آیت نمبر | ترجمہ | سورہ نام |
1 |
[١] تلاوت سے پہلے تعوذ کا حکم :۔ قرآن کریم کی تلاوت شروع کرنے سے پہلے ﴿اَعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرّجیم﴾ ضرور پڑھ لینا چاہیے۔ کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے آیت ﴿فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ﴾ (16 : 98) ’’جب آپ قرآن پڑھنے لگیں تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ طلب کیجئے‘‘
اور یہ تو ظاہر ہے کہ پناہ کسی نقصان پہنچانے والی چیز یا دشمن سے درکار ہوتی ہے اور ایسی ہستی سے پناہ طلب کی جاتی ہے جو اس نقصان پہنچانے والے دشمن سے زیادہ طاقتور ہو۔ شیطان چونکہ غیر محسوس طور پر انسان کی فکر پر اثر انداز ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ دعا دراصل قرآن کی تلاوت کے دوران کج فکری سے بچنے اور قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کی دعا ہے۔ نیز یہ وہ دعا ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود اپنے بندوں کو سکھائی اور اسے پڑھنے کا حکم دیا۔ (1) فضائل سورۃ فاتحہ :۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک دن جبرئیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے اپنے اوپر ایک زور دار آواز سنی انہوں نے اپنا سر اٹھایا۔ پھر فرمایا : ’’یہ آسمان کا ایک دروازہ ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں کھلا‘‘ پھر فرمایا :’’ یہ ایک فرشتہ ہے جو آج سے پہلے زمین پر کبھی نازل نہیں ہوا۔ پھر اس فرشتے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور دو نوروں کی خوشخبری دی اور کہا :’’ یہ دو نور آپ ہی کو دئیے جا رہے ہیں۔ آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیئے گئے۔ ایک سورۃ فاتحہ اور دوسرا سورۃ البقرہ کی آخری دو آیات۔ آپ جب کبھی ان دونوں میں سے کوئی کلمہ تلاوت کریں گے تو آپ کو طلب کردہ چیز ضرور عطا کی جائے گی۔‘‘ (صحیح مسلم۔ کتاب فضائل القرآن۔ باب فضل الفاتحہ) (2) سورۃ فاتحہ کے مختلف نام :۔ سیدنا ابو سعید بن معلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ نے مجھے فرمایا : ’’میں تجھے قرآن کی ایک ایسی سورت بتاؤں گا جو قرآن کی سب سورتوں سے بڑھ کر ہے اور وہ ہے ﴿ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾ وہی ﴿سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ﴾ اور قرآن عظیم ہے جو مجھے دیا گیا۔‘‘ (بخاری : کتاب التفسیر، سورۃ انفال: 24 ﴿يٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا نیز تفسیر سورۃ فاتحہ) (3) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سورۃ الحمد ہی ام القرآن، ام الکتاب اور دہرائی ہوئی سات آیتیں ہیں۔ (ترمذی : ابواب التفسیر، تفسیر سورۃ محمد) اس سورۃ کا سب سے زیادہ مشہور نام الفاتحة ہے جس کے معنی ہیں کھولنے والی یعنی دیباچہ، مقدمہ یا پیش لفظ۔ اس کے متعلق علماء کی دو آرا ہیں : ایک یہ کہ یہ سورۃ ایک دعا ہے جو بندوں کو سکھائی گئی ہے کہ وہ اس انداز سے اللہ سے ہدایت طلب کیا کریں اور باقی سارا قرآن اس دعا کا جواب ہے۔ ان حضرات کی توجیہ یہ ہے کہ اس سورۃ کا ایک نام سورۃ الدعاء بھی ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ یہ سورۃ سارے مضامین قرآن کا اجمالی خلاصہ ہے۔ پھر اس سورۃ کا خلاصہ ﴿ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ﴾ ہے۔ ہمارے نزدیک دوسری رائے ہی راجح ہے اور اس کی مندرجہ ذیل دو وجوہ ہیں : 1۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سورۃ کو قرآن عظیم، ام الکتاب اور ام القرآن فرمایا ہے جس کا مفہوم یہی ہے کہ یہ سورۃ سارے قرآن کا خلاصہ ہے۔ 2۔ اس سورۃ کی آیات پر سرسری نظر ڈالنے سے ہی از خود یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اس میں پورے قرآن کا خلاصہ یا اجمالی ذکر کیا گیا ہے تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ علمائے تفسیر نے قرآن کے مضامین کو پانچ اقسام میں تقسیم کیا ہے جو یہ ہیں : (1) تذکیر بالآء اللہ : یعنی اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا بیان جو انسانی زندگی اور اس کی بقا کے لیے ضروری تھیں اور اس میں زمین، آسمان، چاند، سورج اور ہواؤں اور بادلوں وغیرہ کا ذکر سب کچھ آ جاتا ہے۔ (2) تذکیر بایام اللہ : یعنی مخلوق کے ساتھ واقعات اور حوادث کا بیان اس میں قصص الانبیاء اور نافرمانی کی بنا پر ہلاک شدہ قوموں کا ذکر شامل ہے۔ (3) تذکیر بالموت و مابعدہ : یعنی موت کے بعد آخرت کے احوال۔ اس میں اللہ کے ہاں باز پرس اور جنت و دوزخ کے سب احوال شامل ہیں۔ (4) علم الاحکام یعنی احکام شریعت : تذکیر بالآء اللہ، تذکیر بایام اللہ اور تذکیر بالموت، سب کا مقصد حقیقی یہی ہے کہ ان کے ذکر سے انسان کو برضاء و رغبت احکام شریعت کی بجا آوری پر آمادہ کیا جائے۔ (5) علم المخاصمہ : یعنی گمراہ فرقوں کے عقائد باطلہ کا رد۔ اب دیکھئے اس سورۃ کی پہلی تین آیات میں یعنی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے لے کر دوسری بار الرحمٰن الرحیم تک اللہ تعالیٰ کی ربوبیت عامہ اور رحمت کی وسعت کا ذکر ہے اور یہ تذکیر بالآء اللہ کے ذیل میں آتی ہیں اور چوتھی آیت ﴿ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ﴾ تذکیر بالموت کے ذیل میں۔ پانچویں آیت ﴿ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ﴾ علم الاحکام کا نچوڑ ہے۔ اور چھٹی آیت اللہ سے دعا اور تعلق باللہ پر مشتمل ہے اور یہ علم الاحکام ہی کے ذیل میں آتی ہے۔ اور ساتویں آیت میں تذکیر بایام اللہ بھی ہے اور علم المخاصمہ بھی۔ اس لحاظ سے یہ سورۃ فی الواقع قرآن کی اجمالی فہرست ہے اور اس ساری سورۃ کا خلاصہ آیت ﴿ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ﴾ہے۔ یعنی انسان صرف ایک اللہ کی عبادت کرے جس میں کسی قسم کے شرک کا شائبہ تک نہ ہو۔ اس سورۃ کا نام الشفاء اور الرقیہ بھی ہے اور ان ناموں کی وجہ تسمیہ درج ذیل حدیث ہے : سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی اصحاب عرب کے ایک قبیلہ پر پہنچے۔ جنہوں نے ان کی ضیافت نہ کی۔ اتفاق سے ان کے سردار کو بچھونے کاٹ لیا۔ وہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس آئے اور کہنے لگے : ’’تم میں سے کسی کے پاس بچھو کے کاٹے کی کوئی دوا یا منتر ہے؟‘‘ انہوں نے کہا : ’’ہاں ہے۔ مگر چونکہ تم نے ہماری ضیافت نہیں کی اس لیے ہم اس کا معاوضہ لیں گے‘‘ انہوں نے چند بکریاں (ایک دوسری روایت کے مطابق ٣٠ بکریاں) دینا قبول کیں۔ ایک صحابی (خود ابو سعید رضی اللہ عنہ) نے سورۃ فاتحہ پڑھنا شروع کی۔ وہ سورۃ فاتحہ پڑھ کر پھونک مار دیا کرتے۔ چند دنوں میں وہ سردار اچھا ہوگیا۔ (حسب وعدہ) قبیلہ کے لوگ بکریاں لے آئے تو صحابہ رضی اللہ عنہم کو تردد ہوا (کہ آیا یہ معاوضہ لینا بھی چاہئے یا نہیں) اور کہنے لگے کہ جب تک ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ نہ لیں یہ بکریاں نہ لینا چاہئیں۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تمہیں یہ کیسے معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ منتر بھی ہے؟ وہ بکریاں لے لو اور (ان میں سے) میرا حصہ بھی نکالو‘‘ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ جب صحابہ رضی اللہ عنہم مدینہ پہنچے تو کسی نے کہا : ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص (ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ) نے کتاب اللہ پر اجرت لی ہے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” إِنَّ أَحَقَّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا كِتَابُ اللَّهِ “(تمہارے اجرت لینے کی سب سے زیادہ مستحق تو کتاب اللہ ہی ہے) (بخاری۔ کتاب الطب والرقي۔ باب الرقی بفاتحۃ الکتاب) اس حدیث سے مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوئیں : 1۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اجرت کا مطالبہ صرف اس لیے کیا تھا کہ ان بستی والوں نے ان کی مہمانی سے انکار کردیا تھا۔ بالخصوص ان دنوں میں جبکہ وسائل سفر محدود، سست رفتار اور ہوٹل وغیرہ بھی نہیں ہوتے تھے اور ملکی دستور یہ تھا کہ مہمانی سے انکار کو قتل کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔ 2۔ اگر دم جھاڑ کی ضرورت پیش آئے تو صرف کتاب اللہ سے ہی کرنا چاہئے یا کم از کم دم جھاڑ کرنے والا شرکیہ یا مہمل الفاظ نہ پڑھے۔ 3۔ ضرورت مند لوگ دم جھاڑ کی اجرت بھی لے سکتے ہیں۔ رہا علی الاطلاق دم جھاڑ کو ایک مستقل پیشہ بنا لینا یا خانے بنا کر یا مہمل الفاظ سے تعویذ لکھنا۔ انہیں پانی میں گھول کر پلانا۔ گلے میں لٹکانا یا کسی دوسری جگہ باندھنا، ایسے سب کام شرعاً ناجائز ہیں اور اس کی تفصیل سورۃ القیامۃ میں آئے گی۔ نیز اس سورۃ کا نام سورۃ الصلوٰۃ اور سورۃ الدعا اور تعلیم المسئلہ (مانگنے کے آداب) بھی ہے۔ قراۃ فاتحہ خلف الامام :۔ چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جس نے نماز پڑھی اور اس میں ام القرآن نہ پڑھی اس کی نماز ناقص، ناقص، ناقص اور ناتمام ہے‘‘ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا : ’’ابوہریرہ ! کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں؟‘‘ وہ کہنے لگے : ’’'فارسی کے بیٹے دل میں (چپکے چپکے) پڑھ لو۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں نے نماز (سورہ فاتحہ) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان نصف نصف تقسیم کردیا ہے۔ آدھی میرے لیے ہے اور آدھی میرے بندے کے لیے جو کچھ وہ سوال کرے۔ میرا بندہ (نماز میں) کھڑا ہوتا اور کہتا ہے ﴿ اَلْحَمْدُ ﷲِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعریف کی۔ پھر وہ کہتا ہے ﴿الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴾ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری ثناء بیان کی۔ پھر وہ کہتا ہے﴿ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ﴾ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی اور ﴿ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ﴾ میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے اور سورت کا باقی حصہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کو وہ کچھ ملے گا جو اس نے مانگا۔ (مسلم۔ کتاب الصلوۃ۔ باب وجوب قراءۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ۔ ترمذی۔ ابواب التفسیر۔ سورۃ الفاتحۃ) سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " لاَ صَلٰوۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ" (بخاری کتاب الاذان) اور امام بخاری نے تو باب کا نام ہی ان الفاظ سے قائم کیا ہے۔ ( وجوب القرأۃ للامام والمأموم فی الصلوۃ کلھا فی الحضر والسفر وما یجھر فیھا وما یخافت) اس باب کے الفاظ کے عموم سے ہی یہ بات واضح ہے کہ خواہ کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا ہو یا مقتدی ہو یا امام ہو، نماز خواہ سری ہو یا جہری ہو ہر صورت میں اور ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھنا واجب ہے۔ ترمذی، ابوداؤد، احمد اور ابن حبان کی ایک روایت میں ہے کہ آپ نے ہم سے پوچھا : ’’تم لوگ اپنے امام کے پیچھے کچھ پڑھتے رہتے ہو؟‘‘ ہم نے کہا : ’’ہاں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فاتحہ الکتاب کے سوا اور کچھ نہ پڑھا کرو۔ کیونکہ جو شخص فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔ (سبل السلام۔ کتاب الصلوۃ۔ باب صفۃ الصلٰوۃ حدیث نمبر 13) گویا سورۃ فاتحہ کے کل دس نام معلوم ہوئے۔ سورۃ الفاتحۃ، الحمد، سبعا من المثانی، أم القرآن، أم الکتاب، الشفاء، الرقیۃ، الدعاء، تعلیم المسئلۃ اور الصلوۃ اور بعض نے اس سے بھی زیادہ لکھے ہیں۔ زمانہ نزول: اس سورۃ کا ترتیب نزول کے لحاظ سے پانچواں نمبر ہے۔ گویا یہ اسلام کے بالکل ابتدائی دور میں نازل ہوئی تھی اور یہی پہلی سورت ہے جو پوری کی پوری یکبارگی نازل ہوئی۔ [٢] کیا بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سورۃ فاتحہ کا جز ہے؟ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے زمانہ نزول میں بتایا جاچکا ہے کہ اس میں اقرا یا ابدا محذوف ہے۔ اسی لیے ہم نے ترجمہ میں (شروع) کا لفظ بڑھایا ہے۔ اب یہ بحث باقی رہ جاتی ہے کہ آیا یہ آیت سورۃ فاتحہ کا جز ہے یا نہیں۔ اور اس کی اہمیت یہ ہے کہ آیا جہری نمازوں میں امام کو اس کی قراءت بلند آواز سے کرنی چاہئے یا خفی آواز سے؟ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورت کے ختم ہونے کو نہیں پہچانتے تھے جب تک بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نازل نہ ہوتی (ابوداؤد۔ کتاب الصلوۃ۔ باب ماجاء من جھر بھا) جس کا مطلب یہ ہوا کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سورتوں کی تعداد کے برابر (ماسوائے سورۃ التوبہ) یعنی ١١٣ بار نازل ہوئی۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ آپ پر ایک غنودگی سی طاری ہوئی۔ پھر آپ نے مسکراتے ہوئے اپنا سر اٹھایا۔ ہم نے پوچھا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کس بات پر مسکرا رہے ہیں؟ فرمایا : مجھ پر ابھی ابھی ایک سورت نازل ہوئی ہے۔ چنانچہ آپ نے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پڑھ کر ﴿ اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ ﴾ پوری سورت پڑھی۔ (مسلم : کتاب الصلوۃ، باب حجۃ من قال البسملۃ آیۃ من اول کل سورۃ سواء براء ۃ) امام مسلم اس حدیث کو جس باب کے تحت لائے ہیں اس کے عنوان کا ترجمہ یہ ہے ’’سورۃ توبہ کے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم کو ہر سورت کا جز کہنے والوں کی دلیل‘‘ اس دلیل کی رو سے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم صرف سورۃ فاتحہ کا ہی جز نہیں بلکہ ہر سورت کا جز قرار پاتی ہے۔ نیز یہ آیت سورۃ نمل کی ایک مستقل آیت بھی ہے۔ (٢٧: ٣٠) علاوہ ازیں قرآن کی تصریح کے مطابق سورۃ فاتحہ کی سات آیات ہیں۔ اور یہ سات آیات تب ہی بنتی ہیں جب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم کو سورۃ فاتحہ کی پہلی آیت شمار کیا جائے۔ یہ سب وجوہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اس آیت کی قراءت جہری ہونا چاہئے۔ اس سلسلے میں متضاد روایات ملتی ہیں سب سے زیادہ مشہور سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی وہ حدیث ہے جسے بخاری، مسلم اور نسائی وغیرہ نے روایت کیا ہے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ﴿اَلْحَمْدُ اللہ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾ سے نماز شروع کیا کرتے تھے اور مسلم میں یہ الفاظ زیادہ ہیں کہ : ﴿ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم﴾ نہ قراءت کی ابتدا میں پڑھتے تھے اور نہ آخر میں‘‘اب یہ تو واضح ہے کہ مسلم میں مروی جملہ میں فی نفسہ مبالغہ میں زیادتی ہے ورنہ سورۃ فاتحہ کے آخر میں بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ہے کب؟ اور جو لوگ بسم اللہ بالجہر پڑھنے کے قائل ہیں وہ اس سے یہ مراد لیتے ہیں کہ آپ سورۃ فاتحہ کے بعد جو سورۃ پڑھتے تھے اس کی ابتدا میں بھی بسم اللہ بلند آواز سے نہیں پڑھتے تھے۔ اب اس کے برعکس نسائی کی درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے : نعیم مجمر کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پڑھی۔ پھر ام القرآن پڑھی تاآنکہ وہ ﴿وَلاَالضَّالِیْنَ﴾ تک پہنچے تو آمین کہا۔ پھر جب بھی سجدہ کرتے یا بیٹھنے کے بعد کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے۔ پھر جب سلام پھیرتے تو کہتے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ تم سب سے زیادہ میری نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے مشابہ ہے' (نسائی۔ کتاب الصلوۃ۔ باب قراءۃ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم) صاحب سبل السلام کہتے ہیں کہ یہ سب سے زیادہ صحیح حدیث ہے اور یہ اصل کی تائید کرتی ہے جو یہ ہے کہ قراءت میں جو حکم فاتحہ کا ہے وہی بسملہ کا ہے۔ خواہ یہ جہراً ہو یا سراً ہو۔ کیونکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اس قول کہ ’’میری نماز تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے مشابہ ہے‘‘ سے واضح ہے کہ آپ بسملہ کی قراءت فرماتے تھے۔ اگرچہ اس میں یہ احتمال ہے کہ اس سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے اکثر افعال و اقوال سے ہو مگر یہ ظاہر کے خلاف ہے اور کسی صحابی سے یہ بعید ہے کہ اس نے اپنی نماز میں کوئی ایسا نیا کام کیا ہو جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کیا ہو۔ (سبل السلام مطبوعہ دارنشر الکتب الاسلامیہ۔ شیش محل روڈ لاہور۔ الجزء الاول ص ١٧٣) نیز صاحب سبل السلام کہتے ہیں کہ : ’’اس مسئلہ میں علماء نے لمبی چوڑی بحث کی ہے اور بعض نامور شخصیات نے کتابیں بھی تالیف کی ہیں۔ اور یہ وضاحت کی ہے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی مندرجہ بالا حدیث مضطرب ہے۔ ابن عبدالبر "الاستذکار" میں کہتے ہیں کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی تمام روایات کی تحقیق کا ماحصل یہ ہے کہ اس اضطراب کی وجہ سے کسی بھی فقیہ کے لیے اس سے حجت قائم نہیں ہوتی، نہ اس کے لیے جو بسملہ کی قراءت کرتے ہیں اور نہ ان کے لیے جو نہیں کرتے۔ اس کے متعلق سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہہ دیا کہ ’’میں بوڑھا ہوگیا ہوں اور بھول جاتا ہوں، لہٰذا اس میں کوئی حجت نہیں‘‘ (ایضاً، ص ١٧٢) بعض علماء نہ اس آیت کی جہری قراءت کے قائل ہیں اور نہ ہی اس آیت کو سورۃ فاتحہ کا جز قرار دیتے ہیں اور سات آیات کی تعداد پورا کرنے کے لیے ﴿ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِم﴾ کے آگے ٥ کا ہندسہ لکھ دیتے ہیں۔ جو کو فیوں کے نزدیک آیت کی علامت ہے لیکن یہ متفق علیہ آیت نہیں ہوتی۔ پھر لطف یہ کہ اس ٥ پر لا بھی لکھ دیا گیا ہے۔ یعنی یہاں وقف ممنوع ہے اور یہ تکلف صرف اس لیے کیا گیا کہ بسم اللہ کو نہ فاتحہ کا جزء سمجھا جائے اور نہ اسے جہری نمازوں میں بلند آواز سے پڑھا جائے۔ مجمع ملک فہد نے عرب ممالک کے لیے جو قرآن طبع کیا ہے ہمارے خیال میں اس میں معتدل رویہ اختیار کیا گیا ہے جو یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ میں تو اس آیت کو سورۃ کا جزء قرار دیا گیا ہے اور اس پر ایک کا نمبر لکھا گیا ہے۔ ﴿اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ﴾ کے آگے کچھ نہیں لکھا۔ البتہ باقی سورتوں میں اس آیت کو سورۃ کا جز قرار نہیں دیا گیا جس سے از خود یہ مسئلہ حل ہوجاتا ہے کہ سورۃ فاتحہ سے پہلے یہ آیت جہری نمازوں میں جہر سے پڑھنا بہتر ہے اور دوسری سورتوں میں سر سے۔ [٣] رحمٰن اور رحیم دونوں مبالغہ کے صیغے اور اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام اور ر ح م سے مشتق ہیں۔ لیکن لفظ رحمان میں رحیم کی نسبت اتنا زیادہ مبالغہ ہے کہ رحمٰن کا لفظ دوسرے نمبر پر اللہ کے ذاتی نام کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس کی صراحت قرآن کی بے شمار آیات میں مذکور ہے۔ مثلاً ﴿الرَّحْمَـٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآن﴾) 55۔1) ﴿ اَلرحمٰن عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی ﴾(5:20) ﴿ قُلِ ادْعُوا اللّٰہَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ اَیًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَہُ الْاَسْمَاءُ الْحُسْنٰی وَلَا تَجْـہَرْ بِصَلَاتِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِہَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا﴾(17 : 110)اس لحاظ سے اللہ کی مخلوق میں اللہ تعالیٰ کی سب صفات پائی جاسکتی ہیں سوائے رحمٰن کے۔ ایک انسان رحیم، رؤف، کریم وغیرہ سب کچھ ہوسکتا ہے مگر رحمٰن اللہ کے سوا کوئی نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث صحیح میں مذکور ہے کہ اللہ کو سب سے زیادہ دو نام پسند ہیں ایک عبداللہ، دوسرا عبدالرحمٰن۔ (ترمذی : ابواب الادب، باب ماجاء ما یستحب من الاسماء) اکثر علماء نے رحمٰن اور رحیم کے فرق کو رحمت کی کیفیت اور کمیت کی کمی بیشی کی مختلف صورتوں سے واضح کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ اور ایک عام قول یہ ہے "رحمٰن فی الدنیا رحیم فی الاخرۃ "یعنی اللہ تعالیٰ دنیا میں رحمان ہے جو مسلمان، کافر، مشرک سب پر ایک جیسی رحمتیں نازل فرماتا ہے اور رحیم آخرت میں ہے۔ جو صرف ایمانداروں پر رحمتیں نازل فرمائے گا۔ اس کی ایک توجیہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ صفت رحمانیت کا تقاضا ایسی نعمتیں اور رحمتیں ہیں جو حیات کے وجود اور بقا کے لیے ضروری ہیں۔ اور اس میں صرف انسان ہی نہیں جملہ جاندار مخلوقات شامل ہیں۔ جیسے سورج، چاند، نور و ظلمت، ہوا، پانی اور زمین کی تخلیق جو زندگی کی جملہ ضروریات کی کفیل ہے نیز ماں کی مامتا اور فطری محبت کے تقاضے بھی اس میں شامل ہیں اور رحیم سے مراد وہ رحمت ہے کہ کسی مصیبت یا ضرورت کے وقت پہنچ کر سہارا دیتی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب |
الفاتحة |
2 |
[4] حمد اور شکر میں لغوی فرق :۔ حمد کا معنی تعریف بھی ہوسکتا ہے اور شکر بھی۔ تعریف (حمد) عام ہے اور شکر خاص۔ حمد کا تعلق قابل تعریف کارناموں سے ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان، شمس و قمر اور ستاروں کی حرکت غرض تمام کائنات کا اس قدر مربوط اور منظم نظام بنا دیا ہے جسے دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اس پر اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ اور شکر کا تعلق ان خاص انعامات سے ہوتا ہے جو کسی خاص ذات سے متعلق ہوں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کا انسان کو احسن تقویم پر پیدا کرنا۔ کسی کو صحت اور رزق کی فراوانیوں سے مالا مال کرنا۔ ایسی نعمتوں کے اعتراف کو شکر کہا جاتا ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ ہی ہر طرح کی حمد اور شکر کا مستحق ہوا۔ علاوہ ازیں اگر مخلوق میں سے کوئی شخص کوئی قابل تعریف کارنامہ سر انجام دے اور اس پر اس کی تعریف کی جائے تو وہ بھی حقیقتاً اللہ تعالیٰ ہی کی تعریف ہوگی۔ کیونکہ قابل تعریف کام کرنے کی صلاحیت اور توفیق بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے عطا ہوتی ہے۔ گویا ہر طرح کی تعریف کا مستحق اللہ تعالیٰ ہی قرار پاتا ہے۔
[٥] اللہ دراصل الا لٰہ ہے، معبود حقیقی۔ الٰہ کا ہمزہ حذف کر کے اس پر تعریف کا الف لام داخل کر کے اللہ کا لفظ بنا ہے اور یہی توجیہ سب سے بہتر ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت میں ہر طرح کے نفع و نقصان کا مالک صرف اور صرف اللہ ہے اور کائنات کا خالق، پروردگار اور لا محدود اقتدار و اختیار ہونے کی وجہ سے صرف وہی عبادت کے لائق ہے۔ یعنی وہ تمام صفات جو الٰہ کے مفہوم میں پائی جانی چاہئیں وہ صرف اللہ میں ہی پائی جاسکتی ہیں۔ لہٰذا دوسرے سب الٰہ باطل اور ناقابل اعتبار ہیں اور اس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ رب کا لفظ تین معنوں میں آتا ہے : (1) کسی چیز کی درجہ بدرجہ تربیت اور خبرگیری رکھتے ہوئے اسے حد کمال تک پہنچانے والا یعنی پروردگار حقیقی اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ (2) کبھی یہ لفظ صرف تربیت (پرورش) کرنے والے مالک کے معنوں میں آتا ہے۔ جیسے سورۃ یوسف میں آتا ہے ﴿أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا ﴾(١٢: ٤١) (3) اور کبھی صرف مالک کے معنوں میں جیسے حدیث میں ہے کہ کسی صحابی نے اپنی شہادت کے وقت فرمایا :” فُزْتُ بِرَبِّ الْکَعْبَةِ“ (کعبہ کے مالک کی قسم! میں کامیاب ہوگیا) [٦] عالمین سے مراد اور اللہ کی تعریف کی وجہ :۔ العالمین : لغوی لحاظ سے عالم ہر وہ چیز ہے جس کا علم حواس خمسہ سے ہوسکتا ہو۔ اس لحاظ سے تمام مخلوقات ایک عالم ہے مگر اس آیت میں عالم سے مراد جنس ہے (عالم غیب، عالم شہادۃ، عالم انس، عالم جن، عالم ملائکہ وغیرہ وغیرہ) بے شمار عالم ہیں۔ پھر زمانہ کے لحاظ سے ہر دور کے لوگ ایک عالم ہیں۔ دور بدلنے پر عالم بھی بدل جاتا ہے۔ اس طرح عالم کی سینکڑوں اور ہزاروں اقسام بن جاتی ہیں اور ان تمام عالموں کی تربیت اور پرورش کرنے والی صرف اللہ ہی کی بلند و برتر ذات ہے۔ اس آیت کے پہلے حصہ میں یہ مذکور ہوا کہ ہر طرح کی تعریف صرف اللہ ہی کے لئے سزاوار ہے اور اس حصہ میں اسکی وجہ بتائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر طرح کی تعریف کا اس لیے مستحق ہے کہ وہ تمام جہانوں کا تربیت کرنے والا ہے۔ نیز یہ آیت اللہ تعالیٰ سے سوال کرنے کے آداب میں سے پہلا ادب ہے۔ حسن طلب کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ جب کسی سے کچھ مانگنا ہو تو اس کی ابتدا اس کے محاسن کے تذکرہ سے کی جاتی ہے۔ |
الفاتحة |
3 |
[٧] رحمٰن اور رحیم کا فرق پہلی آیت بسم اللہ الرحمٰن الرحیم میں بتایا جاچکا ہے۔ ان الفاظ کو یہاں دوبارہ لانے کا مقصد صرف اس بات کا اظہار ہے کہ تمام جہانوں کی ربوبیت عامہ کے تقاضے صرف اسی صورت میں پورے ہوسکتے ہیں جب ان عالمین کا پروردگار رحمٰن بھی ہو اور رحیم بھی ہو۔ اگر اللہ تعالیٰ رحمٰن اور رحیم نہ ہوتا تو یہ دنیا کبھی آباد نہ رہ سکتی بلکہ کب کی فنا ہوچکی ہوتی۔ |
الفاتحة |
4 |
[٨] دین کے مختلف معانی :۔ دین کا لفظ قرآن میں مندرجہ ذیل چار معنوں میں استعمال ہوا ہے :
(1) اللہ تعالیٰ کی مکمل حاکمیت اور اسی کا دوسرا پہلو یا لازمی نتیجہ ہے۔ (2) انسان کی مکمل عبودیت جیسے ارشاد باری ہے : ﴿فَاعْبُدِ اللَّـهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ أَلَا لِلَّـهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ﴾(۳۹: ۲۔۳)
’’لہٰذا خالصتاً اسی کی عبادت کرو۔ سن لو مکمل حاکمیت خالصتاً اللہ ہی کے لئے ہے‘‘ ان دونوں آیات میں دین کا لفظ مذکورہ بالا دونوں معنی دے رہا ہے۔ (3) قانون سزا و جزاء یا تعزیرات جیسے ارشاد باری ہے : ﴿مَا کَانَ لِیَاْخُذَ اَخَاہُ فِیْ دِیْنِ الْمَلِکِ ﴾(۷۶:۱۲)”اس (سیدنا یوسف علیہ السلام) کی شان کے لائق نہ تھا۔ ممکن نہ تھا کہ وہ بادشاہ کے قانون کے مطابق اپنے بھائی کو رکھ سکتا“(4) قانون سزا و جزاء کو نافذ کرنے کی قوت، جیسے ارشاد باری ہے : ﴿ فَلَوْلَا إِن كُنتُمْ غَيْرَ مَدِينِينَ تَرْجِعُونَهَا إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴾ (56: 86۔87)”پھر اگر تم سچے ہو اور قانون کی گرفت سے آزاد ہو تو (جب جان لبوں پر آجاتی ہے) اسے لوٹا کیوں نہیں لیتے؟“اور اس آیت میں دین کا لفظ مندرجہ بالا چاروں معنی دے رہا ہے۔ [٩] پہلی آیات میں اللہ کی معرفت کا ذکر تھا۔ اس ...... آیت میں روز آخرت پر ایمان اور روز آخرت میں اللہ تعالیٰ کے عملی اقتدار و اختیار کا ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ہر انسان کو اس کے اچھے اعمال کا اچھا اور برے اعمال کا برا بدلہ دے گا۔ وہ ایسا بدلہ دینے کی اور اپنے اس فیصلہ کو نافذ کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہے۔ اعمال کے بدلہ کے سلسلہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے بہت سے ضابطے اور قوانین ہیں۔ جن کا ذکر قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر مذکور ہے۔ مثلاً یہ کہ نیکیوں کا بدلہ اللہ جسے چاہے گا بہت زیادہ بھی دے سکتا ہے۔ مگر برائی کا بدلہ اتنا ہی دے گا جتنی اس نے برائی کی ہوگی۔ یا یہ کہ ایک کے جرم کی سزا دوسرے کو نہیں دی جائے گی۔ یا یہ کہ کوئی مجرم کسی صورت میں سزا سے بچ نہیں سکے گا۔ وغیرہ وغیرہ اور ان سب چیزوں کا ذکر قرآن میں بہت سے مقامات پر آیا ہے۔ |
الفاتحة |
5 |
[١٠] عبادت : یہ لفظ تین معنوں میں آتا ہے۔ (1) پرستش (2) اطاعت و فرمانبرداری (3) ہمہ وقت کی بندگی اور غلامی۔ یہاں یہ لفظ اپنے تینوں معنوں میں مستعمل ہے۔
عبادت کا مفہوم :۔ عبادت تین قسم کی ہے جیسے ہم تشہد میں اس کا اقرار کرتے ہیں۔ (التحیات للہ والصلوات والطیبات) ”یعنی ہماری تمام قلبی، بدنی اور مالی عبادتیں اللہ ہی کے لئے ہیں“قلبی عبادات میں توکل، خوف و رجاء، محبت، تذلل اور خشوع و خضوع شامل ہیں۔ یعنی صرف اللہ پر بھروسہ کیا جائے، اسی سے امید وابستہ کی جائے۔ اسی سے ڈرا جائے اس سے محبت باقی سب چیزوں سے بڑھ کر ہو اور اس کے سامنے انتہائی عاجزی اور خشوع و خضوع کا اظہار کیا جائے۔ بدنی عبادات سے مراد فرض نماز اور نوافل نمازیں، روزہ اور حج اور دوسرے احکام الٰہی کی عملاً پیروی کرنا ہے اور مالی عبادات سے مراد زکوٰۃ، صدقات و خیرات، قربانی اور نذر و نیاز وغیرہ ہیں۔ اگر اللہ کے سوا کسی اور کے لیے ان کاموں میں سے کوئی بھی کام بجا لایا جائے۔ یا اللہ کے سوا کسی اور کو بھی اس میں شریک کیا جائے تو یہ عبادت کی نفی اور اللہ کے ساتھ شرک کرنا ٹھہرے گا جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ شرک کا گناہ کبھی معاف نہیں کرے گا۔ [١١] استعانت کا مفہوم :۔ استعانت : (مدد چاہنا) انسان دنیا میں جو کام بھی کرتا ہے وہ یا تو کسی فائدہ کے حصول کے لئے ہوتا ہے یا کسی تکلیف یا نقصان کو دور کرنے کی خاطر۔ ان کاموں کو عربی زبان میں جلب منفعت اور دفع مضرت کہتے ہیں۔ اب انہی کاموں میں سے کسی کے لئے اگر کوئی شخص کسی ایسے شخص کو یا اللہ کے سوا کسی بھی دوسری ہستی کو پکارے یا اس سے مدد طلب کرے جو اس کے پاس موجود نہ ہو (یعنی ظاہری اسباب مفقود ہوں) تو یہ صریح شرک ہے اس کی مثال درج ذیل شعر میں ملاحظہ فرمائیے :
امداد کن امداد کن، از بند غم آزاد کن دردین و دنیا شاد کن یا شیخ عبدالقادرا !!
اب اگر کوئی شخص یہ شعر یا وظیفہ اپنی جگہ پر پڑھے یا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی قبر پر جاکر پڑھے تو یہ شرک ہوگا۔ کیونکہ اس میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ یہ فوت شدہ بزرگ میری پکار کو سن بھی رہے ہیں پھر میری مشکل کشائی اور حاجت براری کا اختیار یا تصرف بھی رکھتے ہیں۔ دعا یا پکار کو اللہ تعالیٰ نے عبادت ہی قرار دیا ہے (دیکھئے (٤٠: ٦٠) اور احادیث صحیحہ میں سے ایک کے الفاظ یہ ہیں۔” الدُّعَاءُ ھُوَ الْعِبَادَۃُ “(دعا ہی اصل عبادت ہے) اور دوسری یہ کہ” الدُّعَاءُ مُخُّ العِبَادَۃِ “(دعا ہی عبادت کا مغز ہے) ہاں اگر کسی حاضر شخص سے ایسے کام میں مدد چاہی جائے جو اس کے اختیار میں ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ بلکہ ایسی امداد و تعاون کے بغیر تو دنیا میں کوئی کام ہو ہی نہیں سکتا۔ اور جو کام اللہ کے سوا کسی دوسرے کے بس میں نہیں۔ مثلاً اولاد عطا کرنا، رزق میں کمی بیشی کرنا، گناہ بخشنا، عذاب سے نجات دینا وغیرہ وغیرہ ایسے کاموں کے لئے کسی زندہ موجود شخص سے بھی مدد چاہنا شرک ہوگا۔ مگر کسی خطرہ مثلاً سانپ یا دشمن سے بچنے کے لئے مدد حاصل کرنا اور تعاون چاہنا درست ہوگا۔ اس آیت میں ﴿نَعْبُدُ﴾ اور ﴿نَسْتَعِیْنُ﴾ سے پہلے ﴿اِیَّاکَ﴾کا لفظ لایا گیا ہے جو حصر کا بھی فائدہ دے رہا ہے اور تاکید کا بھی اور اس کا معنی یوں بنتا ہے کہ ہم صرف اور صرف تیری ہی عبادت کرتے اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔ تیرے سوا نہ کسی کی عبادت کرتے ہیں یا کریں گے اور نہ ہی کسی سے مدد مانگتے ہیں اور نہ مانگیں گے۔ گویا شرک کی جملہ اقسام کے استیصال کے لیے یہ اکیلی آیت ہی کافی ہے۔ نیز اس آیت میں جمع متکلم کے صیغے استعمال ہوئے ہیں۔ واحد متکلم کے نہیں ہوئے۔ کیونکہ اسلام نماز باجماعت کی بھی تاکید کرتا ہے اور معاشرتی اجتماعی زندگی اور نظم و ضبط کی بھی۔ علاوہ ازیں﴿نَعْبُدُ﴾کے فوراً بعد ﴿نَسْتَعِیْنُ﴾کا لفظ لایا گیا تاکہ انسان کو اپنی عبادت پر غرور نہ پیدا ہوجائے بلکہ وہ یہ سمجھے کہ اسے عبادت کی توفیق بھی اللہ ہی کی مدد کی بنا پر میسر آئی ہے۔ جبریہ اور قدریہ دونوں فرقوں کا ردّ:۔ دنیا میں عموماً تین قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو اپنے آپ کو تقدیر کے ہاتھوں میں محض ایک کھلونا سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ جبریہ کہلاتے ہیں دوسرے وہ جو اپنے آپ کو مختار مطلق سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انسان جو کچھ چاہے کرسکتا ہے ایسے لوگ قدریہ کہلاتے ہیں۔ معتزلین بھی اسی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ تیسرے وہ جو نہ اپنے آپ کو مختار مطلق سمجھتے ہیں اور نہ مجبور محض اور یہی لوگ دراصل حق پر ہیں۔ اس چھوٹی سی چار الفاظ کی آیت میں جبریہ اور قدریہ دونوں کا رد موجود ہے۔ وہ یوں کہ جب ہم نَعْبُدُ کہتے ہیں یعنی ہم عبادت کرتے ہیں تو اختیار ثابت ہوگیا اور اس میں جبریہ کا رد ہے۔ اور جب ہم مدد چاہتے ہیں تو اس سے بندہ کا محتاج ہونا ثابت ہوا یعنی وہ مختار مطلق نہیں اور اس میں قدریہ کا رد موجود ہے۔ [١٢] علاوہ ازیں چھٹی آیت اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ سوال کرنے یا دعا مانگنے یا مدد چاہنے سے پہلے وسیلہ ضروری ہے اور اس آیت میں وہ وسیلہ عبادت ہے۔ جس کا ذکر پہلے آگیا ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث اس مضمون میں پوری وضاحت کر رہی ہے: فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو نماز میں دعا کرتے سنا، جس نے نہ تو اللہ کی حمد بیان کی تھی اور نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص نے جلدی کی۔ پھر اسے بلایا اور فرمایا : تم میں سے کوئی شخص بھی جب دعا کرے تو اپنے پروردگار کی تعریف اور ثنا سے شروع کرے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے۔ پھر اس کے بعد جو چاہے دعا کرے۔ (احمد۔ ترمذی۔ نسائی۔ ابو داؤد۔ بحوالہ سبل السلام ج ١ ص ١٩٢ باب صفۃ الصلٰوۃ حدیث نمبر ٤٨) |
الفاتحة |
6 |
[١٣] سیدھی راہ کون سی ہے؟:۔ صراط مستقیم اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ وہ سیدھی راہ ہے جو بندے کو اللہ تک پہنچانے والی ہے۔ اور اس میں کوئی پیچ و خم یا افراط و تفریط نہیں اور یہ ایک ہی ہوسکتی ہے جبکہ باطل راہیں لاتعداد ہوتی ہیں۔ اسی راہ کو اللہ تعالیٰ نے حبل اللہ بھی فرمایا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے” مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ “سے تعبیر فرمایا ہے اور صراط مستقیم کی دوسری تعبیر یہ بھی ہوسکتی ہے کہ حق کا وہ راستہ جو سیدنا آدم سے لے کر تاقیامت ایک ہی رہا اور رہے گا اور وہی راستہ توحید ہر نبی کو وحی کیا گیا ہے۔
قرآن کریم ایسی آیات سے بھرا پڑا ہے جن میں لوگوں کو اللہ سے دعا کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اور پہلی دعا ﴿ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِیْمَ﴾سورۃ فاتحہ میں ہی آگئی ہے پھر بعض آیات میں دعا کے قبول ہونے کا ذکر بھی موجود ہے۔ اس کے باوجود مسلمانوں کا ہی ایک طبقہ، جس پر عقل پرستی اور اعتزال کا رنگ غالب ہے اور ہر معجزہ یا خرق عادت بات کی تاویل کرنے کا عادی ہے۔۔ دعا کی قبولیت کا منکر ہے کیونکہ دعا کی قبولیت کا تعلق بھی غیر مرئی اسباب سے ہے۔ لہٰذا یہ حضرات اس قسم کی آیات میں عجیب و غریب قسم کی تاویلات کا سہارا لیتے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں اس طبقہ کے سرخیل سرسید احمد خان (١٨١٧ء تا ١٨٩٨ ء) تھے۔ آپ نے مغرب میں ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور مغربی افکار و نظریات سے شدید متاثر تھے اور مغرب صرف اس بات کو ماننے پر آمادہ ہوسکتا تھا جو عقل و تجربہ کی کسوٹی پر پرکھی جاسکتی ہو۔ آپ نے مسلمانوں میں مغربی افکار اور عقل پرستی کو رائج اور راسخ کرنے کے لیے کئی قسم کے اقدامات فرمائے جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ نے تفسیر القرآن لکھ ڈالی۔ اس تفسیر میں آپ دعا کے متعلق لکھتے ہیں کہ : دعا کے متعلق سرسید احمد خان کا نظریہ :۔”دعا جب دل سے کی جاتی ہے بیشتر مستجاب ہوتی ہے مگر لوگ دعا کے مقصد اور استجابت کا مطلب سمجھنے میں غلطی کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ جس مقصد کے لئے ہم دعا کرتے ہیں وہ مطلب حاصل ہوجائے گا اور استجابت کے معنی اس مطلب کا حاصل ہوجانا سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ غلطی ہے حصول مطلب کے جو اسباب اللہ نے مقرر کئے ہیں وہ مطلب تو انہی اسباب کے جمع ہونے سے حاصل ہوتا ہے۔ مگر دعا نہ تو اس مطلب کے اسباب میں سے ہے اور نہ اس مطلب کے اسباب کو جمع کرنے والی ہے۔ بلکہ وہ اس قوت کو تحریک کرنے والی ہے جس سے اس رنج و مصیبت اور اضطراب کو جو مطلب حاصل نہ ہونے سے ہوتا ہے تسکین دینے والی ہے“(تفسیر القرآن، ج ١ ص ١٨) خان صاحب کے مندرجہ بالا اقتباس سے دو سوال ذہن میں ابھرتے ہیں : (1) اگر ظاہر میں کوئی سبب نظر نہ آرہا ہو تو آیا اللہ تعالیٰ کوئی سبب پیدا کرنے پر قادر ہے یا نہیں۔ بالفاظ دیگر اللہ تعالیٰ مسبب الاسباب ہے یا نہیں؟ (2) کیا ظاہری اسباب کے علاوہ کچھ باطنی اور غیر مرئی اسباب بھی ممکن ہیں اور دعا کی بنا پر اللہ تعالیٰ بندہ کے حصول مطلب کے لئے کوئی ظاہری یا باطنی سبب بناسکتا ہے یا نہیں؟ اگر تو ان سوالات کا جواب نفی میں ہو تو فی الواقع سرسید صاحب کے نظریات کے مطابق دعا کا کچھ اثر نہیں ہوتا اور نہ ہی ہونا چاہئے۔ اس صورت میں دعا کی استجابت کا مطلب صرف وہی رہ جاتا ہے۔ جو سرسید صاحب فرما رہے ہیں کہ دعا صرف قلبی واردات اور سکون سے تعلق رکھتی ہے۔ ظاہر میں ہوتا ہواتا کچھ بھی نہیں۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن سرسید صاحب کے اس نظریہ کی پرزور تردید کرتا ہے۔ مثلاً درج ذیل آیات ملاحظہ فرمائیے : ﴿ فَدَعَا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانتَصِرْ فَفَتَحْنَا أَبْوَابَ السَّمَاءِ بِمَاءٍ مُّنْهَمِرٍ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُونًا فَالْتَقَى الْمَاءُ عَلَىٰ أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ ﴾ (54: 10۔12)
”تو نوح علیہ السلام نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ میں کمزور ہوں۔ اب تو ان سے بدلہ لے۔ پس ہم نے زور کے مینہ سے آسمان کے دہانے کھول دیئے اور زمین سے چشمے جاری کردیئے۔ تو پانی اس کام کے لئے جو مقدر ہوچکا تھا جمع ہوگیا“اب دیکھئے کہ کیا دعا کے بعد آسمان سے بے تحاشا پانی برسنا اور زمین کے چشمے مل کر طوفان کی شکل بننا اور کشتی میں نوح کو سوار کرکے کرب عظیم سے بچا لینا، کیا یہ سب قلبی واردات ہیں یا یہ کام فی الواقع ظہور پذیر ہوئے تھے؟ پھر ایک مقام پر خان صاحب فرماتے ہیں کہ ’’بسا اوقات دعا کی جاتی ہے مگر حاجت براری نہیں ہوتی پس معلوم ہوا کہ دعا موجب حصول مقصد نہیں ہے ورنہ ایسا نہ ہوتا“ (تہذیب الاخلاق، ماہ ربیع الاول، ١٣١٣ ھ) اس اقتباس میں لفظ ”بسا اوقات“ سے ظاہر ہے کہ دعا کبھی کبھار حصول مقصد کا سبب بن جاتی ہے۔ بس یہی ہمارا مقصد ہے، رہا یہ معاملہ کہ بسا اوقات قبول نہیں ہوتی تو دعا کی قبولیت کے کئی موانع ہیں جن کی تفصیل یہاں خارج از بحث ہے۔ نیز ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ دعا کی طرح دوا بھی بسا اوقات مرض کا علاج نہیں بن سکتی۔ حالانکہ وہ ایک ظاہری سبب ہے تاہم کبھی کبھار حصول مقصد کا سبب بن بھی جاتی ہے۔ دوا کا استعمال جسمانی تکلیف کو رفع کرنے کے لیے کیا جاتا ہے اور جب تک تکلیف رفع نہ ہو مریض کو کبھی تسکین نہیں ہوسکتی اور دعا کا دائرہ اثر دوا سے بہت زیادہ وسیع ہے۔ دعا دفع مضرت اور جلب منفعت دونوں کے لیے کی جاتی ہے۔ نیز اس کا استعمال مادی اور روحانی یا ذہنی دونوں طرح کے عوارضات کے لیے ہوتا ہے پھر جب تک دعا کے اثر سے ایسے عوارضات دور نہ ہوں یا نئے اسباب مہیا نہ ہوں دل کو تسکین کیسے سکتی ہے؟ |
الفاتحة |
7 |
[١٤] انعام والے اور گمراہ لوگ کون ہیں؟:۔ قرآن کی تصریح کے مطابق ان سے مراد انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں۔ (٤: ٦٩) وہ لوگ نہیں جنہیں مال و دولت یا حشمت و جاہ کی فراوانیاں حاصل ہیں۔ اور آپ کے ارشاد کے مطابق ﴿ مَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ﴾ سے مراد تو یہود ہیں جو گناہ کے کاموں پر دلیر ہوگئے تھے اور ان پر اللہ کا عذاب اور پھٹکار نازل ہوئی اور ضالِّیْن سے مراد عیسائی حضرات ہیں جو فلسفیانہ موشگافیوں میں پھنس کر تثلیث اور گمراہی کا شکار ہوئے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :
عدی بن حاتم کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (مدینہ) آیا۔ وہ اس وقت مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے۔ لوگ کہنے لگے کہ یہ عدی بن حاتم ہے جو بغیر کسی کی امان یا تحریر کے آیا ہے۔ چنانچہ مجھے پکڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے۔ آپ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور اس سے پہلے آپ صحابہ رضی اللہ عنہم کو خبر دے چکے تھے کہ میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ عدی کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دے گا۔ پھر آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور میں آپ کے ساتھ تھا (راہ میں) ایک عورت اور اس کا بچہ ملے۔ وہ آپ سے کہنے لگے : ’’ہمیں آپ سے کچھ کام ہے‘‘ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہوگئے اور ان کا کام پورا کردیا۔ پھر آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے گھر تشریف لائے۔ ایک لڑکی نے آپ کے لئے بچھونا بچھایا۔ آپ اس پر بیٹھ گئے اور میں آپ کے سامنے بیٹھ گیا۔ آپ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر مجھے کہا : ’’وہ کون سی بات ہے جو تمہیں لا الٰہ الا اللہ کہنے سے باز رکھتی ہے، کیا تم اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ جانتے ہو؟“میں نے کہا ”نہیں“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ دیر باتیں کیں پھر پوچھا : ”تمہیں اللہ اکبر کہنے سے کون سی چیز دور رکھتی ہے۔ کیا اللہ سے کسی بڑی چیز کو تم جانتے ہو؟‘‘ میں نے کہا ’’نہیں‘‘ پھر آپ نے فرمایا : ’’یہود پر تو اللہ تعالیٰ کا غصہ ہے اور نصاریٰ گمراہ ہیں‘‘ میں نے کہا کہ میں تو یکطرفہ مسلمان ہوتا ہوں۔ پھر میں نے آپ کے چہرہ پر فرحت و انبساط دیکھی۔ پھر آپ نے میرے بارے میں حکم دیا اور میں ایک انصاری کے ہاں مقیم ہوا۔ اب میں روزانہ صبح و شام آپ کے پاس حاضر ہوا کرتا۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر۔ سورۃ فاتحہ) دور نبوی میں تو واقعی یہی فرقے مغضوب علیھم اور ضالّین تھے۔ مگر آج مسلمانوں کے اکثر فرقے ان میں شامل ہوچکے ہیں اور صراط مستقیم پر تو مسلمانوں کا صرف وہی فرقہ ہے جس کے متعلق آپ نے فرمایا تھا ”مَا اَنَاعَلَیْہِ وَ اَصْحَابِیْ“ (ترمذی، کتاب الایمان۔ باب افتراق ھذہ الامۃ) [١٥] آمین بالجہر کا ثبوت :۔ (1) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جب امام وَلاَالضَّالِیْنَ کہے تو تم آمین کہو۔ جس کا آمین کہنا فرشتوں کے آمین کہنے کے موافق ہوگیا۔ اس کے پہلے گناہ بخش دیئے جائیں گے‘‘(بخاری۔ کتاب التفسیر۔ سورۃ فاتحہ) نیز کتاب الاذان والجماعۃ۔ باب فضل التامین) (2) نیز عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ آمین دعا ہے اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اور ان کے پیچھے مقتدیوں نے اس زور سے آمین کہی کہ مسجد گونج اٹھی۔ (بخاری۔ کتاب الاذان والجماعہ۔ باب جھر الامام بالتامین) (3) وائل بن حجر رضی اللہ عنہ جو عام الوفود یعنی ١٠ھ میں مدینہ تشریف لائے، فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ جب آپ نے نماز میں ﴿غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّیْنَ ﴾ کہا تو اپنی آواز کو خوب لمبا کرکے آمین کہی۔ (ترمذی۔ ابو اب الصلٰوۃ۔ باب ماجاء فی التامین) |
الفاتحة |
0 |
[١] فضائل سورۃ البقرۃ :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جس گھر میں سورۃ البقرہ پڑھی جائے، شیطان اس گھر سے نکل جاتا ہے۔‘‘ (مسلم، کتاب صلوۃ المسافرین و قصرھا، باب استحباب الصلوۃ النافلۃ فی بیتہ۔۔ الخ) نیز آپ نے فرمایا : ’’الزھراوین (دو جگمگانے والی سورتیں یعنی البقرہ اور آل عمران) پڑھا کرو۔ قیامت کے دن وہ اس حال میں آئیں گی جیسے وہ دو بادل یا دو سائبان یا پرندوں کے دو جھنڈ ہیں اور وہ اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے (مغفرت کے لیے) جھگڑا کریں گی (لہٰذا) سورۃ البقرہ پڑھا کرو۔ اسے حاصل کرنا برکت اور چھوڑ دینا حسرت ہے اور باطل قوتیں (جادو وغیرہ) اس کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔“(مسلم، کتاب فضائل القرآن و مایتعلق بہ باب فضل قراءۃ القرآن و سورۃ البقرۃ)
زمانہ نزول اور شان نزول :۔ مدنی سورتوں میں سب سے پہلی سورت ہے۔ مکہ میں چھیاسی (٨٦) سورتیں نازل ہوئیں اور نزولی ترتیب کے لحاظ سے اس کا نمبر ٨٧ ہے، اگرچہ اس سورۃ کا بیشتر حصہ ابتدائی مدنی دور میں نازل ہوا تاہم اس کی کچھ آیات بہت مابعد کے دور میں نازل ہوئیں مثلاً حرمت سود کی آیات جو ١٠ھ کے اواخر میں نازل ہوئیں۔ سورۃ بقرہ کے نزول کا پس منظر :۔ مدینہ پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلا کام جو کیا وہ مسجد نبوی کی تعمیر تھی تاکہ تمام مسلمان دن میں پانچ دفعہ اکٹھے ہو کر نماز ادا کریں اور اپنے مسائل پر غور کرسکیں۔ دوسرا اہم مسئلہ مہاجرین کی آباد کاری اور ان کے معاش کا تھا جس کے لیے آپ نے مہاجرین و انصار میں سلسلہ مواخات قائم فرمایا جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ تیسرا اہم مسئلہ مدینہ کی ایک چھوٹی سی نوخیز اسلامی ریاست کے دفاع کا تھا۔ کیونکہ اب مشرکین مکہ کے علاوہ دوسرے مشرک قبائل بھی مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلے ہوئے تھے۔ خود مدینہ میں یہود مسلمانوں کے اس لیے دشمن بن گئے تھے کہ آنے والا نبی سیدنا اسحق علیہ السلام کی اولاد کے بجائے سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد سے کیوں مبعوث ہوا ہے۔ یہود کے تین قبائل بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ مدینہ میں آباد تھے جو آپس میں پھٹے ہوئے تھے اور مدینہ کے مشرکوں کے دو مشہور قبائل اوس اور خزرج کے حلیف بن کر انہیں لڑاتے رہتے تھے۔ آپ نے سب سے پہلے یہودیوں کو ہی ایک مشترکہ مفاد کی طرف دعوت دی اور وہ مفاد تھا مدینہ کا دفاع۔ جس کی اہم دفعات یہ تھیں : (1) اگر مدینہ پر باہر سے حملہ ہوا تو مسلمان اور یہود مل کر دفاع کریں گے۔ (2) مسلمان اور یہود دونوں حصہ رسدی اخراجات برداشت کریں گے۔ (3) مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان کسی طرح کے بھی جھگڑے کی صورت میں حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہوگی۔ یہود کے لیے بظاہر ایسی شرائط کو تسلیم کرلینا ناممکن نظر آ رہا تھا۔ کیونکہ وہ مدینہ کی معیشت اور سیاست پر پوری طرح چھائے ہوئے تھے، مگر یہ اللہ کی خاص مہربانی اور ان کی باہمی نااتفاقی کا نتیجہ تھا کہ یہودی قبائل باری باری اور مختلف اوقات میں اس معاہدہ کو تسلیم کرتے چلے گئے۔ اس طرح جب یہ ریاست اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگئی تو مسلمانوں اور کافروں کے علاوہ ایک تیسرا مفاد پرستوں کا طبقہ بھی معرض وجود میں آ گیا۔ جنہیں منافقین کا نام دیا گیا۔ اس سورۃ کی ابتدا میں انہیں تین گروہوں (مسلمان، کافر اور منافقین) کا ذکر ہوا ہے اور یہی اس کا زمانہ نزول ہے۔ حروف مقطعات کی بحث :۔ قرآن کی ٢٩ سورتوں کی ابتدا میں ایسے حروف استعمال ہوئے ہیں، ان میں سے مندرجہ ذیل تین یک حرفی ہیں : (١) سورۃ ص والقرآن ٣٨ (٢) سورۃ ق والقرآن ٥٠ (٣) سورۃ ن والقلم ٦٨ اور ٩ دو حرفی ہیں جن میں سے (٤) المومن ٤٠، حٰم تنزیل الکتاب (٥،) سورۃ حم السجدۃ ٤١ حٰم تنزیل من (٦) الزخرف ٤٣ حٰم والکتاب المبین (٧) الدخان ٤٤ حٰم والکتاب المبین (٨) الجاثیہ ٤٥ حٰم تنزیل الکتاب (٩) الاحقاف ٤٦ حٰم تنزیل الکتاب (١٠) طہ ٢٠ طہ ما انزلنا (١١) النمل ٢٧ طٰس تلک آیت (١٢) یٰس ٢٦ یٰس والقرآن اور ١٣ سہ حرفی ہیں جو یہ ہیں : (١٣) یونس ١٠ الٰرٰ تلک آیات (١٤) ھود ١١ الرٰ کتاب احکمت (١٥) یوسف ١٢ الرٰ تلک آیات ١٠١، ابراہیم ١٤، الرٰ کتاب انزلنا ١٧، حجر ١٥، الم تلک آیات (١٨) البقرۃ ٢ الم ذلک الکتاب (١٩) آل عمران ٣ الم اللہ لا الہ (٢٠) عنکبوت ٢٩ الم احسب الناس (٢١) الروم ٣٠ الم غلبت الروم (٢٢) لقمان ٣١ الم تلک آیات (٢٣) السجدہ ٣٢ الم تنزیل الکتاب (٢٤) شعراء ٢٦ طٰسم تلک آیات (٢٥) القصص ٢٨ طٰسم تلک آیات اور مندرجہ ذیل ٢ چار حرفی ہیں : (٢٦) الاعراف ٧ المص کتاب انزلنہ (٢٧) الرعد ١٣ المٰر تلک آیات اور مندرجہ ذیل ٢ پانچ حرفی ہیں : (٢٨) مریم ١٩ کھٰیٰعص ذکر رحمۃ (٢٩) الشوریٰ ٤٢ حٰم عسق کذلک یوحی الیک۔ مجموعہ احادیث میں سے کوئی بھی ایسی متصل اور صحیح حدیث مذکور نہیں جو ان حروف کے معانی و مفہوم پر روشنی ڈالتی ہو۔ لہٰذا انہیں ﴿وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗٓ اِلَّا اللّٰہُ ﴾ کے زمرہ میں شامل کرنا ہی سب سے انسب ہے۔ ان کے متعلق جو اقوال ملتے ہیں وہ درج ذیل ہیں : 1۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف اللہ تعالیٰ کے نام ہیں۔ مگر احادیث صحیحہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں اور جو نام ان میں مذکور ہیں ان میں ان حروف کا ذکر نہیں۔ 2۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں کے ابتدائی حصے ہیں جن کو ملانے سے اللہ تعالیٰ کا کوئی نہ کوئی نام بن جاتا ہے۔ جیسے الر اور حم اور ن کو ملانے سے الرحمٰن بن جاتا ہے۔ یہ توجیہ بھی کچھ درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ الرحمٰن میں بھی م اور ن کے درمیان ایک الف ہے جس کو لکھتے وقت تو کھڑی زبر سے کام چلا کر حذف کیا جا سکتا ہے مگر تلفظ میں تو حذف نہیں ہو سکتا۔ علاوہ ازیں یہ ایک لفظ تو بن گیا اب اگر مزید کوشش کی جائے تو شاید ایک آدھ لفظ اور بن جائے، سارے حروف کو اس انداز سے ترکیب دینا کہ اس سے اللہ تعالیٰ کے نام بن جائیں ناممکن سی بات معلوم ہوتی ہے۔ 3۔ ایک قول یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام ہیں، اور اس سلسلہ میں بالخصوص طٰہٰ اور یٰس کا ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ توجیہ اس لحاظ سے درست نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود جو اپنے نام بتائے ہیں وہ یہ ہیں۔ محمد، احمد، ماحی (کفر کو مٹانے والا) حاشر اور عاقب۔ (بخاری، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ صف) نیز بخاری میں مذکور ہے کہ حبشی زبان میں طہ کے معنی ’’اے مرد!‘‘ہیں یا ایسا آدمی جس کی زبان سے کوئی حرف نہ نکل سکے، وہ رک رک کر یا اٹک اٹک کر بات کرے اور یہ بات اس کی زبان میں گرہ کی وجہ سے ہو اور یہ تو واضح ہے کہ رسول نعوذ باللہ ایسے نہیں تھے۔ 4۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف قرآن کے نام ہیں، جبکہ قرآن نے اپنے نام خود ہی بتا دیئے ہیں جو یہ ہیں۔ الکتاب، کتاب مبین، قرآن، قرآن مجید، قرآن کریم، قرآن عظیم، فرقان، ذکر، تذکرہ، حدیث اور احسن الحدیث ان ناموں کی موجودگی میں ایسے ناموں کی ضرورت ہی کب رہ جاتی ہے، جن کی سمجھ ہی نہ آتی ہو۔ 5۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف سورتوں کے نام ہیں۔ یہ قول کسی حد تک درست ہے۔ مثلاً : ص، ق، طہ، یس سورتوں کے نام بھی ہیں۔ سورۃ القلم کو 'ن' بھی کہا گیا ہے۔ حوامیم (جمع حم) کا ذکر بھی احادیث میں ملتا ہے۔ تاہم ان میں سے بھی بیشتر سورتیں دوسرے ناموں سے ہی مشہور ہوئیں۔ جن کا ان سورتوں میں امتیازاً ذکر آیا ہے۔ پھر یہ بھی ملحوظ رہے کہ کئی سورتوں کے دو دو نام بھی مشہور ہیں۔ 6۔ ایک قول یہ ہے کہ الفاظ میں پورے نظام رسالت کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ مثلاً الم میں الف سے مراد اللہ، ل سے مراد جبریل اور م سے مراد محمد ہیں۔ یہ بھی ایسی توجیہ ہے جسے تمام حروف مقطعات پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ 7۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف کفار کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں کہ دیکھ لو کہ انہی مفرد حروف سے تم اپنے کلام کو ترکیب دیتے ہو، پھر تمہارے اور اللہ تعالیٰ کے کلام میں اتنا فرق ہے کہ تم سب مل کر بھی قرآن کے مقابلہ میں ایک سورت بھی اس جیسی پیش نہیں کرسکتے۔ یہ توجیہ اس لحاظ سے درست نہیں کہ جب ان الفاظ کا ٹھیک مفہوم متعین ہی نہیں تو پھر چیلنج کیسا ؟ 8۔ ایک قول یہ ہے کہ بحساب جمل ان حروف کے عدد نکال کر جمع کرنے سے اس امت کی عمر یا قیامت کی آمد کی مدت کا اشارہ پایا جاتا ہے۔ یہ توجیہ انتہائی غیر معقول ہے۔ ایک تو جمل کے حساب کی شرعاً کچھ حیثیت نہیں۔ دوسرا انسان کے پاس کوئی ایسا علم یا ایسا ذریعہ موجود ہونا ناممکنات سے ہے۔ جس سے قیامت کی آمد کے مخصوص وقت کا حساب لگایا جا سکے۔ 9۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف طویل جملوں یا ناموں کے ابتدائی حروف یا مخففات ہیں اور ان کا مفہوم صرف رسول ہی جانتے تھے اور کوئی نہیں جان سکتا۔ گویا یہ عبد اور معبود کے درمیان راز و نیاز کی باتیں ہیں۔ یہ ایسی توجیہ ہے جس کے متعلق ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ واللہ اعلم بالصواب۔ 10۔ اور ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف اللہ تعالیٰ کے سر بستہ راز ہیں جو اگرچہ ٹھوس حقائق پر مبنی ہیں تاہم ان پر مطلع ہونا انسان کے بس کی بات نہیں۔ یہی وہ توجیہ ہے جس کی طرف ہم نے ابتدا میں اشارہ کردیا ہے اور یہی توجیہ سب سے انسب معلوم ہوتی ہے۔ ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی بعض ایسی صفات مذکور ہیں جن کا سمجھنا انسانی عقل کی بساط سے باہر ہے اور ان پر کسی عمل کی بنیاد بھی نہیں اٹھتی۔ رہی یہ بات کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو جس بات کی سمجھ نہیں آتی تھی تو فوراً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیا کرتے تھے اور چونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان حروف کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی استفسار نہیں کیا لہٰذا معلوم ہوا کہ عربی زبان میں حروف مقطعات کا رواج عام تھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ان کے معانی بھی خوب جانتے تھے۔ پھر عربی ادب سے کچھ شاذ قسم کی مثالیں بھی پیش کی جاتی ہیں تو یہ خیال درست نہیں جب قرآنی آیات کی پوری تشریحات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ذریعہ ہم تک پوری صحت کے ساتھ پہنچ چکی ہیں تو پھر آخر ان حروف کی تشریح و تفسیر ہی ہم تک کیوں نہیں پہنچی۔ بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خوب سمجھتے تھے کہ یہ حروف اللہ تعالیٰ کے ایسے راز یا صفات ہیں جن کو اللہ کے سوا کوئی جان نہیں سکتا۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ کسی صحابی نے آپ سے یہ پوچھا ہو کہ اللہ تعالیٰ جب ہم میں سے ہر ایک کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہے تو پھر وہ عرش پر کیسے متمکن ہے؟ یا جب وہ بوقت سحر آسمان سے دنیا پر نزول فرماتا ہے تو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب کے کیا معنی؟ ہرگز نہیں۔ بالکل یہی صورت ان حروف مقطعات کی بھی ہے۔ لہٰذا ان کے معانی و مفہوم نہ جاننے کے باوجود انہوں نے کبھی ان کے متعلق استفسار نہیں کیا تھا، کیونکہ یہ حروف متشابہات سے تعلق رکھتے ہیں اور ہمارے لیے یہ بات ہی کافی ہے کہ اس بات پر ایمان لائیں کہ یہ بھی اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہیں، نہ یہ مہمل ہیں، نہ زائد ہیں۔ بلکہ ٹھوس حقائق پر مبنی ہیں۔ البتہ ان کے معانی و مفہوم جاننے کے نہ ہم مکلف ہیں اور نہ ہی ان پر کسی شرعی مسئلے کا دار و مدار ہے۔ |
البقرة |
1 |
|
البقرة |
2 |
[٢] یعنی اس کتاب قرآن کریم کے منزل من اللہ ہونے، اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر اترنے اور نبی کے اس پیغام کو لوگوں تک پہنچا دینے میں کسی مقام پر شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ یہ سب امور اللہ تعالیٰ کی براہ راست نگرانی میں طے پا رہے ہیں۔
ریب کا لغوی مفہوم :۔ ریب دراصل ایسے شک کو کہتے ہیں جس میں اضطراب اور خلجان کا عنصر بھی شامل ہو۔ کفار مکہ کے قرآن کے نزول پر دو طرح کے اعتراض تھے۔ ایک یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی اس کو تصنیف کر کے ہمیں یہ کہہ دیتا ہے کہ یہ کلام منزل من اللہ ہے اور دوسرا اعتراض یہ تھا کہ یہ قرآن دوسرے عالموں سے سیکھ کر ہمیں سنا دیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ منزل من اللہ ہے۔ اگر بات اتنی ہی ہوتی تو خلجان اور اضطراب کا کوئی عنصر اس میں شامل نہیں ہوتا تھا۔ مگر مشکل یہ تھی کہ قرآن جو دعوت پیش کر رہا تھا اس میں سب سے زیادہ زور ہی عقیدہ آخرت اور اخروی باز پرس پر دیا جا رہا تھا جب کہ کفار مکہ بعث بعد الموت کے کلی طور پر منکر تھے اور انہیں اضطراب اور بے چینی اس بات پر تھی کہ اگر بالفرض قرآن کی دعوت سچی ہے تو پھر ان کی خیر نہیں۔ ان کے اسی اضطراب اور خلجان کو دور کرنے کے لیے اس سورۃ کے تمہیدی الفاظ میں ہی یہ واضح کردیا گیا کہ اس کتاب کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے نزول اور اس کے مضامین سب کچھ قطعی اور یقینی ہیں اور اس پر ایمان لانے والوں کو کسی قسم کا شک اضطراب اور خلجان باقی نہیں رہتا۔ لہٰذا تمہارے اضطراب اور خلجان کا بھی یہی علاج ہے۔ کہ تم اسے تسلیم کر کے اس پر ایمان لے آؤ۔
کیاقرآن صرف متقین کےلیےہدایت ہے یاسب کےلیے :۔ اس مقام پرفرمایا کہ یہ کتاب ڈرنے والوں یامتقین کےلیے ہدایت ہےاور ایک دوسرے مقام پرا سی قرآن کریم کو ھدیٰ للناس (تمام لوگوں کے لیے ہدایت) (۱۸۵:۲) فرمایا۔
اس کی مثال یوں سمجھیے ، جیسے ایک مقررکسی جلسہ میں سب حاضرین کومخاطب کرکے نہایت قیمتی معلومات بتاتااور انہیں ہدایات دیتاہے لیکن ان سےتمام حاضرین یکساں مستفیض نہیں ہوتے بلکہ ہرشخص اپنی بساط کےمطابق ان سے استفادہ کرتااوران پرعمل پیراہوتاہے اور بعض ایسے بھی ہوتے ہیں ۔جومطلقاً کوئی اثر قبول نہیں کرتے۔یہی صورت قرآنی ہدایات کی بھی ہے ۔ان سے صرف ڈرنے والے یا متقین ہی ہدایت حاصل کرتےہیں۔اگلی تین آیات میں وہ اوصاف یاشرائط بیان کی گئی ہیں جومتقین کےلیے ضروری ہیں۔ |
البقرة |
3 |
[٤] متقین کے اوصاف :۔ پہلی شرط یہ ہے کہ وہ بن دیکھی چیزوں پر ایمان لاتے ہیں اور وہ چھ چیزیں ہیں جن پر بن دیکھے ایمان لانا ضروری ہے : اللہ پر، اللہ کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، اخروی زندگی پر اور اس بات پر کہ ہر طرح کی بھلائی اور برائی اللہ ہی کی طرف سے مقدر ہوتی ہے۔ ان میں سے کسی چیز پر بھی ایمان نہ ہونے سے انسان کافر ہوجاتا ہے۔
[٥] اس کی کم از کم حد دن بھر میں پانچ فرض نمازوں کی بروقت اور باجماعت ادائیگی ہے۔ اِلا یہ کہ جماعت میں شامل نہ ہونے کے لیے کوئی شرعی عذر موجود ہو۔ یہ دوسری شرط ہوئی۔ [٦] رزق سے مراد صرف مال و دولت ہی نہیں بلکہ ہر وہ نعمت ہے جو جسم یا روح کی پرورش میں مددگار ثابت ہو۔ اگر اللہ نے کسی کو علم و ہنر دیا ہے تو وہ دوسروں کو بھی سکھائے۔ جوانی اور صحت دی تو اسے جہاد میں یا ضعیفوں کی مدد کرنے میں خرچ کرے اور مال و دولت ہے تو اسے فقراء، یتیموں مسکینوں وغیرہ پر خرچ کرے اور اس خرچ کی کم از کم حد فرضی صدقہ یعنی زکوٰۃ ادا کرنا ہے اور بلند تر درجہ یہ ہے کہ جو کچھ ضرورت سے زائد ہو وہ اللہ کی راہ میں خرچ کر دے (٢: ٢١٩) یہ تیسری شرط ہے۔ |
البقرة |
4 |
[٧] نازل شدہ سے مراد صرف قرآن ہی نہیں بلکہ قرآن کا بیان (توضیح و تشریح) بھی ہے جو قرآن میں موجود نہیں مثلاً نماز ادا کرنے کی ترکیب، محل زکوٰۃ اشیاء، نصاب زکوٰۃ اور شرح زکوٰۃ کی تعیین وغیرہ لاتعداد ایسے احکام و ہدایات جو قرآنی احکام پر عمل پیرا ہونے کے لیے ضروری تھے۔ نیز وہ سابقہ انبیاء پر نازل شدہ وحی پر بھی ایمان لاتے ہیں۔ ان دونوں میں فرق صرف یہ ہے کہ آپ پر نازل شدہ وحی پر بالتفصیل ایمان لانا ضروری ہے اور سابقہ انبیاء کی وحی پر اجمالاً کیونکہ قرآنی تصریحات کی رو سے ان کی کتابوں میں تحریف و تبدل ہوچکا ہے۔ یہ چوتھی شرط ہے۔
[٨] آخرت کا مفہوم اور عقیدہ آخرت کی اہمیت :۔ آخرت کا لفظ ایک جامع اصطلاح ہے جس میں کئی طرح کے عقائد شامل ہیں مثلاً (١) مرنے پر انسان کی زندگی کا کلیتاً خاتمہ نہیں ہوجاتا۔ بلکہ مرنے کے بعد اسے دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جائے گا۔ پھر اس سے اس کے اعمال کا محاسبہ کیا جائے گا، لہٰذا وہ اس دنیا میں ایک غیر ذمہ دارانہ زندگی گزارنے کے لیے پیدا نہیں کیا گیا بلکہ وہ اپنے تمام اعمال کے لیے اللہ کے ہاں جواب دہ ہے (٢) موجودہ نظام کائنات ابدی نہیں بلکہ ایک وقت آنے والا ہے جب یہ سب کچھ فنا ہوجائے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ ایک دوسرا عالم پیدا فرمائے گا جس میں تمام فوت شدہ انسانوں کو دوبارہ پیدا کر کے اکٹھا کر دے گا اور فرداً فرداً ہر ایک سے اس کے اعمال کا محاسبہ کیا جائے گا۔ (٣) اس فیصلہ کے مطابق جو لوگ کامیاب قرار دیئے جائیں گے وہ جنت میں داخل ہوں گے اور نافرمان، کافر، مشرک وغیرہ دوزخ میں ڈالے جائیں گے۔ یوم آخرت کی تفصیلات بے شمار ہیں۔ جنہیں یہاں درج کرنا ممکن نہیں۔ مختصراً یہ کہ ایمان بالآخرۃ، ایمان بالغیب کا اتنا اہم جزو ہے جو انسان کو زندگی کا دھارا بدلنے اور صراط مستقیم کی طرف آنے اور تقویٰ اختیار کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ اسی لیے اس کا ایمان بالغیب کے بعد علیحدہ طور پر بھی ذکر کردیا گیا۔ یہ ’’ایمان با لآخرت‘‘ ہدایت قبول کرنے کے لیے پانچویں شرط ہوئی۔ |
البقرة |
5 |
[٩] دیکھئے یہاں اسلام کے تین اہم بنیادی ارکان کا اجمالاً ذکر کردیا گیا ہے اور اجمال ہی کی وجہ سے روزہ اور حج کا ذکر نہیں کیا گیا۔
کیونکہ جن لوگوں میں مندرجہ بالا پانچ صفات پیدا ہوجائیں گی، وہ صرف روزہ اور حج ہی نہیں دوسرے تمام شرعی اوامر و نواہی پر عمل کرنے کے لیے از خود مستعد ہوجائیں گے اور درج ذیل حدیث میں نماز روزہ اور زکوٰۃ کا ذکر آیا ہے۔ حج چونکہ زندگی میں صرف ایک بار اور وہ بھی صاحب استطاعت پر فرض ہے لہٰذا اس کا ذکر نہیں کیا گیا۔ ارکان اسلام کی اہمیت اور ترتیب :۔ طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا جس کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ اس کی بات سمجھ میں نہ آتی تھی اور ہم بھن بھن کی طرح اس کی آواز سنتے رہے، وہ نزدیک آیا تو معلوم ہوا کہ وہ اسلام کی بابت پوچھ رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا ’’اسلام، دن رات میں پانچ نمازیں ادا کرنا۔‘‘ اس نے کہا : اس کے علاوہ تو میرے ذمے کچھ نہیں؟ آپ نے فرمایا نہیں ’’الا یہ کہ تو نفل (یا کوئی نفلی نماز) پڑھے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اور رمضان کے روزے رکھنا۔‘‘ اس نے پوچھا : اس کے علاوہ اور تو کوئی روزہ میرے ذمے نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نہیں الا یہ کہ تو کوئی نفلی روزہ رکھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے زکوٰۃ کے متعلق بتایا تو کہنے لگا :’’بس۔ اور تو کوئی صدقہ میرے ذمہ نہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’نہیں۔ الا یہ کہ تو نفلی صدقہ کرے۔“ پھر وہ پیٹھ موڑ کر چلا تو یہ کہتا جاتا تھا : اللہ کی قسم! میں نہ اس سے بڑھاؤں گا نہ گھٹاؤں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اگر یہ سچا ہے تو اپنی مراد کو پہنچ گیا (کامیاب ہوگیا)‘‘ (بخاری، کتاب الایمان، باب الزکوٰۃ من الاسلام) [١٠] فلاح سے مراد عذاب دوزخ سے نجات اور جنت میں داخلہ ہے۔ جیسا کہ سورۃ آل عمران کی آیت ١٨٥ میں یہ صراحت موجود ہے۔ |
البقرة |
6 |
|
البقرة |
7 |
[١١] مہر کیسے کافروں کو لگتی ہے؟ اللہ تعالیٰ مہر صرف ان کافروں کے دلوں پر لگاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ارشادات کو خوب سمجھ لینے کے بعد محض اپنی ہٹ دھرمی اور ضد کی وجہ سے ٹھکرا دیتے ہیں۔ جیسے ایک دوسرے مقام پر فرمایا : ﴿ وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَآ اَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ﴾(۱۴:۲۷) اور ان لوگوں نے ہٹ دھرمی اور تکبر کی بنا پر (ان حقائق کا) انکار کردیا جن پر ان کے دل یقین کرچکے تھے اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا : ﴿فَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا بِمَا كَذَّبُوا مِن قَبْلُ كَذَٰلِكَ يَطْبَعُ اللَّـهُ عَلَىٰ قُلُوبِ الْكَافِرِينَ﴾(۱۰۱:۷) ’’جس بات کو پہلے ایک دفعہ جھٹلا چکے تھے اس پر ایمان لانے کے لیے آمادہ نہ ہوئے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کافروں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے۔‘‘ رہے عام کافر تو ان میں سے کثیر تعداد مسلمان ہوتی ہی رہی ہے۔
[١٢] دل کا کام بات کو سمجھنا اور کان کا کام سننا ہے اور یہ دونوں اعضاء کسی مخصوص جانب کے پابند نہیں۔ لیکن آنکھ صرف سامنے سے ہی دیکھ سکتی ہے۔ لہٰذا دلوں اور کانوں پر تو مہر کا ذکر کیا گیا اور آنکھ پر صرف پردے کا۔ ایسے لوگ حقائق کو سمجھنے کے لیے کیا تیار ہوں گے جنہیں ان کا سننا اور دیکھنا بھی گوارا نہ ہو۔ کیونکہ کان اور آنکھ ہی تو دل کے دو بڑے دروازے ہیں جن سے دل کو ہر طرح کی معلومات فراہم ہوتی ہیں۔ مہرکیوں اور کب لگتی ہے؟ انسان کو اللہ تعالیٰ نے آنکھیں، کان اور دل اس لیے نہیں دیئے تھے کہ وہ ان اعضاء سے صرف اتنا ہی کام لے جتنا دوسرے حیوان لیتے ہیں اور جانوروں کی طرح صرف اپنے کھانے پینے اور دنیاوی مفادات پر ہی نظر رکھے۔ کیونکہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے فہم و دانش کی دوسرے جانوروں سے بہت زیادہ قوتیں عطا فرمائی ہیں۔ انسان کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتابیں نازل فرمائیں جو انسان کی توجہ کو کائنات میں ہر سو اللہ تعالیٰ کی بکھری ہوئی نشانیوں کی طرف مبذول کرتی ہیں۔ تاکہ انسان ان سے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرے۔ پھر اگر انسان کانوں سے قرآن کی آیات کو سننا تک گوارا نہ کرے اور کائنات میں بکھری ہوئی آیات کو آنکھوں سے دیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہ کرے تو اس کی ہدایت کی کوئی صورت باقی رہ جاتی ہے؟ اور اس سے بھی بدتر صورت حال ان لوگوں کی ہے جو اللہ کی آیات سن بھی لیتے ہیں اور ان کے دل انہیں سمجھ بھی لیتے ہیں، لیکن وہ اپنی چودھراہٹوں یا بعض دوسرے دنیوی مفادات کی خاطر حق کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے، بلکہ الٹا مخالفت اور تعصب پر اتر آتے ہیں تو ایسے لوگوں کی آئندہ ہدایت پانے کی بھی کوئی صورت باقی نہیں رہ جاتی اور اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے دلوں اور کانوں پر مہر لگانے اور آنکھوں پر پردہ ڈالنے سے تعبیر فرمایا ہے اور اسی بات کی تائید درج ذیل مرفوع حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑجاتا ہے۔ پھر اگر وہ گناہ چھوڑ دے اور استغفار کرے اور توبہ کرے تو اس کا دل صاف کردیا جاتا ہے اور اگر دوبارہ کرے تو نقطہ بڑھ جاتا ہے حتیٰ کہ دل پر چھا جاتا ہے اور یہی وہ زنگ ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ﴾ (ترمذی، ابواب التفسیر) مہر لگانے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کیوں؟ رہی یہ بات کہ اگر کافروں کے دلوں اور کانوں پر مہر ان کی اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے لگتی ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اس فعل کو اپنی طرف منسوب کیوں کیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بھی اللہ ہی کا قانون ہے کہ جن اعضاء یا جن قویٰ سے انسان کام لینا چھوڑ دیتا ہے یا ان کی فراہم کردہ معلومات کو پس پشت ڈال دیتا ہے تو ان اعضاء اور قویٰ کی استعداد از خود زوال پذیر ہو کر ختم ہوجاتی ہے۔ مثلاً انسان اگر اپنے بازو سے کچھ مدت کوئی کام نہ لے اور اسے حرکت تک نہ دے تو وہ از خود شل ہوجائے گا، اس میں حرکت کرنے کی استعداد باقی ہی نہیں رہے گی اور یہ قانون بھی چونکہ اللہ تعالیٰ ہی کا بنایا ہوا ہے۔ لہٰذا اس فعل کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف درست ہوئی۔ اگرچہ یہ انسان کے اپنے ہی شامت اعمال کے نتیجہ میں واقع ہوتی ہے۔ |
البقرة |
8 |
|
البقرة |
9 |
[١٣] وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اگر وہ اللہ اور مومنوں سے دغا بازی کرنا چاہیں بھی تو ایسا کر نہیں سکتے۔ کیونکہ اللہ تو دلوں کے راز تک جانتا ہے اور ان ارادوں اور حرکات سے مسلمانوں کو اپنے رسول کے ذریعے مطلع کردیتا ہے۔ اس طرح ان کی دغا بازی کا وبال انہیں پر پڑے گا اور وہی ذلیل و رسوا ہوں گے۔ |
البقرة |
10 |
[١٤] مرض سے مراد نفاق، دین اسلام سے نفرت اور مسلمانوں سے حسد اور عناد ہے۔ پھر جوں جوں اسلام اور اہل اسلام کی شوکت بڑھتی گئی، ان کی بیماری میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔
[١٥] یہ جھوٹ ان کا وہی دعویٰ تھا جو وہ کہتے تھے کہ ﴿اٰمَنَّا باللّٰہِ وَبِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ﴾ جب کہ ان کے اعمال اور ان کی حرکات و سکنات اس دعویٰ کی مخالف سمت میں تھیں۔ اسی لیے انہیں دردناک عذاب ہوگا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا : ﴿ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ﴾ (۱۴۵:۴)بلاشبہ منافق دوزخ کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے۔ |
البقرة |
11 |
[١٦] ان کا فساد یہ تھا کہ ان کی دلی ہمدردیاں تو کافروں سے تھیں اور مسلمانوں میں شامل رہ کر ان کے حالات سے انہیں باخبر رکھتے اور ان کے لیے جاسوسی کے فرائض سر انجام دیتے تھے۔ نئے اور ضعیف الاعتقاد مسلمانوں کو حیلوں بہانوں سے برگشتہ کرتے تھے اور جنگ کی صورت میں مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے تھے۔
[١٧] یعنی ہم ہر ایک سے صلح رکھنا چاہتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ پہلے کی طرح سب شیر و شکر ہو کر رہیں اور نئے دین (اسلام) کی وجہ سے جو مخالفت بڑھ رہی ہے وہ ختم ہوجائے۔ |
البقرة |
12 |
[١٨] یعنی اس لگائی بجھائی اور ان کی حرکات و سکنات سے کافروں کا بھی ان سے اعتماد اٹھ جائے گا اور ان کی حیثیت ”دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا“ کے مصداق ہوجائے گی تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ ان کے اعمال سراسر فتنہ و فساد پر مشتمل تھے۔ |
البقرة |
13 |
[١٩] اس آیت میں الناس سے مراد سچے مومن ہیں، یعنی مہاجرین و انصار وغیرہ اور منافق انہیں احمق اس لیے کہتے تھے کہ یہ سچے مومن تھے۔ منافقوں کی طرح مفاد پرست نہیں تھے بلکہ دین کی خاطر کٹھن سے کٹھن حالات کا مقابلہ کرنے حتیٰ کہ جان تک دینے کو بھی تیار رہتے تھے۔
[٢٠] یعنی وہ یہ نہیں جانتے کہ دین و ایمان اور اصولوں پر وقتی اور دنیوی مفادات کو ترجیح دینا ہی سب سے بڑی حماقت ہے اور یہ وقتی مفادات کیا تھے؟ وہ مسلمانوں کی طرف سے ان کے جان و مال کی حفاظت، مسلمانوں سے رشتے ناطے کرنا اور اگر جنگ میں شامل ہوں۔ خواہ ان کے دلی ارادے کیسے ہی ناپاک ہوں۔ فتح کی صورت میں انہیں اموال غنیمت سے حصہ مل جاتا تھا۔ |
البقرة |
14 |
|
البقرة |
15 |
[٢١] اوصاف کا سدہ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کیوں؟ قرآن کی بعض آیات میں بعض اوصاف ذمیمہ مثلاً استہزاء مکر اور خدع کی اللہ تعالیٰ کی طرف جو نسبت کی گئی ہے، یہ محض اہل عرب کے محاورہ کی وجہ سے ہے اور یہ تو ظاہر ہے کہ قرآن اہل عرب اور بالخصوص قریش کے محاورہ کے مطابق نازل ہوا ہے۔ ایسے افعال اللہ تعالیٰ کی طرف کبھی اکیلے منسوب نہیں ہوتے بلکہ کافروں کے افعال کے جواب کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ عرف عام میں ایسی صورت کو ’’مشاکلہ‘‘ کہتے ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ کی ذات ایسے اوصاف سے پاک ہے۔ ایسے عرب محاوروں کی ایک مثال درج ذیل آیت میں بھی موجود ہے۔
﴿وَجَزَاءُ سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِثْلُھَا﴾ (٤٢: ٤٠) برائی کا بدلہ اس کے مثل (یا اتنی ہی) برائی ہے۔ حالانکہ جو برائی کا بدلہ لے اسے برائی نہیں بلکہ انصاف کہنا زیادہ مناسب ہے۔ لیکن محاوروں میں برائی کا لفظ ہی استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح یہاں بھی اللہ تعالیٰ کے جواباً مذاق اڑانے سے مراد منافقوں کو ان کے استہزاء کا پورا پورا بدلہ دینا ہے، نہ کہ ان کی طرح کا مذاق اڑانا۔ مگر محاورہ میں استہزاء کا لفظ ہی جواب کے طور پر استعمال ہوگا اور اللہ تعالیٰ ان کے استہزاء کا جواب اس صورت میں دے گا کہ عنقریب ان کے سارے پول کھول دے گا۔ جس سے یہ لوگ دنیا میں ذلیل و رسوا ہوں گے اور آخرت میں عذاب الیم سے دو چار ہوں گے۔ [٢٢] عَمِہَ بمعنی دل کا اندھا یا نور بصیرت سے خالی ہونا ہے، جبکہ آنکھ کے اندھے کے لیے عمی کا لفظ آتا ہے۔ گویا منافقوں کو حق بات سوجھتی ہی نہیں۔ |
البقرة |
16 |
|
البقرة |
17 |
[٢٣] منافقوں کی مثال (١) :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے منافقوں کی صورت حال بیان فرمائی ہے۔ یہ آگ جلانے والا شخص خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنہوں نے کفر و ضلالت کی تاریکیوں میں اسلام کی شمع روشن اور حق کو باطل سے، صحیح کو غلط سے اور راہ راست کو گمراہیوں سے چھانٹ کر بالکل نمایاں کردیا۔ اب جو لوگ (سچے مومن) دیدہ بینا رکھتے تھے۔ انہیں سب کچھ واضح طور پر نظر آنے لگا۔ مگر یہ منافقین جو اپنی مفاد پرستی کی وجہ سے اندھے ہو رہے تھے۔ انہیں اس روشنی میں بھی کچھ نظر نہ آیا۔ ان کے اس طرح اندھے بنے رہنے کو ہی اللہ تعالیٰ نے آیت ﴿ذَھَبَ اللّٰہُ بِنُوْرِہِمْ﴾ سے تعبیر کیا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی نسبت ویسی ہی ہے جیسے آیت ﴿خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ وَعَلٰی سَمْعِہِمْ﴾ میں ہے جس کی وضاحت ہم نے کردی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ منافقوں کو خود نور صداقت دیکھنا گوارا نہیں تو اللہ نے بھی انہیں تاریکیوں میں بھٹکتا چھوڑ دیا۔ اللہ کا قانون ہرگز یہ نہیں کہ کسی کو زبردستی ہدایت دے بلکہ اس کا قانون یہ ہے کہ جدھر کوئی چلتا ہے اللہ تعالیٰ ادھر ہی اسے چلنے میں مدد کیے جاتا ہے۔ (١٧: ٢٠) |
البقرة |
18 |
[٢٤] آخر ان منافقوں کی حالت یہ ہوگئی کہ یہ حق بات سننے کے لیے بہرے، حق کہنے کے لحاظ سے گونگے ہیں اور حق سامنے موجود ہو تب بھی انہیں نظر نہیں آتا۔ |
البقرة |
19 |
|
البقرة |
20 |
[٢٥] منافقوں کی مثال (٢) :۔ یہ ایک دوسری قسم کے منافقوں کی مثال بیان کی گئی ہے۔ پہلی قسم کے منافق تو وہ تھے جن کے دل میں کفر ہی کفر تھا۔ مگر مفاد پرستی کی خاطر مسلمانوں کے سامنے اسلام کا دعویٰ کرتے تھے، اور یہ دوسری قسم ان منافقوں کی ہے جو شک اور تذبذب کا شکار ہیں۔ اس مثال میں زوردار مینہ سے مراد اسلامی احکامات کا نزول ہے جو پے در پے ہو رہے تھے اور جو جملہ انسانیت کے لیے رحمت ہی رحمت تھے اور اس میں تاریکیوں اور کڑک سے مراد وہ مصائب و مشکلات ہیں جو مسلمانوں کو اقامت دین کے سلسلہ میں پیش آ رہی تھیں اور چمک سے مراد وہ کامیابیاں اور کامرانیاں ہیں جو مسلمانوں کو حاصل ہو رہی تھیں۔ اب جب کوئی کڑک کی آواز یا مصیبت مسلمانوں کو درپیش ہوئی تو یہ منافق اپنی جان بچانے کی خاطر مسلمانوں سے الگ ہو کر حفاظتی اقدامات کرنا شروع کردیتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ اس صورت میں بھی ان کو ہلاک کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہے اور مسلمانوں کی کامیابی اور ان کی مسلمانوں سے علیحدگی ہی ان کی موت کا باعث بن سکتی تھی۔ پھر جب معاملہ ذرا سہل ہوجاتا ہے اور مصائب چھٹ جاتے ہیں تو یہ لوگ اسلام کی طرف پیش قدمی کرتے ہیں اور جب کوئی سخت احکام نازل ہوتے ہیں تو وہیں ٹھٹک کر کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں اور اگر اللہ چاہتا تو پہلی قسم کے منافقوں کی طرح ان کی بصارت اور سماعت کو بھی سلب کرسکتا تھا۔ مگر اللہ کا قانون ہی یہ ہے کہ جو شخص جس حد تک دیکھنا اور سننا چاہتا ہے۔ اسے اس حد تک سننے اور دیکھنے دیا جائے، اگرچہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ |
البقرة |
21 |
[٢٦] دلائل توحید :۔ مدینہ میں موجود تین طرح کے لوگوں کا ذکر کرنے کے بعد اب اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں سے مشترکہ خطاب فرما کر انہیں اسلام کی بنیادی دعوت کی طرف متوجہ کیا اور فرمایا کہ تم لوگ یہ خوب جانتے ہو کہ اللہ ہی نے تمہیں بھی اور تم سے پہلے لوگوں کو بھی پیدا کیا۔ پھر تمہارے لیے زمین کو مستقر اور آسمان کو محفوظ چھت بنا دیا کہ کوئی سیارہ اوپر سے گر کر زمین کو تہس نہس نہیں کردیتا۔ پھر تمہاری تمام ضروریات زندگی اسی زمین سے وابستہ کردیں اور گاہے گاہے آسمان سے بارش برسا کر تمہارے کھانے پینے کی چیزیں اور پھل وغیرہ بھی وہی تمہیں مہیا کرتا ہے، تو پھر تمہیں عبادت بھی صرف اسی کی کرنی چاہیے اور کسی دوسرے کو اس کے اقتدار و تصرف میں شریک سمجھ کر اس کی عبادت نہ کرنی چاہیے۔ اسی صورت میں یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ تم عذاب اخروی سے بچ سکو۔ |
البقرة |
22 |
|
البقرة |
23 |
[٢٧] قرآن کا چیلنج اور اس کی معجزانہ حیثیت :۔ اس آیت میں خالصتاً کافروں کو خطاب کیا جا رہا ہے کہ اگر تمہیں اس کلام (قرآن) کے اللہ کا کلام ہونے میں شک ہے تو پھر تم سب مل کر اس جیسی ایک سورت ہی بنا کر دکھاؤ۔ حقیقت حال از خود تم پر واضح ہوجائے گی۔ کافروں کو اس قسم کا چیلنج قرآن کریم میں چار اور مقامات پر بھی کیا گیا ہے یعنی سورۃ یونس کی آیت نمبر ١٤، سورۃ ہود آیت نمبر ١٣، سورۃ بنی اسرائیل آیت ٨٨ اور سورۃ طور کی آیت نمبر ٣٤ میں اور یہ ایسا چیلنج ہے۔ جس کا جواب کفار سے نہ اس دور میں میسر آسکا نہ آج تک میسر آیا ہے اور نہ ہی آئندہ تا قیامت میسر آسکے گا اور قرآن کریم کی یہ اعجازی حیثیت آج تک بدستور مسلم ہے۔
اللہ تعالیٰ کا دستور یہ ہے کہ انبیاء کو ایسی چیز بطور معجزہ دی جاتی ہے۔ جس کی اس زمانہ میں دھوم مچی ہوئی ہو۔ موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں ساحری اپنی انتہائی بلندی پر پہنچی ہوئی تھی تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو ایسے معجزات عطا کئے جن کے آگے فرعون کے بڑے بڑے جادوگروں کو سربسجود ہونے کے سوا کوئی چارہ کار نظر نہ آیا۔ عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں طب اپنی انتہائی بلندیوں کو پہنچی ہوئی تھی۔ بقراط، ارسطالیس، لقمان اور جالینوس جیسے حکماء کا ڈنکا بجتا تھا تو اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو ایسے معجزات عطا کئے جو ان حکماء کی دسترس سے ماورا تھے۔ بھلا کون سا حکیم مردوں کو زندہ کرسکتا تھا۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عربی زبان کی فصاحت و بلاغت انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے شعراء میں باہمی مقابلے ہوتے تھے اور مقابلہ میں بہترین قرار دیئے جانے والے شعراء کا کلام کعبہ کے دروازہ پر لٹکا دیا جاتا تھا۔ سبع معلقات اسی دور کی یادگار ہے۔ جو آج بھی متداول ہے۔ ایسے ہی شعراء ادباء اور خطباء کو اللہ تعالیٰ نے چیلنج کیا اور فرمایا کہ اپنے سب مدد گاروں، جنوں یا انسانوں اور اپنے دیوتاؤں اور معبودوں سب کی مدد لے کر اس قرآن جیسی ایک سورت ہی بنا لاؤ۔ لیکن یہ سب لوگ ایسا کلام پیش کرنے میں عاجز ثابت ہوئے۔ پھر قرآن کا اعجاز صرف فصاحت و بلاغت تک ہی محدود نہ تھا اس کے مضامین کی ندرت اور حقائق سے نقاب کشائی اور غیب کی اطلاعات ایسے اوصاف تھے جو انسان کی بساط سے باہر تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر دلیل :۔ اب دوسری طرف یہ صورت حال تھی کہ اس قرآن کو پیش کرنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود امی تھے، لکھنا پڑھنا تک نہیں جانتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی استاد بھی نہ تھا۔ ان کی طرف سے اس طرح کا کلام پیش کیا جانا مزید باعث حیرت و استعجاب تھا۔ لہٰذا قرآن کی اس اعجازی حیثیت سے تین باتوں کا از خود ثبوت مہیا ہوجاتا ہے۔ (١) اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت (٢) قرآن کریم کے منزل من اللہ ہونے کا ثبوت (٣) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول برحق ہونے کا ثبوت۔ اب ہم قرآن کے چند امتیازی پہلوؤں کی وضاحت پیش کریں گے۔ قرآن کے امتیازی پہلو :۔ ١۔ پہلے انبیاء کو جتنے معجزات عطا کئے گئے وہ سب وقتی اور عارضی تھے، کسی نے دیکھے اور کسی نے صرف سنے تھے۔ مگر قرآن کو سب دیکھ سکتے ہیں اور اس وقت سے لے کرتا قیامت دیکھ سکتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ ایک زندہ جاوید، دائمی اور لازوال معجزہ ہے۔ ٢۔ اس کی اعجازی حیثیت صرف یہی نہیں کہ اس دور کے فصحاء اور بلغاء اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر رہ گئے تھے۔ بلکہ آج تک اس کی زبان ادب کی زبان تسلیم کی جاتی ہے۔ جو درجہ یہاں ہندوستان میں اردوئے معلیٰ کو حاصل ہے۔ وہی درجہ قرآن کو عام لوگوں کی ادبی زبان پر حاصل ہے اور اس کی عربی زبان پر اتنی گہری چھاپ ہے کہ عربی زبان تغیرات زمانہ کی دستبرد سے آج تک بہت حد تک محفوظ ہے۔ اگر بالفرض محال قرآن کی زبان نہ محفوظ رہتی تو اس کے مقابلہ میں غالباً آج کی عربی زبان پہچانی بھی نہ جا سکتی۔ ٣۔ قرآن کی اعجازی حیثیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ یہ اس ہستی کی زبان سے ادا ہوئی جو فصاحت و بلاغت سے سابقہ شناسائی تو درکنار، لکھنا پڑھنا تک نہ جانتے تھے۔ آپ کی نبوت سے پہلے کی زبان عام امی لوگوں جیسی ہی تھی۔ آپ کو نبوت سے پہلے عبادت گزاری سے تو دلچسپی ضرور تھی۔ مگر عربی ادب سے قطعاً ناآشنا تھے۔ ٤۔ قرآن کی حکمت نظری یہ ہے کہ اس کے دلائل نہایت سادہ اور عام فہم ہیں۔ خواہ یہ دلائل توحید پر ہوں یا آخرت کے قیام اور دوبارہ زندگی پر، اور ایسی اشیاء سے پیش کیے گئے ہیں جو ہر انسان کے مشاہدہ اور تجربہ میں آتی رہتی ہیں۔ یہاں نہ تثلیث کا گورکھ دھندا ہے، نہ نیکی اور بدی کے الگ الگ خداؤں کا اور نہ لاتعداد خداؤں کی کارسازی کا۔ لہٰذا اس کو سمجھنے میں کسی کو کوئی ابہام یا دشواری پیش نہیں آتی۔ پھر چونکہ دلائل فصیح زبان میں پیش کئے گئے ہیں۔ لہٰذا اس سے اونٹوں کو چرانے والے اعرابی بھی اسی طرح لطف اندوز ہوتے تھے جس طرح فصحاء اور بلغاء لطف اندوز ہوتے تھے، جب آیت (فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ ﴾کے الفاظ نازل ہوئے تو ایک اعرابی سجدہ میں گر پڑا اور کہنے لگا میں اس کی فصاحت کو سجدہ کرتا ہوں۔ جب سورۃ کوثر کی تین مختصر سی آیات نازل ہوئیں تو اسے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بیت اللہ میں جا لٹکایا جہاں معروف عرب شعراء لٹکایا کرتے تھے، تو اس کے نیچے کسی نے لکھ دیا کہ ﴿ما ہٰذَآ قَوْلُ الْبَشَرِ﴾غرض ایسے واقعات بے شمار ہیں اور غالباً اسی وجہ سے کفار قرآن کو سحر بلکہ سحر مبین کہا کرتے تھے۔ اشتراکیت کی ناکامی کی وجہ :۔ ٥۔ قرآن کی حکمت عملی یہ ہے کہ اس کے تمام تر احکام اس کے پیش کردہ نظریہ کے مطابق ہیں اور قابل عمل بھی، خواہ وہ انفرادی حیثیت رکھتے ہوں یا اجتماعی معاملات سے متعلق ہوں یا عبادات سے، معاشرتی احکام ہوں یا معاشی، ملکی خارجہ پالیسی سے متعلق ہوں یا اندرونی پالیسی سے سب کے سب قابل عمل ہیں اور عمل میں لائے جا چکے ہیں۔ اپریل ١٩١٧ء میں روس میں اشتراکی حکومت قائم ہوئی اور پون صدی بھی گزرنے نہ پائی تھی کہ دم توڑ گئی۔ اس ٧٥ سال کے عرصہ میں ایک دن بھی ایسا نہیں آیا جب اشتراکیت کے مرکز روس میں بھی اشتراکی نظریہ کے مطابق حکومت کی جا سکی ہو اور اس ناکامی کی وجہ یہ تھی کہ اشتراکی نظریات انسانی فطرت کے خلاف تھے اور ان میں انفرادی مفادات کو اجتماعی مفادات کی خاطر کچل دیا گیا تھا۔ مگر اسلام کی تعلیم اور اس کے احکام انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں۔ نہ ہی اس کی حکمت نظری اور حکمت عملی میں کوئی تضاد یا تصادم ہے۔ اگر مسلمان صحیح طور پر اسلامی احکام پر کاربند ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ انہیں دنیا میں سر بلندی اور سرخروئی حاصل نہ ہو۔ گویا قرآن کی تعلیم صرف یہی نہیں کہ وہ قابل عمل ہے۔ بلکہ اپنے پیرو کاروں کو بلند مقام پر فائز کرنے کی اہلیت بھی رکھتی ہے۔ ٦۔ قرآن عظیم کا چھٹا امتیاز اس کی جامعیت اور ہمہ گیری ہے جو انسانی زندگی کے جملہ پہلوؤں کو محیط ہے اور یہ ایسی خصوصیت ہے جو نہ کسی دوسری الہامی کتاب میں پائی جاتی ہے۔ نہ کسی دوسرے مذہب میں۔ پھر یہ صرف دنیا کی زندگی کے لیے ہدایت نہیں دیتی بلکہ ما بعد الطبیعیات پر پوری روشنی ڈالتی ہے۔ ٧۔ قرآن کا ساتواں امتیاز یہ ہے کہ اس کے احکام عام حالات میں ایک اوسط درجہ کی طاقت کے انسان کی استعداد کا لحاظ رکھ کر کیے گئے ہیں۔ پھر معاشرہ کے معذور لوگوں اور بدلتے ہوئے حالات کا لحاظ رکھ کر ان احکام میں رخصت یا رعایت رکھی گئی ہے۔ تاکہ کسی موقعہ پر بھی لوگوں کو اس کے احکام پر عمل پیرا ہونے میں دشواری پیش نہ آئے۔ بالفاظ دیگر قرآن کریم کا کوئی حکم ایسا نہیں جو تکلیف مالایطاق کے ضمن میں آتا ہو۔ قرآن کا اصل موضوع :۔ ٨۔ قرآن پاک کا آٹھواں اور نہایت اہم امتیاز یہ ہے کہ یہ اپنے موضوع سے ادھر ادھر بالکل نہیں ہٹتا۔ اس کا اصل موضوع انسان کی ہدایت ہے یعنی وہ راستہ جس پر چلنے سے انسان کی دنیا بھی سنور جائے اور آخرت بھی۔ قرآن عظیم کا کوئی صفحہ، کوئی سورت، کوئی آیت کوئی سطر نکال کے دیکھ لیجئے، خواہ یہ احکام سے متعلق ہو یا دلائل سے یا سابقہ اقوام کی سرگزشت اور ان کے انجام سے، ہر ہر مقام پر آپ کی ہدایت کے لیے کوئی نہ کوئی سبق موجود ہوگا۔ قرآن میں بے کار بحثوں سے اجتناب :۔ ٩۔ قرآن کا نواں امتیاز ایجاز ہے یعنی ایسی تفصیل میں وہ ہرگز نہیں جاتا جس کا ہدایت سے کچھ تعلق نہ ہو۔ مثلاً قرآن نے ام موسیٰ کی طرف وحی کا تو ذکر کیا مگر اس کا نام نہیں لیا۔ سیدنا آدم علیہ السلام کو جنت میں ایک درخت کے نزدیک نہ جانے کے حکم کا ذکر کیا مگر درخت کا نام نہ لیا۔ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اَھِلَّہ، یعنی نئے چاندوں یا اشکال قمر کے متعلق سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے اشکال قمر کی وجہ بتانے کے بجائے جواب کا رخ اس طرف موڑ دیا جو انسان کی ہدایت سے تعلق رکھتی تھی کیونکہ اشکال قمر کی وجہ جاننے میں انسان کی ہدایت کا کوئی پہلو نہ تھا۔ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اصحاب کہف کی تعداد سے متعلق بحث و کرید کرنے سے منع فرمایا۔ کیونکہ ایسی بے کار بحثوں کا ہدایت سے کچھ تعلق نہیں ہوتا اور ایسی بحثیں صرف وقت کے ضیاع اور بے عملی کا باعث ہی نہیں بنتیں بلکہ بسا اوقات تفرقہ بازی کی بنیاد بھی بن جاتی ہیں۔ ١٠۔ اور قرآن پاک کا دسواں اور اہم امتیاز یہ ہے کہ اس نے کبھی کسی نبی اور رسول کی سیرت و کردار کو داغدار نہیں کیا۔ بائیبل میں بعض انبیاء کی سیرت و کردار پر جس طرح سوقیانہ حملے کیے گئے ہیں۔ اس کا ذکر ہم کسی دوسرے مقام میں کر رہے ہیں۔ ١١۔ اور گیا رہواں امتیاز اس کی شائستہ اور مہذبانہ زبان ہے۔ گالی گلوچ یا فحش الفاظ سے کلیتاً اجتناب کیا گیا ہے۔ زلیخا کو سیدنا یوسف علیہ السلام سے فی الواقع انہی معنوں میں عشق تھا جو مشہور و معروف ہیں لیکن وہاں بھی اللہ تعالیٰ نے اس لفظ کو استعمال نہیں فرمایا کیونکہ یہ لفظ سوقیانہ اور بازاری قسم کا ہے جس سے فحاشی کی بو آتی ہے۔ اسی طرح اسلام کے بدترین دشمنوں کا بھی نام نہیں لیا۔ بلکہ ان میں سے بعض کے اوصاف ایسے بیان کردیئے ہیں جس سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ ان آیات کا روئے سخن فلاں شخص کی طرف ہے۔ اس کلیہ سے استثناء صرف ابو لہب کے لیے ہے۔ جس کی چند در چند وجوہ ہیں جن کا ذکر مناسب مقام پر سورۃ لہب میں کردیا گیا ہے۔ الغرض قرآن کے امتیازات و عجائب اس قدر ہیں کہ ان کا احاطہ کرنا انسان کی بساط سے باہر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جس قدر غور و فکر اور گہرائی کے ساتھ اس کا مطالعہ کیا جائے، نئے سے نئے پہلو سامنے آنے لگتے ہیں۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ قرآن ایسی کتاب ہے جس کے عجائب ختم ہونے میں نہیں آ سکتے۔ |
البقرة |
24 |
[٢٨] جہنم کا ایندھن کون سی اشیاء ہوں گی؟ اللہ تعالیٰ کو پہلے ہی علم تھا کہ ایسا کلام پیش کرنا انسان کے بس سے باہر ہے اور یہ جو پانچ مرتبہ قرآن میں کفار کو چیلنج کیا گیا ہے تو یہ ان پر اتمام حجت کے لیے ہے کہ اگر ان واضح دلائل کے بعد کوئی کفر پر اڑا رہتا ہے تو اسے اس دوزخ کے عذاب سے ڈر جانا چاہیے۔ جس کا ایندھن انسان ہی نہیں معدنی پتھر (جیسے پتھری کوئلہ، گندھک) وغیرہ بھی ہوں گے جو آگ کی حدت کو بیسیوں گنا تیز کردیتے ہیں۔
بعض علماء نے کہا ہے کہ اس آیت میں حجارۃ سے مراد پتھر کے وہ بت ہیں جن کی پوجا کی جاتی رہی اور اس قول کی تائید اس آیت سے بھی ہوجاتی ہے۔ ﴿ اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ ﴾( ۹۸:۲۱)”تم بھی اور اللہ کے سوا جنہیں تم پوجتے ہو سب دوزخ کا ایندھن بنو گے۔“ تاکہ کافروں کو اپنے معبودوں کی خدائی کی حقیقت معلوم ہو سکے اور ان کی حسرت میں مزید اضافہ ہو۔ [٢٨۔ الف] تقوی کا لغوی مفہوم :۔ اتقاء یا تقویٰ کا معنی اپنے اعمال کے انجام سے ڈر جانا ہے۔ اور اس کے مادہ وَ قَ یَ میں تین باتیں بنیادی طور پر پائی جاتی ہیں : (١) ڈرنا۔ (٢) بچنا۔ (٣) پرہیز کرنا۔ گویا تقویٰ کے معنی اپنے نفس کو ہر اس چیز سے بچانا ہے جس سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو اور شرعی اصطلاح میں اپنے آپ کو ہر اس چیز سے بچانے کا نام تقویٰ ہے جو گناہ کا موجب ہو۔ اور جن امور سے شریعت نے منع کیا ہے انہیں چھوڑنے سے یہ بات حاصل ہوجاتی ہے۔ پھر تقویٰ کا مفہوم محض نواہی کو چھوڑنے تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ اوامر کی بجاآوری کو بھی اپنے اندر شامل کرلیتا ہے۔ کیونکہ جیسے بے حیائی کے کام کرنا گناہ ہے ویسے ہی نماز یا روزہ وغیرہ ادا نہ کرنا بھی گناہ ہے۔ اور تمام تر عبادات کا بنیادی مقصد انسان کے اندر تقویٰ پیدا کرنا ہے یعنی وہ ہر کام کے کرنے سے پہلے اس کا انجام سوچتا ہے اور اس انجام کو ملحوظ رکھ کر اسے اختیار کرتا یا چھوڑتا ہے۔ اور چونکہ انجام سے دو چار کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے لہٰذا تقویٰ کے مفہوم میں گناہوں کے انجام سے ڈرنے اور بچنے کے ساتھ ساتھ اللہ سے ڈرنا اور ہر وقت اس بات کا خیال رکھنا از خود شامل ہوجاتا ہے۔ [٢٩] اس سے معلوم ہوا کہ دوزخ وجود میں لائی جا چکی ہے (اور اسی طرح جنت بھی) اور یہی اہل سنت کا عقیدہ ہے۔ جبکہ بعض لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ جنت اور دوزخ عالم آخرت میں جزا و سزائے اعمال کے وقت تیار کئے جائیں گے۔ |
البقرة |
25 |
[٣٠] قرآن کریم میں آپ اکثر یہ بات ملاحظہ کریں گے کہ جہاں کہیں کفار اور ان کی وعید کا ذکر آتا ہے وہاں ساتھ ہی مومنوں اور ان کی جزا کا ذکر بھی ساتھ ہی کردیا جاتا ہے اور اس کے برعکس بھی یہی صورت ہوتی ہے، کیونکہ انسان کی ہدایت کے لیے ترغیب اور ترہیب دونوں باتیں ضروری ہیں۔
[٣١] یعنی شکل و صورت دیکھ کر وہ یہ تو کہہ دیں گے کہ یہ آم ہے یا انگور یا انار ہے مگر ان کا ذائقہ بالکل الگ اور اعلیٰ درجہ کا ہوگا اور ان کا سائز بھی دنیا کے پھلوں کی نسبت بہت بڑا ہوگا۔ [٣٢] جنتی لوگ سب کے سب خواہ مرد ہوں یا عورتیں، بول و براز اور رینٹ وغیرہ نیز اخلاق رذیلہ سے پاک صاف ہوں گے اور ان کی بیویاں حیض و نفاس کی نجاستوں سے بھی پاک و صاف ہوں گی۔ |
البقرة |
26 |
[٣٣] مثال کے درست ہونے کی شرط :۔ کفار سے جب چیلنج کا کوئی جواب بن نہ پڑا تو انہوں نے کلام اللہ پر یہ اعتراض جڑ دیا کہ اللہ کو جو مالک الملک اور سب سے بڑا ہے، کیا ضرورت پڑی تھی کہ وہ اپنے کلام میں مکھی اور مکڑی جیسی حقیر چیزوں کی مثالیں بیان کرے اور (واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے مکھی کی مثال (٢٢؍٧٣) اور مکڑی کی مثال (٢٩: ٤١) کافروں کے معبودان باطل کی کمزوری کو واضح کرنے کے لیے دی تھی۔ اس آیت میں اسی اعتراض کا جواب دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس بات میں کوئی باک نہیں کہ وہ مکھی اور مکڑی تو درکنار، مچھر یا اس سے بھی کسی حقیر تر چیز کی مثال بیان کرے۔ کیونکہ اس کی مخلوق ہونے کے لحاظ سے سب برابر ہیں۔ دیکھنا تو یہ چاہیے کہ آیا مثال اور مُمَثّل لہ، میں مطابقت پائی جاتی ہے؟ اگر مطابقت پائی جائے تو یہ مثال بالکل درست ہوگی۔ کفار کے معبود بھی تو حقیر چیزیں ہیں اور مکھی اور مکڑی بھی لہٰذا تمثیل درست ہوئی۔ مثال دینے والا خواہ بڑا یا چھوٹا اس سے کوئی بحث نہیں کی جاتی، اور کفار نے جو اعتراض کیا تھا۔ وہ بالکل خلاف عقل تھا جو حماقت اور عناد پر مبنی تھا۔
[٣٤] گمراہی کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کیسے؟ یعنی ایک ہی بات سے ہدایت پانے والوں کی تو ہدایت میں اضافہ ہوا اور ہٹ دھرموں اور فاسقوں کی گمراہی میں، اور گمراہی کی بات صرف بدکردار لوگوں کو ہی سوجھتی ہے۔ پھر اللہ بھی انہیں اسی طرف چلا دیتا ہے۔ رہی یہ بات کہ اللہ تعالیٰ نے فاسقوں کی گمراہی کی نسبت اپنی طرف کیوں کی؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان صرف سبب اختیار کرنے کا مکلف ہے اور جیسا وہ سبب اختیار کرے گا ویسی ہی اسے جزا یا سزا بھی ملے گی، رہے سبب کے مُسَبِّبَاتٌ یا نتائج تو وہ انسان کے اختیار میں نہیں ہوتے، بلکہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہوتے ہیں جو اکثر دفعہ حسب توقع ہی نکلتے ہیں اور کبھی توقع کے خلاف بھی ہو سکتے ہیں لہٰذا ان مُسَببَات کی نسبت فاعل کی طرف بھی ہو سکتی ہے۔ |
البقرة |
27 |
[٣٥] صلہ رحمی کی تاکید اور اقرباء سے حسن سلوک :۔اس آیت میں فاسقوں کی پوری تعریف بیان فرما دی۔ یعنی ایک تو اللہ سے کیے ہوئے عہد (عہد الست بربکم) (١٧٢: ٧) کو توڑ دیتے ہیں جو یہ تھا کہ ہم صرف اللہ ہی کی بندگی کریں گے اور دوسرے جن جن چیزوں، بالخصوص رشتوں ناطوں کو ملائے رکھنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا تھا وہ توڑ ڈالتے ہیں۔ پہلی قسم میں بندے اور اللہ کے درمیان تعلق کا ذکر ہے اور دوسری قسم میں بندے اور بندے کے درمیان تعلق کا۔ اگر ان دونوں قسم کے تعلقات کا لحاظ نہ رکھا جائے تو یہیں سے فساد کی جملہ اقسام پیدا ہوجاتی ہیں۔ قرابت داری توڑنا کتنا بڑا گناہ ہے۔ یہ درج ذیل حدیث میں ملاحظہ فرمائیے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ ساری مخلوق پیدا کرچکا تو رحم (مجسم بن کر) کھڑا ہوگیا اور پروردگار رحمٰن کی کمر تھام لی۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے پوچھا : ’’کہو کیا بات ہے؟‘‘ کہنے لگا : ’’میں اس بات سے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ لوگ مجھے کاٹ دیں گے (قرابت کا خیال نہ رکھیں گے) اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ جو تجھے جوڑے گا میں بھی اسے جوڑوں گا اور جو تجھے قطع کرے گا تو میں بھی اسے قطع کروں گا۔‘‘ رحم کہنے لگا : پروردگار میں اس پر راضی ہوں، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا،’’ ایسا ہی ہوگا۔‘‘ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ اگر تم چاہو تو اس حدیث کی تائید میں سورۃ محمد کی یہ آیت پڑھ لو۔ ﴿ فَہَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُـقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْ ﴾(۲۲:۴۷) یعنی تم سے تو یہ امید ہے کہ اگر تمہیں حکومت مل جائے تو ملک میں فساد برپا کر دو اور ناطے کاٹ ڈالو۔ (بخاری، کتاب التفسیر : تفسیر۔ سورۃ محمد) |
البقرة |
28 |
[٣٦] زندگی اور موت کے چار مراحل :۔ اس آیت میں انسان پر وارد ہونے والی چار کیفیات کا ذکر ہے۔ پہلے موت، پھر زندگی، پھر موت، پھر زندگی۔ روح اور جسم کے اتصال کا نام زندگی اور ان کے انفصال کا نام موت ہے۔ پہلی حالت موت ہے یعنی جملہ انسانوں کی ارواح تو پیدا ہوچکی تھیں۔ لیکن جسم اپنے اپنے وقت پر عطا ہوئے، اسی عرصہ میں عہد الست لیا گیا تھا۔ دوسری حالت انسان کی پیدائش سے لے کر اس کے مرنے تک ہے، جس میں وہ اچھے یا برے اعمال کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ تیسری حالت موت سے لے کر حشر تک اور چوتھی اور آخری حالت دوبارہ جی اٹھنے (حشر) کے بعد لامتناہی زندگی ہے۔
یاد رہے کہ جن حالتوں کو موت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ان میں بھی زندگی کی کچھ نہ کچھ رمق موجود ہوتی ہے۔ مگر چونکہ غالب اثرات موت کے ہوتے ہیں۔ لہٰذا انہیں موت سے تعبیر کیا گیا۔ کیونکہ پہلی موت کے درمیان ہی عہد الست لیا گیا تھا اور دوسری موت میں ہی انسان کو قبر کا عذاب ہوتا ہے اور دنیا میں بھی یہ حالت خواب سے سمجھا دی گئی ہے۔ کیونکہ خواب کی حالت میں انسان پر بیشتر اثرات موت کے غالب ہوتے ہیں۔ تاہم وہ عالم خواب میں چلتا پھرتا، کھاتا پیتا اور کئی طرح کے کام کرتا ہے اور خواب یا نیند کو حدیث میں موت کی بہن قرار دیا گیا ہے، زندگی کی نہیں، نیز سونے کے وقت یہ دعا سکھائی گئی ہے۔ اللھم باسمک أموت وأحییٰ نیز قرآنی تصریحات سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ موت سلبی چیز نہیں بلکہ ایجابی ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے موت کو پہلے پیدا کیا تھا اور زندگی کو بعد میں جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً﴾(۲:۶۷) ”اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اعمال کے اعتبار سے اچھا ہے“اور زیر مطالعہ آیت میں انسان کی توجہ اس طرف مبذول کرائی گئی ہے کہ جو ہستی تمہاری ذات پر اتنے وسیع تصرفات کی قدرت رکھتی ہے تم اس کا انکار کیسے کرسکتے ہو؟ |
البقرة |
29 |
[٣٧] اس آیت سے مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوئی ہیں :
ہر چیز کی اصل اباحت ہے : ١۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے زمین کی سب اشیاء انسان کی خاطر پیدا کی ہیں۔ لہٰذا انسان تمام مخلوقات سے اشرف (اشرف المخلوقات) ہوا۔ ٢۔ اور اسی فقرہ یا حصہ آیت سے یہ بھی نتیجہ نکلا کہ چونکہ انسان زمین کی ہر چیز سے استفادہ کا حق رکھتا ہے۔ لہٰذا ہر چیز کی اصل اباحت ہے اور حرام وہ چیز ہوگی جس کی شریعت نے وضاحت کردی ہو۔ ٣۔ زمین کی پیدائش سات آسمانوں کی پیدائش سے پہلے ہوچکی تھی۔ ٤۔ آسمان کوئی تصوراتی چیز نہیں۔ جیسا کہ آج کل ماہرین ہئیت کا خیال ہے۔ بلکہ ٹھوس حقیقت ہے اور ان کی تعداد سات ہے۔ |
البقرة |
30 |
[٣٨] فرشتوں کی مستقل حیثیت : آج کل بعض ملحدین کی طرف سے یہ شبہ وارد کیا گیا ہے کہ فرشتوں سے مراد وہ مجرد قوتیں ہیں جو اس کارگاہ کائنات میں کارفرما ہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ فرشتے ایسی ہستیاں ہیں جو مستقل شخصیت رکھتی ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اور ان کے درمیان مکالمہ ہوا ہے۔ علاوہ ازیں بعض ہستیوں کے قرآن میں نام بھی مذکور ہیں۔
[٣٩] آدم خلیفہ کس کا ؟ یہاں علی الاطلاق خلیفہ (نائب، قائمقام) کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ صراحتاً یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ آدم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہے یا کسی دوسری مخلوق کا۔ بعض علماء کا یہ خیال ہے کہ خلیفہ چونکہ وہ شخص ہوتا ہے جو کسی کے مرنے یا عدم موجودگی کی صورت میں اس کے اختیارات سنبھالتا ہے اور اللہ تو حی لایموت اور ہمہ وقت حاضر ہے۔ لہٰذا آدم اللہ کے خلیفہ نہیں تھے، بلکہ جنوں کے خلیفہ تھے پھر ایک ایسی روایت بھی ملتی ہے کہ انسان کی پیدائش سے پیشتر اس زمین پر جن آباد تھے جو فتنہ فساد اور قتل و غارت کرتے رہتے تھے، تو اللہ نے فرشتوں کا لشکر بھیج کر ان جنوں کو سمندروں کی طرف دھکیل دیا اور آدم علیہ السلام ان کے خلیفہ ہوئے اور بعض علماء کا یہ خیال ہے کہ خلافت یا نیابت کے لیے موت یا عدم موجودگی ضروری نہیں، بلکہ کوئی بااختیار ہستی اپنی موجودگی میں بھی کسی کو کچھ اختیارات تفویض کر کے اسے اپنا خلیفہ یا نائب بنا سکتی ہے کہ وہ اس کی منشا کے مطابق ان اختیارات کو استعمال کرے۔ ہمارے خیال میں دوسری رائے راجح ہے، کیونکہ اس کی تائید ایک آیت ٣٣: ٧٢ سے بھی ہوجاتی ہے، اور دنیا میں موجود سفارتی نظام سے بھی، محولہ آیت کا ترجمہ یوں ہے : ہم نے امانت آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر پیش کی اور انہوں نے اسے اٹھانے سے انکار کردیا۔ اور اس بار عظیم کے اٹھانے سے ڈر گئے۔ مگر انسان نے اسے اٹھا لیا۔ کیونکہ انسان تو انتہائی ظالم اور نادان واقع ہوا ہے (٣٣: ٧٢) اور تمام مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہاں امانت سے مراد اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے فرائض و احکام کی تعمیل اور ان کے نفاذ کا بار ہے اور اسی کا دوسرا نام نظام خلافت ہے۔ [٤٠] فرشتوں کا یہ قیاس کہ ’’بنی آدم دنیا میں فتنہ فساد اور قتل و غارت ہی کریں گے۔‘‘ یا تو اس لحاظ سے تھا کہ جن بھی زمین میں پہلے یہی کچھ کرچکے تھے اور یا اس لحاظ سے کہ جس ہستی کو اختیارات تفویض کر کے اسے اپنے اختیار و ارادہ کی قوت بھی دی جا رہی ہے وہ افراط و تفریط سے بچ نہ سکے گا اور اس طرح فتنہ و فساد رونما ہوگا۔ [٤١] تخلیق آدم پر فرشتوں کا اعتراض کیا تھا ؟ فرشتوں کا یہ جواب تخلیق آدم پر اعتراض نہ تھا بلکہ اس سے تخلیق آدم کی عدم ضرورت کا اظہار مقصود تھا۔ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ جب ہم مدبرات امر ہونے کی حیثیت سے کارگاہِ کائنات کو پوری سرگرمی اور خوبی سے چلا رہے ہیں۔ ہم تیرے حکم کی نافرمانی بھی نہیں کرتے تیری تسبیح تقدیس بھی کرتے رہتے ہیں، اور اس کائنات کو پاک و صاف بھی رکھتے ہیں اور جب یہ سب کام بخیر و خوبی سر انجام پا رہے ہیں تو پھر آدم علیہ السلام کو بطور خلیفہ پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے بالخصوص ایسی صورت میں کہ اس خلیفہ سے فتنہ و فساد بھی متوقع ہے۔ ان کا یہ مطلب نہیں تھا کہ ہم چونکہ تیری تسبیح و تقدیس کرتے رہتے ہیں۔ لہٰذا خلافت کے اصل حقدار تو ہم تھے۔ نہ کہ آدم جو ایسے اور ایسے کام کرے گا۔ تسبیح و تقدیس کا فرق :۔ اس آیت میں جو تسبیح و تقدیس کے الفاظ آئے ہیں۔ تسبیح کے معنی سبحان اللہ کہنا یا سبحان اللہ کا ذکر کرنا یا اس ذات کی زبان قال یا زبان حال سے صفت بیان کرنا ہے جو ہر قسم کے عیب، نقص اور کمزوریوں سے پاک ہے۔ گویا یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی خوبیوں کو مثبت انداز میں بیان کرنے اور اس کی حمد یا تعریف بیان کرنے کے لیے آتا ہے اور تقدیس کے معنی ایسی باتوں کی نفی کرنا ہے جو اللہ تعالیٰ کے شایان شان نہیں۔ اور قدوس معنی وہ ذات ہے جو دوسروں کی شرکت کی احتیاج اور شرک جیسی دوسری نجاستوں سے پاک ہو یعنی اضداد اور انداد دونوں سے پاک ہو (مقاییس اللغۃ) تسبیح سے حمد بیان کرنا مقصود ہوتا ہے اور تقدیس سے اللہ تعالیٰ کی تنزیہ بیان کرنا۔ [٤٢] یہ اللہ تعالیٰ کا فرشتوں کو اجمالی جواب ہے۔ تفصیلی جواب آگے آ رہا ہے۔ البتہ ضمناً اس آیت سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ علم غیب فرشتوں کو بھی حاصل نہیں۔ |
البقرة |
31 |
[٤٣] خلافت کے لئے ضروری شرط :۔ انسان کو فرشتوں سے جو زائد چیز ودیعت کی گئی تھی۔ وہ تھی زمین کی اشیاء کے نام، ان کے خواص، ان خواص کا علم ہونے سے آگے نامعلوم باتوں تک پہنچنے (تحقیق یا استنباط) کی قوت و استعداد، زمین میں نظام خلافت کے قیام کے لیے یہ قوت انتہائی ضروری تھی جو فرشتوں میں نہیں تھی۔ |
البقرة |
32 |
[٤٤] اس سے معلوم ہوا کہ فرشتوں کو صرف انہی امور کا علم دیا گیا ہے جن پر وہ مدبرات امر کی حیثیت سے مامور ہیں۔ مثلاً بادلوں اور پانی کا فرشتہ، پانی کے متعلق تو جملہ معلومات رکھتا ہے مگر دوسری تمام اشیاء کے افعال و خواص سے بالکل بے خبر ہے۔ یہی حال دوسرے فرشتوں کا ہے۔ جبکہ انسان کو تمام اشیاء کا سرسری علم دیا گیا تھا۔ پھر وہ تحقیق اور جستجو کے ذریعہ اس میں ازخود اضافہ کرسکتا ہے۔ |
البقرة |
33 |
[٤٥] جب فرشتوں کو آدم کے ہمہ علمی احاطہ کا علم ہوگیا اور انہوں نے اپنے عجز علمی کا اعتراف کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو وہ بات بتا دی جو وہ نہیں جانتے تھے اور وہ یہ تھی کہ انسان میں اگر فتنہ و شر کا پہلو ہے تو صلاح و خیر کا پہلو بھی موجود ہے اور صلاح و خیر کا پہلو غالب ہے۔ اسی لیے اسے خلیفہ بنایا جا رہا ہے اور وہ اپنے علمی کمال کی وجہ سے اس کی اہلیت بھی رکھتا ہے۔
اس قصہ سے ضمناً یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ علم عبادت سے افضل ہے۔ عبادت کا تعلق صرف مخلوق سے ہے۔ جب کہ علم کا تعلق خالق و مخلوق دونوں سے اور سب سے بڑا عالم اور علیم تو خود اللہ تعالیٰ ہے۔ بلاشبہ انسان فرشتوں جیسی اور جتنی عبادت نہیں کرسکتا۔ تاہم علم کی بنا پر فرشتوں سے افضل اور مستحق خلافت قرار پایا۔ |
البقرة |
34 |
[٤٦] سجدہ تعظیمی :۔ جب فرشتوں نے آدم علیہ السلام کی فضیلت کو تسلیم کرلیا تو انہیں آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا۔ اس سجدہ کے متعلق علماء کے دو اقوال ہیں۔ ایک یہ کہ یہ سجدہ چونکہ اللہ کے حکم سے تھا لہٰذا یہ سجدہ آدم علیہ السلام کو نہیں بلکہ اللہ ہی کو سجدہ کرنے کے مترادف تھا اور اللہ ہی کے حکم کی تعمیل تھی۔ دوسرا یہ کہ یہ سجدہ تعظیمی تھا جو ہماری شریعت سے پہلے جائز تھا۔ جیسا کہ سیدنا یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے بھی سیدنا یوسف علیہ السلام کو سجدہ کیا تھا۔ یہ دونوں توجیہات درست ہیں۔ تاہم شریعت محمدی میں سجدہ تعظیمی کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔
[٤٧] ابلیس کی رقابت کی وجہ :۔ ابلیس دراصل جنوں کی جنس سے تھا (١٨ : ٥٠) اور اپنی عبادت گزاری کی کثرت کی بنا پر فرشتوں میں گھلا ملا رہتا تھا۔ جب فتنہ و فساد کی بنا پر فرشتوں نے جنوں کو سمندروں کی طرف مار بھگایا تو اس وقت بھی یہ فرشتوں میں ہی شامل تھا، اور جن بھی چونکہ مکلف مخلوق ہیں اور قوت اختیار و ارادہ رکھتے ہیں۔ لہٰذا جنوں کے بعد ابلیس خود خلافت ارضی کی آس لگائے بیٹھا تھا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو خلیفہ بنا دیا تو یہ اندر ہی اندر جلتا بھنتا رہا اور جب فرشتوں کو حکم سجدہ ہوا تو اس کے اندرونی حسد و کینہ نے جوش مارا اور سجدہ کرنے سے انکار کردیا اور اکڑ گیا اور آدم پر اپنی فضیلت کا برملا اظہار شروع کردیا (٧ : ١٢) اس وجہ سے راندہ درگاہ الٰہی اور کافر قرار پایا۔ گویا اس کا جرم صرف یہی نہ تھا کہ اس نے سجدہ نہیں کیا بلکہ اس سے زیادہ جرم یہ تھا کہ تکبر کی بنا پر حکم الٰہی کے مقابلہ میں اپنی برتری بیان کرنا شروع کردی۔ |
البقرة |
35 |
[٤٨] آدم علیہ السلام اور نظریہ ارتقاء :۔ واضح رہے کہ آدم علیہ السلام سلسلہ ارتقاء کی کڑی نہیں جیسا کہ آج کل ڈارون کا نظریہ ارتقاء کالجوں وغیرہ میں پڑھایا جاتا ہے کہ انسان بندر کی اولاد یا اس کا چچیرا بھائی ہے۔ جب کہ آدم علیہ السلام کا پتلا اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے بنایا (٣٨ : ٧٥) پھر اس میں اپنی روح میں سے پھونکا (١٥ : ١٩، ٣٨ : ٧٢) اسی نفخ روح سے انسان میں فہم، قوت ارادہ و اختیار و تمیز و استنباط پیدا ہوئی، جو دوسری کسی مخلوق میں نہیں پائی جاتی۔
[٤٩] حوا کی پیدائش پر ایک اعتراض اور اس کا جواب :۔ سیدہ حوا جنہیں سیدنا آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا کیا گیا۔ بعض’’مساوات مرد و زن‘‘ کو شریعت سے ثابت کر دکھانے والے حضرات یہ کہتے ہیں کہ سیدہ حوا کو بھی اسی مٹی یا مادہ سے پیدا کیا گیا جس سے سیدنا آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ ﴿خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا﴾میں ھَا کی ضمیر مؤنث ہے۔ اگر حوا آدم علیہ السلام سے پیدا ہوتی تو ضمیر مذکر ہونی چاہئے تھی۔ یہ دلیل دو لحاظ سے غلط ہے۔ ایک اس لیے ''ھا'' کی ضمیر (نَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ) کی طرف ہے جو مونث ہے اور دوسرے اس لحاظ سے کہ احادیث صریحہ میں موجود ہے کہ سیدہ حوا کو پسلی سے پیدا کیا گیا۔ لہٰذا اسے سیدھا کرنے کی کوشش نہ کرو ورنہ توڑ دو گے۔ پس اس سے حسن سلوک سے پیش آؤ۔ (بخاری۔ کتاب الانبیاء باب خلق آدم و ذریتہ و قول اللّٰہ تعالیٰوَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰیِٕکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ) [٥٠] جنت ارضی یا سماوی ؟ یہ بحث بھی جاری ہے کہ یہ جنت ارضی تھی یا سماوی، بعض لوگ اسے ارضی سمجھتے اور اس کا مقام عدن یا فلسطین قرار دیتے ہیں۔ مگر ہمارے خیال میں یہ الجنہ وہی ہے جو مسلمانوں میں معروف ہے اور وہ اہل سنت کے عقیدہ کے مطابق پیدا کی جا چکی ہے۔ اس جنت میں آدم علیہ السلام و حوا کو آباد ہونے کا حکم دیا گیا تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ ان کا اصل ٹھکانہ یہی ہے۔ تاہم یہاں آباد کرنے سے اس بات کا امتحان بھی مقصود تھا کہ آدم علیہ السلام (اور اسی طرح اس کی اولاد) شیطانی ترغیبات کے مقابلہ میں اللہ کی کس قدر اطاعت کرتے ہیں؟ [٥١] اس آزمائش کے لیے جنت سے ایک درخت کا انتخاب کیا گیا کہ اس درخت کے پاس نہ پھٹکنا۔ اس کے علاوہ تم جنت کے تمام درختوں کے پھل کھا سکتے ہو۔ یہ شجرہ ممنوعہ گندم کا تھا، یا انگور کا یا کسی اور چیز کا ؟ یہ بحث لاحاصل ہے اور پیش نظر مقصد کے لحاظ سے یہ بتانے کی ضرورت بھی نہ تھی۔ [٥٢] ظلم کا لغوی مفہوم :۔ ظلم کا لغوی معنیٰ کسی چیز کو ناجائز طریقہ سے اس کے اصل مقام سے ہٹا کر دوسری جگہ رکھنا ہے اور یہ لفظ بہت وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یعنی ہر ناانصافی کی بات خواہ وہ حقوق اللہ سے تعلق رکھتی ہو یا حقوق العباد سے، ظلم ہے، بالفاظ دیگر ہر گناہ پر ظلم کے لفظ کا اور گنہگار پر ظالم کے لفظ کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ اس آیت میں ظلم سے مراد اللہ رب العزت کی نافرمانی بھی ہے اور اپنے نفس پر زیادتی بھی جس کی وجہ سے جنت سے نکلنا پڑا۔ |
البقرة |
36 |
[٥٣] شیطان کی حقیقت :۔ یہ شیطان دراصل ابلیس ہی تھا جو جنوں کی جنس سے تھا اور آگ سے پیدا ہوا تھا۔ شیطان کی حقیقت یوں سمجھئے کہ فرشتے نور سے پیدا کیے گئے ہیں اور جن آگ سے یا نار سے۔ اور نور اور نار دونوں کا مادہ ایک ہی ہے، یعنی نور اور روشنی نور میں بھی ہوتی ہے اور نار میں بھی۔ فرق صرف یہ ہے کہ اگر حدت اور تمازت (گرمی کی شدت) کم ہو یا ندارد ہو اور روشنی کا عنصر ہی غالب ہو تو یہ نور ہے اور روشنی کا عنصر کم اور حدت و تمازت کا عنصر غالب ہو تو یہ نار ہے۔ اب جنوں کی ایک قدر مشترک تو فرشتوں سے ملتی ہے یعنی وہ اپنی شکلیں بدل سکتے ہیں اور اسی بنا پر ابلیس فرشتوں میں شامل ہوجاتا تھا، اور ایک قدر مشترک انسانوں سے ملتی ہے یعنی جن اور انسان دونوں مکلف مخلوق ہیں (٥١: ٥٦) اور صاحب اختیار و ارادہ ہیں۔ اسی بنا پر ابلیس نے تو سجدہ سے انکار کردیا تھا۔ لیکن فرشتوں میں سے کوئی ایسا کر ہی نہیں سکتا تھا۔ اب جنوں یا انسانوں میں سے جو کوئی اس قوت اختیار و ارادہ کا غلط استعمال کر کے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور سرکشی پر اتر آئے وہ شیطان ہے۔ گویا شیطان جن بھی ہوتے ہیں اور انسان بھی۔ پھر شیطان کا لفظ ہر بد روح، خبیث اور موذی چیز پر بھی استعمال ہونے لگا۔ سانپ کو اسی وجہ سے جان (١٠: ٢٧) بھی کہا جاتا ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ جو شیطان جنوں سے ہوگا۔ وہ دوسروں کو بدراہ اور گمراہ کرنے کے لحاظ سے انسانی شیطان سے زیادہ وسائل رکھتا ہے۔ جن شیطان اپنی شکلیں بدل کر اندر داخل ہو کر اور وسوسہ ڈال کر بھی دوسروں کو گمراہ کرسکتا ہے۔ جب کہ انسانی شیطان ان باتوں پر قادر نہیں ہوتا۔
فرشتوں کی مختلف اقسام اور ان کی ذمہ داریاں :۔ فرشتوں اور جنوں کی بہت سی اقسام اور صفات قرآن اور احادیث صحیحہ میں مذکور ہیں۔ فرشتوں کی پہلی قسم مقربین فرشتے ہیں۔ جن میں سے کچھ فرشتے عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور وہ چار ہیں۔ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ لوگوں کا حساب لینے کے لیے نزول اجلال فرمائیں گے تو اس وقت وہ فرشتے آٹھ ہوں گے۔ پھر کچھ فرشتے ایسے ہیں جو ہر وقت اللہ تعالیٰ کے عرش کے گرد گھیرا ڈالے رہتے ہیں۔ انہیں مقربین میں سے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو بہت سے فرشتوں کے سردار ہیں۔ مثلاً فرشتوں کی ایک قسم رسولوں یا پیغامبروں کی ہے۔ ان کے سردار جبریل ہیں۔ جن کی بہت سی صفات قرآن میں مذکور ہیں۔ وہ بڑے زور آور اور امین ہیں۔ ان کا نام روح، روح الامین اور روح القدس بھی ہے انبیاء علیہم السلام کے دلوں پر یہی جبریل اللہ کا کلام لے کر نازل ہوتے رہے ہیں۔ دوسرے سردار میکائیل یا میکال ہیں جو بادلوں، بارشوں اور برق ورعد وغیرہ پر مامور ہیں۔ تیسرے سردار عزرائیل ہیں جن کا دوسرا نام عزازیل بھی ہے، اور قرآن میں انہیں ملک الموت بھی کہا گیا ہے۔ یہ بھی جان نکالنے والے فرشتوں کی پوری جمعیت کے سردار ہیں کیونکہ کسی شخص کی جان نکالنے کے لیے ایک نہیں بلکہ کئی فرشتے آتے ہیں۔ ان میں ایک سردار اسرافیل ہیں جو قیامت کو ہونے والے واقعات اور نفخہ صور اول اور نفخہ صور ثانی اور بعض کے نزدیک نفخہ صور ثالث پر مامور ہیں۔ ان سب فرشتوں کو ملاء اعلیٰ بھی کہتے ہیں۔ پھر ان کے بعد سات آسمانوں کے اندر لاتعداد فرشتوں کی جمعیت موجود ہے جو آسمانوں یا کائنات یا اجرام فلکی کے انتظام و انصرام پر مامور ہیں۔ جب اللہ کی طرف سے کوئی حکم نازل ہوتا ہے تو ان میں ایک کھلبلی سی مچ جاتی ہے اور گھبراہٹ اور ہیبت طاری ہوجاتی ہے اور وہ گھبراہٹ اس وقت دور ہوتی ہے۔ جب اللہ کا حکم متعلقہ آسمان تک پہنچ جاتا ہے اور نیچے والے فرشتے اوپر والوں سے پوچھتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے کون سا حکم نازل ہوا تھا ؟ انہیں جواب دیا جاتا ہے کہ حکم جو بھی ہے ٹھوس حقائق پر مبنی ہے اور پھر وہ اس کی بجا آوری پر مستعد ہوجاتے ہیں۔ پھر کچھ ایسے فرشتے ہیں جو ہر وقت اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تہلیل اور تقدیس میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کے بعد وہ فرشتے ہیں جو آسمان دنیا کے نیچے اور ہماری زمین کے قریب رہتے ہیں۔ ان میں وہ فرشتے بھی شامل ہیں جو ہر انسان کی حفاظت کے لیے اللہ نے مامور کئے ہیں۔ وہ بھی ہیں جو انسانوں کے اعمال نامے لکھنے والے ہیں۔ وہ بھی ہیں جو اللہ کے بندوں کی بروقت مدد کو پہنچتے ہیں، وہ بھی ہیں جو اللہ کی راہ میں چلنے والوں مثلاً جہاد یا طلب علم کی خاطر سفر کرنے کے راستہ میں اپنے پر بچھاتے ہیں۔ ایسے فرشتوں کو ملائک ارضیہ بھی کہا جاتا ہے پھر کچھ فرشتے جنت کو سجانے اور اس کے انتظام و انصرام میں مصروف ہیں اور کچھ جہنم پر مامور ہیں۔ ان کی تعداد انیس ہے یعنی جہنم میں انیس قسم کے عذاب ہوں گے۔ جن کا انتظام ایک ایک فرشتہ کے سپرد ہے۔ ان انیس فرشتوں کے سردار کا نام مالک ہے اور اس جہنم کے عذاب پر پورے عملے یا محکمے کا نام زبانیہ ہے۔ صفات کے لحاظ سے فرشتوں کی اقسام :۔ صفات کے لحاظ سے بھی فرشتوں کی کئی اقسام ہیں۔ کچھ فرشتے دو پروں والے ہیں کچھ تین والے، کچھ چار والے۔ حتیٰ کہ جبریل امین کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اصلی شکل میں دیکھا تو ان کے چھ سو پر تھے، اور یہ تو ہم بتا چکے ہیں کہ فرشتوں کی پیدائش نور سے ہوئی ہے جو نہایت لطیف چیز ہے۔ سب سے لطیف تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ پھر حاملین عرش اور گھیرا ڈالنے والے اور مقربین فرشتے ہیں۔ پھر ان کے بعد آسمانوں کے فرشتے، پھر ان کے بعد ملکوت ارضیہ کی باری آتی ہے۔ گویا نور اور اس کی لطافت کے بھی کئی درجے ہیں۔ ملکوت ارضیہ نسبتاً کم لطیف ہوتے ہیں۔ تاہم ان سب فرشتوں میں چند صفات مشترک پائی جاتی ہیں۔ مثلاً سب فرشتوں کی تخلیق نور سے ہوئی ہے۔ سب فرشتے اللہ کے فرمانبردار اور عبادت گزار ہیں اور ان کی یہ عبادت اضطراری ہے اختیاری نہیں۔ یعنی وہ اللہ کی نافرمانی کر ہی نہیں سکتے کیونکہ ان میں شر کا مادہ موجود ہی نہیں ہے۔ نیز یہ سب فرشتے غیر مرئی ہیں انسانوں کو نظر نہیں آ سکتے اور یہ سب فرشتے اپنی شکلیں بدل سکتے اور ہر مقام پر پہنچ سکتے ہیں۔ جنوں کی اقسام اور صفات :۔ جنوں کا قصہ یہ ہے کہ ان کی پیدائش نور کے بجائے ناریا آگ سے ہوئی ہے۔ جو نور سے بہرحال کم تر لطیف چیز ہے۔ پھر لطافت اور صفات کے لحاظ سے ان کی بھی کئی اقسام ہیں۔ کچھ ایسے جن ہیں جو آدمیوں کی بستیوں میں رہتے ہیں۔ انہیں عامر کہتے ہیں۔ انہیں میں سے ایک قسم ہے جو ہر انسان کے ساتھ لگی رہتی اور اسے برے کاموں پر اکساتی اور وسوسے ڈالتی رہتی ہے۔ اسے ہماری زبان میں ہمزاد کہتے ہیں۔ اس قسم کو شیطان کہتے ہیں۔ جس کے متعلق نبی نے فرمایا ہے کہ شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔ پھر کچھ ایسے جن ہیں جو لڑکوں بالوں کو ستاتے ہیں۔ ان کو اہل عرب ارواح کہتے ہیں اور ہم بھوت پریت یا آسیب کہتے ہیں اور جو جنگل میں آواز دیتے اور چیختے چلاتے ہیں ان کو ہاتف کہتے ہیں اور جو مسافروں کو بھولی ہوئی راہ بتا دیتے ہیں ان کو رجال الغیب کہتے ہیں اور کبھی جنگل میں مشعل سی دکھائی دیتی ہے ان کو شہابہ کہتے ہیں۔ جن بھی انسان کی طرح مکلف مخلوق ہے یعنی ان کی فطرت میں خیر و شر دونوں چیزیں موجود ہیں۔ ان میں کچھ جن صالح اور ایماندار ہیں اور اکثر شریر اور بدکردار ہیں۔ ان کو شیطان کہتے ہیں اور جو بہت زیادہ سرکش ہوں ان کو مارد کہتے ہیں اور جسامت کے لحاظ سے جو بہت عظیم الجثہ اور طاقتور ہوں انہیں عفریت کہتے ہیں۔ جنوں میں لطیف تر وہ جن ہیں جن کی رسائی آسمانی دنیا تک بھی ہو سکتی ہے اور کثیف وہ ہیں جو زمین پر ہی رہتے ہیں۔ بعض لوگوں کے خیال کے مطابق ابلیس ایک صالح اور عبادت گزار جن تھا جو ملائکہ ارضیہ کے ساتھ گھلا ملا رہتا تھا۔ جب فرشتوں کو سجدہ کا حکم دیا گیا تو آدم علیہ السلام سے رقابت کی بنا پر اس کے شر کی رگ بھڑک اٹھی تھی۔ اس کی انا نے گوارا نہ کیا۔ کہ ایک ارضی مخلوق کی برتری تسلیم کرے، اور یہی انا اور تکبر اسے لے ڈوبا، اور چونکہ جنوں میں بھی توالدو تناسل کا سلسلہ جاری ہے۔ لہٰذا ابلیس کی اور پھر اس کی اولاد کی پہلے دن سے آدم علیہ السلام اور اس کی اولاد سے ٹھن گئی، اور چونکہ اس سجدہ آدم کے مقابلہ میں ابلیس نے ایک صالح جن کا کردار ادا نہیں کیا تھا بلکہ شیطان جن کا کیا تھا۔ لہٰذا قرآن میں ابلیس کو ہی کئی مقامات پر شیطان کہا گیا ہے۔ فرشتوں کے وجود کے منکرین اور ان کی تاویلات :۔ فرشتوں اور ابلیس کے متعلق ہمیں یہ لمبی چوڑی تفصیل اس لیے دینا پڑی کہ یہ قصہ آدم و ابلیس کے اہم کردار ہیں۔ نیز اس لیے بھی فرشتوں کے وجود پر ایمان لانا ازروئے قرآن نہایت ضروری اور ایمان بالغیب کا ایک حصہ ہے۔ لیکن ان تمام تر قرآنی تصریحات کے علی الرغم مسلمانوں میں سے ہی کچھ لوگ فرشتوں کے خارجی وجود اور ذاتی تشخص کے قائل نہیں۔ ہمارے ملک میں اس طبقہ کے سرخیل سر سید احمد خان ہیں۔ جن کا کچھ ذکر سورۃ فاتحہ کے آخر حاشیہ میں گزر چکا ہے۔ سرسید کی مغربی افکار سے مرعوبیت :۔ وہ مغربی افکار و نظریات سے سخت مرعوب تھے۔ انہوں نے معجزات اور خرق عادت امور کا ہی انکار نہیں کیا بلکہ فرشتوں اور جنوں کے بارے میں بھی کئی قسم کی تاویلات کر کے ان کا انکار کردیا اور جب علماء کی طرف سے شدید گرفت ہوئی تو اپنی ایک تقریر میں فرمایا کہ ’’صاحبو! میرا عقیدہ بھی وہی ہے جو سلف کا ہے۔ مگر اس وقت اسلام پر علوم جدیدہ سے وہ مصیبت برپا ہے جو بنی عباس کے دور میں یونانی فلسفہ سے برپا تھی۔ جس طرح اس وقت کے علماء نے ان کے جواب دینے کے لیے علم کلام بنایا۔ میں نے ان اعتراضات کے رفع کرنے کے لیے کلام جدید کی بنیاد ڈالی اور موجودہ دور کی مصیبت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ کیونکہ پہلے تو علماء حجروں میں بیٹھ کر خیالی دلائل بنا کر ہی رفع کردیتے تھے اور اب تو مخالفین دور بینوں وغیرہ آلات کے ذریعہ سے مشاہدہ کرا دیتے ہیں۔'' آپ کے اس اقتباس سے واضح طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ مغربی افکار سے کس قدر مرعوب تھے نیز یہ کہ آپ نے اسلام کا حلیہ بگاڑنے کی جو ٹھان رکھی تھی اس کے اصل محرکات کیا تھے؟ پھر آپ کی دلیل پر بھی غور فرمائیے دوربینوں سے صرف محسوسات اور مادی اشیاء کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے جبکہ فرشتے اور جن دونوں محسوسات کے دائرہ سے خارج ہیں۔ بلکہ بلا خوف و تردید ہم دعویٰ سے کہہ سکتے ہیں کہ اسلام نے کوئی بھی ایسا نظریہ پیش نہیں کیا جس کا سائنسی آلات یا علوم جدیدہ سے ابطال کیا جا سکے۔‘‘ بہرحال آپ نے فرشتوں اور جنوں سے متعلق جو انہونی تاویلات پیش فرمائیں ان کی تفصیل کا یہ موقعہ نہیں اور میں یہ تاویلات تفصیل کے ساتھ اپنی تصنیف آئینہ پرویزیت میں پیش کرچکا ہوں۔ البتہ فرشتوں سے متعلق ان تاویلات کا جائزہ لینا چاہتا ہوں جو ان کے ہونہار جانشین پرویز صاحب نے اپنی تصنیف قصہ آدم و ابلیس میں پیش کی ہیں پرویز صاحب مختلف مقامات پر فرشتوں سے مختلف تاویلات یا مرادیں پیش فرما دیتے ہیں جو کچھ اس طرح ہیں : ملائکہ سے مرادخارجی قوائے فطرت : ١۔ ملائکہ سے مراد و مفہوم وہ قوتیں ہیں جو کائنات کی عظیم القدر مشینری کو چلانے کے لیے مامور ہیں یعنی قوائے فطرت اس لیے قانون خداوندی کی زنجیر کے ساتھ جکڑی ہوئی ہیں کہ ان سے انسان کام لے سکے۔ اسی لیے قصہ آدم میں کہا گیا ہے کہ ملائکہ نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کردیا۔ مطلب یہ کہ فطرت کی قوتیں انسان کے تابع فرمان بنا دی گئی ہیں۔ (ابلیس و آدم ١٤٤) اب سوال یہ ہے کہ اگر ملائکہ سے مراد فطرت کی قوتیں لیا جائے تو یہ فطرت کی قوتیں ہرگز انسان کے تابع فرمان نہیں ہیں۔ طوفان بادو باراں سے سینکڑوں انسان مر جاتے ہیں۔ مکانات منہدم ہوجاتے ہیں۔ چھتیں اڑ جاتی ہیں۔ آفات ارضی و سماوی سے تیار شدہ فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ کیا انسان کا ان فطرت کی قوتوں پر اس وقت کوئی بس چلتا ہے؟ پھر انسان ایسے ''ملائکہ'' کا مسجود کیسے ہوا ؟ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ ان کائنات کی قوتوں کا تو کوئی دہریہ بھی منکر نہیں ہوتا۔ پھر ایسے ''ملائکہ'' پر ایمان بالغیب لانے کا کیا مطلب ہوا ؟ قرآن پاک میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے عرش کو آٹھ فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے (٦٩: ١٧) اب اس کی تشریح پرویز صاحب کی زبان سے سنئے : ٢۔ حاملین عرش ملائکۃ کی وضاحت :۔ ”عرش وہ مرکز حکومت خداوندی ہے۔ جہاں کائنات کی تدبیر امور ہوتی ہے اور چونکہ یہ تدبیر امور ملائکہ کی وساطت سے سر انجام پاتی ہے۔ اس لیے ملائکہ، عرش الٰہی کے اٹھانے والے اور کمر بستہ اس کے گرد گھومنے والے ہیں۔'' (ایضاً ص ١٤٧) اب دیکھئے اس تشریح میں پرویز صاحب نے قرآن کریم کے دو مختلف مقامات کی آیات کو گڈ مڈ کر کے پیش کردیا ہے۔ آٹھ فرشتوں کے عرش الٰہی کو اٹھانے کا ذکر سورۃ الحاقہ (٦٩) کی ساتویں آیت میں ہے اور گھومنے والے فرشتوں کا ذکر سورۃ زمر (٣٩) کی آخری آیت نمبر ٧٥ میں ہے اور یہ گھومنے والے حافین کا ترجمہ کیا گیا ہے، جو ویسے بھی غلط ہے اس کا صحیح ترجمہ گھیرا ڈالے ہوئے ہے نہ کہ گھومنے والے۔ علاوہ ازیں گھیرا ڈالنا یا گھومنا الگ عمل ہے اور عرش کو اٹھانا الگ عمل ہے، جو عرش کو اٹھائے ہوں وہ گھوم نہیں سکتے اور جو گھوم رہے ہوں گے وہ اٹھانے والے نہیں ہوں گے، جو کچھ بھی ہو ان دونوں آیات سے فرشتوں کا خارجی وجود اور ذاتی تشخص دونوں باتیں ثابت ہو رہی ہیں جو آپ کے پہلے نظریہ ”قوائے فطرت “ کے برعکس ہیں۔ ٣۔ ”لہٰذا یہ ملائکہ ہماری اپنی داخلی قوتیں ہیں۔ یعنی ہمارے اعمال کے اثرات جو ہماری ذات پر مرتب ہوتے رہتے ہیں اور جب انسانی اعمال کے نتائج محسوس شکل میں سامنے آتے ہیں قرآن اسے قیامت سے تعبیر کرتا ہے۔ (ایضا ص ١٦٢) ملائکہ سے مراد داخلی قوتیں :۔ اب دیکھئے اس مختصر سے اقتباس میں پرویز صاحب نے بہت سے پیچیدہ مسائل کو حل فرما دیا۔ مثلاً : ١۔ ہماری داخلی قوتیں، قوت باصرہ، لامسہ، ذائقہ، سامعہ، دافعہ، حافظہ وغیرہ یا کچھ بھی ہیں۔ اگر یہی قوتیں ملائکہ ہیں تو پھر ان پر ایمان بالغیب لانے کا قرآنی مطالبہ ہی غلط قرار پاتا ہے۔ اس لئے کہ ان داخلی قوتوں کو تو کافر اور دہریئے بھی تسلیم کرتے ہیں۔ ٢۔ آپ کی پہلی تعریف کے مطابق ملائکہ سے مراد خارجی قوتیں تھا۔ اب اس تعریف کے لحاظ سے ملائکہ سے مراد انسان کی داخلی قوتیں بن گیا۔ ٣۔ اب ان داخلی قوتوں سے بھی مراد یہ ہے کہ ’’ہمارے اعمال کے اثرات جو ہماری ذات پر مرتب ہوتے رہتے ہیں۔ گویا ملائکہ کی تیسری تعریف ‘‘ہماری ذات پر مرتب ہونے والے اثرات ہیں۔ ٤۔ قیامت کا مفہوم آپ نے یہ بتایا کہ جب انسانی اعمال کے نتائج محسوس شکل میں سامنے آ جائیں تو قرآن اسے قیامت سے تعبیر کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک کسان اگر بیج بوتا ہے تو جب اس سے کونپل نکل آئے یا زیادہ سے زیادہ فصل پک کر تیار ہوجائے اور اس کے عمل کا نتیجہ محسوس شکل میں سامنے آ گیا تو گویا قرآن کی رو سے اس کی قیامت آ گئی۔ اس تصریح سے آپ کے قیامت پر ایمان لانے کے تصور پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ ’’ان مقامات سے ظاہر ہے کہ جو طبعی تغیرات انسان کے جسم میں رونما ہوتے ہیں اور جن کا آخری نتیجہ انسان کی طبعی موت ہوتی ہے۔ انہیں بھی ملائکہ کی قوتوں سے تعبیر کیا گیا ہے۔‘‘ (ایضاً ص ١٥٩) ملائکہ سے مراد طبعی تغیرات :۔ اب دیکھئے یہ طبعی تغیرات دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جو کسی عمل کے نتیجہ کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ مثلاً پانی پینے سے پیاس بجھ جاتی ہے۔ کھانا کھانے سے بھوک مٹ جاتی ہے۔ سیر اور ورزش سے جسم مضبوط اور صحت بحال رہتی ہے۔ دوسرے طبعی تغیرات وہ جن میں انسان کے عمل کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔ جیسے اس کا بچہ سے جوان ہونا، پھر بوڑھا ہونا، پھر مر جانا۔ یہ سب امور ایسے ہیں جن کا ایمان بالغیب سے کوئی تعلق نہیں، کیونکہ طبعی ہیں، اور واقع ہو کر رہیں گے پھر ان طبعی تغیرات کو ملائکہ سے تعبیر کرنا کیسے درست ہوسکتا ہے۔ ان طبعی تغیرات کو تو دہریے بھی تسلیم کرتے ہیں۔ پھر ایسے ملائکہ پر ایمان بالغیب لانے کا کیا مطلب؟ ٤۔ ان مقامات (یعنی بدر کے موقعہ پر تین ہزار ملائکہ کا نزول یا ایسی ہی دوسری آیات) پر غور کیجئے۔'' ملائکہ کی مدد'' کے متعلق بتایا گیا ہے کہ اس سے جماعت مومنین کے دلوں کو تسکین ملی تھی اور ان کے عزائم پختہ ہوگئے تھے۔ دوسری طرف دشمنوں کے دل خوف زدہ ہوگئے تھے اور ان کے حوصلے چھوٹ گئے۔ اس سے ظاہر ہے کہ ان مقامات میں ملائکہ سے مراد وہ نفسیاتی محرکات ہیں جو انسانی قلوب میں اثرات مرتب کرتے ہیں۔ (ایضاً ص ١٥٥) ملائکہ سے مراد نفسیاتی محرکات :۔ اب دیکھئے اس اقتباس میں بھی پرویز صاحب نفسیاتی محرکات کو داخلی قسم کی کوئی شے قرار دے کر فریب دینے کی کوشش فرما رہے ہیں۔ جب معاملہ داخلی قسم کا ہو تو اللہ تعالیٰ اسے اسی انداز میں پیش فرماتے ہیں۔ جیسے مومنوں کے لیے فرمایا آیت ﴿فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہُ عَلَیْہِ﴾(۴۰:۹) اور کافروں کے لیے فرمایا: ﴿وَقَذَفَ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الرُّعْبَ﴾(۲:۵۹) لیکن یہ میدان بدر کا معاملہ داخلی قسم کا نہیں ہے۔ بلکہ یہ خارجی امداد یا محرکات تھے۔ جیسے اگر ایک انسان دوسرے کو گالی دے تو وہ سیخ پا ہوجاتا ہے یا کوئی دوسرے کا خوف رفع کر دے تو وہ مطمئن بھی ہوجاتا ہے اور اس مصیبت کو رفع کرنے کا مشکور بھی ہوتا ہے۔ یہی صورت حال بدر میں پیش آئی تھی۔ اب اگر اس سے وہی مطلب لیا جائے جو پرویز صاحب فرما رہے ہیں۔ تو تین سو تیرہ مجاہدین کے لیے پانچ ہزار ملائکہ کی مدد کی کیا صورت بن سکتی ہے؟ ”اگر ایک طرف ملائکہ ایمان و استقامت کی بنا پر اللہ کی رحمتوں کی نور افشانی کرتے ہیں تو دوسری طرف کفر و سرکشی کے لیے عذاب خداوندی کے حامل بھی ہوتے ہیں ”عذاب خداوندی“سے مفہوم یہ ہے۔ غلط قوموں کی پرورش کے تباہ کن نتائج۔ لہٰذا اس باب میں ملائکہ سے مراد وہ قوتیں ہیں جو قانون خداوندی کے مطابق انسانی اعمال کے نتائج مرتب کرنے کے لیے سرگرم عمل رہتی ہیں۔‘‘ (ایضاً ١٥٨) رحمت اور عذاب کے فرشتے : اب دیکھئے لوط علیہ السلام کے پاس فرشتے آئے اور لوط علیہ السلام کو بستی سے نکل جانے کو کہا۔ جب وہ نکل گئے تو ان فرشتوں نے قوم لوط کی بستی کو لواطت کے جرم میں الٹ مارا۔ اب اگر محض قوانین خداوندی اور علت و معلول کا سہارا لیا جائے تو ہر لوطی قوم کا یہی انجام ہونا ضروری ہے کیونکہ قوانین خداوندی میں تغیر و تبدل نہیں ہوتا۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ انگلستان میں یہی عمل قوم لوط موجود ہے اور اسے قانونی جواز کی سند بھی حاصل ہے۔ اب قوانین خداوندی کے مطابق ان قوتوں (ملائکہ) کو یقینا ًان کے اعمال کا نتیجہ وہی مرتب کرنا چاہیے تھا جیسا کہ قوم لوط کے اعمال کا مرتب ہوا۔ مگر ایسا نہیں ہو رہا۔ جس کا واضح نتیجہ یہ ہے کہ اعمال کو مرتب کرنے والی ہستی کوئی باشعور ہستی ہے جو اپنی مشیئت کے مطابق ہی نتائج مرتب کرتی ہے جو اپنے ہی بنائے قوانین کی پابند نہیں ہے اور نہ ہی ملائکہ بے جان و بے شعور قوتیں ہیں جو لگے بندھے نتائج مرتب کریں۔ وہ فرشتے جاندار اور باشعور ہستیاں ہیں اور قانون خداوندی کی نہیں بلکہ خداوند کے حکم کی اطاعت کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہی فرشتے جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا لوط علیہ السلام کے پاس آتے ہیں تو رحمت کے فرشتے ہوتے ہیں اور وہی فرشتے قوم لوط کے لیے عذاب کے فرشتے بن جاتے ہیں۔ ’’دو، تین چار پروں سے اپنی قوت کے اعتبار سے ملائکہ کے مختلف مدارج و طبقات کا ذکر مقصود ہے۔‘‘ (ایضاً ١٦٧) دو دو، تین تین،چار چار پروں والے فرشتے اور ان کی قوت اور مدارج :۔ گویا پرویز صاحب کے نزدیک جیسے کوئی بجلی کی موٹر ٢ ہارس پاور کی ہوتی ہے۔ کوئی تین ہارس پاور کی اور کوئی چار کی۔ یہی صورت حال فرشتوں کی بھی ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ قوت اور مدارج یہ دونوں عربی زبان کے لفظ ہیں اور قرآن میں انہی معروف معانی میں استعمال بھی ہوتے ہیں۔ پھر آخر فرشتوں کے لیے قوت اور درجہ کی بجائے اجنحہ (بازو، پر) کے لفظ استعمال کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ علاوہ ازیں چڑیا کے بھی دو پر ہوتے ہیں اور چیل کے بھی۔ لیکن ان دونوں کے دو دو پر ہونے کے باوجود قوت میں بڑا فرق ہے۔ اور مختلف مدارج کا معاملہ تو پرویز صاحب ہی بہتر جانتے ہیں۔ ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں کہ ہر انسان کے دو دو ہی بازو ہوتے ہیں۔ لیکن ان میں سے ہر ایک کی قوت میں فرق ہوتا ہے اور مدارج میں بھی۔ مدارج کا انحصار بازوؤں پر نہیں بلکہ تقویٰ پر ہوتا ہے۔ سو یہ ہے فرشتوں پر ایمان بالغیب، اصل مسئلہ یہ تھا کہ آیا فرشتے کوئی الگ مخلوق ہیں یا نہیں اور ان کا کوئی خارجی تشخص ہے یا نہیں؟ چونکہ یہ مسئلہ مافوق العادت (Super Natural) ہے اس لیے آپ کو ہر مقام پر تاویلات کرنا پڑیں، پرویز نے جتنی بھی ملائکہ کی تعبیریں پیش کی ہیں۔ یہ سب انسانوں حتیٰ کہ کافروں اور دہریوں میں بھی مسلم ہیں۔ لہٰذا ان کا نہ ایمان بالغیب سے کوئی تعلق ہے اور نہ قرآن کے واضح ارشادات ہیں۔ [٥٤] شیطان کی آدم کو فریب دہی :۔ مندرجہ بیان سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ شیطان (ابلیس) نے جو آدم علیہ السلام کا پہلے دن سے ہی رقیب اور دشمن بن گیا تھا۔ آدم کو گمراہ کرنے اور اللہ کی نافرمانی پر آمادہ کرنے کے لیے کیا کچھ نہ کیا ہوگا شیطان وسوسے ڈالتا رہا اور سیدنا آدم علیہ السلام بچتے ہی رہے۔ آخر ایک مدت گزرنے کے بعد شیطان نے آدم علیہ السلام کو کئی طرح کے سبز باغ دکھا کر اسے اپنے دامن تزویر میں پھانس ہی لیا۔ اس لیے آدم علیہ السلام سے کہا : ’’اللہ کی قسم! میں تمہارا خیر خواہ ہوں اور جس درخت سے تم بچ رہے ہو اسے کھاؤ گے تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت میں رہو گے اور اللہ کے مقرب بن جاؤ گے۔‘‘ سیدنا آدم علیہ السلام اس کے فریب میں آ گئے، درخت کے پھل کو کھایا تو فوراً جنتی لباس چھن گیا اور جنت کے پتوں سے اپنے بدن کو ڈھانپنے لگے اور فوراً انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ ضمناً یہ بحث بھی نکلی کہ انبیاء سے خطا سرزد ہو سکتی ہے یا نہیں؟ اس ضمن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ : ﴿فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا ﴾(۱۱۵:۲۰)آدم علیہ السلام (مدت مدید گزرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے عہد کو) بھول گئے تھے اور ہم نے اس میں (نافرمانی کا) ارادہ نہیں پایا۔ گویا معلوم ہوا کہ انبیاء سے بھول چوک لغزش یا نافرمانی ہو سکتی ہے۔ عمداً نہیں اور عصمت انبیاء کا مطلب صرف یہ ہے کہ اگر انبیاء سے کوئی غلطی یا خطا سرزد ہو تو وہ معاف کردی جاتی ہے اور اگر کوئی قابل تلافی معاملہ ہو تو بذریعہ وحی اس کی تلافی بھی کردی جاتی ہے۔ [٥٥] یعنی شیطان کے روز اول سے انسان کا دشمن ہونے کی وجہ تو واضح طور پر بیان ہوچکی ہے لہٰذا انسان اگر شیطان کو فی الواقع دشمن سمجھے گا تو تب ہی اس کی نجات کی توقع ہو سکتی ہے اور بغض و عداوت کا مقام دنیا تو ہوسکتا ہے۔ جنت نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا سب کو جنت سے نکالا اور دنیا میں چلے جانے کا حکم دے دیا گیا۔ |
البقرة |
37 |
[٥٦] وہ کلمات یہ تھے آیت ﴿ قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرحمٰنا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ﴾(۲۳:۷)آدم و حوا دونوں کہنے لگے : ’’اے ہمارے پروردگار! ہم اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے ہیں اور اگر تو ہمیں معاف نہیں کرے گا اور ہم پر رحم نہیں فرمائے گا تو ہم تو خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔‘‘
ان کلمات کا ذکر اللہ تعالیٰ نے خود ہی سورۃ اعراف کی آیت نمبر ٢٣ میں کردیا ہے۔ اس کے باوجود بعض واعظ حضرات اس آیت کی تشریح میں ایک موضوع حدیث بیان کیا کرتے ہیں یہ حدیث مرفوع بنا کر پیش کی جاتی ہے۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ : جب سیدنا آدم علیہ السلام جنت سے نکال کر دنیا میں بھیجے گئے تو ہر وقت روتے اور استغفار کرتے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ آسمان کی طرف دیکھا اور عرض کی : ’’اے باری تعالیٰ ! سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے مغفرت چاہتا ہوں۔ وحی نازل ہوئی کہ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کیسے جانتے ہو؟ عرض کیا۔ جب آپ نے مجھے پیدا کیا تھا تو میں نے عرش پر لکھا ہوا دیکھا تھا لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ تو میں سمجھ گیا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اونچی کوئی ہستی نہیں ہے۔ جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ لکھ رکھا ہے۔‘‘ وحی نازل ہوئی کہ وہ خاتم النبیین ہیں۔ تمہاری اولاد میں سے ہیں۔ وہ نہ ہوتے تو تم بھی پیدا نہ کیے جاتے۔ (ریاض السالکین ٣٠٢) اب دیکھئے اس میں مندرجہ بالا باتیں قابل غور ہیں : سیدنا آدم علیہ السلام کا وسیلہ پکڑنا :۔ ١۔ اس حدیث میں یہ ذکر کہیں نہیں آیا کہ پھر سیدنا آدم علیہ السلام کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے توبہ قبول ہوئی بھی یا نہیں؟ الٹا اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر سیدنا آدم علیہ السلام کو اور بھی مایوس کردیا کہ اگر وہ نہ ہوتے تو تم بھی نہ ہوتے، کسی سائل کو اگر ایسا جواب دیا جائے تو بتائیے اس کے دل پر کیا بیتتی ہے؟ موضوع حدیث کی عجمی ترکیب :۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے اس جواب کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کے نام پر ایک موضوع حدیث گھڑی گئی یعنی یہ حدیث قدسی ہے اور اس کا متن یوں ہے : عن ابن عباس یقول اللّٰہ وبعزتی و جلالی لو لاک ماخلقت الدنیا ترجمہ :”ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم نہ ہوتے تو میں اس دنیا کو پیدا ہی نہ کرتا“ (ریاض السالکین ص ٢٤٤) اس قدسی موضوع حدیث کا مفہوم ایک دوسری روایت میں ان الفاظ میں ہے۔ لَولاَکَ لَمَا خَلَقْتُ الاَفْلاَ کَ ترجمہ : ”اگر تم نہ ہوتے تو میں کائنات کی کوئی بھی چیز پیدا نہ کرتا۔“(ریاض السالکین ص ١٠١) ان حدیثوں کو ابن الجوزی نے موضوع قرار دیا ہے۔ دیکھئے موضوعات ابن الجوزی جلد ١ ص ٢٨٩ نیز ان احادیث کے موضوع ہونے پر ایک دلیل یہ بھی ہے کہ لولاک کی ترکیب عربی نہیں بلکہ عجمی ہے۔ عربی قواعد کے مطابق لو لا انت آنا چاہئے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین غزوہ خندق کے دوران خندق کی مٹی ڈھوتے وقت یہ شعر گنگنا رہے تھے : اللھُمَّ لَوْ لاَ اَنْتَ مَا اھْتَدَیْتَنَا (بخاری، کتاب المغازی، باب غزوہ خندق) گویا لولاک کی ترکیب ہی غلط ہے، جو اس کے موضوع ہونے پر دلیل ہے۔ ان موضوعات کا مقصد صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کی عظمت یا قدامت بیان کرنا نہیں بلکہ کچھ اور بھی مقاصد ہیں جو ان حضرات کے نزدیک بہت اہم ہیں مثلاً : ١۔ اللہ سے خواہ کتنے ہی برس رو رو کر مغفرت طلب کی جائے وہ اس وقت تک قبول نہیں ہوتی جب تک کسی کا وسیلہ نہ پکڑا جائے اور (٢) یہ وسیلہ اپنے نیک اعمال کا نہیں کسی بزرگ ہستی کا ہی ہوسکتا ہے۔ خواہ وہ ابھی تک وجود میں نہ آئی ہو یا خواہ اس دنیا میں موجود ہو یا اس دنیا سے رخصت ہوچکی ہو۔ کاش سیدنا آدم علیہ السلام کو اتنی مدت رونے سے پہلے ہی یہ باتیں معلوم ہوجاتیں۔ شیعہ حضرات نے جب موضوعات کا وسیع میدان دیکھا تو وہ ان حضرات سے بھی چار ہاتھ آگے نکل گئے۔ ان کی قدسی حدیث کا متن یوں ہے لو لاعلی ماخلقتک یعنی اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا : اگر علی نہ ہوتے تو میں تمہیں بھی پیدا نہ کرتا۔“ |
البقرة |
38 |
[٥٧] کیا نیکی اور بدی کے نتائج لازمی ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔ گناہ معاف کردیا۔ مگر جنت سے اخراج کا حکم بحال رہنے دیا، بلکہ اسے مکرر بیان فرمایا کیونکہ آدم علیہ السلام کو جنت میں رہنے کے لیے نہیں بلکہ زمین میں خلافت کے لیے پیدا کیا گیا تھا اور یہی کچھ اقتضائے مشیت الٰہی تھا۔
اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نیکی اور بدی کے نتائج لازمی نہیں جو بہرحال انسان کو بھگتنا پڑیں یہ ایک گمراہ کن نظریہ ہے۔ نیکی کی جزا اور بدی کی سزا دینا کلیتاً اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے، بھلائی پر انعام بھلائی کا طبیعی نتیجہ نہیں بلکہ اللہ کا فضل ہے۔ وہ چاہے تو دے چاہے تو نہ دے اور چاہے تو کئی گنا زیادہ دے دے۔ اسی طرح وہ چاہے تو کسی کا گناہ معاف کر دے، اور چاہے تو سزا دے دے۔ وہ حکیم بھی ہے اور عادل بھی۔ لہٰذا ان صفات کے مطابق وہ سب کچھ کرنے کا پورا اختیار رکھتا ہے۔ کفارہ مسیح کا عقیدہ :۔ اللہ تعالیٰ کا سیدنا آدم علیہ السلام کی توبہ قبول کرنے سے نصاریٰ کے اس غلط عقیدہ کی بھی تردید ہوجاتی ہے کہ آدم علیہ السلام کے اس گناہ کے داغ کو بنی نوع انسان کے دامن سے دور کرنے کے لیے خدا کو اپنا اکلوتا بیٹا بھیج کر کفارہ ادا کرنے کے لیے سولی پر چڑھانا پڑا۔ |
البقرة |
39 |
[٥٨] جنت میں دوبارہ داخلہ : ساتھ ہی یہ بھی وضاحت فرمائی کہ بنی نوع انسان کے لئے میری طرف سے ہدایت (وحی) آتی رہے گی اور جو لوگ اس کے مطابق عمل کریں گے۔ انہیں کچھ غم و اندوہ نہ ہوگا اور وہ اس جنت کے وارث ہوں گے، جہاں سے آدم و غیرہم کو نکالا گیا تھا۔ البتہ جو لوگ ہماری وحی کا انکار کریں گے اور شیطان سے دوستی رکھیں گے تو وہ دائمی طور پر دوزخ میں ڈالے جائیں گے۔ |
البقرة |
40 |
[٥٩] بنی اسرائیل سے خطاب کا آغاز :۔ یہاں سے خطاب کا رخ عوام الناس کے بجائے بنی اسرائیل کی طرف ہوگیا ہے جو چودھویں رکوع تک چلتا ہے۔ یہود مدینہ میں بکثرت آباد تھے۔ چونکہ سیدنا اسحاق علیہ السلام سے لے کر ان میں تقریباً چار ہزار نبی آچکے تھے۔ اس لیے تمام عرب پر ان کے علم و فضل کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ ان پر اللہ تعالیٰ نے بے شمار انعامات کئے تھے۔ مگر کچھ مدت گزرنے پر ان میں بہت سے عیوب پیدا ہوگئے تھے اپنے اس علمی تفوق کی بنا پر اور اس حسد کی بنا پر کہ آنے والا نبی اسحاق علیہ السلام کی اولاد سے نہیں، انہوں نے دعوت اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا۔ چنانچہ اگلی آیات میں ان کا مفصل ذکر آ رہا ہے۔
اسرائیل کا معنی عبداللہ ہے اور یہ یعقوب علیہ السلام کا لقب تھا اور بنو اسرائیل سے مراد ان کی اولاد یا یہودی قوم ہے۔ جن کے لیے تورات نازل ہوئی۔ [٦٠] بنی اسرائیل کا کتاب اللہ سے سلوک :۔ وہ عہد یہ تھا کہ تم تورات کے احکام کے پابند رہو گے اور میں جو پیغمبر بھیجوں اس پر ایمان لا کر اس کا ساتھ دو گے اور اللہ کا عہد یہ تھا کہ ملک شام تمہارے قبضہ میں رہے گا۔ بنی اسرائیل نے اس اقرار کو قبول تو کرلیا مگر بعد میں اس پر قائم نہ رہے، بدنیتی کی، رشوت لے کر غلط مسئلے بتائے، حق کو چھپایا۔ آنے والے نبیوں کی اطاعت کے بجائے ان میں سے بعض کو قتل ہی کر ڈالا اور اپنی ریاست جمائی اور تورات میں جہاں کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توصیف تھی اسے بھی بدل ڈالا۔ |
البقرة |
41 |
[٦١] عقائد، اخبار انبیاء اور احوال آخرت تمام الہامی کتابوں میں تقریباً ایک ہی جیسے ہیں۔ فرق ہوتا ہے تو صرف بعض احکام میں جو احوال و ظروف کے تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے۔ لہٰذا قرآن جب تورات کی تصدیق کر رہا ہے تو اس کے پہلے منکر تم ہی نہ بن جاؤ۔ امی اہل عرب اور تمہاری اولاد تو تمہاری ہی روش پر چلیں گے۔ اس طرح سب کے گناہ کا حصہ تم پر بھی ہوگا۔ اور حدیث میں ہے کہ :
اہل کتاب کے ایمان لانے پر دوہرا اجر :۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تین آدمیوں کے لیے دوہرا ثواب ہے ایک تو وہ اہل کتاب جو اپنے پیغمبر پر ایمان لایا، پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا۔ دوسرے وہ غلام جو اللہ کا بھی حق ادا کرے اور اپنے مالکوں کا بھی، تیسرے وہ شخص جس کے پاس ایک لونڈی ہو جس سے وہ محبت کرتا ہو اسے اچھی طرح ادب سکھائے پھر آزاد کر کے اس سے نکاح کرلے تو اس کے لیے دوہرا اجر ہے۔‘‘ عامر شعبی نے صالح سے کہا ہم نے یہ حدیث تمہیں مفت بتا دی جبکہ لوگ اس سے کم درجہ کی حدیث کے لیے مدینہ جایا کرتے تھے۔ (بخاری، کتاب العلم، باب تعلیم الرجل امتہ واھلہ) |
البقرة |
42 |
|
البقرة |
43 |
[٦٢] نماز اور زکوٰۃ، ہر زمانہ میں دین اسلام کے اہم ارکان رہے ہیں۔ لیکن یہود میں نماز باجماعت کا اہتمام نہیں تھا اور ان کی نماز میں رکوع بھی نہیں تھا۔ یہود نے نماز ادا کرنا بالکل چھوڑ ہی دیا تھا اور زکوٰۃ ادا کرنے کے بجائے سود کھانا شروع کردیا تھا۔ اس آیت میں انہیں تنبیہ کی جا رہی ہے۔ کہ اب تمام امور میں نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو۔ اس آیت اور اس سے اگلی تین آیات میں خطاب یہود اور مسلمانوں میں مشترک ہے۔ ہماری شریعت میں بھی نماز باجماعت ادا کرنا بہت فضیلت رکھتا ہے اور بلا عذر ترک جماعت کبیرہ گناہ ہے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے۔
نماز باجماعت کی فضیلت اور فوائد :۔ ١۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جماعت کی نماز اکیلے شخص کی نماز سے ستائیس گنا زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب الاذان، باب فضل صلٰوۃ الجماعۃ) ٢۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں نے ارادہ کیا کہ لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں، پھر نماز کا حکم دوں، اس کے لیے اذان کہی جائے پھر کسی شخص کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو امامت کرائے پھر میں (جماعت سے) پیچھے رہنے والوں کے ہاں جا کر ان کے گھروں کو آگ لگا دوں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اگر ان لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ انہیں (جماعت میں شامل ہونے پر) ایک موٹی ہڈی یا دو اچھے کھر ملیں گے تو عشاء کی نماز میں ضرور آتے۔ (بخاری، کتاب الاذان، باب وجوب صلٰوۃ الجماعۃ) نماز کے فضائل اور اہمیت :۔ ٣۔ سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بھلا دیکھو اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر نہر بہتی ہو اور وہ اس میں ہر روز پانچ مرتبہ نہائے تو کیا اس کے بدن پر کچھ میل کچیل رہ جائے گا ؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا نہیں کچھ میل کچیل باقی نہیں رہے گا۔ آپ نے فرمایا : بس یہی پانچ نمازوں کی مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ ان نمازوں کی وجہ سے گناہ معاف کردیتا ہے۔ (متفق علیہ) ٤۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ہر نماز اپنے سے پہلی نماز تک کے، جمعہ اپنے سے پہلے جمعہ تک کے اور رمضان اپنے سے پہلے رمضان تک کے گناہوں کا کفارہ ہیں۔ بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے پرہیز کیا جائے۔ (مسلم، کتاب الطہارۃ، باب فضل الوضوء والصلٰوۃ عقبہ) ٥۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ''جس نے نماز کی حفاظت کی اس کے لیے نماز قیامت کے دن نور، برہان اور نجات کا باعث ہوگی اور جس نے نماز کی حفاظت نہ کی اس کے لیے اس دن نہ نور ہوگا، نہ برہان اور نہ نجات اور قیامت کے دن وہ قارون، فرعون، ہامان، اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔ (احمد، دارمی، بیہقی، بحوالہ مشکوٰۃ مطبوعہ نور محمد ص ٥٨) ٦۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا : میں نے حد کا ایک گناہ کیا ہے۔ مجھے حد لگائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کچھ نہیں پوچھا۔ اتنے میں نماز کا وقت آ گیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ وہ شخص پھر کھڑا ہو کر کہنے لگا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے ایک حدی گناہ کیا ہے۔ آپ کتاب اللہ کے مطابق مجھے سزا دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تو نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی؟ وہ کہنے لگا : ہاں پڑھی ہے۔ آپ نے فرمایا : ’’تو بس اللہ نے تیرا گناہ اور تیری سزا کو معاف کردیا۔‘‘ (بخاری، کتاب المحاربین باب إذا أقربالحد) |
البقرة |
44 |
[٦٣] بعض یہودی علماء اپنے عزیزوں کو جو مسلمان ہوگئے تھے۔ کہتے تھے کہ اسی دین (اسلام) پر قائم رہو کیونکہ یہ دین برحق ہے۔ مگر بعض دنیوی مفادات کی بنا پر خود مسلمان نہیں ہوتے تھے۔ تب یہ آیت نازل ہوئی اور یہ حکم سب کے لیے عام ہے۔ |
البقرة |
45 |
[٦٤] پریشانیوں اور مصائب کا علاج :۔ مصیبت اور پریشانی کی حالت میں صبر اور نماز کو اپنا شعار بنانے کا حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کی یاد میں جس قدر طبیعت مصروف ہو اسی قدر دوسری پریشانیاں خود بخود کم ہوجاتی ہیں۔ بعض لوگوں نے یہاں صبر سے روزہ بھی مراد لیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی پریشانی لاحق ہوتی تو خود بھی نماز میں مشغول ہوتے اور اپنے اہل بیت کو بھی اس کی دعوت دیتے تھے۔
اور صبر کسے کہتے ہیں یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنیے۔ صبر کی تعریف :۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عورت پر گزر ہوا جو ایک قبر کے پاس بیٹھی رو رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا ’’اللہ سے ڈرو اور صبر کرو۔‘‘ وہ کہنے لگی۔ ’’جاؤ اپنا کام کرو تمہیں مجھ جیسی مصیبت تو پیش نہیں آئی۔‘‘ وہ عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانتی نہ تھی۔ اسے لوگوں نے بتایا کہ وہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ چنانچہ وہ آپ کے دروازے پر حاضر ہوئی۔ وہاں کوئی دربان موجود نہ تھا۔ وہ اندر جا کر کہنے لگی۔ ’’میں نے آپ کو پہچانا نہ تھا (میں صبر کرتی ہوں)‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’صبر تو اس وقت کرنا چاہیے جب صدمہ شروع ہو۔‘‘ (بخاری کتاب الجنائز باب زیارۃ القبور) |
البقرة |
46 |
[٦٥] یعنی جو لوگ مرنے کے بعد اپنے پروردگار سے ملنے اور اس کے حضور جواب دہی کا یقین رکھتے ہیں۔ ان کے لیے نماز کی ادائیگی کبھی مشکل نہیں ہوا کرتی بلکہ اگر کوئی نماز چھوٹ جائے یا نماز میں تاخیر ہوجائے تو ان کی طبیعت گراں بار ہوجاتی ہے اور جب تک وہ نماز ادا نہ کرلیں انہیں چین نہیں آتا اور جو لوگ روز آخرت پر پورا یقین نہیں رکھتے، ان کے لیے نماز ایک مصیبت اور مفت کی بیگار ہوتی ہے۔ |
البقرة |
47 |
[٦٦] یعنی ایک وہ وقت تھا جب تمام اقوام پر بنی اسرائیل کے علم و فضیلت کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ لیکن اللہ کی اس نعمت کا ان پر الٹا اثر ہوا، بجائے اس کے کہ وہ شکر ادا کرتے اور اس کے حضور سرنگوں ہوتے اور تقویٰ اختیار کرتے وہ ازراہ تکبر یہ سمجھ بیٹھے کہ ہم چونکہ انبیاء کی اولاد ہیں۔ لہٰذا اللہ کے محبوب اور چہیتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں عذاب نہیں ہوگا اور یہ بات ان کے عقیدہ میں راسخ ہوگئی تھی۔ |
البقرة |
48 |
[٦٧] سفارش پر تکیہ کرنا نری بے وقوفی ہے :۔ ان کے اسی غلط عقیدہ کا اس آیت میں جواب دیا گیا ہے، کہ عذاب سے نجات کی جو چار صورتیں ممکن ہیں ان میں سے کوئی بھی تمہارے کام نہ آسکے گی۔ یعنی کوئی شخص دوسرے کا بوجھ اٹھانے کو تیار نہ ہوگا، نہ کسی کی سفارش کام آئے گی، نہ وہ فدیہ دے کر چھوٹ سکے گا اور نہ ہی اللہ کے مقابلہ میں وہاں اس کا کوئی حامی و مددگار ہوگا۔ لہٰذا خوب سمجھ لو کہ محض انبیاء کی اولاد ہونے کی بنا پر تم کبھی اپنی کرتوتوں کی سزا سے بچ نہ سکو گے۔
یہ درست ہے کہ قیامت کے دن انبیاء اور صلحاء گنہگاروں کے لیے سفارش کریں گے لیکن اس سفارش کی شرائط ایسی ہیں کہ سفارش پر تکیہ کرنا مشکل ہے مثلاً یہ کہ سفارش وہی کرے گا جسے اللہ تعالیٰ اجازت دے گا، اور اتنی ہی کرسکے گا جتنی اللہ تعالیٰ کی مرضی ہوگی، یا صرف اسی گناہ کے لیے سفارش کرسکے گا۔ جس کا اللہ کی طرف سے اذن ہوگا، اور صرف اسی شخص کے حق میں کرسکے گا جس کے حق میں سفارش کرنا منظور ہوگا۔ |
البقرة |
49 |
[٦٨] فرعون کی بنی اسرائیل کو تعذیب کی وجہ :۔ فرعون نے ایک خواب دیکھا تھا جس کی تعبیر اس کے نجومیوں نے یہ دی تھی کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص پیدا ہوگا جو تمہیں اور تمہاری سلطنت کو غارت کر دے گا۔ فرعون نے اس کا حل یہ سوچا کہ اپنی مملکت میں حکم دے دیا کہ بنی اسرائیل کے ہاں جو بچہ پیدا ہو اسے مار ڈالا جائے اور جو لڑکیاں پیدا ہوں انہیں اپنی لونڈیاں بنا لیا جائے۔ اپنی حکومت کو بچانے کے لیے اس کی یہ تدبیر انتہائی ظالمانہ تھی۔ مگر جو کام اللہ کو منظور تھا وہ ہو کے رہا اور فرعون کے سر پر چڑھ کر ہوا۔ موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرعون کے منہ پر جوت مارا کہ موسیٰ علیہ السلام کی پرورش بھی اس کے گھر میں ہوئی۔ آیت ﴿وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ﴾(۲۱:۱۲) |
البقرة |
50 |
[٦٩] بنی اسرائیل پر بیتنے والے تاریخی واقعات چونکہ بہت مشہور اور زبان زد خاص و عام تھے۔ لہٰذا یہاں ان کا اجمالی ذکر ہی آیا ہے۔ البتہ بعض دوسرے مقامات پر ان کی تفصیل بھی بیان کردی گئی ہے۔ انہیں میں سے ایک واقعہ بنی اسرائیل کی نجات اور فرعون کی غرقابی کا بھی ہے۔ |
البقرة |
51 |
بنی اسرائیل کی گؤ سالہ پرستی :۔ فرعون کی غرقابی کے بعد بنی اسرائیل جب جزیرہ نمائے سینا میں پہنچ گئے، تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو چالیس راتوں کے لیے کوہ طور پر طلب فرمایا تاکہ اس نئی آزاد شدہ قوم (بنی اسرائیل) کو عملی ہدایات و احکام عطا کئے جائیں۔ موسیٰ علیہ السلام کے جانے کے بعد اس قوم نے گؤ سالہ پرستی شروع کردی۔ مصر میں گؤ سالہ پرستی کا عام رواج تھا۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل انحطاط کا شکار ہوگئے اور رفتہ رفتہ قبطیوں (فرعونیوں) کے غلام بن گئے۔ انہیں کی بود و باش اپنانے میں عافیت سمجھی اور منجملہ دوسری رذیلہ امراض کے گؤ سالہ پرستی کو بھی اپنا لیا۔ فرعون سے نجات پا جانے کے بعد تاحال گؤ سالہ پرستی کے جراثیم ان سے ختم نہیں ہوئے تھے۔ |
البقرة |
52 |
|
البقرة |
53 |
|
البقرة |
54 |
[٧٠] گؤسالہ پرستوں کا قتل عام :۔ موسیٰ علیہ السلام جب کوہ طور سے تورات لے کر واپس لوٹے تو انہیں بنی اسرائیل کی اس گؤ سالہ پرستی کا علم ہوا اور اس بات سے سخت دکھ ہوا۔ قوم سے کہا کہ اب اس ظلم کی سزا یہ ہے کہ جن جن لوگوں نے بچھڑے کی پرستش کی تھی انہیں چن چن کے مار ڈالو۔ اس وقت بنی اسرائیل کے تین گروہ بن گئے تھے۔ ایک وہ جنہوں نے بچھڑے کی پرستش کی تھی۔ دوسرے وہ جو انہیں گؤسالہ پرستی سے منع کرتے تھے۔ تیسرے وہ جو غیر جانبدار رہے۔ نہ خود گؤسالہ پرستی کی اور نہ ہی کرنے والوں کو منع کیا۔ انہیں حکم یہ دیا گیا کہ منع کرنے والے بچھڑا پوجنے والوں کو قتل کریں اور جو غیر جانبدار رہے انہیں معاف کردیا گیا۔ |
البقرة |
55 |
[٧١] یہ بنی اسرائیل کے لوگ کچھ ایسے بدنہاد واقع ہوئے تھے کہ موسیٰ علیہ السلام کی زبان پر بھی اعتبار نہیں کرتے تھے۔ جب موسیٰ علیہ السلام تورات لے کر کوہ طور سے واپس لوٹے اور قوم کے سامنے کتاب پیش کی تو کہنے لگے۔ ہمیں یہ کیسے معلوم ہو کہ یہ کتاب واقعی منزل من اللہ ہے اور اللہ تعالیٰ فی الواقع آپ سے ہم کلام ہوا تھا۔ اس صورت حال سے موسیٰ علیہ السلام سخت پریشان ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں فرمایا کہ ستر آدمیوں کو بھی اپنے ساتھ طور پہاڑ پر لے آؤ۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے ستر آدمی منتخب کئے اور انہیں اپنے ہمراہ طور پر لے گئے کہ وہ خود بقائمی ہوش و حواس کلام الٰہی کو سن لیں۔ پھر جب انہوں نے کلام الٰہی سن لیا تو کہنے لگے : ’’موسیٰ پردے میں سننے کا ہمیں کچھ اعتبار نہیں اور ہم تو جب تک اللہ کو صاف صاف دیکھ نہ لیں، تمہاری بات پر اعتبار نہیں کریں گے۔‘‘
منتخب ستر آدمیوں کی موت اور دوبارہ زندگی :۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ ان کا یہ مطالبہ ناقابل عمل اور انتہائی جہالت پر مبنی تھا۔ موسیٰ علیہ السلام جب خود بھی اللہ کی تجلی کی تاب نہ لا سکے اور بے ہوش ہو کر گر گئے تھے، اور پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہوگیا تھا۔ تو بھلا یہ کس کھیت کی مولی تھے۔ ان کے اس مطالبہ پر ان پر بجلی گری شاید یہ بھی اللہ کی تجلی ہی کی کوئی صورت ہو، اور آن کی آن میں انہیں بھسم کر ڈالا۔ |
البقرة |
56 |
[٧٢] اب موسیٰ علیہ السلام کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ اکیلے واپس جا کر قوم کو کیا کہیں گے۔ چنانچہ پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور فرمایا : ’’اے اللہ! اگر تیری یہ مشیت تھی تو آج سے پہلے انہیں اور مجھے بھی ہلاک کردیا ہوتا، کیا آج تو ان نادان لوگوں کی بات پر ہمیں ہلاک کرتا ہے؟‘‘(٧ : ١٥٥) چنانچہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کی دعا قبول فرما کر انہیں ازسر نو زندہ کردیا۔ |
البقرة |
57 |
[٧٣] بنی اسرائیل کا جہاد سے انکار :۔ یہ واقعہ تفصیل سے سورۃ مائدہ میں آئے گا۔ مختصر یہ کہ موسیٰ علیہ السلام جب بنی اسرائیل کو لے کر وادی سینا میں پہنچے تو اس وقت یہ قوم لاکھوں کی تعداد میں تھی۔ موسیٰ علیہ السلام نے ملک شام پر حملہ کرنے کے لیے کہا ( یہی وہ ملک تھا جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا) تو کہنے لگے’’ موسیٰ! وہاں تو جابر قسم کے لوگ رہتے ہیں۔ لہٰذا ہم ان کے مقابلہ کی سکت نہیں رکھتے، اور اگر یہ حملہ ایسا ہی ضروری ہے تو تم اور تمہارا پروردگار دونوں جا کر ان سے جنگ کرو ہم تو یہاں ہی بیٹھتے ہیں۔‘‘ ان کا یہ جواب دراصل اس بزدلی کی وجہ سے تھا جو مدتوں فرعون کی غلامی میں رہنے کی وجہ سے ان میں پیدا ہوچکی تھی۔
جہاد سے انکار کی سزا :۔ اس جواب پر اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ملک شام کی فتح چالیس سال تک کے لئے موخر کردی۔ تاکہ اس عرصہ میں یہ بزدل نسل مر کھپ جائے اور آئندہ جو نسل اس بیابان اور آزادانہ فضا میں پیدا ہو۔ اس میں کچھ ہمت اور جرأت پیدا ہو اور جہاد کے قابل بن جائیں۔ اب سوال یہ تھا کہ اس بیابان میں نہ کوئی مکان تھے اور نہ سامان خورد و نوش اور لوگ لاکھوں کی تعداد میں تھے۔ ابر ، من و سلویٰ اور بارہ چشمے :۔ اندریں صورت اللہ تعالیٰ نے اس طویل مدت کے لیے آسمان کو ابر آلود رکھا، ورنہ یہ سارے لوگ دھوپ کی شدت سے تباہ و برباد ہوجاتے اور خوراک کا یہ انتظام فرمایا کہ کثیر تعداد میں من و سلویٰ نازل فرمایا۔ من ایک میٹھی چیز تھی جو دھنیے کے بیج جیسی تھی اور رات کو اوس کی شکل میں نازل ہوتی تھی اور سلویٰ بٹیر کی قسم کے پرندے تھے جنہیں یہ لوگ بھون کر اور کباب بنا کر کھاتے تھے اور یہ غذائیں بلامشقت انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کثیر مقدار میں اس طویل عرصہ میں ملتی رہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس قوم پر خاص انعامات تھے۔ ورنہ جو مایوس کن جواب انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو دیا تھا۔ اگر اللہ چاہتا تو اس کی پاداش میں انہیں ہلاک کردیتا اور پھر اس جزیرہ میں اس طرح زندگی بسر کرنا بھی ان کے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ہوا تھا۔ اسی جنگل میں سیدنا ہارون علیہ السلام کی وفات ہوئی۔ پھر ایک سال بعد سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی بھی وفات ہوئی تھی۔ |
البقرة |
58 |
[٧٤] پھر جب یہ تربیت کا عرصہ گزر گیا اور انہوں نے ایک بستی کو فتح کرلیا تو ہم نے انہیں ہدایت کی کہ اس شہر میں اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو کر اور منکسرانہ انداز سے داخل ہونا اور اللہ تعالیٰ سے استغفار بھی کرنا (یعنی بدنی اور قولی دونوں طرح کی عبادت کرنا اور (حِطَّۃٌ) کا ایک یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ جن لوگوں پر تم فتح پاؤ، ان میں قتل و غارت نہ شروع کرنا بلکہ انہیں معاف کردینا (جیساکہ فتح مکہ کے موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی کچھ کیا تھا) تاکہ ہم تمہاری خطائیں معاف کر کے تمہیں انعامات سے نوازیں۔ |
البقرة |
59 |
[٧٥] بنی اسرائیل کا فتح کے وقت تکبر :۔ مگر ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی ہدایات کو پس پشت ڈال کر اس کے بالکل الٹ کام کیے۔ بستی میں داخل ہوتے وقت سجدہ ریز ہونے کے بجائے اکڑتے ہوئے اور سرینوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے، اور توبہ و استغفار کرنے کے بجائے دنیوی مال و دولت کے پیچھے پڑگئے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ’’بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا کہ شہر کے دروازے میں جھک کر داخل ہونا اور زبان سے (حطۃ) (یعنی گناہوں کی بخشش مانگنا) لیکن وہ اپنی سرینوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اور (حِطَّۃٌ) کے بجائے حَبَّۃٌ فی شعرۃ (دانہ بالی کے اندر) کہنے لگے۔ (بخاری، کتاب التفسیر) اور مسلم میں حبۃ فی شعرۃ کے بجائے حنطۃ فی شعرۃ (گندم اپنی بالی کے اندر) کے الفاظ ہیں۔ (مسلم، کتاب التفسیر) طاعون کا عذاب :۔ بنی اسرائیل جب شہر پر قابض ہوئے وہاں بدکاریاں شروع کردیں جس کی سزا اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ دی کہ آسمان سے عذاب (طاعون کی وبا کی صورت میں) نازل فرمایا جس کے نتیجہ میں ایک روایت کے مطابق ستر ہزار یہود مر گئے۔ |
البقرة |
60 |
[٧٦] بارہ چشموں کا پھوٹنا :۔ یہ واقعہ بھی اسی وادی سینا میں پیش آیا۔ سایہ اور غذا کے علاوہ انہیں پانی کی بھی شدید ضرورت تھی اور وہاں دور تک کہیں پانی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ لوگوں نے موسیٰ علیہ السلام سے پانی کی شکایت کی تو موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے پانی کے لیے دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے ایک چٹان سے اتنی کثیر اور وافر مقدار میں پانی نکالا جو اس لاکھوں کے لشکر کی روزانہ ضروریات کے لیے کافی ہوتا تھا۔ یہ قوم بارہ قبیلوں میں منقسم تھی تو اللہ تعالیٰ نے اس چٹان میں ١٢ ہی چشمے رواں کردیے۔ کوئی شگاف بڑا تھا، کوئی چھوٹا اور یہی صورت ان بارہ قبیلوں کے افراد کی تعداد کی تھی۔ پانی کی اس طرح تقسیم سے ان میں پانی پر باہمی جھگڑے کے امکانات ختم ہوگئے۔ یہ چٹان اب بھی جزیرہ نمائے سینا میں موجود ہے۔ جسے سیاح جا کر دیکھتے ہیں اور چشموں کے شگافوں کے نشان اب بھی اس میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
[٧٧] یعنی یہ خداداد مفت کی نعمتیں جو تمہیں مہیا ہیں۔ ایک دوسرے سے چھین کر یا چرا کر خواہ مخواہ فتنہ اور جھگڑے کے مواقع پیدا نہ کرتے رہنا۔ فساد فی الارض کیا ہے؟ فساد فی الارض کی مذمت تو سبھی کرتے ہیں، مگر فساد فی الارض ہے کیا چیز؟ اس بات کی تعیین میں ہر شخص کے نقطہ نظر کے مطابق اختلاف واقع ہوجاتا ہے۔ عموماً فساد فی الارض کا مطلب چوری، ڈاکہ، لوٹ مار، قتل و غارت اور ایک دوسرے کے حقوق کو غصب کرنا ہی سمجھا جاتا ہے۔ اور یہ فساد فی الارض کا صرف ایک پہلو ہے۔ مدینہ کے مسلمانوں نے منافقوں سے کہا کہ زمین میں فساد نہ کرو، تو وہ کہنے لگے کہ ہم مفسد کب ہیں؟ بلکہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔ (٢ : ١١) موسیٰ علیہ السلام فرعون، قارون اور ہامان کو مفسد قرار دیتے تھے تو فرعون اور اس کے درباری سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور آپ کے پیروکاروں کو فسادی قرار دیتے تھے۔ فرعون کے درباریوں نے فرعون سے کہا کہ کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو یونہی چھوڑ دے گا کہ وہ زمین میں فساد مچاتے پھریں اور تجھے اور تیرے معبودوں کو چھوڑ دیں؟تو اس فرعون نے اس قسم کے فساد فی الارض کی اصلاح کا طریقہ سوچ کر کہا کہ ’’ہم لوگ ان کے بیٹوں کو قتل کریں گے اور ان کی بیٹیوں کو زندہ رکھیں گے اور ہم ان لوگوں پر پوری قدرت رکھتے ہیں۔‘‘ (٧ : ١٢٧) ان آیات سے معلوم ہوا کہ ہر شخص کے نقطہ نظر کے مطابق فساد فی الارض اور اصلاح دونوں کا مفہوم بدل جاتا ہے۔ اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ فساد فی الارض حقیقتاً ہے کیا چیز؟ اس سوال کا جواب بالکل آسان ہے اور وہ یہ ہے کہ حکومت اور اس کے نظام امن میں خلل ڈالنے والا مفسد یا فسادی ہوتا ہے۔ فرعون کو چونکہ موسیٰ علیہ السلام اور آپ کی قوم سے بغاوت کا خطرہ تھا۔ لہٰذا اس نے انہیں مفسد قرار دے دیا اور شرعی نقطہ نظر سے حاکم مطلق اور مقتدر اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اس لحاظ سے جو شخص بھی اللہ کے اور بندوں کے آپس میں باہمی حقوق پر ڈاکہ ڈالے گا۔ وہ فساد فی الارض کا مجرم ہوگا اور اسی لحاظ سے اللہ کے ساتھ شرک کرنا فساد فی الارض کی سب سے بڑی قسم قرار پاتا ہے اور اللہ کے دین کے خلاف معاندانہ سرگرمیاں یا خفیہ مشورے کرنا یا بغاوت کرنا بھی اتنا ہی شدید جرم ہے جتنا ڈاکہ ڈالنا یا چوری و زنا کرنا۔ اس فرق کو ہم یوں بھی واضح کرسکتے ہیں کہ شرک اور زنا بالرضا ایک دنیا دار معاشرہ میں جرم نہیں سمجھا جاتا۔ جب کہ شرعی نقطہ نظر سے یہی باتیں فساد فی الارض میں سرفہرست شمار ہوتی ہیں۔ نیز ایک دین بیزار حکومت کے خلاف جہاد کرنا اس حکومت کے نظریہ کے مطابق بغاوت اور بہت بڑا جرم ہے۔ جبکہ شرعی نقطہ نظر سے یہ فساد فی الارض کے خاتمہ کا آغاز ہوتا ہے۔ اس وضاحت سے آپ قرآن میں مختلف مقامات پر مذکور فساد فی الارض کا مفہوم آسانی سے سمجھ سکیں گے۔ |
البقرة |
61 |
[٧٨] بنی اسرائیل کا من وسلویٰ پر قناعت نہ کرنا :۔ یہ بھی اسی جنگل کا واقعہ ہے جہاں ایک طویل مدت کے لئے بنی اسرائیل کو محصور کیا گیا تھا۔ انہیں من و سلویٰ جیسی نعمتیں بلا مشقت مل رہی تھیں۔ مگر وہ ان چیزوں کو کھاتے کھاتے اکتا گئے تھے تو زمینی پیداوار کا مطالبہ کردیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سمجھایا کہ ’’جو چیز تمہیں یہاں سے بلامشقت مل رہی ہے وہ اس سے بدرجہا بہتر ہے جو تم مانگ رہے ہو اور وہ مشقت کے بعد ہی تمہیں حاصل ہوگی۔‘‘ لیکن جب ان لوگوں نے اپنے مطالبہ پر اصرار کیا تو موسیٰ علیہ السلام نے بالآخر ان کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر یہی چاہتے ہو تو فلاں شہر میں چلے جاؤ، وہاں تمہیں یہ چیزیں میسر آ جائیں گی۔‘‘
موسیٰ علیہ السلام کا صرف یہی مطلب نہ تھا کہ من و سلویٰ جو تمہیں بلا مشقت مل رہا ہے وہ بامشقت گندم اور ساگ وغیرہ سے بہتر ہے، بلکہ یہ بھی تھا کہ جنگل کی آزادانہ فضا تم سے بزدلی دور کرنے، شجاعت پیدا کرنے اور جہاد کے لیے مستعد ہونے اور فارغ رہ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے لحاظ سے شہر کی مصروف اور آرام پرستانہ زندگی سے بہرحال بہتر ہے اور تم اپنے لیے ایک بہتر چیز کے بجائے ایک گھٹیا بات کا مطالبہ کر رہے ہو۔ [٧٩] ذلت اور مسکنت کا مفہوم :۔ ذلت اور بدحالی کے علاوہ اللہ کا غضب یہ ہوا کہ ان کی ٹریننگ اور تربیت کی مدت کو پھیلا کر چالیس سال تک بڑھا دیا گیا۔ ورنہ اگر اللہ اور اس کے پیغمبر موسیٰ علیہ السلام کی مرضی پر چلتے تو ممکن تھا کہ چالیس سال گزرنے سے پہلے ہی شام کا ملک فتح کرنے کے قابل ہوجاتے۔ مگر ان لوگوں کی عادت ہی یہ بن گئی تھی کہ جو بات اپنی مرضی کے خلاف دیکھتے تو فوراً نافرمانیوں پر اتر آتے تھے حتیٰ کہ بعض انبیاء تک کو قتل کرتے رہے اور اللہ کے غضب، ذلت اور مسکنت کی دوسری صورت یہ ہے کہ یہودی قوم کئی بار دوسری قوموں سے پٹ چکی ہے۔ مالدار ہونے کے باوجود آج بھی سخت افرادی قلت سے دو چار ہے اور ایک چھوٹے سے خطہ میں ان کی حکومت قائم ہوئی بھی ہے تو وہ دوسری قوموں کے سہارے پر اپنے وجود کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اخلاقی انحطاط اس قدر ہے کہ آج بھی بے حیائی، فحاشی، سودخوری اور حرام خوری اس قوم کا طرہ امتیاز ہے۔ |
البقرة |
62 |
[٨٠] اہل کتاب کے مزعومہ عقائد :۔ یہود و نصاریٰ دونوں کہا کرتے تھے کہ آیت ﴿نَحْنُ اَبْنٰؤُا اللّٰہِ وَاَحِبَّاؤُہٗ ﴾(۱۸:۵) ہم اللہ تعالیٰ کے بیٹے اور چہیتے ہیں۔ یہود یہ بات اس لیے کہتے تھے کہ وہ پیغمبروں کی اولاد ہیں اور نصاریٰ اس لیے کہ وہ اللہ کے بیٹے (مسیح ابن مریم) کی امت ہیں جو ان کے عقیدہ کے مطابق امت کے گناہوں کے کفارہ میں سولی پر چڑھ گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے اس مزعومہ عقیدہ پر کاری ضرب لگاتے ہوئے فرمایا کہ: کوئی شخص خواہ یہودی ہو یا عیسائی ہو یا صابی (اپنا دین بدلنے والا ہو) جو بھی اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے گا اور جواب دہی کے ڈر سے صالح عمل کرے گا۔ نجات صرف اسی کی ہوگی۔ نسبی رشتے اور تعلقات اس دن کسی کام نہ آ سکیں گے۔ |
البقرة |
63 |
[٨١] میثاق بنی اسرائیل کی کیفیت :۔ یہ واقعہ بھی بنی اسرائیل کے اس دور سے تعلق رکھتا ہے۔ جب ان کے ستر منتخب افراد پر بجلی گرا کر انہیں ہلاک کیا گیا اور پھر دوبارہ زندہ کیا گیا تھا۔ ان کو بھی اور ان کے ساتھ بنی اسرائیل کے دوسرے لوگوں کو بھی طور کے دامن میں کھڑا کیا گیا اور طور پہاڑ کو ان پر اس طرح جھکا دیا گیا جیسے وہ ان کے اوپر ایک سائبان ہے۔ اب پیچھے سمندر تھا اور آگے سروں کے اوپر سائبان کی طرح طور پہاڑ، اس وقت ان سے پوچھا گیا بتاؤ تورات پر عمل کرتے ہو یا نہیں؟ اور اقرار کرتے ہو تو پھر پوری مضبوطی سے عہد و پیمان کرو، ورنہ ابھی اس پہاڑ کو تمہارے اوپر گرا کر تمہیں کچل دیا جائے گا۔ اس وقت بنی اسرائیل کو اپنی نافرمانیوں اور غلطیوں اور عہد شکنیوں کا احساس ہوا اپنے گناہوں سے توبہ کی اور تورات پر عمل پیرا ہونے کا پختہ اقرار کیا۔ اور یہ اس لیے کیا گیا تھا تاکہ تم لوگوں میں کچھ پرہیزگاری کی صفت پیدا ہو۔ |
البقرة |
64 |
[٨٢] اتنے پختہ اقرار کرنے کے باوجود اے یہود! تم نے پھر عہد شکنی کی۔ اس کے باوجود اللہ نے تم پر رحم کیا جو تمہیں زندہ رہنے دیا، ورنہ تمہارے جرائم کی فہرست اتنی طویل ہے جو تمہاری تباہی کی مقتضی تھی۔ |
البقرة |
65 |
[٨١] اصحاب سبت کا انجام :۔ بنی اسرائیل کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ ہفتہ کے دن کاروبار نہیں کریں گے بلکہ چھٹی کریں گے اور اس دن آرام اور اللہ کی عبادت کیا کریں گے اور تورات میں یہ بھی وضاحت ہے کہ جو شخص اس مقدس دن کی حرمت کو توڑے گا، وہ واجب القتل ہے۔ لیکن یہود پر اخلاقی انحطاط کا دور آیا تو یہود اس دن کھلے بندوں اپنا کاروبار جاری رکھتے اور تجارت وغیرہ کیا کرتے۔ اس سلسلہ میں سورۃ اعراف میں ایک مخصوص بستی کا ذکر بھی آیا ہے جو سمندر کے کنارے آباد تھی اور ان لوگوں کا پیشہ ماہی گیری تھا۔ لیکن اتفاق کی بات کہ چھ دن تو مچھلیاں پانی میں چھپی رہتیں اور ہفتہ کے دن پانی کی سطح پر سینہ تان کر تیرتی پھرتیں۔ اب ان ماہی گیروں نے یہ حیلہ سازی کی کہ ساحل کے ساتھ کھائیاں کھود لیں۔ اس میں پانی آتا تو ساتھ مچھلیاں بھی آ جاتیں اور دوسرے دن یہ لوگ ان مچھلیوں کو پکڑ لیتے، ان بستی والوں کے تین گروہ بن گئے۔ ایک تو مجرم گروہ تھا جو اس حیلہ سے مچھلیاں پکڑتا تھا۔ دوسرا گروہ وہ تھا جو انہیں اس حیلہ سازی سے منع کرتا تھا اور تیسرا گروہ وہ تھا جو خود مچھلیاں پکڑتا تو نہیں تھا لیکن پکڑنے والوں کو منع بھی نہیں کرتا تھا اور منع کرنے والوں سے کہتا تھا کہ تم ان لوگوں کو کیوں منع کرتے ہو جو باز آنے والے نہیں اور ان پر عذاب نازل ہونے والا ہے اور منع کرنے والے یہ جواب دیتے کہ ’’ہم اس لیے منع کرتے ہیں کہ ہم اپنے رب کے حضور معذرت پیش کرسکیں اور دوسرے یہ کہ شاید یہ لوگ باز ہی آ جائیں۔‘‘ (٧ : ١٦٤)
بندر بننے کی تاویل کرنے والے :۔ پھر جب اس قوم پر عذاب نازل ہوا تو اس عذاب سے صرف منع کرنے والا گروہ بچا لیا گیا۔ خاموش رہنے والے اور مجرم دونوں گروہوں پر عذاب نازل ہوا اور وہ عذاب یہ تھا کہ ’’تم ذلیل و خوار بندر بن جاؤ۔‘‘ اب معجزات کے منکر اور نیچری حضرات یہ کہتے ہیں کہ ان لوگوں کی عادات و خصائل تو بندروں جیسے ہوگئے تھے۔ لیکن ان کی صورتیں مسخ نہیں ہوئی تھیں (یعنی وہ فی الواقع بندر نہیں بنے تھے) یہ توجیہ اس لحاظ سے غلط ہے کہ ایک تو قرآن کے ظاہری الفاظ سے یہ گنجائش نہیں نکلتی۔ دوسرے مابعد کی آیت اس توجیہ کی توثیق کے بجائے تردید کر رہی ہے۔ کیونکہ اگر ان کی شکلیں بدستور انسانوں کی ہی رہیں، تو وہ اس وقت کے موجود لوگوں اور پچھلوں کے لیے سامان عبرت کیسے بن سکتے تھے اور پرہیزگار ان سے کیا سبق لے سکتے تھے؟ حقیقت یہ ہے کہ وہ فی الواقع بندر بن گئے تھے تاہم ان کے دماغ وہی رہے۔ ان میں فہم و شعور انسانی موجود تھا۔ وہ ایک دوسرے کو پہچانتے اور ایک دوسرے کو دیکھ کر روتے تھے مگر کلام نہیں کرسکتے تھے۔ پھر تین دن کے بعد سب مر گئے اور یہ واقعہ سیدنا داؤد علیہ السلام کے دور میں پیش آیا تھا۔ (نیز دیکھئے سورۃ اعراف آیت نمبر ١٦٤) |
البقرة |
66 |
|
البقرة |
67 |
[٨٤] گائے کو ذبح کرنے کے حکم پر بنی اسرائیل کی کٹ حجتیاں :۔ بنی اسرائیل میں ایک مالدار شخص مارا گیا جسے اس کے بھتیجوں نے جنگل میں موقعہ پا کر قتل کیا اور رات کے اندھیرے میں کسی دوسرے شخص کے مکان کے سامنے پھینک دیا۔ اس کے قاتل کا کچھ پتہ نہیں چلتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو وحی کی کہ اس قوم کو حکم دو کہ وہ ایک گائے ذبح کریں۔ پھر اس کے گوشت کا ایک ٹکڑا مقتول کی لاش پر ماریں تو مقتول خود بول کر اپنے قاتل کا نام اور پتہ بتا دے گا۔ موسیٰ علیہ السلام نے جب اپنی قوم کو اللہ کا حکم سنایا تو وہ کہنے لگے ’’کیا ہم سے دل لگی کرتا ہے؟“
گائے کو ذبح کرنے کا حکم دراصل بنی اسرائیل کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنے کے مترادف تھا۔ گؤ سالہ پرستی کے جراثیم اور گائے بیل سے محبت اور اسے دیوتا سمجھنے کا عقیدہ تاہنوز ان میں موجود تھا۔ لہٰذا ایک تکلیف تو انہیں یہ ہوئی کہ جس چیز کو قابل پرستش سمجھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی چیز کو ذبح کرنے کا حکم دیا۔ دوسرے انہیں یہ یقین نہیں تھا کہ اس طرح گائے کے گوشت کا ٹکڑا مارنے سے مردہ لاش جی اٹھے گی اور بول کر قاتل کا پتہ بتا دے گی۔ لہٰذا موسیٰ علیہ السلام سے یوں کہہ دیا کہ ہم سے دل لگی کرتا ہے۔’’موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا کہ میں تو تمہیں اللہ کا حکم بتا رہا ہوں، دل لگی نہیں کر رہا۔ کیونکہ ایسی دل لگی کرنا جاہلوں کا کام ہے۔‘‘اگر بنی اسرائیل ایک فرمانبردار قوم ہوتے اور کوئی سی گائے بھی ذبح کردیتے تو حکم کی تعمیل ہوجاتی، مگر کٹ حجتی اور ٹال مٹول، حتیٰ کہ نافرمانی ان کی رگ رگ میں بھری ہوئی تھی۔ کہنے لگے اچھا ہمیں اپنے پروردگار سے پوچھ کر بتاؤ وہ گائے کیسی ہونی چاہی’’ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب آیا۔‘‘وہ گائے جوان ہونی چاہیے، بوڑھی یا کم عمر نہ ہو۔ پھر دوسری مرتبہ یہ سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ سے پوچھ کر ہمیں بتاؤ کہ اس کا رنگ کیسا ہونا چاہیے؟ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب ملا کہ ’’وہ گہرے زرد رنگ کی ہونی چاہیے، جو دیکھنے والے کے دل کو خوش کر دے۔‘‘ اب بھی حکم بجا لانے پر طبیعت آمادہ نہ ہوئی تو تیسری مرتبہ یہ سوال کردیا کہ ایسی صفات کی گائیں تو ہمارے ہاں بہت سی ہیں ہمیں پوچھ کر بتایا جائے کہ ’’اس کی مزید صفات کیا ہوں؟‘‘ تاکہ ہمیں کسی متعین گائے کا علم ہوجائے جس کی قربانی اللہ تعالیٰ کو منظور ہے۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب آیا کہ ’’وہ گائے ایسی ہونی چاہیے جس سے ابھی تک کھیتی باڑی کا کام لینا شروع ہی نہ کیا گیا ہو یعنی نہ وہ ہل کے آگے جوتی گئی ہو اور نہ کنویں کے آگے۔ تندرست ہو اور صحیح و سالم ہو۔ یہ نہ ہو کہ کسی بیماری یا کمزوری کی وجہ سے کام نہ لیا جا رہا ہو اور اس میں کوئی داغ بھی نہ ہو۔ “ |
البقرة |
68 |
|
البقرة |
69 |
|
البقرة |
70 |
|
البقرة |
71 |
گائے ذبح کرنے میں کٹ حجتیوں کی سزا :۔ غرض یہ کہ یہ قوم جتنے سوال کرتی گئی، پابندیاں بڑھتی ہی گئیں۔ ان ساری پابندیوں کے بعد بس اب ان کے ہاں صرف ایک ہی گائے رہ گئی جو تقریباً سنہری رنگ کی بےداغ اور جواں تھی اور ایسی ہی گائے ہوتی تھی جسے پوجا پاٹ کے لیے انتخاب کیا جاتا تھا۔ اب ایک تو انہیں اپنے معبود کشی کی ذہنی کوفت تھی۔ دوسرے یہ کہ جس شخص کی یہ گائے تھی وہ ایک نیک بخت آدمی تھا جو اپنی ماں کی بہت خدمت کرتا تھا۔ جب اسے اس کی اہمیت معلوم ہوئی تو اس نے منہ بھر کر اس گائے کے دام مانگے، اس کی قیمت یہ ٹھہری کہ گائے کو ذبح کرنے کے بعد اس کی کھال میں جتنا سونا آئے وہ اس کی قیمت ہوگی۔ چنانچہ ان لوگوں کو وہ قیمت ادا کرنا پڑی۔ اتنے سوال و جواب کے بعد انکار یا مزید کٹ حجتی کرنا بھی محال تھا اور اس کے بعد بالآخر انہیں اس گائے کو ذبح کرنا ہی پڑا۔ حالانکہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کے پہلے حکم پر ہی گائے ذبح کرنے کو آمادہ ہوجاتے تو وہ کوئی بھی گائے ذبح کرسکتے تھے۔ |
البقرة |
72 |
|
البقرة |
73 |
[٨٦] لاش کا زندہ ہو کر قاتل کا پتہ بتانا :۔ قاتلوں کا جرم صرف یہی نہیں تھا کہ انہوں نے مال و دولت کے لالچ میں آ کر اپنے چچا کو قتل کر ڈالا تھا۔ بلکہ ان کا دوسرا جرم یہ تھا کہ لاش کو کسی دوسرے شخص کے دروازے پر پھینک دیا تھا تاکہ ان پر شبہ نہ ہو سکے اور تیسرے یہ کہ خود شبہ سے بچنے کی خاطر اس قتل کا الزام دوسروں پر تھوپ رہے تھے۔ گائے ذبح ہونے کے بعد اس کے گوشت کا ایک ٹکڑا لے کر اس مقتول کی میت پر مارا گیا تو اس کے زخم سے خون بہنے لگا۔ جسم میں زندگی کے آثار پیدا ہوگئے اور اس لاش نے بول کر قاتل یا قاتلوں کا نام اور پتا بتا دیا۔ اس کے بعد پھر سے اس پر موت طاری ہوگئی۔ اس طرح جن جرائم کو یہ قوم چھپائے رکھنا چاہتی تھی اللہ تعالیٰ نے انہیں ظاہر کردیا۔ چنانچہ قصاص میں یہ دونوں بھتیجے مارے گئے اور انہیں اپنے چچا کے ورثہ میں سے بھی کچھ نہ ملا۔
[٨٧] اس واقعہ سے کئی امور کا انکشاف ہوگیا مثلاً : ١۔ یہ گائے بالکل اسی قسم کی تھی جسے معبود سمجھ کر اس کی پوجا کی جاتی تھی یہ گائے ذبح ہوتے وقت اپنے آپ کو بھی نہ بچا سکی تو دوسروں کا کیا بگاڑ یا سنوار سکتی تھی۔ پھر ذبح کرنے والوں کو نہ ذبح سے پہلے کچھ نقصان پہنچا اور نہ ذبح کے بعد۔ ٢۔ جس بات کو یہ لوگ چھپائے رکھنا چاہتے تھے اللہ تعالیٰ نے اس طریقہ سے اسے ظاہر کردیا۔ ٣۔ انہیں یہ یقین ہوگیا کہ اگر اللہ تعالیٰ اتنے دنوں کے بعد اس لاش کو زندہ کرسکتا ہے تو ہمیں بھی دوبارہ زندہ کر کے ہمارا محاسبہ کرسکتا ہے۔ |
البقرة |
74 |
[٨٨] یعنی یہ معجزہ اور کئی سابقہ معجزات دیکھنے کے بعد تمہارے دل میں اللہ کا خوف پیدا نہ ہوا۔ بلکہ تمہارے دل سخت سے سخت تر ہوتے چلے گئے بلکہ پتھروں سے بھی زیادہ سخت۔ کیونکہ کچھ پتھر (پہاڑ) ایسے ہیں جن سے نہریں پھوٹتی ہیں اور وہ عام لوگوں کے لیے نفع کا سبب بنتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جن سے کوئی چشمہ ہی جاری ہوجاتا ہے یہ پہلے کی نسبت گو کم نفع بخش ہیں تاہم نفع بخش ضرور ہیں، اور گرنے والے پتھروں میں اللہ کا خوف اور تاثر موجود ہوتا ہے مگر تم جیسے نافرمان لوگوں سے دوسروں کو کچھ فائدہ پہنچنے کی کیا توقع ہو سکتی ہے۔ جن کے دلوں میں اللہ کا ڈر قطعاً مفقود ہے۔ |
البقرة |
75 |
[٨٩] نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلقہ آیات کو چھپانا اور ان میں تحریف :۔ یہ خطاب دراصل مدینہ کے سادہ دل نو مسلموں سے ہے جو یہود سے کئی بار یہ سن چکے تھے کہ ایک نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم آنے والا ہے اور جو لوگ ان کا ساتھ دیں گے وہ ساری دنیا پر چھا جائیں گے۔اب یہ لوگ تو ایمان لے آئے مگر یہود نے یہ کام کیا کہ تورات میں جو حلیہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کا مذکور تھا۔ اس میں تحریف کر ڈالی اور ایمان نہ لانے کی وجہ یہ بتائی کہ اس کا حلیہ تورات میں مذکور حلیہ سے مختلف ہے۔ |
البقرة |
76 |
[٩٠] اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچاننے کے لیے تورات وغیرہ میں خاصا مواد موجود تھا۔ جسے یہ لوگ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ آنے سے پہلے لوگوں میں مشہور کرچکے تھے اور ان میں کچھ لوگ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کے بعد بھی بیان کردیتے تھے اور ان سے کہہ دیتے کہ ہم بھی اس پیغمبر پر ایمان لاتے ہیں۔ مگر وہ جب اپنے گرو گھنٹالوں کے ہاں جاتے تو وہ انہیں یہ کہتے کہ تم مسلمانوں کو تورات کی ایسی باتیں کیوں بتاتے ہو جو تمہارے اپنے خلاف جاتی ہیں۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ کے حضور مسلمان تم پر حجت قائم کردیں کہ یہ لوگ پورا علم ہونے کے باوجود بھی ایمان نہ لائے تھے۔ مسلمانوں سے بات کرنے سے پہلے کچھ سوچ تو لیا کرو۔ |
البقرة |
77 |
[٩١] بالفاظ دیگر ان یہود علماء کا یہ خیال تھا کہ بس مسلمانوں کے بتانے سے ہی اللہ تعالیٰ کو قیامت کے دن اس حقیقت کا پتہ چلے گا ورنہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے متعلق ان کی معرفت اتنی کمزور ہے کہ انہیں یہ بھی یقین نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی کھلی اور چھپی سب باتوں کو خوب جاننے والا ہے اور ان باتوں کو بھی جو یہ اب اپنے ساتھی یہودیوں سے کر رہے ہیں۔ |
البقرة |
78 |
[٩٢] ان پڑھ یہود کے مذموم عقائد :۔ یہ ان کے عوام کا حال تھا جو تورات کو پڑھ بھی نہیں سکتے تھے۔ نہ انہیں یہ معلوم تھا کہ وہ کون سے اصول و احکام ہیں جن پر نجات اخروی کا مدارہے وہ بس اپنی جھوٹی توقعات میں مگن ہیں جو یہ تھیں کہ ہم لوگ چونکہ انبیاء کی اولاد اور اللہ کے چہیتے ہیں۔ لہٰذا ہم دوزخ میں نہیں جائیں گے دوزخ میں جانے کے لیے دوسری مخلوق تھوڑی ہے؟ ہمیں اگر عذاب ہوا بھی تو بس چند دن کے لیے جتنے دن بچھڑے کی پوجا کی گئی تھی۔ |
البقرة |
79 |
[٩٣] غلط فتووں کی کمائی :۔ علماء یہود کا یہ حال تھا کہ انہوں نے تورات کی شروح اور علماء کے فتاویٰ کو بھی تورات میں ہی خلط ملط کر ڈالا تھا۔ پھر عام لوگوں سے اسے یوں بیان کرتے تھے گویا یہ سب کچھ ہی منزل من اللہ ہے۔ اور اس سے غرض محض دنیوی مال و دولت کا حصول ہوتا تھا اور ان کے مفسروں کی تاویلات، مفکروں کے فلسفیانہ خیالات اور فقہاء کے قانونی اجتہادات اور اپنے قومی تاریخی واقعات، یہ سب چیزیں بائیبل میں شامل کردی تھیں اور اس سب کچھ پر ایمان لانا فرض قرار دیا گیا تھا۔ ایسے مجموعہ میں سے انہیں کسی بھی قسم کا فتویٰ دینے یا لکھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی تھی اور جرائم کی نوعیت کے لحاظ سے اپنے فتووں کے منہ مانگے دام وصول کرتے تھے۔ |
البقرة |
80 |
[٩٤] یہود کی عذاب اخروی کے متعلق غلط فہمی اور اس کا جواب :۔ یہودیوں کا عقیدہ یہ تھا کہ ہم چونکہ انبیاء کی اولاد اور اللہ کے محبوب ہیں لہٰذا ماسوائے چند دن کے انہیں دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی۔ ان کے اس باطل عقیدہ کا جواب اللہ تعالیٰ نے کئی طرح سے دیا ہے جن میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ ان سے پوچھو کہ اس عقیدہ کی اصل کیا ہے؟ کیا اللہ نے تم سے کوئی ایسا وعدہ لے رکھا ہے۔ اگر ایسی بات ہے تو دکھاؤ تو سہی۔ یا بس تم اللہ پر ایسی ہی جھوٹی باتیں جڑ دیتے ہو؟ اور دوسرا جواب یہ ہے کہ اے یہود! اگر تم فی الواقع اس دعوے میں سچے ہو کہ تم اللہ کے چہیتے ہو اور ماسوائے چند دن کے تمہیں دوزخ کی آگ چھو بھی نہیں سکے گی تو پھر تم مرنے کی آرزو کیوں نہیں کرتے یا بالفاظ دیگر ان دنیا کے جھنجٹوں سے نکل کر جنت میں جانے کی آرزو کیوں نہیں کرتے؟ اور چونکہ یہود مرنے کے لیے مطلقاً آمادہ نہیں بلکہ طویل مدت تک دنیا میں ہی رہنا چاہتے ہیں جس سے معلوم ہوا کہ یہود اپنے دعویٰ میں جھوٹے ہیں اور تیسرا جواب انہیں یہ دیا گیا کہ اللہ کا قانون جزاء و سزا سب کے لیے یکساں ہے۔ یہاں نسبی رشتے کچھ کام نہیں آئیں گے جس شخص کو اس کی بداعمالیوں نے گھیر لیا وہ یقیناً دوزخ میں ہی جائے گا۔ پھر ہمیشہ اس میں رہے گا اور اس قانون میں اے یہود! تمہارے لیے کوئی تخصیص نہیں۔ |
البقرة |
81 |
|
البقرة |
82 |
[٩٥] یہاں اہل ایمان کا اور جنت کا ذکر محض اس لیے کیا گیا ہے کہ قرآن کا انداز ہی یہ ہے کہ دوزخ کے ساتھ جنت کا بھی ذکر کردیا جاتا ہے۔ جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے کہ اس کے بعد پھر بنی اسرائیل کا ذکر شروع ہو رہا ہے۔ |
البقرة |
83 |
[٩٦] گو بظاہر یہ خطاب یہود مدینہ سے ہے۔ تاہم یہ ایسے احکام ہیں جو ہر شریعت میں غیر متبدل رہے ہیں اور ہماری شریعت میں بھی بعینہ موجود ہیں۔ رہا عہد کرنے کے بعد بنی اسرائیل کی عہد شکنی کا قصہ تو یہ ان کی عادت ثانیہ بن چکی تھی اور ان کی تاریخ ایسی عہد شکنیوں سے بھری پڑی ہے۔ |
البقرة |
84 |
|
البقرة |
85 |
[٩٧] مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے بیشتر مشرکین مدینہ کے دو مشہور قبائل اوس اور خزرج مدینہ میں آباد تھے اور یہ آپس میں ہمیشہ لڑتے رہتے تھے اور یہود مدینہ کے دو قبائل بنو قریظہ اور بنو نضیر ان عرب قبائل کے حلیف بن کر ان کو باہم لڑاتے رہنے کا کردار ادا کیا کرتے تھے۔ بنو قریظہ تو قبیلہ اوس کے حلیف تھے اور بنو نضیر قبیلہ خزرج کے۔ یہود گو تعداد میں کم تھے مگر یہ مالدار قوم تھی اور اوس و خزرج کو لڑا کر اپنا سیاسی تفوق بھی برقرار رکھتے تھے اور اسلحہ بھی بیچتے تھے۔ جس کے یہ تاجر تھے۔ ان یہود کی بالکل وہی مثال سمجھئے جو آج سے کچھ مدت پیشتر روس اور امریکہ کی تھی۔ یہ دونوں طاقتیں اسلام کی دشمن تھیں اور آپس میں بھی ان میں اختلاف تھا لیکن اسلام دشمنی میں دونوں متحد ہو کر مسلمان ممالک کو آپس میں لڑاتی رہتی تھیں۔ ان میں سے کوئی ایک، ایک مسلمان ملک کا حلیف بن جاتا اور دوسرا دوسرے کا۔ اس طرح یہود کئی طرح کے فوائد اٹھاتے تھے۔ ان کا اسلحہ بھی فروخت ہوتا تھا اور سیاسی تفوق بھی برقرار رہتا تھا۔
یہود کا اپنے قبیلہ کے قیدیوں کو فدیہ دے کر چھڑانا :۔ اللہ تعالیٰ نے یہود سے چار عہد لیے تھے (١) وہ ایک دوسرے کا خون نہ کریں گے (٢) ایک دوسرے کو جلاوطن نہ کریں گے (٣) ظلم اور زیادتی پر مدد نہ کریں گے (٤) اور فدیہ دے کر قیدیوں کو چھڑایا کریں گے۔ اب قبیلہ اوس و خزرج کی جنگ میں بنو قریظہ اور بنو نضیر بھی آپس میں حلیف ہونے کی حیثیت سے لڑتے اور ایک دوسرے کے گلے کاٹتے تھے۔ اب ایک جنگ میں مثلاً اوس اور بنو قریظہ کو فتح ہوئی تو لازماً بنو نضیر کے قیدی بھی ان کے ہاتھ آتے تھے اور بنو نضیر ان کا فدیہ ادا کر کے انہیں چھڑا لیتے تھے۔ جب ان سے اس کی وجہ پو چھی جاتی تو کہتے کہ قیدیوں کو فدیہ دے کر چھڑانا اللہ کا حکم ہے اور جب ان سے پوچھا جاتا کہ ان سے جو جنگ کرتے ہو تو وہ اللہ کے کس حکم کے تحت کرتے ہو؟ تو کہتے کیا کریں اپنے دوستوں (حلیفوں) کو ذلیل نہیں کرسکتے۔ گویا تین کام تو اللہ کے حکم کے خلاف کرتے تھے اور ایک کام اللہ کے حکم کے مطابق جس کا سبب بھی وہ خود ہی بنتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انکی ایسی حرکات پر گرفت کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’کیا تم اللہ کی کتاب کے کچھ حصے پر ایمان لاتے ہو اور کچھ حصے کا انکار کردیتے ہو؟‘‘جس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی شخص بعض احکام شرعیہ کی تعمیل کرے اور جو حکم اس کی طبیعت یا عادت یا مرضی کے خلاف ہو اس کو چھوڑ دے تو بعض احکام کی تعمیل اسے کچھ فائدہ نہیں دے سکتی اور ایسا انکار دراصل پوری کتاب اللہ کا انکار ہوتا ہے۔ ایسے لوگ حقیقتاً اپنے نفس کے پیرو کار ہوتے ہیں۔ کتاب اللہ کے نہیں ہوتے۔ [٩٨] دور نبوی میں یہود کا انجام :۔ دنیا میں یہ یہود عبرتناک انجام سے دو چار ہوئے۔ بنو نضیر تو ٤ھ میں اس ذلت سے دو چار ہوئے جس کا تفصیلی ذکر سورۃ حشر میں کیا گیا ہے۔ مسلمانوں نے ان کا محاصرہ کرلیا اور ان کے بعض باغات کو نذر آتش کردیا۔ اور وہ قلعہ بند ہو کر اپنے گھروں کو خود بھی برباد اور توڑ پھوڑ رہے تھے۔ کیونکہ انہیں اس بات کا یقین ہوچکا تھا کہ اب جلاوطنی ان کا مقدر بن چکی ہے اور وہ یہ گوارا نہیں کرسکتے تھے کہ مسلمان ان کے تعمیر شدہ مکانات سے فائدہ اٹھائیں۔ اس طرح لڑائی کے بغیر ہی انہوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ انہیں فوری جلاوطنی کا حکم دیا گیا تو انہوں نے شام کا رخ کیا اور جزیہ کا حکم نازل ہونے کے بعد ان سے جزیہ وصول کیا جاتا رہا اور بنو قریظہ پر جنگ خندق (احزاب ٥ ھ) کے فوراً بعد چڑھائی کی گئی اور ان کے مردوں کو تہ تیغ کردیا گیا اور عورتوں اور بچوں کو لونڈی غلام بنا لیا گیا، اور آخرت کو جو عذاب انہیں ہوگا وہ تو اللہ ہی خوب جانتا ہے۔ |
البقرة |
86 |
[٩٩] یعنی یہود مسلمانوں سے جو کچھ بھی بد عہدیاں کرتے رہے، سب چند روزہ دنیوی مفادات کی خاطر کرتے رہے اور آخرت کے عذاب کا کچھ خیال نہ کیا۔ نیز اس آیت سے ان لوگوں کا یہ مذہب غلط ثابت ہوتا ہے کہ آخرت میں جہنم کا عذاب اس قدر ہلکا ہوجائے گا کہ دوزخیوں کو کچھ تکلیف نہ رہے گی۔ کیونکہ وہ اس کے عادی بن جائیں گے۔ |
البقرة |
87 |
[١٠٠] بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہونے والے انبیاء :۔ ان میں سے جن انبیاء و رسل کا نام قرآن میں آیا ہے وہ یہ ہیں۔ (بہ ترتیب زمانی) ہارون، ذی الکفل، الیاس الیسع، داؤد، سلیمان، لقمان، (اختلافی) عزیر، یونس، زکریا۔ یحییٰ اور عیسیٰ علیہم السلام جنہیں سریانی زبان میں یسوع کہتے ہیں۔
[١٠١] معجزات سیدنا عیسیٰ:۔ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرتے تھے۔ کوڑھی اور اندھے کو فقط ہاتھ لگا کر تندرست کردیتے تھے۔ مٹی کا پرندہ بنا کر اس میں پھونک مارتے تو وہ اڑنے لگتا تھا اور آپ لوگوں کو یہ بھی بتا دیتے تھے کہ وہ کیا کچھ کھا کر آئے ہیں اور کیا کچھ گھر میں چھوڑ کر آئے ہیں اور ان تمام کاموں میں روح القدس یعنی جبریل علیہ السلام کی تائید آپ کے شامل حال رہتی تھی۔ [١٠٢] یہود اور انبیاء کا قتل :۔ جیسے ان لوگوں نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو بھی جھٹلایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اور سیدنا زکریا اور سیدنا یحییٰ علیہما السلام کو قتل کردیا۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو مروا ڈالنے کے درپے ہوچکے تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص مہربانی سے انہیں اوپر اپنے ہاں اٹھا لیا۔ |
البقرة |
88 |
[١٠٣] یہود کا قول کہ ہمارے دل غلاف میں ہیں :۔ انسان کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنی بری صفات کو بھی خوبصورت بنا کر دکھانے کی کوشش کرتا ہے اور حقیقت کا اعتراف کرلینا اس کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔ الا ماشاء اللہ یہی حالت یہودیوں کی تھی۔ وہ دین اسلام کو برحق سمجھ لینے کے باوجود اسے قبول تو اس لیے نہیں کرتے تھے کہ اس طرح ان کا مذہبی تفوق و اقتدار خطرہ میں پڑجاتا تھا بلکہ چھن جاتا تھا مگر بظاہر اسے یوں پیش کرتے تھے کہ ہمارے عقائد اتنے مضبوط ہیں کہ وہ کوئی نیا عقیدہ قبول نہیں کرسکتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس دجل و فریب کی قلعی کھولتے ہوئے فرمایا : بات یوں نہیں بلکہ یہ اپنے کفر اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ملعون بن چکے ہیں اور یہ اس لعنت کا اثر ہے کہ ان کے دل حق بات کو قبول نہیں کرتے۔
[١٠٤] جیسے عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اور ان کے عقیدت مندوں کی جماعت اور بعض علماء ﴿فَقَلِیْلًا مَّا یُؤْمِنُوْنَ ﴾ کا ترجمہ یہ کرتے ہیں کہ وہ اللہ کی کتاب تورات میں سے بھی بہت تھوڑی باتوں پر ایمان لاتے ہیں اور اکثر احکام کا انکار کردیتے ہیں۔ |
البقرة |
89 |
[١٠٥] آنے والے نبی کے واسطہ سے یہود کا نصرت طلب کرنا :۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل یہی یہود جب عرب قبائل سے، جنہیں یہ لوگ ازراہ حقارت امی اور اجڈ سمجھتے تھے، پٹتے تو اکثر اللہ تعالیٰ سے یوں دعا مانگا کرتے تھے کہ اے اللہ ! اپنے موعود نبی آخر الزمان کو مبعوث فرما کہ ہم اس کے ساتھ مل کر ان کافروں پر فتح حاصل کریں۔ پھر جب وہ نبی موعود آ گیا اور انہوں نے اسے کتاب اللہ (تورات) میں مذکور نشانیوں کے مطابق پوری طرح پہچان بھی لیا تو اس کا انکار کردیا۔ اور حقیقتاً کافر تو یہی لوگ ہیں جن پر اللہ کی لعنت ہے اور جن لوگوں کو یہ ان پڑھ اور اجڈ کہا کرتے تھے انہوں نے یہود ہی سے سنی ہوئی باتوں کے مطابق نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے میں سبقت کی تھی۔ |
البقرة |
90 |
[١٠٦] ان یہود کے بغض و عناد کی اصل وجہ یہ تھی کہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم ان کی قوم سے کیوں نہیں آیا۔ اور اس قوم میں کیوں پیدا ہوا ہے؟ جسے یہ ان پڑھ، اجڈ اور اپنے سے حقیر تر سمجھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے کاموں کی حکمتیں خود بہتر سمجھتا ہے اور اپنے بندوں میں سے جسے مناسب سمجھتا ہے رسالت سے نوازتا ہے۔ تم اس کے فضل کے ٹھیکیدار تو نہیں کہ تم سے اللہ پوچھ کر اور جسے تم چاہو اسے رسالت عطا فرمائے۔
[١٠٧] یہود کے جرائم کی فہرست تو بہت طویل ہے جن میں سرفہرست ایک نبی کی موجودگی میں بچھڑے کی پرستش، انبیاء کا قتل اور دیدہ دانستہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا انکار ہے اور ایسے جرائم کی سزا تو جتنی بھی ہو وہ کم ہے۔ ضمناً اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہر عذاب ذلت کے لیے نہیں ہوتا بلکہ گنہگار مسلمانوں کو جو عذاب ہوگا وہ انہیں گناہوں سے پاک کرنے کے لیے ہوگا۔ ذلیل و رسوا کرنے کے لیے نہ ہوگا۔ البتہ کافروں کو جو عذاب دیا جائے گا وہ بغرض تذلیل ہوگا۔ |
البقرة |
91 |
[١٠٨] یہود اپنے قول کے مطابق انجیل اور قرآن پر تو اس لیے ایمان نہیں لاتے تھے کہ یہ کتابیں ان کی طرف نازل نہیں ہوئیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر تم تورات پر ایمان لاتے ہو تو تورات میں کہیں یہ لکھا ہوا ہے کہ اگر کوئی ایسا نبی آئے جو تورات کی تصدیق کرتا ہو اور تورات ہی کے مطابق تمہاری رہنمائی کرتا ہو تو تم اسے قتل کرسکتے ہو؟ اگر یہ بات نہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمہارا تورات پر بھی ایمان نہیں۔ لہٰذا ہر لحاظ سے تم بے ایمان اور کافر ہو۔ |
البقرة |
92 |
[١٠٩] یہ واضح معجزات صرف عصائے موسیٰ اور یدبیضا ہی نہ تھے۔ بلکہ بے شمار دوسرے معجزات بھی تھے جیسے سمندر کا پھٹ جانا، اور فرعون کی غرقابی۔ چٹان سے بارہ چشموں کا پھوٹ نکلنا، جنگل میں من و سلویٰ کا نزول وغیرہ وغیرہ۔ اتنے واضح معجزات دیکھنے کے بعد بھی تم اللہ کی الوہیت پر ایمان نہ لائے اور موسیٰ کی غیر حاضری میں تمہیں تھوڑا سا موقع ملا تو فوراً پھر سے بچھڑے کی پرستش شروع کردی۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ظلم ہوسکتا ہے؟ |
البقرة |
93 |
[١١٠] میثاق کے وقت بھی تمہارے دل میں چور تھا :۔ یعنی جب تم سے تمہارے سروں پر طور پہاڑ کو جھکا کر تورات کے احکام پر عمل پیرا ہونے کا عہد لیا جا رہا تھا۔ جس کا پہلا اور بنیادی حکم یہی تھا کہ تم اللہ کے سوا کسی دوسرے کی عبادت نہ کرو گے اور نہ کسی کو اللہ کا شریک بناؤ گے تو تمہارے اسلاف نے کہا تھا کہ ہم نے یہ احکام سن لیے ہیں، اس وقت بھی تمہارے دل میں چور موجود تھا۔ کیونکہ گؤ سالہ پرستی کے جراثیم تمہارے دلوں میں موجود تھے۔ اور تم نے تورات کے احکام کو دل سے قطعاً تسلیم نہیں کیا تھا۔
[١١١] یعنی ایمان کا تقاضا تو یہ ہوتا ہے کہ انسان مشرکانہ اعمال و عقائد کو یکسر چھوڑ کر نیکی اور بھلائی کے کاموں کی طرف سبقت کرے۔ مگر تمہارا یہ ایمان کس قسم کا ایمان ہے جو مشرکانہ افعال، بدعہدیوں اور نافرمانیوں کی طرف لے جاتا ہے۔ تمہارے اسلاف بھی یہی کچھ کرتے رہے اور تم بھی انہی کی ڈگر پر چل رہے ہو۔ |
البقرة |
94 |
[١١٢] آخرت سے متعلق یہود کی تمنا :۔ یہ یہود کی دنیا سے محبت پر ایک نہایت عمدہ پیرایہ میں تعریض ہے۔ کیونکہ جن لوگوں کو آخرت سے لگاؤ ہوتا ہے وہ دنیا پر اس قدر ریجھے ہوئے نہیں ہوتے اور نہ ہی موت سے ڈرتے ہیں۔ مگر یہودیوں کا حال اس کے بالکل برعکس تھا اور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دلیل سے یہود کے اس غلط دعویٰ کارد فرمایا جو وہ کہتے تھے کہ آخرت کا گھر ہمارے ہی لیے مخصوص ہے۔ |
البقرة |
95 |
|
البقرة |
96 |
[١١٣] یہود کی جینے کی ہوس :۔ مشرکین نہ آخرت کے قائل تھے نہ عذاب و ثواب کے اور نہ جنت و دوزخ کے لہٰذا ان کو مرنے کے بعد کوئی خطرہ نظر نہیں آتا تھا۔ جب کہ یہود روز جزا کے قائل تھے، اور اپنی بدکرداریوں کا حال بھی انہیں خوب معلوم تھا۔ لہٰذا وہ تادیر دنیا میں زندہ رہنے کے لیے مشرکوں کی نسبت بہت زیادہ حریص تھے اور آیت علیٰ حیوۃ کے لفظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہود کو بس دنیا کی زندگی کی ہوس ہے۔ وہ زندگی خواہ عزت کی ہو یا ذلت کی۔ اس سے انہیں کچھ غرض نہیں۔ حالانکہ یہی لمبی زندگی آخرت میں انہیں بچانا تو درکنار ان کے لیے اور زیادہ عذاب کا سبب بن جائے گی۔ |
البقرة |
97 |
[١١٤] یہود کی جبریل دشمنی کی وجہ :۔ یہود یہ سمجھتے تھے کہ جبرئیل ہمارا دشمن ہے۔ وہ کہتے تھے کہ یہی وہ فرشتہ ہے جو کئی بار ہم پر عذاب اور ہمارے دشمنوں کو ہم پر غالب کرتا رہا ہے۔ چنانچہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے جب مدینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے کی خبر سنی تو اس وقت وہ باغ میں میوہ چن رہے تھے۔ اسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا’’میں آپ سے تین باتیں پوچھتا ہوں جنہیں پیغمبر کے سوا کوئی نہیں بتا سکتا آپ بتائیے کہ : قیامت کی پہلی نشانی کیا ہے؟ اور بہشتی لوگ بہشت میں جا کر سب سے پہلے کیا کھائیں گے؟ اور بچہ اپنے ماں باپ سے صورت میں کیوں ملتا جلتا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ابھی ابھی جبریل نے مجھے یہ باتیں بتائی ہیں‘‘ عبداللہ بن سلام نے کہا : ’’جبرائیل نے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں، ابن سلام نے کہا : سارے فرشتوں میں سے وہی تو یہودیوں کا دشمن ہے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی :
﴿مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ ﴾(بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ البقرۃ) [١١٥] یعنی جب جبریل ہی نے یہ قرآن اتارا ہے جو تمہاری کتاب تورات کی تصدیق کرتا ہے تو پھر جبریل سے دشمنی رکھنے کے کیا معنی؟ |
البقرة |
98 |
[١١٦] جبریل دشمنی کا جواب :۔ وجہ یہ ہے کہ فرشتے تو اللہ کے حکم کے بغیر کوئی کام کر ہی نہیں سکتے اور جو فرشتوں کا دشمن ہے وہ دراصل اللہ کا دشمن اور کافر ہے، اور اللہ خود فرشتوں سے دشمنی رکھنے والے کافروں کا دشمن ہے۔ |
البقرة |
99 |
|
البقرة |
100 |
|
البقرة |
101 |
[١١٧] یہود کا آیات کو پس پشت ڈال دینا :۔ یہاں دوبارہ یہود کے اس کردار پر گرفت کی گئی ہے کہ تورات میں مذکور نشانیوں کے مطابق یہود نے نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری طرح پہچان تو لیا۔ مگر ایمان لانے سے انکار کرنے کے بعد انہوں نے اس کتاب کے ان حصوں کو یوں فراموش کردیا جیسے وہ انہیں کبھی جانتے ہی نہ تھے۔ |
البقرة |
102 |
[١١٨] اس آیت میں یہود کے ایک اور مکروہ کردار کو واضح کیا گیا ہے۔ یہود پر جب اخلاقی اور مادی انحطاط کا دور آیا تو انہوں نے تورات اور اس کے احکام کو پس پشت ڈال دیا اور جادو ٹونے، طلسمات، عملیات اور تعویذ گنڈوں کے پیچھے پڑگئے اور ایسی تدبیریں ڈھونڈھنے لگے جن سے مشقت اور جدوجہد کے بغیر محض پھونکوں اور منتروں سے سارے کام بن جایا کریں۔ چنانچہ وہ جادو وغیرہ سیکھنے سکھانے میں مشغول ہوگئے۔ یہ سیدنا سلیمان علیہ السلام کے عہد حکومت کی بات ہے۔ انہیں جب یہود کے اس رجحان کا علم ہوا تو انہوں نے ایسے ساحروں سے ان کی سب کتابیں چھین کر داخل دفتر کردیں۔
یہود کا سیدنا سلیمان علیہ السلام پر جادو کا الزام :۔ اب سلیمان علیہ السلام کو جو معجزات عطا ہوئے تھے وہ حکمت الٰہی کے مطابق ایسے عطا ہوئے جو جادو اور جادوگروں کی دسترس سے باہر تھے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے تمام سرکش جنوں کو آپ کے لیے مسخر کردیا تھا اور سلیمان علیہ السلام ان جنوں سے سخت مشقت کا کام لیتے تھے۔ ہوائیں آپ کے لیے مسخر تھیں جو آن کی آن میں آپ کا تخت مہینوں کی مسافت پر پہنچا دیتی تھیں۔ پرندے بھی آپ کے مسخر تھے اور آپ ان سے بھی کام لیتے تھے۔ آپ پرندوں کی بولی سمجھتے تھے اور پرندے بھی آپ کی بات سمجھ جاتے تھے وغیرہ وغیرہ۔ جب سلیمان علیہ السلام فوت ہوئے تو ان شیطان یہودیوں نے کہا کہ سیدنا سلیمان علیہ السلام تو یہ سب کچھ جادو کے زور پر کرتے تھے اور اس کی دلیل یہ پیش کی کہ سلیمان علیہ السلام کے دفتر میں جادو کی بے شمار کتابیں موجود ہیں۔ جادو سیکھنا سکھانا کفر ہے :۔ گویا جو کام سلیمان علیہ السلام نے اس فتنہ کے سدباب کے لئے کیا تھا۔ ان یہودیوں نے اسی فتنہ کو ان کی سلطنت کی بنیاد قرار دے کر ان پر ایک مکروہ الزام عائد کردیا اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے اسی الزام کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ کفر کا کام سلیمان نے نہیں کیا تھا بلکہ ان شیطان لوگوں نے کیا تھا جو جادو سیکھتے سکھاتے تھے۔ ضمناً اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ جادو سیکھنا اور سکھانا کفر ہے۔ [١١٩] ہاروت اور ماروت کا قصہ اور جادو سیکھنے والوں کا ہجوم :۔ سلیمان علیہ السلام کے جادو کو روکنے کے لیے اس اقدام کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہود کی ایک دوسرے طریقہ سے آزمائش فرمائی اور وہ یہ تھی کہ بابل شہر میں (جہاں آج کل کوفہ ہے) دو فرشتوں ہاروت اور ماروت کو پیروں، فقیروں کے بھیس میں نازل فرمایا اور اس آزمائش سے مقصد یہ تھا کہ آیا ابھی تک یہود کے اذہان سے جادو اور ٹونے ٹوٹکے کی عقیدت اور محبت زائل ہوئی ہے یا نہیں۔ جب یہودیوں کو ان پیروں اور فقیروں کی بابل میں آمد کا علم ہوا تو فوراً ان کی طرف رجوع کرنے لگے۔ ان فرشتوں کو یہ حکم دیا گیا کہ اگر تمہارے پاس کوئی شخص یہ ٹونے ٹوٹکے سیکھنے آئے تو پہلے اس کو اچھی طرح خبردار کردینا کہ یہ ایک کفر کا کام ہے اور ہم محض تمہارے امتحان کے لیے آئے ہیں۔ لہٰذا تم کفر کا ارتکاب مت کرو۔ پھر بھی اگر کوئی سیکھنے پر اصرار کرے تو اسے سکھادینا۔ چنانچہ جو لوگ بھی ان کے پاس جادو سیکھنے آتے، فرشتے اسے پوری طرح متنبہ کردیتے، لیکن وہ اس کفر کے کام سے باز نہ آتے اور سیکھنے پر اصرار کرتے اور ایسے ٹونے ٹوٹکے سیکھنے والوں کے ان فرشتوں کے ہاں ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگے رہتے تھے۔ [١٢٠] جادو کے ذریعہ میاں بیوی میں جدائی ڈالنا : طرفہ تماشہ یہ کہ ان سیکھنے والوں میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جو ایسا عمل سیکھنا چاہتے تھے۔ جس سے میاں بیوی کے درمیان جدائی ہوجائے اور پھر وہ بیوی اس سیکھنے والے پر عاشق ہوجائے اور میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈال دینا ہی سوسائٹی کا سب سے بڑا مفسدہ ہے۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے کہ ابلیس سمندر میں اپنے تخت پر بیٹھا رہتا ہے اور اپنے چیلوں اور چانٹوں کو ملک میں فساد پیدا کرنے اور لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے روزانہ بھیجتا رہتا ہے۔ شام کو یہ سب اکٹھے ہو کر ابلیس کے حضور اپنے اپنے کارنامے بیان کرتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ میں نے فلاں فتنہ کھڑا کیا اور کوئی کہتا ہے کہ میں نے فلاں شر بپا کیا مگر ابلیس انہیں کچھ اہمیت نہیں دیتا اور کہتا ہے کہ تو نے کچھ نہیں کیا، پھر ایک اور چیلا آ کر کہتا ہے کہ میں فلاں میاں بیوی میں جدائی ڈال کے آیا ہوں تو ابلیس خوش ہو کر اسے شاباش دیتا اور گلے لگا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ تھا کرنے کا کام جو اس نے سر انجام دیا ہے۔ (مسلم، کتاب صفۃ المنافقین، باب تحریش الشیطان و بعثۃ سرایاہ لفتنۃ الناس۔۔ الخ) اس حدیث کے مضمون پر غور کرنے سے یہ بات خوب سمجھ میں آ جاتی ہے کہ اس دور میں یہود میں اخلاقی انحطاط کس نچلے درجہ تک پہنچ چکا تھا کہ وہ میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالنے کا عمل ہی نہیں سیکھتے تھے۔ ( جس سے ان کی ذات کو کچھ فائدہ نہ تھا) بلکہ اس کے آگے ایسا عمل اور جنتر منتر بھی سیکھتے تھے۔ جس سے وہ جدا شدہ بیوی اس منتر کروانے والے پر عاشق ہوجائے۔ [١٢١] اس آیت سے مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ ١۔ جادو کیوں کفر ہے؟ جادو سے عموماً لوگوں کو نقصان پہنچانا ہی مقصود ہوتا ہے۔ کسی کے بھلے کے لیے کبھی کوئی جادو نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی کرواتا ہے۔ اس سے ضمناً یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں کو نقصان پہنچتا ہے وہ جادو کرنے والے اور کروانے والے دونوں کے دشمن بن جاتے ہیں اور بہت سے لوگ اسی وجہ سے جادوگروں کے دشمن ہوتے ہیں اور جادوگر خود بھی ہمیشہ نامراد رہتا ہے۔ جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت ﴿وَلَا یُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْثُ اَتٰی ﴾ (۶۹:۲۰) ٢۔ یہ ضروری نہیں کہ جادو وغیرہ کا اثر ضرور ہو۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت میں ہو تو اثر ہوگا ورنہ نہیں ہوتا۔ ٣۔ یہود کو پوری طرح علم تھا کہ یہ کفر کا کام ہے اور آخرت میں انہیں اس کی سزا مل کر رہے گی۔ |
البقرة |
103 |
[١٢٢] عالم بے عمل جاہل ہے :۔ پہلی آیت میں فرمایا کہ ’’یہود کو اس بات کا علم تھا‘‘ اور اس آیت میں فرمای’’ کاش وہ جانتے ہوتے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی عالم اپنے علم کے خلاف گناہ کا کام کرتا ہے تو وہ درحقیقت عالم نہیں بلکہ جاہل ہے۔ لہٰذا وہ عالم کہلانے کا مستحق نہیں۔ |
البقرة |
104 |
[١٢٣] یہود کی شرارتیں راعِیْنَا کہنا :۔ یہود جب کبھی آپ کی مجلس میں بیٹھتے اور آپ کے ارشادات سنتے اور کسی بات کو دوبارہ سننے یا سمجھنے کی ضرورت پیش آتی تو ازراہ عناد (رَاعِنَا) کہنے کی بجائے زبان کو مروڑ دے کر راعِیْنَا کہا کرتے۔ (رَاعِنَا) کا مطلب ہے ہماری طرف توجہ کیجئے۔ یعنی بات ذرا دہرا دیجئے اور راعِیْنَا کا معنی ہے ’’ہمارے چرواہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہود کی شرارت پر مطلع کرتے ہوئے فرمایا کہ تم (رَاعِنَا) کہنا چھوڑ دو بلکہ اس کے بجائے اُنْظُرْنَا کہہ لیا کرو (اس کا معنی بھی وہی ہے جو راعنا کا ہے) اگر بات کو پہلے ہی توجہ سے سن لیا کرو کہ انظرنا بھی کہنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے تو یہ زیادہ مناسب ہے اور یہ شرارتی یہود تو ہیں ہی کافر۔ جو یقیناً دردناک عذاب کے مستحق ہیں۔ |
البقرة |
105 |
[١٢٤] یہود اور مشرکوں کا مسلمانوں کے مقابلہ میں گٹھ جوڑ :۔ یہودیوں کو اصل تکلیف تو یہ تھی کہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم ان میں کیوں مبعوث نہیں ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اولاد اسماعیل سے اور ایسی قوم میں پیدا ہوئے جنہیں یہود اپنے سے بہت کمتر اور حقیر سمجھتے تھے اور مشرکوں کو یہ تکلیف تھی کہ آپ خالصتاً ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دیتے تھے۔ جس کی زد ان پر، ان کے معبودوں پر، ان کے آباؤ اجداد پر اور ان کی چودھراہٹ پر پڑتی تھی۔ لہٰذا یہود اور مشرکین دونوں ہی پیغمبر اسلام، اسلام اور مسلمانوں کے شدید دشمن تھے۔ وہ مسلمانوں کے لیے کوئی بھلائی کی بات کیسے گوارا کرسکتے تھے، اور یہاں بھلائی اور رحمت سے مراد بالخصوص وہ احکام الہٰی ہیں جو مسلمانوں کی طرف نازل کئے جا رہے تھے۔ لہٰذا یہ دونوں فریق مسلمانوں کے خلاف متحد ہوجاتے تھے۔ |
البقرة |
106 |
[١٢٥] نسخ کی بحث :۔یہود جن جن طریقوں سے لوگوں کو اسلام سے متنفر کرنے کا کردار ادا کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ قرآن کو مشکوک قرار دیا جائے۔ وہ لوگوں سے کہتے کہ اگر قرآن بھی منزل من اللہ ہے اور تورات تو منزل من اللہ ہے ہی۔ پھر قرآن اور تورات کے احکام میں اختلاف کیوں ہے؟ اس اعتراض کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ قرآن میں ایک حکم نازل ہوتا ہے پھر اس کی جگہ کوئی اور حکم آ جاتا ہے تو کیا اللہ تعالیٰ کو یہ علم نہیں کہ میں پہلے کیا حکم دے چکا ہوں اور اب کیا دے رہا ہوں؟ یہود کے ایسے ہی اعتراضات کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دیا ہے اور فرمایا کہ عیب نہ پہلے حکم میں تھا اور نہ دوسرے حکم میں ہے۔ حالات اور موقع کی مناسبت سے جس طرح کے احکام کی ضرورت ہوتی ہے، ویسے ہی دیئے جاتے ہیں اور تمہیں یہ جان لینا چاہیے کہ اللہ مالک الملک ہے وہ جیسے چاہے حکم دے سکتا ہے۔ پہلے کے احکام منسوخ بھی کرسکتا ہے اور نئے دے بھی سکتا ہے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ کی آیات میں تبدیلی دو طرح سے قرآن میں واقع ہوئی ہے۔ ایک نسخ سے دوسرے بھلا دینے سے۔ یہاں ہم ان دونوں قسموں کی تفصیل بیان کریں گے : متقدمین نے نسخ کا مفہوم بہت وسیع معنوں میں لیا۔ وہ احکام میں تدریج کو بھی نسخ کے معنوں میں لیتے تھے اور اس طرح انہوں نے آیات منسوخہ کی تعداد پانچ سو تک شمار کردی جب کہ احکام میں تدریج پر نسخ کا اطلاق درست نہیں۔ نسخ سے مراد کسی حکم کا اٹھ جانا ہے اس لحاظ سے شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے آیات منسوخہ صرف پانچ شمار کی ہیں۔ جن کی مثالیں درج ذیل ہیں۔ قرآن سے نسخ کی مثالیں :۔ 1۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ١٨١ میں فرمایا کہ آیت ﴿ کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ ۔۔۔۔۔۔ بالْمَعْرُوْفِ﴾ اس آیت کی رو سے میت پر والدین اور اپنے قریبی رشتہ داروں کے حق میں مرنے سے پہلے وصیت کرنا فرض تھا۔ پھر جب سورۃ نساء کی آیت نمبر ١١ اور ١٢ میں اللہ تعالیٰ نے میراث کے حصے خود ہی والدین اور اقربین کے حق میں مقرر فرما دیئے تو اس آیت کا حکم منسوخ ہوگیا اور میت پر وصیت کرنا فرض نہ رہا۔ بلکہ اب وہ صرف غیر ذوی الفروض کے حق میں ہی وصیت کرسکتا ہے اور وہ بھی زیادہ سے زیادہ تہائی مال تک، نیز یہ وصیت فرض نہیں بلکہ اختیاری ہے اور مستحب ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ نساء کی آیت نمبر ١٥ میں زانیہ عورت کی یہ سزا مقرر فرمائی کہ بقیہ عمر اسے گھر میں مقید رکھا جائے۔ اور ساتھ ہی یہ بھی ذکر فرمایا کہ شاید اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی نئی سزا مقرر فرما دے۔ پھر جب سورۃ نور نازل ہوئی جس میں زانی مرد کو اور زانی عورت کو سو سو کوڑے مارنے کا ذکر ہے تو اس حکم سے پہلی سزا کا حکم اٹھ گیا۔ یعنی وہ منسوخ ہوگئی۔ ٣۔ سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٢٤٠ کی رو سے میت کے وارثوں پر فرض تھا کہ وہ اس کی بیوہ کو ایک سال گھر سے نہ نکالیں اور اس کا خرچ برداشت کریں۔ بعد میں جب بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن مقرر ہوگئی۔ نیز آیت میراث کی رو سے خاوند کے ترکہ میں بیوی کا حصہ بھی مقرر ہوگیا تو اس آیت کا حکم منسوخ ہوگیا۔ اب بیوہ کے حق میں تو یہ حکم ہوا کہ وہ بس عدت کے ایام اپنے مرنے والے شوہر کے ہاں گزارے۔ بعد میں وہ آزاد ہے اور اس دوران نان و نفقہ بھی وارثوں کے ذمہ اور ترکہ سے ہی ہوگا اور سال بھر کے خرچہ کا مسئلہ میراث میں حصہ ملنے سے حل ہوگیا۔ مندرجہ مثالیں ایسی ہیں جن میں سابقہ آیت کا حکم قطعاً منسوخ ہے۔ اب ہم کچھ ایسی مثالیں بیان کرتے ہیں۔ جن میں دونوں قسم کے حکم حالات کے تقاضوں کے تحت ساتھ ساتھ چلتے ہیں مثلاً: ١۔ سورۃ انفال (جو جنگ بدر کے فوراً بعد نازل ہوئی تھی) کی آیت نمبر ٦٥ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جرأت ایمانی کا معیار مقرر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک مسلمان کو دس کافروں پر غالب آنا چاہیے۔ یہ حکم ان مسلمانوں کے لیے تھا جو علم و عمل میں پختہ اور ہر طرح کی سختیاں برداشت کرچکے تھے اور ان کا اللہ تعالیٰ پر توکل کامل تھا۔ بعد میں اسلام لانے والے مسلمان جن کی تربیت بھی پوری طرح نہ ہوسکی تھی۔ ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے معیار میں کافی تخفیف کرتے ہوئے اگلی آیت میں فرمایا کہ ان میں سے بھی ایک مسلمان کو کم از کم دو کافروں پر ضرور غالب آنا چاہیے۔ اب اس بعد والے حکم سے پہلا حکم منسوخ نہیں ہوا۔ بلکہ جب بھی کسی خطہ میں تحریک جہاد شروع ہوگی تو حالات کے مطابق دونوں قسم کے احکام لاگو ہوں گے۔ ٢۔ سورۃ محمد کی آیت نمبر ٤ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جنگ کے بعد جنگی قیدیوں کو خواہ فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے یا احسان رکھ کر۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنگی قیدیوں کو لونڈی غلام بنانے سے منع فرما دیا ہے۔ دوسری طرف سورۃ احزاب کی آیت نمبر ٥٠ کی رو سے عام مسلمان تو درکنار خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگی قیدیوں کو لونڈی غلام بنانے بلکہ لونڈیوں سے تمتع کی بھی اجازت فرما رہے ہیں اور ان دونوں طرح سے احکام میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کا ناسخ نہیں ہے۔ بلکہ حالات کے تقاضوں کے مطابق دونوں میں سے کسی نہ کسی پر عمل درآمد ہوگا اور ایسی مثالیں قرآن میں اور بھی بہت ہیں۔ آیات میں تبدیلی کی دوسری صورت اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی کہ ہم اس آیت یا اس جملہ کو بھلا ہی دیتے ہیں۔ جیسا کہ سورۃ اعلیٰ میں فرمایا : ﴿ سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنسَىٰ إِلَّا مَا شَاءَ اللَّـهُ ﴾(۸۷: ۶ ،۷) یعنی ہم تمہیں پڑھائیں گے جسے تم بھولو گے نہیں مگر جو اللہ چاہے۔ اور اس بھلانے کی صورت یہ ہوتی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال رمضان میں حضرت جبریل علیہ السلام کے ساتھ نازل شدہ قرآن کریم کا دور کیا کرتے، اس دوران جن الفاظ یا جس جملہ کو منسوخ کرنا اللہ کو منظور ہوتا تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھول جاتے تھے اور جبریل علیہ السلام بھی اس کا تکرار نہیں کرتے تھے۔ ایسے نسخ کی بھی چند مثالیں درج ذیل ہیں۔ ١۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٢٦ میں فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ اس بات سے نہیں شرماتا کہ وہ مچھر یا اس سے بھی کسی حقیر مخلوق کی مثال بیان کرے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی آیت بھی نازل کی تھی جس میں مچھر کی مثال بیان کی گئی تھی۔ جسے کافروں نے اضحوکہ بنایا تھا اور چونکہ وہ مچھر کی مثال والی آیت قرآن میں موجود نہیں۔ لہٰذا اس کے متعلق یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ بھلا دی گئی تھی۔ ٢۔ سورۃ نساء کی آیت نمبر ٢٤ میں آیت (فَـمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ مِنْھُنَّ ﴾ کے بعد ﴿اِلیٰ اَجَلٍٍ مُسَمًّی﴾ کے الفاظ بھی نازل ہوئے تھے جس کی رو سے مجاہدین کے لیے محاذ جنگ کے دوران متعہ حلال ہوتا رہا۔ لیکن بالآخر اس کی ابدی حرمت ہوگئی تو یہ آخری الفاظ بھی اللہ تعالیٰ نے بھلا دیئے اور شامل قرآن نہ ہو سکے۔٣۔ آیت رجم بھی اس قبیل سے ہے جس کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی آخری زندگی کے ایک خطبہ میں برسر منبر فرمایا تھا۔ ’’اس کتاب اللہ میں رجم کے حکم کی بھی آیت تھی۔ جسے ہم نے پڑھا، یاد کیا۔ اور اس پر عمل بھی کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی رجم ہوا اور ہم نے بھی رجم کیا۔ مجھے ڈر ہے کہ کچھ زمانہ گزرنے کے بعد کوئی یہ نہ کہنے لگے کہ ہم رجم کو کتاب اللہ میں نہیں پاتے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اس فریضہ کو جسے اللہ نے اپنی کتاب میں اتارا چھوڑ کر مر جائیں۔ کتاب اللہ میں رجم کا حکم مطلق حق ہے اس پر جو زنا کرے اور شادی شدہ ہو۔ خواہ مرد ہو یا عورت، جبکہ اس کے زنا پر کوئی شرعی ثبوت یا حمل موجود ہو۔‘‘ (بخاری، کتاب المحاربین۔ باب رجم الحبلیٰ) معتزلہ کا نسخ سے انکار۔۔رہی یہ بات کہ اگر یہ آیت منسوخ ہوگئی یا بھلا دی گئی تو اس کا حکم کیسے باقی رہ گیا۔ یہ تفصیل سورۃ نور کی آیت نمبر ٢ کے تحت ملاحظہ فرمائی جائے۔ یہاں صرف یہ بات چل رہی ہے کہ منزل من اللہ وحی میں سے اللہ کی حکمت کے تحت کچھ آیات یا جملے یا الفاظ بھلا بھی دیئے گئے اور کچھ احکام منسوخ بھی ہوئے ہیں۔ چونکہ مسلمانوں میں بھی ایک فرقہ قرآن میں کسی طرح کے نسخ کا قائل نہیں لہٰذا یہ مثالیں پیش کرنا ضروری سمجھا گیا، اور ان پر اکتفا کیا گیا۔ حالانکہ قرآن میں ایسی اور بھی مثالیں موجود ہیں۔ یہود کے لوگوں کواسلام سے متنفر کرنےکےطریقے:۔بعض روایات میں آیا ہے بعض صحابہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ ہم فلاں آیت پڑھا کرتے تھے جو بعد میں منسوخ ہوگئی۔ ان روایات کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ بعض دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی آیت کی تشریح میں کوئی جملہ فرما دیا لیکن صحابہ رضی اللہ عنہم نے اسے آیت کا حصہ ہی سمجھ لیا، پھر جب ایسے جملوں کا قرآن کے ان اجزاء سے مقابلہ کیا گیا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوائے تھے۔ تب صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو معلوم ہوا کہ وہ جملے قرآن کی آیت کا حصہ نہیں تھے اور اس کی بھی کئی مثالیں احادیث میں موجود ہیں۔ |
البقرة |
107 |
|
البقرة |
108 |
[١٢٦] اسلام سے متنفر کرنے کا دوسرا طریقہ جو یہود نے اختیار کیا وہ یہ تھا کہ موشگافیاں کر کے طرح طرح کے سوالات مسلمانوں کے سامنے پیش کرتے اور انہیں کہتے کہ اپنے نبی سے یہ بات بھی پوچھ کر بتاؤ اور وہ بھی اور یہ بھی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے متنبہ کیا کہ یہود کی تو عادت ہی یہ رہی ہے انہوں نے تو موسیٰ علیہ السلام کو مسلسل سوالات اور مطالبے کر کر کے تنگ کردیا تھا۔ اس طرح کی موشگافیاں کافرانہ روش ہے اور یہ کام ایسے لوگ کرتے ہیں جو اطاعت و فرمانبرداری پر آمادہ نہیں ہوتے۔ لہٰذا تم ایسے لایعنی اور بے مقصد سوالات کرنے سے پرہیز کرو۔
یہود کا سوالات کرکرکے تنگ کرنا:۔ اور سورۃ مائدہ میں فرمایا۔ ’’مسلمانو! اپنے رسول سے ایسے سوالات مت پوچھا کرو کہ اگر ان کا جواب دیا جائے تو تمہیں برا لگے۔‘‘ (٥ : ١٠١) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بارہا متنبہ فرمایا کہ قیل و قال اور بال کی کھال اتارنے کی وجہ سے پچھلی امتیں تباہ ہوئیں۔ لہٰذا تم ایسی باتوں سے پرہیز کرو اور جن باتوں کو اللہ اور اس کے رسول نے نہیں چھیڑا ان میں خواہ مخواہ کرید نہ کرو۔ |
البقرة |
109 |
[١٢٧] یہود کے حسد اور عناد کی وجہ تو اوپر مذکور ہوچکی۔ اس لیے کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو مختلف طریقوں اور حیلوں بہانوں سے اسلام سے برگشتہ کر کے مسلمانوں کی قوت کو کمزور تر کردیں۔ لہٰذا اے مسلمانو! تم ان کے اندرونی عناد اور بغض کی حقیقت کو خوب سمجھ لو اور ان کا ردعمل دیکھ کر مشتعل نہ ہوجاؤ، نہ ان سے بحث و مناظرہ میں الجھو اور نہ اپنا وقت ضائع کرو بلکہ انہیں درخور اعتنا نہ سمجھتے ہوئے ان کے حال پر چھوڑ دو، اور صبر کے ساتھ دیکھتے رہو کہ اللہ ان کے حق میں کیا فیصلہ فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو پوری سزا دے کے رہے گا۔ کیونکہ وہ ہر بات اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
[ ١٢٨] یہود کی شرارتوں کی سزا: اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہوا کہ ان کے ساتھ جہاد کیا جائے۔ پھر ان میں سے کچھ (بنو نضیر) تو نہایت ذلت کے ساتھ جلاوطن کئے گئے اور بعد میں جزیہ دینے پر مجبور ہوئے اور بعض دوسرے (بنو قریظہ) قید ہوئے اور پھر قتل کردیئے گئے اور ان کی عورتیں اور بچے لونڈی و غلام بنا لیے گئے۔ |
البقرة |
110 |
[١٢٩] (فَاعْفُوْا) سے لے کر مسلسل مسلمانوں سے خطاب ہے۔ یعنی یہود کی شرارتوں کی طرف توجہ دینے کے بجائے اللہ کی عبادت میں مشغول رہا کرو اور زکوٰۃ ادا کیا کرو، ایسے تمام کاموں کا تمہیں یقینا آخرت میں بدلہ مل جائے گا۔ |
البقرة |
111 |
|
البقرة |
112 |
[١٣٠] یہاں سابق مضمون کو ہی دہرایا جا رہا ہے۔ یعنی زبانی دعوے اور جھوٹی آرزوئیں بیکار چیزیں ہیں یہ خواہ یہود کی ہوں یا نصاریٰ کی یا مسلمانوں کی یا کسی اور کی۔ اخروی نجات کے لیے اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس ایمان کے تقاضوں کے مطابق صالح اعمال بجا لانا ضروری ہے اسلام لانے کافائدہ سابقہ گناہ معاف : ١۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ’’جب کوئی شخص اسلام لائے اور ٹھیک طور پر لائے تو اس کی سابقہ تمام برائیاں دور کردی جاتی ہیں اور اس کے بعد جو حساب شروع ہوگا وہ یوں ہوگا ہر نیکی کے عوض دس سے لے کر سات سو تک نیکیاں (لکھی جائیں گی) اور برائی کے عوض ویسی ہی ایک برائی لکھی جائے گی۔ الا یہ کہ اللہ وہ بھی معاف کر دے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الایمان، باب حسن اسلام المرء)
٢۔ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! بھلا دیکھیے جو کام میں نے جاہلیت کے زمانہ میں کئے تھے۔ جیسے صدق یا غلام آزاد کرنا یا صلہ رحمی وغیرہ ان کا مجھے ثواب ملے گا ؟ آپ نے فرمایا تو اسلام لایا ہی اس شرط پر ہے کہ تیری سابق نیکیاں بحال رہیں۔ میں نے کہا ''یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کی قسم! میں نے جتنے کام جاہلیت میں کئے ہیں۔ ان میں سے کوئی کام نہ چھوڑوں گا۔ اتنے ہی سب کام اسلام کی حالت میں بھی کرتا رہوں گا۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب بیان حکم عمل الکافر إذا أسلم بعدہ) ٣۔ عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے جاہلیت کے زمانے میں سو غلام آزاد کئے تھے اور سو اونٹ سواری کے لیے اللہ کی راہ میں دیئے تھے۔ پھر انہوں نے اسلام کی حالت میں بھی سو غلام آزاد کئے اور سو اونٹ اللہ کی راہ میں سواری کے لیے دیئے۔ (مسلم : حوالہ ایضاً) |
البقرة |
113 |
[١٣١] یہود، نصاریٰ ، مشرکین سب کو اپنے دین پر فخر :۔یہود تورات بھی پڑھتے ہیں اور انجیل بھی، اسی طرح نصاریٰ بھی یہ دونوں کتابیں پڑھتے ہیں۔ تاہم یہودی عیسائیوں کو اس لیے کافر سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ایک کے بجائے تین خدا بنا رکھے ہیں اور نصاریٰ یہود کو اس لیے کافر سمجھتے ہیں کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان نہیں لائے۔ حالانکہ تورات میں ان کی بشارت موجود ہے۔
[١٣٢] ان سے مراد مشرکین عرب ہیں جنہیں امی کہا جاتا تھا۔ یہ لوگ اگرچہ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے تھے۔ تاہم اپنے آپ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا پیروکار سمجھتے تھے، نماز، روزہ، اپنے دستور کے مطابق بجا لاتے تھے صدقات و خیرات کرتے تھے، حج کرتے تھے، حاجیوں کی خدمت کرتے اور ان کے لیے پانی کا بندوبست کرتے تھے۔ یہ لوگ اپنے علاوہ دوسروں کو گمراہ اور بےدین سمجھتے تھے۔ [١٣٣] یعنی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سب کو بتلا دے گا کہ دین میں گمراہی کے کون کون سے امور تم نے شامل کر رکھے تھے۔ گو آج بحث اور مناظروں سے کوئی فرقہ بھی اپنی گمراہی تسلیم کرنے کو آمادہ نہیں ہے۔ |
البقرة |
114 |
[١٣٤] جب نصاریٰ یہود پر غالب ہوئے تو انہوں نے یہود کو بیت المقدس میں داخل ہونے اور عبادت کرنے سے روک دیا تھا اور دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مشرکین مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو کعبہ میں نماز ادا کرنے سے روکتے رہے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر عمرہ سے روک دیا۔ اس طرح یہ لوگ اللہ کی مساجد کی رونق اور آبادی کے بجائے ان کی بربادی کے درپے ہوئے اور یہ بہت بڑا ظلم ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کو قطعاً گوارا نہیں۔ چنانچہ فتح مکہ کے بعد مشرکین مکہ کی یہ پابندی ختم ہوئی اور بیت المقدس کو عہد فاروقی رضی اللہ عنہ میں مسلمانوں نے عیسائیوں سے آزاد کرا لیا۔
مساجد کے متولیوں کےاوصاف :۔ اللہ تعالیٰ کا اس حکم سے منشا یہ ہے کہ عبادت گاہوں کے متولی خالصتاً اللہ تعالیٰ کی پرستش کرنے والے اور اسی سے ڈرنے والے ہونے چاہئیں تاکہ شریر لوگ اگر وہاں جائیں تو انہیں خوف ہو کہ اگر شرارت کریں گے تو سزا پائیں گے۔ لیکن جو لوگ خلوص نیت سے عبادت کے لیے مساجد میں داخل ہوں۔ انہیں کسی وقت بھی مساجد میں داخل ہونے سے روکنا نہیں چاہیے۔ کیونکہ اللہ کی عبادت سے روکنا بہت بڑا گناہ ہے۔ |
البقرة |
115 |
[١٣٥]نماز میں قبلہ رخ ہونا:۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر نفل ادا کر رہے تھے اور سواری کسی بھی سمت کو رخ کرلیتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مکہ سے مدینہ آ رہے تھے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہی آیت پڑھی اور فرمایا کہ یہ آیت اسی باب میں ہے (ترمذی ابو اب التفسیر زیر آیت بالا) ایک روایت میں یہ ہے کہ ایک سفر میں صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ رات اندھیری تھی ہر ایک کو قبلہ جدھر معلوم ہوا نماز ادا کرلی اور نشان کے طور پر پتھر رکھ لیے صبح کو معلوم ہوا وہ بعض لوگوں نے غلط سمت میں نماز ادا کی ہے۔ ان کو تردد ہوا تب یہ آیت نازل ہوئی۔ اور قتادہ سے مروی ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے اور اس کی ناسخ ﴿فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ﴾ہے۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر زیر آیت بالا)
واضح رہے کہ وحدت الوجود کے قائل صوفی حضرات اس آیت کو وحدت الوجود کی صحت پر دلیل کے طور پر پیش فرمایا کرتے ہیں۔ چنانچہ خواجہ حسن سنجری فرماتے ہیں کہ
کافراں سجدہ کہ بروئے بتاں مے کردند ہمہ اوسوئے تو بود و ہمہ سو روئے تو بود
یعنی کافر جو بتوں کو سجدہ کرتے ہیں تو ان کا منہ دراصل تیری ہی طرف ہوتا ہے۔ کیونکہ ہر طرف تیرا ہی چہرہ ہوتا ہے۔ اس آیت کے نزول کا سبب اور اس کے منسوخ ہونے کے متعلق ہم اوپر لکھ چکے ہیں۔ اس کے باوجود اگر ان حضرات کے اس نظریہ کو درست سمجھا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر تحویل قبلہ کی آخر کیا ضرورت اور اہمیت تھی جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسی سورۃ بقرہ میں ٩ آیات نازل فرمائیں؟ سنجری صاحب کے اس شعر سے یہ ضرور معلوم ہوجاتا ہے کہ جب انسان پہلے سے ذہن میں ایک نظریہ قائم کر کے پھر سے قرآن سے ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کس حد تک کج فکری سے کام لے سکتا ہے۔ چنانچہ سنجری صاحب نے بت پرستوں کو بت پرستی کے فعل کی بھی تحسین فرما کر اسے درست قرار دے دیا۔ [ ١٣٦] یعنی اللہ تعالیٰ تنگ نظر اور تنگ دل نہیں، بلکہ اس کی خدائی بھی وسیع، زاویہ نظر بھی وسیع اور دائرہ فیض بھی وسیع ہے۔ لہٰذا اگر قبلہ کی تلاش میں خطا ہو بھی جائے تو وہ قابل گرفت نہیں وہ خوب جانتا ہے کہ اس کا فلاں بندہ کہاں، کس وقت اور کس نیت سے یاد کر رہا ہے۔ |
البقرة |
116 |
[١٣٧] اللہ تعالیٰ کی اولادقراردینے والے:۔ یہود کہتے ہیں کہ عزیر علیہ السلام اللہ کا بیٹا ہے اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ عیسیٰ بن مریم علیہما السلام اللہ کا بیٹا ہے۔ اور مشرکین کہتے ہیں کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ اس کی تردید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آسمانوں، اور زمین میں جو کچھ ہے سب اسی کی ملک اور وہ ان کا مالک ہے۔ لہٰذا تمام اشیاء مملوک ہوئیں اور بیٹا شریک ہوتا ہے مملوک نہیں ہوتا۔ لہٰذا اللہ کی اولاد ہونا ناممکن ٹھہرا، اور ایک حدیث صحیح قدسی میں وارد ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ بنو آدم نے مجھے جھٹلایا اور گالی دی۔ اس کا جھٹلانا تو یہ ہے کہ میں اسے دوبارہ پیدا نہ کرسکوں گا اور اس کا گالی دینا یہ ہے جو اس نے میرے لیے بیوی اور بیٹا تجویز کیا۔ (بخاری، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ اخلاص) |
البقرة |
117 |
[١٣٨] بدیع کے معنی ہیں ایسی چیز کو وجود میں لانے والا جس کی پہلے کوئی نظیر موجود نہ ہو، نہ اس کا وجود موجود ہو اور نہ کوئی نمونہ اور یہ صفت صرف اللہ تعالیٰ کی ہی ہو سکتی ہے۔ |
البقرة |
118 |
[١٣٩] یعنی اس قسم کے مطالبات جاہل لوگ کیا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خود ہمارے پاس آ کر بتائے کہ یہ واقعی میرا رسول ہے یا کوئی ایسی واضح علامت یا معجزہ ہمیں دکھلائے جس سے ہمیں یقین آ جائے۔ اسی صورت میں ہم ایمان لا سکتے ہیں۔ یہ سب جہالت کی باتیں ان میں سے اکثر ناممکن العمل ہیں۔ پہلے لوگ بھی ایسے مطالبے کرتے رہے اور آج بھی جاہل لوگ اسی طرح کے مطالبے کر رہے ہیں۔
[ ١٤٠] یعنی مزاج کے لحاظ سے پہلے زمانہ کے گمراہوں اور ان گمراہوں میں کچھ فرق نہیں۔ ایسے جاہل لوگ ایک ہی قسم کے اعتراضات اور مطالبات پیش کرتے رہتے ہیں۔ [١٤١] اور جن لوگوں نے ایمان لانا ہو ان کے لیے تو ہماری نشانیوں کی کوئی کمی نہیں۔ ایک ایک آیت پر ان کا ایمان پختہ سے پختہ تر ہوتا جاتا ہے اور جو لوگ کفر پر اڑے رہنا چاہتے ہیں انہیں البتہ کوئی نشانی نظر نہیں آتی۔ |
البقرة |
119 |
[١٤٢] مثلاً تمہارے پاس جو رسول آیا ہے۔ تم خود جانتے ہو اس نے آج تک کبھی جھوٹ نہیں بولا تو کیا جو شخص کسی انسان سے جھوٹ نہیں بولتا۔ وہ اللہ پر جھوٹ تراش سکتا ہے؟ نیز تم یہ جانتے ہو کہ وہ لکھنا پڑھنا جانتا ہی نہیں۔ اس کا کوئی استاد بھی نہیں پھر وہ ایسا کلام پیش کرتا ہے جس کے مقابلہ میں کلام لانے سے تم سب کے سب عاجز ہو تو کیا صرف یہی بات اللہ کے وجود، نبی کی نبوت اور قرآن کے کلام الٰہی ہونے کا واضح ثبوت نہیں؟ مگر جو شخص ماننے کا ارادہ ہی نہ رکھتا ہو کوئی بھی نشانی اسے ایمان لانے پر مجبور نہیں کرسکتی۔
[ ١٤٣] یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام صرف اللہ کا پیغام بندوں تک پہنچا دینا ہے۔ اب اگر لوگ ایمان نہیں لاتے اور دوزخ کے مستحق ٹھہرتے ہیں تو اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کچھ الزام نہیں۔ |
البقرة |
120 |
[١٤٤] یہاں ملت سے مراد وہ دین نہیں جو تورات میں یا انجیل میں مذکور ہے بلکہ وہ دین ہے جس میں وہ سب خرافات بھی شامل ہیں جنہیں ان لوگوں نے دین سمجھ رکھا ہے اور وہ رنگ ڈھنگ بھی جو یہ لوگ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ لہٰذا انہیں خوش رکھنے کی فکر چھوڑ دیجئے کیونکہ جب تک آپ عقائد و اعمال کی انہیں گمراہیوں میں مبتلا نہ ہوجائیں جن میں یہ پڑے ہوئے ہیں اس وقت تک ان کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے راضی ہونا محال ہے۔
[ ١٤٥] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کےبعد تمام لوگوں کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاناواجب ہے: اللہ کی طرف سے ہدایت ہر زمانہ میں اس زمانہ کے تقاضوں کے مطابق ہی آتی ہے اور وہی ہدایت معتبر ہوتی ہے جو اس زمانہ کا نبی لائے۔ سو اس دور میں اللہ کی ہدایت قرآن میں ہے اور اسی پر سب کو ایمان لانا ضروری ہے۔ چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تورات کا ایک نسخہ لے کر آئے اور کہنے لگے۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تورات کا نسخہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپ رہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے پڑھنا شروع کردیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ متغیر ہوتا چلا جا رہا تھا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ صورت حال دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا تجھے گم کرنے والیاں گم کریں کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہیں دیکھتے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ میں غصہ کے آثار دیکھے تو کہنے لگے کہ ’’میں اللہ سے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے غضب سے پناہ مانگتا ہوں۔ ہم اللہ کے پروردگار ہونے پر اسلام کے دین ہونے پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہوئے۔‘‘ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے۔ اگر موسیٰ آج موجود ہوں اور تم مجھ کو چھوڑ کر اس کی پیروی کرو تو گمراہ ہوجاؤ گے، اور اگر موسیٰ علیہ السلام خود زندہ ہوتے اور میری نبوت کا زمانہ پاتے تو ضرور میری پیروی کرتے۔‘‘ (دارمی، بحوالہ مشکوٰۃ شریف، کتاب الایمان باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ فصل ثالث) اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ ہی کی دوسری روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ ’’اگر موسیٰ زندہ ہوتے تو انہیں بھی میری اتباع کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ ہوتا۔‘‘(احمد بیہقی فی شعب الایمان، بحوالہ مشکوٰۃ باب ایضاً فصل ثانی) [ ١٤٦] یہ تنبیہ بطریق فرض ہے۔ یعنی بالفرض آپ بھی ایسا کریں تو آپ کو اللہ سے کوئی بچا نہیں سکتا۔ گویا امت کو انتہائی تاکید سے آگاہ کیا جا رہا ہے کہ اگر کوئی شخص اسلام لانے کے بعد پھر سے یہودی یا عیسائی بن جائے تو اسکو اللہ کے عذاب سے کوئی نہ بچا سکے گا۔ |
البقرة |
121 |
[١٤٧]اہل کتاب میں منصف :۔ یہودیوں میں کچھ تھوڑے سے لوگ انصاف پسند بھی تھے جو اپنی کتاب کو نیک نیتی سے پڑھتے اور سمجھتے تھے۔ ایسے ہی لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پر ایمان لائے جیسے عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی۔ اور ان کے ایمان لانے کی وجہ یہ تھی کہ وہ تورات کو غور سے اور سمجھ کر نیک نیتی سے پڑھتے تھے، اور جو لوگ تورات سے ہدایت حاصل کرنے کے بجائے اس کی تحریف و تاویل کے درپے ہوئے وہ خائب و خاسر ہوئے۔ |
البقرة |
122 |
[١٤٨]یہود کے تفصیلی ذکرکےبعد آخرمیں پھر تنبیہ :۔ بنی اسرائیل کا ذکر پانچویں رکوع سے شروع ہو کر چودھویں رکوع تک پورے دس رکوعات میں پوری تفصیل سے کیا گیا اور بتلایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے تو ان کو تمام اقوام عالم پر فضیلت دے کر تمام بنی نوع انسان کی ہدایت کا فریضہ انہیں سونپا تھا۔ مگر ان میں بے شمار ایسی اخلاقی بیماریاں پیدا ہوچکی تھیں۔ جن کی وجہ سے یہ امامت کے قابل ہی نہ رہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی ایسی تمام اخلاقی بیماریوں کا ذکر تفصیل سے بیان کردیا ہے اور آخر میں انہیں وہی ہدایت کی جا رہی ہے جو ابتداء میں بھی کی گئی تھی کہ اس دن سے ڈر کر اب بھی اپنی خباثتوں سے باز آ جاؤ۔ جس دن کوئی شخص دوسرے کے کام نہ آسکے گا، نہ بدلہ قبول کیا جائے گا نہ کسی کی سفارش فائدہ دے سکے گی اور نہ ہی مدد کا کوئی اور ذریعہ کام آسکے گا۔ |
البقرة |
123 |
|
البقرة |
124 |
[١٤٩]سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا امتحان کن کن باتوں میں ہوا:۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تمام دنیا کی امامت ایسے ہی نہیں مل گئی تھی بلکہ آپ کی سن شعور سے لے کر مرنے تک پوری زندگی قربانی ہی قربانی تھی۔ دنیا میں انسان جن چیزوں سے محبت کرتا ہے ان میں کوئی چیز بھی ایسی نہ تھی جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حق کی خاطر قربان نہ کیا ہو اور ان کی خاطر مصائب نہ جھیلے ہوں جن میں سے چند ایک یہ ہیں :
١۔ آپ ایک بت گر اور بت فروش کے گھر پیدا ہوئے۔ باپ چاہتا تھا کہ بیٹا اس کام میں ان کا ہاتھ بٹائے۔ لیکن آپ علیہ السلام نے الٹا احسن انداز میں سمجھانا شروع کردیا۔ جب باپ آپ علیہ السلام کی طرف سے مایوس ہوگیا تو گھر سے نکال دینے کی دھمکی دے دی۔ آپ علیہ السلام نے حق کی خاطر جلاوطنی کی صعوبتیں قبول کیں۔ ٢۔ قومی میلہ کے موقع پر بتوں کو پاش پاش کیا جس کے نتیجہ میں آپ علیہ السلام کو آگ میں جلا دینے کا فیصلہ ہوا۔ آپ علیہ السلام نے بخوشی اس میں کودنا منظور کیا۔ ٣۔ آپ علیہ السلام نے اپنی بیوی ہاجرہ علیہا السلام اور دودھ پیتے بچے کو اللہ کے حکم کے مطابق ایک بے آب و گیاہ میدان میں جا چھوڑا۔ جہاں کھانے پینے کا کوئی بندوبست نہ تھا اور نہ ہی دور دور تک کسی آبادی کے آثار نظر آتے تھے۔ ٤۔ بوڑھی عمر میں ملے ہوئے بچے اسماعیل علیہ السلام جب ذرا جوان ہوئے تو ان کو قربان کردینے کا حکم ہوا تو آپ بےدریغ اور بلاتامل اس پر آمادہ ہوگئے۔ غرض آپ کی قربانیوں اور آزمائشوں کی فہرست خاصی طویل ہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے خود یہ سرٹیفکیٹ عطا کردیا کہ ہم نے ابراہیم علیہ السلام کی کئی باتوں سے آزمائش کی تو وہ ہر امتحان میں پورے اترے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ان امتحانوں کے نتیجہ میں آپ کو دنیا جہان کا امام بنا دیا، اور آئندہ قیامت تک کے لیے سلسلہ نبوت کو آپ علیہ السلام ہی کی اولاد سے منسلک کردیا اور دنیا کے اکثر و بیشتر مذاہب اپنے مذہب کی آپ علیہ السلام کی طرف نسبت کرنا باعث عزت و افتخار سمجھتے ہیں۔ [ ١٥٠]تمام لوگوں کے امام :۔ یعنی امامت کا وعدہ صرف تمہاری اس اولاد سے تعلق رکھتا ہے جو صالح ہوگی۔ ظالموں اور گنہگاروں کے لیے ایسا کوئی وعدہ نہیں۔ یہیں سے یہود کے اس غلط عقیدہ کی تردید ہوگئی جو وہ سمجھتے تھے کہ ہم چونکہ پیغمبروں کی اولاد ہیں اس لیے ہمیں عذاب اخروی نہ ہوگا۔ |
البقرة |
125 |
[١٥١]مقام ابراہیم کی فضیلت :۔ مثابۃ بمعنی لوگوں کے بار بار آتے اور جاتے رہنے کی جگہ (بغرض حج، عمرہ، طواف، اور عبادت نماز وغیرہ)
[ ١٥٢] وہ پتھر جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام خانہ کعبہ کی تعمیر کرتے رہے۔ اسی پر کھڑے ہو کر آپ نے لوگوں کو حج کے لیے پکارا۔ یہ پتھر خانہ کعبہ کے صحن میں ہے اور آج کل اسے ایک چھوٹی سی شیشہ کی گنبد نما عمارت میں محفوظ کردیا گیا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے تین باتوں میں میری رائے اللہ کے علم کے موافق ہوگئی۔ (جن میں ایک یہ تھی) میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا اچھا ہو اگر آپ مقام ابراہیم علیہ السلام کو نماز کی جگہ قرار دے دیں اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتار دی۔ ﴿وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّی ﴾ چنانچہ طواف کرنے والے اسی مقام کے پاس دوگانہ نماز نفل ادا کرتے ہیں۔ [ ١٥٣] مساجدمیں صفائی کی فضیلت :معلوم ہوا مسجدوں کو صاف ستھرا رکھنا اور روشنی کا انتظام نہایت فضیلت والا کام ہے۔ جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے دو اولوا العزم رسولوں کو بطور خاص حکم دیا۔ یہاں صفائی سے مراد صرف ظاہری صفائی نہیں، بلکہ باطنی صفائی بھی ہے کہ اس گھر میں مشرک لوگ نہ آنے پائیں۔ جو اللہ کے علاوہ دوسروں کو بھی پکارنا شروع کردیں اور اسے گندا کردیں۔ اور مساجد کی صفائی اور آداب کے لیے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ اسے دفن کردینا (یا صاف کردینا) ہے (بخاری، کتاب الصلوٰۃ باب کفارۃ البزاق فی المسجد) ٢۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک کالی عورت مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھی۔ وہ مر گئی۔ آپ نے جب اسے نہ دیکھا تو لوگوں سے اس کا حال پوچھا۔ انہوں نے کہا : وہ مر گئی۔’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے مجھے کیوں نہ خبر کی۔ چلو اب اس کی قبر بتلاؤ‘‘ پھر آپ اس کی قبر پر گئے اور نماز پڑھی۔ (بخاری، کتاب الصلٰوۃ، باب کنس المسجد) ٣۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک گنوار آیا اور مسجد نبوی کے ایک کونے میں پیشاب کرنے لگا۔ لوگوں نے اسے جھڑکا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو جھڑکنے سے منع فرمایا۔ جب وہ پیشاب کرچکا تو آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ اس جگہ پانی کا ایک ڈول بہا دیا جائے۔ (بخاری، کتاب الوضوء، باب ترک النبی والناس الاعرابی حتی فرغ من بولہ فی المسجد) اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب اعرابی پیشاب سے فارغ ہوچکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سمجھایا کہ یہ مسجدیں اللہ کے ذکر کے مقامات ہیں، بول و براز کے لئے نہیں لہٰذا انہیں صاف ستھرا رکھنا چاہیے۔ ٤۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی اس درخت یعنی لہسن کو کھائے وہ ہماری مسجد میں نہ آئے۔ عطا کہتے ہیں کہ میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کچی لہسن مراد ہے یا پکی ہوئی؟ انہوں نے کہا میں سمجھتا ہوں کہ اس سے کچی لہسن اور اس کی بدبو مراد ہے۔ (بخاری۔ کتاب الاذان، باب، ماجاء فی الثوم النی والبصل والکراث) ٥۔ سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کھڑا تھا۔ کسی نے مجھ پر پتھر پھینکا، کیا دیکھتا ہوں کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔ انہوں نے مجھے کہا : جاؤ فلاں دو آدمیوں کو میرے پاس بلا لاؤ۔ میں انہیں بلا لایا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا : تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو؟ وہ کہنے لگے ہم طائف سے آئے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، اگر تم اس شہر (مدینہ) کے رہنے والے ہوتے تو میں تمہیں ضرور سزا دیتا۔ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں اپنی آوازیں بلند کرتے (شور مچاتے) ہو۔ (بخاری، کتاب الصلٰوۃ، باب رفع الصوت فی المسجد) |
البقرة |
126 |
[١٥٤] یعنی اس بے آب و گیاہ اور ویران سے مقام کو ایک پرامن شہر بنا دے اور جو لوگ یہاں آباد ہوں انہیں پھلوں کا رزق مہیا فرما۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا قبول ہوئی اور یہ مقام آج تک پرامن اور قابل احترام ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حرمت کی از سر نو توثیق کردی جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :
ابو شریح نے عمر و بن سعید کو (جو یزید کی طرف سے مدینہ کا حاکم تھا) کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے دن خطبہ ارشاد فرمایا۔ پہلے حمد و ثنا بیان کی۔ پھر فرمایا : اللہ نے مکہ کو حرام کیا ہے۔ لوگوں نے نہیں کیا، تو جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے نہ وہاں خون بہانا درست ہے اور نہ کوئی درخت کاٹنا۔ (بخاری، کتاب العلم، باب لیبلغ العلم الشاھد الغائب۔۔ الخ [ ١٥٥] حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب امامت کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے پوچھا تو جواب ملا کہ وہ صرف صالح لوگوں کو ملے گی ظالموں کو نہیں ملے گی۔ تو اب ابراہیم علیہ السلام نے پھلوں کا رزق عطا کرنے کی دعا میں ایمانداری کی شرط از خود بڑھا دی۔ تو اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ رزق کے معاملہ میں ایمانداری کوئی شرط نہیں وہ تو میں نیک اور بد سب کو دوں گا۔ وہ محبت اور ایمانداری کی شرط صرف امامت کے لیے ہے رزق کے لیے نہیں۔ |
البقرة |
127 |
[١٥٦]مختلف ادوار میں کعبہ کی تعمیر :۔ قسطلانی رحمہ اللہ نے کہا کہ کعبہ دس بار تعمیر ہوا۔ سب سے پہلے اسے فرشتوں نے بنایا۔ دوسری بار آدم علیہ السلام نے (آپ علیہ السلام کی عمر ہزار سال تھی) تیسری بار شیث علیہ السلام (آدم کے بیٹے) نے اور یہ تعمیر طوفان نوح علیہ السلام میں گر گئی۔ چوتھی بار حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پانچویں بار قوم عمالقہ نے، چھٹی بار قبیلہ جرہم نے، ساتویں بار قصی بن کلاب نے (جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد ہیں) آٹھویں بار قریش نے (آپ کی بعثت سے پہلے جب کہ حطیم کی جگہ چھوڑ دی تھی) نویں بار حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے (اپنے دور خلافت میں) دسویں بار حجاج بن یوسف نے۔ اور اس کے بعد آج تک اس علاقہ پر مسلمانوں کا ہی قبضہ چلا آ رہا ہے اور بہت سے بادشاہوں نے اس کی تعمیر، مرمت اور توسیع میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے۔ اس سلسلہ میں آل سعود کی خدمات گرانقدر ہیں اور لائق تحسین ہیں۔ |
البقرة |
128 |
[١٥٧] یہ دونوں پیغمبر جب خانہ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے تو ساتھ ساتھ دعا بھی کر رہے تھے کہ الٰہی : ہماری یہ خدمت قبول فرما اور اپنا مسلم (مطیع فرماں) بنا، اور ہماری اولاد میں سے ایک مسلم قوم پیدا کر، اور مسلم وہ ہوتا ہے جو اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کر دے اور اپنے آپ کو کلیتاً اللہ کے سپرد کر دے اور اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے مطابق دنیا میں زندگی بسر کرے۔ اس عقیدے اور طرز عمل کا نام اسلام ہے اور یہی تمام انبیاء کا دین رہا ہے۔
[ ١٥٨] مناسک کا لفظ عموماً حج کے آداب و ارکان اور قربانی کے احکام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اگرچہ اس کے وسیع مفہوم میں عبادت کے سب طریقے شامل ہیں۔ [ ١٥٩]انبیاء اورا ستغفار :۔ انبیاء سے عمداً کوئی گناہ سرزد نہیں ہوتا، رہی خطا تو بھول چوک امت سے تو معاف ہے۔ مگر انبیاء کی شان اتنی بڑی ہے کہ ذرا سی غفلت ان کے حق میں گناہ سمجھی جاتی ہے۔ اسی لیے انبیاء علیہم السلام معصوم ہونے کے باوجود عوام الناس کی نسبت بہت زیادہ توبہ و استغفار کرتے رہتے ہیں۔ |
البقرة |
129 |
[١٦٠]میں ابراہیم علیہ السلام کی دعاہوں:۔ یعنی اہلیان شہر مکہ میں سے رسول مبعوث فرما۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا بھی قبول فرمائی اور اولاد اسماعیل علیہ السلام میں سے نبی عربی پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوں۔‘‘ (احمد، بحوالہ مشکوٰۃ، باب فضائل سید المرسلین صلوات اللّٰہ وسلامہ علیہ الفصل الثانی)
[ ١٦١] حکمت کیاہے؟اوروحی مخفی :۔حکمت کے لفظی معنی سمجھ اور دانائی ہے۔ پھر اس میں وہ سب طور طریقے بھی شامل ہوجاتے ہیں جو کسی کام کو عملی طور پر سر انجام دینے کے لیے ضروری ہوں۔ پہلی قسم کو حکمت علمی اور دوسری قسم کو حکمت عملی کہتے ہیں اور امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی تصنیف ''الرسالہ'' میں بے شمار دلائل سے یہ بات ثابت کی ہے کہ قرآن میں جہاں بھی کتاب کے ساتھ حکمت کا لفظ آیا ہے تو اس سے مراد سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میرے بعد کوئی شخص غرور سے ایسا نہ کہے کہ میں اللہ کی کتاب میں یہ حکم نہیں پاتا۔ خوب سن لو! مجھے یہ کتاب (قرآن) بھی دیا گیا ہے اور اس کی مثل اتنا کچھ اور بھی۔‘‘ (ترمذی) ابو داؤد وغیرہما) نیز قرآن کریم کی یہ آیت ﴿وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ۤ وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا﴾(۷:۵۹)سنت رسول کی اتباع کو واجب قرار دیتی ہے۔ جس کا واضح نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو شخص سنت رسول کا منکر ہے وہ حقیقتاً قرآن کا بھی منکر ہے۔ [ ١٦٢]تزکیہ نفس کا مفہوم :۔ تزکیہ نفس مشہور لفظ ہے یعنی انہیں پاکیزہ بنائے اور سنوارے اور سنوارنے میں، اخلاق، عادات، معاشرت، تمدن، سیاست غرض ہر چیز کو سنوارنا شامل ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ عملی طور پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی تربیت کرنا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری تھی۔ اس کی ایک معمولی سی مثال ملاحظہ فرمائیے۔ ایک دفعہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ (جو سابقین و اولین میں سے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے پیار بھی بہت تھا) نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو صرف یہ کہا تھا ’’اے کالی ماں کے بیٹے۔‘‘ تو اتنی سی بات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ پر شدید گرفت کرتے ہوئے فرمایا : إِنَّكَ امْرُؤٌ فِيكَ جَاهِلِيَّةٌ (بخاری کتاب الایمان باب المعاصی من امر الجاھلیۃ) یعنی تو ایسا شخص ہے جس میں ابھی تک جاہلیت کا اثر موجود ہے) یہ تھا آپ کا انداز تربیت اور یہی (یزکیھم) کا مفہوم ہے۔ (تشریح کے لیے سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ١٦٠ تا ١٦٤ ملاحظہ فرمائیے۔) |
البقرة |
130 |
[١٦٣] دین ابراہیم کی صفات :۔دین کا معنی اللہ تعالیٰ کی مکمل حاکمیت اور اپنی مکمل عبودیت کو تسلیم کرلینا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے طرز فکر اور طرز عمل کو مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع بنا لیا تھا اور طرز فکر و عمل کی تبلیغ و اشاعت میں اپنی پوری زندگی صرف کی اور اس راہ میں جو بڑی مشکلات پیش آئیں انہیں خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور یہ طرز زندگی اللہ کو اتنا محبوب تھا کہ اس نے آپ کو پوری دنیا کا امام بنا دیا۔ اب کوئی بے وقوف ہی ایسی پسندیدہ روش سے اعراض کرسکتا ہے، یا ایسا شخص جو تجاہل عارفانہ سے کام لے رہا ہو۔ |
البقرة |
131 |
|
البقرة |
132 |
[١٦٤] یہاں اللہ رب العزت نے بطور خاص حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے یعقوب علیہ السلام کا ذکر فرمایا۔ اس لیے کہ ماسوائے نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے باقی سب انبیاء انہی کی اولاد سے تھے اور بنی اسرائیل بھی انہی کی اولاد تھے۔ انہیں وصیت تو اللہ کا فرمانبرداربن کر رہنے کی گئی تھی۔ مگر بعد میں بنی اسرائیل نے جو گل کھلائے ان کا تفصیلی ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ |
البقرة |
133 |
[١٦٥]یہود کا یعقوب علیہ السلام پرالزام :۔ ایک دفعہ یہود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : کیا آپ کو معلوم نہیں کہ یعقوب علیہ السلام نے ہمیں یہودی رہنے کی وصیت کی تھی۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے یہود مدینہ سے پوچھا : جب یعقوب علیہ السلام مرنے کے قریب تھے تو کیا تم اس وقت موجود تھے جو اس وثوق سے کہتے ہو کہ یعقوب علیہ السلام نے یہودیت کی وصیت کی تھی؟ پھر جو کچھ یعقوب علیہ السلام نے بوقت مرگ اپنے بیٹوں سے پوچھا اور جو بیٹوں نے جواب دیا اس کو اللہ تعالیٰ نے خود بیان کر کے یہود کے اس قول کی تردید فرما دی۔ |
البقرة |
134 |
[١٦٦] یعنی انبیاء کی اور ان کے متبعین کی جماعت۔ اگرچہ اے یہود! تم ان کی اولاد ہو مگر ان کے اعمال تمہارے کچھ کام نہیں آ سکتے۔ تمہارے لیے تو وہی کچھ ہوگا جو تم خود کر رہے ہو۔ تم سے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ تمہارے آباؤ اجداد کیا کرتے تھے بلکہ یہ پوچھا جائے گا کہ تم خود کیا کرتے رہے؟ |
البقرة |
135 |
[١٦٧]ملت کا مفہوم اور ملت ابراہیم علیہ السلام :۔ ملت اس نظام زندگی کا نام ہے جس کی بنیاد چند مخصوص عقائد پر ہو اور ملت ابراہیم علیہ السلام کے عقائد میں سے سب سے اہم عقیدہ جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا وہ یہ ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام موحد تھے۔ شرک نہیں کرتے تھے۔ یہود مسلمانوں سے کہتے ہیں یہودی بنو گے تو نجات پا جاؤ گے۔ حالانکہ وہ خود مشرک تھے اور حضرت عزیر علیہ السلام کو ابن اللہ کہتے تھے۔ اسی طرح عیسائی بھی مسلمانوں سے یہی بات کہتے تھے حالانکہ وہ بھی تین خدا مانتے تھے اور مشرک تھے اور کفار مکہ وغیرہ کے مشرک ہونے میں تو کوئی شک ہی نہیں۔ حالانکہ وہ بھی ملت ابراہیمی کی اتباع کا دعویٰ کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان میں سے کوئی بھی نہ ہدایت پر ہے اور نہ ملت ابراہیم سے تعلق رکھتا ہے۔ کیونکہ یہ سب مشرک ہیں۔ ملت ابراہیم پر صرف وہ ہوسکتا ہے جو مشرک نہ ہو اور وہی ہدایت یافتہ ہوگا۔ |
البقرة |
136 |
[١٦٨]انبیاء میں تفریق کرنے کا مطلب :۔ فرق اس لحاظ سے کہ فلاں نبی حق پر تھا اور فلاں حق پر نہ تھا یا ہم فلاں کو مانتے ہیں یا فلاں کو نہیں مانتے۔ کیونکہ سب انبیاء علیہم السلام ایک ہی صداقت اور ایک ہی راہ راست کی طرف بلاتے رہے ہیں۔ اور سب انبیاء کرام اپنے سے پہلوں کی تصدیق اور بعد میں آنے والوں کی بشارت دیتے اور ان پر ایمان لانے کی تاکید کرتے رہے ہیں۔ اب اگر مثال کے طور پر یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لاتے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اپنے پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اپنی کتاب تورات پر بھی ایمان نہیں لاتے بلکہ وہ محض باپ دادا کی تقلید میں ایک پیغمبر کو مان رہے ہیں۔ ان کا اصل دین نسل پرستی یا اپنے آباء کی تقلید ہے۔ اپنے پیغمبر کی پیروی نہیں۔ ورنہ اس کی سب باتیں مانتے۔
انبیاء کے درمیان فرق نہ کرنے کا مطلب :۔ تمام انبیاء کرام اپنے اپنے وقتوں میں واجب الاتباع ہوتے ہیں اور ایک نئے نبی کی بعثت کی ضرورت ہمیشہ اس وقت پیش آتی ہے جب سابق نبی کی امت میں شرک و جہالت اور فساد فی الارض عام ہوجائے اور وہ خود کئی گروہوں میں بٹ جائے۔ دین یعنی عقائد و کلیات تو ہر نبی کے دور میں یکساں ہی رہے ہیں۔ البتہ اس دور کے تقاضوں کے مطابق کچھ سابقہ احکام منسوخ اور کچھ نئے احکام اس نئے نبی کو دیئے جاتے ہیں۔ لہٰذا اب اتباع تو صرف اس نئے نبی کی واجب ہوتی ہے اور ایمان لانا سب پر واجب ہوتا ہے۔ یعنی یہ کہ سب انبیاء اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث اور حق و صداقت لے کر آئے تھے۔ اس لحاظ سے ان میں کچھ فرق نہیں ہوتا۔ رہا انبیاء میں درجات کے لحاظ سے فرق اور ایک دوسرے پر تفصیلات تو وہ قرآن کریم سے ثابت ہے۔ جیسے ارشاد باری ہے۔ ﴿ تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ ﴾(۲۵۳:۲) |
البقرة |
137 |
[١٦٩] یعنی ان اہل کتاب کا حق سے اعراض اور ہٹ دھرمی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی اور اللہ انہیں سزا دینے کو کافی ہے۔ یعنی یہود بنو نضیر جلاوطن ہوئے اور جزیہ دینا قبول کیا اور بنو قریظہ قیدی اور قتل ہوئے اور نجران کے عیسائیوں نے بھی جزیہ دینا قبول کیا۔ |
البقرة |
138 |
[١٧٠] بپتسمہ اور اللہ کا رنگ :۔جب کوئی شخص یہودی مذہب میں داخل ہوتا تو وہ اسے غسل دیتے اور کہتے کہ اس کے سب سابقہ گناہ دھل گئے اور عیسائی اس غسل کے پانی میں زرد رنگ بھی ملا لیا کرتے۔ اور یہ غسل صرف مذہب میں نئے داخل ہونے والوں کو ہی نہیں بلکہ نومولود بچوں کو بھی دیا جاتا اور اس رسم کو وہ اصطباغ یا بپتسمہ کہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان رسمی رنگوں میں کیا رکھا ہے۔ رنگ تو صرف اللہ کا ہے جو اس کی بندگی سے چڑھتا ہے اور ان اہل کتاب سے کہہ دو کہ ہم اس کی بندگی کرتے اور اسی کا رنگ اختیار کرتے ہیں۔ |
البقرة |
139 |
[١٧١] اللہ کے لطف وکرم کی بنیاد:۔ یہود و نصاریٰ یہ سمجھتے تھے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں۔ لہٰذا اس کی جملہ نوازشات اور الطاف و اکرام کے مستحق صرف ہم ہی ہیں۔ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ آپ ان سے کہیں کہ اللہ جیسا تمہارا پروردگار ہے ویسا ہی ہمارا بھی ہے۔ وہ تو جس طرح کے کوئی شخص عمل کرے گا اسی کے مطابق اس پر نوازشات کرے گا۔ اور اس لحاظ سے ہم تم سے بہتر بھی ہیں کہ ہم فقط اسی کی بندگی کرتے ہیں اور تم شرک بھی کئے جاتے ہو اور یہ اندازہ اب تم خود لگا سکتے ہو کہ آئندہ اس کی نوازشات اور الطاف و اکرام کس پر ہونا چاہئیں۔ |
البقرة |
140 |
[١٧٢] یہود ونصاریٰ کااپنے انبیاء پر یہودی یاعیسائی ہونے کا الزام :۔اس آیت کا مفہوم سمجھنے کے لیے پہلے یہ جان لینا چاہیے کہ یہودیت اپنے موجودہ نظریات و عقائد کے مطابق تیسری اور چوتھی صدی قبل مسیح میں معرض وجود میں آئی تھی۔ اور عیسائیت اپنے مخصوص نظریات و عقائد کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے مابعد کی پیداوار ہے اور یہودیوں اور عیسائیوں کے عالم لوگ اس بات کو خوب جانتے تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اسماعیل علیہ السلام، اسحاق علیہ السلام، یعقوب علیہ السلام اور ان کی اولاد یعنی حضرت یوسف علیہ السلام وغیرہم۔ اس قسم کی یہودیت اور عیسائیت کی پیدائش سے بہت پہلے وفات پا چکے تھے، مگر ان علمائے یہود و نصاریٰ نے عوام کے ذہن میں یہ بات پختہ کردی تھی کہ یہ مندرجہ بالا انبیائے کرام یہود کے قول کے مطابق یہودی تھے اور نصاریٰ کے قول کے مطابق عیسائی تھے۔ اس پس منظر میں اب اس آیت کو ملاحظہ فرمائیے جس میں اللہ تعالیٰ نے علمائے یہود و نصاریٰ کی اس بددیانتی کو آشکار کیا ہے اور انہیں کتمان شہادت کے مجرم قرار دے کر سب سے بڑے ظالم ٹھہرایا ہے۔ |
البقرة |
141 |
[١٧٣] یہ آیت انہی الفاظ سے پہلے بھی گزر چکی ہے (آیت نمبر ١٣٤) وہاں اس آیت کے مخاطب یہود تھے اور یہاں یہودی، عیسائی اور مسلمان سبھی مخاطب ہیں اور اسے دوبارہ لانے سے غرض صرف مزید تنبیہ و تاکید ہے کہ نجات اخروی کے لیے اپنے انبیاء و صالحین پر بھروسہ کرنا بالکل عبث بات ہے۔ تم اپنے اعمال کے لیے خود جواب دہ ہوگے اور خود ہی ان کی سزا بھگتو گے۔ |
البقرة |
142 |
[١٧٤]قبلہ اول خانہ کعبہ ہی تھا:۔ تحویل قبلہ کے ضمن میں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ تمام امت مسلمہ کے لیے قبلہ اول خانہ کعبہ ہی تھا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے اسے تعمیر کیا تو بھی یہی قبلہ تھا اور جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے تعمیر کیا تو اس وقت بھی یہی قبلہ تھا۔ مگر جب سلیمان علیہ السلام نے ہیکل سلیمانی تعمیر کیا۔ تو اس وقت تابوت سکینہ صخرہ پر پڑا رہتا تھا اور بنی اسرائیل اس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ انہوں نے مستقل طور پر اسے ہی اپنا قبلہ بنا لیا اور چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر کوئی گرفت نہ ہوئی تھی۔ لہٰذا یہ قبلہ شرعاً بھی درست سمجھا گیا۔ مگر یہ صرف بنی اسرائیل ہی کا قبلہ تھا۔ مکہ کے مشرکین کا نہ تھا۔ وہ کعبہ کی ہی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداءً بیت المقدس کوقبلہ کیوں بنایاتھا؟ چونکہ مشرکین مکہ کے بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل کتاب کو بہتر سمجھتے تھے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے بجائے بیت المقدس کی طرف رخ کرنا مناسب سمجھا تاکہ مشرکین مکہ کے قبلہ سے امتیاز ہو سکے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی ہی طرف منسوب کیا :۔ جیسا کہ آیت ﴿وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْہَآ﴾ (۱۴۳:۲)سے واضح ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت المقدس کی طرف رخ کرنے یا قبلہ بنانے کا حکم قرآن یا حدیث میں صراحتاً کہیں مذکور نہیں۔ ممکن ہے کہ وحی خفی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسا حکم دیا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بصیرت سے ہی بیت المقدس کو قبلہ بنانے کا طرز عمل اختیار کیا ہو وہ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اقرار (سکوت) ہو تو بھی وحی تقریری کا حکم رکھتا ہے۔ بہرحال بیت المقدس کی طرف مسلمانوں کے رخ کر کے نماز ادا کرنے کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنا ہی حکم قرار دیا ہے۔
دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ کسی قوم کے قبلہ کو تسلیم کرلینا فی الحقیقت اس قوم کی قیادت و امامت کو تسلیم کرلینے کے مترادف ہوتا ہے۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ابتدائی دور میں بیت المقدس کو قبلہ بنایا تو اس کی ایک وجہ تو بوجہ شرک مشرکین مکہ کی مخالفت تھی، دوسرے اس میں مسلمانوں کا امتحان بھی مقصود تھا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آیت ﴿لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ﴾ اور وہ امتحان اس طرح تھا کہ ہر قوم کو اپنے شعائر سے انتہائی عقیدت ہوتی ہے اور مکہ میں اسلام لانے والے چونکہ مشرکین مکہ میں سے ہی ہوتے تھے۔ اس لیے فی الواقعہ ان کا اس بات میں بھی امتحان تھا کہ وہ اسلام لانے کے بعد کتنی فراخدلی سے اپنے آبائی قبلہ (کعبہ) کو چھوڑ کر بیت المقدس کو اپنا قبلہ بناتے ہیں۔ مدینہ میں آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوکعبہ کو قبلہ بنانے کی آرزو کیوں پیدا ہوئی ؟ ہجرت کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے تو اب صورت حال بالکل مختلف تھی۔ مسلمانوں کی ایک آزاد چھوٹی سی ریاست وجود میں آ چکی تھی اور اب بیت المقدس کو قبلہ بنائے رکھنا ذہنی طور پر یہود کی امامت کو تسلیم کرنے کے مترادف تھا۔ لہٰذا اب آپ یہ چاہتے تھے کہ حقیقی قبلہ اول یعنی خانہ کعبہ ہی مستقل طور پر مسلمانوں کا قبلہ قرار پائے اور اس توقع میں کئی بار آسمان کی طرف رخ پھیرتے کہ شائد کسی وقت جبرئیل ایسا حکم لے کر نازل ہو۔ چنانچہ براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سولہ یا سترہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی اور لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ اسی طرف رخ کر کے نماز پڑھی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے یہ تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبلہ کعبہ کی طرف ہو۔ چنانچہ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز کعبہ کی طرف رخ کرکے پڑھی اور لوگوں نے بھی پڑھی۔ پھر ان میں سے ایک شخص جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ چکا تھا۔ دوسری مسجد والوں پر گزرا جبکہ وہ نماز ادا کر رہے تھے۔ اس نے کہا اللہ گواہ ہے میں نے ابھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ (کعبہ) کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی ہے’’ تو اسی حالت میں کعبہ کی طرف گھوم گئے (بخاری، کتاب التفسیر زیر آیت مذکورہ) یہی مسجد بعد میں مسجد قبلتین کے نام سے مشہور ہوئی۔ تحویل قبلہ کے لوگوں پرا ثرات اور اعتراض :۔تحویل قبلہ کا دراصل مطلب یہ تھا کہ اب بیت المقدس کی مرکزیت ختم ہوچکی اور آئندہ ہمیشہ کے لیے خانہ کعبہ کو امت مسلمہ کا مرکز قرار دے دیا گیا۔ اب اس تحویل قبلہ کا یہود پر منفی اثر ہونا ایک لازمی امر تھا۔ چنانچہ یہی براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جن نادانوں (تنگ نظر لوگوں) نے یہ اعتراض کیا تھا کہ مسلمانوں کو ان کے پہلے قبلہ سے کس چیز نے پھیر دیا ہے۔ یہ یہودی لوگ تھے۔ (بخاری، کتاب الصلٰوۃ، باب التوجہ نحوالقبلۃ) چنانچہ یہود نے اس واقعہ کو بھی ایک بنیاد بنا کر ضعیف الاعتقاد اور کم فہم مسلمانوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنا شروع کردیئے۔ [ ١٧٥] یہود کے اس اعتراض کا جواب اللہ تعالیٰ نے نہایت خوبصورت انداز میں پیش کردیا۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہیے کہ مشرق بھی اللہ کے لیے ہے اور مغرب بھی۔ اس نے بیت المقدس کو قبلہ بنانے کا حکم دیا تو ہم نے اس کو تسلیم کرلیا اور اب کعبہ کو قبلہ بنایا تو بھی ہم نے تسلیم کرلیا اور اللہ کا حکم تسلیم کرلینا ہی سیدھی راہ ہے اور یہ راہ وہ جسے چاہے دکھا دے۔ |
البقرة |
143 |
[١٧٦] امت وسط کا مفہوم اور مثالیں :۔ یعنی جس طرح ہم نے قبلہ اول کو تمہارے لیے مستقل قبلہ بنا دیا ہے۔ اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بھی بنا دیا ہے۔ امت وسط سے مراد ایسا اشرف اور اعلیٰ گروہ ہے جو عدل و انصاف کی روش پر قائم ہو اور افراط و تفریط، غلو اور تخفیف سے پاک ہو اور دنیا کی قوموں کے درمیان صدر کی حیثیت رکھتا ہو۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ نصاریٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو اتنا بڑھایا کہ انہیں خدا ہی بنا دیا اور یہود نے اتنا گھٹایا کہ ان کی پیغمبری سے انکار بھی کیا اور ان کی جان کے بھی لاگو ہوگئے اور اس امت وسط کی روش یا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے پیارے پیغمبر اور روح اللہ تھے۔ بے شمار عقائد و احکام میں آپ کو امت وسط کا یہی طریقہ نظر آئے گا۔ مثلاً یہود کے لیے قتل کے بدلے قتل یعنی قصاص ہی فرض کیا گیا تھا۔ جب کہ نصاریٰ کو عفو و درگزر سے کام لینے کا حکم دیا گیا اور امت مسلمہ کے لیے قصاص کو جواز کی حد تک رکھا گیا اور قصاص کے بجائے دیت کو پسند کیا گیا اور عفو و درگزر کی ترغیب دی گئی اور اسے ایک مستحسن عمل قرار دیا گیا۔ یا مثلاً یہود میں اگر عورت حائضہ ہوجاتی تو نہ اس کے ہاتھ کا پکایا ہوا کھانا کھاتے، نہ اس کے ساتھ کھاتے، بلکہ اسے اپنے گھر میں بھی نہ رہنے دیتے تھے اور ایسی عورتوں کا کسی الگ مقام پر رہائش کا بندوبست کیا کرتے تھے (مسلم، کتاب الحیض، باب جواز غسل الحائض راس زدجہا) نصاریٰ ایسی عورتوں سے کسی طرح کا بھی پرہیز نہیں کرتے تھے۔ جبکہ مسلمانوں کو دوران حیض صرف جماع سے اجتناب کا حکم دیا گیا۔ باقی کاموں میں کوئی پابندی نہیں رکھی گئی۔ اس کے ہاتھوں کا پکایا ہوا کھانا جائز اس کے ساتھ رہنا حتیٰ کہ اسکا بوسہ لینا اور اسے گلے لگانا بلکہ اسکے ساتھ لیٹ جانے تک کو جائز قرار دیا گیا اور صرف مجامعت پر پابندی لگائی گئی۔
[ ١٧٧]امت مسلمہ کی دوسری امتوں پر شہادت :۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : قیامت کے دن نوح علیہ السلام کو بلایا جائے گا وہ کہیں گے لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ اللہ تعالیٰ ان سے پوچھیں گے، کیا تم نے میرا پیغام پہنچا دیا تھا ؟وہ کہیں گے ’’جی ہاں‘‘! پھر ان کی امت سے پوچھا جائے گا۔ ’’کیا نوح علیہ السلام نے تمہیں میرا پیغام پہنچا دیا ؟“ وہ کہیں گے کہ ’’ہمارے پاس تو کوئی ڈرانے والا آیا ہی نہ تھا۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ حضرت نوح علیہ السلام سے کہیں گے :”تمہارا کوئی گواہ ہے؟‘‘ وہ کہیں گے!’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت۔‘‘ پھر اس امت کے لوگ گواہی دیں گے کہ ’’یقیناً نوح علیہ السلام نے پیغام پہنچا دیا تھا اور پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم پر گواہ بنیں گے۔‘‘ (بخاری، کتاب التفسیر۔ زیر آیت مذکور) اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس وقت نوح علیہ السلام کی امت کہے گی تمہاری گواہی کیسے مقبول ہو سکتی ہے۔ جب کہ تم نے نہ ہمارا زمانہ پایا اور نہ ہمیں دیکھا۔ اس وقت امت وسط یہ جواب دے گی کہ ہم کو اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کے بتلانے سے یہ یقینی علم حاصل ہوا۔ اسی لیے ہم یہ گواہی دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امت کےخلاف شہادت جنہوں نے قرآن سے ناانصافیاں کیں:۔ یہ تو تھی امت مسلمہ کی دوسری امتوں پر گواہی کی کیفیت۔ اس کے بعد خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے ان لوگوں کے خلاف گواہی دیں گے جنہوں نے قرآن کو پس پشت ڈال دیا تھا اور کہتے تھے کہ قرآن بے شک اس زمانہ میں تو ایک کارآمد کتاب تھی مگر آج زمانہ بہت آگے نکل چکا ہے۔ لہٰذا اس کی تعلیمات فرسودہ ہوچکی ہیں۔ یا ان لوگوں کے خلاف جو اپنے جلسے جلوسوں کا افتتاح تو تلاوت قرآن سے کرتے ہیں۔ پھر اس کے بعد انہیں قرآن سے کچھ غرض نہیں ہوتی یا ان لوگوں کے خلاف جنہوں نے قرآن کو محض عملیات کی ایک کتاب قرار دے رکھا ہے اور اس سے اپنی صرف دنیوی اغراض کے لیے اس کی آیات سے تعویذ وغیرہ تیار کرتے اور تجربے کرتے رہتے ہیں۔ یا ان لوگوں کے خلاف جنہوں نے قرآن کو ایک مشکل ترین کتاب سمجھ کر اس کو عقیدتاً ریشمی غلافوں میں لپیٹ کر کسی اونچے طاقچے میں تبرکاً رکھ دیا ہوتا ہے۔ یا ان لوگوں کے خلاف جو قرآنی آیات و احکام کو سمجھنے کے بعد محض دنیوی اغراض یا فرقہ وارانہ تعصب کے طور پر ان کی غلط تاویل کرتے ہیں یا ان کے خلاف جو دیدہ ودانستہ اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کرتے اور خواہشات نفسانی کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ ان سب لوگوں کے خلاف آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے حضور یہ گواہی دیں گے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے قرآن کو چھوڑ رکھا تھا جیسا کہ سورۃ فرقان کی آیت نمبر ٣٠ سے صاف واضح ہے۔ [ ـــ ١٧٧۔ ١] تحویل قبلہ پریہود اور منافقین کا شوروغوغا:۔جب تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا تو منافقوں اور یہودیوں دونوں نے مسلمانوں کے خلاف انتہائی زہریلا پروپیگنڈا شروع کردیا اور اس قدر پروپیگنڈا کیا کہ آسمان سر پر اٹھا لیا، اور وہ پروپیگنڈا یہ تھا کہ مسلمان کبھی کسی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں۔ کبھی کسی طرف، ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔ ان لوگوں کے پروپیگنڈا سے کچھ کمزور ایمان والے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے البتہ جو اپنے ایمان میں راسخ اور مضبوط تھے۔ انہوں نے اس پروپیگنڈا کی مطلقاً پروا نہ کی اور یہ سمجھتے ہوئے کہ اللہ اپنے احکام کی حکمت خود ہی بہتر جانتا ہے، فوراً سر تسلیم خم کردیا۔ چنانچہ انہیں دیکھ کر متاثر ہونے والے مسلمان بھی اپنے پاؤں پر پوری طرح جم گئے، اور حقیقتاً ایسا پروپیگنڈا مسلمانوں کے لیے ایک آزمائش بن گیا تھا اور اللہ کی مہربانی سے مسلمان اس میں ثابت قدم نکلے۔ [ ١٧٨] براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بہت سے مسلمان تحویل قبلہ سے پہلے شہید ہوچکے تھے، ہمیں ان کے متعلق شبہ ہوا کہ ان کی ادا کردہ نمازوں کا کیا بنے گا، تب یہ آیت نازل ہوئی ﴿وَمَا کَان اللّٰہُ لِـیُضِیْعَ اِیْمَانَکُمْ ﴾ (بخاری، کتاب التفسیر، ترمذی، ابو اب التفسیر) |
البقرة |
144 |
[١٧٩] کیونکہ ان کی کتابوں میں مذکور ہے کہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم عرب میں پیدا ہوں گے۔ ابراہیم علیہ السلام کے طریق پر ہوں گے اور کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں گے۔ |
البقرة |
145 |
[١٨٠] اس لیے کہ ان کا یہ جھگڑا کسی دلیل کی بنیاد پر نہیں بلکہ محض حسد و عناد کی بنا پر ہے۔ یعنی اگر آپ یہ بات انہیں ان کی کتابوں سے دکھلا بھی دیں۔ تب بھی یہ ماننے والے نہیں۔
[ ١٨١]اہل کتاب کا قبلہ میں اختلاف :۔ یعنی اہل کتاب کے قبلے بھی مختلف ہیں۔ یہود کا قبلہ تو صخرہ بیت المقدس ہے۔ (بیت المقدس کو حضرت سلیمان علیہ السلام نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے تیرہ سو سال بعد تعمیر کیا تھا) اور نصاریٰ کا قبلہ بیت المقدس کی شرقی جانب ہے۔ جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نفخ روح ہوا تھا تو جب یہ لوگ آپس میں بھی کسی ایک قبلہ پر متفق نہیں تو آپ کے ساتھ کیسے اتفاق کرسکتے ہیں یا آپ ان میں سے کس کے قبلہ کی پیروی کریں گے۔ [ ١٨٢] رسول ہونے کی حیثیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کام نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو راضی کرتے پھریں اور کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر سمجھوتہ کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام یہ ہے کہ جو علم ہم نے آپ کو دیا ہے اس پر سختی سے کاربند رہیں اور ظالم ہونے کا خطاب دراصل امت کو ہے۔ رسول بھلا وحی الٰہی کو کیسے نظر انداز کرسکتا ہے۔ امت کو یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ رسول کے ذریعہ اللہ کا حکم جو تمہیں مل رہا ہے۔ اس پر پورا پورا یقین رکھو، اور اس کے مطابق عمل کرو، اور اگر تم نے یہود کو خوش کرنے کی کوشش کی تو تمہارا شمار ظالموں میں ہوگا۔ |
البقرة |
146 |
[١٨٣]یہودکوقبلہ اول کاپوراعلم تھا:۔ عربوں میں یہ محاورہ ہے کہ جس چیز کے متعلق انہیں کسی طرح کا شک و شبہ نہ ہو تو سمجھتے ہیں کہ وہ اس بات کو یوں پہچانتا ہے جیسے اپنے بیٹے کو علمائے یہود و نصاریٰ اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ حضرت ابراہیم جن کی امت اور ملت ہونے کا یہ دم بھرتے ہیں، نے خانہ کعبہ تعمیر کیا اور اسے ہی قبلہ مقرر کیا تھا اور بیت المقدس تو تیرہ سو سال بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا۔ پھر بیت المقدس کو قبلہ قرار دینے کا ذکر نہ کہیں تورات میں موجود ہے اور نہ انجیل میں۔ اس تاریخی واقعہ میں ان کے لیے کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہ تھی اور وہ یہ بات بھی خوب جانتے ہیں کہ قبلہ اول اور حقیقی قبلہ کعبہ ہی ہے۔ لیکن وہ یہ بات عوام کے سامنے ظاہر نہیں کرتے۔ |
البقرة |
147 |
[١٨٤] یعنی مسلمان جس ملک میں ہوں گے وہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز ادا کریں گے۔ اس طرح کعبہ کی سمتیں الگ الگ بھی ہو سکتی ہیں کسی ملک سے کعبہ مغرب کی جانب ہوگا کسی سے مشرق کی طرف اور کسی سے شمال یا جنوب کی طرف، اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا اور نہ اس بات میں شک کی ضرورت ہے کیونکہ تمہارا یہ قبلہ ہمیشہ کے لیے ہے جس میں آئندہ کبھی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ |
البقرة |
148 |
[١٨٥] یعنی اصل چیز رخ کرنا نہیں بلکہ وہ بھلائیاں ہیں جن کے لیے تم نماز پڑھتے ہو۔ لہٰذا سمت اور مقام کے جھگڑوں میں پڑنے کے بجائے تمہیں اصل مقصد یعنی نیکیوں کے حصول کی فکر کرنا چاہیے۔ اور اس میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر کوشش کرنا چاہیے۔ کیونکہ قیامت کے دن یہی نیکیاں تمہارے کام آئیں گی۔ |
البقرة |
149 |
|
البقرة |
150 |
[١٨٦]تحویل قبلہ کےحکم کوتین بار کیوں دہرایاگیا؟ اس آیت کو مکرر اور سہ کرر لایا گیا ہے۔ کیونکہ اس کی وجوہ الگ الگ ہیں۔ مثلاً ﴿قَدْ نَرَیٰ تَقَلُّبَ وَجْھِکَ فِیْ السَّمَاء﴾سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا اور اظہار کی تکریم کی خاطر تحویل قبلہ کا حکم دیا، اور ﴿وَلِکُلٍّ وِّجْہَۃٌ ھُوَ مُوَلِّیْہَا ﴾ میں یہ ارشاد فرمایا، تحویل قبلہ کے مسئلہ پر جھگڑے کھڑے کرنا درست نہیں۔ اصل کام تو نیک کاموں کی طرف پیش قدمی ہے اور آیت ﴿لِئَلَّا یَکُوْنَ للنَّاسِ عَلَیْکُمْ حُجَّــۃٌ ﴾ میں یہ واضح فرمایا کہ لوگوں کو تم مسلمانوں سے جھگڑنے کا موقع باقی نہ رہے، وہ یوں کہ تحویل قبلہ سے بیشتر یہودی مسلمانوں سے یہ کہتے تھے کہ ہمارا دین تو نہیں مانتے لیکن نماز ہمارے ہی قبلہ کی طرف پڑھتے ہیں اور مشرکین مکہ یہ اعتراض کرتے کہ دعویٰ تو ابراہیم علیہ السلام کے طریق پر چلنے کا کرتے ہیں مگر ان کا قبلہ چھوڑ دیا ہے۔
[ ١٨٧] بے انصاف یا ہٹ دھرم لوگ تحویل قبلہ کے بعد بھی اعتراض چھوڑیں گے نہیں۔ مثلاً یہود نے یہ اعتراض کردیا کہ ہمارے قبلہ کی حقانیت ظاہر ہونے اور اسے تسلیم کرلینے کے بعد اب محض ضد اور حسد کی بنا پر اسے چھوڑ دیا اور مشرک یہ کہنے لگے کہ ہمارے قبلہ کا حق ہونا انہیں اب معلوم ہوا تو اسے اختیار کرلیا۔ اسی طرح ہماری اور بھی کئی باتیں منظور کرلیں گے۔ لہٰذا اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! تم ان لوگوں کی باتوں کی طرف توجہ نہ دو نہ ان سے ڈرنے کی ضرورت ہے، بلکہ صرف مجھ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔ [ ١٨٨] تحویل قبلہ ایک نعمت تھی :۔نعمت سے مراد وہی امامت اور پیشوائی کی نعمت ہے جو بنی اسرائیل سے سلب کر کے اس امت کو دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ فرما رہے ہیں کہ تحویل قبلہ کا یہ حکم دراصل اس منصب پر تمہاری سرفرازی کی علامت ہے۔ جب تک میری اطاعت کرتے رہو گے، یہ منصب تمہارے پاس رہے گا۔ اور نافرمانی کی صورت میں یہ چھن بھی سکتا ہے۔ |
البقرة |
151 |
[١٨٩]رسول کی بعثت بھی ایک بہت بڑا انعام ہے:۔ جیسا کہ اس سے پہلے میں تم پر یہ انعام کرچکا ہوں کہ تمہیں میں سے ایک ایسا رسول بھیجا ہے جو تمہیں اللہ کی آیات سناتا، تمہیں پاکیزہ بناتا اور تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ اس نعمت نے تمہاری کایا پلٹ دی۔ تم جاہل تھے اللہ نے تمہیں علم سے نوازا، تم ذلیل تھے۔ اللہ نے تمہیں سر بلند کیا۔ تم ہر وقت لڑتے مرتے اور بدامنی کا شکار تھے۔ اللہ نے تمہارے دل ملا دیئے اور آپس میں محبت ڈال دی، اور یہ سب کچھ اسی تعلیم کا نتیجہ تھا۔ پھر جس طرح تم میں رسول بھیجنا ایک بہت بڑا انعام تھا۔ اسی طرح کا دوسرا انعام تحویل قبلہ ہے۔ جس کے ذریعہ تمہیں دنیا کی امامت سونپی جا رہی ہے (تشریح کے لیے دیکھیے سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ١٦٤ پر حاشیہ نمبر ١٦٠) |
البقرة |
152 |
[١٩٠] لہٰذا تمہیں لازم ہے کہ ہر دم مجھے یاد کرتے رہو، اور اگر تم مجھے یاد کرو گے تو میں تمہیں یاد کروں گا چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق اس سے سلوک کرتا ہوں اور جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں اگر وہ مجھے دل میں یاد کرے تو میں بھی اسے دل میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ کسی مجمع میں مجھے یاد کرے تو میں اس سے بہتر جماعت میں اسے یاد کرتا ہوں اور اگر وہ ایک بالشت میرے نزدیک ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے نزدیک ہوتا ہوں اور اگر وہ ایک ہاتھ میرے نزدیک ہو تو میں ایک کلاوہ (دونوں بازو پھیلائے) اس کے قریب ہوتا ہوں اور اگر وہ چلتا ہوا میرے پاس آتا ہے تو میں دوڑ کر اس کی طرف جاتا ہوں۔‘‘ (بخاری، کتاب التوحید، باب قول اللّٰہ وَیُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ۔۔۔الخ)
[ ١٩١] شکرکی فضیلت :۔اللہ کا شکر ادا کرنے سے اللہ تعالیٰ وہ نعمت بحال ہی نہیں رکھتے بلکہ مزید بھی عطا فرماتے ہیں اور ناشکری کی صورت میں وہ نعمت ہی نہیں چھنتے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا بھی ملتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿لَیِٕنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَیِٕنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ ﴾ (۷:۱۴)’’اگر تم شکر کرو گے تو میں اور زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو (سمجھ لو) کہ میرا عذاب سخت ہے۔‘‘ |
البقرة |
153 |
[١٩٢] مشکل اوقات میں صبر اور نماز سے مدد:۔ مشکل اور آڑے وقت میں صبر اور نماز سے مدد لینے کا حکم پہلے اسی سورۃ کی آیت نمبر ٤٥ میں بھی گزر چکا ہے۔ اس مقام پر اس کی مناسبت یہ ہے۔ تحویل قبلہ کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کو جس امامت کے لیے تیار کرنا مقصود ہے تو اس کی راہ میں بے شمار مشکلات اور مصائب پیش آنے والے ہیں۔ لہٰذا اے مسلمانو! ایسے اوقات میں صبر اور نماز سے کام لو۔ صبر سے انسان بہت سی مشکلات پر قابو پا لیتا ہے اور نماز ان حالات میں نفس انسانی کو اطمینان بخشتی ہے۔ بندہ کا اللہ پر توکل بڑھتا ہے اور یہی توکل مشکلات میں ثابت قدم رہنے کے لیے ایک بہت بڑا سہارا ثابت ہوتا ہے۔
[ ١٩٣] صبر کرنے والوں کے ساتھ اللہ کی معیت کا معنیٰ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعانت اور توفیق نصیب ہوتی رہتی ہے۔ جیسا کہ مثل مشہور ہے کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے اور یہ بات ہر انسان کو اپنے ذاتی تجربات کی بنا پر بھی معلوم ہو سکتی اور ہوتی رہتی ہے۔ |
البقرة |
154 |
[١٩٤] کیونکہ موت کا لفظ اور اس کا تصور انسان کے ذہن پر ایک ہمت شکن اثر ڈالتا ہے اور لوگوں میں جذبہ جہاد فی سبیل اللہ کے سرد پڑجانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ لہٰذا شہداء کو مردہ کہنے سے روک دیا گیا۔ علاوہ ازیں یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ شہید کی موت قوم کی حیات کا سبب بنتی ہے اور شہید دراصل حیات جاوداں پا لیتا ہے اور اس سے روح شجاعت بھی تازہ رہتی ہے۔
[۱۹۴۔۱] شہداء کی زندگی :۔صحیح احادیث میں وارد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’شہداء کی روحیں سبز پرندوں کے جسم میں ہوتی ہیں اور ان کے لیے عرش کے ساتھ کچھ قندیلیں لٹکی ہوئی ہیں۔ یہ روحیں جنت میں جہاں چاہتی ہیں سیر کرتی پھرتی ہیں۔ پھر ان قندیلوں میں واپس آ جاتی ہیں۔‘‘ (مسلم، کتاب الامارۃ باب فی بیان ان ارواح الشھداء فی الجنۃ وانھم احیاء عند ربھم یرزقون) نیز دیکھئے : ٣ : ١٢٩) |
البقرة |
155 |
[١٩٥]مسلمانوں پرخوف اور تنگدستی : یہ خطاب مسلمانوں سے ہے۔ خوف سے مراد وہ ہنگامی صورت حال ہے جو جنگ احزاب سے پہلے ہر وقت مدینہ کی آزاد چھوٹی سی ریاست کے گرد منڈلاتی رہتی تھی۔ ایک دفعہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کاش آج رات کوئی میرا پہرہ دے تاکہ میں سو سکوں۔ یہ سن کر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ مسلح ہو کر آ گئے اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں پہرہ دیتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو جائیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح آرام فرمایا۔ (بخاری، کتاب الجہاد، باب الحراسة فی الغزو فی سبیل اللّٰہ عزوجل، بخاری کتاب التمنی باب قولہ النبی لیت کذا وکذا) اور ایک رات اہل مدینہ ایک خوفناک آواز سن کر گھبرا گئے، پھر وہ اس آواز کی طرف روانہ ہوئے تو دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ادھر سے واپس آ رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے پہلے ہی اس آواز کی جانب روانہ ہوگئے تھے اور خبر معلوم کر کے آ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے کہا ڈرو نہیں، ڈرو نہیں۔
(بخاری، کتاب الجہاد، باب الحمائل و تعلیق السیف بالعنق اور مبادرۃ الامام عند الفزع اور مسلم کتاب الفضائل باب شجاعۃ النبی) اور اس دور میں مسلمانوں کی معاشی تنگ دستی کا حال درج ذیل احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔ ١۔صحابہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیشت:۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے صفہ والوں میں ستر آدمی ایسے دیکھے جن کے پاس چادر تک نہ تھی یا تو فقط تہبند تھا یا فقط کمبل۔ جسے انہوں نے گردن سے باندھ رکھا تھا۔ جو کسی کی آدھی پنڈلیوں تک پہنچتا اور کسی کے ٹخنوں تک، جسے وہ اپنے ہاتھ سے سمیٹتے رہتے۔ اس ڈر سے کہ کہیں ان کا ستر نہ کھل جائے۔ (بخاری، کتاب الصلٰوۃ، باب نوم الرجال فی المسجد) ٢۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھانجے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ : میرے بھانجے ہم پر ایسا وقت گزر چکا ہے کہ ہم ایک چاند دیکھتے، پھر دوسرا چاند، پھر تیسرا چاند یعنی دو دو مہینے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں آگ نہیں جلتی تھی۔ عروہ رضی اللہ عنہ نے کہا : خالہ! پھر تمہاری گزر کس چیز پر ہوتی تھی؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : انہی دو کالی چیزوں یعنی کھجور اور پانی پر۔ اتنا ضرور تھا کہ چند انصاری لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمسائے تھے جن کے پاس بکریاں تھیں۔ وہ آپ کے لیے بکریوں کا دودھ تحفہ کے طور پر بھیجا کرتے جس سے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی پلاتے۔ (بخاری۔ کتاب الھبۃ و فضلھا و التحریض علیھا) ٣۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر آپ کی وفات تک ایسا زمانہ نہیں گزرا کہ انہوں نے مسلسل تین دن پیٹ بھر کر کھانا کھایا ہو۔ (بخاری، کتاب الاطعمہ باب قول اللہ تعالیٰ کلوا من طیبات مارزقنکم وکلوا من طیبات ما کسبتم) ٤۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے بھوک لگی ہوئی تھی۔ مجھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ ملے تو ان سے کہا کہ قرآن پاک کی فلاں آیت : ﴿ وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَـتِـیْمًا وَّاَسِیْرًا ﴾ مجھے پڑھ کر سناؤ، وہ اپنے گھر میں گئے اور یہ آیت مجھے پڑھ کر سنائی اور سمجھائی۔ آخر میں وہاں سے چلا۔ تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ بھوک سے بے حال ہو کر اوندھے منہ گر پڑا۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے سرہانے کھڑے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اٹھایا اور پہچان گئے کہ بھوک کے مارے میرا یہ حال ہے۔ آپ مجھے گھر لے گئے اور میرے لیے دودھ کا پیالہ لانے کا حکم دیا۔ میں نے دودھ پیا، پھر فرمایا ابوہریرہ ! اور پی، میں نے اور پیا۔ پھر فرمایا : اور پی۔ میں نے اور پیا حتیٰ کہ میرا پیٹ تن کر سیدھا ہوگیا۔ پھر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملا اور اپنا حال بیان کیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے میری بھوک دور کرنے کے لیے ایسے شخص کو بھیج دیا جو آپ سے اس بات کے زیادہ لائق تھے اللہ کی قسم! میں نے آپ سے جونسی آیت پڑھ کر سنانے کو کہا تھا۔ وہ مجھے آپ سے زیادہ یاد تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے، اللہ کی قسم! اگر میں اس وقت تمہیں گھر لے جا کر کھانا کھلاتا تو سرخ اونٹوں کے ملنے سے بھی زیادہ خوشی ہوتی۔ (بخاری، کتاب قول اللّٰہ تعالیٰ کلوا من طیبات ما رزقناکم) ٥۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں پہلا عرب ہوں جس نے اللہ کی راہ میں تیر چلایا اور ہم نے اپنے تئیں اس وقت جہاد کرتے پایا جب ہم کو حبلہ اور سمر (کانٹے دار درخت) کے پتوں کے سوا اور خوراک نہ ملتی۔ ہم لوگوں کو اس وقت بکری کی طرح سوکھی مینگنیاں آیا کرتیں جن میں تری نام کی کوئی چیز نہ ہوتی۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب کیف کان عیش النبی صلی اللہ علیہ وسلم و اصحابہ۔۔) ٦۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم چھ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک لڑائی کو نکلے۔ سواری کے لیے ہم سب کے پاس ایک ہی اونٹ تھا اور باری باری اس پر سوار ہوتے اور چلتے چلتے ہمارے پاؤں پھٹ گئے اور میرے تو پاؤں پھٹ کر ناخن بھی گر پڑے۔ اس حال میں ہم پاؤں پر چیتھڑے لپیٹ لیتے۔ اسی لیے اس لڑائی کا نام غزوہ ذات الرقاع (چیتھڑوں والی لڑائی پڑگیا (بخاری، کتاب المغازی باب غزوۃ ذات الرقاع) ٧۔ حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ نے ایک لشکر سمندر کے کنارے بھیجا جس میں تین سو آدمی اور سردار ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ تھے۔ ہمارا راشن ختم ہوگیا تو ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ سب لوگ اپنا اپنا بچا ہوا راشن ایک جگہ جمع کریں۔ یہ سارا راشن کھجور کے دو تھیلے تھے ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ اس سے تھوڑا تھوڑا کھانے کو دیتے رہے۔ جب وہ بھی ختم ہوگیا تو ہمیں روزانہ صرف ایک کھجور کھانے کو ملا کرتی۔ وہب نے جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا! بھلا ایک کھجور سے کیا بنتا ہوگا۔ جابر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ وہ ایک کھجور بھی غنیمت تھی، جب وہ بھی نہ رہی تو ہمیں اس کی قدر معلوم ہوئی۔ پھر ہم سمندر پر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بہت بڑی مچھلی ٹیلے کی طرح پڑی ہے۔ سارا لشکر اٹھارہ دن اس کا گوشت کھاتا رہا، جب ہم چلنے لگے تو ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ اس کی دو پسلیاں کھڑی کی جائیں وہ اتنی اونچی تھیں کہ اونٹ پر کجاوہ کسا گیا تو وہ ان کے نیچے سے نکل گیا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی باب غزوۃ سیف البحر) خوف کے علاوہ فاقہ، جان و مال اور پھلوں میں خسارہ یہ سب ایسی صورتیں ہیں جو اسلام کی راہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پیش آتی رہیں۔ اسی لیے انہیں صبر اور نماز سے مدد لینے کی ہدایت کی گئی۔ |
البقرة |
156 |
[١٩٦]مصیبت کے وقت اناللہ واناالیہ رجعون کہنا:۔ جو یہ کلمات صرف زبان سے ہی ادا نہیں کرتے بلکہ دل سے بھی اس بات کے قائل ہوتے ہیں کہ چونکہ ہم اللہ ہی کی ملک ہیں۔ لہٰذا ہماری جو چیز بھی اللہ کی راہ میں قربان ہوئی وہ اپنے ٹھیک ٹھکانے پر پہنچ گئی اور وہ کسی قسم کی بے قراری یا اضطراب کا اظہار نہیں کرتے نہ ہی زبان سے کوئی ناشکری کا کلمہ نکالتے ہیں۔ چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نواسہ ( زینب رضی اللہ عنہ کا بیٹا) فوت ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی سے فرمایا : یوں کہو : أَنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ وَلَهُ مَا أَعْطَى، وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُسَمًّى، فَمُرْهَا فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ (جو اس نے لے لیا وہ اللہ ہی کا تھا اور جو دے رکھا ہے وہ بھی اللہ ہی کا ہے۔ اس کے ہاں ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے۔ لہٰذا تمہیں چاہیے کہ صبر کرو اور اس سے ثواب کی امید رکھو) (بخاری، کتاب المرضیٰ۔ باب عیادۃ الصبیان و کتاب الجنائز (مسلم کتاب الجنائز، باب البکاء علی المیت) |
البقرة |
157 |
|
البقرة |
158 |
[ ١٩٧] صفا اور مروہ خانہ کعبہ کے نزدیک دو پہاڑیاں ہیں۔ جن کے درمیان سات بار دوڑنا مناسک حج میں شامل تھا۔ جو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سکھلائے تھے۔ زمانہ مابعد میں جب مشرکانہ جاہلیت پھیل گئی تو مشرکوں نے صفا پر اساف اور مروہ پر نائلہ کے بت رکھ دیئے تھے اور ان کے گرد طواف ہونے لگا۔ یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں کے دلوں میں یہ سوال کھٹکنے لگا کہ آیا صفا اور مروہ کے درمیان سعی حج کے اصلی مناسک میں سے ہے یا یہ محض مشرکانہ دور کی ایجاد ہے؟ چنانچہ اس آیت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی اس غلط فہمی کو دور کر کے صحیح بات کی طرف رہنمائی فرما دی جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔
صفا اور مروہ کےطواف میں کیاقباحت سمجھی جاتی تھی؟عاصم بن سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اس آیت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ابتدائے اسلام میں ہم اسے جاہلیت کی رسم سمجھتے تھے۔ لہٰذا اسے چھوڑ دیا۔ تب یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری، کتاب التفسیر، باب قولہ تعالیٰ ان الصفا والمروۃ) نیز اہل مدینہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کو اس لیے برا سمجھتے تھے کہ وہ منات کے معتقد تھے اور اساف اور نائلہ کو نہیں مانتے تھے۔ چنانچہ ہشام بن عروہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا جبکہ میں ابھی کمسن تھا کہ اللہ تعالیٰ کے قول آیت ان الصفا والمروۃ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص صفا اور مروہ کا طواف نہ کرے تب بھی کوئی قباحت نہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا۔ اس کا مطلب یہ نہیں۔ اگر یہ مطلب ہوتا تو اللہ تعالیٰ یوں فرماتے۔ ’’اگر ان کا طواف نہ کرے تو کوئی گناہ نہیں۔‘‘ یہ آیت انصار کے حق میں اتری ہے۔ وہ حالت احرام میں منات کا نام پکارتے تھے اور یہ بت قدید کے مقام پر نصب تھا۔ انصار (اسی وجہ سے) صفاء مروہ کا طواف برا سمجھتے تھے۔ جب وہ اسلام لے آئے تو اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، تب یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری، کتاب التفسیر زیر آیت مذکور) |
البقرة |
159 |
[ ١٩٨] کتمان حق کبیرہ گناہ ہے:۔ اس کے مخاطب وہ لوگ ہیں جن کا دینی لحاظ سے معاشرہ میں کچھ مقام ہوتا ہے اور ان کی اتباع کی جاتی ہے۔ مثلاً علماء، پیرو مشائخ، واعظ اور مصنفین وغیرہ ایسے حضرات اگر اللہ تعالیٰ کے واضح احکام اور ہدایات کو چھپائیں تو اس کا نتیجہ چونکہ عام گمراہی اور فساد کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے لہٰذا یہ لوگ بدترین قسم کے مجرم ہوتے ہیں جو اپنے گناہ کے بار کے علاوہ اپنے بے شمار متبعین کے گناہوں کا بوجھ بھی اپنے سر پر اٹھاتے ہیں۔ لہٰذا ان پر اللہ بھی لعنت کرتا ہے۔ فرشتے بھی، انسان بھی اور بری اور بحری مخلوق بھی۔ حتیٰ کہ پانی کی مچھلیاں بھی۔ اس لیے کہ فساد فی الارض یا عذاب الٰہی کی صورت میں انسانوں کے علاوہ دوسری مخلوق بھی متاثر ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر علمائے یہود جنہوں نے تورات کے علم کو بس اپنے ہی حلقہ میں محدود کر رکھا تھا اور مثلاً رجم کی آیت کو چھپاتے تھے اور عوام میں زنا کی سزا ہی دوسری تجویز کرلی تھی۔ یا دیدہ دانستہ عوام میں مشہور کردیا تھا کہ ابراہیم علیہ السلام یا اسحاق علیہ السلام وغیرہ یہودی تھے یا قبلہ کے متعلق صحیح معلومات عوام سے چھپا رکھی تھیں وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بہت حدیثیں بیان کرتا ہے (حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ اگر کتاب اللہ میں یہ دو آیتیں نہ ہوتیں (یہی آیت نمبر ١٥٩۔ ١٦٠) تو میں کوئی حدیث بیان نہ کرتا۔ (بخاری، کتاب العلم، باب حفظ العلم)
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو تین بار پکارا، پھر فرمایا : معاذ! جو شخص سچے دل سے یہ گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔ اللہ اسے آگ پر حرام کر دے گا۔ معاذ رضی اللہ عنہ کہنے لگے! میں لوگوں کو یہ بات بتلا دوں کہ وہ خوش ہوجائیں؟ فرمایا ’’پھر وہ توکل کر بیٹھیں گے (لہٰذا ایسی بشارت نہ دو)‘‘ پھر معاذ رضی اللہ عنہ نے موت کے وقت گنہگار ہونے کے ڈر سے لوگوں سے یہ بیان کردی۔ (بخاری، کتاب العلم، باب من خص بالعلم قومادون قوم) |
البقرة |
160 |
[١٩٩]توبہ کی شرائط :۔ صرف توبہ کرنا ہی کافی نہیں، بلکہ ان کے اس کتمان حق سے جو بگاڑ پیدا ہوا تھا۔ اس کی انہیں اصلاح بھی کرنا ہوگی۔ پھر اپنی غلطی کا لوگوں کے سامنے برملا اعتراف بھی کریں تو صرف ایسے لوگوں کی اللہ توبہ قبول کرے گا ورنہ نہیں۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک مصنف احکام الٰہی کی غلط تاویل کر کے اپنے ملحدانہ خیالات پر مشتمل ایک کتاب شائع کردیتا ہے، بعد میں توبہ کرلیتا ہے۔ لیکن اس کے جو ملحدانہ خیالات عوام میں پھیل چکے۔ جب تک وہ ان کی تردید میں اپنی دوسری کتاب لکھ کر اس پیدا شدہ بگاڑ کی اصلاح نہ کرے گا۔ اس کی توبہ قبول ہونے کی توقع نہ ہوگی اور یہی بینوا کا مفہوم ہے۔ |
البقرة |
161 |
[٢٠٠] کفر کے معنی انکار کردینا (ایمان نہ لانا) بھی ہے۔ چھپانا بھی اور ناشکری کرنا بھی۔ یہاں موقع کے لحاظ سے یہ سب معنوں میں استعمال ہو رہا ہے۔ |
البقرة |
162 |
|
البقرة |
163 |
[٢٠١] کئی خدا سمجھنے کی وجہ، صرف ایک اللہ کی عبادت کیوں ؟یہ خطاب دراصل مشرکین مکہ سے ہے۔ جنہوں نے کئی الٰہ بنا رکھے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ اتنے بڑے کارگاہ کائنات کا سارے کا سارا انتظام ایک اکیلا اللہ کیسے سنبھال سکتا ہے؟ ان کی عقل میں یہ بات آ ہی نہیں سکتی تھی۔ لہٰذا انہوں نے مختلف امور کے لیے مختلف الٰہ تجویز کر رکھے تھے اور جتنی پرانی تھذیبیں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً ہندی، رومی، مصری، یونانی تھذیبیں، ان سب لوگوں نے دیوی دیوتاؤں کا ایسا ہی نظام تجویز کر رکھا تھا اور مسلمانوں میں بھی اکثر لوگوں میں گو زبانی نہیں مگر عملاً ایسے ہی اعتقادات و افعال رائج ہوچکے ہیں۔ یہ سب لوگ ہی اس آیت کے مخاطب ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی معرفت نصیب نہیں ہوتی اور قرآن میں یہ مضمون لاتعداد مقامات پر آیا ہے۔ کہیں اجمالاً کہیں تفصیل سے اور دلائل کے ساتھ۔ لہٰذا اس مضمون کی تفصیل کسی دوسرے مقام پر آ جائے گی۔ |
البقرة |
164 |
[٢٠٢] توحید باری پرآٹھ دلائل :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے غور و فکر کرنے والوں کے لیے آٹھ ایسے امور کا ذکر فرمایا ہے جو اللہ تعالیٰ کے وجود پر اور اس کی لامحدود قدرت و تصرف پر واضح دلائل ہیں۔ مثلاً اتنے عظیم الشان آسمان کو بغیر ستونوں کے پیدا کرنا اور زمین کو اس طرح بنانا کہ اس پر بسنے والی تمام مخلوق کی ضروریات کی کفیل ہے۔ دن رات کا یکے بعد دیگرے آنا جانا اور ان کے اوقات کا گھٹنا بڑھنا، جہازوں کا بڑے بڑے مہیب اور متلاطم سمندروں میں رواں ہونا آسمان سے بارش برسانا جس سے مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے۔ ہر جاندار میں توالدو تناسل کا سلسلہ قائم کرنا انہیں تمام روئے زمین پر پھیلا دینا، ہواؤں کے رخ میں تبدیلی پیدا کرنا اور بلندیوں پر بادلوں کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا۔ یہ سب کام ایسے ہیں جنہیں اللہ کے سوا کوئی بھی ہستی سرانجام نہیں دے سکتی۔ پھر اور کون سے کام ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کو دوسرے دیوی دیوتاؤں کی ضرورت پیش آ سکتی ہے؟ پھر مندرجہ بالا امور بیان کرنے کے بعد ساتھ ہی یہ بھی بتلا دیا کہ غور و فکر کرنے والوں کے لیے اس کائنات میں ان کے علاوہ اور بھی ایسی بہت سی نشانیاں موجود ہیں۔ |
البقرة |
165 |
[٢٠٣]شرکیہ افعال اور شرک کی مذمت :۔ یعنی اللہ کی مخصوص صفات میں اپنے معبودوں کو اللہ کا مد مقابل ٹھہراتے ہیں اور خالق، مالک اور رازق ہونے کی حیثیت سے اللہ کے جو حقوق بندوں پر عائد ہونا چاہئیں۔ ان حقوق میں وہ دوسروں کو شریک کرلیتے ہیں۔ مثلاً سلسلہ اسباب پر حکمرانی، حاجت روائی، مشکل کشائی، فریاد رسی، عبادت دعائیں سننا اولاد عطا کرنا، غیب و شہادت کی ہر چیز سے واقف ہونا، کسی دوسرے کو منبع قانون سمجھنا اور حرام و حلال کی حدود مقرر کرنا۔ ان سب باتوں میں کئی دوسرے پیغمبروں، بزرگوں، فرشتوں جنوں اور دیوی، دیوتاؤں کو اللہ کا مدمقابل اور شریک ٹھہرا لیتے ہیں۔ محبت کا تعلق قلبی اعمال سے ہے اور یہی بات تمام افعال و اعمال کا سرچشمہ ہے اس میں بھی وہ اپنے خود ساختہ معبودوں کو ہی فوقیت دیتے ہیں۔
[ ٢٠٤] کیونکہ اللہ سے ان کی محبت مستقل اور پائیدار ہوتی ہے۔ وہ ہر حال میں اللہ ہی پر بھروسہ اور اعتماد رکھتے ہیں۔ جب کہ مصائب و آلام کے وقت بسا اوقات مشرکوں کی اپنے معبودوں سے محبت زائل بھی ہوجاتی ہے۔ |
البقرة |
166 |
[٢٠٥] اس دنیا میں تو عالم اسباب کی بہت سی باتیں انسان کی آنکھوں سے مخفی ہیں۔ مگر قیامت کو جب یہ سب اسباب واضح طور پر دیکھ لیں گے تب انہیں معلوم ہوگا کہ تصرف و اقتدار کے جملہ اختیارات تو صرف اللہ ہی کو حاصل تھے اور حاصل ہیں۔ اور ہمارے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ مگر اس وقت ان کی یہ ندامت کسی کام نہ آئے گی اور سخت عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ |
البقرة |
167 |
[٢٠٦]پیروں کی اپنے مریدوں سے بیزاری اور اس کےبرعکس:۔ ان دو آیات میں میدان محشر کا ایک منظر پیش کیا گیا ہے اور مشرکوں اور ان کے معبودوں یعنی مرشدوں اور (مریدوں) پیروکاروں کے درمیان مکالمہ بیان کیا گیا ہے۔ جو یہاں دنیا میں اپنے مریدوں کے مشکل کشا، حاجت روا اور شفاعت کے ٹھیکیدار بنے ہوئے تھے۔ قیامت کے دن چونکہ اللہ کے حضور جواب دہی کی دہشت اور خوف اس قدر زیادہ ہوگا کہ ہر ایک کو اپنی ہی جان کی پڑی ہوگی۔ لہٰذا یہ پیشوا حضرات ان مریدوں کی اعانت و امداد یا سفارش سے نہ صرف انکار کریں گے، بلکہ دنیا میں ان کو اپنا مرید ہونے سے ہی انکار کردیں گے اور کہہ دیں گے کہ ہمارا ان سے کوئی تعلق ہے نہ ہم انہیں پہچانتے ہیں۔ بلکہ ان سے بے زاری اور نفرت کا اظہار کریں گے۔ یہ صورت حال دیکھ کر مرید حضرات سخت مایوس ہوجائیں گے اور آرزو کریں گے کہ کاش ہمیں دنیا میں جانے کا ایک اور موقع مل سکے تو ہم بھی ان سے یہی سلوک کریں جو آج یہ ہم سے کر رہے ہیں اور ہم بھی ان پیروں سے ایسے بے تعلق اور بیزار ہوجائیں۔ جیسے یہ آج ہم سے بے تعلق اور بے زار بن گئے ہیں۔
[ ٢٠٧] مشرکوں کے اعمال حسرت کا سبب کیوں ؟ایک حسرت تو یہ ہوگی کہ مرشدوں نے اپنے وعدوں کے خلاف بے زاری کا اظہار کردیا، اور دوسری یہ کہ جو اچھے اعمال مثلاً صدقہ و خیرات اور نذر و نیاز وغیرہ کرتے رہے وہ تو ان کے شرک کی وجہ سے ضائع ہوجائیں گے اور برے اعمال برقرار رہیں گے۔ اس طرح وہ کئی قسم کی حسرتوں کا مجموعہ بن جائیں گے۔ ان کے مرشد بھی باعث حسرت اور ان کے اعمال بھی باعث حسرت لیکن ان حسرتوں کا نتیجہ کچھ بھی نہ نکلے گا اور دوزخ کے عذاب سے نجات کی کوئی صورت نہ ہوگی۔ |
البقرة |
168 |
[٢٠٨] حلال سے مراد ایک تو وہ سب چیزیں ہیں جنہیں شریعت نے حرام قرار نہیں دیا۔ دوسرے وہ جنہیں انسان اپنے عمل سے حرام نہ بنا لے۔ جیسے چوری کی مرغی یا سود اور ناجائز طریقوں سے کمایا ہوا مال اور پاکیزہ سے مراد وہ صاف ستھری چیزیں ہیں جو گندی سٹری، باسی اور متعفن نہ ہوگئی ہوں۔ حرام چیزوں سے بچنے کی احادیث میں بہت تاکید آئی ہے۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے۔
١۔کسب حلال اور اس کی اہمیت :۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے لوگو! اللہ پاک ہے اور وہ صرف پاک مال قبول کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو بھی اسی بات کا حکم دیا جس کا اس نے رسولوں کو حکم دیا : چنانچہ فرمایا یٰایُّھَا الرُّسُلُ۔۔ (اے پیغمبرو ! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو اور فرمایا اے ایمان والو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ جو ہم نے تمہیں دی ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کر کے آیا ہو، اس کے بال پریشان اور خاک آلود ہوں وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف پھیلاتا ہے اور کہتا ہے اے میرے پروردگار! اے میرے پروردگار! جبکہ اس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام اور جس غذا سے اس کا جسم بنا ہے وہ بھی حرام ہے تو پھر اس کی دعا کیسے قبول ہوگی؟ (ترمذی، ابو اب التفسیر) (مسلم، کتاب الزکوٰۃ باب قبول الصدقۃ من کسب الطیب) ٢۔ حرام خور کی دعاقبول نہیں ہوتی:۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’وہ گوشت جو مال حرام سے پروان چڑھا ہے وہ جنت میں داخل نہ ہوگا اور جو بھی گوشت حرام سے پروان چڑھا اس کے لیے جہنم ہی لائق تر ہے۔‘‘ (احمد، دارمی، بحوالہ مشکوٰۃ، کتاب البیوع باب الکسب و طلب الحلال فصل ثانی) ٣۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص حرام مال کمائے اور پھر اس سے صدقہ کرے تو وہ صدقہ قبول نہیں ہوتا اور اگر اس سے خرچ کرے تو اس میں برکت نہیں ہوتی۔ (احمد، بحوالہ مشکوٰاۃ، کتاب البیوع باب الکسب و طلب الحلال، فصل ثانی) ٤۔ حرام مال سے صدقہ قبول نہیں ہوتا:۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ صرف پاکیزہ کمائی سے ہی صدقہ قبول کرتا ہے۔ (مسلم، کتاب الزکوٰۃ، باب بیان ان اسم الصدقہ یقع علی کل نوع من المعروف) ٥۔حرام اور مشکوک چیزیں چھوڑنے کاحکم :۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یوں کہتے سنا ہے کہ حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے۔ اب جو شخص ان مشتبہ چیزوں سے بچا رہا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا اور جو مشتبہ چیزوں میں پڑگیا اس کی مثال اس چرواہے کی سی ہے جو کسی کی رکھ کے گرد اپنے جانوروں کو چراتا ہے، قریب ہے کہ وہ رکھ میں جا گھسیں۔ سن لو ہر بادشاہ کی ایک رکھ ہوتی ہے۔ سن لو! اللہ کی رکھ اس کی زمین میں حرام کردہ چیزیں ہیں۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب فضل من استبراء لدینہ مسلم، کتاب المساقاۃ باب اخذ الحلال و ترک الشبہات) ٦۔ عطیہ سعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ کوئی بندہ اس وقت تک متقی نہیں بن سکتا جب تک اندیشہ والی چیزوں سے بچنے کی خاطر ان چیزوں کو نہ چھوڑ دے جن میں کوئی اندیشہ نہیں۔‘‘ (ترمذی، ابن ماجہ، بحوالہ مشکوٰۃ، کتاب البیوع، باب الکسب و طلب الحلال) ٧۔ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات یاد رکھی ہے کہ’’جو چیز تجھے شک میں ڈالے اسے چھوڑ اور وہ اختیار کر جو شک میں نہیں ڈالتی۔‘‘ (احمد بحوالہ مشکوٰۃ، کتاب البیوع، باب الکسب و طلب الحلال) ٨۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ آدمی اس بات کی پروا نہیں کرے گا کہ جو مال اس کے ہاتھ آیا ہے وہ حلال ہے یا حرام۔‘‘ (بخاری، کتاب البیوع، باب مالم یبال من حیث کسب المال) [ ٢٠٩] حرام مال کوحلال اورحلال کوحرام قراردینا اور شیطان کی پیروی ہے: یہاں شیطان کے پیچھے چلنے سے مراد یہ ہے جو چیزیں اللہ نے حرام نہیں کیں انہیں حرام نہ سمجھ لو، جیسے مشرکین عرب بتوں کے نام سانڈ چھوڑ دیتے تھے۔ پھر ان جانوروں کا گوشت کھانا یا ان سے کسی طرح کا بھی نفع اٹھانا حرام سمجھتے تھے یا کسی مخصوص کھانے پر اپنی طرف سے پابندیاں عائد کر کے اسے حرام قرار دے لیتے تھے۔ یہی صورت کسی حرام چیز کو حلال قرار دینے کی ہے۔ جیسے یہود نے سود کو حلال قرار دے لیا تھا۔ امیوں کا مال کھانا جائز سمجھتے تھے اور یہ شرک ہے۔ کیونکہ حلال و حرام قرار دینے کے جملہ اختیارات اللہ کو ہیں۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے قریب میری امت میں سے کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو شراب کا کوئی دوسرا نام رکھ کر اس کو حلال بنا لیں گے۔ (بخاری، کتاب الاشربہ، باب فیمن یستحل الخمر ویسمیہ بغیراسمہ) اور ابو مالک کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ میری امت میں سے کچھ لوگ پیدا ہوں گے جو زنا، ریشم، شراب اور باجے گاجے وغیرہ کے دوسرے نام رکھ کر انہیں حلال بنا لیں گے۔ (حوالہ ایضاً) اور ایسی سب باتیں اللہ کی صفات میں شرک کے مترادف ہیں۔ کیونکہ حلت و حرمت کے جملہ اختیارات اللہ ہی کو ہیں۔ |
البقرة |
169 |
[٢١٠] چونکہ شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے۔ لہٰذا وہ ہمیشہ تمہیں کوئی بری بات یا بے شرمی یا بے حیائی کی بات ہی سمجھائے گا۔ وہ بھی اس طرح کہ تمہاری نظروں میں وہ بھلی معلوم ہو۔
[ ٢١١] یعنی خود ساختہ رسموں اور پابندیوں کے متعلق یہ سمجھنا یا تاثر دینا کہ یہ اللہ کے احکام ہیں جبکہ ان کے من جانب اللہ ہونے کی کوئی دلیل موجود نہ ہو، اللہ کے ذمہ جھوٹ لگانے کے مترادف ہے جو بہت بڑا گناہ ہے۔ |
البقرة |
170 |
[ ٢١٢]تقلید آباء کی مذمت: ۔ تقلید آباء گمراہی کا بہت بڑا سبب ہے۔ انسان اپنے آباء اور بزرگوں سے عقیدت کی وجہ سے یہ سوچنے کی زحمت گوارا ہی نہیں کرتا کہ ان سے بھی کوئی غلطی ہو سکتی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بے شمار مقامات پر تقلید آباء کی مذمت فرمائی ہے اور اسے شرک قرار دیا ہے۔ کیونکہ آباء کا عمل کوئی شرعی دلیل نہیں ہوتا۔ بلکہ ہر کام کے متعلق یہ تحقیق ضروری ہوتی ہے کہ آیا وہ شرعاً جائز ہے یا نہیں۔ خواہ اس کی زد اپنے آپ پر یا اپنے آباء پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ ایسا نہ ہونا چاہیے کہ اگر کسی کے باپ دادا سے کوئی غلط کام ہوگیا ہو تو وہ غلطی پشت در پشت اس کی نسلوں میں منتقل ہوتی چلی جائے۔ حتیٰ کہ اسے عین دین کا کام سمجھا جانے لگے۔ |
البقرة |
171 |
[ ٢١٣] یعنی کافروں کی مثال ان بے عقل جانوروں کی سی ہے۔ جنہیں چرواہا جب پکارتا ہے تو وہ یہ نہیں سمجھ سکتے کہ وہ کہہ کیا رہا ہے۔ بلکہ محض آواز سن کر ادھر ادھر ہوجاتے ہیں۔ جانوروں کی طرح یہ کافر بھی حق بات سن کر نہ اسے سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی حق بات کہہ سکتے ہیں اور حق بینی کے معاملہ میں اندھے ہیں۔ پھر انہیں ہدایت نصیب ہو تو کیسے ہو۔ جب کہ ہدایت پانے کے سارے راستے انہوں نے خود ہی اپنے آپ پر بند کر رکھے ہیں۔ |
البقرة |
172 |
[ ٢١٤] آیت نمبر ١٦٩ میں خطاب عوام الناس سے تھا۔ اس آیت میں مومنوں سے ہے۔ اسی لیے انہیں تاکید کی جا رہی ہے کہ کھانے کے بعد اللہ کا شکر بھی ادا کیا کرو۔ |
البقرة |
173 |
[ ٢١٥]اللہ کی حرام کردہ چیزیں :۔ اس آیت میں چار چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے :
١۔ مردار خواہ وہ کسی طریقہ سے مرا ہو۔ طبعی موت سے یا کہیں گر کر یا لاٹھی لگنے سے یا سینگ کی ضرب سے یا کسی درندے نے مار ڈالا ہو۔ سب صورتوں میں حرام ہے۔ ٢۔ وہ خون جو ذبح کرتے وقت رگوں سے باہر نکل جاتا ہے اور جو گوشت کے ساتھ لگا رہے اس میں کوئی حرج نہیں۔ نیز حدیث میں آیا ہے کہ دو مردار حلال ہیں یعنی مچھلی اور ٹڈی اور دو خون حلال ہیں۔ کلیجی اور تلی جو منجمد خون ہی ہوتا ہے۔ (احمد، بحوالہ مشکوٰۃ کتاب الصید والذبائح باب مایحل اکلہ ما یحرم فصل ثانی) ٣۔ خنزیر یا سور جو نجس عین ہے۔ اس کا صرف گوشت کھانا ہی حرام نہیں بلکہ یہ زندہ یا مردہ اس کی کسی بھی چیز سے استفادہ جائز نہیں۔ ٤۔ ہر وہ چیز جو اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کے نام پر مشہور کردی جائے۔ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ جس جانور پر ذبح کرتے وقت اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام لیا جائے، صرف وہی حرام ہوتا ہے۔ یہ تصور بالکل غلط ہے، کیونکہ قرآن کے الفاظ میں نہ جانور کا ذکر ہے۔ نہ ذبح کا بلکہ ما کے لفظ میں عمومیت ہے۔ لہٰذا اس کا معنی یہ ہوگا کہ جو چیز کسی بزرگ یا دیوی دیوتا کا تقرب حاصل کرنے کے لیے اس کے نام پر مشہور کردی جائے جیسے امام جعفر کے کو نڈے، بی بی کی صحنک، مرشد کا بکرا وغیرہ یہ سب چیزیں حرام ہیں اور اگر وہ ذبح کرنے کا جانور ہے تو خواہ اس پر ذبح کے وقت اللہ کا نام ہی کیوں نہ لیا جائے وہ حرام ہی رہے گا۔ بلکہ کسی دوسرے کی نیت رکھنے سے بھی وہ حرام ہوجاتا ہے کیونکہ اللہ کی عطا کردہ چیزوں کی قربانی یا نذر و نیاز صرف اسی کے نام کی ہونی چاہیے۔ اس میں کسی دوسرے کو شریک نہ بنایا جائے۔ ہاں اگر کوئی شخص کچھ صدقہ و خیرات کرتا ہے یا قربانی کرتا ہے اور اس سے اس کی نیت یہ ہو کہ اس کا ثواب میرے فوت شدہ والدین یا فلاں رشتہ دار یا مرشد کو پہنچے تو اس میں کوئی حرج نہیں، یہ ایک نیک عمل ہے۔ جو سنت سے ثابت ہے۔ [ ٢١٦]لاچاری میں حرام اشیاء کےجواز کی شرائط:۔ اس آیت میں حرام چیزوں کو استعمال کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے تین شرائط بیان فرمائیں : ١۔ اسے بھوک یا بیماری کی وجہ سے جان جانے کا خطرہ لاحق ہو اور اس حرام چیز کا کوئی بدل موجود نہ ہو۔ ٢۔ وہ اللہ کا باغی یا قانون شکن نہ ہو۔ یعنی جو چیز کھا رہا ہے۔ اسے حرام ہی سمجھ کر کھائے، حلال نہ سمجھے۔ ٣۔ اتنا ہی کھائے جس سے اس کی جان بچ سکے اور اس کے بعد اس کا بدل میسر آ سکے۔ پھر اگر وہ غلط اندازے سے کچھ زیادہ بھی کھا لے گا تو اللہ تعالیٰ معاف کر دے گا۔ اور یہ غلطی جان کے تلف ہونے سے متعلق بھی ہو سکتی ہے اور خوراک کی مقدار کے متعلق بھی۔ |
البقرة |
174 |
[٢١٧]کتمان حق اور غلط فتوے سےحرام خوری:۔ آیت نمبر ١٥٩ کے مضمون کو دہرایا گیا ہے اور بتلایا گیا ہے کہ کتمان حق کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ پیشوا قسم کے لوگ اس کے عوض کچھ نہ کچھ دنیوی مفاد اور مال و دولت حاصل کرلیتے ہیں آیات کی تاویل یا فقہاء کے مختلف اقوال کو بنیاد بنا کر غلط فتویٰ دیتے ہیں۔ اسی طرح ایک طرف تو لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ دوسرے ان سے پیسے وصول کرتے ہیں اور لطف کی بات یہ کہ فتویٰ جتنا زیادہ غلط قسم کا ہو اتنے ہی ان کے دام زیادہ وصول کئے جاتے ہیں، یہ مال بلاشبہ حرام ہے جو دوزخ کی ظاہری آگ کے علاوہ ان کے اندر بھی آگ لگا دے گا۔
[ ٢١٨] اللہ تعالیٰ کا کلام نہ کرنا گناہ کبیرہ کے ارتکاب کی دلیل ہے:۔ یہاں کلام نہ کرنے سے مراد اللہ تعالیٰ کی انتہائی خفگی اور ناراضگی ہے۔ فقہاء کہتے ہیں کہ جن کاموں سے متعلق یہ مذکور ہو کہ اللہ ان سے کلام نہ کرے گا یا ان کی طرف دیکھے گا بھی نہیں یا انہیں پاک نہیں کرے گا۔ تو ایسے سب کام کبیرہ گناہ ہوتے ہیں اور مسلمانوں کی تو ایک کثیر تعداد ایسی ہوگی جنہیں اللہ دوزخ میں داخل کرے گا تاآنکہ وہ گناہوں سے پاک و صاف ہوجائیں۔ لیکن کچھ گناہ ایسے بھی ہیں کہ دوزخ کی آگ سے پاک و صاف نہ ہوں گے۔ جیسے شرک یا جن کے متعلق خلود فی النار کے الفاظ آئے ہیں۔ رہی یہ بات کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک سے حساب کتاب لیتے وقت تو کلام کرے گا ہی تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسے لوگوں سے اللہ تعالیٰ کا حساب لینا بھی بصورت تہدید اور سرزنش اور ڈانٹ ڈپٹ ہوگا یا فرشتوں کے ذریعہ ان سے حساب لیا جائے گا۔ واللہ اعلم بالصواب |
البقرة |
175 |
[٢١٩] یعنی اللہ تعالیٰ کی آیات کو چھپا کر لوگوں کو گمراہ کرنے والے اور غلط تاویلات کے ذریعے لوگوں سے نذرانے وصول کرنے والے علماء اور پیشوا حضرات جنہیں خوب معلوم ہے کہ ان کی ان کرتوتوں کی سزا کس قدر سخت ہے۔ اس کے باوجود وہ ان حرکتوں سے باز نہیں آتے، ان کی یہ جسارت بڑی حیران کن ہے۔ |
البقرة |
176 |
[٢٢٠]اختلاف امت اور فرقہ پرستی کے اسباب :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک بہت بڑی حقیقت سے مطلع فرمایا ہے جو یہ ہے کہ جو لوگ اختلاف کرتے ہیں اور مختلف فرقوں میں بٹ جاتے ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ حق ان پر مشتبہ ہوجاتا ہے بلکہ اس کی اصل وجہ ان کی باہمی ضد ہوتی ہے جس میں وہ دور تک چلے جاتے ہیں۔ چنانچہ آپ خود ملاحظہ فرما لیجئے کہ اسلام میں جتنے فرقے پیدا ہوئے ہیں۔ سب اپنے حق میں کتاب و سنت سے ہی استدلال کرتے ہیں۔ یہ استدلال عموماً غلط ہوتا ہے اور کبھی صحیح بھی ہوتا ہے مگر استدلال کے اختلاف میں رواداری کے بجائے جب ضد پیدا ہوجائے اور استدلال کرنے والا اپنی بات پر اڑ جائے تو یہیں سے نئے فرقہ کی ابتدا شروع ہوجاتی ہے۔ جس کے لیے قرآن کریم میں بے شمار مقامات پر سخت وعید آئی ہے۔
واضح رہے کہ ہر گمراہ فرقے کی بنیاد یا تو کسی شرکیہ عقیدہ اور عمل پر استوار ہوتی ہے اور یا کسی بدعی عقیدہ و عمل پر۔ پھر اپنے اس بدعی عقیدہ کو کھینچ تان کر کتاب و سنت سے درست یا جائز ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جو شخص بدعی عقیدہ یا عمل رائج کرنا چاہتا ہے۔ اسے کوئی نہ کوئی روکنے اور ٹوکنے والا بھی ہوتا ہے۔ لیکن بدعی عقیدہ کا موجد اور اس کے متبعین کے لیے حق کو ماننے کے بجائے انا اور ضد کا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس طرح ایک نیا فرقہ وجود میں آ جاتا ہے اور اس حقیقت کو قرآن مجید نے چار مختلف مقامات پر ذکر کیا ہے۔ اور اس کی وجہ یہی ﴿بَغْیًا بَیْنَھُمْ ﴾ ہی بتلائی ہے۔ یعنی اس کی وجہ یہ ہرگز نہیں ہوتی کہ کتاب و سنت میں اس کا واضح حل موجود نہیں ہوتا۔ (نیز دیکھئے اسی سورۃ کا حاشیہ نمبر ٢٨٢) |
البقرة |
177 |
[٢٢١]تحویل قبلہ پر جھگڑا کرنے کےبجائے نیکی کےاصل کام :۔ جب یہود مدینہ نے تحویل قبلہ کے مسئلہ کو مسلمانوں کے ساتھ جھگڑے کا ایک مستقل موضوع بنا لیا تو یہ آیت نازل ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ وضاحت فرمائی کہ مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرنا کوئی ایسی نیکی نہیں ہے جس پر نجات اخروی کا مدار ہو بلکہ نیکی کے اصل اور بڑے بڑے کام تو اور ہیں اور وہ کام ایسے تھے جن میں سے اکثر کی ادائیگی میں یہود قاصر تھے یا کوتاہی کر جاتے تھے پہلے تو اللہ تعالیٰ نے ایمان بالغیب کی انواع بیان فرمائیں۔ یہود جبریل کو اپنا دشمن سمجھتے تھے۔ حالانکہ اسی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنا کلام نازل فرماتا رہا۔ پھر وہ انجیل اور قرآن پر ایمان نہیں رکھتے تھے، بلکہ اپنی کتاب پر بھی ٹھیک طرح سے ایمان نہیں لاتے تھے اور بے شمار غلط عقائد آخرت کے بارے میں اپنے معتقدات میں شامل کرلیے تھے۔ پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے صدقات و خیرات اور اس کے مستحقین کا ذکر فرمایا۔ اس سلسلے میں وہ قاصر یوں تھے کہ وہ سود خور تھے اور سود خور کی فطرت میں بخل اور شقاوت پیدا ہونا لازمی امر ہے۔ پھر اللہ نے وعدہ پورا کرنے کا ذکر فرمایا۔ جبکہ یہود کی تاریخ عہد شکنیوں سے بھری پڑی ہے اور بزدل ایسے کہ ان کا کوئی قبیلہ بھی مسلمانوں کے ساتھ کھلے میدان میں لڑنے کی جرات نہ کرسکا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے راست باز اور متقی لوگوں کی جو جو صفات بیان فرمائی ہیں یہودیوں کی اکثریت ان سے عاری تھی۔
صرف ایفائے عہد اورصبر کاذکرکیوں ہوا؟اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے سیرت و کردار سے متعلق صرف دو باتوں کا ذکر فرمایا۔ ایک ایفائے عہد کا اور دوسرے صبر کا۔ عہد خواہ ایک شخص کا دوسرے شخص سے ہو یا قوم سے ہو یا ایک قوم کا دوسری قوم سے ہو یا کسی کا اللہ تعالیٰ سے ہو۔ نیز خواہ یہ عبادات سے تعلق رکھتا ہو یا معاملات سے یا مناکحات سے، اس عہد کا پورا کرنا ہر حال میں لازم ہے اور ظاہر ہے کہ یہ عہد دراصل ایفائے حقوق کا عہد ہوتا ہے جو انسان کی ساری زندگی ہی اپنے احاطہ میں لے لیتا ہے، اور ایفائے عہد کے سلسلہ میں کئی قسم کی مشکلات بھی پیش آ سکتی ہیں۔ لہٰذا ساتھ ہی صبر و ثبات کا حکم فرما دیا اور صبر کے تین مواقع کا بالخصوص ذکر فرمایا۔ ایک باسَاء جس کے معنی تنگی ترشی اور فقر و فاقہ کا دور ہے۔ دوسرے ضراء جس کے معنی جسمانی تکالیف اور بیماری کا دور ہے اور تیسرے حین الباس یعنی جنگ کے دوران بھی اور اس وقت بھی جب جنگ کے حالات پیدا ہوچکے ہوں اور اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہی وہ مقامات ہیں جہاں بسا اوقات انسان کے پائے ثبات میں لغزش آ جاتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے بالخصوص ان مواقع کا ذکر فرما دیا۔
پھر جو لوگ ایفائے عہد یا بالفاظ دیگر ایفائے حقوق میں پورے اترتے ہیں اور کسی بھی مشکل سے مشکل وقت میں ان کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آتی تو ایسے ہی لوگ دراصل راست باز اور متقی کہلائے جانے کے مستحق ہوتے ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت نازک حالات میں عہد کو پورا کر کے تاریخ میں اس کی بہت سی مثالیں ثبت کردی ہیں۔ ہم یہاں یہ تفصیل بیان نہیں کرسکتے صرف چند واقعات کی طرف اشارہ کافی ہوگا۔ دورنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایفائے عہد کی مثالیں:۔ ۱۔حضرت حذیفہ بن یمان اور ابو حسیل رضی اللہ عنہ (یہ حضرت یمان کی کنیت ہے) دونوں جنگ بدر میں شمولیت کے لیے جا رہے تھے کہ راستہ میں قریش مکہ کے ہتھے چڑھ گئے اور انہوں نے ان سے عہد لے کر چھوڑا کہ وہ غزوہ بدر میں حصہ نہیں لیں گے۔ چنانچہ یہ دونوں صحابی قریش سے چھٹکارا حاصل کر کے میدان بدر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے اور سارا ماجرا بیان کیا۔ اس وقت مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ایک آدمی کی شدید ضرورت تھی۔ لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو واپس چلے جانے کا حکم دیا اور فرمایا تم اپنا عہد پورا کرو، اللہ ہماری مدد کرے گا۔ (مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب الوفا بالعہد) ٢۔ صلح حدیبیہ کے دوران ابو جندل پابہ زنجیر قریش مکہ کی قید سے فرار ہو کر مسلمانوں کے پاس پہنچ گئے ابو جندل نے اپنے زخم دکھلا دکھلا کر اور اپنا دکھڑا سنا کر التجا کی کہ اب اسے کافروں کے حوالہ نہ کیا جائے۔ اس وقت تمام مسلمانوں کے جذبات یہ تھے کہ خواہ کچھ بھی ہو ابو جندل کو اب کافروں کے حوالہ نہ کیا جائے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض ایفائے عہد کی خاطر ابو جندل کو کافروں کے سفیر سہیل بن عمرو (جو ابو جندل کا باپ تھا) کے حوالہ کیا۔ ابو جندل کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے کوئی اور راہ نکال دے گا۔ (بخاری، کتاب الشروط، باب الشروط فی الجہاد والمصالحہ مع اھل الحرب) ٣۔ عمرہ قضاء کے دوران قریش مکہ نے یہ گوارا نہ کیا کہ مسلمان ان کی آنکھوں کے سامنے آزادی سے عمرہ کے مناسک ادا کریں۔ چنانچہ تین دن کے لیے شہر کو خالی کردیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے اگر کوئی دنیا دار جرنیل ہوتا تو بڑی آسانی سے مکہ پر قبضہ کرسکتا تھا۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں یہ خیال تک نہ آیا کہ اس سنہری موقع سے یہ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عہد کو پورا کیا اور تین دن کے بعد مکہ سے واپسی کا سفر اختیار کرلیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں نے جس طرح اس قسم کے عہد کو نبھایا وہ واقعات بھی بہت ہیں اور کتب تاریخ و سیر کی آج بھی زینت بنے ہوئے ہیں۔ [ ٢٢١] (علیٰ حبہ) میں ''ہ'' کی ضمیر کا مرجع اللہ تعالیٰ ہو تو اس کا وہی مفہوم ہے جو ترجمہ سے واضح ہے اور اس ضمیر کا مرجع مال قرار دیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ وہ لوگ اگر مال کی محبت کے باوجود اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور یہ تو ظاہر ہے کہ کسی پسندیدہ چیز کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا، یا اپنی احتیاج کو روک کر خرچ کرنا، یا قحط اور گرانی کے ایام میں خرچ کرنا صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب کہ اس کا محرک قوی جذبہ ہو اور یہ جذبہ اللہ کی محبت اور اس کی فرمانبرداری کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا بالفعل (علیٰ حبہ) میں بیک وقت دونوں مفہوم شامل ہوجاتے ہیں۔ |
البقرة |
178 |
[ ٢٢٢] قصاس کےاحکام :۔قصاص کا مطلب ہے جان کے بدلے جان لینا۔ پھر دور نبوی کی سوسائٹی کی اصناف کے مطابق حکم دیا گیا۔ آزاد کے بدلے قاتل قوم کا کوئی آزاد مرد ہی قتل ہوگا۔ عورت یا غلام قتل نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح غلام کے بدلے آزاد مرد یا عورت قتل نہیں ہوں گے۔ یہ تفصیل اللہ تعالیٰ نے اس لیے بیان فرمائی کہ اس دور کا دستور یہ تھا کہ اگر کسی قبیلہ کا کوئی معزز آدمی دوسرے قبیلے کے کسی عام آدمی کے ہاتھوں مارا جاتا تو وہ اصلی قاتل کے قتل کو کافی نہیں سمجھتے تھے۔ بلکہ ان کی خواہش یہ ہوتی تھی کہ یا تو قاتل قبیلے کا ویسا ہی کوئی معزز آدمی قتل کیا جائے یا اس قبیلہ کے کئی آدمی اس کے عوض قتل کئے جائیں۔ اس کے برعکس مقتول اگر کوئی ادنیٰ آدمی اور قاتل معزز آدمی ہوتا تو وہ اس بات کو گوارا نہ کرتے تھے کہ مقتول کے بدلے قاتل کی جان لی جائے اور یہ بات صرف اس زمانے سے مختص نہیں بلکہ آج کی مہذب حاکم اقوام بھی یہی کچھ کرتی ہیں۔ قاتل اگر حاکم قوم سے تعلق رکھتا ہو تو عدالت کو اختیار نہیں کہ اس کے خلاف قصاص کا فیصلہ صادر کرسکے اور اگر بدقسمتی سے حاکم قوم کا کوئی شخص محکوم کے ہاتھوں قتل ہوجائے تو سمجھ لو کہ اس پوری قوم کی خیر نہیں اور اس پر طرح طرح کی مصیبتیں کھڑی کی جاتی ہیں انہی خرابیوں کے سدباب کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مقتول کے بدلے قاتل اور صرف قاتل ہی کی جان لی جائے گی یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ قاتل کون ہے اور مقتول کون؟
[٢٢٣] قتل قابل راضی نامہ جرم ہے:۔ مقتول کے وارث کو قاتل کا بھائی کہہ کر نہایت لطیف طریقے سے اس سے نرمی اختیار کرنے کی سفارش بھی کردی گئی ہے۔ یعنی وہ قصاص معاف کر دے اور دیت لے لے، اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اسلام میں قتل تک کا مقدمہ بھی قابل راضی نامہ ہے۔ جبکہ انگریزی قانون کے مطابق یہ جرم قابل راضی نامہ نہیں۔ اگلی امتوں میں سے یہود پر اللہ تعالیٰ نے قصاص فرض کیا تھا، ان میں عفو کا قانون نہیں تھا اور نصاریٰ میں صرف عفو کا حکم تھا قصاص کا نہیں تھا۔ اس امت پر اللہ تعالیٰ نے آسانی اور مہربانی فرمائی اور دونوں باتوں کی اجازت دی۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مقتول کے وارثوں کو دو باتوں میں سے ایک کا اختیار ہے خوا وہ فدیہ لے لیں یا قصاص۔ (بخاری کتاب في اللقطة باب کیف تعرف اھل مکۃ اھل مکہ نیز مسلم، کتاب الحج، باب تحریم مکة) قصاص اور دیت :تاہم آپ قصاص کے بجائے عفو کو زیادہ پسند فرماتے تھے، آپ خود بھی معاف کرتے اور دیت لے لینے کی سفارش کرتے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اسی بات کی تلقین فرماتے تھے۔ ایک دفعہ ایک آدمی قتل ہوگیا۔ آپ نے قاتل کو مقتول کے حوالہ کردیا۔ قاتل کہنے لگا’’یا رسول اللہ ! اللہ کی قسم میرا قتل کرنے کا ارادہ نہ تھا۔‘‘ آپ نے مقتول کے ولی سے کہا۔’’ اگر یہ سچا ہوا اور تم نے اسے قتل کردیا تو تم دوزخ جاؤ گے۔‘‘ یہ سن کر مقتول کے ولی نے قاتل کو چھوڑ دیا۔ (ترمذی۔ ابو اب الدیات باب ماجاء فی حکم ولی القتیل) یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس آیت کی ابتدا میں (کتب علیٰ) کے الفاظ قصاص کی فرضیت اور وجوب کا تقاضا کرتے ہیں۔ پھر بھی دیت کی رعایت یا رخصت بھی بیان فرما دی۔ بلکہ اگر مقتول کے وارث معاف ہی کردیں تو اسے بہت بہتر عمل قرار دیا گیا تو پھر قصاص کی فرضیت یا وجوب کیا رہ گیا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت کا روئے سخن اسلامی معاشرہ یا اسلامی حکومت کی طرف ہے کہ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خون ناحق کا ضرور قصاص لے۔ خواہ مقتول کا کوئی وارث موجود ہو یا نہ ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ مقتول کے وارث تو ہوں مگر انہیں قصاص لینے میں کوئی دلچسپی نہ ہو بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ بعض دنیوی مفادات کی خاطر یہ قتل ہی ورثا کے ایماء سے ہوا ہو۔ جو بھی صورت ہو حکومت کی ذمہ داری ہے کہ مجرم کو گرفتار کر کے اسے کیفر کردار تک پہنچائے۔ دیت کی حکمت :۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے جو دیت کی رعایت بیان فرمائی تو یہ اختیار صرف مقتول کے ورثا کو ہے اور اس میں کئی حکمتیں اور لوگوں کی مصلحتیں ہیں۔ جب مقتول کے ورثاء کو حکومت کی طرف سے قصاص یا دیت کا اختیار مل جائے تو اپنے قاتل کے خلاف ان کے منتقمانہ جذبات سرد پڑجاتے ہیں اور بہت بڑے زخم کے اندمال کی ایک شکل پیدا ہوجاتی ہے۔ اور اگر وہ جان کا قصاص لینے کے بجائے نرم رویہ اختیار کریں تو اس سے ایک تو قاتل کی جان بخشی اور قاتل اور اس کے خاندان پر احسان ہوتا ہے۔ جس سے آئندہ کے لیے نہایت مفید نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے دوسرے اس صورت میں مقتول کے ورثاء کی مالی امداد بھی ہوجاتی ہے۔ اور اگر وہ غریب ہوں تو انہیں بڑا سہارا مل سکتا ہے اور یہ سب معاملات حکومت کی وساطت سے ہی طے ہوں گے مگر مقتول کے ورثاء کی مرضی کے مطابق کئے جائیں گے اور اگر یہ سارا اختیار حکومت کو ہی سونپ دیا جائے تو مقتول کے ورثاء ان تمام فوائد سے یکسر محروم رہ جاتے ہیں۔ [ ٢٢٤] اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں قصاص تھا دیت کا دستور نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت پر قصاص فرض کرنے کے بعد فرمایا ﴿فَاتِّـبَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ ﴾ جس سے مراد دیت کا مطالبہ ہے اور ﴿وَاَدَاءٌ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ ﴾ سے مراد یہ ہے کہ قاتل کو بلاچون و چرا ادائیگی کردینا چاہیے۔ یہ اگلے لوگوں کے مقابلہ میں تخفیف ہے۔ ﴿فَمَنِ اعْتَدَیٰ بَعْدَ ذٰلِکَ﴾ کا مطلب یہ ہے کہ دیت قبول کرنے کے بعد بھی اسے قتل کر دے (بخاری، کتاب التفسیر، زیر آیت مذکورہ) اگر انسان کی نیت میں بگاڑ ہو تو زیادتی کی کئی شکلیں بن سکتی ہیں۔ ایک شکل تو وہی ہے جس کا مندرجہ بالا آیت میں ذکر کیا گیا ہے کہ مقتول کا وارث وقتی طور پر دیت لے کر مالی فوائد حاصل کرلے۔ پھر جب کبھی موقع ملے تو قاتل کو مار بھی ڈالے۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ قاتل اور اس کے ورثاء حکومت کے دباؤ کے تحت دیت ادا کردیں۔ مگر بعد میں ان پر کسی نئے ظلم چوری یا ڈاکہ وغیرہ کی سکیم تیار کرنا شروع کردیں۔ ایسی تمام صورتوں میں وہ اللہ کے غضب کے مستحق ٹھہریں گے۔ |
البقرة |
179 |
[٢٢٥] قصاص میں زندگی کیسے ہے؟ یہ نہایت فصیح و بلیغ جملہ ہے۔ جس پر عرب کے فصحاء عش عش کر اٹھے۔ کیونکہ اس مختصر سے جملہ میں دریا کو کوزہ میں بند کردیا گیا ہے۔ یعنی قصاص بظاہر تو موت ہے۔ مگر حقیقت میں پوری زندگی کا راز اسی میں ہے۔ عرب میں جو فصیح محاورہ استعمال ہوتا تھا القتل انفی القتل یعنی قتل قتل ہی سے مٹتا ہے۔ مگر فی القصاص حیاۃ میں بدرجہا زیادہ لطافت، فصاحت، بلاغت ہے اور مضمون بھی بہت زیادہ سما گیا ہے۔ دور جاہلیت میں اگر کوئی شخص مارا جاتا تو اس کے قصاص کا کوئی قاعدہ نہ تھا۔ لہٰذا اس کے بدلے دونوں طرف سے ہزاروں خون ہوتے مگر پھر بھی فساد کی جڑ ختم نہ ہوتی تھی۔ عرب کی تمام خانہ جنگیاں جو برسہا برس تک جاری رہتی تھیں اور عرب بھر کا امن و سکون تباہ ہوچکا تھا۔ اس کی صرف یہی وجہ تھی۔ اس آیت سے اللہ تعالیٰ نے قصاص کا عادلانہ قانون دے کر دنیا بھر کے لوگوں کو جینے کا حق عطا فرما دیا۔
قصاص اور دیت کے چند ضروری مسائل :۔١۔ قاتل کے لیے تین صورتیں ہیں (i) مقتول کے وارث قصاص پر ہی مصر ہوں (ii) قصاص تو معاف کردیں مگر دیت لینا چاہیں (iii) سب کچھ معاف کردیں۔ مقتول کے وارثوں کو ان سب باتوں کا اختیار ہے۔ ٢۔ مقتول کے وارثوں میں سے اگر کوئی ایک بھی قصاص معاف کر دے تو قصاص کا معاملہ ختم اور پھر باقی صورتوں میں ممکن صورت پر عمل ہوگا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کو قصاص لینے کے بجائے معاف کردینا یا دیت لے لینا زیادہ پسند ہے۔ ٣۔ کافر کے بدلے مسلم کو قتل نہ کیا جائے (بخاری، کتاب الدیات، (باب لا یقتل المسلم بالکافر) یہ اس صورت میں ہے جبکہ کافر حربی ہو اور اگر ذمی ہو تو اس کا قصاص یا دیت یا عفو ضروری ہے۔ ٤۔ اگر باپ بیٹے کو قتل کر دے تو اس سے قصاص نہیں لیا جائے گا۔ (احمد بیہقی بسند صحیح، بلوغ الامانی جلد ١٦ ص ٣٢٠) ٥۔ آج کل جاہلی دستور نہیں رہا۔ غلامی کا دور بھی ختم ہوگیا۔ اب یہ صورت باقی ہے کہ اگر عورت مرد کو یا مرد عورت کو قتل کر دے تو پھر کیا ہونا چاہیے۔ شریعت اس بارے میں خاموش ہے اور یہ قاضی کی صوابدید پر ہوگا۔ ٦۔ جان کی دیت سو اونٹ ہے (نسائی، کتاب العقود والدیات، عن عمرو بن جزم) یا ان کی قیمت کے برابر، یا جو کچھ اس وقت کی حکومت اس کے لگ بھگ مقرر کر دے۔ ٧۔ دیت عصبات (ددھیال) کے ذمہ ہے (بخاری، کتاب الدیات باب جنین المراۃ، نیز مسلم، کتاب القسامۃ باب دیت الجنین) تفصیلی مسائل کے لیے کتب احادیث کی طرف رجوع کیا جائے۔ |
البقرة |
180 |
[ ٢٢٦]میت کووصیت کاحکم اور مسائل :۔ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ ترکہ کے وارث صرف بیوی اور اولاد اور بالخصوص اولاد نرینہ ہوا کرتی تھی (جیساکہ آج کل مسلمانوں میں بھی عمومی رواج یہی چل نکلا ہے) ماں باپ اور سب اقارب محروم رہتے ہیں۔ اس آیت کی رو سے مرنے والے پر انصاف کے ساتھ والدین اور اقارب کے لیے وصیت کرنا فرض قرار دیا گیا۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے آیت میراث میں والدین اور اقارب کے حصے خود ہی مقرر فرما دیئے تو یہ آیت منسوخ ہوگئی اور وصیت صرف ایک تہائی ترکہ یا اس سے بھی کم حصہ کے لیے رہ گئی۔ جو یا تو ان وارثوں کے حق میں کی جا سکتی ہے جن کا حصہ اللہ تعالیٰ نے مقرر نہیں کیا یا پھر دوسرے رفاہ عامہ کے کاموں کے لیے ایک تہائی مال تک وصیت کرنا ایک حق تھا جو مرنے والے کو دیا گیا تھا۔ مگر آج مسلمان اس سے بھی غافل ہیں۔ حالانکہ اگر وہ اس حق کو استعمال کریں تو کئی معاشرتی مسائل از خود حل ہوجاتے ہیں۔ مثلاً ایسے پوتے پوتیاں یا دوہتے دوہتیوں کی تربیت کا مسئلہ جن کے والدین فوت ہوچکے ہوں یا ایسے محتاج (ذوی الارحام کا جو نہ ذوی الفروض سے ہوں اور نہ عصبات سے) |
البقرة |
181 |
[ ٢٢٧] یعنی مرنے والے نے تو وصیت انصاف کے ساتھ کی ہو۔ مگر کوئی بااختیار وارث اس میں ترمیم و تنسیخ کر دے یا چند وارث ملکر تبدیلی کردیں تو وہ سب گنہگار ہوں گے اور اللہ تعالیٰ ایسے خودغرض لوگوں کی باتوں کو سننے والا اور ان کے ارادوں تک کو جاننے والا ہے۔ |
البقرة |
182 |
[ ٢٢٨] ہاں اگر معلوم ہوجائے کہ مرنے والے نے وصیت کرنے میں غلطی کی، خواہ وہ دیدہ دانستہ تھی۔ یا نادانستہ یا کسی کی طرفداری کر گیا تو اس میں وارثوں کے صلاح مشورہ سے تبدیلی کی جا سکتی ہے بلکہ ولی یا بااختیار وارث کو ایسی ترمیم ضرور کردینا چاہیے۔ اس طرح ممکن ہے کہ وصیت کرنے والے کا گناہ بھی اللہ تعالیٰ معاف فرما دے۔ |
البقرة |
183 |
[ ٢٢٩] روزہ کی فرضیت اورحکمت :۔ روزہ کا حکم حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر تمام انبیاء کی شریعت میں جاری رہا ہے۔ صرف تعیین ایام میں اختلاف رہا ہے اور یہ دین اسلام کا ایک اہم رکن ہے اور اہم رکن ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس سے نفس سرکش کی اصلاح ہو اور شریعت کے جو احکام بھاری معلوم ہوتے ہیں ان کی ادائیگی سہل ہوجائے۔ روزہ میں صرف کھانے پینے کی اشیاء کو ترک کرنے کی مشق نہیں کرائی گئی بلکہ لڑائی جھگڑے اور بری باتوں سے بچنے کی بھی تاکید کی گئی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : روزہ (برائی کے لیے) ڈھال ہے۔ لہٰذا جس کا روزہ ہو وہ نہ بے حیائی کی بات کرے اور نہ شور شرابا کرے اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ جہالت کی کوئی بات نہ کرے اور اگر کوئی اسے گالی دے یا اس سے لڑے تو کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں۔ (بخاری، کتاب الصوم، باب فضل الصوم) نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جس شخص نے روزہ میں غلط گوئی یا غلط کاری نہ چھوڑی تو اللہ تعالیٰ کو اس کا کھانا پینا چھڑانے کی کوئی ضرورت نہیں (بخاری، کتاب الصوم باب من لم یدع قول الزور والعمل بہ فی الصوم) اور یہی باتیں انسان میں تقویٰ پیدا کرتی ہیں۔ |
البقرة |
184 |
[ ٢٣٠] ایام رمضان کی کمی بیشی:۔یعنی انتیس یا تیس دن جو کہ قمری مہینہ کی کم سے کم یا زیادہ سے زیادہ مدت ہے۔ شریعت نے قمری مہینہ کی تعیین کو ستاروں کے علم یا آلات روئیت کے حساب سے معلق نہیں کیا بلکہ اس کی بنیاد رؤیت ہلال پر رکھی ہے یعنی چاند کو دیکھ کر ہی روزے رکھنا شروع کرو اور چاند (شوال کا) دیکھ کر ہی روزے رکھنا ختم کرو۔ اب رؤیت ہلال مختلف ممالک میں مختلف اوقات اور مختلف تاریخوں پر ہونا عین ممکن ہے اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ ماہ رمضان کے دوران مختلف، ممالک کا سفر کرنے والوں میں سے کسی کے روزوں کی تعداد ٢٨ رہ جائے اور کسی کے ٣١ ہوجائے۔ ایسی صورت میں جس شخص کے روزے ٢٨ بن رہے ہوں وہ بعد میں ایک روزہ کی قضا دے گا اور جس کے ٣١ بن رہے ہوں وہ ایک روزہ چھوڑ دے گا۔ یا اسے نفلی تصور کر کے روزہ رکھ سکتا ہے۔
[٢٣١]بیمار کاروزہ اوردین میں آسانی کا مطلب:۔ بیمار کے علاوہ یہی رعایت حیض یا نفاس والی عورت کے لیے بھی ہے اور دودھ پلانے والی عورت بھی اس رخصت سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ البتہ اگر کوئی ایسی بیماری لاحق ہو جو مزمن قسم کی ہو اور اس سے افاقہ کی امید کم ہو تو ایسی صورت میں کفارہ دیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص بوڑھا ضعیف ہوچکا ہے۔ جس میں روزہ رکھنے کی سکت ہی نہ رہ گئی ہو تو وہ بھی کفارہ دے سکتا ہے اور یہ کفارہ ایک مسکین کا دو وقت کا کھانا ہے۔ خواہ کسی کو روزہ ہی رکھوا دیا کرے اور افطار کرائے یا اس کے برابر نقد قیمت ادا کر دے اور نقد کی تشخیص اسی معیار کے مطابق ہوگی جیسا وہ خود کھاتا ہے۔ اسی طرح ضعیف آدمی پورے مہینے کا اکٹھا کفارہ بھی ادا کرسکتا ہے۔ اسی طرح کسی بوڑھے کا اپنے متعلق یہ اندازہ لگانا کہ اب وہ روزہ رکھنے کے قابل نہیں، بھی اس کی اپنی صوابدید پر منحصر ہے اور اس سلسلہ میں جو کام بھی کیا جائے وہ اللہ سے ڈر کر کرنا چاہیے۔ دین میں سختی کی ممانعت:۔ جس طرح سفر میں تکلیف بڑھ جانے سے روزہ کھول دینا ہی سنت ہے۔ اسی طرح اگر کسی بیمار نے اپنے متعلق یہ اندازہ لگایا کہ وہ روزہ نبھا سکے گا۔ مگر تکلیف بڑھ گئی تو اسے فوراً روزہ کھول دینا چاہیے۔ بعد میں اس کی قضا دے لے بلکہ بعض فقہاء یہ کہتے ہیں کہ اگر مریض مرض کی شدت پر بھی روزہ افطار نہ کرے اور مر جائے تو وہ خودکشی کی موت مرے گا اور روزہ کا ثواب حاصل کرنے کی بجائے الٹا اپنی جان ضائع کرنے کا مجرم بن جائے گا اور اس پر دلیل درج ذیل حدیث ہے جو ابو داؤد میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔
سفرمیں یابیماری میں روزہ سےتکلیف ہوتوروزہ کھولنے کاحکم :۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر پر نکلے۔ ہم میں سے کسی کے سر پر ایک پتھر لگا۔ جس نے سر کو بری طرح زخمی کردیا۔ اتفاق سے اس شخص کو احتلام ہوگیا تو اس نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ آپ لوگ میرے لیے تیمم کی رخصت کو درست سمجھتے ہیں؟ وہ کہنے لگے نہیں، اس لیے کہ پانی موجود ہے۔ چنانچہ اس آدمی نے غسل کیا تو اس کی موت واقع ہوگئی۔ پھر جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا :’’اللہ ان لوگوں کو ہلاک کرے انہوں نے اپنی ساتھی کو مار ڈالا۔ جب وہ یہ مسئلہ نہیں جانتے تھے تو انہوں نے کیوں نہ کسی عالم سے پوچھ لیا ؟ جہالت کی درماندگی کا علاج تو پوچھ لینا ہی ہے۔ اسے اتنا ہی کافی تھا کہ وہ اپنے زخم پر پٹی باندھ لیتا اور اس پر تیمم کرلیتا اور باقی جسم کو دھو لیتا۔‘‘ [ ٢٣٢] سفر کی حالت میں روزہ رکھ لینا بھی جائز ہے اور چھوڑنا بھی، اور وہ اس بات کا اندازہ روزہ دار کی جسمانی قوت اور سفر کی مشقت کو سامنے رکھ کر کیا جائے گا۔ تاہم اگر سفر میں روزہ چھوڑنا ہی بہتر ہے۔ بلکہ اگر روزہ رکھ لیا ہو اور پھر تکلیف کی شدت محسوس ہو تو روزہ کھول دینا چاہیے اور بعد میں اس کی قضا دے دینا چاہیے۔ چنانچہ غزوہ مکہ میں جو ماہ رمضان میں درپیش تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے روزہ رکھا ہوا تھا اور نڈھال سے ہو رہے تھے۔ مگر روزہ چھوڑنے پر آمادہ نہ تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے وقت سب لوگوں کو دکھا کر پانی کا پیالہ پیا اور روزہ کھول دیا۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی روزہ کھول دیں۔ چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی روزہ کھول دیا۔ (بخاری، کتاب الصوم باب الصوم فی السفر والافطار) نیز جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر (غزوہ فتح مکہ) میں تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ ہجوم دیکھا اور معلوم ہوا کہ ایک شخص (قیس عامری) پر لوگ سایہ کئے ہوئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کیا قصہ ہے؟ لوگوں نے کہا یہ روزہ دار ہے۔ آپ نے فرمایا ’’سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی کا کام نہیں۔‘‘ (بخاری : کتاب الصوم، باب قول النبی لمن ظلل علیہ واشتد الحر۔۔) [ ٢٣٣] اس آیت کی تفسیر میں دو مختلف اقوال ہیں۔ پہلا یہ کہ یُطِیْقُوْنَہُ کا معنی ہی یہ ہے کہ ’’جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں۔‘‘ (لغت ذوی الاضداد) تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ جو لوگ لاعلاج مرض میں مبتلا ہوں یا مرض سے شفا کا امکان نظر نہ آ رہا ہو یا اتنے بوڑھے ہوچکے ہوں کہ بعد میں قوت بحال ہونے کا امکان نہ ہو تو ایسے لوگ روزہ رکھنے کی بجائے فدیہ دے سکتے ہیں اور یہ صورت اب بھی بحال ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ ابتداء میں مسلمانوں کو یہ رعایت دی گئی تھی کہ چاہیں تو روزہ رکھ لیں اور چاہیں تو فدیہ دے دیں۔ جبکہ بعض لوگ اس طرح کے ضبط نفس پر آمادہ نہیں ہو رہے تھے، لیکن بعد میں یہ رعایت ﴿فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہ﴾سے ختم کردی گئی اور حدیث سے اسی دوسرے قول کی تائید ہوتی ہے۔ چنانچہ حضرت سلمہ بن اکوع بیان فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو جس کا جی چاہتا روزہ نہ رکھتا، اور فدیہ دے دیتا، تاآنکہ اس کے بعد ﴿فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ ﴾ نازل ہوئی اور اس نے اسے منسوخ کردیا۔ (بخاری، کتاب التفسیر زیر آیت مذکورہ) [٢٣٤] اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ صدقہ کی معین مقدار سے صدقہ زیادہ دے دے، دوسرا یہ کہ روزہ بھی رکھے اور فدیہ بھی دے دے۔ [٢٣٥] یعنی اگر تمہیں روزہ کے ثواب کا علم ہو تو روزہ رکھنا ہی بہتر سمجھو گے اور روزہ کے ثواب کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ روزہ دار میری خاطر اپنا کھانا پینا اور شہوت رانی چھوڑتا ہے۔‘‘ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ روزہ (گناہوں سے بچنے کے لئے) ڈھال ہے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں۔ ایک روزہ کھولتے وقت اور دوسری جب وہ اپنے پروردگار سے ملے گا۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے ہاں کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ پاکیزہ (عمدہ) ہے۔ (بخاری کتاب التوحید باب قول اللہ یریدون ان یبدلوا کلام اللہ ) |
البقرة |
185 |
[٢٣٦]رمضان اور قرآن:۔ تمام کتب سماوی اور اسی طرح قرآن کریم رمضان ہی میں نازل ہوئیں اور قرآن لیلۃ القدر کو سارے کا سارا آسمان دنیا پر نازل کردیا گیا۔ پھر تھوڑا تھوڑا کر کے حالات کے مطابق آپ پر نازل ہوتا رہا جو سراپا ہدایت اور حق و باطل میں تمیز کرنے والی کتاب ہے۔ اس آیت سے قرآن اور رمضان کا خصوصی تعلق معلوم ہوا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں جبریل علیہ السلام سے قرآن کا دور فرمایا کرتے اور زندگی کے آخری رمضان میں دو بار دور فرمایا۔ مسلمانوں کو یہی حکم ہے کہ رمضان میں بطور خاص قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کریں۔ اسی لیے رمضان میں قیام اللیل کی خصوصی تاکید کی گئی۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جو شخص رمضان کی راتوں میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے قیام کرے، اس کے پہلے گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب تطوع قیام رمضان من الایمان)
[٢٣٧] حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ کا قاعدہ تھا کہ جب آپ کو دو باتوں کا اختیار دیا جاتا تو آپ وہ بات اختیار کرتے جو آسان ہوتی۔ بشرطیکہ وہ گناہ کا کام نہ ہو۔ (بخاری کتاب المناقب باب صفة النبی صلي الله عليه وسلم) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (لوگوں پر) آسانی کرو، سختی نہ کرو اور خوشی کی بات سناؤ، نفرت نہ دلاؤ۔ (بخاری، کتاب العلم، باب کان النبی یتخولھم بالموعظة والعلم) [٢٣٨] ان رخصتوں اور اللہ کی مہربانیوں کی وجہ سے تمہیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ جس نے ہر قسم کے لوگوں کا لحاظ رکھ کر ایسے احکام فرمائے ہیں۔ |
البقرة |
186 |
[٢٣٨۔ ١] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض لوگوں نے پوچھا تھا کہ ہمارا پروردگار اگر دور ہے تو ہم اسے بلند آواز سے پکارا کریں اور اگر قریب ہے تو آہستہ آواز سے پکارا کریں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو بتلا دیا کہ میں تمہارے بالکل قریب ہوں۔ حتیٰ کہ تمہاری رگ جان سے بھی قریب ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے صرف ان کے سوال کے جواب پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اور بھی کئی باتیں ارشاد فرما دیں جو انسانی ہدایت کے لیے ضروری تھیں اور جن سے شرکیہ عقائد کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ مثلاً یہ کہ جب کوئی شخص مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی پکار یا دعا کو صرف سنتا ہی نہیں بلکہ شرف قبولیت بھی بخشتا ہوں اس سے ان لوگوں کے باطل خیال کارد ہوگیا جو کہتے ہیں کہ اللہ ہم گنہگاروں کی دعا کب سنتا اور قبول کرتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم کسی بزرگ اور اللہ کے پیارے کی معرفت اللہ سے اپنی حاجات طلب کریں۔ اس جواب میں عمومیت سے یہ وضاحت ہوگئی کہ جیسے اللہ اپنے پیاروں کی سنتا ہے ویسے ہی اپنے گنہگاروں کی بھی سنتا اور اسے شرف قبولیت بخشتا ہے۔
دوسری وضاحت یہ فرمائی کہ بندے میرا حکم بجا لائیں۔ مجھی سے مانگیں، دوسروں سے نہ مانگیں۔ کیونکہ پکار یا دعا بھی اصل عبادت ہے اور تیسری یہ کہ میرے متعلق اس بات کا یقین بھی رکھیں کہ میں ان کی دعا ضرور قبول کروں گا اور یہی ہوشمندی، سمجھداری اور ان کے فائدے کی بات ہے۔ دعاکی قبولیت کی شرائط وآداب:۔ واضح رہے کہ دعا کی قبولیت کے کچھ آداب ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ حرام خور کی دعا قبول نہیں ہوتی اور اس بات کی صراحت احادیث صحیحہ میں موجود ہے۔ دوسری یہ کہ وہ دعا ممکنات سے ہو۔ مثلاً اگر ایک غریب آدمی جسے امور سیاست کی خبر تک نہ ہو یہ دعا کرنے لگے کہ یا اللہ مجھے اس ملک کا بادشاہ بنا دے تو ظاہر ہے کہ ایسی دعا قبول نہ ہوگی۔ نہ ہی کوئی ایسی دعا کرنی چاہیے جس کا تعلق قطع رحم یا کسی گناہ کے کام سے ہو۔ تیسری یہ دعا کی قبولیت کا بھی اللہ کے ہاں ایک مقرر وقت ہوتا ہے۔ لہٰذا اس سلسلہ میں انسان کو نہ جلد بازی کرنی چاہیے اور نہ مایوس ہونا چاہیے کیونکہ بعض دفعہ دعا کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اس سے کوئی نازل ہونے والی مصیبت دور کردی جاتی ہے اور چوتھی یہ کہ جو دعا کی جائے پورے خلوص نیت سے اور تہ دل سے کی جائے۔ بے توجہی سے اور عادتاً دعا کرنے سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا اور پانچویں یہ کہ دعا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کے بعد اپنی حاجت کے لیے دعا کی جائے اور چھٹے یہ کہ اگر اسے اپنی دعا قبول ہوتی نظر نہ آ رہی ہو تو بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ صرف اللہ سے دعا کرنے اور کرتے رہنے کا حکم ہے۔ اس کی قبولیت بسا اوقات اللہ تعالیٰ کی اپنی حکمتوں کے تابع ہوتی ہے۔ مثلاً ایک شخص کی دعا کی قبولیت سے کسی دوسرے شخص یا زیادہ لوگوں کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو تو اللہ کی حکمت کا تقاضا یہی ہوگا کہ اسے قبول نہ کرے تاہم ایسی دعا کا یہ فائدہ ضرور ہوگا کہ اس کے نامہ اعمال میں دعا مانگنے کی نیکی لکھی جائے گی اور اس کا اجر اسے آخرت میں مل جائے گا یا اس پر آنے والی کوئی بیماری یا مصیبت اٹھا لی جاتی ہے۔ پھر بعض اوقات ایسے ہوتے ہیں جن میں دعا جلد قبول ہوتی ہے۔ مثلاً لیلۃ القدر میں یا سجدہ کے وقت یا جمعہ کے دن اور ان کی تفصیل کتب احادیث میں موجود ہے۔ پھر کچھ حالات بھی ایسے ہوتے ہیں جن میں دعا فوراً قبول ہوتی ہے۔ مثلاً مضطر اور مصیبت کے مارے کی دعا، یا مظلوم کی ظالم کے حق میں بددعا یا والدین کی اپنی اولاد کے حق میں بددعا۔ اس لیے کہ عادتاً والدین اپنی اولاد کے ہمیشہ خیر خواہ ہوتے ہیں۔ وہ اپنی اولاد کے حق میں بددعا اسی وقت کرسکتے ہیں جبکہ اولاد کی طرف سے انہیں کوئی انتہائی دکھ پہنچا ہو۔ رہی اللہ کو بلند آواز یا آہستہ آواز سے پکارنے کی بات تو اس آیت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ اللہ قریب ہے۔ لہٰذا اسے آہستہ آواز سے پکارنا چاہیے۔ تاہم اس میں بھی انسان کی نیت ارادہ کا بہت دخل ہے اور حسن نیت سے ہی عمل میں خوبی پیدا ہوتی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ مکی دور میں ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نکلے تو دیکھا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آہستہ اور پرسوز آواز سے نماز میں قرآن پاک پڑھ رہے ہیں۔ آپ آگے گئے تو دیکھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بلند اور گرجدار آواز سے پڑھ رہے ہیں۔ صبح آپ نے پہلے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے دریافت فرمایا کہ تم اتنی آہستہ آواز سے قرآن پاک کیوں پڑھ رہے تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ اس لیے کہ میرا رب میرے نزدیک ہے۔ پھر آپ نے عمر رضی اللہ عنہ سے بلند آواز سے قرآن پڑھنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ میں سونے والوں کو جگاتا ہوں اور شیطان کو بھگاتا ہوں۔ آپ نے دونوں کے جواب سن کر دونوں کی ہی تحسین فرمائی۔ اور بعض دفعہ حالات کا یہ تقاضا ہوتا ہے کہ اللہ کا نام بلند آواز سے پکارا جائے جیسے حج و عمرہ کے درمیان تلبیہ پکارنا یا تکبیرات عیدین یا جہاد کے سفر میں اللہ اکبر کہنا یا دوران جنگ یا کفار کے مقابلہ اور ان کا جی جلانے کے لیے بلند آواز سے نعرہ لگانا ایسے تمام مواقع پر اللہ کو بلند آواز سے ہی پکارنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ |
البقرة |
187 |
[٢٣٩]میاں بیوی ایک دوسرے کالباس ہونے کامفہوم:میاں بیوی کے تعلقات کے لیے اللہ تعالیٰ نے نہایت لطیف استعارہ فرمایا۔ جس کے کئی مفہوم ہو سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ جس طرح لباس اور جسم کے درمیان کوئی اور چیز حائل نہیں ہوتی اسی طرح میاں بیوی کا تعلق ایک دوسرے کے ساتھ ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ تم دونوں ایک دوسرے کے راز دار اور رازدان ہو۔ تیسرے یہ کہ تم دونوں ایک دوسرے کی عزت کے شریک ہو اور چوتھے یہ کہ تم دونوں ایک دوسرے کے پردہ پوش ہو وغیرہ وغیرہ۔
[٢٤٠] رمضان میں رات کومباشرت کی اجازت:۔ ابتدائے اسلام میں رمضان کی راتوں میں اپنی بیویوں سے مباشرت کرنے کے متعلق کوئی واضح حکم موجود نہ تھا۔ تاہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اپنی جگہ اسے ناجائز سمجھتے تھے۔ پھر بعض صحابہ رضی اللہ عنہ مکروہ سمجھتے ہوئے بھی اس کام سے باز نہ رہ سکے۔ چنانچہ براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب روزے فرض ہوئے تو لوگ سارا مہینہ عورتوں کے پاس نہ جاتے۔ پھر بعض لوگوں نے چوری چوری یہ کام کرلیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (بخاری، کتاب التفسیر، زیر آیت مذکورہ) [٢٤١] یعنی مباشرت اس لیے کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے جو اولاد مقدر فرمائی ہے وہ عطا فرما دے گویا اس آیت سے عزل اور لواطت اور دبر میں جماع کرنے وغیرہ سب باتوں کی ممانعت ثابت ہوتی ہے۔ اور اگر کوئی شخص رمضان میں دن کو روزہ کی حالت میں مباشرت کرے تو اسے اس کا کفارہ ادا کرنا ہوگا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : روزہ توڑنے کا کفارہ:۔ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص (سلمہ بن صخر بیاضی رضی اللہ عنہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: میں تباہ ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کیوں کیا بات ہوئی؟ کہنے لگا! میں رمضان میں اپنی عورت پر جا پڑا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کیا تو ایک غلام آزاد کرسکتا ہے؟ کہنے لگا، مجھ میں یہ قدرت نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا دو مہینے کے پے در پے روزے رکھ سکتا ہے؟ کہنے لگا۔ نہیں (اتنا مقدور ہوتا تو یہ روزہ ہی کیوں توڑتا) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اچھا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتا ہے؟ کہنے لگا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہا کہ اچھا بیٹھ جاؤ۔ اتنے میں آپ کے پاس کھجوروں کا ایک ٹوکرا آ گیا جس میں پندرہ صاع کھجور آ سکتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا۔ لے ٹوکرا لے جا اور اسے محتاجوں میں تقسیم کر دے۔ وہ کہنے لگا کہ میں اسے ان لوگوں میں تقسیم کروں جو ہم سے بڑھ کر محتاج ہوں۔ قسم اس پروردگار کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچائی کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ مدینہ کے دونوں کناروں میں اس سرے سے اس سرے تک کوئی گھر والے ہم سے زیادہ محتاج نہیں۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنا ہنسے کہ آپ کی کچلیاں نظر آنے لگیں اور فرمایا جا اپنے بیوی بچوں کو ہی کھلا دے۔ (بخاری۔ کتاب الایمان والنذور۔ باب من اعان المعسر فی الکفارۃ) اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ فرضی روزہ توڑنے کا کفارہ بعینہ وہی ہے جو سورۃ مجادلہ کی آیت نمبر ٣ اور ٤ میں مذکور ہے۔ اور دوسری یہ کہ کفارہ دینے والا اگر محتاج اور تنگ دست ہو تو اس کی صدقہ و خیرات سے مدد کی جا سکتی ہے جیسا کہ عنوان باب سے معلوم ہوتا ہے۔ [٢٤٢] یعنی رات کی تاریکی سے سپیدہ فجر نمایاں ہوجائے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ بعض صحابہ کاقرآن فہمی میں غلطی کھانا:۔عدی بن حاتم کہتے ہیں کہ میں نے رات کو ایک سفید ڈوری اور ایک کالی ڈوری (اپنے تکیے کے نیچے) رکھ لیں۔ انہیں دیکھتا رہا مگر تمیز نہ ہوئی (کھاتے پیتے رہے) جب صبح ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا۔ ’’ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے اپنے تکیے تلے دو ڈوریاں رکھ لی تھیں۔‘‘ آپ نے (مزاحاً) فرمایا : ’’ تمہارا تکیہ تو بہت بڑا ہے جس کے نیچے (صبح کی) سفید ڈوری اور (رات کی) کالی ڈوری آ گئی۔‘‘ (بخاری، کتاب التفسیر، باب آیت مذکور) [٢٤٣] براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے جب کوئی روزہ رکھتا اور افطار کرنے سے پہلے سو جاتا تو پھر اگلی شام تک کچھ نہ کھا سکتا تھا۔ قیس بن صرمہ نے روزہ رکھا جب افطار کا وقت آیا تو بیوی سے پوچھا :’’ کیا کھانے کو کوئی چیز ہے؟‘‘ وہ بولیں۔ نہیں، لیکن میں ابھی جاتی ہوں تو تمہارے کھانے کو کچھ لے آتی ہوں۔ بیوی چلی گئی، قیس دن بھر کے تھکے ماندے تھے۔ نیند نے غلبہ کیا اور وہ سو گئے۔ بیوی نے واپس آ کر دیکھا تو بہت دکھ ہوا۔ الغرض انہوں نے کچھ کھائے پئے بغیر پھر روزہ رکھ لیا۔ لیکن ابھی آدھا دن ہی گزرا تھا کہ بے ہوش ہوگئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا ذکر کیا گیا تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب الصوم، باب قول اللہ آیت احل لکم لیلۃ الصیام الرفث۔۔ الخ، اور ترمذی، ابو اب التفسیر، باب آیت مذکور) [٢٤٤]روزہ کھولنے میں جلدی اور سحری دیر سے کھانا:۔ یعنی آغاز سحر سے لے کر آغاز رات یعنی غروب آفتاب تک روزہ کا وقت ہے۔ غروب آفتاب کے فوراً بعد روزہ افطار کرلینا چاہیے۔ یہود غروب آفتاب کے بعد احتیاطاً اندھیرا چھا جانے تک روزہ نہیں کھولتے تھے۔ اس لیے آپ نے فرمایا کہ میری امت اس وقت تک خیر پر رہے گی جب تک روزہ جلد افطار کرے گی۔ (روزہ کھولنے میں جلدی اور سحری دیر سے کھانا چاہیے۔) (بخاری، کتاب الصوم۔ باب تعجیل الافطار) ١۔ نیز عبداللہ بن ابی اوفی سے روایت ہے کہ ہم ایک سفر (غزوہ فتح مکہ) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ آپ نے ایک آدمی (بلال رضی اللہ عنہ سے) فرمایا کہ اتر اور میرے لیے ستو گھول۔ وہ کہنے لگا! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ابھی تو سورج کی روشنی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اتر اور میرے لیے ستو گھول۔ بلال رضی اللہ عنہ پھر کہنے لگے! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ابھی تو سورج کی روشنی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر تیسری بار فرمایا : اتر اور میرے لیے ستو گھول۔ آخر وہ اترے اور ستو گھولا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پی لئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف ہاتھ سے اشارہ کر کے فرمایا کہ جب ادھر سے رات کا اندھیرا شروع ہو تو روزہ افطار کرنے کا وقت ہوگیا۔ (بخاری : کتاب الصوم، باب الصوم فی السفر والافطار )٢۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دیکھو! تم بلال (رضی اللہ عنہ) کی اذان کہنے سے سحری کھانے سے رک نہ جانا۔ بلال (رضی اللہ عنہ) تو اس لیے اذان دیتا ہے کہ جو شخص (تہجد کی نماز میں) کھڑا ہو وہ لوٹ جائے۔ اور صبح یا فجر کی روشنی وہ نہیں ہے جو اس طرح لمبی ہوتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر بتلایا کہ یہ صبح کاذب ہے۔ پھر ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ سے جدا کر کے دائیں بائیں کھینچا (یہ صبح صادق ہے) بخاری۔ کتاب الطلاق۔ باب الاشارۃ فی الطلاق والامور) اسی طرح روزہ رکھتے وقت آخری وقت کھانا پینا افضل ہے۔ (بخاری، کتاب الصوم باب تاخیر السحور) قطبین پرنماز اور روزے:۔ بعض لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ قطبین کے قریب جہاں رات اور دن کئی کئی مہینوں کے ہوتے ہیں، وہاں نماز اور روزہ کے لیے اوقات کی تعیین کیسے ہو سکتی ہے؟ یہ سوال بس برائے سوال ہی ہے کیونکہ قطبین پر اتنی شدید سردی ہوتی ہے کہ وہاں انسانوں کا زندہ رہنا ہی ناممکن ہے اور جہاں سے انسانی آبادی شروع ہوتی ہے۔ وہاں کے دن رات خط استوا کی طرح واضح نہ سہی اتنے واضح ضرور ہوتے ہیں کہ صبح و شام کے آثار وہاں پوری باقاعدگی سے افق پر نمایاں ہوتے ہیں اور انہی کا لحاظ رکھ کر وہاں کے باشندے اپنے سونے جاگنے، کام کرنے اور تفریح کے اوقات مقرر کرتے ہیں۔ لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ یہ آثار نماز اور سحر و افطار کے معاملہ میں وقت کی تعیین کا کام نہ دے سکیں اور جہاں کئی کئی مہینے رات اور دن ہوتے ہیں۔ وہاں صرف روزہ کا مسئلہ ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ زندگی کے دوسرے مسائل بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ مثلاً وہ لوگ کتنے گھنٹے سوتے ہیں۔ کمائی اور کاروبار کب اور کیسے کرتے ہیں اور کتنے گھنٹے کرتے ہیں۔ ان سب باتوں کا جواب یہی ہے کہ ایسے مقامات پر انسان سردی کی وجہ سے زندہ ہی نہیں رہ سکتا۔ [٢٤٥]اعتکاف کےاحکام اورمسائل:۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اعتکاف ہر مسجد میں ہوسکتا ہے اور صرف مسجد میں ہی ہوسکتا ہے۔ رمضان میں بھی ہوسکتا ہے اور غیر رمضان میں بھی، مگر چونکہ رمضان میں دوسرے مہینوں کی نسبت بہت زیادہ ثواب ملتا ہے اور رمضان میں اعتکاف فرض کفایہ کی حیثیت رکھتا ہے لہٰذا اسی کی زیادہ اہمیت ہے۔ بہتر تو یہی ہے کہ آخری عشرہ رمضان اعتکاف میں گزارا جائے۔ تاہم یہ کم وقت حتیٰ کہ ایک دن کے لیے بھی ہوسکتا ہے۔ اعتکاف کی حالت میں شرعی عذر کے بغیر باہر نہ جانا چاہئے۔ نہ زیادہ دنیوی باتوں میں مشغول ہونا چاہئے اور اعتکاف کی حالت میں اپنی بیویوں سے صحبت بھی منع ہے۔ فقہاء نے اعتکاف کی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ ایک مسنون جو سنت نبوی سے ثابت ہوتا ہے۔ اس کی عام مدت دس دن ہے اور رمضان کے آخری عشرہ کی صورت میں ٩ یا دس دن بشرط رؤیت ہلال عید۔ ایک دفعہ آپ جب اعتکاف کے لیے اپنے خیمہ کی طرف گئے تو دیکھا کہ آپ کی کئی بیویوں نے بھی مسجد نبوی میں اعتکاف کے لیے خیمے لگا رکھے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا کہ ان بیویوں نے یہ حسن نیت کی بنا پر نہیں بلکہ جذبہ رقابت سے کیا ہے۔ لہٰذا ان کے سب خیمے اٹھا دو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خیمہ بھی اٹھوا دیا اور یہ رمضان کا آخری عشرہ تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سال رمضان میں اعتکاف نہیں کیا بلکہ عید کے بعد شوال میں کرلیا۔ اور ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا۔ پھر جبریل علیہ السلام نے آپ کو بتلایا کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرہ میں ہوگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری عشرہ بھی اعتکاف میں گزارا۔ اسی طرح اس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اعتکاف بیس دن کا ہوگیا۔ ان سب احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مسنون اعتکاف ایک عشرہ سے کم نہیں ہوتا اور افضل اعتکاف رمضان کا آخری عشرہ ہے اور اس بات میں اعتکاف کرنے والے کو اختیار ہے کہ وہ چاہے تو اکیسویں رات نماز عشاء اور قیام اللیل کے بعد اعتکاف میں بیٹھ جائے یا مغرب کے بعد ہی بیٹھ جائے یا صبح کی نماز ادا کرنے کے بعد بیٹھ جائے۔ اور اعتکاف کی دوسری قسم اعتکاف واجب ہے۔ یعنی وہ اعتکاف جو اعتکاف کرنے والا اللہ سے عہد کر کے اپنے اوپر واجب قرار دے لیتا ہے اس کی کوئی مدت متعین نہیں۔ یہ سات دن کا بھی ہوسکتا ہے، تین دن کا بھی، ایک دن کا بھی۔ حتیٰ کہ صرف ایک رات کا بھی اور اس کا کوئی وقت بھی متعین نہیں خواہ رمضان میں ہو یا کسی دوسرے مہینہ میں اور اس کی دلیل درج ذیل حدیث ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں نے جاہلیت کے زمانہ میں یہ منت مانی تھی کہ ایک رات مسجد حرام میں اعتکاف کروں گا۔’’تو آپ نے فرمایا کہ اپنی منت پوری کرو۔ ‘‘ (بخاری، کتاب الصوم۔ باب الاعتکاف لیلا) واضح رہے کہ منت صرف وہی پوری کرنی چاہیے جس میں اللہ کی معصیت نہ ہوتی ہو اور اگر کسی خلاف شرع کام پر منت مانی ہو تو اسے ہرگز پورا نہ کرنا چاہیے۔ [٢٤٦] اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ان حدوں سے تجاوز نہ کرنا بلکہ یوں فرمایا کہ ان حدوں کے قریب بھی نہ پھٹکنا اور ان دونوں قسم کے فقروں میں جو فرق ہے وہ سب سمجھ سکتے ہیں۔ |
البقرة |
188 |
[٢٤٧]باطل طریقوں سے مال کھانے کی صورتیں :۔ باطل طریقوں سے دوسروں کا مال ہضم کرنے کی کئی صورتیں ہیں مثلاً چوری، خیانت، دغابازی، ڈاکہ، جوا، سود اور تمام ناجائز قسم کی تجارتیں اور سودے بازیاں ہیں اور اس آیت میں بالخصوص اس ناجائز طریقہ کا ذکر ہے جو حکام کی وساطت سے حاصل ہو۔ اس کی ایک عام صورت تو رشوت ہے کہ حاکم کو رشوت دے کر مقدمہ اپنے حق میں کرا لے اور اس طرح دوسرے کا مال ہضم کر جائے اور دوسری یہ کہ مثلاً تمہیں معلوم ہے کہ فلاں جائیداد یا فلاں چیز زید کی ہے۔ لیکن اس کی ملکیت کا کوئی ثبوت اس کے پاس موجود نہیں ہے اور تم مقدمہ کی صورت میں ایچ پیچ کے ذریعہ وہ چیز زید سے ہتھیا سکتے ہو تو اس طرح عدالت کے ذریعہ تم اس چیز کے مالک بن سکتے ہو۔ اس طرح بھی دوسرے کا مال ہضم کرنا حرام ہے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا ’’میں ایک انسان ہی ہوں۔ تم میرے پاس جھگڑے لے کر آتے ہو۔ ہوسکتا ہے کہ تم میں سے ایک دوسرے کی نسبت اپنی دلیل اچھی طرح پیش کرتا ہو اور میں جو کچھ سنوں اسی کے مطابق فیصلہ کر دوں اور اگر میں کسی کو اس کے بھائی کے حق میں سے کچھ دینے کا فیصلہ کر دوں تو اسے چاہیے کہ نہ لے۔ کیونکہ میں اسے آگ کا ٹکڑا دے رہا ہوں۔‘‘ (بخاری، کتاب الاحکام، باب موعظۃ الامام للخصوم) |
البقرة |
189 |
[٢٤٨] قمری تقویم ہی قدرتی تقویم ہے:۔ سائل کا اصل سوال یہ تھا کہ چاند کیسے گھٹتا بڑھتا ہے اور اس کی شکلیں کیوں کر بدلتی رہتی ہیں۔ لیکن یہ سوال چونکہ علم ہئیت کا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے کہ عام آدمی کی ذہنی سطح سے بلند ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کا انسان کی عملی زندگی اور ہدایت سے کوئی تعلق نہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس سوال کے جواب کا رخ اس طرف موڑ دیا۔ جس کا تعلق انسان کی ہدایت اور عملی زندگی سے تھا اور فرمایا کہ یہ تمہارے لیے قدرتی جنتری ہے۔ نیز تم ان اشکال قمر سے حج کے اوقات بھی معلوم کرسکتے ہو۔ یہاں یہ بات ملحوظ رکھنا چاہیے کہ جن شرعی احکام کا تعلق دن کے اوقات سے ہو ان کا تعلق سورج سے ہوگا۔ جیسے نمازوں کے اوقات اور روزہ کے لیے سحری و افطاری کے اوقات۔ اسی طرح دنوں کا شمار سورج سے تعلق رکھتا ہے۔ مگر جب یہ مدت ایک ماہ یا ایک ماہ سے زائد ہوگی تو مدت کا شمار چاند کے حساب سے ہوگا۔ مثلاً رمضان کے ایام (انتیس ہیں یا تیس) بیوہ یا مطلقہ کی عدت، مدت حمل، رضاعت وغیرہ اور زکوٰۃ کا حساب بھی قمری سال کے مطابق ہوگا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حقیقی اور قدرتی تقویم قمری ہی ہے اور یہی مواقیت للناس کا مطلب ہے۔ رہے حج کے اوقات تو وہ ماہ شوال، ذیقعد اور ذوالحجہ کے دس دن ہیں۔
[٢٤٩]جاہلیت میں مزعومہ نیکی کے کام:۔ جاہلیت کا ایک دستور یہ بھی تھا کہ حج کا احرام باندھنے کے بعد اگر کسی کو گھر آنے کی ضرورت پیش آ جاتی اور اسی طرح حج سے واپسی کے بعد تو یہ لوگ واپس گھر کے دروازہ کے بجائے گھر کے پچھواڑے سے یا پچھلی دیوار میں کسی کھڑی سے گھر میں داخل ہوتے اور اسے نیکی کا کام سمجھتے تھے چنانچہ حضرت براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت ہم انصاری لوگوں کے حق میں نازل ہوئی وہ جب حج کر کے واپس آتے تو دروازوں سے نہ آتے بلکہ پچھواڑے سے آتے۔ ایک دفعہ ایک انصاری دروازے سے اندر آیا تو سب اسے لعنت ملامت کرنے لگے۔ تب یہ آیت اتری۔ (بخاری، کتاب المناسک، باب قولہ تعالیٰ واٰتوا البیوت من ابو ابھا) اس سے ضمناً یہ معلوم ہوگیا کہ کسی بات کو نیکی سمجھ کر دین میں داخل کردینا مذموم اور ممنوع ہے اور بدعات بھی اسی ذیل میں آتی ہیں۔ |
البقرة |
190 |
[٢٥٠] مدافعانہ جنگ کی اجازت:مکہ میں مسلمانوں کو مخالفین کے ظلم و ستم پر صبر کرنے کی ہی ہدایت کی جاتی رہی۔ مدینہ آ کر جب مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی ریاست قائم ہوگئی تو مسلمانوں کو لڑائی کی اجازت مل گئی اور اس سلسلہ میں پہلی آیت جو نازل ہوئی وہ سورۃ حج کی یہ آیت تھی۔ ﴿ اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْا وَاِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرُ﴾ (۳۹:۲۲)
’’جن لوگوں سے لڑائی کی جاتی رہی اب انہیں (بھی لڑنے کی) اجازت دی جاتی ہے۔ کیونکہ ان پر ظلم ہوتا رہا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کی مدد پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘ مگر ساتھ ہی یہ تاکید کی گئی کہ صرف انہیں سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کریں۔ کیونکہ جنگ سے تمہاری کوئی مادی غرض وابستہ نہیں اور اس آیت سے مدافعانہ جنگ کی اجازت ملی۔ [٢٥١] جنگ کےآداب :۔ یعنی نہ تو ان لوگوں سے جنگ کرو جو دین حق کی راہ میں مزاحم نہیں ہوتے اور نہ لڑائی میں جاہلی طریقے استعمال کرو، یعنی عورتوں، بوڑھوں، بچوں اور زخمیوں پر دست درازی نہ کرو۔ دشمن کی لاشوں کا مثلہ نہ کرو اور خواہ مخواہ کھیتوں اور مویشیوں کو برباد نہ کرو وغیرہ وغیرہ جن کی احادیث میں ممانعت آئی ہے۔ یعنی قوت وہاں استعمال کرو جہاں ضرورت ہو اور اتنی ہی کرو جتنی ضرورت ہو۔ |
البقرة |
191 |
[٢٥٢] فتنہ کاسدباب اورجہاد:۔ اب جہاں بھی موقع پیش آئے تم ان سے لڑائی کرو اور تمہارا مطمح نظر یہ ہونا چاہیے کہ جیسے انہوں نے اسلام لانے کی وجہ سے تمہیں مکہ سے نکالا تھا۔ تم بھی ان کو ان کے مشرک ہونے اور مشرک رہنے کی وجہ سے مکہ سے نکال کے دم لو، اور یہ ادلے کا بدلہ ہے۔
[٢٥٣] فتنہ کا لفظ عربی زبان میں بڑے وسیع مفہوم اور کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً مشرکین مکہ کا بیت اللہ کا متولی ہونا اور بیت اللہ میں بت رکھنا، مسلمانوں کو بیت اللہ میں نماز ادا کرنے، حتیٰ کہ داخل ہونے سے روکنا یہ سب فتنہ کے کام ہیں گویا یہاں فتنہ سے مراد مشرکین مکہ کی ہر وہ حرکت ہے جو انہوں نے دین اسلام کو روکنے کی خاطر کی تھی۔ مثلاً مسلمانوں پر ظلم و ستم اور جبر و استبداد، انہیں دوبارہ کفر پر مجبور کرنا، اگر وہ ہجرت کر جائیں تو ان کا پیچھا نہ چھوڑنا اور بعد میں ان کے اموال و جائیداد کو غصب کرلینا وغیرہ وغیرہ یہی سب باتیں فتنہ میں شامل ہیں۔ ایسی تمام باتوں کے سدباب کے لیے جہاد کرنا ضروری قرار دیا گیا۔ [٢٥٤] یعنی مکہ جائے امن ضرور ہے لیکن اگر وہ یہاں تم سے لڑائی کریں تو جوابی کارروائی کے طور پر تم بھی کرسکتے ہو۔ ازخود لڑائی کی ابتداء مکہ میں تمہاری طرف سے نہ ہونا چاہیے۔ |
البقرة |
192 |
|
البقرة |
193 |
[٢٥٥] فتنہ سے مراد ہر وہ مزاحمت اور قوت ہے جو تبلیغ و اشاعت اسلام کی راہ میں آڑے آئے جس سے اللہ کے دین کے مطابق زندگی بسر کرنا ممکن نہ رہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اسلام صرف مدافعانہ جنگ کا قائل نہیں۔ بلکہ اسلام کی اشاعت میں جو قوت رکاوٹ بنے اس سے جارحانہ جنگ کرنا ضروری ہے۔ تاآنکہ ایسی رکاوٹیں ختم ہوجائیں اور اللہ کا دین غالب ہو۔ البتہ جو لوگ اپنی شرارتوں سے باز آ جائیں اور جزیہ دینا قبول کرلیں۔ ان پر تمہیں ہاتھ نہ اٹھانا چاہیے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ اپنے عقائد یا دین یا مذہب سے مجبور ہو کر اسلام قبول کرلیں کیونکہ اسلام قبول کرنے کے لیے کسی کو مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
کیااسلام ایک جنگجودین ہے یاامن پسند؟ اس آیت اور اس سے پہلی آیت کی بنا پر مخالفین اسلام کی طرف سے اسلام پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس نے جہاد کو فرض قرار دے کر ایک مستقل جنگ کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ لہٰذا اسے ایک امن پسند مذہب نہیں کہا جا سکتا۔ عرب قبائل ہمیشہ آپس میں برسرپیکار رہتے تھے۔ اسلام نے آ کر صرف یہ تبدیلی پیدا کی کہ ان کا رخ باہمی خانہ جنگیوں سے ہٹا کر بیرونی دنیا کی طرف موڑ دیا۔ لیکن ان کی جنگ جوئی میں کوئی تبدیلی پیدا نہ ہوئی۔ اسلام نے یہ کیا کہ پوری دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ ایک دارالاسلام جہاں اسلامی حکومت قائم ہو اور دوسرا دارالحرب جہاں غیر مسلم حکومت ہو۔ بالفاظ دیگر ایک حصہ عالم اسلام ہے اور دوسرا عالم جنگ۔ دارالاسلام پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دارالحرب یا غیر مسلموں سے برسرپیکار رہ کر انہیں دارالاسلام میں شامل کرتا چلا جائے۔ تاآنکہ وہ ساری دنیا کو اپنے دائرہ اقتدار میں لے لے۔ یہ ہے ان عقلی و نقلی دلائل کا خلاصہ جن سے یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ اسلام کوئی امن پسند یا صلح جو مذہب نہیں۔ بلکہ اپنے مزاج کے لحاظ سے ہر وقت برسرپیکار رہنا چاہتا ہے۔ مشرکین اور اہل کتاب میں اسلام نے فرق کیاہے:۔ پیشتر اس کے کہ اس اعتراض کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا جائے۔ دو باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔ پہلی یہ کہ اسلام سب غیر مسلموں سے ایک جیسا سلوک روا نہیں رکھتا بلکہ اس نے مشرکین اور اہل کتاب میں فرق کیا ہے۔ اہل کتاب کا ذبیحہ حلال، ان کا کھانا جائز اور کتابیہ عورت سے نکاح جائز ہے۔ جبکہ مشرکوں کی کوئی چیز جائز نہیں۔ اہل کتاب پر جنگ سے بیشتر تین شرائط پیش کی جاتی ہیں۔ پہلی شرط یہ ہے کہ اسلام قبول کرلیں اور اگر یہ منظور نہ ہو تو پھر دارالاسلام میں اطاعت گزار بن کر رہیں انہیں مذہبی آزادی حاصل ہوگی اور دفاعی اخراجات کے طور پر جزیہ دینا یا اس کی متبادل صورت اختیار کرنا ہوگی اور اگر یہ بھی منظور نہ ہو تو پھر تیسری شرط یہ ہے کہ جنگ کے لیے تیار ہوجائیں۔ لیکن مشرکین کے لیے اطاعت گزار بن کر رہنے کی کم از کم حجاز میں گنجائش نہیں۔ ان پر بھی تین شرائط پیش کی جاتی ہیں۔ جیسا کہ سورۃ توبہ کے آغاز میں مذکور ہے یعنی (١) اسلام قبول کرلیں، اگر یہ منظور نہ ہو تو (٢) دارالاسلام کو چھوڑ کر چلے جائیں اور اگر یہ بھی منظور نہ ہو تو پھر (٣) جنگ کے لیے تیار ہوجائیں۔ گویا ان کے لیے شرط نمبر ٢ اطاعت گزار بن کر رہنے کی بجائے حجاز کو چھوڑ کر چلے جانے کی ہے۔ مشرکوں پہ سختی کیوں ؟ مشرک کی عام تعریف یہ ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ کسی کتاب کا قائل نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کے متعلق کوئی واضح عقیدہ نہ رکھتا ہو اور اس کی صفات میں دوسری چیزوں کو بھی شریک بناتا ہو مندرجہ بالا شرائط سے بھی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام کی نظر میں سب غیر مسلم یکساں نہیں۔ وہ اہل کتاب سے نسبتاً نرم رویہ اختیار کرتا ہے اور مشرکین کے معاملہ میں سخت ہے اور مندرجہ بالا دونوں آیات جن سے یہ اعتراض اخذ کیا گیا ہے۔ مشرکین کے معاملہ میں مشرکین سے تعلق رکھتی ہیں نہ کہ اہل کتاب سے اور مشرکین پر سختی کی وجہ یہ ہے کہ اسلام ایک تحریک ہے جو فتنہ کو ختم کرنا چاہتا ہے اور اس کی نگاہوں میں چونکہ سب سے بڑا فتنہ شرک ہے۔ لہٰذا شرک کو ختم کرنا اس کا اولین مقصد ہے۔ دوسری قابل وضاحت بات یہ ہے کہ بلحاظ اقامت پذیری دارالاسلام کی تین اقسام ہیں۔ ١۔ حرمین یعنی حرم مکہ اور مدینہ ان مقامات میں صرف مسلمان ہی رہ سکتے ہیں، مشرک ہوں یا اہل کتاب یہاں اقامت اختیار نہیں کرسکتے۔ ٢۔ جزیرہ العرب یا حجاز، اس میں اہل کتاب معاہد کی حیثیت سے رہ سکتے ہیں۔ جب تک کہ وہ اپنے عہد پر قائم رہیں۔ اور اگر بغاوت وغیرہ کریں تو انہیں دارالاسلام کے کسی دوسرے علاقہ میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن مشرکین کو اس خطہ میں برداشت نہیں کیا گیا۔ ٣۔ باقی دارالاسلام میں اہل کتاب تو اطاعت گزار بن کر پوری آزادی سے رہ سکتے ہیں۔ لیکن مشرکین کو گوارا ہونے کی حد تک برداشت کیا گیا ہے۔ (اسلام کے قانون جنگ و صلح ص ١٤٨) اعتراض کاپہلا جواب مسلمان فطرتاً صلح جواورامن پسندہیں:۔
ان تصریحات کے بعد اب ہم اصل اعتراض کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ یہ اعتراض دو وجوہ سے غلط ہے :۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ بلاشبہ عرب کے اکثر قبائل جنگ جو واقع ہوئے تھے۔ لیکن ان کے سب افراد جنگ جو نہیں تھے۔ بلکہ ان میں کثیر طبقہ ایسا بھی تھا جو اس قتل و غارت کا ہدف بنے ہوئے تھے۔ وہ کمزور تھے، مظلوم تھے۔ نہتے تھے اور فطرتاً بھی قتل و غارت اور ظلم و فساد سے نفرت کرتے تھے۔ پھر اشراف میں بھی ایک ایسا طبقہ موجود تھا جو صلح پسند اور امن پسند تھا اور قتل و غارت اور ظلم و جور سے نفرت کرتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے حلف الفضول کا واقعہ اس بات کی تاریخی شہادت موجود ہے۔ ایسے ہی لوگ ابتداًء اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ جس کی شہادت درج ذیل آیات ہیں۔ ١۔ ﴿ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ وَھُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ ﴾(۲۱۶:۲)تم پر جنگ فرض کی گئی ہے اور وہ تمہیں ناگوار ہے۔ ٢۔ ﴿ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَا لَکُمْ اِذَا قِیْلَ لَکُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَی الْاَرْضِ ﴾(۳۸:۹) اے ایمان والو! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تمہیں کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں (جہاد کے لئے) نکلو تو تم زمین سے چمٹے جاتے ہو۔ دور نبوی کی سب سے پہلی جنگ بدر میں مسلمانوں کی ’’ جنگ جوئی‘‘ کی کیفیت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔ ٣۔ ﴿ كَمَا أَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِن بَيْتِكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِيقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ لَكَارِهُونَ يُجَادِلُونَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَ مَا تَبَيَّنَ كَأَنَّمَا يُسَاقُونَ إِلَى الْمَوْتِ وَهُمْ يَنظُرُونَ﴾ (۶،۵:۸)
’’جیسا کہ آپ کے پروردگار نے آپ کو آپ کے گھر سے نکالا اور بلاشبہ مومنوں کا ایک گروہ اس (جنگ) کو ناپسند کر رہا تھا۔ وہ لوگ حق بات ظاہر ہوجانے کے بعد آپ سے جھگڑنے لگے۔ گویا وہ موت کی طرف دھکیلے جا رہے ہیں اور وہ موت کو سامنے دیکھ رہے ہیں۔‘‘ ٤۔ اسی بنا پر آپ کو حکم ہوتا ہے کہ : ﴿ یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِ ﴾(۶۵:۸) ’’اے نبی! مومنوں کو جنگ کرنے کے لیے رغبت دلاؤ۔‘‘ غور فرمائیے کہ اگر مسلمان پہلے ہی جنگ جو تھے تو ان آیات اور احکامات کی کیا ضرورت تھی؟ اور یہی لوگ اسلام کا ابتدائی اور قیمتی سرمایہ تھے۔ اصل بات یہی تھی کہ اسلام کے یہ ابتدائی جانثار صلح جو اور امن پسند تھے۔ پھر جب ظلم و فساد کے خاتمہ کے لیے ان پر جنگ فرض کی گئی تو انہوں نے اسے ناگوار سمجھنے کے باوجود اللہ کا حکم سمجھ کر سر انجام دیا۔ البتہ نوجوان اور جرات مند طبقہ مکی دور میں بھی لڑائی کی اجازت مانگتا رہا مگر انہیں صبر ہی کی تلقین کی جاتی رہی۔ اعتراض کادوسراجواب:اس اعتراض کے غلط ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ جنگ جو وہی لوگ کہلائے جا سکتے ہیں جو جارحانہ اقدامات کریں۔ اس معیار پر غور کرنے کے لیے دور نبوی کی جنگوں کے اسباب پر سرسری نظر ڈالنا ہوگی۔ ١۔ غزوہ بدر، احد اور خندق خالصتاً مدافعانہ جنگیں تھیں جو طوعاً و کرہاً مسلمانوں کو لڑنا پڑیں۔ ٢۔ غزوہ بنو قینقاع، بنو نضیر، بنو قریظہ اور خیبر سب یہودیوں کی بد عہدیوں اور فتنہ انگیزیوں کی بنا پر لڑی گئیں۔ اگر یہ لوگ اپنے عہد پر قائم رہتے تو کبھی بپا نہ ہوتیں۔ ٣۔ غزوہ مکہ کا سبب قریش کی طرف سے معاہدہ حدیبیہ کی عہد شکنی تھی۔ ٤۔ سریہ مؤتہ اور غزوہ تبوک، سفیر کے قتل اور سرحد کی حفاظت کے لیے پیش آئیں اور وہ کون سی حکومت ہے جو اپنے سفیر کے قتل پر خاموش رہ سکتی ہے۔ یا اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے لشکر روانہ نہیں کرتی۔ ٥۔ غزوہ حنین، اوطاس اور طائف میں دشمن نے خود مسلمانوں کو جنگ کے لیے للکارا تھا اور آپ نے پردیس میں کافروں سے نقد رقم اور اسلحہ بطور ادھار اور عاریتاً لے کر ان جنگوں کو نبھایا تھا۔ (موطا، ابو داؤد، باب الضمانہ) غور فرما لیجئے کہ ان میں کونسی جنگ کو جارحانہ یا ظالمانہ جنگ کا نام دیا جا سکتا ہے؟ اب رہا دارالاسلام اور دارالحرب کا مسئلہ، بلاشبہ یہ اصطلاحیں فقہائے اسلام نے وضع کی ہیں لیکن انہیں عام اسلام اور عام جنگ کے معنوں میں پیش کرنے میں کئی ایک مغالطے ہیں جو درج ذیل ہیں۔ ١۔ جو غیر مسلم حکومتیں غیر جانبدر رہنا چاہیں اور مسلمانوں کو نہ خود چھیڑیں اور نہ مسلمانوں کے خلاف حمایت کریں۔ خواہ وہ حکومت اہل کتاب کی ہو یا مشرکین کی اسلام ان سے لڑنے کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ بلکہ اس کے برعکس اس سے بہتر سلوک کی تائید کرتا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے : ﴿ لَا یَنْہٰیکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَیْہِمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ﴾(۸:۶۰)'' اللہ تمہیں ان لوگوں سے بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے منع نہیں کرتا جو دین کے سلسلہ میں تم سے نہیں لڑتے اور نہ ہی انہوں نے تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا۔ بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔'' دارالحرب کے سلسلے میں مغالطے:۔ گویا دارالحرب بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ ایک غیر جانبدار علاقہ جو فی الحقیقت دارالحرب نہیں ہے اور امن پسند ممالک عموماً غیر جانبدار ہی رہتے ہیں۔ لہٰذا دارالحرب آدھے سے بھی کم رہ گیا۔ ٢۔ باقی حربی علاقہ میں ایسے ممالک بھی ہو سکتے ہیں جن سے صلح کے معاملات طے پائے ہوں اور ان کی مدت صلح عموماً دس سال ہوتی ہے۔ جب تک ایسے ممالک بدعہدی نہ کریں۔ ان سے جنگ کی قطعاً اجازت نہیں۔ ٣۔خطرہ جنگ اور حالات کافرق: اس کے بعد جو ممالک بچ جائیں وہ فی الواقعہ ’’ دارالحرب‘‘ ہیں اور وہ وہی ممالک ہو سکتے ہیں جو مسلمانوں کے مخالف ہوں یا مخالفوں کا ساتھ دیتے ہوں، اور وہ صلح پر بھی آمادہ نہ ہوں اور ظاہر ہے کہ ایسے ممالک تھوڑے ہی رہ جاتے ہیں۔ لیکن ایسے ممالک پر بھی ’’ حالات جنگ‘‘ کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ حالات جنگ اور چیز ہے اور خطرہ جنگ اور چیز۔ اس کی قریب ترین مثال پاکستان اور بھارت کی ہے۔ پاکستان دو قومی نظریہ کا علمبردار ہے اور بھارت ایک قومی نظریہ کا حامی ہے۔ نظریہ کے اس تضاد نے ہر وقت جنگ کا خطرہ تو پیدا کردیا ہے۔ لیکن حالات جنگ مدتوں بعد پیدا ہوتے ہیں اور یہ اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب کوئی ملک اپنے حقوق سے تجاوز کرجاتا ہے۔ آج کی مہذب اقوام کے نزدیک طاقت کے ذریعہ اپنے مفادات کی حفاظت ہی سب سے بڑا حق ہے۔ مثلاً پچھلے دنوں روس نے یہ سمجھا کہ گرم پانی کی بندرگاہ تک پہنچنا اس کا حق ہے۔ لہٰذا افغانستان، ایران اور پاکستان پر اس کا تسلط ہونا چاہیے۔ مگر متعلقہ ممالک یا حریف ممالک نے اس کے اس حق کو ناجائز سمجھا اور تسلیم نہ کیا۔ افغانستان میں جنگ چھڑ گئی اور پاکستان اور ایران کے لیے حالات جنگ پیدا ہوگئے۔ اسلام میں کن صورتوں میں حالات جنگ پیداہوتےہیں:۔ لیکن اسلام ایسے دنیوی اور ذاتی مفادات کے لیے بھی جنگ کرنے کا قطعاً روادار نہیں، اس کے نزدیک جنگ درج ذیل وجوہ کی بنا پر لڑی جا سکتی ہے : (١) اپنے جان و مال کی حفاظت کے لیے مدافعانہ جنگ جس میں سرحدوں کی حفاظت بھی شامل ہے۔ (٢) کسی علاقہ کے مظلوم مسلمان جب امداد کے لیے پکاریں اور انہیں احکام شرعیہ کی تعمیل میں رکاوٹیں پیش آ رہی ہوں۔ (٣) معاہدہ کی خلاف ورزی، عہد شکنی یا سفیر کے قتل کی بنا پر اور یہ سب باتیں دراصل جنگ کا الٹی میٹم ہوتی ہیں۔ انہی مقاصد کے لیے دور نبوی میں جنگیں لڑی گئی تھیں اور یہ سب ’’فتنہ‘‘ ہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ ان میں سے ایک بھی شق ایسی نہیں جسے ہم کسی دنیوی مفاد کی جنگ کہہ سکیں۔ گویا اسلام میں لڑائی کے جواز کا عام قانون ظلم اور فتنہ کا استیصال ہے۔ اسلام نے جنگ کرنے کے بھی اصول بتلا دیئے ہیں اور جنگ سے رک جانے یا عدم جواز کے بھی اور مسلمانوں کو بہرحال ان پر ہی کاربند رہنا لازم ہے۔ پھر جن صورتوں میں اسلام نے جنگ کرنے کی اجازت یا حکم دیا ہے وہاں بھی یہ حکم نہیں دیا کہ جاتے ہی جنگ شروع کر دو۔ بلکہ حکم یہ ہے کہ دشمن پر تین شرطیں پیش کرو۔ پہلی شرط یہ ہے کہ تم مسلمان بن جاؤ اور ہمارے بھائی بند بن کر اپنا علاقہ اور اپنی حکومت اپنے پاس رکھو۔ دوسری شرط یہ ہے کہ اسلام دشمنی چھوڑ دو اور اپنی مذہبی آزادی بحال رکھو اور اطاعت گزاری کی علامت اور دفاعی اخراجات کے طور پر جزیہ ادا کرو اور اگر یہ بھی منظور نہیں تو پھر تیسری اور آخری صورت جنگ ہے۔ ان حدود و قیود کے بعد بھی کیا یہ شبہ باقی رہ جاتا ہے کہ اسلام ایک جنگ جو مذہب ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کی پے در پے عہد شکنیوں کی بنا پر خیبر پر چڑھائی کی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جھنڈا دے کر فرمایا کہ ’’ اگر تمہاری تبلیغ سے ایک آدمی بھی اسلام لے آئے تو وہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب الجہاد۔ باب الدعاء للمشرکین بالھدی لیتا لفھم) جنگ کی وجوہات:۔اس حدیث سے درج ذیل نتائج سامنے آتے ہیں۔ ١۔ یہ جنگ ناگزیر حالات میں کی گئی۔ جن کی بنیاد یہود کی پے در پے عہد شکنیاں تھیں۔ ٢۔ مسلمانوں کا جنگ سے مقصد نہ کشور کشائی ہے اور نہ لوٹ مار۔ ٣۔ مسلمانوں کے ہاں محبوب ترین مقصد یہ ہے کہ لوگ اپنی رضا و رغبت سے اسلام لے آئیں۔ اور اگر یہ نہیں کرسکتے تو پھر کم از کم اسلام دشمنی چھوڑ دیں۔ اور اگر یہ بھی نہیں کرسکتے تو آخری چارہ کار کے طور پر جنگ کی اجازت دی گئی ہے اور ایسے بدعہد اور ہٹ دھرم قسم کے لوگوں سے جنگ کرنا لازم ہوجاتا ہے۔ [٢٥٦] جنگی قیدیوں سے سلوک:۔ ایسی رکاوٹیں ختم ہونے یا ان پر غلبہ پانے کے بعد بھی صرف ایسے آدمیوں کو سزا دینے کی اجازت ہے جو مسلمانوں پر جبر و تشدد کرنے اور انہیں ختم کردینے میں حد درجہ آگے بڑھے ہوئے یا سازشیں کرتے رہے تھے۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر کے قیدیوں میں سے عقبہ بن ابی معیط اور نضر بن حارث کو قتل کروا دیا اور باقی قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا جیسے فتح مکہ کے موقع پر عفو عام کے باوجود آپ نے چار آدمیوں کو قتل کردینے کا حکم دیا تھا، یہ چاروں اشتہاری مجرم تھے۔ ان میں سے ایک عبداللہ بن خطل تھا جو تین ایسے جرائم میں ملوث تھا جن کی سزا اسلام میں قتل ہے اور وہ تین جرائم یہ تھے (١) وہ اسلام سے پھر گیا تھا (٢) اس نے خون ناحق کیا تھا اور (٣) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتا تھا۔ یعنی توہین رسالت کا مجرم تھا۔ چنانچہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سر پر خود پہنے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے۔ جب آپ نے خود اتارا تو ایک شخص کہنے لگا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! عبداللہ بن خطل کعبہ کا پردہ پکڑے ہوئے لٹک رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ اسے قتل کر دو۔‘‘ (بخاری، کتاب المغازی، باب این رکز النبی الرایہ یوم الفتح) ایسے اشتہاری مجرموں کی مکہ بلکہ کعبہ میں قتل کی دو ہی وجوہ ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ شاید یہ وہی ساعت ہو جس کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ مکہ میرے لیے حلال کیا گیا ہے وہ بھی صرف چند ساعت کے لیے، وہ پہلے بھی ارض حرم تھا اور بعد میں تاقیامت ارض حرم ہی رہے گا اور دوسری یہ کہ ایسے اشتہاری مجرم کو کعبہ کی حرمت بھی پناہ نہیں دے سکتی۔ واللہ اعلم بالصواب۔
|
البقرة |
194 |
[٢٥٧]حرمت والے مہینوں میں جنگ:۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے لے کر عرب میں یہ دستور چلا آیا تھا کہ ذی قعد ذی الحجہ اور محرم کے مہینے حج کرنے والوں کی وجہ سے قابل احترام قرار دیئے گئے تھے اور ان کے درمیان رجب کا مہینہ عمرہ کرنے والوں کے لیے مختص کیا گیا تھا۔ تاکہ حج اور عمرہ کرنے والے امن و امان سے سفر کرسکیں۔ ان مہینوں میں جدال و قتال بھی ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ چونکہ یہ ایک اچھا دستور تھا۔ لہٰذا اسلام نے اسے بحال رکھا۔ اس آیت کا منشا یہ ہے کہ اگر ان مہینوں میں کافر تم سے جنگ کرتے ہیں تو پھر تمہیں بھی ان سے جنگ کی اجازت ہے، ورنہ نہیں۔ مگر یہ خیال رہے کہ جتنی زیادتی تم پر ہوئی اتنی ہی تم کرسکتے ہو۔ اس سے زیادہ نہیں اور اس معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہو۔ |
البقرة |
195 |
[٢٥٨] جہادمیں اموال خرچ کرنا:۔ حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت ہم انصار کے بارے میں نازل ہوئی۔ جب اللہ نے اسلام کو عزت دی اور اس کے مددگار بہت ہوگئے تو ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے علیحدگی میں ایک دوسرے سے کہا کہ بلاشبہ ہمارے مال خرچ ہوگئے۔ اب اللہ نے اسلام کو عزت دی ہے اور اس کے مددگاروں کو زیادہ کردیا ہے۔ تو اب اگر ہم اپنے اموال سنبھال رکھیں اور جو کچھ خرچ ہوچکا اس کی تلافی شروع کردیں (تو کوئی بات نہیں) اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور جو کچھ ہم نے آپس میں کہا تھا اس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو۔ ہلاکت سے مراد اموال کی نگرانی، ان کی اصلاح اور جہاد کو چھوڑ دینا ہے۔'' (بخاری، کتاب التفسیر، ترمذی ابو اب التفسیر۔ زیر آیت مذکورہ) گویا اموال کو جہاد میں خرچ نہ کرنے کو اس قوم کی ہلاکت قرار دیا گیا ہے۔
[٢٥٩] احسان کیاہے؟ اور حدیث جبریل:۔ کسی حکم کو بجا لانے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ بس اس کی تعمیل کردی جائے اور دوسری یہ کہ اسے دل کی رغبت، محبت اور نہایت احسن طریقے سے بجا لایا جائے۔ پہلی صورت اطاعت ہے اور دوسری احسان۔ احسان اطاعت کا بلند تر درجہ ہے اور عدل کا بھی۔ حدیث میں ہے کہ جبریل جب تمام صحابہ کے سامنے اجنبی صورت میں آپ کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ احسان کیا ہے۔ تو آپ نے یہ جواب دیا کہ احسان یہ ہے کہ تو ’’اللہ کی عبادت اس طرح کرے جیسے تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تجھ سے یہ نہ ہو سکے تو کم از کم یہ سمجھے کہ اللہ تجھے دیکھ رہا ہے‘‘ اور یہ تو ظاہر ہے کہ عبادت صرف نماز فرض یا نوافل کا ہی نام نہیں بلکہ جو کام بھی اللہ کے احکام کی بجاآوری کے لیے اس کا حکم سمجھ کر کیا جائے وہ اس کی عبادت ہی کی ضمن میں آتا ہے۔ خواہ اس کا تعلق حقوق العباد سے ہو یا حقوق اللہ سے، معاملات سے ہو یا مناکحات سے ان میں سے ہر ایک کام کو بنا سنوار کر اور شرعی احکام کی پابندی کے ساتھ نیز دل کی رغبت اور محبت سے بجا لانے کا نام احسان ہے۔ |
البقرة |
196 |
[٢٦٠] مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حدیبیہ کے زمانے میں نکلے۔ بدیل بن ورقاء الخزاعی آیا اور کہنے لگا : وہ (قریش) آپ سے لڑیں گے اور آپ کو بیت اللہ جانے سے روکیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہم لڑنے نہیں آئے، ہم تو عمرہ کرنے آئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا : ’’اٹھو، قربانی کرو اور اپنے سر منڈوا دو۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی قربانی ذبح کی۔ پھر حجام کو بلایا۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر مونڈا۔ (بخاری۔ کتاب الشروط، باب الشروط فی الجہاد والمصالحة مع اھل الحرب)
٢۔ ضباعہ کہتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا : ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میرا حج کرنے کا ارادہ ہے، لیکن میں بیمار ہوں، ایسی صورت میں میں کیا کروں؟‘‘ آپ نے جواب دیا حج کرو اور (اللہ سے) شرط کرلو :’’ اے اللہ میں اسی جگہ احرام کھول دوں گی، جہاں تو مجھے روک دے گا۔‘‘(مسلم۔ کتاب الحج، باب جواز اشتراط المحرم التحلل بعذر المرض و نحوہ)
[٢٦١] احصار کی صورتیں اور فدیہ احصار:۔مثلاً ایک شخص نے حج اور عمرہ کا احرام باندھا تو اب اسے پورا کرنا لازم ہے اور کسی مجبوری سے وہ حج نہیں کرسکا، تو بھی اس کو قربانی دینا ہوگی۔ وہ کسی دوسرے کے ہاتھ قربانی بھیج دے یا اسے تاکید کر دے کہ وہ مناسب وقت پر اس کی طرف سے قربانی کر دے اور جس وقت تک اسے یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس وقت تک اس کی قربانی ہوچکی ہوگی۔ اس وقت تک سر نہ منڈائے۔ ایسی قربانی کو دم احصار کہتے ہیں جو حج و عمرہ سے رکنے کی وجہ سے لازم ہوتا ہے۔
[٢٦٢] کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم حدیبیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے اور احرام باندھے ہوئے تھے۔ لیکن مشرکین نے ہمیں عمرہ سے روک دیا، میرے لمبے بال تھے اور جوئیں میرے منہ پر گر رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس سے گزرے تو فرمایا ’’کیا سر کی جوئیں تمہیں تکلیف پہنچا رہی ہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’ جی ہاں‘‘ تب یہ آیت نازل ہوئی۔ ﴿فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ بِہٖٓ اَذًی مِّنْ رَّاْسِہٖ﴾ پھر مجھے فرمایا : ’’سر منڈاؤ، تین روزے رکھو یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ یا قربانی کرو۔‘‘ (بخاری، کتاب المغازی، باب غزوہ حدیبیہ لقولہ تعالیٰ لقد رضی اللہ..... الآية، مسلم۔ کتاب الحج۔ باب جواز حلق الراس للمحرم اذا کان بہ اذی .....الخ)
٢۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کو قربانی نہ ملے وہ تین روزے ایام حج میں رکھے اور سات اپنے گھر پہنچ کر۔‘‘ (مسلم، کتاب الحج، باب وجوب الدم علی المتمتّع)
٣۔مناسک حج میں تقدیم وتاخیر:۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع میں منیٰ میں ٹھہرے کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے (مسائل حج) پوچھیں۔ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور کہا : مجھے خیال نہ رہا میں نے قربانی سے پہلے سر منڈا لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اب قربانی کرلو کچھ حرج نہیں۔ پھر ایک اور شخص آیا اور کہنے لگا : مجھے خیال نہ رہا : میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے قربانی کرلی۔ فرمایا : اب کنکریاں مار لو۔ کوئی حرج نہیں۔ غرض یہ کہ جو کام بھی کسی نے آگے پیچھے کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اب کرلو، کوئی حرج نہیں۔‘‘ (بخاری، کتاب العلم، باب الفتیا و ھو واقف علی ظھر الدابۃ و غیرھا) نیز کتاب المناسک باب الفتیا علی الدابة عند الجمرۃ مسلم، کتاب الحج، باب جواز تقدیم الذبح علی الرمی والحلق علی الذبح و علی الرمی۔۔ الخ)
[٢٦٣] حج تمتع کےاحکام:۔دور جاہلیت میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ عمرہ کے لیے الگ اور حج کے لیے الگ سفر کرنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ قید ختم کردی اور باہر سے آنے والوں کے لیے یہ رعایت فرمائی کہ وہ ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ دونوں کو جمع کرلیں، البتہ جو لوگ مکہ میں یا اس کے آس پاس میقاتوں کی حدود کے اندر رہتے ہوں۔ انہیں اس رعایت سے مستثنیٰ کردیا۔ کیونکہ ان کے لیے عمرہ اور حج کے لیے الگ الگ سفر کرنا کچھ مشکل نہیں۔ اس آیت سے درج ذیل مسائل معلوم ہوتے ہیں:
حج کی اقسام اورمسائل:۔میقاتوں کے باہر سے آنے والے لوگ ایک ہی سفر میں عمرہ اور حج دونوں کرسکتے ہیں اس کی پھر دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ احرام باندھ کر عمرہ کرے، پھر احرام نہ کھولے (نہ سر منڈائے) تاآنکہ حج کے بھی ارکان پورے کرلے۔ ایسے حج کو قران کہتے ہیں اور اگر عمرہ کر کے سر منڈا لے اور احرام کھول دے پھر حج کے لیے نیا احرام باندھے تو اسے حج تمتع کہتے ہیں اور اسی حج کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پسند فرمایا :
قران اور تمتع کرنے والے پر قربانی لازم ہے۔ یعنی ایک بکری یا گائے اور اونٹ جس میں سات آدمی شامل ہو سکتے ہیں۔
اگر کسی کو قربانی میسر نہیں آسکی تو وہ دس روزے رکھ لے، تین روزے تو نویں ذی الحجہ یعنی عرفہ تک اور باقی سات روزے حج سے فراغت کے بعد رکھے، گھر واپس آ کر رکھ لے۔
جو لوگ میقاتوں کی حدود کے اندر رہتے ہیں صرف حج کا احرام باندھ کر حج کریں گے جسے حج افراد کہتے ہیں اور ان پر قربانی واجب نہیں۔ |
البقرة |
197 |
[٢٦٤] یعنی یکم شوال سے دس ذی الحجہ تک کی مدت کا نام اشہر حج ہے۔ حج کا احرام اسی مدت کے اندر اندر باندھا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی اس سے پہلے باندھے تو وہ ناجائز یا مکروہ ہوگا البتہ عمرہ کا احرام باندھا جا سکتا ہے۔ احرام باندھنے کے متعلق درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے۔
١۔احرام باندھنےکےمسائل:۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص مسجد میں کھڑا ہو کر پوچھنے لگا ’’یا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہم احرام کہاں سے باندھیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’مدینہ والے ذوالحلیفہ سے باندھیں، شام والے جحفہ سے اور نجد والے قرن (منازل) سے اور یمن والے یلملم سے۔‘‘ (بخاری، کتاب العلم، باب ذکر العلم و الفتیا فی المسجد)
٢۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا :’’ محرم کیا پہنے؟ فرمایا : وہ نہ قمیض پہنے نہ عمامہ، نہ ٹوپی اور نہ وہ کپڑا جس میں ورس یا زعفران لگا ہو اور اگر چپل نہ ملے تو موزے ٹخنوں سے نیچے تک کاٹ کر پہن لے۔ (بخاری۔ کتاب العلم۔ من اجاب السائل باکثر مما سألہ)
[٢٦٥]حج مبرورکی فضیلت:۔ ہر وہ حرکت یا کلام جو شہوت کو اکساتا ہو رفث کہلاتا ہے اور اس میں جماع بھی شامل ہے، فسوق اور جدال اور ایسے ہی دوسرے معصیت کے کام اگرچہ بجائے خود ناجائز ہیں تاہم احرام کی حالت میں ان کا گناہ اور بھی سخت ہوجاتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس نے اللہ کے لیے حج کیا پھر اس دوران نہ بے حیائی کی کوئی بات کی اور نہ گناہ کا کوئی کام کیا۔ وہ ایسے واپس ہوتا ہے جیسے اس دن تھا جب وہ پیدا ہوا۔‘‘ (بخاری، کتاب المناسک، باب فضل الحج المبرور)
[٢٦٦] مانگنےکی قباحت:۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ’’یمن کے لوگ حج کے لیے آتے لیکن زاد راہ ساتھ نہ لاتے اور کہتے کہ ہم اللہ پر توکل کرتے ہیں۔ پھر مکہ پہنچ کر لوگوں سے مانگنا شروع کردیتے۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری، کتاب المناسک، باب قول اللہ تعالیٰ آیت و تزودوا فان خیر الزاد التقوی)
نیز ضرورت کے وقت مانگنا اگرچہ ناجائز نہیں، مگر اسلام نے سوال کرنے کو اچھا نہیں سمجھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے۔ ’’دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ باب لا صدقہ الا عن ظہر غنی) اور بلا ضرورت مانگنا اور پیشہ کے طور پر مانگنا تو بدترین جرم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص مانگنے کو عادت بنا لے گا وہ قیامت کو اس حال میں اٹھے گا کہ اس کے چہرہ پر گوشت کا ٹکڑا تک نہ رہے گا۔ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب من سال الناس تکثرا) سوال سے اجتناب کے لیے دیکھیے اسی سورۃ کی آیت ٢٧٣ اور سورۃ مائدہ کی آیت نمبر ١٠١ کے حواشی) |
البقرة |
198 |
[٢٦٧] حج اورتجارت:۔جاہلیت کے غلط اعتقادات میں سے ایک یہ بھی تھا کہ وہ حج کے دوران تجارت کرنا مکروہ خیال کرتے تھے اور اسے خلوص عمل کے خلاف سمجھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت فرما دی جبکہ اصل مقصود حج ہی ہو اور تجارت سے حج کے ارکان وغیرہ میں کچھ خلل واقع نہ ہوتا ہو۔ چنانچہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایام جاہلیت میں (منیٰ) میں عکاظ، مجنہ اور ذوالمجاز بازار لگا کرتے تھے (صحابہ نے) حج کے دنوں میں تجارت کو گناہ خیال کیا، تب یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر، زیر آیت مذکورہ)
[٢٦٨]عرفات کی حاضری حج کا رکن اعظم ہے: اس آیت سے معلوم ہوا کہ ارکان حج میں سے عرفات میں وقوف بہت ضروری بلکہ رکن اعظم ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین بار فرمایا : حج عرفات کی حاضری ہے، حج عرفات کی حاضری ہے۔ حج عرفات کی حاضری ہے۔ منیٰ کے تین دن ہیں، پھر جو شخص جلدی کر کے دو دن میں ہی چلا گیا، اس پر بھی کوئی گناہ نہیں اور جو تیسرا دن ٹھہرا رہا اس پر بھی کوئی گناہ نہیں اور جس نے طلوع فجر سے پہلے پہلے عرفات کا وقوف پا لیا۔ اس نے حج پا لیا۔ (ترمذی، ابو اب التفسیر، زیر آیت مذکورہ)
[٢٦٩] مشعر الحرام مزدلفہ کی ایک پہاڑی کا نام ہے جس پر امام وقوف کرتا ہے۔ اس پہاڑی پر وقوف کرنا افضل ہے۔ یہ نہ ہو سکے تو پھر جہاں بھی قیام کرلے جائز ہے، سوائے وادی محسر کے۔
[٢٧٠]مشرکوں کا تلبیہ :۔ مشرکین بھی اللہ کا ذکر تو کرتے تھے۔ مگر اس میں شرکیہ کلمات کی آمیزش ہوتی تھی۔ اسی ضلالت سے بچنے کی اللہ تعالیٰ نے یہ ہدایت فرمائی اور وہ شرکیہ کلمات یہ تھے : ''الا شریکا ھولک تملک وماملک''
مگر تیرا وہ شریک جس کا تو مالک ہے وہ تیرا مالک نہیں۔ (مسلم، کتاب الحج، باب التلبیۃ) |
البقرة |
199 |
[٢٧١] حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ : قریش اور ان کے طریقہ پر چلنے والے لوگ (عرفات کے بجائے) مزدلفہ میں وقوف کیا کرتے تھے، ان لوگوں کو حمس کہتے تھے۔ جب کہ باقی عرب عرفات کا وقوف کرتے۔ جب اسلام کا زمانہ آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو یہ حکم دیا کہ عرفات میں جائیں وہاں ٹھہریں اور وہیں سے لوٹ کر (مزدلفہ) آئیں۔ ﴿ ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاض النَّاسُ ﴾ سے یہی مراد ہے۔ (بخاری، کتاب التفسیر۔ باب ثم افیضوا۔۔)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ (جو تمتع کی نیت سے عمرہ کے بعد احرام کھول دے) جب تک حج کا احرام نہ باندھے بیت اللہ کا نفل طواف کرتا رہے۔ پھر جب حج کا احرام باندھے اور عرفات جانے کو سوار ہو تو (حج کے بعد) جو قربانی ہو وہ کرے خواہ اونٹ ہو یا گائے یا بکری ہو، اور اگر قربانی میسر نہ ہو تو حج کے دنوں میں عرفہ کے دن سے پہلے تین روزے رکھے اور اگر تیسرا روزہ عرفہ کے دن آ جائے تب بھی کوئی حرج نہیں۔ مکہ سے عرفات جائے، وہاں سے عصر کی نماز سے رات کی تاریکی ہونے تک ٹھہرے۔ پھر عرفات سے اس وقت لوٹے جب دوسرے لوگ لوٹیں اور سب لوگوں کے ساتھ رات مزدلفہ میں گزارے اللہ کا ذکر، تکبیر اور تہلیل صبح ہونے تک بہت کرتا رہے، پھر صبح کو لوگوں کے ساتھ مزدلفہ سے منیٰ لوٹے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴿ ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاض النَّاسُ﴾....... اور کنکریاں مارتے وقت اسی طرح ذکر، تکبیر اور تہلیل کرتا رہے۔ (بخاری۔ حوالہ ایضاً) |
البقرة |
200 |
|
البقرة |
201 |
[٢٧٢] جامع دعا:۔چونکہ دنیا پہلے ہے اور آخرت بعد میں۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے دنیا کا پہلے ذکر فرمایا۔ گویا مومن کو دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ سے بھلائی مطلوب ہوتی ہے اور آخرت میں بھی۔ پھر بھلائی کے لفظ میں جو وسعت ہے وہ آپ جانتے ہی ہیں یہ دعا بہت جامع قسم کی دعا ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حج کے دوران طواف کرتے وقت اور دوسرے اکثر اوقات میں بھی یہی دعا فرمایا کرتے تھے۔ (بخاری، کتاب التفسیر، زیر آیت مذکورہ)
ایک دنیادار اور مومن کےمقاصد زندگی کاتقابل:۔ان دو آیات میں ایک دنیا دار اور ایک مومن کے مقاصد زندگی کا تقابل پیش کیا گیا ہے جو شخص آخرت پر ایمان ہی نہیں رکھتا۔ اس کی زندگی کا تمام تر مقصد مفادات دنیا کا حصول ہوتا ہے۔ اس کی تمام کوششیں اسی مقصد میں صرف ہوجاتی ہیں لیکن اسے ملتا اتنا ہی ہے جتنا اللہ نے اس کے مقدر کر رکھا ہے اور یہی کچھ اس کا حصہ ہے۔ آخرت میں اگر اس کے کچھ نیک اعمال تھے بھی۔ تو اس کا اسے کچھ اجر و ثواب نہیں ملے گا۔ اس کے مقابلہ میں مومن کا مقصد اگرچہ مفادات اخروی کا حصول ہوتا ہے اور وہ اسے مل بھی جائے گی۔ لیکن دنیا کی زندگی کے مفادات بھی اس کے لیے ممنوع نہیں، بلکہ اس میں سے بھی اتنا حصہ اسے ضرور ملے گا جتنا اللہ تعالیٰ نے اس کے مقدر میں کر رکھا ہے۔ لہذا اس کی دعا کا انداز ہی یہ ہوتا ہے کہ اپنے پروردگار سے دنیا بھی طلب کرتا ہے اور آخرت کے مفادات بھی۔ لہذا ایسے ہی لوگ بہرحال فائدہ میں رہتے ہیں۔ |
البقرة |
202 |
|
البقرة |
203 |
[٢٧٢۔ ا] ایام معدودات سے مراد ماہ ذی الحجہ کی گیا رہ، بارہ اور تیرہ تاریخ ہے۔ ان دنوں میں بکثرت اللہ کو یاد کرتے رہنا چاہیے۔ رمی جمار کے وقت بھی بآواز بلند تکبیر کہی جائے اور تمام حالات میں بھی بازاروں میں چلتے پھرتے وقت بھی اور ہر نماز کے بعد بھی اور تکبیر کے الفاظ یہ ہیں۔ اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر (تین مرتبہ) (لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد)
ایام تشریق اور تکبیریں:۔ عیدین کی تکبیریں بھی یہی ہیں اور ایام تشریق میں بھی یہی بآواز بلند کہتے رہنا چاہیے۔ ایام تشریق کے متعلق حدیث میں آیا ہے کہ یہ کھانے پینے اور ذکر الٰہی کے دن ہیں۔ تکبیرات کے شروع اور ختم کرنے میں اگرچہ اختلاف ہے۔ تاہم صحیح اور راجح یہی بات ہے کہ ذی الحجہ کی ٩ تاریخ ( عرفہ یا حج کے دن) کی صبح شروع کر کے تیرہ تاریخ کی عصر کو ختم کی جائیں۔ اس طرح یہ کل تئیس نمازیں بنتی ہیں۔ ہر نماز کے بعد کم از کم تین بار اور زیادہ سے زیادہ جتنی اللہ توفیق دے۔ بآواز بلند تکبیرات کہنا چاہئیں۔
رمی جمار کا عمل تین دن یعنی ذی الحجہ کی ١٠، ١١، ١٢ کو ہوتا ہے۔ دس ذی الحجہ کا دن تو حجاج کے لیے بہت مصروفیت کا دن ہوتا ہے۔ اس کے بعد تین دن منیٰ میں ٹھہرنا مسنون ہے۔ تاہم اگر کوئی شخص اس سے پہلے جانا چاہے تو وہ دوسرے دن بھی جا سکتا ہے۔ بشرطیکہ اس کے دل میں تقویٰ ہو اور حج کے تمام مناسک ٹھیک طور پر بجا لانے کا ارادہ رکھتا ہو۔ |
البقرة |
204 |
|
البقرة |
205 |
[٢٧٣] اخنس بن شریق ایک منافق تھا جو فصیح و بلیغ اور شیریں کلام تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی چکنی چپڑی باتیں بھلی معلوم ہوتیں۔ وہ بات بات پر اللہ کی قسم کھاتا اور بار بار اللہ کو گواہ بنا کر کہتا کہ وہ سچا مسلمان ہے اور مسلمانوں کا دلی دوست ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صحیح صورت حال سے مطلع کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کی باتوں پر فریفتہ مت ہونا، کیونکہ یہ سخت جھگڑا لو قسم کا انسان ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، وہ اسلام سے پھر کر مکہ واپس چلا گیا۔ راستہ میں مسلمانوں کے جو کھیت دیکھے انہیں جلا دیا اور جو جانور نظر آئے انہیں مار ڈالا۔ |
البقرة |
206 |
[٢٧٤] یعنی اسکا پندار نفس یا انا اسے غرور و تکبر ہی کی راہ دکھلاتا ہے اور متکبرین کا ٹھکانا جہنم ہے۔ جیسا درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔
تکبر کرنےوالےکاحشر:۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ پروردگار کے سامنے جنت اور دوزخ میں جھگڑا ہوا۔ جنت کہنے لگی، پروردگار! میرا تو یہ حال ہے کہ مجھ میں تو وہی لوگ آ رہے ہیں جو دنیا میں ناتواں اور حقیر تھے اور دوزخ کہنے لگی کہ مجھ میں وہ لوگ آ رہے ہیں جو دنیا میں متکبر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے جنت سے فرمایا تو میری رحمت ہے اور دوزخ سے فرمایا تو میرا عذاب ہے۔ (بخاری، کتاب التوحید، باب ماجاء فی قول اللہ ان رحمۃ اللہ قریب من المحسنین)
اور ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، کہ میں تمہیں بتلاؤں کہ بہشتی کون ہیں اور دوزخی کون؟ جنتی ہر وہ کمزور اور منکسر المزاج ہے کہ اگر وہ اللہ کے بھروسے پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ اسے سچا کر دے اور دوزخی ہر موٹا، بدمزاج اور متکبر آدمی ہوتا ہے۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب قول اللہ تعالیٰ آیت اقسموا باللہ جھد ایمانہم) |
البقرة |
207 |
[٢٧٥]صہیب رومی کی فضیلت:۔ یعنی انسانوں میں کچھ اس قسم کے لوگ بھی موجود ہیں جو اللہ کی راہ میں اپنا جان و مال سب کچھ قربان کردیتے ہیں۔ چنانچہ صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ اپنا وطن ترک کر کے ہجرت کی غرض سے مدینہ آ رہے تھے کہ راستہ میں مشرکوں نے پکڑ لیا اور انہیں اسلام سے برگشتہ ہونے پر مجبور کیا۔ صہیب رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ میں اپنا گھر اور اپنا سارا مال تمہیں اس شرط پر دینے کو تیار ہوں کہ تم میری راہ نہ روکو اور مجھے مدینہ جانے دو۔ انہوں نے اس شرط پر آپ کو چھوڑ دیا اور صہیب رومی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے۔ ایسے ہی مخلص مومنوں کی تعریف میں یہ آیت نازل ہوئی۔ ( الرحیق المختوم ٢٤٦)
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت صہیب رضی اللہ عنہ ، حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور سلمان رضی اللہ عنہ کے متعلق حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا۔ ’’ اگر تم نے ان کو ناراض کردیا تو اپنے رب کو ناراض کردیا۔‘‘(صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب فضائل سلمان ) |
البقرة |
208 |
[٢٧٦]اسلام میں پوراپوراداخل ہونےکامطلب:۔ یعنی تمہارے عقائد، تمہارے خیالات، تمہارے نظریات، تمہارے علوم، تمہارے طور طریقے تمہارے رسم و رواج اور تمہاری کاروباری زندگی سب کچھ ہی اسلام کے تابع ہونا چاہیے۔ یہ نہ ہونا چاہیے کہ دعویٰ تو اسلام کا کرو اور اپنا معاشی نظام روس سے مستعار لے لو اور سیاسی نظام انگریز سے۔ یا مسجد میں تو تم اللہ کو یاد کرو اور کاروبار کرتے وقت اللہ یاد ہی نہ رہے۔ اور ناجائز طریقوں سے کمائی کرنا شروع کردو یا ڈھنڈورا تو اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیٹتے جاؤ اور سب بدعات میں حصے دار بنتے رہو۔ یا لا الہ الا اللہ کا ورد بھی کرتے رہو اور پیروں اور بزرگوں سے استمداد بھی طلب کرتے رہو۔ غرض یہ ہے کہ تمہاری زندگی کا ہر ہر پہلو اسلام کے تابع اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت میں گزرنا چاہیے اور اگر اپنے آپ کو پورے کا پورا اسلام کے تابع نہیں بناؤ گے تو اسی کا نام شیطان کے قدموں کی پیروی ہے جو ہر وقت تمہارے ایمان پر ڈاکہ ڈالنے، تمہیں غلط اور گمراہ کن عقائد میں مبتلا اور برے کاموں کو خوشنما بنا کر ان پر آمادہ کرنے کے لیے مستعد رہتا ہے۔ |
البقرة |
209 |
[٢٧٧]قطعی نشانی دیکھنے پرایمان لانا بےسودہے:۔ یعنی اسلام کے انسانی زندگی کے ہر پہلو میں واضح احکام آ جانے کے بعد تم اسلام میں پوری طرح داخل نہ ہوئے اور دوغلی پالیسی اختیار کی اور جن احکام پر چاہا عمل کرلیا اور جہاں کوئی بات طبیعت کو ناگوار محسوس ہوئی یا کسی نقصان کا خطرہ محسوس ہوا وہاں اپنی مرضی کرلی اور اسلام کے احکام کو پس پشت ڈال دیا تو خوب سمجھ لو کہ اللہ بڑا زبردست ہے حکمت والاہے، وہ تمہیں سزا بھی دے سکتا ہے، ذلیل و خوار بھی کرسکتا ہے اور دنیا کی حکمرانی تمہارے سوا کسی دوسرے کو بھی دے سکتا ہے۔ |
البقرة |
210 |
[٢٧٨] یعنی ایسی نشانی کے انتظار میں جس سے انہیں قطعی اور حتمی طور پر ہر بات کا یقین آ جائے۔ ایسا یقین جیسے ہر انسان کو یہ یقین ہے کہ اسے موت آ کے رہے گی تو اسے خوب سمجھ لینا چاہیے کہ جب ایسی نشانی آ جائے گی تو پھر ایمان لانے کی کچھ قدر و قیمت نہ ہوگی۔ ایمان لانے کی قدر و قیمت تو صرف اس وقت تک ہے جب تک کہ امور غیب حواس ظاہری سے پوشیدہ ہیں۔ اگرچہ ان کے لیے بے شمار دلائل موجود ہیں اور اسی بات میں انسان کی آزمائش کی جا رہی ہے، اور یہ دنیا آزمائش گاہ بنی ہوئی ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے اور جب کوئی حتمی علامت جیسے سورج کا مغرب سے طلوع ہونا یا وقت موت یا قیامت آ گئی تو پھر یہ معاملہ ہی ختم ہوجائے گا۔ علاوہ ازیں اللہ کی آمد تو درکنار اس کا دیدار تو حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے اوالوالعزم پیغمبر بھی نہ سہار سکے تھے۔ پھر یہ بے چارے کس کھیت کی مولی ہیں اور فرشتے انسانوں کے پاس آتے تو ہیں مگر وہ یا عذاب الٰہی لے کر آتے ہیں یا پھر موت کا پیغام لے کر، تو پھر ان باتوں کا انہیں کیا فائدہ ہوسکتا ہے۔ |
البقرة |
211 |
[٢٧٩] کفران نعمت کی سزا:۔اور اگر واضح دلائل اور نشانیوں ہی کی بات ہے تو بنی اسرائیل سے پوچھ لیجئے کیا ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو تھوڑے معجزات عطا کئے تھے؟ تو پھر کیا یہ سب کے سب لوگ ایمان لے آئے تھے؟ اور اگر لائے بھی تو کیا پورا ایمان لائے؟ اور کب تک اس پر قائم رہے؟ پھر جب ان لوگوں نے اللہ کے انعامات کی قدر نہ کی تو اللہ نے انہیں بری طرح سزا دی۔ بنی اسرائیل سے پوچھنے کو اس لیے کہا کہ یہ امت مسلمانوں کے قریب زمانہ میں موجود تھی اور اب بھی موجود ہے اگر اے مسلمانو! تم نے بھی اللہ کے انعامات کی قدر نہ کی تو تمہارا بھی حشر یہی ہوسکتا ہے۔ |
البقرة |
212 |
[٢٨٠]دنیاکارزق کامیابی کامعیار نہیں:۔ یعنی وہ دنیوی مال و دولت میں مگن رہ کر حضرت بلال رضی اللہ عنہ ، عمار رضی اللہ عنہ ، صہیب رضی اللہ عنہ اور دوسرے فقرائے مہاجرین کا تمسخر اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس قسم کے لوگوں کو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ساتھ ملا کر عرب کے سرداروں پر غالب آنے کے خواب دیکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ جواب دیا کہ دنیا کا رزق کامیابی اور اخروی نجات کا کوئی معیار نہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ دنیا میں یہ رزق کافروں کو چاہے تو زیادہ بھی دے دیتا ہے۔ رہی کامیابی کی بات تو یہی ناتواں اور پرہیزگار لوگ قیامت کے دن جنت میں بلند تر مقامات پر ہوں گے اور یہ دنیا پر فریفتہ کافران سے بہت نیچے جہنم میں ہوں گے۔ |
البقرة |
213 |
[٢٨١]انسانی زندگی کاآغاز توحید سےہوایاشرک سے:۔ اس امت واحدہ کا طریق اور دین کیا تھا ؟ وہ تھا توحید خالص اور صرف اللہ اکیلے کی اطاعت اور بندگی۔ یہی چیز انسان کی فطرت میں ودیعت کی گئی تھی۔ علاوہ ازیں سب سے پہلے انسان ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام خود نبی تھے۔ لہذا آپ علیہ السلام کی ساری اولاد اور آپ علیہ السلام کی امت اسی دین پر قائم تھی۔ مگر موجودہ دور کے مغربی علماء (جنہیں ہم مسلمانوں نے آج کل ہر شعبہ علم میں انہیں اپنا استاد تسلیم کرلیا ہے) جب مذہب کی تاریخ لکھنے بیٹھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ انسان نے اپنی زندگی کا آغاز شرک کی تاریکیوں سے کیا، پھر اس پر کئی ادوار آئے اور بالآ خر انسان توحید کے مقام پر پہنچا ہے اور یہی نظریہ ہمارے ہاں کالجوں میں پڑھایا جاتا ہے اور یہ اسلام کے پیش کردہ نظریہ کے مطابق بالکل غلط ہے اور اس کی وجوہ درج ذیل ہیں۔
کہا یہ جاتا ہے کہ انسان کے اندر سب سے قدیم اور ابتدائی جذبہ خوف کا جذبہ ہے۔ یہ جذبہ ان ہولناک حوادثات کے مشاہدہ سے پیدا ہوا جو اس دنیا میں طوفانوں، زلزلوں اور وباؤں کی صورت میں آئے دن پیش آتے رہتے تھے۔ اس خوف کے جذبہ نے انسان کو ان ان دیکھی طاقتوں کی پرستش پر مجبور کیا۔ جن کو انسان نے ان حوادث کا پیدا کرنے والا خیال کیا۔ اس طرح انسان نے شرک سے دین کا آغاز کیا۔
یہ نظریہ اس لحاظ سے غلط ہے کہ دنیا میں زلزلے طوفان، سیلاب اور وبائیں کبھی کبھار آتی ہیں۔ جبکہ دنیا کی بہاریں انسان کی پیدائش سے پہلے ہی موجود بھی تھیں اور بکثرت بھی تھیں۔ درختوں کو پھل لگتے تھے، فصلیں اگتی تھیں، بارشیں ہوتی تھیں۔ چاندنی پھیلتی تھی، تارے چمکتے، پھول کھلتے تھے۔ گویا انسان کے رزق اور رزق کے علاوہ اس کے جمال اور خوش ذوقی کے سامان پہلے سے ہی بکثرت موجود تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ انسان نے اپنی زندگی کا آغاز کیا تو ربوبیت کی یہ برکتیں اور رحمت کی شانیں پہلے تھیں یا اتفاقی حوادث؟ یا یہ برکتیں تعداد میں زیادہ تھیں۔ یا ان کے مقابلہ میں اتفاقی حوادث؟ اور کیا ابتداًء انسان کو ایک رحمن ورحیم اور رزاق ہستی کے ان بے شمار انعامات کا معترف ہو کر جذبہ شکر سے اس کا دل معمور ہونا چاہیے تھا یا ابتداًء ہی اس پر حوادث کا خوف طاری ہونے لگا تھا ؟ جو شخص بھی ان باتوں پر ضد اور ہٹ دھرمی سے ہٹ کر غور کرے گا۔ وہ اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ فطرت انسانی کا اصلی رخ وہی ہے۔ جس کا پتہ قرآن کریم دے رہا ہے۔ نہ وہ جس کی طرف یہ مغربی علماء نشاندہی کرتے ہیں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ خوف کا لفظ ہی پہلے سے کسی نعمت کی موجودگی پر دلالت کرتا ہے۔ خوف دراصل کسی ایسی نعمت کے چھن جانے کا نام ہے جو انسان کو عزیز بھی ہو اور پہلے سے مہیا بھی ہو۔ زلزلوں کا خطرہ ہو یا سیلابوں کا خوف ہو یا وباؤں کا ان سب میں کسی نہ کسی عزیز تر نعمت کے چھن جانے کا مفہوم پایا جاتا ہے، خواہ یہ نعمت انسان کی صحت ہو، یا رزق ہو۔ گویا ہر خوف سے پہلے کسی نعمت کا شعور لازمی چیز ہے اور جب نعمت کا شعور پایا گیا تو ایک منعم حقیقی کا شعور بھی لازمی ہوا اور پھر اس کی شکر گزاری کا جذبہ پیدا ہونا بھی ناگزیر ہوا۔ انسان کے مشاہدہ کائنات کی فطری راہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ انسان میں نعمتوں اور رحمتوں کی فراوانی اور اس کے مشاہدہ سے اس پر ایک منعم حقیقی کی شکرگزاری کا جذبہ اور احساس طاری ہوا پھر وہ اسی جذبہ کے تحت اس کی بندگی کی طرف مائل ہوا۔ رہا یہ سوال کہ جب ایک دفعہ انسان توحید کی شاہراہ پر گامزن ہوگیا تو پھر شرک کی راہوں پر کیسے جا پڑا تو اس کا سبب یہ ہرگز نہیں کہ اس کی فطرت میں کوئی خرابی موجود تھی بلکہ اس کی اصل وجہ انسان کی قوت ارادہ و اختیار کا غلط استعمال ہے کہ ان میں سے عیار لوگوں نے اپنے دنیوی مفادات کی خاطر کچھ غلط سلط عقائد گھڑ کر عوام الناس کو غلط راہوں پر ڈال دیا ہے۔
جب لوگوں میں اس قسم کا بگاڑ پیدا ہوگیا اور شرک نے کئی دوسری اخلاقی قدروں کو بھی بگاڑنا شروع کردیا تو اللہ نے پھر سے انبیاء کو مبعوث فرمانا شروع کردیا۔ ان سب انبیاء کی تعلیم ایک ہی تھی یعنی کائنات کی ہر ایک چیز کا اور انسانوں کا خالق، مالک اور رازق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ لہٰذا وہی اکیلا پرستش اور بندگی کے لائق ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اسی کی بندگی کرے اور اسی کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔ پھر جو لوگ اللہ کے احکام کو مان کر اس کی تعمیل کریں گے انہیں اچھا بدلہ ملے گا اور جو نافرمان اور مشرک ہوں گے انہیں سزا بھی ملے گی۔ اس جزا و سزا کے لیے اخروی زندگی اور اس پر ایمان لانا ناگزیر ہے اور یہ دنیا محض دارالامتحان ہے۔ دارالجزاء نہیں اور یہی کلیات دین ہر نبی پر نازل کئے جاتے رہے جو عقل سلیم کے عین مطابق ہے۔
[٢٨٢]اختلاف امت اور فرقہ پرستی :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حقیقت میں ہر نبی کی امت کی پوری داستان عروج و زوال بیان فرما دی ہے۔ عروج کا دور اس وقت ہوتا ہے جب تک یہ امت مجموعی طور پر متحد اور متفق رہے اور جب اس میں ایسے اختلاف پیدا ہوجائیں جو فرقہ بندی کی بنیاد بن جائیں تو بس سمجھئے کہ اس کے زوال کا آغاز ہوگیا اور یہ اختلاف اس وجہ سے نہیں ہوتے کہ کتاب اللہ میں حق بات کی پوری وضاحت نہیں ہوتی اور حق ان پر مشتبہ ہوجاتا ہے۔ بلکہ اس اختلاف اور فرقہ بندی کے اصل محرکات کچھ اور ہوتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں متعدد بار ایک جامع لفظ ﴿بَغْیًا بَیْنَھُمْ﴾ سے تعبیر فرمایا ہے۔ یعنی بعض لوگ حق کو جاننے کے باوجود اپنے جائز حق سے بڑھ کر امتیازات، فوائد اور منافع حاصل کرنا چاہتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے پر ظلم، سرکشی اور زیادتی کرنے سے دریغ نہیں کرتے تاکہ ان کا اپنا جھنڈا بلند ہو۔ بعض لوگ اپنے آباء کے دین کو اصل دین قرار دے لیتے اور اس پر مصر ہوجاتے ہیں یا کسی امام کے متبع امام کے قول کو حکم الٰہی پر ترجیح دینے پر اصرار کرتے ہیں تو اس طرح نئے نئے فرقے وجود میں آتے رہتے ہیں اور وحدت ملت پارہ پارہ ہوجاتی ہے اور یہی فرقے اس کے زوال کا سبب بن جاتے ہیں۔
فرقہ پرستی کاعلاج:۔ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ ایک نیا نبی مبعوث فرماتے رہے جو لوگوں کو اختلافی امور میں حق کا راستہ دکھلا کر انہی میں سے ایک نئی امت تشکیل کرتا اور لوگوں کو پھر سے ایک امت کی صورت میں متحد کردیتا۔ مگر امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔ کیونکہ آپ نے یہ بشارت دے دی ہے کہ ’’میری امت میں سے ایک فرقہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا۔ تاآنکہ قیامت آ جائے‘‘ (بخاری، کتاب الاعتصام، باب قول النبی لا تزال طائفہ من امتی۔۔) صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ’’وہ کونسا فرقہ ہوگا ؟ فرمایا جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں۔‘‘ (ترمذی، کتاب الایمان، باب افتراق ھذہ الامۃ) (نیز دیکھئے اسی سورۃ کا حاشیہ نمبر ٢٢٠) لہٰذا آج بھی فرقہ پرستی کا صرف یہی علاج ہے کہ ہر قسم کے تعصبات کو چھوڑ کر کتاب و سنت کی طرف رجوع کیا جائے۔ |
البقرة |
214 |
[٢٨٣] مکی دور میں حکومت اور امن کی بشارت :۔ پھر جب کوئی نیا نبی مبعوث ہوتا ہے تو اسے کئی فرقوں میں بٹی ہوئی امت کو پھر سے ایک طریقہ پر لانے اور ایک امت بنانے پر بہت محنت صرف کرنا پڑتی ہے اور بہت سے مصائب اور دشواریاں پیش آتی ہیں۔ انبیاء کو بھی اور ان لوگوں کو بھی جو ابتدءً انبیاء کا ساتھ دیتے ہیں۔ کیونکہ باطل قوتیں جو مالی اور افرادی قوت کے لحاظ سے اس نئے نبی اور اس کے چند پیروؤں سے بہت زیادہ طاقتور ہوتی ہیں ان کے مقابلہ پر اتر آتی ہیں اور کچل دینے سے بھی دریغ نہیں کرتیں اور یہ مصائب اتنے شدید ہوتے ہیں کہ بعض دفعہ انبیاء اور ان کے متبعین بہ تقاضائے بشریت پکار اٹھتے ہیں کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟
خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کا شکوہ : چنانچہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کعبہ کی دیوار کے سایہ میں اپنی چادر کو تکیہ بنا کر بیٹھے تھے تو سیدنا خباب بن ارت رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ’’ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اللہ تعالیٰ سے دعا کیوں نہیں کرتے؟‘‘ یہ سنتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تکیہ چھوڑ کر سیدھے بیٹھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ غصہ سے سرخ ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ” تم سے پہلے ایسے لوگ گزر چکے ہیں۔ جن کے گوشت اور پٹھوں میں ہڈیوں تک لوہے کی کنگھیاں چلائی جاتی تھیں مگر وہ اپنے سچے دین سے نہیں پھرتے تھے اور آرا ان کے سر کے درمیان رکھ کر چلایا جاتا اور دو ٹکڑے کردیے جاتے مگر وہ اپنے سچے دین سے نہیں پھرتے تھے اور اللہ اپنے اس کام کو ضرور پورا کر کے رہے گا۔ یہاں تک کہ ایک شخص صنعا سے سوار ہو کر حضرموت تک چلا جائے گا، اور اللہ کے سوا اس کو کسی کا ڈر نہ ہوگا۔‘‘ (بخاری۔ کتاب المناقب باب مالقی النبی واصحابہ من المشرکین بمکۃ) اور بخاری ہی کی ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں ” مگر تم لوگ تو جلدی مچاتے ہو۔“
پرامن زندگی کی بشارت :۔ اس حدیث میں مسلمانوں کے لیے کئی بشارتیں ہیں۔ مثلاً یہ کہ کافروں کی ضرر رسانی اور ایذا دہی کا دور عنقریب ختم ہونے والا ہے۔ پھر تمہاری اپنی حکومت قائم ہوگی جس میں ہر ایک کو پرامن زندگی بسر کرنا میسر آئے گی۔ کسی چور، ڈاکو، لٹیرے کو یہ جرأت نہ ہوگی کہ وہ دوسرے کے مال کی طرف نظر بھر کر دیکھ بھی سکے۔ |
البقرة |
215 |
[٢٨٤] انفاق سبیل اللہ میں ترتیب: بعض مالدار صحابہ (مثلاً عمرو بن الجموح وغیرہ) نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا تھا جس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی اور یہ تو ظاہر ہے کہ یہ سوال نفلی صدقات کے متعلق ہی ہو سکتا ہے انفاق فی سبیل اللہ کے بارے میں تین سوالات ہی ہو سکتے ہیں (1) کتنا خرچ کیا جائے؟ (2) کس کس پر خرچ کیا جائے؟ اور (3) کن اشیاء میں سے خرچ کیا جائے؟ فرضی صدقہ (یعنی زکوٰۃ) کے بارے میں ان تینوں سوالوں میں سے دوسرے سوال کا جواب جو سب سے اہم تھا جو قرآن کریم نے خود بالتفصیل دے دیا ہے (9: 60) باقی دو سوالوں کا جواب سنت میں بالتفصیل مذکور ہے یہاں نفلی صدقہ میں بھی سب سے پہلے اسی دوسرے اہم سوال کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ کہ کن کن کو دیا جائے۔ نفلی صدقات اور فرضی صدقات کے مصارف میں فرق ہے۔ کیونکہ نفلی صدقات کا تعلق انفرادی معاملات سے ہے اور زکوٰۃ کے مصارف کا تعلق اجتماعی معاملات سے بہرحال انفرادی اور نفلی صدقہ کے خرچ کے بارے میں بتایا گیا کہ سب سے پہلے حقدار والدین ہوتے ہیں۔ اس کے بعد درجہ بدرجہ اقارب، یتیم، فقراء اور مسافر وغیرہ۔ نیز فرمایا کہ جو کچھ بھی تم خرچ کرو، خواہ زیادہ ہو یا کم، معاشرہ ے ان افراد کو تمہیں ملحوظ رکھنا چاہیے اور اسی ترتیب سے ملحوظ رکھنا چاہیے جو یہاں بیان کی جا رہی ہیں۔ |
البقرة |
216 |
[٢٨٥]جہاد کےفوائداوراہمیت : مکی دور میں بعض جوشیلے مسلمان جہاد کی اجازت مانگتے رہے مگر انہیں جہاد کی بجائے صبر کی تلقین کی جاتی رہی اور یہاں مدینہ میں آ کر جب اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت دی اور جہاد فرض کیا گیا تو بعض مسلمانوں نے اسے دشوار سمجھا۔ کیونکہ ہر معاشرہ میں تمام آدمی ایک ہی جیسے نہیں ہوتے، بعض جوشیلے، دلیر اور جوان بہت ہوتے ہیں تو بعض بوڑھے کمزور اور کم ہمت بھی ہوتے ہیں۔ یہ خطاب اسی دوسری قسم کے لوگوں سے ہے اور انہیں سمجھایا جا رہا ہے کہ جو چیز تمہیں بری معلوم ہوتی ہے، ہوسکتا ہے وہ فی الحقیقت بری نہ ہو، بلکہ تمہارے حق میں بہت مفید ہو اور اس کے برعکس بھی معاملہ ہوسکتا ہے اور بالخصوص یہ بات جہاد کے سلسلہ میں اس لیے کہی گئی کہ قتال سے ہر انسان کی طبیعت طبعاً نفرت کرتی ہے کیونکہ زندگی سے پیار ہر جاندار کی فطرت میں طبعاً داخل ہے اور بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جہاد میں جان و مال کا نقصان ہوگا۔ حالانکہ یہی جہاد کسی قوم کی روح رواں ہوتی ہے۔ شہید کی موت قوم کی حیات ہے۔ اسی لیے کتاب و سنت میں جہاد کو بہت افضل عمل قرار دیا گیا ہے اور بعض لوگ تو اسے اس قدر اہمیت دیتے ہیں کہ جہاد کو فرض کفایہ کی بجائے فرض عین سمجھنے لگے ہیں اور اسے اسلام کا چھٹا رکن سمجھتے ہیں۔ لیکن ان کا انداز فکر درست نہیں۔ جہاد افضل الاعمال ہونے کے باوجود نہ فرض عین ہے اور نہ اسلام کا چھٹا رکن (تفصیل کے لیے دیکھئے سورۃ نساء کی آیت نمبر ٩٦ اور سورۃ توبہ کی آیت نمبر ٩٢ کے حواشی) |
البقرة |
217 |
[٢٨٦]حرام مہینوں میں لڑائی :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آٹھ آدمیوں پر مشتمل ایک دستہ جمادی الثانی ٢ ھ کے آخر میں نخلہ کی طرف بھیجا (جو مکہ اور طائف کے درمیان ایک مقام ہے) تاکہ کفار مکہ کی نقل و حرکت کے متعلق معلومات حاصل کرے۔ کیونکہ ان کی طرف سے مدینہ پر چڑھائی کا ہر آن خطرہ موجود تھا اس دستہ کو کفار کا ایک تجارتی قافلہ ملا۔ جس پر انہوں نے حملہ کردیا اور ایک آدمی کو قتل کردیا اور باقی لوگوں کو گرفتار کر کے مال سمیت مدینہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے آئے جس کا آپ کو افسوس ہوا۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف معلومات حاصل کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ لڑنے کے لیے نہیں بھیجا تھا اور جس دن یہ لڑائی کا واقعہ ہوا اس دن مسلمانوں کے خیال کے مطابق تو ٣٠ جمادی الثانی تھا مگر حقیقتاً وہ دن یکم رجب ٢ ھ تھا۔ اب کفار مکہ اور یہود اور دوسرے اسلام دشمن لوگوں نے ایک طوفان کھڑا کردیا کہ دیکھو کہ یہ لوگ جو بڑے اللہ والے بنتے ہیں۔ ماہ حرام میں بھی خونریزی سے نہیں چوکتے۔ اسی پروپیگنڈہ کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ماہ حرام میں لڑنا فی الواقع بڑا گناہ ہے، مگر جو کام تم کر رہے ہو اور کرتے رہے ہو وہ تو اس گناہ سے بھی شدید جرائم ہیں۔ تم اسلام کی راہ میں روڑے اٹکاتے اور مسلمانوں کو ایذائیں دیتے ہو۔ اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہو۔ مسلمانوں کے مسجد میں داخلہ پر پابندیاں لگا رکھی ہیں اور تم نے مسلمانوں پر عرصہ حیات اس قدر تنگ کردیا کہ وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر یہاں سے نکل جانے پر مجبور ہوگئے۔ یہ سب جرائم ماہ حرام میں لڑائی کرنے سے بڑے جرائم ہیں۔ علاوہ ازیں جو فتنہ انگیزی کی مہم تم نے چلا رکھی ہے وہ تو قتل سے کئی گنا بڑا جرم ہے (یاد رہے کہ فتنہ سے یہاں مراد ایسی ہر قسم کی مزاحمت ہے جو ان لوگوں نے اسلام کی راہ روکنے کے لیے اختیار کر رکھی تھی) تمہیں اپنی آنکھ کا تو شہتیر بھی نظر نہیں آتا، اور مسلمانوں سے اگر غلط فہمی کی بنا پر یہ لڑائی ہوگئی تو تم نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔
[٢٨٧] یعنی ان معاندین اسلام کے نزدیک تمہارا اصل جرم یہ نہیں کہ تم نے ماہ حرام میں لڑائی کی ہے بلکہ یہ ہے کہ تم مسلمان کیوں ہوئے اور اب تک کیوں اس پر قائم ہو اور اس وقت تک مجرم ہی رہو گے جب تک یہ دین چھوڑ نہ دو اور حقیقتاً وہ یہی کچھ چاہتے ہیں، یہ تمہارے بدترین دشمن ہیں۔ لہذا ان سے ہشیار رہو۔
[٢٨٨] یعنی جس طرح اسلام لانے سے سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح اسلام سے پھر جانے سے پہلے سے کی ہوئی تمام نیکیاں بھی برباد ہوجاتی ہیں۔ الا یہ کہ پھر توبہ کر کے مسلمان ہوجائے اور جب نیکیاں برباد ہوگئیں تو باقی صرف گناہ ہی گناہ ہوں گے، جس کا خمیازہ انہیں دائمی عذاب جہنم کی صورت میں بھگتنا پڑے گا۔ |
البقرة |
218 |
[٢٨٩] یہ آیت دراصل مجاہدین کے اسی دستہ کے متعلق ہے جنہیں نخلہ کی طرف بھیجا گیا تھا۔ ان مجاہدین کو یہ تردد تھا کہ آیا اس جہاد کا ثواب بھی ملتا ہے یا نہیں۔ کیونکہ اس میں دو غلطیاں ہوگئیں تھیں ایک یہ کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجازت کے بغیر جہاد کیا تھا دوسری غلطی یہ کہ یکم رجب کو لڑائی کی جس کا انہیں علم نہ ہوسکا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا انہیں اللہ کی رحمت کا امیدوار ہونا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ غلطیوں کو معاف کردینے والا ہے۔ مہربان ہے۔
جہاد کی تعریف اور غرض وغایت:۔جہاد دراصل ہر اس کوشش کا نام ہے جو اسلام کی راہ میں مزاحم ہونے والی رکاوٹوں کو دور کردے۔ اگر کوئی شخص ذہن سے اس قسم کی تدابیر سوچتا ہے یا کافروں کی تدابیر کا توڑ سوچتا ہے تو یہ بھی جہاد ہے اور اگر شخص زبان یا قلم سے اس مقصد پر دوسروں کو آمادہ کرتا ہے یا معاندین اسلام کے اعتراضات کی تردید کرتا ہے اور انہیں جواب دیتا ہے تو یہ بھی جہاد ہے یعنی ہر امکانی کوشش کو اس مقصد میں صرف کردینے کا نام جہاد ہے اور اس کی آخری حد یہ ہے کہ اگر جان کی بازی لگانے کی ضرورت پیش آئے تو اس سے بھی دریغ نہ کرے اور جہاد کی غرض و غایت یہ ہے کہ دوسرے تمام ادیان کے مقابلہ میں اللہ کا کلمہ بلند ہو اور اسی کا بول بالا ہو۔ اس غرض کے علاوہ اور کسی بھی مقصد کے لیے جنگ کی جائے تو اسے جنگ یا قتال تو کہہ سکتے ہیں۔ جہاد فی سبیل اللہ نہیں کہہ سکتے۔ چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک گنوار (لاحق بن ضمیرہ باہلی) آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! کوئی شخص لوٹ حاصل کرنے کے لیے لڑتا ہے، کوئی ناموری کے لیے، کوئی اپنی بہادری جتانے کے لیے اور کوئی حمیت (قومی یا قبائلی) کے لیے لڑتا ہے تو ان میں سے اللہ کی راہ میں کون لڑتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر مبارک اوپر اٹھایا (کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھے تھے وہ کھڑے کھڑے سوال کر رہا تھا) اور فرمایا : جو کوئی اس نیت سے لڑے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو، اللہ کی راہ میں وہی لڑتا ہے۔ (بخاری کتاب الجہاد، باب من قاتل لتکون کلمۃ اللہ ھی العلیا) اس مضمون کی اور بھی احادیث بخاری اور مسلم میں مذکور ہیں۔ جن کے استقصاء سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ میں شرکت کے لیے عوام الناس میں مندرجہ ذیل پانچ قسم کے محرکات ہی پائے جا سکتے ہیں۔
١۔ بعض لوگ اس لیے لڑتے ہیں کہ لوٹ مار سے مال ہاتھ آئے گا یا اموال غنیمت کے علاوہ دوسرے دنیوی مفادات حاصل ہوں گے۔
٢۔ کچھ اس وجہ سے لڑتے ہیں کہ ان کا نام تاریخ میں ثبت ہوگا۔
٣۔ کچھ اس لیے لڑتے ہیں کہ لوگ ان کے بہادری کے کارنامے فخریہ طور پر بیان کریں گے۔
٤۔ کچھ اپنے کسی خون یا پہلی شکست کا بدلہ لینے کے لیے انتقام کے طور پر لڑتے ہیں۔
٥۔ اور کچھ لوگ اپنے وطن، قوم اور قبیلہ کی حمایت میں لڑتے ہیں۔
اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آج کی متمدن دنیا میں بھی انسان کی ذہنی سطح اس مقام سے ذرہ بھر بھی بلند نہیں ہوسکی۔ صرف انداز و اطوار ہی بدلے ہیں مقاصد کے لحاظ سے انہی مندرجہ بالا وجوہ میں سے کوئی نہ کوئی بات نظر آئے گی۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سب مقاصد کے علاوہ ایک بلند تر مقصد کا پتہ دیا کہ جہاد فی سبیل اللہ صرف وہ کہلا سکتا ہے، جو اعلائے کلمۃ اللہ یعنی اللہ کا بول بالا کرنے کے لیے لڑا جائے، بالفاظ دیگر دنیا سے فتنہ و فساد ختم کر کے اسے احکام و فرامین الٰہی کے سامنے سر جھکا دینے کا نام جہاد فی سبیل اللہ ہے جس میں انسان کی اپنی کسی ذاتی خواہش کو ذرہ بھر بھی دخل نہ ہونا چاہیے۔
جنگ کے متعلق یہ تصور دنیا بھر کے لیے ایک انوکھا تصور تھا۔ حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تربیت یافتہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ بھی ابتداء میں اس تصور جہاد پر بہت متعجب ہوئے۔ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھا :’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! جو شخص مالی فائدے یا ناموری کے لیے جنگ کرتا ہے اسے کیا ملے گا ؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اسے کچھ نہیں ملے گا۔‘‘ سائل اس سوال پر بہت متعجب ہوا اور آ کر دوبارہ یہی سوال کیا، آپ نے دوبارہ وہی جواب دیا۔ اس کا اطمینان اب بھی نہ ہوا، سہ بارہ اور چوتھی بار پلٹ کر آیا اور یہی سوال کرتا رہا : آپ نے اس کے تعجب کی وجہ بھانپ کر فرمایا ’’اللہ کوئی عمل اس وقت تک قبول نہیں کرتا جب تک وہ خاص اس کی خوشنودی اور رضا کے لیے نہ کیا جائے۔‘‘ (نسائی۔ کتاب الجہاد، باب من غزایلتمس الاجر) |
البقرة |
219 |
[٢٩٠] یہ شراب کے متعلق ابتدائی حکم ہے۔ جس میں صرف شراب سے نفرت دلانا مقصود تھا اس کے بعد دوسرے حکم میں یہ بتلایا گیا کہ نشہ کی حالت میں نماز ادا کرنا منع ہے۔ پھر تیسری بار آخری حکم سورۃ مائدہ کی آیت نمبر ٩٠ میں ہے۔ جس میں شراب، جوا اور اس قبیل کی دوسری چیزوں کو قطعی طور پر حرام کیا گیا ہے کہ اگرچہ شراب کے پینے سے وقتی طور پر کچھ سرور حاصل ہوجاتا ہے۔ تاہم اس کے اور جوا کے نقصانات اس کے فائدہ سے بہت زیادہ ہیں۔ مثلاً شراب پینے سے انسان کی عقل مخمور ہوجاتی ہے اور یہی خرابی کئی طرح کے فتنہ و فساد کا سبب بن جاتی ہے۔ اسی طرح جوئے میں مفت مال ملنے سے خوشی حاصل ہوتی ہے مگر یہی چیزیں بعد میں کئی مفاسد، جھگڑوں اور دشمنیوں کا سبب بن جاتی ہے، لہذا ان سے بچنا ہی بہتر ہے۔
[٢٩١] یعنی ضرورت سے زائد سارا مال خرچ کردینا نفلی صدقات کی آخری حد ہے۔ ایسا نہ ہونا چاہیے کہ انسان سارے کا سارا مال اللہ کی راہ میں خرچ کر دے اور بعد میں خود محتاج ہوجائے چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بہترین صدقہ وہ ہے جس کے بعد آدمی محتاج نہ ہوجائے اور ابتدا ان لوگوں سے کرو جو تمہارے زیر کفالت ہیں۔ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب لا صدقہ الا عن ظھر غنی)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک سفر کے دوران فرمایا۔ جس کے پاس زائد سواری ہو وہ اسے دے دے، جس کے پاس سواری نہیں اور جس کے پاس زائد زاد راہ ہے وہ اسے دے دے جس کے پاس زاد راہ نہیں ہے۔ غرض یہ کہ آپ نے مال کی ایک ایک قسم کا ایسے ہی جدا جدا ذکر کیا۔ حتیٰ کہ ہم یہ سمجھنے لگے کہ اپنے زائد مال میں ہمارا کوئی حق نہیں ہے۔ (مسلم، کتاب اللقطۃ، باب الضیافة ونحوھا نیز باب استحباب المواسات بفضول المال)
صدقہ کی آخری حد:۔اور صدقہ کی کم ازکم حد فرضی صدقہ یعنی زکوٰۃ ہے۔ جو کفر اور اسلام کی سرحد پر واقع ہے بالفاظ دیگر زکوٰۃ ادا نہ کرنے والا کافر ہے مسلمان نہیں جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایسے لوگوں سے جہاد کیا تھا اور ان دونوں حدوں کے درمیان وسیع میدان ہے اور اہل خیر جتنی چاہیں نیکیاں کما سکتے ہیں۔
انفرادی حق ملکیت اور اشتراکی نظریہ کی تردید:۔اشتراکی ذہن رکھنے والے حضرات نے ''العفو'' کے مفہوم کو سخت غلط معنی پہنائے ہیں۔ حالانکہ آیت سے صاف واضح ہے کہ سوال کرنے والے خود اپنے اموال کے مالک تھے اور اپنی مرضی سے ہی ان اموال میں تصرف کی قدرت رکھتے تھے۔ لہٰذا جو نظریہ اس آیت سے کشید کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ آیت اس کی قطعاً متحمل نہیں۔ اشتراکی نظریہ کے مطابق ہر چیز کی مالک حکومت ہوتی ہے اور اشتراکی حکومت میں انفرادی ملکیت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر کسی کی ذاتی ملکیت ہی نہ ہو تو وہ پس انداز کیا کرے گا اور خرچ کیا کرے گا اور انفاق کے متعلق سوال کیا پوچھے گا ؟ گویا جس آیت سے اشتراکی نظریہ کشید کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ وہی آیت اس نظریہ کی تردید پر بڑی واضح دلیل ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ کے متعلق سائلین نے سوال اس وقت کیا تھا۔ جب جہاد کے لیے مصارف کی شدید ضرورت تھی، جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے۔ اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے حکومت کو یہ اختیار نہیں دیا کہ لوگوں سے ان کے سب زائد اموال چھین لیے جائیں بلکہ مسلمانوں کی تربیت ہی اس انداز سے کی جا رہی ہے کہ وہ اپنے ارادہ و اختیار کے ساتھ اگر سارے کا سارا زائد مال دے دیں تو یہ سب سے بہتر اور مسلمانوں کے اللہ پر توکل کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ لیکن جو مسلمان اپنا سارا زائد مال نہیں دے سکتے یا نہیں دینا چاہتے ان پر بھی کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی اور اشتراکی نظریہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ جو حالات جنگ تو درکنار عام حالات میں بھی لوگوں کو حق ملکیت سے محروم کردیتا ہے۔
ایسے انفاق فی سبیل اللہ کی واضح مثال جنگ تبوک کے موقعہ پر سامنے آتی ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے زیادہ سے زیادہ مال دینے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ عمر رضی اللہ عنہ اس وقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نسبت مالدار تھے۔ دل میں خیال آیا کہ آج اپنے تمام تر اثاثہ کا نصف حصہ خرچ کر کے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پر سبقت لے جائیں گے۔ چنانچہ جب اپنا مال لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے پوچھا عمر! کیا کچھ لائے؟ عرض کیا کہ اپنے تمام اموال کا نصف حصہ بانٹ کرلے آیا ہوں۔ پھر اس کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھوڑا سا مال لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان سے بھی وہی سوال کیا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ! کیا کچھ لائے؟ عرض کیا سب کچھ ہی لے آیا ہوں۔ گھر میں بس اللہ اور اس کے رسول کا نام ہی باقی ہے۔ یہ جواب سن کر عمر رضی اللہ عنہ کو یقین ہوگیا کہ کثرت مال کے باوجود حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے سبقت نہیں لے جا سکتے۔ (ابو داؤد، کتاب الزکوٰۃ۔ باب الرجل یخرج من مالہ)
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ آپ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا سارے کا سارا مال قبول فرما لیا۔ حالانکہ آپ کا ارشاد ہے کہ’’صدقہ وہ بہتر ہے جس کے بعد آدمی خود محتاج نہ بن جائے۔‘‘(بخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب لاَصَدَقَۃَ الاَّ عَنْ ظَھْرِ غِنًی) تو اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اللہ پر توکل بے مثال تھا جسے آپ پوری طرح سمجھتے تھے۔
اب اس کے مقابلہ میں ایک دوسرا واقعہ بھی ملاحظہ فرمائیے۔ اسی موقع پر ایک شخص ایک انڈا بھر سونا لایا اور کہنے لگا، مجھے یہ کان سے ملا ہے اور یہ صدقہ ہے اور اس کے علاوہ میرے پاس کچھ نہیں، آپ نے اس سے اعراض کیا تو اس شخص نے دائیں ہو کر یہی بات دہرائی تو بھی آپ نے اعراض کیا، پھر بائیں طرف، پھر پیچھے ہو کر یہی بات دہراتا رہا۔ آخر آپ نے وہ سونا پکڑا پھر اسے ہی دے دیا اور فرمایا۔ ’’یہ تمہارے لیے ہے ہمیں اس کی ضرورت نہیں۔‘‘ جب وہ چلا گیا تو آپ نے فرمایا : تم میں سے ایک شخض آ کر کہتا ہے کہ یہ صدقہ ہے پھر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے لگتا ہے اس موقعہ پر بھی آپ نے یہ ارشاد فرمایا کہ ’’بہترین صدقہ وہ ہے جس کے بعد آدمی محتاج نہ ہوجائے۔‘‘ (ابو داؤد، کتاب الزکوٰۃ، باب الرجل یخرج من مالہ) اس شخص کا صدقہ قبول نہ کرنے کی وجہ بھی اس حدیث میں مذکور ہے۔ یہ سب واقعات سامنے رکھ کر بتلایئے کہ کیا قل العفو سے اشتراکی نظریہ کشید کرنے کی گنجائش نظر آتی ہے؟
[٢٩٢] یعنی تمہاری دنیوی ضروریات حقیقتاً کیا ہیں؟ اور آخرت میں صدقہ کا جو اجر عظیم تمہیں ملے گا۔ ان دونوں باتوں کا لحاظ رکھ کر تمہیں سوچنا چاہیے۔ |
البقرة |
220 |
[٢٩٣]یتیموں کی تربیت اورخیرخواہی :۔ اس سے پیشتر یتیموں کے بارے میں دو حکم نازل ہوچکے تھے۔ ایک یہ کہ ’’یتیموں کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ۔‘‘ (٦: ١٥٢) اور دوسرا یہ کہ ’’جو لوگ یتیموں کا مال کھاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں۔‘‘ (٤ : ١٠) لہٰذا مسلمان یتیموں کے بارے میں سخت محتاط ہوگئے اور ان کے مال اپنے مال سے بالکل الگ کردیئے کہ اسی سے ان کا کھانا پینا اور دوسری ضروریات پوری کی جائیں۔ مگر اس طرح بھی یتیموں کا بعض صورتوں میں نقصان ہوجاتا تھا۔ مثلاً ان کے لیے کھانا پکایا، جو کھانا بچ جاتا وہ ضائع ہوجاتا، ایسی ہی صورت حال سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا گیا۔ جس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ اصل میں تو یتیموں کی اصلاح اور بھلائی مقصود ہے جس صورت میں وہ میسر آئے وہ تم اختیار کرسکتے ہو۔ اگر تم ان کا مال اپنے مال میں ملانا مناسب سمجھتے ہو تو بھی کوئی حرج نہیں، آخر وہ تمہارے ہی بھائی ہیں۔ یعنی تم ان کا مال ملا بھی سکتے ہو، الگ بھی کرسکتے ہو، کچھ مال ملا لو یا بعض حالتوں میں ان کا مال الگ کر دو، ہر صورت درست ہے۔ بشرطیکہ تمہاری اپنی نیت بخیر ہو اور اصل مقصود یتیم کی بھلائی ہو اور اللہ اسے خوب جانتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو کئی طرح کی پابندیاں عائد کر کے تم پر سختی کرسکتا تھا۔ یہ اس کی حکمت اور رحمت ہے کہ اس نے تمہیں ہر طرح کی صورت حال کی اجازت دے دی ہے۔ |
البقرة |
221 |
[٢٩٤] مشرکہ سےنکاح کیوں ممنوع ہے؟کیونکہ مرد اور عورت کے درمیان نکاح کا تعلق محض شہوانی تعلق ہی نہیں جیسا کہ بادی النظر میں معلوم ہوتا ہے بلکہ اس تعلق کے اثرات بڑے دور رس ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کے دماغ اخلاق اور تمدن پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ مثلاً ایک مومن ایک مشرکہ سے نکاح کرتا ہے تو اگر وہ مومن اپنے ایمان میں پختہ، علم میں بیوی سے فائق تر اور عزم کا پکا ہوگا تو اس صورت میں وہ اپنی بیوی کی اور کسی حد تک اپنے سسرال والوں کی اصلاح کرسکتا ہے۔ ورنہ عموماً یوں ہوتا ہے کہ مرد مغلوب اور عورت اس کے افکار پر غالب آ جاتی ہے اور اگر دونوں اپنی اپنی جگہ پکے ہوں تو ان میں ہر وقت معرکہ آرائی ہوتی رہے گی اور اگر دونوں ڈھیلے ہوں تو وہ دونوں شرک اور توحید کے درمیان سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہوں گے اور یہ صورت اسلامی نقطہ نظر سے قطعاً گوارا نہیں اور ایسی صورت کو بھی شرک ہی قرار دیا گیا ہے اور اگر مرد مشرک اور بیوی موحد ہو تو شرک کے خطرات مزید بڑھ سکتے ہیں۔ لہذا نقصان کے احتمالات زیادہ ہونے کی بنا پر ایسے نکاح کو ناجائز قرار دیا گیا اور فرمایا کہ ظاہری کمال و محاسن دیکھنے کی بجائے صرف ایمان ہی کو شرط نکاح قرار دیا جائے ضمناً اس سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ نکاح کے بعد کوئی ایک فریق مشرک ہوجائے تو سابقہ نکاح از خود ٹوٹ جائے گا۔ |
البقرة |
222 |
[٢٩٥] اذی کا معنی تکلیف، بیماری اور گندگی بھی ہے۔ چنانچہ طبی حیثیت سے حیض کے دوران عورت کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ صحت کی نسبت بیماری سے زیادہ قریب ہوتی ہے۔ حیض کی مدت ہر عورت کے جسم اور اس کے مزاج کے لحاظ سے کم و بیش ہوتی ہے جو عموماً کم ازکم تین دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن تک ہو سکتی ہے اور اپنی اپنی عادت (مدت حیض) کا ہر عورت کو علم ہوتا ہے۔
[٢٩٦] ''الگ رہو'' اور '' قریب نہ جاؤ۔'' ان دونوں سے مراد مجامعت کی ممانعت ہے۔ یہود و نصاریٰ دونوں اس معاملہ میں افراط و تفریط کا شکار تھے۔ یہود تو دوران حیض ایسی عورتوں کو الگ مکان میں رکھتے اور ان کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا بھی نہ کھاتے تھے اور نصاریٰ دوران حیض مجامعت سے بھی پرہیز نہ کرتے تھے۔ چنانچہ مسلمانوں نے آپ سے اس بارے میں پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اس آیت کی رو سے خاوند اور بیوی دونوں اکٹھے مل کر رہ سکتے ہیں اکٹھا کھانا کھا سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ میاں اپنی بیوی کا بوسہ لے سکتا ہے، اس کے گلے لگ سکتا ہے اور اس سے چمٹ بھی سکتا ہے (اور یہی مباشرت کا لغوی معنی ہے) اور قرآن میں جو کسی دوسرے مقام پر (باشروھن) مجامعت کے معنوں میں آیا ہے تو وہ کنائی معنی ہے لغوی نہیں بس صرف مجامعت نہیں کرسکتا۔ حیض کے دوران عورت جو کام نہیں کرسکتی، وہ درج ذیل ہیں۔
١۔حیض میں پابندیاں :۔ وہ نماز نہیں پڑھ سکتی اور حیض کے دوران اسے نماز معاف ہے، ان کی قضا اس پر واجب نہیں۔
٢۔ وہ روزے بھی نہیں رکھ سکتی۔ لیکن روزے اسے معاف نہیں بلکہ بعد میں ان کی قضا دینا واجب ہے۔
٣۔ وہ ماسوائے طواف کعبہ کے حج کے باقی سب ارکان بجا لا سکتی ہے اور واجب طواف کعبہ کے لیے اسے اس وقت تک رکنا پڑے گا جب تک پاک نہ ہو لے۔
٤۔ وہ کعبہ میں یا کسی بھی مسجد میں داخل نہیں ہو سکتی۔
٥۔ وہ قرآن کو چھو نہیں سکتی۔ البتہ زبانی قرآن کریم کی تلاوت کی اسے اکثر علماء کے نزدیک اجازت ہے۔
٦۔ استحاضہ حیض سے بالکل الگ چیز ہے۔ استحاضہ بیماری ہے جبکہ حیض بیماری نہیں بلکہ عورت کی عادت میں شامل ہے۔ لہذا استحاضہ میں وہ تمام پابندیاں اٹھ جاتی ہیں۔ جو حیض کی صورت میں تھیں، حتیٰ کہ اس سے صحبت بھی کی جا سکتی ہے۔
[٢٩٧] یہاں حکم سے مراد کوئی ایسا شرعی حکم نہیں جس کا بجا لانا ضروری ہو، بلکہ وہ طبعی حکم مراد ہے جو ہر جاندار کی فطرت میں ودیعت کردیا گیا ہے اور جس سے ہر متنفس بالطبع واقف ہوتا ہے۔ اس کے خلاف کرے یعنی دبر میں جماع کرے تو وہ مجرم ہوگا۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے۔ ﴿ فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَاۗءَ ذٰلِکَ فَاُولٰۗیِٕکَ ہُمُ الْعٰدُوْنَ﴾ ( المؤمنون :7) |
البقرة |
223 |
[٢٩٨] اس آیت کے شان نزول میں دو طرح کی احادیث آئی ہیں۔ ایک یہ کہ یہودی کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس اس کے پیچھے سے آئے تو بچہ بھینگا ہوتا ہے (ان کے اس خیال کی تردید میں) یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری، کتاب التفسیر زیر آیت مذکورہ- مسلم، کتاب النکاح، باب جواز جماعہ امراتہ فی قبلھا من قدامھا و من ورائھا من غیر تعرض للدبر)
دوسری یہ کہ عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ کر کہنے لگے کہ : ’’میں ہلاک ہو گیا‘‘ آپ نے پوچھا : ’’تجھے کس چیز نے ہلاک کیا ؟‘‘ کہنے لگے: میں نے آج اپنی سواری پھیر لی۔ آپ نے کچھ جواب نہ دیا تاآنکہ آپ پر یہ آیت نازل ہوئی (پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا) ’’ آگے سے صحبت کرو یا پیچھے سے مگر دبر میں یا حیض کی حالت میں مجامعت نہ کرو۔‘‘ (ترمذی، ابو اب التفسیر، زیر آیت مذکورہ) گویا اس آیت میں بیوی کو کھیتی سے تشبیہ دے کر یہ واضح کردیا کہ نطفہ جو بیج کی طرح ہے صرف سامنے (فرج) ہی میں ڈالا جائے۔ خواہ کسی بھی صورت میں ڈالا جائے، لیٹ کر، بیٹھ کر، پیچھے سے بہرحال فرج ہی میں ڈالا جائے اور پیداوار یعنی اولاد حاصل کرنے کی غرض سے ڈالا جائے۔
[٢٩٩]مجامعت کامقصد:۔ یعنی اولاد کی خاطر اور اپنی نسل برقرار رکھنے کے لیے یہ کام کرو۔ تاکہ تمہارے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد تمہاری جگہ پر دین کا کام کرنے والے موجود ہوں اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اپنی اولاد کی صحیح طور پر تربیت کرو انہیں علم سکھلاؤ اور دیندار بناؤ ان کے اخلاق سنوارو اور اس کے عوض آخرت میں اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب کی امید رکھو۔ |
البقرة |
224 |
[٣٠٠]غلط کام کی قسم توڑنا اورا س کاکفارہ:۔ یعنی کوئی اچھا کام نہ کرنے پر اللہ کی قسم کھا کر اللہ کے نام کو بدنام نہ کرو جیسے یہ قسم کہ میں اپنے ماں باپ سے نہ بولوں گا یا بیوی سے اچھا سلوک نہ کروں گا یا فلاں کو صدقہ نہ دوں گا یا یہ کہ اب میں کسی کے درمیان مصالحت نہ کراؤں گا۔ یعنی برائی کے کاموں میں اللہ کے نام کا استعمال مت کرو اور اگر کسی نے یہ کام کیا ہو تو اسے چاہیے کہ قسم توڑ ڈالے اور اس کا کفارہ ادا کرے۔ چنانچہ آپ نے حضرت عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ اگر تو کسی بات کی قسم کھائے پھر اس کے خلاف کرنا بہتر سمجھے تو اپنی قسم کا کفارہ ادا کر اور جس کام کو بہتر سمجھے وہی کر۔ (بخاری، کتاب الایمان والنذور) |
البقرة |
225 |
[٣٠١] اور اگر کفارہ ادا کر دے تو اس صورت میں بھی اللہ بخشنے والا ہے اور بلا ارادہ قسمیں کھانے پر مواخذہ کرنے پر بھی، قسم کا کفارہ ایک دوسرے مقام پر مذکور ہے کہ دس مسکینوں کو کھانا کھلائے یا انہیں پوشاک مہیا کرے یا غلام آزاد کرے یا تین دن کے روزے رکھے۔ (٨٩؍٥) |
البقرة |
226 |
[٣٠٢] مطلقہ کی مدت:۔ایلاء (اپنی بیویوں سے تعلق نہ رکھنے کی قسم کھانا) کی مدت چار ماہ ہے۔ مثلاً اگر کسی نے تین ماہ تعلق نہ رکھنے کی قسم کھائی تو یہ شرعاً ایلاء نہ ہوگا۔ اب آگے اس کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ تین ماہ کے اندر صحبت کرلی، تو اب اس پر قسم کا کفارہ دینا ہوگا اور اگر تین ماہ کے بعد کی تو نہ کفارہ ہے نہ طلاق اور چار ماہ گزر جائیں اور مرد رجوع نہ کرے تو طلاق واقع ہوجائے گی، اور بعض فقہاء کے نزدیک یہ معاملہ عدالت میں جائے گا اور طلاق عدالت کے ذریعہ ہوگی۔ (مزید تفصیل سورۃ مجادلہ میں دیکھئے) |
البقرة |
227 |
|
البقرة |
228 |
[٣٠٣] یہ حکم ان عورتوں کے لیے ہے جو حاملہ نہ ہوں کیونکہ حاملہ کی عدت وضع حمل تک ہے اور جس عورت سے اس کے خاوند نے ابھی تک صحبت ہی نہ کی، اس پر کوئی عدت نہیں۔ عدت کے دوران نان و نفقہ اور رہائش خاوند کے ذمہ ہوتا ہے اور اسے اپنے خاوند کے ہاں ہی عدت گزارنا چاہیے۔ کیونکہ اس دوران خاوند اس سے رجوع کا حق رکھتا ہے اور قانوناً وہ اس کی بیوی ہی ہوتی ہے۔
قروء، قرء کی جمع ہے اور قرء کا معنی لغوی لحاظ سے حیض بھی ہے اور طہر بھی۔ یعنی یہ لفظ لغت ذوی الاضداد سے ہے۔ احناف اس سے تین حیض مراد لیتے ہیں۔ جبکہ شوافع اور مالکیہ طہر مراد لیتے ہیں۔ اس فرق کو درج ذیل مثال سے سمجھئے۔
طلاق دینے کا صحیح اور مسنون طریقہ یہ ہے کہ عورت جب حیض سے فارغ ہو تو اسے طہر کے شروع میں ہی بغیر مقاربت کئے طلاق دے دی جائے اور پوری مدت گزر جانے دی جائے۔ عدت کے بعد عورت بائن ہوجائے گی۔ اب فرض کیجئے کہ کسی عورت ہندہ نامی کی عادت یہ ہے کہ اسے ہر قمری مہینہ کے ابتدائی تین دن ماہواری آتی ہے۔ اس کے خاوند نے اسے حیض سے فراغت کے بعد ٤ محرم کو طلاق دے دی۔ اب احناف کے نزدیک اس کی عدت تین حیض ہے یعنی ٣ ربیع الثانی کی شام کو جب وہ حیض سے فارغ ہوگی، تب اس کی عدت ختم ہوگی۔ جبکہ شوافع اور مالکیہ کے نزدیک تیسرا حیض شروع ہونے تک اس کے تین طہر پورے ہوچکے ہوں گے۔ یعنی یکم ربیع الثانی کی صبح کو حیض شروع ہونے پر اس کی عدت ختم ہوچکی ہوگی۔ اس طرح قروء کی مختلف تعبیروں سے تین دن کا فرق پڑگیا۔ اور ہم نے جو قروء کا ترجمہ حیض کیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے فاطمہ بنت حبیش سے فرمایا کہ دعی الصلوۃ ایام اقرائک یعنی ایام حیض میں نماز چھوڑ دو۔ علاوہ ازیں خلفائے اربعہ، بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم کبار اور تابعین اس بات کے قائل ہیں کہ قروء کا معنی حیض ہے۔
[٣٠٤]حمل میں غلط بیانی :۔ یعنی انہیں چاہیے کہ وہ صاف صاف بتلا دیں کہ انہیں حیض آتا ہے یا وہ حاملہ ہیں جیسی بھی صورت ہو، مثلاً عورت حاملہ تھی مگر اس نے خاوند کو نہ بتلایا، اگر بتلا دیتی تو شاید خاوند طلاق نہ دیتا، یا عورت کو تیسرا حیض آ چکا مگر اس نے خاوند کو نہ بتلایا تاکہ اس سے نان نفقہ وصول کرتی رہے۔ غرضیکہ جھوٹ سے کئی صورتیں پیش آ سکتی ہیں۔ لہذا انہیں چاہیے کہ اللہ سے ڈر کر صحیح صحیح بات بتلا دیا کریں۔
[٣٠٥]مردکوعورت پر فوقیت:۔ یعنی عدت کے اندر تو خاوند کو رجوع کا حق حاصل ہے لیکن عدت گزر جانے کے بعد بھی (اگر ایک یا دوسری طلاق دے دی ہو تیسری نہ دی ہو) تو اگر میاں بیوی آپس میں مل بیٹھنے پر راضی ہوں تو وہی زیادہ حقدار ہیں کہ از سر نو نکاح کرا لیں۔ جیسا اس سورۃ کی آیت نمبر ٢٣٢ سے واضح ہے۔
[٣٠٦] مردوں اور عورتوں کے حقوق کی تفصیل طویل ہے۔ البتہ مرد کو عورت پر فضیلت کا جو درجہ حاصل ہے وہ یہ ہے کہ چونکہ مرد ہی عورتوں کے معاملات کے ذمہ دار اور پورے گھر کے منتظم ہوتے ہیں اور خرچ و اخراجات بھی وہی برداشت کرتے ہیں۔ لہذا طلاق اور رجوع کا حق صرف مرد کو دیا گیا ہے۔ |
البقرة |
229 |
[٣٠٧] لاتعدادطلاقوں کاسدباب:۔دور جاہلیت میں عرب میں ایک دستور یہ بھی تھا کہ مرد کو اپنی بیوی کو لاتعداد طلاقیں دینے کا حق حاصل تھا۔ ایک دفعہ اگر مرد بگڑ بیٹھتا، اور اپنی بیوی کو تنگ اور پریشان کرنے پر تل جاتا تو اس کی صورت یہ تھی کہ طلاق دی اور عدت کے اندر رجوع کرلیا پھر طلاق دی پھر رجوع کرلیا اور یہ سلسلہ چلتا ہی رہتا، نہ وہ عورت کو اچھی طرح اپنے پاس رکھتا اور نہ ہی اسے آزاد کرتا کہ وہ کسی دوسرے سے نکاح کرسکے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرد اپنی عورت کو جتنی بھی طلاقیں دینا چاہتا، دیئے جاتا اور عدت کے اندر رجوع کرلیتا۔ اگرچہ وہ مرد سو بار یا اس سے زیادہ طلاقیں دیتا جائے۔ یہاں تک کہ ایک (انصاریٰ) مرد نے اپنی بیوی سے کہا : اللہ کی قسم! میں نہ تجھ کو طلاق دوں گا کہ تو مجھ سے جدا ہو سکے اور نہ ہی تجھے بساؤں گا۔ اس عورت نے پوچھا : وہ کیسے؟ وہ کہنے لگا، میں تجھے طلاق دوں گا اور جب تیری عدت گزرنے کے قریب ہوگی تو رجوع کرلوں گا۔ یہ جواب سن کر وہ عورت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئی اور اپنا یہ دکھڑا سنایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ خاموش رہیں تاآنکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے آپ کو یہ ماجرا سنایا تو آپ بھی خاموش رہے۔ حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہوئی۔ ﴿اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ ﴾..... (ترمذی۔ ابو اب الطلاق، اللعان)
طلاق کا سنت طریقہ :۔ اس آیت سے اسی معاشرتی برائی کا سدباب کیا گیا اور مرد کے لیے صرف دو بار طلاق دینے اور اس کے رجوع کرنے کا حق رہنے دیا گیا۔ طلاق دینے کا مسنون اور سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ مرد حالت طہر میں عورت کو ایک طلاق دے اور پوری عدت گزر جانے دے۔ اس صورت کو فقہی اصطلاح میں طلاق احسن کہتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ایک طہر میں ایک طلاق دے اور دوسرے میں دوسری اور تیسرے میں تیسری دے دے اس صورت کو حسن کہتے ہیں۔ پہلی صورت کا فائدہ یہ ہے کہ اگر عدت گزر جانے کے بعد بھی میاں بیوی آپس میں مل بیٹھنے پر رضامند ہوں تو تجدید نکاح سے یہ صورت ممکن ہے
ایک مجلس میں تین طلاقیں:۔ اور تیسری صورت یہ ہے کہ یکبارگی تینوں طلاقیں دے دے۔ یہ صورت طلاق بدعی کہلاتی ہے اور ایسا کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ (ہدایہ، کتاب الطلاق) اگرچہ بعض ائمہ فقہاء کے مطابق اس صورت میں بھی تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ مگر سنت کی رو سے یہ ایک ہی طلاق واقع ہوگی جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔
(١) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں تک یک بارگی تین طلاق کو ایک ہی طلاق شمار کیا جاتا تھا۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : لوگوں نے ایک ایسے کام میں جلدی کرنا شروع کردی جس میں ان کے لیے مہلت اور نرمی تھی تو اب ہم کیوں نہ ان پر تین طلاقیں ہی نافذ کردیں۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایسا قانون نافذ کردیا۔ (مسلم، کتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث)
(٢) ابو الصہباء نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا : کیا آپ جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں بھی تین سال تک تین طلاقوں کو ایک بنا دیا جاتا تھا ؟ تو حضرت عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا۔ ’’ہاں۔‘‘ (بحوالہ، ایضاً)
(٣) ابو الصہباء نے حضرت عباس سے کہا : ایک مسئلہ تو بتلائیے کہ رسول اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں تین طلاقیں ایک ہی شمار نہ ہوتی تھیں؟ حضرت ابن عباس نے جواب دیا، ہاں ایسا ہی تھا۔ پھر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا تو اکٹھی تین طلاق دینے کا رواج عام ہوگیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان پر تین ہی نافذ کردیں۔ (حوالہ ایضاً)
مندرجہ بالا تین احادیث اگرچہ الگ الگ ہیں۔ مگر مضمون تقریباً ایک ہی جیسا ہے اور ان احادیث سے درج ذیل امور کا پتہ چلتا ہے۔
١۔ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، دور صدیقی رضی اللہ عنہ اور دور فاروقی رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دو تین سالوں تک لوگ یکبارگی تین طلاق دینے کی بدعات میں مبتلا تھے اور یہی عادت دور جاہلیت سے متواتر چلی آ رہی تھی جو دور نبوی میں بھی کلیتاً ختم نہ ہوئی تھی۔ چنانچہ دور نبوی میں ایک شخص نے یکبارگی تین طلاقیں دیں تو آپ غصہ سے کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ : میری زندگی میں ہی کتاب اللہ سے یوں کھیلا جا رہا ہے؟ آپ کی یہ کیفیت دیکھ کر ایک شخص نے اجازت چاہی کہ : میں اس مجرم کو قتل نہ کر دوں؟ تو آپ نے ازراہ شفقت اس مجرم کو قتل کرنے کی اجازت نہ دی، (نسائی، کتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث المتفرقہ- ابو داؤد، کتاب الطلاق باب نسخ المراجعہ بعد التطلیقات الثلاث) اس واقعہ سے یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاق دینا شرعی نقطہ نگاہ سے کتنا بڑا گناہ اور مکروہ فعل ہے۔
٢۔ لوگوں کی اس بدعادت پر انہیں زجر و توبیخ کی جاتی تھی۔ کیونکہ یہ طریقہ کتاب و سنت کے خلاف تھا تاہم ١٥ ھ تک عملاً یکبارگی تین طلاق کو ایک ہی قرار دیا جاتا رہا۔ اور لوگوں کی معصیت اور حماقت کے باوجود ان سے حق رجوع کو سلب نہیں کیا جاتا تھا۔
٣۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے الفاظ فَلَوْاَمْضَیْنَاہُ عَلَیْھِمْ اس بات پر واضح دلیل ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ تعزیر و تادیب کے لیے تھا تاکہ لوگ اس بدعادت سے باز آ جائیں۔ یہ فیصلہ آپ نے سرکاری اعلان کے ذریعہ نافذ کیا۔ گویا یہ ایک وقتی اور عارضی قسم کا آرڈیننس تھا۔ کتاب و سنت کی طرح اس کی حیثیت دائمی نہ تھی۔
٤۔ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے کوئی شرعی بنیاد موجود ہوتی تو آپ یقیناً استنباط کر کے لوگوں کو مطلع فرماتے، جیسا کہ عراق کی زمینوں کو قومی تحویل میں لیتے وقت کیا تھا اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ کے استنباط کو درست تسلیم کر کے آپ سے پورا پورا اتفاق کرلیا تھا، اگر آپ کسی آیت یا حدیث سے استنباط کر کے اور لوگوں کو اس سے مطلع کر کے یہ فیصلہ نافذ کرتے تو پھر واقعی اس فیصلہ کی حیثیت شرعی اور دائمی بن سکتی تھی۔
کیا ایک مجلس میں تین طلاق کا مسئلہ اجماعی ہے؟یہی وہ وجوہ ہیں جن کی بنا پر آج تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فیصلہ پر امت کا اجماع نہ ہوسکا اور جو لوگ اجماع کا دعویٰ کرتے ہیں ان کا دعویٰ باطل ہے۔ کیونکہ تطلیق ثلاثہ کے بارے میں مندرجہ ذیل چار قسم کے گروہ پائے جاتے ہیں۔
١۔ پہلا گروہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فیصلہ کو وقتی اور تعزیری سمجھتا ہے اور سنت نبوی کو ہی ہر زمانہ کے لیے معمول جانتا ہے۔ ان کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہی شمار ہوتی ہے اس گروہ میں ظاہری، اہل حدیث اور شیعہ شامل ہیں (نیز قادیانی جنہیں غیر مسلم قرار دیا جا چکا ہے وہ بھی ایک ہی طلاق کے قائل ہیں) علاوہ ازیں ائمہ اربعہ کے مقلدین میں سے بعض وسیع الظرف علماء بھی شامل ہیں اور بعض اشد ضرورت کے تحت اس کے قائل ہیں۔
٢۔ دوسرا گروہ مقلد حضرات کا ہے جن کی اکثریت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فیصلہ کو مشروع اور دائمی سمجھتی ہے۔ البتہ اس کام کو گناہ کبیرہ سمجھتی ہے۔
٣۔ تیسرا گروہ دوسری انتہا کو چلا گیا ہے۔ ان کے نزدیک ایک مجلس میں ایک طلاق واقع ہونا تو جائز ہے۔ لیکن اگر دو یا تین یا زیادہ طلاقیں دی جائیں تو ایک بھی واقع نہیں ہوتی وہ کہتے ہیں کہ ایک وقت میں ایک سے زیادہ طلاق دینا کار معصیت اور خلاف سنت یعنی بدعت ہے۔ جس کے متعلق ارشاد نبوی ہے
مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ھَذٰا مَالَیْسَ مِنْہُ فَھُوْرَدٌ (متفق علیہ) جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی بات پیدا کی جو اس میں نہ تھی تو وہ بات مردود ہے۔ لہذا ایسی بدعی طلاقیں سب مردود ہیں، لغو ہیں، باطل ہیں۔ لہٰذا ایک طلاق بھی واقع نہ ہوگی۔ اس گروہ میں شیعہ حضرات میں سے کچھ لوگ شامل ہیں۔ نیز محمد بن ارطاۃ اور محمد بن مقاتل (حنفی) بھی اس کے قائل ہیں (شرح مسلم للنووی، ج ١۔ ص ٤٧٠)
٤۔ اور ایک قلیل تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو ایک مجلس کی تین طلاق کو غیر مدخولہ کے لیے ایک ہی شمار کرتے ہیں اور مدخولہ کے لیے تین۔ (زادالمعادج ٤ ص ٦٧)
غور فرمائیے کہ جس مسئلہ میں اتنا اختلاف ہو کہ اس میں چار گروہ پائے جاتے ہوں اسے ’’اجماعی‘‘ کہا جا سکتا ہے؟
ایک مجلس میں ایک سے زیادہ طلاقیں دینے کی بدعادت دور جاہلیہ کی یادگار ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد پھر عود کر آئی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس عادت کو چھڑانے کے لیے تین طرح کے اقدامات کئے تھے۔
١۔ وہ ایک مجلس میں تین طلاق دینے والوں کو بدنی سزا بھی دیتے تھے۔
٢۔ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین شمار کرنا بھی حقیقتاً ایک سزا تھی۔ جسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نافذ کردیا۔
٣۔ اور جب لوگوں نے اپنی عادت پر کنٹرول کرنے کی بجائے حلالہ کی باتیں شروع کردیں تو آپ نے حلالہ نکالنے اور نکلوانے والے دونوں کے لیے رجم کی سزا مقرر کردی۔ اس طرح یہ فتنہ کچھ مدت کے لیے دب گیا۔ گویا دور فاروقی میں اس معصیت کی اصلاح اس صورت میں ہوئی کہ حلالہ کا دروازہ سختی سے بند کردیا گیا تھا۔
مگر آج المیہ یہ ہے کہ مقلد حضرات ہوں یا غیر مقلد کوئی بھی اکٹھی تین طلاق دینے کو جرم سمجھتا ہی نہیں۔ جہالت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ عوام تو درکنار، خواص بھی یہ سمجھتے ہیں کہ جدائی کے لیے تین طلاق دینا ضروری ہیں۔ حالانکہ طلاق کی بہترین اور مسنون صورت یہی ہے کہ صرف ایک ہی طلاق دے کر عدت گزر جانے دی جائے۔ تاکہ عدت گزر جانے کے بعد بھی اگر زوجین مل بیٹھنا چاہیں تو تجدید نکاح سے مسئلہ حل ہوجائے۔ تاہم اگر آپس میں نفرت اور بگاڑ اتنا شدید پیدا ہوچکا ہو کہ مرد تازیست اپنی بیوی کو رشتہ زوجیت میں نہ رکھنے کا فیصلہ کرچکا ہو اور اپنی حسرت اور غصہ مٹانے کے لیے تین کا عدد پورا کر کے طلاق مغلظہ ہی دینا چاہتا ہو تو پھر اسے یوں کرنا چاہیے کہ ہر طہر میں ایک ایک طلاق دیتا جائے، تیسری طلاق کے بعد ان کے آئندہ ملاپ کی ﴿حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ ﴾کے علاوہ کوئی صورت باقی نہ رہے گی۔
آج کے دور میں ایک مجلس کی تین طلاق کو کار معصیت یا گناہ کبیرہ نہ سمجھنے کے لحاظ سے مقلد اور غیر مقلد دونوں حضرات ایک جیسے ہیں۔ کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ ایسے مجرم کو کیا سزا دی جانی چاہیے۔ تاکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ سنت بھی زندہ ہو۔ البتہ یہ فرق ضرور ہے کہ اس جرم کے بعد اہل حدیث تو ایسے مجرم کو سنت نبوی کی راہ دکھلاتے ہیں۔ جبکہ بعض حنفی حضرات حلالہ جیسے کار حرام کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔
بذریعہ ڈاک بیوی کو تین طلاقیں لکھ بھیجنا:۔ آج کل جو یہ دستور چل نکلا ہے کہ پہلے بیوی کو میکے بھیج دیتے ہیں بعد میں کسی وقت بذریعہ چٹھی تین طلاق تحریری لکھ کر ڈاک میں بھیج دیتے ہیں یہ نہایت ہی غلط طریقہ ہے اور اس کی وجوہ درج ذیل ہیں:
١۔ ایک وقت کی تین طلاق کار معصیت گناہ کبیرہ ہے۔ بدعت ہے۔ جیسا کہ مندرجہ بالا تصریحات سے واضح ہے۔
٢۔ دوران عدت مطلقہ کا نان نفقہ اور رہائش خاوند کے ذمہ ہوتی ہے اور مطلقہ اس کی بیوی ہی ہوتی ہے جس سے وہ رجوع کا حق رکھتا ہے جسے وہ ضائع کردیتا ہے۔ اس دوران وہ نان نفقہ کے اس بار سے بھی سبکدوش رہنا چاہتا ہے جو شرعاً اس پر لازم ہے۔
٣۔ عدت کے دوران عورت کو اپنے پاس رکھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ شاید حالات میں ساز گاری پیدا ہوجائے۔ منشائے الٰہی یہ ہے کہ رشتہ ازدواج میں پائیداری بدستور قائم رہے۔ اگرچہ ناگزیر حالات میں طلاق کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :'' اَبْغَضُ الْحَلاَلِ اِلَی اللّٰہِ الطَّلاَقُ'' (ابو داؤد، کتاب الطلاق) یعنی تمام حلال اور جائز چیزوں میں سے اللہ کے ہاں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔ لہٰذا اللہ کی خوشنودی اسی بات میں ہے کہ طلاق دینے کے بعد عدت کے دوران مرد رجوع کرلے، اور وہ زبردستی بھی کرنے کا حق رکھتا ہے۔ یعنی اگر عورت رضامند نہ ہو تو بھی وہ ایسا کرنے کا حق رکھتا ہے جس سے علیحدگی کی راہ بند ہو اور مصالحت کی راہ کھل جائے۔
٤۔ عدت گزر جانے کے بعد عورت کی رخصتی کے وقت دو عادل گواہوں کی موجودگی بھی ضروری ہے (٦٥؍٢) اور بذریعہ خط طلاقیں بھیج دینے سے اس حکم پر بھی عمل نہیں ہو سکتا۔ گواہوں کی اہمیت مصلحت کے لیے دیکھئے سورۃ طلاق کے حواشی۔
اب یہ سوال ہے کہ آج کے دور میں بیک وقت تین طلاق دینے والے مجرم کی سزا کیا ہونی چاہیے، اگرچہ یہ مسئلہ علمائے کرام اور مفتیان عظام کی توجہ کا مستحق ہے۔ تاہم میرے خیال میں اس کی سزا ظہار کا کفارہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ یہ دونوں کام ﴿مُنْکَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُوْرًا ﴾ (ناپسندیدہ اور انہونی بات) کے ضمن میں آتے ہیں اور کئی وجوہ سے ان میں مماثلت ہے۔ ظہار کا کفارہ ایک غلام کو آزاد کرنا یا دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنا یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔ آج غلامی کا دور تو ختم ہوچکا۔ البتہ باقی دو سزاؤں میں سے کوئی ایک مفتی حضرات ایسے مجرموں کے لیے تجویز کرسکتے ہیں جب تک ان کے لیے کوئی سزا تجویز نہ کی جائے ان کو اپنے جرم کا کبھی احساس تک نہ ہو سکے گا۔ اس طرح ہی اس رسم بد اور بدعت کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے اور علمائے کرام کو ایسی سزا تجویز کرنا اس لحاظ سے بھی ضروری ہے کہ خاموشی اور بے حسی کے ذریعہ کسی معصیت کے کام کو قائم رکھنا یا رہنے دینا بھی کار معصیت ہے۔ لہٰذا ایسے مجرم کو سزا بھی دینا چاہیے اور طلاق بھی ایک ہی شمار کرنا چاہیے، تاکہ سنت نبوی پر بھی عمل ہوجائے اور سنت فاروقی پر بھی۔
[٣٠٨] یعنی اسے اپنی حیثیت کے مطابق کچھ دے دلا کر رخصت کیا جائے، خالی ہاتھ یا دھکے دے کر گھر سے ہرگز نہ نکالا جائے۔
[٣٠٩]مطلقہ سے دی ہوئی چیز واپس لیناگناہ ہے:۔ یعنی حق مہر بھی اور اس کے علاوہ دوسری اشیاء (مثلاً زیور کپڑے وغیرہ) جو خاوند اپنی بیوی کو بطور ہدیہ دے چکا ہو۔ کسی کو ہدیہ دے کر واپس لینا عام حالات میں بھی جائز نہیں اور ایسے ہدیہ واپس لینے والے کے اس فعل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کتے سے تشبیہ دی ہے جو قے کر کے پھر اسے چاٹ لے۔ (بخاری، کتاب الھبۃ، باب ھبة الرجل لامراتہ) طلاق دینے والے شوہر کے لیے یہ اور بھی شرمناک بات ہے کہ کسی زمانہ میں اس نے جو اپنی بیوی کو ہدیہ دیا تھا۔ رخصت کرتے وقت بجائے مزید کچھ دینے کے اس سے پہلے تحائف کی بھی واپسی کا مطالبہ کرے۔
[٣١٠] زوجین کا باہمی سمجھوتہ :۔اگر میاں بیوی میں ناچاقی کی صورت پیدا ہوجائے یا ہونے کا خدشہ ہو اور وہ سمجھیں کہ شاید حسن معاشرت کے متعلق ہم اللہ کے احکام بجا نہ لا سکیں گے اور مرد کی طرف سے ادائے حقوق زوجہ میں قصور بھی نہ ہو۔ تو عورت اپنے کسی حق سے دستبردار ہو کر یا اپنی طرف سے کچھ مال دے کر خواہ وہ خاوند ہی کا دیا ہو۔ اسے طلاق نہ دینے پر رضامند کرلے تو یہ صورت بھی جائز ہے اور اس کی مثال یہ ہے کہ ام المومنین حضرت سودہ رضی اللہ عنھا بنت زمعہ جب بوڑھی ہوگئیں تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے نیز اس خیال سے بھی کہ کہیں آپ انہیں طلاق نہ دے دیں۔ اپنی باری حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کردی تھی (بخاری کتاب الہبۃ باب ہبۃ المراۃ لغیر زوجھا الخ)
[٣١١]خلع کے احکام :۔ اگر حالات زیادہ کشیدہ ہوں اور عورت بہرحال اپنے خاوند سے اپنا آپ چھڑانا چاہتی ہو تو جو زر فدیہ وہ آپس میں طے کرلیں وہی درست ہوگا اور وہ رقم لینے کے بعد مرد اسے طلاق دے گا۔ عورت پر طلاق بائنہ واقع ہوجائے گی اسے شرعی اصطلاح میں خلع کہتے ہیں۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ثابت بن قیس (بن شماس انصاری) کی بیوی (جمیلہ) جو عبداللہ بن ابی منافق کی بہن تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی: یا رسول اللہ میں ثابت بن قیس پر دینداری اور اخلاق میں کوئی عیب نہیں لگاتی، مگر میں یہ نہیں چاہتی کہ مسلمان ہو کر خاوند کی ناشکری کے گناہ میں مبتلا ہوں۔ آپ نے فرمایا۔ ’’اچھا جو باغ ثابت نے تمہیں (حق مہر میں) دیا تھا وہ واپس کرتی ہو؟‘‘ وہ کہنے لگی جی ہاں! کرتی ہوں۔ آپ نے ثابت بن قیس سے فرمایا : اپنا باغ واپس لے لو اور اسے طلاق دے دو‘‘ (بخاری، کتاب الطلاق، باب الخلع و کیف الطلاق فیہ)
یہ ضروری نہیں کہ زر فدیہ اتنا ہی ہو جتنا حق مہر تھا۔ اس سے کم بھی ہوسکتا ہے اور زیادہ بھی۔ مگر زیادہ لینے کو فقہا نے مکروہ سمجھا ہے اور اگر معاملہ آپس میں طے نہ ہو سکے تو عورت عدالت کی طرف رجوع کرسکتی ہے۔ اس صورت میں تمام حالات کا جائزہ لے کر عدالت جو فدیہ طے کرے گی وہی نافذ العمل ہوگا اور عورت اس وقت تک اس مرد سے آزاد نہ ہوگی جب تک وہ زر فدیہ ادا نہ کر دے اور وہ مرد یا اس کی جگہ عدالت اسے طلاق نہ دے دے۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جمیلہ بنت ابی نے خلع کے لیے کوئی معقول وجہ پیش نہیں کی۔ ثابت بن قیس پوری طرح اس کے حقوق بھی پورے کر رہے تھے اور ان کے اخلاق بھی قابل اعتراض نہیں تھے۔ جمیلہ بنت ابی کو طبعی نفرت صرف اس وجہ سے تھی کہ ثابت بن قیس رنگ کے کالے تھے اور وہ خود عبداللہ بن ابی (رئیس المنافقین) کی بہن ہونے کی بنا پر چودھریوں کا سا ذہن رکھتی تھی۔ تاہم سچی مومنہ تھی۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف اس طبعی نفرت کو ہی معقول وجہ قرار دے کر خلع کا حکم دے دیا۔ |
البقرة |
230 |
[٣١٢] خاوند نے جب تیسری بار طلاق دے دی۔ تو اب وہ اس کے لیے حرام ہوگئی۔ عورت پر عدت تو ہوگی، مگر مرد اس عدت میں رجوع نہیں کرسکتا۔ اب ان دونوں کے ملاپ کی صرف یہ صورت ہے کہ عدت گزرنے کے بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے پھر کسی وقت وہ مرد از خود اس عورت کو طلاق دے دے یا وہ مرد فوت ہوجائے تو پھر عدت گزرنے کے بعد یہ عورت اپنے پہلے خاوند سے نکاح کرسکتی ہے۔
نکاح حلالہ کی حرمت اور اس کا افسوسناک پہلو:۔ احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص محض اپنی مطلقہ بیوی کو حلال کرنے کی خاطر کسی سے اس کا اس شرط پر نکاح کرائے کہ وہ نکاح کے بعد دوسرے یا تیسرے دن اسے طلاق دے دے گا۔ تاکہ یہ عورت پھر اپنے پہلے خاوند کے لیے حلال ہو سکے (جسے شرعی اصطلاح میں حلالہ کہتے ہیں) تو یہ نکاح درست نہیں بلکہ یہ بدکاری ہوگی۔ اس طرح کے سازشی نکاح و طلاق سے وہ عورت اپنے پہلے شوہر کے لیے ہرگز حلال نہ ہوگی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح حلالہ نکالنے والے اور نکلوانے والے پر لعنت فرمائی ہے اور حلالہ نکالنے والے کو تیس مستعار (کرایہ کا سانڈ) کہا ہے (ابو داؤد، کتاب النکاح باب فی التحلیل) اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا تھا کہ ایسے حلالہ نکالنے والے اور نکلوانے والے دونوں کو زنا کی سزا دی جائے۔ (بیہقی ج ٧ ص ٣٣٧)
اس مسئلہ کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ بیک وقت تین طلاق دینے کا جرم تو مرد کرتا ہے لیکن اس کے جرم کی سزا نکاح حلالہ کی صورت میں عورت کو دی جاتی ہے۔ مرد کو تو اہل علم و فتویٰ سرزنش تک کرنے کے روادار نہیں ہوتے۔ مگر بیوی کو کسی کرایہ کے سانڈ کے ہاں شب بسری کی راہ دکھلائی جاتی ہے۔ کرے کوئی اور بھرے کوئی اس سے زیادہ واضح اور کوئی مثال ہو سکتی ہے؟
بیک وقت تین طلاق کی قباحت:۔ اس بے بس اور غیرت مند عورت نے اس ظلم و زیادتی کا اپنے طلاق دینے والے خاوند سے اور اپنے رشتہ داروں سے یوں انتقام لیا کہ رات ہی رات میں وہ حلالہ نکالنے والے مرد سے سیٹ ہوگئی اور اس نئے جوڑے نے عہد و پیمان کے ذریعہ رات کی رات کے نکاح کو پائیدار بنا لیا اور حلالہ نکلوانے والوں کی سب امیدیں خاک میں ملا دیں اور ایسے واقعات آئے دن اخبارات و رسائل میں چھپتے رہتے ہیں۔ |
البقرة |
231 |
[٣١٣] یہاں اس معاشرتی برائی کا بیان ہے۔ جس کا ذکر پہلے آیت نمبر ٢٢٩ کے حاشیہ نمبر ١ میں کردیا گیا ہے۔ یعنی جب تم ایک یا دو طلاقیں دے چکو پھر ان کی عدت پوری ہونے کو آئے تو اس وقت تمہارے لیے دو ہی راستے ہیں۔ ایک یہ کہ خلوص نیت سے ان سے رجوع کرو اس ارادہ سے کہ آئندہ اسے درست طور پر بسانا ہے یا پھر انہیں کچھ دے دلا کر شریفانہ طور پر رخصت کرو۔ اور اگر تم نے رجوع کر کے انہیں تنگ کرنے، ستانے اور ان پر زیادتی کرنے کی روش اختیار کی تو یاد رکھو اس ظلم و زیادتی کا وبال تمہیں اللہ کے ہاں بھگتنا پڑے گا۔
[٣١٤] اللہ کی آیات کا مذاق اڑانے کی صورتیں :۔ مذاق اڑانے کا مطلب یہ ہے کہ طرح طرح کی حیلہ سازیوں سے اللہ تعالیٰ کی آیات اور احکام کا ایسا مطلب نکالا جائے جو اس کے واضح مفہوم اور اس کی روح کے منافی ہو اور ایسا مذاق اڑانے کی واضح مثال نکاح حلالہ ہے اور اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں ایک شخص نے اپنی عورت کو بیک وقت تین طلاقیں دے دیں۔ آپ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو غصہ کی وجہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ میری زندگی میں اللہ کے احکام سے یوں کھیلا جانے لگا ہے۔ جب کہ ابھی میں تم میں موجود ہوں۔ (نسائی، کتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث المتفرقة)
اس طرح تو اپنی اغراض کی خاطر اللہ تعالیٰ کے ہر حکم سے اس کی اصل روح کو فنا کر کے اسے الفاظ کی قید میں مقید کر کے اور فقہی موشگافیاں پیدا کر کے اپنی مرضی کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے اور اسی بات پر اللہ تعالیٰ نے تنبیہہ فرمائی ہے کہ اللہ نے ان احکام میں جو حکمتیں اور مصلحتیں رکھی ہیں۔ ان احکام کا مذاق اڑا کر ان کا ستیاناس ہی نہ کردینا اور اس سلسلہ میں اللہ سے ڈرتے رہو۔ |
البقرة |
232 |
[٣١٥] حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میری بہن (جمیلہ) کو اس کے خاوند (عاصم بن عدی) نے طلاق (رجعی) دی مگر رجوع نہ کیا تاآنکہ پوری عدت گزر گئی۔ پھر عدت گزر جانے کے بعد دوبارہ نکاح کے لیے مجھے پیغام بھیجا (جب کہ مجھے اور بھی پیغام آ چکے تھے) میں نے غیرت اور غصہ کی وجہ سے اسے برا بھلا کہا اور انکار کردیا اور قسم کھالی کہ اب اس سے نکاح نہ ہونے دوں گا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور میں نے اس حکم کے آگے سر تسلیم خم کردیا اور قسم کا کفارہ ادا کردیا۔ (بخاری، کتاب التفسیر، زیر آیت مذکورہ)
ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ عورت کی رضامقدم ہے:َ اس حدیث سے ضمناً یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اگرچہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا، جیسا کہ کئی احادیث صحیحہ سے بھی ثابت ہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے عورت کی رضا کو ولی کی رضا پر مقدم رکھا ہے۔ یہاں صورت حال یہ تھی کہ جمیلہ کو نکاح کے کئی پیغام آئے اور اس کے سابق خاوند عاصم بن عدی کا پیغام بھی آیا۔ اب معقل وقتی غصہ اور غیرت کی بنا پر عاصم سے نکاح نہیں چاہتا تھا جبکہ جمیلہ عاصم ہی سے نکاح کرنے پر رضامند تھی جیسا کہ آیت کے الفاظ سے واضح ہے تو اللہ تعالیٰ نے معقل کے بجائے جمیلہ کی رضا کو مقدم رکھ کر اس کے مطابق حکم نازل فرمایا۔
نکاح کے سلسلہ میں اسلام نے عورت کی رضا کو ہی مقدم رکھا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔
١۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بیوہ یا مطلقہ عورت کا اس وقت تک نکاح نہ کیا جائے جب تک اس سے صاف صاف زبان سے اجازت نہ لی جائے، اسی طرح کنواری کا بھی نکاح نہ کیا جائے جب تک وہ اذن نہ دے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کنواری اذن کیونکر دے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس کا چپ رہنا ہی اس کا اذن ہے۔ (بخاری، کتاب النکاح۔ باب لاینکح الاب وغیرہ۔ البکروالثیب الا برضاھا)
٢۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے پوچھا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ’’ کنواری لڑکی تو شرم کرتی ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اس کی رضامندی یہی ہے کہ وہ خاموش ہوجائے۔'' (حوالہ ایضاً)
٣۔ خنساء بنت خذام انصاریہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ میرے باپ نے (اپنی مرضی سے) میرا نکاح کردیا جبکہ میں ثیبہ (شوہر دیدہ) تھی اور اس نکاح کو پسند نہیں کرتی تھی۔ آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئی تو آپ نے میرے باپ کے کئے ہوئے نکاح کو فسخ کر ڈالا۔ (حوالہ ایضاً)
٤۔ قاسم بن محمد کہتے ہیں کہ جعفر بن ابی طالب کے خاندان کی ایک عورت کو یہ خطرہ پیدا ہوا کہ اس کا ولی کہیں جبراً اس کا نکاح نہ پڑھا دے اور وہ اس نکاح سے ناخوش تھی۔ آخر اس نے کسی شخص کو دو بوڑھے انصاریوں عبدالرحمن بن جاریہ اور مجمع بن جاریہ کے پاس یہ مسئلہ پوچھنے کے لیے بھیجا۔ انہوں نے کہلا بھیجا کہ تو کا ہے کو ڈرتی ہے۔ خنساء بنت خذام کا نکاح اس کے باپ نے جبراً کردیا تھا اور وہ اس نکاح کو پسند نہیں کرتی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نکاح فسخ کردیا تھا۔ (بخاری۔ کتاب الحیل۔ باب فی النکاح)
٥۔ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ولی کے بغیر نکاح درست نہیں ہوتا۔ (ترمذی، ابو اب النکاح، باب ماجاء إلانکاح الا بولی) ترمذی کے علاوہ اسے ابو داؤد، ابن ماجہ اور دارمی نے بھی روایت کیا ہے۔
٦۔ حضرت عائشہ ام المومنین رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلے تو اس کا نکاح باطل ہے باطل ہے باطل ہے۔ پھر اگر خاوند نے اس سے صحبت کرلی تو اس کے عوض اسے پورا حق مہر ادا کرنا ہوگا۔ پھر اگر ان میں جھگڑا پیدا ہوجائے تو جس عورت کا کوئی ولی نہ ہو، بادشاہ اس کا ولی ہے۔ (ترمذی حوالہ ایضاً) اس حدیث کو ترمذی کے علاوہ احمد، ابو داؤد، ابن ماجہ اور دارمی نے روایت کیا ہے۔
منکرین جواز کےدلائل کاجواب:۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک کنواری لڑکی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میرے باپ نے میرا نکاح جبراً کردیا ہے۔ میں راضی نہیں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اختیار دے دیا۔ (ابو داؤد بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب النکاح۔ باب الولی فی النکاح و استیذان المرأۃ تیسری فصل)
٨۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی عورت کسی عورت کا نکاح نہ کرے۔ اور نہ عورت خود اپنا نکاح کرے اور جو عورت اپنا نکاح خود کرتی ہے وہ زانیہ ہے۔ (ابن ماجہ بحوالہ مشکوٰۃ حوالہ ایضاً)
٩۔ ابو سعید اور ابن عباس رضی اللہ عنہم دونوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے ہاں بچہ پیدا ہو وہ اس کا اچھا سا نام رکھے اور اچھا ادب سکھائے۔ پھر جب بالغ ہو تو اس کا نکاح کر دے۔ اگر اس کا نکاح بلوغت کے وقت نہ کیا اور وہ کسی گناہ کا مرتکب ہوا تو اس کا گناہ اس کے باپ پر ہوگا۔ (بیہقی شعب الایمان بحوالہ مشکوٰۃ۔ حوالہ ایضاً)
واضح رہے کہ مندرجہ بالا سب احادیث سے یہ بات واضح ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ البتہ ولی کی رضا پر عورت کی رضامقدم ہے۔
رشتہ میں لات مارنا:۔ اور اس آیت کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو شخص اپنی عورت کو طلاق دے چکا ہو اور وہ مطلقہ عورت عدت گزار کر کسی دوسرے آدمی سے نکاح کرنا چاہتی ہو تو سابقہ شوہر کو کوئی ایسی کمینہ حرکت نہ کرنی چاہیے جو اس کے ہونے والے نکاح میں رکاوٹ پیدا کر دے جس سے عورت پر تنگی پیدا کرنا مقصود ہو۔
بلوغت سے پہلےنکاح پرحکومت کی پابندی:۔ یہاں ایک اور مسئلہ پیدا ہوتا ہے جو موجودہ دور میں خاصی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اور وہ یہ ہے آیا ولی اپنے لڑکے یا لڑکی یا کسی دوسرے قریبی رشتہ دار کا بچپن میں نکاح کرنے کا مجاز ہے یا نہیں؟ اور اسی مسئلہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ آیا بلوغت سے پہلے یا بچپن کا نکاح درست ہے یا باطل؟ اور یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر امت مسلمہ کے تمام فرقوں کا اتفاق ہے کہ بچپن کا نکاح درست ہوتا ہے اور ولی ایسا نکاح کرنے کا مجاز ہے۔ لیکن دور حاضر کے کچھ مجددین نے ایسے نکاح کو غلط اور باطل قرار دیا اور اسی طبقہ سے متاثر ہو کر حکومت پاکستان نے عائلی قوانین آرڈی نینس ١٩٦١ میں اس متن کا اندراج کیا کہ نکاح کے وقت لڑکے کی عمر کم از کم اٹھارہ سال اور لڑکی کی عمر کم از کم سولہ سال ہونی چاہیے۔ یہ شق چونکہ امت مسلمہ کے ایک متفق علیہ مسئلہ کے خلاف ہے لہذا ہم اس پر ذرا تفصیل سے گفتگو کریں گے۔ پہلے ہم اس متفق علیہ مسئلہ کے جواز پر دلائل پیش کرتے ہیں۔
بچپن کی شادی کے جواز پر دلائل
١۔ قرآن میں مختلف قسم کی عورتوں کی عدت کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ وَاڿ یَیِٕسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِّسَاۗیِٕکُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلٰثَۃُ اَشْہُرٍ ۙ وَّاڿ لَمْ یَحِضْنَ ۭ وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَہُنَّ ۭ وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ اَمْرِہٖ یُسْرًا﴾ (65: 4)
’’اور تمہاری مطلقہ عورتیں جو حیض سے ناامید ہوچکی ہوں، اگر تمہیں ان کی عدت کے بارے میں شک ہو تو ان کی عدت تین ماہ ہے اور ان کی بھی جنہیں ابھی حیض شروع ہی نہیں ہوا اور حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل تک ہے۔‘‘
اس آیت میں بوڑھی، جوان اور بچی سب طرح کی عورتوں کا ذکر ہے۔ بوڑھی اور بچی جنہیں حیض نہیں آتا ان کی عدت تین ماہ ہے اور جوان عورت کی عدت اگر اسے حمل ہے تو وضع حمل تک ہے (اور اگر حمل نہ ہو تو چار ماہ دس دن ہے جیسا کہ سورۃ بقرہ میں گزر چکا ہے) اور تو ظاہر ہے کہ عدت کا سوال یا تو خاوند کے طلاق دینے کے یا مر جانے کے بعد ہی پیدا ہوسکتا ہے۔ تو اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بلوغت سے پہلے بھی لڑکی کا نکاح جائز ہے اور اس کا ولی اس بات کا مجاز ہے۔
٢۔ ارشاد باری ہے : آیت ﴿ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْہُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْہُنَّ ﴾(2: 237)
اور اگر تم اپنی ایسی بیوی کو طلاق دے دو جن سے تم نے صحبت نہ کی ہو اور حق مہر مقرر رقم کا نصف دینا ہوگا۔
ذرا سوچیئے نوجوان جوڑے کی شادی ہو۔ رخصتی بھی ساتھ ہی ہوچکی ہو تو کیا ایسی صورت ممکن ہے کہ شب زفاف میں صحبت نہ کریں؟ اور صحبت سے پہلے ہی میاں صاحب اپنی بیگم کو طلاق دے دیں؟ ہمارے خیال میں اس کی یہی صورت ممکن ہے جس کا عرب میں عام رواج تھا کہ بچپن میں نکاح ہوجاتا تھا۔ اور رخصتی کو بلوغت تک موخر کردیا جاتا تھا۔ دریں اثناء بعض خاندانی رقابتوں کی بنا پر یا مرد کی اپنی ناپسندیدگی کی وجہ سے ایسی صورت پیش آ جاتی تھی۔ تو اس کا اللہ تعالیٰ نے حل بتلا دیا کہ ایسی صورت میں مقررہ رقم کا نصف ادا کر دو۔ یہ نہیں فرمایا کہ بچپن میں نکاح کیا ہی نہ کرو۔ حالانکہ دور نبوی میں بچپن میں نکاح کا رواج عام تھا۔
٣۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح اس وقت کیا جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی عمر صرف ٧ سال تھی۔ جیسا کہ مسلم کی درج ذیل حدیث سے واضح ہے:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح اس وقت کیا جبکہ وہ سات سال کی تھیں اور جب حضرت کے گھر رخصتی ہوئی اس وقت نو برس کی تھیں اور ان کے کھیلنے کے کھلونے ان کے ساتھ تھے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوت ہوئے اس وقت ان کی عمر اٹھارہ برس کی تھی۔
٤۔ چوتھی دلیل اس پر تعامل امت اور امت مسلمہ کے تمام مذاہب کا اس مسئلہ کے جواز پر اتفاق ہے۔ اور اس میں اختلاف نہ ہونا بھی اس کے جواز پر ایک قوی دلیل ہے۔
اور جن حضرات نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہے ان کے دلائل یہ ہیں :۔
منکرین جواز کےدلائل:۔ نکاح میاں بیوی کے درمیان ایک عہد وفاداری ہوتا ہے جسے قرآن نے ﴿مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا ﴾ کہا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ عہد اسی صورت میں نبھایا جا سکتا ہے جب کہ مرد اور عورت دونوں اس عہد کو سمجھتے ہوں۔ لہٰذا ان دونوں کا عاقل اور بالغ ہونا ضروری ہے۔
٢۔ قرآن نے یتیموں کے اموال کی حفاظت کے بارے میں فرمایا کہ جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں تو ان کے اموال ان کو واپس کر دو۔ اس سے معلوم ہوا کہ نکاح کی عمر اس وقت ہوتی ہے جب بچہ سمجھدار ہوجائے اور اپنے مال کی حفاظت کرسکے۔
٣۔ قرآن میں ہے آیت ﴿ نِسَاۗؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ ﴾ یعنی عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں۔ اور عورت کھیتی تو اس وقت ہی ہو سکتی ہے جب وہ اولاد پیدا کرنے کے قابل ہوجائے۔ اسی طرح جب تک لڑکا بھی اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ ہو اس کا نکاح نہیں ہو سکتا۔
یہ ہیں وہ دلائل جو نکاح نابالغان کے منکرین کی طرف سے پیش کئے جاتے ہیں۔ اور ہم اس بات کا برملا اعتراف کرتے ہیں کہ اگر نکاح کا مقصد صرف جنسی خواہشات کی تکمیل اور حصول اولاد ہو تو نکاح کے لیے بلوغت کی عمر ہی درست ہے۔ اختلاف اس بات میں ہے کہ آیا نکاح کا صرف یہی ایک مقصد ہے یا کچھ اور بھی ہو سکتے ہیں۔ ہمارے خیال میں نکاح کا ارفع و اعلیٰ مقصد جس کے لیے اسلام نے نکاح کا حکم دیا ہے وہ فحاشی، بے حیائی اور زنا سے اجتناب، مرد و عورت دونوں کی عفیف اور پاکیزہ زندگی اور اس طرح ایک پاک صاف اور ستھرے معاشرہ کا قیام ہے اور اس کی دلیل درج ذیل آیت ہے :
﴿ وَاَنْکِحُوا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِمَاۗیِٕکُمْ ﴾ (24: 32)
’’اور اپنی قوم کی بیواؤں کے نکاح کردیا کرو۔ اور اپنے غلاموں اور کنیزوں کے بھی جو نکاح کے قابل ہوں۔‘‘
اس آیت میں (ایامیٰ) کا لفظ غور طلب ہے۔ ایامی ایم کی جمع ہے۔ بمعنی رنڈوا مرد بھی اور رنڈی (بیوہ) عورت بھی۔ دونوں کے لیے یہ یکساں استعمال ہوتا ہے۔ یعنی بے شوہر عورت یا بے زن مرد اور اٰم یئیم أیما ًکے معنی مرد کا رنڈوا یا عورت کا رانڈ (بیوہ) ہوجانا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ رنڈا خواہ مرد ہو یا بیوہ عورت ہو عمومی صورت یہی ہوتی ہے کہ ان کے ہاں اولاد ہوتی ہے۔ پھر جب ان کے پاس اولاد پہلے ہی موجود ہو، جوانی سے ڈھل چکے ہوں۔ مزید اولاد کی خواہش بھی نہ ہو تو پھر ایسے مجرد قسم کی عورتوں یا مردوں کو نکاح کرنے کا حکم کیوں دیا جا رہا ہے؟ کیا اس کا یہی مقصد باقی نہیں رہ جاتا کہ معاشرہ سے فحاشی کا کلی طور پر استحاصل ہوجائے؟ نکاح کا ایک اور اہم مقصد رشتہ اخوت و مؤدت کو مزید پائیدار اور مستحکم بنانا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ٥١ سال کی عمر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو اس کا مقصد محض حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے رشتہ مودت کو مزید مستحکم بنانا تھا۔ اس وقت آپ صاحب اولاد تھے اگرچہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا فوت ہوچکی تھیں تاہم ان کی جگہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا موجود تھیں۔ جنسی خواہشات بھی اتنی عمر میں ماند پڑجاتی ہیں۔ پھر تین سال نکاح کے بعد رخصتی نہیں ہوئی۔ تو کیا اس نکاح کا مقصد صرف وہی کچھ تھا جو یہ حضرات سمجھتے ہیں؟
اور بعض دفعہ نکاح کے ذریعہ کئی قسم کے دینی و سیاسی معاشی اور معاشرتی فوائد حاصل ہوتے ہیں جو حصول اولاد سے بھی زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ آپ ذرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی پر نظر ڈالیے کہ آپ نے کتنے نکاح کیے؟ کس عمر میں کئے؟ کس عمر کی عورتوں سے کئے اور کون کون سے مقاصد کے تحت کئے تھے؟ اور ان سب نکاحوں سے کتنی اولاد ہوئی؟ تو یہ حقیقت از خود منکشف ہوجائے گی کہ نکاح کا مقصد محض جنسی خواہشات کی تکمیل یا حصول اولاد ہی نہیں ہوتا بلکہ اس سے بلند تر مقاصد بھی ہو سکتے ہیں۔ رہی حصول اولاد کی بات تو یہ اصل مقصد نہیں بلکہ ایک اہم مقصد کا ثمرہ ہے جو کبھی حاصل ہوجاتا ہے کبھی نہیں ہوتا۔ انسان کے اپنے اختیار میں کچھ بھی نہیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ ایک بالغ جوڑے کی شادی کردی جائے اور تازیست ان کے ہاں اولاد نہ ہو۔ ایسی صورت میں بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ نکاح بے مقصد رہا۔ اگرچہ ایسے واقعات کی تعداد ٥ فیصد سے زیادہ نہیں تاہم ان سے انکار بھی ممکن نہیں۔
پھر جب نکاح کے مقاصد میں ہی تنوع پیدا ہوگیا تو ضروری ہے کہ نکاح کی عمر، بلوغت میں بھی استثناء موجود ہو۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ اگرچہ نکاح کی عمر بلوغت ہے تاہم یہ ہر عمر میں جائز ہے۔ اس لحاظ سے اگر ایک طرف نابالغ بچی کا نکاح نابالغ لڑکے، جوان اور بوڑھے سے جائز ہوسکتا ہے تو دوسری طرف ایک لڑکے کا یا نوجوان کا اپنے سے بہت بڑی عمر کی عورت، مطلقہ بلکہ دو تین بار کی مطلقہ سے بھی جائز ہے۔ اب رہا عقد کا معاملہ جس کے لیے فریقین کا عاقل بالغ ہونا ضروری ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا عقد صرف نکاح کا ہی نہیں ہوتا بلکہ کئی قسم کے باہمی لین دین میں بھی ہوتا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی فریق عاقل یا بالغ نہ ہو تو اس کے سب معاملات ٹھپ ہوجائیں گے؟ یا اللہ تعالیٰ نے اس کا کوئی حل بتلایا ہے؟ چنانچہ سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٢٨٢ میں جہاں لین دین کے معاہدات کی تحریر کا حکم دیا گیا وہاں ایسی صورت حال کا حل بھی بتلا دیا جو یہ ہے کہ :
معاہدات میں نادان کےحقوق کی حفاظت بذریعہ ولی:۔ ﴿فَاِنْ کَانَ الَّذِیْ عَلَیْہِ الْحَقُّ سَفِیْہًا اَوْ ضَعِیْفًا اَوْ لَا یَسْتَطِیْعُ اَنْ یُّمِلَّ ھُوَ فَلْیُمْلِلْ وَلِیُّہٗ بالْعَدْلِ ﴾ (2: 282)
’’پھر اگر قرض لینے والا بے عقل ہو یا کمزور ہو یا مضمون دستاویز لکھوانے کی اہلیت نہ رکھتا ہو تو اس کا ولی انصاف کے ساتھ املا کروا دے۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تین صورتوں میں ولی کو معاہدہ کے فریق کا مختار بنا دیا ہے (١) نادان ہو (٢) کمزور ہو اور (٣) املا کروانے کی اہلیت نہ رکھتا ہو اور یہ تینوں باتیں نابالغ میں پائی جاتی ہیں۔ چہ جائیکہ صرف ایک بات پر بھی ولی کو حق اختیار مل جاتا ہے اب اگر لین دین کے معاہدہ میں نادان یا نابالغ کا ولی مختار بن سکتا ہے تو نکاح کے معاہدہ میں کیوں نہیں بن سکتا ؟ واضح رہے کہ ولی کو یہ حق اس لیے دیا گیا ہے کہ وہ ایسے معاہدات کی تکمیل میں ذمہ دارانہ حیثیت رکھتا ہے۔
بچپن کی شادی کی مخالفت کی اصل وجہ :۔ ہمارے جو دوست نکاح کی عمر بلوغت پر زور دیتے اور اس سے پہلے کم سنی کے نکاح کو ناجائز قرار دیتے ہیں ان کا مقصد معاشرہ کی فحاشی سے پاکیزگی نہیں ہے بلکہ وہ دراصل تہذیب مغرب سے متاثر ہو کر ایسا پرچار کرتے ہیں۔ انگلستان کے مشہور معیشت دان ’’ ہتھس‘‘ نے ملک کی خوشحالی کے لیے آبادی کی روک تھام کو لازمی قرار دیا تھا۔ اسی سلسلہ کی ایک کڑی یہ بھی تھی کہ مردوں اور عورتوں کی شادیاں دیر سے کی جائیں تاکہ بچے کم پیدا ہوں۔ اسی نظریہ سے متاثر ہو کر ہمارے پڑھے لکھے گھرانوں میں پچیس پچیس تیس تیس سال تک شادی نہیں ہوتی۔ حالانکہ اس سے معاشرہ میں کافی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ لوگ بلوغت کی عمر کے بعد بھی دس بارہ سال شادی نہ ہونے پر اس لیے خاموش رہتے ہیں کہ یہ تاخیر ان کے نظریہ ’’چھوٹا کنبہ خوشحال گھرانہ‘‘ کے لیے مفید ثابت ہوتی ہے اور اسی لیے یہ بچپن کی شادی کی مخالفت بھی کرتے ہیں اور سہارا بھی قرآن کا لیتے ہیں۔ ورنہ اگر یہ لوگ قرآن مجید سے مخلص ہوتے تو جو لوگ بلوغت کے بعد بھی تادیر شادی نہیں کرتے ان کے خلاف بھی آواز اٹھاتے کیونکہ قرآن ایک صاف ستھرے معاشرے کے قیام کا حکم دیتا ہے ’’ چھوٹا کنبہ خوشحال گھرانہ‘‘ کا پرچار نہیں کرتا۔ (مزید تفصیل کے لیے میری تصنیف ملاحظہ کیجئے، آئینہ پرویزیت حصہ سوم)
[٣١٦] یعنی عورت کے نکاح ہوجانے میں جو معاشرتی پاکیزگی ہے۔ نکاح نہ ہونے میں نہیں اور جو معاشرتی پاکیزگی عورت کا نکاح اپنے سابقہ خاوند سے ہوجانے میں ہے وہ کسی دوسرے سے نکاح ہونے میں نہیں اور یہ ایسے امور ہیں جنہیں اللہ ہی خوب جانتا ہے۔ تم نہیں جانتے۔ |
البقرة |
233 |
[٣١٧] والدات کے حکم میں وہ مائیں بھی داخل ہیں جن کو طلاق ہوچکی ہو خواہ وہ عدت میں ہوں یا عدت بھی گزر چکی ہو، اور وہ بھی جو بدستور بچہ کے باپ کے نکاح میں ہوں۔
[٣١٨] اس سے معلوم ہوا کہ رضاعت کی زیادہ سے زیادہ مدت دو سال ہے۔ تاہم اس سے حسب ضرورت کم ہو سکتی ہے (جیسا کہ آگے اس کا ذکر آ رہا ہے) اور یہ مدت قمری تقویم کے حساب سے شمار ہوگی (مزید تفصیل سورۃ لقمان کی آیت نمبر ١٤ پر حاشیہ ١٨ میں دیکھئے)
[٣١٩] یعنی منکوحہ عورت اور مطلقہ عورت جو عدت میں ہو اس کے کھانے اور کپڑے کی ذمہ داری تو پہلے ہی بچہ کے باپ پر ہوتی ہے اور اگر عدت گزر چکی ہے تو اس آیت کی رو سے باپ ہی اس مطلقہ عورت کے اخراجات کا ذمہ دار ہوگا کیونکہ وہ اس کے بچے کو دودھ پلا رہی ہے۔
[٣٢٠] یعنی والد سے اس کی حیثیت سے زیادہ کھانے اور کپڑے کے اخراجات کا مطالبہ نہ کیا جائے یہ مطالبہ خواہ عورت خود کرے یا اس کے ورثاء کریں۔
[٣٢١] یعنی ماں بلاوجہ دودھ پلانے سے انکار کر دے اور باپ کو پریشان کرے۔ اسی طرح باپ بچہ کو ماں سے جدا کر کے کسی اور سے دودھ پلوائے اور اس طرح ماں کو پریشان کرے یا اس کے کھانے اور کپڑے کے اخراجات میں کنجوسی کا مظاہرہ کرے۔ یا ماں پر دودھ پلانے کے لیے جبر کیا جائے جبکہ وہ اس بات پر آمادہ نہ ہو۔
[٣٢٢] یہ بچہ جو دودھ پی رہا ہے۔ خود بھی اپنے باپ کا وارث ہے اور اس کے علاوہ بھی وارث ہوں گے۔ بہرحال یہ خرچہ مشترکہ طور پر میت کے ترکہ سے ادا کیا جائے گا اور یہ وہ ادا کریں گے جو عصبہ (میت کے قریبی وارث مرد) ہیں۔
[٣٢٣]رضاعت کی زیادہ سے زیادہ مدت :َ یعنی اگر ماں باپ دونوں باہمی مشورہ سے دو سال سے پہلے ہی دودھ چھڑانا چاہیں مثلاً یہ کہ ماں کا دودھ اچھا نہ ہو اور بچے کی صحت خراب رہتی ہو یا اگر ماں باپ کے نکاح میں ہے تو اس کی یہ صورت بھی ہو سکتی ہے کہ ماں کو اس دوران حمل ٹھہر جائے اور بچہ کو دودھ چھڑانے کی ضرورت پیش آئے تو ایسی صورتوں میں ان دونوں پر کچھ گناہ نہ ہوگا اور یہ ضروری نہ رہے گا کہ بچہ کو ضرور دو سال دودھ پلایا جائے۔
[٣٢٤] اس کا ایک مطلب تو وہ ہے جو ترجمہ میں لکھا گیا ہے اور دوسرا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر تم دایہ سے دودھ پلوانا چاہو تو اس کا معاوضہ تو دینا ہی ہے۔ مگر اس وجہ سے ماں کو جو کچھ طے شدہ خرچہ مل رہا تھا وہ اسے ادا کردینا چاہیئے، اس میں کمی نہ کرنی چاہیے۔
[٣٢٥]حسن معاشرت میں بے اعتدالیاں:۔ ایسے بے شمار احکام ہیں جنہیں بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ’’اللہ سے ڈرتے رہنے‘‘ کی تاکید فرمائی ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ معاملات کی دنیا میں، ایک ہی معاملہ کی بے شمار ایسی شکلیں پیدا ہو سکتی ہیں۔ جن کے مطابق انسان اللہ کے کسی حکم کے ظاہری الفاظ کا پابند رہ کر بھی اپنا ایسا فائدہ سوچ لیتا ہے جو منشائے الٰہی کے خلاف ہوتا ہے۔ مگر اس سے دوسرے کا نقصان ہوجاتا یا اسے تکلیف پہنچ جاتی ہے اور ایسے پیدا ہونے والے تمام حالات کے مطابق الگ الگ حکم بیان کرنا مشکل بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کی حکمت کے خلاف بھی۔ لہٰذا انسان کو اللہ سے ڈرتے رہنے کی تاکید اس لیے کی جاتی ہے۔ انسان اپنی نیت درست رکھے اور آخرت میں اللہ کے حضور جواب دہی کا تصور رکھتے ہوئے ان احکام کو بعینہ اسی طرح بجا لائے جس طرح اللہ تعالیٰ کی منشا ہو۔ |
البقرة |
234 |
[٣٢٦]سوگ منانے کی مدت اور حکمت:۔ عام حالت میں بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔ لیکن اگر حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل تک ہے (٤: ٦٥) اور یہی مدت بیوہ کے سوگ منانے کی مدت ہے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا ’’ کسی عورت کو، جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتی ہو، جائز نہیں کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے بجز اپنے شوہر کے جس پر اسے چار ماہ دس دن تک سوگ منانا لازم ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب الجنائز، باب إحداد المرأۃ علی غیر زوجھا)
اور حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ’’ہمیں کسی بھی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منانے سے منع کردیا گیا۔ بجز خاوند کے جس پر چار ماہ دس دن سوگ منانے کا حکم تھا اور حکم یہ تھا کہ ان دنوں میں نہ ہم سرمہ لگائیں اور نہ خوشبو، نہ ہی رنگے ہوئے کپڑے پہنیں، الا یہ کہ ان کی بناوٹ ہی رنگین دھاگے کی ہو۔ البتہ یہ اجازت تھی کہ ہم میں سے کوئی جب حیض سے پاک ہو اور غسل کرے تو کست الاظفار (ایک قسم کی خوشبو) لگائے۔ نیز ہمیں جنازے کے ساتھ جانے سے بھی منع کردیا گیا تھا۔‘‘ (بخاری، کتاب الحیض، باب الطیب للمرأۃ عند غسلھا من المحیض)
اور حضرت زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے اپنی والدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو یہ کہتے سنا ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میری بیٹی کا خاوند مر گیا ہے اور اب اس کی آنکھیں دکھ رہی ہیں۔ کیا ہم اسے سرمہ لگا سکتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ''نہیں''، پھر اس عورت نے دوسری بار یہی سوال کیا تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں، پھر تیسری بار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہی سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نفی میں ہی جواب دیا۔ پھر فرمایا کہ ’’اسلام میں تو عدت اور سوگ کا زمانہ صرف چار ماہ دس دن ہے جبکہ جاہلیت میں تو یہ عدت پورا ایک سال تھی، اور سال گزرنے کے بعد عورت اونٹ کی مینگنی پھینکتی تھی۔‘‘ حمید (راوی) نے زینب رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ یہ ’’اونٹ کی مینگنی پھینکنے کا کیا قصہ ہے؟‘‘ زینب رضی اللہ عنہا نے کہا، جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ جس عورت کا خاوند مر جاتا تو وہ ایک تنگ و تاریک جھونپڑے میں جا بیٹھتی۔ برے سے برا لباس پہنتی، نہ خوشبو لگاتی اور نہ کوئی دوسری آرائش و زیبائش کرتی۔ حتیٰ کہ پورا سال اسی طرح گزار دیتی۔ سال گزرنے پر اس کے پاس کوئی جانور مثلاً گدھا یا بکری یا کوئی پرندہ لاتے جس سے وہ اپنی شرمگاہ رگڑتی تھی اور کبھی وہ جانور مر بھی جاتا۔ اس کے بعد اسے اونٹ کی مینگنی دی جاتی، جسے وہ اپنے سامنے پھینک دیتی (یہ گویا اس کی عدت پوری ہونے کی علامت ہوتی تھی) اس کے بعد ہی وہ خوشبو وغیرہ لگا سکتی تھی۔ (بخاری، کتاب الطلاق باب تحد المتوفی عنھا زوجھا اربعہ أشھر و عشرا)
رہی یہ بات کہ عورت یہ عدت یا سوگ کا عرصہ کہاں گزارے تو اس سلسلہ میں راجح قول یہی ہے کہ وہ اپنے خاوند کے مکان میں ہی گزارے اور اسے اتنے سفر کی اجازت ہے کہ رات کو اپنے مقام پر واپس آ جائے اور کچھ علماء کا یہ قول بھی ہے کہ بیوہ عورت جہاں چاہے عدت گزار سکتی ہے اور اس پر سفر کی بھی پابندی نہیں۔
عدت کی مصلحت:۔ یہ عدت اللہ تعالیٰ نے اس لیے مقرر فرمائی کہ معلوم ہو سکے کہ عورت کو اپنے مرنے والے خاوند سے حمل تو نہیں۔ اگر حمل ہو تو عدت وضع حمل تک ہوگی تاکہ نسب میں اختلاط واقع نہ ہو۔ چار ماہ دس دن گزرنے کے بعد وہ اپنے نکاح کے معاملہ میں مختار ہے اور اس مدت میں یقینی طور پر معلوم ہوسکتا ہے کہ اسے متوفی خاوند سے حمل ہے یا نہیں۔
[٣٢٧] یعنی ان کا نکاح کی بات چیت کرنا، زینت و آرائش کرنا، خوشبو لگانا، مقام عدت سے کسی اور جگہ چلے جانا، نکاح کرلینا، جو کچھ وہ اپنے حق میں بہتر اور مناسب سمجھیں سب کچھ جائز ہے اور اس کا تم پر کوئی گناہ نہیں۔ |
البقرة |
235 |
[٣٢٨] یعنی ایسی عدت والی بیواؤں کو تم اشارتاً تو پیغام نکاح دے سکتے ہو مگر واضح الفاظ میں پیغام دینا ناجائز ہے۔ مثلاً اسے یوں کہہ سکتے ہو کہ میرا بھی کہیں نکاح کرنے کا ارادہ ہے یا اسے یوں کہہ دے کہ ابھی تم ماشاء اللہ جوان ہو۔ اور اس طرح اشارتاً پیغام سنا دینے میں ایک مصلحت یہ بھی ہے کہ کوئی دوسرا اس سے پہلے پیغام نہ دے دے، البتہ جو عورت طلاق رجعی کی عدت میں ہو اسے اشارتاً بھی کوئی ایسی بات کہنا حرام ہے۔
[٣٢٩] یہ تو یقینی بات ہے کہ اگر تمہارا اس سے نکاح کا ارادہ ہے تو تم یقیناً اسے دل میں یاد رکھتے ہو گے۔ لیکن اس خیال سے مغلوب ہو کر نہ تو دوران عدت اس سے کوئی وعدہ کرنا یا وعدہ لینا اور نہ ہی نکاح کا ارادہ کرنا۔ البتہ اگر تمہارے دلوں میں جو ایسے خیالات آتے ہیں۔ ان پر تم سے کچھ مواخذہ نہیں۔ کیونکہ اللہ بخش دینے والا اور بردبار ہے۔ |
البقرة |
236 |
[٣٣٠] یعنی نکاح کے وقت نہ تو حق مہر مقرر ہوا اور نہ ہی صحبت کی نوبت آئی تو ایسی صورت میں حق مہر تو ہے ہی نہیں البتہ کچھ نہ کچھ دینے کی تاکید اس لیے فرمائی کہ رشتہ جوڑنے کے بعد صحبت سے پہلے ہی طلاق دینے سے عورت کو جو نقصان پہنچتا ہے۔ اس کی کسی حد تک تلافی ہو سکے۔ اس لیے تمام نیک لوگوں کو اس کی تاکید کی گئی اور اس سلسلہ میں جہاں تک ممکن ہو فراخدلی سے کام لینا چاہیے۔ |
البقرة |
237 |
[٣٣١]آپس میں قیاضی اورایثار کرنے کاسبق:۔ عورت یا اس کے ولی کی طرف سے یہی فیاضی کافی ہے کہ وہ خاوند کو وہ آدھا حق مہر بھی معاف کردیں جو اسے ادا کرنا بروئے حکم الٰہی لازم تھا اور خاوند کی طرف سے فیاضی یہ ہے کہ آدھے کی بجائے پورا ہی حق مہر ادا کر دے یا اگر ادا کرچکا ہے تو اس سے کچھ واپس نہ لے اور یہ تاکید اس لیے کی کہ اجتماعی زندگی میں خوشگواری پیدا کرنے کے لیے ایسا فیاضانہ برتاؤ ضروری ہے اگر ہر شخص اپنے قانونی حق پر ہی اڑا رہے تو اجتماعی زندگی کبھی خوشگوار نہیں ہو سکتی۔
حق مہر کی مختلف صورتیں اورمہر مثل:۔اب دیکھئے مطلقہ عورت کے حق مہر کی ادائیگی کے سلسلہ میں شرعی احکام کی رو سے ممکنہ صورتیں چار ہیں : (١) نہ مہر مقرر ہو اور نہ صحبت ہوئی ہو (٢) مہر مقرر ہوچکا ہو مگر صحبت نہ ہوئی ہو۔ ان دونوں صورتوں کا حکم ان دو آیات میں مذکور ہوچکا ہے (٣) مہر بھی مقرر ہو اور صحبت بھی ہوچکی ہو اور یہ سب سے عام صورت ہے۔ اس صورت میں مہر پورا دینا ہوگا۔ (٤) مہر مقرر نہ ہوا تھا مگر صحبت ہوچکی۔ اس صورت میں مہر مثل ادا کرنا ہوگا۔ یعنی اتنا مہر جو اس عورت کے قبیلہ میں عام رواج ہے۔
اور بیوہ کے لیے بھی یہی چاروں صورتیں ممکن ہیں مگر اس کے احکام میں اختلاف ہے، جو یہ ہے کہ مہر مقرر ہوا ہو یا نہ ہوا ہو اور مرنے والے خاوند نے صحبت کی ہو یا نہ کی ہو، عورت کو بہرحال پورا مہر ملے گا۔ اگر مہر مقرر تھا تو اتنا ملے گا اور اگر مقرر نہیں ہوا تھا تو مہر مثل ملے گا، اور اس کی دلیل درج ذیل حدیث ہے۔
حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایسے شخص کے متعلق سوال کیا گیا۔ جس نے کسی عورت سے نکاح کیا نہ حق مہر مقرر ہوا اور نہ ہی صحبت کرسکا کہ اس کی وفات ہوگئی۔ ابن مسعود نے اسے جواب دیا کہ اسے اس کے خاندان کی عورتوں کے مثل مہر دیا جائے، نہ کم نہ زیادہ، اور اس پر عدت بھی ہے اور میراث سے اسے حصہ بھی ملے گا۔ (یہ سن کر) معقل بن سنان اشجعی نے کہا کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ہمارے خاندان کی ایک عورت بروع بنت واشق کے بارے میں ایسا ہی فیصلہ کیا تھا‘‘ یہ سن کر ابن مسعود رضی اللہ عنہ خوش ہوگئے۔ (ترمذی، ابو اب النکاح باب فی الرجل یتزوج المرأۃ فیموت عنھا قبلأن یفرض لھا) نیز ابو داؤد، کتاب النکاح، باب فیمن تزوج ولم یسم صداقا حتی مات) |
البقرة |
238 |
[٣٣٢] عائلی مسائل کے درمیان نماز کی تاکید سے متعلق جو دو آیات آ گئی ہیں تو ان کی غالباً حکمت یہ ہے کہ ایسے معاشرتی مسائل کو بحسن و خوبی سر انجام دینے کے لیے جس تقویٰ کی ضرورت ہوتی ہے نماز اس سلسلہ میں موثر کردار ادا کرتی ہے۔ اسی لیے نمازوں کی محافظت کی تاکید کی جا رہی ہے یعنی ہر نماز کو اس کے وقت پر اور پوری شرائط و آداب کے ساتھ ادا کیا جائے۔
[٣٣٣]نمازوسطیٰ سےمراد نماز عصر ہےا ور اس کی تاکید مزید:۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خندق کے دن فرمایا۔ ان کافروں نے مجھے درمیانی نماز نہ پڑھنے دی حتیٰ کہ سورج غروب ہوگیا۔ اللہ ان کی قبروں اور گھروں کو آگ سے بھر دے۔ (بخاری، کتاب التفسیر) نیز حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ دونوں سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : صلوٰۃ وسطیٰ نماز عصر ہے۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جس کی عصر کی نماز قضا ہوگئی اس کا گھر بار، مال و اسباب سب لٹ گیا۔‘‘ (بخاری، کتاب مواقیت الصلٰوۃ، باب إثم من فاتتہ العصر) اور بالخصوص اس نماز کی تاکید اس لیے فرمائی کہ دنیوی مشاغل کے لحاظ سے یہ وقت بہت اہم ہوتا ہے۔
[٣٣٤] نمازمیں بادب کھڑاہونےکاحکم :۔ یعنی اللہ کے حضور عاجزی اور ادب کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ نیز ایسی کوئی فضول حرکت نہ کی جائے جو ادب کے خلاف ہو یا نماز کو توڑ ڈالنے والی ہو جیسے خواہ مخواہ یا عادتاً ہاتھوں کو حرکت دینا، ہلاتے رہنا یا ہنسنا یا بات چیت کرلینا وغیرہ۔ چنانچہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نماز میں باتیں کرلیا کرتے تھے۔ تب یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری، کتاب التفسیر۔ زیر آیت مذکورہ)
مسلم کی روایت میں اضافہ ہے کہ یہ آیت نازل ہونے کے بعد ہمیں حکم دیا گیا کہ چپ چاپ سکون سے کھڑے ہوں اور باتیں کرنے سے بھی منع کردیا گیا (مسلم، کتاب المساجد۔ باب تحریم الکلام فی الصلوۃ)
٢۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ نماز پڑھتے تو نماز کے آخر میں دائیں بائیں السلام علیکم و رحمۃ اللہ کہتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ بھی کرتے تھے۔ یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم لوگ اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارے کرتے ہو۔ جیسے شریر گھوڑوں کی دمیں ہلتی ہیں۔ تمہیں اتنا ہی کافی ہے کہ تم قعدہ میں اپنی رانوں پر ہاتھ رکھے ہوئے دائیں اور بائیں منہ موڑ کر السلام علیکم و رحمۃ اللہ کہہ لیا کرو۔ (مسلم: کتاب الصلٰوۃ، باب الأمر بالسکون فی الصلوۃ والنھی عن الاشارۃ بالید.....)
صف درست کرنے اور مل کر کھڑا ہونے کاحکم:۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا میں تم کو اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھ رہا ہوں جیسے شریر گھوڑوں کی دمیں ہلتی ہیں۔ تم لوگ نماز میں کوئی حرکت نہ کیا کرو۔ پھر آپ نے ایک دفعہ حلقہ باندھے دیکھ کر فرمایا تم لوگ الگ کیوں ہو؟ پھر ایک مرتبہ آپ نے فرمایا صفیں اس طرح باندھا کرو۔ جیسے فرشتے بارگاہ الٰہی میں صف بستہ رہتے ہیں۔ سب سے پہلے اگلی صف پوری کیا کرو۔ اور صف میں خوب مل کر کھڑے ہوا کرو۔ (مسلم حوالہ ایضاً)
البتہ کچھ کام ایسے ہیں جو حالت نماز میں بھی سر انجام دیئے جا سکتے ہیں۔ مثلاً :
١۔ اگر امام بھول جائے تو مقتدی سبحان اللہ کہہ سکتے ہیں اور اگر مقتدی عورت ہو تو وہ تالی بجا سکتی ہے۔ (بخاری۔ تصفیق النسائ)
٢۔ اگر قراءت کرتے ہوئے امام بھول جائے تو مقتدی بتلا سکتا یعنی لقمہ دے سکتا ہے۔
نمازکے دوران کون کون سے کام کرناجائز یاضروری ہیں:۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنی عمرو بن عوف کے لوگوں میں صلح کرانے گئے۔ ظہر کا وقت ہوگیا تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھانا شروع کردی۔ اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی پہنچ گئے اور صفوں کو چیرتے ہوئے پہلی صف میں آ کھڑے ہوئے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے تالی بجائی جس سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ متوجہ ہوئے اور پیچھے کی طرف دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلی صف میں کھڑے تھے۔ آپ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھاتے رہنے کا اشارہ کیا۔ لیکن ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر اللہ کا شکر ادا کیا۔ پھر الٹے پاؤں پیچھے ہٹے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی۔ پھر نماز کے بعد فرمایا کہ تالی بجانا عورتوں کے لیے ہے، مرد سبحان اللہ کہا کریں۔ (بخاری)
٤۔ اگر گرمی کی وجہ سے زمین تپ رہی ہو تو نمازی اپنے سجدہ کی جگہ پر کپڑا بچھا سکتا ہے۔ (بخاری حوالہ ایضاً)
٥۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رات کے وقت جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھتے اور میں اپنے پاؤں لمبے کئے ہوتی تو سجدہ کے وقت آپ مجھے ہاتھ لگاتے تو میں پاؤں سمیٹ لیتی۔ پھر جب آپ کھڑے ہوجاتے تو میں پاؤں لمبے کرلیتی۔ (بخاری۔ حوالہ ایضاً)
٦۔ ایک دفعہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اپنی خالہ ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں رات رہے۔ انہی کے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باری تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آدھی رات کو اٹھے، وضو کیا اور نماز میں کھڑے ہوگئے۔ یہ دیکھ کر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بھی وضو کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جا کر بائیں طرف کھڑے ہو کر نماز میں شامل ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے سر پر ہاتھ رکھا، پھر دائیں کان کو مروڑا۔ پھر انہیں پکڑ کر پیچھے کی طرف سے اپنے دائیں جانب کھڑا کرلیا۔ (بخاری، کتاب الاذان، باب اذا قام الرجل عن یسار الامام۔۔۔۔ الخ)
٧۔ اگر نفلی نماز کے دوران والدہ یا والد پکارے تو نماز توڑ کر بھی ان کی بات سننا چاہیے (تفصیل کے لیے دیکھئے سورۃ انفال کی آیت نمبر ٢٤ کا حاشیہ)
٨۔ ازرق بن قیس کہتے ہیں کہ ہم اہواز میں خارجیوں سے جنگ میں مصروف تھے کہ ایک صحابی ابو برزہ اسلمی اپنی گھوڑے کی لگام اپنے ہاتھ میں سنبھالے نماز پڑھنے لگے۔ گھوڑا لگام کھینچنے لگا اور ابو برزہ بھی ساتھ ساتھ پیچھے چلتے گئے۔ یہ دیکھ کر ایک خارجی کہنے لگا۔ یا اللہ بوڑھے کا ستیا ناس کر۔ جب ابو برزہ نماز سے فارغ ہوئے تو اس خارجی سے کہا کہ میں نے تمہاری بات سن لی ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ سات آٹھ جہاد کئے ہیں اور میں نے دیکھا کہ آپ لوگوں پر آسانی کیا کرتے تھے اور مجھے یہ اچھا معلوم ہوا کہ اپنا گھوڑا ساتھ لے کر لوٹوں، نہ کہ اس کو چھوڑ دوں کہ وہ جہاں چلا جائے اور میں مصیبت میں پڑجاؤں۔ (بخاری، حوالہ ایضاً)
٩۔دین میں آسانی کی ایک مثال:۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’میں نماز شروع کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اسے لمبا کروں، پھر میں کسی بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو نماز کو مختصر کردیتا ہوں، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ بچے کے رونے سے ماں کے دل پر کیسی چوٹ پڑتی ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب الاذان۔ باب من اخف الصلوۃ عند بکاء الصبی)
١٠۔ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس اس حال میں آئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی نواسی امامہ بنت ابی العاص (حضرت زینب کی بیٹی) کو اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز پڑھنا شروع کی جب رکوع کرتے تو امامہ کو زمین پر بٹھلا دیتے اور جب سجدہ سے فارغ ہو کر کھڑے ہوتے تو اسے اپنے کندھے پر بٹھا لیتے۔
(بخاری : کتاب الادب، باب رحمہ الولد و تقبیلہ ومعانقتہ) اور ایک دوسری روایت میں رکوع کے علاوہ سجدہ کا لفظ آیا ہے (بخاری : کتاب الصلوة، باب حمل جاریۃ صغیرۃ علی عنقہ فی الصلوۃ) |
البقرة |
239 |
[٣٣٥] نمازخوف کے پڑھنےکاطریقہ :۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے جب کوئی پوچھتا کہ ہم نماز خوف کیسے پڑھیں؟ تو وہ کہتے کہ امام آگے بڑھے، کچھ لوگ اس کے ساتھ نماز ادا کریں، امام انہیں ایک رکعت پڑھائے، باقی لوگ ان کے اور دشمنوں کے درمیان کھڑے رہیں۔ نماز نہ پڑھیں۔ جب یہ لوگ امام کے ساتھ ایک رکعت نماز پڑھ چکیں تو سرک کر پیچھے چلے جائیں اور جنہوں نے نماز نہیں پڑھی اب وہ لوگ آ جائیں اور امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھیں۔ امام تو اپنی نماز (دو رکعت) سے فارغ ہوگیا۔ اب یہ دونوں گروہ باری باری باقی ایک ایک رکعت پوری کرلیں تو ان کی بھی دو رکعت ہوگئیں، اور اگر خوف اس سے زیادہ ہو تو پاؤں پر کھڑے پیدل یا سواری پر رہ کر نماز ادا کرلیں۔ منہ قبلہ رخ ہو یا کسی اور طرف۔ امام مالک کہتے ہیں کہ نافع نے کہا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے۔ (بخاری، کتاب التفسیر)
[٣٣٦] یعنی جب خوف کی حالت ختم ہوجائے تو نماز پوری اور باجماعت ادا کرو، جیسا کہ عام حالات میں پڑھا کرتے ہو۔ (سفر اور خوف کی نمازوں کی تفصیل کے لیے سورۃ نساء کی آیت نمبر ١٠١ اور ١٠٢ کے حواشی نمبر ١٣٨ اور ١٣٩ ملاحظہ فرمائیے۔) |
البقرة |
240 |
[٣٣٧]بیوہ کے نان ونفقہ سےمتعلق احکام منسوخہ:۔ یہ حکم ابتدائے اسلام میں نازل ہوا تھا کہ مرتے وقت مرد اپنی بیویوں کے متعلق ورثاء کو ایسی وصیت کر جائیں۔ بعد میں جب بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن مقرر ہوگئی نیز آیت میراث کی رو سے خاوند کے ترکہ میں بیوہ کا حصہ مقرر ہوگیا تو اس آیت کا حکم منسوخ ہوگیا۔ اب بیوہ کے لیے تو یہ حکم ہوا کہ وہ بس عدت کے ایام اپنے مرنے والے شوہر کے ہاں گزارے۔ بعد میں وہ آزاد ہے اور اس دوران نان و نفقہ بھی وارثوں کے ذمہ اور ترکہ ہی سے ہوگا، اور سال بھر کے خرچہ کا مسئلہ میراث میں حصہ ملنے سے حل ہوگیا۔ |
البقرة |
241 |
[٣٣٨] مطلقہ عورتوں کو دے دلاکر رخصت کرنےکاحکم:۔ آیت نمبر ٢٣٦ میں طلاق کے وقت کچھ دے دلا کر رخصت کرنے کا حکم صرف ایسی مطلقہ کے لیے ہے جس کا نہ تو حق مہر مقرر ہوا ہو۔ نہ ہی اس کے خاوند نے صحبت کی ہو اور وہ صحبت سے پیشتر ہی فوت ہوجائے۔ اب یہاں ایسا حکم ہر قسم کی مطلقہ کے لیے دیا جا رہا ہے اور اس کی تاکید بھی کردی گئی کہ پرہیزگاروں کا یہ شیوہ نہیں ہوتا کہ وہ طلاق دے کر مطلقہ کو خالی ہاتھ گھر سے نکال باہر کریں۔ |
البقرة |
242 |
[٣٣٩] یہاں نکاح، طلاق، عدت رضاعت وغیرہ عائلی زندگی سے متعلق احکام دینے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ احکام وضاحت سے بیان کردیئے گئے ہیں۔ لہٰذا انہیں اچھی طرح سمجھ کر ان پر عمل کیا کرو اور ان سے جو کچھ اللہ تعالیٰ کی منشا معلوم ہوتی ہے۔ اسی کے مطابق عمل کرو۔ اپنے لیے گنجائشیں نکالنے کی کوشش نہ کرو۔ |
البقرة |
243 |
[٣٤٠]طاعون کےخوف سے بھاگنے والے بنی اسرائیل کی موت اور دوبارہ زندگی :۔ اس آیت سے آگے جہاد کا مضمون شروع ہو رہا ہے اور بطور تمہید اس آیت میں بتلایا جا رہا ہے کہ زندگی اور موت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ واقعہ یہ ہوا کہ بنی اسرائیل کے کچھ لوگ کسی شہر میں رہتے تھے۔ وہاں طاعون کی وبا پھیل گئی تو یہ طاعون کی وبا کا شکار ہو کر مر جانے کے خطرہ کی بنا پر اپنا بوریا بستر لپیٹ کر ہزاروں کی تعداد میں شہر سے نکل کھڑے ہوئے اور سمجھے کہ اس طرح موت سے بچ جائیں گے، ابھی کسی منزل پر بھی نہ پہنچنے پائے تھے کہ راہ میں انہیں موت نے آ لیا اور سب کے سب مر گئے۔ ممکن ہے وہ طاعون کے جراثیموں سے ہی مرے ہوں۔ انہوں نے اللہ پر بھروسہ نہ کیا اور بزدلی دکھائی، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر ان سب کو ہی موت کی نیند سلا دیا اور اگر وہ اللہ کی تقدیر پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے شہر میں مقیم رہتے تو ممکن ہے ان میں سے اکثر بچ جاتے۔ پھر کچھ مدت بعد حزقیل پیغمبر جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تیسرے خلیفہ تھے، ادھر سے گزرے اور یہ صورت حال دیکھ کر انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانی سے انہیں دوبارہ زندگی عطاء کی اور ہر شخص ﴿سُبْحَانَکَ لاَ اِلٰہَ الاَّ أنْتَ﴾ کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔ |
البقرة |
244 |
[٣٤١]جہاد کاخیال تک نہ آنا نفاق کی علامت ہے: اس آیت میں موت سے نہ ڈرنے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ اس سے پہلی آیت کا مفہوم یہ تھا کہ زندگی اور موت صرف اور صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ چاہے تو جہاد میں جانے والے کو بھی موت کے منہ سے بچا لے اور چاہے تو کسی کو گھر بیٹھے بیٹھے ہی موت دے دے یا جو موت سے بھاگ کر نکل کھڑا ہو اسے راہ میں ہی موت کی نیند سلا دے اور چاہے تو مردہ کو ازسر نو زندہ کر دے، موت اور زندگی صرف اسی کے اختیار میں ہے۔ لہذا تمہیں اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے جہاد کرنا چاہیے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے زندگی بھر جہاد نہ کیا ہو اور نہ ہی اس کے دل میں جہاد کرنے کا خیال پیدا ہوا وہ منافق کی موت مرا۔ (مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب ذم من مات ولم یغز ولم یحدث نفسہ بالغزو ) |
البقرة |
245 |
[٣٤٢] قرض حسنہ کےا جر میں اضافہ کی شرائط :۔قرض حسنہ سے مراد ایسا قرضہ ہے جو محض اللہ کی رضا کے لیے فقراء اور اقربا و مساکین کو دیا جائے اور ادائیگی کے لیے انہیں تنگ نہ کیا جائے، نہ ہی قرضہ دینے کے بعد انہیں جتلایا جائے اور نہ ہی ان سے کسی قسم کی بیگار لی جائے اور اگر مقروض فی الواقعہ تنگ دست اور ادائیگی سے معذور ہو تو اسے معاف ہی کردیا جائے اور اللہ کو قرض حسنہ دینے کا مفہوم اس سے وسیع ہے۔ جس میں انفاق فی سبیل اللہ کی تمام صورتیں آ جاتی ہیں اور اس میں جہاد کی تیاری پر خرچ کرنا اور مجاہدین کی مالی امداد بھی شامل ہے اور مضمون کی مناسبت سے یہاں یہی صورت درست معلوم ہوتی ہے۔ ایسے قرضہ کو اللہ تعالیٰ سات سو گنا تک بلکہ اس سے بھی زیادہ تک بڑھا دیتے ہیں اور اس بڑھوتی کا انحصار دو باتوں پر ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لیے خرچ کیا جائے اور دوسرے یہ کہ دل کی پوری خوشی کے ساتھ دیا جائے۔ نیز ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلا دیا کہ خرچ کرنے سے تمہیں مال میں کمی آ جانے سے نہ ڈرنا چاہیے۔ کیونکہ مال میں کمی بیشی ہونا تو صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے اور قرآن میں ہی ایک دوسرے مقام پر (٣٤ : ٣٩) فرمایا کہ جو کچھ تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اللہ تمہیں اس کا نعم البدل عطا کر دے گا۔ |
البقرة |
246 |
[٣٤٣]بنی اسرائیل میں سیادت انبیاء یعنی نظام خلافت :۔ بنی اسرائیل میں یہ دستور رہا ہے کہ ان کے حکمران بھی انبیاء ہی ہوا کرتے تھے۔ انہیں کے پاس مقدمات کے فیصلے ہوتے اور انہیں کی سر کردگی میں جہاد کیا جاتا تھا۔ گویا ان لوگوں میں صحیح نظام خلافت رائج تھا اور یہی وہ سیاسی نظام ہے جو اسلام کا جزولاینفک ہے۔ مگر ان لوگوں نے دوسرے ممالک کی دیکھا دیکھی جن میں نظام ملوکیت رائج تھا۔ اپنے بوڑھے نبی سموئیل علیہ السلام سے مطالبہ کردیا کہ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کر دو تاکہ ہم اس کی قیادت میں جہاد کریں اور حقیقتاً ان کا یہ مطالبہ محض جہاد سے راہ فرار کی ایک صورت تھی جو ان کی بزدلی پر دلالت کرتی تھی۔ جسے انہوں نے اس رنگ میں پیش کیا کہ تم تو بوڑھے ہوگئے اور ہمیں ایک نوجوان قائد درکار ہے اور قائدان کی مادہ پرست نظروں میں وہی ہوسکتا تھا جو بادشاہوں کی طرح کا ٹھاٹھ باٹھ رکھتا ہو۔
[٣٤٤] ان کے نبی سموئیل کو چونکہ اصل مرض کا علم تھا۔ لہٰذا اس نے ان سے پختہ عہد لیا کہ اگر بادشاہ مقرر کردیا جائے تو پھر تو جہاد سے راہ فرار اختیار نہ کرو گے؟ جس کے جواب میں انہوں نے یقین دلایا کہ ہم ہرگز ایسا نہیں کریں گے اور کر بھی کیسے سکتے ہیں جبکہ ہم پہلے ہی بے گھر ہوچکے ہیں۔ دشمنوں نے ہمارے ملک چھین لیے، ہمارے بیوی بچوں کو لونڈی غلام بنا رکھا ہے۔ لہٰذا ہم کیوں نہ ان سے لڑیں گے۔ لیکن اس کے باوجود جب ان پر جہاد فرض ہوا تو مختلف حیلوں بہانوں اور کٹ حجتیوں سے اپنے کئے ہوئے عہد سے پھرنے لگے۔ |
البقرة |
247 |
[٣٤٥]حکمران کی لازمی صفات:۔ چنانچہ بنی اسرائیل کے مطالبہ پر اللہ تعالیٰ نے طالوت کو ان کا بادشاہ مقرر کیا جو ایک تیس سالہ جوان، خوبصورت اور قد آور شخص تھا۔ اس پر کئی لوگوں نے یہ اعتراض جڑ دیا کہ ’’طالوت کے پاس نہ مال و دولت ہے اور نہ شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ، بھلا یہ ہمارا بادشاہ کیسے بن سکتا ہے؟ اس سے تو ہم ہی اچھے اور بادشاہت کے زیادہ حقدار ہیں۔‘‘ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ قیادت کے لیے مال و دولت کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ طالوت میں موجود ہیں اور تم سے بہت زیادہ ہیں۔ لہٰذا تمہیں فضول قسم کی کٹ حجتیوں سے باز آنا چاہیے۔ |
البقرة |
248 |
[٣٤٦]تابوت سکینہ کیاتھا؟ اس صندوق کو بنی اسرائیل ’’عہد کا صندوق‘‘ کہتے تھے جس میں آل موسیٰ و ہارون کے تبرکات رکھے ہوئے تھے۔ مثلاً پتھر کی وہ تختیاں جو کوہ طور پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا کی تھیں اور تورات کا وہ اصل نسخہ جسے موسیٰ علیہ السلام نے خود لکھوایا تھا اور ایک بوتل میں من تھا جو بنی اسرائیل پر نازل ہوتا رہا۔ نیز اس میں وہ عصائے موسیٰ بھی تھا جو سانپ بن جاتا تھا۔ یہ کچھ تھا بنی اسرائیل کے سکون قلب کا سامان جو اس صندوق میں محفوظ تھا اور یہ ہر وقت ان کے پاس رہتا تھا اور جب دشمن سے جنگ ہوتی تو اس صندوق کو آگے رکھتے اور اس کی وساطت سے فتح و نصرت کی دعا کرتے۔ ایک لڑائی کے موقعہ پر مشرک بادشاہ جالوت نے ان پر غالب آ کر ان سے وہ صندوق چھین لیا اور وہ لوگ اسے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ اس صندوق کے چھن جانے کو بنی اسرائیل اپنی نحوست و ادبار کی علامت تصور کرتے تھے اور اس کی موجودگی کو فتح و نصرت کا نشان سمجھتے تھے۔
[٣٤٧]تابوت سکینہ کا طالوت تک پہنچنا:۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو یہ بتلایا کہ اگر طالوت کے دور حکومت میں وہ چھنا ہوا صندوق تمہیں واپس مل جائے تو سمجھ لینا کہ طالوت کو فی الواقع اللہ تعالیٰ ہی نے بادشاہ مقرر کیا ہے۔ چنانچہ ہوا یہ کہ ان چھیننے والے مشرکوں کے شہر میں وبائیں پھوٹ پڑیں۔ انہوں نے اسی صندوق کو غالباً اپنی نحوست کی علامت سمجھا اور ایک بیل گاڑی پر اس صندوق کو رکھ کر اسے ہانک دیا۔ چنانچہ فرشتے اس بیل گاڑی کو ہانک کر بنی اسرائیل تک لے آئے اور اسے طالوت کے گھر کے سامنے چھوڑ گئے۔ اس طرح ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنی اسرائیل پر اتمام حجت ہوگئی اور دوسری طرف بنی اسرائیل کے حوصلے بڑھ گئے اور انہوں نے طالوت کو اپنا بادشاہ تسلیم کرلیا۔ |
البقرة |
249 |
[٣٤٨] طالوت کی سرکردگی میں جہاد:۔ چنانچہ بادشاہ طالوت کی قیادت میں بنی اسرائیل کا ایک لشکر جرار جالوت کے مقابلہ میں نکل کھڑا ہوا۔ طالوت نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ جس نے بزدلی دکھانا ہو وہ ہمارے ساتھ نہ نکلے۔ بنی اسرائیل زبانی باتوں میں بڑے دلیر تھے۔ چنانچہ ان کی تعداد ستر ہزار ہوگئی راستہ میں ایک منزل پر پانی نہ ملا تو طالوت سے شکایت کی۔ طالوت نے کہا آگے ایک نہر آتو رہی ہے مگر تم لوگ اس میں سے سیر ہو کر پانی نہ پینا، صرف ایک آدھ گھونٹ پی لینا اور یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے آزمائش ہے۔ کہ اگر تم اپنی پیاس بھی برداشت نہ کرسکے تو لڑائی میں کیا کارنامے سر انجام دو گے؟ لہٰذا میں تو صرف اس آدمی کو اپنے ساتھ لے جاؤں گا جو اپنی پیاس کو برداشت کرے گا۔ چنانچہ جب وہ نہر آئی تو سب نے سیر ہو کر پانی پی لیا اور بعضوں نے تو منہ ہی نہر میں ڈال دیا اور مویشیوں کی طرح پینے لگے۔ اس طرح یکدم کثیر مقدار میں پانی پینے سے ان کے بدن ٹوٹنے لگے اور تھوڑا سا فاصلہ چل کر گر پڑے اور کہنے لگے کہ اب ہمیں جالوت اور اس کے لشکر سے لڑنے کی تاب نہیں رہی۔
[٣٤٩]طالوت کے لشکر کی تعداد:۔ اور جن لوگوں نے اپنی پیاس برداشت کی تھی ان کی تعداد صرف تین سو تیرہ یا اس کے لگ بھگ تھی۔ انہیں صبر کرنے والوں میں بوڑھے نبی سموئیل، حضرت داؤد، ان کے باپ اور ان کے چھ بھائی شامل تھے اور بروایت براء بن عازب یہ وہی تعداد باقی رہ گئی تھی جتنی اصحاب بدر کی تھی (بخاری، کتاب المغازی، باب عدۃ اصحاب بدر) کجا ان زبانی شیخی بگھارنے والوں کی تعداد ستر ہزار تھی اور کجا ان میں سے خالص تین سو تیرہ رہ گئے، یعنی ہر دو ہزار میں سے صرف نو آدمی سچے مجاہد ثابت ہوئے۔ ان لوگوں کے حوصلے بلند تھے۔ صبر کرنے والے اور توکل کرنے والے تھے۔ وہ آپس میں کہنے لگے کہ اگر ہم تھوڑے سے باقی رہ گئے ہیں تو کوئی بات نہیں فتح و شکست اور زندگی اور موت سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ اللہ تھوڑی سی صبر کرنے والی جماعت کو بہت بڑے لشکر کے مقابلہ میں فتح عطا کردیتا ہے کیونکہ اللہ کی مدد ان کے شامل حال ہوتی ہے۔ |
البقرة |
250 |
[٣٥٠]کامیابی کےلیے مادی وسائل کے ساتھ دعا بھی لازمی ہے:۔ یہی اللہ کے نیک بندوں کی علامت ہے کہ وہ اپنی ہمت اور سامان جنگ پر ہی بھروسہ نہیں کرتے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عاجزی سے اللہ کو یاد کرتے اس سے صبر اور ثابت قدمی کی توفیق طلب کرتے اور اپنی فتح کے لیے دعائیں بھی کرتے ہیں اور جالوت کے اس مختصر سے لشکر نے بھی اللہ سے گڑگڑا کر ایسی دعائیں کیں جیسی جنگ بدر کے موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کی تھیں۔ |
البقرة |
251 |
[٣٥١]سیدناداؤدعلیہ السلام اور جالوت کومارڈالنا:۔ حضرت داؤد علیہ السلام اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے بکریاں چرایا کرتے تھے، پھرتیلا، مضبوط اور چست بدن تھا۔ بہت اچھے نشانہ باز تھے اور جو وحشی جانور بکریوں کے ریوڑ پر حملہ آور ہوتے۔ پتھروں کے ذریعہ ہی انہیں مار ڈالتے یا مار بھگاتے تھے۔ وہ اتنے جرات مند اور طاقتور تھے کہ اگر کوئی درندہ ان کے ہتھے چڑھ جاتا تو اس کے نچلے جبڑے پر پاؤں رکھ کر اوپر کے جبڑے کو اس زور سے کھینچتے تھے کہ اسے چیر کے رکھ دیتے تھے۔
[٣٥٢] جب مقابلہ شروع ہوا تو جالوت خود سامنے آیا، اور آ کر دعوت مبارزت دینے لگا وہ سارے کا سارا لوہے میں ڈوبا ہوا تھا، صرف چہرہ اور آنکھیں ننگی تھیں۔ داؤد علیہ السلام نے راہ میں سے دو تین پتھر اس غرض سے اٹھا لیے تھے۔ آپ نے یکے بعد دیگرے یہ تینوں پتھر فلاخن میں رکھ کر ان سے جالوت پر حملہ کیا جو اس کی پیشانی پر لگے اور اس کے سر کو چیرتے ہوئے پیچھے گدی تک نکل گئے، جس سے جالوت مر کر گر پڑا۔ اس واقعہ سے جالوت کے لشکر کے حوصلے پست ہوگئے اور طالوت کے اس مختصر لشکر کو اللہ تعالیٰ نے فتح عطا فرمائی۔ بعد میں وہ بنی اسرائیل کا متفق علیہ اور بلا شرکت غیرے بادشاہ بن گئے۔
[٣٥٣] اس واقعہ کے بعد طالوت نے اپنی بیٹی کا داؤد علیہ السلام سے نکاح کردیا اور طالوت کے بعد داؤد علیہ السلام ہی اس کے جانشین ہوئے پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے نبوت سے بھی سرفراز فرمایا۔
[٣٥٤] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے زمین کا انتظام برقرار رکھنے کے لیے اپنا ضابطہ بیان فرمایا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ کسی قوم کو ایک خاص حد تک زمین میں غلبہ و طاقت حاصل کرنے کی قوت و توفیق عطا فرماتا ہے۔ پھر جب وہ قوم فساد فی الارض میں مبتلا ہو کر اس حد خاص سے آگے بڑھنے لگتی ہے تو کسی دوسری قوم کے ذریعہ اس کا زور توڑ دیتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ ایسا نہ کرتا اور ایک ہی قوم یا پارٹی کا اقتدار زمین میں ہمیشہ قائم رکھا جاتا تو اس کا ظلم و تشدد انتہا کو پہنچ جاتا اور اللہ تعالیٰ کے ملک میں فساد عظیم بپا ہوجاتا۔ اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ کا یہ ضابطہ تمام اقوام پر اس کی بہت مہربانی ہے۔ |
البقرة |
252 |
[٣٥٥]ماضی کےحالات پرمطلع ہوناآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی دلیل ہے: یہاں آیات اللہ سے مراد وہ معجزہ نما واقعات ہیں جو بنی اسرائیل کو پیش آئے تھے۔ جیسے وبا سے ڈر کر گھر بار چھوڑنے والے ہزاروں لوگ جنہیں اللہ نے موت کے بعد زندہ کردیا یا جیسے داؤد کا اکیلے جالوت جیسے جابر بادشاہ کو مار ڈالنا اور اللہ تعالیٰ کی ایک مختصر سی جماعت کو غلبہ عطا فرمانا اور داؤد جیسے ایک گمنام چرواہے کو بادشاہی اور نبوت سے سرفراز فرمانا وغیرہ یہ واقعات ٹھیک ٹھیک ہم نے بذریعہ وحی آپ سے بیان کردیئے ہیں اور آپ کا قرون ماضیہ کے ٹھیک ٹھیک حالات لوگوں کو بتلانا یقیناً آپ کی رسالت پر ایک بڑی دلیل ہے۔ کیونکہ وحی الٰہی کے علاوہ آپ کے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں جس کی بنا پر آپ ایسے گزشتہ صحیح صحیح حالات جان سکیں اور دوسروں کو بتلا سکیں۔ |
البقرة |
253 |
[٣٥٦]انبیاء کی ایک دوسرے پرفضیلت:۔ انبیاء و رسل کی سب سے بڑی فضیلت تو یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں نبوت و رسالت عطا فرمائی۔ اس لحاظ سے ان میں کوئی فرق نہیں اور یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے کسی پیغمبر پر فضیلت نہ دو۔ نیز فرمایا کہ کسی پیغمبر کو کسی دوسرے پر فضیلت نہ دو۔ حتیٰ کہ یونس بن متی پر بھی (بخاری، کتاب التفسیر) رہی جزوی فضیلتیں تو اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے کسی رسول کو کسی ایک فضیلت سے نوازا اور دوسرے کو کسی دوسری فضیلت سے جیسا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بعض انبیاء کے فضائل خود ہی ذکر فرما دیئے اور یہاں فضائل سے مراد دراصل خصائص یا مخصوص معجزات ہیں جو دوسروں کو عطا نہیں ہوئے۔ مثلاً موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں اور اس زمین پر براہ راست کلام کیا جو اور کسی نبی سے نہیں کیا۔ اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرتے اور مٹی کے پرندے بناکر ان میں روح پھونک کر اڑا دیتے تھے۔
[٣٥٧] اختلاف اور باہمی لڑائی جھگڑے کی اصل بنیاد انسان میں قوت ارادہ و اختیار ہے۔ اگر انسان اس قوت و اختیار کو اللہ کی مرضی کے تابع بنا دے تو یہ ایمان ہے اور یہی اسلام ہے اور اگر اس کا آزادانہ استعمال کرنا شروع کر دے اور اللہ کے احکام کی پروا نہ کرے تو یہی کفر ہے۔
[٣٥٨] مشیت الٰہی اور لوگوں کے لڑائی جھگڑے :۔ یعنی اللہ کی مشیت یہ ہے کہ انسان کو قوت ارادہ دی جائے، پھر دیکھا جائے کہ کون اس کو درست استعمال کرتا ہے اور کون غلط؟ اور جو لوگ اس کا غلط استعمال کرتے ہیں وہی آپس میں اختلاف کرتے اور لڑائی جھگڑے کرتے رہتے ہیں اور اگر اللہ چاہتا تو انسان کو یہ قوت ہی نہ دیتا، پھر نہ کوئی اختلاف ہوتا اور نہ لڑائی جھگڑا۔ بس سب کے سب مومن ہوتے۔ لیکن ایسا ایمان اضطراری ہوتا اختیاری نہ رہتا۔ جب کہ مشیت الٰہی یہ ہے کہ لوگ اپنے اختیار سے ایمان لائیں یا کفر کریں۔ |
البقرة |
254 |
[٢٥٩] یہاں انفاق فی سبیل اللہ کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ مال سے محبت انسان کی فطرت میں داخل ہے اور اگر اس میں سے خرچ نہ کیا جائے تو یہ بات انسان کے لیے فتنہ اور اس کی ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں اے مسلمانو! جس دین پر تم ایمان لائے ہو اس کی راہیں ہموار کرنے اور اس کے قیام کے لیے مال کی ضرورت ہوتی ہے اور معاشرہ میں ناتواں اور محتاج افراد کی مدد کرنے کے لیے بھی اور ایسے ہی صدقات آخرت میں انسان کی نجات کا سبب بنیں گے لہٰذا اس طرف خصوصی توجہ دلائی گئی۔ ایک دفعہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ کونسا صدقہ اجر کے لحاظ سے بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا : ’’جو تندرستی کی حالت میں کرے، حرص رکھتا ہو، فقر سے ڈرتا ہو اور دولت کی امید رکھتا ہو، لہٰذا صدقہ کرنے میں جلدی کرو ایسا نہ ہو کہ جاں لبوں پہ آ جائے تو کہنے لگے کہ اتنا فلاں کو دے دو اور اتنا فلاں کو۔ حالانکہ اس وقت یہ مال اس کا نہیں اس کے وارثوں کا ہوتا ہے۔‘‘ (مسلم، کتاب الزکوٰۃ، باب ان افضل الصدقہ صدقہ الصحیح الشحیح) یعنی قیامت کے دن تمہارے یہی صدقات ہی کام آئیں گے۔ تمہاری یہ سوداگریاں اور دوستیاں کام نہیں آئیں گی۔ نہ ہی وہاں کسی کی سفارش کام دے گی۔
[٣٦٠] اس جملہ کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صدقات (بالخصوص زکوٰۃ) نہ دینے والے کافر ہیں اور وہی ظالم ہیں جو اللہ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے بھی اللہ کی راہ میں نہیں دیتے اور ایک وہ جو ترجمہ میں بیان کیا گیا ہے۔ یعنی جو لوگ قیامت کے دن اللہ کے قانون جزا و سزا اور اس کے ضابطہ پر ایمان نہیں رکھتے وہ کافر بھی ہیں اور ظالم بھی۔ |
البقرة |
255 |
[٣٦١] یہ آیت آیۃ الکرسی کے نام سے مشہور ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی ایسی مکمل معرفت بیان کی گئی ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ اسی لیے اس آیت کو قرآن کی سب سے افضل آیت قرار دیا گیا ہے۔ جیسا درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔
فضائل آیۃ الکرسی :۔۱۔ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے مجھ سے پوچھا ’’ابو منذر! جانتے ہو، تمہارے پاس کتاب اللہ کی سب سے عظمت والی آیت کونسی ہے؟‘‘ میں نے کہا : اللہ و رسولہ، اعلم۔ آپ نے پھر پوچھا : ابو منذر! جانتے ہو تمہارے پاس کتاب اللہ کی کونسی آیت سب سے عظیم ہے : میں نے کہا : ﴿لاَ اِلٰہَ الاَّ ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ﴾ آپ نے میرے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا : ’’ابو منذر! تمہیں علم مبارک ہو۔‘‘ (مسلم، کتاب فضائل القرآن وما یتعلق بہ۔ باب فضل سورۃ کہف و آیۃ الکرسی)
٢۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ نے مجھے صدقہ فطر کی حفاظت پر مقرر کیا۔ کوئی شخص آیا اور غلہ چوری کرنے لگا میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا : میں تجھے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جاؤں گا ؟ وہ کہنے لگا، میں محتاج ہوں، عیالدار اور سخت تکلیف میں ہوں۔ چنانچہ میں نے اسے چھوڑ دیا، جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا : ابوہریرہ ! آج رات تمہارے قیدی نے کیا کہا تھا ؟ میں نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس نے محتاجی اور عیالداری کا شکوہ کیا تھا۔ مجھے رحم آیا تو میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ نے فرمایا : دھیان رکھنا وہ جھوٹا ہے وہ پھر تمہارے پاس آئے گا۔ چنانچہ اگلی رات وہ پھر آیا اور غلہ اٹھانے لگا۔ میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا آج تو ضرور میں تمہیں آپ کے پاس لے جاؤں گا۔ وہ کہنے لگا مجھے چھوڑ دو میں محتاج ہوں اور عیالدار ہوں، آئندہ نہیں آؤں گا مجھے پھر رحم آ گیا اور اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ سلم نے مجھ سے پوچھا : ’’ابوہریرہ ! تمہارے قیدی نے کیا کیا ؟‘‘ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اس نے سخت محتاجی اور عیالداری کا شکوہ کیا تھا، مجھے رحم آ گیا تو میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ نے فرمایا : دھیان رکھنا وہ جھوٹا ہے اور وہ پھر آئے گا۔چنانچہ تیسری بار میں تاک میں رہا۔ وہ آیا اور غلہ سمیٹنے لگا : میں نے کہا : اب تو میں تمہیں ضرور آپ کے پاس لے جاؤں گا۔ اب یہ تیسری بار ہے تو ہر بار یہی کہتا رہا کہ پھر نہ آؤں گا مگر پھر آتا رہا۔
جھوٹابھی کبھی سچی بات کہہ دیتاہے:۔ اس نے کہا مجھے چھوڑ دو، میں تمہیں چند کلمے سکھاتا ہوں جو تمہیں فائدہ دیں گے۔میں نے کہا : وہ کیا ہیں؟ کہنے لگا : جب تو سونے لگے تو آیۃ الکرسی پڑھ لیا کر۔ اللہ کی طرف سے ایک فرشتہ تیرا نگہبان ہوگا۔ اور صبح تک شیطان تیرے پاس نہیں آئے گا۔ چنانچہ میں نے اسے پھر چھوڑ دیا، صبح ہوئی تو آپ نے مجھ سے پوچھا: تیرے قیدی نے آج رات کیا کیا ؟ میں نے آپ کو ساری بات بتلا دی، تو آپ نے فرمایا! اس نے یہ بات سچی کہی حالانکہ وہ کذاب ہے۔ پھر آپ نے مجھ سے کہا : ابوہریرہ ! جانتے ہو، تین راتوں سے کون تمہارے پاس آتا رہا ہے؟میں نے کہا : نہیں۔ آپ نے فرمایا وہ شیطان تھا۔ (بخاری۔ کتاب الوکالة باب اذا و کل رجلا فترک الوکیل شیأ..... الخ)
٣۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہر چیز کی ایک کوہان ہوتی ہے اور قرآن کی کوہان سورۃ بقرہ ہے اور اس میں ایک آیت جو قرآن کی سب آیتوں کی سردار ہے اور وہ آیت الکرسی ہے۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر۔ باب ماجاء فی سورۃ البقرة و آیۃ الکرسی)
الوہیت کی لازمی صفات اور سب معبودان باطل کابطلان :۔ اس آیت کی عظمت یہ ہے کہ یہ آیت جہاں اللہ تعالیٰ کی تحمید و تقدیس بیان کرتی ہے وہاں شرک کی سب اقسام کی جڑ کاٹ کے رکھ دیتی ہے۔ ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور اس کی دلیل میں دو باتیں یا دو صفات ارشاد فرمائیں، ایک یہ کہ وہ حَیٌّ ہے، ازل سے زندہ ہے اور ابد تک رہے گا۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ جو ہستی حی نہیں وہ الٰہ نہیں ہو سکتی، اس معیار پر پرکھا جائے تو دوسرے تمام الاہوں کی الوہیت باطل قرار پاتی ہے۔ اس لیے کہ وہ حادث ہیں اور جو چیز حادث ہے اسے فنا یا موت لازمی ہے۔ خواہ یہ معبود جمادات سے تعلق رکھتے ہوں یا نباتات سے یا حیوانات سے یا انسانوں یا فرشتوں اور جنوں سے یا اجرام سماوی سے یہ سب چیزیں حادث ہیں اور کوئی چیز بھی حَیٌّ ہونے کی صفت پر پوری نہیں اترتی، دوسری صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ قائم بالذات ہے اور دوسری تمام اشیاء کو قائم رکھنے والی ہے۔ یہ صفت بھی اللہ کے سوا دوسرے کسی معبود میں نہیں پائی جاتی۔ اجرام سماوی خود جکڑے بندے قانون کے تحت محو گردش ہیں۔ پتھروں کے معبود اپنے پجاریوں کے محتاج ہیں کہ وہ انہیں دھو دھا کر صاف کرتے رہیں۔ پھر جب چاہیں ان میں ادل بدل بھی کرلیں اور ان کی الوہیت ان مجاوروں اور مریدوں کے سہارے قائم ہے جو لوگوں سے نذرانے وصول کرتے ہیں اور ان اولیاء اللہ کے متعلق جھوٹے افسانے اور قصے کہانیاں ان کی طرف منسوب کر کے لوگوں کو ان سے ڈراتے دھمکاتے اور لوگوں کو نذرانے پیش کرنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ یہ لوگ اگر اپنی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیں تو ان کی خدائی ایک دن بھی نہیں چل سکتی۔
آگے فرمایا کہ اسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند۔ یہ اللہ تعالیٰ کی عیوب سے تقدیس ہے اونگھ نیند کا ابتدائی درجہ ہے اور نیند ایک اضطراری کیفیت ہے جو ہر جاندار کو اس وقت لاحق ہوتی ہے جب وہ کام کرتے کرتے تھک جاتا ہے۔ ایسی حالت میں نیند اس پر غالب آ کر اسے بے ہوش بنا دیتی ہے اور اس میں موت کے کچھ آثار بھی پائے جاتے ہیں۔ اسی لیے احادیث میں نیند کو موت کی بہن قرار دیا گیا ہے اور بعض احادیث میں اسے موت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اگر اونگھ یا نیند آ جائے تو اس کائنات کا سارے کا سارا نظام آن کی آن میں درہم برہم ہوجائے اور اللہ کے سوا جتنے معبود ہیں وہ سب یا تو پہلے ہی مردہ ہیں یا پھر وہ اونگھ، نیند اور موت کا شکار ہونے والے ہیں، لہٰذا وہ الٰہ نہیں ہو سکتے۔
سفارش کی کڑی شرط:۔ آگے فرمایا کہ زمین اور آسمان کی جملہ اشیاء اس کی مملوک ہیں اور وہ ان کا مالک ہے اور یہ تو ظاہر ہے جو چیز خود کسی دوسرے کی مملوک ہو وہ الٰہ نہیں ہو سکتی۔
پھر فرمایا کہ اس کے پاس کسی کو اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرنے کی قطعاً اجازت نہ ہوگی۔ عرب لوگ بھی کسی نہ کسی رنگ میں اللہ کے ہاں سفارش کے قائل تھے اور یہ سفارش دنیوی معاملات کے لیے بھی ہو سکتی ہے اور اخروی نجات کے لیے بھی۔ مشرکین کا سفارش کے متعلق یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ ان کے دیوتا یا فرشتے یا اولیاء چونکہ خود اللہ کی طرف سے تفویض کردہ اختیارات کے مالک ہیں۔ لہٰذا وہ ہمیں ہر طرح سے فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور چونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے پیارے ہیں۔ اس لیے صرف اللہ کے ہاں سفارش ہی نہیں بلکہ اس پر دباؤ ڈال کر اپنے ماننے والوں کو اللہ کی گرفت سے بچا سکتے اور ان کی بگڑی بنا سکتے ہیں۔ یہ عقیدہ چونکہ اللہ کے بجائے دوسروں پر توکل اور اعتماد کی راہ دکھلاتا ہے۔ لہٰذا اس عقیدہ کی پرزور الفاظ میں تردید فرما کر شرک کا یہ دروازہ بھی بند کردیا۔ ساتھ ہی (الا باذنہ) فرما کر سفارش کی کلیۃ نفی نہیں کی۔ بلکہ چند در چند شرائط عائد کر کے سفارش پر اعتماد کے عقیدہ کو یکسر ختم کردیا اور وہ شرائط یہ ہیں کہ اللہ جسے خود چاہے گا اسے ہی سفارش کی اجازت دے گا اور جس شخص کے حق میں چاہے گا اسی کے لیے اجازت دے گا اور جس کام کی معافی کے لیے سفارش کی اجازت دے گا۔ سفارش کرنے والا صرف اسی بات کے متعلق سفارش کرسکے گا۔
اس کے بعد فرمایا کہ اللہ تو سب لوگوں کے اگلے اور پچھلے، ماضی اور مستقبل کے سب حالات سے پوری طرح واقف ہے۔ جبکہ دوسرے اللہ کی وسعت علم کی گرد کو بھی نہیں پا سکے۔ سفارش تو یہ ہوتی ہے کہ فلاں شخص سے فلاں کام غلطی سے یا دانستہ سرزد ہوگیا ہے۔ اس کی زندگی کا سابقہ ریکارڈ بالکل ٹھیک ہے لہٰذا اس کا یہ گناہ معاف کردیا جائے۔ لیکن اللہ کے مقابلہ میں ان مشرکوں کے مزعومہ سفارشی اللہ کے علم میں کیا اضافہ کرسکتے ہیں ان کو تو اتنا ہی علم دیا گیا ہے جتنا کہ اللہ کو منظور تھا اور جو اپنی ذات کا بھی پورا علم نہیں رکھتا وہ دوسروں کے متعلق کیسے رکھتا ہے۔
آیۃ الکرسی معرفت الٰہی کاگنجینہ :۔ آگے فرمایا کہ اس کی کرسی تمام کائنات کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ یہاں بعض لوگوں نے کرسی کا معنی اقتدار کیا ہے، لیکن ہم ان لوگوں کے نظریہ کے قائل نہیں بلکہ ہمارے خیال میں کرسی کے لفظ کے معانی میں جو جامعیت ہے وہ اقتدار میں نہیں ہے۔ پھر کوئی اللہ کی گرفت سے بچ کر کہاں جا سکتا ہے۔
آگے فرمایا کہ کائنات کے انتظام و انصرام اور اس کی حفاظت اللہ تعالیٰ کو نہ تھکاتی ہے اور نہ گرانبار بناتی ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کو انسان اور انسانی کمزوریوں پر محمول نہ کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات تو ہر قسم کی تشبیہات سے ماورا بھی ہے اور عظمت والی بھی ہے۔ گویا ان آخری جملوں میں پھر اللہ تعالیٰ کی تقدیس بیان کی گئی ہے۔ گویا تحمید، تسبیح اور تقدیس سب پہلوؤں سے یہ آیت ایک جامع آیت ہے۔
[٣٦٢] یہاں ہم تین احادیث صحیحہ درج کرتے ہیں جس سے شفاعت کے کئی پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے۔ مثلاً یہ کہ قیامت کا دن اس قدر ہولناک ہوگا کہ بڑے بڑے انبیاء بھی اللہ کے حضور سفارش کرنے کی جرات نہ کرسکیں گے اور بالآخر قرعہ فال نبی آخر الزمان پر پڑے گا، نیز یہ کہ سفارش کیسے لوگوں کے حق میں ہوگی، نیز یہ کہ ہمارے ہاں جو پیر و فقیر اپنے مریدوں سے بےدھڑک شفاعت کرنے کے وعدے کرتے ہیں یا جن لوگوں نے اپنی اخروی نجات کا انحصار ہی اپنے پیروں اور مشائخ کی شفاعت سمجھا ہوا ہے اس کی کیا حقیقت ہے وغیرہ وغیرہ۔
١۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : قیامت کے دن ایماندار لوگ جمع ہو کر کہیں گے بہتر یہ ہے کہ ہم اپنے پروردگار کے حضور کسی کی سفارش پہنچائیں۔ وہ آدم علیہ السلام کے پاس آ کر کہیں گے۔آپ سب لوگوں کے باپ ہیں۔ آپ کو اللہ نے اپنے ہاتھ سے بنایا، فرشتوں سے سجدہ کرایا اور آپ کو تمام اشیاء کے نام سکھلائے۔ لہٰذا اپنے پروردگار کے ہاں ہماری سفارش کریں کہ وہ اس مصیبت کی جگہ سے نکال کر آرام دے۔ وہ کہیں گے : میں اس لائق نہیں اور وہ اپنا قصور یاد کر کے (اللہ کے حضور جانے سے) شرمائیں گے اور کہیں گے: تم نوح کے پاس جاؤ۔ وہ پہلے رسول ہیں۔ جنہیں اللہ نے زمین والوں کی طرف بھیجا، لوگ نوح کے پاس جائیں گے تو وہ کہیں گے: میں اس کا اہل نہیں۔ وہ اپنا سوال یاد کر کے شرمائیں گے جو انہوں نے بغیر علم کے اپنے پروردگار سے کیا تھا۔ پھر کہیں گے تم اللہ کے خلیل (حضرت ابراہیم علیہ السلام) کے پاس جاؤ۔ لوگ ان کے پاس آئیں گے۔ وہ بھی یہی کہیں گے کہ میں اس کا اہل نہیں۔ تم موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ وہ ایسے بندے ہیں جن سے اللہ نے کلام کیا اور انہیں تورات دی۔چنانچہ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ کہیں گے: میں اس کا اہل نہیں۔ وہ اپنے خون ناحق کو یاد کر کے اپنے پروردگار کے ہاں جانے سے شرمائیں گے اور کہیں گے : تم عیسیٰ کے پاس جاؤ، وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول، اس کا کلمہ اور اس کی روح ہیں۔ اب لوگ ان کے پاس جائیں گے تو وہ کہیں گے : میں اس کا اہل نہیں۔ تم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاؤ۔ وہ ایسے (مقرب) بندے ہیں جن کے اللہ تعالیٰ نے سب اگلے پچھلے قصور معاف کردیئے ہیں۔۔ شفاعت کبریٰ :۔ پھر لوگ میرے پاس آئیں گے تو میں وہاں سے چل کر اپنے پروردگار کے حضور حاضر ہونے کی اجازت طلب کروں گا، مجھے اجازت مل جائے گی۔ پھر جب میں اپنے پروردگار کو دیکھوں گا تو سجدہ میں گر جاؤں گا پھر جب تک پروردگار چاہے گا، مجھے سجدہ میں پڑا رہنے دے گا، پھر ارشاد ہوگا، اپنا سر اٹھاؤ اور سوال کرو وہ تمہیں دیا جائے گا اور بات کرو تو سنی جائے گی اور سفارش کرو تو قبول کی جائے گی۔ چنانچہ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اس کی ایسی تعریف کروں گا جو اللہ تعالیٰ مجھے اس وقت سکھلائے گا۔ پھر میں سفارش کروں گا جس کے لیے ایک حد مقرر کی جائے گی۔ میں ان لوگوں کو بہشت میں پہنچا دوں گا۔ پھر اپنے پروردگار کی طرف لوٹ آؤں گا اور جب اپنے پروردگار کو دیکھوں گا تو پہلے کی طرح سجدہ میں گر جاؤں گا۔ پھر میں سفارش کروں گا تو میرے لیے ایک حد مقرر کردی جائے گی، میں انہیں جنت میں داخل کروں گا۔ پھر تیسری بار اپنے پروردگار کی طرف لوٹ آؤں گا، پھر چوتھی بار آؤں گا۔ اور عرض کروں گا : پروردگار! اب تو دوزخ میں (جانے والے) وہی لوگ باقی رہ گئے ہیں جو قرآن کی رو سے دوزخ میں جانے کے لائق ہیں اور انہیں ہمیشہ دوزخ میں رہنا ہے۔ (بخاری، کتاب التفسیر) زیر آیت ﴿عَلَّمَ اٰدَمَ الأَسْمَاءَ﴾
٢۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : میں قیامت کے دن تمام اولاد آدم کا سردار ہوں گا اور اس میں کوئی فخر نہیں اور حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہوگا اور اس میں کوئی فخر نہیں اور آدم اور باقی سب انبیاء میرے جھنڈے تلے ہوں گے اور سب سے پہلے زمین میرے ہی لیے (بعث کے لیے) شق ہوگی اور اس میں کوئی فخر نہیں۔ پھر آپ نے تین بار فرمایا کہ لوگ اس دن بہت گھبرائے ہوئے ہوں گے۔ وہ آدم علیہ السلام کے پاس آ کر کہیں گے : ’’آپ ہمارے باپ ہیں لہٰذا ہمارے رب کے ہاں ہماری سفارش کیجئے‘‘وہ کہیں گے : ’’مجھ سے ایسا گناہ سرزد ہوا جس کی وجہ سے زمین پر اتارا گیا۔ البتہ تم لوگ نوح کے پاس جاؤ‘‘ لوگ نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ کہیں گے : میں نے ساری زمین والوں کے لیے بددعا کی اور وہ ہلاک ہوگئے، البتہ تم ابراہیم کے پاس جاؤ۔ لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ کہیں گے : میں نے تین جھوٹ بولے ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا : کہ آپ نے کوئی جھوٹ نہیں بولا مگر اس سے دین کی تائید مقصود تھی۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کہیں گے کہ تم موسیٰ کے پاس جاؤ، لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ کہیں گے : میں نے ایک شخص کو مار ڈالا تھا۔ اب تم عیسیٰ کے پاس جاؤ۔ وہ کہیں گے۔ ' مجھے لوگوں نے اللہ کے علاوہ معبود بنا ڈالا تھا۔ تم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاؤ۔ پھر سب لوگ میرے پاس آئیں گے۔ سو میں ان کے ساتھ جاؤں گا اور جا کر جنت کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گا۔ اندر سے کوئی پوچھے گا : ’’یہ کون ہے؟‘‘ کہا جائے گا: ’’ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں‘‘ تو وہ میرے لیے دروازہ کھول دیں گے اور مجھے خوش آمدید کہیں گے اور تواضع کریں گے، میں سجدہ میں گر جاؤں گا۔ اس وقت اللہ مجھے اپنی حمد و ثنا الہام کرے گا۔ پھر مجھے کہا جائے گا اپنا سر اٹھاؤ اور مانگو تمہیں دیا جائے گا اور سفارش کرو تو قبول کی جائے گی اور تمہاری بات سنی جائے گی اور یہی وہ مقام محمود ہے جس کا اللہ نے اس آیت میں ذکر فرمایا ہے: ﴿وَمِنَ الَّیْلِ فَتَہَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ ڰ عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا ﴾ (ترمذی، ابو اب التفسیر، سورۃ بنی اسرائیل)
٣۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ سے پوچھا! ’’یا رسول اللہ ! قیامت کے دن آپ کی شفاعت کا سب سے زیادہ مستحق کون ہوگا ؟‘‘ آپ نے فرمایا! ’’ابوہریرہ ! مجھے معلوم تھا کہ تجھ سے پہلے مجھ سے کوئی یہ بات نہ پوچھے گا کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں حدیث سننے کی کتنی حرص ہے تو سنو : میری شفاعت سب سے زیادہ اس شخص کے نصیب میں ہوگی جس نے سچے دل سے لا الہ الا اللہ کہا ہو۔ (بخاری، کتاب العلم۔ باب الحرص علی الحدیث)
[٣٦٣] اللہ کےعلم کی وسعت :۔ کیونکہ یہ کائنات اور اس کی وسعت لامحدود ہے اور اس کا احاطہ انسان کی بساط سے باہر ہے۔ انسان جتنی طاقتور سے طاقتور دوربینیں ایجاد کرتا ہے، کائنات کی وسعت دیکھ کر اس کی حیرانگی میں مزید اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ پھر بھلا وہ اس کے علم کا کیا احاطہ کرسکے گا۔ انسان کا علم تو بس اتنا ہی ہے جتنا اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ انبیاء کو عطا کیا یا پھر انسان نے خود بعض اشیاء پر تجربے کر کے حاصل کرلیا ہے اور یہ ایسا ہی ہے جیسے سمندر کے مقابلہ میں پانی کی ایک بوند۔ |
البقرة |
256 |
[٣٦٤]اسلام لانے میں جبرنہیں:۔ انسان کو جو قوت ارادہ دی گئی ہے کہ وہ چاہے تو اپنے آپ کو اللہ کی مرضی کے تابع بنا دے۔ ایسی ہی اطاعت کا نام دین ہے اور یہی ہدایت ہے اور دین کے عقائد اس آیۃ الکرسی میں وضاحت سے بیان ہوگئے ہیں اور چاہے تو اپنی اس قوت ارادہ کا آزادانہ استعمال کرے اور اسی کا نام کفر بھی ہے اور گمراہی بھی اور ان دونوں باتوں کی پوری وضاحت کردی گئی ہے۔ اب ہر انسان دین اسلام کو اختیار کرنے کی حد تک تو آزاد ہے چاہے تو قبول کرے چاہے تو رد کر دے۔ مگر اسلام کو قبول کرلینے کے بعد اسے اختیار نہیں رہتا کہ وہ دین کے احکام و ہدایات کو اپنی عقل کی کسوٹی پر پرکھنا شروع کر دے اور جو اسے معقول نظر آئے اسے تسلیم کرلے اور باقی کا انکار کر دے یا احکام میں سے کچھ پر عمل کرے اور جو اس کی طبیعت پر گراں گزریں یا ناپسند ہوں انہیں چھوڑ دے۔ یہ بھی گمراہی ہے اور نہ ہی اسے دین اسلام کو چھوڑنے کا اختیار باقی رہتا ہے۔ کیونکہ اسلام ایک تحریک ہے روایتی قسم کا مذہب نہیں۔ لہٰذا دین سے ارتداد پوری امت سے بغاوت کے مترادف ہے۔ (تفصیل کے لیے سورۃ توبہ کا حاشیہ نمبر ٣٨ دیکھئے)
[٣٦٥]طاغوت کامفہوم:۔ طاغوت ہر وہ باطل قوت ہے جو اللہ کے مقابلہ میں اپنا حکم دوسرے سے منوائے یا لوگ اللہ کے مقابلہ میں اس کے احکام تسلیم کرنے لگیں خواہ وہ کوئی مخصوص شخص ہو یا ادارہ ہو اور ظاہر ہے یہ مقتدر قسم کے لوگ ہی ہو سکتے ہیں۔ خواہ وہ مذہبی ہوں یا سیاسی ہوں۔ مثال کے طور پر آج کل جتنی قومی، لسانی یا علاقائی تحریکیں چل رہی ہیں۔ یہ سب اسلام کی رو سے ناجائز ہیں اب جو شخص یا ادارہ ایسی تحریکوں کو چلائے گا وہ طاغوت ہے۔ اسی طرح شیطان بھی طاغوت ہے اور ایسے پیر فقیر بھی جو خود بھی معصیت کے مرتکب ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی ایسی ہی تلقین کرتے ہیں۔ اسی طرح ہر انسان کا اپنا نفس بھی طاغوت ہوسکتا ہے۔ جبکہ وہ اللہ کی فرمانبرداری سے انحراف کر رہا ہو۔
[٣٦٦] مضبوط حلقہ سے مراد پوری شریعت اور اس کا نظام ہے اور یہی حلقہ ہے جو انسان کو ہر طرح کی گمراہی سے بچا سکتا ہے۔ بشرطیکہ اس سے چمٹا رہے اور ادھر ادھر جانے والی پگڈنڈیوں کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھے۔ ایسا شخص یقینا کامیاب ہوگا۔ |
البقرة |
257 |
[٣٦٧] دو مقاموں کے درمیان سیدھا راستہ صرف ایک ہی ہوتا ہے۔ جبکہ ٹیڑھی راہیں بے شمار ہوتی ہیں۔ بالفاظ دیگر کفر و ضلالت کے اندھیرے کئی طرح کے اور بے شمار ہیں جبکہ اسلام کا نور ایک ہی ہے اور ایک ہی طرح کا ہے۔ اسی طرح طاغوت بے شمار ہو سکتے ہیں جبکہ معبود حقیقی صرف ایک اللہ ہے۔ اسی لحاظ سے اس آیت میں اسلام کی سیدھی راہ یا روشنی کے لیے واحد اور کفر کی تاریکیوں کے لیے جمع کی ضمیریں استعمال ہوئی ہیں، مطلب یہ ہے کہ جو شخص اللہ کے اس مضبوط حلقہ کو تھامے رکھتا ہے۔ اللہ اس کا سرپرست بن جاتا ہے اور اسے کفر و ضلالت کی گمراہیوں سے نکال کر اسلام کی روشنی کی طرف لے آتا ہے اور جو لوگ اس مضبوط حلقہ یا شریعت سے اعراض و انکار کرتے ہیں تو ہر طرح کے طاغوت اس کے سرپرست بن جاتے ہیں جو اس کو ہدایت کی راہ سے منحرف کر کے کفر و ضلالت کی گمراہیوں اور تاریکیوں میں جا دھکیلتے ہیں۔ پھر اسے اسلام کی روشنی نظر آ ہی نہیں سکتی۔ |
البقرة |
258 |
[٣٦٨]نمرود کی خدائی کس قسم کی تھی ؟ یہ شخص نمرود بادشاہ عراق تھا اور اس کا دارالخلافہ بابل تھا جہاں آج کل کوفہ آباد ہے خدائی کا دعویدار تھا یہ خود اور اس کی رعایا سب مشرک تھے۔ نمرود کی خدائی کس قسم کی تھی؟ یہ جاننے کے لیے تھوڑی سی تفصیل ضروری معلوم ہوتی ہے۔ شرک کی تین اقسام ہیں:۔
شرک کی قسمیں :شرک فی الربوبیت :۔ ایسا شرک عموماً کوئی بھی نہیں کرتا۔ مشرکین مکہ ہوں یا نمرود ہو یا فرعون ہو کسی سے بھی پوچھا جائے کہ یہ آسمان و زمین کس نے بنائے۔ زمین سے پیداوار کون اگاتا ہے۔ کائنات کو کس نے پیدا کیا اور شمس و قمر کا نظام چلانے والا کون ہے تو سب یہی جواب دیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہے۔ البتہ ربوبیت کے منکر ضرور موجود رہے ہیں یعنی دہریہ قسم کے لوگ یا فلکیات کے ماہرین جو ساری کائنات کو مادہ کی بدلی ہوئی شکلیں اور ارتقائی پیداوار کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔
دوسری قسم شرک فی الصفات ہے۔ آگے اس کی پھر دو قسمیں ہیں، ایک وہ جس کا تعلق مافوق الفطری اسباب سے ہوتا ہے۔ مثلاً دعائیں سننا اور انہیں قبول کرنا، حاجت روائی اور مشکل کشائی کسی کے رزق میں تنگی اور فراخی پیدا کرنا، بارش برسانا، کسی کو اولاد دینا وغیرہ وغیرہ، ایسا شرک عام پایا جاتا ہے۔ مشرکین مکہ کے ہوں یا عراق کے ہوں، مصر کے ہوں یا ہندوستان کے، انہوں نے ایسے کاموں کے لیے لاتعداد دیوی یا دیوتا بنا رکھے تھے اور مندرجہ بالا کام انہیں کے سپرد تھے اور ان کے بتوں اور مجسموں کی پوجا کی جاتی تھی۔ اس قسم کا شرک ہم مسلمانوں میں بھی عام پایا جاتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے ہم نے امور اپنے پیروں فقیروں اور بزعم خود اولیاء اللہ کے سپرد کر رکھے ہیں خواہ وہ زندہ ہوں یا مردہ ہوچکے ہوں۔
جمہوریت میں شرک کی کون سی قسم پائی جاتی ہے؟ شرک کی تیسری قسم وہ ہے جس کا تعلق شرک فی الصفات کی دوسری قسم سے ہے اور وہ فطری اسباب سے ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر طاغوت یا طواغیت سے ہوتا ہے جس کا ذکر پچھلی آیت میں آیا ہے جو اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں اپنی حکمرانی تسلیم کرواتے ہیں۔ آج کی زبان میں اسے اقتدار اعلیٰ کہتے ہیں۔ نمرود بھی اس قسم کا خدا تھا اور فرعون بھی اور ان جیسے اور بھی کئی خدائی کے وعدے کرچکے اور کر رہے ہیں۔ پھر اقتدار اعلیٰ کی بھی دو قسمیں ہیں، قانونی اقتدار اعلیٰ اور سیاسی اقتدار اعلیٰ دونوں قسم کا یہ اقتدار اعلیٰ ایسے حکمرانوں کے پاس ہی ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کا ہر لفظ قانون ہوتا ہے اور ان کے حکم کے آگے کسی کو دم مارنے کی مجال نہیں ہوتی اور ایسے ممالک جہاں آج کل جمہوریت رائج ہے وہاں بھی اکثر شرک کی یہ قسم پائی جاتی ہے۔ کیونکہ ان ملکوں میں سیاسی اقتدار اعلیٰ تو عوام کے پاس ہوتا ہے یعنی طاقت کا سرچشمہ عوام ہوتے ہیں۔ وہی جسے چاہیں اپنی رائے سے نمائندہ یا حکمران بنا دیں اور قانونی اقتدار اعلیٰ اسمبلی یا پارلیمنٹ کے پاس ہوتا ہے (یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ جمہوریت میں اقتدار اعلیٰ اسمبلی یا پارلیمنٹ کے پاس ہوتا ہے.......(جمہوریت میں اقتدار اعلیٰ کوئی انسان یا کوئی ادارہ ہی ہو سکتاہے) جبکہ اسلامی نقطہ نظر سے قانونی اور سیاسی مقتدر اعلیٰ کوئی فرد یا ادارہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ایسا مقتدر اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ جمہوری ممالک میں کوئی بڑی سے بڑی عدالت بھی پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون کے سامنے دم نہیں مار سکتی۔ اس لحاظ سے نمرود کی خدائی اور جمہوریت کی خدائی میں کوئی فرق نہیں ہے۔
آزر کا تعارف:۔ نمرود ہی کے دربار میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا باپ شاہی مہنت تھا جو بت گر بھی تھا اور بت فروش بھی اور نمرود کے مقربین میں سے تھا۔ اسی بنا پر باپ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو گھر سے نکالا تھا اور جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان لوگوں کے بت توڑے تھے تو اسی باپ نے اپنے بیٹے کا مقدمہ نمرود کے دربار میں پیش کیا تھا۔
[٣٦٩]سیدنا ابراہیم اورنمرود کامکالمہ :۔ دربار میں پیشی ہوئی تو زیر بحث مسئلہ '' خدائی'' ہی کا تھا۔ دوران بحث حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا اور مارتا ہے تو نمرود کہنے لگا کہ یہ دونوں کام تو میں بھی کرسکتا ہوں۔ چنانچہ اس نے ایک بے قصور آدمی کو بلاوجہ قتل کروا دیا اور ایک ایسے قیدی کو جسے سزائے موت ہوچکی تھی آزاد کردیا۔
[٣٧٠] حضرت ابراہیم علیہ السلام نمردو کے اس کام کا یہ جواب دے سکتے تھے کہ جس شخص کو تو نے مروا ڈالا ہے اسے زندہ کر کے دکھا تو جانیں۔ مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس میدان کو چھوڑ دیا اور ربوبیت کے میدان میں آ گئے اور کہا کہ میرا رب سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تو اسے مغرب سے نکال کے دکھا۔ اب چونکہ نمرود یہ سمجھتا تھا کہ کائنات کے نظام میں میرا کوئی دخل اور اختیار نہیں۔ لہٰذا وہ فوراً لاجواب ہوگیا۔ حالانکہ اگر وہ سوچتا تو کہہ سکتا تھا کہ اگر میں سورج کو مغرب سے نہیں نکال سکتا تو تم اپنے رب سے کہو کہ مغرب سے نکال کے دکھائے، اور اس صورت میں عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کوئی ایسا معجزہ دکھلا بھی دیتے۔ مگر چونکہ نمرود کا پختہ عقیدہ تھا کہ کائنات کا نظام اللہ ہی چلاتا ہے اور وہ چاہے تو ایسا بھی کرسکتا ہے۔ لہٰذا سوائے خاموشی اور حیرانگی کے اس سے کچھ بھی بن نہ پڑا اس طرح ابراہیم علیہ السلام نے بھرے دربار میں نمرود پر یہ بات واضح کردی کہ میرا خدا یا معبود تو نہیں، بلکہ وہ معبود حقیقی ہے جس کا پوری کائنات میں تصرف و اختیار چلتا ہے اس مباحثہ میں لاجواب ہونے کے باوجود نمرود کو کسی قیمت پر بھی اپنے خدائی کے دعوے سے دستبردار ہونا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہدایت پر توجہ کرنا گوارا نہ ہوا اور جو لوگ گمراہی میں اس حد تک آگے بڑھ چکے ہوں انہیں ہدایت کی راہ نصیب بھی نہیں ہوتی۔ |
البقرة |
259 |
[٣٧١]بخت نصر بابلی کابیت المقدس پرحملہ: اشیائے کائنات میں اللہ تعالیٰ کس کس طرح کے محیر العقول تصرف کرسکتا ہے؟ یہ بتلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرا واقعہ بیان فرمایا۔ یہ واقعہ حضرت عزیر علیہ السلام سے تعلق رکھتا ہے جن کے متعلق مشہور ہے کہ انہیں ساری تورات زبانی یاد تھی۔ بخت نصر نے شام پر حملہ کر کے بیت المقدس کو ویران کیا اور بہت سے اسرائیلیوں کو قید کر کے اپنے ہاں بابل لے گیا تو ان میں حضرت عزیر علیہ السلام بھی تھے۔ کچھ مدت بعد رہائی ہوئی اور واپس اپنے وطن آ رہے تھے کہ راہ میں ایک اجڑا ہوا شہر دیکھا جو بخت نصر کے حملہ کے نتیجہ میں ہی ویران ہوا تھا۔ اسے دیکھ کر دل ہی میں یہ خیال آیا کہ اللہ اب اس بستی کو کب اور کیسے آباد کرے گا ؟ اس وقت آپ ایک گدھے پر سوار تھے اور خورد و نوش کا سامان ساتھ تھا۔ اس خیال کے آتے ہی اللہ نے آپ کی روح قبض کرلی۔
[٣٧٢] اور پورے سو سال موت کی نیند سلا کر پھر انہیں زندہ کر کے پوچھا : ’’بتلاؤ کتنی مدت اس حال میں پڑے رہے؟‘‘ اب عزیر علیہ السلام کے پاس ماسوائے سورج کے، وقت معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا جب جا رہے تھے تو پہلا پہر تھا اور اب دوسرا پہر کہنے لگے ’’ یہی بس دن کا کچھ حصہ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ دوسرا دن ہو‘‘کیونکہ اس سے زیادہ انسان کبھی نہیں سوتا۔
[٣٧٣]سیدنا عزیر اور اجڑی بستی :۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : دیکھو تم سو سال یہاں پڑے رہے ہو جب عزیر علیہ السلام نے اپنے بدن اور جسمانی حالت کی طرف اور اپنے سامان خورد و نوش کی طرف دیکھا تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ وہی دن ہے جب ان پر نیند طاری ہوئی تھی۔ پھر جب اپنے گدھے کی طرف دیکھا کہ اس کی ہڈیاں تک بوسیدہ ہوگئی ہیں تو سمجھے کہ واقعی سو سال گزر چکے ہوں گے۔ ان کے دیکھتے ہی دیکھتے ہڈیوں میں حرکت پیدا ہوئی، پھر وہ جڑنے لگیں۔ پھر ہڈیوں کے اس پنجر پر گوشت پوست چڑھا اور ان کے دیکھتے ہی دیکھتے گدھا زندہ ہو کر کھڑا ہوگیا۔ پھر اس بستی کی طرف نظر دوڑائی جسے دیکھ کر ایسا خیال آیا تھا تو وہ بھی آباد ہوچکی تھی۔
اب دیکھئے اس واقعہ میں درج ذیل معجزات وقوع پذیر ہوئے۔
سیدناعزیرکی ذات خود ایک معجزہ تھی:۔ حضرت عزیر علیہ السلام خود بھی، ان کا گدھا بھی اور وہ بستی بھی مرنے کے بعد زندہ ہوئے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیر علیہ السلام کے خیال کا تین طریقوں سے جواب دیا۔ جس سے آپ کو عین الیقین حاصل ہوگیا۔
٢۔ اس سو سال کی مدت کا نہ آپ کی ذات پر کچھ اثر ہوا، نہ آپ کے سامان خورد و نوش پر۔
چنانچہ جب آپ واپس اپنے گھر پہنچے تو آپ کے بیٹے اور پوتے تو بوڑھے ہوچکے تھے اور آپ خود ان کی نسبت جوان تھے۔ اس طرح آپ کی ذات بھی تمام لوگوں کے لیے ایک معجزہ بن گئی۔ غالباً اسی وجہ سے یہودیوں کا ایک فرقہ انہیں ابن اللہ کہنے لگا تھا۔
٣۔ لیکن گدھے پر سو سال کا عرصہ گزرنے کے جملہ اثرات موجود تھے۔ یہ تضاد زمانی بھی ایک بہت بڑا حیران کن معاملہ اور معجزہ تھا۔
٤۔ آپ کی آنکھوں کے سامنے گدھے کی ہڈیوں کا جڑنا، اس کا پنجر مکمل ہونا، اس پر گوشت پوست چڑھنا پھر اس کا زندہ ہونا اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر بہت بڑی دلیل ہے۔ |
البقرة |
260 |
[٣٧٤] غیب پر انبیاء کا ایمان جس قدر پختہ ہوتا ہے دوسروں کا نہیں ہوسکتا مگر جس مشن کے لیے انہیں کھڑا کیا جاتا ہے۔ اس کا ایک تقاضا یہ بھی ہوتا ہے کہ انہیں عین الیقین حاصل ہو، تاکہ وہ دوسرے لوگوں کو آنکھوں دیکھی حقیقت کی بنیاد پر ایمان بالغیب کی پرزور دعوت دے سکیں اسی لیے اکثر انبیاء کو ملکوت السموت والارض کی سیر بھی کرا دی جاتی ہے اور کسی حد تک مافوق الفطری اسباب پر مطلع بھی کردیا جاتا ہے اور پچھلے واقعہ میں حضرت عزیر علیہ السلام کو ایسے اسباب دکھلائے گئے۔ اب یہاں اسی نوعیت کا سوال حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے پروردگار کے حضور پیش فرما رہے ہیں۔ اور اپنا دلی اطمینان چاہتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معراج کے دوران ملکوت السموات والارض کی سیر کرائی گئی تھی۔ نیز ایک دفعہ خواب میں اور ایک دفعہ نماز کسوف پڑھاتے وقت آپ کو جنت اور دوزخ دکھلائے گئے تھے۔
[٣٧٥] چارمردہ پرندوں کی دوبارہ زندگی :۔ اس آیت کی جزئیات میں مفسرین نے بہت اختلاف کیا ہے۔ مثلاً یہ کہ چاروں پرندے ایک ہی جنس کے تھے۔ یا الگ الگ جنسوں کے، جزء اً سے مراد ان کو ذبح کر کے اور قیمہ بنا کر چاروں پرندوں کے گوشت کو ملا دینا ہے یا فقط ٹکڑے کردینا ہی کافی ہے یا ملا دینا بھی ضروری ہے۔ یہ پہاڑ بھی آیا چار ہی تھے جن پر ایک ایک حصہ رکھا گیا یا کم و بیش تھے جن پر بانٹ کر ہر حصہ رکھا گیا۔ کیا ان پرندوں کے سر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان حصوں میں ہی ملا دیئے تھے یا اپنے ہی پاس رکھے تھے۔ یہ سب تفصیلات مقصد کے لحاظ سے بے معنی ہیں۔ مقصد تو صرف یہ تھا کہ موت کے بعد مردہ جسم کی کوئی بھی پیچیدہ سے پیچیدہ صورت بن جائے تو اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ وہ ہر طرح کے مردہ کو زندہ کر کے دکھلا دے۔
یہ واقعہ بھی چونکہ خرق عادات اور معجزہ ہے۔ لہٰذا عقل پرستوں اور منکرین معجزات کو اس کی بھی مضحکہ خیز قسم کی تاویل کرنا پڑی۔ چنانچہ پرویز صاحب اس آیت کا ترجمہ یا مفہوم یوں بیان فرماتے ہیں :۔
اللہ کامردوں کوزندہ کرنے کی لاجواب پرویزی تاویل:۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ سے کہا کیا یہ ممکن ہے کہ اس قسم کی مردہ قوم بھی از سر نو زندہ ہوجائے اور اگر یہ ممکن ہے تو مجھے یہ بتلا دیجئے کہ اس کے لیے کیا طریق کار اختیار کیا جائے، یہ سب کچھ ﴿کَیْفَ تُحْیِی الْمَوْتیٰ﴾ کا ترجمہ یا مفہوم ہے آپ نے موتٰی کا ترجمہ مردہ قوم ارنی کا ترجمہ مجھے بتلاؤ اور کیف تحی کا ترجمہ مردہ قوم کے از سر نو زندہ ہونے کا طریق کار کیا ہے؟ اللہ نے فرمایا پہلے یہ تو بتلاؤ کہ تمہارا اس پر ایمان ہے کہ مردہ قوم کو حیات نو مل سکتی ہے؟ ابراہیم علیہ السلام نے کہا : اس پر تو میرا ایمان ہے لیکن میں اس کا اطمینان چاہتا ہوں۔ اللہ نے کہا تم چار پرندے لو۔ شروع میں وہ تم سے دور بھاگیں گے۔ انہیں اس طرح آہستہ آہستہ سدھاؤ کہ وہ تم سے مانوس ہوجائیں۔ آخرالامر ان کی یہ حالت ہوجائے گی کہ اگر تم انہیں الگ الگ مختلف پہاڑیوں پر چھوڑ دو اور انہیں آواز دو تو وہ اڑتے ہوئے تمہاری طرف آ جائیں گے۔ بس یہی طریقہ ہے حق سے نامانوس لوگوں میں زندگی پیدا کرنے کا۔ تم انہیں اپنے قریب لاؤ اور نظام خداوندی سے روشناس کراؤ (یہ (واعلم) کا ترجمہ ہے) یہ نظام اپنے اندر اتنی قوت اور حکمت رکھتا ہے کہ اسے چھوڑ کر یہ کہیں نہ جا سکیں گے۔ یہ ﴿اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ ﴾ کا ترجمہ ہے۔ (مفہوم القرآن ص ١٠٣) اب دیکھئے کہ :۔
١۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام تو اللہ سے مردوں کو زندہ کرنے کی بات پوچھ رہے ہیں۔ لیکن پرویز صاحب نے ’مردہ قوموں‘ کی دوبارہ زندگی کے اسرار ورموز بیان کرنا شروع کردیئے ہیں۔
٢۔ مردہ قوموں کی دوبارہ زندگی کے لیے آپ نے جو ہدایات حضرت ابراہیم علیہ السلام سے منسوب فرمائی ہیں ان کی حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کوئی تخصیص نہیں۔ یہ تو تبلیغ کا عام طریقہ ہے جسے تمام انبیاء اپناتے رہے ہیں۔ مردوں کو زندہ کرنے اور بالخصوص حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دلی اطمینان کی اس میں کیا بات ہے؟
٣۔ حق سے مانوس شدہ لوگوں کو ٹیسٹ کرنے کا یہ طریقہ بھی کیسا شاندار ہے کہ پہلے نبی ایسے لوگوں کو الگ الگ پہاڑیوں پر چھوڑ آیا کریں۔ پھر انہیں بلائیں، اس سے پہلے نہ بلائیں بہرحال وہ نبی کی آواز سن کر دوڑتے ہوئے ان کے پاس پہنچ جائیں گے۔ کیا مردہ قوموں کی دوبارہ زندگی کا یہی طریقہ ہے؟
٤۔ اِعْلَمْ کا ترجمہ یا مفہوم تم انہیں نظام خداوندی سے روشناس کراؤ۔ پرویز صاحب جیسے مفسر قرآن کا ہی حصہ ہوسکتا ہے۔
٥۔ اس آیت میں لفظ جزء اً کا معنی حصہ یا ٹکڑا ہے اور پرندوں کا حصہ یا ٹکڑا اسی صورت میں ہوسکتا ہے جبکہ انہیں ذبح کردیا جائے یا کاٹ دیا جائے جس سے ان کی زندگی ختم ہوجائے اور یہی مَوْتٰی کا مفہوم ہے۔ لیکن پرویز صاحب نے اس کا مفہوم مردہ قوموں کو مانوس کرنا پھر انہیں الگ الگ کردینا بتلایا۔ اور اللہ کے عزیز حکیم ہونے کو نظام خداوندی کے قوت اور حکمت والا ہونے سے تعبیر کر کے اس واقعہ کے معجزہ ہونے سے بہرحال گلوخلاصی کرا ہی لی۔ اور یہ ثابت کردیا اللہ مردوں کو زندہ نہیں کیا کرتا ہے بلکہ مردہ قوموں کو زندہ کرتا ہے۔ وہ اپنے پیغمبروں کو ہدایت دیتا ہے کہ وہ پہلے لوگوں کو مانوس کریں۔ پھر پہاڑوں پر چھوڑ آیا کریں۔ پھر انہیں بلائیں ورنہ یہ مردہ قومیں کبھی زندہ نہ ہو سکیں گی۔ |
البقرة |
261 |
[٣٧٦]صدقہ کا اجر کیسے گھٹتا بڑھتاہے؟ اسی سورۃ کی آیت نمبر ٢٥٤ میں اہل ایمان کو انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دی گئی تھی کہ قیامت کے دن یہی چیز کام آنے والی ہے۔ درمیان میں اللہ کی معرفت اور تصرف فی الامور کے چند واقعات کا ذکر کرنے کے بعد اب اسی مضمون کی طرف رجوع کیا جا رہا ہے اور بتلایا جا رہا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کس طرح ان صدقات کو سینکڑوں گنا بڑھا کر اس کا اجر عطا فرمائے گا اسی اضافے کو اللہ تعالیٰ یہاں ایک ایسی مثال سے واضح فرما رہے ہیں جسے سب لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں یعنی اگر اللہ چاہے تو سات سے زیادہ بالیاں بھی اگ سکتی ہیں اور ایک بالی میں سو سے زیادہ دانے بھی ہو سکتے ہیں۔ اس طرح صدقہ کا اجر و ثواب سات سو گنا سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ ایسے اجر کے حصول کے لیے چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ مثلاً :۔
حرام مال سےصدقہ قبول نہیں ہوتا:۔ ۱۔ بیج یا دانہ جس قدر تندرست اور قوی ہوگا اتنی ہی فصل اچھی ہوگی۔ انفاق فی سبیل اللہ میں بیج یا دانہ انسان کی نیت ہے وہ جس قدر خالص اللہ کی رضا کے لیے ہوگی۔ اسی قدر آپ کا صدقہ زیادہ پھل لائے گا۔ نیز یہ صدقہ حلال مال سے ہونا چاہیے۔ کیونکہ حرام مال کا صدقہ قبول ہی نہیں ہوتا۔
٢۔ بیج کی کاشت کے بعد پیداوار حاصل کرنے کے لیے اس کی آبیاری اور کیڑوں مکوڑوں سے حفاظت بھی ضروری ہے۔ ورنہ فصل یا تو برباد ہوجائے گی یا بہت کم فصل پیدا ہوگی۔ اسی طرح صدقہ کے بعد اس کی حفاظت بھی کی جانی چاہیے اور اسے احسان جتلا کر یا بے گار لے کر ضائع نہ کردینا چاہیے جیسا کہ اگلی آیت میں آ رہا ہے۔
٣۔ بعض دفعہ فصل تیار ہوجاتی ہے تو اس پر کوئی ایسی ارضی و سماوی آفت آ پڑتی ہے جو فصل کو بالکل تباہ و برباد کر کے رکھ دیتی ہے۔ انسان کے اعمال میں یہ آفات شرک کی مختلف اقسام ہیں۔ اگر آپ نے بالکل درست نیت سے صدقہ کیا۔ پھر آبیاری اور حفاظت بھی کرتے رہے۔ لیکن کسی وقت کوئی شرک کا کام کرلیا تو آپ کے اعمال برباد ہوجائیں گے۔ اسی طرح اگر وہ کام سنت کے خلاف (یعنی بدعت) ہوگا تو بھی وہ اجر کے بجائے عذاب کا مستحق ہوگا۔
صدقہ کا اجر :۔ ہاں جو شخص ان امور کا خیال رکھے تو اسے فی الواقعہ اتنا ہی اجر ملے گا جو اس آیت میں مذکور ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ صرف پاک مال قبول کرتا ہے تو جس نے اپنے پاک مال میں سے ایک کھجور برابر صدقہ کیا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اور اس کی یوں نشوونما کرتا ہے جیسے تم اپنے بچھڑے کی نشوونما کرتے ہو حتیٰ کہ وہ کھجور پہاڑ کے برابر ہوجاتی ہے۔ (بخاری، کتاب الزکاۃ، باب لا یقبل اللّٰہ صدقة من غلول۔ اور باب الصدقة من کسب طیب لقولہ تعالیٰ یمحق اللہ الربٰو اور یر بی الصدقات ....الایة- مسلم، کتاب الزکوۃ، باب الحث علی الصدقة ولو بشق تمرۃ او کلمة طیبة۔۔ الخ)
[٣٧٧] یعنی جتنا زیادہ اجر و ثواب دینا چاہے دے سکتا ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ کتنے خلوص نیت سے تم نے یہ کام کیا تھا۔ |
البقرة |
262 |
[٣٧٨] احسان جتلانا کبیرہ گناہے :۔ آپ نے فرمایا : تین آدمی ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ کلام کرے گا نہ ان کی طرف نظر رحمت کرے گا اور نہ ہی ان کو پاک کرے گا۔ ایک منان (احسان جتلانے والا) دوسرا تہبند نیچے لٹکانے والا اور تیسرا جھوٹی قسم کھا کر اپنا مال فروخت کرنے والا۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم اسبال الازار والمن بالعطیة، تنقیق السلعہ بالحلف... الخ) اور فقہاء نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ جن افعال و اعمال کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان سے کلام نہیں کرے گا یا نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا، یا پاک نہیں کرے گا۔ تو ایسے افعال کبیرہ گناہ ہوتے ہیں۔ گویا صدقہ کرنے کے بعد احسان جتلانے والے کا صرف صدقہ ہی ضائع نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک کبیرہ گناہ کا بوجھ بھی اپنے سر پر لاد لیتا ہے۔ |
البقرة |
263 |
[٣٧٩]صدقہ ہرشخص کےلیےضروری ہے :۔ آپ نے فرمایا : ہر مسلمان کو صدقہ دینا ضروری ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس کے پاس مال نہ ہو؟‘‘ آپ نے فرمایا : ’’وہ ہاتھ سے محنت کرے خود بھی فائدہ اٹھائے اور خیرات بھی کرے۔‘‘ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : اگر یہ بھی نہ ہو سکے؟ فرمایا : ’’اچھی بات پر عمل کرے اور بری سے پرہیز کرے۔ اس کے لیے یہ بھی صدقہ ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ، باب علی کل مسلم صدقہ۔۔ الخ)
صدقہ سےمتعلق احادیث :۔ ۲۔ نیز آپ نے فرمایا : آگ سے بچو، خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا صدقہ کرنے سے ہی ہو۔ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب اتقوا النار ولو بشق تمرۃ۔۔ الخ)
٣۔ ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کونسا صدقہ اجر کے لحاظ سے بڑا ہے؟ فرمایا : جو رمضان میں دیا جائے۔ (ترمذی، ابو اب الزکوٰۃ، باب ماجاء فی فضل الصدقة)
٤۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ ’’ کونسا صدقہ افضل ہے؟‘‘ فرمایا : ’’تنگ دست جو اپنی محنت میں سے صدقہ کرے اور ان سے ابتدا کر جو تیرے زیر کفالت ہیں۔‘‘ (ابو داؤد، کتاب الزکوٰۃ، باب الرجل یخرج من مالہ۔۔)
افضل صدقہ ۵۔ ایک دفعہ ایک اور آدمی نے آپ سے یہی سوال کیا کہ کونسا صدقہ افضل ہے؟' آپ نے جواب دیا : ’’جو صدقہ تو تندرستی کی حالت میں کرے۔ جبکہ تو حرص رکھتا ہو اور فقر سے ڈرتا ہو، اور دولت کی طمع رکھتا ہو۔ لہٰذا صدقہ کرنے میں جلدی کرو۔ ایسا نہ ہو کہ جان لبوں پر آ جائے تو کہنے لگے کہ اتنا فلاں کو دے دو، اتنا فلاں کو دے دو، حالانکہ اس وقت مال اس کا نہیں بلکہ اس کے وارثوں کا ہوتا ہے۔‘‘ (مسلم، کتاب الزکوٰۃ، باب ان افضل الصدقة صدقة الصحیح الشحیح ) |
البقرة |
264 |
[٣٨٠] یاکارکاانجام :۔ ریا کار کی چونکہ نیت ہی درست نہیں ہوتی اور نیت ہی اصل بیج ہے۔ لہٰذا ایسا بیج بار آور نہیں ہو سکتا۔ اس کی مثال اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی۔ جیسے ایک صاف چکنا سا پتھر ہو جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو، اس میں وہ اپنا بیج ڈالتا ہے اور جب بارش ہوتی ہے تو پانی مٹی کو بھی بہا لے جاتا ہے اور بیج بھی اس مٹی کے ساتھ بہہ جاتا ہے۔ لہٰذا اب پیداوار کیا ہو سکتی ہے؟ ریاکار کا دراصل اللہ پر اور روز آخرت پر پوری طرح ایمان ہی نہیں ہوتا وہ تو لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ہی عمل کرتا ہے اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر و ثواب پانے کی اس کی نیت ہی نہیں ہوتی۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ قیامت کے دن پہلا آدمی جس کا فیصلہ کیا جائے گا وہ ایک شہید ہوگا۔ اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں لایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو اپنی نعمتیں جتلائے گا جن کا وہ اعتراف کرے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ’’تو پھر تم نے کیا عمل کیا ؟‘‘ وہ کہے گا : میں تیری راہ میں لڑتا رہا حتیٰ کہ شہید ہوگیا۔اللہ تعالیٰ فرمائے گا : جھوٹ کہتے ہو۔ تم تو اس لیے لڑتے رہے کہ لوگ تجھے بہادر کہیں اور وہ دنیا میں کہلوا چکے۔ پھر اللہ فرشتوں کو حکم دے گا جو اسے گھسیٹتے ہوئے جہنم میں جا پھینکیں گے۔ پھر ایک اور شخص کو لایا جائے گا جس نے دین کا علم سیکھا اور لوگوں کو سکھلایا اور قرآن پڑھتا تھا۔ اللہ تعالیٰ اس پر اپنی نعمتیں جتلائے گا جن کا وہ اعتراف کرے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اسے پوچھے گا : پھر تو نے کیا عمل کیا ؟ وہ کہے گا۔ میں نے خود علم سیکھا اور دوسروں کو سکھایا اور قرآن پڑھتا پڑھاتا رہا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : جھوٹ کہتے ہو۔ تم نے تو علم اس لیے سیکھا تھا کہ لوگ تجھے عالم کہیں اور قرآن اس لیے پڑھتا تھا کہ لوگ تجھے قاری کہیں اور تجھے دنیا میں عالم اور قاری کہا جا چکا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دے گا جو اسے گھسیٹتے ہوئے دوزخ میں جا پھینکیں گے۔ پھر ایک اور شخص کو لایا جائے گا جسے اللہ نے ہر قسم کے اموال سے نوازا تھا۔ اللہ اسے اپنی نعمتیں جتلائے گا جن کا وہ اعتراف کرے گا۔ پھر اللہ اس سے پوچھے گا : پھر تو نے کیا عمل کیا ؟ وہ کہے گا۔ میں نے ہر اس راہ میں مال خرچ کیا جس میں تو پسند کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جھوٹ کہتے ہو تم تو اس لیے خرچ کرتے تھے کہ لوگ تمہیں سخی کہیں اور وہ تم کو دنیا میں کہا جا چکا پھر فرشتوں کو حکم ہوگا جو اسے گھسیٹتے ہوئے جہنم میں جا پھینکیں گے۔ (مسلم، کتاب الامارۃ باب من قاتل للریاء والسمعة استحق النار) |
البقرة |
265 |
[٣٨١]ربوہ کالغوی مفہوم:۔ ربوۃ ربو سے مشتق ہے جس کا معنی بڑھنا اور پھلنا پھولنا ہے اور ربوۃ سے مراد ایسی زمین ہے جس کی سطح عام زمین سے قدرے بلند ہو اور قدرے نرم ہو۔ ایسی زمین عموماً سرسبز اور شاداب ہوتی ہے۔ پنجابی زبان میں اسے میرا زمین کہتے ہیں اور وابل یا زور دار بارش سے مراد انتہائی خلوص نیت سے اللہ کی رضا کے لیے اور اپنے دل کی پوری پوری خوشی سے مال خرچ کرنا ہے اور پھوار سے مراد ایسی خیرات ہے جس میں یہ دونوں باتیں موجود تو ہوں، مگر اتنے اعلیٰ درجہ کی نہ ہوں۔ دونوں صورتوں میں اجر و ثواب تو ضرور ملے گا۔ مگر پہلی صورت میں جو اجر و ثواب ملے گا وہ پچھلی صورت سے بہرحال کئی گنا زیادہ ہوگا۔ |
البقرة |
266 |
[٣٨٢]نیک اعمال کوبرباد کرلینے والے کی مثال:۔ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ رضی اللہ عنہ سے اس آیت کا مطلب پوچھا : صحابہ رضی اللہ عنہ نے کہا '' واللہ اعلم'' حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے غصہ سے کہا (یہ کیا بات ہوئی) صاف کہو کہ ہمیں معلوم ہے یا نہیں معلوم۔ اس وقت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہنے لگے : امیر المومنین! میرے دل میں ایک بات آئی ہے۔ آپ نے کہا : بھتیجے بیان کرو اور اپنے آپ کو چھوٹا نہ سمجھو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہنے لگے : ’’اللہ نے یہ عمل کی مثال بیان کی ہے۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا : ’’ کون سے عمل کی؟‘‘ ابن عباس رضی اللہ عنہما اس کا کچھ جواب نہ دے سکے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : یہ ایک مال دار شخص کی مثال ہے جو اللہ کی اطاعت میں عمل کرتا رہتا ہے۔ پھر اللہ شیطان کو اس پر غالب کردیتا ہے وہ گناہوں میں مصروف ہوجاتا ہے اور اس کے نیک اعمال سب کے سب فنا ہوجاتے ہیں۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)
یعنی ایسے شخص کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اسے بڑھاپے میں باغ کی پیداوار کی انتہائی ضرورت ہوتی ہے اور از سر نو باغ لگانے کا موقع بھی نہیں ہوتا اور اس کے بچے اس کی مدد بھی نہیں کرسکتے وہ تو خود اس سے بھی زیادہ محتاج ہوتے ہیں۔ لہٰذا کوئی نیک عمل مثلاً خیرات کرنے کے بعد اس کی پوری پوری محافظت کرنا بھی ضروری ہے۔ یعنی احسان جتانے، بیگار لینے یا شرک کر بیٹھنے سے اپنے باغ کو جلا نہ ڈالے کہ آخرت میں اسے اپنے اعمال میں سے کوئی چیز بھی ہاتھ نہ آئے جبکہ اس کو اعمال کی شدید ضرورت ہوگی اور اس حدیث میں شیطان کے غالب کرنے سے مراد یہ ہے کہ انسان حصول مال میں اس قدر مگن ہوجاتا ہے کہ اللہ کی اطاعت سے لاپروا ہوجاتا ہے۔ یا ایسی نافرمانیاں اور کفر و شرک کے کام کرتا ہے جس سے اس کے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔ |
البقرة |
267 |
[٣٨٣]ناقص مال کاصدقہ: براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ آیت ہم گروہ انصار کے حق میں نازل ہوئی ہے۔ ہم کھجوروں والے تھے۔ ہم میں سے ہر کوئی اپنی قلت و کثرت کے موافق کھجوریں لے کر آتا، کوئی ایک خوشہ، کوئی دو خوشے اور انہیں مسجد میں لٹکا دیتا۔ اہل صفہ کا یہ حال تھا کہ ان کے پاس کھانے کو کچھ نہ ہوتا تھا۔ ان میں سے جب کوئی آتا تو عصا سے خوشہ کو ضرب لگاتا تو اس سے تر اور خشک کھجوریں گر پڑتیں جنہیں وہ کھا لیتا اور جنہیں نیکی کی رغبت نہ ہوتی تھی وہ ایسے خوشے لاتے جن میں ناقص اور ردی کھجوریں ہوتیں اور ٹوٹے پھوٹے خوشے لے کر آتے تب اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد ہر شخص اچھی کھجوریں لاتا۔ (ترمذی، ابو اب التفسیر)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جیسے زمین کی پیداوار میں زکوٰۃ فرض ہے ویسے ہی اموال صنعت و تجارت میں بھی فرض ہے۔ نیز یہ بھی کہ خرچ اچھا اور ستھرا مال ہی کرنا چاہیے۔ ناقص اور ردی مال صدقہ نہیں کرنا چاہیے۔ اموال تجارت و صنعت کی زکوٰۃ کے سلسلہ میں درج ذیل احادیث و احکام ملاحظہ فرمائیے۔
تجارتی اور صنعتی پیداوار پرز کوٰۃ کاوجوب:۔ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں گو تجارت ہی قریش مکہ کا شغل تھا لیکن ان کا انداز بالکل الگ تھا۔ سال بھر میں دو دفعہ تجارتی قافلے سامان لے کر شام کی طرف نکل جاتے، پھر ادھر سے سامان لا کر مکہ میں فروخت کرتے، پھر دوسرے سفر کی تیاری شروع کردیتے۔ لہٰذا مستقل دکانوں کا وجود کم ہی نظر آتا تھا۔ اسی طرح صنعت کا کام بھی نہایت محدود طور پر اور انفرادی سطح پر ہوا کرتا تھا۔ لہٰذا اموال تجارت و صنعت کے احکام اس طرح تفصیل سے احادیث میں مذکور نہیں جس طرح دوسری محل زکوٰۃ اشیاء کی تفصیل مذکور ہے اور غالباً یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ اموال تجارت و صنعت کی زکوٰۃ ادا کرنے سے قاصر ہی رہتے ہیں اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ لوگ اس قسم کی زکوٰۃ کے وجوب کو جانتے ہی نہ ہوں یا اس کے قائل ہی نہ ہو۔ لہٰذا اس موضوع پر تفصیلی کلام کی ضرورت ہے۔
اموال و صنعت و تجارت پر سب سے بڑی دلیل یہی آیت ہے۔ کیونکہ تجارت اور صنعت بھی انسان کا کسب ہے اور اس کی تائید درج ذیل احادیث سے بھی ہوتی ہے۔
١۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ ہر مسلمان پر صدقہ کرنا ضروری ہے۔ لوگوں نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! جس کے پاس مال نہ ہو (وہ کیا کرے؟) آپ نے فرمایا : وہ اپنے ہاتھ سے محنت کرے، خود بھی فائدہ اٹھائے اور صدقہ بھی کرے۔ لوگوں نے کہا : اگر یہ بھی نہ ہو سکے آپ نے کہا : تو پھر اچھی بات پر عمل کرے اور بری بات سے پرہیز کرے، یہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب علی کل مسلم صدقة)
٢۔ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں ان تمام اشیاء سے زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم دیتے تھے جنہیں ہم خرید و فروخت کے لیے تیار کرتے تھے۔ (ابو داؤد، دار قطنی، بحوالہ منذری فی مختصر سنن ج ٢ ص ١١٥)
اس حدیث سے ایک تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہر فروختنی چیز پرزکوٰۃ ہے خواہ اس کا ذریعہ حصول تجارت ہو یا صنعت ہو اور دوسرے یہ کہ جو چیز فروختنی نہ ہو اس پرزکوٰۃ نہیں، مثلاً دکان کا فرنیچر اور باردانہ یا فیکٹری کی مشینری یا آلات کشا ورزی اور ہل چلانے والے بیل وغیرہ۔ یعنی ہر وہ چیز جو پیداوار کا ذریعہ بن رہی ہو اس پرزکوٰۃ نہیں اور اس اصل کی تائید ایک دوسری حدیث سے بھی ہوجاتی ہے جو یہ ہے : لیس فی العوامل صدقہ وفی الإبل، ابو داؤد، کتاب الزکوٰۃ، باب فی زکوٰۃ السائمة-
صنعتی اور تجارتی اموال پرزکوٰۃ کاوجوب:۔ ۳۔ حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : اونٹوں میں زکوٰۃ ہے۔ بکریوں میں زکوٰۃ ہے، گائے میں زکوٰۃ ہے اور تجارتی کپڑے میں زکوٰۃ ہے۔ (دار قطنی، کتاب الزکوٰۃ، باب لیس فی الخضروات صدقة)
اس حدیث میں تجارتی کپڑے کے لیے بز کا لفظ استعمال ہوا ہے اور بزاز کپڑا فروش کو کہتے ہیں۔ اس حدیث سے باقی تجارتی اموال پر بھی زکوٰۃ کی فرضیت ثابت ہوتی ہے۔
٤۔ حضرت عمرو بن حماس چمڑے کے ترکش اور تیر بنایا کرتے تھے۔ یعنی یہ ان کا پیشہ تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس سے گزرے تو فرمایا ’’ان کی زکوٰۃ ادا کرو۔‘‘ ابو عمرو کہنے لگے۔ میرے پاس ان تیروں اور چمڑے کے ترکشوں کے سوا ہے کیا ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا انہی کا حساب لگاؤ اور ان کی زکوٰۃ ادا کرو۔ (احمد، ابن ابی شیبہ عبدالرزاق، دار قطنی بحوالہ الام للشافعی ج ٢ ص ٣٨ مطبعہ المنیریہ قاہرہ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس حکم سے بھی صنعتی پیداوار پرزکوٰۃ کا واجب ہونا ثابت ہوجاتا ہے۔
٥۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل یہ تھا کہ وہ اپنے دور خلافت میں تاجروں کا مال اکٹھا کرتے۔ پھر ان اموال موجود اور غیر موجود سب کا حساب لگاتے پھر اس تمام مال پرزکوٰۃ وصول کیا کرتے تھے۔ (المحلیٰ ج ٦ ص ٣٤ مطبعہ المنیریہ قاہرہ)
اب مفسرین کی طرف آئیے وہ ﴿اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ﴾کا مطلب یوں بیان کرتے ہیں۔
زکوامن طیبات ماکسبتم بتصرفکم اما التجارۃ و اما الصناعة ( یعنی جو کچھ تم نے اپنے تصرف یا محنت سے کمایا ہو اس سے زکوٰۃ ادا کرو۔ خواہ یہ تجارت کے ذریعہ کمایا ہو یا صنعت کے ذریعہ سے (تفسیر طبری ج ٢ ص ٨٠ طبع ١٣٧٢ ھ؍١٩٥٤ ء تفسیر ابن کثیر ج ١ ص ٤٠ تفسیر قرطبی ج ٢ ص ٣٢٠، طبع ١٩٣٦ ء، تفسیر قاسمی (ج ٢ ص ٦٨٣ طبع ١٣٧٦ ھ؍ ١٩٥٧ء)
علاوہ ازیں عقلی طور پر بھی یہ بات بڑی عجیب معلوم ہوتی ہے کہ ایک غریب کسان تو اپنی پیداوار کا دسواں یا بیسواں حصہ زکوٰۃ ادا کرے اور وہ سیٹھ جو کسان سے بہت کم محنت کر کے کروڑوں روپے کما رہا ہے اس پرزکوٰۃ عائد ہی نہ ہو، یہ حد درجہ کی ناانصافی ہے۔
تجارتی اموال پرزکوٰۃ کی تشخیص کے اصول
١۔ اموال زکوٰۃ کی تشخیص موقع پر ہوگی یعنی اسی جگہ جہاں یہ مال موجود ہو۔ (ابو داؤد، کتاب الزکوٰۃ باب این تصدق الاموال)
٢۔ زکوٰۃ اسی مال سے لینا بہتر ہے جس کی زکوٰۃ ادا کرنا مقصود ہو۔ مثلاً کپڑے کی دکان ہے تو کپڑا ہی زکوٰۃ میں عامل کو لینا چاہیے یا اگر زکوٰۃ دینے والا چاہے تو کپڑے کی زکوٰۃ کپڑے سے ہی دے سکتا ہے۔ اسی طرح کتابوں کی زکوٰۃ کتابوں سے، بکریوں کی بکریوں سے اور یہ زکوٰۃ کا عام اصول ہے جس میں زکوٰۃ دہندہ کی سہولت کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ ہاں اگر زکوٰۃ دینے والا خود ہی نقدی کی صورت میں ادا کرنا چاہے تو ایسا کرسکتا ہے اور اس میں بھی زکوٰۃ دینے والے کی سہولت کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ مثلاً یہ ضروری نہیں کہ سونے یا چاندی کے زیور کی زکوٰۃ سونے، چاندی کی شکل میں ہی دی جائے۔ بلکہ اس کی موجودہ قیمت لگا کر چالیسواں حصہ زکوٰۃ ادا کی جا سکتی ہے۔
٣۔ زکوٰۃ میں نہ عمدہ عمدہ مال لیا جائے اور نہ ناقص۔ بلکہ اوسط درجہ کا حساب رکھا جائے گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو زکوٰۃ کی وصولی کے متعلق جو ہدایات دیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ ایاک وکرائم اموال الناس (بخاری، کتاب الزکوٰۃ باب اخذ الصدقة من الاغنیاء و ترد فی الفقراء حیث کانوا) یعنی لوگوں کے عمدہ عمدہ مال لینے سے پرہیز کرنا۔ مثلاً اگر کتابوں کی دکان سے زکوٰۃ وصول کرنا ہو تو یہ نہ کیا جائے کہ کسی بہترین مصنف کی کتب منتخب کرلی جائیں جن کی مارکیٹ میں مانگ زیادہ ہو، بلکہ زکوٰۃ میں ملا جلا یا درمیانی قسم کا مال لینا چاہیے۔ اسی طرح اگر زکوٰۃ ادا کرنے والا خودزکوٰۃ نکالنا چاہے تو یہ نہ کرے کہ جو مال فروخت نہ ہو رہا ہو اسے زکوٰۃ میں دے دے، بلکہ یا تو ہر طرح کا مال دے یا پھر صرف درمیانہ درجہ کا۔
٤۔ مال کی تشخیص بحساب لاگت ہوگی، یعنی چیز کی قیمت خرید بمعہ خرچہ نقل و حمل وغیرہ قیمت فروخت پر نہ ہوگی۔
٥۔ فرنیچر اور باردانہ وغیرہ زکوٰۃ کے مال میں محسوب نہ ہوں گے، جیسا کہ اوپر تفصیل گزر چکی ہے۔
٦۔ زکوٰۃ سال بھر کا عرصہ گزرنے کے بعد نکالی جائے گی اور یہ سال قمری سال شمار کرنا ہوگا، شمسی نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہ رجب میں عاملین کو زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا کرتے تھے، مگر یہ ضروری نہیں۔ آج کل لوگ اکثر رمضان میں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ یہ اس لحاظ سے بہتر بھی ہے کہ رمضان میں ثواب زیادہ ہوتا ہے۔ تاہم زکوٰۃ پوری یا اس کا کچھ حصہ سال پورا ہونے سے پہلے بھی دی جا سکتی ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہی سوال کیا تو آپ نے اس کی اجازت دے دی (ترمذی، ابو اب الزکوٰۃ، باب فی تعجیل الزکوٰۃ)
٧۔ تجارتی اموال پر شرح زکوٰۃ بچت کی زکوٰۃ والی شرح ہی ہے یعنی چالیسواں حصہ۔ کیونکہ تجارت میں لگایا ہوا سرمایہ سب بچت ہی ہوتا ہے۔
٨۔ زکوٰۃ موجودہ مال پر عائد ہوگی۔ مثلاً زید نے دس ہزار سے کام شروع کیا۔ جو سال بعد بارہ ہزار کی مالیت کا ہوگیا تو زکوٰۃ دس ہزار پر نہیں بلکہ بارہ ہزار پر شمار ہوگی۔ اسی طرح اگر اسے نقصان ہوگیا یا گھر کے اخراجات زیادہ تھے، جو نفع سے پورے نہ ہو سکے اور مالیت صرف آٹھ ہزار رہ گئی تو زکوٰۃ آٹھ ہزار پر محسوب ہوگی۔
٩۔ جو مال ادھار پر فروخت ہوا ہے تو وہ ادھار رقم بھی سرمایہ میں شمار ہوگی۔ الا یہ کہ وہ ایسا ادھار ہو جس کے ملنے کی توقع ہی نہ ہو۔ ایسا ادھار محسوب نہ ہوگا۔ ایسے ادھار کے متعلق حکم یہ ہے کہ جب بھی ایسا ادھار وصول ہوجائے تو اس کی صرف ایک بارزکوٰۃ ادا کر دے۔ تجارتی قرضوں کے علاوہ عام قرضوں کی بھی یہی صورت ہے۔
١٠۔ اگر دکاندار نے کسی سے رقم ادھار لے کر اپنے سرمایہ میں لگا رکھی ہے تو یا تو وہ زکوٰۃ ادا کرنے سے پہلے وہ ادھار واپس کر دے ورنہ وہ اس کے سرمایہ میں محسوب ہوگا۔
١١۔ مال مستفاد کی آمیزش۔ مثلاً زید نے کاروبار دس ہزار سے شروع کیا۔ چند ماہ بعد اسے پانچ ہزار کی رقم کسی سے مل گئی اور وہ بھی اس نے کاروبار میں شامل کردی۔ اب اگر وہ چاہے تو سال بعد اس بعدوالی رقم کا حساب الگ رکھ سکتا ہے۔ لیکن بہتر یہی ہے کہ ساتھ ہی ساتھ اس مال کی بھی زکوٰۃ نکال دی جائے، تاکہ آئندہ حساب کتاب کی پیچیدگیوں سے نجات حاصل ہوجائے۔ پھر اگر مال زکوٰۃ کچھ زیادہ بھی نکل گیا تو اللہ اس کا بہت بہتر اجر دینے والا ہے۔
١٢۔ بعض دکانیں ایسی ہوتی ہیں جن کا اچھا خاصا کاروبار ہوتا ہے۔ مگر دکان میں مال یا تو برائے نام ہوتا ہے یا ہوتا ہی نہیں۔ مثلاً سبزی فروش، پھل فروش، شیر فروش، قصاب، ہوٹل، اخباروں کے دفاتر یا پراپرٹی ڈیلروں کے دفاتر وغیرہ، ایسی دکانوں یا کاروباری اداروں میں موجود مال کے حد نصاب کو پہنچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایسے لوگوں کے سالانہ منافع جات پر تجارتی زکوٰۃ عائد ہوگی اڑھائی فیصد کی شرح سے یا چالیسواں حصہ۔
١٣۔ گوالے یا گوجر حضرات کی دکان سرے سے ہوتی نہیں، بس ایک لکڑی کا تختہ یا تخت ہی ان کی دکان ہوتی ہے۔ یہ لوگ کافی تعداد میں گائے بھینسیں رکھتے ہیں۔ ان پر مویشی کی زکوٰۃ عائد نہیں ہوتی کیونکہ وہ عامل پیداوار ہے۔ ان کے سالانہ منافع جات پر تجارتی زکوٰۃ عائد ہوگی یہی صورت ڈیری فارم، پولٹری اور مچھلی فارم وغیرہ کی بھی ہے۔
١٤۔ گائے بھینسیں اگر افزائش نسل کی خاطر رکھی جائیں تو ان پر گائے کی زکوٰۃ کی صورت میں زکوٰۃ لگے لگی، اور کوئی صاحب مویشیوں کی خرید و فروخت کا کاروبار کرتے ہوں تو سالانہ منافع پر تجارتی زکوٰۃ ہوگی اور ڈیری فارم یا گوالوں کے پاس ہو تو یہ عامل پیداوار ہیں۔ ان کی زکوٰۃ بھی سالانہ منافع پر ہوگی۔
١٥۔ دکانوں اور مکانوں کے کرایہ یا کرایہ پر دی ہوئی ٹیکسیاں اور گاڑیاں وغیرہ ایسی چیزوں یعنی دکانوں، مکانوں یا ٹیکسیوں کی مالیت پرزکوٰۃ نہیں ہوتی بلکہ وصول شدہ کرائے کی کل رقم پر ہوگی اور سال بعد یہ حساب ہوگا۔ مثلاً ایک دکان کا کرایہ دو ہزار ہے تو سال بعد ٢٤ ہزار پرزکوٰۃ ادا کرنا ہوگی۔ خواہ یہ رقم ساتھ ساتھ خرچ ہوجائے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اپنی کرایہ کی دکانوں کی زکوٰۃ ایسے ہی ادا کیا کرتے تھے۔ البتہ اس رقم سے پراپرٹی ٹیکس یا دوسرے سرکاری واجبات کی رقم مستثنی کی جا سکتی ہے۔
١٦۔ جائیداد کی خرید و فروخت کا کاروبار : جو لوگ اپنے زائد سرمایہ سے زمینوں کے پلاٹ اور مکان وغیرہ کی تجارتی نظریہ سے خرید و فروخت کرتے رہتے ہیں۔ ان کی فروخت کے متعلق کچھ علم نہیں ہوتا۔ خواہ تین ماہ بعد بک جائیں، خواہ دو سال تک بھی نہ بکیں۔ ایسی جائیداد جب بھی بک جائے اس وقت ہی اس کی زکوٰۃ نکال دینا چاہیے اور یہ زکوٰۃ قیمت فروخت پر ہوگی اور تجارتی زکوٰۃ ہوگی۔ البتہ اگر کوئی شخص اپنی ذاتی ضرورت کے لیے کوئی دکان، مکان، پلاٹ یا گاڑی وغیرہ خریدتا ہے تو اس پرزکوٰۃ نہیں۔
١٧۔ مشترکہ کاروبار یا سرمائے کی کمپنیوں میں لگے ہوئے سرمایہ کے متعلق یہ تسلی کر لینی چاہیے کہ آیا کمپنی اس مجموعی سرمایہ کی زکوٰۃ ادا کرتی ہے یا نہیں۔ اگر کمپنی نے زکوٰۃ ادا نہ کی ہو تو ہر حصہ دار کو اپنے اپنے حصہ کی زکوٰۃ خود ادا کردینا چاہیے۔
صنعتی پیداوار کی زکوٰۃ: صنعتی پیداوار کی دو باتوں میں زرعی پیداوار سے مماثلت پائی جاتی ہے۔ مثلاً :۔
١۔ زمین کی اپنی قیمت اس کی پیداوار کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہوتی ہے اور زکوٰۃ پیداوار پر لگتی ہے زمین کی قیمت پر نہیں۔ اسی طرح فیکٹریوں اور ملوں کی قیمت اس پیداوار کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہوتی ہے جو وہ پیدا کرتی ہیں۔ لہٰذازکوٰۃ پیداوار پر ہونی چاہیے۔
٢۔ جس طرح بعض زمینیں سال میں ایک فصل دیتی ہیں۔ بعض دو اور بعض اس سے زیادہ اسی طرح بعض کارخانے سال میں ایک دفعہ پیداوار دیتے ہیں۔ مثلاً برف اور برقی پنکھوں کے کارخانے وغیرہ بعض دو دفعہ جیسے اینٹوں کے بھٹے اور بعض سال بھر چلتے رہتے ہیں۔
اور ایک بات میں صنعتی پیداوار کی مماثلت تجارتی اموال سے ہے جس طرح تجارتی اموال پر لاگت کے مقابلہ میں منافع کم ہوتا ہے اسی طرح صنعتی اموال کا بھی حال ہے۔ جبکہ زرعی پیدوار میں لاگت کم اور پیداوار کی قیمت اس کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔
ان سب باتوں کو ملحوظ رکھ کر دیانتداری کے ساتھ جو اصل مستنبط ہو سکتی ہے وہ یہ ہے کہ صنعتی پیداوار پرزکوٰۃ پیداوار کے منافع پر ہونی چاہیے اور یہ پانچ فیصد یعنی نصف عشر ہونا چاہیے۔ خواہ یہ پیداوار سال میں ایک دفعہ ہو یا دو دفعہ کارخانے سارا سال کام کرتے ہیں ان پرزکوٰۃ تو سال بعد ہوگی مگر اس کی صورت وہی ہوگی یعنی زکوٰۃ پیداوار پر نہیں بلکہ منافع پر ہوگی اور یہ پانچ فیصد ہوگی۔ واللہ اعلم بالصواب۔ |
البقرة |
268 |
[٣٨٤] صدقہ کے وقت ضرورتوں کاخیال شیطانی وسوسہ ہے:۔ معلوم ہوا کہ اگر صدقہ کرتے وقت کسی کے دل میں احتیاج، دوسری ضرورتوں اور مفلسی یا کسی بری بات کا خیال آئے تو یہ شیطانی وسوسہ ہوتا ہے وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ شیطان کی تو ہم نے کبھی صورت تک نہیں دیکھی۔ اس کا حکم قبول کرنا دور کی بات ہے اور اگر کسی کو ایسا خیال آئے کہ اس سے گناہ معاف ہوں گے اور مال میں بھی ترقی اور برکت ہوگی تو سمجھ لے کہ یہ بات اللہ کی طرف سے القاء ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَہُوَ یُخْلِفُہٗ ۚ وَہُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ﴾ (34: 39)یعنی تم جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اللہ تمہیں اس کا نعم البدل عطا فرما دے گا۔ کیونکہ اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ : ہر روز صبح کے وقت دو فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک اس طرح دعا کرتا ہے : اے اللہ خرچ کرنے والے کو اور زیادہ عطا کر اور دوسرا اس طرح بددعا کرتا ہے : اے اللہ ! ہاتھ روکنے والے کو تلف کر دے۔ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب قول اللّٰہ عزوجل فأما من اعطی واتقی و صدق بالحسنیٰ۔۔ الخ ) |
البقرة |
269 |
[٣٨٥] حکمت کیاچیزہے؟حکمت کی کئی تعریفیں کی جا سکتی ہیں اور وہ اپنے اپنے مقام پر سب ہی درست ہیں۔ مثلاً ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ''رَاسُ الْحِکْمَۃ مَخَافَۃُ اللّٰہِ " یعنی سب سے بڑی حکمت تو اللہ کا خوف (تقویٰ) ہے کیونکہ تقویٰ ہی وہ چیز ہے جو انسان کو بچتے بچاتے سیدھی راہ پر گامزن رکھنے والی ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی تصنیف الرسالہ میں بے شمار دلائل سے ثابت کیا ہے کہ جہاں بھی قرآن کریم میں کتاب و حکمت کے الفاظ اکٹھے آئے ہیں تو وہاں حکمت سے مراد سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور حکمت کا لغوی مفہوم کسی کام کو ٹھیک طور پر سر انجام دینے کا طریق کار ہے۔ یعنی کسی حکم کی تعمیل میں صحیح بصیرت اور درست قوت فیصلہ ہے۔ اس آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ جس کے پاس حکمت کی دولت ہوگی وہ کبھی شیطانی راہ اختیار نہیں کرے گا اور شیطانی راہ یہ ہے کہ انسان اپنی دولت سنبھال سنبھال کر رکھے۔ اس میں سے کچھ خرچ نہ کرے بلکہ مزید دولت بڑھانے کی فکر میں لگا رہے۔ اس طرح شاید وہ دنیا میں تو خوشحال رہ سکے مگر آخرت بالکل برباد ہوگی۔ لہٰذا اصل دانشمندی یہ ہے کہ انسان جہاں تک ممکن ہو خرچ کرے۔ اس دنیا میں اللہ اسے اس کا نعم البدل عطا فرمائے گا اور آخرت میں بھی بہت بڑا اجر و ثواب عطا فرمائے گا اور یہی سب سے بڑی دولت اور حکمت ہے۔ ایک دن حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے خطبہ کے دوران فرمایا کہ :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں اسے دین کی سمجھ عطا کردیتے ہیں۔ (بخاری، کتاب العلم، باب مَنْ یُرِدِ اللّٰہُ بِہِ خَیْرًا یُفَقِّھْہُ فِیْ الدِّیْنِ)
’’اور میں بانٹنے والا ہوں اور دینے والا اللہ ہے اور یہ امت ہمیشہ اللہ کے حکم پر قائم رہے گی مخالف اسے نقصان نہ پہنچا سکیں گے۔ تاآنکہ اللہ کا حکم (قیامت) آئے۔‘‘ (مسلم، کتاب الامارہ، باب قولہ صلي الله عليه وسلم لایزال طائفة من أمتی ظاھرین علی الحق لایضرھم من خالفھم)
اس آیت اور اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دین کی سمجھ آ جانا ہی حکمت اور سب سے بڑی دولت ہے۔ |
البقرة |
270 |
[٣٨٦] درست نذر کوپورا کرنا ضروری ہے:۔ نذر یہ ہے کہ ’’ آدمی اپنی کسی مراد کے بر آنے پر کوئی ایسا نیک کام یا صدقہ کرنے کا اللہ سے عہد کرے جو اس کے ذمے فرض نہ ہو‘‘۔اگر یہ مراد کسی حلال اور جائز کام کے لیے ہو اور اللہ سے ہی مانگی گئی ہو اور اس کے بر آنے پر جو عمل کرنے کا عہد آدمی نے کیا ہے وہ اللہ ہی کے لیے ہو تو ایسی نذر کا پورا کرنا درست اور باعث اجر و ثواب ہے اگر یہ نذر کسی ناجائز کام یا غیر اللہ کے لیے ہو تو ایسی نذر کا ماننا بھی کار معصیت اور اس کا پورا کرنا بھی موجب عذاب ہے۔ ایسی نذر اگر کوئی مان چکا ہو تو اس کے عوض استغفار کرنا چاہیے اور وہ کام نہ کرنا چاہیے، علاوہ ازیں نذر ماننا شرعی نکتہ نگاہ سے کوئی اچھا کام نہیں۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں نذر ماننے سے منع کیا اور فرمایا کہ نذر اللہ کی تقدیر کو کچھ بدل نہیں سکتی۔ البتہ اس طرح بخیل سے کچھ مال نکال لیا جاتا ہے۔ (بخاری، کتاب الایمان و النذور۔ باب الوفاء بالنذر و قولہ یوفون بالنذر) |
البقرة |
271 |
[٣٨٧] اس آیت سے خفیہ صدقہ کی زیادہ فضیلت ثابت ہوئی، جیسا کہ درج ذیل احادیث سے بھی واضح ہوتا ہے۔
خفیہ صدقہ کی فضیلت:۔۱۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جب اللہ نے زمین کو پیدا کیا تو وہ ہچکولے کھاتی تھی۔ پھر اللہ نے پہاڑ پیدا کئے اور کہا کہ اسے (زمین کو) تھامے رہو۔ چنانچہ وہ ٹھہر گئی۔ تب فرشتوں کو پہاڑوں کی مضبوطی پر تعجب ہوا اور کہنے لگے : پروردگار! تیری مخلوق میں سے کوئی چیز پہاڑوں سے بھی سخت ہے؟ فرمایا ہاں، لوہا ہے۔ فرشتے کہنے لگے، پروردگار کوئی چیز لوہے سے بھی سخت ہے؟ فرمایا: ’’ہاں آگ ہے۔‘‘ پھر وہ کہنے لگے : کوئی چیز آگ سے بھی سخت ہے؟فرمایا : ہاں پانی ہے۔ وہ کہنے لگے : ’’ کوئی چیز پانی سے بھی سخت ہے؟‘‘ فرمایا: ہاں ہوا ہے۔ پھر وہ کہنے لگے : کوئی چیز ہوا سے بھی سخت ہے؟ فرمایا : ہاں وہ آدمی جو اس طرح صدقہ دے کہ دائیں ہاتھ سے دے تو بائیں کو خبر تک نہ ہو۔ (ترمذی، ابو اب التفسیر، سورۃ الناس)
سات آدمی جنہیں قیامت کے دن سایہ نصیب ہوگا:۲۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) سات قسم کے آدمیوں کو اپنے عرش کے سایہ تلے جگہ دے گا۔ جس دن اس کے سایہ کے علاوہ اور کہیں سایہ نہ ہوگا۔ ایک انصاف کرنے والا حاکم۔ دوسرا وہ نوجوان جس نے اپنی جوانی عبادت میں گزاری، تیسرا وہ شخص جس کا دل مسجد سے لگا رہے۔ چوتھے وہ دو شخص جنہوں نے اللہ کی خاطر محبت کی۔ اللہ کی خاطر ہی مل بیٹھے اور اللہ کی خاطر ہی جدا ہوئے۔ پانچویں وہ مرد جسے کسی مرتبہ والی حسین و جمیل عورت نے (بدکاری کے لیے) بلایا اور اس نے کہا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ چھٹے وہ شخص جس نے اللہ کی راہ میں یوں چھپا کر صدقہ دیا کہ داہنے ہاتھ نے جو صدقہ دیا بائیں ہاتھ کو اس کی خبر تک نہ ہوئی۔ ساتویں وہ شخص جس نے خلوت میں اللہ کو یاد کیا اور اس کی آنکھیں بہہ نکلیں۔ (بخاری، کتاب الاذان باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلوۃ)
تاہم بعض علماء کہتے ہیں کہ فرضی صدقہ یعنی زکوٰۃ وغیرہ تو اعلانیہ دینا چاہیے تاکہ دوسروں کو بھی ترغیب ہو اور نفلی صدقہ بہرحال خفیہ دینا ہی بہتر ہے اور یہ تو واضح بات ہے کہ چھپا کر نیکی کرنے سے انسان کی اپنی اصلاح نسبتاً زیادہ ہوتی ہے۔ |
البقرة |
272 |
[٣٨٨] صدقہ غیرمسلموں کودینادرست ہے:۔ ابتدا مسلمان اپنے غیر مسلم رشتہ داروں اور دوسرے غیر مسلم محتاجوں کی مدد کرنے میں تامل کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ صرف مسلمان محتاجوں کی مدد کرنا ہی انفاق فی سبیل اللہ ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ لوگوں کے دلوں میں ہدایت اتار دینے کی ذمہ داری آپ پر نہیں۔ آپ نے حق بات پہنچا دی، آگے ان کو راہ راست سمجھا دینا اللہ کا کام ہے۔ رہا دنیوی مال و متاع سے ان کی حاجات پوری کرنا تو اللہ کی رضا کے لیے تم جس حاجت مند کی بھی مدد کرو گے اللہ تمہیں اس کا اجر دے گا۔ |
البقرة |
273 |
[٣٨٩] یعنی جن لوگوں نے اپنے آپ کو دین کے علم کے لیے خواہ وہ سیکھ رہے ہوں یا سکھلا رہے ہوں یا دوسرے امور کے لیے وقف کر رکھا ہے اور وہ محتاج ہیں، جیسے دور نبوی میں اصحاب صفہ تھے یا وہ لوگ جو جہاد میں مصروف ہیں یا ان کے بال بچوں کی نگہداشت پر اور ایسے ہی دوسرے لوگوں پر صدقات خرچ کئے جائیں۔
[٣٩٠] ضمناً اس آیت سے سوال نہ کرنے کی فضیلت معلوم ہوئی۔ اس سلسلہ میں چند احادیث نبوی ملاحظہ ہوں :۔
سوال کرنےسےپرہیز:۔۱۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص سوال سے بچے اللہ بھی اسے بچائے گا اور جو کوئی (دنیا سے) بے پروائی کرے گا۔ اللہ اسے بے پروا کر دے گا اور جو کوئی کوشش سے صبر کرے گا اللہ اسے صبر دے گا اور صبر سے بہتر اور کشادہ تر کسی کو کوئی نعمت نہیں ملی۔‘‘ (بخاری کتاب الزکوٰۃ، باب الاستعفاف عن المسئلة)
٢۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی رسی اٹھائے اور لکڑی کا گٹھا اپنی پیٹھ پر لاد کر لائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ جا کر کسی سے سوال کرے اور وہ اسے دے یا نہ دے۔‘‘ (بخاری۔ حوالہ ایضاً)
٣۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سوالی جو ہمیشہ لوگوں سے مانگتا رہتا ہے قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے منہ پر گوشت کی ایک بوٹی بھی نہ ہوگی۔ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ باب من سأل الناس تکثرا)
محنت کی عظمت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کااندازتربیت :۔۴۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو منبر پر صدقہ اور سوال سے بچنے کے لیے خطبہ دے رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اوپر والے ہاتھ سے مراد خرچ کرنے والا ہے اور نیچے والا ہاتھ مانگنے والا ہاتھ ہے۔‘‘ (ابو داؤد، کتاب الزکوٰۃ، باب ما تجوز فیہ المسئلة)
٥۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ جو شخص اپنا مال بڑھانے کے لیے لوگوں سے سوال کرتا ہے وہ آگ کے انگارے مانگ رہا ہے۔ اب چاہے تو وہ کم کرے یا زیادہ اکٹھے کرلے۔‘‘ (مسلم، کتاب الزکوٰۃ، باب النھی عن المسئلة)
نیلامی کی مشروعیت :۔۶۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک انصاری نے آپ کے پاس آ کر سوال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پوچھا ’’تمہارے گھر میں کوئی چیز ہے؟‘‘ وہ کہنے لگا:ہاں ایک ٹاٹ اور ایک پیالہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ یہ دونوں چیزیں میرے پاس لے آؤ۔‘‘ وہ لے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ہاتھ میں لے کر فرمایا : کون ان دونوں چیزوں کو خریدتا ہے؟ ایک آدمی نے کہا : ’’میں ایک درہم میں لیتا ہوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ایک درہم سے زیادہ کون دیتا ہے؟‘‘ اور آپ نے یہ بات دو تین بار دہرائی تو ایک آدمی کہنے لگا : ’’میں انہیں دو درہم میں خریدتا ہوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو درہم لے کر وہ چیزیں اس آدمی کو دے دیں۔
اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انصاری کو ایک درہم دے کر فرمایا : ’’اس کا گھر والوں کے لیے کھانا خرید اور دوسرے درہم سے کلہاڑی خرید کر میرے پاس لاؤ۔‘‘ جب وہ کلہاڑی لے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے اس میں لکڑی کا دستہ ٹھونکا پھر اسے فرمایا : ’’جاؤ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر یہاں لا کر بیچا کرو اور پندرہ دن کے بعد میرے پاس آنا۔‘‘
پندرہ دن میں اس شخص نے دس درہم کمائے۔ چند درہموں کا کپڑا خریدا اور چند کا کھانا اور آسودہ حال ہوگیا پندرہ دن بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یہ تیرے لیے اس چیز سے بہتر ہے کہ قیامت کے دن سوال کرنے کی وجہ سے تیرے چہرے پر برا نشان ہو‘‘(نسائی، کتاب الزکوٰۃ، باب فضل من لایسئل الناس شیأ)
محنت کی عظمت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کااندازتزکیہ نفس:۔ اب دیکھئے کہ جس شخص کے گھر کا اثاثہ ایک ٹاٹ اور پیالہ ہو کیا اس کے محتاج ہونے میں کچھ شک رہ جاتا ہے؟ لیکن چونکہ وہ معذور نہیں بلکہ قوی اور کمانے کے قابل تھا۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کچھ دینے کے بجائے دوسری راہ تجویز فرمائی، پھر اسے عزت نفس کا سبق دے کر کسب حلال اور محنت کی عظمت و اہمیت بتلائی۔ جس سے وہ چند دنوں میں آسودہ حال ہوگیا، یہ تھا آپ کا انداز تربیت و تزکیہ نفس۔
٧۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کون ہے جو مجھے یہ ضمانت دے کہ کبھی کسی سے سوال نہ کرے گا تو میں اس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔’’ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا : میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں۔‘‘ چنانچہ اس کے بعد انہوں نے کبھی کسی سے سوال نہ کیا۔ (نسائی، کتاب الزکوٰۃ، باب فضل من لا یسئل الناس شیأ)
٨۔ عرفہ کے دن ایک شخص لوگوں سے مانگ رہا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سنا تو اسے کہنے لگے: ’’آج کے دن اور اس جگہ تو اللہ کے سوا دوسروں سے مانگتا ہے؟‘‘ پھر اسے درے سے پیٹا۔ (احمد بحوالہ مشکوٰۃ باب من لایحل لہ المسئلہ فصل ثالث)
٩۔ حجتہ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں میں صدقہ کا مال تقسیم فرما رہے تھے دو آدمی آپ کے پاس آئے اور آپ سے صدقہ کا سوال کیا۔ وہ خود کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر اٹھا کر ہمیں دیکھا، پھر نگاہ نیچی کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قوی اور طاقتور دیکھ کر فرمایا : ’’اگر تم چاہو تو تمہیں دے دیتا ہوں لیکن صدقہ کے مال میں مالدار اور قوی کا کوئی حصہ نہیں جو کما سکتا ہو۔‘‘ (ابو داؤد، نسائی، کتاب الزکوٰۃ، باب مسئلة القوی المکتسب)
١٠۔ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ تقسیم فرما رہے تھے۔ ایک شخص نے آپ کے پاس آ کر صدقہ کا سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا : ’’صدقات کی تقسیم کے بارے میں اللہ تعالیٰ نبی یا کسی دوسرے کے حکم پر راضی نہیں ہوا بلکہ خود ہی اس کو آٹھ مدات پر تقسیم کردیا ہے۔ اب اگر تو بھی ان میں شمار ہوتا ہے تو میں تمہیں دے دیتا ہوں۔‘‘ (حوالہ ایضاً)
سوال کرنا کیسےلوگوں کےلیےجائز ہے:۱۱۔ حضرت قبیصہ بن مخارق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک شخص کا ضامن ہوا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور اس بارے میں سوال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یہاں ٹھہرو تاآنکہ ہمارے پاس صدقہ آئے۔ پھر ہم تیرے لیے کچھ کریں گے۔ پھر مجھے مخاطب کر کے فرمایا: قبیصہ! تین شخصوں کے علاوہ کسی کو سوال کرنا جائز نہیں۔ ایک وہ جو ضامن ہو اور ضمانت اس پر پڑجائے جس کا وہ اہل نہ ہو۔ وہ اپنی ضمانت کی حد تک مانگ سکتا ہے۔ پھر رک جائے۔ دوسرے وہ جسے ایسی آفت پہنچے کہ اس کا سارا مال تباہ کردے وہ اس حد تک مانگ سکتا ہے کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے اور تیسرے وہ شخص جس کو فاقہ کی نوبت آ گئی ہو۔ یہاں تک کہ اس کی قوم کے تین معتبر شخص اس بات کی گواہی دیں کہ فلاں کو فاقہ پہنچا ہے اسے سوال کرنا جائز ہے تاآنکہ اس کی محتاجی دور ہوجائے۔ پھر فرمایا : اے قبیصہ ان تین قسم کے آدمیوں کے سوا کسی اور کو سوال کرنا حرام ہے اور ان کے سوا جو شخص سوال کر کے کھاتا ہے وہ حرام کھا رہا ہے۔ (مسلم، کتاب الزکوٰۃ باب من لایحل لہ المسئلہ)
١٢۔ عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم سات آٹھ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ پانچ نمازیں ادا کرو اور اللہ کی فرمانبرداری کرو‘‘ اور ایک بات چپکے سے کہی کہ ’’ لوگوں سے کچھ نہ مانگنا۔‘‘ پھر میں نے ان میں بعض افراد کو دیکھا کہ اگر اونٹ سے ان کا کوڑا گر پڑتا تو کسی سے سوال نہ کرتے کہ وہ انہیں پکڑا دے۔ (کتاب الزکوٰۃ باب النہی عن المسئلة)
حکیم بن حزام کاسرکاری وظیفہ بھی قبول نہ کرنا:۔۱۳۔ حکیم بن حزام کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ مانگا تو آپ نے مجھے دے دیا۔ پھر ایک دفعہ مانگا تو آپ نے دیا۔ پھر فرمایا : '' اے حکیم! یہ دنیا کا مال دیکھنے میں خوشنما اور مزے میں میٹھا ہے لیکن جو اسے سیر چشمی سے لے اس کو تو برکت ہوگی اور جو جان لڑا کر حرص کے ساتھ لے اس میں برکت نہیں ہوتی۔ اس کی مثال ایسی ہے جو کھاتا ہے مگر سیر نہیں ہوتا اور اوپر والا (دینے والا) ہاتھ نچلے ہاتھ (لینے والے) سے بہتر ہوتا ہے۔'' حکیم کہنے لگے : '' یا رسول اللہ! اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو سچا پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔ میں آج کے بعد مرتے دم تک کسی سے کچھ نہ مانگوں گا۔'' (پھر آپ کا یہ حال رہا کہ) حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کو سالانہ وظیفہ دینے کے لیے بلاتے تو وہ لینے سے انکار کردیتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے دور خلافت میں انہیں وظیفہ دینے کے لیے بلایا تو انہوں نے انکار کردیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حاضرین سے کہنے لگے : ’’لوگو! تم گواہ رہنا میں حکیم کو اس کا حق جو غنائم کے مال میں اللہ نے رکھا ہے دیتا ہوں اور وہ نہیں لیتا۔‘‘ غرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کئے ہوئے عہد کا اتنا پاس تھا کہ انہوں نے تاحین حیات سوال تو درکنار کسی سے کوئی بھی چیز قبول نہیں کی۔ (بخاری، کتاب الوصایا، باب تاویل قول اللّٰہ تعالیٰ من بعد وصیہ توصون بھا اودین) |
البقرة |
274 |
[٣٩١] یہ آیت دراصل صدقات و خیرات کے احکام کا تتمہ ہے۔ یعنی آخر میں ایک دفعہ پھر صدقہ کی ترغیب دی جارہی ہے۔ اب اس کی عین ضد سود کا بیان شروع ہو رہا ہے۔ صدقات و خیرات سے جہاں آپس میں ہمدردی، مروت، اخوت، فیاضی پیدا ہوتی ہے وہاں طبقاتی تقسیم بھی کم ہوتی ہے۔ اس کے برعکس سود سے شقاوت قلبی، خود غرضی، منافرت، بے مروتی اور بخل جیسے اخلاق رذیلہ پرورش پاتے ہیں اور طبقاتی تقسیم بڑھتی چلی جاتی ہے جو بالآخر کسی نہ کسی عظیم فتنہ کا باعث بن جاتی ہے۔ اشتراکیت دراصل ایسے ہی فتنہ کی پیداوار ہے۔ |
البقرة |
275 |
[٣٩٢]تجارتی سود بھی حرام ہے:۔ یہ دراصل سود خور یہودیوں کا قول ہے اور آج کل بہت سے مسلمان بھی اسی نظریہ کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ سودی قرضے دراصل دو طرح کے ہوتے ہیں: (١) ذاتی قرضے یا مہاجنی قرضے یعنی وہ قرضے جو کوئی شخص اپنی ذاتی ضرورت کے لئے کسی مہاجن یا بنک سے لیتا ہے اور دوسرے تجارتی قرضے جو تاجر یا صنعت کار اپنی کاروباری اغراض کے لئے بنکوں سے سود پر لیتے ہیں۔ اب جو مسلمان سود کے جواز کی نمائندگی کرتے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ جس سود کو قرآن نے حرام کیا ہے وہ ذاتی یا مہاجنی قرضے ہیں جن کی شرح سود بڑی ظالمانہ ہوتی ہے اور جو تجارتی سود ہے وہ حرام نہیں۔ کیونکہ اس دور میں ایسے تجارتی سودی قرضوں کا رواج ہی نہ تھا۔ نیز ایسے قرضے چونکہ رضا مندی سے لئے دیئے جاتے ہیں اور ان کی شرح سود بھی گوارا اور مناسب ہوتی ہے اور فریقین میں سے کسی پر ظلم بھی نہیں ہوتا، لہٰذا یہ تجارتی سود اس سود سے مستثنیٰ ہے جنہیں قرآن نے حرام قرار دیا ہے۔
یہاں ہم مجوزین تجارتی سود کے تمام دلائل بیان کرنے اور ان کے جوابات دینے سے قاصر ہیں۔ (جس کو تفصیلات درکار ہوں وہ میری تصنیف: ’’تجارت اور لین دین کے مسائل و احکام‘‘ میں سود سے متعلق دو ابو اب ملاحظہ کرسکتا ہے) لہٰذا چند مختصر دلائل پر ہی اکتفا کریں گے :
١۔ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں تجارتی سود موجود تھے اور سود کی حرمت سے پیشتر صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے حضرت عباس اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہما ایسے ہی تجارتی سود کا کاروبار کرتے تھے۔ اس دور میں عرب اور بالخصوص مکہ اور مدینہ میں لاکھوں کی تجارت ہوا کرتی تھی۔ علاوہ ازیں ہمسایہ ممالک میں تجارتی سود کا رواج عام تھا۔
٢۔ قرآن میں ربٰو کا لفظ علی الاطلاق استعمال ہوا ہے جو ذاتی اور تجارتی دونوں قسم کے قرضوں کو حاوی ہے۔ لہٰذا تجارتی سود کو اس علی الاطلاق حرمت سے خارج نہیں کیا جاسکتا۔
٣۔ قرآن نے تجارتی قرضوں کے مقابل یہ آیت پیش کی ہے: ﴿وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا﴾ (2: 275)اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام جبکہ ذاتی قرضوں کے مقابل یوں فرمایا: ﴿ یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقٰتِ ﴾(2: 276) اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کی پرورش کرتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے سود کے خاتمہ کے لئے ذاتی قرضوں کا حل ’صدقات‘تجویز فرمایا ہے اور تجارتی قرضوں کے لئے شراکت اور مضاربت کی راہ دکھلائی ہے جو حلال اور جائز ہے۔
٤۔ جہاں تک کم یا مناسب شرح سود کا تعلق ہے تو یہ بات آج تک طے نہیں ہوسکی کہ مناسب شرح سود کیا ہے؟ کبھی تو ٢ فیصد بھی نامناسب شرح سمجھی جاتی ہے۔ جیسا کہ دوسری جنگ عظیم کے لگ بھگ زمانے میں ریزوبنک آف انڈیا ڈسکاؤنٹ ریٹ مقرر ہوا اور کبھی ٢٩ فیصد شرح سود بھی مناسب اور معقول سمجھی جاتی ہے (دیکھئے : اشتہار انوسٹمنٹ بنک مشتہرہ نوائے وقت مورخہ ١٩٧٧ء-٨-١١) شرح سود کی مناسب تعیین نہ ہوسکنے کی غالباً وجہ یہ ہے کہ اس کی بنیاد ہی متزلزل اور کمزور ہے۔ مناسب اور معقول شرح سود کی تعیین تو صرف اس صورت میں ہوسکتی ہے جب یہ معلوم ہوسکے کہ قرض لینے والا اس سے کتنا یقینی فائدہ حاصل کرے گا اور اس میں سے قرض دینے والے کا معقول حصہ کتنا ہونا چاہئے۔ مگر ہمارے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ قرض لینے والے کو اس مقرر مدت میں کتنا فائدہ ہوگا، یا کچھ فائدہ ہوگا بھی یا نہیں۔ بلکہ الٹا نقصان بھی ہوسکتا ہے۔ ثانیاً ایک ہی ملک اور ایک ہی وقت میں مختلف بنکوں کی شرح سود میں انتہائی تفاوت پایا جاتا ہے اور اگر سب کچھ مناسب ہے تو پھر نامناسب کیا بات ہے؟ ثالثاً اگر شرح سود انتہائی کم بھی ہو تو بھی یہ سود کو حلال نہیں بنا سکتی۔ کیونکہ شریعت کا یہ اصول ہے کہ حرام چیز کی قلیل مقدار بھی حرام ہی ہوتی ہے۔ شراب تھوڑی بھی ایسے ہی حرام ہے جیسے زیادہ مقدار میں (ترمذی، ابو اب الأشربة، باب ما سکر کثیرۃ فقلیلہ حرام)
٥۔ باہمی رضامندی کی شرط صرف جائز معاملات میں ہے:۔ جہاں تک باہمی رضا مندی کا تعلق ہے تو یہ شرط صرف حلال معاملات میں ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حلال اور جائز معاملات میں بھی اگر فریقین میں سے کوئی ایک راضی نہ ہو تو وہ معاملہ حرام اور ناجائز ہوگا۔ جیسے تجارت میں مال بیچنے والے اور خریدنے والے دونوں کی رضا مندی ضروری ہے ورنہ بیع فاسد اور ناجائز ہوگی۔ اسی طرح نکاح میں بھی فریقین کی رضا مندی ضروری ہے۔ لیکن یہ رضا مندی حرام کاموں کو حلال نہیں بناسکتی۔ اگر ایک مرد اور ایک عورت باہمی رضا مندی سے زنا کریں تو وہ جائز نہیں ہوسکتا اور نہ ہی باہمی رضا مندی سے جوا جائز ہوسکتا ہے۔ اسی طرح سود بھی باہمی رضا مندی سے حلال اور جائز نہیں بن سکتا۔
علاوہ ازیں سود لینے والا کبھی سود دینے پر رضا مند نہیں ہوتا۔ خواہ شرح سود کتنی ہی کم کیوں نہ ہو۔ بلکہ یہ اس کی مجبوری ہوتی ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر اسے کہیں سے قرض حسنہ مل جائے تو وہ کبھی سود پر رقم لینے کو تیار نہ تھا۔
٦۔ رہی یہ بات کہ تجارتی سود میں کسی فریق پر ظلم نہیں ہوتا۔ گویا یہ حضرات سود کی حرمت کی علت یا بنیادی سبب ظلم قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ تصور ہی غلط ہے۔ آیت کے سیاق و سباق سے واضح ہے کہ یہ الفاظ سودی معاملات اور معاہدات کو ختم کرنے کی ایک احسن صورت پیش کرتے ہیں یعنی نہ تو مقروض قرض خواہ کی اصل رقم بھی دبا کر اس پر ظلم کرے اور نہ قرض خواہ مقروض پر اصل کے علاوہ سود کا بوجھ بھی لاد دے۔ ان الفاظ کا اطلاق ہمارے ہاں اس وقت ہوگا جب ہم اپنے معاشرہ کو سود سے کلیتاً پاک کرنا چاہیں گے، یا نجی طور پر قرضہ کے فریقین سود کی لعنت سے اپنے آپ کو بچانے پر آمادہ ہوں گے۔ سود کی حرمت کا بنیادی سبب ظلم نہیں بلکہ بیٹھے بٹھائے اپنے مال میں اضافہ کی وہ ہوس ہے جس سے ایک سرمایہ دار اپنی فاضل دولت میں طے شدہ منافع کی ضمانت سے یقینی اضافہ چاہتا ہے اور جس سے زر پرستی، سنگ دلی اور بخل جیسے اخلاق رذیلہ جنم لیتے ہیں۔
[٣٩٣] اب ایک مسلمان کا کام تو یہی ہونا چاہئے کہ جب اللہ نے سود کو حرام کردیا تو اس کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔ خواہ اسے سود اور تجارت کا فرق اور ان کی حکمت سمجھ آئے یا نہ آئے تاہم جو لوگ یہ نظریہ پیش کرتے ہیں کہ تجارت بھی سود ہی کی طرح ہے۔ اللہ نے انہیں انتہائی بدھو اور مخبوط الحواس قرار دیا ہے۔ جنہیں کسی جن نے آسیب زدہ بنا دیا ہو اور وہ اپنی خود غرضی اور زر پرستی کی ہوس میں خبطی ہوگئے ہوں کہ انہیں تجارت اور سود کا فرق نظر ہی نہیں آرہا، چونکہ وہ اس زندگی میں باؤلے ہو رہے ہیں۔ لہٰذا وہ قیامت کے دن بھی اسی حالت میں اپنی قبروں سے اٹھیں گے۔ اب ہم ایسے لوگوں کو سمجھانے کے لئے سود اور تجارت کا فرق بتلاتے ہیں :
١۔ سود اور تجارت کافرق:۔ سود ایک طے شدہ شرح کے مطابق یقینی منافع ہوتا ہے۔ جبکہ تجارت میں منافع کے ساتھ نقصان کا احتمال بھی موجود ہوتا ہے۔ خواہ کوئی شخص اپنے ذاتی سرمایہ سے تجارت کرے یا یہ مضاربت یا شراکت کی شکل ہو۔
٢۔سود سے قومی معیشت کی تباہی :۔ مضاربت کی شکل میں فریقین کو ایک دوسرے سے ہمدردی، مروت اور مل جل کر کاروبار چلانے کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ کیونکہ ان کا مفاد مشترک ہوتا ہے اور اس کا قومی پیداوار پر خوشگوار اثر پڑتا ہے۔ جبکہ تجارتی سود کی صورت میں سود خوار کو محض اپنے مفاد سے غرض ہوتی ہے۔ بعض دفعہ وہ ایسے نازک وقت میں سرمایہ کی واپسی کا تقاضا کرتا اور مزید فراہمی سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے جبکہ کاروبار کو سرمایہ کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح سود خوار تو اپنا سرمایہ بمعہ سود نکال دیتا ہے مگر مقروض کو سخت نقصان پہنچتا ہے اور قومی معیشت بھی سخت متاثر ہوتی ہے۔
٣۔ مضاربت اور سود میں تیسرا فرق یہ ہے کہ مضاربت سے اخلاق حسنہ پرورش پاتے ہیں۔ جس سے معاشرہ میں اخوت اور خیر و برکت پیدا ہوتی ہے اور طبقاتی تقسیم مٹتی ہے۔ جبکہ سود سے اخلاق رذیلہ مثلاً خود غرضی، مفاد پرستی، بخل اور سنگدلی پیدا ہوتے ہیں۔ سود کی حرمت کی علت یہی اخلاق رذیلہ اور ہوس زر پرستی ہے۔ سودی نظام معیشت نے صرف ایک ہی شائی لاک (ایک سنگ دل یہودی کا مثالی کردار جس نے بروقت ادائیگی نہ ہونے کی بنا پر اپنے مقروض کی ران سے بےدریغ گوشت کا ٹکڑا کاٹ لیا تھا) پیدا نہیں کیا بلکہ ہر دور میں ہزاروں شائی لاک پیدا ہوتے رہے ہیں اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے۔
[٣٩٤] اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ جو سود کھاچکا وہ معاف ہے بلکہ یوں فرمایا کہ اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، چاہے تو بخش دے، چاہے تو سزا دے۔ لہٰذا محتاط صورت یہی ہے کہ وہ سود کی حرام کمائی خود استعمال نہ کرے بلکہ جس سے سود لیا تھا اسے ہی واپس کردے تو یہ سب سے بہتر بات ہے ورنہ محتاجوں کو دے دے یا رفاہ عامہ کے کاموں میں خرچ کر دے۔ اس طرح وہ سود کے گناہ سے تو شاید بچ جائے مگر ثواب نہیں ہوگا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ حرام مال کا صدقہ قبول نہیں کرتا۔ |
البقرة |
276 |
[٣٩٥] اگرچہ بنظر ظاہر سود لینے سے مال بڑھتا اور صدقہ دینے سے گھٹتا نظر آتا ہے۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ سود کے مال میں برکت نہیں ہوتی اور مال حرام بود بجائے حرام رفت، والی بات بن جاتی ہے اور صدقات دینے سے اللہ تعالیٰ ایسی جگہ سے اس کا نعم البدل عطا فرماتا ہے جس کا اسے خود بھی وہم و گمان نہیں ہوتا اور یہ ایسی حقیقت ہے جو بارہا کئی لوگوں کے تجربہ میں آچکی ہے تاہم اسے عقلی دلائل سے ثابت کیا جاسکتا ہے اور دوسری صورت کو علم معیشت کی رو سے ثابت بھی کیا جاسکتا ہے اور وہ یہ ہے جس معاشرہ میں صدقات کا نظام رائج ہوتا ہے۔ اس میں غریب طبقہ (جو عموماً ہر معاشرہ میں زیادہ ہوتا ہے) کی قوت خرید بڑھتی ہے اور دولت کی گردش کی رفتار بہت تیز ہوجاتی ہے جس سے خوشحالی پیدا ہوتی ہے اور قومی معیشت ترقی کرتی ہے اور جس معاشرہ میں سود رائج ہوتا ہے وہاں غریب طبقہ کی قوت خرید کم ہوتی ہے اور جس امیر طبقہ کی طرف دولت کو سود کھینچ کھینچ کرلے جارہا ہوتا ہے۔ اس کی تعداد قلیل ہونے کی وجہ سے دولت کی گردش کی رفتار نہایت سست ہوجاتی ہے جس سے معاشی بحران پیدا ہوتے رہتے ہیں، امیر اور غریب میں طبقاتی تقسیم بڑھ جاتی ہے اور بعض دفعہ غریب طبقہ تنگ آکر امیروں کو لوٹنا اور مارنا شروع کردیتا ہے آقا و مزدور میں، امیر اور غریب میں ہر وقت کشیدگی کی فضا قائم رہتی ہے جس سے کئی قسم کے مہلک نتائج پیدا ہوسکتے ہیں۔
[٣٩٦] یہاں ناشکرے سے مراد وہ سود خور ہے جس کی پاس اپنی ضروریات سے زائد رقم موجود ہے۔ جیسے وہ اپنے کسی محتاج بھائی کی مدد کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا، نہ اسے صدقہ دینا چاہتا ہے نہ قرض حسنہ دیتا ہے بلکہ الٹا اس سے اس کے گاڑھے پسینے کی کمائی سود کے ذریعہ کھینچنا چاہتا ہے۔ حالانکہ یہ زائد روپیہ اس پر محض اللہ کا فضل تھا اور صدقہ یا قرض دے کر اسے اللہ کے اس فضل کا شکر ادا کرنا چاہئے تھا۔ مگر اس نے زائد رقم کو سود پر چڑھا کر اللہ کے فضل کی انتہائی ناشکری کی۔ لہٰذا اس سے بڑھ کر بدعملی اور گناہ کی بات اور کیا ہوگی۔ |
البقرة |
277 |
[٣٩٧] یہ آیت درمیان میں اس لئے آئی ہے کہ سود خور کے مقابلہ میں متقی لوگوں کا حال بیان کردیا جائے جیسا کہ قرآن کریم میں جابجا یہی دستور آپ ملاحظہ فرمائیں گے کہ جہاں اہل دوزخ کا ذکر آیا تو ساتھ اہل جنت کا بھی ذکر کردیا جاتا ہے اور اس کے برعکس بھی۔ اس کے بعد سود کے مضمون کا تسلسل جاری رکھا گیا ہے۔ اس مقام پر بھی مومنوں کی دو انتہائی اہم صفات کا ذکر فرمایا۔ ایک اقامت صلٰوۃ کا جو بدنی عبادات میں سے سب سے اہم ہے۔ دوسرے ایتائے زکوٰۃ کا جو مالی عبادات میں سے سب سے اہم بھی ہے اور سود کی عین ضد بھی۔ اسلام کے معاشی نظام کو اگر انتہائی مختصر الفاظ میں بیان کیا جائے تو اس کے دو ہی اجزاء ہیں۔ ایک سلبی دوسرا ایجابی۔ سلبی پہلو نظام سود کا استیصال ہے اور ایجابی پہلو نظام زکوٰۃ کی ترویج۔ |
البقرة |
278 |
|
البقرة |
279 |
[٣٩٨] یہاں ہم سود سے متعلق چند احادیث بیان کرتے ہیں :
(١) حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سود لینے والے، دینے والے، تحریر لکھنے والے اور گواہوں، سب پر لعنت کی اور فرمایا وہ سب (گناہ میں) برابر ہیں (مسلم، کتاب البیوع۔ باب لعن آکل الربو أو موکلہ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سود لینے اور دینے والوں کے علاوہ بنکوں کا عملہ بھی اس گناہ میں برابر کا شریک ہوتا ہے۔
(٢) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (سود کے گناہ کے) اگر ستر حصے کئے جائیں تو اس کا کمزور حصہ بھی اپنی ماں سے زنا کے برابر ہے۔ (ابن ماجہ بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب البیوع۔ باب الربا۔ فصل ثالث)
(٣) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’سود کا ایک درہم جو آدمی کھاتا ہے اور وہ اس کے سودی ہونے کو جانتا ہے تو وہ گناہ میں چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ سخت ہے۔‘‘ (مسند احمد۔ دارمی، بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب البیوع۔ باب الربا فصل ثالث)
سودکےمتعلق ایسی سخت وعیدکیوں ہے؟یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ شرعی نقطہ نظر سے کئی گناہ ایسے ہیں جو سود سے بھی بہت بڑے ہیں۔ مثلاً شرک، قتل ناحق اور زنا وغیرہ۔ لیکن اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کی وعید اللہ تعالیٰ نے صرف سود کے متعلق سنائی ہے اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ایسے سخت الفاظ استعمال فرمائے ہیں جو کسی اور گناہ کے متعلق استعمال نہیں فرمائے تو آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ سود اسلامی تعلیمات کا نقیض اور اس سے براہ راست متصادم ہے اور اس کا حملہ بالخصوص اسلام کے معاشرتی اور معاشی نظام پر ہوتا ہے۔ اسلام ہمیں ایک دوسرے کا بھائی بن کر رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ وہ آپس میں مروت، ہمدردی، ایک دوسرے پر رحم اور ایثار کا سبق سکھلاتا ہے۔ آپ نے ساری زندگی صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو اخوت و ہمدردی کا سبق دیا اور ایک دوسرے کے جانی دشمن معاشرے کی، وحی الٰہی کے تحت اس طرح تربیت فرمائی کہ وہ فی الواقع ایک دوسرے کے بھائی بھائی اور مونس و غمخوار بن گئے۔ اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے ایک احسان عظیم شمار کرتے ہوئے قرآن میں دو مقامات پر اس کا تذکرہ فرمایا ہے۔ (سورہ آل عمران کی آیت ١٠٣ میں اور سورۃ انفال کی آیت ٦٣ میں) اور یہ چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کا ماحصل تھا۔ جبکہ سود انسان میں ان سے بالکل متضاد رذیلہ صفات مثلاً بخل، حرص، زرپرستی اور شقاوت پیدا کرتا ہے۔ اور بھائی بھائی میں منافرت پیدا کرتا ہے جو اسلامی تعلیم کی عین ضد ہے۔
دوسرے یہ کہ اسلام کے معاشی نظام کا تمام تر ماحصل یہ ہے کہ دولت گردش میں رہے اور اس گردش کا بہاؤ امیر سے غریب کی طرف ہو۔ اسلام کے نظام زکوٰۃ و صدقات کو اسی لئے فرض کیا گیا ہے اور قانون میراث اور حقوق باہمی بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں۔ جبکہ سودی معاشرہ میں دولت کا بہاؤ ہمیشہ غریب سے امیر کی طرف ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے بھی سود اسلام کے پورے معاشی نظام کی عین ضد ہے۔
(٤) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا جب ہر کوئی سود کھانے والا ہوگا اگر سود نہ کھائے تو بھی اس کا بخار (اور ایک دوسری روایت کے مطابق) اس کا غبار اسے ضرور پہنچ کے رہے گا۔‘‘ (نسائی۔ کتاب البیوع۔ باب اجتناب الشبہات فی الکسب)
اور آج کا دور بالکل ایسا ہی دور ہے۔ پوری دنیا کے لوگوں اور اسی طرح مسلمانوں کے رگ و ریشہ میں بھی سود کچھ اس طرح سرایت کر گیا ہے، جس سے ہر شخص شعوری یا غیر شعوری طور پر متاثر ہو رہا ہے، آج اگر ایک مسلمان پوری نیک نیتی سے سود سے کلیتاً بچنا چاہے بھی تو اسے کئی مقامات پر الجھنیں پیش آتی ہیں۔ مثلاً آج کل اگر کوئی شخص گاڑی، سکوٹر، کار، ویگن، بس یا ٹرک خریدے گا تو اسے لازماً اس کا بیمہ کرانا پڑے گا۔ اگرچہ اس قسم کے بیمہ کی رقم قلیل ہوتی ہے اور یہ وہ بیمہ نہیں ہوتا جس میں حادثات کی شکل میں بیمہ کمپنی نقصان ادا کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ تاہم ہمارے ہاں قانون یہ ہے کہ جب تک نئی گاڑی کا بیمہ نہ کرایا جائے وہ استعمال میں نہیں لائی جاسکتی اور اس قلیل رقم کی قسم کا بیمہ ہر سال کرانا پڑتا ہے۔ اور بیمہ کا کاروبار شرعاً کئی پہلوؤں سے ناجائز ہے جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔
موجودہ دور میں سود کی مختلف شکلیں:۔ اسی طرح تاجر پیشہ حضرات بنک سے تعلق رکھے بغیر نہ مال برآمد کرسکتے ہیں اور نہ درآمد۔ ان کے لئے آسان راہ یہی ہوتی ہے کہ وہ بنک سے ایل سی (Letter of Credit) یا اعتماد نامہ حاصل کریں۔ اس طرح تمام درآمد اور برآمد کردہ مال سودی کاروبار سے متاثر ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ تجارتی سود یا کمرشل انٹرسٹ (commercial Intrest)کو جائز سمجھنے والے اور حمایت کرنے والے حضرات یہ حجت بھی پیش کیا کرتے ہیں کہ جب تمہارے گھر کی بیشتر اشیاء سودی کاروبار کے راستہ سے ہو کر تم تک پہنچی ہیں تو تم ان سے بچ کیسے سکتے ہو؟ تو اس قسم کے اعتراضات کا جواب یہ ہے کہ اس قسم کے سود کو ختم کرنا یا اس کی متبادل راہ تلاش کرنا حکومت کا کام ہے اور اگر حکومت یہ کام نہیں کرتی تو ہر مسلمان انفرادی طور پر جہاں تک سود سے بچ سکتا ہے بچے اور جہاں وہ مجبور ہے وہاں اس سے کوئی مواخذہ نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا کیونکہ شریعت کا اصول ہے کہ مواخذہ اس حد تک ہے جہاں تک انسان کا اختیار ہے اور جہاں اضطرار ہے وہاں مواخذہ نہیں۔
بنکوں کےمختلف قسم کے کھاتے:۔اسی طرح آج کے دور میں ایک اہم مسئلہ اپنی بچت یا زائد رقم کو کہیں محفوظ رکھنے کا ہے اور یہ تو ظاہر ہے کہ اس غرض کے لئے گھروں سے بنک محفوظ تر جگہ ہے۔ اور بنکوں میں تین طرح کے کھاتے چلتے ہیں (i) چالو کھاتےCurrent Account جن میں بنک لوگوں کی رقوم جمع کرتے ہیں، لیکن جمع کرنے والوں کو سود نہیں دیتے، (ii) بچت کھاتے Saving Account جن پر بنک سود دیتا ہے لیکن تھوڑی شرح سے، (iii) میعادی کھاتے Fixed Diposit Account یعنی ایسی رقوم کے کھاتے جو طویل اور مقررہ مدت کے لئے جمع کرائی جاتی ہیں۔ ان پر بنک سود دیتا ہے۔ اب ایک سود سے پرہیز کرنے والا شخص زیادہ سے زیادہ یہی کرسکتا ہے کہ وہ اپنی رقوم چالو کھاتہ میں جمع کرائے اور سود نہ لے۔ لیکن اس میں ایک اور الجھن پیش آتی ہے کہ بنک اس چالو کھاتہ کی رقوم کو بھی سود پر دیتا ہے اور سودی کاروبار کرتا ہے۔ لہٰذا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بنک کے پاس سود کی رقم کیوں چھوڑی جائے؟ جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ﴿وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ﴾یعنی گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کیا کرو۔ لہٰذا بنک سے یہ رقم ضرور وصول کر لینی چاہئے مگر اسے اپنے استعمال میں نہ لایا جائے۔ بلکہ اسے محتاجوں اور غریبوں کو دے دیا جائے یا رفاہ عامہ کے کاموں میں خرچ کردیا جائے۔ اور اس سے ثواب کی نیت بھی نہ رکھی جائے۔ کیونکہ حرام مال کا صدقہ قابل قبول ہی نہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ تبدیل ید سے احکام شریعت بدل جاتے ہیں۔ مثلاً زید کے پاس جو سود کی رقم ہے وہ اگر بکرکو صدقہ کر دے یا ویسے بلانیت ثواب دے تو وہ اس کے لئے حرام مال نہیں ہوگا۔ لہٰذا روپیہ چالو کھاتے کے بجائے سودی کھاتے میں رکھنا چاہئے اور بنک سے سود بھی ضرور وصول کرنا چاہئے جو محتاجوں یا رفاہ عامہ کے کاموں میں خرچ کردینا چاہئے یا (ii) کبھی بنک سے قرضہ لینے کی ضرورت پڑے تو اس سود کی جگہ یہ رقم ادا کردی جائے یا (iii) گورنمنٹ جو ناجائز ٹیکس عائد کرتی ہے ایسی مدات میں یہ سود کی رقم صرف کردی جائے۔
مگر جب ہم اللہ اور اس کے رسول کے احکام پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ ساری مصلحتیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ لہٰذا اس گندگی سے ہر صورت پرہیز لازمی ہے اور ایسے نظریہ کی تہ میں یہی بات نظر آتی ہے کہ انسان چونکہ فطرتاً حریص واقع ہوا ہے لہٰذا مال کسی راہ سے بھی آتا نظر آئے اسے چھوڑنے کو اس کا جی نہیں چاہتا۔ مندرجہ بالا تین صورتوں میں سے پہلی صورت بظاہر مستحسن نظر آتی ہے مگر ہم ایسی مصلحت کے قائل نہیں جس کی دو وجوہ ہیں۔ پہلی یہ کہ جو شخص سود لینا شروع کر دے گا اس گندگی سے کلیتہ کبھی پاک صاف نہ رہ سکے گا۔ بلکہ کچھ وقت گزرنے پر اس کے نظریہ میں لچک آنا شروع ہوجائے گی اور وہ خود ومن وقع فی الشبہات فقد وقع فی الحرام بن جائے گا۔ پس اس کا یہی رویہ اس کی اولاد میں منتقل ہوگا اور دوسری یہ کہ ہم اپنی ذات کی حد تک سود سے بچنے کی فکر کریں تو بھی بڑی بات ہے۔ ہمارا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ ہم بنک میں رقم اس لئے جمع کرائیں کہ بنک اس سے سود کمائے بلکہ ہمارا مقصد صرف رقم کی حفاظت ہے اور وہ پورا ہوجاتا ہے۔
پراویڈنٹ فنڈ کا مسئلہ:۔ ایک اور اہم مسئلہ سرکاری، نیم سرکاری اور بعض تجارتی اداروں کے ملازمین کے پراویڈنٹ فنڈ کا ہے، اس فنڈ میں کچھ رقم تو ملازموں کی اپنی تنخواہ سے ماہوار وضع ہوتی اور جمع ہوتی رہتی ہے، ساتھ ہی سود در سود کے حساب سے جمع ہوتا رہتا ہے اور ملازمت سے سبکدوشی کے وقت اسے یہ ساری رقم یکمشت مل جاتی ہے اس مسئلہ کو عموماً اضطراری سمجھا جاتا اور کہا جاتا ہے کہ یہ حکومت یا اداروں کا یکطرفہ فیصلہ ہوتا ہے اور اسی بنا پر بعض علماء نے اسے ملازمت کی شرط اور اسے ملازم کے حق المحنت میں شامل کرکے اس کے جواز کا فتویٰ بھی دیا ہے۔ حالانکہ یہ بات محض لاعلمی کی بنا پر کہی جاتی ہے اگر کوئی سود نہ لینا چاہے تو اسے کوئی مجبور نہیں کرتا۔ پراویڈنٹ فنڈ کے معاہدہ فارم کی پشت پر جو شرائط لکھی ہوتی ہیں ان میں سے شق نمبر ١٦ میں یہ بات وضاحت سے درج ہے کہ جو شخص سود نہ لینا چاہے اسے کوئی مجبوری نہیں ہے۔ علاوہ ازیں ضیاء الحق مرحوم نے اس کے متبادل حل کو قانونی شکل دے دی ہے۔ جو یہ ہے کہ جو شخص سود نہ لینا چاہے نہ لے اور اس کے عوض اسے کسی وقت بھی اپنی جمع شدہ رقم کا ٨٠ فیصد بطور قرض حسنہ مل سکتا ہے۔ جسے وہ بعد میں بالاقساط اپنی تنخواہ سے کٹوا دیا کرے گا۔
بینک کے شراکتی کھاتے:۔تیسرا اہم مسئلہ بنک کے شراکتی کھاتوں کا ہے جو صدر ضیاء الحق کی سود کو ختم کرنے کی کوشش کے نتیجہ میں معرض وجود میں آیا۔ بنک کی اصطلاحی زبان میں انہیں پی۔ ایل۔ ایس S۔L۔P یعنی (Prophet and Loss Shares) کہتے ہیں۔ جس سے دیندار طبقہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور ایسے لوگوں نے پی۔ ایل۔ ایس کھاتوں میں حساب منتقل کروالیا۔ مگر تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ بھی بیع عینہ ہی کی ذرا وسیع پیمانے پر صورت اختیار کی گئی ہے۔
بیع عینہ کیاہے؟ بیع عینہ میں حیلہ سازی کے ذریعہ سود کو بیع کی شکل دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مثلاً اگر کسی کو نقد رقم کی ضرورت ہے اور وہ سود میں بھی ملوث نہیں ہونا چاہتا تو وہ 'ب' سے کوئی چیز مثلاً گھوڑا پانچ ہزار روپے میں ایک سال کے وعدہ پر خریدتا ہے پھر ایک دو دن بعد 'الف' وہی گھوڑا 'ب' کے پاس ساڑھے چار ہزار روپے نقد میں فروخت کردیتا ہے اور سال بعد 'الف' کو پانچ ہزار روپے ادا کردیتا ہے۔ اس طرح 'الف' کو فوراً ساڑھے چار ہزار روپے میسر آگئے اور 'ب' کو ایک سال بعد ساڑھے چار ہزار روپے پر پانچ سو منافع مل گیا۔ جو دراصل اس رقم کا ایک سال کا سود ہے اور گھوڑے کی بیع کو درمیان میں لاکر اس سود کو حلال بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ بیع عینہ کہلاتی ہے۔ (موطا امام مالک۔ کتاب البیوع، باب العینہ) یہ خالص سود ہے اور 'الف' اور 'ب' دونوں گنہگار ہیں۔
شراکتی کھاتوں میں بھی ایسی ہی کاروائی کی جاتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ شراکتی کھاتوں میں سود اور ڈسکاؤنٹ (Discount) کے بجائے مارک اپ اور مارک ڈاؤن کی اصطلاحیں رائج کی گئی ہیں۔ شرح سود تو فیصد سالانہ ہوتی ہے جبکہ مارک اپ فی ہزار فی یومیہ ہوتی ہے۔ جو مضارب اور بنک کے درمیان سمجھوتے سے طے پاتے ہے اور یہ شرح تقریباً وہی بن جاتی ہے جو بنکوں میں فیصد سالانہ رائج ہوتی ہے مثلاً زید مشینری کی خرید کے لئے بنک سے پچاس ہزار روپے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اب بنک یہ کرے گا کہ اس رقم کے عوض کاغذوں میں مشینری خود زید سے خرید لے گا اور اس پر متوقع منافع کا اندازہ کرکے 'مارک اپ' لگا کر زید سے یہ مارک اپ بطور کرایہ اور ماہوار قسط ہر ماہ وصول کرتا رہے گا اور اگر زید مقررہ مدت کے اندر اصل زر بمعہ مارک اپ بالاقساط ادا نہیں کرسکتا تو بنک کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ مشینری کو فروخت کرکے اپنا سب کچھ کھرا کرلے۔ باقی جو بچے گا وہ زید کا ہوگا۔ بنک کو مشینری کے حصول، اخراجات حصول، حصول کے دوران تلفی کا خطرہ، اس کی نگہداشت، اور وقت سے پہلے ناکارہ ہونے کی چنداں فکر نہیں ہوتی اور وہ ایسے تمام خطرات کی ذمہ داری زید پر ڈال دیتا ہے۔ اب آپ خود دیکھ لیجئے کہ مضاربت کی اس شکل کو اسلامی نظریہ بیع سے کس قدر تعلق ہے؟ معاملہ دراصل یہ ہے کہ ہمارے بنک اپنے بنیادی ڈھانچہ کے لحاظ سے مالیاتی توسط کے ادارے ہیں۔ تجارتی ادارے نہیں ہیں۔ وہ اپنا حق المحنت سود یا یقینی منافع کی شکل میں وصول کرتے ہیں لیکن کاروباری خطرات کی ذمہ داری کسی قیمت پر لینا گوارا نہیں کرتے اور یہی بات سود اور تجارت کا بنیادی فرق ہے۔ لہٰذا جب تک ذہنی طور پر اس بنیادی ڈھانچہ میں تبدیلی گوارا نہیں کریں گے سود اپنی نئی نئی شکلوں میں جلوہ گری کرتا رہے گا۔
بیمہ کاکاروبار:۔ چوتھا اہم مسئلہ بیمہ کا ہے، سود کی طرح بیمہ نے بھی ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ پاکستان میں ١٩٧٣ ء سے پہلے بیمہ کا کاروبار پرائیوٹ کمپنیاں کرتی تھیں تاہم انہیں حکومت کی سرپرستی حاصل تھی۔ ١٩٧٣ ء میں حکومت نے ان کو اپنی تحویل میں لے لیا اور سب کمپنیوں کو مدغم کرکے سٹیٹ لائف انشورنس کے نام سے اس کاروبار کو مزید فروغ بخشا۔ آج ہر سرکاری و نیم سرکاری ملازم نیز ہر صنعتی اور تجارتی ادارے کے ملازم کا بیمہ زندگی لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اس کی موت یا حادثے کی صورت میں مقررہ رقم اس کے ان ورثاء کو ملتی ہے جو وہ خود تجویز کرتا ہے اور وہ رقم حکومت یا متعلقہ ادارہ ادا کرتا ہے۔ بیمہ پہلے تو صرف جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ کا ہوتا تھا۔ پھر زندگی کا بیمہ ہونے لگا۔ پھر انسان کے ایک ایک عضو کا الگ الگ بیمہ ہونے لگا اور آج کل تو بعض ذمہ داریوں مثلاً بچوں کی تعلیم اور شادی وغیرہ کا بھی بیمہ کیا جاتا ہے۔
بیمہ پالیسی کی وضاحت کا یہ موقع نہیں۔ مختصراً یہ بتلا دینا ضروری ہے کہ اس میں سود کا عنصر بھی پایا جاتا ہے، جوئے کا بھی اور بیع غرر کا بھی کیونکہ بیمہ کی شرائط طے کرتے وقت نہ بیمہ دار کو یہ پتا ہوتا ہے کہ وہ کیا کچھ ادا کرسکے گا اور نہ بیمہ کمپنی کو یہ پتا ہوتا ہے کہ اسے کیا کچھ لینا پڑے گا۔ گویا عوضین میں سے کسی ایک عوض کی بھی تعین نہیں ہوسکتی اور ایسی بیع ناجائز ہے۔ علاوہ ازیں یہ اسلام کے قانون میراث میں گڑبڑ پیدا کردیتی ہے۔
بیمہ کمپنیوں کی طرف سے اکثر باہمی ہمدردی اور تکافل، تعاون کا خوبصورت اور بھرپور پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ ایک خالص کاروباری ادارہ ہے جو سودی کاروبار سے بھی کئی گنا زیادہ منافع بخش ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ ١٩٧٨ ء میں امریکہ کی بیمہ کمپنیوں کو اپنے بیمہ داروں سے ٩٨ ارب ڈالر کی رقم وصول ہوئی اور اس رقم میں سے صرف ٤ ارب ڈالر اپنے بیمہ داروں کو ادا کئے۔ اس طرح ایک سال کے اندر ٩٤ ارب ڈالر کی رقم اپنے پاس جمع کرلی۔ (روزنامہ ’جنگ‘ مورخہ ١٠ مئی ١٩٧٩ء)
اس کا حل یہی ہے کہ ہر شخص کو ہر طرح کے بیمہ سے بچنا لازم ہے، اور جہاں انسان مجبور ہو، وہاں ممکن ہے اللہ اسے معاف فرما دے۔
انعامی بانڈرز:۔پانچواں اہم مسئلہ انعامی بانڈز (Prize Bonds) کا ہے۔ اس کاروبار کا بھی اور اس میں ملنے والے انعامات کا بھی آج کل عوام میں خوب چرچا ہے۔ یہ دراصل سود اور قمار کی مرکب شکل ہے اور یہ کاروبار حکومتی سطح پر کیا جاتا ہے۔ حکومت کو جب سرمایہ کی ضرورت پیش آتی ہے تو وہ اس ذریعہ سے سود کا نام لئے بغیر عوام سے روپیہ حاصل کرتی ہے۔ طریقہ کار یہ ہے کہ مثلاً آج کل حکومت اسلامی جمہوریہ پاکستان نے ٥٠ روپے، ١٠٠ روپے، ٥٠٠ روپے اور ١٠٠٠ روپے کے بانڈ (سرکاری تمسکات) چھاپ رکھے ہیں جو کسی وقت بھی کسی بھی بنک سے کیش کرائے جاسکتے ہیں۔ اور عوام میں بھی ان کا لین دین ایسے ہی چلتا ہے جیسے کرنسی نوٹوں کا۔ ان پر نمبر بھی کرنسی نوٹوں کی طرح ہی طبع کئے جاتے ہیں۔ اب مثلاً جنوری ١٩٩٥ ء میں ٥٠ روپے والے بانڈ فروخت ہوتے رہتے ہیں تو فروری میں ١٠٠ روپے والے فروخت ہوں گے، علی ہذا القیاس پھر ہر دو ماہ بعد ان کی قرعہ اندازی ہوتی ہے۔ ٥٠ روپے والوں کی مارچ میں اور ١٠٠ روپے والوں کی اپریل میں ہوگی۔ اب جو نمبر قرعہ اندازی میں آئیں گے وہ جس شخص کے پاس ہونگے وہ دکھا کر سٹیٹ بنک آف پاکستان یا قومی بچت کے کسی مرکز سے اعلان شدہ انعام حاصل کرے گا۔
یہ کاروبار چونکہ حکومت خود چلا رہی ہے۔ لہٰذا اسے خاصا فروغ حاصل ہوا ہے اور جن لوگوں کو حرام حلال کی کچھ تمیز نہیں وہ اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ ہر دو ماہ بعد جو انعامات تقسیم ہوتے ہیں وہ دراصل اس جمع شدہ رقم کا دو ماہ کا سود ہوتا ہے۔ جو سب حقداروں میں تقسیم کرنے کے بجائے بذریعہ قرعہ اندازی چند افراد کو دے دیا جاتا ہے اور عوام کو دھوکا دینے کی خاطر اس کاروبار میں سود کا نام انعام رکھ دیا گیا ہے اور بذریعہ قرعہ اندازی یہ انعام کسی کو عطا کرنا ہی میسر (جوا یا قمار) ہے۔ اور یہی کچھ لاٹری میں ہوتا ہے۔
یہ سودی کاروبار انہیں مشاغل میں منحصر نہیں۔ اگر بنک سودی کاروبار کرتے ہیں تو ڈاک خانہ والے بھی کرتے ہیں اور قومی بچت کے مراکز بھی پھر اور بھی بہت سے سرکاری، نیم سرکاری اور نجی ادارے ہیں جو سود پر رقم لے کر اپنا کاروبار چلاتے ہیں۔ اور لوگوں سے مختلف شکلوں میں سود وصول کرتے ہیں۔ آج کل اقساط پر اشیاء کی فروخت کا کاروبار بھی بہت رواج پا چکا ہے۔ اور یہ بات مال بیچنے والا اور لینے والا سب جانتے ہیں کہ ان اقساط میں سود کی رقم شامل ہوتی ہے اور اگر سرکاری واجبات یا بلوں کی ادائیگی میں تاخیر ہوجائے تو سرکاری اور نیم سرکاری ادارے جبراً اس پر سود وصول کرتے ہیں الغرض ہر طرف ہی فضا سود کے اثرات سے مسموم ہوچکی ہے۔
بایں ہمہ یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر آج بھی کوئی شخص سود سے بچنے کا پختہ عزم کرلے تو وہ سود سے بچ سکتا ہے۔ البتہ اگر کوئی ناقابل علاج چیز ہے تو وہ انسان کی ہوس ہے۔ اگر ایک تاجر دوسروں کی دیکھا دیکھی ایک لاکھ کے سرمایہ سے بنک کی ملی بھگت سے چار لاکھ کا کاروبار کرنا چاہتا ہے تو وہ اسے اضطرار کا نام کیوں دیتا ہے۔ اور اگر کوئی چیز درآمد کرتا ہے تو وہ پوری رقم پیشگی جمع کرا کر سود کے دھندے سے بچ بھی سکتا ہے۔ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ اضطرار کہیں بھی نہیں ہوتا بلکہ بات صرف اتنی ہے کہ حلال طریقے سے کمائی کم ہوتی ہے۔ صرف زیادہ کمائی کی خاطر سود میں ملوث ہونا، پھر اسے اضطرار کا نام دینا ڈھٹائی نہیں تو اور کیا ہے اور ایسے حیلوں بہانوں سے کمائی ہوئی ساری کی ساری دولت حرام ہوجاتی ہے۔ اور اگر حقیقتاً انسان کسی وقت مجبور ہوجائے تو وہ گناہ نہیں اور اللہ تعالیٰ وہ معاف فرمادے گا اور ایسا اضطرار صرف سود دینے میں ہی ہوسکتا ہے۔ لینے میں کبھی نہیں ہوسکتا۔
پھر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اگر سودی دھندا کرنے والے ہر طرف بکھرے ہوئے ہیں تو بعض ادارے ایسے بھی موجود ہیں جو مضاربت اور شراکت کی بنیادوں پر لوگوں سے سرمایہ اکٹھا کرتے ہیں۔ مثلاً جائنٹ سٹاک کمپنیاں اور کو آپریٹو سوسائٹیاں خالص تجارتی بنیادوں پر کاروبار کرتی ہیں۔ ان کے حصص کی قیمت گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔ اور کھلے بازار یہ حصص فروخت ہوتے رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں آج بھی کئی ایسے دیانت دار اور دیندار تاجر موجود ہیں جو مضاربت کی شرائط پر رقم قبول کرتے ہیں اور وقت مقررہ پر طے شدہ شرائط کے مطابق منافع بھی ادا کرتے ہیں اور بوقت ضرورت اصل رقم بھی واپس کردیتے ہیں۔ البتہ ایسے لوگوں کو تلاش ضرور کرنا پڑتا ہے۔ مگر ناپید نہیں ہیں۔ لہٰذا ہر شخص کو لازم ہے کہ وہ بہرصورت اس جرم عظیم سے اجتناب کرے۔
[٣٩٩] اللہ تعالیٰ نے معاشرہ کو سودی نظام سے نجات حاصل کرنے کی بہترین ترکیب خود ہی بتا دی جو یہ تھی کہ اس حکم کے نزول کے بعد کوئی سود پر قرض دینے والا صرف اپنا اصل زر ہی وصول کرنے کا حقدار ہوگا اور سود کا مطالبہ کرکے مقروض پر ظلم نہیں کرے گا۔ اسی طرح مقروض کو اصل زر ضرور قرض خواہ کو ادا کرنا ہوگا۔ وہ اصل زر بھی یا اس کا کچھ حصہ دبا کر قرض خواہ پر ظلم نہیں کرے گا۔
یہ ہیں وہ آیات جنہیں آیات ربا کہا جاتا جن کے مطابق سود کو کلیتہ حرام قرار دیا گیا اور یہ سورۃ بقرہ میں سب سے آخر میں بلکہ آپ کی وفات سے صرف چار ماہ پیشتر نازل ہوئی تھیں۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ’’جب سورۃ بقرہ کی سب سے بعد نازل ہونے والی آیات سود کے بارے میں نازل ہوئیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں جاکر ان آیتوں کو سنایا۔ پھر شراب کی سوداگری بھی حرام کردی۔‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر زیر آیات مذکورہ) اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’آیات ربا قرآن کی ان آیات سے ہیں، جو آخر زمانہ میں نازل ہوئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوگئی۔ پیشتر اس کے کہ تمام احکام ہم پر واضح فرماتے۔ لہٰذا تم سود کو بھی چھوڑ دو اور ہر اس چیز کو بھی جس میں سود کا شائبہ ہو۔‘‘ (ابن ماجہ، دارمی، بحوالہ مشکوٰۃ، کتاب البیوع، باب الربا۔ فصل ثالث)
ان آیات کے نزول کے چند ہی دن بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع ادا کیا اور اس حکم کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اپنے خطبہ حجۃ الوداع میں یوں اعلان فرمایا کہ: ’’جاہلیت کے تمام سود باطل قرار دیئے جاتے ہیں اور سب سے پہلے میں اپنے خاندان کا سود یعنی عباس بن عبدالمطلب کا سود باطل کرتا ہوں۔‘‘ (مسلم۔ کتاب الحج۔ باب حجۃ النبی)
شراب کی طرح سود بھی دراصل عرب معاشرہ کی گھٹی میں پڑا ہوا تھا اور اس کا استیصال بھی بتدریج ہوا۔ سود کی مذمت میں سب سے پہلی نازل ہونے والی آیت سورۃ روم کی آیت نمبر ٣٩ ہے جس میں یہ بتلایا گیا کہ ’جو رقم تم سود پر دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال بڑھ جائیں تو ایسا مال، اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا۔‘ دوسری آیت سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ١٣٠ ہے جس میں کہا گیا کہ : اے ایمان والو! دگنا چوگنا سود نہ کھاؤ۔ (یعنی سود مرکب) پھر اس کے بعد سورۃ بقرہ کی مندرجہ بالا آیات نازل ہوئیں۔ جن کے بعد سود ایک فوجداری جرم بن گیا اور عرب کے سود خور قبیلوں کو آپ نے عمال کے ذریعے آگاہ فرمایا کہ اگر وہ سودی لین دین سے باز نہ آئے تو ان کے خلاف جنگ کی جائے گی۔ |
البقرة |
280 |
[٤٠٠] مقروض کو مہلت دینے یا اسے معاف کردینے میں جو بہتری ہے وہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتی ہے:
(١) حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : ’’ جس شخص کو یہ بات محبوب ہو کہ اللہ تعالیٰ اسے قیامت کی سختیوں سے نجات دے اسے چاہئے کہ تنگدست کو مہلت دے یا پھر اسے معاف کردے۔‘‘ (مسلم : کتاب المساقاۃ والمزارعۃ، باب فضل انظار المعسر)
(٢)قرضہ میں مہلت کی فضیلت :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ’’جس شخص کے ذمہ کسی کا قرضہ ہوا اور مقروض ادائیگی میں تاخیر کرے تو قرض خواہ کے لئے ہر دن کے عوض صدقہ ہے۔‘‘ (احمد بحوالہ، مشکوٰۃ۔ کتاب البیوع۔ باب الافلاس والا نظار، فصل ثالث)
(٣) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جو شخص کسی تنگ دست کو مہلت دے یا معاف کردے، قیامت کے دن اللہ اسے اپنے سایہ میں جگہ دے گا۔‘‘ (طویل حدیث سے اقتباس) (مسلم۔ کتاب الزھد۔ باب حدیث جابر و قصۃ ابی بسیر)
اور اگر مقروض تنگدست ہو اور قرض خواہ زیادہ ہوں تو اسلامی عدالت قرض خواہ یا قرض خواہوں سے مہلت دلوانے یا قرض کا کچھ حصہ معاف کرانے کی مجاز ہوتی ہے۔ (اس صورت حال کو ہمارے ہاں دیوالیہ کہتے ہیں اور عربی میں افلاس اور تفلیس) چنانچہ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک شخص کو پھل کی خرید وفروخت میں نقصان ہوا اور اس کا قرضہ بہت بڑھ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا : ’’اس پر صدقہ کرو‘‘ لوگوں نے صدقہ کیا، پھر بھی اتنی رقم نہ ہوسکی جو قرضے پورے کرسکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض خواہوں سے فرمایا : ’’جو کچھ (قرضہ کی نسبت سے) تمہیں ملتا ہے لے لو اور تمہارے لئے یہی کچھ ہے۔‘‘(مسلم۔ کتاب المساقاۃ والمزارعۃ۔ باب وضع الجوائع)
عبداللہ بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (میرے باپ) کعب بن مالک نے ع |