Maktaba Wahhabi

آیت نمبرترجمہسورہ نام
1 سورۃ الفاتحۃ: 1۔ یہ سورت مکی ہے یا مدنی ؟ مکی ان سورتوں کو کہتے ہیں جو ہجرت سے قبل نازل ہوئیں، اور مکی ان سورتوں کو کہتے ہیں جو ہجرت سے قبل نازل ہوئیں، اور مدنی ان کو جو ہجرت کے بعد نازل ہوئیں اکثر مفسرین کے نزدیک سورۃ الفاتحہ ہجرت سے پہلے نازل ہوئی۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سورۃ الفاتحہ دو بار نازل ہوئی۔ پہلی بار مکہ مکرمہ میں اور دوسری بار ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں۔ لیکن راجح یہی ہے کہ یہ صرف ایک بار ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی۔ 2۔ اس کے کئی نام ہیں : قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں اس سورت کے کئی نام آئے ہیں۔ امام قرطبی نے اس کے بارہ نام بتائے ہیں۔ جو مندرجہ ذیل ہیں۔ الصلاۃ۔ جیسا کہ حدیث قدی میں آیا ہے۔ قسمت الصلاۃ بینی وبین عبدی نصفین۔ الحدیث۔ یعنی میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کردیا ہے۔ اس حدیث میں صلاۃ سے مراد سورۃ فاتحہ ہے۔ اس سورت کا ابتدائی نصف حصہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور اس کی ربوبیت، الوہیت اور ملوکیت کا اعتراف ہے، اور دوسرا نصف حصہ اللہ سے دعا و مناجات ہے۔ الحمد۔ اس لیے کہ اس سورت میں حمد کا ذکر ہے۔ فاتحۃ الکتاب : اس لیے کہ قرآن کریم کی تلاوت، مصحت کی کتابت اور نماز کی ابتدا اسی سورت سے ہوتی ہے۔ ام الکتاب : امام بخاری (رح) نے کتاب التفسیر کے شروع میں لکھا ہے کہ اس کا نام ام الکتاب اس لیے کہ مصحبت کی کتابت اور نماز میں قراءت کی ابتدا اسی سے ہوتی ہے۔ ایک توجیہہ اس کی یہ بھی کی گئی ہے کہ اس سورت میں قرآن کریم کے تمام معانی و مضامین کا ذکر اجمالی طور پر آگیا ہے۔ ام القرآن : امام ترمذی نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سورۃ الحمد للہ، ام القرآن ہے، ام الکتاب ہے اور سبع مثانی ہے۔ السبع المثانی : اس لیے کہ یہ سورت سات آیتوں پر مشتمل ہے اور نماز کی ہر رکعت میں ان آیتوں کا اعادہ ہوتا ہے۔ القرآن العظیم : اس لیے کہ اس میں تمام قرآنی علوم کا ذکر کیا گیا ہے۔ الشفاء : امام دارمی نے ابوسعید خدری (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : فی فاتحۃ الکتاب شفاء من کل داء۔ یعنی سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کے لیے شفا رکھی ہے۔ رقیہ : یعنی دم، اس لیے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس صحابی سے جس نے ایک سردارِ قبیلہ پر سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا اور اس کے جسم سے سانپ کا زہر اتر گیا تھا کہ تجھے کس نے بتایا کہ یہ دم ہے۔ ؟ تو صحابی نے کہا یا رسول اللہ ! میرے دل میں یہ بات ڈال دی گئی تھی۔ الاساس : امام شعبی (رح) نے حضرت ابن عباس رضی الہ عنہما سے روایت کی ہے کہ قرآن کی اساس سورۃ فاتحہ ہے، جب کبھی بیماری پڑو تو اس سورت کے ذریعہ شفا حاصل کرو۔ الوافیۃ۔ سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ نماز میں سورۃ فاتحہ کی تقسیم نہیں ہوسکتی۔ یعنی دیگر سورتوں کی طرح اسے نصف نصف دو رکعتوں میں پڑھنا جائز نہیں اس لیے اس کا نام الوافیہ ہے۔ الکافیہ : یحیی بن ابی کثیر کہتے ہیں کہ یہ سورت دوسری سورتوں کے بدلے میں کافی ہوجاتی ہے۔ لیکن دوسری سورتیں اس کے بدلہ میں کافی نہیں ہوتی ہیں۔ اس لیے اس کا نام الکفایہ ہے۔ 3۔ اس کی فضیلت : یہ سورت قرآن کریم کی عظیم ترین سورت ہے اس کی فضیلت میں نبی کریم کی کئی صحیح حدیثیں آئی ہیں یہاں کچھ حدیثوں کا اختصار کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے : 1۔ ترمذی اور نسائی نے بی بن کعب (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے تورات و انجیل میں ام القرآن یعنی سورۃ فاتحہ جیسی سورت نہیں اتاری۔ اسی کو سبع مثانی بھی کہتے ہیں۔ 2۔ مسند احمد میں ہے کہ ابو سعید بن المعلی (رض) کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا کہ میں تجھے مسجد سے نکلنے سے پہلے قرآن کریم کی عظیم ترین سورت سکھاؤں گا۔ پھر آپ نے انہیں سورۃ فاتحہ کی تعلیم دی۔ اس حدیث کو امام بخاری، ابوداود، نسائی اور ابن ماجہ نے بھی روایت کیا ہے۔ 3۔ امام مالک نے مؤطا میں روایت کی ہے کہ ابوسعید مولی عامر بن کریز نے بتایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابی بن کعب (رض) کو کہا، میں تجھے مسجد سے نکلنے سے قبل ایک ایسی سورت بتاؤں گا جیسی تورات و انجیل میں نہیں اتاری گئی، اور نہ ہی قرآن میں ویسی کوئی دوسری سورت ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ جب نماز کی ابتدا کرتے ہو تو کیا پڑھتے ہو ؟ انہوں نے الحمد للہ رب العالمین پڑھی، آپ نے فرمایا : یہی وہ سورت ہے۔ 4۔ امام احمد نے عبداللہ بن جابر (رض) سے ایک حدیث روایت کی ہے۔ جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قرآن کریم کی سب سے بہترین سورت سورۃ فاتحہ ہے۔ 5۔ اس سورۃ کریمہ کے فضائل میں سے یہ بھی ہے کہ اسے پڑھ کر پھونکنے سے سانپ کے کاٹے کا زہر اللہ کے حکم سے اتر جاتا ہے۔ امام بخاری نے ابوسعید خدری (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم ایک بار سفر میں تھے۔ ایک جگہ پڑاؤ ڈالا، تو ایک لڑکی آئی اور بتایا کہ قبیلہ کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا ہے اور ہمارے لوگ باہر گئے ہوئے ہیں، کیا آپ لوگوں میں کوئی دم کرنے والا ہے ؟ تو ہم میں سے ایک آدمی اٹھ کر گیا، جس کے بارے میں ہم لوگ نہیں جانتے تھے کہ دم کرنا جانتا ہے۔ اس نے دم کیا تو سانپ کا زہر اتر گیا۔ اس نے اسے تیس بکریاں دین۔ اور ہم سب کو دودھ بھی پلایا۔ جب وہ واپس آیا تو ہم نے اس سے پوچھا کہ کیا تم دم کرنا جانتے تھے۔ اس نے جواب میں کہا کہ میں نے تو صف سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کیا ہے۔ ہم نے کہا کہ برکیوں کے معاملہ کو ایسے ہی رہنے دو۔ یہاں تک کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوچھ لیں۔ جب ہم مدینہ آئے اور آپ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ اسے کیسے معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ منتر ہے۔ تم لوگ ان بکریوں کو آپس میں تقسیم کرتے وقت میرا بھی ایک حصہ رکھنا۔ اس حدیث کو امام مسلم اور امام ابو داود نے بھی روایت کیا ہے امام مسلم کی بعض روایتوں میں ہے کہ دم کرنے والے ابوسعید خدری (رض) ہی تھے۔ 6۔ امام مسلم اور نسائی نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان تشریف فرما تھے اور جبرئیل (علیہ السلام) آپ کے پاس موجود تھے کہ اوپر سے ایک آواز سنائی دی۔ جبرئیل (علیہ السلام) نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور کہا کہ آسمان کا یہ دروازہ آج سے پہلے کبھی نہیں کھلا اس سے ایک فرشتہ اترا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہا کہ آپ کو دو نور دئیے جانے کی خوشخبری دیتا ہوں جو آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دئیے گئے۔ سورۃ فاتحہ اور سورۃ بقرہ کی آخری آیتیں۔ ان کا ایک حرف بھی آپ پڑھیں گے تو اس کا بدل آپ کو دیا جائے گا۔ 7۔ سورۃ فاتحہ کی فضیلت اس سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے نماز پڑھی اور اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص ہوگی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کو تین بار دہرایا۔ اس حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں نے نماز (یعنی سورۃ فاتحۃ) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کردیا ہے اور میں اپنے بندے کو وہ دیتا ہوں جو وہ مانگتا ہے (مسلم، نسائی مؤطا، مسند احمد) 4۔ نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنا امام اور مقتدی سب پر واجب ہے : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحیح احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ سورۃ فاتحہ پڑھے بغیر کوئی نماز قبول نہیں ہوتی۔ جن حضرات نے سورۃ فاتحہ پڑھنا واجب نہیں سمجھا ہے ان کی مشہور دلیلیں مندرجہ ذیل ہیں : الف : اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا کہ واذا قری القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا۔ الایہ۔ یعنی جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی اختیار کرو اور دھیان دے کر سنو۔ (الاعراف : 204)۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حکم عام ہے اور نماز میں قرات فاتحہ کے وجوب سے متعلق حدیثیں خاص اور بہت ہی واضح اور صریح ہیں اور اس آیت کی تخصیص کرتی ہیں۔ ب۔ ان کی دوسری دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ اسلم کا یہ قول ہے کہ مالی انازع القرآن۔ یعنی کیا بات ہے کہ نماز میں لوگ میرے ساتھ قرآن پڑھتے ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لاتفعلوا الا بام القرآن فانہ لا صلاۃ لمن لم یقرا بھا۔ یعنی سورۃ فاتحہ کے علاوہ اور کچھ نہ پڑھو۔ کیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ (ابو داود، ترمذی، نسائی)۔ ج۔ ان کی تیسری مشہور دلیل یہ حدیث ہے۔ من کان لہ امام فقراءۃ الامام لہ قراءۃ۔ یعنی اگر کوئی شخص امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہو تو امام کی قراءت اس کی قراءت ہوگی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں محدثین کا کلام ہے، وجوب قراءت فاتحہ والی صحیح احادیث کے ہوتے ہوئے یہ قابل قبول نہیں لیکن اس کا بہترین جواب یہ ہے کہ ووجوب قراءت والی حدیثیں اس کی تخصیص کرتی ہیں۔ یعنی جہری نمازوں میں سورۃ فاتحہ کی قراءت کے بعد امام کی قراءت مقتدی کی قراءت ہوگی۔ اب آئیے، ان احادیث صحیحہ پر ایک نظر ڈالی جائے جن کی بنیاد پر محدثین کرام کی کثیر تعداد نے فاتحہ کی قراءت کو امام اور مقتدی سب کے لیے واجب قرار دیا ہے۔ 1۔ ابوہریرہ (رض) کی حدیث جو اوپر گذر چکی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے کوئی نماز پڑھی، اور اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص ہوگی۔ آپ نے یہ بات تین بار دہرائی۔ ابوہریرہ (رض) سے کہا گیا کہ ہم لوگ تو امام کے پیچھے ہوتے ہیں ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ دل میں پڑھ لیا کرو۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہتے سنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ میں نے نماز (سورہ فاتحہ) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کردیا ہے۔ الحدیث (مسلم، نسائی، مؤطا، مسند احمد) 2۔ ابو ہریرہ (رض) ہی کی دوسری حدیث کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وہ نماز کفایت نہیں کرتی جس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے (صحیح ابن خزیمہ) 3۔ عبادہ بن صامت (رض) کی حدیث کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتا۔ (متفق علیہ) 4۔ ابوہریرہ (رض) کی روایت ہے کہ مجھے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ اعلان کردینے کا حکم دیا۔ لا صلاۃ الا بقراءۃ فاتحۃ الکتاب فما زاد۔ یعنی نماز صحیح نہیں ہوتی جب تک سورۃ فاتحہ اور قرآن کا کچھ اور حصہ نہ پڑھا جائے (ابوداود) یہی قول صحابہ کرام میں عمر بن خطاب، عبداللہ بن عباس، ابوہریرہ، ابی بن کعب، ابو ایوب انصاری، عبداللہ بن عمرو بن العاص، عبادہ بن صامت، ابو سعید خدری، عثمان بن ابی العاص، خوات بن جبیر اور عبداللہ بن عمر (رض) وغیرہم کا ہے اور ائمہ کرام میں شافعی، احمد، مالک، اوزاعی وغیرہم کی یہی رائے ہے۔ یہ سبھی حضرات نماز کی ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کی قراءت کو واجب قرار دیتے ہیں۔ اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم : اس کا معنی یہ ہے کہ ” میں اللہ تعالیٰ کے ذریعہ مردود شیطان سے پناہ مانگتا ہوں“ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بندوں کو مردود شیطان کے شر سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے۔ فرمایا خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاہِلِینَ (١٩٩) وَإِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّہِ إِنَّہُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ (٢٠٠)۔ اور فرمایا وَقُلْ رَبِّ أَعُوذُ بِکَ مِنْ ہَمَزَاتِ الشَّیَاطِینِ (٩٧) وَأَعُوذُ بِکَ رَبِّ أَنْ یَحْضُرُونِ (٩٨)۔ اور فرمایا ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَۃٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ (٣٤) وَمَا یُلَقَّاہَا إِلا الَّذِینَ صَبَرُوا وَمَا یُلَقَّاہَا إِلا ذُو حَظٍّ عَظِیمٍ (٣٥) وَإِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّہِ إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ (٣٦)۔ ان آیتوں میں اللہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شیطان سے پناہ مانگنے کی نصیحت کی ہے، کیونکہ جنوں کا شیطان، انسان کا ایسا دشمن ہے جو کسی بھی بھلائی اور احسان کو نہیں مانتا۔ اور ہر وقت اس کے خلاف سازش میں لگا رہتا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحیح احادیث سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے کہ مسلمان کی زندگی میں اللہ کے ذریعہ شیطان مردود کے شر سے پناہ مانگنے کی بڑی اہمیت ہے۔ ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب رات کو نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے، پھر کہتے۔ سبحانک اللہ ربنا و بحمدک و تبارک اسمک و تعالیٰ جدک ولا الہ غیرک۔ پھر تین بار لا الہ غیرک۔ کہتے، پھر کہتے : اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم من ھمزہ و نفخہ ونفثہ۔ (ابو داود، نسائی، ترمذی، ابن ماجہ) عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہا کرتے تھے۔ اللہم انی اعوذبک من الشیطان الرجیم من نفخہ و نفثہ۔ (ابن ماجہ)۔ معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ دو آدمی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آپس میں گالی گلوچ کیا۔ ان میں کا ایک آدمی اتنا زیادہ غصہ ہوا کہ ایسا معلوم ہوتا تھا اس کی ناک غصہ سے پھٹ جائے گی۔ آپ نے فرمایا کہ میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں جسے اگر وہ کہے تو اس کا غصہ ختم ہوجائے۔ معاذ نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول، وہ کون سا کلمہ ہے۔ تو آپ نے فرمایا، یوں کہے۔ اللہ انی اعوذبک من الشیطان الرجیم۔ الحدیث (احمد، ابو داود ترمذی، نسائی) اسی حدیث کو حافظ ابو یعلی موصلی نے ابی بن کعب سے روایت کی ہے۔ قرآن کریم کی تلاوت سے پہلے شیطان مردود کے شر سے پناہ مانگنے کا حکم : عام حالات کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس بات کا خاص طور پر حکم دیا ہے کہ جب وہ قرآن کریم کی تلاوت کرنا چاہیں تو پہلے اللہ کے ذریعہ شیطان مردود کے شر سے پناہ مانگ لیں۔ سورۃ النحل میں ہے۔ فاذا قرات القران فاستعذ باللہ من الشیطان الرجیم۔ جب تم قرآن پڑھو تو اللہ کے ذریعہ مردود شیطان سے پناہ مانگ لو۔ اسی آیت کے پیش نظر جمہور علماء کا قول ہے کہ نماز کے علاوہ دیگر حالات میں قراءت قرآن کی ابتدا سے پہلے اعوذ باللہ پڑھنا مستحب ہے۔ حالت نماز کے بارے میں راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ بسم اللہ اور سورۃ فاتحہ کے قبل اعوذ باللہ سری یا جہری طور پر پڑھ لیا جائے، کیونکہ یہ آیت قراءت قرآن کی تمام حالتوں کو شامل ہے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ یہ کس سورت کی آیت ہے؟ صحابہ کرم نے حضرت عثمان (رض) کے زمانے میں جو مصحف تیار کیا اور جس کی تمام صحابہ کرام نے تائید و توثیق کی، اس مصحف میں سورۃ براءت کے علاوہ تمام سورتوں کی ابتدا میں بسم اللہ لکھی گئی۔ اس مصحف میں کوئی بھی ایسی چیز نہ لکھی گئی جو قرآن کریم کا حصہ نہ تھی، نہ سورتوں کے نام لکھے گئے، نہ ہی آیتوں کی تعداد اور نہ کلمہ آمین۔ تاکہ کوئی شخص۔ اللہ نہ کرے۔ غیر قرآن کو قرآن نہ سمجھ لے۔ اس تمام تر احتیاط کے باوجود بسم اللہ صرف ایک سورت کے علاوہ تمام سورتوں کی ابتدا میں لکھی گئی۔ جن کی تعداد ایک سو تیرہ ہے۔ یہ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ بسم اللہ، سورۃ نمل کی ایک آیت کا بعض حصہ ہونے کے علاوہ ایک مستقل آیت ہے، جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہر سورت کی ابتدا سے پہلے اترا کرتی تھی۔ اور اسی کے ذریعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جان پاتے تھے کہ ایک سورت ختم ہوگئی، اب دوسری سورت کی ابتدا ہونے والی ہے۔ اس کی تائید حضرت ابن عباس (رض) کی روایت سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک سورت کی انتہا اور دوسری سورت کی ابتدا اس وقت تک نہیں جانتے تھے جب تک بسم اللہ الرحمن الرحیم نئے سرے سے نازل نہیں ہوتی تھی۔ اس حدیث کو ابو داود اور حاکم نے صحیح سند کے ساتھ روایت کی ہے۔ یہاں تک یہ بات ثابت ہوگئی کہ بسم اللہ قرآن کریم کی ایک آیت ہے۔ اس کے بعد علمائے کرام کا اختلاف رہا ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ سورۃ براءت کے علاوہ یہ ہر سورت کی ایک آیت ہے، تو گویا سورۃ فاتحہ کی بھی ایک آیت ہے۔ امام مالک، ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کہتے ہیں کہ یہ نہ تو سورۃ فاتحہ کی آیت ہے نہ ہی کسی دوسری سورت کی۔ داود ظاہری کا خیال ہے کہ ہر سورت کی ابتدا میں یہ ایک مستقل آیت ہے، لیکن کسی سورت کا حصہ نہیں ہے۔ بسم اللہ باآواز پڑھی جائے یا آہستہ : اس اختلاف کی وجہ سے جہری نمازوں میں سورۃ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ کو باآواز بلند پڑھنے کے بارے میں ائمہ کرام کا اختلاف ہوگیا ہے۔ جو حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سورۃ فاتحہ کی ایک آیت نہیں اور وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک مستقل آیت ہے، کسی سورت کی آیت نہیں، وہ کہتے ہیں کہ جہری نمازوں میں بسم اللہ آہستہ پڑھی جائے گی، اور جو حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ سورۃ براءت کے علاوہ ہر سورت کی آیت ہے، ان میں امام شافعی اسے جہری نمازوں میں سورۃ فاتحہ اور ہر سورت کے پہلے بآواز بلند پڑھنے کے قائل ہیں۔ ان لوگوں نے ابوہریرہ، ابن عباس، اور ام سلمہ (رض) وغیرہم سے مروی احادیث سے استدلال کیا ہے، جن میں اس بات کی صراحت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورۃ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ بآواز بلند پڑھی۔ (دیکھئے ابن کثیر و فتح القدیر)۔ لیکن خلفائے اربعہ، احمد بن حنبل اور سفیان ثوری وغیرہم کی رائے ہے کہ نماز میں بسم اللہ بآواز بلند نہیں پڑھی جائے گی۔ ان لوگوں نے امام مسلم کی حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت کردہ حدیث سے استدلال کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں قراءت، الحمد للہ رب العالمین سے شروع کرتے تھے۔ اسی طرح صحیحین کی حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت کردہ حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، ابوبکر، عمر، اور عثمان (رض) کے پیچھے نماز پڑھی، یہ حضرات ابتدا الحمد للہ رب العالمین سے کرتے تھے۔ چونکہ دونوں ہی قسم کی حدیثیں صحیح ہیں۔ اس لیے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بسم اللہ کبھی آہستہ پڑھی اور کبھی بآواز بلند، اور جس صحابی نے جیسا دیکھا ویسا بیان کیا۔ بہتر یہی ہے کہ کبھی آہستہ پڑھی جائے اور کبھی بآواز بلند، تاکہ دونوں قسم کی حدیثوں پر عمل ہوجائے، اور ائمہ کرام کا اجماع بھی ہے کہ چاہے بسم اللہ بآواز بلند پڑھی جائے یا آہستہ، نماز کی صحت میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ بسم اللہ کی فضیلت : قرآن کریم کی کئی آیتوں اور کئی صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کی زندگی میں بسم اللہ کی بڑی اہمیت ہے۔ اور کوئی بھی کام کرنے سے پہلے بسم اللہ کہنا باعث خیر و برکت اور اللہ کی نصرت و حمایت اور تائید و حفاظت کس سبب ہے۔ مسند احمد کی روایت ہے کہ بسم اللہ کہنے سے شیطان ذلیل ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ مکھی کی مانند حقیر بن جاتا ہے۔ اسی لیے کھانے پینے، جانور ذبح کرنے، بیوی سے مباشرت کرنے، وضو کرنے، اور بیت الخلا میں داخل ہونے سے پہلے اور تمام دوسرے کاموں کے کرنے سے پہلے بسم اللہ کہنا مستحب ہے۔ بسم اللہ کا معنی۔ یعنی ” میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان، بے حد رحم کرنے والا ہے“ حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ آدمی جب کوئی کام شروع کرنا چاہے تو اس کی ابتدا کرتے وقت نیت کرے کہ میں اس کام کی ابتدا اللہ کے نام سے کرتا ہوں۔ ” اللہ“ رب العالمین کا مخصوص نام ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ اسم اعظم ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی دیگر تمام صفات اسی مخصوص نام کے وصف کے طور پر بیان ہوئی ہیں۔ رب العالمین کے علاوہ دوسروں کے لیے اس نام کا استعمال جائز نہیں۔ ” الرحمن“ اور ” الرحیم“ دونوں اللہ کی صفت ہیں۔ اور رحمت سے ماخوذ ہیں، دونوں میں مبالغۃ پایا جاتا ہے۔ ” الرحمن“ میں ” الرحیم“ سے زیادہ مبالغہ ہے۔ اسی لیے مفسرین نے لکھا ہے کہ ” الرحمن“ رحمت کے تمام اقسام کو عام ہے اور دنیا و آخرت میں تمام مخلوق کو شامل ہے۔ جبکہ ” الرحیم“ مومنین کے لیے خاص ہے۔ اللہ نے فرمایا وکان بالمومنین رحیما۔ الاحزاب :43۔ بعض علمائے تفسیر ” الرحمن“ کو تو ” احسان عام“ کے لیے مانتے ہیں۔ یعنی اللہ کی رحمت اس کی تمام مخلوقات کے لیے عام ہے، لیکن ” الرحیم“ کو مومنین کے لیے خاص نہیں مانتے۔ انہوں نے ان دونوں صفات کی ایک بڑی اچھی توجیہہ بیان کی ہے جو عربی زبان کے مدلول کے بالکل موافق ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ لفظ ” الرحمن“ سے مراد وہ ذات ہے جس کی نعمتوں کا فیض عام ہے، لیکن یہ فعل عارضی بھی ہوسکتا ہے۔ کیونکہ عربی میں اس وزن کے اوصاف فعل کے عارضی ہونے پر دلالت کرتے ہیں اور لفظ ” الرحیم“ دائمی اور مستقل صفت رحمت پر دلالت کرتا ہے۔ اس لیے جب عربی زبان کا سلیقہ رکھنے والا اللہ تعالیٰ کی صفت ” الرحمن“ سنتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ وہ ذات جس کی نعمتوں کا فیض عام ہے۔ لیکن وہ نہیں سمجھتا کہ ” رحمت“ اس کی دائمی صفت ہے۔ اس کے بعد جب وہ ” الرحیم“ ہے تو اسے یقین کامل ہوجاتا ہے کہ ” رحمت“ اس کی دائمی اور ایسی صفت ہے جو اس سے کبھی جدا ہونے والی نہیں (محاسن التنزیل : 2، 6) یہاں ایک اور بات ذکر کردینے کے قابل ہے۔ الرحمن، نام اللہ کے ساتھ خاص ہے، غیر اللہ کے لیے اس نام کا استعمال جائز نہیں نے فرمایا۔ قل ادعوا اللہ او ادعوا الرحمن ایاما تدعوا فلہ الاسماء الحسنی۔ الاسراء : 110۔ جبکہ الرحیم غیر اللہ کی صفت، اس کی حیثیت و کیفیت کے مطابق، بن سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے۔ بالمومنین رؤوف رحیم۔ یعنی وہ مومنوں کے ساتھ رافت و رحمت کا سلوک کرنے والے ہیں۔ التوبہ : 128)۔ اللہ کے اسماء و صفات پر ایمان لانا ضروری ہے۔ ائمہ سلف کے نزدیک یہ متفق علیہ قاعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات پر اور اس کی صفات پر مرتب شدہ احکام پر ایمان لانا واجب ہے۔ قرآن کریم میں اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحیح احادیث میں اللہ کے جو اسماء و صفات ثابت ہیں۔ ان پر اسی طرح ایمان لانا ضروری ہے جس طرح ثابت ہیں، نہ ان کی کیفیت بیان کی جائے گی اور نہ ہی ان کی تاویل کی جائے گی اور نہ انہیں معطل قرار دیا جائے گا۔ امام مالک (رح) سے جب اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا : استواء معلوم ہے، اس کی کیفیت مجہول ہے، اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے، اور اس پر ایمان رکھنا واجب ہے۔ اسی طرح اللہ کی صفات پر جو احکام مرتب ہوتے ہیں ان پر بھی ایمان لانا ضروری ہے۔ مثلا ” الرحمن“ اور ” الرحیم“ اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں، تو یہ ایمان رکھنا ہوگا کہ اللہ بڑا ہی رحمت والا اور بہت ہی مہربان ہے۔ اسے ہر چیز کا علم ہے۔ یہی قاعدہ تمام صفات الٰہیہ کے بارے میں جاری ہوگا۔ سلفِ صالحین کا یہی طریقہ رہا ہے۔ اور اسی طریقہ کو اختیار کرنے میں ہر بھلائی ہے۔ الفاتحة
2 لفظ حمد کا ترجمہ، تعریف کرنا ہے۔ حمد اور شکر میں فرق یہ ہے کہ حمد صرف زبان سے ہوتا ہے اور ضروری نہیں کہ کسی نعمت کے مقابلہ میں ہو۔ جبکہ شکر زبان، دل اور دیگر اعضاء کے ذریعہ کسی نعمت اور داد و دہش پر ہوتا ہے۔ اور اس پر الف لام، استغراق و شمولیت کا مفہوم پیدا کرنے کے لیے داخل کیا گیا ہے۔ یعنی حمد و ثنا اور تعریف و توصیف کی وہ تمام قسمیں جو آسمان و زمین کے درمیان ہوسکتی ہیں، وہ سب اللہ کے لیے ہیں۔ ابن جریر لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی تعریف خود بیان کر کے اپنے بندوں کو تعلیم دی ہے کہ وہ اس کی تعریف بیان کریں۔ امام ابن القیم (رح) نے اپنی کتاب (طریق الہجرتین) میں لکھا ہے کہ ہر اعلی صفت، ہر اچھے نام، ہر عمدہ تعریف، ہر حمد و مدح، ہر تسبیح و تقدیس اور ہر جلال و عزت کی جو کامل ترین اور دائمی اور ابدی شکل ہوسکتی ہے، وہ سب اللہ کے لیے ہے۔ اللہ کی جتنی بھی صفتیں بیان کی جاتی ہیں، جتنے ناموں سے اس کو یاد کیا جاتا ہے، اور جو کچھ بھی اللہ کی بڑائی میں کہا جاتا ہے، وہ سب اللہ کی تعریفیں ہیں اور اس کی حمد و ثنا اور تسبیح و تقدیس ہے۔ اللہ ہر عیب سے پاک ہے، ساری تعریفیں اس کے لیے ہیں، مخلوق کا کوئی فرد اس کی تعریفوں کو شمار نہیں کرسکتا۔ (الرب) کا معنی ہے۔ وہ آقا جس کی اطاعت کی جائے، وہ مالک جو تصرف کلی کا حق رکھتا ہے، وہ ذات برتر و بالا جو مخلوق کی اصلاح احوال کے لیے ہر تصرف کا حق رکھتا ہے۔ الف لام کے اضافہ کے ساتھ الرب صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مخلوق کے لیے اضافت کے ساتھ استعمال ہوتا ہے مثلا رب الدار، گھر والا، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کہا ہے ارجع الی ربک۔ اپنے آقا کے پاس لوٹ کر جاؤ (یوسف :50)۔ العالمین عالم کی جمع ہے، اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر چیز پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عالم کا اطلاق انس و جن اور ملائکہ و شیاطین پر ہوتا ہے۔ بہائم، عالم میں داخل نہیں۔ اللہ تعالیٰ سارے جہان والوں کا آقا و مالک اور ان میں تصرف کرنے والا ہے۔ رب کا ایک معنی مربی بھی کیا گیا ہے، بایں طور کہ وہ تربیۃ سے مشتق ہے، یعنی اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کا بطور عام اور بطور خاص مدبر و مربی ہے۔ بطور عام مربی اس طرح ہے کہ اس نے تمام مخلوق کو پیدا کیا، ان کو روزی دی، اور ان امور کی طرف رہنمائی کی جو دنیاوی زندگی کے لیے نافع ہیں اور بطور خاص اپنے اولیاء کا مربی ہے، یعنی ایمان کے ذریعہ ان کی تربیت کرتا ہے، انہیں ایمان کی توفیق دیتا ہے اور صاحب کمال بناتا ہے اور ان رکاوٹوں کو دور کرتا ہے، جو اس کے اور ان اولیاء کے درمیان حائل ہوسکتے ہیں۔ یعنی انہیں ہر خیر کی توفیق دیتا ہے اور ہر شر سے محفوظ رکھتا ہے۔ اور غالباً یہی راز ہے کہ انبیاء کرام کی تمام دعائیں کلمہ الرب سے شروع ہوتی ہیں اس لیے کہ ان کے تمام مطالب اللہ کی ربوبیت خاص کے ضمن میں آتے ہیں۔ اس تمام تر تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ صفت خلق و تدبیر عالم اور صفت کمال بے نیاز و تمام نعمت میں اللہ تعالیٰ منفرد ہے اور آسمان و زمین کی تمام مخلوق ہر اعتبار سے اس کی محتاج ہے۔ الفاتحة
3 ان دونوں صفات الٰہیہ پر کلام بسم اللہ کی تفسیر کے ضمن میں گذر چکا، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ دونوں صفتیں چونکہ اللہ کی رحمت پر دلالت کرتی ہیں اس لیے بندے کے لیے ان میں ایک طرح کی ترغیب ہے۔ جبکہ صفت ربوبیت میں ترہیب و تخوفی ہے۔ اس سورت میں اللہ ترہیب و ترغیب دونوں کو جمع کردیا ہے، تاکہ بندہ اپنے مبود کی اطاعت و بندگی کی طرف زیادہ راغب ہو، اور اس کا اپنی زندی میں زیادہ اہتمام کرے۔ الفاتحة
4 اللہ تعالیٰ جس طرح قیامت کے دن کا مالک ہے اسی طرح وہ دوسرے تمام دنوں کا مالک ہے۔ یہاں قیامت کے دن کا ذکر بالخصوص اس لیے آیا کہ اس دن تمام مخلوقات کی بادشاہت ختم ہوجائے گی۔ تمام شاہانِ دنیا اور ان کی رعایا، تمام آزاد و غلام اور چھوٹے بڑے سب برابر ہوجائیں گے اور صرف ایک اللہ کی ملوکیت و بادشاہت باقی رہے گی، سبھی اس کے جلال و جبروت کے سامنے سرنگوں ہوں گے، اس کی جنت کے امیدوار اور اس کے عذاب سے خائف ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : لمن الملک الیوم اللہ الواحد القہار۔ قیامت کے دن اللہ وپچھے گا آج کس کی بادشاہت ہے۔ پھر خود ہی جواب دے گا صرف اللہ کی، جو ایک ہے اور قہار ہے۔ (غافر :16) قیامت کے دن کو یوم الدین اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ اعمال کے جزا کا دن ہوگا، جس نے اس دنیا میں جیسا کیا ہوگا اسے اس کا بدلہ مل کر رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یومئذ تعرضون لا تخفی منکم خافیہ، جس دن تم لوگ اللہ کے سامنے پیش کیے جاؤ گے، اس دن تم سے کوئی چیز مخفی نہ رہے گی۔ الحاقہ :18۔ الفاتحة
5 عبادت کا لغوی معنی ہے : ذلت اور خشوع و خضوع۔ شریعت اسلامیہ میں عبادت ہر اس عمل کو کہتے ہیں، جس میں اللہ کے لیے کمال محبت کے ساتھ انتہائی درجہ کا خشوع و خضوع اور خوف شامل ہو۔ استعانت کا مفہوم یہ ہے کہ حصول نفع اور دفع ضرر کے لیے اللہ تعالیٰ پر پورا بھروسہ کیا جائے، اس یقین کے ساتھ کہ وہ اسے ضرور پورا کرے گا۔ اس آیت کریمہ میں عبادت و استعانت دونوں کو اللہ کے لیے خاص کیا گیا ہے، اور اللہ علاوہ تمام مخلوقات سے ان کی نفی کی گئی ہے۔ عربی زبان میں اگر مفعول کو فعل پر مقدم کریا جائے تو حصر کا معنی دیتا ہے، یعنی اس فعل کو اسی مفعول کے ساتھ خاص کردیا جاتا ہے، اور دوسروں سے اس کی نفی ہوجاتی ہے، تو گویا آیت کا معنی یہ ہوا، کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تیرے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کرتے، ہم تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور تیرے علاوہ کسی سے مدد نہیں مانگتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس بات کی تعلیم دی ہے کہ انسان اپنے آپ کو ہر ایک غلامی سے آزاد کر کے ایک اللہ کا بندہ بنا دے، اس کے ساتھ کسی چیز کو عبادت میں شریک نہ کرے، نہ اس جیسی کسی سے محبت کرے، اور نہ اس جیسا کسی سے ڈرے، نہ اس جیسی کسی سے امید رکھے، صرف اسی پر توکل کرے، نذر و نیاز، خشوع خضوع، تذلل و تعظیم اور سجدہ و تقرب سب کا مستحق صرف وہ ہے، جس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے۔ لیکن انسان نے ہمیشہ ہی اس تعلیم کو پس پشت ڈالا، اور اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک بنایا، غیروں سے مدد مانگی، شرک کے ارتکاب کے لیے بہانے تلاش کیے اور اللہ کے بجائے انبیاء اولیاء، صالحین اور قبروں میں مدفون لوگوں سے مدد مانگی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر ایمان قوی ہوجاتا ہے، جب ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کو یاد کرتے ہیں کہ اے لوگو ! اس شرک سے بچو، یہ چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ پوشیدہ چیز ہے (مسند احمد) حافظ ابن القیم (رح) فرماتے ہیں کہ بندہ کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ ہر نماز میں ایاک نعبد و ایاک نستعین کہتے۔ اس لیے کہ شیطان اسے شرک کرنے کا حکم دیتا ہے اور نفس انسانی اس کی بات مان کر ہمیشہ غیر اللہ کی طرف ملتفت ہوجاتا ہے، اس لیے بندہ ہر دم محتاج ہے کہ وہ اپنے عقیدہ توحید کو شرک کی آلائشوں سے پاک کرتا رہے۔ حضرت ابن عباس (رض) اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ ہم تیری توحید بیان کرتے ہیں، اے ہمارے رب ! اور تجھ ہی سے ڈرتے ہیں، اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں، تیری بندگی کرنے کے لیے اور اپنے تمام امور میں۔ عبادت، اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسی وقت قابل قبول ہوگی، جب وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کے مطابق ہو، اور اس سے مقصود اللہ کی رضا ہو۔ توحید کی تین قسمیں : اس سورت میں توحید کی تینوں قسموں کو اختصار کے ساتھ بیان کردیا گیا ہے۔ 1۔ توحید ربوبیت : رب العالمین سے ماخوذ ہے۔ توحید ربوبیت یہ ہے کہ آسمان و زمین اور اس میں پائی جانے والی تمام مخلوقات کا خالق ورازق اور مالک و مدبر صرف اللہ تعالیٰ ہے 2۔ توحید الوہیت۔ لفظ اللہ اور ایاک نعبد و ایاک نستعین سے ماخوذ ہے، اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ عبادت کی جتنی قسمیں ہوسکتی ہیں ان سب کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ 3۔ توحید اسماء و صفات۔ کلمہ، الحمد، سے ماخوذ ہے، اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحیح احادیث میں اللہ کے جتنے اسماء و صفات ثابت کیے ہیں، ان کو اسی طرح مانا جائے، نہ ان کا انکار کیا جائے، نہ ان کی مثال بیان کی جائے اور نہ ہی کسی غیر اللہ کے ناموں اور صفات کے سات تشبیہ دی جائے۔ حضرت امام مالک (رح) وسلم سے عرش پر مستوی ہونے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا الاستواء معلوم، والکیف مجہول والسوال عنہ بدعۃ والایمان بہ واجب۔ یعنی استواء معلوم ہے، اس کی کیفیت مجہول ہے، یعنی یہ نہیں معلوم کہ اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کی کیا کیفیت ہے، اور اس کے بارے میں پوچھنا بدعت ہے، یعنی اسلاف کرام کبھی اس کی کرید میں نہ پڑے، اور اس پر ایمان لانا واجب ہے۔ الفاتحة
6 اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنے، اور اس کے لیے کمال خشوع و خضوع اور اپنی انتہائی محتاجی و مسکنت کے اظہار کے بعد، بندے کے لیے اب یہ بات مناسب معلوم ہوئی کہ اپنا سوال اس کے حضور پیش کرے اور کہے کہ اے اللہ ! صراط مستقیم کی طرف میری رہنمائی کر۔ ہدایت کا معنی : رہنمائی اور توفیق ہے اور صراط مستقیم سے مراد : وہ روشن راستہ ہے جس میں کجی نہ ہو، جو اللہ اور اس کی جنت تک پہنچانے والا ہو۔ اور یہ قرآن و سنت کی راہ ہے۔ مجاہد کہتے ہیں کہ اس سے مراد راہ حق ہے۔ ابو العالیہ سے روایت ہے کہ اس سے مراد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے بعد ابوبکر اور عمر (رض) ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ یہ سبھی اقوال صحیح ہیں، اس لیے کہ جس نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کی، اور ان کے بعد ان کے صاحبین کی اقتدا کی، اس نے حق کی اتباع کی، اور جس نے حق کی اتباع کی، اس نے اسلام کی اتباع کی، اور جس نے اسلام کی اتباع کی اس نے قرآن کی اتباع کی، اور یہی قرآن کریم اللہ کی کتاب ہے، اس کی مضبوط رسی ہے، اور اس کی سیدھی راہ ہے۔ نواس بن سمعان (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صراط مستقیم (سیدھی راہ) کی ایک مثال بیان کی ہے، اس راہ کے دونوں جانب دو دیواریں ہیں، ان میں کچھ دروازے کھول دئیے گئے ہیں۔ ان دروازوں پر پردے لٹکا دئیے گئے ہیں، اور سیدھی راہ پر ایک پکارنے والا کہہ رہا ہے۔ اے لوگو سیدھی راہ پر گامزن ہوجاؤ اور اس سے انحراف نہ کرو۔ ایک اور پکارنے والا سیدھی راہ کے اوپر سے پکار رہا ہے، جب کوئی آدمی ان دروازوں میں سے کوئی دروازہ کھولنا چاہتا ہے تو وہ کہتا ہے، دیکھو اسے نہ کھولو، اگر تم نے اسے کھول دیا، تو اس میں داخل ہوجاؤ گے۔ وہ سیدھی راہ، اسلام، ہے۔ دونوں دیواریں اللہ کے مقرر کردہ حدود ہیں کھولے گئے دروازے اللہ کے حرام کردہ امور ہیں۔ اور سیدھی راہ کے سرے پر موجود پکارنے والا اللہ کی کتاب ہے، اور سیدھی راہ کے اوپر سے پکارنے والا، اللہ کی طرف سے ہر مسلمان کے دل میں موجود خیر کی دعوت دینے والا جذبہ ہے (مسند احمد، ترمذی، نسائی)۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ بندہ مومن ہدایت پر ہونے کے باوجود، اس کا محتاج ہے کہ وہ ہر نماز میں اللہ سے رشد و ہدایت کا سوال کرتا رہے، تاکہ اللہ تعالیٰ اسے صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھے اور دوام و استمرار بخشے، اس لیے آیت کا معنی یہ ہوگا کہ اے اللہ ! ہمیں صراط مستقیم پر قائم رکھ، اور اس کے علاوہ کسی اور راہ کی طرف نہ پھیر دے۔ امام راغب اصفہانی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ہدایت کا معنی قول و عمل میں اچھائیوں اور بھلائیوں کی طرف رہنمائی کرنا ہے۔ اور اللہ کی طرف سے اس کا ظہور کئی منازل میں ہوتا ہے جو ایک دوسرے کے بعد بالترتیب حاصل ہوتے ہیں اس کی پہلی منزل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو وہ قوتیں عطا کرتا ہے جن کی بدولت وہ اپنے منافع و مصالح تک پہنچ پاتا ہے، جسے انسان کے حواس خمسہ اور اس کی فکری قوت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اعطی کل شیء خلقہ ثم ھدی، یعنی اللہ نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر اس کی رہنمائی کی (طہ، 50)۔ اس کی دوسری منزل انبیاء کی بعثت اور دعوت الی اللہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، وجعلنا منہم ائمۃ یھدون بامرنا۔ اور ہم نے ان میں اماموں کو پیدا کیا جو ان کی رہنمائی کرتے ہیں (سجدہ :24)۔ تیسری منزل : وہ روشنی ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو کثرت عبادت و عمل خیر کے سبب عطا فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، والذین جاہدوا فینا لنہدینہم سبلنا۔ اور جو لوگ ہماری راہ میں جدو جہد کرتے ہیں ہم اپنی راہ کی طرف ان کی رہنمائی کرتے ہیں (الانعام :190)۔ چوتھی منزل۔ دخول جنت کو ممکن بنانا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا و نزعنا ما فی صدورھہم من غل تجری من تحتہم الانہار وقالوا الحمد للہ ھدانا لہذا۔ یعنی ہم نے ان کے دلوں سے کینہ کو نکال دیا، جنت میں ان کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، اور وہ کہیں گے کہ ساری تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے اس جنت کی طرف ہماری رہنمائی کی۔ (الاعراف :43)۔ قرآن کریم کی آیات کے تتبع سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہدایت بمعنی دعوت و رہنمائی۔ سب کے لیے عام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وانک لتھدی الی صراط مستقیم۔ اور آپ صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتے ہیں (شوری :52)۔ لیکن ہدایت، بمعنی توفیق اور جنت میں داخل کرنا، سب کو نصیب نہیں ہوتا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : انک لا تہدی من احببت ولکن اللہ یہدی من یشاء، یعنی آپ جس کو چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے، اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے (قصص :56)۔ ہدایت کے مذکورہ بالا معنی کو مد نظر رکھتے ہوئے مفسرین نے اھدنا الصراط المستقیم کی تفسیر کئی طرح سے کی ہے۔ کسی نے کہا کہ ہدایت سے مراد عام ہدایت ہے، اور ہمیں دعا کا حکم اس لیے دیا گیا ہے، تاکہ ہمارے ثواب میں اضافہ ہو، کسی نے اس کی تفصیر کی۔ ہمیں راہ شریعت پر چلنے کی توفیق دے۔ تیسرا قول یہ ہے۔ گمراہ کرنے والوں، شہوتوں اور شبہات سے بچا، چوتھا قول ہے۔ ہمیں مزید ہدایت دے۔ پانچواں قول ہے : ہمیں علم حقیقی (نور) عطا فرما۔ چھٹا قول ہے : ہمیں جنت دے، اور صحیح بات تو یہ ہے کہ یہاں ہدایت کی یہ تمام قسمیں مراد لی جاسکتی ہیں، کیونکہ ان کے درمیان کوئی تعارض نہیں۔ وباللہ التوفیق۔ الفاتحة
7 اس میں صراط مستقیم کی تفسیر بیان کی گئی ہے۔ کہ صراط مستقیم سے مراد ان لوگوں کی راہ ہے جن پر اللہ کا انعام ہوا، یہی وہ لوگ ہیں جن کا ذکر سورۃ نساء میں آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَمَنْ یُطِعِ اللَّہَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَاءِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقًا : یعنی جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے وہ ان کے ساتھ ہوں گے، جن پر اللہ نے انعام کیا یعنی انبیاء و صدیقین اور شہداء و صالحین کے ساتھ ہوں گے، اور یہ لوگ بڑے ہی اچھے ساتھی ہوں گے۔ یہ لوگ اہل ہدایت و استقامت ہوتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں، اوامر کو بجا لاتے ہیں اور منکرات و منہیات سے باز رہتے ہیں۔ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ۔ اس سے مراد وہ تمام لوگ ہیں جن کی نیتیں فاسد ہوگئیں، جنہوں نے حق کو پہچان کر اس سے اعراض کیا، ایسے لوگوں میں پیش پیش ہمیشہ یہود رہے۔ جنہوں نے تورات میں موجود دلائل کی روشنی میں اسلام اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کا یقین کرلیا، لیکن عداوت عناد کی وجہ سے اسلام قبول نہیں کیا۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لائے۔ وَلَا الضَّاۗلِّیْنَ۔ اس سے مراد وہ تمام لوگ ہیں جنہوں نے اسلام اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کا علم حاصل نہیں کیا، اور گمراہی میں بھٹکتے رہے۔ ایسے لوگوں میں پیش پیش نصٓری رہے۔ عدی بن حاتم (رض) سے ایک طویل حدیث مروی ہے۔ جس میں انہوں نے اپنے اسلام لانے کا واقعہ بیان کیا ہے، اس میں آتا ہے کہ نبی کریم نے فرمایا، ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ مفسرین کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِم سے مراد یہود اور الضَّاۗلِّیْنَ سے مراد نصاری ہیں۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ ولا الضالین کی (لا) تاکید کے لیے ہے، سامع کے دل میں یہ بات بٹھانے کے لیے کہ یہاں پر دو الگ الگ پرفساد راستوں کا ذکر ہے۔ ایک یہود کا راستہ اور دوسرا نصاری کا، تاکہ اہل ایمان دونوں راستوں سے بچیں۔ یہود نے حق پہچاننے کے بعد اس کی اتباع نہیں کی، اس لیے اللہ کے غضب کے مستحق بنے۔ اور نصاری نے حق کو پہچانا ہی نہیں، کیونکہ انہوں نے اس راہ کو اختیار ہی نہیں کیا، جس پر چل کر آدمی حق پاتا ہے، اس لیے وہ گمراہ ہوگئے۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ یہود و نصاری سبھی گمراہ ہیں اور ان سب پر اللہ کا غضب ہے، لیکن یہود اللہ کے غضب کے ساتھ، اور نصٓری ضلالت و گمراہی کے ساتھ مشہور ہوگئے۔ ” آمین“ نماز میں سورۃ فاتحہ کے بعد آمین کہنا مستحب ہے، جہری نمازوں میں بآواز بلند اور سری نمازوں میں آہستگی کے ساتھ۔ آمین کا معنی ہے۔ اے اللہ قبول فرما۔ وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غیر المغضوب علیہم ولا الضالین پڑھا اور اپنی آواز کو کھینچ کر آمین کہی۔ ابو داود کی ایک روایت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بلند آواز سے آمین کہی۔ امام ترمذی کے نزدیک یہ حدیث حسن ہے اور اسی قسم کی روایات علی، ابوہریرہ اور ابن مسعود (رض) وغیرہم سے بھی مروی ہیں۔ ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب غیر المغضوب علیہم ولا الضالین پڑھتے تو آمین کہتے، یہاں تک کہ صف اول میں ان کے آس پاس کے لوگ سنتے۔ (ابوداود) ابوہریرہ (رض) ہی کی ایک اور روایت ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ : جب امام ” آمین“ کہے تو تم بھی کہو، اس لیے کہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل جائے گی، اس کے تمام سابقہ گناہ معاف کردئیے جائیں گے (بخاری و مسلم)۔ ابو موسیٰ اشعری (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ جب امام ولا الضالین کہے تو، آمین کہو۔ اللہ تعالیٰ تمہاری دعا قبول فرمائے گا۔ (مسلم) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جہری نمازوں میں جب امام سورۃ الفاتحہ ختم کرلے تو تمام مقتدیوں کو بآواز بلند آمین کہنا چاہئے۔ اور اگر سری نماز ہے تو جب نمازی سورۃ الفاتحہ پڑھ لے تو آہستگی کے ساتھ آمین کہہ لے، تاکہ ان حدیثوں پر عمل ہوجائے، اور آمین کہنے کی خیر و برکت حاصل ہو۔ کلمہ ” آمین قرآن کا حصہ نہیں ہے۔ اس لیے مصحف عثمانی میں اسے نہیں لکھا گیا “ الفاتحة
0 1۔ اس سورت کا نام البقرۃ اس مناسبت سے ہے کہ اس کی آیت اور اس کے بعد والی آیتوں میں بقرہ۔ یعنی گائے کا ذکر آیا ہے، قرآن کریم کی تقریبا تمام ہی سورتوں کے نام کے لیے ان سورتوں میں مذکور کسی نام، کلمہ یا ابتدائے سورت میں مذکور حروف مقطعات کا استعمال کیا گیا ہے۔ 2۔ یہ سورت بلا اختلاف مدنی ہے، یعنی پوری سورت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ منورہ میں آنے کے بعد اتری ہے۔ اس لیے کہ اکثر و بیشتر مضامین انہی حالات سے مطابقت رکھتے ہیں جو مسلمانوں کو مدنی زندگی میں پیش آئے، جن کی تفصیل انشاء اللہ آگے آئے گی۔ 3۔ اس سورت کی احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلہ کی چند چیدہ احادیث کا ذکر یہاں کردیا جائے۔ الف۔ ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اپنے گھروں کو قبر نہ بناؤ جس گھر میں سورۃ البقرہ پڑھ جاتی ہے، اس میں شیطان داخل نہیں ہوتا (مسند احمد، صحیح مسلم، ترمذی، نسائی) ب۔ عبداللہ بن مسعود (رض) سے موقوفا اور مرفوعاً روایت ہے کہ شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے، جس میں سورۃ البقرہ کی تلات سنتا ہے (مستدرک حاکم، نسائی فی الیوم واللیلہ) ج۔ ابو امامہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہتے سنا : قرآن پڑھا کرو، اس لیے کہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لیے سفارشی بن کر آئے گا۔ دونوں روشنی پھیلانے والی سورتیں (سورۃ البقرہ اور سورۃ آل عمران) پڑھا کرو، دونوں قیامت کے دن اس طرح آئیں گی جیسے دو بادل ہوں، یا چریوں کے دو جھنڈ ہوں، صف باندھے ہوئے، اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے دفاع کر رہی ہوں گی۔ سورۃ البقرہ پڑھو، اس لیے کہ اس کا حاصل کرنا برکت ہوئے، اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے دفاع کر رہی ہوں گی۔ سورۃ البقرہ پڑھو، اس لیے کہ اس کا حاصل کرنا برکت ہے۔ اور اس کا چھوڑ دینا باعث حسرت ہے، اور جادوگر لوگ اس کے پڑھنے والے پر اثر انداز نہیں ہوسکتے ہیں۔ البقرة
1 البقرة
2 قرآن کریم کی انتیس سورتوں کی ابتدا حروف مقطعات سے ہوئی ہے۔ اس کے معنی و مفہوم کے بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف رہا ہے۔ پہلا مشہور مذہب تو یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک راز ہے۔ اس کا معنی کسی کو معلوم نہیں۔ اسی لیے ان حضرات نے اس کی تفسیر بیان نہیں کی ہے۔ دوسرا مذہب ان لوگوں کا ہے جنہوں نے اس کی تفسیر بیان کرنے کی کوشش کی ہے، ان میں سے اکثر لوگوں کی رائے یہ ہے کہ یہ حروف سورتوں کے نام ہیں۔ بعض دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ ان حروف کے ذریعہ بہت سی قرآنی سورتوں کی ابتدا اہل عرب جن کے لیے قرآن کریم ایک چیلنج بنا کر بھیجا گیا کے دل و دماغ میں یہ بات بٹھانے کے لیے کی گئی کہ یہ قرآن انہی حروف سے مرکب ہے، جن سے تمہاری تقریر و تحریر کے کلمات بنتے ہیں، لیکن تم اس جیسی ایک آیت بھی لانے سے عاجز ہو، کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے، کسی انسان کا نہیں؟ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ (رح) نے اوائل سورۃ میں ان حروف کے لائے جانے کی حکمت یہی بیان کی ہے کہ ان کا مقصد قرآن کریم کا اعجاز ثابت کرنا ہے کہ اللہ کی کتاب انہی حروف سے مرکب ہے جن سے تمہاری گفتگو کے کلمات بنتے ہیں، لیکن پھر بھی تم اس جیسا کلام لانے سے عاجز ہو۔ کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ یہ کلام الٰہی ہے !! حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ جن سورتوں کی ابتدا ان حروف سے ہوئی ہے ان میں قرآن کی عظمت اور اس کے اعجازی کلام ہونے پر زور دیا گیا ہے۔ الم ذالک الکتاب لاریب فیہ۔ المص، کتاب انزل الیک فلا یکن فی صدرک ھرف منہ۔ الم تنزیل الکتاب لا ریب فیہ من رب العالمین۔ حم تنزیل من الرحمن الرحیم۔ اور اسی طرح وہ تمام سورتیں جن کی ابتدا حروف مقطعات سے ہوتی ہے، آپ دیکھیں گے کہ ان سب میں قرآن کی عظمت اور اس کے اللہ کا کلام ہونے پر زور دیا گیا ہے۔ کتاب سے مراد قرآن کریم ہے۔ یعنی وہ کتاب عظیم جو حقیقی معنوں میں کتاب ہے، اس لیے کہ اس میں علم و حکمت کے ایسے خزانے اور ایسا کھلا ہوا حق بیان کیا گیا ہے جو اگلی کتابوں میں موجود نہیں۔ کتاب سے مراد قرآن کریم ہے۔ یعنی وہ کتاب عظیم جو حقیقی معنوں میں کتاب ہے، اس لیے کہ اس میں علم و حکمت کے ایسے خزانے اور ایسا کھلا ہوا حق بیان کیا گیا ہے جو اگلی کتابوں میں موجود نہیں۔ اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے اتاری گئی ہے، کیونکہ عرب و بلاغت کی انتہائی بلندی پر پہنچنے کے باجود قرآن جیسی ایک چھوٹی سورت لانے سے عاجز رہے، تو کوئی عقل مند آدمی اس کے اللہ کی کتاب ہونے میں شبہ نہیں کرے گا۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں : متقی ان لوگوں کو کہتے ہیں جو راہ ہدایت پر نہ چلنے کی صورت میں اللہ کے عقاب سے ڈرتے ہیں، اور دین اسلام کی تصدیق اور اس پر چلنے کی صورت میں اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں۔ ابوہریرہ (رض) سے کسی نے تقوی کا معنی پوچھا تو کہا کہ کبھی خار دار راستہ پر چلے ہو، اس نے کہا : ہاں، تو انہوں نے پوچھا کہ تم نے کس طرح راستہ طے کیا؟ اس نے کہا : جب کانٹا دیکھتا تو اس سے الگ ہوجاتا۔ تو انہوں نے کہا یہی تقوی ہے۔ قرآن کریم میں لفظ ھدی کا استعمال دو معنوں میں ہوا ہے : پہلا معنی رہنمائی کرنا اور راہ حق کو واضح کردینا ہے ہے اس اعتبار سے قرآن کریم راہ حق سے بھٹکے ہوئے لوگوں کے لیے ھدی ہے، کہ ان کی حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے، چاہے وہ اس سے فائدہ اٹھائیں یا نہ اٹھائیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ واما ثمود فھدیناہم فاستحبوا العمی علی الھدی۔ یعنی ہم نے ثمود کی حق کی طرف رہنمائی کی، لیکن انہوں نے ہدایت کے مقابلے میں گمراہی کو پسند کرلیا۔ دوسرا معنی : بندہ کے دل میں ہدایت قبول کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا اور توفیق دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اولئک الذین ھدی اللہ فبھداہم اقتدہ۔ یعنی یہی لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت (راہ حق پر چلنے کی توفیق) دی، پس آپ انہی کی راہ کی اتباع کریں۔ اس آیت کریمہ میں ہدایت کے دونوں معنی مراد ہیں، اس لیے کہ اہل تقوی کو دونوں ہدایتیں حاصل ہوتی ہیں، قرآن ان کی رہنمائی کرتا ہے، اور اس کے ذریعہ راہ حق پر چلنے کی توفیق بھی انہیں ملتی ہے۔ البقرة
3 یہاں اللہ تعالیٰ نے ان کے عقائد اور ظاہری اور باطنی اعمال کو بیان کیا ہے جن کو لفظ تقوی شامل ہے، یعنی متقی وہ ہوگا جس کے اندر مندرجہ ذیل اوصاف پائے جائیں گے۔ ایمان سے مراد تصدیق ہے اور غیب سے مراد ہر وہ بات ہے جس کا ادراک انسان کے حواس خمسہ سے نہیں ہوتا، بلکہ اس کا علم وحی اور انبیاء کی تعلیمات کے ذریعہ ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں غیب سے مراد ہر وہ بات ہے جس تک عقل کی رسائی نہیں ہوسکتی اور جس کی خبر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دی ہے، جیسے ذات و صفات باری تعالیٰ، فرشتوں کا وجود، عرش و کرسی، لوح و قلم، علامات قیامت، عذاب قبر، نشر و حشر، پل صراط و میزان، جنت و جہنم، اور اسی طرح کے تمام غیبی امور۔ مومن ہر اس بات پر ایمان لاتا ہے جس کی خبر اللہ یا اس کے رسول نے دی ہے، چاہے انسان نے اس کا مشاہدہ کیا ہو یا نہیں۔ اور چاہے اس نے سمجھا ہو یا نہیں، لیکن ملحدین اور غیبی امور کر جھٹلانے والے اس نعمت (ایمان و تصدیق) سے محروم ہوتے ہیں۔ یعنی جب وہ نماز ادا کرتے ہیں تو اس کے تمام ارکان، واجبات اور شروط کا پورا پورا خیال رکھتے ہیں اور مکمل خشوع و خضوع، اور حضور قلب کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ اور ان سنتوں کو بھی ادا کرتے ہیں جو فرض نمازوں سے پہلے اور بعد میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہیں۔ یہی وہ نماز ہے جس کی پابندی کرنے والوں کی اللہ نے قرآن کریم کی متعدد آیتوں میں تعریف کی ہے۔ والمقیمن الصلاۃ، الذین یقیمون الصلاۃ اور اسی لیے جب منافقین کی نماز کا ذکر آیا تو فویل للمصلین کہا گیا اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ نماز پڑھنے والے تو بہت ہیں لیکن اقامت صلاۃ، کی صفت والے تھوڑے ہیں۔ یہاں مال خرچ کرنے کی جتنی واجب اور مستحب صورتیں ہوسکتی ہیں سبھی مراد ہیں۔ لفظ (رزق) سے اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ مال اللہ تعالیٰ کا انعام ہے۔ کوئی اس زعم باطل میں مبتلا نہ ہو کہ اس نے اپنے زور بازو سے حاصل کرلیا۔ اس لیے اس انعام کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے ان رشتہ داروں اور بھائیوں کو نہ بھولا جائے جنہیں اللہ نے اس مال سے محروم رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی بہت سی آیتوں میں صلاۃ و زکاۃ کا ایک ساتھ ذکر کیا ہے، اس لیے کہ نماز کے ذریعہ اللہ کے لیے اخلاص کا اظہار ہوتا ہے، اور زکاۃ و صدقہ کے ذریعہ اللہ کے بندوں کے ساتھ احسان اور بھلائی کے جذبہ کا اظہار ہوتا ہے۔ آدمی کی نیک بختی اور سعادت اسی میں ہے کہ اپنے معبود حقیقی کے لیے مخلص رہے، اور جب تک ذندہ رہے اس کی مخلوق کو نفع پہنچا نے کی سعی کرتا رہے۔ البقرة
4 10۔ اس سے مراد قرآن و سنت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، وانزل اللہ علیک الکتاب والحکمۃ، یعنی اللہ نے آپ پر قرآن و سنت اتارا ہے، مومنین صادقین ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن و سنت دونوں ہی اللہ کی وحی ہیں، اور جتنی کتابیں اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہیں، ان تمام پر ایمان رکھتے ہیں، اور اللہ کے اوامر و نواہی کے درمیان تفریق نہیں کرتے کہ جو بات ان کی خواہش و مرضی کے مطابق ہوئی اس پر ایمان لے آئے، اور جو ان کی خواہش کے مطابق نہ ہوئی اس کا انکار کردیا، یا تاویل فاسد کے ذریعہ اس کا معنی و مفہوم بدل دیا۔ 11۔ آخرت سے مراد ہر وہ بات ہے جو موت کے بعد وقوع پذیر ہوگی۔ اس کا ذکر خاص طور پر اس لیے کیا گیا کہ یہ ایمان کا ایک رکن ہے، اور اس لیے بھی کہ آخرت پر یقین آدمی کو عمل صالح پر ابھارتا اور عذاب الٰہی سے ڈراتا ہے۔ البقرة
5 12۔ یہاں (ھدی) سے مراد نور بصیرت، اللہ کے دین پر استقامت، اور عمل صالح کی توفیق ہے، یعنی جو لوگ گذشتہ اوصاف حمید کے ساتھ متصف ہوتے ہیں، انہی کو اللہ نور بصیرت اور دین حق پر چلنے کی توفیق دیتا ہے۔ اور یہی لوگ فلاح و نجات پانے والے ہیں۔ اس لیے کہ اس راہ کے علاوہ تمام راہیں بدبختی، ہلاکت اور تباہی کی راہیں ہیں۔ البقرة
6 13۔ مومنین و متقین کے اوصاف حمیدہ ذکر کرنے کے بعد، ان کافروں کے اوصاف کا بیان شروع ہوا جو کھلم کھلا کافر تھے۔ اور جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف معاندانہ رویہ اختیار کر رکھا تھا، تاکہ معلوم ہوجائے کہ ان کا راستہ تباہی و بربادی کا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو سرکش کافروں کے بارے میں اطلاع دی ہے جو گمراہی کی انتہا کو پہنچ گئے تھے حتی کہ کفر ان کی لازمی صفت بن گئی، کہ کوئی وعظ و نصیحت اور کوئی دھمکی ان پر اثر انداز نہ ہوگی۔ آپ ان کے ایمان کی خاطر اتنا زیادہ پریشان نہ ہوں اور اپنی جان ہلاک نہ کریں۔ حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاہتے تھے کہ تمام لوگ اسلام میں داخل ہوجائیں، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو خبر دی کہ ایمان وہی لائے گا جس کے لیے نیک بختی لکھ دی گئی ہے، اور جس کے لیے بدبختی لکھ دی گئی ہے وہ گمراہ ہو کر رہے گا۔ البقرة
7 14۔ کافروں کے بارے میں گذشتہ آیت میں جو حکم بیان ہوا ہے کہ وہ ہرگز ایمان نہ لائیں گے۔ اس آیت کریمہ میں اس کی علت بیان کی گئی ہے، اور ان امور کا ذکر ہے جو ان کے لیے ایمان سے مانع تھے۔ کسی چیز پر مہر لگا دینے کا مفہوم ہوتا ہے، اس بات کا یقین کرلینا کہ اب اس کے اندر کوئی چیز باہر سے داخل نہیں ہوسکتی۔ یہی حال کافروں کا ہے کہ کفر و ضلالت پر اصرار، تقلیدِ آباء میں انہماک اور غور وفکر کے صحیح راستوں سے اعراض کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے دل کی ایسی حالت بنا دی کہ وعظ و نصیحت ان پر اثر انداز نہیں ہوتی، اور حق بات اس میں داخل نہیں ہوتی۔ اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہے جو ہر نفع بخش چیز کے دیکھنے سے مانع ہے، دل، کان، اور آنکھ یہی راستے ہیں علم حاصل کرنے کے، جب یہ بند کردئیے گئے، تو ان سے ایمان لانے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔، اور نہ ان سے کسی خیر کی امید کی جاسکتی ہے۔ یہ سب کچھ ان کے کفر اور حق سے عناد کی وجہ سے ہوا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا و نقلب افئدتہم وابصارہم کما لم یومنوا بہ اول مرۃ۔ یعنی اور ہم ان کے دل اور آنکھیں الٹ دیں گے، جیسے پہلی بار نشانی پر ایمان نہیں لائے۔ اللہ کا یہ فوری عذاب تھا اور آخرت میں آگ کا سخت عذاب، اور رب العالمین کی دائمی ناراضگی ان کی قسمت بن جائے گی۔ تفسیر ابو السعود میں ہے کہ ان کے دلوں پر مہر لگانے کو اللہ نے اپنی طرف منسوب کیا، اس لیے کہ وجود میں آنے کے اعتبار سے تمام اشیاء کی نسبت اللہ ہی کی طرف ہونی چاہئے۔ اگرچہ اکتساب عمل کے اعتبار سے یہ جو کچھ ہوا، انہی کے کرتوتوں کا نتیجہ تھا، ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی، اور ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا بل طبع اللہ علیہا بکفرہم کہ ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی۔ البقرة
8 15۔ سچے مسلمانوں اور کھلم کھلا کافروں کی حالت بیان کرنے کے بعد، اللہ تعالیٰ نے اب منافقین کی حالت بیان کرنی شروع کی، جو ظاہری طور پر تو مسلمان تھے، لیکن درحقیقت وہ کافر تھے۔ دنیاوی مصالح کی خاطر اسلام کا اعلان کردیا تھا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے، تو اس وقت تین قسم کے لوگ وہاں رہتے تھے۔ اوس و خزرج کے انصار مسلمان، اوس و خزرج کے وہ لوگ جنہوں نے اسلام کو قبول نہیں کیا تھا اور یہود تین قبیلوں میں بٹے ہوئے تھے۔ بنو قینقاع (حلفائے خزرج) اور بنو نضیر و بنو قریظہ (حلفائے اوس) رسول اللہ کے مدینہ تشریف لانے کے بعد اوس و خزرج کے بہت سے عرب اسلام میں داخل ہوگئے اور بہت ہی تھوڑے یہودیوں نے اسلام کو قبول کیا، ابتدائے ایام مدینہ میں منافقین نہیں پائے گئے، کیونکہ اس وقت تک مسلمانوں کا رعب و دبدبہ نہ تھا، بلکہ حالات کے تقاضے کے مطابق نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہودیوں اور بہت سے عرب قبائل سے مصالحت کر رکھی تھی۔ واقعہ بدر کے بعد مسلمانوں کی ہیبت کافروں پر طاری ہونے لگی تو عبداللہ بن ابی بن سلول، جو قبیلہ خزرج کا تھا اور جسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد سے پہلے اہل مدینہ اپنا بادشاہ بنانا چاہتے تھے، جب اس نے دیکھا کہ اب تو اسلام غالب ہونے لگا اور مسلمانوں کے قدم جم گئے، تو اس نے اور اس کے ساتھیوں نے دل سے نہ چاہتے ہوئے بھی اسلام میں داخل ہونے کا اعلان کردیا، کچھ یہودیوں نے بھی ایسا ہی کیا، اس طرح منافقین وجود میں آئے، اس کے بعد مدینہ اور آس پاس کے بہت سے دیہاتیوں نے بھی ایسا ہی کیا، اور منافقین کی صفوں میں شامل ہوگئے۔ 16۔ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے انہی منافقین کی حالت اور ان کے اوصاف بیان کیے ہیں تاکہ مسلمان ان سے دھوکہ نہ کھائیں، اور ان جیسی منافقانہ صفات اپنے اندر پیدا نہ ہونے دیں۔ 17۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تکذیب کی کہ یہ لوگ اپنے دعوی میں جھوٹے ہیں، اس لیے کہ ایمانِ حقیقی یہ ہے کہ زبان سے جو کچھ کہا جا رہا ہے، دل اس کی تصدیق کرے۔ البقرة
9 18۔ یہ تو در حقیقت اللہ اور اس کے مومن بندوں کو دھوکہ دینے کے لیے صرف زبان سے اسلام کا اظہار کر رہے ہیں۔ 19۔ یہ لوگ حقیقت معنوں میں اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں اور یہ عجیب و غریب بات ہے، کیونکہ ہوتا یوں ہے کہ دھوکہ دینے والا یا تو اپنی کوشش میں کامیاب ہوجاتا ہے اور اس کا مقصد پورا ہوجاتا ہے۔ یا کم از کم کسی نقصان بچا رہتا ہے۔ لیکن یہاں معاملہ کچھ اور ہی طرح کا ہے، وہ اپنے مکر و فریب کے ذریعہ خود اپنے آپ کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کو ان کے مکر سے کیا نقصان پہنچ سکتا ہے، اور مسلمانوں کو بھی وہ کیا نقصان پہنچائیں گے اللہ ان کا حامی و ناصر ہے، ان کے مکر وفریب کا وبال تو ان کے سر ہی جائے گا، کہ دنیا میں ذلت و رسوائی، اور مسلمانوں کی نصرت و فتحمندی کے قصے سن سن کر مسلسل غم و ملال، اور آخرت میں (جھوٹ اور کفر و فجور کی وجہ سے) دردناک عذاب کا سامنا ہوگا اور یہ لوگ اپنی جہالت و نادانی میں اس حد تک آگے جا چکے ہیں کہ انہیں اپنی تباہیوں اور بربادیوں کا احساس بھی نہیں۔ البقرة
10 20۔ یہاں ” مرض“ سے مراد شکوک و شبہات اور نفاق کی بیماری ہے، قلبِ انسانی کو دو طرح کے امراض لاحق ہوتے ہیں : شبہاتِ باطلہ کا مرض اور مہلک شہوات کا مرض۔ کفر و نفاق اور شکوک و شبہات کی پہلی قسم سے ہے، اور زنا و فواحش و معاصی سے محبت، دوسری قسم سے۔ اور حقیقی عافیت یہ ہے کہ آدمی دونوں قسم کے امراض سے بچا رہے، تو پھر اسے یقین و ایمان حاصل ہوتا ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے یہاں اہل نفاق کے دل کو قلب مریض سے تعبیر کیا ہے، اسی طرح مومنوں کے دل کو قلب سلیم سے تعبیر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : الا من اتی اللہ بقلب سلیم، یعنی وہ دل جو کفر و نفاق کے مرض سے محفوظ ہے۔ الشعراء : 89) 21۔ یہاں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آدمی اپنے سابقہ گناہوں کی وجہ سے (اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور عقاب) دوسرے گناہوں میں مبتلا کردیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ واما الذین فی قلوبہم مرض فزادتہم رجسا الی رجسہم، یعنی جن کے دلوں میں گناہ کی گندگی ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کے گناہ اور بڑھا دیتا ہے، تو گناہ کی سزا اس کے بعد دوسرا گناہ ہوتا ہے۔ جیسے نیکی کا ثواب دوسری نیکی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ویزید اللہ الذین اھتدوا ھدی۔ یعنی اہل ہدایت کو اللہ مزید ہدایت دیتا ہے مریم :76۔ کفر و نفاق کے مرض میں مبتلا ہونے اور اس پر اصرار کی سزا اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ دی کہ ان کے دلوں پر مہر لگا دی، اب کسی وعظ و نصیحت کا کوئی اثر ان پر نہیں ہوتا، یا یوں کہہ لیجیے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کی مسلسل دنیوی اور دینی کامیابیوں کی وجہ سے ان کا حسد و حقد اور کفر و نفاق بڑھتا گیا، اور ان کی حسرتوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ 22۔ دردناک عذاب کا سبب ان کا کذب و نفاق ہے۔ اس میں جھوٹ کی قباحت کی طرف اشارہ ہے، اور اس طرف بھی کہ ایمان باللہ میں نفاق سے بڑھ کر کوئی جھوٹ نہیں۔ البقرة
11 23۔ جب منافقین سے کہا جاتا کہ زمین میں فساد نہ پھیلاؤ یعنی کفر و معاصی کا ارتکاب نہ کرو، کافروں کے ساتھ دوستی نہ کرو، مسلمانوں کے بھید ان کے دشمنوں کو نہ دو، اور کافروں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا کر جنگ کی آگ نہ سلگاؤ، تو کہتے کہ در اصل ہم ہی لوگ تو اصلاح کرنے والے ہیں کہ مسلمانوں اور کافروں کے ساتھ مدارات سے کام لیتے ہیں اور ان کے درمیان اصلاح کرتے ہیں، مسلمان کیا اصلاح کریں گے؟ اس طرح انہوں نے قلب حقیقت سے کام لیا، زمین میں فساد پھیلایا، اور ظاہر کیا کہ ان کا عمل فساد فی الارض نہیں، بلکہ اصلاح بین الناس ہے۔ البقرة
12 24۔ اللہ تعالیٰ نے ان زعم باطل کی تردید کی کہ ان سے بڑھ کر فسادی کون ہوسکتا ہے اور اس سے بڑا فساد اور کیا ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار کیا جائے، اس کے دین سے لوگوں کو روکا جائے، اللہ اور اس کے اولیاء کو دھوکہ دیا جائے، اور اس کے دشمنوں سے دوستی کی جائے۔ 25۔ مرض نفاق میں مبتلا ہونے کے سبب حق و باطل کے درمیان تمیز کی حس بھی کھو چکے ہیں، اس لیے زمین میں فساد پھیلانے کو اصلاح سمجھ رہے ہیں۔ زمین میں اصلاح یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لایا جائے، اس کی بندگی کی جائے اس کے خلاف کرنا، زمین میں فساد پھیلانا اور تباہی و بربادی لانا ہے۔ البقرة
13 26۔ نہی عن المنکر یعنی فساد فی الارض سے روکنے کے بعد، اللہ تعالیٰ نے منافقین کے ساتھ امر بالمعروف کا اسلوب اختیار کیا، تاکہ خیر خواہی اور ارشاد و رہنمائی کی ذمہ داری پوری طرح ادا ہوجائے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا کہ تم لوگ اپنے ایمان میں وہ خلوص پیدا کرو جو صحابہ کرام کے ایمان میں ہے۔ الناس سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کے مومنین صادقین ہیں۔ کیونکہ انسانوں کی بہترین صفات اور اعلیٰ اخلاق ان میں پائے جانے کی وجہ سے حقیقت میں وہی لوگ (آدمی) تھے۔ 27۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب انہیں ایمان خالص کی دعوت دیتے، تو وہ لوگ اپنی نجی مجلسوں میں کہتے کہ، کیا ہم ان بے وقوفوں کی طرح ایمان لے آئیں؟ صحابہ کرام کو سفیہ اور بے وقوف سمجھتے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئے، اپنا گھر بار چھوڑا اور کافروں سے دشمنی مول لی۔ حالانکہ ان کے نزدیک عقل کا تقاضا اس کے برعکس تھا، اس لیے صحابہ کرام کو کم عقلی اور بے وقوفی کی طرف منسوب کیا، اور اپنے آپ کو دنیا والوں کے سامنے اربابِ عقل و خرد باور کرایا۔ وہ لوگ صحابہ کرام کو اس لیے سفیہ کہتے تھے کہ اس زمانے میں اکثر مسلمان غریب و فقیر، اور منافقین اصحابِ ریاست و ثروت تھے۔ اس لیے یہ لوگ صحابہ کو بطور تحقیر سفیہ کہتے۔ البقرة
14 28۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا راز افشا کیا کہ (چوں بخلوت می بوند آن کار دیگری کنند) یہ لوگ مسلمانوں کے سامنے تو اسلام کا اظہار کرتے ہیں لیکن اپنی مجلسوں میں صحابہ کرام کے بارے میں اپنے گندے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتایا کہ فی الواقع منافقین ہی کم عقل اور بے وقوف ہیں۔ اس لیے کہ ناسمجھی کی حقیقت یہ ہے کہ ادمی اپنی مصلحت و مضرت میں فرق نہ کرپائے۔ اور یہ صفت ان میں ہی پائی جاتی تھی، نہ کہ صحابہ میں جو اپنے دنیوی اور دینی مصالح کی خاطر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئے تھے۔ 29۔ آیت (8) میں منافقین کی زبانی ان کا عقیدہ اور مذہب بیان کیا گیا ہے، اور یہاں ان کے کردار اور گفتار میں تناقض اور تباین کو انہی کی زبانی بیان کیا گیا ہے، کہ جب مسلمانوں کے ساتھ ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں تاکہ مسلم سوسائٹی کے منافع اور مصالح سے مستفید ہوں، اور جب اپنے سرداروں کی مجلسوں میں جاتے ہیں تو انہیں یقین دلاتے ہیں کہ ہم تو آپ لوگوں کے ساتھ ہیں۔ ہم تو یونہی مسلمانوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ البقرة
15 30۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر یہ منافقین تم لوگوں کا مذاق اڑاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کا مذاق اڑائے گا، یعنی ان سے انتقام لے گا، انہیں دنیا میں ذلت و حقارت میں مبتلا کرے گا، اور آخرت میں ان کے ساتھ مذاق یہ ہوگا کہ مومنین جب اپنا نور لے کر چلیں گے تو اچانک منافقین کا نور بجھ جائے گا، اور ظلمت و تاریکی میں بھٹکتے رہ جائیں گے، اس سے بڑھ کر ان کا استہزا اور کیا ہوسکتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ینادونہم الم نکن معکم قالوا بلی ولکن کم فتنتم انفسکم و تربصتم وارتبتم۔ یعنی مومنین جب اپنا نور لے کر آگے بڑھ جائیں گے اور منافقین ظلمت میں ٹامک ٹوئیا کھانے لگیں گے، تو وہ ایمان والوں کو پکار پکار کر کہیں گے کہ دنیا میں ہم تمہارے انتظار کرتے تھے، دل سے ہمارے خیر خواہ نہ تھے، اور اللہ اور رسول کی طرف سے تم کو شک ہی رہا۔ الحدید، 14۔ 31۔ یہ بھی منافقین کے ساتھ اللہ کا استہزا ہی ہے کہ انہیں ڈھیل دیتا ہے اور کفر و فجور میں آگے بڑھنے دیتا ہے، دراں حالیکہ وہ حیران و پریشان ہوتے ہیں، اور اس سے باہر نکلنے کا انہیں کوئی راستہ نہیں ملتا۔ البقرة
16 32۔ ان منافقین کی طرف اشارہ ہے جن کے گھناؤنے اوصاف ابھی بھی بیان کیے جا چکے ہیں، اور مقصود ان کی بد عقیدگی اور بدکرداری کی مزید توضیح و تاکید ہے۔ گمراہی اور ضلالت میں بھٹکنے کی ان کی رغبت اس قدر بڑھ گئی جیسے کوئی کسی نفیس سامان کو حاصل کرنے کے لیے اپنا قیمتی مال خرچ کردیتا ہے، انہوں نے اللہ کی طرف سے بھیجی گئی ہدایت دے کر گمراہی کو قبول کرلیا بڑی ہی بری تجارت تھی یہ، اور بڑی ہی بری شے انہوں نے خریدی، اور بڑی ہی قیمتی چیز انہوں نے ضائع کردی۔ 33: جب اللہ نے ان کی تجارت کو گھاٹے اور خسارے والی بتا دیا، تو یہاں اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ وہ بدنصیب لوگ تجارت کے اصولوں سے واقف ہی نہ تھے، انہیں پتہ ہی نہیں تھا کہ تجارت کیسے ہوتی ہے؟ یعنی منافقین کے اندر سے یہ صلاحیت ہی مسلوب تھی کہ وہ نفع نقصان، خیر و شر، نور وظلمت اور ہدایت و گمراہی میں تمیز کرپاتے۔ البقرة
17 34: اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں، اور اس سے پہلے کی دیگر آسمانی کتابوں میں مثالوں کے ذریعہ بہت سے حقائق واضح کیے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، دیگر انبیاء کرام اور حکمائے عالم کے کلام میں مثالیں بہت ملتی ہیں۔ اس لیے کہ مثالوں کے ذریعہ بہت سے پوشیدہ معانی کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔ بہت سے حقائق سے پردہ اٹھ جاتا ہے۔ غائب حاضر بن کر سامنے آجاتا ہے اور دشمن کی قلعی کھل جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ وتلک الامثال نضربہا للناس وما یعقلھا الا العالمین۔ کہ یہ مثالیں ہم لوگوں کو سمجھانے کے لیے بیان کرتے ہیں، اور انہیں علم والے ہی سمجھتے ہیں۔ العنکبوت : 43)۔ 35: منافقین کی حقیقت اور ان کی صفات کو مزید اجاگر کرنے کے لیے، اللہ تعالیٰ نے ان کے نفاق کی ایک اور مثال بیان کی اور بتایا کہ ان منافقین کی مثال اس آدمی کی ہے، جو کسی جنگل میں شدید ظلمت و تاریکی میں پھنس گیا، اسے روشنی کی شدید ضرورت تھی، اس کے پاس کوئی ذریعہ نہ تھا کہ آگ روشن کرتا اور روشنی حاسل کرتا۔ اس نے کسی دوسرے سے چنگاری لے کر آگ روشن کی، جب اس کے ارد گرد کا ماحول روشن ہوگیا، وہ جگہ دیکھی جہاں وہ کھڑا تھا، وہاں کے خطرات اور پھر امن و امان کے اسباب دیکھے، اس آگ سے فائدہ اٹھایا، اس کی آنکھ ٹھنڈی ہوئی، اور اسے یہ خیال ہونے لگا کہ یہ آگ اور یہ روشنی تو اس کے اختیار میں ہے، تو اچانک اللہ نے اس کی آگ بجھا دی، اس کی روشنی چھین لی، اس کی خوشی رخصت ہوگئی، اور گھٹا ٹوپ تاریکی چھا گئی، آگ کی سوزش رہ گئی اور روشنی رخصت ہوگئی، اب وہ تھا اور کئی قسم کی تاریکیاں تھیں جو اسے گھیرے میں لیے ہوئی تھیں، رات کی تاریکی، بادل کی تاریکی، بارش کی تاریکی، اور روشنی جانے کے بعد کی تاریکی، ذرا اندازہ کیجیے کہ ایسے آدمی کا کیا حال ہوگا؟ یہی حال منافقین مدینہ کا بھی تھا انہوں نے مسلمانوں کے ایمان کی آگ سے اپنی آگ روشن کی، ان کے پاس اپنے ایمان کی آگ نہ تھی۔ کچھ دیر اس سے فائدہ اٹھایا، ان کی جانیں محفوظ ہوگئیں، ان کے اموال بچ گئے اور دنیا میں یک گونہ سکون ملا۔ 36: وہ اسی حال میں تھے کہ موت نے انہیں دبوچ لیا، جس جھوٹے نور سے انہیں فائدہ پہنچ رہا تھا وہ کھو گیا، اور غم و حرماں نصیبی اور عذاب نے انہیں آ گھیرا، قبر کی تاریکی، کفر کی تاریکی، نفاق کی تاریکی، مختلف الانواع گناہوں کی تاریکی اور عیاذاً باللہ۔ اس کے بعد جہنم کی آگ کی تاریکی نے ہر طرف سے نہیں گھیرے میں لے لیا۔ اس سے بڑھ کر کیا بد نصیبی ہوسکتی ہے؟ البقرة
18 37: اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں کہا کہ وہ خیر کی باتیں سننے سے بہرے ہیں، انہیں اپنی زبان سے ادا کرنے سے عاجز ہیں، اور نعمت بصیرت سے محروم ہیں، اس لیے اب وہ لوگ حق کی طرف کبھی بھی لوٹ کر نہ آئیں گے۔ البقرة
19 38: اللہ تعالیٰ نے ان کی ایک دوسری مثال دی کہ ان کی مثال آسمان سے ہونے والی بارش کی ہے جس میں تاریکیاں ہوں، کڑک ہو، اور بجلی ہو، جب جب اس بجلی سے ذرا روشنی ہوتی ہے تو وہ چلنے لگتے ہیں، اور جب تاریکی عود کر آتی ہے تو گھبرا کر ٹھہر جاتے ہیں۔ یہی حال منافقین کا تھا کہ جب قرآن کریم میں مذکور اوامر و نواہی اور وعدہ ووعید سنتے، تو مارے ڈر کے، اور رعب و خوف کی وجہ سے اپنی انگلیوں کو کانوں میں ڈال لیتے، جتنا ان کے لیے ممکن ہوتا اتنا قرآن اور اس کی تعلیمات سے اعراض کرتے اور اسے برا جانتے، بالکل اس آدمی کی طرح جو بارش میں کڑک کی وجہ سے، موت کے ڈر سے، اپنی انگلیوں کو اپنے کانوں میں ٹھونس لیتا ہے وہ سوچتا ہے کہ شاید اس طرح موت کا خطرہ اس سے ٹل جائے گا۔ 39: لیکن منافقین کو کہاں سے نجات مل سکتی ہے، اللہ تعالیٰ انہیں ہر طرف سے اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہے کون اسے عاجز بنا سکتا ہے، کون اس کے قبضہ قدرت سے نکل سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں ان کے کرتوتوں کا پورا پورا بدلہ دے کر رہے گا۔ البقرة
20 البقرة
21 41: گذشتہ آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی عظمت اور اسلام کی حقانیت بیان کرنے کے بعد، یہ بتایا کہ مدینہ منورہ میں بسنے والے لوگ قرآن کریم کے بارے میں تین جماعتوں میں بٹ گئے تھے، مومنین کی جماعت جو قرآن پر ایمان لائی اور اس کے شرائع و احکام کو اپنی زندگی میں نافذ کیا، کافروں کی جماعت جس نے کھلم کھلا قرآن کا انکار کردیا، اور تیسری جماعت منافقین کی جس نے نفاق اور دھوکہ دہی سے کام لیا، اور پھر اللہ نے تینوں جماعتوں کا انجام بتایا۔ اب اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان کو خطاب کر کے کہا کہ اے انسانو ! دیکھو، دھوکے میں نہ آؤ اور اپنی تخلیق کے مقصد کو فراموش نہ کرو، کبر و غرور سے کام نہ لو، اور اس اللہ کی بندگی کے لیے جھک جاؤ جس نے تمہیں پیدا کیا ہے، اور تم سے پہلے کے لوگوں کو پیدا کیا، یہی تقوی کی راہ ہے اور یہی ذریعہ ہے اللہ کی ناراضگی اور اس کے عذاب سے بچنے کا۔ البقرة
22 42: تمہارے اوپر نعمتوں کی بارش کی، زمین کو تمہارے لیے فرش بنایا، جس پر تم مکان بناتے ہو، کاشت کرتے ہو، ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہو، اور آسمان کو تمہارے لیے چھت بنایا، اس میں شمس و قمر اور ستاروں کو بسایا تاکہ وہ تمہیں فائدہ پہنچائیں اور بادل سے پانی برسایا، جس کے ذریعہ مختلف قسم کے پھل پیدا کیے، تاکہ تم انہیں استعمال کرو، ان سے قوت حاصل کرو اور زندہ رہو۔ 43: ان ساری نعمتوں کا تقاضا یہ ہے کہ تم اللہ کے ساتھ دوسروں شریک نہ بناؤ، جو تمہاری طرح مخلوق ہیں، اور آسمان و زمین کے درمیان ایک ذرہ کے بھی مالک نہیں ہیں۔ اور تم یہ جانتے بھی ہو کہ اللہ کا کوئی شریک نہیں وہی تنہا پیدا کرنے والا ہے، روزی دینے والا ہے، اور وہی آسمان و زمین کے درمیان سارے امور کی تدبیر کرنے والا ہے صحیحین میں عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایت ہے کہ میں نے کہا : یارسول اللہ ! سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بناؤ، حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ اس طرح اس آیت میں تین باتیں جمع ہوگئی ہیں، صرف ایک اللہ کی عبادت کا حکم، اس کے سوا کی عبادت کا انکار، اور توحید ربوبیت کا بیان کہ اللہ کے علاوہ کوئی خالق، رازق اور مدبر نہیں۔ اور یہ کھلی دلیل ہے اس بات کی کہ سارے انسانوں پر صرف اس ذات واحد کی بندگی واجب ہے۔ بہت سے مفسرین نے اس آیت سے اللہ تعالیٰ کے وجود پر استدلال کیا ہے، کیونکہ جو شخص سفلی اور علوی موجودات و مخلوقات، ان کی شکلوں، رنگوں، مزاجوں اور منافع پر غور کرے گا، اور اس بات پر غور کرے گا کہ اللہ نے انہیں کس مناسب انداز میں اور کیسی مناسب جگہوں پر رکھا ہے تو وہ خالق کے وجود پر ایمان لے آئے گا۔ اس کی قدرت، حکمت، علم اور اس کی عظیم بادشاہت کا یقین اس کے دل و دماغ پر ثبت ہوجائے گا۔ البقرة
23 عقیدہ توحید کو ثابت کرنے کے بعد، اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کی نبوت کی صداقت پر عقلی دلیل پیش کی ہے، اور کہا ہے کہ اے میرے رسول کی مخالفت کرنے والو، اس دعوت کو رد کرنے والو اور اسے جھوٹا بتانے والو، اگر تمہیں اس باتے میں شبہ ہے کہ واقعی یہ قرآن ہم نے اپنے بندے پر اتارا ہے، تو جان لو کہ وہ تمہاری طرح ایک انسان ہے۔ تم اسے یوم پیدائش سے جانتے ہو کہ نہ وہ لکھتا ہے نہ پڑھتا ہے۔ وہ ایک کتاب لایا اور تمہیں خبر دی کہ یہ اللہ کی کتاب ہے، تو تم نے کہا کہ اس نے خود گھڑا ہے اور اللہ پر افترا پردازی کی ہے۔ اگر بات ویسی ہی ہے جیسا تم کہتے ہو، تو اس کتاب جیسی ایک سورت لے آؤ اور تمہارے جتنے معاون و مددگار ہوں ان سب کی مدد حاصل کرلو، اور یہ تمہارے لیے آسان بھی ہے اس لیے کہ تم لوگ فصاحت و خطابت کے بادشاہ ہو، اور میرے رسول سے تمہاری دشمنی بھی بہت بڑی ہے۔ اور اگر تم نہیں لا سکتے (جیسا کہ تاریخ شاہد ہے کہ چودہ سو سال گذر گئے اور کوئی شخص اس چیلنج کو قبول نہ کرسکا) تو یہ کھلی نشانی اور واضح دلیل ہوگی اس امر کی کہ میرا رسول سچا ہے، اور وہ کتاب سچی ہے جو میں اس پر اتاری ہے، اور تمہارے عجز کا یہ اعتراف اس بات کا متقاضی ہے کہ تم اس کی ابتاع کرو اور اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوگا اور یہ آگ اللہ اور اس کے رسول کا انکار کرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ یہ آیت قرآن کریم اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دونوں کی صداقت پر دلیل ہے۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ ہدایت قبول کرنے کی توقع اسی سے کی جاتی ہے جو شبہ میں مبتلا ہو اور حق کو جانا چاہتا ہو، لیکن وہ مخالف جو حق کو جاننے کے باوجود اسے چھوڑ چکا ہو اس سے قبول حق کی توقع نہیں کی جاتی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے لفظ عبد کا استعمال اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کی سب سے پہلی صفت یہی تھی، اسی لیے آپ نے اللہ کا حق عبودیت اس طرح ادا کیا کہ دوسرے سے اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔۔ البقرة
24 45: اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ : یعنی جہنم کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ یہ دلیل ہے اس بات کی کہ جنت و جہنم اللہ کی دو مخلوق ہیں۔ اور موجود ہیں۔ جمہور اہل سنت والجماعت کا یہی عقیدہ ہے اور بہت سی صحیح احادیث سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ البقرة
25 46: قرآن کریم کا یہ طریقہ ہے کہ ہر ترہیب (ڈرانا) کے بعد ترغیب (رغبت دلانا)، اور ہر خوشخبری کے بعد دھمکی کا ذکر ہوتا ہے، اس لیے جب کفار اور ان کے اعمال و عقاب کا ذکر ہوچکا، تو مناسب تھا کہ اہل ایمان اور ان کے لیے بشارتوں کا ذکر ہوتا۔ آیت میں مخاطب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ہر دور میں ان کے قائم مقام لوگ ہیں۔ 47:۔ یعنی جو لوگ اپنے دل سے اللہ پر ایمان لائے اور ایمان کی تصدیق نیک اعمال کے ذریعہ کی۔ 48: پانی، دودھ، شہد اور شراب کی نہریں۔ 49: جنت کے پھل ناموں میں متشابہ ہوں گے۔ لیکن ان کے مزے مختلف ہوں گے۔ ایک دوسرا قول ہے کہ رنگوں میں متشابہ ہوں گے لیکن ان کے نام مختلف ہوں گے۔ ایک تیسرا قول ہے کہ جنت کے پھل خوبصورتی، لذت اور ذائقہ میں ایک دوسرے کے متشابہ ہوں گے۔ 50: وہ ہر اعتبار سے پاک ہوں گی، ان کے اخلاق، ان کی خلقت، ان کی زبان اور نظر سب کچھ میں طہارت اور پاکیزگی ہوگی، مفسرین نے لکھا ہے کہ حیض، نفاس، منی، پیشاب یا پاخانہ، تھوک، رینٹ اور بدبو سے پاک ہوں گی۔ 51: انتہائے سعادت یہ ہوگی کہ ان تمام گوناگوں نعمتوں کے ساتھ وہان کی زندگی دائمی ہوگی۔ نہ نعمتیں ختم ہوں گی اور موت لاحق ہوگی۔ البقرة
26 52: حافظ ابن کثیر (رح) نے ابن مسعود (رض) وغیرہ کی روایت نقل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب منافقین کی دو مثالیں بیان کیں، جن کا ذکر اوپر کی آیتوں میں آچکا تو منافقین نے کہا اللہ اس سے برتر و بالا ہے کہ ایسی مثالیں بیان کرتے تو مذکورہ آیت اور اس سے اگلی آیت نازل ہوئیں۔ 53: اللہ تعالیٰ حقیر ترین چیزوں (جیسے مچھر وغیرہ) کی مثال بیان کرنے میں بھی کوئی حیا محسوس نہیں کرتا، ان حکمتوں کے پیش نظر جو ان مثالوں میں ہوتی ہیں۔ چنانچہ اہل ایمان ان پر غور کرتے ہیں اور ان کے علم و ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ اور اگر ان پر ان کی حکمتیں نہیں بھی واضح ہوتی ہیں تو بھی وہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ مثالیں حق ہیں۔ 54: لیکن اہل کفر و عناد حیرانگی اور تردد میں پڑجاتے ہیں اور ان کے کفر میں اضافہ ہوجاتا ہے، اور کہتے ہیں کہ ایسی مثال بیان کرنے سے اللہ کا کیا مقصد ہے، یعنی انکار کردیتے ہیں۔ 55: منافقین کا جواب دیا ہے اور اور مثالوں کی حکمت بیان کی ہے اللہ تعالیٰ ان مثالوں کے ذریعہ گمراہی میں بھٹکنے والوں کو گمراہ کردیتا ہے اور جن کے اندر ہدایت قبول کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے انہیں مزید ہدایت دیتا ہے۔ 56: یہاں ” فسق“ سے مراد کفر ہے۔ فسق ان کی فطرت ثانیہ بن گئی۔ اس کے بدلے میں کوئی دوسری چیز چاہتے ہی نہیں، اس لیے حکمت الٰہیہ کے تقاضے کے مطابق انہیں گمراہ کردیا گیا، کیونہ ہدایت قبول کرنے کی ان کے اندر صلاحیت باقی ہی نہ رہی البقرة
27 ان اہل فسق کی صفت یہ ہوتی ہے کہ یہ اپنے رب سے اور دوسرے انسانوں سے کیے گئے عہود و مواثیق کی پرواہ نہیں کرتے۔ اللہ کے اوامر کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور نواہی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ایمان اور اظہار عبودیت کے ذریعہ اپنا تعلق اس کے ساتھ استوار کریں، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کریں، وہ اس طرح کہ ان پر ایمان لائیں، ان سے محبت کریں اور ان کی اتباع کریں اسی طرح والدین، خویش و اقارب، دوست و احباب اور تمام بندگان اللہ کے ساتھ حسب مراتب اپنا رشتہ صحیح رکھیں، اور سب کے حقوق ادا کرتے رہیں، اہل ایمان ان حقوق کا خیال رکھتے ہیں اور حتی المقدور ہر رشتے کی حفاظت کرتے ہیں، لیکن اہل فسق تمام ہی رشتوں کو پس پشت ڈال دیتے ہیں، اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں۔ دین حق کا مذاق اڑاتے ہیں اور لوگوں کو ایمان لانے سے روکتے ہیں، در حقیقت یہی لوگ گھاٹا اٹھانے والے ہیں، اس لیے کہ انہوں نے نقص عہد، قطعِ تعلقات اور فساد فی الارض کو اپنا شیوہ بنا لیا۔ البقرة
28 استفہام بمعنی تعجب، انکار اور توبیخ ہے، اور خطاب انہی کافروں کو ہے جن کا ذکر اوپر آچکا ہے، کہ حیرت ہے کہ تم اس اللہ کا انکار کرتے ہو جس نے تمہیں عدم سے پیدا کیا ہے، پھر تمہاری عمریں پوری ہوجانے کے بعد تم پر دوبارہ موت طاری کرے گا، پھر تمہیں قیامت کے دن زندہ کرے گا، پھر اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے تاکہ تمہارے اعمال کا بدلہ تمہیں دے۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تم تقوی کی راہ اختیار کرتے، اللہ پر ایمان لاتے، اس کے عذاب سے ڈرتے اور اس کے ثواب کی امید کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے وجود، اپنی قدرت، اور اپنے خالق ہونے پر ایک دوسری دلیل پیش کی ہے کہ جس طرح اس نے تمہیں عدم سے پیدا کیا، پھر تمہیں موت دے گا اور پھر دوبارہ زندہ کرے گا، اسی طرح اس نے تمہارے لیے زمین اور اس میں موجود تمام نعمتیں پیدا کیں اور پھر آسمان کو پیدا کیا۔ البقرة
29 اللہ تعالیٰ نے زندگی اور موت پر اپنی قدرت کاملہ کا ذکر کر کے بعث بعد الموت پر دلیل پیش کیا، پھر اچھوتے انداز میں کائنات کی تخلیق کا ذکر کیا اور کہا کہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کیونکہ اللہ تو ہر چیز کو جاننے والا ہے، اس لیے وہ ہر چیز کو احسن طریق پر پیدا کرنے پر قادر ہے، اس نے آڈم کو پیدا کیا اور اس علم سے نوازا جس سے اس کی فضیلت ظاہر ہوئی۔ یہ آیت دلیل ہے اس بات کی کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی چیزیں پیدا کی ہیں ان کے بارے میں اصل حکم اباحت و طہارت ہے۔ یہاں تک کہ کسی چیز کی حرمت یا ناپاکی کے بارے میں کوئی صریح دلیل نہ آجائے۔ قرآن کریم میں (استوی) تین معنوں میں استعمال ہوا ہے : اگر کسی حرف سے متعدی نہیں ہے تو کمال و تمام کے معنی میں ہوگا، جیسا کہ اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں فرمایا۔ ولما بلغ اشدہ واستوی۔ اور اگر حرف علی کے ذریعہ متعدی ہے تو علا اور ارتفع کے معنی میں ہوگا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا الرحمن علی العرش استوی۔ اور اگر الی کے ذریعہ متعدی ہے تو (قصد) کے معنی میں ہوگا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے۔ ثم استوی الی السماء۔ یعنی اللہ نے آسمان کی طرف قصد کیا، اور اسے ساتھ آسمان بنایا اور مضبوط و مستحکم کیا، اور وہ آسمان و زمین کے درمیان کی ہر چیز کو جانتا ہے، ہر ظاہر و باطن کا علم رکھتا ہے۔ اس آیت میں دلیل ہے اس بات کی کہ اللہ نے زمین کو آسمان سے پہلے پیدا کیا اور سورۃ نازعات کی آیت والارض بعد ذلک دحاھا اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ نے پہلے زمین کو پیدا کیا پھر آسمان کو پیدا کیا۔ پھر زمین کو پھیلایا اور اس میں درخت اور گھاس وغیرہ اگائے۔ البقرة
30 ٦٥: اس میں بنی آدم پر ایک طرح کے احسان کا ذکر ہے کہ اللہ نے انہیں پیدا کرنے سے قبل فرشتوں کے سامنے ان کا ذکر کیا اور ان کی فضیلت بیان کی۔ ٦٦۔ یعنی ایک ایسی قوم کو پیدا کرنا چاہتا ہوں جس کی ایک نسل دوسری نسل کے بعد آتی رہے گی۔ ٦٧: فرشتوں کی مراد اس سے یہ تھی کہ آدم کی ذریت میں ایسے لوگ ہوں گے جو زمین میں فساد پھیلائیں گے، اللہ نے شاید خاص طور پر انہیں بشر طبیعت کا علم دے دیا تھا، اور اس سوال سے ان کا مقصد تخلیق آدم کی حکمت جاننی تھی، نہ کہ اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پر اعتراض۔ ٦٨: میں ان میں انبیاء و رسل پیدا کروں گا، ان میں صدیقین، شہداء، صالحین، عباد، زہاد، اولیاء وابرار، علماء واتقیا ٤ اور اللہ سے خالص محبت کرنے والے پیدا ہوں گے۔ البقرة
31 ٦٩: اجمالی طور پر آدم کی فضیلت بیان کرنے کے بعد، اب اس کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے۔ نیز فرشتوں کے سوال میں اس طرف اشارہ تھا کہ وہ آدم سے افضل ہیں اسی لیے اللہ نے بتانا چاہا کہ آدم اس علم کی بدولت جو اللہ نے انہیں دیا ہے ان سے افضل ہیں اور یہ کہ اللہ ہی حکمتوں کو زیادہ بہتر جانتا ہے۔ اللہ نے تمام چیزوں سے متعلق ضروری علم ان کے اندر ودیعت کردی۔ اور (تمام چیزوں) سے مراد وہ ساری مخلوقات اور وہ سب اشیاء ہیں جو دنیا میں پائی جاتی ہیں۔ 70: ابن جریر کہتے ہیں کہ ان آیات میں یہود مدینہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ ووسلم پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے وہ اس طرح کہ اللہ نے ان آیات میں اپنے نبی کو وہ باتیں بتائی ہیں جن کا علم بغیر وحی کے ممکن نہیں اور یہ دلیل ہے اس بات کی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچے اور ان کا دین سچا ہے۔ اس لیے یہود مدینہ کو ان پر ایمان لے آنا چاہیے۔ ٧١: اللہ نے فرشتوں سے ان اشیاء کے نام پوچھے، حالانکہ اللہ جانتا تھا کہ وہ ان کے نام بتانے سے عاجز ہیں۔ اس میں فرشتوں کی ایک طرح سے سرزنش تھی اور اس بات کا مزید اظہار کہ وہ خلیفہ بننے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ البقرة
32 ٧٢: فرشتوں کو اپنی غلطی اور علمی کم مائگی کا احساس ہوا، تو فوراً اللہ کے حضور توبہ کی، اور کہا کہ اے اللہ، ہم تو اتنا ہی علم رکھتے ہیں جتنا تو نے ہمیں عطا فرمایا ہے۔ البقرة
33 ٧٣: تمام غیبی امور کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے، اسی حقیقت کو یہاں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان و زمین اور ان کے درمیان کے تمام غیبی امور کو جانتا ہے، انہی غیبی امور میں سے اللہ کا یہ علم بھی تھا کہ آدم (علیہ السلام) تمام اشیاء کا نام بتا دیں گے اور فرشتے عاجز رہیں گے۔ اسی ضمن میں یہ بات بھی آگئی کہ آدم اور اس کی ذریعت میں خلیفۃ الارض بننے کے جن اسباب و مبررات کو اللہ جانتا ہے وہ فرشتے نہیں جان سکتے، اور اس کا مشاہدہ بھی ہوگیا کہ آدم نے تمام چیزوں کے نام بتا دئیے جبکہ فرشتے عاجز رہے۔ ٧٤: جب آدم (علیہ السلام) نے تمام اشیاء کے نام بتا دئیے، اور ان کی فضیلت فرشتوں پر ثابت ہوگئی، تو اللہ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم کو سجدہ کریں۔ اس سجدہ سے مقصود آدم کی تعظیم، اور فرشتوں کی طرف سے ایک طرح کا اعتذار تھا اس بات پر جو انہوں نے آدم کے بارے میں کہی تھی۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے آدم کی انتہائے تکریم تھی۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ (رح) فرماتے ہیں کہ : فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا تھا اور ایسا اللہ کے حکم سے کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسجدو الادم کہا، الی آدم نہیں کہا اور ہر حرف کا ایک معنی ہوتا ہے، یعنی آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا، آدم کی طرف رخ کر کے، اللہ کے لیے سجدہ کا حکم نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : لا تسجدوا للشمس ولا للقمر واسجدوا للہ، یعنی شمس وقمر کو سجدہ نہ کرو بلکہ اللہ کو سجدہ کرو۔ فصلت : ٣٧۔ آگے چل کر لکھتے ہیں : سجدہ ایک تشریع ہے، اس کے بارے میں اللہ کے حکم کی اتباع کی جائے گی۔ اگر اللہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ اس کی کسی مخلوق کو سجدہ کریں تو ہم اس کے حکم کی اتباع کریں گے اور اس مخلوق کو سجدہ کریں گے۔ معلوم ہوا کہ فرشتوں کا آدم کو سجدہ کرنا اللہ کی بندگی اور اطاعت تھی۔ اور وہ آدم کے لیے تعظیم وتکریم کا اظہار تھا۔ البقرة
34 ٧٥: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ فرشتوں سے مراد وہی فرشتے ہیں جو ابلیس کے ساتھ زمین میں تھے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ (رح) کہتے ہیں کہ یہ مسلمانوں اور یہود و نصاری کا قول نہیں ہوسکتا۔ عام اہل علم کا یہ خیال ہے کہ یہاں تمام فرشتے مراد ہیں۔ جو اس کے خلاف اعتقاد رکھتا ہے وہ قرآن کا انکار کرتا ہے۔ اللہ نے تو فرمایا : فسجد الملائکۃ کلہم اجمعون یعنی تمام فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا (دیکھئتے محاسن التنزیل للقاسمی) ٧٦: ابلیس کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے کہ وہ فرشتوں میں سے تھا یا نہیں بعض کہتے ہیں کہ وہ فرشتوں میں سے تھا اور بعض کا خیال ہے کہ جنوں میں سے تھا، دونوں ہی جماعتوں نے قرآن کریم سے دلیل پیش کی ہے۔ صاحب کشاف کہتے ہیں کہ ابلیس تھا تو جنوں میں سے، اور سجدے کا حکم فرشتوں کو دیا گیا تھا، لیکن چونکہ ابلیس فرشتوں کے ساتھ رہتا تھا، انہی کی طرح اللہ کی عبادت کرتا تھا، اس لیے جب اللہ نے فرشتوں کو سجدے کا حکم دیا تو یہ حکم ابلیس کو بھی شامل تھا۔ حافظ ابن القیم (رح) کہتے ہیں کہ دونوں اقوال در اصل ایک قول ہے، اس لیے کہ ابلیس صورت میں فرشتوں کے جیسا تھا، لیکن اصل و مادہ میں فرشتوں سے مختلف تھا۔ اس لیے کہ اس کی اصل آگ ہے اور فرشتوں کی اصل نور ہے۔ ٧٧: یعنی یہ بات ازل سے اللہ کے علم میں تھی کہ ابلیس ایک دن کافر ہوجائے گا۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ سب سے پہلا کافر ابلیس تھا اور اس کا سبب کبر و غرور تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث ہے کہ جس آدمی کے دل میں ذرہ برابر بھی کبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا (صحیح مسلم، کتاب الایمان) البقرة
35 ٧٨: اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا، ان کو عزت دی، اور پھر ان کی بیوی کو ان کی پسلی سے پیدا کیا، تاکہ آم ان کے ذریعے سکون حاصل کریں، اور اللہ نے اپنی نعمت ان پر تمام کردی کہ دونوں کو حکم دیا کہ جنت میں رہیں اور اس کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری آیت میں فرمایا ان لک الا تجوع فیہا ولا تعری، وانک لا تظما فیھا ولا تضحی۔ اللہ نے آدم سے کہا کہ جنت میں نہ تمہیں بھوک لگے گی اور نہ تم ننگے ہوگے، نہ تمہیں پیاس لگے گی اور نہ گرمی (طہ : 118، 119) ٧٩: اللہ تعالیٰ نے آڈم کے لیے جنت کی ہر نعمت مباح کردی، سوائے اس درخت کے جس کا کھانا اللہ نے ان کے لیے ممنوع قرار دے دیا، تاکہ ان کے لیے اس ممنوع درخت کو کھانے کا کوئی عذر باقی نہ رہ جائے۔ اور یہ ممانعت اللہ کی طرف سے ان کا امتحان تھا اور اس درخت کے قریب ہونے سے منع کیا، اس سے کھانے کی حرمت میں مبالغہ مقصود ہے کہ اس کے قریب بھی نہ جاؤ۔ قرآن و سنت میں اس درخت کی تعیین نہیں آئی ہے، کسی نے کہا وہ گیہوں کا پودا تھا، کسی نے اسے انگور کا درخت کہا ہے، اور کسی نے انجیر کا، ممکن ہے انہی میں سے کوئی درخت ہو، بہرحال اس کے جان لینے سے سامع کو نہ کوئی مزید نفع پہنچ گا اور نہ اس کے نہ جاننے سے کوئی نقصان۔ اس لیے اس کرید میں نہیں پڑنا چاہیے۔ ٨٠: یہ دلیل ہے اس بات کی کہ آیت میں (نہی) تحریم کے لیے ہے۔ اس لیے کہ ممنوع درخت کو کھانے کا نتیجہ ظلم بتایا گیا ہے اور اس لیے بھی کہ اللہ کے اوامر و نواہی کو استحباب و کراہت پر محمول کرنا بغیر کسی ایسی دلیل کے جائز نہیں جو واضح طور پر بتاتی ہو کہ یہ امر یا نہی استحباب یا کراہت کے لیے ہے۔ البقرة
36 ٨١: شیخ الاسلام تقی الدین ابن تیمیہ (رح) اور متاخرین کی جماعت نے کہا ہے کہ ابلیس نے آڈم کے سامنے قسم کھائی اور متعدد طریقوں سے انہیں یقین دلایا کہ وہ ان کے لیے خیر خواہ ہے۔ اور آدم کو یہ گمان بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ کوئی جھوٹی قسم کھا سکتا ہے، اس لیے دھوکے میں پڑگئے اور گمان کرلیا کہ اگر اس درخت کا پھل کھا لیں گے تو جنت سے نہ نکلیں گے، اور یہ بھی انکے دل میں بات آگئی کہ اگرچہ اس میں یہ خرابی ہے کہ اللہ کی نافرمانی ہو رہی ہے، لیکن فائدہ بہت بڑا ہے کہ ہمیشہ کے لیے جنت کے مقیم ہوجائیں گے اور بعد میں اللہ سے معذرت کرلیں گے اور توبہ کر کے اپنا گناہ معاف کروالیں گے، اسی لیے انہوں نے معصیت کا ارتکاب کرلیا، اور یہی ہر اس مومن کی نیت ہوتی ہے جو شیطان کے پھندے میں آکر گناہ کرتا ہے، وہ سوچتا ہے کہ ابھی یہ گناہ کرلیتا ہوں، پھر توبہ کرلوں گا اور اللہ سے معافی مانگ لوں گا۔ چنانچہ شیطان ان کے پیچھے لگا رہا انہیں طرح طرح سے بہکاتا رہا ان کے دل و دماغ میں یہ بات ڈالتا رہا کہ وہ اس ممنوع درخت کو کھالینے کے بعد ہمیشہ کے لیے جنت میں رہنے لگیں گے اور کبھی اس سے نہ نکلیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں دوسری جگہ فرمایا ہے، آیت، وقاسمہما انی لکما لمن الناصحین، اور شیطان نے قسم کھائی کہ میں تم دونوں کا بہت بڑا خیر خواہ ہوں (الاعراف : ٢١) ٨٢:: یہ خطاب آدم، حوا اور شیطان تینوں کو ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ خطاب صرف آدم اور حوا کو ہو، کیونکہ وہ دونوں افزائش نسلِ انسانی کا ذریعہ تھے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سب سے بہترین دن جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم پیدا کیے گئے اور اسی دن جنت میں داخل کیے گئے اور اسی دن وہاں سے نکالے گئے (مسلم، نسائی) ٨٣: یعنی آدم اور ان کی اولاد، ابلیس اور اس کی اولاد کے دشمن ہوں گے، اور معلوم ہے کہ ہر شخص اپنے دشمن کو ہر ممکن طریقے سے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ کوشش کرتا ہے کہ اس کا دشمن ہر نعمت سے محروم ہوجائے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، آیت، ان الشیطان لکم عدو فاتخذوہ عدوا انما یدعو حزبہ لیکونوا من اصحاب السعیر۔ بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے، اس لیے تم اسے دشمن سمجھتے رہو، وہ تو اپنے گروہ والوں کو بلاتا ہے، تاکہ وہ سب جہنمی ہوجائیں (فاطر : ٦) اور دوسری جگہ فرمایا آیت افتتخذونہ وذریتہ اولیاء من دونی وھم لکم عدو بئس للظالمین بدلا، کیا پھر بھی تم اسے اور اس کی اولاد کو مجھے چھوڑ کے اپنا دوست بنا رہے ہو، حالانکہ وہ تمہارا دشمن ہے۔ ایسے ظالموں کا برا بدلہ ہے (الکہف : ٥٠) ٨٤: یعنی دنیاوی زندگی ختم ہونے تک زمین پر رہو گے، پھر دار آخرت کی طرف منتقل ہوجاؤ گے جس کے لیے تم پیدا کیے گئے ہو، اور جو تمہارے لیے بنایا گیا ہے۔ اس میں اشارہ ہے اس طرف کہ دنیا کی زندگی عارضی ہے، یہاں انسان کو اس لیے بھیجا گیا ہے تاکہ آخرت کے لیے تیار کرے۔ البقرة
37 ٨٥: وہ کلمات جو اللہ نے آدم کو سکھائے تاکہ ان کے ذریعہ اپنی توبہ کا اعلان کریں، یہ دعا تھی آیت ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا و ترحمنا لنکونن من الخاسرین۔ یعنی اے ہمارے رب ! ہم نے اپنے اوپر بہت ظلم کیا، اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہمارے حال پر رحم نہ کیا تو ہم بے خسارہ پانے والوں میں سے ہوں گے (الاعراف :23) حضرت ابن عباس (رض) (فتلقی ادم من ربہ کلمات) کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ آدم نے کہا : یا رب ! کیا تو نے مجھے اپنے ہاتھ سے نہیں بنایا؟ اللہ نے کہا : ہاں، آدم نے کہا : اگر میں توبہ کروں اور اپنی حالت درست کرلوں، تو کیا تو مجھے دوبارہ جنت میں لوٹا دے گا؟ اللہ نے کہا : ہاں، (حاکم) ٨٦: یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے دو نام جمع کردئیے ہیں، اس میں توبہ کرنے والے کے لیے ایک طرح کا وعدہ ہے کہ اللہ اس کی توبہ قبول کرے گا اور اس پر مہربان ہوگا۔ البقرة
38 ٨٧: آدم کے زمین پر چلے جانے کا ذکر دوبارہ اس لیے ہوا تاکہ اس کے بعد آنے والا حکم اس پر مرتب ہوسکے، اور یہاں مراد آدم کی اولاد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کی اولاد کو خطاب کر کے کہا کہ تم زمین پر رہو گے، اور ہم تمہاری ہدایت کے لیے کتابیں اتاریں گے اور انبیاء ورسل بھیجیں گے، تو جو لوگ میری بھیجی گئی ہدایت کی اتباع کریں گے، انہیں نہ دنیا میں کسی کھوئی ہوئی چیز کا غم ہوگا اور نہ آخرت میں اپنے انجام کے بارے میں کوئی خوف لاحق ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت میں فرمایا، آیت فمن اتبع ھدای فلا یضل ولا یشق، یعنی جو میری ہدایت کو مانے گا وہ نہ دنیا میں گمراہ ہوگا اور نہ آخرت میں اسے بدنصیبی لاحق ہوگی (طہ : ١٢٣) اور جو لوگ کفر کی راہ اختیار کریں گے اور ہماری آیتوں کو جھٹلائیں گے، ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا، جہاں وہ لوگ ہمیشہ کے لیے رہیں گے۔ ابو سعید خدری (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اہل جہنم، جنہیں اس میں ہمیشہ کے لیے رہنا ہوگا، وہ لوگ نہ اس میں مریں گے اور نہ زندہ ہی رہیں گے، لیکن کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کو ان کے گناہوں کی وجہ سے آگ میں ڈال دیا جائے گا، پھر ان کو موت لاحق ہوجائے گی، یہاں تک کہ کوئلہ ہوجائیں گے، اس کے بعد ان کے لیے شفاعت کی اجازت دی جائے گی۔ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے، اور یہاں ابن جریر طبری کی روایت کے الفاظ کا ترجمہ درج کیا گیا ہے) (فائدہ)۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ جنت جس سے آدم نکالے گئے تھے زمین پر تھی اور جنت سے نکل کر زمین پر جانے کا مطلب، ایک علاقہ سے دوسرے علاقے میں منتقل ہونا ہے اور اس کے عقلی اور نقلی دلائل پیش کیے ہیں جو قابل قبول نہیں۔ اکثر لوگوں کی یہ رائے ہے کہ اس جنت سے مراد وہی جنت ہے، جسے اللہ نے اپنے نیک بندوں کے لیے پیدا کیا۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ (رح) کہتے ہیں کہ اہل سنت والجماعت کا یہی قول ہے اور جو کوئی کہتا ہے کہ وہ جنت زمین پر ہندوستا یا جدہ یا کسی اور جگہ تھی، تو وہ ملحد اور بدعتی ہے۔ کیونکہ قرآن و سنت سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ فائدہ : ابن مسعود، ابن عباس (رض) اور جمہور علماء کا خیال ہے کہ شیطان نے آدم کو براہ راست اور روبرو جا کر بہکایا، اس کی دلیل قرآن کریم کی آیات ہیں جن سے یہ بات واضح طور پر سمجھ میں آتی ہے، شیطان نے آدم سے کہا، آیت یا آدم ھل ادلک علی شجرۃ الخلد، کیا میں تمہیں شجرہ خلد کا پتہ دوں (طہ : ١٢٠)۔ دوسری جگہ کہا آیت مانہاکما ربکما عن ھذہ الشجرۃ الا ان تکونا ملکین او تکونا من الخالدین۔ یعنی اللہ نے تم دونوں کو اس درخت سے اس لیے روکا ہے کہ تم دونوں فرشتے یا اس جنت میں رہنے والے نہ بن جاؤ، الاعرا : ٢٠۔ اور تیسری جگہ قرآن کریم ابلیس کی بات نقل کرتا ہے آیت انی لکما لمن الناصحین کہ میں تم دونوں کا بڑا ہی خیر خواہ ہوں۔ اور یہ باتیں تو روبرو گفتگو میں ہی ہو سکتی ہیں۔ اس لیے یہ خیال صحیح نہیں کہ شیطان نے آدم کے دل میں وسوسہ ڈالا تھا۔ فائہد : مفسرین نے ان آیتوں سے اور انہی جیسی دوسری آیتوں سے استدلال کیا ہے کہ ثواب و عقاب میں جن انسانوں کے مانند ہیں، اور انسانوں میں جس طرح جنتی اور جہنی ہوں گے، اسی طرح جنوں میں بھی ہوں گے کیونکہ اللہ کے اوامر و نواہی دونوں کو شامل ہیں۔ البقرة
39 البقرة
40 ٨٨: گذشتہ آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی پیدائش کی ابتدا کا ذکر کیا، پھر عام انسانوں کو اپنی بندگی کرنے کی دعوت دی، اس کے بعد اب ان آیتوں میں بطور خاص بنی اسرائیل کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جارہی ہے، کیونکہ وہ مدینہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے رہتے تھے اور زیادہ حقدار تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لاتے، کیونکہ تورات کے ذریعہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کی صداقت کو خوب جان گئے تھے۔ اس آیت سے لے کر آیت ١٤٢ تک بنی اسرائیل کا ہی ذکر ہے، کہیں تو اللہ تعالیٰ نے انہیں نرم لہجہ میں اسلام کی طرف بلایا ہے، ان پر اور ماضی میں ان کے آباء و اجداد پر اپنی نعمتوں کو ذکر کیا ہے، کہیں انہیں ڈرایا ہے، تو کہیں ان کے خلاف حجت قائم کر کے ان کی بد اعمالیوں پر انہیں ڈانٹ پلائی ہے، اور ان کے آباء واجداد کو جو سزائیں ملیں ان کا ذکر کیا ہے۔ اسرائیل، یعقوب (علیہ السلام) کا لقب ہے، اس لیے بنی اسرائیل سے مراد اولاد، یعقوب ہے، اللہ تعالیٰ نے یعقوب (علیہ السلام) کا ذکر کر کے ان کی اولاد یعنی یہود کو نیکی کی رغبت دلانی چاہی ہے کہ اے اللہ کے نیک بندے یعقوب کے بیٹو، اپنے باپ کے مانند نیک بنو۔ ٨٩: اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو گوناگوں نعمتیں دیں۔ ان کی ہدایت کے لیے بڑے بڑے انبیاء و رسل بھیجے کتابیں نازل کیں، فرعون اور اس کے لشکر سے نجات دی، زمین پر بادشاہت دی، پتھروں سے پانی کے دشمنے جاری کیے اور کھانے کے لیے من و سلوی اتارا، نبی کریم کے زمانے کے یہودیوں کو اللہ نے نصیحت کی کہ وہ اپنے آباء و اجداد پر کیے گئے احسانات کو یاد رکھیں، انہیں فراموش نہ کریں اور دین اسلام میں داخل ہوجائیں، تاکہ ان پر اللہ کا وہ عذاب نہ نازل ہو جو ماضی کے ان اولاد یعقوب پر نازل ہو، جنہوں نے احسان فراموشی کی، اور اللہ کی نعمتوں کو بھول گئے۔ اس لیے انعمت علیکم سے مراد انعمت علی آبائکم ہے۔ یعنی ان نعمتوں کو یاد کرو، جو اللہ نے تمہارے آباء و اجداد کو دیا تھا۔ ٩٠: یہاں دو عہدوں کا ذکر ہے، ایک وہ عہد جو اللہ نے بنی اسرائیل سے لیا، اور دوسرا وہ جو اللہ نے بنی اسرائیل سے کیا۔ بنی اسرائیل سے لیے گئے عہد کا ذکر دوسری آیتوں میں یوں آیا ہے۔ آیت ولقد اخذ اللہ میثاق بنی اسرائیل و بعثنا منہم اثنی عشر نقیبا وقال اللہ انی معکم لئن اقمتم الصلاۃ وآتیتم الزکاۃ وامنتم برسلی و عزرتموہم واقرضتم اللہ قرضا حسنا لاکفرن عنکم سیئاتکم ولا دخلنکم جنات تجری من تحتہا الانہار، اور اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد و پیمان لیا اور انہیں میں سے بارہ سردار ہم نے مقرر کیے اور اللہ نے فرما دیا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر تم نے نماز قائم کی اور زکاۃ ادا کی اور میرے رسولوں پر ایمان لائے اور ان کی مدد کرتے رہے، اور اللہ تعالیٰ کو عمدہ قرض دیتے رہے تو تمہارے گناہوں کو مٹا دوں گا اور تمہیں اس جنگ میں داخل کروں گا جس کے نیچے نہریں جاری ہیں (المائدہ : 12) اس عہد میں یہ بات بھی شامل تھی کہ وہ خاتم الانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں گے، جن کی تمام صفات اپنی کتاب تورات میں وہ پڑھ چکے ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے ان سے عہد کیا تھا کہ اگر انہوں نے اللہ سے کیے گئے عہد و پیمان کو پورا کیا تو اللہ انہیں جنت میں داخل کرے گا۔ البقرة
41 ٩١: ابن جریر نے اس کی تفسیر یوں کی ہے اے بنی اسرائیل کے وہ لوگو جنہوں نے مجھ سے کیے گئے عہد و پیمان کو ضائع کردیا، اور جنہوں نے میرے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلا دیا جن پر ایمان لانے کا عہد میں ان تمام کتابوں میں لیا تھا جو انبیائے بنی اسرائیل پر اتاری گئیں، مجھ سے ڈرو اور دیکھو آگاہ رہو کہ اگر تم لوگوں نے میرے رسول کی اتباع نہ کی اور قرآن کریم پر ایمان نہ لائے تو کہیں تمہیں بھی وہ عذاب نہ لاحق ہوجائے جو تمہارے ان اجداد کو لاحق ہوا جنہوں نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی، اور میرے رسولوں کی تکذیب کی۔ ٩٢: ابن جریر کہتے ہیں کہ اللہ نے انہیں قرآن کی تصدیق کا حکم دیا، اور تبایا کہ قرآن کی تصدیق در اصل تورات کی تصدیق ہے۔ اس لیے کہ اگر انہیں قرآن میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی تصدیق اور ان کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے، تو یہی بات انجیل و تورات میں بھی موجودہے، اس لیے اگر وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اتاری گئی کتاب کی تصدیق کرتے ہیں، تو گویا تورات کی تصدیق کرتے ہیں، اور اگر اس کی تکذیب کرتے ہیں تو گویا تورات کی تکذیب کرتے ہیں۔ ٩٣: یعنی اہل کتاب میں قرآن کریم کا سب سے اولین انکار کرنے والے نہ بنو، ورنہ کفار مکہ تو قرآن کا پہلے انکار کرچکے تھے، مدینہ منورہ کے یہودی بنی اسرائیل میں پہلے لوگ تھے، جن کو اللہ نے قرآن پر ایمان لانے کی دعوت دی، اور حق تو یہ تھا کہ وہ سب سے پہلے ایمان لاتے، کیونکہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات کو پہلے سے تورات کے ذریعہ جانتے تھے، لیکن انہوں نے کفر کی راہ اختیار کی اور قرآن اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پہلے منکر بن گئے۔ ٩٤: یعنی دنیا اور اس کی خواہشات کی خاطر (جو بہت ہی قلیل اور فانی ہیں) قرآن کریم اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار مت کرو، اور مجھ سے ڈرتے رہو، یعنی ایمان لے آؤ، حق کی اتباع کرو اور دنیا کی عارضی نعمتوں کے دھوکے میں نہ پڑو۔ البقرة
42 ٩٥: یہاں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو حق وباطل کو خلط ملط کرنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ کے بارے میں کتمانِ حق سے منع فرمایا ہے، اس لیے کہ ہونا تو یہ چاہئے کہ اہل علم واہل کتاب باطل کی تردید کریں اور حق کو ظاہر کریں، لوگوں کو بتائیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے سچے رسول ہیں، تاکہ ہدایت چاہنے والے ہدایت حاصل کریں، گمراہ لوگ حق کی طرف رجوع کریں اور سوسائٹی میں مخالفین حق کے خلاف حجت قائم ہو، کیوں کہ جو لوگ ایسا کریں گے وہی قوموں کے رہنما اور رسلوں کے نائب ہوں گے اور جو حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط کریں گے اور کتمانِ حق سے کام لیں گے، وہ جہنم کی طرف بلانے والے ہوں گے، اس لیے کہ لوگ دینی امور میں علماء کی ہی پیروی کرتے ہیں، اس لیے اے اولادِ یعقوب، تم اپنے لیے دو راہوں میں سے ایک راہ اختیار کرلو۔ البقرة
43 ٩٦: ابن جریر کہتے ہیں کہ اس آیت میں علمائے بنی اسرائیل اور منافقین بنی اسرائیل کو اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ اللہ کی طرف رجوع کریں، نماز پڑھیں، زکاۃ دیں، مسلمانوں کے ساتھ اسلام میں داخل ہوجائیں اور پورے طور پر اللہ کی بندگی اختیار کرلیں۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ وارکعوا مع الراکعین میں نماز باجماعت ادا کرنے کا حکم ہے اس سے ثابت ہوا کہ نماز باجماعت واجب ہے۔ البقرة
44 ٩٧: بنی اسرائیل کے بارے میں سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے اللہ نے فرمایا کہ تمہارے اندر ایک اور بہت ہی بری صفت ہے کہ تم لوگوں کو تو ایمان اور بھلائی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو، حالانکہ تم تورات پڑھتے ہو جس میں خیانت، ترک خیر اور قول و عمل میں تضاد پر بہت ہی شدید وعید آئی ہے، اس خصلت کی مزید برائی بیان کرنے کے لیے اللہ نے آخر میں کہا کہ کیا تمہارے پاس اتنی بھی عقل نہیں کہ قول وعمل کے تضاد کی برائی کو محسوس کرسکو ! البقرة
45 ٩٨: بنی اسرائیل کو گذشتہ آیتوں میں حب دنیا اور حب مال سے بچنے کی نصیحت کی گئی، جو بغیر صبر و ثبات کے حاصل نہیں ہوسکتی۔ اسی لیے اللہ نے اس آیت میں انہیں صبر اور نماز کی تلقین کی۔ صبر کے بغیر تو کوئی کار خیر وجود میں نہیں آسکتا۔ اور نماز کا لب لباب اللہ کے حضور دل کا جھکاؤ ہے جو ایمان و عمل کے میدان میں ثبات قدمی کے لیے سب سے بڑی مددگار ہے۔ ٩٩: جن کے دل کے اندر اللہ کے لیے جھکاؤ نہیں ہوتا، ان کے اوپر نماز بہت بھاری ہوتی ہے، اور جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں، نماز میں انہیں سکون ملتا ہے۔ البقرة
46 البقرة
47 100: نعمتوں کی دوبارہ یاد دہانی اس لیے کی گئی ہے تاکہ گذشتہ باتوں کی مزید تاکید کی جا سکے، اور آئندہ آیتوں میں آنے والے وعید شدید کا بنی اسرائیل کے کفرانِ نعمت کے ساتھ ربط پیدا کیا جائے ١٠١: نعمتوں کا بالمعموم ذکر کرنے کے بعد اب ایک خاص نعمت کا ذکر کیا گیا ہے اور خطاب اگرچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے یہود سے ہے، لیکن مراد ان کے آباء واجداد ہیں اور (عالم) سے مراد اس دور کا عالم ہے، اور فضیلت دینے سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے ان میں رسولوں کو بھیجا، کتابیں اتاریں، اور انہیں بادشاہت عطا کی۔ اس لیے آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ اے یہود مدینہ میں نے تمہارے آباء و اجداد کو ان کے دور کے دوسرے لوگوں پر فضیلت دی۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ یہی معنی مراد لینا ضروری ہے کیونکہ امت محمدیہ ان سے بلاشبہ افضل ہے، جیسا کہ اللہ نے فرمایا ہے آیت کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنھون عن المنکر وتومنون باللہ ولو امن اھل الکتاب لکان خیرا لہم، یعنی اے مسلمانو ! تم بہترین لوگ ہو جو پیدا کیے گئے ہو، لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو، اور برائیوں سے روکتے ہو، اللہ پر ایمان رکھتے ہو اور اگر اہل کتاب بھی ایمان لے آتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا (آل عمران : ١١٠) البقرة
48 ١٠٢: یہاں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو قیامت کے دن سے ڈرایا ہے کہ اگر تم لوگ میرے رسول اور اس پر نازل کردہ کتاب پر ایمان نہ لائے اور اسی حال میں قیامت کے دن ہمارا سامنا ہوا تو نہ کوئی رشتہ دار اس دن کام آئے گا، نہ کسی کی سفارش، اور نہ ہی عذاب سے جان بر ہونے کے لیے کوئی معاوضہ یا رشوت ہی قبول کی جائے گی، اور نہ کوئی تمہاری مدد کے لیے آگے آئے گا۔ ہر تعلق، ہر رشتہ داری اور ہر سفارش بے کار ثابت ہوگی، اس دن فیصلہ صرف اللہ کے اختیار میں ہوگا، اور بروں کو ان کی برائی کا اور اچھوں کو ان کی اچھائی کا دس گنا بدلہ دے گا۔ فائدہ : آیت میں شفاعت کی نفی کافروں کے لیے کی گئی ہے، جیسا کہ اللہ نے دوسری جگہ فرمایا ہے فما تنفعہم شفاعۃ الشافعین، یعنی کافروں کو کسی کی شفاعت کام نہ دے گی، المدثر، ٤٨۔ اور جہنمی کہیں گے فما لنا من شافعین، یعنی کوئی ہماری شفاعت کرنے والا نہیں۔ الشعراء، ١٠٠۔ مومنوں کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت ثابت ہے، یہی اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے، اور قرآن و سنت سے یہی ثابت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مومنین موحدین کے لیے شفاعت کریں گے، اور اللہ ان کی شفاعت قبول فرمائیں گے۔ البقرة
49 ١٠٣: اب بنی اسرائیل پر اللہ کی نعمتوں کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے۔ یہاں بھی خطاب اگرچہ یہود مدینہ سے ہے، لیکن مراد ان کے آباء و اجداد ہیں، اور آل فرعون سے مراد : فرعون، اس کا لشکر اور اس کے پیرو کار ہیں۔ اس آیت کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ جب یوسف (علیہ السلام) نے کنعان سے اپنے والدین، بھائیوں اور خویش و اقارب کو مصر بلالیا، تو انہیں بادشاہِ مصر کے حکم سے زرخیز زمین دی، ان میں کثرت سے اولاد ہونے لگی۔ یوسف (علیہ السلام) اور عزیز مصر کے انتقال کے بعد ان کی وقعت تو گھٹ گئی، لیکن افزائش نسل ہوتی رہی۔ آخر کار مصر کا ایک ایسا بادشاہ ہو جوا اسرائیلیوں کی کثرت دیکھ کر ڈر گیا اور اپنی قوم سے کہا کہ بنی اسرائیل ہم سے تعداد میں زیادہ اور شان و شوکت والے ہوگئے، یہ تمہارے لیے خطرے کی گھنٹی ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ ہمیں ہماری سرزمین سے بے دخل کردیں، اس لیے اس نے حکم دیا کہ انہیں سخت سے سخت کاموں میں لگا دیا جائے۔ اور قرآن کریم کے ذکر کردہ واقعے کے مطابق اس نے ایک خواب دیکھا جس کی تاویل اسے یہ بتائی گئی کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہوگا جس کے ذریعہ اس کی حکومت کا خاتمہ ہوجائے گا، اس لیے اس نے حکم دیا کہ بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والے ہر لڑ کے کو ذبح کردیا جائے، بنی اسرائیل ان پر یشانیوں سے گذرتے رہے، یہاں تک کہ موسیٰ (علیہ السلام) مبعوث ہوئے اور انہیں فرعون کے عذاب سے نجات دلایا۔ البقرة
50 ١٠٤: نجات دینے کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے، کہ موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے اپنی قوم کو لے کر رات کے وقت بحر قلزم کی طرف چل پڑے، فرعون نے ان کا پیچھا کیا اور اللہ کے فیسلہ کے مطابق بحرقلزم کے کنارے پر مڈبھیڑ ہوگئی، موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے اپنی لاتھی پانی پر ماری، پانی دو طرف ہوگیا، موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کو لے کر چل پڑے اور پیچھے فرعون اور اس کا لشکر بھی، موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کے ساتھ دوسرے کنارے پر پہنچ گئے، اور فرعون اپنے لشکر کے ساتھ جب بیچ میں پہنچا تو پانی نے ہر طرف سے آگھیر اور سبھی اس میں غرق ہوگئے۔ ابن عباس (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مدینہ آئے تو دیکھا کہ یہود محرم کی دس تاریخ کو روزہ رکھتے ہیں، آپ نے ان سے پوچھا کہ یہ کیسا روزہ ہے، تو انہوں نے کہا کہ آج ہی کے دن اللہ نے موسیٰ اور بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی تھی، اس لیے موسیٰ نے اللہ کے شکر کے طور پر روزہ رکھا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں موسیٰ کا تم سے زیادہ حقدار ہوں، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روزہ رکھا اور روزہ رکھنے کا حکم دیا (بخاری، مسلم، نسائی، ابن ماجہ) البقرة
51 البقرة
52 ١٠٥: فرعون اور اس کے پیروکاروں کی ہلاکت کے بعد، اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو جبلِ طور پر تورات عطا کرنے کے لیے بلایا، موسیٰ (علیہ السلام) وہاں چالیس دن چالیس رات رہے۔ مدت ختم ہونے کے بعد اللہ نے انہیں تورات دی، اس اثنا میں بنی اسرائیل نے بچھڑے کی پرستش شروع کردی، ان آیتوں میں انہیں یاد دلایا گیا ہے کہ ان کے اس جرم عظیم کو اللہ نے معاف کردیا کہ شاید وہ بطور شکر اس کی طرف رجوع کریں۔ البقرة
53 ١٠٦: اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے تورات دی یہ اللہ کی عظیم نعمت تھی، یہاں اسی نعت کی یاد دہانی ہے، تاکہ اس میں موجود بشارت کے مطابق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لا کر اور دین اسلام پر عمل کر کے گمراہی سے نجات حاصل کریں۔ آیت میں (کتاب) سے مراد یا تو تورات ہے جس کی ایک اہم صفت فرقان ہے، یعنی وہ حق و باطل کے درمیان فرق کرتی ہے، یا کتاب سے مراد تورات اور فرقان سے مراد وہ معجزات ہیں جو اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کفر و ایمان کے درمیان تفریق کرنے کے لیے دئیے تھے۔ البقرة
54 ١٠٧: گذشتہ آیتوں میں جس عفو و مغفرت کا ذکر ہوا اس کی تفصیل یہاں بیان کی گئی ہے۔ حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ بنی اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) سے پوچھا کہ ہمارے اس گناہ کی توبہ کیا ہے۔ تو موسیٰ نے کہا تم میں کا بعض بعض کو قتل کرے۔ چنانچہ انہوں نے چھریاں لے کر ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ جب ستر ہزار آدمی قتل ہوگئے تو اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو بذریعہ وحی اطلاع دی کہ انہیں حکم دو کہ اب قتل کرنا بند کردیں، جو قتل ہوگئے انہیں معاف کردیا گیا، اور جو باقی رہ گئے ان کی توبہ قبول کرلی گئی۔ ایک دوسری رائے یہ ہے کہ لاوی بن یعقوب کی اولاد نے بچھڑے کی پرستش نہیں کی تھی، انہیں حکم دیا گیا کہ وہ ان لوگوں کو قتل کریں جنہوں نے بچھڑے کی پرستش کی تھی، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، پھر اللہ تعالیٰ نے سب کی توبہ قبول کرلی۔ یہی رائے راجح معلوم ہوتی ہے، اس لیے کہ موحدین نے مشرکین کو اللہ کے حکم سے قتل کیا تھا۔ البقرة
55 ١٠٨: بنی اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ ہم جب تک اللہ کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں گے، تم پر ایمان نہ لائیں گے۔ بہت سے مفسرین کی یہ رائے ہے کہ یہ وہی ستر آدمی تھے جنہیں موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے ساتھ طور پر چلنے کے لیے چنا تھا، اور واپسی میں انہوں نے ر استہ میں یہ مطالبہ کیا تھا، یہ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف غایت درجہ کی جرات تھی جس کا خمیازہ ان کو بھگتنا پڑا کہ آسمان سے ایک کڑک والی بجلی اتری جس نے دیکھتے دیکھتے ان کی جان لے لی، لیکن اللہ نے اپنے فضل و کرم سے ان کو دوبارہ زندہ کردیا، یہ اللہ کا ان پر ایک اور احسان تھا۔ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا جاسکتا، لیکن مومنین صادقین آخرت میں اللہ کو دیکھ سکیں گے، جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ البقرة
56 البقرة
57 ١٠٩: اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ ان کافر عمالقہ کے خلاف جہاد کریں جو بیت المقدس پر قابض ہیں تو انہوں نے انکار کردیا، اور نہایت پست ہمتی کا ثبوت دیا، اللہ تعالیٰ نے بطور سزا انہیں میدان تیہ میں پھینک دیا، جہاں وہ چالیس سال تک بھٹکتے رہے۔ اس طویل مدت کے بعد یوشع بن نون (علیہ السلام) کے ساتھ وہاں سے نکلے، اور بیت المقدس کو فتح کیا، جب وہ لوگ میدان تیہ میں زندگی گذار رہے تھے تو اللہ نے ایک سفید بادل کو ان کے سروں پر لا کر ٹھہرا دیا تاکہ آفتاب کی تمازت سے بچے رہیں، اور کھانے کے (من و سلوی) دیا۔ من شبنم کی ماند ایک چیز تھی جو آسمان سے اترتی تھی اور درختوں اور پتھروں پر جم جاتی تھی، اور مزے میں شہد کی مانند میٹھی تھی، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کماۃ (سانپ کی چھتری)، من کی ایک قسم ہے جسے اللہ نے بنی اسرائیل کے لیے اتارا تھا، سلوی، بٹیر کے مشابہ ایک چڑھیا تھی۔ ١١٠: اللہ تعالیٰ نے تو من و سلوی جیسی نعمتوں کو ان کے لیے حلال بنا دیا تھا تاکہ کھائیں پئیں اور اللہ کی عبادت کریں، لیکن نافرمانی اور سرکشی ان کی سرشت بن چکی تھی، اظہار بے صبری وناراضگی، بے ادبی، شکوہ و شکایت اور اللہ کی ناشکری ان کا شیوہ ہوچکی تھی، اس لیے اللہ کے عذاب کے مستحق بنے البقرة
58 ١١١: بیت المقدس فتح ہوگیا، تو اللہ نے ان سے کہا کہ جب شہر کے دروازے پر پہنچو تو سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو، اور حطۃ کہتے جاؤ، یعنی اے اللہ ہمارے گناہوں کو معاف کردے، لیکن ان ظالموں نے بد باطن ہونے کے سبب سرکشی کی راہ اختیار کی، اور اپنے سرینوں کے بل حطۃ کی بجائے حبۃ فی شعرۃ کہتے ہوئے داخل ہوئے۔ چونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی غایت درجہ اہانت تھی، اس لیے اللہ نے انہیں طاعون میں مبتلا کردیا (بخاری ومسلم) البقرة
59 البقرة
60 ١١٢: یہ واقعہ بھی میدانِ تیہ میں پیش آیا، بنی اسرائیل نے پانی کا مطالبہ کیا، تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ سے دعا کی اللہ نے وحی کی کہ آپ اپنی لاٹھی پتھر پر مارئیے، پانی ابل پڑے گا، موسیٰ نے ایسا ہی کیا، چنانچ بارہوں قبائل بنی اسرائیل کے لیے الگ الگ بارہ چشمے جاری ہوگئے۔ البقرة
61 ١١٣: من و سلوی روزانہ کھا کھا کر جی بھر گیا، تو مصر کے زمانے کی چیزیں یاد آنے لگیں، اور موسیٰ (علیہ السلام) سے مطالبہ کیا کہ ہمیں تو کھانے کے لیے سبزی، ککڑی، لہسن، پیاز اور دال چاہئے، موسیٰ نے ڈانٹ پلائی، تم کیسے لوگ ہو کہ لذیذ اور پاکیزہ کھانے چھوڑ کر گھٹیاں قسم کے کھانوں کا سوال کرتے ہو، یہ چیزیں تو ہر شہر میں کثرت سے ملتی ہیں، اگر یہی تم کو چاہئے تو کسی شہر میں چلے جاؤ، یہ چیزیں اس قابل نہیں کہ انہیں تمہارے لیے اللہ سے اس چٹیل میدان میں مانگوں۔ جب بنی اسرائیل پر اللہ کی گوناگوں نعمتوں کا ذکر ہوچکا، اور اسی ضمن میں ان کی خباثتوں کا بھی ذکر آیا، تو اللہ نے ان کے کفر اور قتل انبیاء جیسے جرائم کا ذکر کر کے، ان کی تمام بد اعمالیوں کا اخری نتیجہ بیان کردیا کہ اللہ نے ان پر ہمیشہ کے لیے ذلت و مسکنت مسلط کردی، اس لیے وہ دنیا میں جب بھی رہے اور جس سرزمین پر بھی رہے، قوموں نے ان کو ذلیل کیا، اور وہ بذات خود ہمیشہ ذلیل بن کر رہے۔ اگر ان کے پاس دولت بھی آئی تو اس پر ذلت و مسکنت کی چادر پڑی رہی۔ البقرة
62 ١١٤: صابئین سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے یہود و نصاری کا دین چھوڑ دیا تھا، اور فرشتوں کی عبادت کرتے تھے۔ یہاں اس بات کی خبر دی گئی ہے کہ توبہ کا دروازہ یہود اور غیر یہود سب کے لیے کھلا ہوا ہے، چاہے گناہ ایسے ہوں جو اللہ کے غضب اور ذلت و مسکنت کا سب ہوں جیسے یہود کے گناہ تھے، توبہ کرلینے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کے بعد دنیا وآخرت میں انہیں بھی وہی اجر ملے گا جو دیگر مومنوں کو ملے گا۔ اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گذشتہ قوموں میں سے جن لوگوں نے اپنے اپنے زمانے کے نبی کی اتباع کی، ان کو اللہ اچھا بدلہ دے گا، اور یہی حال قیامت تک رہے گا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد سے قیامت تک جتنے لوگ آپ کی اتباع کریں گے، ان کو ابدی سعادت ملے گی اور کسی قسم کا غم و خوف انہیں لاحق نہیں ہوگا۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ اس آیت کے بعد آیت ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ وھو فی الاخرۃ من الخاسرین۔ نازل ہوئی، یعنی دین اسلام آجانے کے بعد دیگر تمام ادیان منسوخ ہوگئے۔ اور اس آیت میں یہود و نصاریٰ اور صائبین کے لیے جو اجر بتایا گیا ہے وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے کے لوگوں کے لیے ہے۔ آپ کے زمانے کے یہود و نصاری اور صابئین میں سے جو لوگ آپ پر ایمان لائے، انہی کو یہ حکم شامل ہوگا، جو لوگ آپ پر ایمان نہیں لائے ان کے لیے یہ وعدہ نہیں ہے۔ البقرة
63 ١١٥: یہود سے اللہ تعالیٰ کے خطاب کا باقی حصہ ہے، اللہ نے جب ان سے تورات اور اس کی تعلیمات کی حفاظت کا عہد و پیمان لینا چاہا تو اپنی قدرت کا مظاہرہ کرنے کے لیے طور پہاڑ کو ان کے سر کے اوپر اٹھا دیا، اور کہا کہ اسے پوری قوت اور مضبوطی کے ساتھ سنبھالو، اور اس کے اوامر و نواہی پر عمل پیرا ہونے کے لیے صبر سے کام لو۔ انہوں نے اس وقت عہد تو کرلیا، لیکن بعد میں اس کا کوئی خیال نہیں رکھا، اور اسے توڑ ڈالا، انجام تو یہ ہونا چاہئے تھا کہ اللہ کا عذاب ان کو پکڑ لیتا، لیکن اللہ نے ان پر رحم کیا اور ان کی رہنمائی کے لیے انبیاء و رسل بھیجے کہ شاید وہ راہ راست پر آجائیں۔ البقرة
64 البقرة
65 ١١٦: یہاں یہود کی ایک بستی والوں کی بدعہدی اور حیلہ سازی کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر ہفت کے دن مچھلی کا شکار حرام کردیا تھا۔ اس دن ان کی کی آزمائش کے لیے مچھلیاں زیادہ آتی تھیں۔ انہوں نے حیلہ سے کام لیا، ہفتہ کے دن مچھلیاں آکر ان کے جالوں اور تالابوں میں پھنس جاتی تھیں، بستی والے ہفتہ کے دن گذر جانے کے بعد ان کا شکار کرلیتے۔ اللہ نے انہیں حیلہ سازی اور بدعہدی کی یہ سزا دی کہ ان کی صورتوں کو بندر کی صورت میں بدل دیا۔ یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ سورۃ اعراف آیت ١٦٣ میں مذکور ہے۔ البقرة
66 البقرة
67 ١١٧: بنی اسرائیل کا ایک آدمی قتل کردیا گیا، مقتول کے ورثہ نے قصاص کا مطالبہ کیا، تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ایک گائے ذبح کرو، اور اس کا کوئی ٹکڑا لے کر مردہ کے جسم سے لگاؤ، وہ زندہ ہوجائے گا، اور قاتل کی خبر دے گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا، لیکن گائے مل جانے اور اسے ذبح کرنے سے قبل انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کس کس طرح جھٹلایا اور کہا کہ کیا تو ہمارا مذاق اڑا رہا ہے، اور پھر گائے کی صفات کی تفصیل میں اپنی کن کن کج فہمیوں کا ثبوت دیا، یہ ساری تفصیلات یہاں بیان کی گئی ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا احسان یاد دلایا ہے کہ ایک آدمی کے قتل کے بعد تمہارے درمیان اختلاف واقع ہوا تو خرق عادت کے طور پر مذبوح گائے کا ایک ٹکڑا اس مردہ کے جسے سے لگانے سے بول پڑا، اور قاتل کا نام بتا کر پھر مر گیا۔ ١١٨: دوسروں کا مذاق اڑانا نادانوں کی صفت ہے، اسی لیے اللہ کے نبی موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کے ذریعہ ایسی صفت سے پناہ مانگی۔ البقرة
68 ١١٩: کج روی اور اللہ کے رسول کو کثرت سوالات کے ذریعہ تنگ کرنا بنی اسرائیل کی فطرت تھی، اس واقعہ میں بھی انہوں نے اپنی کج روی کا ثبوت دیا، اور گائے کی عمر وغیرہ سے متعلق سوال کرنے لگے، اگر خاموشی کے ساتھ کوئی بھی گائے ذبح کردیتے تو کام بن جاتا، لیکن انہوں نے جب اپنے آپ پر سختی کی تو اللہ نے بھی ان پر سختی کی۔ البقرة
69 البقرة
70 البقرة
71 البقرة
72 البقرة
73 ١٢٠: مردہ آدمی ان کی آنکھوں کے سامنے زندہ ہوگیا اور قاتل کا نام بتا دیا، یہ واقعہ اس بات کی کھلی دلیل تھی کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہے۔ البقرة
74 ١٢١: اس چشم دید واقعہ کا تقاضا تھا کہ ان کے دلوں میں نرمی پیدا ہوتی، اور اللہ کی یاد میں مشغول ہوجاتے، لیکن ان کے دلوں کی سختی کی گواہی اللہ نے دے دی کہ وہ پتھر سے بھی زیادہ سخت ہیں اور ان کے دل کی سختی کی مثال پتھر کی سختی سے اس لیے دی کہ پتھر لوہے اور رانگے سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے، کیونکہ لوہا تو آگ میں پگھل جاتا ہے، پتھر نہیں پگھلتا، پھر اللہ نے بتایا کہ پتھر ان کے دلوں سے بہتر ہے، اس لیے کہ بعض پتھر ایسے ہوتے ہیں جن سے نہریں جاری ہوتی ہیں، بعض پھٹ جاتے ہیں اور ان سے چشمے جاری ہوجاتے ہیں، اور بعض پتھر تو ایسے ہوتے ہیں کہ اللہ کے ڈر سے اپنی جگہ سے لڑھکتے ہوئے نیچے آجاتے ہیں۔ البقرة
75 ١٢٢: یہود کے دلوں کی سختی بیان کرنے کے بعد، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خطاب کیا کہ کیا اب بھی تم لوگ امید کرتے ہو کہ یہ لوگ تمہارے دین میں داخل ہوجائیں گے؟ ان کے آباء و اجداد کی تاریخ یہ ہے کہ تورات کو سنتے تھے، اچھی طرح سمجھتے تھے اور پھر اسے بدل دیتے تھے، حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنا دیتے تھے حق کو باطل اور باطل کو حق بتاتے تھے۔ ان کا بھی حال ایسا ہی ہے۔ یہ اپنے آباء واجداد سے کسی طرح کم نہیں ہیں اس لیے ان سے کیسے امید کی جاسکتی ہے کہ یہ دین اسلام میں داخل ہوجائیں گے۔ البقرة
76 ١٢٣: منافقین اہل کتاب کا حال بیان کیا جا رہا ہے کہ جب وہ مسلمانوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم لوگ آپ ہی کی طرح مسلمان ہیں، لیکن جب آپس میں مل بیٹھتے ہیں اور کوئی دوسرا نہیں ہوتا تو ایک دوسرے کو تنبیہ کرتے ہیں کہ تم لوگ کیوں مسلمانوں کے سامنے اسلام و ایمان کا اظہار کرتے ہو اور کہتے ہو کہ ہم تو تمہاری طرح ہیں، یہ تو ہمارے خلاف ان کے لیے دلیل بن جاتی ہے، اور کہتے ہیں کہ ان یہودیوں نے اقرار کرلیا کہ ہم لوگ (یعنی مسلمان) جس دین پر ہیں وہ حق ہے، اور وہ لوگ (یعنی یہود) جس دین پر ہیں وہ باطل ہے، اور قیامت کے دن یہی لوگ اللہ کے سامنے ہمارے خلاف گواہی دیں گے اور کہیں گے کہ کیا تم لوگ دنیا میں ہمیں نہیں بتایا کرتے تھے کہ تمہاری کتابوں میں ہمارے دین اسلام اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کی گواہی موجود ہے، تو اس دن تمام مخلوق کے سامنے ہماری رسوائی ہوگی۔ البقرة
77 ١٢٤: علمائے یہود کے ذکر کے بعد ان کے عوام کا ذکر ہورہا ہے کہ کفر و ضلالت میں سبھی برابر ہیں، یہ لوگ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے تاکہ خود تورات کا مطالعہ کرتے، اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے دلائل کو سمجھتے اور ایمان لاتے، ان کا کل اثاثہ کچھ بے بنیاد تمنائیں تھیں جو انہوں نے اپنے علماء سے پایا تھا، وہ کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ انہیں معاف کردے گا، اس لیے کہ کہ ان کے انبیاء جن کی وہ اولاد ہیں، ان کے لیے اللہ کے یہاں شفاعت کریں گے۔ اس کے علاوہ بھی دیگر ایسی بے بنیاد تمنائیں ان کے دل و دماغ کی آماجگاہ تھیں جن کی ان کے پاس کوئی دلیل نہیں تھی اور جنہیں محض اپنے علماء کی تقلید میں اپنے ایمان کا حصہ بنا لیا تھا۔ البقرة
78 البقرة
79 ١٢٥: علمائے یہود کے لیے وعید کا ذکر ہورہا ہے جو تورات کی آیات اور اس کے احکام کو دنیا کی حقیر متاع کی خاطر بدل دیتے تھے، اور تحریف کردہ کلام کے بارے میں لوگوں کو باور کراتے تھے کہ یہ اللہ کا کلام ہے، اور اپنی ان حرکتوں کی وجہ سے ناجائز طور پر لوگوں پر دو قسم کا ظلم کرتے تھے، ان کا دین بدل دیتے تھے، اور ان کا مال بھی ناجائز طور پر کھاجاتے تھے، اسی لیے آیت میں دو بار ان کے لیے ویل کا ذکر آیا ہے، ویل ہے ان کے لیے، اس لیے کہ انہوں نے تورات کو بدلا، اور ویل ہے ان کے لیے اس لیے کہ لوگوں کا مال ناجائز طریقے پر کھا جاتے تھے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رح) کہتے ہیں کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان یہود علماء کی مذمت کی ہے جو تورات کی آیات کو بدل دیتے تھے لیکن دین اسلام آنے کے بعد ان لوگوں کو بھی شامل ہے جو بدعتوں کو صحیح ثابت کرنے کے لیے قرآن و سنت میں تحریف کرتے ہیں۔ اس میں ان یہود کی مذمت کی گئی ہے جو تورات کا علم نہیں رکھتے تھے صرف ان کے پاس چند بے بنیاد تمنائیں تھیں، اور اب اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو قرآن کریم میں غور وفکر نہیں کرتے صرف حروف کی تلاوت کرتے ہیں، اور وہ لوگ بھی شامل ہیں جو دنیاوی مقاصد حاصل کرنے کے لیے قرآن کریم کے خلاف کوئی دوسری بات اپنے ہاتھ سے لکھ کر لوگوں میں رائج کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی شریعت اور اللہ کا دین ہے، اور وہ لوگ بھی شامل ہیں جو قرآن و سنت کو چھپاتے ہیں، تاکہ ان کا مخالف حق بات پر ان سے استدلال نہ کرے۔ البقرة
80 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہود کے ایک اور جرم کا ذکر کیا ہے، ان کا دعوی ہے کہ وہ لوگ آخرت میں جہنم میں صرف تھوڑی مدت کے لیے داخل ہوں گے، یعنی اس میں ہمیشہ کے لیے نہیں رہیں گے۔ ابن عباس اور مجاہد کی روایت ہے، یہود کہا کرتے تھے کہ دنیا کی عمر سات ہزار سال ہے، اور ہم لوگ ہر ہزار سال کے مقابل ایک دن کے لیے عذاب میں مبتلا ہوں گے، ابن عباس (رض) کی ایک دوسری روایت ہے کہ یہود کہا کرتے تھے کہ ہم لوگ صرف اتنی ہی مدت عذاب میں مبتلا ہوں گے، جتنی مدت بچھڑے کی عبادت کی تھی، یعنی چالیس دن، پھر عذاب کا سلسلہ ختم ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس زعم باطل کی تردید کی، اور کہا کہ کیا تم لوگوں نے اللہ سے اس کے لیے کوئی عہد و پیمان لے رکھا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ اللہ پر افترا پردازی ہے۔ البقرة
81 ١٢٧: اس آیت میں ان کے گذشتہ دعوی کی تردید ہے کہ وہ آگ میں ہمیشہ کے لیے نہیں رہیں گے۔ اللہ نے فرمایا کہ جس آدمی کے گناہ اسے ہر چہار جانب سے گھیرے میں لے لیں، حتی کہ اس کے پاس کوئی نیکی باقی نہ رہے تو اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا، جہاں وہ ہمیشہ کے لیے رہے گا، اور یہی حال یہود کا ہے ان کے گناہوں نے بھی انہیں ہر طرف سے گھیر لیا، اس لیے وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہیں گے۔ اس آیت کریمہ میں سیئۃ اور خطیئۃ سے مراد شرک اور کفر ہے، اور اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ آیت یہود کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ دوسری دلیل اللہ کا قول واحاطت بہ خطیئتہ ہے، یعنی جس کے گناہوں نے اسے گھیر لیا ہو، اور یہ گناہ شرک ہے، اس لیے کہ مومن و موحد کا گناہ اسے ہر چہار جانب سے احاطہ نہیں کرپاتا، اسی لیے اہل سنت والجماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ جہنم میں ہمیشہ کے لیے صرف کافرو مشرک ہی رہیں گے، گناہ گار موحدین جہنم سے نکال دئیے جائیں گے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت سے یہی ثابت ہے۔ البقرة
82 قرآن کریم کا یہ طریقہ ہے کہ گناہگاروں کے لیے وعید کے بعد نیک لوگوں کو جنت کی خوشخبری دیتا ہے، تاکہ اللہ کا عدل و انصاف ظاہر ہو کہ اگر وہ کفر پر اصرار کرنے والوں کو ہمیشہ کے لیے جہنم میں ڈال دے گا، تو ایمان پر اصرار کرنے والوں کو ہمیشہ کے لیے جنت اور اس کی بے بہا نعمتوں سے نوازے گا۔ البقرة
83 ١٢٩: یہاں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کے یہودیوں کو وہ باتیں یاد دلائی جا رہی ہیں جن کا اللہ نے ان کے آباء واجداد کو حکم دیا تھا، اور جن کے کرنے کے لیے ان سے عہد و پیمان لیا تھا، لیکن وہ ایسی سخت دل قوم تھی کہ اس نے کبھی بھی کسی عہد و پیمان کا خیال نہ رکھا، اور سوائے چند لوگوں کے پوری قوم نے بد عہدی کی۔ ١٣٠: اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے اس بات کا عہد لیا تھا کہ وہ صرف اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ دوسروں کو عبادت میں شریک نہ بنائیں گے۔ اور اس بات کا عہد لیا تھا کہ والدین کے ساتھ احسان و اکرام کا سلوک کریں گے اس میں والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی خدمت و اطاعت کی تمام صورتیں داخل ہیں۔ اور غایت درجہ کی تاکید پیدا کرنے کے لیے اللہ نے توحید اور شرک سے براءت کا حکم دینے کے بعد، والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا، یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کسی کام کا حکم دینا اس کی ضد سے ممانعت کو شامل ہوتا ہے، جب والدین کے ساتھ احسان کا حکم دیا گیا تو گویا اس کی ضد ان کے ساتھ بد سلوکی سے منع کیا گیا جو جرمِ عظیم ہے، اور ان کے ساتھ حسن سلوک چھوڑ دینے سے بھی منع کیا گیا جو حرام ہے اور یہی بات رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں کے بارے میں بھی کہی جائے گی کہ ان کے ساتھ بدسلوکی جرم اور ترک حسن سلوک حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بھی سورۃ نساء میں ایسا ہی حکم دیا ہے، فرمایا وَاعْبُدُوا اللَّہَ وَلا تُشْرِکُوا بِہِ شَیْئًا وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا وَبِذِی الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِینِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبَی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِیلِ وَمَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ إِنَّ اللَّہَ لا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالا فَخُورًا (النساء :36)۔ اور اللہ کی عبادت کرو، اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو، اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں، اور رشتہ دار پڑوسی، اور اجنبی پڑوسی کے ساتھ، اور پہلو سے لگے ہوئے دوست، اور مسافر، اور غلاموں اور لونڈیوں کے ساتھ، بے شک اللہ اکڑنے والے اور بڑا بننے والے کو پسند نہیں کرات۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ امت اسلامیہ نے ان عہود و مواثیق کا دوسری امتوں کے مقابلے میں زیادہ خیال کیا، صحیحین میں عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایت ہے، میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا : وقت پر نماز ادا کرنا، میں نے پوچھا پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا : والدین کے ساتھ حسن سلوک، میں نے پوچھا پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا : اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ ایک دوسری صحیح حدیث میں ہے، ایک آدمی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ میں کس کے ساتھ حسن سلوک کرو؟ تو آپ نے فرمایا : اپنی ماں کے ساتھ، کہا : پھر کس کے ساتھ؟ آپ نے فرمایا : اپنی ماں کے ساتھ، کہا : پھر کس کے ساتھ؟ آپ نے فرمایا : اپنے باپ کے ساتھ، پھر بالترتیب جو تمہارے قریبی رشتہ دار ہوں۔ ١٣١: یتیم اسے کہتے ہیں جس کا باپ بلوغت سے پہلے مر چکا ہو، آیت میں یتیم کے ساتھ اچھے برتاؤ کا حکم دیا گیا ہے، اور یہ شرط نہیں لگائی گئی ہے کہ وہ فقیر و محتاج ہو، معلوم ہوا کہ اس میں ہر یتیم داخل ہے، (مسکین) سے مراد وہ ہے جو کسب معاش سے عاجز ہو۔ ١٣٢: لوگوں کے ساتھ اچھی بات کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ امام حسن بصری کہتے ہیں کہ اس میں لوگوں کو اچھائی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا بدرجہ اولی شامل ہے، کلمہ (الناس) سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس حکم میں سبھی لوگ حتی کہ کفار بھی شریک ہیں۔ اگر مخاطب مسلمان ہے تو اسے سلام کیا جائے اور ہنستے چہرے کے ساتھ بات کی جائے اور اگر کافر ہے تب بھی اس کے ساتھ اچھے انداز میں گفتگو کی جائے، کیونکہ مسلمان بد زبان، گالی گلوچ دینے والا اور جھگڑا لو نہیں ہوتا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے، چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھی حقیر نہ جانو، چاہے نیکی یہی ہو کہ تم اپنے بھائی کے ساتھ مسکراتے چہرے کے ساتھ ملو، (مسلم، ترمذی) ١٣٣: بنی اسرائیل نے نقض عہد کیا اور مذکورہ اعمالِ صالحہ کی ادائیگی میں ناکام رہے، سوئے چند لوگوں کے جنہوں نے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کی، جیسے عبداللہ بن سلام اور ان کے وہ ساتھی جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئے تھے۔ اس میں غالبا اس حکمت کا بیان بھی مقصود ہے کہ کسی قوم میں چند صالح افراد کا وجود عذاب الٰہی سے مانع نہیں ہوتا۔ ١٣٤: یہود کی بری عادت کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ کی اطاعت سے اعراض اور اس سے کیے گئے عہد و پیمان کو توڑنا ان کی سرشت میں داخل ہے البقرة
84 ١٣٥: اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے تورات میں یہ عہد لیا تھا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو قتل نہیں کریں گے، گھروں سے نہ نکالیں گے، اور غلام نہ بنائیں گے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے یہود مدینہ کو وہی عہد یاد دلایا جا رہا ہے، اور ان سے کہا جا رہا ہے کہ تم لوگوں نے اس عہد کا پاس نہ رکھا، ایک دوسرے کو قتل کیا اور ایک گروہ کو ان کے گھروں سے نکال دیا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ اوس و خزرج والے عہد جاہلیت میں بت پرست لوگ تھے، اور آپس میں جنگ کرتے رہتے تھے قبیلہ بنو قینقاع اور قبیلہ بنو نضیر خزرج کے حلیف ہوتے تھے، اور بنو قریظہ اوس کے ج، جب لڑائی چھڑتی تھی تو ہر فریق اپنے حلیف کا ساتھ دیتا تھا، اور یہود جہاں اپنے دشمنوں کو قتل کرتے تھے، اپنے حریف عربوں کے حلیف یہودیوں کو بھی قتل کرتے تھے، ان کو گھروں سے نکال دیتے تھے، اور تمام مال و متاع لوٹ لیتے تھے، حالانکہ ایسا کرنا تورات میں ان پر حرام قرار دیا گیا تھا، اور جب جنگ کا بادل چھٹ جاتا تو تورات کے ایک حکم پر عمل کرتے ہوئے غالب فریق کے پاس سے یہودی قیدیوں کو چھڑا کر آزاد کردیتے تھے۔ ان کے اسی مبغوض عمل کی وجہ سے اللہ نے ان کے اوپر دنیا میں ذلت و رسوائی مسلط کردی، اور اپنے رسول کو ان کے خلاف ابھارا جس کے نتیجہ میں قتل، قید و بند اور جلا وطنی کی مصیبتوں میں مبتلا ہوئے اور آخرت میں بھی شدید عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ یہود کے اسی خبث باطن کی وجہ سے کہ تورات کا جو حکم اپنی خواہش کے مطابق پایا بیان کیا، اور جسے چاہا چھپا دیا، تورات اور اس میں موجود احکام اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات، آپ کی بعثت اور ہجرت سے متعلق خبروں کے بارے میں ان پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ البقرة
85 البقرة
86 ١٣٦: اللہ تعالیٰ نے تورات کے بعض احکام پر ان کے عمل نہ کرنے کا سبب یہ بتایا کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دی سوچا کہ اگر حلیفوں کی مدد نہ کی تو دنیا عار دلائے گا، اسی لیے عار کے مقابلے میں عذاب نار کو قبول کرلیا۔ البقرة
87 ١٣٧: بنی اسرائیل کے بعض دوسرے جرائم کا ذکر کیا جا رہا ہے کہ اللہ نے انہیں تورات دی جسے بدل ڈالا، موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ان میں دیگر انبیاء ورسل بھیجے تاکہ تورات کو نافذ کریں، لیکن ان کے ساتھ بد ترین معاملہ کیا، ان کو جھٹلایا اور کتنوں کو قتل کیا، اور آخر میں عیسیٰ (علیہ السلام) کو مبعوث کیا، جنہوں نے اللہ کے حکم سے تورات کے بعض احکام میں تبدیلی کی، تو بنی اسرائیل نے ان کو جھٹلایا، اور ان کے خلاف حسد و عناد کا شیوہ اختیار کیا، انبیاء کے ساتھ ان کا ایسا معاملہ اس لیے رہا کہ ان کی خواہشات نفس کے مطابق ان کی باتیں نہ ہوتیں تھیں، اور انہیں تورات کے صحیح احکام پر عمل کرنے کی دعوت دیتے تھے۔ ١٣٨: (بینات) سے مراد وہ معجزے ہیں جو اللہ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو دئیے، اور جن کا ذکر آل عمران اور المائدہ میں آیا ہے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرتے تھے۔ مٹی سے بنے ہوئے چڑیا کے مجسمے پھونک مارتے تھے تو اللہ کے حکم سے اڑنے لگتی تھی، مادر زاد نابینا اور سفید داغ کے مریض پر ہاتھ پھیرتے تھے تو مریض شفایاب ہوجاتا تھا، لوگوں کو بہت سی غیب کی باتیں بتا دیا کرتے تھے، انہوں نے دعا کی اور آسمان سے لوگوں کے لیے کھانا اتر آیا، اور سب سے بڑا معجزہ انجیل کا نزول تھا۔ ١٣٩: روح القدس سے مراد جبریل (علیہ السلام) ہیں، ابن مسعود اور ابن عباس کا یہی قول ہے اور حضرت عائشہ کی حدیث (اللہم اید حسان بروح القدس) سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ اس حدیث کی بعض روایتوں میں آیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حسان سے کہا اھجہم، اوھاجہم، وجبریل معک۔ یعنی کفار کی ہجو بیان کرو، جبریل تمہارے ساتھ ہیں۔ البقرة
88 ١٤٠: جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہود مدینہ کو دعوت اسلام دی تو انہوں نے آپ کو ناامید کرنے کے لیے تاکہ دوبارہ ان کو دعوت نہ دیں، یہ بات کہی، حضرت ابن عباس (رض) سے آیت کا معنی یوں مروی ہے، انہوں نے کہا کہ ہمارے دلوں کے اوپر پردے پڑے ہوئے ہیں، اس لیے تمہاری بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی، ہمارے اوپر محنت نہ کرو۔ حضرت ابن عباس (رض) سے دوسرا قول یہ مروی ہے کہ ” یہود نے کہا، ہمارے دل علم کے مخزن ہیں۔ یہ پہلے سے ہی علم و معرفت سے بھرے ہوئے ہیں، اب ان میں علم محمد کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے“ کہ اللہ نے ان کے قول کی تردید کی اور کہا کہ ایسی بات نہیں کہ ان کے دل قبول حق کی صلاحیت نہیں رکھتے، بلکہ اللہ نے ان کے کفر و عناد کی وجہ سے ان کے دلوں پر لعنت بھیج دی ہے، اور ان پر مہر لگا دی ہے، اسی لیے ان کا حال یہ ہے کہ تورات کے بہت ہی تھوڑے احکام پر ایمان رکھتے ہیں۔ البقرة
89 ١٤١: عبداللہ بن عباس (رض) وغیرہ سے مروی ہے کہ یہود جزیرہ عرب میں ذلت و مسکنت کی زندگی گذار رہے تھے، اس لیے وہ اپنے لیے ایک طرح کی قوت حاصل کرنے کے لیے بعض قبائل عرب کے حلیف بن کر رہنا پسند کرتے تھے، اور جب اوس و خزرج والے ان پر زیادتی کرتے تو کہتے کہ عنقریب آخری نبی مبعوث ہونے والا ہے، ہم اس کے ساتھ مل کر تم سے جنگ کریں گے اور غلبہ حاصل کریں گے، لیکن جب اللہ نے اس آخری نبی کو عربوں میں مبعوث کیا تو حسد کے مارے کہ یہ نبی بنی اسرائیل میں سے کیوں نہ ہوا، ان پر ایمان لانے سے انکار کردیا۔ عبداللہ بن سلام نے اپنے اسلام لانے کے واقعہ میں یہودیوں کو خطاب کر کے کہا تھا کہ اے قوم یہود، اللہ سے ڈرو، اس اللہ کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہٰں، تم جانتے ہو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور دین حق لے کر آئے ہیں (بخاری)۔ ١٤٢: یہود کے اس صریح کفر اور انکار حق کی وجہ سے اللہ نے ان پر لعنت بھیج دی۔ یہاں (الکافرین) سے مراد یہود مدینہ ہیں۔ البقرة
90 ١٤٣: بہت ہی بری چیز تھی جس کے عوض یہود نے اپنی جانوں کو ہلاکت و بربادی میں ڈال دیا، صرف حسد اور نسلی تعصب کی بنیاد پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا یقین رکھتے ہوئے ان پر ایمان نہ لائے، اور اللہ کے ایک غضب کے بعد دوسرے غضب کے مستحق ہوئے، اللہ کا پہلا غضب ان پر اس وقت اترا جب انہوں نے صرف حسد کی بنیاد پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے سے انکار کردیا، اور چونکہ انہوں نے صرف کبر و حسد کی وجہ سے ایسا کیا، اس لیے غضب الٰہی کے ساتھ جہنم کا رسوا کن عذاب ان کا انتظار کر رہا ہے، جو تکبر کرنے والوں کا ٹھکانا ہے۔ اللہ نے فرمایا ان الذین یستکبرون عن عبادتی سیدخلون جہنم داخرین، کہ جو لوگ میری عبادت سے تکبر کی وجہ سے اعراض کرتے ہیں۔ وہ جہنم میں ذلیل و رسوا ہو کر داخل ہوں گے۔ (غافر : ٦٠) البقرة
91 ١٤٤: جب یہود مدینہ سے کہا جاتا کہ اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ پر جو کتاب اتاری ہے، اس پر ایمان لے آؤ، تو وہ کہتے کہ ہم تو صرف تورات پر ایمان رکھتے ہیں، یعنی قرآن کریم کا انکار کردیتے، جو ان کی تورات کی تصدیق کرتا ہے۔ اس کے بعد اللہ نے ان کے قول و عمل میں تضاد اور تباین کو بیان کیا کہ اگ تم اور تمہارے آباء واجداد اپنے دعوی میں صادق ہو کہ تم لوگ تورات پر ایمان رکھتے ہو تو پھر انبیاء کو کیوں قتل کرتے تھے، جو تورات کے احکام نافذ کرنے کے لیے بھیجے جاتے تھے؟ حقیقت یہ ہے کہ تم اپنے نفس کے غلام ہو اور صرف اپنی خواہشاتِ نفس کی پرستش کرتے ہو۔ البقرة
92 دعائے ایمان میں یہود کی کذب بیانی پر دلیل قائم کرنے کے بعد، اس آیت میں یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے توحید پر قائم رہنے اور شرک سے دور رہنے کا عہد لیا تھا، لیکن جب موسیٰ (علیہ السلام) اپنے رب سے سرگوشی کرنے کے لیے طور پہاڑ پر گئے تو انہوں نے بچھڑے کی پرستش شروع کردی۔ آیت میں (بینات) سے مراد وہ نشانیاں اور دلائل ہیں جو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے نبی اور رسول ہونے کے ثبوت میں پیش کیے تھے۔ جیسے طوفان، ٹڈی، جوئیں، مینڈک، خون، عصا، ید بیضا، سمندر میں راستہ، پتھر سے چشموں کا جاری ہونا اور من و سلوی وغیرہ۔ البقرة
93 ١٤٦: اس سے بھی بڑا ان عناد اور نفس پرستی یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں یبت پیدا کرنے کے لیے طور پہاڑ کو ان کے سروں کے اوپر اٹھا دیا، اور ان سے کہا کہ تورات کو مضبوطی کے ساتھ تھام لو، اور اس میں موجود اوامر و نواہی کو غور سے سنو اور ان پر عمل کرو، تو انہوں نے کہا کہ ہم نے تمہاری بات سن لی اور تمہارے حکم کی نافرمانی کی، اس آیت کی تفسیر اسی سورت کی آیت 63، 64 میں گذر چکی ہے۔ ١٤٧: اس میں انتہائی درجہ کا مبالغہ ہے کہ ان کے کفر و عناد کی ایک سزا اللہ نے ان کو یہ دی کہ بچھڑے کی محبت ان کی گھٹی میں پڑگئی۔ ١٤٨: ان کا دعوی تھا کہ وہ تورات پر ایمان رکھتے ہیں۔ اللہ نے ان کے دعوائے ایمان پر نقد کرتے ہوئے کہا کہ اگر تمہارا ایمان انہی برے کاموں کا حکم دیتا ہے جو تم کرتے آرہے ہو، تو تمہارا ایمان تمہیں بڑی بری باتوں کا حکم دیتا ہے، اس میں یہود کے ایمان کی نفی ہے، اس لیے کہ ایمان اعمال قبیحہ کا حکم نہیں دیتا۔ البقرة
94 ١٤٩: یہود دعوی کرتے تھے کہ جنت صرف ان کے لیے ہے، دوسرے لوگ اس میں داخل نہیں ہوں گے، اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا کہ اگر تم سچے ہو تو موت کی تمنا کرو تاکہ تم جلد از جلد دنیا کی پریشانیوں سے نجات پاکر جنت کی راحتوں کو پالو، ابن جریر نے یہی تفسیر بیان کی ہے۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ آیت میں دعوت مباہلہ ہے،۔ اور ابن عباس (رض) سے یہی مروی ہے۔ اس قول کے پیش نطر آیت کی تفسیر یوں ہوگی کہ اے میرے رسول ! آپ یہودیوں سے کہئے کہ اگر تم اپنے دعوی میں سچے ہو تو دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ دونوں جماعتوں میں سے جھوٹی جماعت کو موت دے دے، چنانچہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے ایسی دعا کرنے کو کہا تو انہوں نے انکار کردیا، کیونکہ انہیں اپنے گناہوں کا علم تھا، اور اس کی خبر خود قرآن کریم نے دے دی کہ وہ ایسا کبھی بھی نہیں کریں گے۔ امام بخاری وغیرہ نے ابن عباس (رض) سے مرفوعاً روایت کی ہے کہ اگر اس دعوت مباہلہ کے بعد یہود موت کی تمنا کرتے تو سب کے سب مرجاتے، اور جہنم میں اپنا ٹھکانا اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے۔ البقرة
95 ١٥٠: وہ بھلا موت کی تمنا کیسے کرسکتے تھے، وہ تو طول عمر کی حد درجہ خواہش رکھتے تھے، کیونکہ موت کے بعد انہیں اپنے برے انجام کا پتہ تھا، وہ تو چاہتے تھے کہ جتنا دن ہوسکے موت ان سے ٹلتی رہے، تاکہ عذاب سے بچے رہیں، وہ تو مشرکین سے بھی زیادہ زندگی کے خواہاں تھے، جن کے پاس آسمانی کتاب نہ تھی، اور جو موت کے بعد دوبارہ زندگی پر یقین نہیں رکھتے تھے، اسی لیے دنیا میں لمبی عمر کی خواہش رکھتے تھے۔ مجاہد، یود احدھم لو یعمر الف سنۃ، کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ گناہ نے طول عمر کی خواہش بڑھا دی تھی، ابن عباس (رض) وما ھو بمزحزحہ من العذاب ان یعمر، کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ ان کی یہ خواہش انہیں عذاب سے نہیں بچا سکتی۔ البقرة
96 البقرة
97 ١٥١: مفسرین کا اجماع ہے کہ یہ آیت یہود کے جواب میں نازل ہوئی تھی جنہوں نے کہا تھا کہ جبریل ان کا دشمن، اور میکائیل ان کا دوست ہے، لیکن اس کے سبب کی تعیین میں ان کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس کا سبب ایک مناظرہ تھا جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے بارے میں آپ اور یہود کے درمیان ہوا تھا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ : کچھ یہود آپ کے پاس آئے اور کہا کہ ہم آپ سے چند ایسے سوالات کرنا چاہتے ہیں جن کے جوابات نبی کے علاوہ کوئی نہیں دے سکتا۔ آپ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے، لیکن تم لوگ یہ عہد کرو کہ اگر میں تمہارے سوالات کے جوابات صحیح صحیح دے دئیے تو تم لوگ اسلام قبول کرلو گے، انہوں نے کہا : ہاں، چنانچہ آپ نے ان تمام سوالات کے صحیح صحیح جوابات دے دئیے (جن کی تفصیل تفسیر اور حدیث کی کتابوں میں موجود ہے) اور یہود ان کی صحت کا اعتراف کرتے گئے، آخر میں انہوں نے پوچھا کہ فرشتوں میں آپ کا دوست کون ہے؟ آپ نے فرمایا : جبرئیل، اللہ نے جتنے بھی انبیاء بھیجے ان سب کے دوست جبرئیل تھے، یہ سن کر یہود نے کہا، پھر ہم اور آپ اکٹھے نہیں ہوسکتے، اگر کوئی اور فرشتہ ہوتا تو ہم آپ کی اتباع کرتے اور تصدیق کرتے، آپ نے پوچھا کیا وجہ ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ تو ہمارا دشمن ہے۔ تب یہ آیت نازل ہوئی۔ بعض دوسرے لوگوں نے کہا ہے کہ یہ مناظرہ عمر بن خطاب (رض) اور یہود کے درمیان نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں ہوا تھا، حافظ ابن کثیر نے اسے تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے، اور کہا ہے کہ اس کی روایت کی سند عمر اور شعبی کے درمیان منقطع ہے۔ آیت کی تفسیر یہ ہے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان یہودیوں سے کہہ دیجئے جو گمان کرتے ہیں کہ وہ آپ پر اس لیے ایمان نہیں لاتے کہ آپ کے دوست جبرئیل ہیں کہ تمہارا یہ خیال بکواس ہے، اور کبر و عناد پر مبنی ہے، اس لیے کہ جبرئیل اللہ کے پیغامبر ہیں، اور اللہ کے حکم سے آپ کے قلب مبارک پر قرآن اتارتے ہیں، جو گذشتہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے، اور جو مومنوں کے لیے ہدایت و بشارت ہے، جبرئیل سے عداوت تو اللہ، اس کے فرشتوں اور اس کے تمام رسولوں سے عداوت ہے، اس لیے کہ جبرئیل سے ان کی عداوت اس حق کی وجہ سے ہے جو وہ اللہ کی طرف سے تمام رسولوں پر نازل کرتے رہے ہیں۔ حضرت امام بخاری (رح) نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث قدسی ہے (جو میری کسی دوست سے عداوت کرے گا اسے میں جنگ کی خبر دیتا ہوں) اور جس کا دشمن اللہ ہوگا اس کی دنیا و آخرت دونوں برباد ہوجائے گی، اسی لیے اللہ نے جبرئیل کے دشمنوں کے خلاف اس آیت میں اپنے غضب کا اظہار کیا ہے۔ البقرة
98 البقرة
99 ١٥٢: آیات بینات، سے مراد قرآن کریم کی وہ آیتیں ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے یہود کے مخفی علوم و اسرار، بنی اسرائیل کے آباء واجداد کی خبریں، اور تورات اور ان کی دیگر کتب سماویہ کی وہ باتیں بیان کی ہیں، جنہیں ان کے علماء کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا، اور جنہیں قدیم و جدید یہودیوں نے بدل ڈالا تھا۔ ان آیات کے سننے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آتے، جنہوں نے کسی آدمی سے کچھ سیکھے بغیر انہیں ان باتوں کی اطلاع دی، لیکن وہ اس نعمت سے محروم رہے۔ آیت میں الفاسقون سے مراد یہود ہیں۔ البقرة
100 ١٥٣: اس میں اظہار تعجب ہے ان کی خبیث عادت پر کہ جب بھی انہوں نے اللہ سے کوئی عہد کیا تو اسے توڑ ڈالا، اور ایک قسم کی تسلی ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے کہ اگر وہ قرآن کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں، یہ تو ان کی اور ان کے بڑوں کی پرانی عادت رہی ہے کہ ہمیشہ ہی اللہ کی نشانیوں کا انکار کرتے رہے ہیں۔ البقرة
101 ١٥٤: اسی بری عادت کا نتیجہ تھا کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوئے اور قرآن نے تورات کی تصدیق کی، تو یہودیوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تمام نشانیاں جاننے اور پہچاننے کے باوجود آپ کی تکذیب کی، اور قرآن کو اللہ کی کتاب ماننے سے انکار کردیا۔ البقرة
102 ١٥٥: یہاں یہود کی ایک گمراہی کا بیان ہے کہ انہوں نے اللہ کی کتاب کو پس پشت ڈال دیا، اور شیطانوں سے جادو سیکھنا شروع کردیا، اس آیت کی تفسیر میں علمائے تفسیر کے کوئی اقوال ہیں، میں ان میں سے دو قول یہاں ذکر کرتا ہوں۔ پہلا قول حضرت ابن عباس (رض) وغیرہ سے مروی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) کے انتقال کے بعد شیاطین نے ان کی کرسی کے نیچے مدفون لکھی ہوئی چیزوں کو نکالا، اور ہر دو سطر کے درمیان جادو اور کفر کی باتیں لکھ ڈالیں، اور لوگوں میں مشہور کردیا کہ سلیمان اسی سحر کی بدولت بادشاہ بنے ہوئے تھے۔ چنانچہ جاہل یہودیوں نے ان کو ساحر کہا، اور ان پر کفر کا الزام لگایا، اللہ تعالیٰ نے ان شیاطین کی تکذیب کی اور بتایا کہ سلیمان ساحر نہیں تھے، اور کفر کا ارتکاب نہیں کیا تھا بلکہ شیاطین نے کفر کی راہ اختیار کی، اور لوگوں کو سحر سکھلایا، آیت میں اسی طرح اشارہ ہے کہ یہودیوں نے ان شیاطین سے وہ سیکھا جسے انہوں نے سلیمان (علیہ السلام) کی طرف جھوٹ منسوب کردیا تھا اور وہ سحر بھی سیکھا جو بابل میں دو فرشتوں کو لوگوں کی ابتلاء و آزمائش کے لیے دے کر بھیجا گیا تھا۔ یہ دونوں فرشتے کسی کو جادو سکھلانے سے پہلے یہ کہہ دیا کرتے تھے کہ دیکھو، ہم لوگ آزمائش بنا کر بھیجے گئے ہیں، اور جادو کفر ہے، اسے نہ سیکھو۔ اس طرح یہود نے انبیاء و رسل کے علو انوار کو چھوڑ کر دونوں راستوں سے جادو سیکھا، شیاطین سے بھی اور بابل والے دونوں فرشتوں سے بھی۔ دوسرے قول کے مطابق (شیاطین) سے مراد انسانوں کے شیاطین ہیں اور وہ لوگ ” جو کچھ بیان کرتے تھے“ سے مراد قصے اور خرافات ہیں اور ” سلیمان نے کفر نہیں کیا“ سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے بتوں کی پرستش نہیں کی اور ولکن الشیاطین کفروا، میں کفر سے منزل من اللہ آیتوں کا انکار، یا غیر اللہ کی عبادت، یا جادو سیکھ سکھا کر کفر کا ارتکاب ہے اور ہاروت و ماروت سے مراد دو آدمی ہیں جنہیں لوگ غایت حسن ظن کی وجہ سے فرشتہ کہتے تھے حالانکہ وہ دونوں اچھے لوگ نہیں تھے، بلکہ لوگوں کو دھوکہ میں ڈالنے کے لیے ظاہر کرتے تھے کہ وہ اچھے ہیں اور جادو سیکھنے سے منع کرتے ہیں۔ اس قول کا خلاصہ یہ ہے کہ یہود نے قرآن کو جھٹلایا، اور اس کے بدلے میں ان قصوں اور خرافات کی تصدیق کی جو شیاطین انس نے سلیمان (علیہ السلام) اور ان کی بادشاہت کے بارے میں پھیلا رکھا تھا، اور مشہور کیا کہ سلیمان نے بتوں کی پرستش کی اور کفر کیا، حالانکہ سلیمان (علیہ السلام) نے فکر نہیں کیا بلکہ شیاطین الجن نے کفر کیا، لوگوں کو جادو سکھلایا اور کہا کہ یہ ہاروت و ماروت دو آدمیوں پر اترا ہے جنہیں وہ لوگ (ان کی ظاہری نیکی کی وجہ سے) فرشتہ کہتے تھے۔ حالانکہ ان دونوں پر اللہ کی طرف سے کچھ بھی نہ اترا تھا، بلکہ وہ دونوں دو آدمی تھے جو نیک ہونے کا جھوٹا دعوی کرتے تھے، اور لوگوں کو باور کراتے تھے کہ وہ تو لوگوں کے لیے صرف خیر چاہتے ہیں اور انہیں کفر سے ڈراتے ہیں۔ ١٥٦: یہ آیت دلیل ہے کہ جادو کی حقیقت ہے اور وہ اللہ کے ارادہ کے مطابق نقصان پہنچاتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس میں صراحت کردی ہے کہ جادوگر دنیاوی تعلقات میں سب سے قوی اور مضبوط رشتہ یعنی میاں بیوی کے تعلقات کو بھی توڑنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ١٥٧: معلوم ہوا کہ جادو میں کسی طرح کی کوئی دینی یا دنیوی منفعت نہیں۔ ١٥٨: اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ انہوں نے جادو کو جان بوجھ کر اختیار کیا تھا، ایسی بات نہیں تھی کہ وہ لوگ جادو کے نقصانات سے ناواقف تھے۔ فائدہ : انما نحن فتنۃ فلا تکفر۔ سے بعض علماء نے جادو سیکھنے والے کے کفر پر استدلال کیا ہے، اور اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو کوئی کسی کاہن یا جادوگر کے پاس آیا اور اس کے کہے کی تصدیق کی، اس نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل شدہ دین اسلام کا انکار کیا، اس حدیث کو حافظ بزار نے عمدہ سند کے ساتھ روایت کی ہے، اور اس کے دیگر شواہد بھی پائے جاتے ہیں۔ جادوگر کی تکفیر پر استدلال، ولو انہم امنوا وواتقوا، سے بھی کیا جاتا ہے، کہ ان سے ایمان کی نفی کردی گئی ہے، امام احمد بن حنبل (رح) اور دیگر سلف صالحیں کی یہی رائے ہے۔ بعض دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ جادوگر کافر نہیں ہوتا، لیکن بطور تعزیری سزا اس کی گردن مار دی جائے گی، امام بخاری اور احمد بن حنبل نے بجالہ بن عبدہ (رض) سے روایت کی ہے، حضرت عمر (رض) نے ہمیں لکھ بھیجا کہ ہر ساحر اور ساحرہ کو قتل کردیا جائے، بجالہ کہتے ہیں کہ ہم نے تین جادوگروں کو قتل کیا۔ یہ بھی صحیح روایت سے ثابت ہے کہ ام المومنین حفصہ (رض) کو ان کی ایک لونڈی نے جادو کردیا تو آپ نے اس کے قتل کرنے کا حکم دیا، چنانچہ وہ قتل کردی گئی۔ ترمذی نے جندب الازدی سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جادوگر کی سزا تلوار سے قتل کردینا ہے البقرة
103 البقرة
104 ١٥٩: صحابہ کرام جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس تعلیم و دعوت میں ہوتے اور کوئی بات آپ سے دوبارہ سمجھنی چاہتے تو (راعنا) کا لفظ استعمال کرتے، جس کا معنی ہے (ذرا ہمارا خیال کیجیے اور دوبارہ ارشاد فرما دیجئے) ان مجلسوں میں یہود بھی ہوتے تھے جب یہ لفظ انہوں نے سنا تو ان کا خبث باطن حرکت میں آگیا، اور اپنی زبان موڑ کر اس لفظ کو راعینا بنا دیا یعنی ہمارا چرواہا، اور خود عبرانی زبان میں راعنا کا معنی احمق یا نہایت درجہ کا جاہل آدمی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو ایسا کلمہ استعمال کرنے سے منع فرمایا جس سے کسی شر کا دروازہ کھلتا ہو، اور قول وفعل میں کافروں کے ساتھ مشابہت ہوتی ہو، اور انہیں حکم دیا کہ راعنا کے بجائے انظرنا کا لفظ استعمال کیا کریں، تاکہ یہود کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بے ادبی کا موقع نہ ملے، اور نہ ہی ان کے ساتھ مشابہت ہو۔ مسلمانوں کے ساتھ اس طرح کی بدنیتی اور رسول اللہ کے ساتھ بے ادبی یہود کی قبیح عادت تھی۔ حدیث میں آیا ہے کہ جب وہ مسلمانوں سے ملتے تو السلام علیکم کی بجائے السام عللیکم کہتے، یعنی تم پر موت ہو، اسی لیے اللہ تعالیٰ یہاں مسلمانوں کے ساتھ کافروں کی شدید عداوت بیان کردی، تاکہ مسلمان کافروں اور مشرکوں کے دلوں میں کانٹا بن کر پیوست ہوگئی۔ البقرة
105 البقرة
106 ١٦٠: عربی زبان میں کلمہ نسخ، نسخ الکتاب، سے ماخوذ ہے، جس کا معنی کس کتاب کا دوسرا نسخہ تیار کرنا ہوتا ہے، نسخ، ابطال اور ازالہ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، قرآن کریم کی اصطلاح میں ایک حکم کے بدلے دوسرا حکم لانا، یا اسے ساقط کردینامراد ہوتا ہے، اور شریعت اسلامیہ میں نسخ صرف تحریم و تحلیل اور منع و اباحت میں ہوا ہے، اخبار وغیرہ میں نسخ نہیں ہوا۔ جمہور علمائے اسلام کی رائے ہے کہ قرٓان و حدیث میں نسخ واقع ہوا ہے، جیسے اللہ کا یہ قول الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فارجموھما البتۃ، کہ بوڑھا اور بوڑھی اگر زنا کریں تو ان دونوں کو ضرور پتھر مار مار کر ہلاک کردو۔ اور یہ قول، لوکان لابن آدم وادیان من ذھب لابتغی لھما ثالثا۔ کہ اگر ابن آدم کے پاس سونے کی دو وادیاں ہوتیں، تو وہ تیسری وادی کی خواہش کرتا، ابو مسلم اصفہانی معتزلی جیسے بعض باطل عقیدہ رکھنے والوں نے نسخ کا انکار کیا ہے جن کا اسلام میں کوئی اعتبار نہیں۔ یہودیوں نے قرآن کے ذریعہ احکام تورات کے نسخ کا انکار کیا، اور عیسیٰ (علیہ السلام) اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نوبت انکار اس لیے کیا کہ ان دونوں رسولوں نے تورات کے بعض احکام کو بذریعہ وحی الٰہی منسوخ قرار دیا۔ قرآن کریم نے تورات کے بعض احکام کو منسوخ قرار دیا، اور بعض کو باقی رکھا، ایسا بھی ہوا کہ اللہ تعالیٰ میں ایک حکم نازل فرمایا، اور کچھ دنوں کے بعد اسے منسوخ کردیا، یا اس کے بدلے میں دوسرا کوئی حکم اتار دیا، یہودیوں نے کہا کہ محمد اپنے ساتھیوں کو آج ایک حکم دیتا ہے، اور کل اس سے روک دیتا ہے اور اس کی جگہ کوئی دوسرا حکم دیتا ہے، اس لیے وہ نبی نہیں ہوسکتا، اور نہ یہ قرآن کلام الٰہی ہوسکتا ہے۔ قرآن کریم کی اس آیت میں یہودیوں کے اسی قول کی تردید کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر کسی آیت کو منسوخ کردیتا ہے تو اس کی جگہ اس سے بہتر یا اسی جیسا حکم لاتا ہے، اور یہ اس لیے نہیں کہ اللہ ابتدا میں ہی دوسرا حکم لانے سے عاجز تھا بلکہ بندوں کی مصلحت اسی میں تھی، اور جو اللہ کی قدرت کا کچھ علم رکھے گا وہ ایسی بات کبھی نہیں کرے گا۔ دوسری آیت میں اسی کی مزید تاکید آئی ہے کہ آسمان و زمین کی بادشاہت اللہ کے لیے ہے، ساری مخلوق اس کے زیر اطاعت ہے، انہیں اللہ کے اوامر و نواہی کو بہرحال بجا لانا ہے۔ اللہ انہیں جو چاہے گا حکم دے گا، اور جس کام سے چاہے گا روکے گا، اور حو حکم چاہے گا منسوخ کرے گا اور جو چاہے گا باقی رکھے گا۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہودیوں نے نسخ کا انکار صرف کفر و عناد کی وجہ سے کیا، ورنہ یہ چیز عقلی طور پر ممنوع نہیں، اس لیے کہ اللہ جو چاہتا ہے کرتا، اور گذشتہ آسمانی کتابوں میں نسخ واقع ہوا ہے، آدم (علیہ السلام) کے لیے اپنے بیٹے بیٹی کی آپس میں شادی حلال تھی، پھر حرام کردی گئی، نوح (علیہ السلام) جب سفینہ (کشتی) سے بارہ آئے تو تمام حیوانات کا کھانا جائز تھا، اس کے بعد بعض کی حلت منسوخ ہوگئی، یعقوب (علیہ السلام) اور ان کے بیٹوں کے لیے بیک وقت دو بہنوں سے شادی جائز تھی، اس کے بعد تورات میں اسے حرام کردیا گیا۔ البقرة
107 البقرة
108 ١٦١: اس آیت میں مسلمانوں کو ایسی چیزوں کے بارے میں کثرت سوال سے منع کیا گیا ہے جو ابھی وقوع پذیر نہیں ہوئیں، صحیحین میں مغیرہ بن شعبہ (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قیل و قال، اضاعتِ مال اور کثرت سوال سے منع فرمایا صحیح مسلم میں ہے تم لوگ مجھے چھوڑ دو جب تک میں تمہیں چھوڑے رکھوں، تم سے پہلے کے لوگ کثرت سوال اور انبیاء کی مخالفت کی وجہ سے ہلاک ہوگئے۔ محققین نے لکھا ہے کہ یہاں مراد ایسے سوالات کی ممانعت ہے جن کا مقصد محض اعتراض کرنا، اور دین میں شدت پیدا کرنا ہو، اگر سوالات علم حاصل کرنے کے لیے ہوں تو کوئی ممانعت نہیں، بلکہ اللہ نے ایسے سوالات کا حکم دیا ہے، فاسئلوا اھل الکر ان کنتم لا تعلمون۔ کہ اگر تم نہیں جانتے ہو تو جاننے والوں سے پوچھ لو، الانبیاء : 7۔ البقرة
109 ١٦٢: اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے مومنوں کو اہل کتاب کافروں کی راہ اپنانے سے منع فرمایا ہے، اور انہیں خبر دی ہے کہ یہ اہل کتاب مسلمانوں سے زبردست عداوت رکھتے ہیں، ان سے حسد کی وجہ سے چاہتے ہیں کہ مسلمان پھر سے کافر بن جائیں، اور اس کے لیے انہوں نے ہر قسم کی ساش اور مکر و فریب کو روا رکھا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو عفو و درگذر اور تحمل سے کام لینے، نماز قائم کرنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیا، یہاں تک کہ اللہ کا کوئی اور حکم ان کے بارے میں آجائے، چنانچہ جہاد کا حکم نازل ہوا، تو بہت سے یہود قتل کیے گئے، بہت سے غلام بنائے گئے، اور بہت سے جلا وطن کردئیے گئے۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ عفو و درگذر کرنے کا حکم قتال والی آیتوں سے منسوخ ہوگیا، انہی میں سے ایک آیت یہ ہے، قاتلوا الذین لا یومنون باللہ ولا بالیوم الاخر، الایۃ، مسلمانو ! ان لوگوں سے قتال کرو جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں۔ التوبہ، ٢٩۔ ابن عباس رضٰ اللہ عنہما کی روایت ہے کہ حیی بن اخطب اور اس کے بھائی ابویاسر بن اخطب نے عربوں سے شدید دشمنی اس لیے شروع کردی تھی کہ اللہ نے اپنا آخری نبی عربوں میں کیوں مبعوث کردیا، یہ دونوں یہودی لوگوں کو اسلام قبول کرنے سے شدت کے ساتھ روکتے تھے، یہ آیت انہی کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ البقرة
110 البقرة
111 ١٦٣: یہاں اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ کے غرور کی خبر دی ہے، ان میں سے ہر ایک گروہ یہ کہتا تھا کہ جنت میں وہی داخل ہوگا، جو اس کے دین کو ماننے والا ہوگا، اللہ تعالیٰ نے ان کے اس دعوی کی تردید کی، اور کہا کہ یہ محض تمہاری جھوٹ تمنائی ہیں جن کی صداقت پر تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے، اگر تم سچے ہو تو کوئی دلیل تو پیش کرو۔ البقرة
112 ١٦٤: اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ کے دعوی کی دوبارہ تردید کی اور فرمایا کہ یہ محض تمہارا دعوی ہے کہ صرف تم ہی لوگ جنت میں جاؤ گے، جن میں ہر وہ شخص داخل ہوگا، جو موحد اور اپنے عمل میں مخلص ہوگا، اور متبع سنت ہوگا، اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ یہود و نصاری جنت میں داخل نہیں ہوں گے، اس لیے کہ نہ وہ موحد ہیں، نہ اپنے عمل میں مخلص ہیں اور نہ متبع سنت ہیں۔ فائدہ : حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ عمل کے (عنداللہ) مقبول ہونے کی دو شرطیں ہیں، پہلی شرط یہ ہے کہ وہ خالص اللہ کے لیے ہو، دوسری شرط یہ ہے کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت اور اسلامی شریعت کے مطابق ہو، اگر نیت میں اخلاص ہو لیکن سنت کے مطابق نہ ہو تو وہ عمل مردود ہوگا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس کا ہم نے حکم نہیں دیا تو وہ رد کردیا جائے گا (مسلم) اس لیے راہبوں، سادھووں اور صوفیوں کا عمل اللہ کے نزدیک قابل قبول نہیں، اس لیے کہ ان کے عمل میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع مفقود ہے، اسی طرح اگر عمل بظاہر شریعت کے موافق ہے، لیکن نیت اللہ کی رضا نہیں، تو ایسا عمل بھی مردود ہے جیسا کہ اللہ نے فرمایا، ان المنافقین یخادعون اللہ وھو خادعہم، کہ بے شک منافقین اللہ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں اور اللہ ان کو دھوکہ دے رہا ہے۔ البقرة
113 ١٦٥: پہلے اہل کتاب نے اپنے علاوہ تمام اہل ادیان کی گمراہی کا دعوی کیا، اب ایک دوسرے پر گمراہی اور کفر کا الزام لگا رہے ہیں۔ اس سے ان کی آپس کی نفرت و دشمنی کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ حالانکہ اہل کتاب ہونے کا تقاضا یہ تھا کہ وہ ایک دوسرے کی تکذیب نہ کرتے، کیونکہ تورات و انجیل البقرة
114 126: اس سے کون لوگ مراد ہیں، مفسرین کے دو قول ہیں۔ عوفی نے اپنی تفسیر میں ابن عباس کا یہ قول نقل کیا ہے کہ وہ نصٓری تھے، جنہوں نے یہود کو بیت المقدس میں نماز پڑھنے سے روکا تھا اور بخت نصر بابلی مجوسی کی مدد کی تھی، جس نے بیت المقدس کو تاراج کیا تھا، ابن جریر نے اسی رائے کو اختیار کیا ہے دوسر قول یہ ہے کہ مراد مشرکین مکہ ہیں، جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صلح حدیبیہ کے موقع سے مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا تھا، ابن ابی حاتم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ قریش نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مسجد حرام میں کعبہ کے پاس نماز پڑھنے سمنع کردیا تو یہ آیت اتری۔ حافظ ابن کثیر نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے، کیونکہ نصاری نے جب یہود کو بیت المقدس میں نماز پڑھنے سے منع کیا تو وہ دینی اعتبار سے یہود سے بہتر تھے، یہود پر تو اللہ نے لعنت بھیج دی تھی، ان کی عبادت ہی مقبول نہیں تھی اور کلام کا سیاق و سباق بھی اسی کا تقاضا کرتا ہے کہ یہود و نصاری کی مذمت بیان کرنے کے بعد اب مشرکین کی مذمت بیان کی جا رہی ہے، اور مسجد کی بربادی کی کوشش اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ انہوں نے وہاں سے اللہ کے رسول کو نکال دیا، اور خانہ کعبہ کے پاس بت پرستی کا بازار گرم کیا۔ 127: اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ہے کہ مسلمانوں کو مسجد حرام پر غلبہ نصیب ہوگا، اور مشرکین ذلیل ہوں گے، اور مسجد حرام میں ڈرتے ہوئے داخل ہوں گے کہ کہیں انہیں پکڑ نہ لیا جائے یا قتل نہ کردیا جائے۔ چنانچہ اللہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا ہوا اپنا وعدہ پورا کیا، کہ مکہ فتح ہوا اور مشرکین کو مسجد حرام میں داخل ہونے سے روک دیا گیا (لھم فی الدنیا خزی) میں اسی ذلت کی طرف اشارہ ہے اور آخرت میں عذاب نار کا سامنا کرنا پڑے گا، اس لیے کہ انہوں نے بیت اللہ کی حرمت کو پامال کیا، اس میں بتوں کو لا کر نصب کیا، غیر اللہ کو پکارا اور ننگے ہو کر خانہ کعبہ کا طواف کیا۔ فائدہ : علمائے کرام نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ کفار کو مساجد میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ مساجد کی تعمیر اور انہیں ظاہری اور معنوی طور پر آباد کرنے سے بڑھ کر ایمان والی کوئی بات نہیں۔ جیسا کہ اللہ نے دوسری جگہ فرمایا ہے آیت انما یعمر مساجد اللہ من آمن باللہ والیوم الاخر، کہ مسجدوں کو وہ لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔ توبہ : 18۔ البقرة
115 128: ابتدائے اسلام میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خانہ کعبہ کے سامنے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے۔ ہجرت کے بعد خانہ کعبہ کی دید سے بھی محروم ہوگئے۔ مدینہ منورہ میں سولہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے، اور دل میں یہ خواہش رہی کہ کاش، مسجد حرام، مسلمانوں کا قبلہ بن جاتا، اسی زمانے میں اللہ نے اپنے رسول اور صحابہ کرام کو تسلی دینے کے لیے یہ آیت اتاری کہ مشرق و مغرب اور تمام جہات کا مالک صرف اللہ ہے۔ اس لیے آپ جس طرف بھی رخ کر کے نماز پڑھیں گے، اس طرف اللہ کو پائیں گے۔ اس کے بعد یہ حکم خاص تو منسوخ ہوگیا، اور خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم ااگیا، لیکن اس آیت کا حکم عام باقی رہا کہ جہت قبلہ معلوم نہ ہونے کی صورت میں، اور نفل نمازوں میں، نیز خوف اور سفر کی حالت میں کسی طرف بھی رخ کیا جائے تو نماز صحیح ہوگی۔ 129: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے (وجہ) یعنی چہرہ ثابت کیا ہے، اس لیے صحیح عقیدہ والے اللہ کے لیے وجہ ثابت کرتے ہیں، جیسا کہ اللہ کی ذات کے لائق ہے، ایسا چہرہ جو دوسرے چہروں کے مشابہ نہیں۔ نیز آیت میں اللہ نے اپنے لیے واسع اور علیم دو صفت ثابت کی ہے۔ اس لیے ہم بھی ثابت کرتے ہیں، اسی تفصیل کے ساتھ جیسا کہ وجہ کے بارے میں کہا گیا ہے۔ البقرة
116 170: اس آیت میں یہود و نصاری اور مشرکین عرب کی تکذیب کی گئی ہے، جنہوں نے عزیر و مسیح کو اللہ کا بیٹا تصور کیا، اور فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں بتایا، اللہ نے فرمایا کہ (سبحنہ) یعنی اللہ کی ذات ان باطل دعووں سے پاک ہے۔ آسمان و زمین کے درمیان جو کچھ ہے وہ سب اللہ کے مملوک اور بندے ہیں، اور اس کے حضور عجز و انکساری کے ساتھ جھکے ہوئے ہیں، بندوں میں سے کوئی اللہ کا بیٹا کیسے ہوسکتا ہے، اولاد تو دو متناسب ذاتوں کے ارتباط سے پیدا ہوتی ہے، اللہ کا کوئی شریک اور نظیر نہیں، اور نہ اس کی کوئی بیوی ہے، پھر اللہ کا بیٹا کیسے ہوسکتا ہے؟ صحیحین کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اذیت کی باتیں سن کر اللہ سے زیادہ صبر کرنے والا کوئی نہیں، لوگ اس کے لیے بیٹا بتاتے ہیں، پھر بھی وہ انہیں روزی دیتا ہے اور عافیت سے نوازتا ہے (قانتون) یعنی تمام مخلوق اس کے زیر تصرف ہے، اور اس کی عبادت میں لگی ہوئی ہے البقرة
117 171: بدیع السماوات والارض ؛ یعنی اللہ نے آسمان و زمین کو بغیر کسی سابق مثال کے پیدا کیا ہے، جس طرح اس نے مسیع (علیہ السلام) کو بغیر باپ کے کلمہ کن سے پیدا کیا لفظ بدعت اسی سے ماخوذ ہے۔ ہر وہ بات جو اسلام میں نئی پیدا کی جائے اور جس کی تائید قرآن و سنت سے نہ ملے، اسے بدعت کہا جاتا ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے، کل محدچۃ بدعۃ کہ اسلام میں ہر نئی بات بدعت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کمال قدرت اور عظیم بادشاہی کی خبر دی ہے، کہ جب وہ کسی چیز کے ہوجانے کا فیصلہ کرتا ہے، تو کن یعنی ” ہوجا“ کہتا ہے، اور وہ ہر چیز اللہ کے ارادے کے مطابق وجود میں آجاتی ہے۔ کوئی شے (وجود میں آنے سے) نافرمانی نہیں کرسکتی۔ البقرة
118 172: ابولاعالیہ، ربیع بن انس، قتادہ اور سدی وغیرہم کی رائے ہے کہ یہ آیت مشرکینِ عرب کے بارے میں اتری ہے، انہی لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا تھا کہ اگر تم اللہ کے رسول ہو تو اللہ ہم لوگوں سے بات کر کے کیوں نہیں بتا دیتا کہ اس نے تمہیں اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے۔ اس رائے کے مطابق آیت میں، الذین من قبلہم، سے مراد یہود و نصاری ہیں مجاہد کی رائے ہے کہ یہ آیت نصٓری کے بارے میں اتری ہے اور ابن عباس (رض) کی روایت ہے کہ رافع بن حریملہ یہودی نے اعتراض کیا تھا، تو یہ آیت نازل ہوئی تھی، حافظ ابن کثیر اور شوکانی نے پہلی رائے کو ترجیح دی ہیے۔ 173: یہاں ” آیت“ سے مراد مشرکین کی مرضی کی نشانیاں ہیں، جن سے ان کی عقل فاسد اور جرات علی اللہ کا پتہ چلتا ہے، مشرکین مکہ اس قسم کے سولات ہمیشہ ہی کیا کرتے تھے، کہتے تھے ” ہم اللہ کو دیکھنا چاہتے ہیں“ ” اگر تم رسول ہو تو ایک فرشتہ تمہارے ساتھ کیوں نہیں رہتا جو لوگوں کو تمہاری طرف بلاتا رہے“ ” اگر تم رسول ہو تو تمہارے پاس خزانہ کیوں نہیں ہے“۔ یا یہ کہ ” تمہارے پاس کھجوروں اور انگوروں کا باغ ہونا چاہیے“ ان کا مقصد طلب ہدایت نہیں بلکہ شرارت اور فتنہ انگیزی ہوتی تھی، ورنہ اللہ نے تو نشانیاں ہمیشہ ہی بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے انبیاء ورسل کے ساتھ بھیجی ہیں۔ 174: مشرکین عرب اور یوہد و نصاری کے دل کفر و عناد اور سرکشی میں ایک دوسرے جیسے ہیں 175: ایمان ویقین والوں کے لیے وہ نشانیاں کافی ہیں جو اللہ نے قرآن میں بیان کردی ہیں ْ البقرة
119 176: اس میں گواہی ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ حق سے مراد دین اسلام ہے جو قرآن وسنت کا نام ہے 177: مشرکین عرب کے لیے وعید شدید ہے اور یہ کہ ان سے ایمان کی توقع نہیں کی جاسکتی، وہ لوگ اللہ کے علم میں جہنمی ہیں البقرة
120 178: اس میں یہود و نصاری کے ایمان لانے سے غایت درجہ کی ناامیدی کی خبر دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، یہود و نصاری آپ سے کبھی بھی خوش نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ آپ ان کے دین کو قبول کرلیں۔ اس لیے ان کی مرضی حاصل کرنے کی کوشش اچھی بات نہیں، آپ بس اللہ کی رضا طلب کریں، اور ان کے سامنے وہ دین حق پیش کریں جو آپ کو دے کر بھیجا گیا ہے اور جس کے علاوہ کوئی بھی دین، دین حق نہیں ہے۔ 179: یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ یہود و نصاری کے پاس ہدایت نہیں، ہوائے نفس ہے، اور وہ دوسروں کو اسی کی طرف بلاتے ہیں، اور اس میں امت اسلامیہ کے شدید وعید ہے کہ اگر قرآن وسنت کا علم آجانے کے بعد یہود و نصاری کی راہ اپنائیں گے تو اللہ کے عذاب سے انہیں کوئی نہیں بچا سکتا۔ اس آیت کے ضمن میں وہ لوگ بھی آتے ہیں جو محض مداہنت کی بنیاد پر کسی کی رائے کو قرآن و سنت پر ترجیح دیتے ہیں یا سنت کو پس پشت اس لیے ڈال دیتے ہیں کہ کسی امام یا کسی عالم کا قول اس کے خلاف ہے اور قرآن و سنت کی تاویل کرتے ہیں ہیں ان کے معانی و مفاہیم کو بدل دیتے ہیں تاکہ کوئی منافق حاکم وقت ناراض نہ ہوجائے۔ گویا کوئی بھی آدمی اگر کسی انسان کی مرضی یا رائے کو مقدم کرنے کے لیے قرآن اور رسول اللہ کی سنت کو نظر انداز کردیتا ہے، وہ اس آیت کے ضمن میں آئے گا، اور آیت میں موجود تہدید و وعید اس کو شامل ہوگی۔ البقرة
121 180: مراد یہود و نصاری ہیں اور ان آیتوں میں ان کے دعائے ایمان کی تردید کی جا رہی ہے، اس لیے آیت کی تفسیر یہ ہوگی کہ ان میں سے جن لوگوں نے اپنی کتاب کی اتباع کی، حلال و حرام کا التزام کیا، ان میں تحریف نہیں کیا، وہی لوگ، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس دین پر ایمان لائیں گے جو ہم نے آپ پر نازل کیا ہے، وہ یہود و نصاری نہیں جنہوں نے اپنی کتاب کو بدل دیا، حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنایا، آپ سے متعلق نشانیوں کو چھپایا، اسی لیے اللہ نے فرمایا، آیت و من یکفر بہ فاولئک ھم الخاسرون، جو لوگ دین کا انکار کریں گے، وہی درحقیقت خسارہ پانے والے ہوں گے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحیح حدیث ہے کہ (اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، جو شخص بھی، چاہے وہ یہودی ہو یا عیسائی، میرے بارے میں سنے گا اور مجھ پر ایمان نہیں لائے گا، وہ جہنم میں داخل ہوگا) مسلم۔ البقرة
122 البقرة
123 181: اسی سورت کی آیت (48) کی تفسیر دیکھئے، آیت کے تکرار سے مقصود، بنی اسرائیل کو اللہ کے انعامات یاد دلا کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کی ترغیب دلائی ہے کہ وہ محض حسد کی بنیاد پر ان کا انکار نہ کریں، اور تورات میں ان کی جو صفات بیان کی گئی ہیں انہیں نہ چھپائیں اور قیامت کے دن کے عذاب سے ڈریں۔ البقرة
124 182: ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے رب نے مختل اوامر و نواہی کے ذریعہ آزمایا، آپ تمام آزمائشوں میں پورے اترے، تو اللہ نے انہیں بطور انعام و اکرام تمام عالم کے لیے توحید کا امام بنا دیا، جب یہ خوشخبری ان کو دی گئی، تو انہوں نے خواہش کی اور دعا کی کہ اے اللہ اس انعام و اکرام میں میری اولاد کو بھی شریک کردے۔ تو اللہ نے ان کی دعا سن لی، جیسا کہ اللہ نے دوسری جگہ فرمایا ہے : آیت وجعلنا فی ذریتہ النبوۃ والکتاب کہ ہم نے ان کی نسل کو نبوت اور کتاب دی۔ العنکبوت : 27۔ لیکن اس استثناء کے ساتھ کہ ظالم لوگ اس وعدہ میں شامل نہیں ہوں گے۔ اس میں ایک قسم کی ترگیب ہے ان سب لوگوں کے لیے جو اپنی نسبت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف کرتے ہیں کہ اگر وہ دنیا میں عزت، اور آخرت میں جہنم سے نجات چاہتے ہیں تو دین اسلام جو دین ابراہیمی ہے اسے قبول کرنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا، آیت، ماکان ابراہیم یہودیا ولا نصرانیا ولکن کان حنیفا مسلما وما کان من المشرکین۔ ان اولی الناس بابراہیم للذین اتبعوہ وھذا النبی والذین امنوا واللہ ولی المومنین۔ کہ ابراہیم یہودی اور نصرانی نہیں تھے وہ تو موحد مسلمان تھے اور مشرکین میں نہ تھے، بے شک لوگوں میں سب سے زیادہ ابراہیم کے حقدار وہ ہیں جنہوں نے ان کی اتباع کی، اور یہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور جو لوگ ایمان لائے، اور اللہ مومنوں کا دوست (آل عمران : 67 تا 68)۔ 183: حافظ ابن کثیر کے نزدیک راجح قول یہ کہ کلمات سے مراد وہ تمام اوامر و نواہی اور وہ تمام امور ہیں جن کے التزام کا اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا تھا۔ انتہی، ان میں رب العالمین کے لیے خشوع وخضوع، ہجرت فی سبیل اللہ، آگ میں ڈالا جانا، ختنہ اور بیٹے کی قربانی سر فہرست آتے ہیں۔ 184: ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اللہ نے اس آیت میں ابراہیم (علیہ السلام) کو خبر دی ہے کہ ان کی نسل میں ظالم لوگ بھی ہوں گے۔ آیت سے مستفاد ہوتا ہے کہ ظالم لوگ دوسروں کی امامت کے حقدار نہیں ہوسکتے۔ اس لیے کہ امام کو عدل و انسٓف والا اور عامل بالشریعت ہونا چاہیے۔ اسی طرح اس سے یہ حکم بھی نکلتا ہے کہ امور شریعت کی ذمہ داری کسی ظالم کو نہیں دی جائے گ۔ اس لیے کہ مسلمان اپنے امام کی پیروی کرتے ہیں اور اگر وہ ظالم یا فاسق ہوگا تو اپنے ماتحت لوگوں کو گمراہ کردے گا۔ البقرة
125 185: اللہ تعالیٰ نے امام ابراہیم کی نشانی خانہ کعبہ کا ذکر فرمایا ہے۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ مومن کے دل میں زیارت خانہ کعبہ کی خواہش ہر دم کروٹیں لیتی رہتی ہے۔ ایک بار زیارت کے کرکے لوگ اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں تو دوبارہ زیارت کی خواہش پھر پیدا ہوجاتی ہے اور اس گھر کا زائر امن میں ہوتا ہے دور جاہلیت میں آدمی اپنے باپ یا بھائی کے قاتل کو کعبہ کے سامنے پاتا اور اسے کچھ نہیں کہتا تھا۔ یہ سب ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کی برکت تھی۔ 186: اس گھر کے بنانے والے (ابراہیم) کا رب العالمین کے یہاں وہ مقام ہے کہ اللہ نے ہمیشہ کے لیے ان کی یاد کو خانہ کعبہ سے جوڑ دیا اور ہر زائر کعبہ کو حکم دیا کہ وہ مقام ابراہیم کے پاس نماز پڑھے امام بخاری نے انس بن مالک (رض) سے روایت کی ہے، عمر بن الخطاب (رض) نے کہا کہ میرے رب نے تین باتوں میں میری موافقت کی۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول ! کاش مقام ابراہیم کو آپ نماز پڑھنے کی جگہ بنا دیتے تو یہ آیت آیت واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی نازل ہوئی (الحدیث) کہ تم لوگ مقام ابراہیم کو نماذ پڑھنے کی جگہ بناؤ۔ مقام ابراہیم وہی پتھر ہے جس پر پاؤں رکھ کر ابراہیم (علیہ السلام) نے خانہ کعبہ کی دیوار بنائی تھی۔ یہ پتھر کعبہ کی دیوار سے لگا ہوا تھا، ایک شدید سیلاب میں بہہ کر مکہ کی وادی میں چلا گیا، تو امیر المومنین عمر بن الخطاب (رض) نے اسے وہاں سے لا کر دیوارِ کعبہ سے الگ جما دیا، اور کسی صحابی نے نکیر نہیں کی۔ حافظ ابوبکر بیہقی نے سند صحیح کے ساتھ عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ مقام ابراہیم، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابو بکر (رض) کے زمانے میں بیت اللہ سے لگا ہوا تھا، حضرت عمر (رض) نے اسے الگ کردیا۔ 187: اس میں ان مشرکین کی تردید ہے جو اللہ کے بجائے بتوں کی پرتش اس گھر کے پاس کرتے تھے جسے ابراہیم (علیہ السلام) نے صرف رب العالمین کی عبادت کے لیے بنایا تھا اور جسے ابراہیم اور اسماعیل نے اللہ کے حکم سے بتوں سے پاک کیا تھا، تاکہ ہمیشہ کے لیے یہ سنت قائم ہوجائے۔ اس آیت میں یہودو نصاری پر بھی نقد ہے کہ وہ لوگ ابراہیم (علیہ السلام) کی فضیلت و عظمت کا اعتراف کرتے ہیں، اور جانتے ہیں کہ انہوں نے ہی بیت اللہ کو حج وعمرہ میں طواف کرنے اور اس کے پاس اعتکاف اور نماز ادا کرنے کے لیے بنایا تھا، لیکن وہ لوگ ایسا نہیں کرتے، پھر خلیل اللہ (علیہ السلام) کے متبع کیسے ہوگئے؟ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ موسیٰ بن عمران اور ان کے بعد انبیاء علیہم السلام نے حج کیا تھا۔ البقرة
126 188: ابراہیم (علیہ السلام) نے کعبہ بنانے کے بعد یہ دعا کی کہ اے میرے رب اس جگہ کو جہاں میں نے تیرا گھر بنایا ہے اور جہاں تیرے حکم سے اپنی اولاد کو بسایا ہے، ایسا شہر بنا دے جہاں لوگ انس محسوس کریں اور ہر خوف سے آزاد رہیں، اور یہاں بسنے والے مومنین کے لیے ہر قسم کا پھل مہیا فرما۔ چنانچہ اللہ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور حرم کو امن کا گہوارہ اور بلد حرام بنا دیا، جہاں ہتھیار اٹھانا حرام ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے آخر میں یہ صراحت کردی کہ جو کافر ہوگا وہ یہاں تو تمہاری دعا سے فائدہ اٹھائے گا، لیکن آخرت میں اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ فائدہ : امام مسلم (رح) نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ابراہیم نے مکہ کو حرم قرار دیا، اور میں مدینہ کو دونوں حروں کے درمیان حرم بناتا ہوں۔ البقرة
127 189: اللہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ اپنی قوم کو بتائیں کہ ابراہیم اور ان کے بیٹے اسماعیل، ام القری کی سرزمین میں اللہ کا گھر بناتے ہوئے یہ کہتے جا رہے تھے کہ اے ہمارے رب اسے قبول کرلے۔ امام بخاری (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام)، اسماعیل (علیہ السلام) اور ان کی ماں کی حیریت معلوم کرنے کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لائے تو اسماعیل بڑے ہوچکے تھے، ابراہیم نے کہا : اے اسماعیل اللہ نے مجھے ایک کام کا حکم دیا ہے۔ اسماعیل نے کہا آپ کے رب نے جو حکم دیا ہے اسے کیجیے کہا تم میری مدد کرو گے؟ کہاں (ہاں) میں آپ کی مدد کروں گا، کہا اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں یہاں ایک گھر بناؤ۔ جب دونوں نے مل کر اس گھر کی بنیاد اونچی کرلی تو اسماعیل پتھر لاتے رہے اور ابراہیم جوڑتے رہے۔ جب مکان اونچا ہوگیا تو وہ پتھر (مقام ابراہیم) لائے جس پر کھڑے ہو کر ابراہیم جوڑتے رہے، اور اسماعیل ان کو پتھر لا لا کردیتے رہے۔ دونوں بیت اللہ کے ارد گرد گھوم گھوم کر جوڑتے رہے اور کہتے رہے آیت ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم۔ اے ہمارے رب ہماری طرف سے اس عمل کو قبول کر، تو بڑا سننے والا اور جاننے والا ہے۔ ابن ابی حاتم نے وہیب بن الورد کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ یہ آیت پڑھتے جاتے تھے اور روتے جاتے تھے اور کہتے تھے کہ خلیل الرحمن آپ اللہ کا گھر بنا رہے تھے اور ڈر رہے تھے کہ کہیں آپ کا عمل قبول نہ کیا جائے۔ معلوم ہوا کہ مومن مخلص عمل کرتا ہے اور ڈرتا ہے کہ کہیں اس کا عمل اس کے منہ پر نہ مار دیا جائے (وہیب، عبداللہ بن مبارک، فضیل بن عیاض اور عبدالرزاق وغیرہم کے شیخ اور بڑے عابد و زاہد آدمی تھے) البقرة
128 190: مناسک سے مراد یا تو حج کے اعمال ہیں جیسا کہ سیاق و سباق سے پتہ چلتا ہے یا اس سے مراد پورا دین اور ساری عبادات ہیں کیونکہ کہ نسک کا لغوی معنی تعبد ہے یعنی عبادات کرنا۔ البقرة
129 191: ابراہیم اور ان کے بیٹے اسماعیل علیہما السلام نے اللہ سے علم نافع اور عمل صالح کی توفیق، اور اللہ کی رضا مانگی، اور پھر یہ دعا کی کہ اے اللہ ! اسماعیل کی اولاد میں ایک نبی پیدا کر، جو لوگوں کو تیری آیات پڑھ کر سنائے، انہیں قرآن و سنت کی تعلیم دے، اور انہیں شرک اور تمام گناہوں سے پاک کرے، چنانچہ اللہ نے ان کی دعا قبول فرم الی۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا، عیسیٰ کی بشارت، اور اپنی ماں کا خواب ہوں (مسند احمد) البقرة
130 192: اس آیت میں اہل کتاب اور مشرکین عرب کی تردید ہے جنہوں نے ملت ابراہیمی کو چھوڑ کر جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آنے کے بعد دین اسلام اور عقیدہ توحید میں محصور ہوگئی، اپنی اپنی ہوائے نفس کی اتباع کی ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے رب کی وحدانیت کا برملا اعلان کیا، اس کے ساتھ کسی کو ایک لمحہ کے لیے بھی رشریک نہ بنایا، اور پوری قوم کی مخالفت مول لی، حتی کہ اپنے باپ سے براءت کا اعلان کیا، اور اس عقیدہ کی خاطر بے دھڑک آگ میں کود گئے۔ یہی ہے ملت ابراہیمی، اسی کی وصیت ابراہیم نے اپنے بیٹوں اور اپنے پوتے یعقوب کو کی، اور اسی ملت ابراہیمی کی دعوت و تبلیغ کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب اور کفار سب کو خطاب کر کے کہا کہ اس سے بڑھ کر اپنے حق میں ظلم کرنے والا اور کون ہوگا، جو اس ملت ابراہیمی کو قبول نہیں کرے گا، اور اس کی مخالفت کرے گا، وہی ابراہیم جسے اللہ نے بچپن سے دعوت توحید کے لیے چن لیا تھا، یہاں تک کہ اپنا خلیل بنا لیا اور آخرت میں وہ ان نیک بخت روحوں میں سے ہوں گے جنہیں اللہ اعلی مقام عطا فرمائے گا۔ البقرة
131 193: اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کو اخلاص، کمال عبودیت اور توحید و اسلام پر ثابت رہنے کا حکم دیا، تو انہوں نے رب العالمین کے سامنے سر تسلیم ختم کردیا۔ البقرة
132 194: ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اور یعقوب نے اپنے بیٹوں کو دین اسلام پر قائم رہنے کی نصیحت کی، جس کے علاوہ اللہ کے نزدیک کوئی دین قابل قبول نہیں۔ البقرة
133 یہود و نصاری پر حجت تمام کرنے کے لیے یعقوب (علیہ السلام) کی وصیت بیان کی گئی ہے کہ انہوں نے بھی اپنے بیٹوں کو مرنے سے پہلے (دین اسلام) پر چلنے کی وصیت کی تھی۔ صحیح بخاری میں ابوہریرہ (رض) کی روایت ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (الانبیاء اخوۃ لعلات، امہاتہم شتی، ود ینہم واحد) انبیائے کرام آپس میں علاقتی بھائی ہیں ان کی مائیں مختلف ہیں اور ان کا دین ایک ہے۔ البقرة
134 196: ابراہیم، یعقوب اور ان کی اولاد کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے اعتقادات، اعمال اور اخلاق حسنہ ان کے کام آئیں گے، اور اے یہود و نصاری تمہاری بد اعمالیاں تمہارے میزانِ عمل میں ہوں گی۔ ان کے اچھے اعمال کا تذکرہ اس لیے کیا گیا ہے تاکہ تم بھی انہی جیسے بنو، اگر انکار کرو گے تو ان کے اعمال تمہارے کام نہیں آئیں گے۔ البقرة
135 197: محمد بن اسحاق نے ابن عباس رضٰ اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ عبداللہ بن صوریا (جو کانا تھا) یہودی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ ہم لوگ صحیح دین پر ہیں، اس لیے اے محمد تم ہماری اتباع کرو، اور نصاری نے بھی ایسی ہی بات کہی، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی، اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ آپ ان سب سے کہیں کہ ہم تو ابراہیم کے دین کی اتباع کریں گے، جنہوں نے تمام ادیان باطلہ سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے دین حنیف (دین اسلام) پر چلنے کا اعلان کیا تھا۔ 198: اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ یہود و نصاری شرک میں مبتلا ہوگئے، لہذا راہ ہدایت سے وہ ہزاروں میل دور ہیں۔ البقرة
136 199: اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تعلیم دی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو کتاب نازل ہوئی اس پر مفصل طور پر ایمان لائیں، اور گذشتہ انبیائے کرام پر جو کتابیں نازل ہوئیں تھیں ان پر مجمل طور پر ایمان رکھیں، اور بغیر تفریق سب پر ایمان رکھیں، یہود و نصاریٰ کی طرح نہ کریں کہ کسی پر ایمان کا دعوی کریں اور کسی کا انکار کریں۔ حضرت امام بخاری (رح) نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ اہل کتاب (یہود) تورات عبرانی زبان میں پڑھتے تھے، اور اس کی تفسیر عربی زبان میں مسلمانوں کو بتاتے تھے، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہ اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو اور نہ تکذیب اور ان سے کہو کہ ہم تو اللہ پر اور اس کی کتاب پر ایمان لے آئے ہیں جو ہم پر اتری ہے (پھر آپ نے پوری آیت پڑھی) فوائد : 1۔ اس آیت کریمہ میں وہ تمام چیزیں سمیٹ دی گئی ہیں جن پر ایمان لانا واجب ہے۔ ایمان کا لفظ بولاجا تو ارکان اسلام اور اعمال صالحہ سبھی داخل ہوں گے، اسی طرح جب صرف اسلام کا لفظ بولا جائے گا تو اس میں ایمان داخل ہوگا، اور جب دونوں ایک ساتھ بولے جائیں گے تو ایمان دل کے اقرار و تصدیق کا نام ہوگا اور اسلام ظاہری اعمال کا۔ 2: قولوا امنا : یعنی زبان سے کہو ہم ایمان لے آئے، درآحالیکہ دل اس کی تصدیق کر رہا ہو، اس لیے کہ اس کے بغیر ثواب و جزا کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح اگر دل کے اعتقاد کی تائید عمل سے نہیں ہوتی تو وہ بھی تقریباً بے اثر اور بے فائدہ ہے۔ 3: قولوا : اس میں اشارہ ہے اس طرف کہ مسلمان اپنے عقیدہ کا اعلان کرتا ہے، اور اس کی طرف دوسروں کو دعوت دیتا ہے۔ 4: آمنا : جمع کا صیغہ، اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ امت اسلامیہ کے تمام افراد کی یہ ذمہ داری ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رہیں، اور افتراق کو قبول نہ کریں۔ 5: آمنا باللہ : یعنی ہم ایمان لائے اس اللہ پر جو واجب الوجود ہے، واحد ہے، احد ہے، ہر صفت کمال کے ساتھ متصف ہے، ہر نقص و عیب سے پاک ہے، جو اکیلا تمام انواعِ عبادت کا مستحق ہے، اور جس کا کوئی کسی بھی حیثیت سے شریک نہیں۔ 6: وما انزل الینا : قرآن و سنت دونوں کو شامل ہے، جیسا کہ اللہ نے فرمایا، وما انزل علیکم من الکتاب والحکمۃ، اور اللہ نے آپ پر قرآن و حکمت دونوں اتارا ہے، قرآن و سنت پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان ان دونوں میں موجود تمام صفات باری تعالیٰ، صفات انبیاء و رسل، یوم آخرت، غیبی امور اور احکام شریعہ پر ایمان رکھتا ہے۔ 7۔ وما انزل الی ابراہیم۔۔۔ الایہ۔ تمام کتب سماویہ اور تمام انبیاء پر وجوب ایمان کی دلیل ہے یعنی سب پر ایمان لانا ضروری ہے۔ البقرة
137 200: یعنی اے مسلمانو ! اگر اہل کتاب (یعنی یہود) اسی ایمان سے متصف ہوجائیں جس ایمان سے تم لوگ متصف ہو اور جس کا ذکر ابھی ہوچکا، تو وہ لوگ صراط مستقیم پر گامزن ہوجائیں گے۔ اور اگر انہوں نے محض آپ کی مخالفت اور عداوت میں آ کر حق سے روگردانی کی، تو اللہ اپنے رسول سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ ان کے شر کو آپ سے دور رکھے گا، اور ان کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، کچھ قتل کردئیے گئے، کچھ قید کرلئے گئے، اور کچھ جلا وطن کردئیے گئے اور ہر طرف تتر بتر ہوگئے، اور یہ قرآن اللہ کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے کہ جیسا قرآن نے خبر دی تھی ایسا ہی وقوع پذیر ہوا۔ صحیح بخاری میں ابو سعید خدری (رض) سے مروی ہے کہ بنو قیظہ نے جب سعد بن معاذ (جو ان کے حلیف تھے) کو حکم تسلیم کرلیا۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو بلا بھیجا، وہ ایک گدھے پر آئے، جب مسجد کے قریب ہوئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار سے کہا، تم لوگ اپنے سردار کے استقبال کے لیے کھڑے ہوجاؤ پھر ان کو بتایا کہ بنو قریظہ والوں نے تمہیں حکم مان لیا ہے، تو انہوں نے فرمایا، آپ ان کے جنگ کرنے والوں کو قتل کردیں، اور ان کی اولاد کو قیدی بنا لیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، تم نے اللہ کے فیصلے کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔ صحیح بخاری کی دوسری روایت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ بنو نضیر اور بنو قریظہ نے مسلمانوں سے جنگ کی، تو بنو نضیر جلا وطن کردئیے گئے، اور بنو قریظہ احسان کر کے چھور دئیے گئے، لیکن بنو قریظہ نے پھر مسلمانوں کے ساتھ جنگ کی تو ان کے مردوں کو قتل کردیا گیا، اور عورتوں، بچوں اور ان کی جائدادوں کو مسلمانے کے درمیان تقسیم کردیا گیا، سوائے ان بعض لوگوں کے جو پہلے ہی آکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مل گئے تو آپ نے ان کو امن دے دیا، اور وہ لوگ مسلمان ہوگئے، اس کے بعد تمام یہود مدینہ کو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جلا وطن کردیا اور مدینہ ان کے وجود سے پاک ہوگیا۔ البقرة
138 201: یہود و نصاری کا دستور تھا کہ جب وہ کسی آدمی کو اپنے مذہب میں داخل کرنا چاہتے یا اپنے بچوں کو ایک خاص عمر میں پہنچنے کے بعد یہودیت یا نصرانیت کی تلقین کرتے، تو کہتے کہ ہم نے اس پر اپنے مذہب کا رنگ چڑھا دیا، عیسائیوں نے اس کے لیے ایک زرد پانی ایجاد کیا تھا، جس میں وہ اپنے بچوں کو اور ہر اس شخص جو ان کے مذہب میں داخل ہونا چاہتا تھا، غسل دیتے تھے، جسے عربی میں صبغہ اور اردو میں بپتسمہ کہتے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نزول قرآن کے زمانے کے یہودیوں اور عیسائیوں کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ تمہارا یہ عمل کوئی معنی نہیں رکھتا، اور اللہ کے نزدیک اس کی کوئی حیثیت نہیں، اصلی رنگ تو اللہ کا رنگ ہے اور وہ دین اسلام ہے اس لیے تم اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اسلام کے رنگ میں رنگو اور اس کو اپنی زندگی میں جاری و ساری کرو، کیونکہ جس طرح رنگ کپڑے کے ہر جزو میں پیوست کرجاتا ہے اسی طرح اسلام اپنے ماننے والے کی حالت کو یکسر بدل دیتا ہے۔ البقرة
139 202: اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تعلیم دی ہے کہ مشرکینِ اہل کتاب آپ سے اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں، تو جھگڑا ختم کرتے ہوئے کہیے کہ تم کیسے لوگ ہو جو اللہ کی توحید و اخلاص اور اس کے اوامر و نواہی پر عمل کرنے میں مجھ سے جھگڑتے ہو، حالانکہ وہ ہمارا اور تمہارا سب کا رب ہے۔ اس کے بعد اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تعلیم دی کہ آپ ان سے براءت کا اعلان کردیں، اور کہدیں کہ اگر تم شرک پر جمے رہے تو ہم ایک دوسرے سے بری ہیں، اور ہم تو اپنی عبادت اور تعلق باللہ میں مخلص ہیں۔ البقرة
140 203: یہود و نصاری دعوے کرتے تھے کہ ابراہیم اور دیگر انبیاء جن کا آیت میں ذکر آیا ہے، یہودی یا نصرانی تھے۔ اللہ نے ان کی تردید کی اور کہا کہ تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ؟ اس کے بعد اللہ نے خبر دی کہ وہ لوگ یہود و نصاری نہیں تھے اللہ نے دوسری جگہ ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں فرمایا، آیت، ماکان ابراہیم یہودیا ولا نصرانیا ولکن کان حنیفا مسلما وماکان من المشرکین۔ کہ ابراہیم یہودی یا نصرانی نہیں تھے، بلکہ وہ تو موحد مسلمان تھے اور مشرکوں میں سے نہیں تھے اال عمران : 67۔ 204: حسن بصری کہتے ہیں کہ اہل کتاب اپنی کتابیں پڑھا کرتے کہ سچا دین اسلام ہے، اور محمد اللہ کے رسول ہیں، اور ابراہیم اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور ان کے بیٹے یہودیت و نصرانیت سے بری تھے۔ تورات و انجیل میں اللہ نے ان باتوں کو بیان کیا، اور اہل کتاب نے ان کا اقرار کیا، لیکن انہوں نے اس صداقت کو جان بوجھ کر چھپا دیا، اسی لیے نے بطور تہدید و وعدی کہا کہ تم بڑے ہی ظالم ہو، اور اللہ تمہارے کرتوتوں سے غافل نہیں۔ البقرة
141 205: اس آیت کی تفسیر آیت 134 میں گذر چکی ہے۔ یہاں تکرار کا مقصد، گذشتہ بات کی یاد دہانی کرانی ہے کہ انسان کا ذاتی عمل ہی اس کے کام آئے گا محض انبیاء و رسل کی طرف نسبت، قیام تکے دن کچھ کام نہیں آئے گی، اس لیے گذشتہ لوگوں کے بارے میں باتیں نہ بناؤ۔ تم سے ان کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔ تم سے تو تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا، تم سے سوال کیا جائے گا کہ خاتم النبیین محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے تھے یا نہیں، ان کی شریعت پر عمل کیا تھا یا نہیں؟ البقرة
142 206: مکی زندگی میں جب نماز فرض ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا گیا کہ نماز پڑھتے ہوئے اپنا رخ بیت المقدس میں موجود صخرہ چٹان کی طرف کریں، چنانچہ آپ رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان خانہ کعبہ کو اپنے سامنے کرکے اور صخرہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے، ہجرت مدینہ کے بعد آپ کو دونوں کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا، آپ سولہ یا سترہ ماہ اسی طرح نماز پڑھتے رہے، اور تمنا کرتے رہے کہ اللہ ان کا رخ خانہ کعبہ کی طرف پھیر دے جو ابراہیم (علیہ السلام) کا قبلہ تھا۔ اللہ نے ان کی تمنا پوری کردی، اور خانہ کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دے دیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیا اور انہیں اس بات کی اطلاعی۔ تحویل قبیلہ کے بعد آپ نے پہلی نماز، نماز عصر، خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے پڑھی، جیسا کہ براء بن عازب (رض) کی روایت سے پتہ چلتا ہے جسے شیخین نے روایت کی ہے۔ اہل قبا کو اس کی خبر دوسرے دن فجر کی نماز میں ہوئی جیسا کہ ابن عمر (رض) کی روایت میں ہے جسے شیخین نے روایت کی ہے، تو لوگوں نے نماز کی حالت میں ہی اپنا رخ ملک شام سے خانہ کعبہ کی طرف پھیر لیا۔ 207 : نفسیاتی طور پر حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اور مومنین کو اس بات کی اطلاع پہلے دے دی کہ کچھ نادان لوگ باتیں بنائیں گے، اور کہیں گے کہ آخر ان لوگوں نے اپنا قبلہ کیوں بد لیا، چنانچہ ایسا ہی ہوا، اور یہود، منافقین اور مشرکین عرب نے آپس میں ایسی باتیں کرنی شروع کردیں، تو اللہ تعالیٰ نے ان کے شبہ کا جواب دیا کہ تمام جہات عالم اللہ کی ملکیت ہیں، ان میں سے کوئی جہت بذات خود قبلہ بننے کی مستحق نہیں، وہ قبلہ اس لیے ہے کہ اللہ نے اسے قبلہ بنایا ہے۔ اس لیے ایک جہت سے دوسری جہت تحویل قبلہ پر کوئی عقلمند اور سنجیدہ آدمی اعتراض نہیں کرے گا، بلکہ سمجھے گا کہ جب اللہ نے ایسا حکم دیا ہے تو یہی حق ہے، کیوں کہ تمام جہات کا مالک اللہ ہے۔ البقرة
143 208: اس آیت کریمہ میں امت مسلمہ کی فضیلت اور بڑائی بیان کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے مسلمانو ! جس طرح ہم نے تمہیں ابراہیم کے قبلہ کی طرف پھیر دیا ہے جو سب سے افضل قبلہ ہے۔ اسی طرح ہم نے تمہیں سب سے بہترین معتدل اور صاحب عدالت امت بنایا ہے، اور تمہیں وہ دین دیا ہے جو کامل اور واضح دین ہے، جس میں نہ یہودیت کی تشدید ہے، اور نہ نصرانیت کی ڈھیل۔ 209: اس کا مشہور مفہوم یہ ہے کہ قیامت کے دن مسلمان، انبیاء کے حق میں ان کی امتوں کے خلاف گواہی دیں گے، جب وہ امتیں کہیں گی کہ ہمارے پاس کوئی اللہ کی طرف بلانے والا اور اس سے ڈرانے والا نہیں آیا تھا، تو مسلمان کہیں گے، ہم گواہی دیتے ہیں کہ تمام رسولوں نے اپنی دعوت ان قوموں تک پہنچائی تھی، اسی طرح محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے سامنے گواہی دیں گے کہ انہوں نے اللہ کا پیغام امت مسلمہ کو پہنچا دیا تھا۔ امام بخاری نے ابو سعید خدری (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نوح (علیہ السلام) کو بلائیں گے، اور ان سے پوچھیں گے کہ کیا تم نے میرا پیغام اپنی قوم کو پہنچا دیا تھا؟ تو وہ کہیں گے کہ ہاں، پھر ان کی امت سے پوچھا جائے گا کہ کیا اس نے میر اپیغام تمہیں پہنچا دیا تھا، تو وہ لوگ کہیں گے، ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا، اللہ نوح سے پوچھیں گے، کون ہے تمہارا گواہ؟ تو وہ کہیں گے، محمد اور ان کی امت،،، پھر مسلمان گواہی دیں گے کہ ہاں، انہوں نے پیغام پہنچا دیا تھا، اور محمد رسول اللہ گواہی دیں گے کہ انہوں نے مسلمانوں کو پیغام پہنچا دیا تھا، پھر آپ نے فرمایا : یہی مفہوم ہے اللہ کے قول وکذلک جعلناکم امۃ وسطا الایہ کا۔ اس کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ تاکہ تم دوسری قوموں کو راہ حق کی طرف بلانے کی ذمہ داری قبول کرو، جیسا کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کے دین کی طرف دعوت دینے کی ذمہ داری سنبھالی ہے، مجاہد نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ تاکہ تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے یہود، نصاری اور مجوسیوں کے سامنے گواہ بنو، انہیں دین اسلام کی طرف بلاؤ، بھلائی کا حکم دو، اور برائی سے روکو، جو دعوت اسلامیہ کی اساس اور اس کی روح ہے۔ علمائے تفسیر نے اس آیت کے ضمن میں یہ بھی کہا ہے کہ اللہ نے مسلمانوں کو لوگوں کے بارے میں گواہ بنایا ہے، اور ان کی گواہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گواہی کے قائم مقام ہے۔ صحیح بخاری میں انس بن مالک (رض) کی روایت ہے کہ صحابہ کرام ایک جنازہ کے پاس سے گذرے اور اس کی اچھائی بیان کی، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا، واجب ہوگئی، پھر ایک دوسرے جنازہ سے گذرے تو اس کی برائی بیان کی، آپ نے کہا، واجب ہوگئی، حضرت عمر بن خطاب (رض) نے پوچھا، کیا واجب ہوگئی؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم لوگوں نے اس کی اچھائی بیان کی تو اس کے لیے جنت واجب ہوگئی، اور اس کی برائی بیان کی تو اس کے لیے جہنم واجب ہوگئی، تم لوگ زمین پر اللہ کے گواہ ہو، امام حاکم نے اس حدیث کی روایت میں یہ اضافہ کیا ہے کہ آپ نے یہ آیت پڑھی، وکذلک جعلناکم، الایۃ۔ فائدہ : یہ آیت، اجماع امت کے حجت ہونے کی دلیل ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے وسطا کا لفظ استعمال کیا ہے، جس کے معنی عدل اور ثقہ کے ہیں۔ اگر پوری امت غلطی پر اتفاق کرلے گی تو وہ امت وسط نہیں ہوگی۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ الہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو گمراہی پر مجتمع ہوجانے سے محفوظ رکھا ہے، اور اس میں ایک ایسی جماعت ہمیشہ رہے گی جس کے ذریعہ قیامت تک حجت پوری ہوتی رہے گی، اسی لیے امت اسلامیہ کا اجماع حجت ہے، جیسے قرآن و سنت حجت ہے۔ اور اسی لیے اس امت کے اہل حق، سنت اور جماعت کے التزام کی وجہ سے ان باطل پرستوں سے ہمیشہ ممتاز رہے، جو اس زعم باطل میں مبتلا رہے کہ وہ صرف قرآن کی اتباع کرتے ہیں، اور سنت رسول اور اجماع امت سے اعراض کرتے ہیں۔ اصحاب سنن و مسانید نے مختلف طریقوں سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ یہ امت بہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، سبھی جہنم میں جائیں گے، سوائے ایک فرقہ کے، اور وہ جماعۃ المسلمین کا فرقہ ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا : وہ لوگ اس پر قائم ہوں گے جس پر آج میں اور میرے صحابہ ہیں۔ انتہی۔ اور یہ فرقہ ناجیہ اہل سنت کی جماعت ہوگی۔ یہ لوگ فرقوں میں سب سے بہتر لوگ ہیں، جیسے مذہب اسلام سب سے بہتر مذہب ہے۔ 210: یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ کو پہلے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا، پھر کعبہ کی طرف پھیر دیا، تاکہ معلوم ہوجائے کہ کون آپ کی اتباع کرتا ہے، اور کون اپنے دین سے پھر جاتا ہے، کیونکہ اب بیت المقدس کے بجائے کعبہ کی طرف متوجہ ہونا مومنین صادقین کے علاوہ کفار اور منافقین پر تو بڑا شاق گذرے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، اس امتحان میں کوئی لوگ ناکام رہے، کئی لوگ مرتد ہوگئے، اور بہت سے منافقین نے اپنا نفاق ظاہر کردیا اور کہنے لگے کیا بات ہے کہ محمد، ہمیں کبھی ادھر پھیرتا ہے اور کبھی ادھر؟ مشرکین نے کہا کہ محمد کو اپنے دین میں شک ہوگیا، اور نہی بھانت بھانت کی بولیوں کے درمیان بعض مسلمانوں بھی کہنا شروع کردیا کہ ہم نے اور ہمارے فوت شدہ بھائیوں نے جو نمازیں بیت المقدس کی طرف رخ کر کے پڑھی تھیں، وہ سب ضائع ہوگئیں۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اطمینان دلاتے ہوئے فرمایا کہ تمہاری وہ نمازیں ضائع نہیں ہوئیں، اللہ اپنے بندوں پر مہربانی اور رحم کرنے والا ہے۔ فائدہ : یہ آیت دلیل ہے اس بات کی کہ اعضاء و جوارح کے ذریعہ جو اعمال صالحہ ادا کیے جاتے ہیں، وہ ایمان میں داخل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کو ایمان سے تعبیر کیا ہے۔ البقرة
144 211: یہ آیت اگرچہ تلاوت کے اعتبار سے متاخر ہے، لیکن معنی کے اعتبار سے متقدم ہے، اس لیے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ منورہ آنے کے بعد اللہ کے حکم کے مطابق بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے اور تمنا کرتے رہے کہ کاش ان کا قبلہ مسجد حرام ہوجاتا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تمنا پوری ہوئی۔ 212: مسجد حرام سے اس طرح اشارہ ہے کہ جہت کعبہ کی طرف رخ کرنا واجب ہے، نہ کہ خاص کعبہ کیطرف 213: یعنی بحر و بر میں جہاں بھی رہو، نماز میں اپنا رخ مسجد حرام کی طرف کرو، اور خطاب خاص کے بعد خطاب عام سے مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ یہ حکم تمام مسلمانوں کے لیے عام، اور یہ کہ مسلمان دنیا کے جس گوشے میں بھی ہوگا، نماز میں رخ کعبہ کی طرف کرے گا۔ 214: یہود اپنے انبیاء کی تصریحات کے ذریعہ جو ان کی کتابوں میں موجود تھیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کی امت کی صفات کو اچھی طرح جانتے تے، یہ بھی جانتے کہ دین اسلام جو انسانیت کی ہدایت کے لیے آخری دین ہوگا، وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کی امت کا دین ہوگا، اور ان صفات محمدیہ کے ضمن میں یہ بھی پڑھتے تھے کہ خاتم النبیین کا قبلہ کعبہ ہوگا، لیکن حسد و عناد کی وجہ سے جہاں انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دوسری صفات کا انکار کیا، وہاں کعبہ کے قبلہ ہونے کا بھی انکار کیا، اسی لیے اللہ نے انہیں دھمکی دی کہ اللہ ان کے کرتوتوں سے غافل نہیں ہے۔ البقرة
145 215: اس میں اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاری کے کفر وعناد اور ان کی جانب سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہر بات کی مخالفت کی اطلاع دی ہے، اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات کی خبر دی ہے کہ اگر آپ اپنے دین کی صداقت پر تمام دلیلیں اکٹھا کر کے ان یہود و نصاری کے سامنے پیش کردیں گے، تب بھی یہ آپ کی اتباع نہیں کریں گے، اور اپنی خواہشات کی غلامی سے آزاد نہیں ہوں گے، کیونکہ ان کا کفر کسی شبہ کی وجہ سے نہیں جسے دلائل کے ذریعہ دور کیا جاسکتے، یہ تو صرف کبر و عناد کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں۔ 216: یعنی نہ وہ لوگ اپنے باطل کو چھوڑنے والے ہیں، اور نہ آپ اپنے حق کو چھورنے والے ہیں، آپ سے ایسا سرزد ہونا ممکن ہی نہیں۔ 217: یہود کا قبلہ بیت المقدس ہے، اور نصاری کا مطلع آفتاب، حالانکہ ان سب کا تعلق بنی اسرائیل سے ہے، لیکن دونوں ہی جماعتیں اپنی اپنی رائے پر سختی کے ساتھ جمی ہوئی ہیں۔ اس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ایک طرح کا اشارہ ہے کہ آپ ان سے بھلائی کی توقع نہ کریں اور ان کی ہدایت کی امید نہ رکھیں۔ 218: یہود و نصاری کے مذہب کو اھواء یعنی خواہشات نفس سے تعبیر کیا گیا ہے، اس لیے کہ ان کا مذہب ان کی خواہشات کے مجموعے کا نام تھا اور وہ لوگ اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ جاثیہ آیت 23 میں فرمایا ہے۔ آیت افرایت من اتخذ الہہ ھواہ، یعنی کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے اس آیت میں بندے کی خواہش نفس کو اس کا معبود بتایا گیا ہے۔ 219: اس سے بڑھ کر ظلم اور کیا ہوگا کہ آدمی حق وباطل کو جانتے ہوئے، باطل کو حق پر ترجیح دے، یہاں مخاطب اگرچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، لیکن ان کی امت اس میں داخل ہے، اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی عظمت شان اور علوت مرتبت کے باوجود ایسا کرنے پر اللہ کے نزدیک ظالم ہوجائیں گے، تو ان کی امت کے لوگوں کا ایسا کرنے پر کیا حال ہوگا۔ البقرة
146 220: اس میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اہل کتاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسول ہونے پر ایسا ہی یقین رکھتے ہیں جیسے انہیں اپنی صلبی اولاد کے بارے میں یقین ہے کہ یہ ہماری اولاد ہیں اور یہ یقین انہیں ان اوصاف کے ذریعہ حاصل ہوچکا ہے جو تورات و انجیل میں نبی موعود کے بارے میں موجود ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی سورۃ اعراف آیت 157 میں فرمایا ہے آیت یجدونہ مکتوبا عندھم فی التوراۃ والانجیل، یعنی نبی موعود (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات ان کے تورات و انجیل میں لکھی ہوئی موجود ہیں لیکن اہل کتاب کا ایک گروہ اس حق بات کو جانتے ہوئے چھپاتا ہے۔ البقرة
147 221: نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنین کے لیے مزید یقین دہانی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو قرآن نازل ہوا ہے اور انہیں جو دین دے کر بھیجا گیا ہے وہی حق ہے جس میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں، اس لیے آپ کی امت اس حق میں کوئی شبہ نہ کرے۔ البقرة
148 222: یہ آیت بتاتی ہے کہ ہر صاحب دین و ملت کے لیے ایک مخصوص جہت ہوتی ہے، جدھر وہ اپنی عبادتوں میں رخ کرتا ہے، جیسے مسلمانوں کا قبلہ کعبہ، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دنیا میں مختلف مذاہبھ اور متعدد ادیان پائے جاتے ہیں، اس لیے عقلمند آدمی کو چاہیے کہ ان میں جو سب سے بہتر اور اعلی و ارفع دین ہو، اسے اپنائے، اور تمام عقلائے بنی نوع انسان کا اس پر اتفاق ہے کہ دین اسلام ہی وہ دین ہے جس میں انسان کے لیے تمام بھلائیاں جمع کردی گئی ہیں، اس لیے اسے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے ہر انسان کو ایک دوسرے سے سبقت لے جانا چاہئے۔ 223: کلمہ مسابقت، مسارعت سے زیادہ بلیغ ہے، کیونکہ اس میں دوسروں پر سبقت لے جانے کا معنی بھی پایا جاتا ہے، اور خیرات سے مراد وہ تمام اعمال صالحہ ہیں جن کے ذریعہ دنیا وآخرت کی سعادت حاصل کی جاسکتی ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نصیحت کی ہے کہ تمہارا شیوہ ہر خیر اور ہر بھلائی کی طرف سبقت کرنا ہونا چاہئے۔ 224: اس میں اعمالِ صالحہ کے لیے ایک قسم کی ترغیب ہے، کیونکہ آدمی کو جب یقین ہوگا یکہ اللہ سے ادوبارہ زندگہ کرے گا اور اسے اس کے اعمال کا بدلہ چکائے گا، تو پھر وہ آخرت کی تیاری میں تیز تر ہوجائے گا 225: یعنی اللہ تعالیٰ روز قیامت تمہیں زمین کے گوشے گوشے سے جمع کرنے پر قادر ہے، چاہے تمہارے اجسام و اعضاء ہر طرف بکھر کیوں نہ گئے ہوں۔ البقرة
149 البقرة
150 226: مسلمانوں کا قبلہ کعبہ بن جانے کے بعد میدنہ منورہ میں ایک فتنہ برپا ہوگیا، اہل کتاب، منافقین اور مشرکین نے طرح طرح کی باتیں بنانا شروع کردیں، اور مختلف قسم کے شب ہے پھیلانا شروع کردئیے، ایسی فضا کو ختم کرنے اور مسلمانوں کے دل و دماغ میں یہ بات بٹھانے کے لیے کہ کعبہ اب ابدالآباد تک کے لیے مسلمانوں کا قبلہ ہوگیا ہے، ضرورت اس بات کی تھی کہ مختلف اسالیب اور مختلف پیرائے میں یہ بات مسلمانوں کے ذہن نشیں کرادی جائے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس حکم کو بیان کرنے کے لیے تکرار کا اسلوب اختیار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے اپنے نبی کو خطاب کر کے فرمایا کہ آپ سفر و حضرت میں کہیں بھی ہوں نماز میں اپنا رخ کبعہ کی طرف کریں، اور یہ حکم تمام مسلمانوں کے لیے تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے تمام امت اسلامیہ کو خطاب کر کے فرمایا کہ تم لوگ جہاں کہیں بھی رہو، نماز میں مسجد حرام کی طرف رخ کرو، پھر اللہ تعالیٰ نے مزید تاکید کے لیے فرمایا کہ بیت المقدس سے کعبہ کی طرف تحویل قبلہ اللہ کی طرف سے ہے۔ اور یہ سب اللہ نے اس لیے کیا تاکہ اہل کتاب اور مشرکین کے پاس نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف باتیں بنانے کا بہانہ باقی نہ رہ جائے، کیونکہ اہل کتاب اپنی کتابوں کے ذریعہ جانتے تھے کہ خاتم النبیین کا قبلہ کعبہ ہوگا، اگر بیت المقدس ہی قبلہ رہ جاتا تو اہل کتاب کو حیرانگی ہوتی اور دل میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت میں شبہ کرتے، اور مشرکین کہتے کہ محمد دعوی کرتا ہے کہ وہ ملت ابراہیمی پر گامزن ہے، اور اس کی اولاد میں سے ہے، تو پھر ابراہیم کا قبلہ کیوں نہیں اختیار کرتا، چنانچہ کعبہ کے قبلہ ہوجانے کے بعد سب کی زبانیں تقریباً بند نہ ہوگئیں۔ سوائے چند ظالموں کے جنہیں کوئی نہ کوئی بات بناتے رہنا تھا۔ مجاہد کہتے ہیں کہ بعض یہودیوں نے کہا کہ محمد اپنے باپ کے گھر اور اپنی قوم کے دین کا مشتاق ہوگیا ہے اور بعض مشرکوں نے آپس میں کہنا شروع کیا کہ محمد جب ہمارے قبلہ کی طرف لوٹ گیا ہے تو اب ہمارے دین کی طرف بھی لوٹ جائے گا۔ اس کے بعد اللہ نے مسلمانوں سے فرمایا کہ تم لوگ ان کی فتنہ انگیز باتوں سے نہ گھبراؤ، اور مجھ سے ڈرو، اور میرے حکم کی مخالفت نہ کرو، میں چاہتا ہوں کہ اپنی نعمت تم پر تمام کردوں، اور تم لوگ حق کو پہچان کر اس پر عمل کرو۔ البقرة
151 227: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے مسلمانو ! اگر آج ہم نے تمہیں کعبہ بطور قبلہ عنایت کیا ہے، اور شریعت اسلامیہ جیسی نعمت سے نوازا ہے، تو ہم نے اس سے پہلے تمہارے پاس اپنا رسول بھیجا ہے تو جو تم ہی میں سے ہیں، تمہیں قرآن پڑھ کر سناتے ہیں، بے مثال تربیت کے ذریعہ تمہیں دین اور اخلاقی خرابیوں سے پاک کرتے ہیں اور قرآن و سنت کی تعلیم دیتے ہیں، نیز وہ تمام اچھی باتیں سکھاتے ہیں جو تم جانتے نہ تھے، اور جو انسان کو دنیا و آخرت میں بلند وبالا کرتی ہیں۔ ان احسانات کا تقاضا یہ ہے کہ تم مجھے یاد کرتے رہو اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں یاد کرتا رہوں گا، اور میرا شکر ادا کرتے رہو، اور کفرانِ نعمت نہ کرو، امام احمد اور امام بخاری نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ عز وجل کہتا ہے میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے، اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں، اور اگر وہ مجھے مجمع میں یاد کرتا ہے تو میں اسے اس سے بہتر مجمع میں یاد کرتا ہوں۔ الحدیث اور امام مسلم نے ابوسعید خدری اور ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے، ان دونوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں گواہی دی کہ آپ نے فرمایا : جب کوئی جماعت اللہ کا ذکر کرنے کے لیے بیٹھتی ہے تو فرشتے انہیں گھیرے میں لے لیتے ہیں، رحمت انہیں ڈھانک لیتی ہے، ان پر سکون و اطمینان نازل ہوتا ہے، اور اللہ انہیں پاس رہنے والوں کے درمیان یاد کرتا ہے۔ فائدہ : ذکرِ الٰہی صرف تسبیح و تہلیل اور تحمید و تکبیر میں منحصر نہیں ہے، بلکہ ہر وہ عمل جو قرآن و سنت کے مطابق ہو، اور جس میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہو وہ ذکر الٰہی ہے۔ امام ابن القیم (رح) وسلم فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے زیادہ اللہ کو یاد کرنے والے تھے، ان کی گفتگو، ان کا امر و نہی، اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات، احکام و افعال اور وعدہ و وعید کے بارے میں ان کی حدیثیں، ان کا اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنا، اللہ تعالیٰ سے سوال و دعا، جنت کی رغبت دلانا، اور جہنم سے ڈرانا، ان کی خاموشی، سب کچھ ذکر الٰہی تھا۔ وہ ہر وقت اور ہر حال میں، چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھے، سوتے جاگتے اور سفر و حضرت میں اللہ کی یاد میں مشغول رہتے تھے، انتہی۔ ذکر الٰہی کے وہ تمام طریقے اور وہ حرکات و سکنات جو گمراہ صوفیا نے ایجاد کرلیے ہیں، جن کا ثبوت صحابہ کرام، تابعین عظام اور ائمہ کرام سے نہیں ملتا، بدترین بدعت ہیں، انہوں سماع کے نام سے اپنی محفلوں میں رقص و موسیقی کو داخل کردیا، اور مسلمانوں کو قرآن سننے اور سنانے سے روک دیا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جب جمع ہوتے تھے تو ان میں کا ایک قرآن پڑھتا تھا، اور باقی لوگ سنتے تھے۔ حضرت عمر رضٰ اللہ عنہ ابو موسیٰ اشعری (رض) سے کہتے تھے، ذکرنا ربنا، کہ ہمیں ہمارے رب کی یاد دلاؤ، چنانچہ وہ قرآن پڑھتے اور عمر سنتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، آیت اذ تتلی علیہم آیات الرحمن خروا سجدا وبکیا، جب ان کے سامنے اللہ کے قرآن کی تلاوت ہوتی ہے تو وہ سجدے میں روتے ہوئے گر پڑتے ہیں (مریم : 58)۔ ایک دوسری آیت میں اللہ نے فرمایا ہے۔ آیت اللہ نزل احسن الحدیث کتابا متشابھا مثانی تقشعر منہ جلود الذین یخشون ربہم ثم تلین جلودھم وقلوبہم الی ذکر اللہ۔ کہ اللہ نے سب سے اچھی حدیث نازل کی ہے جو اسی کتاب ہے کہ آپس میں ملتی جلتی اور بار بار دہرائی ہوئی آیتوں کی ہے جس سے ان لوگوں کے جسم کانپ اٹھتے جو اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں۔ پھر ان کے جسم اور دل اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف جھک جاتے ہیں۔ الزمر : 23)۔ معلوم ہوا کہ قرآن وسنت کے حدود میں رہ کر اللہ تعالیٰ کی بندگی کرنا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت مبارکہ کے سانچے میں اپنی زندگی کو ڈھالنا، قرآن کریم کی تلاوت اور قرآن کریم کو سمجھنا اور سمجھانا، ذکر الٰہی کے صحیح طریقے ہیں۔ وہ تسبیحات جن کا ثبوت قرآن و سنت سے نہیں ملتا، مثلاً پالتی مار کر اور آنکھیں بند کر کے بیٹھ جانا اور دعوی کرنا کہ اللہ کا تصور دل و دماغ میں بسایا جا رہا ہے، حق ھو کے نعرے لگانا، دل پر لا الہ الا اللہ کی ضربیں لگانا، حلقے بنا کر بیٹھ جانا اور سری یا جہری ذکر میں بزعم خود مشغول ہونا، یہ اور اس قسمکے افعال و حرکات کا، مشروع ذکرِ الٰہی سے کوئی تعلق نہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ ہر وہ کام جس کا ثبوت ہماری شریعت میں نہیں ملتا، وہ مردود ہے۔ چاہے وہ کوئی عقیدہ ہو کوئی نظریہ ہو کوئی قول وعمل ہو، اور چاہے ذکر کے خود ساختہ طریقے ہوں، سبھی کچھ مردود ہے اگر قرآن و سنت سے اس کو ثبوت نہیں ملتا، اگر کوئی شخص زندگی بھر مراقبہ میں بیٹھا رہ جائے اور اس زعم باطل میں مبتلا رہے کہ وہ اللہ کی یاد میں مشغول ہے، لیکن اس کے اس عمل کا ثبوت قرآن وسنت سے نہیں ملتا، تو اس کی ساری محنت بے کار ہے، بلکہ قیامت کے دن وبال جان بن کر اس کے سامنے آئے گی۔ البقرة
152 البقرة
153 228: اللہ تعالیٰ نے بندون خو شکر ادا کرنے کا حکم دینے کے بعد، اس آیت میں صبر اور نماز کی اہمیت بیان کی ہے اور بتایا ہے کہ مومن کی زندگی میں ان دونوں چیزوں کی بڑی اہمیت ہے، اور اللہ کی راہ میں مصائب کو جھیل جانے کا اہم ترین نسخہ صبر اور نماز ہے۔ اسی لیے تو اللہ نے اسی سورت کی آیت 45 میں فرمایا ہے، آیت واستعینوا بالصبر والصلاۃ وانہا لکبیرۃ الا علی الخاشعین۔ اور تم لوگ صبر اور نماز سے مدد لو، اور یہ نماز اللہ کے لیے عاجزی اختیار کرنے والوں کے علاوہ لوگوں پر بڑا بھاری گذرتا ہے۔ اور مسند احمد میں حذیفہ بن یمان (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب کوئی اہم معاملہ پیش آتا، تو نماز پڑھتے تھے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ صبر کی تین قسمیں ہیں : 1۔ محرمات اور معاصی سے اجتناب پر صبر کرنا۔ 2۔ اعمال صالحہ اور اللہ کی اطاعت ٦ پر صبر کرنا۔ 3۔ مصائب و حادثات زمانہ پر صبر کرنا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رح) اپنی کتاب السیاسۃ الشرعیۃ میں لکھتے ہیں کہ حاکم کے لیے بالخصوص اور رعایا کے لیے بالعموم تین چیزیں عظیم مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ 1۔ اللہ کے لیے اخلاص، اور دعا اور غیر دعا کے ذریعہ اس پر توکل، اور دل و جان سے نماز کی حفاظت و پابندی، جو اللہ کے لیے اخلاص کی اصل ہے۔ 2۔ مخلوق کے ساتھ بھلائی کرنا اور زکاۃ ادا کرنا۔ 3۔ تکلیف، مصیبت اور حادثاتِ زمانہ کے وقت صبر کرنا۔ انتہی۔ 229: اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور یہاں (معیت) سے مراد ” معیت خاصۃ“ ہے، جو اللہ کی محبت اور اس کی نصرت و قربت پر دلالت کرتی ہے۔ یعنی اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے، ان سے محبت کرتا ہے اور ان کی مدد کرتا ہے۔ اور صبر کرنے والوں کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا فضیلت ہوسکتی ہے کہ اللہ ان کے ساتھ ہے اور معیت کی ایک دوسرے قسم معیت عامہ ہے یعنی اللہ اپنی علم وقدرت کے ذریعہ اپنے بندوں کے ساتھ ہے جیسا کہ اللہ نے فرمایا ہے وھو معکم این ما کنتم۔ اور یہ معیت تمام مخلوق کے لیے ہے۔ البقرة
154 230: اللہ کی اطاعت پر صبر کرنے کا عظیم ترین نمونہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہے کہ آدم اپنے خالق و مالک کی رضا کی خاطر اس کی راہ میں اپنی عزیز ترین شے (جان) کی قربانی دیتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے شہید کو اس دنیاوی زندگی سے افضل و اعلی زندگی عطا کرنے کا وعدہ کیا ہے اور مومنین کو منع کیا ہے کہ وہ شہید کو مردہ کہٰں، کیونکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہوتا ہے۔، لیکن وہ اسی زندگی ہوتی ہے جس کا ہم شعور نہیں کرپاتے، مگر ہمارے شعور نہ کر پانے سے اللہ کے نزدیک ثابت شدہ حقائق نہیں بدل جاتے۔ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا ہے۔ آیت بل احیاء عند ربہم یرزقون۔ فرحین بما اتاھم اللہ من فضلہ ویستبشرون بالذین لم یلحقوا بہم من خلفہم الا خوف علیہم ولا ھم یحزنون۔ یستبشرون بنعمۃ من اللہ وفضل وان اللہ لا یضیع اجر المومنین۔ یعنی وہ زندہ ہیں، انہیں اپنے رب کی طرف سے روزی مل رہی ہے، اور اللہ نے اپنے فضل سے جو کچھ انہیں دیا ہے، اس پر خوش ہیں اور ان لوگوں کی نسبت خوش ہو رہے ہیں جو ابھی ان سے ملے نہیں، ان کے پیچھے ہیں کہ نہ تو انہیں کوئی خوف لاحق ہوگا اور نہ کسی قسم کا غم کھائیں گے، وہ اللہ کی نعمتوں اور اس کے فضل کی وجہ سے خوشیاں مناتے ہیں اور اس بات سے اللہ ایمان رکھنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ آل عمران : 169 تا 171۔ فائدہ : یہ آیت برزخ کی زندگی پر دلیل ہے، اور یہ کہ برزخ کی زندگی دنیاوی زندگی سے افضل و اکمل ہے۔ البقرة
155 231: یہ خطاب صحابہ کرام کے لیے ہے، لیکن دیگر مومنین بھی اس میں شامل ہیں، اس لیے کہ جو لوگ دعوت الی اللہ اور جہاد فی سبیل اللہ کی ذمہ داری قبول کریں گے، ان کا مقابلہ اہل فسق و فجور سے ہوگا، اور جو لوگ حق پر قائم رہٰیں گے اور اس کی طرف دوسروں کو بلائیں گے ان کی ابتلاء و آزمائش لازم ہے، یہی سنت ابراہیمی ہے، اور یہ آزمائش اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ جھوٹے اور سچے اور صبر کرنے والے اور جزع و فزع کرنے والے میں تمیز ہوسکے۔ اور جو صبر سے کام لیتا ہے، اللہ سے اجر کی امید رکھتا ہے، اور راجی بقضائے الٰہی ہوتا ہے، اللہ اسے بشارت دیتا ہے کہ اس کا اجر اس کو پورا پورا ملے گا۔ البقرة
156 232: صبر کرنے والوں کی اللہ نے یہ صفت بتائی کہ جب انہیں کوئی مصیبت لاحق ہوتی ہے تو فوراً اللہ کی تقدیر پر اپنی رضا کا اظہار کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ہم اللہ اللہ کے غلام ہیں، ہماری جانیں اور ہمارے اموال سب کچھ اللہ کی ملکیت ہیں اس لیے ارحم الراحمین اگر اپنے غلاموں اور ان کے اموال میں تصرف کرتا ہے، تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ البقرة
157 233: صبر کرنے والوں کے لیے ایک اجر عظیم یہ بھی ہے کہ رب العالمین ان کی تعریف بیان کرتا ہے، اور ان پر رحمت کا نزول فرماتا ہے اور یہی لوگ فی الواقع راہ ہدایت پر ہیں، اس لیے کہ انہوں نے جب جان لیا کہ وہ اللہ کے غلام ہیں، اور اسی کی طرف لوٹ کر جائیں گے، تو کسی بھی حال میں صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ صبر کرنے والوں کے لیے اجر عظیم سے متعلق بہت سی صحیح احادیث آئی ہیں، اختصار کی غرض سے صرف ایک حدیث ذکر کرتا ہوں : شیخین نے ابوسعید اور ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مسلمان کو جب بھی کوئی پریشانی، یا حزن وملال یا غم و تکلیف لاحق ہوتی ہے، حتی کہ اگر ایک کانٹا بھی چبھتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ البقرة
158 234: اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں خبر دی ہے کہ صفا اور مروہ دونوں پہاڑیاں اس کے دین کی نشانیوں میں سے ہیں، اس لیے جو کوئی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے، اس کے لیے ان دونوں کے درمیان سعی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس آیت کریمہ کا شان نزول یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اوس و خزرج کے لوگ اسلام سے پہلے مناۃ بت کی پرستش کرتے تھے، جو مقام مشلل میں تھا، اور اس کا تلبیہ پڑھتے تھے، اور جو لوگ اس بات کا تلبیہ پڑھتے تھے وہ صفا و مروہ کے درمیان سعی کو گناہ سمجھتے تھے، اس لیے اسلام لانے کے بعد انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ ہم لوگ جاہلیت کے دور میں صفا و مروہ کے درمیان سعی کو گناہ سمجھتے تھے، اب اس بارے میں اسلام کا کیا حکم ہے؟ تو قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی۔ امام زہری، ابوبکر بن عبدالرحمن سے ایک دوسری روایت بیان کرتے ہیں کہ کچھ لوگ صفا و مروہ کے درمیان سعی کو دور جاہلیت کا عمل سمجھتے تھے، اور انصار کے کچھ لوگوں نے کہا کہ ہمیں بیت اللہ کے طواف کا حکم تو دیا گیا ہے، صفا و مروی ہے کے درمیان سعی کا نہیں، تو یہ آیت نازل ہوئی۔ ایک اور روایت ہے کہ صفا و مروہ دونوں پہاڑیوں پر اساف اور نائلہ نام کے دو بت تھے، دور جاہلیت میں لوگ ان دونوں کے درمیان دوڑتے تھے، اسلام آنے کے بعد دونوں بتوں کو پھینک دیا گیا تو لوگوں نے کہا کہ سعی دونوں بتوں کے لیے تھی، اس لیے سعی کرنا بند کردیا، تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ابو بکر بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ ممکن ہے ان تمام ہی قسم کے لوگوں کے بارے میں یہ آیت اتری ہو، صحیح مسلم میں جابر بن عبداللہ (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت اللہ کے طواف کے بعد صفا و مروہ کے درمیان سعی کی، اور فرمایا سعی کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے اوپر سعی کو واجب قرار دیا ہے اور حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ صٖفا اور مروہ کے درمیان طواف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت ہے، اس لیے کسی کے لیے اسے چھوڑ دینا جائز نہیں (صحیحین) فائدہ : صفا و مروہ کے درمیان سعی حضرت ہاجرہ علیہا السلام کی دوڑ کی یاد گار ہے۔ جب کھانا اور پانی ختم ہوگیا، اور اپنے بچے کو پیاس کے مارے بلبلاتے دیکھاتو نہایت اضطراب و پریشان کے عالم میں اللہ کے سامنے عجز و انکساری کے ساتھ دونوں پہاڑیوں کے درمیان لگانے لگیں، تو اللہ کی رحمت جوش میں آئی اور زمزم کا چشمہ پھوٹ پڑا، اور ان کا کرب و الم دور ہوا، اس لیے سعی کرنے والے کو چاہئے کہ اپنے دل میں اللہ کے سامنے اپنی ذلت و محتاجی کا تصور کرے، اپنے گناہوں سے معافی مانگتا رہے، اور دعا کرتا رہے کہ اللہ اس کے دل کی حالت بہتر بنا دے اور اس کے عیوب و نقائص کو دور کردے۔ البقرة
159 235: اس آیت میں ان لوگوں کے لیے شدید وعید ہے، جو انبیاء ورسل کے ذریعہ بھیجی گئی ہدایت و رہنمائی کو لوگوں سے چھپاتے ہیں۔ یہ آیت اگرچہ یہود و نصاری کے ان علماء کے بارے میں نازل ہوئی تھی جنہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کی نشانیوں کو چھپایا تھا، لیکن اس کا حکم عام ہے، ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ حق کی نشانیوں کو چھپائے گا، وہ اس کی وعید میں شامل ہوگا، کتمان حق اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو اپنی رحمت و قربت سے دور کردیتا ہے، اور ساری دنیا کی لعنت ان پر برسنے لگتی ہے۔ البقرة
160 236: اس آیت میں حکم سابق سے استثناء ہے کہ جو اپنے گناہوں سے تائب ہوگا اور اپنی اصلاح کرلے گا، اور حق کی جو بات چھپائی تھی اسے لوگوں کے سامنے بیان کردے گا تو اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کرلے گا۔ البقرة
161 237: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کا انکار کرے گا، اور اسی حال میں اس کی موت آجائے گی، تو اس پر اللہ، اس کے فرشتوں اور تمام بنی نوع انسان کی لعنت واقع ہوجائے گی، اور جہنم اس کا ہمیشہ کے لیے ٹھکانا بن جائے گا، نہ عذاب میں کمی آئے گی، اور نہ اللہ اس پر نظر رحمت ڈالے گا۔ البقرة
162 البقرة
163 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ اپنی ذات، اسماء و صفات اور افعال میں اکیلا ہے، کوئی اس کا شریک نہیں، اس کے علاوہ کوئی خالق و مدبر نہیں، اس لیے عبادت کی تمام صورتیں صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں۔ البقرة
164 239: اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت کی اجمالی دلیل بیان کرنے کے بعد اس آیت میں تفصیلی دلائل کا ذکر فرمایا ہے، اور انسان کو دعوت فکر دی ہے کہ ذرا ان نشانیوں میں غور تو کرو، کیا یہ اللہ کے وجود اور اس کے قادر مطلق ہونے کے دلائل نہیں ہیں؟ آسمان کی بلندی، اس کی وسعت و پہنائی، اس میں شمس و قمر اور ستاروں کی دنیا، زمین کی پستی، اس کا ہموار ہونا، اس کے پہاڑ، اس کے سمندر، اس کی آبادیاں، اور گوناگوں نفع بخش چیزیں، لیل ونہار کی باضابطہ گردش، گری، سردی، موسم کا اعتدال، رات اور دن کا چھوٹا بڑا ہونا، کشتیوں اور جہازوں کا سمندروں میں انواع و اقسام کے سامان لے کر چلنا، سمندروں اور ہواؤں کا اس کے لیے مسخر ہونا، آسمان سے بارش کا نزول، جس سے مردہ زمین میں جان آجاتی ہے، اور مختلف الانواع نباتات اور کھانے کی چیزوں کا پیدا ہونا، زمین میں مختلف قسم کے جانور اور بنی نوع انسان کے لیے ان کی تسخیر، ہواؤں کا چلنا۔ ٹھنڈی، گرم، جنوبی، شمالی، شرقی اور غربی ہواؤں کا تنوع، اور بادلوں کا وجود جو بارش کا پانی لے کر اللہ کے حکم سے دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچتے رہتے ہیں۔ یقیناً یہ ساری چیزیں اللہ کے وجود اور اس کی قدرت مطلقہ پر دلالت کرتی ہیں اور ہر صاحب عقل و خرد کے لیے اللہ پر ایمان لانے کے لیے یہ نشانیاں کافی ہیں۔ البقرة
165 240: اللہ تعالیٰ نے اپنے وجود، اپنی قدرت مطلقہ، اپنی توحید اور اپنی رحمت کی نشانیاں اس لیے بیان کردی ہیں، تاکہ بندے صرف اسی کی عبادت کریں، اور صرف اسی سے محبت کریں، اس کی عبادت اور اس کی محبت میں کسی دوسرے کو شریک نہ بنائیں۔ لیکن مشرکین کا حال اس سے مختلف ہوتا ہے۔ وہ اللہ کے بجائے دوسروں کی پرستش کرتے ہیں، اور اپنے معبودان باطل سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی اللہ سے کی جانی چاہئے اور جو صادق الایمان ہوتے ہیں، وہ توحید باری تعالیٰ کا صحیح علم رکھنے کی وجہ سے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتے، صرف اسی کی عبادت کرتے ہیں، اسی پر توکل کرتے ہیں، اور زندگی کے تمام امور میں صرف اللہ کی جناب میں پناہ لیتے ہیں۔ حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ، شرح المنازل، بابت التوبہ میں فرماتے ہیں کہ شرک کی دو قسمیں ہیں : شرک اکبر اور شرک اصغر، شرک اکبر کو اللہ بغیر توبہ معاف نہیں کرتا، اور وہ یہ ہے کہ بندہ کسی کو اللہ کا شریک بنا لے، اور اس سے ویسی ہی محبت کرے جیسی اللہ سے کی جانی چاہئے اور یہ وہ شرک ہے جس میں إشرکین اپنے معبودانِ باطل کو رب العالمین کے برابر قرار دیتے ہیں، اور یہ برابری محبت، تعظیم اور عبادت میں ہوتی ہے، جیسا کہ اکثر مشرکینِ عالم کا حال ہے، بلکہ اکثر مشرکین تو اپنے معبودوں سے اللہ کے مقابلے میں زیادہ محبت کرتے ہیں، اور ان کو یاد کر کے زیادہ خوش ہوتے ہیں۔ اگر ان کے معبودوں اور ان مشایخ کا جنہیں انہوں نے اپنا معبود بنا لیا ہے، کوئی شخص ادب و احترام کے ساتھ نام نہیں لیتا، تو اس قدر غضبناک ہوتے ہیں جس قدر وہ اللہ کا نام سوئے ادب سے لینے والے پر نہیں ہوتے، اور چیتے یا کتے کے مانند غیظ و غضب کا ظہار کرتے ہیں اور اگر کوئی اللہ کے مقرر کردہ حدود کو پامال کرتا ہے تو ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، بلکہ تھوڑی سی دنیاوی لالچ کی خاطر فوراً خوش ہوجاتے ہیں، جیسے کہ کچھ ہوا ہی نہ تھا۔ 241: مشرکین کے لیے دھمکی ہے کہ جب وہ ظالم، عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے، اور اپنے آپ کو اس میں گرفتار پائیں گے، تب شاید انہیں یقین آئے گا کہ حاکمیت صرف اللہ کے لیے ہے، اور آسمان و زمین کے درمیان ایک تنکا بھی اس کی قوت تصرف سے خارج نہیں۔ البقرة
166 242: قیامت کے دن مشرکین کے لیے وعید بیان کی گئی ہے، اس دن مشرکین کے باطل معبودان، جنہیں پوجا گیا تھا، جب عذاب کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھیں گے تو اپنی پرستش کرنے والوں سے براءت کا اظہار کریں گے، اور تمام رشتے کٹ جائیں گے جن کی بنیاد پر وہ جمع ہوتے تھے، کوئی معبود بنا تھا، اور کسی نے اس کی پرستش کی تھی۔ البقرة
167 243: جب قیامت کے دن مشرکین دیکھیں گے کہ ان کے معبودانِ باطلہ نے ان سے براءت کا اعلان کردیا ہے، تو دنیا میں اپنے کیے پر ندامت کا اظہار کریں گے اور کہیں گے کہ اے کاش ! ہم دوبارہ دنیا میں لوٹا دئیے جاتے، تو ان سے ہم بھی بری ہوجاتے، اور ایک اللہ کی عبادت کرتے، لیکن وہ اپنے اس قول میں جھوٹے ہوں گے، بلکہ اگر انہیں لوٹا دیا جاتا تو پھر وہی کرتے جو پہلے کرتے رہے تھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں اطلاع دی ہے، اور کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے برے اعمال ان کے سامنے پیش کردے گا، جنہیں وہ حسرت و تاسف کی نگاہوں سے دیکھیں گے، لیکن مثل مشہور ہے کہ ” اب پچھتاوت کیا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت“ اب تو جہنم ان کا ٹھکانا ہوگا، جہاں سے وہ کبھی بھی نہیں نکل پائیں گے۔ البقرة
168 244: جب یہ بیان ہوچکا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور وہی ہر شے کا خالق و مالک ہے، تو اب یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ وہی اکیلا روزی دینے والا ہے، اور اسی نے انسانوں کے لیے زمین پر موجود ہر حلال اور طیب (یعنی جو فی نفسہ لذیذ ہو اور جسم و عقل کے لیے نقصان دہ نہ ہو) کو مباح قرار دیا ہے، اور شیطان کے نقش قدم پر چلنے سے منع فرمایا ہے، اس لیے کہ شیطان کے بہکاوے میں آکر دور جاہلیت والے کئی قسم کے جانوروں کو بتوں کی طرف مختلف انداز میں منسوب کرتے، اور ان کا گوشت کھانا حرام سمجھتے تھے۔ اس کی تفصیل سے سورۃ مائدہ آیت 103 میں آئے گی۔ 245: مقصود شیطان سے نفرت دلانا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا ہے آیت ان الشیطان لکم عدو فاتخذوہ عدوا انما یدعو حزبہ لیکونوا من اصحاب السعیر۔ کہ شیطان بلاشبہ تمہارا دشمن ہے، سو تم بھی اس کو دشمن ہی سمجھو۔ وہ تو محض اپنے گروہ کو اس لیے بلاتا ہے تاکہ وہ آتش دوزخ میں پڑیں، الفاطر : 6۔ البقرة
169 246: شیطان کی عداوت کی تفصیل بتائی گئی ہے کہ وہ تمہیں معاصی کا بالعموم اور فواحش کا بالخصوص حکم دیتا ہے۔ جیسے زنا، شراب، قتل اور دوسروں پر زنا کی تہمت لگانا وغیرہ اور تمہیں شیطان اس بات کا بھی حکم دیتا ہے کہ اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کرو جن کا تم علم نہیں رکھتے ہو۔ فائدہ : اللہ کے بارے میں بغیر علم بات کرنے میں بہت سی چیزیں داخل ہیں، جیسے اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کا انکار کرنا یا اس کی تاویل کرنا، اللہ کا کسی کو شریک بنان، بغیر علم و بصیرت کے کہنا کہ اللہ نے یہ چیز حلال اور وہ چیز حرام کی ہے، اس کام کا حکم دیا ہے اور اس سے منع کیا ہے اور اس سلسلے کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ کوئی گمراہ فرقہ اللہ یا اس کے رسول کے کلام کی تاویل کر کے اپنی گمراہی کو حق ثابت کرنے کے لیے دلیل فراہم کرے۔ البقرة
170 247: شیطان کی اتباع سے روکنے کے بعد، اب بغیر حجت و برہان آباء واجداد کی اتباع سے روکا جا رہا ہے جو درحقیقت شیطان ہی کی اتباع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب مشرکین سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے اپنے رسول پر جو دین اتارا ہے اس کی اتباع کرو، تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو وہی کریں گے جو ہمارے آباء واجداد کرتے تھے، یعنی بتوں اور خود ساختہ معبودوں کی پرستش کریں گے اللہ نے ان کی تردید کی کہ کیا تم اپنے آباء کی پیروی کروگے، چاہے انہوں نے دین کو بالکل نہ سمجھا ہو، اور حق سے دور رہے ہوں؟ فائدہ : اس آیت میں اس بات پر سخت نکیر کی گئی ہے کہ صریح قرآن اور صحیح سنت کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے کی بات مانی جائے اور قرآن و سنت کے مقابلے میں اسے دلیل بنایا جائے، اور حجت یہ پیش کی جائے کہ ہمارے امام، ہمارے مرشد، ہمارے بزرگ، اور ہمارے فقیہ زیادہ سمجھتے تھے، اور یقیناً یہ حدیثیں ان کے علم میں رہی ہوں گی، لیکن کسی اقوی دلیل ہی کی وجہ سے انہوں نے ان حدیثوں کا انکار کیا ہوگا۔ اور ستم بالائے ستم یہ کہ ان حضرات نے انکار احادیث کے ان واقعات سے فقہی اصول کشید کیے، اور اپنی کتابوں میں مدون کردیا کہ جب بھی کوئی حدیث ان اصولوں کے خلاف پڑے گی اسے رد کردیا جائے گا، اس لیے کہ یا تو وہ ضعیف ہوگی یا مرجوح یا منسوخ ہوگی۔ قرآن و سنت کے حق میں اس جرمِ عظیم کا بدترین نتیجہ یہ سامنے آیا کہ امت کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بہت سی کمزور اور واہیات قسم کی حدیثیں رائج ہوگئیں، اور وہ صحیح حدیثیں جو بخاری و مسلم نے روایت کی ہیں اور جن پر عمل نہ کرنے کا کوئی جواز امت کے پاس موجود نہیں، سیکڑوں سال سے مسلمانوں کا منہ تک رہی ہیں، اور پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ ہم پر عمل کرو، ہم اللہ کے رسول کی صحیح احادیث ہیں، لیکن مقلدین انہیں درخور اعتناء نہیں سمجھتے۔ اسلام میں تمام گمراہ فرقوں کا وجود، شرک و بدعت کا رواج، قبروں، مزاروں اور درگاہوں کی پرستش، اور عقائد کی تمام بیماریاں اسی چور دروازے سے داخل ہوئی ہیں، کہ قرآن و سنت کو چھوڑ کر اپنے بزرگوں، مشایخ اور خود ساختہ معبودوں کی بات کو ترجیح دی، ان کی تقلید کی اور کہا کہ یہ حضرات جو کرتے آئے ہیں آخر ان کے پاس بھی تو کوئی دلیل رہی ہوگی، اس لیے ہم وہی کریں گے جو ہمارے بزرگ کرتے آئے ہیں۔ اور ان حدیثوں کو ہم نہیں مانیں گے اس لیے کہ ہم اپنے بزرگوں سے زیادہ نہیں سمجھتے۔ البقرة
171 248: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کو جانوروں سے تشبیہہ دیا ہے کہ جس طرح چرواہا جب اپنے جانوروں کو آواز دیتا ہے تو وہ جانور صرف آواز سن پاتے ہیں، اس کا معنی کچھ بھی نہیں سمجھتے، بعینہ یہی حال ان کافروں کا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں راہ ہدایت پر چلنے کے لیے پکارتا ہے، قرآن اتارتا ہے اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے کھول کھول کر بیان کرتے ہیں، لیکن وہ اپنی شومئی قسمت سے کچھ بھی تو نہیں سمھ پاتے، اس لیے کہ عقل صحیح سے وہ محروم ہیں، وہ بہرے ہیں کہ کچھ بھی نہیں سنا پتے، گونگے ہیں کہ حق کی آواز کا جواب نہیں دے پاتے، اور اندھے ہیں کہ ہزار دلیلوں کے باوجود صڈاقت ان کی آنکھوں سے اوجھل ہے۔ البقرة
172 249: آیت (168) میں اللہ تعالیٰ نے عام انسانوں کو خطاب کر کے کہا ہے کہ حلال و طیب روزی کھاؤ۔ اس آیت میں خطاب مومنین کے ساتھ خاص ہے، کیونکہ اپنے ایمان کی بدولت یہی لوگ اللہ کے اوامر و نواہی سے صحیح معنوں میں استفادہ کرسکتے ہیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو پاکیزہ روزی کھانے اور اس کا شکر ادا کرتے رہنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ اللہ نے انبیاء و رسل کو حکم دیا اور فرمایا، آیت، یا ایہا الرسل کلوا من الطیبات واعملوا صالحا، یعنی اے میرے رسولو ! پاکیزہ روزی کھاؤ اور عمل صالح کرو، المومنون : 51۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رح) کہتے ہیں، طیبات، سے مراد وہ کھانے ہیں جو عقل و اخلاق کے لیے نفع بخش ہیں، اور اس کے مقابلے میں، خبائث، ان کھانوں کو کہتے ہیں جو عقل و اخلاق کے لیے نقصان دہ ہیں، اور شراب تمام خبیث کھانوں کی اصل ہے، اس لیے کہ وہ عقل و اخلاق میں فساد ڈال دیتی ہے۔ انتہی۔ فائدہ : حلال روزی دعا اور عبادت کی مقبولیت کا سبب ہے، اور حرام روزی کھانے سے دعا اور عبادت رد کردی جاتی ہے، جیسا کہ ابوہریرہ (رض) سے مرفوعاً روایت ہے کہ ایک آدمی لمبے سفر پر ہے، بال بکھرے ہوئے ہیں، پریشان حال ہے، اور اپنے دونوں ہاتھوں کو آسمان کی طرف پھیلا کر یارب یارب کہتا ہے، حالانکہ اس کا کھانا حرام ہے، اس کا پینا حرام ہے، اس کا لباس حرام ہے، اور حرام کے ذریعہ اس کی پرورش ہوئی ہے، تو اس کی دعا کیسے قبول ہوگی؟ (مسلم)۔ البقرة
173 250: اکل حلال کی ترغیب و نصیحت کے بعد، یہاں بعض ان چیزوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جن کا کھانا اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے مردہ جانور (چاہے وہ جیسے بھی مرا ہو) خون، سور کا گوشت، اور جس جانور کو غیر اللہ کے نام سے ذبح کیا گیا ہو، حرام کردیا ہے، ہاں اگر کوئی شخص اضطراری حالت میں جان بچانے کے لیے کھالیتا ہے تو گناہ گار نہیں ہوگا اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔ مسروق کہتے ہیں کہ اگر کسی نے اضطراری حالت میں کوئی حرام چیز کھا پی کر اپنی جان نہیں بچائی اور مرگیا تو وہ جہنم میں داخل ہوگا، ابو الحسن ال کیا الہراسی (صاحب احکام القرآن) کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک یہ بات صحیح ہے، جیسے کہ مریض پر افطار بسا اوقات واجب ہوجاتا ہے۔ 251:۔ 1۔ جمہور اہل علم نے سمندر کے مردہ کو مستثنی قرار دیا ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، آیت احل لکم صید البحر وطعامہ، یعنی تمہارے لیے سمندر کا شکار اور اس کا کھانا حلال کردیا گیا، المائدہ : 96۔ اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ (سمندر کا پانی پاک کرنے والا، اور اس کا مردہ حلال ہے) (مسند، موطا، سنن) اور آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ہمارے لیے دو مردے اور دو خون حلال کردئیے گئے ہیں۔ دو مردوں سے مراد، مچھلی اور ٹڈی ہے، اور دو خون سے مراد : کلیجی اور تلی ہے۔ 2۔ امام بخاری نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے، کچھ لوگوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ بعض لوگ ہمیں گوشت دیتے ہیں، اور ہمیں پتہ نہیں ہوتا کہ جانور بسم اللہ پڑھ کر ذبح کیا گیا ہے یا نہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ تم بسم اللہ پڑھ کر اسے کھالو۔ حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ وہ لوگ ابھی نئے نئے مسلمان ہوئے تھے۔ معلوم ہوا کہ حرام وہ گوشت نہیں جس کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ اسے بسم اللہ پڑھ کر ذبح کیا گیا ہے یا نہیں، بلکہ حرام وہ ہے جس کے بارے میں معلوم ہو کہ اس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہے۔ اور حضرت علی (رض) سے مروی ہے، آپ نے کہا کہ اگر یہود و نصاری غیر اللہ کا نام لے کر ذبح کریں تو نہ کھاؤ اور اگر ایسا نہ سنو تو کھاؤ، اس لیے کہ اللہ نے ان کے ذبح کردہ جانوروں کا گوشت حلال قرار دیا ہے، اور اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ لوگ ذبح کرتے وقت کیا کہتے ہیں۔ البقرة
174 252: کتمانِ حق کرنے والوں کے لیے وعید کا دوبارہ ذکر اس لیے کیا گیا ہے تاکہ امت مسلمہ کے افراد ایسی مذموم صفت سے اپنے آپ کو بچا کر رکھیں۔ یہود نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ان صفات کو چھپایا جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر دلالت کرتی تھیں، تاکہ عربوں پر ان کی برتری باقی رہے، اور جو ہدیے اور تحفے انہیں ان سے ملا کرتے تھے ان کا سلسلہ جاری رہے، اللہ نے فرمایا کہ یہ لوگ درحقیقت (ان حقیر ہدیوں کے عوض) اپنے پیٹوں میں جہنم کی آگ بھر رہے ہیں، اور قیامت کے دن اللہ مارے غضب کے ان سے بات بھی نہ کرے گا، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ البقرة
175 253: ان کافروں نے ہدایت کے بدلے گمراہی اور مغفرتِ الٰہی کے بدلے عذاب نار کو قبول کرلیا ہے یہ لوگ قیامت کے دن ایسے سخت اور دردناک عذاب میں مبتلا ہوں گے کہ دیکھنے والے ان کے صبر پر مارے حیرانگی کے کہیں گے کہ اتنا دردناک عذاب یہ لوگ کیسے برداشت کیے جا رہے ہیں؟ البقرة
176 254: اور یہ لوگ ایسے سخت عذاب میں اس لیے مبتلا کیے جائیں گے، کہ اللہ تعالیٰ نے تو کتابیں اس لیے اتاری تھیں کہ حق کا ظہور و غلبہ ہو، اور باطل پامال ہو، لیکن ان لوگوں نے اللہ کی کتاب کا استہزاء کیا، اس میں تحریف کی، اور بالخصوص قرآن کے بارے میں خلاف واقع باتیں کہیں، کسی نے کہا یہ جادو ہے، کسی نے کہا یہ شعر ہے، کسی نے کہا یہ گذرے ہوئے زمانہ کی کہانیاں ہیں اور اس طرح وہ حق سے کو سوں دور ہوتے گئے اور عذاب شدید کے مستحق بنے۔ البقرة
177 255: مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ آیت یہود و نصاری کی تردید میں اس وقت نازل ہوئی تھی، جب انہوں نے تحویل قبلہ کے بعد اسلام اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں مختلف قسم کی فتنہ انگیز باتیں کرنی شروع کردی تھیں۔ اور یہ بھی لکھا ہے کہ کوئی بعدی بات نہیں کہ تحویل قبلہ کے بعد بعض مسلمانوں نے اپنی نہایت خوشی کا اظہار کیا ہو، اور اس بارے میں ان کا تشدد اس حد تک پہنچ گیا ہو کہ کعبہ کا قبلہ بننا ان کی نظر میں دین کی سب سے بڑی غرض و غایت ٹھہر گیا ہو، تو یہ آیت اتری کہ نیکی یہ نہیں کہ آدمی مشرق یا مغرب کی طرف اپنا رخ پھیرلے، بلکہ نیک وہ ہے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے (جو ہر صفت کامل کے ساتھ متصف اور ہر نقص سے پاک ہے) اور یوم آخرت اور اس کی ان تمام تفصیلات پر ایمان لائے جن کی خبر اللہ اور اس کے رسول نے دی ہے، اور فرشتوں پر ان تمام تفصیلات کے ساتھ ایمان لائے جن کی اللہ اور اس کے رسول نے دی ہے، اور تمام کتابوں پر ایمان لائے جنہیں اللہ نے اپنے رسولوں پر نازل کی اور خاص طور پر اللہ کی عظیم ترین کتاب قرآن کریم پر، اور تمام انبیائے کرام پر، اور خاص طور پر خاتم النبیین محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر، اسی طرح نیک وہ ہے جو اپنا عمدہ مال رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں مسافروں اور مانگنے والوں پر اور غلاموں کا آزاد کرنے پر خرچ کرے، اور جس نے نماز قائم کی اور زکاۃ ادا کی، اللہ اور بندوں سے کیے ہوئے وعدوں کو پورا کیا، اور جس نے تکلیف و مصیبت کے وقت، اور دشمنان اسلام سے جہاد کرتے ہوئے صبر و استقامت سے کام لیا۔ 256: یہی لوگ اپنے ایمان میں صادق ہیں، اس لیے کہ ان کے اقوال و افعال نے ان کے ایمانِ قلبی کی تصدیق کردی، اور انہوں نے ثابت کردیا کہ خوف و دہشت اور حالاتِ زمانہ انہیں نہیں بدل سکتے، اس میں اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ جو کوئی ایمان کے بعد مذکورہ بالا اوصاف سے متصف نہیں ہوتا، وہ اپنے دوائے ایمان میں صادق نہیں ہوتا۔ اور یہی لوگ حقیقت معنوں میں متقی ہیں، اس لیے کہ انہوں نے محرمات و ممنوعات کو چھوڑ دیا، اور نیک کاموں کو اپنا شیوہ بنا لیا۔ البقرة
178 257: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو حکم دیا ہے کہ وہ قصاص کا حکم نافذ کرنے میں عدل و انصاف سے کام لیں، آزاد کو آزاد کے بدلے، غلام کو غلام کے بدلے اور عورت کو عورت کے بدلے قتل کریں، اور اللہ کے احکام کو بدل کر اپنی خواہش کے مطابق نہ کرلیں۔ مفسرین نے اس آیت کا سبب نزول، بنو قریظہ اور بنو نضیر کے قصاص و دیت سے متعلق آپس کے غیر عادلانہ نظام کو بتایا ہے۔ بنو نضیر نے جاہلیت کے زمانے میں بنو قریظہ سے جنگ کی تھی اور غالب آگئے تھے، اس کے بعد سے کوئی نضری کسی قرظی کے بدلے میں قتل نہیں کیا جاتا تھا، بلکہ ایک سو وسق (تقریبا پندرہ ہزار کیلو گرام) کھجور کے بدلے نضری قاتل جانبر ہوجاتا تھا اس کے برعکس قرظی نضری کے بدلے میں قتل کیا جاتا تھا۔ اور اگر فدیہ پر آپس میں اتفاق ہوجاتا تاھ، تو بنو قریظہ والوں دو سو وسق (تقریبا تیس ہزار کیلو گرام) کھجور دینی پڑتی تھی۔ یہ سراسر ظلم تھا، اس لیے اللہ نے مسلمانوں کو قصاص میں انصاف کرنے کا حکم دیا، اور کہا کہ آزاد کے بدلے آزاد کو، اور عورت کے بدلے عورت کو قتل کیا جائے گا۔ ہاں ! اگر مقتول کا ولی قاتل کو معاف کردیتا ہے اور دیت لینے پر راضی ہوجاتا ہے، یا مقتول کے بعض ورثہ معاف کردیتے ہیں تو قصاص ساقط ہوجائے گا، اور دیت واجب ہوگی۔ ایسی صورت میں مقتول کے ورثہ کو چاہئے کہ قاتل کو سہولت دیں، اور اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بوجھ نہ ڈالیں۔ اسی طرح قاتل کو چاہئے کہ دیت ادا کرنے میں حتی الامکان تاخیر نہ کرے اور نہ اپنے کسی قول و فعل سے مقتول کے اولیاء کو ذہنی اذیت پہنچائے۔ اب اگر مقتول کے ورثہ معاف کردینے کے بعد یا دیت لے لینے کے بعد قاتل کو قتل کردیتے ہیں، تو دنیا میں ان سے قصاص لیا جائے گا اور آخرت میں ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ البقرة
179 258: اس میں اللہ تعالیٰ نے قصاص کی عظیم حکمت بیان فرمائی ہے، کہ قصاص میں زندگی ہے، اس لیے کہ جس کے ذہن میں یہ بات ہر وقت رہے گی کہ اگر اس نے کسی کو قتل کیا تو قتل کردیا جائے گا، تو وہ کسی کو قتل نہیں کرے گا، اسی طرح جب لوگ قاتل کو قتل ہوتا دیکھ لیں گے، تو دوسروں کو قتل کرنے سے خائف رہیں گے، لیکن اگر قتل کی سزا قتل کے علاوہ کچھ اور ہوتی تو شاید شر کا وہ دروازہ بند نہ ہوتا جو قاتل کھول دیتا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رح) السیاسۃ الشرعیۃ میں کہتے ہیں کہ قتل کی تین قسمیں ہیں۔ ایک قتل عمد، یعنی کوئی کسی کو قصدا قتل کردے۔ اس قتل پر قصاص واجب ہوجاتا ہے۔ مقتول کے ورثاء چاہیں تو اسے قتل کردیں، چاہیں تو معاف کردیں، یا چاہیں تو دیت لے کر معاف کردیں اور قاتل کے علاوہ کسی دوسرے کا قتل جائز نہیں ہوتا۔ اگر کوئی شخص معاف کردینے اور دیت لے لینے کے بعد قاتل کو قتل کردیتا ہے، تو وہ پہلے قاتل سے بڑا مجرم ہے اسی لیے بعض علماء نے کہا ہے کہ اس کا قتل کردینا واجب ہے، اس کا معاملہ مقتول کے ورثاء کے حوالے نہیں ہوگا۔ دوسری قسم قتل شبہ عمد۔ یعنی کسی نے ظلم و عدوان کی نیت سے کسی کو کوڑے یا لاٹھی وغیرہ سے مارنا شروع کیا، اسے جان سے ماردینا نہیں چاہتا تھا، لیکن اس کے ظلم و زیادتی کی وجہ سے وہ آدمی مرگیا تو اس کی دیت سو اونٹ ہے، جن میں چالیس اونٹنیاں حاملہ ہونی چاہئیں۔ تیسری قسم قتل خطا، جیسے کسی نے شکار کرنے کے لیے تیر چلایا اور وہ کسی آدمی کو غلطی سے اور لاعلمی میں لگ گیا، اس میں قصاص نہیں ہے، بلکہ دیت اور کفارہ ہے۔ فوائد : 1۔ جمہور اہل علم کا مذہب ہے کہ مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔ اس لیے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ کافر کے بدلے مسلمان کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ 2۔ مرد کو عورت کے بدلے قتل کیا جائے گا، اس لیے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ مرد کو عورت کے بدلے قتل کیا جائے گا 3۔ والدین کو اولاد کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔ 4۔ جمہور علماء کا مذہب ہے کہ ذمی آدمی مسلمان کے برابر نہیں۔ اس لیے مسلمان کو ذمی کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔ البقرة
180 259: اس آیت کریمہ میں والدین اور رشتہ داروں کے لیے وصیت کا حکم ہے صحیح قول کے مطابق میراث کی آیت نازل ہونے کے قبل، وصیت واجب تھی۔ آیت میراث کے نزول کے بعد یہ حکم منسوخ ہوگیا، اور اللہ کی طرف سے ورثہ کے لیے مقرر کردہ حصے لازم ہوگئے، جنہیں وہ میت کی وصیت کا احسان لیے بغیر پائیں گے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا، اب کسی وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں (ترمذی، نسائی، ابن ماجہ وغیرہ) امام شافعی اپنی کتاب (الرسالہ) میں لکھتے ہیں کہ یہ متن متواتر ہے، اور تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے سال فرمایا تھا کہ (وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں) امام احمد نے محمد بن سیرین سے روایت کی ہے کہ ابن عباس (رض) نے سورۃ بقرہ کی تلاوت کی، اور جب اس آیت پر پہنچے تو کہا کہ یہ آیت منسوخ ہوچکی ہے۔ لیکن وہ رشتہ دار جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے مال میں کوئی حصہ مقرر نہیں کیا ہے، ان کے لیے اسی آیت کو مد نظر رکھتے ہوئے وصیت کرنا مستحب ہے۔ اور اس کام کے لیے مال کا تیسرا حصہ استعمال ہوگا جس کی وصیت کرنی جائز ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سعد بن ابی وقاص کو صرف ایک تہائی مال میں وصیت کرنے کی اجازت دی تھی۔ البقرة
181 260: اگر کوئی شخص وصیت کو بدل دیتا ہے، تو اس کا گناہ اس کے سر ہوگا، وصیت کرنے والے کا اجر اللہ کے نزدیک ثابت ہوگیا۔ البقرة
182 261: اگر کسی وصیت کرنے والے سے وصیت کرنے میں غلطی ہوجائے، مثال کے طور پر ایک تہائی سے زیادہ مال کی وصیت کردے، یا کسی حیلہ بہانہ کے ذریعہ کسی وارث کو زیادہ دے دے، تو موصی (جس کے لیے وصیت کی گئی ہے) قضیہ کی اصلاح کردے اور اسے شریعت کے مطابق بنادے۔ البقرة
183 262: ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خبر دی ہے کہ ان پر روزے فرض کردئیے گئے ہیں جیسے گذشتہ قوموں پر فرض تھے اس لیے کہ روزہ رکھنے میں انسان کے لیے دنیا و آخرت کی ہر بھلائی ہے، اور اس لیے کہ آدمی جب اللہ کے لیے کھانے پینے اور مباشرت سے رک جاتا ہے، اور اپنے آپ کو اللہ کی بندگی میں مشغول کردیتا ہے، تو اللہ اسے تقوی کی راہ پر ڈال دیتا ہے۔ ابتدائے اسلام میں روزے ہر ماہ میں تین دن کے لیے رکھے جاتے تھے، اور مریض و مسافر حالت سفر میں روزے نہیں رکھتے تھے، بلکہ دوسرے دنوں میں رکھ لیتے تھے، اور صحت مند آدمی جو روزے رکھ سکتا تھا، اسے اجازت تھی کہ چاہے تو روزے رکھے، اور چاہے تو نہ رکھے، اور ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دے۔ کچھ دنوں کے بعد یہ حکم صحت مند لوگوں کے لیے رمضان کے روزوں کی فرضیت کے ذریعہ منسوخ ہوگیا، اور بوڑھے کمزور کے لیے باقی رہ گیا۔ امام بخاری نے آیت وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین کے بارے میں ابن عباس (رض) کا قول نقل کیا ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے۔ بلکہ یہ حکم بوڑھے مرد اور بوڑھی عورت کے لیے ہے، جو روزے نہیں رکھ سکتے، کہ وہ ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں اور یطیقونہ کا معنی یہ بتایا ہے کہ جو لوگ عمر فانی کو پہنچ جانے کی وجہ سے روزے کی شدت برداشت نہیں کرسکتے وہ افطار کرلیں، اور روزانہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں۔ البقرة
184 البقرة
185 263: ماہ رمضان کی فضیلت بیان کی گئی ہے کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم نازل فرمایا، جو دین حق کو کھول کھول کر پیش کرتا ہے، اور حق و باطل اور ہدایت و گمراہی کو بیان کرتا ہے، نیک بختوں اور بدبختوں کی نشانیاں اور پھر ان کے انجام بیان کرتا ہے۔ حافظ ابن کثیر نے مسند احمد کی ایک روایت نقل کی ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ تمام آسمانی کتابیں انبیائے کرام پر اسی مہینے میں نازل ہوئی تھیں۔ صحائف ابراہیمی، تورات زبور اور انجیل وغیرہ کتابیں انبیاء پر بیک وقت اتری تھیں، اور قرآن کریم ماہ رمضان کی لیلۃ القدر میں آسمانِ دنیا میں بیت العزت تک بیک وقت اترا، اس کے بعد وہاں سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تئیس سال کی مدت میں حالات کے تقاضے کے مطابق جستہ جستہ اترتا رہا۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مختلف طریقوں سے ایسا ہی مروی ہے۔ 264:۔ اسی کے بعد رمضان کے روزے فرض ہوگئے، اور سابق حکم منسوخ ہوگیا اور ہر صحت مند آدمی کے لیے جو ماہ رمضان میں اپنے شہر میں ہو، روزے رکھنا ضروری ہوگیا، اب کسی صحت مند آدمی کے لیے جائز نہیں کہ رمضان میں افطار کرے، اور ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دے۔ اور چونکہ مریض اور مسافر کے بارے میں حکم سابق اسی طرح باقی رہا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے دوبارہ اس کا اعادہ کیا تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ حکم بھی منسوخ ہوگیا، مریض اور مسافر جتنے دن روزے نہیں رکھیں گے، اتنے دن کے روزے صحت مند ہونے اور سفر ختم ہوجانے کے بعد رکھ لیں گے۔ اللہ کی طرف سے بندوں کو یہ سہولت دی گئی ہے، اور قضا کا حکم اس لیے دیا گیا ہے تاکہ رمضان کے فرض روزے پورے ہوجائیں 265: ماہ رمضان کے روزوں کی فرضیت اللہ تعالیٰ کا بندوں پر انعام ہے، اور جب اللہ کی توفیق سے انہوں نے روزے بحسن و خوبی پورے کرلئے تو انہیں اب حکم دیا گیا کہ بطور شکر اللہ کو یاد کریں اور تکبیر کہیں اسی آیت کے پیش نظر بہت سے علماء نے عید الفطر میں تکبیر کہنے کو مشروع قرار دیا ہے۔ امام داود ظاہری (رح) نے اسے واجب کہا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) عید الفطر اور عید الاضحی میں بآواز بلند تکبیر کہتے ہوئے عید گاہ جاتے تھے اور امام کے آنے تک کہتے رہتے تھے، دار قطنی نے ایک سند سے یہ حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے۔ فوائد : 1۔ حالت سفر میں روزہ رکھنا اور افطار کرنا دونوں ہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے۔ صحیحین میں ابودرداء (رض) کی روایت ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سخت گرمی کے زمانے میں، ماہ رمضان میں ایک سفر پر روانہ ہوئے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور عبداللہ بن رواحہ کے علاوہ ہم میں سے کسی نے بھی روزہ نہیں رکھا۔ امام بخاری نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ماہ رمضان میں مدینہ سے مکہ کے لیے روانہ ہوئے تو روزے سے تھے، جب عسفان پہنچے تو پانی مانگا اور اسے دونوں ہاتھوں سے اوپر اٹھایا تاکہ لوگ اسے دیکھ لیں، پھر روزہ توڑ دیا، یہاں تک کہ مکہ مپہنچ گئے۔ اسی حدیث کے پیش نظر ابن عباس (رض) کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سفر میں روزہ بھی رکھا اور افطار بھی کیا، اس لیے جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے افطار کرے۔ متفق علیہ 2۔ بعض لوگوں کے نزدیک سفر میں روزہ رکھنا افضل ہے، اور بعض کے نزدیک افطار، لیکن صحیح ہے کہ دونوں میں سے کوئی بھی حکم مطلق نہیں ہے۔ اگر سفر ایسا ہے جس میں کوئی پریشانی نہیں ہے، اور نہ ہی دشمن کا مقابلہ ہے، تو روزہ رکھنا افضل ہوگا، اور اگر روزہ رکھنے سے پریشانی لاحق ہوتی ہے تو افطار افضل ہوگا۔ اگر کوئی شخص نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت سے اعراض کرتے ہوئے اپنے لیے افطار کو مکروہ سمجھتا ہے تو اس پر روزہ رکھنا حرام ہوجائے گا جیسا کہ امام احمد نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی رخصت (چھوٹ) کو قبول نہیں کیا اس پر جبل عرفہ کے برابر گناہ لاد دیا جائے گا۔ 3۔ جمہور اہل علم کے نزدیک چھوٹے ہوئے روزے کا ایک ساتھ رکھنا ضروری نہیں ہے۔ تسلسل کی پابندی صرف رمضان میں لازم ہے البقرة
186 266: یہ آیت گذشتہ آیت کے مضمون کی تکمیل کرتی ہے۔ گذشتہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نصیحت کی کہ رمضان کے روزے پورے کرلینے کے بعد تکبیر کہو اور اللہ کا شکر ادا کرو کہ اس نے رمضان جیسا بابرکت مہینہ عطا کیا اور اس میں روزے رکھنے کی توفیق بخشی اور اب اس آیت میں اللہ نے خبر دی کہ وہ اللہ جسے وہ یاد کریں گے اور جس کا شکر ادا کریں گے، ان سے قریب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا ہے آیت ونحن اقرب الیہ من حبل الورید۔ کہ ہم انسان سے اس کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہیں۔ ق : 16 علمائے تفسیر نے یہ بھی کہا ہے کہ روزوں کے احکام کے درمیان دعا کے ذکر سے مقصود اس طرح اشارہ ہے کہ رمضان میں دعا کی بڑی اہمیت ہے۔ مسند طیالسی میں ہے کہ عبداللہ بن عمرو افطار کے وقت اپنے تمام بال بچوں کے ساتھ دعا کیا کرتے تھے، اس لیے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ روزہ دار کے افطار کے وقت کی دعا قبول ہوتی ہے۔ ایک اور حدیث ہے کہ تین اادمی کی دعا رد نہیں کی جاتی : امام عادل کی، روزہ دار کی اور مظلوم کی (مسند احمد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ) ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے روایت کی ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ! کیا ہمارا رب قریب ہے تاکہ ہم اس سے سرگوشی کریں، یا دور ہے تاکہ اسے پکاریں؟ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش رہے، یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی۔ اللہ اپنے بندوں سے قریب ہے، اس لیے کہ وہ (رقیب) ہے، شہید ہے، ظاہر و پوشیدہ کو جانتا ہے، دلوں کے بھید جانتا ہے، اس لیے وہ اپنے پکارنے والوں سے قریب ہے، اور ان کی پکار کو سنتا ہے جو بندہ اپنے رب کو حضور قلب کے ساتھ پکارتا ہے، اور کوئی چیز دعا کی قبولیت سے مانع نہیں ہوتی، تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول کرتا ہے، خاص طور سے اگر قبولیت دعا کے دینی اسباب بھی موجود ہوں یعنی بندہ اللہ کے اوامر و نواہی کا پابند ہو اور اللہ تعالیٰ پر اس کا ایمانِ کامل اور یقین محکم ہو۔ فوائد : 1۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سجدے میں دعا کرنے کا حکم دیا ہے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ بہت ممکن ہے کہ تمہارے سجدے کی دعا قبول ہوجائے۔ مسلم۔ آپ خود بھی سجدے میں کثرت سے دعا کرتے تھے۔ 2۔ قبولیت دعا کی چھ شرطیں ہیں، اگر وہ پوری نہ ہوں تو دعا قبول نہیں ہوگی۔ الف۔، دعا اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنی کے واسطے سے کی جائے۔ ب۔ نیت میں اخلاص ہو۔ ج۔ دعا کرنے والا اپنی مسکنت و محتاجی کا اظہار کرے۔ کسی گناہ کی دعا نہ کرے۔ کسی ایسی چیز کے لیے دعا نہ کرے جس کے ذریعے اللہ کی نافرمانی پر مدد لینی چاہے۔ اسے یقین ہو کہ اللہ نے اگر اسے کسی دنیاوی فائدہ سے محروم رکھا ہے، تو یہ بھی اللہ کی نعمت ہے، بالکل اس نعمت کی مانند جو اللہ نے اسے دیا ہے۔ 3۔ مصیبتوں کو ٹالنے کا سب سے قوی ذریعہ دعا ہے۔ لیکن کبھی وہ اپنا اثر نہیں دکھا پاتی، یا تو اس کے لیے کہ دعا کسی ایسی چیز کے لیے ہوتی ہے جو اللہ کو ناپسند ہے، یا دعا کے وقت حضور قلب معدوم ہوتا ہے، یا قبولیت دعا کے کسی مانع کے موجود ہونے کی وجہ سے، مثال کے طور پر، دعا کرنے والے کی روزی حرام ہو، یا وہ ظالم ہو، یا اس کے دل پر گناہوں کا دبیز پردہ پڑا ہو، یا وہ غفلت اور لہو ولعب میں مبتلا ہو۔ 4۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ دعا، مومن کا ہتھیار، اور دین کا ستون ہے اور آسمان و زمین کا نور ہے۔ مستدر الحاکم۔ دعا کا معاملہ کسی مصیبت کے ساتھ تین طرح کا ہوتا ہے۔ یا تو دعا مصیبت سے زیادہ قوی ہوتی ہے تو اسے دور کردیتی ہے، یا کمزور ہوتی ہے، تو مصیبت غالب آجاتی ہے اور بندے کو لاحق ہوجاتی ہے۔ لیکن کبھی کبھار دعا کمزور ہونے کے باوجود مصیبت کو ہلکی کردیتی ہے۔ یا دونوں ایک دوسرے کا مقابلہ کرتی رہتی ہیں۔ اور ایک دوسرے کو اثر کرنے سے روکتی ہیں 5۔ دعا بار بار اور خوب الحاح کے ساتھ کرنی چاہیے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ دعا کرنے سے نہ تھکو، اس لیے کہ جو آدمی دعا کرتا رہتا ہے وہ ہلاک نہیں ہوتا (مستدرک الحاکم)۔ 6۔ دعا کی قبولیت میں عجلت کا اظہار نہیں ہونا چاہیے۔ صحیح بخاری میں ابوہریرہ ری اللہ عنہ کی حدیث ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ آدمی اگر قبولیت میں جلدی نہ کرے تو دعا قبول ہوتی ہے۔ 7۔ دعا کی قبولیت کے چھ مشہور اوقات ہیں۔ آخری تہائی رات میں، اذان کے وقت، اذان اور اقامت کے درمیان، فرض نمازوں کے بعد، جمعہ کے دن امام کے ممبر پر جانے کے بعد سے نماز ختم ہونے تک، جمعہ کے دن عصر کی نماز کے بعد آخری ساعت۔ وباللہ التوفیق۔ البقرة
187 267: اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ماہ رمضان کے روزوں سے متعلق چند اہم مسائل بیان کیے ہیں، رمضان کی راتوں میں بیوی کے ساتھ جماع کرنا، صبح صادق سے پہلے تک کھانا پینا، صبح صادق کے بعد سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور جماع سے رکے رہنا، اور حالت اعتکاف میں جماع سے پرہیز، آیت کا سب نزول بھی انہی مسائل کے ارد گرد گھومتا ہے۔ 1۔ امام بخاری (رح) نے براء بن عازب (رض) سے روایت کی ہے کہ رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد لوگ پورا رمضان اپنی بیویوں خے قریب نہیں جاتے تھے، لیکن بعض لوگ خیانت کرتے تھے یعنی جماع کرلیتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ کی آیت 187، علم اللہ انکم کنتم تختانون الایہ نازل فرمائی، اور رمضان کی راتوں میں جماع کرنا جائز ہوگیا۔ ایک روایت میں ہے کہ عمر بن الخطاب سے بھی ایسی غلطی ہوگئی تھی۔ 2۔ صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ صحابہ کرام اگر افطار سے پہلے سو جاتے، تو دوسرے دن تک کچھ بھی نہیں کھاتے پیتے تھے۔ قیس بن صرمہ انصاری اپنے کھیت میں کام کرتے رہے، افطار کے لیے گھر آئے۔ ان کی بیوی کھانا تلاش کرنے گئیں۔ جب تک انہیں نیند آگئی اور بغیر کھائے پئے دوسرے دن کا روزہ رکھنا پڑا، دوپہر کو بھوک اور پیاس کی شدت کی وجہ سے بے ہوش ہوگئے۔ تو یہ آیت نازل ہوئی، آیت احل لکم۔۔۔۔ من الفجر۔ جسے سن کر صحابہ کرام بہت خوش ہوئے۔ 3۔ امام بخاری نے سہل بن سعد (رض) سے روایت کی ہے کہ لوگوں نے خیط ابیض اور خیط اسود کا مفہوم نہیں سمجھا اور فجر کے بعد دیر تک کھاتے پیتے رہے، تو اللہ نے من الفجر نازل فرمایا تب لوگوں نے جانا کہ سفید اور کالے دھاگے سے مراد رات اور دن ہے۔ 4۔ ضحاک، مجاہد اور قتادہ وغیرہم سے روایت ہے کہ لوگ حالت اعتکاف میں مسجد سے نکل کر گھر جاتے تھے، اور اپنی بیوی کے ساتھ جماع کرتے تھے تو ولا تباشروھن وانتم عاکفون فی المساجد نازل ہوئی۔ فوائد :۔ 1۔ رمضان کی راتوں میں صبح صادق تک بیوی کے ساتھ جماع اور کھانا پینا جائز ہے۔ 2۔ افطار میں جلدی کرنا سنت ہے (بخاری و مسلم) 3۔ صوم وصال (بغیر افطار کیے دو یا زیادہ دن تک روزے رکھنا) سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا ہے۔ اگر کوئی چاہے تو سحری تک وصال کرسکتا ہے (صحیحین) 4۔ اعتکاف کی مدت میں بیوی کے ساتھ جماع جائز نہیں۔ 5۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رمضان کے آخری عشرہ میں مسجد میں اعتکاف کرتے تھے، یہاں تک کہ آپ وفات پا گئے۔ 6۔ جمہور سلف کے نزدیک، اعتکاف کے لیے دن میں روزہ رکھنا شرط ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور علامہ ابن القیم نے اسی کو ترجٰح دیا ہے۔ 7۔ اگر روزہ دار کی حالت جنابت میں صبح ہوجاتی ہے تو غسل کر کے روزہ پورا کرے گا۔ (صحیحین) البقرة
188 268: اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز نطور پر کھانے سے منع فرمایا ہے، اور یہ بتایا ہے کہ اگر قاضی رشوت لے کر ناق فیصلہ کردیتا ہے، تو اس فیصلہ سے حرام حلال نہیں ہوجاتا۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ یہ آیت اس آدمی کے بارے میں ہے جس کے ذمے کسی کا مال ہو، اور مال والے کے پاس کوئی دلیل نہ ہو، اس لیے وہ آدمی انکار کر بیٹھے اور معاملہ حاکم کے پاس لے جائے تاکہ فیصلہ اس کے حق میں ہوجائے، حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ گناہ گار ہے اور حرام کھانے پر تلا ہوا ہے۔ فائدہ : لوگوں کا مال حرام طور پر کھانے کی بہت سی شکلیں ہیں جیسے کسی کا مال غصب کرلینا، چوری کرنا، امانت میں خیانت کرنا، سود کھانا، جوا کا مال کھانا، خرید و فروخت میں دھوکہ دینا، ایسے کام کی اجرت جسے ٹھیک سے نہیں کیا، عبادت پر اجرت لینا، زکاۃ، صدقہ، وقت اور وصیت کا مال ناحق کھاجانا، یہ اور اس قسم کی وہ تمام صورتیں جن میں لوگوں کا مال ناحق کھایا جا رہا ہو وہ اکل حرام ہے اور کسی طرح بھی جائز نہیں ہے۔ البقرة
189 269: آیت کا پہلا حصہ یسالونک عن الاھلۃ، معاذ بن جبل اور ثعلبہ بن غنم (رض) کے بارے میں نازل ہوا۔ ان دونوں نے پوچھا یا رسول اللہ ! کیا راز ہے کہ چاند دھاگے کے مانند باریک طلوع ہوتا ہے، پھر بڑا ہوتا جاتا ہے، یہاں تک کہ گول ہوجاتا ہے، پھر گھٹنے لگتا ہے یہاں تک کہ پہلے کی طرح باریک ہوجاتا ہے، ایک حال پر باقی نہیں رہتا، تو یہ آیت نازل ہوئی (ابو نعیم، ابن عساکر)۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے بیان کیا کہ چاند کے ذریعہ لوگ اپنی ضرویات زندگی کے اوقات مقرر کرتے ہیں۔ قرض، روزہ، افطار، حج، اجرتیں، ماہواری کے ایام، عورتوں کی عدت، اور بہت سی شرطوں کی مدت، یہ سارے مواعید چاند ہی کے ذریعہ معلوم ہوتے ہیں۔ 270۔ انصار اور دوسرے عرب حج کا احرام باندھ لینے کے بعد اگر کوئی ضرورت پیش آجاتی تو اپنے گھروں میں دروازوں سے داخل نہیں ہوتے تھے، ان کا خیال تھا کہ عبادت اور نیکی کا تقاضا یہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں خبر دی، کہ یہ کوئی نیکی کا کام نہیں ہے، اس لیے کہ اللہ اور اس کے رسول نے اس کا حکم نہیں دیا ہے، نیکی یہ ہے کہ آدمی تقوی کی راہ اختیار کرے، چنانچہ اللہ نے ان کو حکم دیا کہ وہ حالت احرام میں بھی اپنے گھروں میں دروازوں سے داخل ہوں۔ البقرة
190 271: ان آیتوں میں مومنوں کو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے اور مسلمانوں میں ذرا قوت آگئی تو انہیں حکم دیا گیا کہ اب دشمن کا مقابلہ طاقت سے کرو، اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو، لیکن زیادتی نہ کرو، یعنی نہ جنگ کی ابتدا تمہاری طرف سے ہونی چاہئے اور نہ جن سے جنگ کرنے سے تمہیں منع کیا گیا ہے ان سے جنگ کرو (مثال کے طور پر عورتیں، بوڑے، پاگل، بچے، گرجوں میں رہنے والے، اور جن سے تمہارا معاہدہ ہے انہیں قتل نہ کرو) کسی کا مثلہ نہ کرو، حیوانات کو قتل نہ کرو، اور درختوں کو نہ کاٹو، اور اسلام کی دعوت دئیے بغیر اچانک کسی قوم پر حملہ نہ کرو، اس لیے کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے کفار کقریش کے بارے میں بالخصوص فرمایا کہ جو لوگ تم سے جنگ کریں انہیں جہاں پاؤ قتل کرو، اور جس شہر سے انہوں نے تم کو نکالا، مال و جائداد پر قبضہ کرلیا، تمہیں آزمائشوں میں مبتلا کیا، اور تمہیں تمہارے دین سے نکال دینا چاہا، یہ جرائم قتل سے کہیں بڑھ کر ہیں، اور دیکھو مسجد حرام کے پاس ان سے قتال نہ کرو، ہاں اگر وہاں پر قتال کی ابتدا ان کی طرف سے ہوتی ہے تو پھر فرار کی راہ نہ اختیار کرو، بلکہ انہیں قتل کرو، اس لیے کہ کافروں کو ایسا ہی بدلہ ملنا چاہیے، اور اگر وہ قتال سے باز رہیں تو تم بھی رک جاؤ، اللہ غفور رحیم ہے۔ اور ان سے قتال کرو، تاکہ حرم سے فتنہ و فساد کا صفایا ہوجائے اور تاکہ وہاں اللہ کے علاوہ کسی کی پرستش نہ ہو، نہ اس کے علاوہ کسی سے ڈرا جائے، نہ کوئی شخص ابتلاء و آزمائش میں مبتلا کیا جائے، اور نہ دین حق پر چلنے کی وجہ سے اسے ستایا جائے۔ چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بحیثیت فاتح مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور جن مشرکین مکہ نے اسلام قبول نہیں کیا انہیں معاہدہ کی مدت ختم ہوجانے کے بعد مکہ سے نکل جانا پڑا، اور مسجد حرام بتوں اور مشرکوں سے پاک ہوگیا، اور مسلمان وہاں باعزت زندگی گزارنے لگے۔ البقرة
191 البقرة
192 البقرة
193 البقرة
194 272: حضرت ابن عباس (رض) اور قتادہ وغیرہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کرام کے ساتھ 6 ھ میں مدینہ منورہ سے عمرہ کے لیے روانہ ہوئے، اور حدیبیہ پہنچے، تو مشرکینِ مکہ نے راستہ روک دیا، اور کعبہ تک نہیں پہنچنے دیا، یہ حادثہ ماہ ذی القعدہ میں وقوع پذیر ہوا جو ماہ حرام ہے، جابر بن عبداللہ کی ایک روایت کے مطابق جسے امام احمد نے مسند میں روایت کی ہے، حدیبیہ میں پڑاؤ ڈالنے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عثمان (رض) کو اپنا ایلچی بنا کر مشرکین مکہ کے پاس بھیجا، کسی طرح یہ جھوٹی خبر اڑ گئی کہ عثمان (رض) قتل کردئیے گئے، خبر کا پھیلنا تھا کہ مسلمانوں میں ایک کھلبلی مچ گئی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام سے مشرکینِ مکہ کے خلاف جنگ کرنے کے لیے بیعت لی، جسے تاریخ اسلام بیعۃ الرضوان کے نام سے جانتی ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ عثمان (رض) کے قتل کی خبر غلط تھی، تو آپ نے مکہ والوں کے ساتھ صلح کرلی۔ اس شرط پر کہ آئندہ سال اسی مہینہ میں عمرہ کریں گے۔ چنانچہ معاہدہ کے مطابق آپ نے صحابہ کرام کے ساتھ دوسرے سال ماہ ذی القعدہ میں عمرہ کیا، تو یہ آیت نازل ہوئی، آیت، الشہر الحرام بالشہر الحرام والحرمات قصاص کہ ماہ حرام کی رعایت ان کے ساتھ واجب ہے، جو ماہ حرام کی رعایت کریں، اور جو اس ماہ کی حرمت کا خیال نہیں کرے گا اس کے ساتھ ماہ حرام کی حرمت کا خیال نہیں رکھا جائے گا، اس لیے کہ حرمتوں کالحاظ ان کے ساتھ ہوگا جو پہلے خود لحاظ کریں گے، چاہے وہ ماہ حرام ہو، بلد حرام ہو، احرام ہو، یا اور کوئی شے جس کی حرمت کا پاس رکھنے کا اسلام نے حکم دیا ہے۔ اور جو کوئی ان حرمتوں کو پامال کرے گا تو ان سے بدلہ لیا جائے گا اگر کوئی ماہ حرام میں جنگ پر آمادہ ہوگا تو اس سے جنگ کی جائے گ۔ 273: اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عدل و انصاف کا حکم دیا ہے، حتی کہ مشرکین کے ساتھ بھی، اسی لیے دوبارہ مزید تاکید کے طور پر حرمتوں کو پامال کرنے اور کسی قسم کی زیادتی کرنے سے منع فرمایا ہے۔ البقرة
195 274: ابو ایوب انصاری رضی الہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب اسلام کو قوت و غلبہ حاصل ہوگیا تو انصار نے خفیہ طور پر مشورہ کیا کہ اب تو اسلام معزز و مکرم ہوگیا اور اس کے مددگاروں کی تعداد بہت ہوگئی، اس لیے ہمیں اب اپنے مال و جائداد کا خیال کرنا چاہئے اور جو ضائع ہوچکا ہے اس کی اصلاح کرنی چاہئے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (ابو داود، ترمذی، نسائی، حاکم) اس روایت کے رو سے مال و جائداد کے پاس اقامت پذیر ہونا، اور اللہ کی راہ میں جہاد چھوڑ دینا۔ ہلاکت و بربادی ہے۔ لیکن قرآن و حدیث کے الفاظ سے استدلال کرتے وقت اس سبب خاص کا اعتبار نہیں ہوتا، جس کے بعد وہ آیت نازل ہوئی یا وہ حدیث وارد ہوئی بلکہ عموم لفظ کا اعتبار ہوتا ہے اس لیے ہر وہ کام اور ہر وہ بات جس میں مسلمانوں کی ہالکت کا ڈر ہوگا، اس آیت کے حکم میں داخل ہوگی۔ حاکم نے کہا ہے کہ یہ آیت مندرجہ ذیل امور پر دلالت کرتی ہے، اگر ہلاکت کا ڈر ہو تو جہاد میں وقتی طور پر شکست قبول کرلینا جائز ہے۔ اگر امر بالمعروف کی وجہ سے کسی خطرے کا اندیشہ ہو تو خاموشی جائز ہے اگر حاکم وقت کو اپنی اور مسلمانوں کی ہلاکت کا ڈر ہوگا تو کافروں اور باغیوں کے ساتھ مصالحت جائز ہوگی، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صلح حدیبیہ میں، علی بن ابی طالب نے صفین میں اور حسن بن علی (رض) نے معاویہ (رض) کے ساتھ کیا، بلکہ اگر مسلمانوں کی بربادی کا ڈر ہوگا تو دشمن سے مال کے عوض مصالحت جائز ہوگی، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ احزاب کے موقع سے مدینہ منورہ کے ایک تہائی پھل کے عوض مصالحت کرنی چاہی، لیکن سعد بن عبادہ سے مشورہ کرنے کے بعد ایسا نہیں کیا (سیرت ابن ہشام) البقرة
196 275: روزہ اور جہاد کے بعد اب احکام حج کا بیان شروع ہوا، اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جب حج اور عمرہ میں سے کسی کی ابتدا کرو تو تمام شرائط و اعمال کے ساتھ اسے پورا کرو، اور للہ اس لیے کہا کہ مشرکینِ مکہ و حج و عمرہ کے بعض اعمال کے ذریعہ اپنے بتوں کا تقرب حاصل کرتے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے کہا کہ حج و عمرہ کے تمام اعمال صرف اللہ کی رضا کے لیے ادا ہونے چاہئیں۔ 276: اگر حج یا عمرہ کی راہ میں کوئی مانع پیش آجائے جیسے کوئی دشمن راستہ روک دے، یا کوئی مرض لاحق ہوجائے، یا راستہ بھٹک جائے تو محرم کو جو جانور میسر ہوگا، (اونٹ یا گائے کا ساتواں حصہ یا ایک بکری) ذبح کرے گا، اور بال منڈا کر حلال ہوجائے گا، جیسا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام نے سن 6 ہجری میں صلح حدیبیہ کے موقع سے کیا تھا، کہ حدیبیہ ہی میں اپنی اپنی قربانیاں ذبح کیں، اور بال منڈا کر حلال ہوگئے اور پھر سن 7 ہجری میں اس عمرہ کی قضا کی۔ 277: اگر حج کرنے والا ھدی کا جانور اپنے ساتھ لے جا رہا ہے تو حالت امن میں ھدی کی جگہ حرم ہے۔ جب تک ہدی کا جانور حرم نہ پہنچ جائے اور حج کرنے والا حج و عمرہ کے اعمال سے فارغ نہ ہوجائے، اس کے لیے سر کا بال منڈانا جائز نہیں، اور افضل یہ ہے کہ دس تاریخ کو کنکری مارنے کے بعد پہلے قربانی کرے، پھر بال منڈوائے۔ 278: یہ آیت کعب بن عجرہ انصاری کے بارے میں اتری تھی، ان کے بال گھنے اور لمبے تھے۔ عمرۃ الحدیبیہ کے موقع پر ان کے سر میں اتنی جوئیں ہوگئیں کہ ان کے چہرے پر گرنے لگیں، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں حکم دیا کہ بال منڈا لو، اور ایک بکری ذبح کردو، یا چھ مسکین کو کھانا کھلا دو، یا تین روزے رکھ لو، اسی موقع سے یہ آیت نازل ہوئی (صحیحین) 279: اگر محرم کو راستہ میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے اور حرم پہنچ جائے، اور عمرہ کر کے حلال ہوجائے، پھر آٹھ تاریخ کو یا اس سے پہلے حج کا احرام باندھے، تو اس پر قربانی واجب ہے، اسے حج تمتع کہتے ہیں۔ اور یہ آیت دلیل ہے اس بات کی کہ حج تمتع افضل ہے، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع میں صاف طور پر کہہ دیا کہ (اب جو بات مجھے معلوم ہوئی ہے اگر پہلے معلوم ہوجاتی تو ہدی کا جانور لے کر نہ آتا اور پنے حج کو حج تمتع بنا دیتا (صحیحین)۔ اگر حاجی قارن ہے (یعنی عمرہ کر کے احرام کی حالت میں باقی رہے یہاں تک کہ دس تاریخ کے اعمال سے فارغ ہوجائے) تو بھی قربانی واجب ہے، اس لیے کہ اس نے بھی حج و عمرہ دونوں ایک ساتھ کیا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام جنہوں نے حجۃ الوداع میں قران کی نیت کی تھی، سب نے قربانی کی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امہات المومنین کی طرف سے گائے کی قربانی کی تھی، حج افراد کرنے والے پر قربانی واجب نہیں۔ 280: اگر متمتع کے پاس قربانی کا جانور نہیں ہے تو تین روزے حج کے زمانے میں، اور سات روزے اپنے گھر واپس جانے کے بعد رکھے گا، حج کے زمانے میں روزے رکھنے سے مراد یہ ہے کہ عمرہ کا احرام باندھتے وقت اگر اسے معلوم ہے کہ وہ قربانی کا جانور خریدنے کی سکت نہیں رکھتا، تو اس کے بعد سے تین روزے رکھ لے، اور تلک عشرۃ کاملۃ اس لیے کہا تاکہ کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ اسے اختیار ہے کہ یا تو تین روزے حج کے زمانے میں رکھ لے، یا سات گھر پہنچنے کے بعد۔ 281: تمتع یا قران کی قربانی ان حاجیوں پر واجب ہے جو اہل حرم میں سے نہ ہوں، کیونکہ اہل حرم کے لیے حج تمتع نہیں ہے، اہل حرم سے مراد مکہ میں رہنے والے اور وہ لوگ ہیں جو حرم سے اتنی مساف پر رہتے ہوں جس پر سفر کا اطلاق نہ ہو۔ البقرة
197 282: حج کے مہینے معلوم ہیں، اس لیے کہ حج ملتِ ابراہیمی میں اور ابراہیم کی ذریت میں ہمیشہ سے رہا، اور وہ ماہ شوال و ذی القعدہ اور ذی الحجہ کے دس دن ہیں۔ حج کا احرام انہی دنوں میں باندھنا صحیح ہے، اور جو کوئی ان مہینوں میں حج کی نیت کرے اس پر احرام کی تعظیم واجب ہے اور اس تعظیم کا تقاضا یہ ہے کہ محرم جماع، اور اس کے مقدمات، تمام قسم کے گناہ اور جنگ و جدال سے پروہیز کرے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جس نے اس گھر کا حج کیا، اور جماع اور دیگر گناہوں سے بچا رہا، وہ گناہوں سے ایسا ہی پاک ہوگیا جیسے اس دن تھا جب اس کی ماں نے اسے جنا تھا، متفق علیہ۔ اور چونکہ ترک معاصی کے ساتھ اوامر کا بجا لانا بھی ضروری ہے، اس لیے اللہ نے فرمایا کہ تم کوئی بھی نیکی کروگے، اللہ اسے جانتا ہے۔ 283: اہل یمن جب حج کے لیے آتے تو اپنے ساتھ زاد راہ نہ لاتے، اور کہتے کہ ہم نے اللہ پر توکل کیا ہوا ہے، اور جب مکہ پہنچتے تو لوگوں سے بھیک مانگتے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، کہ تم لوگ جب حج کے لیے نکلو تو اپنا زاد راہ لے کر چلو تاکہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی نوبت نہ آئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے عقل و خرد والو ! میرے عقاب و عذاب سے ڈرو، اور میرے اوامر و نواہی کی مخالفت نہ کرو۔ البقرة
198 284: اللہ تعالیٰ نے حج کے لیے جب زاد راہ لے کر چلنے کی نصیحت کی، اور اس کے بعد تقویٰ کا حکم دیا، تو اس بات کی بھی خبر دی کہ موسم حج میں تجارت کرنے میں کوئی نہیں اور ایسا کرنا تقوی کے خلاف نہیں، جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ سمجھتے تھے کہ حج کے ساتھ تجارت کرنا اچھی بات نہیں۔ امام بخاری (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ عکاظ، مجنہ اور ذو المجاز دور جاہلیت کے بازار تھے، حج کے زمانے میں لوگ ان بازاروں میں تجارت بھی کرتے تھے، اسلام آنے کے بعد مسلمانوں نے موسم حج میں ان بازاروں میں تجارت کرنا مکروہ سمجھا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ 285: یہ آیت مندرجہ ذیل امور پر دلالت کرتی ہے۔ وقوف عرفہ حج کا رکن ہے، اور یہ بات دور جاہلیت سے معلوم ہے، مزدلفہ میں دسویں تاریخ کی رات میں اور فجر کے نماز کے بعد مشعر حرام کے پاس اللہ کو خوب یاد کرنا چاہئے، بعض لوگوں نے اسے واجب بتایا ہے۔ البقرة
199 286: یہاں مراد عرفہ سے روانگی ہے نہ کہ مزدلفہ سے، اور یہاں خطاب قریش کو بالخصوص اور عام مسلمانوں کو بالعموم ہے۔ قریش کے لوگ حج میں مزدلفہ میں ہی رک جاتے تھے، باقی تمام عرب کے لوگ عرفات تک جاتے تھے۔ قریش کے لوگ کہتے تھے کہ ہم اللہ کے گھر والے ہیں، حرم سے نہیں نکلیں گے (بخاری) اسلام آنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو عرفات جانے اور وہاں سے تمام لوگوں کے ساتھ مزدلفہ ہوتے ہوئے منی واپس آنے کا حکم دیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مشہور حدیث ہے کہ حج کا بنیادی کام وقوف عرفہ ہے۔ البقرة
200 287: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اعمالِ حج سے فراغت کے بعد ذکر کا حکم دیا ہے، کہ اللہ کی توفیق سے یہ عظیم عبادت پوری ہوگئی تو اس کا شکر بجا لانا چاہئے۔ اہل جاہلیت کا دستور تھا کہ مزدلفہ سے منی واپسی کے بعد جمرات کے پاس میلہ لگاتے اور اپنے آباء و اجداد کی شان میں قصیدے پڑھتے، حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اللہ کو یاد کرتے، اسی لیے اللہ نے مسلمانوں کے فکر دھارے کی اصلاح کی اور انہیں تعلیم دی کہ وہ اللہ کو یاد کریں، اس لیے کہ ذکر و شکر کا وہی اکیلا حقدار ہے۔ اس لیے کنکری مارنے کے بعد جب حجاج قربانی، بال منڈانے، طواف زیارت اور صفا و مروہ کی سعی سے فارگ ہو کر منی میں قیام پذیر ہوجائیں تو اللہ کے ذکر میں مشغول رہیں۔ 288: استغفار اور کثرت ذکر کی نصیحت کے بعد اللہ تعالیٰ نے دعا کی طرف توجہ دلائی، اس لیے کہ کثرت ذکر کے بعد دعا کی قبولیت کی زیادہ امید ہوتی ہے اور ان لوگوں کی مذمت کی جن کی زندگی کا مقصود اول دنیا کا حصول ہوتا ہے، اور ان کی تعریف کی جن کا مطمع نظر آخرت کی کامیابی اور جہنم کی آگ سے نجات حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ کچھ اعرابی لوگ عرفات میں اللہ سے دنیاوی فائدہ مانگتے اور آخرت کا کوئی ذکر نہیں لاتے، بعض نے کہا کہ مشرکین عرب ایسا کرتے تھے، کسی نے کہا کہ بعض مسلمان ہی ایسا کرتے تھے کہ اپنی دنیا سنورنے کی دعا کرتے، اور آخرت کو فراموش کرجاتے، انہی لوگوں کے حالات کے پیش نظر یہ آیت نازل ہوئی۔ 289: یعنی آخرت کی کامیابی کا کوئی حصہ ان کو نہیں ملے گا، الا یہ کہ وہ توبہ کریں اور اللہ انہیں معاف کردے۔ البقرة
201 290۔ اس دعا میں دنیا و آخرت کی ہر بھلائی جمع کردی گئی ہے، اور ہر شر سے اللہ کی پناہ مانگی گئی ہے، دنیا میں بھلائی، ہر دنیاوی خیر کو شامل ہے، اور آخرت میں بھلائی کی سب سے اعلی شے اللہ کی رضا اور دخول جنت ہے۔ احادیث میں اس دعا کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ امام بخاری (رح) نے انس بن مالک (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کثرت سے یہ دعا کرتے تھے۔ ابو داود وغیرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان یہی دعا کرتے تھے۔ امام احمد اور امام مسلم نے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مریض کی عیادت کی جو سوکھ کر کانٹا ہوگیا تھا، آپ نے اسے یہی دعا کرنے کی نصیحت کی، اس نے ایسا ہی کیا اور اس کی بیماری دور ہوگئی۔ البقرة
202 291: اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو لوگ دنیا و آخرت دونوں کی کامیابی کی دعا کرتے ہیں، اللہ ان کی دعا قبول کرتا ہے، اور پوری دعا نہیں تو اس کا ایک حصہ ضرور انہیں ملتا ہے۔ آیت میں کمانے سے مراد دعا کرنا ہے۔ البقرة
203 292: مراد ایام تشریق ہے۔ ابن عباس (رض) سے یہی منقول ہے۔ امام مسلم کی روایت ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ ایام تشریق کھانے پینے اور ذکرِ الٰہی کے ایام ہیں۔ بخاری کی روایت ہے کہ ابن عمر (رض) منی میں ہر وقت اور ہر حال میں تکبیر کہتے رہتے تھے۔ رمی جمار کے وقت تکبیر کہنا اسی میں شامل ہے۔ 293: اگر حاجی گیارہ اور بارہ کی کنکریاں مار کر منیٰ سے رخصت ہوجائے تو کوئی حرج نہیں، اور اگر تیرہ کی کنکریاں بھی مارے تو بھی کوئی حرج نہیں، سنت یہی ہے کہ تیرہ کی کنکریاں بھی ماری جائیں۔ حجۃ الوداع میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منیٰ سے تیرہ کی کنکریاں مار کر رخصت ہوئے تھے۔ حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں (ایام معدودات) سے مراد ایام تشریق ہے، اور وہ چار دن ہیں، قربانی کا دن اور اس کے بعد تین دن، ابن عمر، ابن زبیر، ابو موسی، مجادہ، سعید بن جبیر اور قاتادہ وغیرہم کا یہی قول ہے، اور آیت سے بھی اسی قول کی تائید ہوتی ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو کوئی دو دن کے بعد منیٰ چھوڑ دے گا تو کوئی حرج نہیں اور جو کوئی تیسرے دن بھی کنکری مارے گا تو کوئی حرج نہیں اس طرح قربانی کے دن کے بعد ایام تشریق کے تین دن ہوئے۔ البقرة
204 294: ابن جریر نے سدی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ یہ آیت اخنس بن شریق ثقفی کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ اس شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا، حالانکہ وہ دل سے کافر تھا۔ ابن عباس (رض) کی ایک روایت کے مطابق منافقین کی ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوئی تھی، جنہوں نے خبیب (رض) اور ان کے ساتھیوں کا مذاق اڑایا تھا۔ بہرحال مشہور قاعدہ کے مطابق کہ قرآن و سنت سے استفادہ کے لیے عموم لفظ کا اعتبار ہوتا ہے، خصوص سبب کا نہیں، یہ آیت ہر اس شخص پر صادق آتی ہے جو اسلام کو عقیدہ اور منہج حیات کی حیثیت سے قبول نہیں کرتا، لیکن دنیوی مصالح کی خاطر اعلان کرتا پھرتا ہے کہ وہ بھی مسلمان ہے۔ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ کچھ ایسے منافقین ہوتے ہیں جو مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے چکنی چپڑی باتیں کرتے ہیں، اور اللہ کو اپنے قول و فعل کی صداقت پر گواہ بناتے ہیں، حالانکہ وہ باطل کو حق دکھانے کے لیے بد ترین جھگڑالو ہوتے ہیں۔ جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے تو دھوکہ دیتا ہے، اور جب جھگڑتا ہے تو گالی گلوچ پر اتر آتا ہے۔ (متفق علیہ) البقرة
205 295: یعنی جب مسلمانوں کے پاس سے غیر مسلموں کے پاس واپس جاتا ہے تب اس کی خباثت ظاہر ہوتی ہے، اور امام کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں شب ہے پیدا کرتا ہے، کفر کی تقویت کے لیے سازشیں کرتا ہے، اور مسلمانوں کی ہر قسم کی بربادی کے لیے کوشاں رہتا ہے، کھیتی اور مویشی کے ہلاک کرنے کا یہی مفہوم ہے۔ البقرة
206 296: یعنی جب اس فاجر سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈرو، اور اپنے قول و فعل کے تضاد سے باز آجاؤ، تو مارے کبر و غرور کے پھٹا پڑتا ہے، اور نصیحت قبول نہیں کرتا، ایسے لوگوں کا انجام اللہ نے تبا دیا ہے کہ ان کے کفر و نفاق اور کبر وغرور کے بدلے جہنم ان کے لیے کافی ہے، جو بہت برا ٹھکانا ہے، حاکم نے لکھا ہے کہ سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ کسی کو کہا جائے کہ اللہ سے ڈرو، تو وہ جواب میں کہے کہ، تم اپنی فکر کرو۔ البقرة
207 297: منافقین کی صفات بیان کرنے کے بعد، مومنین صالحین کی صفات حمید بیان کی جا رہی ہیں، تاکہ بندہ مومن منافقین کی صفات سے بچے، اور صالحین کی صفات اپنے اندر پیدا کرے۔ ابن عباس (رض) وغیرہ کی روایت ہے کہ یہ آیت حضرت صہیب رومی کے بارے میں نازل ہوئی تھی، جب مکہ سے ہجرت کے وقت کفار قریش نے انہیں گھیر لیا کہ تم اپنا مال لے کر نہیں جاسکتے۔ اگر مال چھوڑ کر جانا چاہو تو جاسکتے ہو۔ چنانچہ انہوں نے اپنی ساری جائیداد اہل مکہ کے حوالے کردی، اور صرف ایمان لے کر مدینہ کے لیے روانہ ہوگئے، ان کے مدینہ پہنچنے سے پہلے یہ آیت نازل ہوچکی تھی، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں دیکھا تو کہا ربح صہیب ربح صہیب، مستدرک حاکم، طبقات ابن سعد۔ یہاں بھی وہی بات کہی جائے گی کہ قرآن و سنت سے استفادہ کرتے وقت عموم لفظ کا اعتبار ہوتا ہے، خصوسِ سبب کا نہیں ،، اس لیے یہ آیت ہر مجاہد فی سبیل اللہ پر منطبق ہوتی ہے، جو اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے اپنی جان و مال کی قربانی پیش کردیتا ہے۔ البقرة
208 298: اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس بات کا حکم دیا ہے کہ وہ اسلام کو اس کے تمام جزئیات و تفاصیل کے ساتھ قبول کریں، ان کی طرح نہ ہوجائیں جو خواہش نفس کے غلام بن گئے کہ جو بات ان کی خواہش کے مطابق ہوئی اسے لے لیا، اور جو ان کی خواہش کے مطابق نہ ہوئی اسے چھوڑ دیا، اسلام لانے کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان کی ہر خواہش دین کے تابع ہو، جن اعمال خیر کو وہ کرسکتا ہے انہیں کرے، اور جنہیں نہیں کرسکتا ہے، انہیں بشرط قدرت و امکان کرنے کی نیت رکھے، تاکہ اسے نیت کا اجر ملے۔ آدمی پورے اسلام پر اسی وقت گامزن ہوسکتا ہے جب شیطان کی مخالفت کو اپنی زندگی کا شیوہ بنا لے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے شیطان کی اتباع سے منع فرمایا، اور تنبیہ کی کہ وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے، اور یہ بات تو تمہیں معلوم ہے، اس لیے کہ اسی نے تو تمہارے باپ آدم کے ساتھ کھلی عداوت کی تھی، اور جنت سے نکلوایا تھا۔ اسی بات کی مزید تاکید کے لیے اللہ نے آگے فرمایا کہ اگر اللہ کی طرف سے واضح دلائل آجانے کے باوجود تم شیطان کی اتباع کرتے ہو تو یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ بڑا ہی قدرت والا ہے، اس کے انتقام سے کوئی بچ نہیں سکتا، اور حکمت والا ہے، اس کا کوئی بھی حکم حکمت و مصلحت سے خالی نہیں ہوتا، اس کے قہر و عذاب سے بچنا ناممکن ہے۔ ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ آیت میں ایمان والوں سے مراد اہل کتاب کے بعض وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسلام کو تو قبول کرلیا تھا، لیکن تورات کے بعض احکام و شرائع کو بھی اب تک گلے لگا رکھا تھا، انہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کہ پورے دین محمدی کو قبول کرو، اس میں سے کسی بھی حکم کو نہ چھوڑو، اور تورات پر اب صرف تمہارا ایمان لانا کافی ہوگا۔ البقرة
209 299: اس آیت میں جو وعید وارد ہوئی ہے اس کا تعلق قیامت کے دن سے ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کرنے والوں کو دھمکی دی گئی ہے کہ ان کا عناد اور ان کی مخالفت حد سے تجاوز کرگئی ہے، اب انہیں قیامت اور اس کی ہولناکیوں کا انتظار کرنا چاہئے، جب اللہ تعالیٰ اپنے پورے جلال میں ہوگا، اور صرف اسی کی بادشاہت ہوگی، اسی کے اوامر نافذ ہوں گے، وہی تمام امور میں تصرف کر رہا ہوگا، اور تمام مخلوق اس کے سامنے اس دن بلا تفریق سرنگوں ہوگی، اور اس دن کی ہولناکیاں اس قدر بڑھی ہوں گی کہ ظالموں کے دل دہل رہے ہوں گے، اس دن اللہ تعالیٰ کافروں کو ان کے کفر کا مزا چکھائے گا۔ فائدہ : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے (آنے) کی صفت استعمال کی ہے، جیسا کہ دوسری آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے استواء، نزول اور مجیئ وغیرہ کی صفات اپنے لیے ثابت کی ہیں، اسی طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اللہ کے لیے متعدد صفات کو صحیح احادیث میں ثابت کیا ہے۔ ان تمام صفات کے بارے میں سلف صالحین کا منہج رہا ہے کہ ہم بھی انہیں اللہ کے لیے ثابت کرتے ہیں اور ان پر ایمان رکھتے ہییں، اور مخلوق کی صفات کے ساتھ انہیں تشبیہ نہیں دیتے، اور نہ مخلوق کی کسی صفت کے ذریعہ اس کی مثال بیان کرتے ہیں اور نہ ان صفات کی ہم تاویل کرتے ہیں، جیسا کہ باطل فرقوں کا شیوہ رہا ہے، معطلہ، جہمیہ، معتزلہ، اشاعرہ اور اسی قسم کے باطل فرقوں نے اللہ کی صفات کو اسی طرح تسلیم نہیں کیا جس طرح انہیں اللہ نے اپنے لیے ثابت کیا ہے، یا اس کے رسول صلی اللہ علیہو سلم نے اس کے لیے ثابت کیا ہے۔ حافظ ابن عبدالبر کہتے ہیں کہ اہل سنت بالاجماع اللہ کی ان تمام صفات کو مانتے ہیں جن کا ذکر قرآن کریم یا سنت میں آیا ہے، ان پر ایمان رکھتے ہیں، اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ یہ تمام صفات اللہ کی فی الحقیقت صفات ہیں، مجازاً نہیں، لیکن ہم ان کی کیفیت نہیں جانتے۔ اہل بدعت جہمیہ، معتزلہ اور خوارج وغیرہم ان کا انکار کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ان صفات سے ان کا حقیقی معنی مراد نہیں ہے۔ انتہی۔ البقرة
210 البقرة
211 300: اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی ان کے کفر و سرکشی پر سرزنش کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت کے لیے انبیاء و رسل بھیجے، اور ان کے ساتھ بہت سی کھلی نشانیاں اور واضح دلائل بھیجے، تاکہ انہیں دیکھ کر ایمان لے آئیں ید بیضاء، عصائے موسی، شق سمندر، پتھروں سے چشموں کا جاری ہونا، میدان تیہ میں بادل کا سایہ، من و سلوی اور اسی قسم کے اور بھی دلائل اللہ تعالیٰ نے انہیں راہ راست پر لانے کے لیے بھیجے، لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا، اور ایمان کے بدلے کفر کو قبول کرلیا، اور حرمانِ ثواب اور عذاب نار کے مستحق بنے۔ آیت 212 میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ کافروں کے لیے دنیا کی زندگی کو خوش رنگ بنا دیا گیا ہے، جس پر وہ خوش اور مطمئن ہیں، دولت جمع کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، اور مسلمانوں کا مذاق اڑاتے ہیں کہ وہ فقیر ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیاوی مال و متاعی ہی حقیق سعادت ہے، اور جو اس سے محروم ہے وہ شقی و بدبخت ہے، لیکن اہل ایمان دنیا سے اعراض کرتے ہیں اور جو مال وہ حاصل کرتے ہیں اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، اس لیے قیامت کے دن ان کا مقام جنت اور کفار کا ٹھکانا جہنم ہوگا، وہ علیین میں ہوں گے اور کفار اسفل السافلین میں اور چاہے دنیاوی رزق ہو یا اخروی نعمت، اللہ کی مرضٰ کے بغیر کسی کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکتا، اس لیے کہ کائنات اور اس کا ذرہ ذرہ اسی کے تصرف میں ہے، وہ جسے چاہتا ہے بے حساب روزی دیتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے بے حساب روزی دیتا ہے۔ البقرة
212 البقرة
213 301: ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ آدم اور نوح علیہما السلام کے درمیان دس صدیوں کی مدت تھی۔ اس پوری مدت میں لوگ ایک ہی شریعت حقہ پر قائم رہے۔ پھر ان کے درمیان مرور زمانہ کے ساتھ عقائد میں اختلاف واقع ہوگیا (انتہی) تو اللہ تعالیٰ نے ان کو راہ راست پر لانے کے لیے انبیاء کرام کو بھیجا جنہوں نے اللہ کی بندگی کرنے والوں کو دنیا و آخرت کی کامیابی اور جنت کی خوشخبری دی، اور اس کی نافرمانی کرنے والوں کو دنیا و آخرت کی ناکامی، محرومی، ذلت و رسوائی اور جہنم سے ڈرایا، اور ان انبیاء کے ساتھ کتابیں بھیجیں جن میں سچی خبریں اور مبنی بر عدل اوامر تھے، جو اصول و فروع میں اختلاف کرنے والوں کے درمیان قول فیصل کا درجہ رکھتی تھیں۔ یہود و نصاری ٰ نے اللہ کی کتابوں (سب کچھ جاننے کے باوجود)۔ اختلاف کیا، اور اس کا سبب ان کا آپس کا حسد و عناد تھا، لیکن اللہ نے مسلمانوں کو اپنے فضل و کرم سے حق کی طرف ہدایت دی، وہ تمام کتب سماویہ پر ایمان لائے، پھر قرآن پر ایمان لائے اور ان تمام امور میں اعتدال کی راہ اختیار کی جن میں یہود و نصاریٰ نے اختلاف کیا تھا، اور اللہ جسے چاہتا ہے اپنی سیدھی راہ کی طرف ہدایت دیتا ہے۔ مصنف عبدالرزاق میں ابوہریرہ رضٰ اللہ عنہ کی روایت ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہم مسلمان زمانہ کے اعتبار سے آخر میں آئے ہیں، قیامت کے دن اولین لوگوں میں سے ہوں گے، ہم لوگ سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے، حالانکہ اہل کتاب کو ہم سے پہلے کتاب ملی ہے اور ہمیں بعد میں کتاب ملی، لیکن اللہ نے ہمیں حق کی طرف اپنے فضل و کرم سے ہدایت دی، لوگوں نے جمعہ کے دن کے بارے میں آپس میں اختلاف کیا، تو اللہ نے ہمیں ہدایت دی اور ہم نے جمعہ کا اختیار کرلیا اور لوگ ہمارے تابع بن گئے، یعنی ہفتہ کا دن یہود نے اختیار کرلیا، اور نصاری نے اتوار کا دن۔ البقرة
214 302: اس میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ اپنے مومن بندوں کا امتحان لیتا ہے اور جس کا جس درجہ کا ایمان ہوتا ہے، اسی درجہ کا اس کا امتحان بھی ہوتا ہے۔ گذشتہ انبیاء ومومنین کے ساتھ یہی اللہ کی سنت رہی ہے، اور اللہ کی یہ سنت بدل نہیں سکتی، جو بھی اللہ کے دین پر چلے گا اس کی آزمائش ہونی ضروری ہے، تو جو لوگ صبر و استقامت سے کام لیں گے، اللہ تعالیٰ انہیں سعادت نصیب فرمائے گا اور جو لوگ آزمائش میں پورے نہیں اتریں گے، اور دنیاوی پریشانیوں اور مصائب و آلام کو عذاب آخرت تصور کرلیں گے، انہیں آخرت میں محرومیوں اور ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ اللہ نے مسلمانوں کو خطاب کر کے فرمایا کہ تم نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ بغیر امتحان و آزمائش سے گذرے ہوئے جنت میں داخل ہوجاؤ گے، حالانکہ ابھی تک تمہاری ویسی آزمائش ہوئی ہی نہیں، جیسی آزمائش گذشتہ انبیاء اور مومنین کی ہوئی، ان پر جو مصیبتیں آئیں ان کی شدت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ انبیاء اور ان پر ایمان لانے والے شدت کرب و الم سے چیخ پڑے کہ اے اللہ، اب تو اپنی مدد بھیج دے، اور جب ان کا امتحان ہوچکا تو اللہ نے کہا کہ ہاں، اب اللہ کی مدد میرے مومن و صالح بندوں سے قریب ہے، کیونکہ اللہ تو ہر چیز پر ہر وقت قادر ہے، اللہ تو آزمانا چاہتا تھا کہ میدانِ عمل میں کون بندہ صادق ہے۔ بخاری نے خباب بن الارت (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کعبہ کے سائے میں ایک چادر کو تکیہ بنائے لیٹے تھے، اور مشرکین کی زیادتی انتہا کو پہنچ رہی تھی، تو ہم نے کہا کہ اب تو ہمارے لیے اللہ کی مدد مانگئے، اب تو ہمارے لیے دعا کیجئے؟ تو آپ نے فرمایا کہ تم سے پہلے زمانہ میں مسلمان آدمی کو پکڑ لیا جاتا تھا، اور خندق کھود کر گاڑ دیا جاتا تھا، پھر آری سے اس کے دو ٹکڑے کر دئیے جاتے، یا لوہے کے کنگھے سے اس کا گوشت ہڈی سے الگ کردیا جاتا تھا، لیکن یہ عذاب اسے اس کے دین سے نہیں پھیرتا تھا، اللہ کی قسم، اللہ تعالیٰ اس دین کو پورا کرے گا، یہاں تک کہ ایک سوار صنعاء سے حضرت موت تک جائے گا، اور اسے اللہ کے علاوہ کسی کا ڈر نہیں ہوگا، یا چرواہا اپنی بکریں کے بارے میں بھیڑیا سے ڈرے گا، لیکن تم لوگ جلدی کر رہے ہو، البقرة
215 303: لوگوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ وہ اپنے مال میں سے اللہ کی راہ میں کیا خرچ کریں تو اللہ تعالیٰ نے ان کا جواب دیا، اور ان کی رہنمائی فرمائی کہ وہ کوئی بھی مال حلال اللہ کی راہ میں خرچ کرسکتے ہٰں، چاہے تھوڑا ہو یا زیادہ، اس کے بعد آپ نے انہٰں بتایا کہ اس سوال سے زیادہ اہم یہ جاننا ہے کہ مال کن پر خرچ کیا جائے، چنانچہ انہیں تعلیم دی کہ انسان کی نیکی اور حسن سلوک کے سب سے زیادہ حقدار اس کے والدین ہیں، ان پر خرچ کرنا اور ان کے ساتھ حسن سلوک سب سے بڑی نیکی ہے اور ان کے ضرورت مند ہونے کے باوجود ان پر نہ خرچ کرنا ان کی سب سے بڑی نافرمانی ہے۔ مسند احمد میں ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اپنی ماں اور باپ پر خرچ کرو، اپنی بہن اور بھائی پر خرچ کرو، اس کے بعد حسب مراتب قریبی رشتہ داروں پر، والدین کے بعد حسب مراتب دوسرے رشتہ داروں، ایتام مساکین و فقراء اور ان مسافروں پر خرچ کرنا چاہئے جن کا زاد راہ ختم ہوگیا ہو، اور اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے پیسوں کے محتاج ہوں، اس تفصیل کے بعد اللہ تعالیٰ نے علی وجہ الاجمال یہ فرمایا کہ اے مسلمانوں تم جو بھی کار خیر کروگے، چاہے ان لوگوں کے ساتھ جن کا ذکر اوپر آچکا، اوروں کے ساتھ، تو اللہ اسے جانتا ہے اور اس کا بہترین بدلہ تمہیں عطا فرمائے گا، جیسا کہ اللہ نے فرمایا ہے آیت انی لا اضیع عمل عامل منکم من ذکر او انثی، کہ مرد ہو یا عورت، میں کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا۔ آل عمران : 195۔ نیز فرمایا ہے، آیت فمن یعمل مثقال ذرۃ خیر ایرہ، کہ جو کوئی ایک ذرہ کے برابر نیکی کرے گا، اسے روز قیامت اپنے میزان عمل میں دیکھ لے گا، الزلزلہ : 7۔ البقرة
216 304: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں پر جہاد فی سبیل اللہ کو فرض قرار دیا ہے۔ مدنی زندگی کے ابتدائی دنوں میں مسلمان ہر اعتبار سے کمزور تھے، ان کی تعداد کم تھی اور ان کے پاس سامانِ جنگ بھی نہیں تھا، اس لیے اللہ نے انہیں عفو و درگذر اور صبر کرنے کا حکم دیا، جنگ بدر کے قبل جب ان کی تعداد زیادہ ہوگئی اور پہلے کے مقابلہ میں قوی ہوگئے، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اللہ کی راہ میں جنگ کرنے کا حکم دے دیا، اور کہا کہ اگرچہ اس کام میں جان کی بازی لگانی پڑتی ہے اور مختلف قسم کے خطرات اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن اللہ جانتا ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ میں مومنوں کے لیے خیر ہی خیر ہے، دشمنوں کے اوپر غلبہ اور مال غنیمت کے حصول کے علاوہ آخرت کی کامیابی اور جہنم سے نجات اس کا انجام ہوتا ہے، اسی طرح انسان بعض چیزوں کو پسند کرتا ہے، حالانکہ وہ اس کے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ظاہری راحت کی خاطر جہاد فی سبیل اللہ کو چھوڑ دینے کا انجام دنیا میں ذلت و رسوائی، دشمنوں کا بلاد اسلامیہ پر قابض ہوجانا، اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے غیظ و غضب اور جہنم کے عذاب کا سامنا ہوگا۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ تمہاری بھلائی کس کام میں ہے صرف اللہ جانتا ہے، تم کچھ بھی نہیں جانتے، اس لیے اللہ کا جو حکم ہو اسے بجا لانے میں ہی خیر ہے۔ چاہے اس میں مشقت کیوں نہ اٹھانی پڑے، اس لیے کہ اللہ اپنے بندوں کے لیے مہربان ہے، وہ انہی باتوں کا حکم دیتا ہے جن کے بجا لانے میں بندوں کی بھلائی ہے۔ البقرة
217 305: اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک فوجی دستہ عبداللہ بن جحش کی قیادت میں نخلہ کی طرف روانہ کیا، راستہ میں قریش کے ایک قافلہ سے مڈبھیڑ ہوگئی جو طائف کی طرف سے آرہا تھا، ایک مسلمان تیر انداز نے عمرو بن الحضرمی کو قتل کردیا، چونکہ رجب کا مہینہ تھا جو حرمت والا مہینہ ہوتا ہے، اس لیے کفار قریش نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عار دلایا کہ تم لوگ تو حرمت والے مہینوں کا بھی پاس نہیں رکھتے، تو یہ آیت نازل ہوئی، جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ آپ ان کافروں سے کہہ دیجئے کہ جس بات کا تم عار دلاتے ہو اگرچہ وہ بڑا گناہ ہے، لیکن اللہ کے دین سے روکنا، اللہ کا انکار کرنا، مسجد حرام سے روکنا، نبی کریم اور صحابہ کرام کو ان کے گھروں سے نکالنا، یہ جرام اللہ کے نزدیک بڑے ہیں، اور لوگوں کو ان کے دین اسلام پر چلنے کی وجہ سے آزمائشوں میں ڈالنا تو قتل سے بھی بڑا جرم ہے، اور یہ تمام عیوب تمہارے اندر پائے جاتے ہیں، لیکن تمہیں اپنے عیوب نظر نہیں آتے، اور مسلمانوں کو ان کی ایک غلطی کا عار دلاتے ہو۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ کفار جو آپ سے جنگ کرتے ہیں، ان کا مقصد آپ کو اور مسلمانوں کو دین اسلام سے نکال دینا ہے، جو وہ نہیں کرسکیں گے، پھر اللہ نے فرمایا کہ جو کوئی دین اسلام سے مرتد ہوجائے گا، اس کے سارے اعمال دنیا و آخرت میں ضائع ہوجائیں گے اور اس کا ٹھکانا ہمیشہ کے لیے جہنم ہوگا۔ فائدہ : جمہور اہل علم کی رائے یہ ہے کہ حرمت والے مہینوں (شوال، ذی القعدہ، ذی الحجہ، رجب) میں قتال جائز ہے۔ ائمہ اربعہ کا یہی مزہب ہے کہ ان مہینوں میں قتال کی حرمت منسوخ ہوچکی ہے، اس لیے کہ اس کے بعد نازل ہونے والی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے بارے میں حکم دیا کہ وہ جہاں کہیں بھی ہوں انہیں قتل کرو، اور کسی مہینہ کی استثناء نہیں کی۔ البقرة
218 306: اہل ارتداد اور ان کے انجام بد کا ذکر کرنے کے بعد اہل ایمان کا ذکر کیا گیا ہے کہ جو لوگ ایمان لائیں گے، اور السامی زندگی کی خاطر وطن، مال و دولت، خاندان اور دوست احباب چھوڑ کر کسی دوسری جگہ چلے جائیں گے، اور اللہ کے دین کی نصرت اور دشمنان دین کا قلع قمع کرنے کے لیے جہاد کریں گے، وہی لوگ اللہ کی رحمت کے امیدوار ہوں گے، اللہ تعالیٰ تو بڑا ہی مغفرت کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ البقرة
219 307: شراب کی حرمت کے بارے میں سب سے پہلے یہی آیت نازل ہوئی، اس کے بعد سورۃ نساء کی مندرجہ ذیل آیت نازل ہوئی۔ آیت یا ایہا الذین آمنو لاتقربوا الصلاۃ وانتم سکارا، یعنی اے ایمان والو ! تم جب نشہ کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ، النساء :43۔ اور سب سے آخر میں سورۃ مائدہ کی آیت نازل ہوئی۔ آیت یا ایہا الذین امنوا انما الخمر و المیسر والانصاب والازلام رجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ لعلکم تفلحون۔ انما یرید الشیطان ان یوقع بینکم العداوۃ والبغضاء فی الخمر والمیسر و یصدکم عن ذکر اللہ و عن الصلاۃ فہم انتم منتہون۔ اے ایمان والو، شراب اور جواب اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر، یہ سب گندی باتیں شیطان کا کام ہے، ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم فلاح پا سکو، شیطان تو چاہتا ہے کہ شراب اور جوے کے ذریعہ تمہارے آپس میں عداوت اور بغض پیدا کردے، اور اللہ کی یاد اور نماز سے تم کو باز رکھے، تو اب کیا تم شراب پینے سے رک جاؤ گے۔ المائدہ :90-91۔ اس کے بعد حضرت عمر بن الخطاب (رض) نے کہا کہ اے اللہ ہم رک گئے، ہم رک گئے۔ دور جاہلیت اور ابتدائے اسلام میں لوگ شراب پیتے تھے،، اس لیے ی جب اس کا استعمال حرام کردیا گیا تو اس کے بعض ظاہری منافع کے پیش نظر، کچھ لوگوں کے ذہنوں میں ایک طرح کا اشکال باقی رہ گیا، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ کیا واقعی شراب حرام کردی گئی ہے؟ اسی طرح لوگ جوا بھی کھیلا کرتے تھے اور اس کے بارے میں بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا تو اللہ نے فرمایا کہ لوگ آپ سے شراب اور جوا کے بارے میں پوچھتے ہیں تو کہہ دیجئے کہ ان دونوں میں بڑا گناہ اور کچھ ظاہری منافع بھی ہیں، لیکن ان دونوں کا گناہ ان کے نفع سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔ شراب انسان کے عقل پر اثر انداز ہوتی ہے، جو اس کے جسم میں سب سے قیمتی متاع ہے، اور جنگ و جدال، گالی گلوچ، بہتان و زُور اور ترک نماز و ترک اعمال صالحہ کا سبب بنتی ہے، اور جوا محتاجی، دشمنی اور بغض و حسد کا سبب ہوتا ہے۔ لوگوں نے شراب اور جوا کے منافع کے بارے میں لکھا ہے کہ شراب کی لوگ تجارت کرتے ہیں اور اس کے استعمال سے نشاط و طرب حاصل ہوتا ہے اور معدہ کی اصلاح ہوتی ہے اور جوا اسے فقیروں کو نفع پہنچتا ہے۔ لیکن فساد عقل کے بعد کسی ظاہری نفع کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی، اس لیے کہ عقل کے ذریعہ ہی آدمی ایمان و کفر اور خیر و شر میں تمیز کرتا ہے۔ علمائے کرام اور محققین نے اس کے علاوہ بھی شراب کے بہت سے نقصانات بتائے ہیں، مثال کے طور پر اس سے پیاس نہیں بجھتی، بچوں کی ذہنی اور جسمانی ترقی رک جاتی ہے، قوت ارادی کمزور ہوجاتی ہے، ٹی بی کی بیماری ہوتی ہے، دل اور خون کی نالیوں پر اثر انداز ہوتی ہے، اور بھی بہت سی بیماریاں پیدا ہوتی ہے جن کا ذکر شراب سے متعلق لکھی گئی کتابوں میں اایا ہے اسی طرح جوا انسان کو محتاجی تک پہنچا دیتا ہے اس کی وجہ سے ایسی عداوتیں پیدا ہوتی ہیں جو قتل و غارت گری اور ایک دوسرے کی عورتوں کی عصمت دری کا سبب بنتی ہیں، والعیاذ باللہ۔ 308: بعض صحابہ کرام نے زکاۃ فرض ہونے سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ وہ اللہ کی راہ میں اپنے مال کا کتنا حصہ خرچ کریں، تو اللہ نے فرمایا کہ آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اہل وعیال پر خرچ کرنے کے بعد جو بچ جائے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کریں، اللہ تعالیٰ تو ہمیشہ ہی اپنی آیتیں کھول کھول کر تم لوگوں کے لیے بیان کردیتا ہے تاکہ تم لوگ دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کی حقیقت کے بارے میں غور و فکر کرتے رہو۔ صحیحین میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ بہترین صدقہ وہ ہے جو اپنی ضرورت پوری ہونے کے بعد ہو، اور ابتدا اس آدمی سے کرو، جس کی کفالت تمہارے ذمہ ہو۔ فائدہ : ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ یہ حکم فرضیت زکاۃ والی آیت کے ذریعہ منسوخ ہوگیا ہے، اور عطاء خراسانی اور سدی وغیرہ کا خیال ہے کہ آیت زکاۃ کے ذریعہ اس حکم کی تفصیل بیان کردی گئی ہے کہ آدمی اپنے مال میں سے کیا خرچ کرے اور کن لوگوں پر خرچ کرے۔ البقرة
220 309: ابن عباس (رض) کی روایت ہے کہ جب قرآن کریم کی یہ آیت اتری، ولا تقربوا مال الیتیم الا بالتی ھی احسن، اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو مستحسن ہو، الانعام : 152۔ اور یہ آیت ان الذین یاکلون اموال الیتامی ظلما انما یاکلوان فی بطونہم نارا و سیصلون سعیرا۔ اور جو لوگ یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہٰں، اور وہ دوزخ میں جائیں گے۔ النساء :10۔ تو تمام صحابہ کرام نے جن کے گھروں میں ایتام تھے، ان کا کھانا پینا لاگ کردیا، اور جب ان کے کھانے کا کچھ حصہ بچ جاتا تو اسے اٹھا رکھتے، یا تو یتیم اسے کھاتا یا پھر خراب ہوجانے کے بعد اسے پھینک دیا جاتا، یہ چیز ان پر بڑی شاق گذری، اور اس کا تذکرہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا، تو سورۃ بقرہ کی آیت اتری کہ مقصود یتیموں کے مال کی حفاظت ہے، اور اگر انہیں کھانے وغیرہ میں شریک کرلیا جائے اس طور پر کہ نیت ان کے ساتھ بھلائی کرنی ہو، ان کا مال کھانا نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ چاہے ان کے کھانے کا کچھ حصہ تم یا تمہارے بچے کھا جائیں، کیونکہ وہ دینی بھائی ہیں، اور دینی اخوت خاندانی اخوت سے زیادہ قوی اور مبنی بر اخلاص ہوتی ہے، اور اللہ خوب جانتا ہے کہ کس کی نیت یتیم کی خیر خواہی ہے، اور کس کی اس کا مال حیلہ بہانا سے کھا جانا، اور اللہ چاہتا تو تمہیں مشقت و پریشانی میں ڈال دیتا، اور ان کا کھانا الگ رکھنے کا حکم دیتا، اور کوئی چیز اسے اس سے نہ روک سکتی تھی، اس لیے کہ اللہ تو ہر چیز پر غالب آنے والا اور صاحب حکمت ہے (ابو داو، نسائی، حاکم)۔ فائدہ : سہل بن سعد (رض) کی روایت ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح رہیں گے، اور اپنی شہادت کی انگلی اور بچلی انگلی سے اشارہ کیا اور ان دونوں کے درمیان فاصلہ بنایا (بخاری و مسلم) البقرة
221 310: اس آیت کریمہ میں اللہ تعاللیٰ نے مشرکہ اور بت پرست عورتوں سے نکاح کرنے سے منع فرمایا ہے، یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں، مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ آیت عام ہے اور اہل کتاب کی عورتوں کو بھی شامل ہے اس کے بعد سورۃ مائدہ کی آیت نے اس کی تخصیص کردی اور اہل کتاب کی عورتوں سے شادی کرنا جائز ہوگیا۔ آیت یہ ہے آیت والمحصنات من المومنات والمحصنات من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم، اور مومن پاکدامن عورتوں سے اور اہل کتاب کی پاکدامن عورتوں سے شادی کرنا تمہارے لیے جائز کردیا گیا ہے۔ مائدہ : 5۔ بعض دیگر محققین نے لکھا ہے کہ مشرک اور مشرکہ کا لفظ کتابی اور کتابیہ کو شامل نہیں ہے۔ اس لیے کہ قرآن نے پوری صراحت کے ساتھ دونوں میں تفریق کی ہے اور ایک کے بعد دوسرے کا ذکر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، آیت ان الذین کفروا من اھل الکتاب و المشرکین۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مشرک کے مزہب کی بنیاد ہی شرک پر ہے، جبکہ کتابی کے دین کی بنیاد توحید پر تھی، مرورِ زمانہ کے ساتھ انہوں نے اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک بنا دیا۔ معلوم ہوا کہ مشرکہ سے نکاح کی حرمت میں اہل کتاب کی عورتیں شامل نہیں ہیں۔ 311: مشرکہ کے ساتھ حرمت نکاح کی علت بیان کی گئی ہے، اور مونہ سے شادی کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے، کہ غلامی ذلت کے باوجود، ایمان کی نعمت کفر و شرک پر ہر طرح بھاری ہے، چاہے مشرکہ کا حسن و جمال اور اس کا حسب و نسب تمہیں کتنا ہی کیوں نہ بھا رہا ہو۔ 312: مومنہ عورت (چاہے آزاد ہو یا لونڈی) کی شادی مشرک کے ساتھ کسی حال میں جائز نہیں ہے، امت کا اس پر اجماع ہے، یہاں بھی اس حرمت نکاح کی علت بیان کی گئی ہے کہ مومن طوق غلامی کے باوجود مشرک سے ہر طرح سے بہتر ہے، چاہے مشرک کیسا ہی مال و دولت اور جاہ و حشم والا کیوں نہ ہو، اس لیے مومنہ عورت کی شادی صرف مومن مرد ہی کے ساتھ حلال ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری وجہ حرمت بیان کی کہ مشرک عورتیں اپنے شوہروں کو اور مشرک مرد اپنی بیویوں کو جہنم کی طرف بلاتے ہیں، اور اللہ قرآن سنت کی تعلیمات کے ذریعہ رضائے الٰہی اور جنت کی طرف بلاتا ہے اور اپنی آیتیں لوگوں کے لیے کھول کھول کر بیان کرتا ہے، تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں، حرام شادیوں سے بچیں، اور رشتہ ازدواج صرف مومن مردوں اور عورتوں کے ساتھ استوار کریں۔ فوائد : 1۔ مشرک اور بدعتی کے ساتھ میل جول رکھنا جائز نہیں ہے اس لیے کہ وہ اپنے ہر قول و فعل کے ذریعہ جہنم کی طرف بلاتا ہے۔ 2۔ عورت کا نکاح بغیر ولی کے معتبر نہیں ہوگا، اللہ نے فرمایا۔ ولا تنکحوا المشرکین، یعنی اپنی عورتوں کا نکاح مشرکین کے ساتھ نہ کرو، معلوم ہوا کہ عورت کی شادی اس کا ولی کرے گا، وہ خود اپنی شادی نہیں کرے گی۔ 3۔ حضرت عمر (رض) نے کتابیہ سے شادی کو مکروہ سمجھا، تاکہ ایسا نہ ہو کہ مسلمان مرد اپنی عورتوں کو چھوڑ کر کتابیات سے شادی کرنے لگیں۔ 4۔ اس آیت میں ترغیب دلائی گئی ہے کہ مومن مردوں اور عورتوں کی شادی انہی جیسے مومن مردوں اور عورتوں سے ہونی چاہئے اور کافر مردوں اور عورتوں سے رشہ ازداوج نہیں جوڑنا چاہئے۔ صحیح احادیث میں بھی اس کی بڑی تاکید آئی ہے۔ صحیحین میں ابوہریرہ (رض) کی روایت ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ عورت سے شادی چار اسباب کی وجہ سے کی جاتی ہے، مال و دولت، حسب و نسب، حسن و جمال اور دینداری، تم دیندار عورت حاصل کرنے کی کوشش کرو، اور مسلم نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ دنیا ایک عارضی متاع (فائدہ کی چیز) ہے، اور دنیا کی سب سے بہترین متاع نیک بیوی ہے۔ البقرة
222 313: انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ یہود اپنی حائضہ عورتوں کے ساتھ کھانا نہیں کھاتے تھے تھے، اور نہ ایک گھر میں ان کے ساتھ سوتے تھے، صحابہ کرام (رض) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے بارے میں دریافت کیا کہ وہ اپنی عورتوں کے ساتھ کیسا معاملہ کریں تو یہ آیت نازل ہوئی کہ آپ انہیں بتا دیجئے کہ ماہواری کا خون گندا اور نقصان دہ ہوتا ہے، اس لیے مدت حیض میں ان کے ساتھ مجامعت نہ کرو، اور جب تک پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب بھی نہ جاؤ، اور جب تک پاکی حاصل نہ کرلیں ان کے ساتھ جماع نہ کرو، اللہ تعالیٰ گناہوں سے توبہ کرنے والوں، اور نجاستوں اور گندگیوں سے پاکی حاصل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ فوائد : 1۔ آیت میں ممانعت جماع سے ہے، ایک ساتھ اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے، لیٹنے اور جماع کے علاوہ دیگر امور استمتاع کی ممانعت نہیں ہے۔ صحیحین میں ام المومنین میمونہ (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے ساتھ لیٹتے تھے اور میں حائضہ ہوتی تھی اور میرے اور ان کے درمیان صرف ایک کپڑا ہوتا تھا۔ 2۔ حیض آنے کے بعد بہتوں کے نزدیک جماع کے جواز کی دو شرطیں ہیں : پہلی شرط یہ ہے کہ حیض کا خون آنا بند ہوجائے، اور دوسری یہ ہے کہ عورت غسل کرلے۔ اگر غسل کے لیے پانی میسر نہ ہو تو تیمم کرلینا کافی ہوگا، مام شوکانی کے نزدیک یہی راجح ہے، لیکن امام ابن حزم اور دیگر بہت سے علماء کا خیال ہے کہ غسل کرنا شرط نہیں۔ اگر عورت انقطاع دم کے بعد اپنی شرمگاہ اچھی صاف کرلیتی ہے تاکہ وہاں خون کا کوئی اثر باقی نہ رہے، تو پھر جماع جائز ہوگا، محدث شام علامہ ناصر الدین البانی نے اپنی کتاب آداب الزفاف میں اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔ 3۔ خون رک جانے کے بعد حائضہ کے لیے غسل کرنا واجب ہے۔ البقرة
223 314: یہود کہا کرتے تھے کہ اگر عورت کے ساتھ اس کی پشت کی طرف سے اس کے فرج (اگلی شرمگاہ) میں جماع کیا جائے، تو بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے، ان کی تردید میں یہ آیت نازل ہوئی کہ ان کا یہ خیال صحیح نہیں ہے اور بیوی کے ساتھ کسی بھی جائے، تو بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے، ان کی تردید میں یہ آیت نازل ہوئی کہ ان کا یہ خیال صحیح نہیں ہے اور بیوی کے ساتھ کسی بھی طرف سے اس کی اگلی شرمگاہ میں جماع کرنا جائز ہے، اور اس سے بچے پر کوئی اثر نہیں پڑتا، بخاری ومسلم۔ اس آیت کے شان نزول میں ابن عباس (رض) کا ایک قول ہے جسے ابو داود اور حاکم نے روایت کی ہے، کہتے ہیں کہ قبل از اسلام انصار کے بعض محلے بعض یہودی محلوں کے آس پاس تھے اور سمجھتے تھے کہ یہود ان سے علم وفضل میں زیادہ تھے، اس لیے انصار میں بھی یہی عادت چل پڑی تھی، اہل قریش اپنی بیویوں سے زیادہ سے زیادہ تلذذ کے لیے آگے سے، پیچے سے، اور چت لیٹی ہوئی حالت میں جماع کرتے تھے، ہجرت کے بعد ایک مہاجر نے ایک انصاری عورت سے شادی کی اور ایسا ہی کرنا چاہا تو عورت نے نکیر کی اور کہا کہ ہمارے لوگ اپنی بیویوں کے پاس پہلو کے بل آیا کرتے ہیں ویسا ہی کرو ورنہ مجھ سے الگ رہو، ان دونوں کی بات لوگوں میں پھیل گئی، حتی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی ان کی بات معلوم ہوگئی، اسی کے بعد یہ آیت نازل ہوئی، نساءکم حرث لکم۔ الایۃ۔ 315: چونکہ بات قضائے شہوت سے متعلق ہو رہی تھی، اسی لیے اللہ نے تنبیہ کی کہ آدمی کو شہوت کی بندگی سے آزاد ہو کر ہمیشہ اللہ کی بندگی اختیار کرنا چاہئے۔ فرمایا کہ حصول جنت کے لیے نیک اعمال کرو، اور یاد رکھو کہ موت کے بعد اللہ کے حضور پیش ہونا ہے، اس لیے اس کی ملاقات کے لیے تیار رہو، اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے کہا گیا کہ آپ اہل ایمان کو اچھے بدلے کی خوشخبری دے دیں۔ فائدہ : اس آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کے دبر (پچھلی شرمگاہ) میں جماع کرنا حرام ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس جگہ جماع کی اجازت دی ہے جو کھیتی کی جگہ ہے اور وہ اگلی شرمگاہ ہے، وہیں جماع کرنے سے اولاد ہوتی ہے، ابو ہریرہ (رض) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس آدمی کی طرف روز قیامت دیکھے گا بھی نہیں جو اپنی بیوی کے دبر یعنی پچھلی شرمگاہ میں جماع کرے گا، ابن ماجہ۔ محدث سندی کہتے ہیں کہ ابو داود اور ترمذی میں بھی اسی معنی کی روایت موجود ہے۔ ترمذی میں ابن عباس (رض) کی ایک دوسری روایت ہے کہ ایک اعرابی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہا کہ میں تو ہلاک ہوگیا، آپ نے پوچھا کہ کس چیز نے تمہیں ہلاک کردیا؟ تو اس نے کہا کہ آج کی رات میں نے اپنی سواری کو الٹ دیا تھا، یعنی پیٹ کے بل لیٹی ہوئی حالت میں جماع کیا، آپ نے اس کا کوئی جواب نہ دیا، یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی کہ تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں، اپنی کھیتیوں میں آگے سے، پیچھے سے، جیسے چاہو، آؤ، لیکن دبر سے اور حیض سے بچے رہو، اس حدیث کو دارمی نے بھی روایت کیا ہے۔ البقرة
224 316: اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ مسلمان جب قسم کھائے تو اسے پورا کرے، لیکن اگر قسم ایسی ہو جو کسی عمل صالح کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہو تو ایسی قسم توڑ دی جائے گی اور اس نیک کام کو پورا کیا جائے گا اور قسم کا کفارہ ادا کردیا جائے گا۔ بعض لوگ اپنے بعض رشتہ داروں سے کسی وقتی اختلاف اور ناراضگی کی وجہ سے قسم کھا لیتے تھے کہ آئندہ اس کے ساتھ وہ بھلائی جاری نہیں رکھیں گے جو وہ پہلے سے کرتے آرہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں اس کی مانعت فرمائی ہے کہ اپنی قسموں کو نیکی، تقوی اور بھلائی کی راہ میں رکاوٹ نہ بناؤ۔ صحیحین میں ابو موسیٰ اشعری (رض) کی روایت ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ کی قسم، اگر میں کسی بات پر قسم کھا لوں اور بعد میں اس سے بہتر صورت نظر آجائے، تو انشاء اللہ میں وہی کروں گا جو بہتر ہے اور قسم توڑ دوں گا۔ اور صحیح مسلم میں ابوہریرہ (رض) کی روایت ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو کوئی قسم کھائے اور بعد میں اس سے بہتر کوئی دوسری صورت نظر آئے، تو اپنی قسم کا کفار ادا کردے اور وہی کرے جو بہتر ہے۔ فوائد : 1۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ اس آیت میں ہر بات پر قسم کھانے کی ممانعت آئی ہے۔ 2۔ اگر کوئی شخص ترک واجب کی قسم کھاتا ہے تو قسم توڑ دینا واجب ہوگا، اور اگر ترک مستحب کی قسم کھاتا ہے تو قسم توڑنا مستحب ہوگا، اور اگر کوئی حرام کام کے ارتکاب کی قسم کھاتا ہے تو اس پر بھی قسم توڑ دینا واجب ہوگا۔ البقرة
225 317: بسا اوقات انسان کی زبان پر قسم کے الفاظ آجاتے ہی، ان سے اس کی کوئی نیت نہیں ہوتی، ایسی قسم کا کوئی اعتبار نہیں اللہ نے اپنا فضل و کرم کرتے ہوئے بندوں کو خبر دی ہے کہ ایسی قسم پر اللہ تعالیٰ مواخذہ نہیں کریں گے۔ مواخذہ اس قسم پر ہوگا جس میں دل کے قصد کا دخل ہو۔ عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو غیر شعوری طور لا واللہ، بلی واللہ، کہہ دیتے تھے، (بخار، موطا، ابو داود)۔ فائدہ : مفسرین نے لکھا ہے کہ (لغو قسم) ہر وہ قسم ہے جس میں الفاظ کے ساتھ دل کی نیت شامل نہ ہو چاہے وہ کوئی بھی صورت اور کوئی بھی حالت ہو، اور ایسی قسم پر مواخذہ نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس پر کفارہ واجب نہیں ہوگا۔ البقرة
226 318: یہاں ایک خاص نوع کی قَسَم کا حکم بیان کیا جا رہا ہے، جسے قرآن و سنت کی زبان میں ایلاء کہا جاتا ہے، اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص قسم کھا لے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ ہمبستری نہیں کرے گا۔ ایسی صورت میں اگر اس نے چار ماہ سے کم مدت کے لیے قسم کھائی ہے تو اس کی حیثیت عام قسم کی ہوگی اگر مدت پوری ہونے سے قبل ہمبستری کرلیتا ہے تو اسے کفارہ دینا ہوگا، اور اگر مدت پوری کرلیتا ہے، تو اس پر کوئی کفارہ نہیں، اور اگر اس نے ہمیشہ کے لیے یا چار ماہ سے زیادہ کے لیے قسم کھائی ہے، تو اسے بیوی کے مطالبہ پر صرف چار ماہ کی مدت دی جائے گی اگر یہ مدت پوری کرلینے کے بعد وہ اپنی بیوی سے ہمبستری کرلیتا ہے تو اس پر صرف کفار واجب ہوگا، اور اگر ہمبستری نہیں کرتا تو اسے طلاق دینے پر مجبور کیا جائے گا، اگر طلاق نہیں دیتا تو عورت سے دفع ضرر کے لیے حاکم وقت شوہر کی طرف سے طلاق کو نافذ کردے گا۔ لیکن چونکہ بیوی کے پاس واپس چلاجانا اللہ کے نزدیک زیادہ بہتر ہے، اسی لیے اللہ نے فرمایا کہ اگر قسم کھانے والا آدمی اپنی بیوی کے پاس واپس چلا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہمبستری کرلیتا ہے تو جو غلطی اس سے سرزد ہوئی تھی اللہ اسے معاف کردے گا، اور اللہ مومنوں پر رحم کرنے والا ہے کہ کفارہ دے کر قسم توڑ دینے کی اجازت دے دی، اللہ چاہتا تو اسے لازم کردیتا۔ البقرة
227 319: اگر شوہر مدت گذر جانے کے بعد طلاق کا ارادہ کرلیتا ہے، اور ایسا کر گذرتا ہے تو ٹھیک ہے، ورنہ حاکم وقت اسے مجبور کرے گا، یا اس کی طرف سے طلاق دے دے گا۔ آیت کے آخر میں ایک قسم کی دھمکی ہے ان کے لیے جو اپنی بیویوں کو نقصان پہنچا نے کے لیے اس طرح کی قسمیں کھایا کرتے ہیں۔ فائدہ : آیت کریمہ میں دلیل ہے اس بات کی کہ ہر چار ماہ میں کم از کم ایک بار بیوی کے ساتھ ہمبستری واجب ہے، اس لیے کہ ایلاء کی قسم کھاجانے کی صورت میں آیت کے بموجب شوہر کو چار ماہ کے بعد مجبور کیا جاتا ہے کہ یا تو اپنی بیوی کے ساتھ ہمبستری کرے، یا پھر طلاق دے دے۔ البقرة
228 320: اس آیت کریمہ میں ایسی مطلقہ عورت کی عدت بیان کی گئی ہے جس کی ماہواری ابھی رکی نہ ہو، اور جس کے ساتھ اس کا شوہر ہمبستری کرچکا ہو، کہ اگر اس کا شوہر اسے طلاق رجعی دے دے، تو اس کی عدت تین ماہواری ہوگی، قرآن کریم نے ثلاثۃ قروء کا لفظ استعمال کیا ہے، صحیح قول یہی ہے کہ قروء سے مراد حیض ہے، یعنی عورت کو تین حیض کی مدت بطور عدت گذارنی پڑے گی، تاکہ معلوم ہوجائے کہ اس کے رحم میں بچہ نہیں ہے اور مقصود اس سے یہ ہے کہ لوگوں کا نسب خلط ملط نہ ہو۔ اسی لیے عورت کے لیے یہ حرام ہے کہ وہ اپنے رحم کی حالت چھپائے اگر حمل کو چھپائے گی تو بچے کو اس کے غیر باپ کے ساتھ ملائے گی جس کے بد ترین اور سنگین نتائج ظاہر ہوں گے، بچہ اپنے خاندان اور حق وراثت سے محرم ہوجائے گا، محرم عورتیں اس سے پردہ کریں گی، بلکہ بہت ممکن ہے وہ اپنی کسی مرحم عورت سے شادی کرلے۔ اسی طرح جس غیر باپ کی طرف وہ منسوب کردیا جائے گا اس کے مال کا ناجائز وارث ہوگا، اس کی عورتوں کا غیر شرعی محرم بن جائے گا، اور شر و فساد کے دیگر ایسے دروازے کھل جائیں گے، جنہیں کوئی بند نہ کر پائے گا۔ مثال کے طور پر اگر وہ عورت حمل کو چھپا دیتی ہے اور کسی دوسرے سے شادی کرلیتی ہے تو یہ شادی حرام ہوگی، اور دوسرے آدمی کا اس کے ساتھ جماع کرنا زنا ہوگا۔ اور حیض کو چھپا دیتی ہے اور کہہ دیت ہے کہ طلاق کے بعد تین ماہواری گذر چکی، تو اس نے شوہر کا حق رجعت ختم کردیا اور اپنے آپ کو دوسرے آدمی کے لیے غیر شرعی طور پر مباح کردیا، اور اگر کہتی ہے کہ ابھی تین ماہواری نہیں گذری ہے حالانکہ گذر چکی ہے، تو وہ ناحق نان و نفقہ لینا چاہتی ہے جو اس کے لیے حرام ہے، اور اگر شوہر اسے رجوع کرلیتا ہے تو اس کے ساتھ ہمبستری حرام ہوگی، اس لیے کہ عدت گذرنے کے بعد عقد جدید ضروری تھا۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اگر شوہر کی نیت اصلاح کی ہے تو عدت گذر جانے سے پہلے اپنی بیوی کو لوٹا لینے کا وہ زیادہ حقدار ہے۔ اور اگر عورتوں کے اوپر شوہروں کے حقوق ہیں، تو شوہروں کے اوپر بھی عورتوں کے حقوق ہیں۔ عرف عام کے مطابق کھانا، کپڑا، اچھا برتاؤ، رہائش اور ہمبستری وغیرہ عورتوں کے شوہروں پر حقوق ہیں جنہیں ادا کرنا ضروری ہے، اور یہ بھی صحیح ہے کہ مردوں کو عورتوں پر فوقیت حاصل ہے جس کا لحاظ بیویوں کو بہرحال کرنا ہے۔ فوائد : 1۔ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ تین حیض کی مدت پوری ہوجانے کے سلسلے میں عورت کی بات مانی جائے گی۔ 2۔ اگر عورت کی ماہواری بند ہوچکی ہے یا ابھی سن بلوغت کو نہیں پہنچی ہے تو اس کی عدت تین ماہ ہوگی اور اگر حاملہ ہے تو اس کی عدت وضع حمل ہوگی اور اگر شوہر نے ابھی بیوی کے ساتھ ہمبستری نہیں کی ہے، تو اس پر کوئی عدت نہیں ہے، البقرة
229 321: زمانہ جاہلیت اور ابتدائے اسلام میں دستور تھا کہ لوگ اپنی بیویوں کو بغیر تجدید عدد طلاق دیتے رہتے تھے، ایک طلاق کی مدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کرلیتے تھے، اور پھر طلاق دے دیتے تھے، اور مقصود عورتوں کو نقصان پہنچانا ہوتا تھا، اس ظالمانہ فعل سے بہت سی عورتوں کی زندگی اجیرن ہوجاتی تھی۔ حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں نہ تجھے الگ ہونے دوں گا اور نہ ہی تجھے پناہ دوں گا، عورت نے پوچھا کہ وہ کیسے؟ تو اس نے کہا کہ میں تجھے طلاق دوں گا، اور ہر بار عدت گذرنے سے پہلے تمہیں رجوع کرلوں گا، وہ عورت حضرت عائشہ (رض) کے پاس گئی اور انہیں یہ بات سنائی، تو عائشہ خاموش رہیں، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو انہیں ماجرا سنایا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش رہے، یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی کہ شوہر دو بار طلاق دینے کے بعد یا تو رجوع کرے گا، یا تیسری طلاق دے دے گا، اس کے بعد عورت جہاں چاہے گی، اور جس سے چاہے گی شادی کرلے گی، اب شوہر کو مزید طلاق ورجوع کا حق نہیں ہوگا۔ فائدہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں یہ حکم بیان فرمایا ہے کہ اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہے تو اسے ایک طہر میں ایک طلاق دینی چاہئے، اس کے بعد اگر رجوع نہیں کرتا ہے تو پھر دوسرے طہر میں دوسری طلاق دینی چاہئے۔ آیت سے یہ بات ہرگز سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر کوئی شخص ایک ہی بار دو طلاق دے دے تو دونوں واقع ہوجائے گی، دوسری طلاق کے بعد اگر چاہے تو عدت گذرنے سے پہلے رجوع کرلے، ورنہ تیسری طلاق دے کر ہمیشہ کے لیے رشتہ ازدواج کو ختم کرلے۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند ہے کہ زن و شوہر کا رشتہ ازدواج الفت و محبت کی فضا میں ہمیشہ کے لیے استوار رہے، اور اگر کوئی عارضی اختلاف پیدا ہوجائے تو اسے دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یکے بعد دیگرے تین طلاقوں کی مہلت دی ہے، تاکہ انسان کو بار سوچنے کا موقع ملے، اور عارضی ناراضگی ختم ہوجائے، اور شوہر اپنی بیوی کو رجوع کرلے، اگر ایک ہی طلاق رجعت سے مانع ہوتی، تو یہ عظیم مصلحت مفقود ہوجاتی اور بہت سے خاندان تباہ ہوجاتے، اور سوسائٹی میں ایسی خرابیاں پیدا ہوجاتیں جن کا تدارک ناممکن ہوگا۔ اسی طرح اگر ایک ہی مرتبہ کی تین طلاقیں یا ایک مجلس کی تین طلاقیں نافذ کردی جائیں تو وہی خرابیاں پیدا ہوں گی جن سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے تین طلاقیں الگ الگ طہر میں دینے کا حکم دیا ہے، بہت سے خاندان تباہ ہوجائیں، بہت سے بچے بربادی کی راہ پر لگ جائیں، اور بہت سی بے گناہ عورتوں کی زندگی میں آگ صرف اس لیے بھر جائے کہ اس کے شوہر نے وقتی طور پر طیش میں آ کر تین بار کلمہ طلاق اپنی زبان سے نکال دیا ہے۔ اسی لیے عہد نبوی، عہد ابوبکر، اور ابتدائے عہد عمر میں بالاتفاق ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک شمار ہوتی تھیں۔ اماممسلم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ عہد نبوی، عہد ابوبکر اور عہد عمر کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقیں ایک مانی جاتی تھیں۔ حضرت عمر (رض) نے اپنے دو خلافت میں دیکھا کہ لوگوں نے کثرت سے طلاق دینی شروع کردی ہے، تو کہا کہ لوگوں نے اس معاملہ میں عجلت سے کام لینا شروع کردیا ہے، اس لیے ہم تین طلاقوں کو تین نافذ کردیں گے، چنانچہ نافذ کردیا، اور امام احمد نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاق دے دی، اس کے بعد انہیں اس پر بڑا غم ہوا، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے پوچھا کہ تم نے کسی طرح طلاق دی ہے، تو انہوں نے کہا کہ ایک ساتھ تین طلاقیں دی ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ کیا ایک مجلس میں؟ تو انہوں نے کہا کہ ہاں تو آپ نے فرمایا کہ وہ سب ایک طلاق شمار ہوں گی، اگر چاہو تو رجوع کرلو، چنانچہ انہوں نے رجوع کرلیا۔ معلوم ہوا کہ حضرت عمر (رض) نے جو کچھ کیا یہ ان کی اپنی رائے تھی، جسے انہوں نے مصلحت عامہ کے تقاضے کے مطابق نافذ کردیا تھا، ورنہ انہیں سنت کا پتہ تھا، اور ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین حقیقی طلاق اعتبار کرنے سے زیادہ ان کا یہ فیصلہ ایک تعزیراتی اور اجتہادی حکم تھا، تاکہ لوگ آئندہ طلاق دینے میں عجلت سے کام نہ لیں۔ بعض علماء نے اس مسئلہ پر اجماع قدیم کا دعوی کیا ہے اور بہت سے صحابہ کرام اور تابعین نے اسی کے مطابق فتوی دیا ہے امام داود ظاہری، بعض اصحاب مالک اور بعض احناف کا بھی یہی قول ہے، اور بعض اصحابِ احمد اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ (رح) کے دادا بھی یہی فتوی دیا کرتے تھے۔ اس لیے کہ اس قول کی تائید قرآن و سنت، قیاس اور اجماع قدیم سب سے سے ہوتی ہے اور اس کے بعد کوئی ایسا اجماع نہیں آیا جس نے اس اجماع قدیم کو باطل قرار دے دیا ہو۔ اب جبکہ حالات بدل چکے، اور نکاحِ حلالہ کا بازار گرم ہے، اور لوگ حرام کاری میں مبتلا ہیں، اور جہالت اس قدر عام ہے کہ اکثر لوگ جانتے بھی نہیں کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین فرض کرلی جاتی ہیں، ضرورت کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے خلیفہ کی سنت کو زندہ کیا جائے، تاکہ فتنوں کا دروازہ بند ہوجائے اور نکاح حلالہ کا رواج ختم ہو، اس لیے کہ ہر بھلائی قرآن و سنت کی اتباع میں ہے، اور ہر شر اور ہر برائی ان دونوں سے انحراف میں ہے۔ 322: یہاں شوہر کو نصیحت کی گئی ہے کہ اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ بیوی کو تنگ کرے اور ایسے حالات پیدا کرے کہ اس سے نجات پانے کے لیے بیوی کو جو کچھ بطور مہر یا ہدیہ وغیرہ دیا تھا واپس کردے، تاکہ وہ اسے طلاق دے دے، ہاں اگر بیوی بطیب نفس کچھ دے دیتی ہے تو وہ شوہر کے لیے حلال ہوگا۔ 323: یہ آیت احکامِ خلع کے بیان میں بنیاد مانی جاتی ہے، خلع یہ ہے کہ بیوی تھوڑ یا زیادہ مال دے کر شوہر کو طلاق دینے پر راضی کرلے، اس لیے کہ اس کے ساتھ کسی مجبوری کی وجہ سے ازدواجی زندگی نہیں گذارنا چاہتی۔ ابن جریر کہتے ہیں کہ یہ آیت ثابت بن قیس کے بارے میں نازل ہوئی تھی، ان کی بیوی ان سے شدید نفر کرتے تھے، امام بخاری (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ ثابت بن قیس کی بیوی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اور کہا کہ اے اللہ کے رسول ! میں ثابت کے دین و اخلاق میں کوئی عیب نہیں لگاتی، لیکن اسلام کے بعد کفر کو مکروہ جانتی ہوں، یعنی ڈرتی ہوں کہ مجھ سے ان کے حق میں نافرمانی نہ ہوتی رہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کیا تم اس کا باغ اسے واپس کردو گی؟ اس نے کہا ہاں، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ثابت سے کہا کہ باغ لے لو اور اسے ایک طلاق دے دو، فائدہ : احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خلع اسی صورت میں جائز ہے، جب قاضی کی نظر میں عورت کا عذر ثابت ہوجائے، بغیر عذر اور بغیر مجبوری کے اگر کوئی عورت اپنے شوہر سے خلع کراتی ہے تو اس کے بارے میں احادیث میں بڑی شدید وعید آئی ہے۔ مسند احمد میں ثوبان (رض) سے روایت ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو عورت اپنے شوہر سے بغیر کسی مجبوری کے طلاق مانگے گی، اس پر جنت کی خوشبو حرام ہوگی۔ مسند احمد میں ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ خلع مانگنے والی اور اپنے شوہر سے جدائی مانگنے والی عورتیں منافق ہوتی ہیں۔ البقرة
230 324: یہاں مراد تیسری طلاق ہے، کہ اگر شوہر تیسری طلاق دے دے، تو وہ عورت اس کے لیے نہ رجعت کے ذریعہ حلال ہوگی، اور نہ ہی نکاح جدید کے ذریعہ، یہاں تک کہ کوئی اور مرد اس سے برضا و رغبت اور عرف عام کے مطابق ہمیشہ کے لیے ازدواجی ززندگی گزارنے کے لیے شادی کرے، اور اس کے ساتھ ہمبستری کرے، پھر کسی وجہ سے اسے طلاق دے دے، تو نکاح جدید کے ذریعہ اسے اپنی زوجیت میں لا سکتا ہے، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ دونوں کا غالب گمان ہو کہ دوبارہ وہ اچھی ازدواجی زندگی گزار سکیں گے، اور ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں گے۔ صحیحین میں حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ رفاعہ قرظی کی بیوی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اور کہا کہ رفاعہ نے مجھے تیسری اور آخری طلاق دے دی تھی، اس کے بعد میں نے عبدالرحمن بن زبیر قرظی سے شادی کرلی، لیکن اس کا مردانہ آلہ تو کپڑے کے پھندنے کی مانند ہے، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ شاید تم رفاعہ کی زوجیت میں دوبارہ جانا چاہتی ہو ایسا نہیں ہوسکتا، یہاں تک کہ تم دونوں ایک دوسرے کی مٹھاس کو چکھ لو۔ (یعنی وہ تمہارے ساتھ جماع کرلے) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نکاح حلالہ کے ذریعہ اگر کوئی آدمی اس عورت کے ساتھ جماع بھی کرلیتا ہے، تو وہ عورت اپنے پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہوگی، اس لیے کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حلالہ کرنے والے اور حلالہ کرانے والے دونوں پر اللہ کی لعنت کی خبر دی ہے۔ اور جس پر لعنت بھیج دی گئی ہو وہ شادی صحیح نہیں ہوسکتی۔ اور اس لیے بھی کہ عرف عام کے مطابق شادی اسے کہتے ہیں جو ہمیشہ کے لیے ازدواجی زندگی گذارنے کے لیے کی گئی ہو، اور نکاح حلالہ پر یہ تعریف صادق نہیں آتی۔ مسند احمد، ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہ احادیث کی کتابوں میں نکاحِ حلالہ سے متعلق حدیثیں دیکھئے۔ حاکم نے نافع سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی نے ابن عمر (رض) سے ایک ایسے آدمی کے بارے میں دریافت کیا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی تھی، اس کے بعد اس کے ایک بھائی نے بغیر کسی سابق ساز باز کے اس سے شادی کرلی، تاکہ اسے اپنے بھائی کے لیے حلال بنا دے تو کیا وہ پہلے شوہر کے لیے حلال ہوجائے گی؟ تو ابن عمر (رض) نے کہا کہ نہیں، ایسے نکاح کے بغیر حلال نہیں ہوگی، جو اس رغبت کے ساتھ کیا گیا ہو کہ اس کے ساتھ ہمیشہ کے لیے ازدواجی زندگی گذارنی ہے، پھر فرمایا کہ ہم لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ایسے نکاح کو زنا تصور کرتے تھے۔ حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ البقرة
231 325: اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے طلاق رجعی کا حکم بیان فرمایا ہے کہ ایک یا دو طلاق دینے کے بعد، عدت گذرجانے کے قبل چاہو تو نیک نیتی کے ساتھ رجوع کرلو، یا چاہو تو چھوڑ دو تاکہ اس کی عدت مکمل ہوجائے، اور دیکھو اسے نقصان پہنچانے کی نیت سے رجوع نہ کرو، کہ جب اس کی عدت ختم ہونے کو آئے تو رجوع کرلو اور پھر طلاق دے دو، تاکہ اس کی عدت کی مدت طویل ہوجائے اور اسے پھر دوبارہ عدت گذارنی پڑے، اس لیے کہ یہ زیادتی ہے، اور ایسا کرنے والا خود اپنے اوپر ظلم کرتا ہے کہ اسے اللہ کے حدود کا پاس و لحاظ نہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آیتوں کا مذاق اڑانے سے منع فرمایا ہے، جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ کیا کرتے تھے کہ بیوی کو طلاق دے دیتے، یا کسی عورت سے شادی کرلیتے، یا کسی غلام یا لونڈی کو آزاد کردیتے اور پھر کہنے لگتے کہ ہم تو یونہی مذاق کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسی طلاق کو نافذ کردیا، اور اس کی بے فائدہ توجیہہ کا اعتبار نہیں کیا ہے۔ ابوہریرہ (رض) کی روایت ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تین کام ایسے ہیں جو چاہے سنجیدگی سے کیے جائیں یا مذاق کی نیت سے وہ نافذ العمل ہوتے ہیں، نکاح، طلاق اور بیوی کو رجوع کرنا (ابوداود، ترمذی، ابن ماجہ) البقرة
232 اس آیت میں مطلقہ غیر بائنہ عورت کے ولی کو خطاب کیا گیا ہے کہ اگر ایک یا دو طلاق کے بعد عدت گذر جائے، اور پھر دونوں ایک دوسرے کو چاہیں، اور نکاح شرعی کے ذریعہ دوبارہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا چاہیں تو انہیں نہ روکو اس لیے کہ اسی میں ہر خیر ہے۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت معقل بن یسار مزنی (رض) اور ان کی بہن کے بارے میں نازل ہوئی، انہوں نے اپنی بہن کی شادی ایک مسلمان سے کردی، کچھ مدت کے بعد اس نے ایک طلاق دے دی اور پھر رجوع نہیں کیا، عدت گذر جانے کے بعد دونوں نے ایک دوسرے میں رغبت ظاہر کی، اور اس آدمی نے دوبارہ پیغام نکاح دیا، تو معقل (رض) نے انکار کردیا، اور کہا کہ اب یہ تیرے نکاح میں کبھی بھی نہ جائے گی، لیکن اللہ کو ان دونوں کی حاجت و رغبت کا علم تھا۔ اس اطاعت کرتا ہوں پھر اس آدمی کو بلا کر کہا کہ میں اپنی بہن سے تمہاری شادی کردوں گا اور تمہارا اکرام کروں گا۔ (بخاری، ابو داود، ترمذی) فائدہ : یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ نکاح کے لیے ولی کا ہونا ضروری ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اولیاء کو منع فرمایا ہے کہ وہ اپنی عورتوں کو دوبارہ اپنے سابق شوہروں کے ساتھ نکاح کرنے سے روکیں، اور روکنے کا حق اسی کو حاصل ہوگا جس کے بغیر نکاح نہیں ہوسکتا۔ البقرة
233 327: نکاح و طلاق کے بعد مسئلہ رضاع کا ذکر آیا ہے، اس لیے کہ طلاق ہوجانے کی صورت میں ممکن ہے کہ ان کا کوئی دودھ پینے والا بچہ ہو، تو یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ اس کی پرورش و پرداخت کیسے ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مطلقہ مائیں اپنے دودھ پیتے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں گی، یہ حکم اس کے لیے ہے جو رضاعت کی مدت پوری کرنی چاہے، اگر کوئی ماں باپ اس سے کم ہی مدت کے بعد بچے کا دودھ چھڑا دینا چاہیں تو کوئی حرج نہیں اور باپ اس مطلقہ ماں کو جو دود پلائے گی عرف عام کے مطابق کھانا اور کپڑا فراہم کرے گا، اور جب وہ مطلقہ ماں اپنے بچے کو دودھ پلانے کے لیے تیار ہو تو باپ کے لیے یہ جائز نہیں کہ بچہ اس سے لے لے، یا یہ کہ دودھ پلانے کے باوجود اسے کھانا اور کپڑا فراہم نہ کرے۔ اسی طرح یہ بھی جائز نہیں کہ مطلقہ ماں، باپ کو نقصان پہنچانے کے لیے بچے کو اس کے پاس ڈال دے اور دودھ پلانے سے انکار کردے، جبکہ بچہ ماں سے مانوس ہو، یا یہ کہ زیادہ پیسے کا مطالبہ کرے۔ اور اگر باپ اپنے بچے کے لیے کوئی دوسری دودھ پلانے والی دایا مقرر کرنا چاہے (اس لیے کہ ماں نے انکار کردیا، یا وہ دودھ پلانے سے مجبور ہے، یا شادی کرنا چاہتی ہے) تو بھی کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ بطیب خاطر دایا کو اس کی مناسب مزدوری دے۔ اور اگر باپ مر چکا ہے تو اس کے ورثہ پر وہی کچھ واجب ہوگا، جو اس کے باپ پر واجب تھا، یعنی وہ ماں سے بچہ کو نہ چھینیں گے، اور اس کے اخراجاتِ رضاعت پورے طور پر ادا کریں گے۔ فوائد : 1۔ اس آیت کریمہ میں اللہ کی طرف سے اس بارے میں بھی رہنمائی ملتی ہے کہ مدت رضاعت دو سال ہے، اس کے بعد رضاعت کا کوئی اعتبار نہیں اسی لیے تو اللہ نے فرمایا لمن اراد ان یتم الرضاعۃ، اکثر ائمہ کرام کی یہی رائے ہے کہ حرم اسی رضاعت سے ثابت ہوتی ہے جو دو سال کے اندر ہو، اگر بچے کی عمر دو سال سے زیادہ ہوجاتی ہے تو رضاعت سے حرمت ثابت نہیں ہوگی۔ ترمذی نے ام سلمہ (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ رضاعت سے حرمت اسی وقت ثابت ہوتی ہے جبکہ منہ کے ذریعہ دودھ چھاتی سے نکل کر آنتوں کو پھاڑنے لگے (یعنی خوب آسودہ ہو کر پیے) اور مدت رضاعت کے اندر ہو۔ دارقطنی نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ حرمت اسی رضاعت سے ثابت ہوتی ہے جو دو سال کے اندر ہو، اور ابو داود طیالسی نے جابر (رض) سے روایت کی ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مدت رضاعت ختم ہوجانے کے بعد حکم رضاعت نہیں، اور بلوغت کو پہنچ جانے کے بعد یتیمی نہیں، قرآن کریم کی اسی صریح آیت اور انہی احادیث نبویہ کی وجہ سے بہت سے صحابہ و تابعین کا یہی مذہب تھا۔ علی بن ابی طالب، ابن عباس، ابن مسعود، جابر، ابوہریرہ، ابن عمر، ام سلمہ، سعید بن المسیب اور عطاء وغیرہم کی یہی رائے ہے اور شافعی، احمد، اسحاق اور سفیان ثوری کا یہی مذہب ہے، امام ابو حنیفہ کی رائے ہے کہ مدت رضاعت دو سال چھ ماہ ہے اور وحملہ وفصالہ ثلاثون شہرا سے استدلال کرتے ہیں۔ امام لیث بن سعد کا خیال ہے کہ اگر بڑے آدمی کو بھی کوئی عورت دودھ پلا دے تو وہ اس کا رضاعی بیٹا بن جائے گا، اور حرمت رضاعت ثابت ہوجائے گی، اور اس کی دلیل میں سہلہ بنت سہیل کا واقعہ پیش کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئیں اور کہا کہ اے اللہ کے رسول ! میں محسوس کرتی ہوں کہ سالم کا میرے پاس آنا ابو حذیفہ (ان کے شوہر) کو گوارہ نہیں، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم سالم کو دودھ پلا دو، سہلہ نے کہا میں کیسے دودھ پلا دوں وہ تو بڑا مرد ہوچکا ہے؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسکرائے اور کہا کہ میں جانتا ہوں کہ وہ بڑا مرد ہوچکا ہے۔ سہلہ نے ایسا ہی کیا۔ اور پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئیں بتایا کہ اب میں ابو حذیفہ کے چہرے پر ناگواری کے آثار نہیں دیکھتی۔ ابو حذیفہ بدری صحابی تھی، (ابن ماجہ) اس واقعہ کو امام مسلم، ابو داود، اور امام مالک نے بھی روایت کی ہے، حضرت عائشہ (رض) اور ابو موسیٰ اشعری کی بھی یہی رائے تھی۔ لیکن ارجح یہی ہے کہ دو سال کے بعد رضاعت ثابت نہیں ہوتی، جیسا کہ اوپر دلائل سے ثابت کیا جا چکا ہے۔ اس رائے کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ ایک بار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت عائشہ (رض) کے پاس تشریف لے گئے تو دیکھا کہ ایک آدمی ان کے پاس بیٹھا ہے، آپ نے پوچھا کہ یہ کون آدمی ہے؟ تو عائشہ نے کہا کہ یہ میرا رضاعی بھائی ہے، تو آپ نے فرمایا کہ ذرا سوچ لیا کرو کہ کون لوگ تمہارے پاس آتے ہیں، اس لیے کہ رضاعت اسی وقت ثابت ہوتی ہے جب وہ بھوک کو دور کرے (بخاری، مسلم، ابوداود، ابن ماجہ ) معلوم ہوا کہ رضاعت جبھی ثابت ہوگی کہ دودھ بھوک کو دور کرے اور بچے کی غذا صرف دودھ ہو۔ اور سہلہ بنت سہیل اور سالم کے واقعہ کو گذشتہ صریح روایات کی روشنی میں جو اوپر گذر چکیں، خاص مانا جائے گا اور اس لیے بھی کہ عہد نبوی اور عہد صحابہ میں اس طرح کا کوئی دوسرا واقعہ وقوع پذیر نہیں ہوا۔ سہلہ (رض) کے واقعے میں آچکا ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں سالم کو دودھ پلانے کو کہا تو انہیں حیرت ہوئی اور کہا کہ وہ تو اچھا خاصا بڑا آدمی ہے، اسے میں کیسے دودھ پلاؤ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسکرائے اور کہا کہ میں جانتا ہوں کہ وہ بھرپور جوان ہوچکا ہے اس گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سہلہ کے گھرانے کے تمام حالات سے اچھی طرح واقفیت رکھتے تھے، اور جانتے تھے کہ سالم بہت چھوٹی عمر سے ان کے پاس رہتے ہیں، انہی کے پاس پلے بڑھے ہیں، نہ وہ سالم کے بغیر رہ سکتی ہیں اور نہ سالم ان سے جدا ہوسکتے ہیں۔ اسی لیے جب سہلہ (رض) نے اپنی مجبور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتائی تو ان کے مخصوص حالات کو سامنے رکھ کر وہ حل بتایا جو اوپر گذر چکا، ایک طرف اللہ کے رسول تھے اور دوسری جانب ایک صحابیہ کی ضرورت، انہیں اس کی اجازت دی گئی، عام صحابہ کرام کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے وہی حکم رہا جو آیت کریمہ میں اور احادیث میں بیان کیا گیا کہ رضاعت کا حکم دو سال کے اندر ہی ثابت ہوتا ہے۔ وباللہ التوفیق۔ 2۔ محدثین کے نزدیک پانچ بار دودھ پینے سے رضاعت کی حرمت ثابت ہوتی ہے۔ اور اس کی مشہور دلیل وہ حدیث ہے جسے امام مسلم نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ قرآن کریم میں دس بار دودھ پینے کے بعد حرمت رضاعت کا حکم نازل ہوا تھا، پھر پانچ بار کے ذریعہ حکم سابق منسوخ ہوگیا، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے وقت یہی حکم موجود تھا، دوسری دلیل سہلہ بنت سہیل کا واقعہ ہے، جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا کہ وہ پانچ مرتبہ سالم کو دودھ پلا دیں۔ 3: احادیث میں رضعات کا لفظ آیا ہے، جو رضعہ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں، خوب سیراب ہو کر دودھ پینا، اس طرح کہ دودھ سے آنتیں بھر جائیں، بچہ جب اس طرح پانچ بار کسی عورت کا دودھ پی لے گا، تو وہ اس کی رضاعی ماں بن جائے گی، اور اس کے تمام بچے اس کے رضاعی بھائی بہن ہوجائیں گے اور اس کا شوہر رضاعی باپ۔ البقرة
234 328: طلاق کی عدت بیان کرنے کے بعد اب وفات کی عدت بیان کی جا رہی ہے کہ اگر کوئی آدمی وفات پا جائے، تو اس کی بیوی کی عدت چار ماہ دس دن ہے، اس کے بعد اگر وہ عورت شرعی حدود میں زینت اختیار کرے اور شادی کرنے کا ارادہ ظاہر کرے، تو اولیاء کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اسے منع کریں۔ چار ماہ دس دن کے ذریعہ مدت کی تحدید میں حکمت یہ ہے کہ اگر حمل ہوگا تو ظاہر ہوجائے گا، پانچویں ماہ کی ابتدا میں حمل حرکت کرنا شروع کردیتا ہے۔ بعض لوگوں نے اس کی حکمت یہ بیان کی ہے کہ اس مدت کے بعد وفات پانے والے کی محبت اس کے دل میں کمزور پڑجاتی ہے، اور شادی کی رغبت پیدا ہوجاتی ہے۔ فوائد : 1۔ اگر عورت حاملہ ہے تو اس کی عدت بچے کی ولادت ہوگی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، آیت واولات الاحمال اجلہن ان یضعن حملھن کہ حاملہ عورت کی عدت بچے کی ولادت ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سبیعہ اسلمیہ کو وضع حمل کے بعد شادی کی اجازت دے دی تھی، حالانکہ ان کے شوہر کے انتقال کو چند ہی دن ہوئے تھے (متفق علیہ) 2۔ دوران عدت عورت کو شادی، زینت اور بغیر شدید ضرورت کے شوہر کے گھر سے بارہ رات گذارنے کی اجازت نہیں ہے۔ پہلی بات پر علماء کا اجماع ہے۔ دوسری بات کی دلیل حضرت ام سلمہ (رض) کی حدیث ہے کہ ایک عورت کا شوہر مر گیا تو اس کی ماں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت مانگی کہ وہ اپنی آنکھوں میں سرمہ لگائے، اس لیے کہ اس کی آنکھوں میں تکلیف تھی، تو آپ نے اجازت نہیں دی۔ (متفق علیہ)۔ اور تیسری بات کی دلیل فریعہ بنت مالک بن سنان (رض) کی حدیث ہے کہ ان کے شوہر کو بھاگے ہوئے غلاموں نے مدینہ سے دور کسی جگہ قتل کردیا، فریعہ کو جب یہ خبر ملی تو انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ انہیں اپنے خاندان والوں کے پاس عدت گذارنے کی اجازت دے دیں، اس لیے کہ جس گھر میں وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہتی تھیں دور تھا، تو آپ نے انہیں جازت نہیں دی، (ابو داود، ترمذی، نسائی، احمد وغیرہم)۔ البتہ آپ نے بعض صحابیہ کو دن میں ضرورت کے پیش نظر غالباً باغ کا پھل توڑنے کی اجازت دی تھی۔ البقرة
235 329: اس آیت میں شوہر کی وفات کی عدت گذارنے والی اور مطلقہ بائنہ کا حکم بیان کیا گیا ہے کہ عدت گذرنے سے پہلے ایسی عورتوں کو شادی کا پیغام تو نہیں دیا جاسکتا، البتہ جو شخص شادی کرنی چاہے وہ اشارے کنائے میں اسے یہ سمجھانے کی کوشش کرسکتا ہے کہ وہ اس سے شادی کی خواہش رکھتا ہے، لیکن پوشیدہ طور پر اس سے شادی کی بات طے کرلینا یا شادی کرلینا جائز نہیں۔ فاطمہ بنت قیس (رض) کو جب ان کے شوہر ابو عمرو بن حفص نے تیسری طلاق دے دی، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے کہا کہ وہ ابن ام مکتوم کے گھر میں عدت گذارے، اور عدت گذرجانے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دے، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسامہ بن زید کے لیے پیغام دیا، اور ان کی شادی اسامہ سے کردی۔ البقرة
236 330: اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ایسی عورت کو طلاق دینے کا حکم بیان کیا ہے جس کے ساتھ شوہر نے ابھی مباشرت نہ کی ہو، اور نہ اس کی مہر مقرر کی ہو، اللہ نے فرمایا کہ ایسی عورت کے لیے کوئی مہر نہیں ہوگی، بلکہ شوہر اپنے حسب حال اسے کچھ مال یا کوئی ہدیہ دے دے گا۔ اگر مالدار ہے تو اپنی حیثیت کے مطابق دے گا، اور اگر فقیر ہے تو جو کچھ بھی میسر ہوگا اسے دے گا، لیکن شرط یہ ہے کہ نصف مہر مثل کے برابر نہ ہو، اور نہ اتنا کم ہو کہ اس کی کوئی قیمت ہی نہ ہو اس سے مقصود عورت اور اس کے گھر والوں کی دل دہی کرنی ہے، تاکہ طلاق کی وجہ سے انہیں جو تکلیف ہوئی اس کا کچھ مداوا ہوسکے۔ البقرة
237 331: اس میں ایسی عورت کے طلاق کا حکم بیان کیا جا رہا ہے، جس کے ساتھ شوہر نے مباشرت نہ کی ہو، لیکن اس کی مہر مقرر ہوچکی ہو۔ اللہ نے فرمایا کہ اسے نصف مہر دی جائے گی۔ یہ بھی جائز ہے کہ عورت معاف کردے اور کہے کہ اس نے مجھے دیکھا نہیں، اور نہ میں نے اس کی خدمت کی، نہ مجھ سے مستفید ہوا، تو میں کیسے اس سے کوئی رقم لے لوں، یا شوہر نے اگر مہر کی پوری رقم ادا کردی تھی تو وہ معاف کردے اور عورت سے نصف مہر واپس نہ لے، یا اگر لڑکی نابالغ ہے یا اسے معاملہ کرنا نہیں آتا، تو اس کا ولی شوہر سے نصف مہر نہ لے اور معاف کردے، اور اللہ نے فرمایا کہ بہرحال معاف کردینا تقوی کے زیادہ قریب اور عمل احسان ہے اس کے بعد اللہ نے ہر ایک کو معاف کردینے کی ترغیب دلائی کہ جو معاف کردے گا وہ دوسرے سے بہتر ہوگا۔ البقرة
238 332: ذیل کی دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے فرض نمازوں کے اہتمام کی تاکید فرمائی ہے، پانچوں نمازوں کی بالعموم اور نماز وسطی کی بالخصوص، نمازوں کی محافظت اور اہتمام کا مفہوم یہ ہے کہ نمازیں مسنون اوقات میں پڑھی جائیں، اور شروط و ارکان، خشوع و خضوع اور تمام واجبات و مستحبات کا خیال رکھتے ہوئے پڑھی جائیں۔ اور اگر آدمی کو کوئی خطرہ در پیش ہو، چاہے دشمن سے یا جانور سے، تو چلتے ہوئے نماز پڑھ لے، یا سواری پر پڑھ لے، ایسی حالت میں قبلہ کی طرف رخ کرنا ضروری نہیں، اور جب خطرہ زائل ہوجائے تو مکمل نماز پڑھے، یعنی تمام ارکان، واجبات اور مستحبات وغیرہ کی رعایت کر کے نماز پڑھے۔ صلاۃ وسطی، کی تفسیر میں علماء کے کئی اقوال ہیں، لیکن محدثین کے نزدیک اس سے مراد عصر کی نماز ہے۔ صحیحین میں علی بن ابی طالب (رض) سے مروی ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ خندق کے دن کہا کہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں اور گھروں کو آگ سے بھردے، جس طرح انہوں نے ہمیں صلاۃ وسطی سے مشغول کردیا۔ یہاں تک کہ آفتاب غروب ہوگیا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ انہوں نے ہمین صلاۃ وسطی عصر کی نماز سے مشغول کردیا۔ مسند احمد میں سمرہ (رض) سے مروی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حافظوا علی الصلوات والصلوۃ الوسطی پڑھا اور ہمیں نام لے کر بتایا کہ وہ عصر کی نماز ہے۔ ابن جریر نے ابوہریرہ (رض) سے روای تکی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ صلاۃ وسطی سے مراد عصر کی نماز ہے۔ 333: یعنی نماز میں اللہ کے سامنے نہایت خشوع و خضوع اور عاجزی و انکساری کے ساتھ کھڑے ہو۔ اللہ کے حضور اس طرح کھڑے ہونے میں یہ امر بدرجہ اولی داخل ہے کہ نماز میں بات نہ کی جائے۔ امام احمد وغیرہ نے زید بن ارقم (رض) سے روایت کی ہے کہ لوگ ابتدائے عہد نبوی میں نماز میں آپس میں بات کرتے تھے تو یہ آیت اتری، ابن مسعود رضٰ اللہ عنہ نے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کیا، اور آپ نماز پڑھ رہے تھے تو جواب نہ دیا، اور نماز ختم کرنے کے بعد فرمایا کہ نماز میں آدمی اللہ کی جناب میں مشغول ہوتا ہے (متفق علیہ) اور معاویہ بن الحکم السلمی (رض) نے جب نماز میں بات کی، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے کہا کہ نماز میں بات کرنی جائز نہیں ہے۔ نماز میں آدمی تسبیح و تکبیر اور ذکر الٰہی میں مشغول ہوتا ہے (مسلم) البقرة
239 334: یہاں اللہ تعالیٰ نے حالت جنگ میں نماز پڑھنے کی کیفیت بیان کی ہے، جہاں آدمی تمام ارکان و واجبات اور سنن و مستحبات کی رعایت کرتے ہوئے نماز نہیں پڑھ سکتا۔ اللہ نے فرمایا کہ ایسی حالت میں چلتے ہوئے یا سواری پر ہی نماز پڑھ لو، چاہے رخ قبلہ کی طرف ہو یا کسی اور طرف۔ امام مالک نے نافع سے روایت کی ہے کہ ابن عمر (رض) صلاۃ خوف (خوف کی حالت میں نماز) کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ اگر خوف اس سے بھی زیادہ شدید ہو تو چلتے ہوئے یا سواری پر نماز پڑھ لو، چاہے رخ قبلہ کی طرف ہو یا کسی اور طرف، نافع کہتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث بیان کی تھی۔ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے بھی روایت کی ہے۔ البقرة
240 335: آیت کا معنی یہ ہے کہ جب کسی آدمی کی موت قریب ہو تو وہ اپنی بیویوں کے لیے ورثہ کی وصیت کرجائے کہ انہیں ایک سال تک گھر سے نکلنے پر مجبرو نہ کیا جائے اور انہیں نفقہ بھی دیا جائے، لیکن اگر وہ خود ہی شوہر کے گھر سے نکل جائیں اور زینت و خوشبو استعمال کرنے لگیں اور اشارئے کنائے میں شادی کی بات کرنے لگیں تو شوہر کے اولیاء کو کوئی گناہ نہیں ہوگا، اور ایسی صورت میں نفقہ و مسکن واجب نہیں ہوگا۔ جمہور مفسرین کہتے ہیں کہ یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا جبکہ بیوی کے لیے میراث میں حصہ نہ تھا، اور عدت کی مدت ایک سال تھی، اور اسے اختیار ہوتا تھا کہ چاہے تو شوہر کے گھر میں عدت کی مدت گذارے اور نفقہ لے اور چاہے تو سال پورا ہونے سے پہلے ہی گھر سے نکل جائے اور اس کے لیے نہ نفقہ ہوتا تھا اور نہ مسکن۔ اس کے بعد اسی سورت کی آیت 234 نازل ہوئی، جس کے مطابق عورتوں کی عدت چار ماہ دس دن وہگئی۔ اسی طرح نفقہ و مسکن کی وصیت کا حکم آیت میراث کے ذریعہ منسوخ ہوگیا، اور بیوی کے لیے پوری جائداد کا چوتھا یا آٹھواں حصہ مقرر کردیا گیا۔ مجاہد، شیخ الاسلام بن تیمیہ اور حافظ ابن کثیر وغیرہم کی رائے ہے کہ یہ آیت محکم ہے، منسوخ نہیں ہوئی ہے، اور پہلی آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ چار ماہ دس دن عورت کی لازمی عدت ہے، جسے اسے بہرحال شوہر کے گھر میں گذارنا ہے اور یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ میت کے اولیاء کو چاہئے کہ اس کی دلجوئی کی خاطر اور میت کے ساتھ اظہار اخلاص و محبت کے طور پر اسے مزید سات ماہ بیس دن شوہر کے گھر میں رہنے دیں، ہاں، اگر عورت چار ماہ دس دن یا وضع حمل کے بعد، اپنی مرضی سے اس کے گھر سے منتقل ہونا چاہے تو اسے روکا نہ جائے۔ البقرة
241 336: یہ آیت ان لوگوں کی دلیل ہے، جو ہر مطلقہ عورت کے لیے متعہ کو واجب قرار دیتے ہیں۔ متعہ کا مطلب یہ ہے کہ طلاق کے بعد (مہر کے علاوہ) عورت کو کچھ دیا جائے۔ سعید بن جبیر اور ابن جریر وغیرہما کی یہی رائے ہے اور بعض دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ (متعہ) ہر حال میں واجب نہیں۔ اگر مطلقہ کے ساتھ شوہر نے مباشرت نہیں کی ہے اور اس کی مہر بھی مقرر نہیں ہوئی تھی، تو اس کے لیے متعہ واجب ہے، دوسری تمام مطلقہ عورتوں کے لیے مستحب ہے۔ اور ان کی دلیل قرآن کریم کی وہ آیت ہے جو گذر چکی۔ لَاجُنَاحَ عَلَیْکُمْ اِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ مَالَمْ تَمَسُّوْھُنَّ اَوْ تَفْرِضُوْا لَھُنَّ فَرِیْضَۃً ښ وَّمَتِّعُوْھُنَّ ۚ عَلَی الْمُوْسِعِ قَدَرُہٗ وَعَلَی الْمُقْتِرِ قَدَرُہٗ ۚ مَتَاعًۢا بِالْمَعْرُوْفِ ۚ حَقًّا عَلَی الْمُحْسِـنِیْنَ۔ البقرة
242 البقرة
243 337: اس میں بنی اسرائیل کے ایک واقعہ کا ذکر کرے مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دلائی گئی ہے، بنی اسرائیل کے ایک علاقے میں طاعون پھیل گیا، تو وہاں کے باشندے اپنے گھر بار چھوڑ کر موت کے ڈرے سے بھاگ پڑے، لیکن بھاگ کرو وہ موت سے نہ بچ سکے، اور اللہ نے ان سے ب پر موت طاری کردی، پھر اس زمانے کے نبی کی دعا سے اللہ نے ان پر کرم فرمایا، اور انہیں زندگہ کردیا۔ یہ بھی احتمال ہے کہ وہ لوگ کسی دشمن کے ڈر سے نکل بھاگے ہوں، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد جہاد کی ترغیب دلائی ہے اور پھر اس بات کا ذکر کیا ہے کہ بنی اسرائیل نے اپنے نبی سے درخواست کی کہ وہ ان کے لیے ایک بادشاہ مقرر کردیں تاکہ اس کی قیادت میں اس دشمن سے جہاد کریں جس نے انہیں ان کے گھروں سے نکال دیا ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں، آیت میں جہاد کی ترغیب دلائی گئی ہے، اور فرار کی راہ اختیار کرنے سے ڈرایا گیا ہے کہ اس کے ذریعے آدمی موت سے نہیں بچ سکتا۔ البقرة
244 ذیل کی دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مال اور بدن کے ذریعہ جہاد فی سبیل اللہ کی ترگیب دلائی ہے، اس لیے کہ جہاد میں دونوں ہی چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ پہلی آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح ڈر اور خوف نوشتہ تقدیر سے نہیں بچا سکتا، اسی طرح جہاد سے فرار، انسان کے اجل کو نہ قریب کرسکتا ہے اور نہ دور اور وہی قتال جہاد فی سبیل اللہ ہوگا، جو اللہ کے دین کو سربلند کرنے کے لیے ہوگا اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، جو قتال اس لیے ہو کہ اللہ کا کلمہ اونچا ہو، وہی فی سبیل اللہ ہوگا، (متفق علیہ)۔ دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے (قرض حسن) سے مراد اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ اہل و عیال پر خرچ کرنا مراد ہے۔ البقرة
245 البقرة
246 339: بنی اسرائیل کے لوگ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ایک زمانے تک اہل توحید و استقامت رہے، پھر مرور زمانہ کے ساتھ توحید کی راہ سے بھٹک گئے اور بتوں کی پرستش شروع کردی، تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اوپر عمالقہ کو مسلط کردیا، جنہوں نے ان کی سرزمین پر قبضہ کرلیا، ان کی بہت بڑی تعداد کو قتل کیا، اور بہتوں کو پابند سلاسل کردیا، اور اس تابوت کو ان سے چھین لیا، جس میں وہ احکام تھے، جو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کوہ طور پر دئیے تھے، نیز اس میں تورات کو نسخہ اور موسیٰ و ہارون اور دیگر انبیائے بنی اسرائیل کے آثار تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس میں موسیٰ (علیہ السلام) کی لاٹھی بھی تھی۔ بنی اسرائیل جب اپنے دشمنوں سے جنگ کے لیے جاتے تو اس تابوت کو اپنے آگے رکھتے تھے جس سے ان کو سکون و قرار ملتا تھا اور فتح نصیب ہوتی تھی۔، علماء نے اس سے استدلال کیا ہے کہ انبیاء کے صحیح اور ثابت شدہ آثار کے ذریعہ تبر حاسل کرنا جائز ہے، جیسے نبی کا عمامہ اس کا کرتا اور اس کا جوتا وگیرہ۔ عمالقہ نے وہ تابوت بھی چھین لیا۔ اس کے بعد ذلت و رسوائی ان کی قسمت بنی رہی، یہاں تک کہ ان میں صموئیل نبی پیدا ہوئے اور انہیں توحید کی طرف بلایا، تو انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کردیجئے تاکہ ہم لوگ اس کی زیر قیادت عمالقہ سے جہاد کریں، اور اپنی زمین اور تاربوت اور تورات وغیرہ ان سے دوبارہ واپس لیں۔ آیت 246 سے لے کر 251 تک اسی عہد بنی اسرائیل کا ذکر ہے۔ صموئیل نبی نے جس نوجوان کو ان کا بادشاہ مقرر کیا اس کا نام طالوت تھا، وہ بنی اسرائیل کے اس خاندان سے نہیں تھا جس میں اب تک بادشاہت چلی آرہی تھی، لیکن وہ ایک قوی الجسم اور خوبصورت نوجوان تھا اور جسے اللہ نے علم و بصیرت سے نوازا تھا، اور جالوت عمالقہ کی فوج میں ایک مشہور پہلوان اور اس کا کمانڈر تھا جس پر عمالقہ کو بڑا ناز تھا۔ اس واقعہ کے ذکر سے مقصود مسلمانوں کو جہاد فی سبیل اللہ پر ابھارنا ہے کہ بادشاہ طالوت سے جب جنگ کے لیے نکلا تو جن لوگوں نے صبر و استقامت سے کام لیا، ان کو اللہ نے دنیا وآخرت میں عزت دی، اور جنہوں نے بزدلی دکھائی اور راہ فرار اختیار کیا، ان کی دنیا خراب ہوئی، اور آخرت میں بھی ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 340: جب بنی اسرائیل کے اہل و فکر نے جہاد کا ارادہ کرلیا، تو اپنے نبی سے کہا کہ آپ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کردیجئے۔ تاکہ ہمارے درمیان کا اختلاف ختم ہوجائے اور سب لوگ اس کی اطاعت پر متفق ہوجائیں۔ صموئیل نبی ڈرے کہ شاید یہ ان کا محض زبانی دعوی ہے اور وہ جہاد فی سبیل اللہ نہ کرسکیں گے، تو انہوں نے عزم کا اظہار کیا کہ ہم اپنا وطن واپس لینے کے لیے ضرور جہاد کریں گے۔ البقرة
247 341: صموئیل نے جب طالوت کو ان کا بادشاہ مقرر کردیا، تو انہوں نے حیرت کا اظہار کیا، اور کہا کہ خاندان اور ثروت کے اعتبار سے اس زیادہ حقدار لوگ موجود ہیں، پھر اسے آپ نے کیوں ہمارا بادشاہ بنایا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ اسے اللہ نے بادشاہ بنایا ہے، اس لیے کہ وہ علم اور قوت جسم میں دوسروں پر فوقیت رکھتا ہے، اور اس لیے کہ بادشاہت کے لیے کثرت مال شرط نہیں اور نہ یہ ہے کہ وہ پہلے سے شاہی خاندان کا ہو۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنی حکومت دے دیتا ہے۔ البقرة
248 342: پھر انہیں مزید قانع کرنے کے لیے کہا کہ دیکھو طالوت کو اللہ کی طرف سے بادشاہ مقرر کیے جانے کی نشانی یہ ہوگی کہ وہ تمہارا گم کردہ تابوت واپس لے آئے گا، چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ تابوت فرشتوں کے ذریعہ طالوت کے پاس آگیا، تو انہوں نے اس اپنا بادشاہ تسلیم کرلیا۔ البقرة
249 343: جب طالوت کی قیادت میں بنی اسرائیل عمالقہ سے جہاد کرنے کے لیے چلے تو طالوت نے کہا کہ ابھی ایک نہر آئے گی۔ یہ نہر اردن اور فلسطین کے درمیان تھی، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے صبر کا امتحان یہ ہے کہ شدت پیاس کے باوجود تمہیں اس کا پانی نہیں پینا ہے جو کوئی پی لے گا، وہ ہماری فوج سے الگ ہوجائے گا، اور جو ایک چلو سے زیادہ نہیں پئیے گا وہ ہمارے ساتھ آگے بڑھے گا۔ اس آزمائش میں ان میں سے اکثر لوگ پورے نہ اترے، صرف تھوڑے لوگوں نے صبر سے کام لیا۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جس نے ایک چلو پی لیا وہ سیراب ہوگیا، اور جس نے خوب پیا وہ سیراب نہ ہوا، جب سب ایمان والے نہر پار کر گئے تو ان میں سے بعض ضعیف الیقین لوگوں نے کہا کہ آج ہم جالوت اور اس کی فوج سے جنگ نہیں کرسکتے، تو ان کے قوی الایمان علماء نے ان کی ہمت بڑھائی جنہیں معلوم تھا کہ اللہ کا وعدہ برحق ہے، اور فتح و نصرت اللہ کی طرف سے آتی ہے، اس کا تعلق کثرت تعداد سے نہیں ہوتا، اور کہا کہ بسا اوقات تھوڑی تعداد والی فوج اللہ کے حکم سے زیادہ تعداد والی فوج پر غالب آجاتی ہے۔ اس پر ان کی ہمت بڑھی اور انہوں نے جالوت کی فوج سے جنگ کی اور داود (علیہ السلام) نے جو بعد میں طالوت کی فوج میں آکر شامل ہوگئے تھے اور جو ابھی نبی اور بادشاہ نہیں ہوئے تھے۔ جالوت کو قتل کردیا، اور بنی اسرائیل کو فتح مبین حاصل ہوئی۔ البقرة
250 البقرة
251 344: اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے جہاد فی سبیل اللہ کا فائدہ بیان کیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ مجاہدین کے ذریعہ کفار و فجار اور اہل شر و فساد کو مار نہ بھگائے تو وہ زمین میں فساد پھیلائیں، لیکن اللہ نے اپنے لطف و کرم سے جہاد کو واجب قرار دیا تاکہ اہل خیر کا غلبہ ہو، اور اللہ کا دین سرزمین پر جاری و ساری ہو۔ البقرة
252 345: بنی اسرائیل کے اس واقعہ کی تفصیل بیان کرنے کے بعد، اللہ تعالیٰ نے نبی کریم سلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ یہ نشانیاں ہم آپ کے لیے بیان کر رہے ہیں جو سچی ہیں اور آپ کے رسول ہونے کی واضح اور صریح دلیل ہیں، اس لیے کہ اللہ نے آپ کو بذریعہ وحی اس واقعے کی اطلاع دی ہیں جس کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہلے سے کوئی علم نہ تھا، اس واقعے میں امت مسلمہ کے لیے بہت سی نصیحتیں ہیں، ان میں سے بعض یہ ہیں۔ 1۔ جہاد فی سبیل اللہ کے بغیر دین، وطن اور جان و مال کی حفاظت نہیں ہوسکتی۔2۔ مجاہدین کا انجام ہمیشہ ہی اچھا ہوتا ہے۔3۔ مسلمانوں کی قیادت کے لیے ایسے لوگوں کا اختیار عمل میں آنا چاہئے جو اس کے اہل ہوں، اور اہلیت میں خاص طور پر دو چیزوں کا اعتبار ہوتا ہے، علم اور قوت جسم کا۔ 4۔ قائد جیش کو اپنی فوج پر نظر رکھنی چاہئے کہ جو جنگ کرنے کا اہل نہ ہو اسے روک دے۔ 5۔ اگر دشمن کی کثرت یا کسی اور وجہ سے مجاہدین کی صفوں میں یاس و ناامیدی پھیلنے لگے تو ان کی ہمت بڑھانی چاہئے، اور قوت ایمانی کو حرکت میں لانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ وباللہ التوفیق۔ البقرة
253 اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں خبر دی ہے کہ انبیاء و رسل کے درمیان گوناگوں فضائل وصفات میں تفاوت رہا ہے، بعض انبیاء کو اللہ نے کوئی ایسی فضیلت دی جو دوسروں کو نہیں ملی، ابراہیم کو اللہ نے اپنا خلیل بنایا، موسیٰ سے بغیر کسی واسطے کے بات کی، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمام بنی نوع انسان سے رفیع المرتبت بنایا، کہا جاتا ہے کہ اللہ نے آپ کو ایک ہزار سے زیادہ نشانیاں دی تھیں، اور سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم تھا، جو تنہا تمام انبیاء پر فوقیت حاصل کرنے کے لیے کافی تھا۔ اور عیسیٰ بن مریم کو دیگر معجزات دئیے جن کے ذریعہ اللہ کے حکم سے اندھے کو بینائی اور برص والے کو شفا ملتی تھی، مردوں کو زندہ کرتے تھے، اور جب گود ہی میں تھے تو لوگوں سے بات کی، اور اللہ نے روح القدس کے ذریعہ ان کی تائید کی، یعنی جبرئیل امین کے ذریعہ، یا اس مقدس روح کے ذریعے جو اللہ نے ان میں پھونکی تھی۔ انبیائے کرام کے کمال و ظمت اور ان کے ساتھ بھیجی گئی نشانیوں کا تقاضا یہ تھا کہ سارے انسان ان پر ایمان لے آتے، لیکن ایسا نہ ہوا، اور اکثر و بیشتر لوگ سیدھی راہ سے برگشتہ ہوگئے، اور ایک دوسرے کو قتل کرنے لگے، حالانکہ اللہ چاہتا تو سب کو ایک راہ ہدایت پر ڈال دیتا، لیکن اللہ کی حکمت اس کی مقتضی ہوئی کہ نظام عالم کو اسباب سے جوڑ دیا جائے۔ فائدہ : آیت سے معلوم ہوا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے تمام رسولوں سے افضل بنایا ہے، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث انا سید ولد آدم کہ میں اولاد آدم کا سردار ہوں سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے، اس لیے صحیحین میں ابوہریرہ (رض) کی حدیث لاتفضلونی علی الانبیاء یعنی مجھے دیگر انبیاء پر فوقیت نہ دو، آپ کی طرف سے تواضع پر محمول کی جائے گی، البقرة
254 347: اس آیت میں مومنوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے کسی نے کہا کہ اس سے مراد زکاۃ ہے، کسی نے راہ جہاد میں خرچ کرنا مراد لیا ہے، اور کسی نے کہا کہ یہ ہر قسم کے فرض اور نفل خرچ کو شامل ہے۔ آیت میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ بندہ مومن اس دنیا میں جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا، اسے قیامت کے دن اپنے نامہ اعمال میں پائے گا، جس دن آدمی کو نہ مال کام آئے گا، نہ کوئی دوست، اور نہ کوئی سفارشی، اور اس دن کافروں سے بڑھ کر کوئی ظالم نہ ہوگا۔ البقرة
255 348: نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ آیۃ الکرسی قرآن کریم کی عظیم ترین آیت ہے، اس لیے کہ اس میں باری تعالیٰ کی توحید، اس کی عظمت اور اس کی صفات کا بیان ہے، مسند احمد میں ابی بن کعب (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، آیۃ الکرسی قرآن کریم کی عظیم ترین آیت ہے، مسند احمد میں ہی انس بن مالک (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، آیۃ الکرسی ایک چوتھائی قرآن ہے۔ امام احمد اور نسائی نے ابوذر (رض) سے روایت کی ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ عظیم ترین آیت جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئی، آیۃ الکرسی ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے، جسے امام احمد، ابو داود، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کی ہے کہ اللہ کا اسم اعظم ان دو آیتوں میں ہے۔ اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم، اور الم اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم۔ 349: اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ تمام مخلوق کا تنہا معبود ہے، وہ ہمیشہ سے زندہ ہے اور زندہ رہے گا، اور کبھی نہیں مرے گا، وہ قائم بنفسہ ہے، تمام مخلوقات سے بے نیاز ہے، اور تمام موجودات کو اسی نے پیدا کیا ہے، اسی نے انہیں باقی بھی رکھا ہے، اور اپنے وجود و بقا کے لیے انہیں جن چیزوں کی ضرورت ہے اللہ ہی انہیں وہ چیزیں دیتا ہے، اسے نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند 350: تمام موجودات اس کے غلام ہیں، اور اس کے قبضہ وقدرت میں ہیں۔ اللہ نے فرمایا، ان کل من فی السماوات والارض الا اتی الرحمن عبدا۔ کہ آسمان و زمین کی تمام مخلوقات اللہ کے بندے ہیں (مریم :39) 351: اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر، کوئی کسی کے لیے اللہ کے حضور شفاعت کرنے کی جراءت نہیں کرے گا، جب انبیاء اور فرشتے اللہ کی اجازت کے بغیر شفاعت نہ کریں گے، تو بھلا وہ اصنام جن کی کفار پرستش کرتے ہیں، اور جن کے بارے میں وہ اس زعم باطل میں مبتلا ہیں کہ وہ اللہ کے یہاں ان کے لیے سفارشی بنیں گے، کیسے شفاعت کرسکیں گے؟ حدیث شفاعت میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں عرش کے نیچے آؤں گا، اور سجدے میں گر جاؤں گا تو اللہ مجھے اسی حال میں چھوڑ دے گا جتنی دیر چاہے گا، پھر مجھ سے کہے گا کہ اپنا سر اٹھاؤ اور کہو، سنا جائے گا، اور شفاعت کرو، قبول کی جائے گی (بخاری و مسلم) اور یہ شفاعت اہل توحید کے لیے ہوگی، مشرکین کے لیے نہیں۔ ابوہریرہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ وہ کون خوش بخت ہوگا جس کو آپ کی شفاعت نصیب ہوگی؟ تو آپ نے فرمایا کہ جس نے لا الہ الا اللہ پورے خلوص قلب کے ساتھ کہا ہوگا (بخاری) معلوم ہوا کہ یہ شفاعت اہل توحید کے لیے اللہ تعالیٰ کا ایک انعام ہوگا 352: اللہ تعالیٰ کا علم تمام کائنات کو محیط ہے، کسی بھی مخلوق کا ماضی، حاضر اور مستقبل اس کے علم کے حدود سے خارج نہیں، جیسا کہ اللہ نے فرشتوں کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرمایا وما نتنزل الا بامر ربک لہ مابین ایدینا وما خلفنا وما بین ذلک وما کان ربک نسیا۔ یعنی ہم بغیر آپ کے رب کے حکم کے اتر نہیں سکتے۔ ہمارے آگے پیچھے اور ان کے درمیان کی کل چیزیں اس کی ملکیت میں ہیں، اور آپ کا پروردگار بھولنے والا نہیں۔ 353: کوئی بھی شخص اتنا ہی علم رکھتا ہے جتنا اللہ نے اسے دیا ہے، جیسا کہ اللہ نے فرشتوں کی زبان میں فرمایا۔ سبحانک لا علم لنا الا ما علمتنا۔ یعنی اے اللہ ! تیری ذات پاک اور بے عیب ہے، ہمارے پاس کوئی علمہ نہیں، سوائے اس علم کے جو تو نے دیا ہے (البقرہ) 354۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ کرسی سے مراد علم ہے، یعنی اللہ کا علم آسمان اور زمین کو گھیرے ہوئے ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی دعا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا، ربنا وسعت کل شیء رحمۃ وعلما۔ یعنی اے ہمارے رب ! تیری رحمت اور تیرا علم ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے، بعض لوگوں نے کہا ہے کہ کرسی سے مراد اللہ تعالیٰ کے دونوں قدموں کی جگہ ہے۔ 355: آسمان و زمین اور ان دونوں میں پائی جانے والی تمام مخلوقات و موجودات کی حفاظت اور ان کی دیکھ بھال اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی مشکل کام نہیں، ہر ایک کا وہی اکیلا نگہبان ہے، کوئی چیز اس سے مخفی نہیں، ہر چیز اس کے سامنے حقیر و ذلیل ہے، ہر چیز اس کی محتاج ہے، اور وہ بے نیاز ہے۔ یہ اور ان جیسی تمام آیتوں اور صحیح احادیث میں باری تعالیٰ کی جن صفات کا ذکر آیا ہے، ان کے بارے میں سلف صالحین کا یہی طریقہ رہا ہے کہ ان پر ایمان رکھا جائے، اور ان کی کیفیت نہ بیان کی جائے، اور نہ کسی مخلوق کی صفات کے ساتھ ان صفات کو تشبیہ دی جائے۔ البقرة
256 356: یہ آیت کریمہ دین اسلام کے کامل ہونے کی دلیل ہے، اور اس میں اس بات کا بیان ہے کہ دین اسلام کی صداقت کے دلائل وبراہین واضح ہیں، اس لیے ضرورت نہیں کہ کسی کو اس میں داخل ہونے پر مجبور کیا جائے، اگر کوئی شخص اس میں داخل ہوتا ہے تو یہ اس کی خوش نصیبی ہے کہ اللہ نے اسے حق قبول کرنے کی توفیق دی، اور اگر وہ کفر کی راہ اختیار کرتا ہے تو گویا اللہ نے اس کے دل کی روشنی چھین لی، اور اس کی آنکھ اور کان پر مہر لگا دی، اب اگر ایسے آدمی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور بھی کیا جائے تو کوئی فائدہ نہ ہوگا، کیونکہ حق قبول کرنے کے تمام راستے مسدود ہوچکے ہیں۔ اس آیت اور جہاد کی آیتوں کے درمیان کوئی تعارض نہیں، کیونکہ جہاد اس لیے نہیں فرض کیا گیا کہ لوگوں کو دین اسلام میں داخل ہونے پر مجبور کیا جائے، جیسا کہ اوپر گذر چکا کہ جس کے دل پر مہر لگا دی گئی ہو، اسے مجبور کرنے پر بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ تاریخ شاہد ہے کہ مجاہدین اسلام نے جب بھی کوئی شہر یا علاقہ فتح کیا تو وہاں کے لوگوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا۔ بلکہ انہیں اختیار دیا کہ اگر وہ چاہیں تو اپنے دین پر رہیں اور جزیہ دیں، اور اسلامی حکومت ان کی حفاظت کرے گی، جہاد سے متعلق آیات کا تتبع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی غرض و غایت یہ تھی کہ اسلامی حکومت کو دشمنان اسلام کی سازشوں سے محفوط کردیا جائے۔ اللہ کا دین غالب ہو، اور شریعت اسلامیہ کا نفاذ ہو، اور اگر کسی دشمن کی طرف سے کوئی خطرہ ہو تو اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے دفاع میں پیش قدمی کی جائے۔ اس لیے بعض لوگوں کا یہ خیال کہ یہ آیت آیات جہاد کے ذریعہ منسوخ ہے، صحیح نہیں ہے۔ اسی طرح مرتد کا قتل بھی اس آیت کے خلاف نہیں ہے اس لیے کہ اسلام میں داخل ہونے پر کسی کو مجبور نہیں کیا جاتا، لیکن جب ایک شخص اپنی مرض سے اس میں داخل ہوگیا، تو اگر وہ چوری کرے گا تو اس کا ہاتھ کاٹ لیا جائے گا اور اگر زنا کرے گا اور شادی شدہ ہوگا تو اسے رجم کردیا جائے گا، تاکہ مسلم معاشرہ کو اس کی اور اس جیسوں کی انارکیوں اور شر و فساد سے بچایا جائے، اسی طرح حاکم وقت کا یہ فرض ہے کہ اگر کوئی شخص دوبارہ کفر کو قبول کرلے تو اسے قتل کردے تاکہ مسلم سوسائٹی کو مذہبی انتشار سے بچایا جائے۔ آیت کریمہ میں اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ دین اسلام آنے کے بعد لوگ دو جماعتوں میں بٹ گئے، ایک جماعت نے اسلام کو قبول کیا اور طاغوتی طاقتوں کا انکار کیا، تو اس نے دین کی اصل اور بنیاد کو مضبوطی سے تھام لیا، اور دوسرے لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی اور طاغوتی طاقتوں سے رشتہ استوار کیا تو وہ ہلاک ہوگئے۔ البقرة
257 357: اس کا تعلق گذشتہ آیت سے ہے، گذشتہ آیت اساس اور بنیاد ہے، اور یہ آیت اس کا ثمرہ اور نتیجہ ہے کہ جو لوگ اپنے ایمان میں صادق ہوتے ہیں، عمل صالح کرتے ہیں اور ایمان کے منافی تمام کاموں سے بچتے ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں اپنا ولی اور دوست بنا لیتا ہے، انہیں کفر اور شک و شبہ کی تاریکیوں سے نکال کر کھلے اور واضح حق کے راستے پر ڈال دیتا ہے، اور جو اہل کفر ہوتے ہیں، ان کے دوست شیاطین اور ائمہ کفر و الحاد ہوتے ہیں، وہ کفر و الحاد کو خوشنما بنا کر ان کے سامنے پیش کرتے ہیں، اور راہ حق سے انہیں برگشتہ کرکے کفر و ضلالت کی راہ پر ڈال دیتے ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے کلمہ نور کو مفرد اور ظلمات کو جمع استعمال کیا ہے، اس لیے کہ حق ہمیشہ اور ہر زمانے میں ایک رہا ہے، اور کفر کی مختلف قسمیں اور متعدد شکلیں رہی ہیں۔ جیسا کہ اللہ نے فرمایا آیت وان ھذا صراطی مستقیما فاتبعوہ ولا تتبعوا السبل فتفرق بکم عن سبیلہ ذلکم وصاکم بہ لعلکم تتقون۔ اور یہ دین میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے، سو اس راہ پر چلو، اور دوسری راہوں پر مت چلو، کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کردیں گی، اس کا تم کو اللہ تعالیٰ نے تاکیدی حکم دیا تاکہ تم احتیاط رکھو (الانعام :153) البقرة
258 358: وہ بابل کا بادشاہ نمرود بن کنعان تھا، جس نے ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا کہ کون ہے تمہارا رب جس کی طرف ہمیں بلاتے ہو اور وہ اس کفر و سرکشی پر اس لیے تل گیا تھا، کہ ایک مدت مدید تک بادشاہت کرنے کی وجہ سے کبر و غرور میں مبتلا ہوگیا تھا، اور شیطان نے اس کے دماغ میں یہ احمقانہ خیال بٹھا دیا تھا کہ وہی رب العالمین ہے، اسی لیے ابراہیم (علیہ السلام) نے جب اس کے جواب میں کہا کہ میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے، تو اس دل کے اندھے نے کہا کہ میں بھی تو زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں، ابن عباس (رض) کی روایت ہے کہ اس نے اسی مجلس میں دو قیدی منگائے، ایک کو قتل کردیا اور دوسرے کو چھوڑدیا، حالانکہ ابراہیم (علیہ السلام) کا مقصد واضح تھا کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو عدم سے وجود میں لاتا ہے اور پھر انہیں وجود سے عدم کی طرف لے جاتا ہے، لیکن جب یہ بات اسے سمجھ میں نہ آئی تو ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ اچھا تو اللہ تعالیٰ آفتاب کو مشرق سے نکالتا ہے تو اسے مغرب سے نکال کر دکھا، تو وہ مبہوت اور عاجز ہوگیا، اور ظالموں کے پاس کبھی بھی حجت و برہان نہیں ہوتا۔ البقرة
259 359: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بعث بعد الموت کی ایک عظیم دلیل پیش کی ہے، جس کا ہر آدمی یوم قیامت سے پہلے اسی دنیا میں ادراک کرسکتا ہے۔ اور اس دلیل کا اجرا اللہ تعالیٰ نے جس آدمی کے جسم پر کیا، اس کے بارے کئی اقوال ہیں : ایک قول یہ ہے کہ وہ عزیر (علیہ السلام) تے، کسی نے کہا کہ وہ خضر (علیہ السلام) تھے، مجاہد کا قول ہے کہ وہ بنی اسرائیل کا ایک فرد تھا، اور یہی قول اقرب الی الصواب معلوم ہوتا ہے، اس لیے کہ واقعہ کے سیاق و سباق سے پتہ چلتا ہے کہ وہ آدمی اللہ کی اس قدرت میں شبہ کرتا تھا کہ وہ دوبارہ مردوں کو زندہ کرے گا۔ اس لیے قرین قیاس یہی ہے کہ وہ نبی نہ تھا، بلکہ ایک عام انسان تھا جسے بعث بعد الموت میں شبہ تھا۔ وہ شخص ایک ایسی بستی سے گذرا جو مکمل طور پر تہ و بالا ہوچکی تھی، اور اس کے رہنے والے سبھی لوگ مر چکے تھے، اس کے ذہن میں یہ بات آئی کہ ان لوگوں کو اب اللہ کیسے زندہ کرسکتا ہے؟ تو اللہ تعالیٰ نے اس کے اور دیگر لوگوں کے حال پر رحم کرتے ہوئے اسے سو سال کے لیے مردہ بنا دیا اس کا گدھا بھی مر گیا، اور اس کے پاس کھانے پینے کی جو چیزیں تھی وہ سب علی حالہ باقی رہیں، ان میں کوئی تبدیلی نہ آئی، جب اللہ نے اسے دوبارہ زندہ کیا تو اس سے پوچھا کہ کتنے دن تم اس حال میں باقی رہے؟ تو اس نے کہا کہ ایک دن یا اس سے بھی کم۔ تب اللہ تعالیٰ نے اسے بعض انبیاء کے ذریعے خبر دی کہ وہ سو سال مردہ رہا ہے، پھر اللہ نے اس سے کہا کہ تم اپنے کھانے پینے کی چیزیں دیکھ، وہ خراب نہیں ہوئی ہیں، اور اپنے گدھے کو دیکھو، اس کے چیتھڑے ہوچکے ہیں اور اس کی ہڈیاں سڑ گل گئی ہیں، اس کے بعد اللہ نے اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے گدھے کو زندہ کیا، تو بول اٹھا کہ مجھے یقین ہوگیا کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے، اور یقیناً ہر فردِ بشر کو قیامت کے دن زندہ کرے گا۔ البقرة
260 360: یہ بعث بعد الموت کی دوسری عظیم دلیل ہے، جس کا اجرا اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاتھوں کیا۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ سے سوال کیا کہ اے اللہ ! میں ان آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہوں کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے؟ اللہ نے کہا کہ کیا اس حقیقت پر تمہارا ایمان نہیں ہے؟ ابراہیم نے کہا کہ اے رب ! میرا ایمان ہے کہ تو مردوں کو زندہ کرے گا اور انہیں نیکی و بدی کا بدلہ دے گا، لیکن اس حقیقت کے بارے میں عین الیقین کا درجہ حاصل کرنا چاہتا ہوں، تو اللہ نے ان کی دعا قبول کرلی، اور کہا کہ چار چڑیوں کو ذبح کر کے ایک ساتھ ملا دو، اور انہیں مختلف پہاڑوں پر ڈال دو، پھر انہیں بلاؤ، وہ تمہارے پاس اڑتی چلی آئیں گی، ابراہیم (علیہ السلام) نے ایسا ہی کیا اور وہ سب اڑتی ہوئی ان کے پاس آگئیں۔ جمہور اہل علم کا خیال ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو اس کے بارے میں شبہ نہیں تھا کہ اللہ مردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہے، بلکہ ان کا مقصود یہ تھا کہ قدرت الٰہیہ کا مظاہرہ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر مزید سکون قلب اور عین الیقین حاصل کریں، جیسا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے، کہ کوئی خبر آنکھوں سے دیکھ لینے کی مانند نہیں ہے (مسند احمد) اور یہ جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ نحن احق بالشک من ابراہیم کہ ہم لوگ ابراہیم کے مقابلے میں شک میں مبتلا ہونے کے زیادہ قریب تھے (بخاری، مستدرک حاکم) تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر ابراہیم شک میں مبتلا ہوتے تو ہم لوگ اس کے زیادہ قریب تھے اور جب ہم شبہ نہیں کرتے ہیں تو ابراہیم کیسے شبہ کرسکتے تھے؟ قرطبی نے لکھا ہے کہ انبیائے کرام کے لیے اس قسم کا شبہ جائز نہیں ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے ان عبادی لیس لک علیہم سلطان کہ میرے مخلص بندوں پر تمہاری نہیں چل سکے گی (الاسراء : 65)۔ البقرة
261 361: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں خرچ کرنے کی زبردست ترغیب دلائی ہے، اور یہاں فی سبیل اللہ سے مراد ہر وہ راستہ ہے جو اللہ تک پہنچائے، جہاد فی سبیل اللہ، مسلمانوں کے لیے نفع بخش اعمال، مفید علوم کی نشر و اشاعت اور فقراء و مساکین پر خرچ کرنا اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے، اور ان نیکیوں میں اللہ تعالیٰ بڑھاوا دیتا ہے، صحیحین میں ابوہریرہ (رض) کی روایت ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ابن آدم کے نیک کام کو اللہ تعالیٰ بڑھاتا ہے، ایک نیکی دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بڑھتی ہے۔ ابن مسعود (رض) کی روایت ہے کہ ایک آدمی ایک اونٹ لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہا کہ اسے میں اللہ کی راہ میں دے رہا ہوں، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس کے بدلے تمہیں قیامت کے دن اللہ سات سو اونٹنیاں دے گا (احمد، مسلم، نسائی، حاکم) البقرة
262 362: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ اگر (اللہ کی راہ میں خرچ) صرف اللہ کی رضا کے لیے ہو، اور خرچ کرنے والا اصحاب حاجت کو دینے کے بعد احسان نہ جتائیں اور نہ دوسروں سے اس کا ذکر کر کے اس آدمی کو تکلیف پہنچائیں جس پر خرچ کیا ہے، تو اللہ تعالیٰ ان کو اجر خاص عطا فرمائے گا، اور مستقبل کا نہ انہیں خوف لاحق ہوگا نہ ماضی کا غم۔ اسی لیے اللہ نے اسکے بعد فرمایا کہ اگر آدمی سائل کو کچھ نہ دے سکے تو اچھے اسلوب میں معذرت کردے، اور اگر سائل کسی کلمہ کے ذریعہ تکلیف پہنچائے تو اسے درگذر کردے۔ یہ ایسے صدقہ و خیرات سے کہیں بہتر ہے جس کے بعد صاحب حاجت کو اذیت پہنچائے، احسان جتائے اور لوگوں سے بیان کرتا پھرے کہ میں نے فلاں آدمی کو صدقہ دیا ہے، صحیح مسلم میں ابو ذر غفاری (رض) کی روایت ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تین آدمی سے نہ بات کرے گا اور نہ ان کی طرف دیکھے گا، اور نہ انہیں ُاک کرے گا، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا، احسان جتانے والا، اپنی لنگی یا پائجامہ ٹخنے سے نیچے پہننے والا، اور اپنا سامان تجارت جھوٹی قسم کے ذریعہ بیچنے والا۔ البقرة
263 البقرة
264 363: اس آیت میں اور اس کے بعد آنے والی دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مال خرچ کرنے والوں کی تین قسمیں بتائی ہیں۔ اور ان کی تین مثالیں بیان کی ہیں۔ پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جو صرف لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرتے ہیں، اللہ پر ان کا ایمان نہیں ہوتا، اور نہ ان کی نیت ثواب کی ہوتی ہے، ان کا دل سخت اور چکنے پتھر کے مانند ہوتا ہے، جس پر مٹی جمی ہوتی ہے، دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ جب بارش ہوگی تو اس میں پودے اگیں گے، لیکن جب بارش ہوتی ہے تو مٹی دھل جاتی ہے اور سخت پتھر باقی رہا جاتا ہے۔ یہ مثال اس آدمی کے دل کی ہے جو لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرتا ہے، جو ایمان سے عاری اور سخت دل ہوتا ہے، نہ اللہ کی یاد سے نرم ہوتا ہے اور نہ اس کے خوف سے اس میں خشوع و خضوع پیدا ہوتا ہے۔ دوسری قسم، ان لوگوں کی ہے جو اللہ کی رضا کے لیے صدق دل سے خرچ کرتے ہیں، ان کی مثال بلند اور اونچی جگہ پر پائے جانے والے اس باغ کی ہے، جو ہوا اور آفتاب کی گرمی سے مستفید ہوتا ہے، اور وہاں پانی بھی خوب پایا جاتا ہے، اس لیے پیداوار دوگنی ہوتی ہے، اور اگر پانی اسے سیراب نہیں کرپاتا، تو شبنم ہی اتنی زیادہ گرتی ہے، اور اس باغ کی مٹی اتنی اچھی ہوتی ہے کہ وہی شبنم اس باغ کے درختوں کے بڑھنے اور لہلہانے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ تیسری قسم : ان لوگوں کی ہے جو خرچ تو کرتے ہیں اللہ کے لیے لیکن اس کے بعد احسان جتاتے ہیں، اور لوگوں کو بتا بتا کر صاحب حاجت کو اذیت پہنچاتے ہیں، اور اس طرح اپنا عمل ضائع کردیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی مثال اس آدمی کی ہے جس کے پاس کھجوروں اور انگوروں کا باغ ہو جس کے نیچے نہریں جاری ہوں اور جس میں ہر قسم کے پھل ہوں اور باغ والا بوڑھا ہوچکا ہو، اور اس کے پاس چھوٹے چھوٹے بچے ہوں اچانک ایک سخت آنکھی آتی ہے جو کہیں سے آگ اٹھا کر لاتی ہے اور باغ کو جلا دیتی ہے اور باغ والے کو کچھ نظر نہیں آتا۔ دنیا میں نیک اعمال کرنے والے انہیں تینوں قسموں میں سے ایک قسم کے ہوتے ہیں۔ مسلمان کو چاہئے کہ اپنی نیت کا محاسبہ کرتا رہے، اور ہر ممکن کوشش کرے کہ اس کا ہر عمل صالح صرف اللہ کی رضا کے لیے ہو، تاکہ آخرت میں ذلت و رسوائی اور خسارے کا منہ نہ دیکھنا پڑے۔ البقرة
265 البقرة
266 البقرة
267 346: انفاق اور کیفیت انفاق کے بیان کے بعد، اس مال کا حال بیان کیا جا رہا ہے جو اللہ کی راہ میں خرچ کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں اپنا بہترین مال خرچ کریں، چاہے وہ مال بذریعہ تجارت حاصل ہوا ہو، یا کھیتوں سے حاصل شدہ غلے ہوں، کیونکہ ایمان کا یہی تقاضا ہے، اسی لیے اللہ نے دوسری جگہ فرمایا ہے لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون، کہ جب تک تم پسندیدہ چیز سے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو گے ہرگز بھلائی نہ پاؤ گے۔ آل عمران : 92۔ ردی اور گلا سڑا مال اللہ کی راہ میں نہیں دینا چاہئے۔ اس لیے کہ اللہ طیب اور پاک ہے، اور عمدہ اور اچھا مال ہی قبول کرتا ہے۔ اسی لیے اللہ نے فرمایا کہ خراب مال اللہ کی راہ میں نہ خرچ کرو، حالانکہ خود تمہارا حال یہ ہے کہ اگر کوئی تمہارا قرض چکانے کے لیے خراب مال دے تو تم اسے بطیب خاطر قبول نہیں کروگے، آنکھیں بند کر کے بصورتِ جبر و اکراہ ہی قبول کروگے۔ براء بن عازب (رض) سے مروی ہے کہ یہ آیت انصار کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ کھجور پکنے کے زمانے میں لوگ مسجد نبوی میں دو عمودوں کے درمیان رسی سے کھجور کے گچھے لٹکا دیتے، تاکہ غریب مہاجرین کھایا کریں۔ بعض لوگ ان گچھوں میں ردی کھجوروں کے گچھے ملا دیتے تھے، اور سمجھتے تھے کہ ایسا کرنا جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تنبیہ فرمائی کہ ایسا کرنا جائز نہیں (ترمذی، ابن ماجہ، حاکم، بیقہی) بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس سے مرادمال حرام ہے، کہ اللہ کی راہ میں حرام مال نہ خرچ کرو، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ پہلا قول ہی صحیح ہے۔ امام شوکانی نے دونوں ہی مراد لیا ہے۔ یعنی اللہ کی راہ میں نہ حرام مال خرچ کرو اور نہ ہی ردی مال۔ البقرة
268 365: اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت واضح کی ہے کہ مسلمان دو دعوت دینے والوں کے درمیان ہوتا ہے ایک اللہ کا داعی ہوتا ہے جو اسے بھلائی کی طرف بلاتا ہے، اور بھلائی، ثواب اور خرچ کردہ مال کے نعم البدل کا وعدہ کرتا ہے اور دوسرا شیطان کا داعی ہوتا ہے، جو اسے بخل پر اکساتا ہے اور محتاجی سے ڈراتا ہے، تو جو کوئی اللہ کی پکار پر لبیک کہتا ہے، اور اس کی دی ہوئی روزی میں سے اس کی راہ میں خرچ کرتا ہے، اللہ اسے گناہوں کی مغفرت اور ہر مقصد کے حصول کی خوشخبری دیتا ہے، اور جو کوئی شیطان کی بات مان کر اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتا، تو وہ اپنے لیے جہنم کی راہ ہموار کرتا ہے۔ البقرة
269 366: صدقات و خیرات اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کے اموال واجر و ثواب کا ذکر ہوچکا، تو اب ایک ایسی نعمت کا ذکر ہو رہا ہے جو ان سب سے افضل ہے اور وہ ہے حکمت، یعنی نفع بخش علوم، عقلِ راجح، فہمِ ثاقب اور اقوال و افعال میں صائب الرائے ہونا، اسی لیے اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ جسے اللہ نے حکم تدے دی اسے خیر کثیر سے نواز دیا، ابن عباس رضٰ اللہ عنہما کے نزدیک حکمت سے مراد فہم قرآن ہے۔ مجاہد کہتے ہیں کہ اس سے مراد فقہ اور قرآن ہے۔ امام مالک کے نزدیک حکمت فقہ فی الدین اور ایسی چیز کو کہتے ہیں جسے اللہ اپنے فضل و کرم سے دلوں میں ڈال دیتا ہے۔ اس آیت میں اشاہ ہے کہ جو شیطان کے وعدوں کے دھوکے میں نہیں آتا، اور اللہ کے وعدوں پر یقین رکھتا ہے، در حقیقت اللہ تعالیٰ نے اسے حکمت جیسی دولت سے نواز دیا، نیز حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی اللہ کی راہ میں پاکیزہ مال خرچ کرتا رہے۔ عبداللہ بن مسعود (رض) روایت کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہتے سنا ہے کہ حسد دو چیزوں میں جائز ہے، اللہ نے ایک آدمی کو مال دیا جسے وہ راہ حق میں خوب خرچ کرتا ہے، اور دوسرا وہ آدمی جسے اللہ نے حکمت دی ہے جس کے مطابق وہ لوگوں کے درمیان فیصلے کرتا ہے، اور انہیں اس کی تعلیم دیتا ہے۔ (مسند احمد، بخاری، مسلم) البقرة
270 اللہ کی راہ میں لوگ جو کچھ خرچ کرتے ہیں، صدقہ کرتے ہیں، یا نذرانہ پیش کرتے ہیں اللہ انہیں خوب جانتا ہے اور اس علم کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ اللہ انہیں ان اعمال کا اچھا بدلہ عطا فرمائے گا، اور یہ کہ کسی کا ایک ذرہ کے برابر بھی عمل ضائع نہیں ہوگا۔ اور جو ظالم لوگ ان پر واجب کردہ حقوق کو ادا نہیں کرتے یا حرام کا ارتکاب کرتے ہیں، اللہ کا عذاب انہیں پکڑ لے گا اور کوئی ان کا مددگار نہ ہوگا۔ البقرة
271 368: آیت کے اس حصہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ صدقہ کو چھپانا افضل ہے تاکہ ریاکاری کا شبہ نہ رہے۔ لیکن اگر ظاہر کرنے میں کوئی دینی مصلحت ہو، جیسے نیت یہ ہو کہ کار خیر میں دوسرے لوگ اس کی اقتدا کریں تو ظاہر کرنا ہی افضل ہوگا۔ اسی لیے جمہور مفسرین کی رائے کہ چھپانے کی افضلیت نفلی صدقہ کے ساتھ خاص ہے۔ فرض صدقات و زکاۃ میں ظاہر کرنا ہی افضل ہے، صحیحین میں ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ سات قسم کے لوگوں کو اللہ قیامت کے دن اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا، جس دن اور کوئی سایہ نہ ہوگا ان میں ایک وہ آدمی ہوگا جس نے صدقہ دے کر چھپایا، یہاں تک کہ اس کے بائیں ہاتھ نہ نے جانا کہ دائیں نے کیا خرچ کیا ہے۔ البقرة
272 369: اس سے مقصود مومنوں کو اللہ کے اوامر کی اطاعت پر ابھارنا اور انہیں یہ بتانا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو راہ راست پر چلانے کے مکلف نہیں ہیں، یہ تو اللہ کا کام ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام تو لوگوں کو صرف راستہ بتا دینا ہے۔ اور جو اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا، قیامت کے دن اس کا حقیقی اور ابدی فائدہ اسی کو پہنچے گا، اس لیے محتاجوں پر اس کا احسان نہ جتائے اور نیت اس سے صرف اللہ کی رضا رکھے۔ اور اللہ صدقات و خیرات کا ثواب کوئی گنا زیادہ دیتا ہے، اللہ تعالیٰ نہ کسی کی نیکیوں کو کم کرتا ہے اور نہ کسی کے گناہوں کو زیادہ کرتا ہے البقرة
273 370: اللہ تعالیٰ نے مال والوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنا مال ان فقیروں اور محتاجوں پر خرچ کریں جنہوں نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے لیے، یا دن رات اس کی بندگی اور حصول علم کے لیے اپنی زندگی وقف کر رکھی ہے۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ یہاں مراد اصحاب صفہ ہیں۔ حافظ ابن کثیر نے ان سے مراد وہ تمام مہاجرین لیے ہیں جو مدینہ منورہ میں آ کر اقامت پذیر ہوگئے تھے اور تجارت و حصول مال کے اسباب و ذرائع ان سے منقطع ہوچکے تھے۔ فائدہ : اس آیت کریمہ میں مومنین مہاجرین کی یہ صفت بتائی گئی ہے کہ وہ اپنی شدت ضرورت و حاجت کے باوجود لوگوں سے الحاح کے ساتھ نہیں مانگتے۔ اسلام نے شدت ضرورت کے وقت سوال کرنے کو جائز قرار دیا ہے، اور بغیر ضرورت سوال کرنے کی بڑی مذمت کی ہے۔ بخاری اور مسلم نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک آدمی ہمیشہ مانگتا رہے گا، یہاں تک کہ جب قیامت کا دن آئے گا تو اس کے چہرے پر گوشت کا ایک ٹکڑا بھی نہ ہوگا، اس طرح کی اور بھی حدیثیں ہیں جن میں لوگوں سے سوال کرنے کی بڑی مذمت آئی ہے، امام مسلم نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص اپنا مال بڑھانے کے لیے لوگوں سے مانگتا ہے وہ گویا جہنم کی آگ مانگتا ہے۔ البقرة
274 371: اللہ کی رضا کی خاطر مال خرچ کرنے والوں کی تعریف کی گئی ہے۔ اور آیت میں رات کو دن پر، اور پوشیدہ کو اعلانیہ پر مقدم کرنے سے مقصود اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ پوشیدہ طور پر دینا افضل ہے اہل وعیال پر کرچ کرنا بھی اس میں شامل ہے۔ صحیحین میں مروی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سعد بن وقاص (رض) سے فرمایا کہ رضائے الٰہی کی خاطر تم جو بھی خرچ کروگے، اس سے اللہ کے نزدیک تمہارا مقام بلند ہوگا، حتی کہ وہ لقمہ جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالو گے۔ البقرة
275 372: اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کے احوال و کوائف، ان کے لیے اجر عظیم کے وعدوں اور ان کے گناہوں کی معافی کا ذکر ہوچکا، تو اب سود اور لوگوں کا مال حرام طریقوں سے کھانے والوں کا ذکر ہورہا ہے، اور ان انجامہائے بد کا بیان ہو رہا ہے جن کا سامنا انہیں روز قیامت قبر سے نکلتے وقت کرنا پڑے گا، جس طرح وہ لوگ دنیا میں مال حرام کے حصول میں پاگل بن گئے تھے، برزخ میں اور روز قیامت اپنی قبروں سے اس طرح اٹھیں گے جیسے انہیں شیطانی مس (اثر) کی وجہ سے جنون اور مرگی لاحق ہوگئی ہو، اور یہ سزا انہیں اس لیے ملے گی کہ وہ کہتے تھے کہ بیع ربا کی مانند ہے اور اس طرح حلال و حرام کو ایک جیسا بناتے تھے اور سود کو حلال قرار دیتے تھے۔ تحریم ربا کے قبل جو مال سود کھانے والے نے لیا تھا، اسے لوٹانا ضروری قرار نہیں دیا گیا، لیکن جو شخص اس کے بعد سود کو حلال قرار دے گا اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا، اس لیے کہ اس نے نص قرآنی کا انکار کیا، اور اللہ کی حرام کردہ چیز کو حلال بنایا۔ فائدہ : سود کی مذمت اور اس کے دینی اور دنیوی مفاسد کے بیان میں بہت ساری احادیث آئی ہیں۔ حاکم اور بیہقی نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت کی ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سود کے تہتر (73) دروازے ہیں، اس کا سب سے ہلکا گناہ یہ ہے کہ جیسے کوئی آدمی اپنی ماں کے ساتھ زنا کرے۔ احادیث کی رو سے سود کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی قسم ربا الفضل یعنی ایک چیز کو دوسرے کے مقابلے میں زیادہ دے کر خرید و فروخت کرنا، اور فقہاء نے اس کا قاعدہ کلیہ یہ بتایا ہے کہ ہر وہ دو چیزیں جن میں ناپ، وزن اور خوراک، تینوں صفات میں سے دو پائی جائیں گی، ان کا آپس میں خرید و فروخت کسی ایک کو زیادہ کر کے جائز نہیں۔ جن چیزوں میں یہ تینوں صفات معدوم ہوں گی، یا دونوں کی جنس مختلف ہوگی تو پھر کسی ایک کی زیادتی سود نہیں ہوگی اور اگر دونوں کی جنس ایک ہو، لیکن تینوں صفات میں سے صرف ایک صفت پائی جائے، تو ایک قول یہ ہے کہ کسی ایک کی زیادتی سود نہیں ہوگی، لیکن راجح یہی ہے کہ اس صورت میں بھی زیادتی سود ہوگی، اس کی دلیل عبادہ بن صامت (رض) کی مرفوع حدیث ہے جسے امام احمد اور مسلم نے روایت کی ہے کہ سونا سونے کے بدلے، چاندی چاندی کے بدلے، گیہوں گیہوں کے بدلے، جو جو کے بدلے، کھجور کھجور کے بدلے اور نمک نمک کے بدلے، برابر اور نقد بیچنا جائز ہے، یعنی کسی ایک کو زیادہ کر کے بیچنا جائز نہیں، اس لیے کہ دونوں کی جنس ایک ہے، اور تینوں صفات میں سے دو یا ایک صفت دونوں میں پائی جاتی ہے۔ دوسری قسم : ربا النسیئۃ ہے، اور اس کی ایک صورت زمانی جاہلیت میں یہ تھی کہ جب قرض کی مدت پوری ہوجاتی، تو قرض والا قرض دار سے کہتا کہ قرض ادا کروگے یا سود دو گے؟ اگر قرض ادا نہ کرتا تو قرض دینے والا مال کی مقدار بڑھا دیتا اور قرض کی مدت بھی بڑھا دیتا، سود کی یہ شکل بالاتفاق حرام ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیع و شراء کی بعض قسموں کو صرف اس لیے ناجائز قرار دیا، تاکہ سود کے پوشیدہ درازوں کو بند کردیا جائے، اور علمائے اسلام نے بھی ہر زمانے میں ایسی تمام صورتوں کو ممنوع قرار دیا، جن سے سود کے دروازے کھلتے نظر آئے، اس لیے کہ سود اسلام کی نظر میں عظیم ترین گناہ اور بدترین اجتماعی جرم ہے، مسلمانوں کو چاہئے کہ سود اور بیع وشراء کی ان تمام شکلوں سے بچیں جن میں سود کا شبہ پایا جاتا ہو۔ البقرة
276 373: اللہ تعالیٰ سود کے مال سے برکت چھین لیتا ہے اور صدقات کو بڑھا وا دیتا ہے، اس لیے کہ روزی کا مالک تو اللہ ہے اور اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اس کی اطاعت کر کے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے، اور یہ امر مشاہدہ ہے کہ سود خور کا مال بظاہر تو بڑھتا ہے لیکن اس کی برکت اس سے چھین لی جاتی ہے، دنیا میں اس کا سکون چھن جاتا ہے، اولاد نالائق ہوجاتی ہے اور قسم قسم کی پریشانیوں میں وہ گھرا رہتا ہے، اور آخرت میں تو عذاب نار اس کا انتظار کر ہی رہا ہے۔ البقرة
277 374: ربا (سود) کی آیتوں کے درمیان اس آیت کو لانے کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ سودی کاروبار سے بچاوے کا اہم سبب ایمان باللہ اور اس کے حقوق کی ادائیگی ہے۔ البقرة
278 375: اس آیت میں مسلمانوں کو حتمی طور سے حکم دے دیا گیا کہ قرضداروں پر سود کی جو رقم رہ گئی ہے اب نہ لی جائے، ایمان کا یہی تقاضا ہے، کیونکہ سود اور ایمان دونوں جمع نہیں ہوسکتے۔ البقرة
279 376: سود لینا اللہ اور رسول کے خلاف جنگ ہے، اور جس کی جنگ اللہ اور اس کے رسول سے ٹھن جائے وہ کب فلاح پائے گا؟ سودی کاروبار سے توبہ کرنے کے بعد صرف اصل مال لینا جائز ہوگا، اور اگر قرضدار تنگدست ہے، اس کے پاس قرض کی ادائیگی کے لیے پیسے نہیں، تو اسے مہلت دینی چاہئے اور اگر قرض والا تنگدست قرض دار کو معاف کردے تو یہ اس کے لیے بہتر ہے کیونکہ وہ آخرت میں اس کا اچھا بدلہ پائے گا۔ البقرة
280 البقرة
281 البقرة
282 377: سودی کاروبار کے بیان کے بعد آپس میں بذریعہ قرض لین دین کا بیان ہورہا ہے، تاکہ لوگ اپنی مالی ضرورتیں جائز اور مشروع طریقوں سے پوری کریں، یہ قرآن کریم کی سب سے طویل آیت ہے، اور ابن جریر طبری نے سعید بن المسیب سے روایت کی ہے کہ یہ آیت عرش سے نازل ہونے والی آخری آیت تھی، اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو تعلیم دی ہے کہ جب وہ بذریعہ قرض لین دین کریں تو اسے لکھ لیا کریں، اس لیے کہ قرض کی مقدار، اس کی ادائیگی کا وقت، اور گواہیوں کو ریکارڈ میں لانے کا اس سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ ضمانت پر لیا گیا قرض جس کی مدت معلوم ہو حلال ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت دی ہے، پھر یہ آیت پڑھی، (بخاری، طبری) قرض کے ذریعہ لین دین کو لکھنے کا حکم اس لیے دیا گیا ہے تاکہ کوئی اس کا انکار نہ کرسکے، یا بھول نہ جائے، اس آیت کریمہ سے مندرجہ ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں : 1۔ قرض کے ذریعہ لین دین جائز ہے۔ 2۔ قرضوں کے تمام لین دین میں مدت کی تحدید ضروری ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے قرضوں کو لکھ لینے کا حکم دیا ہے۔ 4۔ لکھنے والا عدل و انصاف کے ساتھ لکھے، اور قرابت یا عداوت سے متاثر نہ ہو۔ 5۔ یہ ضروری ہے کہ لکھنے والا انصاف کے تقاضوں کو جانتا ہو، اور خود بھی صفت عدل کے ساتھ متصف ہو۔ 6۔ کاتب کی تحریر قرضدار کا اعتراف ہوتا ہے، اور اگر وہ صغر سنی، کم عقلی، جنون، گونگا پن، یا عدم قدرت کی وجہ سے اپنے اوپر لوگوں کے حقوق کی تعبیر اچھی طرح نہیں کرسکتا، تو اس کے ولی کی تعبیر اس کی تعبیر کے قائم مقام ہوگی۔ 7۔ قرضدار جب لوگوں کے حقوق کاتب کو لکھائے تو اللہ سے ڈرے، اور ان کے حقوق اور شروط و قیود میں کمی و زیادتی نہ کرے۔ 8۔ خرید و فروخت میں گواہ مقرر کرنا ضروری ہے۔ 9۔ گواہ دو مرد، یا ایک مرد اور دو عورتیں ہوں گی۔ 10۔ گواہی یقینی بات پر ہو، شک پر نہیں۔ 11۔ جب گواہ کی ضرورت پڑے تو اسے انکار نہیں کرنا چاہیے۔ 12 کاتب و شاہد کو کسی کے نقصان کا سبب نہیں بننا چاہئے، اسی طرح اصحاب معاملہ کو کاتب و شاہد کے نقصان کا سبب نہ بننا چاہئے۔ البقرة
283 387۔ اگر آدمی سفر میں ہو، اور خرید و فروخت کی نوبت آجائے، اور کاتب میسر نہ ہو تو ایسی صورت میں حقوق کی توثیق رہن کے ذریعہ کردینی چاہئے، تاکہ رہن اس بات کا ثوبت ہو کہ رہن رکھنے والے کے ذمہ اس آدمی کا حق ہے جس کے پاس رہن موجود ہے، معلوم ہوا کہ اشیائے رہن اور ضمانتوں کے ذریعے لوگوں کے حقوق کی حفاظت ہوتی ہے، اور خلاف و نزاع کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ رہن ہمیشہ صاحب حق کے قبضے میں رہنا چاہئے، اور یہ بات تحریر میں آجانی چاہئے۔ اگر راہن اور مرتہن کے درمیان مقدار قرض میں اختلاف واقع ہوجائے تو بات صاحب حق کی مانی جائے گی، اس لیے کہ رہن اس کے ہاتھ میں بطور وثیقہ موجود ہے، آیت سے یہ بھی مستفاد ہے کہ آپس میں اعتماد ہونے کی صورت میں بغیر وثیقہ اور بغیر گواہ بنائے بھی خرید و فروخت اور قرض کا لین دین کیا جاسکتا ہے، یہ بھی مستفاد ہے کہ گواہ کا اپنی گواہی چھپانا حرام ہے۔ البقرة
284 379۔ اگر آدمی سفر میں ہو، اور خرید وفروخت کی نوبت آجائے اور کاتب میسر نہ ہو تو ایسی صورت میں حقوق کی توثیق رہن کے ذریعہ کردینی چاہئے، تاکہ رہن اس بات کا ثبوت ہو کہ رہن رکھے والے کے ذمہ اس آدمی کا حق ہے جس کے رہن موجود ہے۔ معلوم ہوا کہ اشیائے رہن اور ضمانتوں کے ذریعے لوگوں کے حقوق کی حفاظت ہوتی ہے اور خلاف و نزاع کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ رہن ہمیشہ صاحب حق کے بقضے میں رہنا چاہئے، اور یہ بات تحریر میں آجانی چاہئے۔ اگر راہن اور مرتہن کے درمیان مقدارِ قرض میں اختلاف واقع ہوجائے تو بات صاحب حق کی مانی جائے گی، اس لیے کہ رہن اس کے ہاتھ میں بطور و ثیقہ موجود ہے۔ آیت سے یہ بھی مستفاد ہے کہ گواہ کا اپنی گواہی کا چھپانا حرام ہے۔ 379: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ بندوں کے تمام احوال وکوائف کو جانتا ہے، ان کے دلوں کی ظاہر اور چھپی تمام باتوں کو جانتا ہے، اور ان پر ان کا محاسبہ کرے گا، جسے چاہے گا معاف کردے گا اور جسے چاہے گا عذاب دے گا۔ امام احمد، مسلم، نسائی وغیرہم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام بہت پریشان ہوئے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا : تم لوگ کہو کہ اے ہمارے رب ! ہم نے سنا اور اطاعت و بندگی کے لیے جھگ گئے۔ تو اللہ نے ان کے دلوں میں ایمان کو راسخ کردیا، اور اگلی آیت نازل ہوئی، یعنی لایکلف اللہ نفسا الایۃ، اور بات اس پر آ کر رکی کہ بندہ اسی قول و فعل کا ذمہ دار ہے جس کا اس نے ارتکاب کیا ہے، اور اس سے پہلی والی آیت منسوخ ہوگئی، جیسا کہ امام بخاری نے مروان الاصفر سے اور انہوں نے ایک صحابی رسول سے جو غالبا ابن عمر تھے روایت کی ہے کہ آیت وان تبدوا ما فی انفسکم او تخفوہ اس کے والی آیت کے ذریعہ منسوخ ہوچکی ہے یہی قول علی، ابن مسعود، شعبی، عکرمہ، سعید بن جبیر اور قتادہ کا ہے۔ لیکن ابن جریر نے حسن بصری کا قول نقل کیا ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے بلکہ محکم ہے، اور ابن جریر نے اسی قول کو ترجیح دی ہے، اور دلیل یہ پیش کی ہے کہ حساب عقاب کو لازم نہیں، ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ حساب لینے کے بعد معاف کردے، جیسا کہ صحیحین کی روایت سے ثابت ہوتا ہے، کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جب اپنے ایک بندے سے اس کے کان کے قریب جا کر اس کے گناہوں کا اعتراف کروالے گا، تو کہے گا کہ میں نے دنیا میں تمہاری پردہ پوشی کی تھی، اور آج تمہیں معاف کرتا ہوں بعض دوسرے حضرات جو اس آیت کے منسوخ ہونے کے قائل نہیں ہیں وہ کہتے ہیں کہ جن احادیث میں یہ آیا ہے کہ بندے کے دل میں جو کچھ گذرتا ہے، جب تک اپنے قول وعمل کے ذریعہ اس کی تصدیق نہ کردے اللہ اسے معاف کردے گا، تو اس سے مراد وہ خیالات پراگندہ ہیں جو بندے کے دل میں گذرتے ہیں، اور جن کے کر گذرنے کا وہ عزم نہیں کرتا اور یہاں اس آیت میں مراد وہ پختہ ارادہ اور دل کا وہ عزم مصمم ہے، جو عمل کے مترادف ہوتا ہے، اللہ بندے کا اس پر محاسبہ کرے گا، کیونکہ ایسی نیت اس کے کسب و عمل میں داخل ہے۔ جس کا ذکر اگلی آیت میں ہے کہ لہا ما کسبت و علیہا ما اکتسبت۔ البقرة
285 380: ذیل کی دونوں آیتوں کی احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہے۔ امام بخاری نے ابن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا : جو شخص سورۃ بقرہ کی آخری دونوں آیتیں رات میں پڑھ لے گا، وہ اس کو کافی ہوں گی۔ امام احمد نے ابو ذر (رض) سے، اور مسلم نے عبداللہ سے روایت کی ہے کہ سورۃ بقرہ کی آخری آیتیں عرش کے نیچے خزانے میں تھیں، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معراج کی رات میں عطا ہوئیں۔ سورۃ فاتحہ کی فضیلت کے بیان میں بھی ان آیتوں کی فضیلت کا ذکر آیا ہے (دیکھئے سورۃ الفاتحہ کی فضیلت کا بیان) پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھ مومنین تمام ارکان ایمان پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ کہ مسلمان قرآن و سنت کے مطابق زندگی گذارنے کا اعلان کرتے ہیں۔ دوسری آیت میں اس بات کی خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کو اتنا ہی مکلف کرتا ہے جتنے کی وہ طاقت رکھتا ہے، اور یہ کہ وہ اپنے قول و فعل کا ذمہ دار ہے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بندے کو اپنی جناب میں گریہ و زاری اور دعا کرنے کی تعلیم دی ہے، تاکہ جو تقصیر حاصل ہوئی ہے اسے اللہ معاف کردے۔ اور اللہ تعالیٰ نے مومنین کی یہ دعا قبول کرلی، جیسا کہ صحیح مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ جب بندوں نے یہ دعا کی تو اللہ نے کہا کہ ہاں ! میں نے قبول کرلیا، ابن عباس (رض) سے بھی ایسا ہی مروی ہے (مسلم) (فائدہ) اس آیت سے یہ شرعی قاعدہ ماخوذ ہے کہ دین اسلام میں تمام اعمال کی بنیاد نرمی اور آسانی پر ہے۔ البقرة
286 البقرة
0 تفسیر سورۃ آل عمران : 1۔ اس سورت کا نام آل عمران اس مناسبت سے ہے کہ اس میں خاندانِ عمران کے برگزیدہ اشخاص (عیسی، یحیی، مریم اور ان کی ماں) کا بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر آیا ہے۔ اس کا نام ” زہراء“ بھی ہے، اس لیے کہ یہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اہل کتاب کے شبہات کا ازالہ کرتی ہے۔ اس کا نام ” امان“ بھی ہے۔ اس لیے کہ اس سے استفادہ کرنے والا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شان میں غلطی کرنے سے بچ جاتا ہے۔ اسے ” کنز“ بھی کہتے ہیں، اس لیے کہ یہ اسرار عیسوی کا خزانہ ہے۔ اسے ” مجادلہ“ بھی کہتے ہیں، اس لیے کہ اس کی 80 سے زیادہ آیتیں نجران کے نصرانیوں کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مناظرہ پر مشتمل ہیں۔ اسے سورۃ الاستغفار بھی کہتے ہیں جو آیت والمستغفرین بالاسحار سے مستفاد ہے، اسے طیبہ بھی کہتے ہیں، اس لیے کہ اس میں طیبین یعنی اچھے لوگوں کا ذکر ہے یعنی آیت کریمہ الصابرین والصادقین والقانتین والمنفقین والمستغفرین بالاسحار، کی طرف اشارہ ہے۔ ناموں کی اس تفصیل سے اس سورت کے مرکزی مضامین پر ایک گنا روشنی پڑتی ہے، جن کا ذکر انشاء اللہ آگے آئے گا۔ 2۔ قرطبی نے لکھا ہے کہ یہ سورت بالاجماع مدنی ہے اور اس کی دلیل ابتدا کی تراسی آیتیں ہیں، جو نجران کے عیسائی وفد کے بارے میں نازل ہوئی تھیں، اور یہ وفد مدینہ منورہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سن 9 ھ میں آیا تھا۔ آل عمران
1 1۔ اس سورت کی فضیلت میں کئی حدیثیں وارد ہوئی ہیں، امام احمد نے بریدہ (رض) سے ایک حدیث روایت کی ہے، جس میں آیا ہے کہ سورۃ البقرہ اور سورۃ آل عمران سیکھو، یہ دو خوشنما پودے ہیں جو قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں پر بادل کی طرح سایہ کیے ہوں گے۔ نواس بن سمعان (رض) کہتے ہیں، میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کہ قیامت کے دن قرآن اور اہل قرآن کو لایا جائے گا جو اس پر دنیا میں عمل کرتے تھے، سورۃ البقرہ، اور سورۃ آل عرمان ان کے آگے ہوں گی، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونون سورتوں کی مثال بیان کی کہ گویا وہ دو بادل ہوں گے، یا گھنے سائے، یا صف باندھے چڑیوں کی دو جماعت، جو ان کے پڑھنے والوں کی طرف سے دفاع کر رہی ہوگی (مسلم، ترمذی، احمد) 1۔ ابتدائے سورۃ البقرہ میں، کلمہ الم کے بارے میں لکھا جا چکا ہے۔ آل عمران
2 2۔ سورۃ البقرہ میں آیۃ الکرسی کی تفسیر میں الحی اور القیوم دونوں صفات الٰہیہ کے بارے میں لکھا جا چکا ہے، آل عمران
3 3۔ یہاں کتاب سے مراد قرآن کریم ہے، جس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ قرآن اگلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے، تورات عبرانی لفظ ہے، جس کا معنی شریعت ہے، اور انجیل یونانی لفظ ہے، جس کا معنی خوشخبری ہے۔ یہ دونوں کتابیں قوم موسیٰ اور قوم عیسیٰ کی ہدایت کے لیے نازل ہوئی تھیں، نزول قرآن کے بعد دونوں منسوخ ہوگئیں۔ امت محمدیہ منسوخ شریعتوں کی مکلف نہیں۔ فرقان سے مراد یا تو تمام آسمانی کتابیں ہیں، اس لیے کہ سبھی حق و باطل کے درمیان تفریق کرتی ہیں۔ یا صرف قرآن مراد ہے، جو حق و باطل کے درمیان بالعموم تفریق کرتا ہے، یا اس حق و باطل میں تفریق کرتا ہے جس میں یہود و نصاریٰ اختلاف کرتے ہیں، ان الذین کفروا، الایۃ سے مقصود قرآن کریم پر ایمان لانے کی ترغیب، اور بصورت انکار اللہ کے عذاب سے خوف دلانا ہے۔ آل عمران
4 آل عمران
5 اللہ تعالیٰ لوگوں کے ایمان و کفر سے باخبر ہے، اور ہر ایک کو اس کے ایمان یا کفر کا بدلہ ضرور دے گا۔ آل عمران
6 اللہ تعالیٰ مرد و عورت، خوبصورت و بدصورت، اور نیک و بدبخت، جیسا چاہتا ہے رحم میں پیدا کرتا ہے، اشارہ ہے اس طرف کہ عیسیٰ بن مریم دیگر تمام انسانوں کی طرح اللہ کے ایک مخلوق بندہ تھے، اللہ نے انہیں بھی مریم کے رحم میں جیسا چاہا بنا، تو پھر وہ اللہ کیسے ہوسکتے ہیں؟ جیسا کہ نصاریٰ کا باطل عقیدہ ہے۔ آل عمران
7 6: اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت اور کمال قیومیت کی خبر دی ہے کہ اسی نے قرآن کریم کو نازل کیا ہے جس کی نظیر قیامت تک نہیں پائی جائے گی۔ اس کا ایک حصہ صریح اور واضح احکام پر مشتمل ہے، جیسے حلال و حرام، حدود، عبادات اور عبرتوں اور نصیحتوں والی آیتیں، اور ایک حصہ ایسی آیتوں پر مشتمل ہے جن کا علم اور جن کی حقیقت اللہ کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں، یا جن میں ایک سے زیادہ معانی کا احتمال پایا جاتا ہے، جیسے سورتوں کی ابتدا میں حروف مقطعات، غیبی امور اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اللہ کا یہ قول، وکلمتہ القاھا الی مریم و روح منہ، کہ وہ اللہ کا کلمہ ہیں جسے اس نے مریم کی طرف ڈال دیا، اور اس کی طرف سے ایک روح، نساء :171۔ لیکن جن کے دلوں میں کفر و نفاق ہے وہ متشابہ آیتوں کے درپے ہوتے ہیں، تاکہ لوگوں کو شبہات میں مبتلا کرسکیں، اپنے باطل عقائد و نظریات پر فاسد تاویلات کے ذریعہ ان سے استدلال کرسکیں، اپنے باطل عقائد و نظریات پر فاسد تاویلات کے ذریعہ ان سے استدلال کرسکیں، اور اسلام میں بدعتوں کو رواج دے سکیں، اور جن کا ایمان اور علم راسخ ہوتا ہے وہ ان متشابہات کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی آیات ہیں، ان کا جو معنی و مفہوم دیگر قرآنی آیات، احادیث نبویہ اور عربی زبان کے مطابق انہیں سمجھ میں آتا ہے وہ لوگوں کے لیے بیان کرتے، لیکن ان کی حقیقت اور کنہیات کی کرید میں نہیں پڑتے، اس لیے کہ اصحابِ عقل و دانش کے لیے محکم آیتیں ہی کافی اور وافی ہوتی ہیں۔ اور بیمار عقل والے ہمیشہ ہی مشتبہ آیتوں کی تلاش میں ہوتے ہیں تاکہ اپنے باطل افکار کی تائید میں کوئی دلیل لا سکیں، اور مسلمانوں میں شر اور فتنہ پھیلا سکیں۔ محکم اور متشابہ کی علمائے تفسیر نے کئی تعریفیں بیان کی ہیں، امام شوکانی نے ان کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ تعریفیں جزوی اور ناقص ہیں، اور ان کی تفصیل بیان کی ہے، پھر کہا ہے کہ محکم کی سب سے بہتر تعریف یہ ہے کہ جس کا معنی واضح اور جس کی دلالت ظاہر ہو، اور متشابہ یہ ہے کہ جس کا معنی واضح نہ ہو یا جس کی دلالت ظاہر نہ ہو۔ اکثر مفسرین کی رائے کہ والراسخون فی العلم، کا ماقبل سے کوئی تعلق نہیں، اور مجاہد کا خیال ہے کہ اس کا ما قبل سے تعلق ہے، اور متشابہ آیتوں کی تاویل راسخ العلم لوگ بھی جانتے ہں۔ قرطبی نے لکھا ہے کہ ابن عباس (رض) سے بھی یہی منقول ہے۔ شوکانی لکھتے ہیں کہ بعض اہل علم نے اعتدال کی راہ اختیار کی ہے۔ اور کہا ہے کہ قران کریم میں تاویل دو معنوں میں استعمال ہوا ہے، تاویل بمعنی حقیقت شے اور اس کا انجام و نتیجہ، اگر تاویل سے مراد یہ لیا جائے تو وقف اللہ پر ہوگا، اس لیے کہ اشیاء کے حقائق و کنہیات کو اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ اور اگر تاویل سے مراد تفسیر اور بیان لیا جائے تو الراسخون فی العلم اللہ پر معطوف ہوگا۔ اس لیے کہ علماء کو ان آیات کا مفہوم ضرور جاننا چاہئے جن کے مسلمان مخاطب ہیں۔ آل عمران
8 7۔ چونکہ یہاں مستقیم اور منحرف دو قسم کے لوگوں کا ذکر ہورہا ہے، اس لیے اللہ نے مومنوں کو تعلیم دی کہ وہ اللہ سے ایمان پر ثبات قدمی کی دعا کیا کریں، اور اس بات کا دل سے اقرار کریں کہ وہ بعث بعد الموت اور جزا و سزا پر یقین رکھتے ہیں، اور یہ کہ اللہ نے جو وعدہ کیا ہے وہ ہو کر رہے گا، ترمذی نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم اکثر و بیشتر یہ دعا کرتے تھے یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک، کہ اے دلوں کو الٹ پھیر کرنے والے ! میرے دل کو تو اپنے دین پر قائم رکھ، میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! آپ یہ دعا بہت زیادہ مانگا کرتے ہیں۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہر انسان کا دل رحمان کی دو انگلیوں کے درمیان ہوتا ہے، چاہتا ہے تو حق پر قائم رکھتا ہے، اور چاہتا ہے تو اسے گمراہ کردیتا ہے۔ آل عمران
9 آل عمران
10 8۔ ذکر قیامت کے بعد اب یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ وہ تمام لوگو جنہوں نے اللہ کا انکار کیا اور رسولوں کی تکزیب کی جہنم میں ضرور داخل ہوں گے۔ اور ان کا مال اور ان کی اولاد انہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتی، اور دنیا میں بھی ان کا حشر فرون اور ان لوگوں جیسا ہوگا جنہوں نے اللہ کی آیات کی تکذیب کی، کہ اللہ نے ان کے گناہوں کے سبب انہیں ُکڑ لیا، اور عذاب آخرت سے پہلے دنیاوی مصیبتوں اور عقوبتوں میں مبتلا کیا۔ آل عمران
11 آل عمران
12 اس سے مراد یہود مدینہ ہیں اس کے شان نزول کے بارے میں ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب غزوہ بدر کے بعد مدینہ منورہ واپس آئے تو بنو قینقاع کے بازار میں تمام یہودیوں کو جمع کیا، اور کہا کہ اے جماعتِ یہود ! تم لوگ اسلام لے آؤ قبل اس کے کہ تمہارا وہی انجام ہو جو اہل قریش کا ہوا، تو انہوں نے کہا کہ اے محمد ! تم اس بات سے دھوکے میں نہ آجاؤ کہ مٹھی بھر جنگ سے ناواقف قریشیوں کو قتل کر کے آگئے ہو، اگر ہم سے جنگ ہوئی تو سمجھ جاؤ گے کہ ہم کون لوگ ہیں، ہم جیسوں سے ابھی تمہیں سابقہ نہیں پڑا ہے، تو یہ آیت نازل ہوئی، اور اللہ کا وعدہ پورا ہوا کہ بنو قریظہ قتل کردئیے گئے، بنو نضیر کو جلا وطن ہونا پڑا، اور خیبر فتح ہوا اور باقی لوگوں پر جزیہ لگا دیا گیا آل عمران
13 10۔ یہاں بھی مخاطب یہود مدینہ ہیں، کہ غزوہ بدر میں جو کچھ ہوا اس سے تمہیں عبرت حاصل کرنی چاہئے تھی، اور سمجھ لینا چاہئے تھا کہ اللہ اپنے دین کو غالب کر کے رہے گا، اور اپنے رسول کی مدد ضرور کرے گا۔ فئۃ تقاتل فی سبیل اللہ، سے مراد اللہ کے رسول اور اور صحابہ کرام ہیں، جن کی تعداد تین سو تیرہ تھی اور فئۃ اخری سے مراد مشرکین قریش ہیں، جن کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی، اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ کفار کو مسلمان اپنے سے دوگنا نظر آنے لگے، یہ اللہ کی طرف سے مسلمانوں کی مدد تھی تاکہ کفار پر رعب طاری ہوجائے، اس کے علاوہ اللہ نے مسلمانوں کی مدد فرشتوں کے ذریعہ بھی کی، اور یہ جو سورۃ انفال میں آیا ہے، ویقللکم فی اعینہم اور تمہیں ان کی نظروں میں کم دکھایا، تو یہ ابتدائے امر میں ہوا تاکہ کفار ڈر کے مارے بھاگ نہ جائیں، اور جب دونوں فوجیں ٹکرا گئیں تو اللہ نے مسلمانوں کو کافروں کی نظر میں دوگنا کر دکھایا، تاکہ کافروں پر رعب طاری ہوجائے، اور اللہ نے جس امر کا فیصلہ کردیا تھا وہ ہو کر رہا، یعنی کفار قریش کے کشتوں کے پشتے لگ جائیں۔ آل عمران
14 11۔ اوپر بیان ہوا کہ کافروں کو ان کے تمام دنیاوی قوت و اسباب کام نہ آئے، اور جنگ بدر میں گاجر مولی کی طرح قتل کردئیے گئے اب اسی دنیا اور اس کی لذتوں کی حقارتِ شان بیان کر کے لوگوں کو اللہ کی جنت کے حصول کی ترغیب دلائی جا رہی ہے۔ حب الشہوات میں اس طرف اشارہ ہے کہ آدمی اپنی شہوتوں سے اندھی محبت کرتا ہے، حالانکہ یہ شہوتیں جب حد اعتدال سے بڑھ جاتی ہیں تو اصحاب حکمت و دانائی کے نزدیک قابل حقارت ہوجاتی ہیں۔ اور ان کا غلام بہائم سے قریب ہوجاتا ہے، بخاری کی روایت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے زیادہ نقصان دہ کوئی فتنہ نہیں چھوڑا۔ اور اللہ نے قرآن کریم میں فرمایا، ان من ازواجکم واولادکم عدوا لکم فاحذروہم، یعنی تمہاری بعض بیویاں اور اولاد تمہارے دشمن ہیں، تم ان سے بچ کر رہو، (التغابن، 14) اور فرمایا۔ کلا ان الانسان لیطغی، ان راہ استغنی، یعنی انسان اپنے آپ سے باہر ہوجاتا ہے جب وہ اپنے آپ کو دولت میں گھرا دیکھ لیتا ہے۔ آل عمران
15 قیامت کے دن اہل تقوی کے لیے اچھی منزل کا اجمالی ذکر ہونے کے بعد اب اس کی تفصیل بیان ہو رہی ہے، تاکہ مومنین اس کے حصول کے لیے سبقت کریں۔ جنت میں شہد، دودھ، شراب اور پانی وغیرہ کی نہریں جاری ہوں گی، اور ایسی نعمتیں ہوں گی جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہوگا نہ کسی کان نے سنا ہوگا، اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا کھٹکا ہوا ہوگا۔ پاکیزہ بیوی سے مراد ایسی بیویاں ہیں جو ہر طرح کی نجاست اور گندگی سے پاک ہوں گی، اللہ تعالیٰ کی خوشنودی سے مراد اللہ کی ایسی رضا ہے جس کے بعد اللہ کبھی بھی جنتیوں سے ناراض نہ ہو، جیسا کہ بخاری و مسلم نے ابوسعید خدری (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اہل جنت سے پوچھے گا کہ کیا تم لوگ خوش ہوگئے، تو جنتی کہیں گے کہ ہم کیوں نہ خوش ہوں، تو نے تو ہمیں وہ کچھ دیا ہے جو کسی کو بھی نہ دیا، تو اللہ کہے گا کہ میں تمہیں اس سے بھی افضل چیز دیتا ہوں، میں تمہیں اپنی رضامندی دیتا ہوں ایسی رضامندی جس کے بعد تم پر کبھی بھی ناراض نہ ہوں گا، اے اللہ،! میں تجھ سے جنت الفردوس کی دعا کرتا ہوں، اور جہنم کی آگ سے پناہ مانگتا ہوں۔ آل عمران
16 13۔ اس میں ان اہل تقوی کی صفت بیان کی گئی ہے، جو اللہ کی جنت اور اس کی نعمتوں کے حقدار بنے، اور اس میں دلیل ہے کہ دعا کرنے والا اپنی نیکیوں کا ذکر کر کے دعا کرے، اور اس کی تائید صحیحین کی اصحاب غار والی حدیث سے ہوتی ہے، جس میں آیا ہے کہ ان تینوں نے جو غار میں گھر گئے تھے اپنی اپنی نیکیوں کو وسیلہ بنا کر دعا کی تھی، اور اللہ نے پتھر کو غار کے دہانے سے سے ہٹا کر ان کی جان بچا دی تھی۔ آل عمران
17 14: اس میں اہل تقوی کی مزید صفات بیان کی گئی ہیں والمستغفرین بالاسحار میں استغفار سحر گاہی کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ صحیین اور احادیث کی دوسری کتابوں میں کئی صحابہ کرم سے مروی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہر رات جب رات کا ایک تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے توا للہ تعالیٰ آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے، اور کہتا ہے کہ کوئی مانگنے والا ہے جسے میں دوں، کوئی دعا کرنے والا ہے جس کی دعا قبول کروں، کوئی مغفرت چاہنے والا ہے جسے میں معاف کردوں؟ مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلاتا ہے، اور کہتا ہے کہ کون قرض دے گا ایسے کو جو فقیر نہیں، اور ظالم نہیں، ایک اور روایت میں ہے کہ طلوع فجر تک ایسا ہی رہتا ہے۔ آل عمران
18 15۔ یہ مالک دو جہاں، اس کے فرشتوں اور اہل علم کی زبانی ایک عظیم شہادت ہے، یعنی اللہ عز و جل کی توحید کی شہادت اور اس بات کی شہادت کہ عدل و انصاف اور اعتدال اس کی صفت ہے۔ اس آیت میں اہل علم کی بھی بہت بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے کہ اللہ نے توحید کی بہت بڑی دلیل قرار دیا، اور مخلوق کے لیے ان کی شہادت کو قبول کرنا واجب قرار دیا۔ امام شوکانی کہتے ہیں کہ یہاں اہل علم سے مراد قرآن و سنت کا علم رکھنے والے ہیں۔ آل عمران
19 16۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسلام کے علاوہ اور کوئی دین قابل قبول نہیں، ہر نبی یہی دین لے کر آئے، اور ان کے زمانے کے لوگوں کے لیے اسی کی اتباع لازم ہوئی، یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ تشریف لائے، اور تمام سابقہ ادیان منسوخ ہوگئے، اور صرف وہ دین رہ گیا جو اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دے کر مبعوث کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اگر کوئی شخص کسی دوسرے دین کی اتباع کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوجائے گا تو اس کی موت کفر پر ہوگی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس امت کا کوئی بھی آدمی جو میرے بارے میں سنے گا، چاہے وہ یہودی ہو یا نصرانی، اور دین اسلام پر ایمان نہیں لائے گا وہ جہنمی ہوگا (مسلم) آپ نے یہ بھی فرمایا کہ میں سرخ اور کالے تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہوں (مسلم) اور یہ بھی فرمایا کہ ہر نبی ایک خاص قوم کے لیے مبعوث ہوتا ہے اور میں تمام لوگوں کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ (بخاری)۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ یہود نے قرآن کا انکار لا علمی کی وجہ سے نہیں بلکہ حسد و عداوت کی وجہ سے کیا۔ آل عمران
20 17۔ اسلام کی حقانیت اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت ثابت ہوجانے کے باوجود بھی اگر اہل کتاب کفر و عناد کی راہ اختیار کرتے ہیں، تو آپ کہہ دیجئے کہ میں تو اپنا ظاہر و باطن اللہ کے سامنے جھکا دیا ہے، اور یہی حال میری اتباع کرنے والے مسلمانوں کا بھی ہے، اور اہل کتاب اور غیر اہل کتاب سب کو کہہ دیجئے کہ اگر تم اسلام لے آؤ گے تو صراط مستقیم پر گامزن ہوجاؤ گے، اور اگر روگردانی کروگے تو میرا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے، اور حساب تو تمہیں اللہ کو دینا ہوگا۔ آل عمران
21 18: یہاں بھی مراد اقوام یہود ہیں، جنہوں نے زکریا اور ان کے بیٹے یحیی علیہما السلام کو قتل کیا، اور حزقیل (علیہ السلام) کو بھی قتل کیا، اور ان کا خود گمان ہے کہ انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کیا تھا اور چونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے یہود اپنے باپ دادوں کے کرتوتوں سے راضی تھے، اس لیے ان قبیح اعمال کی نسبت ان کی طرف کرنا صحیح ہوا، امام حاکم نے لکھا ہے، اس آیت میں دلیل ہے کہ داعی الی اللہ اپنی جان کا خطرہ ہونے کے باوجود لوگوں کو بھلائی کی دعوت دیتا رہے گا۔ آل عمران
22 19۔ دنیا میں ان کے اعمال اس طرح ضائع ہوئے کہ اللہ نے ان کی مذمت کی، ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا، قتل کیے گئے، ان کی عورتیں اور بچے قیدی اور غلام بنا لیے گئے، اور ان کے اموال بطور غنیمت مسلمانوں میں تقسیم کردئیے گئے، اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ ان کے ثواب کو عذاب الیم سے بدل دے گا۔ آل عمران
23 کتاب سے مراد تورات اور جنہیں اس کا ایک حصہ دیا گیا، سے مراد علمائے یہود ہیں، اور کتاب اللہ سے مراد قرآن کریم ہے، بعض مفسرین نے کتاب اللہ سے بھی مراد تورات لیا ہے، اور کہا ہے کہ آیت میں اشارہ ایک خاص واقعہ کی طرف ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہود مدینہ اپنے دو زانی مرد اور عورت کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے گئے، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم کا حکم دے دیا، لیکن انہوں نے انکار کردیا اور کہا کہ ہماری کتاب (یعنی تورات) میں تو صرف منہ کالا کرنا ہے، پھر تورات منگائی گئی تو اس میں رجم کا ذکر ملا، چنانچہ ان دونوں کو رجم کردیا گیا، اس پر یہود ناراض ہوئے، تو یہ آیت نازل ہوئی۔ فائدہ : جب کسی شخص کو اللہ کی کتاب اور اس میں موجود شریعت کی طرف بلایا جائے تو قبول کرنا واجب ہے۔ شادی شدہ زانی کو رجم کرنے کے لیے اس کا مسلمان ہونا شرط نہیں ہے۔ آل عمران
24 21۔ یہودیوں نے قرآن کریم اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دو اسباب کی وجہ سے اعراض کیا اول تو ان کا یہ گمان کاذب کہ جہنم کی آگ انہیں چند ہی دن اپنی لپیٹ میں لے گی، جس کی انہوں نے من مانی تحدید کرلی تھی، اور دوم یہ کہ اللہ کی آیات کی تکذیب کی وجہ سے شیطان نے ان کے برے اعمال کو ان کی نظروں میں اچھا بنا کر پیش کیا اور وہ دھوکے میں آگئے اور سمجھ بیٹے کہ وہ حق پر ہیں، حق سے اعراض کی وجہ سے اللہ کی طرف سے یہ ایک سزا تھی، ایسے لوگوں کا قیامت کے دن کیا حال ہوگا؟ اور کیسے عذاب کی سزا انہیں بھگتنی پڑے گی؟ اس کا تصور انسان اس دنیا میں نہیں کرسکتا۔ آل عمران
25 آل عمران
26 22۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو طریقہ دعا سکھلایا ہے، اور تسبیح و تحمید کی تعلیم دی ہے۔ اللہ تعالیٰ مالک کل، مالک مطلق اور مالک حقیقی ہے، اپنے ملک میں جیسے چاہتا ہے تصرف کرتا ہے، ایجاد کرتا ہے، ختم کرتا ہے، مارتا ہے، زندہ کرتا ہے، عذاب یا ثواب دیتا ہے، کوئی اس کا شریک نہیں اور نہ کوئی اسے روک سکتا ہے، وہ جسے چاہتا ہے، بادشاہ بنا دیتا ہے، اس لیے کہ حقیقی بادشاہت اسی کے ساتھ خاص ہے، اور دوسروں کی بادشاہت مجازی اور عارضی ہے۔ اسی کے ہاتھ میں عزت و ذلت ہے، اور اسی کے ہاتھ میں تمام بھلائیاں ہیں۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ آیت میں ملک سے مراد نبوت ہے۔ حافظ ابن کثیر (رح) کہتے ہیں، آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور امت مسلمہ پر احسان کر کے نبوت بنی اسرائیل سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف منتقل کردی، اور ان کے دین کو تمام ادیان پر غالب کردیا، اور پوری دنیا میں پھیلا دیا، اس لیے مسلمانوں کو اس نعمت عظمی کا شکر ادا کرتے رہنا چاہئے۔ آل عمران
27 23۔ رات اور دن کو ایک دوسرے میں داخل کرتا ہے، یعنی ایک کو دوسرے کے پیچے لا کر یا نقص و زیادتی کے ذریعہ اور حیوان کو نطفہ سے اور نطفہ کو حیوان سے پیدا کرتا ہے، بعض نے کہا ہے کہ مومن کو کافر سے، اور کافر کو مومن سے نکالتا ہے، اور جسے چاہتا ہے بلا حد و حساب روزی دیتا ہے۔ آل عمران
28 24۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اس بات سے منع کیا ہے کہ وہ مومنوں کے بجائے کافروں کو اپنا دوست بنائیں، اس لیے کہ مومنوں کا ولی اللہ ہے، اور مومنین آپس میں ایک دوسرے کے ولی اور دوست ہیں، قرآن کریم میں اس مضمون کی کئی آیتیں آئی ہیں، اللہ کے لیے محبت اور اللہ کے لیے بغض و عداوت ایمان کے اصولوں میں سے ایک اصل ہے، اسی لیے اللہ نے فرمایا کہ جو کوئی کافروں کو اپنا دوست بنائے گا، اللہ اس سے بری ہے اور اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں، ہاں اگر کافروں سے کوئی خطرہ ہو، تو مسلمان کے لیے یہ جائز ہے کہ وقتی طور پر زبان سے دوستی کا اظہار کرے، امام بخاری نے ابوالدرداء کا قول نقل کیا ہے کہ ہم لوگ بعض قوموں کے سامنے مصنوعی مسکراہٹ کا اظہار کرتے تھے، حالانکہ ہمارے دل ان پر لعنت بھیجتے تھے۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اللہ تمہیں اپنی ذات مقدس سے ڈرا رہا ہے، دیکھو، اس کے احکام کی مخالفت اور اس کے دشمنوں سے دوستی کر کے اسے ناراض نہ کرو، اس میں انتہا درجے کی دھمکی ہے۔ آل عمران
29 25: اللہ کی طرف سے بندوں کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ وہ اللہ سے دڑتے رہیں، اور ایسے اعمال کا ارتکاب نہ کریں جن سے اس نے منع کیا ہے اور جو اس کی نا راضگی کا سبب بنیں اور بندہ اس یقین کے ساتھ دنیا میں رہے کہ اللہ سے کوئی بات بھی مخفی نہیں، وہ دلوں کے بھید جانتا ہے، چاہے بندہ اسے ظاہر کرے یا چھپائے، وہ آسمان و زمین کی تمام چیزوں کو جانتا ہے، زمینوں، پہاڑوں اور سمندروں کا ایک ذرہ یا اس سے بھی کوئی چھوٹی چیز اللہ سے مخفی نہیں، اور جب کوئی چیز مخفی نہیں تو اگر کوئی شخص پوشیدہ طور پر کافروں سے دوستی رکھے، یا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کرے، یا کفر کا ارتکاب کرے، تو اللہ تعالیٰ سے یہ باتیں کیسے مخفی رہ سکتی ہیں؟ آل عمران
30 26: اگر اللہ تعالیٰ دنیا میں کسی کو ڈھیل دیتا ہے تو اس سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کے اعمال مخفی ہیں، بلکہ اس کے اعمال قیامت کے دن کے لیے اٹھا کر رکھ دئیے جاتے ہیں، جس دن ہر آدمی اپنی نیکیوں کو اپنے سامنے پائے گا، اور جب اپنے گناہوں کو اپنے سامنے دیکھے گا، تو تمنا کرے گا کہ کاش اس کے درمیان اور ان گناہوں کے درمیان ایسی دوری ہوتی جس کے بعد کوئی دوری نہیں ہوستی۔ آل عمران
31 27۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ ان تمام لوگوں کے خلاف دلیل ہے جو اللہ کی محبت کا دعوی کرتے ہیں اور طریقہ محمدی پر گامزن نہیں ہوتے۔ جب تک آدمی اپنے تمام اقوال و افعال میں شرع محمدی کی اتباع نہیں کرتا، وہ اللہ سے دعوائے محبت میں کاذب ہوتا ہے، بخاری ومسلم نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس کا ہم نے حکم نہیں دیا تو وہ عمل مردود ہوگا۔ آل عمران
32 28: یہ آیت دلیل ہے کہ طریقہ محمدی کی مخالفت کفر ہے۔ اس لیے کہ اللہ نے فرمایا اگر انہوں نے اعراض سے کام لیا تو اللہ تعالیٰ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔ معلوم ہوا کہ طریقہ محمدی سے اعراض کرنے والا کافر ہوتا ہے۔ آل عمران
33 29۔ اللہ تعالیٰ نے آدم اور نوح علیہما السلام کو نبوت کے لیے چن لیا، اور آل ابراہیم اور آل عمران کو تمام عالم کے مقابلے میں چن لیا، آل ابراہیم میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدرجہ اولی داخل ہیں اس لیے کہ وہ اولاد ابراہیم سے تھے۔ علماء نے لکھا ہے کہ یہاں درحقیقت یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام کی صراحت برگزیدگی میں کمال شہرت اور امام الانبیاء ہونے کی وجہ سے ضروری نہ رہی۔ آل عمران سے مراد، مریم اور ان کے بیٹے عیسیٰ علیہما السلام ہیں۔ حافظ سیوطی نے اپنی کتاب (الاکلیل) میں لکھا ہے کہ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ انبیاء ملائکہ سے افضل ہیں اس لیے کہ العالمین میں فرشتے بھی داخل ہیں۔ اور اللہ نے انبیاء کو العالمین پر فضیلت دی ہے۔ اس کے بعد اللہ نے بتایا کہ یہ خیر و برکت ان کی ذریت میں تسلسل کے ساتھ جاری رہی، مردوں میں بھی اور عورتوں میں بھی۔ آل عمران
34 آل عمران
35 30: محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ عمران کی بیوی یعنی مریم علیہا السلام کی ماں کو حمل قرار نہیں پاتا تھا، انہوں نے دعا کہ اے اللہ مجھے بیٹا عطا کر، اللہ نے ان کی دعا قبول کرلی، جب حمل قرار پا گیا، تو انہوں نے نذر مانی کہ بچے کو عبادت اور بیت المقدس کی خدمت کے لیے بالکل فارغ کردوں گی، جب ولادت ہوگئی تو انہوں نے کہا، اے میرے رب ! یہ تو بچی ہوگئی اور میں نے تو سوچا تھا کہ بچہ ہوگا تو بیت المقدس کی خدمت کرے گا، اور اللہ کو تو معلوم ہی تھا کہ انہوں نے کیا جنا۔ اللہ نے کہا کہ وہ بچہ جس کی انہوں نے خواہش کی تھی قوت، صبر و تحمل اور مسجد اقصی کی خدمت میں اس بچی کی مانند نہ ہوتا جو پیدا ہوئی ہے۔ ام مریم نے اس بچی کا نام مریم رکھ دیگا، مفسرین نے لکھا ہے کہ مریم کا معنی ان کی زبان میں عابدہ اور رب کی خامدہ کے ہے۔ اس کے بعد ام مریم نے دعا کی کہ اے اللہ ! میں اس بچی کو اور اس کی اولاد یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کو تیری پناہ میں دیتی ہوں چنانچہ اللہ نے ان کی دعا قبول فرما لی۔ بخاری و مسلم نے ابوہر یرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو شیطان اسے مس کرتا ہے یعنی اس پر اپنا اثر ڈالتا ہے تو بچہ چیخنے لگتا ہے، لیکن مریم اور ان کے بیٹے عیسیٰ (علیہ السلام) شیطان کے مس سے محفوظ رہے، اس کے بعد ابوہریرہ (رض) نے کہا کہ اگر چاہو تو یہ آیت پڑھو وانی سمیتہا مریم وانی اعیذھا بک و ذریتہا من الشیطان الرجیم۔ فائدہ : یہ آیت دلیل ہے کہ ماں اپنے بچے کی نذر مان سکتی ہے، اور یہ کہ ماں اپنے چھوٹے بچے سے اپنی ذات کے لیے استفادہ کرسکتی ہے۔ اسی لیے ام مریم نے کہا کہ اے میرے رب ! میں اپنے حمل کو تیرے لیے وقف کرتی ہوں آیت سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ آدمی چاہئے کہ جب اللہ سے اولاد مانگے تو ام مریم کی طرح اچھی اولاد کی نیت کرے، اور اس کے لیے عمل صالح کی خواہش کرے۔ حافظ سیوطی نے (الاکلیل) میں لکھا ہے۔ یہ آیت دلیل ہے کہ بچے کا نام ولادت کے دن ہی رکھنا جائز ہے۔ ساتویں دین کی ہی تعیین صحیح نہیں۔ آیت سے یہ بھی مستفاد ہے کہ ماں اپنے بچے کا نام رکھ سکتی ہے، یہ کام باپ ہی کے ساتھ خاص نہیں آل عمران
36 آل عمران
37 31۔ ام مریم نے بیٹے کی نیت کی تھی تاکہ بیت المقدس کی خوب خدمت کرے۔ جب بچی ہوئی تو انہیں ایک طرح کی مایوسی ہوئی چنانچہ اللہ نے ان کا دل رکھا اور ان کی نذر قبول کرلی، اور پھر وہ لڑکی ایسی ہوئی کہ صلاح و تقوی اور دینی مقاصد کے حصول میں ہزاروں لڑکوں پر سبقت کرگئی، اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے کہ اللہ نے ان کی نذر قبول کرلی، اور اس لڑکی کو ایسا شرف قبولیت حاصل ہوا کہ بہت سے اولیاء اللہ سے آگے بڑھ گئی، اور پھر اللہ نے ان کفالت زکریا کے ذمہ لگا دی، جو ان کے خالو تھے۔ دوسری آیت میں اسی کی طرف اشارہ ہے، اذ یلقون اقلامہم ایہم یکفل مریم۔ جب وہ لوگ اپنے قلم (نہر میں) بطور قرعہ اندازی ڈال رہے تھے کہ مریم کی کفالت کون کرے۔ مریم علیہا السلام نے زکریا (علیہ السلام) سے علم نافع اور عمل صالح حاصل کیا، اور دینی ماحول اور فضا میں ان کی تربیت ہوتی رہی۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ جب بھی زکریا (علیہ السلام) ان کے پاس جاتے تو موسم سرما کا پھل موسم گرما میں اور گرما کا سرما میں پاتے تھے۔ آیت میں اشارہ ہے کہ مریم علیہا السلام دن رات عبادت میں لگی رہتی تھیں، اور محراب سے صرف بشری تقاضوں کے لیے ہی نکلتی تھیں۔ فائدہ : آیت میں دلیل ہے کہ اللہ کے دوستوں کے ذریعہ کرامات صادر ہوتے ہیں۔ اس کی تصدیق خبیب بن عدی انصاری (رض) کے واقعہ سے بھی ہوتی ہے، جنہیں مکہ مکرمہ میں کافروں نے شہید کردیا تھا، اور جن کے پاس قید کے زمانے میں انگور کے گچھے ملا کرتے تھے (دیکیے صحیح الباری کتاب الجہاد) لیکن اللہ کا دوست وہی ہوگا، جو پابند شریعت، قرآن وسنت کا متبع، اور بدعات و خرافات سے ہزاروں کوس دور ہوگا، اور جس کے بارے میں قرآن وسنت کے متبع علماء اور فضلاء اس بات کی گواہی دیں کہ وہ عقیدہ صحیحہ اور دین خالص کے ساتھ تمام شرائع اسلامیہ کا پابند ہے، مشرک، بدعتی، قرآن وسنت سے دور اور عمل صالح میں کوتاہ کبھی بھی اللہ کا ولی نہیں ہوسکتا، اور ایسے لوگوں سے جن خرق عادت امور کا ظہور ہوتا ہے وہ جادو اور شیطانی عمل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ مسلمانوں کو ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ آل عمران
38 32۔ جب زکریا (علیہ السلام) نے مریم علیہا السلام کے ساتھ اللہ کا یہ لطف و کرم دیکھا، تو اپنی کبر سنی اور بیوی کے سن یاس کو پہنچ جانے کے باوجود نیک لڑکے کے لیے دعا کی، جو نیکی اور طہارت و نجابت میں مریم کی مانند ہو، چنانچہ اللہ نے ان کی دعا قبول کرلی، اور فرشتوں کے ذریعہ ولد صالح کی بشارت بھیج دی آل عمران
39 33۔ زکریا (علیہ السلام) اپنے محرابِ عبادت میں نماز پڑھنے میں مشغول تھے کہ فرشتوں نے آواز دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ایک لڑکے کی خوشخبری دیتا ہے، جس کا نام یحیی ہوگا، جو عیسیٰ (علیہ السلام) کی تصدیق کرے گا، علم و عبادت میں لوگوں کا سردار ہوگا، گناہوں سے محفوط رہے گا، اور نبی صالح ہوگا۔ فائدہ : اس آیت میں حضرت یحیی (علیہ السلام) کی ولادت اور ان کے نبی ہونے کی بشارت کے ساتھ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بھی بشارت پائی جاتی ہے۔ یحیی (علیہ السلام) عیسیٰ (علیہ السلام) سے بڑے تھے اور دونوں خالہ زاد بھائی تھے۔ آل عمران
40 34۔ جب زکریا (علیہ السلام) کو یقین ہوگیا کہ اللہ انہیں بیٹا عطا کرے گا، تو ظاہری حالات کے پیش نظر تعجب کرنے لگے اور کہنے لگے کہ اے میرے رب ! مجھے لڑکا کیسے ہوگا، میں تو بوڑھا ہوچکا ہوں، اور میری بیوی بانجھ ہے؟! تو اللہ نے فرمایا کہ تم اور تمہاری بیوی جس حال میں ہو اسی حال میں لڑکا پیدا ہوگا، اس لیے کہ اللہ کسی ظاہری سبب کا محتاج نہیں، اسے کوئی چیز عاجز نہیں کرسکتی، اور ان کے نزدیک کوئی بات بھی بڑی نہیں ہے۔ آل عمران
41 35: زکریا (علیہ السلام) نے کہا کہ اے میرے رب کوئی نشانی بتا دے تاکہ جان سکوں کہ واقعی حمل قرار پا گیا ہے، اور اللہ نے انہیں ابتدا ہی میں نشانی اس لیے بتا دی کہ نعمت کا شکر ادا کرنا شروع کردیں، نشانی یہ تھی کہ وہ تین دن تک زبان سے بات نہ کرسکٰں گے، اور یہ نشانی اس لیے دی تاکہ اس مدت میں اللہ کے ذکر و شکر میں خوب مشغول رہیں۔ فائدہ : اس آیت میں ذکر الٰہی کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ ابن ابی حاتم نے محمد بن کعب کا قول نقل کیا ہے کہ اگر تک ذکر الٰہی کی کسی کو اجازت ہوتی تو زکریا کو ہوتی، اس لیے کہ وہ بات کرنے سے عاجز تھے۔ لیکن اللہ نے اس حال میں بھی انہیں اپنے ذکر کا حکم دیا۔ آل عمران
42 36۔ دوبارہ آل عمران کے فضائل کا بیان ہورہا ہے۔ فرشتوں نے مریم علیہا السلام سے کہا کہ اللہ نے ان کی کثرت عبادت اور زہد فی الدنیا کی وجہ سے اپنی محبت و قربت کا چادر ان پر ڈال دی ہے، اور انہیں برتری اور فوقیت دے دی ہے۔ صحیحین میں علی بن ابی طالب (رض) سے مروی ہے وہ کہتے ہیں۔ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہتے سنا کہ دنیا کی سب سے بہتر عورت مریم بنت عمران اور خدیجہ بنت خویلد تھیں۔ اور حاکم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے، اور اس پر حدیث صحیح کا حکم لگایا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ دنیا کی سب سے افضل عورت خدیجہ، فاطمہ، مریم اور فرعون کی بیوی آسیہ تھیں۔ علامہ البانی نے بھی اس حدیث کی تصحیح کی ہے اور صحیحین میں ابوموسی اشعری (رض) سے مروی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مردوں میں بہت سے لوگ کامل ہوئے، اور عورتوں میں صرف مریم بنت عمران اور فرعون کی بیوی آسیہ کامل بنیں اور عائشہ کی فضیلت عورتوں پر ایسی ہی ہے جیسی ثرید کی فضیلت تمام کھانوں پر۔ آل عمران
43 37: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ فرشتوں نے مریم کو کثرت عبادت، خشوع و خضوع، رکوع و سجود اور مسلسل عمل صالح کا حکم دیا، تاکہ اس امر الٰہی کے لیے ذہنی اور روحانی طور پر تیار ہوجائیں جس کا فیصلہ اللہ کرچکا تھا، اور جس میں ان کی بڑی آزمائش تھی، اور دنیا و آخرت میں ان کی رفعت شان بھی، یعنی ان کے بطن سے بغیر باپ کے عیسیٰ (علیہ السلام) کو پیدا ہونا تھا۔ آل عمران
44 38: اس قصہ میں بہت بڑی دلیل ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے نبی اور رسول تھے، اس لیے کہ جو واقعہ ہزاروں سال قبل گذر چکا تھا، اس کی خبر آپ نے لوگوں کو تفصیل کے ساتھ دی، نہ اس میں زیادتی کی اور نہ کمی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ باتیں بذریعہ وحی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتائیں اور آپ نے من و عن لوگوں کو سنا دیا۔ حضرت مریم علیہا السلام کی کفالت کے بارے میں آتا ہے کہ ان کی ماں انہیں مسجد لے گئیں اور علماء سے کہا کہ میں نے اس کی نذر مانی تھی وہ میں پوری کر رہی ہوں، اور آپ لوگوں کے حوالے کر رہی ہوں، اب آپ لوگ اس کی دیکھ بھال کریں، تو ہر آدمی ان کی کفالت کے لیے آگے بڑھنے لگا، کیونکہ وہ ان کے امام عمران کی بیٹی تھیں۔ زکریا (علیہ السلام) نے کہا کہ میں زیادہ حقدار ہوں، اس لیے کہ اس کی خالہ میری بیوی ہے۔ بالآخر سب نے قرعہ اندازی پر اتفاق کیا، اور نہر اردن میں سب نے اپنے اپنے قلم ڈالے، اس شرط کے ساتھ کہ جس کا قلم پانی کی تہہ میں جا کر پھر اوپر اٹھ آئے گا وہی مریم کی کفالت کرے گا، زکریا (علیہ السلام) کا قلم اوپر اٹھ آیا اور سب کے قلم نیچے ہی رہ گئے۔ چنانچہ زکریا انہیں اپنے گھر لے آئے اور ان کی خالہ کی گود میں ان کی پرورش ہونے گلی، یہاں تک کہ بڑی ہوگئیں اور محراب میں یکسوئی کے ساتھ اللہ کی عبادت میں لگ گئیں۔ (فوائد)۔ 1۔ اس آیت سے اس بات کی نفی ہوتی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیب کا علم رکھتے تھے۔ انہیں غیب کی وہی باتیں معلوم ہوتی تھیں جن کی خبر اللہ بذریعہ وحی انہیں دیتا تھا، جیسا کہ اس واقعے میں اس کی صراحت آئی ہے۔ 2۔ اس سے منکرین وحی کی تردید بھی ہوتی ہے، اس لیے کہ جو باتیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مریم علیہا السلام کے بارے میں لوگوں کو بتائیں وہ یا تو مشاہدہ کا نتیجہ ہوسکتی تھیں، جو محال تھا، اس لیے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان دونوں موجود نہ تھے۔ یا پھر اللہ نے انہیں بذریعہ وحی بتائی تھی، اور یہی بات صحیح تھی کہ اللہ نے آپ پر قرآن کریم نازل فرمایا جس میں اس واقعے کی تفصیلات موجود ہیں۔ آل عمران
45 39۔ یہاں سے عیسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ شروع ہورہا ہے، اور مریم علیہا السلام کو بشارت دی جا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ایک عظیم المرتبت لڑکا عطا فرمائے گا۔ فرشتوں نے کہا کہ اے مریم اللہ تمہیں ایک لڑکے کی بشارت دیتا ہے، جو اس کے ایک کلمہ کے ذریعہ بغیر باپ کے وجود میں آئے گا، جس کا لقب مسیح اور نام عیسیٰ ہوگا۔ بقاعی نے مسیح لقب سے متعلق لکھا ہے۔ اس وقت کی شریعت میں تھا کہ امام وقت جس کے بدن میں مقدس تیل لگا دیتا تھا وہ طاہر ہوجاتا تھا اور صاحب برکت بن کر حکومت، علم اور دیگر بڑی ذمہ داریاں اٹھانے کا اہل بن جاتا تھا۔ اللہ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو مسیح کا لقب دے کر اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ وہ اللہ کی جانب سے ان تمام خوبیوں کے پیدائشی مالک ہیں۔ دوسرا قول یہ ہے کہ جب وہ کسی مریض پر ہاتھ پھیر دیتے تو وہ شفا یاب ہوجاتا تھا۔ اسی لیے انہیں مسیح کہا گیا، ابن مریم میں اس طرف اشارہ ہے کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوں گے، اس لیے ان کی نسبت ان کی ماں کی طرف ہوگی، اور تمام دنیا کی عورتوں پر مریم کی فضیلت کا یہی سبب تھا۔ آل عمران
46 40۔ وہ لڑکا جب گود میں ہوگا تو بطور معجزہ بات کرے گا، اور نبی ہو کر ادھیڑ عمر میں اللہ تعالیٰ سے جو کچھ بذریعہ تعلیمات ملیں گی انہیں لوگوں تک پہنچائے گا، چونکہ انبیاء کا کلام دونوں حالتوں میں ایک ہی جیسا ہوتا ہے، اس لیے اس میں مریم علیہا السلام کو یہ بشارت بھی دے دی گئی کہ ان کا لڑکا چالیس پچاس سال کی عمر تک زندہ رہے گا۔ آل عمران
47 41: جب مریم علیہا السلام کو بذریعہ ملائکہ یہ بشارت مل گئی، تو اپنی مناجات میں کہا کہ اے میرے رب ! مجھے لڑکا کیسے ہوسکتا ہے؟ میرا نہ تو کوئی شوہر ہے اور نہ میرا ارادہ شادری کرنے کا ہے، اور نہ ہی میں بدکار عورت ہوں؟ تور فرشتوں نے اللہ کی طرف سے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اللہ کا ایسا ہی فیصلہ ہے کہ بغیر کسی مرد کے ملاپ سے وہ تمہیں بیٹا عطا کرے گا، اللہ تعالیٰ کسی سبب کا محتاج نہیں اور کوئی شے اسے عاجز نہیں کرسکتی۔ آل عمران
48 42۔ یہ بشارت کی تکمیل ہے کہ اللہ تعالیٰ عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمانی کتابوں کا اور خاص طور پر تورات و انجیل کا علم دے گا، اور دین کی سمجھ عطا کرے گا، اور انہیں بنی اسرائیل کے لیے نبی بنائے گا، اس وقت وہ ان سے کہیں گے کہ میں تمہارے رب کی طرف سے ایک نشانی لے کر آیا ہوں۔ اس کے بعد اس نشانی کی تفصیل بیان کی۔ کلمہ باذن اللہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ اگر اللہ کا حکم نہ ہوتا تو عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ پر ان معجزات کا ظہور نہ ہوتا۔ اس سے عیسیٰ علیہ السلا کے بارے میں اعتقادِ الوہیت کی بھی نفی ہوجاتی ہے، اور یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ وہ اللہ کے بندے تھے، اللہ نے اپنی قدرت مطلقہ سے ان کے ہاتھ پر ان معجزات کا اجرا کیا، تاکہ لوگ ان کے ثبوت پر ایمان لے آئیں۔ فائدہ : چونکہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا زمانہ، طبیبوں اور علم طبیعیات کے ماہرین کا زمانہ تھا، اس لیے اللہ نے انہیں ایسے معجزات دئیے جن کا تعلق طب اور علم طبیعیات سے تھا، لیکن اس دور کا انسان اپنی تمام تر صلاحیتوں کے باوجود ان کی مثال و نظیر لانے سے عاجز رہا، اور ثابت ہوگیا کہ ان کے ہاتھوں جو معجزانہ امور ظاہر ہوئے وہ اللہ کی طرف سے ان کی رسالت و نبوت کے اثبات کے لیے معجزات تھے، کسی انسانی علوم کا نتیجہ نہ تھے۔ آل عمران
49 آل عمران
50 43۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں، یہ آیت دلیل ہے کہ اللہ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعہ تورات کے بعض احکام کو منسوخ کردیا تھا۔ بعض دوسرے حضرات نے کہا ہے کہ ان کے ذریعہ تورات کا کوئی حکم منسوخ نہیں ہوا، بلکہ انہوں نے بعض ایسی چیزوں کی حلت بیان کی جن کے بارے میں علمائے یہود آپس میں اختلاف کرتے تھے، اور اپنی طرف سے انہیں حرام بنا رکھا تھا۔ آل عمران
51 44۔ تمام انبیاء کرام کی دعوت بنیاد توحید باری تعالیٰ رہی ہے، عیسیٰ (علیہ السلام) نے بھی بنی اسرائیل کے سامنے یہی دعوت پیش کی، اور کہا کہ میرا اور تمہارا رب اللہ ہے، اس لیے صرف اسی کی عبادت کرو۔ کچھ لوگوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کو قبول کیا اور ان کے پیرو کار بن گئے، اور کچھ نے ان کا انکار کردیا اور ان کی تکذیب کی، اور یہودیوں نے ان کی ماں مریم علیہا السلام کو زنا کے ساتھ متہم کیا۔ جب عیسیٰ (علیہ السلام) کو ان کے کفر کا یقین ہوگیا، اور یہ بات واضح ہوگئی کہ لوگوں نے ان کی دعوت کو ٹھکرا دیا ہے، تو انہوں نے بنی اسرائیل کو اپنی مدد کے لیے پکارا اور کہا کہ تم میں سے کون اللہ اور اس کے دین کی خاطر میری مدد کرنے کے لیے تیار ہے؟ تو حواریوں نے کہا کہ ہم اللہ کے دین اور اس کے رسول کے مددگار ہیں۔ پھر کہا کہ ہم اللہ پر ایمان لے آئے، اور اے نبی ! آپ گواہ رہئے کہ ہم لوگ مسلمان ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ ہر نبی کا ایک حواری (مخلص اور خاص مددگار) ہوتا ہے، اور زبیر میرے حواری ہیں (متفق علیہ) عیسیٰ (علیہ السلام) کا تمام تر توکل تو اللہ پر تھا، لیکن ظاہری اسباب کے طور پر انہوں نے اپنے پیروکاروں سے مدد مانگی، جن کی تعداد بارہ بتائی جاتی ہے، جیسا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار قریش کے ظلم وجور سے تنگ آ کر ابو طالب وغیرہ سے مددطلب کی، اور مدینہ منورہ آنے کے بعد صحابہ کرام سے ہر مشکل وقت میں مدد طلب کی، اور انہوں نے اپنی جان و مال سے آپ کی مدد کی۔ آل عمران
52 آل عمران
53 45۔ حواری حضرات عیسیٰ (علیہ السلام) سے مخاطب ہونے کے بعد اللہ کی طرف متوجہ ہوئے، اور کہا کہ اے ہمارے رب ! تو گواہ رہ کہ ہم تیری نازل کردہ شریعت پر ایمان لے آئے، اور تیرے رسول کے پیرو کار بن گئے، اس لیے تو ہمیں ان لوگوں میں لکھ دے جو تیری وحدانیت کی گواہی دیتے ہیں۔ آل عمران
54 46۔ کفار بنی اسرائیل نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کروانے کی سازش کی، اور اس وقت کے کافر بادشاہ سے شکایت کی کہ ایک آدمی ہے جو لوگوں کو گمراہ کرتا ہے، اور انہیں بادشاہ کی اطاعت سے روکتا ہے، عوام میں اختلاف پیدا کرتا ہے، باپ کو بیٹے سے جدا کردیتا ہے، اور وہ (العیاذ باللہ) اپنی ماں کا ناجزئ لڑکا ہے، بادشاہ یہ سب سن کر سیخ پا ہوگیا اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو پکڑ کر سولی پر چڑھا دینے کا حکم دے د یا، جب لوگوں نے ان کے گھر کا گھراوا کرلیا اور اس گمان میں مبتلا ہوگئے کہ انہوں نے ان کو پالیا، تو اللہ نے انہیں اس گھر کے ایک روشن دان کے راستے آسمان پر اٹھا لیا، اور سازشوں کے سرغنہ کو ان کا شبیہ بنا دیا، جسے لوگوں نے پکڑ لیا، اس کی خوب اہانت کی اور پھر سولی پر چڑھا دیا، اس طرح اللہ تعالیٰ نے انہیں قیامت تک کے لیے کفر و ضلالت کی ظلمتوں میں بھٹکتا چھوڑ دیا، ان کے دل سخت ہوگئے، اور اللہ کی طرف سے قیامت تک کے لیے ان پر ذلت و مسکنت کی چادر پڑگئی، انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف سازش کی، لیکن اللہ کی تدبیر کے سامنے ان کی ایک نہ چلی، اللہ سے بڑ کر کون تدبیر کرنے والا ہوسکتا ہے؟ آل عمران
55 47۔ جب بنی اسرائیل کے کافروں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کی سازش مکمل کرلی، اور اس کی تمام کڑیاں ایک دوسرے سے ملا لیں، تو اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اے عیسی، میں تمہیں پورے طور پر لے لینے والا ہوں اور اپنے پاس اٹھا کر لانے والو ہوں، اور آسمان پر بلا کر کافروں کی خباثت آلود فضا سے تمہیں دور کرنے والا ہوں، اور تمہاری اتباع کرنے والوں کو کافروں پر قیامت کے دن تک فوقیت دینے والا ہوں۔ کلمہ متوفیک کی تفسیر میں علماء کے کئی اقوال ہیں۔ قتادہ وغیرہ کا قول ہے کہ آیت میں تقدیم و تاخیر ہے۔ اس اعتبار سے معنی یہ ہوگا کہ میں تمہیں ابھی زندہوں اٹھالوں گا، پھر قبل از قیامت دنیا میں بلا کر طبیعی موت دوں گا۔ ایک دوسرا قول یہ ہے کہ میں تمہیں دنیا سے بغیر موت پورے طور پر لے لینے والا ہوں، ابن جریج کہتے ہیں کہ توفی اور رفع دونون یہاں پر مترادف ہیں، یعنی میں تمہیں پورے طور پر اٹھا لینے والا ہوں اکثر و بیشتر مفسرین نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔ اس لیے کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت کے قریب آسمان سے دنیا میں دوبارہ آئیں گے، دجال اور خنزیر کو قتل کریں گے اور صلیب کو توڑیں گے، اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کریں گے اور یہ جو فرمایا ہے کہ میں تمہارے پیروکاروں کو کافروں پر قیامت تک کے لیے فوقیت دینے والا ہوں تو اس سے مراد مومنین بنی اسرائیل کی وہ جمات ہے جو ان پر ایمان لائی تھی، اور کافروں کے مقابلے میں ان کی مدد کا اعلان کیا تھا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے دنیا میں آجانے کے بعد یہی لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کے صحیح پیرو کار ہوئے، اس لیے اللہ نے کفار کے مقابلے میں ان کی مدد کی، اور ان کے دین کو تمام ادیان پر غالب کیا، اور بفضل باری تعالیٰ قیامت تک اسلام اور مسلمان اسی حال میں رہیں گے۔ ایک دوسری قول یہ ہے کہ نصاری جو عیسیٰ (علیہ السلام) کے ماننے والے ہیں یہودیوں پر ہمیشہ غالب رہیں گے۔ اس قول کے مطابق آیت میں کافروں سے مراد یہود ہیں ایک اور قول ہے کہ اہل روم اپنے مخالف کافروں پر ہمیشہ غالب رہیں گے۔ ایک چوتھا قول ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواری لوگ کافروں پر غالب رہیں گے۔ اگر ان اقوال کو صحیح بھی مان لیا جائے تو اس سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ مسلمان عیسائیوں پر غالب نہیں آئیں گے۔ قرآن کریم کی بہت سی آیات سے یہ بات ثابت ہے کہ امت مسلمہ کو اللہ تعالیٰ دیگر تمام اہل ادیان پر غلبہ دے گا، بخاری و مسلم کی روایت ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت کے قریب آسمان سے اتریں گے، صلیب کو توڑیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ قبول نہیں کریں گے، ان کے نزدیک یا تو اسلام ہوگا یا نہیں تو قتل، وہ شریعت اسلامیہ کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں گے، اور مسلمان ہی ان کے مددگار اور پیروکار ہوں گے، اور بہت ممکن ہے کہ اس آیت کریمہ میں اسی کی طرف اشارہ ہو۔ آیت کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان کے اوپر ہے۔ قرآن کریم کی دیگر کئی آیتوں سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے اور یہی مذہب سلف ہے۔ حافظ ذہبی نے اپنی کتاب العلو للعلی الغفار اور ابن رشد نے اپنی کتاب مناھج الادلۃ میں اسی مذہب سلف کو ترجیح دیا ہے، اور متاخرین اشاعرہ اور معتزلہ وغیرہ کی تردید کی ہے۔ آل عمران
56 48۔ گذشتہ آیت کے آخر میں اللہ نے فرمایا تھا کہ تمام انسانوں کو اللہ کے پاس لوٹ کر جانا ہے، اور اللہ ان کے درمیان فیصلہ کرے گا ان آیتوں میں اسی فیصلے کی تفصیل بیان کی گئی ہے آل عمران
57 آل عمران
58 آل عمران
59 49۔ نصاری کا یہ عقیدہ ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے تھے، اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ اللہ نے انہیں بغیر باپ کے پیدا کیا تھا، اللہ نے ان کے دعوے کی تردید کی کہ اگر تمہاری یہ بات صحیح ہوتی تو پھر آدم کو بدرجہ اولی اللہ کا بیٹا ہونا چاہئے تاھ، اس لیے کہ اللہ نے انہیں بغیر ماں اور باپ کے پیدا کیا، بلکہ مٹی سے پیدا کیا۔ اللہ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو بغیر باپ کے، آدم (علیہ السلام) کو بغیر ماں اور باپ کے، اور حوا کو صرف مرد سے پیدا کر کے اپنی قدرت مطلقہ کا اظہار کیا ہے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں صحیح عقیدہ یہی ہے۔ نہ مریم نے معبود کو جنا، جیسا کہ نصاری کہتے ہیں، اور نہ انہوں نے یوسف النجار کے ساتھ بدکاری کی، جیسا کہ یہود ان پر بہتان باندھتے ہیں آل عمران
60 آل عمران
61 50۔ اسے آیت مباہلہ کہتے ہیں۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد نجران کے نصاری کا ایک وفد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا، اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں آپ سے مناظرہ کیا۔ وہ عیسیٰ کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے تھے، اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دلائل کے ذریعہ ثابت کیا کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے۔ جب باطل پر ان کا اصرار حد سے آگے بڑھ گیا، تو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے ساتھ مباہلہ کا حکم دیا۔ امام بخاری نے حذیفہ (رض) سے روایت کی ہے کہ نجران کے نصرانیوں کے دو سردار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مباہلہ کے لیے آئے۔ حالات کا جائزہ لینے کے بعد ایک نے اپنے ساتھی سے کہا کہ ایسا نہ کرو، اللہ کی قسم، اگر یہ نبی ہے اور ہم نے مباہلہ کیا تو ہم اور ہمارے بعد ہماری نسل کبھی بھی فلاح نہ پائے گی۔ چنانچہ وہ لوگ رسول اللہ کو جزیہ دینے پر راضی ہوگئے۔ امام احمد نے ابن عباس (رض) کا قول نقل کیا ہے کہ اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مباہلہ کی نیت کرنے والے ایسا کر گذرتے تو لٹنے کے بعد نہ انہیں اپنا مال ملتا اور نہ اہل وعیال ابن عباس (رض) کا یہ قول ترمذی اور نسائی میں بھی موجود ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ دونوں سردارانِ نجران کے ساتھ کیے گئے وعدہ کے مطابق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کے وقت علی، فاطمہ اور حسن و حسین کے ساتھ باہر نکلے اور ان دونوں کو بلا بھیجا، تو انہوں نے انکار کردیا اور جزیہ دینے پر تیار ہوگئے۔ آل عمران
62 آل عمران
63 آل عمران
64 51۔ اس آیت میں مخاطب یہود و نصاری اور عام لوگ ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ لوگوں کو تین باتوں کی طرف بلائیں۔ اول یہ کہ وہ صرف اللہ کی عبادت کریں۔ دوم یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائی اور سوم یہ کہ اللہ کی شریعت کو چھوڑ کرانسانوں کے بنائے ہوئے قانون اور ان کی تحلیل و تحریم کے احکام کو نہ مانیں۔ بخاری، مسلم اور نسائی نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ مجھ سے ابوسفیان نے بیان کیا کہ ہر قل نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خط منگایا اور اسے پڑھا، تو اس میں یہ تھا، بسم اللہ الرحمن الرحیم، محمد رسول اللہ کی طرف سے ہر قل ” عظیم روم“ کے نام، سلام ہو اس پر جو راہ حق کی اتباع کرے، امابعد ! میں تمہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتا ہوں، اسلام قبول کرلو، سلامتی پالو گے، اللہ تمہیں دوگنا اجر دے گا، اور اگر روگردانی کی تو اریسیوں کا گناہ تمہارے سر ہوگا، خط میں اس کے بعد یہی آیت یا اہل الکتاب سے لے کر بان امسلمون تک تھی، تو گویا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شاہ روم کو بھی دعوت اسلام کے بعد آیت کریمہ میں مذکورہ تینوں باتوں کی طرف بلایا تھا۔ وَّلَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ، میں مسیح و عزیر کی الوہیت کا انکار ہے، اور اشارہ ہے کہ یہ لوگ ہماری اور تمہاری طرح انسان تھے معبود کیسے بن گئے؟ اور اس میں ان لوگوں کی بھی تردید ہے جنہوں نے اللہ کا دین حاصل کرنے میں لوگوں کی اندھی تقلید کی، اور ان کی حلال کردہ چیزوں کو حلال اور ان کی حرام کردہ چیزوں کو حرام جانا، اور اس طرح انہیں اپنا معبود بنا لیا، امام ترمذی نے عدی بن حاتم (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کریم کی آیت اتخذوا احبارہم ورہبانہم اربابا من دون اللہ پڑھی۔ اور کہا کہ وہ لوگ ان علماء کی عبادت نہیں کرتے، لیکن وہ علماء جب ان کے لیے کوئی چیز حلال کردیتے تو اسے حلال سمجھتے، اور جب کسی چیز کو حرام کردیتے تو اسے حرام سمجھتے، اللہ نے ان کے اس فعل کو انہیں معبود بنا لینے کے مترادف قرار دیا۔ مفسر ال کیا الہراسی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اس میں ان لوگوں کی تردید ہے جو بغیر کسی دلیل شرعی کے استحسان کے قائل ہیں اور ان لوگوں کی بھی تردید ہے جو یہ کہتے ہیں کہ تحلیل و تحریم میں بغیر دلیل شرعی بیان کیے امام کا قول قبول کرنا واجب ہے آل عمران
65 آل عمران
66 آل عمران
67 52۔ یہود و نصاری، مشرکین اور مسلمان سبھی یہ دعوی کرتے تھے کہ وہ لوگ ملت ابراہیم پر قائم ہیں۔ محمد بن اسحاق، ابن جریر، اور بیہقی نے ” کتاب الدلائل“ میں ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ نجران کے نصاری اور علمائے یہود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اکٹھا ہوگئے، اور جھگڑنے لگے، علمائے یہود نے کہا کہ ابراہیم یہودی تھے، اور نصاری نے کہا کہ وہ تو نصرانی تھے، تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی اور ان کی تکذیب کی کہ تورات ابراہیم کے تقریباً ایک ہزار سال بعد نازل ہوئی اور انجیل تقریباً دو ہزار سال کے بعد، تو ابراہیم یہودی یا نصرانی کیسے ہوگئے؟ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ ابراہیم خلیل اللہ کی طرف نسبت کے زیادہ حقدار یا تو وہ لوگ تھے جنہوں نے ان کے دین میں ان کی اتباع کی، یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے مہاجرین و انصار صحابہ کرام اور دیگر مسلمان۔ آل عمران
68 آل عمران
69 53۔ یہاں اہل کتاب سے مراد بنو نضیر، بنو قریظہ اور بنو قینقاع کے یہود ہیں جنہوں نے بعض مسلمانوں کو یہودیت کی دعوت دی تھی آل عمران
70 آل عمران
71 54۔ یہود و نصاری کی کتابوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات اور ان کی نبوت کی بشارت موجود تھی، لیکن ان حقائق کو وہ لوگوں سے چھپاتے تھے۔ اس آیت میں دلیل ہے کہ حق کو چھپانا، اور اس سلسلہ میں تلبیس سے کام لینا اللہ کے نزدیک بہت ہی بری بات ہے آل عمران
72 55۔ یہاں اہل کتاب کی ایک نئی سازش کا ذکر ہے۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ کچھ سیدھے سادے مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کی صداقت کے بارے میں شبہ پیدا کرسکیں۔ انہوں نے آپس میں طے کرلیا کہ ان کے کچھ افراد صبح کے وقت ایمان لانے کا اعلان کریں، اور لوگوں کے ساتھ نماز پڑھیں، اور جب شام ہو تو اپنے دین کی طرف لوٹ جائیں، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کچھ کمزور مسلمان یہ سمجھیں گے کہ یہ لوگ اہل علم اور اہل کتاب ہیں، ان کی نیت حق پانے کی تھی اور اب جبکہ انہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد اسے چھوڑ دیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے نزدیک یہ بات ثابت ہوگئی کہ اسلام سچا دین نہیں ہے۔ اللہ نے بذریعہ وحی ان کی سازش کا پردہ فاش کیا، ان کی سازش ناکام رہی، اور مسلمانوں پر اس کا کوئی برا اثر نہ پڑا۔ آل عمران
73 56۔ اہل کتاب کے کلام کا تتمہ ہے۔ وہ یہودیوں سے کہا کرتے تھے کہ مسلمانوں پر بھروسہ نہ کرو، اپنا راز اور اپنے دل کی باتیں انہیں ہرگز نہ بتاؤ۔ یہودیوں کی اس سازش کو بیان کرنے کے بعد اللہ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ آپ ان سے کہہ دیجئے کہ ہدایت کا سرچشمہ اسلام ہے، اس کے علاوہ سب کچھ گمراہی ہے، تم لوگوں کی سازش اور تمہارا یہ حسد اس لیے ہے کہ تم یہ گوارہ نہیں کرسکتے کہ تمہاری طرح دوسروں کو بھی شریعت الٰہیہ، علم اور اللہ کی کتاب دی جائے، یا تمہارا رویہ اس لیے یہ ہے کہ یہ مسلمان قیامت کے دن تمہارے خلاف گواہی نہ دیں کہ وہ ایمان لے آئے اور تم لوگوں نے حق واضح ہوجانے کے باوجود کفر کی راہ اختیار کی۔ اے رسول ! آپ یہ بھی کہہ دیجئے کہ قرآن کریم اور دوسری نعمتیں سب اللہ کے اختیار میں ہیں، اللہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے آل عمران
74 آل عمران
75 57۔ گذشتہ آیتوں میں یہودیوں کی دینی خیانت کا ذکر تھا، اب ان کی مالی خیانت کا ذکر ہورہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ ان میں سے بعض ایسے ہوتے ہیں جن پر مال کثیر کے سلسلہ میں بھروسہ کیا جاسکتا ہے، اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ جن پر ایک دینار کے لیے بھی بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ عدی بن حاتم کا قول ہے کہ آیت میں امانت دار اہل کتاب سے مراد نصاری اور خیانت کرنے والوں سے مراد یہود ہیں، یہ خائن یہود لوگوں کو باور کراتے تھے کہ امیین یعنی عربوں کا مال کسی طرح بھی لینا جائز ہے، کیونکہ یہ لوگ مشرک ہیں، حالانکہ یہ سراسر جھوٹ اور اللہ پر بہتان تھا۔ اللہ نے کبھی بھی کسی کا مال دوسرے کے لیے غیر شرعی طور پر لینا جائز نہیں قرار دیا، اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس نے کوئی مال حاصل کرنے کے لیے جھوٹی قسم کھائی، وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ اس پر ناراض ہوگا (، مسند احمد) آل عمران
76 آل عمران
77 58۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں خبر دی ہے جو دنیاوی حقیر فائدوں کے حصول کے لیے جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں اور اللہ سے کیے ہوئے عہد و پیمان کا پاس و لحاط نہیں رکھتے، کہ انہیں آخرت میں کوئی بھلائی نصیب نہیں ہوگی، نہ اللہ تعالیٰ ان سے بات کرے گا اور نہ ان کی طرف دیکھے گا، یعنی ان سے شدید ناراض ہوگا، اور نہ گناہوں سے انہیں پاک کرے گا، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ امام بخاری نے عبداللہ بن ابی اوفی (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی بازار میں ایک سامان لے آیا، اور قسم کھائی کہ اس نے اتنی قیمت میں خریدا ہے، اس کا مقصد ایک مسلمان کو پھنسانا تھا تاکہ وہ سامان خرید لے، تو یہ آیت اتری۔ اشعث بن قیس کندی کا قول ہے کہ یہ آیت میرے متعلق نازل ہوئی تھی، میرے اور ایک یہودی کے درمیان ایک زمین تھی۔ یہودی نے انکار کردیا تو میں نے اسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش کردیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس کوئی دلیل ہے؟ میں نے کہا، نہیں، تو آپ نے یہودی سے کہا کہ تم قسم کھاؤ، تو میں نے کہا، اے اللہ کے رسول ! تب تو یہ قسم کھا لے گا، اور میرا مال ہڑپ جائے گا، تو یہ آیت نازل ہوئی (مسند احمد) آل عمران
78 59۔ یہ آیت بھی یہود سے متعلق ہے، ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہود ہیں جو تورات میں اپنی طرف سے اضافہ کرتے تھے۔ مجاہد کا قول ہے کہ وہ لوگ تورات میں تحریف کرتے تھے، اور لوگوں سے جھوٹ کہا کرتے تھے کہ تورات میں ایس اہی ہے، حالانکہ وہ جانتے تھے کہ یہ جھوٹ اور اللہ تعالیٰ پر افترا پردازی ہے۔ امام بخاری نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ یہود تورات میں یہ تحریف کرتے تھے کہ معنی بدل کر بیان کرتے تھے۔ کوئی شخص اللہ کی کسی کتاب کا کوئی لفظ نہیں بدل سکتا، بلکہ وہ لوگ تحریف معنوی کیا کرتے تھے آل عمران
79 60۔ اس آیت کریمہ میں نصاری کی بالعموم اور نجران کے نصرانیوں کی بالخصوص تردید ہے، جو عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں افترا پردازی کرتے تھے اور کہتے تھے کہ انہوں نے ہی اپنے پیروکاروں کو اپنی عبادت کا حکم دیا تھا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس انسان کو اللہ تعالیٰ نے وحی، آسمانی کتاب اور نبوت جیسی نعمتوں سے نوازا ہو، اور علم شریعت کا فہم بھی عطا کیا ہو، اس کے لیے عقلی طور پر ممنوع اور مستحیل ہے کہ وہ لوگوں کو اپنی عبادت، یا انبیاء یا فرشتوں کی عبادت کی طرف بلائے، اس لیے کہ یہ کفر صریح ہے، وہ تو اللہ کی طرف سے دین خالص لے کر اس لیے مبعوث ہوا تھا کہ لوگوں کو فر کی راہ سے روکے۔ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کا تزکیہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ تو لوگوں سے یہ کہتے تھے کہ تم لوگ علم دین سے بہرہ ور اور اللہ والے بن جاؤ۔ آیت کریمہ میں ” بشر“ کا لفظ اشارہ کرتا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) ایک انسان تھے، جنہیں اللہ نے رتبہ نبوت سے نوازا تھا، وہ معبود کیسے ہوسکتے تھے؟ ابن اسحاق، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے اور بیہقی نے دلائل النبوۃ میں ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ علمائے یہود اور نجران کے نصاری رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جمع ہوئے، اور آپ نے انہیں اسلام کی دعوت دی، تو ابو رافع قرظی نے کہا : اے محمد ! کیا تم چاہتے ہو کہ ہم تمہاری عبادت کریں، جس طرح نصاری عیسیٰ کی عبادت کرتے ہیں؟ تو ایک نصرانی نے بھی کہا کہ اے محمد ! کیا تم واقعی ہم سے یہی چاہتے ہو؟ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا کہ غیر اللہ کی عبادت کرنے یا اس کا حکم دینے سے ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ اللہ نے مجھے اس لیے نہیں بھیجا ہے، اور نہ ہی اس کا حکم دیا ہے۔ تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ آیت کریمہ اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ حصول علم اور تعلیم کا تقاضا یہ ہے کہ انسان ربانی بن جائے۔ اگر حصول علم سے کسی کی نیت تعلق باللہ نہیں تو اس نے عمر ضائع کی اور نقصان و خسارہ اس کا نصیب ہوا۔ اسی لیے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہم اللہ کے ذریعہ پناہ مانگتے ہیں ایسے علم سے جو نفع نہ پہنچائے اور ایسے دل سے جو اللہ کے لیے نہ جھکے (مسلم) آیت سے یہ بھی مستفاد ہے کہ جو علماء و مشائخ قرآن و سنت سے ہٹ کر اپنی مرضی سے اپنے پیروکاروں کے لیے حلال و حرام کرنے کی دکان سجاتے ہیں، وہ اپنی عبادت کرواتے ہیں، مسند احمد اور ترمذی میں ہے کہ عدی بن حاتم (رض) نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! نصرانیوں نے اپنے علماء کی عبادت تو نہیں کی؟ تو آپ نے فرمایا کہ ہاں، ان علماء نے اپنی مرضی سے ان کے لیے حرام کو حلال اور حلال کو حرام بنا دیا، تو انہوں نے ان کی اتباع کی، یہی ان کی عبادت تھی۔ آل عمران
80 آل عمران
81 61۔ اس آیت میں بھی نجران کے نصاری کی تردید ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) سے لے کر عیسیٰ (علیہ السلام) تک ہر نبی سے یہ عہد و پیمان لیا کہ جب بھی کو نیا رسول آئے گا جو گذشتہ انبیاء کی تصدیق کر رہا ہوگا، تو گذشتہ نبی اور اس کے پیروکاروں پر لازم ہوگا کہ اس پر ایمان لے آئیں، اور اسکی مدد کریں۔ چنانچہ تمام انبیاء نے اس کا اقرار کیا، اور اس اقرار کے گواہ بنے، اور اللہ نے بھی شہادت دی، اس عمومی اقرار و عہدنامے کا تقاضا یہ تھا کہ جب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیا میں تشریف لائیں گے تو وہ تمام لوگ جو موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کے پیروکار ہوں گے، ان پر ایمان لے آئیں گے، اس لیے اب اگر کوئی شخص محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع نہیں کرتا تو وہ فاسق، اللہ کا نافرمان اور اس نبی کو جھٹلانے والا ہوگا جس کی محبت کا دم بھر رہا ہے اور جس پر ایمان لانے کا دعوی کر رہا ہے، اور اگر نجران کے نصاری بھی عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان کا دعوی کرتے ہیں، اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لاتے، تو وہ اپنے دعوی میں کاذب ہیں۔ علی بن ابی طالب اور ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ اللہ نے جب بھی کسی نبی کو مبعوث کیا، تو اس سے یہ عہد لیا کہ اگر اللہ نے اس کی زندگی میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث کیا تو وہ محمد پر ایمان لائے گا اور اس کی مدد کرے گا، ہر نبی کو یہ بھی حکم دیا کہ وہ اپنی امت سے اس بات کا عہد لے گا کہ اگر محمد مبعوث ہوئے اور وہ لوگ زندہ رہے، تو ان پر ایمان لائیں گے اور ان کی مدد کریں گے۔ حضرت علی (رض) کے اسی اثر کے پیش نظر بعض علماء نے کہا ہے کہ آیت کریمہ میں مذکور عہد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خاص ہے، جیسا کہ قاضی عیاض نے اپنی کتاب الشفاء میں بیان کیا ہے۔ آل عمران
82 آل عمران
83 62۔ جب یہ ثابت ہوگیا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا تمام انبیاء اور ان کی امتوں پر لازم ہے تو یہ بھی ثابت ہوگیا کہ جو شخص دین محمدی سے اعراض کرے گا، گویا وہ اللہ کے دین کے علاوہ کسی دوسرے دین کا طالب ہوگا، اسی حقیقت کو اللہ نے اس آیت میں بیان کیا ہے کہ کیا وہ لوگ اللہ کے دین کے علاوہ کوئی دوسرا دین چاہتے ہیں، حالانکہ آسمان و زمین کی ساری کائنات (برضا یا بغیر رضا) اسی کے سامنے جھک رہی ہے۔ مومن دل و جان سے، اور کافر اللہ کے قہرو جبروت کے نیچے آ کر، کائنات کا ایک ذرہ بھی اس کی مخالفت نہیں کرسکتا۔ آل عمران
84 اس آیت میں بھی سیاق کلام اہل کتاب سے متعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ آپ اہل کتاب سے کہہ دیجئے کہ تم دین اسلام اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان نہیں لاتے (حالانکہ موسیٰ و عیسیٰ پر ایمان لانے کا تقاضا یہی تھا جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا) لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ہم تو اللہ پر، قرآن کریم پر، اور ان تمام آسمانی صحائف پر ایمان لاتے ہیں جو اللہ نے ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب، ان کی اولاد، موسی، عیسیٰ اور دیگر انبیاء پر نازل کیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بطور تاکید فرما دیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد اسلام کے علاوہ کوئی دین اللہ کے نزدیک قابل قبول نہیں صحیح بخاری میں ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس نے کوئی ایسا کام کیا جو ہمارے دین میں ثابت نہیں، اسے رد کردیا جائے گا، یعنی اب دین اسلام کے علاوہ کوئی دین، کوئی مذہب، یا کوئی عقیدہ اللہ کے نزدیک قابل قبول نہیں آل عمران
85 آل عمران
86 اب بھی سیاق کلام اہل کتاب ہی سے متعلق ہے، اگرچہ بعض مرتد ہونے والوں کا بھی ذکر آیا ہے۔ یہود عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا انکار کرتے تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے آپ کا آنا برحق سمجھتے تھے، اور آپ کے واسطے سے مشرکین کے خلاف اللہ سے فتح کی دعا کرتے تھے، لیکن آپ کی بعثت کے بعد آپ کا انکار کردیا، اور ان پر ایمان نہیں لائے۔ اس کے علاوہ مدینہ منورہ میں ایک آدمی تھا جو پہلے مسلمان ہوچکا تھا، وہ مرتد ہو کر مشرکوں کے ساتھ جا ملا، پھر نادم ہوا اور اپنی قوم کے لوگوں کو خبر کی کہ وہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھیں کہ کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ تو یہ آیات نازل ہوئی کیف یہدی اللہ الایہ، (نسائی، حاکم، ابن حبان، حاکم نے اسے صحیح الاسناد کہا ہے) اس آیت کریمہ میں انہی یہودیوں اور مرتد ہونے والوں کا انجام بتایا گیا ہے کہ اللہ ایسے لوگوں کو کبھی بھی ہدایت نہیں دے گا، اور یہ کہ ان پر اللہ کی، فرشتوں کی، اور تمام بنی نوع انسان کی لعنت برستی رہے گی، اور ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا جس میں ہمیشہ کے لیے رہیں گے، البتہ اس وعید سے وہ لوگ مستثنی رہیں گے جو اپنے کفر اور گناہوں سے تائب ہوں گے اور اپنی حالت کی اصلاح کرلیں گے۔ روایات میں آیا ہے کہ وہ آدمی جو مرتد ہوگیا تھا جب اسے یہ آیت پہنچی، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر اپنی توبہ کا اعلان کیا اور دوبارہ اسلام میں داخل ہوگیا۔ تمام علماء کا اس پر اجماع ہے کہ کافر اور گناہ گار کی توبہ قبول کی جائے گی۔ البتہ مرتد کے بارے میں بعض لوگوں نے اختلاف کیا ہے، لیکن راجح یہی ہے کہ اس آیت اور سورۃ نساء کی آیت 137 ان الذین امنوا ثم کفروا ثم امنو، کے پیش نظر اس کی توبہ قبول کی جائے گی۔ قرآن کریم میں اور بھی آیتیں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مرتد کی توبہ قبول کی جائے گی، لیکن عمل صالح کے ذریعہ اپنی نیت کی صداقت کی دلیل پیش کرنی ہوگی۔ آل عمران
87 آل عمران
88 آل عمران
89 آل عمران
90 65۔ یہاں بھی سیاق کلام اہل کتاب سے ہی متعلق ہے۔ قتادہ، عطاء خراسانی اور حسن کا قول ہے کہ یہ آیت یہود و نصاری کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جنہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی کتابوں کے ذریعہ جاننے اور پہچاننے کے باوجود ان کا انکار کردیا۔ انہی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جن یہود و نصاری نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار رکدیا تھا اور اسی حال پر باقی رہے، یہاں تک کہ موت نے انہیں آلیا، تو ان کی توبہ قبول نہیں کی جائے، اور درحقیقت وہی لوگ گمراہ ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو کئی بار مرتد ہوئے، کہ اللہ ایسے لوگوں کی توبہ قبول نہیں کرے گا، اس لیے کہ کفر ان کے دلوں میں راسخ ہوچکا ہے۔ امام احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ نساء 137 میں فرمایا ہے۔ ان الذین امنو ثم کفروا ثم امنوا ثم کفروا ثم ازدادو کفرا لم یکن اللہ لیغفر لہم ولا لیہدیہم سبیلا۔ کہ جو لوگ ایمان لائے، پھر کفر کیا، پھر ایمان لائے، پھر کفر کیا، پھر کفر میں بڑھتے رہے رہے، تو اللہ تعالیٰ انہیں کبھی بھی معاف نہیں کرتے اور نہ انہیں راہ راست پر لائے گا۔ آل عمران
91 جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی اور حالت کفر میں ہی مر گئے تو اللہ تو اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن ان کا انجام بتایا ہے، کہ اس دن کسی کے پاس کوئی مال نہ ہوگا، لیکن اگر فرض کرلیا جائے کہ کسی کے پاس مال و دولت ہو، تو چاہے وہ پوری زمین بھر کے بھی سونا دے کر اپنی جان جہنم کی آگ سے چھڑانا چاہے گا تو بچ نہ سکے گا، یعنی کوئی بھی چیز اسے اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکے گی۔ مسند احمد میں انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، قیامت کے دن ایک جہنمی سے پوچھا جائے گا کہ اگر تم زمین کی ہر چیز کے مالک ہوتے تو کیا اسے دے کر اپنی جان چھڑانا چاہتے ؟ وہ کہے گا ہاں، تو اللہ کہے گا کہ میں تو تم سے اس سے آسان چیز چاہی تھی، میں نے تم سے (جب تم اپنے باپ آدم کی پیٹھ میں تھے) یہ عہد لیا تھا کہ تم میرے ساتھ شرک نہ کرو گے تو تم نے انکار کردیا۔ مسند احمد اور صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عبداللہ بن جدعان کے بارے میں پوچھا گیا، جو مہمانون کو کھانا کھلایا کرتا تھا، قیدیوں کو چھڑاتا تھا، اور مسکینوں کو کھانا دیتا تھا، کہ یہ نیکیاں اس کے کام آئیں گی؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ نہٰں، اس لیے کہ اس نے پوری زنددگی میں ایک دن بھی یہ نہیں کہا کہ اے میرے رب قیامت کے دن میرے گناہوں کو معاف کردینا۔ آل عمران
92 67۔ گذشتہ آیت سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن کوئی چیز کافروں کو اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکے گی، اور نہ اس دن صدقہ و خیرات کا موقع ہوگا۔ صدقہ وخیرات کی جگہ یہ دنیا ہے۔ اسلام لانے کے بعد یہاں جو آدمی اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا، قیامت کے دن اسے پائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مومنوں کی اسی طرف رہنمائی کی ہے کہ تم اللہ کی خوشنودی اور اس کی جنت کو نہیں پا سکتے جب تک کہ اللہ کی راہ میں اپنا مرغوب و محبوب مال نہ خرچ کرو۔ بخاری و مسلم نے انس بن مالک (رض) سے روایت کی ہے کہ مدینہ منورہ میں ابوطلحہ انصاری (رض) بہت مالدار آدمی تھے، اور ان کا سب سے محبوب مال بیرحاء باغ تھا جو مسجد نبوی کے سامنے تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کبھی کبھار اس میں داخل ہوتے اور اس کا میٹھا پانی پیتے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ میرا سب سے محبوب مال بیرحاء ہے، اسے میں اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں، آپ اسے جہاں چاہیں خرچ کریں۔ تو آپ نے کہا کہ بہت خوب، یہ تو قیمتی مال ہے، جو تم نے کہا، میں نے سن لیا، میری رائے ہے کہ تم اسے رشتہ داروں میں تقسیم کردو۔ تو ابوطلحہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! ایسا ہی کروں گا، چنانچہ انہوں نے اپنے رشتہ داروں اور چچازاد بھائیوں میں تقسیم حافظ ابوبکر بزار نے روایت کی ہے، عبداللہ بن عمر نے کہا کہ میں نے یہ آیت سنی تو اپنے اموال پر غور کیا، میری سب سے قیمتی شے ایک روی لونڈی تھی، اسے میں اللہ کے لیے آزاد کردیا۔ آل عمران
93 68۔ زمخشری نے لکھا ہے کہ یہ آیت یہودیوں کے رد میں اور ان کی تکذیب کے لیے نازل ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ نساء کی آیت 160 تا 161 میں اور سورۃ انعام کی آیت 146 میں بیان کیا کہ ہم نے ان کے ظلم و طغیان کی وجہ سے ان پر کئی حلال چیزوں کو حرام کردیا تھا، تو اس سے وہ بہت ہی زیادہ چیں بجبیں ہوئے، اور اللہ نے جو انہیں ظلم و طغیان کے ساتھ متہم کیا تھا، اس کی تکذیب کی، اور کہا کہ یہ غلط ہے کہ یہ چیزیں سب سے پہلے ہم پر حرام کی گئی تھیں، یہ تو نوح، ابراہیم، اور اولادِ اسرائیل پر قدیم زمانے سے حرام تھیں، تو ہمارے لیے بھی ان کی حرمت باقی رہی، اللہ تعالیٰ نے ان کے اس دعوی کی تکذیب کی کہ اللہ نے بنی اسرائیل پر کوئی بھی کھانا حرام نہیں کیا تھا، البتہ اسرائیل یعنی یعقوب نے خود ہی بطور نذر بعض کھانوں کو اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔ اس کے بعد اللہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ اگر انہیں اپنی افترا پردازی پر اصرار ہے تو آپ ان سے کہیے کہ تم لوگ تورات کھول کر دیکھو، تمہارے دعوے کی صداقت کی قلعی کھل جائے گی، یعنی تورات میں یہ کہیں بھی نہیں ہے کہ یہ چیزیں قدم زمانے سے حرام رہی ہیں۔ ترمذی نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ یہودیوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا مجھے بتائیے کہ یعقوب نے اپنے لیے کس چیز کو حرام کیا تھا؟ تو آپ نے فرمایا کہ وہ بادیہ میں رہتے تھے، انہیں عرق النساء کی بیماری ہوگئی، انہیں بطور علاج یہی سمجھ میں آیا کہ اونٹ کا گوشت اور دودھ چھوڑ دیں، چنانچہ انہوں نے اسے اپنے اوپر حرام کرلیا (یعنی دونوں چیزوں کا کھانا پینا بند کردیا) یہودیوں نے کہا کہ آپ نے سچ کہا، اس حدیث کو احمد اور نسائی نے بھی روایت کی ہے۔ امام احمد کی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے دونوں چیزوں کو بطور نذر اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو حکم دیا کہ آپ ان سے کہیں، اگر وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں کہ تحریم قدیم ہے، تو وہ تورات سے یہ بات ثابت کر دکھائیں، اس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت اور ان کے جھوٹے ہونے کی بہت بڑی دلیل موجود ہے، اس لیے کہ انہوں نے تورات لانے کی جسارت نہیں کی۔ اس کے بعد آیت (94) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ پر افترا پردازی کرے گا، وہ ظالم ہوگا، اور اللہ اس کا پردہ فاش کر کے رہے گا، اور آیت (95) میں فرمایا کہ ثابت ہوگیا کہ اللہ سچا ہے، اور یہود جھوٹے ہیں، اس لیے اب انہیں یہودیت سے اعلان براءت کر کے ملت ابراہیم یعنی دین اسلام کو اختیار کرلینا چاہیے آل عمران
94 آل عمران
95 آل عمران
96 69۔ یہود کے ایک نئے جدال کی تردید ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیت المقدس لوگوں کا پہلا قبلہ ہے۔ اور خانہ کعبہ سے افضل ہے، اس لیے کہ وہ ارض مقدس میں واقع ہے، اور بہت سے انبیاء کرام ہجرت کر کے یہاں آتے رہے ہیں، پھر محمد نے اسے چھوڑ کر کعبہ کو قبلہ کیسے بنا لی؟ تو اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کی، اور کہا کہ سرزمین پر اللہ کا پہلا گھر خانہ کعبہ ہے، اور جب تک دنیا رہے گی، وہ گھر متبرک اور انسان کی ہدایت کا ذریعہ رہے گا، لوگ دنیا کے چپے چپے سے کھچ کر یہاں حج و زیارت کے لیے آتے رہیں گے، اور جب تک دنیا رہے گی اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہیں گے اور اللہ کو یاد کرتے رہیں گے۔ صحیحین میں ابو ذر (رض) کی روایت ہے، میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول ! روئے زمین پر کون سی مسجد پہلے بنائی گئی ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مسجد حرام، میں نے پوچھا، پھر کون؟ تو آپ نے مسجد اقصی، میں نے پوچھا : دونوں کے درمیان کتنی مدت کا فاصلہ تھا؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا چالیس سال، علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے خانہ کعبہ کو بنایا، اس کے چالیس سال کے بعد یعقوب بن اسحاق علیہما السلام نے مسجد اقصی کو بنایا۔ آیت میں ایات بینات (کھلی نشانیاں) سے مراد مقامِ ابراہیم ہے، یعنی وہ پتھر جس پر پاؤں رکھ کر ابراہیم (علیہ السلام) نے کعبہ کی دیوار بنائی اور جس پر اللہ کے حکم سے ان کے دونوں قدموں کے نشان بن گئے (مزید تفصیل کے لیے دیکھئے سورۃ بقرہ آیت (125) کی تفسیر)۔ اسی طرح صفا و مروہ، زمزم کا پانی، خانہ کعبہ کا زمانہ جاہلیت سے گہوارہ امن ہونا اور دیگر تمام مشاعر حج مراد ہیں۔ صحیحین کی روایت ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دن فرمایا کہ اس شہر کو اللہ نے اس دن سے (بلد حرام) بنا دیا ہے، جس دن آسمان اور زمین کو پیدا کیا، اور یہ قیامت تک بلد حرام رہے گا۔ جمہور علماء نے وللہ علی الناس حج البیت سے حج کے وجوب پر استدلال کیا ہے۔ حج سن بلوغ کو پہنچ جانے کے بعد زندگی میں صرف ایک بار فرض ہے، جیسا کہ ابوہریرہ (رض) کی حدیث سے ثابت ہے، جسے امام احمد اور مسلم نے روایت کی ہے، کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ دیا اور فرمایا کہ اللہ نے تمہارے اوپر حج فرض کیا ہے، اس لیے تم لوگ حج کرو۔ اور حج صاحب استطاعت پر فرض ہے۔ حاکم نے انس بن مالک (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا کہ اس آیت کریمہ میں (سبیل) سے کیا مراد ہےِ، تو آپ نے فرمایا : راستے کا خرچ اور سواری، حاکم کہتے ہیں کہ یہ حدیث امام مسلم کی شرط کے مطاب صحیح ہے۔ ومن کفر فان اللہ غنی عن العالمین میں کفر سے مراد یا تو فریضہ حج کا انکار ہے، یا اس کی عدم ادائیگی، ترمذی نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ جو شخص سفر کا خرچ اور سواری ہونے کے باوجود حج نہیں کرے گا، تو وہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی یہودی یا نصرانی ہو کر مرے، اگرچہ اس حدیث کی سند ضعیف ہے، لیکن قرآن کریم کی اس آیت اور دیگر احادیث سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ آل عمران
97 آل عمران
98 70۔ گذشتہ آیتوں میں اہل کتاب کی سازشوں کا بیان ہوا، اور ان کے خلاف بہت ساری حجتیں قائم کی گئیں، اب ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ ان سے کہیں، تم لوگ جان بوجھ کر کیوں اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہو؟ کیوں خاتم النبیین پر ایمان نہیں لاتے؟ خود اسلام میں داخل نہیں ہوتے اور اللہ کی مخلوق کو بھی روکتے ہو۔ آل عمران
99 آل عمران
100 اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو تنبیہ کی ہے کہ انہیں یہودیوں کے مکر وفریب اور ان کی سازشوں سے ہمیشہ بچ کر رہنا چاہئے۔ حافظ ابن کثیر اور امام شوکانی نے اس آیت کا پس منظر بیان کرنے کے لیے زید بن اسلم کی روایت نقل کی ہے، جسے ابن جریر، ابن اسحاق اور ابن ابی حاتم وغیرہم نے اپنی اپنی سندوں سے روایت کی ہے کہ شاس بن قیس یہودی مسلمانوں کا بہت بڑا دشمن تھا، ایک دن انصار مدینہ کی ایک مجلس کے پاس سے اس کا گذر ہوا، تو مسلمانوں کے آپس کی محبت و الفت کو دیکھ کر اس کی نفرت و عداوت جاگ اٹھی، اور ایک نوجوان یہودی کو انصار کی مجلس میں بھیجا تاکہ انہیں ” جنگ بعاث“ کی یاد دلا کر اوس و خزرج کے مسلمانوں کے درمیان پھر سے جنگ کی آگ بھڑکائے، اور ایسا ہی ہوا، ان کی قبائلی حمیت جاگ اٹھی، آپس میں بدزبانی پر اتر آئے اور جنگ کے لیے آمادہ ہوگئے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر ہوئی تو آپ تشریف لائے اور انہیں اللہ کی یاد دلائی، اور جاہلیت کی عصبیت اور اس کی خطرناکیوں کا خوف دلایا، تو شر ٹل گیا، لوگوں نے ہتھیار پھینک دیا، دھاڑیں مار مار کر رونے لگے اور آپس میں گلے ملنے لگے۔ آیت 101 میں اللہ تعالیٰ نے گذشتہ حادثہ کو مد نظر رکھتے ہوئے خبر دی ہے کہ مسلمانوں کی جماعت کفر کو قبول نہیں کرسکتی، اس لیے کہ وہ لوگ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں، اور اللہ کے رسول ان کی ہمیشہ رہنمائی کرتے رہتے ہیں، اس لیے یہ ناممکن ہے کہ وہ دین اسلام کو چھوڑ کر دوبارہ کفر کقبول کرلیں۔ آل عمران
101 آل عمران
102 ابن ابی حاتم اور حاکم وغیرہما نے سند صحیح کے ساتھ روایت کی ہے کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے تقاتہ کا معنی یہ بیان کیا کہ اللہ کی اطاعت کی جائے، اس کی نافرمانی نہ کی جائے، اسے یاد کیا جائے، بھولا نہ جائے، اس کا شکر ادا کیا جائے، ناشکری نہ کی جائے، بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس آیت کا ابتدائی حصہ سورۃ تغابن کی آیت فاتقوا اللہ ما استطعتم۔ یعنی اللہ سے اپنی طاقت بھر ڈرتے رہو۔ کے ذریعہ منسوخ ہے، لیکن یہ رائے صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ بندہ ہر وقت ہر حال میں اللہ سے تعلق رکھتے، اس کے عقاب سے ڈرتا رہے، اور اس کی عظمت و جلال کا اعتراف اس کے دل و دماغ پر مسلط رہے، اور سورۃ تغابن والی آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بھی انسان کو اس کی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں کیا ہے۔ آل عمران
103 73۔ حافط ابن کثیر (رح) نے لکھا ہے، آیت کا سیاق دلالت کرتا ہے کہ اس آیت میں اوس و خزرج کے ماضی کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے درمیان کیسی دشمنی تھی، لیکن اسلام کو قبول کرلینے کے بعد اللہ کے لیے آپس میں بھائی بھائی ہوگئے۔ اللہ کی رسی سے مراد یا تو اللہ سے کیا گیا عہد و پیمان ہے، یا قرآن کریم، امام مسلم نے کتاب فضائل الصحابہ میں زید بن ارقم سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : آگاہ رہو، میں تمہارے پاس دو بہت ہی بھاری اور عظیم چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ان میں سے ایک اللہ کی کتاب ہے، جو اللہ کی رسی ہے، جو اس کی اتباع کرے گا وہ ہدایت پر رہے گا، اور جو اسے چھوڑ دے گا، وہ گمراہ ہوجائے گا۔ اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کو اتفاق و اتحاد کی نصیحت کی گئی ہے، اور ہر قسم کے افتراق و اختلاف سے ڈرایا گیا ہے، اور اتفاق کی بنیاد قرآن کریم کو بتایا گیا ہے۔ اور جیسا کہ معلوم ہے کہ سنت قرآن سے جدا نہیں ہوسکتی، اور قرآن بغیر سنت کے نہیں سمجھا جاسکتا، اس لیے مسلمانوں کے درمیان حقیق اتفاق و اتحاد صرف قرآن و سنت پر عمل کر کے ہی پیدا کیا جاسکتا ہے۔ اس معنی کی حدیثیں متعدد ہیں جن میں امت کو افتراق سے ڈرایا گیا ہے، اور انہیں سکھایا گیا ہے کہ امت مسلمہ صرف قرآن و سنت کے ذریعہ ہی متحد ہوسکتی ہے۔ اور یہ کہ امت (73) فرقوں میں صرف اس وجہ سے بٹ گئی کہ اس نے ان دونوں بنیادوں کو پس پشت ڈال دیا۔ جس فرقہ کو (ناجیہ) کہا گیا ہے، اس کی صفت خود اللہ کے رسول نے بتا دی ہے کہ جو میری اور میرے صحابہ کی راہ پر گامزن ہوگا۔ اس لیے اگر کسی بھی زمانے میں مسلمانوں کے درمیان اتحاد ہوگا تو صرف قرآن و سنت کی بنیاد پر، کسی دوسری بنیاد پر امت مسلمہ کی جماعتوں میں حقیقی اتحاد وجود میں نہیں آسکتا۔ آل عمران
104 74۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے، اور کہا ہے کہ مسلمانوں میں ایک ایسی جماعت کا ہونا از بس ضروری ہے جو لوگوں کو خیر کی دعوت دے، اچھائی کا حکم دے اور برائی سے روکے، اس کے بعد اللہ نے صراحت کردی کہ امت مسلمہ کی دینی اور دنیاوی فلاح و بہبودی کی یہی بنیادی شرط ہے۔ آل عمران
105 75۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہود و نصاری کی طرح مختلف گروہوں میں بٹ جانے سے منع فرمایا ہے، جنہوں نے حق سے روگردانی کر کے خواہش نفس کی اتباع کی، اور ایک دوسرے سے حسد کیا، یہاں تک کہ انبیاء کرام کو بھی انہوں نے آپس میں بانٹ لیا، دین میں بدعت کو راہ دی، اور اس طرح حق بات کے واضح دلائل آجانے کے باوجود ان کے آپس میں حسد و عداوت اور بغض و عناد پیدا ہوگیا، اور ان کے دل مختلف ہوگئے۔ امام فخر الدین رازی نے اس آیت کے ضمن میں لکھا ہے کہ ان میں سے ہر ایک دعوی کرنے لگا کہ وہ حق پر ہے، اور اس کا مخالف باطل پر ہے، اس کے بعد لکھا ہے کہ اگر انصاف کے ساتھ غور کریں گے تو دیکھیں گے کہ اس زمانے کے اکثر علماء میں بھی یہ صفت پیدا ہوگئی ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں معاف کرے اور ہمارے حال پر رحم کرے، علمائے سلف میں یہ صفت نہیں پائی جاتی تھی، صحابہ کرام قرآن و سنت کی روشنی میں فتاوے دیتے تھے اور اگر کبھی ان کے درمیان کسی مسئلہ میں اختلاف ہوتا تھا تو ان کے دلوں میں فرق نہیں آتا تھا۔ مسلمانوں میں دلوں کا اختلاف تقلید جامد اور فقہی مذاہب کی اندھی عصبیت کے بعد پیدا ہوا۔ قرآن و سنت سے جتنا دور ہوتے گئے، اتنا ہی یہ مرض جڑ پکڑتا گیا، اور نوبت ایک دوسرے کی تکفیر و تضلیل تک پہنچ گئی۔ بعض کج فہموں اور امت میں اختلاف کو راہ دینے والوں نے اختلاف امتی رحمۃ جیسی ضیعف اور کمزور حدیث کا سہارا لینا چاہا، اس حدیث کی کوئی صحیح سند نہیں ہے۔ اسے طبرانی اور بیہقی نے المدخل میں ابن عباس (رض) سے سند ضعیف کے ساتھ مرفوعاً روایت کی ہے۔ اس حدیث کی سند تو کمزور ہے ہی، اس کے علاوہ بہت سی قرآنی آیات اور صحیح احادیث کے مخالف ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ولا یزالون مختلفین، الا من رحم ربک۔ کہ لوگ ہمیشہ آپس میں اختلاف کرتے رہیں گے، سوائے اس آدمی کے جس پر اللہ رحم کرے۔ اس آیت میں اختلاف نہ کرو، ورنہ تمہارے دل مختلف ہوجائیں گے۔ (مسلم) آل عمران
106 76۔ گذشتہ آیت کے آخر میں اختلاف کرنے والوں کو عذاب الیم سے ڈرایا گیا ہے، یہاں بتایا جا رہا ہے کہ یہ عذاب انہیں اس دن ملے گا جب مومنوں کے چہرے نور ایمان سے چمک رہے ہوں گے اور کافروں اور دین میں اختلاف پیدا کرنے والوں کے چہرے نور ایمان سے محروم ہونے کی وجہ سے سیاہ ہوں گے۔ ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ روشن چہرے والوں سے مراد اہل سنت والجماعت ہیں، اور سیاہ چہرے والوں سے مراد اہل بدعت اور امت میں افتراق پیدا کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن روشن چہروں والا بنائے۔ آمین۔ آل عمران
107 آل عمران
108 77۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کیا جا رہا ہے کہ اب تک جو کچھ بیان ہوا سب اللہ کی برحق آیتیں ہیں، اور اللہ تعالیٰ کسی کو بغیر جرم کے سزا نہیں دیتا، اور نہ کسی کی نیکی میں کوئی کمی کرتا ہے، اس لیے کہ آسمانوں اور زمین کی تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں۔ وہ ہر چیز سے بے نیاز ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے، اس لیے اللہ کسی پر ظلم کیوں کرے گا۔ آل عمران
109 آل عمران
110 78۔ اس آیت کریم میں اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کی فضیلت دوسری امتوں پر بیان کی ہے کہ اے مسلمانو ! تم سب سے اچھے لوگ ہو، اس لیے کہ تمہیں اللہ نے اس لیے دنیا میں بھیجا ہے کہ بنی نوع انسان کو بھلائی کا حکم دو، برائی سے روکو، اور اللہ پر اور ان تمام چیزوں پر ایمان لے آؤ جن پر اللہ نے ایمان لانے کا حکم دیا ہے۔ امت مسلمہ کی یہ فضیلت دوسری تمام امتوں پر علی الاطلاق ہے۔ اور اس فضیلت میں امت مسلمہ کے ہر دور کے لوگ شریک ہیں، خود امت مسلمہ کے درمیان درجات میں تفاوت تو موجود ہے، جیسے صحابہ کرام کو دیگر مسلمانوں پر فوقیت حاصل ہے۔ لیکن مسلمان چاہے جس دور کے ہوں، انہیں غیر مسلموں پر فضیلت حاصل ہے۔ امام احمد، ترمذی اور حاکم نے معاویہ بن حیدہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اے مسلمانو ! تمہارا وزن ستر امتوں کے برابر ہے، اور تم ان سے بہتر اور اللہ کے نزدیک ان سے زیادہ مکرم ہو۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ امت مسلمہ کو یہ مقام، ان کے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے ملا ہے، اس لیے کہ اللہ نے انہیں مخلوق میں سب سے اشرف اور رسولوں میں سب سے اعلیٰ بنایا تھا، اور انہیں ایک ایسا عظیم اور کامل دین دے کر بھیجا تھا جو ان سے پہلے کسی نبی یا رسول کو نہیں ملا، ان کے اس دین کا پابند رہ کر تھوڑا عمل بھی دوسرے مذاہب والوں کے عمل کثیر سے زیادہ افضل ہے۔ اور یہ مقام ہر اس شخص کو ملے گا جو مذکورہ بالا صفات کے ساتھ متصف ہوگا، اور جس کے اندر یہ صفات نہیں پائی جائیں گی، وہ اہل کتاب یعنی یہودیوں کے مشباہ ہوگا، جیسا کہ آیت کے اگلے حصہ میں ان کا ذکر آیا ہے، کہ ان میں سے اکثر لوگ کفر و ضلالت اور فسق و معصیت میں مبتلا ہیں۔ آل عمران
111 79۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خبر دی ہے کہ اہل کتاب پر نصرت و فتح تمہارا نصیب ہے، یہ ملحد اور کافر اہل کتاب یعنی یہودی تمہیں تکلیف تو پہنچا سکتے ہیں، لیکن جب تم سے ان کی جنگ ہوگی تو پیٹھ دکھا کر بھاگ کھڑے ہوں گے، اور ایسا ہی ہوا، خیبر کے دن اللہ نے یہودیوں کو رسوا کیا، اور مدینہ میں بھی رسوا ہوئے، اور شام کے نصرانیوں کی تو صحابہ کرام نے کمر توڑ دی، ان کا ملک ہمیشہ کے لیے ان کے ہاتھ سے نکل گیا، اور اللہ کے حکم سے اب شام میں مسلمانوں ہی کا غلبہ ہے اور رہے گا، یہاں تک کہ قیامت کے قریب وہاں عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) اتریں گے اور شریعت محمد کا نفاذ کریں گے۔ آل عمران
112 80۔ اللہ تعالیٰ نے ذلت و رسوائی کو یہود کی قسمت بنا دی ہے، وہ جہاں اور جس زمانے میں بھی ہوں گے، ذلیل و رسوا ہی ہو کر رہیں گے۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ دنیا کے کسی گوشے میں اور کسی زمانے میں بھی انہیں احترام و عزت نصیب نہیں ہوئی۔ انہیں عارضی چین اور سکون صرف دو میں سے ایک ہی صورت میں ملے گا، یا تو جزیہ دے کر بطور ذمی زندگی گزاریں گے، یا کسی بڑی غیر اسلامی طاقتور حکومت کی پشت پناہی حاصل ہوجائے گی، جیسا کہ آج کل فلسطین میں یہودیوں کی ایک حکومت، امریکہ، برطانیہ، روس، فرانس اور دیگر کافر حکومتوں کی شہ پر، اور ان کی مدد سے قائم ہے، ابھی حال ہی میں مشہور نو مسلم مفکر رجا جارودی کا بیان شائع ہوا ہے کہ اگر امریکہ اپنا ہاتھ کھینچ لے، تو اسرائیل کی حکومت عرب مسلمانوں کے سامنے چوبیس گھنٹے سے زیادہ نہیں ٹک سکتی۔ ان کی ذلت و رسوائی اس سے بڑھ کر کیا ہوسکتی ہے کہ فلسطینی مسلمان بچوں نے پتھر مار مار کر ان کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔ آل عمران
113 اس آیت کا پس منظر بیان کرتے ہوئے ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، طبرانی اور دیگر کئی محدثین نے ابن عباس (رض) کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جب عبداللہ بن سلام، ثعلبہ بن سعید، اسید بن سعید، اسد بن عبید اور کچھ دوسرے یہودیوں نے اسلام قبول کرلیا، تو علماء یہود کہنے لگے کہ محمد پر برے لوگ ایمان لائے ہیں، اگر وہ اچھے ہوتے تو اپنے باپ دادا کا دین نہ چھوڑ دیتے۔ اور ان مسلمانوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ تم لوگوں نے اپنا دین بدل کر خسارہ اٹھایا ہے۔ اس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ وہ اہل کتاب جنہوں نے دین اسلام کو قبول کرلیا، ان اہل کتاب کی مانند نہیں ہیں جو اپنے کفر پر قائم رہے۔ امام احمد اور نسائی وغیرہما نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک رات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عشاء کی نماز کے لیے بہت تاخیر سے تشریف لائے اور فرمایا کہ اہل ادیان میں سے تمہارے علاوہ کوئی نہیں جو اس وقت اللہ کو یاد کرے تو لیسوا سواء، سے بالمتقین تک تین آیتیں نازل ہوئیں۔ اس روایت کے مطابق بھی آیت کا مفہوم یہی ہوگا کہ اہل کتاب میں سے جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے، اور جن کی صفات وہ ہیں جو یہاں بیان کی گئی ہیں، وہ لوگ ان اہل کتاب کی مانند نہیں ہیں، جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی آل عمران
114 آل عمران
115 آل عمران
116 82۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اہل کفر کا حال بیان کیا ہے کہ ان کا مال، ان کی اولاد، اللہ کے عذاب کو ان سے نہیں ٹال سکے گی، اور ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ آیت 117 میں ایک مثال کے ذریعہ اللہ نے یہ بیان کیا ہے کہ اہل کفر اگر اپنا مال کسی خیر کے کام میں بھی خرچ کرتے ہیں تو قیامت کے دن ان کے کام نہ آئے گا، اللہ تعالیٰ نے ایسے بد نصیب کافروں کی بدنصیبی کی مزید وضاحت کے لیے یہ مثال بیان کی، کہ جیسے کسی قوم کا کوئی ہرا بھرا باغ یا کھیت ہو جسے دیکھ دیکھ کر وہ خوش ہو رہے ہوں، کہ اچانک ایک سخت ٹھنڈی ہوا چلے، جس میں آگ کی سی تیزی ہو، جو اسے مارے ٹھنڈک کے جلا دے، یعنی کافروں کو ان کے کارہائے خیر کا کوئی فائدہ نہ پہنچے گا، کیوں کہ ایمان کے بغیر کوئی عمل بھی اللہ کے نزدیک قابل قبول نہیں۔ آل عمران
117 آل عمران
118 83۔ ابن جریر، ابن اسحاق، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم وغیرہم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ کچھ مسلمانوں کا یہود مدینہ کے ساتھ پڑوس میں ہونے کی وجہ سے، یا دور جاہلیت کے کسی معاہدے کی بنا پر ایک گنا تعلق تھا، جس کی وجہ سے خدشہ رہتا تھا کہ وہ مسلمان اپنے دل کی باتیں اور مسلمانوں کے راز انہیں بتا دیا کریں گے اور مسلمانوں کو ان کی اس نادانی کی وجہ سے کوئی خطرہ لاحق ہوجائے گا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی اور مسلمانوں کو منع کیا کہ وہ غیر مسلموں کو اپنا رازداں بنائیں۔ بعض لوگوں نے کہا کہ یہ آیت منافقین کے بارے میں نازل ہوئی تھی تاکہ مسلمان ان سے اپنے دل کی بات مسلمانوں کا راز نہ بتائیں۔ اس لیے کہ بعد والی آیت میں ان لوگوں کی صفت یہ بتائی گئی ہے کہ جب وہ تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے، اور جب تم سے جدا ہوتے ہیں تو تمہارے خلاف مارے گصہ کے اپنے دانتوں سے اپنی انگلیاں کاٹتے ہیں، اور یہ صفات منافقین کی تھیں۔ بعض نے کہا ہے کہ آیت میں تمام کفار مراد ہیں لفظ (من دونکم) یعنی، تم اپنے سوا کسی دوسرے کو اپنا راز داں نہ بنا، سے اسی رائے کی تائید ہوتی ہے۔ ابن ابی حاتم نے روایت کی ہے، حضرت عمر (رض) سے کہا گیا کہ حیرہ کا ایک نصرانی غلام ہے جو بڑا ہی ذہن و فطین کاتب ہے، آپ اسے اپنا کاتب کیوں نہیں مقرر کرلیتے؟ تو انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں کسی غیر مسلم کو اپنا بطانہ اور رازداں بنا لوں؟ رازی کہتے ہیں کہ عمر (رض) نے اسی آیت سے استدلال کیا تھا۔ اور اس ممانعت کی علت قرآن نے یہ بتائی کہ غیر مسلم ہمیشہ مسلمانوں کی تباہی و بربادی کی سوچتے رہتے ہیں، اور ہر وقت تمنا کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو نقصان پہنچے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا کہ اے مسلمانو ! کیا تم دیکھتے نہیں کہ ان کا چھپا ہوا بغض و حسد کبھی کبھار ان کی زبانوں سے ظاہر ہوتا رہتا ہے۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہ آیت دلیل ہے اس بات کی کہ غیر مسلموں کو مسلم ممالک کی آفسوں میں ایسی ذمہ داریاں نہیں دینی چاہئے، جن کے ذریعہ وہ مسلمانوں کے راز حاصل کریں، اور دشمنوں کو ان کی اطلاع دیں۔ مفسر ال کیا الہرسی لکھتے ہیں کہ اس آیت کے پیش نظر کسی ذمی (غیر مسلم جو مسلمانوں کے ملک میں رہتا ہے) سے مسلمانون کے کسی معاملے میں مدد لینی جائز نہیں۔ آل عمران
119 84۔ اس ممانعت کی مزید علت بیان کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا کہ تم اپنی سادگی میں ان سے محبت کرتے ہو، اور ان کا حال یہ ہے کہ وہ تمہیں بالکل نہیں چاہتے، بلکہ شدت نفرت اور شدت بغض و عداوت کی وجہ سے اپنے دانتوں سے اپنی انگلیاں کاٹتے ہیں کہ کب انہیں کوئی ایسا موقع ملے کہ تمہارے وجود سے چھٹکارا پا لیں۔ اس کے بعد اللہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا، آپ کہہ دیجئے کہ تم لوگ اپنے غیظ و غضب کے مارے زندہ رہتے ہوئے بار بار مرتے ہو، اللہ تو اپنی نعمت کو مسلمانوں پر تمام کر کے رہے گا اور اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بنا کر رہے گا۔ آل عمران
120 85۔ کافروں کی مسلمانوں سے شدت عداوت کی مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے، اللہ نے فرمایا کہ تم ان کافروں سے دوستی رکھتے ہو، جب کہ تم سے ان کی عداوت کا حال یہ ہے کہ اگر کوئی بھلائی تمہیں چھو بھی جاتی ہے تو انہیں تکلیف ہوتی ہے، اور اگر تم پر کوئی مصیبت آپڑتی ہے، تو مارے خوشی کے آپے سے باہر نکلے جاتے ہیں۔ تو بھلا ایسوں کو دوست بنانا کہاں کی دانشمندی ہے؟ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کافروں کے شر و فساد سے بچنے کا یہ طریقہ بتایا کہ مسلمانوں کو اللہ کی طرف سے آزمائشوں پر صبر کی عادت ڈالنی چاہئے، ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہنا چاہئے، تقوی اور بندگی کی راہ اختیار کرنی چاہئے، اور غیر مسلموں سے مدد نہیں لینی چاہئے، اگر وہ ایسا کریں گے تو کافروں کا مکر و فریب انہیں نقصان نہیں پہنچائے گا، اس لیے کہ جو اللہ پر توکل کرے گا، آزمائشوں پر صبر کرے گا اور صرف اسی سے مدد مانگے گا، وہ یقیناً اپنے مقاصد میں کامیاب ہوگا۔ اللہ اسے کبھی بھی ضائع نہیں کرے گا، اور دشمن کے مقابلہ میں اسے فتح و نصرت عطا کرے گا، اور جو غیروں سے مدد چاہے گا، اللہ اسے اس کے نفس کے حوالے کردے گا، اور اپنی نصرت سے اسے محروم کردے گا۔ کاش مسلمان آج بھی یہ نسخہ استعمال کر کے دیکھتے اور اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کے سامنہ جبہ سائی نہ کرتے، بڑی طاقتوں کو اپنا معبود نہ بناتے، اللہ کے بجائے ان سے مدد نہ مانگتے، تو اللہ کا وعدہ ہمیشہ کے لیے ایک ہی ہے، فتح و کامیابی ان کا قدم چومتی، عزت و سیادت ان کے سر کا تاج ہوتی اور دوسری قومیں ان کے سامنے گھٹنا ٹیک دیتیں، کیا کوئی ہے جو اس آواز پر کان دھرے؟ آل عمران
121 86۔ غزوات کے مورخین اور جمہور علماء کی رائے ہے کہ یہ آیت واقعہ احد کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اور اس واقعہ کے ساتھ غزوہ بدر کے ذکر کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ فتح و نصرت اور شکست و ناکامی کے باب میں نظام الٰہی یہ ہے کہ صبر و تقوی کا نتیجہ نصرت و کامیابی ہوتی ہے، اور بے صبری اور عدم تقوی کا لازمی نتیجہ شکست و ناکامی ہوتی ہے اور اس کی مثال مسلمانوں کا ماضی قریب ہے، کہ میدان احد میں بے صبری اور حرص دنیا کا ثبوت دیا تو فتح کے بعد شکست کا منہ دیکھنا پڑا، اور ان کے دشمنوں نے خوشی کے نغمے گائے، اور میدانِ بدر میں صبر و شکیب کا ثبوت دیا، اور تقوی اور تعلق باللہ کی راہ پر گامزن رہے تو اللہ تعالیٰ نے نہیں فتحیاب کیا، اور ان کے ستر بڑے بڑے دشمن مارے گئے، اور ستر قیدی بنے، اور غنیمت کا بہت سا مال ان کے ہاتھ آیا۔ اس آیت سے جنگ احد کے واقعہ کی ابتدا ہوتی ہے۔ اور تقریباً ساٹھ آیتوں میں اس کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ یہ واقعہ شوال 3 ہجری میں وقوع پذیر ہوا، اور اس کا سبب یہ تھا کہ جنگ بدر میں جب قریش کے سرداران مارے گئے، اور رسوا کن شکست سے دوچار ہوئے، تو مسلمانوں سے انتقام لینے کے لیے کفار قریش ابو سفیان کی قیادت میں تین ہزار کی تعداد میں جبل احد کے قریب آ کر جمع ہوگئے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا کہ مدینہ میں رہ کر ہی دفاع کیا جائے، یا باہر نکل کر مقابلہ کیا جائے، کچھ لوگوں کی پہلی رائے تھی، عبداللہ بن ابی بن سلول راس المنافقین کی بھی یہی رائے تھی۔ کچھ نوجوان اور پرجوش صحابہ کی رائے دوسری تھی، اور اس پر انہوں نے اصرار کیا، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی دوسری رائے کے مطابق گھر کے اندر تشریف لے گئے، اور زرہ پہن کر باہر آگئے، دوسری رائے والے صحابہ نے سمجھا کہ شاید ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مجبور کیا ہے، اس لیے انہوں نے آپ سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو پہلی رائے پر عمل کریں۔ تو آپ نے فرمایا کہ اللہ کا نبی جب زرہ پہن کر گھر سے باہر آجاتا ہے تو اسے اس وقت تک نہیں اتارتا جب تک اس کے اور اس کے دشمن کے درمیان اللہ تعالیٰ فیصلہ نہ کردے۔ چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ہزار لشکر کے ساتھ جمعہ کے بعد جبل احد کی طرف روانہ ہوگئے۔ عبداللہ بن ابی مقام ’ شوط‘ سے اپنے تین سو افراد کے ساتھ یہ بہانا بنا کر واپس آگیا کہ ہماری بات نہیں مانی گئی۔ جنگ ہوئی اور مسلمانوں کو فتح ہوئی، لیکن جن تیر اندازوں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبل احد پر مقرر کیا تھا اور کہا تھا کہ اگر ہمیں چڑیاں بھی اچک کرلے جائیں تو بھی اپنی جگہ نہ چھوڑنا، انہوں نے مال غنیمت لوٹنے کے لیے اپنی جگہ چھوڑ دی، اور خالد بن ولید نے اس طرف سے حملہ کردیا، اور مسلمانوں کی فتح شکست میں بدل گئی (تفصیل کے لیے دیکھئے زاد المعاد، ابن القیم رحمہ اللہ) بعض لوگوں نے غدوت کا معنی صبح کے وقت نکلنا کیا ہے، اور پھر یہ اشکال پیدا کیا ہے کہ پھر یہ کیسے صحیح ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کے بعد نکلے، صاحب فتح البیان نے لکھا ہے کہ بسا اوقات، غدو، مطلق خروج کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، یہاں بھی غدوت، خرجت، کے معنی میں ہے، اس لیے اشکال باقی نہیں رہتا۔ آل عمران
122 87۔ یہاں دونوں گروہوں سے مراد خزرج کا قبیلہ بنو سلمہ، اور اوس کا قبیلہ بنو حارثہ ہے۔ بخاری اور مسلم نے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے، انہوں نے کہا کہ یہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی تھی، اور یہ ہمیں بہت پسند اس لیے ہے کہ اس میں اللہ نے اپنے آپ کو ہم دونوں قبیلے والوں کو دوست بتایا ہے۔ آل عمران
123 88۔ اوپر بیان ہوچکا کہ واقعہ احد کے ساتھ غزوہ بدر کے ذکر کرنے کا مقصد مسلمانوں کو یہ بتانا ہے کہ اللہ پر توکل اور صبر وتقوی کا پھل فتح و کامرانی ہوتی ہے، جنگ بدر میں یہی ہوا کہ مسلمان ہر طرح سے کمزور تھے، لیکن جب انہوں نے اللہ پر بھروسہ کیا، اور صبر و ثبات قدمی سے کام لیا تو اللہ نے انہیں کافروں پر غلبہ دیا۔ آل عمران
124 89۔ اس آیت میں مسلمانوں سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وعدے کا ذکر ہے، کہ اللہ تعالیٰ ان کی تین ہزار فرشتوں سے مدد کرے گا، اور اس کے بعد والی آیت میں پانچ ہزار فرشتوں کے ذریعہ مدد کے وعدے کا ذکر ہے، اللہ کا یہ وعدہ جنگ بدر سے متعلق تھا یا جنگ احد سے متعلق، مفسرین کے دونوں اقوال ہیں۔ راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس وعدے کا تعلق یوم بدر سے تھا، اس لیے کہ سیاق کلام واقعہ بدر سے متعلق ہے۔ اور سورۃ انفال میں واقعہ بدر کے بیان میں ایک ہزار فرشتوں کے ذریعہ مدد کا جو ذکر ہے، وہ اس آیت میں تین ہزار یا اس سے زیادہ کے ذریعہ مدد کے منافی نہیں ہے، اس لیے کہ سورۃ انفال والی آیت میں ایک ہزار فرشتوں کے ذکر کے بعد مردفین کا لفظ آیا ہے، یعنی ایک ہزار کے بعد مزید فرشتے آئیں گے۔ ربیع بن انس کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے ان کی ایک ہزار کے ذریعہ مدد کی، پھر تین ہزار کے ذریعہ، پھر جب صبر اور تقوی کا مظاہرہ کیا تو پانچ ہزار کے ذریعہ، اور اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ سورۃ انفال میں واقعہ بدر سے متعلق سیاق کلام، بالکل ان آیتوں کے سیاق کلام کے مشابہ ہے، یعنی دونوں ہی سیاق کلام واقعہ بدر سے متعلق ہے۔ آل عمران
125 آل عمران
126 90۔ فرشتوں کے ذریعہ امداد کی خبر مسلمانوں کے لیے ایک خوشخبری تھی، اور مقصد یہ تھا کہ ان کے دل مطمئن ہوں، ورنہ نصرت وفتح تو اللہ کی طرف سے آتی ہے، اللہ کسی سبب کا محتاج نہیں ہے۔ اس کے بعد آیت (127) میں اللہ نے فرمایا کہ اللہ چاہتا ہے کہ کفار قتل و بند کی سزا بھگتیں، یا شکست کے بعد ذلت و رسوائی اٹھائیں ْ آل عمران
127 آل عمران
128 91۔ یہ ایک جملہ معترضۃ ہے، جس سے مقصود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو متنبہ کرنا ہے کہ کہیں آپ کے ذہن و دماغ میں یہ بات نہ آجائے کہ آپ کی ذات بھی کچھ مؤثر ہے، اور آپ کے عقیدہ توحید میں فرق آجائے، آپ تو ایک انسان ہیں آپ کا کام اللہ کے حکم کے مطابق انسانوں کو ڈرانا ہے، ان کی بخشش یا عذاب کا معاملہ تو صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کسی دن فجر کی نماز میں کہا کرتے تھے کہ اے اللہ ! فلاں اور فلاں قبائل عرب پر لعنت بھیج، تو یہ آیت اتری کہ (لیس لک من الامر شیء) ابن عمر (رض) سے بخاری اور احمد نے روایت کی ہے کہ جب جنگ احد میں آپ زخمی ہوئے، تو کہا کہ وہ قوکیسے فلاح پائے گی جس نے اپنی نبی کے ساتھ ایسا کیا، تو یہ آیت اتری، آیت 129 میں اسی مضمون کی تائید ہے، کہ آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کا مالک اللہ ہے، وہ جسے چاہے گا معاف کردے گا، اور جسے چاہے گا عذاب دے گا، کسی بندے کو، چاہے وہ نبی مرسل ہو یا ولی مکرم، یہ اختیار حاصل نہیں کہ کسی کی قسمت کا فیصلہ کرے، اور کسی کو جنت میں بھیج دے اور کسی کو جہنم میں۔ آل عمران
129 آل عمران
130 92۔ واقعہ احد کے بیان میں سود کا بیان اچانک آگیا ہے، اس کا سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابھی آیت 120 اور 125 میں یہ بتایا گیا ہے کہ فتح و نصرت کا راز صبر و تقوی میں مضمر ہے، اور تقوی ہی دنیا و آخرت کی ہر کامیابی کا ذریعہ ہے، تو طبعی طور پر ذہنوں میں تقوی کی صفات جاننے کا شوق پیدا ہوا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے (جنگ احد کی مزید تٖفصیلات بیان کرنے سے پہلے) تقوی کی اہم صفات کو بیان کیا، اور یہی وجہ ہے کہ یہاں سود سے متعلق آیتوں میں تین بار لفظ (تقوی) کو دہرایا گیا ہے، گویا سود نہ لینا تقوی کی اہم صفت ہے۔ ایک دوسرا سبب یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنگ احد میں فتح، شکست میں اس وجہ سے بدل گئی کہ تیرانداز مسلمان مال کی لالچ میں پڑگئے، اور لالچ اور دولت پرستی کی سب سے گھناؤنی صورت ” سود“ ہے، اسی لیے اللہ نے اس سے منع فرمایا، اور اپنی راہ میں خرچ کرنے والوں کی فضیلت بیان کی۔ زمانہ جاہلیت میں جب قرض کی مدت پوری ہوجاتی، تو قرض والا کہتا کہ تم میری رقم واپس کرو، یا میں مدت بڑھا دیتا ہوں اور تم رقم میں اضافہ کرو، آیت میں لفظ ” ایمان“ کے ساتھ خطاب سے اس طرف اشارہ ہے، کہ ایمان کا تقاضا سود کو چھوڑ دینا ہے۔ اور سورۃ بقرہ میں سودی کاروبار کو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کہا گیا ہے۔ کئی گنا بنا کر سود لینے کا ذکر، زمانہ جاہلیت کی عادت بیان کرنے کے لیے کیا گیا ہے، کہ وہ لوگ ایسا کرتے تھے، ورنہ سود تو ہر حال میں حرام ہے، چاہے کم ہو یا زیادہ، اور تقوی کا تقاضا یہی ہے کہ سود نہ لیا جائے۔ آل عمران
131 آیت 131 میں سود خوروں کو اس آگ سے ڈرایا گیا ہے جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ معلوم ہوا کہ سود خوری کبھی آدمی کو کفر تک لے جاسکتی ہے۔ امام ابو حنیفہ (رح) سے مروی ہے، وہ کہتے تھے کہ قرآن کریم میں یہ آیت سب سے زیادہ خوف دلانے والی ہے، کہ اگر مسلمانوں نے تقوی کی راہ اختیار نہ کی تو اس آگ کا سامنا کرنا پڑے گا جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے آل عمران
132 آیت 132 میں مزید تاکید کے طور پر اللہ نے ایمان والوں کو حکم دیا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں اور سود لینا یکسر بند کردیں، تاکہ اللہ کی رحمت ان کے شامل حال ہو۔ آل عمران
133 آیت 133 میں اللہ تعالیٰ نے نصیحت کی ہے کہ ایمان والے ان اعمال صالحہ کی طرف سبقت کریں جو اللہ کی مغفرت کا سب بنتے ہیں، اور جن کی وجہ سے اللہ اپنے فضل و کرم سے انہیں اس جنت میں داخل کرے گا جس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، اور جو متقیوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ یہاں جنت کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر بتائی گئی ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ جنت کی حقیقی وسعت ہے، اور اس کا ذکر یہاں اس لیے آیا ہے تاکہ معلوم ہو کہ اس کا طول اس کے عرض سے یقیناً زیادہ ہوگا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہاں مقصود صرف یہ بتانا ہے کہ اللہ کی جنت ہمارے گمان سے بہت ہی زیادہ وسیع ہوگی۔ آل عمران
134 آیت 134 میں اہل جنت کی صفات بیان کی گئی ہے کہ وہ لوگ وسعت اور تنگی ہر حال میں اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور جب انہیں غصہ آتا ہے تو اسے پی جاتے ہیں، اور اس پر عمل نہیں کرتے، امام احمد نے جاریہ بن قدامہ السدی سے روایت کی ہے، انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! مجھے کوئی نفع بخش بات بتائیے، لیکن لمبی بات نہ ہو تاکہ میں اسے یاد کرلو، تو آپ نے فرمایا : غصہ مت کرو، صحابی نے بار بار اپنا سوال دہرایا، اور ہر بار آپ نے ان سے یہی کہا : غصہ مت کرو، اہل جنت کی صفات میں سے یہ بھی ہے کہ اگر کوئی ان کے ساتھ بد سلوکی کرتا ہے تو اسے معاف کردیتے ہیں، اور اپنے دل میں اس کے خلاف کوئی بغض و کینہ نہیں رکھتے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ شوری آیت 37 میں فرمایا ہے۔ واذا ما غضبوا ھم یغفرون۔ کہ جب انہیں غصہ آتا ہے تو لوگوں کو معاف کردیتے ہیں۔ آل عمران
135 93۔ اہل جنت کی ایک اور صفت یہ بتائی گئی کہ جب ان سے کبیرہ یا صغیرہ گناہ کا ارتکاب ہوجاتا ہے، تو انہیں اللہ سے حیا آتی ہے، اور اس کے عقاب کا ڈر لاحق ہوجاتا ہے، تو فوراً اللہ سے معافی مانگتے ہیں، اور اللہ کے علاوہ گناہوں کو کون معاف کرسکتا ہے؟ اس کے سوا کسے اس کا اختیار حاصل ہے؟ امام احمد نے ابو سعید خدری (رض) سے روایت کی ہے، میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہتے سنا ہے کہ ابلیس نے اپنے رب سے کہا تیری عزت و جلال کی قسم، میں بنی آدم کو جب تک ان کی سانس چلتی رہے گی گمراہ کرتا رہوں گا۔ تو اللہ نے کہا، میری عزت و جلال کی قسم، جب تک وہ مجھ سے مغفرت چاہتے رہیں گے، میں انہیں معاف کرتا رہوں گا۔ اور اس طلب مغفرت والی صفت کی تکمیل یہ ہے کہ وہ جانتے ہوئے گناہ پر اصرار نہیں کرتے، یعنی اگر گناہ ہوجاتا ہے تو استغفار کرتے ہیں، کیونکہ دل سے استغفار کرلینے کے بعد اگر دوبارہ اسی گناہ کا ارتکاب ہوجاتا ہے، تو اسے گناہ پر اصرار نہیں کہا جاتا، ابو داود، ترمذی، بزار اور ابویعلی نے ابوبکر (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس نے اللہ سے مغفرت مانگ لی اس نے گناہ پر اصرار نہیں کیا، چاہے وہ دن میں سو بار اس کا ارتکاب کرے، حافظ ابن کثیر نے اس حدیث کو ” حسن“ کہا ہے۔ امام احمد نے علی بن ابی طالب (رض) سے اور انہوں نے ابوبکر (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ جب کوئی آدمی گناہ کرتا ہے، تو اس کے بعد اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر دو رکعت نماز پڑھ کر اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہے تو اللہ سے معاف کردیتا ہے۔ آل عمران
136 آیت 136 میں مذکورہ بالا صفات والوں کے لیے یہ اجر و ثواب بتایا گیا ہے کہ اللہ ان کے تمام گناہ معاف کردے گا، اور انہیں جنت میں داخل کردے گا جس کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، جس میں وہ ہمیشہ کے لیے رہیں گے۔ آل عمران
137 94۔ واقعہ احد کے درمیان اس آیت کو لانے کا مقصد مسلمانوں کو تسلی دینا ہے، اور انہیں یہ بتانا ہے کہ تم سے پہلے بھی بہت سی قومیں آئیں، ان کا امتحان ہوا، اور مسلمانوں کو کافروں سے جنگ کرنی پڑی، وہ صبر و ثبات قدمی کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرتے رہے، بالآخر نصرت و فتح یابی مسلمانوں کے حصہ میں آئی اور اللہ کے دشمنوں کو منہ کی کھانی پڑی، اور اگر اس میں شبہ ہو تو دنیا میں گھوم کر دیکھ لو، تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کرنے والوں کا کیا انجام ہوا۔ آل عمران
138 اس آیت میں اللہ نے بتایا کہ حق و باطل کو لوگوں کے لیے کھول کھول کر اس کے لیے بیان کردیا گیا ہے تاکہ اللہ سے ڈرنے والے عبرت اور نصیحت حاصل کریں آل عمران
139 اس میں بھی مسلمانوں کو تسلی ہی دی جارہی ہے، کہ میدان احد میں تمہیں جو زخم لگے ہیں، اور تمہارے جو آدمی قتل ہوگئے، اس سے تمہارے پاؤں میں لغزش نہیں آنی چاہئے، اور تمہیں سست اور کاہل نہیں ہونا چاہئے، اس لیے کہ انجام کار غلبہ تمہیں نصیب ہوگا، اور اسلام کا بول بالا ہوگا، ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ تم اپنے دل مضبوط رکھو، اللہ پر بھروسہ رکھو، اور دشمنوں کی پرواہ نہ کرو، آل عمران
140 96۔ یہاں بھی مسلمانوں کو ایک دوسری طرح سے تسلی دی جا رہی ہے کہ میدانِ احد میں اگر تمہیں زخم لگے ہیں، اور تمہارے لوگ قتل ہوئے، تو تمہارے دشمنوں کے ساتھ بھی تو ایسا ہوا ہے، لیکن کافر ہوتے ہوئے، انہوں نے اپنی قوم کو بزدلی نہیں دکھائی، اور اپنی کمزوری کا مظاہرہ نہیں کیا، تم تو مسلمان ہو، اللہ نے تم سے فتح و نصرت کا وعدہ کر رکھا ہے، اس لیے تمہیں بدرجہ اولی قوت و شجاعت کا مظاہرہ کرنا چاہئے، اور یہ تو دنیاوی اور عارضی زندگی ہے، یہاں تو ایسا ہی ہوتا رہتا ہے کہ کبھی اللہ کے دوستوں کو غلبہ حاصل ہوتا ہے، اور کبھی اس کے دشمنوں کو اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے، اور وہاں کی کامیابی اصل کامیابی ہے، اور وہ مومنوں کے ساتھ خاص ہے، اور ایسا اس لیے بھی ہوتا ہے تاکہ مومنوں اور منافقوں میں تمیز ہوسکے، اور کچھ لوگوں کو شہادت کا مقام مل سکے، اور تاکہ اللہ مومنوں کو ان کے گناہوں سے اور ان کے نفس کے آفات سے پاک کردے (جیسا کہ اس واقعہ نے مسلمانوں کو منافقوں سے ممتاز کردیا) اور تاکہ کافروں کو ہلاک کردے، وہ اس طرح کہ جب وہ غالب آئیں گے تو کبر و غرور میں طاغوتی طاقت بن کر ابھریں گے، مسلمانوں سے ٹکرائیں گے، اور پھر پاش پاش ہوجائیں گے، چنانچہ ان تمام کافروں کا انجام جنہوں نے جنگ احد میں حصہ لیا بعد میں ایسا ہی ہوا، سبھی مارے گئے یا ذلیل و خوار ہو کر در در کی ٹھوکریں کھاتے رہے۔ آل عمران
141 آل عمران
142 97۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے کہا کہ تم یہ نہ گمان کرو کہ بغیر جہاد کیے ہی جنت میں داخل ہوجاؤ گے، اس لیے غزوہ احد میں جو کچھ ہوا اسے ہونا ہی تھا، تاکہ اللہ تعالیٰ عملی طور پر جان لے کہ کون اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے، اور اس راہ کی کٹھنائیوں پر صبر کرتا ہے، قرآن کریم میں اللہ نے اس مضمون کو کئی جگہ دہرایا ہے۔ سورۃ بقرہ آیت 214 اور سورۃ عنکبوت آیت 1، 2 میں اس مضمون کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ آزمائشوں کی بھٹی میں ڈال کر صبر کرنے والے مجاہدین کو میدانِ کار زار چھوڑ کر بھاگنے والوں سے الگ کرنا چاہتا ہے۔ آل عمران
143 آیت 143 میں اللہ تعالیٰ نے کلام کا رخ پھر واقعہ احد کی طرف پھیر دیا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شہدائے بدر کی فضیلت بیان کی، تو جن صحابہ کرام کو اس میں شرکت کا موقع نصیب نہیں ہوا تھا، انہوں نے جہاد کی تمنا کی، تاکہ شہید ہو کر اپنے بدری بھائیوں جیسی فضیلت کے حقدار بن جائیں۔ چنانچہ غزوہ احد کے موقع سے وہ دن آہی گیا، لیکن جب حالات نے پلٹا کھایا، اور موت سامنے نظر آنے لگی تو بہت سے صحابہ کرام بھاگ کھڑے ہوئے، اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے، اور ایک قسم کا عتاب ہے کہ تم لوگ تو موت کی تمنا کر رہے تھے، اور جب اس کا منظر تمہاری آنکحوں کے سامنے آگیا تو میدان چھوڑ بیٹھے ! بخاری ومسلم نے عبداللہ بن ابی اوفی (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دشمن سے مڈبھیڑ کی تمنا نہ کرو، اور اللہ سے عافیت کی دعا کرتے رہو، لیکن جب دشمن کا سامنا ہوجائے تو صبر سے کام لو اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ آل عمران
144 98۔ غزوات کے مورخین نے لکھا ہے کہ جب کچھ مسلمان میدان احد سے شکست کھا کر بھاگ پڑے تو عبداللہ بن قمیہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے کی غرض سے آگے بڑھا، مصعب بن عمیر (رض) مسلمانوں کا جھنڈا لیے وہیں موجود تھے، انہوں نے آپ کی طرف سے دفاع کرنا چاہا تو ابن قمیہ نے انہیں قتل کردیا، اور اسے گمان ہوگیا کہ اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کردیا اور کہنا شروع کردیا کہ میں نے محمد کو قتل کردیا، شیطان بھی چیخ پڑا کہ محمد کا قتل ہوگیا، جب بہت سے مسلمانون کے کانوں میں یہ آواز پڑی تو جنگ کرنا بند کردیا اور تھر اکر بیٹھ گئے، بعض نے کہا کہ کاش کوئی آدمی ہمارے لیے ابوسفیان سے امان مانگ لیتا، بعض منافقین نے کہا کہ اگر محمد نبی ہوتا تو قتل نہ ہوجاتا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر اس ذہنیت کی تردید کی اور کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ایک نبی ہیں۔ ان سے پہلے بھی اللہ کے بہت سے انبیاء و رسل گذر چکے ہیں، تو کیا اگر وہ مرجائیں گے یا قتل کردئیے جائیں گے تو تم لوگ اللہ کے دین سے پھر جاؤ گے؟ یاد رکھو کہ جو شخص دین اسلام سے صرف اس وجہ سے پھرجائے گا تو وہ صرف اپنے آپ کو نقصان پہنچائے گا، کیونکہ دین تو اللہ کا ہے اور عبادت اللہ کی کرنی ہے، وہ تو ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا، کسی نبی یا رسول کی موت یا قتل سے اللہ کا دین دنیا سے اٹھ نہیں جاتا، اسی لیے انس بن مالک کے چچا انس بن النضر نے جب صحابہ کا یہ حال دیکھا تو کہا کہ اے لوگو ! اگر محمد قتل کردئیے گئے تو محمد کا رب زندہ ہے، وہ کبھی نہیں مرے گا، اور تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد زندہ رہ کر کیا کرو گے، آؤ جس مقصد کے لیے محمد نے جنگ کی، اسی کے لیے تم بھی جنگ کرو، اور جس کی خاطر محمد نے جان دے دی، تم بھی جان دے دو، ھر کہا، اے اللہ ! یہ لوگ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کے لیے معافی مانگتا ہوں اور اپنی براءت کا اظہار کرتا ہوں، پھر اپنی تلوار کھینچ کر جنگ کرنی شروع کردی یہاں تک کہ قتل کردئیے گئے، (رض) (دیکھئے بخاری، کتاب الجہاد، باب : 12) امام ابن لقیم نے زاد المعاد میں لکھا ہے کہ اس آیت کریمہ کا جو مضمون ہے اور اس میں جس سزا کا ذکر ہے، اس کی حقیقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے وقت کھل کر سامنے آئی کہ بہت سے منافقین اور ضعیف الایمان لوگ ایمان سے مرتد ہوگئے، اور جو مخلص لوگ اسلام پر ثابت قدم رہے اللہ نے انہیں عزت دی اور فتح و نصرت سے نوازا، انتہی۔ بخاری کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے دن ابوبکر صدیق (رض) نے اسی آیت کی تلاوت کی، اور ان کی تلاوت سن کر تمام صحابہ نے تلاوت کرنی شروع کردی اور عمر (رض) تھرا کر بیٹھ گئے، اور انہیں ایسا معلوم ہوا کہ جیسے یہ آیت آج ہی نازل ہوئی ہے آل عمران
145 99۔ میدانِ جنگ چھور کر بھاگنے والے مسلمانوں کی ہمت افزائی کی جا رہی ہے کہ موت کا ایک دن مقرر ہے، اس دن اور اس وقت سے پہلے موت نہیں آسکتی، اور جب اس کا مقرر وقت آجائے گا تو کوئی اس سے بچ نہیں سکتا۔ اس لیے بزدلی دکھانے سے کیا فائدہ۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ جو اپنے نیک اعمال کے ذریعہ دنیاوی فوائد و مصالح کے حصول کی نیت کرتا ہے تو اسے ہم اس کی مانگ کے مطابق دیتے ہیں، لیکن آخرت میں اس کا کوئ اجر اسے نہیں ملے گا، اور جو آخرت میں اجر و ثواب کی نیت کرتا ہے تو اسے ہم اس کی نیت کے مطابق دیتے ہیں، اور ہم شکر گذار بندوں کو ان کا اجر و ثواب ضرور دیں گے۔ آل عمران
146 100۔ میدان احد میں مسلمانوں سے جو تقصیر ہوئی اور ماضی میں اللہ والے مجاہدین کا جہاد میں اپنے رسولوں کے ساتھ جیسا معاملہ رہا، دونوں کا تقابل کر کے مسلمانوں کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ تمہیں ان اللہ والے مجاہدین کی زندگی سے سبق حاصل کرنا چاہپئے کہ میدان جنگ میں انہیں زخم لگے یا ان کے افراد شہید ہوئے، تو انہوں نے دشمنوں کے سامنے کمزوری اور شکست خوردنی کا مظاہرہ نہیں کیا، بلکہ ثبات قدمی کا ثبوت دیا۔ آل عمران
147 101۔ اللہ والے مجاہدین کی عملی خوبیاں بیان کرنے کے بعد ان کے قول کی خوبی بیان کی جا رہی ہے کہ وہ لوگ اللہ کے حضور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے تھے، تو بہ و استغفار کرتے تھے، اور اپنے رب سے دعا کرتے تھے کہ اے اللہ ! ہمیں ثبات قدم عطا فرما اور دشمنوں پر غلبہ دے۔ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ گناہوں کی وجہ سے ہی دشمن غالب آجاتا ہے، اور شیطان کو مسلمانوں کے دشمنوں کی مدد کا موقع مل جاتا ہے، فتح و کامرانی کی شرط اول اللہ کی اطاعت و بندگی ہے، اسی لیے اللہ کے نیک بندوں کے : ربنا الغفرلنا ذنوبنا واسرافنا فی امرنا۔ انہیں معلوم تھا کہ ثبات قدمی اور نصرت و فتح اللہ کی طرف سے ملتی ہے، اس لیے انہوں نے اللہ سے ثبات قدمی اور دشمن پر غلبہ کے لیے دعا کی۔ انتہی۔ آل عمران
148 اس آیت میں یہ بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان نیک بندوں کو ان کی توحید، اللہ پر توکل کامل اور گناہوں سے معافی مانگنے کی وجہ سے دنیا میں بھی کامیابی دی، اور آخرت میں اپنے فضل و کرم سے انہیں جنت دے گا، آیت کے آخر میں اللہ نے ان کا اچھے نام کے ساتھ ذکر کر کے ان سے محبت کا اظہار کیا۔ آل عمران
149 102۔ سیاق کلام جنگ احد سے ہی متعلق ہے۔ اوپر گذر چکا کہ شیطان نے مشہور کردیا کہ محمد کا قتل ہوگیا، تو منافقین نے بعض مسلمانوں سے کہا کہ اگر محمد نبی ہوتے تو قتل نہ ہوجاتے، اس لیے تم لوگ اپنے آباء و اجداد کے دین کی طرف پھر جاؤ، چونکہ یہ بات اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک بڑی سازش تھی، اس لیے اللہ نے انہیں متنبہ کیا، کہ اگر تم لوگوں نے ان کافروں کی اطاعت کی تو یہ تمہیں اسلام سے برگشتہ بنا دیں گے، اور ہر طرح کا خسارہ تمہارا نصیب بن جائے گا۔ آل عمران
150 اس آیت میں اللہ نے کہا کہ اے مسلمانوں ! اللہ ہی تمہارا مولی اور دوست ہے، اس لیے تم لوگ اسی کی اطاعت کرو، اور وہ سب سے بہترین مددگار ہے۔ آل عمران
151 103۔ امام شوکانی لکھتے ہیں کہ واقعہ احد کے بعد جب مشرکین مکہ کی طرف واپس ہونے لگے، تو انہیں پھر خیال آیا کہ دوبارہ مدینہ پر حملہ کر کے مسلمانوں کی جڑ ہی کیوں نہ کاٹ دی جائے، بہت برا کیا کہ ہم نے انہٰں قتل تو کیا لیکن بھاگنے والوں کو چھوڑ دیا، چنانچہ انہوں نے طے کیا کہ واپس جا کر مسلمانوں کا صفایا کردیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈال دیا، اور وہ ڈر گئے کہ اگر اب دوبارہ گئے تو زخمی شیر انہیں زندہ نہیں واپس آنے دیں گے۔ اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کافروں کے مشرکانہ عمل کی وجہ سے ان کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈال دیا۔ بخاری و مسلم نے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے پانچ ایسی چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملیں۔ میرا دشمن ایک ماہ کی مسافت پر بیٹھا مجھ سے خوفزدہ رہتا ہے۔ الحدیث آل عمران
152 104۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ واقعہ احد کے موقع سے بھی اللہ کا وعدہ سچا تھا کہ وہ اپنے مومن بندوں کی مدد کرتا ہے، اور کافروں پر انہیں غلبہ دیتا ہے، چنانچہ اس نے تمہیں تمہارے دشمنوں پر غلبہ دیا تھا، اور اگر تم اطاعت و فرمانبرداری پر قائم رہتے اور رسول کے حکم کی اتباع کرتے، تو اللہ کی نصرت آخرت تک تمہارے لیے باقی رہتی، لیکن جب تم نے روگردانی کی اور اپنے مرکز کو چھوڑ دیا، تو بطور عقاب اللہ کی نصرت تم سے چھن گئی، اور پاسا پلٹ گیا، (اس کی تفصیل آیت 121 میں گذر چکی ہے، وہاں دیکھ لیجیے) ” بعض نے دنیا کا ارادہ کیا“ یعنی مال غنیمت حاصل کرنے کے لیے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعین کیے ہوئے مرکز کو چھوڑ دیا، اور“ بعض نے آخرت کا ارادہ کیا“ یعنی شوق شہادت میں جنگ کرتے رہے، جیسا کہ انس بن نضر نے کیا کہ دشمنوں سے لڑتے رہے، یہاں تک کہ شہید ہوگئے، پھر اللہ نے مسلمانوں کو کافروں کا پیچھا کرنے سے روک دیا، تاکہ اس واقعہ کو مسلمانوں لیے امتحان و آزمائش کا سبب بنا دے، اور تاکہ وہ اللہ کی طرف رجوع کریں، اور اپنے گناہوں سے معافی مانگیں، اس کے بعد اللہ نے خبر دی ہے کہ اس نے مسلمانوں کی لغزشوں اور خطاؤں کو معاف کردیا۔ آل عمران
153 105۔ سلسلہ کلام غزوہ احد کے بارے میں ہی ہے۔ جب خالد بن ولید کے دستہ نے باقی ماندہ تیر اندازوں کو قتل کر کے پہاڑی کی طرف سے حملہ کردیا، تو مسلمانوں میں بھگدڑ مچ گئی، اور رعب و دہشت کی وجہ سے ایسا سرپٹ بھاگے کہ کسی کی طرف مڑ کر دیکھتے بھی نہیں تھے۔ بعض مدینہ کی طرف بھاگے، اور بعض پہاڑوں کی طرف، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو بلانے لگے کہ اے اللہ کے بندو ! میری طرف آؤ، اے اللہ کے بندو ! میری طرف آؤ، مسند امام احمد میں براء بن عازب (رض) کی حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ صرف بارہ (آدمی رہ گئے تھے۔) اور مسلم میں انس بن مالک (رض) کی روایت ہے کہ صرف نو آدمی رہ گئے تھے۔ اللہ نے فرمایا کہ راہ فرار اختیار کرنے کی وجہ سے انہیں مال غنیمت فوت ہوجانے کا غم، شکست کا غم، بہتوں کے زخمی ہونے کا غم، بہتوں کے قتل ہونے کا غم اور پھر یہ غم اٹھانا پڑا کہ شیطان نے یہ بات پھیلا دی کہ محمد کا قتل ہوگیا، اور یہ سب اس لیے ہوا تاکہ انہیں مصیبتوں پر صبر کرنے کی عادت پڑے، اور ان کے دلوں میں یہ بات بیٹھ جائے کہ فتح و نصرت اور حصول مال غنیمت سب اللہ کی جانب سے ہوتا ہے، ان کی قدرت و طاقت کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ آل عمران
154 106۔ ان تمام غم و آلام کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان مخلص مسلمانوں پر، جنہیں یقین تھا کہ اللہ اپنے رسول کی ضرور مدد کرے گا، اور ان کی امیدوں کو ضرور پوری کرے گا، بطور امن و سکون ایک اونگھ طاری کردی۔ امام بخاری نے ابو طلحہ (رض) کا قول نقل کیا ہے، کہ میدانِ احد میں لوگ صفوں میں کھڑے تھے، اور ہم پر اونگھ کا غلبہ تھا، میری تلوار میرے ہاتھ سے گر جاتی تھی اور میں دوبارہ اسے پکڑ لیتا تھا، ترمذی کے الفاظ ہیں، ابو طلحہ (رض) نے کہا کہ میں نے میدان احد میں سر اٹھایا تو دیکھا کہ ہر آدمی اونگھ کی وجہ سے جھکا پڑا ہے۔ فخر الدین رازی نے لکھا ہے کہ اونگھ کے کئی فوائد تھے۔ ایک اہم فائدہ یہ ہوا کہ دشمنان اسلام مسلمانوں کو یکسر ختم کردینے کے درپے تھے، اس لیے نیند کی حالت میں محفوظ و مامون رہنا اس بات کی سب سے بڑی دلیل تھی، کہ اللہ تعالیٰ نے اس حال میں بھی ان کا حامی و ناصر تھا، اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ کے وعدے پر ان کا یقین بڑھ گیا، اور دشمن کا خوف ان کے دل سے نکل گیا۔ لیکن منافقین پر یہ اونگھ طاری نہیں ہوئی، انہیں صرف اپنی فکر لاحق تھی، انہیں تو اپنے دین کی فکر تھی، نہ اپنے رسول کی، اور نہ ہی صحابہ کرام کی، خوف و قلقل اور جزع و فزع کی وجہ سے انہیں کہاں نیند آسکتی تھی !! انہوں نے اللہ کے بارے میں بدگمانی شروع کردی، اور اس سوء ظن میں مبتلا ہوگئے کہ اب تو اسلام اور مسلمانوں کا خاتمہ ہوگیا، اور منافقین سے شک اور بد ظنی کے علاوہ اور کس بات کی امید کی جاسکتی تھی؟ منافقین نے اپنے سوء ظن کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم لوگوں کی تو بات چلتی نہیں، اگر ہماری بات مانی جاتی تو آج یہ حال نہ ہوتا، یہ عبداللہ بن ابی بن سلول کی طرف اشارہ ہے، جنگ کے لیے مدینہ سے نکلنے سے پہلے اس نے یہی مشورہ دیا تھا کہ شہر کے اندر ہی رہ کر دفاع کیا جائے، اس لیے جب اسے خبر ملی کہ خزرج کے بہت سے لوگ قتل ہوگئے، تو اس نے مسلمانوں میں بد ظنی پھیلانے کے لیے کہا کہ ھل لنا من الامر من شیء، یعنی ہماری بات تو چلتی نہیں اگر محمد نے میری بات مانی ہوتی تو اتنے لوگ قتل نہ ہوتے۔ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے دیا کہ اگر تم سب اس بات پر اتفاق کرلیتے کہ تم اور وہ تمام لوگ جو قتل ہوگئے اپنے گھروں سے نہ نکلو گے، تو لوح محفوظ میں جنہیں قتل ہوجانا لکھا تھا، وہ اپنے گھروں کو چھوڑ کر اپنی قتل گاہوں تک ضرور پہنچ جاتے، قضا و قدر کی تنفیذ کے لیے اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں ڈال دیتا کہ وہ گھروں سے نکل کر وہاں پہنچ جائیں۔ اور یہ جو کچھ ہوا اس میں بہت سی حکمتیں تھیں، جنہیں اللہ ہی بہتر جانتا ہے، ایک حکمت یہ تھی کہ مخلص مسلمانوں کا اخلاص اور منافقوں کا نفاق ظاہر ہو، کیونکہ ایسے حالات سے گذرنے کے بعد مومن کا ایمان بڑھ جاتا ہے، اور منافق کے جسم اور زبان سے بے قراری، قلق و اضطراب اور اسلام کے بارے میں عدمِ اطمینان کا اظہار ہونے لگتا ہے۔ اور ایک حکمت یہ بھی تھی کہ امتحان و آزمائش کے مراحل سے گذر کر مومن شیطانی وسوسوں، غفلت اور ان تمام آلائشوں سے نجات پا سکے جو ایمان و اسلام اور اصلاح و تقوی کے منافی ہیں۔ آل عمران
155 107۔ ابن عساکر نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے، کہ یہ آیت عثمان بن رافع بن المعلی اور خارجہ بن زید کے بارے میں نازل ہوئی تھی، اس بارے میں کئی دوسری روایتیں بھی آئی ہیں۔ سب کا خلاصہ یہ ہے کہ جب مسلمانوں اور مشرکوں کی مڈبھیڑ ہوگئی اور حالات نے پلٹا کھایا تو کچھ مسلمان بھاگ پڑے، اور یہ سب ان کے بعض گناہوں کی وجہ سے ہوا، اور شیطان کو انہیں بہکانے کا موقع مل گیا۔ حافظ ابن لقیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ انسان کے اعمال لشکر کی مانند ہیں، اگر اچھے ہیں تو ان سے دشمن کے خلاف تقویت ملتی ہے اور اگر برے ہیں تو دشمن کو تقویت ملتی ہے۔ اس کے بعد اللہ نے ان مسلمانوں کو معافی کا اعلان کردیا، اس لیے کہ ان کا فرار نفاق کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ یہ ایک عارضی غلطی تھی۔ آل عمران
156 108۔ یہاں اہل کفر سے مراد منافقین ہیں، جنہوں نے واقعہ احد کے بعد کہا کہ اگر ہماری بات مانی جاتی اور مدینہ سے باہر جا کر دشمنوں سے جنگ نہ کرتے تو اتنے لوگوں کا قتل نہ ہوتا اور اتنے لوگ زخمی نہ ہوتے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ہمارے یہ نظریاتی یا خاندانی بھائی سفر میں نہ جاتے یا جنگ میں شریک نہ ہوتے، اپنے گھروں میں رہتے تو انہیں موت لاحق نہیں ہوتی اور قتل نہ کیے جاتے، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایسا عقیدہ رکھنے سے منع فرمایا اور انہیں حکم دیا کہ اپنی زبان اور دل کی حفاظت کریں۔ نہ دل میں ایسا اعتقاد رکھیں اور نہ ہی زبان پر ایسے کلمات لائیں، کیونکہ ایسے عقیدہ سے صرف منافقین کی حسرت میں اضافہ ہوتا ہے، فائدہ کچھ نہیں ہوتا، اس لیے کہ موت اور زندگی کا مالک اللہ ہے۔ اس نے جس کی موت جب، جس طرح اور جہاں لکھ رکھی ہے، اسی وقت، اسی طرح اور اسی جگہ آئے گی، حضرت خالد بن ولید (رض) نے بستر مرگ پر کہا تھا کہ میرے جسم میں ایک بالشت جگہ بھی تلوار یا نیزے کے نشان سے خالی نہیں اور اب میں اونٹ کی طرح بستر مرگ پر مر رہا ہوں، بزدلوں کی آنکھوں سے نیند اڑ جائے۔ آل عمران
157 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اللہ کی راہ میں جان دینے سے بہتر کوئی موت نہیں، کیونکہ اللہ اس کے گناہوں کو معاف کردیتا ہے، اور اس پر اپنی رحمت نازل کرتا ہے، جو دنیا اور اس کی تمام لذتوں سے بہتر ہے۔ آل عمران
158 اس آیت میں بعث بعد الموت کا عقیدہ بیان کیا گیا ہے کہ چاہے آدمی طبعی موت مرے یا قتل کردیا جائے، بہرحال اسے اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور اپنے اعمال کا بدلہ پانا ہے۔ آل عمران
159 109۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات عالیہ کا ذکر فرمایا ہے، اور ان پر اور مسلمانوں پر احسان جتایا ہے کہ نرمی کا یہ جذبہ جو آپ کے اندر مسلمانوں کے لیے موجزن ہے، اللہ کا عطیہ ہے، اسی نے آپ پر اور صحابہ کرام پر رحم کھاتے ہوئے یہ جذبہ نرم خوئی آپ کے اندر پیدا کردیا ہے کہ آپ ہر حال میں ان کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرتے ہیں، ورنہ میدان احد میں انہوں نے آپ کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ تو بڑا ہی غصہ دلانے والا تھا۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اگر آپ بدخلق، سخت زبان، سخت دل ہوتے، اور اپنے صحابہ کے ساتھ سختی کا برتاؤ کرتے تو ایک ایک کر کے سب آپ سے الگ ہوجاتے اور دعوت کا کام رک جاتا، لیکن اللہ نے آپ کو نرم خو، نرم زبان، خوش مزاج اور رحم دل بنایا ہے۔ امام بخاری اور دوسرے محدثین نے عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تورات میں وہی صفات بیان ہوئی ہیں جو قرآن میں موجود ہیں، کہ آپ سخت زبان، سخت دل، اور بازاروں میں شور مچانے والے نہ ہوں گے اور برائی کا جواب برائی سے نہیں دیں گے، بلکہ عفو و درگذر سے کام لیں گے۔ اس لیے ان سے آپ کے حق میں جو کوتاہی ہوئی ہے اسے درگذر کردیجئے، جیسا کہ اللہ نے انہیں معاف کردیا ہے، اور ان کے لیے اللہ سے مغفرت طلب کیجیے اور جنگی اور غیر جنگی تمام معاملات میں ان سے مشورہ لیتے رہیے۔ چنانچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی زندگی میں صحابہ کرام سے بہت سے معاملات میں مشورہ کرتے رہے۔ غزوہ بدر کے موقع سے دشمن کی فوج کو جالینے کے بارے میں مشورہ کیا، غزوہ احد کے موقع سے مشورہ کیا کہ شہر میں رہ کر ہی دفاع کیا جائے، یا باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ کیا جائے، غزوہ خندق کے موقع سے مشورہ طلب کیا اور کہا کہ اے مسلمانو ! مجھے مشورہ دو۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مسلمانوں کے ساتھ مشورہ کے بعد جو رائے طے پا جائے، اس کام کو کر گذرنے کے لیے اللہ پر بھروسہ کیجئے۔ لوگوں کے مشورہ پر نہیں۔ امام شوکانی لکھتے ہیں کہ مقصود انہی امور میں مشورہ کرنا ہے، جن کے بارے میں شرع میں حکم صریح موجود نہ ہو، بعض علمائے امت کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ مسلمان حکام کو علماء سے ان امور میں ضرور مشورہ کرنا چاہئے، جن کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتے۔ قرطبی نے ابن عطیہ کا قول نقل کیا ہے کہ علماء کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ جو حاکم، اہل علم اور اہل دین سے مشورہ نہیں کرتا اسے معزول کردینا واجب ہے۔ فخر الدین رازی لکھتے ہیں، یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ توکل کا یہ مفہوم ہرگز نہیں کہ آدمی اپنے آپ کو مہمل اور بے کار سمجھے، جیسا کہ بعض جاہلوں کا خیال ہے، ورنہ مشورہ کرنا توکل کے خلاف ہوتا، توکل یہ ہے کہ آدمی ظاہری اسباب تو اختیار کرے، لیکن دل سے اس پر بھروسہ نہ کرے، بھروسہ ہو تو صرف اللہ پر۔ آل عمران
160 اس آیت میں اللہ نے فرمایا کہ اگر اللہ تمہاری مدد کرنی چاہے جیسا کہ میدان بدر میں کیا، تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا، اور اگر اپنی مدد کھینچ لے جیسا کہ میدان احد میں کیا، تو کوئی تمہاری مدد کو نہیں آسکتا، اس لیے کہ تمام امور صرف اللہ کے اختیار میں ہیں، اور اس کی مدد فرمانبرداروں کو حاصل ہوتی ہے، اور گناہ زوالِ نعمت اور مغلوبیت و مہزومیت کا سبب ہوتا ہے، اس لیے مومنوں کو صرف اللہ پر بھروسہ کرنا چاہئے، اس ایمان ویقین کے ساتھ کہ اس کے علاوہ کوئی حامی و ناصر نہیں۔ آل عمران
161 110۔ ابو داود اور ترمذی نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ میدان بدر میں ایک سرخ چادر کھو گئی، تو کسی نے کہا کہ شاید رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لے لیا ہے، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ حافظ ابن مردویہ رحمہ اللہ نے ابن عباس (رض) سے ہی روایت کی ہے کوئی چیز کھو گئی تو بعض منافقین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو متہم کیا تو یہ آیت نازل ہوئی، جس سے مقصود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رفعت شان اور ان کی عصمت کی شہادت دینی ہے۔ اس کے بعد اللہ نے خیانت کی وعید بیان کی، کہ خائن آدمی قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ خیانت کا مال اس کی گردن پر ہوگا، تاکہ محشر والوں کے سامنے اس کی رسوائی ہو۔ بخاری و مسلم نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن خیانت کے بارے میں بات کی اور اسے بہت ہی زیادہ اہمیت دی، پھر کہا، ایسا نہ ہو کہ تم میں سے کوئی قیامت کے دن میرے سامنے اس حال میں آئے کہ اس کی گردن پر اونٹ ہو جو چیخ رہا ہو، اور وہ کہے کہ یارسول اللہ ! میری مدد کیجیے تو میں کہوں گا کہ آج میں کچھ نہیں کرسکتا، میں نے تمہیں تنبیہہ کردی تھی، اس کے بعد آپ نے اسی طرح گھوڑے، بکری آدمی اور زمین کے ٹکڑوں کا ذکر کیا، اور ہر بار یہی بات دہرائی کہ میں کہوں گا، آج میں کچھ نہیں کرسکتا۔ آل عمران
162 111۔ خائن کی خیانت اور اس کا انجام بیان کرنے کے بعد کسی کو شبہ ہوسکتا تھا کہ دوسروں کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ نہیں ملے گا، اس لیے ایک حکم عام لا کر اس بات کی تاکید کردی گئی کہ جو شخص اپنے اعمال کے ذریعہ اللہ کی رضا کا طالب ہوگا چاہے جو بھی عمل ہو، اس آدمی کی مانند نہیں ہوسکتا جو گناہوں کا ارتکاب کر رہا ہے اور اپنے رب کی ناراضگی مول لے رہا ہے اور پھر بات یہیں نہیں ختم ہوجاتی، بلکہ اللہ کے پاس نیکوں کو ان کے اعمال صالحہ کے درجات کے مطابق درجات ملیں گے، اور بدوں کے بھی جہنم میں (العیاذ باللہ طبقات ہوں گے) آل عمران
163 آل عمران
164 112۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے اوپر اپنے احسان کا ذکر کیا ہے، کہ اس نے ان کی رہنمائی کے لیے انہی جیسے ایک عربی آدمی کو اپنا رسول بنا کر بھیجا، تاکہ اس کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرسکیں، اور اس کی تعلیمات سے مستفید ہوسکیں، اور چونکہ رسول کی بعثت سے مسلمان ہی حقیقی معنوں میں مستفید ہوئے، اس لیے انہیں کے اوپر احسان کا ذکر آیا، ورنہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوری دنیا کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے تھے، جیسا کہ اللہ نے سورۃ الانبیاء آیت 107 میں فرمایا، وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین۔ کہ ہم نے آپ کو سارے عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ اس رسول کی صفت یہ ہے کہ وہ انہیں قرآن پڑھ کر سناتے ہیں، جبکہ اس کے پہلے ان عربوں کے پاس کوئی وحی نہیں آئی تھی، انہیں دعوت توحید اور دعوت اسلام کے ذریعہ شرک اور گناہوں سے پاک کرتے ہیں، اور انہیں قرآن وسنت کی تعلیم دیتے ہیں، عرب والے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت اور ان کے تزکیہ و تعلیم کے پہلے کھلی گمراہی میں تھے، بتوں کی پوجا کرتے تھے، حرام اور گندی چیزیں کھاتے تھے، اور ایک دوسرے پر ظلم کرتے تھے، اللہ نے اپنا نبی بھیج کر انہیں ظلمت سے نکال کر روشنی تک پہنچا دیا، اور علم، زہد اور عبادت میں انہیں دنیا کا بہترین انسان بنا دیا، اللہ تعالیٰ کا مسلمانوں پر یہ احسان عظیم تھا، جس کا ذکر اس آیت کریمہ میں آیا ہے۔ فخر الدین رازی نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عربوں میں پیدا کیا، یہ عربوں کے لیے بڑے فخر و شرف کی بات تھی، اس لیے کہ ابراہیم (علیہ السلام) پر فخر کرنا تو یہود، نصاری اور عرب سبھوں میں مشترک تھا، اور یہود و نصاری، موسیٰ، عیسیٰ اور تورات و انجیل پر فخر کیا کرتے تھے۔ عربوں کے پاس ان کے مقابلہ میں فخر کی کوئی بات موجود نہ تھی، جب اللہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث کیا، اور ان پر قرآن نازل فرمایا، تو یہ عربوں کے لیے بڑے شرف کی بات تھی، جس میں دوسری قومیں شریک نہ تھیں۔ آل عمران
165 113۔ اب تک سیاق کلام غزوہ احد ہی سے متعلق ہے، مسلمان جب قتل، زخم اور شکست کی مصیبتوں سے دوچار ہوئے تو ان کی زبان سے حیرت و استعجاب کے طور پر نکلا کہ ایسا کیسے ہوا؟ جبکہ ہم مسلمان ہیں اور اللہ کی راہ میں اس کے نبی کے ساتھ جہاد کر رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب تمہیں مصیبت لاحق ہوئی، یعنی تمہارے ستر آدمی قتل ہوگئے (حالانکہ تم میدان بدر میں اپنے دشمن کو اس کے دوگنا زک پہنچا چکے تھے، یعنی ان کے ستر آدمیوں کو قتل کیا، اور ستر کو پابند سلاسل کیا) تو تم نے کہا کہ اللہ نے تو فتح و نصرت کا وعدہ کیا تھا، پھر ایسا کیوں ہوا؟ تو اللہ نے اپنے رسول سے کہا کہ آپ انہیں جواب دیجئے کہ یہ تمہارے کرتوت کا ہی نتیجہ ہے، تم نے مرکز کر چھوڑ کر اپنے نبی کے حکم کی مخالفت کی تو یہ دن دیکھنا پڑا، اس لیے کہ اللہ کا وعدہ تو اطاعت اور ثبات قدمی کے ساتھ مشروط تھا۔ آل عمران
166 یہ اور اس سے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ معرکہ احد میں جب مومنین اور کفار کی مڈبھیڑ ہوئی، اور تمہیں مصیبت لاحق ہوئی، تو وہ اللہ کی تقدیر کا نتیجہ تھا، تاکہ صادق الایمان مسلمانوں کی حقیقت کھل کر سامنے آجائے، اور ان منافقین کا بھی پتہ چل جائے جو اللہ، اس کے رسول اور مسلمانوں کے ساتھ اپنی دوستی کا دم بھرتے تھے، حالانکہ ان کے دل کفر اور اللہ اور اس کے رسول کی عداوت سے بھرے ہوئے تھے، اور جب ان سے کہا گیا کہ آؤ اللہ کی راہ میں جہاد کرو، یا کم از بظاہر ہی سہی مسلمانوں کی تعداد تو بڑھاؤ، تو انہوں نے کہا کہ اگر ہم جانتے کہ واقعی یہ جنگ ہے اور شہر سے باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ کرنا چاہئے، تو ہم تمہارا ساتھ دیتے، لیکن تمہارا یہ فیصلہ تو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ یہ عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کی طرف اشارہ ہے، جب مقام شوط سے ایک تہائی کی تعداد میں منافقین، عبداللہ بن ابی کی بات مانتے ہوئے مسلمانوں کی فوج سے الگ ہو کر اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ منافقین اس دن ایمان کی بہ نسبت کفر کے زیادہ قریب تھے، حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ آدمی کے حالات بدلتے رہتے ہیں، کبھی کوئی شخص کفر کے زیادہ قریب ہوجاتا ہے، اور کبھی کوئی شخص ایمان کے زیادہ قریب ہوجاتا ہے۔ واحدی نے لکھا ہے، یہ آیت دلیل ہے کہ جو آدمی اپنی زبان سے کلمہ توحید کا اقرار کرے گا، اس کا کفر جانتے ہوئے بھی اسے کافر نہیں کہا جائے گا۔ اللہ نے ان منافقین کی یہ صفت بیان کی کہ وہ اپنی زبان سے تو ایمان کا اظہار کرتے ہیں، لیکن ان کے دل کفر سے بھرے ہوئے ہیں۔ آل عمران
167 آل عمران
168 انہی منافقین کے بارے میں جو مقام شوط سے واپس چلے گئے تھے، کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں بیٹھ گئے، اور اپنی نجی مجلسوں میں کہنے لگے، کہ اگر وہ لوگ ہماری بات مانتے اور باہر نہ نکلتے تو قتل نہ کیے جاتے، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے کہا، آپ ان سے کہئے اگر تمہارا دعوی صحیح ہے کہ تم موت کو ٹال سکتے ہو، تو ذرا اپنی موت کو ٹال کر دکھاؤ، چونکہ وہاں تمہارا قتل ہونا اللہ کی تقدیر میں نہیں لکھا تھا، اس لیے تم وہاں قتل نہیں ہوئے، تمہارے گھروں میں بیٹھ جانے سے تمہاری تقدیر نہیں بدل گئی، حافظ ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں، واقعہ احد کی ایک حکمت یہ بھی تھی کہ منافقین نے ازخود اپنے دل کی بات کہی، جسے مسلمانوں نے سنا، اور اللہ نے جو جواب دیا، اسے بھی مسلمانوں نے سنا، اور نفاق اور اس کے انجام کو جانا، کہ کس طرح منافق دنیا و آخرت کی نیک بختیوں سے محروم ہوجاتا ہے اور ہر بدبختی اسے گھیر لیتی ہے۔ آل عمران
169 115۔ گذشتہ آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے بیان کیا کہ غزوہ احد میں مسلمانوں کو جن آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا، ان کا مقصد مومن و منافق اور صادق و کاذب کے درمیان تفریق کرنا تھا، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان کیا ہے کہ جو لوگ میدان چھوڑ کر نہیں بھاگے اور اللہ کی راہ میں قتل ہوگئے، ان کا مقام بہت ہی اونچا ہے، جس کی تفصیل اس آیت میں آئی ہے، اور یہ وہ مقام ہے جسے حاصل کرنے کے لیے ہر آدمی کو کوشش کرنی چاہئے، اللہ کی راہ میں جان دینا ایسا عمل ہے، جس کی طرف ہر ایک کو سبقت کرنی چاہئے۔ بعض نے کہا کہ یہ آیت شہدائے بدر کے بارے میں نازل ہوئی تھی، اور بعض نے کہا کہ بئر معونہ کے شہداء کے بارے میں نازل ہوئی تھی، جن کی تعداد چالیس یا ستر تھی، اور جنہیں عامر بن الطفیل الجعفری نے غار میں گھیر کر قتل کردیا تھا۔ لیکن جیسا کہ علمائے تفسیر میں ہمیشہ کہا کرتے ہیں کہ اعتبار عموم لفظ کا ہوتا ہے، خصوصِ سبب کا نہیں، یعنی شہیدوں کی جو فضیلت یہاں بیان کی گئی ہے، وہ سارے شہدائے اسلام کے لیے عام ہے۔ جمہور علماء کے نزدیک شہداء حقیقی معنوں میں زندہ ہیں، اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہاں مجازی زندگی مراد ہے، لیکن راجح پہلی رائے ہے، صحیح احادیث کے مطابق ان کی روحیں سبز چڑیوں کے پوٹوں میں ہوتی ہیں، وہ جنت کے پھل کھاتی ہیں، اور عرش کے ساتھ معلق قندیلوں میں پناہ لیتی ہیں، اور اللہ نے ان کے ساتھ جو اکرم کا معاملہ کیا ہے، اس سے غایت درجہ خوش ہیں، اور دنیا میں ان کے جو مومن بھائی رہ گئے ہیں، ان کے بارے میں سوچ سوچ کر خوش ہوتی ہیں کہ انہیں بھی دنیا سے رخصت ہونے کے بعد نہ کوئی خوف لاحق ہوگا، اور نہ کسی بات کا غم ہوگا، اور جنت کی نعمتوں اور آسائشوں سے مستفید ہوں گے حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کو بہت بڑی تسلی دی ہے، کہ جو مسلمان میدانِ احد میں کام آگئے انہیں آپ لوگ مردہ نہ کہیں، وہ تو اللہ کے پاس حقیقی زندگی گذار رہے ہیں، اور ہر طرح کی نعمتوں سے مستفیدہو رہے ہیں آل عمران
170 آل عمران
171 آل عمران
172 116۔ اس آیت کریمہ میں ان زخمی صحابہ کرام کی طرف اشارہ ہے، جنہوں نے جنگ احد کے بعد ابو سفیان اور اس کی فوج کا پیچھا کیا تھا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ ابوسفیان اور مشرکین مکہ جنگ احد کے بعد جب واپس ہونے لگے، تو کچھ دور جانے کے بعد انہیں خیال آیا کہ کیوں نہ مدینہ واپس جا کر مسلمانوں کا صفایا کردیا جائے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب اس کی اطلاع ہوئی، تو انہیں ڈرانے اور یہ احساس دلانے کے لیے کہ مسلمان ابھی قوی ہیں اور کافروں کا صفایا کرسکتے ہیں، انہی صحابہ کرام کو جنہوں نے جنگ احد میں شرکت کی تھی، اپنے ساتھ کافروں کو پیچھا کرنے کا حکم دیا، جابر بن عبداللہ واحد صحابی تھے جنہوں نے جنگ احد میں اپنی بہنوں کی دیکھ بھال کے لیے اپنے باپ کے حکم سے شرکت نہیں کی تھی، تاکہ ان کے باپ جنگ میں شریک ہوسکیں۔ انہیں اللہ کے رسول نے اجازت دے دی کہ وہ ابوسفیان کا پیچھا کرنے میں شریک ہوسکتے۔ صحابہ کرام نے اپنے نبی کے حکم پر لبیک کہا اور ہزار تکلیفوں اور زخموں کے باوجود ابو سفیان کی تلاش میں نکل پڑے یہاں تک کہ حمراء الاسد پہنچ گئے، جہاں معبد الخزاعی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر اسلام قبول کرلیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں حکم دیا کہ ابوسفیان کے پاس جا کر اسے مسلمانوں سے خوف دلائیں۔ ابوسفیان کو معبد کے اسلام لانے کا علم نہیں تھا، اس نے پوچھا کہ تمہارے پاس محمد اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں خبر ہے؟ تو انہوں نے نے جواب دیا کہ وہ لوگ تو کسی طرح تمہیں پا لینا چاہتے ہیں، اگر انہوں نے تمہیں آلیا تو تمہاری خیر نہیں۔ محمد کے وہ ساتھی جنہوں نے جنگ احد میں شرکت نہیں کی تھی وہ بھی ساتھ ہوگئے ہیں۔ ابو سفیان نے پوچھا کہ تمہاری کیا رائے ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ میری رائے بس یہ ہے کہ تم لوگ جلد از جلد یہاں سے روانہ ہوجاؤ، چنانچہ وہ لوگ گھبرا کر مکہ کی طرف لوٹ گئے۔ آل عمران
173 سیرت ابن ہشام میں ہے کہ معبد الخزاعی جب ابو سفیان اور اس کی فوج کو مسلمانوں سے مرعوب کرنے کے بعد واپس ہوگئے، تو قبیلہ عبدالقیس کا ایک قافلہ ابو سفیان کے پاس سے گذرا، اس نے پوچھا کہ تم لوگ کہاں جا رہے ہو، کہا مدینہ، پوچھا کس لیے ؟ کہا : خوراک حاصل کرنے کے لیے، ابو سفیان نے کہا کہ تم لوگ محمد کو ہمارا ایک پیغام پہنچا دو، اس کے بدلے ہم تمہیں عکاظ کے بازار میں کشمش دیں گے۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے، کہا کہ جب محمد سے ملاقات ہو تو کہہ دینا کہ ہم نے باقی مسلمانوں کا صفایا کرنے کے لیے آنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ عبدالقیس کا یہ قافلہ حمراء الاسد میں ہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جا ملا، اور ابو سفیان کا پیغام پہنچا دیا، تو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں نے کہا، حسبنا اللہ و نعم الوکیل، کہ اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور بہتر کارساز ہے، اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی۔ آیت میں پہلے (الناس) سے مراد قافلہ عبدالقیس اور دوسرے سرے مراد ابو سفیان اور اس کا لشکر ہے، اس خبر سے مسلمانوں کا ایمان بڑھ گیا، اور اللہ پر اعتماد اور توکل میں اضافہ ہوگیا، احادیث میں حسبنا اللہ و نعم الوکیل کی بڑی فضیلت آئی ہے، امام بخاری نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ حسبنا اللہ و نعم الوکیل، ابراہیم نے کہا جب وہ آگ میں ڈالے جانے لگے، اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا جب لوگوں نے کہا کہ مشرکینِ قریش اپنی پوری قوت مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے جمع کر رہے ہیں۔ آل عمران
174 اس آیت میں اللہ نے اطلاع دی ہے کہ مسلمان حمراء الاسد سے بخیر و عافیت اور شجاعت و ایمان میں مزید قوت و صلابت کے ساتھ واپس ہوئے۔ آل عمران
175 اس آیت میں اللہ نے نصیحت کی ہے کہ اے مسلمانو ! شیطان اپنے اولیاء اور پیرو کاروں کا تمہیں خوف دلاتا ہے۔ لیکن تمہیں ان سے نہیں ڈرنا چاہئے، اس لیے کہ مسلمان تو صرف اللہ سے ڈرتا ہے۔ آل عمران
176 118۔ اس آیت کا اور اس کے بعد آنے والی دونوں آیتوں کا تعلق بھی غزوہ احد ہی سے ہے، اس غزوہ کے بعد منافقین کا نفاق، کفار قریش اور یہود مدینہ کا کفر اور ان کی سازشیں کھل کر سامنے آگئیں، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کو اس سے بڑی تکلیف ہوئی کہ ہزار جانفشانی کے باوجود یہ لوگ اسلام کیوں نہیں لاتے، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں تسلی دی کہ اگر وہ لوگ کفر میں بڑھے جا رہے ہیں تو آپ اس کا غم کیوں کرتے ہیں؟ وہ لوگ اللہ کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکیں گے، اللہ تو چاہتا ہے کہ آخرت میں انہیں کوئی کامیابی نصیب نہ ہو۔ آل عمران
177 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم جو کافروں کی عمریں لمبی کر رہے ہیں، اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ دے رہے ہیں، تو یہ ان کے لیے بہتر نہیں ہے، بلکہ اس سے تو ان کے گناہوں میں اضاہف ہوگا، اور پھر عذاب میں اضافہ ہوگا، اور قیامت کے دن ان کے لیے بڑا دردناک عذاب ہوگا آل عمران
178 آل عمران
179 119۔ جیسا کہ اوپر گذر چکا کہ غزوہ احد کے بعد منافقین تقریباً ظاہر ہوگئے اور اپنے دل کی باتیں اگلنے لگے، اور لوگ (کافر، مومن اور منافق) تین گروہوں میں بٹ گئے، اور مسلمانوں کو یقین ہوگیا کہ ان کے گھروں میں اور ان کے ساتھ بھی ان کے دشمن موجود ہیں، اس لیے احتیاط کرنے لگے، اور اپنے آستین کے سانپوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنے لگے، اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں غزوہ احد کی اسی حکمت کو بیان کیا ہے کہ مومن و منافق کی تمیز کیے بغیر مسلمانوں کو چھوڑا نہیں جاسکتا تھا، اور غیب کی کسی کو خبر ہو نہیں سکتی تھی، اس لیے کہ غیب کی خبر تو اللہ صرف اپنے رسولوں کو دعوتی حالات کے تقاضے کے مطابق ہی دیتا ہے۔ لیکن غزوہ احد کے بعد کے حالات نے از خود منافقین کو مسلمانوں سے جدا کردیا۔ آل عمران
180 120۔ گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں جان کی قربانی دینے کی خوب ترغیب دلائی ہے، اور یہاں مال کی قربانی پر زور دیا ہے، اور بخیلوں کے لیے وعیدِ شدید کا ذکر کیا ہے کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ مال جمع کرنا ان کے لیے نفع بخش ہے، یہ تو قیامت کے دن عذاب الیم کا سبب بنے گا اور طوق بنا کر ان کی گردن میں ڈال دیا جائے گا۔ امام بخاری نے کتاب الزکاۃ میں ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ نے جسے مال دیا اور اس کی زکاۃ ادا نہیں کی، قیامت کے دن وہ ایک زہریلا سانپ بن کر اس کے سامنے آئے گا، جس کی دونوں آنکھوں پر دو سیاہ نقطے ہوں گے اور اسے دونوں جبڑوں سے پکڑے گا، پھر کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں، اس کے بعد اللہ کے رسول نے یہی آیت پڑھی۔ آیت کے آخر میں اللہ نے فرمایا کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے، ان کا مالک تو اللہ ہے، پھر کسی کو کیسے یہ جرات ہوتی ہے کہ اللہ کا دیا ہوا مال اس کی راہ میں خرچ نہیں کرتا؟ آل عمران
181 121۔ حافظ ابن مردویہ اور ابن ابی حاتم رحمہما اللہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب سورۃ بقرہ کی یہ آیت نازل ہوئی، من ذالذی یقرض اللہ قرضا حسنا فیضاعفہ لہ اضعافا کثیرہ، یعنی کون ہے جو اللہ کو اچھاقرض دے، پس اللہ اسے خوب بڑھا چڑھا کردے، تو یہود نے کہا کہ اے محمد ! تیرا رب فقیر ہوگیا ہے، اسی لیے اپنے بندوں سے قرض مانگتا ہے، تو یہ آیت نازل ہوئی۔ یہود نے جو بات اللہ کے بارے میں کہی، اس سے بڑھ کر اللہ کے خلاف تمرد و سرکشی کی مثال نہیں ہوسکتی، اسی لیے وعید شدید کے طور پر اللہ نے کہا کہ ان کی یہ بات ہم ان کے خلاف درج کر رہے ہیں، اور وہ تو اس کے پہلے قتل انبیاء جیسے جرم کا ارتکاب کرچکے ہیں، ہم انہیں چھوڑیں گے نہیں، قیامت کے دن ہم انہیں کہیں گے کہ اب جہنم کا عذاب چکھو۔ آل عمران
182 اس آیت میں سابقہ مضمون کی تکمیل ہے کہ یہ تمہارے کیے کا تمہیں پھل مل رہا ہے، اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ آل عمران
183 122۔ اس آیت کریمہ میں یہودیوں کے ایک دوسرے جھوٹے دعوی اور اللہ کی طرف سے اس کی تکذیب کا بیان ہے، یہودیوں نے کہا کہ اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اسی کو رسول مانیں اور اسی کی تصدیق کریں، جس کی دعا سے آسمان سے ایک آگ اترے جو تمام جمع شدہ صدقات کو چاہے وہ حیوان ہو یا غیرا حیوان جلا ڈالے، اور اے محمد ! تمہارے ذریعہ اس معجزے کا ظہور نہیں ہوسکا، اس لیے ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے، تو اللہ نے کہا کہ اے میرے نبی ! آپ ان سے کہہ دیجئے کہ تمہارے پاس تو مجھ سے پہلے بہت سے انبیاء کھلی نشانیاں لے کر آئے، اور وہ معجزہ بھی لے کر آئے جس کا مطالبہ مجھ سے کر رہے ہو، پھر اگر سچے تھے تو انہیں کیوں قتل کردئیے۔ آل عمران
184 اس آیت میں اللہ نے کاہ کہ اگر یہ یہود ان کے جھوٹے عذر کا پول کھل جانے کے بعد بھی آپ کی تکذیب کرتے ہیں، تو آپ غم نہ کریں، اس لیے کہ آپ کے پہلے بھی بہت سے انبیاء کی ان کی قوموں نے تکذیب کی، حالانکہ انہوں نے کھلی نشانیاں پیش کیں اور اللہ کی کتابیں پڑھ پڑھ کر انہیں سناتے رہے۔ آل عمران
185 123۔ اس آیت کریمہ میں بھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کو تسلی دی جا رہی ہے کہ یہ دنیا جزا کی جگہ نہیں ہے، یہ تو عمل کی جگہ ہے، یہاں سے ہر آدمی کو گذر جانا ہے، یہاں تو بہت سے مجرم اور ظالم دندناتے پھرتے ہیں، اور انہیں کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی۔ اور بہت سے نیک اور صالح لوگ پوری زندگی اللہ کی مرضی کے کاموں میں گذار دیتے ہیں اور انہیں کوئی راحتِ جان نصیب نہیں ہوتی۔ جزا و سزا کی جگہ تو قیامت کا دن ہوگا، اس دن جو جہنم سے دور کردیا جائے گا اور جنت میں داخل کردیا جائے گا، وہی حقیقی معنوں میں فائز المرام ہوگا، یہ دنیاوی زندگی تو دھوکے کی ٹٹی ہے۔ امام احمد اور مسلم نے عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو چاہتا ہے کہ جہنم سے دور کردیا جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے، تو اسے چاہئے کہ اس کی موت اس حال میں آئے کہ وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اور لوگوں کے ساتھ ایسا معاملہ کرے جیسا وہ چاہتا ہے کہ لوگ اس کے ساتھ کریں۔ آل عمران
186 124۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو صبر و ثبات قدمی کی تعلیم دی ہے جو ایمان کا تقاضا ہے مومن اپنی زندگی میں اللہ کی جانب سے آزمایا جاتا ہے، کبھی اس کے مال و جائداد پر کوئی آفت آتی ہے تو کبھی اس کی جان کے لالے پڑجاتے ہیں، قتل و بند اور زخم و مصیبت، اور دیگر قسم کے شدائد سے دوچار ہوتا ہے، اور اس کا ایمان اس سے تقاضا کرتا ہے کہ اللہ کے لیے اور جنت کی خاطر بخوشی کڑوے گھونٹ پیتا رہے، اور زبان پر کلمہ شکایت نہ لائے۔ سورۃ بقرہ کی آیات 155 تا 156 میں یہی مضمون گذر چکا ہے۔ ترمذی نے کتاب الزہد میں مصعب بن سعد سے اور انہوں نے اپنے والد سعد سے روایت کی ہے کہ میں نے کہا، یا رسول اللہ ! سب سے زیادہ کس کی آزمائش ہوتی ہے؟ تو آپ نے فرمایا ” انبیاء کی، ان کے بعد بتدریج سب سے اچھے مسلمانوں کی، آدمی کی آزمائش اس کے دین و ایمان کے درجہ کے مطابق ہوتی ہے، دین میں جو جتنا سخت ہوتا ہے، اس کی آزمائش بھی سخت ہوتی ہے اور جو دین میں ڈھیلا ہوتا ہے، اس کی آزمائش اس کے دین و ایمان کے درجہ کے مطابق ہوتی ہے، دین میں جو جتنا سخت ہوتا ہے، اس کی آزمائش بھی سخت ہوتی ہے اور جو دین میں ڈھیلا ہوتا ہے، اس کی آزمائش اسی حساب سے ہوتی ہے، بندہ کی آزمائش ہوتی رہتی ہے، یہاں تک کہ اس کے سارے گناہ مٹ جاتے ہیں“ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ تم لوگ اہل کتاب اور مشرکین سے بہت سی ایذا رسانی کی باتیں سنو گے، لیکن تمہیں دل گرفتہ نہیں ہونا ہے بلکہ صبر سے کام لینا ہے اور اللہ سے ڈرتے رہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو یہ بات جنگ بدر سے پہلے کہی تھی کہ ابھی وہ صبر سے کام لیں، ابھی یہود اور منافقین کو چھیڑنے کا موقع نہیں آیا ہے اس سلسلہ میں امام بخاری نے اسامہ بن زید (رض) کی ایک روایت بھی نقل کی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دن ایک گدھے پر سوار ہو کر یہود و مشرکین اور مسلمانوں کی ایک مشترکہ مجلس کے پاس سے گذرے۔ عبداللہ بن ابی نے اپنی ناک پر چادر ڈال کر کہا کہ تم لوگ ہماری مجلسوں میں غبار نہ اڑاؤ، جب آپ نے اس کے سامنے قرآن کی تلاوت کی اور دعوت اسلام دیا، تو کہنے لگا کہ تم لوگ ہماری مجلسوں کی فضا مکدر نہ کرو، تمہارے پاس جو جائے اسے ہی اپنی باتیں سنایا کرو، عبداللہ بن رواحہ (رض) بھی مجلس میں موجود تھے، انہوں نے کہا، یا رسول اللہ ! آپ ہمیں اپنی بات ضرور سنائیں، اس کے بعد مسلمانوں اور یہود و مشرکین نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا شروع کردیا، اللہ کے رسول نے سب کو خاموش کرایا، جب آپ سعد بن عبادہ (رض) کے پاس آئے جن کی عیادت کے لیے آپ نکلے تھے، تو ان سے ساری باتیں بتائی، انہوں نے کہا، یا رسول اللہ ! آپ اس (عبداللہ بن ابی) کو معاف کردیجئے۔ اسے لوگوں نے اپنا بادشاہ بنانا چاہا تھا کہ اللہ نے اپنا دین بھیج دیا، جو اس کے حلق کا کانٹا بن گیا یہ سن کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے معاف کردیا۔ اس زمانے میں دوسرے یہود و منافقین کے ساتھ بھی آپ کا یہی رویہ رہا۔ جب میدانِ بدر میں سردارانِ قریش مارے گئے، تو عبداللہ بن ابی نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اب تو یہ دین غالب ہو رہا ہے، اس لیے آؤ محمد کے ہاتھ پر اسلام کا اعلان کردیں۔ معلوم ہوا کہ جو کوئی اسلام کی دعوت دے گا، خیر کی طرف بلائے گا، اور شر سے روکے گا اسے اذیتیں برداشت کرنی پڑیں گی۔ آل عمران
187 125۔ یہاں سیاق کلام علمائے یہود و نصاری سے متعلق ہے، اللہ نے ان سے عہد لیا تھا کہ وہ تورات و انجیل کے تمام احکام اور تمام باتیں لوگوں کو بتائیں گے اور کوئی بات نہیں چھپائیں گے۔ ان میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات بھی تھیں اور یہ حکم بھی کہ وہ ان پر ایمان لائیں گے، لیکن انہوں نے ان تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا، اور دنیاوی حقیر فائدوں کی خاطر اللہ کے کلام کو بدل دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں علماء پر یہ واجب قرار دیا ہے کہ وہ حق کو کھول کھول کر بیان کریں، اور کسی دنیاوی مفاد کی خاطر اللہ کے دین کی صحیح باتوں کو امت سے نہ چھپائیں، بہت سے لوگ جو عالم دین کہلاتے ہیں، اور کسی فقہی مسلک کے لیے اندھی عصبیت کی وجہ سے صحیح احادیث کو چھپاتے ہیں، یا وہ لوگ جو اپنے پیٹ یا کرسی کی خاطر امت میں ایسی بدعتوں کو رواج دیتے ہیں، جن کا کوئی ثبوت قرآن وسنت سے نہیں ملتا، یا وہ دنیا دار علماء جو کسی حاکم وقت کو خوش کرنے کے لیے شرعی مسائل کو بدل دیتے ہیں، حالانکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں سب قرآن و سنت کے خلاف ہے، اس قسم کے تمام نام نہاد علمائے دین اس آیت میں بیان کردہ وعید میں شامل ہیں َ آل عمران
188 126 ل۔ اس آیت کریمہ میں ایسے تمام لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو ریاکاری اور نام و نمود کی خاطر کام کرتے ہیں، اور جتنا کرتے نہیں اس سے زیادہ کا اظہار کرتے ہیں، یا جو خوبی ان کے اندر نہیں ہوتی اسے اپنی طرف منسوب کرتے ہیں امام احمد اور امام مسلم کی روایت ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس نے اپنے بارے میں کوئی جھوٹا دعوی کیا تاکہ لوگوں کے سامنے بڑا بنے، تو اللہ تعالیٰ اس کا وقار گھٹا دیتا ہے، ایک دوسری حدیث ہے جو صحیحین میں مروی ہے کہ جو شخص کسی ایسی خوبی کا دعوی کرے جو اللہ نے اسے نہیں دیا ہے، وہ جھوٹ اور فریب کے دو کپڑے پہننے والے کی مانند ہے۔ علمائے تفسیر نے اس آیت کا شان نزول بیان کرنے کے لیے بخاری اور مسلم کی یہ روایت نقل کی ہے، کہ مروان نے اپنے دربان رافع سے کہا کہ ابن عباس پاس جاؤ اور پوچھوں کہ اس آیت کے بموجب ہر وہ آدمی جو اپنے پاس موجود شے پر خوش ہوتا ہے، اور پسند کرتا ہے کہ جو اس نے نہیں کیا ہے اس پر اس کی تعریف ہو، عذاب دیا جائے گا، تو کیا ہم سب کو عذاب ہوگا؟ ابن عباس (رض) نے سن کر کہا کہ یہ آیت اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ پھر انہوں نے واذ اخذ اللہ میثاق الذین اوتوا الکتاب والی آیت پڑھی، اور کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہود مدینہ سے تورات کی کوئی بات پوچھی، تو انہوں نے اسے چھپا دیا اور بدل کر دوسری بات بتا دی، اور جب وہاں سے چلے تو خوش ہو کر چلے کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جواب بھی دے دیا اور صحیح بات چھپا بھی دی، تو یہ آیت نازل ہوئی۔ بخاری اور مسلم نے ابو سعید الخدری (رض) سے روایت کی ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ میں جاتے تو منافقین پیچھے رہ جاتے، اور اپنی اس چالاکی پر خوش ہوتے، اور جب رسول اللہ کی واپسی کے بعد ان کے پاس جاتے تو حلفیہ عذر پیش کرتے، اور چاہتے کہ انہوں نے جو خیر کا کام نہیں کیا ہے اس پر ان کی تعریف ہو، تو یہ آیت نازل ہوئی۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ آیت فنحاص اور اشیع علمائے یہود کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ ان سبھی واقعات کے پیش نظر یہ آیت نازل ہوئی ہو، کیونکہ آیت کا مضمون سب پر منطبق ہوتا ہے۔ اس کے بعد اللہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ آپ یہ نہ سمجھیں کہ وہ عذاب سے بچ جائیں گے، بلکہ ایک دردناک عذاب ان کا انتظار کر رہا ہے آل عمران
189 آل عمران
190 127۔ گذشتہ آیتوں میں یہود کی بدباطنی اور اللہ کے ساتھ استہزاء کا بیان ہوا، حتی کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو فقیر تک کہا، آنے والی آیتوں میں انہیں اور دیگر انسانوں کو بتایا جا رہا ہے کہ اللہ تو سب کا رب، خالق، مالک اور معبود ہے، ہر چیز اس کے قبضہ قدرت میں ہے اور ہر چیز اس کے تصرف میں ہے، وہ فقیر کیوں کر ہوسکتا ہے؟ ساری کائنات اس کی محتاج ہے، آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور لیل و نہار کی گردش میں اللہ اور اس کی قدرت مطلقہ پر ایمان لانے کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں لیکن یہ باتیں وہ اصحاب عقل و دانش سمجھتے ہیں، جن کی صفات مندرجہ ذیل آیت میں بیان کی گئی ہیں۔ آل عمران
191 128۔ وہ لوگ اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں، اور کبھی بھی اس کی یاد سے غافل نہیں ہوتے، اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے بارے میں غور و فکر کر کے اس یقین تک پہنچ جاتے ہیں کہ ان سب کا کوئی خالق ضرور ہے جو قادر، مطلق اور مدبر اور حکیم ہے۔ ابن ابی الدنیا نے کتاب التوکل والاعتبار میں ابو سلیمان دارانی کا قول نقل کیا ہے کہ میں جب اپنے گھر سے نکلتا ہوں اور میری نظر کسی چیز پر پڑتی ہے، تو اسے اپنے لیے اللہ کی نعمت اور اس میں ایک عبرت پاتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوقات میں غور کرنے کی دعوت دی ہے، گویا خالق کے بارے میں غور کرنے سے منع فرمایا ہے، اس لیے کہ اللہ کی ذات و صفات کی کنہیات کو کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ جب عقل والے اس حقیقت کو پالیتے ہیں کہ ہمارا اور ساری کائنات کا کوئی رب ضرور ہے، تو انتہائے خشوع و خضور اور بے پایاں تعظیم کے ساتھ پکار اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! تو نے انہیں بے کار نہیں پیدا کیا ہے، تو تمام عیوب سے پاک ہے، تو ہمیں عذاب نار سے بچا دے آل عمران
192 129۔ یہاں اہانت سے مراد روز محشر تمام اہل موقف کے سامنے تذلیل و اہانت ہے، جس دن ظالموں کو ہمیشہ کے لیے جہنم میں ڈال دیا جائے گا، اور ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا، اصحاب عقل و دانش اس دن کی ذلت و رسوائی سے پناہ مانگتے ہیں آل عمران
193 130۔ دعا کا یہ انداز اللہ تعالیٰ کے لیے کمالِ خشوع و خضوع، اور قبولیت دعا کے لیے انتہائے رغبت کے اظہار کے لیے ہے اور منادی سے مراد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات ہے، اور لفظ منادی کا استعمال اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پکار پکار کر اسلام کی دعوت، پوری تندہی اور جانفشانی کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کردی۔ آل عمران
194 131۔ اے اللہ ! رسولوں کی زبانی، تو نے جو وعدہ کیا تھا، کہ جو تجھ پر اور تیرے رسولوں پر ایمان لے آئے گا، انہیں تو اچھا بدلہ دے گا، اور تیرا یہ بھی وعدہ تھا، یوم لا یخزی اللہ النبی والذین امنوا معہ، کہ اللہ قیامت کے دن اپنے نبی کو اور مومنوں کو رسوا نہیں کرے گا تو آج میری دعا قبول فرما لے، اور قیامت کے دن مجھے رسوا نہ کر۔ آل عمران
195 اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ ان مومنوں کی دعا اللہ نے قبول کرلی، اور انہیں بشارت دی کہ میں اپنے کسی نیک بندے کا عمل ضائع نہیں کرتا، چاہے مرد ہو یا عورت۔ ترمذی، حاکم اور سعید بن منصور نے ام سلمہ (رض) سے روایت کی ہے، انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! ہجرت کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے عورتوں کا نام نہیں لیا ہے؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : انی لا اضیع عمل عامل منکم من ذکر او انثی بعضکم من بعض۔ کہ مرد ہو یا عورت میں کسی کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ فالذین ھاجروا سے آخرت آیت تک عامل کے عمل کی تفصیل ہے۔ آل عمران
196 133۔ گذشتہ آیات میں مسلمانوں کی حالت بیان کی گئی کہ وہ ہر حال میں اللہ کی یاد میں مشغول رہتے ہیں، کوئی چیز انہیں اللہ کی یاد سے غافل نہیں کرتی، اور اللہ تعالیٰ ان کے نیک اعمال کو قبول کرتا ہے، اور وہ کسی کے عمل کو ضائع نہیں کرے گا، اور ان کا مقام جنت ہوگا، جس کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ اس آیت کریمہ میں کافروں کی حالت بیان کی گئی ہے، کہ وہ اللہ کی یاد سے غافل ہو کر دنیا کے گوشے گوشے میں تجارتی سفروں میں جاتے ہیں، تاکہ خوب دولت اکٹھا کریں، اللہ نے کہا کہ اس سے آپ کو اور مسلمانوں کو دھوکے میں نہ پڑنا چاہئے، یہ تو عارضی فائدہ ہے، جو ثوابِ آخرت کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا، اور آخر کار ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ آل عمران
197 آل عمران
198 اس آیت میں بیان کیا گیا کہ ان کے برعکس متقیوں کو اللہ تعالیٰ جنت میں جگہ دے گا، جس کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، صحیحین کی روایت میں ہے کہ ایک بار حضرت عمر (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چٹائی پر لیٹے ہوئے دیکھا، ان کے پہلو پر چٹائی کا نشان دیکھ کر رونے لگے، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ کیوں رو رہے ہو؟ حضرت عمر نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! کسری اور قیصر تو عیش کی زندگی گذاریں، اور اللہ کے رسول کا یہ حال ہوا !! تو آپ نے فرمایا کہ تو آپ نے فرمایا کہ کیا تم یہ پسند نہ کروگے کہ ان کے لیے دنیا ہو، اور ہمارے لیے آخرت۔ معلوم ہوا کہ اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے، اور وہ مسلمانوں کے لیے ہے، کافر اس دن جہنم کی طرف لے جائے جائیں گے۔ آل عمران
199 134۔ اس آیت کریمہ میں اللہ نے یہ بیان کیا ہے کہ بعض اہل کتاب میں دین داری ہوتی ہے، وہ دوسرے عام اہل کتاب کی مانند نہیں ہوتے ہیں، جن کے شرمناک اعمال کا ذکر اوپر گذر چکا ہے، اور آئندہ بھی آئے گا، یہ لوگ سابقہ آسمانی کتابوں پر ایمان کے ساتھ، اللہ پر اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل شدہ دین و قرآن پر بھی ایمان لاتے ہیں، اللہ کے لیے خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں، اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعلق بشارتوں اور نشانیوں کو نہیں چھاپتے۔ ان اچھی صفات کے لوگ یہودیوں میں کم پائے گئے، جیسے عبداللہ بن سلام اور بعض دیگر علمائے یہود جن کی تعداد دس سے کم ہی تھی، لیکن نصاری میں اچھے لوگ زیادہ ہوئے جن میں سے بہتوں نے اسلام کی دعوت کو قبول کرلیا، انہی مسلمان اہل کتاب کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں، اور کئی دوسری آیتوں میں اجر و ثواب کا وعدہ کیا ہے۔ امام احمد نے ہجرت حبشہ سے متعلق ایک طویل حدیث روایت کی ہے، جس میں آیا ہے کہ جعفر بن ابی طالب نے جب نجاشی کے سامنے سورۃ مریم کی تلاوت کی، تو وہ اس کے پاس بیٹھے ہوئے دیگر علمائے نصاری اس طرح روئے کہ آنسو سے ان کی داڑھیاں بھیگ گئیں۔ اس آیت کے شان نزول میں صحیحین کی روایت آتی ہے کہ جب حبشہ کے بادشاہ نجاشی کا انتقال ہوا، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو خبر دی اور میدان میں جا کر صحابہ کے ساتھ اس کے جنازہ کی نماز پڑھی، اور صحابہ سے کہا کہ اپنے بھائی کے لیے مغفرت کی دعا کرو، تو بعض منافقین نے کہا کہ محمد ہمیں ایک کالے موٹے حبشی کے لیے دعائے مغفرت کا حکم دیتا ہے، تو یہ آیت نازل ہوئی۔ آل عمران
200 آخری آیت میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو تین باتوں کی نصیحت کی ہے جو ہر طرح کی سعادت و نیک بختی کا ذریعہ ہیں۔ پہلی نصیحت صبر کی ہے، کہ بندہ مومن گناہوں سے اجتناب کرے، مصائب پر صبر کرے، اور ان اوامر کے بجا لانے اور نواہی سے اجتناب میں صبر کرے جن کا اللہ نے حکم دیا ہے، اور صبر کی اس صفت پر مداومت برتے۔ دوسری نصیحت یہ ہے کہ اللہ کے دین اور مسلمانوں سے دفاع کے لیے مورچہ بند رہے اور تیسری نصیحت یہ ہے کہ ہر حال میں اللہ سے ڈرتا رہے۔ آیت کے آخر میں اللہ نے فرمایا کہ کامیابی اور فلاح دارین کا یہی ذریعہ ہے، احادیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب تہجد کے لیے رات کو اٹھتے تو سورۃ آل عمران کی آخری دس آیتیں پڑھتے تھے۔ بخاری و مسلم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ میں ایک رات اپنی خالہ میمونہ کے پاس سویا، جب رات کا ایک تہائی حصہ رہ گیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اٹھ کر بیٹھ گئے، اور آسمان کی طرف دیکھ کر یہ آیت پڑھی، ان فی خلق السماوات والارض واختلاف اللیل والنہار لایات لاولی الباب۔ پھر وضو کیا اور گیارہ رکعت نماز پڑھی، ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے آل عمران کی دس آیتیں پڑھیں، حافظ ابن مردویہ نے بھی ابن عباس (رض) سے یہی حدیث روایت کی ہے۔ آل عمران
0 تفسیر سورۃ النساء نام : اس سورت کا نام سورۃ النساء اس لیے ہے کہ عورتوں کے مسائل اس میں دیگر سورتوں کی بہ نسبت زیادہ ہیں۔ زمانہ نزول : ابن عباس، عبداللہ بن زبیر اور زید بن ثابت (رض) سے مروی ہے کہ یہ سورۃ مدنی ہے، قرطبی نے لکھا ہے کہ صرف ایک آیت فتح مکہ کے سال مکہ میں عثمان بن طلحہ الحجی کے بارے میں نازل ہوئی، وہ آیت ان اللہ یامرکم ان تؤدوا الامانات الی اھلہا ہے، بخاری نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ سورۃ النساء نازل ہوئی تو میں رسول اللہ کے پاس تھی، یعنی ام المومنین کی حیثیت سے اور اس بات پر سارے علماء کا اتفاق ہے کہ عائشہ رضی اللہ شادی کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس رخصت ہو کر مدینہ میں گئی تھیں، اس کے علاوہ اس سورت میں بیان کردہ مسائل پر غور کرنے کے بعد بالکل یقین ہوجاتا ہے کہ یہ مدنی سورت ہے۔ فضیلت : حاکم نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ سورۃ النساء میں پانچ ایسی آیتیں ہیں جن کے بدلے میں دنیا و مافیہا کو قبول نہیں کروں گا، عبدالرزاق نے ان سے روایت کی ہے کہ سورۃ النساء میں پانچ ایسی آیتیں ہیں جو میرے نزدیک پوری دنیا سے زیادہ محبوب ہیں۔ دونوں روایتوں میں مندرجہ ذیل آیتوں کا ذکر ہے۔ 1۔ ان اللہ لا یظلم مثقال ذرۃ۔ الایۃ۔ (40) 2۔ ان تجتنبوا کبائر ما تنھون عنہ۔ الایۃ (31) 3۔ ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ۔ الایہ (48) 4۔ ولو انہم اذ ظلموا انفسہم۔ الایہ (64) 5۔ ومن یعمل سوءا او یظلم نفسہ ثم یستغفر اللہ یجد اللہ غفورا رحیما۔ الایہ (110) النسآء
1 (1)۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی ابتدا میں تمام بنی نوع انسان کو چاہے وہ مومن ہوں یا کافر، یہ حکم دیا ہے کہ وہ اللہ سے ڈرتے رہیں اور دنیا میں رحم کے ذریعہ جو رشتہ داریاں قائم ہیں، ان کا خیال رکھیں، اور ان اسباب کو بیان کیا ہے، جو دونوں کے وجوب و لزوم کا تقاضا کرتے ہیں۔ اللہ سے اس لیے ڈرتے رہنا ہے کہ وہی انسان کا رب ہے، اسی نے اسے پیدا کیا ہے، وہی اسے روزی دیتا ہے، اور اس پر اس کے بے شمار احسانا ہیں، اسی نے انسان کو آدم سے پیدا کیا، اور آدم ہی کی بائیں پسلی سے اس کی بیوی حوا کو پیدا کیا تاکہ انسان کی بیوی اس کے مناسب حال ہو، اس کی قربت سے اسے سکون و راحت ملے، اور اللہ کی نعمت اس پر تمام ہو، اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ومن آیاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواج لتسکنوا الیہا وجعل بینکم مودۃ ورحمۃ۔ اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہیں سے تمہاری بیویوں کو پیدا کیا، تاکہ ان سے تم سکون حاصل کرو، اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت کا جذبہ پیدا کیا۔ (الروم :21) اللہ سے اس لیے بھی ڈرتے رہنا ہے کہ آدمی اللہ کا نام لے کر ہی اپنی کوئی حاجت کسی کے سامنے رکھتا ہے، وہ جانتا ہے کہ مسئول کے دل میں اللہ کی کبریائی اور عظمت کا جو تصور ہے، اس کے پیش نظر اس کی مانگ ضرور پوری کرے گا، اللہ کی اس عظمت و کبریائی کا تقاضا ہے کہ آدمی اس کی عبادت کرے اور اس سے ڈرتا رہے۔ صلہ رحمی کی اہمیت کو آدمی کے دل میں بٹھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کے ساتھ رحم کے حق کو جوڑ دیا، تاکہ معلوم ہو کہ جس طرح اللہ کے حقوق کی ادائیگی واجب ہے، اسی طرح رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنا بھی واجب ہے، اور جو شخص رشتہ میں جتنا قریب ہوگا، اتنا ہی اس کے حق کی اہمیت بڑھتی جائے گی۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے والدین کے حقوق کی اہمیت بتانے کے لیے بندوں کو اپنی عبادت کا حکم دینے کے بعد بغیر کسی تاخیر کے والدین کے ساتھ اچھے برتاؤ کا حکم دیا، اللہ نے فرمایا ا۔ آیت الا تعبدوا الا ایاہ وبالوالدین احسانا (الاسراء :23)۔ دوسری جگہ فرمایا، آیت وعبداو اللہ ولا تشرکوا بہ شیئا و بالوالدین احسان او بذی القربی۔ (لنساء : 36)۔ صحیحین میں عائشہ (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، رِحم کو کاٹنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ آیت کے آخر میں اللہ نے فرمایا کہ اللہ تمہارے احوال و اعمال سے واقف ہے، اس سے ایک ذرہ بھی پوشیدہ نہیں ہے، اس لیے آدمی کو چاہئے کہ وہ اپنی زندگی اس طرح گذارے کہ اس کے دل و دماغ میں یہ بات ثبت ہو کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے، اور میرے تمام اعمال اس کی نگاہ میں ہیں۔ النسآء
2 2۔ اوپر کی آیت میں تقوی کی زندگی اختیار کرنے کا اللہ نے جو حکم دیا ہے، اسی کی اب تفصیل بیان کیا جا رہی ہے۔ یتیموں کے حقوق کی حفاظت کو دیگر احکام پر مقدم کر کے اللہ تعالیٰ نے ان کے حقوق کی اہمیت کا احساس دلایایا ہے، لفظی طور پر یتیم ہر اس آدمی کو کہتے ہیں جس کا باپ وفات پا چکا ہو، لیکن شرعی اصطلاح میں یہ لفظ اس بچے کے لیے خاص ہوگیا ہے جس کے سن بلوغت کو پہنچنے سے پہلے اس کا باپ مر گیا ہو۔ ابو داود نے علی بن ابی طالب (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، بلوغت کے بعد یتیمی باقی نہیں رہتی۔ آیت میں یتیموں سے مراد وہ نوجوان ہیں جو ابھی ابھی سن بلوغت کو پہنچے ہوں، اور ان پر ہوشمندی کے آثار ظاہر ہوچکے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے اولیاء اور اصیاء کو حکم دیا ہے کہ ان کا مال انہیں دینے میں ٹال مٹول نہ کریں۔ اس کے بعد اللہ نے کہا کہ یتیموں کا مال اپنے مال سے نہ بدل لیا کرو، کیوں کہ ان کا مال تمہارے لیے حرام اور خبیث ہے، اور تمہارا مال تمہارے لیے حلال اور طیب ہے، لہذا تم تھوڑے سے فائدہ کے لیے حلال اور طیب دے کر حرام اور خبیث کو نہ قبول کرو، زمانہ جاہلیت میں لوگ ایسا کرتے تھے اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ اس کے بعد اللہ نے مسلمانوں کو ایک اور فعلِ منکر سے منع کیا، جس کا ارتکاب زمانہ جاہلیت میں لوگ کرتے تھے کہ اپنے مال کے ساتھ یتیموں کا مال ملا لیا کرتے تھے، تاکہ اخراجات میں وسعت پیدا ہوجائے، اللہ نے کہا کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ لیکن اگر نیت یتیموں کے ساتھ بھلائی کی ہو تو کوئی حرج نہیں، جیسا کہ اللہ نے سورۃ بقرہ میں فرمایا، وان تخالطوھم فاخوانکم، الایہ، 220۔ (تفصیل کے لیے اس آیت کی تفسیر کا مطالعہ کیجیے) النسآء
3 3۔ یہاں، یتامی سے مراد یتیم لڑکیاں ہیں، آیت کا معنی یہ ہے کہ اے یتیم بچیوں کے اولیاء اگر تمہیں ڈر ہو کہ ان یتیم بچیوں کے ساتھ نکاح کر کے ان کے ساتھ انصاف کا معاملہ نہ کرسکوگے، یا تو مہر کم کردوگے یا ان کے ساتھ اچھا برتاؤ نہ کروگے تو ان کے علاوہ دوسری غیر رشتہ دار لڑکیوں سے شادی کرلو، دنیا میں لڑکیوں کی کمی نہیں ہے، اور پھر ایک نہیں چار بیویاں بیک وقت رکھ سکتے۔ امام بخاری نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی کی ولایت میں ایک یتیم لڑکی تھی، جس کے پاس کھجور کا ایک باغ تھا، اس باغ کی لالچ میں اسے نہ چاہتے ہوئے بھی اس سے شادی کرلی، نہ اس کے پاس جاتا تھا اور نہ اسے چھوڑتا تھا، تو یہ آیت نازل ہوئی۔ حضرت عائشہ (رض) کی ہی ایک دوسری روایت ہے جسے بخاری، مسلم ابو داود اور نسائی نے روایت کی ہے کہ آیت میں مراد ایسی یتیم بچی ہے جو اپنے ولی کے پاس پلتی ہے، اور اس کے مال میں شریک ہوتی ہے، اور خوبصورت بھی ہوتی ہے۔ اس کا ولی اس سے شادی کرلینا چاہتے ہیں لیکن مہر مثل نہیں دیتا۔ ایسے آدمی کو حکم دیا گیا ہے کہ یا تو مناسب مہر دے کر شادی کرے یا پھر دوسری لڑکیوں سے شادی کرے۔ ایک تیسری روایت حضرت عائشہ (رض) ہی سے بخاری نے روایت کی ہے کہ آیت میں مراد ایسی یتیم بچی ہے جو اپنے ولی کے پاس پلتی ہے اور اس کے مال میں شریک ہوتی ہے، لیکن اس کا ولی اس سے شادی کرنا نہیں چاہتا، اور نہ یہ پسند کرتا ہے کہ اس کی شادی کسی اور سے کردے، اس ڈر سے کہ اس کا شوہر مال میں اس کے ساتھ شریک ہوجائے گا، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک سے فعل سے منع فرمایا ہے۔ آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اجازت دی ہے کہ وہ اپنی پسند کی دوسری عورتوں سے شادی کرلیں، اور انہیں چار بیویوں تک سے شادی کرنے کا اختیار دیا ہے، اور چار سے زیادہ بیویاں رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت اسی پر دلالت کرتی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علاوہ کسی کے لیے چار سے زیادہ بیویاں رکھنا جائز نہیں، اسی پر امت کا اجماع ہے، صرف بعض شیعوں نے چار سے زیادہ کو جائز کہا ہے۔ علمائے امت نے چار سے زیادہ کی حرمت پر غیلان ثقفی کے واقعہ سے استدلال کیا ہے جن کے پاس دس بیویاں تھیں۔ جب اسلام لائے تو اللہ کے رسول نے ان سے کہا کہ چار کے علاوہ باقی کو طلاق دے دو۔ اس حدیث کو ابن عمر (رض) سے احمد، ترمذی، ابن ماجہ، دارقطنی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کی ہے، اور علامہ البانی سے اس کی تصحیح کی ہے۔ دوسرا واقعہ نوفل بن معاویہ کا ہے جن کے پاس اسلام لانے کے وقت پانچ بیویاں تھیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے کہا چار کو رکھ لو اور ایک کو چھوڑ دو، اسے امام شافعی نے اپنی مسند میں روایت کی ہے۔ تیسرا واقعہ قیس بن حارث اسدی کا ہے جن کے پاس آٹھ بیویاں تھیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے کہا کہ چار کو رکھ لو اور باقی کو چھوڑ دو، اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ اور علامہ البانی اس کی تصحیح کی ہے۔ چوتھا واقعہ عمیر اسدی کا ہے جن کے پاس بھی آٹھ بیویاں تھیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے کہا کہ ان میں سے چار کو چن لو، اسے ابو داود اور ابن اجہ نے روایت کی ہے، اور علامہ البانی نے صحیح ابن ماجہ میں اس کی تصحیح کی ہے۔ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ امت کا اجماع اسی پر ہے کہ چار سے زیادہ بیویاں رکھنا امت کے کسی فرد کے لیے جائز نہیں یہ چیز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خاص تھی۔ البتہ قرآن کریم اور صحیح احادیث کی روشنی میں چار بیویاں رکھنے کے جواز میں کوئی شبہ نہیں۔ قرآن کریم نے تو اس کی حلت کی صراحت کردی، بلکہ امر کا صیغہ استعمال کیا ہے، جو بظاہر وجوب پر دلالت کرتا ہے۔ لیکن صیغہ امر کے بعد اللہ تعالیٰ نے ماطاب کا لفظ استعمال کیا ہے، جس سے معلوم ہوا کہ یہاں امر وجوب کے لیے نہیں ہے، لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک سے زیادہ بیوی رکھنا حلال ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام نے اس پر عمل کیا، اور آج تک ہر دور میں مسلمان اس کے قائل رہے ہیں، اور اس کے مطابق عمل کرتے رہے ہیں۔ اور یہ جو قرآن نے کہا ہے کہ اگر تمہیں خوف ہو کہ ان کے درمیان تم عدل و انصاف سے کام نہ لے سکو گے تو ایک ہی بیوی رکھو، تو یہ ایسی شرط ہے جس کا تعلق ہر آدمی کے دل سے ہے، اگر شادی کرنے والا جانتا ہے کہ وہ انصاف نہیں کرسکے گا تو بہتر یہی ہے کہ ایک بیوی رکھے، اس کا تعلق تشریع اور قانون سازی سے نہیں ہے۔ تعدد ازواج کے بعض منکرین نے قرآن کی آیت (ولن تستطیعوا ان تعدلوا بین النساء ولو حرصتم) سے استدلال کرنے کی کوشش کی ہے کہ اللہ نے خود نفی کردی ہے کہ کوئی آدمی عدل و انصاف نہیں کرسکتا ہے۔ لیکن انہوں نے اسی آیت کا اس کے بعد کا حصہ قصداً چھوڑ دیا، اللہ نے کہا فلا تمیلوا کل المیل فتذروھا کالمعلقۃ، کہ تم پورے طور پر تو انصاف نہیں کرسکتے، لیکن کسی ایک طرف بالکل نہ جھک جاؤ، معلوم ہوا کہ اگر کسی ایک کی طرف پوری طرح جھکاؤ نہ ہو تو جائز ہوگا۔ 4۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ اگر کوئی آدمی اپنی طرف سے بے انصافی سے ڈرے تو ایک ہی بیوی رکھے، یا پھر لونڈی سے ہی گذارا کرے، جس میں نہ عدد کی شرط ہے، اور نہ ان کے درمیان بالکل ٹھیک ٹھیک عدل و انصاف کی۔ اس کے بعد اللہ نے کہا کہ ایک پر اکتفا کرنا، یا لونڈیوں سے کام چلا لینا، اس اعتبار سے زیادہ مناسب ہے کہ تم سے بے انصافی کا ارتکاب نہ ہوگا۔ بعض دوسرے مفسرین نے الا تعولوا کا معنی یہ کیا ہے تاکہ تمہاری اولاد زیادہ نہ ہو، اور پھر ان کے اخراجات مہیا کرنے کے لیے یتیموں کے مال پر دست درازی کرتے پھرو، زید بن اسلم، سفیان بن عیینہ اور امام شافعی سے یہی تفسیر منقول ہے، عائشہ، ابن عباس، مجاہد، عکرمہ اور حسن وغیرہم سے پہلی تفسیر منقول ہے، اور حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اسی کو ترجیح دیا ہے۔ بہرحال، پہلی اور دوسری دونوں ہی تفسیروں کے مطابق آیت سے اتنی بات ضرور سمجھ میں آتی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے بارے میں ڈرتا ہے کہ وہ انصاف نہ کرسکے گا تو ایک ہی بیوی پر اکتفا کرنا بہتر ہے، لیکن اس آیت سے یہ بات ہرگز سمجھ میں نہیں آتی کہ ایک سے زیادہ بیوی صرف ناگزیر حالت میں ہی رکھنا چاہئے، اور بغیر ناگزیر حالت کے ایسا کرنا نا مناسب اور خطرناک ہے، جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے۔ یہ ایسی تفسیر ہے جس کی یہ آیت متحمل نہیں ہے۔ اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کے کسی قول و فعل سے یہ بات مترشح نہیں ہوتی کہ صرف ناگزیر ضرورت کے پیش نظر ہی دوسری بیوی رکھنی جائز ہے۔ قرآن کریم، احادیثِ نبویہ اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کی حیاتِ طیبہ سے جو بات سمجھ میں آتی ہے، وہ یہ ہے کہ ایک مسلمان کے لیے ایک سے زیادہ بیوی رکھنا جائز ہے، اور اس میں کسی طرح کی کوئی دینی یا اخلاقی قباحت نہیں پائی جاتی ہے۔ النسآء
4 5۔ آیت میں کلمہ نحلہ کا معنی عائشہ نے فریضہ کیا ہے، اور ابن زید نے واجب کیا ہے، یعنی شادی کے وقت عورت کا مہر مقرر کرنا واجب ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علاوہ امت کے کسی فرد کے لیے بغیر مہر کے شادی کرنا جائز نہیں ہے اور مہر کی تعیین کے وقت نیت بھی صحیح ہونی چاہئے کہ یہ عورت کا حق ہے جو اسے ملنا چاہئے ، زمانہ جاہلیت میں لوگ عورتوں کا مہر خود لے لیتے تھے اور انہیں کچھ بھی نہیں دیتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کے اسی فعل شنیع کی تردید کی، اور مسلمانوں کو حکم دیا کہ شادی کے وقت عورتوں کا مہر ضرور متعین کریں، اور ان کا حق ان کو ضرور دیں، اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اگر بیوی طیب نفس کے ساتھ مہر کا کچھ حصہ شوہر کو دے دے، تو اس کا استعمال جائز ہوگا، آیت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگر بیوی حیا کی وجہ سے، یا شوہر کی بد اخلاقی یا برے برتاؤ کے ڈر سے ایسا کرتی ہے، اور شوہر اسے قبول کرلیتا ہے، تو یہ قرآنی تعلیم کی خلاف ورزی ہوگی۔ النسآء
5 6۔ آیت میں سفہاء سے مراد کون لوگ ہیں، اس بارے میں علماء کی تین رائیں ہیں : پہلی رائے یہ ہے کہ ان سے مراد کم عقل اور نابالغ ایتام ہیں۔ ان کے اولیاء کو منع کیا گیا ہے کہ ان کا مان ان کے حوالے کردیں۔ اس لیے کہ وہ اپنی ناسمجھی اور کم عقلی کی وجہ سے اسے ضائع کردیں گے۔ اور مال کی نسبت اولیاء کی طرف اس لیے کی گئی ہے، تاکہ انہیں احساس دلایا جائے کہ ان کے رشتہ دار یتیموں کا مال انہی کا مال ہے، اور اس کی حفاظت ان پر اپنے مال کی حفاظت کی طرح واجب ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ ان سے مراد عورتوں اور بچے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنا مال اپنی عورتوں اور بچوں کو دینے سے منع فرمایا ہے کہ آدمی اپنا مال انہیں دے کر خود ان کا محتاج بن جائے اور ان کا منہ تکتا رہے، اور ان کے لیے سفہاء کا لفظ اللہ تعالیٰ نے استعمال کیا ہے، یہ اشارہ ہے اس طرف کہ وہ اپنی کم عقلی کی وجہ سے مال کی حفاظت نہیں کر پائیں گے، بلکہ ضائع کردیں گے۔ تیسری رائے یہ ہے کہ ان سے مراد ہر وہ آدمی ہے جس کے پاس مال کی حفاظت کے لیے کافی عقل نہ ہو۔ اس رائے کے مطابق آیت کا حکم عورتوں، بچوں، یتیموں اور ان تمام لوگوں کو شامل ہوگا جو کم عقل اور نادان ہوں گے حافظ ابن کثیر (رح) نے لکھا ہے کہ نادانوں پر مالی معاملات کرنے کی پابندی لگانا اسی آیت سے ماخوذ ہے، یہ پابندی کئی اسباب سے لگتی ہے، کبھی کم سنی کی وجہ سے، کبھی جنون کی وجہ سے، کبھی کم عقلی یا بے دینی کی وجہ سے، جس کے زیر اثر آدمی مال کو ضائع کرے، اور کبھی مفلس آدمی پر پابندی لگا دی جاتی ہے، تاکہ اس کا مال بیچ کر اس کے قرضداروں کا قرض ادا کیا جائے۔ 7۔ اس میں مال کی حفاظت کی ترغیب دلائی گئی ہے، اس لیے کہ آدمی کے دنیاوی حالات بغیر مال کے متوازن نہیں رہتے۔ زمخشری نے سلف کا قول نقل کیا ہے کہ ” مال مومن کا ہتھیار ہے“ سفیان ثوری کے پاس ایک سامان تھا، اسے وہ الٹتے پلٹتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر یہ نہ ہوتا تو بنی عباس مجھے اپنے ہاتھ کا رومال بنا لیتے۔ اس کے بعد اللہ نے نصیحت کی کہ ان یتیموں کو یا اپنی عورتوں اور اپنے بچوں کو کھانے اور کپڑے کا خرچ دیتے رہو، ان پر تنگی نہ کرو، ایک معنی یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس مال سے تجارت کرو، اور ان نادانوں کا خرچ نفع کے مال سے دو، تاکہ اصل مال ختم نہ ہوجائے، اور ان سے نرمی کے ساتھ بات کرو، اور انہیں کہو کہ جب تم سمجھ دار ہوجاؤ گے تو تمہارا مال تمہارے حوال کردیں گے، باپ بیٹے سے کہے کہ میرا مال تمہارا ہی مال ہے، جب بڑے ہوجاؤ گے اور زندگی کا تجربہ ہوجائے گا تو تمہیں مال دیا کروں گا۔ النسآء
6 8۔ اللہ تعالیٰ نے یتیموں کے اولیاء کو حکم دیا ہے کہ کبھی کبھار کچھ مال دے کر عقلی اور مالی معاملات میں ان کی ذہنی صلاحیت کا امتحان لیتے رہو، اور جب بالغ ہوجائیں یعنی انہیں احتلام ہونے لگے، یا ان کی عمر پندرہ سال ہوجائے، اور تمہارے مشاہدے میں یہ بات آجائے کہ ان میں نیکی ہے، اور مالی امور میں سمجھدار اور ہوشیار ہیں، تو ان کا مال بغیر تاخیر ان کے حوالے کردو۔ آیت کریمہ کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ جو یتیم دینی یا مالی اعتبار سے نااہل ثابت ہوگا، مثال کے طور پر فضول خرچ ہوگا، یا ذہنی اور عقلی طور پر کمزور ہوگا، یا دینی اعتبار سے قابل اعتماد نہ ہوگا، تو اس کا مال اس کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔ اس کے بعد اللہ نے اولیاء کو نصیحت کی ہے کہ یتیموں کے مال میں فضول خرچی نہ کرو، اور تمہاری یہ نیت نہ ہو کہ ان کے بڑے ہونے سے پہلے ان کا مال بے جا خرچ کرو، اس ڈر سے کہ بڑا ہونے کے بعد وہ اپنا مال تم سے لے لیں گے، اور اگر یتیم کا ولی مالدار ہے، تو اسے اس کا مال کھانے سے پرہیز کرنا چاہئے، کیونکہ وہ مال اس کے لیے مردے اور خون کی مانند حرام ہے اور اگر غریب ہے، اور یتیم کے مال کی دیکھ بھال اور اس میں کاروبار کی وجہ سے اپنے بچوں کے لیے دوسرا کام نہیں کرسکتا، اور دیکھ بھال نہ کرنے سے یتیم کا مال ضائع ہوجائے گا، تو اپنی ضرورت اور اپنی محنت کی مناسب مزدوری لے لے۔ حافظ ابن کثیر نے فقہاء کا قول نقل کیا ہے کہ وہ اپنی مزدوری اور اپنی ضرورت میں سے جو کم ہوگا وہ لے گا۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ جب سن بلوغ کو پہنچنے اور عقل و سمجھ کا یقین ہونے کے بعد، یتیم کا مال اس کے حوالے کرو تو گواہ بنا لو، تاکہ بعد میں کوئی تمہیں متہم نہ کرے، اور کوئی جھگڑا نہ کھڑا ہوجائے، اور اللہ تو سب سے بڑا گواہ اور تمہارے ظاہر و باطن کو جاننے والا ہے، اس لیے یتیم کا مال پوری امانت کے ساتھ اس کی طرف منتقل کردو۔ النسآء
7 9۔ یتیموں کے مال کا حکم بیان کرنے کے بعد اب اللہ تعالیٰ نے میراث کے احکام، اور ورثہ کے درمیان اس کی تقسیم کی کیفیت بیان کرنی شروع کی ہے۔ آیت میں عورتوں کا نام مستقل طور پر لینے سے مقصود زمانیہ جاہلیت کی اس قبیح عادت کی تردید ہے کہ لوگو عورتوں اور بچوں کو وراثت میں سے حصہ نہیں دیتے تھے، اور اس طرح بھی اشارہ ہے کہ مردوں اور عورتوں کے حصوں میں فرق ہے، اور لفظ قرابت سے وراثت کی علت کی طرف اشارہ مقصود ہے اور نصیبا مفروضا کا مطلب یہ کہ اللہ کے یہ احکام واجب ہیں، اور حصوں میں تفاوت کے باوجود اصل وراثت میں تمام لوگ برابر ہیں۔ النسآء
8 10۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے وراثت سے متعلق ایک ضمنی حکم بیان کیا ہے، کہ جب وراثت کا مال تقسیم ہو رہا ہو، اور وہاں ایسے رشتہ دار جو وراثت کے حقدار نہ ہوں اور یتیم اور غریب لوگ آجائیں تو مال تقسیم کرنے سے پہلے بطور صدقہ اور ان کا دل رکھنے کے لیے انہیں کچھ مال دے دینا چاہئے۔ اس آیت کے بارے میں دو رائے ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ یہ محکم ہے، منسوخ نہیں ہے، امام بخاری نے ابن عباس (رض) سے یہی روایت نقل کی ہے اور صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت کی بھی یہی رائے ہے کہ ورثہ پر یہ حکم واجب ہے، لیکن اس کی کوئی حد مقرر نہیں۔ دوسری رائے یہ ہے کہ اس آیت کا حکم احکام وراثت کے ذریعہ منسوخ ہوچکا ہے، عکرمہ، ابو الشعثاء اور قاسم بن محمد کی یہی رائے ہے، اور ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء کا یہی مذہب ہے، البتہ مال میں وصیت کا حکم غیر وارثوں کے لیے باقی ہے۔ صاحب مال اپنی زندگی میں ایک تہائی مال میں بذریعہ وصیت تصرف کرسکتا ہے، جیسا کہ سعد بن وقاص (رض) کی حدیث سے ثابت ہے جسے بخاری اور مسلم نے روایت کی ہے، کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں ایک تہائی مال میں بطور وصیت تصرف کرنے کا حق دیا تھا۔ بعض لوگوں نے پہلی رائے کو ترجیح دیا ہے، اور کہا ہے کہ آیت کو منسوخ ماننے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ اس لیے کہ مال کی تقسیم کے وقت اگر کچھ رشتہ دار موجود ہوں اور وہ محتاج بھی ہوں، تو صلہ رحمی کا جذبہ رکھنے والے ورثہ یہی مناسب سمجھیں گے کہ انہیں بھی کچھ دے دیا جائے، تاکہ جہاں ان کے کسی رشتہ دار کا مال تقسیم ہو رہا ہے وہاں سے وہ محروم نہ واپس جائیں۔ اور خاص طور سے وہ یتیم بچے، جن کے باپ کا انتقال دادا کے ہوتے ہوئے ہوگیا ہو اور وراثت سے محروم ہوگئے ہوں اور پھر ان کے دادا کے انتقال کے بعد وراثت تقسیم ہو رہی ہو، اور ان کے چچا اور پھوپھیاں وراثت کا مال پا کر خوش ہو رہی ہوں اور یہ بچے ان کا منہ تک رہے ہوں اور ان کے حصہ میں کچھ نہ آرہا ہو، صرف اس لیے کہ ان کے والد کا انتقال دادا سے پہلو ہوچکا ہے، تو ان کی محرومی کا کیا عالم ہوگا، ایسے بچوں کے حق میں تو یہ آیت آب حیات کے مترادف ہے، اور خاص طور پر اگر دادا کی جائداد بڑی ہو، اور ورثہ ان یتیموں کے حال پر رحم کریں تو ان کے حصہ میں بھی اچھی خاصی جائداد آسکتی ہے، اور ان کی غرب دور ہسکتی ہے، النسآء
9 11۔ علمائے تفسیر نے اس آیت کی کئی توجیہات بیان کی ہیں۔ پہلی توجیہہ یہ ہے کہ اس میں یتیموں کے اوصیاء کو کہا گیا ہے کہ وہ ان کے ساتھ ایسا ہی سلوک کریں جیسا وہ چاہتے ہیں کہ ان کی وفات کے بعد ان کے چھوٹے بچوں کے ساتھ لوگ کریں۔ دوسری توجیہہ یہ ہے کہ یہ حکم مریض کی عیادت کرنے والوں کے لیے ہے، کہ اگر مریض اپنے مال میں بے جا تصرف کی وجہ سے اپنی اولاد کو نقصان پہنچا رہا ہو تو اسے روکیں۔ تسری توجیہہ یہ ہے کہ یہ حکم ورثہ کے لیے ہے، کہ تقسیم وراثت کے وقت جو کمزور رشتہ دار، ایتام ومساکین موجود ہوں تو ان کا خیال کریں، یہ سوچ کر کہ اگر ان کی وفات کے بعد ان کے چھوٹے بچے ہوتے تو کیا وہ چاہتے کہ کوئی انہیں صدقہ و احسان سے محروم کردے۔ چوتھی توجیہہ یہ ہے کہ وصیت کرنے والا ورثہ کا خیال رکھے اور وصیت میں حد سے تجاوز نہ کرے،۔ جیسا کہ حدیثِ سعد بن وقاص میں آیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں ایک ثلث سے زیادہ مال کی وصیت کی اجازت نہیں دی۔ ابن جریر، ابن کثیر، اور رازی وغیرہم نے پہلی توجیہہ کو ترجیح دی ہے، اور کہا ہے کہ سیاق و سباق کی آیتیں اسی رائے کی تائید کرتی ہیں۔ النسآء
10 12۔ اس میں یتیموں کے مال کی حفاظت کی مزید تاکید کی گئی ہے، اور بتایا گیا ہے کہ وارث یا ولی یا حاکم کوئی بھی اگر یتیموں کا مال ناجائز طور پر کھاتا ہے، وہ گویا اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھرتا ہے، اور قیامت کے دن اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ ابو داود، نسائی اور حاکم وغیرہم نے ئ روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی، تو جن کے پاس ایتام تھے، انہوں نے ڈر کے مارے ان کا کھانا پینا الگ کردیا، اور جو کھانا بچ جاتا، یا تو اسے یتیم کھاتا، یا خراب ہوجاتا، یکہ چیز ان پر بڑی شاق گذری، تو انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ذکر کیا تو سورۃ بقرہ کی آیت 220 ویسالونک عن الیتامی قل اصلاح لہم خیر وان تخالطوہم فاخوانکم الایہ نازل ہوئی۔ جس کا خالصہ یہ ہے کہ اگر نیت اصلاح کی ہو تو یتیموں کے کھانے کے ساتھ کھانا ملانے میں کوئی حرج نہیں۔ النسآء
11 13۔ یہاں سے احکام میراث کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے۔ حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ یہ آیت اور اس کے بعد والی آیت اور اس سورت کی آخری آیت ان سے اور ان کی تفسیر کے طور پر جو حدیثیں آئی ہیں ان سے اور ان کی تفسیر کے طور پر جو حدیثیں آئی ہیں ان سے علم فرائض مستنبط ہے۔ آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کی میراث کے بارے میں یہ حکم دیتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے، یعنی اگر کوئی شخص ایک لڑکا ایک لڑکی اور تین دینار چھوڑ کر مرتا ہے تو لڑکے کو دو دینا اور لڑ کی کو ایک دینار ملے گا اور گر دو یا زیادہ لڑکیاں ہوں اور کوئی لڑکا نہ ہو، تو لڑکیوں کو دو تہائی ملے گا، اور باقی مال عصبہ میں تقسیم ہوگا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے آخری آیت میں دو بہنوں کا حصہ دو تہائی مال بتایا ہے، تو دو لڑکیاں بدرجہ اولی دو تہائی مال کی حقدار ہوں گی، اور امام احمد، ابو داود، ترمذی اور بن ماجہ نے جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سعد بن ربیع کی دو لڑکیوں کے لیے دو تہائی مال کا فیصلہ کیا، اور ان دونوں کی ماں کے لیے آٹھویں حصہ کا، اور جو بچ گیا وہ عصبیہ کو دے دیا۔ اگر لڑکی ایک ہوگی تو آدھا مال لے گی، اور باقی عصبہ کو ملے گا، اولاد کے ساتھ باپ اور ماں بھی ہوں، تو باپ کو چھٹا حصہ اور ماں کو چھٹا حصہ ملے گا، اور باپ کو دوسرا چھٹا حصہ عاصب ہونے کی حیثیت سے ملے گا، اگر ورثہ میں صرف باپ اور ماں ہوں، تو ماں کو تیسرا حصہ ملے گا، اور باقی مال باپ کو ملے گا، اور اگر باپ اور ماں کے ساتھ، شوہر یا بیوی ہو، تو شوہر آدھا مال لے گا، اور بیوی کو چوتھائی، اور ماں کو باقی مال کا تیسرا حصہ ملے گا، جمہور علماء اور ائمہ اربعہ کا یہی قول ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ ماں کو پورے مال کا تیسرا حصہ ملے گا، لیکن یہ قول ضعیف ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اگر بیوی ہے تو اسے چوتھا حصہ ملے گا، اور ماں کو پورے مال کا تیسرا حصہ، اور اگر شوہر ہے تو شوہر کو پورے مال کا آدھا، اور ماں کو باقی مال کا تیسرا حصہ ملے گا، لیکن راجح پہلا قول ہے۔ باپ اور ماں کی تیسری حالت یہ ہے کہ ان دونوں کے ساتھ بھائی بھی ہوں چاہے سگے، یا باپ کی طرف سے، یا ماں کی طرف سے، تو بھائیوں کو باپ کے ساتھ کچھ بھی نہیں ملے گا، لیکن ایسی حالت میں ماں کو تہائی مال کے بجائے چھٹا حصہ ملے گا، اور اگر باپ اور ماں کے علاوہ کوئی دوسرا وارث نہ ہوگا تو باقی مال باپ کو ملے گا، جمہور کے نزدیک دو یا دو سے زیادہ بھائیوں کا ایک ہی حکم ہے، اور اگر بھائی صرف ایک ہے، تو ماں کو تہائی مال ملے گا۔ اہل علم کا خیال ہے کہ بھائیوں کی موجودگی میں ماں کو صرف چھٹا حصہ اس لیے ملتا ہے کہ ان کا باپ ہی ان کی شادی اور دیگر اخراجات کا متحمل ہوتا ہے، اس لیے ماں کے چھٹے حصہ کے بعد باقیمال باپ کو مل جائے گا، تاکہ ان بھائیوں کی پرورش و پرداخت پر خرچ کرے۔ 14۔ تمام علمائے امت کا اجماع ہے کہ قرض کی ادائیگی وصیت کی تنفیذ پر مقدم ہے، اور آیت میں وصیت کو اس لیے مقدم رکھا گیا ہے، تاکہ لوگ اس کی تنفیذ میں سستی نہ کریں، اور یہ آیت اس بات کی بھی دلیل ہے کہ قرض کی ادائیگی اور وصیت کی تنفیذ کے بعد ہی وراثت کی تقسیم ہوگی۔ امام احمد اور ابن ماجہ نے سند صحیح کے ساتھ سعد بن الاطول سے ایک حدیث روایت کی ہے کہ ان کا بھائی تین سو درہم چھوڑ کر مرا، انہوں نے اسے ان کے ان کے بال بچوں پر خرچ کرنا چاہا، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تمہارا بھائی قرض میں گھرا ہوا ہے، اس لیے پہلے اس کا قرض ادا کرو۔ 15۔ میراث کے یہ حصے اللہ تعالیٰ نے مقرر کیے ہیں اور وہی حکمتوں کو زیادہ بہتر جانتا ہے، تم نہیں جانتے کہ ورثہ میں سے کون تمہارے لیے زیادہ نفع بخش ہے، اگر وراثت کی تقسیم تمہارے اوپر چھوڑ دی جاتی تو تم بغیر حکمت جانے اس کی تقسیم کرتے، جو تمہارے لیے اور ورثہ کے لیے کسی طرح بھی مناسب نہیں ہوتا۔ النسآء
12 16۔ اللہ نے شوہروں کو خطاب کر کے فرمایا کہ اگر تمہاری بیویاں مال چھوڑ کر مریں اور ان کی کوئی اولاد نہ ہو، تو تمہیں آدھا مال ملے گا، اور اگر ان کی کوئی اولاد ہوگی تو تمہیں چوتھا حصہ ملے گا، لیکن وراثت کی یہ تقسیم قرض کی ادائیگی اور وصیت کی تنفیذ کے بعد ہی ہوگی۔ اور اگر تمہاری کوئی اولاد نہ ہو، تو تمہارے ترکہ کا تمہاری بیویوں کو چوتھا حصہ ملے گا، اور اگر تمہاری کوئی اولاد ہوگی، تو انہیں تمہارے ترکہ کا آٹھواں حصہ ملے گا، اور یہ ترکہ انہیں قرض کی ادائیگی اور وصیت کی تنفیذ کے بعد ہی ملے گا، 18۔ اگر کوئی ایسا مرد یا عورت مر جائے جس کا نہ باپ ہو نہ دادا اور نہ کوئی لڑکا، نہ پوتا نہ پرپوتا، نہ کوئی لڑکی، نہ پوتی نہ پرپوتی، اور ماں کی طرف سے اس کا کوئی بھائی یا بہن ہو، تو دونوں میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا، اور اگر ایک سے زیادہ ہوں گے تو سب تہائی مال میں شریک ہوں گے، اور یہ ترکہ انہیں قرض کی ادائیگی اور وصیت کی تنفیذ بعد ہی ملے گا۔ قرآن کی اصطلاح میں (کلالہ) اس آدمی کو کہتے ہیں، جس کی نہ کوئی اولاد ہو اور نہ باپ، ابوبکر، عمر، علی، ابن مسعود، ابن عباس اور زید بن ثابت (رض) سے یہی مروی ہے، اور جمہور علمائے سلف و خلف کا یہی قول ہے۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ ماں کی جانب سے بھائی بہن، باقی ورثہ سے تین باتوں میں مختلف ہوتے ہیں۔ 1۔ جس کے ذریعہ میت سے ان کا رشتہ قائم ہوتا ہے، اس کے ساتھ (یعنی ماں کے ساتھ) وراثت کے حقدار بن جاتے ہیں۔ 2۔ ان کے مرد اور عورت وراثت میں برابر ہوتے ہیں۔ 3۔ یہ لوگ اسی حالت میں وارث بنتے ہیں جب کہ میت کی اولاد یا باپ یا دادا نہ ہو۔ 18۔ لفظ کلالہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ میت کی شاخیں (یعنی بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، پرپوتا، اور پرپوتی وغیرہ) اور اس کے مذکور اصول (یعنی باپ، دادا اور پردادا وغیرہ) ماں کی اولاد کو ساقط کردیتے ہیں۔ 19۔ آیت کا یہ حصہ دلالت کرتا ہے کہ اگر کوئی عورت، شوہر، ماں، سگے بھائی اور ماں کی طرف سے بھائی چھوڑ کر مرے، تو شوہر کو آدھا، ماں کو چھٹا حصہ اور ماں کی طرف سے بھائیوں کو تہائی ملے گا، اور سگے بھائی ساقط ہوجائیں گے، اس لیے کہ اللہ نے تہائی حصہ انہی کے لیے بتایا ہے۔ اور اس لیے بھی کہ ماں کی طرف سے بھائیوں کا حصہ مقرر کردیا گیا ہے، جبکہ سگے بھائی عصبہ ہیں، اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جن کے حصے اللہ نے مقرر کردئیے ہیں پہلے انہیں دو، اس کے بعد جو بچ جائے، وہ سب سے قریبی مرد رشتہ دار کو دے دو۔ 20۔ غیر مضار یعنی صاحب مال وصیت کرتے وقت عدل و انصاف کو ملحوظ رکھے، ایسا نہ ہو کہ کسی وارث کو محروم کردے یا کم دے، یا اپنی طرف سے کسی کا حصہ بڑھا دے، نسائی اور ابن جریر وغیرہ نے ابن عباس سے موقوفا روایت کی ہے کہ وصیت کے ذریعہ کسی وارث کو نقصان پہنچانے کی نیت کرنا کبیر گناہ ہے۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحیح حدیث ہے کہ وارث کے لیے وصیت صحیح نہیں ہے۔ اسی لیے اگر کوئی آدمی مرنے سے قبل کسی وارث کے لیے کسی حق کا اعتراف کرے، یا اپنے ذمہ کسی کے قرض کا اعتراف کرے، تو راجح قول یہی ہے کہ اس کا اعتراف قابل قبول نہیں ہوگا، اور اگر واقعی اس نے اس اعتراف کے ذریعہ بعض ورثہ کو نقصان پہنچانا چاہا ہے تو یہ بالاجماع حرام ہوگا۔ النسآء
13 21۔ آیات 13، 14 میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ میراث کے احکام اللہ کے فرض کیے ہوئے ہیں اس لیے ان سے تجاوز کرنا جرم ہے اور جو شخص وراثت کی تقسیم اور دیگر امور میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا، اللہ اسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، وہاں نہ انہیں موت لاحق ہوگی، اور نہ ہی وہاں سے نکالے جائیں گے اور جو اللہ کے ان حدود کو تجاوز کرے گا اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ النسآء
14 النسآء
15 22۔ وراثت کے احکام بیان کرنے کے بعد یہاں اللہ تعالیٰ نے عورتوں سے متعلق بعض دوسرے احکام بیان کیے ہیں۔ سدی، قتادہ اور ابن جریر وغیرہم نے کہا ہے کہ ابتدائے اسلام میں ایسی شادی شدہ عورت کے بارے میں جس سے زنا کا ارتکاب ہوجاتا اور چار مرد گواہوں کی گواہی سے ثابت ہوجاتا، تو حکم یہ تھا کہ اسے گھر میں بند کردیا جاتا اور نکلنے نہ دیا جاتا یہاں تک کہ اس کی موت آجاتی، اور علماء تفسیر نے لکھا ہے کہ زانی مردوں کے ساتھ بھی یہی برتاؤ ہوتا تھا، اس کے بعد غیر شادی شدہ کو کوڑے لگانے اور شادی شدہ کو رجم کیے جانے کے حکم کے ذریعہ یہ حکم منسوخ ہوگیا، جیسا کہ امام احمد، مسلم اور اصحابِ سنن نے عبادہ بن صامت (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جب وحی اترتی تو آپ پر اس کا اثر ہوتا تھا، آپ مارے دباؤ کے تھک جاتے اور آپ کے چہرہ پر اس کے آثار ظاہر ہوتے، ایک دن آپ پر وحی نازل ہوئی، اور جب آپ کو سکون ہوگیا تو فرمایا، مجھ سے یہ حکم لے لو، زانیہ عورتوں کے لیے اللہ نے راستہ نکال دیا ہے، اگر زنا کا مرتکب مرد یا عورت شادی شدہ ہے تو سو کوڑے اور رجم کرنا ہے، اور اگر غیر شادی شدہ ہے تو سو کوڑے اور ایک سال کے لیے شہر بدر کرنا ہے۔ امام احمد کا قول اسی حدیث کے مطابق ہے۔ لیکن جمہور کے نزدیک شادی شدہ زانی کو صرف رجم کیا جائے گا، اس لیے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ماعز اسلمی، غامدیہ عورت، اور دو یہودیوں کو صرف رجم کیا تھا، انہیں کوڑے نہیں لگائے تھے۔ النسآء
16 23۔ ابتدائے اسلام میں اگر زنا کے مرتکب (مرد اور عورت) غیر شادی شدہ ہوتے، تو ان کے بارے میں یہ حکم تھا کہ انہیں برا بھلا کہا جاتا، عار دلایا جاتا اور کچھ زد و کو ب بھی کیا جاتا، تاکہ اپنے کیے پر نادم ہوں، اور جب توبہ کرلیتے اور اپنی اصلاح کرلیتے، تو خاموشی اختیار کرلی جاتی اور زدو کو ب بند کردیا جاتا۔ اس لیے کہ گناہ سے تائب اس آدمی کی مانند ہوجاتا ہے، جس نے گناہ نہ کیا ہو، جب سورۃ نور کی آیت 2 الزانیۃ والزانی فاجلدوا کل واحد منہما مئۃ جلدۃ۔ کہ زانی اور زانیہ کو سو کوڑے مارو، نازل ہوئی تو یہ حکم بھی گذشتہ حکم کی طرح منسوخ ہوگیا، اور جمہور کے نزدیک ان کے حق میں صرف کوڑے لگانے کا حکم باقی رہ گیا۔ گذشتہ دونوں آیتوں میں بیان کردہ حکم کے بارے میں دوسری قول یہ ہے کہ پہلی آیت میں صرف عورتیں مراد ہیں، چاہے وہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ، یعنی انہیں حبس دوام کی سزا دی جاتی، اور دوسری آیت میں صرف مرد مراد ہیں، شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ، کہ انہیں زد و کو ب کیا جاتا اور ایذا پہنچائی جاتی۔ ابن نحاص نے ابن عباس (رض) سے اور قرطبی نے مجاہد وغیرہ سے یہی قول نقل کیا ہے تیسری رائے یہ ہے کہ حبس دوام صرف عورت کے ساتھ خاص تھا، اس لیے پہلی آیت میں صرف عورت کا ذکر آیا، اور ایذا پہنچانے کا حکم دونوں کے بارے میں تھا، اس لیے دوسری آیت میں دونوں کو جمع کردیا گیا، لیکن تینوں آراء کے مطابق بعد میں یہ حکم منسوخ ہوگیا، اور شادی شدہ مرد و عورت کے حق میں رجم کا حکم، اور غیر شادی شدہ کے حق میں کوڑے لگانے کا حکم باقی رہ گیا۔ مجاہد نے کہا ہے کہ دوسری آیت ایسے دو مردوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو آپس میں لواطت کریں۔ اصحاب سنن نے ابن عباس (رض) سے مرفوعاً روایت کی ہے کہ عمل لوط کے فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کردیا جائے۔ النسآء
17 24۔ آیات 17، 14 میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ بندہ کی توبہ کب قبول ہوتی ہے؟ اور کب رد کردی جاتی ہے؟ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو کوئی نادانی اور بے وقوفی میں کسی گناہ کا ارتکاب کرلے، اور پھر جلد ہی اس پر نادم ہو اور اللہ کے حضور توبہ کرلے، تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ ضرور قبول کرتا ہے، لیکن جو آدمی گناہ پر گناہ کرتا رہتا ہے اور اپنے گناہوں پر کبھی نادم نہیں ہوتا، اور جب اس کی آنکھوں کو موت نظر آنے لگتی ہے اور زندگی سے مایوس ہوجاتا ہے، تو کہتا ہے کہ اے اللہ ! میں توبہ کرتا ہوں، تو ایسی توبہ کی اللہ کے نزدیک کوئی قیمت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب فرعون نے اپنی آنکھوں سے موت کو دیکھ لیا اور کہا کہ میں اس اللہ پر ایمان لایا جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، اور جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے۔ اور اعلان کرتا ہوں کہ میں مسلمانوں ہوں، تو اللہ تعالیٰ نے اسے جواب دیا کہ اب تک تو تم نافرمانی کرتے رہے ہو اور زمین میں فساد پھیلاتے رہے ہو، اور اب جب موت نے آ دبوچا ہے تو ایمان کا اعلان کرتے ہو، اب تمہاری توبہ کا کوئی فائدہ نہیں۔ امام احمد، ترمذی، اور ابن ماجہ نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ حلق میں آخری سانس اٹکنے سے پہلے تک قبول کرتا ہے۔ امام احمد، ترمذی، اور ابن ماجہ نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ حلق میں آخری سانس اٹکنے سے پہلے تک قبول کرتا ہے۔ ان آیات اور احادیث سے معلوم ہا کہ اگر توبہ کرنے والا ابھی اپنی زندگی کی امید رکھتا ہے تو اس کی توبہ مقبول ہوگی، لیکن روح جب حلق میں آکر اٹک جائے اور فرشتے کو اپنی آنکھوں کے سامنے پائے اور سانس کا زیر و بم بگڑ جائے، تو اس وقت کی توبہ اللہ کے نزدیک مقبول نہیں۔ اسی طرح اگر کوئی شخص حالت کفر و شرک میں مرجاتا ہے، تو ایسے آدمی کی توبہ اور ندامت بھی کسی کام کی نہیں۔ امام احمد اور حاکم نے ابو ذرغفاری (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اسی وقت تک بندہ کی توبہ قبول کرتا ہے یا اسے معاف کردیتا ہے، جب تک حجاب نہ واقع ہوجائے، لوگوں نے آپ سے پوچھا کہ ” حجاب“ کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ حالت شرک میں ہی جان نکل رہی ہو۔ النسآء
18 النسآء
19 25۔ زمانہ جاہلیت میں لوگ عورتوں کے ساتھ جو ظلم وزیادتی کیا کرتے تھے اسی کی اس آیت میں تردید آئی ہے، امام بخاری نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ (زمانہ جاہلیت میں) جب کوئی آدمی مر جاتا تھا، تو اس کے ورثہ اس کی بیوی کے زیادہ حق دار تھے، اور چاہتے تو اس کی شادی نہیں کرتے، اور اس کے شوہر کے ورثہ اس کے خاندان والوں سے زیادہ اس کے حقدار ہوتے تھے، تو یہ آیت نازل ہوئی۔ 26۔ یہاں خطاب شوہر سے ہے اور عورتوں سے متعلق ایک دوسرا حکم بیان کیا جا رہا ہے، کہ ایک آدمی کسی وجہ سے اپنی بیوی سے نفرت کرنے لگے، اور اس کے ذمہ اس کا مہر باقی ہو، تو اسے تنگ کرنے لگے اور نقصان پہنچا نے لگے تاکہ بیوی مہر کی پوری رقم یا اس کا کچھ حصہ چھوڑ دے، اور اس کے بدلے میں اس سے طلاق لے لے۔ اللہ تعالیٰ نے شوہر کے لیے اسے حرام قرار دیا ہے، ہاں، اگر عورت زنا کا ارتکاب کرتی ہے یا کھلم کھلا نافرمانی یا بدزبانی پر تل جاتی ہے، تو شوہر کے لیے یہ جائز ہے کہ جو مہر اس نے دیا تھا وہ لوٹا لے، اور اگر بیوی دینے سے انکار کرے تو اسے مجبور کرے۔ 27۔ اللہ تعالیٰ نے بیویوں کے ساتھ قول وفعل کے ذریعہ اچھے برتاؤ کا حکم دیا ہے، اس لیے کہ بسا اوقات برا برتاؤ تعلقات میں کشیدگی، غیروں سے تعلقات، نافرمانی اور بد اخلاقی کا سبب ہوتا ہے۔ حافظ سیوطی نے (الاکلیل) میں لکھا ہے کہ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ بیوی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا واجب ہے۔ شوہر پر لازم ہے کہ اس کا پورا مہر ادا کرے، اخراجات اور باری کی تقسیم میں انصاف کرے، اس کے ساتھ نرم گفتگو کرے، اور بے سبب نہ اسے مارے اور نہ سختی کا برتاؤ کرے۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اگر بالفرض تمہیں بیوی سے نفرت ہوگئی ہے، تو صبر اور برداشت سے کام لینا چاہئے، اس لیے کہ آدمی بسا اوقات کسی چیز کو نہیں چاہتا، حالانکہ اس میں اس کے لیے کوئی خیر پوشیدہ ہوتی ہے۔ مثلاً اللہ اسے اس کے بطن سے نیک اولاد عطا فرمائے، اور صبر کرنے اور اس پر خرچ کرنے کے بدلے آخرت میں اچھا بدلہ دے۔ مسلم نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کوئی مومن مرد کسی مومنہ عورت سے نفرت نہ کرے، اگر اس کی ایک خصلت اسے بری لگے گی تو دوسری کوئی خصلت اچھی لگے گی۔ اسلام میں بیوی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی بڑی ہی تاکید آئی ہے۔ ایک تو یہی آیت ہے جس کا ابھی آپ مطالعہ کر رہے ہیں۔ نیز نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ بہتر ہے، اور میں اپنی بیویوں کے لیے تم سب سے اچھا ہوں۔ اس حدیث کو الفاظ کے تھوڑے فرق کے ساتھ، عائشہ، ابن عباس اور معاویہ (رض) سے ترمذی، ابن ماجہ، طبرانی اور حاکم وغیرہم نے روایت کی ہے۔۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا برتاؤ اپنی بیویوں کے ساتھ غایت درجہ اچھا تھا، ہمیشہ ان کے ساتھ ہنستے چہرہ کے ساتھ بات کرتے، ان کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے، اور ام المومنین عائشہ کے ساتھ دوڑ لگاتے تھے، ہر رات ان سب کے ساتھ مل کر کھانا کھاتے، اور سونے سے پہلے اپنی بیوی کے ساتھ تھوڑی دیر تک بات کرتے تھے۔ اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مبارک ذات ان کی امت کے افراد کے لیے نمونہ ہے، اس لیے مسلمانوں کو بھی اپنی بیویوں کے ساتھ ایسا ہی حسن سلوک کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ، کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات تمہارے لیے اچھا نمونہ ہے النسآء
20 28۔ آیات 20، 21 میں اللہ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو صرف اس لیے طلاق دینا چاہتا ہے تاکہ کسی دوسری عورت سے شادی کرے، تو اس کے لیے یہ کسی طرح بھی حلال نہیں ہے کہ اس نے جو مہر دیا ہے، اس میں سے کچھ واپس لینے کے لیے ایسے حالات پیدا کرے، کہ بیوی مجبور ہو کر طلاق لینے کے لیے مہر کا کچھ پیسہ واپس کردے۔ اللہ نے اسے کھلا ظلم اور بڑا گناہ قرار دیا ہے۔ مزید تاکید کے طور پر اللہ نے فرمایا کہ مہر واپس لینے کو تم کیسے حلال سمجھتے ہو، حالانکہ تم نے اس کے ساتھ ہمبستری کی ہے، اور وہ عقد زواج کے ذریعہ تمہاری زوجیت میں آئی ہے۔ مذکورہ بالا دونوں آیتوں سے یہ شرعی فائدہ مستنبط ہے کہ مہر میں بڑی رقم دینا جائز ہے، کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اگر تم نے اپنی بیوی کو مال کثیر بطور مہر دیا، تو اس میں سے کچھ بھی کسی طرح واپس نہ لو، اگرچہ مہر کم رکھنا ہی بہتر ہے۔ ابو داود اور حاکم نے عقبہ بن عامر (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اچھا مہر آسان مہر ہوتا ہے، اور مسلم نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے، ایک صحابی سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ کتنے مہر کے بدلے میں شادی کی ہے؟ اس نے کہا : چار اوقیہ، تو آپ نے اسے زیادہ سمجھا، النسآء
21 النسآء
22 29۔ یہاں سے اللہ تعالیٰ نے شادی کے محرمات کو بیان کرنا شروع کیا ہے، سب سے پہلے باپ کی منکوحہ کے بارے میں اللہ نے فرمایا کہ اے مسلمانو ! تم اس سے شادی نہ کرو، اور جس کسی نے زمانہ جاہلیت میں ایسا کیا اور اسلام لانے کے بعد فوراً اس سے باز آگیا، تو اللہ تعالیٰ اس کو معاف کردے گا، باپ کی منکوحہ سے شادی کرنا بدترین خصلت ہے، اس لیے کہ یہ ماں سے شادی کرنے کی مانند ہے، اور یہ حرکت اللہ اور اس کے مروت والے بندوں کے نزدیک بہت ہی مبغوض، اور بہت ہی برا چلن ہے، اس لیے کہ یہ باپ کی عزت سے کھلواڑ ہے۔ حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ ایسی حرکت کرنے والا، اسلام سے مرتد مانا جائے گا، اس لیے اسے قتل کردیا جائے گا، اور اس کا مال بیت المال میں دے دیا جائے گا۔ امام احمد نے براء بن عازب (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے چچا حارث بن عمرو کو ایک ایسے آدمی کو قتل کردینے اور اس کے مال پر قبضہ کرلینے کے لیے بھیجا، جس نے اپنے باپ کی بیوی سے شادی کرلی تھی۔ النسآء
23 30۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نسبی، رضاعی، اور سسرالی محرمات کو بیان کیا ہے، سب سے پہلے نسبی محرمات کو ذکر کیا جو مندرجہ ذیل ہیں : مائیں بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں، بھائی کی بیٹیاں اور بہن کی بیٹیاں اور صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ عورت اور اس کی پھوپھی، اور عورت اور اس کی خالہ کو نکاح کے ذریعہ جمع کرنا حلال نہیں ہے۔ اس کے بعد رضاعی محرمات کا ذکر ہے، جو مندرجہ ذیل ہیں۔ رضاعی مائیں، رضاعی نانیاں، رضاعی بہنیں، رضاعی خالائیں، رضاعی باپ کی بیٹیاں رضاعی باپ کی بہنیں، اور رضاعی باپ کی مائیں، قرآن کریم میں اگرچہ صراحتا، صرف رضاع ماں اور رضاعی بہن کا ذکر آیا ہے، لیکن آیت کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ نسب کے ذریعہ محرمات کی تمام ہی صورتیں رضاعت کے ذریعہ بھی ثابت ہیں، اور اس کی تائید نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث سے بھی ہوتی ہے، آپ نے فرمایا ہے کہ رضاعت کے ذریعہ وہ تمام حرمتیں ثابت ہوتی ہیں جو نسب کے ذریعہ ثابت ہوتی ہیں (متفق علیہ) مدت رضاع اور مقدار رضاعت پر سیر حاصل بحث سورۃ بقرہ آیت 233 کی تفسیر کے ضمن میں آچکی ہے، اسے دوبارہ پڑھ لینا مناسب ہوگا۔ اس کے بعد سسرالی محرمات کا ذکر آیا ہے، جو مندرجہ ذیل ہیں بیویوں کی مائیں (بیویوں کے ساتھ صرف عقد کرنے سے ہی ان کی مائیں حرام ہوجاتی ہیں) اور بیویوں کے پہلے شوہر کی لڑکیاں، جن کی بیویوں کے ساتھ ان کے شوہر ہمبستری کرچکے ہوں (اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو جماع سے پہلے ہی طلاق دے دے یا مر جائے، تو اس کے پہلے شوہر کی بیٹی سے شادی کرنا جائز ہے) بیٹوں کی بیویاں (رضاعی بیٹوں کی بیویوں کا بھی یہی حکم ہے) اور دو بہنوں کو بذریعہ نکاح اکٹھا کرنا۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اگر کسی نے زمانہ جاہلیت میں دو بہنوں کو بذریعہ نکاح اپنے پاس جمع کیا تھا اور اب اس سے باز آگیا ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے معاف کردے گا، اللہ بڑا معاف کرنے والا بے حد رحم کرنے والا ہے۔ النسآء
24 31۔ جو اجنبی عورتیں شادی شدہ ہوں گی، ان سے شادی حرام ہوگی، جب تک کہ ان کے پہلے شوہر طلاق نہ دے دیں یا وہ مر نہ جائیں، اور وہ عورتیں طلاق یا وفات کی عدت نہ گذار لیں، چاہے وہ عورتیں آزاد ہوں یا لونڈی اور چاہے مسلمان ہوں یا کتابیہ، تاکہ دو مردوں کا نطفہ مل کر بچے کا نسب ضائع نہ ہوجائے۔ لیکن اگر وہ شادی شدہ اجنبی عورتیں جہاد فی سبیل اللہ کی جنگی قیدی بن کر مسلمان کے پاس آجائیں، تو ممکن ہے کہ ان کے شوہر جنگ میں نہ مرے ہوں، لیکن چونکہ دار الحرب میں شوہر اور خاندان سے ان کا تعلق ختم ہوگیا، اور وہ لونڈی بن گئیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے حال پر رحم کرتے ہوئے، ان کے مسلمان مالکوں کو ایک ماہوار گذر جانے کے بعد ان کے ساتھ ہمبستری کرنے کی اجازت دی ہے مسلم، ابو داود، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے ابوسعید خدری (رض) سے روایت کی ہے کہ واقعہ اوطاس کے بعد (جو جنگ حنین کے بعد پیش آیا) کچھ ایسی عورتیں ہماری قید میں آگئیں جن کے شوہر زندہ تھے، تو ہم نے ان کے شوہروں کے ہوتے ہوئے ان کے ساتھ ہمبستری کو برا سمجھا، چنانچہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے بارے میں سوال کیا تو یہ آیت نازل ہوئی، اور ہم نے ان کے ساتھ ہمبستری کو حلال جانا۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ اگر لونڈی کی ملکیت بیع، وراثت، یا کسی اور وجہ سے دوسرے آدمی کی طرف منتقل ہوجائے، تو اس کا عقد نکاح منقطع ہوجائے گا، ابن جریر نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے، کہ لونڈی کی طلاق چھ طرح سے واقع ہوتی ہے، اسے بیچ دیا جائے، آزاد کردی جائے، ہدیہ کردی جائے، ایک حیض گذر جائے، اس کا شوہر اسے طلاق دے دے، یا اس کا غلام شوہر بیچ دیا جائے، لیکن جمہور کی رائے یہ ہے کہ لونڈی کو بیچ دینا طلاق کے مترادف نہیں، اور اس کی دلیل بریرہ (رض) کا مشہور واقعہ ہے، جسے عائشہ (رض) نے خرید کر آزاد کردیا تھا، تو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اختیار دیا کہ چاہے تو وہ اپنے شوہر (مغیث) کے ساتھ رہے، اور چاہے تو نکاح کو فسخ کرالے۔ 32۔ علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ اس حکم عام کی بھی دیگر چند محرمات کے ذریعہ تخصیص ہوچکی ہے، وہ محرمات مندرجہ ذیل ہیں۔ عورت اور اس کی پھوپھی یا اس کی خالہ کو عقد نکاح کے ذریعہ جمع کرنا، عدت گذارنے والی عورت، آزاد بیوی کے ہوتے ہوئے لونڈی سے شادی کرنا، آزاد عورت سے شادی کی قدرت ہوتے ہوئے لونڈی سے شادی کرنا، چار بیویوں کے ہوتے ہوئے پانچویں بیوی، نیز لعان کرنے والی عورت ہمیشہ کے لیے لعان کرنے والے مرد پر حرام ہوجاتی ہے۔ 33۔ جن عورتوں سے شادی کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے، ان کے علاوہ کسی بھی عورت سے ایک مسلمان عقد زواج کے شرعی شروط کو ملحوظ رکھتے ہوئے بیک وقت ایک سے چار تک شادیاں کرسکتا ہے۔ اور لونڈی تو جتنی چاہے رکھ سکتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اس بیوی کا مہر مقرر ہو اور ایجاب و قبول کے ذریعہ شادی تمام پائے، اور اعلانیہ یا چھپے طور پر زنا کرنا مقصود نہ ہو۔ آیت کا یہ حصہ دلیل ہے کہ شادی میں مہر دینا اللہ نے واجب قرار دیا ہے، بغیر مہر کے شادی شریعت میں جائز نہیں ہے 34۔ اگر کسی آدمی نے کسی عورت سے شادی کی اور اس کے ساتھ ہمبستری بھی کرلی، تو اسے پورا مہر دینا ہوگا، اور اگر ہمبستری نہیں کی ہے، تو آدھا مہر دینا ہوگا، اور اگر پہلے سے مہر مقرر نہیں کیا گیا تھا، اور ہمبستری بھی نہیں کی، اور طلاق ہوگئی تو اسے کچھ مال دے دیا جائے گا۔ حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ بعض لوگوں نے اس آیت کے عموم سے نکاحِ متعہ کے جواز پر استدلال کیا ہے، نکاح متعہ یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی عورت سے ایک مدت معینہ تک کے لیے نکاح کرلے۔ مثال کے طور پر ایک رات، یا دو رات، یا ایک ہفتہ کے لیے شادی کرے، اور اپنی ضرورت پوری کرلینے کے بعد اسے چھوڑ دے، ابن عباس اور صحابہ کرام کی ایک جماعت نے ضرورت کے تحت اس کو مباح کہا ہے۔ لیکن ابن عباس رضٰ اللہ عنہما سے بعد میں رجوع ثابت ہے۔ امام احمد سے بھی یہ منقول ہے۔ ابن عباس، ابی بن کعب، سعید بن جبیر اور سدی نے اس آیت کو یوں پڑھا ہے، فما استمتعتم بہ منھن فاتوھن الی اجل مسمی، کہ جن عورتوں سے تم ایک مدت معینہ تک کے لیے فائدہ اٹھاؤ تو انہیں ان کا مقرر شدہ مہر دو، مجاہد کا قول ہے کہ یہ آیت نکاحِ متعہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ لیکن جمہور کی رائے اس کے خلاف ہے، وہ کہتے ہیں اس میں شک نہیں کہ متعہ ابتدائے اسلام میں جائز تھا، لیکن اس کے بعد قیامت تک کے لیے حرام کردیا گیا۔ ان کی دلیل بخاری و مسلم کی علی بن ابی طالب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کے دن نکاحِ متعہ اور پالتو گدھوں کے گوشت سے منع کردیا تھا، اور مسلم نے سبرہ بن معبد الجہنی عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی (اب سن لو کہ) اللہ نے اسے قیامت تک کے لیے حرام کردیا ہے، جس کسی کے پاس کوئی ایسی عورت ہو اسے چھوڑ دے، اور تم نے انہیں جو رقم دی ہے اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو، 35۔ جب شوہر مہر کی پور رقم بیوی کو ادا کردے، اس کے بعد بیوی اگر کوئی رقم شوہر کو واپس کردے، یا موخر کردے، یا اسے ہدیہ کردے تو اس میں کوئی حرج نہیں، اس لیے کہ مہر کی رقم اس کی ملکیت میں آجانے کے بعد جسے چاہے وہ دے سکتی ہے النسآء
25 36۔ جو لوگ غربت اور محتاجی کی وجہ سے آزاد مسلمان عورتوں سے شادی نہیں کرسکتے اور انہیں ڈر ہو کہ کہیں زنا کا ارتکاب نہ کر بیٹھیں، انہیں اللہ تعالیٰ نے مسلمان لونڈی سے شادی کرنے کی اجازت دی ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ اس کا مالک اس کی اجازت دے، اس لیے کہ لونڈی کا ولی اس کا مالک ہوتا ہے، اور مہر مقرر ہو، نیز شرعی نکاح کے دیگر تمام شروط ملحوظ ہوں، اور اعلانیہ یا چھپا کر اس سے زنا کرنا مقصود نہ ہو، اور اس لونڈی کا بظاہر مسلمان ہونا بھی ضروری ہے، باطن کی خبر تو صرف اللہ کو ہے، اس لیے کہ ایمان کی حقیقت کو تو وہی زیادہ جانتا ہے، چونکہ ایمان دوسرے تمام امتیازات کو مٹا دیتا ہے، اس لیے اگرچہ وہ لونڈی ہے، لیکن کوئی حرج نہیں کہ اس کے مالک کی اجازت سے مہر مقرر کر کے اس سے شرعی شادی کی جائے، بشرطیکہ اعلانیہ یا چھپا کر اس کے ساتھ زنا کرنے کی نیت نہ ہو۔ اگر شادی کے بعد لونڈیاں زنا کرلیں تو انہیں آزاد غیر شادی شدہ عورت کے آدھا یعنی پچاس کوڑے مارے جائیں گے، اور چونکہ رجم کو آدھا نہیں کیا جاسکتا، اس لیے لونڈیوں سے رجم ساقط ہوجائے گا۔ لونڈی سے شادی کرنے کا جواز اس کے لیے ہے جسے ڈر ہو کہ اس سے کہیں زنا کا ارتکاب نہ ہوجائے، لیکن بہرحال صبر کرنا اور لونڈی سے شادی نہ کرنا زیادہ بہتر ہے، اس لیے کہ اس سے جو اولاد ہوگی وہ سب کی سب لونڈی کے مالک کی مملوک بن جائے گی۔ النسآء
26 37۔ گذشتہ آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے شادی کی حلت و حرمت سے متعلق جو احکام بیان فرمائے، آیت 26، 27، 28 میں انہی کے فوائد اور حکمتوں پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ مسلمان نفع بخش چیزوں کو اپنائیں اور نقصان دہ چیزوں کو چھور دیں، اور ان سے پہلے جو نیک لوگ گذرے ہیں ان کا طیرقہ اختیار کریں، دور جاہلیت کی گمراہی کو چھوڑ کر اسلام کی رہنمائی کو اپنا لیں، تاکہ طہارت و پاکیزگی ان کا شعار بن جائے۔ دوسری آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ چاہتا ہے کہ مسلمان فسق و فساد کے بجائے پاکیزگی اپنائیں۔ لیکن خواہشاتِ نفس کی اتباع کرنے والے زناکار، یہود و نصاری، اور دین کی ڈگر سے ہٹ جانے والے چاہتے ہیں کہ مسلمان بھی انہی کی طرح دنیاوی لذتوں اور خواہشات میں ڈوب جائیں تیسری آیت میں اللہ نے بتایا ہے کہ جو غریب مسلمان آزاد عورتوں سے شادی نہیں کرسکتے، اللہ نے حال پر رحم کرتے ہوئے لونڈیوں سے شادی کی اجازت دے دی ہے، تاکہ کہیں اپنی جنسی خواہش سے مغلوب ہو کر زنا کا ارتکاب نہ کر بیٹھیں۔ النسآء
27 النسآء
28 النسآء
29 اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو خطاب کر کے فرمایا کہ اے ایمان والو ! تم لوگ ایک دوسرے کا مال چوری، دھوکہ دہی، جوا، سود اور دیگر حرام طریقوں سے نہ کھایا کرو، ہاں، جو مال تمہیں آپس کی رضا مندی سے تجارت کے ذریعہ ملے وہ حلال ہے، اور اے مسلمانو ! تم لوگ نہ خود کشی کرو، اور نہ ایک دوسرے کو قتل کرو، کیونکہ جو کوئی کسی مسلمان کو جان بوجھ کر ناحق قتل کردے گا، اللہ اسے جہنم میں ڈال دے گا، اور اللہ کے لیے ایسا کرنا بہت ہی آسان ہے النسآء
30 النسآء
31 اللہ تعالیٰ کا مومنوں سے وعدہ ہے کہ جو شخص کبیرہ گناہوں سے بچے گا، اللہ اس کے صغیرہ گناہوں کو معاف کردے گا، اور اسے جنت میں داخل کرے گا، صحیح مسلم میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحیح حدیث ہے، کہ پانچوں فرض نمازیں، جمعہ سے جمعہ تک اور رمضان سے رمضان تک، یکہ سب اعمال صالحہ اپنے درمیان کے گناہوں کو مٹا دیتے ہیں، بشرطیکہ آدمی کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرے گناہ کبیرہ کی تعریف میں صحابہ کرام اور دیگر علمائے اسلام کے مختلف اقوال آئے ہیں، ابن عباس (رض) نے کہا ہے کہ کبیرہ ہر وہ گناہ ہے جس کی سزا آگی، غضبِ الٰہی، لعنت یا عذاب الٰہی بتایا گیا ہے، سعید بن جبیر کا قول ہے، کہ ہر وہ گناہ جس کی سزا اللہ نے آگ بتائی ہے وہ گناہ کبیرہ ہے، اور علمائے اصول کی ایک جماعت نے کہا ہے کہ کبیرہ ہر وہ گناہ ہے جس پر اللہ نے کوئی حد مقرر کی ہو، یا اس پر کوئی وعید آئی ہو، جن کبیرہ گناہوں کا ذکر صحیح احادیث میں آیا ہے، ان کی تعداد کے بارے میں بھی کئی اقوال ہیں، کسی نے سات کسی نے ستر اور کسی نے سات سو کہا ہے۔ بعض علمائے اسلام نے کبائر سے متعلق کتابیں بھی لکھی ہیں۔ اس سلسلے میں حافظ ذہبی کی کتاب الکبائر اور ابن حجر ہیثمی کی الزواجر عن اقتراف الکبائر مشہور ہیں۔ لیکن ان کتابوں میں بہت تساہل اور توسع سے کام لیا گیا ہے۔ اور اس تساہل کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے اپنے اجتہاد سے بہت گناہوں کو کبیرہ قرار دیا ہے۔ جب کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے ان گناہوں کے بارے میں صڑاحت نہیں آئی ہے کہ وہ کبیرہ گناہ ہیں، واللہ اعلم بالصواب۔ النسآء
32 40۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمان کو اس بات سے منع فرمایا ہے کہ وہ تمنا کرے کہ اللہ نے دوسروں کو جو دیا ہے وہ اسے مل جائے اس لیے کہ اس طرح کی خواہش اللہ کی تقدیر سے عدم رضا کی دلیل ہے۔ اور اگر اس خواہش کے ساتھ یہ تمنا بھی شامل ہوجائے کہ دوسروں سے اللہ وہ نعمت چھین لے تو یہ حسد ہوگا، جس سے اللہ نے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے اس آیت کے شان نزول میں امام احمد اور ترمذی کی ام سلمہ (رض) سے روایت بیان کی جاتی ہے، انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! مرد جہاد کرتے ہیں، اور ہم عورتیں جہاد نہیں کرتیں، اور ہمیں مردوں کا آدھا میراث لتا ہے، ایسا کیوں؟ تو یہ آیت نازل ہوئی، طبری اور ابن لمنذر وغیرہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے، انہوں نے کہا کہ آدمی اس طرح تمنا نہ کرے کہ کاش اسے فلاں کا مال اور اس کے اہل و عیال مل جاتے، اس لیے کہ اللہ نے اس سے منع فرمایا ہے، بلکہ آدمی کو چاہئے کہ اللہ کا فضل مانگے اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت دونوں میں الگ الگ صلاحیت ودیعت کی ہے، اور ہر ایک کو اس کے ساتھ زندہ رہنا چاہئے کہ اللہ ہی حکمتوں کو زیادہ جانتا ہے۔ اور ہر ایک کو اللہ سے اس کا فضل و کرم مانگنا چاہئے، نیز دعا میں خوب الحاح سے کام لینا چاہئے تاکہ اللہ دعا کو قبول کرلے اور اپنے فضل و کرم سے نواز دے۔ النسآء
33 41۔ اس آیت کریمہ کے پہلے حصہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ مرد ہو یا عورت، ہر ایک کے ورثہ اور رشتہ دار ہوتے ہیں، جو اس کے مرنے کے بعد اس کے مال کے وارث بنتے ہیں، جیسا کہ صحیحین میں ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، میراث کے حصے ان کے حقداروں کو دو، اس کے بعد جو بچ جائیے وہ عصبہ یعنی سب سے قریبی مرد رشتہ دار کو دے دو۔ آیت کے دوسرے حصہ والذین عقدت ایمانکم کا مفہوم یہ ہے کہ تم نے حلف یا معاہدہ کسی کے ساتھ کیا تھا تو اس کا حصہ اسے دو، اس آیت کی تفسیر میں علماء کے کئی اقوال ہیں۔ ان تمام اقوال کو جمع کرنے اور ان پر غور کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ آیت جب نازل ہوئی تو ایک سابق حکم کے لیے ناسخ تھی، اور کچھ دنوں کے بعد ایک دوسری آیت کے ذریعہ اس میں موجود حکم بھی منسوخ ہوگیا، اس اجمال کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔ مہاجرین جب مدینہ منورہ آئے، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر مہاجر کی ایک انصاری کے ساتھ اخوت قائم کردی، چنانچہ وہ مہاجر اپنے انصاری بھائی کا وارث ہوتا تھا، اس کے رشتہ دار اس کے وارث نہیں ہوتے تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو سابق حکم منسوخ ہوگیا اور ہر انصاری کے قریبی رشتہ دار ہی اس کے وارچ ہونے لگے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں ابن عباس (رض) سے یہ روایت نقل کی ہے۔ اس کے بعد مہاجرین اور انصار کے درمیان تعاون، مدد اور آپس میں ایک دوسرے کی خیر خواہی کا تعلق رہ گیا، اور ایک تہائی مال میں وصیت کی گنجائش رہ گئی، اور وراثت کا حکم منسوخ ہوگیا۔ لیکن قبل از اسلام لوگوں کے درمیان حِلف اور معاہدے ہوا کرتے تھے۔ دو آدمی آپس میں معاہدہ کرلیتے تھے کہ وہ ایک دوسرے کے وارث ہوں گے۔ جب اسلام آیا تو اس طرح کے لوگ موجود تھے اور وہ اسلام بھی لے آئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے معاہدوں کو باقی رکھا اور فرمایا کہ اسلام نے جاہلیت کے ہر حلف میں تاکید و شدت پیدا کردی ہے۔ البتہ آئندہ کسی نئے حلف کی نفی کردی اور فرمایا لا حلف فی الاسلام، یعنی اسلام میں کوئی حلف نہیں۔ اس طرح کے مسلمانوں کو ان کے حلیف مسلمانوں کے مرنے کے بعد وراثت کا چھٹا حصہ ملتا رہا۔ یہاں تک کہ سورۃ انفال کی آیت واولوا لارحام بعضہم اولی ببعض، نازل ہوئی اور حلفاء کے وارث بننے کا حکم بھی منسوخ ہوگیا، اور صرف قریبی رشتہ دار ہی میت کے وارث کی حیثیت سے باقی رہ گئے اور غیر رشتہ دار حلفاء کے درمیان والذین قدت ایمانکم فاتوھم نصیبھم کے بموجب ان کے آپس کا تعاون، مدد، اور خیر خواہی باقی رہ گئی، جو بہر حال اسلام میں مطلوب ہے۔ ابن جریر نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے دو آدمی آپس میں اس بات کا معاہدہ کرتے تھے کہ ان میں جو پہلے مر جائے گا دوسرا اس کا وارث ہوگا، جب اللہ تعالیٰ نے واولوالارحام بعضہم اولی ببعض فی کتاب اللہ من المومنین والمہاجریننازل فرمایا تو غیر رشتہ دار کا وارث ہونا ممنوع قرار پا گیا۔ ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ اس آیت کے بعد حلفاء کے لیے صرف وصیت کا دروازہ کھلا رہ گیا، جو میت اپنے مرنے سے پہلے کسی بھی غیر وارث آدمی کے لیے کرسکتا ہے۔ ابن عباس (رض) کے علاوہ دیگر کئی علمائے سلف نے کہا کہ یہ آیت، سورۃ انفال کی آیت واولو الارحام کے ذریعہ منسوخ ہوچکی ہے۔ النسآء
34 42۔ اس آیت کا شان نزول یہ بیان کی جاتا ہے کہ ایک انصاری صحابی ایک عورت کو لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اس عورت نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! میرا شوہر فلاں بن فلاں انصاری ہے، اس نے مجھے مارا ہے، اور میرا چہرہ زخمی کردیا ہے، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اسے یہ حق نہیں پہنچتا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا کہ میں نے تو کچھ اور ارادہ کیا تھا اور اللہ نے کچھ اور چاہا، اسے ابن جریر نے روایت کی ہے، اور ابن ابی حاتم نے کئی سندوں سے اسے مرسل روایت کی ہے۔ اور سیوطی نے لکھا ہے کہ اس روایت کے کئی شواہد ہیں جو اسے قوی بناتے ہیں۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت کا حاکم، نگراں اور امیر بنایا ہے، اس لیے کہ مرد عورت سے عقل و فہم میں زیادہ ہوتا ہے، اس کی نگاہ دور رس ہوتی ہے، ملک و قوم کی قیادت، جہاد، اذان، خطبہ، گواہی، نکاح میں ولی بننا، طلاق، رجعت، تعددِ ازواج، وراثت میں دوگنا حصہ لینا، اور عصبہ ہونا یہ اور اسی طرح کی اور بھی صفات ہیں جو مردوں کے ساتھ خاص ہیں۔ اس کے علاوہ وہ نکاح کے وقت مہر ادا کرتا ہے، اور شادی کے بعد ازدواجی زندگی کے سارے اخراجات برداشت کرتا ہے، اس کی حفاظت کرتا ہے اور عورت میں اس کے زیر سایہ سکون و اطمینان کی زندگی بسر کرتی ہے۔ مرد کے اندر ان تمام صلاحیتوں اور خوبیوں کا پایا جانا، اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ازدواجی زندگی میں قیادت شوہر کے ہاتھ میں رہے، اپنی بیوی کی تربیت اور اصلاح کی کوشش کرتا رہے، اور اگر کبھی ضرورت پڑجائے تو اصلاح کی خاطر ہلکی پٹائی بھی کردے، لیکن اگر بیوی اچھی ہے، نیک اور صالحہ ہے، تو اسلام شوہر سے تقاضا کرتا ہے کہ اس کا خیال رکھے، اس کے ساتھ اچھا سلوک کرے، اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ نے صالحہ بیویوں کی یہاں تعریف کی، اور کہا کہ صالحہ بیویاں اپنے شوہر کی فرمانبردار ہوتی ہیں، اور شوہر کی عدم موجودگی میں اللہ کی مدد سے شوہر کی عزت اور مال کی حفاظت کرتی ہیں (اس لیے ایسی بیویوں کے ساتھ اچھا برتاؤ ہونا چاہیے) اس کے بعد اللہ نے یہ بتایا کہ اگر بیوی نافرمانی کرے اور شوہر کے ساتھ بدسلوکی کرے، تو شوہر اسے اپنے حقوق یاد دلائے، اللہ کی ناراضگی اور اس کے عذاب سے ڈرائے، اور اسے بتائے کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ اگر میں کسی کو کسی انسان کا سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بیوی کو کہتا کہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ اور پٹٓئی اور طلاق کی طرف بھی اشارہ کرے، اگر اچھی ہوگی تو یہی نصیحت کافی ہوگی، ورنہ ایک بستر پر سونے کے باوجود اس سے بات کرنا اور ہمبستری بند کردے، اور صبر کرے، یہاں تک کہ وہ نافرمانی سے باز آجائے، اور یہ برتاؤ ایک ماہ سے زیادہ کے لیے نہ ہو، جیسا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حفصہ (رض) کے ساتھ کیا تھا، جب انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک خفیہ راز عائشہ (رض) کو بتا دیا تھا، یہ برتاؤ ایلاء کی طرح چار ماہ کے لیے نہیں ہوگا، اگر یہ تدبیر بھی کارگر نہ ہو تو اس کی پٹائی کرے، لیکن یہ پٹائی ایسی نہ ہو جس سے جسم کا کوئی حصہ ٹوٹ جائے یا کوئی عضو بد شکل ہوجائے صحیح مسلم میں ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع میں عورتوں کے بارے میں کہا کہ ان کے بارے میں اللہ سے ڈرو، اس لیے کہ یہ تمہارے پاس قیدی کی مانند ہیں، اور ان پر تمہارا یہ حق ہے کہ تمہاری عزت سے کسی کو نہ کھیلنے دیں اور اگر ایسا کریں تو انہیں مارو لیکن مار ایسی نہ ہو جس سے زخم لگ جائے ان طریقوں میں سے کوئی بھی طریقہ بتدریج اپنانے کے بعد اگر عورت راہ راست پر آجائے، تو شوہر اسے اذیت پہنچانے کے لیے بہانے نہ تلاش کرے اور اپنی طاقت کے زعم میں خواہ مخواہ اس کی پٹائی نہ کرتا پھرے، یا اس سے قطع تعلق نہ کرے اور اس کے ذہن میں یہ بات رہے کہ اللہ اس سے بڑا ہے اور زیادہ طاقت والا ہے۔ اس کے بعد آیت 35 میں اللہ تعالیٰ نے ازدواجی زندگی سے متعلق ایک اور حکم بیان کیا کہ اگر شوہر اور بیوی کے درمیان اختلاف کی خلیج حائل ہوجائے، ناچاقی اس قدر بڑھ جائے کہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں، تو ایسی صورت میں بیوی اور شوہر دونوں کے رشتہ دار اپنی طرف سے ایک ایک حکم یعنی فیصلہ کرنے والا بھیجیں، دونوں شوہر اور بیوی سے مل کر قضیہ کو سمجھیں۔ اختلاف کے اسباب کو جاننے کی کوشش کریں، اور ان کے درمیان مصالحت کی کوشش کریں، اگر (اللہ نہ کرے) اس راہ کی تمام کوششیں ناکام ہوجائیں تو شوہر اور بیوی کی منظوری لینے کے بعد دونوں میں جدائی کردیں۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں۔ علماء کا اس پر اجماع ہے کہ دونوں فیصلہ کرنے والوں کو شوہر اور بیوی کو ملانے اور جدا کرنے کا حق ہے۔ آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی کہا ہے کہ دونوں فیصلہ کرنے والوں کی نیت صحیح ہوگی تو اللہ تعالیٰ میاں بیوی میں اتفاق کی سبیل نکال ہی دے گا۔ تمام اختلافات دور ہوجائیں گے اور دوبارہ دونوں الفت و محبت سے بھری ازدواجی زندگی گذارنے لگیں گے۔ النسآء
35 النسآء
36 43۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاذ بن جبل (رض) سے پوچھا کیا تم جانتے ہو کہ بندوں پرا للہ کا کیا حق ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ تو آپ نے فرمایا کہ صرف اسی کی عبادت کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں۔ پھر آپ نے کہا کیا تم جانتے ہو کہ اگر بندے ایسا کریں تو ان کا اللہ پر کیا حق ہے؟ کہ اللہ انہیں عذاب نہیں دے گا۔ اس کے بعد اللہ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی نصیحت کی اس لیے کہ دنیا میں کسی کے وجود میں آنے کا ذریعہ والدین ہی ہوتے ہیں۔ اطاعت و الدین کی اہمیت کے پیش نظر ہی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی کئی آیتوں میں اپنی عبادت اور والدین کے ساتھ احسان و سلوک کو ایک ساتھ ذکر کیا ہے۔ اللہ نے فرمایا ان اشکر لی ولوالدین کہ میرا شکر ادا کرو اور والدین کا۔ اور فرمایا و قضی ربک الا تعبدو الا ایاہ و بالوالدین احسانا۔ یعنی اللہ نے یہ فیسلہ کردیا کہ تم لوگ اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ اس کے بعد اللہ نے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ مسکین کو صدقہ دینا صدیقہ ہے اور رشتہ دار کو صدقہ دینا صدقہ اور صلہ رحمی ہے (مسند احمد ترمذی، ابن ماجہ، نسائی) اور یتیموں کے ساتھ اچھے برتاؤ کا حکم دیا، اس لیے کہ ان کے باپ جو ان کی دیکھ بھال کرسکتے تھے دنیا میں موجود نہیں ہیں۔ اور مسکینوں کے ساتھ جو اپنی ضرورتیں پوری کرنے کی مالی استعداد نہیں رکھتے، اور رشتہ دار اور غیر رشتہ دار پڑوسیوں کے ساتھ۔ (امام احمد نے عبداللہ بن عمر رضیا للہ عنہما سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جبرئیل پڑوسی کے بارے میں مجھے ہمیشہ نصیحت کرتے رہے، یہاں تک کہ میں نے سمجھا کہ عنقریب ہی اسے وارث بنا دیا جائے گا) اور پہلو سے لگے ہوئے ساتھی کے ساتھ جیسے بیوی، سفر کا ساتھی، کام کا ساتھی وغیرہ اور مسافر کے ساتھ اور غلاموں اور لونڈیوں کے ساتھ، اس لیے کہ غلامی سے بڑھ کر انسان کی اور کوئی کمزور نہیں ہوسکتی۔ اسی لیے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مرض الموت میں فرمایا کہ اے مسلمانو دیکھو نماز کا خیال رکھنا اور اپنے غلاموں اور لونڈیوں کا، اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ وہ متکبر کو پسند نہیں کرتا جو اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھتا ہے، حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک حقیر اور لوگوں کی نگاہوں میں مبغوض اور قابل نفرت ہوتا ہے۔ النسآء
37 44۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے بخیلوں کی مذمکت کی ہے کہ خود بھی بخل کرتے ہیں، اور لوگوں کو بھی بخل کی تلقین کرتے ہیں، اور اللہ نے انہیں جو نعمتِ مال دی ہے اسے چھپاتے ہیں، ان پر نعمت کا اثر ظاہر ہی نہیں ہوتا، آیت کے آخر میں اللہ نے فرمایا کہ ہم نے کافروں کے لیے رسوا کن عذاب تیار کر کھا ہے۔ یہ گویا اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ بخل کافروں کی صفت ہے، چنانچہ بعض لوگوں نے کہا کہ یہ آیت یہود مدینہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی، اور یہ ساری صفات انہی کے اندر پائی جاتی تھیں۔ وہ بخیل بھی ہوتے تھے، اور انصار کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے منع کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر خرچ کرو گے تو فقیر ہوجاؤ گے۔ النسآء
38 45۔ اس آیت کریمہ میں منافقین کا حال بیان کیا گیا ہے جو لوگوں کے دکھلاوے کے مال خرچ کرتے ہیں، ان کا ساتھی شیطان ہوتا ہے جو انہیں کفر پر اکساتا ہے، اس لیے وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں لاتے، اور نہ اللہ کے لیے خرچ کرتے ہیں، بلکہ صرف اس لیے خرچ کرتے ہیں تاکہ لوگ ان کی مذمت نہ بیان کریں۔ النسآء
39 46۔ اس میں بھی منافقین کے رویہ کی نکیر کی گئی ہے اور انہیں ایک طرح کی ڈانٹ پلائی گئی ہے کہ اگر وہ لوگا للہ اور رسول پر ایمان لے آتے اور اللہ کی مرضی کے لیے اپنا مال خرچ کرتے، تو ان کا کیا نقصان ہوتا، یہ ایک طرح کی ربانی دعوت ہے کہ ان منافقین کو چاہئے کہ اپنے ایمان کی تصھیح کریں اور نفاق سے تائب ہو کر اسلام میں خلوص قلب کے ساتھ داخل ہوجائیں۔ آیت کے آخر میں ایک قسم کی دھمکی ہے کہ اگر انہوں نے اپنی حالت نہ بدلی تو اللہ کی گرفت کا انتظا کریں۔ النسآء
40 47۔ گذشتہ آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت، اور والدین اور دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا، اپنی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دلائی، اور بخل کبر اور دیگر کئی بری صفات سے منع فرمایا، تو موقع و مناسبت کا تقاضا تھا کہ خیر و شر کے جزا و سزا کا بھی ذکر ہو۔ اسی لیے اس آیت کریمہ میں اللہ نے بندوں کو خبر دی ہے کہ وہ قیامت کے دن حساب کے وقت کسی پر ایک ذرہ کے برابر بھی ظلم نہ کرے گا، بلکہ ایک ایک نیکی کو کئی کئی گنا بڑھائے گا، اور ایسے لوگوں کو اپنے پاس سے بھی اجر عظیم دے گا۔ صحیحین میں ابو سعید خدری (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حدیث شفاعت میں روایت کی ہے کہ اللہ کہے گا جاؤ، جس کے دل میں ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ملے اسے آگ سے نکال دو۔ ایک روایت میں ہے کہ جس کے دل میں ایمان کا ادنی ترین ذرہ بھی ہو اسے جہنم سے نکال دو۔ چنانچہ بہت سے لوگ جہنم سے نکل جائیں گے۔ ابو سعید نے کہا کہ چاہو تو قرآن کی یہ آیت ان اللہ لا یظلم مثقال ذرۃ، پڑھو، لیکن کافروں کو ان کی نیکیوں کا بدلہ دنیا ہی میں مل جائے گا۔ آخرت میں ان کی کوئی نیکی ان کے کام نہیں آئے گی (مسلم، ابو داود، طیالسی) النسآء
41 48۔ اس آیت میں گذشتہ آیت کے مضمون کی مناسبت سے، قیامت کی ہولناکیوں اور اس دن کی پریشانیوں کا ذکر ہوا کہ اہل کفر اور اہل شر و فساد کا اس دن کیسا حاسل ہوگا، جب ہر امت کے گواہ کی حیثیت سے اس کے رسول کو بلایا جائے گا جو گواہی دے گا کہ انہوں نے کیا اعمالِ صالحہ کیے، یا کیسے کیسے کفر و سکرشی کا ارتکاب کیا، تاکہ اس شہادت کے مطابق ان کا حساب ہو، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی امت کے گواہ کی حیثیت سے بلایا جائے گا، تاکہ مومن و کافر اور موحد و مشرک کا پتہ چلے، اور تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گواہی دیں کہ انہوں نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا، اور جو امانت ان کے سپرد کی گئی تھی اسے بے کم و کاست ادا کردیا تھا۔ بخاری ومسلم نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت کی ہے مجھ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا کہ مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ۔ تو میں نے کہا میں آپ کو سناؤ اور آپ ہی پر نازل ہوا ہے، آپ نے کہا، ہاں، میں دوسروں سے قرآن سننا پسند کرتا ہوں۔ تو میں نے سورۃ نساء پڑھناشروع کیا، یہاں تک کہ اس آیت پر پہنچا فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشہید وجئنا بک علی ھؤلاء شہیدا، تو آپ نے کہا کہ اب بس کرو، تو میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھا۔ امام مسلم کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ میں گواہ رہا، جب تک ان کے درمیان رہا۔ النسآء
42 49۔ یہاں قیامت کی ہولناکی کی ایک مثال بیان کی گئی ہے کہ اس کا دن اہل کفر اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کرنے والے تمنا کریں گے کہ کاش انہیں مٹی بنا کر زمین میں ملا دیا جاتا، تاکہ حساب نہ دینا پڑتا اور جہنم میں نہ ڈالے جاتے، اور اس دن ان کا حال یہ ہوگا کہ وہ اللہ سے کوئی بات نہ چھپا سکیں گے، ان کا انگ انگ بولے گا اور ان کے خلاف گواہی دے گا، جیسا کہ اللہ نے سورۃ یس میں فرمایا ہے۔ الیوم نختم علی افواہہم و تکلمنا ایدیہم و تشہد ارجلہم بما کانوا یکسبون۔ کہ آج ہم ان کی زبانوں پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے، اور ان کے پاؤ گواہی دیں گے کہ انہوں نے دنیا میں کیا کیا کرتوت کیے تھے۔ النسآء
43 اس آیت کے شان نزول کے بارے میں ابو داود، نسائی اور ترمذی وغیرہم نے حضرت علی (رض) سے (الفاظ کے کچھ اختلاف کے ساتھ) روایت کی ہے کہ عبدالرحمن بن عوف نے شراب حرام ہونے سے پہلے کچھ مہاجرین و انسار کی دعوت کی، انہوں نے کھایا پیا اور شراب بھی پی، جب نماز کا وقت آیا، تو عبدالرحمن بن عوف نے نماز پڑھائی اور نشہ کی حالت میں لا نافیہ کو حذف کردیا جس سے آیتوں کا معنی بالکل بدل گیا، تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ مسلمانو ! تم جب نشہ کی حالت میں ہو تو نماز نہ پڑھا کرو، انتہی۔ چنانچہ مسلمانوں نے نماز کے اوقات میں شراب پینا بند کردیا، اس کے کچھ دنوں کے بعد سورۃ مائدہ کی آیت 90، 91، یا ایہا الذین امنوا انما الخمر و المیسر والانصاب، سے، فہل انتم منتہون، تک نازل ہوئی۔ اور شراب ہمیشہ کے لیے حرام ہوگئی۔ 51۔ جنبی کے لیے مسجد میں جانا ممنوع ہے، البتہ اگر اس کا راستہ مسجد سے گذرتا ہو تو گذرنا جائز ہے۔ ابن جریر و غیرہ نے روایت کی ہے کہ بعض صحابہ کے مکانات کے دروازے مسجد نبوی میں کھلتے تھے، اور انہیں مسجد سے گذرنا پڑتا تھا، انہی کے بارے میں آیت کا یہ حصہ نازل ہوا، کہ حالت جنابت میں مسجد سے ہو کر گذرنا ان لوگوں کے لیے جائز ہے جن کے گھر کے دروازے مسجد میں کھلتے ہوں۔ 52۔ اگر بیماری کی وجہ سے پانی کے استعمال سے مرض میں اضافہ کا خطرہ ہو، یا کوئی آدمی سفر میں ہو، یا پیشاب یا قضائے حاجت کی وجہ سے وضو جاتا رہے، یا بیوی کے ساتھ ہمبستری کرے، یا شہوت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرے، اور غسل یا وضو کے لیے پانی میسر نہ ہو، تو ایسی حالتوں میں اللہ تعالیٰ نے تیمم کو غسل اور وضو کے بدلے میں کافی قرار دیا ہے۔ اور تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ پاک مٹی پر دونوں ہاتھوں کو ایک ساتھ مارے، پھر انہیں اپنی دونوں ہتھیلیوں اور چہرہ پر پھیر لے۔ اس کی دلیل عمار بن یاسر (رض) کی وہ حدیث ہے جسے احمد، بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا، تیمم کے لیے ایسا کرنا کافی تھا، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں ہاتھوں کو زمین پر ایک بار مارا، پھر انہیں اپنی دونون ہتھیلیوں اور چہرہ پر پھیر لیا۔ حافظ ابن لقیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں لکھا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیمم کے لیے ایک ہی بار دونوں ہتھیلیوں اور چہرہ پر ہاتھ پھیرتے تھے، کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں کہ آپ نے تیمم کے لیے مٹی پر دوبارہ ہاتھ مارا، یا کہنی تک ہاتھ پھیرا، النسآء
44 53۔ ابن جریر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے الدلائل میں ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے رفاعہ بن زید بن تابوت بڑے شیطان یہودیوں میں سے تھا، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بات کرتا تو اپنی زبان مروڑ کر باتیں کرتا تاکہ افلاظ کے معانی بدل جائیں، اور اپنی مجلسوں میں ہمیشہ اسلام کی بدگوئی کرتا رہتا تھا، تو یہ آیت نازل ہوئی کہ یہ یہود ہدایت کے بدلے گمراہی خریدتے ہیں، اور دنیاوی مفاد کی خاطر ان کے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں جو علم ہے اسے چھپاتے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ مسلمان بھی انہی کی طرف کافر بن جائیں۔ النسآء
45 آیات 45 64 میں اللہ نے بیان کیا ہے کہ اللہ نے مسلمانوں کے دشمنوں کو خوب جانتا ہے اور وہ مسلمانوں کا دوست اور مددگار ہے، اسی لیے ان کے دشمنوں سے آگاہ کر رہا ہے، یہود اللہ کے کلام (تورات) کو لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے بدل دیتے تھے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کفر و عناد میں کہتے کہ ہم نے تیری بات سنی اور تیری نافرمانی کی، اور یہ بھی کہتے کہ اللہ کرے کہ تو ہماری بات نہ سنے اور جب وہ راعنا کہتے جس کا ظاہر معنی ہے ہمارا خیال کیجئے تو اپنی زبان مروڑتے تاکہ اس کا معنی بدل کر چرواہا یا احمق ہوجائے اللہ تعالیٰ نے انہی یہودیوں کے خبث باطن کو بیان کرتے ہوئے نصیحت کی کہ اگر وہ کہتے کہ ان کے کفر کی وجہ سے ان پر لعنت بھیج دی تھی۔ اس لیے وہ صرف نام کے لیے ایمان لاتے تھے۔ النسآء
46 النسآء
47 54۔ اس آیت کریمہ میں یہود مدینہ کو ان کے پاس جو علم تھا، اس کا حوالہ دے کر کہا گیا ہے کہ تم لوگ اس قرآن پر ایمان لے آؤ جو تمہاری کتاب کی تصدیق کرتا ہے، قبل اس کے کہ تمہیں ہمارا عذاب آگھیرے، اور ہم تمہاری آنکھ، ناک اور منہ کو غائب کر کے تمہارے چہروں کو بگاڑ دیں، اور انہیں تمہاری پیٹھ کی طرف کردیں، یا ان پر لعنت بھیج کر مسخ کلی کے ذریعہ تمہاری صورت ہی بدل دیں، جیسا کہ ہم نے ہفتہ کے دن والوں کے ساتھ کیا تھا النسآء
48 55۔ یہاں صراحت کردی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ شرک کو بغیر توبہ کبھی بھی معاف نہیں کرے گا، اس کے علاوہ، تمام چھوٹے بڑے گناہوں کو اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہے گا، معاف کردے گا، دوسری جگہ اللہ نے فرمایا من یشرک باللہ فقد حرم اللہ علیہ الجنۃ کہ اللہ نے مشرک پر جنت کو حرام کردیا ہے۔ اور صحیین میں عبداللہ بن مسعود (رض) سے مروی ہے انہوں نے پوچھا اے اللہ کے رسول ! کون سا گناہ سب سے بڑٓ ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ، حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ النسآء
49 56۔ اس آیت کریمہ میں یہود و نصاریٰ کی مذمت کی گئی ہے، جو ہمیشہ اپنی پاکی بیان کرتے رہتے تھے۔ کہتے تھے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں اور یہ کہ جنت میں یہود و نصاری کے علاوہ دوسرے لوگ داخل نہیں ہوں گے اور یہود نے یہ بھی کہا کہ ہم آگ میں صرف چند دن کے لیے ڈالے جائیں گے، اسی طرح کے اور بھی بزعم خود اچھے ہونے کے دعوے کرتے رہتے تھے اللہ نے ان لوگوں کا رد کیا کہ اپنا تزکیہ خود کرلینے سے آدمی اچھا نہیں بن جاتا، اللہ جسے چاہتا ہے، پہلے اسے ایمان و عمل صالح کی توفیق دیتا ہے، پھر اس کے نتیجہ میں اس کا تزکیہ کرتا ہ۔ بخاری نے ابو موسیٰ اشعری (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کو کسی کی بہت زیادہ تعریف کرتے سنا، تو آپ نے فرمایا،، کہ تم نے اس آدمی کی پیٹھ توڑ دی۔ النسآء
50 57۔ یہاں حیرت و استعجاب کے طور پر کہا گیا ہے کہ یہ لوگ اللہ کے بارے میں جھوٹی باتیں بیان کرنے میں کتنے جری ہیں اور اس سے بڑا اور کھلا گناہ اور کیا ہوسکتا ہے؟ النسآء
51 58۔ ابن جریر نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ کعب بن اشرف یہودی کفار قریش کو مسلمانوں کے خلاف جنگ پر آمادہ کرنے کے لیے مکہ گیا، تو قریش نے اس سے کہا کہ تم اہل مدینہ میں سب سے معزز اور ان کے سردار ہو، ذرا اس حقیر و ذلیل آدمی کو دیکھ تو سہی، جو اپنی قوم سے بھی الگ ہوگیا ہے، اور اس زعم میں مبتلا ہے کہ وہ ہم سے بہتر ہے، حالانکہ حاجیوں کی خدمت کرنا، انہیں پانی پلانا، اور بیت اللہ کی نگرانی کرنا ہمارا کام ہے، یہ سن کر کعب نے کہا کہ تم لوتگ اس سے بہتر ہو، تو اللہ نے ان شانئک ھو الابتر، اور یہ آیت نازل فرمائی اور کعب بن اشرف اور اس جیسے اللہ اور رسول کے دیگر دشمنوں کا راز فاش کیا، اور ان کا کفر واضح کردیا، اس واقعہ کو امام احمد نے محمد بن عدی سے، اور ابن حبان نے اپنی کتاب الصحیح میں روایت کی ہے۔ بعض روایتوں میں آتا ہے کہ کعب بن اشرف اور حیی بن اخطب غزوہ احد کے بعد مکہ مشرکین کو مسلمانوں کے خلاف ایک بڑی فیصلہ کن جنگ پر آمادہ کرنے کے لیے گئے تھے۔ جبت سے مراد بت، کاہن جادوگر، جادو اور ہر وہ چیز ہے جس کی اللہ کے علاوہ عبادت کی جائے، اسی طرح طاغوت سے مراد کاہن، شیطان ہر گمراہ کن شے، بت سردارانِ یہود، اور ہر وہ چیز ہے جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے، اہل کفر سے مراد مشرکین مکہ ہیں۔ النسآء
52 59۔ یہود اللہ کی لعنت کے مستحق اس لیے ہوئے کہ انہوں نے بت پرستوں کو مسلمانوں پر فوقیت دی، جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے تھے اور دین اسلام اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کا علم رکھتے ہوئے، ایسی بات اس لیے کہی تاکہ مشرکینِ مکہ ان کا ساتھ دیں، چنانچہ بظاہر ان کی سازش کامیاب رہی، اور مکہ اور اطراف و جوانب کے کفار مسلمانوں کے خلاف ٹوٹ پڑے، اور غزوہ احزاب کے لیے جمع ہوگئے، اور مسلمانوں اور شہر مدینہ کو اتنا بڑا خطرہ لاحق ہوگیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کافروں سے بچاؤ کے لیے مدینہ منورہ کے اردگرد خندق کھودنا پڑا، لیکن اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی حفاظت فرمائی، اور محض اپنے رحم و کرم سے دشمنوں کو مار بھگایا، النسآء
53 60۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے بخل کا حال بیان کیا ہے کہ اگر ان کے پاس حکومت ہوتی تو شدت بخل کی وجہ سے کھجور کی گٹھلی کے شگاف کے برابر بھی کوئی چیز کسی کو نہ دیتے النسآء
54 61۔ یہود کی صفت بخل کے بیان کے بعد، ان کی ایک دوسری بری خصلت حسد کو بیان کیا جا رہا ہے اور الناس سے مراد، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنین ہیں، اور فضلہٖ میں فضل سے مراد، نبوت، قرآن کریم، رشد و ہدایت اور روز بروز اللہ کی مدد اور عزت و شرف میں اضافہ ہے آیت کا مفہوم یہ ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں سے یہودیوں کا حسد، غایت درجہ غیر منصفانہ اور بے جا ہے، اس لیے کہ اللہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے ابراہیم کی اولاد کو بھی جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسلاف اور ان یہودیوں کے خاندانی لوگ تھے صحائف ابراہیم تورات زبور اور انجیل جسی کتابیں دیں، اور انبیاء کی سنتیں دیں جو انہیں اللہ سے بذریعہ وحی ملی تھیں اور داود و سلیمان علیہما السلام کو عظیم بادشاہی عطا کی تھی تو پھر ان گذشتہ لوگوں سے کیوں حسد نہیں کرتے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں سے کیوں حسد کرتے ہیں۔ النسآء
55 62۔ گذشتہ مضمون کی تکمیل ہے کہ آل ابراہیم کو نبوت و رسالت کی صورت میں جو کچھ انعاماتِ الٰہی ملے، ان پر بنی اسرائیل میں سے کوئی تو ایمان لے آیا، اور کسی نے انکار کردیا، اور دوسرے لوگوں کو بھی اس سے روکا، حالانکہ ان کا تعلق بھی خاندان ابراہیمی سے ہی تھا، تو آپ سے اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ لوگ یقینا زیادہ ہی حسد کریں گے، اور آپ کی تکذیب زیادہ شد و مد کے ساتھ کریں گے، اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ ان کے اس کفر و عناد کی وجہ سے جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ ان کا انتظار کر رہی ہے النسآء
56 63۔ ان کافر جہنمیوں کو آگ میں اس طرح عذاب دیا جائے گا کہ جب بھی ان کی کھالیں پک جائیں گے، اللہ ان کی کھالوں کو بدل دے گا، فخر الدین رازی لکھتے ہیں کہ ممکن ہے اس میں عذاب کے دوام اور عدمِ انقطاع کی طرف اشارہ ہو، ابن جریر وغیرہ نے صحابہ کرام اور تابعین وغیرہم سے روایت کی ہے کہ جہنمیوں کے چمڑے دن یا گھنٹے میں کئی کئی بار بدلے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب پر جہنم کی آگ کو حرام کردے۔ آمین یا ارحم الراحمین النسآء
57 64۔ اس آیت کریمہ میں نیک بختوں کے مآل و انجام کا ذکر ہے کہ جو لوگ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، قرآن کریم، اور جملہ آسمانی کتابوں اور رسولوں پر ایمان لے آئیں گے، اور عمل صالح کریں گے، تو اللہ انہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، اور جن میں وہ ہمیشہ کے لیے رہیں گے، اور وہاں انہیں پاکیزہ بیویاں ملیں گی، اور وہ گھنی چھاؤں کے نیچے آرام کریں گے، بخاری و مسلم میں ابو سعید خدری (رض) کی مرفوع روایت ہے کہ جنت میں ایک ایسا درخت ہے جس کے نیچے ایک گھوڑ سوار سو سال تک چلے گا اور اس کی مسافت طے نہیں کر پائے گا النسآء
58 65۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تاکید کی ہے کہ وہ امانتوں کی سختی سے حفاظت کریں، اور ان کی ادائیگی میں ذرا بھی کوتاہی نہ کریں، ابو داود ترمذی اور دارمی وغیرہم نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا امانت والے کی امانت ادا کرو، اور جو خیانت کرے، اس کے ساتھ خیانت نہ کرو۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ کلمہ امانت تمام قسم کی امانتوں کو شامل ہے، چاہے وہ اللہ کے حقوق ہوں، جیسے نماز زکاۃ اور روزہ وغیرہ اور چاہے بندوں کے آپس کے حقوق ہوں جو انہیں دنیا میں ادا نہیں کرے گا، تو مسلم و احمد کی روایت کردہ ایک صحیح حدیث کے مطابق انہیں قیامت میں ادا کرے گا، یہاں تک کہ بے سینگ کی بکری کا قصاص سینگ والی بکری سے لیا جائے گا۔ بہت سے مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ آیت عثمان بن ابی طلحہ کے بارے میں فتح مکہ کے موقع سے نازل ہوئی، جس کے پاس خانہ کعبہ کی چابی ہوتی تھی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب خانہ کعبہ کے پاس پہنچے تو عثمان کو بلا کر چابی لے لی اور کعبہ کا دروازہ کھلوا کر داخل ہوئے اور جب نکلے تو یہی آیت پڑھی، اور عثمان کو بلا کر چابی اس کے حوالے کردی، حافظ سیوطی کہتے ہیں کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت آپ پر اس وقت نازل ہوئی جب آپ کعبہ کے اندر تھے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے عدل و انصاف کی تعریف فرمائی اور کہا کہ یہ بڑی اچھی چیز ہے جس کے برتنے کی اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو تلقین کر رہا ہے، چاہے وہ حکام ہوں یا رعایا، اس لیے کہ پرامن اور شریفانہ زندگی کا دار و مدار اسی پر ہے کہ مسلم سوسائٹی میں انصاف کا چلن اور عدل کا دور دورہ ہو۔ النسآء
59 66۔ گذشتہ آیت میں حکام اور رعایا سبھی کو عدل و انصاف کا حکم دینے کے بعد، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رعایا کو چاہے وہ فوج کے افراد ہوں یا عام لوگ، انہیں اپنی، اپنے رسول اور حکام کی اطاعت کا حکم دیا ہے، الا یہ کہ حکام اللہ کی نافرمانی کا حکم دیں، تو ان کی بات نہیں مانی جائے گی؟ اس لیے کہ جہاں خالق کی نافرمانی ہو رہی ہو، وہاں مخلوق کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ بخاری کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، جس نے میری اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی، اور جس نے میری نافرمانی کی، اس نے اللہ کی نافرمانی کی، اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی، اس نے میری اطاعت کی، اور جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی، اس نے میری نافرمانی کی۔ بخاری نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ یہ آیت عبداللہ بن حذافہ بن قیس بن عدی کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ امام احمد نے علی بن ابی طالب (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک انصاری کی قیادت میں ایک فوجی دستہ بھیجا، دستہ کے امیر کسی بات پر لوگوں سے ناراض ہوگئے تو انہوں نے ایک آگ جلوائی اور لوگوں کو اس میں کودنے کے لیے کہا، دستہ کے ایک نوجوان نے لوگوں سے کہا کہ ہم لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان اس لیے لائے ہیں تاکہ آگ سے بچیں، اس لیے ہم لوگ جلدی نہ کریں یہاں تک کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھ لیں جب انہوں نے واپس آنے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تو آپ نے کہا کہ اگر تم لوگ اس میں کود جاتے تو اس سے کبھی نہ نکلتے، امیر یا قائد کی اطاعت بھلائی کے کام میں ہوتی ہے طیبی نے لکھا ہے کہ واطیعوا الرسول میں فعل کا اعادہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ رسول کی اطاعت مستقل ہے اور واولی الامر میں فعل کا عدم اعادہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ ان کی اطعت مشروط ہے۔ اگر ان کا حکم قرآن و سنت کے مطابق ہوگا تو اطاعت کی جائے گی، ورنہ نہیں۔ ابن عباس (رض) کے نزدیک اولی الامر سے مراد اہل فقہ و دین ہیں۔ اور مجاہد، عطا اور حسن بصری و غیرہم کے نزدیک اس سے مراد علماء ہیں، لیکن بظاہر حق یہ ہے کہ تمام اہل حل و عقد امراء اور علماء مراد ہیں 67۔ مجاہد اور دوسرے علمائے سلف نے کہا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیر دو سے مقصود قرآن و سنت ہے۔ آیت کے اس حصہ میں مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ کسی بھی مسئلہ میں ان کے درمیان اختلاف ہو تو اس کا فیصلہ قرآن و سنت کے مطابق ہونا چاہیے، اللہ اور آخرت پر ایمان کا تقاضا یہی ہے۔ معلوم ہوا کہ جو شخص بھی کسی اختلافی مسئلہ میں قرآن و سنت کا حکم نہیں مانے گا، وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والا نہیں مانا جائے گا، اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ قرآن و سنت کی طرف رجوع میں ہی ہر خیر ہے، اور انجام کے اعتبار سے بھی یہی عمل بہتر ہے النسآء
60 68۔ ابن اسحاق، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم وغیرہم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جلاس بن صامت، مقصب بن قشیر اور رافع بن زید منافقین کو ان کی قوم کے بعض مسلمانوں نے ایک قضیہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس چلنے کو کہا، تو انہوں نے کاہنوں کے پاس جانا پسند کیا، جس کے بعد یہ آیت الا احسانا و توفیقا تک نازل ہوئی۔ آیت میں ایسے ہی منافقین کے حال پر تعجب کا اظہار کیا گیا ہے، کہ دعوی تو ایمان کا کرتے ہیں اور فیصلہ طاغوت اور شیطان کا چاہتے ہیں، جس سے اللہ نے اعلان براءت کا حکم دیا ہے۔ 69۔ آیت 60 61 سے مندرجہ ذیل فوائد ماخوذ ہیں۔ 1۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دیگر انبیاء پر نازل شدہ کتابوں پر ایمان کا دعوی کرتے ہوئے، قرآن و سنت کے علاوہ کسی اور کو حکم بناتے ہیں، اللہ نے اس آیت میں ان کے ایمان کی نفی کی ہے 2۔ کسی طاغوت کو فیصل بنانا، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلہ پر راضی نہ ہونا کفر ہے 3۔ جو شخص اللہ یا اس کے رسول کے کسی امر کا انکار کردیتا ہے، وہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے النسآء
61 النسآء
62 70۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بشارت دی جارہی ہے کہ ان منافقین کو مصیبتیں لاحق ہوں گی، اور آپ کے پاس آکر اپنے اخلاص و ایمان کا اظہار کریں گے، اور قسمیں کھائیں گے کہ ان کا مقصد دونوں فریقوں میں صلح کرانا تھا النسآء
63 71۔ انہی منافقین کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اللہ ان کے دلوں کے نفاق کو جانتا ہے، لیکن مصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ ابھی انہیں کوئی سزا نہ دیں، اور صرف اشارے کے ذریعہ دھمکی اور نصیحت پر ہی اکتفا کریں، اور انہیں کوئی ایسی بات کہہ جائیں جو ان کے دلوں ُر اثر انداز ہو، جو انہیں مغموم بنا دے، اور ان کے دلوں میں خوف سما جائے، مثلاً یہ کہئے کہ نفاق کا انجام بہت برا ہوتا ہے، اور کبھی قتل تک کی نوبت آجاتی ہے، اور یہ کہ ان کے اور مشرکین کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے النسآء
64 72۔ گذشتہ آیتوں میں منافقین کا ایک بڑا جرم بیان کرنے کے بعد کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بجائے کاہنوں کے پاس فیصلہ کے لیے گئے، یہاں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کی مزید تاکید فرمائی ہے کہ ہم کسی رسول کو اسی لیے بھیجتے ہیں کہ اس کی اطاعت کی جائے، اور یہ چیز بغیر توفیق الٰہی کے حاصل نہیں ہوتی، معلوم ہوا کہ رسول اکی اطاعت فرض ہے، اور اس کی فرضیت کا انکار کفر ہے۔ 73۔ اللہ نے فرمایا کہ ان منافقین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بجائے کاہنوں اور طاغوتوں کو اپنا فیصل مان کر اپنے آپ پر بڑا ظلم کیا، کہ نفاق کے عذاب کے ساتھ ایک اور عذاب الٰہی کے مستحق بنے۔ اس عذاب سے بچنے کا ایک ہی راستہ تھا کہ اپنے نفاق اور اس جرم عظیم سے تائب ہو کر آپ کے پاس آتے، اور اللہ سے مغفرت طلب کرتے، اور آپ بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے، تو اللہ ان کے گناہوں کو معاف کردیتا آیت کا تعلق منافقین کے ایک خاص واقعہ سے ہے جس کا اوپر بیان ہوچکا کہ نفاق کی بیماری میں