے انفرادی اور اجتماعی ماحول کا ہونا ضروری ہے۔ فرد کی اصلاح کیے بغیر قوم کی اصلاح کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ تزکیہ نفس کے لیے نبی کریم {ﷺ}لوگوں کی انفرادی اصلاح بھی فرماتے اور اجتماعی بھی۔ تب جا کر ایک ایسی جمعیت معرض وجود میں آئی۔ جس کی مثال تاریخ میں پیش کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ (4) حکمت : اہل لغت اور مفسرین نے حکمت کے معانی‘ فہم وفراست‘ علم وحلم‘ عدل وانصاف‘ حقیقت اور سچائی تک پہنچنا اور دین کی سمجھ حاصل کرنا بیان کیے ہیں۔ جب کہ اکثر اہل علم نے حکمت سے مراد رسول کریم {ﷺ}کی سنت اور حدیث لی ہے۔ کیونکہ آپ کی ذات اطہر پر قرآن نازل ہوا اور آپ اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق اس کی تفسیر بیان کرنے والے ہیں۔ سنت سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن کے اس لفظ کا کیا معنی ہے کیونکہ آپ نے اپنے ارشاد اور عمل سے قرآن کے احکامات کا حقیقی مفہوم واضح فرمایا ہے۔ پھر آپ کی سنت اور حدیث ہی سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک فردا ورمعاشرے پر قرآن کا نفاذ کس طرح کرنا چاہیے؟ آپ {ﷺ}نے ہی دنیا کو عقل ودانش سے ہمکنار فرمایا۔ رسول کریم {ﷺ}کا صرف یہی فرض نہیں تھا کہ آپ قرآن کی تلاوت، تبلیغ، تعلیم اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد کی حکمت کا تعیّن فرمائیں بلکہ آپ نے قرآن مجید کی روشنی میں اپنے اسوۂ مبارکہ کے ذریعے قرآن مجید کے مقصود کو لوگوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اس طرح راسخ فرمایا جس سے لوگوں کے نظریات کی تطہیر ہوئی۔ اخلاق میں نکھار اور کردار میں سنوار پیدا ہوا۔ کل کے جاہل آج قوموں کے معلّم اور راہبر بنے، ماضی میں لوٹ مار کرنے والے لوگوں کی عزت ومال کے محافظ ہوئے۔ لہٰذا کسی بھی حقیقی انقلاب اور طریقۂ حکومت کے یہی چار بنیادی اصول ہیں‘ جن کے بغیر فرد اور معاشرے میں صحت مند اور جامع تبدیلی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ یہی اسلام کا وہ نظام تعلیم اور تزکیۂ نفس کا پروگرام ہے جس کو اختیار کرکے ہر شخص روحانی منازل طے کرسکتا ہے‘ اس میں نہ تصور شیخ کی گنجائش ہے اور نہ قبروں کے سامنے مراقبہ کرنے اور نہ غاروں میں چلّہ کشی کی ہی ضرورت ہے۔ جن لوگوں نے تزکیۂ نفس کے مختلف طریقے ایجاد اور اختیار کیے ہیں انہوں نے سنت کے خلاف راستہ اختیار کیا ہے۔ لہٰذا کتاب وسنت میں ایسے طریقوں اور تصوف کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ مسائل : 1۔ رسول محترم {ﷺ}انسانوں میں سے ہی ایک انسان تھے۔ 2۔ رسول لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے احکامات سناتا ہے۔ 3۔ رسول لوگوں کی تربیت و تزکیہ نفس کرتا ہے۔ 4۔ رسول تعلیم اور دانش مندی سکھاتا ہے۔ تفسیربالقرآن: نبوت کے اغراض ومقاصد : 1۔ نبوت کے منصبی فرائض۔ (البقرۃ:151) 2۔ آپ {ﷺ}کو کتاب وحکمت کی تعلیم دینے کے لیے بھیجا گیا۔ (الجمعۃ:2) 3۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی دعاؤں میں ان فرائض کا تذکرہ موجود ہے۔ (البقرۃ:129) 4۔ رسول اللہ {ﷺ}لوگوں کے بوجھ اتارنے اور غلامی سے چھڑانے کے لیے تشریف لائے۔ (الاعراف :157) 5۔ نبوت اللہ تعالیٰ کا مومنوں پر احسان عظیم ہے۔ (آل عمران :164) 6۔ آپ لوگوں کو خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے تھے۔ (الاحزاب :45) 7۔ آپ کو ہدایت کا سورج بنایا گیا۔ (الاحزاب :46) البقرة
152 فہم القرآن : ربط کلام : نعمتوں کے بدلے اللہ تعالیٰ کا ذکر اور شکر کرنا چاہیے۔ بیت اللہ کو مرکز بنانا‘ امّتِ مسلمہ کو پیشوائی کے منصب پر فائز کرنا، تبدیلی سے قبل کی نمازوں کا اجر عطا فرمانا، بیت اللہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دینے کے بجائے صرف اس سمت رخ کرنے کی سہولت عنایت فرمانا، نبی آخر الزماں {ﷺ}کی صورت میں مہربان مربیّ اور عظیم قائد عطا فرما کر حکم دیا جارہا ہے کہ ہمیشہ مجھے یاد رکھنا اور میرے شکر گزار رہتے ہوئے میرے احکام کی بجاآوری کرتے رہنا کسی کا خیال اور خوف دل میں ہرگز نہ لانا تاکہ تمہیں ہدایت کے راستے پر استقامت اور مزید رہنمائی سے نوازا جائے۔ ذکر کی اہمیّت : ذکر کی جامع تعریف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی بجا آوری کے ساتھ اس کی ذات اور صفات پر کامل یقین رکھتے ہوئے اسے دل اور زبان کے ساتھ یاد رکھا جائے۔ تمام عبادات ذکر ہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ لیکن ان کی ادائیگی کے بعد بھی حکم دیا گیا ہے کہ اپنے رب کو کثرت کے ساتھ یاد رکھاکرو‘ جب تم نماز پوری کرلو تو اٹھتے‘ بیٹھتے اور لیٹتے وقت اللہ کو یاد کیا کرو۔ ﴿فَإِذَا قَضَیْتُمُ الصَّلٰوۃَ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ قِیَامًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِکُمْ﴾ [ النساء :103] ” جب تم نماز ادا کر چکو تو کھڑے بیٹھے اور پہلوؤں پر اللہ کا ذکر کرو۔“ ذکر کی مختلف صورتیں : (اِنَّمَا جُعِلَ الطَّوَاف بالْبَیْتِ وَبَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ وَرَمْیُ الْجِمَارِ لِاِقَامَۃِ ذِکْرِ اللّٰہِ) [ رواہ أبو داوٗد : کتاب المناسک‘ باب فی الرمل] ” یقیناً ! بیت اللہ کا طواف‘ صفا ومروہ کی سعی اور شیاطین کو کنکریاں مارنا اللہ کا ذکر بلند کرنے کے لیے مقرر کیے گئے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}عَنِ النَّبِیِّ {}قَال اللّٰہُ تَعَالٰی أَنَا مَعَ عَبْدِیْ حَیْثُمَا ذَکَرَنِیْ وَتَحَرَّکَتْ بِیْ شَفَتَاہُ) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ لاتحرک بہ لسانک الخ] ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ نبی {ﷺ}نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتاہوں‘ وہ جہاں کہیں بھی میرا ذکر کرے اور اس کے ہونٹ میرے ذکر میں حرکت کریں۔“ فضیلت شکر : یہاں شکر کے مقابلے میں کفر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ جس کا معنیٰ ہے ناشکری اور ناقدری کرنا۔ گویا اللہ تعالیٰ کے احسانات اور نعمتوں کی ناقدری کرنے والا بالفعل کفر ہی کا ارتکاب کرتا ہے۔ شرف انسانیت کا تقاضا ہے کہ آدمی ہر حال میں اپنے رب کا شکر گزار بننے کی کوشش کرے۔ شکر رب سے مانگنے کا سلیقہ اور زوال نعمت سے محفوظ رہنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مزید عنایات کا دروازہ کھولتا ہے۔ انسان شکر تبھی ادا کرتا ہے جب اس کے دل میں اپنے رب کی نعمتوں اور احسانات کا شعور اور احساس پیدا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دین کے کسی عمل کے بارے میں بیک وقت یہ نہیں فرمایا کہ اس کے کرنے سے تم عذاب سے محفوظ اور مزیدملنے کے حق دار بن جاؤ گے۔ صرف شکر ہی ایک ایسا عمل ہے جس کے بارے میں واضح طور پر فرمایا ہے : کہ تمہیں عذاب سے محفوظ رکھنے کے ساتھ مزید عنایات سے نوازا جائے گا۔ اس دوہرے انعام کی وجہ سے شیطان نے سر کشی اور بغاوت کی حدود پھاندتے ہوئے کہا تھا : ﴿وَلَا تَجِدُ اَکْثَرَھُمْ شَاکِرِیْنَ﴾ [ الأعراف :17] ” اے رب تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہیں پائے گا۔“ رسول گرامی {ﷺ}نے معاذ بن جبل {رض}کو یہ دعا سکھلائی کہ اسے ہر نماز کے بعد پڑھا جائے۔ (أَللّٰھُمَّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ ) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب الصلاۃ، باب فی الإستغفار] ” الٰہی ! اپنے ذکر، شکر اور بہترین طریقے سے عبادت پر میری مدد فرما۔“ مسائل : 1۔ ذکر کرنے والے کو اللہ تعالیٰ ہر حال میں یاد رکھتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کا ہر دم شکریہ ادا کرتے رہنا چاہئے۔ 3۔ ناشکری کفر کے مترادف ہے۔ تفسیر بالقرآن: شکر کی فضیلت : 1۔ اللہ تعالیٰ شکر گزار بندوں کا قدر دان ہے۔ (النساء :147) 2۔ شیطان کا مقصد انسان کو ناشکر ا بنانا ہے۔ (الاعراف :17) 3۔ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے تھوڑے ہی ہوا کرتے ہیں۔ (سبا :13) 4۔ اللہ تعالیٰ نے آنکھ‘ کان اور دل اس لیے دیئے ہیں کہ اس کا شکر ادا کیا جائے۔ (السجدۃ:9) 5۔ شکر ادا کرنے والے کو مزید عطا کیا جاتا ہے۔ (ابراہیم :7) البقرة
153 فہم القرآن : ربط کلام : ذکر اور شکر کی بہترین صورت نماز ہے۔ شکر سے اعراض اور نماز کا انکار کفر ہے۔ اگلی آیات میں شہادت اور مختلف قسم کی آزمائشوں کا آنا یقینی فرمایا ہے۔ لہٰذا آزمائشوں اور کفار کے پروپیگنڈہ سے گھبرانے کے بجائے پہلے نماز اور صبر کے ذریعے مدد مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔ صبر ایک ایسی اخلاقی قدر اور قوت ہے جو انسان کی منفی قوتوں پر کنٹرول اور مثبت صلاحیتوں کو جلا بخشنے کے ساتھ ان صلاحیتوں میں اضافہ بھی کرتی ہے۔ قرآن مجید نے صبر کا یہی معنی متعین فرمایا ہے۔ جناب موسیٰ (علیہ السلام) کی حضرت خضر (علیہ السلام) کے ساتھ گفتگو کے ضمن میں کئی بار یہ لفظ انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) حضرت خضر (علیہ السلام) کے ساتھ کچھ معاملات کی حکمت جاننے کے لیے ان کے ہمسفر ہوئے تو انہوں نے کئی بار فرمایا کہ جناب موسیٰ ! آپ میرے معاملات پر حوصلہ نہیں کر پائیں گے۔ کلیم اللہ نے کہا کہ میں ہر ممکن کوشش کروں گا کہ میرے صبرکے بندھن ٹوٹنے نہ پائیں۔ گویا کہ صبر کا معنیٰ ہے اپنے آپ پر قابورکھنا اور مشکل کے وقت استقامت اختیار کرنا۔ تو اس طرح صبر اور استقامت کا تعلق آپس میں چولی دامن کا تعلق بنتا ہے۔ غریب آدمی صبر کا دامن چھوڑ دے تو وہ خود کشی کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ جو ان کے اندر صبر کی قوت کمزور ہوجائے تو اس سے بے حیائی کی ایسی حرکات ثابت ہوتی ہیں کہ ساری زندگی اسے پچھتاوا رہتا ہے۔ صاحب اقتدار آدمی صبر سے تہی دامن ہو تو وہ اپنے وقت کا فرعون ثابت ہوتا ہے۔ اس کے برعکس یہی لوگ صبر وحوصلہ کا مظاہرہ کریں تو زندگی ان کے لیے آسان ہوجاتی ہے۔ بہادر اور بااختیار شخص حوصلہ سے کام لے تو کمزوروں کے لیے اللہ کی رحمت ثابت ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے زندگی کے ہر موڑ پر صبر وحوصلے کا حکم دیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنی دستگیری کی خوشخبری دی ہے۔ صبر کے لیے آپ {ﷺ}کو یوں مخاطب کیا گیا : ﴿وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَاھْجُرْھُمْ ھَجْرًا جَمِیْلًا﴾ [ المزمل :10] ” لوگوں کی دل آزار باتوں پر صبر کرتے ہوئے انہیں اچھے انداز سے چھوڑ دیجیے۔“ ﴿وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَھُوَ خَیْرٌ لِّلصَّابِرِیْنَ﴾ [ النحل :126] ” صبر کا رویّہ اختیار کرو یہ بہترین انجام کی ضمانت ہے۔“ ﴿اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَہُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ﴾ [ الزمر :10] ” صبر کرنے والوں کو ہی بغیر حساب کے پورا پورا اجر دیا جائے گا۔“ یہاں اللہ تعالیٰ کی نصرت وحمایت کے حصول کے لیے دوسرا مؤثر ذریعہ نماز قرار دی گئی ہے۔ اگر آدمی نماز کو صحیح انداز میں ادا کرتے ہوئے یہ تصور قائم کرلے کہ میں مشفق ومہربان آقا کے حضور درخواست گزارہوں اور وہی میری روح کے کرب کو جانتا اور میرے دکھوں کا مداوا کرسکتا ہے تو انسان کا غم فوری طور پر ہلکا ہوجاتا ہے۔ اسی بنا پر رسول اللہ {ﷺ}فرمایا کرتے تھے : مجھے نماز میں سکون ملتا ہے اور آپ ہر مشکل وقت مصلّے کی طرف لوٹا کرتے تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی زندگی کے نازک مراحل میں نماز کے ذریعے ہی اللہ تعالیٰ کی نصرت وحمایت طلب کیا کرتے تھے۔ (1) (جُعِلَتْ قُرَّۃُ عَیْنِیْ فِی الصَّلٰوۃِ )[ رواہ النسائی : کتاب عشرۃ النساء، باب حب النساء] ” نماز میں میری آنکھوں کے لیے ٹھنڈک ہے۔“ (2) (یَابِلَالُ ! اَرِحْنَا بالصَّلَاۃِ) [ مسند أحمد : کتاب باقی مسند الانصار، باب أحادیث رجال من أصحاب النبی {ﷺ}] ” اے بلال ! نماز کے ذریعے ہمیں سکون پہنچاؤ۔“ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور نماز : (3) (فَلَمَّا دَخَلَ أَرْضَہٗ رَاٰھَا بَعْضُ أَھْلِ الْجَبَّارِ أَتَاہُ فَقَالَ لَہٗ لَقَدْ قَدِمَتْ أَرْضَکَ امْرَأَۃٌ لَا یَنْبَغِیْ لَھَا أَنْ تَکُوْنَ إِلَّا لَکَ فَأَرْسَلَ إِلَیْھَا فَأُتِیَ بِھَا فَقَامَ إِبْرَاھِیْمُ إِلَی الصَّلَاۃِ فَلَمَّا دَخَلَتْ عَلَیْہِ لَمْ یَتَمَالَکْ أَنْ بَسَطَ یَدَہٗ إِلَیْھَا قُبِضَتْ یَدُہٗ قَبْضَۃً شَدِیْدَۃً فَقَالَ لَھَا ادْعِی اللّٰہَ أَنْ یُطْلِقَ یَدِیْ وَلَا اَضُرُّکِ فَفَعَلَتْ فَعَادَ فُقُبِضَتْ أَشَدَّ مِنَ الْقَبْضَۃِ الْأُوْلٰی فَقَالَ لَھَا مِثْلَ ذٰلِکَ فَفَعَلَتْ فَعَادَ فَقُبِضَتْ أَشَدَّ مِنَ الْقَبْضَتَیْنِ الْأُوْلَیَیْنِ فَقَالَ ادْعِی اللّٰہَ أَنْ یُطْلِقَ یَدِیْ فَلَکِ اللّٰہُ أَنْ لَّاأَضُرَّکِ فَفَعَلَتْ وَأُطْلِقَتْ یَدُہٗ وَدَعَا الَّذِیْ جَاءَ بِھَا فَقَالَ لَہٗ إِنَّکَ إِنَّمَا أَتَیْتَنِیْ بِشَیْطَانٍ وَلَمْ تَأْتِنِیْ بِإِنْسَانٍ فَأَخْرِجْھَا مِنْ أَرْضِیْ وَأَعْطِھَا ھَاجَرَ قَالَ فَأَقْبَلَتْ تَمْشِیْ فَلَمَّا رَاٰھَا إِبْرَاہِیْمُ {علیہ السلام}انْصَرَفَ فَقَالَ لَھَا مَیْھَمْ قَالَتْ خَیْرًا کَفَّ اللّٰہُ یَدَ الْفَاجِرِوَأَخْدَمَ خَادِمًا) [ رواہ مسلم : کتاب الفضائل، باب من فضائل إبراھیم الخلیل (علیہ السلام) ] ” جب ابراہیم اس جابر بادشاہ کی سرزمین میں داخل ہوئے تو بادشاہ کے کارندے نے انہیں دیکھ کر بادشاہ سے کہا کہ آپ کے علاقے میں ایک عورت آئی ہے جو صرف آپ کے پاس ہی ہونی چاہیے۔ بادشاہ نے اپنا اہلکار بھیج کر اسے منگوایاتو ابراہیم (علیہ السلام) نے نماز شروع کردی۔ حضرت سارہ[ جب اس کے پاس گئیں تو اس نے ان کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا لیکن بادشاہ کا ہاتھ سختی سے پکڑ لیا گیا۔ اس نے حضرت سارہ[ سے کہا کہ : اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ میرا ہاتھ چھوڑ دیا جائے۔ میں دوبارہ یہ حرکت نہیں کروں گا۔ ہاتھ چھوڑدیا گیا تو اس نے دوبارہ دست درازی کی کوشش کی لیکن ہاتھ پہلے سے زیادہ سختی سے پکڑ لیا گیا۔ پھر اس نے ہاتھ چھڑانے کے لیے اللہ سے دعا کروائی اور وعدہ کیا کہ اب ایسے نہ کروں گا تو ہاتھ چھوڑ دیا گیا۔ تیسری دفعہ پھر اس نے ہاتھ بڑھایا تو ہاتھ پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیا گیا۔ اب پھر اس نے حضرت سارہ[ سے دعا کے لیے کہا کہ اللہ کی قسم! میرا ہاتھ چھوٹ جائے تو میں تیرے ساتھ زیادتی نہیں کروں گا۔ حضرت سارہ[ کی دعا پر ہاتھ چھوڑ دیا گیا۔ بادشاہ نے اس اہلکار کو بلاکر کہا کہ : تو میرے پاس انسان کے بجائے کوئی شیطان لے آیا ہے۔ اسے میری سرزمین سے جانے دیجیے اور اسے ہاجرہ بھی ساتھ دے دیجیے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب سارہ[ کو آتے ہوئے دیکھا تو نماز کے بعد خیریت پوچھی۔ انہوں نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس فاجر کے ہاتھوں کو روک لیا اور میں سلامت رہی، اس نے ایک خادمہ خدمت کے لیے مجھے دی ہے۔“ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ {رض}قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ {}الْمُؤْمِنُ الَّذِیْ یُخَالِطُ النَّاسَ وَیَصْبِرُ عَلٰی أَذَاھُمْ أَعْظَمُ أَجْرًا مِّنَ الْمُؤْمِنِ الَّذِیْ لَایُخَالِطُ النَّاسَ وَلَا یَصْبِرُ عَلٰی أَذَاھُمْ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الفتن، باب الصبر علی البلاء] ” حضرت عبداللہ بن عمر {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم {ﷺ}نے فرمایا : جو مومن لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے وہ اس مومن سے زیادہ اجر والا ہے جو نہ لوگوں میں گھل مل کررہتا ہے اور نہ ان کی دی ہوئی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے۔“ مسائل : 1۔ صبر اور نماز کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنا چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ مستقل مزاج اور صبر کرنے والوں کی دستگیری فرماتا ہے۔ تفسیربالقرآن : صبر کی اہمیت اور اجر : 1۔ صبر اہم کاموں میں اہم ترین کام ہے۔ (الاحقاف :35) 2۔ نبی {ﷺ}کو صبر کا حکم دیا گیا۔ (المعارج :5) 3۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ :153) 4۔ صبر کا انجام اچھا ہوتا ہے۔ (الحجرات :5) 5۔ صبر کرنے والے کامیاب ہوں گے۔ (المومنون :111) 6۔ مسلمان صابر کی آخرت اچھی ہوگی۔ (الرعد :24) 7۔ صبر کرنے والوں کو جنت میں سلامتی کی دعائیں دی جائیں گی۔ (الفرقان :75) 8۔ صابر بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے۔ (الزمر :10 ) البقرة
154 فہم القرآن: ربط کلام : شہادت کے وقت صبر کرنا کیونکہ یہ فوت ہونے والے اور لواحقین کے لیے بہت بڑی آزمائش ہوتی ہے۔ شہداء کے مرتبہ ومقام، ان کے عظیم اور مقدس مشن کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان کے نام کو عزت وتکریم دیتے ہوئے حکم دیا ہے کہ جن لوگوں نے میرے راستے میں اپنے جسم کے ٹکڑے کروائے اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ان کو مردہ شمار کرنے کے بجائے زندہ وجاوید تصور کیا جائے۔ بظاہر ان کے گرامی قدر وجود دنیاۓ فانی سے دار جاودانی میں منتقل ہوچکے ہیں۔ لیکن وہ اپنی بے مثال غیرت ایمانی اور قربانی کی وجہ سے اپنی قوم اور معاشرے میں یاد رکھے جائیں گے۔ کیونکہ ان کی موت سے قوم میں زندگی کا نیا جذبہ، جوش اور ولولۂ ایمان پیدا ہوتا ہے۔ جس سے یہ محاورہ زبان زد عام ہوا ” شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے“ یہ جوانمرد اپنی جانیں نچھاور کرکے قوم کی عزت، بہوبیٹیوں کی عفت، ملک کی حفاظت اور اسلام کی عظمت کے رکھوالے ثابت ہوئے ہیں۔ ایسے جانفروشوں، فداکاروں اور جرأت وبہادری کی داستانیں رقم کرنے والوں کو غیرت خدا وندی گوارا نہیں کرتی کہ انہیں مردہ کے لفظ سے پکارا جائے۔ بلکہ ان کا نام اور کام نسلوں تک باقی رہتا ہے۔ تاریخ کے اوراق میں ان کے نام اور کام کی ہر وقت زیارت کی جاسکتی ہے۔ شہدائے بدر و احد سے لے کر آج تک شہید ہونے والے خوش بختوں کے جب بھی نام لیے جاتے ہیں تو دل میں احترام ومقام تازہ ہونے کے ساتھ ان کی عظیم شہادت کی وجہ سے آدمی کا خون کھول اٹھتا ہے۔ مسلمان چشم تصور میں تاریخ کا مطالعہ کرتا ہے تو رات کی تاریکی میں بستر پر لیٹے ہونے کے باوجود اس کا دل میدان کارزار میں پہنچنے کے لیے تڑپ اٹھتا ہے۔ یہی وہ سرمایۂ حیات ہے جس بنا پر انہیں مردہ کہنے کی بجائے شہید کے عظیم اور مقدس لقب سے ملقب فرمایا گیا ہے۔ جہاں تک دنیاوی زندگی کا معاملہ ہے وہ اس طرح ہی اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں جس طرح طبعی موت سے آدمی اس دنیا سے دار آخرت کی طرف رخت سفر باندھتا ہے۔ اسی وجہ سے شہداء کی بیوگان کو آگے نکاح کرنے کی اجازت اور ان کی وراثت اسلامی قانون وراثت کے تحت ہی تقسیم ہوا کرتی ہے۔ اس بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں واضح کیا ہے کہ ان کی زندگی کے بارے میں خود ساختہ تصورات اور کسی قسم کی قیل وقال سے پرہیز کرنا چاہیے۔ جہاں تک عالم برزخ میں جسد خاکی کی بقا کا معاملہ ہے تو انبیائے عظام کے اجسام مطہرہ کے بارے میں گارنٹی موجود ہے‘ رسول اللہ {ﷺ}کا ارشادِگرامی ہے : (إِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ حَرَّ مَ عَلَی الْأَرْضِ أَنْ تَأْکُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِیَاءِ) [ رواہ أبو داوٗد : کتاب الصلوۃ، باب فصل یوم الجمعۃ ولیلۃ الجمعۃ]” یقینًا اللہ عزوجل نے زمین پر انبیاء کا جسم کھانا حرام کردیا ہے۔“ شہداء کے جسد خاکی کے بارے میں قرآن و حدیث میں کوئی مستقل ضابطہ موجود نہیں۔ البتہ جس کے لیے اللہ چاہے اس کے وجود کو سلامت رکھتا ہے۔ جس کی تاریخ میں کئی مثالیں موجود ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود بعض لوگوں نے اپنے فرسودہ عقائد کو تقویت اور دنیاوی مفادات کے تحفظ کے لیے ان کی حیات اخروی کو دنیا کی زندگانی سے مماثل کرنے کی بے معنی کوشش کی ہے۔ جن میں عصر حاضر کے ایک مفسر تفسیر مظہری کے حوالے سے یوں رقمطراز ہیں : قلت بل معیۃ غیر متکیفۃ یتضح علی العارفین۔ یعنی اس سنگت سے وہ خاص سنگت مراد ہے جس کی کیفیت بیان نہیں ہوسکتی۔ صرف عارف ہی اس کو سمجھ سکتے ہیں۔ (ضیاء القرآن) رسول اللہ {ﷺ}نے شہید کی زندگی کے بارے میں یوں فرمایا : (عَنْ عَائِشَۃَ {رض}قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ {}لِجَابِرٍ یَاجَابِرُ أَلَاأُبَشِّرُکَ قَالَ بَلٰی بَشِّرْنِیْ بَشَّرَکَ اللّٰہُ بالْخَیْرِ قَالَ أَشَعَرْتَ أَنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ أَحْیَاأَبَاکَ فَأَقْعَدَہٗ بَیْنَ یَدَیْہِ فَقَالَ تَمَنَّ عَلَیَّ عَبْدِیْ مَاشِئْتَ أُعْطِکَہٗ فَقَالَ یَارَبِّ مَاعَبَدْتُّکَ حَقَّ عِبَادَتِکَ أَتَمَنّٰیْ عَلَیْکَ أَنْ تَرُدَّنِیْ إِلَی الدُّنْیَا فَأُقَاتِلُ مَعَ النَّبِیِّ {}مَرَّۃً أُخْرٰی فَقَالَ سَبَقَ مِنِّیْ إِنَّکَ إِلَیْھَا لَاتَرْجِعُ) [ المستدرک علی الصحیحین : 3/223] ” حضرت عائشہ {رض}بیان کرتی ہیں۔ رسول اللہ {ﷺ}نے حضرت جابر {رض}سے فرمایا جابر! کیا میں تجھے بشارت نہ دوں؟ انہوں نے عرض کی کیوں نہیں! اللہ آپ کو بہتری اور خیر کی بشارت دے۔ آپ {ﷺ}نے فرمایا : تجھے معلوم ہے کہ اللہ نے تمہارے والد کو زندہ کرکے اپنے سامنے بٹھاکر فرمایا کہ میرے بندے تو جو چاہتا ہے مجھ سے تمنا کر میں تجھے عطا کروں گا۔ انہوں نے عرض کی : اے میرے پروردگار ! میں نے تیری عبادت کا حق ادا نہیں کیا میں تمنا کرتاہوں کہ آپ مجھے دنیا میں بھیج دیں تاکہ میں نبی {ﷺ}کے ساتھ مل کر قتال کروں اور پھر تیری راہ میں شہید ہوں اللہ تعالیٰ نے جوابًا فرمایا : میرا فیصلہ ہوچکا ہے کہ تودنیا میں دوبارہ نہیں جائے گا۔“ مسائل : 1۔ شہداء کو مردہ نہیں کہنا چاہیے۔ 2۔ شہداء کی زندگی ہمارے علم سے باہر ہے۔ تفسیربالقرآن: شہداء کا مقام وزندگی : 1۔ اللہ کے راستے میں شہید ہونے والے زندہ ہیں۔ (البقرۃ:154) 2۔ شہداء اللہ کے ہاں رزق پاتے ہیں۔ (آل عمران :169) 3۔ شہداء اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں پر راضی ہیں۔ (آل عمران :170) 4۔ شہداء اپنے لواحقین کو خوشخبری کا پیغام دیتے ہیں۔ (آل عمران :170) البقرة
155 فہم القرآن : (آیت 155 سے 156) ربط کلام : غم اور آزمائش کی مختلف صورتیں۔ اسلام کے اوصاف حمیدہ میں یہ وصف بھی شامل ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو کسی مبالغہ آمیزی اور خوش فہمی کا شکار نہیں ہونے دیتا کہ جو نہی تم اپنی زبان سے کلمہ ادا کرو گے تو بہاریں لوٹنے کے ساتھ ہر قسم کی کامیابیاں تمہارے دامن میں سمٹ آئیں گی۔ اسلام اور کسی نظریے کی تاریخ بھی اس بات کی تائید نہیں کرتی کہ جو نہی کسی نے اسے قبول کیا تو ان کے لیے نعمتوں اور سہولتوں کے دروازے کھل گئے ہوں۔ اس کے برعکس یہ ہوا کرتا ہے کہ تحریک کے ابتدائی معاون بیش بہا قربانیاں پیش کیا کرتے ہیں۔ اگر یہ لوگ اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے صبر واستقامت کا مظاہرہ کریں تو ایک وقت آیا کرتا ہے کہ اسی یا آئندہ نسل کے لیے دنیا میں آسانیوں کے راستے ہموار ہوجایا کرتے ہیں۔ شدید کشمکش اور قربانیوں سے پہلے ان سہولتوں کا تصور کرنا خوش فہمیوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ ایسی ہی صورت حال کے پیش نظر یہاں تحویل قبلہ کے احکامات کے دوران شہادتوں اور آزمائشوں کا ذکر کیا گیا ہے کہ ترک وطن اور جانی قربانیوں کے ساتھ دشمن کا خوف، غربت وافلاس، مال ودولت کی کمی، اعزاء و اقرباء کی جدائی، موت کی صورت میں ہو یا ہجرت کی شکل میں اور اناج کی کمی سے تمہیں آزمایا جائے گا۔ یہاں پہلے شہادت کا ذکر فرما کر یہ تصوّر دیا کہ اللہ کے بندے جان کی پروا نہیں کرتے لہٰذا ان کے لیے دنیا کا مال ومتاع کیا حیثیت رکھتا ہے گویا کہ بڑی آزمائشوں سے گزرنے والے چھوٹی چھوٹی آزمائشوں سے نہیں گھبرایا کرتے۔ صحابہ کرام {رض}کو فتح مکہ تک پے درپے تمام امتحانات اور آزمائشوں سے گزارا گیا اور وہ ہر امتحان میں سرخرو ہوئے تب جا کر ان کے لیے کامیابیوں کے دروازے کھول دیئے گئے۔ آزمائش زندگی کا جز ولاینفک ہے‘ بالخصوص دین اسلام کی سر بلندی کے لیے یہ اس قدر اہم اور ضروری ہے کہ اس کے لیے دو حرف تاکید استعمال کیے گئے ہیں۔ عربی کے طلبہ جانتے ہیں کہ جب بیک وقت لام مفتوح اور تشدید کے ساتھ نون آئے تو یہ تاکید مزید کا پتہ دیتے ہیں۔ جس کا مفہوم یہ ہوا کہ آزمائش کے کربناک مراحل سے تمہیں ہر حال میں گزرنا ہوگا۔ اسی بات کو قرآن مجید نے دوسرے انداز اور الفاظ میں یوں بیان فرمایا ہے : ﴿اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْـرَكُـوٓا اَنْ يَّقُوْلُوٓا اٰمَنَّا وَهُـمْ لَا يُفْتَنُـوْنَ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّـذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِـمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللّـٰهُ الَّـذِيْنَ صَدَقُوْا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِيْن﴾ [ العنکبوت : 2، 3] ” کیا لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ” اٰمَنَّا“ کہہ کر انہیں چھوڑ دیا جائے گا اور آزمائش میں مبتلا نہ کیے جائیں گے؟ ہم نے ان سے پہلوں کو بھی آزمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ سچوں اور جھوٹوں کو ضرور دیکھ لے گا۔“ یاد رکھیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش مومن کو ذلیل کرنے کے لیے نہیں آتی بلکہ آزمائش انسان کی خوابیدہ صلاحیتیں ابھارنے اور آخرت میں اس کے مراتب میں اضافہ کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ دنیا میں مجرموں کے لیے مثال بنتی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو کر بھی اپنے رب کے احسان مند اور شکر گزار بننے کے لیے تیار نہیں ہو جب کہ اس کے بندے نعمتیں چھنوا کر بھی اس کے حضور صبروشکر کا مظاہرہ کیے ہوئے ہیں۔ رسول کریم {ﷺ}کو فرمایا گیا ہے کہ آپ ایسے صبر و حوصلہ کرنے والوں کو دنیا اور آخرت میں مسرت وشادمانی کا پیغام دیجیے۔ کیونکہ یہ آزمائش کے وقت سر پیٹنے اور واویلا کرنے کے بجائے یہ کہہ کر اپنے آپ کو مطمئن اور حوصلہ دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ چھننے والی نعمت کیا چیز ہے ہماری جان عزیز بھی رب کریم کی امانت ہے۔ یہ نعمت تو آج مجھ سے رخصت ہورہی ہے جب کہ مقررہ وقت پر میں نے بھی اسی کے حضور لوٹنا ہے۔ صبر وہ نیکی ہے کہ آدمی کو جب بھی سابقہ تکلیف یاد آئے اور اس پر ” اِنَّا لِلّٰہِ“ کے الفاظ ادا کرے۔ اس کو پہلے کی طرح اجرِعظیم سے نوازاجائے گا۔ [ رواہ مسلم : کتاب الجنائز، باب مایقال عند المصیبۃ] مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو خوف، غربت، مال کی کمی، پیاروں کی موت اور رزق کی قلّت کے ساتھ آزماتا ہے۔ 2۔ مصائب پر صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ خوشخبری کا پیغام دیتا ہے۔ 3۔ مصیبت کے وقت ’’ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ“ پڑھنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : آزمائش : 1۔ ایمان کے لیے آزمائش شرط ہے۔ (العنکبوت :2) 2۔ اللہ نے پہلے لوگوں کو بھی آزمایا۔ (البقرۃ :214) 3۔ آزمائش میں ثابت قدمی کے بعد اللہ کی مدد یقینی اور قریب ہوا کرتی ہے۔ (البقرۃ:214) 4۔ جنت میں داخلے کے لیے آزمائش ضرور ہوتی ہے۔ (آل عمران :142) البقرة
156 البقرة
157 فہم القرآن : ربط کلام : صبروشکر اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے‘ مشکل وقت میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنیوالے اور مصائب میں جزع‘ فزع کرنے کی بجائے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھنے والے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور ہدایت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ صبر کا معنی ہے کہ آدمی مصیبت کے وقت اپنے آپ پر قابو پائے اور ہر حال میں اپنے آپ کو شریعت کا پابند رکھے۔ جب کوئی اپنے آپ کو رب کی رضا اور اس کے احکام کے تابع رکھ کر آزمائش میں ثابت قدم رہتا ہے تو اس کے صلہ میں وہ رب کی رحمت اور عنایات کا حق دار ٹھہرتا ہے۔ اللہ کی رحمت وعنایات کے مستحق لوگ ہی ہدایت یافتہ قرار پاتے ہیں۔ کیونکہ اس فرمان سے قبل نعمتوں کا چھن جانا، جگر گوشوں کی جدائی اور آزمائشوں سے دوچار ہونا یقینی امر قرار دیا ہے۔ ان کی تلافی اور مومنوں کی تسلی کے لیے صلوات اور رحمت کے نزول کا اطمینان دلایا جارہا ہے۔ عنایات سے مرادیہاں چھن جانے والی نعمتوں اور سہولتوں کی تلافی ہوگی اور رحمت سے نعمتوں میں استقرار اور ان کی وسعتوں میں اضافہ ہوگا۔ رب کریم کی رحمت سے سوکھی ہوئی کھیتیاں سرسبز وشاداب، ویران بستیاں آباد و بارونق، پریشان و پشیمان دل ایقان واطمینان کا گہوارہ اور گناہوں سے آلودہ دامن پاک وشفاف ہوجاتے ہیں۔ یہ اس کی رحمت ہی تو تھی جس نے حضرت ایوب (علیہ السلام) کو دوبارہ اولاد، مال اور صحت وتندرستی سے نوازا تھا۔ اس بے پایاں رحمت وعنایات کا ہی صلہ تھا کہ صحابہ کرام {رض}نے جھونپڑیاں چھوڑیں اور مکانات کے مالک بنے، معمولی مال چھوڑا تو اس کے بدلے میں دولت کے انبار نصیب ہوئے، دین کی خاطر دنیا کی نظر میں عارضی طور پر خفت اٹھانی پڑی تو اس کے بدلے میں عزت وعظمت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے۔ مکہ چھوڑا تو دنیا کے حکمران قرار پائے۔ دنیا و آخرت کی نعمتیں، سہولتیں، عزتیں اور رفعتیں اللہ کی رحمت کا پر تو ہیں۔ اسی بنا پر سرور دوعالم {ﷺ}یہ دعا کیا کرتے تھے : (اَللّٰھُمَّ رَحْمَتَکَ اَرْجُوْ فَلَا تَکِلْنِیْ اِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ وَّاَصْلِحْ لِیْ شَأْنِیْ کُلَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب الأدب، باب مایقول إذا أصبح] ” اے اللہ! میں تیری رحمت کا امید وار ہوں مجھے لمحہ بھر بھی میرے نفس کے سپرد نہ کرنا، میرے تمام کاموں کو سنوارنا‘ تیرے سوا کوئی معبودِ حق نہیں۔“ مسائل : 1۔ صاحب ایمان، مستقل مزاج اور صابر لوگوں پر اللہ کا فضل و کرم اور ان کو مزید ہدایت سے نوازا جاتا ہے۔ البقرة
158 فہم القرآن : ربط کلام : پارے کی ابتدا سے تحویل قبلہ کا بیان ہورہا ہے۔ اس دوران زندگی میں پیش آنے والی مشکلات پر ثابت قدم رہنے والوں کو خوشخبری سنائی گئی۔ اب صفا ومروہ کی سعی کے حوالے سے گذشتہ مضمون سے پیوستہ کردیا گیا ہے۔ اسلام سے قبل اہل مکہ کے چار بڑے بت تھے جنّ میں سے ہبل کو بیت اللہ میں رکھا گیا اور مناۃ بحر احمر کے کنارے اور لات کو شہر طائف میں رکھا گیا۔ جب کہ عزی کو وادئ نخلہ میں نصب کیا گیا تھا۔ صفا اور مروہ کی دو مقدس پہاڑیوں پر اسا ف اور نائلہ کے بت رکھے گئے تھے۔ اہل مکہ چونکہ اساف اور نائلہ کو خدائی اوتار تسلیم نہیں کرتے تھے‘ جس کی وجہ سے مناۃ کے ماننے والے صفا اور مروہ کی سعی سے گریز کرتے تھے۔ دین اسلام کی آمد پر مسلمانوں کے دلوں میں یہ وہم پیدا ہوا کہ کہیں صفا اور مروہ کی سعی شرک کے زمرہ میں تو نہیں آتی؟ اس تصور کی نفی کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ اے مسلمانو! انشراح صدر کے ساتھ صفا اور مروہ کی سعی کیا کرو کیونکہ یہ دونوں شعائر اللہ میں شامل ہیں۔ ان کے درمیان کی جانے والی سعی کا شرکیہ اعمال کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ یہ تو تمہاری والدۂ ماجدہ حضرت ہاجرہ کے توَکل عَلَی اللّٰہِ اور بے بسی کے عالم میں ان کے گھومنے کا مقام اور ترجمان ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے شرف قبولیت سے نوازتے ہوئے شعائر اللہ میں سے شمار فرمایا ہے۔ شَعَائِرْ“ شعار کی جمع ہے جس کا معنی ہے کہ ایسی جگہ یا نشانی جس سے اللہ تعالیٰ کی طرف انسان کی راہنمائی ہوتی ہو۔ اس لیے شعائر اللہ کی تعظیم کرنا درحقیقت اللہ تعالیٰ کی ذات کا احترام کرنا اور اس کا تقو ٰی قرار پایا ہے۔ لہٰذا ان کی سعی میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ یا در کھیے! جو شخص بھی دل کی گہرائی کے ساتھ نیکی کرے گا‘ اللہ تعالیٰ اس کی نیکی کو جاننے اور اس کی قدر افزائی فرمانے والاہے۔ دنیا میں بڑے بڑے پہاڑ اپنی بلندی اور فلک بوسی کے اعتبار سے مشہور ہیں‘ ان میں مر مر اور یاقوت وعقیق بھی پائے جاتے ہیں‘ صفا اور مروہ بظاہر معمولی پہاڑیاں ہیں مگر احترام واکرام اور نیکی کے اعتبار سے اپنے دامن میں ایک تاریخی پس منظر اور شعائر اللہ کا تقدس لیے ہوئے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے حضرت ہاجرہ [ کو یہاں چھوڑ کر جانے لگے تو انہوں نے عرض کیا کہ میرے سرتاج مجھ سے کوئی گستاخی ہوئی ہے یا اللہ کا حکم اس طرح ہے؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا : کہ اللہ کا حکم سمجھ کر اسے تسلیم کیجیے۔ تب حضرت ہاجرہ (علیھا السلام) عرض کرتی ہیں کہ آپ مطمئن ہو کر تشریف لے جائیں : اِذًا لَا یُضَیِّعَنَا اللّٰہُ ” پھر ہمیں اللہ تعالیٰ ضائع نہیں ہونے دے گا۔“ [ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء، باب قول اللّٰہِ تعالیٰ ﴿وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا ﴾] غور فرمائیں! میلوں پھیلے ہوئے فلک بوس پہاڑ، بے آب وگیاہ سنگلاخ زمین اور دوردور تک انسانی زندگی کے لیے ضروری اسباب ووسائل کا فقدان ہونے کے باوجود کائنات کی عظیم ترین خاتون نے ایک ایسا جملہ ادا فرمایا جو اپنے اندر زمین و آسمان کی وسعتیں اور پہاڑوں سے زیادہ وزن لیے ہوئے ہے۔ اسی عقیدہ کی یاد دہانی اور مشکل ترین حالات میں اللہ پر توکل کرنے اور آزمائش میں ثابت قدمی کا سبق یاد دلانے کے لیے صفا ومروہ کی سعی کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآن مجید نے صفا اور مروہ کے درمیان دوڑنے کو طواف سے تعبیر فرمایا ہے۔ لیکن حدیث رسول میں اس کے لیے سعی کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ تاکہ طواف سے لوگوں کو یہ غلط فہمی نہ پید اہو جائے کہ صفا سے صفا تک ایک چکر بنتا ہے۔ بلکہ آپ نے صفا سے مروہ تک ایک جانب کو ایک چکر شمار کیا ہے اس طرح یہ سعی مروہ پر مکمل ہوتی ہے۔ آپ صفا پر چڑھ کر یہ کلمات ادا کیا کرتے تھے۔ ﴿إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ أَوِاعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ أَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَإِنَّ اللّٰہَ شَاکِرٌ عَلِیْمٌ﴾ [ البقرۃ:158] ” بلاشبہ صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں چنانچہ جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے اس پر صفا مروہ کا طواف کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اور جو شخص خوشی سے نیکی کرے تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ قدر دان اور سب کچھ جاننے والا ہے۔“ (لَاإِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ أَنْجَزَ وَعْدَہٗ وَنَصَرَ عَبْدَہٗ وَھَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَہٗ)[ رواہ مسلم : کتاب الحج] مسائل : 1۔ صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے نشانات ہیں۔ 2۔ صفا اور مروہ کا طواف نیکی سمجھ کر کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : شعائر اللہ کی تعریف : 1۔ صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں۔ (البقرۃ :158) 2۔ قربانی کا جانور اللہ کے شعائر میں سے ہے۔ (الحج :36) 3۔ اللہ کے شعائر کا احترام کرنے کا حکم ہے۔ (المائدۃ:2) 4۔ شعائر اللہ کی تعظیم کرنا تقو ٰی کی نشانی ہے۔ (الحج :32) البقرة
159 فہم القرآن : (آیت 159 سے 160) ربط کلام : اہل کتاب نے رسول اکرم {ﷺ}کی رسالت کے اوصاف اور بیت اللہ کے قبلۂ حق ہونے کو لوگوں سے چھپا رکھا تھا‘ جس پر حق چھپانے کی سزا بیان کی جارہی ہے۔ اہل کتاب نے رسول اللہ {ﷺ}کی رسالت کا ہی انکار نہیں کیا بلکہ ہر اس نشانی کو چھپانے اور مٹانے کی کوشش کی جس سے آپ کی رسالت کی نشاندہی ہوتی تھی۔ ان میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ نے بے قراری کے عالم میں صفا اور مروہ کے درمیان چکر لگائے تھے لیکن یہود و نصارٰی نے تاریخ کے اس اہم ترین حصّہ کو اپنی کتابوں سے نکال باہر کیا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان مقامات کو شعائر اللہ قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ حقائق اور احکامات کو چھپانا اتنا سنگین جرم ہے کہ اس جرم کی وجہ سے لا تعداد بلکہ بعض دفعہ تو نسل در نسل لوگ قبول حق سے محروم ہوجاتے ہیں لہٰذا ایسامجرم عالم ہو یا غیر عالم اس پر اللہ تعالیٰ اور کائنات کے ایک ایک ذرّہ کی لعنت ہوتی ہے۔ یہاں قرآن مجید نے لعنت کرنے والے افراد کو متعین نہیں فرمایا کہ یہ لعنت کرنے والے کون ہیں اس وجہ سے حضرت عبداللہ بن عباس {رض}کے شاگرد رشید اور مشہور مفسرِقرآن حضرت مجاہد اور عکرمہ {رض}فرمایا کرتے تھے کہ عدم تعین میں یہ واضح اشارہ ہے کہ دنیا کی ہر چیز کتمانِ حق کرنے والوں پر پھٹکار کرتی ہے۔ یہاں حق چھپانے سے مراد صرف قرآن مجید کے ارشادات ہی نہیں بلکہ جو لوگ اپنے مذموم مقاصد کے لیے صحیح اسناد کے ساتھ امت تک پہنچنے والی احادیث کو جھٹلاتے یا چھپاتے ہیں ان پر بھی اللہ تعالیٰ کی پھٹکار ہوگی کیونکہ صحابہ کرام {رض}رسول کریم {ﷺ}کے ارشادات چھپانے کو بھی اس جرم میں شمار کرتے تھے۔ جیسا کہ حضرت معاذ {رض}نے یہی بات کہہ کر ایک حدیث اس وقت بیان فرمائی جب وہ اس دنیائے فانی سے کوچ کررہے تھے۔ (حَدَّثَنَا اَنَسُ بْنُ مَالِکٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَمُعَاذُ ٗ رَدِیْفَہٗ............قَالَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اَفَلاَ اُخْبِرُبِہِ النَّاسَ فَیَسْتَبْشِرُوْا قَال اذاً یَّتَّکِلُوْا وَاَخْبَرَبِہَا مُعَاذُ ٗ عِنْدَ مَوْتِہٖ تَأَثُّمًا) [رواہ البخاری : کتاب العلم، باب من خص بالعلم قوما الخ] حدیث معاذ {رض}سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ دینی مصلحت کی خاطر کسی بات کو کچھ عرصہ کے لیے بیان نہ کیا جائے تو اس میں کوئی جرم نہیں البتہ ایسے موقع پر حق بات چھپانا جس سے حق والوں کی ہزیمت ہو اور غلط بات حق کا درجہ اختیار کر جائے یا حق کے ہمیشہ دب جانے کا اندیشہ ہو تو حق چھپانا بہت بڑا گناہ ہے۔ اس گناہ سے بچنے اور اعلان حق کے لیے صحابہ کرام‘ ائمہ عظام اور علمائے حق نے بڑی بڑی قربانیاں پیش کیں۔ لیکن جو آدمی دنیوی مفاد کی خاطر حق چھپاتا ہے اس شخص پر اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق پھٹکار کرتی ہے۔ البتہ ان لوگوں کو معاف کردیا جائے گا جنہوں نے اخفائے حق سے توبہ کی اور سابقہ اخفائے حق کی تلافی کے لیے حق بات کو کھول کر بیان کیا۔ یعنی جہاں جہاں اس جرم کے اثرات پہنچے ان کی تلافی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تاکہ حق واضح ہوجائے اور اس میں کوئی ابہام باقی رہنے نہ پائے۔ مسائل : 1۔ حق چھپانے والوں پر اللہ اور اس کی تمام مخلوق لعنت کرتی ہے۔ 2۔ توبہ کرنے والے کو اپنی سابقہ غلطیوں کے اثرات بھی ختم کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ 3۔ توبہ کرنے اور حقائق بیان کرنے والوں کو معاف کردیا جائے گا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا، نہایت مہربان ہے۔ تفسیربالقرآن : توبہ اور اس کی قبولیت کی شرائط : 1۔ اعتراف جرم کے باعث توبہ قبول ہوتی ہے۔ (البقرۃ :37) 2۔ ظلم سے اجتناب اور اصلاح احوال کے بعد توبہ قبول ہوتی ہے۔ (المائدۃ:39) 3۔ جہالت کے سبب گناہ ہوجائے تو اس کی اصلاح کرنے پر توبہ قبول ہوتی ہے۔ (الانعام :54) 4۔ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔ (البقرۃ:160) 5۔ اللہ جس کی چاہتا ہے توبہ قبول کرتا ہے۔ (التوبۃ:27) 6۔ اللہ تعالیٰ مومن مردوں اور عورتوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔ (الاحزاب :73) 7۔ توبہ کرنے والوں کی برائیاں نیکیوں میں تبدیل کردی جاتی ہیں۔ (الفرقان :70) البقرة
160 البقرة
161 فہم القرآن : ( آیت 161 سے 162) ربط کلام : جن لوگوں نے حق قبول کرنے، اخفائے حق کے گناہ کو ترک کرنے اور حق کھول کر بیان کرنے سے انکار کیا پھر اسی حالت میں مر گئے ایسے مجرموں پر اللہ تعالیٰ اور سب کی طرف سے پھٹکار ہوگی اور حق چھپانے والے ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ یہودو نصارٰی کے علماء کی اکثریت کا یہ حال تھا کہ وہ دنیاوی مفادات کے حصول، علمی برتری اور ظاہری تقدس کے تحفظ کی خاطر کتاب الٰہی کو اپنے تک ہی محدود رکھتے تھے۔ جس طرح ہندو مذہب میں شودر کو مذہبی کتاب اور مندروں سے دور رکھا جاتا ہے۔ اہل کتاب کے علماء حکمرانوں اور بڑے لوگوں کے سامنے کلمۂ حق کہنے کے بجائے ان کی چاپلوسی اور مدح سرائی کیا کرتے تھے تاکہ ان سے بڑے بڑے مناصب اور مفادات حاصل کرسکیں۔ نبی معظم {ﷺ}نے ان کی اخلاقی پستی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے : (إِنَّ أَوَّلَ مَا دَخَلَ النَّقْصُ عَلٰی بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ کَان الرَّجُلُ یَلْقَی الرَّجُلَ فَیَقُوْلُ یَاھٰذَا اتَّقِ اللّٰہَ وَدَعْ مَا تَصْنَعُ فَإِنَّہٗ لَایَحِلُّ لَکَ ثُمَّ یَلْقَاہُ مِنَ الْغَدِ فَلَا یَمْنَعُہٗ ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ أَکِیْلَہٗ وَشَرِیْبَہٗ وَقَعِیْدَہٗ فَلَمَّا فَعَلُوْا ذٰلِکَ ضَرَبَ اللّٰہُ قُلُوْبَ بَعْضِھِمْ بِبَعْضٍ ثُمَّ قَالَ ﴿لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ بَنِیْ إِسْرَآءِیْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ﴾ إِلٰی قَوْلِہٖ ﴿فَاسِقُوْنَ﴾ ثُمَّ قَالَ کَلَّا وَاللّٰہِ لَتَأْمُرُنَّ بالْمَعْرُوْفِ وَلَتَنْھَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ وَلَتَأْخُذُنَّ عَلٰی یَدَیِ الظَّالِمِ وَلَتَأْطُرُنَّہٗ عَلَی الْحَقِّ أَطْرًا وَلَتَقْصُرُنَّہٗ عَلَی الْحَقِّ قَصْرًا) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب الملاحم، باب الأمر والنھی] ” پہلی خرابی بنی اسرائیل میں یہ آئی تھی کہ ایک شخص دوسرے شخص سے ملتا اور اس سے کہتا اللہ سے ڈر اور اپنی حرکات سے باز آجا ؤیہ کام تیرے لیے درست نہیں ہے۔ جب دوسرے دن اس سے ملتا تو یہ کام اسے اس کے ساتھ کھانے پینے اور بیٹھنے سے نہ روکتا۔ جب انہوں نے ایسا کیا تو اللہ تعالیٰ نے انکے ایک دوسرے کے ساتھ دل ملا دیے۔ مزید فرمایا : بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر داوٗد اور عیسیٰ {علیہ السلام}کی زبان سے لعنت کی۔۔۔ پھر فرمایا : ہرگز نہیں‘ اللہ کی قسم! تم ضرور نیکی کا حکم دو اور برے کاموں سے منع کرو اور ظالم کے ہاتھ پکڑ کر اس کو حق کی طرف اس طرح جھکاؤ گے جیسا اسے جھکانے کا حق ہے اور اس کو حق پر ٹھہراؤ جیساکہ حق پر ٹھہرانے کا حق ہے۔“ نیکی قائم کرو جس طرح قائم کرنا چاہیے۔ اور حق پر اس کی مدد کرو جب جنّتی جنت میں جلوہ افروز ہوں گے تو ایک دن جہنم کے کنارے جاکر ایسے علماء سے پوچھیں گے کہ تم کس جرم کی پاداش میں یہاں ذلیل ہورہے ہو ؟ جہنمی اپنے بیٹوں، بیٹیوں، رشتے داروں اور مقتدیوں کے سامنے زارو قطار روتے ہوئے کہیں گے کہ ہم حق چھپایا کرتے تھے۔ جنّتی ترس کھانے کے بجائے ان کو کہیں گے کہ پھر تم پر رب ذوالجلال کی مزید پھٹکار ہونی چاہیے۔ اف! یہ کتنا ذلت آمیز اور ہیبت ناک منظرہو گا۔ انہیں ان خوفناک اور درد ناک سزاؤں میں نہ صرف ہمیشہ رہنا ہے بلکہ ان کی سزاؤں میں ذرہ برابر بھی تخفیف نہیں کی جائے گی۔ یہ مجبور ہو کر باربار جہنم کے نگران فرشتے سے آرزو کریں گے کہ ہمیں موت ہی آجائے جوابًا کہا جائیگا کہ اب تمہیں ہمیشہ یہاں ہی رہنا پڑے گا اور کوئی کسی اعتبار سے بھی تمہاری مدد نہیں کرسکے گا۔ ﴿وَنَادَوْا یٰمٰلِکُ لِیَقْضِ عَلَیْنَا رَبُّکَ قَالَ إِنَّکُمْ مَّاکِثُوْنَ﴾ [ الزخرف :77] ” اور جہنمی پکاریں گے کہ اے فرشتے تیرا رب ہمیں موت ہی دے دے وہ جواب دے گا یقیناً تم یہیں رہنے والے ہو۔“ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا : (مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ فَکَتَمَہٗ اُلْجِمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِلِجَامٍ مِنْ نَّارٍ) [ رواہ ابن ماجۃ: المقدمۃ، باب من سئل عن علم فکتمہ] ” جس سے کوئی مسئلہ پوچھا گیا لیکن اس نے اسے چھپا لیا ایسے عالم کو جہنم میں آگ کی لگام ڈالی جائے گی۔“ مسائل : 1۔ کفر کی حالت پر مرنے والوں پر اللہ تعالیٰ، اس کے ملائکہ اور سب کی لعنت ہوتی ہے۔ 2۔ حق چھپانے اور کفر پر مرنے والوں پر عذاب ہلکا نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی۔ تفسیربالقرآن : ظالم کو مہلت میسر نہیں آئے گی : 1۔ نبی سے کیا جانے والا مطالبہ منظور ہونے کے بعد مہلت نہیں دی جاتی۔ (الانعام :8) 3۔ مرتدین کو مہلت نہ دی جائے گی۔ (آل عمران :88) 2۔ کتمانِ حق کرنے والوں کو عذاب سے مہلت نہ دی جائے گی۔ (البقرۃ:162) 4۔ ظالموں کو مہلت نہ دی جائے گی۔ (النحل :85) البقرة
162 البقرة
163 فہم القرآن : (آیت 163 سے 164) ربط کلام : جس طرح تمہارا رسول، قرآن، قبلہ اور دین ابراہیم ایک ہے اسی طرح تمہارا معبودِ بر حق بھی ایک ہی ہے۔ اب اس کی الوہیت کے دلائل سنو اور ان پر غور کرو! وہ ایک ہی الٰہ ہے‘ حاکم مطلق، معبود اور مسجود وہی بحروبرّ، زمین و آسمان‘ اور فضاؤں پر کلی اختیار رکھنے والا ہے۔ وہ ہر چیز کا خالق اور واحد مالک ہونے کے باوجود اپنے اختیارات ظلم وزیادتی کی بنیاد پر نہیں بلکہ نہایت ہی رحم وکرم کی اساس پر استعمال کرتا ہے۔ کائنات کے ذرّے ذرّے پر اس کی شفقت ومہربانی کی گھٹائیں برس رہی ہیں۔ اس کی ذات اور شان کی جھلک دیکھنا چاہتے ہو تو غور کرو کہ اس نے زمین و آسمان کو کس طرح پیدا کیا بظاہر زمین ایک ہی دکھائی دیتی ہے لیکن یہ تہ بہ تہ سات طبقات پر بچھائی گئی ہے۔ پھر جس زمین پر تمہارا ٹھکانہ اور بسیرا ہے‘ اس کی ہزاروں اقسام اور قطعات ہیں۔ کہیں یہ زمین ہزاروں میلوں تک ریت کی شکل میں حد نظر تک سراب کا نقشہ پیش کررہی ہے۔ کہیں سیم و تھور کی وجہ سے پانی کا منظر پیش کرتی ہے۔ پھر کسی مقام پر زمین پوٹھو ہار کا روپ دھار لیتی ہے اور اس کے سینہ پر اربوں سنگلاخ ریزے دکھائی دیتے ہیں‘ کہیں ٹیلوں اور پہاڑوں کا سلسلہ جاری ہے‘ اور کہیں ڈھلوان کی صورت میں درجنوں فٹ نیچے ہی نیچے چلی جاتی ہے۔ ایک طرف اس کی چھاتی پر سر سبز وشاداب باغات ہیں اور دوسری طرف صحراء وبیابان کا لامتناہی سلسلہ ہے۔ اس کا ایک حصّہ ایک بیج کو اپنی گود میں لے کر اس کی نشوونما کرتا ہے‘ دوسراحصّہ اسی بیج کو تلف کردیتا ہے۔ زمین کے ایک حصہ پر ایک فصل لہلہا رہی ہوتی ہے‘ جب کہ اس کے ساتھ ہی دوسرا رقبہ اس فصل کو اگانے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یہی صورت زمین کی تہوں کے اندر پائی جاتی ہے۔ ایک علاقے میں کوئلے کے ذخائر ہیں تو اس کے ساتھ والی زمین سونے اور چاندی کے خزانے لیے ہوئے ہے۔ ایک جگہ پانی اتنا کڑواہے کہ زبان کاٹ رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی زیر زمین میٹھے پانی کا دریا بہہ رہا ہے۔ یہ زمین اپنے اوپر پہاڑوں، دریاؤں کھربوں انسانوں، حیوانات اور دیگر اشیاء کا بوجھ اٹھانے کے باوجود نہ جھکتی ہے نہ تھکتی ہے۔ اَب آسمان کو دیکھو کہ وہ لاکھوں کروڑوں سالوں سے بغیر ستونوں کے سائبان بنا ہوا ہے۔ کیا مجال ہے کہ ایک انچ بھی اوپر نیچے ہوپائے۔ اس میں غور کے ساتھ دیکھنے سے بھی کوئی جھول نظر نہیں آتا۔ یہاں تک کہ نہ اس کا رنگ بدلا ہے اور نہ اس میں کوئی دراڑ واقع ہوئی ہے‘ جب کہ اس کا بنیادی مادہ دھواں قرار دیا گیا ہے ( الدخان :10) حالانکہ ایک آسمان کی موٹائی اور ایک سے دوسرے تک کا فاصلہ پانچ سو سال کی مسافت بیان کیا گیا ہے۔[ مسند احمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب مسند السابق] رات اور دن کے فرق کو دیکھا جائے تو رات ٹھنڈی اور دن گرم ہے۔ رات سر شام ہی تاریکی کا نقاب اوڑھ لیتی ہے جب کہ دن ہر جگہ روشن دکھائی دیتا ہے۔ رات کو اکثر فصلیں نمو پاتی ہیں جب کہ دن کی گرمی اور روشنی پھلوں کے پکنے میں مدد دیتی ہے۔ کبھی رات اپنے دامن کو طویل کردیتی ہے اور کبھی دن اس کی چادر کو لپیٹ کر اسے مختصر کرتے ہوئے خود طوالت اختیار کرلیتا ہے۔ پھر سال میں ایسے اوقات بھی آتے ہیں کہ دونوں اپنی طوالت کے لحاظ سے یکساں ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد مسلسل ان کے درمیان گھٹنے اور بڑھنے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے کبھی دن صبح کے وقت بڑھنا شروع ہوتا اور کبھی دونوں جانب سے سکڑنا شروع ہوتا ہے۔ سمندر کے سینے پر چلنے والی کشتیوں اور بڑے بڑے جہازوں کی طرف توجہ کی جائے تو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ جو پانی اپنے اوپر ایک سوئی کو برداشت نہیں کرسکتا اسی پانی کی لہریں کشتیوں اور جہازوں کو ساحل مراد تک پہنچانے میں خدّام بنی ہوئی ہیں جو ٹنوں کے حساب سے بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں‘ اور نقل وحمل کا یہ سب سے بڑا اور مفید ترین ذریعہ ہیں۔ اس طرح ابتدائے آفرینش سے ہی دنیا کی سب سے بڑی تجارت بحری راستوں کے ذریعے ہی ہورہی ہے اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ اب اس اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اندازہ کیجیے جو آسمان سے بارش کی صورت میں خاص مقدار اور رفتار سے پانی نازل کرتا ہے جس سے پھول کی نازک ترین پتی بھی غسل کرتی اور پیاس بجھاتی ہے۔ اس طرح جو زمین موت کی ویرانی کا ہولناک منظر پیش کررہی تھی چند لمحوں میں اس میں جل تھل کا سماں دکھائی دیتا ہے۔ جس سے انسان ہی نہیں بلکہ زمین پر رینگنے والے حشرات الارض بھی برابر مستفید ہوتے ہیں۔ پھر ہوا اور اس کی رفتار پر غور کیجیے اگر اللہ تعالیٰ ایک لمحہ کے لیے ہوا کو رنگ دار بنادے تو آنکھیں ہونے کے باوجود دیدہ ور اندھے کی طرح ٹھوکریں کھاتا پھرے۔ یہ ہوا ہی تو ہے جو سمندر کے کڑوے کسیلے پانی کو جراثیم اور مہلک گیسوں سے پاک کر کے بلندیوں کی مخصوص سطح تک لے جاتی ہے۔ پھر ان بادلوں کو دھکیل کر وہاں پہنچادیتی ہے جہاں اللہ تعالیٰ بادلوں کو برسنے کا حکم دیتا ہے۔ بسا اوقات وہ برسنے کے قریب ہوتے ہیں لیکن چند لمحوں میں ہوا بھاری بھر کم بادلوں کو کہیں اور ہانک کرلے جاتی ہے یہ قدرت کے وہ عظیم الشان آٹھ نشانات ہیں‘ جن میں کوئی بھی اس اِلٰہِ بر حق کا شریک وسہیم نہیں ہے۔ اگر تم عقل ودانش کا معمولی استعمال بھی کرو تو ان چیزوں کے پیدا کرنے والے خالق کو ہر اعتبار سے ایک مانے اور یہ کہے بغیر نہ رہ سکو۔ ﴿فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ﴾ ” اللہ جو سب سے بہتر بنانے والا ہے بڑا ہی بابرکت ہے“ [ المومنون :14] مسائل : 1۔ اللہ ہی معبودِ بر حق ہے۔ 2۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ 3۔ آسمانوں و زمین کی پیدائش اور ہر چیز کی تخلیق میں دانش مندوں کے لیے عبرت کے دلائل ہیں۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ ہی الٰہ اور رب ہے : 1۔ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں۔ (النساء :87) 2۔ معبود حقیقی صرف اللہ ہے۔ (النساء :171) 3۔ اللہ کے علاوہ کوئی خالق نہیں۔ (فاطر :3) 4۔ اللہ رحمٰن ورحیم ہے۔ (الفاتحۃ:3) 5۔ اللہ ہی رزّاق ہے۔ (الذاریات :58) 6۔ اللہ ہی مشکل کشا ہے۔ (الانعام :17) 7۔ اللہ ہی حاجت رواہے۔ (الانبیاء :87) لیل ونہار کی گردشیں : 1۔ رات دن ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے ہیں۔ (الاعراف :54) 2۔ رات دن کو اور دن رات کو ڈھانپ لیتا ہے۔ (الزمر :5) 3۔ رات اور دن کا بڑھنا، گھٹنا۔ (الحدید :6) 4۔ رات آرام اور دن کام کے لیے ہے۔ (الفرقان :47) البقرة
164 البقرة
165 فہم القرآن : ربط کلام : زمین و آسمانوں کا خالق اور انسانوں کو آفاقی اسباب کے ذریعے روزی اور فوائد پہنچانے والا اللہ ہے تو پھر محبت اسی سے ہونی چاہیے نہ کہ دوسرے سے۔ سابقہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت کے آٹھ ایسے آفاقی دلائل دیئے ہیں۔ جن سے ایک دیہاتی، شہری، جاہل اور تعلیم یافتہ، موٹی عقل والا آدمی یا انتہائی دانشور، سیاست دان یا سائنس دان سب کے سب اپنی اپنی لیاقت اور صلاحیت کے مطابق ان سے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ ایسے ہمہ گیر اور ٹھوس دلائل ہیں جن سے ہر آدمی کا واسطہ پڑتا ہے اور وہ ان سے استفادہ کرتا ہے۔ یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ آفاق کے تمام عناصر ایک ہی ہستی کے پیدا کردہ اور اسی کے تابع فرمان ہیں۔ جب ان تمام آفاقی عناصر کی پیدائش اور انہیں مسخر اور مقید رکھنے میں زندہ اور مردہ باطل خداؤں، نیک و بد، حکمرانوں اور سائنس دانوں کا عمل دخل نہیں بلکہ پورے کا پورا نظام ایک ہی ہستی کے زیر اقتدار ہے تو پھر اسی مالک کو الٰہ مانو اور اسی سے محبت کا رشتہ جوڑو جو پورے نظام کو سنبھالے ہوئے ہے۔ لیکن مشرک حقیقی عقل سے عاری ہوتا ہے۔ چاہے وہ کتنا ہی پڑھا لکھا کیوں نہ ہو۔ وہ کائنات کے خالق ومالک سے محبت وتعلق قائم کرنے کے بجائے اپنے رب سے بڑھ کر دوسروں سے محبت اور تعلق قائم کرتا ہے‘ حالانکہ حقیقی اور دائمی محبت سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہونی چاہیے۔ باقی تمام محبتیں اس کی محبت کے تابع ہوناضروری ہیں۔ لیکن مشرک ایسی محبت کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی محبت کے مقابلے میں دوسروں کو ترجیح دیتا ہے۔ اس کے برعکس موحّد کا دل اللہ تعالیٰ کی محبت سے اس طرح لبریز ہوتا ہے کہ وہ اس کے مقابلے میں دنیا کی کسی چیز کی محبت کو ترجیح نہیں دیتا۔ یہاں تک کہ وہ اپنی اولاد اور جان سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی محبت کو عزیز سمجھتا ہے اور اس کی ہر سوچ اور کام کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کا حکم ہی مقدم ہوتا ہے۔ رسول محترم {ﷺ}اسی بات کی راہنمائی اور دعا کیا کرتے تھے۔ محبت وہ فطری جذبہ ہے جو ہر انسان اور حیوان میں پایا جاتا ہے۔ محبت کرنے کے کچھ اسباب اور وجوہات ہوا کرتی ہیں جن کی وجہ سے دوسروں کے ساتھ محبت کرنے سے منع نہیں کیا گیا۔ مطالبہ صرف یہ ہے کہ تم اپنے رب سے سب سے زیادہ محبت کرنے کی کوشش کرو۔ اگر تم کسی کے احسان کی وجہ سے محبت کرتے ہو تو اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ تمہارا محسن ہے۔ تم کسی سے قرابت داری کی وجہ سے محبت کرتے ہو تو وہ سب سے بڑھ کر تمہارے قریب ہے، اگر تم جمال وکمال کی وجہ سے کسی سے محبت کرتے ہو تو کائنات کا سار اجمال وکمال اسی کی وجہ سے ہے اور اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ اجمل واکمل ہے۔ اگر تم کسی کے اقتدار اور اختیار کی بنا پر اس سے الفت کرتے ہو تو اس سے بڑھ کر کسی کے پاس اختیار اور اقتدار نہیں ہے۔ غرضیکہ کسی سے صحیح محبت کرنے کے جو بھی محرکات اور اسباب ہو سکتے ہیں ان سب کا مالک تمہارا اللہ ہے‘ پھر اسی کے ساتھ سب سے زیادہ محبت کیوں نہ کی جائے؟ اللہ تعالیٰ کی محبت کے ساتھ اس کے رسول محمد مصطفی‘ احمد مجتبیٰ {ﷺ}کے ساتھ بھی محبت ساری مخلوق سے بڑھ کر ہونی چاہیے تب جا کر آدمی کا ایمان مکمل ہوتا ہے۔ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا : (لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ) [ رواہ البخاری : کتاب الایمان، باب حب الرسول من الإیمان] ” تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتاجب تک میں اسے اپنے والدین‘ اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہوجاؤں۔“ مسائل : 1۔ مشرک باطل معبودوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ جیسی محبت کرتے ہیں۔ 2۔ صاحب ایمان لوگ اللہ تعالیٰ کی محبت میں متشدّد ہوتے ہیں۔ 3۔ قیامت کے دن مشرک عذاب دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی قوت و سطوت کا اعتراف کریں گے۔ تفسیربالقرآن : اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معبود ماننا اور اس کی عبادت کرناحرام ہے : 1۔ حضرت عیسیٰ اور مریم (علیہ السلام) کو عیسائیوں نے اللہ کا شریک ٹھہرایا۔ (النساء :171) 4۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے بتوں کو معبود بنایا۔ (نوح :23) 2۔ یہودیوں نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا ٹھہرایا۔ (التوبہ :30) 5۔ مکے کے مشرک بتوں کی تعظیم اور عبادت کرتے تھے۔ (الانعام :136) 3۔ یہودیوں نے بچھڑے کو معبود بنایا۔ (الاعراف :152) 6۔ مشرک غیر اللہ کو خدا کے قرب کا ذریعہ بناتے ہیں۔ (الزمر :2) البقرة
166 فہم القرآن : (آیت 166 سے 167) ربط کلام : مشرک سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے اور دنیا میں غیر اللہ کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں لیکن قیامت کے دن ایک دوسرے پر پھٹکار کرتے ہوئے ایک دوسرے سے بیزار ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہی واحد معبود ہے اور وہی کائنات کا خالق ومالک اور کائنات کے نظام کو چلائے ہوئے ہے۔ اس کے نظام میں کوئی ذرّہ برابر بھی دخل ڈالنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اس نے نظام کائنات میں کسی کو اپناہمسر اور شریک کار نہیں بنایا اور آخرت میں بھی کوئی اس کے اختیارات اور نظام میں کوئی دم مارنے کی ہمت نہیں پائے گا۔ جو لوگ دنیا میں پیروں، فقیروں، حکمرانوں اور باطل معبودوں یہاں تک کہ دنیاوی مفادات کی خاطر اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی بات سے بڑھ کر دوسروں سے محبت کرتے اور تعلق جوڑتے ہیں قیامت کے دن یہ ظالم اور مشرک رب ذوالجلال کی جلالت وجبروت اور عذاب کو دیکھیں گے تو ان کے تمام واسطے اور رابطے کٹ جائیں گے۔ یہاں تک کہ پیرمُرید سے، طالب مطلوب سے، حاکم محکوم سے بیزاری کا اظہار کریں گے۔ جو مذہبی پیشوا اور سیاسی رہنما اپنی ذات اور مفاد کی خاطر لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے فرمان سے ہٹایا کرتے تھے جب وہ پوری طرح جان جائیں گے کہ آج اللہ تعالیٰ کی قوت وطاقت کے سوا کسی کی کوئی طاقت نہیں اور نہ کوئی وسیلہ کار گر ثابت ہوسکتا ہے تو وہ ایک دوسرے پر پھٹکار بھیجیں گے۔ ور کر اور مرید اللہ تعالیٰ سے آرزو کریں گے کہ اِلٰہی! ہمیں دنیا میں جانے کا موقع دے تاکہ ہم ان ظالم رہنماؤں اور مشرک پیروں سے اسی طرح نفرت کا اظہار کریں جس طرح آج وہ ہم سے بیزاری کا اظہار کررہے ہیں۔ حکم ہوگا کہ اب تم نے ہمیشہ یہیں رہنا ہے۔ اس دن سے ان کی پریشانیوں اور حسرتوں میں اضافہ ہوتا رہے گا اور ان کو عذاب سے کوئی نکالنے والا نہیں ہوگا۔ دنیا کے تمام اعمال ضائع، رہنماؤں کے وعدے اور سہارے جھوٹے ثابت ہوئے ہوں گے۔ واپسی کے تمام راستے بند اور ہر قسم کی آہ و زاریاں بے کارثابت ہوں گی، یہ مایوس ہو کر دوسری درخواست پیش کریں گے کہ اے رب ذوالجلال! پھر ظالم سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کودُگنے عذاب میں مبتلا کیجیے۔ (الاحزاب :67) جواب آئے گا سب کو دوگنا عذاب دیا جارہا ہے۔ (الاعراف :38) مسائل : 1۔ عذاب دیکھ کر پیر اپنے مریدوں اور لیڈر اپنے ور کروں سے براءت کا اظہار کریں گے۔ 2۔ جہنم کا عذاب دیکھ کر جہنمیوں کی تمام امیدیں ختم ہوجائیں گی۔ 3۔ جہنمی دنیا میں واپس آنے اور اپنے پیروں، لیڈروں سے قطع تعلق کرنے کی تمنا کریں گے۔ 4۔ جہنمی اپنے اعمال پر ہمیشہ حسرت و افسوس کا اظہار کرتے رہیں گے۔ 5۔ مشرک اور کافر جہنم سے کبھی نہیں نکل سکیں گے۔ تفسیربالقرآن : قیامت کے دن باطل عابد و معبود میں نفرتیں اور بیزاریاں : 1۔ عابد و معبود ایک دوسرے سے بیزار ہوں گے۔ (یونس : 28تا30) 2۔ جب مشرک شریکوں کو دیکھیں گے کہیں گے یہی ہیں وہ جنہیں ہم تیرے سو اپکارتے تھے۔ تو وہ ان سے کہیں گے کہ تم جھوٹے ہو۔ (النحل :86) 3۔ اگر تم انہیں پکارو وہ تمہاری پکار نہیں سنتے۔ اگر سن بھی لیں تو جواب نہیں دے سکتے۔ قیامت کے دن وہ تمہارے شرک کا انکار کردیں گے۔ (فاطر :14) 4۔ جب لوگ جمع کیے جائیں گے تو وہ ان کی دشمن ہوں گے اور اپنی پرستش سے انکار کریں گے۔ (الاحقاف :6) 5۔ ان کے شریکوں میں سے کوئی ان کا سفارشی نہ ہوگا اور وہ اپنے شریکوں کے انکاری ہوجائیں گے۔ (الروم :13) 6۔ جن کو وہ پکارا کرتے تھے۔ وہ سب ان سے غائب ہوں گے۔ (حٰمٰ السجدہ :48) البقرة
167 البقرة
168 فہم القرآن : ربط کلام : یہاں پہلی آیات کے ساتھ معنوی ربط پایا جارہا ہے۔ قرآن مجید میں اکثر مقامات پر شرک اور حرام وحلال کا مسئلہ ایک ہی جگہ بیان کیا گیا ہے۔ [ الانعام : 137تا 140۔ النحل :35] آیات ملاحظہ فرمائیں۔ حلال وطیب کھانے کے بارے میں قرآن مجید نے بنی نوع انسان کے تینوں طبقات کو مخاطب کرتے ہوئے ایک جیسے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ آغاز میں عوام الناس کو مخاطب کیا جارہا ہے اور اس کے بعد ٹھیک چوتھی آیت میں مومنوں کو مخاطب کیا گیا ہے۔ سورۃ المومنون آیت 51میں انبیاء کی مقدس جماعت کو خطاب کرتے ہوئے حلال کھانے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ یہ مسئلہ اتنا اہم ہے کہ جب تک اس پر اپنے اپنے مقام پر سب لوگ عمل نہیں کرتے توحید کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے اور نہ معیشت کرپشن سے محفوظ رہ سکتی ہے۔ اس مسئلے کا تعلق بیک وقت حقوق اللہ اور حقوق العباد کے ساتھ ہے۔ حقوق اللہ کے ساتھ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ پاک جسم کی عبادت ہی قبول کرتا ہے۔ حلال، طیب کھانے والا اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور بندگی میں لذت محسوس کرتا ہے‘ اس کے دل میں سرور، طبیعت میں استغناء، دوسروں کے ساتھ ہمدردی اور ان کے حقوق کا خیال رکھنے کے ساتھ سخاوت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ حقوق العباد کے ساتھ تو اس کا اتنا گہرا تعلق ہے کہ جب معاشرے میں حلال وحرام کی تمیز اٹھ جائے تو معاشی استحاصل‘ ڈاکہ‘ چوری‘ دھوکہ دہی‘ فریب کاری کی وارداتیں عام ہوجاتی ہیں۔ جس سے معاشی ناہمواری کے ساتھ سماجی زندگی تباہی کے راستے پر چل پڑتی ہے۔ اس لیے تمام لوگوں کو بیک وقت حلال، طیب کھانے کی تلقین کی جارہی ہے۔ خوراک ظاہری گندگی سے پاک نہ ہو تو جسمانی بیماریاں پیدا ہوں گی۔ کھانے اور کمانے میں شریعت کا لحاظ نہ رکھا جائے تو روحانی زندگی اور اخلاقی قدریں اس قدر کمزور ہوجاتی ہیں بالآخر آدمی زندہ ہونے کے باوجوداس کے روح کی موت اور اجتماعیت بکھر کررہ جائے گی اور یہی شیطان کا مقصد ہے۔ لہٰذا حرام کھانے والا شیطان کے قدم بقدم چلتا ہوا دنیا میں ذلیل اور حریص کہلوائے گا اور آخرت میں جہنم کا ایندھن بنے گا۔ اس لیے متنبہ کیا جارہا ہے کہ شیطان تمہارا ابدی دشمن ہے اس سے ہر صورت بچ کر رہنے کی کوشش کرتے رہنا اور کوئی غیرت مند آدمی اپنے دشمن کی چال میں نہیں آیا کرتا۔ حرام خوری کے نقصانات : رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا : (لَایَدْخُلُ الْجَنَّۃَ لَحْمٌ نَبَتَ مِنْ سُحْتٍ‘ اَلنَّارُ أَوْلٰی بِہٖ) [ مسند احمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب مسند جابر بن عبد اللّٰہ] ” حرام سے پلنے والا جسم جنت میں داخل نہ ہوگا بلکہ اسے آگ زیادہ لائق ہے۔“ حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم {ﷺ}کا ارشاد ہے : ” لوگو! یقیناً اللہ پاک ہے اور پاک ہی قبول کرتا ہے اور اللہ نے مومنوں کو اسی چیز کا حکم دیا جس کا رسولوں کو حکم دیا ہے۔ فرمایا : اے رسولو! پاک چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو جو کچھ تم کرتے ہو یقیناً میں اسے جاننے والا ہوں۔ اور فرمایا : اے مومنو! ہم نے جو تمہیں رزق دیا اس میں سے پاک کھاؤ۔“ (ثُمَّ ذَکَرَ الرَّجُلَ یُطِیْلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ یَمُدُّ یَدَیْہِ إِلَی السَّمَاءِ یَارَبِّ یَا رَبِّ وَمَطْعَمُہٗ حَرَامٌ وَمَشْرَبُہٗ حَرَامٌ وَمَلْبَسُہٗ حَرَامٌ وَغُذِیَ بالْحَرَامِ فَأَنّٰی یُسْتَجَابُ لِذَلِکَ) [رواہ مسلم : کتاب الزکوٰۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب وتربیتھا] پھر آپ {ﷺ}نے ایک آدمی کا تذکرہ کیا جو لمبا سفر کرتا ہے‘ اس کے بال پراگندہ اور پاؤں خاک آلود ہیں، وہ آسمان کی طرف اپنے ہاتھ پھیلائے یارب! یارب! کی صدائیں بلند کرتا ہے اس کی حالت یہ ہے کہ اس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام اور وہ حرام سے پرورش پایا ہے ایسے آدمی کی دعا کیسے قبول کی جائے گی؟“ مسائل : 1۔ ہر شخص کو حلال اور پاک کھانا چاہیے۔ 2۔ حرام کھانا شیطان کی پیروی کرنا ہے۔ 3۔ شیطان انسان کا واضح دشمن ہے، اس کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ تفسیربالقرآن : اکل حلال کی اہمیت : 1۔ ایمان داروں کو حلال کھانے کا حکم ہے۔ (البقرۃ :172) 2۔ رسولوں کو اکل حلال کی تلقین۔ (المومنون :51) 3۔ تمام لوگوں کو اکل حلال کا حکم ہے۔ (البقرۃ :168) البقرة
169 فہم القرآن : ربط کلام : حلال کے فوائد کے بعد حرام خوری کے نقصانات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے حرام کھانے والا بالفعل شیطان کا حکم مانتا ہے۔ شیطان تو انسان کو بے حیائی اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں بے اعتقادی اور بدگمانی پیدا کرتا ہے۔ حرام سے اجتناب نہ کرنا اور اپنی مرضی سے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرلینا درحقیقت شیطان کی پیروی کرنے کے مترادف ہے جس سے منع کیا گیا ہے۔ حرام کھانے پر آمادہ کرنے کے بعد شیطان کے لیے یہ کام نہایت ہی آسان ہوجاتا ہے کہ وہ حرام خور کو برائی اور بے حیائی کی طرف مائل کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسا آدمی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتے ہوئے اپنے ضمیر میں حیا محسوس نہیں کرتا۔ جب ضمیر حیا سے خالی ہوجائے تو ظلم کرنا، کاروبار میں ہیرا پھیری، اشیاء میں ملاوٹ‘ جھوٹ بول کرسودا بیچنا اور دوسرے کا حق مارنا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھا کر گاہک کو دھوکہ دینے میں بھی یہ شخص باک محسوس نہیں کرتا۔ رسول محترم {ﷺ}بے حیائی کا نقصان ذکر کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے : (اِنَّ مِمَّا اَدْرَکَ النَّاسُ مِنْ کَلَام النُّبُوَّۃِ الْاُؤلٰی إِذَا لَمْ تَسْتَحْیِ فَاصْنَعْ مَاشِئْتَ) [ رواہ البخاری : کتاب الادب، باب إذا لم تستحی فاصنع ماشئت ] ” جو کچھ لوگوں نے پہلے انبیاء کی تعلیم سے پایا وہ یہ ہے کہ جب تجھ سے حیا ختم ہوجائے تو جو چاہے کر گزر۔“ حرام کی دولت جب کسی گھر میں داخل ہوتی ہے تو اس میں بے حیائی کا ماحول پیدا ہوجاتا ہے۔ پردہ نشین عورتوں کے نقاب اترنا شروع ہوجاتے ہیں‘ بچیوں کے سروں سے دوپٹے سرکتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، نوجوان اچھی روایات کو چھوڑ کر بری عادات کو فیشن کے طور اپنانے میں فخر اور شرافت کے ماحول میں گھٹن محسوس کرتے ہیں۔ ایسے شخص کے پاس اگر مال کی فراوانی اور جوانی ہو تو وہ برائی اور بدکاری میں آگے ہی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اگر ان لوگوں کو سمجھایاجائے تو کچھ لوگ حد سے آگے بڑھ کر کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہی سب کچھ کھاپی رہے ہیں۔ اس طرح وہ اپنی حرام خوری کو اللہ رب العزّت کے ذمہ لگاتے ہیں۔ جس کو قرآن مجید نے سورۃ النحل کی آیت 35میں مشرکوں کا کردار بتاتے ہوئے یوں بیان فرمایا ہے کہ :” مشرک کہتے ہیں اگر اللہ چاہتا تو ہم اور ہمارے آباء و اجداد اللہ کے علاوہ نہ کسی کی عبادت کرتے اور نہ کسی چیز کو حرام ہی قرار دیتے۔“ مسائل : 1۔ شیطان انسان کو برائی، بے حیائی اور اللہ تعالیٰ کے متعلق غلط باتیں سکھلاتا ہے۔ البقرة
170 فہم القرآن : (آیت 170 سے 171) ربط کلام : تقلید آباء بھی شیطان کی پیروی کا نتیجہ ہے۔ جس طرح شیطان بے حیائی اور انسان کو اللہ تعالیٰ کے بارے میں لایعنی گفتگو کا حکم دیتا ہے اسی طرح وہ یہ بات بھی دلیل کے طور پر آدمی کو سمجھاتا ہے کہ آخر پہلے لوگ اور بزرگ کوئی غلط اور گمراہ تھے؟ حالانکہ یہ سوچ عقل کے خلاف اور جانوروں کا طریقہ ہے۔ جب انہیں حرام وحلال اور دیگر مسائل کے حوالے سے کتاب اللہ کی طرف رجوع کرنے کے لیے کہا جائے تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو انہی روایات پر چلیں گے جن پر ہمارے آباء و اجداد چلا کرتے تھے۔ وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ ان کے بزرگ دین کی سمجھ نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی ہدایت یافتہ تھے۔ اس ارشاد سے یہ بات بڑی واضح ہوتی ہے کہ بزرگوں کی روایات کو اس وقت اپنایا جائے گا جب وہ کتاب الٰہی کے مطابق ہوں گی۔ بصورت دیگر ہر فرد پر انہیں مسترد کرنا فرض ٹھہرے گا۔ اگر رسومات اور بزرگوں کی روایات کو من و عن قبول کرلیا جائے تو پھر شریعت کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے ؟ درحقیقت یہ وہ اندھی تقلید ہے جسے بہانہ بنا کر لوگ گمراہی کے راستہ پر چلنا اپنے لیے فخرسمجھتے ہیں۔ دین کے راستے میں یہی وہ رکاوٹ ہے جو انبیاء کرام کے سامنے سب سے پہلے پیش کی جاتی تھی۔ تقلید خاندانی روایات کی صورت میں ہو یا ائمہ کرام کے حوالے سے، مقلدین ہمیشہ سے جذباتی فضاپیدا کرتے ہوئے دوہی جواز پیش کرتے ہیں۔ ایک جوازجو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خطاب کے جواب میں فرعون نے پیش کیا تھا کہ اے موسیٰ ! جو ہمارے بزرگ پہلے فوت ہوچکے ہیں کیا وہ سب کے سب گمراہ اور جہنمی تھے؟ جس کا جواب پیغمبرانہ شان کے مطابق دیتے ہوئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تھا کہ پہلوں کے بارے میں خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ وہ نا بھٹکا ہے اور نا بھولتا ہے۔ [ طٰہٰ: 51، 52] دوسرا جواز یہ بیان کیا جاتا ہے کہ کیا ائمہ کرام اور بڑے بڑے علماء کو اس مسئلہ کا علم نہیں تھا ؟ اگر تقلید جامد کے مؤ یّدین کے نزدیک قرآن وسنت ہی معیار ہو تو انہیں یہ انداز گفتگو کس طرح زیب دیتا ہے ؟ بسا اوقات اس کا جواب اس قدرحساس صورت حال پیدا کردیتا ہے کہ اعتراض کرنے والا اپنے گریبان میں جھانکے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ اگر یہ بزرگ واقعتًا اس اختلافی مسئلہ میں کتاب و سنت کا علم رکھتے تھے تو وہ قرآن وسنت کے واضح دلائل کے خلاف کس طرح عمل کرسکتے تھے ؟ اگر اس مسئلہ کے بارے میں قرآن وسنت کے دلائل سامنے ہونے کے باوجود انہوں نے اسے تسلیم نہیں کیا تو ان کی عظیم شخصیات کو کس نظر سے دیکھنا چاہیے؟ اس نازک صورت حال میں سلامتی کا یہی راستہ ہے کہ ہم قرآن وسنت کو معیار ٹھہراتے ہوئے ان کے بارے میں یہ نقطۂ نگاہ قائم کریں کہ علم کی اشاعت کم ہونے کی وجہ سے مطلوبہ دلائل ان کی نگاہ سے اوجھل رہے۔ جس کی وجہ سے ان کی طرف منسوب موقف نظر ثانی کے لائق ہے۔ لیکن مقلدانہ ذہن رکھنے والے حضرات اہمیتِ مسئلہ اور ان کی شخصیات کا لحاظ رکھے بغیر تقلید پر اصرار کرنا دین کا حصّہ تصور کرتے ہیں۔ قرآن مجید اس طرز فکر کو عقل وہدایت کا راستہ تصور نہیں کرتا۔ اس لیے اندھے مقلدین کے بارے میں یہ تبصرہ فرمایا کہ ان کی مثال تو جانوروں کی طرح ہے جو عقل وفکر اور کسی اصول کی پیروی کیے بغیر محض اپنے سے پہلے جانور کی اتباع میں چلے جا رہے ہیں اور مقلد بھی جانوروں کی طرح بات کا مفہوم سمجھے بغیر محض ایک پکار‘ دعو ٰی اور ایک عادت کے طور چلتے ہیں۔ اب یہ سننے، بولنے اور دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیں۔ جس کی وجہ سے عقل وفہم کے دروازے ان پر بند ہیں اور یہ حقیقی عقل سے عاری ہوچکے ہیں۔ جب عقل ہی اپنے ٹھکا