Maktaba Wahhabi

آیت نمبرترجمہسورہ نام
1 [١] تلاوت سے پہلے تعوذ کا حکم :۔ قرآن کریم کی تلاوت شروع کرنے سے پہلے ﴿اَعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرّجیم﴾ ضرور پڑھ لینا چاہیے۔ کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے آیت ﴿فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ﴾ (16 : 98) ’’جب آپ قرآن پڑھنے لگیں تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ طلب کیجئے‘‘ اور یہ تو ظاہر ہے کہ پناہ کسی نقصان پہنچانے والی چیز یا دشمن سے درکار ہوتی ہے اور ایسی ہستی سے پناہ طلب کی جاتی ہے جو اس نقصان پہنچانے والے دشمن سے زیادہ طاقتور ہو۔ شیطان چونکہ غیر محسوس طور پر انسان کی فکر پر اثر انداز ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ دعا دراصل قرآن کی تلاوت کے دوران کج فکری سے بچنے اور قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کی دعا ہے۔ نیز یہ وہ دعا ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود اپنے بندوں کو سکھائی اور اسے پڑھنے کا حکم دیا۔ (1) فضائل سورۃ فاتحہ :۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک دن جبرئیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے اپنے اوپر ایک زور دار آواز سنی انہوں نے اپنا سر اٹھایا۔ پھر فرمایا : ’’یہ آسمان کا ایک دروازہ ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں کھلا‘‘ پھر فرمایا :’’ یہ ایک فرشتہ ہے جو آج سے پہلے زمین پر کبھی نازل نہیں ہوا۔ پھر اس فرشتے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور دو نوروں کی خوشخبری دی اور کہا :’’ یہ دو نور آپ ہی کو دئیے جا رہے ہیں۔ آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیئے گئے۔ ایک سورۃ فاتحہ اور دوسرا سورۃ البقرہ کی آخری دو آیات۔ آپ جب کبھی ان دونوں میں سے کوئی کلمہ تلاوت کریں گے تو آپ کو طلب کردہ چیز ضرور عطا کی جائے گی۔‘‘ (صحیح مسلم۔ کتاب فضائل القرآن۔ باب فضل الفاتحہ) (2) سورۃ فاتحہ کے مختلف نام :۔ سیدنا ابو سعید بن معلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ نے مجھے فرمایا : ’’میں تجھے قرآن کی ایک ایسی سورت بتاؤں گا جو قرآن کی سب سورتوں سے بڑھ کر ہے اور وہ ہے ﴿ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾ وہی ﴿سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ﴾ اور قرآن عظیم ہے جو مجھے دیا گیا۔‘‘ (بخاری : کتاب التفسیر، سورۃ انفال: 24 ﴿يٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا نیز تفسیر سورۃ فاتحہ) (3) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سورۃ الحمد ہی ام القرآن، ام الکتاب اور دہرائی ہوئی سات آیتیں ہیں۔ (ترمذی : ابواب التفسیر، تفسیر سورۃ محمد) اس سورۃ کا سب سے زیادہ مشہور نام الفاتحة ہے جس کے معنی ہیں کھولنے والی یعنی دیباچہ، مقدمہ یا پیش لفظ۔ اس کے متعلق علماء کی دو آرا ہیں : ایک یہ کہ یہ سورۃ ایک دعا ہے جو بندوں کو سکھائی گئی ہے کہ وہ اس انداز سے اللہ سے ہدایت طلب کیا کریں اور باقی سارا قرآن اس دعا کا جواب ہے۔ ان حضرات کی توجیہ یہ ہے کہ اس سورۃ کا ایک نام سورۃ الدعاء بھی ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ یہ سورۃ سارے مضامین قرآن کا اجمالی خلاصہ ہے۔ پھر اس سورۃ کا خلاصہ ﴿ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ﴾ ہے۔ ہمارے نزدیک دوسری رائے ہی راجح ہے اور اس کی مندرجہ ذیل دو وجوہ ہیں : 1۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سورۃ کو قرآن عظیم، ام الکتاب اور ام القرآن فرمایا ہے جس کا مفہوم یہی ہے کہ یہ سورۃ سارے قرآن کا خلاصہ ہے۔ 2۔ اس سورۃ کی آیات پر سرسری نظر ڈالنے سے ہی از خود یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اس میں پورے قرآن کا خلاصہ یا اجمالی ذکر کیا گیا ہے تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ علمائے تفسیر نے قرآن کے مضامین کو پانچ اقسام میں تقسیم کیا ہے جو یہ ہیں : (1) تذکیر بالآء اللہ : یعنی اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا بیان جو انسانی زندگی اور اس کی بقا کے لیے ضروری تھیں اور اس میں زمین، آسمان، چاند، سورج اور ہواؤں اور بادلوں وغیرہ کا ذکر سب کچھ آ جاتا ہے۔ (2) تذکیر بایام اللہ : یعنی مخلوق کے ساتھ واقعات اور حوادث کا بیان اس میں قصص الانبیاء اور نافرمانی کی بنا پر ہلاک شدہ قوموں کا ذکر شامل ہے۔ (3) تذکیر بالموت و مابعدہ : یعنی موت کے بعد آخرت کے احوال۔ اس میں اللہ کے ہاں باز پرس اور جنت و دوزخ کے سب احوال شامل ہیں۔ (4) علم الاحکام یعنی احکام شریعت : تذکیر بالآء اللہ، تذکیر بایام اللہ اور تذکیر بالموت، سب کا مقصد حقیقی یہی ہے کہ ان کے ذکر سے انسان کو برضاء و رغبت احکام شریعت کی بجا آوری پر آمادہ کیا جائے۔ (5) علم المخاصمہ : یعنی گمراہ فرقوں کے عقائد باطلہ کا رد۔ اب دیکھئے اس سورۃ کی پہلی تین آیات میں یعنی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے لے کر دوسری بار الرحمٰن الرحیم تک اللہ تعالیٰ کی ربوبیت عامہ اور رحمت کی وسعت کا ذکر ہے اور یہ تذکیر بالآء اللہ کے ذیل میں آتی ہیں اور چوتھی آیت ﴿ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ﴾ تذکیر بالموت کے ذیل میں۔ پانچویں آیت ﴿ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ﴾ علم الاحکام کا نچوڑ ہے۔ اور چھٹی آیت اللہ سے دعا اور تعلق باللہ پر مشتمل ہے اور یہ علم الاحکام ہی کے ذیل میں آتی ہے۔ اور ساتویں آیت میں تذکیر بایام اللہ بھی ہے اور علم المخاصمہ بھی۔ اس لحاظ سے یہ سورۃ فی الواقع قرآن کی اجمالی فہرست ہے اور اس ساری سورۃ کا خلاصہ آیت ﴿ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ﴾ہے۔ یعنی انسان صرف ایک اللہ کی عبادت کرے جس میں کسی قسم کے شرک کا شائبہ تک نہ ہو۔ اس سورۃ کا نام الشفاء اور الرقیہ بھی ہے اور ان ناموں کی وجہ تسمیہ درج ذیل حدیث ہے : سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی اصحاب عرب کے ایک قبیلہ پر پہنچے۔ جنہوں نے ان کی ضیافت نہ کی۔ اتفاق سے ان کے سردار کو بچھونے کاٹ لیا۔ وہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس آئے اور کہنے لگے : ’’تم میں سے کسی کے پاس بچھو کے کاٹے کی کوئی دوا یا منتر ہے؟‘‘ انہوں نے کہا : ’’ہاں ہے۔ مگر چونکہ تم نے ہماری ضیافت نہیں کی اس لیے ہم اس کا معاوضہ لیں گے‘‘ انہوں نے چند بکریاں (ایک دوسری روایت کے مطابق ٣٠ بکریاں) دینا قبول کیں۔ ایک صحابی (خود ابو سعید رضی اللہ عنہ) نے سورۃ فاتحہ پڑھنا شروع کی۔ وہ سورۃ فاتحہ پڑھ کر پھونک مار دیا کرتے۔ چند دنوں میں وہ سردار اچھا ہوگیا۔ (حسب وعدہ) قبیلہ کے لوگ بکریاں لے آئے تو صحابہ رضی اللہ عنہم کو تردد ہوا (کہ آیا یہ معاوضہ لینا بھی چاہئے یا نہیں) اور کہنے لگے کہ جب تک ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ نہ لیں یہ بکریاں نہ لینا چاہئیں۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تمہیں یہ کیسے معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ منتر بھی ہے؟ وہ بکریاں لے لو اور (ان میں سے) میرا حصہ بھی نکالو‘‘ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ جب صحابہ رضی اللہ عنہم مدینہ پہنچے تو کسی نے کہا : ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص (ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ) نے کتاب اللہ پر اجرت لی ہے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” إِنَّ أَحَقَّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا كِتَابُ اللَّهِ “(تمہارے اجرت لینے کی سب سے زیادہ مستحق تو کتاب اللہ ہی ہے) (بخاری۔ کتاب الطب والرقي۔ باب الرقی بفاتحۃ الکتاب) اس حدیث سے مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوئیں : 1۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اجرت کا مطالبہ صرف اس لیے کیا تھا کہ ان بستی والوں نے ان کی مہمانی سے انکار کردیا تھا۔ بالخصوص ان دنوں میں جبکہ وسائل سفر محدود، سست رفتار اور ہوٹل وغیرہ بھی نہیں ہوتے تھے اور ملکی دستور یہ تھا کہ مہمانی سے انکار کو قتل کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔ 2۔ اگر دم جھاڑ کی ضرورت پیش آئے تو صرف کتاب اللہ سے ہی کرنا چاہئے یا کم از کم دم جھاڑ کرنے والا شرکیہ یا مہمل الفاظ نہ پڑھے۔ 3۔ ضرورت مند لوگ دم جھاڑ کی اجرت بھی لے سکتے ہیں۔ رہا علی الاطلاق دم جھاڑ کو ایک مستقل پیشہ بنا لینا یا خانے بنا کر یا مہمل الفاظ سے تعویذ لکھنا۔ انہیں پانی میں گھول کر پلانا۔ گلے میں لٹکانا یا کسی دوسری جگہ باندھنا، ایسے سب کام شرعاً ناجائز ہیں اور اس کی تفصیل سورۃ القیامۃ میں آئے گی۔ نیز اس سورۃ کا نام سورۃ الصلوٰۃ اور سورۃ الدعا اور تعلیم المسئلہ (مانگنے کے آداب) بھی ہے۔ قراۃ فاتحہ خلف الامام :۔ چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جس نے نماز پڑھی اور اس میں ام القرآن نہ پڑھی اس کی نماز ناقص، ناقص، ناقص اور ناتمام ہے‘‘ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا : ’’ابوہریرہ ! کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں؟‘‘ وہ کہنے لگے : ’’'فارسی کے بیٹے دل میں (چپکے چپکے) پڑھ لو۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں نے نماز (سورہ فاتحہ) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان نصف نصف تقسیم کردیا ہے۔ آدھی میرے لیے ہے اور آدھی میرے بندے کے لیے جو کچھ وہ سوال کرے۔ میرا بندہ (نماز میں) کھڑا ہوتا اور کہتا ہے ﴿ اَلْحَمْدُ ﷲِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعریف کی۔ پھر وہ کہتا ہے ﴿الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴾ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری ثناء بیان کی۔ پھر وہ کہتا ہے﴿ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ﴾ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی اور ﴿ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ﴾ میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے اور سورت کا باقی حصہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کو وہ کچھ ملے گا جو اس نے مانگا۔ (مسلم۔ کتاب الصلوۃ۔ باب وجوب قراءۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ۔ ترمذی۔ ابواب التفسیر۔ سورۃ الفاتحۃ) سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " لاَ صَلٰوۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ" (بخاری کتاب الاذان) اور امام بخاری نے تو باب کا نام ہی ان الفاظ سے قائم کیا ہے۔ ( وجوب القرأۃ للامام والمأموم فی الصلوۃ کلھا فی الحضر والسفر وما یجھر فیھا وما یخافت) اس باب کے الفاظ کے عموم سے ہی یہ بات واضح ہے کہ خواہ کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا ہو یا مقتدی ہو یا امام ہو، نماز خواہ سری ہو یا جہری ہو ہر صورت میں اور ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھنا واجب ہے۔ ترمذی، ابوداؤد، احمد اور ابن حبان کی ایک روایت میں ہے کہ آپ نے ہم سے پوچھا : ’’تم لوگ اپنے امام کے پیچھے کچھ پڑھتے رہتے ہو؟‘‘ ہم نے کہا : ’’ہاں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فاتحہ الکتاب کے سوا اور کچھ نہ پڑھا کرو۔ کیونکہ جو شخص فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔ (سبل السلام۔ کتاب الصلوۃ۔ باب صفۃ الصلٰوۃ حدیث نمبر 13) گویا سورۃ فاتحہ کے کل دس نام معلوم ہوئے۔ سورۃ الفاتحۃ، الحمد، سبعا من المثانی، أم القرآن، أم الکتاب، الشفاء، الرقیۃ، الدعاء، تعلیم المسئلۃ اور الصلوۃ اور بعض نے اس سے بھی زیادہ لکھے ہیں۔ زمانہ نزول: اس سورۃ کا ترتیب نزول کے لحاظ سے پانچواں نمبر ہے۔ گویا یہ اسلام کے بالکل ابتدائی دور میں نازل ہوئی تھی اور یہی پہلی سورت ہے جو پوری کی پوری یکبارگی نازل ہوئی۔ [٢] کیا بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سورۃ فاتحہ کا جز ہے؟ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے زمانہ نزول میں بتایا جاچکا ہے کہ اس میں اقرا یا ابدا محذوف ہے۔ اسی لیے ہم نے ترجمہ میں (شروع) کا لفظ بڑھایا ہے۔ اب یہ بحث باقی رہ جاتی ہے کہ آیا یہ آیت سورۃ فاتحہ کا جز ہے یا نہیں۔ اور اس کی اہمیت یہ ہے کہ آیا جہری نمازوں میں امام کو اس کی قراءت بلند آواز سے کرنی چاہئے یا خفی آواز سے؟ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورت کے ختم ہونے کو نہیں پہچانتے تھے جب تک بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نازل نہ ہوتی (ابوداؤد۔ کتاب الصلوۃ۔ باب ماجاء من جھر بھا) جس کا مطلب یہ ہوا کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سورتوں کی تعداد کے برابر (ماسوائے سورۃ التوبہ) یعنی ١١٣ بار نازل ہوئی۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ آپ پر ایک غنودگی سی طاری ہوئی۔ پھر آپ نے مسکراتے ہوئے اپنا سر اٹھایا۔ ہم نے پوچھا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کس بات پر مسکرا رہے ہیں؟ فرمایا : مجھ پر ابھی ابھی ایک سورت نازل ہوئی ہے۔ چنانچہ آپ نے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پڑھ کر ﴿ اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ ﴾ پوری سورت پڑھی۔ (مسلم : کتاب الصلوۃ، باب حجۃ من قال البسملۃ آیۃ من اول کل سورۃ سواء براء ۃ) امام مسلم اس حدیث کو جس باب کے تحت لائے ہیں اس کے عنوان کا ترجمہ یہ ہے ’’سورۃ توبہ کے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم کو ہر سورت کا جز کہنے والوں کی دلیل‘‘ اس دلیل کی رو سے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم صرف سورۃ فاتحہ کا ہی جز نہیں بلکہ ہر سورت کا جز قرار پاتی ہے۔ نیز یہ آیت سورۃ نمل کی ایک مستقل آیت بھی ہے۔ (٢٧: ٣٠) علاوہ ازیں قرآن کی تصریح کے مطابق سورۃ فاتحہ کی سات آیات ہیں۔ اور یہ سات آیات تب ہی بنتی ہیں جب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم کو سورۃ فاتحہ کی پہلی آیت شمار کیا جائے۔ یہ سب وجوہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اس آیت کی قراءت جہری ہونا چاہئے۔ اس سلسلے میں متضاد روایات ملتی ہیں سب سے زیادہ مشہور سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی وہ حدیث ہے جسے بخاری، مسلم اور نسائی وغیرہ نے روایت کیا ہے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ﴿اَلْحَمْدُ اللہ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾ سے نماز شروع کیا کرتے تھے اور مسلم میں یہ الفاظ زیادہ ہیں کہ : ﴿ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم﴾ نہ قراءت کی ابتدا میں پڑھتے تھے اور نہ آخر میں‘‘ اب یہ تو واضح ہے کہ مسلم میں مروی جملہ میں فی نفسہ مبالغہ میں زیادتی ہے ورنہ سورۃ فاتحہ کے آخر میں بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ہے کب؟ اور جو لوگ بسم اللہ بالجہر پڑھنے کے قائل ہیں وہ اس سے یہ مراد لیتے ہیں کہ آپ سورۃ فاتحہ کے بعد جو سورۃ پڑھتے تھے اس کی ابتدا میں بھی بسم اللہ بلند آواز سے نہیں پڑھتے تھے۔ اب اس کے برعکس نسائی کی درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے : نعیم مجمر کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پڑھی۔ پھر ام القرآن پڑھی تاآنکہ وہ ﴿وَلاَالضَّالِیْنَ﴾ تک پہنچے تو آمین کہا۔ پھر جب بھی سجدہ کرتے یا بیٹھنے کے بعد کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے۔ پھر جب سلام پھیرتے تو کہتے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ تم سب سے زیادہ میری نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے مشابہ ہے' (نسائی۔ کتاب الصلوۃ۔ باب قراءۃ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم) صاحب سبل السلام کہتے ہیں کہ یہ سب سے زیادہ صحیح حدیث ہے اور یہ اصل کی تائید کرتی ہے جو یہ ہے کہ قراءت میں جو حکم فاتحہ کا ہے وہی بسملہ کا ہے۔ خواہ یہ جہراً ہو یا سراً ہو۔ کیونکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اس قول کہ ’’میری نماز تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے مشابہ ہے‘‘ سے واضح ہے کہ آپ بسملہ کی قراءت فرماتے تھے۔ اگرچہ اس میں یہ احتمال ہے کہ اس سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے اکثر افعال و اقوال سے ہو مگر یہ ظاہر کے خلاف ہے اور کسی صحابی سے یہ بعید ہے کہ اس نے اپنی نماز میں کوئی ایسا نیا کام کیا ہو جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کیا ہو۔ (سبل السلام مطبوعہ دارنشر الکتب الاسلامیہ۔ شیش محل روڈ لاہور۔ الجزء الاول ص ١٧٣) نیز صاحب سبل السلام کہتے ہیں کہ : ’’اس مسئلہ میں علماء نے لمبی چوڑی بحث کی ہے اور بعض نامور شخصیات نے کتابیں بھی تالیف کی ہیں۔ اور یہ وضاحت کی ہے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی مندرجہ بالا حدیث مضطرب ہے۔ ابن عبدالبر "الاستذکار" میں کہتے ہیں کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی تمام روایات کی تحقیق کا ماحصل یہ ہے کہ اس اضطراب کی وجہ سے کسی بھی فقیہ کے لیے اس سے حجت قائم نہیں ہوتی، نہ اس کے لیے جو بسملہ کی قراءت کرتے ہیں اور نہ ان کے لیے جو نہیں کرتے۔ اس کے متعلق سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہہ دیا کہ ’’میں بوڑھا ہوگیا ہوں اور بھول جاتا ہوں، لہٰذا اس میں کوئی حجت نہیں‘‘ (ایضاً، ص ١٧٢) بعض علماء نہ اس آیت کی جہری قراءت کے قائل ہیں اور نہ ہی اس آیت کو سورۃ فاتحہ کا جز قرار دیتے ہیں اور سات آیات کی تعداد پورا کرنے کے لیے ﴿ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِم﴾ کے آگے ٥ کا ہندسہ لکھ دیتے ہیں۔ جو کو فیوں کے نزدیک آیت کی علامت ہے لیکن یہ متفق علیہ آیت نہیں ہوتی۔ پھر لطف یہ کہ اس ٥ پر لا بھی لکھ دیا گیا ہے۔ یعنی یہاں وقف ممنوع ہے اور یہ تکلف صرف اس لیے کیا گیا کہ بسم اللہ کو نہ فاتحہ کا جزء سمجھا جائے اور نہ اسے جہری نمازوں میں بلند آواز سے پڑھا جائے۔ مجمع ملک فہد نے عرب ممالک کے لیے جو قرآن طبع کیا ہے ہمارے خیال میں اس میں معتدل رویہ اختیار کیا گیا ہے جو یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ میں تو اس آیت کو سورۃ کا جزء قرار دیا گیا ہے اور اس پر ایک کا نمبر لکھا گیا ہے۔ ﴿اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ﴾ کے آگے کچھ نہیں لکھا۔ البتہ باقی سورتوں میں اس آیت کو سورۃ کا جز قرار نہیں دیا گیا جس سے از خود یہ مسئلہ حل ہوجاتا ہے کہ سورۃ فاتحہ سے پہلے یہ آیت جہری نمازوں میں جہر سے پڑھنا بہتر ہے اور دوسری سورتوں میں سر سے۔ [٣] رحمٰن اور رحیم دونوں مبالغہ کے صیغے اور اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام اور ر ح م سے مشتق ہیں۔ لیکن لفظ رحمان میں رحیم کی نسبت اتنا زیادہ مبالغہ ہے کہ رحمٰن کا لفظ دوسرے نمبر پر اللہ کے ذاتی نام کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس کی صراحت قرآن کی بے شمار آیات میں مذکور ہے۔ مثلاً ﴿الرَّحْمَـٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآن﴾)  55۔1) ﴿ اَلرحمٰن عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی ﴾(5:20) ﴿ قُلِ ادْعُوا اللّٰہَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ اَیًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَہُ الْاَسْمَاءُ الْحُسْنٰی وَلَا تَجْـہَرْ بِصَلَاتِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِہَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا﴾(17 : 110)اس لحاظ سے اللہ کی مخلوق میں اللہ تعالیٰ کی سب صفات پائی جاسکتی ہیں سوائے رحمٰن کے۔ ایک انسان رحیم، رؤف، کریم وغیرہ سب کچھ ہوسکتا ہے مگر رحمٰن اللہ کے سوا کوئی نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث صحیح میں مذکور ہے کہ اللہ کو سب سے زیادہ دو نام پسند ہیں ایک عبداللہ، دوسرا عبدالرحمٰن۔ (ترمذی : ابواب الادب، باب ماجاء ما یستحب من الاسماء) اکثر علماء نے رحمٰن اور رحیم کے فرق کو رحمت کی کیفیت اور کمیت کی کمی بیشی کی مختلف صورتوں سے واضح کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ اور ایک عام قول یہ ہے "رحمٰن فی الدنیا رحیم فی الاخرۃ "یعنی اللہ تعالیٰ دنیا میں رحمان ہے جو مسلمان، کافر، مشرک سب پر ایک جیسی رحمتیں نازل فرماتا ہے اور رحیم آخرت میں ہے۔ جو صرف ایمانداروں پر رحمتیں نازل فرمائے گا۔ اس کی ایک توجیہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ صفت رحمانیت کا تقاضا ایسی نعمتیں اور رحمتیں ہیں جو حیات کے وجود اور بقا کے لیے ضروری ہیں۔ اور اس میں صرف انسان ہی نہیں جملہ جاندار مخلوقات شامل ہیں۔ جیسے سورج، چاند، نور و ظلمت، ہوا، پانی اور زمین کی تخلیق جو زندگی کی جملہ ضروریات کی کفیل ہے نیز ماں کی مامتا اور فطری محبت کے تقاضے بھی اس میں شامل ہیں اور رحیم سے مراد وہ رحمت ہے کہ کسی مصیبت یا ضرورت کے وقت پہنچ کر سہارا دیتی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب الفاتحة
2 [4] حمد اور شکر میں لغوی فرق :۔ حمد کا معنی تعریف بھی ہوسکتا ہے اور شکر بھی۔ تعریف (حمد) عام ہے اور شکر خاص۔ حمد کا تعلق قابل تعریف کارناموں سے ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان، شمس و قمر اور ستاروں کی حرکت غرض تمام کائنات کا اس قدر مربوط اور منظم نظام بنا دیا ہے جسے دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اس پر اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ اور شکر کا تعلق ان خاص انعامات سے ہوتا ہے جو کسی خاص ذات سے متعلق ہوں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کا انسان کو احسن تقویم پر پیدا کرنا۔ کسی کو صحت اور رزق کی فراوانیوں سے مالا مال کرنا۔ ایسی نعمتوں کے اعتراف کو شکر کہا جاتا ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ ہی ہر طرح کی حمد اور شکر کا مستحق ہوا۔ علاوہ ازیں اگر مخلوق میں سے کوئی شخص کوئی قابل تعریف کارنامہ سر انجام دے اور اس پر اس کی تعریف کی جائے تو وہ بھی حقیقتاً اللہ تعالیٰ ہی کی تعریف ہوگی۔ کیونکہ قابل تعریف کام کرنے کی صلاحیت اور توفیق بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے عطا ہوتی ہے۔ گویا ہر طرح کی تعریف کا مستحق اللہ تعالیٰ ہی قرار پاتا ہے۔ [٥] اللہ دراصل الا لٰہ ہے، معبود حقیقی۔ الٰہ کا ہمزہ حذف کر کے اس پر تعریف کا الف لام داخل کر کے اللہ کا لفظ بنا ہے اور یہی توجیہ سب سے بہتر ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت میں ہر طرح کے نفع و نقصان کا مالک صرف اور صرف اللہ ہے اور کائنات کا خالق، پروردگار اور لا محدود اقتدار و اختیار ہونے کی وجہ سے صرف وہی عبادت کے لائق ہے۔ یعنی وہ تمام صفات جو الٰہ کے مفہوم میں پائی جانی چاہئیں وہ صرف اللہ میں ہی پائی جاسکتی ہیں۔ لہٰذا دوسرے سب الٰہ باطل اور ناقابل اعتبار ہیں اور اس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ رب کا لفظ تین معنوں میں آتا ہے : (1) کسی چیز کی درجہ بدرجہ تربیت اور خبرگیری رکھتے ہوئے اسے حد کمال تک پہنچانے والا یعنی پروردگار حقیقی اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ (2) کبھی یہ لفظ صرف تربیت (پرورش) کرنے والے مالک کے معنوں میں آتا ہے۔ جیسے سورۃ یوسف میں آتا ہے ﴿أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا ﴾(١٢: ٤١) (3) اور کبھی صرف مالک کے معنوں میں جیسے حدیث میں ہے کہ کسی صحابی نے اپنی شہادت کے وقت فرمایا :” فُزْتُ بِرَبِّ الْکَعْبَةِ“ (کعبہ کے مالک کی قسم! میں کامیاب ہوگیا) [٦] عالمین سے مراد اور اللہ کی تعریف کی وجہ :۔ العالمین : لغوی لحاظ سے عالم ہر وہ چیز ہے جس کا علم حواس خمسہ سے ہوسکتا ہو۔ اس لحاظ سے تمام مخلوقات ایک عالم ہے مگر اس آیت میں عالم سے مراد جنس ہے (عالم غیب، عالم شہادۃ، عالم انس، عالم جن، عالم ملائکہ وغیرہ وغیرہ) بے شمار عالم ہیں۔ پھر زمانہ کے لحاظ سے ہر دور کے لوگ ایک عالم ہیں۔ دور بدلنے پر عالم بھی بدل جاتا ہے۔ اس طرح عالم کی سینکڑوں اور ہزاروں اقسام بن جاتی ہیں اور ان تمام عالموں کی تربیت اور پرورش کرنے والی صرف اللہ ہی کی بلند و برتر ذات ہے۔ اس آیت کے پہلے حصہ میں یہ مذکور ہوا کہ ہر طرح کی تعریف صرف اللہ ہی کے لئے سزاوار ہے اور اس حصہ میں اسکی وجہ بتائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر طرح کی تعریف کا اس لیے مستحق ہے کہ وہ تمام جہانوں کا تربیت کرنے والا ہے۔ نیز یہ آیت اللہ تعالیٰ سے سوال کرنے کے آداب میں سے پہلا ادب ہے۔ حسن طلب کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ جب کسی سے کچھ مانگنا ہو تو اس کی ابتدا اس کے محاسن کے تذکرہ سے کی جاتی ہے۔ الفاتحة
3 [٧] رحمٰن اور رحیم کا فرق پہلی آیت بسم اللہ الرحمٰن الرحیم میں بتایا جاچکا ہے۔ ان الفاظ کو یہاں دوبارہ لانے کا مقصد صرف اس بات کا اظہار ہے کہ تمام جہانوں کی ربوبیت عامہ کے تقاضے صرف اسی صورت میں پورے ہوسکتے ہیں جب ان عالمین کا پروردگار رحمٰن بھی ہو اور رحیم بھی ہو۔ اگر اللہ تعالیٰ رحمٰن اور رحیم نہ ہوتا تو یہ دنیا کبھی آباد نہ رہ سکتی بلکہ کب کی فنا ہوچکی ہوتی۔ الفاتحة
4 [٨] دین کے مختلف معانی :۔ دین کا لفظ قرآن میں مندرجہ ذیل چار معنوں میں استعمال ہوا ہے : (1) اللہ تعالیٰ کی مکمل حاکمیت اور اسی کا دوسرا پہلو یا لازمی نتیجہ ہے۔ (2) انسان کی مکمل عبودیت جیسے ارشاد باری ہے : ﴿فَاعْبُدِ اللَّـهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ أَلَا لِلَّـهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ﴾(۳۹: ۲۔۳) ’’لہٰذا خالصتاً اسی کی عبادت کرو۔ سن لو مکمل حاکمیت خالصتاً اللہ ہی کے لئے ہے‘‘ ان دونوں آیات میں دین کا لفظ مذکورہ بالا دونوں معنی دے رہا ہے۔ (3) قانون سزا و جزاء یا تعزیرات جیسے ارشاد باری ہے : ﴿مَا کَانَ لِیَاْخُذَ اَخَاہُ فِیْ دِیْنِ الْمَلِکِ ﴾(۷۶:۱۲)”اس (سیدنا یوسف علیہ السلام) کی شان کے لائق نہ تھا۔ ممکن نہ تھا کہ وہ بادشاہ کے قانون کے مطابق اپنے بھائی کو رکھ سکتا“ (4) قانون سزا و جزاء کو نافذ کرنے کی قوت، جیسے ارشاد باری ہے : ﴿ فَلَوْلَا إِن كُنتُمْ غَيْرَ مَدِينِينَ تَرْجِعُونَهَا إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴾ (56: 86۔87)”پھر اگر تم سچے ہو اور قانون کی گرفت سے آزاد ہو تو (جب جان لبوں پر آجاتی ہے) اسے لوٹا کیوں نہیں لیتے؟“ اور اس آیت میں دین کا لفظ مندرجہ بالا چاروں معنی دے رہا ہے۔ [٩] پہلی آیات میں اللہ کی معرفت کا ذکر تھا۔ اس ...... آیت میں روز آخرت پر ایمان اور روز آخرت میں اللہ تعالیٰ کے عملی اقتدار و اختیار کا ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ہر انسان کو اس کے اچھے اعمال کا اچھا اور برے اعمال کا برا بدلہ دے گا۔ وہ ایسا بدلہ دینے کی اور اپنے اس فیصلہ کو نافذ کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہے۔ اعمال کے بدلہ کے سلسلہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے بہت سے ضابطے اور قوانین ہیں۔ جن کا ذکر قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر مذکور ہے۔ مثلاً یہ کہ نیکیوں کا بدلہ اللہ جسے چاہے گا بہت زیادہ بھی دے سکتا ہے۔ مگر برائی کا بدلہ اتنا ہی دے گا جتنی اس نے برائی کی ہوگی۔ یا یہ کہ ایک کے جرم کی سزا دوسرے کو نہیں دی جائے گی۔ یا یہ کہ کوئی مجرم کسی صورت میں سزا سے بچ نہیں سکے گا۔ وغیرہ وغیرہ اور ان سب چیزوں کا ذکر قرآن میں بہت سے مقامات پر آیا ہے۔ الفاتحة
5 [١٠] عبادت : یہ لفظ تین معنوں میں آتا ہے۔ (1) پرستش (2) اطاعت و فرمانبرداری (3) ہمہ وقت کی بندگی اور غلامی۔ یہاں یہ لفظ اپنے تینوں معنوں میں مستعمل ہے۔ عبادت کا مفہوم :۔ عبادت تین قسم کی ہے جیسے ہم تشہد میں اس کا اقرار کرتے ہیں۔ (التحیات للہ والصلوات والطیبات) ”یعنی ہماری تمام قلبی، بدنی اور مالی عبادتیں اللہ ہی کے لئے ہیں“قلبی عبادات میں توکل، خوف و رجاء، محبت، تذلل اور خشوع و خضوع شامل ہیں۔ یعنی صرف اللہ پر بھروسہ کیا جائے، اسی سے امید وابستہ کی جائے۔ اسی سے ڈرا جائے اس سے محبت باقی سب چیزوں سے بڑھ کر ہو اور اس کے سامنے انتہائی عاجزی اور خشوع و خضوع کا اظہار کیا جائے۔ بدنی عبادات سے مراد فرض نماز اور نوافل نمازیں، روزہ اور حج اور دوسرے احکام الٰہی کی عملاً پیروی کرنا ہے اور مالی عبادات سے مراد زکوٰۃ، صدقات و خیرات، قربانی اور نذر و نیاز وغیرہ ہیں۔ اگر اللہ کے سوا کسی اور کے لیے ان کاموں میں سے کوئی بھی کام بجا لایا جائے۔ یا اللہ کے سوا کسی اور کو بھی اس میں شریک کیا جائے تو یہ عبادت کی نفی اور اللہ کے ساتھ شرک کرنا ٹھہرے گا جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ شرک کا گناہ کبھی معاف نہیں کرے گا۔ [١١] استعانت کا مفہوم :۔ استعانت : (مدد چاہنا) انسان دنیا میں جو کام بھی کرتا ہے وہ یا تو کسی فائدہ کے حصول کے لئے ہوتا ہے یا کسی تکلیف یا نقصان کو دور کرنے کی خاطر۔ ان کاموں کو عربی زبان میں جلب منفعت اور دفع مضرت کہتے ہیں۔ اب انہی کاموں میں سے کسی کے لئے اگر کوئی شخص کسی ایسے شخص کو یا اللہ کے سوا کسی بھی دوسری ہستی کو پکارے یا اس سے مدد طلب کرے جو اس کے پاس موجود نہ ہو (یعنی ظاہری اسباب مفقود ہوں) تو یہ صریح شرک ہے اس کی مثال درج ذیل شعر میں ملاحظہ فرمائیے : امداد کن امداد کن، از بند غم آزاد کن دردین و دنیا شاد کن یا شیخ عبدالقادرا !! اب اگر کوئی شخص یہ شعر یا وظیفہ اپنی جگہ پر پڑھے یا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی قبر پر جاکر پڑھے تو یہ شرک ہوگا۔ کیونکہ اس میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ یہ فوت شدہ بزرگ میری پکار کو سن بھی رہے ہیں پھر میری مشکل کشائی اور حاجت براری کا اختیار یا تصرف بھی رکھتے ہیں۔ دعا یا پکار کو اللہ تعالیٰ نے عبادت ہی قرار دیا ہے (دیکھئے (٤٠: ٦٠) اور احادیث صحیحہ میں سے ایک کے الفاظ یہ ہیں۔” الدُّعَاءُ ھُوَ الْعِبَادَۃُ “(دعا ہی اصل عبادت ہے) اور دوسری یہ کہ” الدُّعَاءُ مُخُّ العِبَادَۃِ “(دعا ہی عبادت کا مغز ہے) ہاں اگر کسی حاضر شخص سے ایسے کام میں مدد چاہی جائے جو اس کے اختیار میں ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ بلکہ ایسی امداد و تعاون کے بغیر تو دنیا میں کوئی کام ہو ہی نہیں سکتا۔ اور جو کام اللہ کے سوا کسی دوسرے کے بس میں نہیں۔ مثلاً اولاد عطا کرنا، رزق میں کمی بیشی کرنا، گناہ بخشنا، عذاب سے نجات دینا وغیرہ وغیرہ ایسے کاموں کے لئے کسی زندہ موجود شخص سے بھی مدد چاہنا شرک ہوگا۔ مگر کسی خطرہ مثلاً سانپ یا دشمن سے بچنے کے لئے مدد حاصل کرنا اور تعاون چاہنا درست ہوگا۔ اس آیت میں ﴿نَعْبُدُ﴾ اور ﴿نَسْتَعِیْنُ﴾ سے پہلے ﴿اِیَّاکَ﴾کا لفظ لایا گیا ہے جو حصر کا بھی فائدہ دے رہا ہے اور تاکید کا بھی اور اس کا معنی یوں بنتا ہے کہ ہم صرف اور صرف تیری ہی عبادت کرتے اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔ تیرے سوا نہ کسی کی عبادت کرتے ہیں یا کریں گے اور نہ ہی کسی سے مدد مانگتے ہیں اور نہ مانگیں گے۔ گویا شرک کی جملہ اقسام کے استیصال کے لیے یہ اکیلی آیت ہی کافی ہے۔ نیز اس آیت میں جمع متکلم کے صیغے استعمال ہوئے ہیں۔ واحد متکلم کے نہیں ہوئے۔ کیونکہ اسلام نماز باجماعت کی بھی تاکید کرتا ہے اور معاشرتی اجتماعی زندگی اور نظم و ضبط کی بھی۔ علاوہ ازیں﴿نَعْبُدُ﴾کے فوراً بعد ﴿نَسْتَعِیْنُ﴾کا لفظ لایا گیا تاکہ انسان کو اپنی عبادت پر غرور نہ پیدا ہوجائے بلکہ وہ یہ سمجھے کہ اسے عبادت کی توفیق بھی اللہ ہی کی مدد کی بنا پر میسر آئی ہے۔ جبریہ اور قدریہ دونوں فرقوں کا ردّ:۔ دنیا میں عموماً تین قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو اپنے آپ کو تقدیر کے ہاتھوں میں محض ایک کھلونا سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ جبریہ کہلاتے ہیں دوسرے وہ جو اپنے آپ کو مختار مطلق سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انسان جو کچھ چاہے کرسکتا ہے ایسے لوگ قدریہ کہلاتے ہیں۔ معتزلین بھی اسی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ تیسرے وہ جو نہ اپنے آپ کو مختار مطلق سمجھتے ہیں اور نہ مجبور محض اور یہی لوگ دراصل حق پر ہیں۔ اس چھوٹی سی چار الفاظ کی آیت میں جبریہ اور قدریہ دونوں کا رد موجود ہے۔ وہ یوں کہ جب ہم نَعْبُدُ کہتے ہیں یعنی ہم عبادت کرتے ہیں تو اختیار ثابت ہوگیا اور اس میں جبریہ کا رد ہے۔ اور جب ہم مدد چاہتے ہیں تو اس سے بندہ کا محتاج ہونا ثابت ہوا یعنی وہ مختار مطلق نہیں اور اس میں قدریہ کا رد موجود ہے۔ [١٢] علاوہ ازیں چھٹی آیت اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ سوال کرنے یا دعا مانگنے یا مدد چاہنے سے پہلے وسیلہ ضروری ہے اور اس آیت میں وہ وسیلہ عبادت ہے۔ جس کا ذکر پہلے آگیا ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث اس مضمون میں پوری وضاحت کر رہی ہے: فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو نماز میں دعا کرتے سنا، جس نے نہ تو اللہ کی حمد بیان کی تھی اور نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص نے جلدی کی۔ پھر اسے بلایا اور فرمایا : تم میں سے کوئی شخص بھی جب دعا کرے تو اپنے پروردگار کی تعریف اور ثنا سے شروع کرے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے۔ پھر اس کے بعد جو چاہے دعا کرے۔ (احمد۔ ترمذی۔ نسائی۔ ابو داؤد۔ بحوالہ سبل السلام ج ١ ص ١٩٢ باب صفۃ الصلٰوۃ حدیث نمبر ٤٨) الفاتحة
6 [١٣] سیدھی راہ کون سی ہے؟:۔ صراط مستقیم اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ وہ سیدھی راہ ہے جو بندے کو اللہ تک پہنچانے والی ہے۔ اور اس میں کوئی پیچ و خم یا افراط و تفریط نہیں اور یہ ایک ہی ہوسکتی ہے جبکہ باطل راہیں لاتعداد ہوتی ہیں۔ اسی راہ کو اللہ تعالیٰ نے حبل اللہ بھی فرمایا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے” مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ “سے تعبیر فرمایا ہے اور صراط مستقیم کی دوسری تعبیر یہ بھی ہوسکتی ہے کہ حق کا وہ راستہ جو سیدنا آدم سے لے کر تاقیامت ایک ہی رہا اور رہے گا اور وہی راستہ توحید ہر نبی کو وحی کیا گیا ہے۔ قرآن کریم ایسی آیات سے بھرا پڑا ہے جن میں لوگوں کو اللہ سے دعا کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اور پہلی دعا ﴿ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِیْمَ﴾سورۃ فاتحہ میں ہی آگئی ہے پھر بعض آیات میں دعا کے قبول ہونے کا ذکر بھی موجود ہے۔ اس کے باوجود مسلمانوں کا ہی ایک طبقہ، جس پر عقل پرستی اور اعتزال کا رنگ غالب ہے اور ہر معجزہ یا خرق عادت بات کی تاویل کرنے کا عادی ہے۔۔ دعا کی قبولیت کا منکر ہے کیونکہ دعا کی قبولیت کا تعلق بھی غیر مرئی اسباب سے ہے۔ لہٰذا یہ حضرات اس قسم کی آیات میں عجیب و غریب قسم کی تاویلات کا سہارا لیتے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں اس طبقہ کے سرخیل سرسید احمد خان (١٨١٧ء تا ١٨٩٨ ء) تھے۔ آپ نے مغرب میں ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور مغربی افکار و نظریات سے شدید متاثر تھے اور مغرب صرف اس بات کو ماننے پر آمادہ ہوسکتا تھا جو عقل و تجربہ کی کسوٹی پر پرکھی جاسکتی ہو۔ آپ نے مسلمانوں میں مغربی افکار اور عقل پرستی کو رائج اور راسخ کرنے کے لیے کئی قسم کے اقدامات فرمائے جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ نے تفسیر القرآن لکھ ڈالی۔ اس تفسیر میں آپ دعا کے متعلق لکھتے ہیں کہ : دعا کے متعلق سرسید احمد خان کا نظریہ :۔”دعا جب دل سے کی جاتی ہے بیشتر مستجاب ہوتی ہے مگر لوگ دعا کے مقصد اور استجابت کا مطلب سمجھنے میں غلطی کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ جس مقصد کے لئے ہم دعا کرتے ہیں وہ مطلب حاصل ہوجائے گا اور استجابت کے معنی اس مطلب کا حاصل ہوجانا سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ غلطی ہے حصول مطلب کے جو اسباب اللہ نے مقرر کئے ہیں وہ مطلب تو انہی اسباب کے جمع ہونے سے حاصل ہوتا ہے۔ مگر دعا نہ تو اس مطلب کے اسباب میں سے ہے اور نہ اس مطلب کے اسباب کو جمع کرنے والی ہے۔ بلکہ وہ اس قوت کو تحریک کرنے والی ہے جس سے اس رنج و مصیبت اور اضطراب کو جو مطلب حاصل نہ ہونے سے ہوتا ہے تسکین دینے والی ہے“(تفسیر القرآن، ج ١ ص ١٨) خان صاحب کے مندرجہ بالا اقتباس سے دو سوال ذہن میں ابھرتے ہیں : (1) اگر ظاہر میں کوئی سبب نظر نہ آرہا ہو تو آیا اللہ تعالیٰ کوئی سبب پیدا کرنے پر قادر ہے یا نہیں۔ بالفاظ دیگر اللہ تعالیٰ مسبب الاسباب ہے یا نہیں؟ (2) کیا ظاہری اسباب کے علاوہ کچھ باطنی اور غیر مرئی اسباب بھی ممکن ہیں اور دعا کی بنا پر اللہ تعالیٰ بندہ کے حصول مطلب کے لئے کوئی ظاہری یا باطنی سبب بناسکتا ہے یا نہیں؟ اگر تو ان سوالات کا جواب نفی میں ہو تو فی الواقع سرسید صاحب کے نظریات کے مطابق دعا کا کچھ اثر نہیں ہوتا اور نہ ہی ہونا چاہئے۔ اس صورت میں دعا کی استجابت کا مطلب صرف وہی رہ جاتا ہے۔ جو سرسید صاحب فرما رہے ہیں کہ دعا صرف قلبی واردات اور سکون سے تعلق رکھتی ہے۔ ظاہر میں ہوتا ہواتا کچھ بھی نہیں۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن سرسید صاحب کے اس نظریہ کی پرزور تردید کرتا ہے۔ مثلاً درج ذیل آیات ملاحظہ فرمائیے : ﴿  فَدَعَا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانتَصِرْ فَفَتَحْنَا أَبْوَابَ السَّمَاءِ بِمَاءٍ مُّنْهَمِرٍ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُونًا فَالْتَقَى الْمَاءُ عَلَىٰ أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ ﴾ (54: 10۔12) ”تو نوح علیہ السلام نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ میں کمزور ہوں۔ اب تو ان سے بدلہ لے۔ پس ہم نے زور کے مینہ سے آسمان کے دہانے کھول دیئے اور زمین سے چشمے جاری کردیئے۔ تو پانی اس کام کے لئے جو مقدر ہوچکا تھا جمع ہوگیا“ اب دیکھئے کہ کیا دعا کے بعد آسمان سے بے تحاشا پانی برسنا اور زمین کے چشمے مل کر طوفان کی شکل بننا اور کشتی میں نوح کو سوار کرکے کرب عظیم سے بچا لینا، کیا یہ سب قلبی واردات ہیں یا یہ کام فی الواقع ظہور پذیر ہوئے تھے؟ پھر ایک مقام پر خان صاحب فرماتے ہیں کہ ’’بسا اوقات دعا کی جاتی ہے مگر حاجت براری نہیں ہوتی پس معلوم ہوا کہ دعا موجب حصول مقصد نہیں ہے ورنہ ایسا نہ ہوتا“ (تہذیب الاخلاق، ماہ ربیع الاول، ١٣١٣ ھ) اس اقتباس میں لفظ ”بسا اوقات“ سے ظاہر ہے کہ دعا کبھی کبھار حصول مقصد کا سبب بن جاتی ہے۔ بس یہی ہمارا مقصد ہے، رہا یہ معاملہ کہ بسا اوقات قبول نہیں ہوتی تو دعا کی قبولیت کے کئی موانع ہیں جن کی تفصیل یہاں خارج از بحث ہے۔ نیز ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ دعا کی طرح دوا بھی بسا اوقات مرض کا علاج نہیں بن سکتی۔ حالانکہ وہ ایک ظاہری سبب ہے تاہم کبھی کبھار حصول مقصد کا سبب بن بھی جاتی ہے۔ دوا کا استعمال جسمانی تکلیف کو رفع کرنے کے لیے کیا جاتا ہے اور جب تک تکلیف رفع نہ ہو مریض کو کبھی تسکین نہیں ہوسکتی اور دعا کا دائرہ اثر دوا سے بہت زیادہ وسیع ہے۔ دعا دفع مضرت اور جلب منفعت دونوں کے لیے کی جاتی ہے۔ نیز اس کا استعمال مادی اور روحانی یا ذہنی دونوں طرح کے عوارضات کے لیے ہوتا ہے پھر جب تک دعا کے اثر سے ایسے عوارضات دور نہ ہوں یا نئے اسباب مہیا نہ ہوں دل کو تسکین کیسے سکتی ہے؟ الفاتحة
7 [١٤] انعام والے اور گمراہ لوگ کون ہیں؟:۔ قرآن کی تصریح کے مطابق ان سے مراد انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں۔ (٤: ٦٩) وہ لوگ نہیں جنہیں مال و دولت یا حشمت و جاہ کی فراوانیاں حاصل ہیں۔ اور آپ کے ارشاد کے مطابق ﴿ مَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ﴾ سے مراد تو یہود ہیں جو گناہ کے کاموں پر دلیر ہوگئے تھے اور ان پر اللہ کا عذاب اور پھٹکار نازل ہوئی اور ضالِّیْن سے مراد عیسائی حضرات ہیں جو فلسفیانہ موشگافیوں میں پھنس کر تثلیث اور گمراہی کا شکار ہوئے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : عدی بن حاتم کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (مدینہ) آیا۔ وہ اس وقت مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے۔ لوگ کہنے لگے کہ یہ عدی بن حاتم ہے جو بغیر کسی کی امان یا تحریر کے آیا ہے۔ چنانچہ مجھے پکڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے۔ آپ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور اس سے پہلے آپ صحابہ رضی اللہ عنہم کو خبر دے چکے تھے کہ میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ عدی کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دے گا۔ پھر آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور میں آپ کے ساتھ تھا (راہ میں) ایک عورت اور اس کا بچہ ملے۔ وہ آپ سے کہنے لگے : ’’ہمیں آپ سے کچھ کام ہے‘‘ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہوگئے اور ان کا کام پورا کردیا۔ پھر آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے گھر تشریف لائے۔ ایک لڑکی نے آپ کے لئے بچھونا بچھایا۔ آپ اس پر بیٹھ گئے اور میں آپ کے سامنے بیٹھ گیا۔ آپ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر مجھے کہا : ’’وہ کون سی بات ہے جو تمہیں لا الٰہ الا اللہ کہنے سے باز رکھتی ہے، کیا تم اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ جانتے ہو؟“میں نے کہا ”نہیں“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ دیر باتیں کیں پھر پوچھا : ”تمہیں اللہ اکبر کہنے سے کون سی چیز دور رکھتی ہے۔ کیا اللہ سے کسی بڑی چیز کو تم جانتے ہو؟‘‘ میں نے کہا ’’نہیں‘‘ پھر آپ نے فرمایا : ’’یہود پر تو اللہ تعالیٰ کا غصہ ہے اور نصاریٰ گمراہ ہیں‘‘ میں نے کہا کہ میں تو یکطرفہ مسلمان ہوتا ہوں۔ پھر میں نے آپ کے چہرہ پر فرحت و انبساط دیکھی۔ پھر آپ نے میرے بارے میں حکم دیا اور میں ایک انصاری کے ہاں مقیم ہوا۔ اب میں روزانہ صبح و شام آپ کے پاس حاضر ہوا کرتا۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر۔ سورۃ فاتحہ) دور نبوی میں تو واقعی یہی فرقے مغضوب علیھم اور ضالّین تھے۔ مگر آج مسلمانوں کے اکثر فرقے ان میں شامل ہوچکے ہیں اور صراط مستقیم پر تو مسلمانوں کا صرف وہی فرقہ ہے جس کے متعلق آپ نے فرمایا تھا ”مَا اَنَاعَلَیْہِ وَ اَصْحَابِیْ“ (ترمذی، کتاب الایمان۔ باب افتراق ھذہ الامۃ) [١٥] آمین بالجہر کا ثبوت :۔ (1) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جب امام وَلاَالضَّالِیْنَ کہے تو تم آمین کہو۔ جس کا آمین کہنا فرشتوں کے آمین کہنے کے موافق ہوگیا۔ اس کے پہلے گناہ بخش دیئے جائیں گے‘‘(بخاری۔ کتاب التفسیر۔ سورۃ فاتحہ) نیز کتاب الاذان والجماعۃ۔ باب فضل التامین) (2) نیز عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ آمین دعا ہے اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اور ان کے پیچھے مقتدیوں نے اس زور سے آمین کہی کہ مسجد گونج اٹھی۔ (بخاری۔ کتاب الاذان والجماعہ۔ باب جھر الامام بالتامین) (3) وائل بن حجر رضی اللہ عنہ جو عام الوفود یعنی ١٠ھ میں مدینہ تشریف لائے، فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ جب آپ نے نماز میں ﴿غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّیْنَ ﴾ کہا تو اپنی آواز کو خوب لمبا کرکے آمین کہی۔ (ترمذی۔ ابو اب الصلٰوۃ۔ باب ماجاء فی التامین) الفاتحة
0 [١] فضائل سورۃ البقرۃ :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جس گھر میں سورۃ البقرہ پڑھی جائے، شیطان اس گھر سے نکل جاتا ہے۔‘‘ (مسلم، کتاب صلوۃ المسافرین و قصرھا، باب استحباب الصلوۃ النافلۃ فی بیتہ۔۔ الخ) نیز آپ نے فرمایا : ’’الزھراوین (دو جگمگانے والی سورتیں یعنی البقرہ اور آل عمران) پڑھا کرو۔ قیامت کے دن وہ اس حال میں آئیں گی جیسے وہ دو بادل یا دو سائبان یا پرندوں کے دو جھنڈ ہیں اور وہ اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے (مغفرت کے لیے) جھگڑا کریں گی (لہٰذا) سورۃ البقرہ پڑھا کرو۔ اسے حاصل کرنا برکت اور چھوڑ دینا حسرت ہے اور باطل قوتیں (جادو وغیرہ) اس کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔“(مسلم، کتاب فضائل القرآن و مایتعلق بہ باب فضل قراءۃ القرآن و سورۃ البقرۃ) زمانہ نزول اور شان نزول :۔ مدنی سورتوں میں سب سے پہلی سورت ہے۔ مکہ میں چھیاسی (٨٦) سورتیں نازل ہوئیں اور نزولی ترتیب کے لحاظ سے اس کا نمبر ٨٧ ہے، اگرچہ اس سورۃ کا بیشتر حصہ ابتدائی مدنی دور میں نازل ہوا تاہم اس کی کچھ آیات بہت مابعد کے دور میں نازل ہوئیں مثلاً حرمت سود کی آیات جو ١٠ھ کے اواخر میں نازل ہوئیں۔ سورۃ بقرہ کے نزول کا پس منظر :۔ مدینہ پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلا کام جو کیا وہ مسجد نبوی کی تعمیر تھی تاکہ تمام مسلمان دن میں پانچ دفعہ اکٹھے ہو کر نماز ادا کریں اور اپنے مسائل پر غور کرسکیں۔ دوسرا اہم مسئلہ مہاجرین کی آباد کاری اور ان کے معاش کا تھا جس کے لیے آپ نے مہاجرین و انصار میں سلسلہ مواخات قائم فرمایا جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ تیسرا اہم مسئلہ مدینہ کی ایک چھوٹی سی نوخیز اسلامی ریاست کے دفاع کا تھا۔ کیونکہ اب مشرکین مکہ کے علاوہ دوسرے مشرک قبائل بھی مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلے ہوئے تھے۔ خود مدینہ میں یہود مسلمانوں کے اس لیے دشمن بن گئے تھے کہ آنے والا نبی سیدنا اسحق علیہ السلام کی اولاد کے بجائے سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد سے کیوں مبعوث ہوا ہے۔ یہود کے تین قبائل بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ مدینہ میں آباد تھے جو آپس میں پھٹے ہوئے تھے اور مدینہ کے مشرکوں کے دو مشہور قبائل اوس اور خزرج کے حلیف بن کر انہیں لڑاتے رہتے تھے۔ آپ نے سب سے پہلے یہودیوں کو ہی ایک مشترکہ مفاد کی طرف دعوت دی اور وہ مفاد تھا مدینہ کا دفاع۔ جس کی اہم دفعات یہ تھیں : (1) اگر مدینہ پر باہر سے حملہ ہوا تو مسلمان اور یہود مل کر دفاع کریں گے۔ (2) مسلمان اور یہود دونوں حصہ رسدی اخراجات برداشت کریں گے۔ (3) مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان کسی طرح کے بھی جھگڑے کی صورت میں حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہوگی۔ یہود کے لیے بظاہر ایسی شرائط کو تسلیم کرلینا ناممکن نظر آ رہا تھا۔ کیونکہ وہ مدینہ کی معیشت اور سیاست پر پوری طرح چھائے ہوئے تھے، مگر یہ اللہ کی خاص مہربانی اور ان کی باہمی نااتفاقی کا نتیجہ تھا کہ یہودی قبائل باری باری اور مختلف اوقات میں اس معاہدہ کو تسلیم کرتے چلے گئے۔ اس طرح جب یہ ریاست اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگئی تو مسلمانوں اور کافروں کے علاوہ ایک تیسرا مفاد پرستوں کا طبقہ بھی معرض وجود میں آ گیا۔ جنہیں منافقین کا نام دیا گیا۔ اس سورۃ کی ابتدا میں انہیں تین گروہوں (مسلمان، کافر اور منافقین) کا ذکر ہوا ہے اور یہی اس کا زمانہ نزول ہے۔ حروف مقطعات کی بحث :۔ قرآن کی ٢٩ سورتوں کی ابتدا میں ایسے حروف استعمال ہوئے ہیں، ان میں سے مندرجہ ذیل تین یک حرفی ہیں : (١) سورۃ ص والقرآن ٣٨ (٢) سورۃ ق والقرآن ٥٠ (٣) سورۃ ن والقلم ٦٨ اور ٩ دو حرفی ہیں جن میں سے (٤) المومن ٤٠، حٰم تنزیل الکتاب (٥،) سورۃ حم السجدۃ ٤١ حٰم تنزیل من (٦) الزخرف ٤٣ حٰم والکتاب المبین (٧) الدخان ٤٤ حٰم والکتاب المبین (٨) الجاثیہ ٤٥ حٰم تنزیل الکتاب (٩) الاحقاف ٤٦ حٰم تنزیل الکتاب (١٠) طہ ٢٠ طہ ما انزلنا (١١) النمل ٢٧ طٰس تلک آیت (١٢) یٰس ٢٦ یٰس والقرآن اور ١٣ سہ حرفی ہیں جو یہ ہیں : (١٣) یونس ١٠ الٰرٰ تلک آیات (١٤) ھود ١١ الرٰ کتاب احکمت (١٥) یوسف ١٢ الرٰ تلک آیات ١٠١، ابراہیم ١٤، الرٰ کتاب انزلنا ١٧، حجر ١٥، الم تلک آیات (١٨) البقرۃ ٢ الم ذلک الکتاب (١٩) آل عمران ٣ الم اللہ لا الہ (٢٠) عنکبوت ٢٩ الم احسب الناس (٢١) الروم ٣٠ الم غلبت الروم (٢٢) لقمان ٣١ الم تلک آیات (٢٣) السجدہ ٣٢ الم تنزیل الکتاب (٢٤) شعراء ٢٦ طٰسم تلک آیات (٢٥) القصص ٢٨ طٰسم تلک آیات اور مندرجہ ذیل ٢ چار حرفی ہیں : (٢٦) الاعراف ٧ المص کتاب انزلنہ (٢٧) الرعد ١٣ المٰر تلک آیات اور مندرجہ ذیل ٢ پانچ حرفی ہیں : (٢٨) مریم ١٩ کھٰیٰعص ذکر رحمۃ (٢٩) الشوریٰ ٤٢ حٰم عسق کذلک یوحی الیک۔ مجموعہ احادیث میں سے کوئی بھی ایسی متصل اور صحیح حدیث مذکور نہیں جو ان حروف کے معانی و مفہوم پر روشنی ڈالتی ہو۔ لہٰذا انہیں ﴿وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗٓ اِلَّا اللّٰہُ ﴾ کے زمرہ میں شامل کرنا ہی سب سے انسب ہے۔ ان کے متعلق جو اقوال ملتے ہیں وہ درج ذیل ہیں : 1۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف اللہ تعالیٰ کے نام ہیں۔ مگر احادیث صحیحہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں اور جو نام ان میں مذکور ہیں ان میں ان حروف کا ذکر نہیں۔ 2۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں کے ابتدائی حصے ہیں جن کو ملانے سے اللہ تعالیٰ کا کوئی نہ کوئی نام بن جاتا ہے۔ جیسے الر اور حم اور ن کو ملانے سے الرحمٰن بن جاتا ہے۔ یہ توجیہ بھی کچھ درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ الرحمٰن میں بھی م اور ن کے درمیان ایک الف ہے جس کو لکھتے وقت تو کھڑی زبر سے کام چلا کر حذف کیا جا سکتا ہے مگر تلفظ میں تو حذف نہیں ہو سکتا۔ علاوہ ازیں یہ ایک لفظ تو بن گیا اب اگر مزید کوشش کی جائے تو شاید ایک آدھ لفظ اور بن جائے، سارے حروف کو اس انداز سے ترکیب دینا کہ اس سے اللہ تعالیٰ کے نام بن جائیں ناممکن سی بات معلوم ہوتی ہے۔ 3۔ ایک قول یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام ہیں، اور اس سلسلہ میں بالخصوص طٰہٰ اور یٰس کا ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ توجیہ اس لحاظ سے درست نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود جو اپنے نام بتائے ہیں وہ یہ ہیں۔ محمد، احمد، ماحی (کفر کو مٹانے والا) حاشر اور عاقب۔ (بخاری، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ صف) نیز بخاری میں مذکور ہے کہ حبشی زبان میں طہ کے معنی ’’اے مرد!‘‘ہیں یا ایسا آدمی جس کی زبان سے کوئی حرف نہ نکل سکے، وہ رک رک کر یا اٹک اٹک کر بات کرے اور یہ بات اس کی زبان میں گرہ کی وجہ سے ہو اور یہ تو واضح ہے کہ رسول نعوذ باللہ ایسے نہیں تھے۔ 4۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف قرآن کے نام ہیں، جبکہ قرآن نے اپنے نام خود ہی بتا دیئے ہیں جو یہ ہیں۔ الکتاب، کتاب مبین، قرآن، قرآن مجید، قرآن کریم، قرآن عظیم، فرقان، ذکر، تذکرہ، حدیث اور احسن الحدیث ان ناموں کی موجودگی میں ایسے ناموں کی ضرورت ہی کب رہ جاتی ہے، جن کی سمجھ ہی نہ آتی ہو۔ 5۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف سورتوں کے نام ہیں۔ یہ قول کسی حد تک درست ہے۔ مثلاً : ص، ق، طہ، یس سورتوں کے نام بھی ہیں۔ سورۃ القلم کو 'ن' بھی کہا گیا ہے۔ حوامیم (جمع حم) کا ذکر بھی احادیث میں ملتا ہے۔ تاہم ان میں سے بھی بیشتر سورتیں دوسرے ناموں سے ہی مشہور ہوئیں۔ جن کا ان سورتوں میں امتیازاً ذکر آیا ہے۔ پھر یہ بھی ملحوظ رہے کہ کئی سورتوں کے دو دو نام بھی مشہور ہیں۔ 6۔ ایک قول یہ ہے کہ الفاظ میں پورے نظام رسالت کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ مثلاً الم میں الف سے مراد اللہ، ل سے مراد جبریل اور م سے مراد محمد ہیں۔ یہ بھی ایسی توجیہ ہے جسے تمام حروف مقطعات پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ 7۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف کفار کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں کہ دیکھ لو کہ انہی مفرد حروف سے تم اپنے کلام کو ترکیب دیتے ہو، پھر تمہارے اور اللہ تعالیٰ کے کلام میں اتنا فرق ہے کہ تم سب مل کر بھی قرآن کے مقابلہ میں ایک سورت بھی اس جیسی پیش نہیں کرسکتے۔ یہ توجیہ اس لحاظ سے درست نہیں کہ جب ان الفاظ کا ٹھیک مفہوم متعین ہی نہیں تو پھر چیلنج کیسا ؟ 8۔ ایک قول یہ ہے کہ بحساب جمل ان حروف کے عدد نکال کر جمع کرنے سے اس امت کی عمر یا قیامت کی آمد کی مدت کا اشارہ پایا جاتا ہے۔ یہ توجیہ انتہائی غیر معقول ہے۔ ایک تو جمل کے حساب کی شرعاً کچھ حیثیت نہیں۔ دوسرا انسان کے پاس کوئی ایسا علم یا ایسا ذریعہ موجود ہونا ناممکنات سے ہے۔ جس سے قیامت کی آمد کے مخصوص وقت کا حساب لگایا جا سکے۔ 9۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف طویل جملوں یا ناموں کے ابتدائی حروف یا مخففات ہیں اور ان کا مفہوم صرف رسول ہی جانتے تھے اور کوئی نہیں جان سکتا۔ گویا یہ عبد اور معبود کے درمیان راز و نیاز کی باتیں ہیں۔ یہ ایسی توجیہ ہے جس کے متعلق ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ واللہ اعلم بالصواب۔ 10۔ اور ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف اللہ تعالیٰ کے سر بستہ راز ہیں جو اگرچہ ٹھوس حقائق پر مبنی ہیں تاہم ان پر مطلع ہونا انسان کے بس کی بات نہیں۔ یہی وہ توجیہ ہے جس کی طرف ہم نے ابتدا میں اشارہ کردیا ہے اور یہی توجیہ سب سے انسب معلوم ہوتی ہے۔ ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی بعض ایسی صفات مذکور ہیں جن کا سمجھنا انسانی عقل کی بساط سے باہر ہے اور ان پر کسی عمل کی بنیاد بھی نہیں اٹھتی۔ رہی یہ بات کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو جس بات کی سمجھ نہیں آتی تھی تو فوراً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیا کرتے تھے اور چونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان حروف کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی استفسار نہیں کیا لہٰذا معلوم ہوا کہ عربی زبان میں حروف مقطعات کا رواج عام تھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ان کے معانی بھی خوب جانتے تھے۔ پھر عربی ادب سے کچھ شاذ قسم کی مثالیں بھی پیش کی جاتی ہیں تو یہ خیال درست نہیں جب قرآنی آیات کی پوری تشریحات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ذریعہ ہم تک پوری صحت کے ساتھ پہنچ چکی ہیں تو پھر آخر ان حروف کی تشریح و تفسیر ہی ہم تک کیوں نہیں پہنچی۔ بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خوب سمجھتے تھے کہ یہ حروف اللہ تعالیٰ کے ایسے راز یا صفات ہیں جن کو اللہ کے سوا کوئی جان نہیں سکتا۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ کسی صحابی نے آپ سے یہ پوچھا ہو کہ اللہ تعالیٰ جب ہم میں سے ہر ایک کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہے تو پھر وہ عرش پر کیسے متمکن ہے؟ یا جب وہ بوقت سحر آسمان سے دنیا پر نزول فرماتا ہے تو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب کے کیا معنی؟ ہرگز نہیں۔ بالکل یہی صورت ان حروف مقطعات کی بھی ہے۔ لہٰذا ان کے معانی و مفہوم نہ جاننے کے باوجود انہوں نے کبھی ان کے متعلق استفسار نہیں کیا تھا، کیونکہ یہ حروف متشابہات سے تعلق رکھتے ہیں اور ہمارے لیے یہ بات ہی کافی ہے کہ اس بات پر ایمان لائیں کہ یہ بھی اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہیں، نہ یہ مہمل ہیں، نہ زائد ہیں۔ بلکہ ٹھوس حقائق پر مبنی ہیں۔ البتہ ان کے معانی و مفہوم جاننے کے نہ ہم مکلف ہیں اور نہ ہی ان پر کسی شرعی مسئلے کا دار و مدار ہے۔ البقرة
1 البقرة
2 [٢] یعنی اس کتاب قرآن کریم کے منزل من اللہ ہونے، اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر اترنے اور نبی کے اس پیغام کو لوگوں تک پہنچا دینے میں کسی مقام پر شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ یہ سب امور اللہ تعالیٰ کی براہ راست نگرانی میں طے پا رہے ہیں۔ ریب کا لغوی مفہوم :۔ ریب دراصل ایسے شک کو کہتے ہیں جس میں اضطراب اور خلجان کا عنصر بھی شامل ہو۔ کفار مکہ کے قرآن کے نزول پر دو طرح کے اعتراض تھے۔ ایک یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی اس کو تصنیف کر کے ہمیں یہ کہہ دیتا ہے کہ یہ کلام منزل من اللہ ہے اور دوسرا اعتراض یہ تھا کہ یہ قرآن دوسرے عالموں سے سیکھ کر ہمیں سنا دیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ منزل من اللہ ہے۔ اگر بات اتنی ہی ہوتی تو خلجان اور اضطراب کا کوئی عنصر اس میں شامل نہیں ہوتا تھا۔ مگر مشکل یہ تھی کہ قرآن جو دعوت پیش کر رہا تھا اس میں سب سے زیادہ زور ہی عقیدہ آخرت اور اخروی باز پرس پر دیا جا رہا تھا جب کہ کفار مکہ بعث بعد الموت کے کلی طور پر منکر تھے اور انہیں اضطراب اور بے چینی اس بات پر تھی کہ اگر بالفرض قرآن کی دعوت سچی ہے تو پھر ان کی خیر نہیں۔ ان کے اسی اضطراب اور خلجان کو دور کرنے کے لیے اس سورۃ کے تمہیدی الفاظ میں ہی یہ واضح کردیا گیا کہ اس کتاب کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے نزول اور اس کے مضامین سب کچھ قطعی اور یقینی ہیں اور اس پر ایمان لانے والوں کو کسی قسم کا شک اضطراب اور خلجان باقی نہیں رہتا۔ لہٰذا تمہارے اضطراب اور خلجان کا بھی یہی علاج ہے۔ کہ تم اسے تسلیم کر کے اس پر ایمان لے آؤ۔ کیاقرآن صرف متقین کےلیےہدایت ہے یاسب کےلیے :۔ اس مقام پرفرمایا کہ یہ کتاب ڈرنے والوں یامتقین کےلیے ہدایت ہےاور ایک دوسرے مقام پرا سی قرآن کریم کو ھدیٰ للناس (تمام لوگوں کے لیے ہدایت) (۱۸۵:۲) فرمایا۔ اس کی مثال یوں سمجھیے ، جیسے ایک مقررکسی جلسہ میں سب حاضرین کومخاطب کرکے نہایت قیمتی معلومات بتاتااور انہیں ہدایات دیتاہے لیکن ان سےتمام حاضرین یکساں مستفیض نہیں ہوتے بلکہ ہرشخص اپنی بساط کےمطابق ان سے استفادہ کرتااوران پرعمل پیراہوتاہے اور بعض ایسے بھی ہوتے ہیں ۔جومطلقاً کوئی اثر قبول نہیں کرتے۔یہی صورت قرآنی ہدایات کی بھی ہے ۔ان سے صرف ڈرنے والے یا متقین ہی ہدایت حاصل کرتےہیں۔اگلی تین آیات میں وہ اوصاف یاشرائط بیان کی گئی ہیں جومتقین کےلیے ضروری ہیں۔ البقرة
3 [٤] متقین کے اوصاف :۔ پہلی شرط یہ ہے کہ وہ بن دیکھی چیزوں پر ایمان لاتے ہیں اور وہ چھ چیزیں ہیں جن پر بن دیکھے ایمان لانا ضروری ہے : اللہ پر، اللہ کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، اخروی زندگی پر اور اس بات پر کہ ہر طرح کی بھلائی اور برائی اللہ ہی کی طرف سے مقدر ہوتی ہے۔ ان میں سے کسی چیز پر بھی ایمان نہ ہونے سے انسان کافر ہوجاتا ہے۔ [٥] اس کی کم از کم حد دن بھر میں پانچ فرض نمازوں کی بروقت اور باجماعت ادائیگی ہے۔ اِلا یہ کہ جماعت میں شامل نہ ہونے کے لیے کوئی شرعی عذر موجود ہو۔ یہ دوسری شرط ہوئی۔ [٦] رزق سے مراد صرف مال و دولت ہی نہیں بلکہ ہر وہ نعمت ہے جو جسم یا روح کی پرورش میں مددگار ثابت ہو۔ اگر اللہ نے کسی کو علم و ہنر دیا ہے تو وہ دوسروں کو بھی سکھائے۔ جوانی اور صحت دی تو اسے جہاد میں یا ضعیفوں کی مدد کرنے میں خرچ کرے اور مال و دولت ہے تو اسے فقراء، یتیموں مسکینوں وغیرہ پر خرچ کرے اور اس خرچ کی کم از کم حد فرضی صدقہ یعنی زکوٰۃ ادا کرنا ہے اور بلند تر درجہ یہ ہے کہ جو کچھ ضرورت سے زائد ہو وہ اللہ کی راہ میں خرچ کر دے (٢: ٢١٩) یہ تیسری شرط ہے۔ البقرة
4 [٧] نازل شدہ سے مراد صرف قرآن ہی نہیں بلکہ قرآن کا بیان (توضیح و تشریح) بھی ہے جو قرآن میں موجود نہیں مثلاً نماز ادا کرنے کی ترکیب، محل زکوٰۃ اشیاء، نصاب زکوٰۃ اور شرح زکوٰۃ کی تعیین وغیرہ لاتعداد ایسے احکام و ہدایات جو قرآنی احکام پر عمل پیرا ہونے کے لیے ضروری تھے۔ نیز وہ سابقہ انبیاء پر نازل شدہ وحی پر بھی ایمان لاتے ہیں۔ ان دونوں میں فرق صرف یہ ہے کہ آپ پر نازل شدہ وحی پر بالتفصیل ایمان لانا ضروری ہے اور سابقہ انبیاء کی وحی پر اجمالاً کیونکہ قرآنی تصریحات کی رو سے ان کی کتابوں میں تحریف و تبدل ہوچکا ہے۔ یہ چوتھی شرط ہے۔ [٨] آخرت کا مفہوم اور عقیدہ آخرت کی اہمیت :۔ آخرت کا لفظ ایک جامع اصطلاح ہے جس میں کئی طرح کے عقائد شامل ہیں مثلاً (١) مرنے پر انسان کی زندگی کا کلیتاً خاتمہ نہیں ہوجاتا۔ بلکہ مرنے کے بعد اسے دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جائے گا۔ پھر اس سے اس کے اعمال کا محاسبہ کیا جائے گا، لہٰذا وہ اس دنیا میں ایک غیر ذمہ دارانہ زندگی گزارنے کے لیے پیدا نہیں کیا گیا بلکہ وہ اپنے تمام اعمال کے لیے اللہ کے ہاں جواب دہ ہے (٢) موجودہ نظام کائنات ابدی نہیں بلکہ ایک وقت آنے والا ہے جب یہ سب کچھ فنا ہوجائے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ ایک دوسرا عالم پیدا فرمائے گا جس میں تمام فوت شدہ انسانوں کو دوبارہ پیدا کر کے اکٹھا کر دے گا اور فرداً فرداً ہر ایک سے اس کے اعمال کا محاسبہ کیا جائے گا۔ (٣) اس فیصلہ کے مطابق جو لوگ کامیاب قرار دیئے جائیں گے وہ جنت میں داخل ہوں گے اور نافرمان، کافر، مشرک وغیرہ دوزخ میں ڈالے جائیں گے۔ یوم آخرت کی تفصیلات بے شمار ہیں۔ جنہیں یہاں درج کرنا ممکن نہیں۔ مختصراً یہ کہ ایمان بالآخرۃ، ایمان بالغیب کا اتنا اہم جزو ہے جو انسان کو زندگی کا دھارا بدلنے اور صراط مستقیم کی طرف آنے اور تقویٰ اختیار کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ اسی لیے اس کا ایمان بالغیب کے بعد علیحدہ طور پر بھی ذکر کردیا گیا۔ یہ ’’ایمان با لآخرت‘‘ ہدایت قبول کرنے کے لیے پانچویں شرط ہوئی۔ البقرة
5 [٩] دیکھئے یہاں اسلام کے تین اہم بنیادی ارکان کا اجمالاً ذکر کردیا گیا ہے اور اجمال ہی کی وجہ سے روزہ اور حج کا ذکر نہیں کیا گیا۔ کیونکہ جن لوگوں میں مندرجہ بالا پانچ صفات پیدا ہوجائیں گی، وہ صرف روزہ اور حج ہی نہیں دوسرے تمام شرعی اوامر و نواہی پر عمل کرنے کے لیے از خود مستعد ہوجائیں گے اور درج ذیل حدیث میں نماز روزہ اور زکوٰۃ کا ذکر آیا ہے۔ حج چونکہ زندگی میں صرف ایک بار اور وہ بھی صاحب استطاعت پر فرض ہے لہٰذا اس کا ذکر نہیں کیا گیا۔ ارکان اسلام کی اہمیت اور ترتیب :۔ طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا جس کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ اس کی بات سمجھ میں نہ آتی تھی اور ہم بھن بھن کی طرح اس کی آواز سنتے رہے، وہ نزدیک آیا تو معلوم ہوا کہ وہ اسلام کی بابت پوچھ رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا ’’اسلام، دن رات میں پانچ نمازیں ادا کرنا۔‘‘ اس نے کہا : اس کے علاوہ تو میرے ذمے کچھ نہیں؟ آپ نے فرمایا نہیں ’’الا یہ کہ تو نفل (یا کوئی نفلی نماز) پڑھے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اور رمضان کے روزے رکھنا۔‘‘ اس نے پوچھا : اس کے علاوہ اور تو کوئی روزہ میرے ذمے نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نہیں الا یہ کہ تو کوئی نفلی روزہ رکھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے زکوٰۃ کے متعلق بتایا تو کہنے لگا :’’بس۔ اور تو کوئی صدقہ میرے ذمہ نہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’نہیں۔ الا یہ کہ تو نفلی صدقہ کرے۔“ پھر وہ پیٹھ موڑ کر چلا تو یہ کہتا جاتا تھا : اللہ کی قسم! میں نہ اس سے بڑھاؤں گا نہ گھٹاؤں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اگر یہ سچا ہے تو اپنی مراد کو پہنچ گیا (کامیاب ہوگیا)‘‘ (بخاری، کتاب الایمان، باب الزکوٰۃ من الاسلام) [١٠] فلاح سے مراد عذاب دوزخ سے نجات اور جنت میں داخلہ ہے۔ جیسا کہ سورۃ آل عمران کی آیت ١٨٥ میں یہ صراحت موجود ہے۔ البقرة
6 البقرة
7 [١١] مہر کیسے کافروں کو لگتی ہے؟ اللہ تعالیٰ مہر صرف ان کافروں کے دلوں پر لگاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ارشادات کو خوب سمجھ لینے کے بعد محض اپنی ہٹ دھرمی اور ضد کی وجہ سے ٹھکرا دیتے ہیں۔ جیسے ایک دوسرے مقام پر فرمایا : ﴿ وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَآ اَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ﴾(۱۴:۲۷) اور ان لوگوں نے ہٹ دھرمی اور تکبر کی بنا پر (ان حقائق کا) انکار کردیا جن پر ان کے دل یقین کرچکے تھے اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا : ﴿فَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا بِمَا كَذَّبُوا مِن قَبْلُ  كَذَٰلِكَ يَطْبَعُ اللَّـهُ عَلَىٰ قُلُوبِ الْكَافِرِينَ﴾(۱۰۱:۷)  ’’جس بات کو پہلے ایک دفعہ جھٹلا چکے تھے اس پر ایمان لانے کے لیے آمادہ نہ ہوئے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کافروں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے۔‘‘ رہے عام کافر تو ان میں سے کثیر تعداد مسلمان ہوتی ہی رہی ہے۔ [١٢] دل کا کام بات کو سمجھنا اور کان کا کام سننا ہے اور یہ دونوں اعضاء کسی مخصوص جانب کے پابند نہیں۔ لیکن آنکھ صرف سامنے سے ہی دیکھ سکتی ہے۔ لہٰذا دلوں اور کانوں پر تو مہر کا ذکر کیا گیا اور آنکھ پر صرف پردے کا۔ ایسے لوگ حقائق کو سمجھنے کے لیے کیا تیار ہوں گے جنہیں ان کا سننا اور دیکھنا بھی گوارا نہ ہو۔ کیونکہ کان اور آنکھ ہی تو دل کے دو بڑے دروازے ہیں جن سے دل کو ہر طرح کی معلومات فراہم ہوتی ہیں۔ مہرکیوں اور کب لگتی ہے؟ انسان کو اللہ تعالیٰ نے آنکھیں، کان اور دل اس لیے نہیں دیئے تھے کہ وہ ان اعضاء سے صرف اتنا ہی کام لے جتنا دوسرے حیوان لیتے ہیں اور جانوروں کی طرح صرف اپنے کھانے پینے اور دنیاوی مفادات پر ہی نظر رکھے۔ کیونکہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے فہم و دانش کی دوسرے جانوروں سے بہت زیادہ قوتیں عطا فرمائی ہیں۔ انسان کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتابیں نازل فرمائیں جو انسان کی توجہ کو کائنات میں ہر سو اللہ تعالیٰ کی بکھری ہوئی نشانیوں کی طرف مبذول کرتی ہیں۔ تاکہ انسان ان سے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرے۔ پھر اگر انسان کانوں سے قرآن کی آیات کو سننا تک گوارا نہ کرے اور کائنات میں بکھری ہوئی آیات کو آنکھوں سے دیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہ کرے تو اس کی ہدایت کی کوئی صورت باقی رہ جاتی ہے؟ اور اس سے بھی بدتر صورت حال ان لوگوں کی ہے جو اللہ کی آیات سن بھی لیتے ہیں اور ان کے دل انہیں سمجھ بھی لیتے ہیں، لیکن وہ اپنی چودھراہٹوں یا بعض دوسرے دنیوی مفادات کی خاطر حق کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے، بلکہ الٹا مخالفت اور تعصب پر اتر آتے ہیں تو ایسے لوگوں کی آئندہ ہدایت پانے کی بھی کوئی صورت باقی نہیں رہ جاتی اور اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے دلوں اور کانوں پر مہر لگانے اور آنکھوں پر پردہ ڈالنے سے تعبیر فرمایا ہے اور اسی بات کی تائید درج ذیل مرفوع حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑجاتا ہے۔ پھر اگر وہ گناہ چھوڑ دے اور استغفار کرے اور توبہ کرے تو اس کا دل صاف کردیا جاتا ہے اور اگر دوبارہ کرے تو نقطہ بڑھ جاتا ہے حتیٰ کہ دل پر چھا جاتا ہے اور یہی وہ زنگ ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ﴾ (ترمذی، ابواب التفسیر) مہر لگانے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کیوں؟ رہی یہ بات کہ اگر کافروں کے دلوں اور کانوں پر مہر ان کی اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے لگتی ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اس فعل کو اپنی طرف منسوب کیوں کیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بھی اللہ ہی کا قانون ہے کہ جن اعضاء یا جن قویٰ سے انسان کام لینا چھوڑ دیتا ہے یا ان کی فراہم کردہ معلومات کو پس پشت ڈال دیتا ہے تو ان اعضاء اور قویٰ کی استعداد از خود زوال پذیر ہو کر ختم ہوجاتی ہے۔ مثلاً انسان اگر اپنے بازو سے کچھ مدت کوئی کام نہ لے اور اسے حرکت تک نہ دے تو وہ از خود شل ہوجائے گا، اس میں حرکت کرنے کی استعداد باقی ہی نہیں رہے گی اور یہ قانون بھی چونکہ اللہ تعالیٰ ہی کا بنایا ہوا ہے۔ لہٰذا اس فعل کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف درست ہوئی۔ اگرچہ یہ انسان کے اپنے ہی شامت اعمال کے نتیجہ میں واقع ہوتی ہے۔ البقرة
8 البقرة
9 [١٣] وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اگر وہ اللہ اور مومنوں سے دغا بازی کرنا چاہیں بھی تو ایسا کر نہیں سکتے۔ کیونکہ اللہ تو دلوں کے راز تک جانتا ہے اور ان ارادوں اور حرکات سے مسلمانوں کو اپنے رسول کے ذریعے مطلع کردیتا ہے۔ اس طرح ان کی دغا بازی کا وبال انہیں پر پڑے گا اور وہی ذلیل و رسوا ہوں گے۔ البقرة
10 [١٤] مرض سے مراد نفاق، دین اسلام سے نفرت اور مسلمانوں سے حسد اور عناد ہے۔ پھر جوں جوں اسلام اور اہل اسلام کی شوکت بڑھتی گئی، ان کی بیماری میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ [١٥] یہ جھوٹ ان کا وہی دعویٰ تھا جو وہ کہتے تھے کہ ﴿اٰمَنَّا باللّٰہِ وَبِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ﴾ جب کہ ان کے اعمال اور ان کی حرکات و سکنات اس دعویٰ کی مخالف سمت میں تھیں۔ اسی لیے انہیں دردناک عذاب ہوگا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا : ﴿ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ﴾ (۱۴۵:۴)بلاشبہ منافق دوزخ کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے۔ البقرة
11 [١٦] ان کا فساد یہ تھا کہ ان کی دلی ہمدردیاں تو کافروں سے تھیں اور مسلمانوں میں شامل رہ کر ان کے حالات سے انہیں باخبر رکھتے اور ان کے لیے جاسوسی کے فرائض سر انجام دیتے تھے۔ نئے اور ضعیف الاعتقاد مسلمانوں کو حیلوں بہانوں سے برگشتہ کرتے تھے اور جنگ کی صورت میں مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے تھے۔ [١٧] یعنی ہم ہر ایک سے صلح رکھنا چاہتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ پہلے کی طرح سب شیر و شکر ہو کر رہیں اور نئے دین (اسلام) کی وجہ سے جو مخالفت بڑھ رہی ہے وہ ختم ہوجائے۔ البقرة
12 [١٨] یعنی اس لگائی بجھائی اور ان کی حرکات و سکنات سے کافروں کا بھی ان سے اعتماد اٹھ جائے گا اور ان کی حیثیت ”دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا“ کے مصداق ہوجائے گی تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ ان کے اعمال سراسر فتنہ و فساد پر مشتمل تھے۔ البقرة
13 [١٩] اس آیت میں الناس سے مراد سچے مومن ہیں، یعنی مہاجرین و انصار وغیرہ اور منافق انہیں احمق اس لیے کہتے تھے کہ یہ سچے مومن تھے۔ منافقوں کی طرح مفاد پرست نہیں تھے بلکہ دین کی خاطر کٹھن سے کٹھن حالات کا مقابلہ کرنے حتیٰ کہ جان تک دینے کو بھی تیار رہتے تھے۔ [٢٠] یعنی وہ یہ نہیں جانتے کہ دین و ایمان اور اصولوں پر وقتی اور دنیوی مفادات کو ترجیح دینا ہی سب سے بڑی حماقت ہے اور یہ وقتی مفادات کیا تھے؟ وہ مسلمانوں کی طرف سے ان کے جان و مال کی حفاظت، مسلمانوں سے رشتے ناطے کرنا اور اگر جنگ میں شامل ہوں۔ خواہ ان کے دلی ارادے کیسے ہی ناپاک ہوں۔ فتح کی صورت میں انہیں اموال غنیمت سے حصہ مل جاتا تھا۔ البقرة
14 البقرة
15 [٢١] اوصاف کا سدہ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کیوں؟ قرآن کی بعض آیات میں بعض اوصاف ذمیمہ مثلاً استہزاء مکر اور خدع کی اللہ تعالیٰ کی طرف جو نسبت کی گئی ہے، یہ محض اہل عرب کے محاورہ کی وجہ سے ہے اور یہ تو ظاہر ہے کہ قرآن اہل عرب اور بالخصوص قریش کے محاورہ کے مطابق نازل ہوا ہے۔ ایسے افعال اللہ تعالیٰ کی طرف کبھی اکیلے منسوب نہیں ہوتے بلکہ کافروں کے افعال کے جواب کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ عرف عام میں ایسی صورت کو ’’مشاکلہ‘‘ کہتے ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ کی ذات ایسے اوصاف سے پاک ہے۔ ایسے عرب محاوروں کی ایک مثال درج ذیل آیت میں بھی موجود ہے۔ ﴿وَجَزَاءُ سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِثْلُھَا﴾ (٤٢: ٤٠) برائی کا بدلہ اس کے مثل (یا اتنی ہی) برائی ہے۔ حالانکہ جو برائی کا بدلہ لے اسے برائی نہیں بلکہ انصاف کہنا زیادہ مناسب ہے۔ لیکن محاوروں میں برائی کا لفظ ہی استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح یہاں بھی اللہ تعالیٰ کے جواباً مذاق اڑانے سے مراد منافقوں کو ان کے استہزاء کا پورا پورا بدلہ دینا ہے، نہ کہ ان کی طرح کا مذاق اڑانا۔ مگر محاورہ میں استہزاء کا لفظ ہی جواب کے طور پر استعمال ہوگا اور اللہ تعالیٰ ان کے استہزاء کا جواب اس صورت میں دے گا کہ عنقریب ان کے سارے پول کھول دے گا۔ جس سے یہ لوگ دنیا میں ذلیل و رسوا ہوں گے اور آخرت میں عذاب الیم سے دو چار ہوں گے۔ [٢٢] عَمِہَ بمعنی دل کا اندھا یا نور بصیرت سے خالی ہونا ہے، جبکہ آنکھ کے اندھے کے لیے عمی کا لفظ آتا ہے۔ گویا منافقوں کو حق بات سوجھتی ہی نہیں۔ البقرة
16 البقرة
17 [٢٣] منافقوں کی مثال (١) :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے منافقوں کی صورت حال بیان فرمائی ہے۔ یہ آگ جلانے والا شخص خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنہوں نے کفر و ضلالت کی تاریکیوں میں اسلام کی شمع روشن اور حق کو باطل سے، صحیح کو غلط سے اور راہ راست کو گمراہیوں سے چھانٹ کر بالکل نمایاں کردیا۔ اب جو لوگ (سچے مومن) دیدہ بینا رکھتے تھے۔ انہیں سب کچھ واضح طور پر نظر آنے لگا۔ مگر یہ منافقین جو اپنی مفاد پرستی کی وجہ سے اندھے ہو رہے تھے۔ انہیں اس روشنی میں بھی کچھ نظر نہ آیا۔ ان کے اس طرح اندھے بنے رہنے کو ہی اللہ تعالیٰ نے آیت ﴿ذَھَبَ اللّٰہُ بِنُوْرِہِمْ﴾ سے تعبیر کیا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی نسبت ویسی ہی ہے جیسے آیت ﴿خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ وَعَلٰی سَمْعِہِمْ﴾ میں ہے جس کی وضاحت ہم نے کردی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ منافقوں کو خود نور صداقت دیکھنا گوارا نہیں تو اللہ نے بھی انہیں تاریکیوں میں بھٹکتا چھوڑ دیا۔ اللہ کا قانون ہرگز یہ نہیں کہ کسی کو زبردستی ہدایت دے بلکہ اس کا قانون یہ ہے کہ جدھر کوئی چلتا ہے اللہ تعالیٰ ادھر ہی اسے چلنے میں مدد کیے جاتا ہے۔ (١٧: ٢٠) البقرة
18 [٢٤] آخر ان منافقوں کی حالت یہ ہوگئی کہ یہ حق بات سننے کے لیے بہرے، حق کہنے کے لحاظ سے گونگے ہیں اور حق سامنے موجود ہو تب بھی انہیں نظر نہیں آتا۔ البقرة
19 البقرة
20 [٢٥] منافقوں کی مثال (٢) :۔ یہ ایک دوسری قسم کے منافقوں کی مثال بیان کی گئی ہے۔ پہلی قسم کے منافق تو وہ تھے جن کے دل میں کفر ہی کفر تھا۔ مگر مفاد پرستی کی خاطر مسلمانوں کے سامنے اسلام کا دعویٰ کرتے تھے، اور یہ دوسری قسم ان منافقوں کی ہے جو شک اور تذبذب کا شکار ہیں۔ اس مثال میں زوردار مینہ سے مراد اسلامی احکامات کا نزول ہے جو پے در پے ہو رہے تھے اور جو جملہ انسانیت کے لیے رحمت ہی رحمت تھے اور اس میں تاریکیوں اور کڑک سے مراد وہ مصائب و مشکلات ہیں جو مسلمانوں کو اقامت دین کے سلسلہ میں پیش آ رہی تھیں اور چمک سے مراد وہ کامیابیاں اور کامرانیاں ہیں جو مسلمانوں کو حاصل ہو رہی تھیں۔ اب جب کوئی کڑک کی آواز یا مصیبت مسلمانوں کو درپیش ہوئی تو یہ منافق اپنی جان بچانے کی خاطر مسلمانوں سے الگ ہو کر حفاظتی اقدامات کرنا شروع کردیتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ اس صورت میں بھی ان کو ہلاک کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہے اور مسلمانوں کی کامیابی اور ان کی مسلمانوں سے علیحدگی ہی ان کی موت کا باعث بن سکتی تھی۔ پھر جب معاملہ ذرا سہل ہوجاتا ہے اور مصائب چھٹ جاتے ہیں تو یہ لوگ اسلام کی طرف پیش قدمی کرتے ہیں اور جب کوئی سخت احکام نازل ہوتے ہیں تو وہیں ٹھٹک کر کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں اور اگر اللہ چاہتا تو پہلی قسم کے منافقوں کی طرح ان کی بصارت اور سماعت کو بھی سلب کرسکتا تھا۔ مگر اللہ کا قانون ہی یہ ہے کہ جو شخص جس حد تک دیکھنا اور سننا چاہتا ہے۔ اسے اس حد تک سننے اور دیکھنے دیا جائے، اگرچہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ البقرة
21 [٢٦] دلائل توحید :۔ مدینہ میں موجود تین طرح کے لوگوں کا ذکر کرنے کے بعد اب اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں سے مشترکہ خطاب فرما کر انہیں اسلام کی بنیادی دعوت کی طرف متوجہ کیا اور فرمایا کہ تم لوگ یہ خوب جانتے ہو کہ اللہ ہی نے تمہیں بھی اور تم سے پہلے لوگوں کو بھی پیدا کیا۔ پھر تمہارے لیے زمین کو مستقر اور آسمان کو محفوظ چھت بنا دیا کہ کوئی سیارہ اوپر سے گر کر زمین کو تہس نہس نہیں کردیتا۔ پھر تمہاری تمام ضروریات زندگی اسی زمین سے وابستہ کردیں اور گاہے گاہے آسمان سے بارش برسا کر تمہارے کھانے پینے کی چیزیں اور پھل وغیرہ بھی وہی تمہیں مہیا کرتا ہے، تو پھر تمہیں عبادت بھی صرف اسی کی کرنی چاہیے اور کسی دوسرے کو اس کے اقتدار و تصرف میں شریک سمجھ کر اس کی عبادت نہ کرنی چاہیے۔ اسی صورت میں یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ تم عذاب اخروی سے بچ سکو۔ البقرة
22 البقرة
23 [٢٧] قرآن کا چیلنج اور اس کی معجزانہ حیثیت :۔ اس آیت میں خالصتاً کافروں کو خطاب کیا جا رہا ہے کہ اگر تمہیں اس کلام (قرآن) کے اللہ کا کلام ہونے میں شک ہے تو پھر تم سب مل کر اس جیسی ایک سورت ہی بنا کر دکھاؤ۔ حقیقت حال از خود تم پر واضح ہوجائے گی۔ کافروں کو اس قسم کا چیلنج قرآن کریم میں چار اور مقامات پر بھی کیا گیا ہے یعنی سورۃ یونس کی آیت نمبر ١٤، سورۃ ہود آیت نمبر ١٣، سورۃ بنی اسرائیل آیت ٨٨ اور سورۃ طور کی آیت نمبر ٣٤ میں اور یہ ایسا چیلنج ہے۔ جس کا جواب کفار سے نہ اس دور میں میسر آسکا نہ آج تک میسر آیا ہے اور نہ ہی آئندہ تا قیامت میسر آسکے گا اور قرآن کریم کی یہ اعجازی حیثیت آج تک بدستور مسلم ہے۔ اللہ تعالیٰ کا دستور یہ ہے کہ انبیاء کو ایسی چیز بطور معجزہ دی جاتی ہے۔ جس کی اس زمانہ میں دھوم مچی ہوئی ہو۔ موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں ساحری اپنی انتہائی بلندی پر پہنچی ہوئی تھی تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو ایسے معجزات عطا کئے جن کے آگے فرعون کے بڑے بڑے جادوگروں کو سربسجود ہونے کے سوا کوئی چارہ کار نظر نہ آیا۔ عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں طب اپنی انتہائی بلندیوں کو پہنچی ہوئی تھی۔ بقراط، ارسطالیس، لقمان اور جالینوس جیسے حکماء کا ڈنکا بجتا تھا تو اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو ایسے معجزات عطا کئے جو ان حکماء کی دسترس سے ماورا تھے۔ بھلا کون سا حکیم مردوں کو زندہ کرسکتا تھا۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عربی زبان کی فصاحت و بلاغت انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے شعراء میں باہمی مقابلے ہوتے تھے اور مقابلہ میں بہترین قرار دیئے جانے والے شعراء کا کلام کعبہ کے دروازہ پر لٹکا دیا جاتا تھا۔ سبع معلقات اسی دور کی یادگار ہے۔ جو آج بھی متداول ہے۔ ایسے ہی شعراء ادباء اور خطباء کو اللہ تعالیٰ نے چیلنج کیا اور فرمایا کہ اپنے سب مدد گاروں، جنوں یا انسانوں اور اپنے دیوتاؤں اور معبودوں سب کی مدد لے کر اس قرآن جیسی ایک سورت ہی بنا لاؤ۔ لیکن یہ سب لوگ ایسا کلام پیش کرنے میں عاجز ثابت ہوئے۔ پھر قرآن کا اعجاز صرف فصاحت و بلاغت تک ہی محدود نہ تھا اس کے مضامین کی ندرت اور حقائق سے نقاب کشائی اور غیب کی اطلاعات ایسے اوصاف تھے جو انسان کی بساط سے باہر تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر دلیل :۔ اب دوسری طرف یہ صورت حال تھی کہ اس قرآن کو پیش کرنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود امی تھے، لکھنا پڑھنا تک نہیں جانتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی استاد بھی نہ تھا۔ ان کی طرف سے اس طرح کا کلام پیش کیا جانا مزید باعث حیرت و استعجاب تھا۔ لہٰذا قرآن کی اس اعجازی حیثیت سے تین باتوں کا از خود ثبوت مہیا ہوجاتا ہے۔ (١) اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت (٢) قرآن کریم کے منزل من اللہ ہونے کا ثبوت (٣) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول برحق ہونے کا ثبوت۔ اب ہم قرآن کے چند امتیازی پہلوؤں کی وضاحت پیش کریں گے۔ قرآن کے امتیازی پہلو :۔ ١۔ پہلے انبیاء کو جتنے معجزات عطا کئے گئے وہ سب وقتی اور عارضی تھے، کسی نے دیکھے اور کسی نے صرف سنے تھے۔ مگر قرآن کو سب دیکھ سکتے ہیں اور اس وقت سے لے کرتا قیامت دیکھ سکتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ ایک زندہ جاوید، دائمی اور لازوال معجزہ ہے۔ ٢۔ اس کی اعجازی حیثیت صرف یہی نہیں کہ اس دور کے فصحاء اور بلغاء اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر رہ گئے تھے۔ بلکہ آج تک اس کی زبان ادب کی زبان تسلیم کی جاتی ہے۔ جو درجہ یہاں ہندوستان میں اردوئے معلیٰ کو حاصل ہے۔ وہی درجہ قرآن کو عام لوگوں کی ادبی زبان پر حاصل ہے اور اس کی عربی زبان پر اتنی گہری چھاپ ہے کہ عربی زبان تغیرات زمانہ کی دستبرد سے آج تک بہت حد تک محفوظ ہے۔ اگر بالفرض محال قرآن کی زبان نہ محفوظ رہتی تو اس کے مقابلہ میں غالباً آج کی عربی زبان پہچانی بھی نہ جا سکتی۔ ٣۔ قرآن کی اعجازی حیثیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ یہ اس ہستی کی زبان سے ادا ہوئی جو فصاحت و بلاغت سے سابقہ شناسائی تو درکنار، لکھنا پڑھنا تک نہ جانتے تھے۔ آپ کی نبوت سے پہلے کی زبان عام امی لوگوں جیسی ہی تھی۔ آپ کو نبوت سے پہلے عبادت گزاری سے تو دلچسپی ضرور تھی۔ مگر عربی ادب سے قطعاً ناآشنا تھے۔ ٤۔ قرآن کی حکمت نظری یہ ہے کہ اس کے دلائل نہایت سادہ اور عام فہم ہیں۔ خواہ یہ دلائل توحید پر ہوں یا آخرت کے قیام اور دوبارہ زندگی پر، اور ایسی اشیاء سے پیش کیے گئے ہیں جو ہر انسان کے مشاہدہ اور تجربہ میں آتی رہتی ہیں۔ یہاں نہ تثلیث کا گورکھ دھندا ہے، نہ نیکی اور بدی کے الگ الگ خداؤں کا اور نہ لاتعداد خداؤں کی کارسازی کا۔ لہٰذا اس کو سمجھنے میں کسی کو کوئی ابہام یا دشواری پیش نہیں آتی۔ پھر چونکہ دلائل فصیح زبان میں پیش کئے گئے ہیں۔ لہٰذا اس سے اونٹوں کو چرانے والے اعرابی بھی اسی طرح لطف اندوز ہوتے تھے جس طرح فصحاء اور بلغاء لطف اندوز ہوتے تھے، جب آیت (فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ ﴾کے الفاظ نازل ہوئے تو ایک اعرابی سجدہ میں گر پڑا اور کہنے لگا میں اس کی فصاحت کو سجدہ کرتا ہوں۔ جب سورۃ کوثر کی تین مختصر سی آیات نازل ہوئیں تو اسے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بیت اللہ میں جا لٹکایا جہاں معروف عرب شعراء لٹکایا کرتے تھے، تو اس کے نیچے کسی نے لکھ دیا کہ ﴿ما ہٰذَآ قَوْلُ الْبَشَرِ﴾غرض ایسے واقعات بے شمار ہیں اور غالباً اسی وجہ سے کفار قرآن کو سحر بلکہ سحر مبین کہا کرتے تھے۔ اشتراکیت کی ناکامی کی وجہ :۔ ٥۔ قرآن کی حکمت عملی یہ ہے کہ اس کے تمام تر احکام اس کے پیش کردہ نظریہ کے مطابق ہیں اور قابل عمل بھی، خواہ وہ انفرادی حیثیت رکھتے ہوں یا اجتماعی معاملات سے متعلق ہوں یا عبادات سے، معاشرتی احکام ہوں یا معاشی، ملکی خارجہ پالیسی سے متعلق ہوں یا اندرونی پالیسی سے سب کے سب قابل عمل ہیں اور عمل میں لائے جا چکے ہیں۔ اپریل ١٩١٧ء میں روس میں اشتراکی حکومت قائم ہوئی اور پون صدی بھی گزرنے نہ پائی تھی کہ دم توڑ گئی۔ اس ٧٥ سال کے عرصہ میں ایک دن بھی ایسا نہیں آیا جب اشتراکیت کے مرکز روس میں بھی اشتراکی نظریہ کے مطابق حکومت کی جا سکی ہو اور اس ناکامی کی وجہ یہ تھی کہ اشتراکی نظریات انسانی فطرت کے خلاف تھے اور ان میں انفرادی مفادات کو اجتماعی مفادات کی خاطر کچل دیا گیا تھا۔ مگر اسلام کی تعلیم اور اس کے احکام انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں۔ نہ ہی اس کی حکمت نظری اور حکمت عملی میں کوئی تضاد یا تصادم ہے۔ اگر مسلمان صحیح طور پر اسلامی احکام پر کاربند ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ انہیں دنیا میں سر بلندی اور سرخروئی حاصل نہ ہو۔ گویا قرآن کی تعلیم صرف یہی نہیں کہ وہ قابل عمل ہے۔ بلکہ اپنے پیرو کاروں کو بلند مقام پر فائز کرنے کی اہلیت بھی رکھتی ہے۔ ٦۔ قرآن عظیم کا چھٹا امتیاز اس کی جامعیت اور ہمہ گیری ہے جو انسانی زندگی کے جملہ پہلوؤں کو محیط ہے اور یہ ایسی خصوصیت ہے جو نہ کسی دوسری الہامی کتاب میں پائی جاتی ہے۔ نہ کسی دوسرے مذہب میں۔ پھر یہ صرف دنیا کی زندگی کے لیے ہدایت نہیں دیتی بلکہ ما بعد الطبیعیات پر پوری روشنی ڈالتی ہے۔ ٧۔ قرآن کا ساتواں امتیاز یہ ہے کہ اس کے احکام عام حالات میں ایک اوسط درجہ کی طاقت کے انسان کی استعداد کا لحاظ رکھ کر کیے گئے ہیں۔ پھر معاشرہ کے معذور لوگوں اور بدلتے ہوئے حالات کا لحاظ رکھ کر ان احکام میں رخصت یا رعایت رکھی گئی ہے۔ تاکہ کسی موقعہ پر بھی لوگوں کو اس کے احکام پر عمل پیرا ہونے میں دشواری پیش نہ آئے۔ بالفاظ دیگر قرآن کریم کا کوئی حکم ایسا نہیں جو تکلیف مالایطاق کے ضمن میں آتا ہو۔ قرآن کا اصل موضوع :۔ ٨۔ قرآن پاک کا آٹھواں اور نہایت اہم امتیاز یہ ہے کہ یہ اپنے موضوع سے ادھر ادھر بالکل نہیں ہٹتا۔ اس کا اصل موضوع انسان کی ہدایت ہے یعنی وہ راستہ جس پر چلنے سے انسان کی دنیا بھی سنور جائے اور آخرت بھی۔ قرآن عظیم کا کوئی صفحہ، کوئی سورت، کوئی آیت کوئی سطر نکال کے دیکھ لیجئے، خواہ یہ احکام سے متعلق ہو یا دلائل سے یا سابقہ اقوام کی سرگزشت اور ان کے انجام سے، ہر ہر مقام پر آپ کی ہدایت کے لیے کوئی نہ کوئی سبق موجود ہوگا۔ قرآن میں بے کار بحثوں سے اجتناب :۔ ٩۔ قرآن کا نواں امتیاز ایجاز ہے یعنی ایسی تفصیل میں وہ ہرگز نہیں جاتا جس کا ہدایت سے کچھ تعلق نہ ہو۔ مثلاً قرآن نے ام موسیٰ کی طرف وحی کا تو ذکر کیا مگر اس کا نام نہیں لیا۔ سیدنا آدم علیہ السلام کو جنت میں ایک درخت کے نزدیک نہ جانے کے حکم کا ذکر کیا مگر درخت کا نام نہ لیا۔ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اَھِلَّہ، یعنی نئے چاندوں یا اشکال قمر کے متعلق سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے اشکال قمر کی وجہ بتانے کے بجائے جواب کا رخ اس طرف موڑ دیا جو انسان کی ہدایت سے تعلق رکھتی تھی کیونکہ اشکال قمر کی وجہ جاننے میں انسان کی ہدایت کا کوئی پہلو نہ تھا۔ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اصحاب کہف کی تعداد سے متعلق بحث و کرید کرنے سے منع فرمایا۔ کیونکہ ایسی بے کار بحثوں کا ہدایت سے کچھ تعلق نہیں ہوتا اور ایسی بحثیں صرف وقت کے ضیاع اور بے عملی کا باعث ہی نہیں بنتیں بلکہ بسا اوقات تفرقہ بازی کی بنیاد بھی بن جاتی ہیں۔ ١٠۔ اور قرآن پاک کا دسواں اور اہم امتیاز یہ ہے کہ اس نے کبھی کسی نبی اور رسول کی سیرت و کردار کو داغدار نہیں کیا۔ بائیبل میں بعض انبیاء کی سیرت و کردار پر جس طرح سوقیانہ حملے کیے گئے ہیں۔ اس کا ذکر ہم کسی دوسرے مقام میں کر رہے ہیں۔ ١١۔ اور گیا رہواں امتیاز اس کی شائستہ اور مہذبانہ زبان ہے۔ گالی گلوچ یا فحش الفاظ سے کلیتاً اجتناب کیا گیا ہے۔ زلیخا کو سیدنا یوسف علیہ السلام سے فی الواقع انہی معنوں میں عشق تھا جو مشہور و معروف ہیں لیکن وہاں بھی اللہ تعالیٰ نے اس لفظ کو استعمال نہیں فرمایا کیونکہ یہ لفظ سوقیانہ اور بازاری قسم کا ہے جس سے فحاشی کی بو آتی ہے۔ اسی طرح اسلام کے بدترین دشمنوں کا بھی نام نہیں لیا۔ بلکہ ان میں سے بعض کے اوصاف ایسے بیان کردیئے ہیں جس سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ ان آیات کا روئے سخن فلاں شخص کی طرف ہے۔ اس کلیہ سے استثناء صرف ابو لہب کے لیے ہے۔ جس کی چند در چند وجوہ ہیں جن کا ذکر مناسب مقام پر سورۃ لہب میں کردیا گیا ہے۔ الغرض قرآن کے امتیازات و عجائب اس قدر ہیں کہ ان کا احاطہ کرنا انسان کی بساط سے باہر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جس قدر غور و فکر اور گہرائی کے ساتھ اس کا مطالعہ کیا جائے، نئے سے نئے پہلو سامنے آنے لگتے ہیں۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ قرآن ایسی کتاب ہے جس کے عجائب ختم ہونے میں نہیں آ سکتے۔ البقرة
24 [٢٨] جہنم کا ایندھن کون سی اشیاء ہوں گی؟ اللہ تعالیٰ کو پہلے ہی علم تھا کہ ایسا کلام پیش کرنا انسان کے بس سے باہر ہے اور یہ جو پانچ مرتبہ قرآن میں کفار کو چیلنج کیا گیا ہے تو یہ ان پر اتمام حجت کے لیے ہے کہ اگر ان واضح دلائل کے بعد کوئی کفر پر اڑا رہتا ہے تو اسے اس دوزخ کے عذاب سے ڈر جانا چاہیے۔ جس کا ایندھن انسان ہی نہیں معدنی پتھر (جیسے پتھری کوئلہ، گندھک) وغیرہ بھی ہوں گے جو آگ کی حدت کو بیسیوں گنا تیز کردیتے ہیں۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ اس آیت میں حجارۃ سے مراد پتھر کے وہ بت ہیں جن کی پوجا کی جاتی رہی اور اس قول کی تائید اس آیت سے بھی ہوجاتی ہے۔ ﴿ اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ ﴾( ۹۸:۲۱)”تم بھی اور اللہ کے سوا جنہیں تم پوجتے ہو سب دوزخ کا ایندھن بنو گے۔“ تاکہ کافروں کو اپنے معبودوں کی خدائی کی حقیقت معلوم ہو سکے اور ان کی حسرت میں مزید اضافہ ہو۔ [٢٨۔ الف] تقوی کا لغوی مفہوم :۔ اتقاء یا تقویٰ کا معنی اپنے اعمال کے انجام سے ڈر جانا ہے۔ اور اس کے مادہ وَ قَ یَ میں تین باتیں بنیادی طور پر پائی جاتی ہیں : (١) ڈرنا۔ (٢) بچنا۔ (٣) پرہیز کرنا۔ گویا تقویٰ کے معنی اپنے نفس کو ہر اس چیز سے بچانا ہے جس سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو اور شرعی اصطلاح میں اپنے آپ کو ہر اس چیز سے بچانے کا نام تقویٰ ہے جو گناہ کا موجب ہو۔ اور جن امور سے شریعت نے منع کیا ہے انہیں چھوڑنے سے یہ بات حاصل ہوجاتی ہے۔ پھر تقویٰ کا مفہوم محض نواہی کو چھوڑنے تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ اوامر کی بجاآوری کو بھی اپنے اندر شامل کرلیتا ہے۔ کیونکہ جیسے بے حیائی کے کام کرنا گناہ ہے ویسے ہی نماز یا روزہ وغیرہ ادا نہ کرنا بھی گناہ ہے۔ اور تمام تر عبادات کا بنیادی مقصد انسان کے اندر تقویٰ پیدا کرنا ہے یعنی وہ ہر کام کے کرنے سے پہلے اس کا انجام سوچتا ہے اور اس انجام کو ملحوظ رکھ کر اسے اختیار کرتا یا چھوڑتا ہے۔ اور چونکہ انجام سے دو چار کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے لہٰذا تقویٰ کے مفہوم میں گناہوں کے انجام سے ڈرنے اور بچنے کے ساتھ ساتھ اللہ سے ڈرنا اور ہر وقت اس بات کا خیال رکھنا از خود شامل ہوجاتا ہے۔ [٢٩] اس سے معلوم ہوا کہ دوزخ وجود میں لائی جا چکی ہے (اور اسی طرح جنت بھی) اور یہی اہل سنت کا عقیدہ ہے۔ جبکہ بعض لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ جنت اور دوزخ عالم آخرت میں جزا و سزائے اعمال کے وقت تیار کئے جائیں گے۔ البقرة
25 [٣٠] قرآن کریم میں آپ اکثر یہ بات ملاحظہ کریں گے کہ جہاں کہیں کفار اور ان کی وعید کا ذکر آتا ہے وہاں ساتھ ہی مومنوں اور ان کی جزا کا ذکر بھی ساتھ ہی کردیا جاتا ہے اور اس کے برعکس بھی یہی صورت ہوتی ہے، کیونکہ انسان کی ہدایت کے لیے ترغیب اور ترہیب دونوں باتیں ضروری ہیں۔ [٣١] یعنی شکل و صورت دیکھ کر وہ یہ تو کہہ دیں گے کہ یہ آم ہے یا انگور یا انار ہے مگر ان کا ذائقہ بالکل الگ اور اعلیٰ درجہ کا ہوگا اور ان کا سائز بھی دنیا کے پھلوں کی نسبت بہت بڑا ہوگا۔ [٣٢] جنتی لوگ سب کے سب خواہ مرد ہوں یا عورتیں، بول و براز اور رینٹ وغیرہ نیز اخلاق رذیلہ سے پاک صاف ہوں گے اور ان کی بیویاں حیض و نفاس کی نجاستوں سے بھی پاک و صاف ہوں گی۔ البقرة
26 [٣٣] مثال کے درست ہونے کی شرط :۔ کفار سے جب چیلنج کا کوئی جواب بن نہ پڑا تو انہوں نے کلام اللہ پر یہ اعتراض جڑ دیا کہ اللہ کو جو مالک الملک اور سب سے بڑا ہے، کیا ضرورت پڑی تھی کہ وہ اپنے کلام میں مکھی اور مکڑی جیسی حقیر چیزوں کی مثالیں بیان کرے اور (واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے مکھی کی مثال (٢٢؍٧٣) اور مکڑی کی مثال (٢٩: ٤١) کافروں کے معبودان باطل کی کمزوری کو واضح کرنے کے لیے دی تھی۔ اس آیت میں اسی اعتراض کا جواب دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس بات میں کوئی باک نہیں کہ وہ مکھی اور مکڑی تو درکنار، مچھر یا اس سے بھی کسی حقیر تر چیز کی مثال بیان کرے۔ کیونکہ اس کی مخلوق ہونے کے لحاظ سے سب برابر ہیں۔ دیکھنا تو یہ چاہیے کہ آیا مثال اور مُمَثّل لہ، میں مطابقت پائی جاتی ہے؟ اگر مطابقت پائی جائے تو یہ مثال بالکل درست ہوگی۔ کفار کے معبود بھی تو حقیر چیزیں ہیں اور مکھی اور مکڑی بھی لہٰذا تمثیل درست ہوئی۔ مثال دینے والا خواہ بڑا یا چھوٹا اس سے کوئی بحث نہیں کی جاتی، اور کفار نے جو اعتراض کیا تھا۔ وہ بالکل خلاف عقل تھا جو حماقت اور عناد پر مبنی تھا۔ [٣٤] گمراہی کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کیسے؟ یعنی ایک ہی بات سے ہدایت پانے والوں کی تو ہدایت میں اضافہ ہوا اور ہٹ دھرموں اور فاسقوں کی گمراہی میں، اور گمراہی کی بات صرف بدکردار لوگوں کو ہی سوجھتی ہے۔ پھر اللہ بھی انہیں اسی طرف چلا دیتا ہے۔ رہی یہ بات کہ اللہ تعالیٰ نے فاسقوں کی گمراہی کی نسبت اپنی طرف کیوں کی؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان صرف سبب اختیار کرنے کا مکلف ہے اور جیسا وہ سبب اختیار کرے گا ویسی ہی اسے جزا یا سزا بھی ملے گی، رہے سبب کے مُسَبِّبَاتٌ یا نتائج تو وہ انسان کے اختیار میں نہیں ہوتے، بلکہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہوتے ہیں جو اکثر دفعہ حسب توقع ہی نکلتے ہیں اور کبھی توقع کے خلاف بھی ہو سکتے ہیں لہٰذا ان مُسَببَات کی نسبت فاعل کی طرف بھی ہو سکتی ہے۔ البقرة
27 [٣٥] صلہ رحمی کی تاکید اور اقرباء سے حسن سلوک :۔اس آیت میں فاسقوں کی پوری تعریف بیان فرما دی۔ یعنی ایک تو اللہ سے کیے ہوئے عہد (عہد الست بربکم) (١٧٢: ٧) کو توڑ دیتے ہیں جو یہ تھا کہ ہم صرف اللہ ہی کی بندگی کریں گے اور دوسرے جن جن چیزوں، بالخصوص رشتوں ناطوں کو ملائے رکھنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا تھا وہ توڑ ڈالتے ہیں۔ پہلی قسم میں بندے اور اللہ کے درمیان تعلق کا ذکر ہے اور دوسری قسم میں بندے اور بندے کے درمیان تعلق کا۔ اگر ان دونوں قسم کے تعلقات کا لحاظ نہ رکھا جائے تو یہیں سے فساد کی جملہ اقسام پیدا ہوجاتی ہیں۔ قرابت داری توڑنا کتنا بڑا گناہ ہے۔ یہ درج ذیل حدیث میں ملاحظہ فرمائیے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ ساری مخلوق پیدا کرچکا تو رحم (مجسم بن کر) کھڑا ہوگیا اور پروردگار رحمٰن کی کمر تھام لی۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے پوچھا : ’’کہو کیا بات ہے؟‘‘ کہنے لگا : ’’میں اس بات سے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ لوگ مجھے کاٹ دیں گے (قرابت کا خیال نہ رکھیں گے) اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ جو تجھے جوڑے گا میں بھی اسے جوڑوں گا اور جو تجھے قطع کرے گا تو میں بھی اسے قطع کروں گا۔‘‘ رحم کہنے لگا : پروردگار میں اس پر راضی ہوں، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا،’’ ایسا ہی ہوگا۔‘‘ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ اگر تم چاہو تو اس حدیث کی تائید میں سورۃ محمد کی یہ آیت پڑھ لو۔ ﴿ فَہَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُـقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْ ﴾(۲۲:۴۷) یعنی تم سے تو یہ امید ہے کہ اگر تمہیں حکومت مل جائے تو ملک میں فساد برپا کر دو اور ناطے کاٹ ڈالو۔ (بخاری، کتاب التفسیر : تفسیر۔ سورۃ محمد) البقرة
28 [٣٦] زندگی اور موت کے چار مراحل :۔ اس آیت میں انسان پر وارد ہونے والی چار کیفیات کا ذکر ہے۔ پہلے موت، پھر زندگی، پھر موت، پھر زندگی۔ روح اور جسم کے اتصال کا نام زندگی اور ان کے انفصال کا نام موت ہے۔ پہلی حالت موت ہے یعنی جملہ انسانوں کی ارواح تو پیدا ہوچکی تھیں۔ لیکن جسم اپنے اپنے وقت پر عطا ہوئے، اسی عرصہ میں عہد الست لیا گیا تھا۔ دوسری حالت انسان کی پیدائش سے لے کر اس کے مرنے تک ہے، جس میں وہ اچھے یا برے اعمال کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ تیسری حالت موت سے لے کر حشر تک اور چوتھی اور آخری حالت دوبارہ جی اٹھنے (حشر) کے بعد لامتناہی زندگی ہے۔ یاد رہے کہ جن حالتوں کو موت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ان میں بھی زندگی کی کچھ نہ کچھ رمق موجود ہوتی ہے۔ مگر چونکہ غالب اثرات موت کے ہوتے ہیں۔ لہٰذا انہیں موت سے تعبیر کیا گیا۔ کیونکہ پہلی موت کے درمیان ہی عہد الست لیا گیا تھا اور دوسری موت میں ہی انسان کو قبر کا عذاب ہوتا ہے اور دنیا میں بھی یہ حالت خواب سے سمجھا دی گئی ہے۔ کیونکہ خواب کی حالت میں انسان پر بیشتر اثرات موت کے غالب ہوتے ہیں۔ تاہم وہ عالم خواب میں چلتا پھرتا، کھاتا پیتا اور کئی طرح کے کام کرتا ہے اور خواب یا نیند کو حدیث میں موت کی بہن قرار دیا گیا ہے، زندگی کی نہیں، نیز سونے کے وقت یہ دعا سکھائی گئی ہے۔ اللھم باسمک أموت وأحییٰ نیز قرآنی تصریحات سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ موت سلبی چیز نہیں بلکہ ایجابی ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے موت کو پہلے پیدا کیا تھا اور زندگی کو بعد میں جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً﴾(۲:۶۷) ”اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اعمال کے اعتبار سے اچھا ہے“اور زیر مطالعہ آیت میں انسان کی توجہ اس طرف مبذول کرائی گئی ہے کہ جو ہستی تمہاری ذات پر اتنے وسیع تصرفات کی قدرت رکھتی ہے تم اس کا انکار کیسے کرسکتے ہو؟ البقرة
29 [٣٧] اس آیت سے مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوئی ہیں : ہر چیز کی اصل اباحت ہے : ١۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے زمین کی سب اشیاء انسان کی خاطر پیدا کی ہیں۔ لہٰذا انسان تمام مخلوقات سے اشرف (اشرف المخلوقات) ہوا۔ ٢۔ اور اسی فقرہ یا حصہ آیت سے یہ بھی نتیجہ نکلا کہ چونکہ انسان زمین کی ہر چیز سے استفادہ کا حق رکھتا ہے۔ لہٰذا ہر چیز کی اصل اباحت ہے اور حرام وہ چیز ہوگی جس کی شریعت نے وضاحت کردی ہو۔ ٣۔ زمین کی پیدائش سات آسمانوں کی پیدائش سے پہلے ہوچکی تھی۔ ٤۔ آسمان کوئی تصوراتی چیز نہیں۔ جیسا کہ آج کل ماہرین ہئیت کا خیال ہے۔ بلکہ ٹھوس حقیقت ہے اور ان کی تعداد سات ہے۔ البقرة
30 [٣٨] فرشتوں کی مستقل حیثیت : آج کل بعض ملحدین کی طرف سے یہ شبہ وارد کیا گیا ہے کہ فرشتوں سے مراد وہ مجرد قوتیں ہیں جو اس کارگاہ کائنات میں کارفرما ہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ فرشتے ایسی ہستیاں ہیں جو مستقل شخصیت رکھتی ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اور ان کے درمیان مکالمہ ہوا ہے۔ علاوہ ازیں بعض ہستیوں کے قرآن میں نام بھی مذکور ہیں۔ [٣٩] آدم خلیفہ کس کا ؟ یہاں علی الاطلاق خلیفہ (نائب، قائمقام) کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ صراحتاً یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ آدم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہے یا کسی دوسری مخلوق کا۔ بعض علماء کا یہ خیال ہے کہ خلیفہ چونکہ وہ شخص ہوتا ہے جو کسی کے مرنے یا عدم موجودگی کی صورت میں اس کے اختیارات سنبھالتا ہے اور اللہ تو حی لایموت اور ہمہ وقت حاضر ہے۔ لہٰذا آدم اللہ کے خلیفہ نہیں تھے، بلکہ جنوں کے خلیفہ تھے پھر ایک ایسی روایت بھی ملتی ہے کہ انسان کی پیدائش سے پیشتر اس زمین پر جن آباد تھے جو فتنہ فساد اور قتل و غارت کرتے رہتے تھے، تو اللہ نے فرشتوں کا لشکر بھیج کر ان جنوں کو سمندروں کی طرف دھکیل دیا اور آدم علیہ السلام ان کے خلیفہ ہوئے اور بعض علماء کا یہ خیال ہے کہ خلافت یا نیابت کے لیے موت یا عدم موجودگی ضروری نہیں، بلکہ کوئی بااختیار ہستی اپنی موجودگی میں بھی کسی کو کچھ اختیارات تفویض کر کے اسے اپنا خلیفہ یا نائب بنا سکتی ہے کہ وہ اس کی منشا کے مطابق ان اختیارات کو استعمال کرے۔ ہمارے خیال میں دوسری رائے راجح ہے، کیونکہ اس کی تائید ایک آیت ٣٣: ٧٢ سے بھی ہوجاتی ہے، اور دنیا میں موجود سفارتی نظام سے بھی، محولہ آیت کا ترجمہ یوں ہے : ہم نے امانت آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر پیش کی اور انہوں نے اسے اٹھانے سے انکار کردیا۔ اور اس بار عظیم کے اٹھانے سے ڈر گئے۔ مگر انسان نے اسے اٹھا لیا۔ کیونکہ انسان تو انتہائی ظالم اور نادان واقع ہوا ہے (٣٣: ٧٢) اور تمام مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہاں امانت سے مراد اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے فرائض و احکام کی تعمیل اور ان کے نفاذ کا بار ہے اور اسی کا دوسرا نام نظام خلافت ہے۔ [٤٠] فرشتوں کا یہ قیاس کہ ’’بنی آدم دنیا میں فتنہ فساد اور قتل و غارت ہی کریں گے۔‘‘ یا تو اس لحاظ سے تھا کہ جن بھی زمین میں پہلے یہی کچھ کرچکے تھے اور یا اس لحاظ سے کہ جس ہستی کو اختیارات تفویض کر کے اسے اپنے اختیار و ارادہ کی قوت بھی دی جا رہی ہے وہ افراط و تفریط سے بچ نہ سکے گا اور اس طرح فتنہ و فساد رونما ہوگا۔ [٤١] تخلیق آدم پر فرشتوں کا اعتراض کیا تھا ؟ فرشتوں کا یہ جواب تخلیق آدم پر اعتراض نہ تھا بلکہ اس سے تخلیق آدم کی عدم ضرورت کا اظہار مقصود تھا۔ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ جب ہم مدبرات امر ہونے کی حیثیت سے کارگاہِ کائنات کو پوری سرگرمی اور خوبی سے چلا رہے ہیں۔ ہم تیرے حکم کی نافرمانی بھی نہیں کرتے تیری تسبیح تقدیس بھی کرتے رہتے ہیں، اور اس کائنات کو پاک و صاف بھی رکھتے ہیں اور جب یہ سب کام بخیر و خوبی سر انجام پا رہے ہیں تو پھر آدم علیہ السلام کو بطور خلیفہ پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے بالخصوص ایسی صورت میں کہ اس خلیفہ سے فتنہ و فساد بھی متوقع ہے۔ ان کا یہ مطلب نہیں تھا کہ ہم چونکہ تیری تسبیح و تقدیس کرتے رہتے ہیں۔ لہٰذا خلافت کے اصل حقدار تو ہم تھے۔ نہ کہ آدم جو ایسے اور ایسے کام کرے گا۔ تسبیح و تقدیس کا فرق :۔ اس آیت میں جو تسبیح و تقدیس کے الفاظ آئے ہیں۔ تسبیح کے معنی سبحان اللہ کہنا یا سبحان اللہ کا ذکر کرنا یا اس ذات کی زبان قال یا زبان حال سے صفت بیان کرنا ہے جو ہر قسم کے عیب، نقص اور کمزوریوں سے پاک ہے۔ گویا یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی خوبیوں کو مثبت انداز میں بیان کرنے اور اس کی حمد یا تعریف بیان کرنے کے لیے آتا ہے اور تقدیس کے معنی ایسی باتوں کی نفی کرنا ہے جو اللہ تعالیٰ کے شایان شان نہیں۔ اور قدوس معنی وہ ذات ہے جو دوسروں کی شرکت کی احتیاج اور شرک جیسی دوسری نجاستوں سے پاک ہو یعنی اضداد اور انداد دونوں سے پاک ہو (مقاییس اللغۃ) تسبیح سے حمد بیان کرنا مقصود ہوتا ہے اور تقدیس سے اللہ تعالیٰ کی تنزیہ بیان کرنا۔ [٤٢] یہ اللہ تعالیٰ کا فرشتوں کو اجمالی جواب ہے۔ تفصیلی جواب آگے آ رہا ہے۔ البتہ ضمناً اس آیت سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ علم غیب فرشتوں کو بھی حاصل نہیں۔ البقرة
31 [٤٣] خلافت کے لئے ضروری شرط :۔ انسان کو فرشتوں سے جو زائد چیز ودیعت کی گئی تھی۔ وہ تھی زمین کی اشیاء کے نام، ان کے خواص، ان خواص کا علم ہونے سے آگے نامعلوم باتوں تک پہنچنے (تحقیق یا استنباط) کی قوت و استعداد، زمین میں نظام خلافت کے قیام کے لیے یہ قوت انتہائی ضروری تھی جو فرشتوں میں نہیں تھی۔ البقرة
32 [٤٤] اس سے معلوم ہوا کہ فرشتوں کو صرف انہی امور کا علم دیا گیا ہے جن پر وہ مدبرات امر کی حیثیت سے مامور ہیں۔ مثلاً بادلوں اور پانی کا فرشتہ، پانی کے متعلق تو جملہ معلومات رکھتا ہے مگر دوسری تمام اشیاء کے افعال و خواص سے بالکل بے خبر ہے۔ یہی حال دوسرے فرشتوں کا ہے۔ جبکہ انسان کو تمام اشیاء کا سرسری علم دیا گیا تھا۔ پھر وہ تحقیق اور جستجو کے ذریعہ اس میں ازخود اضافہ کرسکتا ہے۔ البقرة
33 [٤٥] جب فرشتوں کو آدم کے ہمہ علمی احاطہ کا علم ہوگیا اور انہوں نے اپنے عجز علمی کا اعتراف کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو وہ بات بتا دی جو وہ نہیں جانتے تھے اور وہ یہ تھی کہ انسان میں اگر فتنہ و شر کا پہلو ہے تو صلاح و خیر کا پہلو بھی موجود ہے اور صلاح و خیر کا پہلو غالب ہے۔ اسی لیے اسے خلیفہ بنایا جا رہا ہے اور وہ اپنے علمی کمال کی وجہ سے اس کی اہلیت بھی رکھتا ہے۔ اس قصہ سے ضمناً یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ علم عبادت سے افضل ہے۔ عبادت کا تعلق صرف مخلوق سے ہے۔ جب کہ علم کا تعلق خالق و مخلوق دونوں سے اور سب سے بڑا عالم اور علیم تو خود اللہ تعالیٰ ہے۔ بلاشبہ انسان فرشتوں جیسی اور جتنی عبادت نہیں کرسکتا۔ تاہم علم کی بنا پر فرشتوں سے افضل اور مستحق خلافت قرار پایا۔ البقرة
34 [٤٦] سجدہ تعظیمی :۔ جب فرشتوں نے آدم علیہ السلام کی فضیلت کو تسلیم کرلیا تو انہیں آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا۔ اس سجدہ کے متعلق علماء کے دو اقوال ہیں۔ ایک یہ کہ یہ سجدہ چونکہ اللہ کے حکم سے تھا لہٰذا یہ سجدہ آدم علیہ السلام کو نہیں بلکہ اللہ ہی کو سجدہ کرنے کے مترادف تھا اور اللہ ہی کے حکم کی تعمیل تھی۔ دوسرا یہ کہ یہ سجدہ تعظیمی تھا جو ہماری شریعت سے پہلے جائز تھا۔ جیسا کہ سیدنا یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے بھی سیدنا یوسف علیہ السلام کو سجدہ کیا تھا۔ یہ دونوں توجیہات درست ہیں۔ تاہم شریعت محمدی میں سجدہ تعظیمی کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔ [٤٧] ابلیس کی رقابت کی وجہ :۔ ابلیس دراصل جنوں کی جنس سے تھا (١٨ : ٥٠) اور اپنی عبادت گزاری کی کثرت کی بنا پر فرشتوں میں گھلا ملا رہتا تھا۔ جب فتنہ و فساد کی بنا پر فرشتوں نے جنوں کو سمندروں کی طرف مار بھگایا تو اس وقت بھی یہ فرشتوں میں ہی شامل تھا، اور جن بھی چونکہ مکلف مخلوق ہیں اور قوت اختیار و ارادہ رکھتے ہیں۔ لہٰذا جنوں کے بعد ابلیس خود خلافت ارضی کی آس لگائے بیٹھا تھا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو خلیفہ بنا دیا تو یہ اندر ہی اندر جلتا بھنتا رہا اور جب فرشتوں کو حکم سجدہ ہوا تو اس کے اندرونی حسد و کینہ نے جوش مارا اور سجدہ کرنے سے انکار کردیا اور اکڑ گیا اور آدم پر اپنی فضیلت کا برملا اظہار شروع کردیا (٧ : ١٢) اس وجہ سے راندہ درگاہ الٰہی اور کافر قرار پایا۔ گویا اس کا جرم صرف یہی نہ تھا کہ اس نے سجدہ نہیں کیا بلکہ اس سے زیادہ جرم یہ تھا کہ تکبر کی بنا پر حکم الٰہی کے مقابلہ میں اپنی برتری بیان کرنا شروع کردی۔ البقرة
35 [٤٨] آدم علیہ السلام اور نظریہ ارتقاء :۔ واضح رہے کہ آدم علیہ السلام سلسلہ ارتقاء کی کڑی نہیں جیسا کہ آج کل ڈارون کا نظریہ ارتقاء کالجوں وغیرہ میں پڑھایا جاتا ہے کہ انسان بندر کی اولاد یا اس کا چچیرا بھائی ہے۔ جب کہ آدم علیہ السلام کا پتلا اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے بنایا (٣٨ : ٧٥) پھر اس میں اپنی روح میں سے پھونکا (١٥ : ١٩، ٣٨ : ٧٢) اسی نفخ روح سے انسان میں فہم، قوت ارادہ و اختیار و تمیز و استنباط پیدا ہوئی، جو دوسری کسی مخلوق میں نہیں پائی جاتی۔ [٤٩] حوا کی پیدائش پر ایک اعتراض اور اس کا جواب :۔ سیدہ حوا جنہیں سیدنا آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا کیا گیا۔ بعض’’مساوات مرد و زن‘‘ کو شریعت سے ثابت کر دکھانے والے حضرات یہ کہتے ہیں کہ سیدہ حوا کو بھی اسی مٹی یا مادہ سے پیدا کیا گیا جس سے سیدنا آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ ﴿خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا﴾میں ھَا کی ضمیر مؤنث ہے۔ اگر حوا آدم علیہ السلام سے پیدا ہوتی تو ضمیر مذکر ہونی چاہئے تھی۔ یہ دلیل دو لحاظ سے غلط ہے۔ ایک اس لیے ''ھا'' کی ضمیر (نَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ) کی طرف ہے جو مونث ہے اور دوسرے اس لحاظ سے کہ احادیث صریحہ میں موجود ہے کہ سیدہ حوا کو پسلی سے پیدا کیا گیا۔ لہٰذا اسے سیدھا کرنے کی کوشش نہ کرو ورنہ توڑ دو گے۔ پس اس سے حسن سلوک سے پیش آؤ۔ (بخاری۔ کتاب الانبیاء باب خلق آدم و ذریتہ و قول اللّٰہ تعالیٰوَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰیِٕکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ) [٥٠] جنت ارضی یا سماوی ؟ یہ بحث بھی جاری ہے کہ یہ جنت ارضی تھی یا سماوی، بعض لوگ اسے ارضی سمجھتے اور اس کا مقام عدن یا فلسطین قرار دیتے ہیں۔ مگر ہمارے خیال میں یہ الجنہ وہی ہے جو مسلمانوں میں معروف ہے اور وہ اہل سنت کے عقیدہ کے مطابق پیدا کی جا چکی ہے۔ اس جنت میں آدم علیہ السلام و حوا کو آباد ہونے کا حکم دیا گیا تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ ان کا اصل ٹھکانہ یہی ہے۔ تاہم یہاں آباد کرنے سے اس بات کا امتحان بھی مقصود تھا کہ آدم علیہ السلام (اور اسی طرح اس کی اولاد) شیطانی ترغیبات کے مقابلہ میں اللہ کی کس قدر اطاعت کرتے ہیں؟ [٥١] اس آزمائش کے لیے جنت سے ایک درخت کا انتخاب کیا گیا کہ اس درخت کے پاس نہ پھٹکنا۔ اس کے علاوہ تم جنت کے تمام درختوں کے پھل کھا سکتے ہو۔ یہ شجرہ ممنوعہ گندم کا تھا، یا انگور کا یا کسی اور چیز کا ؟ یہ بحث لاحاصل ہے اور پیش نظر مقصد کے لحاظ سے یہ بتانے کی ضرورت بھی نہ تھی۔ [٥٢] ظلم کا لغوی مفہوم :۔ ظلم کا لغوی معنیٰ کسی چیز کو ناجائز طریقہ سے اس کے اصل مقام سے ہٹا کر دوسری جگہ رکھنا ہے اور یہ لفظ بہت وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یعنی ہر ناانصافی کی بات خواہ وہ حقوق اللہ سے تعلق رکھتی ہو یا حقوق العباد سے، ظلم ہے، بالفاظ دیگر ہر گناہ پر ظلم کے لفظ کا اور گنہگار پر ظالم کے لفظ کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ اس آیت میں ظلم سے مراد اللہ رب العزت کی نافرمانی بھی ہے اور اپنے نفس پر زیادتی بھی جس کی وجہ سے جنت سے نکلنا پڑا۔ البقرة
36 [٥٣] شیطان کی حقیقت :۔ یہ شیطان دراصل ابلیس ہی تھا جو جنوں کی جنس سے تھا اور آگ سے پیدا ہوا تھا۔ شیطان کی حقیقت یوں سمجھئے کہ فرشتے نور سے پیدا کیے گئے ہیں اور جن آگ سے یا نار سے۔ اور نور اور نار دونوں کا مادہ ایک ہی ہے، یعنی نور اور روشنی نور میں بھی ہوتی ہے اور نار میں بھی۔ فرق صرف یہ ہے کہ اگر حدت اور تمازت (گرمی کی شدت) کم ہو یا ندارد ہو اور روشنی کا عنصر ہی غالب ہو تو یہ نور ہے اور روشنی کا عنصر کم اور حدت و تمازت کا عنصر غالب ہو تو یہ نار ہے۔ اب جنوں کی ایک قدر مشترک تو فرشتوں سے ملتی ہے یعنی وہ اپنی شکلیں بدل سکتے ہیں اور اسی بنا پر ابلیس فرشتوں میں شامل ہوجاتا تھا، اور ایک قدر مشترک انسانوں سے ملتی ہے یعنی جن اور انسان دونوں مکلف مخلوق ہیں (٥١: ٥٦) اور صاحب اختیار و ارادہ ہیں۔ اسی بنا پر ابلیس نے تو سجدہ سے انکار کردیا تھا۔ لیکن فرشتوں میں سے کوئی ایسا کر ہی نہیں سکتا تھا۔ اب جنوں یا انسانوں میں سے جو کوئی اس قوت اختیار و ارادہ کا غلط استعمال کر کے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور سرکشی پر اتر آئے وہ شیطان ہے۔ گویا شیطان جن بھی ہوتے ہیں اور انسان بھی۔ پھر شیطان کا لفظ ہر بد روح، خبیث اور موذی چیز پر بھی استعمال ہونے لگا۔ سانپ کو اسی وجہ سے جان (١٠: ٢٧) بھی کہا جاتا ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ جو شیطان جنوں سے ہوگا۔ وہ دوسروں کو بدراہ اور گمراہ کرنے کے لحاظ سے انسانی شیطان سے زیادہ وسائل رکھتا ہے۔ جن شیطان اپنی شکلیں بدل کر اندر داخل ہو کر اور وسوسہ ڈال کر بھی دوسروں کو گمراہ کرسکتا ہے۔ جب کہ انسانی شیطان ان باتوں پر قادر نہیں ہوتا۔ فرشتوں کی مختلف اقسام اور ان کی ذمہ داریاں :۔ فرشتوں اور جنوں کی بہت سی اقسام اور صفات قرآن اور احادیث صحیحہ میں مذکور ہیں۔ فرشتوں کی پہلی قسم مقربین فرشتے ہیں۔ جن میں سے کچھ فرشتے عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور وہ چار ہیں۔ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ لوگوں کا حساب لینے کے لیے نزول اجلال فرمائیں گے تو اس وقت وہ فرشتے آٹھ ہوں گے۔ پھر کچھ فرشتے ایسے ہیں جو ہر وقت اللہ تعالیٰ کے عرش کے گرد گھیرا ڈالے رہتے ہیں۔ انہیں مقربین میں سے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو بہت سے فرشتوں کے سردار ہیں۔ مثلاً فرشتوں کی ایک قسم رسولوں یا پیغامبروں کی ہے۔ ان کے سردار جبریل ہیں۔ جن کی بہت سی صفات قرآن میں مذکور ہیں۔ وہ بڑے زور آور اور امین ہیں۔ ان کا نام روح، روح الامین اور روح القدس بھی ہے انبیاء علیہم السلام کے دلوں پر یہی جبریل اللہ کا کلام لے کر نازل ہوتے رہے ہیں۔ دوسرے سردار میکائیل یا میکال ہیں جو بادلوں، بارشوں اور برق ورعد وغیرہ پر مامور ہیں۔ تیسرے سردار عزرائیل ہیں جن کا دوسرا نام عزازیل بھی ہے، اور قرآن میں انہیں ملک الموت بھی کہا گیا ہے۔ یہ بھی جان نکالنے والے فرشتوں کی پوری جمعیت کے سردار ہیں کیونکہ کسی شخص کی جان نکالنے کے لیے ایک نہیں بلکہ کئی فرشتے آتے ہیں۔ ان میں ایک سردار اسرافیل ہیں جو قیامت کو ہونے والے واقعات اور نفخہ صور اول اور نفخہ صور ثانی اور بعض کے نزدیک نفخہ صور ثالث پر مامور ہیں۔ ان سب فرشتوں کو ملاء اعلیٰ بھی کہتے ہیں۔ پھر ان کے بعد سات آسمانوں کے اندر لاتعداد فرشتوں کی جمعیت موجود ہے جو آسمانوں یا کائنات یا اجرام فلکی کے انتظام و انصرام پر مامور ہیں۔ جب اللہ کی طرف سے کوئی حکم نازل ہوتا ہے تو ان میں ایک کھلبلی سی مچ جاتی ہے اور گھبراہٹ اور ہیبت طاری ہوجاتی ہے اور وہ گھبراہٹ اس وقت دور ہوتی ہے۔ جب اللہ کا حکم متعلقہ آسمان تک پہنچ جاتا ہے اور نیچے والے فرشتے اوپر والوں سے پوچھتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے کون سا حکم نازل ہوا تھا ؟ انہیں جواب دیا جاتا ہے کہ حکم جو بھی ہے ٹھوس حقائق پر مبنی ہے اور پھر وہ اس کی بجا آوری پر مستعد ہوجاتے ہیں۔ پھر کچھ ایسے فرشتے ہیں جو ہر وقت اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تہلیل اور تقدیس میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کے بعد وہ فرشتے ہیں جو آسمان دنیا کے نیچے اور ہماری زمین کے قریب رہتے ہیں۔ ان میں وہ فرشتے بھی شامل ہیں جو ہر انسان کی حفاظت کے لیے اللہ نے مامور کئے ہیں۔ وہ بھی ہیں جو انسانوں کے اعمال نامے لکھنے والے ہیں۔ وہ بھی ہیں جو اللہ کے بندوں کی بروقت مدد کو پہنچتے ہیں، وہ بھی ہیں جو اللہ کی راہ میں چلنے والوں مثلاً جہاد یا طلب علم کی خاطر سفر کرنے کے راستہ میں اپنے پر بچھاتے ہیں۔ ایسے فرشتوں کو ملائک ارضیہ بھی کہا جاتا ہے پھر کچھ فرشتے جنت کو سجانے اور اس کے انتظام و انصرام میں مصروف ہیں اور کچھ جہنم پر مامور ہیں۔ ان کی تعداد انیس ہے یعنی جہنم میں انیس قسم کے عذاب ہوں گے۔ جن کا انتظام ایک ایک فرشتہ کے سپرد ہے۔ ان انیس فرشتوں کے سردار کا نام مالک ہے اور اس جہنم کے عذاب پر پورے عملے یا محکمے کا نام زبانیہ ہے۔ صفات کے لحاظ سے فرشتوں کی اقسام :۔ صفات کے لحاظ سے بھی فرشتوں کی کئی اقسام ہیں۔ کچھ فرشتے دو پروں والے ہیں کچھ تین والے، کچھ چار والے۔ حتیٰ کہ جبریل امین کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اصلی شکل میں دیکھا تو ان کے چھ سو پر تھے، اور یہ تو ہم بتا چکے ہیں کہ فرشتوں کی پیدائش نور سے ہوئی ہے جو نہایت لطیف چیز ہے۔ سب سے لطیف تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ پھر حاملین عرش اور گھیرا ڈالنے والے اور مقربین فرشتے ہیں۔ پھر ان کے بعد آسمانوں کے فرشتے، پھر ان کے بعد ملکوت ارضیہ کی باری آتی ہے۔ گویا نور اور اس کی لطافت کے بھی کئی درجے ہیں۔ ملکوت ارضیہ نسبتاً کم لطیف ہوتے ہیں۔ تاہم ان سب فرشتوں میں چند صفات مشترک پائی جاتی ہیں۔ مثلاً سب فرشتوں کی تخلیق نور سے ہوئی ہے۔ سب فرشتے اللہ کے فرمانبردار اور عبادت گزار ہیں اور ان کی یہ عبادت اضطراری ہے اختیاری نہیں۔ یعنی وہ اللہ کی نافرمانی کر ہی نہیں سکتے کیونکہ ان میں شر کا مادہ موجود ہی نہیں ہے۔ نیز یہ سب فرشتے غیر مرئی ہیں انسانوں کو نظر نہیں آ سکتے اور یہ سب فرشتے اپنی شکلیں بدل سکتے اور ہر مقام پر پہنچ سکتے ہیں۔ جنوں کی اقسام اور صفات :۔ جنوں کا قصہ یہ ہے کہ ان کی پیدائش نور کے بجائے ناریا آگ سے ہوئی ہے۔ جو نور سے بہرحال کم تر لطیف چیز ہے۔ پھر لطافت اور صفات کے لحاظ سے ان کی بھی کئی اقسام ہیں۔ کچھ ایسے جن ہیں جو آدمیوں کی بستیوں میں رہتے ہیں۔ انہیں عامر کہتے ہیں۔ انہیں میں سے ایک قسم ہے جو ہر انسان کے ساتھ لگی رہتی اور اسے برے کاموں پر اکساتی اور وسوسے ڈالتی رہتی ہے۔ اسے ہماری زبان میں ہمزاد کہتے ہیں۔ اس قسم کو شیطان کہتے ہیں۔ جس کے متعلق نبی نے فرمایا ہے کہ شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔ پھر کچھ ایسے جن ہیں جو لڑکوں بالوں کو ستاتے ہیں۔ ان کو اہل عرب ارواح کہتے ہیں اور ہم بھوت پریت یا آسیب کہتے ہیں اور جو جنگل میں آواز دیتے اور چیختے چلاتے ہیں ان کو ہاتف کہتے ہیں اور جو مسافروں کو بھولی ہوئی راہ بتا دیتے ہیں ان کو رجال الغیب کہتے ہیں اور کبھی جنگل میں مشعل سی دکھائی دیتی ہے ان کو شہابہ کہتے ہیں۔ جن بھی انسان کی طرح مکلف مخلوق ہے یعنی ان کی فطرت میں خیر و شر دونوں چیزیں موجود ہیں۔ ان میں کچھ جن صالح اور ایماندار ہیں اور اکثر شریر اور بدکردار ہیں۔ ان کو شیطان کہتے ہیں اور جو بہت زیادہ سرکش ہوں ان کو مارد کہتے ہیں اور جسامت کے لحاظ سے جو بہت عظیم الجثہ اور طاقتور ہوں انہیں عفریت کہتے ہیں۔ جنوں میں لطیف تر وہ جن ہیں جن کی رسائی آسمانی دنیا تک بھی ہو سکتی ہے اور کثیف وہ ہیں جو زمین پر ہی رہتے ہیں۔ بعض لوگوں کے خیال کے مطابق ابلیس ایک صالح اور عبادت گزار جن تھا جو ملائکہ ارضیہ کے ساتھ گھلا ملا رہتا تھا۔ جب فرشتوں کو سجدہ کا حکم دیا گیا تو آدم علیہ السلام سے رقابت کی بنا پر اس کے شر کی رگ بھڑک اٹھی تھی۔ اس کی انا نے گوارا نہ کیا۔ کہ ایک ارضی مخلوق کی برتری تسلیم کرے، اور یہی انا اور تکبر اسے لے ڈوبا، اور چونکہ جنوں میں بھی توالدو تناسل کا سلسلہ جاری ہے۔ لہٰذا ابلیس کی اور پھر اس کی اولاد کی پہلے دن سے آدم علیہ السلام اور اس کی اولاد سے ٹھن گئی، اور چونکہ اس سجدہ آدم کے مقابلہ میں ابلیس نے ایک صالح جن کا کردار ادا نہیں کیا تھا بلکہ شیطان جن کا کیا تھا۔ لہٰذا قرآن میں ابلیس کو ہی کئی مقامات پر شیطان کہا گیا ہے۔ فرشتوں کے وجود کے منکرین اور ان کی تاویلات :۔ فرشتوں اور ابلیس کے متعلق ہمیں یہ لمبی چوڑی تفصیل اس لیے دینا پڑی کہ یہ قصہ آدم و ابلیس کے اہم کردار ہیں۔ نیز اس لیے بھی فرشتوں کے وجود پر ایمان لانا ازروئے قرآن نہایت ضروری اور ایمان بالغیب کا ایک حصہ ہے۔ لیکن ان تمام تر قرآنی تصریحات کے علی الرغم مسلمانوں میں سے ہی کچھ لوگ فرشتوں کے خارجی وجود اور ذاتی تشخص کے قائل نہیں۔ ہمارے ملک میں اس طبقہ کے سرخیل سر سید احمد خان ہیں۔ جن کا کچھ ذکر سورۃ فاتحہ کے آخر حاشیہ میں گزر چکا ہے۔ سرسید کی مغربی افکار سے مرعوبیت :۔ وہ مغربی افکار و نظریات سے سخت مرعوب تھے۔ انہوں نے معجزات اور خرق عادت امور کا ہی انکار نہیں کیا بلکہ فرشتوں اور جنوں کے بارے میں بھی کئی قسم کی تاویلات کر کے ان کا انکار کردیا اور جب علماء کی طرف سے شدید گرفت ہوئی تو اپنی ایک تقریر میں فرمایا کہ ’’صاحبو! میرا عقیدہ بھی وہی ہے جو سلف کا ہے۔ مگر اس وقت اسلام پر علوم جدیدہ سے وہ مصیبت برپا ہے جو بنی عباس کے دور میں یونانی فلسفہ سے برپا تھی۔ جس طرح اس وقت کے علماء نے ان کے جواب دینے کے لیے علم کلام بنایا۔ میں نے ان اعتراضات کے رفع کرنے کے لیے کلام جدید کی بنیاد ڈالی اور موجودہ دور کی مصیبت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ کیونکہ پہلے تو علماء حجروں میں بیٹھ کر خیالی دلائل بنا کر ہی رفع کردیتے تھے اور اب تو مخالفین دور بینوں وغیرہ آلات کے ذریعہ سے مشاہدہ کرا دیتے ہیں۔'' آپ کے اس اقتباس سے واضح طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ مغربی افکار سے کس قدر مرعوب تھے نیز یہ کہ آپ نے اسلام کا حلیہ بگاڑنے کی جو ٹھان رکھی تھی اس کے اصل محرکات کیا تھے؟ پھر آپ کی دلیل پر بھی غور فرمائیے دوربینوں سے صرف محسوسات اور مادی اشیاء کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے جبکہ فرشتے اور جن دونوں محسوسات کے دائرہ سے خارج ہیں۔ بلکہ بلا خوف و تردید ہم دعویٰ سے کہہ سکتے ہیں کہ اسلام نے کوئی بھی ایسا نظریہ پیش نہیں کیا جس کا سائنسی آلات یا علوم جدیدہ سے ابطال کیا جا سکے۔‘‘ بہرحال آپ نے فرشتوں اور جنوں سے متعلق جو انہونی تاویلات پیش فرمائیں ان کی تفصیل کا یہ موقعہ نہیں اور میں یہ تاویلات تفصیل کے ساتھ اپنی تصنیف آئینہ پرویزیت میں پیش کرچکا ہوں۔ البتہ فرشتوں سے متعلق ان تاویلات کا جائزہ لینا چاہتا ہوں جو ان کے ہونہار جانشین پرویز صاحب نے اپنی تصنیف قصہ آدم و ابلیس میں پیش کی ہیں پرویز صاحب مختلف مقامات پر فرشتوں سے مختلف تاویلات یا مرادیں پیش فرما دیتے ہیں جو کچھ اس طرح ہیں : ملائکہ سے مرادخارجی قوائے فطرت : ١۔ ملائکہ سے مراد و مفہوم وہ قوتیں ہیں جو کائنات کی عظیم القدر مشینری کو چلانے کے لیے مامور ہیں یعنی قوائے فطرت اس لیے قانون خداوندی کی زنجیر کے ساتھ جکڑی ہوئی ہیں کہ ان سے انسان کام لے سکے۔ اسی لیے قصہ آدم میں کہا گیا ہے کہ ملائکہ نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کردیا۔ مطلب یہ کہ فطرت کی قوتیں انسان کے تابع فرمان بنا دی گئی ہیں۔ (ابلیس و آدم ١٤٤) اب سوال یہ ہے کہ اگر ملائکہ سے مراد فطرت کی قوتیں لیا جائے تو یہ فطرت کی قوتیں ہرگز انسان کے تابع فرمان نہیں ہیں۔ طوفان بادو باراں سے سینکڑوں انسان مر جاتے ہیں۔ مکانات منہدم ہوجاتے ہیں۔ چھتیں اڑ جاتی ہیں۔ آفات ارضی و سماوی سے تیار شدہ فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ کیا انسان کا ان فطرت کی قوتوں پر اس وقت کوئی بس چلتا ہے؟ پھر انسان ایسے ''ملائکہ'' کا مسجود کیسے ہوا ؟ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ ان کائنات کی قوتوں کا تو کوئی دہریہ بھی منکر نہیں ہوتا۔ پھر ایسے ''ملائکہ'' پر ایمان بالغیب لانے کا کیا مطلب ہوا ؟ قرآن پاک میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے عرش کو آٹھ فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے (٦٩: ١٧) اب اس کی تشریح پرویز صاحب کی زبان سے سنئے : ٢۔ حاملین عرش ملائکۃ کی وضاحت :۔ ”عرش وہ مرکز حکومت خداوندی ہے۔ جہاں کائنات کی تدبیر امور ہوتی ہے اور چونکہ یہ تدبیر امور ملائکہ کی وساطت سے سر انجام پاتی ہے۔ اس لیے ملائکہ، عرش الٰہی کے اٹھانے والے اور کمر بستہ اس کے گرد گھومنے والے ہیں۔'' (ایضاً ص ١٤٧) اب دیکھئے اس تشریح میں پرویز صاحب نے قرآن کریم کے دو مختلف مقامات کی آیات کو گڈ مڈ کر کے پیش کردیا ہے۔ آٹھ فرشتوں کے عرش الٰہی کو اٹھانے کا ذکر سورۃ الحاقہ (٦٩) کی ساتویں آیت میں ہے اور گھومنے والے فرشتوں کا ذکر سورۃ زمر (٣٩) کی آخری آیت نمبر ٧٥ میں ہے اور یہ گھومنے والے حافین کا ترجمہ کیا گیا ہے، جو ویسے بھی غلط ہے اس کا صحیح ترجمہ گھیرا ڈالے ہوئے ہے نہ کہ گھومنے والے۔ علاوہ ازیں گھیرا ڈالنا یا گھومنا الگ عمل ہے اور عرش کو اٹھانا الگ عمل ہے، جو عرش کو اٹھائے ہوں وہ گھوم نہیں سکتے اور جو گھوم رہے ہوں گے وہ اٹھانے والے نہیں ہوں گے، جو کچھ بھی ہو ان دونوں آیات سے فرشتوں کا خارجی وجود اور ذاتی تشخص دونوں باتیں ثابت ہو رہی ہیں جو آپ کے پہلے نظریہ ”قوائے فطرت “ کے برعکس ہیں۔ ٣۔ ”لہٰذا یہ ملائکہ ہماری اپنی داخلی قوتیں ہیں۔ یعنی ہمارے اعمال کے اثرات جو ہماری ذات پر مرتب ہوتے رہتے ہیں اور جب انسانی اعمال کے نتائج محسوس شکل میں سامنے آتے ہیں قرآن اسے قیامت سے تعبیر کرتا ہے۔ (ایضا ص ١٦٢) ملائکہ سے مراد داخلی قوتیں :۔ اب دیکھئے اس مختصر سے اقتباس میں پرویز صاحب نے بہت سے پیچیدہ مسائل کو حل فرما دیا۔ مثلاً : ١۔ ہماری داخلی قوتیں، قوت باصرہ، لامسہ، ذائقہ، سامعہ، دافعہ، حافظہ وغیرہ یا کچھ بھی ہیں۔ اگر یہی قوتیں ملائکہ ہیں تو پھر ان پر ایمان بالغیب لانے کا قرآنی مطالبہ ہی غلط قرار پاتا ہے۔ اس لئے کہ ان داخلی قوتوں کو تو کافر اور دہریئے بھی تسلیم کرتے ہیں۔ ٢۔ آپ کی پہلی تعریف کے مطابق ملائکہ سے مراد خارجی قوتیں تھا۔ اب اس تعریف کے لحاظ سے ملائکہ سے مراد انسان کی داخلی قوتیں بن گیا۔ ٣۔ اب ان داخلی قوتوں سے بھی مراد یہ ہے کہ ’’ہمارے اعمال کے اثرات جو ہماری ذات پر مرتب ہوتے رہتے ہیں۔ گویا ملائکہ کی تیسری تعریف ‘‘ہماری ذات پر مرتب ہونے والے اثرات ہیں۔ ٤۔ قیامت کا مفہوم آپ نے یہ بتایا کہ جب انسانی اعمال کے نتائج محسوس شکل میں سامنے آ جائیں تو قرآن اسے قیامت سے تعبیر کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک کسان اگر بیج بوتا ہے تو جب اس سے کونپل نکل آئے یا زیادہ سے زیادہ فصل پک کر تیار ہوجائے اور اس کے عمل کا نتیجہ محسوس شکل میں سامنے آ گیا تو گویا قرآن کی رو سے اس کی قیامت آ گئی۔ اس تصریح سے آپ کے قیامت پر ایمان لانے کے تصور پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ ’’ان مقامات سے ظاہر ہے کہ جو طبعی تغیرات انسان کے جسم میں رونما ہوتے ہیں اور جن کا آخری نتیجہ انسان کی طبعی موت ہوتی ہے۔ انہیں بھی ملائکہ کی قوتوں سے تعبیر کیا گیا ہے۔‘‘ (ایضاً ص ١٥٩) ملائکہ سے مراد طبعی تغیرات :۔ اب دیکھئے یہ طبعی تغیرات دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جو کسی عمل کے نتیجہ کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ مثلاً پانی پینے سے پیاس بجھ جاتی ہے۔ کھانا کھانے سے بھوک مٹ جاتی ہے۔ سیر اور ورزش سے جسم مضبوط اور صحت بحال رہتی ہے۔ دوسرے طبعی تغیرات وہ جن میں انسان کے عمل کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔ جیسے اس کا بچہ سے جوان ہونا، پھر بوڑھا ہونا، پھر مر جانا۔ یہ سب امور ایسے ہیں جن کا ایمان بالغیب سے کوئی تعلق نہیں، کیونکہ طبعی ہیں، اور واقع ہو کر رہیں گے پھر ان طبعی تغیرات کو ملائکہ سے تعبیر کرنا کیسے درست ہوسکتا ہے۔ ان طبعی تغیرات کو تو دہریے بھی تسلیم کرتے ہیں۔ پھر ایسے ملائکہ پر ایمان بالغیب لانے کا کیا مطلب؟ ٤۔ ان مقامات (یعنی بدر کے موقعہ پر تین ہزار ملائکہ کا نزول یا ایسی ہی دوسری آیات) پر غور کیجئے۔'' ملائکہ کی مدد'' کے متعلق بتایا گیا ہے کہ اس سے جماعت مومنین کے دلوں کو تسکین ملی تھی اور ان کے عزائم پختہ ہوگئے تھے۔ دوسری طرف دشمنوں کے دل خوف زدہ ہوگئے تھے اور ان کے حوصلے چھوٹ گئے۔ اس سے ظاہر ہے کہ ان مقامات میں ملائکہ سے مراد وہ نفسیاتی محرکات ہیں جو انسانی قلوب میں اثرات مرتب کرتے ہیں۔ (ایضاً ص ١٥٥) ملائکہ سے مراد نفسیاتی محرکات :۔ اب دیکھئے اس اقتباس میں بھی پرویز صاحب نفسیاتی محرکات کو داخلی قسم کی کوئی شے قرار دے کر فریب دینے کی کوشش فرما رہے ہیں۔ جب معاملہ داخلی قسم کا ہو تو اللہ تعالیٰ اسے اسی انداز میں پیش فرماتے ہیں۔ جیسے مومنوں کے لیے فرمایا آیت ﴿فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہُ عَلَیْہِ﴾(۴۰:۹) اور کافروں کے لیے فرمایا: ﴿وَقَذَفَ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الرُّعْبَ﴾(۲:۵۹) لیکن یہ میدان بدر کا معاملہ داخلی قسم کا نہیں ہے۔ بلکہ یہ خارجی امداد یا محرکات تھے۔ جیسے اگر ایک انسان دوسرے کو گالی دے تو وہ سیخ پا ہوجاتا ہے یا کوئی دوسرے کا خوف رفع کر دے تو وہ مطمئن بھی ہوجاتا ہے اور اس مصیبت کو رفع کرنے کا مشکور بھی ہوتا ہے۔ یہی صورت حال بدر میں پیش آئی تھی۔ اب اگر اس سے وہی مطلب لیا جائے جو پرویز صاحب فرما رہے ہیں۔ تو تین سو تیرہ مجاہدین کے لیے پانچ ہزار ملائکہ کی مدد کی کیا صورت بن سکتی ہے؟ ”اگر ایک طرف ملائکہ ایمان و استقامت کی بنا پر اللہ کی رحمتوں کی نور افشانی کرتے ہیں تو دوسری طرف کفر و سرکشی کے لیے عذاب خداوندی کے حامل بھی ہوتے ہیں ”عذاب خداوندی“سے مفہوم یہ ہے۔ غلط قوموں کی پرورش کے تباہ کن نتائج۔ لہٰذا اس باب میں ملائکہ سے مراد وہ قوتیں ہیں جو قانون خداوندی کے مطابق انسانی اعمال کے نتائج مرتب کرنے کے لیے سرگرم عمل رہتی ہیں۔‘‘ (ایضاً ١٥٨) رحمت اور عذاب کے فرشتے : اب دیکھئے لوط علیہ السلام کے پاس فرشتے آئے اور لوط علیہ السلام کو بستی سے نکل جانے کو کہا۔ جب وہ نکل گئے تو ان فرشتوں نے قوم لوط کی بستی کو لواطت کے جرم میں الٹ مارا۔ اب اگر محض قوانین خداوندی اور علت و معلول کا سہارا لیا جائے تو ہر لوطی قوم کا یہی انجام ہونا ضروری ہے کیونکہ قوانین خداوندی میں تغیر و تبدل نہیں ہوتا۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ انگلستان میں یہی عمل قوم لوط موجود ہے اور اسے قانونی جواز کی سند بھی حاصل ہے۔ اب قوانین خداوندی کے مطابق ان قوتوں (ملائکہ) کو یقینا ًان کے اعمال کا نتیجہ وہی مرتب کرنا چاہیے تھا جیسا کہ قوم لوط کے اعمال کا مرتب ہوا۔ مگر ایسا نہیں ہو رہا۔ جس کا واضح نتیجہ یہ ہے کہ اعمال کو مرتب کرنے والی ہستی کوئی باشعور ہستی ہے جو اپنی مشیئت کے مطابق ہی نتائج مرتب کرتی ہے جو اپنے ہی بنائے قوانین کی پابند نہیں ہے اور نہ ہی ملائکہ بے جان و بے شعور قوتیں ہیں جو لگے بندھے نتائج مرتب کریں۔ وہ فرشتے جاندار اور باشعور ہستیاں ہیں اور قانون خداوندی کی نہیں بلکہ خداوند کے حکم کی اطاعت کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہی فرشتے جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا لوط علیہ السلام کے پاس آتے ہیں تو رحمت کے فرشتے ہوتے ہیں اور وہی فرشتے قوم لوط کے لیے عذاب کے فرشتے بن جاتے ہیں۔ ’’دو، تین چار پروں سے اپنی قوت کے اعتبار سے ملائکہ کے مختلف مدارج و طبقات کا ذکر مقصود ہے۔‘‘ (ایضاً ١٦٧) دو دو، تین تین،چار چار پروں والے فرشتے اور ان کی قوت اور مدارج :۔ گویا پرویز صاحب کے نزدیک جیسے کوئی بجلی کی موٹر ٢ ہارس پاور کی ہوتی ہے۔ کوئی تین ہارس پاور کی اور کوئی چار کی۔ یہی صورت حال فرشتوں کی بھی ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ قوت اور مدارج یہ دونوں عربی زبان کے لفظ ہیں اور قرآن میں انہی معروف معانی میں استعمال بھی ہوتے ہیں۔ پھر آخر فرشتوں کے لیے قوت اور درجہ کی بجائے اجنحہ (بازو، پر) کے لفظ استعمال کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ علاوہ ازیں چڑیا کے بھی دو پر ہوتے ہیں اور چیل کے بھی۔ لیکن ان دونوں کے دو دو پر ہونے کے باوجود قوت میں بڑا فرق ہے۔ اور مختلف مدارج کا معاملہ تو پرویز صاحب ہی بہتر جانتے ہیں۔ ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں کہ ہر انسان کے دو دو ہی بازو ہوتے ہیں۔ لیکن ان میں سے ہر ایک کی قوت میں فرق ہوتا ہے اور مدارج میں بھی۔ مدارج کا انحصار بازوؤں پر نہیں بلکہ تقویٰ پر ہوتا ہے۔ سو یہ ہے فرشتوں پر ایمان بالغیب، اصل مسئلہ یہ تھا کہ آیا فرشتے کوئی الگ مخلوق ہیں یا نہیں اور ان کا کوئی خارجی تشخص ہے یا نہیں؟ چونکہ یہ مسئلہ مافوق العادت (Super Natural) ہے اس لیے آپ کو ہر مقام پر تاویلات کرنا پڑیں، پرویز نے جتنی بھی ملائکہ کی تعبیریں پیش کی ہیں۔ یہ سب انسانوں حتیٰ کہ کافروں اور دہریوں میں بھی مسلم ہیں۔ لہٰذا ان کا نہ ایمان بالغیب سے کوئی تعلق ہے اور نہ قرآن کے واضح ارشادات ہیں۔ [٥٤] شیطان کی آدم کو فریب دہی :۔ مندرجہ بیان سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ شیطان (ابلیس) نے جو آدم علیہ السلام کا پہلے دن سے ہی رقیب اور دشمن بن گیا تھا۔ آدم کو گمراہ کرنے اور اللہ کی نافرمانی پر آمادہ کرنے کے لیے کیا کچھ نہ کیا ہوگا شیطان وسوسے ڈالتا رہا اور سیدنا آدم علیہ السلام بچتے ہی رہے۔ آخر ایک مدت گزرنے کے بعد شیطان نے آدم علیہ السلام کو کئی طرح کے سبز باغ دکھا کر اسے اپنے دامن تزویر میں پھانس ہی لیا۔ اس لیے آدم علیہ السلام سے کہا : ’’اللہ کی قسم! میں تمہارا خیر خواہ ہوں اور جس درخت سے تم بچ رہے ہو اسے کھاؤ گے تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت میں رہو گے اور اللہ کے مقرب بن جاؤ گے۔‘‘ سیدنا آدم علیہ السلام اس کے فریب میں آ گئے، درخت کے پھل کو کھایا تو فوراً جنتی لباس چھن گیا اور جنت کے پتوں سے اپنے بدن کو ڈھانپنے لگے اور فوراً انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ ضمناً یہ بحث بھی نکلی کہ انبیاء سے خطا سرزد ہو سکتی ہے یا نہیں؟ اس ضمن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ : ﴿فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا ﴾(۱۱۵:۲۰)آدم علیہ السلام (مدت مدید گزرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے عہد کو) بھول گئے تھے اور ہم نے اس میں (نافرمانی کا) ارادہ نہیں پایا۔ گویا معلوم ہوا کہ انبیاء سے بھول چوک لغزش یا نافرمانی ہو سکتی ہے۔ عمداً نہیں اور عصمت انبیاء کا مطلب صرف یہ ہے کہ اگر انبیاء سے کوئی غلطی یا خطا سرزد ہو تو وہ معاف کردی جاتی ہے اور اگر کوئی قابل تلافی معاملہ ہو تو بذریعہ وحی اس کی تلافی بھی کردی جاتی ہے۔ [٥٥] یعنی شیطان کے روز اول سے انسان کا دشمن ہونے کی وجہ تو واضح طور پر بیان ہوچکی ہے لہٰذا انسان اگر شیطان کو فی الواقع دشمن سمجھے گا تو تب ہی اس کی نجات کی توقع ہو سکتی ہے اور بغض و عداوت کا مقام دنیا تو ہوسکتا ہے۔ جنت نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا سب کو جنت سے نکالا اور دنیا میں چلے جانے کا حکم دے دیا گیا۔ البقرة
37 [٥٦] وہ کلمات یہ تھے آیت ﴿ قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرحمٰنا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ﴾(۲۳:۷)آدم و حوا دونوں کہنے لگے : ’’اے ہمارے پروردگار! ہم اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے ہیں اور اگر تو ہمیں معاف نہیں کرے گا اور ہم پر رحم نہیں فرمائے گا تو ہم تو خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔‘‘ ان کلمات کا ذکر اللہ تعالیٰ نے خود ہی سورۃ اعراف کی آیت نمبر ٢٣ میں کردیا ہے۔ اس کے باوجود بعض واعظ حضرات اس آیت کی تشریح میں ایک موضوع حدیث بیان کیا کرتے ہیں یہ حدیث مرفوع بنا کر پیش کی جاتی ہے۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ : جب سیدنا آدم علیہ السلام جنت سے نکال کر دنیا میں بھیجے گئے تو ہر وقت روتے اور استغفار کرتے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ آسمان کی طرف دیکھا اور عرض کی : ’’اے باری تعالیٰ ! سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے مغفرت چاہتا ہوں۔ وحی نازل ہوئی کہ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کیسے جانتے ہو؟ عرض کیا۔ جب آپ نے مجھے پیدا کیا تھا تو میں نے عرش پر لکھا ہوا دیکھا تھا لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ تو میں سمجھ گیا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اونچی کوئی ہستی نہیں ہے۔ جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ لکھ رکھا ہے۔‘‘ وحی نازل ہوئی کہ وہ خاتم النبیین ہیں۔ تمہاری اولاد میں سے ہیں۔ وہ نہ ہوتے تو تم بھی پیدا نہ کیے جاتے۔ (ریاض السالکین ٣٠٢) اب دیکھئے اس میں مندرجہ بالا باتیں قابل غور ہیں : سیدنا آدم علیہ السلام کا وسیلہ پکڑنا :۔ ١۔ اس حدیث میں یہ ذکر کہیں نہیں آیا کہ پھر سیدنا آدم علیہ السلام کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے توبہ قبول ہوئی بھی یا نہیں؟ الٹا اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر سیدنا آدم علیہ السلام کو اور بھی مایوس کردیا کہ اگر وہ نہ ہوتے تو تم بھی نہ ہوتے، کسی سائل کو اگر ایسا جواب دیا جائے تو بتائیے اس کے دل پر کیا بیتتی ہے؟ موضوع حدیث کی عجمی ترکیب :۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے اس جواب کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کے نام پر ایک موضوع حدیث گھڑی گئی یعنی یہ حدیث قدسی ہے اور اس کا متن یوں ہے : عن ابن عباس یقول اللّٰہ وبعزتی و جلالی لو لاک ماخلقت الدنیا ترجمہ :”ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم نہ ہوتے تو میں اس دنیا کو پیدا ہی نہ کرتا“ (ریاض السالکین ص ٢٤٤) اس قدسی موضوع حدیث کا مفہوم ایک دوسری روایت میں ان الفاظ میں ہے۔ لَولاَکَ لَمَا خَلَقْتُ الاَفْلاَ کَ ترجمہ : ”اگر تم نہ ہوتے تو میں کائنات کی کوئی بھی چیز پیدا نہ کرتا۔“(ریاض السالکین ص ١٠١) ان حدیثوں کو ابن الجوزی نے موضوع قرار دیا ہے۔ دیکھئے موضوعات ابن الجوزی جلد ١ ص ٢٨٩ نیز ان احادیث کے موضوع ہونے پر ایک دلیل یہ بھی ہے کہ لولاک کی ترکیب عربی نہیں بلکہ عجمی ہے۔ عربی قواعد کے مطابق لو لا انت آنا چاہئے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین غزوہ خندق کے دوران خندق کی مٹی ڈھوتے وقت یہ شعر گنگنا رہے تھے : اللھُمَّ لَوْ لاَ اَنْتَ مَا اھْتَدَیْتَنَا (بخاری، کتاب المغازی، باب غزوہ خندق) گویا لولاک کی ترکیب ہی غلط ہے، جو اس کے موضوع ہونے پر دلیل ہے۔ ان موضوعات کا مقصد صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کی عظمت یا قدامت بیان کرنا نہیں بلکہ کچھ اور بھی مقاصد ہیں جو ان حضرات کے نزدیک بہت اہم ہیں مثلاً : ١۔ اللہ سے خواہ کتنے ہی برس رو رو کر مغفرت طلب کی جائے وہ اس وقت تک قبول نہیں ہوتی جب تک کسی کا وسیلہ نہ پکڑا جائے اور (٢) یہ وسیلہ اپنے نیک اعمال کا نہیں کسی بزرگ ہستی کا ہی ہوسکتا ہے۔ خواہ وہ ابھی تک وجود میں نہ آئی ہو یا خواہ اس دنیا میں موجود ہو یا اس دنیا سے رخصت ہوچکی ہو۔ کاش سیدنا آدم علیہ السلام کو اتنی مدت رونے سے پہلے ہی یہ باتیں معلوم ہوجاتیں۔ شیعہ حضرات نے جب موضوعات کا وسیع میدان دیکھا تو وہ ان حضرات سے بھی چار ہاتھ آگے نکل گئے۔ ان کی قدسی حدیث کا متن یوں ہے لو لاعلی ماخلقتک یعنی اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا : اگر علی نہ ہوتے تو میں تمہیں بھی پیدا نہ کرتا۔“ البقرة
38 [٥٧] کیا نیکی اور بدی کے نتائج لازمی ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔ گناہ معاف کردیا۔ مگر جنت سے اخراج کا حکم بحال رہنے دیا، بلکہ اسے مکرر بیان فرمایا کیونکہ آدم علیہ السلام کو جنت میں رہنے کے لیے نہیں بلکہ زمین میں خلافت کے لیے پیدا کیا گیا تھا اور یہی کچھ اقتضائے مشیت الٰہی تھا۔ اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نیکی اور بدی کے نتائج لازمی نہیں جو بہرحال انسان کو بھگتنا پڑیں یہ ایک گمراہ کن نظریہ ہے۔ نیکی کی جزا اور بدی کی سزا دینا کلیتاً اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے، بھلائی پر انعام بھلائی کا طبیعی نتیجہ نہیں بلکہ اللہ کا فضل ہے۔ وہ چاہے تو دے چاہے تو نہ دے اور چاہے تو کئی گنا زیادہ دے دے۔ اسی طرح وہ چاہے تو کسی کا گناہ معاف کر دے، اور چاہے تو سزا دے دے۔ وہ حکیم بھی ہے اور عادل بھی۔ لہٰذا ان صفات کے مطابق وہ سب کچھ کرنے کا پورا اختیار رکھتا ہے۔ کفارہ مسیح کا عقیدہ :۔ اللہ تعالیٰ کا سیدنا آدم علیہ السلام کی توبہ قبول کرنے سے نصاریٰ کے اس غلط عقیدہ کی بھی تردید ہوجاتی ہے کہ آدم علیہ السلام کے اس گناہ کے داغ کو بنی نوع انسان کے دامن سے دور کرنے کے لیے خدا کو اپنا اکلوتا بیٹا بھیج کر کفارہ ادا کرنے کے لیے سولی پر چڑھانا پڑا۔ البقرة
39 [٥٨] جنت میں دوبارہ داخلہ : ساتھ ہی یہ بھی وضاحت فرمائی کہ بنی نوع انسان کے لئے میری طرف سے ہدایت (وحی) آتی رہے گی اور جو لوگ اس کے مطابق عمل کریں گے۔ انہیں کچھ غم و اندوہ نہ ہوگا اور وہ اس جنت کے وارث ہوں گے، جہاں سے آدم و غیرہم کو نکالا گیا تھا۔ البتہ جو لوگ ہماری وحی کا انکار کریں گے اور شیطان سے دوستی رکھیں گے تو وہ دائمی طور پر دوزخ میں ڈالے جائیں گے۔ البقرة
40 [٥٩] بنی اسرائیل سے خطاب کا آغاز :۔ یہاں سے خطاب کا رخ عوام الناس کے بجائے بنی اسرائیل کی طرف ہوگیا ہے جو چودھویں رکوع تک چلتا ہے۔ یہود مدینہ میں بکثرت آباد تھے۔ چونکہ سیدنا اسحاق علیہ السلام سے لے کر ان میں تقریباً چار ہزار نبی آچکے تھے۔ اس لیے تمام عرب پر ان کے علم و فضل کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ ان پر اللہ تعالیٰ نے بے شمار انعامات کئے تھے۔ مگر کچھ مدت گزرنے پر ان میں بہت سے عیوب پیدا ہوگئے تھے اپنے اس علمی تفوق کی بنا پر اور اس حسد کی بنا پر کہ آنے والا نبی اسحاق علیہ السلام کی اولاد سے نہیں، انہوں نے دعوت اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا۔ چنانچہ اگلی آیات میں ان کا مفصل ذکر آ رہا ہے۔ اسرائیل کا معنی عبداللہ ہے اور یہ یعقوب علیہ السلام کا لقب تھا اور بنو اسرائیل سے مراد ان کی اولاد یا یہودی قوم ہے۔ جن کے لیے تورات نازل ہوئی۔ [٦٠] بنی اسرائیل کا کتاب اللہ سے سلوک وہ عہد یہ تھا کہ تم تورات کے احکام کے پابند رہو گے اور میں جو پیغمبر بھیجوں اس پر ایمان لا کر اس کا ساتھ دو گے اور اللہ کا عہد یہ تھا کہ ملک شام تمہارے قبضہ میں رہے گا۔ بنی اسرائیل نے اس اقرار کو قبول تو کرلیا مگر بعد میں اس پر قائم نہ رہے، بدنیتی کی، رشوت لے کر غلط مسئلے بتائے، حق کو چھپایا۔ آنے والے نبیوں کی اطاعت کے بجائے ان میں سے بعض کو قتل ہی کر ڈالا اور اپنی ریاست جمائی اور تورات میں جہاں کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توصیف تھی اسے بھی بدل ڈالا۔ البقرة
41 [٦١] عقائد، اخبار انبیاء اور احوال آخرت تمام الہامی کتابوں میں تقریباً ایک ہی جیسے ہیں۔ فرق ہوتا ہے تو صرف بعض احکام میں جو احوال و ظروف کے تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے۔ لہٰذا قرآن جب تورات کی تصدیق کر رہا ہے تو اس کے پہلے منکر تم ہی نہ بن جاؤ۔ امی اہل عرب اور تمہاری اولاد تو تمہاری ہی روش پر چلیں گے۔ اس طرح سب کے گناہ کا حصہ تم پر بھی ہوگا۔ اور حدیث میں ہے کہ : اہل کتاب کے ایمان لانے پر دوہرا اجر :۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تین آدمیوں کے لیے دوہرا ثواب ہے ایک تو وہ اہل کتاب جو اپنے پیغمبر پر ایمان لایا، پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا۔ دوسرے وہ غلام جو اللہ کا بھی حق ادا کرے اور اپنے مالکوں کا بھی، تیسرے وہ شخص جس کے پاس ایک لونڈی ہو جس سے وہ محبت کرتا ہو اسے اچھی طرح ادب سکھائے پھر آزاد کر کے اس سے نکاح کرلے تو اس کے لیے دوہرا اجر ہے۔‘‘ عامر شعبی نے صالح سے کہا ہم نے یہ حدیث تمہیں مفت بتا دی جبکہ لوگ اس سے کم درجہ کی حدیث کے لیے مدینہ جایا کرتے تھے۔ (بخاری، کتاب العلم، باب تعلیم الرجل امتہ واھلہ) البقرة
42 البقرة
43 [٦٢] نماز اور زکوٰۃ، ہر زمانہ میں دین اسلام کے اہم ارکان رہے ہیں۔ لیکن یہود میں نماز باجماعت کا اہتمام نہیں تھا اور ان کی نماز میں رکوع بھی نہیں تھا۔ یہود نے نماز ادا کرنا بالکل چھوڑ ہی دیا تھا اور زکوٰۃ ادا کرنے کے بجائے سود کھانا شروع کردیا تھا۔ اس آیت میں انہیں تنبیہ کی جا رہی ہے۔ کہ اب تمام امور میں نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو۔ اس آیت اور اس سے اگلی تین آیات میں خطاب یہود اور مسلمانوں میں مشترک ہے۔ ہماری شریعت میں بھی نماز باجماعت ادا کرنا بہت فضیلت رکھتا ہے اور بلا عذر ترک جماعت کبیرہ گناہ ہے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے۔ نماز باجماعت کی فضیلت اور فوائد :۔ ١۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جماعت کی نماز اکیلے شخص کی نماز سے ستائیس گنا زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب الاذان، باب فضل صلٰوۃ الجماعۃ) ٢۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں نے ارادہ کیا کہ لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں، پھر نماز کا حکم دوں، اس کے لیے اذان کہی جائے پھر کسی شخص کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو امامت کرائے پھر میں (جماعت سے) پیچھے رہنے والوں کے ہاں جا کر ان کے گھروں کو آگ لگا دوں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اگر ان لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ انہیں (جماعت میں شامل ہونے پر) ایک موٹی ہڈی یا دو اچھے کھر ملیں گے تو عشاء کی نماز میں ضرور آتے۔ (بخاری، کتاب الاذان، باب وجوب صلٰوۃ الجماعۃ) نماز کے فضائل اور اہمیت :۔ ٣۔ سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بھلا دیکھو اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر نہر بہتی ہو اور وہ اس میں ہر روز پانچ مرتبہ نہائے تو کیا اس کے بدن پر کچھ میل کچیل رہ جائے گا ؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا نہیں کچھ میل کچیل باقی نہیں رہے گا۔ آپ نے فرمایا : بس یہی پانچ نمازوں کی مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ ان نمازوں کی وجہ سے گناہ معاف کردیتا ہے۔ (متفق علیہ) ٤۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ہر نماز اپنے سے پہلی نماز تک کے، جمعہ اپنے سے پہلے جمعہ تک کے اور رمضان اپنے سے پہلے رمضان تک کے گناہوں کا کفارہ ہیں۔ بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے پرہیز کیا جائے۔ (مسلم، کتاب الطہارۃ، باب فضل الوضوء والصلٰوۃ عقبہ) ٥۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ''جس نے نماز کی حفاظت کی اس کے لیے نماز قیامت کے دن نور، برہان اور نجات کا باعث ہوگی اور جس نے نماز کی حفاظت نہ کی اس کے لیے اس دن نہ نور ہوگا، نہ برہان اور نہ نجات اور قیامت کے دن وہ قارون، فرعون، ہامان، اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔ (احمد، دارمی، بیہقی، بحوالہ مشکوٰۃ مطبوعہ نور محمد ص ٥٨) ٦۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا : میں نے حد کا ایک گناہ کیا ہے۔ مجھے حد لگائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کچھ نہیں پوچھا۔ اتنے میں نماز کا وقت آ گیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ وہ شخص پھر کھڑا ہو کر کہنے لگا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے ایک حدی گناہ کیا ہے۔ آپ کتاب اللہ کے مطابق مجھے سزا دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تو نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی؟ وہ کہنے لگا : ہاں پڑھی ہے۔ آپ نے فرمایا : ’’تو بس اللہ نے تیرا گناہ اور تیری سزا کو معاف کردیا۔‘‘ (بخاری، کتاب المحاربین باب إذا أقربالحد) البقرة
44 [٦٣] بعض یہودی علماء اپنے عزیزوں کو جو مسلمان ہوگئے تھے۔ کہتے تھے کہ اسی دین (اسلام) پر قائم رہو کیونکہ یہ دین برحق ہے۔ مگر بعض دنیوی مفادات کی بنا پر خود مسلمان نہیں ہوتے تھے۔ تب یہ آیت نازل ہوئی اور یہ حکم سب کے لیے عام ہے۔ البقرة
45 [٦٤] پریشانیوں اور مصائب کا علاج :۔ مصیبت اور پریشانی کی حالت میں صبر اور نماز کو اپنا شعار بنانے کا حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کی یاد میں جس قدر طبیعت مصروف ہو اسی قدر دوسری پریشانیاں خود بخود کم ہوجاتی ہیں۔ بعض لوگوں نے یہاں صبر سے روزہ بھی مراد لیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی پریشانی لاحق ہوتی تو خود بھی نماز میں مشغول ہوتے اور اپنے اہل بیت کو بھی اس کی دعوت دیتے تھے۔ اور صبر کسے کہتے ہیں یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنیے۔ صبر کی تعریف :۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عورت پر گزر ہوا جو ایک قبر کے پاس بیٹھی رو رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا ’’اللہ سے ڈرو اور صبر کرو۔‘‘ وہ کہنے لگی۔ ’’جاؤ اپنا کام کرو تمہیں مجھ جیسی مصیبت تو پیش نہیں آئی۔‘‘ وہ عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانتی نہ تھی۔ اسے لوگوں نے بتایا کہ وہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ چنانچہ وہ آپ کے دروازے پر حاضر ہوئی۔ وہاں کوئی دربان موجود نہ تھا۔ وہ اندر جا کر کہنے لگی۔ ’’میں نے آپ کو پہچانا نہ تھا (میں صبر کرتی ہوں)‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’صبر تو اس وقت کرنا چاہیے جب صدمہ شروع ہو۔‘‘ (بخاری کتاب الجنائز باب زیارۃ القبور) البقرة
46 [٦٥] یعنی جو لوگ مرنے کے بعد اپنے پروردگار سے ملنے اور اس کے حضور جواب دہی کا یقین رکھتے ہیں۔ ان کے لیے نماز کی ادائیگی کبھی مشکل نہیں ہوا کرتی بلکہ اگر کوئی نماز چھوٹ جائے یا نماز میں تاخیر ہوجائے تو ان کی طبیعت گراں بار ہوجاتی ہے اور جب تک وہ نماز ادا نہ کرلیں انہیں چین نہیں آتا اور جو لوگ روز آخرت پر پورا یقین نہیں رکھتے، ان کے لیے نماز ایک مصیبت اور مفت کی بیگار ہوتی ہے۔ البقرة
47 [٦٦] یعنی ایک وہ وقت تھا جب تمام اقوام پر بنی اسرائیل کے علم و فضیلت کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ لیکن اللہ کی اس نعمت کا ان پر الٹا اثر ہوا، بجائے اس کے کہ وہ شکر ادا کرتے اور اس کے حضور سرنگوں ہوتے اور تقویٰ اختیار کرتے وہ ازراہ تکبر یہ سمجھ بیٹھے کہ ہم چونکہ انبیاء کی اولاد ہیں۔ لہٰذا اللہ کے محبوب اور چہیتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں عذاب نہیں ہوگا اور یہ بات ان کے عقیدہ میں راسخ ہوگئی تھی۔ البقرة
48 [٦٧] سفارش پر تکیہ کرنا نری بے وقوفی ہے :۔ ان کے اسی غلط عقیدہ کا اس آیت میں جواب دیا گیا ہے، کہ عذاب سے نجات کی جو چار صورتیں ممکن ہیں ان میں سے کوئی بھی تمہارے کام نہ آسکے گی۔ یعنی کوئی شخص دوسرے کا بوجھ اٹھانے کو تیار نہ ہوگا، نہ کسی کی سفارش کام آئے گی، نہ وہ فدیہ دے کر چھوٹ سکے گا اور نہ ہی اللہ کے مقابلہ میں وہاں اس کا کوئی حامی و مددگار ہوگا۔ لہٰذا خوب سمجھ لو کہ محض انبیاء کی اولاد ہونے کی بنا پر تم کبھی اپنی کرتوتوں کی سزا سے بچ نہ سکو گے۔ یہ درست ہے کہ قیامت کے دن انبیاء اور صلحاء گنہگاروں کے لیے سفارش کریں گے لیکن اس سفارش کی شرائط ایسی ہیں کہ سفارش پر تکیہ کرنا مشکل ہے مثلاً یہ کہ سفارش وہی کرے گا جسے اللہ تعالیٰ اجازت دے گا، اور اتنی ہی کرسکے گا جتنی اللہ تعالیٰ کی مرضی ہوگی، یا صرف اسی گناہ کے لیے سفارش کرسکے گا۔ جس کا اللہ کی طرف سے اذن ہوگا، اور صرف اسی شخص کے حق میں کرسکے گا جس کے حق میں سفارش کرنا منظور ہوگا۔ البقرة
49 [٦٨] فرعون کی بنی اسرائیل کو تعذیب کی وجہ :۔ فرعون نے ایک خواب دیکھا تھا جس کی تعبیر اس کے نجومیوں نے یہ دی تھی کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص پیدا ہوگا جو تمہیں اور تمہاری سلطنت کو غارت کر دے گا۔ فرعون نے اس کا حل یہ سوچا کہ اپنی مملکت میں حکم دے دیا کہ بنی اسرائیل کے ہاں جو بچہ پیدا ہو اسے مار ڈالا جائے اور جو لڑکیاں پیدا ہوں انہیں اپنی لونڈیاں بنا لیا جائے۔ اپنی حکومت کو بچانے کے لیے اس کی یہ تدبیر انتہائی ظالمانہ تھی۔ مگر جو کام اللہ کو منظور تھا وہ ہو کے رہا اور فرعون کے سر پر چڑھ کر ہوا۔ موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرعون کے منہ پر جوت مارا کہ موسیٰ علیہ السلام کی پرورش بھی اس کے گھر میں ہوئی۔ آیت ﴿وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ﴾(۲۱:۱۲) البقرة
50 [٦٩] بنی اسرائیل پر بیتنے والے تاریخی واقعات چونکہ بہت مشہور اور زبان زد خاص و عام تھے۔ لہٰذا یہاں ان کا اجمالی ذکر ہی آیا ہے۔ البتہ بعض دوسرے مقامات پر ان کی تفصیل بھی بیان کردی گئی ہے۔ انہیں میں سے ایک واقعہ بنی اسرائیل کی نجات اور فرعون کی غرقابی کا بھی ہے۔ البقرة
51 بنی اسرائیل کی گؤ سالہ پرستی :۔ فرعون کی غرقابی کے بعد بنی اسرائیل جب جزیرہ نمائے سینا میں پہنچ گئے، تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو چالیس راتوں کے لیے کوہ طور پر طلب فرمایا تاکہ اس نئی آزاد شدہ قوم (بنی اسرائیل) کو عملی ہدایات و احکام عطا کئے جائیں۔ موسیٰ علیہ السلام کے جانے کے بعد اس قوم نے گؤ سالہ پرستی شروع کردی۔ مصر میں گؤ سالہ پرستی کا عام رواج تھا۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل انحطاط کا شکار ہوگئے اور رفتہ رفتہ قبطیوں (فرعونیوں) کے غلام بن گئے۔ انہیں کی بود و باش اپنانے میں عافیت سمجھی اور منجملہ دوسری رذیلہ امراض کے گؤ سالہ پرستی کو بھی اپنا لیا۔ فرعون سے نجات پا جانے کے بعد تاحال گؤ سالہ پرستی کے جراثیم ان سے ختم نہیں ہوئے تھے۔ البقرة
52 البقرة
53 البقرة
54 [٧٠] گؤسالہ پرستوں کا قتل عام :۔ موسیٰ علیہ السلام جب کوہ طور سے تورات لے کر واپس لوٹے تو انہیں بنی اسرائیل کی اس گؤ سالہ پرستی کا علم ہوا اور اس بات سے سخت دکھ ہوا۔ قوم سے کہا کہ اب اس ظلم کی سزا یہ ہے کہ جن جن لوگوں نے بچھڑے کی پرستش کی تھی انہیں چن چن کے مار ڈالو۔ اس وقت بنی اسرائیل کے تین گروہ بن گئے تھے۔ ایک وہ جنہوں نے بچھڑے کی پرستش کی تھی۔ دوسرے وہ جو انہیں گؤسالہ پرستی سے منع کرتے تھے۔ تیسرے وہ جو غیر جانبدار رہے۔ نہ خود گؤسالہ پرستی کی اور نہ ہی کرنے والوں کو منع کیا۔ انہیں حکم یہ دیا گیا کہ منع کرنے والے بچھڑا پوجنے والوں کو قتل کریں اور جو غیر جانبدار رہے انہیں معاف کردیا گیا۔ البقرة
55 [٧١] یہ بنی اسرائیل کے لوگ کچھ ایسے بدنہاد واقع ہوئے تھے کہ موسیٰ علیہ السلام کی زبان پر بھی اعتبار نہیں کرتے تھے۔ جب موسیٰ علیہ السلام تورات لے کر کوہ طور سے واپس لوٹے اور قوم کے سامنے کتاب پیش کی تو کہنے لگے۔ ہمیں یہ کیسے معلوم ہو کہ یہ کتاب واقعی منزل من اللہ ہے اور اللہ تعالیٰ فی الواقع آپ سے ہم کلام ہوا تھا۔ اس صورت حال سے موسیٰ علیہ السلام سخت پریشان ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں فرمایا کہ ستر آدمیوں کو بھی اپنے ساتھ طور پہاڑ پر لے آؤ۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے ستر آدمی منتخب کئے اور انہیں اپنے ہمراہ طور پر لے گئے کہ وہ خود بقائمی ہوش و حواس کلام الٰہی کو سن لیں۔ پھر جب انہوں نے کلام الٰہی سن لیا تو کہنے لگے : ’’موسیٰ پردے میں سننے کا ہمیں کچھ اعتبار نہیں اور ہم تو جب تک اللہ کو صاف صاف دیکھ نہ لیں، تمہاری بات پر اعتبار نہیں کریں گے۔‘‘ منتخب ستر آدمیوں کی موت اور دوبارہ زندگی :۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ ان کا یہ مطالبہ ناقابل عمل اور انتہائی جہالت پر مبنی تھا۔ موسیٰ علیہ السلام جب خود بھی اللہ کی تجلی کی تاب نہ لا سکے اور بے ہوش ہو کر گر گئے تھے، اور پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہوگیا تھا۔ تو بھلا یہ کس کھیت کی مولی تھے۔ ان کے اس مطالبہ پر ان پر بجلی گری شاید یہ بھی اللہ کی تجلی ہی کی کوئی صورت ہو، اور آن کی آن میں انہیں بھسم کر ڈالا۔ البقرة
56 [٧٢] اب موسیٰ علیہ السلام کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ اکیلے واپس جا کر قوم کو کیا کہیں گے۔ چنانچہ پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور فرمایا : ’’اے اللہ! اگر تیری یہ مشیت تھی تو آج سے پہلے انہیں اور مجھے بھی ہلاک کردیا ہوتا، کیا آج تو ان نادان لوگوں کی بات پر ہمیں ہلاک کرتا ہے؟‘‘(٧ : ١٥٥) چنانچہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کی دعا قبول فرما کر انہیں ازسر نو زندہ کردیا۔ البقرة
57 [٧٣] بنی اسرائیل کا جہاد سے انکار :۔ یہ واقعہ تفصیل سے سورۃ مائدہ میں آئے گا۔ مختصر یہ کہ موسیٰ علیہ السلام جب بنی اسرائیل کو لے کر وادی سینا میں پہنچے تو اس وقت یہ قوم لاکھوں کی تعداد میں تھی۔ موسیٰ علیہ السلام نے ملک شام پر حملہ کرنے کے لیے کہا ( یہی وہ ملک تھا جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا) تو کہنے لگے’’ موسیٰ! وہاں تو جابر قسم کے لوگ رہتے ہیں۔ لہٰذا ہم ان کے مقابلہ کی سکت نہیں رکھتے، اور اگر یہ حملہ ایسا ہی ضروری ہے تو تم اور تمہارا پروردگار دونوں جا کر ان سے جنگ کرو ہم تو یہاں ہی بیٹھتے ہیں۔‘‘ ان کا یہ جواب دراصل اس بزدلی کی وجہ سے تھا جو مدتوں فرعون کی غلامی میں رہنے کی وجہ سے ان میں پیدا ہوچکی تھی۔ جہاد سے انکار کی سزا :۔ اس جواب پر اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ملک شام کی فتح چالیس سال تک کے لئے موخر کردی۔ تاکہ اس عرصہ میں یہ بزدل نسل مر کھپ جائے اور آئندہ جو نسل اس بیابان اور آزادانہ فضا میں پیدا ہو۔ اس میں کچھ ہمت اور جرأت پیدا ہو اور جہاد کے قابل بن جائیں۔ اب سوال یہ تھا کہ اس بیابان میں نہ کوئی مکان تھے اور نہ سامان خورد و نوش اور لوگ لاکھوں کی تعداد میں تھے۔ ابر ، من و سلویٰ اور بارہ چشمے :۔ اندریں صورت اللہ تعالیٰ نے اس طویل مدت کے لیے آسمان کو ابر آلود رکھا، ورنہ یہ سارے لوگ دھوپ کی شدت سے تباہ و برباد ہوجاتے اور خوراک کا یہ انتظام فرمایا کہ کثیر تعداد میں من و سلویٰ نازل فرمایا۔ من ایک میٹھی چیز تھی جو دھنیے کے بیج جیسی تھی اور رات کو اوس کی شکل میں نازل ہوتی تھی اور سلویٰ بٹیر کی قسم کے پرندے تھے جنہیں یہ لوگ بھون کر اور کباب بنا کر کھاتے تھے اور یہ غذائیں بلامشقت انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کثیر مقدار میں اس طویل عرصہ میں ملتی رہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس قوم پر خاص انعامات تھے۔ ورنہ جو مایوس کن جواب انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو دیا تھا۔ اگر اللہ چاہتا تو اس کی پاداش میں انہیں ہلاک کردیتا اور پھر اس جزیرہ میں اس طرح زندگی بسر کرنا بھی ان کے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ہوا تھا۔ اسی جنگل میں سیدنا ہارون علیہ السلام کی وفات ہوئی۔ پھر ایک سال بعد سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی بھی وفات ہوئی تھی۔ البقرة
58 [٧٤] پھر جب یہ تربیت کا عرصہ گزر گیا اور انہوں نے ایک بستی کو فتح کرلیا تو ہم نے انہیں ہدایت کی کہ اس شہر میں اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو کر اور منکسرانہ انداز سے داخل ہونا اور اللہ تعالیٰ سے استغفار بھی کرنا (یعنی بدنی اور قولی دونوں طرح کی عبادت کرنا اور (حِطَّۃٌ) کا ایک یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ جن لوگوں پر تم فتح پاؤ، ان میں قتل و غارت نہ شروع کرنا بلکہ انہیں معاف کردینا (جیساکہ فتح مکہ کے موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی کچھ کیا تھا) تاکہ ہم تمہاری خطائیں معاف کر کے تمہیں انعامات سے نوازیں۔ البقرة
59 [٧٥] بنی اسرائیل کا فتح کے وقت تکبر :۔ مگر ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی ہدایات کو پس پشت ڈال کر اس کے بالکل الٹ کام کیے۔ بستی میں داخل ہوتے وقت سجدہ ریز ہونے کے بجائے اکڑتے ہوئے اور سرینوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے، اور توبہ و استغفار کرنے کے بجائے دنیوی مال و دولت کے پیچھے پڑگئے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ’’بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا کہ شہر کے دروازے میں جھک کر داخل ہونا اور زبان سے (حطۃ) (یعنی گناہوں کی بخشش مانگنا) لیکن وہ اپنی سرینوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اور (حِطَّۃٌ) کے بجائے حَبَّۃٌ فی شعرۃ (دانہ بالی کے اندر) کہنے لگے۔ (بخاری، کتاب التفسیر) اور مسلم میں حبۃ فی شعرۃ کے بجائے حنطۃ فی شعرۃ (گندم اپنی بالی کے اندر) کے الفاظ ہیں۔ (مسلم، کتاب التفسیر) طاعون کا عذاب :۔ بنی اسرائیل جب شہر پر قابض ہوئے وہاں بدکاریاں شروع کردیں جس کی سزا اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ دی کہ آسمان سے عذاب (طاعون کی وبا کی صورت میں) نازل فرمایا جس کے نتیجہ میں ایک روایت کے مطابق ستر ہزار یہود مر گئے۔ البقرة
60 [٧٦] بارہ چشموں کا پھوٹنا :۔ یہ واقعہ بھی اسی وادی سینا میں پیش آیا۔ سایہ اور غذا کے علاوہ انہیں پانی کی بھی شدید ضرورت تھی اور وہاں دور تک کہیں پانی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ لوگوں نے موسیٰ علیہ السلام سے پانی کی شکایت کی تو موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے پانی کے لیے دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے ایک چٹان سے اتنی کثیر اور وافر مقدار میں پانی نکالا جو اس لاکھوں کے لشکر کی روزانہ ضروریات کے لیے کافی ہوتا تھا۔ یہ قوم بارہ قبیلوں میں منقسم تھی تو اللہ تعالیٰ نے اس چٹان میں ١٢ ہی چشمے رواں کردیے۔ کوئی شگاف بڑا تھا، کوئی چھوٹا اور یہی صورت ان بارہ قبیلوں کے افراد کی تعداد کی تھی۔ پانی کی اس طرح تقسیم سے ان میں پانی پر باہمی جھگڑے کے امکانات ختم ہوگئے۔ یہ چٹان اب بھی جزیرہ نمائے سینا میں موجود ہے۔ جسے سیاح جا کر دیکھتے ہیں اور چشموں کے شگافوں کے نشان اب بھی اس میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ [٧٧] یعنی یہ خداداد مفت کی نعمتیں جو تمہیں مہیا ہیں۔ ایک دوسرے سے چھین کر یا چرا کر خواہ مخواہ فتنہ اور جھگڑے کے مواقع پیدا نہ کرتے رہنا۔ فساد فی الارض کیا ہے؟ فساد فی الارض کی مذمت تو سبھی کرتے ہیں، مگر فساد فی الارض ہے کیا چیز؟ اس بات کی تعیین میں ہر شخص کے نقطہ نظر کے مطابق اختلاف واقع ہوجاتا ہے۔ عموماً فساد فی الارض کا مطلب چوری، ڈاکہ، لوٹ مار، قتل و غارت اور ایک دوسرے کے حقوق کو غصب کرنا ہی سمجھا جاتا ہے۔ اور یہ فساد فی الارض کا صرف ایک پہلو ہے۔ مدینہ کے مسلمانوں نے منافقوں سے کہا کہ زمین میں فساد نہ کرو، تو وہ کہنے لگے کہ ہم مفسد کب ہیں؟ بلکہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔ (٢ : ١١) موسیٰ علیہ السلام فرعون، قارون اور ہامان کو مفسد قرار دیتے تھے تو فرعون اور اس کے درباری سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور آپ کے پیروکاروں کو فسادی قرار دیتے تھے۔ فرعون کے درباریوں نے فرعون سے کہا کہ کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو یونہی چھوڑ دے گا کہ وہ زمین میں فساد مچاتے پھریں اور تجھے اور تیرے معبودوں کو چھوڑ دیں؟تو اس فرعون نے اس قسم کے فساد فی الارض کی اصلاح کا طریقہ سوچ کر کہا کہ ’’ہم لوگ ان کے بیٹوں کو قتل کریں گے اور ان کی بیٹیوں کو زندہ رکھیں گے اور ہم ان لوگوں پر پوری قدرت رکھتے ہیں۔‘‘ (٧ : ١٢٧) ان آیات سے معلوم ہوا کہ ہر شخص کے نقطہ نظر کے مطابق فساد فی الارض اور اصلاح دونوں کا مفہوم بدل جاتا ہے۔ اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ فساد فی الارض حقیقتاً ہے کیا چیز؟ اس سوال کا جواب بالکل آسان ہے اور وہ یہ ہے کہ حکومت اور اس کے نظام امن میں خلل ڈالنے والا مفسد یا فسادی ہوتا ہے۔ فرعون کو چونکہ موسیٰ علیہ السلام اور آپ کی قوم سے بغاوت کا خطرہ تھا۔ لہٰذا اس نے انہیں مفسد قرار دے دیا اور شرعی نقطہ نظر سے حاکم مطلق اور مقتدر اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اس لحاظ سے جو شخص بھی اللہ کے اور بندوں کے آپس میں باہمی حقوق پر ڈاکہ ڈالے گا۔ وہ فساد فی الارض کا مجرم ہوگا اور اسی لحاظ سے اللہ کے ساتھ شرک کرنا فساد فی الارض کی سب سے بڑی قسم قرار پاتا ہے اور اللہ کے دین کے خلاف معاندانہ سرگرمیاں یا خفیہ مشورے کرنا یا بغاوت کرنا بھی اتنا ہی شدید جرم ہے جتنا ڈاکہ ڈالنا یا چوری و زنا کرنا۔ اس فرق کو ہم یوں بھی واضح کرسکتے ہیں کہ شرک اور زنا بالرضا ایک دنیا دار معاشرہ میں جرم نہیں سمجھا جاتا۔ جب کہ شرعی نقطہ نظر سے یہی باتیں فساد فی الارض میں سرفہرست شمار ہوتی ہیں۔ نیز ایک دین بیزار حکومت کے خلاف جہاد کرنا اس حکومت کے نظریہ کے مطابق بغاوت اور بہت بڑا جرم ہے۔ جبکہ شرعی نقطہ نظر سے یہ فساد فی الارض کے خاتمہ کا آغاز ہوتا ہے۔ اس وضاحت سے آپ قرآن میں مختلف مقامات پر مذکور فساد فی الارض کا مفہوم آسانی سے سمجھ سکیں گے۔ البقرة
61 [٧٨] بنی اسرائیل کا من وسلویٰ پر قناعت نہ کرنا :۔ یہ بھی اسی جنگل کا واقعہ ہے جہاں ایک طویل مدت کے لئے بنی اسرائیل کو محصور کیا گیا تھا۔ انہیں من و سلویٰ جیسی نعمتیں بلا مشقت مل رہی تھیں۔ مگر وہ ان چیزوں کو کھاتے کھاتے اکتا گئے تھے تو زمینی پیداوار کا مطالبہ کردیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سمجھایا کہ ’’جو چیز تمہیں یہاں سے بلامشقت مل رہی ہے وہ اس سے بدرجہا بہتر ہے جو تم مانگ رہے ہو اور وہ مشقت کے بعد ہی تمہیں حاصل ہوگی۔‘‘ لیکن جب ان لوگوں نے اپنے مطالبہ پر اصرار کیا تو موسیٰ علیہ السلام نے بالآخر ان کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر یہی چاہتے ہو تو فلاں شہر میں چلے جاؤ، وہاں تمہیں یہ چیزیں میسر آ جائیں گی۔‘‘ موسیٰ علیہ السلام کا صرف یہی مطلب نہ تھا کہ من و سلویٰ جو تمہیں بلا مشقت مل رہا ہے وہ بامشقت گندم اور ساگ وغیرہ سے بہتر ہے، بلکہ یہ بھی تھا کہ جنگل کی آزادانہ فضا تم سے بزدلی دور کرنے، شجاعت پیدا کرنے اور جہاد کے لیے مستعد ہونے اور فارغ رہ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے لحاظ سے شہر کی مصروف اور آرام پرستانہ زندگی سے بہرحال بہتر ہے اور تم اپنے لیے ایک بہتر چیز کے بجائے ایک گھٹیا بات کا مطالبہ کر رہے ہو۔ [٧٩] ذلت اور مسکنت کا مفہوم :۔ ذلت اور بدحالی کے علاوہ اللہ کا غضب یہ ہوا کہ ان کی ٹریننگ اور تربیت کی مدت کو پھیلا کر چالیس سال تک بڑھا دیا گیا۔ ورنہ اگر اللہ اور اس کے پیغمبر موسیٰ علیہ السلام کی مرضی پر چلتے تو ممکن تھا کہ چالیس سال گزرنے سے پہلے ہی شام کا ملک فتح کرنے کے قابل ہوجاتے۔ مگر ان لوگوں کی عادت ہی یہ بن گئی تھی کہ جو بات اپنی مرضی کے خلاف دیکھتے تو فوراً نافرمانیوں پر اتر آتے تھے حتیٰ کہ بعض انبیاء تک کو قتل کرتے رہے اور اللہ کے غضب، ذلت اور مسکنت کی دوسری صورت یہ ہے کہ یہودی قوم کئی بار دوسری قوموں سے پٹ چکی ہے۔ مالدار ہونے کے باوجود آج بھی سخت افرادی قلت سے دو چار ہے اور ایک چھوٹے سے خطہ میں ان کی حکومت قائم ہوئی بھی ہے تو وہ دوسری قوموں کے سہارے پر اپنے وجود کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اخلاقی انحطاط اس قدر ہے کہ آج بھی بے حیائی، فحاشی، سودخوری اور حرام خوری اس قوم کا طرہ امتیاز ہے۔ البقرة
62 [٨٠] اہل کتاب کے مزعومہ عقائد :۔ یہود و نصاریٰ دونوں کہا کرتے تھے کہ آیت ﴿نَحْنُ اَبْنٰؤُا اللّٰہِ وَاَحِبَّاؤُہٗ ﴾(۱۸:۵) ہم اللہ تعالیٰ کے بیٹے اور چہیتے ہیں۔ یہود یہ بات اس لیے کہتے تھے کہ وہ پیغمبروں کی اولاد ہیں اور نصاریٰ اس لیے کہ وہ اللہ کے بیٹے (مسیح ابن مریم) کی امت ہیں جو ان کے عقیدہ کے مطابق امت کے گناہوں کے کفارہ میں سولی پر چڑھ گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے اس مزعومہ عقیدہ پر کاری ضرب لگاتے ہوئے فرمایا کہ: کوئی شخص خواہ یہودی ہو یا عیسائی ہو یا صابی (اپنا دین بدلنے والا ہو) جو بھی اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے گا اور جواب دہی کے ڈر سے صالح عمل کرے گا۔ نجات صرف اسی کی ہوگی۔ نسبی رشتے اور تعلقات اس دن کسی کام نہ آ سکیں گے۔ البقرة
63 [٨١] میثاق بنی اسرائیل کی کیفیت :۔ یہ واقعہ بھی بنی اسرائیل کے اس دور سے تعلق رکھتا ہے۔ جب ان کے ستر منتخب افراد پر بجلی گرا کر انہیں ہلاک کیا گیا اور پھر دوبارہ زندہ کیا گیا تھا۔ ان کو بھی اور ان کے ساتھ بنی اسرائیل کے دوسرے لوگوں کو بھی طور کے دامن میں کھڑا کیا گیا اور طور پہاڑ کو ان پر اس طرح جھکا دیا گیا جیسے وہ ان کے اوپر ایک سائبان ہے۔ اب پیچھے سمندر تھا اور آگے سروں کے اوپر سائبان کی طرح طور پہاڑ، اس وقت ان سے پوچھا گیا بتاؤ تورات پر عمل کرتے ہو یا نہیں؟ اور اقرار کرتے ہو تو پھر پوری مضبوطی سے عہد و پیمان کرو، ورنہ ابھی اس پہاڑ کو تمہارے اوپر گرا کر تمہیں کچل دیا جائے گا۔ اس وقت بنی اسرائیل کو اپنی نافرمانیوں اور غلطیوں اور عہد شکنیوں کا احساس ہوا اپنے گناہوں سے توبہ کی اور تورات پر عمل پیرا ہونے کا پختہ اقرار کیا۔ اور یہ اس لیے کیا گیا تھا تاکہ تم لوگوں میں کچھ پرہیزگاری کی صفت پیدا ہو۔ البقرة
64 [٨٢] اتنے پختہ اقرار کرنے کے باوجود اے یہود! تم نے پھر عہد شکنی کی۔ اس کے باوجود اللہ نے تم پر رحم کیا جو تمہیں زندہ رہنے دیا، ورنہ تمہارے جرائم کی فہرست اتنی طویل ہے جو تمہاری تباہی کی مقتضی تھی۔ البقرة
65 [٨١] اصحاب سبت کا انجام :۔ بنی اسرائیل کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ ہفتہ کے دن کاروبار نہیں کریں گے بلکہ چھٹی کریں گے اور اس دن آرام اور اللہ کی عبادت کیا کریں گے اور تورات میں یہ بھی وضاحت ہے کہ جو شخص اس مقدس دن کی حرمت کو توڑے گا، وہ واجب القتل ہے۔ لیکن یہود پر اخلاقی انحطاط کا دور آیا تو یہود اس دن کھلے بندوں اپنا کاروبار جاری رکھتے اور تجارت وغیرہ کیا کرتے۔ اس سلسلہ میں سورۃ اعراف میں ایک مخصوص بستی کا ذکر بھی آیا ہے جو سمندر کے کنارے آباد تھی اور ان لوگوں کا پیشہ ماہی گیری تھا۔ لیکن اتفاق کی بات کہ چھ دن تو مچھلیاں پانی میں چھپی رہتیں اور ہفتہ کے دن پانی کی سطح پر سینہ تان کر تیرتی پھرتیں۔ اب ان ماہی گیروں نے یہ حیلہ سازی کی کہ ساحل کے ساتھ کھائیاں کھود لیں۔ اس میں پانی آتا تو ساتھ مچھلیاں بھی آ جاتیں اور دوسرے دن یہ لوگ ان مچھلیوں کو پکڑ لیتے، ان بستی والوں کے تین گروہ بن گئے۔ ایک تو مجرم گروہ تھا جو اس حیلہ سے مچھلیاں پکڑتا تھا۔ دوسرا گروہ وہ تھا جو انہیں اس حیلہ سازی سے منع کرتا تھا اور تیسرا گروہ وہ تھا جو خود مچھلیاں پکڑتا تو نہیں تھا لیکن پکڑنے والوں کو منع بھی نہیں کرتا تھا اور منع کرنے والوں سے کہتا تھا کہ تم ان لوگوں کو کیوں منع کرتے ہو جو باز آنے والے نہیں اور ان پر عذاب نازل ہونے والا ہے اور منع کرنے والے یہ جواب دیتے کہ ’’ہم اس لیے منع کرتے ہیں کہ ہم اپنے رب کے حضور معذرت پیش کرسکیں اور دوسرے یہ کہ شاید یہ لوگ باز ہی آ جائیں۔‘‘ (٧ : ١٦٤) بندر بننے کی تاویل کرنے والے :۔ پھر جب اس قوم پر عذاب نازل ہوا تو اس عذاب سے صرف منع کرنے والا گروہ بچا لیا گیا۔ خاموش رہنے والے اور مجرم دونوں گروہوں پر عذاب نازل ہوا اور وہ عذاب یہ تھا کہ ’’تم ذلیل و خوار بندر بن جاؤ۔‘‘ اب معجزات کے منکر اور نیچری حضرات یہ کہتے ہیں کہ ان لوگوں کی عادات و خصائل تو بندروں جیسے ہوگئے تھے۔ لیکن ان کی صورتیں مسخ نہیں ہوئی تھیں (یعنی وہ فی الواقع بندر نہیں بنے تھے) یہ توجیہ اس لحاظ سے غلط ہے کہ ایک تو قرآن کے ظاہری الفاظ سے یہ گنجائش نہیں نکلتی۔ دوسرے مابعد کی آیت اس توجیہ کی توثیق کے بجائے تردید کر رہی ہے۔ کیونکہ اگر ان کی شکلیں بدستور انسانوں کی ہی رہیں، تو وہ اس وقت کے موجود لوگوں اور پچھلوں کے لیے سامان عبرت کیسے بن سکتے تھے اور پرہیزگار ان سے کیا سبق لے سکتے تھے؟ حقیقت یہ ہے کہ وہ فی الواقع بندر بن گئے تھے تاہم ان کے دماغ وہی رہے۔ ان میں فہم و شعور انسانی موجود تھا۔ وہ ایک دوسرے کو پہچانتے اور ایک دوسرے کو دیکھ کر روتے تھے مگر کلام نہیں کرسکتے تھے۔ پھر تین دن کے بعد سب مر گئے اور یہ واقعہ سیدنا داؤد علیہ السلام کے دور میں پیش آیا تھا۔ (نیز دیکھئے سورۃ اعراف آیت نمبر ١٦٤) البقرة
66 البقرة
67 [٨٤] گائے کو ذبح کرنے کے حکم پر بنی اسرائیل کی کٹ حجتیاں :۔ بنی اسرائیل میں ایک مالدار شخص مارا گیا جسے اس کے بھتیجوں نے جنگل میں موقعہ پا کر قتل کیا اور رات کے اندھیرے میں کسی دوسرے شخص کے مکان کے سامنے پھینک دیا۔ اس کے قاتل کا کچھ پتہ نہیں چلتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو وحی کی کہ اس قوم کو حکم دو کہ وہ ایک گائے ذبح کریں۔ پھر اس کے گوشت کا ایک ٹکڑا مقتول کی لاش پر ماریں تو مقتول خود بول کر اپنے قاتل کا نام اور پتہ بتا دے گا۔ موسیٰ علیہ السلام نے جب اپنی قوم کو اللہ کا حکم سنایا تو وہ کہنے لگے ’’کیا ہم سے دل لگی کرتا ہے؟“ گائے کو ذبح کرنے کا حکم دراصل بنی اسرائیل کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنے کے مترادف تھا۔ گؤ سالہ پرستی کے جراثیم اور گائے بیل سے محبت اور اسے دیوتا سمجھنے کا عقیدہ تاہنوز ان میں موجود تھا۔ لہٰذا ایک تکلیف تو انہیں یہ ہوئی کہ جس چیز کو قابل پرستش سمجھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی چیز کو ذبح کرنے کا حکم دیا۔ دوسرے انہیں یہ یقین نہیں تھا کہ اس طرح گائے کے گوشت کا ٹکڑا مارنے سے مردہ لاش جی اٹھے گی اور بول کر قاتل کا پتہ بتا دے گی۔ لہٰذا موسیٰ علیہ السلام سے یوں کہہ دیا کہ ہم سے دل لگی کرتا ہے۔’’موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا کہ میں تو تمہیں اللہ کا حکم بتا رہا ہوں، دل لگی نہیں کر رہا۔ کیونکہ ایسی دل لگی کرنا جاہلوں کا کام ہے۔‘‘ اگر بنی اسرائیل ایک فرمانبردار قوم ہوتے اور کوئی سی گائے بھی ذبح کردیتے تو حکم کی تعمیل ہوجاتی، مگر کٹ حجتی اور ٹال مٹول، حتیٰ کہ نافرمانی ان کی رگ رگ میں بھری ہوئی تھی۔ کہنے لگے اچھا ہمیں اپنے پروردگار سے پوچھ کر بتاؤ وہ گائے کیسی ہونی چاہی’’ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب آیا۔‘‘وہ گائے جوان ہونی چاہیے، بوڑھی یا کم عمر نہ ہو۔ پھر دوسری مرتبہ یہ سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ سے پوچھ کر ہمیں بتاؤ کہ اس کا رنگ کیسا ہونا چاہیے؟ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب ملا کہ ’’وہ گہرے زرد رنگ کی ہونی چاہیے، جو دیکھنے والے کے دل کو خوش کر دے۔‘‘ اب بھی حکم بجا لانے پر طبیعت آمادہ نہ ہوئی تو تیسری مرتبہ یہ سوال کردیا کہ ایسی صفات کی گائیں تو ہمارے ہاں بہت سی ہیں ہمیں پوچھ کر بتایا جائے کہ ’’اس کی مزید صفات کیا ہوں؟‘‘ تاکہ ہمیں کسی متعین گائے کا علم ہوجائے جس کی قربانی اللہ تعالیٰ کو منظور ہے۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب آیا کہ ’’وہ گائے ایسی ہونی چاہیے جس سے ابھی تک کھیتی باڑی کا کام لینا شروع ہی نہ کیا گیا ہو یعنی نہ وہ ہل کے آگے جوتی گئی ہو اور نہ کنویں کے آگے۔ تندرست ہو اور صحیح و سالم ہو۔ یہ نہ ہو کہ کسی بیماری یا کمزوری کی وجہ سے کام نہ لیا جا رہا ہو اور اس میں کوئی داغ بھی نہ ہو۔ “ البقرة
68 البقرة
69 البقرة
70 البقرة
71 گائے ذبح کرنے میں کٹ حجتیوں کی سزا :۔ غرض یہ کہ یہ قوم جتنے سوال کرتی گئی، پابندیاں بڑھتی ہی گئیں۔ ان ساری پابندیوں کے بعد بس اب ان کے ہاں صرف ایک ہی گائے رہ گئی جو تقریباً سنہری رنگ کی بےداغ اور جواں تھی اور ایسی ہی گائے ہوتی تھی جسے پوجا پاٹ کے لیے انتخاب کیا جاتا تھا۔ اب ایک تو انہیں اپنے معبود کشی کی ذہنی کوفت تھی۔ دوسرے یہ کہ جس شخص کی یہ گائے تھی وہ ایک نیک بخت آدمی تھا جو اپنی ماں کی بہت خدمت کرتا تھا۔ جب اسے اس کی اہمیت معلوم ہوئی تو اس نے منہ بھر کر اس گائے کے دام مانگے، اس کی قیمت یہ ٹھہری کہ گائے کو ذبح کرنے کے بعد اس کی کھال میں جتنا سونا آئے وہ اس کی قیمت ہوگی۔ چنانچہ ان لوگوں کو وہ قیمت ادا کرنا پڑی۔ اتنے سوال و جواب کے بعد انکار یا مزید کٹ حجتی کرنا بھی محال تھا اور اس کے بعد بالآخر انہیں اس گائے کو ذبح کرنا ہی پڑا۔ حالانکہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کے پہلے حکم پر ہی گائے ذبح کرنے کو آمادہ ہوجاتے تو وہ کوئی بھی گائے ذبح کرسکتے تھے۔ البقرة
72 البقرة
73 [٨٦] لاش کا زندہ ہو کر قاتل کا پتہ بتانا :۔ قاتلوں کا جرم صرف یہی نہیں تھا کہ انہوں نے مال و دولت کے لالچ میں آ کر اپنے چچا کو قتل کر ڈالا تھا۔ بلکہ ان کا دوسرا جرم یہ تھا کہ لاش کو کسی دوسرے شخص کے دروازے پر پھینک دیا تھا تاکہ ان پر شبہ نہ ہو سکے اور تیسرے یہ کہ خود شبہ سے بچنے کی خاطر اس قتل کا الزام دوسروں پر تھوپ رہے تھے۔ گائے ذبح ہونے کے بعد اس کے گوشت کا ایک ٹکڑا لے کر اس مقتول کی میت پر مارا گیا تو اس کے زخم سے خون بہنے لگا۔ جسم میں زندگی کے آثار پیدا ہوگئے اور اس لاش نے بول کر قاتل یا قاتلوں کا نام اور پتا بتا دیا۔ اس کے بعد پھر سے اس پر موت طاری ہوگئی۔ اس طرح جن جرائم کو یہ قوم چھپائے رکھنا چاہتی تھی اللہ تعالیٰ نے انہیں ظاہر کردیا۔ چنانچہ قصاص میں یہ دونوں بھتیجے مارے گئے اور انہیں اپنے چچا کے ورثہ میں سے بھی کچھ نہ ملا۔ [٨٧] اس واقعہ سے کئی امور کا انکشاف ہوگیا مثلاً : ١۔ یہ گائے بالکل اسی قسم کی تھی جسے معبود سمجھ کر اس کی پوجا کی جاتی تھی یہ گائے ذبح ہوتے وقت اپنے آپ کو بھی نہ بچا سکی تو دوسروں کا کیا بگاڑ یا سنوار سکتی تھی۔ پھر ذبح کرنے والوں کو نہ ذبح سے پہلے کچھ نقصان پہنچا اور نہ ذبح کے بعد۔ ٢۔ جس بات کو یہ لوگ چھپائے رکھنا چاہتے تھے اللہ تعالیٰ نے اس طریقہ سے اسے ظاہر کردیا۔ ٣۔ انہیں یہ یقین ہوگیا کہ اگر اللہ تعالیٰ اتنے دنوں کے بعد اس لاش کو زندہ کرسکتا ہے تو ہمیں بھی دوبارہ زندہ کر کے ہمارا محاسبہ کرسکتا ہے۔ البقرة
74 [٨٨] یعنی یہ معجزہ اور کئی سابقہ معجزات دیکھنے کے بعد تمہارے دل میں اللہ کا خوف پیدا نہ ہوا۔ بلکہ تمہارے دل سخت سے سخت تر ہوتے چلے گئے بلکہ پتھروں سے بھی زیادہ سخت۔ کیونکہ کچھ پتھر (پہاڑ) ایسے ہیں جن سے نہریں پھوٹتی ہیں اور وہ عام لوگوں کے لیے نفع کا سبب بنتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جن سے کوئی چشمہ ہی جاری ہوجاتا ہے یہ پہلے کی نسبت گو کم نفع بخش ہیں تاہم نفع بخش ضرور ہیں، اور گرنے والے پتھروں میں اللہ کا خوف اور تاثر موجود ہوتا ہے مگر تم جیسے نافرمان لوگوں سے دوسروں کو کچھ فائدہ پہنچنے کی کیا توقع ہو سکتی ہے۔ جن کے دلوں میں اللہ کا ڈر قطعاً مفقود ہے۔ البقرة
75 [٨٩] نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلقہ آیات کو چھپانا اور ان میں تحریف :۔ یہ خطاب دراصل مدینہ کے سادہ دل نو مسلموں سے ہے جو یہود سے کئی بار یہ سن چکے تھے کہ ایک نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم آنے والا ہے اور جو لوگ ان کا ساتھ دیں گے وہ ساری دنیا پر چھا جائیں گے۔اب یہ لوگ تو ایمان لے آئے مگر یہود نے یہ کام کیا کہ تورات میں جو حلیہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کا مذکور تھا۔ اس میں تحریف کر ڈالی اور ایمان نہ لانے کی وجہ یہ بتائی کہ اس کا حلیہ تورات میں مذکور حلیہ سے مختلف ہے۔ البقرة
76 [٩٠] اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچاننے کے لیے تورات وغیرہ میں خاصا مواد موجود تھا۔ جسے یہ لوگ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ آنے سے پہلے لوگوں میں مشہور کرچکے تھے اور ان میں کچھ لوگ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کے بعد بھی بیان کردیتے تھے اور ان سے کہہ دیتے کہ ہم بھی اس پیغمبر پر ایمان لاتے ہیں۔ مگر وہ جب اپنے گرو گھنٹالوں کے ہاں جاتے تو وہ انہیں یہ کہتے کہ تم مسلمانوں کو تورات کی ایسی باتیں کیوں بتاتے ہو جو تمہارے اپنے خلاف جاتی ہیں۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ کے حضور مسلمان تم پر حجت قائم کردیں کہ یہ لوگ پورا علم ہونے کے باوجود بھی ایمان نہ لائے تھے۔ مسلمانوں سے بات کرنے سے پہلے کچھ سوچ تو لیا کرو۔ البقرة
77 [٩١] بالفاظ دیگر ان یہود علماء کا یہ خیال تھا کہ بس مسلمانوں کے بتانے سے ہی اللہ تعالیٰ کو قیامت کے دن اس حقیقت کا پتہ چلے گا ورنہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے متعلق ان کی معرفت اتنی کمزور ہے کہ انہیں یہ بھی یقین نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی کھلی اور چھپی سب باتوں کو خوب جاننے والا ہے اور ان باتوں کو بھی جو یہ اب اپنے ساتھی یہودیوں سے کر رہے ہیں۔ البقرة
78 [٩٢] ان پڑھ یہود کے مذموم عقائد :۔ یہ ان کے عوام کا حال تھا جو تورات کو پڑھ بھی نہیں سکتے تھے۔ نہ انہیں یہ معلوم تھا کہ وہ کون سے اصول و احکام ہیں جن پر نجات اخروی کا مدارہے وہ بس اپنی جھوٹی توقعات میں مگن ہیں جو یہ تھیں کہ ہم لوگ چونکہ انبیاء کی اولاد اور اللہ کے چہیتے ہیں۔ لہٰذا ہم دوزخ میں نہیں جائیں گے دوزخ میں جانے کے لیے دوسری مخلوق تھوڑی ہے؟ ہمیں اگر عذاب ہوا بھی تو بس چند دن کے لیے جتنے دن بچھڑے کی پوجا کی گئی تھی۔ البقرة
79 [٩٣] غلط فتووں کی کمائی :۔ علماء یہود کا یہ حال تھا کہ انہوں نے تورات کی شروح اور علماء کے فتاویٰ کو بھی تورات میں ہی خلط ملط کر ڈالا تھا۔ پھر عام لوگوں سے اسے یوں بیان کرتے تھے گویا یہ سب کچھ ہی منزل من اللہ ہے۔ اور اس سے غرض محض دنیوی مال و دولت کا حصول ہوتا تھا اور ان کے مفسروں کی تاویلات، مفکروں کے فلسفیانہ خیالات اور فقہاء کے قانونی اجتہادات اور اپنے قومی تاریخی واقعات، یہ سب چیزیں بائیبل میں شامل کردی تھیں اور اس سب کچھ پر ایمان لانا فرض قرار دیا گیا تھا۔ ایسے مجموعہ میں سے انہیں کسی بھی قسم کا فتویٰ دینے یا لکھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی تھی اور جرائم کی نوعیت کے لحاظ سے اپنے فتووں کے منہ مانگے دام وصول کرتے تھے۔ البقرة
80 [٩٤] یہود کی عذاب اخروی کے متعلق غلط فہمی اور اس کا جواب :۔ یہودیوں کا عقیدہ یہ تھا کہ ہم چونکہ انبیاء کی اولاد اور اللہ کے محبوب ہیں لہٰذا ماسوائے چند دن کے انہیں دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی۔ ان کے اس باطل عقیدہ کا جواب اللہ تعالیٰ نے کئی طرح سے دیا ہے جن میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ ان سے پوچھو کہ اس عقیدہ کی اصل کیا ہے؟ کیا اللہ نے تم سے کوئی ایسا وعدہ لے رکھا ہے۔ اگر ایسی بات ہے تو دکھاؤ تو سہی۔ یا بس تم اللہ پر ایسی ہی جھوٹی باتیں جڑ دیتے ہو؟ اور دوسرا جواب یہ ہے کہ اے یہود! اگر تم فی الواقع اس دعوے میں سچے ہو کہ تم اللہ کے چہیتے ہو اور ماسوائے چند دن کے تمہیں دوزخ کی آگ چھو بھی نہیں سکے گی تو پھر تم مرنے کی آرزو کیوں نہیں کرتے یا بالفاظ دیگر ان دنیا کے جھنجٹوں سے نکل کر جنت میں جانے کی آرزو کیوں نہیں کرتے؟ اور چونکہ یہود مرنے کے لیے مطلقاً آمادہ نہیں بلکہ طویل مدت تک دنیا میں ہی رہنا چاہتے ہیں جس سے معلوم ہوا کہ یہود اپنے دعویٰ میں جھوٹے ہیں اور تیسرا جواب انہیں یہ دیا گیا کہ اللہ کا قانون جزاء و سزا سب کے لیے یکساں ہے۔ یہاں نسبی رشتے کچھ کام نہیں آئیں گے جس شخص کو اس کی بداعمالیوں نے گھیر لیا وہ یقیناً دوزخ میں ہی جائے گا۔ پھر ہمیشہ اس میں رہے گا اور اس قانون میں اے یہود! تمہارے لیے کوئی تخصیص نہیں۔ البقرة
81 البقرة
82 [٩٥] یہاں اہل ایمان کا اور جنت کا ذکر محض اس لیے کیا گیا ہے کہ قرآن کا انداز ہی یہ ہے کہ دوزخ کے ساتھ جنت کا بھی ذکر کردیا جاتا ہے۔ جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے کہ اس کے بعد پھر بنی اسرائیل کا ذکر شروع ہو رہا ہے۔ البقرة
83 [٩٦] گو بظاہر یہ خطاب یہود مدینہ سے ہے۔ تاہم یہ ایسے احکام ہیں جو ہر شریعت میں غیر متبدل رہے ہیں اور ہماری شریعت میں بھی بعینہ موجود ہیں۔ رہا عہد کرنے کے بعد بنی اسرائیل کی عہد شکنی کا قصہ تو یہ ان کی عادت ثانیہ بن چکی تھی اور ان کی تاریخ ایسی عہد شکنیوں سے بھری پڑی ہے۔ البقرة
84 البقرة
85 [٩٧] مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے بیشتر مشرکین مدینہ کے دو مشہور قبائل اوس اور خزرج مدینہ میں آباد تھے اور یہ آپس میں ہمیشہ لڑتے رہتے تھے اور یہود مدینہ کے دو قبائل بنو قریظہ اور بنو نضیر ان عرب قبائل کے حلیف بن کر ان کو باہم لڑاتے رہنے کا کردار ادا کیا کرتے تھے۔ بنو قریظہ تو قبیلہ اوس کے حلیف تھے اور بنو نضیر قبیلہ خزرج کے۔ یہود گو تعداد میں کم تھے مگر یہ مالدار قوم تھی اور اوس و خزرج کو لڑا کر اپنا سیاسی تفوق بھی برقرار رکھتے تھے اور اسلحہ بھی بیچتے تھے۔ جس کے یہ تاجر تھے۔ ان یہود کی بالکل وہی مثال سمجھئے جو آج سے کچھ مدت پیشتر روس اور امریکہ کی تھی۔ یہ دونوں طاقتیں اسلام کی دشمن تھیں اور آپس میں بھی ان میں اختلاف تھا لیکن اسلام دشمنی میں دونوں متحد ہو کر مسلمان ممالک کو آپس میں لڑاتی رہتی تھیں۔ ان میں سے کوئی ایک، ایک مسلمان ملک کا حلیف بن جاتا اور دوسرا دوسرے کا۔ اس طرح یہود کئی طرح کے فوائد اٹھاتے تھے۔ ان کا اسلحہ بھی فروخت ہوتا تھا اور سیاسی تفوق بھی برقرار رہتا تھا۔ یہود کا اپنے قبیلہ کے قیدیوں کو فدیہ دے کر چھڑانا :۔ اللہ تعالیٰ نے یہود سے چار عہد لیے تھے (١) وہ ایک دوسرے کا خون نہ کریں گے (٢) ایک دوسرے کو جلاوطن نہ کریں گے (٣) ظلم اور زیادتی پر مدد نہ کریں گے (٤) اور فدیہ دے کر قیدیوں کو چھڑایا کریں گے۔ اب قبیلہ اوس و خزرج کی جنگ میں بنو قریظہ اور بنو نضیر بھی آپس میں حلیف ہونے کی حیثیت سے لڑتے اور ایک دوسرے کے گلے کاٹتے تھے۔ اب ایک جنگ میں مثلاً اوس اور بنو قریظہ کو فتح ہوئی تو لازماً بنو نضیر کے قیدی بھی ان کے ہاتھ آتے تھے اور بنو نضیر ان کا فدیہ ادا کر کے انہیں چھڑا لیتے تھے۔ جب ان سے اس کی وجہ پو چھی جاتی تو کہتے کہ قیدیوں کو فدیہ دے کر چھڑانا اللہ کا حکم ہے اور جب ان سے پوچھا جاتا کہ ان سے جو جنگ کرتے ہو تو وہ اللہ کے کس حکم کے تحت کرتے ہو؟ تو کہتے کیا کریں اپنے دوستوں (حلیفوں) کو ذلیل نہیں کرسکتے۔ گویا تین کام تو اللہ کے حکم کے خلاف کرتے تھے اور ایک کام اللہ کے حکم کے مطابق جس کا سبب بھی وہ خود ہی بنتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انکی ایسی حرکات پر گرفت کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’کیا تم اللہ کی کتاب کے کچھ حصے پر ایمان لاتے ہو اور کچھ حصے کا انکار کردیتے ہو؟‘‘ جس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی شخص بعض احکام شرعیہ کی تعمیل کرے اور جو حکم اس کی طبیعت یا عادت یا مرضی کے خلاف ہو اس کو چھوڑ دے تو بعض احکام کی تعمیل اسے کچھ فائدہ نہیں دے سکتی اور ایسا انکار دراصل پوری کتاب اللہ کا انکار ہوتا ہے۔ ایسے لوگ حقیقتاً اپنے نفس کے پیرو کار ہوتے ہیں۔ کتاب اللہ کے نہیں ہوتے۔ [٩٨] دور نبوی میں یہود کا انجام :۔ دنیا میں یہ یہود عبرتناک انجام سے دو چار ہوئے۔ بنو نضیر تو ٤ھ میں اس ذلت سے دو چار ہوئے جس کا تفصیلی ذکر سورۃ حشر میں کیا گیا ہے۔ مسلمانوں نے ان کا محاصرہ کرلیا اور ان کے بعض باغات کو نذر آتش کردیا۔ اور وہ قلعہ بند ہو کر اپنے گھروں کو خود بھی برباد اور توڑ پھوڑ رہے تھے۔ کیونکہ انہیں اس بات کا یقین ہوچکا تھا کہ اب جلاوطنی ان کا مقدر بن چکی ہے اور وہ یہ گوارا نہیں کرسکتے تھے کہ مسلمان ان کے تعمیر شدہ مکانات سے فائدہ اٹھائیں۔ اس طرح لڑائی کے بغیر ہی انہوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ انہیں فوری جلاوطنی کا حکم دیا گیا تو انہوں نے شام کا رخ کیا اور جزیہ کا حکم نازل ہونے کے بعد ان سے جزیہ وصول کیا جاتا رہا اور بنو قریظہ پر جنگ خندق (احزاب ٥ ھ) کے فوراً بعد چڑھائی کی گئی اور ان کے مردوں کو تہ تیغ کردیا گیا اور عورتوں اور بچوں کو لونڈی غلام بنا لیا گیا، اور آخرت کو جو عذاب انہیں ہوگا وہ تو اللہ ہی خوب جانتا ہے۔ البقرة
86 [٩٩] یعنی یہود مسلمانوں سے جو کچھ بھی بد عہدیاں کرتے رہے، سب چند روزہ دنیوی مفادات کی خاطر کرتے رہے اور آخرت کے عذاب کا کچھ خیال نہ کیا۔ نیز اس آیت سے ان لوگوں کا یہ مذہب غلط ثابت ہوتا ہے کہ آخرت میں جہنم کا عذاب اس قدر ہلکا ہوجائے گا کہ دوزخیوں کو کچھ تکلیف نہ رہے گی۔ کیونکہ وہ اس کے عادی بن جائیں گے۔ البقرة
87 [١٠٠] بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہونے والے انبیاء :۔ ان میں سے جن انبیاء و رسل کا نام قرآن میں آیا ہے وہ یہ ہیں۔ (بہ ترتیب زمانی) ہارون، ذی الکفل، الیاس الیسع، داؤد، سلیمان، لقمان، (اختلافی) عزیر، یونس، زکریا۔ یحییٰ اور عیسیٰ علیہم السلام جنہیں سریانی زبان میں یسوع کہتے ہیں۔ [١٠١] معجزات سیدنا عیسیٰ:۔ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرتے تھے۔ کوڑھی اور اندھے کو فقط ہاتھ لگا کر تندرست کردیتے تھے۔ مٹی کا پرندہ بنا کر اس میں پھونک مارتے تو وہ اڑنے لگتا تھا اور آپ لوگوں کو یہ بھی بتا دیتے تھے کہ وہ کیا کچھ کھا کر آئے ہیں اور کیا کچھ گھر میں چھوڑ کر آئے ہیں اور ان تمام کاموں میں روح القدس یعنی جبریل علیہ السلام کی تائید آپ کے شامل حال رہتی تھی۔ [١٠٢] یہود اور انبیاء کا قتل :۔ جیسے ان لوگوں نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو بھی جھٹلایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اور سیدنا زکریا اور سیدنا یحییٰ علیہما السلام کو قتل کردیا۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو مروا ڈالنے کے درپے ہوچکے تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص مہربانی سے انہیں اوپر اپنے ہاں اٹھا لیا۔ البقرة
88 [١٠٣] یہود کا قول کہ ہمارے دل غلاف میں ہیں :۔ انسان کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنی بری صفات کو بھی خوبصورت بنا کر دکھانے کی کوشش کرتا ہے اور حقیقت کا اعتراف کرلینا اس کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔ الا ماشاء اللہ یہی حالت یہودیوں کی تھی۔ وہ دین اسلام کو برحق سمجھ لینے کے باوجود اسے قبول تو اس لیے نہیں کرتے تھے کہ اس طرح ان کا مذہبی تفوق و اقتدار خطرہ میں پڑجاتا تھا بلکہ چھن جاتا تھا مگر بظاہر اسے یوں پیش کرتے تھے کہ ہمارے عقائد اتنے مضبوط ہیں کہ وہ کوئی نیا عقیدہ قبول نہیں کرسکتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس دجل و فریب کی قلعی کھولتے ہوئے فرمایا : بات یوں نہیں بلکہ یہ اپنے کفر اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ملعون بن چکے ہیں اور یہ اس لعنت کا اثر ہے کہ ان کے دل حق بات کو قبول نہیں کرتے۔ [١٠٤] جیسے عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اور ان کے عقیدت مندوں کی جماعت اور بعض علماء ﴿فَقَلِیْلًا مَّا یُؤْمِنُوْنَ ﴾ کا ترجمہ یہ کرتے ہیں کہ وہ اللہ کی کتاب تورات میں سے بھی بہت تھوڑی باتوں پر ایمان لاتے ہیں اور اکثر احکام کا انکار کردیتے ہیں۔ البقرة
89 [١٠٥] آنے والے نبی کے واسطہ سے یہود کا نصرت طلب کرنا :۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل یہی یہود جب عرب قبائل سے، جنہیں یہ لوگ ازراہ حقارت امی اور اجڈ سمجھتے تھے، پٹتے تو اکثر اللہ تعالیٰ سے یوں دعا مانگا کرتے تھے کہ اے اللہ ! اپنے موعود نبی آخر الزمان کو مبعوث فرما کہ ہم اس کے ساتھ مل کر ان کافروں پر فتح حاصل کریں۔ پھر جب وہ نبی موعود آ گیا اور انہوں نے اسے کتاب اللہ (تورات) میں مذکور نشانیوں کے مطابق پوری طرح پہچان بھی لیا تو اس کا انکار کردیا۔ اور حقیقتاً کافر تو یہی لوگ ہیں جن پر اللہ کی لعنت ہے اور جن لوگوں کو یہ ان پڑھ اور اجڈ کہا کرتے تھے انہوں نے یہود ہی سے سنی ہوئی باتوں کے مطابق نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے میں سبقت کی تھی۔ البقرة
90 [١٠٦] ان یہود کے بغض و عناد کی اصل وجہ یہ تھی کہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم ان کی قوم سے کیوں نہیں آیا۔ اور اس قوم میں کیوں پیدا ہوا ہے؟ جسے یہ ان پڑھ، اجڈ اور اپنے سے حقیر تر سمجھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے کاموں کی حکمتیں خود بہتر سمجھتا ہے اور اپنے بندوں میں سے جسے مناسب سمجھتا ہے رسالت سے نوازتا ہے۔ تم اس کے فضل کے ٹھیکیدار تو نہیں کہ تم سے اللہ پوچھ کر اور جسے تم چاہو اسے رسالت عطا فرمائے۔ [١٠٧] یہود کے جرائم کی فہرست تو بہت طویل ہے جن میں سرفہرست ایک نبی کی موجودگی میں بچھڑے کی پرستش، انبیاء کا قتل اور دیدہ دانستہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا انکار ہے اور ایسے جرائم کی سزا تو جتنی بھی ہو وہ کم ہے۔ ضمناً اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہر عذاب ذلت کے لیے نہیں ہوتا بلکہ گنہگار مسلمانوں کو جو عذاب ہوگا وہ انہیں گناہوں سے پاک کرنے کے لیے ہوگا۔ ذلیل و رسوا کرنے کے لیے نہ ہوگا۔ البتہ کافروں کو جو عذاب دیا جائے گا وہ بغرض تذلیل ہوگا۔ البقرة
91 [١٠٨] یہود اپنے قول کے مطابق انجیل اور قرآن پر تو اس لیے ایمان نہیں لاتے تھے کہ یہ کتابیں ان کی طرف نازل نہیں ہوئیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر تم تورات پر ایمان لاتے ہو تو تورات میں کہیں یہ لکھا ہوا ہے کہ اگر کوئی ایسا نبی آئے جو تورات کی تصدیق کرتا ہو اور تورات ہی کے مطابق تمہاری رہنمائی کرتا ہو تو تم اسے قتل کرسکتے ہو؟ اگر یہ بات نہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمہارا تورات پر بھی ایمان نہیں۔ لہٰذا ہر لحاظ سے تم بے ایمان اور کافر ہو۔ البقرة
92 [١٠٩] یہ واضح معجزات صرف عصائے موسیٰ اور یدبیضا ہی نہ تھے۔ بلکہ بے شمار دوسرے معجزات بھی تھے جیسے سمندر کا پھٹ جانا، اور فرعون کی غرقابی۔ چٹان سے بارہ چشموں کا پھوٹ نکلنا، جنگل میں من و سلویٰ کا نزول وغیرہ وغیرہ۔ اتنے واضح معجزات دیکھنے کے بعد بھی تم اللہ کی الوہیت پر ایمان نہ لائے اور موسیٰ کی غیر حاضری میں تمہیں تھوڑا سا موقع ملا تو فوراً پھر سے بچھڑے کی پرستش شروع کردی۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ظلم ہوسکتا ہے؟ البقرة
93 [١١٠] میثاق کے وقت بھی تمہارے دل میں چور تھا :۔ یعنی جب تم سے تمہارے سروں پر طور پہاڑ کو جھکا کر تورات کے احکام پر عمل پیرا ہونے کا عہد لیا جا رہا تھا۔ جس کا پہلا اور بنیادی حکم یہی تھا کہ تم اللہ کے سوا کسی دوسرے کی عبادت نہ کرو گے اور نہ کسی کو اللہ کا شریک بناؤ گے تو تمہارے اسلاف نے کہا تھا کہ ہم نے یہ احکام سن لیے ہیں، اس وقت بھی تمہارے دل میں چور موجود تھا۔ کیونکہ گؤ سالہ پرستی کے جراثیم تمہارے دلوں میں موجود تھے۔ اور تم نے تورات کے احکام کو دل سے قطعاً تسلیم نہیں کیا تھا۔ [١١١] یعنی ایمان کا تقاضا تو یہ ہوتا ہے کہ انسان مشرکانہ اعمال و عقائد کو یکسر چھوڑ کر نیکی اور بھلائی کے کاموں کی طرف سبقت کرے۔ مگر تمہارا یہ ایمان کس قسم کا ایمان ہے جو مشرکانہ افعال، بدعہدیوں اور نافرمانیوں کی طرف لے جاتا ہے۔ تمہارے اسلاف بھی یہی کچھ کرتے رہے اور تم بھی انہی کی ڈگر پر چل رہے ہو۔ البقرة
94 [١١٢] آخرت سے متعلق یہود کی تمنا :۔ یہ یہود کی دنیا سے محبت پر ایک نہایت عمدہ پیرایہ میں تعریض ہے۔ کیونکہ جن لوگوں کو آخرت سے لگاؤ ہوتا ہے وہ دنیا پر اس قدر ریجھے ہوئے نہیں ہوتے اور نہ ہی موت سے ڈرتے ہیں۔ مگر یہودیوں کا حال اس کے بالکل برعکس تھا اور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دلیل سے یہود کے اس غلط دعویٰ کارد فرمایا جو وہ کہتے تھے کہ آخرت کا گھر ہمارے ہی لیے مخصوص ہے۔ البقرة
95 البقرة
96 [١١٣] یہود کی جینے کی ہوس :۔ مشرکین نہ آخرت کے قائل تھے نہ عذاب و ثواب کے اور نہ جنت و دوزخ کے لہٰذا ان کو مرنے کے بعد کوئی خطرہ نظر نہیں آتا تھا۔ جب کہ یہود روز جزا کے قائل تھے، اور اپنی بدکرداریوں کا حال بھی انہیں خوب معلوم تھا۔ لہٰذا وہ تادیر دنیا میں زندہ رہنے کے لیے مشرکوں کی نسبت بہت زیادہ حریص تھے اور آیت علیٰ حیوۃ کے لفظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہود کو بس دنیا کی زندگی کی ہوس ہے۔ وہ زندگی خواہ عزت کی ہو یا ذلت کی۔ اس سے انہیں کچھ غرض نہیں۔ حالانکہ یہی لمبی زندگی آخرت میں انہیں بچانا تو درکنار ان کے لیے اور زیادہ عذاب کا سبب بن جائے گی۔ البقرة
97 [١١٤] یہود کی جبریل دشمنی کی وجہ :۔ یہود یہ سمجھتے تھے کہ جبرئیل ہمارا دشمن ہے۔ وہ کہتے تھے کہ یہی وہ فرشتہ ہے جو کئی بار ہم پر عذاب اور ہمارے دشمنوں کو ہم پر غالب کرتا رہا ہے۔ چنانچہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے جب مدینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے کی خبر سنی تو اس وقت وہ باغ میں میوہ چن رہے تھے۔ اسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا’’میں آپ سے تین باتیں پوچھتا ہوں جنہیں پیغمبر کے سوا کوئی نہیں بتا سکتا آپ بتائیے کہ : قیامت کی پہلی نشانی کیا ہے؟ اور بہشتی لوگ بہشت میں جا کر سب سے پہلے کیا کھائیں گے؟ اور بچہ اپنے ماں باپ سے صورت میں کیوں ملتا جلتا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ابھی ابھی جبریل نے مجھے یہ باتیں بتائی ہیں‘‘ عبداللہ بن سلام نے کہا : ’’جبرائیل نے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں، ابن سلام نے کہا : سارے فرشتوں میں سے وہی تو یہودیوں کا دشمن ہے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی : ﴿مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ ﴾(بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ البقرۃ) [١١٥] یعنی جب جبریل ہی نے یہ قرآن اتارا ہے جو تمہاری کتاب تورات کی تصدیق کرتا ہے تو پھر جبریل سے دشمنی رکھنے کے کیا معنی؟ البقرة
98 [١١٦] جبریل دشمنی کا جواب :۔ وجہ یہ ہے کہ فرشتے تو اللہ کے حکم کے بغیر کوئی کام کر ہی نہیں سکتے اور جو فرشتوں کا دشمن ہے وہ دراصل اللہ کا دشمن اور کافر ہے، اور اللہ خود فرشتوں سے دشمنی رکھنے والے کافروں کا دشمن ہے۔ البقرة
99 البقرة
100 البقرة
101 [١١٧] یہود کا آیات کو پس پشت ڈال دینا :۔ یہاں دوبارہ یہود کے اس کردار پر گرفت کی گئی ہے کہ تورات میں مذکور نشانیوں کے مطابق یہود نے نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری طرح پہچان تو لیا۔ مگر ایمان لانے سے انکار کرنے کے بعد انہوں نے اس کتاب کے ان حصوں کو یوں فراموش کردیا جیسے وہ انہیں کبھی جانتے ہی نہ تھے۔ البقرة
102 [١١٨] اس آیت میں یہود کے ایک اور مکروہ کردار کو واضح کیا گیا ہے۔ یہود پر جب اخلاقی اور مادی انحطاط کا دور آیا تو انہوں نے تورات اور اس کے احکام کو پس پشت ڈال دیا اور جادو ٹونے، طلسمات، عملیات اور تعویذ گنڈوں کے پیچھے پڑگئے اور ایسی تدبیریں ڈھونڈھنے لگے جن سے مشقت اور جدوجہد کے بغیر محض پھونکوں اور منتروں سے سارے کام بن جایا کریں۔ چنانچہ وہ جادو وغیرہ سیکھنے سکھانے میں مشغول ہوگئے۔ یہ سیدنا سلیمان علیہ السلام کے عہد حکومت کی بات ہے۔ انہیں جب یہود کے اس رجحان کا علم ہوا تو انہوں نے ایسے ساحروں سے ان کی سب کتابیں چھین کر داخل دفتر کردیں۔ یہود کا سیدنا سلیمان علیہ السلام پر جادو کا الزام :۔ اب سلیمان علیہ السلام کو جو معجزات عطا ہوئے تھے وہ حکمت الٰہی کے مطابق ایسے عطا ہوئے جو جادو اور جادوگروں کی دسترس سے باہر تھے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے تمام سرکش جنوں کو آپ کے لیے مسخر کردیا تھا اور سلیمان علیہ السلام ان جنوں سے سخت مشقت کا کام لیتے تھے۔ ہوائیں آپ کے لیے مسخر تھیں جو آن کی آن میں آپ کا تخت مہینوں کی مسافت پر پہنچا دیتی تھیں۔ پرندے بھی آپ کے مسخر تھے اور آپ ان سے بھی کام لیتے تھے۔ آپ پرندوں کی بولی سمجھتے تھے اور پرندے بھی آپ کی بات سمجھ جاتے تھے وغیرہ وغیرہ۔ جب سلیمان علیہ السلام فوت ہوئے تو ان شیطان یہودیوں نے کہا کہ سیدنا سلیمان علیہ السلام تو یہ سب کچھ جادو کے زور پر کرتے تھے اور اس کی دلیل یہ پیش کی کہ سلیمان علیہ السلام کے دفتر میں جادو کی بے شمار کتابیں موجود ہیں۔ جادو سیکھنا سکھانا کفر ہے :۔ گویا جو کام سلیمان علیہ السلام نے اس فتنہ کے سدباب کے لئے کیا تھا۔ ان یہودیوں نے اسی فتنہ کو ان کی سلطنت کی بنیاد قرار دے کر ان پر ایک مکروہ الزام عائد کردیا اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے اسی الزام کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ کفر کا کام سلیمان نے نہیں کیا تھا بلکہ ان شیطان لوگوں نے کیا تھا جو جادو سیکھتے سکھاتے تھے۔ ضمناً اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ جادو سیکھنا اور سکھانا کفر ہے۔ [١١٩] ہاروت اور ماروت کا قصہ اور جادو سیکھنے والوں کا ہجوم :۔ سلیمان علیہ السلام کے جادو کو روکنے کے لیے اس اقدام کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہود کی ایک دوسرے طریقہ سے آزمائش فرمائی اور وہ یہ تھی کہ بابل شہر میں (جہاں آج کل کوفہ ہے) دو فرشتوں ہاروت اور ماروت کو پیروں، فقیروں کے بھیس میں نازل فرمایا اور اس آزمائش سے مقصد یہ تھا کہ آیا ابھی تک یہود کے اذہان سے جادو اور ٹونے ٹوٹکے کی عقیدت اور محبت زائل ہوئی ہے یا نہیں۔ جب یہودیوں کو ان پیروں اور فقیروں کی بابل میں آمد کا علم ہوا تو فوراً ان کی طرف رجوع کرنے لگے۔ ان فرشتوں کو یہ حکم دیا گیا کہ اگر تمہارے پاس کوئی شخص یہ ٹونے ٹوٹکے سیکھنے آئے تو پہلے اس کو اچھی طرح خبردار کردینا کہ یہ ایک کفر کا کام ہے اور ہم محض تمہارے امتحان کے لیے آئے ہیں۔ لہٰذا تم کفر کا ارتکاب مت کرو۔ پھر بھی اگر کوئی سیکھنے پر اصرار کرے تو اسے سکھادینا۔ چنانچہ جو لوگ بھی ان کے پاس جادو سیکھنے آتے، فرشتے اسے پوری طرح متنبہ کردیتے، لیکن وہ اس کفر کے کام سے باز نہ آتے اور سیکھنے پر اصرار کرتے اور ایسے ٹونے ٹوٹکے سیکھنے والوں کے ان فرشتوں کے ہاں ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگے رہتے تھے۔ [١٢٠] جادو کے ذریعہ میاں بیوی میں جدائی ڈالنا : طرفہ تماشہ یہ کہ ان سیکھنے والوں میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جو ایسا عمل سیکھنا چاہتے تھے۔ جس سے میاں بیوی کے درمیان جدائی ہوجائے اور پھر وہ بیوی اس سیکھنے والے پر عاشق ہوجائے اور میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈال دینا ہی سوسائٹی کا سب سے بڑا مفسدہ ہے۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے کہ ابلیس سمندر میں اپنے تخت پر بیٹھا رہتا ہے اور اپنے چیلوں اور چانٹوں کو ملک میں فساد پیدا کرنے اور لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے روزانہ بھیجتا رہتا ہے۔ شام کو یہ سب اکٹھے ہو کر ابلیس کے حضور اپنے اپنے کارنامے بیان کرتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ میں نے فلاں فتنہ کھڑا کیا اور کوئی کہتا ہے کہ میں نے فلاں شر بپا کیا مگر ابلیس انہیں کچھ اہمیت نہیں دیتا اور کہتا ہے کہ تو نے کچھ نہیں کیا، پھر ایک اور چیلا آ کر کہتا ہے کہ میں فلاں میاں بیوی میں جدائی ڈال کے آیا ہوں تو ابلیس خوش ہو کر اسے شاباش دیتا اور گلے لگا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ تھا کرنے کا کام جو اس نے سر انجام دیا ہے۔ (مسلم، کتاب صفۃ المنافقین، باب تحریش الشیطان و بعثۃ سرایاہ لفتنۃ الناس۔۔ الخ) اس حدیث کے مضمون پر غور کرنے سے یہ بات خوب سمجھ میں آ جاتی ہے کہ اس دور میں یہود میں اخلاقی انحطاط کس نچلے درجہ تک پہنچ چکا تھا کہ وہ میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالنے کا عمل ہی نہیں سیکھتے تھے۔ ( جس سے ان کی ذات کو کچھ فائدہ نہ تھا) بلکہ اس کے آگے ایسا عمل اور جنتر منتر بھی سیکھتے تھے۔ جس سے وہ جدا شدہ بیوی اس منتر کروانے والے پر عاشق ہوجائے۔ [١٢١] اس آیت سے مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ ١۔ جادو کیوں کفر ہے؟ جادو سے عموماً لوگوں کو نقصان پہنچانا ہی مقصود ہوتا ہے۔ کسی کے بھلے کے لیے کبھی کوئی جادو نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی کرواتا ہے۔ اس سے ضمناً یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں کو نقصان پہنچتا ہے وہ جادو کرنے والے اور کروانے والے دونوں کے دشمن بن جاتے ہیں اور بہت سے لوگ اسی وجہ سے جادوگروں کے دشمن ہوتے ہیں اور جادوگر خود بھی ہمیشہ نامراد رہتا ہے۔ جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت ﴿وَلَا یُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْثُ اَتٰی ﴾ (۶۹:۲۰) ٢۔ یہ ضروری نہیں کہ جادو وغیرہ کا اثر ضرور ہو۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت میں ہو تو اثر ہوگا ورنہ نہیں ہوتا۔ ٣۔ یہود کو پوری طرح علم تھا کہ یہ کفر کا کام ہے اور آخرت میں انہیں اس کی سزا مل کر رہے گی۔ البقرة
103 [١٢٢] عالم بے عمل جاہل ہے :۔ پہلی آیت میں فرمایا کہ ’’یہود کو اس بات کا علم تھا‘‘ اور اس آیت میں فرمای’’ کاش وہ جانتے ہوتے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی عالم اپنے علم کے خلاف گناہ کا کام کرتا ہے تو وہ درحقیقت عالم نہیں بلکہ جاہل ہے۔ لہٰذا وہ عالم کہلانے کا مستحق نہیں۔ البقرة
104 [١٢٣] یہود کی شرارتیں راعِیْنَا کہنا :۔ یہود جب کبھی آپ کی مجلس میں بیٹھتے اور آپ کے ارشادات سنتے اور کسی بات کو دوبارہ سننے یا سمجھنے کی ضرورت پیش آتی تو ازراہ عناد (رَاعِنَا) کہنے کی بجائے زبان کو مروڑ دے کر راعِیْنَا کہا کرتے۔ (رَاعِنَا) کا مطلب ہے ہماری طرف توجہ کیجئے۔ یعنی بات ذرا دہرا دیجئے اور راعِیْنَا کا معنی ہے ’’ہمارے چرواہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہود کی شرارت پر مطلع کرتے ہوئے فرمایا کہ تم (رَاعِنَا) کہنا چھوڑ دو بلکہ اس کے بجائے اُنْظُرْنَا کہہ لیا کرو (اس کا معنی بھی وہی ہے جو راعنا کا ہے) اگر بات کو پہلے ہی توجہ سے سن لیا کرو کہ انظرنا بھی کہنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے تو یہ زیادہ مناسب ہے اور یہ شرارتی یہود تو ہیں ہی کافر۔ جو یقیناً دردناک عذاب کے مستحق ہیں۔ البقرة
105 [١٢٤] یہود اور مشرکوں کا مسلمانوں کے مقابلہ میں گٹھ جوڑ :۔ یہودیوں کو اصل تکلیف تو یہ تھی کہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم ان میں کیوں مبعوث نہیں ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اولاد اسماعیل سے اور ایسی قوم میں پیدا ہوئے جنہیں یہود اپنے سے بہت کمتر اور حقیر سمجھتے تھے اور مشرکوں کو یہ تکلیف تھی کہ آپ خالصتاً ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دیتے تھے۔ جس کی زد ان پر، ان کے معبودوں پر، ان کے آباؤ اجداد پر اور ان کی چودھراہٹ پر پڑتی تھی۔ لہٰذا یہود اور مشرکین دونوں ہی پیغمبر اسلام، اسلام اور مسلمانوں کے شدید دشمن تھے۔ وہ مسلمانوں کے لیے کوئی بھلائی کی بات کیسے گوارا کرسکتے تھے، اور یہاں بھلائی اور رحمت سے مراد بالخصوص وہ احکام الہٰی ہیں جو مسلمانوں کی طرف نازل کئے جا رہے تھے۔ لہٰذا یہ دونوں فریق مسلمانوں کے خلاف متحد ہوجاتے تھے۔ البقرة
106 [١٢٥] نسخ کی بحث :۔یہود جن جن طریقوں سے لوگوں کو اسلام سے متنفر کرنے کا کردار ادا کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ قرآن کو مشکوک قرار دیا جائے۔ وہ لوگوں سے کہتے کہ اگر قرآن بھی منزل من اللہ ہے اور تورات تو منزل من اللہ ہے ہی۔ پھر قرآن اور تورات کے احکام میں اختلاف کیوں ہے؟ اس اعتراض کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ قرآن میں ایک حکم نازل ہوتا ہے پھر اس کی جگہ کوئی اور حکم آ جاتا ہے تو کیا اللہ تعالیٰ کو یہ علم نہیں کہ میں پہلے کیا حکم دے چکا ہوں اور اب کیا دے رہا ہوں؟ یہود کے ایسے ہی اعتراضات کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دیا ہے اور فرمایا کہ عیب نہ پہلے حکم میں تھا اور نہ دوسرے حکم میں ہے۔ حالات اور موقع کی مناسبت سے جس طرح کے احکام کی ضرورت ہوتی ہے، ویسے ہی دیئے جاتے ہیں اور تمہیں یہ جان لینا چاہیے کہ اللہ مالک الملک ہے وہ جیسے چاہے حکم دے سکتا ہے۔ پہلے کے احکام منسوخ بھی کرسکتا ہے اور نئے دے بھی سکتا ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ کی آیات میں تبدیلی دو طرح سے قرآن میں واقع ہوئی ہے۔ ایک نسخ سے دوسرے بھلا دینے سے۔ یہاں ہم ان دونوں قسموں کی تفصیل بیان کریں گے : متقدمین نے نسخ کا مفہوم بہت وسیع معنوں میں لیا۔ وہ احکام میں تدریج کو بھی نسخ کے معنوں میں لیتے تھے اور اس طرح انہوں نے آیات منسوخہ کی تعداد پانچ سو تک شمار کردی جب کہ احکام میں تدریج پر نسخ کا اطلاق درست نہیں۔ نسخ سے مراد کسی حکم کا اٹھ جانا ہے اس لحاظ سے شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے آیات منسوخہ صرف پانچ شمار کی ہیں۔ جن کی مثالیں درج ذیل ہیں۔ قرآن سے نسخ کی مثالیں :۔ 1۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ١٨١ میں فرمایا کہ آیت ﴿ کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ ۔۔۔۔۔۔ بالْمَعْرُوْفِ﴾ اس آیت کی رو سے میت پر والدین اور اپنے قریبی رشتہ داروں کے حق میں مرنے سے پہلے وصیت کرنا فرض تھا۔ پھر جب سورۃ نساء کی آیت نمبر ١١ اور ١٢ میں اللہ تعالیٰ نے میراث کے حصے خود ہی والدین اور اقربین کے حق میں مقرر فرما دیئے تو اس آیت کا حکم منسوخ ہوگیا اور میت پر وصیت کرنا فرض نہ رہا۔ بلکہ اب وہ صرف غیر ذوی الفروض کے حق میں ہی وصیت کرسکتا ہے اور وہ بھی زیادہ سے زیادہ تہائی مال تک، نیز یہ وصیت فرض نہیں بلکہ اختیاری ہے اور مستحب ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ نساء کی آیت نمبر ١٥ میں زانیہ عورت کی یہ سزا مقرر فرمائی کہ بقیہ عمر اسے گھر میں مقید رکھا جائے۔ اور ساتھ ہی یہ بھی ذکر فرمایا کہ شاید اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی نئی سزا مقرر فرما دے۔ پھر جب سورۃ نور نازل ہوئی جس میں زانی مرد کو اور زانی عورت کو سو سو کوڑے مارنے کا ذکر ہے تو اس حکم سے پہلی سزا کا حکم اٹھ گیا۔ یعنی وہ منسوخ ہوگئی۔ ٣۔ سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٢٤٠ کی رو سے میت کے وارثوں پر فرض تھا کہ وہ اس کی بیوہ کو ایک سال گھر سے نہ نکالیں اور اس کا خرچ برداشت کریں۔ بعد میں جب بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن مقرر ہوگئی۔ نیز آیت میراث کی رو سے خاوند کے ترکہ میں بیوی کا حصہ بھی مقرر ہوگیا تو اس آیت کا حکم منسوخ ہوگیا۔ اب بیوہ کے حق میں تو یہ حکم ہوا کہ وہ بس عدت کے ایام اپنے مرنے والے شوہر کے ہاں گزارے۔ بعد میں وہ آزاد ہے اور اس دوران نان و نفقہ بھی وارثوں کے ذمہ اور ترکہ سے ہی ہوگا اور سال بھر کے خرچہ کا مسئلہ میراث میں حصہ ملنے سے حل ہوگیا۔ مندرجہ مثالیں ایسی ہیں جن میں سابقہ آیت کا حکم قطعاً منسوخ ہے۔ اب ہم کچھ ایسی مثالیں بیان کرتے ہیں۔ جن میں دونوں قسم کے حکم حالات کے تقاضوں کے تحت ساتھ ساتھ چلتے ہیں مثلاً: ١۔ سورۃ انفال (جو جنگ بدر کے فوراً بعد نازل ہوئی تھی) کی آیت نمبر ٦٥ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جرأت ایمانی کا معیار مقرر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک مسلمان کو دس کافروں پر غالب آنا چاہیے۔ یہ حکم ان مسلمانوں کے لیے تھا جو علم و عمل میں پختہ اور ہر طرح کی سختیاں برداشت کرچکے تھے اور ان کا اللہ تعالیٰ پر توکل کامل تھا۔ بعد میں اسلام لانے والے مسلمان جن کی تربیت بھی پوری طرح نہ ہوسکی تھی۔ ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے معیار میں کافی تخفیف کرتے ہوئے اگلی آیت میں فرمایا کہ ان میں سے بھی ایک مسلمان کو کم از کم دو کافروں پر ضرور غالب آنا چاہیے۔ اب اس بعد والے حکم سے پہلا حکم منسوخ نہیں ہوا۔ بلکہ جب بھی کسی خطہ میں تحریک جہاد شروع ہوگی تو حالات کے مطابق دونوں قسم کے احکام لاگو ہوں گے۔ ٢۔ سورۃ محمد کی آیت نمبر ٤ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جنگ کے بعد جنگی قیدیوں کو خواہ فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے یا احسان رکھ کر۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنگی قیدیوں کو لونڈی غلام بنانے سے منع فرما دیا ہے۔ دوسری طرف سورۃ احزاب کی آیت نمبر ٥٠ کی رو سے عام مسلمان تو درکنار خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگی قیدیوں کو لونڈی غلام بنانے بلکہ لونڈیوں سے تمتع کی بھی اجازت فرما رہے ہیں اور ان دونوں طرح سے احکام میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کا ناسخ نہیں ہے۔ بلکہ حالات کے تقاضوں کے مطابق دونوں میں سے کسی نہ کسی پر عمل درآمد ہوگا اور ایسی مثالیں قرآن میں اور بھی بہت ہیں۔ آیات میں تبدیلی کی دوسری صورت اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی کہ ہم اس آیت یا اس جملہ کو بھلا ہی دیتے ہیں۔ جیسا کہ سورۃ اعلیٰ میں فرمایا : ﴿ سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنسَىٰ إِلَّا مَا شَاءَ اللَّـهُ  ﴾(۸۷: ۶ ،۷) یعنی ہم تمہیں پڑھائیں گے جسے تم بھولو گے نہیں مگر جو اللہ چاہے۔ اور اس بھلانے کی صورت یہ ہوتی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال رمضان میں حضرت جبریل علیہ السلام کے ساتھ نازل شدہ قرآن کریم کا دور کیا کرتے، اس دوران جن الفاظ یا جس جملہ کو منسوخ کرنا اللہ کو منظور ہوتا تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھول جاتے تھے اور جبریل علیہ السلام بھی اس کا تکرار نہیں کرتے تھے۔ ایسے نسخ کی بھی چند مثالیں درج ذیل ہیں۔ ١۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٢٦ میں فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ اس بات سے نہیں شرماتا کہ وہ مچھر یا اس سے بھی کسی حقیر مخلوق کی مثال بیان کرے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی آیت بھی نازل کی تھی جس میں مچھر کی مثال بیان کی گئی تھی۔ جسے کافروں نے اضحوکہ بنایا تھا اور چونکہ وہ مچھر کی مثال والی آیت قرآن میں موجود نہیں۔ لہٰذا اس کے متعلق یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ بھلا دی گئی تھی۔ ٢۔ سورۃ نساء کی آیت نمبر ٢٤ میں آیت (فَـمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ مِنْھُنَّ ﴾ کے بعد ﴿اِلیٰ اَجَلٍٍ مُسَمًّی﴾ کے الفاظ بھی نازل ہوئے تھے جس کی رو سے مجاہدین کے لیے محاذ جنگ کے دوران متعہ حلال ہوتا رہا۔ لیکن بالآخر اس کی ابدی حرمت ہوگئی تو یہ آخری الفاظ بھی اللہ تعالیٰ نے بھلا دیئے اور شامل قرآن نہ ہو سکے۔ ٣۔ آیت رجم بھی اس قبیل سے ہے جس کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی آخری زندگی کے ایک خطبہ میں برسر منبر فرمایا تھا۔ ’’اس کتاب اللہ میں رجم کے حکم کی بھی آیت تھی۔ جسے ہم نے پڑھا، یاد کیا۔ اور اس پر عمل بھی کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی رجم ہوا اور ہم نے بھی رجم کیا۔ مجھے ڈر ہے کہ کچھ زمانہ گزرنے کے بعد کوئی یہ نہ کہنے لگے کہ ہم رجم کو کتاب اللہ میں نہیں پاتے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اس فریضہ کو جسے اللہ نے اپنی کتاب میں اتارا چھوڑ کر مر جائیں۔ کتاب اللہ میں رجم کا حکم مطلق حق ہے اس پر جو زنا کرے اور شادی شدہ ہو۔ خواہ مرد ہو یا عورت، جبکہ اس کے زنا پر کوئی شرعی ثبوت یا حمل موجود ہو۔‘‘ (بخاری، کتاب المحاربین۔ باب رجم الحبلیٰ) معتزلہ کا نسخ سے انکار۔۔رہی یہ بات کہ اگر یہ آیت منسوخ ہوگئی یا بھلا دی گئی تو اس کا حکم کیسے باقی رہ گیا۔ یہ تفصیل سورۃ نور کی آیت نمبر ٢ کے تحت ملاحظہ فرمائی جائے۔ یہاں صرف یہ بات چل رہی ہے کہ منزل من اللہ وحی میں سے اللہ کی حکمت کے تحت کچھ آیات یا جملے یا الفاظ بھلا بھی دیئے گئے اور کچھ احکام منسوخ بھی ہوئے ہیں۔ چونکہ مسلمانوں میں بھی ایک فرقہ قرآن میں کسی طرح کے نسخ کا قائل نہیں لہٰذا یہ مثالیں پیش کرنا ضروری سمجھا گیا، اور ان پر اکتفا کیا گیا۔ حالانکہ قرآن میں ایسی اور بھی مثالیں موجود ہیں۔ یہود کے لوگوں کواسلام سے متنفر کرنےکےطریقے:۔بعض روایات میں آیا ہے بعض صحابہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ ہم فلاں آیت پڑھا کرتے تھے جو بعد میں منسوخ ہوگئی۔ ان روایات کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ بعض دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی آیت کی تشریح میں کوئی جملہ فرما دیا لیکن صحابہ رضی اللہ عنہم نے اسے آیت کا حصہ ہی سمجھ لیا، پھر جب ایسے جملوں کا قرآن کے ان اجزاء سے مقابلہ کیا گیا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوائے تھے۔ تب صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو معلوم ہوا کہ وہ جملے قرآن کی آیت کا حصہ نہیں تھے اور اس کی بھی کئی مثالیں احادیث میں موجود ہیں۔ البقرة
107 البقرة
108 [١٢٦] اسلام سے متنفر کرنے کا دوسرا طریقہ جو یہود نے اختیار کیا وہ یہ تھا کہ موشگافیاں کر کے طرح طرح کے سوالات مسلمانوں کے سامنے پیش کرتے اور انہیں کہتے کہ اپنے نبی سے یہ بات بھی پوچھ کر بتاؤ اور وہ بھی اور یہ بھی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے متنبہ کیا کہ یہود کی تو عادت ہی یہ رہی ہے انہوں نے تو موسیٰ علیہ السلام کو مسلسل سوالات اور مطالبے کر کر کے تنگ کردیا تھا۔ اس طرح کی موشگافیاں کافرانہ روش ہے اور یہ کام ایسے لوگ کرتے ہیں جو اطاعت و فرمانبرداری پر آمادہ نہیں ہوتے۔ لہٰذا تم ایسے لایعنی اور بے مقصد سوالات کرنے سے پرہیز کرو۔ یہود کا سوالات کرکرکے تنگ کرنا:۔ اور سورۃ مائدہ میں فرمایا۔ ’’مسلمانو! اپنے رسول سے ایسے سوالات مت پوچھا کرو کہ اگر ان کا جواب دیا جائے تو تمہیں برا لگے۔‘‘ (٥ : ١٠١) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بارہا متنبہ فرمایا کہ قیل و قال اور بال کی کھال اتارنے کی وجہ سے پچھلی امتیں تباہ ہوئیں۔ لہٰذا تم ایسی باتوں سے پرہیز کرو اور جن باتوں کو اللہ اور اس کے رسول نے نہیں چھیڑا ان میں خواہ مخواہ کرید نہ کرو۔ البقرة
109 [١٢٧] یہود کے حسد اور عناد کی وجہ تو اوپر مذکور ہوچکی۔ اس لیے کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو مختلف طریقوں اور حیلوں بہانوں سے اسلام سے برگشتہ کر کے مسلمانوں کی قوت کو کمزور تر کردیں۔ لہٰذا اے مسلمانو! تم ان کے اندرونی عناد اور بغض کی حقیقت کو خوب سمجھ لو اور ان کا ردعمل دیکھ کر مشتعل نہ ہوجاؤ، نہ ان سے بحث و مناظرہ میں الجھو اور نہ اپنا وقت ضائع کرو بلکہ انہیں درخور اعتنا نہ سمجھتے ہوئے ان کے حال پر چھوڑ دو، اور صبر کے ساتھ دیکھتے رہو کہ اللہ ان کے حق میں کیا فیصلہ فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو پوری سزا دے کے رہے گا۔ کیونکہ وہ ہر بات اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ [ ١٢٨] یہود کی شرارتوں کی سزا: اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہوا کہ ان کے ساتھ جہاد کیا جائے۔ پھر ان میں سے کچھ (بنو نضیر) تو نہایت ذلت کے ساتھ جلاوطن کئے گئے اور بعد میں جزیہ دینے پر مجبور ہوئے اور بعض دوسرے (بنو قریظہ) قید ہوئے اور پھر قتل کردیئے گئے اور ان کی عورتیں اور بچے لونڈی و غلام بنا لیے گئے۔ البقرة
110 [١٢٩] (فَاعْفُوْا) سے لے کر مسلسل مسلمانوں سے خطاب ہے۔ یعنی یہود کی شرارتوں کی طرف توجہ دینے کے بجائے اللہ کی عبادت میں مشغول رہا کرو اور زکوٰۃ ادا کیا کرو، ایسے تمام کاموں کا تمہیں یقینا آخرت میں بدلہ مل جائے گا۔ البقرة
111 البقرة
112 [١٣٠] یہاں سابق مضمون کو ہی دہرایا جا رہا ہے۔ یعنی زبانی دعوے اور جھوٹی آرزوئیں بیکار چیزیں ہیں یہ خواہ یہود کی ہوں یا نصاریٰ کی یا مسلمانوں کی یا کسی اور کی۔ اخروی نجات کے لیے اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس ایمان کے تقاضوں کے مطابق صالح اعمال بجا لانا ضروری ہے اسلام لانے کافائدہ سابقہ گناہ معاف : ١۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ’’جب کوئی شخص اسلام لائے اور ٹھیک طور پر لائے تو اس کی سابقہ تمام برائیاں دور کردی جاتی ہیں اور اس کے بعد جو حساب شروع ہوگا وہ یوں ہوگا ہر نیکی کے عوض دس سے لے کر سات سو تک نیکیاں (لکھی جائیں گی) اور برائی کے عوض ویسی ہی ایک برائی لکھی جائے گی۔ الا یہ کہ اللہ وہ بھی معاف کر دے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الایمان، باب حسن اسلام المرء) ٢۔ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! بھلا دیکھیے جو کام میں نے جاہلیت کے زمانہ میں کئے تھے۔ جیسے صدق یا غلام آزاد کرنا یا صلہ رحمی وغیرہ ان کا مجھے ثواب ملے گا ؟ آپ نے فرمایا تو اسلام لایا ہی اس شرط پر ہے کہ تیری سابق نیکیاں بحال رہیں۔ میں نے کہا ''یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کی قسم! میں نے جتنے کام جاہلیت میں کئے ہیں۔ ان میں سے کوئی کام نہ چھوڑوں گا۔ اتنے ہی سب کام اسلام کی حالت میں بھی کرتا رہوں گا۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب بیان حکم عمل الکافر إذا أسلم بعدہ) ٣۔ عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے جاہلیت کے زمانے میں سو غلام آزاد کئے تھے اور سو اونٹ سواری کے لیے اللہ کی راہ میں دیئے تھے۔ پھر انہوں نے اسلام کی حالت میں بھی سو غلام آزاد کئے اور سو اونٹ اللہ کی راہ میں سواری کے لیے دیئے۔ (مسلم : حوالہ ایضاً) البقرة
113 [١٣١] یہود، نصاریٰ ، مشرکین سب کو اپنے دین پر فخر :۔یہود تورات بھی پڑھتے ہیں اور انجیل بھی، اسی طرح نصاریٰ بھی یہ دونوں کتابیں پڑھتے ہیں۔ تاہم یہودی عیسائیوں کو اس لیے کافر سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ایک کے بجائے تین خدا بنا رکھے ہیں اور نصاریٰ یہود کو اس لیے کافر سمجھتے ہیں کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان نہیں لائے۔ حالانکہ تورات میں ان کی بشارت موجود ہے۔ [١٣٢] ان سے مراد مشرکین عرب ہیں جنہیں امی کہا جاتا تھا۔ یہ لوگ اگرچہ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے تھے۔ تاہم اپنے آپ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا پیروکار سمجھتے تھے، نماز، روزہ، اپنے دستور کے مطابق بجا لاتے تھے صدقات و خیرات کرتے تھے، حج کرتے تھے، حاجیوں کی خدمت کرتے اور ان کے لیے پانی کا بندوبست کرتے تھے۔ یہ لوگ اپنے علاوہ دوسروں کو گمراہ اور بےدین سمجھتے تھے۔ [١٣٣] یعنی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سب کو بتلا دے گا کہ دین میں گمراہی کے کون کون سے امور تم نے شامل کر رکھے تھے۔ گو آج بحث اور مناظروں سے کوئی فرقہ بھی اپنی گمراہی تسلیم کرنے کو آمادہ نہیں ہے۔ البقرة
114 [١٣٤] جب نصاریٰ یہود پر غالب ہوئے تو انہوں نے یہود کو بیت المقدس میں داخل ہونے اور عبادت کرنے سے روک دیا تھا اور دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مشرکین مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو کعبہ میں نماز ادا کرنے سے روکتے رہے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر عمرہ سے روک دیا۔ اس طرح یہ لوگ اللہ کی مساجد کی رونق اور آبادی کے بجائے ان کی بربادی کے درپے ہوئے اور یہ بہت بڑا ظلم ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کو قطعاً گوارا نہیں۔ چنانچہ فتح مکہ کے بعد مشرکین مکہ کی یہ پابندی ختم ہوئی اور بیت المقدس کو عہد فاروقی رضی اللہ عنہ میں مسلمانوں نے عیسائیوں سے آزاد کرا لیا۔ مساجد کے متولیوں کےاوصاف :۔ اللہ تعالیٰ کا اس حکم سے منشا یہ ہے کہ عبادت گاہوں کے متولی خالصتاً اللہ تعالیٰ کی پرستش کرنے والے اور اسی سے ڈرنے والے ہونے چاہئیں تاکہ شریر لوگ اگر وہاں جائیں تو انہیں خوف ہو کہ اگر شرارت کریں گے تو سزا پائیں گے۔ لیکن جو لوگ خلوص نیت سے عبادت کے لیے مساجد میں داخل ہوں۔ انہیں کسی وقت بھی مساجد میں داخل ہونے سے روکنا نہیں چاہیے۔ کیونکہ اللہ کی عبادت سے روکنا بہت بڑا گناہ ہے۔ البقرة
115 [١٣٥]نماز میں قبلہ رخ ہونا:۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر نفل ادا کر رہے تھے اور سواری کسی بھی سمت کو رخ کرلیتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مکہ سے مدینہ آ رہے تھے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہی آیت پڑھی اور فرمایا کہ یہ آیت اسی باب میں ہے (ترمذی ابو اب التفسیر زیر آیت بالا) ایک روایت میں یہ ہے کہ ایک سفر میں صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ رات اندھیری تھی ہر ایک کو قبلہ جدھر معلوم ہوا نماز ادا کرلی اور نشان کے طور پر پتھر رکھ لیے صبح کو معلوم ہوا وہ بعض لوگوں نے غلط سمت میں نماز ادا کی ہے۔ ان کو تردد ہوا تب یہ آیت نازل ہوئی۔ اور قتادہ سے مروی ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے اور اس کی ناسخ ﴿فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ﴾ہے۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر زیر آیت بالا) واضح رہے کہ وحدت الوجود کے قائل صوفی حضرات اس آیت کو وحدت الوجود کی صحت پر دلیل کے طور پر پیش فرمایا کرتے ہیں۔ چنانچہ خواجہ حسن سنجری فرماتے ہیں کہ کافراں سجدہ کہ بروئے بتاں مے کردند ہمہ اوسوئے تو بود و ہمہ سو روئے تو بود یعنی کافر جو بتوں کو سجدہ کرتے ہیں تو ان کا منہ دراصل تیری ہی طرف ہوتا ہے۔ کیونکہ ہر طرف تیرا ہی چہرہ ہوتا ہے۔ اس آیت کے نزول کا سبب اور اس کے منسوخ ہونے کے متعلق ہم اوپر لکھ چکے ہیں۔ اس کے باوجود اگر ان حضرات کے اس نظریہ کو درست سمجھا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر تحویل قبلہ کی آخر کیا ضرورت اور اہمیت تھی جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسی سورۃ بقرہ میں ٩ آیات نازل فرمائیں؟ سنجری صاحب کے اس شعر سے یہ ضرور معلوم ہوجاتا ہے کہ جب انسان پہلے سے ذہن میں ایک نظریہ قائم کر کے پھر سے قرآن سے ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کس حد تک کج فکری سے کام لے سکتا ہے۔ چنانچہ سنجری صاحب نے بت پرستوں کو بت پرستی کے فعل کی بھی تحسین فرما کر اسے درست قرار دے دیا۔ [ ١٣٦] یعنی اللہ تعالیٰ تنگ نظر اور تنگ دل نہیں، بلکہ اس کی خدائی بھی وسیع، زاویہ نظر بھی وسیع اور دائرہ فیض بھی وسیع ہے۔ لہٰذا اگر قبلہ کی تلاش میں خطا ہو بھی جائے تو وہ قابل گرفت نہیں وہ خوب جانتا ہے کہ اس کا فلاں بندہ کہاں، کس وقت اور کس نیت سے یاد کر رہا ہے۔ البقرة
116 [١٣٧] اللہ تعالیٰ کی اولادقراردینے والے:۔ یہود کہتے ہیں کہ عزیر علیہ السلام اللہ کا بیٹا ہے اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ عیسیٰ بن مریم علیہما السلام اللہ کا بیٹا ہے۔ اور مشرکین کہتے ہیں کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ اس کی تردید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آسمانوں، اور زمین میں جو کچھ ہے سب اسی کی ملک اور وہ ان کا مالک ہے۔ لہٰذا تمام اشیاء مملوک ہوئیں اور بیٹا شریک ہوتا ہے مملوک نہیں ہوتا۔ لہٰذا اللہ کی اولاد ہونا ناممکن ٹھہرا، اور ایک حدیث صحیح قدسی میں وارد ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ بنو آدم نے مجھے جھٹلایا اور گالی دی۔ اس کا جھٹلانا تو یہ ہے کہ میں اسے دوبارہ پیدا نہ کرسکوں گا اور اس کا گالی دینا یہ ہے جو اس نے میرے لیے بیوی اور بیٹا تجویز کیا۔ (بخاری، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ اخلاص) البقرة
117 [١٣٨] بدیع کے معنی ہیں ایسی چیز کو وجود میں لانے والا جس کی پہلے کوئی نظیر موجود نہ ہو، نہ اس کا وجود موجود ہو اور نہ کوئی نمونہ اور یہ صفت صرف اللہ تعالیٰ کی ہی ہو سکتی ہے۔ البقرة
118 [١٣٩] یعنی اس قسم کے مطالبات جاہل لوگ کیا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خود ہمارے پاس آ کر بتائے کہ یہ واقعی میرا رسول ہے یا کوئی ایسی واضح علامت یا معجزہ ہمیں دکھلائے جس سے ہمیں یقین آ جائے۔ اسی صورت میں ہم ایمان لا سکتے ہیں۔ یہ سب جہالت کی باتیں ان میں سے اکثر ناممکن العمل ہیں۔ پہلے لوگ بھی ایسے مطالبے کرتے رہے اور آج بھی جاہل لوگ اسی طرح کے مطالبے کر رہے ہیں۔ [ ١٤٠] یعنی مزاج کے لحاظ سے پہلے زمانہ کے گمراہوں اور ان گمراہوں میں کچھ فرق نہیں۔ ایسے جاہل لوگ ایک ہی قسم کے اعتراضات اور مطالبات پیش کرتے رہتے ہیں۔ [١٤١] اور جن لوگوں نے ایمان لانا ہو ان کے لیے تو ہماری نشانیوں کی کوئی کمی نہیں۔ ایک ایک آیت پر ان کا ایمان پختہ سے پختہ تر ہوتا جاتا ہے اور جو لوگ کفر پر اڑے رہنا چاہتے ہیں انہیں البتہ کوئی نشانی نظر نہیں آتی۔ البقرة
119 [١٤٢] مثلاً تمہارے پاس جو رسول آیا ہے۔ تم خود جانتے ہو اس نے آج تک کبھی جھوٹ نہیں بولا تو کیا جو شخص کسی انسان سے جھوٹ نہیں بولتا۔ وہ اللہ پر جھوٹ تراش سکتا ہے؟ نیز تم یہ جانتے ہو کہ وہ لکھنا پڑھنا جانتا ہی نہیں۔ اس کا کوئی استاد بھی نہیں پھر وہ ایسا کلام پیش کرتا ہے جس کے مقابلہ میں کلام لانے سے تم سب کے سب عاجز ہو تو کیا صرف یہی بات اللہ کے وجود، نبی کی نبوت اور قرآن کے کلام الٰہی ہونے کا واضح ثبوت نہیں؟ مگر جو شخص ماننے کا ارادہ ہی نہ رکھتا ہو کوئی بھی نشانی اسے ایمان لانے پر مجبور نہیں کرسکتی۔ [ ١٤٣] یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام صرف اللہ کا پیغام بندوں تک پہنچا دینا ہے۔ اب اگر لوگ ایمان نہیں لاتے اور دوزخ کے مستحق ٹھہرتے ہیں تو اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کچھ الزام نہیں۔ البقرة
120 [١٤٤] یہاں ملت سے مراد وہ دین نہیں جو تورات میں یا انجیل میں مذکور ہے بلکہ وہ دین ہے جس میں وہ سب خرافات بھی شامل ہیں جنہیں ان لوگوں نے دین سمجھ رکھا ہے اور وہ رنگ ڈھنگ بھی جو یہ لوگ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ لہٰذا انہیں خوش رکھنے کی فکر چھوڑ دیجئے کیونکہ جب تک آپ عقائد و اعمال کی انہیں گمراہیوں میں مبتلا نہ ہوجائیں جن میں یہ پڑے ہوئے ہیں اس وقت تک ان کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے راضی ہونا محال ہے۔ [ ١٤٥] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کےبعد تمام لوگوں کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاناواجب ہے: اللہ کی طرف سے ہدایت ہر زمانہ میں اس زمانہ کے تقاضوں کے مطابق ہی آتی ہے اور وہی ہدایت معتبر ہوتی ہے جو اس زمانہ کا نبی لائے۔ سو اس دور میں اللہ کی ہدایت قرآن میں ہے اور اسی پر سب کو ایمان لانا ضروری ہے۔ چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تورات کا ایک نسخہ لے کر آئے اور کہنے لگے۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تورات کا نسخہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپ رہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے پڑھنا شروع کردیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ متغیر ہوتا چلا جا رہا تھا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ صورت حال دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا تجھے گم کرنے والیاں گم کریں کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہیں دیکھتے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ میں غصہ کے آثار دیکھے تو کہنے لگے کہ ’’میں اللہ سے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے غضب سے پناہ مانگتا ہوں۔ ہم اللہ کے پروردگار ہونے پر اسلام کے دین ہونے پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہوئے۔‘‘ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے۔ اگر موسیٰ آج موجود ہوں اور تم مجھ کو چھوڑ کر اس کی پیروی کرو تو گمراہ ہوجاؤ گے، اور اگر موسیٰ علیہ السلام خود زندہ ہوتے اور میری نبوت کا زمانہ پاتے تو ضرور میری پیروی کرتے۔‘‘ (دارمی، بحوالہ مشکوٰۃ شریف، کتاب الایمان باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ فصل ثالث) اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ ہی کی دوسری روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ ’’اگر موسیٰ زندہ ہوتے تو انہیں بھی میری اتباع کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ ہوتا۔‘‘(احمد بیہقی فی شعب الایمان، بحوالہ مشکوٰۃ باب ایضاً فصل ثانی) [ ١٤٦] یہ تنبیہ بطریق فرض ہے۔ یعنی بالفرض آپ بھی ایسا کریں تو آپ کو اللہ سے کوئی بچا نہیں سکتا۔ گویا امت کو انتہائی تاکید سے آگاہ کیا جا رہا ہے کہ اگر کوئی شخص اسلام لانے کے بعد پھر سے یہودی یا عیسائی بن جائے تو اسکو اللہ کے عذاب سے کوئی نہ بچا سکے گا۔ البقرة
121 [١٤٧]اہل کتاب میں منصف :۔ یہودیوں میں کچھ تھوڑے سے لوگ انصاف پسند بھی تھے جو اپنی کتاب کو نیک نیتی سے پڑھتے اور سمجھتے تھے۔ ایسے ہی لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پر ایمان لائے جیسے عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی۔ اور ان کے ایمان لانے کی وجہ یہ تھی کہ وہ تورات کو غور سے اور سمجھ کر نیک نیتی سے پڑھتے تھے، اور جو لوگ تورات سے ہدایت حاصل کرنے کے بجائے اس کی تحریف و تاویل کے درپے ہوئے وہ خائب و خاسر ہوئے۔ البقرة
122 [١٤٨]یہود کے تفصیلی ذکرکےبعد آخرمیں پھر تنبیہ :۔ بنی اسرائیل کا ذکر پانچویں رکوع سے شروع ہو کر چودھویں رکوع تک پورے دس رکوعات میں پوری تفصیل سے کیا گیا اور بتلایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے تو ان کو تمام اقوام عالم پر فضیلت دے کر تمام بنی نوع انسان کی ہدایت کا فریضہ انہیں سونپا تھا۔ مگر ان میں بے شمار ایسی اخلاقی بیماریاں پیدا ہوچکی تھیں۔ جن کی وجہ سے یہ امامت کے قابل ہی نہ رہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی ایسی تمام اخلاقی بیماریوں کا ذکر تفصیل سے بیان کردیا ہے اور آخر میں انہیں وہی ہدایت کی جا رہی ہے جو ابتداء میں بھی کی گئی تھی کہ اس دن سے ڈر کر اب بھی اپنی خباثتوں سے باز آ جاؤ۔ جس دن کوئی شخص دوسرے کے کام نہ آسکے گا، نہ بدلہ قبول کیا جائے گا نہ کسی کی سفارش فائدہ دے سکے گی اور نہ ہی مدد کا کوئی اور ذریعہ کام آسکے گا۔ البقرة
123 البقرة
124 [١٤٩]سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا امتحان کن کن باتوں میں ہوا:۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تمام دنیا کی امامت ایسے ہی نہیں مل گئی تھی بلکہ آپ کی سن شعور سے لے کر مرنے تک پوری زندگی قربانی ہی قربانی تھی۔ دنیا میں انسان جن چیزوں سے محبت کرتا ہے ان میں کوئی چیز بھی ایسی نہ تھی جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حق کی خاطر قربان نہ کیا ہو اور ان کی خاطر مصائب نہ جھیلے ہوں جن میں سے چند ایک یہ ہیں : ١۔ آپ ایک بت گر اور بت فروش کے گھر پیدا ہوئے۔ باپ چاہتا تھا کہ بیٹا اس کام میں ان کا ہاتھ بٹائے۔ لیکن آپ علیہ السلام نے الٹا احسن انداز میں سمجھانا شروع کردیا۔ جب باپ آپ علیہ السلام کی طرف سے مایوس ہوگیا تو گھر سے نکال دینے کی دھمکی دے دی۔ آپ علیہ السلام نے حق کی خاطر جلاوطنی کی صعوبتیں قبول کیں۔ ٢۔ قومی میلہ کے موقع پر بتوں کو پاش پاش کیا جس کے نتیجہ میں آپ علیہ السلام کو آگ میں جلا دینے کا فیصلہ ہوا۔ آپ علیہ السلام نے بخوشی اس میں کودنا منظور کیا۔ ٣۔ آپ علیہ السلام نے اپنی بیوی ہاجرہ علیہا السلام اور دودھ پیتے بچے کو اللہ کے حکم کے مطابق ایک بے آب و گیاہ میدان میں جا چھوڑا۔ جہاں کھانے پینے کا کوئی بندوبست نہ تھا اور نہ ہی دور دور تک کسی آبادی کے آثار نظر آتے تھے۔ ٤۔ بوڑھی عمر میں ملے ہوئے بچے اسماعیل علیہ السلام جب ذرا جوان ہوئے تو ان کو قربان کردینے کا حکم ہوا تو آپ بےدریغ اور بلاتامل اس پر آمادہ ہوگئے۔ غرض آپ کی قربانیوں اور آزمائشوں کی فہرست خاصی طویل ہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے خود یہ سرٹیفکیٹ عطا کردیا کہ ہم نے ابراہیم علیہ السلام کی کئی باتوں سے آزمائش کی تو وہ ہر امتحان میں پورے اترے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ان امتحانوں کے نتیجہ میں آپ کو دنیا جہان کا امام بنا دیا، اور آئندہ قیامت تک کے لیے سلسلہ نبوت کو آپ علیہ السلام ہی کی اولاد سے منسلک کردیا اور دنیا کے اکثر و بیشتر مذاہب اپنے مذہب کی آپ علیہ السلام کی طرف نسبت کرنا باعث عزت و افتخار سمجھتے ہیں۔ [ ١٥٠]تمام لوگوں کے امام :۔ یعنی امامت کا وعدہ صرف تمہاری اس اولاد سے تعلق رکھتا ہے جو صالح ہوگی۔ ظالموں اور گنہگاروں کے لیے ایسا کوئی وعدہ نہیں۔ یہیں سے یہود کے اس غلط عقیدہ کی تردید ہوگئی جو وہ سمجھتے تھے کہ ہم چونکہ پیغمبروں کی اولاد ہیں اس لیے ہمیں عذاب اخروی نہ ہوگا۔ البقرة
125 [١٥١]مقام ابراہیم کی فضیلت :۔ مثابۃ بمعنی لوگوں کے بار بار آتے اور جاتے رہنے کی جگہ (بغرض حج، عمرہ، طواف، اور عبادت نماز وغیرہ) [ ١٥٢] وہ پتھر جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام خانہ کعبہ کی تعمیر کرتے رہے۔ اسی پر کھڑے ہو کر آپ نے لوگوں کو حج کے لیے پکارا۔ یہ پتھر خانہ کعبہ کے صحن میں ہے اور آج کل اسے ایک چھوٹی سی شیشہ کی گنبد نما عمارت میں محفوظ کردیا گیا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے تین باتوں میں میری رائے اللہ کے علم کے موافق ہوگئی۔ (جن میں ایک یہ تھی) میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا اچھا ہو اگر آپ مقام ابراہیم علیہ السلام کو نماز کی جگہ قرار دے دیں اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتار دی۔ ﴿وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّی ﴾ چنانچہ طواف کرنے والے اسی مقام کے پاس دوگانہ نماز نفل ادا کرتے ہیں۔ [ ١٥٣] مساجدمیں صفائی کی فضیلت :معلوم ہوا مسجدوں کو صاف ستھرا رکھنا اور روشنی کا انتظام نہایت فضیلت والا کام ہے۔ جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے دو اولوا العزم رسولوں کو بطور خاص حکم دیا۔ یہاں صفائی سے مراد صرف ظاہری صفائی نہیں، بلکہ باطنی صفائی بھی ہے کہ اس گھر میں مشرک لوگ نہ آنے پائیں۔ جو اللہ کے علاوہ دوسروں کو بھی پکارنا شروع کردیں اور اسے گندا کردیں۔ اور مساجد کی صفائی اور آداب کے لیے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ اسے دفن کردینا (یا صاف کردینا) ہے (بخاری، کتاب الصلوٰۃ باب کفارۃ البزاق فی المسجد) ٢۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک کالی عورت مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھی۔ وہ مر گئی۔ آپ نے جب اسے نہ دیکھا تو لوگوں سے اس کا حال پوچھا۔ انہوں نے کہا : وہ مر گئی۔’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے مجھے کیوں نہ خبر کی۔ چلو اب اس کی قبر بتلاؤ‘‘ پھر آپ اس کی قبر پر گئے اور نماز پڑھی۔ (بخاری، کتاب الصلٰوۃ، باب کنس المسجد) ٣۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک گنوار آیا اور مسجد نبوی کے ایک کونے میں پیشاب کرنے لگا۔ لوگوں نے اسے جھڑکا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو جھڑکنے سے منع فرمایا۔ جب وہ پیشاب کرچکا تو آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ اس جگہ پانی کا ایک ڈول بہا دیا جائے۔ (بخاری، کتاب الوضوء، باب ترک النبی والناس الاعرابی حتی فرغ من بولہ فی المسجد) اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب اعرابی پیشاب سے فارغ ہوچکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سمجھایا کہ یہ مسجدیں اللہ کے ذکر کے مقامات ہیں، بول و براز کے لئے نہیں لہٰذا انہیں صاف ستھرا رکھنا چاہیے۔ ٤۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی اس درخت یعنی لہسن کو کھائے وہ ہماری مسجد میں نہ آئے۔ عطا کہتے ہیں کہ میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کچی لہسن مراد ہے یا پکی ہوئی؟ انہوں نے کہا میں سمجھتا ہوں کہ اس سے کچی لہسن اور اس کی بدبو مراد ہے۔ (بخاری۔ کتاب الاذان، باب، ماجاء فی الثوم النی والبصل والکراث) ٥۔ سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کھڑا تھا۔ کسی نے مجھ پر پتھر پھینکا، کیا دیکھتا ہوں کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔ انہوں نے مجھے کہا : جاؤ فلاں دو آدمیوں کو میرے پاس بلا لاؤ۔ میں انہیں بلا لایا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا : تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو؟ وہ کہنے لگے ہم طائف سے آئے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، اگر تم اس شہر (مدینہ) کے رہنے والے ہوتے تو میں تمہیں ضرور سزا دیتا۔ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں اپنی آوازیں بلند کرتے (شور مچاتے) ہو۔ (بخاری، کتاب الصلٰوۃ، باب رفع الصوت فی المسجد) البقرة
126 [١٥٤] یعنی اس بے آب و گیاہ اور ویران سے مقام کو ایک پرامن شہر بنا دے اور جو لوگ یہاں آباد ہوں انہیں پھلوں کا رزق مہیا فرما۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا قبول ہوئی اور یہ مقام آج تک پرامن اور قابل احترام ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حرمت کی از سر نو توثیق کردی جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : ابو شریح نے عمر و بن سعید کو (جو یزید کی طرف سے مدینہ کا حاکم تھا) کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے دن خطبہ ارشاد فرمایا۔ پہلے حمد و ثنا بیان کی۔ پھر فرمایا : اللہ نے مکہ کو حرام کیا ہے۔ لوگوں نے نہیں کیا، تو جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے نہ وہاں خون بہانا درست ہے اور نہ کوئی درخت کاٹنا۔ (بخاری، کتاب العلم، باب لیبلغ العلم الشاھد الغائب۔۔ الخ [ ١٥٥] حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب امامت کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے پوچھا تو جواب ملا کہ وہ صرف صالح لوگوں کو ملے گی ظالموں کو نہیں ملے گی۔ تو اب ابراہیم علیہ السلام نے پھلوں کا رزق عطا کرنے کی دعا میں ایمانداری کی شرط از خود بڑھا دی۔ تو اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ رزق کے معاملہ میں ایمانداری کوئی شرط نہیں وہ تو میں نیک اور بد سب کو دوں گا۔ وہ محبت اور ایمانداری کی شرط صرف امامت کے لیے ہے رزق کے لیے نہیں۔ البقرة
127 [١٥٦]مختلف ادوار میں کعبہ کی تعمیر :۔ قسطلانی رحمہ اللہ نے کہا کہ کعبہ دس بار تعمیر ہوا۔ سب سے پہلے اسے فرشتوں نے بنایا۔ دوسری بار آدم علیہ السلام نے (آپ علیہ السلام کی عمر ہزار سال تھی) تیسری بار شیث علیہ السلام (آدم کے بیٹے) نے اور یہ تعمیر طوفان نوح علیہ السلام میں گر گئی۔ چوتھی بار حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پانچویں بار قوم عمالقہ نے، چھٹی بار قبیلہ جرہم نے، ساتویں بار قصی بن کلاب نے (جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد ہیں) آٹھویں بار قریش نے (آپ کی بعثت سے پہلے جب کہ حطیم کی جگہ چھوڑ دی تھی) نویں بار حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے (اپنے دور خلافت میں) دسویں بار حجاج بن یوسف نے۔ اور اس کے بعد آج تک اس علاقہ پر مسلمانوں کا ہی قبضہ چلا آ رہا ہے اور بہت سے بادشاہوں نے اس کی تعمیر، مرمت اور توسیع میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے۔ اس سلسلہ میں آل سعود کی خدمات گرانقدر ہیں اور لائق تحسین ہیں۔ البقرة
128 [١٥٧] یہ دونوں پیغمبر جب خانہ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے تو ساتھ ساتھ دعا بھی کر رہے تھے کہ الٰہی : ہماری یہ خدمت قبول فرما اور اپنا مسلم (مطیع فرماں) بنا، اور ہماری اولاد میں سے ایک مسلم قوم پیدا کر، اور مسلم وہ ہوتا ہے جو اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کر دے اور اپنے آپ کو کلیتاً اللہ کے سپرد کر دے اور اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے مطابق دنیا میں زندگی بسر کرے۔ اس عقیدے اور طرز عمل کا نام اسلام ہے اور یہی تمام انبیاء کا دین رہا ہے۔ [ ١٥٨] مناسک کا لفظ عموماً حج کے آداب و ارکان اور قربانی کے احکام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اگرچہ اس کے وسیع مفہوم میں عبادت کے سب طریقے شامل ہیں۔ [ ١٥٩]انبیاء اورا ستغفار :۔ انبیاء سے عمداً کوئی گناہ سرزد نہیں ہوتا، رہی خطا تو بھول چوک امت سے تو معاف ہے۔ مگر انبیاء کی شان اتنی بڑی ہے کہ ذرا سی غفلت ان کے حق میں گناہ سمجھی جاتی ہے۔ اسی لیے انبیاء علیہم السلام معصوم ہونے کے باوجود عوام الناس کی نسبت بہت زیادہ توبہ و استغفار کرتے رہتے ہیں۔ البقرة
129 [١٦٠]میں ابراہیم علیہ السلام کی دعاہوں:۔ یعنی اہلیان شہر مکہ میں سے رسول مبعوث فرما۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا بھی قبول فرمائی اور اولاد اسماعیل علیہ السلام میں سے نبی عربی پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوں۔‘‘ (احمد، بحوالہ مشکوٰۃ، باب فضائل سید المرسلین صلوات اللّٰہ وسلامہ علیہ الفصل الثانی) [ ١٦١] حکمت کیاہے؟اوروحی مخفی :۔حکمت کے لفظی معنی سمجھ اور دانائی ہے۔ پھر اس میں وہ سب طور طریقے بھی شامل ہوجاتے ہیں جو کسی کام کو عملی طور پر سر انجام دینے کے لیے ضروری ہوں۔ پہلی قسم کو حکمت علمی اور دوسری قسم کو حکمت عملی کہتے ہیں اور امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی تصنیف ''الرسالہ'' میں بے شمار دلائل سے یہ بات ثابت کی ہے کہ قرآن میں جہاں بھی کتاب کے ساتھ حکمت کا لفظ آیا ہے تو اس سے مراد سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میرے بعد کوئی شخص غرور سے ایسا نہ کہے کہ میں اللہ کی کتاب میں یہ حکم نہیں پاتا۔ خوب سن لو! مجھے یہ کتاب (قرآن) بھی دیا گیا ہے اور اس کی مثل اتنا کچھ اور بھی۔‘‘ (ترمذی) ابو داؤد وغیرہما) نیز قرآن کریم کی یہ آیت ﴿وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ۤ وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا﴾(۷:۵۹)سنت رسول کی اتباع کو واجب قرار دیتی ہے۔ جس کا واضح نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو شخص سنت رسول کا منکر ہے وہ حقیقتاً قرآن کا بھی منکر ہے۔ [ ١٦٢]تزکیہ نفس کا مفہوم :۔ تزکیہ نفس مشہور لفظ ہے یعنی انہیں پاکیزہ بنائے اور سنوارے اور سنوارنے میں، اخلاق، عادات، معاشرت، تمدن، سیاست غرض ہر چیز کو سنوارنا شامل ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ عملی طور پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی تربیت کرنا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری تھی۔ اس کی ایک معمولی سی مثال ملاحظہ فرمائیے۔ ایک دفعہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ (جو سابقین و اولین میں سے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے پیار بھی بہت تھا) نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو صرف یہ کہا تھا ’’اے کالی ماں کے بیٹے۔‘‘ تو اتنی سی بات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ پر شدید گرفت کرتے ہوئے فرمایا : إِنَّكَ امْرُؤٌ فِيكَ جَاهِلِيَّةٌ (بخاری کتاب الایمان باب المعاصی من امر الجاھلیۃ) یعنی تو ایسا شخص ہے جس میں ابھی تک جاہلیت کا اثر موجود ہے) یہ تھا آپ کا انداز تربیت اور یہی (یزکیھم) کا مفہوم ہے۔ (تشریح کے لیے سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ١٦٠ تا ١٦٤ ملاحظہ فرمائیے۔) البقرة
130 [١٦٣] دین ابراہیم کی صفات :۔دین کا معنی اللہ تعالیٰ کی مکمل حاکمیت اور اپنی مکمل عبودیت کو تسلیم کرلینا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے طرز فکر اور طرز عمل کو مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع بنا لیا تھا اور طرز فکر و عمل کی تبلیغ و اشاعت میں اپنی پوری زندگی صرف کی اور اس راہ میں جو بڑی مشکلات پیش آئیں انہیں خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور یہ طرز زندگی اللہ کو اتنا محبوب تھا کہ اس نے آپ کو پوری دنیا کا امام بنا دیا۔ اب کوئی بے وقوف ہی ایسی پسندیدہ روش سے اعراض کرسکتا ہے، یا ایسا شخص جو تجاہل عارفانہ سے کام لے رہا ہو۔ البقرة
131 البقرة
132 [١٦٤] یہاں اللہ رب العزت نے بطور خاص حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے یعقوب علیہ السلام کا ذکر فرمایا۔ اس لیے کہ ماسوائے نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے باقی سب انبیاء انہی کی اولاد سے تھے اور بنی اسرائیل بھی انہی کی اولاد تھے۔ انہیں وصیت تو اللہ کا فرمانبرداربن کر رہنے کی گئی تھی۔ مگر بعد میں بنی اسرائیل نے جو گل کھلائے ان کا تفصیلی ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ البقرة
133 [١٦٥]یہود کا یعقوب علیہ السلام پرالزام :۔ ایک دفعہ یہود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : کیا آپ کو معلوم نہیں کہ یعقوب علیہ السلام نے ہمیں یہودی رہنے کی وصیت کی تھی۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے یہود مدینہ سے پوچھا : جب یعقوب علیہ السلام مرنے کے قریب تھے تو کیا تم اس وقت موجود تھے جو اس وثوق سے کہتے ہو کہ یعقوب علیہ السلام نے یہودیت کی وصیت کی تھی؟ پھر جو کچھ یعقوب علیہ السلام نے بوقت مرگ اپنے بیٹوں سے پوچھا اور جو بیٹوں نے جواب دیا اس کو اللہ تعالیٰ نے خود بیان کر کے یہود کے اس قول کی تردید فرما دی۔ البقرة
134 [١٦٦] یعنی انبیاء کی اور ان کے متبعین کی جماعت۔ اگرچہ اے یہود! تم ان کی اولاد ہو مگر ان کے اعمال تمہارے کچھ کام نہیں آ سکتے۔ تمہارے لیے تو وہی کچھ ہوگا جو تم خود کر رہے ہو۔ تم سے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ تمہارے آباؤ اجداد کیا کرتے تھے بلکہ یہ پوچھا جائے گا کہ تم خود کیا کرتے رہے؟ البقرة
135 [١٦٧]ملت کا مفہوم اور ملت ابراہیم علیہ السلام :۔ ملت اس نظام زندگی کا نام ہے جس کی بنیاد چند مخصوص عقائد پر ہو اور ملت ابراہیم علیہ السلام کے عقائد میں سے سب سے اہم عقیدہ جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا وہ یہ ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام موحد تھے۔ شرک نہیں کرتے تھے۔ یہود مسلمانوں سے کہتے ہیں یہودی بنو گے تو نجات پا جاؤ گے۔ حالانکہ وہ خود مشرک تھے اور حضرت عزیر علیہ السلام کو ابن اللہ کہتے تھے۔ اسی طرح عیسائی بھی مسلمانوں سے یہی بات کہتے تھے حالانکہ وہ بھی تین خدا مانتے تھے اور مشرک تھے اور کفار مکہ وغیرہ کے مشرک ہونے میں تو کوئی شک ہی نہیں۔ حالانکہ وہ بھی ملت ابراہیمی کی اتباع کا دعویٰ کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان میں سے کوئی بھی نہ ہدایت پر ہے اور نہ ملت ابراہیم سے تعلق رکھتا ہے۔ کیونکہ یہ سب مشرک ہیں۔ ملت ابراہیم پر صرف وہ ہوسکتا ہے جو مشرک نہ ہو اور وہی ہدایت یافتہ ہوگا۔ البقرة
136 [١٦٨]انبیاء میں تفریق کرنے کا مطلب :۔ فرق اس لحاظ سے کہ فلاں نبی حق پر تھا اور فلاں حق پر نہ تھا یا ہم فلاں کو مانتے ہیں یا فلاں کو نہیں مانتے۔ کیونکہ سب انبیاء علیہم السلام ایک ہی صداقت اور ایک ہی راہ راست کی طرف بلاتے رہے ہیں۔ اور سب انبیاء کرام اپنے سے پہلوں کی تصدیق اور بعد میں آنے والوں کی بشارت دیتے اور ان پر ایمان لانے کی تاکید کرتے رہے ہیں۔ اب اگر مثال کے طور پر یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لاتے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اپنے پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اپنی کتاب تورات پر بھی ایمان نہیں لاتے بلکہ وہ محض باپ دادا کی تقلید میں ایک پیغمبر کو مان رہے ہیں۔ ان کا اصل دین نسل پرستی یا اپنے آباء کی تقلید ہے۔ اپنے پیغمبر کی پیروی نہیں۔ ورنہ اس کی سب باتیں مانتے۔ انبیاء کے درمیان فرق نہ کرنے کا مطلب :۔ تمام انبیاء کرام اپنے اپنے وقتوں میں واجب الاتباع ہوتے ہیں اور ایک نئے نبی کی بعثت کی ضرورت ہمیشہ اس وقت پیش آتی ہے جب سابق نبی کی امت میں شرک و جہالت اور فساد فی الارض عام ہوجائے اور وہ خود کئی گروہوں میں بٹ جائے۔ دین یعنی عقائد و کلیات تو ہر نبی کے دور میں یکساں ہی رہے ہیں۔ البتہ اس دور کے تقاضوں کے مطابق کچھ سابقہ احکام منسوخ اور کچھ نئے احکام اس نئے نبی کو دیئے جاتے ہیں۔ لہٰذا اب اتباع تو صرف اس نئے نبی کی واجب ہوتی ہے اور ایمان لانا سب پر واجب ہوتا ہے۔ یعنی یہ کہ سب انبیاء اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث اور حق و صداقت لے کر آئے تھے۔ اس لحاظ سے ان میں کچھ فرق نہیں ہوتا۔ رہا انبیاء میں درجات کے لحاظ سے فرق اور ایک دوسرے پر تفصیلات تو وہ قرآن کریم سے ثابت ہے۔ جیسے ارشاد باری ہے۔ ﴿ تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ ﴾(۲۵۳:۲) البقرة
137 [١٦٩] یعنی ان اہل کتاب کا حق سے اعراض اور ہٹ دھرمی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی اور اللہ انہیں سزا دینے کو کافی ہے۔ یعنی یہود بنو نضیر جلاوطن ہوئے اور جزیہ دینا قبول کیا اور بنو قریظہ قیدی اور قتل ہوئے اور نجران کے عیسائیوں نے بھی جزیہ دینا قبول کیا۔ البقرة
138 [١٧٠] بپتسمہ اور اللہ کا رنگ :۔جب کوئی شخص یہودی مذہب میں داخل ہوتا تو وہ اسے غسل دیتے اور کہتے کہ اس کے سب سابقہ گناہ دھل گئے اور عیسائی اس غسل کے پانی میں زرد رنگ بھی ملا لیا کرتے۔ اور یہ غسل صرف مذہب میں نئے داخل ہونے والوں کو ہی نہیں بلکہ نومولود بچوں کو بھی دیا جاتا اور اس رسم کو وہ اصطباغ یا بپتسمہ کہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان رسمی رنگوں میں کیا رکھا ہے۔ رنگ تو صرف اللہ کا ہے جو اس کی بندگی سے چڑھتا ہے اور ان اہل کتاب سے کہہ دو کہ ہم اس کی بندگی کرتے اور اسی کا رنگ اختیار کرتے ہیں۔ البقرة
139 [١٧١] اللہ کے لطف وکرم کی بنیاد:۔ یہود و نصاریٰ یہ سمجھتے تھے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں۔ لہٰذا اس کی جملہ نوازشات اور الطاف و اکرام کے مستحق صرف ہم ہی ہیں۔ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ آپ ان سے کہیں کہ اللہ جیسا تمہارا پروردگار ہے ویسا ہی ہمارا بھی ہے۔ وہ تو جس طرح کے کوئی شخص عمل کرے گا اسی کے مطابق اس پر نوازشات کرے گا۔ اور اس لحاظ سے ہم تم سے بہتر بھی ہیں کہ ہم فقط اسی کی بندگی کرتے ہیں اور تم شرک بھی کئے جاتے ہو اور یہ اندازہ اب تم خود لگا سکتے ہو کہ آئندہ اس کی نوازشات اور الطاف و اکرام کس پر ہونا چاہئیں۔ البقرة
140 [١٧٢] یہود ونصاریٰ کااپنے انبیاء پر یہودی یاعیسائی ہونے کا الزام :۔اس آیت کا مفہوم سمجھنے کے لیے پہلے یہ جان لینا چاہیے کہ یہودیت اپنے موجودہ نظریات و عقائد کے مطابق تیسری اور چوتھی صدی قبل مسیح میں معرض وجود میں آئی تھی۔ اور عیسائیت اپنے مخصوص نظریات و عقائد کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے مابعد کی پیداوار ہے اور یہودیوں اور عیسائیوں کے عالم لوگ اس بات کو خوب جانتے تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اسماعیل علیہ السلام، اسحاق علیہ السلام، یعقوب علیہ السلام اور ان کی اولاد یعنی حضرت یوسف علیہ السلام وغیرہم۔ اس قسم کی یہودیت اور عیسائیت کی پیدائش سے بہت پہلے وفات پا چکے تھے، مگر ان علمائے یہود و نصاریٰ نے عوام کے ذہن میں یہ بات پختہ کردی تھی کہ یہ مندرجہ بالا انبیائے کرام یہود کے قول کے مطابق یہودی تھے اور نصاریٰ کے قول کے مطابق عیسائی تھے۔ اس پس منظر میں اب اس آیت کو ملاحظہ فرمائیے جس میں اللہ تعالیٰ نے علمائے یہود و نصاریٰ کی اس بددیانتی کو آشکار کیا ہے اور انہیں کتمان شہادت کے مجرم قرار دے کر سب سے بڑے ظالم ٹھہرایا ہے۔ البقرة
141 [١٧٣] یہ آیت انہی الفاظ سے پہلے بھی گزر چکی ہے (آیت نمبر ١٣٤) وہاں اس آیت کے مخاطب یہود تھے اور یہاں یہودی، عیسائی اور مسلمان سبھی مخاطب ہیں اور اسے دوبارہ لانے سے غرض صرف مزید تنبیہ و تاکید ہے کہ نجات اخروی کے لیے اپنے انبیاء و صالحین پر بھروسہ کرنا بالکل عبث بات ہے۔ تم اپنے اعمال کے لیے خود جواب دہ ہوگے اور خود ہی ان کی سزا بھگتو گے۔ البقرة
142 [١٧٤]قبلہ اول خانہ کعبہ ہی تھا:۔ تحویل قبلہ کے ضمن میں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ تمام امت مسلمہ کے لیے قبلہ اول خانہ کعبہ ہی تھا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے اسے تعمیر کیا تو بھی یہی قبلہ تھا اور جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے تعمیر کیا تو اس وقت بھی یہی قبلہ تھا۔ مگر جب سلیمان علیہ السلام نے ہیکل سلیمانی تعمیر کیا۔ تو اس وقت تابوت سکینہ صخرہ پر پڑا رہتا تھا اور بنی اسرائیل اس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ انہوں نے مستقل طور پر اسے ہی اپنا قبلہ بنا لیا اور چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر کوئی گرفت نہ ہوئی تھی۔ لہٰذا یہ قبلہ شرعاً بھی درست سمجھا گیا۔ مگر یہ صرف بنی اسرائیل ہی کا قبلہ تھا۔ مکہ کے مشرکین کا نہ تھا۔ وہ کعبہ کی ہی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداءً بیت المقدس کوقبلہ کیوں بنایاتھا؟ چونکہ مشرکین مکہ کے بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل کتاب کو بہتر سمجھتے تھے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے بجائے بیت المقدس کی طرف رخ کرنا مناسب سمجھا تاکہ مشرکین مکہ کے قبلہ سے امتیاز ہو سکے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی ہی طرف منسوب کیا :۔ جیسا کہ آیت ﴿وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْہَآ﴾ (۱۴۳:۲)سے واضح ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت المقدس کی طرف رخ کرنے یا قبلہ بنانے کا حکم قرآن یا حدیث میں صراحتاً کہیں مذکور نہیں۔ ممکن ہے کہ وحی خفی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسا حکم دیا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بصیرت سے ہی بیت المقدس کو قبلہ بنانے کا طرز عمل اختیار کیا ہو وہ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اقرار (سکوت) ہو تو بھی وحی تقریری کا حکم رکھتا ہے۔ بہرحال بیت المقدس کی طرف مسلمانوں کے رخ کر کے نماز ادا کرنے کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنا ہی حکم قرار دیا ہے۔ دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ کسی قوم کے قبلہ کو تسلیم کرلینا فی الحقیقت اس قوم کی قیادت و امامت کو تسلیم کرلینے کے مترادف ہوتا ہے۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ابتدائی دور میں بیت المقدس کو قبلہ بنایا تو اس کی ایک وجہ تو بوجہ شرک مشرکین مکہ کی مخالفت تھی، دوسرے اس میں مسلمانوں کا امتحان بھی مقصود تھا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آیت ﴿لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ﴾ اور وہ امتحان اس طرح تھا کہ ہر قوم کو اپنے شعائر سے انتہائی عقیدت ہوتی ہے اور مکہ میں اسلام لانے والے چونکہ مشرکین مکہ میں سے ہی ہوتے تھے۔ اس لیے فی الواقعہ ان کا اس بات میں بھی امتحان تھا کہ وہ اسلام لانے کے بعد کتنی فراخدلی سے اپنے آبائی قبلہ (کعبہ) کو چھوڑ کر بیت المقدس کو اپنا قبلہ بناتے ہیں۔ مدینہ میں آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوکعبہ کو قبلہ بنانے کی آرزو کیوں پیدا ہوئی ؟ ہجرت کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے تو اب صورت حال بالکل مختلف تھی۔ مسلمانوں کی ایک آزاد چھوٹی سی ریاست وجود میں آ چکی تھی اور اب بیت المقدس کو قبلہ بنائے رکھنا ذہنی طور پر یہود کی امامت کو تسلیم کرنے کے مترادف تھا۔ لہٰذا اب آپ یہ چاہتے تھے کہ حقیقی قبلہ اول یعنی خانہ کعبہ ہی مستقل طور پر مسلمانوں کا قبلہ قرار پائے اور اس توقع میں کئی بار آسمان کی طرف رخ پھیرتے کہ شائد کسی وقت جبرئیل ایسا حکم لے کر نازل ہو۔ چنانچہ براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سولہ یا سترہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی اور لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ اسی طرف رخ کر کے نماز پڑھی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے یہ تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبلہ کعبہ کی طرف ہو۔ چنانچہ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز کعبہ کی طرف رخ کرکے پڑھی اور لوگوں نے بھی پڑھی۔ پھر ان میں سے ایک شخص جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ چکا تھا۔ دوسری مسجد والوں پر گزرا جبکہ وہ نماز ادا کر رہے تھے۔ اس نے کہا اللہ گواہ ہے میں نے ابھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ (کعبہ) کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی ہے’’ تو اسی حالت میں کعبہ کی طرف گھوم گئے (بخاری، کتاب التفسیر زیر آیت مذکورہ) یہی مسجد بعد میں مسجد قبلتین کے نام سے مشہور ہوئی۔ تحویل قبلہ کے لوگوں پرا ثرات اور اعتراض :۔تحویل قبلہ کا دراصل مطلب یہ تھا کہ اب بیت المقدس کی مرکزیت ختم ہوچکی اور آئندہ ہمیشہ کے لیے خانہ کعبہ کو امت مسلمہ کا مرکز قرار دے دیا گیا۔ اب اس تحویل قبلہ کا یہود پر منفی اثر ہونا ایک لازمی امر تھا۔ چنانچہ یہی براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جن نادانوں (تنگ نظر لوگوں) نے یہ اعتراض کیا تھا کہ مسلمانوں کو ان کے پہلے قبلہ سے کس چیز نے پھیر دیا ہے۔ یہ یہودی لوگ تھے۔ (بخاری، کتاب الصلٰوۃ، باب التوجہ نحوالقبلۃ) چنانچہ یہود نے اس واقعہ کو بھی ایک بنیاد بنا کر ضعیف الاعتقاد اور کم فہم مسلمانوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنا شروع کردیئے۔ [ ١٧٥] یہود کے اس اعتراض کا جواب اللہ تعالیٰ نے نہایت خوبصورت انداز میں پیش کردیا۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہیے کہ مشرق بھی اللہ کے لیے ہے اور مغرب بھی۔ اس نے بیت المقدس کو قبلہ بنانے کا حکم دیا تو ہم نے اس کو تسلیم کرلیا اور اب کعبہ کو قبلہ بنایا تو بھی ہم نے تسلیم کرلیا اور اللہ کا حکم تسلیم کرلینا ہی سیدھی راہ ہے اور یہ راہ وہ جسے چاہے دکھا دے۔ البقرة
143 [١٧٦] امت وسط کا مفہوم اور مثالیں :۔ یعنی جس طرح ہم نے قبلہ اول کو تمہارے لیے مستقل قبلہ بنا دیا ہے۔ اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بھی بنا دیا ہے۔ امت وسط سے مراد ایسا اشرف اور اعلیٰ گروہ ہے جو عدل و انصاف کی روش پر قائم ہو اور افراط و تفریط، غلو اور تخفیف سے پاک ہو اور دنیا کی قوموں کے درمیان صدر کی حیثیت رکھتا ہو۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ نصاریٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو اتنا بڑھایا کہ انہیں خدا ہی بنا دیا اور یہود نے اتنا گھٹایا کہ ان کی پیغمبری سے انکار بھی کیا اور ان کی جان کے بھی لاگو ہوگئے اور اس امت وسط کی روش یا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے پیارے پیغمبر اور روح اللہ تھے۔ بے شمار عقائد و احکام میں آپ کو امت وسط کا یہی طریقہ نظر آئے گا۔ مثلاً یہود کے لیے قتل کے بدلے قتل یعنی قصاص ہی فرض کیا گیا تھا۔ جب کہ نصاریٰ کو عفو و درگزر سے کام لینے کا حکم دیا گیا اور امت مسلمہ کے لیے قصاص کو جواز کی حد تک رکھا گیا اور قصاص کے بجائے دیت کو پسند کیا گیا اور عفو و درگزر کی ترغیب دی گئی اور اسے ایک مستحسن عمل قرار دیا گیا۔ یا مثلاً یہود میں اگر عورت حائضہ ہوجاتی تو نہ اس کے ہاتھ کا پکایا ہوا کھانا کھاتے، نہ اس کے ساتھ کھاتے، بلکہ اسے اپنے گھر میں بھی نہ رہنے دیتے تھے اور ایسی عورتوں کا کسی الگ مقام پر رہائش کا بندوبست کیا کرتے تھے (مسلم، کتاب الحیض، باب جواز غسل الحائض راس زدجہا) نصاریٰ ایسی عورتوں سے کسی طرح کا بھی پرہیز نہیں کرتے تھے۔ جبکہ مسلمانوں کو دوران حیض صرف جماع سے اجتناب کا حکم دیا گیا۔ باقی کاموں میں کوئی پابندی نہیں رکھی گئی۔ اس کے ہاتھوں کا پکایا ہوا کھانا جائز اس کے ساتھ رہنا حتیٰ کہ اسکا بوسہ لینا اور اسے گلے لگانا بلکہ اسکے ساتھ لیٹ جانے تک کو جائز قرار دیا گیا اور صرف مجامعت پر پابندی لگائی گئی۔ [ ١٧٧]امت مسلمہ کی دوسری امتوں پر شہادت :۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : قیامت کے دن نوح علیہ السلام کو بلایا جائے گا وہ کہیں گے لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ اللہ تعالیٰ ان سے پوچھیں گے، کیا تم نے میرا پیغام پہنچا دیا تھا ؟وہ کہیں گے ’’جی ہاں‘‘! پھر ان کی امت سے پوچھا جائے گا۔ ’’کیا نوح علیہ السلام نے تمہیں میرا پیغام پہنچا دیا ؟“ وہ کہیں گے کہ ’’ہمارے پاس تو کوئی ڈرانے والا آیا ہی نہ تھا۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ حضرت نوح علیہ السلام سے کہیں گے :”تمہارا کوئی گواہ ہے؟‘‘ وہ کہیں گے!’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت۔‘‘ پھر اس امت کے لوگ گواہی دیں گے کہ ’’یقیناً نوح علیہ السلام نے پیغام پہنچا دیا تھا اور پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم پر گواہ بنیں گے۔‘‘ (بخاری، کتاب التفسیر۔ زیر آیت مذکور) اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس وقت نوح علیہ السلام کی امت کہے گی تمہاری گواہی کیسے مقبول ہو سکتی ہے۔ جب کہ تم نے نہ ہمارا زمانہ پایا اور نہ ہمیں دیکھا۔ اس وقت امت وسط یہ جواب دے گی کہ ہم کو اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کے بتلانے سے یہ یقینی علم حاصل ہوا۔ اسی لیے ہم یہ گواہی دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امت کےخلاف شہادت جنہوں نے قرآن سے ناانصافیاں کیں:۔ یہ تو تھی امت مسلمہ کی دوسری امتوں پر گواہی کی کیفیت۔ اس کے بعد خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے ان لوگوں کے خلاف گواہی دیں گے جنہوں نے قرآن کو پس پشت ڈال دیا تھا اور کہتے تھے کہ قرآن بے شک اس زمانہ میں تو ایک کارآمد کتاب تھی مگر آج زمانہ بہت آگے نکل چکا ہے۔ لہٰذا اس کی تعلیمات فرسودہ ہوچکی ہیں۔ یا ان لوگوں کے خلاف جو اپنے جلسے جلوسوں کا افتتاح تو تلاوت قرآن سے کرتے ہیں۔ پھر اس کے بعد انہیں قرآن سے کچھ غرض نہیں ہوتی یا ان لوگوں کے خلاف جنہوں نے قرآن کو محض عملیات کی ایک کتاب قرار دے رکھا ہے اور اس سے اپنی صرف دنیوی اغراض کے لیے اس کی آیات سے تعویذ وغیرہ تیار کرتے اور تجربے کرتے رہتے ہیں۔ یا ان لوگوں کے خلاف جنہوں نے قرآن کو ایک مشکل ترین کتاب سمجھ کر اس کو عقیدتاً ریشمی غلافوں میں لپیٹ کر کسی اونچے طاقچے میں تبرکاً رکھ دیا ہوتا ہے۔ یا ان لوگوں کے خلاف جو قرآنی آیات و احکام کو سمجھنے کے بعد محض دنیوی اغراض یا فرقہ وارانہ تعصب کے طور پر ان کی غلط تاویل کرتے ہیں یا ان کے خلاف جو دیدہ ودانستہ اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کرتے اور خواہشات نفسانی کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ ان سب لوگوں کے خلاف آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے حضور یہ گواہی دیں گے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے قرآن کو چھوڑ رکھا تھا جیسا کہ سورۃ فرقان کی آیت نمبر ٣٠ سے صاف واضح ہے۔ [ ـــ ١٧٧۔ ١] تحویل قبلہ پریہود اور منافقین کا شوروغوغا:۔جب تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا تو منافقوں اور یہودیوں دونوں نے مسلمانوں کے خلاف انتہائی زہریلا پروپیگنڈا شروع کردیا اور اس قدر پروپیگنڈا کیا کہ آسمان سر پر اٹھا لیا، اور وہ پروپیگنڈا یہ تھا کہ مسلمان کبھی کسی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں۔ کبھی کسی طرف، ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔ ان لوگوں کے پروپیگنڈا سے کچھ کمزور ایمان والے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے البتہ جو اپنے ایمان میں راسخ اور مضبوط تھے۔ انہوں نے اس پروپیگنڈا کی مطلقاً پروا نہ کی اور یہ سمجھتے ہوئے کہ اللہ اپنے احکام کی حکمت خود ہی بہتر جانتا ہے، فوراً سر تسلیم خم کردیا۔ چنانچہ انہیں دیکھ کر متاثر ہونے والے مسلمان بھی اپنے پاؤں پر پوری طرح جم گئے، اور حقیقتاً ایسا پروپیگنڈا مسلمانوں کے لیے ایک آزمائش بن گیا تھا اور اللہ کی مہربانی سے مسلمان اس میں ثابت قدم نکلے۔ [ ١٧٨] براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بہت سے مسلمان تحویل قبلہ سے پہلے شہید ہوچکے تھے، ہمیں ان کے متعلق شبہ ہوا کہ ان کی ادا کردہ نمازوں کا کیا بنے گا، تب یہ آیت نازل ہوئی ﴿وَمَا کَان اللّٰہُ لِـیُضِیْعَ اِیْمَانَکُمْ ﴾ (بخاری، کتاب التفسیر، ترمذی، ابو اب التفسیر) البقرة
144 [١٧٩] کیونکہ ان کی کتابوں میں مذکور ہے کہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم عرب میں پیدا ہوں گے۔ ابراہیم علیہ السلام کے طریق پر ہوں گے اور کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں گے۔ البقرة
145 [١٨٠] اس لیے کہ ان کا یہ جھگڑا کسی دلیل کی بنیاد پر نہیں بلکہ محض حسد و عناد کی بنا پر ہے۔ یعنی اگر آپ یہ بات انہیں ان کی کتابوں سے دکھلا بھی دیں۔ تب بھی یہ ماننے والے نہیں۔ [ ١٨١]اہل کتاب کا قبلہ میں اختلاف :۔ یعنی اہل کتاب کے قبلے بھی مختلف ہیں۔ یہود کا قبلہ تو صخرہ بیت المقدس ہے۔ (بیت المقدس کو حضرت سلیمان علیہ السلام نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے تیرہ سو سال بعد تعمیر کیا تھا) اور نصاریٰ کا قبلہ بیت المقدس کی شرقی جانب ہے۔ جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نفخ روح ہوا تھا تو جب یہ لوگ آپس میں بھی کسی ایک قبلہ پر متفق نہیں تو آپ کے ساتھ کیسے اتفاق کرسکتے ہیں یا آپ ان میں سے کس کے قبلہ کی پیروی کریں گے۔ [ ١٨٢] رسول ہونے کی حیثیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کام نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو راضی کرتے پھریں اور کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر سمجھوتہ کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام یہ ہے کہ جو علم ہم نے آپ کو دیا ہے اس پر سختی سے کاربند رہیں اور ظالم ہونے کا خطاب دراصل امت کو ہے۔ رسول بھلا وحی الٰہی کو کیسے نظر انداز کرسکتا ہے۔ امت کو یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ رسول کے ذریعہ اللہ کا حکم جو تمہیں مل رہا ہے۔ اس پر پورا پورا یقین رکھو، اور اس کے مطابق عمل کرو، اور اگر تم نے یہود کو خوش کرنے کی کوشش کی تو تمہارا شمار ظالموں میں ہوگا۔ البقرة
146 [١٨٣]یہودکوقبلہ اول کاپوراعلم تھا:۔ عربوں میں یہ محاورہ ہے کہ جس چیز کے متعلق انہیں کسی طرح کا شک و شبہ نہ ہو تو سمجھتے ہیں کہ وہ اس بات کو یوں پہچانتا ہے جیسے اپنے بیٹے کو علمائے یہود و نصاریٰ اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ حضرت ابراہیم جن کی امت اور ملت ہونے کا یہ دم بھرتے ہیں، نے خانہ کعبہ تعمیر کیا اور اسے ہی قبلہ مقرر کیا تھا اور بیت المقدس تو تیرہ سو سال بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا۔ پھر بیت المقدس کو قبلہ قرار دینے کا ذکر نہ کہیں تورات میں موجود ہے اور نہ انجیل میں۔ اس تاریخی واقعہ میں ان کے لیے کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہ تھی اور وہ یہ بات بھی خوب جانتے ہیں کہ قبلہ اول اور حقیقی قبلہ کعبہ ہی ہے۔ لیکن وہ یہ بات عوام کے سامنے ظاہر نہیں کرتے۔ البقرة
147 [١٨٤] یعنی مسلمان جس ملک میں ہوں گے وہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز ادا کریں گے۔ اس طرح کعبہ کی سمتیں الگ الگ بھی ہو سکتی ہیں کسی ملک سے کعبہ مغرب کی جانب ہوگا کسی سے مشرق کی طرف اور کسی سے شمال یا جنوب کی طرف، اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا اور نہ اس بات میں شک کی ضرورت ہے کیونکہ تمہارا یہ قبلہ ہمیشہ کے لیے ہے جس میں آئندہ کبھی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ البقرة
148 [١٨٥] یعنی اصل چیز رخ کرنا نہیں بلکہ وہ بھلائیاں ہیں جن کے لیے تم نماز پڑھتے ہو۔ لہٰذا سمت اور مقام کے جھگڑوں میں پڑنے کے بجائے تمہیں اصل مقصد یعنی نیکیوں کے حصول کی فکر کرنا چاہیے۔ اور اس میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر کوشش کرنا چاہیے۔ کیونکہ قیامت کے دن یہی نیکیاں تمہارے کام آئیں گی۔ البقرة
149 البقرة
150 [١٨٦]تحویل قبلہ کےحکم کوتین بار کیوں دہرایاگیا؟ اس آیت کو مکرر اور سہ کرر لایا گیا ہے۔ کیونکہ اس کی وجوہ الگ الگ ہیں۔ مثلاً ﴿قَدْ نَرَیٰ تَقَلُّبَ وَجْھِکَ فِیْ السَّمَاء﴾سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا اور اظہار کی تکریم کی خاطر تحویل قبلہ کا حکم دیا، اور ﴿وَلِکُلٍّ وِّجْہَۃٌ ھُوَ مُوَلِّیْہَا ﴾ میں یہ ارشاد فرمایا، تحویل قبلہ کے مسئلہ پر جھگڑے کھڑے کرنا درست نہیں۔ اصل کام تو نیک کاموں کی طرف پیش قدمی ہے اور آیت ﴿لِئَلَّا یَکُوْنَ للنَّاسِ عَلَیْکُمْ حُجَّــۃٌ ﴾ میں یہ واضح فرمایا کہ لوگوں کو تم مسلمانوں سے جھگڑنے کا موقع باقی نہ رہے، وہ یوں کہ تحویل قبلہ سے بیشتر یہودی مسلمانوں سے یہ کہتے تھے کہ ہمارا دین تو نہیں مانتے لیکن نماز ہمارے ہی قبلہ کی طرف پڑھتے ہیں اور مشرکین مکہ یہ اعتراض کرتے کہ دعویٰ تو ابراہیم علیہ السلام کے طریق پر چلنے کا کرتے ہیں مگر ان کا قبلہ چھوڑ دیا ہے۔ [ ١٨٧] بے انصاف یا ہٹ دھرم لوگ تحویل قبلہ کے بعد بھی اعتراض چھوڑیں گے نہیں۔ مثلاً یہود نے یہ اعتراض کردیا کہ ہمارے قبلہ کی حقانیت ظاہر ہونے اور اسے تسلیم کرلینے کے بعد اب محض ضد اور حسد کی بنا پر اسے چھوڑ دیا اور مشرک یہ کہنے لگے کہ ہمارے قبلہ کا حق ہونا انہیں اب معلوم ہوا تو اسے اختیار کرلیا۔ اسی طرح ہماری اور بھی کئی باتیں منظور کرلیں گے۔ لہٰذا اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! تم ان لوگوں کی باتوں کی طرف توجہ نہ دو نہ ان سے ڈرنے کی ضرورت ہے، بلکہ صرف مجھ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔ [ ١٨٨] تحویل قبلہ ایک نعمت تھی :۔نعمت سے مراد وہی امامت اور پیشوائی کی نعمت ہے جو بنی اسرائیل سے سلب کر کے اس امت کو دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ فرما رہے ہیں کہ تحویل قبلہ کا یہ حکم دراصل اس منصب پر تمہاری سرفرازی کی علامت ہے۔ جب تک میری اطاعت کرتے رہو گے، یہ منصب تمہارے پاس رہے گا۔ اور نافرمانی کی صورت میں یہ چھن بھی سکتا ہے۔ البقرة
151 [١٨٩]رسول کی بعثت بھی ایک بہت بڑا انعام ہے:۔ جیسا کہ اس سے پہلے میں تم پر یہ انعام کرچکا ہوں کہ تمہیں میں سے ایک ایسا رسول بھیجا ہے جو تمہیں اللہ کی آیات سناتا، تمہیں پاکیزہ بناتا اور تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ اس نعمت نے تمہاری کایا پلٹ دی۔ تم جاہل تھے اللہ نے تمہیں علم سے نوازا، تم ذلیل تھے۔ اللہ نے تمہیں سر بلند کیا۔ تم ہر وقت لڑتے مرتے اور بدامنی کا شکار تھے۔ اللہ نے تمہارے دل ملا دیئے اور آپس میں محبت ڈال دی، اور یہ سب کچھ اسی تعلیم کا نتیجہ تھا۔ پھر جس طرح تم میں رسول بھیجنا ایک بہت بڑا انعام تھا۔ اسی طرح کا دوسرا انعام تحویل قبلہ ہے۔ جس کے ذریعہ تمہیں دنیا کی امامت سونپی جا رہی ہے (تشریح کے لیے دیکھیے سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ١٦٤ پر حاشیہ نمبر ١٦٠) البقرة
152 [١٩٠] لہٰذا تمہیں لازم ہے کہ ہر دم مجھے یاد کرتے رہو، اور اگر تم مجھے یاد کرو گے تو میں تمہیں یاد کروں گا چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق اس سے سلوک کرتا ہوں اور جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں اگر وہ مجھے دل میں یاد کرے تو میں بھی اسے دل میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ کسی مجمع میں مجھے یاد کرے تو میں اس سے بہتر جماعت میں اسے یاد کرتا ہوں اور اگر وہ ایک بالشت میرے نزدیک ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے نزدیک ہوتا ہوں اور اگر وہ ایک ہاتھ میرے نزدیک ہو تو میں ایک کلاوہ (دونوں بازو پھیلائے) اس کے قریب ہوتا ہوں اور اگر وہ چلتا ہوا میرے پاس آتا ہے تو میں دوڑ کر اس کی طرف جاتا ہوں۔‘‘ (بخاری، کتاب التوحید، باب قول اللّٰہ وَیُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ۔۔۔الخ) [ ١٩١] شکرکی فضیلت :۔اللہ کا شکر ادا کرنے سے اللہ تعالیٰ وہ نعمت بحال ہی نہیں رکھتے بلکہ مزید بھی عطا فرماتے ہیں اور ناشکری کی صورت میں وہ نعمت ہی نہیں چھنتے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا بھی ملتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿لَیِٕنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَیِٕنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ ﴾ (۷:۱۴) ’’اگر تم شکر کرو گے تو میں اور زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو (سمجھ لو) کہ میرا عذاب سخت ہے۔‘‘ البقرة
153 [١٩٢] مشکل اوقات میں صبر اور نماز سے مدد:۔ مشکل اور آڑے وقت میں صبر اور نماز سے مدد لینے کا حکم پہلے اسی سورۃ کی آیت نمبر ٤٥ میں بھی گزر چکا ہے۔ اس مقام پر اس کی مناسبت یہ ہے۔ تحویل قبلہ کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کو جس امامت کے لیے تیار کرنا مقصود ہے تو اس کی راہ میں بے شمار مشکلات اور مصائب پیش آنے والے ہیں۔ لہٰذا اے مسلمانو! ایسے اوقات میں صبر اور نماز سے کام لو۔ صبر سے انسان بہت سی مشکلات پر قابو پا لیتا ہے اور نماز ان حالات میں نفس انسانی کو اطمینان بخشتی ہے۔ بندہ کا اللہ پر توکل بڑھتا ہے اور یہی توکل مشکلات میں ثابت قدم رہنے کے لیے ایک بہت بڑا سہارا ثابت ہوتا ہے۔ [ ١٩٣] صبر کرنے والوں کے ساتھ اللہ کی معیت کا معنیٰ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعانت اور توفیق نصیب ہوتی رہتی ہے۔ جیسا کہ مثل مشہور ہے کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے اور یہ بات ہر انسان کو اپنے ذاتی تجربات کی بنا پر بھی معلوم ہو سکتی اور ہوتی رہتی ہے۔ البقرة
154 [١٩٤] کیونکہ موت کا لفظ اور اس کا تصور انسان کے ذہن پر ایک ہمت شکن اثر ڈالتا ہے اور لوگوں میں جذبہ جہاد فی سبیل اللہ کے سرد پڑجانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ لہٰذا شہداء کو مردہ کہنے سے روک دیا گیا۔ علاوہ ازیں یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ شہید کی موت قوم کی حیات کا سبب بنتی ہے اور شہید دراصل حیات جاوداں پا لیتا ہے اور اس سے روح شجاعت بھی تازہ رہتی ہے۔ [۱۹۴۔۱] شہداء کی زندگی :۔صحیح احادیث میں وارد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’شہداء کی روحیں سبز پرندوں کے جسم میں ہوتی ہیں اور ان کے لیے عرش کے ساتھ کچھ قندیلیں لٹکی ہوئی ہیں۔ یہ روحیں جنت میں جہاں چاہتی ہیں سیر کرتی پھرتی ہیں۔ پھر ان قندیلوں میں واپس آ جاتی ہیں۔‘‘ (مسلم، کتاب الامارۃ باب فی بیان ان ارواح الشھداء فی الجنۃ وانھم احیاء عند ربھم یرزقون) نیز دیکھئے : ٣ : ١٢٩) البقرة
155 [١٩٥]مسلمانوں پرخوف اور تنگدستی : یہ خطاب مسلمانوں سے ہے۔ خوف سے مراد وہ ہنگامی صورت حال ہے جو جنگ احزاب سے پہلے ہر وقت مدینہ کی آزاد چھوٹی سی ریاست کے گرد منڈلاتی رہتی تھی۔ ایک دفعہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کاش آج رات کوئی میرا پہرہ دے تاکہ میں سو سکوں۔ یہ سن کر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ مسلح ہو کر آ گئے اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں پہرہ دیتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو جائیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح آرام فرمایا۔ (بخاری، کتاب الجہاد، باب الحراسة فی الغزو فی سبیل اللّٰہ عزوجل، بخاری کتاب التمنی باب قولہ النبی لیت کذا وکذا) اور ایک رات اہل مدینہ ایک خوفناک آواز سن کر گھبرا گئے، پھر وہ اس آواز کی طرف روانہ ہوئے تو دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ادھر سے واپس آ رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے پہلے ہی اس آواز کی جانب روانہ ہوگئے تھے اور خبر معلوم کر کے آ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے کہا ڈرو نہیں، ڈرو نہیں۔ (بخاری، کتاب الجہاد، باب الحمائل و تعلیق السیف بالعنق اور مبادرۃ الامام عند الفزع اور مسلم کتاب الفضائل باب شجاعۃ النبی) اور اس دور میں مسلمانوں کی معاشی تنگ دستی کا حال درج ذیل احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔ ١۔صحابہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیشت:۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے صفہ والوں میں ستر آدمی ایسے دیکھے جن کے پاس چادر تک نہ تھی یا تو فقط تہبند تھا یا فقط کمبل۔ جسے انہوں نے گردن سے باندھ رکھا تھا۔ جو کسی کی آدھی پنڈلیوں تک پہنچتا اور کسی کے ٹخنوں تک، جسے وہ اپنے ہاتھ سے سمیٹتے رہتے۔ اس ڈر سے کہ کہیں ان کا ستر نہ کھل جائے۔ (بخاری، کتاب الصلٰوۃ، باب نوم الرجال فی المسجد) ٢۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھانجے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ : میرے بھانجے ہم پر ایسا وقت گزر چکا ہے کہ ہم ایک چاند دیکھتے، پھر دوسرا چاند، پھر تیسرا چاند یعنی دو دو مہینے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں آگ نہیں جلتی تھی۔ عروہ رضی اللہ عنہ نے کہا : خالہ! پھر تمہاری گزر کس چیز پر ہوتی تھی؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : انہی دو کالی چیزوں یعنی کھجور اور پانی پر۔ اتنا ضرور تھا کہ چند انصاری لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمسائے تھے جن کے پاس بکریاں تھیں۔ وہ آپ کے لیے بکریوں کا دودھ تحفہ کے طور پر بھیجا کرتے جس سے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی پلاتے۔ (بخاری۔ کتاب الھبۃ و فضلھا و التحریض علیھا) ٣۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر آپ کی وفات تک ایسا زمانہ نہیں گزرا کہ انہوں نے مسلسل تین دن پیٹ بھر کر کھانا کھایا ہو۔ (بخاری، کتاب الاطعمہ باب قول اللہ تعالیٰ کلوا من طیبات مارزقنکم وکلوا من طیبات ما کسبتم) ٤۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے بھوک لگی ہوئی تھی۔ مجھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ ملے تو ان سے کہا کہ قرآن پاک کی فلاں آیت : ﴿ وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَـتِـیْمًا وَّاَسِیْرًا ﴾ مجھے پڑھ کر سناؤ، وہ اپنے گھر میں گئے اور یہ آیت مجھے پڑھ کر سنائی اور سمجھائی۔ آخر میں وہاں سے چلا۔ تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ بھوک سے بے حال ہو کر اوندھے منہ گر پڑا۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے سرہانے کھڑے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اٹھایا اور پہچان گئے کہ بھوک کے مارے میرا یہ حال ہے۔ آپ مجھے گھر لے گئے اور میرے لیے دودھ کا پیالہ لانے کا حکم دیا۔ میں نے دودھ پیا، پھر فرمایا ابوہریرہ ! اور پی، میں نے اور پیا۔ پھر فرمایا : اور پی۔ میں نے اور پیا حتیٰ کہ میرا پیٹ تن کر سیدھا ہوگیا۔ پھر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملا اور اپنا حال بیان کیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے میری بھوک دور کرنے کے لیے ایسے شخص کو بھیج دیا جو آپ سے اس بات کے زیادہ لائق تھے اللہ کی قسم! میں نے آپ سے جونسی آیت پڑھ کر سنانے کو کہا تھا۔ وہ مجھے آپ سے زیادہ یاد تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے، اللہ کی قسم! اگر میں اس وقت تمہیں گھر لے جا کر کھانا کھلاتا تو سرخ اونٹوں کے ملنے سے بھی زیادہ خوشی ہوتی۔ (بخاری، کتاب قول اللّٰہ تعالیٰ کلوا من طیبات ما رزقناکم) ٥۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں پہلا عرب ہوں جس نے اللہ کی راہ میں تیر چلایا اور ہم نے اپنے تئیں اس وقت جہاد کرتے پایا جب ہم کو حبلہ اور سمر (کانٹے دار درخت) کے پتوں کے سوا اور خوراک نہ ملتی۔ ہم لوگوں کو اس وقت بکری کی طرح سوکھی مینگنیاں آیا کرتیں جن میں تری نام کی کوئی چیز نہ ہوتی۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب کیف کان عیش النبی صلی اللہ علیہ وسلم و اصحابہ۔۔) ٦۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم چھ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک لڑائی کو نکلے۔ سواری کے لیے ہم سب کے پاس ایک ہی اونٹ تھا اور باری باری اس پر سوار ہوتے اور چلتے چلتے ہمارے پاؤں پھٹ گئے اور میرے تو پاؤں پھٹ کر ناخن بھی گر پڑے۔ اس حال میں ہم پاؤں پر چیتھڑے لپیٹ لیتے۔ اسی لیے اس لڑائی کا نام غزوہ ذات الرقاع (چیتھڑوں والی لڑائی پڑگیا (بخاری، کتاب المغازی باب غزوۃ ذات الرقاع) ٧۔ حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ نے ایک لشکر سمندر کے کنارے بھیجا جس میں تین سو آدمی اور سردار ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ تھے۔ ہمارا راشن ختم ہوگیا تو ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ سب لوگ اپنا اپنا بچا ہوا راشن ایک جگہ جمع کریں۔ یہ سارا راشن کھجور کے دو تھیلے تھے ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ اس سے تھوڑا تھوڑا کھانے کو دیتے رہے۔ جب وہ بھی ختم ہوگیا تو ہمیں روزانہ صرف ایک کھجور کھانے کو ملا کرتی۔ وہب نے جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا! بھلا ایک کھجور سے کیا بنتا ہوگا۔ جابر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ وہ ایک کھجور بھی غنیمت تھی، جب وہ بھی نہ رہی تو ہمیں اس کی قدر معلوم ہوئی۔ پھر ہم سمندر پر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بہت بڑی مچھلی ٹیلے کی طرح پڑی ہے۔ سارا لشکر اٹھارہ دن اس کا گوشت کھاتا رہا، جب ہم چلنے لگے تو ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ اس کی دو پسلیاں کھڑی کی جائیں وہ اتنی اونچی تھیں کہ اونٹ پر کجاوہ کسا گیا تو وہ ان کے نیچے سے نکل گیا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی باب غزوۃ سیف البحر) خوف کے علاوہ فاقہ، جان و مال اور پھلوں میں خسارہ یہ سب ایسی صورتیں ہیں جو اسلام کی راہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پیش آتی رہیں۔ اسی لیے انہیں صبر اور نماز سے مدد لینے کی ہدایت کی گئی۔ البقرة
156 [١٩٦]مصیبت کے وقت اناللہ واناالیہ رجعون کہنا:۔ جو یہ کلمات صرف زبان سے ہی ادا نہیں کرتے بلکہ دل سے بھی اس بات کے قائل ہوتے ہیں کہ چونکہ ہم اللہ ہی کی ملک ہیں۔ لہٰذا ہماری جو چیز بھی اللہ کی راہ میں قربان ہوئی وہ اپنے ٹھیک ٹھکانے پر پہنچ گئی اور وہ کسی قسم کی بے قراری یا اضطراب کا اظہار نہیں کرتے نہ ہی زبان سے کوئی ناشکری کا کلمہ نکالتے ہیں۔ چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نواسہ ( زینب رضی اللہ عنہ کا بیٹا) فوت ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی سے فرمایا : یوں کہو : أَنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ وَلَهُ مَا أَعْطَى، وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُسَمًّى، فَمُرْهَا فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ (جو اس نے لے لیا وہ اللہ ہی کا تھا اور جو دے رکھا ہے وہ بھی اللہ ہی کا ہے۔ اس کے ہاں ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے۔ لہٰذا تمہیں چاہیے کہ صبر کرو اور اس سے ثواب کی امید رکھو) (بخاری، کتاب المرضیٰ۔ باب عیادۃ الصبیان و کتاب الجنائز (مسلم کتاب الجنائز، باب البکاء علی المیت) البقرة
157 البقرة
158 [ ١٩٧] صفا اور مروہ خانہ کعبہ کے نزدیک دو پہاڑیاں ہیں۔ جن کے درمیان سات بار دوڑنا مناسک حج میں شامل تھا۔ جو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سکھلائے تھے۔ زمانہ مابعد میں جب مشرکانہ جاہلیت پھیل گئی تو مشرکوں نے صفا پر اساف اور مروہ پر نائلہ کے بت رکھ دیئے تھے اور ان کے گرد طواف ہونے لگا۔ یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں کے دلوں میں یہ سوال کھٹکنے لگا کہ آیا صفا اور مروہ کے درمیان سعی حج کے اصلی مناسک میں سے ہے یا یہ محض مشرکانہ دور کی ایجاد ہے؟ چنانچہ اس آیت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی اس غلط فہمی کو دور کر کے صحیح بات کی طرف رہنمائی فرما دی جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ صفا اور مروہ کےطواف میں کیاقباحت سمجھی جاتی تھی؟عاصم بن سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اس آیت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ابتدائے اسلام میں ہم اسے جاہلیت کی رسم سمجھتے تھے۔ لہٰذا اسے چھوڑ دیا۔ تب یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری، کتاب التفسیر، باب قولہ تعالیٰ ان الصفا والمروۃ) نیز اہل مدینہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کو اس لیے برا سمجھتے تھے کہ وہ منات کے معتقد تھے اور اساف اور نائلہ کو نہیں مانتے تھے۔ چنانچہ ہشام بن عروہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا جبکہ میں ابھی کمسن تھا کہ اللہ تعالیٰ کے قول آیت ان الصفا والمروۃ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص صفا اور مروہ کا طواف نہ کرے تب بھی کوئی قباحت نہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا۔ اس کا مطلب یہ نہیں۔ اگر یہ مطلب ہوتا تو اللہ تعالیٰ یوں فرماتے۔ ’’اگر ان کا طواف نہ کرے تو کوئی گناہ نہیں۔‘‘ یہ آیت انصار کے حق میں اتری ہے۔ وہ حالت احرام میں منات کا نام پکارتے تھے اور یہ بت قدید کے مقام پر نصب تھا۔ انصار (اسی وجہ سے) صفاء مروہ کا طواف برا سمجھتے تھے۔ جب وہ اسلام لے آئے تو اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، تب یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری، کتاب التفسیر زیر آیت مذکور) البقرة
159 [ ١٩٨] کتمان حق کبیرہ گناہ ہے:۔ اس کے مخاطب وہ لوگ ہیں جن کا دینی لحاظ سے معاشرہ میں کچھ مقام ہوتا ہے اور ان کی اتباع کی جاتی ہے۔ مثلاً علماء، پیرو مشائخ، واعظ اور مصنفین وغیرہ ایسے حضرات اگر اللہ تعالیٰ کے واضح احکام اور ہدایات کو چھپائیں تو اس کا نتیجہ چونکہ عام گمراہی اور فساد کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے لہٰذا یہ لوگ بدترین قسم کے مجرم ہوتے ہیں جو اپنے گناہ کے بار کے علاوہ اپنے بے شمار متبعین کے گناہوں کا بوجھ بھی اپنے سر پر اٹھاتے ہیں۔ لہٰذا ان پر اللہ بھی لعنت کرتا ہے۔ فرشتے بھی، انسان بھی اور بری اور بحری مخلوق بھی۔ حتیٰ کہ پانی کی مچھلیاں بھی۔ اس لیے کہ فساد فی الارض یا عذاب الٰہی کی صورت میں انسانوں کے علاوہ دوسری مخلوق بھی متاثر ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر علمائے یہود جنہوں نے تورات کے علم کو بس اپنے ہی حلقہ میں محدود کر رکھا تھا اور مثلاً رجم کی آیت کو چھپاتے تھے اور عوام میں زنا کی سزا ہی دوسری تجویز کرلی تھی۔ یا دیدہ دانستہ عوام میں مشہور کردیا تھا کہ ابراہیم علیہ السلام یا اسحاق علیہ السلام وغیرہ یہودی تھے یا قبلہ کے متعلق صحیح معلومات عوام سے چھپا رکھی تھیں وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بہت حدیثیں بیان کرتا ہے (حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ اگر کتاب اللہ میں یہ دو آیتیں نہ ہوتیں (یہی آیت نمبر ١٥٩۔ ١٦٠) تو میں کوئی حدیث بیان نہ کرتا۔ (بخاری، کتاب العلم، باب حفظ العلم) اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو تین بار پکارا، پھر فرمایا : معاذ! جو شخص سچے دل سے یہ گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔ اللہ اسے آگ پر حرام کر دے گا۔ معاذ رضی اللہ عنہ کہنے لگے! میں لوگوں کو یہ بات بتلا دوں کہ وہ خوش ہوجائیں؟ فرمایا ’’پھر وہ توکل کر بیٹھیں گے (لہٰذا ایسی بشارت نہ دو)‘‘ پھر معاذ رضی اللہ عنہ نے موت کے وقت گنہگار ہونے کے ڈر سے لوگوں سے یہ بیان کردی۔ (بخاری، کتاب العلم، باب من خص بالعلم قومادون قوم) البقرة
160 [١٩٩]توبہ کی شرائط :۔ صرف توبہ کرنا ہی کافی نہیں، بلکہ ان کے اس کتمان حق سے جو بگاڑ پیدا ہوا تھا۔ اس کی انہیں اصلاح بھی کرنا ہوگی۔ پھر اپنی غلطی کا لوگوں کے سامنے برملا اعتراف بھی کریں تو صرف ایسے لوگوں کی اللہ توبہ قبول کرے گا ورنہ نہیں۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک مصنف احکام الٰہی کی غلط تاویل کر کے اپنے ملحدانہ خیالات پر مشتمل ایک کتاب شائع کردیتا ہے، بعد میں توبہ کرلیتا ہے۔ لیکن اس کے جو ملحدانہ خیالات عوام میں پھیل چکے۔ جب تک وہ ان کی تردید میں اپنی دوسری کتاب لکھ کر اس پیدا شدہ بگاڑ کی اصلاح نہ کرے گا۔ اس کی توبہ قبول ہونے کی توقع نہ ہوگی اور یہی بینوا کا مفہوم ہے۔ البقرة
161 [٢٠٠] کفر کے معنی انکار کردینا (ایمان نہ لانا) بھی ہے۔ چھپانا بھی اور ناشکری کرنا بھی۔ یہاں موقع کے لحاظ سے یہ سب معنوں میں استعمال ہو رہا ہے۔ البقرة
162 البقرة
163 [٢٠١] کئی خدا سمجھنے کی وجہ، صرف ایک اللہ کی عبادت کیوں ؟یہ خطاب دراصل مشرکین مکہ سے ہے۔ جنہوں نے کئی الٰہ بنا رکھے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ اتنے بڑے کارگاہ کائنات کا سارے کا سارا انتظام ایک اکیلا اللہ کیسے سنبھال سکتا ہے؟ ان کی عقل میں یہ بات آ ہی نہیں سکتی تھی۔ لہٰذا انہوں نے مختلف امور کے لیے مختلف الٰہ تجویز کر رکھے تھے اور جتنی پرانی تھذیبیں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً ہندی، رومی، مصری، یونانی تھذیبیں، ان سب لوگوں نے دیوی دیوتاؤں کا ایسا ہی نظام تجویز کر رکھا تھا اور مسلمانوں میں بھی اکثر لوگوں میں گو زبانی نہیں مگر عملاً ایسے ہی اعتقادات و افعال رائج ہوچکے ہیں۔ یہ سب لوگ ہی اس آیت کے مخاطب ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی معرفت نصیب نہیں ہوتی اور قرآن میں یہ مضمون لاتعداد مقامات پر آیا ہے۔ کہیں اجمالاً کہیں تفصیل سے اور دلائل کے ساتھ۔ لہٰذا اس مضمون کی تفصیل کسی دوسرے مقام پر آ جائے گی۔ البقرة
164 [٢٠٢] توحید باری پرآٹھ دلائل :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے غور و فکر کرنے والوں کے لیے آٹھ ایسے امور کا ذکر فرمایا ہے جو اللہ تعالیٰ کے وجود پر اور اس کی لامحدود قدرت و تصرف پر واضح دلائل ہیں۔ مثلاً اتنے عظیم الشان آسمان کو بغیر ستونوں کے پیدا کرنا اور زمین کو اس طرح بنانا کہ اس پر بسنے والی تمام مخلوق کی ضروریات کی کفیل ہے۔ دن رات کا یکے بعد دیگرے آنا جانا اور ان کے اوقات کا گھٹنا بڑھنا، جہازوں کا بڑے بڑے مہیب اور متلاطم سمندروں میں رواں ہونا آسمان سے بارش برسانا جس سے مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے۔ ہر جاندار میں توالدو تناسل کا سلسلہ قائم کرنا انہیں تمام روئے زمین پر پھیلا دینا، ہواؤں کے رخ میں تبدیلی پیدا کرنا اور بلندیوں پر بادلوں کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا۔ یہ سب کام ایسے ہیں جنہیں اللہ کے سوا کوئی بھی ہستی سرانجام نہیں دے سکتی۔ پھر اور کون سے کام ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کو دوسرے دیوی دیوتاؤں کی ضرورت پیش آ سکتی ہے؟ پھر مندرجہ بالا امور بیان کرنے کے بعد ساتھ ہی یہ بھی بتلا دیا کہ غور و فکر کرنے والوں کے لیے اس کائنات میں ان کے علاوہ اور بھی ایسی بہت سی نشانیاں موجود ہیں۔ البقرة
165 [٢٠٣]شرکیہ افعال اور شرک کی مذمت :۔ یعنی اللہ کی مخصوص صفات میں اپنے معبودوں کو اللہ کا مد مقابل ٹھہراتے ہیں اور خالق، مالک اور رازق ہونے کی حیثیت سے اللہ کے جو حقوق بندوں پر عائد ہونا چاہئیں۔ ان حقوق میں وہ دوسروں کو شریک کرلیتے ہیں۔ مثلاً سلسلہ اسباب پر حکمرانی، حاجت روائی، مشکل کشائی، فریاد رسی، عبادت دعائیں سننا اولاد عطا کرنا، غیب و شہادت کی ہر چیز سے واقف ہونا، کسی دوسرے کو منبع قانون سمجھنا اور حرام و حلال کی حدود مقرر کرنا۔ ان سب باتوں میں کئی دوسرے پیغمبروں، بزرگوں، فرشتوں جنوں اور دیوی، دیوتاؤں کو اللہ کا مدمقابل اور شریک ٹھہرا لیتے ہیں۔ محبت کا تعلق قلبی اعمال سے ہے اور یہی بات تمام افعال و اعمال کا سرچشمہ ہے اس میں بھی وہ اپنے خود ساختہ معبودوں کو ہی فوقیت دیتے ہیں۔ [ ٢٠٤] کیونکہ اللہ سے ان کی محبت مستقل اور پائیدار ہوتی ہے۔ وہ ہر حال میں اللہ ہی پر بھروسہ اور اعتماد رکھتے ہیں۔ جب کہ مصائب و آلام کے وقت بسا اوقات مشرکوں کی اپنے معبودوں سے محبت زائل بھی ہوجاتی ہے۔ البقرة
166 [٢٠٥] اس دنیا میں تو عالم اسباب کی بہت سی باتیں انسان کی آنکھوں سے مخفی ہیں۔ مگر قیامت کو جب یہ سب اسباب واضح طور پر دیکھ لیں گے تب انہیں معلوم ہوگا کہ تصرف و اقتدار کے جملہ اختیارات تو صرف اللہ ہی کو حاصل تھے اور حاصل ہیں۔ اور ہمارے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ مگر اس وقت ان کی یہ ندامت کسی کام نہ آئے گی اور سخت عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ البقرة
167 [٢٠٦]پیروں کی اپنے مریدوں سے بیزاری اور اس کےبرعکس:۔ ان دو آیات میں میدان محشر کا ایک منظر پیش کیا گیا ہے اور مشرکوں اور ان کے معبودوں یعنی مرشدوں اور (مریدوں) پیروکاروں کے درمیان مکالمہ بیان کیا گیا ہے۔ جو یہاں دنیا میں اپنے مریدوں کے مشکل کشا، حاجت روا اور شفاعت کے ٹھیکیدار بنے ہوئے تھے۔ قیامت کے دن چونکہ اللہ کے حضور جواب دہی کی دہشت اور خوف اس قدر زیادہ ہوگا کہ ہر ایک کو اپنی ہی جان کی پڑی ہوگی۔ لہٰذا یہ پیشوا حضرات ان مریدوں کی اعانت و امداد یا سفارش سے نہ صرف انکار کریں گے، بلکہ دنیا میں ان کو اپنا مرید ہونے سے ہی انکار کردیں گے اور کہہ دیں گے کہ ہمارا ان سے کوئی تعلق ہے نہ ہم انہیں پہچانتے ہیں۔ بلکہ ان سے بے زاری اور نفرت کا اظہار کریں گے۔ یہ صورت حال دیکھ کر مرید حضرات سخت مایوس ہوجائیں گے اور آرزو کریں گے کہ کاش ہمیں دنیا میں جانے کا ایک اور موقع مل سکے تو ہم بھی ان سے یہی سلوک کریں جو آج یہ ہم سے کر رہے ہیں اور ہم بھی ان پیروں سے ایسے بے تعلق اور بیزار ہوجائیں۔ جیسے یہ آج ہم سے بے تعلق اور بے زار بن گئے ہیں۔ [ ٢٠٧] مشرکوں کے اعمال حسرت کا سبب کیوں ؟ایک حسرت تو یہ ہوگی کہ مرشدوں نے اپنے وعدوں کے خلاف بے زاری کا اظہار کردیا، اور دوسری یہ کہ جو اچھے اعمال مثلاً صدقہ و خیرات اور نذر و نیاز وغیرہ کرتے رہے وہ تو ان کے شرک کی وجہ سے ضائع ہوجائیں گے اور برے اعمال برقرار رہیں گے۔ اس طرح وہ کئی قسم کی حسرتوں کا مجموعہ بن جائیں گے۔ ان کے مرشد بھی باعث حسرت اور ان کے اعمال بھی باعث حسرت لیکن ان حسرتوں کا نتیجہ کچھ بھی نہ نکلے گا اور دوزخ کے عذاب سے نجات کی کوئی صورت نہ ہوگی۔ البقرة
168 [٢٠٨] حلال سے مراد ایک تو وہ سب چیزیں ہیں جنہیں شریعت نے حرام قرار نہیں دیا۔ دوسرے وہ جنہیں انسان اپنے عمل سے حرام نہ بنا لے۔ جیسے چوری کی مرغی یا سود اور ناجائز طریقوں سے کمایا ہوا مال اور پاکیزہ سے مراد وہ صاف ستھری چیزیں ہیں جو گندی سٹری، باسی اور متعفن نہ ہوگئی ہوں۔ حرام چیزوں سے بچنے کی احادیث میں بہت تاکید آئی ہے۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے۔ ١۔کسب حلال اور اس کی اہمیت :۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے لوگو! اللہ پاک ہے اور وہ صرف پاک مال قبول کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو بھی اسی بات کا حکم دیا جس کا اس نے رسولوں کو حکم دیا : چنانچہ فرمایا یٰایُّھَا الرُّسُلُ۔۔ (اے پیغمبرو ! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو اور فرمایا اے ایمان والو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ جو ہم نے تمہیں دی ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کر کے آیا ہو، اس کے بال پریشان اور خاک آلود ہوں وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف پھیلاتا ہے اور کہتا ہے اے میرے پروردگار! اے میرے پروردگار! جبکہ اس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام اور جس غذا سے اس کا جسم بنا ہے وہ بھی حرام ہے تو پھر اس کی دعا کیسے قبول ہوگی؟ (ترمذی، ابو اب التفسیر) (مسلم، کتاب الزکوٰۃ باب قبول الصدقۃ من کسب الطیب) ٢۔ حرام خور کی دعاقبول نہیں ہوتی:۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’وہ گوشت جو مال حرام سے پروان چڑھا ہے وہ جنت میں داخل نہ ہوگا اور جو بھی گوشت حرام سے پروان چڑھا اس کے لیے جہنم ہی لائق تر ہے۔‘‘ (احمد، دارمی، بحوالہ مشکوٰۃ، کتاب البیوع باب الکسب و طلب الحلال فصل ثانی) ٣۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص حرام مال کمائے اور پھر اس سے صدقہ کرے تو وہ صدقہ قبول نہیں ہوتا اور اگر اس سے خرچ کرے تو اس میں برکت نہیں ہوتی۔ (احمد، بحوالہ مشکوٰاۃ، کتاب البیوع باب الکسب و طلب الحلال، فصل ثانی) ٤۔ حرام مال سے صدقہ قبول نہیں ہوتا:۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ صرف پاکیزہ کمائی سے ہی صدقہ قبول کرتا ہے۔ (مسلم، کتاب الزکوٰۃ، باب بیان ان اسم الصدقہ یقع علی کل نوع من المعروف) ٥۔حرام اور مشکوک چیزیں چھوڑنے کاحکم :۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یوں کہتے سنا ہے کہ حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے۔ اب جو شخص ان مشتبہ چیزوں سے بچا رہا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا اور جو مشتبہ چیزوں میں پڑگیا اس کی مثال اس چرواہے کی سی ہے جو کسی کی رکھ کے گرد اپنے جانوروں کو چراتا ہے، قریب ہے کہ وہ رکھ میں جا گھسیں۔ سن لو ہر بادشاہ کی ایک رکھ ہوتی ہے۔ سن لو! اللہ کی رکھ اس کی زمین میں حرام کردہ چیزیں ہیں۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب فضل من استبراء لدینہ مسلم، کتاب المساقاۃ باب اخذ الحلال و ترک الشبہات) ٦۔ عطیہ سعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ کوئی بندہ اس وقت تک متقی نہیں بن سکتا جب تک اندیشہ والی چیزوں سے بچنے کی خاطر ان چیزوں کو نہ چھوڑ دے جن میں کوئی اندیشہ نہیں۔‘‘ (ترمذی، ابن ماجہ، بحوالہ مشکوٰۃ، کتاب البیوع، باب الکسب و طلب الحلال) ٧۔ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات یاد رکھی ہے کہ’’جو چیز تجھے شک میں ڈالے اسے چھوڑ اور وہ اختیار کر جو شک میں نہیں ڈالتی۔‘‘ (احمد بحوالہ مشکوٰۃ، کتاب البیوع، باب الکسب و طلب الحلال) ٨۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ آدمی اس بات کی پروا نہیں کرے گا کہ جو مال اس کے ہاتھ آیا ہے وہ حلال ہے یا حرام۔‘‘ (بخاری، کتاب البیوع، باب مالم یبال من حیث کسب المال) [ ٢٠٩] حرام مال کوحلال اورحلال کوحرام قراردینا اور شیطان کی پیروی ہے: یہاں شیطان کے پیچھے چلنے سے مراد یہ ہے جو چیزیں اللہ نے حرام نہیں کیں انہیں حرام نہ سمجھ لو، جیسے مشرکین عرب بتوں کے نام سانڈ چھوڑ دیتے تھے۔ پھر ان جانوروں کا گوشت کھانا یا ان سے کسی طرح کا بھی نفع اٹھانا حرام سمجھتے تھے یا کسی مخصوص کھانے پر اپنی طرف سے پابندیاں عائد کر کے اسے حرام قرار دے لیتے تھے۔ یہی صورت کسی حرام چیز کو حلال قرار دینے کی ہے۔ جیسے یہود نے سود کو حلال قرار دے لیا تھا۔ امیوں کا مال کھانا جائز سمجھتے تھے اور یہ شرک ہے۔ کیونکہ حلال و حرام قرار دینے کے جملہ اختیارات اللہ کو ہیں۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے قریب میری امت میں سے کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو شراب کا کوئی دوسرا نام رکھ کر اس کو حلال بنا لیں گے۔ (بخاری، کتاب الاشربہ، باب فیمن یستحل الخمر ویسمیہ بغیراسمہ) اور ابو مالک کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ میری امت میں سے کچھ لوگ پیدا ہوں گے جو زنا، ریشم، شراب اور باجے گاجے وغیرہ کے دوسرے نام رکھ کر انہیں حلال بنا لیں گے۔ (حوالہ ایضاً) اور ایسی سب باتیں اللہ کی صفات میں شرک کے مترادف ہیں۔ کیونکہ حلت و حرمت کے جملہ اختیارات اللہ ہی کو ہیں۔ البقرة
169 [٢١٠] چونکہ شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے۔ لہٰذا وہ ہمیشہ تمہیں کوئی بری بات یا بے شرمی یا بے حیائی کی بات ہی سمجھائے گا۔ وہ بھی اس طرح کہ تمہاری نظروں میں وہ بھلی معلوم ہو۔ [ ٢١١] یعنی خود ساختہ رسموں اور پابندیوں کے متعلق یہ سمجھنا یا تاثر دینا کہ یہ اللہ کے احکام ہیں جبکہ ان کے من جانب اللہ ہونے کی کوئی دلیل موجود نہ ہو، اللہ کے ذمہ جھوٹ لگانے کے مترادف ہے جو بہت بڑا گناہ ہے۔ البقرة
170 [ ٢١٢]تقلید آباء کی مذمت: ۔ تقلید آباء گمراہی کا بہت بڑا سبب ہے۔ انسان اپنے آباء اور بزرگوں سے عقیدت کی وجہ سے یہ سوچنے کی زحمت گوارا ہی نہیں کرتا کہ ان سے بھی کوئی غلطی ہو سکتی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بے شمار مقامات پر تقلید آباء کی مذمت فرمائی ہے اور اسے شرک قرار دیا ہے۔ کیونکہ آباء کا عمل کوئی شرعی دلیل نہیں ہوتا۔ بلکہ ہر کام کے متعلق یہ تحقیق ضروری ہوتی ہے کہ آیا وہ شرعاً جائز ہے یا نہیں۔ خواہ اس کی زد اپنے آپ پر یا اپنے آباء پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ ایسا نہ ہونا چاہیے کہ اگر کسی کے باپ دادا سے کوئی غلط کام ہوگیا ہو تو وہ غلطی پشت در پشت اس کی نسلوں میں منتقل ہوتی چلی جائے۔ حتیٰ کہ اسے عین دین کا کام سمجھا جانے لگے۔ البقرة
171 [ ٢١٣] یعنی کافروں کی مثال ان بے عقل جانوروں کی سی ہے۔ جنہیں چرواہا جب پکارتا ہے تو وہ یہ نہیں سمجھ سکتے کہ وہ کہہ کیا رہا ہے۔ بلکہ محض آواز سن کر ادھر ادھر ہوجاتے ہیں۔ جانوروں کی طرح یہ کافر بھی حق بات سن کر نہ اسے سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی حق بات کہہ سکتے ہیں اور حق بینی کے معاملہ میں اندھے ہیں۔ پھر انہیں ہدایت نصیب ہو تو کیسے ہو۔ جب کہ ہدایت پانے کے سارے راستے انہوں نے خود ہی اپنے آپ پر بند کر رکھے ہیں۔ البقرة
172 [ ٢١٤] آیت نمبر ١٦٩ میں خطاب عوام الناس سے تھا۔ اس آیت میں مومنوں سے ہے۔ اسی لیے انہیں تاکید کی جا رہی ہے کہ کھانے کے بعد اللہ کا شکر بھی ادا کیا کرو۔ البقرة
173 [ ٢١٥]اللہ کی حرام کردہ چیزیں :۔ اس آیت میں چار چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے : ١۔ مردار خواہ وہ کسی طریقہ سے مرا ہو۔ طبعی موت سے یا کہیں گر کر یا لاٹھی لگنے سے یا سینگ کی ضرب سے یا کسی درندے نے مار ڈالا ہو۔ سب صورتوں میں حرام ہے۔ ٢۔ وہ خون جو ذبح کرتے وقت رگوں سے باہر نکل جاتا ہے اور جو گوشت کے ساتھ لگا رہے اس میں کوئی حرج نہیں۔ نیز حدیث میں آیا ہے کہ دو مردار حلال ہیں یعنی مچھلی اور ٹڈی اور دو خون حلال ہیں۔ کلیجی اور تلی جو منجمد خون ہی ہوتا ہے۔ (احمد، بحوالہ مشکوٰۃ کتاب الصید والذبائح باب مایحل اکلہ ما یحرم فصل ثانی) ٣۔ خنزیر یا سور جو نجس عین ہے۔ اس کا صرف گوشت کھانا ہی حرام نہیں بلکہ یہ زندہ یا مردہ اس کی کسی بھی چیز سے استفادہ جائز نہیں۔ ٤۔ ہر وہ چیز جو اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کے نام پر مشہور کردی جائے۔ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ جس جانور پر ذبح کرتے وقت اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام لیا جائے، صرف وہی حرام ہوتا ہے۔ یہ تصور بالکل غلط ہے، کیونکہ قرآن کے الفاظ میں نہ جانور کا ذکر ہے۔ نہ ذبح کا بلکہ ما کے لفظ میں عمومیت ہے۔ لہٰذا اس کا معنی یہ ہوگا کہ جو چیز کسی بزرگ یا دیوی دیوتا کا تقرب حاصل کرنے کے لیے اس کے نام پر مشہور کردی جائے جیسے امام جعفر کے کو نڈے، بی بی کی صحنک، مرشد کا بکرا وغیرہ یہ سب چیزیں حرام ہیں اور اگر وہ ذبح کرنے کا جانور ہے تو خواہ اس پر ذبح کے وقت اللہ کا نام ہی کیوں نہ لیا جائے وہ حرام ہی رہے گا۔ بلکہ کسی دوسرے کی نیت رکھنے سے بھی وہ حرام ہوجاتا ہے کیونکہ اللہ کی عطا کردہ چیزوں کی قربانی یا نذر و نیاز صرف اسی کے نام کی ہونی چاہیے۔ اس میں کسی دوسرے کو شریک نہ بنایا جائے۔ ہاں اگر کوئی شخص کچھ صدقہ و خیرات کرتا ہے یا قربانی کرتا ہے اور اس سے اس کی نیت یہ ہو کہ اس کا ثواب میرے فوت شدہ والدین یا فلاں رشتہ دار یا مرشد کو پہنچے تو اس میں کوئی حرج نہیں، یہ ایک نیک عمل ہے۔ جو سنت سے ثابت ہے۔ [ ٢١٦]لاچاری میں حرام اشیاء کےجواز کی شرائط:۔ اس آیت میں حرام چیزوں کو استعمال کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے تین شرائط بیان فرمائیں : ١۔ اسے بھوک یا بیماری کی وجہ سے جان جانے کا خطرہ لاحق ہو اور اس حرام چیز کا کوئی بدل موجود نہ ہو۔ ٢۔ وہ اللہ کا باغی یا قانون شکن نہ ہو۔ یعنی جو چیز کھا رہا ہے۔ اسے حرام ہی سمجھ کر کھائے، حلال نہ سمجھے۔ ٣۔ اتنا ہی کھائے جس سے اس کی جان بچ سکے اور اس کے بعد اس کا بدل میسر آ سکے۔ پھر اگر وہ غلط اندازے سے کچھ زیادہ بھی کھا لے گا تو اللہ تعالیٰ معاف کر دے گا۔ اور یہ غلطی جان کے تلف ہونے سے متعلق بھی ہو سکتی ہے اور خوراک کی مقدار کے متعلق بھی۔ البقرة
174 [٢١٧]کتمان حق اور غلط فتوے سےحرام خوری:۔ آیت نمبر ١٥٩ کے مضمون کو دہرایا گیا ہے اور بتلایا گیا ہے کہ کتمان حق کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ پیشوا قسم کے لوگ اس کے عوض کچھ نہ کچھ دنیوی مفاد اور مال و دولت حاصل کرلیتے ہیں آیات کی تاویل یا فقہاء کے مختلف اقوال کو بنیاد بنا کر غلط فتویٰ دیتے ہیں۔ اسی طرح ایک طرف تو لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ دوسرے ان سے پیسے وصول کرتے ہیں اور لطف کی بات یہ کہ فتویٰ جتنا زیادہ غلط قسم کا ہو اتنے ہی ان کے دام زیادہ وصول کئے جاتے ہیں، یہ مال بلاشبہ حرام ہے جو دوزخ کی ظاہری آگ کے علاوہ ان کے اندر بھی آگ لگا دے گا۔ [ ٢١٨] اللہ تعالیٰ کا کلام نہ کرنا گناہ کبیرہ کے ارتکاب کی دلیل ہے:۔ یہاں کلام نہ کرنے سے مراد اللہ تعالیٰ کی انتہائی خفگی اور ناراضگی ہے۔ فقہاء کہتے ہیں کہ جن کاموں سے متعلق یہ مذکور ہو کہ اللہ ان سے کلام نہ کرے گا یا ان کی طرف دیکھے گا بھی نہیں یا انہیں پاک نہیں کرے گا۔ تو ایسے سب کام کبیرہ گناہ ہوتے ہیں اور مسلمانوں کی تو ایک کثیر تعداد ایسی ہوگی جنہیں اللہ دوزخ میں داخل کرے گا تاآنکہ وہ گناہوں سے پاک و صاف ہوجائیں۔ لیکن کچھ گناہ ایسے بھی ہیں کہ دوزخ کی آگ سے پاک و صاف نہ ہوں گے۔ جیسے شرک یا جن کے متعلق خلود فی النار کے الفاظ آئے ہیں۔ رہی یہ بات کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک سے حساب کتاب لیتے وقت تو کلام کرے گا ہی تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسے لوگوں سے اللہ تعالیٰ کا حساب لینا بھی بصورت تہدید اور سرزنش اور ڈانٹ ڈپٹ ہوگا یا فرشتوں کے ذریعہ ان سے حساب لیا جائے گا۔ واللہ اعلم بالصواب البقرة
175 [٢١٩] یعنی اللہ تعالیٰ کی آیات کو چھپا کر لوگوں کو گمراہ کرنے والے اور غلط تاویلات کے ذریعے لوگوں سے نذرانے وصول کرنے والے علماء اور پیشوا حضرات جنہیں خوب معلوم ہے کہ ان کی ان کرتوتوں کی سزا کس قدر سخت ہے۔ اس کے باوجود وہ ان حرکتوں سے باز نہیں آتے، ان کی یہ جسارت بڑی حیران کن ہے۔ البقرة
176 [٢٢٠]اختلاف امت اور فرقہ پرستی کے اسباب :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک بہت بڑی حقیقت سے مطلع فرمایا ہے جو یہ ہے کہ جو لوگ اختلاف کرتے ہیں اور مختلف فرقوں میں بٹ جاتے ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ حق ان پر مشتبہ ہوجاتا ہے بلکہ اس کی اصل وجہ ان کی باہمی ضد ہوتی ہے جس میں وہ دور تک چلے جاتے ہیں۔ چنانچہ آپ خود ملاحظہ فرما لیجئے کہ اسلام میں جتنے فرقے پیدا ہوئے ہیں۔ سب اپنے حق میں کتاب و سنت سے ہی استدلال کرتے ہیں۔ یہ استدلال عموماً غلط ہوتا ہے اور کبھی صحیح بھی ہوتا ہے مگر استدلال کے اختلاف میں رواداری کے بجائے جب ضد پیدا ہوجائے اور استدلال کرنے والا اپنی بات پر اڑ جائے تو یہیں سے نئے فرقہ کی ابتدا شروع ہوجاتی ہے۔ جس کے لیے قرآن کریم میں بے شمار مقامات پر سخت وعید آئی ہے۔ واضح رہے کہ ہر گمراہ فرقے کی بنیاد یا تو کسی شرکیہ عقیدہ اور عمل پر استوار ہوتی ہے اور یا کسی بدعی عقیدہ و عمل پر۔ پھر اپنے اس بدعی عقیدہ کو کھینچ تان کر کتاب و سنت سے درست یا جائز ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جو شخص بدعی عقیدہ یا عمل رائج کرنا چاہتا ہے۔ اسے کوئی نہ کوئی روکنے اور ٹوکنے والا بھی ہوتا ہے۔ لیکن بدعی عقیدہ کا موجد اور اس کے متبعین کے لیے حق کو ماننے کے بجائے انا اور ضد کا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس طرح ایک نیا فرقہ وجود میں آ جاتا ہے اور اس حقیقت کو قرآن مجید نے چار مختلف مقامات پر ذکر کیا ہے۔ اور اس کی وجہ یہی ﴿بَغْیًا بَیْنَھُمْ ﴾ ہی بتلائی ہے۔ یعنی اس کی وجہ یہ ہرگز نہیں ہوتی کہ کتاب و سنت میں اس کا واضح حل موجود نہیں ہوتا۔ (نیز دیکھئے اسی سورۃ کا حاشیہ نمبر ٢٨٢) البقرة
177 [٢٢١]تحویل قبلہ پر جھگڑا کرنے کےبجائے نیکی کےاصل کام :۔ جب یہود مدینہ نے تحویل قبلہ کے مسئلہ کو مسلمانوں کے ساتھ جھگڑے کا ایک مستقل موضوع بنا لیا تو یہ آیت نازل ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ وضاحت فرمائی کہ مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرنا کوئی ایسی نیکی نہیں ہے جس پر نجات اخروی کا مدار ہو بلکہ نیکی کے اصل اور بڑے بڑے کام تو اور ہیں اور وہ کام ایسے تھے جن میں سے اکثر کی ادائیگی میں یہود قاصر تھے یا کوتاہی کر جاتے تھے پہلے تو اللہ تعالیٰ نے ایمان بالغیب کی انواع بیان فرمائیں۔ یہود جبریل کو اپنا دشمن سمجھتے تھے۔ حالانکہ اسی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنا کلام نازل فرماتا رہا۔ پھر وہ انجیل اور قرآن پر ایمان نہیں رکھتے تھے، بلکہ اپنی کتاب پر بھی ٹھیک طرح سے ایمان نہیں لاتے تھے اور بے شمار غلط عقائد آخرت کے بارے میں اپنے معتقدات میں شامل کرلیے تھے۔ پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے صدقات و خیرات اور اس کے مستحقین کا ذکر فرمایا۔ اس سلسلے میں وہ قاصر یوں تھے کہ وہ سود خور تھے اور سود خور کی فطرت میں بخل اور شقاوت پیدا ہونا لازمی امر ہے۔ پھر اللہ نے وعدہ پورا کرنے کا ذکر فرمایا۔ جبکہ یہود کی تاریخ عہد شکنیوں سے بھری پڑی ہے اور بزدل ایسے کہ ان کا کوئی قبیلہ بھی مسلمانوں کے ساتھ کھلے میدان میں لڑنے کی جرات نہ کرسکا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے راست باز اور متقی لوگوں کی جو جو صفات بیان فرمائی ہیں یہودیوں کی اکثریت ان سے عاری تھی۔ صرف ایفائے عہد اورصبر کاذکرکیوں ہوا؟اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے سیرت و کردار سے متعلق صرف دو باتوں کا ذکر فرمایا۔ ایک ایفائے عہد کا اور دوسرے صبر کا۔ عہد خواہ ایک شخص کا دوسرے شخص سے ہو یا قوم سے ہو یا ایک قوم کا دوسری قوم سے ہو یا کسی کا اللہ تعالیٰ سے ہو۔ نیز خواہ یہ عبادات سے تعلق رکھتا ہو یا معاملات سے یا مناکحات سے، اس عہد کا پورا کرنا ہر حال میں لازم ہے اور ظاہر ہے کہ یہ عہد دراصل ایفائے حقوق کا عہد ہوتا ہے جو انسان کی ساری زندگی ہی اپنے احاطہ میں لے لیتا ہے، اور ایفائے عہد کے سلسلہ میں کئی قسم کی مشکلات بھی پیش آ سکتی ہیں۔ لہٰذا ساتھ ہی صبر و ثبات کا حکم فرما دیا اور صبر کے تین مواقع کا بالخصوص ذکر فرمایا۔ ایک باسَاء جس کے معنی تنگی ترشی اور فقر و فاقہ کا دور ہے۔ دوسرے ضراء جس کے معنی جسمانی تکالیف اور بیماری کا دور ہے اور تیسرے حین الباس یعنی جنگ کے دوران بھی اور اس وقت بھی جب جنگ کے حالات پیدا ہوچکے ہوں اور اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہی وہ مقامات ہیں جہاں بسا اوقات انسان کے پائے ثبات میں لغزش آ جاتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے بالخصوص ان مواقع کا ذکر فرما دیا۔ پھر جو لوگ ایفائے عہد یا بالفاظ دیگر ایفائے حقوق میں پورے اترتے ہیں اور کسی بھی مشکل سے مشکل وقت میں ان کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آتی تو ایسے ہی لوگ دراصل راست باز اور متقی کہلائے جانے کے مستحق ہوتے ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت نازک حالات میں عہد کو پورا کر کے تاریخ میں اس کی بہت سی مثالیں ثبت کردی ہیں۔ ہم یہاں یہ تفصیل بیان نہیں کرسکتے صرف چند واقعات کی طرف اشارہ کافی ہوگا۔ دورنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایفائے عہد کی مثالیں:۔ ۱۔حضرت حذیفہ بن یمان اور ابو حسیل رضی اللہ عنہ (یہ حضرت یمان کی کنیت ہے) دونوں جنگ بدر میں شمولیت کے لیے جا رہے تھے کہ راستہ میں قریش مکہ کے ہتھے چڑھ گئے اور انہوں نے ان سے عہد لے کر چھوڑا کہ وہ غزوہ بدر میں حصہ نہیں لیں گے۔ چنانچہ یہ دونوں صحابی قریش سے چھٹکارا حاصل کر کے میدان بدر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے اور سارا ماجرا بیان کیا۔ اس وقت مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ایک آدمی کی شدید ضرورت تھی۔ لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو واپس چلے جانے کا حکم دیا اور فرمایا تم اپنا عہد پورا کرو، اللہ ہماری مدد کرے گا۔ (مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب الوفا بالعہد) ٢۔ صلح حدیبیہ کے دوران ابو جندل پابہ زنجیر قریش مکہ کی قید سے فرار ہو کر مسلمانوں کے پاس پہنچ گئے ابو جندل نے اپنے زخم دکھلا دکھلا کر اور اپنا دکھڑا سنا کر التجا کی کہ اب اسے کافروں کے حوالہ نہ کیا جائے۔ اس وقت تمام مسلمانوں کے جذبات یہ تھے کہ خواہ کچھ بھی ہو ابو جندل کو اب کافروں کے حوالہ نہ کیا جائے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض ایفائے عہد کی خاطر ابو جندل کو کافروں کے سفیر سہیل بن عمرو (جو ابو جندل کا باپ تھا) کے حوالہ کیا۔ ابو جندل کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے کوئی اور راہ نکال دے گا۔ (بخاری، کتاب الشروط، باب الشروط فی الجہاد والمصالحہ مع اھل الحرب) ٣۔ عمرہ قضاء کے دوران قریش مکہ نے یہ گوارا نہ کیا کہ مسلمان ان کی آنکھوں کے سامنے آزادی سے عمرہ کے مناسک ادا کریں۔ چنانچہ تین دن کے لیے شہر کو خالی کردیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے اگر کوئی دنیا دار جرنیل ہوتا تو بڑی آسانی سے مکہ پر قبضہ کرسکتا تھا۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں یہ خیال تک نہ آیا کہ اس سنہری موقع سے یہ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عہد کو پورا کیا اور تین دن کے بعد مکہ سے واپسی کا سفر اختیار کرلیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں نے جس طرح اس قسم کے عہد کو نبھایا وہ واقعات بھی بہت ہیں اور کتب تاریخ و سیر کی آج بھی زینت بنے ہوئے ہیں۔ [ ٢٢١] (علیٰ حبہ) میں ''ہ'' کی ضمیر کا مرجع اللہ تعالیٰ ہو تو اس کا وہی مفہوم ہے جو ترجمہ سے واضح ہے اور اس ضمیر کا مرجع مال قرار دیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ وہ لوگ اگر مال کی محبت کے باوجود اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور یہ تو ظاہر ہے کہ کسی پسندیدہ چیز کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا، یا اپنی احتیاج کو روک کر خرچ کرنا، یا قحط اور گرانی کے ایام میں خرچ کرنا صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب کہ اس کا محرک قوی جذبہ ہو اور یہ جذبہ اللہ کی محبت اور اس کی فرمانبرداری کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا بالفعل (علیٰ حبہ) میں بیک وقت دونوں مفہوم شامل ہوجاتے ہیں۔ البقرة
178 [ ٢٢٢] قصاس کےاحکام :۔قصاص کا مطلب ہے جان کے بدلے جان لینا۔ پھر دور نبوی کی سوسائٹی کی اصناف کے مطابق حکم دیا گیا۔ آزاد کے بدلے قاتل قوم کا کوئی آزاد مرد ہی قتل ہوگا۔ عورت یا غلام قتل نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح غلام کے بدلے آزاد مرد یا عورت قتل نہیں ہوں گے۔ یہ تفصیل اللہ تعالیٰ نے اس لیے بیان فرمائی کہ اس دور کا دستور یہ تھا کہ اگر کسی قبیلہ کا کوئی معزز آدمی دوسرے قبیلے کے کسی عام آدمی کے ہاتھوں مارا جاتا تو وہ اصلی قاتل کے قتل کو کافی نہیں سمجھتے تھے۔ بلکہ ان کی خواہش یہ ہوتی تھی کہ یا تو قاتل قبیلے کا ویسا ہی کوئی معزز آدمی قتل کیا جائے یا اس قبیلہ کے کئی آدمی اس کے عوض قتل کئے جائیں۔ اس کے برعکس مقتول اگر کوئی ادنیٰ آدمی اور قاتل معزز آدمی ہوتا تو وہ اس بات کو گوارا نہ کرتے تھے کہ مقتول کے بدلے قاتل کی جان لی جائے اور یہ بات صرف اس زمانے سے مختص نہیں بلکہ آج کی مہذب حاکم اقوام بھی یہی کچھ کرتی ہیں۔ قاتل اگر حاکم قوم سے تعلق رکھتا ہو تو عدالت کو اختیار نہیں کہ اس کے خلاف قصاص کا فیصلہ صادر کرسکے اور اگر بدقسمتی سے حاکم قوم کا کوئی شخص محکوم کے ہاتھوں قتل ہوجائے تو سمجھ لو کہ اس پوری قوم کی خیر نہیں اور اس پر طرح طرح کی مصیبتیں کھڑی کی جاتی ہیں انہی خرابیوں کے سدباب کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مقتول کے بدلے قاتل اور صرف قاتل ہی کی جان لی جائے گی یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ قاتل کون ہے اور مقتول کون؟ [٢٢٣] قتل قابل راضی نامہ جرم ہے:۔ مقتول کے وارث کو قاتل کا بھائی کہہ کر نہایت لطیف طریقے سے اس سے نرمی اختیار کرنے کی سفارش بھی کردی گئی ہے۔ یعنی وہ قصاص معاف کر دے اور دیت لے لے، اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اسلام میں قتل تک کا مقدمہ بھی قابل راضی نامہ ہے۔ جبکہ انگریزی قانون کے مطابق یہ جرم قابل راضی نامہ نہیں۔ اگلی امتوں میں سے یہود پر اللہ تعالیٰ نے قصاص فرض کیا تھا، ان میں عفو کا قانون نہیں تھا اور نصاریٰ میں صرف عفو کا حکم تھا قصاص کا نہیں تھا۔ اس امت پر اللہ تعالیٰ نے آسانی اور مہربانی فرمائی اور دونوں باتوں کی اجازت دی۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مقتول کے وارثوں کو دو باتوں میں سے ایک کا اختیار ہے خوا وہ فدیہ لے لیں یا قصاص۔ (بخاری کتاب في اللقطة باب کیف تعرف اھل مکۃ اھل مکہ نیز مسلم، کتاب الحج، باب تحریم مکة) قصاص اور دیت :تاہم آپ قصاص کے بجائے عفو کو زیادہ پسند فرماتے تھے، آپ خود بھی معاف کرتے اور دیت لے لینے کی سفارش کرتے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اسی بات کی تلقین فرماتے تھے۔ ایک دفعہ ایک آدمی قتل ہوگیا۔ آپ نے قاتل کو مقتول کے حوالہ کردیا۔ قاتل کہنے لگا’’یا رسول اللہ ! اللہ کی قسم میرا قتل کرنے کا ارادہ نہ تھا۔‘‘ آپ نے مقتول کے ولی سے کہا۔’’ اگر یہ سچا ہوا اور تم نے اسے قتل کردیا تو تم دوزخ جاؤ گے۔‘‘ یہ سن کر مقتول کے ولی نے قاتل کو چھوڑ دیا۔ (ترمذی۔ ابو اب الدیات باب ماجاء فی حکم ولی القتیل) یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس آیت کی ابتدا میں (کتب علیٰ) کے الفاظ قصاص کی فرضیت اور وجوب کا تقاضا کرتے ہیں۔ پھر بھی دیت کی رعایت یا رخصت بھی بیان فرما دی۔ بلکہ اگر مقتول کے وارث معاف ہی کردیں تو اسے بہت بہتر عمل قرار دیا گیا تو پھر قصاص کی فرضیت یا وجوب کیا رہ گیا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت کا روئے سخن اسلامی معاشرہ یا اسلامی حکومت کی طرف ہے کہ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خون ناحق کا ضرور قصاص لے۔ خواہ مقتول کا کوئی وارث موجود ہو یا نہ ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ مقتول کے وارث تو ہوں مگر انہیں قصاص لینے میں کوئی دلچسپی نہ ہو بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ بعض دنیوی مفادات کی خاطر یہ قتل ہی ورثا کے ایماء سے ہوا ہو۔ جو بھی صورت ہو حکومت کی ذمہ داری ہے کہ مجرم کو گرفتار کر کے اسے کیفر کردار تک پہنچائے۔ دیت کی حکمت :۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے جو دیت کی رعایت بیان فرمائی تو یہ اختیار صرف مقتول کے ورثا کو ہے اور اس میں کئی حکمتیں اور لوگوں کی مصلحتیں ہیں۔ جب مقتول کے ورثاء کو حکومت کی طرف سے قصاص یا دیت کا اختیار مل جائے تو اپنے قاتل کے خلاف ان کے منتقمانہ جذبات سرد پڑجاتے ہیں اور بہت بڑے زخم کے اندمال کی ایک شکل پیدا ہوجاتی ہے۔ اور اگر وہ جان کا قصاص لینے کے بجائے نرم رویہ اختیار کریں تو اس سے ایک تو قاتل کی جان بخشی اور قاتل اور اس کے خاندان پر احسان ہوتا ہے۔ جس سے آئندہ کے لیے نہایت مفید نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے دوسرے اس صورت میں مقتول کے ورثاء کی مالی امداد بھی ہوجاتی ہے۔ اور اگر وہ غریب ہوں تو انہیں بڑا سہارا مل سکتا ہے اور یہ سب معاملات حکومت کی وساطت سے ہی طے ہوں گے مگر مقتول کے ورثاء کی مرضی کے مطابق کئے جائیں گے اور اگر یہ سارا اختیار حکومت کو ہی سونپ دیا جائے تو مقتول کے ورثاء ان تمام فوائد سے یکسر محروم رہ جاتے ہیں۔ [ ٢٢٤] اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں قصاص تھا دیت کا دستور نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت پر قصاص فرض کرنے کے بعد فرمایا ﴿فَاتِّـبَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ ﴾ جس سے مراد دیت کا مطالبہ ہے اور ﴿وَاَدَاءٌ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ ﴾ سے مراد یہ ہے کہ قاتل کو بلاچون و چرا ادائیگی کردینا چاہیے۔ یہ اگلے لوگوں کے مقابلہ میں تخفیف ہے۔ ﴿فَمَنِ اعْتَدَیٰ بَعْدَ ذٰلِکَ﴾ کا مطلب یہ ہے کہ دیت قبول کرنے کے بعد بھی اسے قتل کر دے (بخاری، کتاب التفسیر، زیر آیت مذکورہ) اگر انسان کی نیت میں بگاڑ ہو تو زیادتی کی کئی شکلیں بن سکتی ہیں۔ ایک شکل تو وہی ہے جس کا مندرجہ بالا آیت میں ذکر کیا گیا ہے کہ مقتول کا وارث وقتی طور پر دیت لے کر مالی فوائد حاصل کرلے۔ پھر جب کبھی موقع ملے تو قاتل کو مار بھی ڈالے۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ قاتل اور اس کے ورثاء حکومت کے دباؤ کے تحت دیت ادا کردیں۔ مگر بعد میں ان پر کسی نئے ظلم چوری یا ڈاکہ وغیرہ کی سکیم تیار کرنا شروع کردیں۔ ایسی تمام صورتوں میں وہ اللہ کے غضب کے مستحق ٹھہریں گے۔ البقرة
179 [٢٢٥] قصاص میں زندگی کیسے ہے؟ یہ نہایت فصیح و بلیغ جملہ ہے۔ جس پر عرب کے فصحاء عش عش کر اٹھے۔ کیونکہ اس مختصر سے جملہ میں دریا کو کوزہ میں بند کردیا گیا ہے۔ یعنی قصاص بظاہر تو موت ہے۔ مگر حقیقت میں پوری زندگی کا راز اسی میں ہے۔ عرب میں جو فصیح محاورہ استعمال ہوتا تھا القتل انفی القتل یعنی قتل قتل ہی سے مٹتا ہے۔ مگر فی القصاص حیاۃ میں بدرجہا زیادہ لطافت، فصاحت، بلاغت ہے اور مضمون بھی بہت زیادہ سما گیا ہے۔ دور جاہلیت میں اگر کوئی شخص مارا جاتا تو اس کے قصاص کا کوئی قاعدہ نہ تھا۔ لہٰذا اس کے بدلے دونوں طرف سے ہزاروں خون ہوتے مگر پھر بھی فساد کی جڑ ختم نہ ہوتی تھی۔ عرب کی تمام خانہ جنگیاں جو برسہا برس تک جاری رہتی تھیں اور عرب بھر کا امن و سکون تباہ ہوچکا تھا۔ اس کی صرف یہی وجہ تھی۔ اس آیت سے اللہ تعالیٰ نے قصاص کا عادلانہ قانون دے کر دنیا بھر کے لوگوں کو جینے کا حق عطا فرما دیا۔ قصاص اور دیت کے چند ضروری مسائل :۔ ١۔ قاتل کے لیے تین صورتیں ہیں (i) مقتول کے وارث قصاص پر ہی مصر ہوں (ii) قصاص تو معاف کردیں مگر دیت لینا چاہیں (iii) سب کچھ معاف کردیں۔ مقتول کے وارثوں کو ان سب باتوں کا اختیار ہے۔ ٢۔ مقتول کے وارثوں میں سے اگر کوئی ایک بھی قصاص معاف کر دے تو قصاص کا معاملہ ختم اور پھر باقی صورتوں میں ممکن صورت پر عمل ہوگا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کو قصاص لینے کے بجائے معاف کردینا یا دیت لے لینا زیادہ پسند ہے۔ ٣۔ کافر کے بدلے مسلم کو قتل نہ کیا جائے (بخاری، کتاب الدیات، (باب لا یقتل المسلم بالکافر) یہ اس صورت میں ہے جبکہ کافر حربی ہو اور اگر ذمی ہو تو اس کا قصاص یا دیت یا عفو ضروری ہے۔ ٤۔ اگر باپ بیٹے کو قتل کر دے تو اس سے قصاص نہیں لیا جائے گا۔ (احمد بیہقی بسند صحیح، بلوغ الامانی جلد ١٦ ص ٣٢٠) ٥۔ آج کل جاہلی دستور نہیں رہا۔ غلامی کا دور بھی ختم ہوگیا۔ اب یہ صورت باقی ہے کہ اگر عورت مرد کو یا مرد عورت کو قتل کر دے تو پھر کیا ہونا چاہیے۔ شریعت اس بارے میں خاموش ہے اور یہ قاضی کی صوابدید پر ہوگا۔ ٦۔ جان کی دیت سو اونٹ ہے (نسائی، کتاب العقود والدیات، عن عمرو بن جزم) یا ان کی قیمت کے برابر، یا جو کچھ اس وقت کی حکومت اس کے لگ بھگ مقرر کر دے۔ ٧۔ دیت عصبات (ددھیال) کے ذمہ ہے (بخاری، کتاب الدیات باب جنین المراۃ، نیز مسلم، کتاب القسامۃ باب دیت الجنین) تفصیلی مسائل کے لیے کتب احادیث کی طرف رجوع کیا جائے۔ البقرة
180 [ ٢٢٦]میت کووصیت کاحکم اور مسائل :۔ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ ترکہ کے وارث صرف بیوی اور اولاد اور بالخصوص اولاد نرینہ ہوا کرتی تھی (جیساکہ آج کل مسلمانوں میں بھی عمومی رواج یہی چل نکلا ہے) ماں باپ اور سب اقارب محروم رہتے ہیں۔ اس آیت کی رو سے مرنے والے پر انصاف کے ساتھ والدین اور اقارب کے لیے وصیت کرنا فرض قرار دیا گیا۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے آیت میراث میں والدین اور اقارب کے حصے خود ہی مقرر فرما دیئے تو یہ آیت منسوخ ہوگئی اور وصیت صرف ایک تہائی ترکہ یا اس سے بھی کم حصہ کے لیے رہ گئی۔ جو یا تو ان وارثوں کے حق میں کی جا سکتی ہے جن کا حصہ اللہ تعالیٰ نے مقرر نہیں کیا یا پھر دوسرے رفاہ عامہ کے کاموں کے لیے ایک تہائی مال تک وصیت کرنا ایک حق تھا جو مرنے والے کو دیا گیا تھا۔ مگر آج مسلمان اس سے بھی غافل ہیں۔ حالانکہ اگر وہ اس حق کو استعمال کریں تو کئی معاشرتی مسائل از خود حل ہوجاتے ہیں۔ مثلاً ایسے پوتے پوتیاں یا دوہتے دوہتیوں کی تربیت کا مسئلہ جن کے والدین فوت ہوچکے ہوں یا ایسے محتاج (ذوی الارحام کا جو نہ ذوی الفروض سے ہوں اور نہ عصبات سے) البقرة
181 [ ٢٢٧] یعنی مرنے والے نے تو وصیت انصاف کے ساتھ کی ہو۔ مگر کوئی بااختیار وارث اس میں ترمیم و تنسیخ کر دے یا چند وارث ملکر تبدیلی کردیں تو وہ سب گنہگار ہوں گے اور اللہ تعالیٰ ایسے خودغرض لوگوں کی باتوں کو سننے والا اور ان کے ارادوں تک کو جاننے والا ہے۔ البقرة
182 [ ٢٢٨] ہاں اگر معلوم ہوجائے کہ مرنے والے نے وصیت کرنے میں غلطی کی، خواہ وہ دیدہ دانستہ تھی۔ یا نادانستہ یا کسی کی طرفداری کر گیا تو اس میں وارثوں کے صلاح مشورہ سے تبدیلی کی جا سکتی ہے بلکہ ولی یا بااختیار وارث کو ایسی ترمیم ضرور کردینا چاہیے۔ اس طرح ممکن ہے کہ وصیت کرنے والے کا گناہ بھی اللہ تعالیٰ معاف فرما دے۔ البقرة
183 [ ٢٢٩] روزہ کی فرضیت اورحکمت :۔ روزہ کا حکم حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر تمام انبیاء کی شریعت میں جاری رہا ہے۔ صرف تعیین ایام میں اختلاف رہا ہے اور یہ دین اسلام کا ایک اہم رکن ہے اور اہم رکن ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس سے نفس سرکش کی اصلاح ہو اور شریعت کے جو احکام بھاری معلوم ہوتے ہیں ان کی ادائیگی سہل ہوجائے۔ روزہ میں صرف کھانے پینے کی اشیاء کو ترک کرنے کی مشق نہیں کرائی گئی بلکہ لڑائی جھگڑے اور بری باتوں سے بچنے کی بھی تاکید کی گئی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : روزہ (برائی کے لیے) ڈھال ہے۔ لہٰذا جس کا روزہ ہو وہ نہ بے حیائی کی بات کرے اور نہ شور شرابا کرے اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ جہالت کی کوئی بات نہ کرے اور اگر کوئی اسے گالی دے یا اس سے لڑے تو کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں۔ (بخاری، کتاب الصوم، باب فضل الصوم) نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جس شخص نے روزہ میں غلط گوئی یا غلط کاری نہ چھوڑی تو اللہ تعالیٰ کو اس کا کھانا پینا چھڑانے کی کوئی ضرورت نہیں (بخاری، کتاب الصوم باب من لم یدع قول الزور والعمل بہ فی الصوم) اور یہی باتیں انسان میں تقویٰ پیدا کرتی ہیں۔ البقرة
184 [ ٢٣٠] ایام رمضان کی کمی بیشی:۔یعنی انتیس یا تیس دن جو کہ قمری مہینہ کی کم سے کم یا زیادہ سے زیادہ مدت ہے۔ شریعت نے قمری مہینہ کی تعیین کو ستاروں کے علم یا آلات روئیت کے حساب سے معلق نہیں کیا بلکہ اس کی بنیاد رؤیت ہلال پر رکھی ہے یعنی چاند کو دیکھ کر ہی روزے رکھنا شروع کرو اور چاند (شوال کا) دیکھ کر ہی روزے رکھنا ختم کرو۔ اب رؤیت ہلال مختلف ممالک میں مختلف اوقات اور مختلف تاریخوں پر ہونا عین ممکن ہے اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ ماہ رمضان کے دوران مختلف، ممالک کا سفر کرنے والوں میں سے کسی کے روزوں کی تعداد ٢٨ رہ جائے اور کسی کے ٣١ ہوجائے۔ ایسی صورت میں جس شخص کے روزے ٢٨ بن رہے ہوں وہ بعد میں ایک روزہ کی قضا دے گا اور جس کے ٣١ بن رہے ہوں وہ ایک روزہ چھوڑ دے گا۔ یا اسے نفلی تصور کر کے روزہ رکھ سکتا ہے۔ [٢٣١]بیمار کاروزہ اوردین میں آسانی کا مطلب:۔ بیمار کے علاوہ یہی رعایت حیض یا نفاس والی عورت کے لیے بھی ہے اور دودھ پلانے والی عورت بھی اس رخصت سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ البتہ اگر کوئی ایسی بیماری لاحق ہو جو مزمن قسم کی ہو اور اس سے افاقہ کی امید کم ہو تو ایسی صورت میں کفارہ دیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص بوڑھا ضعیف ہوچکا ہے۔ جس میں روزہ رکھنے کی سکت ہی نہ رہ گئی ہو تو وہ بھی کفارہ دے سکتا ہے اور یہ کفارہ ایک مسکین کا دو وقت کا کھانا ہے۔ خواہ کسی کو روزہ ہی رکھوا دیا کرے اور افطار کرائے یا اس کے برابر نقد قیمت ادا کر دے اور نقد کی تشخیص اسی معیار کے مطابق ہوگی جیسا وہ خود کھاتا ہے۔ اسی طرح ضعیف آدمی پورے مہینے کا اکٹھا کفارہ بھی ادا کرسکتا ہے۔ اسی طرح کسی بوڑھے کا اپنے متعلق یہ اندازہ لگانا کہ اب وہ روزہ رکھنے کے قابل نہیں، بھی اس کی اپنی صوابدید پر منحصر ہے اور اس سلسلہ میں جو کام بھی کیا جائے وہ اللہ سے ڈر کر کرنا چاہیے۔ دین میں سختی کی ممانعت:۔ جس طرح سفر میں تکلیف بڑھ جانے سے روزہ کھول دینا ہی سنت ہے۔ اسی طرح اگر کسی بیمار نے اپنے متعلق یہ اندازہ لگایا کہ وہ روزہ نبھا سکے گا۔ مگر تکلیف بڑھ گئی تو اسے فوراً روزہ کھول دینا چاہیے۔ بعد میں اس کی قضا دے لے بلکہ بعض فقہاء یہ کہتے ہیں کہ اگر مریض مرض کی شدت پر بھی روزہ افطار نہ کرے اور مر جائے تو وہ خودکشی کی موت مرے گا اور روزہ کا ثواب حاصل کرنے کی بجائے الٹا اپنی جان ضائع کرنے کا مجرم بن جائے گا اور اس پر دلیل درج ذیل حدیث ہے جو ابو داؤد میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ سفرمیں یابیماری میں روزہ سےتکلیف ہوتوروزہ کھولنے کاحکم :۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر پر نکلے۔ ہم میں سے کسی کے سر پر ایک پتھر لگا۔ جس نے سر کو بری طرح زخمی کردیا۔ اتفاق سے اس شخص کو احتلام ہوگیا تو اس نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ آپ لوگ میرے لیے تیمم کی رخصت کو درست سمجھتے ہیں؟ وہ کہنے لگے نہیں، اس لیے کہ پانی موجود ہے۔ چنانچہ اس آدمی نے غسل کیا تو اس کی موت واقع ہوگئی۔ پھر جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا :’’اللہ ان لوگوں کو ہلاک کرے انہوں نے اپنی ساتھی کو مار ڈالا۔ جب وہ یہ مسئلہ نہیں جانتے تھے تو انہوں نے کیوں نہ کسی عالم سے پوچھ لیا ؟ جہالت کی درماندگی کا علاج تو پوچھ لینا ہی ہے۔ اسے اتنا ہی کافی تھا کہ وہ اپنے زخم پر پٹی باندھ لیتا اور اس پر تیمم کرلیتا اور باقی جسم کو دھو لیتا۔‘‘ [ ٢٣٢] سفر کی حالت میں روزہ رکھ لینا بھی جائز ہے اور چھوڑنا بھی، اور وہ اس بات کا اندازہ روزہ دار کی جسمانی قوت اور سفر کی مشقت کو سامنے رکھ کر کیا جائے گا۔ تاہم اگر سفر میں روزہ چھوڑنا ہی بہتر ہے۔ بلکہ اگر روزہ رکھ لیا ہو اور پھر تکلیف کی شدت محسوس ہو تو روزہ کھول دینا چاہیے اور بعد میں اس کی قضا دے دینا چاہیے۔ چنانچہ غزوہ مکہ میں جو ماہ رمضان میں درپیش تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے روزہ رکھا ہوا تھا اور نڈھال سے ہو رہے تھے۔ مگر روزہ چھوڑنے پر آمادہ نہ تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے وقت سب لوگوں کو دکھا کر پانی کا پیالہ پیا اور روزہ کھول دیا۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی روزہ کھول دیں۔ چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی روزہ کھول دیا۔ (بخاری، کتاب الصوم باب الصوم فی السفر والافطار) نیز جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر (غزوہ فتح مکہ) میں تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ ہجوم دیکھا اور معلوم ہوا کہ ایک شخص (قیس عامری) پر لوگ سایہ کئے ہوئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کیا قصہ ہے؟ لوگوں نے کہا یہ روزہ دار ہے۔ آپ نے فرمایا ’’سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی کا کام نہیں۔‘‘ (بخاری : کتاب الصوم، باب قول النبی لمن ظلل علیہ واشتد الحر۔۔) [ ٢٣٣] اس آیت کی تفسیر میں دو مختلف اقوال ہیں۔ پہلا یہ کہ یُطِیْقُوْنَہُ کا معنی ہی یہ ہے کہ ’’جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں۔‘‘ (لغت ذوی الاضداد) تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ جو لوگ لاعلاج مرض میں مبتلا ہوں یا مرض سے شفا کا امکان نظر نہ آ رہا ہو یا اتنے بوڑھے ہوچکے ہوں کہ بعد میں قوت بحال ہونے کا امکان نہ ہو تو ایسے لوگ روزہ رکھنے کی بجائے فدیہ دے سکتے ہیں اور یہ صورت اب بھی بحال ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ ابتداء میں مسلمانوں کو یہ رعایت دی گئی تھی کہ چاہیں تو روزہ رکھ لیں اور چاہیں تو فدیہ دے دیں۔ جبکہ بعض لوگ اس طرح کے ضبط نفس پر آمادہ نہیں ہو رہے تھے، لیکن بعد میں یہ رعایت ﴿فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہ﴾سے ختم کردی گئی اور حدیث سے اسی دوسرے قول کی تائید ہوتی ہے۔ چنانچہ حضرت سلمہ بن اکوع بیان فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو جس کا جی چاہتا روزہ نہ رکھتا، اور فدیہ دے دیتا، تاآنکہ اس کے بعد ﴿فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ ﴾ نازل ہوئی اور اس نے اسے منسوخ کردیا۔ (بخاری، کتاب التفسیر زیر آیت مذکورہ) [٢٣٤] اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ صدقہ کی معین مقدار سے صدقہ زیادہ دے دے، دوسرا یہ کہ روزہ بھی رکھے اور فدیہ بھی دے دے۔ [٢٣٥] یعنی اگر تمہیں روزہ کے ثواب کا علم ہو تو روزہ رکھنا ہی بہتر سمجھو گے اور روزہ کے ثواب کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ روزہ دار میری خاطر اپنا کھانا پینا اور شہوت رانی چھوڑتا ہے۔‘‘ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ روزہ (گناہوں سے بچنے کے لئے) ڈھال ہے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں۔ ایک روزہ کھولتے وقت اور دوسری جب وہ اپنے پروردگار سے ملے گا۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے ہاں کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ پاکیزہ (عمدہ) ہے۔ (بخاری کتاب التوحید باب قول اللہ یریدون ان یبدلوا کلام اللہ ) البقرة
185 [٢٣٦]رمضان اور قرآن:۔ تمام کتب سماوی اور اسی طرح قرآن کریم رمضان ہی میں نازل ہوئیں اور قرآن لیلۃ القدر کو سارے کا سارا آسمان دنیا پر نازل کردیا گیا۔ پھر تھوڑا تھوڑا کر کے حالات کے مطابق آپ پر نازل ہوتا رہا جو سراپا ہدایت اور حق و باطل میں تمیز کرنے والی کتاب ہے۔ اس آیت سے قرآن اور رمضان کا خصوصی تعلق معلوم ہوا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں جبریل علیہ السلام سے قرآن کا دور فرمایا کرتے اور زندگی کے آخری رمضان میں دو بار دور فرمایا۔ مسلمانوں کو یہی حکم ہے کہ رمضان میں بطور خاص قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کریں۔ اسی لیے رمضان میں قیام اللیل کی خصوصی تاکید کی گئی۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جو شخص رمضان کی راتوں میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے قیام کرے، اس کے پہلے گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب تطوع قیام رمضان من الایمان) [٢٣٧] حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ کا قاعدہ تھا کہ جب آپ کو دو باتوں کا اختیار دیا جاتا تو آپ وہ بات اختیار کرتے جو آسان ہوتی۔ بشرطیکہ وہ گناہ کا کام نہ ہو۔ (بخاری کتاب المناقب باب صفة النبی صلي الله عليه وسلم) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (لوگوں پر) آسانی کرو، سختی نہ کرو اور خوشی کی بات سناؤ، نفرت نہ دلاؤ۔ (بخاری، کتاب العلم، باب کان النبی یتخولھم بالموعظة والعلم) [٢٣٨] ان رخصتوں اور اللہ کی مہربانیوں کی وجہ سے تمہیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ جس نے ہر قسم کے لوگوں کا لحاظ رکھ کر ایسے احکام فرمائے ہیں۔ البقرة
186 [٢٣٨۔ ١] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض لوگوں نے پوچھا تھا کہ ہمارا پروردگار اگر دور ہے تو ہم اسے بلند آواز سے پکارا کریں اور اگر قریب ہے تو آہستہ آواز سے پکارا کریں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو بتلا دیا کہ میں تمہارے بالکل قریب ہوں۔ حتیٰ کہ تمہاری رگ جان سے بھی قریب ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے صرف ان کے سوال کے جواب پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اور بھی کئی باتیں ارشاد فرما دیں جو انسانی ہدایت کے لیے ضروری تھیں اور جن سے شرکیہ عقائد کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ مثلاً یہ کہ جب کوئی شخص مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی پکار یا دعا کو صرف سنتا ہی نہیں بلکہ شرف قبولیت بھی بخشتا ہوں اس سے ان لوگوں کے باطل خیال کارد ہوگیا جو کہتے ہیں کہ اللہ ہم گنہگاروں کی دعا کب سنتا اور قبول کرتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم کسی بزرگ اور اللہ کے پیارے کی معرفت اللہ سے اپنی حاجات طلب کریں۔ اس جواب میں عمومیت سے یہ وضاحت ہوگئی کہ جیسے اللہ اپنے پیاروں کی سنتا ہے ویسے ہی اپنے گنہگاروں کی بھی سنتا اور اسے شرف قبولیت بخشتا ہے۔ دوسری وضاحت یہ فرمائی کہ بندے میرا حکم بجا لائیں۔ مجھی سے مانگیں، دوسروں سے نہ مانگیں۔ کیونکہ پکار یا دعا بھی اصل عبادت ہے اور تیسری یہ کہ میرے متعلق اس بات کا یقین بھی رکھیں کہ میں ان کی دعا ضرور قبول کروں گا اور یہی ہوشمندی، سمجھداری اور ان کے فائدے کی بات ہے۔ دعاکی قبولیت کی شرائط وآداب:۔ واضح رہے کہ دعا کی قبولیت کے کچھ آداب ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ حرام خور کی دعا قبول نہیں ہوتی اور اس بات کی صراحت احادیث صحیحہ میں موجود ہے۔ دوسری یہ کہ وہ دعا ممکنات سے ہو۔ مثلاً اگر ایک غریب آدمی جسے امور سیاست کی خبر تک نہ ہو یہ دعا کرنے لگے کہ یا اللہ مجھے اس ملک کا بادشاہ بنا دے تو ظاہر ہے کہ ایسی دعا قبول نہ ہوگی۔ نہ ہی کوئی ایسی دعا کرنی چاہیے جس کا تعلق قطع رحم یا کسی گناہ کے کام سے ہو۔ تیسری یہ دعا کی قبولیت کا بھی اللہ کے ہاں ایک مقرر وقت ہوتا ہے۔ لہٰذا اس سلسلہ میں انسان کو نہ جلد بازی کرنی چاہیے اور نہ مایوس ہونا چاہیے کیونکہ بعض دفعہ دعا کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اس سے کوئی نازل ہونے والی مصیبت دور کردی جاتی ہے اور چوتھی یہ کہ جو دعا کی جائے پورے خلوص نیت سے اور تہ دل سے کی جائے۔ بے توجہی سے اور عادتاً دعا کرنے سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا اور پانچویں یہ کہ دعا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کے بعد اپنی حاجت کے لیے دعا کی جائے اور چھٹے یہ کہ اگر اسے اپنی دعا قبول ہوتی نظر نہ آ رہی ہو تو بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ صرف اللہ سے دعا کرنے اور کرتے رہنے کا حکم ہے۔ اس کی قبولیت بسا اوقات اللہ تعالیٰ کی اپنی حکمتوں کے تابع ہوتی ہے۔ مثلاً ایک شخص کی دعا کی قبولیت سے کسی دوسرے شخص یا زیادہ لوگوں کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو تو اللہ کی حکمت کا تقاضا یہی ہوگا کہ اسے قبول نہ کرے تاہم ایسی دعا کا یہ فائدہ ضرور ہوگا کہ اس کے نامہ اعمال میں دعا مانگنے کی نیکی لکھی جائے گی اور اس کا اجر اسے آخرت میں مل جائے گا یا اس پر آنے والی کوئی بیماری یا مصیبت اٹھا لی جاتی ہے۔ پھر بعض اوقات ایسے ہوتے ہیں جن میں دعا جلد قبول ہوتی ہے۔ مثلاً لیلۃ القدر میں یا سجدہ کے وقت یا جمعہ کے دن اور ان کی تفصیل کتب احادیث میں موجود ہے۔ پھر کچھ حالات بھی ایسے ہوتے ہیں جن میں دعا فوراً قبول ہوتی ہے۔ مثلاً مضطر اور مصیبت کے مارے کی دعا، یا مظلوم کی ظالم کے حق میں بددعا یا والدین کی اپنی اولاد کے حق میں بددعا۔ اس لیے کہ عادتاً والدین اپنی اولاد کے ہمیشہ خیر خواہ ہوتے ہیں۔ وہ اپنی اولاد کے حق میں بددعا اسی وقت کرسکتے ہیں جبکہ اولاد کی طرف سے انہیں کوئی انتہائی دکھ پہنچا ہو۔ رہی اللہ کو بلند آواز یا آہستہ آواز سے پکارنے کی بات تو اس آیت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ اللہ قریب ہے۔ لہٰذا اسے آہستہ آواز سے پکارنا چاہیے۔ تاہم اس میں بھی انسان کی نیت ارادہ کا بہت دخل ہے اور حسن نیت سے ہی عمل میں خوبی پیدا ہوتی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ مکی دور میں ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نکلے تو دیکھا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آہستہ اور پرسوز آواز سے نماز میں قرآن پاک پڑھ رہے ہیں۔ آپ آگے گئے تو دیکھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بلند اور گرجدار آواز سے پڑھ رہے ہیں۔ صبح آپ نے پہلے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے دریافت فرمایا کہ تم اتنی آہستہ آواز سے قرآن پاک کیوں پڑھ رہے تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ اس لیے کہ میرا رب میرے نزدیک ہے۔ پھر آپ نے عمر رضی اللہ عنہ سے بلند آواز سے قرآن پڑھنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ میں سونے والوں کو جگاتا ہوں اور شیطان کو بھگاتا ہوں۔ آپ نے دونوں کے جواب سن کر دونوں کی ہی تحسین فرمائی۔ اور بعض دفعہ حالات کا یہ تقاضا ہوتا ہے کہ اللہ کا نام بلند آواز سے پکارا جائے جیسے حج و عمرہ کے درمیان تلبیہ پکارنا یا تکبیرات عیدین یا جہاد کے سفر میں اللہ اکبر کہنا یا دوران جنگ یا کفار کے مقابلہ اور ان کا جی جلانے کے لیے بلند آواز سے نعرہ لگانا ایسے تمام مواقع پر اللہ کو بلند آواز سے ہی پکارنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ البقرة
187 [٢٣٩]میاں بیوی ایک دوسرے کالباس ہونے کامفہوم:میاں بیوی کے تعلقات کے لیے اللہ تعالیٰ نے نہایت لطیف استعارہ فرمایا۔ جس کے کئی مفہوم ہو سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ جس طرح لباس اور جسم کے درمیان کوئی اور چیز حائل نہیں ہوتی اسی طرح میاں بیوی کا تعلق ایک دوسرے کے ساتھ ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ تم دونوں ایک دوسرے کے راز دار اور رازدان ہو۔ تیسرے یہ کہ تم دونوں ایک دوسرے کی عزت کے شریک ہو اور چوتھے یہ کہ تم دونوں ایک دوسرے کے پردہ پوش ہو وغیرہ وغیرہ۔ [٢٤٠] رمضان میں رات کومباشرت کی اجازت:۔ ابتدائے اسلام میں رمضان کی راتوں میں اپنی بیویوں سے مباشرت کرنے کے متعلق کوئی واضح حکم موجود نہ تھا۔ تاہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اپنی جگہ اسے ناجائز سمجھتے تھے۔ پھر بعض صحابہ رضی اللہ عنہ مکروہ سمجھتے ہوئے بھی اس کام سے باز نہ رہ سکے۔ چنانچہ براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب روزے فرض ہوئے تو لوگ سارا مہینہ عورتوں کے پاس نہ جاتے۔ پھر بعض لوگوں نے چوری چوری یہ کام کرلیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (بخاری، کتاب التفسیر، زیر آیت مذکورہ) [٢٤١] یعنی مباشرت اس لیے کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے جو اولاد مقدر فرمائی ہے وہ عطا فرما دے گویا اس آیت سے عزل اور لواطت اور دبر میں جماع کرنے وغیرہ سب باتوں کی ممانعت ثابت ہوتی ہے۔ اور اگر کوئی شخص رمضان میں دن کو روزہ کی حالت میں مباشرت کرے تو اسے اس کا کفارہ ادا کرنا ہوگا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : روزہ توڑنے کا کفارہ:۔ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص (سلمہ بن صخر بیاضی رضی اللہ عنہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: میں تباہ ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کیوں کیا بات ہوئی؟ کہنے لگا! میں رمضان میں اپنی عورت پر جا پڑا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کیا تو ایک غلام آزاد کرسکتا ہے؟ کہنے لگا، مجھ میں یہ قدرت نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا دو مہینے کے پے در پے روزے رکھ سکتا ہے؟ کہنے لگا۔ نہیں (اتنا مقدور ہوتا تو یہ روزہ ہی کیوں توڑتا) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اچھا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتا ہے؟ کہنے لگا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہا کہ اچھا بیٹھ جاؤ۔ اتنے میں آپ کے پاس کھجوروں کا ایک ٹوکرا آ گیا جس میں پندرہ صاع کھجور آ سکتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا۔ لے ٹوکرا لے جا اور اسے محتاجوں میں تقسیم کر دے۔ وہ کہنے لگا کہ میں اسے ان لوگوں میں تقسیم کروں جو ہم سے بڑھ کر محتاج ہوں۔ قسم اس پروردگار کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچائی کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ مدینہ کے دونوں کناروں میں اس سرے سے اس سرے تک کوئی گھر والے ہم سے زیادہ محتاج نہیں۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنا ہنسے کہ آپ کی کچلیاں نظر آنے لگیں اور فرمایا جا اپنے بیوی بچوں کو ہی کھلا دے۔ (بخاری۔ کتاب الایمان والنذور۔ باب من اعان المعسر فی الکفارۃ) اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ فرضی روزہ توڑنے کا کفارہ بعینہ وہی ہے جو سورۃ مجادلہ کی آیت نمبر ٣ اور ٤ میں مذکور ہے۔ اور دوسری یہ کہ کفارہ دینے والا اگر محتاج اور تنگ دست ہو تو اس کی صدقہ و خیرات سے مدد کی جا سکتی ہے جیسا کہ عنوان باب سے معلوم ہوتا ہے۔ [٢٤٢] یعنی رات کی تاریکی سے سپیدہ فجر نمایاں ہوجائے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ بعض صحابہ کاقرآن فہمی میں غلطی کھانا:۔عدی بن حاتم کہتے ہیں کہ میں نے رات کو ایک سفید ڈوری اور ایک کالی ڈوری (اپنے تکیے کے نیچے) رکھ لیں۔ انہیں دیکھتا رہا مگر تمیز نہ ہوئی (کھاتے پیتے رہے) جب صبح ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا۔ ’’ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے اپنے تکیے تلے دو ڈوریاں رکھ لی تھیں۔‘‘ آپ نے (مزاحاً) فرمایا : ’’ تمہارا تکیہ تو بہت بڑا ہے جس کے نیچے (صبح کی) سفید ڈوری اور (رات کی) کالی ڈوری آ گئی۔‘‘ (بخاری، کتاب التفسیر، باب آیت مذکور) [٢٤٣] براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے جب کوئی روزہ رکھتا اور افطار کرنے سے پہلے سو جاتا تو پھر اگلی شام تک کچھ نہ کھا سکتا تھا۔ قیس بن صرمہ نے روزہ رکھا جب افطار کا وقت آیا تو بیوی سے پوچھا :’’ کیا کھانے کو کوئی چیز ہے؟‘‘ وہ بولیں۔ نہیں، لیکن میں ابھی جاتی ہوں تو تمہارے کھانے کو کچھ لے آتی ہوں۔ بیوی چلی گئی، قیس دن بھر کے تھکے ماندے تھے۔ نیند نے غلبہ کیا اور وہ سو گئے۔ بیوی نے واپس آ کر دیکھا تو بہت دکھ ہوا۔ الغرض انہوں نے کچھ کھائے پئے بغیر پھر روزہ رکھ لیا۔ لیکن ابھی آدھا دن ہی گزرا تھا کہ بے ہوش ہوگئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا ذکر کیا گیا تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب الصوم، باب قول اللہ آیت احل لکم لیلۃ الصیام الرفث۔۔ الخ، اور ترمذی، ابو اب التفسیر، باب آیت مذکور) [٢٤٤]روزہ کھولنے میں جلدی اور سحری دیر سے کھانا:۔ یعنی آغاز سحر سے لے کر آغاز رات یعنی غروب آفتاب تک روزہ کا وقت ہے۔ غروب آفتاب کے فوراً بعد روزہ افطار کرلینا چاہیے۔ یہود غروب آفتاب کے بعد احتیاطاً اندھیرا چھا جانے تک روزہ نہیں کھولتے تھے۔ اس لیے آپ نے فرمایا کہ میری امت اس وقت تک خیر پر رہے گی جب تک روزہ جلد افطار کرے گی۔ (روزہ کھولنے میں جلدی اور سحری دیر سے کھانا چاہیے۔) (بخاری، کتاب الصوم۔ باب تعجیل الافطار) ١۔ نیز عبداللہ بن ابی اوفی سے روایت ہے کہ ہم ایک سفر (غزوہ فتح مکہ) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ آپ نے ایک آدمی (بلال رضی اللہ عنہ سے) فرمایا کہ اتر اور میرے لیے ستو گھول۔ وہ کہنے لگا! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ابھی تو سورج کی روشنی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اتر اور میرے لیے ستو گھول۔ بلال رضی اللہ عنہ پھر کہنے لگے! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ابھی تو سورج کی روشنی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر تیسری بار فرمایا : اتر اور میرے لیے ستو گھول۔ آخر وہ اترے اور ستو گھولا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پی لئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف ہاتھ سے اشارہ کر کے فرمایا کہ جب ادھر سے رات کا اندھیرا شروع ہو تو روزہ افطار کرنے کا وقت ہوگیا۔ (بخاری : کتاب الصوم، باب الصوم فی السفر والافطار ) ٢۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دیکھو! تم بلال (رضی اللہ عنہ) کی اذان کہنے سے سحری کھانے سے رک نہ جانا۔ بلال (رضی اللہ عنہ) تو اس لیے اذان دیتا ہے کہ جو شخص (تہجد کی نماز میں) کھڑا ہو وہ لوٹ جائے۔ اور صبح یا فجر کی روشنی وہ نہیں ہے جو اس طرح لمبی ہوتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر بتلایا کہ یہ صبح کاذب ہے۔ پھر ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ سے جدا کر کے دائیں بائیں کھینچا (یہ صبح صادق ہے) بخاری۔ کتاب الطلاق۔ باب الاشارۃ فی الطلاق والامور) اسی طرح روزہ رکھتے وقت آخری وقت کھانا پینا افضل ہے۔ (بخاری، کتاب الصوم باب تاخیر السحور) قطبین پرنماز اور روزے:۔ بعض لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ قطبین کے قریب جہاں رات اور دن کئی کئی مہینوں کے ہوتے ہیں، وہاں نماز اور روزہ کے لیے اوقات کی تعیین کیسے ہو سکتی ہے؟ یہ سوال بس برائے سوال ہی ہے کیونکہ قطبین پر اتنی شدید سردی ہوتی ہے کہ وہاں انسانوں کا زندہ رہنا ہی ناممکن ہے اور جہاں سے انسانی آبادی شروع ہوتی ہے۔ وہاں کے دن رات خط استوا کی طرح واضح نہ سہی اتنے واضح ضرور ہوتے ہیں کہ صبح و شام کے آثار وہاں پوری باقاعدگی سے افق پر نمایاں ہوتے ہیں اور انہی کا لحاظ رکھ کر وہاں کے باشندے اپنے سونے جاگنے، کام کرنے اور تفریح کے اوقات مقرر کرتے ہیں۔ لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ یہ آثار نماز اور سحر و افطار کے معاملہ میں وقت کی تعیین کا کام نہ دے سکیں اور جہاں کئی کئی مہینے رات اور دن ہوتے ہیں۔ وہاں صرف روزہ کا مسئلہ ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ زندگی کے دوسرے مسائل بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ مثلاً وہ لوگ کتنے گھنٹے سوتے ہیں۔ کمائی اور کاروبار کب اور کیسے کرتے ہیں اور کتنے گھنٹے کرتے ہیں۔ ان سب باتوں کا جواب یہی ہے کہ ایسے مقامات پر انسان سردی کی وجہ سے زندہ ہی نہیں رہ سکتا۔ [٢٤٥]اعتکاف کےاحکام اورمسائل:۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اعتکاف ہر مسجد میں ہوسکتا ہے اور صرف مسجد میں ہی ہوسکتا ہے۔ رمضان میں بھی ہوسکتا ہے اور غیر رمضان میں بھی، مگر چونکہ رمضان میں دوسرے مہینوں کی نسبت بہت زیادہ ثواب ملتا ہے اور رمضان میں اعتکاف فرض کفایہ کی حیثیت رکھتا ہے لہٰذا اسی کی زیادہ اہمیت ہے۔ بہتر تو یہی ہے کہ آخری عشرہ رمضان اعتکاف میں گزارا جائے۔ تاہم یہ کم وقت حتیٰ کہ ایک دن کے لیے بھی ہوسکتا ہے۔ اعتکاف کی حالت میں شرعی عذر کے بغیر باہر نہ جانا چاہئے۔ نہ زیادہ دنیوی باتوں میں مشغول ہونا چاہئے اور اعتکاف کی حالت میں اپنی بیویوں سے صحبت بھی منع ہے۔ فقہاء نے اعتکاف کی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ ایک مسنون جو سنت نبوی سے ثابت ہوتا ہے۔ اس کی عام مدت دس دن ہے اور رمضان کے آخری عشرہ کی صورت میں ٩ یا دس دن بشرط رؤیت ہلال عید۔ ایک دفعہ آپ جب اعتکاف کے لیے اپنے خیمہ کی طرف گئے تو دیکھا کہ آپ کی کئی بیویوں نے بھی مسجد نبوی میں اعتکاف کے لیے خیمے لگا رکھے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا کہ ان بیویوں نے یہ حسن نیت کی بنا پر نہیں بلکہ جذبہ رقابت سے کیا ہے۔ لہٰذا ان کے سب خیمے اٹھا دو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خیمہ بھی اٹھوا دیا اور یہ رمضان کا آخری عشرہ تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سال رمضان میں اعتکاف نہیں کیا بلکہ عید کے بعد شوال میں کرلیا۔ اور ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا۔ پھر جبریل علیہ السلام نے آپ کو بتلایا کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرہ میں ہوگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری عشرہ بھی اعتکاف میں گزارا۔ اسی طرح اس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اعتکاف بیس دن کا ہوگیا۔ ان سب احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مسنون اعتکاف ایک عشرہ سے کم نہیں ہوتا اور افضل اعتکاف رمضان کا آخری عشرہ ہے اور اس بات میں اعتکاف کرنے والے کو اختیار ہے کہ وہ چاہے تو اکیسویں رات نماز عشاء اور قیام اللیل کے بعد اعتکاف میں بیٹھ جائے یا مغرب کے بعد ہی بیٹھ جائے یا صبح کی نماز ادا کرنے کے بعد بیٹھ جائے۔ اور اعتکاف کی دوسری قسم اعتکاف واجب ہے۔ یعنی وہ اعتکاف جو اعتکاف کرنے والا اللہ سے عہد کر کے اپنے اوپر واجب قرار دے لیتا ہے اس کی کوئی مدت متعین نہیں۔ یہ سات دن کا بھی ہوسکتا ہے، تین دن کا بھی، ایک دن کا بھی۔ حتیٰ کہ صرف ایک رات کا بھی اور اس کا کوئی وقت بھی متعین نہیں خواہ رمضان میں ہو یا کسی دوسرے مہینہ میں اور اس کی دلیل درج ذیل حدیث ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں نے جاہلیت کے زمانہ میں یہ منت مانی تھی کہ ایک رات مسجد حرام میں اعتکاف کروں گا۔’’تو آپ نے فرمایا کہ اپنی منت پوری کرو۔ ‘‘ (بخاری، کتاب الصوم۔ باب الاعتکاف لیلا) واضح رہے کہ منت صرف وہی پوری کرنی چاہیے جس میں اللہ کی معصیت نہ ہوتی ہو اور اگر کسی خلاف شرع کام پر منت مانی ہو تو اسے ہرگز پورا نہ کرنا چاہیے۔ [٢٤٦] اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ان حدوں سے تجاوز نہ کرنا بلکہ یوں فرمایا کہ ان حدوں کے قریب بھی نہ پھٹکنا اور ان دونوں قسم کے فقروں میں جو فرق ہے وہ سب سمجھ سکتے ہیں۔ البقرة
188 [٢٤٧]باطل طریقوں سے مال کھانے کی صورتیں :۔ باطل طریقوں سے دوسروں کا مال ہضم کرنے کی کئی صورتیں ہیں مثلاً چوری، خیانت، دغابازی، ڈاکہ، جوا، سود اور تمام ناجائز قسم کی تجارتیں اور سودے بازیاں ہیں اور اس آیت میں بالخصوص اس ناجائز طریقہ کا ذکر ہے جو حکام کی وساطت سے حاصل ہو۔ اس کی ایک عام صورت تو رشوت ہے کہ حاکم کو رشوت دے کر مقدمہ اپنے حق میں کرا لے اور اس طرح دوسرے کا مال ہضم کر جائے اور دوسری یہ کہ مثلاً تمہیں معلوم ہے کہ فلاں جائیداد یا فلاں چیز زید کی ہے۔ لیکن اس کی ملکیت کا کوئی ثبوت اس کے پاس موجود نہیں ہے اور تم مقدمہ کی صورت میں ایچ پیچ کے ذریعہ وہ چیز زید سے ہتھیا سکتے ہو تو اس طرح عدالت کے ذریعہ تم اس چیز کے مالک بن سکتے ہو۔ اس طرح بھی دوسرے کا مال ہضم کرنا حرام ہے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا ’’میں ایک انسان ہی ہوں۔ تم میرے پاس جھگڑے لے کر آتے ہو۔ ہوسکتا ہے کہ تم میں سے ایک دوسرے کی نسبت اپنی دلیل اچھی طرح پیش کرتا ہو اور میں جو کچھ سنوں اسی کے مطابق فیصلہ کر دوں اور اگر میں کسی کو اس کے بھائی کے حق میں سے کچھ دینے کا فیصلہ کر دوں تو اسے چاہیے کہ نہ لے۔ کیونکہ میں اسے آگ کا ٹکڑا دے رہا ہوں۔‘‘ (بخاری، کتاب الاحکام، باب موعظۃ الامام للخصوم) البقرة
189 [٢٤٨] قمری تقویم ہی قدرتی تقویم ہے:۔ سائل کا اصل سوال یہ تھا کہ چاند کیسے گھٹتا بڑھتا ہے اور اس کی شکلیں کیوں کر بدلتی رہتی ہیں۔ لیکن یہ سوال چونکہ علم ہئیت کا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے کہ عام آدمی کی ذہنی سطح سے بلند ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کا انسان کی عملی زندگی اور ہدایت سے کوئی تعلق نہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس سوال کے جواب کا رخ اس طرف موڑ دیا۔ جس کا تعلق انسان کی ہدایت اور عملی زندگی سے تھا اور فرمایا کہ یہ تمہارے لیے قدرتی جنتری ہے۔ نیز تم ان اشکال قمر سے حج کے اوقات بھی معلوم کرسکتے ہو۔ یہاں یہ بات ملحوظ رکھنا چاہیے کہ جن شرعی احکام کا تعلق دن کے اوقات سے ہو ان کا تعلق سورج سے ہوگا۔ جیسے نمازوں کے اوقات اور روزہ کے لیے سحری و افطاری کے اوقات۔ اسی طرح دنوں کا شمار سورج سے تعلق رکھتا ہے۔ مگر جب یہ مدت ایک ماہ یا ایک ماہ سے زائد ہوگی تو مدت کا شمار چاند کے حساب سے ہوگا۔ مثلاً رمضان کے ایام (انتیس ہیں یا تیس) بیوہ یا مطلقہ کی عدت، مدت حمل، رضاعت وغیرہ اور زکوٰۃ کا حساب بھی قمری سال کے مطابق ہوگا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حقیقی اور قدرتی تقویم قمری ہی ہے اور یہی مواقیت للناس کا مطلب ہے۔ رہے حج کے اوقات تو وہ ماہ شوال، ذیقعد اور ذوالحجہ کے دس دن ہیں۔ [٢٤٩]جاہلیت میں مزعومہ نیکی کے کام:۔ جاہلیت کا ایک دستور یہ بھی تھا کہ حج کا احرام باندھنے کے بعد اگر کسی کو گھر آنے کی ضرورت پیش آ جاتی اور اسی طرح حج سے واپسی کے بعد تو یہ لوگ واپس گھر کے دروازہ کے بجائے گھر کے پچھواڑے سے یا پچھلی دیوار میں کسی کھڑی سے گھر میں داخل ہوتے اور اسے نیکی کا کام سمجھتے تھے چنانچہ حضرت براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت ہم انصاری لوگوں کے حق میں نازل ہوئی وہ جب حج کر کے واپس آتے تو دروازوں سے نہ آتے بلکہ پچھواڑے سے آتے۔ ایک دفعہ ایک انصاری دروازے سے اندر آیا تو سب اسے لعنت ملامت کرنے لگے۔ تب یہ آیت اتری۔ (بخاری، کتاب المناسک، باب قولہ تعالیٰ واٰتوا البیوت من ابو ابھا) اس سے ضمناً یہ معلوم ہوگیا کہ کسی بات کو نیکی سمجھ کر دین میں داخل کردینا مذموم اور ممنوع ہے اور بدعات بھی اسی ذیل میں آتی ہیں۔ البقرة
190 [٢٥٠] مدافعانہ جنگ کی اجازت:مکہ میں مسلمانوں کو مخالفین کے ظلم و ستم پر صبر کرنے کی ہی ہدایت کی جاتی رہی۔ مدینہ آ کر جب مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی ریاست قائم ہوگئی تو مسلمانوں کو لڑائی کی اجازت مل گئی اور اس سلسلہ میں پہلی آیت جو نازل ہوئی وہ سورۃ حج کی یہ آیت تھی۔ ﴿ اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْا وَاِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرُ﴾ (۳۹:۲۲) ’’جن لوگوں سے لڑائی کی جاتی رہی اب انہیں (بھی لڑنے کی) اجازت دی جاتی ہے۔ کیونکہ ان پر ظلم ہوتا رہا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کی مدد پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘ مگر ساتھ ہی یہ تاکید کی گئی کہ صرف انہیں سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کریں۔ کیونکہ جنگ سے تمہاری کوئی مادی غرض وابستہ نہیں اور اس آیت سے مدافعانہ جنگ کی اجازت ملی۔ [٢٥١] جنگ کےآداب :۔ یعنی نہ تو ان لوگوں سے جنگ کرو جو دین حق کی راہ میں مزاحم نہیں ہوتے اور نہ لڑائی میں جاہلی طریقے استعمال کرو، یعنی عورتوں، بوڑھوں، بچوں اور زخمیوں پر دست درازی نہ کرو۔ دشمن کی لاشوں کا مثلہ نہ کرو اور خواہ مخواہ کھیتوں اور مویشیوں کو برباد نہ کرو وغیرہ وغیرہ جن کی احادیث میں ممانعت آئی ہے۔ یعنی قوت وہاں استعمال کرو جہاں ضرورت ہو اور اتنی ہی کرو جتنی ضرورت ہو۔ البقرة
191 [٢٥٢] فتنہ کاسدباب اورجہاد:۔ اب جہاں بھی موقع پیش آئے تم ان سے لڑائی کرو اور تمہارا مطمح نظر یہ ہونا چاہیے کہ جیسے انہوں نے اسلام لانے کی وجہ سے تمہیں مکہ سے نکالا تھا۔ تم بھی ان کو ان کے مشرک ہونے اور مشرک رہنے کی وجہ سے مکہ سے نکال کے دم لو، اور یہ ادلے کا بدلہ ہے۔ [٢٥٣] فتنہ کا لفظ عربی زبان میں بڑے وسیع مفہوم اور کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً مشرکین مکہ کا بیت اللہ کا متولی ہونا اور بیت اللہ میں بت رکھنا، مسلمانوں کو بیت اللہ میں نماز ادا کرنے، حتیٰ کہ داخل ہونے سے روکنا یہ سب فتنہ کے کام ہیں گویا یہاں فتنہ سے مراد مشرکین مکہ کی ہر وہ حرکت ہے جو انہوں نے دین اسلام کو روکنے کی خاطر کی تھی۔ مثلاً مسلمانوں پر ظلم و ستم اور جبر و استبداد، انہیں دوبارہ کفر پر مجبور کرنا، اگر وہ ہجرت کر جائیں تو ان کا پیچھا نہ چھوڑنا اور بعد میں ان کے اموال و جائیداد کو غصب کرلینا وغیرہ وغیرہ یہی سب باتیں فتنہ میں شامل ہیں۔ ایسی تمام باتوں کے سدباب کے لیے جہاد کرنا ضروری قرار دیا گیا۔ [٢٥٤] یعنی مکہ جائے امن ضرور ہے لیکن اگر وہ یہاں تم سے لڑائی کریں تو جوابی کارروائی کے طور پر تم بھی کرسکتے ہو۔ ازخود لڑائی کی ابتداء مکہ میں تمہاری طرف سے نہ ہونا چاہیے۔ البقرة
192 البقرة
193 [٢٥٥] فتنہ سے مراد ہر وہ مزاحمت اور قوت ہے جو تبلیغ و اشاعت اسلام کی راہ میں آڑے آئے جس سے اللہ کے دین کے مطابق زندگی بسر کرنا ممکن نہ رہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اسلام صرف مدافعانہ جنگ کا قائل نہیں۔ بلکہ اسلام کی اشاعت میں جو قوت رکاوٹ بنے اس سے جارحانہ جنگ کرنا ضروری ہے۔ تاآنکہ ایسی رکاوٹیں ختم ہوجائیں اور اللہ کا دین غالب ہو۔ البتہ جو لوگ اپنی شرارتوں سے باز آ جائیں اور جزیہ دینا قبول کرلیں۔ ان پر تمہیں ہاتھ نہ اٹھانا چاہیے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ اپنے عقائد یا دین یا مذہب سے مجبور ہو کر اسلام قبول کرلیں کیونکہ اسلام قبول کرنے کے لیے کسی کو مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ کیااسلام ایک جنگجودین ہے یاامن پسند؟ اس آیت اور اس سے پہلی آیت کی بنا پر مخالفین اسلام کی طرف سے اسلام پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس نے جہاد کو فرض قرار دے کر ایک مستقل جنگ کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ لہٰذا اسے ایک امن پسند مذہب نہیں کہا جا سکتا۔ عرب قبائل ہمیشہ آپس میں برسرپیکار رہتے تھے۔ اسلام نے آ کر صرف یہ تبدیلی پیدا کی کہ ان کا رخ باہمی خانہ جنگیوں سے ہٹا کر بیرونی دنیا کی طرف موڑ دیا۔ لیکن ان کی جنگ جوئی میں کوئی تبدیلی پیدا نہ ہوئی۔ اسلام نے یہ کیا کہ پوری دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ ایک دارالاسلام جہاں اسلامی حکومت قائم ہو اور دوسرا دارالحرب جہاں غیر مسلم حکومت ہو۔ بالفاظ دیگر ایک حصہ عالم اسلام ہے اور دوسرا عالم جنگ۔ دارالاسلام پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دارالحرب یا غیر مسلموں سے برسرپیکار رہ کر انہیں دارالاسلام میں شامل کرتا چلا جائے۔ تاآنکہ وہ ساری دنیا کو اپنے دائرہ اقتدار میں لے لے۔ یہ ہے ان عقلی و نقلی دلائل کا خلاصہ جن سے یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ اسلام کوئی امن پسند یا صلح جو مذہب نہیں۔ بلکہ اپنے مزاج کے لحاظ سے ہر وقت برسرپیکار رہنا چاہتا ہے۔ مشرکین اور اہل کتاب میں اسلام نے فرق کیاہے:۔ پیشتر اس کے کہ اس اعتراض کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا جائے۔ دو باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔ پہلی یہ کہ اسلام سب غیر مسلموں سے ایک جیسا سلوک روا نہیں رکھتا بلکہ اس نے مشرکین اور اہل کتاب میں فرق کیا ہے۔ اہل کتاب کا ذبیحہ حلال، ان کا کھانا جائز اور کتابیہ عورت سے نکاح جائز ہے۔ جبکہ مشرکوں کی کوئی چیز جائز نہیں۔ اہل کتاب پر جنگ سے بیشتر تین شرائط پیش کی جاتی ہیں۔ پہلی شرط یہ ہے کہ اسلام قبول کرلیں اور اگر یہ منظور نہ ہو تو پھر دارالاسلام میں اطاعت گزار بن کر رہیں انہیں مذہبی آزادی حاصل ہوگی اور دفاعی اخراجات کے طور پر جزیہ دینا یا اس کی متبادل صورت اختیار کرنا ہوگی اور اگر یہ بھی منظور نہ ہو تو پھر تیسری شرط یہ ہے کہ جنگ کے لیے تیار ہوجائیں۔ لیکن مشرکین کے لیے اطاعت گزار بن کر رہنے کی کم از کم حجاز میں گنجائش نہیں۔ ان پر بھی تین شرائط پیش کی جاتی ہیں۔ جیسا کہ سورۃ توبہ کے آغاز میں مذکور ہے یعنی (١) اسلام قبول کرلیں، اگر یہ منظور نہ ہو تو (٢) دارالاسلام کو چھوڑ کر چلے جائیں اور اگر یہ بھی منظور نہ ہو تو پھر (٣) جنگ کے لیے تیار ہوجائیں۔ گویا ان کے لیے شرط نمبر ٢ اطاعت گزار بن کر رہنے کی بجائے حجاز کو چھوڑ کر چلے جانے کی ہے۔ مشرکوں پہ سختی کیوں ؟ مشرک کی عام تعریف یہ ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ کسی کتاب کا قائل نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کے متعلق کوئی واضح عقیدہ نہ رکھتا ہو اور اس کی صفات میں دوسری چیزوں کو بھی شریک بناتا ہو مندرجہ بالا شرائط سے بھی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام کی نظر میں سب غیر مسلم یکساں نہیں۔ وہ اہل کتاب سے نسبتاً نرم رویہ اختیار کرتا ہے اور مشرکین کے معاملہ میں سخت ہے اور مندرجہ بالا دونوں آیات جن سے یہ اعتراض اخذ کیا گیا ہے۔ مشرکین کے معاملہ میں مشرکین سے تعلق رکھتی ہیں نہ کہ اہل کتاب سے اور مشرکین پر سختی کی وجہ یہ ہے کہ اسلام ایک تحریک ہے جو فتنہ کو ختم کرنا چاہتا ہے اور اس کی نگاہوں میں چونکہ سب سے بڑا فتنہ شرک ہے۔ لہٰذا شرک کو ختم کرنا اس کا اولین مقصد ہے۔ دوسری قابل وضاحت بات یہ ہے کہ بلحاظ اقامت پذیری دارالاسلام کی تین اقسام ہیں۔ ١۔ حرمین یعنی حرم مکہ اور مدینہ ان مقامات میں صرف مسلمان ہی رہ سکتے ہیں، مشرک ہوں یا اہل کتاب یہاں اقامت اختیار نہیں کرسکتے۔ ٢۔ جزیرہ العرب یا حجاز، اس میں اہل کتاب معاہد کی حیثیت سے رہ سکتے ہیں۔ جب تک کہ وہ اپنے عہد پر قائم رہیں۔ اور اگر بغاوت وغیرہ کریں تو انہیں دارالاسلام کے کسی دوسرے علاقہ میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن مشرکین کو اس خطہ میں برداشت نہیں کیا گیا۔ ٣۔ باقی دارالاسلام میں اہل کتاب تو اطاعت گزار بن کر پوری آزادی سے رہ سکتے ہیں۔ لیکن مشرکین کو گوارا ہونے کی حد تک برداشت کیا گیا ہے۔ (اسلام کے قانون جنگ و صلح ص ١٤٨) اعتراض کاپہلا جواب مسلمان فطرتاً صلح جواورامن پسندہیں:۔ ان تصریحات کے بعد اب ہم اصل اعتراض کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ یہ اعتراض دو وجوہ سے غلط ہے :۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ بلاشبہ عرب کے اکثر قبائل جنگ جو واقع ہوئے تھے۔ لیکن ان کے سب افراد جنگ جو نہیں تھے۔ بلکہ ان میں کثیر طبقہ ایسا بھی تھا جو اس قتل و غارت کا ہدف بنے ہوئے تھے۔ وہ کمزور تھے، مظلوم تھے۔ نہتے تھے اور فطرتاً بھی قتل و غارت اور ظلم و فساد سے نفرت کرتے تھے۔ پھر اشراف میں بھی ایک ایسا طبقہ موجود تھا جو صلح پسند اور امن پسند تھا اور قتل و غارت اور ظلم و جور سے نفرت کرتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے حلف الفضول کا واقعہ اس بات کی تاریخی شہادت موجود ہے۔ ایسے ہی لوگ ابتداًء اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ جس کی شہادت درج ذیل آیات ہیں۔ ١۔ ﴿ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ وَھُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ ﴾(۲۱۶:۲)تم پر جنگ فرض کی گئی ہے اور وہ تمہیں ناگوار ہے۔ ٢۔ ﴿ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَا لَکُمْ اِذَا قِیْلَ لَکُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَی الْاَرْضِ ﴾(۳۸:۹) اے ایمان والو! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تمہیں کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں (جہاد کے لئے) نکلو تو تم زمین سے چمٹے جاتے ہو۔ دور نبوی کی سب سے پہلی جنگ بدر میں مسلمانوں کی ’’ جنگ جوئی‘‘ کی کیفیت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔ ٣۔ ﴿ كَمَا أَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِن بَيْتِكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِيقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ لَكَارِهُونَ يُجَادِلُونَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَ مَا تَبَيَّنَ كَأَنَّمَا يُسَاقُونَ إِلَى الْمَوْتِ وَهُمْ يَنظُرُونَ﴾ (۶،۵:۸) ’’جیسا کہ آپ کے پروردگار نے آپ کو آپ کے گھر سے نکالا اور بلاشبہ مومنوں کا ایک گروہ اس (جنگ) کو ناپسند کر رہا تھا۔ وہ لوگ حق بات ظاہر ہوجانے کے بعد آپ سے جھگڑنے لگے۔ گویا وہ موت کی طرف دھکیلے جا رہے ہیں اور وہ موت کو سامنے دیکھ رہے ہیں۔‘‘ ٤۔ اسی بنا پر آپ کو حکم ہوتا ہے کہ : ﴿ یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِ ﴾(۶۵:۸) ’’اے نبی! مومنوں کو جنگ کرنے کے لیے رغبت دلاؤ۔‘‘ غور فرمائیے کہ اگر مسلمان پہلے ہی جنگ جو تھے تو ان آیات اور احکامات کی کیا ضرورت تھی؟ اور یہی لوگ اسلام کا ابتدائی اور قیمتی سرمایہ تھے۔ اصل بات یہی تھی کہ اسلام کے یہ ابتدائی جانثار صلح جو اور امن پسند تھے۔ پھر جب ظلم و فساد کے خاتمہ کے لیے ان پر جنگ فرض کی گئی تو انہوں نے اسے ناگوار سمجھنے کے باوجود اللہ کا حکم سمجھ کر سر انجام دیا۔ البتہ نوجوان اور جرات مند طبقہ مکی دور میں بھی لڑائی کی اجازت مانگتا رہا مگر انہیں صبر ہی کی تلقین کی جاتی رہی۔ اعتراض کادوسراجواب:اس اعتراض کے غلط ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ جنگ جو وہی لوگ کہلائے جا سکتے ہیں جو جارحانہ اقدامات کریں۔ اس معیار پر غور کرنے کے لیے دور نبوی کی جنگوں کے اسباب پر سرسری نظر ڈالنا ہوگی۔ ١۔ غزوہ بدر، احد اور خندق خالصتاً مدافعانہ جنگیں تھیں جو طوعاً و کرہاً مسلمانوں کو لڑنا پڑیں۔ ٢۔ غزوہ بنو قینقاع، بنو نضیر، بنو قریظہ اور خیبر سب یہودیوں کی بد عہدیوں اور فتنہ انگیزیوں کی بنا پر لڑی گئیں۔ اگر یہ لوگ اپنے عہد پر قائم رہتے تو کبھی بپا نہ ہوتیں۔ ٣۔ غزوہ مکہ کا سبب قریش کی طرف سے معاہدہ حدیبیہ کی عہد شکنی تھی۔ ٤۔ سریہ مؤتہ اور غزوہ تبوک، سفیر کے قتل اور سرحد کی حفاظت کے لیے پیش آئیں اور وہ کون سی حکومت ہے جو اپنے سفیر کے قتل پر خاموش رہ سکتی ہے۔ یا اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے لشکر روانہ نہیں کرتی۔ ٥۔ غزوہ حنین، اوطاس اور طائف میں دشمن نے خود مسلمانوں کو جنگ کے لیے للکارا تھا اور آپ نے پردیس میں کافروں سے نقد رقم اور اسلحہ بطور ادھار اور عاریتاً لے کر ان جنگوں کو نبھایا تھا۔ (موطا، ابو داؤد، باب الضمانہ) غور فرما لیجئے کہ ان میں کونسی جنگ کو جارحانہ یا ظالمانہ جنگ کا نام دیا جا سکتا ہے؟ اب رہا دارالاسلام اور دارالحرب کا مسئلہ، بلاشبہ یہ اصطلاحیں فقہائے اسلام نے وضع کی ہیں لیکن انہیں عام اسلام اور عام جنگ کے معنوں میں پیش کرنے میں کئی ایک مغالطے ہیں جو درج ذیل ہیں۔ ١۔ جو غیر مسلم حکومتیں غیر جانبدر رہنا چاہیں اور مسلمانوں کو نہ خود چھیڑیں اور نہ مسلمانوں کے خلاف حمایت کریں۔ خواہ وہ حکومت اہل کتاب کی ہو یا مشرکین کی اسلام ان سے لڑنے کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ بلکہ اس کے برعکس اس سے بہتر سلوک کی تائید کرتا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے : ﴿ لَا یَنْہٰیکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَیْہِمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ﴾(۸:۶۰) '' اللہ تمہیں ان لوگوں سے بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے منع نہیں کرتا جو دین کے سلسلہ میں تم سے نہیں لڑتے اور نہ ہی انہوں نے تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا۔ بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔'' دارالحرب کے سلسلے میں مغالطے:۔ گویا دارالحرب بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ ایک غیر جانبدار علاقہ جو فی الحقیقت دارالحرب نہیں ہے اور امن پسند ممالک عموماً غیر جانبدار ہی رہتے ہیں۔ لہٰذا دارالحرب آدھے سے بھی کم رہ گیا۔ ٢۔ باقی حربی علاقہ میں ایسے ممالک بھی ہو سکتے ہیں جن سے صلح کے معاملات طے پائے ہوں اور ان کی مدت صلح عموماً دس سال ہوتی ہے۔ جب تک ایسے ممالک بدعہدی نہ کریں۔ ان سے جنگ کی قطعاً اجازت نہیں۔ ٣۔خطرہ جنگ اور حالات کافرق: اس کے بعد جو ممالک بچ جائیں وہ فی الواقعہ ’’ دارالحرب‘‘ ہیں اور وہ وہی ممالک ہو سکتے ہیں جو مسلمانوں کے مخالف ہوں یا مخالفوں کا ساتھ دیتے ہوں، اور وہ صلح پر بھی آمادہ نہ ہوں اور ظاہر ہے کہ ایسے ممالک تھوڑے ہی رہ جاتے ہیں۔ لیکن ایسے ممالک پر بھی ’’ حالات جنگ‘‘ کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ حالات جنگ اور چیز ہے اور خطرہ جنگ اور چیز۔ اس کی قریب ترین مثال پاکستان اور بھارت کی ہے۔ پاکستان دو قومی نظریہ کا علمبردار ہے اور بھارت ایک قومی نظریہ کا حامی ہے۔ نظریہ کے اس تضاد نے ہر وقت جنگ کا خطرہ تو پیدا کردیا ہے۔ لیکن حالات جنگ مدتوں بعد پیدا ہوتے ہیں اور یہ اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب کوئی ملک اپنے حقوق سے تجاوز کرجاتا ہے۔ آج کی مہذب اقوام کے نزدیک طاقت کے ذریعہ اپنے مفادات کی حفاظت ہی سب سے بڑا حق ہے۔ مثلاً پچھلے دنوں روس نے یہ سمجھا کہ گرم پانی کی بندرگاہ تک پہنچنا اس کا حق ہے۔ لہٰذا افغانستان، ایران اور پاکستان پر اس کا تسلط ہونا چاہیے۔ مگر متعلقہ ممالک یا حریف ممالک نے اس کے اس حق کو ناجائز سمجھا اور تسلیم نہ کیا۔ افغانستان میں جنگ چھڑ گئی اور پاکستان اور ایران کے لیے حالات جنگ پیدا ہوگئے۔ اسلام میں کن صورتوں میں حالات جنگ پیداہوتےہیں:۔ لیکن اسلام ایسے دنیوی اور ذاتی مفادات کے لیے بھی جنگ کرنے کا قطعاً روادار نہیں، اس کے نزدیک جنگ درج ذیل وجوہ کی بنا پر لڑی جا سکتی ہے : (١) اپنے جان و مال کی حفاظت کے لیے مدافعانہ جنگ جس میں سرحدوں کی حفاظت بھی شامل ہے۔ (٢) کسی علاقہ کے مظلوم مسلمان جب امداد کے لیے پکاریں اور انہیں احکام شرعیہ کی تعمیل میں رکاوٹیں پیش آ رہی ہوں۔ (٣) معاہدہ کی خلاف ورزی، عہد شکنی یا سفیر کے قتل کی بنا پر اور یہ سب باتیں دراصل جنگ کا الٹی میٹم ہوتی ہیں۔ انہی مقاصد کے لیے دور نبوی میں جنگیں لڑی گئی تھیں اور یہ سب ’’فتنہ‘‘ ہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ ان میں سے ایک بھی شق ایسی نہیں جسے ہم کسی دنیوی مفاد کی جنگ کہہ سکیں۔ گویا اسلام میں لڑائی کے جواز کا عام قانون ظلم اور فتنہ کا استیصال ہے۔ اسلام نے جنگ کرنے کے بھی اصول بتلا دیئے ہیں اور جنگ سے رک جانے یا عدم جواز کے بھی اور مسلمانوں کو بہرحال ان پر ہی کاربند رہنا لازم ہے۔ پھر جن صورتوں میں اسلام نے جنگ کرنے کی اجازت یا حکم دیا ہے وہاں بھی یہ حکم نہیں دیا کہ جاتے ہی جنگ شروع کر دو۔ بلکہ حکم یہ ہے کہ دشمن پر تین شرطیں پیش کرو۔ پہلی شرط یہ ہے کہ تم مسلمان بن جاؤ اور ہمارے بھائی بند بن کر اپنا علاقہ اور اپنی حکومت اپنے پاس رکھو۔ دوسری شرط یہ ہے کہ اسلام دشمنی چھوڑ دو اور اپنی مذہبی آزادی بحال رکھو اور اطاعت گزاری کی علامت اور دفاعی اخراجات کے طور پر جزیہ ادا کرو اور اگر یہ بھی منظور نہیں تو پھر تیسری اور آخری صورت جنگ ہے۔ ان حدود و قیود کے بعد بھی کیا یہ شبہ باقی رہ جاتا ہے کہ اسلام ایک جنگ جو مذہب ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کی پے در پے عہد شکنیوں کی بنا پر خیبر پر چڑھائی کی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جھنڈا دے کر فرمایا کہ ’’ اگر تمہاری تبلیغ سے ایک آدمی بھی اسلام لے آئے تو وہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب الجہاد۔ باب الدعاء للمشرکین بالھدی لیتا لفھم) جنگ کی وجوہات:۔اس حدیث سے درج ذیل نتائج سامنے آتے ہیں۔ ١۔ یہ جنگ ناگزیر حالات میں کی گئی۔ جن کی بنیاد یہود کی پے در پے عہد شکنیاں تھیں۔ ٢۔ مسلمانوں کا جنگ سے مقصد نہ کشور کشائی ہے اور نہ لوٹ مار۔ ٣۔ مسلمانوں کے ہاں محبوب ترین مقصد یہ ہے کہ لوگ اپنی رضا و رغبت سے اسلام لے آئیں۔ اور اگر یہ نہیں کرسکتے تو پھر کم از کم اسلام دشمنی چھوڑ دیں۔ اور اگر یہ بھی نہیں کرسکتے تو آخری چارہ کار کے طور پر جنگ کی اجازت دی گئی ہے اور ایسے بدعہد اور ہٹ دھرم قسم کے لوگوں سے جنگ کرنا لازم ہوجاتا ہے۔ [٢٥٦] جنگی قیدیوں سے سلوک:۔ ایسی رکاوٹیں ختم ہونے یا ان پر غلبہ پانے کے بعد بھی صرف ایسے آدمیوں کو سزا دینے کی اجازت ہے جو مسلمانوں پر جبر و تشدد کرنے اور انہیں ختم کردینے میں حد درجہ آگے بڑھے ہوئے یا سازشیں کرتے رہے تھے۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر کے قیدیوں میں سے عقبہ بن ابی معیط اور نضر بن حارث کو قتل کروا دیا اور باقی قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا جیسے فتح مکہ کے موقع پر عفو عام کے باوجود آپ نے چار آدمیوں کو قتل کردینے کا حکم دیا تھا، یہ چاروں اشتہاری مجرم تھے۔ ان میں سے ایک عبداللہ بن خطل تھا جو تین ایسے جرائم میں ملوث تھا جن کی سزا اسلام میں قتل ہے اور وہ تین جرائم یہ تھے (١) وہ اسلام سے پھر گیا تھا (٢) اس نے خون ناحق کیا تھا اور (٣) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتا تھا۔ یعنی توہین رسالت کا مجرم تھا۔ چنانچہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سر پر خود پہنے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے۔ جب آپ نے خود اتارا تو ایک شخص کہنے لگا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! عبداللہ بن خطل کعبہ کا پردہ پکڑے ہوئے لٹک رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ اسے قتل کر دو۔‘‘ (بخاری، کتاب المغازی، باب این رکز النبی الرایہ یوم الفتح) ایسے اشتہاری مجرموں کی مکہ بلکہ کعبہ میں قتل کی دو ہی وجوہ ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ شاید یہ وہی ساعت ہو جس کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ مکہ میرے لیے حلال کیا گیا ہے وہ بھی صرف چند ساعت کے لیے، وہ پہلے بھی ارض حرم تھا اور بعد میں تاقیامت ارض حرم ہی رہے گا اور دوسری یہ کہ ایسے اشتہاری مجرم کو کعبہ کی حرمت بھی پناہ نہیں دے سکتی۔ واللہ اعلم بالصواب۔ البقرة
194 [٢٥٧]حرمت والے مہینوں میں جنگ:۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے لے کر عرب میں یہ دستور چلا آیا تھا کہ ذی قعد ذی الحجہ اور محرم کے مہینے حج کرنے والوں کی وجہ سے قابل احترام قرار دیئے گئے تھے اور ان کے درمیان رجب کا مہینہ عمرہ کرنے والوں کے لیے مختص کیا گیا تھا۔ تاکہ حج اور عمرہ کرنے والے امن و امان سے سفر کرسکیں۔ ان مہینوں میں جدال و قتال بھی ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ چونکہ یہ ایک اچھا دستور تھا۔ لہٰذا اسلام نے اسے بحال رکھا۔ اس آیت کا منشا یہ ہے کہ اگر ان مہینوں میں کافر تم سے جنگ کرتے ہیں تو پھر تمہیں بھی ان سے جنگ کی اجازت ہے، ورنہ نہیں۔ مگر یہ خیال رہے کہ جتنی زیادتی تم پر ہوئی اتنی ہی تم کرسکتے ہو۔ اس سے زیادہ نہیں اور اس معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہو۔ البقرة
195 [٢٥٨] جہادمیں اموال خرچ کرنا:۔ حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت ہم انصار کے بارے میں نازل ہوئی۔ جب اللہ نے اسلام کو عزت دی اور اس کے مددگار بہت ہوگئے تو ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے علیحدگی میں ایک دوسرے سے کہا کہ بلاشبہ ہمارے مال خرچ ہوگئے۔ اب اللہ نے اسلام کو عزت دی ہے اور اس کے مددگاروں کو زیادہ کردیا ہے۔ تو اب اگر ہم اپنے اموال سنبھال رکھیں اور جو کچھ خرچ ہوچکا اس کی تلافی شروع کردیں (تو کوئی بات نہیں) اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور جو کچھ ہم نے آپس میں کہا تھا اس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو۔ ہلاکت سے مراد اموال کی نگرانی، ان کی اصلاح اور جہاد کو چھوڑ دینا ہے۔'' (بخاری، کتاب التفسیر، ترمذی ابو اب التفسیر۔ زیر آیت مذکورہ) گویا اموال کو جہاد میں خرچ نہ کرنے کو اس قوم کی ہلاکت قرار دیا گیا ہے۔ [٢٥٩] احسان کیاہے؟ اور حدیث جبریل:۔ کسی حکم کو بجا لانے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ بس اس کی تعمیل کردی جائے اور دوسری یہ کہ اسے دل کی رغبت، محبت اور نہایت احسن طریقے سے بجا لایا جائے۔ پہلی صورت اطاعت ہے اور دوسری احسان۔ احسان اطاعت کا بلند تر درجہ ہے اور عدل کا بھی۔ حدیث میں ہے کہ جبریل جب تمام صحابہ کے سامنے اجنبی صورت میں آپ کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ احسان کیا ہے۔ تو آپ نے یہ جواب دیا کہ احسان یہ ہے کہ تو ’’اللہ کی عبادت اس طرح کرے جیسے تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تجھ سے یہ نہ ہو سکے تو کم از کم یہ سمجھے کہ اللہ تجھے دیکھ رہا ہے‘‘ اور یہ تو ظاہر ہے کہ عبادت صرف نماز فرض یا نوافل کا ہی نام نہیں بلکہ جو کام بھی اللہ کے احکام کی بجاآوری کے لیے اس کا حکم سمجھ کر کیا جائے وہ اس کی عبادت ہی کی ضمن میں آتا ہے۔ خواہ اس کا تعلق حقوق العباد سے ہو یا حقوق اللہ سے، معاملات سے ہو یا مناکحات سے ان میں سے ہر ایک کام کو بنا سنوار کر اور شرعی احکام کی پابندی کے ساتھ نیز دل کی رغبت اور محبت سے بجا لانے کا نام احسان ہے۔ البقرة
196 [٢٦٠] مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حدیبیہ کے زمانے میں نکلے۔ بدیل بن ورقاء الخزاعی آیا اور کہنے لگا : وہ (قریش) آپ سے لڑیں گے اور آپ کو بیت اللہ جانے سے روکیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہم لڑنے نہیں آئے، ہم تو عمرہ کرنے آئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا : ’’اٹھو، قربانی کرو اور اپنے سر منڈوا دو۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی قربانی ذبح کی۔ پھر حجام کو بلایا۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر مونڈا۔ (بخاری۔ کتاب الشروط، باب الشروط فی الجہاد والمصالحة مع اھل الحرب) ٢۔ ضباعہ کہتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا : ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میرا حج کرنے کا ارادہ ہے، لیکن میں بیمار ہوں، ایسی صورت میں میں کیا کروں؟‘‘ آپ نے جواب دیا حج کرو اور (اللہ سے) شرط کرلو :’’ اے اللہ میں اسی جگہ احرام کھول دوں گی، جہاں تو مجھے روک دے گا۔‘‘(مسلم۔ کتاب الحج، باب جواز اشتراط المحرم التحلل بعذر المرض و نحوہ) [٢٦١] احصار کی صورتیں اور فدیہ احصار:۔مثلاً ایک شخص نے حج اور عمرہ کا احرام باندھا تو اب اسے پورا کرنا لازم ہے اور کسی مجبوری سے وہ حج نہیں کرسکا، تو بھی اس کو قربانی دینا ہوگی۔ وہ کسی دوسرے کے ہاتھ قربانی بھیج دے یا اسے تاکید کر دے کہ وہ مناسب وقت پر اس کی طرف سے قربانی کر دے اور جس وقت تک اسے یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس وقت تک اس کی قربانی ہوچکی ہوگی۔ اس وقت تک سر نہ منڈائے۔ ایسی قربانی کو دم احصار کہتے ہیں جو حج و عمرہ سے رکنے کی وجہ سے لازم ہوتا ہے۔ [٢٦٢] کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم حدیبیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے اور احرام باندھے ہوئے تھے۔ لیکن مشرکین نے ہمیں عمرہ سے روک دیا، میرے لمبے بال تھے اور جوئیں میرے منہ پر گر رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس سے گزرے تو فرمایا ’’کیا سر کی جوئیں تمہیں تکلیف پہنچا رہی ہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’ جی ہاں‘‘ تب یہ آیت نازل ہوئی۔ ﴿فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ بِہٖٓ اَذًی مِّنْ رَّاْسِہٖ﴾ پھر مجھے فرمایا : ’’سر منڈاؤ، تین روزے رکھو یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ یا قربانی کرو۔‘‘ (بخاری، کتاب المغازی، باب غزوہ حدیبیہ لقولہ تعالیٰ لقد رضی اللہ..... الآية، مسلم۔ کتاب الحج۔ باب جواز حلق الراس للمحرم اذا کان بہ اذی .....الخ) ٢۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کو قربانی نہ ملے وہ تین روزے ایام حج میں رکھے اور سات اپنے گھر پہنچ کر۔‘‘ (مسلم، کتاب الحج، باب وجوب الدم علی المتمتّع) ٣۔مناسک حج میں تقدیم وتاخیر:۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع میں منیٰ میں ٹھہرے کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے (مسائل حج) پوچھیں۔ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور کہا : مجھے خیال نہ رہا میں نے قربانی سے پہلے سر منڈا لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اب قربانی کرلو کچھ حرج نہیں۔ پھر ایک اور شخص آیا اور کہنے لگا : مجھے خیال نہ رہا : میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے قربانی کرلی۔ فرمایا : اب کنکریاں مار لو۔ کوئی حرج نہیں۔ غرض یہ کہ جو کام بھی کسی نے آگے پیچھے کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اب کرلو، کوئی حرج نہیں۔‘‘ (بخاری، کتاب العلم، باب الفتیا و ھو واقف علی ظھر الدابۃ و غیرھا) نیز کتاب المناسک باب الفتیا علی الدابة عند الجمرۃ مسلم، کتاب الحج، باب جواز تقدیم الذبح علی الرمی والحلق علی الذبح و علی الرمی۔۔ الخ) [٢٦٣] حج تمتع کےاحکام:۔دور جاہلیت میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ عمرہ کے لیے الگ اور حج کے لیے الگ سفر کرنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ قید ختم کردی اور باہر سے آنے والوں کے لیے یہ رعایت فرمائی کہ وہ ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ دونوں کو جمع کرلیں، البتہ جو لوگ مکہ میں یا اس کے آس پاس میقاتوں کی حدود کے اندر رہتے ہوں۔ انہیں اس رعایت سے مستثنیٰ کردیا۔ کیونکہ ان کے لیے عمرہ اور حج کے لیے الگ الگ سفر کرنا کچھ مشکل نہیں۔ اس آیت سے درج ذیل مسائل معلوم ہوتے ہیں: حج کی اقسام اورمسائل:۔میقاتوں کے باہر سے آنے والے لوگ ایک ہی سفر میں عمرہ اور حج دونوں کرسکتے ہیں اس کی پھر دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ احرام باندھ کر عمرہ کرے، پھر احرام نہ کھولے (نہ سر منڈائے) تاآنکہ حج کے بھی ارکان پورے کرلے۔ ایسے حج کو قران کہتے ہیں اور اگر عمرہ کر کے سر منڈا لے اور احرام کھول دے پھر حج کے لیے نیا احرام باندھے تو اسے حج تمتع کہتے ہیں اور اسی حج کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پسند فرمایا : قران اور تمتع کرنے والے پر قربانی لازم ہے۔ یعنی ایک بکری یا گائے اور اونٹ جس میں سات آدمی شامل ہو سکتے ہیں۔ اگر کسی کو قربانی میسر نہیں آسکی تو وہ دس روزے رکھ لے، تین روزے تو نویں ذی الحجہ یعنی عرفہ تک اور باقی سات روزے حج سے فراغت کے بعد رکھے، گھر واپس آ کر رکھ لے۔ جو لوگ میقاتوں کی حدود کے اندر رہتے ہیں صرف حج کا احرام باندھ کر حج کریں گے جسے حج افراد کہتے ہیں اور ان پر قربانی واجب نہیں۔ البقرة
197 [٢٦٤] یعنی یکم شوال سے دس ذی الحجہ تک کی مدت کا نام اشہر حج ہے۔ حج کا احرام اسی مدت کے اندر اندر باندھا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی اس سے پہلے باندھے تو وہ ناجائز یا مکروہ ہوگا البتہ عمرہ کا احرام باندھا جا سکتا ہے۔ احرام باندھنے کے متعلق درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے۔ ١۔احرام باندھنےکےمسائل:۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص مسجد میں کھڑا ہو کر پوچھنے لگا ’’یا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہم احرام کہاں سے باندھیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’مدینہ والے ذوالحلیفہ سے باندھیں، شام والے جحفہ سے اور نجد والے قرن (منازل) سے اور یمن والے یلملم سے۔‘‘ (بخاری، کتاب العلم، باب ذکر العلم و الفتیا فی المسجد) ٢۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا :’’ محرم کیا پہنے؟ فرمایا : وہ نہ قمیض پہنے نہ عمامہ، نہ ٹوپی اور نہ وہ کپڑا جس میں ورس یا زعفران لگا ہو اور اگر چپل نہ ملے تو موزے ٹخنوں سے نیچے تک کاٹ کر پہن لے۔ (بخاری۔ کتاب العلم۔ من اجاب السائل باکثر مما سألہ) [٢٦٥]حج مبرورکی فضیلت:۔ ہر وہ حرکت یا کلام جو شہوت کو اکساتا ہو رفث کہلاتا ہے اور اس میں جماع بھی شامل ہے، فسوق اور جدال اور ایسے ہی دوسرے معصیت کے کام اگرچہ بجائے خود ناجائز ہیں تاہم احرام کی حالت میں ان کا گناہ اور بھی سخت ہوجاتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس نے اللہ کے لیے حج کیا پھر اس دوران نہ بے حیائی کی کوئی بات کی اور نہ گناہ کا کوئی کام کیا۔ وہ ایسے واپس ہوتا ہے جیسے اس دن تھا جب وہ پیدا ہوا۔‘‘ (بخاری، کتاب المناسک، باب فضل الحج المبرور) [٢٦٦] مانگنےکی قباحت:۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ’’یمن کے لوگ حج کے لیے آتے لیکن زاد راہ ساتھ نہ لاتے اور کہتے کہ ہم اللہ پر توکل کرتے ہیں۔ پھر مکہ پہنچ کر لوگوں سے مانگنا شروع کردیتے۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری، کتاب المناسک، باب قول اللہ تعالیٰ آیت و تزودوا فان خیر الزاد التقوی) نیز ضرورت کے وقت مانگنا اگرچہ ناجائز نہیں، مگر اسلام نے سوال کرنے کو اچھا نہیں سمجھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے۔ ’’دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ باب لا صدقہ الا عن ظہر غنی) اور بلا ضرورت مانگنا اور پیشہ کے طور پر مانگنا تو بدترین جرم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص مانگنے کو عادت بنا لے گا وہ قیامت کو اس حال میں اٹھے گا کہ اس کے چہرہ پر گوشت کا ٹکڑا تک نہ رہے گا۔ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب من سال الناس تکثرا) سوال سے اجتناب کے لیے دیکھیے اسی سورۃ کی آیت ٢٧٣ اور سورۃ مائدہ کی آیت نمبر ١٠١ کے حواشی) البقرة
198 [٢٦٧] حج اورتجارت:۔جاہلیت کے غلط اعتقادات میں سے ایک یہ بھی تھا کہ وہ حج کے دوران تجارت کرنا مکروہ خیال کرتے تھے اور اسے خلوص عمل کے خلاف سمجھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت فرما دی جبکہ اصل مقصود حج ہی ہو اور تجارت سے حج کے ارکان وغیرہ میں کچھ خلل واقع نہ ہوتا ہو۔ چنانچہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایام جاہلیت میں (منیٰ) میں عکاظ، مجنہ اور ذوالمجاز بازار لگا کرتے تھے (صحابہ نے) حج کے دنوں میں تجارت کو گناہ خیال کیا، تب یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر، زیر آیت مذکورہ) [٢٦٨]عرفات کی حاضری حج کا رکن اعظم ہے: اس آیت سے معلوم ہوا کہ ارکان حج میں سے عرفات میں وقوف بہت ضروری بلکہ رکن اعظم ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین بار فرمایا : حج عرفات کی حاضری ہے، حج عرفات کی حاضری ہے۔ حج عرفات کی حاضری ہے۔ منیٰ کے تین دن ہیں، پھر جو شخص جلدی کر کے دو دن میں ہی چلا گیا، اس پر بھی کوئی گناہ نہیں اور جو تیسرا دن ٹھہرا رہا اس پر بھی کوئی گناہ نہیں اور جس نے طلوع فجر سے پہلے پہلے عرفات کا وقوف پا لیا۔ اس نے حج پا لیا۔ (ترمذی، ابو اب التفسیر، زیر آیت مذکورہ) [٢٦٩] مشعر الحرام مزدلفہ کی ایک پہاڑی کا نام ہے جس پر امام وقوف کرتا ہے۔ اس پہاڑی پر وقوف کرنا افضل ہے۔ یہ نہ ہو سکے تو پھر جہاں بھی قیام کرلے جائز ہے، سوائے وادی محسر کے۔ [٢٧٠]مشرکوں کا تلبیہ :۔ مشرکین بھی اللہ کا ذکر تو کرتے تھے۔ مگر اس میں شرکیہ کلمات کی آمیزش ہوتی تھی۔ اسی ضلالت سے بچنے کی اللہ تعالیٰ نے یہ ہدایت فرمائی اور وہ شرکیہ کلمات یہ تھے : ''الا شریکا ھولک تملک وماملک'' مگر تیرا وہ شریک جس کا تو مالک ہے وہ تیرا مالک نہیں۔ (مسلم، کتاب الحج، باب التلبیۃ) البقرة
199 [٢٧١] حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ : قریش اور ان کے طریقہ پر چلنے والے لوگ (عرفات کے بجائے) مزدلفہ میں وقوف کیا کرتے تھے، ان لوگوں کو حمس کہتے تھے۔ جب کہ باقی عرب عرفات کا وقوف کرتے۔ جب اسلام کا زمانہ آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو یہ حکم دیا کہ عرفات میں جائیں وہاں ٹھہریں اور وہیں سے لوٹ کر (مزدلفہ) آئیں۔ ﴿ ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاض النَّاسُ ﴾ سے یہی مراد ہے۔ (بخاری، کتاب التفسیر۔ باب ثم افیضوا۔۔) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ (جو تمتع کی نیت سے عمرہ کے بعد احرام کھول دے) جب تک حج کا احرام نہ باندھے بیت اللہ کا نفل طواف کرتا رہے۔ پھر جب حج کا احرام باندھے اور عرفات جانے کو سوار ہو تو (حج کے بعد) جو قربانی ہو وہ کرے خواہ اونٹ ہو یا گائے یا بکری ہو، اور اگر قربانی میسر نہ ہو تو حج کے دنوں میں عرفہ کے دن سے پہلے تین روزے رکھے اور اگر تیسرا روزہ عرفہ کے دن آ جائے تب بھی کوئی حرج نہیں۔ مکہ سے عرفات جائے، وہاں سے عصر کی نماز سے رات کی تاریکی ہونے تک ٹھہرے۔ پھر عرفات سے اس وقت لوٹے جب دوسرے لوگ لوٹیں اور سب لوگوں کے ساتھ رات مزدلفہ میں گزارے اللہ کا ذکر، تکبیر اور تہلیل صبح ہونے تک بہت کرتا رہے، پھر صبح کو لوگوں کے ساتھ مزدلفہ سے منیٰ لوٹے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴿ ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاض النَّاسُ﴾....... اور کنکریاں مارتے وقت اسی طرح ذکر، تکبیر اور تہلیل کرتا رہے۔ (بخاری۔ حوالہ ایضاً) البقرة
200 البقرة
201 [٢٧٢] جامع دعا:۔چونکہ دنیا پہلے ہے اور آخرت بعد میں۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے دنیا کا پہلے ذکر فرمایا۔ گویا مومن کو دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ سے بھلائی مطلوب ہوتی ہے اور آخرت میں بھی۔ پھر بھلائی کے لفظ میں جو وسعت ہے وہ آپ جانتے ہی ہیں یہ دعا بہت جامع قسم کی دعا ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حج کے دوران طواف کرتے وقت اور دوسرے اکثر اوقات میں بھی یہی دعا فرمایا کرتے تھے۔ (بخاری، کتاب التفسیر، زیر آیت مذکورہ) ایک دنیادار اور مومن کےمقاصد زندگی کاتقابل:۔ان دو آیات میں ایک دنیا دار اور ایک مومن کے مقاصد زندگی کا تقابل پیش کیا گیا ہے جو شخص آخرت پر ایمان ہی نہیں رکھتا۔ اس کی زندگی کا تمام تر مقصد مفادات دنیا کا حصول ہوتا ہے۔ اس کی تمام کوششیں اسی مقصد میں صرف ہوجاتی ہیں لیکن اسے ملتا اتنا ہی ہے جتنا اللہ نے اس کے مقدر کر رکھا ہے اور یہی کچھ اس کا حصہ ہے۔ آخرت میں اگر اس کے کچھ نیک اعمال تھے بھی۔ تو اس کا اسے کچھ اجر و ثواب نہیں ملے گا۔ اس کے مقابلہ میں مومن کا مقصد اگرچہ مفادات اخروی کا حصول ہوتا ہے اور وہ اسے مل بھی جائے گی۔ لیکن دنیا کی زندگی کے مفادات بھی اس کے لیے ممنوع نہیں، بلکہ اس میں سے بھی اتنا حصہ اسے ضرور ملے گا جتنا اللہ تعالیٰ نے اس کے مقدر میں کر رکھا ہے۔ لہذا اس کی دعا کا انداز ہی یہ ہوتا ہے کہ اپنے پروردگار سے دنیا بھی طلب کرتا ہے اور آخرت کے مفادات بھی۔ لہذا ایسے ہی لوگ بہرحال فائدہ میں رہتے ہیں۔ البقرة
202 البقرة
203 [٢٧٢۔ ا] ایام معدودات سے مراد ماہ ذی الحجہ کی گیا رہ، بارہ اور تیرہ تاریخ ہے۔ ان دنوں میں بکثرت اللہ کو یاد کرتے رہنا چاہیے۔ رمی جمار کے وقت بھی بآواز بلند تکبیر کہی جائے اور تمام حالات میں بھی بازاروں میں چلتے پھرتے وقت بھی اور ہر نماز کے بعد بھی اور تکبیر کے الفاظ یہ ہیں۔ اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر (تین مرتبہ) (لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد) ایام تشریق اور تکبیریں:۔ عیدین کی تکبیریں بھی یہی ہیں اور ایام تشریق میں بھی یہی بآواز بلند کہتے رہنا چاہیے۔ ایام تشریق کے متعلق حدیث میں آیا ہے کہ یہ کھانے پینے اور ذکر الٰہی کے دن ہیں۔ تکبیرات کے شروع اور ختم کرنے میں اگرچہ اختلاف ہے۔ تاہم صحیح اور راجح یہی بات ہے کہ ذی الحجہ کی ٩ تاریخ ( عرفہ یا حج کے دن) کی صبح شروع کر کے تیرہ تاریخ کی عصر کو ختم کی جائیں۔ اس طرح یہ کل تئیس نمازیں بنتی ہیں۔ ہر نماز کے بعد کم از کم تین بار اور زیادہ سے زیادہ جتنی اللہ توفیق دے۔ بآواز بلند تکبیرات کہنا چاہئیں۔ رمی جمار کا عمل تین دن یعنی ذی الحجہ کی ١٠، ١١، ١٢ کو ہوتا ہے۔ دس ذی الحجہ کا دن تو حجاج کے لیے بہت مصروفیت کا دن ہوتا ہے۔ اس کے بعد تین دن منیٰ میں ٹھہرنا مسنون ہے۔ تاہم اگر کوئی شخص اس سے پہلے جانا چاہے تو وہ دوسرے دن بھی جا سکتا ہے۔ بشرطیکہ اس کے دل میں تقویٰ ہو اور حج کے تمام مناسک ٹھیک طور پر بجا لانے کا ارادہ رکھتا ہو۔ البقرة
204 البقرة
205 [٢٧٣] اخنس بن شریق ایک منافق تھا جو فصیح و بلیغ اور شیریں کلام تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی چکنی چپڑی باتیں بھلی معلوم ہوتیں۔ وہ بات بات پر اللہ کی قسم کھاتا اور بار بار اللہ کو گواہ بنا کر کہتا کہ وہ سچا مسلمان ہے اور مسلمانوں کا دلی دوست ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صحیح صورت حال سے مطلع کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کی باتوں پر فریفتہ مت ہونا، کیونکہ یہ سخت جھگڑا لو قسم کا انسان ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، وہ اسلام سے پھر کر مکہ واپس چلا گیا۔ راستہ میں مسلمانوں کے جو کھیت دیکھے انہیں جلا دیا اور جو جانور نظر آئے انہیں مار ڈالا۔ البقرة
206 [٢٧٤] یعنی اسکا پندار نفس یا انا اسے غرور و تکبر ہی کی راہ دکھلاتا ہے اور متکبرین کا ٹھکانا جہنم ہے۔ جیسا درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔ تکبر کرنےوالےکاحشر:۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ پروردگار کے سامنے جنت اور دوزخ میں جھگڑا ہوا۔ جنت کہنے لگی، پروردگار! میرا تو یہ حال ہے کہ مجھ میں تو وہی لوگ آ رہے ہیں جو دنیا میں ناتواں اور حقیر تھے اور دوزخ کہنے لگی کہ مجھ میں وہ لوگ آ رہے ہیں جو دنیا میں متکبر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے جنت سے فرمایا تو میری رحمت ہے اور دوزخ سے فرمایا تو میرا عذاب ہے۔ (بخاری، کتاب التوحید، باب ماجاء فی قول اللہ ان رحمۃ اللہ قریب من المحسنین) اور ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، کہ میں تمہیں بتلاؤں کہ بہشتی کون ہیں اور دوزخی کون؟ جنتی ہر وہ کمزور اور منکسر المزاج ہے کہ اگر وہ اللہ کے بھروسے پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ اسے سچا کر دے اور دوزخی ہر موٹا، بدمزاج اور متکبر آدمی ہوتا ہے۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب قول اللہ تعالیٰ آیت اقسموا باللہ جھد ایمانہم) البقرة
207 [٢٧٥]صہیب رومی کی فضیلت:۔ یعنی انسانوں میں کچھ اس قسم کے لوگ بھی موجود ہیں جو اللہ کی راہ میں اپنا جان و مال سب کچھ قربان کردیتے ہیں۔ چنانچہ صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ اپنا وطن ترک کر کے ہجرت کی غرض سے مدینہ آ رہے تھے کہ راستہ میں مشرکوں نے پکڑ لیا اور انہیں اسلام سے برگشتہ ہونے پر مجبور کیا۔ صہیب رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ میں اپنا گھر اور اپنا سارا مال تمہیں اس شرط پر دینے کو تیار ہوں کہ تم میری راہ نہ روکو اور مجھے مدینہ جانے دو۔ انہوں نے اس شرط پر آپ کو چھوڑ دیا اور صہیب رومی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے۔ ایسے ہی مخلص مومنوں کی تعریف میں یہ آیت نازل ہوئی۔ ( الرحیق المختوم ٢٤٦) ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت صہیب رضی اللہ عنہ ، حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور سلمان رضی اللہ عنہ کے متعلق حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا۔ ’’ اگر تم نے ان کو ناراض کردیا تو اپنے رب کو ناراض کردیا۔‘‘(صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب فضائل سلمان ) البقرة
208 [٢٧٦]اسلام میں پوراپوراداخل ہونےکامطلب:۔ یعنی تمہارے عقائد، تمہارے خیالات، تمہارے نظریات، تمہارے علوم، تمہارے طور طریقے تمہارے رسم و رواج اور تمہاری کاروباری زندگی سب کچھ ہی اسلام کے تابع ہونا چاہیے۔ یہ نہ ہونا چاہیے کہ دعویٰ تو اسلام کا کرو اور اپنا معاشی نظام روس سے مستعار لے لو اور سیاسی نظام انگریز سے۔ یا مسجد میں تو تم اللہ کو یاد کرو اور کاروبار کرتے وقت اللہ یاد ہی نہ رہے۔ اور ناجائز طریقوں سے کمائی کرنا شروع کردو یا ڈھنڈورا تو اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیٹتے جاؤ اور سب بدعات میں حصے دار بنتے رہو۔ یا لا الہ الا اللہ کا ورد بھی کرتے رہو اور پیروں اور بزرگوں سے استمداد بھی طلب کرتے رہو۔ غرض یہ ہے کہ تمہاری زندگی کا ہر ہر پہلو اسلام کے تابع اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت میں گزرنا چاہیے اور اگر اپنے آپ کو پورے کا پورا اسلام کے تابع نہیں بناؤ گے تو اسی کا نام شیطان کے قدموں کی پیروی ہے جو ہر وقت تمہارے ایمان پر ڈاکہ ڈالنے، تمہیں غلط اور گمراہ کن عقائد میں مبتلا اور برے کاموں کو خوشنما بنا کر ان پر آمادہ کرنے کے لیے مستعد رہتا ہے۔ البقرة
209 [٢٧٧]قطعی نشانی دیکھنے پرایمان لانا بےسودہے:۔ یعنی اسلام کے انسانی زندگی کے ہر پہلو میں واضح احکام آ جانے کے بعد تم اسلام میں پوری طرح داخل نہ ہوئے اور دوغلی پالیسی اختیار کی اور جن احکام پر چاہا عمل کرلیا اور جہاں کوئی بات طبیعت کو ناگوار محسوس ہوئی یا کسی نقصان کا خطرہ محسوس ہوا وہاں اپنی مرضی کرلی اور اسلام کے احکام کو پس پشت ڈال دیا تو خوب سمجھ لو کہ اللہ بڑا زبردست ہے حکمت والاہے، وہ تمہیں سزا بھی دے سکتا ہے، ذلیل و خوار بھی کرسکتا ہے اور دنیا کی حکمرانی تمہارے سوا کسی دوسرے کو بھی دے سکتا ہے۔ البقرة
210 [٢٧٨] یعنی ایسی نشانی کے انتظار میں جس سے انہیں قطعی اور حتمی طور پر ہر بات کا یقین آ جائے۔ ایسا یقین جیسے ہر انسان کو یہ یقین ہے کہ اسے موت آ کے رہے گی تو اسے خوب سمجھ لینا چاہیے کہ جب ایسی نشانی آ جائے گی تو پھر ایمان لانے کی کچھ قدر و قیمت نہ ہوگی۔ ایمان لانے کی قدر و قیمت تو صرف اس وقت تک ہے جب تک کہ امور غیب حواس ظاہری سے پوشیدہ ہیں۔ اگرچہ ان کے لیے بے شمار دلائل موجود ہیں اور اسی بات میں انسان کی آزمائش کی جا رہی ہے، اور یہ دنیا آزمائش گاہ بنی ہوئی ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے اور جب کوئی حتمی علامت جیسے سورج کا مغرب سے طلوع ہونا یا وقت موت یا قیامت آ گئی تو پھر یہ معاملہ ہی ختم ہوجائے گا۔ علاوہ ازیں اللہ کی آمد تو درکنار اس کا دیدار تو حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے اوالوالعزم پیغمبر بھی نہ سہار سکے تھے۔ پھر یہ بے چارے کس کھیت کی مولی ہیں اور فرشتے انسانوں کے پاس آتے تو ہیں مگر وہ یا عذاب الٰہی لے کر آتے ہیں یا پھر موت کا پیغام لے کر، تو پھر ان باتوں کا انہیں کیا فائدہ ہوسکتا ہے۔ البقرة
211 [٢٧٩] کفران نعمت کی سزا:۔اور اگر واضح دلائل اور نشانیوں ہی کی بات ہے تو بنی اسرائیل سے پوچھ لیجئے کیا ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو تھوڑے معجزات عطا کئے تھے؟ تو پھر کیا یہ سب کے سب لوگ ایمان لے آئے تھے؟ اور اگر لائے بھی تو کیا پورا ایمان لائے؟ اور کب تک اس پر قائم رہے؟ پھر جب ان لوگوں نے اللہ کے انعامات کی قدر نہ کی تو اللہ نے انہیں بری طرح سزا دی۔ بنی اسرائیل سے پوچھنے کو اس لیے کہا کہ یہ امت مسلمانوں کے قریب زمانہ میں موجود تھی اور اب بھی موجود ہے اگر اے مسلمانو! تم نے بھی اللہ کے انعامات کی قدر نہ کی تو تمہارا بھی حشر یہی ہوسکتا ہے۔ البقرة
212 [٢٨٠]دنیاکارزق کامیابی کامعیار نہیں:۔ یعنی وہ دنیوی مال و دولت میں مگن رہ کر حضرت بلال رضی اللہ عنہ ، عمار رضی اللہ عنہ ، صہیب رضی اللہ عنہ اور دوسرے فقرائے مہاجرین کا تمسخر اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس قسم کے لوگوں کو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ساتھ ملا کر عرب کے سرداروں پر غالب آنے کے خواب دیکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ جواب دیا کہ دنیا کا رزق کامیابی اور اخروی نجات کا کوئی معیار نہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ دنیا میں یہ رزق کافروں کو چاہے تو زیادہ بھی دے دیتا ہے۔ رہی کامیابی کی بات تو یہی ناتواں اور پرہیزگار لوگ قیامت کے دن جنت میں بلند تر مقامات پر ہوں گے اور یہ دنیا پر فریفتہ کافران سے بہت نیچے جہنم میں ہوں گے۔ البقرة
213 [٢٨١]انسانی زندگی کاآغاز توحید سےہوایاشرک سے:۔ اس امت واحدہ کا طریق اور دین کیا تھا ؟ وہ تھا توحید خالص اور صرف اللہ اکیلے کی اطاعت اور بندگی۔ یہی چیز انسان کی فطرت میں ودیعت کی گئی تھی۔ علاوہ ازیں سب سے پہلے انسان ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام خود نبی تھے۔ لہذا آپ علیہ السلام کی ساری اولاد اور آپ علیہ السلام کی امت اسی دین پر قائم تھی۔ مگر موجودہ دور کے مغربی علماء (جنہیں ہم مسلمانوں نے آج کل ہر شعبہ علم میں انہیں اپنا استاد تسلیم کرلیا ہے) جب مذہب کی تاریخ لکھنے بیٹھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ انسان نے اپنی زندگی کا آغاز شرک کی تاریکیوں سے کیا، پھر اس پر کئی ادوار آئے اور بالآ خر انسان توحید کے مقام پر پہنچا ہے اور یہی نظریہ ہمارے ہاں کالجوں میں پڑھایا جاتا ہے اور یہ اسلام کے پیش کردہ نظریہ کے مطابق بالکل غلط ہے اور اس کی وجوہ درج ذیل ہیں۔ کہا یہ جاتا ہے کہ انسان کے اندر سب سے قدیم اور ابتدائی جذبہ خوف کا جذبہ ہے۔ یہ جذبہ ان ہولناک حوادثات کے مشاہدہ سے پیدا ہوا جو اس دنیا میں طوفانوں، زلزلوں اور وباؤں کی صورت میں آئے دن پیش آتے رہتے تھے۔ اس خوف کے جذبہ نے انسان کو ان ان دیکھی طاقتوں کی پرستش پر مجبور کیا۔ جن کو انسان نے ان حوادث کا پیدا کرنے والا خیال کیا۔ اس طرح انسان نے شرک سے دین کا آغاز کیا۔ یہ نظریہ اس لحاظ سے غلط ہے کہ دنیا میں زلزلے طوفان، سیلاب اور وبائیں کبھی کبھار آتی ہیں۔ جبکہ دنیا کی بہاریں انسان کی پیدائش سے پہلے ہی موجود بھی تھیں اور بکثرت بھی تھیں۔ درختوں کو پھل لگتے تھے، فصلیں اگتی تھیں، بارشیں ہوتی تھیں۔ چاندنی پھیلتی تھی، تارے چمکتے، پھول کھلتے تھے۔ گویا انسان کے رزق اور رزق کے علاوہ اس کے جمال اور خوش ذوقی کے سامان پہلے سے ہی بکثرت موجود تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ انسان نے اپنی زندگی کا آغاز کیا تو ربوبیت کی یہ برکتیں اور رحمت کی شانیں پہلے تھیں یا اتفاقی حوادث؟ یا یہ برکتیں تعداد میں زیادہ تھیں۔ یا ان کے مقابلہ میں اتفاقی حوادث؟ اور کیا ابتداًء انسان کو ایک رحمن ورحیم اور رزاق ہستی کے ان بے شمار انعامات کا معترف ہو کر جذبہ شکر سے اس کا دل معمور ہونا چاہیے تھا یا ابتداًء ہی اس پر حوادث کا خوف طاری ہونے لگا تھا ؟ جو شخص بھی ان باتوں پر ضد اور ہٹ دھرمی سے ہٹ کر غور کرے گا۔ وہ اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ فطرت انسانی کا اصلی رخ وہی ہے۔ جس کا پتہ قرآن کریم دے رہا ہے۔ نہ وہ جس کی طرف یہ مغربی علماء نشاندہی کرتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ خوف کا لفظ ہی پہلے سے کسی نعمت کی موجودگی پر دلالت کرتا ہے۔ خوف دراصل کسی ایسی نعمت کے چھن جانے کا نام ہے جو انسان کو عزیز بھی ہو اور پہلے سے مہیا بھی ہو۔ زلزلوں کا خطرہ ہو یا سیلابوں کا خوف ہو یا وباؤں کا ان سب میں کسی نہ کسی عزیز تر نعمت کے چھن جانے کا مفہوم پایا جاتا ہے، خواہ یہ نعمت انسان کی صحت ہو، یا رزق ہو۔ گویا ہر خوف سے پہلے کسی نعمت کا شعور لازمی چیز ہے اور جب نعمت کا شعور پایا گیا تو ایک منعم حقیقی کا شعور بھی لازمی ہوا اور پھر اس کی شکر گزاری کا جذبہ پیدا ہونا بھی ناگزیر ہوا۔ انسان کے مشاہدہ کائنات کی فطری راہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ انسان میں نعمتوں اور رحمتوں کی فراوانی اور اس کے مشاہدہ سے اس پر ایک منعم حقیقی کی شکرگزاری کا جذبہ اور احساس طاری ہوا پھر وہ اسی جذبہ کے تحت اس کی بندگی کی طرف مائل ہوا۔ رہا یہ سوال کہ جب ایک دفعہ انسان توحید کی شاہراہ پر گامزن ہوگیا تو پھر شرک کی راہوں پر کیسے جا پڑا تو اس کا سبب یہ ہرگز نہیں کہ اس کی فطرت میں کوئی خرابی موجود تھی بلکہ اس کی اصل وجہ انسان کی قوت ارادہ و اختیار کا غلط استعمال ہے کہ ان میں سے عیار لوگوں نے اپنے دنیوی مفادات کی خاطر کچھ غلط سلط عقائد گھڑ کر عوام الناس کو غلط راہوں پر ڈال دیا ہے۔ جب لوگوں میں اس قسم کا بگاڑ پیدا ہوگیا اور شرک نے کئی دوسری اخلاقی قدروں کو بھی بگاڑنا شروع کردیا تو اللہ نے پھر سے انبیاء کو مبعوث فرمانا شروع کردیا۔ ان سب انبیاء کی تعلیم ایک ہی تھی یعنی کائنات کی ہر ایک چیز کا اور انسانوں کا خالق، مالک اور رازق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ لہٰذا وہی اکیلا پرستش اور بندگی کے لائق ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اسی کی بندگی کرے اور اسی کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔ پھر جو لوگ اللہ کے احکام کو مان کر اس کی تعمیل کریں گے انہیں اچھا بدلہ ملے گا اور جو نافرمان اور مشرک ہوں گے انہیں سزا بھی ملے گی۔ اس جزا و سزا کے لیے اخروی زندگی اور اس پر ایمان لانا ناگزیر ہے اور یہ دنیا محض دارالامتحان ہے۔ دارالجزاء نہیں اور یہی کلیات دین ہر نبی پر نازل کئے جاتے رہے جو عقل سلیم کے عین مطابق ہے۔ [٢٨٢]اختلاف امت اور فرقہ پرستی :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حقیقت میں ہر نبی کی امت کی پوری داستان عروج و زوال بیان فرما دی ہے۔ عروج کا دور اس وقت ہوتا ہے جب تک یہ امت مجموعی طور پر متحد اور متفق رہے اور جب اس میں ایسے اختلاف پیدا ہوجائیں جو فرقہ بندی کی بنیاد بن جائیں تو بس سمجھئے کہ اس کے زوال کا آغاز ہوگیا اور یہ اختلاف اس وجہ سے نہیں ہوتے کہ کتاب اللہ میں حق بات کی پوری وضاحت نہیں ہوتی اور حق ان پر مشتبہ ہوجاتا ہے۔ بلکہ اس اختلاف اور فرقہ بندی کے اصل محرکات کچھ اور ہوتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں متعدد بار ایک جامع لفظ ﴿بَغْیًا بَیْنَھُمْ﴾ سے تعبیر فرمایا ہے۔ یعنی بعض لوگ حق کو جاننے کے باوجود اپنے جائز حق سے بڑھ کر امتیازات، فوائد اور منافع حاصل کرنا چاہتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے پر ظلم، سرکشی اور زیادتی کرنے سے دریغ نہیں کرتے تاکہ ان کا اپنا جھنڈا بلند ہو۔ بعض لوگ اپنے آباء کے دین کو اصل دین قرار دے لیتے اور اس پر مصر ہوجاتے ہیں یا کسی امام کے متبع امام کے قول کو حکم الٰہی پر ترجیح دینے پر اصرار کرتے ہیں تو اس طرح نئے نئے فرقے وجود میں آتے رہتے ہیں اور وحدت ملت پارہ پارہ ہوجاتی ہے اور یہی فرقے اس کے زوال کا سبب بن جاتے ہیں۔ فرقہ پرستی کاعلاج:۔ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ ایک نیا نبی مبعوث فرماتے رہے جو لوگوں کو اختلافی امور میں حق کا راستہ دکھلا کر انہی میں سے ایک نئی امت تشکیل کرتا اور لوگوں کو پھر سے ایک امت کی صورت میں متحد کردیتا۔ مگر امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔ کیونکہ آپ نے یہ بشارت دے دی ہے کہ ’’میری امت میں سے ایک فرقہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا۔ تاآنکہ قیامت آ جائے‘‘ (بخاری، کتاب الاعتصام، باب قول النبی لا تزال طائفہ من امتی۔۔) صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ’’وہ کونسا فرقہ ہوگا ؟ فرمایا جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں۔‘‘ (ترمذی، کتاب الایمان، باب افتراق ھذہ الامۃ) (نیز دیکھئے اسی سورۃ کا حاشیہ نمبر ٢٢٠) لہٰذا آج بھی فرقہ پرستی کا صرف یہی علاج ہے کہ ہر قسم کے تعصبات کو چھوڑ کر کتاب و سنت کی طرف رجوع کیا جائے۔ البقرة
214 [٢٨٣] مکی دور میں حکومت اور امن کی بشارت :۔ پھر جب کوئی نیا نبی مبعوث ہوتا ہے تو اسے کئی فرقوں میں بٹی ہوئی امت کو پھر سے ایک طریقہ پر لانے اور ایک امت بنانے پر بہت محنت صرف کرنا پڑتی ہے اور بہت سے مصائب اور دشواریاں پیش آتی ہیں۔ انبیاء کو بھی اور ان لوگوں کو بھی جو ابتدءً انبیاء کا ساتھ دیتے ہیں۔ کیونکہ باطل قوتیں جو مالی اور افرادی قوت کے لحاظ سے اس نئے نبی اور اس کے چند پیروؤں سے بہت زیادہ طاقتور ہوتی ہیں ان کے مقابلہ پر اتر آتی ہیں اور کچل دینے سے بھی دریغ نہیں کرتیں اور یہ مصائب اتنے شدید ہوتے ہیں کہ بعض دفعہ انبیاء اور ان کے متبعین بہ تقاضائے بشریت پکار اٹھتے ہیں کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کا شکوہ : چنانچہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کعبہ کی دیوار کے سایہ میں اپنی چادر کو تکیہ بنا کر بیٹھے تھے تو سیدنا خباب بن ارت رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ’’ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اللہ تعالیٰ سے دعا کیوں نہیں کرتے؟‘‘ یہ سنتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تکیہ چھوڑ کر سیدھے بیٹھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ غصہ سے سرخ ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ” تم سے پہلے ایسے لوگ گزر چکے ہیں۔ جن کے گوشت اور پٹھوں میں ہڈیوں تک لوہے کی کنگھیاں چلائی جاتی تھیں مگر وہ اپنے سچے دین سے نہیں پھرتے تھے اور آرا ان کے سر کے درمیان رکھ کر چلایا جاتا اور دو ٹکڑے کردیے جاتے مگر وہ اپنے سچے دین سے نہیں پھرتے تھے اور اللہ اپنے اس کام کو ضرور پورا کر کے رہے گا۔ یہاں تک کہ ایک شخص صنعا سے سوار ہو کر حضرموت تک چلا جائے گا، اور اللہ کے سوا اس کو کسی کا ڈر نہ ہوگا۔‘‘ (بخاری۔ کتاب المناقب باب مالقی النبی واصحابہ من المشرکین بمکۃ) اور بخاری ہی کی ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں ” مگر تم لوگ تو جلدی مچاتے ہو۔“ پرامن زندگی کی بشارت :۔ اس حدیث میں مسلمانوں کے لیے کئی بشارتیں ہیں۔ مثلاً یہ کہ کافروں کی ضرر رسانی اور ایذا دہی کا دور عنقریب ختم ہونے والا ہے۔ پھر تمہاری اپنی حکومت قائم ہوگی جس میں ہر ایک کو پرامن زندگی بسر کرنا میسر آئے گی۔ کسی چور، ڈاکو، لٹیرے کو یہ جرأت نہ ہوگی کہ وہ دوسرے کے مال کی طرف نظر بھر کر دیکھ بھی سکے۔ البقرة
215 [٢٨٤] انفاق سبیل اللہ میں ترتیب: بعض مالدار صحابہ (مثلاً عمرو بن الجموح وغیرہ) نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا تھا جس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی اور یہ تو ظاہر ہے کہ یہ سوال نفلی صدقات کے متعلق ہی ہو سکتا ہے انفاق فی سبیل اللہ کے بارے میں تین سوالات ہی ہو سکتے ہیں (1) کتنا خرچ کیا جائے؟ (2) کس کس پر خرچ کیا جائے؟ اور (3) کن اشیاء میں سے خرچ کیا جائے؟ فرضی صدقہ (یعنی زکوٰۃ) کے بارے میں ان تینوں سوالوں میں سے دوسرے سوال کا جواب جو سب سے اہم تھا جو قرآن کریم نے خود بالتفصیل دے دیا ہے (9: 60) باقی دو سوالوں کا جواب سنت میں بالتفصیل مذکور ہے یہاں نفلی صدقہ میں بھی سب سے پہلے اسی دوسرے اہم سوال کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ کہ کن کن کو دیا جائے۔ نفلی صدقات اور فرضی صدقات کے مصارف میں فرق ہے۔ کیونکہ نفلی صدقات کا تعلق انفرادی معاملات سے ہے اور زکوٰۃ کے مصارف کا تعلق اجتماعی معاملات سے بہرحال انفرادی اور نفلی صدقہ کے خرچ کے بارے میں بتایا گیا کہ سب سے پہلے حقدار والدین ہوتے ہیں۔ اس کے بعد درجہ بدرجہ اقارب، یتیم، فقراء اور مسافر وغیرہ۔ نیز فرمایا کہ جو کچھ بھی تم خرچ کرو، خواہ زیادہ ہو یا کم، معاشرہ ے ان افراد کو تمہیں ملحوظ رکھنا چاہیے اور اسی ترتیب سے ملحوظ رکھنا چاہیے جو یہاں بیان کی جا رہی ہیں۔ البقرة
216 [٢٨٥]جہاد کےفوائداوراہمیت : مکی دور میں بعض جوشیلے مسلمان جہاد کی اجازت مانگتے رہے مگر انہیں جہاد کی بجائے صبر کی تلقین کی جاتی رہی اور یہاں مدینہ میں آ کر جب اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت دی اور جہاد فرض کیا گیا تو بعض مسلمانوں نے اسے دشوار سمجھا۔ کیونکہ ہر معاشرہ میں تمام آدمی ایک ہی جیسے نہیں ہوتے، بعض جوشیلے، دلیر اور جوان بہت ہوتے ہیں تو بعض بوڑھے کمزور اور کم ہمت بھی ہوتے ہیں۔ یہ خطاب اسی دوسری قسم کے لوگوں سے ہے اور انہیں سمجھایا جا رہا ہے کہ جو چیز تمہیں بری معلوم ہوتی ہے، ہوسکتا ہے وہ فی الحقیقت بری نہ ہو، بلکہ تمہارے حق میں بہت مفید ہو اور اس کے برعکس بھی معاملہ ہوسکتا ہے اور بالخصوص یہ بات جہاد کے سلسلہ میں اس لیے کہی گئی کہ قتال سے ہر انسان کی طبیعت طبعاً نفرت کرتی ہے کیونکہ زندگی سے پیار ہر جاندار کی فطرت میں طبعاً داخل ہے اور بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جہاد میں جان و مال کا نقصان ہوگا۔ حالانکہ یہی جہاد کسی قوم کی روح رواں ہوتی ہے۔ شہید کی موت قوم کی حیات ہے۔ اسی لیے کتاب و سنت میں جہاد کو بہت افضل عمل قرار دیا گیا ہے اور بعض لوگ تو اسے اس قدر اہمیت دیتے ہیں کہ جہاد کو فرض کفایہ کی بجائے فرض عین سمجھنے لگے ہیں اور اسے اسلام کا چھٹا رکن سمجھتے ہیں۔ لیکن ان کا انداز فکر درست نہیں۔ جہاد افضل الاعمال ہونے کے باوجود نہ فرض عین ہے اور نہ اسلام کا چھٹا رکن (تفصیل کے لیے دیکھئے سورۃ نساء کی آیت نمبر ٩٦ اور سورۃ توبہ کی آیت نمبر ٩٢ کے حواشی) البقرة
217 [٢٨٦]حرام مہینوں میں لڑائی :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آٹھ آدمیوں پر مشتمل ایک دستہ جمادی الثانی ٢ ھ کے آخر میں نخلہ کی طرف بھیجا (جو مکہ اور طائف کے درمیان ایک مقام ہے) تاکہ کفار مکہ کی نقل و حرکت کے متعلق معلومات حاصل کرے۔ کیونکہ ان کی طرف سے مدینہ پر چڑھائی کا ہر آن خطرہ موجود تھا اس دستہ کو کفار کا ایک تجارتی قافلہ ملا۔ جس پر انہوں نے حملہ کردیا اور ایک آدمی کو قتل کردیا اور باقی لوگوں کو گرفتار کر کے مال سمیت مدینہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے آئے جس کا آپ کو افسوس ہوا۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف معلومات حاصل کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ لڑنے کے لیے نہیں بھیجا تھا اور جس دن یہ لڑائی کا واقعہ ہوا اس دن مسلمانوں کے خیال کے مطابق تو ٣٠ جمادی الثانی تھا مگر حقیقتاً وہ دن یکم رجب ٢ ھ تھا۔ اب کفار مکہ اور یہود اور دوسرے اسلام دشمن لوگوں نے ایک طوفان کھڑا کردیا کہ دیکھو کہ یہ لوگ جو بڑے اللہ والے بنتے ہیں۔ ماہ حرام میں بھی خونریزی سے نہیں چوکتے۔ اسی پروپیگنڈہ کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ماہ حرام میں لڑنا فی الواقع بڑا گناہ ہے، مگر جو کام تم کر رہے ہو اور کرتے رہے ہو وہ تو اس گناہ سے بھی شدید جرائم ہیں۔ تم اسلام کی راہ میں روڑے اٹکاتے اور مسلمانوں کو ایذائیں دیتے ہو۔ اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہو۔ مسلمانوں کے مسجد میں داخلہ پر پابندیاں لگا رکھی ہیں اور تم نے مسلمانوں پر عرصہ حیات اس قدر تنگ کردیا کہ وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر یہاں سے نکل جانے پر مجبور ہوگئے۔ یہ سب جرائم ماہ حرام میں لڑائی کرنے سے بڑے جرائم ہیں۔ علاوہ ازیں جو فتنہ انگیزی کی مہم تم نے چلا رکھی ہے وہ تو قتل سے کئی گنا بڑا جرم ہے (یاد رہے کہ فتنہ سے یہاں مراد ایسی ہر قسم کی مزاحمت ہے جو ان لوگوں نے اسلام کی راہ روکنے کے لیے اختیار کر رکھی تھی) تمہیں اپنی آنکھ کا تو شہتیر بھی نظر نہیں آتا، اور مسلمانوں سے اگر غلط فہمی کی بنا پر یہ لڑائی ہوگئی تو تم نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔ [٢٨٧] یعنی ان معاندین اسلام کے نزدیک تمہارا اصل جرم یہ نہیں کہ تم نے ماہ حرام میں لڑائی کی ہے بلکہ یہ ہے کہ تم مسلمان کیوں ہوئے اور اب تک کیوں اس پر قائم ہو اور اس وقت تک مجرم ہی رہو گے جب تک یہ دین چھوڑ نہ دو اور حقیقتاً وہ یہی کچھ چاہتے ہیں، یہ تمہارے بدترین دشمن ہیں۔ لہذا ان سے ہشیار رہو۔ [٢٨٨] یعنی جس طرح اسلام لانے سے سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح اسلام سے پھر جانے سے پہلے سے کی ہوئی تمام نیکیاں بھی برباد ہوجاتی ہیں۔ الا یہ کہ پھر توبہ کر کے مسلمان ہوجائے اور جب نیکیاں برباد ہوگئیں تو باقی صرف گناہ ہی گناہ ہوں گے، جس کا خمیازہ انہیں دائمی عذاب جہنم کی صورت میں بھگتنا پڑے گا۔ البقرة
218 [٢٨٩] یہ آیت دراصل مجاہدین کے اسی دستہ کے متعلق ہے جنہیں نخلہ کی طرف بھیجا گیا تھا۔ ان مجاہدین کو یہ تردد تھا کہ آیا اس جہاد کا ثواب بھی ملتا ہے یا نہیں۔ کیونکہ اس میں دو غلطیاں ہوگئیں تھیں ایک یہ کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجازت کے بغیر جہاد کیا تھا دوسری غلطی یہ کہ یکم رجب کو لڑائی کی جس کا انہیں علم نہ ہوسکا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا انہیں اللہ کی رحمت کا امیدوار ہونا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ غلطیوں کو معاف کردینے والا ہے۔ مہربان ہے۔ جہاد کی تعریف اور غرض وغایت:۔جہاد دراصل ہر اس کوشش کا نام ہے جو اسلام کی راہ میں مزاحم ہونے والی رکاوٹوں کو دور کردے۔ اگر کوئی شخص ذہن سے اس قسم کی تدابیر سوچتا ہے یا کافروں کی تدابیر کا توڑ سوچتا ہے تو یہ بھی جہاد ہے اور اگر شخص زبان یا قلم سے اس مقصد پر دوسروں کو آمادہ کرتا ہے یا معاندین اسلام کے اعتراضات کی تردید کرتا ہے اور انہیں جواب دیتا ہے تو یہ بھی جہاد ہے یعنی ہر امکانی کوشش کو اس مقصد میں صرف کردینے کا نام جہاد ہے اور اس کی آخری حد یہ ہے کہ اگر جان کی بازی لگانے کی ضرورت پیش آئے تو اس سے بھی دریغ نہ کرے اور جہاد کی غرض و غایت یہ ہے کہ دوسرے تمام ادیان کے مقابلہ میں اللہ کا کلمہ بلند ہو اور اسی کا بول بالا ہو۔ اس غرض کے علاوہ اور کسی بھی مقصد کے لیے جنگ کی جائے تو اسے جنگ یا قتال تو کہہ سکتے ہیں۔ جہاد فی سبیل اللہ نہیں کہہ سکتے۔ چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک گنوار (لاحق بن ضمیرہ باہلی) آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! کوئی شخص لوٹ حاصل کرنے کے لیے لڑتا ہے، کوئی ناموری کے لیے، کوئی اپنی بہادری جتانے کے لیے اور کوئی حمیت (قومی یا قبائلی) کے لیے لڑتا ہے تو ان میں سے اللہ کی راہ میں کون لڑتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر مبارک اوپر اٹھایا (کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھے تھے وہ کھڑے کھڑے سوال کر رہا تھا) اور فرمایا : جو کوئی اس نیت سے لڑے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو، اللہ کی راہ میں وہی لڑتا ہے۔ (بخاری کتاب الجہاد، باب من قاتل لتکون کلمۃ اللہ ھی العلیا) اس مضمون کی اور بھی احادیث بخاری اور مسلم میں مذکور ہیں۔ جن کے استقصاء سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ میں شرکت کے لیے عوام الناس میں مندرجہ ذیل پانچ قسم کے محرکات ہی پائے جا سکتے ہیں۔ ١۔ بعض لوگ اس لیے لڑتے ہیں کہ لوٹ مار سے مال ہاتھ آئے گا یا اموال غنیمت کے علاوہ دوسرے دنیوی مفادات حاصل ہوں گے۔ ٢۔ کچھ اس وجہ سے لڑتے ہیں کہ ان کا نام تاریخ میں ثبت ہوگا۔ ٣۔ کچھ اس لیے لڑتے ہیں کہ لوگ ان کے بہادری کے کارنامے فخریہ طور پر بیان کریں گے۔ ٤۔ کچھ اپنے کسی خون یا پہلی شکست کا بدلہ لینے کے لیے انتقام کے طور پر لڑتے ہیں۔ ٥۔ اور کچھ لوگ اپنے وطن، قوم اور قبیلہ کی حمایت میں لڑتے ہیں۔ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آج کی متمدن دنیا میں بھی انسان کی ذہنی سطح اس مقام سے ذرہ بھر بھی بلند نہیں ہوسکی۔ صرف انداز و اطوار ہی بدلے ہیں مقاصد کے لحاظ سے انہی مندرجہ بالا وجوہ میں سے کوئی نہ کوئی بات نظر آئے گی۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سب مقاصد کے علاوہ ایک بلند تر مقصد کا پتہ دیا کہ جہاد فی سبیل اللہ صرف وہ کہلا سکتا ہے، جو اعلائے کلمۃ اللہ یعنی اللہ کا بول بالا کرنے کے لیے لڑا جائے، بالفاظ دیگر دنیا سے فتنہ و فساد ختم کر کے اسے احکام و فرامین الٰہی کے سامنے سر جھکا دینے کا نام جہاد فی سبیل اللہ ہے جس میں انسان کی اپنی کسی ذاتی خواہش کو ذرہ بھر بھی دخل نہ ہونا چاہیے۔ جنگ کے متعلق یہ تصور دنیا بھر کے لیے ایک انوکھا تصور تھا۔ حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تربیت یافتہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ بھی ابتداء میں اس تصور جہاد پر بہت متعجب ہوئے۔ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھا :’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! جو شخص مالی فائدے یا ناموری کے لیے جنگ کرتا ہے اسے کیا ملے گا ؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اسے کچھ نہیں ملے گا۔‘‘ سائل اس سوال پر بہت متعجب ہوا اور آ کر دوبارہ یہی سوال کیا، آپ نے دوبارہ وہی جواب دیا۔ اس کا اطمینان اب بھی نہ ہوا، سہ بارہ اور چوتھی بار پلٹ کر آیا اور یہی سوال کرتا رہا : آپ نے اس کے تعجب کی وجہ بھانپ کر فرمایا ’’اللہ کوئی عمل اس وقت تک قبول نہیں کرتا جب تک وہ خاص اس کی خوشنودی اور رضا کے لیے نہ کیا جائے۔‘‘ (نسائی۔ کتاب الجہاد، باب من غزایلتمس الاجر) البقرة
219 [٢٩٠] یہ شراب کے متعلق ابتدائی حکم ہے۔ جس میں صرف شراب سے نفرت دلانا مقصود تھا اس کے بعد دوسرے حکم میں یہ بتلایا گیا کہ نشہ کی حالت میں نماز ادا کرنا منع ہے۔ پھر تیسری بار آخری حکم سورۃ مائدہ کی آیت نمبر ٩٠ میں ہے۔ جس میں شراب، جوا اور اس قبیل کی دوسری چیزوں کو قطعی طور پر حرام کیا گیا ہے کہ اگرچہ شراب کے پینے سے وقتی طور پر کچھ سرور حاصل ہوجاتا ہے۔ تاہم اس کے اور جوا کے نقصانات اس کے فائدہ سے بہت زیادہ ہیں۔ مثلاً شراب پینے سے انسان کی عقل مخمور ہوجاتی ہے اور یہی خرابی کئی طرح کے فتنہ و فساد کا سبب بن جاتی ہے۔ اسی طرح جوئے میں مفت مال ملنے سے خوشی حاصل ہوتی ہے مگر یہی چیزیں بعد میں کئی مفاسد، جھگڑوں اور دشمنیوں کا سبب بن جاتی ہے، لہذا ان سے بچنا ہی بہتر ہے۔ [٢٩١] یعنی ضرورت سے زائد سارا مال خرچ کردینا نفلی صدقات کی آخری حد ہے۔ ایسا نہ ہونا چاہیے کہ انسان سارے کا سارا مال اللہ کی راہ میں خرچ کر دے اور بعد میں خود محتاج ہوجائے چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بہترین صدقہ وہ ہے جس کے بعد آدمی محتاج نہ ہوجائے اور ابتدا ان لوگوں سے کرو جو تمہارے زیر کفالت ہیں۔ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب لا صدقہ الا عن ظھر غنی) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک سفر کے دوران فرمایا۔ جس کے پاس زائد سواری ہو وہ اسے دے دے، جس کے پاس سواری نہیں اور جس کے پاس زائد زاد راہ ہے وہ اسے دے دے جس کے پاس زاد راہ نہیں ہے۔ غرض یہ کہ آپ نے مال کی ایک ایک قسم کا ایسے ہی جدا جدا ذکر کیا۔ حتیٰ کہ ہم یہ سمجھنے لگے کہ اپنے زائد مال میں ہمارا کوئی حق نہیں ہے۔ (مسلم، کتاب اللقطۃ، باب الضیافة ونحوھا نیز باب استحباب المواسات بفضول المال) صدقہ کی آخری حد:۔اور صدقہ کی کم ازکم حد فرضی صدقہ یعنی زکوٰۃ ہے۔ جو کفر اور اسلام کی سرحد پر واقع ہے بالفاظ دیگر زکوٰۃ ادا نہ کرنے والا کافر ہے مسلمان نہیں جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایسے لوگوں سے جہاد کیا تھا اور ان دونوں حدوں کے درمیان وسیع میدان ہے اور اہل خیر جتنی چاہیں نیکیاں کما سکتے ہیں۔ انفرادی حق ملکیت اور اشتراکی نظریہ کی تردید:۔اشتراکی ذہن رکھنے والے حضرات نے ''العفو'' کے مفہوم کو سخت غلط معنی پہنائے ہیں۔ حالانکہ آیت سے صاف واضح ہے کہ سوال کرنے والے خود اپنے اموال کے مالک تھے اور اپنی مرضی سے ہی ان اموال میں تصرف کی قدرت رکھتے تھے۔ لہٰذا جو نظریہ اس آیت سے کشید کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ آیت اس کی قطعاً متحمل نہیں۔ اشتراکی نظریہ کے مطابق ہر چیز کی مالک حکومت ہوتی ہے اور اشتراکی حکومت میں انفرادی ملکیت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر کسی کی ذاتی ملکیت ہی نہ ہو تو وہ پس انداز کیا کرے گا اور خرچ کیا کرے گا اور انفاق کے متعلق سوال کیا پوچھے گا ؟ گویا جس آیت سے اشتراکی نظریہ کشید کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ وہی آیت اس نظریہ کی تردید پر بڑی واضح دلیل ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ کے متعلق سائلین نے سوال اس وقت کیا تھا۔ جب جہاد کے لیے مصارف کی شدید ضرورت تھی، جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے۔ اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے حکومت کو یہ اختیار نہیں دیا کہ لوگوں سے ان کے سب زائد اموال چھین لیے جائیں بلکہ مسلمانوں کی تربیت ہی اس انداز سے کی جا رہی ہے کہ وہ اپنے ارادہ و اختیار کے ساتھ اگر سارے کا سارا زائد مال دے دیں تو یہ سب سے بہتر اور مسلمانوں کے اللہ پر توکل کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ لیکن جو مسلمان اپنا سارا زائد مال نہیں دے سکتے یا نہیں دینا چاہتے ان پر بھی کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی اور اشتراکی نظریہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ جو حالات جنگ تو درکنار عام حالات میں بھی لوگوں کو حق ملکیت سے محروم کردیتا ہے۔ ایسے انفاق فی سبیل اللہ کی واضح مثال جنگ تبوک کے موقعہ پر سامنے آتی ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے زیادہ سے زیادہ مال دینے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ عمر رضی اللہ عنہ اس وقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نسبت مالدار تھے۔ دل میں خیال آیا کہ آج اپنے تمام تر اثاثہ کا نصف حصہ خرچ کر کے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پر سبقت لے جائیں گے۔ چنانچہ جب اپنا مال لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے پوچھا عمر! کیا کچھ لائے؟ عرض کیا کہ اپنے تمام اموال کا نصف حصہ بانٹ کرلے آیا ہوں۔ پھر اس کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھوڑا سا مال لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان سے بھی وہی سوال کیا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ! کیا کچھ لائے؟ عرض کیا سب کچھ ہی لے آیا ہوں۔ گھر میں بس اللہ اور اس کے رسول کا نام ہی باقی ہے۔ یہ جواب سن کر عمر رضی اللہ عنہ کو یقین ہوگیا کہ کثرت مال کے باوجود حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے سبقت نہیں لے جا سکتے۔ (ابو داؤد، کتاب الزکوٰۃ۔ باب الرجل یخرج من مالہ) یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ آپ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا سارے کا سارا مال قبول فرما لیا۔ حالانکہ آپ کا ارشاد ہے کہ’’صدقہ وہ بہتر ہے جس کے بعد آدمی خود محتاج نہ بن جائے۔‘‘(بخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب لاَصَدَقَۃَ الاَّ عَنْ ظَھْرِ غِنًی) تو اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اللہ پر توکل بے مثال تھا جسے آپ پوری طرح سمجھتے تھے۔ اب اس کے مقابلہ میں ایک دوسرا واقعہ بھی ملاحظہ فرمائیے۔ اسی موقع پر ایک شخص ایک انڈا بھر سونا لایا اور کہنے لگا، مجھے یہ کان سے ملا ہے اور یہ صدقہ ہے اور اس کے علاوہ میرے پاس کچھ نہیں، آپ نے اس سے اعراض کیا تو اس شخص نے دائیں ہو کر یہی بات دہرائی تو بھی آپ نے اعراض کیا، پھر بائیں طرف، پھر پیچھے ہو کر یہی بات دہراتا رہا۔ آخر آپ نے وہ سونا پکڑا پھر اسے ہی دے دیا اور فرمایا۔ ’’یہ تمہارے لیے ہے ہمیں اس کی ضرورت نہیں۔‘‘ جب وہ چلا گیا تو آپ نے فرمایا : تم میں سے ایک شخض آ کر کہتا ہے کہ یہ صدقہ ہے پھر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے لگتا ہے اس موقعہ پر بھی آپ نے یہ ارشاد فرمایا کہ ’’بہترین صدقہ وہ ہے جس کے بعد آدمی محتاج نہ ہوجائے۔‘‘ (ابو داؤد، کتاب الزکوٰۃ، باب الرجل یخرج من مالہ) اس شخص کا صدقہ قبول نہ کرنے کی وجہ بھی اس حدیث میں مذکور ہے۔ یہ سب واقعات سامنے رکھ کر بتلایئے کہ کیا قل العفو سے اشتراکی نظریہ کشید کرنے کی گنجائش نظر آتی ہے؟ [٢٩٢] یعنی تمہاری دنیوی ضروریات حقیقتاً کیا ہیں؟ اور آخرت میں صدقہ کا جو اجر عظیم تمہیں ملے گا۔ ان دونوں باتوں کا لحاظ رکھ کر تمہیں سوچنا چاہیے۔ البقرة
220 [٢٩٣]یتیموں کی تربیت اورخیرخواہی :۔ اس سے پیشتر یتیموں کے بارے میں دو حکم نازل ہوچکے تھے۔ ایک یہ کہ ’’یتیموں کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ۔‘‘ (٦: ١٥٢) اور دوسرا یہ کہ ’’جو لوگ یتیموں کا مال کھاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں۔‘‘ (٤ : ١٠) لہٰذا مسلمان یتیموں کے بارے میں سخت محتاط ہوگئے اور ان کے مال اپنے مال سے بالکل الگ کردیئے کہ اسی سے ان کا کھانا پینا اور دوسری ضروریات پوری کی جائیں۔ مگر اس طرح بھی یتیموں کا بعض صورتوں میں نقصان ہوجاتا تھا۔ مثلاً ان کے لیے کھانا پکایا، جو کھانا بچ جاتا وہ ضائع ہوجاتا، ایسی ہی صورت حال سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا گیا۔ جس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ اصل میں تو یتیموں کی اصلاح اور بھلائی مقصود ہے جس صورت میں وہ میسر آئے وہ تم اختیار کرسکتے ہو۔ اگر تم ان کا مال اپنے مال میں ملانا مناسب سمجھتے ہو تو بھی کوئی حرج نہیں، آخر وہ تمہارے ہی بھائی ہیں۔ یعنی تم ان کا مال ملا بھی سکتے ہو، الگ بھی کرسکتے ہو، کچھ مال ملا لو یا بعض حالتوں میں ان کا مال الگ کر دو، ہر صورت درست ہے۔ بشرطیکہ تمہاری اپنی نیت بخیر ہو اور اصل مقصود یتیم کی بھلائی ہو اور اللہ اسے خوب جانتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو کئی طرح کی پابندیاں عائد کر کے تم پر سختی کرسکتا تھا۔ یہ اس کی حکمت اور رحمت ہے کہ اس نے تمہیں ہر طرح کی صورت حال کی اجازت دے دی ہے۔ البقرة
221 [٢٩٤] مشرکہ سےنکاح کیوں ممنوع ہے؟کیونکہ مرد اور عورت کے درمیان نکاح کا تعلق محض شہوانی تعلق ہی نہیں جیسا کہ بادی النظر میں معلوم ہوتا ہے بلکہ اس تعلق کے اثرات بڑے دور رس ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کے دماغ اخلاق اور تمدن پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ مثلاً ایک مومن ایک مشرکہ سے نکاح کرتا ہے تو اگر وہ مومن اپنے ایمان میں پختہ، علم میں بیوی سے فائق تر اور عزم کا پکا ہوگا تو اس صورت میں وہ اپنی بیوی کی اور کسی حد تک اپنے سسرال والوں کی اصلاح کرسکتا ہے۔ ورنہ عموماً یوں ہوتا ہے کہ مرد مغلوب اور عورت اس کے افکار پر غالب آ جاتی ہے اور اگر دونوں اپنی اپنی جگہ پکے ہوں تو ان میں ہر وقت معرکہ آرائی ہوتی رہے گی اور اگر دونوں ڈھیلے ہوں تو وہ دونوں شرک اور توحید کے درمیان سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہوں گے اور یہ صورت اسلامی نقطہ نظر سے قطعاً گوارا نہیں اور ایسی صورت کو بھی شرک ہی قرار دیا گیا ہے اور اگر مرد مشرک اور بیوی موحد ہو تو شرک کے خطرات مزید بڑھ سکتے ہیں۔ لہذا نقصان کے احتمالات زیادہ ہونے کی بنا پر ایسے نکاح کو ناجائز قرار دیا گیا اور فرمایا کہ ظاہری کمال و محاسن دیکھنے کی بجائے صرف ایمان ہی کو شرط نکاح قرار دیا جائے ضمناً اس سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ نکاح کے بعد کوئی ایک فریق مشرک ہوجائے تو سابقہ نکاح از خود ٹوٹ جائے گا۔ البقرة
222 [٢٩٥] اذی کا معنی تکلیف، بیماری اور گندگی بھی ہے۔ چنانچہ طبی حیثیت سے حیض کے دوران عورت کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ صحت کی نسبت بیماری سے زیادہ قریب ہوتی ہے۔ حیض کی مدت ہر عورت کے جسم اور اس کے مزاج کے لحاظ سے کم و بیش ہوتی ہے جو عموماً کم ازکم تین دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن تک ہو سکتی ہے اور اپنی اپنی عادت (مدت حیض) کا ہر عورت کو علم ہوتا ہے۔ [٢٩٦] ''الگ رہو'' اور '' قریب نہ جاؤ۔'' ان دونوں سے مراد مجامعت کی ممانعت ہے۔ یہود و نصاریٰ دونوں اس معاملہ میں افراط و تفریط کا شکار تھے۔ یہود تو دوران حیض ایسی عورتوں کو الگ مکان میں رکھتے اور ان کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا بھی نہ کھاتے تھے اور نصاریٰ دوران حیض مجامعت سے بھی پرہیز نہ کرتے تھے۔ چنانچہ مسلمانوں نے آپ سے اس بارے میں پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اس آیت کی رو سے خاوند اور بیوی دونوں اکٹھے مل کر رہ سکتے ہیں اکٹھا کھانا کھا سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ میاں اپنی بیوی کا بوسہ لے سکتا ہے، اس کے گلے لگ سکتا ہے اور اس سے چمٹ بھی سکتا ہے (اور یہی مباشرت کا لغوی معنی ہے) اور قرآن میں جو کسی دوسرے مقام پر (باشروھن) مجامعت کے معنوں میں آیا ہے تو وہ کنائی معنی ہے لغوی نہیں بس صرف مجامعت نہیں کرسکتا۔ حیض کے دوران عورت جو کام نہیں کرسکتی، وہ درج ذیل ہیں۔ ١۔حیض میں پابندیاں :۔ وہ نماز نہیں پڑھ سکتی اور حیض کے دوران اسے نماز معاف ہے، ان کی قضا اس پر واجب نہیں۔ ٢۔ وہ روزے بھی نہیں رکھ سکتی۔ لیکن روزے اسے معاف نہیں بلکہ بعد میں ان کی قضا دینا واجب ہے۔ ٣۔ وہ ماسوائے طواف کعبہ کے حج کے باقی سب ارکان بجا لا سکتی ہے اور واجب طواف کعبہ کے لیے اسے اس وقت تک رکنا پڑے گا جب تک پاک نہ ہو لے۔ ٤۔ وہ کعبہ میں یا کسی بھی مسجد میں داخل نہیں ہو سکتی۔ ٥۔ وہ قرآن کو چھو نہیں سکتی۔ البتہ زبانی قرآن کریم کی تلاوت کی اسے اکثر علماء کے نزدیک اجازت ہے۔ ٦۔ استحاضہ حیض سے بالکل الگ چیز ہے۔ استحاضہ بیماری ہے جبکہ حیض بیماری نہیں بلکہ عورت کی عادت میں شامل ہے۔ لہذا استحاضہ میں وہ تمام پابندیاں اٹھ جاتی ہیں۔ جو حیض کی صورت میں تھیں، حتیٰ کہ اس سے صحبت بھی کی جا سکتی ہے۔ [٢٩٧] یہاں حکم سے مراد کوئی ایسا شرعی حکم نہیں جس کا بجا لانا ضروری ہو، بلکہ وہ طبعی حکم مراد ہے جو ہر جاندار کی فطرت میں ودیعت کردیا گیا ہے اور جس سے ہر متنفس بالطبع واقف ہوتا ہے۔ اس کے خلاف کرے یعنی دبر میں جماع کرے تو وہ مجرم ہوگا۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے۔ ﴿ فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَاۗءَ ذٰلِکَ فَاُولٰۗیِٕکَ ہُمُ الْعٰدُوْنَ﴾ ( المؤمنون :7) البقرة
223 [٢٩٨] اس آیت کے شان نزول میں دو طرح کی احادیث آئی ہیں۔ ایک یہ کہ یہودی کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس اس کے پیچھے سے آئے تو بچہ بھینگا ہوتا ہے (ان کے اس خیال کی تردید میں) یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری، کتاب التفسیر زیر آیت مذکورہ- مسلم، کتاب النکاح، باب جواز جماعہ امراتہ فی قبلھا من قدامھا و من ورائھا من غیر تعرض للدبر) دوسری یہ کہ عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ کر کہنے لگے کہ : ’’میں ہلاک ہو گیا‘‘ آپ نے پوچھا : ’’تجھے کس چیز نے ہلاک کیا ؟‘‘ کہنے لگے: میں نے آج اپنی سواری پھیر لی۔ آپ نے کچھ جواب نہ دیا تاآنکہ آپ پر یہ آیت نازل ہوئی (پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا) ’’ آگے سے صحبت کرو یا پیچھے سے مگر دبر میں یا حیض کی حالت میں مجامعت نہ کرو۔‘‘ (ترمذی، ابو اب التفسیر، زیر آیت مذکورہ) گویا اس آیت میں بیوی کو کھیتی سے تشبیہ دے کر یہ واضح کردیا کہ نطفہ جو بیج کی طرح ہے صرف سامنے (فرج) ہی میں ڈالا جائے۔ خواہ کسی بھی صورت میں ڈالا جائے، لیٹ کر، بیٹھ کر، پیچھے سے بہرحال فرج ہی میں ڈالا جائے اور پیداوار یعنی اولاد حاصل کرنے کی غرض سے ڈالا جائے۔ [٢٩٩]مجامعت کامقصد:۔ یعنی اولاد کی خاطر اور اپنی نسل برقرار رکھنے کے لیے یہ کام کرو۔ تاکہ تمہارے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد تمہاری جگہ پر دین کا کام کرنے والے موجود ہوں اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اپنی اولاد کی صحیح طور پر تربیت کرو انہیں علم سکھلاؤ اور دیندار بناؤ ان کے اخلاق سنوارو اور اس کے عوض آخرت میں اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب کی امید رکھو۔ البقرة
224 [٣٠٠]غلط کام کی قسم توڑنا اورا س کاکفارہ:۔ یعنی کوئی اچھا کام نہ کرنے پر اللہ کی قسم کھا کر اللہ کے نام کو بدنام نہ کرو جیسے یہ قسم کہ میں اپنے ماں باپ سے نہ بولوں گا یا بیوی سے اچھا سلوک نہ کروں گا یا فلاں کو صدقہ نہ دوں گا یا یہ کہ اب میں کسی کے درمیان مصالحت نہ کراؤں گا۔ یعنی برائی کے کاموں میں اللہ کے نام کا استعمال مت کرو اور اگر کسی نے یہ کام کیا ہو تو اسے چاہیے کہ قسم توڑ ڈالے اور اس کا کفارہ ادا کرے۔ چنانچہ آپ نے حضرت عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ اگر تو کسی بات کی قسم کھائے پھر اس کے خلاف کرنا بہتر سمجھے تو اپنی قسم کا کفارہ ادا کر اور جس کام کو بہتر سمجھے وہی کر۔ (بخاری، کتاب الایمان والنذور) البقرة
225 [٣٠١] اور اگر کفارہ ادا کر دے تو اس صورت میں بھی اللہ بخشنے والا ہے اور بلا ارادہ قسمیں کھانے پر مواخذہ کرنے پر بھی، قسم کا کفارہ ایک دوسرے مقام پر مذکور ہے کہ دس مسکینوں کو کھانا کھلائے یا انہیں پوشاک مہیا کرے یا غلام آزاد کرے یا تین دن کے روزے رکھے۔ (٨٩؍٥) البقرة
226 [٣٠٢] مطلقہ کی مدت:۔ایلاء (اپنی بیویوں سے تعلق نہ رکھنے کی قسم کھانا) کی مدت چار ماہ ہے۔ مثلاً اگر کسی نے تین ماہ تعلق نہ رکھنے کی قسم کھائی تو یہ شرعاً ایلاء نہ ہوگا۔ اب آگے اس کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ تین ماہ کے اندر صحبت کرلی، تو اب اس پر قسم کا کفارہ دینا ہوگا اور اگر تین ماہ کے بعد کی تو نہ کفارہ ہے نہ طلاق اور چار ماہ گزر جائیں اور مرد رجوع نہ کرے تو طلاق واقع ہوجائے گی، اور بعض فقہاء کے نزدیک یہ معاملہ عدالت میں جائے گا اور طلاق عدالت کے ذریعہ ہوگی۔ (مزید تفصیل سورۃ مجادلہ میں دیکھئے) البقرة
227 البقرة
228 [٣٠٣] یہ حکم ان عورتوں کے لیے ہے جو حاملہ نہ ہوں کیونکہ حاملہ کی عدت وضع حمل تک ہے اور جس عورت سے اس کے خاوند نے ابھی تک صحبت ہی نہ کی، اس پر کوئی عدت نہیں۔ عدت کے دوران نان و نفقہ اور رہائش خاوند کے ذمہ ہوتا ہے اور اسے اپنے خاوند کے ہاں ہی عدت گزارنا چاہیے۔ کیونکہ اس دوران خاوند اس سے رجوع کا حق رکھتا ہے اور قانوناً وہ اس کی بیوی ہی ہوتی ہے۔ قروء، قرء کی جمع ہے اور قرء کا معنی لغوی لحاظ سے حیض بھی ہے اور طہر بھی۔ یعنی یہ لفظ لغت ذوی الاضداد سے ہے۔ احناف اس سے تین حیض مراد لیتے ہیں۔ جبکہ شوافع اور مالکیہ طہر مراد لیتے ہیں۔ اس فرق کو درج ذیل مثال سے سمجھئے۔ طلاق دینے کا صحیح اور مسنون طریقہ یہ ہے کہ عورت جب حیض سے فارغ ہو تو اسے طہر کے شروع میں ہی بغیر مقاربت کئے طلاق دے دی جائے اور پوری مدت گزر جانے دی جائے۔ عدت کے بعد عورت بائن ہوجائے گی۔ اب فرض کیجئے کہ کسی عورت ہندہ نامی کی عادت یہ ہے کہ اسے ہر قمری مہینہ کے ابتدائی تین دن ماہواری آتی ہے۔ اس کے خاوند نے اسے حیض سے فراغت کے بعد ٤ محرم کو طلاق دے دی۔ اب احناف کے نزدیک اس کی عدت تین حیض ہے یعنی ٣ ربیع الثانی کی شام کو جب وہ حیض سے فارغ ہوگی، تب اس کی عدت ختم ہوگی۔ جبکہ شوافع اور مالکیہ کے نزدیک تیسرا حیض شروع ہونے تک اس کے تین طہر پورے ہوچکے ہوں گے۔ یعنی یکم ربیع الثانی کی صبح کو حیض شروع ہونے پر اس کی عدت ختم ہوچکی ہوگی۔ اس طرح قروء کی مختلف تعبیروں سے تین دن کا فرق پڑگیا۔ اور ہم نے جو قروء کا ترجمہ حیض کیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے فاطمہ بنت حبیش سے فرمایا کہ دعی الصلوۃ ایام اقرائک یعنی ایام حیض میں نماز چھوڑ دو۔ علاوہ ازیں خلفائے اربعہ، بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم کبار اور تابعین اس بات کے قائل ہیں کہ قروء کا معنی حیض ہے۔ [٣٠٤]حمل میں غلط بیانی :۔ یعنی انہیں چاہیے کہ وہ صاف صاف بتلا دیں کہ انہیں حیض آتا ہے یا وہ حاملہ ہیں جیسی بھی صورت ہو، مثلاً عورت حاملہ تھی مگر اس نے خاوند کو نہ بتلایا، اگر بتلا دیتی تو شاید خاوند طلاق نہ دیتا، یا عورت کو تیسرا حیض آ چکا مگر اس نے خاوند کو نہ بتلایا تاکہ اس سے نان نفقہ وصول کرتی رہے۔ غرضیکہ جھوٹ سے کئی صورتیں پیش آ سکتی ہیں۔ لہذا انہیں چاہیے کہ اللہ سے ڈر کر صحیح صحیح بات بتلا دیا کریں۔ [٣٠٥]مردکوعورت پر فوقیت:۔ یعنی عدت کے اندر تو خاوند کو رجوع کا حق حاصل ہے لیکن عدت گزر جانے کے بعد بھی (اگر ایک یا دوسری طلاق دے دی ہو تیسری نہ دی ہو) تو اگر میاں بیوی آپس میں مل بیٹھنے پر راضی ہوں تو وہی زیادہ حقدار ہیں کہ از سر نو نکاح کرا لیں۔ جیسا اس سورۃ کی آیت نمبر ٢٣٢ سے واضح ہے۔ [٣٠٦] مردوں اور عورتوں کے حقوق کی تفصیل طویل ہے۔ البتہ مرد کو عورت پر فضیلت کا جو درجہ حاصل ہے وہ یہ ہے کہ چونکہ مرد ہی عورتوں کے معاملات کے ذمہ دار اور پورے گھر کے منتظم ہوتے ہیں اور خرچ و اخراجات بھی وہی برداشت کرتے ہیں۔ لہذا طلاق اور رجوع کا حق صرف مرد کو دیا گیا ہے۔ البقرة
229 [٣٠٧] لاتعدادطلاقوں کاسدباب:۔دور جاہلیت میں عرب میں ایک دستور یہ بھی تھا کہ مرد کو اپنی بیوی کو لاتعداد طلاقیں دینے کا حق حاصل تھا۔ ایک دفعہ اگر مرد بگڑ بیٹھتا، اور اپنی بیوی کو تنگ اور پریشان کرنے پر تل جاتا تو اس کی صورت یہ تھی کہ طلاق دی اور عدت کے اندر رجوع کرلیا پھر طلاق دی پھر رجوع کرلیا اور یہ سلسلہ چلتا ہی رہتا، نہ وہ عورت کو اچھی طرح اپنے پاس رکھتا اور نہ ہی اسے آزاد کرتا کہ وہ کسی دوسرے سے نکاح کرسکے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرد اپنی عورت کو جتنی بھی طلاقیں دینا چاہتا، دیئے جاتا اور عدت کے اندر رجوع کرلیتا۔ اگرچہ وہ مرد سو بار یا اس سے زیادہ طلاقیں دیتا جائے۔ یہاں تک کہ ایک (انصاریٰ) مرد نے اپنی بیوی سے کہا : اللہ کی قسم! میں نہ تجھ کو طلاق دوں گا کہ تو مجھ سے جدا ہو سکے اور نہ ہی تجھے بساؤں گا۔ اس عورت نے پوچھا : وہ کیسے؟ وہ کہنے لگا، میں تجھے طلاق دوں گا اور جب تیری عدت گزرنے کے قریب ہوگی تو رجوع کرلوں گا۔ یہ جواب سن کر وہ عورت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئی اور اپنا یہ دکھڑا سنایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ خاموش رہیں تاآنکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے آپ کو یہ ماجرا سنایا تو آپ بھی خاموش رہے۔ حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہوئی۔ ﴿اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ ﴾..... (ترمذی۔ ابو اب الطلاق، اللعان) طلاق کا سنت طریقہ :۔ اس آیت سے اسی معاشرتی برائی کا سدباب کیا گیا اور مرد کے لیے صرف دو بار طلاق دینے اور اس کے رجوع کرنے کا حق رہنے دیا گیا۔ طلاق دینے کا مسنون اور سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ مرد حالت طہر میں عورت کو ایک طلاق دے اور پوری عدت گزر جانے دے۔ اس صورت کو فقہی اصطلاح میں طلاق احسن کہتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ایک طہر میں ایک طلاق دے اور دوسرے میں دوسری اور تیسرے میں تیسری دے دے اس صورت کو حسن کہتے ہیں۔ پہلی صورت کا فائدہ یہ ہے کہ اگر عدت گزر جانے کے بعد بھی میاں بیوی آپس میں مل بیٹھنے پر رضامند ہوں تو تجدید نکاح سے یہ صورت ممکن ہے ایک مجلس میں تین طلاقیں:۔ اور تیسری صورت یہ ہے کہ یکبارگی تینوں طلاقیں دے دے۔ یہ صورت طلاق بدعی کہلاتی ہے اور ایسا کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ (ہدایہ، کتاب الطلاق) اگرچہ بعض ائمہ فقہاء کے مطابق اس صورت میں بھی تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ مگر سنت کی رو سے یہ ایک ہی طلاق واقع ہوگی جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔ (١) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں تک یک بارگی تین طلاق کو ایک ہی طلاق شمار کیا جاتا تھا۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : لوگوں نے ایک ایسے کام میں جلدی کرنا شروع کردی جس میں ان کے لیے مہلت اور نرمی تھی تو اب ہم کیوں نہ ان پر تین طلاقیں ہی نافذ کردیں۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایسا قانون نافذ کردیا۔ (مسلم، کتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث) (٢) ابو الصہباء نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا : کیا آپ جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں بھی تین سال تک تین طلاقوں کو ایک بنا دیا جاتا تھا ؟ تو حضرت عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا۔ ’’ہاں۔‘‘ (بحوالہ، ایضاً) (٣) ابو الصہباء نے حضرت عباس سے کہا : ایک مسئلہ تو بتلائیے کہ رسول اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں تین طلاقیں ایک ہی شمار نہ ہوتی تھیں؟ حضرت ابن عباس نے جواب دیا، ہاں ایسا ہی تھا۔ پھر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا تو اکٹھی تین طلاق دینے کا رواج عام ہوگیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان پر تین ہی نافذ کردیں۔ (حوالہ ایضاً) مندرجہ بالا تین احادیث اگرچہ الگ الگ ہیں۔ مگر مضمون تقریباً ایک ہی جیسا ہے اور ان احادیث سے درج ذیل امور کا پتہ چلتا ہے۔ ١۔ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، دور صدیقی رضی اللہ عنہ اور دور فاروقی رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دو تین سالوں تک لوگ یکبارگی تین طلاق دینے کی بدعات میں مبتلا تھے اور یہی عادت دور جاہلیت سے متواتر چلی آ رہی تھی جو دور نبوی میں بھی کلیتاً ختم نہ ہوئی تھی۔ چنانچہ دور نبوی میں ایک شخص نے یکبارگی تین طلاقیں دیں تو آپ غصہ سے کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ : میری زندگی میں ہی کتاب اللہ سے یوں کھیلا جا رہا ہے؟ آپ کی یہ کیفیت دیکھ کر ایک شخص نے اجازت چاہی کہ : میں اس مجرم کو قتل نہ کر دوں؟ تو آپ نے ازراہ شفقت اس مجرم کو قتل کرنے کی اجازت نہ دی، (نسائی، کتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث المتفرقہ- ابو داؤد، کتاب الطلاق باب نسخ المراجعہ بعد التطلیقات الثلاث) اس واقعہ سے یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاق دینا شرعی نقطہ نگاہ سے کتنا بڑا گناہ اور مکروہ فعل ہے۔ ٢۔ لوگوں کی اس بدعادت پر انہیں زجر و توبیخ کی جاتی تھی۔ کیونکہ یہ طریقہ کتاب و سنت کے خلاف تھا تاہم ١٥ ھ تک عملاً یکبارگی تین طلاق کو ایک ہی قرار دیا جاتا رہا۔ اور لوگوں کی معصیت اور حماقت کے باوجود ان سے حق رجوع کو سلب نہیں کیا جاتا تھا۔ ٣۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے الفاظ فَلَوْاَمْضَیْنَاہُ عَلَیْھِمْ اس بات پر واضح دلیل ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ تعزیر و تادیب کے لیے تھا تاکہ لوگ اس بدعادت سے باز آ جائیں۔ یہ فیصلہ آپ نے سرکاری اعلان کے ذریعہ نافذ کیا۔ گویا یہ ایک وقتی اور عارضی قسم کا آرڈیننس تھا۔ کتاب و سنت کی طرح اس کی حیثیت دائمی نہ تھی۔ ٤۔ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے کوئی شرعی بنیاد موجود ہوتی تو آپ یقیناً استنباط کر کے لوگوں کو مطلع فرماتے، جیسا کہ عراق کی زمینوں کو قومی تحویل میں لیتے وقت کیا تھا اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ کے استنباط کو درست تسلیم کر کے آپ سے پورا پورا اتفاق کرلیا تھا، اگر آپ کسی آیت یا حدیث سے استنباط کر کے اور لوگوں کو اس سے مطلع کر کے یہ فیصلہ نافذ کرتے تو پھر واقعی اس فیصلہ کی حیثیت شرعی اور دائمی بن سکتی تھی۔ کیا ایک مجلس میں تین طلاق کا مسئلہ اجماعی ہے؟یہی وہ وجوہ ہیں جن کی بنا پر آج تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فیصلہ پر امت کا اجماع نہ ہوسکا اور جو لوگ اجماع کا دعویٰ کرتے ہیں ان کا دعویٰ باطل ہے۔ کیونکہ تطلیق ثلاثہ کے بارے میں مندرجہ ذیل چار قسم کے گروہ پائے جاتے ہیں۔ ١۔ پہلا گروہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فیصلہ کو وقتی اور تعزیری سمجھتا ہے اور سنت نبوی کو ہی ہر زمانہ کے لیے معمول جانتا ہے۔ ان کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہی شمار ہوتی ہے اس گروہ میں ظاہری، اہل حدیث اور شیعہ شامل ہیں (نیز قادیانی جنہیں غیر مسلم قرار دیا جا چکا ہے وہ بھی ایک ہی طلاق کے قائل ہیں) علاوہ ازیں ائمہ اربعہ کے مقلدین میں سے بعض وسیع الظرف علماء بھی شامل ہیں اور بعض اشد ضرورت کے تحت اس کے قائل ہیں۔ ٢۔ دوسرا گروہ مقلد حضرات کا ہے جن کی اکثریت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فیصلہ کو مشروع اور دائمی سمجھتی ہے۔ البتہ اس کام کو گناہ کبیرہ سمجھتی ہے۔ ٣۔ تیسرا گروہ دوسری انتہا کو چلا گیا ہے۔ ان کے نزدیک ایک مجلس میں ایک طلاق واقع ہونا تو جائز ہے۔ لیکن اگر دو یا تین یا زیادہ طلاقیں دی جائیں تو ایک بھی واقع نہیں ہوتی وہ کہتے ہیں کہ ایک وقت میں ایک سے زیادہ طلاق دینا کار معصیت اور خلاف سنت یعنی بدعت ہے۔ جس کے متعلق ارشاد نبوی ہے مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ھَذٰا مَالَیْسَ مِنْہُ فَھُوْرَدٌ (متفق علیہ) جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی بات پیدا کی جو اس میں نہ تھی تو وہ بات مردود ہے۔ لہذا ایسی بدعی طلاقیں سب مردود ہیں، لغو ہیں، باطل ہیں۔ لہٰذا ایک طلاق بھی واقع نہ ہوگی۔ اس گروہ میں شیعہ حضرات میں سے کچھ لوگ شامل ہیں۔ نیز محمد بن ارطاۃ اور محمد بن مقاتل (حنفی) بھی اس کے قائل ہیں (شرح مسلم للنووی، ج ١۔ ص ٤٧٠) ٤۔ اور ایک قلیل تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو ایک مجلس کی تین طلاق کو غیر مدخولہ کے لیے ایک ہی شمار کرتے ہیں اور مدخولہ کے لیے تین۔ (زادالمعادج ٤ ص ٦٧) غور فرمائیے کہ جس مسئلہ میں اتنا اختلاف ہو کہ اس میں چار گروہ پائے جاتے ہوں اسے ’’اجماعی‘‘ کہا جا سکتا ہے؟ ایک مجلس میں ایک سے زیادہ طلاقیں دینے کی بدعادت دور جاہلیہ کی یادگار ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد پھر عود کر آئی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس عادت کو چھڑانے کے لیے تین طرح کے اقدامات کئے تھے۔ ١۔ وہ ایک مجلس میں تین طلاق دینے والوں کو بدنی سزا بھی دیتے تھے۔ ٢۔ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین شمار کرنا بھی حقیقتاً ایک سزا تھی۔ جسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نافذ کردیا۔ ٣۔ اور جب لوگوں نے اپنی عادت پر کنٹرول کرنے کی بجائے حلالہ کی باتیں شروع کردیں تو آپ نے حلالہ نکالنے اور نکلوانے والے دونوں کے لیے رجم کی سزا مقرر کردی۔ اس طرح یہ فتنہ کچھ مدت کے لیے دب گیا۔ گویا دور فاروقی میں اس معصیت کی اصلاح اس صورت میں ہوئی کہ حلالہ کا دروازہ سختی سے بند کردیا گیا تھا۔ مگر آج المیہ یہ ہے کہ مقلد حضرات ہوں یا غیر مقلد کوئی بھی اکٹھی تین طلاق دینے کو جرم سمجھتا ہی نہیں۔ جہالت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ عوام تو درکنار، خواص بھی یہ سمجھتے ہیں کہ جدائی کے لیے تین طلاق دینا ضروری ہیں۔ حالانکہ طلاق کی بہترین اور مسنون صورت یہی ہے کہ صرف ایک ہی طلاق دے کر عدت گزر جانے دی جائے۔ تاکہ عدت گزر جانے کے بعد بھی اگر زوجین مل بیٹھنا چاہیں تو تجدید نکاح سے مسئلہ حل ہوجائے۔ تاہم اگر آپس میں نفرت اور بگاڑ اتنا شدید پیدا ہوچکا ہو کہ مرد تازیست اپنی بیوی کو رشتہ زوجیت میں نہ رکھنے کا فیصلہ کرچکا ہو اور اپنی حسرت اور غصہ مٹانے کے لیے تین کا عدد پورا کر کے طلاق مغلظہ ہی دینا چاہتا ہو تو پھر اسے یوں کرنا چاہیے کہ ہر طہر میں ایک ایک طلاق دیتا جائے، تیسری طلاق کے بعد ان کے آئندہ ملاپ کی ﴿حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ ﴾کے علاوہ کوئی صورت باقی نہ رہے گی۔ آج کے دور میں ایک مجلس کی تین طلاق کو کار معصیت یا گناہ کبیرہ نہ سمجھنے کے لحاظ سے مقلد اور غیر مقلد دونوں حضرات ایک جیسے ہیں۔ کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ ایسے مجرم کو کیا سزا دی جانی چاہیے۔ تاکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ سنت بھی زندہ ہو۔ البتہ یہ فرق ضرور ہے کہ اس جرم کے بعد اہل حدیث تو ایسے مجرم کو سنت نبوی کی راہ دکھلاتے ہیں۔ جبکہ بعض حنفی حضرات حلالہ جیسے کار حرام کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ بذریعہ ڈاک بیوی کو تین طلاقیں لکھ بھیجنا:۔ آج کل جو یہ دستور چل نکلا ہے کہ پہلے بیوی کو میکے بھیج دیتے ہیں بعد میں کسی وقت بذریعہ چٹھی تین طلاق تحریری لکھ کر ڈاک میں بھیج دیتے ہیں یہ نہایت ہی غلط طریقہ ہے اور اس کی وجوہ درج ذیل ہیں: ١۔ ایک وقت کی تین طلاق کار معصیت گناہ کبیرہ ہے۔ بدعت ہے۔ جیسا کہ مندرجہ بالا تصریحات سے واضح ہے۔ ٢۔ دوران عدت مطلقہ کا نان نفقہ اور رہائش خاوند کے ذمہ ہوتی ہے اور مطلقہ اس کی بیوی ہی ہوتی ہے جس سے وہ رجوع کا حق رکھتا ہے جسے وہ ضائع کردیتا ہے۔ اس دوران وہ نان نفقہ کے اس بار سے بھی سبکدوش رہنا چاہتا ہے جو شرعاً اس پر لازم ہے۔ ٣۔ عدت کے دوران عورت کو اپنے پاس رکھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ شاید حالات میں ساز گاری پیدا ہوجائے۔ منشائے الٰہی یہ ہے کہ رشتہ ازدواج میں پائیداری بدستور قائم رہے۔ اگرچہ ناگزیر حالات میں طلاق کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :'' اَبْغَضُ الْحَلاَلِ اِلَی اللّٰہِ الطَّلاَقُ'' (ابو داؤد، کتاب الطلاق) یعنی تمام حلال اور جائز چیزوں میں سے اللہ کے ہاں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔ لہٰذا اللہ کی خوشنودی اسی بات میں ہے کہ طلاق دینے کے بعد عدت کے دوران مرد رجوع کرلے، اور وہ زبردستی بھی کرنے کا حق رکھتا ہے۔ یعنی اگر عورت رضامند نہ ہو تو بھی وہ ایسا کرنے کا حق رکھتا ہے جس سے علیحدگی کی راہ بند ہو اور مصالحت کی راہ کھل جائے۔ ٤۔ عدت گزر جانے کے بعد عورت کی رخصتی کے وقت دو عادل گواہوں کی موجودگی بھی ضروری ہے (٦٥؍٢) اور بذریعہ خط طلاقیں بھیج دینے سے اس حکم پر بھی عمل نہیں ہو سکتا۔ گواہوں کی اہمیت مصلحت کے لیے دیکھئے سورۃ طلاق کے حواشی۔ اب یہ سوال ہے کہ آج کے دور میں بیک وقت تین طلاق دینے والے مجرم کی سزا کیا ہونی چاہیے، اگرچہ یہ مسئلہ علمائے کرام اور مفتیان عظام کی توجہ کا مستحق ہے۔ تاہم میرے خیال میں اس کی سزا ظہار کا کفارہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ یہ دونوں کام ﴿مُنْکَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُوْرًا ﴾ (ناپسندیدہ اور انہونی بات) کے ضمن میں آتے ہیں اور کئی وجوہ سے ان میں مماثلت ہے۔ ظہار کا کفارہ ایک غلام کو آزاد کرنا یا دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنا یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔ آج غلامی کا دور تو ختم ہوچکا۔ البتہ باقی دو سزاؤں میں سے کوئی ایک مفتی حضرات ایسے مجرموں کے لیے تجویز کرسکتے ہیں جب تک ان کے لیے کوئی سزا تجویز نہ کی جائے ان کو اپنے جرم کا کبھی احساس تک نہ ہو سکے گا۔ اس طرح ہی اس رسم بد اور بدعت کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے اور علمائے کرام کو ایسی سزا تجویز کرنا اس لحاظ سے بھی ضروری ہے کہ خاموشی اور بے حسی کے ذریعہ کسی معصیت کے کام کو قائم رکھنا یا رہنے دینا بھی کار معصیت ہے۔ لہٰذا ایسے مجرم کو سزا بھی دینا چاہیے اور طلاق بھی ایک ہی شمار کرنا چاہیے، تاکہ سنت نبوی پر بھی عمل ہوجائے اور سنت فاروقی پر بھی۔ [٣٠٨] یعنی اسے اپنی حیثیت کے مطابق کچھ دے دلا کر رخصت کیا جائے، خالی ہاتھ یا دھکے دے کر گھر سے ہرگز نہ نکالا جائے۔ [٣٠٩]مطلقہ سے دی ہوئی چیز واپس لیناگناہ ہے:۔ یعنی حق مہر بھی اور اس کے علاوہ دوسری اشیاء (مثلاً زیور کپڑے وغیرہ) جو خاوند اپنی بیوی کو بطور ہدیہ دے چکا ہو۔ کسی کو ہدیہ دے کر واپس لینا عام حالات میں بھی جائز نہیں اور ایسے ہدیہ واپس لینے والے کے اس فعل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کتے سے تشبیہ دی ہے جو قے کر کے پھر اسے چاٹ لے۔ (بخاری، کتاب الھبۃ، باب ھبة الرجل لامراتہ) طلاق دینے والے شوہر کے لیے یہ اور بھی شرمناک بات ہے کہ کسی زمانہ میں اس نے جو اپنی بیوی کو ہدیہ دیا تھا۔ رخصت کرتے وقت بجائے مزید کچھ دینے کے اس سے پہلے تحائف کی بھی واپسی کا مطالبہ کرے۔ [٣١٠] زوجین کا باہمی سمجھوتہ :۔اگر میاں بیوی میں ناچاقی کی صورت پیدا ہوجائے یا ہونے کا خدشہ ہو اور وہ سمجھیں کہ شاید حسن معاشرت کے متعلق ہم اللہ کے احکام بجا نہ لا سکیں گے اور مرد کی طرف سے ادائے حقوق زوجہ میں قصور بھی نہ ہو۔ تو عورت اپنے کسی حق سے دستبردار ہو کر یا اپنی طرف سے کچھ مال دے کر خواہ وہ خاوند ہی کا دیا ہو۔ اسے طلاق نہ دینے پر رضامند کرلے تو یہ صورت بھی جائز ہے اور اس کی مثال یہ ہے کہ ام المومنین حضرت سودہ رضی اللہ عنھا بنت زمعہ جب بوڑھی ہوگئیں تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے نیز اس خیال سے بھی کہ کہیں آپ انہیں طلاق نہ دے دیں۔ اپنی باری حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کردی تھی (بخاری کتاب الہبۃ باب ہبۃ المراۃ لغیر زوجھا الخ) [٣١١]خلع کے احکام :۔ اگر حالات زیادہ کشیدہ ہوں اور عورت بہرحال اپنے خاوند سے اپنا آپ چھڑانا چاہتی ہو تو جو زر فدیہ وہ آپس میں طے کرلیں وہی درست ہوگا اور وہ رقم لینے کے بعد مرد اسے طلاق دے گا۔ عورت پر طلاق بائنہ واقع ہوجائے گی اسے شرعی اصطلاح میں خلع کہتے ہیں۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ثابت بن قیس (بن شماس انصاری) کی بیوی (جمیلہ) جو عبداللہ بن ابی منافق کی بہن تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی: یا رسول اللہ میں ثابت بن قیس پر دینداری اور اخلاق میں کوئی عیب نہیں لگاتی، مگر میں یہ نہیں چاہتی کہ مسلمان ہو کر خاوند کی ناشکری کے گناہ میں مبتلا ہوں۔ آپ نے فرمایا۔ ’’اچھا جو باغ ثابت نے تمہیں (حق مہر میں) دیا تھا وہ واپس کرتی ہو؟‘‘ وہ کہنے لگی جی ہاں! کرتی ہوں۔ آپ نے ثابت بن قیس سے فرمایا : اپنا باغ واپس لے لو اور اسے طلاق دے دو‘‘ (بخاری، کتاب الطلاق، باب الخلع و کیف الطلاق فیہ) یہ ضروری نہیں کہ زر فدیہ اتنا ہی ہو جتنا حق مہر تھا۔ اس سے کم بھی ہوسکتا ہے اور زیادہ بھی۔ مگر زیادہ لینے کو فقہا نے مکروہ سمجھا ہے اور اگر معاملہ آپس میں طے نہ ہو سکے تو عورت عدالت کی طرف رجوع کرسکتی ہے۔ اس صورت میں تمام حالات کا جائزہ لے کر عدالت جو فدیہ طے کرے گی وہی نافذ العمل ہوگا اور عورت اس وقت تک اس مرد سے آزاد نہ ہوگی جب تک وہ زر فدیہ ادا نہ کر دے اور وہ مرد یا اس کی جگہ عدالت اسے طلاق نہ دے دے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جمیلہ بنت ابی نے خلع کے لیے کوئی معقول وجہ پیش نہیں کی۔ ثابت بن قیس پوری طرح اس کے حقوق بھی پورے کر رہے تھے اور ان کے اخلاق بھی قابل اعتراض نہیں تھے۔ جمیلہ بنت ابی کو طبعی نفرت صرف اس وجہ سے تھی کہ ثابت بن قیس رنگ کے کالے تھے اور وہ خود عبداللہ بن ابی (رئیس المنافقین) کی بہن ہونے کی بنا پر چودھریوں کا سا ذہن رکھتی تھی۔ تاہم سچی مومنہ تھی۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف اس طبعی نفرت کو ہی معقول وجہ قرار دے کر خلع کا حکم دے دیا۔ البقرة
230 [٣١٢] خاوند نے جب تیسری بار طلاق دے دی۔ تو اب وہ اس کے لیے حرام ہوگئی۔ عورت پر عدت تو ہوگی، مگر مرد اس عدت میں رجوع نہیں کرسکتا۔ اب ان دونوں کے ملاپ کی صرف یہ صورت ہے کہ عدت گزرنے کے بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے پھر کسی وقت وہ مرد از خود اس عورت کو طلاق دے دے یا وہ مرد فوت ہوجائے تو پھر عدت گزرنے کے بعد یہ عورت اپنے پہلے خاوند سے نکاح کرسکتی ہے۔ نکاح حلالہ کی حرمت اور اس کا افسوسناک پہلو:۔ احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص محض اپنی مطلقہ بیوی کو حلال کرنے کی خاطر کسی سے اس کا اس شرط پر نکاح کرائے کہ وہ نکاح کے بعد دوسرے یا تیسرے دن اسے طلاق دے دے گا۔ تاکہ یہ عورت پھر اپنے پہلے خاوند کے لیے حلال ہو سکے (جسے شرعی اصطلاح میں حلالہ کہتے ہیں) تو یہ نکاح درست نہیں بلکہ یہ بدکاری ہوگی۔ اس طرح کے سازشی نکاح و طلاق سے وہ عورت اپنے پہلے شوہر کے لیے ہرگز حلال نہ ہوگی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح حلالہ نکالنے والے اور نکلوانے والے پر لعنت فرمائی ہے اور حلالہ نکالنے والے کو تیس مستعار (کرایہ کا سانڈ) کہا ہے (ابو داؤد، کتاب النکاح باب فی التحلیل) اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا تھا کہ ایسے حلالہ نکالنے والے اور نکلوانے والے دونوں کو زنا کی سزا دی جائے۔ (بیہقی ج ٧ ص ٣٣٧) اس مسئلہ کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ بیک وقت تین طلاق دینے کا جرم تو مرد کرتا ہے لیکن اس کے جرم کی سزا نکاح حلالہ کی صورت میں عورت کو دی جاتی ہے۔ مرد کو تو اہل علم و فتویٰ سرزنش تک کرنے کے روادار نہیں ہوتے۔ مگر بیوی کو کسی کرایہ کے سانڈ کے ہاں شب بسری کی راہ دکھلائی جاتی ہے۔ کرے کوئی اور بھرے کوئی اس سے زیادہ واضح اور کوئی مثال ہو سکتی ہے؟ بیک وقت تین طلاق کی قباحت:۔ اس بے بس اور غیرت مند عورت نے اس ظلم و زیادتی کا اپنے طلاق دینے والے خاوند سے اور اپنے رشتہ داروں سے یوں انتقام لیا کہ رات ہی رات میں وہ حلالہ نکالنے والے مرد سے سیٹ ہوگئی اور اس نئے جوڑے نے عہد و پیمان کے ذریعہ رات کی رات کے نکاح کو پائیدار بنا لیا اور حلالہ نکلوانے والوں کی سب امیدیں خاک میں ملا دیں اور ایسے واقعات آئے دن اخبارات و رسائل میں چھپتے رہتے ہیں۔ البقرة
231 [٣١٣] یہاں اس معاشرتی برائی کا بیان ہے۔ جس کا ذکر پہلے آیت نمبر ٢٢٩ کے حاشیہ نمبر ١ میں کردیا گیا ہے۔ یعنی جب تم ایک یا دو طلاقیں دے چکو پھر ان کی عدت پوری ہونے کو آئے تو اس وقت تمہارے لیے دو ہی راستے ہیں۔ ایک یہ کہ خلوص نیت سے ان سے رجوع کرو اس ارادہ سے کہ آئندہ اسے درست طور پر بسانا ہے یا پھر انہیں کچھ دے دلا کر شریفانہ طور پر رخصت کرو۔ اور اگر تم نے رجوع کر کے انہیں تنگ کرنے، ستانے اور ان پر زیادتی کرنے کی روش اختیار کی تو یاد رکھو اس ظلم و زیادتی کا وبال تمہیں اللہ کے ہاں بھگتنا پڑے گا۔ [٣١٤] اللہ کی آیات کا مذاق اڑانے کی صورتیں :۔ مذاق اڑانے کا مطلب یہ ہے کہ طرح طرح کی حیلہ سازیوں سے اللہ تعالیٰ کی آیات اور احکام کا ایسا مطلب نکالا جائے جو اس کے واضح مفہوم اور اس کی روح کے منافی ہو اور ایسا مذاق اڑانے کی واضح مثال نکاح حلالہ ہے اور اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں ایک شخص نے اپنی عورت کو بیک وقت تین طلاقیں دے دیں۔ آپ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو غصہ کی وجہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ میری زندگی میں اللہ کے احکام سے یوں کھیلا جانے لگا ہے۔ جب کہ ابھی میں تم میں موجود ہوں۔ (نسائی، کتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث المتفرقة) اس طرح تو اپنی اغراض کی خاطر اللہ تعالیٰ کے ہر حکم سے اس کی اصل روح کو فنا کر کے اسے الفاظ کی قید میں مقید کر کے اور فقہی موشگافیاں پیدا کر کے اپنی مرضی کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے اور اسی بات پر اللہ تعالیٰ نے تنبیہہ فرمائی ہے کہ اللہ نے ان احکام میں جو حکمتیں اور مصلحتیں رکھی ہیں۔ ان احکام کا مذاق اڑا کر ان کا ستیاناس ہی نہ کردینا اور اس سلسلہ میں اللہ سے ڈرتے رہو۔ البقرة
232 [٣١٥] حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میری بہن (جمیلہ) کو اس کے خاوند (عاصم بن عدی) نے طلاق (رجعی) دی مگر رجوع نہ کیا تاآنکہ پوری عدت گزر گئی۔ پھر عدت گزر جانے کے بعد دوبارہ نکاح کے لیے مجھے پیغام بھیجا (جب کہ مجھے اور بھی پیغام آ چکے تھے) میں نے غیرت اور غصہ کی وجہ سے اسے برا بھلا کہا اور انکار کردیا اور قسم کھالی کہ اب اس سے نکاح نہ ہونے دوں گا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور میں نے اس حکم کے آگے سر تسلیم خم کردیا اور قسم کا کفارہ ادا کردیا۔ (بخاری، کتاب التفسیر، زیر آیت مذکورہ) ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ عورت کی رضامقدم ہے:َ اس حدیث سے ضمناً یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اگرچہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا، جیسا کہ کئی احادیث صحیحہ سے بھی ثابت ہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے عورت کی رضا کو ولی کی رضا پر مقدم رکھا ہے۔ یہاں صورت حال یہ تھی کہ جمیلہ کو نکاح کے کئی پیغام آئے اور اس کے سابق خاوند عاصم بن عدی کا پیغام بھی آیا۔ اب معقل وقتی غصہ اور غیرت کی بنا پر عاصم سے نکاح نہیں چاہتا تھا جبکہ جمیلہ عاصم ہی سے نکاح کرنے پر رضامند تھی جیسا کہ آیت کے الفاظ سے واضح ہے تو اللہ تعالیٰ نے معقل کے بجائے جمیلہ کی رضا کو مقدم رکھ کر اس کے مطابق حکم نازل فرمایا۔ نکاح کے سلسلہ میں اسلام نے عورت کی رضا کو ہی مقدم رکھا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔ ١۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بیوہ یا مطلقہ عورت کا اس وقت تک نکاح نہ کیا جائے جب تک اس سے صاف صاف زبان سے اجازت نہ لی جائے، اسی طرح کنواری کا بھی نکاح نہ کیا جائے جب تک وہ اذن نہ دے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کنواری اذن کیونکر دے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس کا چپ رہنا ہی اس کا اذن ہے۔ (بخاری، کتاب النکاح۔ باب لاینکح الاب وغیرہ۔ البکروالثیب الا برضاھا) ٢۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے پوچھا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ’’ کنواری لڑکی تو شرم کرتی ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اس کی رضامندی یہی ہے کہ وہ خاموش ہوجائے۔'' (حوالہ ایضاً) ٣۔ خنساء بنت خذام انصاریہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ میرے باپ نے (اپنی مرضی سے) میرا نکاح کردیا جبکہ میں ثیبہ (شوہر دیدہ) تھی اور اس نکاح کو پسند نہیں کرتی تھی۔ آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئی تو آپ نے میرے باپ کے کئے ہوئے نکاح کو فسخ کر ڈالا۔ (حوالہ ایضاً) ٤۔ قاسم بن محمد کہتے ہیں کہ جعفر بن ابی طالب کے خاندان کی ایک عورت کو یہ خطرہ پیدا ہوا کہ اس کا ولی کہیں جبراً اس کا نکاح نہ پڑھا دے اور وہ اس نکاح سے ناخوش تھی۔ آخر اس نے کسی شخص کو دو بوڑھے انصاریوں عبدالرحمن بن جاریہ اور مجمع بن جاریہ کے پاس یہ مسئلہ پوچھنے کے لیے بھیجا۔ انہوں نے کہلا بھیجا کہ تو کا ہے کو ڈرتی ہے۔ خنساء بنت خذام کا نکاح اس کے باپ نے جبراً کردیا تھا اور وہ اس نکاح کو پسند نہیں کرتی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نکاح فسخ کردیا تھا۔ (بخاری۔ کتاب الحیل۔ باب فی النکاح) ٥۔ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ولی کے بغیر نکاح درست نہیں ہوتا۔ (ترمذی، ابو اب النکاح، باب ماجاء إلانکاح الا بولی) ترمذی کے علاوہ اسے ابو داؤد، ابن ماجہ اور دارمی نے بھی روایت کیا ہے۔ ٦۔ حضرت عائشہ ام المومنین رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلے تو اس کا نکاح باطل ہے باطل ہے باطل ہے۔ پھر اگر خاوند نے اس سے صحبت کرلی تو اس کے عوض اسے پورا حق مہر ادا کرنا ہوگا۔ پھر اگر ان میں جھگڑا پیدا ہوجائے تو جس عورت کا کوئی ولی نہ ہو، بادشاہ اس کا ولی ہے۔ (ترمذی حوالہ ایضاً) اس حدیث کو ترمذی کے علاوہ احمد، ابو داؤد، ابن ماجہ اور دارمی نے روایت کیا ہے۔ منکرین جواز کےدلائل کاجواب:۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک کنواری لڑکی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میرے باپ نے میرا نکاح جبراً کردیا ہے۔ میں راضی نہیں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اختیار دے دیا۔ (ابو داؤد بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب النکاح۔ باب الولی فی النکاح و استیذان المرأۃ تیسری فصل) ٨۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی عورت کسی عورت کا نکاح نہ کرے۔ اور نہ عورت خود اپنا نکاح کرے اور جو عورت اپنا نکاح خود کرتی ہے وہ زانیہ ہے۔ (ابن ماجہ بحوالہ مشکوٰۃ حوالہ ایضاً) ٩۔ ابو سعید اور ابن عباس رضی اللہ عنہم دونوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے ہاں بچہ پیدا ہو وہ اس کا اچھا سا نام رکھے اور اچھا ادب سکھائے۔ پھر جب بالغ ہو تو اس کا نکاح کر دے۔ اگر اس کا نکاح بلوغت کے وقت نہ کیا اور وہ کسی گناہ کا مرتکب ہوا تو اس کا گناہ اس کے باپ پر ہوگا۔ (بیہقی شعب الایمان بحوالہ مشکوٰۃ۔ حوالہ ایضاً) واضح رہے کہ مندرجہ بالا سب احادیث سے یہ بات واضح ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ البتہ ولی کی رضا پر عورت کی رضامقدم ہے۔ رشتہ میں لات مارنا:۔ اور اس آیت کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو شخص اپنی عورت کو طلاق دے چکا ہو اور وہ مطلقہ عورت عدت گزار کر کسی دوسرے آدمی سے نکاح کرنا چاہتی ہو تو سابقہ شوہر کو کوئی ایسی کمینہ حرکت نہ کرنی چاہیے جو اس کے ہونے والے نکاح میں رکاوٹ پیدا کر دے جس سے عورت پر تنگی پیدا کرنا مقصود ہو۔ بلوغت سے پہلےنکاح پرحکومت کی پابندی:۔ یہاں ایک اور مسئلہ پیدا ہوتا ہے جو موجودہ دور میں خاصی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اور وہ یہ ہے آیا ولی اپنے لڑکے یا لڑکی یا کسی دوسرے قریبی رشتہ دار کا بچپن میں نکاح کرنے کا مجاز ہے یا نہیں؟ اور اسی مسئلہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ آیا بلوغت سے پہلے یا بچپن کا نکاح درست ہے یا باطل؟ اور یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر امت مسلمہ کے تمام فرقوں کا اتفاق ہے کہ بچپن کا نکاح درست ہوتا ہے اور ولی ایسا نکاح کرنے کا مجاز ہے۔ لیکن دور حاضر کے کچھ مجددین نے ایسے نکاح کو غلط اور باطل قرار دیا اور اسی طبقہ سے متاثر ہو کر حکومت پاکستان نے عائلی قوانین آرڈی نینس ١٩٦١ میں اس متن کا اندراج کیا کہ نکاح کے وقت لڑکے کی عمر کم از کم اٹھارہ سال اور لڑکی کی عمر کم از کم سولہ سال ہونی چاہیے۔ یہ شق چونکہ امت مسلمہ کے ایک متفق علیہ مسئلہ کے خلاف ہے لہذا ہم اس پر ذرا تفصیل سے گفتگو کریں گے۔ پہلے ہم اس متفق علیہ مسئلہ کے جواز پر دلائل پیش کرتے ہیں۔ بچپن کی شادی کے جواز پر دلائل ١۔ قرآن میں مختلف قسم کی عورتوں کی عدت کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَاڿ یَیِٕسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِّسَاۗیِٕکُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلٰثَۃُ اَشْہُرٍ ۙ وَّاڿ لَمْ یَحِضْنَ ۭ وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَہُنَّ ۭ وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ اَمْرِہٖ یُسْرًا﴾ (65: 4) ’’اور تمہاری مطلقہ عورتیں جو حیض سے ناامید ہوچکی ہوں، اگر تمہیں ان کی عدت کے بارے میں شک ہو تو ان کی عدت تین ماہ ہے اور ان کی بھی جنہیں ابھی حیض شروع ہی نہیں ہوا اور حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل تک ہے۔‘‘ اس آیت میں بوڑھی، جوان اور بچی سب طرح کی عورتوں کا ذکر ہے۔ بوڑھی اور بچی جنہیں حیض نہیں آتا ان کی عدت تین ماہ ہے اور جوان عورت کی عدت اگر اسے حمل ہے تو وضع حمل تک ہے (اور اگر حمل نہ ہو تو چار ماہ دس دن ہے جیسا کہ سورۃ بقرہ میں گزر چکا ہے) اور تو ظاہر ہے کہ عدت کا سوال یا تو خاوند کے طلاق دینے کے یا مر جانے کے بعد ہی پیدا ہوسکتا ہے۔ تو اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بلوغت سے پہلے بھی لڑکی کا نکاح جائز ہے اور اس کا ولی اس بات کا مجاز ہے۔ ٢۔ ارشاد باری ہے : آیت ﴿ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْہُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْہُنَّ ﴾(2: 237) اور اگر تم اپنی ایسی بیوی کو طلاق دے دو جن سے تم نے صحبت نہ کی ہو اور حق مہر مقرر رقم کا نصف دینا ہوگا۔ ذرا سوچیئے نوجوان جوڑے کی شادی ہو۔ رخصتی بھی ساتھ ہی ہوچکی ہو تو کیا ایسی صورت ممکن ہے کہ شب زفاف میں صحبت نہ کریں؟ اور صحبت سے پہلے ہی میاں صاحب اپنی بیگم کو طلاق دے دیں؟ ہمارے خیال میں اس کی یہی صورت ممکن ہے جس کا عرب میں عام رواج تھا کہ بچپن میں نکاح ہوجاتا تھا۔ اور رخصتی کو بلوغت تک موخر کردیا جاتا تھا۔ دریں اثناء بعض خاندانی رقابتوں کی بنا پر یا مرد کی اپنی ناپسندیدگی کی وجہ سے ایسی صورت پیش آ جاتی تھی۔ تو اس کا اللہ تعالیٰ نے حل بتلا دیا کہ ایسی صورت میں مقررہ رقم کا نصف ادا کر دو۔ یہ نہیں فرمایا کہ بچپن میں نکاح کیا ہی نہ کرو۔ حالانکہ دور نبوی میں بچپن میں نکاح کا رواج عام تھا۔ ٣۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح اس وقت کیا جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی عمر صرف ٧ سال تھی۔ جیسا کہ مسلم کی درج ذیل حدیث سے واضح ہے: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح اس وقت کیا جبکہ وہ سات سال کی تھیں اور جب حضرت کے گھر رخصتی ہوئی اس وقت نو برس کی تھیں اور ان کے کھیلنے کے کھلونے ان کے ساتھ تھے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوت ہوئے اس وقت ان کی عمر اٹھارہ برس کی تھی۔ ٤۔ چوتھی دلیل اس پر تعامل امت اور امت مسلمہ کے تمام مذاہب کا اس مسئلہ کے جواز پر اتفاق ہے۔ اور اس میں اختلاف نہ ہونا بھی اس کے جواز پر ایک قوی دلیل ہے۔ اور جن حضرات نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہے ان کے دلائل یہ ہیں :۔ منکرین جواز کےدلائل:۔ نکاح میاں بیوی کے درمیان ایک عہد وفاداری ہوتا ہے جسے قرآن نے ﴿مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا ﴾ کہا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ عہد اسی صورت میں نبھایا جا سکتا ہے جب کہ مرد اور عورت دونوں اس عہد کو سمجھتے ہوں۔ لہٰذا ان دونوں کا عاقل اور بالغ ہونا ضروری ہے۔ ٢۔ قرآن نے یتیموں کے اموال کی حفاظت کے بارے میں فرمایا کہ جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں تو ان کے اموال ان کو واپس کر دو۔ اس سے معلوم ہوا کہ نکاح کی عمر اس وقت ہوتی ہے جب بچہ سمجھدار ہوجائے اور اپنے مال کی حفاظت کرسکے۔ ٣۔ قرآن میں ہے آیت ﴿ نِسَاۗؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ ﴾ یعنی عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں۔ اور عورت کھیتی تو اس وقت ہی ہو سکتی ہے جب وہ اولاد پیدا کرنے کے قابل ہوجائے۔ اسی طرح جب تک لڑکا بھی اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ ہو اس کا نکاح نہیں ہو سکتا۔ یہ ہیں وہ دلائل جو نکاح نابالغان کے منکرین کی طرف سے پیش کئے جاتے ہیں۔ اور ہم اس بات کا برملا اعتراف کرتے ہیں کہ اگر نکاح کا مقصد صرف جنسی خواہشات کی تکمیل اور حصول اولاد ہو تو نکاح کے لیے بلوغت کی عمر ہی درست ہے۔ اختلاف اس بات میں ہے کہ آیا نکاح کا صرف یہی ایک مقصد ہے یا کچھ اور بھی ہو سکتے ہیں۔ ہمارے خیال میں نکاح کا ارفع و اعلیٰ مقصد جس کے لیے اسلام نے نکاح کا حکم دیا ہے وہ فحاشی، بے حیائی اور زنا سے اجتناب، مرد و عورت دونوں کی عفیف اور پاکیزہ زندگی اور اس طرح ایک پاک صاف اور ستھرے معاشرہ کا قیام ہے اور اس کی دلیل درج ذیل آیت ہے : ﴿ وَاَنْکِحُوا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِمَاۗیِٕکُمْ ﴾ (24: 32) ’’اور اپنی قوم کی بیواؤں کے نکاح کردیا کرو۔ اور اپنے غلاموں اور کنیزوں کے بھی جو نکاح کے قابل ہوں۔‘‘ اس آیت میں (ایامیٰ) کا لفظ غور طلب ہے۔ ایامی ایم کی جمع ہے۔ بمعنی رنڈوا مرد بھی اور رنڈی (بیوہ) عورت بھی۔ دونوں کے لیے یہ یکساں استعمال ہوتا ہے۔ یعنی بے شوہر عورت یا بے زن مرد اور اٰم یئیم أیما ًکے معنی مرد کا رنڈوا یا عورت کا رانڈ (بیوہ) ہوجانا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ رنڈا خواہ مرد ہو یا بیوہ عورت ہو عمومی صورت یہی ہوتی ہے کہ ان کے ہاں اولاد ہوتی ہے۔ پھر جب ان کے پاس اولاد پہلے ہی موجود ہو، جوانی سے ڈھل چکے ہوں۔ مزید اولاد کی خواہش بھی نہ ہو تو پھر ایسے مجرد قسم کی عورتوں یا مردوں کو نکاح کرنے کا حکم کیوں دیا جا رہا ہے؟ کیا اس کا یہی مقصد باقی نہیں رہ جاتا کہ معاشرہ سے فحاشی کا کلی طور پر استحاصل ہوجائے؟ نکاح کا ایک اور اہم مقصد رشتہ اخوت و مؤدت کو مزید پائیدار اور مستحکم بنانا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ٥١ سال کی عمر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو اس کا مقصد محض حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے رشتہ مودت کو مزید مستحکم بنانا تھا۔ اس وقت آپ صاحب اولاد تھے اگرچہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا فوت ہوچکی تھیں تاہم ان کی جگہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا موجود تھیں۔ جنسی خواہشات بھی اتنی عمر میں ماند پڑجاتی ہیں۔ پھر تین سال نکاح کے بعد رخصتی نہیں ہوئی۔ تو کیا اس نکاح کا مقصد صرف وہی کچھ تھا جو یہ حضرات سمجھتے ہیں؟ اور بعض دفعہ نکاح کے ذریعہ کئی قسم کے دینی و سیاسی معاشی اور معاشرتی فوائد حاصل ہوتے ہیں جو حصول اولاد سے بھی زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ آپ ذرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی پر نظر ڈالیے کہ آپ نے کتنے نکاح کیے؟ کس عمر میں کئے؟ کس عمر کی عورتوں سے کئے اور کون کون سے مقاصد کے تحت کئے تھے؟ اور ان سب نکاحوں سے کتنی اولاد ہوئی؟ تو یہ حقیقت از خود منکشف ہوجائے گی کہ نکاح کا مقصد محض جنسی خواہشات کی تکمیل یا حصول اولاد ہی نہیں ہوتا بلکہ اس سے بلند تر مقاصد بھی ہو سکتے ہیں۔ رہی حصول اولاد کی بات تو یہ اصل مقصد نہیں بلکہ ایک اہم مقصد کا ثمرہ ہے جو کبھی حاصل ہوجاتا ہے کبھی نہیں ہوتا۔ انسان کے اپنے اختیار میں کچھ بھی نہیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ ایک بالغ جوڑے کی شادی کردی جائے اور تازیست ان کے ہاں اولاد نہ ہو۔ ایسی صورت میں بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ نکاح بے مقصد رہا۔ اگرچہ ایسے واقعات کی تعداد ٥ فیصد سے زیادہ نہیں تاہم ان سے انکار بھی ممکن نہیں۔ پھر جب نکاح کے مقاصد میں ہی تنوع پیدا ہوگیا تو ضروری ہے کہ نکاح کی عمر، بلوغت میں بھی استثناء موجود ہو۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ اگرچہ نکاح کی عمر بلوغت ہے تاہم یہ ہر عمر میں جائز ہے۔ اس لحاظ سے اگر ایک طرف نابالغ بچی کا نکاح نابالغ لڑکے، جوان اور بوڑھے سے جائز ہوسکتا ہے تو دوسری طرف ایک لڑکے کا یا نوجوان کا اپنے سے بہت بڑی عمر کی عورت، مطلقہ بلکہ دو تین بار کی مطلقہ سے بھی جائز ہے۔ اب رہا عقد کا معاملہ جس کے لیے فریقین کا عاقل بالغ ہونا ضروری ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا عقد صرف نکاح کا ہی نہیں ہوتا بلکہ کئی قسم کے باہمی لین دین میں بھی ہوتا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی فریق عاقل یا بالغ نہ ہو تو اس کے سب معاملات ٹھپ ہوجائیں گے؟ یا اللہ تعالیٰ نے اس کا کوئی حل بتلایا ہے؟ چنانچہ سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٢٨٢ میں جہاں لین دین کے معاہدات کی تحریر کا حکم دیا گیا وہاں ایسی صورت حال کا حل بھی بتلا دیا جو یہ ہے کہ : معاہدات میں نادان کےحقوق کی حفاظت بذریعہ ولی:۔ ﴿فَاِنْ کَانَ الَّذِیْ عَلَیْہِ الْحَقُّ سَفِیْہًا اَوْ ضَعِیْفًا اَوْ لَا یَسْتَطِیْعُ اَنْ یُّمِلَّ ھُوَ فَلْیُمْلِلْ وَلِیُّہٗ بالْعَدْلِ ﴾ (2: 282) ’’پھر اگر قرض لینے والا بے عقل ہو یا کمزور ہو یا مضمون دستاویز لکھوانے کی اہلیت نہ رکھتا ہو تو اس کا ولی انصاف کے ساتھ املا کروا دے۔‘‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تین صورتوں میں ولی کو معاہدہ کے فریق کا مختار بنا دیا ہے (١) نادان ہو (٢) کمزور ہو اور (٣) املا کروانے کی اہلیت نہ رکھتا ہو اور یہ تینوں باتیں نابالغ میں پائی جاتی ہیں۔ چہ جائیکہ صرف ایک بات پر بھی ولی کو حق اختیار مل جاتا ہے اب اگر لین دین کے معاہدہ میں نادان یا نابالغ کا ولی مختار بن سکتا ہے تو نکاح کے معاہدہ میں کیوں نہیں بن سکتا ؟ واضح رہے کہ ولی کو یہ حق اس لیے دیا گیا ہے کہ وہ ایسے معاہدات کی تکمیل میں ذمہ دارانہ حیثیت رکھتا ہے۔ بچپن کی شادی کی مخالفت کی اصل وجہ :۔ ہمارے جو دوست نکاح کی عمر بلوغت پر زور دیتے اور اس سے پہلے کم سنی کے نکاح کو ناجائز قرار دیتے ہیں ان کا مقصد معاشرہ کی فحاشی سے پاکیزگی نہیں ہے بلکہ وہ دراصل تہذیب مغرب سے متاثر ہو کر ایسا پرچار کرتے ہیں۔ انگلستان کے مشہور معیشت دان ’’ ہتھس‘‘ نے ملک کی خوشحالی کے لیے آبادی کی روک تھام کو لازمی قرار دیا تھا۔ اسی سلسلہ کی ایک کڑی یہ بھی تھی کہ مردوں اور عورتوں کی شادیاں دیر سے کی جائیں تاکہ بچے کم پیدا ہوں۔ اسی نظریہ سے متاثر ہو کر ہمارے پڑھے لکھے گھرانوں میں پچیس پچیس تیس تیس سال تک شادی نہیں ہوتی۔ حالانکہ اس سے معاشرہ میں کافی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ لوگ بلوغت کی عمر کے بعد بھی دس بارہ سال شادی نہ ہونے پر اس لیے خاموش رہتے ہیں کہ یہ تاخیر ان کے نظریہ ’’چھوٹا کنبہ خوشحال گھرانہ‘‘ کے لیے مفید ثابت ہوتی ہے اور اسی لیے یہ بچپن کی شادی کی مخالفت بھی کرتے ہیں اور سہارا بھی قرآن کا لیتے ہیں۔ ورنہ اگر یہ لوگ قرآن مجید سے مخلص ہوتے تو جو لوگ بلوغت کے بعد بھی تادیر شادی نہیں کرتے ان کے خلاف بھی آواز اٹھاتے کیونکہ قرآن ایک صاف ستھرے معاشرے کے قیام کا حکم دیتا ہے ’’ چھوٹا کنبہ خوشحال گھرانہ‘‘ کا پرچار نہیں کرتا۔ (مزید تفصیل کے لیے میری تصنیف ملاحظہ کیجئے، آئینہ پرویزیت حصہ سوم) [٣١٦] یعنی عورت کے نکاح ہوجانے میں جو معاشرتی پاکیزگی ہے۔ نکاح نہ ہونے میں نہیں اور جو معاشرتی پاکیزگی عورت کا نکاح اپنے سابقہ خاوند سے ہوجانے میں ہے وہ کسی دوسرے سے نکاح ہونے میں نہیں اور یہ ایسے امور ہیں جنہیں اللہ ہی خوب جانتا ہے۔ تم نہیں جانتے۔ البقرة
233 [٣١٧] والدات کے حکم میں وہ مائیں بھی داخل ہیں جن کو طلاق ہوچکی ہو خواہ وہ عدت میں ہوں یا عدت بھی گزر چکی ہو، اور وہ بھی جو بدستور بچہ کے باپ کے نکاح میں ہوں۔ [٣١٨] اس سے معلوم ہوا کہ رضاعت کی زیادہ سے زیادہ مدت دو سال ہے۔ تاہم اس سے حسب ضرورت کم ہو سکتی ہے (جیسا کہ آگے اس کا ذکر آ رہا ہے) اور یہ مدت قمری تقویم کے حساب سے شمار ہوگی (مزید تفصیل سورۃ لقمان کی آیت نمبر ١٤ پر حاشیہ ١٨ میں دیکھئے) [٣١٩] یعنی منکوحہ عورت اور مطلقہ عورت جو عدت میں ہو اس کے کھانے اور کپڑے کی ذمہ داری تو پہلے ہی بچہ کے باپ پر ہوتی ہے اور اگر عدت گزر چکی ہے تو اس آیت کی رو سے باپ ہی اس مطلقہ عورت کے اخراجات کا ذمہ دار ہوگا کیونکہ وہ اس کے بچے کو دودھ پلا رہی ہے۔ [٣٢٠] یعنی والد سے اس کی حیثیت سے زیادہ کھانے اور کپڑے کے اخراجات کا مطالبہ نہ کیا جائے یہ مطالبہ خواہ عورت خود کرے یا اس کے ورثاء کریں۔ [٣٢١] یعنی ماں بلاوجہ دودھ پلانے سے انکار کر دے اور باپ کو پریشان کرے۔ اسی طرح باپ بچہ کو ماں سے جدا کر کے کسی اور سے دودھ پلوائے اور اس طرح ماں کو پریشان کرے یا اس کے کھانے اور کپڑے کے اخراجات میں کنجوسی کا مظاہرہ کرے۔ یا ماں پر دودھ پلانے کے لیے جبر کیا جائے جبکہ وہ اس بات پر آمادہ نہ ہو۔ [٣٢٢] یہ بچہ جو دودھ پی رہا ہے۔ خود بھی اپنے باپ کا وارث ہے اور اس کے علاوہ بھی وارث ہوں گے۔ بہرحال یہ خرچہ مشترکہ طور پر میت کے ترکہ سے ادا کیا جائے گا اور یہ وہ ادا کریں گے جو عصبہ (میت کے قریبی وارث مرد) ہیں۔ [٣٢٣]رضاعت کی زیادہ سے زیادہ مدت :َ یعنی اگر ماں باپ دونوں باہمی مشورہ سے دو سال سے پہلے ہی دودھ چھڑانا چاہیں مثلاً یہ کہ ماں کا دودھ اچھا نہ ہو اور بچے کی صحت خراب رہتی ہو یا اگر ماں باپ کے نکاح میں ہے تو اس کی یہ صورت بھی ہو سکتی ہے کہ ماں کو اس دوران حمل ٹھہر جائے اور بچہ کو دودھ چھڑانے کی ضرورت پیش آئے تو ایسی صورتوں میں ان دونوں پر کچھ گناہ نہ ہوگا اور یہ ضروری نہ رہے گا کہ بچہ کو ضرور دو سال دودھ پلایا جائے۔ [٣٢٤] اس کا ایک مطلب تو وہ ہے جو ترجمہ میں لکھا گیا ہے اور دوسرا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر تم دایہ سے دودھ پلوانا چاہو تو اس کا معاوضہ تو دینا ہی ہے۔ مگر اس وجہ سے ماں کو جو کچھ طے شدہ خرچہ مل رہا تھا وہ اسے ادا کردینا چاہیئے، اس میں کمی نہ کرنی چاہیے۔ [٣٢٥]حسن معاشرت میں بے اعتدالیاں:۔ ایسے بے شمار احکام ہیں جنہیں بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ’’اللہ سے ڈرتے رہنے‘‘ کی تاکید فرمائی ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ معاملات کی دنیا میں، ایک ہی معاملہ کی بے شمار ایسی شکلیں پیدا ہو سکتی ہیں۔ جن کے مطابق انسان اللہ کے کسی حکم کے ظاہری الفاظ کا پابند رہ کر بھی اپنا ایسا فائدہ سوچ لیتا ہے جو منشائے الٰہی کے خلاف ہوتا ہے۔ مگر اس سے دوسرے کا نقصان ہوجاتا یا اسے تکلیف پہنچ جاتی ہے اور ایسے پیدا ہونے والے تمام حالات کے مطابق الگ الگ حکم بیان کرنا مشکل بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کی حکمت کے خلاف بھی۔ لہٰذا انسان کو اللہ سے ڈرتے رہنے کی تاکید اس لیے کی جاتی ہے۔ انسان اپنی نیت درست رکھے اور آخرت میں اللہ کے حضور جواب دہی کا تصور رکھتے ہوئے ان احکام کو بعینہ اسی طرح بجا لائے جس طرح اللہ تعالیٰ کی منشا ہو۔ البقرة
234 [٣٢٦]سوگ منانے کی مدت اور حکمت:۔ عام حالت میں بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔ لیکن اگر حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل تک ہے (٤: ٦٥) اور یہی مدت بیوہ کے سوگ منانے کی مدت ہے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا ’’ کسی عورت کو، جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتی ہو، جائز نہیں کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے بجز اپنے شوہر کے جس پر اسے چار ماہ دس دن تک سوگ منانا لازم ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب الجنائز، باب إحداد المرأۃ علی غیر زوجھا) اور حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ’’ہمیں کسی بھی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منانے سے منع کردیا گیا۔ بجز خاوند کے جس پر چار ماہ دس دن سوگ منانے کا حکم تھا اور حکم یہ تھا کہ ان دنوں میں نہ ہم سرمہ لگائیں اور نہ خوشبو، نہ ہی رنگے ہوئے کپڑے پہنیں، الا یہ کہ ان کی بناوٹ ہی رنگین دھاگے کی ہو۔ البتہ یہ اجازت تھی کہ ہم میں سے کوئی جب حیض سے پاک ہو اور غسل کرے تو کست الاظفار (ایک قسم کی خوشبو) لگائے۔ نیز ہمیں جنازے کے ساتھ جانے سے بھی منع کردیا گیا تھا۔‘‘ (بخاری، کتاب الحیض، باب الطیب للمرأۃ عند غسلھا من المحیض) اور حضرت زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے اپنی والدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو یہ کہتے سنا ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میری بیٹی کا خاوند مر گیا ہے اور اب اس کی آنکھیں دکھ رہی ہیں۔ کیا ہم اسے سرمہ لگا سکتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ''نہیں''، پھر اس عورت نے دوسری بار یہی سوال کیا تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں، پھر تیسری بار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہی سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نفی میں ہی جواب دیا۔ پھر فرمایا کہ ’’اسلام میں تو عدت اور سوگ کا زمانہ صرف چار ماہ دس دن ہے جبکہ جاہلیت میں تو یہ عدت پورا ایک سال تھی، اور سال گزرنے کے بعد عورت اونٹ کی مینگنی پھینکتی تھی۔‘‘ حمید (راوی) نے زینب رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ یہ ’’اونٹ کی مینگنی پھینکنے کا کیا قصہ ہے؟‘‘ زینب رضی اللہ عنہا نے کہا، جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ جس عورت کا خاوند مر جاتا تو وہ ایک تنگ و تاریک جھونپڑے میں جا بیٹھتی۔ برے سے برا لباس پہنتی، نہ خوشبو لگاتی اور نہ کوئی دوسری آرائش و زیبائش کرتی۔ حتیٰ کہ پورا سال اسی طرح گزار دیتی۔ سال گزرنے پر اس کے پاس کوئی جانور مثلاً گدھا یا بکری یا کوئی پرندہ لاتے جس سے وہ اپنی شرمگاہ رگڑتی تھی اور کبھی وہ جانور مر بھی جاتا۔ اس کے بعد اسے اونٹ کی مینگنی دی جاتی، جسے وہ اپنے سامنے پھینک دیتی (یہ گویا اس کی عدت پوری ہونے کی علامت ہوتی تھی) اس کے بعد ہی وہ خوشبو وغیرہ لگا سکتی تھی۔ (بخاری، کتاب الطلاق باب تحد المتوفی عنھا زوجھا اربعہ أشھر و عشرا) رہی یہ بات کہ عورت یہ عدت یا سوگ کا عرصہ کہاں گزارے تو اس سلسلہ میں راجح قول یہی ہے کہ وہ اپنے خاوند کے مکان میں ہی گزارے اور اسے اتنے سفر کی اجازت ہے کہ رات کو اپنے مقام پر واپس آ جائے اور کچھ علماء کا یہ قول بھی ہے کہ بیوہ عورت جہاں چاہے عدت گزار سکتی ہے اور اس پر سفر کی بھی پابندی نہیں۔ عدت کی مصلحت:۔ یہ عدت اللہ تعالیٰ نے اس لیے مقرر فرمائی کہ معلوم ہو سکے کہ عورت کو اپنے مرنے والے خاوند سے حمل تو نہیں۔ اگر حمل ہو تو عدت وضع حمل تک ہوگی تاکہ نسب میں اختلاط واقع نہ ہو۔ چار ماہ دس دن گزرنے کے بعد وہ اپنے نکاح کے معاملہ میں مختار ہے اور اس مدت میں یقینی طور پر معلوم ہوسکتا ہے کہ اسے متوفی خاوند سے حمل ہے یا نہیں۔ [٣٢٧] یعنی ان کا نکاح کی بات چیت کرنا، زینت و آرائش کرنا، خوشبو لگانا، مقام عدت سے کسی اور جگہ چلے جانا، نکاح کرلینا، جو کچھ وہ اپنے حق میں بہتر اور مناسب سمجھیں سب کچھ جائز ہے اور اس کا تم پر کوئی گناہ نہیں۔ البقرة
235 [٣٢٨] یعنی ایسی عدت والی بیواؤں کو تم اشارتاً تو پیغام نکاح دے سکتے ہو مگر واضح الفاظ میں پیغام دینا ناجائز ہے۔ مثلاً اسے یوں کہہ سکتے ہو کہ میرا بھی کہیں نکاح کرنے کا ارادہ ہے یا اسے یوں کہہ دے کہ ابھی تم ماشاء اللہ جوان ہو۔ اور اس طرح اشارتاً پیغام سنا دینے میں ایک مصلحت یہ بھی ہے کہ کوئی دوسرا اس سے پہلے پیغام نہ دے دے، البتہ جو عورت طلاق رجعی کی عدت میں ہو اسے اشارتاً بھی کوئی ایسی بات کہنا حرام ہے۔ [٣٢٩] یہ تو یقینی بات ہے کہ اگر تمہارا اس سے نکاح کا ارادہ ہے تو تم یقیناً اسے دل میں یاد رکھتے ہو گے۔ لیکن اس خیال سے مغلوب ہو کر نہ تو دوران عدت اس سے کوئی وعدہ کرنا یا وعدہ لینا اور نہ ہی نکاح کا ارادہ کرنا۔ البتہ اگر تمہارے دلوں میں جو ایسے خیالات آتے ہیں۔ ان پر تم سے کچھ مواخذہ نہیں۔ کیونکہ اللہ بخش دینے والا اور بردبار ہے۔ البقرة
236 [٣٣٠] یعنی نکاح کے وقت نہ تو حق مہر مقرر ہوا اور نہ ہی صحبت کی نوبت آئی تو ایسی صورت میں حق مہر تو ہے ہی نہیں البتہ کچھ نہ کچھ دینے کی تاکید اس لیے فرمائی کہ رشتہ جوڑنے کے بعد صحبت سے پہلے ہی طلاق دینے سے عورت کو جو نقصان پہنچتا ہے۔ اس کی کسی حد تک تلافی ہو سکے۔ اس لیے تمام نیک لوگوں کو اس کی تاکید کی گئی اور اس سلسلہ میں جہاں تک ممکن ہو فراخدلی سے کام لینا چاہیے۔ البقرة
237 [٣٣١]آپس میں قیاضی اورایثار کرنے کاسبق:۔ عورت یا اس کے ولی کی طرف سے یہی فیاضی کافی ہے کہ وہ خاوند کو وہ آدھا حق مہر بھی معاف کردیں جو اسے ادا کرنا بروئے حکم الٰہی لازم تھا اور خاوند کی طرف سے فیاضی یہ ہے کہ آدھے کی بجائے پورا ہی حق مہر ادا کر دے یا اگر ادا کرچکا ہے تو اس سے کچھ واپس نہ لے اور یہ تاکید اس لیے کی کہ اجتماعی زندگی میں خوشگواری پیدا کرنے کے لیے ایسا فیاضانہ برتاؤ ضروری ہے اگر ہر شخص اپنے قانونی حق پر ہی اڑا رہے تو اجتماعی زندگی کبھی خوشگوار نہیں ہو سکتی۔ حق مہر کی مختلف صورتیں اورمہر مثل:۔اب دیکھئے مطلقہ عورت کے حق مہر کی ادائیگی کے سلسلہ میں شرعی احکام کی رو سے ممکنہ صورتیں چار ہیں : (١) نہ مہر مقرر ہو اور نہ صحبت ہوئی ہو (٢) مہر مقرر ہوچکا ہو مگر صحبت نہ ہوئی ہو۔ ان دونوں صورتوں کا حکم ان دو آیات میں مذکور ہوچکا ہے (٣) مہر بھی مقرر ہو اور صحبت بھی ہوچکی ہو اور یہ سب سے عام صورت ہے۔ اس صورت میں مہر پورا دینا ہوگا۔ (٤) مہر مقرر نہ ہوا تھا مگر صحبت ہوچکی۔ اس صورت میں مہر مثل ادا کرنا ہوگا۔ یعنی اتنا مہر جو اس عورت کے قبیلہ میں عام رواج ہے۔ اور بیوہ کے لیے بھی یہی چاروں صورتیں ممکن ہیں مگر اس کے احکام میں اختلاف ہے، جو یہ ہے کہ مہر مقرر ہوا ہو یا نہ ہوا ہو اور مرنے والے خاوند نے صحبت کی ہو یا نہ کی ہو، عورت کو بہرحال پورا مہر ملے گا۔ اگر مہر مقرر تھا تو اتنا ملے گا اور اگر مقرر نہیں ہوا تھا تو مہر مثل ملے گا، اور اس کی دلیل درج ذیل حدیث ہے۔ حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایسے شخص کے متعلق سوال کیا گیا۔ جس نے کسی عورت سے نکاح کیا نہ حق مہر مقرر ہوا اور نہ ہی صحبت کرسکا کہ اس کی وفات ہوگئی۔ ابن مسعود نے اسے جواب دیا کہ اسے اس کے خاندان کی عورتوں کے مثل مہر دیا جائے، نہ کم نہ زیادہ، اور اس پر عدت بھی ہے اور میراث سے اسے حصہ بھی ملے گا۔ (یہ سن کر) معقل بن سنان اشجعی نے کہا کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ہمارے خاندان کی ایک عورت بروع بنت واشق کے بارے میں ایسا ہی فیصلہ کیا تھا‘‘ یہ سن کر ابن مسعود رضی اللہ عنہ خوش ہوگئے۔ (ترمذی، ابو اب النکاح باب فی الرجل یتزوج المرأۃ فیموت عنھا قبلأن یفرض لھا) نیز ابو داؤد، کتاب النکاح، باب فیمن تزوج ولم یسم صداقا حتی مات) البقرة
238 [٣٣٢] عائلی مسائل کے درمیان نماز کی تاکید سے متعلق جو دو آیات آ گئی ہیں تو ان کی غالباً حکمت یہ ہے کہ ایسے معاشرتی مسائل کو بحسن و خوبی سر انجام دینے کے لیے جس تقویٰ کی ضرورت ہوتی ہے نماز اس سلسلہ میں موثر کردار ادا کرتی ہے۔ اسی لیے نمازوں کی محافظت کی تاکید کی جا رہی ہے یعنی ہر نماز کو اس کے وقت پر اور پوری شرائط و آداب کے ساتھ ادا کیا جائے۔ [٣٣٣]نمازوسطیٰ سےمراد نماز عصر ہےا ور اس کی تاکید مزید:۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خندق کے دن فرمایا۔ ان کافروں نے مجھے درمیانی نماز نہ پڑھنے دی حتیٰ کہ سورج غروب ہوگیا۔ اللہ ان کی قبروں اور گھروں کو آگ سے بھر دے۔ (بخاری، کتاب التفسیر) نیز حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ دونوں سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : صلوٰۃ وسطیٰ نماز عصر ہے۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جس کی عصر کی نماز قضا ہوگئی اس کا گھر بار، مال و اسباب سب لٹ گیا۔‘‘ (بخاری، کتاب مواقیت الصلٰوۃ، باب إثم من فاتتہ العصر) اور بالخصوص اس نماز کی تاکید اس لیے فرمائی کہ دنیوی مشاغل کے لحاظ سے یہ وقت بہت اہم ہوتا ہے۔ [٣٣٤] نمازمیں بادب کھڑاہونےکاحکم :۔ یعنی اللہ کے حضور عاجزی اور ادب کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ نیز ایسی کوئی فضول حرکت نہ کی جائے جو ادب کے خلاف ہو یا نماز کو توڑ ڈالنے والی ہو جیسے خواہ مخواہ یا عادتاً ہاتھوں کو حرکت دینا، ہلاتے رہنا یا ہنسنا یا بات چیت کرلینا وغیرہ۔ چنانچہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نماز میں باتیں کرلیا کرتے تھے۔ تب یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری، کتاب التفسیر۔ زیر آیت مذکورہ) مسلم کی روایت میں اضافہ ہے کہ یہ آیت نازل ہونے کے بعد ہمیں حکم دیا گیا کہ چپ چاپ سکون سے کھڑے ہوں اور باتیں کرنے سے بھی منع کردیا گیا (مسلم، کتاب المساجد۔ باب تحریم الکلام فی الصلوۃ) ٢۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ نماز پڑھتے تو نماز کے آخر میں دائیں بائیں السلام علیکم و رحمۃ اللہ کہتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ بھی کرتے تھے۔ یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم لوگ اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارے کرتے ہو۔ جیسے شریر گھوڑوں کی دمیں ہلتی ہیں۔ تمہیں اتنا ہی کافی ہے کہ تم قعدہ میں اپنی رانوں پر ہاتھ رکھے ہوئے دائیں اور بائیں منہ موڑ کر السلام علیکم و رحمۃ اللہ کہہ لیا کرو۔ (مسلم: کتاب الصلٰوۃ، باب الأمر بالسکون فی الصلوۃ والنھی عن الاشارۃ بالید.....) صف درست کرنے اور مل کر کھڑا ہونے کاحکم:۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا میں تم کو اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھ رہا ہوں جیسے شریر گھوڑوں کی دمیں ہلتی ہیں۔ تم لوگ نماز میں کوئی حرکت نہ کیا کرو۔ پھر آپ نے ایک دفعہ حلقہ باندھے دیکھ کر فرمایا تم لوگ الگ کیوں ہو؟ پھر ایک مرتبہ آپ نے فرمایا صفیں اس طرح باندھا کرو۔ جیسے فرشتے بارگاہ الٰہی میں صف بستہ رہتے ہیں۔ سب سے پہلے اگلی صف پوری کیا کرو۔ اور صف میں خوب مل کر کھڑے ہوا کرو۔ (مسلم حوالہ ایضاً) البتہ کچھ کام ایسے ہیں جو حالت نماز میں بھی سر انجام دیئے جا سکتے ہیں۔ مثلاً : ١۔ اگر امام بھول جائے تو مقتدی سبحان اللہ کہہ سکتے ہیں اور اگر مقتدی عورت ہو تو وہ تالی بجا سکتی ہے۔ (بخاری۔ تصفیق النسائ) ٢۔ اگر قراءت کرتے ہوئے امام بھول جائے تو مقتدی بتلا سکتا یعنی لقمہ دے سکتا ہے۔ نمازکے دوران کون کون سے کام کرناجائز یاضروری ہیں:۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنی عمرو بن عوف کے لوگوں میں صلح کرانے گئے۔ ظہر کا وقت ہوگیا تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھانا شروع کردی۔ اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی پہنچ گئے اور صفوں کو چیرتے ہوئے پہلی صف میں آ کھڑے ہوئے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے تالی بجائی جس سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ متوجہ ہوئے اور پیچھے کی طرف دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلی صف میں کھڑے تھے۔ آپ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھاتے رہنے کا اشارہ کیا۔ لیکن ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر اللہ کا شکر ادا کیا۔ پھر الٹے پاؤں پیچھے ہٹے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی۔ پھر نماز کے بعد فرمایا کہ تالی بجانا عورتوں کے لیے ہے، مرد سبحان اللہ کہا کریں۔ (بخاری) ٤۔ اگر گرمی کی وجہ سے زمین تپ رہی ہو تو نمازی اپنے سجدہ کی جگہ پر کپڑا بچھا سکتا ہے۔ (بخاری حوالہ ایضاً) ٥۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رات کے وقت جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھتے اور میں اپنے پاؤں لمبے کئے ہوتی تو سجدہ کے وقت آپ مجھے ہاتھ لگاتے تو میں پاؤں سمیٹ لیتی۔ پھر جب آپ کھڑے ہوجاتے تو میں پاؤں لمبے کرلیتی۔ (بخاری۔ حوالہ ایضاً) ٦۔ ایک دفعہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اپنی خالہ ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں رات رہے۔ انہی کے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باری تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آدھی رات کو اٹھے، وضو کیا اور نماز میں کھڑے ہوگئے۔ یہ دیکھ کر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بھی وضو کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جا کر بائیں طرف کھڑے ہو کر نماز میں شامل ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے سر پر ہاتھ رکھا، پھر دائیں کان کو مروڑا۔ پھر انہیں پکڑ کر پیچھے کی طرف سے اپنے دائیں جانب کھڑا کرلیا۔ (بخاری، کتاب الاذان، باب اذا قام الرجل عن یسار الامام۔۔۔۔ الخ) ٧۔ اگر نفلی نماز کے دوران والدہ یا والد پکارے تو نماز توڑ کر بھی ان کی بات سننا چاہیے (تفصیل کے لیے دیکھئے سورۃ انفال کی آیت نمبر ٢٤ کا حاشیہ) ٨۔ ازرق بن قیس کہتے ہیں کہ ہم اہواز میں خارجیوں سے جنگ میں مصروف تھے کہ ایک صحابی ابو برزہ اسلمی اپنی گھوڑے کی لگام اپنے ہاتھ میں سنبھالے نماز پڑھنے لگے۔ گھوڑا لگام کھینچنے لگا اور ابو برزہ بھی ساتھ ساتھ پیچھے چلتے گئے۔ یہ دیکھ کر ایک خارجی کہنے لگا۔ یا اللہ بوڑھے کا ستیا ناس کر۔ جب ابو برزہ نماز سے فارغ ہوئے تو اس خارجی سے کہا کہ میں نے تمہاری بات سن لی ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ سات آٹھ جہاد کئے ہیں اور میں نے دیکھا کہ آپ لوگوں پر آسانی کیا کرتے تھے اور مجھے یہ اچھا معلوم ہوا کہ اپنا گھوڑا ساتھ لے کر لوٹوں، نہ کہ اس کو چھوڑ دوں کہ وہ جہاں چلا جائے اور میں مصیبت میں پڑجاؤں۔ (بخاری، حوالہ ایضاً) ٩۔دین میں آسانی کی ایک مثال:۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’میں نماز شروع کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اسے لمبا کروں، پھر میں کسی بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو نماز کو مختصر کردیتا ہوں، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ بچے کے رونے سے ماں کے دل پر کیسی چوٹ پڑتی ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب الاذان۔ باب من اخف الصلوۃ عند بکاء الصبی) ١٠۔ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس اس حال میں آئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی نواسی امامہ بنت ابی العاص (حضرت زینب کی بیٹی) کو اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز پڑھنا شروع کی جب رکوع کرتے تو امامہ کو زمین پر بٹھلا دیتے اور جب سجدہ سے فارغ ہو کر کھڑے ہوتے تو اسے اپنے کندھے پر بٹھا لیتے۔ (بخاری : کتاب الادب، باب رحمہ الولد و تقبیلہ ومعانقتہ) اور ایک دوسری روایت میں رکوع کے علاوہ سجدہ کا لفظ آیا ہے (بخاری : کتاب الصلوة، باب حمل جاریۃ صغیرۃ علی عنقہ فی الصلوۃ) البقرة
239 [٣٣٥] نمازخوف کے پڑھنےکاطریقہ :۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے جب کوئی پوچھتا کہ ہم نماز خوف کیسے پڑھیں؟ تو وہ کہتے کہ امام آگے بڑھے، کچھ لوگ اس کے ساتھ نماز ادا کریں، امام انہیں ایک رکعت پڑھائے، باقی لوگ ان کے اور دشمنوں کے درمیان کھڑے رہیں۔ نماز نہ پڑھیں۔ جب یہ لوگ امام کے ساتھ ایک رکعت نماز پڑھ چکیں تو سرک کر پیچھے چلے جائیں اور جنہوں نے نماز نہیں پڑھی اب وہ لوگ آ جائیں اور امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھیں۔ امام تو اپنی نماز (دو رکعت) سے فارغ ہوگیا۔ اب یہ دونوں گروہ باری باری باقی ایک ایک رکعت پوری کرلیں تو ان کی بھی دو رکعت ہوگئیں، اور اگر خوف اس سے زیادہ ہو تو پاؤں پر کھڑے پیدل یا سواری پر رہ کر نماز ادا کرلیں۔ منہ قبلہ رخ ہو یا کسی اور طرف۔ امام مالک کہتے ہیں کہ نافع نے کہا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے۔ (بخاری، کتاب التفسیر) [٣٣٦] یعنی جب خوف کی حالت ختم ہوجائے تو نماز پوری اور باجماعت ادا کرو، جیسا کہ عام حالات میں پڑھا کرتے ہو۔ (سفر اور خوف کی نمازوں کی تفصیل کے لیے سورۃ نساء کی آیت نمبر ١٠١ اور ١٠٢ کے حواشی نمبر ١٣٨ اور ١٣٩ ملاحظہ فرمائیے۔) البقرة
240 [٣٣٧]بیوہ کے نان ونفقہ سےمتعلق احکام منسوخہ:۔ یہ حکم ابتدائے اسلام میں نازل ہوا تھا کہ مرتے وقت مرد اپنی بیویوں کے متعلق ورثاء کو ایسی وصیت کر جائیں۔ بعد میں جب بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن مقرر ہوگئی نیز آیت میراث کی رو سے خاوند کے ترکہ میں بیوہ کا حصہ مقرر ہوگیا تو اس آیت کا حکم منسوخ ہوگیا۔ اب بیوہ کے لیے تو یہ حکم ہوا کہ وہ بس عدت کے ایام اپنے مرنے والے شوہر کے ہاں گزارے۔ بعد میں وہ آزاد ہے اور اس دوران نان و نفقہ بھی وارثوں کے ذمہ اور ترکہ ہی سے ہوگا، اور سال بھر کے خرچہ کا مسئلہ میراث میں حصہ ملنے سے حل ہوگیا۔ البقرة
241 [٣٣٨] مطلقہ عورتوں کو دے دلاکر رخصت کرنےکاحکم:۔ آیت نمبر ٢٣٦ میں طلاق کے وقت کچھ دے دلا کر رخصت کرنے کا حکم صرف ایسی مطلقہ کے لیے ہے جس کا نہ تو حق مہر مقرر ہوا ہو۔ نہ ہی اس کے خاوند نے صحبت کی ہو اور وہ صحبت سے پیشتر ہی فوت ہوجائے۔ اب یہاں ایسا حکم ہر قسم کی مطلقہ کے لیے دیا جا رہا ہے اور اس کی تاکید بھی کردی گئی کہ پرہیزگاروں کا یہ شیوہ نہیں ہوتا کہ وہ طلاق دے کر مطلقہ کو خالی ہاتھ گھر سے نکال باہر کریں۔ البقرة
242 [٣٣٩] یہاں نکاح، طلاق، عدت رضاعت وغیرہ عائلی زندگی سے متعلق احکام دینے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ احکام وضاحت سے بیان کردیئے گئے ہیں۔ لہٰذا انہیں اچھی طرح سمجھ کر ان پر عمل کیا کرو اور ان سے جو کچھ اللہ تعالیٰ کی منشا معلوم ہوتی ہے۔ اسی کے مطابق عمل کرو۔ اپنے لیے گنجائشیں نکالنے کی کوشش نہ کرو۔ البقرة
243 [٣٤٠]طاعون کےخوف سے بھاگنے والے بنی اسرائیل کی موت اور دوبارہ زندگی :۔ اس آیت سے آگے جہاد کا مضمون شروع ہو رہا ہے اور بطور تمہید اس آیت میں بتلایا جا رہا ہے کہ زندگی اور موت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ واقعہ یہ ہوا کہ بنی اسرائیل کے کچھ لوگ کسی شہر میں رہتے تھے۔ وہاں طاعون کی وبا پھیل گئی تو یہ طاعون کی وبا کا شکار ہو کر مر جانے کے خطرہ کی بنا پر اپنا بوریا بستر لپیٹ کر ہزاروں کی تعداد میں شہر سے نکل کھڑے ہوئے اور سمجھے کہ اس طرح موت سے بچ جائیں گے، ابھی کسی منزل پر بھی نہ پہنچنے پائے تھے کہ راہ میں انہیں موت نے آ لیا اور سب کے سب مر گئے۔ ممکن ہے وہ طاعون کے جراثیموں سے ہی مرے ہوں۔ انہوں نے اللہ پر بھروسہ نہ کیا اور بزدلی دکھائی، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر ان سب کو ہی موت کی نیند سلا دیا اور اگر وہ اللہ کی تقدیر پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے شہر میں مقیم رہتے تو ممکن ہے ان میں سے اکثر بچ جاتے۔ پھر کچھ مدت بعد حزقیل پیغمبر جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تیسرے خلیفہ تھے، ادھر سے گزرے اور یہ صورت حال دیکھ کر انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانی سے انہیں دوبارہ زندگی عطاء کی اور ہر شخص ﴿سُبْحَانَکَ لاَ اِلٰہَ الاَّ أنْتَ﴾ کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔ البقرة
244 [٣٤١]جہاد کاخیال تک نہ آنا نفاق کی علامت ہے: اس آیت میں موت سے نہ ڈرنے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ اس سے پہلی آیت کا مفہوم یہ تھا کہ زندگی اور موت صرف اور صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ چاہے تو جہاد میں جانے والے کو بھی موت کے منہ سے بچا لے اور چاہے تو کسی کو گھر بیٹھے بیٹھے ہی موت دے دے یا جو موت سے بھاگ کر نکل کھڑا ہو اسے راہ میں ہی موت کی نیند سلا دے اور چاہے تو مردہ کو ازسر نو زندہ کر دے، موت اور زندگی صرف اسی کے اختیار میں ہے۔ لہذا تمہیں اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے جہاد کرنا چاہیے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے زندگی بھر جہاد نہ کیا ہو اور نہ ہی اس کے دل میں جہاد کرنے کا خیال پیدا ہوا وہ منافق کی موت مرا۔ (مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب ذم من مات ولم یغز ولم یحدث نفسہ بالغزو ) البقرة
245 [٣٤٢] قرض حسنہ کےا جر میں اضافہ کی شرائط :۔قرض حسنہ سے مراد ایسا قرضہ ہے جو محض اللہ کی رضا کے لیے فقراء اور اقربا و مساکین کو دیا جائے اور ادائیگی کے لیے انہیں تنگ نہ کیا جائے، نہ ہی قرضہ دینے کے بعد انہیں جتلایا جائے اور نہ ہی ان سے کسی قسم کی بیگار لی جائے اور اگر مقروض فی الواقعہ تنگ دست اور ادائیگی سے معذور ہو تو اسے معاف ہی کردیا جائے اور اللہ کو قرض حسنہ دینے کا مفہوم اس سے وسیع ہے۔ جس میں انفاق فی سبیل اللہ کی تمام صورتیں آ جاتی ہیں اور اس میں جہاد کی تیاری پر خرچ کرنا اور مجاہدین کی مالی امداد بھی شامل ہے اور مضمون کی مناسبت سے یہاں یہی صورت درست معلوم ہوتی ہے۔ ایسے قرضہ کو اللہ تعالیٰ سات سو گنا تک بلکہ اس سے بھی زیادہ تک بڑھا دیتے ہیں اور اس بڑھوتی کا انحصار دو باتوں پر ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لیے خرچ کیا جائے اور دوسرے یہ کہ دل کی پوری خوشی کے ساتھ دیا جائے۔ نیز ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلا دیا کہ خرچ کرنے سے تمہیں مال میں کمی آ جانے سے نہ ڈرنا چاہیے۔ کیونکہ مال میں کمی بیشی ہونا تو صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے اور قرآن میں ہی ایک دوسرے مقام پر (٣٤ : ٣٩) فرمایا کہ جو کچھ تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اللہ تمہیں اس کا نعم البدل عطا کر دے گا۔ البقرة
246 [٣٤٣]بنی اسرائیل میں سیادت انبیاء یعنی نظام خلافت :۔ بنی اسرائیل میں یہ دستور رہا ہے کہ ان کے حکمران بھی انبیاء ہی ہوا کرتے تھے۔ انہیں کے پاس مقدمات کے فیصلے ہوتے اور انہیں کی سر کردگی میں جہاد کیا جاتا تھا۔ گویا ان لوگوں میں صحیح نظام خلافت رائج تھا اور یہی وہ سیاسی نظام ہے جو اسلام کا جزولاینفک ہے۔ مگر ان لوگوں نے دوسرے ممالک کی دیکھا دیکھی جن میں نظام ملوکیت رائج تھا۔ اپنے بوڑھے نبی سموئیل علیہ السلام سے مطالبہ کردیا کہ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کر دو تاکہ ہم اس کی قیادت میں جہاد کریں اور حقیقتاً ان کا یہ مطالبہ محض جہاد سے راہ فرار کی ایک صورت تھی جو ان کی بزدلی پر دلالت کرتی تھی۔ جسے انہوں نے اس رنگ میں پیش کیا کہ تم تو بوڑھے ہوگئے اور ہمیں ایک نوجوان قائد درکار ہے اور قائدان کی مادہ پرست نظروں میں وہی ہوسکتا تھا جو بادشاہوں کی طرح کا ٹھاٹھ باٹھ رکھتا ہو۔ [٣٤٤] ان کے نبی سموئیل کو چونکہ اصل مرض کا علم تھا۔ لہٰذا اس نے ان سے پختہ عہد لیا کہ اگر بادشاہ مقرر کردیا جائے تو پھر تو جہاد سے راہ فرار اختیار نہ کرو گے؟ جس کے جواب میں انہوں نے یقین دلایا کہ ہم ہرگز ایسا نہیں کریں گے اور کر بھی کیسے سکتے ہیں جبکہ ہم پہلے ہی بے گھر ہوچکے ہیں۔ دشمنوں نے ہمارے ملک چھین لیے، ہمارے بیوی بچوں کو لونڈی غلام بنا رکھا ہے۔ لہٰذا ہم کیوں نہ ان سے لڑیں گے۔ لیکن اس کے باوجود جب ان پر جہاد فرض ہوا تو مختلف حیلوں بہانوں اور کٹ حجتیوں سے اپنے کئے ہوئے عہد سے پھرنے لگے۔ البقرة
247 [٣٤٥]حکمران کی لازمی صفات:۔ چنانچہ بنی اسرائیل کے مطالبہ پر اللہ تعالیٰ نے طالوت کو ان کا بادشاہ مقرر کیا جو ایک تیس سالہ جوان، خوبصورت اور قد آور شخص تھا۔ اس پر کئی لوگوں نے یہ اعتراض جڑ دیا کہ ’’طالوت کے پاس نہ مال و دولت ہے اور نہ شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ، بھلا یہ ہمارا بادشاہ کیسے بن سکتا ہے؟ اس سے تو ہم ہی اچھے اور بادشاہت کے زیادہ حقدار ہیں۔‘‘ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ قیادت کے لیے مال و دولت کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ طالوت میں موجود ہیں اور تم سے بہت زیادہ ہیں۔ لہٰذا تمہیں فضول قسم کی کٹ حجتیوں سے باز آنا چاہیے۔ البقرة
248 [٣٤٦]تابوت سکینہ کیاتھا؟ اس صندوق کو بنی اسرائیل ’’عہد کا صندوق‘‘ کہتے تھے جس میں آل موسیٰ و ہارون کے تبرکات رکھے ہوئے تھے۔ مثلاً پتھر کی وہ تختیاں جو کوہ طور پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا کی تھیں اور تورات کا وہ اصل نسخہ جسے موسیٰ علیہ السلام نے خود لکھوایا تھا اور ایک بوتل میں من تھا جو بنی اسرائیل پر نازل ہوتا رہا۔ نیز اس میں وہ عصائے موسیٰ بھی تھا جو سانپ بن جاتا تھا۔ یہ کچھ تھا بنی اسرائیل کے سکون قلب کا سامان جو اس صندوق میں محفوظ تھا اور یہ ہر وقت ان کے پاس رہتا تھا اور جب دشمن سے جنگ ہوتی تو اس صندوق کو آگے رکھتے اور اس کی وساطت سے فتح و نصرت کی دعا کرتے۔ ایک لڑائی کے موقعہ پر مشرک بادشاہ جالوت نے ان پر غالب آ کر ان سے وہ صندوق چھین لیا اور وہ لوگ اسے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ اس صندوق کے چھن جانے کو بنی اسرائیل اپنی نحوست و ادبار کی علامت تصور کرتے تھے اور اس کی موجودگی کو فتح و نصرت کا نشان سمجھتے تھے۔ [٣٤٧]تابوت سکینہ کا طالوت تک پہنچنا:۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو یہ بتلایا کہ اگر طالوت کے دور حکومت میں وہ چھنا ہوا صندوق تمہیں واپس مل جائے تو سمجھ لینا کہ طالوت کو فی الواقع اللہ تعالیٰ ہی نے بادشاہ مقرر کیا ہے۔ چنانچہ ہوا یہ کہ ان چھیننے والے مشرکوں کے شہر میں وبائیں پھوٹ پڑیں۔ انہوں نے اسی صندوق کو غالباً اپنی نحوست کی علامت سمجھا اور ایک بیل گاڑی پر اس صندوق کو رکھ کر اسے ہانک دیا۔ چنانچہ فرشتے اس بیل گاڑی کو ہانک کر بنی اسرائیل تک لے آئے اور اسے طالوت کے گھر کے سامنے چھوڑ گئے۔ اس طرح ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنی اسرائیل پر اتمام حجت ہوگئی اور دوسری طرف بنی اسرائیل کے حوصلے بڑھ گئے اور انہوں نے طالوت کو اپنا بادشاہ تسلیم کرلیا۔ البقرة
249 [٣٤٨] طالوت کی سرکردگی میں جہاد:۔ چنانچہ بادشاہ طالوت کی قیادت میں بنی اسرائیل کا ایک لشکر جرار جالوت کے مقابلہ میں نکل کھڑا ہوا۔ طالوت نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ جس نے بزدلی دکھانا ہو وہ ہمارے ساتھ نہ نکلے۔ بنی اسرائیل زبانی باتوں میں بڑے دلیر تھے۔ چنانچہ ان کی تعداد ستر ہزار ہوگئی راستہ میں ایک منزل پر پانی نہ ملا تو طالوت سے شکایت کی۔ طالوت نے کہا آگے ایک نہر آتو رہی ہے مگر تم لوگ اس میں سے سیر ہو کر پانی نہ پینا، صرف ایک آدھ گھونٹ پی لینا اور یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے آزمائش ہے۔ کہ اگر تم اپنی پیاس بھی برداشت نہ کرسکے تو لڑائی میں کیا کارنامے سر انجام دو گے؟ لہٰذا میں تو صرف اس آدمی کو اپنے ساتھ لے جاؤں گا جو اپنی پیاس کو برداشت کرے گا۔ چنانچہ جب وہ نہر آئی تو سب نے سیر ہو کر پانی پی لیا اور بعضوں نے تو منہ ہی نہر میں ڈال دیا اور مویشیوں کی طرح پینے لگے۔ اس طرح یکدم کثیر مقدار میں پانی پینے سے ان کے بدن ٹوٹنے لگے اور تھوڑا سا فاصلہ چل کر گر پڑے اور کہنے لگے کہ اب ہمیں جالوت اور اس کے لشکر سے لڑنے کی تاب نہیں رہی۔ [٣٤٩]طالوت کے لشکر کی تعداد:۔ اور جن لوگوں نے اپنی پیاس برداشت کی تھی ان کی تعداد صرف تین سو تیرہ یا اس کے لگ بھگ تھی۔ انہیں صبر کرنے والوں میں بوڑھے نبی سموئیل، حضرت داؤد، ان کے باپ اور ان کے چھ بھائی شامل تھے اور بروایت براء بن عازب یہ وہی تعداد باقی رہ گئی تھی جتنی اصحاب بدر کی تھی (بخاری، کتاب المغازی، باب عدۃ اصحاب بدر) کجا ان زبانی شیخی بگھارنے والوں کی تعداد ستر ہزار تھی اور کجا ان میں سے خالص تین سو تیرہ رہ گئے، یعنی ہر دو ہزار میں سے صرف نو آدمی سچے مجاہد ثابت ہوئے۔ ان لوگوں کے حوصلے بلند تھے۔ صبر کرنے والے اور توکل کرنے والے تھے۔ وہ آپس میں کہنے لگے کہ اگر ہم تھوڑے سے باقی رہ گئے ہیں تو کوئی بات نہیں فتح و شکست اور زندگی اور موت سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ اللہ تھوڑی سی صبر کرنے والی جماعت کو بہت بڑے لشکر کے مقابلہ میں فتح عطا کردیتا ہے کیونکہ اللہ کی مدد ان کے شامل حال ہوتی ہے۔ البقرة
250 [٣٥٠]کامیابی کےلیے مادی وسائل کے ساتھ دعا بھی لازمی ہے:۔ یہی اللہ کے نیک بندوں کی علامت ہے کہ وہ اپنی ہمت اور سامان جنگ پر ہی بھروسہ نہیں کرتے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عاجزی سے اللہ کو یاد کرتے اس سے صبر اور ثابت قدمی کی توفیق طلب کرتے اور اپنی فتح کے لیے دعائیں بھی کرتے ہیں اور جالوت کے اس مختصر سے لشکر نے بھی اللہ سے گڑگڑا کر ایسی دعائیں کیں جیسی جنگ بدر کے موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کی تھیں۔ البقرة
251 [٣٥١]سیدناداؤدعلیہ السلام اور جالوت کومارڈالنا:۔ حضرت داؤد علیہ السلام اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے بکریاں چرایا کرتے تھے، پھرتیلا، مضبوط اور چست بدن تھا۔ بہت اچھے نشانہ باز تھے اور جو وحشی جانور بکریوں کے ریوڑ پر حملہ آور ہوتے۔ پتھروں کے ذریعہ ہی انہیں مار ڈالتے یا مار بھگاتے تھے۔ وہ اتنے جرات مند اور طاقتور تھے کہ اگر کوئی درندہ ان کے ہتھے چڑھ جاتا تو اس کے نچلے جبڑے پر پاؤں رکھ کر اوپر کے جبڑے کو اس زور سے کھینچتے تھے کہ اسے چیر کے رکھ دیتے تھے۔ [٣٥٢] جب مقابلہ شروع ہوا تو جالوت خود سامنے آیا، اور آ کر دعوت مبارزت دینے لگا وہ سارے کا سارا لوہے میں ڈوبا ہوا تھا، صرف چہرہ اور آنکھیں ننگی تھیں۔ داؤد علیہ السلام نے راہ میں سے دو تین پتھر اس غرض سے اٹھا لیے تھے۔ آپ نے یکے بعد دیگرے یہ تینوں پتھر فلاخن میں رکھ کر ان سے جالوت پر حملہ کیا جو اس کی پیشانی پر لگے اور اس کے سر کو چیرتے ہوئے پیچھے گدی تک نکل گئے، جس سے جالوت مر کر گر پڑا۔ اس واقعہ سے جالوت کے لشکر کے حوصلے پست ہوگئے اور طالوت کے اس مختصر لشکر کو اللہ تعالیٰ نے فتح عطا فرمائی۔ بعد میں وہ بنی اسرائیل کا متفق علیہ اور بلا شرکت غیرے بادشاہ بن گئے۔ [٣٥٣] اس واقعہ کے بعد طالوت نے اپنی بیٹی کا داؤد علیہ السلام سے نکاح کردیا اور طالوت کے بعد داؤد علیہ السلام ہی اس کے جانشین ہوئے پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے نبوت سے بھی سرفراز فرمایا۔ [٣٥٤] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے زمین کا انتظام برقرار رکھنے کے لیے اپنا ضابطہ بیان فرمایا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ کسی قوم کو ایک خاص حد تک زمین میں غلبہ و طاقت حاصل کرنے کی قوت و توفیق عطا فرماتا ہے۔ پھر جب وہ قوم فساد فی الارض میں مبتلا ہو کر اس حد خاص سے آگے بڑھنے لگتی ہے تو کسی دوسری قوم کے ذریعہ اس کا زور توڑ دیتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ ایسا نہ کرتا اور ایک ہی قوم یا پارٹی کا اقتدار زمین میں ہمیشہ قائم رکھا جاتا تو اس کا ظلم و تشدد انتہا کو پہنچ جاتا اور اللہ تعالیٰ کے ملک میں فساد عظیم بپا ہوجاتا۔ اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ کا یہ ضابطہ تمام اقوام پر اس کی بہت مہربانی ہے۔ البقرة
252 [٣٥٥]ماضی کےحالات پرمطلع ہوناآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی دلیل ہے: یہاں آیات اللہ سے مراد وہ معجزہ نما واقعات ہیں جو بنی اسرائیل کو پیش آئے تھے۔ جیسے وبا سے ڈر کر گھر بار چھوڑنے والے ہزاروں لوگ جنہیں اللہ نے موت کے بعد زندہ کردیا یا جیسے داؤد کا اکیلے جالوت جیسے جابر بادشاہ کو مار ڈالنا اور اللہ تعالیٰ کی ایک مختصر سی جماعت کو غلبہ عطا فرمانا اور داؤد جیسے ایک گمنام چرواہے کو بادشاہی اور نبوت سے سرفراز فرمانا وغیرہ یہ واقعات ٹھیک ٹھیک ہم نے بذریعہ وحی آپ سے بیان کردیئے ہیں اور آپ کا قرون ماضیہ کے ٹھیک ٹھیک حالات لوگوں کو بتلانا یقیناً آپ کی رسالت پر ایک بڑی دلیل ہے۔ کیونکہ وحی الٰہی کے علاوہ آپ کے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں جس کی بنا پر آپ ایسے گزشتہ صحیح صحیح حالات جان سکیں اور دوسروں کو بتلا سکیں۔ البقرة
253 [٣٥٦]انبیاء کی ایک دوسرے پرفضیلت:۔ انبیاء و رسل کی سب سے بڑی فضیلت تو یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں نبوت و رسالت عطا فرمائی۔ اس لحاظ سے ان میں کوئی فرق نہیں اور یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے کسی پیغمبر پر فضیلت نہ دو۔ نیز فرمایا کہ کسی پیغمبر کو کسی دوسرے پر فضیلت نہ دو۔ حتیٰ کہ یونس بن متی پر بھی (بخاری، کتاب التفسیر) رہی جزوی فضیلتیں تو اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے کسی رسول کو کسی ایک فضیلت سے نوازا اور دوسرے کو کسی دوسری فضیلت سے جیسا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بعض انبیاء کے فضائل خود ہی ذکر فرما دیئے اور یہاں فضائل سے مراد دراصل خصائص یا مخصوص معجزات ہیں جو دوسروں کو عطا نہیں ہوئے۔ مثلاً موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں اور اس زمین پر براہ راست کلام کیا جو اور کسی نبی سے نہیں کیا۔ اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرتے اور مٹی کے پرندے بناکر ان میں روح پھونک کر اڑا دیتے تھے۔ [٣٥٧] اختلاف اور باہمی لڑائی جھگڑے کی اصل بنیاد انسان میں قوت ارادہ و اختیار ہے۔ اگر انسان اس قوت و اختیار کو اللہ کی مرضی کے تابع بنا دے تو یہ ایمان ہے اور یہی اسلام ہے اور اگر اس کا آزادانہ استعمال کرنا شروع کر دے اور اللہ کے احکام کی پروا نہ کرے تو یہی کفر ہے۔ [٣٥٨] مشیت الٰہی اور لوگوں کے لڑائی جھگڑے :۔ یعنی اللہ کی مشیت یہ ہے کہ انسان کو قوت ارادہ دی جائے، پھر دیکھا جائے کہ کون اس کو درست استعمال کرتا ہے اور کون غلط؟ اور جو لوگ اس کا غلط استعمال کرتے ہیں وہی آپس میں اختلاف کرتے اور لڑائی جھگڑے کرتے رہتے ہیں اور اگر اللہ چاہتا تو انسان کو یہ قوت ہی نہ دیتا، پھر نہ کوئی اختلاف ہوتا اور نہ لڑائی جھگڑا۔ بس سب کے سب مومن ہوتے۔ لیکن ایسا ایمان اضطراری ہوتا اختیاری نہ رہتا۔ جب کہ مشیت الٰہی یہ ہے کہ لوگ اپنے اختیار سے ایمان لائیں یا کفر کریں۔ البقرة
254 [٢٥٩] یہاں انفاق فی سبیل اللہ کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ مال سے محبت انسان کی فطرت میں داخل ہے اور اگر اس میں سے خرچ نہ کیا جائے تو یہ بات انسان کے لیے فتنہ اور اس کی ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں اے مسلمانو! جس دین پر تم ایمان لائے ہو اس کی راہیں ہموار کرنے اور اس کے قیام کے لیے مال کی ضرورت ہوتی ہے اور معاشرہ میں ناتواں اور محتاج افراد کی مدد کرنے کے لیے بھی اور ایسے ہی صدقات آخرت میں انسان کی نجات کا سبب بنیں گے لہٰذا اس طرف خصوصی توجہ دلائی گئی۔ ایک دفعہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ کونسا صدقہ اجر کے لحاظ سے بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا : ’’جو تندرستی کی حالت میں کرے، حرص رکھتا ہو، فقر سے ڈرتا ہو اور دولت کی امید رکھتا ہو، لہٰذا صدقہ کرنے میں جلدی کرو ایسا نہ ہو کہ جاں لبوں پہ آ جائے تو کہنے لگے کہ اتنا فلاں کو دے دو اور اتنا فلاں کو۔ حالانکہ اس وقت یہ مال اس کا نہیں اس کے وارثوں کا ہوتا ہے۔‘‘ (مسلم، کتاب الزکوٰۃ، باب ان افضل الصدقہ صدقہ الصحیح الشحیح) یعنی قیامت کے دن تمہارے یہی صدقات ہی کام آئیں گے۔ تمہاری یہ سوداگریاں اور دوستیاں کام نہیں آئیں گی۔ نہ ہی وہاں کسی کی سفارش کام دے گی۔ [٣٦٠] اس جملہ کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صدقات (بالخصوص زکوٰۃ) نہ دینے والے کافر ہیں اور وہی ظالم ہیں جو اللہ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے بھی اللہ کی راہ میں نہیں دیتے اور ایک وہ جو ترجمہ میں بیان کیا گیا ہے۔ یعنی جو لوگ قیامت کے دن اللہ کے قانون جزا و سزا اور اس کے ضابطہ پر ایمان نہیں رکھتے وہ کافر بھی ہیں اور ظالم بھی۔ البقرة
255 [٣٦١] یہ آیت آیۃ الکرسی کے نام سے مشہور ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی ایسی مکمل معرفت بیان کی گئی ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ اسی لیے اس آیت کو قرآن کی سب سے افضل آیت قرار دیا گیا ہے۔ جیسا درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔ فضائل آیۃ الکرسی :۔۱۔ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے مجھ سے پوچھا ’’ابو منذر! جانتے ہو، تمہارے پاس کتاب اللہ کی سب سے عظمت والی آیت کونسی ہے؟‘‘ میں نے کہا : اللہ و رسولہ، اعلم۔ آپ نے پھر پوچھا : ابو منذر! جانتے ہو تمہارے پاس کتاب اللہ کی کونسی آیت سب سے عظیم ہے : میں نے کہا : ﴿لاَ اِلٰہَ الاَّ ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ﴾ آپ نے میرے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا : ’’ابو منذر! تمہیں علم مبارک ہو۔‘‘ (مسلم، کتاب فضائل القرآن وما یتعلق بہ۔ باب فضل سورۃ کہف و آیۃ الکرسی) ٢۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ نے مجھے صدقہ فطر کی حفاظت پر مقرر کیا۔ کوئی شخص آیا اور غلہ چوری کرنے لگا میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا : میں تجھے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جاؤں گا ؟ وہ کہنے لگا، میں محتاج ہوں، عیالدار اور سخت تکلیف میں ہوں۔ چنانچہ میں نے اسے چھوڑ دیا، جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا : ابوہریرہ ! آج رات تمہارے قیدی نے کیا کہا تھا ؟ میں نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس نے محتاجی اور عیالداری کا شکوہ کیا تھا۔ مجھے رحم آیا تو میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ نے فرمایا : دھیان رکھنا وہ جھوٹا ہے وہ پھر تمہارے پاس آئے گا۔ چنانچہ اگلی رات وہ پھر آیا اور غلہ اٹھانے لگا۔ میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا آج تو ضرور میں تمہیں آپ کے پاس لے جاؤں گا۔ وہ کہنے لگا مجھے چھوڑ دو میں محتاج ہوں اور عیالدار ہوں، آئندہ نہیں آؤں گا مجھے پھر رحم آ گیا اور اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ سلم نے مجھ سے پوچھا : ’’ابوہریرہ ! تمہارے قیدی نے کیا کیا ؟‘‘ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اس نے سخت محتاجی اور عیالداری کا شکوہ کیا تھا، مجھے رحم آ گیا تو میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ نے فرمایا : دھیان رکھنا وہ جھوٹا ہے اور وہ پھر آئے گا۔چنانچہ تیسری بار میں تاک میں رہا۔ وہ آیا اور غلہ سمیٹنے لگا : میں نے کہا : اب تو میں تمہیں ضرور آپ کے پاس لے جاؤں گا۔ اب یہ تیسری بار ہے تو ہر بار یہی کہتا رہا کہ پھر نہ آؤں گا مگر پھر آتا رہا۔ جھوٹابھی کبھی سچی بات کہہ دیتاہے:۔ اس نے کہا مجھے چھوڑ دو، میں تمہیں چند کلمے سکھاتا ہوں جو تمہیں فائدہ دیں گے۔میں نے کہا : وہ کیا ہیں؟ کہنے لگا : جب تو سونے لگے تو آیۃ الکرسی پڑھ لیا کر۔ اللہ کی طرف سے ایک فرشتہ تیرا نگہبان ہوگا۔ اور صبح تک شیطان تیرے پاس نہیں آئے گا۔ چنانچہ میں نے اسے پھر چھوڑ دیا، صبح ہوئی تو آپ نے مجھ سے پوچھا: تیرے قیدی نے آج رات کیا کیا ؟ میں نے آپ کو ساری بات بتلا دی، تو آپ نے فرمایا! اس نے یہ بات سچی کہی حالانکہ وہ کذاب ہے۔ پھر آپ نے مجھ سے کہا : ابوہریرہ ! جانتے ہو، تین راتوں سے کون تمہارے پاس آتا رہا ہے؟میں نے کہا : نہیں۔ آپ نے فرمایا وہ شیطان تھا۔ (بخاری۔ کتاب الوکالة باب اذا و کل رجلا فترک الوکیل شیأ..... الخ) ٣۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہر چیز کی ایک کوہان ہوتی ہے اور قرآن کی کوہان سورۃ بقرہ ہے اور اس میں ایک آیت جو قرآن کی سب آیتوں کی سردار ہے اور وہ آیت الکرسی ہے۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر۔ باب ماجاء فی سورۃ البقرة و آیۃ الکرسی) الوہیت کی لازمی صفات اور سب معبودان باطل کابطلان :۔ اس آیت کی عظمت یہ ہے کہ یہ آیت جہاں اللہ تعالیٰ کی تحمید و تقدیس بیان کرتی ہے وہاں شرک کی سب اقسام کی جڑ کاٹ کے رکھ دیتی ہے۔ ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور اس کی دلیل میں دو باتیں یا دو صفات ارشاد فرمائیں، ایک یہ کہ وہ حَیٌّ ہے، ازل سے زندہ ہے اور ابد تک رہے گا۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ جو ہستی حی نہیں وہ الٰہ نہیں ہو سکتی، اس معیار پر پرکھا جائے تو دوسرے تمام الاہوں کی الوہیت باطل قرار پاتی ہے۔ اس لیے کہ وہ حادث ہیں اور جو چیز حادث ہے اسے فنا یا موت لازمی ہے۔ خواہ یہ معبود جمادات سے تعلق رکھتے ہوں یا نباتات سے یا حیوانات سے یا انسانوں یا فرشتوں اور جنوں سے یا اجرام سماوی سے یہ سب چیزیں حادث ہیں اور کوئی چیز بھی حَیٌّ ہونے کی صفت پر پوری نہیں اترتی، دوسری صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ قائم بالذات ہے اور دوسری تمام اشیاء کو قائم رکھنے والی ہے۔ یہ صفت بھی اللہ کے سوا دوسرے کسی معبود میں نہیں پائی جاتی۔ اجرام سماوی خود جکڑے بندے قانون کے تحت محو گردش ہیں۔ پتھروں کے معبود اپنے پجاریوں کے محتاج ہیں کہ وہ انہیں دھو دھا کر صاف کرتے رہیں۔ پھر جب چاہیں ان میں ادل بدل بھی کرلیں اور ان کی الوہیت ان مجاوروں اور مریدوں کے سہارے قائم ہے جو لوگوں سے نذرانے وصول کرتے ہیں اور ان اولیاء اللہ کے متعلق جھوٹے افسانے اور قصے کہانیاں ان کی طرف منسوب کر کے لوگوں کو ان سے ڈراتے دھمکاتے اور لوگوں کو نذرانے پیش کرنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ یہ لوگ اگر اپنی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیں تو ان کی خدائی ایک دن بھی نہیں چل سکتی۔ آگے فرمایا کہ اسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند۔ یہ اللہ تعالیٰ کی عیوب سے تقدیس ہے اونگھ نیند کا ابتدائی درجہ ہے اور نیند ایک اضطراری کیفیت ہے جو ہر جاندار کو اس وقت لاحق ہوتی ہے جب وہ کام کرتے کرتے تھک جاتا ہے۔ ایسی حالت میں نیند اس پر غالب آ کر اسے بے ہوش بنا دیتی ہے اور اس میں موت کے کچھ آثار بھی پائے جاتے ہیں۔ اسی لیے احادیث میں نیند کو موت کی بہن قرار دیا گیا ہے اور بعض احادیث میں اسے موت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اگر اونگھ یا نیند آ جائے تو اس کائنات کا سارے کا سارا نظام آن کی آن میں درہم برہم ہوجائے اور اللہ کے سوا جتنے معبود ہیں وہ سب یا تو پہلے ہی مردہ ہیں یا پھر وہ اونگھ، نیند اور موت کا شکار ہونے والے ہیں، لہٰذا وہ الٰہ نہیں ہو سکتے۔ سفارش کی کڑی شرط:۔ آگے فرمایا کہ زمین اور آسمان کی جملہ اشیاء اس کی مملوک ہیں اور وہ ان کا مالک ہے اور یہ تو ظاہر ہے جو چیز خود کسی دوسرے کی مملوک ہو وہ الٰہ نہیں ہو سکتی۔ پھر فرمایا کہ اس کے پاس کسی کو اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرنے کی قطعاً اجازت نہ ہوگی۔ عرب لوگ بھی کسی نہ کسی رنگ میں اللہ کے ہاں سفارش کے قائل تھے اور یہ سفارش دنیوی معاملات کے لیے بھی ہو سکتی ہے اور اخروی نجات کے لیے بھی۔ مشرکین کا سفارش کے متعلق یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ ان کے دیوتا یا فرشتے یا اولیاء چونکہ خود اللہ کی طرف سے تفویض کردہ اختیارات کے مالک ہیں۔ لہٰذا وہ ہمیں ہر طرح سے فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور چونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے پیارے ہیں۔ اس لیے صرف اللہ کے ہاں سفارش ہی نہیں بلکہ اس پر دباؤ ڈال کر اپنے ماننے والوں کو اللہ کی گرفت سے بچا سکتے اور ان کی بگڑی بنا سکتے ہیں۔ یہ عقیدہ چونکہ اللہ کے بجائے دوسروں پر توکل اور اعتماد کی راہ دکھلاتا ہے۔ لہٰذا اس عقیدہ کی پرزور الفاظ میں تردید فرما کر شرک کا یہ دروازہ بھی بند کردیا۔ ساتھ ہی (الا باذنہ) فرما کر سفارش کی کلیۃ نفی نہیں کی۔ بلکہ چند در چند شرائط عائد کر کے سفارش پر اعتماد کے عقیدہ کو یکسر ختم کردیا اور وہ شرائط یہ ہیں کہ اللہ جسے خود چاہے گا اسے ہی سفارش کی اجازت دے گا اور جس شخص کے حق میں چاہے گا اسی کے لیے اجازت دے گا اور جس کام کی معافی کے لیے سفارش کی اجازت دے گا۔ سفارش کرنے والا صرف اسی بات کے متعلق سفارش کرسکے گا۔ اس کے بعد فرمایا کہ اللہ تو سب لوگوں کے اگلے اور پچھلے، ماضی اور مستقبل کے سب حالات سے پوری طرح واقف ہے۔ جبکہ دوسرے اللہ کی وسعت علم کی گرد کو بھی نہیں پا سکے۔ سفارش تو یہ ہوتی ہے کہ فلاں شخص سے فلاں کام غلطی سے یا دانستہ سرزد ہوگیا ہے۔ اس کی زندگی کا سابقہ ریکارڈ بالکل ٹھیک ہے لہٰذا اس کا یہ گناہ معاف کردیا جائے۔ لیکن اللہ کے مقابلہ میں ان مشرکوں کے مزعومہ سفارشی اللہ کے علم میں کیا اضافہ کرسکتے ہیں ان کو تو اتنا ہی علم دیا گیا ہے جتنا کہ اللہ کو منظور تھا اور جو اپنی ذات کا بھی پورا علم نہیں رکھتا وہ دوسروں کے متعلق کیسے رکھتا ہے۔ آیۃ الکرسی معرفت الٰہی کاگنجینہ :۔ آگے فرمایا کہ اس کی کرسی تمام کائنات کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ یہاں بعض لوگوں نے کرسی کا معنی اقتدار کیا ہے، لیکن ہم ان لوگوں کے نظریہ کے قائل نہیں بلکہ ہمارے خیال میں کرسی کے لفظ کے معانی میں جو جامعیت ہے وہ اقتدار میں نہیں ہے۔ پھر کوئی اللہ کی گرفت سے بچ کر کہاں جا سکتا ہے۔ آگے فرمایا کہ کائنات کے انتظام و انصرام اور اس کی حفاظت اللہ تعالیٰ کو نہ تھکاتی ہے اور نہ گرانبار بناتی ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کو انسان اور انسانی کمزوریوں پر محمول نہ کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات تو ہر قسم کی تشبیہات سے ماورا بھی ہے اور عظمت والی بھی ہے۔ گویا ان آخری جملوں میں پھر اللہ تعالیٰ کی تقدیس بیان کی گئی ہے۔ گویا تحمید، تسبیح اور تقدیس سب پہلوؤں سے یہ آیت ایک جامع آیت ہے۔ [٣٦٢] یہاں ہم تین احادیث صحیحہ درج کرتے ہیں جس سے شفاعت کے کئی پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے۔ مثلاً یہ کہ قیامت کا دن اس قدر ہولناک ہوگا کہ بڑے بڑے انبیاء بھی اللہ کے حضور سفارش کرنے کی جرات نہ کرسکیں گے اور بالآخر قرعہ فال نبی آخر الزمان پر پڑے گا، نیز یہ کہ سفارش کیسے لوگوں کے حق میں ہوگی، نیز یہ کہ ہمارے ہاں جو پیر و فقیر اپنے مریدوں سے بےدھڑک شفاعت کرنے کے وعدے کرتے ہیں یا جن لوگوں نے اپنی اخروی نجات کا انحصار ہی اپنے پیروں اور مشائخ کی شفاعت سمجھا ہوا ہے اس کی کیا حقیقت ہے وغیرہ وغیرہ۔ ١۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : قیامت کے دن ایماندار لوگ جمع ہو کر کہیں گے بہتر یہ ہے کہ ہم اپنے پروردگار کے حضور کسی کی سفارش پہنچائیں۔ وہ آدم علیہ السلام کے پاس آ کر کہیں گے۔آپ سب لوگوں کے باپ ہیں۔ آپ کو اللہ نے اپنے ہاتھ سے بنایا، فرشتوں سے سجدہ کرایا اور آپ کو تمام اشیاء کے نام سکھلائے۔ لہٰذا اپنے پروردگار کے ہاں ہماری سفارش کریں کہ وہ اس مصیبت کی جگہ سے نکال کر آرام دے۔ وہ کہیں گے : میں اس لائق نہیں اور وہ اپنا قصور یاد کر کے (اللہ کے حضور جانے سے) شرمائیں گے اور کہیں گے: تم نوح کے پاس جاؤ۔ وہ پہلے رسول ہیں۔ جنہیں اللہ نے زمین والوں کی طرف بھیجا، لوگ نوح کے پاس جائیں گے تو وہ کہیں گے: میں اس کا اہل نہیں۔ وہ اپنا سوال یاد کر کے شرمائیں گے جو انہوں نے بغیر علم کے اپنے پروردگار سے کیا تھا۔ پھر کہیں گے تم اللہ کے خلیل (حضرت ابراہیم علیہ السلام) کے پاس جاؤ۔ لوگ ان کے پاس آئیں گے۔ وہ بھی یہی کہیں گے کہ میں اس کا اہل نہیں۔ تم موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ وہ ایسے بندے ہیں جن سے اللہ نے کلام کیا اور انہیں تورات دی۔چنانچہ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ کہیں گے: میں اس کا اہل نہیں۔ وہ اپنے خون ناحق کو یاد کر کے اپنے پروردگار کے ہاں جانے سے شرمائیں گے اور کہیں گے : تم عیسیٰ کے پاس جاؤ، وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول، اس کا کلمہ اور اس کی روح ہیں۔ اب لوگ ان کے پاس جائیں گے تو وہ کہیں گے : میں اس کا اہل نہیں۔ تم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاؤ۔ وہ ایسے (مقرب) بندے ہیں جن کے اللہ تعالیٰ نے سب اگلے پچھلے قصور معاف کردیئے ہیں۔۔ شفاعت کبریٰ :۔ پھر لوگ میرے پاس آئیں گے تو میں وہاں سے چل کر اپنے پروردگار کے حضور حاضر ہونے کی اجازت طلب کروں گا، مجھے اجازت مل جائے گی۔ پھر جب میں اپنے پروردگار کو دیکھوں گا تو سجدہ میں گر جاؤں گا پھر جب تک پروردگار چاہے گا، مجھے سجدہ میں پڑا رہنے دے گا، پھر ارشاد ہوگا، اپنا سر اٹھاؤ اور سوال کرو وہ تمہیں دیا جائے گا اور بات کرو تو سنی جائے گی اور سفارش کرو تو قبول کی جائے گی۔ چنانچہ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اس کی ایسی تعریف کروں گا جو اللہ تعالیٰ مجھے اس وقت سکھلائے گا۔ پھر میں سفارش کروں گا جس کے لیے ایک حد مقرر کی جائے گی۔ میں ان لوگوں کو بہشت میں پہنچا دوں گا۔ پھر اپنے پروردگار کی طرف لوٹ آؤں گا اور جب اپنے پروردگار کو دیکھوں گا تو پہلے کی طرح سجدہ میں گر جاؤں گا۔ پھر میں سفارش کروں گا تو میرے لیے ایک حد مقرر کردی جائے گی، میں انہیں جنت میں داخل کروں گا۔ پھر تیسری بار اپنے پروردگار کی طرف لوٹ آؤں گا، پھر چوتھی بار آؤں گا۔ اور عرض کروں گا : پروردگار! اب تو دوزخ میں (جانے والے) وہی لوگ باقی رہ گئے ہیں جو قرآن کی رو سے دوزخ میں جانے کے لائق ہیں اور انہیں ہمیشہ دوزخ میں رہنا ہے۔ (بخاری، کتاب التفسیر) زیر آیت ﴿عَلَّمَ اٰدَمَ الأَسْمَاءَ﴾ ٢۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : میں قیامت کے دن تمام اولاد آدم کا سردار ہوں گا اور اس میں کوئی فخر نہیں اور حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہوگا اور اس میں کوئی فخر نہیں اور آدم اور باقی سب انبیاء میرے جھنڈے تلے ہوں گے اور سب سے پہلے زمین میرے ہی لیے (بعث کے لیے) شق ہوگی اور اس میں کوئی فخر نہیں۔ پھر آپ نے تین بار فرمایا کہ لوگ اس دن بہت گھبرائے ہوئے ہوں گے۔ وہ آدم علیہ السلام کے پاس آ کر کہیں گے : ’’آپ ہمارے باپ ہیں لہٰذا ہمارے رب کے ہاں ہماری سفارش کیجئے‘‘وہ کہیں گے : ’’مجھ سے ایسا گناہ سرزد ہوا جس کی وجہ سے زمین پر اتارا گیا۔ البتہ تم لوگ نوح کے پاس جاؤ‘‘ لوگ نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ کہیں گے : میں نے ساری زمین والوں کے لیے بددعا کی اور وہ ہلاک ہوگئے، البتہ تم ابراہیم کے پاس جاؤ۔ لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ کہیں گے : میں نے تین جھوٹ بولے ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا : کہ آپ نے کوئی جھوٹ نہیں بولا مگر اس سے دین کی تائید مقصود تھی۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کہیں گے کہ تم موسیٰ کے پاس جاؤ، لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ کہیں گے : میں نے ایک شخص کو مار ڈالا تھا۔ اب تم عیسیٰ کے پاس جاؤ۔ وہ کہیں گے۔ ' مجھے لوگوں نے اللہ کے علاوہ معبود بنا ڈالا تھا۔ تم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاؤ۔ پھر سب لوگ میرے پاس آئیں گے۔ سو میں ان کے ساتھ جاؤں گا اور جا کر جنت کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گا۔ اندر سے کوئی پوچھے گا : ’’یہ کون ہے؟‘‘ کہا جائے گا: ’’ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں‘‘ تو وہ میرے لیے دروازہ کھول دیں گے اور مجھے خوش آمدید کہیں گے اور تواضع کریں گے، میں سجدہ میں گر جاؤں گا۔ اس وقت اللہ مجھے اپنی حمد و ثنا الہام کرے گا۔ پھر مجھے کہا جائے گا اپنا سر اٹھاؤ اور مانگو تمہیں دیا جائے گا اور سفارش کرو تو قبول کی جائے گی اور تمہاری بات سنی جائے گی اور یہی وہ مقام محمود ہے جس کا اللہ نے اس آیت میں ذکر فرمایا ہے: ﴿وَمِنَ الَّیْلِ فَتَہَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ ڰ عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا ﴾ (ترمذی، ابو اب التفسیر، سورۃ بنی اسرائیل) ٣۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ سے پوچھا! ’’یا رسول اللہ ! قیامت کے دن آپ کی شفاعت کا سب سے زیادہ مستحق کون ہوگا ؟‘‘ آپ نے فرمایا! ’’ابوہریرہ ! مجھے معلوم تھا کہ تجھ سے پہلے مجھ سے کوئی یہ بات نہ پوچھے گا کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں حدیث سننے کی کتنی حرص ہے تو سنو : میری شفاعت سب سے زیادہ اس شخص کے نصیب میں ہوگی جس نے سچے دل سے لا الہ الا اللہ کہا ہو۔ (بخاری، کتاب العلم۔ باب الحرص علی الحدیث) [٣٦٣] اللہ کےعلم کی وسعت :۔ کیونکہ یہ کائنات اور اس کی وسعت لامحدود ہے اور اس کا احاطہ انسان کی بساط سے باہر ہے۔ انسان جتنی طاقتور سے طاقتور دوربینیں ایجاد کرتا ہے، کائنات کی وسعت دیکھ کر اس کی حیرانگی میں مزید اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ پھر بھلا وہ اس کے علم کا کیا احاطہ کرسکے گا۔ انسان کا علم تو بس اتنا ہی ہے جتنا اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ انبیاء کو عطا کیا یا پھر انسان نے خود بعض اشیاء پر تجربے کر کے حاصل کرلیا ہے اور یہ ایسا ہی ہے جیسے سمندر کے مقابلہ میں پانی کی ایک بوند۔ البقرة
256 [٣٦٤]اسلام لانے میں جبرنہیں:۔ انسان کو جو قوت ارادہ دی گئی ہے کہ وہ چاہے تو اپنے آپ کو اللہ کی مرضی کے تابع بنا دے۔ ایسی ہی اطاعت کا نام دین ہے اور یہی ہدایت ہے اور دین کے عقائد اس آیۃ الکرسی میں وضاحت سے بیان ہوگئے ہیں اور چاہے تو اپنی اس قوت ارادہ کا آزادانہ استعمال کرے اور اسی کا نام کفر بھی ہے اور گمراہی بھی اور ان دونوں باتوں کی پوری وضاحت کردی گئی ہے۔ اب ہر انسان دین اسلام کو اختیار کرنے کی حد تک تو آزاد ہے چاہے تو قبول کرے چاہے تو رد کر دے۔ مگر اسلام کو قبول کرلینے کے بعد اسے اختیار نہیں رہتا کہ وہ دین کے احکام و ہدایات کو اپنی عقل کی کسوٹی پر پرکھنا شروع کر دے اور جو اسے معقول نظر آئے اسے تسلیم کرلے اور باقی کا انکار کر دے یا احکام میں سے کچھ پر عمل کرے اور جو اس کی طبیعت پر گراں گزریں یا ناپسند ہوں انہیں چھوڑ دے۔ یہ بھی گمراہی ہے اور نہ ہی اسے دین اسلام کو چھوڑنے کا اختیار باقی رہتا ہے۔ کیونکہ اسلام ایک تحریک ہے روایتی قسم کا مذہب نہیں۔ لہٰذا دین سے ارتداد پوری امت سے بغاوت کے مترادف ہے۔ (تفصیل کے لیے سورۃ توبہ کا حاشیہ نمبر ٣٨ دیکھئے) [٣٦٥]طاغوت کامفہوم:۔ طاغوت ہر وہ باطل قوت ہے جو اللہ کے مقابلہ میں اپنا حکم دوسرے سے منوائے یا لوگ اللہ کے مقابلہ میں اس کے احکام تسلیم کرنے لگیں خواہ وہ کوئی مخصوص شخص ہو یا ادارہ ہو اور ظاہر ہے یہ مقتدر قسم کے لوگ ہی ہو سکتے ہیں۔ خواہ وہ مذہبی ہوں یا سیاسی ہوں۔ مثال کے طور پر آج کل جتنی قومی، لسانی یا علاقائی تحریکیں چل رہی ہیں۔ یہ سب اسلام کی رو سے ناجائز ہیں اب جو شخص یا ادارہ ایسی تحریکوں کو چلائے گا وہ طاغوت ہے۔ اسی طرح شیطان بھی طاغوت ہے اور ایسے پیر فقیر بھی جو خود بھی معصیت کے مرتکب ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی ایسی ہی تلقین کرتے ہیں۔ اسی طرح ہر انسان کا اپنا نفس بھی طاغوت ہوسکتا ہے۔ جبکہ وہ اللہ کی فرمانبرداری سے انحراف کر رہا ہو۔ [٣٦٦] مضبوط حلقہ سے مراد پوری شریعت اور اس کا نظام ہے اور یہی حلقہ ہے جو انسان کو ہر طرح کی گمراہی سے بچا سکتا ہے۔ بشرطیکہ اس سے چمٹا رہے اور ادھر ادھر جانے والی پگڈنڈیوں کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھے۔ ایسا شخص یقینا کامیاب ہوگا۔ البقرة
257 [٣٦٧] دو مقاموں کے درمیان سیدھا راستہ صرف ایک ہی ہوتا ہے۔ جبکہ ٹیڑھی راہیں بے شمار ہوتی ہیں۔ بالفاظ دیگر کفر و ضلالت کے اندھیرے کئی طرح کے اور بے شمار ہیں جبکہ اسلام کا نور ایک ہی ہے اور ایک ہی طرح کا ہے۔ اسی طرح طاغوت بے شمار ہو سکتے ہیں جبکہ معبود حقیقی صرف ایک اللہ ہے۔ اسی لحاظ سے اس آیت میں اسلام کی سیدھی راہ یا روشنی کے لیے واحد اور کفر کی تاریکیوں کے لیے جمع کی ضمیریں استعمال ہوئی ہیں، مطلب یہ ہے کہ جو شخص اللہ کے اس مضبوط حلقہ کو تھامے رکھتا ہے۔ اللہ اس کا سرپرست بن جاتا ہے اور اسے کفر و ضلالت کی گمراہیوں سے نکال کر اسلام کی روشنی کی طرف لے آتا ہے اور جو لوگ اس مضبوط حلقہ یا شریعت سے اعراض و انکار کرتے ہیں تو ہر طرح کے طاغوت اس کے سرپرست بن جاتے ہیں جو اس کو ہدایت کی راہ سے منحرف کر کے کفر و ضلالت کی گمراہیوں اور تاریکیوں میں جا دھکیلتے ہیں۔ پھر اسے اسلام کی روشنی نظر آ ہی نہیں سکتی۔ البقرة
258 [٣٦٨]نمرود کی خدائی کس قسم کی تھی ؟ یہ شخص نمرود بادشاہ عراق تھا اور اس کا دارالخلافہ بابل تھا جہاں آج کل کوفہ آباد ہے خدائی کا دعویدار تھا یہ خود اور اس کی رعایا سب مشرک تھے۔ نمرود کی خدائی کس قسم کی تھی؟ یہ جاننے کے لیے تھوڑی سی تفصیل ضروری معلوم ہوتی ہے۔ شرک کی تین اقسام ہیں:۔ شرک کی قسمیں :شرک فی الربوبیت :۔ ایسا شرک عموماً کوئی بھی نہیں کرتا۔ مشرکین مکہ ہوں یا نمرود ہو یا فرعون ہو کسی سے بھی پوچھا جائے کہ یہ آسمان و زمین کس نے بنائے۔ زمین سے پیداوار کون اگاتا ہے۔ کائنات کو کس نے پیدا کیا اور شمس و قمر کا نظام چلانے والا کون ہے تو سب یہی جواب دیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہے۔ البتہ ربوبیت کے منکر ضرور موجود رہے ہیں یعنی دہریہ قسم کے لوگ یا فلکیات کے ماہرین جو ساری کائنات کو مادہ کی بدلی ہوئی شکلیں اور ارتقائی پیداوار کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ دوسری قسم شرک فی الصفات ہے۔ آگے اس کی پھر دو قسمیں ہیں، ایک وہ جس کا تعلق مافوق الفطری اسباب سے ہوتا ہے۔ مثلاً دعائیں سننا اور انہیں قبول کرنا، حاجت روائی اور مشکل کشائی کسی کے رزق میں تنگی اور فراخی پیدا کرنا، بارش برسانا، کسی کو اولاد دینا وغیرہ وغیرہ، ایسا شرک عام پایا جاتا ہے۔ مشرکین مکہ کے ہوں یا عراق کے ہوں، مصر کے ہوں یا ہندوستان کے، انہوں نے ایسے کاموں کے لیے لاتعداد دیوی یا دیوتا بنا رکھے تھے اور مندرجہ بالا کام انہیں کے سپرد تھے اور ان کے بتوں اور مجسموں کی پوجا کی جاتی تھی۔ اس قسم کا شرک ہم مسلمانوں میں بھی عام پایا جاتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے ہم نے امور اپنے پیروں فقیروں اور بزعم خود اولیاء اللہ کے سپرد کر رکھے ہیں خواہ وہ زندہ ہوں یا مردہ ہوچکے ہوں۔ جمہوریت میں شرک کی کون سی قسم پائی جاتی ہے؟ شرک کی تیسری قسم وہ ہے جس کا تعلق شرک فی الصفات کی دوسری قسم سے ہے اور وہ فطری اسباب سے ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر طاغوت یا طواغیت سے ہوتا ہے جس کا ذکر پچھلی آیت میں آیا ہے جو اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں اپنی حکمرانی تسلیم کرواتے ہیں۔ آج کی زبان میں اسے اقتدار اعلیٰ کہتے ہیں۔ نمرود بھی اس قسم کا خدا تھا اور فرعون بھی اور ان جیسے اور بھی کئی خدائی کے وعدے کرچکے اور کر رہے ہیں۔ پھر اقتدار اعلیٰ کی بھی دو قسمیں ہیں، قانونی اقتدار اعلیٰ اور سیاسی اقتدار اعلیٰ دونوں قسم کا یہ اقتدار اعلیٰ ایسے حکمرانوں کے پاس ہی ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کا ہر لفظ قانون ہوتا ہے اور ان کے حکم کے آگے کسی کو دم مارنے کی مجال نہیں ہوتی اور ایسے ممالک جہاں آج کل جمہوریت رائج ہے وہاں بھی اکثر شرک کی یہ قسم پائی جاتی ہے۔ کیونکہ ان ملکوں میں سیاسی اقتدار اعلیٰ تو عوام کے پاس ہوتا ہے یعنی طاقت کا سرچشمہ عوام ہوتے ہیں۔ وہی جسے چاہیں اپنی رائے سے نمائندہ یا حکمران بنا دیں اور قانونی اقتدار اعلیٰ اسمبلی یا پارلیمنٹ کے پاس ہوتا ہے (یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ جمہوریت میں اقتدار اعلیٰ اسمبلی یا پارلیمنٹ کے پاس ہوتا ہے.......(جمہوریت میں اقتدار اعلیٰ کوئی انسان یا کوئی ادارہ ہی ہو سکتاہے) جبکہ اسلامی نقطہ نظر سے قانونی اور سیاسی مقتدر اعلیٰ کوئی فرد یا ادارہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ایسا مقتدر اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ جمہوری ممالک میں کوئی بڑی سے بڑی عدالت بھی پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون کے سامنے دم نہیں مار سکتی۔ اس لحاظ سے نمرود کی خدائی اور جمہوریت کی خدائی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ آزر کا تعارف:۔ نمرود ہی کے دربار میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا باپ شاہی مہنت تھا جو بت گر بھی تھا اور بت فروش بھی اور نمرود کے مقربین میں سے تھا۔ اسی بنا پر باپ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو گھر سے نکالا تھا اور جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان لوگوں کے بت توڑے تھے تو اسی باپ نے اپنے بیٹے کا مقدمہ نمرود کے دربار میں پیش کیا تھا۔ [٣٦٩]سیدنا ابراہیم اورنمرود کامکالمہ :۔ دربار میں پیشی ہوئی تو زیر بحث مسئلہ '' خدائی'' ہی کا تھا۔ دوران بحث حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا اور مارتا ہے تو نمرود کہنے لگا کہ یہ دونوں کام تو میں بھی کرسکتا ہوں۔ چنانچہ اس نے ایک بے قصور آدمی کو بلاوجہ قتل کروا دیا اور ایک ایسے قیدی کو جسے سزائے موت ہوچکی تھی آزاد کردیا۔ [٣٧٠] حضرت ابراہیم علیہ السلام نمردو کے اس کام کا یہ جواب دے سکتے تھے کہ جس شخص کو تو نے مروا ڈالا ہے اسے زندہ کر کے دکھا تو جانیں۔ مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس میدان کو چھوڑ دیا اور ربوبیت کے میدان میں آ گئے اور کہا کہ میرا رب سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تو اسے مغرب سے نکال کے دکھا۔ اب چونکہ نمرود یہ سمجھتا تھا کہ کائنات کے نظام میں میرا کوئی دخل اور اختیار نہیں۔ لہٰذا وہ فوراً لاجواب ہوگیا۔ حالانکہ اگر وہ سوچتا تو کہہ سکتا تھا کہ اگر میں سورج کو مغرب سے نہیں نکال سکتا تو تم اپنے رب سے کہو کہ مغرب سے نکال کے دکھائے، اور اس صورت میں عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کوئی ایسا معجزہ دکھلا بھی دیتے۔ مگر چونکہ نمرود کا پختہ عقیدہ تھا کہ کائنات کا نظام اللہ ہی چلاتا ہے اور وہ چاہے تو ایسا بھی کرسکتا ہے۔ لہٰذا سوائے خاموشی اور حیرانگی کے اس سے کچھ بھی بن نہ پڑا اس طرح ابراہیم علیہ السلام نے بھرے دربار میں نمرود پر یہ بات واضح کردی کہ میرا خدا یا معبود تو نہیں، بلکہ وہ معبود حقیقی ہے جس کا پوری کائنات میں تصرف و اختیار چلتا ہے اس مباحثہ میں لاجواب ہونے کے باوجود نمرود کو کسی قیمت پر بھی اپنے خدائی کے دعوے سے دستبردار ہونا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہدایت پر توجہ کرنا گوارا نہ ہوا اور جو لوگ گمراہی میں اس حد تک آگے بڑھ چکے ہوں انہیں ہدایت کی راہ نصیب بھی نہیں ہوتی۔ البقرة
259 [٣٧١]بخت نصر بابلی کابیت المقدس پرحملہ: اشیائے کائنات میں اللہ تعالیٰ کس کس طرح کے محیر العقول تصرف کرسکتا ہے؟ یہ بتلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرا واقعہ بیان فرمایا۔ یہ واقعہ حضرت عزیر علیہ السلام سے تعلق رکھتا ہے جن کے متعلق مشہور ہے کہ انہیں ساری تورات زبانی یاد تھی۔ بخت نصر نے شام پر حملہ کر کے بیت المقدس کو ویران کیا اور بہت سے اسرائیلیوں کو قید کر کے اپنے ہاں بابل لے گیا تو ان میں حضرت عزیر علیہ السلام بھی تھے۔ کچھ مدت بعد رہائی ہوئی اور واپس اپنے وطن آ رہے تھے کہ راہ میں ایک اجڑا ہوا شہر دیکھا جو بخت نصر کے حملہ کے نتیجہ میں ہی ویران ہوا تھا۔ اسے دیکھ کر دل ہی میں یہ خیال آیا کہ اللہ اب اس بستی کو کب اور کیسے آباد کرے گا ؟ اس وقت آپ ایک گدھے پر سوار تھے اور خورد و نوش کا سامان ساتھ تھا۔ اس خیال کے آتے ہی اللہ نے آپ کی روح قبض کرلی۔ [٣٧٢] اور پورے سو سال موت کی نیند سلا کر پھر انہیں زندہ کر کے پوچھا : ’’بتلاؤ کتنی مدت اس حال میں پڑے رہے؟‘‘ اب عزیر علیہ السلام کے پاس ماسوائے سورج کے، وقت معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا جب جا رہے تھے تو پہلا پہر تھا اور اب دوسرا پہر کہنے لگے ’’ یہی بس دن کا کچھ حصہ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ دوسرا دن ہو‘‘کیونکہ اس سے زیادہ انسان کبھی نہیں سوتا۔ [٣٧٣]سیدنا عزیر اور اجڑی بستی :۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : دیکھو تم سو سال یہاں پڑے رہے ہو جب عزیر علیہ السلام نے اپنے بدن اور جسمانی حالت کی طرف اور اپنے سامان خورد و نوش کی طرف دیکھا تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ وہی دن ہے جب ان پر نیند طاری ہوئی تھی۔ پھر جب اپنے گدھے کی طرف دیکھا کہ اس کی ہڈیاں تک بوسیدہ ہوگئی ہیں تو سمجھے کہ واقعی سو سال گزر چکے ہوں گے۔ ان کے دیکھتے ہی دیکھتے ہڈیوں میں حرکت پیدا ہوئی، پھر وہ جڑنے لگیں۔ پھر ہڈیوں کے اس پنجر پر گوشت پوست چڑھا اور ان کے دیکھتے ہی دیکھتے گدھا زندہ ہو کر کھڑا ہوگیا۔ پھر اس بستی کی طرف نظر دوڑائی جسے دیکھ کر ایسا خیال آیا تھا تو وہ بھی آباد ہوچکی تھی۔ اب دیکھئے اس واقعہ میں درج ذیل معجزات وقوع پذیر ہوئے۔ سیدناعزیرکی ذات خود ایک معجزہ تھی:۔ حضرت عزیر علیہ السلام خود بھی، ان کا گدھا بھی اور وہ بستی بھی مرنے کے بعد زندہ ہوئے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیر علیہ السلام کے خیال کا تین طریقوں سے جواب دیا۔ جس سے آپ کو عین الیقین حاصل ہوگیا۔ ٢۔ اس سو سال کی مدت کا نہ آپ کی ذات پر کچھ اثر ہوا، نہ آپ کے سامان خورد و نوش پر۔ چنانچہ جب آپ واپس اپنے گھر پہنچے تو آپ کے بیٹے اور پوتے تو بوڑھے ہوچکے تھے اور آپ خود ان کی نسبت جوان تھے۔ اس طرح آپ کی ذات بھی تمام لوگوں کے لیے ایک معجزہ بن گئی۔ غالباً اسی وجہ سے یہودیوں کا ایک فرقہ انہیں ابن اللہ کہنے لگا تھا۔ ٣۔ لیکن گدھے پر سو سال کا عرصہ گزرنے کے جملہ اثرات موجود تھے۔ یہ تضاد زمانی بھی ایک بہت بڑا حیران کن معاملہ اور معجزہ تھا۔ ٤۔ آپ کی آنکھوں کے سامنے گدھے کی ہڈیوں کا جڑنا، اس کا پنجر مکمل ہونا، اس پر گوشت پوست چڑھنا پھر اس کا زندہ ہونا اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر بہت بڑی دلیل ہے۔ البقرة
260 [٣٧٤] غیب پر انبیاء کا ایمان جس قدر پختہ ہوتا ہے دوسروں کا نہیں ہوسکتا مگر جس مشن کے لیے انہیں کھڑا کیا جاتا ہے۔ اس کا ایک تقاضا یہ بھی ہوتا ہے کہ انہیں عین الیقین حاصل ہو، تاکہ وہ دوسرے لوگوں کو آنکھوں دیکھی حقیقت کی بنیاد پر ایمان بالغیب کی پرزور دعوت دے سکیں اسی لیے اکثر انبیاء کو ملکوت السموت والارض کی سیر بھی کرا دی جاتی ہے اور کسی حد تک مافوق الفطری اسباب پر مطلع بھی کردیا جاتا ہے اور پچھلے واقعہ میں حضرت عزیر علیہ السلام کو ایسے اسباب دکھلائے گئے۔ اب یہاں اسی نوعیت کا سوال حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے پروردگار کے حضور پیش فرما رہے ہیں۔ اور اپنا دلی اطمینان چاہتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معراج کے دوران ملکوت السموات والارض کی سیر کرائی گئی تھی۔ نیز ایک دفعہ خواب میں اور ایک دفعہ نماز کسوف پڑھاتے وقت آپ کو جنت اور دوزخ دکھلائے گئے تھے۔ [٣٧٥] چارمردہ پرندوں کی دوبارہ زندگی :۔ اس آیت کی جزئیات میں مفسرین نے بہت اختلاف کیا ہے۔ مثلاً یہ کہ چاروں پرندے ایک ہی جنس کے تھے۔ یا الگ الگ جنسوں کے، جزء اً سے مراد ان کو ذبح کر کے اور قیمہ بنا کر چاروں پرندوں کے گوشت کو ملا دینا ہے یا فقط ٹکڑے کردینا ہی کافی ہے یا ملا دینا بھی ضروری ہے۔ یہ پہاڑ بھی آیا چار ہی تھے جن پر ایک ایک حصہ رکھا گیا یا کم و بیش تھے جن پر بانٹ کر ہر حصہ رکھا گیا۔ کیا ان پرندوں کے سر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان حصوں میں ہی ملا دیئے تھے یا اپنے ہی پاس رکھے تھے۔ یہ سب تفصیلات مقصد کے لحاظ سے بے معنی ہیں۔ مقصد تو صرف یہ تھا کہ موت کے بعد مردہ جسم کی کوئی بھی پیچیدہ سے پیچیدہ صورت بن جائے تو اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ وہ ہر طرح کے مردہ کو زندہ کر کے دکھلا دے۔ یہ واقعہ بھی چونکہ خرق عادات اور معجزہ ہے۔ لہٰذا عقل پرستوں اور منکرین معجزات کو اس کی بھی مضحکہ خیز قسم کی تاویل کرنا پڑی۔ چنانچہ پرویز صاحب اس آیت کا ترجمہ یا مفہوم یوں بیان فرماتے ہیں :۔ اللہ کامردوں کوزندہ کرنے کی لاجواب پرویزی تاویل:۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ سے کہا کیا یہ ممکن ہے کہ اس قسم کی مردہ قوم بھی از سر نو زندہ ہوجائے اور اگر یہ ممکن ہے تو مجھے یہ بتلا دیجئے کہ اس کے لیے کیا طریق کار اختیار کیا جائے، یہ سب کچھ ﴿کَیْفَ تُحْیِی الْمَوْتیٰ﴾ کا ترجمہ یا مفہوم ہے آپ نے موتٰی کا ترجمہ مردہ قوم ارنی کا ترجمہ مجھے بتلاؤ اور کیف تحی کا ترجمہ مردہ قوم کے از سر نو زندہ ہونے کا طریق کار کیا ہے؟ اللہ نے فرمایا پہلے یہ تو بتلاؤ کہ تمہارا اس پر ایمان ہے کہ مردہ قوم کو حیات نو مل سکتی ہے؟ ابراہیم علیہ السلام نے کہا : اس پر تو میرا ایمان ہے لیکن میں اس کا اطمینان چاہتا ہوں۔ اللہ نے کہا تم چار پرندے لو۔ شروع میں وہ تم سے دور بھاگیں گے۔ انہیں اس طرح آہستہ آہستہ سدھاؤ کہ وہ تم سے مانوس ہوجائیں۔ آخرالامر ان کی یہ حالت ہوجائے گی کہ اگر تم انہیں الگ الگ مختلف پہاڑیوں پر چھوڑ دو اور انہیں آواز دو تو وہ اڑتے ہوئے تمہاری طرف آ جائیں گے۔ بس یہی طریقہ ہے حق سے نامانوس لوگوں میں زندگی پیدا کرنے کا۔ تم انہیں اپنے قریب لاؤ اور نظام خداوندی سے روشناس کراؤ (یہ (واعلم) کا ترجمہ ہے) یہ نظام اپنے اندر اتنی قوت اور حکمت رکھتا ہے کہ اسے چھوڑ کر یہ کہیں نہ جا سکیں گے۔ یہ ﴿اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ ﴾ کا ترجمہ ہے۔ (مفہوم القرآن ص ١٠٣) اب دیکھئے کہ :۔ ١۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام تو اللہ سے مردوں کو زندہ کرنے کی بات پوچھ رہے ہیں۔ لیکن پرویز صاحب نے ’مردہ قوموں‘ کی دوبارہ زندگی کے اسرار ورموز بیان کرنا شروع کردیئے ہیں۔ ٢۔ مردہ قوموں کی دوبارہ زندگی کے لیے آپ نے جو ہدایات حضرت ابراہیم علیہ السلام سے منسوب فرمائی ہیں ان کی حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کوئی تخصیص نہیں۔ یہ تو تبلیغ کا عام طریقہ ہے جسے تمام انبیاء اپناتے رہے ہیں۔ مردوں کو زندہ کرنے اور بالخصوص حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دلی اطمینان کی اس میں کیا بات ہے؟ ٣۔ حق سے مانوس شدہ لوگوں کو ٹیسٹ کرنے کا یہ طریقہ بھی کیسا شاندار ہے کہ پہلے نبی ایسے لوگوں کو الگ الگ پہاڑیوں پر چھوڑ آیا کریں۔ پھر انہیں بلائیں، اس سے پہلے نہ بلائیں بہرحال وہ نبی کی آواز سن کر دوڑتے ہوئے ان کے پاس پہنچ جائیں گے۔ کیا مردہ قوموں کی دوبارہ زندگی کا یہی طریقہ ہے؟ ٤۔ اِعْلَمْ کا ترجمہ یا مفہوم تم انہیں نظام خداوندی سے روشناس کراؤ۔ پرویز صاحب جیسے مفسر قرآن کا ہی حصہ ہوسکتا ہے۔ ٥۔ اس آیت میں لفظ جزء اً کا معنی حصہ یا ٹکڑا ہے اور پرندوں کا حصہ یا ٹکڑا اسی صورت میں ہوسکتا ہے جبکہ انہیں ذبح کردیا جائے یا کاٹ دیا جائے جس سے ان کی زندگی ختم ہوجائے اور یہی مَوْتٰی کا مفہوم ہے۔ لیکن پرویز صاحب نے اس کا مفہوم مردہ قوموں کو مانوس کرنا پھر انہیں الگ الگ کردینا بتلایا۔ اور اللہ کے عزیز حکیم ہونے کو نظام خداوندی کے قوت اور حکمت والا ہونے سے تعبیر کر کے اس واقعہ کے معجزہ ہونے سے بہرحال گلوخلاصی کرا ہی لی۔ اور یہ ثابت کردیا اللہ مردوں کو زندہ نہیں کیا کرتا ہے بلکہ مردہ قوموں کو زندہ کرتا ہے۔ وہ اپنے پیغمبروں کو ہدایت دیتا ہے کہ وہ پہلے لوگوں کو مانوس کریں۔ پھر پہاڑوں پر چھوڑ آیا کریں۔ پھر انہیں بلائیں ورنہ یہ مردہ قومیں کبھی زندہ نہ ہو سکیں گی۔ البقرة
261 [٣٧٦]صدقہ کا اجر کیسے گھٹتا بڑھتاہے؟ اسی سورۃ کی آیت نمبر ٢٥٤ میں اہل ایمان کو انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دی گئی تھی کہ قیامت کے دن یہی چیز کام آنے والی ہے۔ درمیان میں اللہ کی معرفت اور تصرف فی الامور کے چند واقعات کا ذکر کرنے کے بعد اب اسی مضمون کی طرف رجوع کیا جا رہا ہے اور بتلایا جا رہا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کس طرح ان صدقات کو سینکڑوں گنا بڑھا کر اس کا اجر عطا فرمائے گا اسی اضافے کو اللہ تعالیٰ یہاں ایک ایسی مثال سے واضح فرما رہے ہیں جسے سب لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں یعنی اگر اللہ چاہے تو سات سے زیادہ بالیاں بھی اگ سکتی ہیں اور ایک بالی میں سو سے زیادہ دانے بھی ہو سکتے ہیں۔ اس طرح صدقہ کا اجر و ثواب سات سو گنا سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ ایسے اجر کے حصول کے لیے چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ مثلاً :۔ حرام مال سےصدقہ قبول نہیں ہوتا:۔ ۱۔ بیج یا دانہ جس قدر تندرست اور قوی ہوگا اتنی ہی فصل اچھی ہوگی۔ انفاق فی سبیل اللہ میں بیج یا دانہ انسان کی نیت ہے وہ جس قدر خالص اللہ کی رضا کے لیے ہوگی۔ اسی قدر آپ کا صدقہ زیادہ پھل لائے گا۔ نیز یہ صدقہ حلال مال سے ہونا چاہیے۔ کیونکہ حرام مال کا صدقہ قبول ہی نہیں ہوتا۔ ٢۔ بیج کی کاشت کے بعد پیداوار حاصل کرنے کے لیے اس کی آبیاری اور کیڑوں مکوڑوں سے حفاظت بھی ضروری ہے۔ ورنہ فصل یا تو برباد ہوجائے گی یا بہت کم فصل پیدا ہوگی۔ اسی طرح صدقہ کے بعد اس کی حفاظت بھی کی جانی چاہیے اور اسے احسان جتلا کر یا بے گار لے کر ضائع نہ کردینا چاہیے جیسا کہ اگلی آیت میں آ رہا ہے۔ ٣۔ بعض دفعہ فصل تیار ہوجاتی ہے تو اس پر کوئی ایسی ارضی و سماوی آفت آ پڑتی ہے جو فصل کو بالکل تباہ و برباد کر کے رکھ دیتی ہے۔ انسان کے اعمال میں یہ آفات شرک کی مختلف اقسام ہیں۔ اگر آپ نے بالکل درست نیت سے صدقہ کیا۔ پھر آبیاری اور حفاظت بھی کرتے رہے۔ لیکن کسی وقت کوئی شرک کا کام کرلیا تو آپ کے اعمال برباد ہوجائیں گے۔ اسی طرح اگر وہ کام سنت کے خلاف (یعنی بدعت) ہوگا تو بھی وہ اجر کے بجائے عذاب کا مستحق ہوگا۔ صدقہ کا اجر :۔ ہاں جو شخص ان امور کا خیال رکھے تو اسے فی الواقعہ اتنا ہی اجر ملے گا جو اس آیت میں مذکور ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ صرف پاک مال قبول کرتا ہے تو جس نے اپنے پاک مال میں سے ایک کھجور برابر صدقہ کیا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اور اس کی یوں نشوونما کرتا ہے جیسے تم اپنے بچھڑے کی نشوونما کرتے ہو حتیٰ کہ وہ کھجور پہاڑ کے برابر ہوجاتی ہے۔ (بخاری، کتاب الزکاۃ، باب لا یقبل اللّٰہ صدقة من غلول۔ اور باب الصدقة من کسب طیب لقولہ تعالیٰ یمحق اللہ الربٰو اور یر بی الصدقات ....الایة- مسلم، کتاب الزکوۃ، باب الحث علی الصدقة ولو بشق تمرۃ او کلمة طیبة۔۔ الخ) [٣٧٧] یعنی جتنا زیادہ اجر و ثواب دینا چاہے دے سکتا ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ کتنے خلوص نیت سے تم نے یہ کام کیا تھا۔ البقرة
262 [٣٧٨] احسان جتلانا کبیرہ گناہے :۔ آپ نے فرمایا : تین آدمی ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ کلام کرے گا نہ ان کی طرف نظر رحمت کرے گا اور نہ ہی ان کو پاک کرے گا۔ ایک منان (احسان جتلانے والا) دوسرا تہبند نیچے لٹکانے والا اور تیسرا جھوٹی قسم کھا کر اپنا مال فروخت کرنے والا۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم اسبال الازار والمن بالعطیة، تنقیق السلعہ بالحلف... الخ) اور فقہاء نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ جن افعال و اعمال کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان سے کلام نہیں کرے گا یا نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا، یا پاک نہیں کرے گا۔ تو ایسے افعال کبیرہ گناہ ہوتے ہیں۔ گویا صدقہ کرنے کے بعد احسان جتلانے والے کا صرف صدقہ ہی ضائع نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک کبیرہ گناہ کا بوجھ بھی اپنے سر پر لاد لیتا ہے۔ البقرة
263 [٣٧٩]صدقہ ہرشخص کےلیےضروری ہے :۔ آپ نے فرمایا : ہر مسلمان کو صدقہ دینا ضروری ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس کے پاس مال نہ ہو؟‘‘ آپ نے فرمایا : ’’وہ ہاتھ سے محنت کرے خود بھی فائدہ اٹھائے اور خیرات بھی کرے۔‘‘ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : اگر یہ بھی نہ ہو سکے؟ فرمایا : ’’اچھی بات پر عمل کرے اور بری سے پرہیز کرے۔ اس کے لیے یہ بھی صدقہ ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ، باب علی کل مسلم صدقہ۔۔ الخ) صدقہ سےمتعلق احادیث :۔ ۲۔ نیز آپ نے فرمایا : آگ سے بچو، خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا صدقہ کرنے سے ہی ہو۔ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب اتقوا النار ولو بشق تمرۃ۔۔ الخ) ٣۔ ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کونسا صدقہ اجر کے لحاظ سے بڑا ہے؟ فرمایا : جو رمضان میں دیا جائے۔ (ترمذی، ابو اب الزکوٰۃ، باب ماجاء فی فضل الصدقة) ٤۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ ’’ کونسا صدقہ افضل ہے؟‘‘ فرمایا : ’’تنگ دست جو اپنی محنت میں سے صدقہ کرے اور ان سے ابتدا کر جو تیرے زیر کفالت ہیں۔‘‘ (ابو داؤد، کتاب الزکوٰۃ، باب الرجل یخرج من مالہ۔۔) افضل صدقہ ۵۔ ایک دفعہ ایک اور آدمی نے آپ سے یہی سوال کیا کہ کونسا صدقہ افضل ہے؟' آپ نے جواب دیا : ’’جو صدقہ تو تندرستی کی حالت میں کرے۔ جبکہ تو حرص رکھتا ہو اور فقر سے ڈرتا ہو، اور دولت کی طمع رکھتا ہو۔ لہٰذا صدقہ کرنے میں جلدی کرو۔ ایسا نہ ہو کہ جان لبوں پر آ جائے تو کہنے لگے کہ اتنا فلاں کو دے دو، اتنا فلاں کو دے دو، حالانکہ اس وقت مال اس کا نہیں بلکہ اس کے وارثوں کا ہوتا ہے۔‘‘ (مسلم، کتاب الزکوٰۃ، باب ان افضل الصدقة صدقة الصحیح الشحیح ) البقرة
264 [٣٨٠] یاکارکاانجام :۔ ریا کار کی چونکہ نیت ہی درست نہیں ہوتی اور نیت ہی اصل بیج ہے۔ لہٰذا ایسا بیج بار آور نہیں ہو سکتا۔ اس کی مثال اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی۔ جیسے ایک صاف چکنا سا پتھر ہو جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو، اس میں وہ اپنا بیج ڈالتا ہے اور جب بارش ہوتی ہے تو پانی مٹی کو بھی بہا لے جاتا ہے اور بیج بھی اس مٹی کے ساتھ بہہ جاتا ہے۔ لہٰذا اب پیداوار کیا ہو سکتی ہے؟ ریاکار کا دراصل اللہ پر اور روز آخرت پر پوری طرح ایمان ہی نہیں ہوتا وہ تو لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ہی عمل کرتا ہے اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر و ثواب پانے کی اس کی نیت ہی نہیں ہوتی۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ قیامت کے دن پہلا آدمی جس کا فیصلہ کیا جائے گا وہ ایک شہید ہوگا۔ اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں لایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو اپنی نعمتیں جتلائے گا جن کا وہ اعتراف کرے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ’’تو پھر تم نے کیا عمل کیا ؟‘‘ وہ کہے گا : میں تیری راہ میں لڑتا رہا حتیٰ کہ شہید ہوگیا۔اللہ تعالیٰ فرمائے گا : جھوٹ کہتے ہو۔ تم تو اس لیے لڑتے رہے کہ لوگ تجھے بہادر کہیں اور وہ دنیا میں کہلوا چکے۔ پھر اللہ فرشتوں کو حکم دے گا جو اسے گھسیٹتے ہوئے جہنم میں جا پھینکیں گے۔ پھر ایک اور شخص کو لایا جائے گا جس نے دین کا علم سیکھا اور لوگوں کو سکھلایا اور قرآن پڑھتا تھا۔ اللہ تعالیٰ اس پر اپنی نعمتیں جتلائے گا جن کا وہ اعتراف کرے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اسے پوچھے گا : پھر تو نے کیا عمل کیا ؟ وہ کہے گا۔ میں نے خود علم سیکھا اور دوسروں کو سکھایا اور قرآن پڑھتا پڑھاتا رہا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : جھوٹ کہتے ہو۔ تم نے تو علم اس لیے سیکھا تھا کہ لوگ تجھے عالم کہیں اور قرآن اس لیے پڑھتا تھا کہ لوگ تجھے قاری کہیں اور تجھے دنیا میں عالم اور قاری کہا جا چکا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دے گا جو اسے گھسیٹتے ہوئے دوزخ میں جا پھینکیں گے۔ پھر ایک اور شخص کو لایا جائے گا جسے اللہ نے ہر قسم کے اموال سے نوازا تھا۔ اللہ اسے اپنی نعمتیں جتلائے گا جن کا وہ اعتراف کرے گا۔ پھر اللہ اس سے پوچھے گا : پھر تو نے کیا عمل کیا ؟ وہ کہے گا۔ میں نے ہر اس راہ میں مال خرچ کیا جس میں تو پسند کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جھوٹ کہتے ہو تم تو اس لیے خرچ کرتے تھے کہ لوگ تمہیں سخی کہیں اور وہ تم کو دنیا میں کہا جا چکا پھر فرشتوں کو حکم ہوگا جو اسے گھسیٹتے ہوئے جہنم میں جا پھینکیں گے۔ (مسلم، کتاب الامارۃ باب من قاتل للریاء والسمعة استحق النار) البقرة
265 [٣٨١]ربوہ کالغوی مفہوم:۔ ربوۃ ربو سے مشتق ہے جس کا معنی بڑھنا اور پھلنا پھولنا ہے اور ربوۃ سے مراد ایسی زمین ہے جس کی سطح عام زمین سے قدرے بلند ہو اور قدرے نرم ہو۔ ایسی زمین عموماً سرسبز اور شاداب ہوتی ہے۔ پنجابی زبان میں اسے میرا زمین کہتے ہیں اور وابل یا زور دار بارش سے مراد انتہائی خلوص نیت سے اللہ کی رضا کے لیے اور اپنے دل کی پوری پوری خوشی سے مال خرچ کرنا ہے اور پھوار سے مراد ایسی خیرات ہے جس میں یہ دونوں باتیں موجود تو ہوں، مگر اتنے اعلیٰ درجہ کی نہ ہوں۔ دونوں صورتوں میں اجر و ثواب تو ضرور ملے گا۔ مگر پہلی صورت میں جو اجر و ثواب ملے گا وہ پچھلی صورت سے بہرحال کئی گنا زیادہ ہوگا۔ البقرة
266 [٣٨٢]نیک اعمال کوبرباد کرلینے والے کی مثال:۔ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ رضی اللہ عنہ سے اس آیت کا مطلب پوچھا : صحابہ رضی اللہ عنہ نے کہا '' واللہ اعلم'' حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے غصہ سے کہا (یہ کیا بات ہوئی) صاف کہو کہ ہمیں معلوم ہے یا نہیں معلوم۔ اس وقت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہنے لگے : امیر المومنین! میرے دل میں ایک بات آئی ہے۔ آپ نے کہا : بھتیجے بیان کرو اور اپنے آپ کو چھوٹا نہ سمجھو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہنے لگے : ’’اللہ نے یہ عمل کی مثال بیان کی ہے۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا : ’’ کون سے عمل کی؟‘‘ ابن عباس رضی اللہ عنہما اس کا کچھ جواب نہ دے سکے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : یہ ایک مال دار شخص کی مثال ہے جو اللہ کی اطاعت میں عمل کرتا رہتا ہے۔ پھر اللہ شیطان کو اس پر غالب کردیتا ہے وہ گناہوں میں مصروف ہوجاتا ہے اور اس کے نیک اعمال سب کے سب فنا ہوجاتے ہیں۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) یعنی ایسے شخص کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اسے بڑھاپے میں باغ کی پیداوار کی انتہائی ضرورت ہوتی ہے اور از سر نو باغ لگانے کا موقع بھی نہیں ہوتا اور اس کے بچے اس کی مدد بھی نہیں کرسکتے وہ تو خود اس سے بھی زیادہ محتاج ہوتے ہیں۔ لہٰذا کوئی نیک عمل مثلاً خیرات کرنے کے بعد اس کی پوری پوری محافظت کرنا بھی ضروری ہے۔ یعنی احسان جتانے، بیگار لینے یا شرک کر بیٹھنے سے اپنے باغ کو جلا نہ ڈالے کہ آخرت میں اسے اپنے اعمال میں سے کوئی چیز بھی ہاتھ نہ آئے جبکہ اس کو اعمال کی شدید ضرورت ہوگی اور اس حدیث میں شیطان کے غالب کرنے سے مراد یہ ہے کہ انسان حصول مال میں اس قدر مگن ہوجاتا ہے کہ اللہ کی اطاعت سے لاپروا ہوجاتا ہے۔ یا ایسی نافرمانیاں اور کفر و شرک کے کام کرتا ہے جس سے اس کے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔ البقرة
267 [٣٨٣]ناقص مال کاصدقہ: براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ آیت ہم گروہ انصار کے حق میں نازل ہوئی ہے۔ ہم کھجوروں والے تھے۔ ہم میں سے ہر کوئی اپنی قلت و کثرت کے موافق کھجوریں لے کر آتا، کوئی ایک خوشہ، کوئی دو خوشے اور انہیں مسجد میں لٹکا دیتا۔ اہل صفہ کا یہ حال تھا کہ ان کے پاس کھانے کو کچھ نہ ہوتا تھا۔ ان میں سے جب کوئی آتا تو عصا سے خوشہ کو ضرب لگاتا تو اس سے تر اور خشک کھجوریں گر پڑتیں جنہیں وہ کھا لیتا اور جنہیں نیکی کی رغبت نہ ہوتی تھی وہ ایسے خوشے لاتے جن میں ناقص اور ردی کھجوریں ہوتیں اور ٹوٹے پھوٹے خوشے لے کر آتے تب اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد ہر شخص اچھی کھجوریں لاتا۔ (ترمذی، ابو اب التفسیر) اس آیت سے معلوم ہوا کہ جیسے زمین کی پیداوار میں زکوٰۃ فرض ہے ویسے ہی اموال صنعت و تجارت میں بھی فرض ہے۔ نیز یہ بھی کہ خرچ اچھا اور ستھرا مال ہی کرنا چاہیے۔ ناقص اور ردی مال صدقہ نہیں کرنا چاہیے۔ اموال تجارت و صنعت کی زکوٰۃ کے سلسلہ میں درج ذیل احادیث و احکام ملاحظہ فرمائیے۔ تجارتی اور صنعتی پیداوار پرز کوٰۃ کاوجوب:۔ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں گو تجارت ہی قریش مکہ کا شغل تھا لیکن ان کا انداز بالکل الگ تھا۔ سال بھر میں دو دفعہ تجارتی قافلے سامان لے کر شام کی طرف نکل جاتے، پھر ادھر سے سامان لا کر مکہ میں فروخت کرتے، پھر دوسرے سفر کی تیاری شروع کردیتے۔ لہٰذا مستقل دکانوں کا وجود کم ہی نظر آتا تھا۔ اسی طرح صنعت کا کام بھی نہایت محدود طور پر اور انفرادی سطح پر ہوا کرتا تھا۔ لہٰذا اموال تجارت و صنعت کے احکام اس طرح تفصیل سے احادیث میں مذکور نہیں جس طرح دوسری محل زکوٰۃ اشیاء کی تفصیل مذکور ہے اور غالباً یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ اموال تجارت و صنعت کی زکوٰۃ ادا کرنے سے قاصر ہی رہتے ہیں اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ لوگ اس قسم کی زکوٰۃ کے وجوب کو جانتے ہی نہ ہوں یا اس کے قائل ہی نہ ہو۔ لہٰذا اس موضوع پر تفصیلی کلام کی ضرورت ہے۔ اموال و صنعت و تجارت پر سب سے بڑی دلیل یہی آیت ہے۔ کیونکہ تجارت اور صنعت بھی انسان کا کسب ہے اور اس کی تائید درج ذیل احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ ١۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ ہر مسلمان پر صدقہ کرنا ضروری ہے۔ لوگوں نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! جس کے پاس مال نہ ہو (وہ کیا کرے؟) آپ نے فرمایا : وہ اپنے ہاتھ سے محنت کرے، خود بھی فائدہ اٹھائے اور صدقہ بھی کرے۔ لوگوں نے کہا : اگر یہ بھی نہ ہو سکے آپ نے کہا : تو پھر اچھی بات پر عمل کرے اور بری بات سے پرہیز کرے، یہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب علی کل مسلم صدقة) ٢۔ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں ان تمام اشیاء سے زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم دیتے تھے جنہیں ہم خرید و فروخت کے لیے تیار کرتے تھے۔ (ابو داؤد، دار قطنی، بحوالہ منذری فی مختصر سنن ج ٢ ص ١١٥) اس حدیث سے ایک تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہر فروختنی چیز پرزکوٰۃ ہے خواہ اس کا ذریعہ حصول تجارت ہو یا صنعت ہو اور دوسرے یہ کہ جو چیز فروختنی نہ ہو اس پرزکوٰۃ نہیں، مثلاً دکان کا فرنیچر اور باردانہ یا فیکٹری کی مشینری یا آلات کشا ورزی اور ہل چلانے والے بیل وغیرہ۔ یعنی ہر وہ چیز جو پیداوار کا ذریعہ بن رہی ہو اس پرزکوٰۃ نہیں اور اس اصل کی تائید ایک دوسری حدیث سے بھی ہوجاتی ہے جو یہ ہے : لیس فی العوامل صدقہ وفی الإبل، ابو داؤد، کتاب الزکوٰۃ، باب فی زکوٰۃ السائمة- صنعتی اور تجارتی اموال پرزکوٰۃ کاوجوب:۔ ۳۔ حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : اونٹوں میں زکوٰۃ ہے۔ بکریوں میں زکوٰۃ ہے، گائے میں زکوٰۃ ہے اور تجارتی کپڑے میں زکوٰۃ ہے۔ (دار قطنی، کتاب الزکوٰۃ، باب لیس فی الخضروات صدقة) اس حدیث میں تجارتی کپڑے کے لیے بز کا لفظ استعمال ہوا ہے اور بزاز کپڑا فروش کو کہتے ہیں۔ اس حدیث سے باقی تجارتی اموال پر بھی زکوٰۃ کی فرضیت ثابت ہوتی ہے۔ ٤۔ حضرت عمرو بن حماس چمڑے کے ترکش اور تیر بنایا کرتے تھے۔ یعنی یہ ان کا پیشہ تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس سے گزرے تو فرمایا ’’ان کی زکوٰۃ ادا کرو۔‘‘ ابو عمرو کہنے لگے۔ میرے پاس ان تیروں اور چمڑے کے ترکشوں کے سوا ہے کیا ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا انہی کا حساب لگاؤ اور ان کی زکوٰۃ ادا کرو۔ (احمد، ابن ابی شیبہ عبدالرزاق، دار قطنی بحوالہ الام للشافعی ج ٢ ص ٣٨ مطبعہ المنیریہ قاہرہ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس حکم سے بھی صنعتی پیداوار پرزکوٰۃ کا واجب ہونا ثابت ہوجاتا ہے۔ ٥۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل یہ تھا کہ وہ اپنے دور خلافت میں تاجروں کا مال اکٹھا کرتے۔ پھر ان اموال موجود اور غیر موجود سب کا حساب لگاتے پھر اس تمام مال پرزکوٰۃ وصول کیا کرتے تھے۔ (المحلیٰ ج ٦ ص ٣٤ مطبعہ المنیریہ قاہرہ) اب مفسرین کی طرف آئیے وہ ﴿اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ﴾کا مطلب یوں بیان کرتے ہیں۔ زکوامن طیبات ماکسبتم بتصرفکم اما التجارۃ و اما الصناعة ( یعنی جو کچھ تم نے اپنے تصرف یا محنت سے کمایا ہو اس سے زکوٰۃ ادا کرو۔ خواہ یہ تجارت کے ذریعہ کمایا ہو یا صنعت کے ذریعہ سے (تفسیر طبری ج ٢ ص ٨٠ طبع ١٣٧٢ ھ؍١٩٥٤ ء تفسیر ابن کثیر ج ١ ص ٤٠ تفسیر قرطبی ج ٢ ص ٣٢٠، طبع ١٩٣٦ ء، تفسیر قاسمی (ج ٢ ص ٦٨٣ طبع ١٣٧٦ ھ؍ ١٩٥٧ء) علاوہ ازیں عقلی طور پر بھی یہ بات بڑی عجیب معلوم ہوتی ہے کہ ایک غریب کسان تو اپنی پیداوار کا دسواں یا بیسواں حصہ زکوٰۃ ادا کرے اور وہ سیٹھ جو کسان سے بہت کم محنت کر کے کروڑوں روپے کما رہا ہے اس پرزکوٰۃ عائد ہی نہ ہو، یہ حد درجہ کی ناانصافی ہے۔ تجارتی اموال پرزکوٰۃ کی تشخیص کے اصول ١۔ اموال زکوٰۃ کی تشخیص موقع پر ہوگی یعنی اسی جگہ جہاں یہ مال موجود ہو۔ (ابو داؤد، کتاب الزکوٰۃ باب این تصدق الاموال) ٢۔ زکوٰۃ اسی مال سے لینا بہتر ہے جس کی زکوٰۃ ادا کرنا مقصود ہو۔ مثلاً کپڑے کی دکان ہے تو کپڑا ہی زکوٰۃ میں عامل کو لینا چاہیے یا اگر زکوٰۃ دینے والا چاہے تو کپڑے کی زکوٰۃ کپڑے سے ہی دے سکتا ہے۔ اسی طرح کتابوں کی زکوٰۃ کتابوں سے، بکریوں کی بکریوں سے اور یہ زکوٰۃ کا عام اصول ہے جس میں زکوٰۃ دہندہ کی سہولت کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ ہاں اگر زکوٰۃ دینے والا خود ہی نقدی کی صورت میں ادا کرنا چاہے تو ایسا کرسکتا ہے اور اس میں بھی زکوٰۃ دینے والے کی سہولت کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ مثلاً یہ ضروری نہیں کہ سونے یا چاندی کے زیور کی زکوٰۃ سونے، چاندی کی شکل میں ہی دی جائے۔ بلکہ اس کی موجودہ قیمت لگا کر چالیسواں حصہ زکوٰۃ ادا کی جا سکتی ہے۔ ٣۔ زکوٰۃ میں نہ عمدہ عمدہ مال لیا جائے اور نہ ناقص۔ بلکہ اوسط درجہ کا حساب رکھا جائے گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو زکوٰۃ کی وصولی کے متعلق جو ہدایات دیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ ایاک وکرائم اموال الناس (بخاری، کتاب الزکوٰۃ باب اخذ الصدقة من الاغنیاء و ترد فی الفقراء حیث کانوا) یعنی لوگوں کے عمدہ عمدہ مال لینے سے پرہیز کرنا۔ مثلاً اگر کتابوں کی دکان سے زکوٰۃ وصول کرنا ہو تو یہ نہ کیا جائے کہ کسی بہترین مصنف کی کتب منتخب کرلی جائیں جن کی مارکیٹ میں مانگ زیادہ ہو، بلکہ زکوٰۃ میں ملا جلا یا درمیانی قسم کا مال لینا چاہیے۔ اسی طرح اگر زکوٰۃ ادا کرنے والا خودزکوٰۃ نکالنا چاہے تو یہ نہ کرے کہ جو مال فروخت نہ ہو رہا ہو اسے زکوٰۃ میں دے دے، بلکہ یا تو ہر طرح کا مال دے یا پھر صرف درمیانہ درجہ کا۔ ٤۔ مال کی تشخیص بحساب لاگت ہوگی، یعنی چیز کی قیمت خرید بمعہ خرچہ نقل و حمل وغیرہ قیمت فروخت پر نہ ہوگی۔ ٥۔ فرنیچر اور باردانہ وغیرہ زکوٰۃ کے مال میں محسوب نہ ہوں گے، جیسا کہ اوپر تفصیل گزر چکی ہے۔ ٦۔ زکوٰۃ سال بھر کا عرصہ گزرنے کے بعد نکالی جائے گی اور یہ سال قمری سال شمار کرنا ہوگا، شمسی نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہ رجب میں عاملین کو زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا کرتے تھے، مگر یہ ضروری نہیں۔ آج کل لوگ اکثر رمضان میں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ یہ اس لحاظ سے بہتر بھی ہے کہ رمضان میں ثواب زیادہ ہوتا ہے۔ تاہم زکوٰۃ پوری یا اس کا کچھ حصہ سال پورا ہونے سے پہلے بھی دی جا سکتی ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہی سوال کیا تو آپ نے اس کی اجازت دے دی (ترمذی، ابو اب الزکوٰۃ، باب فی تعجیل الزکوٰۃ) ٧۔ تجارتی اموال پر شرح زکوٰۃ بچت کی زکوٰۃ والی شرح ہی ہے یعنی چالیسواں حصہ۔ کیونکہ تجارت میں لگایا ہوا سرمایہ سب بچت ہی ہوتا ہے۔ ٨۔ زکوٰۃ موجودہ مال پر عائد ہوگی۔ مثلاً زید نے دس ہزار سے کام شروع کیا۔ جو سال بعد بارہ ہزار کی مالیت کا ہوگیا تو زکوٰۃ دس ہزار پر نہیں بلکہ بارہ ہزار پر شمار ہوگی۔ اسی طرح اگر اسے نقصان ہوگیا یا گھر کے اخراجات زیادہ تھے، جو نفع سے پورے نہ ہو سکے اور مالیت صرف آٹھ ہزار رہ گئی تو زکوٰۃ آٹھ ہزار پر محسوب ہوگی۔ ٩۔ جو مال ادھار پر فروخت ہوا ہے تو وہ ادھار رقم بھی سرمایہ میں شمار ہوگی۔ الا یہ کہ وہ ایسا ادھار ہو جس کے ملنے کی توقع ہی نہ ہو۔ ایسا ادھار محسوب نہ ہوگا۔ ایسے ادھار کے متعلق حکم یہ ہے کہ جب بھی ایسا ادھار وصول ہوجائے تو اس کی صرف ایک بارزکوٰۃ ادا کر دے۔ تجارتی قرضوں کے علاوہ عام قرضوں کی بھی یہی صورت ہے۔ ١٠۔ اگر دکاندار نے کسی سے رقم ادھار لے کر اپنے سرمایہ میں لگا رکھی ہے تو یا تو وہ زکوٰۃ ادا کرنے سے پہلے وہ ادھار واپس کر دے ورنہ وہ اس کے سرمایہ میں محسوب ہوگا۔ ١١۔ مال مستفاد کی آمیزش۔ مثلاً زید نے کاروبار دس ہزار سے شروع کیا۔ چند ماہ بعد اسے پانچ ہزار کی رقم کسی سے مل گئی اور وہ بھی اس نے کاروبار میں شامل کردی۔ اب اگر وہ چاہے تو سال بعد اس بعدوالی رقم کا حساب الگ رکھ سکتا ہے۔ لیکن بہتر یہی ہے کہ ساتھ ہی ساتھ اس مال کی بھی زکوٰۃ نکال دی جائے، تاکہ آئندہ حساب کتاب کی پیچیدگیوں سے نجات حاصل ہوجائے۔ پھر اگر مال زکوٰۃ کچھ زیادہ بھی نکل گیا تو اللہ اس کا بہت بہتر اجر دینے والا ہے۔ ١٢۔ بعض دکانیں ایسی ہوتی ہیں جن کا اچھا خاصا کاروبار ہوتا ہے۔ مگر دکان میں مال یا تو برائے نام ہوتا ہے یا ہوتا ہی نہیں۔ مثلاً سبزی فروش، پھل فروش، شیر فروش، قصاب، ہوٹل، اخباروں کے دفاتر یا پراپرٹی ڈیلروں کے دفاتر وغیرہ، ایسی دکانوں یا کاروباری اداروں میں موجود مال کے حد نصاب کو پہنچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایسے لوگوں کے سالانہ منافع جات پر تجارتی زکوٰۃ عائد ہوگی اڑھائی فیصد کی شرح سے یا چالیسواں حصہ۔ ١٣۔ گوالے یا گوجر حضرات کی دکان سرے سے ہوتی نہیں، بس ایک لکڑی کا تختہ یا تخت ہی ان کی دکان ہوتی ہے۔ یہ لوگ کافی تعداد میں گائے بھینسیں رکھتے ہیں۔ ان پر مویشی کی زکوٰۃ عائد نہیں ہوتی کیونکہ وہ عامل پیداوار ہے۔ ان کے سالانہ منافع جات پر تجارتی زکوٰۃ عائد ہوگی یہی صورت ڈیری فارم، پولٹری اور مچھلی فارم وغیرہ کی بھی ہے۔ ١٤۔ گائے بھینسیں اگر افزائش نسل کی خاطر رکھی جائیں تو ان پر گائے کی زکوٰۃ کی صورت میں زکوٰۃ لگے لگی، اور کوئی صاحب مویشیوں کی خرید و فروخت کا کاروبار کرتے ہوں تو سالانہ منافع پر تجارتی زکوٰۃ ہوگی اور ڈیری فارم یا گوالوں کے پاس ہو تو یہ عامل پیداوار ہیں۔ ان کی زکوٰۃ بھی سالانہ منافع پر ہوگی۔ ١٥۔ دکانوں اور مکانوں کے کرایہ یا کرایہ پر دی ہوئی ٹیکسیاں اور گاڑیاں وغیرہ ایسی چیزوں یعنی دکانوں، مکانوں یا ٹیکسیوں کی مالیت پرزکوٰۃ نہیں ہوتی بلکہ وصول شدہ کرائے کی کل رقم پر ہوگی اور سال بعد یہ حساب ہوگا۔ مثلاً ایک دکان کا کرایہ دو ہزار ہے تو سال بعد ٢٤ ہزار پرزکوٰۃ ادا کرنا ہوگی۔ خواہ یہ رقم ساتھ ساتھ خرچ ہوجائے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اپنی کرایہ کی دکانوں کی زکوٰۃ ایسے ہی ادا کیا کرتے تھے۔ البتہ اس رقم سے پراپرٹی ٹیکس یا دوسرے سرکاری واجبات کی رقم مستثنی کی جا سکتی ہے۔ ١٦۔ جائیداد کی خرید و فروخت کا کاروبار : جو لوگ اپنے زائد سرمایہ سے زمینوں کے پلاٹ اور مکان وغیرہ کی تجارتی نظریہ سے خرید و فروخت کرتے رہتے ہیں۔ ان کی فروخت کے متعلق کچھ علم نہیں ہوتا۔ خواہ تین ماہ بعد بک جائیں، خواہ دو سال تک بھی نہ بکیں۔ ایسی جائیداد جب بھی بک جائے اس وقت ہی اس کی زکوٰۃ نکال دینا چاہیے اور یہ زکوٰۃ قیمت فروخت پر ہوگی اور تجارتی زکوٰۃ ہوگی۔ البتہ اگر کوئی شخص اپنی ذاتی ضرورت کے لیے کوئی دکان، مکان، پلاٹ یا گاڑی وغیرہ خریدتا ہے تو اس پرزکوٰۃ نہیں۔ ١٧۔ مشترکہ کاروبار یا سرمائے کی کمپنیوں میں لگے ہوئے سرمایہ کے متعلق یہ تسلی کر لینی چاہیے کہ آیا کمپنی اس مجموعی سرمایہ کی زکوٰۃ ادا کرتی ہے یا نہیں۔ اگر کمپنی نے زکوٰۃ ادا نہ کی ہو تو ہر حصہ دار کو اپنے اپنے حصہ کی زکوٰۃ خود ادا کردینا چاہیے۔ صنعتی پیداوار کی زکوٰۃ: صنعتی پیداوار کی دو باتوں میں زرعی پیداوار سے مماثلت پائی جاتی ہے۔ مثلاً :۔ ١۔ زمین کی اپنی قیمت اس کی پیداوار کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہوتی ہے اور زکوٰۃ پیداوار پر لگتی ہے زمین کی قیمت پر نہیں۔ اسی طرح فیکٹریوں اور ملوں کی قیمت اس پیداوار کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہوتی ہے جو وہ پیدا کرتی ہیں۔ لہٰذازکوٰۃ پیداوار پر ہونی چاہیے۔ ٢۔ جس طرح بعض زمینیں سال میں ایک فصل دیتی ہیں۔ بعض دو اور بعض اس سے زیادہ اسی طرح بعض کارخانے سال میں ایک دفعہ پیداوار دیتے ہیں۔ مثلاً برف اور برقی پنکھوں کے کارخانے وغیرہ بعض دو دفعہ جیسے اینٹوں کے بھٹے اور بعض سال بھر چلتے رہتے ہیں۔ اور ایک بات میں صنعتی پیداوار کی مماثلت تجارتی اموال سے ہے جس طرح تجارتی اموال پر لاگت کے مقابلہ میں منافع کم ہوتا ہے اسی طرح صنعتی اموال کا بھی حال ہے۔ جبکہ زرعی پیدوار میں لاگت کم اور پیداوار کی قیمت اس کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ان سب باتوں کو ملحوظ رکھ کر دیانتداری کے ساتھ جو اصل مستنبط ہو سکتی ہے وہ یہ ہے کہ صنعتی پیداوار پرزکوٰۃ پیداوار کے منافع پر ہونی چاہیے اور یہ پانچ فیصد یعنی نصف عشر ہونا چاہیے۔ خواہ یہ پیداوار سال میں ایک دفعہ ہو یا دو دفعہ کارخانے سارا سال کام کرتے ہیں ان پرزکوٰۃ تو سال بعد ہوگی مگر اس کی صورت وہی ہوگی یعنی زکوٰۃ پیداوار پر نہیں بلکہ منافع پر ہوگی اور یہ پانچ فیصد ہوگی۔ واللہ اعلم بالصواب۔ البقرة
268 [٣٨٤] صدقہ کے وقت ضرورتوں کاخیال شیطانی وسوسہ ہے:۔ معلوم ہوا کہ اگر صدقہ کرتے وقت کسی کے دل میں احتیاج، دوسری ضرورتوں اور مفلسی یا کسی بری بات کا خیال آئے تو یہ شیطانی وسوسہ ہوتا ہے وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ شیطان کی تو ہم نے کبھی صورت تک نہیں دیکھی۔ اس کا حکم قبول کرنا دور کی بات ہے اور اگر کسی کو ایسا خیال آئے کہ اس سے گناہ معاف ہوں گے اور مال میں بھی ترقی اور برکت ہوگی تو سمجھ لے کہ یہ بات اللہ کی طرف سے القاء ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَہُوَ یُخْلِفُہٗ ۚ وَہُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ﴾ (34: 39)یعنی تم جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اللہ تمہیں اس کا نعم البدل عطا فرما دے گا۔ کیونکہ اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ : ہر روز صبح کے وقت دو فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک اس طرح دعا کرتا ہے : اے اللہ خرچ کرنے والے کو اور زیادہ عطا کر اور دوسرا اس طرح بددعا کرتا ہے : اے اللہ ! ہاتھ روکنے والے کو تلف کر دے۔ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب قول اللّٰہ عزوجل فأما من اعطی واتقی و صدق بالحسنیٰ۔۔ الخ ) البقرة
269 [٣٨٥] حکمت کیاچیزہے؟حکمت کی کئی تعریفیں کی جا سکتی ہیں اور وہ اپنے اپنے مقام پر سب ہی درست ہیں۔ مثلاً ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ''رَاسُ الْحِکْمَۃ مَخَافَۃُ اللّٰہِ " یعنی سب سے بڑی حکمت تو اللہ کا خوف (تقویٰ) ہے کیونکہ تقویٰ ہی وہ چیز ہے جو انسان کو بچتے بچاتے سیدھی راہ پر گامزن رکھنے والی ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی تصنیف الرسالہ میں بے شمار دلائل سے ثابت کیا ہے کہ جہاں بھی قرآن کریم میں کتاب و حکمت کے الفاظ اکٹھے آئے ہیں تو وہاں حکمت سے مراد سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور حکمت کا لغوی مفہوم کسی کام کو ٹھیک طور پر سر انجام دینے کا طریق کار ہے۔ یعنی کسی حکم کی تعمیل میں صحیح بصیرت اور درست قوت فیصلہ ہے۔ اس آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ جس کے پاس حکمت کی دولت ہوگی وہ کبھی شیطانی راہ اختیار نہیں کرے گا اور شیطانی راہ یہ ہے کہ انسان اپنی دولت سنبھال سنبھال کر رکھے۔ اس میں سے کچھ خرچ نہ کرے بلکہ مزید دولت بڑھانے کی فکر میں لگا رہے۔ اس طرح شاید وہ دنیا میں تو خوشحال رہ سکے مگر آخرت بالکل برباد ہوگی۔ لہٰذا اصل دانشمندی یہ ہے کہ انسان جہاں تک ممکن ہو خرچ کرے۔ اس دنیا میں اللہ اسے اس کا نعم البدل عطا فرمائے گا اور آخرت میں بھی بہت بڑا اجر و ثواب عطا فرمائے گا اور یہی سب سے بڑی دولت اور حکمت ہے۔ ایک دن حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے خطبہ کے دوران فرمایا کہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں اسے دین کی سمجھ عطا کردیتے ہیں۔ (بخاری، کتاب العلم، باب مَنْ یُرِدِ اللّٰہُ بِہِ خَیْرًا یُفَقِّھْہُ فِیْ الدِّیْنِ) ’’اور میں بانٹنے والا ہوں اور دینے والا اللہ ہے اور یہ امت ہمیشہ اللہ کے حکم پر قائم رہے گی مخالف اسے نقصان نہ پہنچا سکیں گے۔ تاآنکہ اللہ کا حکم (قیامت) آئے۔‘‘ (مسلم، کتاب الامارہ، باب قولہ صلي الله عليه وسلم لایزال طائفة من أمتی ظاھرین علی الحق لایضرھم من خالفھم) اس آیت اور اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دین کی سمجھ آ جانا ہی حکمت اور سب سے بڑی دولت ہے۔ البقرة
270 [٣٨٦] درست نذر کوپورا کرنا ضروری ہے:۔ نذر یہ ہے کہ ’’ آدمی اپنی کسی مراد کے بر آنے پر کوئی ایسا نیک کام یا صدقہ کرنے کا اللہ سے عہد کرے جو اس کے ذمے فرض نہ ہو‘‘۔اگر یہ مراد کسی حلال اور جائز کام کے لیے ہو اور اللہ سے ہی مانگی گئی ہو اور اس کے بر آنے پر جو عمل کرنے کا عہد آدمی نے کیا ہے وہ اللہ ہی کے لیے ہو تو ایسی نذر کا پورا کرنا درست اور باعث اجر و ثواب ہے اگر یہ نذر کسی ناجائز کام یا غیر اللہ کے لیے ہو تو ایسی نذر کا ماننا بھی کار معصیت اور اس کا پورا کرنا بھی موجب عذاب ہے۔ ایسی نذر اگر کوئی مان چکا ہو تو اس کے عوض استغفار کرنا چاہیے اور وہ کام نہ کرنا چاہیے، علاوہ ازیں نذر ماننا شرعی نکتہ نگاہ سے کوئی اچھا کام نہیں۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں نذر ماننے سے منع کیا اور فرمایا کہ نذر اللہ کی تقدیر کو کچھ بدل نہیں سکتی۔ البتہ اس طرح بخیل سے کچھ مال نکال لیا جاتا ہے۔ (بخاری، کتاب الایمان و النذور۔ باب الوفاء بالنذر و قولہ یوفون بالنذر) البقرة
271 [٣٨٧] اس آیت سے خفیہ صدقہ کی زیادہ فضیلت ثابت ہوئی، جیسا کہ درج ذیل احادیث سے بھی واضح ہوتا ہے۔ خفیہ صدقہ کی فضیلت:۔۱۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جب اللہ نے زمین کو پیدا کیا تو وہ ہچکولے کھاتی تھی۔ پھر اللہ نے پہاڑ پیدا کئے اور کہا کہ اسے (زمین کو) تھامے رہو۔ چنانچہ وہ ٹھہر گئی۔ تب فرشتوں کو پہاڑوں کی مضبوطی پر تعجب ہوا اور کہنے لگے : پروردگار! تیری مخلوق میں سے کوئی چیز پہاڑوں سے بھی سخت ہے؟ فرمایا ہاں، لوہا ہے۔ فرشتے کہنے لگے، پروردگار کوئی چیز لوہے سے بھی سخت ہے؟ فرمایا: ’’ہاں آگ ہے۔‘‘ پھر وہ کہنے لگے : کوئی چیز آگ سے بھی سخت ہے؟فرمایا : ہاں پانی ہے۔ وہ کہنے لگے : ’’ کوئی چیز پانی سے بھی سخت ہے؟‘‘ فرمایا: ہاں ہوا ہے۔ پھر وہ کہنے لگے : کوئی چیز ہوا سے بھی سخت ہے؟ فرمایا : ہاں وہ آدمی جو اس طرح صدقہ دے کہ دائیں ہاتھ سے دے تو بائیں کو خبر تک نہ ہو۔ (ترمذی، ابو اب التفسیر، سورۃ الناس) سات آدمی جنہیں قیامت کے دن سایہ نصیب ہوگا:۲۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) سات قسم کے آدمیوں کو اپنے عرش کے سایہ تلے جگہ دے گا۔ جس دن اس کے سایہ کے علاوہ اور کہیں سایہ نہ ہوگا۔ ایک انصاف کرنے والا حاکم۔ دوسرا وہ نوجوان جس نے اپنی جوانی عبادت میں گزاری، تیسرا وہ شخص جس کا دل مسجد سے لگا رہے۔ چوتھے وہ دو شخص جنہوں نے اللہ کی خاطر محبت کی۔ اللہ کی خاطر ہی مل بیٹھے اور اللہ کی خاطر ہی جدا ہوئے۔ پانچویں وہ مرد جسے کسی مرتبہ والی حسین و جمیل عورت نے (بدکاری کے لیے) بلایا اور اس نے کہا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ چھٹے وہ شخص جس نے اللہ کی راہ میں یوں چھپا کر صدقہ دیا کہ داہنے ہاتھ نے جو صدقہ دیا بائیں ہاتھ کو اس کی خبر تک نہ ہوئی۔ ساتویں وہ شخص جس نے خلوت میں اللہ کو یاد کیا اور اس کی آنکھیں بہہ نکلیں۔ (بخاری، کتاب الاذان باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلوۃ) تاہم بعض علماء کہتے ہیں کہ فرضی صدقہ یعنی زکوٰۃ وغیرہ تو اعلانیہ دینا چاہیے تاکہ دوسروں کو بھی ترغیب ہو اور نفلی صدقہ بہرحال خفیہ دینا ہی بہتر ہے اور یہ تو واضح بات ہے کہ چھپا کر نیکی کرنے سے انسان کی اپنی اصلاح نسبتاً زیادہ ہوتی ہے۔ البقرة
272 [٣٨٨] صدقہ غیرمسلموں کودینادرست ہے:۔ ابتدا مسلمان اپنے غیر مسلم رشتہ داروں اور دوسرے غیر مسلم محتاجوں کی مدد کرنے میں تامل کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ صرف مسلمان محتاجوں کی مدد کرنا ہی انفاق فی سبیل اللہ ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ لوگوں کے دلوں میں ہدایت اتار دینے کی ذمہ داری آپ پر نہیں۔ آپ نے حق بات پہنچا دی، آگے ان کو راہ راست سمجھا دینا اللہ کا کام ہے۔ رہا دنیوی مال و متاع سے ان کی حاجات پوری کرنا تو اللہ کی رضا کے لیے تم جس حاجت مند کی بھی مدد کرو گے اللہ تمہیں اس کا اجر دے گا۔ البقرة
273 [٣٨٩] یعنی جن لوگوں نے اپنے آپ کو دین کے علم کے لیے خواہ وہ سیکھ رہے ہوں یا سکھلا رہے ہوں یا دوسرے امور کے لیے وقف کر رکھا ہے اور وہ محتاج ہیں، جیسے دور نبوی میں اصحاب صفہ تھے یا وہ لوگ جو جہاد میں مصروف ہیں یا ان کے بال بچوں کی نگہداشت پر اور ایسے ہی دوسرے لوگوں پر صدقات خرچ کئے جائیں۔ [٣٩٠] ضمناً اس آیت سے سوال نہ کرنے کی فضیلت معلوم ہوئی۔ اس سلسلہ میں چند احادیث نبوی ملاحظہ ہوں :۔ سوال کرنےسےپرہیز:۔۱۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص سوال سے بچے اللہ بھی اسے بچائے گا اور جو کوئی (دنیا سے) بے پروائی کرے گا۔ اللہ اسے بے پروا کر دے گا اور جو کوئی کوشش سے صبر کرے گا اللہ اسے صبر دے گا اور صبر سے بہتر اور کشادہ تر کسی کو کوئی نعمت نہیں ملی۔‘‘ (بخاری کتاب الزکوٰۃ، باب الاستعفاف عن المسئلة) ٢۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی رسی اٹھائے اور لکڑی کا گٹھا اپنی پیٹھ پر لاد کر لائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ جا کر کسی سے سوال کرے اور وہ اسے دے یا نہ دے۔‘‘ (بخاری۔ حوالہ ایضاً) ٣۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سوالی جو ہمیشہ لوگوں سے مانگتا رہتا ہے قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے منہ پر گوشت کی ایک بوٹی بھی نہ ہوگی۔ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ باب من سأل الناس تکثرا) محنت کی عظمت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کااندازتربیت :۔۴۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو منبر پر صدقہ اور سوال سے بچنے کے لیے خطبہ دے رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اوپر والے ہاتھ سے مراد خرچ کرنے والا ہے اور نیچے والا ہاتھ مانگنے والا ہاتھ ہے۔‘‘ (ابو داؤد، کتاب الزکوٰۃ، باب ما تجوز فیہ المسئلة) ٥۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ جو شخص اپنا مال بڑھانے کے لیے لوگوں سے سوال کرتا ہے وہ آگ کے انگارے مانگ رہا ہے۔ اب چاہے تو وہ کم کرے یا زیادہ اکٹھے کرلے۔‘‘ (مسلم، کتاب الزکوٰۃ، باب النھی عن المسئلة) نیلامی کی مشروعیت :۔۶۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک انصاری نے آپ کے پاس آ کر سوال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پوچھا ’’تمہارے گھر میں کوئی چیز ہے؟‘‘ وہ کہنے لگا:ہاں ایک ٹاٹ اور ایک پیالہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ یہ دونوں چیزیں میرے پاس لے آؤ۔‘‘ وہ لے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ہاتھ میں لے کر فرمایا : کون ان دونوں چیزوں کو خریدتا ہے؟ ایک آدمی نے کہا : ’’میں ایک درہم میں لیتا ہوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ایک درہم سے زیادہ کون دیتا ہے؟‘‘ اور آپ نے یہ بات دو تین بار دہرائی تو ایک آدمی کہنے لگا : ’’میں انہیں دو درہم میں خریدتا ہوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو درہم لے کر وہ چیزیں اس آدمی کو دے دیں۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انصاری کو ایک درہم دے کر فرمایا : ’’اس کا گھر والوں کے لیے کھانا خرید اور دوسرے درہم سے کلہاڑی خرید کر میرے پاس لاؤ۔‘‘ جب وہ کلہاڑی لے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے اس میں لکڑی کا دستہ ٹھونکا پھر اسے فرمایا : ’’جاؤ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر یہاں لا کر بیچا کرو اور پندرہ دن کے بعد میرے پاس آنا۔‘‘ پندرہ دن میں اس شخص نے دس درہم کمائے۔ چند درہموں کا کپڑا خریدا اور چند کا کھانا اور آسودہ حال ہوگیا پندرہ دن بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یہ تیرے لیے اس چیز سے بہتر ہے کہ قیامت کے دن سوال کرنے کی وجہ سے تیرے چہرے پر برا نشان ہو‘‘(نسائی، کتاب الزکوٰۃ، باب فضل من لایسئل الناس شیأ) محنت کی عظمت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کااندازتزکیہ نفس:۔ اب دیکھئے کہ جس شخص کے گھر کا اثاثہ ایک ٹاٹ اور پیالہ ہو کیا اس کے محتاج ہونے میں کچھ شک رہ جاتا ہے؟ لیکن چونکہ وہ معذور نہیں بلکہ قوی اور کمانے کے قابل تھا۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کچھ دینے کے بجائے دوسری راہ تجویز فرمائی، پھر اسے عزت نفس کا سبق دے کر کسب حلال اور محنت کی عظمت و اہمیت بتلائی۔ جس سے وہ چند دنوں میں آسودہ حال ہوگیا، یہ تھا آپ کا انداز تربیت و تزکیہ نفس۔ ٧۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کون ہے جو مجھے یہ ضمانت دے کہ کبھی کسی سے سوال نہ کرے گا تو میں اس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔’’ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا : میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں۔‘‘ چنانچہ اس کے بعد انہوں نے کبھی کسی سے سوال نہ کیا۔ (نسائی، کتاب الزکوٰۃ، باب فضل من لا یسئل الناس شیأ) ٨۔ عرفہ کے دن ایک شخص لوگوں سے مانگ رہا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سنا تو اسے کہنے لگے: ’’آج کے دن اور اس جگہ تو اللہ کے سوا دوسروں سے مانگتا ہے؟‘‘ پھر اسے درے سے پیٹا۔ (احمد بحوالہ مشکوٰۃ باب من لایحل لہ المسئلہ فصل ثالث) ٩۔ حجتہ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں میں صدقہ کا مال تقسیم فرما رہے تھے دو آدمی آپ کے پاس آئے اور آپ سے صدقہ کا سوال کیا۔ وہ خود کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر اٹھا کر ہمیں دیکھا، پھر نگاہ نیچی کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قوی اور طاقتور دیکھ کر فرمایا : ’’اگر تم چاہو تو تمہیں دے دیتا ہوں لیکن صدقہ کے مال میں مالدار اور قوی کا کوئی حصہ نہیں جو کما سکتا ہو۔‘‘ (ابو داؤد، نسائی، کتاب الزکوٰۃ، باب مسئلة القوی المکتسب) ١٠۔ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ تقسیم فرما رہے تھے۔ ایک شخص نے آپ کے پاس آ کر صدقہ کا سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا : ’’صدقات کی تقسیم کے بارے میں اللہ تعالیٰ نبی یا کسی دوسرے کے حکم پر راضی نہیں ہوا بلکہ خود ہی اس کو آٹھ مدات پر تقسیم کردیا ہے۔ اب اگر تو بھی ان میں شمار ہوتا ہے تو میں تمہیں دے دیتا ہوں۔‘‘ (حوالہ ایضاً) سوال کرنا کیسےلوگوں کےلیےجائز ہے:۱۱۔ حضرت قبیصہ بن مخارق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک شخص کا ضامن ہوا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور اس بارے میں سوال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یہاں ٹھہرو تاآنکہ ہمارے پاس صدقہ آئے۔ پھر ہم تیرے لیے کچھ کریں گے۔ پھر مجھے مخاطب کر کے فرمایا: قبیصہ! تین شخصوں کے علاوہ کسی کو سوال کرنا جائز نہیں۔ ایک وہ جو ضامن ہو اور ضمانت اس پر پڑجائے جس کا وہ اہل نہ ہو۔ وہ اپنی ضمانت کی حد تک مانگ سکتا ہے۔ پھر رک جائے۔ دوسرے وہ جسے ایسی آفت پہنچے کہ اس کا سارا مال تباہ کردے وہ اس حد تک مانگ سکتا ہے کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے اور تیسرے وہ شخص جس کو فاقہ کی نوبت آ گئی ہو۔ یہاں تک کہ اس کی قوم کے تین معتبر شخص اس بات کی گواہی دیں کہ فلاں کو فاقہ پہنچا ہے اسے سوال کرنا جائز ہے تاآنکہ اس کی محتاجی دور ہوجائے۔ پھر فرمایا : اے قبیصہ ان تین قسم کے آدمیوں کے سوا کسی اور کو سوال کرنا حرام ہے اور ان کے سوا جو شخص سوال کر کے کھاتا ہے وہ حرام کھا رہا ہے۔ (مسلم، کتاب الزکوٰۃ باب من لایحل لہ المسئلہ) ١٢۔ عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم سات آٹھ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ پانچ نمازیں ادا کرو اور اللہ کی فرمانبرداری کرو‘‘ اور ایک بات چپکے سے کہی کہ ’’ لوگوں سے کچھ نہ مانگنا۔‘‘ پھر میں نے ان میں بعض افراد کو دیکھا کہ اگر اونٹ سے ان کا کوڑا گر پڑتا تو کسی سے سوال نہ کرتے کہ وہ انہیں پکڑا دے۔ (کتاب الزکوٰۃ باب النہی عن المسئلة) حکیم بن حزام کاسرکاری وظیفہ بھی قبول نہ کرنا:۔۱۳۔ حکیم بن حزام کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ مانگا تو آپ نے مجھے دے دیا۔ پھر ایک دفعہ مانگا تو آپ نے دیا۔ پھر فرمایا : '' اے حکیم! یہ دنیا کا مال دیکھنے میں خوشنما اور مزے میں میٹھا ہے لیکن جو اسے سیر چشمی سے لے اس کو تو برکت ہوگی اور جو جان لڑا کر حرص کے ساتھ لے اس میں برکت نہیں ہوتی۔ اس کی مثال ایسی ہے جو کھاتا ہے مگر سیر نہیں ہوتا اور اوپر والا (دینے والا) ہاتھ نچلے ہاتھ (لینے والے) سے بہتر ہوتا ہے۔'' حکیم کہنے لگے : '' یا رسول اللہ! اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو سچا پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔ میں آج کے بعد مرتے دم تک کسی سے کچھ نہ مانگوں گا۔'' (پھر آپ کا یہ حال رہا کہ) حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کو سالانہ وظیفہ دینے کے لیے بلاتے تو وہ لینے سے انکار کردیتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے دور خلافت میں انہیں وظیفہ دینے کے لیے بلایا تو انہوں نے انکار کردیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حاضرین سے کہنے لگے : ’’لوگو! تم گواہ رہنا میں حکیم کو اس کا حق جو غنائم کے مال میں اللہ نے رکھا ہے دیتا ہوں اور وہ نہیں لیتا۔‘‘ غرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کئے ہوئے عہد کا اتنا پاس تھا کہ انہوں نے تاحین حیات سوال تو درکنار کسی سے کوئی بھی چیز قبول نہیں کی۔ (بخاری، کتاب الوصایا، باب تاویل قول اللّٰہ تعالیٰ من بعد وصیہ توصون بھا اودین) البقرة
274 [٣٩١] یہ آیت دراصل صدقات و خیرات کے احکام کا تتمہ ہے۔ یعنی آخر میں ایک دفعہ پھر صدقہ کی ترغیب دی جارہی ہے۔ اب اس کی عین ضد سود کا بیان شروع ہو رہا ہے۔ صدقات و خیرات سے جہاں آپس میں ہمدردی، مروت، اخوت، فیاضی پیدا ہوتی ہے وہاں طبقاتی تقسیم بھی کم ہوتی ہے۔ اس کے برعکس سود سے شقاوت قلبی، خود غرضی، منافرت، بے مروتی اور بخل جیسے اخلاق رذیلہ پرورش پاتے ہیں اور طبقاتی تقسیم بڑھتی چلی جاتی ہے جو بالآخر کسی نہ کسی عظیم فتنہ کا باعث بن جاتی ہے۔ اشتراکیت دراصل ایسے ہی فتنہ کی پیداوار ہے۔ البقرة
275 [٣٩٢]تجارتی سود بھی حرام ہے:۔ یہ دراصل سود خور یہودیوں کا قول ہے اور آج کل بہت سے مسلمان بھی اسی نظریہ کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ سودی قرضے دراصل دو طرح کے ہوتے ہیں: (١) ذاتی قرضے یا مہاجنی قرضے یعنی وہ قرضے جو کوئی شخص اپنی ذاتی ضرورت کے لئے کسی مہاجن یا بنک سے لیتا ہے اور دوسرے تجارتی قرضے جو تاجر یا صنعت کار اپنی کاروباری اغراض کے لئے بنکوں سے سود پر لیتے ہیں۔ اب جو مسلمان سود کے جواز کی نمائندگی کرتے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ جس سود کو قرآن نے حرام کیا ہے وہ ذاتی یا مہاجنی قرضے ہیں جن کی شرح سود بڑی ظالمانہ ہوتی ہے اور جو تجارتی سود ہے وہ حرام نہیں۔ کیونکہ اس دور میں ایسے تجارتی سودی قرضوں کا رواج ہی نہ تھا۔ نیز ایسے قرضے چونکہ رضا مندی سے لئے دیئے جاتے ہیں اور ان کی شرح سود بھی گوارا اور مناسب ہوتی ہے اور فریقین میں سے کسی پر ظلم بھی نہیں ہوتا، لہٰذا یہ تجارتی سود اس سود سے مستثنیٰ ہے جنہیں قرآن نے حرام قرار دیا ہے۔ یہاں ہم مجوزین تجارتی سود کے تمام دلائل بیان کرنے اور ان کے جوابات دینے سے قاصر ہیں۔ (جس کو تفصیلات درکار ہوں وہ میری تصنیف: ’’تجارت اور لین دین کے مسائل و احکام‘‘ میں سود سے متعلق دو ابو اب ملاحظہ کرسکتا ہے) لہٰذا چند مختصر دلائل پر ہی اکتفا کریں گے : ١۔ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں تجارتی سود موجود تھے اور سود کی حرمت سے پیشتر صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے حضرت عباس اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہما ایسے ہی تجارتی سود کا کاروبار کرتے تھے۔ اس دور میں عرب اور بالخصوص مکہ اور مدینہ میں لاکھوں کی تجارت ہوا کرتی تھی۔ علاوہ ازیں ہمسایہ ممالک میں تجارتی سود کا رواج عام تھا۔ ٢۔ قرآن میں ربٰو کا لفظ علی الاطلاق استعمال ہوا ہے جو ذاتی اور تجارتی دونوں قسم کے قرضوں کو حاوی ہے۔ لہٰذا تجارتی سود کو اس علی الاطلاق حرمت سے خارج نہیں کیا جاسکتا۔ ٣۔ قرآن نے تجارتی قرضوں کے مقابل یہ آیت پیش کی ہے: ﴿وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا﴾ (2: 275)اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام جبکہ ذاتی قرضوں کے مقابل یوں فرمایا: ﴿ یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقٰتِ ﴾(2: 276) اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کی پرورش کرتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے سود کے خاتمہ کے لئے ذاتی قرضوں کا حل ’صدقات‘تجویز فرمایا ہے اور تجارتی قرضوں کے لئے شراکت اور مضاربت کی راہ دکھلائی ہے جو حلال اور جائز ہے۔ ٤۔ جہاں تک کم یا مناسب شرح سود کا تعلق ہے تو یہ بات آج تک طے نہیں ہوسکی کہ مناسب شرح سود کیا ہے؟ کبھی تو ٢ فیصد بھی نامناسب شرح سمجھی جاتی ہے۔ جیسا کہ دوسری جنگ عظیم کے لگ بھگ زمانے میں ریزوبنک آف انڈیا ڈسکاؤنٹ ریٹ مقرر ہوا اور کبھی ٢٩ فیصد شرح سود بھی مناسب اور معقول سمجھی جاتی ہے (دیکھئے : اشتہار انوسٹمنٹ بنک مشتہرہ نوائے وقت مورخہ ١٩٧٧ء-٨-١١) شرح سود کی مناسب تعیین نہ ہوسکنے کی غالباً وجہ یہ ہے کہ اس کی بنیاد ہی متزلزل اور کمزور ہے۔ مناسب اور معقول شرح سود کی تعیین تو صرف اس صورت میں ہوسکتی ہے جب یہ معلوم ہوسکے کہ قرض لینے والا اس سے کتنا یقینی فائدہ حاصل کرے گا اور اس میں سے قرض دینے والے کا معقول حصہ کتنا ہونا چاہئے۔ مگر ہمارے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ قرض لینے والے کو اس مقرر مدت میں کتنا فائدہ ہوگا، یا کچھ فائدہ ہوگا بھی یا نہیں۔ بلکہ الٹا نقصان بھی ہوسکتا ہے۔ ثانیاً ایک ہی ملک اور ایک ہی وقت میں مختلف بنکوں کی شرح سود میں انتہائی تفاوت پایا جاتا ہے اور اگر سب کچھ مناسب ہے تو پھر نامناسب کیا بات ہے؟ ثالثاً اگر شرح سود انتہائی کم بھی ہو تو بھی یہ سود کو حلال نہیں بنا سکتی۔ کیونکہ شریعت کا یہ اصول ہے کہ حرام چیز کی قلیل مقدار بھی حرام ہی ہوتی ہے۔ شراب تھوڑی بھی ایسے ہی حرام ہے جیسے زیادہ مقدار میں (ترمذی، ابو اب الأشربة، باب ما سکر کثیرۃ فقلیلہ حرام) ٥۔ باہمی رضامندی کی شرط صرف جائز معاملات میں ہے:۔ جہاں تک باہمی رضا مندی کا تعلق ہے تو یہ شرط صرف حلال معاملات میں ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حلال اور جائز معاملات میں بھی اگر فریقین میں سے کوئی ایک راضی نہ ہو تو وہ معاملہ حرام اور ناجائز ہوگا۔ جیسے تجارت میں مال بیچنے والے اور خریدنے والے دونوں کی رضا مندی ضروری ہے ورنہ بیع فاسد اور ناجائز ہوگی۔ اسی طرح نکاح میں بھی فریقین کی رضا مندی ضروری ہے۔ لیکن یہ رضا مندی حرام کاموں کو حلال نہیں بناسکتی۔ اگر ایک مرد اور ایک عورت باہمی رضا مندی سے زنا کریں تو وہ جائز نہیں ہوسکتا اور نہ ہی باہمی رضا مندی سے جوا جائز ہوسکتا ہے۔ اسی طرح سود بھی باہمی رضا مندی سے حلال اور جائز نہیں بن سکتا۔ علاوہ ازیں سود لینے والا کبھی سود دینے پر رضا مند نہیں ہوتا۔ خواہ شرح سود کتنی ہی کم کیوں نہ ہو۔ بلکہ یہ اس کی مجبوری ہوتی ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر اسے کہیں سے قرض حسنہ مل جائے تو وہ کبھی سود پر رقم لینے کو تیار نہ تھا۔ ٦۔ رہی یہ بات کہ تجارتی سود میں کسی فریق پر ظلم نہیں ہوتا۔ گویا یہ حضرات سود کی حرمت کی علت یا بنیادی سبب ظلم قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ تصور ہی غلط ہے۔ آیت کے سیاق و سباق سے واضح ہے کہ یہ الفاظ سودی معاملات اور معاہدات کو ختم کرنے کی ایک احسن صورت پیش کرتے ہیں یعنی نہ تو مقروض قرض خواہ کی اصل رقم بھی دبا کر اس پر ظلم کرے اور نہ قرض خواہ مقروض پر اصل کے علاوہ سود کا بوجھ بھی لاد دے۔ ان الفاظ کا اطلاق ہمارے ہاں اس وقت ہوگا جب ہم اپنے معاشرہ کو سود سے کلیتاً پاک کرنا چاہیں گے، یا نجی طور پر قرضہ کے فریقین سود کی لعنت سے اپنے آپ کو بچانے پر آمادہ ہوں گے۔ سود کی حرمت کا بنیادی سبب ظلم نہیں بلکہ بیٹھے بٹھائے اپنے مال میں اضافہ کی وہ ہوس ہے جس سے ایک سرمایہ دار اپنی فاضل دولت میں طے شدہ منافع کی ضمانت سے یقینی اضافہ چاہتا ہے اور جس سے زر پرستی، سنگ دلی اور بخل جیسے اخلاق رذیلہ جنم لیتے ہیں۔ [٣٩٣] اب ایک مسلمان کا کام تو یہی ہونا چاہئے کہ جب اللہ نے سود کو حرام کردیا تو اس کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔ خواہ اسے سود اور تجارت کا فرق اور ان کی حکمت سمجھ آئے یا نہ آئے تاہم جو لوگ یہ نظریہ پیش کرتے ہیں کہ تجارت بھی سود ہی کی طرح ہے۔ اللہ نے انہیں انتہائی بدھو اور مخبوط الحواس قرار دیا ہے۔ جنہیں کسی جن نے آسیب زدہ بنا دیا ہو اور وہ اپنی خود غرضی اور زر پرستی کی ہوس میں خبطی ہوگئے ہوں کہ انہیں تجارت اور سود کا فرق نظر ہی نہیں آرہا، چونکہ وہ اس زندگی میں باؤلے ہو رہے ہیں۔ لہٰذا وہ قیامت کے دن بھی اسی حالت میں اپنی قبروں سے اٹھیں گے۔ اب ہم ایسے لوگوں کو سمجھانے کے لئے سود اور تجارت کا فرق بتلاتے ہیں : ١۔ سود اور تجارت کافرق:۔ سود ایک طے شدہ شرح کے مطابق یقینی منافع ہوتا ہے۔ جبکہ تجارت میں منافع کے ساتھ نقصان کا احتمال بھی موجود ہوتا ہے۔ خواہ کوئی شخص اپنے ذاتی سرمایہ سے تجارت کرے یا یہ مضاربت یا شراکت کی شکل ہو۔ ٢۔سود سے قومی معیشت کی تباہی :۔ مضاربت کی شکل میں فریقین کو ایک دوسرے سے ہمدردی، مروت اور مل جل کر کاروبار چلانے کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ کیونکہ ان کا مفاد مشترک ہوتا ہے اور اس کا قومی پیداوار پر خوشگوار اثر پڑتا ہے۔ جبکہ تجارتی سود کی صورت میں سود خوار کو محض اپنے مفاد سے غرض ہوتی ہے۔ بعض دفعہ وہ ایسے نازک وقت میں سرمایہ کی واپسی کا تقاضا کرتا اور مزید فراہمی سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے جبکہ کاروبار کو سرمایہ کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح سود خوار تو اپنا سرمایہ بمعہ سود نکال دیتا ہے مگر مقروض کو سخت نقصان پہنچتا ہے اور قومی معیشت بھی سخت متاثر ہوتی ہے۔ ٣۔ مضاربت اور سود میں تیسرا فرق یہ ہے کہ مضاربت سے اخلاق حسنہ پرورش پاتے ہیں۔ جس سے معاشرہ میں اخوت اور خیر و برکت پیدا ہوتی ہے اور طبقاتی تقسیم مٹتی ہے۔ جبکہ سود سے اخلاق رذیلہ مثلاً خود غرضی، مفاد پرستی، بخل اور سنگدلی پیدا ہوتے ہیں۔ سود کی حرمت کی علت یہی اخلاق رذیلہ اور ہوس زر پرستی ہے۔ سودی نظام معیشت نے صرف ایک ہی شائی لاک (ایک سنگ دل یہودی کا مثالی کردار جس نے بروقت ادائیگی نہ ہونے کی بنا پر اپنے مقروض کی ران سے بےدریغ گوشت کا ٹکڑا کاٹ لیا تھا) پیدا نہیں کیا بلکہ ہر دور میں ہزاروں شائی لاک پیدا ہوتے رہے ہیں اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے۔ [٣٩٤] اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ جو سود کھاچکا وہ معاف ہے بلکہ یوں فرمایا کہ اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، چاہے تو بخش دے، چاہے تو سزا دے۔ لہٰذا محتاط صورت یہی ہے کہ وہ سود کی حرام کمائی خود استعمال نہ کرے بلکہ جس سے سود لیا تھا اسے ہی واپس کردے تو یہ سب سے بہتر بات ہے ورنہ محتاجوں کو دے دے یا رفاہ عامہ کے کاموں میں خرچ کر دے۔ اس طرح وہ سود کے گناہ سے تو شاید بچ جائے مگر ثواب نہیں ہوگا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ حرام مال کا صدقہ قبول نہیں کرتا۔ البقرة
276 [٣٩٥] اگرچہ بنظر ظاہر سود لینے سے مال بڑھتا اور صدقہ دینے سے گھٹتا نظر آتا ہے۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ سود کے مال میں برکت نہیں ہوتی اور مال حرام بود بجائے حرام رفت، والی بات بن جاتی ہے اور صدقات دینے سے اللہ تعالیٰ ایسی جگہ سے اس کا نعم البدل عطا فرماتا ہے جس کا اسے خود بھی وہم و گمان نہیں ہوتا اور یہ ایسی حقیقت ہے جو بارہا کئی لوگوں کے تجربہ میں آچکی ہے تاہم اسے عقلی دلائل سے ثابت کیا جاسکتا ہے اور دوسری صورت کو علم معیشت کی رو سے ثابت بھی کیا جاسکتا ہے اور وہ یہ ہے جس معاشرہ میں صدقات کا نظام رائج ہوتا ہے۔ اس میں غریب طبقہ (جو عموماً ہر معاشرہ میں زیادہ ہوتا ہے) کی قوت خرید بڑھتی ہے اور دولت کی گردش کی رفتار بہت تیز ہوجاتی ہے جس سے خوشحالی پیدا ہوتی ہے اور قومی معیشت ترقی کرتی ہے اور جس معاشرہ میں سود رائج ہوتا ہے وہاں غریب طبقہ کی قوت خرید کم ہوتی ہے اور جس امیر طبقہ کی طرف دولت کو سود کھینچ کھینچ کرلے جارہا ہوتا ہے۔ اس کی تعداد قلیل ہونے کی وجہ سے دولت کی گردش کی رفتار نہایت سست ہوجاتی ہے جس سے معاشی بحران پیدا ہوتے رہتے ہیں، امیر اور غریب میں طبقاتی تقسیم بڑھ جاتی ہے اور بعض دفعہ غریب طبقہ تنگ آکر امیروں کو لوٹنا اور مارنا شروع کردیتا ہے آقا و مزدور میں، امیر اور غریب میں ہر وقت کشیدگی کی فضا قائم رہتی ہے جس سے کئی قسم کے مہلک نتائج پیدا ہوسکتے ہیں۔ [٣٩٦] یہاں ناشکرے سے مراد وہ سود خور ہے جس کی پاس اپنی ضروریات سے زائد رقم موجود ہے۔ جیسے وہ اپنے کسی محتاج بھائی کی مدد کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا، نہ اسے صدقہ دینا چاہتا ہے نہ قرض حسنہ دیتا ہے بلکہ الٹا اس سے اس کے گاڑھے پسینے کی کمائی سود کے ذریعہ کھینچنا چاہتا ہے۔ حالانکہ یہ زائد روپیہ اس پر محض اللہ کا فضل تھا اور صدقہ یا قرض دے کر اسے اللہ کے اس فضل کا شکر ادا کرنا چاہئے تھا۔ مگر اس نے زائد رقم کو سود پر چڑھا کر اللہ کے فضل کی انتہائی ناشکری کی۔ لہٰذا اس سے بڑھ کر بدعملی اور گناہ کی بات اور کیا ہوگی۔ البقرة
277 [٣٩٧] یہ آیت درمیان میں اس لئے آئی ہے کہ سود خور کے مقابلہ میں متقی لوگوں کا حال بیان کردیا جائے جیسا کہ قرآن کریم میں جابجا یہی دستور آپ ملاحظہ فرمائیں گے کہ جہاں اہل دوزخ کا ذکر آیا تو ساتھ اہل جنت کا بھی ذکر کردیا جاتا ہے اور اس کے برعکس بھی۔ اس کے بعد سود کے مضمون کا تسلسل جاری رکھا گیا ہے۔ اس مقام پر بھی مومنوں کی دو انتہائی اہم صفات کا ذکر فرمایا۔ ایک اقامت صلٰوۃ کا جو بدنی عبادات میں سے سب سے اہم ہے۔ دوسرے ایتائے زکوٰۃ کا جو مالی عبادات میں سے سب سے اہم بھی ہے اور سود کی عین ضد بھی۔ اسلام کے معاشی نظام کو اگر انتہائی مختصر الفاظ میں بیان کیا جائے تو اس کے دو ہی اجزاء ہیں۔ ایک سلبی دوسرا ایجابی۔ سلبی پہلو نظام سود کا استیصال ہے اور ایجابی پہلو نظام زکوٰۃ کی ترویج۔ البقرة
278 البقرة
279 [٣٩٨] یہاں ہم سود سے متعلق چند احادیث بیان کرتے ہیں : (١) حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سود لینے والے، دینے والے، تحریر لکھنے والے اور گواہوں، سب پر لعنت کی اور فرمایا وہ سب (گناہ میں) برابر ہیں (مسلم، کتاب البیوع۔ باب لعن آکل الربو أو موکلہ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سود لینے اور دینے والوں کے علاوہ بنکوں کا عملہ بھی اس گناہ میں برابر کا شریک ہوتا ہے۔ (٢) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (سود کے گناہ کے) اگر ستر حصے کئے جائیں تو اس کا کمزور حصہ بھی اپنی ماں سے زنا کے برابر ہے۔ (ابن ماجہ بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب البیوع۔ باب الربا۔ فصل ثالث) (٣) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’سود کا ایک درہم جو آدمی کھاتا ہے اور وہ اس کے سودی ہونے کو جانتا ہے تو وہ گناہ میں چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ سخت ہے۔‘‘ (مسند احمد۔ دارمی، بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب البیوع۔ باب الربا فصل ثالث) سودکےمتعلق ایسی سخت وعیدکیوں ہے؟یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ شرعی نقطہ نظر سے کئی گناہ ایسے ہیں جو سود سے بھی بہت بڑے ہیں۔ مثلاً شرک، قتل ناحق اور زنا وغیرہ۔ لیکن اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کی وعید اللہ تعالیٰ نے صرف سود کے متعلق سنائی ہے اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ایسے سخت الفاظ استعمال فرمائے ہیں جو کسی اور گناہ کے متعلق استعمال نہیں فرمائے تو آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ سود اسلامی تعلیمات کا نقیض اور اس سے براہ راست متصادم ہے اور اس کا حملہ بالخصوص اسلام کے معاشرتی اور معاشی نظام پر ہوتا ہے۔ اسلام ہمیں ایک دوسرے کا بھائی بن کر رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ وہ آپس میں مروت، ہمدردی، ایک دوسرے پر رحم اور ایثار کا سبق سکھلاتا ہے۔ آپ نے ساری زندگی صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو اخوت و ہمدردی کا سبق دیا اور ایک دوسرے کے جانی دشمن معاشرے کی، وحی الٰہی کے تحت اس طرح تربیت فرمائی کہ وہ فی الواقع ایک دوسرے کے بھائی بھائی اور مونس و غمخوار بن گئے۔ اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے ایک احسان عظیم شمار کرتے ہوئے قرآن میں دو مقامات پر اس کا تذکرہ فرمایا ہے۔ (سورہ آل عمران کی آیت ١٠٣ میں اور سورۃ انفال کی آیت ٦٣ میں) اور یہ چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کا ماحصل تھا۔ جبکہ سود انسان میں ان سے بالکل متضاد رذیلہ صفات مثلاً بخل، حرص، زرپرستی اور شقاوت پیدا کرتا ہے۔ اور بھائی بھائی میں منافرت پیدا کرتا ہے جو اسلامی تعلیم کی عین ضد ہے۔ دوسرے یہ کہ اسلام کے معاشی نظام کا تمام تر ماحصل یہ ہے کہ دولت گردش میں رہے اور اس گردش کا بہاؤ امیر سے غریب کی طرف ہو۔ اسلام کے نظام زکوٰۃ و صدقات کو اسی لئے فرض کیا گیا ہے اور قانون میراث اور حقوق باہمی بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں۔ جبکہ سودی معاشرہ میں دولت کا بہاؤ ہمیشہ غریب سے امیر کی طرف ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے بھی سود اسلام کے پورے معاشی نظام کی عین ضد ہے۔ (٤) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا جب ہر کوئی سود کھانے والا ہوگا اگر سود نہ کھائے تو بھی اس کا بخار (اور ایک دوسری روایت کے مطابق) اس کا غبار اسے ضرور پہنچ کے رہے گا۔‘‘ (نسائی۔ کتاب البیوع۔ باب اجتناب الشبہات فی الکسب) اور آج کا دور بالکل ایسا ہی دور ہے۔ پوری دنیا کے لوگوں اور اسی طرح مسلمانوں کے رگ و ریشہ میں بھی سود کچھ اس طرح سرایت کر گیا ہے، جس سے ہر شخص شعوری یا غیر شعوری طور پر متاثر ہو رہا ہے، آج اگر ایک مسلمان پوری نیک نیتی سے سود سے کلیتاً بچنا چاہے بھی تو اسے کئی مقامات پر الجھنیں پیش آتی ہیں۔ مثلاً آج کل اگر کوئی شخص گاڑی، سکوٹر، کار، ویگن، بس یا ٹرک خریدے گا تو اسے لازماً اس کا بیمہ کرانا پڑے گا۔ اگرچہ اس قسم کے بیمہ کی رقم قلیل ہوتی ہے اور یہ وہ بیمہ نہیں ہوتا جس میں حادثات کی شکل میں بیمہ کمپنی نقصان ادا کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ تاہم ہمارے ہاں قانون یہ ہے کہ جب تک نئی گاڑی کا بیمہ نہ کرایا جائے وہ استعمال میں نہیں لائی جاسکتی اور اس قلیل رقم کی قسم کا بیمہ ہر سال کرانا پڑتا ہے۔ اور بیمہ کا کاروبار شرعاً کئی پہلوؤں سے ناجائز ہے جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ موجودہ دور میں سود کی مختلف شکلیں:۔ اسی طرح تاجر پیشہ حضرات بنک سے تعلق رکھے بغیر نہ مال برآمد کرسکتے ہیں اور نہ درآمد۔ ان کے لئے آسان راہ یہی ہوتی ہے کہ وہ بنک سے ایل سی (Letter of Credit) یا اعتماد نامہ حاصل کریں۔ اس طرح تمام درآمد اور برآمد کردہ مال سودی کاروبار سے متاثر ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ تجارتی سود یا کمرشل انٹرسٹ (commercial Intrest)کو جائز سمجھنے والے اور حمایت کرنے والے حضرات یہ حجت بھی پیش کیا کرتے ہیں کہ جب تمہارے گھر کی بیشتر اشیاء سودی کاروبار کے راستہ سے ہو کر تم تک پہنچی ہیں تو تم ان سے بچ کیسے سکتے ہو؟ تو اس قسم کے اعتراضات کا جواب یہ ہے کہ اس قسم کے سود کو ختم کرنا یا اس کی متبادل راہ تلاش کرنا حکومت کا کام ہے اور اگر حکومت یہ کام نہیں کرتی تو ہر مسلمان انفرادی طور پر جہاں تک سود سے بچ سکتا ہے بچے اور جہاں وہ مجبور ہے وہاں اس سے کوئی مواخذہ نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا کیونکہ شریعت کا اصول ہے کہ مواخذہ اس حد تک ہے جہاں تک انسان کا اختیار ہے اور جہاں اضطرار ہے وہاں مواخذہ نہیں۔ بنکوں کےمختلف قسم کے کھاتے:۔اسی طرح آج کے دور میں ایک اہم مسئلہ اپنی بچت یا زائد رقم کو کہیں محفوظ رکھنے کا ہے اور یہ تو ظاہر ہے کہ اس غرض کے لئے گھروں سے بنک محفوظ تر جگہ ہے۔ اور بنکوں میں تین طرح کے کھاتے چلتے ہیں (i) چالو کھاتےCurrent Account جن میں بنک لوگوں کی رقوم جمع کرتے ہیں، لیکن جمع کرنے والوں کو سود نہیں دیتے، (ii) بچت کھاتے Saving Account جن پر بنک سود دیتا ہے لیکن تھوڑی شرح سے، (iii) میعادی کھاتے Fixed Diposit Account یعنی ایسی رقوم کے کھاتے جو طویل اور مقررہ مدت کے لئے جمع کرائی جاتی ہیں۔ ان پر بنک سود دیتا ہے۔ اب ایک سود سے پرہیز کرنے والا شخص زیادہ سے زیادہ یہی کرسکتا ہے کہ وہ اپنی رقوم چالو کھاتہ میں جمع کرائے اور سود نہ لے۔ لیکن اس میں ایک اور الجھن پیش آتی ہے کہ بنک اس چالو کھاتہ کی رقوم کو بھی سود پر دیتا ہے اور سودی کاروبار کرتا ہے۔ لہٰذا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بنک کے پاس سود کی رقم کیوں چھوڑی جائے؟ جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ﴿وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ﴾یعنی گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کیا کرو۔ لہٰذا بنک سے یہ رقم ضرور وصول کر لینی چاہئے مگر اسے اپنے استعمال میں نہ لایا جائے۔ بلکہ اسے محتاجوں اور غریبوں کو دے دیا جائے یا رفاہ عامہ کے کاموں میں خرچ کردیا جائے۔ اور اس سے ثواب کی نیت بھی نہ رکھی جائے۔ کیونکہ حرام مال کا صدقہ قابل قبول ہی نہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ تبدیل ید سے احکام شریعت بدل جاتے ہیں۔ مثلاً زید کے پاس جو سود کی رقم ہے وہ اگر بکرکو صدقہ کر دے یا ویسے بلانیت ثواب دے تو وہ اس کے لئے حرام مال نہیں ہوگا۔ لہٰذا روپیہ چالو کھاتے کے بجائے سودی کھاتے میں رکھنا چاہئے اور بنک سے سود بھی ضرور وصول کرنا چاہئے جو محتاجوں یا رفاہ عامہ کے کاموں میں خرچ کردینا چاہئے یا (ii) کبھی بنک سے قرضہ لینے کی ضرورت پڑے تو اس سود کی جگہ یہ رقم ادا کردی جائے یا (iii) گورنمنٹ جو ناجائز ٹیکس عائد کرتی ہے ایسی مدات میں یہ سود کی رقم صرف کردی جائے۔ مگر جب ہم اللہ اور اس کے رسول کے احکام پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ ساری مصلحتیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ لہٰذا اس گندگی سے ہر صورت پرہیز لازمی ہے اور ایسے نظریہ کی تہ میں یہی بات نظر آتی ہے کہ انسان چونکہ فطرتاً حریص واقع ہوا ہے لہٰذا مال کسی راہ سے بھی آتا نظر آئے اسے چھوڑنے کو اس کا جی نہیں چاہتا۔ مندرجہ بالا تین صورتوں میں سے پہلی صورت بظاہر مستحسن نظر آتی ہے مگر ہم ایسی مصلحت کے قائل نہیں جس کی دو وجوہ ہیں۔ پہلی یہ کہ جو شخص سود لینا شروع کر دے گا اس گندگی سے کلیتہ کبھی پاک صاف نہ رہ سکے گا۔ بلکہ کچھ وقت گزرنے پر اس کے نظریہ میں لچک آنا شروع ہوجائے گی اور وہ خود ومن وقع فی الشبہات فقد وقع فی الحرام بن جائے گا۔ پس اس کا یہی رویہ اس کی اولاد میں منتقل ہوگا اور دوسری یہ کہ ہم اپنی ذات کی حد تک سود سے بچنے کی فکر کریں تو بھی بڑی بات ہے۔ ہمارا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ ہم بنک میں رقم اس لئے جمع کرائیں کہ بنک اس سے سود کمائے بلکہ ہمارا مقصد صرف رقم کی حفاظت ہے اور وہ پورا ہوجاتا ہے۔ پراویڈنٹ فنڈ کا مسئلہ:۔ ایک اور اہم مسئلہ سرکاری، نیم سرکاری اور بعض تجارتی اداروں کے ملازمین کے پراویڈنٹ فنڈ کا ہے، اس فنڈ میں کچھ رقم تو ملازموں کی اپنی تنخواہ سے ماہوار وضع ہوتی اور جمع ہوتی رہتی ہے، ساتھ ہی سود در سود کے حساب سے جمع ہوتا رہتا ہے اور ملازمت سے سبکدوشی کے وقت اسے یہ ساری رقم یکمشت مل جاتی ہے اس مسئلہ کو عموماً اضطراری سمجھا جاتا اور کہا جاتا ہے کہ یہ حکومت یا اداروں کا یکطرفہ فیصلہ ہوتا ہے اور اسی بنا پر بعض علماء نے اسے ملازمت کی شرط اور اسے ملازم کے حق المحنت میں شامل کرکے اس کے جواز کا فتویٰ بھی دیا ہے۔ حالانکہ یہ بات محض لاعلمی کی بنا پر کہی جاتی ہے اگر کوئی سود نہ لینا چاہے تو اسے کوئی مجبور نہیں کرتا۔ پراویڈنٹ فنڈ کے معاہدہ فارم کی پشت پر جو شرائط لکھی ہوتی ہیں ان میں سے شق نمبر ١٦ میں یہ بات وضاحت سے درج ہے کہ جو شخص سود نہ لینا چاہے اسے کوئی مجبوری نہیں ہے۔ علاوہ ازیں ضیاء الحق مرحوم نے اس کے متبادل حل کو قانونی شکل دے دی ہے۔ جو یہ ہے کہ جو شخص سود نہ لینا چاہے نہ لے اور اس کے عوض اسے کسی وقت بھی اپنی جمع شدہ رقم کا ٨٠ فیصد بطور قرض حسنہ مل سکتا ہے۔ جسے وہ بعد میں بالاقساط اپنی تنخواہ سے کٹوا دیا کرے گا۔ بینک کے شراکتی کھاتے:۔تیسرا اہم مسئلہ بنک کے شراکتی کھاتوں کا ہے جو صدر ضیاء الحق کی سود کو ختم کرنے کی کوشش کے نتیجہ میں معرض وجود میں آیا۔ بنک کی اصطلاحی زبان میں انہیں پی۔ ایل۔ ایس S۔L۔P یعنی (Prophet and Loss Shares) کہتے ہیں۔ جس سے دیندار طبقہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور ایسے لوگوں نے پی۔ ایل۔ ایس کھاتوں میں حساب منتقل کروالیا۔ مگر تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ بھی بیع عینہ ہی کی ذرا وسیع پیمانے پر صورت اختیار کی گئی ہے۔ بیع عینہ کیاہے؟ بیع عینہ میں حیلہ سازی کے ذریعہ سود کو بیع کی شکل دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مثلاً اگر کسی کو نقد رقم کی ضرورت ہے اور وہ سود میں بھی ملوث نہیں ہونا چاہتا تو وہ 'ب' سے کوئی چیز مثلاً گھوڑا پانچ ہزار روپے میں ایک سال کے وعدہ پر خریدتا ہے پھر ایک دو دن بعد 'الف' وہی گھوڑا 'ب' کے پاس ساڑھے چار ہزار روپے نقد میں فروخت کردیتا ہے اور سال بعد 'الف' کو پانچ ہزار روپے ادا کردیتا ہے۔ اس طرح 'الف' کو فوراً ساڑھے چار ہزار روپے میسر آگئے اور 'ب' کو ایک سال بعد ساڑھے چار ہزار روپے پر پانچ سو منافع مل گیا۔ جو دراصل اس رقم کا ایک سال کا سود ہے اور گھوڑے کی بیع کو درمیان میں لاکر اس سود کو حلال بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ بیع عینہ کہلاتی ہے۔ (موطا امام مالک۔ کتاب البیوع، باب العینہ) یہ خالص سود ہے اور 'الف' اور 'ب' دونوں گنہگار ہیں۔ شراکتی کھاتوں میں بھی ایسی ہی کاروائی کی جاتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ شراکتی کھاتوں میں سود اور ڈسکاؤنٹ (Discount) کے بجائے مارک اپ اور مارک ڈاؤن کی اصطلاحیں رائج کی گئی ہیں۔ شرح سود تو فیصد سالانہ ہوتی ہے جبکہ مارک اپ فی ہزار فی یومیہ ہوتی ہے۔ جو مضارب اور بنک کے درمیان سمجھوتے سے طے پاتے ہے اور یہ شرح تقریباً وہی بن جاتی ہے جو بنکوں میں فیصد سالانہ رائج ہوتی ہے مثلاً زید مشینری کی خرید کے لئے بنک سے پچاس ہزار روپے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اب بنک یہ کرے گا کہ اس رقم کے عوض کاغذوں میں مشینری خود زید سے خرید لے گا اور اس پر متوقع منافع کا اندازہ کرکے 'مارک اپ' لگا کر زید سے یہ مارک اپ بطور کرایہ اور ماہوار قسط ہر ماہ وصول کرتا رہے گا اور اگر زید مقررہ مدت کے اندر اصل زر بمعہ مارک اپ بالاقساط ادا نہیں کرسکتا تو بنک کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ مشینری کو فروخت کرکے اپنا سب کچھ کھرا کرلے۔ باقی جو بچے گا وہ زید کا ہوگا۔ بنک کو مشینری کے حصول، اخراجات حصول، حصول کے دوران تلفی کا خطرہ، اس کی نگہداشت، اور وقت سے پہلے ناکارہ ہونے کی چنداں فکر نہیں ہوتی اور وہ ایسے تمام خطرات کی ذمہ داری زید پر ڈال دیتا ہے۔ اب آپ خود دیکھ لیجئے کہ مضاربت کی اس شکل کو اسلامی نظریہ بیع سے کس قدر تعلق ہے؟ معاملہ دراصل یہ ہے کہ ہمارے بنک اپنے بنیادی ڈھانچہ کے لحاظ سے مالیاتی توسط کے ادارے ہیں۔ تجارتی ادارے نہیں ہیں۔ وہ اپنا حق المحنت سود یا یقینی منافع کی شکل میں وصول کرتے ہیں لیکن کاروباری خطرات کی ذمہ داری کسی قیمت پر لینا گوارا نہیں کرتے اور یہی بات سود اور تجارت کا بنیادی فرق ہے۔ لہٰذا جب تک ذہنی طور پر اس بنیادی ڈھانچہ میں تبدیلی گوارا نہیں کریں گے سود اپنی نئی نئی شکلوں میں جلوہ گری کرتا رہے گا۔ بیمہ کاکاروبار:۔ چوتھا اہم مسئلہ بیمہ کا ہے، سود کی طرح بیمہ نے بھی ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ پاکستان میں ١٩٧٣ ء سے پہلے بیمہ کا کاروبار پرائیوٹ کمپنیاں کرتی تھیں تاہم انہیں حکومت کی سرپرستی حاصل تھی۔ ١٩٧٣ ء میں حکومت نے ان کو اپنی تحویل میں لے لیا اور سب کمپنیوں کو مدغم کرکے سٹیٹ لائف انشورنس کے نام سے اس کاروبار کو مزید فروغ بخشا۔ آج ہر سرکاری و نیم سرکاری ملازم نیز ہر صنعتی اور تجارتی ادارے کے ملازم کا بیمہ زندگی لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اس کی موت یا حادثے کی صورت میں مقررہ رقم اس کے ان ورثاء کو ملتی ہے جو وہ خود تجویز کرتا ہے اور وہ رقم حکومت یا متعلقہ ادارہ ادا کرتا ہے۔ بیمہ پہلے تو صرف جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ کا ہوتا تھا۔ پھر زندگی کا بیمہ ہونے لگا۔ پھر انسان کے ایک ایک عضو کا الگ الگ بیمہ ہونے لگا اور آج کل تو بعض ذمہ داریوں مثلاً بچوں کی تعلیم اور شادی وغیرہ کا بھی بیمہ کیا جاتا ہے۔ بیمہ پالیسی کی وضاحت کا یہ موقع نہیں۔ مختصراً یہ بتلا دینا ضروری ہے کہ اس میں سود کا عنصر بھی پایا جاتا ہے، جوئے کا بھی اور بیع غرر کا بھی کیونکہ بیمہ کی شرائط طے کرتے وقت نہ بیمہ دار کو یہ پتا ہوتا ہے کہ وہ کیا کچھ ادا کرسکے گا اور نہ بیمہ کمپنی کو یہ پتا ہوتا ہے کہ اسے کیا کچھ لینا پڑے گا۔ گویا عوضین میں سے کسی ایک عوض کی بھی تعین نہیں ہوسکتی اور ایسی بیع ناجائز ہے۔ علاوہ ازیں یہ اسلام کے قانون میراث میں گڑبڑ پیدا کردیتی ہے۔ بیمہ کمپنیوں کی طرف سے اکثر باہمی ہمدردی اور تکافل، تعاون کا خوبصورت اور بھرپور پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ ایک خالص کاروباری ادارہ ہے جو سودی کاروبار سے بھی کئی گنا زیادہ منافع بخش ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ ١٩٧٨ ء میں امریکہ کی بیمہ کمپنیوں کو اپنے بیمہ داروں سے ٩٨ ارب ڈالر کی رقم وصول ہوئی اور اس رقم میں سے صرف ٤ ارب ڈالر اپنے بیمہ داروں کو ادا کئے۔ اس طرح ایک سال کے اندر ٩٤ ارب ڈالر کی رقم اپنے پاس جمع کرلی۔ (روزنامہ ’جنگ‘ مورخہ ١٠ مئی ١٩٧٩ء) اس کا حل یہی ہے کہ ہر شخص کو ہر طرح کے بیمہ سے بچنا لازم ہے، اور جہاں انسان مجبور ہو، وہاں ممکن ہے اللہ اسے معاف فرما دے۔ انعامی بانڈرز:۔پانچواں اہم مسئلہ انعامی بانڈز (Prize Bonds) کا ہے۔ اس کاروبار کا بھی اور اس میں ملنے والے انعامات کا بھی آج کل عوام میں خوب چرچا ہے۔ یہ دراصل سود اور قمار کی مرکب شکل ہے اور یہ کاروبار حکومتی سطح پر کیا جاتا ہے۔ حکومت کو جب سرمایہ کی ضرورت پیش آتی ہے تو وہ اس ذریعہ سے سود کا نام لئے بغیر عوام سے روپیہ حاصل کرتی ہے۔ طریقہ کار یہ ہے کہ مثلاً آج کل حکومت اسلامی جمہوریہ پاکستان نے ٥٠ روپے، ١٠٠ روپے، ٥٠٠ روپے اور ١٠٠٠ روپے کے بانڈ (سرکاری تمسکات) چھاپ رکھے ہیں جو کسی وقت بھی کسی بھی بنک سے کیش کرائے جاسکتے ہیں۔ اور عوام میں بھی ان کا لین دین ایسے ہی چلتا ہے جیسے کرنسی نوٹوں کا۔ ان پر نمبر بھی کرنسی نوٹوں کی طرح ہی طبع کئے جاتے ہیں۔ اب مثلاً جنوری ١٩٩٥ ء میں ٥٠ روپے والے بانڈ فروخت ہوتے رہتے ہیں تو فروری میں ١٠٠ روپے والے فروخت ہوں گے، علی ہذا القیاس پھر ہر دو ماہ بعد ان کی قرعہ اندازی ہوتی ہے۔ ٥٠ روپے والوں کی مارچ میں اور ١٠٠ روپے والوں کی اپریل میں ہوگی۔ اب جو نمبر قرعہ اندازی میں آئیں گے وہ جس شخص کے پاس ہونگے وہ دکھا کر سٹیٹ بنک آف پاکستان یا قومی بچت کے کسی مرکز سے اعلان شدہ انعام حاصل کرے گا۔ یہ کاروبار چونکہ حکومت خود چلا رہی ہے۔ لہٰذا اسے خاصا فروغ حاصل ہوا ہے اور جن لوگوں کو حرام حلال کی کچھ تمیز نہیں وہ اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ ہر دو ماہ بعد جو انعامات تقسیم ہوتے ہیں وہ دراصل اس جمع شدہ رقم کا دو ماہ کا سود ہوتا ہے۔ جو سب حقداروں میں تقسیم کرنے کے بجائے بذریعہ قرعہ اندازی چند افراد کو دے دیا جاتا ہے اور عوام کو دھوکا دینے کی خاطر اس کاروبار میں سود کا نام انعام رکھ دیا گیا ہے اور بذریعہ قرعہ اندازی یہ انعام کسی کو عطا کرنا ہی میسر (جوا یا قمار) ہے۔ اور یہی کچھ لاٹری میں ہوتا ہے۔ یہ سودی کاروبار انہیں مشاغل میں منحصر نہیں۔ اگر بنک سودی کاروبار کرتے ہیں تو ڈاک خانہ والے بھی کرتے ہیں اور قومی بچت کے مراکز بھی پھر اور بھی بہت سے سرکاری، نیم سرکاری اور نجی ادارے ہیں جو سود پر رقم لے کر اپنا کاروبار چلاتے ہیں۔ اور لوگوں سے مختلف شکلوں میں سود وصول کرتے ہیں۔ آج کل اقساط پر اشیاء کی فروخت کا کاروبار بھی بہت رواج پا چکا ہے۔ اور یہ بات مال بیچنے والا اور لینے والا سب جانتے ہیں کہ ان اقساط میں سود کی رقم شامل ہوتی ہے اور اگر سرکاری واجبات یا بلوں کی ادائیگی میں تاخیر ہوجائے تو سرکاری اور نیم سرکاری ادارے جبراً اس پر سود وصول کرتے ہیں الغرض ہر طرف ہی فضا سود کے اثرات سے مسموم ہوچکی ہے۔ بایں ہمہ یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر آج بھی کوئی شخص سود سے بچنے کا پختہ عزم کرلے تو وہ سود سے بچ سکتا ہے۔ البتہ اگر کوئی ناقابل علاج چیز ہے تو وہ انسان کی ہوس ہے۔ اگر ایک تاجر دوسروں کی دیکھا دیکھی ایک لاکھ کے سرمایہ سے بنک کی ملی بھگت سے چار لاکھ کا کاروبار کرنا چاہتا ہے تو وہ اسے اضطرار کا نام کیوں دیتا ہے۔ اور اگر کوئی چیز درآمد کرتا ہے تو وہ پوری رقم پیشگی جمع کرا کر سود کے دھندے سے بچ بھی سکتا ہے۔ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ اضطرار کہیں بھی نہیں ہوتا بلکہ بات صرف اتنی ہے کہ حلال طریقے سے کمائی کم ہوتی ہے۔ صرف زیادہ کمائی کی خاطر سود میں ملوث ہونا، پھر اسے اضطرار کا نام دینا ڈھٹائی نہیں تو اور کیا ہے اور ایسے حیلوں بہانوں سے کمائی ہوئی ساری کی ساری دولت حرام ہوجاتی ہے۔ اور اگر حقیقتاً انسان کسی وقت مجبور ہوجائے تو وہ گناہ نہیں اور اللہ تعالیٰ وہ معاف فرمادے گا اور ایسا اضطرار صرف سود دینے میں ہی ہوسکتا ہے۔ لینے میں کبھی نہیں ہوسکتا۔ پھر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اگر سودی دھندا کرنے والے ہر طرف بکھرے ہوئے ہیں تو بعض ادارے ایسے بھی موجود ہیں جو مضاربت اور شراکت کی بنیادوں پر لوگوں سے سرمایہ اکٹھا کرتے ہیں۔ مثلاً جائنٹ سٹاک کمپنیاں اور کو آپریٹو سوسائٹیاں خالص تجارتی بنیادوں پر کاروبار کرتی ہیں۔ ان کے حصص کی قیمت گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔ اور کھلے بازار یہ حصص فروخت ہوتے رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں آج بھی کئی ایسے دیانت دار اور دیندار تاجر موجود ہیں جو مضاربت کی شرائط پر رقم قبول کرتے ہیں اور وقت مقررہ پر طے شدہ شرائط کے مطابق منافع بھی ادا کرتے ہیں اور بوقت ضرورت اصل رقم بھی واپس کردیتے ہیں۔ البتہ ایسے لوگوں کو تلاش ضرور کرنا پڑتا ہے۔ مگر ناپید نہیں ہیں۔ لہٰذا ہر شخص کو لازم ہے کہ وہ بہرصورت اس جرم عظیم سے اجتناب کرے۔ [٣٩٩] اللہ تعالیٰ نے معاشرہ کو سودی نظام سے نجات حاصل کرنے کی بہترین ترکیب خود ہی بتا دی جو یہ تھی کہ اس حکم کے نزول کے بعد کوئی سود پر قرض دینے والا صرف اپنا اصل زر ہی وصول کرنے کا حقدار ہوگا اور سود کا مطالبہ کرکے مقروض پر ظلم نہیں کرے گا۔ اسی طرح مقروض کو اصل زر ضرور قرض خواہ کو ادا کرنا ہوگا۔ وہ اصل زر بھی یا اس کا کچھ حصہ دبا کر قرض خواہ پر ظلم نہیں کرے گا۔ یہ ہیں وہ آیات جنہیں آیات ربا کہا جاتا جن کے مطابق سود کو کلیتہ حرام قرار دیا گیا اور یہ سورۃ بقرہ میں سب سے آخر میں بلکہ آپ کی وفات سے صرف چار ماہ پیشتر نازل ہوئی تھیں۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ’’جب سورۃ بقرہ کی سب سے بعد نازل ہونے والی آیات سود کے بارے میں نازل ہوئیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں جاکر ان آیتوں کو سنایا۔ پھر شراب کی سوداگری بھی حرام کردی۔‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر زیر آیات مذکورہ) اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’آیات ربا قرآن کی ان آیات سے ہیں، جو آخر زمانہ میں نازل ہوئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوگئی۔ پیشتر اس کے کہ تمام احکام ہم پر واضح فرماتے۔ لہٰذا تم سود کو بھی چھوڑ دو اور ہر اس چیز کو بھی جس میں سود کا شائبہ ہو۔‘‘ (ابن ماجہ، دارمی، بحوالہ مشکوٰۃ، کتاب البیوع، باب الربا۔ فصل ثالث) ان آیات کے نزول کے چند ہی دن بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع ادا کیا اور اس حکم کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اپنے خطبہ حجۃ الوداع میں یوں اعلان فرمایا کہ: ’’جاہلیت کے تمام سود باطل قرار دیئے جاتے ہیں اور سب سے پہلے میں اپنے خاندان کا سود یعنی عباس بن عبدالمطلب کا سود باطل کرتا ہوں۔‘‘ (مسلم۔ کتاب الحج۔ باب حجۃ النبی) شراب کی طرح سود بھی دراصل عرب معاشرہ کی گھٹی میں پڑا ہوا تھا اور اس کا استیصال بھی بتدریج ہوا۔ سود کی مذمت میں سب سے پہلی نازل ہونے والی آیت سورۃ روم کی آیت نمبر ٣٩ ہے جس میں یہ بتلایا گیا کہ ’جو رقم تم سود پر دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال بڑھ جائیں تو ایسا مال، اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا۔‘ دوسری آیت سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ١٣٠ ہے جس میں کہا گیا کہ : اے ایمان والو! دگنا چوگنا سود نہ کھاؤ۔ (یعنی سود مرکب) پھر اس کے بعد سورۃ بقرہ کی مندرجہ بالا آیات نازل ہوئیں۔ جن کے بعد سود ایک فوجداری جرم بن گیا اور عرب کے سود خور قبیلوں کو آپ نے عمال کے ذریعے آگاہ فرمایا کہ اگر وہ سودی لین دین سے باز نہ آئے تو ان کے خلاف جنگ کی جائے گی۔ البقرة
280 [٤٠٠] مقروض کو مہلت دینے یا اسے معاف کردینے میں جو بہتری ہے وہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتی ہے: (١) حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : ’’ جس شخص کو یہ بات محبوب ہو کہ اللہ تعالیٰ اسے قیامت کی سختیوں سے نجات دے اسے چاہئے کہ تنگدست کو مہلت دے یا پھر اسے معاف کردے۔‘‘ (مسلم : کتاب المساقاۃ والمزارعۃ، باب فضل انظار المعسر) (٢)قرضہ میں مہلت کی فضیلت :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ’’جس شخص کے ذمہ کسی کا قرضہ ہوا اور مقروض ادائیگی میں تاخیر کرے تو قرض خواہ کے لئے ہر دن کے عوض صدقہ ہے۔‘‘ (احمد بحوالہ، مشکوٰۃ۔ کتاب البیوع۔ باب الافلاس والا نظار، فصل ثالث) (٣) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جو شخص کسی تنگ دست کو مہلت دے یا معاف کردے، قیامت کے دن اللہ اسے اپنے سایہ میں جگہ دے گا۔‘‘ (طویل حدیث سے اقتباس) (مسلم۔ کتاب الزھد۔ باب حدیث جابر و قصۃ ابی بسیر) اور اگر مقروض تنگدست ہو اور قرض خواہ زیادہ ہوں تو اسلامی عدالت قرض خواہ یا قرض خواہوں سے مہلت دلوانے یا قرض کا کچھ حصہ معاف کرانے کی مجاز ہوتی ہے۔ (اس صورت حال کو ہمارے ہاں دیوالیہ کہتے ہیں اور عربی میں افلاس اور تفلیس) چنانچہ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک شخص کو پھل کی خرید وفروخت میں نقصان ہوا اور اس کا قرضہ بہت بڑھ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا : ’’اس پر صدقہ کرو‘‘ لوگوں نے صدقہ کیا، پھر بھی اتنی رقم نہ ہوسکی جو قرضے پورے کرسکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض خواہوں سے فرمایا : ’’جو کچھ (قرضہ کی نسبت سے) تمہیں ملتا ہے لے لو اور تمہارے لئے یہی کچھ ہے۔‘‘(مسلم۔ کتاب المساقاۃ والمزارعۃ۔ باب وضع الجوائع) عبداللہ بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (میرے باپ) کعب بن مالک نے عبداللہ بن ابی حدرد سے مسجد نبوی میں اپنے قرض کا تقاضا کیا۔ دونوں چلانے لگے۔ آپ اپنے حجرہ میں تھے۔ ان دونوں کی آوازیں سنیں تو آپ حجرے کا پردہ اٹھا کر برآمد ہوئے اور کعب رضی اللہ عنہ کو پکارا۔ کعب رضی اللہ عنہ نے کہا : حاضر یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارے سے فرمایا: ’’آدھا قرض چھوڑ دو۔‘‘ کعب رضی اللہ عنہ کہنے لگے : یارسول اللہ! میں نے چھوڑ دیا۔ پھر آپ نے ابو حدرد رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ’’اٹھ اور اس کا قرض ادا کر۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الحضومات۔ باب کلام الحضوم بعضہم فی بعض۔ نیز کتاب الصلٰوۃ، باب التقاضی والملازمۃ فی المسجد) ہاں اگر کوئی قرض خواہ مقروض کے ہاں اپنی چیز (جس کی مقروض نے قیمت ابھی ادا نہ کی تھی) بجنسہ پالے تو وہ اس کی ہوگی۔ (بخاری۔ کتاب فی الاستقراض۔ باب من وجد مالہ عند مفلس نیز مسلم۔ کتاب المساقاۃ والمزارعۃ، باب من ادرک مالہ۔۔) دیوالیہ کی صورت میں اسلامی عدالت مقروض کی جائیداد کی قرقی کرسکتی ہے۔ چنانچہ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو اپنے مال میں تصرف کرنے سے روک دیا تھا اور وہ مال ان کے قرض کی ادائیگی کے لئے فروخت کیا گیا۔ (رواہ دارقطنی و صححہ الحاکم و اخرجہ، ابو داؤد مرسلاً) البتہ درج ذیل اشیاء قرقی سے مستثنیٰ کی جائیں گی (١) مفلس کے رہنے کا مکان، (٢) اس کے اور اس کے اہل خانہ کے پہننے والے کپڑے، (٣) اگر تاجر ہے تو بار دانہ اور محنت کش ہے تو اس کے کام کرنے کے اوزار، (٤) اس کے اور اس کے اہل خانہ کے کھانے پینے کا سامان اور گھر کے برتن وغیرہ۔ (فقہ السنۃ، ج ٣ ص ٤٠٨) البقرة
281 البقرة
282 [٤٠١]معاہدات کی تحریر مستحب ہے واجب نہیں :۔ یہ قرآن کی سب سے لمبی آیت ہے جس میں ادھار سے تعلق رکھنے والے معاملات کو ضبط تحریر میں لانے کی ہدایات دی جارہی ہے۔ مثلاً جائیدادوں کے بیع نامے، بیع سلم کی تحریر یا ایسے تجارتی لین دین کی تحریر جس میں پوری رقم یا اس کا کچھ حصہ ابھی قابل ادائیگی ہو۔ تاکہ بعد میں اگر کوئی نزاع پیدا ہو تو یہ تحریر شہادت کا کام دے سکے اور یہ حکم استحباباً ہے واجب نہیں۔ چنانچہ اگر فریقین میں باہمی اعتماد اتناد زیادہ ہو کہ باہمی نزاع کی صورت کا امکان ہی نہ ہو یا محض قرض کا معاملہ ہو اور اس طرح موثق تحریر سے کسی فریق کے اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہو تو محض یادداشت کے لئے کوئی فریق اپنے پاس ہی لکھ لے تو یہ بھی کافی ہوسکتا ہے۔ [٤٠٢] ہمارے ہاں آج کل ایسی تحریروں کے سند یافتہ ماہرین موجود ہیں جنہیں وثیقہ نویس کہا جاتا ہے۔ وثیقہ نویس تقریباً انہی اصولوں کے تحت سرکاری کاغذات پر ایسے معاہدات لکھ دیتے ہیں اور چونکہ یہ ایک مستقل فن اور پیشہ بن چکا ہے۔ لہٰذا ان کے انکار کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ الا یہ کہ معاملہ میں کوئی قانونی سقم ہو۔ [٤٠٣] نادان اور بے سمجھ کےحقوق کی حفاظت :۔ یعنی معاہدہ کی املا اس شخص کو کروانی چاہئے جو مقروض ہو کیونکہ ادائیگی کا بار اس کے سر پر ہے۔ ہاں اگر وہ لکھوانے کی پوری سمجھ نہیں رکھتا تو اس کا ولی (سرپرست) اس کے وکیل کی حیثیت سے اس کی طرف سے لکھوا سکتا ہے۔ یہ ولی اس کا کوئی رشتہ دار بھی ہوسکتا ہے اور غیر رشتہ دار بھی۔ جو سمجھدار ہو اور مقروض کا خیر خواہ ہو یا معروف معنوں میں وکیل بھی ولی کی حیثیت سے املا کروا سکتا ہے۔ [٤٠٤]شہادت کانصاب :۔ تحریر کے بعد اس تحریر پر دو ایسے مسلمان مردوں کی گواہی ہونا چاہئے جو معاشرہ میں قابل اعتماد سمجھے جاتے ہوں۔ اور اگر معاملہ ذمیوں کے درمیان ہو تو گواہ ذمی بھی ہوسکتے ہیں۔ اور اگر بوقت تحریر دو مسلمان قابل اعتماد گواہ میسر نہ آئیں تو ایک مرد اور دو عورتیں بھی گواہ بن سکتی ہیں۔ اور اگر ایک بھی مرد میسر نہ آئے تو چار عورتیں گواہ نہیں بن سکتیں۔ اور گواہی کا یہ نصاب صرف مالی معاملات کے لئے ہے۔۔ مثلاً زنا اور قذف کے لئے چار مردوں ہی کی گواہی ضروری ہے۔ چوری اور نکاح و طلاق کے لئے دو مردوں ہی کی گواہی ہوگی۔ افلاس (دیوالیہ) کے لئے اس قبیلے کے تین مردوں کی، رؤیت ہلال کے لئے صرف ایک مسلمان کی اور رضاعت کے ثبوت کے لئے صرف ایک متعلقہ عورت (دایہ) ہی گواہی کے لئے کافی ہوتی ہے۔ [٤٠٥] اس سے ایک تو یہ بات معلوم ہوئی کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر رکھی گئی ہے اور حدیث کی رو سے یہ عورتوں کے نقصان عقل کی بنا پر ہے۔ اور دوسرے یہ کہ زبانی گواہی کی ضرورت اس وقت پیش آئے گی جب اس معاملہ کی ایسی جزئیات میں نزاع پیدا ہوجائے جنہیں تحریر میں نہ لایا جاسکا ہو اور معاملہ عدالت میں چلا جائے۔ ورنہ تحریر تو کی ہی اس لئے جاتی ہے کہ بعد میں نزاع پیدا نہ ہو۔ اور شہادتیں پہلے سے ہی اس تحریر پر ثبت کی جاتی ہے۔ جب سے اہل مغرب نے مساوات مرد و زن کا نعرہ لگایا ہے اور جمہوری نظام نے عورت کو ہر معاملہ میں مرد کے برابر حقوق عطا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس وقت سے اس آیت کے اس جملہ کو بھی مسلمانوں ہی کی طرف سے تاویل و تضحیک کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ دو عورتوں کی شہادت کو ایک مرد کے برابر کرکے اسلام نے عورتوں کے حقوق کی حق تلفی کی ہے۔ پاکستان میں اپوا کی مغرب زدہ مہذب خواتین نے بڑی دریدہ دہنی سے کام لیا اور اس کے خلاف ان عورتوں نے جلوس نکالے اور بینر لکھوائے گئے کہ اگر عورت کا حق مرد سے نصف ہے تو فرائض بھی نصف ہونے چاہئیں عورتوں پر اڑھائی نمازیں، پندرہ روزے اور نصف حج فرض ہونا چاہئے وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ یہ طبقہ اڑھائی نمازیں تو درکنار ایک نماز بھی پڑھنے کا روادار نہیں۔ وہ خود اسلام سے بیزار ہیں ہی، ایسے پراپیگنڈے سے ایک تو وہ حکومت کو مرعوب کرنا چاہتی ہیں کہ وہ ایسا کوئی قانون نہ بنائے جس سے عورت کی حق تلفی ہوتی ہو۔ دوسرے یہ کہ وہ دوسری سادہ لوح مسلمان عورتوں کو اسلام سے برگشتہ کرسکیں۔ عورت کی گواہی اور مساوات مردوزن :۔ حالانکہ یہاں حقوق و فرائض کی بحث ہے ہی نہیں۔ آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر ایک عورت بھول جائے تو دوسری عورت اسے یاد دلا دے۔ اس میں نہ عورت کے کسی حق کی حق تلفی ہوتی ہے اور نہ اس کی تحقیر ہوتی ہے۔ بات صرف نسیان کی ہے اور وہ بھی اس جزئیات میں جو تحریر میں آنے سے رہ گئی ہوں۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عورت بھول سکتی ہے تو کیا مرد نہیں بھول سکتا۔ تو اس کا جواب بالکل واضح ہے کہ اسلامی قانون عام حالات کے مطابق وضع کئے گئے ہیں اور ان کا واضع خود اللہ تعالیٰ ہے۔ جو اپنی مخلوق کی خامیوں اور خوبیوں سے پوری طرح واقف ہے۔ عورت پر حیض، نفاس اور حمل اور وضع حمل کے دوران کچھ ایسے اوقات آتے ہیں جب اس کا دماغی توازن برقرار نہیں رہ سکتا۔ اور حکمائے قدیم و جدید سب عورت کی ایسی حالت کی تائید و توثیق کرتے ہیں۔ ان مغرب زدہ خواتین کا یہ اعتراض بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی یہ کہہ دے کہ مرد اپنی جسمانی ساخت اور قوت کے لحاظ سے عورت سے مضبوط ہوتا ہے۔ لہٰذا حمل اور وضع حمل کی ذمہ داریاں مرد پر ڈالنا چاہئے تھیں نہ کہ عورت پر جو پہلے ہی مرد سے کمزور ہے۔ اور اس مسئلہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ عورت اپنی اصل کے لحاظ سے ایسی عدالتی کاروائیوں سے سبکدوش قرار دی گئی ہے۔ اب یہ اسلام کا اپنا مزاج ہے کہ وہ عورت کو گھر سے باہر کھینچ لانے کو پسند نہیں کرتا۔ جبکہ موجودہ مغربی تہذیب اور نظام جمہوریت اسلام کے اس کلیہ کی عین ضد ہے۔ عورت کی گواہی کو صرف اس صورت میں قبول کیا گیا ہے جب کوئی دوسرا گواہ میسر نہ آسکے اور اگر دوسرا گواہ میسر آجائے تو اسلام عورت کو شہادت کی ہرگز زحمت نہیں دیتا۔ مختلف مواقع پر عورت کی گواہی مختلف قدروقیمت:۔ عورت کے اسی نسیان کی بنا پر فوجداری مقدمات میں اس کی شہادت قابل قبول نہیں کیونکہ ایسے مقدمات میں معاملہ کی نوعیت سنگین ہوتی ہے۔ مالی معاملات میں عورت کی گواہی قبول تو ہے لیکن دو عورتوں کو ایک مرد کے برابر رکھا گیا ہے۔ اور عائلی مقدمات میں چونکہ زوجین ملوث ہوتے ہیں اور وہ ان کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے۔ جہاں نسیان کا امکان بہت ہی کم ہوتا ہے۔ لہٰذا ایسے مقدمات میں میاں بیوی دونوں کی گواہی برابر نوعیت کی ہوگی اور وہ معاملات جو بالخصوص عورتوں سے متعلق ہوتے ہیں۔ وہاں عورت کی گواہی کو مرد کے برابر ہی نہیں بلکہ معتبر قرار دیا گیا ہے مثلاً مرضعہ اگر رضاعت کے متعلق گواہی دے تو وہ دوسروں سے معتبر سمجھی جائے گی۔ خواہ یہ دوسرے کوئی عورت ہو یا مرد ہو۔ ان تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں نہ عورت کی تحقیر بیان ہوئی ہے اور نہ کسی حق کی حق تلفی کی گئی ہے بلکہ رزاق عالم نے جو بھی قانون عطا فرمایا ہے وہ کسی خاص مصلحت اور اپنی حکمت کاملہ سے ہی عطا فرمایا ہے اور جو مسلمان اللہ کی کسی آیت کی تضحیک کرتا یا مذاق اڑاتا ہے اسے اپنے ایمان کی خیر منانا چاہئے۔ اور ایسے لوگوں کو اسلام سے منسلک رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ دل سے تو وہ پہلے ہی اللہ کے باغی بن چکے ہیں۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو اسلام کو کافروں سے بھی زیادہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔ [٤٠٦] یعنی جب نزاع کی صورت پیدا ہو کر معاملہ عدالت میں چلا جائے اور انہیں زبانی گواہی دینے کے لئے بلایا جائے تو انہیں انکار نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ یہ بات کتمان شہادت کے ذیل میں آتی ہے جو گناہ کبیرہ ہے۔ [٤٠٧] اس جملہ میں انسان کی ایک فطری کمزوری کو واضح کیا گیا ہے جو یہ ہے کہ فریقین خواہ کس قدر قابل اعتماد ہوں اور ان میں نزاع کی توقع بھی نہ ہو اور معاملہ بھی خواہ کوئی چھوٹا سا ہو تاہم بھول چوک اور نسیان کی بنا پر فریقین میں نزاع یا بدظنی پیدا ہوسکتی ہے۔ لہٰذا باقاعدہ دستاویز نہ سہی فریقین کو یا فریقین میں سے کسی اذیک کو یادداشت کے طور پر ضرور لکھ لینا چاہئے۔ [٤٠٨] یہ حکم صرف اس صورت میں ہے جبکہ لین دین کا کوئی اہم معاملہ ہو اور لین دین کرنے کے بعد بھی اس میں نزاع کا احتمال موجود ہو۔ [٤٠٩]گواہوں پرسختی کی صورتیں :۔ اس کی کئی صورتیں ممکن ہیں مثلاً ایک یہ کہ کسی شخص کو کاتب بننے یا گواہ بننے پر مجبور نہ کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ کاتب یا گواہ کی گواہی اگر کسی فریق کے خلاف جاتی ہے تو انہیں تکلیف نہ پہنچائے جیسا کہ آج کل مقدمات میں اکثر ایسا ہوتا ہے اور فریق مخالف گواہوں کو یا وثیقہ نویس کو اس قدر دھمکیاں اور تکلیفیں دینا شروع کردیتا ہے کہ وہ گواہی نہ دینے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں یا پھر غلط گواہی دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اور تیسری صورت انہیں نقصان پہنچانے کی یہ ہے کہ انہیں عدالت میں بلایا تو جائے لیکن انہیں آمدورفت اور کھانے پینے کا خرچہ تک نہ دیا جائے۔ البقرة
283 [٤١٠]رہن کی چار صورتیں:۔ رہن کے مطالبہ کی چار ممکنہ صورتیں ہیں مثلاً سفر ہو یا حضر ہو اور کاتب نہ مل رہا ہو، دو تو یہ ہوئیں اور دو یہ ہیں کہ سفر یا حضر دونوں جگہ کاتب مل سکتا ہے مگر قرض دینے والا محض تحریر پر اعتماد نہیں کرتا اور اپنے قرضہ کی واپسی کی ضمانت کے طور پر رہن کا بھی مطالبہ کرتا ہے اور یہ کہ رہن خواہ تحریر کے ساتھ ہو یا تحریر کے بغیر صرف رہن ہو۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک یہودی (ابوشحم) سے ادھار اناج خریدا (تیس صاع جو، اپنی خانگی ضرورت کے لئے) اور آپ نے اپنی زرہ بطور رہن اس کے پاس رکھی تھی (بخاری۔ کتاب الرہن، باب فی الرہن فی الحضر) اور یہ رہن حضر میں تھا اور بلا تحریر تھا۔ چنانچہ ان چاروں صورتوں میں رہن جائز ہے اور اللہ تعالیٰ نے جو ان میں سے صرف ایک صورت کا ذکر فرمایا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام اپنے پیروؤں کو فیاضی کی تعلیم دینا چاہتا ہے اور یہ بات بلند اخلاق سے فروتر ہے کہ ایک آدمی مال رکھتا ہو اور وہ دوسرے ضرورت مند کی کوئی چیز رہن رکھے بغیر اسے قرض نہ دے۔ رہن کے احکام: ١۔ مرہونہ چیز کے نفع و نقصان کا ذمہ دار راہن (اصل مالک) ہی ہوتا ہے اور مرتہن (جس کے پاس رہن رکھی گئی ہو) کے پاس وہ چیز بطور امانت ہوتی ہے مثلاً زید نے بکر کے پاس گائے رہن رکھی تھی۔ وہ گائے مر گئی یا چوری ہوگئی تو یہ نقصان زید کا ہوگا بکر کا نہیں۔ اسی طرح اگر گائے نے بچہ جنا تو گائے اور بچہ دونوں زید کے ہوں گے بکر کے نہ ہوں گے۔ چنانچہ سعید بن المسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ : ’’گروی رکھنا کسی مرہونہ چیز کو اس کے اصل مالک سے نہیں روک سکتا۔ اس کا فائدہ بھی اسی کے لئے ہے اور اس کا نقصان بھی اسی پر ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ۔ کتاب البیوع۔ باب المسلم والرہن۔ فصل ثانی) ٢۔ چونکہ مرہونہ چیز مرتہن کے پاس بطور امانت ہوتی ہے۔ اس لئے وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ مثلاً مکان ہے تو اس میں رہ نہیں سکتا نہ کرایہ پر دے سکتا ہے، زمین ہے تو اس میں کاشت نہیں کرسکتا وغیرہ وغیرہ۔ کیونکہ یہ سود ہوگا۔ الا یہ کہ وہ ایسا فائدہ راہن کے حوالہ کردے یا اصل قرضہ کی رقم سے وضع کرتا جائے۔ ٣۔ مگر جن چیزوں پر مرتہن کو کچھ خرچ بھی کرنا پڑے تو ان سے فائدہ اٹھانے کا بھی حقدار ہوگا۔ مثلاً مرہونہ چیز گائے ہے تو اسے چارہ وغیرہ ڈالنے کے عوض اس کا دودھ بھی استعمال کرسکتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ مرہونہ جانور کی پیٹھ سواری کے لئے شیردار مرہونہ جانور کا دودھ پینے کے لئے اس کے اخراجات کے عوض جائز ہے۔ اور جو شخص سواری کرتا یا دودھ پیتا ہے تو اسی کے ذمہ اس کا خرچہ ہے۔‘‘ (بخاری : کتاب الرہن۔ باب الرہن مرکوب و محلوب) [٤١١] یعنی قرض خواہ کا قرضہ یا جو چیز اس نے لی ہو۔ [٤١٢]دل ہی خیر وشرکامنبع ہے:۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو خبردار کرتے ہوئے فرمایا : سن لو! بدن میں گوشت کا ایک ٹکڑا ایسا ہے کہ جب وہ درست ہو تو سارا جسم ہی درست ہوتا ہے اور وہ بگڑ جائے تو سارا جسم ہی بگڑ جاتا ہے۔ یاد رکھو! وہ ٹکڑا (انسان کا) دل ہے۔ (بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب فضل من استبرء لدینہ) اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ جب انسان کوئی گناہ کا کام کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑجاتا ہے پھر اگر انسان توبہ کرلے تو وہ نقطہ دھل جاتا ہے اور اگر توبہ نہ کرے بلکہ مزید گناہ کئے جائے تو وہ نقطہ بڑھتا رہتا ہے۔ حتیٰ کہ اس کے سارے دل کو گھیر لیتا ہے اور اسے سیاہ کردیتا ہے۔ (مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب رفع الامانۃ والایمان من بعض الذنوب۔۔) گویا پہلے گناہ دل پر اثر انداز ہوتے ہیں اور نیت میں فتور آتا ہے پھر وہ گناہ کا کام صادر ہوتا ہے۔ پھر ایک ایسا وقت آتا ہے جب انسان کا دل پوری طرح سیاہ ہوجاتا ہے اس وقت انسان کا دل اس کی سوچ اور فکر پر اثرانداز ہوتا ہے پھر وہ جو بات بھی سوچے گا غلط اور معصیت کی بات ہی سوچے گا۔ دل کی ایسی حالت کو اللہ تعالیٰ نے آثم قلبہ سے تعبیر کیا ہے اور شہادت کو چھپانے والے ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں۔ البقرة
284 [٤١٣]دل کےخیالات پر گرفت نہیں:۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی تین صفات کا ذکر ہوا ہے۔ (i) مِلک، یعنی وہ ہر چیز کا مالک ہے، (ii) علم، یعنی اس کا علم اتنا وسیع ہے کہ دلوں کے راز تک جانتا ہے، (iii) قدرت، یعنی اسے سزا دینے اور معاف کردینے کے کلی اختیارات حاصل ہیں اور یہی تین صفات ذرا تفصیل کے ساتھ آیت الکرسی میں بیان کی گئی ہیں جس سے مقصود یہ ہے کہ عبادات اور معاملات سے متعلق جو بے شمار احکام دیئے گئے ہیں۔ مسلمان کو اس کی تعمیل میں نہ حیلوں بہانوں سے کام لینا چاہئے اور نہ سینہ زوری اور ظلم و زیادتی سے۔ بلکہ اللہ سے ڈر کر اس کی مرضی کے مطابق عمل کرنا چاہئے۔ کیونکہ کسی بھی ظاہری یا پوشیدہ امر میں انسان اس کی نافرمانی کرکے نجات نہیں پاسکتا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس نے ہمیں غمزدہ بنا دیا ہم نے خیال کیا کہ اگر کسی کے دل میں گناہ کا خیال بھی آئے تو اس کا بھی حساب ہوگا کہ پھر معلوم نہیں کہ اس کی معافی ہو یا نہ ہو، اور یہ بات انسان کے اختیار سے باہر ہے۔ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ سے شکایت کی تو آپ نے فرمایا : کہو! ہم نے (اللہ کا ارشاد) سنا اور ہم اطاعت کرتے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایسا ہی کہا تو پھر ﴿ اٰمَنَ الرَّسُوْلُ﴾ سے لے کر اگلی دو آیات نازل ہوئیں اور ﴿لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا﴾ نے اس آیت نے اس حکم کو منسوخ کردیا۔ (ترمذی۔ کتاب التفسیر۔۔) یعنی دل میں پیدا ہونے والے خیالات پر گرفت معاف کردی گئی۔ البقرة
285 [٤١٤] ایمان بالغیب کے چھ اجزاء:۔ یہ سب ایمان بالغیب کے اجزاء ہیں۔ جن پر ایمان لانا ضروری ہے۔ اس سورۃ کی ابتداء میں اجمالاً بیان ہوئے تھے یہاں قدرے تفصیل ہے۔ ایمان بالغیب کے کل چھ اجزاء ہیں۔ جن میں چار یہاں مذکور ہیں۔ یعنی اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور جو یہاں مذکور نہیں ہوئے بلکہ دوسرے مقامات پر مذکور ہیں وہ ہیں روز آخرت پر ایمان اور اس بات پر ایمان کہ ہر طرح کی بھلائی اور برائی اللہ ہی طرف سے ہوتی ہے۔ اور یہ سب اشیاء ایسی ہیں جن کا ادراک حواس خمسہ سے ناممکن ہے اور وہ انسان کی نظروں سے اوجھل رہتی ہیں۔ ان میں سے کتابیں اور رسول انسانوں کو نظر تو آتے ہیں۔ لیکن اس یقین کا انسان کے پاس کوئی ذریعہ نہیں کہ فلاں کتاب فی الواقعہ اللہ کی طرف نازل شدہ ہے اور فلاں رسول واقعی اللہ کا رسول ہے۔ یہ یقین اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے جب پہلے اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر ایمان لایا جائے۔ اللہ کی طرف سے جب فرشتہ اللہ کا پیغام لے کر رسول پر نازل ہوتا ہے۔ تو سب سے پہلے رسول اپنی رسالت پر اور اللہ کی طرف سے ملے ہوئے احکام پر ایمان لاتا اور ان احکام کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہے اور عمل پیرا ہوتا ہے۔ اسی حقیقت کو دوسرے مقامات پر ﴿وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ﴾ اور ﴿ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ کے الفاظ سے بیان کیا گیا ہے پھر اس کے بعد رسول دوسرے لوگوں کو اپنی رسالت پر ایمان لانے اور منزل من اللہ احکام کو بجا لانے کی دعوت دیتا ہے۔ پھر جو لوگ بھی رسول پر ایمان لاتے ہیں۔ ان کے لئے اپنے سے پہلے کے رسولوں اور پہلی نازل شدہ کتابوں پر ایمان لانا ضروری ہوتا ہے۔ اور یہ ایمان اجمالی ہوتا ہے تفصیلی نہیں ہوتا۔ کیونکہ نیا رسول آتا ہی اس وقت ہے جب سابقہ رسول کی کتاب میں تحریف و تاویل کرکے اس کا حلیہ بگاڑ دیا جاتا ہے اور اس کی تعلیم کو مسخ کردیا جاتا یا کچھ کا کچھ بنا دیا جاتا ہے۔ گویا اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تفصیلی ایمان لانا ضروری ہے۔ اور آپ پر تفصیلی ایمان کا مطلب آپ پر منزل من اللہ شریعت کے ایک ایک جزء کو واجب الاتباع سمجھنا اور اس کے مطابق عمل پیرا ہونا اور اپنی زندگی کو اس سانچہ میں ڈھالنا ہے اور سابقہ کتابوں پر اجمالی ایمان کا مطلب ہے کہ ان کتابوں میں جو باتیں شریعت اسلامیہ کے مطابق ہیں انہیں منزل من اللہ سمجھا جائے۔ اور جو مخالف ہیں انہیں لوگوں کا اضافہ یا تحریف سمجھا جائے اور جو باتیں نہ مطابق ہوں اور نہ مخالف، ان کی نہ تصدیق کی جائے اور نہ تکذیب۔ [٤١٥]رسولوں میں تفریق کا مطلب :۔ رسولوں میں فرق کرنے کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ کسی کو تو اللہ کا رسول مانا جائے اور کسی کو نہ مانا جائے۔ جیسے یہود نہ عیسیٰ علیہ السلام کو رسول مانتے تھے اور نہ نبی اکرم کو اور عیسائی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کا نبی نہیں سمجھتے تھے۔ جبکہ مسلمان ان سب کو اللہ کے نبی اور رسول مانتے ہیں۔ ان کے نبی یا رسول ہونے میں کوئی فرق نہیں کرتے۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ بلحاظ نبوت سب انبیاء کا درجہ برابر اور وہ سب ایک سطح پر ہوتے ہیں اور باقی تمام مخلوقات سے افضل ہوتے ہیں۔ ایسی ہی صورت کو ختم کرنے کے لئے آپ نے فرمایا کہ کسی کو ایسا کہنا درست نہیں کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ : ’’جو شخص یوں کہے کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں اس نے جھوٹ بولا۔‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر، تفسیر آیت ﴿اِنَّآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ کَمَآ ..... ﴾ انبیاء کی ایک دوسرے پر فضیلت کس لحاظ سے ؟ پھر جس طرح تمام انسان، انسان ہونے کے لحاظ سے ایک سطح پر ہوتے ہیں لیکن ان میں کچھ اچھے اور کچھ برے، کوئی عادل، کوئی ظالم، کوئی مشرک، کوئی موحد غرضیکہ ان کی بے شمار اقسام بن جاتی ہیں۔ اسی طرح تمام مسلمان، مسلمان ہونے کے لحاظ سے یا بالفاظ دیگر قانونی لحاظ سے تو ایک سطح پر ہوتے ہیں لیکن ان کے اعمال صالحہ اور غیر صالحہ کی بنا پر ان کی کئی اقسام بن جاتی ہیں، بعینہ اسی طرح تمام انبیاء اگرچہ نبوت کے لحاظ سے ایک سطح پر ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں۔ مگر فضائل کے لحاظ سے ان میں بھی فرق ہوتا ہے اور یہ فرق قرآن کریم کی اس آیت ﴿ تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ﴾سے ثابت ہے، اور بے شمار احادیث صحیحہ سے یہ ثابت ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب انبیاء سے افضل ہیں۔ البقرة
286 [٤١٦]جزااورسزاکاکلیہ :۔ اس جملہ میں اللہ تعالیٰ اپنے قانون سزا و جزا کا کلیہ بیان فرما دیا۔ یعنی جو کام کسی انسان سے استطاعت سے بڑھ کر ہیں ان پر انسان سے باز پرس نہیں ہوگی، باز پرس تو صرف اسی بات پر ہوگی جو انسان کے اختیار اور استطاعت میں ہو اور جہاں انسان مجبور ہوجائے وہاں گرفت نہ ہوگی۔ مگر اس اختیار، استطاعت اور مقدرت کا فیصلہ انسان کو نہایت نیک نیتی سے کرنا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ تو دلوں کے راز تک جانتا ہے۔ [٤١٧] اس جملہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے قانون جزا و سزا کا دوسرا کلیہ بیان فرمایا جو یہ ہے کہ انسان کو وہی کچھ ملے گا جو اس نے خود کمایا ہو اور وہ ضرور اسے ملے گا اور جو کوئی برا کام کیا ہو تو اس کی سزا بھی اسے ہی ملے گی اور ضرور ملے گی نہ یہاں آباؤ اجداد کی نیکی کام آسکتی ہے اور نہ اس کا نسب، یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ کرے کوئی اور بھرے کوئی۔ البتہ یہ ضرور ممکن ہے کہ کسی شخص نے کسی نیک کام کی بنیاد رکھ دی ہو جس کے اثرات اس کی موت کے بعد بھی جاری رہیں۔ تو اس میں نیکی کے کام میں اس کو بھی برابر کا حصہ ملتا رہے گا۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے کسی برے کام کی بنیاد رکھی ہو۔ اور اس کی موت کے بعد بھی اس کے اثرات جاری رہیں تو وہ اس برائی کے گناہ میں بھی برابر کا حصہ دار ہوگا اور یہ اصول قرآن کریم اور بہت سے احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ بہرحال یہ ممکن نہیں کہ جس بھلائی یا برائی میں انسان کی نیت اور سعی و عمل کو کچھ دخل نہ ہو، اس کی جزا و سزا یا اس میں سے کچھ حصہ اسے مل سکے۔ [٤١٨] خطا ونسیان کی معافی کا اعلان :۔ اللہ تعالیٰ نے دعا کا یہ جملہ خود ہی مسلمانوں کو سکھلا کر نہ صرف ان کے سابقہ خلجان کو ختم کردیا بلکہ مزید تسلی و تشفی کا سامان بھی مہیا فرما دیا۔ ان کا خلجان یہ تھا کہ دل میں پیدا ہونے والے خیالات جو ہمارے اپنے اختیار میں نہیں ہوتے ان پر مواخذہ نہ ہو اور اس آیت کی رو سے ظاہری اعمال جو بھول چوک سے صادر ہوں ان سے بھی معافی کی درخواست سکھلائی گئی اور جب دعا قبول کرنے والا ہی یہ دعا سکھلا رہا ہو تو اس کی قبولیت میں کیا شک ہوسکتا ہے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا کہ میری امت سے خطاو نسیان کو معاف کردیا گیا ہے۔ [٤١٩] سابقہ شریعتوں کے احکام:۔ یہاں بوجھ سے مراد سخت قسم کے شرعی احکام ہیں۔ جیسے بچھڑے کی پرستش کرنے والوں کی توبہ صرف قتل سے قابل قبول ہونا، یہود میں صرف قصاص تھا، دیت یا معافی کی صورت نہ تھی۔ ان پر زکوٰۃ چوتھا حصہ تھی اور کپڑے پر اگر پیشاب لگ جاتا تو اسے کاٹ دینا پڑتا تھا، نیز غنیمت کے اموال ان پر حرام تھے۔ وغیرہ وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے سخت احکام میں تخفیف فرما دی۔ [٤٢٠] یہ آیات اس دور میں نازل ہوئیں جب کافروں سے شدید محاذ آرائی تھی اور بہت سے نازک موقعوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسی دعائیں مانگی ہیں۔ بالخصوص غزوہ بدر اور غزوہ خندق کے موقعہ پر آپ نے جو دعائیں فرمائیں ان کا ذکر کثرت سے صحیحہ احادیث میں مذکور ہے۔ [٤٢١]اس سورہ کی آخری دوآیات کی فضیلت :۔ اس دعا کے اختتام پر بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے آمین کہنا ثابت ہے اور ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان آیتوں کے بعد آمین کہنے کی ترغیب دی۔ (ابن کثیر) نیز آپ نے فرمایا: کہ جو شخص رات کو (سوتے وقت) سورۃ بقرہ کی آخری دو آیات پڑھ لے تو وہ اس کو کفایت کرتی ہیں۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب شہود الملائکۃ بدرا) یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت و استعانت اس کے شامل حال رہتی ہے۔ البقرة
0 [١]فضیلت آل عمران:۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورۃ بقرہ اور سورۃ آل عمران کو الزَّھْرَاوَیْنَ یعنی دو جگمگانے والی سورتیں، فرمایا اور امت کو ان کے پڑھتے رہنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا کہ انہیں پڑھا کرو۔ قیامت کے دن وہ اس حال میں آئیں گی جیسے دو بادل یا دو سائبان یا پرندوں کے دو جھنڈ ہیں، اور وہ اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے (اللہ تعالیٰ سے اس کی مغفرت کے لیے جھگڑا کریں گی۔ (مسلم، کتاب الصلٰوۃ، باب فضل، قراءۃ القرآن و سورۃ البقرۃ) قرآن کریم کے علوم میں سے ایک علم مخاصمہ ہے۔ یعنی وہ علم جس کے ذریعہ باطل فرقوں کے عقائد و نظریات کی تردید کی گئی ہے۔ نزول قرآن کے وقت اکثر تین فرقے قرآن پاک کے مخاطب رہے جو مسلمانوں کے حریف تھے : مشرکین، یہود اور نصاریٰ، سورۃ بقرہ میں مشرکین کے علاوہ یہود پر اللہ کے انعامات، ان کی عہد شکنیوں اور ان کے عقائد باطلہ کا تفصیلی طور پر ذکر ہوا تھا جب کہ اس سورۃ آل عمران میں مشرکوں کے علاوہ نصاریٰ کے عقائد باطلہ کا تفصیلی طور پر جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ آل عمران
1 الف، لام، میم آل عمران
2 [٢]الٰہ کی لازمی صفات :۔ اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ حقیقی الٰہ وہی ہوسکتا ہے جو ہمیشہ سے زندہ و قائم ودائم ہو اور پوری کائنات کے انتظام کو سنبھالنے والا اور اس نظام میں قدرت و تصرف کے پورے اختیار رکھتا ہو۔ جس الٰہ میں یہ صفات نہ پائی جائیں وہ الٰہ نہیں ہوسکتا۔ اس معیار کے مطابق تمام معبودان باطل خواہ وہ جاندار ہوں، موجود ہوں یا فوت ہوگئے ہوں اور خواہ بے جان ہوں سب کی نفی ہوگئی۔ آل عمران
3 آل عمران
4 [٣] قرآن فرقان کیسے ہے؟پہلی کتابوں میں تورات، زبور، انجیل، صحف آدم، صحف ابراہیم اور صحف موسیٰ سب شامل ہیں اور یہ کتاب (قرآن کریم) اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ کتب مذکورہ فی الواقعہ منزل من اللہ ہیں۔ تصدیق سے مراد یہ ہرگز نہیں کہ آج کل کی بائبل میں جو مواد پایا جاتا ہے۔ وہ سب منزل من اللہ ہے۔ کیونکہ قرآن کریم ہی سے ثابت ہے کہ اہل کتاب نے، خواہ وہ یہود ہوں یا نصاریٰ اپنی کتابوں میں تحریف کر ڈالی ہے۔ تورات سے مراد یا تو وہ احکام عشرہ ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تختیوں کی صورت میں عطا ہوئے تھے یا وہ وحی منزل من اللہ ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی۔ لیکن موجودہ بائیبل کے عہد نامہ قدیم میں جسے تورات کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سا مواد شامل کردیا گیا ہے اور انجیل دراصل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خطابات اور مواعظ کے مجموعہ کا نام ہے جو آپ منزل من اللہ وحی کی روشنی میں لوگوں کو بتلاتے رہے۔ انجیل چونکہ آپ کے آسمان پر اٹھائے جانے کے مدتوں بعد آپ کے کئی حواریوں نے اپنے طور پر مرتب کی۔ اس لیے اس میں شدید اختلافات بھی ہیں اور اس کے مواد میں مزید بہت سے اضافہ کردیے گئے ہیں۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان باتوں کے متعلق جن کے متعلق قرآن کریم خاموش ہے۔ مسلمانوں کو یہ ہدایت فرما دی کہ تم اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو اور نہ تکذیب۔ (بخاری، کتاب التفسیر، باب ﴿قُوْلُوْا آمَنَّا باللّٰہِ وَمَا اُنْزِلَ اِلَیْنَا﴾ رہی وہ باتیں جو قرآن کے خلاف ہیں تو ان کے غلط ہونے میں کوئی شک ہی نہیں۔ کیونکہ وحی الٰہی کی اصولی باتوں میں اختلاف ممکن نہیں اور یہی کچھ قرآن کریم کے حق و باطل میں فرق کرنے کا مطلب ہے اور آج ہم بائیبل کے صرف اس حصہ کو یقینی طور پر منزل من اللہ کہہ سکتے ہیں۔ جو قرآن کے مطابق ہو اور سابقہ الہامی کتابوں پر ایمان لانے کا یہی مطلب ہے۔ [٤] یہ سزا دنیا میں بھی مل چکی اور آخرت میں بھی ملے گی۔ دنیا میں اس طرح کہ آپ کی زندگی میں ہی اللہ تعالیٰ نے اسلام کو سربلند فرمایا اور اسلام کے مخالفین سب کے سب خواہ وہ مشرکین تھے یا منافقین، یہودی تھے یا نصاریٰ ذلیل و رسوا ہوئے، قتل ہوئے، قیدی بنے، جلاوطن ہوئے یا جزیہ ادا کیا۔ رہا عذاب آخرت تو اس بارے میں وضاحت فرما دی کہ اللہ تعالیٰ زور آور ہے، بدلہ لینے والا ہے، یعنی وہ بدلہ لینے کی پوری طاقت رکھتا ہے اور یقینا ان سے بدلہ لے گا۔ آل عمران
5 آل عمران
6 [٥] تخلیق انسان میں اللہ کی قدرت کاملہ:۔ یعنی نطفہ کو کئی مراحل سے گزار کر اسے انسان کی شکل میں پیدا کرتا ہے اور اس کی قدرت کاملہ کا یہ حال ہے دنیا میں کروڑوں، اربوں، انسان پیدا ہوچکے ہیں لیکن کسی کی شکل و صورت دوسرے سے کلی طور پر نہیں ملتی۔ بنیادی اختلاف تو صرف تین قسم کے ہوتے ہیں۔ رنگ کا اختلاف قدو قامت کا اختلاف اور نقوش کا اختلاف لیکن محض ان تین قسم کے اختلاف سے اربوں انسانوں میں سے ہر ایک کو مابہ الامتیاز شکل و صورت عطا فرمانا اسی وحدہ لاشریک کی قدرت کاملہ کا کارنامہ ہے اور اس کی حکمت کاملہ کا تقاضا یہ ہے کہ اس نے استقرار حمل سے لے کر بعد کے تمام مراحل میں جنین کی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت تک کو بھی پورا کرنے کا اہتمام فرمایا اور پیدا ہونے کے بعد اس کے جسم اور روح کی تربیت کے لیے جن جن چیزوں کی ضرورت تھی وہ اس کے لیے مہیا فرما دیں۔ اس سے پہلی آیت میں یہ فرمایا تھا کہ اللہ پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ یہ گویا ایک دعویٰ تھا جس کا ثبوت اس آیت میں دیا گیا کہ جو ہستی رحم کی تاریکیوں میں جنین کی پرورش کرنے پر قادر ہے۔ اس سے کوئی چیز بھلا پوشیدہ رہ سکتی ہے۔ اس آیت میں تو مصالح جسمانیہ کا ذکر تھا اور اگلی آیت میں انسان کے مصالح روحانیہ کا ذکر ہے۔ آل عمران
7 [٦] محکمات کیاہیں اور متشابہات کیا؟ محکم آیات وہ ہیں جن کا مطلب واضح ہو، ان میں کسی قسم کا اشتباہ نہ ہو اور نہ ہی کوئی دوسرا مطلب لیا جاسکتا ہو اور ان سے مراد حلال و حرام سے متعلق احکام اور اوامر و نواہی ہیں، اور یہی چیزیں انسان کی ہدایت کے لیے کافی ہیں۔ چونکہ قرآن کا اصل موضوع انسان کی ہدایت ہے اور محکمات سے انسان کو پوری رہنمائی مل جاتی ہے۔ لہٰذا محکمات کو ہی ام الکتاب کا نام دیا گیا اور یہی وہ آیات ہیں جن کے متعلق قرآن کا دعویٰ ہے کہ ہم نے قرآن کو آسان بنا دیا ہے۔ [٧] متشابہات ایسی آیات ہیں جن کا مفہوم ذہن انسانی کی دسترس سے بالا ہوتا ہے۔ انسان کی عقل چونکہ محدود ہے اور کائنات اور اس کے حقائق لامحدود ہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ جب ایسے حقائق کو بیان فرماتے ہیں تو ایسے الفاظ استعمال فرماتے ہیں جو حقیقت سے قریب تر ہوں اور انسانی فہم سے بھی۔ ان آیات کا ٹھیک ٹھیک مفہوم چونکہ انسانی ذہن میں نہیں آسکتا اس لیے ان میں اشتباہ کی گنجائش ہوتی ہے اور ہر شخص اپنی اپنی سمجھ کے مطابق اس کی تاویل کرنے لگتا ہے۔ یہ واضح رہے کہ ایسی آیات عموماً ذات و صفات الٰہی سے متعلق ہی ہوتی ہیں جیسے ﴿ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ﴾اور ﴿ اَلرَّحْمَنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾ اب اس بات کے پیچھے پڑنا کہ اللہ کا عرش کیسا ہے، وہ خود کیسا ہے اور کس طرح عرش پر بیٹھا ہے۔ اس قسم کی سوچ سراسر گمراہی ہے۔ کیونکہ اللہ نے خود ہی فرما دیا ہے کہ ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ﴾ [٨]متشابہات کےپیچھے پڑنےوالے :۔ واضح رہے کہ گمراہ فرقوں کی اکثریت کا ہدف یا محل استدلال ایسی ہی متشابہ آیات ہوا کرتی ہیں مثلاً مذکورہ بالا آیات کی جب جہمیہ اور معتزلہ کو سمجھ نہ آئی اور ازروئے عقل انہوں نے اس کی تاویل کی تو استویٰ کے معنی ہی بدل کر استولیٰ (غالب آنا) کرلیے۔ ان کا نظریہ ہے کہ چونکہ اللہ ہر جگہ موجود ہے لہٰذا ایسی آیات کی تاویل لازم ہے۔ اس آیت میں وہ لوگ عرش (اور ایسے ہی بعض مقامات پر کرسی) کا معنی اقتدار اور استویٰ کے معنی استولیٰ (غالب آنا) کرکے ان آیات کو اپنے عقیدہ کے موافق بنا لیتے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر بتلا دیا کہ ایسی آیات کی تاویل کا صحیح مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو متشابہات کے پیچھے پڑتے ہیں تو سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ نے (قرآن کریم میں) انہی لوگوں کا ذکر کیا ہے، لہٰذا ان سے بچو۔‘‘ (بخاری، کتاب التفسیر، تفسیر آیت مذکور) متشابہات کی دوسری قسم ذومعنی الفاظ ہیں۔ جیسے عربی زبان اور اسی طرح کئی دوسری زبانوں میں بھی، ابن یا بیٹا صرف اپنے حقیقی بیٹے کو ہی نہیں کہتے بلکہ اپنے چھوٹے بھائی، غلام اور نوکر کو بھی از راہ شفقت و پیار بیٹا کہہ دیتے ہیں۔ اسی لفظ سے یہود کو یہ غلط فہمی ہوگئی کہ وہ واقعی اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں اور نصاریٰ کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ عیسیٰ علیہ السلام واقعی اللہ کے بیٹے تھے ان لوگوں کے اس باطل خیال کی قرآن کریم میں کئی مقامات پر تردید کی گئی ہے۔ اسی طرح آغاز کائنات اور زمین و آسمان کی تخلیق کے متعلق سوال کرنے والوں کا جواب دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے سورۃ حم السجدہ کی آیت نمبر ١٠ میں فرمایا ﴿سَوَاۗءً لِّلسَّاۗیِٕلِیْنَ﴾ (یعنی سوال کرنے والوں کا جواب پورا ہوا) اب چونکہ سواء اور سائل دونوں الفاظ ذومعنی ہیں لہٰذا اشتراکی ذہن رکھنے والوں نے ان الفاظ سے اپنا نظریہ کشید کرتے ہوئے کہا کہ یہ زمین سب رزق مانگنے والوں کے لیے یکساں ہے۔ لہٰذا یہ انفرادی ملکیت میں رہنے کی بجائے حکومت کی تحویل میں ہونی چاہیئے۔ اب یہ تو واضح ہے کہ اس آیت کا سیاق و سباق قطعاً ایسے نظریہ کی حمایت نہیں کرتا جس کی بنیاد ہی اللہ تعالیٰ کی ہستی کے انکار پر اٹھتی ہے۔ تاہم ایسے کج ذہن لوگوں نے مسلمانوں کو اشتراکیت کی طرف مائل کرنے کے لیے ان الفاظ سے اپنے نظریہ کی تائید کی ہے یہ بحث ذرا تفصیل سے اپنے مقام پر ملے گی۔ [٩] متشابہات کا تعلق چونکہ ایسے حقائق سے ہوتا ہے جو انسانی عقل کی دسترس سے باہر ہوتے ہیں اور انسان کی ہدایت سے بھی ان کا تعلق نہیں ہوتا۔ لہٰذا عقل صحیح اور قلب سلیم رکھنے والے لوگ ان کے درپے نہیں ہوا کرتے۔ ان کا انداز فکر یہ ہوتا ہے کہ چونکہ دونوں قسم کی آیات کا منبع ایک ہی ہے اس لیے دونوں منزل من اللہ، درست اور صحیح ہیں۔ وہ متشابہات پر ایمان اس لحاظ سے رکھتے ہیں کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کے ارشادات ہیں اور اس کی کنہ تک پہنچنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ جس کی وجوہ دو ہیں۔ ایک تو ایسی آیات کا انسانی ہدایت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ دوسرے اس کی کنہ کے پیچھے پڑنے میں گمراہی کا احتمال بہت زیادہ ہوتا ہے۔ مندرجہ بالا تفسیر ان لوگوں کے مطابق ہے جو الا اللہ پر وقف کو لازم قرار دیتے ہیں اور یہی تفسیر راجح اور انسب ہے۔ کہ علامت وقف سے بھی ظاہر ہے۔ تاہم بعض حضرات یہاں وقف کو ضروری نہیں سمجھتے اور اس کے بعد کی واو کو عاطفہ قرار دیتے ہیں۔ اس لحاظ سے معنی یوں بنتا ہے کہ متشابہات کی حقیقت کو اللہ ہی جانتا ہے۔ نیز علم میں رسوخ رکھنے والے لوگ بھی جانتے ہیں لیکن یہ تفسیر اس لحاظ سے درست معلوم نہیں ہوتی کہ بے شمار متشابہات ایسے ہیں جن کی حقیقت اللہ کے علاوہ کسی راسخ فی العلم کو بھی معلوم نہیں ہوسکتی۔ جن میں سرفہرست تو حروف مقطعات ہیں۔ علاوہ ازیں اور بھی مثالیں اوپر گزر چکی ہیں جو بالخصوص اللہ کی ذات و صفات سے تعلق رکھتی ہیں۔ البتہ ذومعنی الفاظ والی آیات کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ ﴿رَاسِخُوْنَ فِیْ الْعِلْمِ﴾ اس کی حقیقت کو پاسکیں۔ آل عمران
8 [١٠] علم میں پختہ کار لوگوں کا شیوہ صرف یہ نہیں ہوتا کہ وہ متشابہات کی تاویل کے پیچھے نہیں پڑتے۔ بلکہ اللہ سے یہ دعا بھی کرتے ہیں کہ جو فتنہ انگیز لوگ متشابہات کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ان کی فکر ہمارے فکر پر کہیں اثر انداز نہ ہوجائے اور اپنی رحمت خاص سے ہمیں ایسے فتنہ پرور لوگوں کے افکار و عقائد سے بچائے رکھ اور صحیح عقل و فکر عطا فرما۔ آل عمران
9 [١١] یعنی عقل صحیح رکھنے والے بھی اور ٹیڑھی سوچ رکھنے والے، متشابہات کے پیچھے پڑنے والے، خود گمراہ ہونے والے اور دوسروں کو گمراہ کرنے والے مومن و مشرک سب کو اکٹھا کرکے اور ان پر حجت قائم کرکے ان کے درمیان عدل و انصاف سے فیصلہ کرے گا۔ ایمان بالآخرت، ایمان بالغیب کا ایسا اہم جزو ہے جو انسان کی زندگی کا رخ بدلنے میں موثر کردار ادا کرتا ہے۔ لہٰذا یاددہانی کے طور پر اس نظریہ آخرت کو ﴿رَاسِخُوْنَ فِیْ الْعِلْمِ﴾ اور مومنوں کی دعا کا حصہ بنا دیا گیا۔ آل عمران
10 آل عمران
11 [١٢]کافروں کےحق میں پیش گوئی :۔ ان دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے سب کافروں کو خواہ وہ مشرکین تھے یا یہود مدینہ یا منافقین اور مشرکین مدینہ یا نصاریٰ جو اسلام کے خلاف محاذ آرائی پر اتر آئے تھے۔ متنبہ فرمایا کہ اسلام دشمنی سے باز آجاؤ ورنہ جس طرح آل فرعون اور قوم عاد، ثمود وغیرہ تباہ و برباد کئے جاچکے ہیں۔ تمہارا بھی وہی حشر ہونے والا ہے۔ ان کو بھی اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر اور گناہوں کی پاداش میں دھر لیا تھا اور تمہیں بھی دھرے گا کیونکہ اللہ اپنے مسلمان بندوں سے دشمنی رکھنے والوں کو سزا دینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا۔ آل عمران
12 [١٣]یہودکاانجام :۔ اس آیت میں اگرچہ روئے خطاب سب قسم کے کافروں سے ہے تاہم یہود مدینہ بالخصوص اس آیت کے مخاطب ہیں۔ ہوا یہ تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر میں مسلمانوں کو فتح عظیم عطا فرمائی اور اس سے متاثر ہو کر عبداللہ بن ابی (رئیس منافقین) نے اپنے ساتھیوں سمیت اسلام قبول کرلیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کے درمیان بسنے والے یہود بنو قینقاع کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ’’اے یہود! اسلام قبول کرلو تو عافیت میں رہو گے ورنہ تمہارا بھی وہی حشر ہوگا جو مشرکین مکہ کا ہوا ہے لیکن وہ بجائے نصیحت قبول کرنے کے شیخی میں آگئے کہنے لگے کہ مکہ کے کافر تو جاہل اور فنون جنگ سے ناآشنا تھے جو پٹ گئے، ہم سے سابقہ پڑا تو سمجھ آجائے گی۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ پھر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان پیشین گوئی جس طرح حرف بہ حرف پورا ہوا اس پر تاریخ شاہد ہے کہ سب سے پہلے یہی یہود بنو قینقاع جلا وطن کئے گئے۔ تو انہوں نے خیبر جاکر دم لیا۔ پھر یہود بنونضیر جلاوطن ہوئے تو انہوں نے بھی خیبر کی راہ لی، پھر بنوقریظہ کی باری آئی تو قتل کئے گئے اور لونڈی و غلام بنا لیے گئے۔ پھر خیبر میں یہود کی پٹائی ہوئی تو بحیثیت مزارعہ وہاں آباد رہنے کی درخواست کی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منظور فرما لیا۔ تاہم یہود چونکہ ایک فتنہ انگیز قوم ہے ان کی شرارتوں کی بنا پر بالآخر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں یہاں سے بھی نکال باہر کیا۔ یاد رہے کہ کافروں کے حق میں یہ پیشین گوئی اس وقت کی گئی جب مسلمانوں پر ہر وقت خوف و ہراس کی فضا طاری رہتی تھی، اگرچہ اس وقت مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی نوزائیدہ ریاست کی بنیاد پڑچکی تھی۔ لیکن وہ ہر لحاظ سے کمزور اور اقلیت میں تھے اور عرب بھر کے مشرکین، یہود اور نصاریٰ اور منافقین اس ریاست کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کرنے پر تلے ہوئے تھے اور ان سب گروہوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کی کامیابی کے آثار دور تک نظر نہیں آتے تھے۔ لیکن اللہ کی مدد مسلمانوں کے یوں شامل حال ہوئی اور حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ یہ سب فرقے باری باری مات کھاتے گئے اور چند ہی سال بعد عرب بھر میں اسلام کا بول بالا ہوگیا۔ آل عمران
13 [١٤]کافروں کومسلمانوں کی تعداد دوگنا نظرآنا:۔ اس آیت میں روئے سخن سب قسم کے کافروں سے ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ نے بدر کے میدان جنگ کا نقشہ پیش فرمایا ہے۔ مسلمان تعداد میں تہائی سے بھی کم تھے۔ تین سو تیرہ اور یہ بعینہ وہی تعداد تھی جو طالوت کے لشکر کی تھی۔ جبکہ مشرکین مکہ کی تعداد ایک ہزار تھی۔ میدان جنگ میں اللہ تعالیٰ نے قلیل ہونے کے باوجود اپنے تابعداروں کو ہی فتح و نصرت عطا فرمائی۔ میدان بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو کچھ اس انداز سے کھڑا کیا تھا کہ وہ کافروں کو اپنی اصل تعداد سے دوگنے نظر آتے تھے اور یہ آپ کی ایک جنگی تدبیر تھی۔ اگرچہ مسلمان تعداد، اسلحہ، جنگ اور سامان خوراک ہر لحاظ سے کافروں کے مقابلہ میں کمزور تھے۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے اپنی تائید سے مسلمانوں کی مدد کرکے شاندار فتح عطا فرمائی اور مسلمانوں کو سب کفار کے مقابل ایک جیتی جاگتی قوت بنا دیا۔ جنگ بدر کا ابتدائی منظر اور عریش:۔ غزوہ بدر دراصل کفر اور اسلام کا ابتدائی معرکہ تھا۔ جہاں ایک طرف کفار کو اپنی کثرت تعداد، اسلحہ جنگ کی فراوانی اور اپنی جنگی مہارت پر ناز تھا تو دوسری طرف مسلمان صرف اللہ کی ذات پر تکیہ کیے ہوئے تھے۔ ایک طرف شراب و کباب کا دور چل رہا تھا اور رقص و سرور کی محفلیں برپا تھیں تو دوسری طرف مسلمان اللہ کے حضور دعاؤں اور نمازوں میں مصروف تھے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک الگ خیمہ لگایا ہوا تھا۔ جس میں رات بھر آپ گریہ و زاری کے ساتھ دعاؤں میں مصروف رہے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خیمہ میں تشریف لائے اور آپ کی حالت دیکھ کر کہا : اب بس کیجئے آپ نے دعا مانگنے میں انتہا کردی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کے بعد یہ فرمایا۔ ’’اے اللہ ! اگر تو نے اس مٹھی بھر جماعت کو آج ختم کردیا تو قیامت تک تیرا کوئی پرستار باقی نہ رہے گا۔‘‘ یہ دعائیں مانگ کو جب آپ خیمہ سے باہر نکلے تو آپ کے چہرے پر اطمینان کے آثار نمایاں تھے اور اللہ کی طرف سے آپ کو فتح کی بشارت مل چکی تھی۔ (بخاری، کتاب التفسیر، زیر آیت ﴿ سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ ﴾) میدان بدرمیں تائید الٰہی کی صورتیں:۔ میدان بدر ایک ریگ زار میدان تھا۔ مگر کافروں نے پہلے پہنچ کر ایک پکی زمین پر قبضہ جما لیا تھا اور مسلمانوں کے پڑاؤ کے لیے سوائے ریتلے میدان کے کچھ نہ تھا۔ اب اللہ کی تائید مسلمانوں کے یوں شامل حال ہوئی کہ ہوا چل پڑی۔ جس کا رخ کفار کے لشکر کی طرف تھا۔ ریت اڑ اڑ کر ان کی زبوں حالی کا باعث بن گئی۔ پھر اس کے بعد بارش ہوگئی، تو کفار کے پڑاؤ میں پھسلن بن گئی اور مسلمانوں کے پاؤں پھسلنے کے بجائے جمنے لگے۔ تیسری تائید الٰہی یہ تھی کہ اللہ نے مسلمانوں کے دلوں میں سکون و اطمینان نازل فرمایا اور پورے صبرو ثبات کے ساتھ کفار کے مقابلہ میں جم گئے اور چوتھی تائید یہ تھی کہ اللہ نے فرشتے بھیج کر مسلمانوں کو سہارا دیا۔ اس پے در پے تائید الٰہی کی وجہ سے مسلمانوں کو فتح عظیم حاصل ہوئی اور کفر کی کمر ٹوٹ گئی۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اللہ کی تائید صرف اصحاب بدر کے لیے مخصوص نہ تھی۔ اس سے پہلے بھی اللہ نے اپنے بندوں کی ایسی ہی تائید فرمائی اور بعد میں بھی کی اور آئندہ بھی کرتا رہے گا۔ شرط صرف یہ ہے کہ مسلمان خالصتاً اللہ کے عبادت گزار اور صرف اسی پر بھروسہ رکھنے والے ہوں۔ جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے۔ فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی آل عمران
14 [١٥] دنیا کےحصول میں بھی فکر آخرت ہی اصل کامیابی ہے:۔ اس آیت میں جن جن اشیاء کا نام لیا گیا ہے۔ ان کی محبت انسان کے دل میں فطری طور پر جاگزیں ہے اور انہی چیزوں سے انسان کی اس دنیا میں آزمائش ہوتی ہے اور انسانوں کی اکثریت اس امتحان میں فیل ہی ہوتی رہی ہے۔ ان چیزوں میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو بذات خود بری ہو۔ اور ان سے محبت کرنا بھی ایک فطری امر ہے اور فطری امر بھی بذات خود برا نہیں ہوتا۔ اگر ان چیزوں کی محبت انسان کے دل میں نہ ڈالی جاتی تو اس دنیا کی رنگینیاں، یہ لہلہاتے کھیت اور باغات اور تہذیب و تمدن کے نظارے کچھ بھی نظر نہ آتا۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نہ تو یہ چیزیں بذات خود بری ہیں اور نہ ہی ان سے محبت اور ان کا حصول بری چیز ہے۔ بری چیز یہ ہے کہ انسان ان چیزوں کی محبت اور حصول میں اس قدر غرق ہوجائے کہ اسے آخرت یاد ہی نہ رہے۔ البتہ جن لوگوں کے دلوں میں اللہ کا خوف اور فکر آخرت موجود ہوتی ہے۔ وہ انہیں چیزوں کو اسی طرح حاصل کرتے اور انہیں استعمال کرتے ہیں کہ انہیں انہی چیزوں سے دنیا کی راحت و سکون بھی نصیب ہوتا ہے اور آخرت میں بھی یہی چیزوں اس کی نجات کا ذریعہ بن جاتی ہیں اور اس طرح ہی انسان کو بہتر ٹھکانا میسر آسکتا ہے جو اللہ کے پاس ہے۔ آل عمران
15 [١٦] یعنی وہ لوگ جو مندرجہ بالا اشیاء کے حصول میں شریعت کی حدود و قیود اور حلال و حرام کی تمیز رکھیں ان کے حصول میں اس قدر مستغرق نہ ہوجائیں کہ اللہ کی یاد اور فکر آخرت کو بھول ہی جائیں اور جب ان چیزوں میں سے کوئی چیز یا سب چیزیں انہیں حاصل ہوجائیں تو ان میں اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی کریں اور انہیں اسی طرح خرچ کریں جس طرح اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے۔ [١٧]جنت میں پاکباز بیویوں کی زوجیت:۔ ازواج زوج کی جمع ہے اور زوج ذومعنی لفظ ہے۔ خاوند کے لیے اس کی بیوی اس کا زوج ہے اور بیوی کے لیے اس کا خاوند اس کا زوج ہے۔ یعنی اگر دنیا میں کسی نیک آدمی کی بیوی نہیں تھی تو اسے کوئی نیک بیوی ہی ملے گی اور بدسرشت بیوی جہنم میں ہوگی۔ اسی طرح اگر کسی نیک بیوی کا خاوند بدسرشت تھا تو اسے جنت میں نیک شوہر نصیب ہوگا، اور بدکار شوہر جہنم میں ہوگا اور اگر دونوں نیک بخت اور نیکو کار تھے تو انہیں جنت میں بھی رفاقت نصیب ہوگی۔ اس سلسلہ کے علاوہ بھی نیک لوگوں کو پاک بازبیویاں نصیب ہوں گی جیسا کہ قرآن اور حدیث کے بے شمار ارشادات سے یہ بات ثابت ہے۔ [١٨]اللہ کی دائمی رضامندی :۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جنتی لوگوں سے پوچھے گا۔ ’’کیا تم اب خوش ہو؟‘‘ وہ کہیں گے : پروردگار! بھلا اب بھی ہم خوش نہ ہوں گے جبکہ تو نے ہمیں وہ کچھ عطا فرما دیا جو اور کسی مخلوق کو نہیں دیا؟ اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائیں گے : ’’اب میں تمہیں وہ نعمت دیتا ہوں جو ان سب نعمتوں سے افضل ہے۔‘‘ وہ پوچھیں گے۔ ’’بھلا ان نعمتوں سے افضل اور کون سی نعمت ہوسکتی ہے؟‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ’’وہ نعمت میری رضا مندی ہے۔ اب میں اپنی رضا مندی تمہارے نصیب کرتا ہوں۔ اس کے بعد میں کبھی تم سے ناراض نہ ہوں گا۔‘‘ (بخاری، کتاب التوحید، باب کلام الرب مع اہل الجنۃ) [١٩] یعنی وہ بندے جو عذاب دوزخ سے نجات کی خاطر اللہ تعالیٰ کے احکام پابندی کے ساتھ بجا لاتے ہیں، زندگی کے ہر لمحہ حلال و حرام کی تمیز رکھتے ہیں اور پھر ساتھ ہی ساتھ اللہ سے دعا بھی کرتے رہتے ہیں کہ ہمارے گناہ معاف فرما دے اور دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔ آل عمران
16 آل عمران
17 [٢٠] پرہیزگاروں کی صفات :۔ اس آیت میں ایسے متقی لوگوں کی پانچ صفات کا ذکر کیا گیا ہے۔ پہلی صفت صبر ہے۔ صبر ایک جامع اصطلاح ہے جس کا اطلاق عموماً دو طرح سے ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ کسی مصیبت کے پیش آنے پر جزع و فزع سے پرہیز کیا جائے اور اسے اللہ کی رضا کی خاطر خوشدلی سے برداشت کیا جائے اور کوئی ایسی بات منہ سے نہ نکالی جائے یا ایسی حرکت نہ کی جائے جو اللہ کی رضا کے خلاف ہو۔ اور دوسرے یہ کہ دین کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات و مصائب کو خوشدلی سے برداشت کرتے ہوئے آگے ہی آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے جسے دوسرے لفظوں میں استقامت بھی کہتے ہیں اور یہ بھی صبر ہی کی قسم ہے۔ دوسری صفت صادق ہونا ہے۔ صادق کے لفظ کا اطلاق صرف اس شخص پر ہی نہیں ہوتا جو سچ بولنے کا عادی ہو بلکہ اس پر بھی ہوتا ہے جو اپنے تمام معاملات میں راست باز ہو۔ بدعہدیوں اور فریب کاریوں سے بچنے والا ہو۔ تیسری صفت شریعت کے اوامر و نواہی کے آگے سر تسلیم خم کرنا۔ چوتھی صفت اللہ کے عطا کردہ مال و دولت میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اور پانچویں صفت مذکورہ اعمال کو بجا لانے پر پھول جانے کی بجائے اللہ سے استغفار کرنا ہے جس کا بہترین وقت رات کا آخری حصہ ہوتا ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ میں وارد ہے کہ اللہ تعالیٰ رات کے آخری حصہ میں آسمان دنیا پر نزول اجلال فرماتا ہے اور فرماتا ہے :’’ کون مجھ سے دعا کرتا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں؟ کون مجھ سے مانگتا ہے کہ میں اسے عطا کروں؟ کون مجھ سے گناہوں کی معافی چاہتا ہے کہ میں اس کے گناہ بخش دوں؟‘‘ (بخاری، کتاب الدعوات، باب الدعاء نصف اللیل) آل عمران
18 [٢١] اللہ تعالیٰ کی گواہی تو اس لحاظ سے سب سے زیادہ معتبر ہے کہ وہ خود خالق کائنات ہے اور اسے ٹھیک ٹھیک علم ہے کہ اس کائنات کی تخلیق و تدبیر میں کوئی بھی اس کا شریک نہیں۔ دوسرے نمبر پر فرشتوں کی گواہی اس لحاظ سے معتبر ہے کہ وہ مدبرات امر ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق کائنات کی تدبیر و انتظام و انصرام انہیں کے سپرد ہے، اگر کائنات میں دوسرا الٰہ بھی ہوتا تو انہیں یقینا اس کا علم ہونا چاہئے تھا۔ تیسرے نمبر پر ان لوگوں کی گواہی معتبر ہے جو اہل علم ہوں۔ کائنات میں غور و فکر کرنے والے ہوں اور ایسے تمام لوگوں کی گواہی بھی یہی ہے کہ اس کائنات میں اللہ کے سوا کوئی دوسرا الٰہ یا اس کا شریک نہیں ہے اور اگر ایسا ہوتا تو کائنات کا نظام مدتوں پیشتر تباہ و برباد ہوچکا ہوتا یا سرے سے ایسا منظم و مربوط نظام وجود میں ہی نہ آسکتا، اور جو کچھ وہ کر رہا ہے عین عدل و انصاف کے مطابق کر رہا ہے۔ آل عمران
19 [٢٢] دین کیاہے؟دین سے مراد ایسا نظام زندگی یا ضابطہ حیات ہے جسے انسان اس دنیا کے لیے یا دنیا و آخرت دونوں کے لیے بہتر سمجھ کر اختیار کرتا ہے۔ اس لحاظ سے یہودیت، نصرانیت، دہریت، بدھ مت، سکھ، اسلام، کمیونزم، سوشلزم، جمہوریت وغیرہ سب کے سب دین ہیں۔ لیکن اللہ کے ہاں ان میں سے قابل قبول دین صرف اور صرف اسلام ہے۔ اسلام کا معنی ہے اللہ کے احکام و ارشادات کے سامنے سرتسلیم خم کردینا اور برضا و رغبت اللہ کا مطیع و منقاد بن جانا ہے اور صرف اسلام ہی ایسا دین ہے جو دنیوی فلاح اور اخروی نجات کا ضامن ہے۔ دنیا میں جتنے بھی انبیاء و رسل مبعوث ہوئے وہ سب دین اسلام ہی کی دعوت دیتے رہے وہ یہی کہتے رہے کہ اللہ کے مطیع و فرمانبردار بندے بن جاؤ۔ اس لحاظ سے ان تمام انبیاء کے پیرو کار مسلم یا مسلمان ہی تھے۔ جنہوں نے بعد میں اپنے لیے الگ الگ نام تجویز کئے، جیسا کہ آج کل مسلمانوں کے بہت سے فرقوں نے بھی اپنے لیے الگ الگ نام تجویز کرلیے ہیں یا بعض مخصوص عقائد و نظریات کی بنا پر دوسروں نے ان کے نام رکھ دیئے ہیں۔ [٢٣] اختلاف سے مراد اہل کتاب کا باہمی اختلاف بھی ہوسکتا ہے اور دوسروں سے بھی۔ مثلاً یہود کے فرقوں کا باہمی اختلاف، عیسائیوں کے فرقوں کا باہمی اختلاف اور مسلمانوں کے فرقوں کا باہمی اختلاف اور دوسرے یہ کہ یہود کا عیسائیوں اور مسلمانوں سے، عیسائیوں کا یہود اور مسلمانوں سے اختلاف۔ [٢٤]فرقہ پرستی کی وجوہ :۔ اس جملہ میں اللہ تعالیٰ نے اختلاف کی اصل وجہ بیان فرما دی اور یہی وجہ قرآن کریم میں اور بھی تین مقامات پر بیان کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ اختلاف کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ حق انہیں نظر نہیں آتا بلکہ اس کی اصل وجہ اپنی اپنی سرداریاں اور چودھراہٹیں قائم کرنا اور اپنا جھنڈا سربلند رکھنے کی فکر، اسباب مال و جاہ کا حصول ہوتا ہے اور اس معاملہ میں آپ جتنا بھی غور کریں گے فرقہ بندیوں کی بنیاد میں آپ کو ذاتی اغراض و مفادات ہی نظر آئیں گے۔ حب جاہ ومال اورذاتی مفادات :۔مثلاً تورات اور انجیل دونوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبعوث ہونے کا ذکر موجود ہے اور ان کی نشانیاں بھی بیان کردی گئی ہیں اور اہل کتاب کو یہ بھی پوری طرح یقین ہوچکا ہے کہ کتاب میں مذکورہ نشانیوں کے مطابق وہی نبی آخرالزمان اور نبی برحق ہے۔ اب اس نبی کے انکار کی وجہ محض ان کی اپنی سرداریاں ختم ہونا یا بعض دوسرے دنیوی مفادات کا ضائع ہونا تھا۔ ان باتوں کے علاوہ انکار کی کوئی دوسری وجہ نہ تھی۔ لہٰذا اللہ ایسے لوگوں کا جلد ہی حساب چکا دیتا ہے اور اس آیت کا اطلاق مسلمانوں پر بھی بالکل اسی طرح ہوتا ہے جیسے اہل کتاب پر ہوا ہے۔ آل عمران
20 آل عمران
21 [٢٥] یہود اورقتل انبیاء :۔ انبیاء اور صالحین کے قتل ناحق کا کام دور نبوی کے یہود نے نہیں کیا تھا بلکہ ان کے اسلاف نے کیا تھا اور یہ واقعات اتنے مشہور و معروف تھے کہ کسی کو مجال انکار نہ تھی۔ پھر چونکہ دور نبوی کے یہودی اپنے اسلاف کے ایسے کارناموں پر راضی اور خوش تھے۔ لہٰذا قرآن نے بجا طور پر انہیں مخاطب کیا ہے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل نے تینتالیس (٤٣) پیغمبروں کو ایک ہی دن صبح کے وقت قتل کیا یہ کام بنی اسرائیل کے علماء اپنی حکومت کے ساتھ ملی بھگت کے ذریعہ سرانجام دیا کرتے تھے۔ جیسا کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حکومت کے ذریعہ سولی پر چڑھانے کی مذموم کوشش کی تھی۔ جب یہ لوگ اتنے انبیاء کو قتل کرچکے تو ان کے متبعین اور اللہ سے ڈرنے والوں نے ان کے ایسے مذموم کارنامہ پر زبردست احتجاج کیا تو انہوں نے ان صالحین میں سے ایک سو ستر سر کردہ آدمیوں کو اسی شام قتل کردیا، اور یہ وہ لوگ تھے جو ان کو ایسی بری حرکتوں سے روکتے اور انصاف کرنے کا حکم دیا کرتے تھے اور ان انبیاء کے قتل کرنے کا اصل سبب وہی تھا جو قرآن نے واضح الفاظ میں بتلا دیا ہے کہ انبیاء کی اطاعت کرنے سے ان کا اپنا جاہ و اقتدار خطرہ میں پڑجاتا تھا۔ لہٰذا انہوں نے اپنی سرداریاں اور چودھراہٹیں بحال رکھنے کی خاطر انبیاء اور صالحین کو قتل کردینے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ انبیاء کا قتل بہت بڑے کبیرہ گناہوں سے ہے۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب کس کو ہوگا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے کسی پیغمبر کو قتل کیا یا اچھی بات کہنے والے اور بری بات سے منع کرنے والے کو۔‘‘ نیز حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ نے ہمیں بہت سی احادیث سنائیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ اس قوم پر اللہ کا غضب بھڑک اٹھتا ہے جو اللہ کے رسول کو قتل کریں۔ (مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب اشتداد غضب اللہ من قتلہ رسول اللہ) [٢٦] یہود کے لیے خوشخبری کے لفظ کا استعمال تو بطور طنز ہے اور جو دردناک عذاب انہیں اس دنیا میں ملا اس کا اجمالاً ذکر ہم پہلے کرچکے ہیں۔ یہی قوم مغضوب علیہم قرار دی گئی اور ذلت و مسکنت ان کے مقدر کردی گئی۔ الا یہ کہ وہ دوسرے لوگوں کی پناہ میں آجائیں۔ رہا عذاب اخروی تو اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے بتلادیا کہ ایسے ہی لوگ سب سے زیادہ سخت عذاب کے مستحق ہوں گے۔ آل عمران
22 آل عمران
23 [٢٧]علماء یہود کاکتاب اللہ کےمطابق فیصلہ کرنے سے گریز کرنا:۔ اس آیت میں ﴿ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتٰبِ﴾ سے مراد یہود کے وہ علماء ہیں جو تورات کا کچھ نہ کچھ علم رکھتے تھے۔ لیکن علم کے باوجود کتاب اللہ کے احکام میں تحریف ان کی عادت ثانیہ بن چکی تھی۔ تورات میں شادی شدہ زانی مرد اور عورت کے لیے واضح طور پر رجم کا حکم موجود تھا۔ پہلے تو ان علماء نے یہ کام کیا کہ جب کوئی شریف اور مالدار یا معزز آدمی زنا کا مرتکب ہوتا تو مختلف شرعی حیلوں سے اس کی سزا کو ساقط کردیتے اور کمزور آدمیوں پر حد جاری کرتے۔ بعد میں انہوں نے سب طرح کے لوگوں کے لیے ایک درمیانی راہ نکالی اور طے یہ کیا کہ زانی کی سزا ہی ایسی ہی مقرر کی جائے جو سب کے لیے یکساں ہو اور وہ سزا یہ تھی کہ زانی مرد ہو یا عورت، چھوٹا ہو یا بڑا، اس کا منہ کالا کرکے گدھے پر سوار کرکے اسے بستی کے گرد پھرایا جائے۔ ایک دفعہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ واقعہ ہوا کہ ایک مالدار یہودی نے ایک یہودن سے زنا کیا۔ یہ دونوں شادی شدہ تھے۔ ان کا مقدمہ عدالت نبوی میں پیش ہوا۔ ان کی غرض یہ تھی کہ شاید اس طرح یہ زانی رجم سے بچ جائیں گے۔ آپ نے یہود کے علماء سے پوچھا : تم اللہ کی کتاب میں ایسے لوگوں کے لیے کیا سزا پاتے ہو؟ وہ فوراً کہنے لگے کہ ہم تو ان کا منہ کالا کرکے انہیں گدھے پر سوار کرکے پھراتے ہیں۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے (جو یہود کے علماء میں سے تھے اور اسلام لاچکے تھے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا یہ لوگ جھوٹ کہتے ہیں۔ انہیں کہئے کہ اللہ کی کتاب لاؤ۔ چنانچہ تورات لائی گئی۔ پڑھنے والے نے رجم کی آیت پر ہاتھ رکھ کر اسے چھپا دیا اور آگے پیچھے سے پڑھنے لگا۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے کہنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے ہاتھ اٹھانے کو کہا تو نیچے رجم کی آیت تھی۔ اس طرح جب ان علماء کی چوری پکڑی گئی تو از راہ ندامت وہاں سے اٹھ کر چلتے بنے۔ اس آیت میں ایسے ہی یہودی علماء کا کردار بیان ہوا ہے۔ اب مقدمہ کا فیصلہ ابھی باقی تھا۔ چنانچہ آپ نے اس یہودی اور یہودن کو سنگسار کروا دیا۔ یہ واقعہ متعدد صحیح احادیث میں مذکور ہے۔ آل عمران
24 [٢٨] یہود کانجات اخروی کےلیےصرف خواہشات پر انحصار اور سستی جنات کےعقیدے :۔اس آیت میں یہود کے کتاب اللہ میں تحریف اور دوسرے بہت سے کبیرہ گناہوں پر دلیر ہونے کی وجہ بیان کی گئی ہے ان کے اسلاف نے اپنی طرف سے ایک عقیدہ گھڑا اور اسے اپنی ساری قوم میں پھیلا دیا۔ وہ عقیدہ یہ تھا کہ یہود جہنم میں نہیں جائیں گے۔ دوزخ کی آگ ان پر حرام کردی گئی ہے وہ اگر دوزخ میں گئے بھی تو صرف اتنے ہی دن دوزخ میں رہیں گے جتنے دن انہوں نے بچھڑے کی پرستش کی تھی۔ دوسری بات جو ان میں بطور عقیدہ رواج پا گئی تھی وہ یہ تھی کہ وہ کہتے تھے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور چہیتے ہیں کیونکہ ہم انبیاء کی اولاد ہیں اور اللہ تعالیٰ یعقوب علیہ السلام سے وعدہ کرچکا ہے کہ ان کی اولاد کو سزا نہ دے گا مگر یونہی برائے نام قسم کھانے کو، اسی طرح نصاریٰ نے کفارہ مسیح کا مسئلہ وضع کر رکھا ہے۔ جس کی رو سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی امت کے گناہوں کے کفارہ کے طور پر سولی پر چڑھے اور اپنی امت کے گناہوں اور معصیت کا سارا حساب بیباق کردیا۔ پھر مسلمان بھی اس سلسلہ میں پیچھے نہیں رہے ان میں کچھ سید ہیں یا سید بنے ہوئے ہیں جنہوں نے اپنے متعلق یہ مشہور کر رکھا ہے کہ ان کی پشت پاک ہے۔ لہٰذا انہیں آگ کا عذاب نہ ہوگا۔ کچھ لوگوں نے دنیا میں ہی بہشتی دروازے بنا رکھے ہیں کہ جو کوئی ان کے نیچے سے گزر گیا وہ ضرور بہشت میں جائے گا اور کچھ لوگ اپنے مشائخ اور پیروں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہیں خواہ وہ زندہ ہوں یا فوت ہوچکے ہوں، وہ ان کی شفاعت کرکے انہیں اللہ کی گرفت سے بچا لیں گے وغیرہ وغیرہ ( اللھم انا نعوذ بک من شرور انفسنا) آل عمران
25 [٢٩]قانون جزاوسزا:۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بہت سے مقامات پر اپنے قانون جزاء و سزا کی وضاحت فرما دی ہے۔ جن کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر انسان کو وہی کچھ ملے گا جو اس نے خود کمایا ہو، آباؤ اجداد کی نیکی یا بندگی کسی کے کچھ بھی کام نہ آسکے گی۔ نیز اتنا ہی ملے گا جتنا اس نے عمل کیا ہے، نہ کم نہ زیادہ، کمی تو کسی صورت نہ ہوگی اور اللہ اگر چاہے تو عمل کا زیادہ بدلہ بھی دے سکتا ہے۔ نیز اللہ کے حضور کرے کوئی اور بھرے کوئی والا سلسلہ بھی نہیں چل سکتا۔ کوئی شخص کسی دوسرے کے گناہوں کا بار اٹھانے کو تیار نہ ہوگا خواہ وہ اس کا کتنا ہی قریبی رشتہ دار کیوں نہ ہو۔ البتہ جو شخص کوئی ایسا نیکی کا کام جاری کر جائے جو اس کی موت کے بعد جاری رہے تو اس کا ثواب اس کی موت کے بعد بھی بطور حصہ رسدی اسے ملتا رہے گا۔ اسی طرح اگر کسی نے کوئی برائی کا کام جاری کیا تو بطور حصہ رسدی اس کا گناہ بھی اس کے کھاتہ میں جمع ہوتا رہے گا۔ (مسلم، کتاب العلم باب من سن سنہ حسنة أو سیئة .....الخ) آل عمران
26 [٣٠] یہود کی مسلمانوں پر ایک طنز کاجواب:۔ اس آیت میں اگرچہ خطاب عام ہے، جس میں اہل کتاب، مشرکین عرب اور مسلمان سب شامل ہیں۔ تاہم ربط موضوع کے لحاظ سے بالخصوص یہ خطاب یہود اور کفار سے ہے جو جنگ خندق کے موقعہ پر یوں کہہ رہے تھے کہ ان مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ اپنے بچاؤ کی خاطر خندق کھود رہے ہیں، نہ کچھ کھانے کو پاس موجود ہے اور نہ ہی کوئی اسلحہ جنگ ہے لیکن قیصر و کسریٰ کو فتح کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں، یہ دیوانگی نہیں تو اور کیا ہے؟ یہود اور کفار کی اسی پھبتی کا جواب اس جامع قسم کی دعا میں دیا گیا ہے کہ عزت و ذلت اور اقتدار وغیرہ سب کچھ اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے۔ اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ آج جو حاکم ہیں کل محکوم بن جائیں اور جو شہنشاہ ہیں وہ گدا بن جائیں جو کمزور ہیں وہ طاقتور بن جائیں۔ بھلا جو ہستی مردہ کو زندہ سے اور زندہ کو مردہ سے نکال سکتی ہے وہ مقتدر سے محتاج اور محتاج سے مقتدر کیوں نہیں بنا سکتی؟ آل عمران
27 آل عمران
28 [٣١] کافروں سے دوستی میں استثناء کی صورتیں :۔ اس آیت میں مومنوں کو انفرادی اور اجتماعی دونوں لحاظ سے خطاب ہے۔ یعنی کوئی مومن کسی کافر کو دوست نہ بنائے۔ مومنوں کی جماعت کافروں کی جماعت کو دوست نہ بنائے اور نہ ہی مومنوں کی حکومت کافروں کی حکومت کو اپنا دوست بنائے۔ وجہ یہ ہے کہ کافر کبھی مومن کا خیر خواہ نہیں ہوسکتا۔ جب بھی اسے موقع ملے گا وہ نقصان ہی پہنچائے گا۔ اس سے خیر کی توقع نہیں اور اس میں استثناء یہ ہے کہ اگر تمہیں محض بے تعلق رہنے کی وجہ سے کسی کافر سے کچھ خطرہ ہو تو ظاہرداری اور مدارات کے طور پر اس سے دوستی رکھنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ اب اس میں بے شمار باتیں ایسی آجاتی ہیں جو محض مومن کی صوابدید پر چھوڑ دی گئی ہیں۔ مثلاً یہ خطرہ جان، مال اور آبرو کے ضائع ہونے کا ہے یا کسی اور بات کا ؟ اور آیا یہ خطرہ فی الواقع موجود ہے یا موہوم ہے؟ نیز یہ کہ اس خطرہ کا اثر محض اس کی ذات تک محدود ہے یا یہ بات دوسرے مسلمانوں کے لیے بھی فتنہ کا سبب بن سکتی ہے؟ یا اگر وہ کافروں سے دوستی رکھ کر اپنے آپ کو محفوظ کرلیتا ہے تو اس کا نقصان دوسرے مسلمانوں کو تو نہ پہنچے گا ؟ وغیرہ وغیرہ۔ اب دیکھئے کہ ان تمام سوالوں کے جوابات مختلف ہیں۔ مثلاً پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر فی الواقعہ جان، مال اور آبرو خطرہ میں ہے تو اس اجازت سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ موہوم خطرات کا اعتبار نہیں کرنا چاہئے اور اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر کافر سے ظاہرداری اور بچاؤ کی تدبیر نہ کی جائے اور اس کا نقصان مسلمانوں کو پہنچتا ہو تو ضرور بچاؤ اور تحفظ کی راہ نکالی جائے اور چوتھے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر اس کی دوستی سے وہ خود تو محفوظ ہو، مگر دوسرے مسلمانوں کو نقصان پہنچ رہا ہو تو ہرگز ایسا نہ کرنا چاہئے۔ ایسے موقعوں پر ان سوالوں کے علاوہ اور بھی کئی طرح کے سوال پیدا ہوسکتے ہیں۔ مثلاً جس خطرہ کو وہ حقیقی سمجھ رہا ہے وہ محض ایک فریب ہو۔ وغیرہ۔ ان سوالوں کا جواب نہایت ایمانداری اور دینداری سے دل میں سوچ لینا چاہئے پھر اس کے مطابق عمل کرنا چاہئے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس اجازت کے بعد فرما دیا ﴿وَیُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ﴾ گویا ایسی باتوں کا جواب اس اللہ سے ڈر کر تمہیں سوچنا چاہئے جس کے ہاں تمہیں لوٹ کر جانا ہے اور وہ تمہارے دلوں کے حالات اور خیالات تک کو بھی خوب جانتا ہے اور اس بات پر بھی قادر ہے کہ اگر تم کافر سے ڈرو نہیں بلکہ اللہ کے ہی ڈر کو مقدم رکھو تو تمہیں انکے فتنہ و شر سے بچانے کی پوری قدرت رکھتا ہے اور کئی دوسری راہیں بھی پیدا کرسکتا ہے۔ آل عمران
29 [٣١۔ ١] یہ آیت دراصل پچھلی آیت ہی کی تفسیر ہے۔ یعنی اے مسلمانو! اگر تم کفر کی محبت کو دل میں جگہ دو گے یا کافروں سے محبت کا برتاؤ رکھو گے تو تمہارے یہ باطنی اور ظاہری اعمال اللہ کی نظروں سے پوشیدہ نہیں رہ سکتے۔ لہٰذا تم اللہ کی دی ہوئی رعایت سے اسی قدر فائدہ اٹھاؤ جس کے بغیر کوئی چارہ کار نظر نہ آرہا ہو۔ ورنہ یاد رکھو کہ اللہ بڑی قدرت والا ہے۔ وہ تمہیں دنیا میں بھی سزا دے سکتا ہے اور ذلیل و رسوا کرسکتا ہے اور آخرت کے عذاب سے بھی بچ نہ سکو گے۔ آل عمران
30 [٣٢] نیکی کرنے کی نسبت برے کاموں سے بچنا زیادہ ضروری ہے:۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ابتداء ایک نیکو کار اور ایک بدکردار کا ذکر فرمایا۔ بعد میں صرف بدکردار کی تمنا کا ذکر کیا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ قیامت کے دن کی سختیوں اور دوزخ کے عذاب سے بچ جانا ہی اصل کامیابی ہے اور جنت میں داخلہ تو اللہ کا فضل اور انعام ہے جتنا وہ چاہے کسی پر کردے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’میں جس کام سے تمہیں روکوں اس سے رک جاؤ اور جس بات کا حکم دوں اس کو اپنی حسب استطاعت بجا لاؤ‘‘ (تفسیر آیت : فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ) یعنی جب آپ نے برے کام کا ذکر کیا تو یہ نہیں فرمایا کہ جہاں تک ہوسکے برے کاموں سے بچو بلکہ فرمایا ان سے پوری طرح رک جاؤ اور جب نیک کام کا ذکر کیا تو فرمایا جہاں تک تم سے ہوسکے بجا لاؤ۔ اب ایک دوسرے پہلو سے غور فرمائیے جو یہ ہے کہ نیک اعمال بجا لانے کی نسبت برے کاموں کو چھوڑ دینا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اسی لیے کتاب و سنت میں نیک اعمال بجا لانے کی نسبت برے کاموں کو چھوڑنے کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ بعد میں دوبارہ فرمایا : ﴿ وَیُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ﴾ پھر بعد میں فرمایا ﴿وَاللّٰہُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ ﴾ گویا اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کو برے انجام سے آگاہ کردینا ہی اس کے بندوں پر ترس کھانے کی بہت بڑی دلیل ہے۔ آل عمران
31 [٣٣]اتباع سنت کی اہمیت اور بدعت کارد:۔ اس آیت کے مخاطب صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ اہل کتاب، کفار و مشرکین اور عامۃ الناس ہیں کیونکہ تقریباً سب کے سب اللہ کی محبت کا دعویٰ کرتے اور اس کا دم بھرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرما دی کہ اگر تم اپنے دعویٰ میں سچے ہو تو پھر اس کی صورت صرف یہی ہے کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرنے لگ جاؤ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ چہ جائیکہ تم اللہ سے محبت رکھو۔ اللہ تعالیٰ خود تم سے محبت کرنے لگے گا۔ نیز اس آیت میں مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ جس خوبصورت انداز سے اس آیت میں اتباع سنت پر زور دیا گیا ہے۔ شاید اس سے زیادہ ممکن بھی نہ تھا۔ اتباع کے مفہوم میں اطاعت کی نسبت بہت زیادہ وسعت ہے۔ اطاعت صرف اوامر و نواہی میں ہوتی ہے۔ جبکہ اتباع یہ ہے کہ جیسے تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کرتے دیکھو ویسے ہی تم بھی کرنے لگ جاؤ جس بات کو وہ پسند کریں اسے تم بھی پسند کرو اور جس بات سے نفرت کریں اس سے تم بھی نفرت کرو۔ کیونکہ وہ تمہارے لیے اسوہ حسنہ ہیں اور تیسرا سبق اس آیت سے یہ ملتا ہے کہ مسلمانوں کو بدعات سے مکمل طور پر اجتناب کرنا چاہئے، کیونکہ بدعت سنت کی عین ضد ہے اور بدعت کی عام فہم تعریف یہ ہے کہ وہ ایسا نیا کام دین میں شامل کرنا جس کا اس سے کوئی تعلق نہ ہو نیز وہ کام آپ کے بعد دین کا حصہ اور ثواب سمجھ کر بجا لایا جائے وہ مردود ہے اور بدعات کو رواج دینے والا شخص تو شدید مجرم ہے کیونکہ اس کی موت کے بعد بھی اس بدعت پر عمل کرنے والے لوگوں کے گناہ کا حصہ رسدی اس کے نامہ اعمال میں جمع ہوتا رہتا ہے اور وہ شدید مجرم اس لحاظ سے بھی ہے کہ وہ اپنے آپ کو شارع کے مقام پر سمجھتا ہے اور اپنے وضع کردہ نئے کام کو دین کا حصہ بنا کر دین کو مکمل کرنا چاہتا ہے۔ حالانکہ دین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ہی مکمل ہوچکا تھا۔ آل عمران
32 [٣٤] سنت کےمنکر کافرہیں:۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو لوگ اللہ کی محبت کا دم بھرتے ہیں مگر اس کے رسول کی اطاعت نہیں کرتے وہ سب کافر ہیں۔ اس آیت کے مخاطب اہل کتاب اور کفار و مشرکین ہی نہیں بلکہ مسلمان بھی ہیں کیونکہ مسلمانوں میں بھی ایک فرقہ ایسا پیدا ہوچکا ہے جو صرف قرآن ہی کو ہدایت کے لیے کافی سمجھتا ہے۔ رہا قرآن پر عمل کرکے دکھانے کا وہ طریقہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کو دکھلایا تھا۔ یہ لوگ اس سے مستغنی ہیں۔ ان کا دعویٰ یہ ہے کہ قرآن پر ہر دور کے تقاضوں کے مطابق عمل کیا جانا چاہئے اور کیا جاسکتا ہے۔ یہ لوگ بھی اس آیت کی رو سے کافر ہیں۔ خواہ وہ خود کو مسلمان کہلوانے پر کتنے ہی مصر ہوں۔ اسی طرح جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کے ساتھ کسی نئے نبی کی اطاعت بھی ضروری سمجھتے ہیں وہ بھی کافر ہیں خواہ وہ خود کو مسلمان کہلوانے پر کتنے ہی مصر ہوں، کیونکہ آپ خاتم النبیین ہیں۔ آل عمران
33 [٣٥] ضابطہ نبوت:۔ اس آیت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی امت نصاریٰ کا ذکر ہو رہا ہے۔ اس آیت میں یہ بتلایا جارہا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام انسان ہی تھے اور آدم ہی کی اولاد سے تھے۔ کوئی مافوق البشر ہستی نہیں تھے۔ پھر بعد میں یہ بتلایا گیا ہے کہ ان کی پیدائش کن حالات میں ہوئی اور کیسے ہوئی۔ بعدہ ان کی زندگی کے مختصر سے حالات اور پھر عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا اپنے ہاں اٹھا لینے کا ذکر ہے اور ساتھ ہی عیسائیوں کے عقائد باطلہ کی تردید بھی پیش کی جارہی ہے، جس وقت اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا تو اس وقت کی موجودہ کائنات (آسمان و زمین، شمس و قمر، ستارے، جن اور فرشتے وغیرہ) میں فرشتے ہی تمام مخلوق سے افضل تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کروایا اور حضرت آدم علیہ السلام کو تمام جہان والوں پر فضیلت بخشی، پھر انہیں نبوت سے سرفراز فرمایا۔ پھر ان ہی کی اولاد میں نبی پیدا ہوتے رہے۔ پھر حضرت نوح علیہ السلام کے بعد سلسلہ نبوت حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد سے مختص ہوگیا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام تک چلتا رہا۔ پھر یہ سلسلہ نبوت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے مختص ہوگیا۔ حتیٰ کہ نبی آخرالزمان بھی انہی کی اولاد سے تھے اور آل عمران کا ذکر بالخصوص اس لیے کیا کہ نسب تو مرد کی طرف سے چلتا ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام بن باپ پیدا ہوئے تھے۔ البتہ ان کی والدہ حضرت مریم علیہا السلام عمران ہی کے خاندان سے تھیں اور اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو منسوب بھی ان کی والدہ مریم ہی کی طرف کیا ہے۔ یہ عمران حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کے والد کا نام ہے۔ انہی کی اولاد سے حضرت مریم علیہا السلام تھیں اور اس سورت کا نام آل عمران بھی اسی نسبت سے ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام کے والد کا نام بھی عمران ہو، جیسا کہ آیت کے الفاظ ﴿قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ ﴾ سے ہوتا ہے۔ آل عمران
34 [٣٦]عقیدہ الوہیت مسیح کا رد:۔ گویا سب انبیاء آدم، پھر نوح، پھر ابراہیم علیہم السلام کی اولاد میں تھے اور چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور پھر آل عمران سے تھے۔ لہٰذا وہ بھی انسان تھے۔ اللہ یا اللہ کے بیٹے نہیں تھے۔ اور سب انبیاء کو مذکورہ بالا تین انبیا کی اولاد سے مبعوث فرمانا ہی اللہ کی حکمت کا مقتضیٰ تھا اس کے باوجود جو لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ یا اس کا بیٹا قرار دیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی باتوں کو خوب سن رہا ہے۔ ان دو آیات میں مسیحی عقائد کے رد کی تمہید بیان ہوئی ہے آگے تفصیلی ذکر آرہا ہے۔ آل عمران
35 آل عمران
36 [٣٧]سیدہ مریم نے کیانذرمانی تھی؟ حضرت مریم کی والدہ نے جو منت مانی تھی وہ اس توقع سے مانی تھی کہ ان کے ہاں لڑکا پیدا ہوگا۔ کیونکہ اس عہد میں لڑکے تو اللہ کی عبادت کے لیے وقف کئے جاتے تھے۔ مگر لڑکیوں کو وقف کرنے کا رواج نہ تھا۔ مگر ہوا یہ کہ لڑکے کی بجائے لڑکی پیدا ہوئی تو انہیں اس بات پر افسوس ہونا ایک فطری امر تھا۔ اس آیت میں محرر کا لفظ آیا ہے۔ جس کا لغوی معنی ’آزاد کردہ‘ ہے یعنی ایسا بچہ جسے والدین نے تمام ذمہ داریوں سے سبکدوش کردیا ہو تاکہ وہ یکسو ہو کر اللہ کی عبادت کرسکے۔ یہود میں دستور تھا کہ وہ اس طرح کے منت مانے ہوئے وقف شدہ بچوں کو بیت المقدس یا ہیکل سلیمانی میں چھوڑ جاتے اور انہیں ہیکل سلیمانی یا عبادت خانہ کے منتظمین جنہیں وہ اپنی زبان میں کاہن کہتے تھے، کے سپرد کر آتے تھے۔ [٣٨] یہ بطور جملہ معترضہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم کو یہ کہہ کر تسلی دی ہے کہ یہ لڑکی لڑکے سے بدرجہا افضل ہے۔ حتیٰ کہ کوئی بھی لڑکا اس لڑکی کے جوڑ کا نہیں۔ لہٰذا افسوس کرنے کی کوئی بات نہیں۔ [٣٩] حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جو بچہ پیدا ہوتا ہے اس کی پیدائش کے وقت شیطان اسے چھوتا ہے تو وہ چلا کر رونے لگتا ہے۔ صرف مریم اور اس کے بیٹے (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) کو شیطان نے نہیں چھوا۔‘‘ (بخاری، کتاب التفسیر، زیر آیت مذکورہ) اس حدیث سے حضرت مریم علیہا السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام دونوں کی فضیلت ثابت ہوئی۔ نیز یہ کہ حضرت مریم علیہا السلام کی دعا کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرما لیا۔ آل عمران
37 [٤٠] حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ کی منت کو اللہ تعالیٰ نے شرف قبولیت بخشا اور حضرت مریم کی جسمانی اور روحانی تربیت خوب اچھی طرح فرمائی۔ جب وہ سن شعور کو پہنچ گئیں اور مسجد (عبادت خانہ) میں جانے کے قابل ہوگئیں تو سوال یہ پیدا ہوا کہ ان کا کفیل اور نگران کون ہو؟ کیونکہ ہیکل سلیمانی میں بہت سے کاہن تھے جن میں ایک حضرت زکریا علیہ السلام بھی تھے۔ بالآخر یہ سعادت حضرت زکریا علیہ السلام کے حصہ میں آئی۔ کیونکہ ان کی بیوی حضرت مریم علیہا السلام کی حقیقی خالہ تھیں اور یہ قصہ تفصیل سے آگے بیان ہو رہا ہے۔ [٤١]سیدہ مریم اور اللہ کا رزق:۔ محراب سے مراد وہ جگہ نہیں جو مساجد میں امام کے کھڑے ہونے کے لیے بنائی جاتی ہے، بلکہ محراب ان بالا خانوں کو کہا جاتا تھا جو مسجد کے خادم، مجاورین اور ایسے ہی اللہ کی عبادت کے لیے وقف شدہ لوگوں کے لیے مسجد کے متصل بنائے جاتے تھے۔ انہیں کمروں میں ایک کمرہ حضرت مریم علیہا السلام کو دیا گیا تھا۔ جس میں وہ مصروف عبادت رہا کرتیں۔ اس کمرہ میں حضرت زکریا علیہ السلام کے علاوہ سب کا داخلہ ممنوع تھا۔ حضرت مریم علیہا السلام کے لیے سامان خورد و نوش بھی حضرت زکریا علیہ السلام ہی وہاں پہنچایا کرتے تھے۔ پھر بارہا ایسا بھی ہوا کہ حضرت زکریا علیہ السلام خوراک دینے کے لیے اس کمرہ میں داخل ہوئے تو حضرت مریم علیہا السلام کے پاس پہلے ہی سے سامان خورد و نوش پڑا دیکھا۔ وہ اس بات پر حیران تھے کہ جب میرے بغیر یہاں کوئی داخل نہیں ہوسکتا تو یہ کھانا اسے کون دے جاتا ہے؟ حضرت مریم علیہا السلام سے پوچھا تو انہوں نے بلاتکلف کہہ دیا۔ اللہ کے ہاں سے ہی مجھے یہ رزق مل جاتا ہے۔ اس سے زیادہ میں کچھ نہیں جانتی۔ واضح رہے کہ یہ آیت خرق عادت امور پر واضح دلیل ہے۔ انبیاء کے ہاں معجزات اور اولیاء اللہ کے ہاں کرامات کا صدور ہوتا ہی رہتا ہے اور یہ سب کچھ اللہ ہی کی مشیت و قدرت سے ہوتا ہے۔ اور حضرت زکریا علیہ السلام کے لیے حیرت و استعجاب کی باتیں دو تھیں۔ ایک یہ کہ آپ جو سامان خورد و نوش حضرت مریم علیہا السلام کے پاس پڑا دیکھتے وہ عموماً بے موسم پھلوں پر مشتمل ہوتا تھا اور دوسرے یہ کہ جب میرے سوا اس کمرہ میں کوئی داخل ہو ہی نہیں سکتا تو یہ پھل اور دوسرا سامان خورد و نوش حضرت مریم علیہا السلام کو دے کون جاتا ہے؟ سرسیداحمدخاں کا نظریہ معجزات:۔ اب جو لوگ خرق عادت امور یا معجزات کے منکر ہیں، انہیں یہاں بھی مشکل پیش آگئی اور ہمارے زمانے کے ایک مفسر قرآن سرسید تو بڑی آسانی سے ایسی مشکل سے چھٹکارا حاصل کرلیتے ہیں اور اس طرح کے واقعات کو بلا تکلف خواب کا واقعہ کہہ دیتے ہیں۔ حضرت عزیر علیہ السلام کے واقعہ میں بھی انہوں نے یہی کچھ کیا تھا اور یہاں بھی یہی کچھ کیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر یہ خواب ہی واقعہ تھا تو حضرت زکریا علیہ السلام کو حیرانی کس بات پر ہوئی تھی جو اس سوال کا موجب بنی کہ ﴿یٰمَرْیَمُ اَنّٰی لَکِ ھٰذَا﴾ مریم! یہ تجھے کہاں سے یا کیسے مل گیا ؟ اور یہ بھی ملاحظہ فرمائیے کہ ایسے مفسر، مفسر قرآن ہوتے ہیں یا محرف قرآن؟ آل عمران
38 [٤٢] حضرت زکریا علیہ السلام بے اولاد تھے، خود بوڑھے ضعیف اور بیوی بانجھ تھی۔ اولاد کی کوئی توقع نہ تھی۔ کیونکہ ظاہری اسباب منقطع تھے۔ مگر اولاد کی خواہش ضرور تھی۔ حضرت مریم علیہا السلام کا یہ جواب سن کر فوراً خیال آیا کہ اللہ تو خرق عادت امور پر بھی قادر ہے کیوں نہ اپنے لیے دعا کر دیکھوں۔ ممکن ہے شرف قبولیت حاصل ہوجائے۔ چنانچہ اس خیال کے آتے ہی اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے نیک سیرت اولاد کی دعا فرمائی۔ آل عمران
39 آل عمران
40 آل عمران
41 [٤٣]فرشتوں کی سیدنا زکریا سے ہمکلامی اور بیٹے کی بشارت:۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے زکریا علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی۔ ایک دفعہ جب محراب میں کھڑے نماز ادا کر رہے تھے تو فرشتوں نے آپ کو بیٹے کی خوشخبری دی۔ اللہ تعالیٰ نے اس بیٹے کا نام یحییٰ بھی خود تجویز فرما دیا اور اس کی صفات بھی بیان فرما دیں جو یہ تھیں : (١) اس کا نام اللہ تعالیٰ نے خود یحییٰ رکھا اور بتلایا کہ پہلے آج تک کسی انسان کا یہ نام نہیں رکھا، (٢) کلمۃ اللہ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تصدیق کرے گا، (٣) وہ بنی اسرائیل کا سردار ہوگا اور اس قوم کی خراب حالت کی اصلاح کرے گا (، ٤) وہ حصور ہوگا، یعنی اس کی نہ تو عورتوں کی طرف کچھ رغبت ہوگی اور نہ گناہ کے کاموں کی طرف۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ (٥) وہ نبی ہوگا اور پاک بازلوگوں میں سے ہوگا۔ چنانچہ جب حضرت زکریا علیہ السلام نے فرشتوں کی زبانی ایسے شان والے فرزند ارجمند کی بشارت سنی تو مسرت و استعجاب کے ملے جلے جذبات سے اللہ کے حضور وہی مانع حمل اسباب بتلا دیئے جن کی وجہ سے آپ اب اولاد سے مایوس ہوچکے تھے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے سوال کے جواب میں یہی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ایسے مانع حمل اسباب کے باوجود اس کی قدرت رکھتا ہے اور وہ جیسے چاہے کرسکتا ہے۔ اب زکریا علیہ السلام کا اگلا سوال یہ تھا کہ اس استقرار حمل کی کوئی علامت بتلا دی جائے، جب یہ عجیب غیر معمولی واقعہ پیش آنے والا ہو، اللہ تعالیٰ نے فرمایا علامت یہ ہے کہ آپ لوگوں سے مسلسل تین دن تک بات چیت نہ کرسکیں گے، پس ہاتھ، آنکھ اور ابرو کے اشارہ سے کلام چلائیں گے ان دنوں تمہاری زبان صرف اللہ کے ذکر پر چل سکے گی۔ لہٰذا ان دنوں میں صبح و شام زیادہ سے زیادہ اللہ کی تسبیح اور ذکر اذکار کرتے رہنا۔ واضح رہے کہ وحی الٰہی کی سب سے معروف صورت تو یہ ہے کہ جبریل امین نبی کے دل پر نازل ہو کر وحی کا القاء کرتا ہے۔ یا بعض اوقات کبھی انسان کی صورت میں آکر نبی سے بات چیت کرتا ہے اور یہ ایسی وحی ہوتی ہے جس کا تعلق صرف نبی سے نہیں امت سے بھی ہوتا ہے۔ لیکن یہاں ایک فرشتہ کی بجائے الملائکة (فرشتے) کا لفظ استعمال ہوا ہے اور یہ وحی کی ایک خاص قسم ہے اور اس کا تعلق صرف مخاطب سے ہوتا ہے۔ یعنی فرشتوں کا مخاطب سے مکالمہ ہوتا ہے ایسے مخاطب کا نبی ہونا بھی ضروری نہیں ہوتا اور نہ ہی ایسی وحی کو دوسروں تک پہنچانا ضروری ہوتا ہے۔ چنانچہ ایسا ہی مکالمہ فرشتوں نے حضرت مریم علیہا السلام سے بھی کیا۔ حالانکہ وہ نبی نہیں تھیں۔ ایسی وحی کی کیا کیفیت ہے؟ اس قسم کے متعلق کتاب و سنت میں کوئی تصریح نہیں۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ انسان کی عقل اسے سمجھنے سے اور زبان اسے بیان کرنے سے قاصر ہے تو بالکل درست ہوگا۔ آل عمران
42 آل عمران
43 [٤٤]فرشتوں کی سیدہ مریم سے ہم کلامی :۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ جن ایام میں حضرت مریم علیہا السلام ہیکل کے حجرہ میں مقیم رہ کر اللہ کی عبادت میں مصروف رہا کرتی تھیں ان دنوں فرشتے ان سے ہمکلام ہوا کرتے تھے۔ فرشتوں ہی نے حضرت مریم علیہا السلام کو اطلاع دی کہ اس کا پروردگار اس پر کس قدر مہربان ہے اور اس نے حضرت مریم علیہا السلام کو سارے جہان کی عورتوں پر فضیلت اور ترجیح دی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ : ’’مردوں میں تو بہت سے باکمال لوگ ہو گزرے ہیں مگر عورتوں میں کوئی کامل نہیں ہوا۔ بجز مریم علیہا السلام بنت عمران اور آسیہ زوجہ فرعون کے۔‘‘ (بخاری، کتاب الانبیاء باب قولہ تعالیٰ (وَاِذْ قَالَتِ الْمَلٰۗیِٕکَۃُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰیکِ ) ساتھ ہی ساتھ فرشتوں نے حضرت مریم علیہا السلام کو یہ ہدایت بھی کی وہ بطور شکریہ اللہ تعالیٰ کی مزید فرمانبردار بن کر رہے اور اس مسجد میں جو جماعت ہوا کرتی تھی، وہ بھی اس میں شامل ہو کر نماز باجماعت کا اہتمام کرے۔ آل عمران
44 [٤٤۔ ا] گزشتہ حالات بتانے سےآپ کی نبوت کی دلیل :۔یعنی ایسے واقعات صدیوں پہلے گزر چکے ہیں۔ انہیں بالکل ٹھیک طور پر اپنے مخالفوں کو بتلا دینا آپ کا معجزہ اور آپ کی نبوت پر واضح دلیل ہے۔ کیونکہ آپ نے نہ تو تورات پڑھی تھی نہ انجیل اور نہ ہی کوئی تاریخی کتاب۔ عمر کا اکثر حصہ مکہ مکرمہ میں گزرا جہاں کوئی ذی علم تھا ہی نہیں کہ آپ اس سے سن کر دوسروں کو بتلاسکتے، نہ آپ کا کوئی استاد تھا، نہ کسی کے سامنے آپ نے زانوئے تلمذ تہ کئے تھے۔ پھر ایسے واقعات کو علمائے اہل کتاب کے سامنے صحیح صحیح بیان کردینا آپ کے منجانب اللہ سچا رسول ہونے پر بڑی قوی دلیل ہے۔ پھر بھی جو لوگ آپ کی رسالت کا انکار کرتے ہیں تو اس کی وجہ محض بغض و عناد اور دوسرے مفادات ہیں اور کچھ نہیں۔ [٤٥] سیدنا زکریا کیسے کفیل مریم بنے؟ حضرت مریم علیہا السلام پر اللہ تعالیٰ کی جو عنایات ہو رہی تھیں ان سے ہیکل کے تمام خادم واقف تھے اور ان میں ہر شخص یہ چاہتا تھا کہ حضرت مریم علیہا السلام کی سرپرستی کا اعزاز اسے حاصل ہو اور اس سلسلہ میں ایک دوسرے سے جھگڑتے اور اپنے استحقاق کے دلائل بھی دیتے ہیں۔ اسی سلسلہ میں حضرت زکریا علیہ السلام نے دوسروں کو اپنا یہ استحقاق بتلایا کہ چونکہ وہ حضرت مریم علیہا السلام کے حقیقی خالو بھی ہیں لہٰذا وہی حضرت مریم علیہا السلام کے کفیل بننے کے سب سے زیادہ حقدار ہیں۔ لیکن دوسروں نے حضرت زکریا علیہ السلام کے اس استحقاق کو چنداں اہمیت نہ دی، اور بالآخر طے یہ ہوا کہ ایسے سب حضرات اپنی اپنی قلمیں جن سے وہ تورات لکھا کرتے تھے کسی بہتی ندی میں پھینک دیں۔ اگر کسی شخص کا قلم ندی کے بہاؤ کی طرف بہنے سے رک جائے اور اپنی جگہ پر قائم رہے تو وہی شخص مریم علیہا السلام کی سرپرستی کا حقدار ہوگا۔ اب ظاہر ہے یہ امتحان بھی ایک خرق عادت امر سے تھے اور کسی خرق عادت امر سے ہی اس قضیہ کا فیصلہ ہوسکتا تھا۔ چنانچہ قلمیں پھینکی گئیں تو ماسوائے حضرت زکریا علیہ السلام کے قلم کے، باقی سب قلمیں پانی کے بہاؤ کے رخ بہہ نکلیں لیکن حضرت زکریا علیہ السلام کا قلم اپنی جگہ پر قائم رہا۔ ایک تو وہ پہلے ہی حضرت مریم علیہا السلام کے حقیقی خالو ہوتے تھے۔ اس امتحان میں بھی قرعہ فال انہی کے نام نکلا تو اب اس میں کسی کو اختلاف اور جھگڑے کی گنجائش نہ رہی۔ آل عمران
45 [٤٦] فرشتوں کا سیدہ مریم سے دوسرامکالمہ یہ فرشتوں کا حضرت مریم علیہا السلام سے دوسرا مکالمہ ہے اور یہیں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بن باپ پیدا ہونے کے بیان کا آغاز ہوتا ہے۔ اس سے پیشتر جو حضرت یحییٰ علیہ السلام کی خرق عادت پیدائش کا ذکر ہوا تو وہ بطور تمہید تھا۔ اس واقعہ میں اسباب موجود تھے اور وہ واقعہ خرق عادت صرف اس لحاظ سے تھا کہ ان اسباب کی قوت کار مفقود ہوچکی تھی اور اللہ تعالیٰ نے از سر نو قوت کار پیدا کردی۔ مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش اس سے بڑھ کر خرق عادت امر ہے۔ کیونکہ یہاں باپ کا وجود ہی نہیں۔ اس مکالمہ میں جب فرشتوں نے حضرت مریم علیہا السلام کو ان کے بیٹے مسیح عیسیٰ ابن مریم کی پیدائش کی خوشخبری دی اور اس کے اوصاف بتلائے تو وہ یکدم چونک اٹھیں کہ یہ کیسے ممکن ہے۔ جب کہ کسی مرد نے مجھے چھوا تک نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یہ دیا کہ اللہ تعالیٰ جو کچھ چاہے اور جیسے چاہے پیدا کرسکتا ہے۔ اسے سبب کے بغیر بھی کوئی چیز پیدا کرنے پر پوری پوری قدرت حاصل ہے اور فرشتوں نے جو اوصاف حضرت مریم علیہا السلام کو بتلائے وہ یہ تھے۔ (١)سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کےاوصاف وخصائل :۔ وہ لڑکا اللہ تعالیٰ کے کلمہ ’کن‘ سے بن باپ پیدا ہوگا (٢) اس کا پورا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہوگا۔ مسیح آپ کا لقب ہے اور اس کی دو توجیہات بیان کی گئیں۔ ایک یہ کہ ہیکل سلیمان میں یہ دستور تھا کہ جس شخص کو وہ بزرگ اور پاکباز سمجھتے تھے تو اسے کاہن زیتون کے تیل سے مسح کردیتے اور اس کے جسم پر مل دیتے تھے۔ اس لحاظ سے بھی آپ مسیح مشہور ہوئے اور دوسری وجہ یہ تھی کہ آپ نے عمر بھر سفر و سیاحت میں گزار کر رسالت کا فریضہ سرانجام دیا۔ اس لحاظ سے بھی آپ مسیح کہلائے اور عیسیٰ آپ کا اصل نام ہے اور ابن مریم آپ کی کنیت ہی نہیں بلکہ آپ کا یہی نسب ہے۔ چونکہ آپ بن باپ کے پیدا ہوئے تھے۔ لہٰذا آپ کو ماں کی طرف منسوب کیا گیا اور یہ آپ کے بن باپ پیدا ہونے پر سب سے بڑی دلیل ہے۔ کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس انداز سے کسی مرد یا عورت کا نسب بیان نہیں فرمایا جبکہ عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بیسیوں مقامات پر ابن مریم کا بھی ذکر آیا ہے، (٣) تیسری صفت یہ ہے کہ وہ دنیا و آخرت دونوں جگہ ( وجیہ) یا بارعب شخصیت ہوگی۔ وجیہ وہ شخص ہوتا ہے جس کے رعب اور وقار کی وجہ سے کوئی شخص رو در رو اسے کوئی طعنہ نہ دے سکے۔ چنانچہ یہود آپ کو آگے پیچھے معاذ اللہ ولدالحرام کہتے تھے۔ مگر منہ پر ایسا کہنے کی ہرگز جراءت یا جسارت نہیں کرتے تھے۔ (٤) چوتھی صفت یہ ہے کہ وہ دنیا میں بھی اللہ کے مقرب بندوں سے ہوگا اور آخرت میں بھی۔ اور پانچویں صفت شیر خوارگی کے ایام میں پختہ کلام کرنا اور چھٹی صفت اس کا صالح ہونا ہے جس کا ذکر اگلی آیت میں مذکور ہے۔ یہ تھیں وہ صفات جن کا ذکر حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے پیشتر ہی فرشتوں نے حضرت مریم علیہا السلام سے کردیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ کی پیدائش کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا ﴿کَذٰلِکَ اللّٰہُ یَفْعَلُ مَا یَشَاۗءُ ﴾ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا ذکر کرنے کے بعد ﴿کَذٰلِکِ اللّٰہُ یَخْلُقُ مَا یَشَاۗءُ﴾ جو اس بات پر واضح دلیل ہے کہ عیسیٰ علیہ اسلام کی پیدائش بن باپ ہوئی تھی اور یہ معجزہ حضرت یحییٰ کی پیدائش کے معجزہ سے بہت بڑا تھا اور اس کا تفصیلی ذکر آگے سورۃ مریم میں آرہا ہے۔ آل عمران
46 [٤٧] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : گہوارہ میں تین بچوں کے سوا کسی بچہ نے بات نہیں کی۔ ان میں سے ایک عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام ہیں۔ دوسرے بنی اسرائیل سے جریج راہب جس پر حرامی بچہ کی نسبت تہمت لگائی تھی: اس نے بول کر اپنے اصلی باپ کا نام بتلا دیا۔ تیسرے وہ بچہ جس نے ماں کی چھاتی چھوڑ کر کہا تھا یا اللہ ! مجھے اس ظالم سوار کی طرح نہ کرنا۔ (بخاری، کتاب الأنبیاء، باب قول اللہ واذکر فی الکتاب مریم اذا نتبذت من أھلھا) اور مہد (گود) میں کلام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بچہ ابھی گود میں ہو، شیر خوار ہو اور وہ کلام کرنے کی عمر کو نہ پہنچا ہو، نہ ہی ابھی اس نے کلام کرنا سیکھا ہو اور ’کھلا‘ کا مطلب پختہ عمر ہے یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مہد میں بھی ایسے ہی کلام کیا۔ جیسے پختہ عمر میں کیا یا دوسرے لوگ پختہ عمر میں کیا کرتے ہیں اور اس عمر میں ان کا کلام ایسا پر مغز اور معقول تھا جیسا کہ عام لوگ پختہ عمر میں کیا کرتے ہیں۔ اس وقت آپ نے کیا باتیں کیں۔ اس کی تفصیل سورۃ مریم میں آئے گی، سردست یہ بتلانا مقصود ہے کہ اس عمر میں آپ کے ایسے کلام سے لوگوں کو متنبہ کرنا مقصود تھا۔ وہ اللہ کی قدرت کاملہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں اور جو لوگ ان کی والدہ ماجدہ کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں وہ غلط کار ہیں۔ ان کی والدہ پاک دامن، صدیقہ اور راست باز ہیں۔ جو کچھ وہ کہتی ہیں وہ بالکل سچ اور حقیقت پر مبنی ہے۔ سیدناعیسیٰ کی پیدائش کےمتعلق نظریات:۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس خرق عادت پیدائش کے بارے میں تین مختلف الرائے گروہ پائے جاتے ہیں۔ پہلا فریق تو یہود ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ایسی واضح نشانیاں دیکھنے کے باوجود انہیں معاذ اللہ ولدالحرام کہتے ہیں۔ حضرت مریم علیہا السلام پر زنا کی تہمت لگائی اور ان کے ساتھ حضرت زکریا علیہ السلام کو ملوث کیا۔ پھر آخر اپنی اسی بدظنی کی بنا پر انہیں قتل بھی کردیا۔ دوسرا گروہ نصاریٰ کا ہے جو کہتے ہیں کہ حضرت مریم علیہا السلام کی منگنی ان کے چچا زاد بھائی یوسف نجار سے ہوئی تھی۔ مگر ابھی نکاح نہیں ہوا تھا کہ انہیں اللہ کی قدرت سے حضرت عیسیٰ کا حمل ٹھہر گیا جب یوسف کو اس صورت حال کا علم ہوا تو اس نے یہ منگنی توڑ دینا چاہی، مگر خواب میں اسے ایک فرشتہ ملا جس نے بتلایا کہ مریم پاک باز عورت اور ہر طرح کے الزامات سے بری ہے۔ اسے حمل اللہ کی قدرت سے ہوا ہے۔ لہٰذا تم ایسی پاک باز اور پاکیزہ سیرت عورت کو ہرگز نہ چھوڑنا چنانچہ یوسف نے اپنی رائے بدل دی۔ پھر اس کے بعد اس نے یوسف سے شادی کی۔ اور اولاد بھی ہوئی۔ یہ فریق اپنے بیان کے مطابق مختلف اناجیل سے حوالے بھی پیش کرتا ہے۔ تیسرا گروہ منکرین معجزات کا ہے جو حضرت عیسیٰ کی بن باپ پیدائش کے قائل نہیں لیکن وہ تاویل ایسی پیش کرتے ہیں جس کا ثبوت نہ کتاب و سنت سے مل سکتا ہے نہ اناجیل سے اور نہ کسی دوسری کتاب سے، اور وہ تاویل یہ ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام کی یوسف نجار سے منگنی نہیں بلکہ نکاح ہوچکا تھا۔ مگر ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ یوسف مریم کے پاس یا مریم یوسف کے پاس گئی۔ اور ان کے باہمی ملاپ سے حمل ٹھہرا اور یہ ایسا بیان ہے جو حضرت مریم علیہا السلام کی اس قرآنی صراحت ﴿ وَلَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَر﴾ کے صریحاً خلاف ہے۔ رہی یہ بات کہ اگر معاملہ یہی تھا تو یہود نے حضرت مریم علیہا السلام کو لعن طعن کس بات پر کی تھی؟ تو اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ یہود میں رخصتی سے پہلے میاں بیوی کی مباشرت شدید جرم سمجھا جاتا تھا، خواہ نکاح ہوچکا ہو، اور اسی جرم کی بنا پر یہود نے لعن طعن کی تھی۔ حالانکہ یہ بات بھی قرآنی تصریحات کے بالکل برعکس ہے۔ نیز ان کے نظریہ کو بھی کسی کتاب کے حوالہ سے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وہ لوگ ہیں جو قرآن سے رہنمائی حاصل کرنے کے بجائے قرآن میں اپنے نظریات کو بہ تکلف داخل کرنا چاہتے ہیں خواہ اس سے قرآن کی کتنی ہی آیات کا انکار لازم آتا ہو۔ آل عمران
47 آل عمران
48 [٤٨] سیدنا عیسیٰ کاحافظہ اور تفقہ:۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بلا کا حافظہ عطا فرمایا تھا۔ علاوہ ازیں وہ خوشنویس بھی تھے اور تورات ہاتھ سے لکھا کرتے تھے۔ تورات پر انہیں اتنا عبور تھا کہ جب یہودی علماء (فقیہ اور فریسی) ان سے کسی بات پر الجھتے تو آپ تورات کے زبانی حوالے دے کر انہیں قائل کرتے اور چپ کرا دیتے تھے اور فقیہ اور فریسی ان کے کمال درجہ کے حافظہ پر حیران و ششدر رہ جاتے تھے۔ یہود کا سیدہ مریم اور زکریا پر الزام:۔ آپ کو تیس سال کی عمر میں نبوت عطا ہوئی تھی۔ اس کے بعد تین سال مسلسل سیاحت کرتے رہے اور دین کی تبلیغ و اشاعت میں مصروف رہے اور غالباً اسی وجہ سے آپ کو مسیح کہا جانے لگا تھا آپ نے یہود کی بگڑی ہوئی قوم کی اصلاح کی ان تھک کوشش کی۔ انہیں تورات کے احکام یاد دلائے اور ان کی از سر نو تعلیم دی۔ ان کی غلطیوں اور غلط فہمیوں کی نشاندہی کی۔ انجیل کے احکام سنائے اور سکھلائے۔ مگر اس بگڑی قوم کی حالت سدھر نہ سکی۔ وہ الٹا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دشمن بن گئے، اور حضرت زکریا علیہ السلام پر حضرت مریم علیہا السلام سے زنا کا الزام لگا دیا اور بالآخر حضرت زکریا علیہ السلام کو اسی وجہ سے قتل کردیا۔ حضرت زکریا علیہ السلام کے بعد حضرت یحییٰ علیہ السلام نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تصدیق کی تو انہیں بھی حکومت کی وساطت سے مروا ڈالا۔ ان دونوں انبیاء کے قتل کے بعد یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے درپے آزار ہوئے اور ان کے دشمن بن گئے۔ بالآخر تینتیس سال کی عمر میں علمائے یہود نے ان پر مقدمہ چلایا اور حکومت کی وساطت سے انہیں سولی پر لٹکانے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ جسد مع روح آسمان پر اٹھا لیا۔ آل عمران
49 [٤٩] حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں طب کا فن اپنے عروج پر پہنچا ہوا تھا۔ بڑے بڑے حکمائے یونان بقراط و سقراط اور ارسطاطالیس وغیرہ نے اسی دور میں شہرت پائی تھی۔ لہٰذا عیسیٰ علیہ السلام کو معجزات بھی ایسے عطا کئے گئے جو اطباء کی دسترس سے باہر تھے۔ مثلاً آپ مٹی سے ایک پرندہ کی شکل بناتے پھر اس میں پھونک مارتے تو وہ زندہ ہو کر اڑنے لگ جاتا۔ مردوں کو کہتے کہ اللہ کے حکم سے اٹھ کر کھڑے ہوجاؤ، تو وہ اٹھ کھڑے ہوتے اور باتیں کرنے لگتے۔ مادر زاد اندھوں کی آنکھوں پر اور کوڑھی کے جسم پر ہاتھ پھیرتے تو وہ بالکل تندرست ہوجاتے اور بھلے چنگے ہوجاتے اور اندھوں کی بینائی لوٹ آتی اور کوڑھیوں کے جسم ٹھیک ہوجاتے۔ علاوہ ازیں وہ لوگوں کو یہ بھی بتلا دیتے تھے کہ وہ کیا کچھ کھا کر آئے ہیں اور باقی گھر میں کیا چھوڑ آئے ہیں اور یہ سب باتیں آپ کے منجانب اللہ رسول ہونے اور آپ کے پاک باز ہونے پر واضح دلائل تھے۔ معجزات عیسیٰ علیہ السلام :۔ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی پوری زندگی ہی معجزات سے معمور بھرپور تھی۔ آپ کی پیدائش بھی معجزانہ طور پر ہوئی۔ مہد میں کلام کیا، آپ مردہ کو زندہ کرتے تھے اور مٹی کے بنائے ہوئے پرندوں میں پھونک مار کر انہیں جیتا جاگتا پرندہ بنا دیتے تھے۔ پھر معجزانہ طور پر انہیں دشمنوں کی دسترس سے بچا کر آسمان پر اٹھا لیا گیا۔ پھر قیامت کے قریب ان کا اس دنیا میں نزول بھی ہوگا، اور یہ ایسے معجزات ہیں جن میں عیسیٰ علیہ السلام منفرد ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ آپ کی پیدائش والد کے نطفہ کے بجائے نفخہ جبریل سے ہوئی تھی۔ اور آپ میں کچھ ملکوتی صفات بھی آگئی ہوں۔ واللہ اعلم بالصواب رہی یہ بات کہ منکرین معجزات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ان چند معجزات کی کیا تاویلات بیان فرماتے ہیں تو گذارش ہے کہ اس سلسلہ میں تین حضرات نے اپنی عقل و خرد سے گھوڑے دوڑائے ہیں۔ پہلے تو آنرایبل سرسید احمد خان صاحب ہیں۔ دوسرے حافظ عنایت اللہ صاحب اثری ہیں جو تاویلات کے میدان میں سب سے سبقت لے گئے ہیں اور ان کی تاویلات دلچسپ اور مضحکہ خیز بھی زیادہ ہیں اور تیسرے نمبر پر جناب غلام احمد پرویز صاحب ہیں۔ ان سب کی تاویلات کو یہاں پیش کرنا پھر ان پر تبصرہ کرنا یہاں ممکن نہیں۔ البتہ ان کی تفصیل میں نے اپنی دو کتابوں ’عقل پرستی اور انکار معجزات‘ اور ’آئینہ پرویزیت‘ میں پیش کردی ہے۔ آل عمران
50 آل عمران
51 [٥٠] ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعوت بھی بعینہ وہی کچھ تھی جو دوسرے تمام انبیاء کی رہی ہے۔ مثلاً: ١۔ پروردگار یعنی مقتدر اعلیٰ صرف اللہ کی ذات ہے۔ لہٰذا وہی اکیلا عبادت کے لائق ہے۔ اس لحاظ سے عیسائیوں کا عقیدہ الوہیت مسیح غلط قرار پاتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے نمائندہ کی حیثیت سے نبی کی اطاعت کی جائے اور ہر نبی کی دعوت یہی رہی ہے۔ ٣۔ حلت و حرمت اور جواز و عدم جواز کے اختیارات کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ لہٰذا جو باتیں تم نے خود اپنے اوپر حرام قرار دے رکھی ہیں۔ میں اللہ کے حکم سے انہیں حلال قرار دے کر تمہیں ایسی ناجائز پابندیوں سے آزاد کرتا ہوں۔ نیز آپ نے اللہ کے حکم سے یہود پر ہفتہ کے دن کی پابندیوں میں بہت حد تک تخفیف کردی۔ مگر یہود کی اصلاح نہ ہوسکی اور وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دشمنی میں آگے بڑھتے ہی چلے گئے۔ آل عمران
52 [٥١]سیدنا یحیٰ کا قتل اور عیسیٰ کاارادہ قتل:۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پوری طرح معلوم ہوچکا تھا کہ یہود اور ان کے علماء دلائل کے میدان میں مات کھا کر اب ان کی زندگی کے درپے ہوچکے ہیں اور اس کام کے لیے سازشیں تیار کر رہے ہیں۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ انبیاء کو ناحق قتل کرنا یہود کی عادت ثانیہ بن چکی ہے۔ وہ یہ بھی دیکھ چکے تھے۔ یہود کے ایک رئیس نے ایک رقاصہ کی فرمائش پر حضرت یحییٰ علیہ السلام جیسے برگزیدہ پیغمبر کا سر قلم کر ڈالا ہے تو انہیں اپنی موت کے آنے میں کچھ شبہ نہ رہا۔ اب انہیں فکر تھی تو یہ تھی کہ دین کی اشاعت و تبلیغ کا کام نہ رکنا چاہئے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے چند پیرو کاروں کو مخاطب کرکے پوچھا کہ کون ہے جو اس سلسلہ میں میری مدد کرے۔ تاکہ اللہ کے دین کو فروغ حاصل ہو۔ [٥٢] حواری کون تھے؟ اس بات میں مفسرین کا اختلاف ہے۔ تاہم اس بات پر اتفاق ہے کہ حواری کا مفہوم وہی کچھ ہے جو لفظ انصار کا ہے۔ یعنی اللہ کے نبی اور دین کے مددگار۔ حواری کا مفہوم اس واقعہ سے بھی سمجھ میں آسکتا ہے کہ غزوہ خندق کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی یوں بھی مدد فرمائی کہ نہایت ٹھنڈی اور تیز ہوا بصورت سخت آندھی چلا دی۔ جس نے کفار کے لشکر کے خیمے تک اکھاڑ پھینکے۔ ان کی ہانڈیاں الٹ گئیں اور وہ بددل ہو کر ناکام واپس چلے جانے کی باتیں سوچنے لگے تو اس صورت حال کی صحیح رپورٹ لینے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو مخاطب کرکے فرمایا کہ کون ہے جو کفار کے لشکر کی خبر لاتا ہے؟ اس کڑاکے کی سردی میں اور آندھی میں نکل کھڑے ہونے کی کسی کو جرات نہ ہوئی۔ صرف حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ تھے، جنہوں نے کہا : ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں جاتا ہوں‘‘ آپ نے پھر دوسری بار وہی سوال دہرایا تو پھر زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ ہی بولے کہ ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جاتا ہوں‘‘ تیسری بار آپ نے پھر سوال دہرایا تو تیسری بار بھی حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ ہی جانے پر آمادہ ہوئے۔ اس وقت آپ نے فرمایا کہ ہر پیغمبر کا ایک حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر رضی اللہ عنہ ہے۔ (بخاری، کتاب المناقب، باب مناقب الزبیر بن العوام) چنانچہ کچھ حواریوں نے ببانگ دہل اعلان کیا کہ ہم اللہ کے دین کی خدمت کریں گے اور از سر نو عہد و پیمان کیا اور عیسیٰ سے کہا کہ آپ گواہ رہئے کہ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے اور اس کے فرمانبردار بنتے ہیں : بائیبل سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حواری حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صدق دل سے مرید اور خاص شاگرد تعداد میں بارہ تھے اور ان کے نام یہ ہیں : (١) شمعون، جسے پطرس بھی کہتے ہیں، (٢) شمعون یا پطرس کا بھائی اندریاس، (٣) یعقوب بن زیدی (، ٤) یوحنا، (٥) یوحنا کا بھائی فلیپوس، (٦) برتھولما، (٧) تھوما، (٨) متی، (٩) یعقوب بن حلفائی، (١٠) تہدی، (١١) شمعون کنعانی اور (١٢) یہودا اسکریوتی۔ یہ وہ بارہ حواری یا انصار تھے۔ جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعوت ہر قیمت پر آگے بڑھانے کا حضرت عیسیٰ سے عہد کیا تھا۔ آل عمران
53 آل عمران
54 [٥٣] یہود اور ان کے علماء و فقہاء سب کے سب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دشمن بن گئے تھے مگر آپ کے دلائل کے سامنے انہیں مجبوراً خاموش ہونا پڑتا تھا۔ پھر جب آپ نے سبت کے احکام میں تخفیف کا اعلان کیا تو یہود کو پروپیگنڈا کے لیے ایک نیا میدان ہاتھ آگیا کہ یہ شخص ملحد ہے اور تورات میں تبدیلی کرنا چاہتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ملک شام کو اپنی دعوت کا مرکز بنایا ہوا تھا اور یہاں یہود کی حکومت نہ تھی بلکہ رومیوں کی حکومت تھی۔ آپ اپنے حواریوں کو ساتھ لے کر شام کے مختلف شہروں میں تبلیغ فرماتے اور معجزہ دکھلاتے جس سے لا تعداد شفایاب بھی ہوجاتے تھے اور آپ پر ایمان بھی لے آتے تھے۔ ہر شہر میں سینکڑوں مرد اور عورتیں آپ پر ایمان لے آئے تو یہودیوں کے بغض اور حسد میں اور بھی اضافہ ہوگیا اور وہ آپ کی جان لینے کے درپے ہوگئے۔ سیدناعیسیٰ علیہ السلام کی گرفتاری:۔ آپ کے حواریوں میں سے ہی ایک شخص نے یہود سے بہت سی رقم بطور رشوت وصول کرکے یہ مخبری کردی کہ اس وقت عیسیٰ علیہ السلام فلاں پہاڑی پر مقیم ہیں۔ چنانچہ یہود کی ایک مسلح جماعت اس پہاڑی پر پہنچ گئی اور آپ کو گرفتار کرلیا۔ یہ صورت حال دیکھ کر آپ کے حواری سب تتر بتر ہوگئے۔ ان کے پاس صرف دو تلواریں تھیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی معلوم ہوگیا تھا کہ یہ حواری ایک مسلح جماعت کا مقابلہ نہ کرسکیں گے۔ اس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے دعا مانگی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ لوگ تمہارا بال بھی بیکا نہ کرسکیں گے اور میں تمہیں اپنی طرف زندہ اٹھا لوں گا۔ سیدنا عیسیٰ کوسولی کی سزا دلوانے میں یہودی علماء کا کردار:۔ قیصر روم کی طرف سے جو حاکم شام پر مقرر تھا۔ اس کا نام ہیروڈیس تھا۔ یہودیوں نے جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گرفتار کرلیا تو آپ کے منہ پر طمانچے مارے اور مذاق اڑاتے ہوئے شہر میں لے گئے۔ پھر آپ کو ہیرو ڈیس کے نائب حاکم پلاطوس کے پاس لے گئے اور آپ پر دو الزام لگا کر پلاطوس سے آپ کے قتل کا مطالبہ کیا۔ ایک الزام یہ تھا کہ یہ شخص قیصر روم کو محصول دینے سے منع کرتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ خود اپنے آپ کو مسیح بادشاہ کہتا ہے لیکن آپ نے ان دو الزاموں سے انکار کردیا تو پلاطوس کہنے لگا کہ میرے نزدیک اس کا کوئی ایسا جرم نہیں جو مستوجب قتل ہو۔ مگر جب اس نے یہودیوں کا اپنے مطالبہ پر اصرار دیکھا تو اس نے یہ مقدمہ ہیروڈویس کے پاس بھیج دیا۔ لیکن اسے بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کوئی ایسا جرم نظر نہ آیا جو مستوجب قتل ہو۔ لہٰذا اس نے یہ مقدمہ واپس پلاطوس کے پاس بھیج دیا۔ لیکن یہود کے علماء و فقہاء سب اسی بات پر بضد تھے کہ اس شخص کو ملحد ہونے اور دوسروں کو ملحد بنانے کی بنا پر قتل کرنا ضروری ہے۔ پلاطوس نے ان لوگوں کی ہٹ دھرمی اور ضد سے مجبور ہو کر کہا کہ میں تمہارے کہنے پر اسے سولی تو دے دیتا ہوں مگر اس کا گناہ تم پر اور تمہاری اولاد پر ہوگا۔ یہود نے ضد میں آکر اس بات کو بھی تسلیم کرلیا۔ مصلوب کون تھا؟ پھر جب آپ کو سولی پر چڑھانے کا وقت آیا تو اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ حرکت میں آئی۔ اللہ تعالیٰ کے فرشتے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمانوں کی طرف اٹھا لے گئے اور کسی دوسرے شخص کی شکل و صورت اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام سے ملتی جلتی بنا دی اور سب کو یہی معلوم ہونے لگا کہ یہی شخص عیسیٰ ہے۔ قرآن کریم نے اس مقام پر ﴿وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَہُمْ﴾کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ رہی یہ بات کہ یہ دوسرا شخص کون تھا ؟ تو اس کے متعلق ایک قول تو یہ ہے کہ یہ وہی شخص تھا جو آپ کو سولی کی سزا دلوانے میں سب سے پیش پیش تھا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سب سے بڑے دشمن کو اس کی کرتوت کی سزا سولی کی شکل میں دے دی۔ اور دوسرا قول یہ ہے کہ یہ شخص وہی حواری تھا جس نے بھاری رشوت لے کر آپ کی مخبری کرکے آپ کو گرفتار کروایا تھا۔ واللہ اعلم بالصواب۔ بعض لوگوں نے اس شبہ کی اور بھی کچھ صورتیں ذکر کی ہیں۔ تاہم ان سب کا ماحصل یہی ہے کہ آپ کو تو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف اٹھالیا اور آپ کی جگہ مصلوب کوئی دوسرا مشتبہ شخص ہوا تھا۔ سیدناعیسیٰ کے مصلوب ہونےسے متعلق عیسائیوں کا عقیدہ:۔ یہ تو تھی قرآن کی وضاحت لیکن اناجیل کا بیان اس سے مختلف ہے۔ عیسائی یہ کہتے ہیں کہ سولی آپ ہی کو دی گئی تھی اور آپ نے چیخ چیخ کر جان دی۔ پھر یوسف نامی ایک شخص نے پلاطوس سے درخواست کی کہ لاش اس کے حوالے کردی جائے۔ چنانچہ اس نے آپ کو قبر میں دفنا دیا اور اوپر چٹان دھر دی، یہ جمعہ کی شام کا واقعہ تھا۔ پھر تین دن بعد اتوار کو حضرت عیسیٰ زندہ ہو کر لوگوں کو دکھائی دیئے۔ پھر آسمان پر چڑھ گئے اور دوبارہ آنے کا وعدہ کر گئے۔ اس وقت آپ کی عمر ٣٣ سال کی تھی۔ اناجیل کے اسی بیان پر عیسائیوں کے مشہور و معروف عقیدہ کفارہ مسیح کی عمارت کھڑی کی گئی۔ انجیل برنباس کا تعارف:۔ اناجیل کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مصلوب ہونے سے متعلق بیان کئی لحاظ سے محل نظر ہے۔ مثلاً ( : ١) اناجیل اربعہ کے مؤلفین میں سے کوئی بھی موقعہ کا عینی شاہد نہیں۔ حتیٰ کہ یہ اناجیل دوسری صدی عیسوی میں مرتب ہوئیں۔ یہ مؤلفین حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کے شاگرد در شاگرد ہیں اور صلیب کے موقعہ پر ایک بھی حواری موجود نہ تھا۔ سب تتر بتر ہوگئے تھے۔ (٢) انجیل برنباس کا مؤلف برنباس حواری ہے اور یہ انجیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ سے صدہاسال پیشتر عیسائیوں میں مشہور و معروف تھی۔ اس میں یہ عبارت موجود ہے ’’تب فرشتوں نے باکرہ سے کہا کیونکہ یہودا عیسیٰ کی شکل میں مبدل ہوگیا‘‘ اور یہ یہودا وہی حواری ہے۔ جس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مخبری کی تھی۔ یہ انجیل برنباس چونکہ عیسائیوں کے تمام مشہور و معروف عقاید یعنی الوہیت مسیح، عقیدہ تثلیث اور کفارہ مسیح کی تردید کرتی ہے۔ لہٰذا اہل کلیسا نے اس انجیل کو الہامی کتابوں کے زمرہ سے خارج کردیا ہے اور اسے ضبط کرلیا گیا۔ تاہم یہ کتاب آج بھی دنیا سے ناپید نہیں ہوئی۔ (٣) اسلام سے پیشتر عیسائیوں کے کئی فرقے ایسے موجود تھے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مصلوب ہونے کے منکر تھے۔ مثلاً فرقہ باسلیدی، سربنتی، کاریو کراتی، ناصری، پوئی وغیرہ۔ لہٰذا عیسائیوں کا یہ دعویٰ کہ حضرت مسیح کے مصلوب ہونے کا عقیدہ متفق علیہ ہے۔ غلط ثابت ہوتا ہے۔ نزول مسیح :۔ بہت سی صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے قریب دمشق کی مسجد کے سفید منارہ پر نزول فرمائیں گے۔ ان کے ایک طرف جبرائیل ہوں گے اور دوسری طرف میکائیل، اس وقت مسلمان کئی طرح کے فتنوں میں مبتلا ہوں گے جن میں سب سے بڑا فتنہ دجال کا ہوگا۔ آپ دجال کو قتل کریں گے اور مسلمانوں کی امداد فرمائیں گے۔ آپ کوئی نئی شریعت نہیں لائیں گے، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی بن کے رہیں گے اسی زمانہ میں آپ شادی کریں گے اولاد ہوگی آپ کے دور میں اسلام کا بول بالا ہوگا، اور بعدہ آپ اپنی طبعی موت مریں گے۔ اس دوران آپ یہود کو چن چن کر ماریں گے۔ حتیٰ کہ اگر کوئی یہودی کسی پتھر کے پیچھے چھپا ہوگا تو وہ پتھر بھی بول اٹھے گا کہ یہاں ایک یہودی موجود ہے۔ یہی وہ صورت حال ہے جس کا مابعد والی آیت میں ذکر ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نزول عیسیٰ کے متعلق حدیث بیان کرنے کے بعد فرمایا کرتے تھے کہ اگر تم چاہو تو (دلیل کے طور پر) یہ آیت پڑھ لو﴿ وَاِنْ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ ﴾ اہل کتاب میں سے کوئی نہ رہے گا مگر عیسیٰ علیہ السلام کی وفات سے پہلے ان پر ضرور ایمان لائے گا۔ آل عمران
55 [٥٣۔ ا]یہود ونصاری دونوں کے سیدنا عیسیٰ پر الزام :۔ اس جملہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے دو باتوں کا وعدہ فرمایا اور انہیں یقین دلایا۔ پہلی بات یہ کہ اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کو ان کافروں کے الزامات سے پاک کرے گا اور کافروں سے مراد اہل کتاب یعنی یہود اور نصاریٰ دونوں ہیں۔ یہود کا الزام یہ تھا کہ حضرت عیسیٰ معاذ اللہ ولدالحرام ہیں، اور عیسائیوں کا الزام یہ تھا کہ آپ فی الواقعہ مصلوب ہوئے تھے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان پر ان دونوں الزاموں کی مدلل اور بھرپور تردید فرما کر عیسیٰ علیہ السلام کو ان الزامات سے پاک و بری قرار دیا۔ اور دوسرا وعدہ یہ تھا کہ میں (اے عیسیٰ) تیرے تابعداروں کو تجھے نہ ماننے والے یعنی یہودیوں پر غالب رکھوں گا۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ماننے والوں میں مسلمان بھی شامل ہوجاتے ہیں اور یہ پیشین گوئی یوں پوری ہوئی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قریباً چالیس سال بعد رومی قیصر طیطوس یہودیوں پر حملہ آور ہوا اور شہر یروشلم کو ڈھا کر تباہ کردیا۔ حتیٰ کہ بیت المقدس کو بھی مسمار کردیا۔ لاکھوں یہودیوں کو قتل کیا اور بہت سے پکڑ کر ساتھ لے گیا اور انہیں غلام بنایا۔ اس دن سے یہود کی رہی سہی عزت و شوکت بھی خاک میں مل گئی جو بعد کے ادوار میں بھی بحال نہ ہوسکی۔ [٥٤] یہ اختلاف صرف یہود اور نصاریٰ میں ہی نہیں مسلمانوں میں بھی ہے۔ قرآن و حدیث کے ان واضح ارشادات کے باوجود مسلمانوں کا ہی ایک فرقہ معجزات کا منکر ہے۔ یہ لوگ احادیث کو درخور اعتنا سمجھتے ہی نہیں اور قرآنی آیات کی ایسی دورازکار تاویلیں کرنے لگتے ہیں کہ ان سے عقل شرمانے لگتی ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش اور وفات کو بھی ان لوگوں نے تختہ مشق بنایا ہے ان حواشی میں تمام معجزات پر بحث ناممکن ہے۔ البتہ جو حضرات یہ تفصیلات دیکھنا چاہیں وہ میری تصانیف ’عقل پرستی اور انکار معجزات‘ اور ’آئینہ پرویزیت‘ ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ موقعہ کی مناسبت سے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش اور وفات کے متعلق کچھ عرض کروں گا۔ پیدائش کے متعلق قرآن پاک میں دو مقامات پر سورۃ آل عمران اور سورۃ مریم علیہا السلام میں تفصیلی ذکر موجود ہے۔ جن سے صاف طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش بن باپ معجزانہ طور پر ہوئی تھی۔ اب اگر بفرض محال منکرین معجزات کی بات تسلیم کرلیں اور سمجھیں کہ حضرت عیسیٰ کی پیدائش بھی اللہ کے عام قانون کے مطابق ہوئی اور حضرت مریم علیہا السلام کا (نعوذ باللہ) کوئی شوہر بھی تھا تو اس پر درج ذیل اعتراضات وارد ہوتے ہیں۔ مسیح کی پیدائش فطری سمجھنے والوں سے چند سوالات:۔۱۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاں بھی کسی پیغمبر یا کسی دوسرے شخص کا ذکر کیا ہے تو اس کی ابنیت کا کبھی ذکر نہیں کیا۔ آخر عیسیٰ علیہ السلام میں کیا اختصاص ہے کہ جہاں بھی ان کا نام آیا توابنیت کا ذکر یعنی ابن مریم علیہا السلام کا لاحقہ ضروری سمجھا گیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نسب کے بارے میں فرماتے ہیں ﴿ اُدْعُوْہُمْ لِاٰبَاۗیِٕہِمْ﴾یعنی ہر شخص کو اس کے باپ کے نام سے منسوب کیا کرو۔ اگر عیسیٰ علیہ السلام کا واقعی کوئی باپ تھا تو اللہ تعالیٰ کو اپنے مقرر کردہ ضابطہ کے مطابق اس کا نام لینا چاہئے تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر ہر مقام پر عیسیٰ علیہ السلام کی ماں ہی کا کیوں نام لے کر انہیں ماں سے منسوب کیا ہے۔؟ ٣۔ اس دور کے یہود نے حضرت مریم علیہا السلام پر زنا کی تہمت لگائی۔ اگر انہیں حضرت مریم علیہا السلام کا کوئی شوہر معلوم تھا تو تہمت لگانے کی کیا تک تھی۔ پھر اگر انہیں شوہر کا علم نہ ہوسکا تو آج کل کے لوگوں کو کیسے علم ہوگیا ؟ ٤۔ اگر عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش بھی عام لوگوں کی طرح فطری طور پر ہوئی تھی تو اللہ تعالیٰ کو متعدد مقامات پر آپ کی پیدائش کے متعلق تفصیلات دینے کی کیا ضرورت تھی؟ اللہ تعالیٰ یہود کو یہ جواب نہ دے سکتے تھے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا باپ تو فلاں ہے۔ پھر تم کیسے تہمت لگا رہے ہو اور یہ مضمون صرف ایک جملہ یا آیت میں ادا ہوسکتا تھا۔ ٥۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے متعلق سورۃ مریم کی آیت ٢١ میں ﴿اٰیَۃً لِّلنَّاسِ﴾فرمایا اور سورۃ مومنون کی آیت نمبر ٥٠ میں حضرت مریم علیہا السلام اور حضرت عیسیٰ دونوں کو ﴿اٰیَۃً لِّلنَّاسِ﴾فرمایا۔ اگر حضرت عیسیٰ عام دستور کے مطابق ہی پیدا ہوئے تھے تو وہ خود اور ان کی ماں لوگوں کے لیے نشانی کیسے بن گئے؟۔ ٦۔ اگر حضرت عیسیٰ کی پیدائش عام دستور کے مطابق ہوئی تھی تو حضرت مریم علیہا السلام اکیلی دور دراز مقام میں کیوں چلی گئی تھیں اور بچہ کی پیدائش کے وقت اپنے مرنے کی آرزو کیوں کی تھی؟ رفع عیسیٰ علیہ السلام پر دلائل:۔ اب آپ رفع عیسیٰ کے متعلق غور فرمائیے۔ منکرین کا سارا زور لفظ ﴿توفی﴾ پر ہوتا ہے جس کے لغوی معنی پورے کا پورا وصول کرلینا۔ اس لفظ کو قرآن ہی نے نیند اور موت کے موقع پر قبض روح کے لیے استعمال کیا۔ حالانکہ نیند کی حالت میں پوری روح قبض نہیں ہوتی بلکہ جسم میں بھی ہوتی ہے۔ پھر اگر اس لفظ کو روح اور بدن دونوں کو وصول کرنے کے لیے استعمال کیا جائے تو لغوی لحاظ سے یہ معنی اور بھی زیادہ درست ہے ﴿ رَافِعُکَ اِلَیَّ﴾ کے الفاظ اس معنی کی تائید مزید کرتے ہیں اور دوسرے مقام پر تو اس سے بھی زیادہ واضح الفاظ میں فرمایا ﴿وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَہُمْ﴾ (٤: ١٥٧) اس آیت میں آپ کی زندگی اور رفع پر تین دلائل دیئے گئے ہیں۔ ١۔ یہ یقینی بات ہے کہ یہود عیسیٰ علیہ السلام کو مار نہ سکے۔ ٢۔ پھر مزید صراحت یہ فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا۔ ٣۔ بعد میں ﴿وَکَان اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِـیْمًا ﴾ کہہ کر یہ وضاحت فرما دی کہ یہ رفع روح مع الجسد تھا ورنہ یہاں لفظ ﴿عَزِیْزا﴾ لانے کی کوئی تک نہیں کیونکہ رفع روح تو ہر نیک و بد کا ہوتا ہے اور رفع درجات ہر صالح آدمی کا۔ لہٰذا لازماً روح مع الجسد کا رفع ہی ہوسکتا ہے۔ معجزات سے انکار کی وجہ: ۔واضح رہے کہ شریعت کے مسلمہ امور کو تسلیم کرنے میں دو چیزیں رکاوٹ کا سبب بنتی ہیں۔ (١) فلسفیانہ یا سائنٹیفک نظریات سے مرعوبیت اور (٢) اتباع ہوائے نفس۔ منکرین معجزات خارق عادت امور کا انکار اور پھر ان کی تاویل اس لیے کرتے ہیں کہ یہ موجودہ زمانہ کے مادی معیاروں پر پوری نہیں اترتیں۔ لہٰذا سب عقل پرستوں نے حضرت عیسیٰ کے بن باپ پیدائش۔ ان کے دیگر سب معجزات اور آسمانوں پر اٹھائے جانے کی تاویل کر ڈالی۔ البتہ ان میں مرزا غلام احمد قادیانی متنبی منفرد ہیں جو باقی سب معجزات کے تو قائل ہیں۔ البتہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمانوں پر اٹھائے جانے اور پھر قیامت سے پہلے اس دنیا میں آنے کے منکر ہیں وہ اس لیے کہ اس نے خود مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا، اور اگر یہ رفع عیسیٰ کو تسلیم کرلیتے تو ان کی اپنی بات نہیں بنتی تھی۔ گویا یہ کام اس نے دوسری وجہ یعنی اتباع ہوائے نفس کے تحت سرانجام دیا ہے۔ آل عمران
56 آل عمران
57 آل عمران
58 آل عمران
59 [٥٥]وفد نجران اور الوہیت عیسیٰ :۔ اس آیت سے عیسائیوں کے عقیدہ الوہیت مسیح کی تردید کا آغاز ہو رہا ہے۔ ٨ ھ کے آواخر میں مکہ فتح ہوگیا تو ٩ ھ میں وفود عرب کی مدینہ میں آمد شروع ہوگئی۔ ان میں کچھ لوگ تو اسلام قبول کرنے آتے تھے اور کچھ اسلام کی باتیں سیکھنے کے لیے۔ چنانچہ اسی زمانہ میں نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد بھی مدینہ میں آیا۔ نجران حجاز اور یمن کے درمیان ایک علاقہ ہے۔ جہاں عیسائیوں کی جمہوری حکومت تھی۔ اس وقت اس علاقہ میں ٧٣ بستیاں شامل تھیں اور ایک لاکھ سے زائد جنگی مرد یہاں موجود تھے۔ یہ حکومت تین سرداروں کے زیر حکم تھی۔ ایک عاقب کہلاتا تھا۔ جس کی حیثیت امیر قوم کی تھی۔ دوسرا سید کہلاتا تھا جو ان کے سیاسی اور تمدنی امور کی نگرانی کرتا تھا اور تیسرا سقف (بشپ یا لاٹ پادری) کہلاتا تھا جو ان کا مذہبی پیشوا ہوتا تھا۔ اس وفد میں یہ تینوں سردار شامل تھے۔ اس وقت کے عاقب کا نام عبدالمسیح، سید کا نام ایہم اور لاٹ پادری ابو الحارث بن علقمہ تھا۔ تینوں سردار ساٹھ آدمی اپنے ہمراہ لے کر مدینہ پہنچے۔ یہ لوگ جنگ نہیں کرنا چاہتے تھے۔ کیونکہ اب مسلمانوں کی ایک مضبوط حکومت قائم ہوچکی تھی۔ تاہم وہ اسلام بھی قبول کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ ان کا مذہبی پیشوا ابو الحارث بن علقمہ ایک عربی النسل آدمی تھا۔ حقیقت کو سمجھتا بھی تھا۔ مگر محض دنیوی مفادات کی خاطر وہ لاٹ پادری بن گیا تھا۔ آدمی ذہین اور معاملہ فہم تھا۔ لہٰذا عیسائیوں نے اس کی خاطرخواہ آؤ بھگت کی اور مال و جاہ سے نوازا تھا۔ ان کی آمد کا مقصد صرف یہ تھا کہ بحث و مناظرہ میں مسلمانوں کو لاجواب کیا جائے۔ چنانچہ آتے ہی انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے الوہیت مسیح کے موضوع پر بحث شروع کردی۔ ان کا طرز استدلال یہ تھا کہ تم لوگ جب یہ تسلیم کرتے ہو کہ عیسیٰ علیہ السلام معجزانہ طور پر بن باپ پیدا ہوئے تھے۔ پھر تم یہ بھی تسلیم کرتے ہو کہ یہودی انہیں مارنے پر قادر نہ ہوسکے اور انہیں آسمانوں پر اٹھا لیا گیا تھا تو یہ صفات کسی بندے کی نہیں ہوسکتیں۔ نیز تم انہیں کلمۃ اللہ اور روح اللہ بھی تسلیم کرتے ہو تو پھر اس سے بڑھ کر ان کی الوہیت کی کیا دلیل ہوسکتی ہے؟۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب کوئی ایسی صورت حال پیش آتی تو فوراً جواب دینے کی بجائے وحی کا انتظار فرماتے چنانچہ آپ نے انہیں صاف کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آنے پر تمہیں ان باتوں کا جواب دوں گا۔ اسی موقعہ پر اس سورۃ کی تقریباً تیس آیات نازل ہوئیں جن میں حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی پیدائش کا تفصیلی ذکر ہے، اور ان میں عقیدہ الوہیت مسیح کا پورا پورا رد موجود ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش معجزانہ طور پر ہوئی تو اسے اللہ کی قدرت کا کرشمہ تو کہا جاسکتا ہے۔ ان میں ان کا اپنا کیا کمال ہے کہ انہیں الٰہ تسلیم کیا جائے اور اگر حضرت عیسیٰ مردوں کو زندہ کرتے تھے تو وہ صاف کہہ دیتے تھے کہ میں یہ اللہ کے اذن سے سر انجام دے رہا ہوں یہی صورت حال ان کے رفع کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی نے انہیں یہود سے بچایا اور اپنی طرف اٹھا لیا۔ عیسیٰ علیہ السلام تو اپنی مدد کے بھی محتاج تھے وہ الٰہ کیسے بن گئے؟ عیسیٰ اور آدم کی مثلیت:َ۔دوسرے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ آیات سنائیں تو انہوں نے ابنیت مسیح کے متعلق ایک دوسرا سوال کردیا اور کہا کہ بتلاؤ کہ اگر عیسیٰ علیہ السلام ابن اللہ نہیں تو ان کا باپ کون تھا ؟ مذکورہ آیت ان کے اسی سوال کے جواب میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر باپ کا نہ ہونا اللہ کی ابنیت یا الوہیت کی دلیل بن سکتا ہے تو پھر حضرت آدم علیہ السلام اس الوہیت کے عیسیٰ علیہ السلام سے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ ان کا باپ کے علاوہ ماں بھی نہ تھی۔ لیکن تم انہیں تو الٰہ نہیں مانتے پھر عیسیٰ کو کیوں مانتے ہو؟ لیکن یہ لوگ چونکہ ہدایت حاصل کرنے یا اسلام لانے کے لیے آئے ہی نہ تھے اور محض کج بحثی اور بحث و مناظرہ سے اپنے مذہب کی حقانیت ثابت کرنا چاہتے تھے۔ لہٰذا اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان سے متعلق دو ٹوک فیصلہ سنادیا کہ اگر یہ لوگ کج بحثی ترک نہیں کرتے اور انہیں اپنے مذہب کی حقانیت پر اتنا ہی وثوق ہے تو پھر مباہلہ کرلیں تاکہ یہ تنازعہ ختم ہوجائے۔ علامہ عنایت اللہ صاحب اثری جو سرسید سے سخت متاثر ہیں اس لئے معجزات کے بھی منکر ہیں۔ اپنی تصنیف عیون زمزم پر بڑی طویل بحث کے بعد فرماتے ہیں کہ ’’آدم اور عیسیٰ میں وجہ مثلیت خاکی ہونے میں تھی کہ کوئی خاکی الٰہ نہیں ہوسکتا‘ کوئی پوچھے کہ اگر وجہ مثلیت یہی ہے، تو خاکی ہونے میں تو آدم کی سب اولاد برابر ہے۔ پھر آدم علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کی کیا تخصیص رہی۔‘‘ نیز کیا اللہ تعالیٰ کا نجران کے عیسائیوں کو یہی وجہ مثلیت بتلانا مقصود تھا۔ جن کا دعویٰ ہی یہ تھا کہ عیسیٰ بشر نہیں تھے۔ بلکہ الٰہ تھے۔؟ آل عمران
60 آل عمران
61 [٥٦]اہل نجران کا جزیہ قبول کرنا اورمباہلہ سےفرار:َ اس آیت میں مباہلہ کا طریق کار بیان کیا گیا ہے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی اور آپ نے انہیں سنائی تو وہ کہنے لگے کہ ہمیں کچھ سوچنے اور مشورہ کرنے کی مہلت دی جائے۔ پھر جب ان کی مجلس مشاورت قائم ہوئی تو ایک ہوشمند بوڑھے نے کہا : اے گروہ نصاریٰ ! تمہیں معلوم ہے کہ اللہ نے بنی اسماعیل میں سے ایک نبی بھیجنے کا وعدہ کیا ہے۔ ممکن ہے یہ وہی نبی ہو۔ جو باتیں اس نے کہی ہیں وہ صاف اور فیصلہ کن ہیں۔ اگر یہ فی الواقع وہ نبی ہوا اور تم لوگوں نے مباہلہ کیا تو تمہاری کیا تمہاری نسلوں کی بھی خیر نہ ہوگی۔ بہتر یہی کہ ہم ان سے صلح کرلیں۔ اپنے وطن کو لوٹ جائیں۔ چنانچہ دوسرے دن جاکر انہوں نے آپ کو اپنے فیصلہ سے مطلع کردیا اور صلح کی درخواست کی اور جزیہ ادا کرنا قبول کرلیا۔ اس واقعہ کو امام بخاری نے مختصراً ان الفاظ میں روایت کیا ہے۔ عبیدہ بن الجراح امین الامت:۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نجران سے عاقب اور سید آپ کے پاس آئے۔ یہ لوگ آپ سے مباہلہ کرنا چاہتے تھے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا۔ ’’اگر یہ نبی ہوا اور ہم نے مباہلہ کیا تو پھر نہ ہماری خیر ہوگی نہ ہماری اولاد کی‘‘ پھر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : ’’جو جزیہ آپ مانگتے ہیں۔ وہ ہم دے دیں گے۔ آپ ایک امین آدمی ہمارے ہمراہ کردیجئے جو فی الواقع امین ہو۔‘‘ یہ سن کر آپ کے صحابہ انتظار کرنے لگے (کہ آپ کس کا نام لیتے ہیں) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’عبیدہ بن جراح! اٹھو!‘‘ جب وہ کھڑے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اس امت کا امین یہ شخص ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب المغازی، باب قصہ اہل نجران) آل عمران
62 آل عمران
63 [٥٦۔ ١] اہل نجران نے حق بات کو قبول نہ کیا اور مباہلہ کے بجائے صلح اور جزیہ کو یعنی اہل الذمہ بن کر رہنے کی ترجیح دی۔ تو ان کی حکومت انہی کے پاس رہی۔ اگر وہ مباہلہ کو قبول بھی کرتے اور اپنے اہل و عیال لے کر واپس نہ آتے یا صلح کی پیش کش کے بغیر واپس چلے آتے تو ان کا شمار مفسدوں میں ہوتا اور ان کا بھی وہی حشر ہوتا جو یہودیوں کا ہوا۔ آل عمران
64 [٥٧] صلح حدیبیہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف شاہان عجم کی طرف اسلامی دعوت کے خطوط بھیجے۔ جو خط ہرقل شاہ روم کو بھیجا گیا۔ اس میں اسلام کی طرف دعوت کے بعد یہی آیت درج تھی۔ ان دنوں ابو سفیان اپنے چند ساتھیوں سمیت شام گیا ہوا تھا۔ اسے اور اس کے ساتھیوں کو ہرقل نے دربار میں بلا کر پیغمبر اسلام کے متعلق بہت سے سوال و جواب کئے۔ تاآنکہ اسے پیغمبر اسلام کی حقانیت کا یقین ہوگیا۔ پھر اس نے روسائے مملکت کو ایک بند کمرے میں بلا کر کہا کہ اگر مسلمان ہوجاؤ تو ہدایت پاجاؤ گے اور تمہارا ملک بھی تمہارے ہی پاس رہے گا مگر وہ لوگ اس دعوت پر تلملا اٹھے اور باہر بھاگنا چاہا۔ ہرقل نے انہیں دوبارہ بلا کرکہا میں صرف تمہاری آزمائش کر رہا تھا کہ تم اپنے دین میں کتنے پختہ ہو۔ چنانچہ انہوں نے ہرقل کو سجدہ کیا اور اس سے خوش ہوگئے۔ (طویل حدیث کا خلاصہ) (بخاری، کتاب التفسیر، زیر آیت ( یاھل الکتاب تعالوا) ہرقل اورابوسفیان کامکالمہ :۔ مندرجہ بالا حدیث میں جن سوالات کا ذکر ہے۔ ان میں سے ایک سوال ہرقل نے یہ بھی کیا تھا کہ آیا ’’تمہارے اور اس نبی کے درمیان کبھی جنگ بھی ہوئی؟‘‘ تو اس کا جواب ابو سفیان نے یہ دیا کہ ہاں ہوئی۔ پھر ہرقل نے پوچھا، اس جنگ کا نتیجہ کیا رہا ؟ تو ابو سفیان نے جواب دیا کہ : الحرب سجال یعنی لڑائی تو ڈولوں کی طرح ہے کبھی ایک فریق کی فتح کبھی دوسرے کی اور یہی وہ جملہ ہے جو ابو سفیان نے جنگ احد کے اختتام پر کہا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیات جنگ احد کے بعد نازل ہوئی تھیں۔ نیز اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ ہرقل بالکل صحیح نتیجہ پر پہنچ گیا تھا۔ مگر اس کے درباریوں کے سامنے اس کی کوئی پیش نہ گئی اور اتنی جرات ایمانی اس میں نہ تھی کہ وہ سلطنت کو چھوڑ کر مسلمان ہوجاتا، اور یہی نتیجہ جس پر ہرقل پہنچا تھا۔ کلمۃ سواء ہے جس کا اللہ نے یہاں ذکر فرمایا ہے اور یہ ہر الہامی کتاب میں پایا جاتا ہے۔ بعد میں لوگ اس کلمۃ سواء یا کلمہ توحید میں کئی طرح کی آمیزش کرلیتے ہیں۔ جیسا کہ عیسائیوں نے بعد میں الوہیت مسیح اور عقیدہ تثلیث وغیرہ ایجاد کرلیے تھے۔ آل عمران
65 [٥٨]سیدنا ابراہیم علیہ السلام کایہودی اورعیسائی ہونا:۔ یہود و نصاریٰ دونوں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا پیشوا تسلیم کرتے تھے۔ اس کے باوجود ان میں شدید قسم کے اختلاف تھے۔ مزید یہ کہ یہودیوں کا دعویٰ یہ تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہمارے مذہب پر تھے یعنی یہودی تھے اور نصاریٰ کا یہ دعویٰ تھا کہ ہمارے مذہب پر تھے یعنی نصاریٰ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں فرمایا۔ عقل کے اندھو! یہودی وہ ہیں جو تورات کے متبع ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور نصاریٰ وہ ہیں جو انجیل کے متبع ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور یہ دونوں کتابیں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وفات کے مدتوں بعد نازل ہوئیں تو پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام یہودی یا نصرانی کیسے ہوسکتے ہیں؟ آل عمران
66 [٥٩] یعنی ایسی باتوں میں تو تمہیں جھگڑا کرنے کا کسی حد تک حق پہنچتا ہے۔ جن کے متعلق تمہیں کچھ علم ہے جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے واقعات یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق جو تورات اور انجیل میں بشارات دی گئی ہیں۔ مگر جن باتوں کا تمہیں علم ہی نہیں ان میں تمہیں جھگڑا کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے؟ تم دونوں فرقوں میں سے کسی نے بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا نہ ان کا زمانہ پایا نہ ان کے حالات زندگی اور ان کی تعلیمات سے آگاہ ہوئے پھر تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو کہ وہ یہودی تھے؟ یا نصرانی تھے؟ آل عمران
67 [٦٠] یاد رکھو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام خالصتاً ایک اللہ کا حکم ماننے والے تھے۔ کسی دوسری طاغوتی طاقت کے آگے جھکنے والے نہیں تھے۔ وہ خالصتاً موحد تھے مشرک نہیں تھے جبکہ تم دونوں مشرک ہو۔ یہود عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا اور نصاریٰ عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا، الٰہ اور تین خداؤں میں تیسرا سب کچھ کہہ دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں تم اللہ کے بھی سب احکام بجا نہیں لاتے۔ کتاب اللہ کو تم نے پس پشت ڈال رکھا ہے۔ پھر تم حضرت ابراہیم کے متبع کیسے بن سکتے ہو۔ ؟ اور وہ تمہارے دین پر کیسے ہوسکتے ہیں؟ آل عمران
68 [٦١] عقائد و اعمال کے لحاظ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے قریب تر وہ لوگ تھے جو ان کے پیرو کار تھے یا پھر یہ نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے پیرو کار ہیں۔ گویا ایسے لوگوں میں دو صفات ہوتی ہیں ایک تو وہ مشرک نہیں ہوتے۔ دوسرے اللہ تعالیٰ کے سب کے سب احکام بجا لاتے ہیں اور مکمل طور پر اللہ کے فرمانبردار ہوتے ہیں۔ غالباً اسی نسبت سے جو درود امت محمدیہ کو نماز میں پڑھنے کے لیے سکھلایا گیا ہے۔ اس میں ایسے ہی الفاظ وارد ہیں اور وہ اسی آیت کی تفسیر ہیں۔ ''اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراہیم وعلی آل ابراہیم انک حمید مجید۔ اللھم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی ابراہیم وعلی آل ابراہیم انک حمید مجید'' آل عمران
69 [٦٢]یہود کی معاندانہ سرگرمیاں :۔ ان آیات میں یہود کے مسلمانوں سے حسد و عناد اور اسی سلسلہ میں ان کے چند کرتوتوں کا ذکر کیا جارہا ہے۔ پہلی کوشش ان کی یہ تھی کہ جیسے بھی ممکن ہو اگر کچھ مسلمانوں کو یہودی بنا لیا جائے تو وہ اپنے مقصد میں بہت حد تک کامیاب ہوسکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں انہوں نے چند مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش بھی کی۔ مگر الٹا بدنام ہوئے اور رسوائی بھی ہوئی۔ بھلا آپ کے پیروکار اور جانثاران یہودیوں کے دام میں کیسے پھنس سکتے تھے۔؟ دوسری کوشش ان کی یہ تھی کہ تورات کی جن آیات میں نبی آخرالزماں کی بشارت دی گئی ہیں۔ انہیں عوام میں شائع و ذائع ہونے سے روکا جائے اور اس سلسلہ میں مکروفریب اور کتمان حق کسی بات سے بھی دریغ نہ کیا جائے۔ ان کوششوں سے وہ کامیاب نہ ہوئے بلکہ الٹا ان جرائم سے اپنے آپ کو مزید گمراہی میں مبتلا کرلیا۔ آل عمران
70 آل عمران
71 آل عمران
72 [٦٣]یہود کی تیسری چال‘ایمان لاکر مرتد ہوجانا:۔ اسی سلسلہ میں ایک سازش یہ تیار کی گئی کہ یہود کے چند افراد اعلانیہ طور پر مسلمان ہوجائیں۔ پھر چند دنوں بعد یا اسی دن اسلام سے مرتد ہوجائیں۔ اس سازش کا پس منظر یہ تھا کہ یہود عرب بھر میں علوم شرعیہ کے عالم مشہور تھے، حتیٰ کہ یہود اپنے سوا دوسرے سب لوگوں کو امی (ناخواندہ لوگ) کہہ کر پکارتے تھے۔ یہودیوں کے مسلمان ہونے کے بعد پھر سے مرتد ہونے سے عام لوگوں میں خود بخود تاثر پیدا ہوجائے گا کہ اہل علم نے جب اس دین اسلام کا قریب ہو کر مطالعہ کیا تو انہیں ضرور دال میں کچھ کالا نظر آیا ہے۔ ورنہ ایک عالم آدمی کیسے گمراہی کو ترجیح دے سکتا ہے۔ یہ سازش ابھی پک ہی رہی تھی کہ اللہ نے اپنے نبی کے ذریعہ مسلمانوں کو اس سے متنبہ کردیا اور ان کی یہ باطنی خباثت وہیں ختم ہو کر رہ گئی۔ آل عمران
73 [٦٤] اسلام کی راہ میں روکنے کےلیےیہود کی چالیں:۔ چوتھی کوشش ان کی یہ تھی کہ وہ ایک دوسرے کو اس بات کی تاکید کرتے تھے کہ خبردار اپنے دین پر پکے رہنا، دوسرے کسی مذہب والے کی پیروی نہ کرنا، تم مسلمانوں کی باتیں سنو مگر قبول وہی کرو جو تمہارے اپنے مذہب کے مطابق ہوں۔ اور خبردار! انہیں تورات کی کوئی ایسی بات بھی نہ بتلانا جو تمہارے اپنے خلاف جاتی ہو۔ ورنہ وہ قیامت کو اللہ کے حضور یہ کہہ دیں گے کہ ان باتوں کا تو یہ یہود خود بھی اقرار کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں اپنے پیارے پیغمبر سے فرمایا کہ ان سے کہہ دیجئے کہ تم جو ہدایت کے ٹھیکیدار بنے پھرتے ہو تو یہ تو بتلاؤ کہ یہ ہدایت تمہیں ملی کہاں سے ہے؟ اور اگر اللہ ہی کی طرف سے ملی ہے تو کیا دوسروں کو ایسی ہی ہدایت کے احکام نہیں بتلاسکتا۔ بالخصوص اس صورت میں کہ تم اللہ کے احکام کے علی الرغم ہر قسم کی بددیانتی پر اتر آئے ہو؟ آل عمران
74 [٦٥] ان کی ان سب کوششوں اور شرارتوں کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا۔ بے شک ایک وقت تھا جب اللہ نے تمہیں تمام جہان والوں پر عزو شرف بخشا تھا۔ لیکن اب تم مسلسل فتنہ انگیزیوں اور بدعہدیوں کی وجہ سے اس قابل نہیں رہے۔ فضل و شرف کا مالک اللہ ہے اور اب جسے اس نے مناسب اور مستحق سمجھا اسے اس نے دے دیا۔ فضل و شرف کے ٹھیکیدار تم نہیں ہو۔ اللہ تعالیٰ تم جیسا تنگ نظر نہیں ہے کہ فضل و شرف کے اہل لوگوں کو فضل و شرف عطا نہ فرمائے، بلکہ وہ بڑا وسیع النظر ہے۔ سب کچھ جاننے والا اور وہی فضل و شرف عطا کرنے والا ہے اور وہ یہ بھی خوب جانتا ہے کہ تم اب اس عزوشرف کے اہل نہیں رہے۔ آل عمران
75 [٦٦] سود یہودیوں پر بھی حرام کیا گیا تھا۔ لیکن ان کے فقہاء نے کچھ اس طرح موشگافیاں اور نکتہ آفرینیاں کیں جن کی رو سے انہوں نے غیر یہود سے سود وصول کرنا جائز قرار دے لیا تھا ( جیسا کہ آج کل مسلمانوں میں سے ایک گروہ ایسا ہے جو فقہی موشگافیاں پیدا کرکے حربی کافروں سے سود لینا جائز سمجھتا ہے) پھر ان کی یہ سود خوری کی عادت فقط سود تک محدود نہ رہی بلکہ وہ کہتے تھے غیر یہودی کا مال جس طریقے سے ہڑپ کیا جاسکے، جائز ہے۔ یہود کی اس طرح کی حرام خواری کا ذکر اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر فرمایا ہے۔ گویا اس طرح وہ دہرا جرم کرتے تھے۔ ایک حرام خواری دوسرے اسے شریعت سے مستنبط مسئلہ قرار دے کر اسے جائز سمجھنا۔ گویا وہ اپنی اختراع کو اللہ کی طرف منسوب کردیتے تھے۔ سود خوری سے انسان کی طبیعت پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں، وہ ہیں خود غرضی، سنگ دلی، بخل اور مال سے غیر معمولی محبت اور اس کے بعد حرام طریقوں سے مال جمع کرنے کی فکر، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جو ایسے شخص کی مثال دی ہے کہ اگر اسے ایک دینار بھی دے بیٹھیں تو اس سے واپس لینا مشکل ہوجاتا ہے تو وہ اسی قسم کے مال کی محبت میں گرفتار آدمی کی مثال ہے۔ رہی دیانتدار آدمی کی مثال تو وہ ہر قوم اور ہر امت میں کچھ اچھے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں۔ اگرچہ وہ کم ہی ہوتے ہیں۔ یہودیوں میں ایسے لوگ وہ تھے جو سود خوری اور دوسرے ناجائز طریقوں کو فی الواقعہ حرام سمجھتے تھے۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ایسے ہی شخص تھے۔ کسی نے ان کے پاس بارہ اوقیہ سونا بطور امانت رکھا تھا اور جب مالک نے اپنی امانت طلب کی تو فوراً ادا کردی۔ اب ان کے مقابلہ میں ایک یہودی فحاص نامی تھا۔ کسی نے ایک اشرفی اس کے پاس امانت رکھی ہوئی تھی۔ جب اس نے اس سے امانت طلب کی تو وہ مکر ہی گیا۔ یہودیوں کاغیراسرائیلیوں کےمال کوجائزسمجھنا:۔ یہود کا غیر اسرائیلیوں کے مال کو ہر جائز و ناجائز ذریعہ سے ہڑپ کر جانے کا جواز ان کی اپنی کتابوں سے ثابت ہے۔ تلمود میں کہا گیا ہے کہ اگر اسرائیلی کا بیل کسی غیر اسرائیلی کے بیل کو زخمی کر دے تو اس پر کوئی تاوان نہیں۔ مگر غیر اسرائیلی کا بیل اگر اسرائیلی کے بیل کو زخمی کردے تو اس پر تاوان ہے۔ نیز اگر کسی کو کوئی گری پڑی چیز ملے تو اسے دیکھنا چاہئے کہ گردوپیش آبادی کن لوگوں کی ہے۔ اگر اسرائیلیوں کی ہو تو اسے اعلان کرنا چاہئے۔ اور اگر غیر اسرائیلیوں کی ہو تو اسے بلا اعلان وہ چیز رکھ لینی چاہیئے۔ ربی شموایل کہتا ہے کہ اگر امی اور اسرائیلی کا مقدمہ قاضی کے پاس آئے تو اگر قاضی اسرائیلی قانون کے مطابق اپنے مذہبی بھائی کو جتوا سکتا ہو تو اس کے تحت جتوائے اور کہے کہ یہ ہمارا قانون ہے اور اگر امیوں کے قانون کے مطابق جتوا سکتا ہو تو اس کے تحت جتائے اور کہے کہ یہ تمہارا قانون ہے۔ اور اگر دونوں قانون ساتھ نہ دیتے ہوں تو پھر جس حیلے سے بھی وہ اسرائیلی کو کامیاب کرسکتا ہو کرے۔ ربی شموایل کہتا ہے کہ غیر اسرائیل کی ہر غلطی سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ (تفہیم القرآن، ج ١ ص ٢٦٦، حاشیہ نمبر ٦٤) آل عمران
76 [٦٦۔ ا] یہود کی باطنی خباثتوں کے ذکر کے درمیان ان کی بددیانتی کا ذکر اس نسبت سے آیا ہے کہ ان دونوں کا منبع ایک ہے اور وہ ہے تقویٰ کا فقدان۔ یعنی یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے ایسے بے باک اور نڈر ہوگئے تھے کہ نہ وہ اللہ کے احکام بیان کرنے میں دیانت سے کام لیتے ہیں اور نہ ہی دوسرے لوگوں سے معاملات میں وہ دیانت کو ملحوظ رکھتے تھے۔ ان کے ذہن میں بس ایک ہی سودا سمایا ہوا تھا کہ وہ چونکہ انبیاء کی اولاد ہیں لہٰذا جو کچھ بھی وہ کرلیں۔ دوزخ کی آگ ان پر حرام کردی گئی ہے۔ اسی زعم باطل کی بنا پر وہ غیر اسرائیلیوں کے اموال کو ہر جائز و ناجائز طریقے سے ہڑپ کر جانے کو کچھ جرم نہیں سمجھتے تھے۔ یہود میں اہل تقویٰ لوگ:۔ ان میں چند ایک جو فی الواقع اللہ سے ڈرنے والے تھے۔ وہ نہ اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں کسی قسم کی بددیانتی اور خیانت کے روادار تھے اور نہ لوگوں کے معاملہ میں۔ ایسے ہی متقی لوگوں میں سے ایک عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اور ان کے حلقہ اثر کے لوگ تھے۔ جو لوگوں سے بھی کسی طرح کی بددیانتی یا ہیرا پھیری نہیں کرتے تھے۔ اور نہ ہی وعدہ خلافی کرتے تھے اور جب انہیں یہ تسلی ہوگئی کہ یہ نبی واقعی وہی نبی ہیں جن کی تورات میں بشارت دی گئی ہے ہے تو وہ بلاخوف لومۃ لائم فوراً اسلام لے آئے تھے۔ آل عمران
77 [٦٧] اللہ کے عہد اور قسموں کے بدلے تھوڑا سا فائدہ اٹھا لینے کی بہت سی صورتیں ممکن ہیں ان میں دو صورتوں کا ذکر تو بخاری میں آیا ہے۔ یہ دونوں صورتیں بعینہ ہم احادیث کے الفاظ میں درج کرتے ہیں۔ جھوٹی قسم سے مال بٹورنا:۔۱ ۔ اشعث بن قیس کہتے ہیں کہ یہ آیت میرے حق میں اتری۔ میرے چچا زاد بھائی کی زمین میں میرا کنواں تھا۔ آپ نے مجھ سے فرمایا کہ ’گواہ لاؤ‘ ورنہ اس سے قسم لے لو۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! وہ تو قسم کھا جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جو شخص کسی مسلمان کا مال مار لینے کی نیت سے خواہ مخواہ جھوٹی قسم کھائے تو جب وہ اللہ سے ملے گا تو اس وقت اللہ اس پر غضب ناک ہوگا۔‘‘ (بخاری، کتاب التفسیر) ٢۔ عبداللہ بن ابی اوفیٰ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے بازار میں اپنا مال رکھا اور ایک مسلمان کو پھانسنے کے لیے جھوٹی قسم کھا کر کہنے لگا کہ مجھے اس مال کی اتنی قیمت ملتی تھی۔ (حالانکہ یہ بات غلط تھی) تب اللہ نے یہ آیت نازل کی۔ (بخاری، کتاب التفسیر) باقی صورتیں مثلاً فقہی موشگافیاں یا کتاب اللہ میں تحریف یا غلط تاویل کرکے غلط فتویٰ دینا اور ان کے عوض مال وصول کرنا، کسی سے کوئی چیز عاریتاً لے کر مکر جانا اور قسم اٹھا لینا، غرض کہ بددیانتی کی جتنی بھی اقسام ہوسکتی ہیں ان سب پر اس آیت کا اطلاق ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ جب قرآن کریم یا احادیث میں کسی جرم کے متعلق ایسے الفاظ استعمال ہوں کہ قیامت کے دن اللہ اس سے کلام نہیں کرے گا یا دیکھے گا بھی نہیں یا اس پر اللہ کا غضب ہوگا یا انہیں پاک نہیں کرے گا، تو ایسے گناہ یقیناً کبیرہ گناہ ہوا کرتے ہیں۔ مگر ایسے جرائم کرنے کے باوجود یہ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ قیامت کے دن یہی اللہ کے مقرب بندے ہوں گے۔ انہی کی طرف نظر عنایت ہوگی اور جو تھوڑا بہت گناہوں کا میل انہیں لگ گیا ہے وہ بھی ان کے بزرگوں کے صدقے ان پر سے دھو ڈالا جائے گا۔ حالانکہ ان کے ساتھ معاملہ بالکل اس کے برعکس ہوگا۔ آل عمران
78 [٦٨]علماء کا لب ولہجہ سے عوام کوفریب دینا اورخطبیوں کی چالبازیاں:۔ اس آیت میں یہود کی ایک اور چالبازی مذکور ہے۔ خطیبوں اور واعظوں کی عموماً یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ کتاب اللہ کی آیات کو تو خوش آوازی اور لے کے ساتھ پڑھتے ہیں اور اس کے معانی اور تشریح عام گفتگو کے لہجہ میں کرتے ہیں۔ اب اگر وہ معانی اور تشریح کے الفاظ کی ادائیگی بھی اسی لب و لہجہ میں کریں جس میں وہ کتاب اللہ کی کرتے ہیں تو سننے والے یہ سمجھتے ہیں کہ ان لفظوں کے معانی بھی کتاب اللہ ہی کا حصہ ہیں۔ لوگوں کو فریب دینے اور اپنے خیالات کو اللہ کی طرف منسوب کردینے کی یہ ایک بدترین صورت ہے اور اس طرح وہ ہر جھوٹی سچی بات اللہ کے ذمہ لگا کر اس سے مختلف قسم کے مفادات حاصل کرتے ہیں۔ یہود کی جس عادت بد کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے۔ دوسرے اہل کتاب حتیٰ کہ مسلمان بھی اس سے محفوظ نہیں۔ مسلمانوں میں بھی ایک فرقہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشریت کا منکر ہے وہ جب یہ آیت ﴿قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ ﴾پڑھتے ہیں تو ﴿ انما﴾ کے لفظ میں معمولی سی تحریف کرکے اس ایک لفظ کے دو الفاظ بنا کر ( ان ما) پڑھتے ہیں۔ پھر اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں۔ ’’اے نبی! کہہ دو کہ تحقیق نہیں ہوں میں بشر تم جیسا‘‘ اس طرح جو آیت ان کے عقیدہ کو باطل قرار دیتی تھی۔ اسے اپنے عقیدہ کے مطابق بنا لیتے ہیں۔ اس طرح وہ صرف تحریف لفظی کے ہی مرتکب نہیں ہوتے بلکہ اپنے پیروکاروں کو اس مزعومہ عقیدہ پر مضبوط رکھنے اور باہمی تفرقہ بازی کی خلیج کو مزید وسیع کرنے کا سبب بنتے ہیں اور یہ سب کچھ زبان کی لے اور لہجہ میں موڑ توڑ کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے۔ آل عمران
79 [٦٩]کسی مخلوق کوخدائی کےمقام تک لےجانے والاکام کبھی پیغمبر کانہیں ہوسکتا:۔ اس آیت کی شان نزول کے بارے میں کئی اقوال ہیں اور وہ سب ہی درست معلوم ہوتے ہیں مثلاً ان میں سے ایک یہ ہے، جب نجران کے عیسائی آپ سے بحث و مناظرہ کرنے آئے تو یہود ان کے ساتھ مل گئے اور طنزاً آپ سے کہنے لگے کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کی پرستش کیا کریں۔ تب یہ آیت نازل ہوئی اور تیسرا یہ قول ہے کہ کسی صحابی نے آپ سے عرض کیا کہ رومی اور ایرانی اپنے اپنے بادشاہوں کو سجدہ کیا کرتے ہیں کیا ہم بھی آپ کو سلام کے بجائے سجدہ نہ کریں؟ تو آپ نے اس بات سے سختی سے منع کیا اور فرمایا کہ اللہ کے سوا اگر کسی کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے کیونکہ شوہر کا بیوی پر بہت حق ہے۔ (ترمذی، ابو اب الرضاع والطلاق، باب ماجاء فی حق الزوج علی المراۃ) تب یہ آیت نازل ہوئی۔ جو کچھ بھی ہو اس آیت میں ایسی تمام باتوں کی جامع تردید ہے جو مختلف قوموں نے پیغمبروں کی طرف منسوب کرکے اپنی مذہبی کتابوں میں شامل کردی ہیں۔ جن کی رو سے کوئی پیغمبر یا فرشتہ معبود قرار پاتا ہے۔ ان آیات میں ایک قاعدہ کلیہ بیان کردیا گیا ہے کہ کوئی ایسی تعلیم جو اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی سکھاتی اور بندے کو خدا کے مقام تک لے جاتی ہو، وہ ہرگز کسی پیغمبر کی تعلیم نہیں ہوسکتی اور جہاں کسی مذہبی کتاب میں کوئی ایسی بات پائی جائے تو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ گمراہ کن عقیدہ لوگوں کی تحریفات کا نتیجہ ہے۔ [٧٠]نبی کااپنی پرستش کےلیے کہناناممکن ہے:۔ یہودیوں کے وہ علماء جو مذہبی عہدہ دار ہوتے تھے۔ ربانی کہلاتے تھے۔ ان کا کام مذہبی امور میں لوگوں کی رہنمائی کرنا اور عبادات کا قیام اور احکام دین کا اجرا کرنا ہوتا تھا۔ اس آیت میں بتلایا جارہا ہے کہ نبی کا کام یہ نہیں ہوتا کہ پہلے لوگوں کو اللہ کی بندگی کی طرف دعوت دے۔ پھر جب وہ اس کی اطاعت کرنے لگیں تو ان سے اپنی پرستش کرانا شروع کر دے بلکہ اس کا کام ربانی قسم کے لوگ تیار کرنا ہوتا ہے اور جو کتاب اسے دی جاتی ہے اور جسے تم لوگ پڑھتے پڑھاتے ہو اس کا بھی یہی تقاضا ہوتا ہے۔ کیونکہ انبیاء کا کام کفر و شرک کو مٹانا ہوتا ہے۔ پھیلانا نہیں ہوتا اور انبیاء یا کسی دوسرے کو رب بنا لینے سے بڑھ کر کفر و شرک کی اور کیا بات ہوسکتی ہے؟ علماء کورب بنانے کا مطلب :۔ واضح رہے کہ اپنے علماء و مشائخ کی باتوں کے سامنے بلاتحقیق سر تسلیم کردینا بھی انہیں اپنا رب قرار دینے کے مترادف ہوتا ہے۔ جب یہ آیت ﴿ اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ ﴾ نازل ہوئی تو حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ (جو پہلے عیسائی تھے) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ ہم نے اپنے علماء و مشائخ کو رب تو نہیں بنا رکھا تھا۔ آپ نے فرمایا : کیا یہ بات نہ تھی کہ جس چیز کو وہ حلال کہتے تم اسے حلال اور جسے وہ حرام کہتے تم اسے حرام تسلیم کرتے تھے؟ عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہنے لگے ہاں یہ بات تو تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یہی رب بنانا ہوتا ہے۔‘‘ (ترمذی ابو اب التفسیر، زیر تفسیر آیت مذکورہ) آل عمران
80 آل عمران
81 [٧١]انبیاء سے لیاہواعہدان کی امت پر لاگو ہوتاہے :۔ اللہ تعالیٰ نے ایک عہد تو تمام بنی آدم سے عالم ارواح میں لیا تھا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں گے جس کا ذکر سورۃ اعراف کی آیت نمبر ١٧٧ میں آتا ہے اور دوسرا عہد انبیاء سے لیا گیا تھا۔ جس کا ذکر اس آیت میں ہے اور مفسرین کی رائے کے مطابق یہ عہد بھی عالم ارواح میں ہی لیا گیا تھا اور وہ عہد یہ تھا کہ اگر تمہاری زندگی میں کوئی ایسا نبی آئے جو تمہارے پاس پہلے سے موجود کتاب کی تصدیق کرتا ہو تو تمہیں اس پر ایمان بھی لانا ہوگا اور اس کی مدد بھی کرنا ہوگی۔ یہ حکم دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء سے اس حکم کی بجا آوری کی توثیق بھی کرائی۔ بے شمار انبیاء تو ایسے ہیں جو ہم عصر تھے۔ جسے حضرت ابراہیم اور لوط، حضرت موسیٰ اور ہارون، حضرت عیسیٰ اور یحییٰ علیہم السلام وغیرہ وغیرہ اور یہ سب دعوت الی اللہ کے کام میں ایک دوسرے کے معاون اور مددگار تھے۔ پھر جو عہد انبیاء سے لیا گیا تھا اس کو پورا کرنے کی ذمہ داری ہر نبی کی امت پر بھی عائد ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے یہود پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام اور دوسرے انبیاء پر ایمان لاتے اور ان کے کام میں مددگار ثابت ہوتے۔ اسی طرح یہود، نصاریٰ اور مشرکین مکہ (جو اپنے آپ کو دین ابراہیم کا پیرو کار سمجھتے تھے) سب پر یہی ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لاتے اور ان کے معاون و مددگار ثابت ہوتے۔ پھر یہ بات صرف اس عہد تک ہی محدود نہ تھی بلکہ ہر نبی کی کتاب میں بعد میں آنے والے نبی کی بشارت بھی دی جاتی رہی اور اس نبی اور اس کی امت سے اسی قسم کا عہد لیا جاتا رہا۔ آپ کےخاتم النبیین ہونے کی دلیل :۔ واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے کے انبیاء سے یہ عہد لیا گیا تھا اور ان کی کتابوں میں آنے والے نبی کی بشارت بھی دی گئی تھی۔ لیکن آپ سے اس قسم کا عہد نہیں لیا گیا کیونکہ آپ خاتم النبیین ہیں۔ نہ ہی قرآن و حدیث میں کسی آنے والے نبی کی بشارت دی گئی ہے۔ اس کے برعکس قرآن میں آپ کو خاتم النبیین کہا گیا ہے اور بے شمار احادیث صحیحہ سے یہ بات واضح ہے کہ آپ کے بعد تاقیامت کوئی نبی نہیں آئے گا۔ البتہ قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ علیہ السلام ضرور نازل ہوں گے۔ مگر اس وقت ان کی حیثیت آپ کے متبع کی ہوگی یعنی وہ شریعت محمدیہ کی ہی اتباع کریں گے۔ آل عمران
82 [٧٢]بائبل کیوں ناقابل اعتبار ہے:۔ اس پختہ عہد اور بشارتوں کے بعد بھی جو شخص تعصب کی راہ اختیار کرے اور اپنے آپ کو دین کا اجارہ دار سمجھے اور مخالفت پر کمر بستہ ہوجائے تو اس سے زیادہ نافرمانی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے؟ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ جب عیسائیوں سے کہا جاتا ہے کہ تمہیں قرآن پر ایمان لانا چاہئے کیونکہ یہ تمہاری کتاب انجیل کی تصدیق کرتا ہے؟ تو وہ اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ قرآن نہ تو عقیدہ الوہیت مسیح کی تصدیق کرتا ہے نہ مسیح کی ابنیت کو تسلیم کرتا ہے، نہ عقیدہ تثلیث کو اور نہ کفارہ مسیح کو تسلیم کرتا ہے۔ حالانکہ ہماری اناجیل سے یہ سب کچھ ثابت ہے۔ پھر ہم آپ کے قرآن پر کیسے ایمان لائیں اور کیوں کر اسے الہامی کتاب سمجھ سکتے ہیں؟ گویا جن غلط اور گمراہ کن عقائد کی اصلاح اور صحیح عقیدہ توحید کو پیش کرنے کے لیے قرآن نازل ہوا تھا اور حق و باطل کو نکھار کر ان کے اختلافات کا فیصلہ کرنے آیا تھا۔ یہ لوگ ان غلط عقائد سے کچھ اس طرح چمٹے ہوئے ہیں اور مذہبی تعصب کی پٹی ان کی آنکھوں پر کچھ اس طرح بندھی ہوئی ہے کہ وہ انہیں غلط عقائد کو اصل بنیاد قرار دے کر قرآن کی ہی تکذیب شروع کردیتے ہیں۔ حالانکہ ایسے غلط عقائد صدیوں بعد ان کے علماء کی طرف سے اناجیل میں شامل کردیئے گئے، اور یہ مجموعہ کچھ اس طرح الہامی مضامین اور الحاقی مضامین میں گڈمڈ ہوگیا کہ بعد میں آنے والے علماء کے لیے یہ معاملہ مشتبہ ہوگیا اور ان میں سے اصل الہامی مضامین کو الگ کرنا مشکل ہوگیا۔ یہی حال تورات کا بھی ہوا۔ بائیبل میں کئی ایسی داخلی شہادتیں آج بھی موجود ہیں جن سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ عبارت الہامی نہیں ہوسکتی۔ بلکہ لوگوں کی طرف سے شامل کی گئی ہے اور ایسی شہادتوں کا ہم نے کسی دوسرے مقام پر ذکر بھی کردیا ہے۔ ان کے مقابلہ میں قرآن کی سالمیت غیر مذاہب میں بھی مسلم ہے۔ پھر یہ کس قدر اندھیر کی بات ہے کہ ایسی تحریف شدہ کتابوں کو اصلی معیار قرار دے کر قرآن کریم کی تکذیب کی جائے۔ آل عمران
83 [٧٣] اللہ کادین کیاہے؟ اللہ کا دین کیا ہے؟ اللہ کا دین صرف اس کے آگے سر تسلیم خم کردینے کا نام ہے۔ کائنات کی ہر چیز زمین و آسمان، شمس و قمر، ستارے اور سیارے، فرشتے اور ہوائیں غرض جو چیز بھی موجود ہے خواہ یہ اطاعت اضطراری ہو یا اختیاری، بہرحال وہ اللہ کی مطیع فرماں ہے اور اس کے حکم سے سرمو تجاوز نہیں کرسکتی۔ انسانوں اور جنوں کو کسی حد تک فرمانبرداری اور نافرمانی کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ان سے مطالبہ صرف یہ ہے کہ جن کاموں میں انہیں تھوڑا بہت اختیار دیا گیا ہے ان میں بھی وہ اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے کائنات کی تمام اشیاء کے ساتھ ہم آہنگ ہوجائیں۔ یہی وہ دین ہے جو تمام انبیاء پر نازل ہوا اور اسی کی وہ تبلیغ و اشاعت کرتے رہے ہیں۔ آل عمران
84 [٧٤] یعنی ہمارا یہ طریقہ نہیں کہ ہم کسی نبی پر ایمان لائیں اور کسی پر نہ لائیں، کسی کو جھوٹا کہیں اور کسی کو سچا اور چونکہ سب بلحاظ درجہ نبوت برابر ہیں۔ لہٰذا ہم ان کے درمیان کچھ فرق نہیں کرتے۔ حمیت جاہلیہ سے کام لینا ہمارا شیوہ نہیں۔ بلکہ اللہ کا جو بندہ بھی اللہ کی طرف سے حق لے کر آیا ہے ہم اس کے برحق ہونے پر شہادت دیتے ہیں۔ (انبیاء کے درمیان تفریق کی مزید وضاحت کے لیے سورۃ بقرہ کی آیت ٢٨٥ کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیے۔ آل عمران
85 [٧٥] اس آیت میں پہلی بات کو ہی دوسرے الفاظ میں دہرایا گیا ہے۔ یعنی دور نبوی کے یہود و نصاریٰ کی زبانوں سے اس امر کی شہادت ادا ہوچکی تھی کہ آپ جو تعلیم لائے ہیں وہ وہی ہے جو سابقہ انبیاء کی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے جو مخالفت کی تو اس کی وجہ محض تعصب اور مفاد پرستی تھی۔ لہٰذا ایسے لوگوں کا کوئی عمل بھی قابل قبول نہ ہوگا اور آخرت میں ان کے لیے خسارہ ہی خسارہ ہے جس کے بدلے انہیں دردناک عذاب برداشت کرنا پڑے گا۔ آل عمران
86 [ ٧٥۔ ١] اہل کتاب کا اندھاتعصب : اس آیت کے مخاطب ہٹ دھرم اور متعصب قسم کے اہل کتاب ہیں۔ خواہ وہ یہودی ہوں یا نصاریٰ، یہ دونوں فریق آنے والے نبی کے منتظر تھے۔ کیونکہ نبی آخرالزمان کی بشارت تورات میں بھی موجود تھی اور انجیل میں بھی۔ لیکن جب وہ رسول مبعوث ہوگیا تو ان لوگوں نے اس پر ایمان لانے سے انکار کردیا۔ وجہ یہ تھی کہ یہود یہ سمجھتے تھے کہ وہ ہمارے مذہب کی تائید کرے گا۔ اور عیسائی یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ وہ یہود کے مقابلہ میں ان کا ساتھ دے گا۔ لیکن جب ان کی یہ تمنا بر نہ آئی تو انہوں نے انکار کردیا۔ پھر انہی یہود و نصاریٰ میں کچھ ایسے لوگ بھی اٹھ کھڑے ہوئے جنہوں نے برملا شہادت دی کہ یہ وہی رسول ہے جس کی شہادت ہماری کتابوں میں موجود ہے اور وہ ایمان بھی لے آئے۔ متعصب لوگوں پر اس کا بھی کچھ اثر نہ ہوا۔ پھر نبی آخر الزمان میں انہوں نے کئی ایسی نشانیاں بھی دیکھیں جو ان کی تسلی کے لیے بہت کافی تھیں۔ ان نشانیوں میں کچھ تو وہ تاریخی قسم کے سوالات تھے جو علمائے اہل کتاب یہ سمجھتے تھے کہ ان کے جوابات ان کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پھر جب انہوں نے امتحان کے طور پر آپ سے وہ سوالات پوچھے تو آپ نے ان کے کافی و شافی جواب دے دیئے اور یہ بات وحی الٰہی کے علاوہ ممکن نہ تھی۔ علاوہ ازیں قرآن نے کچھ پیشین گوئیاں کی تھیں جو ان کی آنکھوں کے سامنے یا خود ان پر پوری ہو رہی تھیں۔ پھر بھی یہ لوگ اپنے تعصب کی بنا پر ایمان لانے پر آمادہ نہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ وضاحت فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے ہٹ دھرم لوگوں کو زبردستی کبھی ہدایت نہیں دیا کرتا۔ اس طرح کی زبردستی اس کے دستور کے خلاف ہے۔ آل عمران
87 [٧٦] یہاں سب لوگوں سے مراد مسلمان ہیں اور اس لحاظ سے سب لوگ بھی ہوسکتے ہیں کہ اجمالاً ہر شخص جھوٹے بدعہد اور دغا باز پر لعنت بھیجتا ہے اور آخرت میں تو کافر خود بھی ایک دوسرے پر لعنت بھیجیں گے اور اپنے قصور کا الزام دوسرے کے سر تھوپیں گے۔ آل عمران
88 [٧٧] یعنی عذاب جہنم اپنی حدت و شدت کے لحاظ سے ایسا مسلسل اور متواتر ہوگا کہ نہ تو اس کی حدت و شدت میں کبھی کمی واقع ہوگی اور نہ ہی عذاب کے درمیان کبھی کوئی وقفہ دیا جائے گا۔ آل عمران
89 [٧٨] ہاں وہ لوگ ایسے عذاب سے بچ سکتے ہیں جنہوں نے سچے دل سے توبہ کرلی۔ ایمان لے آئے اور مخالفت سے رک گئے۔ اپنے اعمال و افعال کی اصلاح کرلی اور اسلام اور مسلمانوں کے خیر خواہ بن کر ان کی معاونت کرنے لگے تو ایسے لوگوں کے سابقہ گناہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا۔ آل عمران
90 [٧٩]توبہ قبول ہونے کی شرائط :۔ اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ مثلاً یہود حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے تھے۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا انکار کرکے کفر کا رویہ اختیار کیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھی انکار کردیا جو ان کے کفر میں مزید اضافہ کا سبب بن گیا۔ ایسے معاندین کے حق میں توبہ کبھی قبول نہ ہوگی۔ دوسری صورت یہ کہ ایک شخص ایمان لایا۔ پھر اس کے بعد مرتد ہوگیا۔ پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اسلام دشمنی میں اپنی سرگرمیاں تیز تر کردیں، تو ایسے شخص کی بھی توبہ قبول نہ ہوگی۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مرتد ہوجانے کے بعد کفر پر ڈٹا رہا اور جب موت کا وقت آپہنچا تو توبہ کی سوجھی۔ اس وقت بھی توبہ قبول نہ ہوگی۔ البتہ جو لوگ اپنی زندگی میں اسلام دشمنی میں سرگرم اور تقریر و تحریر کے ذریعہ لوگوں میں الحاد اور باطل عقائد پھیلانے میں سرگرم رہے ہوں ان کی توبہ قبول ہونے کی صورت اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ١٦٠ بایں الفاظ بیان فرمائی۔ ﴿اِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَبَیَّنُوْا﴾ یعنی ان کی توبہ کی قبولیت کے لیے تین شرطیں لازم ہیں۔ (١) سچی توبہ کریں (٢) اپنے اعمال و افعال درست کرکے اپنی اصلاح کرلیں اور جو کچھ الحاد یا باطل عقائد وہ لوگوں میں پھیلا چکے ہیں۔ برملا اس کی تردید بھی کریں۔ اگر تقریر کے ذریعہ گمراہی پھیلائی ہے تو اسی طرح بھری محفل میں ایسے عقائد سے بیزاری کا اظہار اور اپنی غلطی کا اعتراف کریں اور اگر تحریری صورت میں گمراہی پھیلانے کے مرتکب ہوئے ہیں تو تحریری صورت میں اس کی تلافی اور اپنی غلطی کا اعتراف کریں تو ایسے لوگوں کی بھی توبہ قبول ہوسکتی ہے۔ آل عمران
91 [٨٠] آخرت میں زر فدیہ :۔آخرت میں تو صرف وہ اعمال کام آئیں گے جو کسی نے اپنے لیے آگے بھیجے ہوں گے۔ اعمال کے سوا وہاں نہ مال و دولت کام آئے گا۔ نہ قرابتداری اور نہ سفارش۔ آیت مذکورہ میں جو صورت پیش کی گئی ہے۔ وہ بفرض تسلیم ہے۔ یعنی اگر کسی کافر کے پاس سونے کے ڈھیروں کے ڈھیر حتیٰ کہ زمین بھر سونا ہو تو اس کی آرزو یہی ہوگی کہ سب کچھ دے کر عذاب جہنم سے اپنی جان چھڑا لے۔ مگر وہاں یہ بات ناممکن ہوگی۔ چنانچہ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ : آپ نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سب سے کم عذاب والے دوزخی سے فرمائیں گے اگر تیرے پاس دنیا و مافیہا ہو تو کیا تو اسے اپنے فدیہ میں دے دے گا ؟ وہ کہے گا ''ہاں'' اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ ’’جب تو انسانی شکل میں تھا تو میں نے تجھ سے اس سے آسان تر بات طلب کی تھی۔ (کہ توحید پر قائم رہنا) اور کہا تھا کہ پھر میں تجھے جہنم میں داخل نہ کروں گا، مگر تو شرک پر اڑا رہا۔‘‘ (مسلم، کتاب صفۃ القیامۃ باب طلب الکافر الفداء مل الارض ذھبا) آل عمران
92 [٨١]پسندیدہ مال خرچ کرنے کی فضیلت:۔ اگرچہ سابقہ مضمون یہود سے سے متعلق چل رہا ہے۔ تاہم اس آیت کا خطاب یہود، نصاریٰ، مسلمانوں اور سب بنی نوع انسان سے ہے اور مال سے محبت انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے اس کے دل میں گھٹن سی پیدا ہونے لگتی ہے اور اگر کسی کے کہنے کہلانے پر مال خرچ کرنا ہی پڑے تو اس کا جی یہ چاہتا ہے کہ تھوڑا سا مال یا کوئی حقیر قسم کا مال دے کر چھوٹ جائے، جب کہ اللہ تعالیٰ یہ فرما رہے ہیں کہ جب تم اللہ کی راہ میں ایسا مال خرچ نہ کرو گے جو تمہیں محبوب اور پسندیدہ ہے۔ اس وقت تک تم نیکی کی وسعتوں کو پا نہیں سکتے۔ اس آیت کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بہت اچھا اثر قبول کیا۔ چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : انصار میں حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے سب سے زیادہ باغ تھے۔ ان میں سے بیرحاء کا باغ آپ کو سب سے زیادہ محبوب تھا۔ یہ مسجد نبوی کے سامنے تھا۔ آپ اس باغ میں جایا کرتے تھے اور وہاں عمدہ اور شیریں پانی پیتے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : ’’میری کل جائیداد سے بیرحاء کا باغ مجھے بہت پیارا ہے۔ میں اس باغ کو اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں اور اس سے ثواب اور اللہ کے ہاں ذخیرہ کی امید رکھتا ہوں، آپ جہاں مناسب سمجھیں اسے استعمال کریں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’بہت خوب! یہ مال تو بالآخر فنا ہونے والا ہے۔‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے کہ مال تو بہت نفع دینے والا ہے۔ اب تم ایسا کرو کہ اپنے غریب رشتہ داروں میں بانٹ دو۔ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے! بہت خوب! یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایسے ہی کرتا ہوں۔ چنانچہ یہ باغ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے اقارب اور چچا زاد بھائیوں میں بانٹ دیا۔ (بخاری، کتاب التفسیر نیز کتاب الزکوٰۃ، باب الزکوٰۃ علی الاقارب) اور بالخصوص اس آیت کے مخاطب یہود ہیں۔ کیونکہ اس آیت سے پہلے اور بعد والی آیات میں انہیں سے خطاب کیا جارہا ہے۔ سود خوری اور حرام خوری کی وجہ سے بخل ان کی طبیعتوں میں رچ بس گیا تھا۔ مذہبی تقدس اور پہچان کے لیے انہوں نے چند ظاہری علامات کو ہی معیار بنا رکھا تھا اسی تقدس کے پردہ میں ان کی تمام تر قباحتیں چھپ جاتی تھیں۔ جن میں سے ایک قباحت بخل اور مال سے شدید محبت تھی۔ آل عمران
93 [٨٢] یہود پرحرام شدہ اشیاء :۔ یہ دراصل یہود کے مسلمانوں پر ایک اعتراض کا جواب ہے۔ وہ مسلمانوں سے یہ کہتے تھے کہ تم نے تو شریعت کی حرام کردہ چیزوں کو حلال بنا رکھا ہے۔ تم لوگ اونٹ کا گوشت شوق سے کھاتے ہو اور اس کا دودھ بھی پیتے ہو؟ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یہ دیا کہ یہ چیزیں میں نے حرام نہیں کی تھیں بلکہ تورات کے نازل ہونے سے مدتوں پہلے یعقوب نے خود اپنے آپ پر حرام قرار دے لی تھیں۔ یعقوب نے ان چیزوں کو کیوں حرام قرار دے لیا تھا ؟ اس بارے میں کئی روایات ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ انہیں ان چیزوں سے طبعاً کراہت تھی اور دوسری یہ کہ آپ کو عرق النساء کی بیماری تھی اور پرہیز کے طور پر آپ نے ایسا کیا تھا۔ پھر ان کی اتباع میں آپ کے پیروکاروں نے بھی ان چیزوں کو چھوڑ دیا اور فی الواقع انہیں حرام سمجھ لیا تھا۔ ان حرام کردہ چیزوں میں، بکری، گائے اور اونٹ کی چربی بھی شامل تھی۔ بائیبل کے جو نسخے آج کل متداول ہیں ان میں اونٹ، خرگوش اور سافان کی حرمت کا ذکر موجود ہے۔ (احبار ١١، ٤٠-٤١ استثناء ١٤: ٧) حالانکہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں قرآن نے بطور چیلنج یہ بات کہی تھی کہ اگر تورات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر یہ چیزیں حرام کی گئی ہیں تو لاکر دکھاؤ اور یہود اس بات سے عاجز رہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس قسم کے اضافے کئے گئے ہیں کیونکہ اگر تورات میں اس وقت ایسے احکام موجود ہوتے تو یہود فوراً لاکر پیش کردیتے۔ آل عمران
94 آل عمران
95 [٨٣]ملت اور شریعت :۔ ملت ابراہیم سے مراد دین کی اصولی باتیں ہیں جو ہر نبی پر نازل کی جاتی رہیں۔ مثلاً صرف ایک اللہ کی عبادت کرنا، اسے وحدہ لاشریک سمجھنا اور اس کے سوا کسی دوسری قوت کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنا۔ اللہ کو ہی حرام و حلال قرار دینے کا مختار سمجھنا، اخروی سزاوجزا کے قانون پر ایسے ہی اعتقاد رکھنا، جیسے کتاب اللہ میں اس کی وضاحت ہے وغیرہ۔ رہے شرعی مسائل یا شریعت تو وہ ہر دور کے تقاضوں کے مطابق مختلف رہے ہیں۔ کھانے پینے کی چیزوں کی حلت و حرمت بھی ایسے ہی مسائل سے ہے اور ان میں تبدیلی ہوتی رہی ہے۔ آل عمران
96 [٨٤]قبلہ اول کعبہ ہی ہے:۔ یہ یہود کے ایک دوسرے اعتراض کا جواب ہے۔ ان کا اعتراض یہ تھا کہ تمام انبیاء کا قبلہ بیت المقدس ہی رہا ہے اور تمام انبیاء نے وہاں ہجرت کی۔ لہٰذا یہ مقام کعبہ سے افضل ہے اب مسلمانوں نے بیت المقدس کے بجائے کعبہ کو اپنا قبلہ بنایا ہے تو یہ ملت ابراہیمی سے روگردانی کی ہے۔ اس اعتراض کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا ہے کہ لوگوں کی عبادت کے لیے سب سے پہلے جو گھر تعمیر ہوا۔ وہ بیت اللہ تھا۔ بیت المقدس نہیں تھا۔ کیونکہ بیت اللہ ہی وہ گھر ہے جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ ہی کی عبادت کے لیے لوگوں کے مرجع کی حیثیت سے تعمیر کیا تھا اور بیت المقدس کو تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے چار سو سال بعد تعمیر کیا تھا اور حضرت سلیمان علیہ السلام ہی کے عہد میں یہ قبلہ اہل توحید کے لیے بنایا گیا تھا۔ لہٰذا قبلہ اول تو دراصل کعبہ ہی ہے۔ تحویل قبلہ پر یہود کے اعتراض کا جواب سورۃ بقرہ (آیت ١٤٢ تا ١٥٠) میں پہلے بھی گزر چکا ہے۔ مگر یہود چونکہ اپنے اس اعتراض کو اس کے بعد بھی بار بار دہراتے رہے۔ لہٰذا پھر سے ان کے اعتراض کا تاریخی پہلو سے بھی جواب دیا گیا ہے۔ آل عمران
97 [٨٥] آب زمزم اور چاہ زمزم کی صفات:۔ آیات بینات سے مراد ایسی واضح نشانیاں جنہیں سب لوگ دیکھتے یا دیکھ سکتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ یہ گھر ایک لق و دق میدان میں تعمیر کیا گیا۔ اسی جگہ اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر زمزم کا چشمہ پیدا فرمایا اور اس سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان وہاں جا کر یہ پانی استعمال کرتے اور اپنے گھروں میں لاتے ہیں، مگر اس چشمہ کا پانی ختم ہونے میں نہیں آتا۔ نیز یہ پانی بھوک اور پیاس دونوں کو دور کرتا اور کئی بیماریوں کے لیے شفا ہے پھر اس گھر کو اللہ نے ایسا مامون بنا دیا کہ اگر کسی کا جانی دشمن بھی کعبہ میں داخل ہوجائے تو وہ اسے ایذا پہنچانے کی جرات نہیں کرسکتا۔ نیز اللہ نے کعبہ کے علاوہ اس پورے علاقہ کو پر امن حرم بنا دیا۔ بیت اللہ کی برکات ”معجزات اور حرم کی صفات :۔ ڈھائی ہزار برس سے سارا ملک عرب جاہلیت کی وجہ سے انتہائی بدامنی، لوٹ مار، قتل و غارت میں مبتلا رہا، مگر ملک بھر میں کعبہ ہی ایک ایسا خطہ تھا، جہاں امن قائم رہا۔ یہ کعبہ ہی کی برکت تھی کہ سال بھر میں چار مہینہ کے لیے پورے ملک کو اس کی بدولت امن میسر آجاتا تھا۔ سارے ملک میں لوٹ مار کا بازار گرم رہا۔ مگر قریش کے قافلے محض کعبہ کے متولی ہونے کی بنا پر بلاخطر سفر کرتے تھے۔ حتیٰ کہ جو تجارتی قافلے قریش کی امان میں آجاتے۔ ان سے بھی کسی کو تعرض کرنے کی جراءت نہ ہوتی تھی۔ نیز نصف صدی پیشتر بھی جب ابرہہ نے کعبہ کی تخریب کے لیے مکہ پر جو حملہ کیا تھا تو ابابیلوں (چھوٹے چھوٹے پرندوں) کے لشکر نے ان ہاتھیوں والی فوج کا جس طرح ستیاناس کردیا تھا، اسے بھی سب لوگ دیکھ چکے تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ لق و دق اور پتھریلے میدان کے بسنے والوں کے لیے اللہ نے رزق رسانی کا ایسا بہترین انتظام کردیا کہ اطراف و جوانب سے ہر قسم کے پھل اور غلے معجزانہ طور پر کھنچے چلے آتے ہیں اور مکہ کو ایک مرکزی تجارتی منڈی کی حیثیت حاصل ہے اور یہ ایسی باتیں ہیں جنہیں سب لوگ بچشم خود ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں کعبہ کے پاس مقام ابراہیم وہ پتھر بھی بدستور موجود ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کو تعمیر کیا تھا اور صفا و مروہ کی پہاڑیاں بھی جن کے درمیان حضرت ہاجرہ دوڑی تھیں۔ اور یہ مقامات شعائر اللہ میں شمار ہوتے ہیں۔ مناسک حج ادا کرنے کے لیے دنیا بھر کے لوگوں کو اسی مقام کی طرف دعوت دی گئی۔ انبیاء سابقین بھی حج کی ادائیگی کے لیے یہیں تشریف لاتے اور ان شعائر کی غیر معمولی تعظیم اور احترام کرتے رہے۔ مکہ کے (حرماً آمناً) ہونے کی تفسیر درج ذیل احادیث میں ملاحظہ فرمائیے۔ فتح مکہ کےبعد ہجرت کی فرضیت کاخاتمہ :۔۱۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جس دن مکہ فتح ہوا، اس سے دوسرے دن آپ نے خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا : آج کے بعد ہجرت (فرض) نہیں رہی۔ البتہ جہاد اور اس کی نیت بدستور باقی ہے اور جب تم سے جہاد کے لیے کہا جائے تو نکل کھڑے ہو۔ یہ وہ شہر ہے کہ جس دن سے اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ اسی دن سے اس کو حرمت دی اور اللہ کی یہ حرمت قیامت تک قائم رہے گی، اور وہاں مجھ سے پہلے کسی کو لڑنا درست نہیں ہوا اور مجھے بھی ایک گھڑی کے لیے درست ہوا۔ پھر اس کی حرمت قیامت تک کے لیے قائم ہوگئی۔ نہ وہاں سے کانٹے کاٹے جائیں، نہ شکار کو ہانکا جائے، نہ گری پڑی چیز کو اٹھایا جائے۔ الا یہ کہ اٹھانے والا مالک کو پہچانتا ہو اور وہ اسے پہنچا دے اور نہ وہاں سے سبزہ کاٹا جائے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہما نے کہا : ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اذخر گھاس کاٹنے کی اجازت دیجئے کہ وہ لوہاروں کے لیے اور گھروں میں کام آنے کی چیز ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اچھا اذخر کی اجازت ہے۔‘‘ (بخاری ابو اب العمرة، باب لایحل القتال بمکۃ) اس حدیث سے مکہ کی حرمت اور تعظیم سے متعلق درج ذیل امور کا پتہ چلتا ہے۔ ١۔ حرم مکہ میں فوج کشی اور جدال و قتال ممنوع ہے اور مکہ کی یہ حرمت تاقیامت بحال رہے گی۔ اسی طرح آپس میں جدال وقتال بھی ممنوع ہے۔ ٢۔ حرم مکہ کے شکاری جانور بھی محفوظ و مامون ہیں۔ ان کو نہ شکار کیا جاسکتا ہے نہ شکار کے لیے انہیں ہانکا جاسکتا ہے۔ ٣۔ حرم مکہ کے درخت اور پودے بھی محفوظ و مامون ہیں۔ انہیں بھی کاٹنا ممنوع ہے۔ البتہ بعض اقتصادی ضرورتوں کے پیش نظر اذخر گھاس کاٹنے کی اجازت ہے۔ ٤۔ حرم مکہ میں گری پڑی چیز اٹھانا ممنوع ہے۔ الا یہ کہ اٹھانے والا چیز کے مالک کو جانتا ہو۔ اور وہ چیز مالک کو پہنچانے کا ذمہ دار بنتا ہو وہ اٹھا سکتا ہے۔ ٢۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ : تم سے کسی کے لیے جائز نہیں کہ مکہ میں ہتھیار لگائے ہوئے پھرے۔ (مسلم، کتاب الحج، باب النھی عن حمل السلاح بمکۃ من غیر حاجۃ) ٣۔ البتہ موذی جانوروں کو حرم مکہ میں مار ڈالنے کی اجازت ہے۔ چنانچہ ہم منا میں مقیم تھے کہ ایک سانپ ہم پر کو دا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اسے مار ڈالو۔‘‘ (بخاری، ابو اب العمرة، باب ما یقتل المحرم من الدواب) نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ پانچ جانور بدذات ہیں۔ انہیں حرم میں بھی مار ڈالنا چاہئے۔ کوا (چتکبرا)، چیل، بچھو، چوہا اور کاٹنے والا کتا۔ (بخاری۔ باب ایضاً) اور دور صحابہ میں یہ تعامل رہا ہے کہ اگر کوئی مجرم بیت اللہ میں پناہ لے لیتا تو جب تک وہ حرم میں رہتا اس سے تعرض نہیں کیا جاتا تھا۔ خواہ وہ کسی حد والے گناہ کا مجرم ہو۔ یزید نے جب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو اپنی بیعت کے لیے مجبور کیا تو آپ نے حرم مکہ میں آکر ہی پناہ لی تھی۔ [٨٦]حج کی فرضیت اور شرائط :۔ حج اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر حق اور ارکان اسلام سے پانچواں رکن ہے اور یہ صرف اس شخص پر زندگی میں صرف ایک بار فرض ہے جو اس کی استطاعت رکھتا ہو۔ استطاعت سے مراد یہ ہے کہ بیت اللہ شریف جانے اور واپس آنے کا خرچ اس کے پاس موجود ہو۔ اس سفر حج میں اپنی گھر سے غیر موجودگی کے دوران اہل خانہ کو معمول کے مطابق خرچ دے کر جائے۔ نیز راستہ پر خطر نہ ہو یعنی اسے اپنی جان و مال کا خطرہ نہ ہو اور اس کی جسمانی صحت اس قابل ہو کہ حج اور سفر حج کی صعوبتوں کو برداشت کرسکتا ہو۔ اگر کسی کے پاس حج کا اور اہل خانہ کا خرچ موجود ہو اور راستہ بھی پرامن ہو مگر جسمانی صحت ساتھ نہ دے سکتی ہو تو کسی تندرست شخص سے اپنی طرف سے حج کروا سکتا ہے جو پہلے خود اپنا فریضہ حج ادا کرچکا ہو اور اسے حج بدل کہتے ہیں۔ اسی طرح اگر کسی نے حج کی نذر مانی ہو اور نذر پوری کرنے سے پیشتر مرجائے تو اس کے پس ماندگان پر اس نذر کو پورا کرنا فرض ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ خود اس پر فرض ہوچکا تھا۔ خواہ یہ نفلی حج ہو۔ اگر راستہ پرخطر ہے تو جب تک خطرہ دور نہ ہو حج ساقط ہوجاتا ہے۔ قرضہ اٹھا کر یا مانگ کر یا سواری مہیا ہونے کے باوجود پیدل سفر حج کرنا کوئی نیکی کا کام نہیں اور اگر کسی نے ایسی غلط قسم کی نذر مانی ہو تو اسے ایسی نذر توڑ کر درست کام کرنا چاہئے۔ [٨٧] یعنی جو شخص استطاعت رکھتا ہو پھر جان بوجھ کر حج کا ارادہ نہ کرے اور اس سے غافل رہے تو ایسے شخص کے لیے حدیث شریف میں بڑے سخت الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ یعنی یہ کہ ’’اللہ کو کچھ پروا نہیں کہ ایسا شخص یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر۔‘‘ (ترمذی، ابو اب الحج، باب فی التغلیظ فی ترک الحج) یعنی وہ بہر طور مسلمان نہیں اور اس کا مسلمان ہونے کا دعویٰ غلط ہے۔ آل عمران
98 آل عمران
99 [٨٨] یہود کی اسلام دشمنی کا ایک طریقہ یہ تھا کہ جو شخص مسلمان ہونے لگتا اسے طرح طرح کے شکوک و شبہات میں مبتلا کردیتے تھے۔ پہلی بات جو اسے ذہن نشین کرائی جاتی وہ یہ تھی کہ جس نبی آخر الزمان کی بشارت ہماری کتابوں میں دی گئی ہے وہ یہ نبی نہیں۔ اگر یہ وہی نبی ہوتا تو قبلہ کو کیوں تبدیل کرتا۔ جو سب انبیاء کا قبلہ رہا ہے یا جو چیزیں حرام ہیں انہیں حلال کیوں بنا رہا ہے کیونکہ وہ اپنے غلط قسم کے مسائل کو اصل بنیاد قرار دے کر مسلمان ہونے والوں کو برگشتہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کی ایسی ہی حرکات پر گرفت فرمائی ہے۔ آل عمران
100 [٨٩] یہودکامسلمانوں کوآپس میں لڑانے کی کوشش کرنا:۔ اس آیت میں ایک گروہ سے مراد یہود مدینہ ہیں۔ جنہیں مدینہ کے انصار (قبیلہ اوس خزرج) کا آپس میں بھائیوں کی طرح مل بیٹھنا اور شیروشکر ہوجانا ایک آنکھ نہ بھاتا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ ان کو پھر آپس میں لڑا بھڑا کر ان میں عداوت ڈال دیں۔ جنگ بدر میں جب اللہ نے مسلمانوں کو عظیم فتح عطا فرمائی تو یہود کے عناد میں مزید اضافہ ہوگیا، ایک بڈھے یہودی شماس بن قیس کو بہت صدمہ پہنچا اس نے ایک نوجوان یہودی کو حکم دیا کہ وہ انصار کی مجالس میں جاکر جنگ بعاث کا ذکر چھیڑ دے اور اس سلسلہ میں دونوں جانب سے جو اشعار کہے گئے تھے وہ پڑھ پڑھ کر سنائے، نوجوان نے جاکر یہی کارنامہ سرانجام دیا۔ بس پھر کیا تھا ؟ تو تو میں میں سے کام شروع ہوا اور نوبت بایں جارسید کہ ایک فریق دوسرے سے کہنے لگا کہ ’’اگر تم چاہو تو ہم اس جنگ کو پھر جوان کرکے پلٹا دیں‘‘ ہتھیار ہتھیار کی آوازیں آنے لگیں اور مقابلہ کے لیے حرہ کا میدان بھی طے پا گیا اور لوگ اس طرح نکل کھڑے ہوئے۔ قریب تھا کہ ایک خوفناک جنگ چھڑ جاتی۔ اتنے میں کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر دی۔ آپ چند مہاجرین کو ساتھ لے کر فوراً موقع پر پہنچ گئے اور جاتے ہی فرمایا: مسلمانو میری موجودگی میں یہ جاہلیت کی پکار! اللہ تعالیٰ نے تمہیں اسلام کی طرف ہدایت دی اور تمہارے دلوں کو جوڑ دیا۔ پھر اب یہ کیا ماجرا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ پکار سن کر انصار کی آنکھیں کھل گئیں اور وہ سمجھ گئے کہ وہ کس طرح شیطانی جال میں پھنس چکے تھے اور اس جال میں پھنسانے والے یہی ستم گر یہود تھے۔ پھر اوس و خزرج کے لوگ آپس میں گلے ملنے اور رونے لگے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی اس سازش کو ناکام بنا کر مسلمانوں کو تباہی سے بچا لیا۔ (ابن ہشام، ٥٥٥-٥٥٦) [٩٠] اس آیت کے دو مطلب ہیں اور دونوں ہی درست ہیں۔ ایک یہ کہ اگر تم یہودیوں کی بات ماننے لگو گے تو یہ تمہیں اسلام سے مرتد کرکے ہی دم لیں گے اور دوسرے یہ کہ تمہیں آپس میں لڑا بھڑا کر کافر بنا دیں گے جیسا کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ مسلمانوں کا آپس میں لڑنا کفر ہے اور خطبہ حجۃ الوداع کے دوران آپ نے مسلمانوں کے عظیم اجتماع کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا : سن لو! تمہاری جانیں، تمہارے اموال اور تمہاری آبروئیں ایک دوسرے پر ایسے ہی حرام ہیں۔ جیسے تمہارے اس دن کی، اس مہینہ میں اور اس شہر میں حرمت ہے۔ سن لو! میرے بعد ایک دوسرے کی گردنیں مار کر کافر نہ بن جانا۔ (بخاری، کتاب الفتن، باب قول النبی لاترجعوا بعدی کفارا۔۔ الخ) آل عمران
101 [٩١] گویا یہود کے گمراہ کن پروپیگنڈے سے بچنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ان کی سازشوں سے بروقت متنبہ کردیتا ہے اور دوسرے یہ کہ ایسی صورت حال میں مسلمانوں کو چاہئے کہ فوراً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف رجوع کریں جو خود بھی مسلمانوں کے احوال پر گہری اور مشفقانہ نظر رکھتے ہیں۔ لہٰذا جو شخص یہود کی شرارتوں سے بچنے اور راہ مستقیم پر ثابت قدم رہنے کی کوشش کرے گا۔ اللہ تعالیٰ یقیناً اسے ایسی فتنہ انگیزیوں سے بچا لے گا۔ آل عمران
102 [٩٢] اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی مسلمان پر کسی وقت بھی کوئی ایسا لمحہ نہ آنا چاہئے جب کہ وہ اللہ کے خوف سے غافل ہو کیونکہ موت کے وقت کا کسی کو علم نہیں اور اللہ سے ڈرنے کا ایسا ہی حق ہونا چاہئے کہ جن جن اوامر کا اس نے حکم دیا ہے اور جن نواہی سے روکا ہے۔ انہیں ٹھیک ٹھیک اور بروقت بجا لانا چاہئے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ دنیوی دھندوں میں مشغول رہ کر اتنی احتیاط ملحوظ رکھنا بسا اوقات مشکل ہوجاتا ہے۔ چنانچہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ رضی اللہ عنہ بہت گھبرائے اور عرض کیا کہ اس قدر احتیاط کس سے ممکن ہے۔ اس وقت سورۃ تغابن کی یہ آیت نازل ہوئی ﴿ فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ﴾ یعنی ممکنہ حد تک اللہ سے ڈرتے رہو۔ آل عمران
103 [٩٣]فرقہ بازی کی ممانعت :۔ اللہ کی رسی سے مراد اللہ کا دین یا کتاب و سنت کے احکام ہیں اور اللہ کی رسی اس لیے کہا گیا ہے کہ یہی وہ رشتہ ہے جو تمام اہل ایمان کا اللہ سے تعلق قائم رکھتا ہے اور دوسری طرف اہل ایمان کو ایک دوسرے سے مربوط بناتا ہے اور کتاب و سنت کے احکام پر سختی سے عمل پیرا ہونے سے اس بات کا امکان ہی نہیں رہتا کہ مسلمانوں میں اختلاف، انتشار یا عداوت پیدا ہو۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنی تمام تر توجہ دینی تعلیمات پر مرکوز رکھیں اور فروعی مسائل میں الجھ کر امت مسلمہ میں انتشار پیدا کرکے فرقہ بندیوں سے پرہیز کریں۔ [٩٤] صحابہ کی باہمی الفت ومحبت اور اتفاق کی برکت :۔ یعنی جس وقت پورے عرب میں قبائلی نظام رائج تھا اور لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم تھا۔ کوئی حکومت یا عدالت سرے سے موجود ہی نہ تھی جس کی طرف رجوع کیا جاسکتا۔ اگر کسی قبیلہ کا کوئی آدمی قتل ہوجاتا تو مقتول کا قبیلہ اس وقت تک چین سے نہ بیٹھتا تھا جب تک اس کا انتقام نہ لے لیتا، قبائلی حمیت، جسے قرآن نے حمیۃ جاہلیہ کا نام دیا ہے۔ اس انتہا کو پہنچی ہوئی تھی کہ کوئی فریق یہ سوچنے کی زحمت گوارا ہی نہ کرتا تھا کہ قصور کس کا ہے؟ صرف یہ دیکھا جاتا تھا کہ چونکہ ہمارے قبیلہ کے آدمی کو فلاں قبیلہ کے آدمی نے نقصان پہنچایا ہے۔ اس لیے اس سے انتقام لینا ضروری ہے۔ پھر اس انتقام میں انصاف کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا تھا۔ ان باتوں کا نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ جہاں کہیں کوئی جنگ چھڑی تو پھر وہ ختم ہونے میں نہ آتی تھی۔ مکہ میں بنی بکر اور بنی تغلب کی لڑائی شروع ہوئی جس میں نصف صدی لگ گئی۔ خاندان کے خاندان تباہ ہوگئے، کشتوں کے پشتے لگ گئے مگر لڑائی ختم ہونے میں نہ آئی تھی۔ تقریباً ایسی ہی صورت حال مدینہ میں اوس و خزرج کے درمیان جنگ بعاث کی تھی۔ عرب بھر کا ہوشمند طبقہ اس صورت حال سے سخت پریشان تھا۔ مگر اس صورت حال سے نجات کی انہیں کوئی صورت نظر نہ آتی تھی۔ پھر یہ صورت حال مکہ اور مدینہ تک ہی محدود نہ تھی بلکہ پورے عرب میں ایک جیسی آگ لگی ہوئی تھی اور قریب تھا کہ پوری عرب قوم نیست و نابود ہوجائے کہ اس حال میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو دولت اسلام سے سرفراز فرمایا۔ جس سے پرانی رنجشیں اور کدورتیں دور ہوگئیں۔ عداوت کے بجائے مسلمانوں کے دلوں میں ایک دوسرے سے محبت و الفت پیدا ہوگئی اور وہ بالکل بھائیوں کی طرح بن گئے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو لڑائی کی آگ کے گڑھے میں گرنے سے اور مرنے کے بعد جہنم کی آگ کے گڑھے میں گرنے سے بچا لیا۔ اسی نعمت الفت و محبت کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ انفال میں فرمایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا کہ : اگر آپ دنیا بھر کی دولت خرچ کرکے ان میں ایسی محبت و الفت پیدا کرنا چاہتے تو نہ کرسکتے تھے۔ یہ اللہ ہی ہے جس نے ان کے دلوں میں الفت پیدا کردی (٨: ٦٣) اور یہ ایک نعمت غیر مترقبہ تھی جو صرف اسلام اور اللہ کی مہربانی سے انہیں نصیب ہوئی اور جسے ہر شخص بچشم خود دیکھ رہا تھا۔ آل عمران
104 [٩٥]امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ :۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ امت مسلمہ کی اجتماعی زندگی کا ایک نہایت اہم ستون ہے اسی لیے کتاب و سنت میں بہت سے مقامات پر اس کی سخت تاکید کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے روئے زمین پر خلافت کے مستحقین کا ذکر فرمایا تو ان کی صفات میں اقامت صلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ کے بعد تیسرے نمبر پر اسی صفت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ذکر فرمایا (٢٢ : ٤١) اس لیے بعض علماء نے اس فریضہ کو فرض عین قرار دیا ہے۔ ان کا خیال یہ ہے کہ ہر مسلمان اپنی اپنی علمی سطح اور صلاحیت کے مطابق یہ فریضہ بجا لاسکتا ہے اور یہ بات بھی بالکل درست اور بہت سی احادیث صحیحہ سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ تاہم اس آیت میں جس فرقہ کا ذکر کیا جارہا ہے۔ اس سے مراد ایسے لوگ ہیں۔ جو علوم شریعت کے ماہر اور دعوت کے آداب سے واقف ہوں اور ان کی زندگی کا وظیفہ ہی یہ ہونا چاہئے کہ وہ لوگوں کو اچھے کاموں کا حکم دیا کریں اور برے کاموں سے روکتے رہیں۔ نیز ﴿ وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ ﴾ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر خواہ کتنا ہی اہم فریضہ ہے تاہم فرض عین نہیں ہے۔ آل عمران
105 [٩٦]ہر گمراہ فرقہ کی بنیاد کوئی بدعی عقیدہ ہوتاہے اور ناجی فرقہ :۔ اس آیت میں ’’ان لوگوں‘‘ سے مراد اہل کتاب ہیں یعنی یہود و نصاریٰ بے شمار فرقوں میں بٹ گئے۔ اور ہر فرقہ دوسرے کو کافر کہتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ یہود اکہتر (٧١) فرقوں میں بٹ گئے اور نصاریٰ بہتر (٧٢) فرقوں میں اور میری امت تہتر (٧٣) فرقوں میں بٹ جائے گی۔ جن میں سے ایک فرقہ کے سوا سب دوزخی ہوں گے۔ صحابہ رضوان اللہ اجمعین نے عرض کیا : وہ نجات پانے والا فرقہ کون سا ہوگا تو آپ نے فرمایا : ''ما انا علیہ واصحابی'' یعنی وہ فرقہ اسی راہ پر چلے گا۔ جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں۔ (ترمذی۔ کتاب الإیمان۔ باب افتراق ھذہ الامۃ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر گمراہ فرقہ کی بنیاد کوئی بدعی عقیدہ یا عمل ہوتا ہے۔ لہٰذا ہر فرقہ کے مسلمانوں کو اس بات کی ضرور تحقیق کرلینا چاہئے کہ اس کا کوئی عقیدہ یا عمل ایسا تو نہیں جس کا وجود دور نبوی یا دور صحابہ میں ملتا ہی نہ ہو؟ اور اگر فی الواقعہ نہ ملتا ہو تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ وہ گمراہی میں مبتلا ہے۔ یہاں یہ بات ملحوظ رکھنا چاہئے کہ گمراہ فرقوں کے قائدین یا موجد عموماً عالم دین اور ذہین و فطین قسم کے لوگ ہی ہوا کرتے ہیں جو استنباط و تاویل پر دسترس رکھتے ہیں۔ یہ لوگ عموماً متشابہات سے استنباط کرکے اور محکمات کی غلط تاویل کے ذریعہ اپنے بدعی عقیدہ کو کتاب و سنت سے ہی مستنبط ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس سے ان کا مقصد فقط ایک فرقہ کی قیادت اور بعض دوسرے مالی مفادات کا حصول ہوتا ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اسی بات پر ہی اکتفا نہ کرے کہ اس کے فرقہ کا قائد ایک بہت بڑا عالم ہے۔ وہ بھلا کیسے غلط ہوسکتا ہے یا دوسروں کو غلط راہ پر ڈال سکتا ہے بلکہ ہر شخص کو اپنے طور پر تحقیق کرنا ضروری ہے۔ آل عمران
106 [٩٧] فرقہ بازی کفر ہے:۔ پچھلی آیت میں فرقہ حقہ، اور گمراہ فرقوں کا ذکر چل رہا تھا۔ اس آیت میں ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ یہودی یا عیسائی یا ہندو یا سکھ وغیرہ ہوگئے تھے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے دین میں بہت سی بے اصل اور باطل باتیں شامل کرکے یا بعض ضروریات دین کا انکار کرکے یا ملحدانہ عقائد اختیار کرکے اصل دین سے نکل گئے تھے، اور یہ کفر دون کفر ہے اور ان سب باتوں پر کفر کے لفظ کا اطلاق ہوتا ہے۔ گویا قیامت کے دن روشن چہرے تو صرف ان لوگوں کے ہوں گے جو دین حقہ پر قائم و ثابت قدم رہے۔ اور یہی لوگ اللہ کے سایہ رحمت میں ہوں گے اور جن لوگوں نے گمراہ فرقوں میں شامل ہو کر کفر کی روش اختیار کی۔ انہیں کے چہرے سیاہ ہوں گے اور انہیں ہی دردناک عذاب ہوگا۔ آل عمران
107 آل عمران
108 [٩٨] اسی لیے تو اس نے اپنے رسول بھیج کر اور کتابیں نازل کرکے لوگوں کو سیدھا راستہ بتلا دیا ہے اور اس بات سے آگاہ کردیا ہے کہ آخرت میں وہ کن امور کی باز پرس کرنے والا ہے۔ اس کے باوجود جو لوگ ہدایت کی راہ اختیار نہ کریں یا اپنے غلط طرز عمل یا معاندانہ روش سے بازنہ آئیں تو وہ اپنے آپ پر خود ظلم کرنے والے ہیں۔ ظلم کامفہوم:۔ لفظ ظلم بڑا وسیع مفہوم رکھتا ہے اور اس کی ضد عدل ہے اور اللہ تعالیٰ عادل ہے۔ ظالم نہیں۔ اس لئے اس سے ایسے افعال کا صدور ممکن ہی نہیں جس میں ظلم کا شائبہ تک پایا جاتا ہو۔ مثلاً وہ کسی مستحق رحمت کو سزا دے دے، یا زیادہ اجر کے مستحق کو تھوڑا اجر دے یا کم سزا کے مستحق کو زیادہ سزا دے دے وغیرہ وغیرہ، ایسی سب باتیں اس کی صفت عدل کے منافی ہیں۔ آل عمران
109 آل عمران
110 [٩٩] امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت:۔ غور فرمائیے اللہ پر ایمان لانا سب باقی اعمال و افعال سے مقدم ہے۔ لیکن امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا ذکر محض اس لیے پہلے کیا گیا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت کو واضح کرنا مقصود تھا۔ ساتھ ہی یہ وضاحت بھی فرما دی کہ اے مسلمانو! تم بہترین امت صرف اس لیے ہو کہ تم برے کاموں سے منع کرتے ہو اور اچھے کاموں کا حکم دیتے ہو۔ بالفاظ دیگر اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب تک مسلمان اچھے کاموں کا حکم دیتے اور برے کاموں سے روکتے رہیں گے وہ بہترین امت رہیں گے اور جب انہوں نے اس فریضہ سے کوتاہی کی تو پھر بہترین امت نہیں رہیں گے۔ برے کاموں سے مراد کفر، شرک، بدعات، رسوم قبیحہ، فسق و فجور ہر قسم کی بداخلاقی اور بے حیائی اور نامعقول باتیں شامل ہیں اور ان سے روکنے کا فریضہ فرداً فرداً بھی ہر مسلمان پر عائد ہوتا ہے۔ اور اجتماعاً امت مسلمہ پر بھی۔ ہر ایک کو اپنی اپنی حیثیت اور قوت کے مطابق اس فریضہ سے عہدہ برآ ہونا لازم ہے۔ چنانچہ صحیح حدیث میں آتا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص جب کوئی برائی دیکھے تو اسے بزور بازو ختم کردے اور اگر ایسا نہیں کرسکتا تو زبان سے ہی روکے اور اگر اتنا بھی نہیں کرسکتا تو کم از کم دل میں ہی اسے برا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور تر درجہ ہے۔ (مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب کون النہی عن المنکر من الایمان) اور نیک کاموں سے مراد توحید خالص اور ارکان اسلام کی بجا آوری جہاد میں دامے درمے شمولیت، بدعات سے اجتناب، قرابتداروں کے حقوق کی ادائیگی اور تمام مسلمانوں سے مروت، اخوت و ہمدردی اور خیر خواہی وغیرہ ہیں۔ [١٠٠]امت مسلمہ کی فضیلت :۔ ایک وقت تھا جب اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو تمام جہاں والوں پر فضیلت بخشی تھی۔ مگر ان لوگوں نے نہ صرف یہ کہ فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کردیا بلکہ خود بھی بے شمار بڑے بڑے جرائم میں مبتلا ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا کی امامت و قیادت کی ذمہ داری ان سے چھین کر امت مسلمہ کے حوالے کردی۔ اب جو فضیلت انہیں حاصل تھی وہ امت مسلمہ کو حاصل ہوگئی اور قیادت کی اس تبدیلی کی واضح علامت چونکہ تحویل قبلہ تھی۔ لہٰذا یہود جتنے تحویل قبلہ پر چیں بہ جبیں ہوئے اتنے کسی بات پر نہ ہوئے تھے۔ اور یہ فضیلت اللہ کی دین ہے جس کو مناسب سمجھتا ہے اسے دیتا ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : گزشتہ لوگوں (یہود و نصاریٰ) کے مقابلہ میں تمہارا رہنا ایسا ہے جیسے عصر سے سورج غروب ہونے تک کا وقت۔ اہل تورات کو تورات دی گئی۔ انہوں نے (صبح سے) دوپہر تک مزدوری کی، پھر تھک گئے تو انہیں ایک ایک قیراط ملا۔ اہل انجیل کو انجیل دی گئی، انہوں نے عصر کی نماز تک مزدوری کی پھر تھک گئے۔ انہیں بھی ایک ایک قیراط ملا۔ پھر ہم مسلمانوں کو قرآن دیا گیا۔ ہم نے عصر سے سورج غروب ہونے تک مزدوری کی (اور کام پورا کردیا) تو ہمیں دو دو قیراط دیئے گئے۔ اب اہل کتاب کہنے لگے : ’’پروردگار! تو نے انہیں تو دو دو قیراط دیئے اور ہمیں ایک ایک حالانکہ ہم نے ان سے زیادہ کام کیا ہے۔‘‘ اللہ عزوجل نے انہیں جواب دیا : ’’میں نے تمہاری مزدوری (جو تم سے طے کی تھی) کچھ کم تو نہیں کی؟‘‘ انہوں نے کہا : ''نہیں'' اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’تو پھر یہ میرا فضل ہے میں جسے جو کچھ چاہوں دے دوں۔‘‘ (بخاری، کتاب مواقیت الصلٰوۃ باب من ادرک رکعۃ من العصر قبل المغرب ) اس آیت میں اہل کتاب کو یہ بتلایا جارہا ہے کہ اگر وہ ایمان لے آتے تو اس ذلت و خواری سے بچ سکتے تھے جو ان کے مقدر ہوچکی ہے، اگر وہ خیر الامم میں شامل ہوجاتے ہیں تو دنیا میں ان کی عزت بڑھتی اور آخرت میں دوہرا اجر ملتا۔ مگر حق کے واضح ہونے کے بعد ان کی اکثریت نافرمانی پر ہی اڑی رہی اور اپنا ہی نقصان کیا۔ آل عمران
111 [١٠١] یعنی گالی دینا، برا بھلا کہنا، تمہارے خلاف سازشیں اور غلط پراپیگنڈا اور ستانے کے دوسرے کام ہی کرسکتے ہیں، اور ایسے کام عموماً ذہنی طور پر ہزیمت خوردہ فریق ہی کرتا ہے۔ رہا جوان مردوں کی طرح مقابلے میں آنا تو اس بات کی ان میں سکت ہی نہیں اور اگر کریں گے تو بری طرح پٹ کر بھاگ کھڑے ہوں گے۔ اور اس وقت منافق بھی ان کی کچھ مدد نہ کرسکیں گے، جو ان سے ساز باز کرتے اور مدد کو پہنچنے کے وعدے کرتے رہتے ہیں۔ اہل کتاب کے حق میں یہ پیشین گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی۔ یہود کا انجام:۔ سب سے پہلے یہود کے قبیلہ بنو قینقاع کو جلاوطن کیا گیا۔ پھر بنو نضیر کو، پھر بنو قریظہ کی باری آئی تو وہ قتل کیے گئے اور لونڈی غلام بنائے گئے، پھر خیبر میں زک اٹھائی تو مزارعہ کی حیثیت سے رہے اور بالآخر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں وہاں سے نکال دیا اور نجران کے عیسائیوں نے جزیہ دینا قبول کیا اور اہل ذمہ کی حیثیت سے رہنے لگے۔ غرض ہر میدان میں ان لوگوں نے زک اٹھائی اور ذلیل و خوار ہوئے۔ پھر کیا ان کے حق میں یہ بات بہتر نہ تھی کہ اسلام قبول کرکے باعزت زندگی گزارتے اور مسلمانوں کے جملہ حقوق میں برابر کے حصہ دار بن جاتے۔ آل عمران
112 [١٠٢] موجودہ اسرائیلی حکومت کی بنیاد:۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہود کی ذلت و رسوائی کے اسباب بیان فرمائے ہیں۔ سب سے پہلے انہوں نے اللہ کی نافرمانی کی راہ اختیار کی اور حدود اللہ سے تجاوز کرنے لگے، ان گناہوں نے ان کی طبائع پر یہ اثر کیا کہ بڑے بڑے جرائم پر دلیر ہوگئے، جیسے اللہ کی آیات ہی سے انکار کردینا انہیں چھپا جانا ان میں تحریف کرلینا حتیٰ کہ وہ انبیاء کے قتل کے بھی مرتکب ہوئے۔ پھر جب بدبختی کی اس انتہا کو پہنچ گئے تو ان پر اللہ کا غضب نازل ہوا جس کے نتیجہ میں ذلت و رسوائی اور محتاجی ہمیشہ کے لیے ان کے مقدر کردی گئی اور اس سے بچاؤ کی دو صورتیں بتلائی گئی ایک یہ کہ اللہ کی ذمہ داری کی پناہ میں آجائیں۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ مسلمان ہوجائیں اور دوسرا یہ کہ کسی مسلمان حکومت کی پناہ میں رہیں اور دوسری یہ کہ غیر مسلم حکومتوں کے سایہ تلے رہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ١٩٤٧ ء تک باوجود اس کے کہ وہ دنیا کی مالدار ترین قوم تھے۔ دنیا میں دربدر پھرتے ہی رہے۔ ١٩٤٧ ء میں تین عیسائی حکومتوں، برطانیہ، فرانس اور امریکہ کی مدد سے انہوں نے مختصر سے خطہ پر اپنی ایک الگ حکومت قائم کرلی ہے جسے کئی ممالک نے تاحال تسلیم ہی نہیں کیا اور عیسائی حکومتوں نے مسلمانوں سے انتقام کے طور پر مسلمان ممالک کے درمیان یہ حکومت قائم کرکے مسلمانوں کے جگر میں خنجر گھونپا ہے۔ آج بھی اسرائیل کو امریکہ کی مکمل حمایت حاصل ہے اور اسی کے دم قدم سے یہ اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہے۔ اگر امریکہ کا سایہ اس کے سر سے اٹھ جائے، تو فوراً اس کا وجود ہی ختم ہوجائے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ جس طرح یہود مغضوب علیہ قوم ہے اسی طرح آج کا مسلمان بھی اللہ کی نافرمانیوں کی بنا پر مغضوب علیہ قوم بن چکا ہے۔ چنانچہ مسلمانوں پر اللہ کی طرف سے اسرائیل کی صورت میں عذاب نازل ہوا اور جب تک مسلمان باہمی اتفاق و اتحاد کا ثبوت نہ دیں گے اور آپس میں الجھتے اور لڑتے مرتے رہیں گے ان پر یہ عذاب مسلط ہی رہے گا۔ آل عمران
113 آل عمران
114 [١٠٣]اہل کتاب میں منصف مزاج آدمی:۔ پہلے اللہ تعالیٰ نے یہ بتلایا تھا کہ اہل کتاب کی اکثریت فسق و فجور پر ہی مصر رہی۔ اس آیت میں یہ بتلایا جارہا ہے کہ وہ سب کے سب ہی برے نہیں۔ ان میں بھی کچھ اچھے لوگ موجود ہیں جو ایمان لے آئے ہیں۔ مثلاً عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی یا نجاشی شاہ حبشہ وغیرہ اور ان میں وہ سب خوبیاں موجود ہیں جو نیکو کار مسلمانوں میں ہوتی ہیں۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ یہود کے ممتاز علماء میں سے تھے۔ لیکن مفاد پرست اور جاہ طلب ہونے کی بجائے حق پرست تھے۔ عبداللہ بن سلام کا تعارف اور اسلام لانا:۔ جب آپ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے اور عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں وہ نشانیاں دیکھیں جو تورات میں نبی آخرالزمان کی بتلائی گئی تھیں تو آپ فوراً خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور چند سوالات پوچھنے کے بعد اسلام لے آئے۔ پھر آپ ہی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہود کی سرشت سے آگاہ کیا۔ چنانچہ یہود ان کے دشمن بن گئے۔ پھر جب ایک زنا کے مقدمہ میں یہود نے تورات سے رجم کی آیت کو چھپانا چاہا تو عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے ہی اس آیت کی نشاندہی کرکے یہود کو نادم اور رسوا کیا۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کو ایک خواب آیا تھا جس کی تعبیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بتلائی کہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ آخری دم تک اسلام پر ثابت قدم رہیں گے۔ چنانچہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم انہیں جنتی کہا کرتے تھے ۔ نجاشی شاہ حبشہ کا کردار اور اس کا اسلام لانا:۔ نجاشی شاہ حبشہ جس کا نام اصحمہ تھا، نے مسلمانوں کی اس وقت بھرپور حمایت کی جب مسلمان ہجرت کرکے حبشہ پہنچے اور قریش مکہ کا ایک وفد انہیں واپس لانے کے لیے شاہ حبشہ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ شاہ حبشہ نے نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کو واپس نہیں کیا اور انہیں پناہ دی بلکہ برملا اعتراف کیا کہ حضرت عیسیٰ اور مریم کے معاملہ میں مسلمانوں کے عقائد بالکل درست اور عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کے عین مطابق ہیں پھر مسلمانوں سے بہتر سے بہتر سلوک کیا۔ اس کے باقاعدہ اسلام لانے کی تفصیل تو نہیں ملتی تاہم جب وہ فوت ہوا تو آپ نے مسلمانوں کو اس کی وفات پر مطلع کرکے فرمایا کہ اپنے مسلمان بھائی کی نماز جنازہ پڑھو۔ چنانچہ اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی گئی۔ (بخاری۔ کتاب الجنائز، باب الصفوف علی الجنازۃ۔۔) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ فی الحقیقت اسلام لاچکا تھا۔ آل عمران
115 [١٠٤]اسلام لانے سے سابقہ گناہ معاف مگر نیک کاموں کا اجر ملے گا:۔ یعنی اہل کتاب کے منصف مزاج لوگ جو اسلام لے آئے ہیں۔ ان کے اسلام لانے سے پہلے کے اچھے کاموں کا انہیں بدلہ دیا جائے گا۔ کیونکہ اسلام لانے کے دو فائدے ہیں اور وہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں۔ ایک یہ کہ اسلام لانے سے پہلے کے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں اور دوسرا یہ کہ اسلام لانے سے پہلے نیک اعمال برقرار رکھے جاتے ہیں، یعنی دور کفر کے اچھے کاموں کا بھی انہیں ثواب عطا کیا جائے گا۔ اور کافروں کا معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ یعنی ان کی نیکیاں برباد اور گناہ لازم ہوتے ہیں۔ آل عمران
116 آل عمران
117 [١٠٥] یہ دنیا دارالعمل ہے اور آخرت دارالجزا ہے۔ اس دنیا میں انسان جو کچھ بوئے گا وہ عالم آخرت میں کاٹے گا۔ مگر دنیا میں بوئی ہوئی کھیتی کی بار آوری کے لیے چند شرائط ہیں۔ ان شرائط کو اگر ملحوظ نہ رکھا جائے تو کھیتی کبھی بار آور نہ ہوگی اور وہ شرائط ہیں۔ اللہ اور روز آخرت پر ایمان، خلوص نیت یعنی اس میں ریا کا شائبہ تک نہ ہو اور جو کام کیا جائے خالص اللہ کی رضا مندی کے لیے کیا جائے اور تیسرے اتباع کتاب و سنت یعنی وہ کام یا صدقہ و خیرات جو شریعت کی بتلائی ہوئی ہدایت کے مطابق کیا جائے۔ ان میں سے اگر کوئی چیز بھی مفقود ہوگی تو آخرت میں کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ کافروں کے نیک اعمال بھی برباد کیوں ہوتےہیں؟ اس آیت میں جن کافروں کے متعلق کہا گیا ہے کہ انہوں نے خود اپنے آپ پر ظلم کیا ہے۔ ان میں یہ تینوں شرائط ہیے مفقود ہوتی ہیں۔ کافر تو وہ کہلاتے ہی اس لیے ہیں کہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے اور یہی اپنے آپ پر سب سے بڑا ظلم ہوتا ہے یا اگر اپنے خیال کے مطابق ایمان رکھتے بھی ہیں تو وہ اللہ کے ہاں مقبول نہیں اور چونکہ ان کا روز آخرت پر ایمان نہیں ہوتا۔ لہذا وہ جو بھی خرچ کریں گے وہ محض نمائش اور اپنی واہ واہ کے لیے کریں گے اور شریعت محمدیہ کی ہدایات کی اتباع کا یہاں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تو پھر آخرت میں بھلا انہیں ایسے اعمال کا کیا بدلہ مل سکتا ہے۔ ان کے نیک اعمال کی کھیتی کو ان کے کفر کی کہر نے تباہ و برباد کرکے رکھ دیا تو اب آخرت میں انہیں کیا بدلہ ملے گا ؟ سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٢٦٣ میں لوگوں کے دکھلاوے کی خاطر خرچ کرنے والے کی یہ مثال بیان کی گئی کہ جیسے ایک صاف چکنے پتھر پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو اور اس مٹی میں کوئی شخص بیج بو دے، پھر زور کی بارش آئے تو دانہ اور مٹی ہر چیز کو بہا کرلے جائے اور پتھر چکنے کا چکنا باقی رہ جائے اور یہاں یہ مثال بیان کی گئی ہے کہ کھیتی تو اگ آئی مگر اس پر ایسی شدید ٹھنڈی ہوا چلی جس نے اس کھیتی کو بھسم کرکے رکھ دیا۔ ماحصل دونوں مثالوں کا ایک ہی ہے کہ ایسے کافروں اور ریا کاروں کو آخرت میں ان کے صدقہ و خیرات کا کچھ بھی اجر نہیں ملے گا۔ کیونکہ ان کی کھیتی تو دنیا میں ہی تباہ و برباد ہوچکی اور جو کام انہوں نے آخرت کے لیے کیا ہی نہ تھا اس کی انہیں جزا کیسے مل سکتی ہے؟ آل عمران
118 [١٠٦]یہود مدینہ سے دوستی کی ممانعت:۔ یہ خطاب دراصل انہیں انصار مدینہ سے ہے۔ ان کے دو بڑے قبیلے اوس و خزرج مدینہ میں آباد تھے۔ اسلام سے پہلے ان قبائل کی آپس میں ٹھنی رہتی تھی اور مدینہ کے یہودی بھی تین قبائل میں منقسم تھے۔ یہودیوں کا کام یہ تھا کہ ان کا ایک قبیلہ اوس کا حلیف بن جاتا اور دوسرا خزرج کا اور اس طرح اوس و خزرج کو آپس میں لڑاتے رہتے تھے اور اس طرح کئی طرح کے مفادات حاصل کرتے تھے۔ مثلاً ایک یہ کہ ان کے ہتھیار فروخت ہوجاتے تھے۔ دوسرے یہ کہ اپنی قلت تعداد کے باوجود انصار مدینہ پر اپنی بالا دستی قائم رکھتے اور ان کی معیشت و سیاست پر چھائے ہوئے تھے۔ جب اوس و خزرج کے قبیلے مسلمان ہوگئے تو اس کے بعد بھی وہ یہودیوں کے ساتھ وہی پرانے تعلقات نباہتے رہے اور اپنے سابق یہودی دوستوں سے اسی سابقہ محبت و خلوص سے ملتے رہے۔ لیکن یہودیوں کو آپ اور آپ کے مشن سے جو بغض و عناد تھا اس کی بنا پر وہ کسی مسلمان سے مخلصانہ محبت رکھنے کو تیار نہ تھے۔ انہوں نے منافقانہ روش اختیار کر رکھی تھی۔ ظاہر میں تو وہ انصار سے دوستی کا دم بھرتے تھے۔ مگر دل میں ان کے سخت دشمن بن چکے تھے۔ اس ظاہری دوستی سے وہ دو قسم کے فوائد حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ایک یہ کہ کسی طرح مسلمانوں میں فتنہ و فساد پیدا کردیں جیسا کہ شماس بن قیس یہودی نے کیا بھی تھا اور دوسرے یہ کہ مسلمانوں کے جماعتی راز ان کے دشمنوں تک پہنچائیں۔ انہی وجوہ کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کسی بھی غیر مسلم سے دوستی گانٹھنے اور اسے اپنا راز دار بنانے سے روک دیا اور یہود کے بغض و عناد کا تو یہ حال تھا کہ بسا اوقات ان کی زبان سے کوئی ایسی بات نکل جاتی تھی جو ان کی مسلمانوں سے گہری دشمنی کا پتا دے جاتی تھی اور حسد اور دشمنی کے بارے میں ان کی زبان قابو میں نہیں رہتی تھی۔ اور جو ان کے دلوں میں کدورت بھری ہوئی تھی وہ تو اس سے بہت بڑھ کر تھی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم سوچو تو ان کی دوستی میں تمہیں سراسر نقصان ہی نقصان ہے۔ لہٰذا کافروں سے دوستی رکھنے سے بہرحال تمہیں اجتناب کرنا چاہئے۔ آل عمران
119 [١٠٧]کفار سے دوستی کی ممانعت :۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ تم تو تمام آسمانی کتابوں پر ایمان رکھتے ہو جن میں تورات بھی شامل ہے۔ لیکن اہل کتاب تمہارے قرآن پر ایمان نہیں رکھتے، اس بات کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ تم سے محبت رکھتے اور تم ان سے دشمنی رکھتے، مگر یہاں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ تم یہ کیسی الٹی گنگا بہا رہے ہو؟ [١٠٨] یہاں آمنا سے مراد یا تو یہود کا تورات پر ایمان لانا ہے یا مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے منافقانہ طور پر یہ کہہ دینا کہ ہم بھی قرآن پر ایمان لاتے ہیں۔ حالانکہ جب وہ تمہارا اتحاد و اتفاق اور آپس میں پیار و محبت یا پے در پے کامیابیاں اور کامرانیاں دیکھتے ہیں تو غصہ کے مارے اپنی انگلیاں دانتوں میں چبانے لگتے ہیں۔ کیونکہ ان کو روکنے میں ان کا کچھ بس نہیں چلتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خطاب کرکے فرمایا کہ آپ ان سے کہہ دیجئے کہ تم خواہ غصہ سے جل بھن جاؤ، اللہ تعالیٰ اپنے مشن کو کامیاب کرکے رہے گا اور دین اسلام ایک غالب دین کی حیثیت سے بلند ہو کے رہے گا اور تمہارے دلوں میں بغض و عناد کی جو لہریں اٹھتی ہیں۔ اللہ ان سے بھی پوری طرح واقف ہے۔ آل عمران
120 [١٠٩] اگر تمہیں کوئی خوشی کا موقعہ میسر آئے تو یہ جل بھن جاتے ہیں اور کوئی تکلیف پہنچے تو اس پر خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ تو کیا پھر ایسے لوگوں کی دوستی سے پرہیز ہی بہتر نہیں؟ بس تم صبر سے کام لو۔ ان کی سازشیں اور پراپیگنڈے تمہارا بال بھی بیکا نہیں کرسکتے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ خود ان پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔ آیت نمبر ١١٨ سے لے کر ١٢٠ تک ٣ آیات میں اللہ تعالیٰ نے کافروں سے دوستی گانٹھنے کی ممانعت کے لیے جو وجوہات بیان فرمائی ہیں وہ مختصراً درج ذیل ہیں۔ ١۔ وہ تمہارے درمیان، خرابی، بگاڑ اور فساد پیدا کرنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے اور ان کی ہر ممکن کوشش یہ ہوتی ہے کہ تم میں تفرقہ و انتشار اور بغض و عداوت پیدا ہوجائے۔ ٢۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ تم کسی ارضی و سماوی آفت اور مصیبت میں پھنس جاؤ۔ ٣۔ ان کے منہ سے کچھ بے اختیار ایسی باتیں نکل جاتی ہیں جو ان کے دلوں میں پکنے والے مواد کا پتہ دے جاتی ہیں۔ ٤۔ تم ان سے محبت رکھتے ہو جبکہ وہ تم سے دشمنی رکھتے ہیں، حالانکہ تم ان کی کتاب تورات پر ایمان لاتے ہو اور وہ تمہاری کتاب قرآن سے منکر ہیں اور اس کا منطقی نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ وہ تم سے دشمنی رکھتے اور تم ان سے دوستی رکھتے، لیکن یہاں الٹی گنگا بہائی جارہی ہے۔ ٥۔ اگر تمہیں کوئی بھلائی حاصل ہو تو اس سے وہ جل بھن جاتے ہیں اور اگر تمہیں تکلیف پہنچے تو اندر ہی اندر پھولے نہیں سماتے۔ ٦۔ اگر وہ تم سے کوئی خیر خواہی کی بات بھی کریں تو وہ منافقت پر مبنی ہوتی ہے۔ لہٰذا ان وجوہات کی بنا پر تمہیں ان سے دوستی نہ رکھنا چاہیئے اور راز بتانا تو بڑی دور کی بات ہے۔ آل عمران
121 [١١٠]غزوہ احد کا پس منظر اورا سباب:۔ یہاں سے ایک نیا مضمون شروع ہو رہا ہے جو جنگ احد سے متعلق ہے۔ رمضان ٢ ھ میں غزوہ بدر میں قریش مکہ کو عبرت ناک شکست ہوئی تھی۔ ابو جہل کی موت کے بعد ابو سفیان نے قریش کی قیادت سنبھالی۔ اس نے جنگ بدر کا بدلہ لینے اور مسلمانوں کا قلع قمع کرنے کے لیے حسب ذیل اقدامات کئے : ١۔ طے ہوا کہ اس تجارتی قافلہ کا سارا منافع جنگ کے اخراجات کے لیے دے دیا جائے جو جنگ بدر سے چند یوم پہلے بچ بچا کر نکل آیا تھا۔ اس سے ایک ہزار اونٹ اور پچاس ہزار دینار کی خطیر رقم جنگی اخراجات کے لیے جمع ہوگئی۔ ٢۔ رضا کارانہ خدمت کا دروازہ کھول دیا گیا اور تمام اسلام دشمن قبائل کو اس جنگ میں شمولیت کی دعوت دی گئی۔ اس طرح قریش کے حلیف قبیلے بھی اور مسلمانوں کے مخالف قبیلے بھی اس قریشی جھنڈے تلے جمع ہوگئے۔ ٣۔ دو شعلہ بیان شعراء کی خدمات حاصل کی گئیں، جو بدوی قبائل کو مسلمانوں کے خلاف انتقام پر بھڑکاتے تھے۔ ان ایام میں جنگی پروپیگنڈہ کا سب سے موثر ذریعہ یہی تھا۔ چنانچہ شوال ٣ ھ میں قریش کا یہ تین ہزار مسلح افراد کا لشکر جرار ابو سفیان کی سر کردگی میں احد کے میدان میں پہنچ گیا۔ اس موقع پر ابو سفیان نے ایک خطرناک جنگی چال چلی، وہ انصار سے مخاطب ہو کر کہنے لگا : آپ لوگوں سے ہماری کوئی لڑائی نہیں، آپ درمیان سے نکل جائیں تو بہتر ہے، ہم بھی آپ سے کوئی تعرض نہ کریں گے۔ لیکن انصار ابو سفیان کی اس چال کو سمجھ گئے اور اسے کھری کھری سنادیں۔ غزوہ احد سے متعلق مشورہ:۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا کہ یہ جنگ مدینہ میں رہ کر لڑی جائے یا باہر نکل کر کھلے میدان میں لڑی جائے۔ آپ کی ذاتی رائے یہ تھی کہ مدینہ میں رہ کر لڑی جائے اور یہ پہلا موقع تھا کہ عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین سے بھی رائے لی گئی جو حضور کی رائے سے موافق تھی۔ مگر پرجوش اور جوان مسلمان جنہیں بدر کی شرکت نصیب نہ ہوئی تھی اور شوق شہادت بے چین کر رہا تھا اس بات پر مصر ہوئے کہ باہر نکل کر کھلے میدان میں مقابلہ کیا جائے۔ تاکہ دشمن ہماری نسبت بزدلی اور کمزوری کا گمان نہ کرے۔ چنانچہ آپ گھر میں تشریف لے گئے اور زرہ پہن کر نکلے۔ بعض لوگوں کو خیال آیا کہ ہم نے آپ کو آپ کی مرضی کے خلاف باہر نکلنے پر مجبور کردیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اگر آپ کا منشا نہ ہو تو یہیں تشریف رکھئے۔ آپ نے فرمایا : ایک پیغمبر کو یہ مناسب نہیں کہ وہ ہتھیار لگائے اور جنگ کئے بغیر اتار دے۔ عبداللہ بن ابی کا کردار :۔ جب آپ مدینہ سے باہر نکلے تو تقریباً ایک ہزار آدمی آپ کے ساتھ تھے مگر عبداللہ بن ابی تقریباً تین سو آدمیوں کو (جن میں بعض مسلمان بھی تھے) ساتھ لے کر راستہ سے یہ کہتا ہوا واپس چلا گیا کہ جب میرا مشورہ نہیں مانا گیا تو ہم کیوں لڑیں اور خواہ مخواہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالیں۔ آخر آپ سات سو مجاہدین کا لشکر لے کر میدان جنگ میں پہنچ گئے۔ فوجی قاعدہ کے مطابق صفیں ترتیب دیں۔ ہر ایک دستہ کو اس کے مناسب ٹھکانے پر بٹھایا اور فرمایا جب تک میں نہ کہوں جنگ نہ شروع کی جائے۔ آل عمران
122 [١١١] جب عبداللہ بن ابی تین سو ساتھیوں سمیت واپس چلا گیا تو انصار کے دو قبیلوں بنو حارثہ اور بنو سلمہ کے دلوں میں کمزوری واقع ہوئی اور کفار کے مقابلہ میں مسلمانوں کی قلیل تعداد دیکھ کر دل چھوڑنے لگے مگر چونکہ سچے مسلمان تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو مضبوط کردیا چنانچہ حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ ہم انصار کے حق میں اتری۔ اگرچہ اس میں ہمارا عیب بیان کیا گیا ہے۔ تاہم ہمیں یہ پسند نہیں کہ یہ آیت نازل نہ ہوتی۔ کیونکہ اس میں ﴿اللّٰہ ولیھما﴾ (اور اللہ دونوں فرقوں کا مددگار تھا) کے الفاظ بھی مذکور ہیں۔ (بخاری، کتاب التفسیر) آل عمران
123 [١١٢] قلت تعداد کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے بدر کی مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ بدر کے میدان میں تم ہر لحاظ سے کمزور تھے۔ تعداد بھی کم تھی۔ اسلحہ جنگ اور رسد بھی بہت کم تھی تو ان حالات میں جب اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرچکا ہے تو اے کمزوری دکھانے والے اور دل چھوڑنے والے مسلمانو! اب وہ تمہاری مدد کیوں نہ کرے گا ؟ پس تم صبر سے کام لو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور اس بات پر اللہ کا شکر ادا کیا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہر آڑے وقت میں مسلمانوں کی نصرت کے لیے غیب سے سامان مہیا کردیتا ہے۔ آل عمران
124 [١١٣] کیاغزوہ احد میں فرشتے نازل ہوئےتھے؟جب مذکورہ بالا دو قبیلوں نے کمزوری دکھائی تو اس وقت آپ نے ان کی اور دوسرے مسلمانوں کی ڈھارس بندھاتے ہوئے فرمایا : کیا تمہارے لیے یہ بات کافی نہیں کہ اللہ تعالیٰ تین ہزار فرشتے بھیج کر تمہاری مدد فرما دے۔ جیسا کہ میدان بدر میں تمہاری مدد فرمائی تھی۔ آل عمران
125 [١١٤] ابھی لڑائی شروع بھی نہ ہوئی تھی کہ یہ افواہ پھیل گئی کہ کرزبن جابر بہت بڑی کمک لے کر مشرکین کی مدد کے لیے آرہا ہے۔ اس افواہ سے مسلمانوں میں مزید اضطراب پھیل گیا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے فرمایا اگر کفار کو ہنگامی طور پر کمک مل جانے سے ڈرتے ہو تو اللہ تعالیٰ بھی اپنے فرشتوں کی کمک میں اضافہ کر دے گا۔ لہذا صبر و استقامت سے کام لو اور کافروں سے نہیں بلکہ اللہ سے ڈرتے رہو۔ بعض مفسرین نے تین ہزار اور پانچ ہزار فرشتوں سے مدد کے وعدہ کو جنگ بدر سے متعلق کیا ہے۔ اس لحاظ سے یہ بیان آیت نمبر ١٢٣ کے بیان کے ساتھ مسلسل ہے۔ ہوا یہ تھا۔ جنگ بدر میں قلیل تعداد اور کمزور اور نہتے مسلمانوں کو ڈھارس بندھانے کی خاطر اللہ نے ایک ہزار فرشتے میدان بدر میں بھیج دیے۔ جیسا کہ سورۃ انفال کی آیت ﴿فَاسْتَجَابَ لَکُمْ اَنِّیْ مُمِدُّکُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰۗیِٕکَۃِ مُرْدِفِیْنَ ﴾ سے معلوم ہوتا ہے۔ پھر جب جنگ بدر میں ہی یہ مشہور ہوا کہ مکہ سے مزید کمک پہنچ رہی ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایسی صورت میں ہم تین ہزار یا پانچ ہزار فرشتے بھیج دیں گے۔ پھر چونکہ کافروں کے لیے مکہ سے کوئی مزید کمک نہ پہنچی تو اور فرشتے بھی نہ آئے۔ البتہ ایک ہزار فرشتوں کی میدان بدر میں شرکت قرآن پاک سے ثابت ہے۔ نیز اس کی صحیحین اور دوسری کتب احادیث میں اس قدر روایات مذکور ہیں جو حد تواتر کو پہنچتی ہیں۔ لیکن جنگ احد میں فرشتوں کی کمک صحیح روایات سے ثابت نہیں ہوتی۔ لہٰذا یہی توجیہ زیادہ درست معلوم ہوتی ہے۔ معتزلہ کامیدان بدرمیں بھی نزول ملائکہ سےانکار اور ان کی تاویلات :۔اس سب باتوں کے علی الرغم معتزلہ اور ان کے جانشینوں نے بدر میں فرشتوں کی آمد سے انکار کیا ہے۔ یہ لوگ احادیث کو درخور اعتناء سمجھتے ہی نہیں اور قرآن کی آیات کی یہ تاویل کرلیتے ہیں کہ قرآن میں تو کہیں نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فی الواقعہ فرشتے بھیجے تھے بلکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قول نقل کیا ہے کہ جنگ کے وقت رسول نے مسلمانوں سے اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کی خاطر یہ فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ ایسا بھی کرسکتا ہے۔ پھر اس کے بعد جو عقلی دلائل دیتے ہیں وہ اس قسم کے ہیں کہ کسی قوم کو ہلاک کرنے کے لیے تو ایک فرشتہ بھی کافی ہے پھر ہزاروں کی کیا ضرورت تھی؟ یا یہ کہ اگر فرشتوں سے ہی کام لینا تھا تو صرف ملک الموت ہی کافی تھا، جو سب کی روحیں قبض کرلیتا بلکہ اگر ایسا ہی معاملہ تھا تو اللہ تعالیٰ نے کافر پیدا ہی کیوں کئے؟ یا یہ کہ فرشتے اگر اجسام کثیفہ تھے تو ضرور سب کو نظر آتے، حالانکہ ایسا نہیں ہوا اور اگر اجسام لطیفہ تھے تو ان میں طاقت ہی کیا تھا جو کسی کو قتل کرتے، وغیر ذالک من الخرافات ان دلائل میں جتنا وزن ہے وہ آپ بھی دیکھ رہے ہیں۔ لہذا ہمیں ان کے جواب میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے، جو اللہ کی حکمت بالغہ کے منافی ہیں اور ایسے اعتراضات تو شریعت کی ایک ایک بات پر کئے جاسکتے ہیں۔ معلوم نہیں کہ ان لوگوں کا اللہ اور اللہ کے کلام پر ایمان کس قسم کا ہے؟ آل عمران
126 [١١٥] غزوہ بدر میں مسلمانوں کی چار طرح سے مددالٰہی :۔ میدان بدر میں اللہ نے جو نزول ملائکہ کی تمہیں خوشخبری دی تھی وہ تو محض اس لیے تھی کہ تمہارے دل مضبوط ہوجائیں اور تم پورے وثوق کے ساتھ جم کر لڑائی کے میدان میں اترو اور فرشتوں پر ہی کیا منحصر ہے مدد کی جو بھی صورت ہو وہ اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔ چنانچہ بدر کے میدان میں اللہ نے چار طرح سے مسلمانوں کی مدد فرمائی تھی۔ مثلاً (١) اللہ نے ہوا کا رخ کفار کے لشکر کی طرف موڑ دیا اور ریت نے اڑ اڑ کر ان کے لشکر کو بدحال بنا دیا۔ (٢) بارش کا نزول جس سے کفار کے پڑاؤ میں تو پھسلن اور دلدل مچ گئی۔ جبکہ مسلمانوں کے پڑاؤ میں ریت جم کر بیٹھ گئی۔ نیز انہیں استعمال کے لیے وافر پانی میسر آگیا۔ (٣) فرشتوں کا نزول۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ نے بدر کے دن فرمایا : ’’یہ جبریل آن پہنچے اپنے گھوڑے کا سر تھامے ہوئے، لڑائی کے ہتھیار لگائے ہوئے۔‘‘ (بخاری، کتاب المغازی، باب شہود الملائکة بدرا) نیز حضرت رفاعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ جبریل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر کہنے لگے : ’’آپ اہل بدر کو کیسا سمجھتے ہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا :’’ سب مسلمانوں سے افضل‘‘ یا کوئی ایسا ہی کلمہ کہا : جبریل علیہ السلام کہنے لگے : ’’اسی طرح وہ فرشتے جو غزوہ بدر میں حاضر ہوئے تھے دوسرے فرشتوں سے افضل ہیں۔‘‘ (بخاری۔ حوالہ ایضاً) اور (٤) مسلمانوں کی مدد کا چوتھا طریقہ یہ تھا کہ کفار کو مسلمان مجاہدین کی تعداد اصل تعداد سے دوگنی نظر آنے لگی تھی۔ آل عمران
127 [١١٦] اللہ کی مدد کا مقصد یہ تھا کہ کفر کا زور ٹوٹ جائے اور یہ مقصد مکمل طور پر حاصل ہوگیا۔ کافروں کے ستر سردار بمعہ ابو جہل سالار لشکر اس جنگ میں مارے گئے، اتنے ہی قید ہوگئے اور باقی لشکر ذلیل و خوار ہو کر بھاگ کھڑا ہوا جس کے سوا ان کے لیے کوئی چارہ کار ہی نہ رہ گیا تھا۔ کیااحد میں فرشتوں کا نزول ہواتھا؟یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا فرشتوں کا نزول بدر اور احد دونوں میدانوں میں ہوا تھا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بدر میں فرشتوں کا نزول یقیناً ہوا تھا اور وہ کتاب و سنت سے ثابت شدہ ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ میدان احد میں بھی نزول ہوا تھا جیسا کہ مذکورہ آیات سے اشارہ ملتا ہے۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اس میدان میں مسلمانوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کی بنا پر ایک شدید جنگی غلطی ہوگئی تھی جس نے ایک بار مسلمانوں کو شکست سے بھی دو چار کردیا تھا اور چونکہ اس غلطی کی وجہ محض حرص و طمع تھی۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس غلطی پر عتاب بھی فرمایا۔ تاہم ان کی یہ غلطی اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دی تھی۔ اس بے صبری کی وجہ سے میدان احد میں فرشتوں کا نزول نہیں ہوا۔ اگر مسلمان ایسا بے صبری کا مظاہرہ نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ یہاں بھی فرشتے بھیج دیتے۔ واللہ اعلم بالصواب اور اس پر بحث پہلے (حاشیہ نمبر ١١٤) کے تحت بھی گزر چکی ہے۔ آل عمران
128 [١١٧]آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زخمی کرنے والوں کےلیے بددعا:۔ میدان احد کے مزید حالات تو آگے چل کر مذکور ہوں گے۔ یہاں صرف ایک واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو اس آیت کے نزول کا سبب بنا۔ وہ واقعہ یہ تھا کہ جنگ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اگلا دانت ٹوٹ گیا اور سر زخمی ہوگیا۔ آپ اپنے چہرے سے خون پونچھتے جاتے اور فرماتے، وہ قوم کیسے فلاح پائے گی۔ جس نے اپنے نبی کا سر زخمی کردیا اور دانت توڑ دیا۔ حالانکہ وہ انہیں اللہ کی طرف دعوت دے رہا تھا'' تو اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (مسلم۔ کتاب الجہاد، باب غزوہ احد) چنانچہ اس موقع پر چند نامور مشرکین کا نام لے لے کر انہیں بددعا دی۔ مگر اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ چند ہی روز گزرے تھے کہ جن مشرکوں کے حق میں آپ نے یہ بددعاکی تھی، انہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کے قدموں پر لا ڈالا اور اسلام کے جانباز سپاہی بنادیا۔ آل عمران
129 آل عمران
130 [١١٨]سود کی حرمت میں تدریج:۔سود کی حرمت کاذکر سورہ بقر ہ کی آیات ۲۷۸۔۲۷۹ میں گزرچکاہے ۔ یہ آیت اس سے پہلے کی نازل شدہ ہے ۔ جبکہ مسلمانوں کوسود کی قباحتوں سے متعارف کرانا اس سے نفرت دلانااورا س کو یکسر چھوڑدینے کےلیے ذہنوں کوہموار کرنامقصود تھا۔ اس مقام پر سود کےذکر کی وجہ سےمناسبت یہ معلوم ہوتی ہے کہ جنگ احد میں ابتداءً مسلمان جو شکست پر مامور تھا،اس نے جب فتح کےآثار دیکھے تومال کے طمع سےمغلوب ہوگئےا و ر اپنے کام کوتکمیل تک پہنچانے کےبجائے غنیمت لوٹنے لگ گئے اللہ تعالیٰ نےاس صورت حال کی اصلاح کےلیے زرپرستی کے سرچشمے پر بند باندھنا ضروری سمجھا کیونکہ سود کاخاصہ یہ ہے کہ وہ سودخوار میں حرص وطمع وبزدلی،خود غرضی اور زرپرستی جیسی رذیل صفات پیدا کردیتاہے اور سوداداکرنے والوں میں نفرت غصہ، بغض وحسد جیسی صفات رذیل صفات پیدا کردیتاہے اور سود اداکرنے والوں میں نفرت ، غصہ ، بغض وحسد جیسی صفات پیدا ہوجاتی ہیں ،ا ورا یسی صفات ایک اسلامی معاشرہ کےلیے سم قاتل کی حیثیت رکھتی ہیں اور جہاد کی روح کےمنافی ہیں اور آخرت میں اخروی عذاب کا سبب بنتی ہیں ۔ا نہیں وجوہ کی بناپر سود کوبالآخر مکمل طور پر حرام قرار دیاگیاہے ۔ (۱۱۸ الف) سیدالاستغفار:۔ اللہ کی مغفرت کی طرف دوڑ کر جانے کا مطلب یہ ہے کہ ایسے کام بلا تاخیر کئے جائیں، جو اللہ کی مغفرت کا سبب بن سکتے ہیں اور وہ تمام اعمال صالحہ ہیں۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنا بذات خود اللہ کی بخشش کا بہت بڑا سبب ہے۔ استغفار کے لیے کتاب و سنت میں بہت سی دعائیں منقول ہیں اور ایک دعائے استغفار کو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سید الاستغفار فرمایا : آپ نے یہ استغفار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سکھلایا اور صبح و شام نمازوں کے بعد یہ استغفار پڑھا کرتے تھے۔ اس استغفار کے الفاظ یہ ہیں: (اَللّٰھُمَّ اَنْتَ رَبِّیْ لاَاِلَہَ الاَّاَنْتَ خَلَقْتَنِی وَاَنَا عَبْدُکَ وَاَنَا عَلٰی عَھْدِکَ وَوَعْدِکَ مَااسْتَطَعْتُ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّمَا صَنَعتُ اَبُوْء لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ وَاَبُوْءُ بِذَنْبِیْ فَاغْفِرْ لیْ فِاِنَّہُ لاَیَغْفِرُ الذُّنُوْبَ الاَّ اَنْتَ) ترجمہ : ’’اے اللہ تو ہی میرا پروردگار ہے۔ تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں تو نے ہی مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ اور غلام ہوں اور جہاں تک مجھ سے ہوسکتا ہے۔ میں تیرے عہد اور تیرے وعدے پر قائم ہوں اور جو کچھ میں کرتا ہوں اس کے برے پہلو سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ میں اپنے آپ پر تیری نعمتوں کا اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا بھی اعتراف کرتا ہوں۔ لہٰذا تو مجھے معاف فرما دے کیونکہ تیرے بغیر کوئی بھی گناہ معاف نہیں کرسکتا۔‘‘ اور جنت کی طرف دوڑ کر آنے کا بھی یہی مقصد ہے کہ ایسے کام کئے جائیں جن سے جنت کا حصول ممکن ہوجائے اور جنت کی صفت یہ بیان فرمائی کہ اس کا عرض آسمانوں اور زمین جیسا ہے اور عرض کا ایک معنی تو چوڑائی ہے۔ اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جب آسمانوں اور زمین کی وسعت کا اندازہ کرنا انسان کی بساط سے باہر ہے تو پھر وہ جنت کی وسعت کا کیا اندازہ کرسکے گا۔ جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے گویا اس سے مقصود جنت کی ایسی لامحدود وسعت کا اظہار ہے جو انسان کے سان و گمان میں بھی نہیں آسکتی۔ جنت کی قدروقیمت:۔ عرض کا دوسرا معنی قدر و قیمت ہے۔ کہتے ہیں اشتریت المتاع بعرض اور ان معنوں میں یہ لفظ قرآن میں بھی مستعمل ہے۔ جب دنیا کی بے ثباتی کا اظہار مقصود ہو تو دنیوی سازو سامان کے لیے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے اس کا معنی یہ ہوگا کہ اس جنت کی طرف دوڑ کر آؤ جس کے مقابلہ میں یہ سارے آسمان اور زمین ہیچ ہیں اور جنت کی قدر و قیمت ان سب سے بڑھ کر ہے۔ ضمناً ایسی آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنت اور دوزخ تیار کی جاچکی ہے اور اس میں ان لوگوں کا رد ہے جو اس بات کے قائل نہیں۔ آل عمران
131 آل عمران
132 آل عمران
133 [١١٨۔ ١] سود کی حرمت کا ذکر سورۃ بقرہ کی آیات ٢٧٨۔ ٢٧٩ میں گزر چکا ہے۔ یہ آیت اس سے پہلے کی نازل شدہ ہے۔ جبکہ مسلمانوں کو سود کی قباحتوں سے متعارف کرانا، اس سے نفرت دلانا اور اس کو یکسر چھوڑ دینے کے لیے ذہنوں کو ہموار کرنا مقصود تھا۔ اس مقام پر سود کے ذکر کی وجہ مناسبت یہ معلوم ہوتی ہے کہ جنگ احد میں ابتداً مسلمان جو شکست سے دوچار ہوئے تو اس کا بڑا سبب یہ تھا کہ مسلمانوں کا وہ دستہ جو حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کی سر کردگی میں درہ کی حفاظت پر مامور تھا، اس نے جب فتح کے آثار دیکھے تو مال کے طمع سے مغلوب ہوگئے اور اپنے کام کو تکمیل تک پہنچانے کے بجائے غنیمت لوٹنے میں لگ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس صورت حال کی اصلاح کے لیے زرپرستی کے سرچشمے پر بند باندھنا ضروری سمجھا کیونکہ سود کا خاصہ یہ ہے کہ وہ سود خوار میں حرص و طمع، بخل و بزدلی، خود غرضی اور زر پرستی جیسی رذیل صفات پیدا کردیتا ہے اور سود ادا کرنے والوں میں نفرت، غصہ، بغض و حسد جیسی صفات پیدا ہوجاتی ہیں، اور ایسی صفات ایک اسلامی معاشرہ کے لیے سم قاتل کی حیثیت رکھتی ہیں اور جہاد کی روح کے منافی ہیں اور آخرت میں اخروی عذاب کا سبب بنتی ہیں۔ انہیں وجوہ کی بنا پر سود کو بالآخرمکمل طور پر حرام قرار دیا گیا۔ آل عمران
134 [١١٩] اگر قرآنی آیات کی ترتیب پر غور کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اگر کہیں دوزخ کا ذکر فرمایا تو اس کے ساتھ ہی جنت کا ذکر فرمایا اور اس کے برعکس بھی اسی طرح اگر کہیں اسباب دخول دوزخ کا ذکر فرمایا تو اسی مناسبت سے اسباب دخول جنت کا ذکر فرما دیا اور اس کے برعکس بھی۔ یہاں بھی یہی صورت حال ہے۔ سود خواری، جو دوزخ میں دخول کا سبب ہے، کے بعد جنت اور اس میں داخل ہونے والے پرہیزگاروں کی چند صفات کا ذکر فرمایا۔ ان میں سب سے پہلی صفت انفاق فی سبیل اللہ ہے جو سود خوری کی عین ضد اور معاشرہ پر اس کے اثرات سود کے اثرات کے بالکل برعکس ہوتے ہیں۔ مثلاً سود خوری سے سود خوار میں حرص و طمع، بخل اور زر پرستی جیسی صفات پیدا ہوتی ہیں اور سود دینے والے میں سود خور کے خلاف نفرت بغض اور حسد پیدا ہوتا ہے اور یہ صورت حال معاشرہ میں طبقاتی تقسیم پیدا کرکے کسی بڑے فتنہ کا پیش خیمہ بن جاتی ہے جبکہ صدقہ و خیرات دینے سے دینے والے کے دل میں بخل کے بجائے سماحت اور خوشی پیدا ہوتی ہے تو لینے والے کے دل میں احسان مندی اور شکرگزاری کے احساسات پیدا ہوتے ہیں۔ جس سے پورے معاشرے میں ایک دوسرے سے ہمدردی، مروت اور اخوت، اتفاق اتحاد اور محبت جیسی صفات پیدا ہوتی ہیں اور یہی چیز ایک اسلامی معاشرہ کی روح رواں ہے اور اسی لیے کتاب و سنت میں انفاق فی سبیل اللہ پر بہت زور دیا گیا ہے اور زکوٰۃ فرض کی گئی ہے۔ اس آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ متقین کی پہلی صفت یہ ہے کہ خواہ خوشحالی کا دور ہو یا تنگدستی کا وہ ہر حال میں اپنی حیثیت اور وقت کے تقاضا کے مطابق اللہ کی راہ میں ضرور خرچ کرتے ہیں۔ چنانچہ آپ نے کئی مواقع پر غریب مسلمانوں کو صدقہ کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا کہ (اتقوا النار ولو بشق تمرۃ) (بخاری، کتاب الأدب، باب طیب الکلام۔۔) یعنی دوزخ کی آگ سے بچو خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی صدقہ دے کر بچو اور اس ترغیب سے مقصود بخل اور حرص جیسی مہلک بیماریوں کا علاج ہے۔ [١٢٠] غصہ پی جانااورمعاف کرنا الگ الگ صفات ہیں :۔ متقین کی دوسری صفت یہاں یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ غصہ کو پی جاتے اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں، غصہ ہمیشہ ایسے شخص پر آتا ہے جو اپنے سے کمزور ہو اور انسان اس سے انتقام لینے کی قدرت رکھتا ہو۔ ایسے وقت میں غصہ کو برداشت کر جانا فی الواقعہ بڑے حوصلہ کا کام ہے۔ اسی لیے آپ نے فرمایا کہ بہادر وہ نہیں جو کسی دوسرے کو لڑائی سے پچھاڑ دے بلکہ بہادر وہ ہے جو غصہ کو برداشت کر جائے۔ نیز ایک دفعہ ایک آدمی نے آپ سے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ’’مجھے کچھ وصیت فرمائیے‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’غصہ نہ کیا کرو۔‘‘ اس نے بار بار وصیت کی درخواست کی اور آپ ہر بار یہی جواب دیتے رہے کہ غصہ نہ کیا کرو۔ (بخاری۔ کتاب الادب، باب الحذر من الغضب) غصہ پی جانا اور معاف کردینا دو الگ الگ کام ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص وقتی طور پر غصہ پی جائے اور بات دل میں رکھے اور پھر کسی وقت اس سے انتقام لے لے۔ گویا غصہ پی جانے کے بعد قصور وار کو معاف کردینا ایک الگ اعلیٰ صفت ہے اور اللہ ایسے ہی نیکو کار لوگوں سے محبت رکھتا ہے جس میں یہ دونوں باتیں پائی جاتی ہوں۔ آل عمران
135 [١٢١] توبہ کی اہم شرائط :۔ آیت کے الفاظ سے صاف واضح ہے کہ پرہیزگار لوگ دیدہ دانستہ نہ کوئی برا کام کرتے ہیں اور نہ اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں بلکہ سہواً بہ تقاضائے بشریت ان سے ایسے کام سرزد ہوجاتے ہیں اور جب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا ہے تو فوراً اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور معافی مانگنے لگتے ہیں اور ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ یقیناً معاف بھی کردیتا ہے۔ یہاں یہ بات ملحوظ رکھنی چاہئے کہ اگر اس برے کام یا غلطی کا اثر صرف اپنی ذات تک محدود ہو تو پھر اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔ وہ یقیناً معاف فرما دے گا۔ لیکن اگر اس کا اثر دوسروں کے حقوق پر پڑتا ہو تو اس کی تلافی کرنا یا اس شخص سے قصور معاف کروانا ضروری ہے اور یہ استغفار کی ایک اہم شرط ہے۔ [١٢٢]توبہ کی فضیلت:۔ گناہ پر اصرار کرنا یا استغفار کرنے کے بعد وہی گناہ پھر کرتے جانا اصل گناہ سے بڑا گناہ ہے اور جو لوگ یہ کام کریں وہ یقیناً متقی نہیں ہوتے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ ایک گناہ سرزد ہوگیا تو اس کی معافی مانگ لی، پھر دوسرا ہوگیا۔ اس کی بھی اللہ سے معافی مانگ لی، پھر کوئی اور ہوگیا اس کی بھی معافی مانگ لی۔ اس طرح اگر دن میں ستر بار بھی اللہ سے معافی مانگی جائے تو اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے کیونکہ انسان خطا کا پتلا ہے اور اللہ تعالیٰ خطا کار کے معافی مانگنے پر صرف اسے معاف ہی نہیں فرماتا بلکہ اس سے خوش بھی ہوتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ گناہ کے بعد اس کی معافی نہ مانگنا بھی اس پر اصرار کے مترادف ہے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ جس شخص نے اپنے گناہ کی معافی مانگ لی۔ اس نے ضد نہیں کی اور دوسری حدیث میں ہے۔ جس نے توبہ کی گویا اس نے گناہ کیا ہی نہ تھا۔ (ابن ماجہ، ابو اب الزہد، ذکر التوبة) آل عمران
136 آل عمران
137 [١٢٣] تذکیر بایام اللہ :َ یہ مضمون قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر آیا ہے اور ایسی آیات میں لوگوں کو عام دعوت دی گئی ہے کہ ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ جن لوگوں نے انبیاء کو اور اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلایا تھا۔ ان کا کیا انجام ہوا تھا اور اس انجام کی تفصیل بھی قرآن میں متعدد مقامات پر دی گئی ہے۔ مثلاً قوم عاد کا کیا حشر ہوا۔ قوم ثمود کا کیا، اور قوم نوح، اصحاب مدین، اصحاب الحجر، قوم سبا وغیرہ وغیرہ کا کیا حشر ہوا۔ اسی طرح بعض اشخاص کا بھی ذکر آتا ہے۔ مثلاً فرعون اور آل فرعون، کا کیا حشر ہوا۔ اس مضمون کو شرعی اصطلاح میں ''تذکیر بایام اللہ '' کہتے ہیں۔ یعنی ’’جن لوگوں یا قوموں پر انبیاء اور آیات الٰہی کو جھٹلانے کی وجہ سے عذاب آیا تھا۔ اس سے عبرت حاصل کرنا۔‘‘ ایسے سب واقعات سے اللہ تعالیٰ کی جو عادت جاریہ معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ جب کوئی قوم اللہ کی نافرمانی میں انتہاء کو پہنچ جاتی ہے اور گناہوں میں ڈوب جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر ایسا عذاب نازل کرتا ہے جو اسے تباہ و برباد کردیتا ہے اور اس کا نام صفحہ ہستی سے مٹ جاتا ہے اور یہ اللہ کی ایسی سنت ہے جو پوری ہوکے رہتی ہے۔ یقین نہ آئے تو زمین میں چل پھر کر دیکھ لو۔ لہٰذا تمہیں بھی اس معاملہ میں محتاط رہنا چاہئے۔ آل عمران
138 [١٢٤] مختلف تہذیبوں اور قوموں کا عروج زوال کیسے ہوتاہے ؟ یعنی ایسے واقعات عام لوگوں کے لیے محض ایک تاریخی بیان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جن لوگوں کے دلوں میں اللہ کا ڈر نہیں ہوتا وہ یہی کہنے پر اکتفا کرلیتے ہیں کہ مختلف تہذیبیں بنتی اور مٹتی آئی ہیں۔ ایک یونانی تہذیب تھی، ایک رومی تہذیب تھی، ایک ہندی تہذیب تھی، ایک مصری تہذیب تھی، ایک بابلی تھی اور ہر تہذیب کی عمر طبعی تقریباً ایک ہزار سال ہوتی ہے۔ جب عمر پوری ہوجاتی ہے تو وہ تہذیب مٹ جاتی ہے تو اس کی جگہ کوئی نئی تہذیب لے لیتی ہے جس کا دنیا بھر میں بول بالا ہوجاتا ہے۔ اس تاریخی بیان میں ایک بڑا مغالطہ یہ ہے کہ ہر تہذیب کی عمر ہزار سال یا تقریباً ہزار سال نہیں ہوتی۔ بلکہ اس سے بہت کم بھی ہوسکتی ہے اور اس سے بہت زیادہ بھی۔ پھر وہ یہ سوچنے کی زحمت گوارا ہی نہیں کرتے کہ یہ تہذیبیں بن کیسے جاتی ہیں اور بگڑتی کیونکر ہیں؟ قرآن نے اس سوال کا جواب یہ دیا ہے کہ کوئی قوم اس دنیا میں ایسی نہیں جہاں اللہ کا پیغمبر مبعوث نہ ہوا ہو۔ (٣٥: ٢٤) پھر جب تک کوئی قوم اپنے پیغمبر کی تعلیمات پر عمل پیرا رہتی ہے تو یہ اس کے عروج کا زمانہ ہوتا ہے اور جب یہی قوم عیش و عشرت اور فحاشی و بے حیائی اور معصیت کے کاموں میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ جس کا نام ان کی زبان میں تہذیب ہوتا ہے تو اس پر بتدریج زوال آنا شروع ہوجاتا ہے یا وہ گناہوں میں بہت زیادہ ڈوب جائے تو ناگہانی قسم کا عذاب انہیں تباہ و برباد کردیتا ہے اور اللہ سے ڈرنے والے لوگ جب بھی کسی قوم کے عروج و زوال پر نظر ڈالتے ہیں تو اسی نظریہ کے مطابق ڈالتے ہیں اور ایسے واقعات سے عبرت بھی حاصل کرتے ہیں اور ہدایت بھی۔ اس مقام پر یہ مضمون اس مناسبت سے آیا ہے کہ جو مشرکین مکہ اور یہود اور ان کے حلیف اور منافقین جو بھی اللہ کی آیات کو جھٹلا رہے ہیں اور مسلمانوں سے محاذ آرائی کر رکھی ہے ان سب کا یہی انجام ہونے والا ہے۔ آل عمران
139 [١٢٥] ان ہدایات و ارشادات کے بعد اب پھر غزوہ احد کا بیان ہو رہا ہے اور یہ آیت غالباً اس وقت نازل ہوئی جب غزوہ احد میں مسلمان ایک دفعہ شکست کھا کر مایوسی و بد دلی کا شکار ہو رہے تھے۔ اگرچہ اس کا روئے سخن بظاہر مجاہدین احد کی طرف معلوم ہوتا ہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لیے ایک کلیہ بیان فرما دیا کہ اگر تم فی الواقعہ مومن ہو اور سست اور غمزدہ ہونے کے بجائے اللہ پر توکل اور صبر کرو گے تو اللہ تعالیٰ یقیناً تمہیں غلبہ عطا کرے گا اور اگر تم مغلوب و مقہور ہو تو وہ وجوہ تلاش کرو جن کی وجہ سے یہ صورت حال پیدا ہوئی ہے۔ آل عمران
140 [١٢٦] جنگ بدر میں کافروں کو اس سے زیادہ صدمہ پہنچا تھا۔ اس وقت کافروں کے ستر سردار قتل ہوئے تو ستر گرفتار بھی ہوئے۔ جب کہ غزوہ احد میں ستر مسلمان شہید ہوگئے اور اللہ کے فضل و کرم سے مسلمانوں کا ایک آدمی بھی گرفتار نہ ہوا۔ کیونکہ با لآخر میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا اور قریش مکہ کو پسپا ہونا پڑا تھا۔ غزوہ احد میں وقتی شکست کی حکمتیں :۔ اس آیت میں شکستہ دل مسلمانوں کو ڈھارس بندھائی جارہی ہے۔ پھر اس شکست کی بعض حکمتیں بیان کی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ خوشی اور غمی، فتح و شکست، کامرانی و ناکامی، خوشحالی و تنگدستی ایسی چیزیں ہیں جو لوگوں میں ہر کسی کو پیش آتی رہتی ہیں۔ اس لیے اگر مسلمانوں کو وقتی طور پر شکست ہو بھی گئی تو غمزدہ اور بددل ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ انہیں کافروں کی طرف دیکھنا چاہئے جو میدان بدر میں بری طرح مار کھانے کے باوجود پھر سے نئے عزم کے ساتھ باطل کی حمایت میں لڑنے آگئے ہیں۔ دوسری حکمت اس غزوہ میں یہ ہے کہ سچے مومنوں اور منافقوں میں امتیاز ہوجائے، جسے تم لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ لو۔ ﴿وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُہَدَا﴾ کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم میں سے کچھ لوگوں کو شہادت کا درجہ نصیب ہو۔ [١٢٧] ظالم لوگوں سے مراد وہی منافقوں کی جماعت ہے جو عبداللہ بن ابی کے ساتھ واپس چلی گئی تھی اور جس موقعہ پر مسلمانوں کو شکست ہوئی تو یہ لوگ مسلمانوں میں بددلی پھیلانے میں پیش پیش تھے۔ آل عمران
141 [١٢٨] تیسری حکمت یہ ہے کہ حقیقی مسلمان ممتاز ہو کر سب کے سامنے آجائیں اور کافر اس عارضی فتح سے دلیر ہو کر پھر سے مسلمانوں پر حملہ کرنے آجائیں تو ان کے ان کرتوتوں کا انہیں بدلہ مل سکے۔ چنانچہ بعد میں غزوہ خندق میں کفار شکست کھا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس کے بعد ان میں یہ سکت ہی نہ رہی کہ جارحانہ طور پر مسلمانوں پر حملہ آور ہوسکیں۔ آل عمران
142 [١٢٩] جہاد کے ذریعے امتحان :۔ یعنی جنت کے جن اعلیٰ درجات اور مقامات پر اللہ تعالیٰ تمہیں پہنچانا چاہتا ہے کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ بس یوں ہی بیٹھے بیٹھے آرام سے وہاں جاپہنچو گے اور اللہ تمہارا امتحان لے کر یہ نہ دیکھے گا کہ جہاد میں حصہ لینے والے اور اس میں ثابت قدم رہنے والے کون کون ہیں۔ جنت کے بلند درجات پر تو وہی لوگ فائز ہوں گے جو اللہ کی راہ میں ہر طرح کی سختیاں جھیلنے اور قربانیاں پیش کرنے کے لیے تیار ہوں۔ یہاں بھی اللہ کے دیکھنے یا جاننے سے وہی مراد ہے جو سابقہ آیت میں مذکور ہوئی یعنی ﴿وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُہَدَاۗءَ﴾ کہ مسلمانوں کی پوری جماعت یہ صورت حال بچشم خود ملاحظہ کرے۔ خباب بن ارت اور مشرکین مکہ کی سزائیں:۔ مکی دور میں مسلمانوں پر قریش مکہ کی طرف سے بے پناہ مظالم اور مصائب ڈھائے جارہے تھے۔ حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ ان مصائب سے کچھ گھبرا سے گئے اور چاہا کہ جاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت فرمائیں کہ جس وقت کی آپ بشارت سناتے ہیں وہ کب آئے گا ؟ چنانچہ وہ خود راوی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا، اس وقت آپ کعبہ کے سایہ میں ایک چادر پر تکیہ لگائے بیٹھے تھے۔ اس زمانہ میں ہم مشرک لوگوں سے سخت تکلیفیں اٹھا رہے تھے۔ میں نے آپ سے عرض کیا کہ آپ اللہ تعالیٰ سے ان مشرکوں کے لیے بددعا کیوں نہیں کرتے؟ یہ سنتے ہی آپ (تکیہ چھوڑ کر) سیدھے بیٹھ گئے اور آپ کا چہرہ (غصے سے) سرخ ہوگیا اور فرمایا : ’’تم سے پہلے ایسے لوگ گزر چکے ہیں جن کے گوشت اور پٹھوں میں ہڈیوں تک لوہے کی کنگھیاں چلائی جاتی تھیں۔ مگر وہ اپنے سچے دین سے پھرتے نہیں تھے اور آرا ان کے سر کے درمیان رکھ کر چلا دیا جاتا اور ان کے دو ٹکڑے کردیے جاتے مگر وہ سچے دین سے نہیں پھرتے تھے اور اللہ ایک دن اس کام کو ضرور پورا کرے گا۔‘‘ (بخاری، باب بنیان الکعبة باب مالقی النبی و أصحابہ من المشرکین بمکۃ) اور ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں۔ ’’مگر تم لوگ تو جلدی مچاتے ہو۔‘‘ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کو صبر و استقلال اور ثابت قدمی کا وہی سبق سکھلایا جو اس آیت میں مسلمانوں کو سکھلایا جارہا ہے۔ آل عمران
143 [١٣٠] موت اور دشمن سے مڈبھیڑ کی آرزو نہ کرو:۔ اس آیت میں غزوہ احد کا ایک دوسرا منظر پیش کیا گیا ہے۔ جبکہ مسلمان ابتداًء شکست سے دوچار ہوئے تھے جو صحابہ رضی اللہ عنہم غزوہ بدر میں شرکت سے محروم رہ گئے تھے وہ شہدائے بدر کے فضائل سن سن کر تمنا کیا کرتے تھے کہ اگر پھر اللہ نے ایسا موقع فراہم کیا تو ہم اللہ کی راہ میں جان دے کر شہادت کے مراتب حاصل کریں گے۔ مشورہ کے وقت ایسے ہی صحابہ رضی اللہ عنہم نے زور دیا تھا کہ جنگ مدینہ سے باہر کھلے میدان میں لڑنا چاہئے، لیکن جب شکست ہوئی تو ایسے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے بھی کچھ لوگ بھاگ نکلے۔ اس آیت میں انہیں لوگوں سے خطاب ہے کہ جو چیز تم چاہتے تھے وہی تمہیں پیش آئی ہے۔ اب پیچھے ہٹنے کا کیا مطلب ہے؟ اسی سلسلہ میں ایک حدیث ہے کہ آپ نے فرمایا دشمن سے مڈبھیڑ کی تمنا مت کرو۔ اور جب ایسا موقع آجائے تو پھر ثابت قدمی دکھاؤ۔ (بخاری، کتاب التمنی، باب کراھیہ تمنی لقاء العدو نیز کتاب الجہاد، باب لاتمنوا لقاء العدو) آل عمران
144 [١٣١]میدان احد کےمعرکہ کےحالات:۔ جب حضرت عبداللہ بن جبیر کے ساتھی درہ چھوڑ کر لوٹ مار میں لگ گئے تو خالد بن ولید (جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے اور کفار کے ایک دستہ کی کمان کر رہے تھے) پہاڑی کا چکر کاٹ کر اسی درہ سے مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے۔ سو سوار ان کے ہمراہ تھے۔ ادھر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ صرف بارہ آدمی رہ گئے تھے۔ دس بارہ تیر انداز بھلا سو سواروں کی یلغار کو کیسے روک سکتے تھے۔ انہوں نے مقابلہ تو بڑی بے جگری سے کیا مگر سب شہید ہوگئے۔ مسلمان مجاہدین اپنے عقب یعنی درہ کی طرف سے مطمئن تھے کہ اچانک مشرکین کا یہ رسالہ ان کے سروں پر جا پہنچا اور سامنے سے مشرکوں کی جو فوج بھاگ کھڑی ہوئی تھی وہ بھی پیچھے پلٹ آئی اور مسلمان دونوں طرف سے گھر گئے۔ بہت زور کا رن پڑا اور بہت سے مسلمان شہید اور زخمی ہوئے۔ عارضی شکست کا سبب اور رسول اللہ کی وفات کی افواہ پر مسلمانوں کی بے قراری:۔ اسی دوران ابن قیہ نے ایک بھاری پتھر آپ پر پھینکا جس سے آپ کا سامنے کا دانت بھی ٹوٹ گیا اور چہرہ مبارک بھی زخمی ہوا۔ اس ضرب کی شدت سے آپ بے ہوش ہو کر گر پڑے اور ابن قمیئہ یا کسی اور نے دور سے پکارا ’ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قتل کردیئے گئے‘ یہ سنتے ہی مسلمانوں کے اوسان خطا ہوگئے اور پاؤں اکھڑ گئے بعض مسلمان جنگ چھوڑ کر بیٹھ گئے اور کہنے لگے۔ اب لڑنے کا کیا فائدہ ہے اور بعض کمزور دل مسلمانوں کو یہ خیال آیا کہ جاکر مشرکوں کے سردار ابو سفیان سے امان حاصل کرلیں اور اس بدحواسی کے عالم میں بعض یہ بھی سوچنے لگے کہ جب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قتل ہوگئے تو ہمیں اپنے پہلے دین میں واپس چلے جانا چاہئے۔ یہی وہ وقت تھا جب منافقوں نے یوں زبان درازی شروع کردی کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر اللہ کے رسول ہوتے تو مارے نہ جاتے۔ اس وقت حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے چچا انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے کہا اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قتل ہوگئے تو رب محمد قتل نہیں ہوئے۔ آپ کے بعد تمہارا زندہ رہنا کس کام کا ؟ جس بات پر آپ نے جان دی ہے اسی پر تم بھی اپنی جان دے دو اور کٹ مرو۔ یہ کہہ کر آپ کافروں میں گھس گئے اور بہادری کے جوہر دکھاتے ہوئے آخر شہید ہوگئے۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہوش آگیا تو آپ نے آواز دی 'الی عباد اللہ انا رسول اللہ ' (اللہ کے بندو! ادھر آؤ میں اللہ کا رسول ہوں) اور کعب بن مالک رضی اللہ عنہ آپ کو پہچان کر چلائے۔ مسلمانو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہاں موجود ہیں۔ چنانچہ مسلمان آپ کے گرد جمع ہونا شروع ہوگئے۔ تیس کے قریب صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ کے قریب ہو کر دفاع کیا اور مشرکوں کی فوج کو منتشر کردیا۔ اس موقع پر سعد بن ابی وقاص اور ابو طلحہ رضی اللہ عنہما نے نہایت جانبازی اور جانثاری کا نمونہ پیش کیا۔ اس موقع سے متعلق یہ آیت نازل ہوئی یعنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخر اللہ تو نہیں جو حی و قیوم ہوں، ایک رسول ہی ہیں۔ ان سے پہلے سب رسول دنیا سے رخصت ہوچکے پھر آگر آپ فوت ہوجائیں یا شہید ہوجائیں تو کیا تم اسلام چھوڑ دو گے؟۔ دین کی حفاظت اور جہاد فی سبیل اللہ ترک کردو گے؟ تمہیں ہرگز ایسا نہیں کرنا چاہئے اور اگر کوئی ایسا کرے گا تو اپنا ہی نقصان کرے گا۔ اللہ کاتو کچھ بھی بگاڑ نہیں سکے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر سیدنا ابوبکر کاخطبہ :َ واضح رہے کہ اس آیت کے نزول کے ساڑھے سات سال بعد جب فی الواقعہ آپ کی وفات ہوگئی تو اس وقت مسلمانوں کو اتنا صدمہ ہوا کہ ان کے اوسان خطا ہوگئے۔ دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کا کیا ذکر حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے فقیہ اور مدبر صحابی کھڑے ہو کر تقریر کر رہے تھے کہ جو شخص یہ کہے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوت ہوگئے ہیں میں اس کی گردن اڑا دوں گا۔ اتنے میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آئے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بیٹھ جانے کو کہا۔ لیکن جوش خطابت میں انہوں نے اس بات پر کان ہی نہ دھرا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ الگ کھڑے ہو کر تقریر کرنے لگے تو لوگ ادھر متوجہ ہوگئے۔ آپ نے اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا : تم میں سے جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پوجتا تھا تو وہ سمجھ لے کہ بلاشبہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وفات پاگئے اور جو شخص اللہ کو پوجتا تھا تو اللہ ہمیشہ زندہ ہے اور کبھی مرنے والا نہیں۔ پھر آپ نے یہی آیت پڑھی ﴿وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ .....الشّٰکِرِیْنَ﴾ تک۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں ایسا معلوم ہوتا تھا گویا لوگوں کو پتا نہیں تھا کہ اللہ نے یہ آیت بھی نازل فرمائی ہے۔ جب تک حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ آیت نہ پڑھی پھر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے لوگوں نے یہ آیت سیکھی۔ پھر جسے دیکھو وہ یہی آیت پڑھ رہا تھا اور خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔ اللہ کی قسم! مجھے یوں معلوم ہوا کہ میں نے یہ آیت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تلاوت کرنے سے پہلے سنی ہی نہ تھی اور جب سنی تو سہم گیا۔ دہشت کے مارے میرے پاؤں نہیں اٹھ رہے تھے میں زمین پر گرگیا اور جب میں نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ آیت پڑھتے سنا تب معلوم ہوا کہ واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوگئی۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب مرض النبی) پھر اس بات پر بھی غور فرمائیے کہ یہ آیت غزوہ احد کے موقعہ پر نازل ہوئی تھی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اور اسی طرح دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسے سینکڑوں بار پڑھا بھی ہوگا۔ لیکن اس آیت کی صحیح سمجھ انہیں اس وقت آئی جب فی الواقع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوگئی۔ اس سے پہلے نہیں آئی اور یہی مفہوم ہے اللہ تعالیٰ کے قول ﴿وَلَمَّا یَاْتِہِمْ تَاْوِیْلُہٗ﴾ کا۔ نیز اس سے لفظ تاویل کا صحیح مفہوم بھی سمجھا سکتا ہے۔ سیدنا ابوبکر کا مرتدین سے جہاد:۔ پھر جس وقت میدان احد میں بعض کمزور ایمان والوں نے سوچا کہ اسلام کو چھوڑ کر پہلے دین میں چلے جائیں، اسی طرح آپ کی وفات پر واقعی کئی عرب قبائل مرتد ہوگئے وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ دین اسلام کی ساری سربلندیاں آپ کی ذات سے وابستہ ہیں۔ پھر جب آپ نہ رہے تو اسلام از خود مٹ جائے گا۔ چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایسے مرتدین سے جہاد کیا اور انہیں شکست فاش دی۔ ان میں سے کچھ مارے گئے اور باقی پھر سے دین اسلام پر قائم ہوگئے۔ گویا ان لوگوں نے اپنا ہی نقصان کیا۔ اسلام اللہ کے فضل سے سربلند رہا۔ آل عمران
145 [١٣٢]موت کا میدان جنگ سے تعلق حتمی نہیں اور یہی مومن کی دلیری کی وجہ سے ہے:۔ اس آیت میں مسلمانوں کو ایک نہایت جرات مندانہ سبق سکھلایا گیا ہے۔ جس سے میدان جنگ میں بہادری اور شجاعت کے جوہر دکھانے میں کئی گناہ اضافہ ہوجاتا ہے جو یہ ہے کہ موت کا تعلق میدان جنگ سے قطعاً نہیں بلکہ وہ گھر پر بھی آسکتی ہے۔ اس کا تو ایک وقت مقرر ہے اب دیکھئے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفائے راشدین نے بے شمار غزوات میں شرکت فرمائی لیکن چونکہ ابھی موت کا وقت نہیں آیا تھا۔ اس لیے صحیح سلامت واپس آتے رہے اور جب موت کا وقت آجاتا ہے تو گھر پر بھی انسان اس سے بچ نہیں سکتا۔ اسی طرح سپہ سالار ہونے کی حیثیت سے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا جو مقام ہے اسے سب جانتے ہیں۔ آپ کی ساری زندگی جنگوں میں گزری۔ جسم کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جہاں تلوار یا نیزہ کا نشان موجود نہ ہو۔ لیکن موت میدان جنگ میں نہیں بلکہ گھر پر بستر مرگ پر ہی آئی۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ موت کا جنگ اور میدان جنگ سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کا اپنا ایک مقررہ وقت ہے اور جب وہ آجاتا ہے تو کوئی انسانی تدبیر مرنے والے کو موت کے منہ سے بچا نہیں سکتی۔ [١٣٣] ایک متواتر حدیث ہے۔ (اِنَّمَا الاَعْمَال بالنِّیَاتِ) یعنی کوئی عمل کرتے وقت انسان کی جیسی نیت ہوگی ویسا ہی اسے بدلہ ملے گا۔ ایک ہی کام ہوتا ہے جو نیت کی تبدیلی سے کچھ کا کچھ بن جاتا ہے۔ مثلاً دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک صحابی نے مسجد نبوی کی طرف اپنے مکان کی کھڑکی رکھی۔ آپ نے پوچھا : یہ کھڑکی کیوں رکھی ہے؟ اس نے جواب دیا۔ ’’اس لیے کہ ہوا آتی جاتی رہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اگر تم یہ نیت رکھتے کہ ادھر سے آذان کی آواز آئے گی تو تمہیں ثواب بھی ملتا رہتا اور ہوا تو بہرحال آنا ہی تھی۔‘‘ اگر غور کیا جائے تو انسان کے بہت کاموں کا یہی حال ہے۔ مثال کے طور پر ہر انسان خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم اپنے بال بچوں کی پرورش اور ان پر خرچ کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ اب اگر یہی کام ایک مسلمان اللہ کا حکم سمجھ کر کرے تو اسے اخروی زندگی میں صدقہ کا ثواب بھی مل جائے گا۔ یعنی جو لوگ صرف دنیوی مفاد چاہتے ہیں اللہ انہیں وہی دیتا ہے اور جو اخروی مفاد چاہتے ہیں اللہ انہیں اخروی تو ضرور دیتا ہے۔ علاوہ ازیں دنیاوی مفاد بھی جتنا اس کے مقدر ہے اسے عطا کرتا ہے۔ آل عمران
146 [١٣٤] اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے سابقہ انبیاء اور مجاہدین کی مثال دے کر اہل احد کو ہدایت فرمائی ہے کہ اگر تمہیں وقتی طور پر شکست کا حادثہ پیش آبھی گیا تھا تو اس وقت بے صبری یا بےدلی کا مظاہرہ کرنا ایمان والوں کا شیوہ نہیں۔ تم سے پہلے لوگوں پر اس سے زیادہ سختیاں آئیں۔ لیکن انہوں نے بے صبری اور بےدلی کا قطعاً مظاہرہ نہیں کیا نہ ہی باطل کے آگے سرنگوں ہوئے۔ یہ خطاب دراصل کمزور ایمان والوں سے ہے جن میں کچھ تو ابو سفیان کی پناہ میں آنے کی بات سوچ رہے تھے اور کچھ ارتداد کی۔ آل عمران
147 [١٣٥] یعنی اہل ایمان کا بھروسہ محض سامان جنگ اور قوت کار یا اپنی کارکردگی پر ہی نہیں ہوتا بلکہ ساتھ ساتھ وہ میدان جنگ میں بھی اللہ کو یاد رکھتے، اس سے اپنی خطاؤں کی معافی مانگتے اور اپنی ثابت قدمی اور دشمن پر غالب آنے کی دعا بھی مانگتے ہیں۔ میدان بدر میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ساری رات اللہ کے حضور دشمن پر فتح و نصرت کی دعا میں گزاری تھی۔ ایسی ہی دعا طالوت کے لشکر نے بھی کی تھی جس کا ذکر سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٢٥٠ میں آیا ہے۔ آل عمران
148 آل عمران
149 [١٣٦] غزوہ احد میں چونکہ مسلمانوں کا کافی جانی نقصان ہوگیا اور بہت سے صحابہ زخمی بھی ہوگئے تھے تو مسلمانوں کے اس نقصان سے مشرکین یہود اور منافق سب بہت خوش تھے اور مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے تھے کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سچے نبی ہوتے تو مسلمانوں کو کبھی شکست نہ ہوتی اور نہ ہی وہ خود زخمی ہوتے۔ نیز آئندہ بھی اگر جنگ ہوئی تو تمہارا یہی حشر ہوا تو اس سے یہ بہتر نہیں کہ اب بھی اپنا نفع و نقصان سوچ لو۔ کچھ مسلمانوں کو طعنے بھی دیتے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے فرمایا کہ اگر تم ان کی باتوں میں آگئے تو پھر یہ لوگ تمہیں اسی جاہلی دور کی طرف لوٹا دیں گے جس سے اللہ نے اپنے فضل سے تمہیں اسلام کے ذریعہ نکالا ہے۔ نیز یہ کہ یہ لوگ کسی حال میں بھی تمہاری مدد نہیں کریں گے۔ اللہ پر بھروسہ رکھو اور ثابت قدم رہو وہی تمہارا سب سے اچھا مددگار ہے۔ آل عمران
150 آل عمران
151 [١٣٧] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخمی ہونے کے بعد جب مشرکین نے گھیرا ڈالا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نہایت جانبازی سے مشرکین کو منتشر کردیا تو آپ نے ہمت کرکے نہایت دانشمندی اور حربی مہارت سے نقشہ جنگ میں تبدیلی کی اور ثابت قدمی کے ساتھ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے۔ آپ کے اس اقدام سے فوراً جنگ کا نقشہ بدل گیا۔ ابو سفیان نے آپ کو دیکھا تو فوج لے کر پہاڑ پر چڑھنے کی کوشش کی۔ اوپر سے صحابہ نے پتھر برسائے، لہٰذا وہ آگے نہ بڑھ سکا۔ اس طرح شکست خوردہ مسلمان پھر سے برابری کی سطح پر آگئے اور ابو سفیان کو ناکام واپس جانا پڑا۔ معہد خزاعی کا کردار:۔ چونکہ یہ جنگ فیصلہ کن نہ تھی اور اسی حال میں ابو سفیان واپس چلا گیا۔ لہٰذا آپ کو خیال آیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ابو سفیان واپس مڑ کر مسلمانوں پر دوبارہ حملہ کردے۔ لہٰذا آپ نے صحابہ کو تعاقب کا حکم دیا۔ چنانچہ زخم خوردہ اور غمزدہ مسلمانوں میں سے ستر آدمیوں کی ایک جماعت تعاقب کے لیے تیار ہوگئی اور وہ مدینہ سے نکل کھڑے ہوئے اور مدینہ سے آٹھ میل دور حمراء الاسد تک پہنچ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گمان بالکل درست نکلا۔ ابو سفیان جب مقام روحاء پر پہنچا تو اسے خیال آیا کہ کام تو ناتمام ہی رہ گیا۔ لہٰذا واپس مدینہ چل کر دوبارہ حملہ کرنا چاہئے۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ کی مدد مسلمانوں کے شامل حال ہوئی۔ قبیلہ خزاعہ کا رئیس معبد (یہ قبیلہ ابھی تک مسلمان نہیں ہوا تھا۔ تاہم وہ مسلمانوں کا حلیف اور خیر خواہ ضرور تھا) مسلمانوں کی شکست کی خبر سن کر دلجوئی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور جب اسے صورت حال معلوم ہوئی تو آپ سے مشورہ کے بعد وہ ابو سفیان کے پاس گیا۔ ابو سفیان نے اسے اپنا خیر خواہ سمجھ کر جب اپنا واپس جاکر حملہ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو معبد کہنے لگا میں ادھر سے ہی آرہا ہوں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک لشکر جرار لے کر آپ لوگوں کے تعاقب میں آرہے ہیں اور اس لشکر میں وہ نوجوان بھی شامل ہیں جو کسی نہ کسی وجہ سے اس معرکہ میں شریک نہ ہوسکے تھے۔ ابو سفیان نے جب یہ قصہ سنا تو اس پر ایسا رعب طاری ہوا کہ اپنا ارادہ بدل دیا اور مکہ کی راہ لی۔ [١٣٨]مومن دلیر کیوں ہوتاہے؟ مشرکوں کے مرعوب ہوجانے کی وجہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتلائی ہے کہ وہ ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہیں جو مخلوق ہیں اور اپنے بھی نفع و نقصان پر قادر نہیں تو دوسروں کی کیا مدد کرسکتے ہیں ﴿ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ﴾ والا معاملہ ہوتا ہے۔ جبکہ مومن صرف ایک اللہ کا پرستار ہوتا ہے جو مدد کرنے پر پوری قدرت رکھتا ہے اور اپنے بندوں کی ضرور مدد فرماتا ہے۔ بشرطیکہ مومن اس کی اطاعت کریں اور اسی پر توکل کریں۔ اللہ پر توکل اور تقدیر الٰہی کا عقیدہ اسے اللہ کے علاوہ باقی سب چیزوں سے بے خوف اور نڈر بنا دیتا ہے۔ آل عمران
152 [١٣٩] شکست کی وجہ :۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ احد کے دن آپ نے پچاس پیدل آدمیوں کا افسر عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا اور تاکید کی کہ تم اپنی جگہ سے نہ سرکنا۔ خواہ تم یہ دیکھو کہ پرندے ہم کو اچک لے جائیں جب تک میں تمہیں کہلا نہ بھیجوں اور اگر تم دیکھو کہ ہم نے دشمن کو شکست دی ہے اور اسے کچل ڈالا ہے تب بھی تم یہاں سے نہ ہلنا جب تک میں کہلا نہ بھیجوں۔ ابتداء میں مسلمانوں نے کافروں کو مار بھگایا۔ میں نے خود مشرک عورتوں کو دیکھا کہ وہ اپنے کپڑے اٹھائے اور پنڈلیاں کھولے بھاگی جارہی تھیں۔ یہ صورت حال دیکھ کر عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں نے کہا: ’’اب غنیمت کا مال اڑاؤ، تمہارے ساتھی تو غالب آچکے۔ اب کیا دیکھ رہے ہو۔‘‘ عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: ’’کیا تم وہ بات بھول گئے جو تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہی تھی؟‘‘ وہ کہنے لگے واللہ ! ہم تو لوگوں کے پاس جاکر غنیمت کا مال اڑائیں گے، جب وہ (درہ چھوڑ کر) لوگوں کے پاس آگئے تو (پیچھے سے خالد بن ولید نے حملہ کردیا) اور کافروں نے مسلمانوں کے منہ پھیر دیئے اور شکست کھا کر بھاگنے لگے اور اللہ کا رسول انہیں پیچھے سے بلا رہا تھا۔ اس وقت آپ کے ساتھ بارہ آدمیوں کے سوا کوئی نہ رہا تھا اور کافروں نے ہمارے ستر آدمی شہید کئے جبکہ بدر کے دن مسلمانوں نے ایک سو چالیس کافروں کا نقصان کیا تھا۔ ستر کو قید کیا تھا اور ستر کو قتل کیا تھا۔ خاتمہ جنگ کےبعد ابوسفیان کا نعرہ اور سوال وجواب:۔ اس وقت ابو سفیان نے تین بار یہ آواز دی کیا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں میں (زندہ) موجود ہیں؟ مگر آپ نے صحابہ کو جواب دینے سے منع کردیا۔ پھر اس نے تین بار آواز دی:کہا ابو قحافہ کے بیٹے موجود ہیں؟ پھر تین بار پکارا: کیا خطاب کے بیٹے موجود ہیں؟ پھر اپنے ساتھیوں سے متوجہ ہو کر کہنے لگا : یہ تو سب قتل ہوچکے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ سن کر رہ نہ سکے اور اسے کہا : اللہ کے دشمن! جھوٹ کہتے ہو۔ جن کے تم نے نام لیے ہیں سب کے سب زندہ ہیں اور ابھی تیرا برا دن آنے والا ہے۔ اس وقت ابو سفیان کہنے لگا : اچھا آج بدر کے دن کا بدلہ ہوگیا اور لڑائی تو ڈولوں کی طرح ہوتی ہے (کبھی ادھر کبھی ادھر) تم اپنے مقتولین میں مثلہ کیا ہوا دیکھو گے جس کا میں نے حکم نہیں دیا تھا۔ تاہم اسے برا بھی نہیں سمجھتا۔ پھر اس نے دو مرتبہ ’ہبل کی جے‘ کا نعرہ لگایا تو آپ نے صحابہ سے کہا اسے جواب کیوں نہیں دیتے؟ صحابہ نے پوچھا ’یارسول اللہ! کیا جواب دیں؟‘ فرمایا : کہو ’’اللہ ہی سب سے برتر اور بزرگ ہے۔‘‘ پھر ابوسفیان نے پکارا : ہمارا تو عزیٰ بھی ہے جو تمہارا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : ’’اسے جواب کیوں نہیں دیتے۔‘‘ صحابہ نے پوچھا کیا جواب دیں؟ آپ نے فرمایا : یوں کہو : ’’ہمارا تو کارساز اللہ ہے۔ لیکن تمہارا کوئی کارساز نہیں۔‘‘ (بخاری، کتاب الجہاد، باب دواء الجرح باحراق الحصیر و غسل المراۃ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں کا علاج ۲ ۔ سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ کو غزوہ احد میں جو زخم لگا اس کا یہ علاج کیا گیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی ڈھال میں پانی لارہے تھے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کے منہ سے خون دھو رہی تھیں اور ایک چٹائی جلا کر اس کی راکھ آپ کے زخم میں بھر دی گئی۔ (بخاری، کتاب الجہاد، باب ایضاً) [١٤٠]بلآخر میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا:۔ اس جنگ میں ابتداًء مسلمانوں کو کامل فتح نصیب ہوئی اور اللہ نے اپنا وعدہ نصرت پورا فرمایا۔ پھر عبداللہ بن جبیررضی اللہ عنہ کے ہمراہیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صریح نافرمانی کی۔ جس کی پاداش میں مسلمانوں کو شکست سے دو چار ہونا پڑا۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا یہ قصور معاف کردیا جس کے نتیجہ میں یہ جنگ برابری کی سطح پر منتج ہوئی۔ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کفار کے تعاقب میں جو دستہ بھیجا اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بالآخر میدان مسلمانوں کے ہاتھ میں رہا اور یہ صرف اس وجہ سے تھا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کی نافرمانی کے جرم کو معاف کردیا تھا اور اگر قصور معاف نہ کیا جاتا تو عین ممکن تھا کہ مشرکین مکہ میدان احد کو سر کرنے کے بعد مدینہ کا رخ کرتے اور مسلمانوں کے بیوی بچوں کو قتل کردیتے یا قید کرلیتے یا لونڈی غلام بنالیتے۔ یہ اللہ کا فضل اور اس کی معافی ہی کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایسی ذلت سے بچا لیا ورنہ جو ذلت میدان بدر میں مشرکین مکہ کی ہوئی تھی یہ ذلت اس سے کہیں بڑھ کر ہوتی۔ آل عمران
153 [١٤١]احد کے دن مسلمانوں کوکیاکیاغم پہنچے؟ غما بغم کے کئی معنی ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس کا معنی رنج کے بدلے رنج کیا جائے یعنی مسلمانوں نے رسول کی نافرمانی کرکے اسے رنج پہنچایا تو اس کے بدلے اللہ نے مسلمانوں کو شکست دے کر انہیں رنج پہنچایا۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اللہ نے تمہیں کئی قسم کے رنج پہنچائے۔ ایک منافقوں کے واپس لوٹ جانے کا، دوسرا شکست کا، تیسرا اپنے شہیدوں کا، چوتھا اپنے مجروحین کا، پانچواں رسول کی شہادت کی خبر کا اور چھٹا اس جنگ کے انجام کا، اور تیسرا معنی یہ کہ اللہ نے جو تمہیں رسول کی شہادت کی افواہ کا غم پہنچایا وہ پہلے تمام قسم کے غموں سے بھاری تھا۔ [١٤٢] خوشی وغمی میں اعتدال کی روش:۔ اس جملہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنی ذات پر بھروسہ کرنے کا ایسا ضابطہ بتلایا ہے جو ایک مسلمان کو کسی بھی مشکل کے وقت کم ہمت بننے سے بچاتا ہے۔ جو یہ ہے کہ جو بھی تکلیف یا مصیبت تمہیں پہنچتی ہے وہ پہلے ہی اللہ کے علم میں ہوتی ہے اور صرف وہی تکلیف اور رنج تمہیں پہنچ سکتا ہے جو پہلے سے تمہارے مقدر ہوچکا ہے۔ لہٰذا اس پر افسوس کرنے کے بجائے اللہ پر بھروسہ رکھو اور اسی کی طرف لو لگاؤ وہی تمہاری مشکلات کو حل کرے گا۔ اسی مضمون کو ذرا تفصیل سے سورۃ حدید کی آیت نمبر ٢٣ میں ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’تاکہ جو کچھ تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اس پر افسوس نہ کرو اور جب اللہ تمہیں کوئی بھلائی عطا کرے تو اس پر پھولے نہ سمایا کرو۔‘‘ (٥٧: ٢٣) یعنی ایک مومن کی شان یہ ہے کہ وہ نہ تو مصیبت کے وقت ڈگمگاتا اور آس توڑ بیٹھتا ہے اور نہ خوشی کے وقت بھی وہ حد سے زیادہ خوش ہو کر اترانے لگتا ہے بلکہ وہ ہر حال میں اللہ کا شکر کرنے والا اور معتدل مزاج رکھنے والا ہوتا ہے۔ آل عمران
154 [١٤٣] اتنے شدید قسم کے غموں کے بعد اللہ تعالیٰ کا مسلمانوں پر اونگھ طاری کرنا ایک نعمت غیر مترقبہ اور غیر معمولی امداد تھی۔ اونگھ سے جسمانی اور روحانی دونوں طرح کا سکون حاصل ہوجاتا ہے۔ بدن کی تھکاوٹ دور ہوتی ہے اور غم یکدم بھول جاتے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ احد کے دن عین جنگ کے دوران مجھے اونگھ نے آدبایا، تلوار میرے ہاتھ سے گرنے کو ہوتی، میں اسے تھام لیتا، پھر گرنے کو ہوتی، پھر تھام لیتا۔ (بخاری کتاب التفسیر) [١٤٤]کمزور ایمان والو اورمنافقوں کاحال:۔ جو مسلمان غزوہ احد میں شریک ہوئے تھے۔ سب ایک جیسے پختہ ایمان والے اولوالعزم اور بہادر نہ تھے بلکہ کچھ کمزور دل بھی تھے اور انصار میں سے کچھ منافقین بھی تھے۔ جو انصار کے رشتہ دار ہونے کی وجہ سے جنگ میں شریک تھے۔ اور یہ عبداللہ بن ابی کے ساتھیوں کے علاوہ تھے۔ یہی وہ لوگ تھے جنہیں نہ اسلام کی فکر تھی نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی، انہیں بس اپنی ہی جانوں کی فکر تھی، وہ یہ سوچ رہے تھے کہ اگر ابو سفیان نے دوبارہ حملہ کردیا تو پھر ہمارا کیا حشر ہوگا۔ کبھی وہ یہ سوچتے تھے اللہ اور اس کے رسول نے فتح و نصرت کے جو دعوے کئے تھے وہ کہاں گئے؟ ان لوگوں کے متعلق ترمذی میں جو روایت آئی ہے وہ یوں ہے : ’’یہ دوسرا گروہ منافقین کا تھا، جنہیں اپنی باتوں کے علاوہ اور کسی بات کی فکر نہ تھی وہ قوم میں سب سے زیادہ بزدل سب سے زیادہ مرعوب اور سب سے زیادہ حق کی حمایت سے گریز کرنے والے تھے۔‘‘ (ترمذی، ابو اب التفسیر) [١٤٥] یعنی جنگی تدابیر اور ان کے متعلق مشورہ میں ہماری بات کو بھی درخور اعتنا سمجھا جاسکتا ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ اس گروہ کے لوگوں کا بھی یہی خیال اور رائے تھی کہ جنگ مدینہ میں رہ کر لڑی جائے اور ان کی یہ رائے کسی صوابدید پر نہیں بلکہ محض بزدلی کی بنا پر تھی۔ اب شکست کے بعد انہیں یہ کہنے کا موقع میسر آگیا کہ اگر ہماری رائے پر عمل کیا جاتا تو یہ برا دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔ نہ ہی ہمارے بھائی بند یہاں مارے جاتے۔ [١٤٦] کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر یہ ہے کہ جس مقام پر کسی کی موت واقع ہونا مقدر ہوتی ہے۔ وہ کسی نہ کسی بہانے اپنے مقررہ وقت پروہاں پہنچ کے رہتا ہے، وہ مقام کون سا ہوگا ؟ یہ ایسی بات ہے جس کا اللہ کے سوا کسی کو بھی علم نہیں جیسا کہ ارشاد باری ہے﴿وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌۢ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ﴾(٣١: ٣٤) (کسی کو بھی اس بات کا علم نہیں کہ وہ کس جگہ مرے گا) یعنی اگر جنگ برپا نہ بھی ہوتی تو جن جن لوگوں کا یہاں مرنا مقدر ہوچکا تھا وہ کسی نہ کسی طرح یہاں پہنچ کے رہتے اور اگر میدان جنگ میں ان کا مرنا مقدر ہوتا اور میدان جنگ میں نہ آنے کے ہزاروں جتن کرتے، وہ کسی نہ کسی حیلے بہانے یہاں پہنچ کے رہتے۔ کیونکہ اللہ کی تقدیر باقی سب باتوں پر غالب ہے۔ [١٤٧] اس جنگ اور پھر اس میں شکست کے واقعہ سے ایک فائدہ یہ بھی حاصل ہوا کہ ہر مسلمان کے متعلق سب کو پتہ چل گیا کہ وہ اپنے ایمان میں کس قدر مضبوط ہے۔ بہادر ہے اور عزم کا پکا ہے اور اسی طرح کمزور ایمان والوں، بزدلوں اور منافقوں کا بھی سب کو پتہ چل گیا۔ گویا یہ جنگ ایک امتحان گاہ تھی جس نے واضح کردیا کہ ہر ایک کے دل میں کیا کچھ ہے اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ مخلص مسلمان اپنی کمزوریوں کو دور کرسکیں اور ان کے دلوں کو اللہ تعالیٰ آئندہ کے لیے وساوس اور کمزوریوں سے پاک و صاف بنا دے، اور منافقین کا نفاق کھل کر سامنے آجائے اور لوگ ان کے خبث باطن سے بچ سکیں۔ آل عمران
155 [١٤٨]احد میں آپ کے گرد جمع ہونے والےصحابہ :۔ یعنی غزوہ احد جو مسلمانوں اور کفار مکہ کے درمیان بپا ہوئی۔ اس شکست کے بعد بعض مخلص مسلمانوں نے بھی فرار کی راہ اختیار کرلی تھی۔ بالخصوص اس وقت جب آپ کی وفات کی افواہ پھیلی تھی اور مسلمانوں کے اوسان خطا ہوگئے تھے۔ اس آیت میں ﴿بِبَعْضِ مَا کَسَبُوْا ﴾ سے مراد بھی وہی درہ کو چھوڑنے اور اللہ کے رسول کی نافرمانی کرنے کی غلطی تھی جو مسلمانوں سے سرزد ہوگئی تھی اور یہ راہ فرار اختیار کرنا ان مومنوں کے اپنے عزم سے نہ تھا بلکہ یہ ایک شیطانی اغوا تھا ورنہ ان کے دل ایمان پر قائم تھے اس دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس صرف تیرہ یا چودہ مسلمان رہ گئے تھے جن میں سات مہاجرین تھے اور سات انصار۔ مہاجرین میں سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ ، حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تھے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی ان لوگوں میں شامل تھے۔ جنہوں نے راہ فرار اختیار کی تھی۔ چنانچہ شیعہ حضرات حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر ایک یہ طعن بھی کرتے ہیں۔ حالانکہ خود اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ یہ فرار محض شیطانی اغوا تھا۔ ایمان کی کمزوری کی بنا پر نہ تھا اور اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا قصور معاف فرما دیا ہے۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ اور طلحہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت:۔ جب آپ زخمی ہوئے اور کفار نے آپ کے گرد گھیرا ڈال لیا تو اس دوران دو صحابہ حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہما نے آپ کی جان کی حفاظت کے لیے جانثاری کے بے مثال نمونے پیش کئے۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سعد بن ابی وقاص کے بعد پھر کسی کے لیے نہیں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر اپنے آپ کو یا اپنے ماں باپ کو فدا کیا ہو۔ غزوہ احد کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے یوں فرماتے تھے۔ ’’تیر مارو، میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں۔‘‘ (بخاری، کتاب الجہاد باب المجن ومن يتترس بترس صاحبہ) حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ آپ کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ آپ بھی ماہر تیر انداز تھے جو کوئی پاس سے گزرتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے اپنے تیر طلحہ رضی اللہ عنہ کے حوالے کردو۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ کافروں کے تیر روکنے کے لیے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس کوئی چیز نہ تھی تو اپنا بازو آگے کردیا اور سب تیر اسی پر برداشت کرتے رہے۔ حتیٰ کہ ایک بازو شل ہوگیا تو دوسرا آگے کردیا۔ چنانچہ قیس بن ابی حازم کہتے ہیں کہ میں نے طلحہ رضی اللہ عنہ کا وہ ہاتھ دیکھا جس سے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بچایا تھا، وہ بالکل شل ہوگیا تھا۔ (بخاری، کتاب المناقب، باب ذکر طلحة بن عبیداللہ ) آل عمران
156 [١٤٩] یہاں کافروں سے مراد وہ منافق ہیں جو مسلمانوں میں ملے جلے رہتے تھے۔ بظاہر ایمان لانے والے اور دلوں میں کفر چھپائے ہوئے تھے۔ [١٥٠]موت کے وقت خالد بن ولید کےحسرت بھرے کلمات:۔ ایسا عقیدہ رکھنا یا ایسی بات زبان سے نکالنا عقیدہ تقدیر کے خلاف ہے جو ایمان بالغیب کا چھٹا جزو ہے۔ اس لحاظ سے بھی یہ لوگ کافر ہوئے۔ کیونکہ موت کا وقت بھی معین ہے اور جگہ بھی۔ کچھ بھی ہو موت اپنے وقت پر آئے گی اور آ کے رہے گی۔ اس کے وقت میں تقدیم و تاخیر ناممکن ہے اسی طرح جہاں مرنا مقدر ہے وہاں خود ہی انسان کسی حیلے بہانے جاپہنچتا ہے اور جب موت کا وقت نہ آیا ہو، تو انسان خواہ غزوات میں پوری زندگی گزار دے۔ اسے موت نہیں آتی۔ چنانچہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جنہوں نے زندگی بھر جنگیں لڑیں اور جن کے جسم کا کوئی حصہ بھی تلوار یا تیر کے نشان سے بچا ہوا نہ تھا۔ انہیں موت آئی تو گھر پر آئی۔ چنانچہ انہوں نے خود اپنی وفات کے وقت یہ الفاظ کہے تھے کہ میرے بدن پر ایک بالشت بھی ایسی جگہ نہیں جو تلوار یا نیزہ کے زخم سے خالی ہو مگر میں آج اونٹ کی طرح (گھر پر) مر رہا ہوں۔ [١٥١] ایسے خیالات کہ اگر وہ فلاں سفر یا جہاد پر نہ جاتا تو شاید بچ رہتا۔ محض حسرت ہی حسرت ہے۔ ورنہ جو اللہ گھر میں زندہ رکھتا ہے جہاد میں بھی رکھ سکتا ہے اور جو جہاد میں مار سکتا ہے وہ گھر میں بھی مار سکتا ہے۔ زندہ رکھنا اور مارنا سب اس کے قبضہ قدرت میں ہے۔ اس کے علم میں ہے۔ آل عمران
157 [١٥٢] اگر کوئی شخص اللہ کی راہ میں مارا جائے یا خود مر جائے یعنی اسے گھر پر طبعی موت آئے دونوں صورتوں میں اللہ کے حضور ہی پیش ہونا ہے۔ اب منافق یا کافر کی زندگی یا تادیر زندہ رہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ دنیوی مفادات اور مال و دولت جمع کرسکے۔ اس کے برعکس مومن کو دونوں صورتوں میں جو اللہ کی مغفرت اور رحمت میسر ہوگی وہ اس مال و دولت سے ہزار درجہ بہتر ہے۔ جسے یہ لوگ دن رات جمع کرنے میں مصروف رہتے ہیں اور اپنی آخرت کی فکر سے یکسر غافل ہیں۔ آل عمران
158 آل عمران
159 [١٥٣] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلطی کرنے والوں کومعاف کرنے کی تلقین کرنا:۔ مسلمانوں کو یہ ہدایات دینے کے بعد پھر سے غزوہ احد کے حالات اور نتائج کا ذکر شروع ہوا ہے۔ اللہ کے رسول کی نافرمانی کے نتیجہ میں مسلمانوں کو جو سزا ملی وہ عبرت ناک تھی اور اس واقعہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نافرمانی کرنے والوں پر شدید گرفت فرماتے یا کم از کم ان سے خفا ہی ہوجاتے۔ لیکن یہ بھی اللہ کا بہت بڑا احسان ہے کہ آپ مومنوں کے حق میں بہت نرم دل تھے۔ ورنہ اگر آپ سخت دل ہوتے یا کم از کم اسی نافرمانی پر شدید گرفت فرماتے تو پھر مسلمان آپ کے قریب آنے سے ہی گریز کرنے لگتے۔ اللہ تعالیٰ نے خود ان نافرمانی کرنے والوں کو اور راہ فرار اختیار کرنے والوں کو معاف کر ہی دیا تھا۔ اب اپنے پیغمبر کو ہدایت فرما دی کہ آپ بھی ان سے درگزر کیجئے اور نہ صرف درگزر فرمائیے بلکہ ان کے لیے مجھ سے بخشش بھی طلب کیجئے اور جیسے غزوہ احد سے پیشتر ان سے مشورہ کرتے اور مجلس مشاورت میں شریک کیا کرتے تھے۔ اسی طرح آئندہ بھی کیا کیجئے۔ یعنی اپنے دل میں ان کے لیے کسی قسم کا رنج نہ رہنے دیجئے۔ [١٥٤] مشورہ کا مقصد:۔ مشورہ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ معاملہ کے سارے پہلو کھل کر سامنے آجائیں اور ہر شریک مشورہ شخص کو کھل کر اپنی رائے دینے کا موقع مل سکے۔ مشورہ صرف ان امور میں کیا جاسکتا ہے جن میں کتاب و سنت میں صریح حکم موجود نہ ہو اور جہاں صریح حکم موجود ہو وہاں مشورہ کی ضرورت نہیں رہتی اور یہ عموماً تدبیری امور میں کیا جاتا ہے۔ جیسے مثلاً جنگ کہاں لڑی جائے؟۔ اس کا طریقہ کار کیا ہو؟۔ قیدیوں سے کیا سلوک کیا جائے؟ لوگوں کی معاشی اور اخلاقی بہبود کے لیے کیا طریقے استعمال کئے جائیں وغیرہ وغیرہ۔ مشورہ میں صرف یہ دیکھا جائے کہ کون سی رائے اقرب الی الحق ہے۔ یعنی کتاب و سنت کی منشا کے مطابق ہو۔ یہ رائے خواہ تھوڑے آدمیوں کی ہو یا زیادہ آدمیوں کی۔ گویا مشورہ کا اصل مقصد دلیل کی تلاش ہے۔ رائے دینے والوں کی کثرت یا قلت تعداد اس پر اثر انداز نہیں ہوتی اور کسی رائے کو اقرب الی الحق قرار دینے کا اختیار میر مجلس مشاورت کو ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر آخری فیصلہ کا اختیار میر مجلس کو ہوتا ہے اور اسی فیصلہ کو عملی جامہ پہنانے کے ارادہ کا نام عزم ہے یعنی عزم کے بعد اللہ کا نام لے کر اور اس پر بھروسہ کرکے وہ کام شروع کردینا چاہئے۔ آل عمران
160 [١٥٥] جیسا کہ میدان بدر میں اللہ نے مسلمانوں کی کئی طرح سے مدد فرمائی تھی۔ اسی طرح آج احد میں بھی تمہاری مدد کرکے تمہیں غالب کرسکتا ہے۔ بشرطیکہ تم اللہ کے فرمانبردار بن کر رہو اور دین اسلام کی سربلندی کے لیے دل و جان سے کوشش کرو۔ [١٥٦] جیسا کہ غزوہ احد میں کچھ وقت کے لیے ہوا، اور جس کی وجہ اللہ کے رسول کی نافرمانی تھی۔ اس آیت میں بتلایا یہ جارہا ہے کہ بھروسہ تو صرف اس پر کیا جاسکتا ہے جو سب سے زیادہ طاقتور اور سب اسباب پر غالب اور حاکم ہو اور ایسی ذات چونکہ صرف ایک اللہ ہی کی ہے، لہٰذا وہی بھروسہ کے قابل ہے۔ آل عمران
161 [١٥٧] حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ یہ آیت ایک سرخ رنگ کی روئی دار چادر کے بارے میں نازل ہوئی جو بدر کے دن اموال غنیمت میں سے گم ہوگئی تھی۔ بعض لوگوں نے کہا، شاید چادر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنے لیے رکھ لی ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (ترمذی، ابو اب التفسیر) اور بعض روایات میں یہ ہے کہ یہ آیت بھی غزوہ احد ہی سے متعلق ہے۔ جب ابتداً ء اس غزوہ میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور وہ غنیمت کا مال اکٹھا کرنے لگے تو حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ہمیں بھی اب درہ چھوڑ کر لوٹ مار حاصل کرنے میں شامل ہوجانا چاہئے کہیں ایسا نہ ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اموال غنیمت میں ہمارا حصہ ہی نہ لگائیں۔ تو اس شبہ کو دور کرنے کے لیے یہ آیت نازل ہوئی کہ نبی سے ایسی ناانصافی یا خیانت ممکن ہی نہیں۔ وہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے امین ہوتا ہے۔ بدظنی سےا جتناب نہایت ضروری ہے :۔ چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے ایک رنگے ہوئے چمڑے میں کچھ سونا بھیجا۔ جس سے ابھی مٹی بھی علیحدہ نہیں کی گئی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سونے کو چار آدمیوں عیینہ بن بدر، اقرع بن حابس، زید الخیل اور علقمہ یا عامر بن طفیل کے درمیان تقسیم کردیا۔ آپ کے اصحاب میں سے کسی نے کہا : اس مال کے تو ہم ان لوگوں سے زیادہ حقدار تھے۔ آپ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا : کیا تم لوگوں کو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اطمینان نہیں۔ حالانکہ میں آسمان والے (اللہ تعالیٰ) کا امین ہوں۔ اور میرے پاس صبح و شام آسمان کی خبریں آتی ہیں۔ ایک آدمی جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی، رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئی، پیشانی باہر نکلی ہوئی، داڑھی گھنی اور سر منڈا ہوا تھا، اپنا تہبند اپنی پنڈلیوں سے اٹھاتے ہوئے کھڑا ہو کر کہنے لگا:’’اے اللہ کے رسول! اللہ سے ڈرئیے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تیری بربادی ہو، کیا میں روئے زمین پر اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے کا مستحق نہیں ہوں؟‘‘ ( اور مسلم ہی کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس نے کہا : اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! عدل کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تیری بربادی ہو اگر میں نے ہی عدل نہ کیا تو اور کون کرے گا ؟) وہ آدمی چلا گیا تو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟‘‘ مگر آپ نے اسے قتل کرنے کی اجازت نہ دی۔ خارجہوں کی علامات:، ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب وہ پیٹھ موڑے جارہا تھا تو آپ نے اس کی طرف دیکھ کر فرمایا : اس کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن کو مزے لے لے کر پڑھیں گے۔ مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا اور یہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔ ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر میں اس قوم کے زمانہ میں موجود رہا تو قوم ثمود کی طرح انہیں قتل کردوں گا۔ (مسلم، کتاب الزکوٰۃ، باب اعطاء المؤلفۃ القلوب و بیان الخوارج، بخاری، کتاب المغازی، باب بعث علی ابن ابی طالب خالد بن ولید) نیز (کتاب استتابة المعاندین والمرتدین۔۔ الخ) گویا اس آیت میں مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غنائم اور صدقات کو تقسیم کرنے کی کوئی مصلحت ملحوظ رکھیں یا قوم یا رفاہ عامہ کے لیے کچھ حصہ بیت المال میں جمع کریں یا کسی وجہ سے تقسیم غنائم میں دیر ہو تو نبی کے متعلق انہیں ہرگز کسی قسم کی بدگمانی نہ ہونا چاہئے۔ نبی سے متعلق ایسی بدگمانی کرنا نفاق کی علامت ہے۔ عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی ایسے ہی مواقع پر مسلمانوں کے دلوں میں بدگمانی ڈالا کرتے تھے، ایسی بدگمانیوں سے قوم میں پھوٹ پڑجاتی ہے۔ ملت کا شیرازہ بکھرتا ہے اور اس کا انجام بغاوت ہوتا ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو اس معاملہ میں بالخصوص اور عام حالات میں بھی بدظنی سے اجتناب کا تاکیدی حکم دیا گیا ہے۔ غل کےمختلف معنیٰ :۔ غل کا معنی دراصل ایسے خزانہ سے چوری کرنا ہے جو سب کی مشترکہ ملکیت ہو۔ لہٰذا اس کا معنی چوری بھی ہوسکتا ہے اور خیانت بھی۔ پھر غل کا لفظ دل میں کدورت، بغض و عناد کو چھپائے رکھنے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ چنانچہ اسی مناسبت سے بعض علماء نے یہ معنی بھی کیا ہے کہ نبی کی یہ شان نہیں کہ اپنی نافرمانی کرنے والوں کو معاف کردینے کے بعد اس کے دل میں کچھ کدورت باقی رہ جائے۔ [١٥٧۔ ١] مشترکہ مال سے خیانت چوری اور مدعم ۔۔خادم رسول کا قصہ:۔ مسلمانوں کے مشترکہ اموال سے کوئی چیز چرانا یا اس میں خیانت کرنا (جو کہ غل کا لغوی مفہوم ہے) کتنا بڑا گناہ ہے۔ اس کا اندازہ اس حدیث سے لگائیے : ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں جنگ خیبر کی غنیمت میں سونا چاندی تو ملا نہیں بس اونٹ بکریاں اور کپڑے وغیرہ ہی تھے۔ ایک شخص رفاعہ بن زید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک غلام تحفۃً دیا تھا جس کا نام مدعم تھا۔ اس کے بعد آپ وادی القریٰ کی طرف بڑھے۔ وہاں پہنچنے پر مدعم آپ کو سواری سے اتار رہا تھا کہ اسے ایک تیر آلگا جس سے اس کی موت واقع ہوگئی۔ لوگوں نے کہا اسے جنت مبارک ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہرگز نہیں۔ اس ذات کی قسم! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے۔ اس نے خیبر کے دن اموال غنیمت کی تقسیم سے پیشتر ایک کملی چرائی تھی جو آگ کے شعلے بن کر اس کے گرد لپٹ رہی ہے۔ جب لوگوں نے آپ کا یہ ارشاد سنا تو ایک شخص ایک تسمہ یا دو تسمے لے کر حاضر ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا : کہ اگر تم انہیں داخل نہ کراتے تو قیامت کو یہ تسمے آگ بن کر تمہیں جلاتے۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب غزوہ خیبر، نیز کتاب الإیمان والنذور، باب ھل یدخل فی الإیمان والنذور الأرض والغنم) آل عمران
162 [١٥٨] وحی کی ضرورت اور من کا لغوی معنیٰ :۔ یہاں پھر انہیں دو گروہوں کا تقابل پیش کیا جارہا ہے۔ جو غزوہ بدر یا احد میں نبرد آزما تھے۔ ان میں سے ایک گروہ اللہ کی رضا اور اس کے دین کی سربلندی کے لیے لڑ رہا تھا اور دوسرا اللہ کے دین کو کچلنے اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کرنے کے لئے لڑ رہا تھا اور یہی دوسرا گروہ ہی اللہ کے غضب میں گرفتار ہوا اور بالآخر اپنا وجود ہی کھو بیٹھا اور اخروی زندگی میں جہنم اس کے مقدر ہوچکی ہے۔ لڑائی کے اعتبار سے دونوں کی سرگرمیاں ایک جیسی تھیں۔ مگر ان دونوں کے انجام ایک دوسرے کی عین ضد ہیں۔ آل عمران
163 آل عمران
164 [١٥٨۔ ا] منّ کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے (١) احسان کرنا، (٢) احسان جتلانا، (٣) کاٹنا اور کٹنا اور جب یہ لفظ احسان کرنے کے معنی میں آئے تو اس سے مراد کوئی بہت بڑا احسان ہوتا ہے۔ اور وہ بہت بڑا احسان وحی الٰہی اور اس کی روشنی ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھئے جیسے اللہ تعالیٰ نے انسان کو آنکھیں اور بصارت عطا فرمائی ہے۔ لیکن جب تک کوئی خارجی روشنی نہ ہو۔ مثلاً سورج، چاند، ستاروں یا چراغ اور قمقموں کی روشنی نہ ہو، آنکھ کی بصارت کام نہیں دیتی۔ وہ اندھیرے میں بھی کام تو کرتی ہے مگر بہت کم اور انسان بھٹکتا اور ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے۔ بعینہ اللہ تعالیٰ نے سمجھنے سوچنے کے لیے انسان کو عقل عطا فرمائی ہے۔ لیکن کائنات اور انسان کی طبعی زندگی اور ما بعد الطبیعات کے بہت سے مسائل ایسے ہیں جہاں اکیلی عقل کام نہیں کرسکتی جب تک اسے کوئی خارجی روشنی نہ ملے۔ اگر اس خارجی روشنی کے بغیر عقل کچھ کام کرے گی بھی تو بھٹکتی اور ٹھوکریں کھاتی پھرے گی اور فلاسفر قسم کے لوگوں کا یہی حال ہوتا ہے اور عقل کے لیے خارجی روشنی وحی الٰہی ہے۔ وحی الٰہی کی روشنی میں عقل جو کام کرے گی وہ درست اور قابل اعتماد ہوسکتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کا لوگوں کو انبیاء اور وحی کے ذریعہ ہر چیز کی حقیقت اور ماہیت سے خبردار کردینا لوگوں پر بہت بڑا احسان ہے ورنہ محض عقل کے بل بوتے پر صراط مستقیم کو تلاش کرلینا عقل محدود کے دائرہ کار سے باہر ہے۔ اور بعض مفسرین نے اس آیت کو سابقہ آیت سے متعلق کرکے ﴿اَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوَان اللّٰہِ ﴾سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات لی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نبی ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے تابع ہوتا ہے۔ جب کہ خیانت کرنے والا اللہ کی ناراضگی حاصل کرکے جہنم میں اپنا ٹھکانا بناتا ہے اور یہ دونوں کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے نقیض ہیں۔ [١٥٩]رسول بشر کیوں ہوتاہے؟ یعنی وہ رسول بنی نوع انسان سے ہے۔ عربی ہے اور قریشی ہے۔ قریش کے لہجہ میں عربی بولتا ہے۔ تاکہ عرب لوگ اس کی بات کو سمجھ سکیں۔ وہ نہ فرشتوں کی نوع سے ہے نہ جنوں کی نوع سے تاکہ کوئی شخص اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہونے سے بچنے کی خاطر یہ نہ کہہ سکے کہ آپ تو مافوق البشر تھے۔ ہم انسان بھلا ان کی اتباع کیسے کرسکتے ہیں۔ [١٦٠] انبیاء کی بعثت کےمقاصد :۔ یہ آیت قرآن میں الفاظ کی تقدیم و تاخیر کے ساتھ متعدد مقامات پر آئی ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی اور اسی طرح دوسرے انبیاء کی بعثت کے مندرجہ ذیل چار مقاصد ہیں۔ ١۔ اللہ کی کتاب جوں جوں نازل ہو وہ لوگوں کو پڑھ کر سنائے۔ تاکہ وہ بھی ان آیات کو سینوں میں اور مصاحف میں محفوظ کرسکیں۔ ٢۔ اپنے پیروکاروں کا تزکیۂ نفس کرے۔ ان کے اعمال و افعال پر نظر رکھے۔ اور جہاں کہیں کوئی کمی، کو تاہی، یا غلطی نظر آئے، انہیں متنبہ کرے اور ان کی اصلاح کرتے ہوئے ان کی تربیت کرے۔ ٣۔ کتاب اللہ کی تعلیم دے یا سکھلائے جس کا مطلب یہ ہوا کہ کتاب اللہ کو پڑھ کر سنا دینا اور بات ہے اور اس کی تعلیم دینا اور بات ہے۔ تعلیم دینے سے مراد یہ ہے کہ اس کے معانی کی تشریح و تفسیر بھی بتلائے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زبان اگرچہ عربی ہی تھی۔ مگر بارہا ایسا ہوا کہ انہیں مفہوم سمجھنے میں غلطی ہوئی تو آپ نے انہیں صحیح مفہوم سے آگاہ کیا اور بعض دفعہ خود بھی پوچھ لیا کرتے تھے۔ ٤۔ کتاب کے ساتھ انہیں حکمت بھی سکھلائے، حکمت بھی دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک نظری دوسرے عملی، یعنی انہیں آیات اللہ کے اسرار و رموز سے بھی آگاہ کرے اور احکام الٰہی کو عمل میں لانے کا طریقہ یا طریقے بھی بتلائے اور خود کرکے دکھلائے۔ بالفاظ دیگر حکمت سے سنت بھی مراد لی جاسکتی ہے۔ اہل قرآن اور منکرین حدیث کا رد:۔ گویا اس آیت میں اس فرقہ کا پورا پورا رد ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیثیت (معاذ اللہ) محض ایک چٹھی رساں کی تھی۔ جن پر کتاب نازل ہوئی۔ انہوں نے وہ کتاب امت تک پہنچا دی اور ان کا کام ختم ہوا۔ رہا اس کتاب پر عمل پیرا ہونا تو یہ کام ہر دور میں اس دور کے تقاضوں کے مطابق ہونا چاہئے۔ سنت یا حدیث کی حیثیت محض اس دور کی تاریخ کی ہے۔ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اپنے دور میں قرآنی احکام پر کیسے عمل کیا تھا۔ گویا ان کے نزدیک نہ حدیث حجت شرعیہ ہے اور نہ ہی اتباع یا اطاعت رسول دین کا لازمی حصہ ہے۔ ان کے خیال میں اطاعت رسول کا فریضہ صرف آپ کی زندگی تک ہی تھا۔ جبکہ اس آیت کی رو سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ محض رسول ہی نہیں بلکہ معلم، مفسر، مزکی اور کتاب اللہ کے ہر حکم کا طریق کار بتلانے والے بھی ہیں اور چونکہ آپ مسلمانوں کے لیے اسوہ حسنہ اور خاتم النبیین بھی ہیں۔ لہٰذا آپ کا ایک ایک قول اور فعل قیامت تک مسلمانوں کے لیے واجب الاتباع ہے۔ رہے زمانہ کے تقاضے تو دراصل یہی عقل کا میدان ہے کہ انسان کتاب و سنت کی روشنی میں پیش آمدہ مسائل کا حل اس انداز سے تلاش کرے اور ایسی تدابیر اختیار کرے جس سے کتاب وسنت کی نص یا اصل پر زد نہ پڑتی ہو اور عقل کی اسی کاوش کا نام قیاس اور اجتہاد ہے۔ جس کا دروازہ تاقیام قیامت کھلا ہوا ہے۔ دور حاضر کے تقاضوں کے بہانے یا جدید نظریات سے مرعوب ہو کر سنت سے یا قرآن کی دور از کار تاویلات کسی مسلمان کا کام نہیں ہوسکتا۔ آل عمران
165 [١٦١] منافقین کی تو بات ہی الگ ہے۔ اکابر صحابہ کو چھوڑ کر مسلمان بھی یہ سمجھ رہے تھے کہ جب ہم حق کی خاطر لڑ رہے ہیں بلکہ اپنا دفاع کر رہے ہیں اور اللہ کا رسول بہ نفس نفیس ہم میں موجود ہے تو کافر ہم پر فتح پا ہی نہیں سکتے۔ پھر جب شکست سے دو چار ہونا پڑا تو انہیں سخت صدمہ بھی ہوا اور حیرانی بھی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا : کہ اللہ تعالیٰ نے بدر کے میدان میں تمہیں فتح عظیم عطا فرمائی تھی۔ تم نے اپنے اس موجودہ نقصان سے کافروں کا دگنا نقصان کیا تھا اور اس وقت تم کمزور بھی تھے تو اللہ اگر اس حال میں تمہیں فتح عطا فرماسکتا ہے تو وہ تمہیں شکست بھی دلوا سکتا ہے۔ کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ [١٦٢]احد میں شکست کےا سباب:۔ رہی یہ بات کہ تمہیں شکست سے کیوں دوچار ہونا پڑا ؟ تو اس کے اسباب بھی تمہارے اپنے ہی پیدا کردہ ہیں۔ تم نے صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا، بعض کام تقویٰ کے خلاف کئے۔ اللہ کے رسول کے حکم کی نافرمانی کی، مال کی طمع میں مبتلا ہوئے، آپس میں نزاع و اختلاف کیا، پھر اب یہ کیوں پوچھتے ہو کہ یہ مصیبت کہاں سے آگئی؟ آل عمران
166 آل عمران
167 [١٦٣] اللہ کو تو مومنوں اور منافقوں کی صورتحال کا پہلے ہی علم تھا۔ اس قسم کی آیات کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسی صورت حال پیدا کردے جس سے دوسروں کو ان باتوں کا علم ہوجائے۔ چنانچہ اس شکست میں بہت سے لوگوں کے پول کھل گئے اور جو شخص ایمان کے جس درجہ پر تھا نتھر کر سب کے سامنے آگیا۔ [١٦٤] منافقوں کا عذرلنگ :۔ جب عبداللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں سمیت واپس جانے لگا تو اسے مسلمانوں نے سمجھایا کہ آج مشکل پڑنے پر چھوڑ کر جارہے ہو۔ اگر تم لڑنا نہیں چاہتے تو کم از کم دفاع ہی کرو۔ دفاع کے یہاں دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ مسلمانوں کے لشکر میں شامل رہو۔ واپس نہ جاؤ۔ تاکہ مجموعی تعداد سے دشمن کسی حد تک مرعوب رہے اور دوسرے یہ کہ جاکر شہر مدینہ کا دفاع کرو اور مسلمانوں کے گھروں کی حفاظت کرو۔ [١٦٥] عبداللہ بن ابی نے مسلمانوں کو جو جواب دیا۔ اس کے بھی دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ لڑائی ہوگی ہی نہیں۔ پھر تمہارے ساتھ رہنے کا کیا فائدہ۔ ہمیں واپس ہی جانا چاہئے۔ یہ جواب تو اس لیے غلط تھا کہ بھلا جو کافر اتنی دور دراز کی مسافت سے لڑنے آئے تھے اور ان کے دلوں میں بدر کے انتقام کی آگ بھی سلگ رہی تھی، وہ بھلا لڑے بغیر واپس جاسکتے تھے وہ تو آئے ہی اس نیت سے تھے کہ مسلمانوں کا کچومر نکال کے رکھ دیں پھر وہ کیوں نہ لڑتے؟ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہم تو فنون جنگ سے واقف ہی نہیں، پھر تمہارا ساتھ کیسے دے سکتے ہیں؟ یہ دراصل طنزیہ جواب تھا کہ جب ہمارے مشورہ کو درخوراعتناء سمجھا ہی نہیں گیا اور اس کے بجائے چند پرجوش نوجوانوں کے مشورہ کو ترجیح دی گئی ہے کہ باہر کھلے میدان میں لڑنا چاہئے تو پھر وہی لوگ تم لوگوں کا ساتھ دیں گے ہم کیسے دے سکتے ہیں۔ فنون جنگ کو جاننے والے وہ لوگ ہوئے ہم تو نہ ہوئے۔ [١٦٦] یعنی ان منافقوں کے دل میں یہ بات تھی کہ مسلمانوں کی اس تھوڑی سی بے سروسامان جماعت کی شکست یقینی ہے۔ پھر ہم کیوں ان کے ساتھ ذلیل ہوں اور مارے جائیں بلکہ ان کی اصل خوشی ہی اس بات میں تھی کہ مسلمان تباہ و برباد ہوجائیں اور ہمیں بغلیں بجانے کا موقع ملے اور اور عبداللہ بن ابی کی کھوئی ہوئی ریاست پھر اسے مل جائے۔ [١٦٧] یعنی ان کے دلوں میں تو اس طرح کی باتیں تھیں اور بظاہر انہوں نے یہ جواب دے دیا۔ کہ ہم لڑائی جانتے تو ضرور تمہارا ساتھ دیتے۔ حالانکہ اللہ کو تو سب کچھ معلوم ہے جو انہوں نے اپنے دلوں میں چھپا رکھا ہے۔ آل عمران
168 [١٦٨] یعنی ایک تو خود جہاد میں حصہ نہ لیا۔ دوسرے ان کے جو بھائی جہاد میں حصہ لے رہے تھے انہیں ملامت شروع کردی کہ تم ہماری بات مان لیتے تو آج ہمارے بھائی بند مارے نہ جاتے۔ آپ ان سے کہئے کہ اگر تمہیں موت سے بچنے اور بچانے کا طریقہ آتا ہے اور اس پر اتنا یقین ہے تو خود تمہیں موت آئے گی اس وقت ایسا کوئی طریقہ استعمال کرکے دیکھ لینا۔ ایسی باتیں دراصل اللہ کی تقدیر پر اعتراض کے ضمن میں آتی ہیں۔ لیکن منافقوں میں ایمان تھا کہاں کہ ان کی ایسی باتوں پر تعجب کیا جائے۔ آل عمران
169 [١٦٩] روح اور جسم کے اتصال کا نام زندگی اور انفصال کا نام موت ہے۔ قرآن میں دو بار کی زندگی اور دو بار کی موت کا ذکر آیا ہے اور ان کی ترتیب یہ ہے (١) موت یعنی انسان کی پیدائش سے پہلے کا وقت جسے عالم ارواح کہتے ہیں۔ (٢) زندگی یعنی پیدائش سے موت تک کا وقت (٣) موت یعنی موت سے قیامت (حشر) تک کا وقت اور (٤) زندگی یعنی حشر سے لے کرتا ابد لامتناہی مدت کے لیے، (جنت میں یا جہنم میں) دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ موت کے عرصہ میں بھی کلی موت واقع نہیں ہوتی بلکہ زندگی کے کچھ نہ کچھ اثرات اس میں موجود ہوتے ہیں جیسے عالم ارواح میں تمام پیدا ہونے والے انسانوں سے الست بربکم کا وعدہ لیا گیا تھا اور جیسے عالم برزخ میں بھی مردہ کو عذاب و ثواب ہوتا ہے اور ان ادوار کو موت کا دور اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان میں زندگی کے اثرات خفیف اور موت کے اثرات نمایاں ہوتے ہیں۔ شہداء کی زندگی اور موت کےمراحل:۔ تیسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان مراحل میں شارٹ کٹ تو ہوسکتا ہے۔ مگر ترتیب میں فرق نہیں آسکتا۔ جیسے ایک بچہ پیدا ہوتے ہی مر جائے تو فوراً زندگی کے دور سے عالم برزخ (موت کے دور) میں داخل ہوجاتا ہے یا جیسے شہید مرتے ہی عالم برزخ کو پھلانگ کر فوراً جنت میں (عالم عقبیٰ) میں داخل ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ مندرجہ بالا تین آیات میں مذکور ہے۔ اور چوتھی قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان مراحل میں رجعت ناممکن ہے۔ مثلاً کوئی شخص پیدا ہو کر واپس عالم ارواح میں نہیں جاسکتا۔ اسی طرح عالم برزخ میں پہنچ چکا ہے وہ دنیا میں نہیں آسکتا۔ شہید چونکہ فوراً عالم عقبیٰ (جنت میں) پہنچ جاتا ہے۔ لہٰذا اس کا واپس عالم برزخ یا عالم دنیا میں آنا ناممکن ہے۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل دو احادیث سے یہ پورا مضمون واضح ہوجاتا ہے۔ ١۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملے اور پوچھا! کیا بات ہے جابر’’میں تمہیں شکستہ خاطر دیکھ رہا ہوں؟‘‘ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ! میرے والد (جنگ احد میں) شہید ہوگئے اور قرض اور چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’کیا میں تمہیں یہ بشارت نہ دوں کہ اس کی اللہ سے کیسے ملاقات ہوئی‘‘میں نے عرض کیا، ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ضرور بتلائیے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ کسی سے کلام نہیں کرتا، مگر پردے کے پیچھے سے اللہ نے تمہارے باپ کو زندہ کیا پھر اس سے رو در رو بات کی اور پوچھا : کچھ آرزو کرو جو میں تمہیں عطا کروں‘‘تیرے باپ نے کہا : اے میرے پروردگار! مجھے دوبارہ زندگی دے تاکہ میں دوسری مرتبہ تیری راہ میں شہید ہوجاؤں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :’’ یہ بات پہلے سے طے ہوچکی ہے کہ لوگ دوبارہ دنیا کی طرف نہ لوٹیں گے۔‘‘ راوی کہتا ہے۔ یہ آیت اسی بارے میں نازل ہوئی۔ (ترمذی، ابو اب التفسیر) ٢۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے اس آیت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شہداء کی روحیں سبز پرندوں کی صورت میں ہوں گی۔ ان کے لیے عرش الٰہی میں کچھ قندیلیں لٹکی ہیں۔ یہ روحیں جنت میں جہاں چاہیں سیر کرتی پھرتی ہیں۔ پھر، ان قندیلیوں میں واپس آجاتی ہیں۔ ان کے پروردگار نے ان کی طرف دیکھا اور پوچھا : کیا تمہیں کسی چیز کی خواہش ہے؟ تو انہوں نے کہا : ہم کس چیز کی خواہش کریں۔ ہم جہاں چاہیں سیر کرتی پھرتی ہیں۔ پروردگار نے ان سے تین بار یہی سوال کیا : جب انہوں نے دیکھا کہ اب جواب دیئے بغیر چارہ نہیں تو کہا : اے ہمارے پروردگار! ہم یہ چاہتے ہیں کہ تو ہماری روحیں واپس (دنیا میں) لوٹا دے تاکہ ہم تیری راہ میں پھر جہاد کریں اور پھر شہید ہوں۔ (مسلم، کتاب الأمارۃ، باب فی بیان ان ارواح الشھداء فی الجنة وانھم احیاء عندربھم یرزقون) سورہ بقرہ کی آیت نمبر ١٥٤ میں فرمایا گیا کہ شہداء کو مردہ نہ سمجھو۔ قرآن کے شہداء کے متعلق یہ ارشادات محض اعزازی نہیں۔ بلکہ شہداء کی فضیلت ہی یہ ہے کہ وہ عالم دنیا سے رخصت ہوتے ہی فوراً جنت میں پہنچ جاتے ہیں۔ عالم برزخ یعنی موت والا تیسرادوران پر نہیں آتا۔ آل عمران
170 آل عمران
171 آل عمران
172 [١٧٠] حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھانجے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے فرمایا : (اے میرے بھانجے تیرے والد اور تمہارے نانا) ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی انہیں لوگوں میں سے تھے، جب احد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو صدمہ پہنچنا تھا، پہنچ چکا اور مشرکین (مکہ کو) لوٹ گئے تو آپ کو خطرہ پیدا ہوا کہ کہیں واپس آکر پھر نہ حملہ آور ہوں۔ لہٰذا آپ نے فرمایا کہ کون ان کافروں کا تعاقب کرتا ہے۔ آپ کا یہ ارشاد سن کر ستر آدمی تعاقب کے لیے تیار ہوگئے جن میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور زبیر بھی تھے۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب ( اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِلّٰہِ وَالرَّسُوْلِ ) اس آیت کی تشریح کے لیے اسی سورۃ کا حاشیہ نمبر ١٣٧ ملاحظہ فرمائیے۔) آل عمران
173 [١٧١] ابوسفیان کا اپنے چیلنج سے فرار:۔ غزوہ احد سے واپسی کے وقت ابو سفیان نے مسلمانوں سے جو خطاب کیا تھا۔ (٣: ١٥٢) اس میں اس نے مسلمانوں کو چیلنج کیا تھا کہ ایک سال بعد پھر میدان بدر میں مقابلہ ہوگا اور اس چیلنج کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبول فرما لیا۔ لیکن جب وعدہ کا وقت قریب آیا تو ابو سفیان خود ہی ہمت ہار بیٹھا۔ کیونکہ اس سال مکہ میں قحط پڑا ہوا تھا۔ اس نے اپنی اس خفت و ندامت کو چھپانے اور الزام دوسرے کے سر تھوپنے کے لیے یہ تدبیر سوچی کہ خفیہ طور پر ایک شخص نعیم بن مسعود کو مدینہ بھیجا اور کچھ دے دلا کر اس کی ڈیوٹی یہ لگائی کہ وہاں جاکر یہ خبر مشہور کردے کہ اس دفعہ قریش نے اتنی زبردست تیاری کی ہے اور اتنا لشکر جرار جمع کر رہے ہیں کہ پورا عرب بھی اس کا مقابلہ نہ کرسکے گا۔ اور اس کا مقصد صرف مسلمانوں کو دہشت زدہ کرنا تھا تاکہ مقابلہ کرنے کی انہیں ہمت ہی نہ رہے۔ چنانچہ اس نے مدینہ جاکر یہ افواہ خوب پھیلائی۔ لیکن اس پروپیگنڈا کا اثر ابو سفیان کی توقع کے برعکس نکلا۔ اس خبر سے مسلمانوں کا ایمانی جوش اور بھی بڑھ گیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پندرہ سو صحابہ کو ساتھ لے کر میدان بدر کی طرف روانہ ہوگئے۔ اسی ضمن میں بخاری کی درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب حضرت ابراہیم کو آگ میں ڈالا گیا تو انہوں نے ﴿وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ ﴾کہا تھا اور جب لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ قریش کے کافروں نے آپ کے مقابلے کے لیے بڑا لشکر جمع کرلیا ہے تو آپ نے بھی یہی کلمہ کہا اور یہ خبر سن کر صحابہ کا ایمان بڑھ گیا اور انہوں نے بھی یہی کلمہ کہا۔ (بخاری، کتاب التفسیر) جب ابو سفیان کو یہ صورت حال معلوم ہوئی تو چار و ناچار نکلنا ہی پڑا۔ چنانچہ وہ دو ہزار کی جمعیت لے کر مکہ سے روانہ ہوا۔ مگر دو دن کی مسافت طے کرنے کے بعد وہ اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا۔ اس سال لڑنا مناسب معلوم نہیں ہوتا آئندہ سال آئیں گے۔ اس کے ساتھی پہلے ہی یہی کچھ چاہتے تھے۔ چنانچہ وہ وہیں سے واپس مکہ چلے گئے اور اس کی وجوہ کئی تھیں۔ مثلاً اس دفعہ اس کی فوج غزوہ احد کے مقابلہ میں صرف دو تہائی تھی۔ جبکہ مسلمانوں کی فوج دوگنا سے بھی زیادہ تھی۔ دوسرے وہ مسلمانوں کی جرات ایمان کو خوب ملاحظہ کرچکا تھا۔ تیسرے جو پروپیگنڈہ وہ پہلے کرچکا تھا اس مناسبت سے اس کے پاس لشکر نہایت قلیل تھا۔ چنانچہ اس پر کچھ ایسا رعب طاری ہوا کہ اس نے واپس مڑ جانے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ اس غزوہ کو غزوہ سویق بھی کہتے ہیں۔ کیونکہ ابو سفیان رسد کے طور پر ستو ہی ساتھ لایا تھا جو راستے میں گرتے بھی رہے اور واپسی پر اس رسد کو یہیں چھوڑ گئے۔ غزوہ سویق کے نتائج:۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابو سفیان کے انتظار میں آٹھ روز تک بدر کے مقام پر ٹھہرے رہے۔ اس دوران صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایک تجارتی قافلہ سے کاروبار کرکے خوب فائدہ اٹھایا۔ پھر جب یہ پتہ چلا کہ ابو سفیان واپس چلا گیا ہے تو آپ بھی مدینہ واپس تشریف لے آئے۔ آل عمران
174 [١٧٢] یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہر لحاظ سے فائدہ میں رہے۔ اللہ کی رضا بھی حاصل ہوگئی۔ جنگ کی سختی سے بھی بچ رہے۔ دشمن بھی مرعوب ہو کر واپس چلا گیا اور مالی فائدہ بھی حاصل ہوگیا اور ہر طرح سے کامیاب کامران واپس لوٹے۔ آل عمران
175 [١٧٣] پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ ابو سفیان نے خود ہی غزوہ احد سے اگلے سال بدر کے میدان میں مقابلہ کے لیے چیلنج کیا۔ مگر بعد میں خود ہی ہمت ہار بیٹھا اور الزام مسلمانوں کے سر تھوپنے اور انہیں ڈرانے اور دہشت زدہ کرنے کے لیے ایک شخص نعیم بن مسعود کو کچھ دے دلا کر اس بات پر آمادہ کیا کہ مدینہ جاکر مسلمانوں کو بتلائے کہ ابو سفیان نے اتنا لشکر جرار تیار کرنے کی ٹھانی ہے جو عرب بھر کے مقابلہ کو کافی ہوگا۔ اس طرح مسلمان خود خوف زدہ ہو کر بدر میں مقابلہ پر آنے کا ارادہ ترک کردیں گے۔ اس سارے ڈرامہ کو اللہ تعالیٰ نے شیطانی کھیل سے تعبیر فرمایا ہے۔ یہاں شیطان سے مراد ابو سفیان بھی ہوسکتا ہے اور نعیم بن مسعود بھی، اور مسلمانوں کو تاکید کی جارہی ہے کہ میرے سوا کسی طاغوتی طاقت سے مت ڈریں۔ آل عمران
176 [١٧٤] اس دور میں مسلمانوں کے علاوہ جتنی بھی اقوام تھیں۔ سب ہی اسلام دشمن اور اسے مٹانے کے درپے تھیں خواہ وہ مشرکین مکہ ہوں یا یہود مدینہ، منافقین ہوں یا دیگر قبائل عرب اور یہ سب لوگ اسلام کو کچلنے کے لیے حتیٰ المقدور کوششیں بھی کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو تسلی دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ تمہارا یا اسلام کا کچھ بھی بگاڑنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ بس اپنی ہی عاقبت خراب کر رہے ہیں۔ ان کے بارے میں آپ کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ دوسری بات جو آپ کو فی الواقعہ غمزدہ بنا رہی تھی وہ یہ تھی کہ آپ کی انتہائی کوششوں کے باوجود یہ لوگ اسلام کو سمجھنے اور اس کے قریب آنے یا اسے قبول کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے تھے اور اس بات سے آپ سخت پریشان ہوجاتے تھے اور اس بات کا قرآن میں متعدد مقامات پر ذکر آیا ہے۔ جس کے جواب میں اللہ نے اپنے پیارے نبی کو یہی کہہ کر تسلی دی کہ تمہارا کام صرف اللہ کا پیغام پہنچانا اور لوگوں کو ڈرانا ہے۔ اب اگر یہ لوگ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے تو اس کا وبال انہیں پر ہوگا اور نہ ہی میرا پیغام پہنچا دینے سے آگے آپ کی کوئی ذمہ داری ہے۔ آل عمران
177 آل عمران
178 [١٧٥] معاندین اسلام بالخصوص مشرکین مکہ کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ اگر تم فی الواقعہ سچے نبی ہو تو جو سلوک ہم تم سے کر رہے ہیں۔ اس بنا پر تو اب تک ہم پر کوئی عذاب آجانا چاہئے تھا۔ اس کے برعکس نہ صرف یہ کہ ہم پر کوئی عذاب نہیں آیا۔ بلکہ اللہ ہمیں اپنی نعمتوں سے نواز بھی رہا ہے۔ اسی بات کا جواب اللہ تعالیٰ نے اسی آیت میں دیا ہے کہ ہم انہیں اس لیے مہلت دیئے جارہے ہیں کہ جتنے یہ زیادہ سے زیادہ گناہ اور سرکشی کے کام کرسکتے ہیں، کرلیں۔ تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ رسوائی اور ذلت والے عذاب سے دوچار ہوں۔ آل عمران
179 [١٧٦] یعنی اس حال میں پختہ ایمان والے مومن، کمزور ایمان والے اور منافقین سب ایک ہی اسلامی معاشرہ میں مل کر رہتے ہیں اور ایک ہی سطح کے سب مسلمان ہی سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے درجات ایمان میں امتیاز صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ اللہ ان سب کو کسی ابتلاء میں ڈال دے اور اس طرح اچھے اور برے میں از خود امتیاز ہوجائے جیسا کہ غزوہ احد کے دوران مسلمان جب شکست سے دوچار ہوئے، تو ہر ایک کے ایمان کی پختگی، کمزوری اور منافقت کا ہر ایک کو پتہ چل گیا۔ [١٧٧]انبیاء کوغیب کا علم اتناہی ہوتاہے جتنا اللہ عطا کرتاہے :۔ ابتلاء کے علاوہ مسلمانوں کے ایمان کے مختلف درجات معلوم ہونے کا ایک طریقہ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعہ اپنے نبی کو ان کے احوال پر مطلع کردے۔ مگر یہ بات اللہ کے دستور کے خلاف ہے۔ کیونکہ ایمان تو ہوتا ہی بالغیب ہے۔ اگر غیب نہ رہا تو پھر ایمان کیسا ؟ جس قدر غیب پر اطلاع کی انسان کو ضرورت تھی وہ تو اللہ نے پہلے انبیاء کے ذریعہ سب انسانوں کو مطلع کردیا ہے۔ مثلاً یہ کہ قیامت ضرور آنے والی ہے۔ اس دن ہر ایک کو اس کے اعمال کا اچھا یا برا بدلہ مل کے رہے گا۔ نیک لوگ جنت میں اور بدکردار دوزخ میں جائیں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے منافقین کی علامات تو بتلا دی ہیں۔ لیکن کسی کا نام لے کر نہیں بتلایا کہ فلاں فلاں شخص منافق ہے۔ دور نبوی میں صرف ایک ایسا واقعہ ملتا ہے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو شدید ضرورت کے تحت چند منافقین کے نام بھی بتلادیئے تھے۔ غزوہ تبوک سے واپسی سفر کے دوران چودہ یا پندرہ منافقوں نے ایک سازش تیار کی تھی کہ رات کو سفر کے دوران گھاٹی پر سے گزرتے ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)کو سواری سے گرا کر گھاٹی میں پھینک کر ہلاک کردیا جائے۔ اس وقت حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ آپ کی سواری کو پیچھے سے چلا رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی آپ کو منافقوں کی سازش سے مطلع کردیا اور ان منافقوں اور ان کے باپوں کے نام بھی بتلا دیئے، جو آپ نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو بھی بتلا دیئے اور ساتھ ہی تاکید کردی کہ ان کے نام وغیرہ کسی کو نہ بتلانا۔ اسی لیے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو راز دان رسول کہا جاتا ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے مسلم کتاب صفات المنافقین) اللہ تعالیٰ پیغمبر کو غیب پر جب چاہے مطلع کرتا ہے، اور جتنا چاہے اتنی ہی بات سے مطلع کرتا ہے۔ اور اگر چاہے تو نہیں بھی کرتا۔ مثلاً حضرت یعقوب علیہ السلام کو مصر سے قمیص لانے والے کی تو فوراً بذریعہ وحی خوشخبری دے دی۔ مگر جب یوسف کنعان ہی کے ایک کنوئیں میں ان کے پاس پڑے رہے اور یعقوب ان کے غم میں بیمار بھی رہے تو اس وقت اطلاع نہ دی۔ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام لانے کے لیے آپ کی خدمت میں جارہے تھے تو آپ کو بذریعہ وحی اطلاع کردی گئی مگر جب آپ واقعہ افک کے بارے میں مہینہ بھر سخت بے چین اور پریشان رہے تو اس وقت پورے ایک ماہ بعد وحی کی۔ آل عمران
180 [١٧٨]زکوۃ نہ دینے کی گناہ کی وعید:۔ آیت نمبر ١٧٧ میں یہ بیان ہوا تھا کہ دنیا میں نعمتوں کی فراوانی اس بات کی دلیل نہیں ہوتی کہ اللہ ان پر خوش ہے۔ مال و دولت اسی صورت میں اللہ کی نعمت کہلا سکتا ہے جب کہ اس سے مال کے حقوق ادا کردیئے جائیں اور اگر بخل سے کام لیا جائے تو یہی مال و دولت عذاب کا باعث بن جاتا ہے چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ مال عطا فرمائے، پھر وہ اس سے زکوٰۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے دن اس کا مال ایک گنجے سانپ کی شکل میں ہوگا جس کی آنکھوں پر دو کالے نقطے ہوں گے وہ سانپ اس کے گلے کا طوق بن جائے گا اور اس کی دونوں باچھیں پکڑ کر کہے گا، میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی۔ (بخاری، کتاب التفسیر، نیز کتاب الزکوٰۃ، باب اثم مانع الزکوٰۃ وقول اللہ ﴿وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّہَبَ ....﴾) [١٧٩] ہرچیز اللہ کی میراث ہے :۔ یعنی جو مال تم چھوڑ کر مر جاؤ گے وہ تمہارے وارثوں کا ہوگا اور بالآخر اللہ کی ہی میراث میں چلا جائے گا چنانچہ حدیث میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’انسان کہتا رہتا ہے کہ یہ میرا مال ہے۔ یہ میرا مال ہے۔ حالانکہ اس کا مال وہی ہے۔ جو اس نے کھالیا یا پہن لیا یا اللہ کی راہ میں دے دیا۔ باقی مال تو اس کے وارثوں کا ہوگا۔‘‘ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے سوال کیا کہ ’’افضل صدقہ کون سا ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو تو تندرستی کی حالت میں مال کی خواہش مالدار ہونے کی امید اور محتاجی کا ڈر رکھتے ہوئے کرے اور اتنی دیر مت لگا کہ حلق میں دم آجائے تو اس وقت یوں کہنے لگے کہ اتنا مال فلاں کو دے دینا اور اتنا فلاں کو۔ حالانکہ اب وہ تو فلاں کا ہو ہی چکا۔‘‘ (بخاری، کتاب الوصایا، باب الصدقہ عندالموت) آل عمران
181 [١٨٠] اللہ کو بخیل ہونے کا طعنہ دینا اوریہودکی اللہ سے بدتمیزی :۔ یہ قول یہود کا ہے۔ پہلے (٣: ٧٥) میں بیان ہوچکا ہے کہ یہود میں سود خوری اور حرام خوری کی وجہ سے مال و دولت کی ہوس، زرپرستی اور بخل کا مرض پیدا ہوگیا تھا چنانچہ جب یہ آیت نازل ہوئی ﴿مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا ﴾ تو یہود اپنے جذبہ بخل سے مغلوب ہو کر کہنے لگے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’اللہ فقیر ہے اور ہم مالدار ہیں۔ اسی لیے تو وہ ہم سے قرضہ مانگتا ہے‘‘ ان کے اسی جواب کو اللہ تعالیٰ نے یہاں حکایتاً نقل فرمایا ہے۔ یہود کا یہ جواب ان کے بخل کا ہی نہیں ان کے خبث باطن کا پورا پورا پتہ دے رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مال تو سب اللہ ہی کا ہے۔ اسی نے تمہیں عطا کیا ہے اور جو قرض مانگتا ہے وہ بھی تمہارے ہی بھائی بندوں پر خرچ ہوگا۔ کیونکہ اللہ تو بے نیاز ہے۔ پھر اس قرض کو اپنی طرف منسوب کرنا اور پھر اس پر بڑا اجر عطا فرمانا اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت اور اس کا فضل ہے پھر اس جملہ میں جس انداز سے صدقہ کی ترغیب دی گئی ہے وہ نہایت لطیف پیرایہ ہے اور جتنا یہ پیرایہ لطیف ہے۔ اتنا ہی بھونڈے انداز سے یہود نے اس کا جواب دیا۔ چنانچہ ان کی یہ بدکلامی بھی ان کے نامہ اعمال میں لکھ دی گئی ہے، اسی نامہ اعمال میں جہاں جہاں ان کی انتہائی بدکرداری یعنی انبیاء کا قتل لکھا گیا ہے۔ قیامت کے دن یہ سب کچھ ان کے سامنے پیش کردیا جائے گا۔ پھر ان کے کیے کی پوری پوری سزا بھی انہیں جلا دینے والے عذاب کی صورت میں دی جائے گی۔ آل عمران
182 آل عمران
183 [١٨١] یہود کا آئشیں قربانی والاعذر:۔ یہودیوں کا یہ قول صریح جھوٹ اور اللہ پر بہتان ہے۔ تورات میں یا موجودہ بائیبل میں کہیں بھی مذکور نہیں کہ جو نبی آتشیں قربانی کا معجزہ پیش نہ کرسکے وہ نبی نہ ہوگا البتہ اس حد تک یہ بات درست ہے کہ بعض انبیاء کو یہ معجزہ دیا گیا تھا۔ سب سے پہلے تو قابیل اور ہابیل کی قربانی کے قبول ہونے کا ہی یہ معیار مقرر ہوا تھا۔ پھر بعد میں حضرت الیاس، حضرت سلیمان اور حضرت یحییٰ علیہم السلام کو یہ معجزہ عطا ہوا تھا اور بیشتر انبیاء ایسے تھے جنہیں یہ معجزہ نہیں دیا گیا تھا۔ اب یہود سے سوال یہ کیا جارہا ہے کہ اگر تمہارے نزدیک کسی نبی کے برحق ہونے کا یہی معیار ہے تو پھر جن انبیاء کو یہ معجزہ دیا گیا تھا۔ انہیں تم نے کیوں قتل کیا تھا۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کو ان یہود نے قتل کردیا اور اسرائیل کے بادشاہ کی بعل پرست ملکہ حضرت الیاس کی دشمن ہوگئی اور زن پرست بادشاہ اپنی ملکہ کو خوش کرنے کے لیے ان کے قتل کے درپے ہوا۔ آخر انہیں وہاں سے نکل کر جزیرہ نمائے سینا میں پناہ لینا پڑی (سلاطین باب ١٨: ١٩) لیکن اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان مذکورہ انبیاء کے علاوہ اور بھی کئی نبی تھے جنہیں یہ معجزہ عطا ہوا تھا اور یہود نے انہیں قتل کیا تھا اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہود نے یہ صریح بہتان اس لیے گھڑا تھا کہ نبی آخر الزمان پر ایمان نہ لانے کے لیے ایک عذر کا کام دے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ یہود اپنے اللہ سے کئے ہوئے عہد کے کس حد تک پابند ہیں۔ آل عمران
184 [١٨٢] اس آیت میں (بینات) سے مراد معجزات۔ زبر سے چھوٹی چھوٹی کتابیں اور نصیحت نامے اور کتاب منیر سے مراد ایسی جامع کتاب ہے جس میں اوامر و نواہی، اخلاقیات، قصص اور مواعظ سب کچھ موجود ہو۔ جیسے تورات اور قرآن کریم ہیں۔ یعنی یہود نے آتشیں قربانی پیش کرنے والے انبیاء کو قتل کیا اور بہت سے رسول جو معجزات، نصیحت نامے اور جامع کتابیں لے کر آئے تھے انہیں بھی جھٹلاتے رہے ہیں۔ پھر اگر آپ کو بھی جھٹلا رہے ہیں تو تعجب نہ ہونا چاہئے بلکہ آپ صبر سے کام لیجئے۔ آل عمران
185 [١٨٣] اخروی کامیابی کا معیار:۔ یعنی موت تو ہر ایک کو آ کے رہے گی اور قیامت کے دن ان یہود کو ان کے اعمال کا بدلہ مل کے رہے گا اور ایک حدیث ہے 'مَنْ مَاتَ فَقَدْ قَامَتْ قَیَامَتُہُ' یعنی جو مرگیا اس کی قیامت قائم ہوگئی۔ اس لحاظ سے عذاب و ثواب مرنے کے ساتھ ہی عالم برزخ میں شروع ہوجاتا ہے اور کامیابی کا معیار یہ ہے کہ انسان دوزخ کے عذاب سے بچ جائے اور جنت میں داخل ہوجائے۔ اس آیت میں ان متصوفین کا رد موجود ہے، جو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں نہ دوزخ کے عذاب سے ڈرنا چاہئے اور نہ جنت کی طلب رکھنی چاہئے۔ بلکہ محض اللہ کی رضا کو ملحوظ رکھ کر اس کی عبادت کرنا چاہئے۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود اپنے لیے قبر کے عذاب اور دوزخ کے عذاب سے پناہ مانگا کرتے اور جنت کے لیے دعا فرماتے رہے۔ [١٨٤] دنیا کس لحاظ سے دھوکے کا سامان ہے؟ یعنی دنیا میں کسی پر نعمتوں کی بارش ہونا اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ وہ حق پر ہے اور اللہ کے ہاں مقبول بندہ ہے۔ اسی طرح کسی کا مصائب و مشکلات میں مبتلا ہونا بھی اس بات کی دلیل نہیں ہوسکتا کہ اللہ اس سے ناراض ہے یا وہ باطل پر ہے۔ بلکہ بسا اوقات اخری نتائج ان کے برعکس ہوتے ہیں۔ لہٰذا کسی کو اس دھوکہ میں نہ رہنا چاہئے اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی عارضی بہار اور ظاہری زیب و زینت میں اتنی کشش ہے اور اتنی پرفریب ہے جس میں مگن ہو کر انسان بسا اوقات آخرت سے غافل ہوجاتا ہے اور غافل رہتا ہے۔ تاآنکہ جب موت آجاتی ہے تب اس کی آنکھیں کھلتی ہیں کہ مجھے دنیا میں رہ کر کرنا کیا چاہئے تھے اور میں کرتا کیا رہا۔ چنانچہ اسی مضمون کی ایک حدیث ہے کہ 'الناس نیام اذا ماتوا انتبھوا' (یعنی لوگ سوئے پڑے ہیں جب مریں گے تب ہوشیار ہوں گے) دنیا دارالامتحان ہے اور ا س کا ایک ایک لمحی قیمتی ہے:۔ یہ تو دنیا کے دھوکے کا پہلو ہے اور اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ دنیا ہر شخص کے لئے دارالامتحان ہے۔ اس کی زندگی عیش و عشرت میں گزر رہی ہو یا تنگی ترشی میں، وہ خود صحت مند ہو یا بیمار ہو، عالم ہو یا نادان۔ غرضیکہ انسان کی کوئی بھی حالت ہو وہ امتحانی دور سے گزر رہا ہے۔ اس امتحانی دور یا امتحانی پرچے کا آخری وقت اس کی موت ہے۔ موت کے ساتھ ہی اسے یہ از خود معلوم ہوجائے گا کہ وہ اس امتحان میں کامیاب رہا ہے یا ناکام؟ ساتھ ہی اس کی کامیابی اور ناکامی کے اس پر اثرات مرتب ہونا شروع ہوجائیں گے۔ اور آخرت میں اسے اس کے اعمال کے مطابق اچھا یا برا بدلہ مل کے رہے گا۔ اس لحاظ سے دنیا اور اس کی زندگی بلکہ اس کا ایک ایک لمحہ نہایت قیمتی ہے۔ اور ہر شخص کو اپنی زندگی کے لمحات سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہئے۔ آل عمران
186 [١٨٥] ابتلا کے فوائد:۔ یہ انتباہ کرکے مسلمانوں کو اسلام کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کے لیے آمادہ کیا جارہا ہے اور آزمائش کے فوائد پہلے بتلائے جاچکے ہیں۔ مختصراً یہ کہ ابتلاء سے صبر و استقامت کی عادت پیدا ہوتی ہے۔ اخلاقی کمزوریوں کا علاج ہوتا ہے۔ درجات بلند ہوتے ہیں اور مومنوں اور منافقوں میں امتیاز ہوجاتا ہے۔ [١٨٦] یہود اور مشرکین کے ہاتھوں مسلمانوں کو جو تکالیف پہنچیں ان کی فہرست بڑی طویل ہے، اور کتاب و سنت میں جا بجا مذکور ہیں۔ ان کا حصران حواشی میں ممکن نہیں، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ دور نبوی میں ہجرت نبوی سے پہلے بھی اور بعد میں بھی آپ کی زندگی انہیں لوگوں سے دکھ اٹھاتے گزری تو بے جا نہ ہوگا، اور مسلمانوں کو یہ خبر اس لیے دی جارہی ہے کہ ذہنی طور پر مسلمان ان تکلیفوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار رہیں۔ آل عمران
187 [١٨٧]یہود کی حرام خوری اور عہد شکنی :۔ یہود سے ہرگز یہ عہد نہیں لیا گیا تھا کہ صرف اسی نبی کو سچا سمجھیں اور اس پر ایمان لائیں جس کو آتشیں قربانی کا معجزہ دیا گیا ہو۔ لیکن انہوں نے اپنی طرف سے اللہ پر یہ بہتان لگا دیا تھا، تاکہ رسول اللہ پر ایمان نہ لانے کا معقول بہانہ ہاتھ آجائے اور جو عہد ان سے فی الواقعہ لیا گیا تھا اس کی ایک ایک شق میں انہوں نے اس عہد کو توڑ ڈالا اور جی بھر کے عہد شکنی کی۔ ان سے عہد یہ لیا گیا تھا کہ وہ تورات پر سختی سے عمل کریں گے۔ اس کی خوب اشاعت کریں گے۔ اس میں سے کچھ بھی چھپائیں گے نہیں۔ لیکن یہود نے یہ کیا کہ اس کے بے شمار احکام کی خلاف ورزی کی جن کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ اس کی بہت سی آیات کو چھپاتے رہے۔ مثلاً ایسی آیات جن میں آپ کی بشارت دی گئی تھی یا رجم سے متعلقہ آیات کو، پھر انہوں نے تحریف لفظی بھی کی اور معنوی بھی، جیسے دوسروں کا مال بٹورنے کی خاطر لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیّٖنَ سَبِیْلٌ کا مسئلہ گھڑ لیا تھا اور غیر یہود سے سود بھی وصول کرلیتے اور کسی بھی ناجائز طریقہ سے ان کا مال ہڑپ کرنے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے تھے۔ یا غلط فتوے دے کر پیسے بٹورتے تھے۔ آل عمران
188 [١٨٨]یہود کا ناکردہ کاموں میں اپنی تعریف چاہنا:۔ اس آیت کے شان نزول کے سلسلے میں مندرجہ ذیل تین احادیث ملاحظہ فرمائیے یہ تینوں حدیثیں بخاری شریف میں مذکور ہیں۔ ١۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ نے یہود کو بلا بھیجا اور ان سے دین کی کوئی بات پوچھی۔ انہوں نے حق چھپایا اور غلط بات بتلادی۔ پھر سمجھے کہ ہم (نے کمال کیا) آپ کے نزدیک قابل تعریف ٹھہرے یعنی آپ کو بتلایا بھی اور حق بات چھپا بھی لی۔ پھر یہی آیت پڑھی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) ٢۔ مروان نے اپنے دربان رافع کو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بھیجا کہ اس آیت کا مطلب پوچھ کے آؤ، کیونکہ اس آیت کی رو سے ہر شخص عذاب کا مستحق قرار پاتا ہے۔ کیونکہ ہر شخص کو جو نعمت ملی، یا وہ جو کرتا ہے۔ اس پر خوش ہوتا ہے اور وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کے ناکردہ کام پر اس کی تعریف کی جائے۔ چنانچہ رافع ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آئے تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : تم مسلمانوں کا اس سے کیا تعلق؟ پھر انہوں نے اس سے پہلی آیت ساتھ ملا کر پڑھی اور کہا کہ یہ ان یہودیوں کے حق میں ہے۔ جنہیں آپ نے بلا کر ان سے کوئی بات پوچھی تو انہوں نے حق بات تو چھپا دی اور کوئی غلط بات بتلا دی پھر یہ سمجھے کہ وہ ان کے نزدیک قابل تعریف ٹھہرے (یعنی آپ کو بتلا بھی دیا اور حق بھی چھپا لیا) پھر آپ نے یہ آیت پڑھی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) ٣۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ کے زمانہ میں چند ایسے منافق تھے کہ جب آپ جہاد پر جاتے تو وہ پیچھے رہ جاتے اور خوش ہوتے۔ پھر جب آپ واپس آتے تو قسمیں کھا کر طرح طرح کے بہانے بناتے اور یہ بات انہیں اچھی لگتی تھی کہ ان کے ناکردہ کاموں پر ان کی تعریف ہو۔ انہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) ان میں سے حدیث نمبر ١ اور ٢ کے راوی ابن عباس رضی اللہ عنہما ہیں اور اس آیت کو یہود سے متعلق بتلاتے ہیں اور حدیث ٣ کے راوی ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ہیں اور وہ اس آیت کو منافقین سے متعلق بتلاتے ہیں۔ ربط مضمون کے لحاظ سے پہلی دو احادیث راجح معلوم ہوتی ہیں۔ کیونکہ پیچھے یہود کی کرتوتوں کا ذکر چل رہا ہے۔ تاہم اس مضمون میں منافقین تو کیا خود مسلمانوں کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ یعنی جو شخص بھی ایسی شہرت پسند کرتا ہو کہ فلاں آدمی بڑا مخلص، دیانتدار، ایثار پیشہ خادم خلق اور عالم دین ہے یا ان میں سے کسی بھی صفت کی شہرت چاہتا ہو جبکہ حقیقت میں معاملہ ایسا نہ ہو یا کسی نے اچھے کام میں محنت تو تھوڑی ہی کی مگر شہرت اور ناموری اس سے بہت زیادہ چاہتا تو اس کا وہی حشر ہوگا جو اس آیت میں مذکور ہے۔ آل عمران
189 آل عمران
190 [١٨٩] یعنی عقلمند انسان جب زمین و آسمان کی پیدائش، سورج اور چاند کی گردش اور سیاروں کے احوال، دن رات کی آمدورفت کے مضبوط اور مربوط نظام میں غور کرتا ہے کہ کس طرح سب سیارے ایک معین رفتار اور معین قانون کے تحت فضاؤں میں گردش کر رہے ہیں اور ان کے اس انضباط میں کبھی لمحہ بھر کا بھی فرق نہیں پڑتا تو اسے یہ یقین کرنا پڑتا ہے کہ یہ تمام تر کارخانہ کائنات ایک ہی قادر مطلق اور مختار کل فرمانروا کے ہاتھ میں ہوسکتا ہے۔ جس نے اپنی عظیم قدرت و اختیار سے کائنات کی ہر چھوٹی بڑی چیز کو اپنی اپنی حدود میں جکڑ رکھا ہے۔ کسی کی مجال نہیں کہ وہ حدود سے تجاوز کرسکے۔ اگر اس عظیم الشان کارگاہ کا ایک پرزہ یا کوئی کارندہ اس مالک الملک کی قدرت و تصرف سے باہر ہوتا تو کارخانہ عالم کا یہ مربوط اور مستحکم نظام ہرگز قائم نہ رہ سکتا۔ آل عمران
191 [١٩٠] اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ عقلمند صرف وہ لوگ ہیں جو اس کارخانہ قدرت میں غور کرنے کے بعد اللہ کی بے پناہ قدرت و تصرف کی حقیقت تک پہنچ جاتے ہیں۔ پھر اس اعتراف حقیقت کے نتیجہ میں ان کے بدن کارواں رواں محبت الٰہی میں سرشار ہو کر اس کی حمد و ثناء کرنے لگتا ہے اور ہر حال میں اللہ کا ذکر کرتے اور اس کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں۔ لیکن جو لوگ اس کارخانہ قدرت میں غورو فکر کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچیں کہ یہ عالم مادہ سے بنا ہے۔ پھر اتفاق سے یوں ہوگیا، پھر اتفاق سے یوں ہوگیا اور اس مضبوط و مربوط نظام کائنات کو محض اتفاقات کا نتیجہ کا قرار دیتے ہیں، وہ ہرگز اہل عقل نہیں ہیں۔ کیونکہ اتفاق سے کبھی کبھار تو خیر پیدا ہوسکتی ہے لیکن مسلسل خیر کبھی پیدا نہیں ہوسکتی۔ جیسا کہ اس کائنات کی ہر ایک چیز نہایت خوبی کے ساتھ اپنے اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے۔ گویا اس آیت اور اس جیسی دوسری آیات میں دہریت اور نیچریت کا رد موجود ہے۔ [١٩١]آخرت اللہ کے عدل کاتقاضا ہے:۔ اس کائنات کے نظام میں غور و فکر کرنے سے اہل عقل پر یہ حقیقت بھی منکشف ہوجاتی ہے کہ اس کائنات میں ایک انسان ہی ایسی مخلوق ہے جسے عقل اور تمیز عطا کی گئی ہے۔ اسے اللہ نے تصرف کے کچھ اختیارات بھی دیئے ہیں اور اخلاقی حس بھی پیدا کی ہے۔ لہٰذا یہ بات سراسر عقل اور حکمت کے خلاف ہے کہ اس سے اس کی دنیا کی زندگی کے بارے میں باز پرس نہ ہو اور اسے نیکی پر جزا اور بدی پر سزا نہ دی جائے، کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک انسان عمر بھر ظلم و ستم کئے جاتا ہے۔ لوگوں کو پریشان بھی کرتا ہے۔ ان کے حقوق بھی غصب کرتا ہے۔ لیکن اسے اس دنیا میں کوئی سزا نہیں ملتی۔ اسی طرح بعض دفعہ ایک نیک طبع اور دیندار انسان کی ساری عمر سختیاں اور مصائب برداشت کرتے اور تنگی و تنگ دستی کے عالم میں گزر جاتی ہے اور اسے کبھی راحت میسر نہیں آتی اور یہ بات اللہ تعالیٰ کے عدل کے خلاف ہے۔ اس سے ایک عقلمند انسان لازماً یہ سوچنے پر مجبور ہوجائے گا کہ اس دنیا کی زندگی کے بعد ایک اور زندگی ہونی چاہئے۔ جس میں ہر ایک کو اس کے کئے کا بدلہ دیا جاسکے۔ اس طرح انہیں اخروی زندگی کا یقین حاصل ہوجاتا ہے اور وہ اللہ کی گرفت سے پناہ مانگنے لگتے ہیں۔ [١٩٢] کائنات اور دہریت :۔ باطل کی ضد حق ہے اور جس طرح حق کا لفظ وسیع المعنی ہے۔ اسی طرح باطل کے بھی بہت سے معنی ہیں۔ مثلاً باطل بمعنی جھوٹ، جھوٹی بات، بہتان، عبث، بے کار، بے مقصد ہے۔ اس آیت میں بتلایا جارہا ہے کہ یہ کائنات بے مقصد پیدا نہیں کی گئی۔ جیسا کہ مادہ پرستوں، دہریوں اور نیچریوں کا خیال ہے کہ مادہ کے اجزا باہم ملتے گئے اور کائنات کی ایک ایک چیز وجود میں آتی گئی۔ ہائیڈروجن کے ذرات ملے تو سورج پیدا ہوگیا اور وہ خود بھی گھومنے لگا۔ پھر اس سے ایک حصہ کٹ کر علیحدہ ہوا تو وہ زمین بن گئی۔ زمین نے جب گھومنا شروع کیا تو اس کا ایک حصہ کٹ کر علیحدہ ہوا تو وہ چاند بن گیا اور اسی طرح دوسرے سیارے وجود میں آتے گئے اور انہی اتفاقات سے کائنات سے ایک ایک چیز بن گئی۔ پھر ایک وقت آئے گا کہ جس طرح کائنات کی ہر چیز جیسے اتفاق سے بنتی گئی۔ اسی طرح تباہ ہوجائے گی اور تباہی کے بعد پھر اجزا ملنے شروع ہوجائیں گے اور یہ سلسلہ یوں ہی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلتا رہے گا۔ (وقس علیٰ ھٰذا من الخرافات) گویا ان کے خیال میں یہ کائنات محض ایک تماشا گاہ اس کی مختلف صورتوں اور اتفاقات کا کھیل ہے۔ کائنات کی ہر چیز انسان کی خادم ہے:۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے یہ بتلایا کہ پوری کائنات تو درکنار، کائنات کی کوئی چیز بھی بے کار پیدا نہیں کی گئی۔ بلکہ با مقصد طور پر پیدا کی گئی ہے۔ قرآن کی تصریحات کے مطابق زمین اور اس کی جملہ اشیاء شمس و قمر اور ستارے سب انسان کی خدمت کے لیے بنائے گئے ہیں اور اس کی خدمت پر مامور ہیں۔ زمین سے انسان کی ہر طرح کی جسمانی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ سورج اور اس کی گردش سے رات دن پیدا ہوتے، موسم بنتے اور فصلیں پکتی ہیں۔ چاند سے رات کو روشنی اور ٹھنڈک ملتی ہے اور پھلوں میں رس پیدا ہوتا ہے۔ ستاروں سے ہم رات کے اوقات کی تعیین کرتے، روشنی حاصل کرتے اور رہنمائی حاصل کرتے ہیں اور پھر یہ آسمان کی زینت بھی ہیں۔ یہی صورت ہواؤں اور بادلوں کی ہے۔ اب دیکھئے ان میں سے کوئی چیز بھی نہ ہو تو انسان کا جینا محال ہوجاتا ہے لیکن اگر کائنات میں انسان نہ ہو تو ان چیزوں کے استقلال میں کوئی فرق نہیں آتا۔ اس بات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کائنات کا مقصد انسان کی خدمت ہے اور غالباً یہی وہ باشعور و باختیار مخلوق ہے۔ جسے سب چیزوں کے بعد پیدا کیا ہے۔ لہٰذا یہ کائنات یونہی بے مقصد نہیں بلکہ ایک نہایت اہم مقصد کے ساتھ وجود میں لائی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کبھی کوئی چیز بے مقصد پیدا نہیں فرماتا، اس کی ذات اس سے پاک ہے۔ انسان کی تخلیق کامقصد:۔ اب اس سے اگلا سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ تو انسان کے لیے ہے تو پھر انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ تو اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا۔ ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴾یعنی میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا ہی اس لیے کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔ اور عبادت کا مفہوم اس قدروسیع اور جامع ہے کہ اس میں ہر طرح کے شرک کا رد، توحید کی اہمیت، قانون جزا و سزا، جنت و دوزخ بلکہ پوری کی پوری شریعت اس میں آجاتی ہے۔ کائنات، کائنات کا خالق اور اس کائنات میں انسان کا مقام، یہ تین چیزیں ایسی ہیں جن کی حقیقت معلوم کرنے اور ان کا صحیح تعین کرنے پر اہل عقل و خرد ابتدائے آدم سے لے کر غور و فکر کرتے رہے ہیں۔ پھر جس کسی سائنسدان یا فلاسفر نے بھی وحی الٰہی سے بے نیاز ہو کر سوچنا شروع کیا تو اکثر اس کی عقل نے ٹھوکر ہی کھائی ہے۔ آل عمران
192 آل عمران
193 [١٩٣]کائنات کےمعمہ کا حل‘اور اس میں انسان کا مقام :۔ پکارنے والے سے مراد اللہ تعالیٰ کا پیغمبر ہے۔ جو وحی الٰہی کی روشنی میں انسانوں کی رہنمائی کرتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی ہے کہ اس نے اس معمہ کو محض انسانی عقل کے حوالے نہیں کیا بلکہ اپنے رسول بھیج کر اور کتابیں نازل کرکے اس معمہ کا حل خود ہی بتلا دیا ہے۔ اس کو بتلایا یہ گیا ہے کہ کائنات میں اس کا صحیح مقام یہ ہے کہ وہ اشرف المخلوقات ہے۔ کائنات کی کوئی بھی چیز نہ اس کا کچھ بگاڑ سکتی ہے اور نہ سنوار سکتی ہے۔ اس کا تمام تر نفع و نقصان اس خالق و مالک کے ہاتھ میں ہے جو اس پوری کائنات کا خالق ہے۔ پھر رسولوں اور کتابوں ہی کے ذریعہ انسان کو اس کی زندگی کا مقصد یہ بتلایا کہ وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرے اور دنیا میں اس طرح زندگی گزارے جس سے اسے اخروی نجات حاصل ہوجائے۔ ساتھ ہی ساتھ اسے یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ وہ محض اپنے نیک اعمال پر تکیہ نہ کرے بلکہ اپنے اللہ سے گناہوں کی بخشش بھی طلب کرتا رہے اور بھلائی کے لیے دعائیں بھی مانگتا رہے۔ آل عمران
194 [١٩٤] یعنی وہ اپنے پروردگار سے یہ دعا مانگتے ہیں کہ ہمیں اپنے ان وعدوں کا مصداق بنا دے جو تو نے اپنے رسولوں کے ذریعہ ہم سے کئے ہیں اور ہم سے وہ وعدے پورے کر دے، کہیں ایسا نہ ہو دنیا میں تو ہم پیغمبروں پر ایمان لاکر کافروں کی تضحیک اور طعن و ملامت کا نشان بنے ہی ہوئے ہیں۔ آخرت میں بھی ان کے سامنے ہماری رسوائی ہو اور وہ ہم پر یہ پھبتی کسیں کہ ایمان لاکر بھی تمہیں کیا حاصل ہوا ؟ اور دوسرا معنی اس کا یہ بھی ہے کہ تو نے ہم سے جو اس دنیا میں کفار پر فتح و نصرت عطا کرنے کا وعدہ کیا ہے اسے پورا فرما، اور کافروں اور منافقوں کی تضحیک اور لعن طعن سے ہمیں بچا لے۔ آل عمران
195 [١٩٥] یعنی مرد اور عورت چونکہ دونوں ایک ہی نوع سے ہیں۔ لہٰذا نیک اعمال کا جس قدر بدلہ مردوں کو ملے گا۔ اتنا ہی عورتوں کو ملے گا۔ جزائے اعمال کے لحاظ سے دونوں میں کوئی فرق نہیں اور اس دنیا میں جو مرد کو بیوی پر تفوق حاصل ہے۔ اس کی وجوہ دو ہیں۔ ایک عائلی نظام کا استقلال ہے جو ایک ہی سربراہ کی صورت میں برقرار رہ سکتا ہے اور مرد چونکہ قویٰ کے لحاظ سے عورت سے مضبوط ہے۔ لہٰذا گھر کا سربراہ وہی ہونا چاہئے، اور دوسرے یہ کہ مرد چونکہ بیوی کے نان و نفقہ اور اولاد کی تربیت اور جملہ اخراجات کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ لہٰذا عقلی طور پر بھی جس کا خرچ ہو رہا ہو اسی کی رائے کو فوقیت دی جانی چاہئے اور یہ معاملہ صرف گھریلو نظام تک محدود ہے۔ رہی جزائے اعمال کی بات تو اس کا انحصار نوع پر نہیں بلکہ ہر عمل کرنے والے کی نیت پر ہے۔ جس قدر نیت پاکیزہ ہوگی اتنا ہی بہتر اجر ملے گا۔ [١٩٦] یعنی جن لوگوں نے میری راہ میں اور اسلام کو سربلند کرنے اور رکھنے کی خاطر جان و مال اور وطن کی قربانیاں دی ہیں اور طرح طرح کے دکھ اٹھائے ہیں، خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں ہوں اللہ سب سے یکساں سلوک کرتے ہوئے ان کی لغزشیں معاف فرما دے گا اور ان قربانیوں کا بہترین صلہ عطا فرماتے ہوئے انہیں پربہار باغات میں داخل کرے گا۔ روایات میں آیا ہے کہ ایک دفعہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! قرآن میں جہاں کہیں ہجرت یا اعمال حسنہ کا ذکر آتا ہے تو مردوں کا ہی آتا ہے عورتوں کا کیوں نہیں آتا ؟ تو اس بات کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے۔ آل عمران
196 [١٩٧] یعنی اللہ کے دین کی مخالفت کے باوجود کفار کے تجارتی قافلے یمن سے شام تک جاتے اور معقول منافع کماتے اور پھر عیش و عشرت سے اپنی زندگی بسر کرتے ہیں تو اس چند روزہ عیش و آرام سے یہ نہ سمجھا جائے کہ اللہ ان پر مہربان ہے۔ کیونکہ آخرت میں ان کے لیے دائمی عذاب ہے۔ لہٰذا کسی کو اس فریب میں نہ پڑنا چاہئے۔ آل عمران
197 اس آیت کی تفسیر اگلی آیت کے ساتھ آ رہی ہے۔ آل عمران
198 [١٩٨] ان دو آیات میں ایک مسلمان اور ایک کافر کی دنیوی اور آخروی زندگیوں کا تقابل پیش کیا گیا ہے۔ فرض کیجئے کہ ایک کافر کی دنیا کی یہ چند روزہ زندگی عیش و آرام سے گزرتی ہے۔ (حالانکہ عملاً ایسا نہیں ہوتا اسے بھی دنیا میں کئی طرح کے غم اور تکلیفیں برداشت کرنا پڑتی ہیں) لیکن آخرت میں ہمیشہ ہمیشہ وہ عذاب میں مبتلا رہتا ہے، اور مسلمان کی یہ چند روزہ زندگی، دکھ، مصائب، پریشانی اور تنگدستی میں گزرتی ہے۔ (حالانکہ عملاً ایسا نہیں ہوتا، اسے بھی اس دنیا میں خوشی اور خوشحالی کے لمحات میسر آتے ہی رہتے ہیں) لیکن آخرت میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کے لیے ہر طرح کی نعمتیں ہی نعمتیں اور عیش و عشرت کی زندگی ہو تو بتلائیے کہ ان دونوں میں سے کون فائدہ میں رہا ؟ لہٰذا محض دنیوی زندگی کا ہی تقابل کرکے دھوکہ میں نہ آنا چاہئے۔ [١٩٩] مہمانی کا لفظ اس لیے فرمایا کہ اہل جنت کو اپنے کھانے پینے کے لیے خود کچھ بھی مشقت یا تردد نہ کرنا پڑے گا۔ بلکہ عزت و آرام سے بیٹھے بٹھائے ہر چیز تیار مل جایا کرے گی جیسا کہ کسی مہمان کو ملتی ہے۔ دنیا میں ان لوگوں نے جس قدر زیادہ دکھ اور اسلام کی راہ میں مصائب برداشت کئے ہوں گے، اتنا ہی انہیں بہتر سے بہتر انعامات سے نوازا جائے گا۔ آل عمران
199 [٢٠٠] یہود میں کچھ ایسے لوگ موجود تھے جو اللہ سے ڈرنے والے، حرام خوری سے بچنے والے دیانتدار اور نیک سرشت تھے۔ اگرچہ ایسے لوگ بہت کم تھے، تاہم تھے اور ان کا ذکر پہلے سورۃ آل عمران کی آیت ١١٣ تا ١١٥ میں گزر چکا ہے۔ یہی وہ لوگ تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے اور ایسے لوگ دوہرے ثواب کے مستحق ہوتے ہیں۔ ایک اپنے نبی اور کتاب پر ایمان لانے کا دوسرے نبی آخرالزمان اور قرآن پر ایمان لانے کا۔ چنانچہ آپ نے فرمایا ہے کہ تین آدمیوں کو دہرا اجر ملے گا، ایک تو اس کو جس کی کوئی لونڈی ہو اور وہ اس کی اچھی تعلیم و تربیت کرے، ادب سکھلائے پھر اس سے نکاح کرلے دوسرے اس یہودی یا عیسائی کو جو اپنے پیغمبر پر ایمان لایا، پھر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھی ایمان لایا۔ تیسرے اس غلام کو جو اللہ اور اپنے آقا دونوں کا حق ادا کرے۔ (بخاری، کتاب الجہاد، باب فضل من اسلم من اھل الکتاب) آل عمران
200 [٢٠١] (صَابِرُوْا) کے دو معنیٰ ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر صبر کرو اور دوسرے یہ کہ ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرتے رہو۔ یعنی جو اسلام کی راہ میں مشکلات آنے پر خود بھی ثابت قدم رہیں اور دوسروں کو بھی ایسی ہی تلقین کرتے اور ان کی ڈھارس بندھاتے رہیں۔ [٢٠٢] چوکی پہرہ کی فضیلت اور فوجی چھاؤنیاں:۔ اسی طرح (رَابِطُوْا) میں جہاد کے لیے تیار رہنا، کسی چوکی پر پہرہ دینا، مورچے پر رہنا اور اپنی مملکت کی سرحدوں کی حفاظت کرنا سب کچھ شامل ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’اللہ کی راہ میں ایک دن مورچے پر رہنا دنیا و مافیہا سے بہتر ہے اور تم میں کسی کو ایک کوڑا رکھنے کے برابر جنت میں جگہ مل جائے تو وہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہے اور شام کو جو آدمی اللہ کی راہ (جہاد) میں چلے یا صبح کو تو وہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب الجہاد، باب فضل رباط یوم فی سبیل اللہ ) نیز آپ نے فرمایا : ’’ایک دن رات پہرہ دینا، ایک ماہ کے روزے اور قیام سے بہتر ہے۔ اگر وہ پہرہ دیتے ہوئے شہید ہوگیا تو اس کا یہ عمل برابر جاری رہے گا اور اس کو اس پر اجر دیا جائے گا اور وہ فتنوں سے امن میں رہے گا۔‘‘ (مسلم، کتاب الأمارۃ، باب فضل الرباط فی سبیل اللہ عزوجل) بعض فقہاء رباط کو جہاد فی سبیل اللہ سے بھی زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ جہاد غیر مسلموں سے کیا جاتا ہے اور رباط خود مسلمانوں کی حفاظت کے لیے ہوتا ہے۔ مدنی دور کے ابتدائی سالوں میں مدینہ کے ارد گرد بسنے والے مشرک قبائل آپس میں گٹھ جوڑ کرکے مدینہ پر حملہ کی سازشیں کرتے رہتے تھے۔ آپ ان کے حالات سے ہر لحظہ باخبر رہتے اور جب محسوس کرتے کہ مدینہ کی طرف کوئی بری نظروں سے دیکھ رہا ہے تو فوراً خود وہاں پہنچ جاتے، یا سریہ بھیج دیتے تھے۔ صلح حدیبیہ سے پہلے اکثر ایسے واقعات پیش آتے رہے اور بسا اوقات یوں ہوا کہ دشمن اسلامی دستوں کی آمد کی خبر پاکر تتر بتر ہوجاتا تھا۔ ٩ ھ میں عرب کا بیشتر علاقہ اسلام کے زیر نگین آگیا تو شام کی سرحد پر عرب عیسائیوں نے جو قیصر روم کے زیراثر تھے۔ مسلمانوں کی سرحد پر اپنی افواج کو اکٹھا کرنا شروع کردیا۔ افواہ یہ گرم تھی کہ دو لاکھ عیسائی اس سرحد پر جمع ہورہے ہیں۔ غزوہ تبوک اسی وجہ سے پیش آیا تھا۔ اسلامی لشکر کے پہنچنے سے پہلے ہی دشمن کا لشکر منتشر ہوگیا اور جنگ کی نوبت ہی نہ آئی۔ دور فاروقی میں جب اسلامی سلطنت کی سرحدیں بہت وسیع ہوگئیں تو سرحدوں پر فوجی چھاؤنیاں قائم کردی گئیں۔ جہاں ہر وقت فوج موجود رہتی تھی تاکہ دشمن کی نقل و حرکت کی بروقت سرکوبی کی جاسکے۔ اور بعض لوگوں نے رابِطُوْا سے باہمی روابط اور معاشرتی آداب کو ملحوظ رکھنا مراد لیا ہے۔ یعنی صلہ رحمی، رشتوں ناطوں کا پورا پورا لحاظ رکھو اور ہر شخص دوسرے کے حقوق و آداب کو ملحوظ رکھ کر معاشرہ میں ہمدردی، مروت اور اخوت کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ دوسروں سے احسان اور بہتر سلوک کرنا وغیرہ سب باتیں اس میں شامل ہیں۔ سورۃ آل عمران میں چونکہ غزوہ احد کا تفصیلی بیان آیا ہے اور اس کا بہت سا حصہ اسی غزوہ کے حالات پر مشتمل ہے اور یہ آخری آیت گویا اس سورۃ کا تتمہ اور لب لباب ہے جس میں مسلمانوں کو کفار کے مقابلہ میں ہر وقت تیار رہنے کے ضمن میں جامع ہدایات دی گئی ہیں۔ آل عمران
0 سورة نساء النسآء
1 [١] ایک جان سے مراد ابو البشر آدم ہیں۔ انہی سے آپ کی بیوی سیدہ حوا علیہا السلام کو پیدا کیا گیا۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’میری وصیت مانو اور عورتوں سے بھلائی کرتے رہنا۔ کیونکہ عورت کی خلقت پسلی سے ہوئی ہے اور پسلی کے اوپر کا حصہ ٹیڑھا ہوتا ہے۔ اگر اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو ٹوٹ جائے گی اور اگر یوں ہی چھوڑ دو۔ تو ٹیڑھی ہی رہے گی۔ لہٰذا میری وصیت مانو اور ان سے اچھا سلوک کرو۔‘‘ (بخاری : کتاب بدء الخلق، باب وإذ قال ربک للملائکۃ) [٢] اس سورۃ کا آغاز اس آیت سے غالباً اس لئے کیا جارہا ہے کہ اس سورۃ کا بیشتر حصہ عائلی اور معاشرتی قوانین پر مشتمل ہے۔ نیز اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسانی سطح پر سب انسان ایک دوسرے کے برابر ہیں۔ لہٰذا ہر ایک سے حسن سلوک سے پیش آنا ضروری ہے۔ [٣] صلہ رحمی کی تاکید اور فضیلت :۔ قریبی رشتہ داروں سے بہترین سلوک کرنا بہت بڑا نیکی کا کام ہے اور ان تعلقات کو بگاڑنا، خراب کرنا یا توڑنا گناہ کبیرہ ہے۔ اس سلسلہ میں چند احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ رحم، رحمٰن سے نکلا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رحم سے کہا ’’جو تجھے ملائے گا میں اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرے گا میں اسے قطع کروں گا۔‘‘ (بخاری، کتاب الادب، باب من وصل وصلہ اللہ ) ٢۔ فراخی رزق کا نسخہ :۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’جو شخص چاہتا ہو کہ اس کے رزق میں فراخی ہو اور اس کی عمر لمبی ہو اسے صلہ رحمی کرنی چاہئے۔‘‘ (بخاری، کتاب الادب۔ باب من بسط لہ فی الرزق/مسلم کتاب البر والصلۃ۔ باب صلۃ الرحم) ٣۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔‘‘ (بخاری، کتاب الادب۔ باب إثم القاطع مسلم کتاب البر والصلہ۔ باب صلۃ الرحم و تحریم قطیعتھا) ٤۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ مخلوق کی تخلیق سے فارغ ہوا تو رحم نے کہا (اے اللہ) قطع رحمی سے تیری پناہ طلب کرنے کا یہی موقع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہاں! کیا تو اس بات سے راضی نہیں کہ میں اسے ہی ملاؤں جو تجھے ملائے اور اسے توڑوں جو تجھے توڑے؟ رحم نے کہا : ہاں اے میرے رب! اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’تیری یہ بات منظور ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر چاہو تو (دلیل کے طور پر) یہ آیت پڑھ لو ﴿ فَہَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُـقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْ ﴾ (سورہ محمد، آیت : ٢٢) (بخاری و مسلم۔ حوالہ ایضاً) ٥۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بدلہ کے طور پر رشتہ ملانے والا، رشتہ ملانے والا نہیں بلکہ رشتہ ملانے والا تو وہ ہے کہ جب اس سے رشتہ توڑا جائے تو وہ اسے ملائے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب لیس الواصل بالمکافیئ) ٦۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا ’’میرے کچھ قریبی ہیں۔ میں ان سے رشتہ ملاتا ہوں اور وہ مجھ سے رشتہ توڑتے ہیں۔ میں ان سے اچھا سلوک کرتا ہوں اور وہ مجھ سے برا سلوک کرتے ہیں۔ میں ان سے حوصلہ سے پیش آتا ہوں اور وہ میرے ساتھ جاہلوں کا سا برتاؤ کرتے ہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اگر ایسی بات ہی ہے جو تم کہہ رہے ہو تو گویا تم ان کے منہ میں گرم راکھ ڈال رہے ہو۔ اور جب تک تم اس حال پر قائم رہو گے ان کے مقابلہ میں اللہ کی طرف سے تمہارے ساتھ ہمیشہ ایک مددگار رہے گا۔‘‘ (مسلم، کتاب البرو الصلہ۔ باب صلۃ الرحم وتحریم قطیعتھا) ٧۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جس زمانہ میں آپ کی (قریش سے) صلح تھی۔ اس دوران میری ماں (میرے پاس) آئی اور وہ اسلام سے بے رغبت تھی۔ میں نے آپ سے پوچھا کیا میں اس سے صلہ رحمی کرسکتی ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ہاں‘‘ (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب صلۃ المراۃ أمھا ولھا زوج) ٨۔ سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! مجھے ایسا عمل بتلائیے۔ جو مجھے جنت میں لے جائے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’اللہ کی عبادت کرو اور اس میں ذرا بھی شرک نہ کرنا، نماز قائم کرو زکوٰۃ ادا کرو اور صلہ رحمی کرو۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب فضل صلۃ الرحم) ٩۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’کوئی گناہ بغاوت اور قطع رحمی سے زیادہ اس بات کا اہل نہیں کہ اللہ اسے دنیا میں بھی فوراً سزا دے اور ساتھ ہی ساتھ آخرت میں بھی اس کے لیے عذاب بطور ذخیرہ رکھے۔‘‘ (ترمذی۔ ابو اب صفۃ القیامۃ) النسآء
2 [٤] یتیم کی سرپرستی اور خیرخواہی :۔ معاشرتی قباحتوں میں سے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے یتیموں کے حقوق کی طرف توجہ دلائی۔ یتیم کی پرورش کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اور یتیم کا سرپرست جنت میں اس طرح ہوں گے۔ پھر آپ نے اپنی شہادت کی اور درمیانی انگلی ذرا کھول کر اشارہ کیا۔ (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب فضل من یعول یتیما) لیکن عرب میں یتیموں کے حقوق کئی طرح سے پامال ہو رہے تھے۔ انہی حقوق کی پامالی کا بالترتیب یہاں ذکر ہو رہا ہے۔ مثلاً جو چیزیں بطور امانت سرپرست کے پاس ہوتیں انہیں واپس کرتے وقت وہ یہ کوشش کرتا کہ اچھی چیز کے بدلے کوئی پرانی اور گھٹیا چیز دے کر خانہ پری کر دے۔ دوسری صورت یہ تھی کہ کھانے پینے کی اشیاء کو ملا جلا لیا جس میں یتیم کو کسر لگانے اور اپنا فائدہ ملحوظ رکھنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ ان دونوں باتوں سے منع کرتے ہوئے ایک اصولی بات بتلا دی کہ جس طریقے سے بھی تم یتیم کا مال کھاؤ۔ بہرحال یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ واضح رہے کہ پہلے یہ حکم دیا گیا تھا کہ یتیم کے کھانے پینے کی اشیاء اپنی اشیاء میں نہ ملاؤ۔ اس طرح بھی یتیم کو بعض دفعہ نقصان پہنچ جاتا تھا۔ مثلاً کھانا زیادہ پک گیا یا جتنا پکا تھا اتنا وہ کھا نہ سکا۔ اس لیے ایسی اشیائے خورد و نوش کو ملانے کی اجازت تو دے دی گئی مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ یتیم کو کسی طرح بھی نقصان نہ پہنچے۔ النسآء
3 [٥] یتیم لڑکیوں سے ناانصافی :۔ اور زیادہ حق تلفی یتیم لڑکیوں کی ہوتی تھی۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ یتیم لڑکی کا ولی کوئی قریبی رشتہ دار ہی ہوسکتا ہے اور وراثت میں بھی ولی اور یتیم لڑکی کا اشتراک ممکن ہے۔ اب لڑکی کے جوان ہونے پر تین صورتیں پیش آ سکتی تھیں : ایک یہ کہ لڑکی خوبصورت نہ ہو اور ولی کے دل میں اس کی الفت بھی نہ ہو اور وہ محض اس طمع سے اس سے نکاح کرلے کہ اس کا ورثہ کا مال ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اس طرح کا نکاح کرنا بھی اس لڑکی پر ظلم ہے۔ دوسرے یہ کہ لڑکی خوبصورت بھی ہو اور صاحب جائیداد بھی ہو، اس صورت میں ولی اس سے نکاح کرلیتا مگر جتنا حق مہر اسے دوسروں سے مل سکتا تھا اسے اس سے بہت کم دیتا اور دوسرا کوئی شخص ولی کی موجودگی میں اس سے نکاح کر بھی نہیں سکتا تھا۔ جبکہ ولی خود اس کا خواہش مند ہو۔ یہ بھی یتیم لڑکیوں کے حقوق پر ڈاکہ کی ایک صورت تھی۔ یہی ناانصافیاں تھیں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے یہاں بیان فرمایا ہے۔ اس آیت کے شان نزول کے بارے میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک شخص ایک یتیم لڑکی کی پرورش کرتا تھا اس نے صرف اس غرض سے اس کے ساتھ نکاح کرلیا کہ وہ ایک کھجور کے درخت کی مالکہ تھی ورنہ اس کے دل میں اس لڑکی کی کوئی الفت نہ تھی۔ اس کے حق میں یہ آیت اتری۔ اس حدیث کے ایک راوی ابن جریج کہتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ لڑکی اس درخت اور دوسرے مال اسباب میں اس مرد کی حصہ دار تھی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) ٢۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ان سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو انہوں نے فرمایا :بھانجے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ ایک یتیم لڑکی اپنے ولی کی پرورش میں ہو اور ترکہ کی رو سے اس کی جائیداد میں حصہ دار ہو اور ولی کو اس کا مال اور جمال تو پسند آئے مگر وہ اسے اتنا مہر دینے پر آمادہ نہ ہو جتنا اسے دوسرے لوگ دیتے ہیں تو وہ اس سے نکاح نہ کرے۔ ہاں اگر اتنا ہی دے دے تو پھر نکاح کرسکتا ہے۔ ورنہ وہ ان کے علاوہ دوسری عورتوں سے جو انہیں پسند ہو نکاح کرلے۔ اور چار تک ایسی بیویوں کی اجازت دی گئی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) اور تیسری صورت یہ کہ لڑکی نہ خوبصورت ہو اور نہ صاحب مال ہو اس صورت میں ولی کو اس سے نکاح کرنے میں کوئی دلچسپی نہ ہوتی تھی۔ [٦] چار تک بیویوں سے نکاح کی اجازت :۔ یتیم لڑکیوں کے سرپرستوں کو ان دونوں ناانصافیوں سے روکا گیا اور فرمایا کہ اگر تم صاحب جمال لڑکی کا اتنا مہر ادا کرسکو جتنا باہر سے مل سکتا ہے تو تم اس سے نکاح کرسکتے ہو ورنہ اور تھوڑی عورتیں ہیں ان میں سے اپنی حسب پسند چار تک بیویاں کرسکتے ہو۔ مگر اس شرط کے ساتھ کہ ان میں مساوات کا لحاظ رکھو اور اگر یہ کام نہ کرسکو تو پھر ایک بیوی پر اکتفا کرو۔ یا پھر ان کنیزوں پر جو تمہارے ملک میں ہوں۔ مندرجہ ذیل دو احادیث بھی ان احکام پر روشنی ڈالتی ہیں۔ ١۔ چار سے زیادہ بیویاں :۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ غیلان بن سلمہ ثقفی رضی اللہ عنہ جب اسلام لائے تو ان کے نکاح میں دس عورتیں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا :’’ان میں سے کوئی سی چار پسند کرلو (باقی چھوڑ دو۔)‘‘ (ابن ماجہ۔ کتاب النکاح۔ باب الرجل یسلم و عندہ أکثر من أربع نسوۃ) ٢۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ جب سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ ڈالتے۔ جس کے نام قرعہ نکلتا اسے اپنے ہمراہ لے جاتے اور آپ ہر بیوی کی باری ایک دن اور ایک رات مقرر کرتے تھے۔ (بخاری۔ کتاب الہبہ۔ باب ھبۃ المرأۃ لغیر زوجھا) البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معاملہ بالکل الگ ہے کیونکہ آپ کی ازواج مطہرات امت کی مائیں ہیں جو کسی دوسری جگہ نکاح نہیں کرسکتی تھیں۔ لہٰذا جتنے نکاح آپ کرچکے تھے وہ سب آپ کے لیے حلال اور جائز قرار دیئے گئے۔ اس آیت سے بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ اسلام میں تعدد ازواج کی کوئی حد نہیں اور قرآن میں جو دو دو تین تین، چار چار کے الفاظ آئے ہیں یہ بطور محاورہ زبان ہیں یعنی دو دو کی بھی اجازت ہے، تین تین کی بھی اور چار چار کی بھی، اور اسی طرح پانچ پانچ اور چھ چھ کی بھی فصاعداً۔ یہ استدلال دو وجہ سے غلط ہے : ایک یہ کہ اگر اجازت عام ہی مقصود ہوتی تو صرف ﴿مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ ﴾کہہ دینا ہی کافی تھا۔ چار تک تعین کرنے کی قطعاً ضرورت نہ تھی اور دوسرے یہ کہ سنت نے چار تک حد کی تعیین کردی تو پھر اس کے بعد کسی مسلمان کا شیوہ نہیں ہوسکتا کہ وہ کوئی دوسری بات کرے۔ جیسے کہ اوپر سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ یہ لوگ تو وہ تھے جو افراط کی طرف گئے اور کچھ لوگ تفریط کی طرف چلے گئے کہ عام اصول یہی ہے کہ صرف ایک عورت سے شادی کی جائے، ان کا استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تمہیں خدشہ ہو کہ ان میں انصاف نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی کافی ہے۔ پھر اسی سورۃ کی آیت نمبر ١٢٩ میں فرمایا کہ ’’اگر تم چاہو بھی کہ اپنی بیویوں کے درمیان انصاف کرو تو تم ایسا نہ کرسکو گے۔‘‘ گویا آیت نمبر ٣ میں تعدد ازواج کی جو مشروط اجازت دی گئی تھی وہ اس آیت کی رو سے یکسر ختم کردی گئی۔ لہٰذا اصل یہی ہے کہ بیوی ایک ہی ہونی چاہیے۔ نظریہ یک زوجگی کی دلیل اور اس کا رد :۔ یہ استدلال اس لحاظ سے غلط ہے کہ اسی سورت کی آیت ١٢٩ میں آگے یوں مذکور ہے ’’لہٰذا اتنا تو کرو کہ بالکل ایک ہی طرف نہ جھک جاؤ اور دوسری کو لٹکتا چھوڑ دو۔‘‘ اور جن باتوں کی طرف عدم انصاف کا اشارہ ہے وہ یہ ہیں کہ مثلاً ایک بیوی جوان ہے دوسری بوڑھی ہے۔ یا ایک خوبصورت ہے اور دوسری بدصورت یا قبول صورت ہے۔ یا ایک کنواری ہے دوسری ثیب (شوہر دیدہ) ہے۔ یا ایک خوش مزاج ہے اور دوسری تلخ مزاج یا بدمزاج ہے۔ یا ایک ذہین و فطین ہے اور دوسری بالکل جاہل اور کند ذہن ہے۔ اب یہ تو واضح بات ہے کہ اگرچہ ان صفات میں بیوی کا اپنا عمل دخل کچھ نہیں ہوتا، تاہم یہ باتیں خاوند کے لیے میلان یا عدم میلان کا سبب ضرور بن جاتی ہیں۔ اور یہ فطری امر ہے اسی قسم کی ناانصافی کا یہاں ذکر ہے۔ اور چونکہ اس قسم کے میلان یا عدم میلان میں انسان کا اپنا کچھ اختیار نہیں ہوتا لہٰذا ایسے امور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی گرفت اور مواخذہ نہیں۔ خاوند سے انصاف کا مطالبہ صرف ان باتوں میں ہے جو اس کے اختیار میں ہیں۔ جیسے نان و نفقہ، اس کی ضروریات کا خیال رکھنا اور شب بسری کے سلسلہ میں باری مقرر کرنا وغیرہ۔ کون نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی بیویوں میں سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ محبت تھی اور اس کی وجوہ یہ تھیں کہ آپ کنواری تھیں، نو عمر تھیں، ذہین و فطین تھیں اور خوش شکل تھیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا بھی فرمایا کرتے تھے کہ ’’یا اللہ ! جن باتوں میں مجھے اختیار ہے ان میں سب بیویوں سے میں یکساں سلوک کرتا ہوں اور جو باتیں میرے اختیار میں نہیں تو وہ مجھے معاف فرما دے۔‘‘ تفریط کی طرف جانے والے لوگ دراصل تہذیب مغرب سے سخت مرعوب ہیں جن کے ہاں صرف ایک ہی بیوی کی اجازت ہے آج کل اس طبقہ کی نمائندگی غلام احمد پرویز صاحب فرما رہے ہیں۔ انہوں نے اس آیت میں یتامی کا لفظ دیکھ کر تعدد ازواج کی اجازت کو ہنگامی حالات اور جنگ سے متعلق کردیا چنانچہ 'طاہرہ کے نام خطوط' کے صفحہ ٣١٥ پر فرماتے ہیں :’’مطلب صاف ہے کہ اگر کسی ہنگامی حالت مثلاً جنگ کے بعد جب جوان مرد بڑی تعداد میں ضائع ہوچکے ہوں اور ایسی صورت پیدا ہوجائے کہ معاشرہ میں یتیم بچے اور لاوارث جوان عورتیں شوہر کے بغیر رہ جائیں تو اس کا کیا علاج کیا جائے۔ اس ہنگامی صورت سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اس کی اجازت دی جاتی ہے کہ ایک بیوی کے قانون میں عارضی طور پر لچک پیدا کرلی جائے۔‘‘ پھر آگے چل کر ﴿فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ﴾کے معنی بیان فرماتے ہیں کہ ان میں سے ان عورتوں سے جو تمہیں پسند ہوں نکاح کرلو۔ اس طرح انہیں (اور بیواؤں کی صورت میں ان کے ساتھ ان کے بچوں کو بھی) خاندان کے اندر جذب کرلو۔ یہی ان سے منصفانہ سلوک ہے۔ یہ مسئلہ اگر دو دو بیویاں کرنے سے حل ہوجائے تو دو دو کرلو اور اگر تین تین سے ہو تو تین تین اور چار چار سے ہو تو چار چار۔۔ یہ تو رہا اجتماعی فیصلہ۔ (طاہرہ کے نام خطوط : ص ٣١٦) اب یہاں پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ہنگامی حالات اور جنگ کی قید آ کہاں سے گئی؟ کیا ہنگامی حالات یا جنگ کے بغیر کسی معاشرہ میں یتیموں کا وجود ناممکن ہے؟ یا قرآن کے کسی لفظ سے ہنگامی حالات یا جنگ کا اشارہ تک بھی ملتا ہے؟ خیر اس بات کو بھی جانے دیجئے، ہم یہ تسلیم کرلیتے ہیں کہ پرویز صاحب بجا فرما رہے ہیں تو اس کے مطابق صرف جنگ احد ہی ایسی جنگ قرار دی جا سکتی ہے جو پرویز صاحب کے نظریہ کا مصداق بن سکے۔ کیونکہ اس میں ستر مسلمان شہید ہوگئے تھے۔ دوسری کسی بھی جنگ میں مسلمانوں کا اتنا زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا۔ اس جنگ میں شریک ہونے والے مسلمانوں کی تعداد سات سو تھی اور منافقین کو بھی مسلمانوں میں شامل سمجھا جائے تو ایک ہزار تھی۔ اور یہ وہ تعداد تھی جو میدان جنگ کے لیے نکل کھڑے ہوئے تھے ورنہ سب مسلمانوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی۔ اور ان میں سے ستر مسلمانوں کے شہید ہونے سے ستر عورتیں بیوہ ہوگئیں (کیونکہ پرویز صاحب کے نظریہ کے مطابق اصل صرف یک زوجگی ہے) اب ان میں ان کی یتیم اولاد یعنی جوان لڑکیاں۔۔ اس تعداد کو چار گنا کر دیجئے۔۔ یعنی تقریباً ٣٠٠ عورتوں کی شادی کا مسئلہ تھا اور بقول پرویز صاحب چونکہ یہ اجتماعی مسئلہ تھا لہٰذا ڈیڑھ ہزار مسلمانوں میں سے صرف تین سو مسلمانوں کے مزید ایک بیوی کرلینے سے یہ مسئلہ حل ہوسکتا تھا اور یہ کام ہو بھی حکومتی سطح پر رہا تھا۔ پھر جب سارے مسلمانوں کو دو دو بھی حصہ میں نہ آ سکیں تو تین تین اور چار چار عورتوں سے نکاح کے کیا معنی؟ اور یہ اجتماعی فیصلہ والی بات بھی عجیب قسم کی دھاندلی ہے۔ قرآن کہہ رہا ہے ﴿فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ ﴾یعنی مسلمان انفرادی طور پر جس جس عورت کو پسند کریں اس سے نکاح کرلیں اور آپ اسے اجتماعی فیصلہ قرار دے رہے ہیں۔ سو یہ ہے پرویز صاحب کی قرآنی بصیرت، جو دراصل اس مغربی تخیل کی پیداوار ہے جس میں ایک سے زائد بیویوں سے نکاح کو مذموم فعل سمجھا جاتا ہے۔ بات بالکل صاف تھی کہ اسلام نے حکم تو ایک بیوی سے نکاح کرلینے کا دیا ہے۔ البتہ اجازت چار بیویوں تک ہے۔ تعدد ازواج اجازت ہے حکم نہیں۔ اور اس اجازت کی وجہ یہ ہے کہ قرآن ہر ایک کے لیے اور ہر دور کے لیے تاقیامت دستور حیات ہے۔ لہٰذا کسی بھی ملک اور کسی بھی دور کے لوگ اپنے اپنے رسم و رواج یا ضروریات کے مطابق اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ مثلاً ہمارے ملک پاکستان میں عورت کی علیحدہ ملکیت کا تصور نہیں۔ مرد اگر گھر والا ہے تو عورت گھر والی ہے لہٰذا یہاں اگر کوئی دو بیویاں کرلے تو بے شمار پریشان کن مسائل اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ لہٰذا یہاں اگر کوئی دوسری یا تیسری بیوی کرتا ہے تو یقینا کسی خاص ضرورت کے تحت کرتا ہے اور ملک کی ٩٥ فیصد آبادی اس اجازت سے فائدہ نہیں اٹھاتی اور ایک ہی بیوی کو درست سمجھتی ہے۔ اس کے برعکس عرب میں آج بھی بیوی کی الگ ملکیت کا تصور موجود ہے۔ لہٰذا وہاں چار تک بیویاں کرنے پر بھی بیویوں کی باہمی رقابت اور خاوند کو پریشان کرنے والے مسائل بہت کم پیدا ہوتے ہیں۔ پھر وہاں طلاق کو بھی کوئی ایسا جرم نہیں سمجھا جاتا جس سے دو خاندانوں میں ایسی عداوت ٹھن جائے جیسی پاکستان میں ٹھن جاتی ہے۔ لہٰذا وہاں نصف سے زیادہ آبادی قرآن کی اس اجازت سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ لہٰذا شرعی لحاظ سے نہ پاکستان کے رواج کو مورد الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے اور نہ عرب کے رواج کو۔ ایک سے زیادہ بیویوں کو مذموم فعل سمجھنے کے اس مغربی تخیل کی بنیادیں دو ہیں : پہلی بنیاد فحاشی، بدکاری، داشتائیں رکھنے کی عام اجازت اور جنسی آوارگی ہے جسے مغرب میں مذموم فعل کی بجائے عین جائز بلکہ مستحسن فعل سمجھا جاتا ہے۔ اور دوسری بنیاد مادیت پرستی ہے۔ جس میں ہر شخص یہ تو چاہتا ہے کہ اس کا معیار زندگی بلند ہو اور اولاد کو اعلیٰ تعلیم دلائے مگر ان باتوں پر چونکہ بے پناہ اخراجات اٹھتے ہیں جو ہر انسان پورے نہیں کرسکتا، لہٰذا وہ اس بات کو ترجیح دیتا ہے کہ اس کے ہاں اولاد ہی نہ ہو یا کم سے کم ہو۔ اور ظاہر ہے کہ ایسا معاشرہ تو ایک بیوی بھی بمشکل برداشت کرتا ہے اور وہ بہتر یہی سمجھتا ہے کہ بیوی ایک بھی نہ ہو اور سفاح یا بدکاری سے ہی کام چلتا رہے۔ لیکن اسلام سب سے زیادہ زور ہی مرد اور عورت کی عفت پر دیتا ہے اور ہر طرح کی فحاشی کو مذموم فعل قرار دیتا ہے اور معیار زندگی کو بلند کرنے کی بجائے سادہ زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے اسی لیے اس نے اقتضاء ات اور حالات کے مطابق چار بیویوں تک کی اجازت دی ہے۔ اب بتائیے کہ اس مغربی تخیل اور اسلامی تخیل میں مطابقت کی کوئی صورت پیدا کی جا سکتی ہے؟۔ نکاح ثانی کے لئے پہلی بیوی سے اجازت لینے کا قانون :۔ اسی مغربی تخیل سے اور بعض 'مہذب خواتین' کے مطالبہ سے متاثر ہو کر صدر ایوب کے دور میں پاکستان میں مسلم عائلی قوانین کا آرڈیننس ١٩٦١ ء پاس ہوا۔ جس میں ایک شق یہ بھی تھی کہ اگر مرد شادی شدہ ہو اور دوسری شادی کرنا چاہتا ہو تو وہ سب سے پہلے اپنی پہلی بیوی سے اس دوسری شادی کی رضامندی اور اجازت تحریراً حاصل کرے، پھر ثالثی کونسل سے اجازت نامہ حاصل کرے اور اگر ثالثی کونسل بھی اجازت دے تو تب ہی وہ دوسری شادی کرسکتا ہے۔ جیسا کہ اس آرڈیننس کی شق نمبر ٢١ اور ٢٢ سے واضح ہوتا ہے۔ گویا حکومت نے نکاح ثانی پر ایسی پابندیاں لگا دیں کہ کوئی شخص کسی انتہائی مجبوری کے بغیر دوسرے نکاح کی بات سوچ بھی نہ سکے اور عملاً اس اجازت کو ختم کردیا جو اللہ تعالیٰ نے مرد کو دی تھی۔ کیونکہ کوئی عورت یہ گوارا نہیں کرسکتی کہ اس کے گھر میں اس کی سوکن آ جائے۔ اب جو لوگ دوسری شادی کرنا چاہتے تھے اور پہلی بیوی کے رویہ سے نالاں تھے یا کسی اور مقصد کے لیے دوسری شادی ضروری سمجھتے تھے انہوں نے اس غیر فطری پابندی کا آسان حل یہ سوچا کہ پہلی بیوی کو طلاق دے کر رخصت کردیا جائے اور بعد میں آزادی سے دوسری شادی کرلی جائے۔ اس طرح جو قانون عورتوں کے حقوق کی محافظت کے لیے بنایا گیا تھا وہ خود انہی کی پریشانی کا موجب بن گیا۔ کیونکہ اللہ کے احکام کی ایسی غیر فطری تاویل اللہ کی آیات کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ اور ایسے معاشرہ کو اس کی سزا مل کے رہتی ہے۔ ایک عورت چار اور چار شوہر :۔ پھر کچھ دریدہ دہن مغرب زدہ آزاد خیال عورتوں نے یہ اعتراض بھی جڑ دیا کہ یہ بھلا کہاں کا انصاف ہے کہ مرد تو چار چار عورتوں سے شادی کرلے اور عورت صرف ایک ہی مرد پر اکتفا کرے؟ اور یہ تو ظاہر ہے کہ ایسا اعتراض کوئی ایسی حیا باختہ عورت ہی کرسکتی ہے جو یہ چاہتی ہے کہ اسے بھی بیک وقت کم از کم چار مردوں تک سے نکاح کی اجازت ہونی چاہیے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جنسی خواہش جیسے انسانوں میں ہوتی ہے ویسے ہی حیوانوں میں بھی ہوتی ہے۔ اور مرد کو تو چار بیویوں کی اجازت ہے جبکہ ہم گوالوں کے ہاں دیکھتے ہیں کہ اگر ایک گوالے نے بیس بھینسیں رکھی ہوئی ہیں تو بھینسا صرف ایک ہی ہوتا ہے۔ کیا کبھی ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی گوالے نے بھینسے تو بیس رکھے ہوں اور بھینس صرف ایک ہی ہو خود ہی غور فرما لیجئے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے اور ایسا کیوں نہیں ہوتا ؟ بات دراصل یہ ہے کہ مرد تو اپنی جوانی کے ایام میں اپنی جنسی خواہش کو پورا کرنے کے لیے ہر وقت مستعد ہوتا ہے مگر عورت کی ہرگز یہ کیفیت نہیں ہوتی۔ ہر ماہ حیض کے ایام میں اسے اس فعل سے طبعاً نفرت ہوتی ہے۔ پھر مرد تو صحبت کے کام سے دو تین منٹ میں فارغ ہوجاتا ہے اور اس سے آگے اولاد کی پیدائش میں کچھ حصہ نہیں ہوتا۔ جبکہ عورت کو حمل قرار پا جائے تو پورے ایام حمل میں، پھر اس کے بعد رضاعت کے ایام میں بھی وہ طبعاً اس فعل کی طرف راغب نہیں ہوتی۔ البتہ اپنے خاوند کی محبت اور اصرار کی وجہ سے اس کام پر آمادہ ہوجائے تو اور بات ہے اور بسا اوقات عورت انکار بھی کردیتی ہے۔ لیکن مرد اتنی مدت صبر نہیں کرسکتا۔ اب اس کے سامنے دو ہی راستے ہوتے ہیں۔ یا تو اور نکاح کرے یا پھر فحاشی کی طرف مائل ہو۔ اور اسلام نے پہلی صورت کو ہی اختیار کیا ہے۔ پھر مرد اگر چار بیویاں بھی رکھ لے تو اس سے نہ نسب میں اختلاط پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی میراث کے مسائل میں کوئی الجھن پیش آتی ہے۔ جبکہ عورت اگر دو مردوں سے بھی اختلاط رکھے تو اس سے نسب بھی مشکوک ہوجاتا ہے۔ کیونکہ نسب کا تعلق مرد سے ہے، عورت سے نہیں۔ اور میراث کے مسائل میں بھی پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ اب ان باتوں کو درخور اعتناء نہ سمجھئے اور صرف اس بات پر غور فرمائیے کہ اگر عورت کو چار شوہروں کی اجازت دی جائے تو وہ رہے گی کس کے گھر میں؟ اور کون اس کے نان و نفقہ اور اس کی اولاد کے اخراجات کا ذمہ دار بنے گا ؟ پھر کیا ایک شوہر یہ برداشت کرلے گا کہ اس کی بیوی علیٰ الاعلان دوسروں کے پاس بھی جاتی رہے۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ آپ شریعت کو بالائے طاق رکھئے اور چار شوہروں والی بات کا تجربہ کر کے دیکھئے کہ اس سے کس طرح ایک معاشرہ چند ہی سالوں میں تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔ کوئی اسلام سے انکار کرتا ہے تو کرے مگر اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ شرعی احکام انسانی مصالح پر ہی مبنی ہوتے ہیں۔ اب اس مسئلہ پر ایک اور پہلو سے غور فرمائیے۔ اس حقیقت سے تو سب لوگ آشنا ہیں کہ جوانی کے ایام میں ہر شخص میں شہوانی جذبات اپنی انتہا کو پہنچے ہوئے ہوتے ہیں اور پھر نوجوان اور تندرست مرد اس قابل ہوتا ہے کہ کم از کم ایک دن میں ایک بار جماع کرے تب بھی اس کی صحت خراب نہ ہو۔ اور اگر اس جذبہ شہوانی کو طویل مدت تک دبائے رکھا جائے تو اس سے انسان کے بیمار پڑجانے کا خدشہ ہوتا ہے۔ ان حالات میں انسان کے سامنے تین ہی راستے ہوتے ہیں : رہبانیت کے نتائج :۔ پہلا یہ کہ اس جذبہ کو مختلف تدبیروں سے دبا دیا جائے۔ خواہ یہ خصی ہونے سے ہو یا انتہائی قلیل خوری سے۔ جیسا کہ جوگی، سادھو یا رہبان قسم کے لوگ کرتے ہیں۔ اس طریق کے غیر فطری ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ اور اس کا سب سے بڑا نقصان نسل انسانی کا انقطاع ہے اور اس کا دوسرا نقصان یہ ہے کہ فحاشی چور دروازے تلاش کرنے لگتی ہے۔ اس قسم کے لوگ تقدس کے پردوں میں زنا کاری کے مرتکب ہوتے ہیں۔ عیسائی مذہب میں اس کا رواج عام تھا۔ ایسے درویش قسم کے مرد اور عورتیں جو ساری عمر جنسی جھمیلوں سے آزاد رہ کر کلیسا کی خدمت کے لیے مامور ہوتے تھے ان میں خفیہ طور پر حرام کاری کا وسیع سلسلہ پایا جاتا تھا اور حرامی بچوں کو مختلف طریقوں سے ٹھکانے لگا دیا جاتا تھا اور ایسے بے شمار واقعات تاریخ کے صفحات پر آج بھی ثبت ہیں۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ شہوانی خواہشات کو بلاجھجک کھلے بندوں پورا کیا جائے۔ اہل مغرب کے ادیب قسم کے لوگوں نے نکاح کی پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے ایک صدی سے زیادہ عرصہ اس مہم پر صرف کیا اور بالآخر وہ ایسی فحاشی کو عام کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ان لوگوں کا طرز استدلال یہ تھا کہ انسان کی تین ضرورتیں لابدی ہیں : بھوک، نیند اور جنسی ملاپ۔ ان کو اگر پورا نہ کیا جائے تو انسان کی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ نیند تو بہرحال اپنا حق وصول کر ہی لیتی ہے۔ بھوک کا معاملہ یہ ہے کہ اگر وہ بھوک کے وقت گھر پر نہیں تو بازار سے، ہوٹل سے، عزیز و اقارب سے، جہاں بھی وہ ہو اپنی یہ ضرورت پوری کر ہی لیتا ہے اور اس کے لیے وہ محض اپنے گھر کا محتاج نہیں ہوتا۔ تو جیسی ضرورت غذائی بھوک کی ہے ویسی ہی جنسی بھوک کی بھی ہے لہٰذا صرف اپنی بیوی سے ہی ملاپ کا تصور غیر فطری ہے۔ نیز اگر کسی کو بیوی بھی میسر نہ آسکے تو وہ کیا کرے؟ کیا جنسی آوارگی ایک لابدی ضرورت ہے :۔ اس استدلال میں غذائی بھوک اور جنسی بھوک کو ایک ہی سطح پر رکھ کر پیش کیا گیا ہے حالانکہ یہ بات اصولی طور پر غلط ہے اور اس کی وجوہ درج ذیل ہیں : ١۔ غذائی بھوک کا اس کے سوا کوئی علاج نہیں کہ پیٹ کا تنور غذا سے پر کیا جائے لیکن جنسی بھوک کا علاج فطرت نے از خود کردیا ہے۔ جب انسان میں مادہ منویہ زیادہ ہوجائے تو بذریعہ احتلام یہ مادہ خارج ہوجاتا ہے اور یہ جنسی بھوک از خود کم ہوتی رہتی ہے۔ ٢۔ جنسی بھوک کو کم خوری اور روزہ رکھنے سے بھی کم کیا جا سکتا ہے لیکن غذائی بھوک کا شکم پروری کے سوا کوئی علاج نہیں ہوتا۔ ٣۔ غذائی بھوک از خود پیدا ہوتی ہے جبکہ جنسی بھوک کو بہت حد تک خود پیدا کیا جاتا ہے۔ آپ خود کو شہوانی خیالات اور ماحول سے محفوظ رکھ سکتے ہیں اور اگر آپ شہوانی جذبات کے ماحول میں مستغرق رہنے کے بجائے دوسرے مفید کاموں میں اپنے آپ کو مصروف رکھیں گے تو یہ جنسی بھوک بیدار ہی نہ ہوگی۔ اور اگر شہوانی خیالات اور ماحول میں مستغرق رہیں گے، فحش قسم کا لٹریچر اور ناول پڑھیں گے، سنیما اور ٹیلی ویژن پر رقص و سرود کے پروگرام دیکھیں گے، زہد شکن قسم کے گانے سنیں گے اور جنسی جذبات کو ہیجان میں رکھنے والے ماحول میں رہیں گے تو یہ جنسی بھوک اپنے عروج پر پہنچ جائے گی۔ گویا اس جنسی بھوک کو پیدا کرنا نہ کرنا، اعتدال پر رکھنا اور پروان چڑھانا بہت حد تک انسان کے اپنے اختیار میں ہوتا ہے جبکہ غذائی بھوک پر کنٹرول انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتا۔ ہمارے اس دعویٰ کی تصدیق کے لیے کیا یہ بات کافی نہیں کہ آج کے معاشرہ میں بھی آپ کو ایسے تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان اور عفیف بچے کافی تعداد میں مل سکتے ہیں جن کی بیس پچیس برس کی عمر تک شادی نہیں ہوتی اور ان کی زندگی بےداغ ہوتی ہے۔ حالانکہ جنسی جذبات دس گیارہ سال کی عمر کے بعد بیدار ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ اعتدال کا راستہ :۔ اور تیسرا راستہ دونوں کے درمیان اعتدال کا ہے جو اسلام نے اختیار کیا ہے کہ شہوانی جذبہ چونکہ فطری جذبہ ہے لہٰذا اسے روکنا غیر فطری بات ہے۔ تاہم اسے ایسا بے لگام بھی نہیں چھوڑا گیا جس سے معاشرتی بنیادوں کے انجر پنجر ہی ہل جائیں بلکہ اسے نکاح کی شرائط سے پابند بنا دیا گیا ہے۔ اور یہ بات تو ہم پہلے واضح کرچکے ہیں کہ شہوانی ہیجان مرد میں اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ بسا اوقات ایک بیوی اس کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ لہٰذا فحاشی اور بے حیائی سے اجتناب کے لیے تعدد ازواج ضروری تھا اور یہی راستہ فطری اور اسلامی ہے اور اسی راستہ کو اکثر انبیائے کرام نے اختیار کیا ہے جو مختلف ادوار میں انسانی معاشرہ کی اصلاح کے لیے مبعوث ہوتے رہے ہیں۔ اور اس سے ان لوگوں کے نظریہ کی تردید بھی ہوجاتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام میں اصل حکم صرف ایک عورت سے نکاح کا ہے۔ حالانکہ یہ مسئلہ معاشرہ کا ایک نہایت اہم اور بنیادی مسئلہ ہے لہٰذا اگر اسلام یک زوجگی کا قائل ہوتا تو اس کے متعلق نہایت واضح اور صریح حکم کا آنا لابدی تھا اس لیے کہ عرب میں تعدد ازواج کا رواج اس قدر زیادہ تھا کہ اسلام کو اس میں تحدید کرنا پڑی۔ [٦۔ ١] کنیزوں سے تمتع کی شرائط کے لیے اسی سورۃ کا حاشیہ نمبر ٤٠ ملاحظہ فرمائیے۔ النسآء
4 [٧] یتیم لڑکیوں اور ان کے حق مہر کا بیان شروع ہوا تو عام عورتوں کے حق مہر کے متعلق بھی تاکید فرما دی کہ ان کے حق مہر انہیں برضا و رغبت پورے کے پورے ادا کردیئے جائیں۔ ہاں اگر وہ از خود بلاجبر و اکراہ اپنی خوشی سے یہ حق مہر یا اس کا کچھ حصہ چھوڑ دیں تو وہ تمہارے لیے حلال اور طیب رزق ہے لیکن ان کا حق مہر یا اس کا کچھ حصہ معاف کرانے میں ہیرا پھیری سے ہرگز کام نہ لیا جائے۔ حق مہر کا تعین :۔ یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حق مہر کتنا ہونا چاہیے؟ اس سلسلہ میں سب سے پہلے ہمیں سنت نبوی کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ چنانچہ ابو سلمہ رضی اللہ عنہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویوں کا مہر کتنا تھا ؟ تو انہوں نے کہا کہ ’بارہ اوقیہ چاندی اور نش‘ پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے پوچھا، جانتے ہو نش کیا ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ تو کہنے لگیں : نش سے مراد نصف ہے اور یہ کل ساڑھے بارہ اوقیہ چاندی یا پانچ سو درہم ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنی بیویوں کے لیے یہی حق مہر تھا۔ (مسلم : کتاب النکاح، باب الصداق) اسی سلسلہ میں دوسری روایت اس طرح ہے کہ ابو العجفاء کہتے ہیں کہ ایک دفعہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبہ کے دوران لوگوں سے فرمایا کہ ’’دیکھو! عورتوں کے حق مہر بڑھ چڑھ کر نہ باندھا کرو، کیونکہ اگر مہر بڑھانا دنیا میں کوئی عزت کی بات ہوتی یا اللہ کے ہاں تقویٰ کی بات ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سب سے زیادہ حقدار تھے۔ اور میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی کسی بیوی کا یا اپنی کسی بیٹی کا حق مہر بارہ اوقیہ چاندی سے زیادہ باندھا ہو۔‘‘ (ترمذی : ابو اب النکاح : باب ماجاء فی مھور النسائ) ہم ان دونوں روایات میں سے مسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث کے مطابق ساڑھے بارہ اوقیہ چاندی (ایک اوقیہ = ٤٠ درہم) یا ٥٠٠ درہم والی روایت کو ترجیح دیتے ہیں۔ درہم چاندی کا ایک سکہ تھا۔ جس کا وزن ٢؍١۔ ٤ ماشہ چاندی تھا۔ اس حساب سے یہ ٥٠٠ x ٢/٩ x ١٢/١ = ٢/٣٧٥=٢/١۔ ١٨٧ تولے چاندی ہوئی اور اگر موجودہ حساب سے ١٥٠ روپیہ فی تولہ فرض کیا جائے تو یہ آج کل =/٢٨١٢٥ روپے پاکستانی بنتے ہیں۔ اور اس کی دوسری صورت یہ ہے کہ ٢٠ درہم=ایک دینار۔ اور دینار ٢/١۔ ٣ ماشہ سونے کا سکہ تھا۔ اس لحاظ سے یہ ٢٠/٥٠٠= ٢٥ دینار ہوئے۔ جن کا وزن ٢٥ x ٢٤/٧ تولے بنتا ہے اور اگر ایک تولہ سونا کا نرخ ٤٥٠٠ روپے فی تولہ لگایا جاے تو یہ =/٣٢٨١٢ روپے پاکستانی بنتے ہیں اور اگر ان دونوں رقموں کا اوسط نکالا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیویوں اور بیٹیوں کا پاکستان کی موجودہ کرنسی کے حساب سے تیس ہزار روپے حق مہر مقرر کیا تھا اور یہ وہ رقم ہے جس کے متعلق سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ لوگو! اس سے زیادہ حق مہر نہ باندھا کرو۔ اب اسی سے متعلق ایک تیسری روایت بھی ملاحظہ فرمائیے۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ لوگوں سے یہ خطاب فرما رہے تھے تو ایک عورت پکار اٹھی (کیونکہ یہ بات عورتوں کے حقوق سے تعلق رکھتی تھی) کہ ’’تم یہ کیسے پابندی لگا سکتے ہو جبکہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے: ﴿وَّاٰتَیْتُمْ اِحْدٰیھُنَّ قِنْطَارًا﴾ (4: 2)یعنی اگرچہ تم اپنی کسی بیوی کو خزانہ بھر بھی بطور حق مہر دے چکے ہو۔ عورت کی یہ بات سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بے ساختہ پکار اٹھے۔ ’’پروردگار! مجھے معاف فرما، یہاں تو ہر شخص عمر رضی اللہ عنہ سے زیادہ فقیہ ہے۔‘‘ پھر منبر پر چڑھے اور کہا ’’لوگو! میں نے تمہیں چار سو درہم سے زیادہ حق مہر باندھنے سے روکا تھا۔ میں اپنی رائے واپس لیتا ہوں۔ تم میں سے جو جتنا چاہے، مہر میں دے۔‘‘ ان احادیث کے علاوہ ایک اور متفق علیہ حدیث ہمیں سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے متعلق ملتی ہے کہ انہوں نے ایک کھجور کی گٹھلی بھر سونا حق مہر کے عوض ایک انصاری عورت سے نکاح کیا تھا لیکن یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ وہ گٹھلی کتنی بڑی یا چھوٹی تھی اور اس کا وزن کتنا تھا۔ سونا چونکہ سب سے وزنی دھات ہے اس لیے گمان یہی ہے کہ وہ بھی چھ سات تولے سونے کے لگ بھگ ہوگی۔ کم سے کم حق مہر کے متعلق بھی ایک حدیث تقریباً سب کتب حدیث میں موجود ہے کہ ’’ایک عورت نے اپنا نفس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہبہ کیا مگر آپ خاموش رہے۔ اتنے میں ایک شخص بول اٹھا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اگر آپ نہیں چاہتے تو اس عورت کا مجھ سے نکاح کر دیجئے! آپ نے اس سے پوچھا تمہارے پاس حق مہر دینے کے لیے کوئی چیز ہے؟ وہ کہنے لگا کچھ نہیں ماسوائے اس چادر کے جو میں نے لپیٹ رکھی ہے۔ آپ نے فرمایا : یہ چادر تم رکھو گے یا اسے دو گے۔ جاؤ کوئی لوہے کی انگوٹھی ہی ڈھونڈ لاؤ۔ وہ گیا لیکن اسے وہ بھی نہ ملی اور واپس آ گیا تو آپ نے اس سے پوچھا کہ کچھ قرآن یاد ہے؟ کہنے لگا ہاں! فلاں فلاں سورت یاد ہے۔ آپ نے فرمایا، اچھا وہی سورتیں اس کو (بطورِ حق مہر) زبانی یاد کرا دینا۔‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک لوہے کی انگوٹھی بھی حق مہر ہو سکتی ہے۔ اس حدیث سے بعض فقہاء اس بات کے قائل ہیں کہ حق مہر کی کم از کم حد ربع دینار یا پانچ درہم ہے اور بعض یہ حد نصف دینار یا دس درہم قرار دیتے ہیں۔ ان تمام احادیث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حق مہر خاوند کی حیثیت کے مطابق ہونا چاہیے اور ایسا ہونا چاہیے جس پر فریقین راضی اور مطمئن ہوں اور آج کل پاکستانی کرنسی کے حساب سے اس کا درمیانی سا معیار تیس ہزار روپے ہے۔ حق مہر کے بارے میں افراط وتفریط :۔ اس تحقیق کے بعد اب اپنے ہاں کے رواج کی طرف آئیے کہ اس معاملہ میں بھی لوگ کس طرح افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ ایک قسم تو ان لوگوں کی ہے جو شادی پر تو لاکھوں کے حساب سے خرچ کردیتے ہیں مگر جب حق مہر کی باری آتی ہے تو کہتے ہیں کہ حق مہر شرعی باندھ دیجئے اور شرعی حق مہر سے ان کی مراد ٣٢ روپے ہوتی ہے۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یہ حساب کسی عالم نے اس دور میں لگایا ہوگا جب متحدہ ہندوستان میں ایک روپے کا چار سیر دیسی گھی مل جاتا تھا۔ ملازمین کی تنخواہ ٢ روپے ماہوار سے لے کر ٤ روپے تک ہوتی تھی اور سونے کا بھاؤ تقریباً پانچ روپے تولہ ہوتا تھا یعنی اس وقت بھی ٣٢ روپے کا چھ سات تولے سونا آ جاتا تھا۔ اب صورت حال یہ ہوئی کہ روپے کی قیمت تو ہزار گنا گر چکی ہے مگر ٣٢ روپے لوگوں کو اسی زمانہ کے یاد ہیں۔ یہ لوگ تو تفریط کی طرف چلے گئے۔ دوسرا گروہ ایسا ہے کہ جو شوہر کی حیثیت سے بہت زیادہ حق مہر کا مطالبہ کردیتے ہیں۔ مثلاً شوہر کی حیثیت دس پندرہ ہزار سے زیادہ نہیں لیکن وہ مطالبہ ایک لاکھ کا کردیتے ہیں اور زبانی یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ رقم لینی دینی کس نے ہے۔ ہماری غرض تو صرف یہ ہے کہ نکاح نامہ میں اندراج ہوجائے اور اس بھری مجلس میں ذرا ہماری شان بن جائے۔ باقی نکاح کے بعد میاں بیوی اکٹھے ہوں گے تو ہماری لڑکی یہ رقم بخش دے گی۔ یہ لوگ افراط کی طرف جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ شریعت میں ایسی حیلہ سازیوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ حق مہر لڑکی کی طرف سے معاف کروانا غلط اور گناہ کی بات ہے۔ ہاں اگر وہ کسی کے دباؤ کے بغیر اپنی رضا و رغبت سے حق مہر سارا یا اس کا کچھ حصہ معاف کر دے تو یہ اور بات ہے۔ پھر کچھ لوگ ایسے ہیں جو حق مہر کے نام پر اپنی لڑکیوں کو حقیقتاً فروخت کرتے ہیں۔ وہ حق مہر کی کثیر رقم کا مطالبہ کرتے ہیں اور وصول کر کے یہ رقم لڑکی کو نہیں دیتے بلکہ خود کھاتے ہیں اور جب تک انہیں اپنی حسب پسند رقم نہ ملے وہ لڑکیوں کا نکاح ہی نہیں کرتے خواہ وہ بوڑھی ہونے لگیں۔ ایسے لوگ چند در چند کبیرہ گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ حق مہر کی رقم لڑکی کا حق ہوتا ہے اس کے والدین کا نہیں اور اس پر دلیل نکاح شغار کی ممانعت ہے۔ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نکاح شغار سے منع فرمایا ہے اور نکاح شغار یہ تھا کہ ایک شخص اپنی بیٹی کو اس شرط پر دوسرے شخص سے بیاہ دیتا تھا کہ وہ دوسرا اسے اپنی بیٹی بیاہ دے اور حق مہر کسی کو بھی نہ دینا پڑے۔ (مسلم۔ کتاب النکاح باب تحریم نکاح الشغار و بطلانہ) یعنی ہر لڑکی کا ولی یا باپ حق مہر کا ذکر تک اس لیے نہ کرتا تھا کہ وہ اسے ادا کرنا پڑتا تھا اس طرح وہ حق مہر سے لڑکیوں کو محروم کر کے یہ رقم خود ہضم کر جاتے تھے۔ پھر کچھ لوگ ایسے ہیں کہ اگر عورت حق مہر کی رقم معاف نہ کرے تو اسے طرح طرح سے دکھ پہنچانا شروع کردیتے ہیں اور اس دکھ پہنچانے کی بھی بہت سی صورتیں ہیں۔ ایسی سب باتیں حرام اور گناہ ہیں راہ صواب یہی ہے کہ جو حق مہر طے ہوا ہو وہ بیویوں کو بخوشی ادا کردیا جائے۔ النسآء
5 [٨] نادان کے حقوق کی ملکیت کی حد :۔ اس آیت میں نادان سے مراد صرف نادان یتیم ہی نہیں بلکہ کوئی بھی فرد ہوسکتا ہے مثلاً چھوٹا بھائی نادان ہے تو بڑا بھائی اسے اس کا مال نہ دے اور چھوٹا عقلمند اور بڑا نادان ہے تو چھوٹا بھائی اس کا مال اس کے تصرف میں نہ رکھے۔ وجہ یہ ہے کہ مال تو ذریعہ قیام زندگی ہے اگر کسی نادان کے ہتھے چڑھ جائے گا تو وہ فضول، ناجائز یا گناہ کے کاموں میں اجاڑ دے گا اور اس کے برے اثرات تمام معاشرہ پر پڑیں گے۔ حقوق ملکیت جو کسی شخص کو اپنی املاک پر ہوتے ہیں اتنے غیر محدود نہیں کہ اگر وہ اس چیز کو صحیح طور پر استعمال کرنے کا اہل نہ ہو تب بھی اس کے حقوق سلب نہ کیے جا سکیں۔ ایسی صورتوں میں اس نادان کا کوئی قریبی رشتہ دار یا حکومت اس کے مال پر تصرف رکھے گی۔ اس کی خوراک اور پوشاک اسے اس کے مال سے مہیا کی جائے اور جو بات اس سے کہی جائے اس کی بھلائی کو ملحوظ رکھ کر کہی جائے۔ اور اگر یتیم کا مال تجارت یا مضاربت پر لگایا جا سکتا ہو تو اسے تجارت پر لگایا جائے اور منافع سے اس کی خوراک اور پوشاک کے اخراجات پورے کیے جائیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ’’یتیموں کا مال تجارت پر لگایا کرو۔ ایسا نہ ہو کہ زکوٰۃ ہی ان کے مال کو کھا جائے۔‘‘ اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ یتیموں کے مال بھی اگر حد نصاب کو پہنچ جائیں تو ان پر بھی زکوٰۃ لاگو ہوگی اور دوسری یہ کہ جہاں تک ممکن ہو یتیموں سے اور ان کے اموال سے خیر خواہی ضروری ہے۔ النسآء
6 [٩] نادان کو مال کی واپسی کی شرائط :۔ گویا یتیموں کو ان کا مال واپس کرنے کے لیے دو شرطیں ہیں۔ ایک بلوغت دوسرے رشد۔ یعنی مال کے صحیح طور پر استعمال کرنے کی اہلیت۔ یہ اہلیت معلوم کرنے کے لیے تمہیں ان کا تجربہ کرتے رہنا چاہیے اور یہ چیزیں معمولی معمولی باتوں سے بھی معلوم ہوجاتی ہے کہ آیا وہ کفایت شعار ہے یا اجاڑنے والا ہے۔ خرید و فروخت کیسے کرتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور جب تک یہ دونوں شرطیں نہ پائی جائیں اس کا مال اس کے حوالہ نہ کرنا چاہیے اور اس صورت میں اس کا حکم وہی ہوگا جو مذکورہ بالا آیت میں نادانوں کے سلسلہ میں ذکر ہوا ہے۔ بلوغت کے لیے عمر کی کوئی حد مقرر نہیں۔ گرم ممالک میں لڑکے لڑکیاں جلد بالغ ہوجاتے ہیں۔ جبکہ سرد ممالک میں دیر سے ہوتے ہیں۔ البتہ لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے کچھ ایسی علامات ضرور ہیں جو ان کے بالغ ہونے کا پتہ دیتی ہیں مثلاً لڑکوں کو احتلام ہونا اور عورتوں کو حیض آنا۔ اور چھاتیوں کا ابھر آنا خاص علامات ہیں۔ پھر کچھ علامات ایسی بھی ہیں جو ان دونوں نوعوں میں یکساں پائی جاتی ہیں۔ جیسے عقل داڑھ کا اگنا۔ آواز کا نسبتاً بھاری ہونا جسے گھنڈی پھوٹنا بھی کہتے ہیں اور بغلوں کے نیچے اور زیر ناف بال اگنا اور صرف مردوں کے لیے داڑھی اور مونچھ کے بال اگنا ہے اور ان سب میں سے پکی علامتیں وہی ہیں جو پہلے مذکور ہوئیں یعنی لڑکوں کو احتلام اور عورتوں کو حیض آنا۔ واضح رہے کہ پاکستان میں نکاح نامہ پر بلوغت کی جو عمر درج ہے کہ لڑکی ١٦ سال سے اور لڑکا ١٨ سال سے کم نہ ہو یہ حد بندی غیر شرعی ہے۔ اور بالغ ہونے کے بعد ہی نکاح کی قید لگانا بھی غیر شرعی ہے۔ نیز اس میں نکاح ثانی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت حاصل کرنے کی شرط بھی غیر شرعی ہے۔ اسی طرح عورت کے حق طلاق کی شق بھی غیر شرعی ہے۔ [١٠] یہاں پھر دو ایسی باتوں کا ذکر ہوا ہے جن سے یتیم کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ایک یہ کہ ضرورت سے زیادہ مال خرچ کیا جائے اور دوسرے یہ کہ بلا ضرورت یا ضرورت پیش آنے سے پہلے ہی خرچ کیا جائے تاکہ وہ بڑے ہو کر اس کا مطالبہ نہ کرنے لگیں۔ اور یہ سب بددیانتی کی راہیں ہیں جن سے یتیم کا نقصان ہوجاتا ہے لہٰذا ہر ایسی صورت سے منع کیا جا رہا ہے۔ [١١] یتیم کے ولی کا حق الخدمت :۔ یتیم کا متولی اگر کوئی کھاتا پیتا شخص ہے تو اسے یتیم کے مال میں سے حق الخدمت کے طور پر کچھ لینا قطعاً ناجائز ہے۔ ہاں اگر متولی تنگدست ہے تو مال کے تجارت پر لگانے اور حق المحنت کے طور پر ایسا واجبی سا خرچہ لے سکتا ہے جسے کوئی غیر جانبدار آدمی بھی واجبی قرار دے۔ نیز جو کچھ وہ حق الخدمت لے چوری چھپے نہ لے۔ بلکہ اعلانیہ متعین کر کے لے اور اس کا حساب رکھے۔ [١٢] جب یتیم میں مندرجہ بالا دونوں شرطیں پائی جائیں تو اس کا مال اسے واپس کردیا جائے اور اس پر دو گواہ بھی بنا لیے جائیں تاکہ بعد میں اگر کوئی جھگڑا ہو یا کوئی چیز بعد میں یاد آئے تو اس کا تصفیہ کرنے میں آسانی رہے اور اگر یہ تحریری صورت میں ہو تو اور بھی بہتر ہے۔ اور پوری دیانتداری سے یہ فریضہ سرانجام دو۔ کیونکہ سب سے بڑا گواہ تو اللہ تعالیٰ ہے۔ اور بددیانتی کی صورت میں پورا پورا حساب لینے پر قادر بھی ہے۔ النسآء
7 [١٣] عورتوں اور بچوں کا میراث میں حصہ :۔ عرب میں عورتوں کو میراث میں شامل کرنے کا دستور نہ تھا بلکہ عورت خود ورثہ شمار ہوتی تھی۔ اس آیت کی رو سے اللہ تعالیٰ نے عورت کو اس ذلت کے مقام سے نکال کر وراثت میں حصہ دار بنا دیا۔ نیز اس آیت سے مندرجہ ذیل احکام مستنبط ہوتے ہیں ( : ١) میراث میں عورتوں کا حصہ (٢) ورثہ خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ جائیداد خواہ منقولہ ہو یا غیر منقولہ بہرحال وہ تقسیم ہوگا۔ (٣) قریبی رشتہ داروں کی موجودگی میں دور کے رشتہ دار محروم ہوں گے (٤) ان قریبی رشتہ داروں کا حصہ بھی مقرر ہے جس کی تفصیل اسی سورۃ کی آیت نمبر ١١ اور نمبر ١٢ میں آ رہی ہے (٥) عورتوں کے علاوہ چھوٹے لڑکوں کو بھی وراثت سے محروم رکھا جاتا تھا اور ورثہ کے مالک صرف وہ بیٹے سمجھے جاتے تھے جو دشمنوں سے لڑنے اور انتقام لینے کے اہل ہوں۔ اس آیت کی رو سے چھوٹے لڑکوں کو بھی برابر کا حق دلایا گیا اور حقیقتاً یہی بچے یتیم ہوتے تھے۔ النسآء
8 [١٤] ترکہ کی تقسیم کے وقت اگر کچھ محتاج، یتیم اور فقیر قسم کے لوگ یا دور کے رشتہ دار آ جائیں تو ازراہ احسان انہیں بھی کچھ نہ کچھ دے دیا کرو۔ تنگ دلی یا تنگ ظرفی سے کام نہ لو اور اگر ایسا نہ کرسکو تو کم از کم انہیں نرمی سے جواب دے دو۔ مثلاً یہ کہہ دو کہ یہ مال یتیموں کا ہے۔ یا یہ کہ میت نے ایسی کوئی وصیت نہیں کی تھی۔ وغیرہ، وغیرہ۔ النسآء
9 [١٥] یعنی اگر تم اس حال میں مر جاؤ کہ پیچھے چھوٹی چھوٹی اولاد چھوڑ جاؤ تو تمہیں یہ ضرور خیال آئے گا کہ میرے بعد ان بچوں سے بہتر سلوک ہو۔ ایسے ہی جو یتیم اس وقت تمہارے زیر کفالت ہیں، اللہ سے ڈرتے ہوئے ان سے بھی ایسا ہی سلوک کرو۔ اور کوئی ایسی بات نہ کرو جس سے یتیموں کا دل شکستہ ہو۔ جو بات کرو ان کے حق میں بھلائی کی ہونی چاہیے۔ اس دور میں یتیموں اور بیواؤں سے جس طرح کا سلوک کیا جاتا تھا مندرجہ ذیل حدیث سے اس پر کافی روشنی پڑتی ہے : میراث میں بیوی بچوں کا حصہ :۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ’’سعد رضی اللہ عنہ بن ربیع کی بیوی اپنی دو بیٹیوں کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی۔ یہ سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی بچیاں ہیں ان کا باپ جنگ احد میں شہید ہوگیا ہے بچیوں کے چچا (سعد بن ربیع کے بھائی) نے سعد کے سارے ترکہ پر قبضہ کرلیا ہے اور ان کے لیے کچھ نہیں چھوڑا۔ اور مال کے بغیر ان کا نکاح بھی نہیں ہو سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ خود اس معاملہ میں فیصلہ فرمائے گا۔ پھر میراث کی آیات نازل ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سعد کے بھائی کو بلایا اور فرمایا کہ ترکہ میں سے دو تہائی تو سعد کی بچیوں کو دو اور آٹھواں حصہ ان کی والدہ کو۔ باقی جو بچے (یعنی ٢٤ حصوں میں سے صرف ٥ حصے) وہ تمہارا ہے۔‘‘ (ترمذی، ابو اب الفرائض) النسآء
10 [١٦] یتیم کا مال کھانا کبیرہ گناہ ہے :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو۔‘‘ صحابہ نے پوچھا ’وہ کون سے ہیں؟‘ فرمایا ’’اللہ کے ساتھ شرک کرنا۔ جادو۔ جس جان کو قتل کرنا اللہ نے حرام کیا ہے اسے ناحق قتل کرنا۔ سود کھانا۔ یتیم کا مال کھانا۔ لڑائی میں پیٹھ پھیر جانا۔ اور پاکدامن بھولی بھالی مومن عورت پر تہمت لگانا۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الوصایا۔ باب ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی﴾ مسلم، کتاب الایمان۔ باب بیان الکبائر وأکبرھا) نیز آپ نے معراج کا واقعہ بیان کرنے کے دوران فرمایا کہ میں نے چند لوگوں کو دیکھا جن کے لب اونٹوں جیسے تھے اور ایک فرشتہ ان کے لب کھول کر منہ میں آگ کے انگارے ڈالتا تو وہ ان کے نیچے سے نکل جاتے اور وہ (درد کے مارے) چیختے چلاتے۔ پھر فرشتہ اور انگارے ان کے منہ میں ڈال دیتا اور انہیں مسلسل یہ عذاب ہو رہا تھا۔ میں نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟جبریل علیہ السلام نے جواب دیا یہ وہ لوگ ہیں جو یتیموں کا مال ناحق کھایا کرتے تھے۔ النسآء
11 [١٧] اس سورۃ کی آیت نمبر ١١، اور ١٢ میں میراث، وصیت اور قرضہ کے جو احکام بیان ہوئے ہیں۔ انہیں ہم سہولت کی خاطر نئی ترتیب سے پیش کرتے ہیں اور احادیث کے حوالوں کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ علم میراث یا علم الفرائض کی اہمیت ١۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (علم) الفرائض اور قرآن خود سیکھو اور لوگوں کو سکھلاؤ اس لیے کہ میں وفات پانے والا ہوں (ترمذی : ابو اب الفرائض، باب فی تعلیم الفرائض) ٢۔ وصیت اور وراثت کے احکام :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علم تین ہیں اور ان کے سوا جو کچھ ہے وہ فضل ہے۔ آیات محکمات کا علم، سنت قائمہ اور انصاف کے ساتھ ورثہ کی تقسیم۔ (دار قطنی، ابن ماجہ، حاشیہ حدیث ترمذی مذکورہ بالا) قرضہ کی ادائیگی : قرضہ کی ادائیگی کا ذکر اگرچہ وصیت کے بعد مذکور ہے تاہم میت پر قرضہ کے بوجھ کے متعلق احادیث صحیحہ میں جو وعید آئی ہے اس کی بنا پر امت کا اجماع ہے کہ تقسیم میراث کے وقت سب سے پہلے قرضہ کی ادائیگی ضروری ہے۔ اگر بیوی کا حق مہر ادا نہ ہوا ہو تو وہ بھی قرضہ ہے اگر میت پر حج فرض ہوچکا ہو مگر کسی وجہ سے کر نہ پایا ہو۔ یا اس نے منت مانی ہو تو اس قسم کے اخراجات تقسیم میراث اور وصیت پر عمل سے پہلے نکالے جائیں گے۔ وصیت کے احکام۔۔ وصیت کی تحریر ٣۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی شخص وصیت کرنا چاہتا ہو تو اسے دو راتیں بھی اس حال میں نہ گزارنا چاہئیں کہ وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی موجود نہ ہو۔ (مسلم۔ کتاب الوصیۃ) ٤۔ وصیت کی آخری حد ایک تہائی مال تک :۔ وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع کے دوران فرمایا۔ اللہ عزوجل نے ہر صاحب حق کا حق مقرر کردیا لہٰذا اب وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں۔ (ترمذی، ابو اب الوصایا باب لا وصیہ لوارث) اسی طرح وصیت کی آخری حد ایک تہائی مال سے زیادہ نہیں ہے۔ ٥۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں مکہ میں بیمار ہوا اور مرنے کے قریب ہوگیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کو تشریف لائے۔ میں نے کہا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میرے پاس مال بہت ہے اور ایک بیٹی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں۔ کیا میں اپنا مال (اللہ کی راہ میں) دے دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں‘‘ پھر میں نے کہ’’ دو تہائی دے دوں؟ ‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’نہیں‘‘ پھر میں نے کہا ’’نصف دے دوں؟‘‘ فرمایا: ’’نہیں۔‘‘ پھر میں نے پوچھا: تہائی دے دوں؟ فرمایا:’’تہائی دے سکتے ہو اور یہ بھی بہت ہے۔‘‘ پھر فرمایا:’’اگر تم اپنی اولاد کو مالدار چھوڑ جاؤ تو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں محتاج چھوڑ جاؤ اور وہ لوگوں سے مانگتے پھریں۔ بے شک جو مال تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے تمہیں اس کا اجر ملے گا۔ حتیٰ کہ اس نوالہ پر بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں دو گے۔‘‘ (بخاری، کتاب الفرائض، باب میراث البنات۔ نیز مسلم : کتاب الوصیۃ، باب وصیۃ بالثلث) ٦۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں۔ ’’کاش! لوگ تہائی سے کم کر کے چوتھائی کی وصیت کریں۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تہائی بھی بہت ہے۔‘‘ اور وکیع کی روایت میں کثیر اور کبیر کے الفاظ ہیں۔ (مسلم، کتاب الوصیہ) ٧۔ قاتل مقتول کا وارث نہیں ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’قاتل مقتول کا وارث نہیں ہو سکتا۔‘‘ (ترمذی، ابو اب الفرائض باب فی ابطال میراث القاتل) ٨۔ کافر مسلمان کا اور مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’کافر یا مرتد مسلمان کا اور مسلمان کافر کا وارث نہیں ہو سکتا۔‘‘ (بخاری، کتاب الفرائض۔ باب لایرث المسلم الکافر۔۔ مسلم، کتاب الفرائض) میراث کی تقسیم سے متعلقہ احکام نازل ہونے سے پہلے مسلمانوں پر وصیت فرض کی گئی تھی کہ وہ اپنی موت سے پہلے اپنے والدین اور دوسرے اقرباء کے متعلق وصیت کر جائیں کہ انہیں میت کی جائیداد سے کتنا کتنا حصہ دیا جائے۔ پھر میت کی وصیت میں اگر کوئی شخص گڑ بڑ کرنے کی کوشش کرے گا تو اس کا بار گناہ انہی لوگوں پر ہوگا جو اس کی وصیت میں تبدیلی کریں گے۔ ہاں اگر کسی قریبی کو یہ خطرہ لاحق ہوجائے کہ وصیت کرنے والے نے جانبداری سے کام لیا ہے یا حصوں کی تقسیم کے متعلق انصاف کے ساتھ وصیت نہیں کی۔ اور ایسے غلط وصیت کردہ حصوں میں اصلاح کر دے (یعنی تبدیلی کرنے والے کی نیت بخیر ہو اور خودغرضی پر منحصر نہ ہو) تو اسے ایسی تبدیلی کرنے پر کچھ گناہ نہ ہوگا (سورہ بقرہ کی آیات نمبر ١٨٠ تا ١٨٢ کا ترجمہ) پھر جب اللہ تعالیٰ نے سورۃ نساء میں خود ہی والدین اور اقرباء کے حصے مقرر فرما دیئے (جسے علم الفرائض یا علم میراث کی اصطلاح میں ذوی الفروض یا ذوی الفرائض کہتے ہیں) تو ان آیات میراث کی رو سے وصیت کی فرضیت ختم ہوگئی۔ بالفاظ دیگر وصیت کی فرضیت کا حکم منسوخ ہوگیا۔ اور اب وصیت کی حیثیت فرض کے بجائے محض اختیاری رہ گئی۔ یعنی اگر کوئی شخص وصیت کرنا چاہے تو کرسکتا ہے اور اگر نہ کرے یا کر ہی نہ سکے تو بھی کوئی حرج نہیں۔ البتہ اس وصیت پر سنت نبویہ کی رو سے دو پابندیاں لگا دی گئیں۔ ایک یہ کہ کوئی شخص اپنے تہائی مال سے زیادہ کی وصیت نہیں کرسکتا اور دوسرے یہ کہ وصیت ذوی الفروض کے حق میں نہیں کی جا سکتی جیسا کہ مندرجہ بالا احادیث میں ان دونوں باتوں کی وضاحت آ گئی ہے۔ اور ان دونوں پابندیوں کی غرض و غایت یہ ہے کہ اس طرح اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حصوں میں گڑبڑ اور بے انصافی ہوجاتی ہے۔ گویا آپ کو پہلی شکایت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تہائی مال کی پابندی کیوں لگائی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات تو قرآن سے ثابت ہے کہ وراثت کے اصل حقدار والدین اور اقربین ہیں اور ان کے حصے اللہ نے خود مقرر کردیئے جو غیر متبدل ہیں۔ پھر کوئی شخص سارے مال کی وصیت کیسے کرسکتا ہے؟ سوچنے کی بات ہے کہ وصیت میں اصلاح کا حق اگر کسی دوسرے شخص کو دیا جا سکتا ہے جیسا کہ سورۃ بقرہ کی مذکورہ بالا آیت ١٨٢ سے ثابت ہے تو آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیوں نہیں دیا جا سکتا۔ وارثوں کے حق میں وصیت کی نفی بھی قرآن سے ثابت ہے کیونکہ یہ دوسرے حقداروں کے حق پر اثرانداز ہوتی ہے اور یہی وہ جانبداری یا ناانصافی کی بات ہے جس کا ذکر سورۃ بقرہ کی مندرجہ بالا آیات میں آیا ہے۔ پھر فرماتے ہیں کہ :’’ آپ اس کا خیال بھی کرسکتے ہیں کہ قرآن کریم وصیت کو فرض قرار دے اور بلا مشروط یعنی پورے مال میں وصیت کا حق دے اور رسول اللہ یہ فرمائیں کہ نہیں وصیت ایک تہائی مال میں ہو سکتی ہے اور وہ بھی غیر وارثین کے لیے۔ خدا کے حکم میں ایسا رد و بدل یقیناً رسول اللہ کی شان کے خلاف ہے جن کا ایک ایک سانس قرآن کی اتباع میں گزرا (قرآنی فیصلے رضی اللہ عنہ ١١١) اب دیکھئے پرویز صاحب کو کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کا خیال آتا ہے اور کبھی مسلمانوں کی روایت پرستی کا۔ مگر انہیں یہ خیال کبھی بھولے سے بھی نہیں آتا کہ کہیں میری قرآنی بصیرت ہی کسی ٹیڑھے راستے پر تو نہیں چل نکلی؟ اور اس قرآنی بصیرت کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ نے وصیت اور ترکہ کے الگ الگ احکام کو یوں گڈ مڈ کردیا کہ دونوں کا جنازہ نکال دیا۔ اور ان کا اپنا موقف یہ ہے کہ ’’میت کو اپنی جائیداد و اموال کی تقسیم میں پورا پورا اختیار ہے کہ وہ اپنے مصالح و مقتضیات کے مطابق جسے جی چاہے اور جتنا جی چاہے دے۔ ہاں اگر پھر بھی وصیت اور قرضہ کی ادائیگی کے بعد کچھ بچ جائے تو وہ تقسیم ہوگا اور اگر نہیں بچتا تو نہ سہی‘‘ (ایضاً ص ١٠٩) لہٰذا اب ہم ایک دوسرے انداز سے قرآن ہی سے یہ ثابت کریں گے کہ پرویز صاحب کا یہ موقف قرآن کے صریحاً خلاف ہے۔ نیز یہ کہ محولہ بالا دونوں احادیث قرآن کے عین مطابق ہیں آپ کے موقف کا پہلا حصہ یہ ہے کہ ’’میت جسے چاہے دے دے۔‘‘ اس ’’جسے چاہے‘‘ میں سے والدین اور اقربین کو بہرحال خارج کرنا پڑے گا۔ یعنی جسے چاہے کا اطلاق غیر وارثوں پر ہی ہوسکتا ہے۔ اس لیے کہ والدین اور اقربین کے حصے تو اللہ نے خود مقرر کردیئے ہیں۔ لہٰذا وارثوں کے حق میں وصیت کی ضرورت ختم ہوگئی۔ اور اگر کوئی شخص وارثوں کے مقررہ حصوں کے بعد کسی وارث کے حق میں وصیت کرے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اللہ کے مقررہ کردہ حصوں سے مطمئن نہیں، نہ ہی اسے اللہ کے علم و حکمت پر کچھ اعتماد ہے۔ ایسا شخص اگر کسی وارث کے حق میں وصیت کر کے اللہ کے مقرر کردہ حق میں اضافہ کرتا ہے تو اس کا لامحالہ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دوسرے وارثوں کے حصوں میں اسی نسبت سے کمی واقع ہوگی اور اگر کسی کے حصہ میں کمی کرتا ہے یا اس کا حصہ ختم کرتا ہے تو ایسی وصیت باطل قرار پائے گی۔ کیونکہ ایسی وصیت سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ١٨١ کی رو سے ﴿جَنَفًا اَوْ اِثْمًا﴾ کے ضمن میں آتی ہے جس کی اصلاح کردینا ازروئے قرآن نہایت ضروری ہے۔ علاوہ ازیں جو شخص وارثوں کے حق میں کچھ وصیت کرتا ہے تو یہ وصیت خواہ کمی کی ہو یا بیشی کی یا تو آبائی جانب یعنی والدین کے متعلق ہوگی یا ابنائی جانب یعنی اولاد کے متعلق ہوگی اور ان دونوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿لَا تَدْرُوْنَ اَیُّھُمْ اَقْرَبُ لَکُمْ نَفْعًا ۭ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ ۭاِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِـیْمًا ﴾(4 : 11) تم نہیں جانتے کہ فائدہ کے لحاظ سے تمہارے باپ داداؤں اور بیٹوں پوتوں میں سے کون تم سے نفع کے لحاظ سے زیادہ قریب ہے۔ یہ حصے اللہ کے مقرر کردہ ہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ اگر کوئی شخص وارثوں کے حق میں اللہ کے مقرر کردہ حصوں کے علی الرغم وصیت کرتا ہے تو وہ صرف اس آیت کی خلاف ورزی ہی نہیں کرتا بلکہ اللہ کے علم و حکمت کو بھی چیلنج بھی کرتا ہے۔ اور ﴿لَا تَدْرُوْنَ اَیُّھُمْ اَقْرَبُ لَکُمْ نَفْعًا ﴾ کو بھی۔ ان قرآنی دلائل سے واضح طور پر یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ وارثوں کے حق میں وصیت کرنا قرآن کے منشا کے خلاف ہے نیز پرویز صاحب کا یہ نظریہ کہ 'جتنا چاہے دے دے' کے زمرہ سے وارثوں کو بہرحال خارج کرنا ہی پڑے گا۔ اب پرویز صاحب کے موقف کے دوسرے حصہ 'جتنا چاہے دے دے' کی طرف آئیے۔ سورۃ بقرہ کی آیت ١٨٠ کی رو سے والدین اور اقربون کے لیے وصیت فرض قرار دی گئی اور سورۃ نساء کی آیت نمبر ١١ کی رو سے اللہ تعالیٰ نے خود ہی والدین اور اقربوں کا حصہ مقرر فرما دیا۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ تقسیم ورثہ کے وقت والدین اور اقربون کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ان دونوں کے نتائج کو ملانے سے نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی شخص اپنا سارا مال غیر وارثین کے لیے وصیت نہیں کرسکتا۔ وہ 'جتنا جی چاہے' مال نہیں دے سکتا۔ بلکہ مال کا کچھ حصہ ہی وصیت کے ذریعہ دے سکتا ہے اور وہ بھی صرف غیر وارثوں کو دے سکتا ہے وارثوں کو نہیں۔ اب رہی یہ بات کہ میت اپنے مال کا 'کچھ حصہ' جو وصیت کرسکتا ہے وہ کیا ہونا چاہیے تو قرآن کے دونوں مقامات کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ متروکہ مال کے اصل حقدار والدین اور اقربون ہی ہیں۔ لہٰذا مال کا زیادہ تر حصہ انہیں ہی ملنا چاہیے اور کم تر حصہ ایسا ہونا چاہیے جو میت اپنے اختیار سے کسی غیر وارث کو بذریعہ وصیت دے سکتا ہے۔ اب 'اس کم تر حصہ' کی تحدید فی الواقع قرآن میں مذکور نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتلایا کہ یہ کم تر حصہ زیادہ سے زیادہ ایک تہائی مال تک ہے اس سے زیادہ حصہ کی وصیت کی جائے گی تو یہ ﴿جَنَفًا اَوْ اِثْمًا﴾ کے ضمن میں آئے گی جس میں رد و بدل اور ترمیم کی جا سکتی ہے اور اس اصلاح کا حق اللہ تعالیٰ نے ہر مصلح کو دیا ہے۔ اور پرویز صاحب یہ حق میت کی موجودگی میں جماعت کو اور میت کی موت کے بعد اسلامی عدالت کو دیتے ہیں (قرآنی فیصلے ص ١١٠) اور یہ بات تو شاید طلوع اسلام بھی تسلیم کرے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی امت کے سب سے بڑے مصلح، ہمدرد اور خیر خواہ بھی تھے اور اسلامی عدالت بھی۔ پھر اگر آپ کی یہ تحدید با اعتماد ذرائع سے درست ثابت ہوجائے اور یہ تحدید قرآن کے خلاف بھی نہ ہو بلکہ اس قاعدہ کے مطابق ہو کہ آپ کو قرآن کے مجمل احکام کی تفسیر و تعیین کا حق بھی قرآن ہی نے دیا ہو تو پھر معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایسی متعین کی ہوئی حد کو تسلیم کرنے میں طلوع اسلام کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے؟ اور وہ اس بات کا واویلا کرنے میں کیسے حق بجانب سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ احادیث قرض کے صریحاً خلاف ہیں۔ واضح رہے کہ مسلمانوں کی اکثریت، جو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حجت تسلیم کرتی ہے، کے عقیدہ کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ تحدید وحی خفی کے ذریعہ فرمائی تھی جو ﴿بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ﴾ میں شامل ہوتی ہے۔ [١٨] قرآن میں مذکور وراثت کے حصے :۔ سب سے پہلے اولاد کے حصوں کا ذکر کیا گیا اور اس میں یہ کلیہ بیان کیا گیا کہ ہر لڑکے کا حصہ لڑکی سے دگنا ہوگا۔ یہ اس لیے کہ اسلام نے معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ مرد پر ڈالا اور عورت کو اس سے سبکدوش کردیا ہے اور جب مرد کمانے کے قابل نہیں رہتا مثلاً باپ، دادا وغیرہ تو اس کا حصہ عورت یعنی ماں، دادی وغیرہ کے برابر ہوتا ہے۔ [١٩] اگر اولاد میں صرف لڑکیاں ہی ہوں تو اگر ایک لڑکی ہو تو اسے آدھا ترکہ ملے گا۔ دو یا دو سے زیادہ ہوں تو دو تہائی۔ اور یہ عورتوں کے حصہ کی آخری حد ہے۔ شیعہ حضرات کی طرف سے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو مطعون کرنے کے سلسلہ میں ایک یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے اپنے باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ترکہ سے وراثت کا حصہ مانگا تو سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے انہیں بموجب حکم قرآن نصف حصہ ترکہ کا دینے سے انکار کردیا۔ اسی طرح سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے یہی حصہ مانگا تو انہوں نے بھی انکار کردیا لہٰذا یہ دونوں غاصب ہیں۔ جس طرح انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے حق خلافت غصب کیا تھا اسی طرح سیدہ فاطمہ کا حق وراثت غصب کیا تھا۔ اس اعتراض میں حق خلافت کے غصب کا جواب تو ہم آگے چل کر اسی سورۃ کی آیت نمبر ٥٤ کے حاشیہ میں دیں گے اور حق وراثت کا جواب دے رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت :۔ واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیثیتیں دو تھیں : ایک شخصی یا ذاتی اور دوسری بحیثیت رسول اور فرمانروائے ریاست اسلامی۔ لہٰذا ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ان دو حیثیتوں کے لحاظ سے آپ کا ترکہ کیا تھا اور ان سے متعلق آپ نے کیا احکام صادر فرمائے تھے۔ ذاتی حیثیت سے ترکہ اور اس کے احکام سے متعلق درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمایئے : ١۔ عمرو بن حارث کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی دینار (بطور ترکہ) چھوڑا اور نہ درہم۔ نہ کوئی غلام اور نہ لونڈی۔ صرف ایک سفید خچر چھوڑا جس پر آپ سواری کرتے تھے یا کچھ جنگی ہتھیار تھے اور جو زمین تھی وہ آپ مسافروں کے لیے صدقہ کر گئے تھے۔ (بخاری، کتاب الفرائض، باب قول النبی لا نورث ماترکنا صدقۃ) ٢۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوئی تو آپ کی زرہ (ابو الشحم) یہودی کے پاس تیس صاع جو کے عوض گروی رکھی ہوئی تھی۔ (بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب ما قیل فی درع النبی ) ٣۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جو کی روٹی اور کچھ باسی چربی لے گیا اس وقت آپ کی یہ حالت تھی کہ آپ نے اپنی زرہ مدینہ کے ایک یہودی کے پاس گروی رکھی ہوئی تھی اور اس سے اپنی بیویوں کے لیے جو لیے تھے۔ اور میں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے کہ محمد کے گھر والوں کے پاس کبھی شام کو ایک صاع گیہوں یا غلہ جمع نہیں رہا۔ حالانکہ اس وقت آپ کے پاس نو بیویاں تھیں۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب شری النبی النسیئۃ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت کے تین مدعی ان احادیث سے معلوم ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی ترکہ کچھ بھی نہ تھا۔ باقی اموال فے ہی رہ جاتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ اختیار دیا تھا کہ آپ اپنی صوابدید کے مطابق ان اموال کو جیسے چاہیں اور جہاں چاہیں صرف کریں۔ ان اموال میں ایک تو فدک کا باغ تھا، دوسرے کچھ خیبر کی زمین اور کچھ زمین مدینہ کی بھی تھی۔ جس کا کوئی مالک نہ تھا اور وہ سرکاری تحویل میں تھی۔ ان اموال میں سے ایک تو آپ اپنی بیویوں کا سالانہ خرچہ رکھ لیتے تھے۔ وہ بھی بڑی کفایت شعاری کے ساتھ۔ کچھ اپنے نادار اقربا میں تقسیم کرتے تھے۔ کچھ جہاد کے اخراجات اور رفاہ عامہ کے کاموں میں خرچ فرماتے۔ گویا یہ بیت المال کی ملکیت ہوتی تھی۔ یہی وہ اموال تھے جن کے متعلق ورثاء نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اور پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ہاں دعویٰ کیا تھا اور مدعی تین فریق تھے۔ ایک سیدہ فاطمہ جن کا آیت میراث کی رو سے ٢/١ حصہ بنتا تھا۔ دوسرے آپ کی بیویاں، جن کا ٨/١ حصہ بنتا تھا اور تیسرے آپ کے چچا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ جن کا بطور عصبہ باقی یعنی ٨/٣ حصہ بنتا تھا۔ اب ان سے متعلق درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ کی وفات کے بعد سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے اس ترکے سے حصہ مانگا جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بطور فے عطا فرمائے تھے۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔‘‘ اس بات پر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ناراض ہو کر چلی گئیں۔ پھر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنی وفات تک ابو بکر رضی اللہ عنہ سے ملاقات نہ کی اور آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد چھ ماہ زندہ رہیں۔ آپ باغ فدک، خیبر اور مدینہ کی زمینوں سے اپنا حصہ مانگتی تھیں تو سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دیا کہ میں کوئی بات چھوڑنے والا نہیں جو آپ کیا کرتے تھے۔ ان اموال کی تقسیم جیسے آپ کیا کرتے تھے۔ میں ویسے ہی کرتا رہوں گا اور میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ آپ کی کوئی بات چھوڑ کر گمراہ نہ ہوجاؤں۔ (بخاری، کتاب الجہاد، باب فرض الخمس) ٢۔ اور ایک دوسری حدیث کے مطابق جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے۔ سیدہ فاطمہ اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہما دونوں نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے اموال فے کے ترکہ میں حصہ کا مطالبہ کیا اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ الگ الگ مواقع ہوں۔ اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کو وہی جواب دیا جو مندرجہ بالا حدیث میں مذکور ہے۔ (بخاری، کتاب المغازی۔ باب حدیث بنی نضیر و مخرج رسول اللہ الیھم) ٣۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا اور وہ اموال فے میں سے اپنا آٹھواں حصہ مانگتی تھیں۔ میں نے انہیں منع کیا اور کہا’’تمہیں اللہ کا خوف نہیں۔ کیا تم یہ نہیں جانتیں کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔‘‘ چنانچہ آپ کی بیویاں ترکہ مانگنے سے باز آ گئیں۔ (بخاری کتاب المغازی۔ باب حدیث بنی نضیر ومخرج رسول اللہ الیھم) مندرجہ بالا تین احادیث تو دور صدیقی سے متعلق ہیں۔ اور دور فاروقی میں مدعی صرف دو تھے۔ ایک سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنی زوجہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے اور دوسرے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ عصبہ کی حیثیت سے۔ ان دونوں نے اموال فے سے ترکہ کا مطالبہ کیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دلائل دینے کے بعد کہا کہ میں یہ اموال صرف اس شرط پر آپ کے حوالہ کرسکتا ہوں کہ تم ان کے متولی بن کر رہو اور اسی طرح تقسیم کرو جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تقسیم فرمایا کرتے تھے۔ یہ بات ان دونوں نے تسلیم نہ کی۔ پھر دوسری بار گئے تو بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے وہی جواب دیا تو ان دونوں حضرات نے اس مرتبہ تولیت کی شرط قبول کرلی اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ اموال ان کی تحویل میں دے دیئے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اگر تم نے یہ شرط پوری نہ کی تو میں پھر یہ اموال اپنی تحویل میں لے لوں گا۔ پھر عملاً یہ ہوا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہی بطور متولی ان اموال پر قابض ہوگئے اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو نزدیک نہ آنے دیا۔ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بعد یہ امام حسن رضی اللہ عنہ کے، پھر ان کے بعد امام حسین رضی اللہ عنہ کے، پھر ان کے بعد امام زین العابدین علی بن حسین اور پھر حسن بن حسن (حسن مثنیٰ) دونوں کے قبضے میں رہے اور وہ باری باری اس کا انتظام کرتے رہے۔ پھر زید بن حسن بن علی (ان کے بھائی) کے پاس رہے اور ہر شخص کے پاس اسی طریق سے رہا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صدقہ ہے (یعنی یہ حضرات متولی بن کر رہے۔ مالک بن کر نہیں رہے) اب ہم ایک طویل حدیث سے اقتباس پیش کرتے ہیں جو ان جملہ امور پر روشنی ڈالتی ہے : فی الحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صدقہ ہی تھا :۔ مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ مجھے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بلا بھیجا۔ میں وہاں پہنچا ہی تھا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا غلام یرفا آ کر کہنے لگا کہ حضرات عثمان رضی اللہ عنہ ، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ، زبیر رضی اللہ عنہ اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ آئے ہیں۔ اور آپ سے ملنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت دے دی۔ وہ آ کر بیٹھے ہی تھے کہ یرفا پھر آیا اور کہنے لگا کہ عباس رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ آئے ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں بھی بلا لیا۔ چنانچہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا : امیر المومنین میرا اور اس شخص کا فیصلہ کر دیجئے۔ یہ دونوں حضرات بنو نضیر کے اموال فے کے بارے میں جھگڑ رہے تھے اور آپس میں گالی گلوچ پر اتر آئے تھے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی کہنے لگے : امیر المومنین ان کا فیصلہ کر کے انہیں ایک دوسرے سے نجات دلائیے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان دونوں سے کہا کہ میں آپ سے اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ ’’ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے؟‘‘ ان دونوں نے کہا 'بے شک' پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فے سے متعلق سورۃ حشر کی آیات پڑھ کر فرمایا، اللہ کی قسم! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اموال کو اپنی ذات کے لیے جوڑ نہیں رکھا۔ بلکہ تم لوگوں کو دیا اور بانٹا۔ اسی مال سے آپ اپنی بیویوں کا سال بھر کا خرچ نکالتے اور جو مال بچ جاتا اسے تازیست سامان جنگ اور رفاہ عامہ کے کاموں میں خرچ کرتے رہے۔ پھر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم مقام تھے اسی طرح کرتے رہے۔ حالانکہ تم دونوں اس وقت بھی یہ کہتے تھے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی یہ کارروائی ٹھیک نہیں ہے۔ اور اللہ خوب جانتا ہے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ سچے، راست باز، ٹھیک راستے پر چلنے والے اور حق کے تابع تھے۔ پھر ان کے بعد اب میں ان دونوں کا جانشین ہوں۔ پھر تم دونوں (عباس اور علی رضی اللہ عنہما) میرے پاس آئے۔ اس وقت تم دونوں کی بات ایک اور معاملہ ایک تھا۔ پھر اے عباس! تم اکیلے بھی میرے پاس آئے اور میں نے یہی کہا کہ انبیاء کا مال صدقہ ہوتا ہے۔ پھر میں نے تم دونوں سے کہا کہ میں تمہیں یہ اموال صرف اس شرط پر دیتا ہوں کہ تم اس کی تقسیم ویسے ہی کرو جیسے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابو بکر رضی اللہ عنہ اور میں کرتے رہے۔ اگر یہ شرط منظور ہے تو ٹھیک ورنہ مجھ سے گفتگو نہ کرو۔ تم نے یہ شرط مان لی تو میں نے یہ اموال تمہارے حوالے کردیے۔ اب تم اور کیا چاہتے ہو؟ اب اگر تم اس مال کے بارے میں جھگڑا کرتے ہو اور تم سے اس مال کا بندوبست نہیں ہوسکتا تو پھر یہ کام میرے سپرد کر دو۔ میں ہی یہ کام سر انجام دیا کروں گا۔ مگر وہ اٹھ کر چلے گئے اور انہوں نے اموال کو واپس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی تحویل میں دینا گوارا نہ کیا اور عملاً ان اموال پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ قابض ہوگئے۔ چنانچہ عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ مال سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے قبضہ میں رہا۔ انہوں نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو اس پر قبضہ نہ کرنے دیا۔ پھر اس کے بعد حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے قبضہ میں آیا، پھر حسین بن علی رضی اللہ عنہ کے قبضہ میں، پھر علی بن حسین اور حسن بن حسن دونوں کے قبضہ میں، جو باری باری اس کا انتظام کرتے تھے۔ پھر زید بن حسن کے قبضہ میں رہا۔ اور یہ اموال فی الحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صدقہ ہی رہے۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب حدیث بنی نضیر و مخرج رسول اللہ الیھم) النسآء
12 [٢٣] میت اگر عورت ہے تو اس کے خاوند کو آدھا ترکہ ملے گا۔ بشرطیکہ میت کی اولاد نہ ہو اور اگر اولاد ہو تو خاوند کو ٤/١ ملے گا۔ اور اگر میت مرد ہے تو بیوی کو ٤/١ ملے گا بشرطیکہ میت کی اولاد نہ ہو اور اگر بیویاں ایک سے زیادہ ہوں تو ٤/١ ان میں برابر تقسیم ہوگا۔ اور اگر میت کی اولاد بھی ہو خواہ وہ کسی بھی بیوی سے ہو تو بیوی یا بیویوں کو ٨/١ ملے گا۔ ایک سے زیادہ بیویوں کی صورت میں یہ ان میں برابر برابر تقسیم ہوگا۔ (یہ زوجین کے حصے ہوئے) [٢٤] کلالہ کی میراث :۔ کَلالۃ وہ شخص ہے جس کے نہ والدین ہوں نہ دادا دادی، اور نہ اولاد اور نہ پوتے پوتیاں۔ خواہ وہ میت مرد ہو یا عورت وہ کلالہ ہے البتہ اس کے بہن بھائی ہو سکتے ہیں۔ بہن بھائی بھی تین قسم کے ہوتے ہیں (١) عینی یا حقیقی یا سگے بھائی جن کے والدین ایک ہوں۔ (٢) علاتی یا سوتیلے بہن بھائی جن کی مائیں الگ الگ اور باپ ایک ہو (٣) اخیافی یعنی ایسے سوتیلے بہن بھائی جن کی ماں ایک ہو اور باپ الگ الگ ہوں۔ اس آیت میں جن بہن بھائیوں کا ذکر ہے وہ بالاتفاق اخیافی یعنی ماں کی طرف سے بھائیوں کا ہے اور اسی سورۃ کی آیت نمبر ١٧٦ میں دوسرے بہن بھائیوں کا ذکر ہے اخیافی بہن بھائیوں کا حصہ ٣/١ ہے۔ اگر ایک بھائی اور ایک بہن ہو تو ہر ایک کا ٦/١ اور اگر بہن بھائی زیادہ ہوں تو بھی انہیں ٣/١ سے زیادہ نہیں ملے گا۔ اور یہ ٣/١ حصہ ان میں برابر تقسیم ہوگا۔ مرد کو عورت سے دگنا نہیں ملے گا۔ اور اگر صرف ایک ہی بھائی یا ایک ہی بہن ہو تو اسے ٦/ ١ ملے گا۔ باقی پہلی صورت میں ٣/٢ اور دوسری صورت میں ٦/٥ بچ جائے گا۔ کلالہ باقی پورے حصہ کے متعلق وصیت کرسکتا ہے یا پھر یہ حصہ ذوی الارحام میں تقسیم ہوگا بشرطیکہ کوئی عصبہ نہ مل رہا ہو۔ [٢٥] وصیت کے ذریعہ نقصان پہنچانے کی صورتیں :۔ وصیت میں میت یوں نقصان پہنچا سکتا ہے کہ اندازہ سے زیادہ وصیت کر جائے۔ اور یہ تہائی سے بھی زیادہ ہو یا عمداً ایسا کرے تو اس سے وارثوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور ایسی وصیت کی اصلاح کر دینی چاہیے تاکہ ورثاء کو نقصان نہ ہو۔ اسی طرح میت مرتے وقت کسی فرضی قسم کے قرضہ کا اقرار کر جائے تو وہ قرض لینے والے کو ممنون اور ورثاء کو نقصان پہنچا سکتا ہے حتیٰ کہ محروم بھی بنا سکتا ہے اسی لیے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ سب کچھ جاننے والا ہے اور حلیم اس لحاظ سے ہے کہ اس نے ان قوانین کے مقرر کرنے میں سختی نہیں کی۔ بلکہ ان کی زیادہ سے زیادہ سہولت کا خیال رکھا ہے۔ کتاب و سنت میں جن ورثاء کے حصے مقرر کردیئے گئے ہیں انہیں ذوی الفروض کہتے ہیں۔ قرآن کے علاوہ درج ذیل ورثاء کے حصے سنت کی رو سے مقرر ہیں۔ چنانچہ درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : (١) دادا کا حصہ ١۔ سیدنا عمران رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ کر کہنے لگا۔ ’’میرا پوتا مر گیا ہے، مجھے اس کے ترکہ سے کیا ملے گا ؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’چھٹا حصہ‘‘ وہ چلا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلا کر کہا کہ تیرے لیے ایک چھٹا حصہ اور ہے۔ پھر اس کی وضاحت کی کہ یہ دوسرا چھٹا حصہ تمہارے لیے بطور خوراک (ابو داؤد) اور ترمذی میں لک عصبہ یعنی بطور عصبہ ہے۔ (ترمذی، ابو اب الفرائض، باب فی میراث الجد، ابو داؤد۔ کتاب الفرائض۔ باب ماجاء فی میراث الجد) (٢) دادی اور نانی کا حصہ : ٢۔ سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ماں نہ ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جدہ (دادی یا نانی) کا چھٹا حصہ مقرر فرمایا۔ (ابو داؤد۔ کتاب الفرائض۔ باب فی الجدۃ) (٣) اگر ایک بیٹی اور ایک پوتی ہو : ٣۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں بیٹی، پوتی اور بہن کے متعلق وہی فیصلہ کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا۔ بیٹی کو نصف ملے گا، پوتی کو چھٹا حصہ تاکہ دو تہائی پورا ہوجائے (مونث اولاد کا زیادہ سے زیادہ حصہ) باقی بہن کو ملے گا۔ (بخاری، کتاب الفرائض، باب میراث ابنۃ ابن مع ابنۃ) (٤) اگر ایک بیٹی اور ایک بہن ہو ٤۔ اسود بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ یمن میں ہمارے پاس معلم اور امیر بن کر آئے۔ ہم نے ان سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا جس نے مرتے وقت ایک بیٹی اور ایک بہن چھوڑی انہوں نے بیٹی کو نصف دیا اور بہن کو بھی نصف دیا۔ (بخاری، کتاب الفرائض، باب میراث البنات) اور ابو داؤد میں یہ الفاظ زیادہ ہیں۔ ’’اور اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بقید حیات تھے۔‘‘ (ابو داؤد، کتاب الفرائض۔ باب من کان لیس لہ ولد ولہ اخوات ) (٥) بھتیجے کا حصہ پھوپھی سے ٥۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ (تعجب سے) فرمایا کرتے تھے کہ ’’بھتیجا تو پھوپھی کا وارث ہے مگر پھوپھی بھتیجے کی وارث نہیں۔‘‘ (موطا۔ کتاب الفرائض، باب فی میراث العمۃ) مزید احکام وراثت ١۔ ذوی الفروض یعنی جن کے حصے کتاب و سنت نے مقرر کردیئے ہیں ان کی تفصیل اوپر گزر چکی۔ وارثوں کی دو اقسام :۔ ٢۔ عصبات۔ عصبہ میت کے قریب ترین رشتہ دار مرد کو کہتے ہیں اور ذوی الفروض کی ادائیگی کے بعد جو بچے وہ اسے ملتا ہے۔ جیسے سعد بن ربیع کے بھائی کو آپ نے دو بیٹوں کا ٣/٢ اور بیوی کا ٨/١، باقی ٢٤/ ٥ حصہ دلایا تھا۔ عصبہ کے متعلق آپ نے فرمایا : ٣۔ ’’اللہ کے مقرر کردہ حصے حصہ داروں کو ادا کرو۔ پھر جو باقی بچے وہ قریب ترین رشتہ دار مرد کا ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب الفرائض، باب میراث الولدمن ابیہ وأمہ۔ مسلم۔ کتاب الفرائض۔ باب الحقوا الفرائض باھلھا) بسا اوقات ذوی الفروض عصبہ کے ساتھ مل کر عصبہ بن جاتے ہیں مثلاً میت کی اولاد صرف دو بیٹیاں ہیں۔ نہ والدین ہیں نہ بیوی۔ تو بیٹیوں کو ٣/٢ ملے گا اور باقی کے لیے عصبہ تلاش کرنا پڑے گا لیکن اگر ان بیٹیوں کے ساتھ ایک بیٹا بھی ہو تو بیٹا چونکہ عصبہ ہے لہٰذا وہ بہنوں کو بھی عصبہ بنا دے گا اور تقسیم اس طرح ہوگی، بیٹے کا ٢/١ اور دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کا ٤/١۔ عصبہ کی تلاش۔ سب سے پہلے عصبہ اولاد سے دیکھا جائے گا۔ پھر اوپر کی طرف سے۔ پھر چچاؤں میں سے پھر ان کے بیٹوں سے۔ مولیٰ کا عصبہ ٤۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ (’’آزاد کردہ غلام کے) ورثہ کا (عصبہ کی حیثیت سے) حقدار وہ ہے جس نے اسے آزاد کیا ہو۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الفرائض۔ باب میراث السائبة۔ مسلم، کتاب الفرائض۔ باب انما الولاء لمن اعتق) ٥۔ ذوی الارحام : اگر ذوی الفروض اور عصبہ بھی موجود نہ ہو اور صرف بھانجے بھانجیاں، دوہتے دوہتیاں، ماموں وغیرہ ہوں۔ ٦۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس کا کوئی وارث نہ ہو اس کا وارث ماموں ہے۔ وہی اس کی طرف سے دیت دے گا اور وہی وارث ہوگا۔‘‘ (ابو داؤد، کتاب الفرائض۔ باب میراث ذوی الارحام) اب ہم قانون میراث کی چند مزید وضاحتیں پیش کرتے ہیں : عرب میں رائج وراثت کے تین طریقے :۔ اسلام کا قانون میراث نازل ہونے سے پیشتر عرب میں وراثت کے تین طریقے رائج تھے (١) ایک دوسرے سے عہد۔ یعنی کوئی شخص کسی دوسرے کو کہہ دیتا کہ میری جان تیری جان، میرا خون تیرا خون، میں تیرا وارث تو میرا وارث۔ جب کوئی شخص کسی سے ایسا عہد کرلیتا تو اس کے مقابلہ میں بھائی یا بیٹے کسی کو بھی ورثہ نہیں ملتا تھا۔ (٢) اور اقرباء کو وراثت سے محروم کرنے کا دوسرا طریقہ متبنّیٰ بنانے کا تھا۔ اگر کسی کی نرینہ اولاد نہ ہوتی تو وہ کوئی متبنیٰ بنا لیتا تھا جو اس کی پوری میراث کا حقدار سمجھا جاتا تھا (٣) اور اگر اولاد میں میراث تقسیم ہوتی تو اس کی صورت یہ تھی کہ حصہ صرف ان بیٹوں کو ملتا تھا جو میت کی طرف سے نیزہ لے کر لڑ سکتے تھے۔ اسلام کے قانون میراث نے پہلے دو طریق کو تو کلیتہً منسوخ کردیا اور تیسرے میں یہ اصلاح کی کہ ورثہ لڑکیوں کو بھی ملے، چھوٹے بچوں کو بھی ملے اور والدین کو بھی۔ جب مہاجرین نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور مہاجرین کی معاش اور آباد کاری کا مسئلہ پیش آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہاجرین اور انصار میں مواخات کا سلسلہ قائم کیا۔ اس وقت تک احکام میراث نازل نہیں ہوئے تھے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے ان بھائی بھائی مہاجرین و انصار کو ایک دوسرے کا وارث قرار دیا۔ پھر جب مہاجرین کی معاشی حالت قدرے سنبھل گئی تو یہ قانون منسوخ کردیا گیا اور وراثت کے تفصیلی احکام اس سورۃ میں نازل ہوئے۔ اسلامی قانون وراثت کا مدار تین چیزوں پر ہے : نسب، نکاح اور ولاء (١) نسب میں تین پہلوؤں کو اس ترتیب سے ملحوظ رکھا کہ سب سے پہلے اولاد کا جیسا کہ ابتدا ہی میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ ۤ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ﴾ دوسرے نمبر پر والدین کے حصوں کا ذکر ہوا اور تیسرے نمبر پر بہن بھائیوں کا ذکر ہے۔ (٢) نکاح سے مراد مختلف صورتوں میں میاں اور بیوی کے حصوں کا ذکر ہے۔ (٣) اور ولاء سے مراد یہ ہے کہ ایک ایسا آزاد کردہ غلام جس کا کوئی رشتہ دار موجود نہ ہو تو اس کا وارث وہ مالک ہوتا ہے جس نے اسے آزاد کیا تھا اور یہ صورت آج کل مفقود ہے۔ نکاح کی بنا پر بھی حصوں کا ذکر نسبتاً آسان ہے کہ میت اگر عورت ہو اور بے اولاد ہو تو مرد کو اس کی میراث کا آدھا ملے گا اور اگر صاحب اولاد ہو تو خاوند کو چوتھائی حصہ ملے گا۔ اسی طرح اگر میت مرد بے اولاد ہو تو بیوی کو یا اس کی سب بیویوں کو چوتھائی حصہ ملے گا اور اولاد والا ہے تو بیوی کو یا سب بیویوں کو آٹھواں حصہ بحصہ برابر ملے گا۔ اب نسب کے رشتہ داروں کے حصے ذرا قابل فہم ہیں۔ کیونکہ ان کی بہت سی صورتیں ہیں ان میں سے چند مشہور و معروف عام صورتیں درج ذیل ہیں : ١۔ جو مرد یا عورت بوڑھا ہو کر اپنی طبعی موت مرتا ہے تو اس وقت عموماً اس کے والدین دنیا سے رخصت ہوچکے ہوتے ہیں اور اگر بہن بھائی ہوں تو الگ گھروں والے ہوتے ہیں۔ اس صورت میں اولاد ہی وارث ہوتی ہے۔ اب اگر اولاد ایک بیٹا ہی ہے تو زوجین میں سے کسی ایک کا حصہ نکالنے کے بعد باقی سب میراث کا وارث ہوگا اور زیادہ بیٹے ہوں تو سب اس باقی حصہ میں برابر کے حصہ دار ہوں گے اور بہن بھائی اگر ملے جلے ہیں تو لڑکے کے دو حصے اور لڑکی کا ایک حصہ کی نسبت سے ورثہ ملے گا۔ اور اگر لڑکا ایک بھی نہیں ایک لڑکی ہے تو اسے کل کا نصف ملے گا اور اگر دو یا دو سے زیادہ ہیں تو انہیں کل کا ٣/٢ ملے گا۔ ٢۔ اس کے بعد عام صورت یہ ہے کہ میت کے ماں باپ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک زندہ ہو۔ اگر دونوں زندہ ہیں تو ان میں سے ہر ایک کو کل کا چھٹا حصہ ملے گا۔ اگر باپ زندہ نہیں اور دادا زندہ ہے تو باپ کا حصہ دادا کو مل جائے گا۔ اور ماں زندہ نہیں لیکن نانی زندہ ہے تو ماں کا حصہ نانی کو مل جائے گا اور بقول بعض اگر نانی زندہ نہیں اور دادی زندہ ہے تو ماں کا حصہ دادی کو مل جائے گا۔ اور اگر دونوں زندہ ہیں تو یہی چھٹا حصہ دونوں میں برابر برابر تقسیم ہوگا۔ والدین کا اور زوجین میں سے کسی ایک کا حصہ نکال لینے کے بعد باقی میراث اولاد میں تقسیم ہوگی بحساب مذکر ٢ حصے اور مونث ایک حصہ۔ اس صورت میں کبھی ایک الجھن بھی پیش آ سکتی ہے مثلاً میت عورت ہے جس کے والدین بھی زندہ ہیں شوہر بھی اور دو لڑکیاں بھی۔ لڑکیوں کا ٣/٢ حصہ اور والدین میں سے ہر ایک کا ٦/١ یعنی دونوں کا ٣/١ حصہ، اور خاوند کا ٤/١۔ بالفاظ دیگر جائیداد کے کل بارہ حصے کرنے چاہئیں۔ جن میں سے ٨ تو لڑکیاں لے گئیں ٣ خاوند لے گیا اور ٢ حصے والدہ کے اور ٢ حصے والد کے۔ یہ کل ١٥ حصے بنتے ہیں (یعنی حاصل جمع ایک سے بڑھ جاتی ہے) ایسی صورت کو فقہی اصطلاح میں عول کہتے ہیں۔ اس صورت میں کل جائیداد کے ١٢ کے بجائے پندرہ حصے کر کے انہیں مذکورہ بالا حصوں کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔ اسی طرح اگر عصبہ نہ مل رہا ہو تو اس کے برعکس صورت بھی پیش آ سکتی ہے۔ مثلاً میت مرد ہے جس کی بیوی فوت ہوچکی ہے۔ ماں زندہ ہے لیکن باپ فوت ہوچکا ہے۔ دادا بھی نہیں اور اولاد صرف ایک لڑکی ہے۔ گویا اس کے وارث صرف ماں اور بیٹی میں اور عصبہ کوئی بھی نہیں مل رہا۔ حصوں کے لحاظ سے جائیداد ٦ حصوں میں تقسیم ہوگی جن میں سے ٣ حصے تو بیٹی لے گی اور ایک حصہ ماں۔ باقی ٢ حصے بچ جائیں گے ایسی صورت کو فقہی اصطلاح میں رد کہتے ہیں۔ اس صورت میں یہ حصے بھی اسی نسبت سے ان دونوں کو مل جائیں گے۔ بالفاظ دیگر یہ میراث ہی ٦ کی بجائے ٤ حصوں میں تقسیم کر کے ٣ حصے بیٹی کو اور ایک ماں کو دے دیا جائے گا۔ (واضح رہے کہ ذوی الفروض کی موجودگی میں بقیہ ترکہ ذوی الارحام کو نہیں ملتا۔ بلکہ پھر انہیں پر تقسیم ہوجاتا ہے۔) (٣) تیسری عام صورت یہ ہے کہ ابھی نئی نئی شادی ہوئی تھی اور ابھی اولاد بھی نہ ہوئی تھی کہ زوجین میں سے کسی ایک کا انتقال ہوگیا اور اس کے والدین زندہ ہیں لیکن اور کوئی بہن بھائی نہیں تو اس صورت میں ماں کو ایک تہائی، میت اگر مرد ہے تو عورت کو ایک چوتھائی اور باقی ١٢/ ٥ باپ کو ملے گا۔ اور اگر میت عورت ہے تو ماں کے ٤ حصے، خاوند کے ٦ حصے اور باپ کو صرف ٢ حصے یا ماں کا نصف ملے گا۔ اور اگر بہن بھائی بھی ہیں تو ماں کو ٦/١ حصہ ملے گا۔ یعنی ماں کے دو حصے، بیوی کے تین حصے باقی سات حصے باپ کو ملیں گے۔ اور اگر میت بیوی تھی تو ماں کے ٢ خاوند کو اور باپ کو ٤ حصے مل جائیں گے۔ یہ چند عام صورتیں بیان کردی گئیں ورنہ میراث کی اتنی صورتیں بن جاتی ہیں جن کا حصران حواشی میں ممکن نہیں۔ میں نے ان کی تفصیل اپنی کتاب ’تجارت اور لین دین کے احکام‘ کے پندرہویں باب ’احکام وراثت‘ میں درج کردی ہیں۔ النسآء
13 النسآء
14 [٢٦] احکام کے مطابق تقسیم نہ کرنے والے :۔ اگرچہ یہاں میراث کے احکام بیان ہو رہے ہیں مگر حکم عام ہے۔ خواہ احکام یتامیٰ کے حقوق کے متعلق ہوں یا عورتوں سے تعلق رکھتے ہوں۔ وصیت سے تعلق رکھتے ہوں یا کوئی دوسرے ضابطے ہوں۔ جو بھی اللہ تعالیٰ نے حدود مقرر کردی ہیں اگر ان سے کوئی تجاوز کرے گا وہ ہمیشہ کے لیے جہنم کے عذاب میں مبتلا رہے گا اور ربط مضمون کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ جو شخص اس قانون وراثت کو توڑے، عورتوں کو ورثہ سے محروم رکھے یا صرف بڑے بیٹے کو مستحق وراثت قرار دے یا عورت مرد کو برابر کا حصہ دار قرار دے یا جائیداد کو سرے سے تقسیم ہی نہ کرے اور اسے مشترکہ خاندانی جائیداد قرار دے دے تو ایسے سب لوگ حدود اللہ سے تجاوز کرنے والے اور اسی عذاب الیم کے مستحق ہیں۔ یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ :۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ میں یتیموں سے خیر خواہی، ان سے انصاف اور ان کے حقوق کی نگہداشت کی بڑی تفصیل سے تاکید فرمائی۔ لیکن یہ ذکر نہیں فرمایا۔ کہ یتیم پوتا بھی وراثت کا حقدار ہوتا ہے۔ اس مسئلہ کی اہمیت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود عبدالمطلب کی وفات کے وقت ان کے یتیم پوتے تھے لیکن آپ کو وراثت سے حصہ نہیں ملا۔ نہ ہی اللہ نے اس کا کہیں ذکر فرمایا۔ حالانکہ اگر یتیم پوتے کو وراثت میں حصہ دلانا اللہ کو منظور ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کے متعلق بھی قرآن میں کوئی واضح حکم نازل فرما دیتے۔ اور ایسے حکم کا نازل نہ ہونا ہی اس بات کی قوی دلیل ہے۔ کہ یتیم پوتا اپنے چچا یا چچاؤں اور پھوپھیوں وغیرہ کی موجودگی میں وراثت کا حق دار نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ اپنے مرنے والے باپ کی وراثت کا ہی حقدار ہوتا ہے۔ وراثت صرف اسے ملتی ہے جو میت کی وفات کے وقت موجود ہو :۔ اب یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے بعض متجددین کے واویلا کی بنا پر ہماری حکومت پاکستان نے قانون وراثت میں یتیم پوتے کو بھی حصہ دار قرار دیا ہے۔ اور یہ بات عقلی اور نقلی دونوں طرح سے غلط ہے۔ عقلی لحاظ سے اس طرح کہ کسی درخت کے پھل کو اس درخت کے ذریعہ زمین سے غذا اسی وقت تک ملتی ہے جب تک وہ درخت پر لگا رہے۔ اور جب درخت سے گر جائے تو اسے غذا نہیں مل سکتی۔ اور نقلی لحاظ سے اس طرح کہ تقسیم وراثت کے دو اصول ہیں۔ اور یہ دونوں کتاب اللہ سے مستنبط ہیں۔ پہلا یہ کہ وراثت میں حصہ صرف اس کو ملے گا۔ جو میت کی وفات کے وقت زندہ موجود ہو۔ اور جو میت کی زندگی میں مر چکا اس کا کوئی حصہ نہیں۔ الاقرب فالاقرب کا اصول :۔ دوسرا الاقرب فالاقرب کا اصول ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ قریبی رشتہ دار کی موجودگی میں دور کے رشتہ دار وراثت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اور قریبی سے مراد یہ ہے جس میں کوئی درمیانی واسطہ نہ ہو۔ جیسے میت کی صلبی اولاد۔ اس لحاظ سے بھی یتیم پوتا اپنے چچاؤں اور پھوپھیوں کی موجودگی میں وراثت کا حقدار قرار نہیں پاتا۔ یتیم پوتے کو وراثت میں حقدار ثابت کرنے والے اس معاملہ کو ایک شاذ قسم کی اور جذباتی قسم کی مثال سے سمجھانے کی کوشش فرماتے ہیں۔ مثلاً زید کے دو بیٹے ہیں۔ ایک بکر دوسرا عمر۔ زید کی وفات کے وقت بکر تو زندہ ہوتا ہے مگر عمر مر چکا ہوتا ہے۔ البتہ عمر کا ایک لڑکا خالد زندہ ہوتا ہے۔ اور سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ بکر کو تو سارا ترکہ مل جائے اور عمر کے بیٹے خالد کو کچھ نہ ملے۔ حالانکہ وہ یتیم ہے اور مال کا زیادہ محتاج ہے۔ کیا اس کا جرم یہی ہے کہ اس کا باپ مر چکا ہے؟ پھر ان حضرات نے یتیم پوتے کو حقدار بنانے کے لیے قائم مقامی کا اصول وضع کیا۔ یعنی خالد اپنے باپ عمر کا قائمقام بن کر اپنے دادا کے ترکہ سے آدھا ورثہ لینے کا حقدار ہے۔ قائم مقامی کا اصول :۔ غور فرمائیے کہ اسلام کے پورے قانون وراثت میں آپ کو کہیں یہ 'قائم مقامی کا اصول' نظر آیا ہے۔ دراصل اس اصول کے موجد پرویز صاحب کے استاد محترم حافظ اسلم جیراج پوری ہیں۔ پھر اسی نظریہ کی پرویز صاحب نے آبیاری فرمائی۔ اس سے پہلے آپ کو یہ اصول پوری اسلامی شریعت میں اور اسلامی تاریخ میں کہیں نظر نہ آئے گا۔ وجہ یہ ہے کہ حق وراثت تو مرنے کے ساتھ ہی ختم ہوجاتا ہے۔ پھر جب حق وراثت ہی ختم ہوچکا تو قائم مقامی کس بات کی؟ پھر اس اصول کو تسلیم کرنے کے مفاسد بے شمار ہیں۔ مثلاً میت کی بیوی اس سے پہلے فوت ہوچکی ہے۔ اب اس نظریہ قائم مقامی کی رو سے بیوی کے اقربین جائز طور پر ترکہ سے حصہ طلب کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ اسی طرح میت اگر عورت ہے جس کا خاوند پہلے ہی فوت ہوچکا ہے تو خاوند کے رشتہ دار قائم مقام ہونے کی حیثیت سے ترکہ سے حصہ طلب کرسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں ورثہ کے حقدار صرف بیٹے ہی نہیں بیٹیاں بھی ہوتی ہیں۔ اور کسی بھی فوت شدہ بیٹی کی اولاد (یعنی بھانجے بھانجیاں) بھی اس قائم مقامی کے اصول کے تحت ورثہ کا مطالبہ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ آگے چلتا ہی جاتا ہے۔ پھر اسے آخر کس قاعدہ کے تحت صرف یتیم پوتے تک ہی محدود رکھا جا سکتا ہے؟ اس اصول کا دوسرا مفسدہ یہ ہے کہ مثلاً زید کے دونوں بیٹے بکر اور عمر فوت ہوچکے ہیں۔ بکر کی اولاد صرف ایک بیٹا ہے مگر عمر کے پانچ بیٹے ہیں۔ اور میت کا اقرب ہونے کے لحاظ سے سب ایک درجہ پر ہیں۔ اور سارے ہی ایک جیسے قائم مقام ہیں۔ تو کیا ورثہ ان میں برابر تقسیم کردیا جائے گا ؟ یا بکر کے بیٹے کو ٢/١ اور عمر کے بیٹوں کو صرف دسواں دسواں حصہ ملے گا ؟ ان میں سے کون سی تقسیم درست ہوگی اور کیوں؟ قائم مقامی کے اصول کے حق میں ان لوگوں کی دلیل یہ ہے کہ اگر دادا باپ کے فوت ہونے کی صورت میں باپ کا قائم مقام بن کر ترکہ سے حصہ پا سکتا ہے تو پوتا اپنے فوت شدہ باپ کا قائم مقام بن کر دادا سے کیوں حصہ نہیں پا سکتا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تقسیم بھی قائم مقامی کے اصول کے تحت نہیں ہوتی۔ بلکہ الاقرب فالاقرب کے اصول کے تحت ہی ہوتی ہے۔ بالائی یا آبائی جانب میں باپ کے بعد صرف دادا ہی اقرب ہوسکتا ہے جب کہ ابنائی جانب میں میت کے اقرب اس کے بیٹے ہوتے ہیں نہ کہ پوتے۔ ہاں اگر صلبی اولاد کوئی بھی زندہ نہ ہو تو پھر پوتے بھی وارث ہو سکتے ہیں۔ ان حضرات کا اصل ہدف یتیم کی خیر خواہی نہیں بلکہ سنت میں کیڑے نکالنا اور اس کی مخالفت ہے۔ اور وہ بھی کسی قرآن کی آیت سے نہیں بلکہ اپنی وضع کردہ اصول قائم مقامی کی بنا پر جس میں بنیادی غلطی یہ ہے کہ مرے ہوئے رشتہ داروں کو زندہ تصور کرکے قائم مقامی کا حق قائم کیا جاتا ہے۔ ورنہ کتاب و سنت میں یتیم سے ہمدردی کی بہت سی صورتیں موجود ہیں۔ مثلاً مرنے والا خود اس کے لیے ایک تہائی ورثہ وصیت کرنے کا حق رکھتا ہے۔ اس لیے کہ یتیم پوتا وارث نہیں اور وصیت ہوتی ہی غیر وارث کے لیے ہے۔ وارث کے لیے وصیت نہیں ہو سکتی اور اگر مرنے والا وصیت نہیں کرسکا۔ یا اس کے حق میں وصیت نہیں کرنا چاہتا تھا کہ بقیہ وارث اسے خود اپنی رضا سے اس میں شریک بنا سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ اگر مناسب سمجھیں تو اسے اپنی مرضی سے سارے کا سارا ترکہ بھی دے سکتے ہیں اور ان باتوں کا انہیں بھی ایسا ہی حق ہے جیسا مرنے والے کو وصیت کرنے کا حق ہے۔ پھر اگر مرنے والا دادا کو بھی اس سے کوئی ہمدردی نہ ہو اور نہ ہی دوسرے وارثوں کو ہو۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا پوتا ہمدردی کا حقدار ہی نہیں تھا۔ ممکن ہے اپنے مرنے والے باپ سے اسے اتنا مال و دولت مل گیا ہو کہ دوسرے اسے دینے کی ضرورت ہی نہ سمجھیں۔ اس صورت میں آپ کی ہمدردی اس کے کس کام آ سکتی ہے؟ النسآء
15 [٢٧] زنا کی سزا :۔ احکام وراثت کے بعد اب دوسری معاشرتی برائیوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جن میں سرفہرست زنا اور فحاشی ہے۔ زنا کے لیے گواہیوں کا نصاب چار مردوں کی گواہی ہے اور یہ سب عاقل، بالغ اور قابل اعتماد ہونے چاہئیں۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ دو مرد اور چار عورتیں گواہی دے دیں۔ کیونکہ عورت کی گواہی صرف مالی معاملات میں قابل قبول ہے، حدود میں نہیں۔ ایسے چار مسلمان، عاقل، بالغ اور قابل اعتماد اور معتبر آدمیوں کا اس طرح گواہی دینا کہ انہوں نے فلاں عورت کو بچشم خود دیکھا ہے بظاہر بہت مشکل نظر آتا ہے۔ ان کڑی سزاؤں کے ساتھ چار گواہوں کا نصاب مقرر کرنے میں غالباً حکمت الٰہی یہ ہے کہ اگر کوئی ایک آدھ شخص کسی کو زنا کرتے دیکھ بھی لے تو اس برائی کو ظاہر کرنے یا پھیلانے کی ہرگز کوشش نہ کرے۔ زنا کے گواہ دراصل خود مجرم کی حیثیت سے عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہوتے ہیں اور اگر خدانخواستہ زنا کے گواہوں میں سے کسی ایک کی گواہی بھی نامکمل رہے یا مشکوک ہوجائے تو زانی بچ جائے گا اور گواہوں پر قذف کی حد پڑجائے گی۔ اس لیے زنا کی گواہی کے لیے جانا اور گواہی دینا بذات خود بڑا خطرناک کام ہے۔ النسآء
16 [٢٨] اس آیت میں (والذان) کا لفظ استعمال ہوا ہے یعنی خواہ یہ زنا کرنے والے مرد اور عورت ہوں یا دونوں مرد ہوں اور لواطت کے مرتکب ہوں۔ اس لفظ میں دونوں صورتوں کی گنجائش ہے تو ایسے مردوں یا ایسے مرد اور عورت کی ابتدائی سزا یہ تھی کہ انہیں مار پیٹ کی جائے اور برا بھلا کہا جائے اور ذلیل کیا جائے۔ گویا زانی مرد اور عورت دونوں کے لیے تو یہ سزا تھی اور عورت کے لیے یہ سزا اضافی تھی کہ اسے تازیست گھر میں بند رکھا جائے۔ اور جس دوسری سزا کے تجویز کرنے کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا تھا اس سلسلے میں درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے : سزائے رجم :۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک روز آپ پر وحی نازل ہوئی اور جب وحی کی کیفیت ختم ہوئی تو آپ نے فرمایا : مجھ سے (اللہ کا حکم) سیکھ لو۔ اللہ نے ایسی عورتوں کے لیے سزا تجویز کردی۔ شادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورت اگر زنا کریں تو انہیں سو کوڑے مارے جائیں۔ پھر رجم کیا جائے اور اگر کنوارہ مرد اور کنواری عورت زنا کریں تو ان کے لیے سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے۔ (مسلم، کتاب الحدود۔ باب حد الزنا) پھر اس حکم کے بعد زانی مرد اور عورت کے لیے سورۃ نور میں سزا تجویز فرمائی۔ یہ بحث تفصیل سے سورۃ نور میں ہی آئے گی۔ مندرجہ بالا آیات میں بعض لوگوں نے والٰتی سے مراد مرد اور عورت نہیں بلکہ دونوں عورتیں ہی لی ہیں، جو آپس میں چپٹی بازی کر کے (جسے عربی میں سحق کہتے ہیں) کام چلا لیتی ہیں۔ ایسی دونوں عورتوں کے لیے سزا حبس دوام ہے۔ یعنی گھر میں ہی ایسی عورتوں کی کڑی نگہداشت رکھی جائے۔ اور یہ حد نہیں بلکہ تعزیر ہے لیکن یہ مراد کچھ درست معلوم نہیں ہوتی۔ کیونکہ بعد میں اللہ تعالیٰ نے جو سزا تجویز فرمائی وہ مرد اور عورت کے لیے سزا تھی۔ خواہ وہ کنوارے ہوں یا شادی شدہ، ہر ایک کے لیے علیحدہ سزا مقرر ہوئی، جیسا کہ مندرجہ بالا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث سے واضح ہے جسے مسلم نے روایت کیا ہے۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ اگر عورتیں ہی آپس میں چپٹی بازی کریں تو انہیں ان کے ولی ایسی سزا دے سکتے ہیں۔ اسی طرح والَّذَانِ سے مراد اغلام یا لواطت لی گئی ہے یعنی ایسی بدفعلی جو دو مرد آپس میں کرتے ہیں۔ اور ان پر بھی حد نہیں بلکہ تعزیر ہے اور وہ تعزیر یہ ہے کہ انہیں جوتے مارے جائیں۔ لواطت کی حد کے بارے میں ترمذی، ابو اب الحدود میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک روایت مرفوعاً مروی ہے کہ فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کردیا جائے لیکن یہ حدیث ضعیف ہے۔ پھر ائمہ ایسے جوڑے کے رجم کے قائل ہیں۔ اور بعض کہتے ہیں کہ ان کی سزا زانی جیسی ہے۔ اگر شادی شدہ ہے تو رجم ورنہ کوڑے پڑیں گے۔ زنا ہو یا اغلام یا چپٹی بازی ہو یا محض تہمت ہو۔ ان سب میں چار مردوں کی شہادت ضروری ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک دعویٰ میں دو دو افراد ملوث ہوتے ہیں خواہ ایک مرد اور ایک عورت ہو یا دونوں عورتیں ہوں یا دونوں مرد ہوں۔ [٢٩] یعنی اگر وہ مار پیٹ کے دوران یا اس کے بعد اپنے کیے پر فی الواقع نادم ہوں اور آئندہ کے لیے اپنی اصلاح کرلیں تو ایسے لوگوں پر مزید ملامت کرنا درست نہیں۔ النسآء
17 [٣٠] توبہ کس کی قبول ہے اور کس کی نہیں :۔ گویا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے توبہ کی قبولیت کے لیے دو باتوں کی قید لگا دی۔ ایک تو یہ کہ وہ گناہ از راہ نادانی، جہالت یا نادانستہ طور پر سرزد ہوا ہو۔ اور دوسرے یہ کہ اس قصور وار کو بعد میں جلد ہی اپنی غلطی کا احساس ہوجائے اور وہ اللہ کے حضور توبہ کرے اور اگر اس کے برعکس معاملہ ہو یعنی گناہ بھی دانستہ طور پر اور اللہ کے احکام پر دلیر ہو کر کیا گیا ہو یا گناہ تو نادانستہ واقع ہوا ہو مگر توبہ میں عمداً تاخیر کرتا جائے تو ایسی صورتوں میں توبہ کے قبول ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ النسآء
18 [٣١] جب انسان پر نزع کا عالم طاری ہوجائے، وہ موت کے آثار دیکھ لے اور اسے روح قبض کرنے والے فرشتے نظر آنے لگیں تو توبہ کا وقت ختم ہوچکا۔ کیونکہ اب وہ دارالامتحان سے نکل کر دارالآخرت کی سرحد پر کھڑا ہے اور توبہ ایک عمل ہے جس کا وقت گزر چکا۔ اس آیت میں دو طرح کے لوگوں کا ذکر ہے۔ ایک وہ جو تھے تو مسلمان مگر ساری عمر گناہ کرتے کرتے ہی گزار دی اور دوسرے وہ جو کافر تھے پھر اسی کفر کی حالت میں مر گئے۔ دونوں طرح کے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ ان دو آیات میں چار قسم کے لوگوں کی توبہ کا ذکر ہوا ہے۔ ایک وہ جس نے نادانستہ گناہ کیا۔ مگر جب اسے معلوم ہوگیا تو اس نے فوراً توبہ کرلی۔ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا ﴿ اِنَّمَا التَّوْبَۃُ عَلَی اللّٰہِ ﴾ اور علیٰ کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کی توبہ قبول کرنا اللہ پر واجب ہے یا وہ ضرور توبہ قبول کرتا ہے اور یہ بھی اللہ کی مہربانی ہے کہ اس نے ایسے لوگوں کی توبہ قبول کرنا اپنے لیے واجب کرلیا ورنہ وہ تو مختار مطلق ہے۔ اور دوسری قسم عدم شرط سے پیدا ہوجاتی ہے یعنی وہ لوگ جو گناہ تو نادانستہ طور پر ہی کرتے ہیں مگر معلوم ہوجانے پر توبہ میں جلدی نہیں کرتے بلکہ تاخیر کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی توبہ قبول کرنے کا اللہ نے کوئی وعدہ نہیں کیا۔ چاہے تو قبول کرلے اور چاہے تو نہ کرے۔ تیسری قسم اس مسلمان کی ہے جسے عمر بھر تو توبہ کا خیال نہ آیا اور اگر خیال آیا بھی تو موت کے وقت، ایسے شخص کے متعلق واضح طور پر فرما دیا کہ اس کی توبہ قبول نہ ہوگی۔ اور چوتھی قسم جو توبہ کیے بغیر کفر ہی کی حالت میں مر گیا اس کی بھی موت کے وقت توبہ قبول نہیں ہو سکتی اور اس کی وجہ اوپر بیان کی جا چکی ہے۔ النسآء
19 [٣٢] جاہلیت میں عورت ترکہ کا مال تھا :۔ یعنی عورت بھی ترکہ کا مال تصور ہوتی تھی اور اس کا وارث سوتیلا بیٹا یا میت کا بھائی ہوتا تھا چنانچہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ عربوں میں یہ دستور تھا کہ جب کوئی شخص مرتا تو اس کی بیوی پر میت کے وارثوں کا زور چلتا تھا (وہ بھی ترکہ ہی تصور ہوتی تھی) چاہتے تو خود اس سے نکاح پڑھا لیتے، چاہتے تو کسی اور سے نکاح کردیتے اور چاہتے تو اسے بلانکاح ہی رہنے دیتے۔ غرض اس پر خاوند کے وارثوں کا اختیار تھا، عورت کے وارثوں کا کچھ بھی اختیار نہ تھا۔ پھر یہ آیت اتری (جس سے عورتوں کو پوری آزادی مل گئی۔) (بخاری، کتاب التفسیر) [٣٣] یعنی انہیں گھر میں قید رکھنے کا اختیار صرف اس صورت میں ہے کہ بدکاری کا ارتکاب کریں۔ جیسا کہ اسی سورۃ کی آیت نمبر ١٥ میں گزر چکا ہے اور یہ حکم عام ہے۔ صرف ان سوتیلی ماؤں کے لیے نہیں جو تمہارے باپوں کے نکاح میں تھیں۔ ورنہ صرف مال ہتھیانے کے لیے عورتوں کو روکے رکھنا کسی صورت میں جائز نہیں۔ [٣٤] اپنی بیویوں سے حسن معاشرت کے سلسلہ میں درج ذیل ارشادات نبوی ملاحظہ فرمائیے : ١۔ بیویوں سے حسن معاشرت :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’مومنوں میں سب سے کامل وہ شخص ہے۔ جس کے اخلاق اچھے ہوں اور تم میں سے بہتر وہ لوگ ہیں جو اپنی بیویوں کے حق میں بہتر ہیں۔‘‘ (ترمذی، ابو اب الرضاع۔ باب حق المرأۃ علٰی زوجھا) ٢۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (خطبہ حجتہ الوداع کے دوران) فرمایا۔ ’’عورتوں کے معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہنا کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی ذمہ داری پر حاصل کیا ہے اور ان کی شر مگاہوں کو اللہ کے کلمہ کے ساتھ حلال کیا ہے۔ تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو۔ پھر اگر وہ ایسا کریں تو تم انہیں مار سکتے ہو لیکن اس طرح کہ انہیں چوٹ نہ آئے۔ اور ان کا تم پر یہ حق ہے کہ تم انہیں دستور کے مطابق خوراک اور پوشاک مہیا کرو۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الحج، باب حجۃ النبی ) ٣۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔’’کوئی مومن (اپنی) مومنہ (بیوی) سے بغض نہ رکھے۔ اگر اسے اس کی کوئی عادت ناپسند ہوگی تو ضرور کوئی دوسری پسند بھی ہوگی۔‘‘ (مسلم، کتاب الرضاع۔ باب الوصیۃ بالنساء) ٤۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’عورت پسلی کی طرح ہے اگر تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو اسے توڑ دو گے اور اگر اس سے فائدہ اٹھانا چاہو تو اسی حالت میں اٹھاؤ جبکہ اس میں کجی موجود ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب النکاح، باب المداراۃ مع النساء مسلم، کتاب الرضاع، باب الوصیۃ بالنسائ) [٣٤۔ ١] مثلاً تمہاری بیوی خوبصورت یا تعلیم یافتہ تو نہیں مگر وہ کفایت شعار ہے۔ اور خانہ داری سے خوب واقف ہے اور تنگی ترشی میں خاوند کو ناجائز تنگ نہیں کرتی بلکہ اس کی اطاعت گزار اور فرمانبردار ہے۔ اب اگر مرد محض کسی عورت کو اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اپنے گھر میں لانا اور اسے رخصت کرنا چاہتا ہے تو ممکن ہے کہ وہ خوبصورت عورت مطالبات سے اپنے خاوند کا ناک میں دم کر دے۔ کفایت شعار بھی نہ ہو اور گھر کی صفائی اور امور خانہ داری کے لیے شوہر سے کسی ملازم یا ملازمہ کا مطالبہ کر دے اور اس پر جینا حرام کر دے لہٰذا جو کچھ تمہارے پاس ہے اسی پر اکتفا اور قناعت کرو اور اسی سے نبھانے کی اور حسن سلوک کی حتی الامکان کوشش کرو اور اپنی گھریلو زندگی کو بگاڑنے کے بجائے اس میں اصلاح پیدا کرنے کی کوشش کرو۔ النسآء
20 [٣٥] طلاق دیتے وقت عورت سے مال ہتھیانے کی کوشش :۔ یہاں دینے سے مراد صرف حق مہر نہیں۔ اس کے علاوہ بھی جو کچھ تم اپنی بیویوں کو دے چکے ہو۔ وہ ہرگز واپس نہ لینا چاہیے۔ بیوی کا تو خیر حق بھی ہوتا ہے۔ انسان اگر کسی دوسرے شخص کو کوئی چیز دے تو پھر اسے وہ واپس نہیں لینی چاہیے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’اپنے صدقہ (اور دوسری روایت کے مطابق اپنے ہبہ) کو واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب الہبہ، باب ھبۃ الرجل لامراتہ والمرأۃ لزوجھا) اور یہ بہتان اور صریح گناہ اس لحاظ سے ہے کہ نکاح کے وقت تم نے بھری مجلس میں گواہوں کے سامنے حق مہر کی ادائیگی کا اقرار کیا تھا۔ لہٰذا عورت سے پورا حق مہر یا اس کا کچھ حصہ یا ہبہ کردہ چیز واپس لینا یا واپس لینے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنا بدترین جرم ہے بلکہ اللہ کا حکم تو یہ ہے کہ اگر تم انہیں طلاق دیتے ہو تو طلاق دیتے وقت انہیں مزید کچھ دے دلا کر بھلے طریقے سے رخصت کرو۔ چہ جائیکہ تم پہلے دیئے ہوئے میں سے بھی کچھ لینے کی کوشش کرو۔ (نیز اس سلسلہ میں اسی سورت کا حاشیہ نمبر ٧ ملاحظہ فرمائیے) النسآء
21 النسآء
22 [٣٦] سوتیلی ماؤں سے نکاح :۔ یعنی تمہاری سوتیلی مائیں بھی ماؤں ہی کے مقام پر ہیں لہٰذا انہیں ورثہ کا مال سمجھنا اور زبردستی ان سے نکاح کرنا، ان کے ترکہ کے وارث بن بیٹھنا، یہ سب باتیں انتہائی شرمناک اور قابل مذمت ہیں۔ البتہ جو نکاح اس حکم کے آنے سے پہلے تک تم کرچکے ہو وہ کالعدم قرار نہیں دیئے جائیں گے، نہ ان سے پیدا شدہ اولاد حرامی تصور ہوگی۔ وراثت کے احکام بھی ان پر لاگو ہوں گے لیکن اس حکم کے بعد تم پر سوتیلی ماؤں سے نکاح کرنا حرام ہے۔ النسآء
23 [٣٧] رضاعت کے رشتوں کی حرمت سے متعلق درج ذیل احادیث نبویہ بھی ملاحظہ فرمائیں : ١۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو رشتے نسب کی رو سے حرام ہیں وہ رضاعت سے حرام ہوجاتے ہیں۔‘‘ (بخاری، کتاب الشہادات، باب الشہادت علی الانساب) [٣] رضاعت کے رشتے اور احکام رضاعت :۔ ٢۔ عقبہ بن حارث کہتے ہیں کہ میں نے ابو اہاب بن عزیز کی بیٹی سے نکاح کیا۔ پھر ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ ’’میں نے عقبہ اور اس کی بیوی دونوں کو دودھ پلایا ہے۔‘‘ میں نے اسے کہا ’’میں تو نہیں سمجھتا کہ تو نے مجھے دودھ پلایا ہے نہ ہی تو نے مجھے کبھی بتایا۔‘‘ پھر میں سوار ہو کر مدینہ آپ کے پاس پہنچا اور آپ سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اب یہ نکاح کیسے رہ سکتا ہے جبکہ ایسی بات کہی گئی ہے۔‘‘ چنانچہ میں نے اسے چھوڑ دیا اور کسی دوسری سے نکاح کرلیا۔ (بخاری، کتاب العلم، باب الرحلۃ فی المسئلۃ النازلۃ) ٣۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’رضاعت وہی معتبر ہے جو کم سنی میں بھوک بند کرے۔‘‘ (بخاری کتاب النکاح، باب من قال لارضاع بعد حولین) ٤۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ افلح ابو قعیس کا بھائی میرا رضاعی چچا تھا۔ وہ میرے ہاں آیا اور اندر آنے کی اجازت چاہی۔ یہ واقعہ پردہ کا حکم آنے کے بعد کا ہے۔ لہٰذا میں نے اسے اجازت نہ دی۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئے تو میں نے آپ سے بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں اسے اندر آنے کی اجازت دے دوں۔ (بخاری، کتاب النکاح، باب لبن الفحل) ٥۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ایک بار یا دو بار دودھ چوسنے سے رضاعت کی حرمت ثابت نہیں ہوتی۔‘‘ (ترمذی، ابو اب الرضاع، باب لاتحرم المصۃ ولا المصتان) ٦۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ قرآن میں ایک آیت اتری تھی عشر رضعات معلومات یعنی دس بار دودھ چوسنے سے حرمت رضاعت ثابت ہوتی ہے۔ پھر وہ منسوخ ہوگئی اور پانچ بار کا حکم باقی رہا اور یہی حکم آپ کی وفات تک رہا۔ اور اسی کے مطابق سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فتویٰ دیا کرتی تھیں۔ (جائزۃ الشعوذی، جامع ترمذی۔ ابو اب الرضاع، باب لاتحرم المصۃ ولا المصتان) رہی رضاعت کی مدت جس کے اندر دودھ چوسنے سے رضاعت ثابت ہوتی ہے تو وہ بموجب ﴿حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ﴾ دو سال تک ہے اور ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے سوا تمام فقہا اسی کے قائل ہیں۔ البتہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ رضاعت کی مدت اڑھائی سال قرار دیتے ہیں۔ نیز ان کے نزدیک ایک دفعہ چوسنے یا ایک گھونٹ سے بھی رضاعت ثابت ہوجاتی ہے۔ [٣٨] سنت کی رو سے حرام رشتے :۔ قرآن میں صرف دو حقیقی بہنوں کو نکاح میں جمع کرنے کی ممانعت مذکور ہے جبکہ حدیث میں پھوپھی بھتیجی اور خالہ بھانجی کو بھی جمع کرنے کی ممانعت آئی ہے۔ چنانچہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’پھوپھی بھتیجی اور خالہ بھانجی کو بھی نکاح میں جمع نہ کیا جائے۔‘‘ (بخاری، کتاب النکاح، باب لاینکح المراۃ علی عمتھا۔ مسلم، کتاب النکاح 'باب تحریم الجمع بین المرأۃ و عمتھا) [٣٩] حرام رشتوں کی تفصیل :۔ آیت نمبر ٢٣ کی رو سے درج ذیل عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے اور سنت سے اس کی مزید وضاحتیں کی گئی ہیں : ١۔ مائیں۔ اور ان میں دادیاں نانیاں بھی شامل ہیں۔۔ تاآخر۔ ٢۔ بیٹیاں۔ اور ان میں پوتیاں، نواسیاں بھی شامل ہیں۔۔ تاآخر۔ ٣۔ بہنیں۔ اور ان میں سگی، علاتی اور اخیافی بہنیں سب شامل ہیں۔ ٤۔ پھوپھیاں۔ ٥۔ خالائیں۔ خواہ یہ سگی ہوں یا اخیافی یا علاتی، سب حرام ہیں۔ ٦۔ بھتیجیاں اور ان کی بیٹیاں۔ ٧۔ بھانجیاں اور ان کی بیٹیاں۔ ٨۔ رضاعی مائیں۔ ٩۔ رضاعی بہنیں۔ اور رضاعت کی رو سے وہ سب رشتے حرام ہیں جو نسب کی رو سے حرام ہیں۔ ١٠۔ ساس، اور سالیاں جب تک کہ ان کی بہن نکاح میں ہو۔ ١١۔ بیٹیاں اور سوتیلی بیٹیاں۔ ١٢۔ بہو (حقیقی بیٹے کی بیوہ) سے نکاح حرام ہے۔ ١٣۔ دو بہنوں کو بیک وقت نکاح میں جمع کرنا حرام ہے۔ اس حکم کے بعد فوراً ایک کو طلاق دے دی جائے گی۔ ١٤۔ اور اگلی آیت نمبر ٢٤ کی رو سے تمام شوہر والی عورتیں بھی حرام ہیں۔ النسآء
24 [٤٠] موجودہ دور کے مہذب معاشرہ میں فاتح قوم قیدی عورتوں سے جس طرح کھلی بے حیائی کا ارتکاب کرتی ہے، اسلامی نقطہ نظر سے یہ صریح زنا ہے اور جس طرح آج کل قیدی عورتوں کو ایک کیمپ میں رکھا جاتا ہے اور فوجیوں کو عام اجازت دی جاتی ہے کہ جس عورت سے چاہیں زنا کرتے رہیں۔ یہ صرف زنا ہی نہیں رہتا بلکہ ایک وحشیانہ فعل بھی بن جاتا ہے۔ چنانچہ اسلام نے ایسی عورتوں سے تمتع پر چند در چند پابندیاں لگائی ہیں۔ اس سلسلے میں پہلے درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے : قیدی عورتوں اور لونڈیوں سے تمتع کی شرط :۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کے دن ایک لشکر اوطاس کی طرف روانہ کیا۔ ان کا دشمن سے مقابلہ ہوا، مسلمانوں نے فتح پائی اور بہت سے قیدی ہاتھ آئے۔ صحابہ کرام نے ان قیدی عورتوں سے صحبت کرنے کو گناہ سمجھا کہ ان کے مشرک شوہر موجود تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر عدت کے بعد ان لونڈیوں کو ان کے لیے حلال کردیا۔ (مسلم۔ کتاب الرضاع، باب جواز وطی المسبیۃ) اس آیت اور مندرجہ بالا حدیث سے درج ذیل باتوں کا پتہ چلتا ہے۔ ١۔ صرف اس قیدی عورت سے تمتع کیا جا سکتا ہے جو امیر لشکر دیگر اموال غنیمت کی طرح کسی مجاہد کی ملکیت میں دے دے۔ اس سے پہلے اگر کوئی شخص کسی عورت سے تمتع کرے گا تو وہ دو گناہوں کا مرتکب ہوگا۔ ایک زنا کا اور دوسرے مشترکہ اموال غنیمت کی تقسیم سے پیشتر ان میں خیانت کا۔ ٢۔ امیر لشکر کا کسی عورت کو کسی کی ملکیت میں دینے کے بعد اس سے نکاح کی ضرورت نہیں رہتی۔ ملکیت میں دے دینا ہی کافی ہوگا اور اس کا سابقہ نکاح از خود ختم ہوجائے گا۔ ٣۔ تقسیم کے بعد ایسی عورت سے فوری طور پر جماع نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک اسے کم از کم ایک حیض نہ آ لے۔ اور یہ معلوم نہ ہوجائے کہ وہ حاملہ ہے یا نہیں۔ اور اگر وہ حاملہ ہوگی تو اس کی عدت تا وضع حمل ہے۔ اس سے بیشتر اس سے جماع نہیں کیا جا سکتا۔ اور مزید احکام یہ ہیں: ٤۔ ایسی عورت سے صرف وہی شخص جماع کرسکتا ہے جس کی ملکیت میں وہ دی گئی ہو۔ کوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔ ٥۔ اگر اس قیدی عورت سے اولاد پیدا ہوجائے تو پھر اسے فروخت نہیں کیا جا سکتا۔ ٦۔ اگر ایسی قیدی عورت کو اس کا مالک کسی کے نکاح میں دے دے تو پھر وہ اس سے دوسری خدمات تو لے سکتا ہے لیکن صحبت نہیں کرسکتا۔ ٧۔ جب عورت سے مالک کی اولاد پیدا ہوجائے تو مالک کے مرنے کے بعد وہ ازخود آزاد ہوجائے گی۔ شرعی اصطلاح میں ایسی عورت کو ام ولد کہتے ہیں۔ ٨۔ اگر امیر لشکر یا حکومت ایک عورت کو کسی کی ملکیت میں دے دے تو پھر وہ خود بھی اس کو واپس لینے کی مجاز نہیں ہوتی۔ الا یہ کہ اس تقسیم میں کوئی ناانصافی کی بات واقع ہو جس کا علم بعد میں ہو۔ اس طرح چند در چند شرائط عائد کر کے اسلام نے ایسی عورتوں سے تمتع کی پاکیزہ ترین صورت پیش کردی ہے جس میں سابقہ اور موجودہ دور کی فحاشی، وحشت اور بربریت کو حرام قرار دے کر اس کا خاتمہ کیا گیا ہے اور تمتع کے بعد اس کے نتائج کی پوری ذمہ داری مالک پر ڈالی گئی ہے۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ 'جس شخص کے پاس کوئی لونڈی ہو وہ اس کی تعلیم و تربیت کرے اسے ادب سکھائے پھر اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کرلے تو اس کے لیے دوہرا اجر ہے۔' (بخاری، کتاب العتق، باب فضل من ادب جاریتہ و علمھا) ان سب باتوں کے باوجود یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ لونڈیوں سے تمتع ایک رخصت ہے حکم نہیں ہے اور یہ اللہ کی رحمت ہے کہ اس نے ایسی اجازت دے دی ہے کیونکہ جہاد اور اس میں عورتوں کی گرفتاری ایسی چیز ہے جس سے مفر نہیں اور ایسا بھی عین ممکن ہے کہ جنگ کے بعد قیدیوں کے تبادلہ یا اور کوئی باعزت حل نہ نکل سکے اسی لیے اللہ نے سے کلیتاً حرام قرار نہیں دیا۔ [٤١] یعنی مذکورہ بالا عورتوں کے علاوہ باقی آزاد عورتوں میں سے جس کے ساتھ تم چاہو، درج ذیل شرائط کے ساتھ نکاح کرسکتے ہو : ١۔ نکاح کی شرائط :۔ طلب سے مراد ایجاب و قبول ہے۔ ٢۔ یہ نکاح مستقلاً ہو۔ محض شہوت رانی کی غرض سے نہ ہو۔ اس سے نکاح متعہ کی حرمت ثابت ہوئی۔ ٣۔ حق مہر مقرر کرنا اور اس کی ادائیگی۔ الا یہ کہ بیوی اپنی مرضی سے یہ مہر یا اس کا کچھ حصہ چھوڑ دے اسی طرح مرد مقررہ مہر سے زیادہ بھی دے سکتا ہے۔ ٤۔ اعلان نکاح۔ جیسا کہ اگلی آیت میں ﴿وَّلَا مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ﴾سے واضح ہے اور سنت سے اس کی صراحت مذکور ہے۔ یعنی نکاح کے کم از کم دو گواہ موجود ہونے چاہئیں۔ واضح رہے کہ شیعہ حضرات اس آیت اور بعض صحیح احادیث سے نکاح متعہ کے جواز پر استدلال کرتے ہیں۔ لہٰذا نکاح متعہ کے جواز یا حرمت کی تحقیق ضروری ہے۔ اس آیت سے استدلال کی صورت یہ ہے کہ بعض روایات میں وارد ہے کہ ﴿فَـمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ ﴾کے آگے ﴿اِلیٰ اَجَلٍ مُّسَمًّی﴾ کے الفاظ بھی موجود تھے جو بعد میں منسوخ ہوگئے مگر ابن عباس رضی اللہ عنہما اس کے نسخ کے قائل نہیں۔ نکاح متعہ ایک اضطراری رخصت تھی :۔ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نکاح متعہ تین مواقع پر مباح کیا گیا اور پھر ساتھ ہی اس کی حرمت کا اعلان کیا۔ یہ جنگ خیبر، فتح مکہ اور اوطاس اور جنگ تبوک ہیں۔ ان مواقع پر ابتداءً نکاح متعہ کی اجازت دی جاتی تھی اور جنگ کے اختتام پر اس کی حرمت کا اعلان کردیا جاتا تھا۔ گویا یہ ایک اضطراری رخصت تھی۔ اور صرف ان مجاہدین کو دی جاتی تھی جو محاذ جنگ پر موجود ہوتے تھے اور اتنے عرصہ کے لیے ہی ہوتی تھی۔ اور اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ جنگ بدر، احد اور جنگ خندق کے مواقع پر ایسی اجازت نہیں دی گئی اور جن حالات میں یہ اجازت دی جاتی تھی وہ درج ذیل احادیث میں ملاحظہ فرمائیے : ١۔ ابن ابی عمرو کہتے ہیں کہ متعہ پہلے اسلام میں ایک اضطراری رخصت تھی جیسے مجبور و مضطر شخص کو مردار، خون اور خنزیر کے گوشت کی رخصت ہے پھر اللہ نے اپنے دین کو محکم کردیا اور نکاح متعہ سے منع کردیا گیا۔ (مسلم، کتاب النکاح، باب نکاح المتعہ۔۔) ٢۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ جہاد کرتے تھے اور ہمارے پاس عورتیں نہ تھیں اور ہم نے کہا کہ کیا ہم خصی نہ ہوجائیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے منع فرمایا اور اس بات کی اجازت دی کہ ایک کپڑے کے بدلے ایک معین مدت تک عورت سے نکاح کریں۔ (حوالہ ایضاً) ٣۔ اور اس کا طریق کار یہ ہوتا تھا کہ صحابہ کی التجا پر متعہ کی اجازت کا اعلان تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی صحابی رضی اللہ عنہ سے کرواتے تھے مگر جنگ کے خاتمہ پر اس کی حرمت کا اعلان خود فرماتے تھے۔ چنانچہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ اور سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ دونوں کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منادی ہمارے پاس آیا اور پکار کر کہنے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہیں عورتوں سے متعہ کی اجازت دی ہے۔ (حوالہ ایضاً) ٤۔ ربیع بن سمرہ اپنے باپ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا لوگو! میں نے تمہیں عورتوں سے متعہ کی اجازت دی تھی اور اب اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت کے دن تک کے لیے حرام کردیا ہے۔ سو اگر کسی کے پاس ایسی عورت ہو تو وہ اسے چھوڑ دے اور جو کچھ تم دے چکے ہو وہ واپس نہ لو۔ (حوالہ ایضاً) متعہ کی حرمت کا یہ اعلان حجتہ الوداع ١٠ ھ میں ہوا تھا جیسا کہ اس دن سود اور جاہلیت کے خون کی بھی ابدی حرمت کا اعلان ہوا تھا۔ ٥۔ ایاس بن سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر مرد اور عورت متعہ کی مدت مقرر نہ کریں تو تین دن رات مل کر رہیں۔ پھر اگر چاہیں تو مدت بڑھا لیں اور چاہیں تو جدا ہوجائیں۔ (بخاری کتاب النکاح، باب النھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عن نکاح المتعۃ اخیرا) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نکاح متعہ کی صورت ایسی نہ تھی جیسے کہ آج کل کے قحبہ خانوں میں ہوا کرتی ہے کہ ایک بار کی مجامعت کی اجرت طے کرلی جاتی ہے بلکہ اس کی کم سے کم مدت تین دن ہے زیادہ کی کوئی حد نہیں ہے۔ یہ تین دن کی مدت بھی صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے مقرر کی گئی تھی۔ بعد میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بیان کے مطابق اسے منسوخ کردیا گیا۔ ٦۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما جو متعہ کے قائل تھے وہ بھی صرف اضطراری حالت میں اس کی رخصت کے قائل تھے عام حالات میں نہیں۔ چنانچہ ابن جمرہ کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کسی نے پوچھا کہ عورتوں سے متعہ کرنا کیسا ہے؟ انہوں نے کہا کہ اس کی رخصت ہے۔ اس پر ان کا ایک غلام (عکرمہ) کہنے لگا، متعہ اس حالت میں جائز ہے جب مردوں کو سخت ضرورت ہو یا عورتوں کی کمی ہو یا کچھ ایسا ہی اضطراری معاملہ ہو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ہاں! (بخاری۔ حوالہ ایضاً) ہم یہاں تمام روایات تو درج نہیں کرسکتے کیونکہ اخذ نتائج کے لیے یہ بھی کافی ہیں اور وہ نتائج درج ذیل ہیں : (١) (الیٰ اجل مسمیٰ) کی قراءت کے راوی صرف عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ہیں جن کی عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے وقت صرف ١٣ سال تھی۔ جمع و تدوین قرآن کے وقت آپ قسم اٹھا کر کہتے ہی رہے کہ یہ آیت اسی طرح نازل ہوئی ہے (اور ممکن ہے کہ جن ایام میں متعہ کا جواز تھا یہ قراءت بھی پڑھی گئی ہو۔ لیکن ایسی قراءت بھی رخصت اور نسخ کے ضمن میں آتی ہیں) مگر آپ کی اس بات کو دو وجوہ کی بنا پر پذیرائی نہ ہوسکی۔ ایک یہ کہ جمع و تدوین قرآن کے معاملہ میں خبر متواتر کو قبول کیا گیا تھا اور آپ کی یہ خبر واحد تھی۔ جس کا دوسرا کوئی راوی نہ تھا۔ اور دوسری وجہ یہ تھی کہ پہلے سے دو مکی سورتوں مومنون اور معارج میں یہ محکم آیات موجود تھیں: ﴿وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حٰفِظُوْنَ﴾یعنی حفاظت فروج کے دو ہی ذریعے ہیں ایک بیوی، دوسرا لونڈی۔ ان کے علاوہ جو کچھ ہے وہ حد سے گزرنا ہے۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ ممتوعہ عورت نہ بیوی ہوتی ہے نہ لونڈی۔ لونڈی نہ ہونے میں تو کوئی کلام نہیں اور بیوی اس لیے نہیں ہوتی کہ بیوی کو میراث ملتی ہے۔ اور ایسی عورت کو میراث نہیں ملتی۔ (٢) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی صرف متعہ کے معاملہ میں نرم گوشہ رکھتے تھے آپ کو اصرار قطعاً نہ تھا۔ جبکہ کثیر تعداد میں صحابہ متعہ کو حرام قرار دینے میں شدت اختیار کرتے تھے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کو ٹوکتے بھی تھے۔ چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ایسے ہی لوگوں میں سے تھے۔ (مسلم۔ حوالہ ایضاً) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اپنی آخری عمر میں نابینا ہوگئے تھے اور جب یہ جواز متعہ کی بات کرتے تو سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ نے ان کی آنکھوں کو اندھا کرنے کے ساتھ ان کے دلوں کو بھی اندھا کردیا ہے جو متعہ کے جواز کا فتویٰ دیتے ہیں۔ اس وقت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ خلیفہ تھے۔ کسی نے ان سے کہا کہ تم زیادتی کر رہے ہو میری عمر کی قسم! دور نبوی میں متعہ ہوتا رہا ہے۔ تو عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس متعہ کو اپنے آپ پر آزماؤ۔ خدا کی قسم! اگر تو ایسا کرے تو میں تمہیں پتھروں سے سنگسار کر دوں۔ (مسلم، حوالہ ایضاً) (٣) معلوم ایسا ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آخری ابدی حرمت کا اعلان تمام صحابہ کرام تک نہ پہنچ سکا جو کہ دور دراز علاقوں تک پہنچ چکے تھے۔ یا یہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی لچک کا اثر تھا کہ دور صدیقی اور دور فاروقی کی ابتدا تک درپردہ متعہ کے کچھ واقعات کا سراغ ملتا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ چونکہ متعہ کے شدید مخالف تھے لہٰذا آپ اس ٹوہ میں رہتے تھے کہ ایسا کوئی واقعہ سامنے آئے۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک شخص شام سے آیا اور اس نے ام عبداللہ ابی فتیحہ کے ہاں قیام کیا اور اسے کہا کہ میرے متعہ کے لیے کوئی عورت تلاش کرو۔ ام عبداللہ نے ایک عورت کا پتہ بتلایا تو اس آدمی نے اس سے متعہ کیا اور کچھ عرصہ اس کے ساتھ رہا۔ پھر شام کو واپس چلا گیا۔ کسی نے اس واقعہ کی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اطلاع کردی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ام عبداللہ کو بلا کر دریافت کیا تو اس نے اس واقعہ کی تصدیق کردی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسے کہا کہ جب وہ شخص پھر آئے تو مجھے اطلاع دینا۔ جب وہ دوبارہ آیا تو ام عبداللہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اطلاع کردی۔ آپ نے اسے بلا کر پوچھا کہ تم نے متعہ کیوں کیا تو وہ کہنے لگا کہ ’’میں دور نبوی، دور صدیقی اور آپ کے عہد میں بھی متعہ کرتا رہا مگر کسی نے منع نہیں کیا۔‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر میں آج سے پہلے ممانعت کا حکم نہ دے چکا ہوتا تو تمہیں سنگسار کردیتا۔ اچھا اب جدائی اختیار کرلو تاکہ نکاح اور سفاح (بدکاری) میں تمیز ہو سکے۔ یہ واقعہ دراصل مسلم میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی اجمالی روایت کی تفصیل ہے اور اس واقعہ سے درج ذیل نتائج حاصل ہوتے ہیں : ١۔ سیدنا عمر کا تعزیری حکم :۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور آپ کی پوری شوریٰ متعہ کی مخالف تھی۔ اگر ان میں بھی اختلاف ہوتا تو آپ ایسا تعزیری حکم نافذ نہ کرسکتے تھے۔ ٢۔ جو چند لوگ متعہ کے قائل تھے وہ بھی چوری چھپے یہ کام کرتے تھے۔ اگر یہ عام ہوتے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ٹوہ لگانے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ ٣۔ معاشرہ کی اکثریت متعہ کو ناجائز اور مکروہ فعل ہی سمجھتی تھی۔ اگر یہ رسم عام ہوتی تو اس شامی کو ایسی عورت کا پتہ پوچھنے کی ضرورت نہ تھی۔ اس نے یہ معاملہ ام عبداللہ سے کیوں نہ طے کرلیا جس کے ہاں وہ ٹھہرا تھا۔ اس تعزیری قانون کے بعد ابن عباس رضی اللہ عنہما اور آپ کے شاگردوں مثلاً عطاء بن ابی رباح، طاؤس، سعید بن جبیر اور ابن جریج کے لیے اس کے بغیر چارہ نہ رہا کہ وہ متعہ کے لیے عقلی دلیل مہیا کر کے اپنے دل کا غبار نکال لیں۔ اور وہ دلیل عقلی یہ تھی جو ابن عباس رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے کہ ’’متعہ کا جائز ہونا اللہ کی طرف سے اپنے بندوں پر رحمت کی حیثیت رکھتا تھا۔ اگر عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی ممانعت نہ کردی ہوتی تو کبھی کسی کو زنا کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔‘‘ (تفسیر مظہری ٢٠٨) پھر جب دور عثمانی میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی قراءت (الیٰ اَجَلٍ مُّسَمّیٰ) کو خبر متواتر نہ ہونے کی وجہ سے شرف قبولیت حاصل نہ ہوسکا اور یہ الفاظ کتاب اللہ میں شامل نہ ہو سکے تو متعہ کا فائدہ بتانے کا میلان بھی ختم ہوگیا۔ اور بالآخر آپ نے اپنے اس فتویٰ رخصت سے بھی رجوع کرلیا۔ (تفسیر حقانی ج ٢ ص ١٤٥) [٤٢] آزاد عورت کا لونڈی کی نسبت حق مہر بھی زیادہ اور نان و نفقہ بھی زیادہ ہوتا ہے اور یہ اجازت صرف اس شخص کے لیے ہے، جو ایک تو آزاد عورت سے نکاح کے اخراجات برداشت نہ کرسکتا ہو، دوسرے اسے یہ خطرہ ہو کہ اگر اس نے نکاح نہ کیا تو جنسی بے راہ روی کا شکار ہوجائے گا۔ کیونکہ آزاد عورت سے نکاح بہرحال بہتر ہے۔ اسلئے کہ اس سے جو اولاد پیدا ہوگی اس کے ماتھے پر غلامی کا داغ نہ ہوگا۔ اور مجبوری کی صورت میں نکاح کی اجازت کی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ بھی آخر عورت ہی کی جنس سے ہیں۔ النسآء
25 [٤٣] محصنات کا ترجمہ آزاد عورتیں بھی ہے اور شادی شدہ عورتیں بھی۔ اور مذکورہ آیت میں ترجمہ لامحالہ آزاد غیر شادی شدہ عورتیں ہی ہوسکتا ہے۔ جن سے نکاح کی اجازت دی جا رہی ہے۔ اور دوسری بار جو اسی آیت میں محصنات (نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ) کا ذکر آیا ہے تو اس کا معنیٰ بھی لامحالہ آزاد غیر شادی شدہ عورتیں ہی لینا پڑے گا۔ اور چونکہ آزاد غیر شادی شدہ زانیہ کی سزا سو کوڑے ہے لہٰذا جو منکوحہ لونڈی زنا کرے اس کی سزا غیر شادی شدہ آزاد عورت سے نصف یعنی ٥٠ کوڑے ہوئے۔ اسی طرح غلام کی سزا بھی ٥٠ کوڑے ہے اور اگر وہ غیر شادی شدہ ہوں تو ان کی سزا تعزیر ہے حد نہیں۔ نصف رجم اور منکرین حدیث کا چکمہ :۔ یہ آیت جہاں اس بات کی دلیل مہیا کرتی ہے کہ سورۃ نور میں بیان شدہ سزا صرف کنوارے مرد و عورت کی ہی ہو سکتی ہے وہاں منکرین حدیث کے ایک اعتراض کا جواب بھی مہیا کرتی ہے۔ ایسے لوگوں کا اعتراض یہ ہے کہ ’’شادی شدہ عورت کی سزائے زنا حدیث کے مطابق رجم ہے۔ اور شادی شدہ لونڈی کی سزائے زنا قرآن کے مطابق شادی شدہ عورت کی سزا کا نصف ہے اور یہ نصف رجم بنتی ہے اور چونکہ نصف رجم ممکن نہیں لہٰذا حدیث میں وارد شدہ سزا درست نہیں ہو سکتی۔‘‘ اور اس سے آگے یہ کہ ’’حدیث بذات خود قابل اعتماد چیز نہیں لہٰذا درست بات یہی ہے کہ عورت اور مرد چاہے کنوارے ہوں یا شادی شدہ بلا امتیاز سب کی سزا سو کوڑے ہے جیسا کہ قرآن میں مذکور ہے۔‘‘ ایک اعتراض کا جواب :۔ اس اعتراض کا جواب دینے سے پہلے یہ لغوی وضاحت ضروری ہے کہ احصان (زنا سے بچاؤ) دو طرح سے ہوتا ہے۔ ایک تو آزادی سے کہ آزاد عورت خاندان کی حفاظت میں ہوتی ہے اور اگر لونڈی آزاد ہوجائے تو اسے بھی ایسا احصان میسر آ جاتا ہے۔ دوسرا احصان نکاح سے ہوتا ہے کہ خاوند بھی زنا سے حفاظت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اس طرح محصنات کا ترجمہ آزاد عورتیں بھی ہوسکتا ہے اور شادی شدہ عورتیں بھی، اور جب دونوں قسم کے احصان جمع ہوجائیں تو آزاد شادی شدہ عورتیں بھی ہوتا ہے۔ اب اعتراض کا جواب یہ ہے جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے کہ اس آیت نمبر ٢٤ کے ابتدا میں جو محصنات کا لفظ آیا ہے اس کا معنیٰ تو صریحاً آزاد غیر شادی شدہ عورت کی سزا (١٠٠ کوڑے) کا نصف ٥٠ کوڑے ہے اور یہی منکوحہ لونڈی کی زنا کی سزا ہے۔ اور منکرین حدیث فریب یہ دیتے ہیں کہ محصنات کا ترجمہ 'آزاد بیاہی عورت' کر کے اس پر یہ اعتراض وارد کردیتے ہیں اور یہ بات آیت کے ربط کے بھی خلاف ہے جو یہ ہے کہ ’’اگر کوئی شخص آزاد عورت سے نکاح کی طاقت نہیں رکھتا تو کسی مومنہ لونڈی سے نکاح کرلے۔‘‘ یہاں محصنات کا ترجمہ آزاد شادی شدہ عورت ہو ہی نہیں سکتا۔ [٤٤] یعنی ایک آزاد مرد اگر آزاد عورت سے شادی کے اخراجات کا متحمل نہ ہو اور اسے یہ بھی خدشہ ہو کہ اگر نکاح نہ کرے تو جنسی آوارگی کا شکار ہوجائے گا تو اس صورت میں اسے مومنہ لونڈی سے نکاح کرلینے کی اجازت دی گئی اور ساتھ ہی فرمایا کہ پھر بھی اگر تم صبر کرو تو تمہارے حق میں بہتر ہے۔ اس بہتری کی صورت اور حکمت تو اللہ ہی جانتا ہے بظاہر تو یہی بہتری نظر آتی ہے کہ اولاد آزاد پیدا ہوگی اور اس صبر کا جو طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم کچھ نوجوان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں رہا کرتے اور ہمیں شادی کرنے کا مقدور نہ تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اے نوجوانو! تم میں سے جو شخص خانہ داری کی استطاعت رکھتا ہے اسے چاہیے کہ شادی کرلے۔ کیونکہ نکاح سے نگاہ نیچی اور شرمگاہ بچی رہتی ہے۔ اور جو یہ طاقت نہ رکھتا ہو وہ روزے رکھا کرے جو اس کی شہوت کو توڑ دیں گے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب النکاح، باب من لم یستطع الباءۃ فلیصم) النسآء
26 [٤٥] پہلی شریعتوں کی اتباع کیسے؟ اس سے معلوم ہوا کہ جو عائلی اور معاشرتی احکام اس سورۃ کے آغاز سے بیان ہو رہے ہیں۔ مثلاً یتیموں کے حقوق کی نگہداشت، عورت سے مختلف قسم کی بے انصافیاں، میراث کے احکام، نکاح اور محرمات کا ذکر وغیرہ، اسی طرح کے یا اس سے ملتے جلتے احکام ہی پہلے انبیاء کو بھی وحی کیے گئے تھے اور ہمیں ان طریقوں پر مطلع نہیں کیا جا رہا بلکہ ان کے طریقوں کو اپنانے کی بھی ہدایت دی جا رہی ہے۔ اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ وہ جاہلیت کے طریقہ سے نکال کر صالحین کے طریقہ زندگی کی طرف ہماری رہنمائی کر رہا ہے۔ اس آیت سے بھی رجم کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ تورات میں یہی سزا مقرر تھی۔ النسآء
27 [٤٦] معاشرتی اصلاحات پر مخالفین کا شورو غوغا :۔ ان خواہشات نفس کی پیروی کرنے والوں سے مراد وہ ہر طرح کے لوگ ہیں جو اللہ کی ہدایات پر اپنے آباؤ اجداد کے رسم و رواج کو مقدم سمجھتے اور انہی چیزوں سے محبت رکھتے ہیں خواہ وہ یہود و نصاریٰ ہوں یا منافق یا دوسرے مشرکین ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے معاشرتی برائیوں کے خاتمہ کے لیے بے شمار ایسے احکامات نازل فرمائے جن پر عمل کرنا اکثر لوگوں کو ناگوار تھا۔ مثلاً میراث میں لڑکیوں اور چھوٹے بچوں کا حصہ مقرر کرنا، بیوہ سے سسرال کی بندشوں کو ختم کرنا اور عدت کے بعد اسے نکاح کے لیے پوری آزادی دلانا، متبنّیٰ کی وراثت کا خاتمہ، عورت کو خاوند کی طرح طرح کی زیادتیوں سے نجات دلا کر معاشرہ میں اس کا مقام بلند کرنا وغیرہ وغیرہ۔ ایسی تمام اصلاحات پر بڑے بوڑھے اور آبائی رسوم کے پرستار چیخ اٹھتے تھے اور لوگوں کو مسلمانوں اور اسلام کے خلاف بھڑکاتے رہتے تھے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے چار سے زیادہ بیویوں پر پابندی لگا دی۔ اب جن مسلمانوں نے زائد بیویوں کو طلاق دے کر فارغ کیا تھا، ان کی اولاد سے یوں کہنا کہ اس حکم کی رو سے تمہاری ماؤں اور باپ کے تعلق کو ناجائز ٹھہرایا گیا ہے، تو کیا تم جائز اولاد ہو یا ناجائز وغیرہ وغیرہ۔ اور سب سے بڑھ کر اعتراض یہود کو تھے جنہوں نے از خود کئی حلال چیزوں کو حرام قرار دے رکھا تھا۔ اور اپنے اوہام و خرافات کو شریعت الٰہی کا درجہ دے رکھا تھا۔ مثلاً حیض والی عورت ان کے ہاں ایسی ناپاک تھی جس کے ہاتھ کا پکایا ہوا کھانا بھی جائز نہ تھا اسی لیے وہ حیض کے دوران انہیں بالکل الگ تھلگ رکھتے تھے اور ان کی دیکھا دیکھی ایسا ہی رواج انصار مدینہ میں بھی چل نکلا تھا مگر قرآن کے حکم کی رو سے مجامعت کے سوا حیض والی عورت سے تمام تعلقات اسی طرح رکھے جا سکتے تھے جس طرح پاکیزگی کے دنوں میں ہوتے ہیں۔ ایسی باتوں پر یہود چلا اٹھتے تھے کہ دیکھو یہ نبی ہر ناپاک کو پاک اور ہر حرام کو حلال بنانے پرتُلا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تم ان لوگوں کی مطلق پروا نہ کرو اور اگر تم لوگ ان کی باتوں پر توجہ دینے لگو گے تو یہ تو تمہیں راہ راست سے کہیں دور جا پھینکیں گے لہٰذا جو احکام تمہیں مل رہے ہیں ان پر ان کے اعتراضات سے بے پروا ہو کر اور بے خوف ہو کر عمل کیے جاؤ۔ النسآء
28 [٤٧] شرعی احکام میں انسای کمزوریوں کا لحاظ :۔ یعنی یہ احکام دینے میں اس بات کو ملحوظ رکھا گیا ہے کہ انسان فطرتاً کمزور ہے لہٰذا ان احکام میں انسان کی سہولت اور بساط کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ مثلاً یہ کہ انسان اپنی شہوت پر کنٹرول نہیں کرسکتا تو اسے ایک سے چار بیویوں تک نکاح کی اجازت دے دی گئی ہے اور اس میں سہولتوں کو مدنظر رکھ کر اسے آسان بنا دیا گیا ہے۔ نیز جو بھی احکام شریعت ہیں ان میں اعتدال کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور پھر معاشرہ کے کمزور افراد کے لیے رخصتیں بھی رکھ دی گئی ہیں۔ النسآء
29 [٤٨] باطل طریقے کون کون سے ہیں؟ باطل طریقوں سے مراد ہر وہ ذریعہ آمدنی ہے جسے شریعت نے حرام قرار دیا ہو۔ اور اس کی کئی صورتیں ہیں۔ مثلاً : ١۔ ہر وہ کام جس سے دوسرے کا مالی نقصان ہو جیسے چوری، ڈاکہ، غصب، غبن وغیرہ۔ ٢۔ سود اور اس کی تمام شکلیں، خواہ یہ سود مفرد ہو، مرکب ہو، ڈسکاؤنٹ ہو، مارک اپ اور مارک ڈاؤن ہو یا خواہ یہ ذاتی قرضے کا سود ہو اور خواہ یہ رباالنسیئہ (مدت کے عوض سود) ہو یا ربا الفضل (ایک ہی جنس میں کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ) ہو۔ ٣۔ ہر ایسا کام جس میں تھوڑی سی محنت سے کثیر مال ہاتھ آتا ہو۔ جیسے جوا، لاٹری اور سٹہ بازی وغیرہ اور بعض حالتوں میں بیمہ پالیسی۔ ٤۔ اندھے سودے یا قسمت کے سودے جن میں صرف ایک ہی عوض مقرر ہوتا ہے دوسرا نہیں ہوتا۔ (عوضین یہ ہے کہ مثلاً ایک کتاب کی قیمت سو روپے ہے تو کتاب کا عوض سو روپے اور سو روپے کا عوض کتاب) جیسے غوطہ خور سے ایک غوطہ کی قیمت مقرر کرنا، بیع ملامسہ، منابذہ۔ بچوں کے کھیل کہ جس چیز پر بچے کا نشانہ لگے وہ اتنی قیمت میں اس کی۔ ٥۔ ہر وہ لین دین جس میں کسی ایک فریق کا فائدہ یقینی ہو دوسرے کو خواہ فائدہ ہو یا نقصان جیسے سود اور ایسے تمام سودے اور معاملات جن میں یہ شرط پائی جاتی ہو۔ ٦۔ ایسے سودے جو محض تخمینہ سے طے کیے جائیں اور ان میں دھوکہ کا احتمال موجود ہو جیسے کسی ڈھیر کا بالمقطع سودا کرنا یا مال خرید کر قبضہ کیے بغیر آگے چلا دینا یا غیر موجود مال کا سودا کرنا اور باغات وغیرہ کے پیشگی سودے (ان میں بیع سلم اور بیع عرایا کی رخصت ہے جو چھوٹے پیمانہ پر ہوتی ہے اور غریبوں کی سہولت کے لیے جائز کی گئی ہے۔) ٧۔ وہ بیع جس میں مشتری دھوکہ دینے کی کوشش کرے مثلاً عیب چھپانا، جانور کا دودھ روک کر بیچنا، ناپ تول میں کمی بیشی کر جانا، دوسرے کو پھنسانے کے لیے بولی چڑھانا وغیرہ۔ ٨۔ جو اشیاء حرام ہیں ان کی خرید و فروخت جیسے شراب کی سوداگری یا ان اشیاء کی جو شراب خانے میں استعمال ہوتی ہیں، مردار کا گوشت، تصویریں اور مجسمے، فحاشی پر مشتمل کتابیں اور تصویریں، کسی حرام کاروبار کے لیے دکان یا مکان کرایہ پر دینا، کاہن کی کمائی، فاحشہ کی کمائی، کتے کی قیمت وغیرہ۔ ٩۔ حکومت کے ذریعہ دوسروں کے مال بٹورنا مثلاً لین دین کے جھوٹے مقدمات اور رشوت وغیرہ یا حکومت کا لوگوں کی زمین پر قبضہ کر کے ان کو اپنی مرضی کے مطابق لین دین پر مجبور کرنا۔ جیسے حکومت کے محکمہ ہائے ایل ڈی اے، کے ڈی اے وغیرہ دوسرے لوگوں کی زمینیں ان کی رضامندی کے بغیر حاصل (AQUIRE) کرلیتے ہیں۔ ١٠۔ کتاب اللہ میں تحریف و تاویل اور غلط فتووں سے مال بٹورنا اور یہ کام بالخصوص علماء سے مختص ہے۔ اب اس سلسلہ میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’بائع اور مشتری صرف اسی حال میں جدا ہوں کہ وہ ایک دوسرے سے راضی ہوں۔‘‘ (ترمذی، ابو اب البیوع، باب البیعان بالخیار مالم یتفرقا) ٢۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بیچنے والا اور خریدنے والا دونوں سودے کو پورا کرنے یا فسخ کرنے کا اس وقت تک اختیار رکھتے ہیں جب تک وہ جدا نہ ہوں سوائے بیع خیار کے‘‘ (جس میں معین مدت کے اندر سودا فسخ کرنے کی شرط ہوتی ہے۔) (بخاری، کتاب البیوع، باب البیعان بالخیار مالم یتفرقا) ٣۔ ابو امامہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص قسم کھا کر کسی مسلمان کا حق مار لیتا ہے اللہ اس کے لیے دوزخ واجب کردیتا ہے اور جنت اس کے لیے حرام ہوجاتی ہے۔‘‘ کسی نے آپ سے پوچھا اگرچہ یہ حق تلفی بالکل معمولی قسم کی ہو؟ فرمایا ’’اگرچہ وہ پیلو کے درخت کی ایک شاخ ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ (مسلم بحوالہ فقہ السنہ جلد ٢ صفحہ ١٤٩) ٤۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ عزوجل چار قسم کے آدمیوں سے دشمنی رکھتا ہے۔ ایک وہ جو قسمیں کھا کر سودا بازی کرتا ہو، دوسرے محتاج جو اکڑ باز ہو۔ تیسرے بوڑھے زانی سے اور چوتھے ظلم کرنے والے حاکم سے‘‘(نسائی، کتاب الزکوٰۃ، باب الفقیر المحتال) ٥۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تین آدمیوں سے نہ کلام کرے گا اور نہ ان کی طرف دیکھے گا اور انہیں دردناک عذاب ہوگا۔‘‘ میں نے پوچھا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! وہ کون ہیں؟ وہ تو نامراد ہوگئے اور خسارہ میں رہے۔‘‘ فرمایا۔’’ایک تہبند (ٹخنوں سے نیچے) لٹکانے والا۔ دوسرا احسان جتلانے والا اور تیسرا جھوٹی قسم کھا کر اپنا مال بیچنے والا۔‘‘ (مسلم، کتاب الایمان۔ باب غلظ تحریم تنفیق السلعۃ بالحلف) ٦۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اے تاجروں کے گروہ! سودے بازی میں بے ہودہ باتیں اور قسمیں شامل ہوجاتی ہیں لہٰذا تم ان کے ساتھ صدقہ بھی ملا لیا کرو۔‘‘ (ترمذی، ابو اب البیوع، باب ماجاء فی التجار۔ نسائی، کتاب البیوع باب الحلف الواجب) ٧۔ ناپ تول میں کمی سے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بلاشبہ تم دو ایسے کاموں کے والی بنائے گئے ہو کہ تم سے پہلے کی قومیں اسی جرم کی پاداش میں ہلاک ہوئیں۔‘‘ (ترمذی، کتاب البیوع، باب فی المکیال والمیزان) ٨۔ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بازار تشریف لے گئے وہاں ایک تولنے والا کوئی جنس تول رہا تھا اسے دیکھ کر آپ نے فرمایا 'تول اور کچھ جھکتا تول۔ (نسائی، کتاب البیوع، باب الرجحان فی الوزن) ٩۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ یہود کو غارت کرے، ان پر چربی حرام کی گئی تو انہوں نے اسے پگھلایا پھر بیچ ڈالا۔‘‘ (بخاری، کتاب البیوع باب لایذاب شحم المیتۃ) ١٠۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بلاشبہ اللہ نے شراب، مردار، سور اور بتوں کی سوداگری کو حرام کیا ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب البیوع، باب بیع المیتۃ والاصنام) ١١۔ ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت، فاحشہ کی کمائی اور نجومی کی اجرت سے منع فرمایا ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب البیوع، باب ثمن الکلب) ١٢۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میں بھی ایک آدمی ہوں۔ تم میرے سامنے جھگڑا لیے آتے ہو۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنی دلیل دوسرے فریق کی نسبت اچھی طرح بیان کرتا ہے اور میں جو سنتا ہوں اس پر فیصلہ کردیتا ہوں۔ پھر اگر میں کسی کو اس کے مسلمان بھائی کا حق دلا دوں تو وہ ہرگز نہ لے۔ میں اسے دوزخ کا ایک ٹکڑا دلا رہا ہوں‘‘ (بخاری، کتاب الحیل، باب بلاعنوان۔ بخاری، کتاب الاحکام، باب من قضی لہ من حق اخیہ فلا یا خذہ) ١٣۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’جو شخص تصویریں بناتا ہے، قیامت کے دن اللہ اسے کہے گا کہ اب اس میں جان بھی ڈال اور وہ یہ کام کبھی نہ کرسکے گا۔‘‘ (بخاری، کتاب البیوع، باب بیع التصاویر التی لیس فیہا الروح) ١٤۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ بازار میں غلہ لانے والے کو رزق ملتا ہے اور ذخیرہ اندوز ملعون ہے۔ (ابن ماجہ، دارمی بحوالہ مشکوۃ، کتاب البیوع، باب الاحتکار، فصل ثانی) ١٥۔ واثلہ بن الاسقع کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ’’جس شخص نے اپنی عیب دار چیز عیب بتائے بغیر بیچی وہ ہمیشہ اللہ کے غضب میں رہے گا اور فرشتے اس پر لعنت کرتے رہیں گے۔‘‘ (ابن ماجہ بحوالہ مشکوۃ، کتاب البیوع، باب المنہی عنہا من البیوع۔ فصل ثالث) ١٦۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’بائع اور مشتری دونوں جب تک جدا نہ ہوں، مختار ہیں۔ پھر اگر انہوں نے سچ بولا اور صاف گوئی سے کام لیا تو ان کے سودے میں برکت دی جاتی ہے۔ اور وہ عیب وغیرہ چھپا گئے اور جھوٹ بولا تو ان کے سودے سے برکت اٹھا لی جاتی ہے۔‘‘(بخاری، کتاب البیوع، باب اذابین البیعان نیز باب مایمحق الکذب والکتمان فی البیع) ١٧۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دفعہ) آپ کا ایک غلہ کے ڈھیر پر گزر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس میں داخل کیا تو انگلیوں کو نمی محسوس ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ’’اے غلہ والے! یہ کیا ؟‘‘ وہ کہنے لگا :’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! بارش ہوگئی تھی۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تو تو نے (اس نمدار غلے کو) ڈھیر کے اوپر کیوں نہ کیا تاکہ لوگ اسے دیکھ سکتے۔‘‘ پھر فرمایا ’’جس نے دھوکا دیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ (مسلم، کتاب الایمان، باب قول النبی من غشنا فلیس منا ) ١٨۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب تم میں سے کوئی اونٹنی یا بکری خریدے جس کا دودھ بڑھایا گیا ہو تو دودھ دوہنے کے بعد خریدنے والے کو دو باتوں میں سے کسی ایک کا اختیار ہے۔ چاہے تو اسے رکھ لے اور چاہے تو واپس کر دے اور ایک صاع کھجور بھی اس کے ساتھ دے۔‘‘ (مسلم، کتاب البیوع۔ باب حکم بیع المصراۃ) ١٩۔ ایک دوسری روایت کے مطابق یہ اختیار تین دن تک ہے۔ (حوالہ ایضاً) ٢٠۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ (کھیتی پکنے سے پہلے سود اچکا لینے) سے اور مزابنۃ (کھجور، انگور پکنے سے پہلے خشک کھجور یا انگور کا سودا چکا لینے) سے اور مخابرہ (زمین کو بٹائی پر دینا۔ جس کی بعد میں اجازت دے دی گئی) سے اور معاومہ (بیع سنین یعنی چند سالوں کی فصل کا پیشگی سودا چکا لینے) سے اور ثنیا (سودا چکاتے وقت چند درختوں یا کھیتی کا کچھ حصہ مستثنیٰ کرلینے) سے منع فرمایا اور بیع عرایا (چھوٹے پیمانے پر بیع مزابنۃ جس میں غریبوں کی ضرورت کا لحاظ رکھا گیا ہے) کی اجازت دی۔ (بخاری، کتاب المساقات، باب الرجل یکون لہ ممرٌّ او شرب فی الحائط، مسلم، کتاب البیوع۔ باب النہی عن المحاقلۃ) اور عرایا میں جو رخصت ہے وہ پانچ وسق (اندازاً بیس من) تک ہے۔ (مسلم، کتاب البیوع، باب تحریم الرطب بالتمر الا فی العرایا) ٢١۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ دور جاہلیت میں لوگ حبل الحبلہ تک اونٹ کے گوشت کی سودا بازی کرتے اور حبل الحبلہ یہ ہے کہ اونٹنی جنے پھر اس کا بچہ حاملہ ہو اور وہ جنے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس قسم کی بیع سے منع فرما دیا۔ (مسلم، کتاب البیوع، باب تحریم بیع الحبل الحبلۃ۔۔ بخاری کتاب البیوع، عنوان باب) ٢٢۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آپ نے ادھار کی ادھار سے (یعنی دونوں طرف ادھار) بیع کرنے سے منع فرمایا (دار قطنی بحوالہ مشکوۃ۔ کتاب البیوع۔ باب المنہی عنہا من البیوع۔ فصل ثانی ) ٢٣۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ نے بیع الحصاۃ (کنکریاں پھینکنے کی بیع) اور دھوکے کی بیع سے منع فرمایا۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب بیع الغرر۔۔ مسلم، کتاب البیوع، باب بطلان بیع الحصاۃ والبیع الذی فیہ غرر) ٢٤۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں دو قسم کی بیع سے منع کیا گیا ایک ملامسہ اور دوسری منابذہ اور ملامسہ یہ ہے کہ دونوں میں سے ہر ایک بلا سوچے سمجھے دوسرے کا کپڑا چھوئے اور منابذہ یہ ہے کہ ہر ایک اپنا کپڑا دوسرے کی طرف پھینک دے۔ اور کوئی دوسرے کا کپڑا نہ دیکھے (اور اس طرح یہ بیع لازم ہوجائے) (بخاری، کتاب البیوع، باب الملامسۃ والمنابذۃ۔۔ مسلم۔ کتاب البیوع۔ باب ابطال بیع الملامستہ والمنابذۃ) ٢٥۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع نجش (بائع کی طرف سے مقررہ لوگ جو خریدار کو زیادہ قیمت ادا کرنے پر راغب کرسکیں۔ نیز چڑ ھی کی بولی) سے منع فرمایا۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب النجش) ٢٦۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ نے لاچار آدمی کی سودا بازی سے فائدہ اٹھانے سے اور دھوکہ کی بیع سے اور پھلوں کے پکنے سے پہلے ان کی سودا بازی سے منع فرمایا۔ (ابو داؤد، کتاب البیوع، باب ماجاء فی بیع المضطر) ٢٧۔ سیدنا عمرو بن شعیبص اپنے باپ سے اپنے دادے سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ہمیں بیع عربان (بیعانہ کی ضبطی والے سودے) سے منع فرمایا۔ (مؤطا، کتاب البیوع، باب بیع العربان) ٢٨۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب آپ مدینہ تشریف لائے تو لوگ پھلوں کے ایک یا دو یا تین سال کے لیے پیشگی سودے کرلیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو کوئی کسی چیز کا پیشگی سودا کرے تو اسے چاہیے کہ مقررہ ناپ میں، مقررہ وزن میں اور مقررہ مدت تک سودا کرے۔‘‘ (بخاری، کتاب السلم، باب السلم فی کیل معلوم۔۔ مسلم، کتاب المساقات، باب السلم) ٢٩۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو شخص بیع سلم کرے تو مال پر قبضہ کرنے سے پہلے کسی دوسرے کی طرف یہ سودا منتقل نہ کرے۔‘‘ (ابو داؤد۔ کتاب الاجارۃ، باب السلف لایحول) اب ہم مختلف عنوانات کے تحت احادیث درج کرتے ہیں : (١) شرح منافع : محمد بن سیرین (تابعی) فرماتے ہیں کہ دس کا مال گیارہ میں بیچنے میں کوئی قباحت نہیں اور جو خرچہ اس پر پڑا ہے اس پر بھی یہی منافع لے سکتا ہے۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب من اجری امرالامصار علی مایتعارفون) (٢) واحد کلام : سیدنا قیلہ رضی اللہ عنہا ام انمار کہتی ہیں کہ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں خرید و فروخت کیا کرتی ہوں اور جو چیز مجھے خریدنا ہوتی ہے اس کے کم دام لگاتی ہوں۔ پھر دام بڑھاتے بڑھاتے اس قیمت پر آ جاتی ہوں جو میرا مقصود ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی چیز بیچنا ہو تو زیادہ دام کہتی ہوں اور پھر کم کرتے کرتے اپنے مقصود پر آ جاتی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’قیلہ! یہ کام اچھا نہیں۔ جو چیز جتنے کو بیچنا چاہتی ہو اتنے ہی دام کہہ دو۔ لینے والا چاہے گا تو لے لے گا ورنہ نہیں اور جو چیز خریدو اس کی بھی ایک ہی قیمت کہہ دو، دینے والا چاہے تو لے لے ورنہ نہ لے۔‘‘ (ابن ماجہ، ابو اب التجارات، باب السوم) (٣) السابق فالسابق : سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ اور عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ دونوں کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب دو صاحب اختیار ایک ہی چیز خریدیں تو وہ چیز اس کی ہوگی جس نے پہلے خریدی۔‘‘ (ابن ماجہ۔ کتاب البیوع۔ باب السابق فالسابق) (٤) قیمت بتانا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’مال کی قیمت صاحب مال ہی لگانے کا زیادہ حقدار ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب البیوع۔ باب صاحب السلعۃ احق بالسوم) (٥) غائب چیز کا سودا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس نے کوئی ایسی چیز خریدی جسے اس نے دیکھا نہ ہو تو دیکھنے کے بعد اسے اختیار ہے کہ وہ سودا بحال رکھے یا فسخ کر دے۔‘‘ (دار قطنی بیہقی بحوالہ فقہ السنہ ج ٢ ص ١٣٦) (٦) قیمت میں اختلاف : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب بائع اور مشتری میں اختلاف ہوجائے اور ان میں کوئی شہادت یا ثبوت موجود نہ ہو تو اس شخص کی بات معتبر ہوگی جو مال کا مالک ہے یا پھر وہ سودا چھوڑ دیں۔‘‘ (ترمذی ابو اب البیوع، باب اذا اختلف البیعان) (٧) ناپ تول کی مزدوری بائع پر ہے : سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب تو بیچے تو ناپ کر دے اور خریدے تو ناپ کرلے۔‘‘ (بخاری، کتاب البیوع۔ باب الکیل علی البائع والمعطی) (٨) خرید کردہ مال کا تاوان : سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ بیع کے وقت جو مال موجود تھا (اگر مشتری اسے بائع کے پاس چھوڑ جائے) اور وہ تلف ہوجائے تو تاوان خریدار پر پڑے گا۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب من اشتری متاعا اودابۃ فوضعہ عندالبائع) (٩) کج بحث جھگڑالو : سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’اللہ کے ہاں سب سے ناپسندیدہ شخص کج بحث جھگڑالو ہے (جو خواہ مخواہ جھگڑے کا پہلو پیدا کرلیتا ہے۔)‘‘ (بخاری، کتاب المظالم۔ باب قول اللہ و ھوالد الخصام) (١٠) ہبہ کردہ چیز کو خریدنا : سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک گھوڑا مجاہد کو دیا۔ اس نے وہ گھوڑا کمزور کردیا اور بازار میں فروخت کرنے کے لیے لے آیا۔ میں نے چاہا کہ اب یہ سستے داموں مل رہا ہے تو خرید لوں۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اسے مت خریدنا خواہ وہ تجھے ایک درہم میں دے دے کیونکہ اپنے صدقہ کو واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کر کے پھر اسے چاٹ جاتا ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب الہبہ، باب لایحل لاحدان یرجع فی ھبتہ و صدقتہ) (١١) غیر موجود چیز کا سودا : حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایسی چیز بیچنے سے منع فرما دیا، جو میرے پاس موجود نہ ہو۔ (ترمذی، ابو اب البیوع، باب ماجاء فی الکراھیۃ مالیس عندہ ) (١٢) راہ میں سودا نہ کیا جائے : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ غلہ وغیرہ کے قافلوں کو آگے جا کر مت ملو۔ جو کوئی آگے جا کر مال خریدے اور بعد میں مال کا مالک منڈی میں آئے تو اسے سودا فسخ کرنے کا اختیار ہے۔‘‘ (مسلم، کتاب البیوع، باب تحریم تلقی الجلب) (١٣) ناپ تول کے بغیر سودا نہ کیا جائے : سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ :’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور (یا کسی دوسرے غلہ) کے ڈھیر کی سودا بازی سے منع فرمایا جس کا اس کے معروف پیمانہ سے ناپ معلوم نہ ہو۔‘‘ (مسلم۔ کتاب البیوع باب تحریم صبرالتمر) (١٤) قبضہ سے پہلے آگے سودا نہ کیا جائے : سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ لوگ بازار کے بالائی حصہ میں سودا کرتے پھر وہیں بیچ دیتے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی مقام پر بیچنے سے منع فرمایا۔ یہاں تک کہ اس غلہ کو منتقل نہ کیا جائے (یعنی اپنے قبضہ میں نہ کرلیا جائے۔ (بخاری کتاب البیوع، باب ما ذکر فی الاسواق۔۔ مسلم، کتاب البیوع، باب بطلان بیع المبیع قبل القبض) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں جو لوگ بن ماپے تولے اناج کے ڈھیر خریدتے انہیں مار پڑتی تھی۔ اس لیے کہ جب تک وہ اپنے گھر نہ لے جائیں مال نہ بیچیں۔ (بخاری کتاب البیوع، باب مایذکر فی بیع الطعام والحکرۃ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص غلہ خریدے تو جب تک اس کے پورا ہونے کی تسلی نہ کرلے اسے فروخت نہ کرے۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ جب تک اسے ناپ نہ لے۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب الکیل علی البائع والمعطی) (١٥) بائع اور مشتری کے درمیان تیسرا آدمی سودا نہ کرے : سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کوئی شخص اپنے بھائی کے سودے پر سودا نہ کرے اور نہ اپنے بھائی کی منگنی کی بات کے درمیان منگنی کی بات کرے۔ ہاں اس کی اجازت سے ایسا کرسکتا ہے۔‘‘ (مسلم، کتاب البیوع، باب تحریم بیع الرجل علیٰ بیع اخیہ) (١٦) سودا خراب کرنا : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’کوئی مسلمان اپنے بھائی کے چکائے ہوئے سودے پر سودا نہ چکائے۔ (یعنی زیادہ رقم کا لالچ دے کر سودا خراب نہ کرے۔)‘‘ (مسلم، کتاب البیوع، باب تحریم بیع الرجل علی بیع اخیہ و سومہ) (١٧) قیمت کم کر کے دوسروں کو نقصان پہنچانا : سیدنا سعید بن مسیب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بازار میں حاطب رضی اللہ عنہ بن ابی بلتعہ کے پاس سے گزرے جو بازاری قیمت سے کم قیمت پر منقیٰ بیچ رہے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے انہیں فرمایا ’’یا تو نرخ زیادہ کرو یا ہمارے بازار سے اٹھ جاؤ۔‘‘ (موطا، کتاب البیوع، باب الحکرۃ والتربص) تاہم بعض علماء کہتے ہیں کہ چیز کے مالک کو اپنی چیز کم داموں پر بیچنے کا اختیار ہے۔ (حوالہ ایضاً) بشرطیکہ اس سے دوسروں کو نقصان پہنچانا مقصود نہ ہو۔ (١٨) کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا ظلم ہے : ابو حرہ رقاشی اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’خبردار! ظلم نہ کرو، خبردار! کسی کا مال دوسرے کے لیے اس کی رضامندی کے بغیر حلال نہیں۔‘‘ (بیہقی، دارقطنی بحوالہ مشکوۃ، کتاب البیوع، باب الغصب والعاریۃ۔ فصل ثانی) (١٩) قرض دینے کے بعد مقروض سے سودا بازی نہ کی جائے : (٢٠) جس مال پر قبضہ نہیں ہوا اس کا نفع جائز نہیں : سیدنا عمرو بن شعیب اپنے باپ سے، اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’(١) پیشگی دیا ہوا قرض اور بیع جائز نہیں (٢) ایک بیع میں دو صورتیں جائز نہیں (نقد قیمت کم ادھار زیادہ) (٣) جس مال پر قبضہ نہ ہوا ہو (نہ رقم ادا کی اس کا منافع مشتری کو) حلال نہیں (٤) اور جو چیز تمہارے پاس نہ ہو اس کا سودا نہ کرو۔‘‘ (ابو داؤد، کتاب البیوع، باب فی الرجل یبیع مالیس عندہ) (٢١) ملاوٹ والی چیز کو الگ کر کے بیچا جائے : فضالہ رضی اللہ عنہ بن عبید کہتے ہیں کہ خیبر کے دن میں نے ایک ہار بارہ دینار میں خریدا۔ جس میں سونا اور نگینے تھے۔ میں نے انہیں الگ الگ کیا تو سونا ہی بارہ دینار سے زیادہ مالیت کا پایا۔ میں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کوئی چیز جب تک الگ الگ نہ کرلی جائے اس کی خرید و فروخت نہ کی جائے۔‘‘ (مسلم، کتاب المساقاۃ والمزارعۃ باب الربا) (٢٢) چوری کے مال کی بیع : (١) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’جس شخص نے اپنا مال بعینہ کسی کے پاس پا لیا وہ اس کا زیادہ حقدار ہے اور مسروقہ مال خریدنے والا اس شخص کو ڈھونڈے جس نے اس کے پاس مال بیچا تھا۔‘‘ (نسائی، ابو داؤد، کتاب الاجارۃ، باب فی الرجل یجد عین مالہ عندر جل) (٢) نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس نے چوری کا مال خریدا اور وہ جانتا تھا کہ وہ چوری کا مال ہے تو وہ چوری کے گناہ اور اس کی سزا میں برابر کا شریک ہے۔‘‘ (بیہقی بحوالہ فقہ السنۃ ج ٣ ص ١٤٦) (٢٣) سودا واپس موڑ لینا : عمرو بن شعیب اپنے باپ سے، اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ ’’بائع اور مشتری جب تک جدا نہ ہوں، مختار ہیں۔ الا یہ کہ خیار کی شرط کرلی جائے اور دونوں میں سے کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس خوف سے جلد جدا ہونے کی کوشش کرے کہ کہیں سودا واپس نہ ہوجائے۔‘‘ (ترمذی، ابو اب البیوع، باب البیعان بالخیار) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص سودا واپس موڑ لے (قیامت کے دن) اللہ اس کی لغزشیں واپس لے لے گا۔‘‘ (ابو داؤد، کتاب الاجارۃ فی فضل الاقالۃ) (٢٤) مسجد میں خرید و فروخت کرنا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب تم مسجد میں کسی کو کوئی چیز بیچتا یا خریدتا دیکھو تو اسے کہو۔ اللہ تمہاری تجارت میں نفع نہ دے۔ اور جب کسی کو مسجد میں کوئی گمشدہ چیز ڈھونڈتے دیکھو تو اسے کہو۔ اللہ کرے تمہیں وہ نہ ملے۔‘‘ (ترمذی، ابو اب البیوع، باب النہی عن البیع فی المسجد) (٢٥) نمازوں کی اوقات میں خرید و فروخت : جمعہ کی اذان کے بعد لین دین یا دوسرے مشاغل حرام ہیں۔ (سورہ جمعہ : ٩) یہی صورت عام نمازوں کے لیے بھی ہے۔ (٢٦) نیلام : سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ٹاٹ اور ایک پیالہ بیچنا چاہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : کون یہ ٹاٹ اور پیالہ خریدتا ہے؟ ایک شخص نے کہا : میں یہ دونوں چیزیں ایک درہم میں لیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : کوئی ایک درہم سے زیادہ دیتا ہے؟ پھر ایک شخص نے ان چیزوں کے آپ کو دو درہم دیئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیچ دیں۔ (ترمذی، ابو اب البیوع، باب ماجاء فی من یزید) (٢٧) شراکت : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے۔ ’’دو شریکوں کا تیسرا میں ہوتا ہوں جب تک کوئی ان میں سے خیانت نہ کرے۔ پھر جب ان میں سے کوئی خیانت کرتا ہے تو میں درمیان سے نکل جاتا ہوں۔‘‘ (ابو داؤد، کتاب البیوع، باب فی الشرکہ)۔۔ اور رزین نے یہ اضافہ کیا ’’اور (اللہ کی جگہ) شیطان آ جاتا ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ، کتاب البیوع، باب الشرکۃ والوکالۃ فصل ثالث) [٤٩] بظاہر سود، جوا اور رشوت، ان تینوں میں باہمی رضامندی پائی جاتی ہے۔ لیکن یہ رضامندی اضطراری ہوتی ہے مثلاً قرض لینے والے کو اگر قرض حسنہ مل سکتا ہو تو وہ کبھی سود پر قرضہ لینے پر آمادہ نہ ہوگا۔ جواری اس لیے رضامند ہوتا ہے کہ ہر ایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے۔ ورنہ اگر کسی کو ہارنے کا خطرہ ہو تو وہ کبھی جوا نہ کھیلے گا۔ اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہو کہ اسے رشوت دیئے بغیر بھی حق مل سکتا ہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔ علاوہ ازیں سودے بازی میں اگر ایک فریق کی پوری رضامندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اسی ضمن میں آتا ہے۔ شرعی اصطلاح میں اسے بیع خیار کہتے ہیں۔ [٥٠] خود کشی کی حرمت :۔ اس جملہ کے تین مطلب ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ اسے سابقہ مضمون سے متعلق سمجھا جائے۔ اس صورت میں اس کا معنی یہ ہوگا کہ باطل طریقوں سے دوسروں کا مال ہضم کر کے اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو۔ اور اگر اسے الگ جملہ سمجھا جائے تو پھر اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ ایک دوسرے کو قتل نہ کرو یعنی قتل ناحق، جو حقوق العباد میں سب سے بڑا گناہ ہے۔ اور قیامت کو حقوق العباد میں سب سے پہلے قتل ناحق کے مقدمات کا ہی فیصلہ ہوگا۔ اور دوسرا مطلب یہ کہ خودکشی نہ کرو۔ کیونکہ انسان کی اپنی جان پر بھی اس کا اپنا تصرف ممنوع اور ودکشی گناہ کبیرہ ہے۔ چنانچہ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تم سے پہلے لوگوں میں سے کسی کو ایک پھوڑا نکلا۔ جب اسے تکلیف زیادہ ہوئی تو اس نے اپنے ترکش سے ایک تیر نکالا اور پھوڑے کو چیر دیا۔ پھر اس سے خون بند نہ ہوا یہاں تک کہ وہ مر گیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’میں نے اس پر جنت کو حرام کردیا۔‘‘ (یہ حدیث بیان کرنے کے بعد) حسن نے اپنا ہاتھ مسجد کی طرف بڑھایا اور کہا اللہ کی قسم مجھ سے یہ حدیث جندب (بن عبداللہ بجلی) نے بیان کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس مسجد میں۔ (مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب غلظ تحریم قتل الانسان نفسہ) النسآء
30 [٥١] یہاں ایسے کام سے مراد وہ تمام اوامر و نواہی ہیں جن کا ذکر اس سورۃ کی ابتداء سے چلا آ رہا ہے۔ اور ازراہ ظلم و زیادتی سے مراد یہ ہے کہ جو شخص ازراہ معصیت و تکبر اللہ کے اوامر و نواہی کی پروا نہ کرے اور گناہوں کا ارتکاب کرتا جائے اس کی سزا دوزخ ہی ہو سکتی ہے۔ النسآء
31 [٥٢] کبیرہ گناہ کون کون سے ہوتے ہیں احادیث میں جن کبیرہ گناہوں کا ذکر آیا ہے وہ درج ذیل ہیں : ١۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو۔‘‘ صحابہ نے پوچھا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! وہ کون کون سے ہیں؟ فرمایا ’’شرک باللہ، جادو، ایسی جان کو ناحق قتل کرنا جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے، سود، یتیم کا مال کھانا، میدان جنگ سے فرار، پاکباز بھولی بھالی مومن عورتوں پر تہمت لگانا۔‘‘ (مسلم، کتاب الایمان۔ باب بیان الکبائر و اکبرہا) (بخاری، کتاب المحاربین من اہل الکفرۃ والردۃ۔ باب رمی المحصنات) ٢۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا ’’اللہ کے نزدیک کونسا گناہ بڑا ہے؟‘‘ فرمایا ’’یہ کہ تو کسی اور کو اللہ کے برابر کر دے حالانکہ اللہ ہی نے تجھے پیدا کیا۔‘‘ میں نے عرض کیا ’’یہ تو واقعی بڑا گناہ ہے اس کے بعد کون سا گناہ بڑا ہے؟‘‘ فرمایا ’’تو اولاد کو اس ڈر سے مار ڈالے کہ اسے کھلانا پڑے گا۔‘‘ میں نے پوچھا’’پھر کون سا گناہ بڑا ہے؟‘‘ فرمایا ’’یہ کہ تو ہمسایہ کی بیوی سے زنا کرے۔‘‘ (بخاری، کتاب التفسیر۔ باب ﴿فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَادًا ﴾) ٣۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبیرہ گناہوں کا ذکر کیا تو فرمایا ’’بڑے گناہ یہ ہیں : اللہ کے ساتھ شرک کرنا، ناحق خون کرنا، والدین کو ستانا۔‘‘ پھر فرمایا ’’کیا میں تمہیں بڑے سے بڑا گناہ نہ بتاؤں قول الزور، (جھوٹ کو ہیرا پھیری سے سچ بنانا) یا ایسی ہی جھوٹی گواہی دینا۔ (بخاری، کتاب الادب۔ باب عقوق الوالدین من الکبائر) الغرض کبائر کی فہرست بڑی طویل ہے۔ کبائر معلوم کرنے کے لیے درج ذیل باتوں کو ملحوظ رکھنا چاہیے : ١۔ بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں جو موقع و محل کے لحاظ سے مزید شدت اختیار کر جاتے ہیں۔ مثلاً لوگوں کا مال ناجائز طریقے سے کھانا کبیرہ گناہ ہے مگر یتیم کا مال کھانا اور بھی بڑا گناہ ہے یا داؤ فریب سے مال بیچنا گناہ ہے مگر جھوٹی قسم کھا کر مال بیچنا اور بڑا گناہ بن جاتا ہے۔ عام عورتوں پر تہمت لگانا بھی بڑا گناہ ہے مگر بھولی بھالی انجان عورتوں پر تہمت لگانا مزید شدت اختیار کرجاتا ہے، اولاد کا قتل بڑا گناہ ہے مگر مفلسی کے ڈر سے اولاد کا قتل اور بھی بڑا گناہ بن جاتا ہے۔ اسی طرح زنا ایک کبیرہ گناہ ہے مگر جب یہ زنا اپنی ماں، بیٹی، بہن یا دیگر محرمات سے کیا جائے تو گناہ مزید شدید ہوجائے گا۔ اسی طرح اگر شادی شدہ عورت یا مرد زنا کرے گا تو یہ گناہ کنوارے مرد یا عورت سے زیادہ شدید ہوجائے گا۔ ایسے ہی ہمسایہ کی بیوی سے زنا کرنا کسی دوسری عورت سے زنا کرنے کی بہ نسبت شدید ہوگا۔ یا بوڑھے آدمی کا زنا کرنا جوان آدمی کے زنا کرنے کی نسبت زیادہ شدید ہوگا اور اگر بوڑھا زانی اپنے ہمسایہ کی بیوی سے زنا کرے تو کسی دوسری عورت سے زنا کرنے کی بہ نسبت اس کا گناہ تین گنا بڑھ جائے گا۔ یہی صورت باقی گناہوں کی ہوتی ہے۔ ٢۔ کسی چھوٹے گناہ کو حقیر سمجھتے ہوئے اسے مسلسل کرتے جانا بھی اسے کبیرہ گناہ بنا دیتا ہے۔ ٣۔ جس گناہ کے کام کے بعد کرنے والے پر اللہ کی، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت کا ذکر ہو۔ یا صرف اللہ کی یا صرف رسول کی لعنت کا ذکر ہو وہ بھی حسب مراتب کبیرہ گناہ ہوتا ہے۔ ٤۔ جس گناہ کی بابت یہ ذکر ہو کہ قیامت کے دن اللہ اس کی طرف دیکھے گا بھی نہیں یا اس سے کلام نہ کرے گا یا اس پر غصے ہوگا۔ وہ بھی کبیرہ گناہ ہوگا۔ [٥٣] یعنی بڑے گناہوں سے اجتناب کے بعد چھوٹے گناہ اللہ ویسے ہی معاف کر دے گا اور جواب طلبی نہیں کرے گا۔ لیکن اگر بڑے گناہوں سے اجتناب نہ کیا جائے تو ساتھ ہی ساتھ چھوٹے گناہوں کا بھی مواخذہ ہوگا۔ واضح رہے کہ سورۃ نجم کی آیت نمبر ٣٢ میں بھی یہی مضمون بیان کیا گیا ہے اور وہاں سیئات کی بجائے اللمم کا لفظ آیا ہے اور اس کا معنیٰ بھی چھوٹے گناہ ہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی وضاحت کے مطابق سیئات یا لمم سے مراد وہ چھوٹے گناہ ہیں جو کسی بڑے گناہ کا سبب بنتے ہیں۔ مثلاً حدیث میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’آنکھ کا زنا ہے، کان کا بھی، زبان کا بھی اور ہاتھ پاؤں کا بھی۔ پھر فرج یا ان کی تصدیق کردیتا ہے یا تکذیب‘‘ (بخاری، کتاب الاستیذان، باب زنا الجوارح دون الفرج) گویا آنکھ کا زنا غیر محرم کی طرف دیکھنا، پاؤں کا اس کے پاس چل کر جانا، زبان کا اس سے شہوانی گفتگو کرنا، نفس کا زنا کی خواہش کرنا ہے۔ اب اگر زنا اس سے صادر ہوجاتا ہے تو باقی چھوٹے گناہ بھی برقرار رہیں گے اور اگر بچ جاتا ہے تو یہ چھوٹے گناہ معاف کردیئے جائیں گے بشرطیکہ وہ نیک اعمال بھی بجا لانے والا ہو تو ان نیک اعمال کی وجہ سے یہ چھوٹے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ النسآء
32 [٥٤] حسد کی بجائے اللہ کا فضل طلب کرنا چاہئے :۔ دنیا میں اللہ نے کسی کو کوئی خوبی دے رکھی ہے کسی کو کوئی دوسری۔ کوئی مالدار ہے کوئی غریب ہے۔ کوئی حسین ہے کوئی بدصورت ہے، کوئی تنومند اور صحت مند اور کوئی کمزور اور مستقل بیمار۔ کوئی سالم الاعضاء ہے تو کوئی پیدائشی اندھا یا گونگا یا بہرہ ہے۔ کوئی بڑا عقلمند اور ذہین ہے اور کوئی کند ذہن ہے۔ کسی میں قوت کار کی استعداد بہت زیادہ ہے کسی میں کم ہے، کوئی چست اور پھرتیلا ہے تو کوئی پیدائشی طور پر سست اور ڈھیلا ڈھالا ہے اور اسی اختلاف ہی سے اس جہان کی رنگینیاں قائم اور اس دنیا میں ایک دوسرے کے کام چلتے چلاتے رہتے ہیں۔ اب اگر اس قدرتی اختلاف میں سے کسی بھی چیز کا اختلاف مٹانے کی کوشش کی جائے گی تو وہ اختلاف تو دور نہ ہو سکے گا البتہ معاشرہ میں بگاڑ ضرور پیدا ہوجائے گا۔ اس لیے اگر اللہ نے کسی کو خوبی عطا کی ہے تو اس کے لیے حسد ہوس اور بغض نہ رکھنا چاہیے کیونکہ اس کے عوض اللہ نے تمہیں بھی کوئی نہ کوئی خوبی ضرور دی ہوگی۔ البتہ اپنے لیے اللہ کے فضل کی دعا کرسکتے ہو۔ اور اگر سچے دل سے دعا کرو گے اور اس کام کے لیے اسباب بھی اختیار کرو گے تو اللہ تعالیٰ یقینا اپنے بندوں پر بہت عنایات کرنے والا ہے۔ [٥٥] اجر وثواب میں مرد و عورت برابر ہیں :۔ مرد ہو یا عورت جس کی نیت میں خلوص زیادہ ہوگا تو اس کو اس کے مطابق اجر ملے گا اور اگر عورت ہمت اور قوت کار کی استعداد میں کم ہونے کے باوجود وہی نیکی کا کام سر انجام دیتی ہے جو مرد نے دیا ہے تو یقینا عورت کو اس کا اجر زیادہ ملنا چاہیے۔ گویا ثواب کے لحاظ سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں۔ البتہ دوسرے عوامل ثواب کی کمی بیشی پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ اب اگر کوئی عورت اس انداز سے سوچنا شروع کر دے کہ مرد کے تو اللہ نے میراث میں دو حصے رکھے ہیں اور عورت کا ایک۔ یا یہ کہ مرد کو اللہ نے عورتوں پر حاکم بنا دیا ہے اور عورتیں محکوم ہیں یا کوئی مرد اس انداز سے سوچنا شروع کر دے کہ اخراجات کی سب ذمہ داریاں تو مرد پر ڈال دی گئی ہیں۔ پھر عورت کا میراث میں مفت میں ہی حصہ مقرر کردیا گیا ہے یا یہ کہ مرد اپنی بیوی اور بال بچوں کی خوراک، پوشاک، رہائش، تعلیمی ذمہ داریوں کے مکمل اخراجات کا ذمہ دار بنا دیا گیا ہے کہ وہ جیسے بھی بن پڑے کما کر لائے اور اہل خانہ کی خدمت میں پیش کر دے تو اس طرح تو مرد اپنے اہل خانہ کا خادم ہوا حاکم کیسے ہوا۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس قسم کے غلط انداز فکر چھوڑ دو۔ اللہ تعالیٰ نے جو احکام دیئے ہیں اس حیثیت سے دیئے ہیں کہ وہ ہر ایک بات کو خوب جانتا ہے لہٰذا اگر تم میں سے کسی کو کچھ کسر معلوم ہوتی ہے تو اللہ سے اس کا فضل مانگا کرو۔ وہ بڑا صاحب فضل ہے اور تمہاری سب کمزوریاں اور کو تاہیاں دور کردینے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ النسآء
33 [٥٦] مواخات اور میراث :۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ موالی سے مراد۔۔ وارث ہیں اور﴿وَالَّذِیْنَ عَقَدَتْ اَیْمَانُکُمْ﴾ کا مطلب یہ ہے کہ مہاجرین اسلام ابتداًء جب مدینہ آئے تو مہاجر اپنے انصاری بھائی کا وارث ہوتا اور انصاری کے رشتہ داروں کو ترکہ نہ ملتا تھا کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مواخات کرا دی تھی۔ پھر (جب مسلمانوں کی معیشت سنبھل گئی تو) یہ آیت اتری ﴿وَلِکُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِیَ﴾ تو اب ایسے بھائیوں کو ترکہ ملنا موقوف ہوگیا اور اب ﴿عَقَدَتْ اَیْمَانُکُمْ﴾سے مراد وہ لوگ ہیں جن سے قسم کھا کر دوستی، مدد اور خیر خواہی کا عہد کیا جائے ان کے لیے ترکہ نہ رہا البتہ وصیت کا حکم باقی ہے۔ (بخاری، کتاب التفسیر نیز کتاب الکفالہ باب قول اللہ والذین عقدت ایمانکم) النسآء
34 [٥٧] مرد قوام کس لحاظ سے ہیں؟ قوام کا معنیٰ سرپرست، سربراہ اور منتظم ہے۔ یعنی ایسا شخص جو کسی دوسرے کی تمام تر معاشی اور معاشرتی ذمہ داریاں پوری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ پھر مردوں کے قوام ہونے کی اللہ تعالیٰ نے دو وجوہ بیان فرمائی ہیں۔ ایک یہ کہ مرد اپنی جسمانی ساخت کے لحاظ سے عورتوں سے مضبوط ہوتے ہیں مشقت کے کام جتنا مرد کرسکتے ہیں عورتیں نہیں کرسکتیں۔ پھر ذمہ داریوں کو نباہنے کی صلاحیت بھی مردوں میں عورتوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ چنانچہ تاریخ کے اوراق اس بات پر شاہد ہیں کہ جو کچھ کارہائے نمایاں مردوں نے سرانجام دیئے ہیں عورتیں اس کے عشر عشیر کو بھی نہ پہنچ سکیں اور یہ کارنامے خواہ زندگی کے کسی بھی پہلو اور تاریخ کے کسی بھی دور سے تعلق رکھتے ہوں۔ لہٰذا گھر کی چھوٹی سی ریاست کا سربراہ یا قوام بھی مرد ہی کو ہونا چاہیے اور مردوں کے قوام ہونے کی دوسری وجہ یہ بتائی کہ وہ اپنے اہل خانہ کے تمام تر معاشی اخراجات کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور بنائے گئے ہیں اور اس کی بھی اصل وجہ وہی ہے جو پہلی وجہ میں مذکور ہوئی کہ مرد محنت شاقہ کر کے جو کچھ کمائی کرسکتے ہیں وہ عورتیں نہیں کرسکتیں۔ لہٰذا امور خانہ داری کا سربراہ تو عورت کو بنایا گیا اور پورے گھر کی اندرونی اور بیرونی ذمہ داریوں کا سربراہ مرد کو۔ یہی وجہ ہے کہ طلاق اور رجوع کا حق بھی مرد کو دیا گیا ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’مرد اپنے اہل بیت پر حکمران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے متعلق بازپرس ہوگی۔ اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کی اولاد پر حکمران ہے اس سے اس کے متعلق بازپرس ہوگی۔‘‘ (بخاری کتاب الاحکام۔ باب (اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ)نیز کتاب النکاح، باب (قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ .....، مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضیلۃ الامیر العادل) [٥٨] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’بہترین بیوی وہ ہے کہ جب تم اسے دیکھو تو تمہارا جی خوش ہوجائے، جب اسے کسی بات کا حکم دو تو وہ تمہاری اطاعت کرے اور جب تم گھر میں موجود نہ ہو تو وہ تمہارے پیچھے تمہارے مال کی اور اپنے نفس کی حفاظت کرے۔‘‘ (بخاری، کتاب النفقات، باب حفظ المرأۃ زوجہا فی ذات یدہ) اچھی بیوی کی صفات :۔ اس مختصر سی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اچھی بیوی کی چار صفات بیان فرمائی ہیں۔ دو تو شوہر کی موجودگی سے تعلق رکھتی ہیں اور دو عدم موجودگی سے۔ موجودگی سے متعلق یہ ہیں کہ جب شوہر گھر میں ہو یا باہر سے کام کاج کے بعد شام کو گھر آئے تو اس کی بیوی خندہ پیشانی سے اس کا استقبال کرے اس کا جسم اور اس کے کپڑے صاف ستھرے ہوں اور وہ اپنے خاوند کا دل موہ لے اور خاوند اسے دیکھ کر خوش ہوجائے۔ دوسری یہ کہ خاوند اسے اگر کھانے پینے سے متعلق کسی بات کے لیے کہے تو اسے فوراً بجا لائے۔ یا اگر اسے بوس و کنار کے لیے بلائے تو بطیب خاطر اس کی بات مانے۔ اور جب گھر میں نہ ہو تو کسی غیر مرد کو گھر میں داخل نہ ہونے دے۔ نہ ہی خود کسی غیر مرد سے آزادانہ اختلاط یا خوش طبعی کی باتیں کرے۔ نیز اپنے شوہر کے گھر کی امین ہو۔ اس کے مال کو نہ فضول کاموں میں خرچ کرے نہ ہی اس کی اجازت کے بغیر اللہ کی راہ میں خرچ کرے۔ الایہ کہ اس کا مال ذاتی ہو اور نہ ہی چوری چھپے خاوند کے مال سے اپنے میکے والوں کو دینا شروع کر دے۔ مگر جب خاوند کوئی ایسا کام بتائے جو گناہ کا کام ہو اور اس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہو تو اللہ کی معصیت کے مقابلہ میں کسی کی اطاعت جائز نہیں۔ جیسے مثلاً مرد اسے نماز کی ادائیگی یا پردہ کرنے سے روکے یا اسے شرک و بدعت والے کاموں پر مجبور کرے تو اس سے انکار کردینا ضروری ہے ورنہ وہ گنہگار ہوگی۔ اور خاوند کی اطاعت کی حد کے بارے میں مندرجہ ذیل دو احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر عورت کا خاوند اس کے پاس موجود ہو تو وہ اس کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھے۔‘‘ (بخاری، کتاب النکاح، باب صوم المراۃ باذن زوجھا تطوعا) ٢۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب مرد اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ نہ آئے تو صبح تک فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔‘‘ (بخاری، کتاب النکاح۔ باب اذاباتت المراۃ مھاجرۃ فراش زوجھا) [٥٩] نشوز کا لغوی معنیٰ بلندی یا ارتفاع، اٹھان اور ابھار کے ہیں۔ خصوصاً جب کسی چیز میں یہ اٹھان تحرک اور ہیجان کا نتیجہ ہو مثلاً عورت اپنے خاوند کو اپنا ہمسر یا اپنے سے کمتر سمجھتی ہو یا اس کی سربراہی کو اپنے لیے توہین سمجھ کر اسے تسلیم نہ کرتی ہو۔ اس کی اطاعت کے بجائے اس سے کج بحثی کرتی ہو۔ خندہ پیشانی سے پیش آنے کی بجائے بدخلقی سے پیش آتی ہو اور سرکشی پر اتر آتی ہو۔ بات بات پر ضد اور ہٹ دھرمی دکھاتی ہو یا مرد پر ناجائز قسم کے اتہامات لگاتی ہو۔ یہ باتیں نشوز کے معنیٰ میں داخل ہیں۔ ایسی عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کو تین قسم کے ترتیب وار اقدام کرنے کی اجازت دی ہے۔ پہلا قدم یہ ہے کہ اسے نرمی سے سمجھائے کہ اس کے اس رویہ کا کیا انجام ہوسکتا ہے۔ لہٰذا وہ کم از کم اپنی بہتری اور مفاد کی خاطر گھر کی فضا کو مکدر نہ بنائے۔ پھر اگر وہ خاوند کے سمجھانے بجھانے کا کچھ اثر قبول نہیں کرتی تو خاوند اس سے الگ کسی دوسرے کمرہ میں سونا شروع کر دے۔ اور اسے اپنے ساتھ نہ سلائے۔ اگر اس عورت میں کچھ بھی سمجھ بوجھ ہوگی اور اپنا برا بھلا سمجھنے سوچنے کی تمیز رکھتی ہوگی تو وہ اپنے خاوند کی اس ناراضی اور سرد جنگ کو برداشت نہیں کرسکے گی۔ اگر پھر بھی اسے ہوش نہیں آتا تو پھر تیسرے اور آخری حربہ کے طور پر مارنے کی بھی اجازت دی گئی ہے، مگر چند شرائط کے ساتھ جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث سے واضح ہے : ١۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’خبردار! عورتوں کے متعلق نیک سلوک کی وصیت قبول کرو۔ وہ تمہارے پاس صرف تمہارے لیے مخصوص ہیں۔ اس کے سوا تم ان کے کچھ بھی مالک نہیں، بجز اس کے کہ وہ کھلی بے حیائی کریں اگر وہ ایسا کریں تو تم انہیں بستروں میں علیحدہ کرسکتے ہو اور اس طرح مار سکتے ہو کہ انہیں چوٹ نہ آئے‘‘ (ترمذی، ابو اب الرضاع، باب فی حق المرأۃ علی زوجھا) ٢۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’بیوی کو مارو نہیں نہ اسے برا بھلا کہو اور نہ اسے چھوڑو مگر گھر میں‘‘ (یعنی گھر میں ہی اسے اپنے بستر سے علیحدہ سلاؤ۔ گھر سے نکالو نہیں۔) (ابو داؤد، کتاب النکاح، باب فی حق المرأۃ علی زوجھا) ٣۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم میں سے کوئی اپنی بیوی کو یوں نہ مارے جیسے اپنے غلام کو مارتے ہو، پھر دن کے آخر میں اس سے جماع بھی کرے۔‘‘ (بخاری، کتاب النکاح، باب مایکرہ من ضرب النساء۔۔ مسلم کتاب الجنۃ۔ باب النار یدخلہ الجبارون) یعنی اگر مارنے کے بغیر عورت کے راہ راست پر آنے کا کوئی امکان نہ ہو تو یہ سوچ کر مارے کہ ممکن ہے رات کو اسے بیوی کی ضرورت پیش آ جائے اور اسے منانا پڑے۔ دوسرے یہ کہ اسے غلاموں کی طرح بے تحاشا نہ مارے۔ اور ایک حدیث کے مطابق کسی کو بھی یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی، یا ملازم یا بال بچوں کو منہ پر مارے۔ اور تیسری پابندی یہ ہے کہ ایسی مار نہ مارے جس سے اس کی بیوی کو کوئی زخم آ جائے یا اس کی کوئی ہڈی پسلی ٹوٹ جائے۔ ان حدود و قیود کے ساتھ خاوند کو ایسی اضطراری حالت میں بیوی کو مارنے کی اجازت دی گئی ہے۔ [٦٠] یعنی اگر وہ باز آ جاتی ہیں تو محض ان پر اپنا رعب داب قائم کرنے کے لیے پچھلی باتیں یاد کر کے ان سے انتقام نہ لو اور اس اجازت سے ناجائز فائدہ نہ اٹھاؤ اور اگر ایسا کرو گے تو اللہ جو بلند مرتبہ اور تم پر پوری قدرت رکھتا ہے تم سے تمہارے اس جرم کا بدلہ ضرور لے گا۔ النسآء
35 [٦١] زوجین میں ثالثی فیصلہ :۔ اور اگر میاں بیوی کے تعلقات سنورنے میں نہ آ رہے ہوں اور ان میں سے ہر کوئی دوسرے پر الزام تھوپ رہا ہو تو طلاق سے پہلے فریقین اپنے اپنے خاندان میں سے ثالث منتخب کریں جو پوری صورتحال کو سمجھ کر نیک نیتی سے اصلاح کی کوشش کریں۔ یہ ثالث طرفین کی طرف سے ایک ایک آدمی بھی ہوسکتا ہے دو دو بھی اور تین تین بھی۔ جو بات بھی میاں بیوی دونوں کو تسلیم ہو اختیار کی جا سکتی ہے۔ [٦٢] یہاں دونوں سے مراد میاں بیوی بھی ہو سکتے ہیں اور طرفین کے ثالث حضرات بھی۔ یعنی اگر ان کی نیت بخیر ہوگی تو اللہ تعالیٰ زوجین میں ضرور موافقت کی راہ نکال دے گا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ثالث سمجھوتہ کرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو فہوالمراد۔ اور اگر وہ اس نتیجہ پر پہنچیں کہ تفریق کے بغیر اب کوئی چارہ کار نہیں رہا۔ تو کیا وہ یہ اختیار بھی رکھتے ہیں (یعنی مرد سے طلاق دلوانے کا یا خلع کا) یا نہیں۔ اکثر علماء کے نزدیک یہ ثالثی بنچ یہ اختیار بھی رکھتا ہے کیونکہ یہ بھی ایک طرح کی عدالت ہی ہوتی ہے۔ اور بعض علماء کہتے ہیں کہ ایسے اختیارات صرف عدالت کو ہیں اور یہ بنچ عدالت کے سامنے اپنی سفارشات پیش کرسکتا ہے۔ عدالت یہ اختیار خود بھی استعمال کرسکتی ہے اور وہ یہ اختیار اس ثالثی بنچ کو بھی تفویض کرسکتی ہے اور چاہے تو اپنی طرف سے علیحدہ بنچ مقرر کر کے اسے یہ اختیار دے سکتی ہے۔ جیسا کہ آج کل ہمارے ہاں یونین کونسلوں کو ایسے اختیارات تفویض کیے گئے ہیں۔ النسآء
36 [٦٣] شرک کے لیے دیکھیے اسی سورۃ کا حاشیہ نمبر ٨٠، اور حاشیہ نمبر ١٥٤) [٦٤] والدین سے حسن سلوک کے لیے دیکھیے سورۃ بنی اسرائیل کا حاشیہ نمبر ٢٥ تا ٢٨۔ اور اقرباء سے حسن سلوک کے لیے دیکھیے سورۃ نساء کا حاشیہ نمبر ٣۔ [٦٥] یتیموں سے حسن سلوک کے لیے دیکھیے سورۃ نساء کی آیات ٢ تا ٦ کے حواشی۔ [٦٦] ہمسایہ سے بہتر سلوک :۔ ہمسایوں سے بہتر سلوک کے لیے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہو وہ اپنے ہمسایہ کو تکلیف نہ پہنچائے‘‘ (بخاری، کتاب النکاح، باب الوصاۃ بالنساء۔۔ مسلم، کتاب الایمان، باب الحث علیٰ اکرام الجار) ٢۔ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار یہ الفاظ دہرائے ’’اللہ کی قسم! وہ شخص مومن نہیں‘‘ صحابہ نے پوچھا ’’کون یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !‘‘ فرمایا ’’جس کی ایذا دہی سے اس کا ہمسایہ امن میں نہ ہو۔‘‘ (بخاری، کتاب الادب، باب اثم من لا یامن جارہ بوائقہ) ٣۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس کی ایذا دہی سے اس کا ہمسایہ امن میں نہ ہو وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔‘‘ (مسلم کتاب الایمان۔ باب بیان تحریم ایذاء الجار) ٤۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’وہ شخص جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ اپنے ہمسایہ کی عزت کرے‘‘ (مسلم۔ کتاب الایمان، باب الحث علی اکرام الجار) ٥۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جبریل مجھے ہمسایہ سے حسن سلوک کے بارے میں اتنی وصیت کرتے رہے کہ میں نے سمجھا کہ وہ اسے وارث بھی بنا دیں گے۔‘‘ (بخاری، کتاب الادب، باب الوصایہ بالجار۔۔ مسلم، کتاب البر والصلۃ باب الوصیۃ بالجار) ٦۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’ابو ذر جب تم سالن پکاؤ تو اس کا شوربا زیادہ کرلیا کرو اور اپنے پڑوسیوں کا بھی خیال رکھو۔‘‘ (مسلم۔ ایضاً) ٧۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ہمسایہ اپنے قرب کی وجہ سے (فروختنی جائیداد کا) زیادہ حقدار ہے۔‘‘ (بخاری کتاب السلم باب عرض الشفعۃ علی صاحبہا قبل البیع) ٨۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے پوچھا ’’اللہ کے رسول ! میرے دو پڑوسی ہیں تو میں کس کو تحفہ بھیجوں‘‘ فرمایا ’’جس کا دروازہ زیادہ قریب ہو۔‘‘ (بخاری، کتاب المسلم باب ای الجواراقرب) ٩۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اے مسلم عورتو! کوئی ہمسائی اپنی ہمسائی کے تحفہ کو حقیر نہ سمجھے خواہ وہ تحفہ بکری کا کھر ہی کیوں نہ ہو۔ ‘‘ (بخاری، کتاب الہبتہ، و التحریض علیہا۔۔ مسلم، کتاب الزکوٰۃ، باب الحث علی الصدقۃ) ١٠۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کوئی ہمسایہ اپنے ہمسایہ کو اپنی دیوار میں لکڑی (شہتیر وغیرہ) رکھنے سے منع نہ کرے۔‘‘ (بخاری، کتاب المظالم۔ باب لایمنع جار جارہ ان یغرز خشبہ فی جدارہ) ١١۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب آپ اپنے ہمسایوں کو یہ کہتے سنیں کہ آپ نے اچھا کام کیا تو فی الواقع آپ نے اچھا کام کیا اور جب آپ سنیں کہ آپ نے برا کام کیا تو فی الواقع آپ نے برا کام کیا۔‘‘ (ابن ماجہ، ابو اب الزھد فی الدنیا، باب الثناء الحسن) ١٢۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ شخص مسلمان نہیں جو خود تو پیٹ بھر کر کھاتا ہے اس حال میں کہ اس کا ہمسایہ بھوکا رہے۔‘‘ (شعب الایمان للبیہقی) اس آیت میں تین قسم کے ہمسایوں کا ذکر آیا ہے۔ ایک وہ جو ہمسائے بھی ہوں اور رشتہ دار بھی ہوں۔ دوسرے وہ جو تمہارے پہلو میں یا تمہارے مکان کے پاس تو رہتے ہوں مگر تمہارے رشتہ دار نہ ہوں۔ تیسرے وہ جو تمہاری سوسائٹی سے متعلق ہوں مثلاً وہ دوست احباب جو ایک جگہ مل بیٹھتے ہوں یا کسی دفتر میں یا دوسری جگہ اکٹھے کام کرتے ہوں اور اکثر میل ملاقات رہتی ہو۔ حسن سلوک تو ان سب سے کرنا چاہیے۔ تاہم اسی ترتیب سے الاقرب فالاقرب کا خیال ضرور رکھا جائے۔ سب سے زیادہ حقدار رشتہ دار ہمسائے ہیں، پھر ان کے بعد اپنے گھر کے آس پاس رہنے والے ہمسائے۔ اور ایک روایت کے مطابق ایسے ہمسایوں کی حد چالیس گھروں تک ہے پھر ان کے بعد ان ہمسایوں کی باری آتی ہے جو اپنے ہم نشین، ہم جماعت یا کو لیگ ہوں۔ اور مندرجہ بالا احادیث سے نہایت اہم چیز جو سب سے پہلے ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام معاشرتی زندگی اور مل جل کر رہنے کا زبردست مؤید ہے۔ آج کے دور میں کوٹھیوں اور بنگلوں میں رہائش ہے جہاں ساتھ والے ہمسائے تک کو اس کی غمی یا خوشی کی خبر تک نہیں ہوتی، یہ اسلامی نظریہ معاشرت کے عین برعکس ہے۔ پھر اسلام جن اعلیٰ اقدار کا سبق دیتا ہے تہذیب و تمدن کی تبدیلی نے ان اقدار کو بھی یکسر بدل دیا ہے مثلاً اسلام یہ سکھاتا ہے کہ کوئی ہمسایہ اپنے ہمسائے کو اپنی دیوار پر شہتیر رکھ لینے سے منع نہ کرے مگر یہاں یہ حال ہے کہ اگر ہمسائے بھائی بھائی بھی ہوں تو ہر ایک یہ چاہتا ہے کہ اپنی دیوار اپنے بھائی کی دیوار سے بالکل الگ تعمیر کرے۔ گو یہ اس لحاظ سے بہتر ہے کہ بعد میں کسی وقت تنازعہ پیدا نہ ہو مگر شریعت نے تنازعہ پیدا کرنے کا نہیں بلکہ تنازعہ کو ختم کرنے اور بھائی بھائی نہ ہونے کے باوجود بھائی بھائی بن کر رہنے کا سبق دیا تھا۔ پھر ان احادیث میں جو حقوق بیان کیے گئے ہیں وہ بڑے واضح ہیں جن کی شرح و تفصیل کی ضرورت نہیں اور پڑھنے کے بعد یوں معلوم ہوتا ہے جیسے ہمسائے بھی اپنے ہی گھر کے افراد ہیں اور یہ بھی غور فرمائیے کہ اگر ان ارشادات نبوی پر عمل کیا جائے تو معاشرہ میں کس قدر خوشگوار ماحول پیدا ہوسکتا ہے۔ [٦٧] مسافروں سے بہتر سلوک :۔ مسافروں سے بہتر سلوک کے لیے مندرجہ ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں جا رہے تھے۔ اثنائے سفر میں آپ نے ہمیں فرمایا ’’جس کے پاس فاضل سواری ہے وہ اسے دے دے جس کے پاس سواری نہیں اور جس کے پاس زائد کھانا ہو وہ اسے دے دے جس کے پاس کھانا نہیں۔ غرضیکہ آپ نے مال کی ایک ایک قسم کا جدا جدا ذکر کیا۔ حتیٰ کہ ہم یہ سمجھنے لگے کہ اپنے زائد مال میں ہمارا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘ (مسلم، کتاب اللقطۃ، باب استحباب المواسات بفضول المال ) ٢۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک شخص کو جو سفر پر روانہ ہو رہا تھا، کہا کہ میرے پاس آؤ۔ میں تمہیں ایسے ہی رخصت کروں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں رخصت کیا کرتے تھے۔ پھر انہوں نے کہا " اَسْتَوْدِعُ اللہَ دِیْنَکَ وَاَمَانَتَکَ وَخَوَاتِیْمَ عَمَلِکَ " (میں تمہارا دین، تمہاری امانت اور تمہارے آخری اعمال اللہ کے سپرد کرتا ہوں) (ترمذی، ابو اب الدعوات، باب مایقول اذا ودع انسانا) ٣۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تین آدمی ایسے ہیں جن کی طرف اللہ قیامت کے دن دیکھے گا بھی نہیں اور نہ انہیں پاک کرے گا اور انہیں دردناک عذاب ہوگا۔ ایک وہ جس کے پاس راستہ میں فاضل پانی ہو اور وہ مسافر کو بھی پانی نہ دے۔‘‘ (بخاری، کتاب المساقات۔ باب اثم من منع ابن السبیل من المائ) ٤۔ سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ آپ ہمیں روانہ کرتے ہیں پھر ہم (راستے میں) ایسے لوگوں کے پاس اترتے ہیں جو ہماری مہمانی تک نہیں کرتے تو آپ کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر وہ لوگ دستور کے مطابق تمہاری مہمانی کریں تو فبہا اور اگر نہ کریں تو دستور کے مطابق مہمانی کا حق ان سے وصول کرلو۔ ‘‘ (بخاری۔ کتاب الادب باب اکرام الضیف و خدمتہ ایاہ بنفسہ۔۔ الخ) مندرجہ بالا احادیث سے جو نتائج اخذ ہوتے ہیں وہ یہ ہیں : ١۔ ہم سفر لوگوں کو ایک دوسرے سے تعاون کرنا ضروری ہے۔ اگر ایک مسافر کے پاس کھانے پینے کی یا ضرورت کی کوئی بھی چیز اپنی ضرورت سے زائد ہے تو اسے اپنے ایسے مسافر بھائی کو وہ چیز دینا ضروری ہے جس کے پاس وہ چیز نہ ہو اور پانی کا بالخصوص اس لیے ذکر آیا کہ یہ زندگی کی نہایت اہم بنیادی ضرورت ہے۔ لہٰذا اپنی ضرورت سے زائد پانی نہ دینے کو گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے۔ فقہاء کہتے ہیں کہ جس فعل کے متعلق قرآن یا حدیث میں یہ مذکور ہو کہ اللہ قیامت کے دن اس کی طرف دیکھے گا بھی نہیں، یا پاک نہیں کرے گا تو ایسا فعل گناہ کبیرہ ہوتا ہے۔ ٢۔ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں عرب بھر میں پانی کی بھی قلت تھی اور بستیوں اور شہروں کی بھی۔ لہٰذا اس دور میں بستی والوں کا مسافروں کی مہمانی سے انکار دراصل انہیں مار دینے کے مترادف ہوتا تھا لہٰذا بصورت انکار ان سے حق وصول کرلینے کی اجازت دی گئی لیکن آج کل اور بالخصوص پاکستان میں ایسی صورت نہیں ہے پانی عام ہے۔ بستیاں قریب قریب ہیں اور کھانے پینے کی دکانیں اور ہوٹل بکثرت موجود ہیں۔ لہٰذا ان حالات میں کسی ناجائز طریقہ سے مہمانی وصول کرنے کا حق نہیں اور اب یہ صرف اس صورت میں جائز ہے جب مسافر کے پاس زاد راہ ختم ہوجائے اور کوئی شخص اس کو کھانا کھلانے یا مہمانی کرنے پر تیار نہ ہو ایسے مسافر کو صدقہ حتیٰ کہ زکوٰۃ بھی دی جا سکتی ہے خواہ وہ اپنی گھر میں کتنا ہی امیر ہو۔ [٦٨] لونڈی غلاموں سے بہتر سلوک :۔ لونڈی غلاموں سے بہتر سلوک کے لیے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے اور فلاں (سیدنا بلال رضی اللہ عنہ ۔۔ آزاد شدہ حبشی غلام) کے درمیان سخت کلامی ہوئی تو میں نے اسے ماں کی عار دلائی (یہ کہا تھا اے کالی ماں کے بیٹے!) تو انہوں نے ( بلال رضی اللہ عنہ نے یہ بات آپ کو بتا دی۔ آپ نے مجھے فرمایا 'ابو ذرص! تم ایسے انسان ہو جس میں جاہلیت (ابھی باقی) ہے۔ میں نے کہا ’’اتنی بڑی عمر ہوجانے کے باوجود بھی باقی ہے؟‘‘ فرمایا ’’ہاں! یہ تمہارے خادم تمہارے بھائی ہیں جنہیں اللہ نے تمہارے ماتحت کردیا ہے۔ تو جس شخص کا بھائی اللہ اس کے تحت کر دے تو اسے چاہیے کہ اسے وہی کچھ کھلائے جو خود کھاتا ہے اور وہی پہنائے جو خود پہنتا ہے۔ ایسا کام کرنے کو نہ کہے جو اس پر بھاری ہو۔ اور اگر ایسا کام کرنے کو کہے تو خود اس کی مدد بھی کرے۔‘‘ (بخاری کتاب الادب۔ باب ماینھی من السباب واللعن۔ نیز کتاب الایمان۔ باب المعاصی من امر الجاھلیۃ) ٢۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص اپنے غلام پر تہمت لگائے درآنحالیکہ وہ اس چیز سے بری ہو جو اس نے تہمت لگائی ہے تو قیامت کے دن اسے کوڑے لگائے جائیں گے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب المحاربین، باب قذف العبید) ٣۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب تم میں سے کسی کے پاس اس کا خادم کھانا لائے تو اسے بھی اپنے ساتھ بٹھا کر کھلائے اور اگر کھانا کم ہو تو بھی اسے لقمہ دو لقمے دے دے۔ کیونکہ اس نے پکانے کی گرمی اور دھواں برداشت کیا ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب العتق، باب اذا اتاہ خادمۃ بطعامہ) ٤۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر کسی کے پاس لونڈی ہو اور وہ اس کو اچھی طرح تعلیم دے اور اچھی طرح ادب سکھائے۔ پھر اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کرلے تو اسے دوہرا اجر ملے گا۔‘‘ (بخاری، کتاب النکاح، باب اتخاذ السراری۔ نیز کتاب العلم۔ باب تعلیم الرجل امتہ واھلہ) ٥۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کوئی شخص (اپنے لونڈی غلام کو) عبد (بندہ) اور امتہ (بندی) نہ کہے کیونکہ تم سب اللہ کے بندے ہو اور سب عورتیں اللہ کی بندیاں ہیں بلکہ یوں کہو۔ میرا خادم اور میری خادمہ اور میرا بچہ اور میری بچی۔‘‘ (مسلم۔ کتاب الالفاظ من الادب، باب حکم اطلاق لفظۃ العبد والامۃ و المولی والسید) ٦۔ غلاموں کا وقار بلند کرنے کے اقدامات :۔ سیدنا ابو مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے غلام کو کوڑے سے مار رہا تھا۔ اتنے میں پیچھے سے آواز آئی 'ابو مسعود! جان لو۔ ' میں غصہ کی وجہ سے آواز نہ پہچان سکا۔ جب کہنے والا قریب آیا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے اور یوں کہہ رہے تھے ’’ابو مسعود! جان لو! ابو مسعود! جان لو!‘‘ آپ کی ہیبت کی وجہ سے کوڑا میرے ہاتھ سے گرگیا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ابو مسعود! خوب سمجھ لو کہ جتنی قدرت تمہیں اس غلام پر ہے اس سے زیادہ قدرت اللہ کو تم پر ہے۔‘‘ چنانچہ میں نے کہا کہ آج کے بعد کبھی غلام کو نہ ماروں گا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ میں نے کہا :’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! یہ غلام اللہ کی خاطر آزاد ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’اگر تم ایسا نہ کرتے تو جہنم کی آگ تجھے جھلس دیتی۔‘‘ (مسلم۔ کتاب الایمان، باب صحبۃ الممالیک) ٧۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص اپنے غلام کو بغیر کسی قصور کے حد لگائے یا طمانچہ مارے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے آزاد کر دے۔‘‘ (مسلم۔ حوالہ ایضاً) ٨۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا” میں اپنے غلام کو کتنی بار معاف کروں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ اس نے اپنی بات دہرائی تو بھی آپ خاموش رہے۔ پھر تیسری بار جب یہی بات پوچھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’خادم کو ہر دن میں ستر دفعہ معاف کرو‘‘ (ابو داؤد، کتاب الادب باب فی حق المملوک ) ٩۔ سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ کے دروازہ کے پاس ایک حاملہ عورت لائی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ’’غالباً وہ شخص (جس کے حصہ میں یہ آئی ہے) اس سے جماع کرنا چاہتا تھا ؟‘‘ صحابہ نے کہا جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میں چاہتا ہوں کہ اس پر ایسی لعنت کروں جو قبر میں اس کے ساتھ داخل ہو بھلا وہ اس بچہ کا کیسے وارث ہوسکتا ہے حالانکہ وہ اس کے لیے حلال نہیں اور وہ اس بچہ کو کیسے غلام بنا سکتا ہے۔ حالانکہ وہ اس کے لیے حلال نہیں۔‘‘ (مسلم، کتاب النکاح۔ باب تحریم وطی الحامل المسبیۃ) ١٠۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص کسی آزاد آدمی کو غلام بنائے، قیامت کے دن میں خود اس کے خلاف استغاثہ کروں گا۔‘‘ (بخاری بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب البیوع۔ باب الاجارۃ۔ فصل اول) جنگ بدر کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگی قیدیوں کو مختلف صحابہ کے گھروں میں بانٹ دیا اور ساتھ ہی یہ تاکید فرمائی کہ استَوْصُوْابِالْاُسَارٰی خَیْرًا۔ یعنی ان قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ انہی قیدیوں میں سے ایک قیدی ابو عزیز کا بیان ہے کہ مجھے جس انصاری کے گھر میں رکھا گیا تھا وہ خود تو کھجوریں کھاتے تھے۔ لیکن مجھے صبح و شام روٹی کھلاتے تھے۔ ١١۔ اسلام میں داخل ہونے کے لئے شہادتیں :۔ معاویہ بن حکم اسلمی سے روایت ہے کہ میری ایک لونڈی تھی جو احد اور جوانیہ (ایک مقام کا نام) کی طرف بکریاں چرایا کرتی تھی۔ ایک دن میں وہاں آ نکلا تو دیکھا کہ ایک بھیڑیا ایک بکری لیے جا رہا ہے۔ میں بھی آخر آدمی ہوں مجھ کو بھی ایسے غصہ آتا ہے جیسے دوسروں کو آتا ہے۔ میں نے اس لونڈی کو ایک طمانچہ مارا۔ پھر میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اس فعل کو بہت بڑا جرم سمجھا۔ میں نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں اس لونڈی کو آزاد نہ کردوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اسے میرے پاس لاؤ۔ میں اسے آپ کے پاس لے کر گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ اللہ کہاں ہے؟ اس نے کہا۔ آسمان پر۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا میں کون ہوں؟ وہ کہنے لگی۔ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ارشاد فرمایا کہ اسے آزاد کردے۔ یہ مومنہ ہے۔ (مسلم کتاب المساجد۔ باب تحریم الکلام فی الصلٰوۃ۔۔) اسلام سے پہلے غلاموں کی جس قدر بدتر حالت تھی وہ سب کو معلوم ہے۔ اسلام نے غلاموں کو اتنے حقوق عطا کیے کہ وہ معاشرہ کا معزز فرد بن گئے۔ اسلام نے ان سے حسن سلوک کی جو تاکید کی تھی یہ اسی کا اثر تھا کہ نام کے علاوہ غلام اور آزاد میں کچھ فرق نہ رہ گیا۔ غلاموں کا فقیہ اور محدث ہونا تاریخ سے ثابت ہے اور یہ بہت بڑا اعزاز ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ کو اپنا متبنیٰ بنایا۔ پھر اپنی پھوپھی زاد بہن سے ان کا نکاح کردیا۔ زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ اور ان کے بیٹے اسامہ رضی اللہ عنہ بن زید رضی اللہ عنہ دونوں کو کئی بار سپہ سالارلشکر بنایا۔ جن کے تحت صحابہ کبار جنگ میں شریک ہوئے۔ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو جو کالے رنگ اور موٹے ہونٹوں والے حبشی غلام تھے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات کے وقت ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام سیدنا سالم رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا کہ آج اگر وہ زندہ ہوتے تو میں انہیں خلیفہ نامزد کردیتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ’’اگر تم پر نکٹا غلام بھی امیر بنا دیا جائے تو جب تک وہ تمہیں اللہ کے احکام کے مطابق چلاتا رہے اس کی بات سنو اور اطاعت کرو۔‘‘ (مسلم، کتاب الامارۃ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ۔۔) چنانچہ تاریخ میں ایسے بے شمار مسلمان بادشاہ گزرے ہیں جو غلام تھے۔ محمود غزنوی مشہور فاتح ہند بھی آزاد کردہ غلام تھا۔ ہندوستان اور مصر میں غلاموں کے خاندان نے صدیوں تک حکومت کی۔ مغلوں کی ہند میں آمد سے بہت پہلے خاندان غلاماں کے کئی فرمانرواؤں نے ہند پر حکومت کی۔ اب وہ کونسا اعزاز باقی رہ جاتا ہے جو آزاد کے ساتھ مخصوص ہو اور غلام اس سے محروم ہو۔ اور بعض لوگوں نے ﴿اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ﴾میں ان جانوروں اور مویشیوں کو بھی شامل کیا ہے جو انسان اپنی ضرورت کے تحت اپنے گھر میں پالتا ہے مثلاً سواری کے لیے گھوڑا یا اونٹ۔ دودھ حاصل کرنے کے لیے بھیڑ بکری یا گائے بھینس اور انڈوں اور گوشت وغیرہ کے لیے مرغیاں پالنا وغیرہ۔ کہ یہ جانور بھی اپنے مالک کے حسن سلوک کے مستحق ہیں اور یہ توجیہ اس لحاظ سے بہت خوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جانوروں پر رحم کرنے اور ان سے بہتر سلوک کرنے کی بہت تاکید فرمائی ہے۔ [٦٩] یعنی وہ لوگ جو اپنی انا میں مست و مغرور رہتے ہیں اور شیخی بگھارتے ہیں اور اللہ کے احکام کی پروا نہیں کرتے۔ النسآء
37 [٧٠] ایسے بڑ مارنے والوں کی ایک صفت یہ ہوتی ہے کہ جو کچھ اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا کر رکھا ہے، اسے چھپاتے ہیں۔ اس عطیہ الہی سے مراد علم بھی ہوسکتا ہے اور دولت بھی۔ یہ آیت اگرچہ یہود کے حق میں نازل ہوئی ہے جو ہر اس آیت کو چھپانے کی کوشش کرتے تھے جو ان کی اپنی وضع کردہ شریعت یا ان کے مذہب کے خلاف ہوتی تھی۔ اور سودخوری اور حرام خوری کی وجہ سے بخل بھی ان کی رگ رگ میں سرایت کرچکا تھا۔ تاہم اس آیت کا حکم عام ہے اور مسلمانوں پر بھی لاگو ہے۔ مسلمانوں میں سے ہر فرقہ ہر اس آیت یا حدیث کو اپنے پیرو کاروں سے چھپانے کی کوشش کرتا ہے جو اس کے مسلک و مذہب کے خلاف جاتی ہو۔ الاماشاء اللہ۔ بخل کی مذمت :۔ مسلمانوں میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں اللہ نے بہت کچھ مال و دولت دے رکھا ہے۔ لیکن وہ اپنی حیثیت کے مطابق نہ اپنی ذات پر خرچ کرتے ہیں نہ اہل و عیال پر نہ اللہ کی راہ میں اس کے حکم کے مطابق خرچ کرتے ہیں اور نہ ہی اقرباء کی امداد کرتے ہیں۔ اور اپنی حیثیت سے گر کرخستہ حالی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہ انتہا درجہ کا بخل دراصل اللہ کی نعمتوں کی ناشکری ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ جب کسی بندے کو نعمت عطا کرتا ہے تو وہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس نعمت کا اثر بندے پر ظاہر ہو۔ یعنی اس کی طرز بود و باش، لباس، خوراک اور صدقہ و خیرات غرض ہر چیز سے اللہ کی دی ہوئی نعمت کا اظہار ہوتا رہے اسی لیے ان ہر دو قسم کے بخل کو ناشکری یا کفر سے تعبیر کیا گیا اور بتایا گیا ہے کہ انہیں ذلت کا عذاب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں اور مال و دولت کو دوسروں سے چھپانے کا مرض اس قدر عام ہے کہ کوئی شخص دوسرے کو نہ اپنے پورے ذرائع آمدنی بتاتا ہے اور نہ آمدنی۔ اور یہ بات پردہ راز میں رہتی ہے کہ کسی کے پاس کیا کچھ موجود ہے۔ موجودہ دور میں بنک بھی اس معاملہ اخفاء میں اپنے کھاتہ داروں کی پوری پوری امداد کرتے ہیں۔ ان کے پاس لوگوں کی جو رقوم جمع ہوتی ہیں ان کو صیغہ راز میں رکھنا بنکوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ کوئی بھی شخص کسی دوسرے کا بنک بیلنس معلوم نہیں کرسکتا اور نہ ہی بنک والے اسے بتاتے ہیں۔ الا یہ کہ کھاتہ دار خودکسی کو تحریری طور پر بنک بیلنس معلوم کرنے کا اختیار دے دے۔ النسآء
38 [٧١] ریاکاری کی وجہ :۔ اس آیت کا تعلق سابقہ مضمون سے بھی ہوسکتا ہے۔ تب اس کا معنیٰ یہ ہوگا کہ ان متکبر اور بڑ مارنے والوں کی دوسری صفت یہ ہے کہ اگر وہ خرچ کرتے بھی ہیں تو محض لوگوں کو دکھاوے کے لیے کرتے ہیں اللہ کی رضامندی کے لیے کرنا پڑے تو بخل کرتے ہیں اور اسے الگ بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ پہلی صورت میں اس کا خطاب سب کے لیے عام ہے۔ گویا یہ دو الگ الگ گناہ ہوئے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہو تو بخل سے کام لینا اور کھلے دل سے صرف اس وقت خرچ کرنا جبکہ نمود و نمائش ہی مقصود ہو اور ان دونوں گناہوں کا سبب یہ ہے کہ ایسے لوگوں کا یا تو اللہ پر اور آخرت پر ایمان ہی نہیں ہوتا اور اگر ہوتا ہے تو بہت ہی کمزور ہوتا ہے۔ النسآء
39 [٧٢] یعنی اللہ اور آخرت پر ایمان لاتے ہوئے اللہ ہی کے دیئے ہوئے مال میں سے اس کی راہ میں خرچ کرتے تو ان کا نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہی تھا کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی احسان شناسی بھی ہے اور آخرت میں سینکڑوں گنا اجر بھی۔ نقصان تو اس صورت میں ہے کہ مال بھی ہاتھ سے نکل گیا اور اس کا کچھ ثواب ملنا تو درکنار الٹا عذاب ہوگا اور ریاکار کا یہی انجام ہوگا۔ آخرت کے منکر خسارہ میں ہیں :۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انہیں کسی کافر نے کہا کہ جس آخرت پر تم ایمان لاتے ہو وہ محض ایک مفروضہ ہے جسے تم یقینی طور پر ثابت نہیں کرسکتے۔ پھر اس مفروضہ کی بنا پر مختلف قسم کی پابندیاں اپنے آپ پر عائد کرتے ہو مال خرچ کرتے ہو پھر ہر طرح کے لذائذ دنیا سے محروم رہتے ہو۔ یہ تو صریح نقصان کی بات ہے، آپ رضی اللہ عنہ نے اسے جواب دیا کہ ہم جتنا وقت اللہ کی عبادت میں رہتے ہیں یہ تو یقینی بات ہے کہ کم از کم اتنی دیر ہم بری باتوں اور برے کاموں سے بچے رہتے ہیں۔ اور اگر مال خرچ کرتے ہیں تو اس کا بھی کسی ضرورت مند کو ضرور فائدہ پہنچتا ہے۔ پھر ہمیں ان کاموں سے خوشی بھی حاصل ہوتی ہے۔ رہے لذائذ دنیا اور ان سے مزے اڑانے کی بات، تو یہ چند دنوں کی بات ہے۔ موت کے بعد ہم اور تم برابر ہوئے۔ مرنے کے بعد اگر ہمارا نظریہ درست ثابت ہوا تو جاودانی راحتوں اور نعمتوں کے مستحق ہوں گے اور تمہیں کئی طرح کے مصائب اور جہنم کا عذاب ہوگا اور یہ دائمی عذاب ہوگا۔ اور اگر بالفرض تمہارا نظریہ درست نکلا تو بتاؤ ہمارا کیا بگڑے گا ؟ لہٰذا اچھی طرح سوچ لو کہ خطرے میں ہم لوگ ہیں یا تم لوگ؟ یہ سن کر اسے ہوش آ گیا اور وہ ایمان لے آیا۔ النسآء
40 النسآء
41 [٧] سابقہ امتوں پر آپ کی گواہی :۔ اس آیت میں میدان حشر کی کیفیت اور اللہ تعالیٰ کی عدالت کا ذکر ہو رہا ہے۔ اس وقت ہر امت میں سے ایک گواہ لایا جائے گا جو اس امت کا نبی ہوگا اور وہ یہ گواہی دے گا کہ یا اللہ ! میں نے تیرا پیغام اور تیرے احکام امت کو من و عن پہنچا دیئے تھے اور فلاں فلاں لوگوں نے تو انہیں تسلیم کرلیا تھا اور فلاں فلاں نے نافرمانی اور کفر کیا تھا لیکن اس امت کے نافرمان لوگ صاف مکر جائیں گے اور کہہ دیں گے کہ ہمارے پاس تو کوئی ڈرانے والا آیا ہی نہ تھا۔ بالفاظ دیگر یہ نافرمان لوگ اللہ تعالیٰ کے دربار میں بھی جھوٹ بولنے سے باز نہیں آئیں گے اور اپنے نبی کی شہادت کو جھٹلا کر اسے مشکوک بنا دینے کی کوشش کریں گے، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لایا جائے گا تو آپ ان انبیاء کی شہادت کی تصدیق کریں گے۔ اس وقت بھی نافرمان لوگ اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہ آئیں گے اور کہیں گے کہ یہ تو اس وقت موجود ہی نہ تھے یہ کیسے انبیاء کی تصدیق کرسکتے ہیں؟ اس وقت آپ فرمائیں گے کہ میں تو منزل من اللہ وحی کی رو سے دنیا میں بھی سابقہ انبیاء کی تصدیق کرتا رہا پھر آج کیسے تصدیق نہ کروں گا۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ ’’مجھے کچھ قرآن سناؤ‘‘ میں نے عرض کی ’’بھلا میں آپ کو کیا سناؤں؟ آپ ہی پر تو قرآن اترا ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ٹھیک ہے مگر مجھے دوسرے سے سننا اچھا لگتا ہے۔‘‘ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ’’پھر میں نے سورۃ نساء پڑھنا شروع کی اور جب اس آیت پر پہنچا ﴿فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ....﴾ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’بس کرو میں نے دیکھا تو اس وقت آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔‘‘ (بخاری، کتاب التفسیر) اس آیت سے آپ کی تمام انبیاء پر فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ سابقہ تمام انبیاء پر شہادت دینے کا شرف آپ کو حاصل ہوگا۔ اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جب سورۃ نساء پڑھتے پڑھتے اس آیت پر پہنچے، تو فرمایا کہ تشکر و امتنان اور مسرت و انبساط کی وجہ سے آپ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے یعنی ایک طرف تو اللہ کی عطا کردہ فضیلت پر انتہائی خوشی کی وجہ سے، دوسرے اللہ کی اس عطا پر انتہائی شکر گزاری کے طور پر آپ کے آنسو بہہ رہے تھے۔ النسآء
42 [٧٤] پھر جب اللہ تعالیٰ کے روبرو ایسے نافرمان لوگوں پر شہادتیں مکمل ہوجائیں گی اور شہادتوں کی بنا پر ان کا جرم ثابت ہوجائے گا تو اس وقت یہ آرزو کریں گے کہ کاش زمین پھٹ جائے اور ہم اس میں سما جائیں تاکہ اپنی نافرمانیوں کے برے نتائج اور عذاب سے نجات حاصل کرسکیں۔ لیکن یہ کسی صورت ممکن نہ ہوگا۔ النسآء
43 [٧٥] حرمت شراب کے احکام میں تدریج :۔ یہ آیت حرمت شراب کے تدریجی احکام کی دوسری کڑی ہے۔ اس سلسلہ میں پہلی آیت جو نازل ہوئی وہ سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٢١٩ ہے جس میں فقط یہ بتایا گیا کہ شراب اور جوئے میں گو کچھ فائدے بھی ہیں تاہم ان کے نقصانات ان کے فوائد سے زیادہ ہیں۔ چند محتاط صحابہ کرام نے اسی وقت سے شراب چھوڑ دی تھی۔ پھر اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی۔ جس کے شان نزول کے متعلق درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے : سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب سے روایت ہے کہ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ بن عوف نے ہمارے لیے کھانا بنایا، دعوت دی اور ہمیں شراب پلائی۔ شراب نے ہمیں مدہوش کردیا، اتنے میں نماز کا وقت آ گیا۔ انہوں نے مجھے امام بنایا۔ میں نے پڑھا﴿ قُلْ یَایُّھَا الْکٰفِرُوْنَ لاَ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ وَنَحْنُ نَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْن﴾ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) پھر اس کے بعد سورۃ مائدہ کی آیت نمبر ٩٠ تا ٩١ کی رو سے شراب کو ہمیشہ کے لیے حرام قرار دے دیا گیا۔ اس میں لفظ خمر (شراب) کے بجائے سکر (نشہ) کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جس سے از خود یہ معلوم ہوگیا کہ شراب کی طرح ہر نشہ آور چیز حرام ہوتی ہے جیسا کہ احادیث میں اس کی تصریح بھی موجود ہے۔ دوسرے یہ معلوم ہوا کہ چونکہ نشہ کی حالت بھی نیند کی غشی کی طرح ایک طرح کی غشی ہی ہوتی ہے لہٰذا انسان کو یہ معلوم رہنا مشکل ہے کہ آیا اس کا وضو بھی بحال ہے یا ٹوٹ چکا ہے۔ غالباً اسی نسبت سے اس آیت میں آگے طہارت کے احکام بیان ہو رہے ہیں۔ [٧٦] تیمم اور غسل جنابت :۔ نماز کے لیے طہارت فرض ہے لہٰذا عام حالت میں تو وضو کرنے سے یہ طہارت حاصل ہوجاتی ہے لیکن جنبی آدمی کے لیے نماز سے پہلے غسل فرض ہے۔ خواہ یہ جنابت احتلام کی وجہ سے ہو یا صحبت کی وجہ سے۔ اس آیت میں بتایا یہ جا رہا ہے کہ اگر کسی کو وضو کے لیے یا جنبی کو غسل کے لیے پانی میسر نہ آئے یا کوئی ایسا بیمار ہو جسے پانی کے استعمال سے نقصان پہنچتا ہو تو ان صورتوں میں وہ تیمم کرسکتا ہے۔ اس آیت کے شان نزول، طریق تیمم اور طریق غسل سے متعلق درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ میں (غزوہ بنی مصطلق میں) اپنی بہن اسماء کا ہار عاریتاً لے گئی ہار کہیں گرگیا ۔ آپ نے کئی آدمیوں کو ہار ڈھونڈنے کے لیے بھیجا۔ نماز کا وقت آ گیا۔ وہاں پانی نہ تھا اور لوگ باوضو نہ تھے اس وقت اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت نازل فرمائی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) ٢۔ سیدنا عمران رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ پڑاؤ کیا۔ وضو کے لیے پانی منگایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور نماز کے لیے اذان کہی گئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے سلام پھیرا تو ایک شخص کو علیحدہ بیٹھے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پوچھا ’’اے فلاں! تجھے کس چیز نے لوگوں کے ساتھ نماز ادا کرنے سے روکے رکھا ؟‘‘ وہ کہنے لگا ’’میں جنبی ہوگیا ہوں اور پانی موجود نہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا ’’تمہیں مٹی سے تیمم کرلینا چاہیے تھا وہ تجھے کافی ہوجاتا۔‘‘ اور ایک روایت میں ہے کہ ’’پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مٹی سے تیمم کرنے کا حکم دیا۔‘‘ (بخاری، کتاب التیمم، باب الصعید الطیب وضوء المسلم۔ نیز کتاب بدء الخلق۔ باب علامات النبوۃ فی الاسلام) نیز دیکھئے سورۃ مائدہ (٥) کی آیت نمبر ٦ کا حاشیہ۔ ٣۔ تیمم کا طریقہ :۔ سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کسی مہم پر بھیجا (اس دوران) میں جنبی ہوگیا، مجھے پانی نہ ملا تو میں نے مٹی میں اس طرح لوٹ لگائی جس طرح چوپایہ لوٹ لگاتا ہے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تمہیں اس طرح کرنا کافی تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دونوں ہتھیلیوں کو ایک بار مٹی پر مارا پھر انہیں اپنے منہ کے قریب کیا اور ان پر پھونک ماری (زائد مٹی اڑا دی) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بائیں ہتھیلی سے داہنے ہاتھ کی پشت پر اور داہنی ہتھیلی سے بائیں ہاتھ کی پشت پر مسح کیا۔ پھر دونوں ہتھیلیوں سے اپنے چہرے کا مسح کیا۔‘‘ (بخاری، کتاب التیمم۔ باب التیمم ضربہ۔ باب التیمم للوجہ والکفین۔۔ مسلم۔ فی باب التیمم) ٤۔غسل کا طریقہ:۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل جنابت کرنا چاہتے تو (برتن میں ہاتھ ڈالنے سے) پہلے اپنے دونوں ہاتھ دھوتے پھر نماز کے وضو کی طرح وضو کرتے پھر انگلیاں پانی میں ڈال کر بالوں کی جڑوں کا خلال کرتے۔ پھر دونوں ہاتھوں میں تین چلو لے کر اپنے سر پر ڈالتے پھر اپنے سارے بدن پر پانی بہاتے۔ (بخاری، کتاب الغسل۔ باب الوضو قبل الغسل) ٥۔ سعید بن عبدالرحمن بن ابزی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا ’’اگر مجھے جنابت لاحق ہوجائے اور پانی نہ ملے تو کیا کروں؟‘‘ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا، کیا آپ کو یاد نہیں جب ہم دونوں ایک سفر میں جنبی ہوگئے تھے اور آپ نے نماز نہ پڑھی اور میں مٹی میں لوٹا اور نماز پڑھ لی۔ پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ واقعہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تجھے اتنا ہی کافی تھا، پھر آپ نے اپنی دونوں ہتھیلیاں زمین پر ماریں اور ان کو پھونک دیا۔ پھر منہ اور دونوں پہنچوں پر مسح کیا۔‘‘ (بخاری کتاب التیمم، باب ھل ینفخ فی یدیہ) ٦۔ سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما ایک ٹھنڈی رات میں جنبی ہوگئے تو تیمم کرلیا اور یہ آیت پڑھی : ﴿وَلاَ تَقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا﴾ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کچھ ملامت نہیں کی۔ (بخاری، کتاب التیمم باب اذا خاف الجنب علی نفسہ المرض والموت) اس آیت سے معلوم ہوا کہ تیمم کی مندرجہ ذیل چار صورتوں میں رخصت ہے : ١۔ انسان سفر میں ہو اور اسے پانی نہ مل رہا ہو۔ سفر کی قید محض اس لیے ہے کہ عموماً سفر میں پانی ملنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ورنہ اگر حضر میں بھی پانی نہ مل رہا ہو تو بھی تیمم کی رخصت ہے۔ ٢۔ وضو کرنے والا بیمار ہو تو وضو کرنے سے یا نہانے سے اسے اپنی جان کا یہ مرض بڑھنے کا خطرہ ہو۔ ٣۔ حدث اصغر یعنی پاخانہ، پیشاب اور ہوا یا مذی خارج ہونے پر وضو کرنا واجب ہے اگر وضو کے لیے پانی نہ ملے تو تیمم کی رخصت ہے۔ ٤۔ حدث اکبر یعنی احتلام یا جماع کے بعد غسل کرنا واجب ہے لیکن اگر پانی نہیں ملتا تو تیمم کی رخصت ہے۔ بعض مفسرین نے اس آیت میں 'الصلٰوۃ' سے مراد نماز کے علاوہ مسجد بھی لی ہے۔ اور 'عابری سبیل' کا مفہوم یہ بتایا ہے کہ اگر جنبی شخص کو مسجد میں سے گزرنے کے بغیر کوئی راستہ ہی نہ ہو تو وہ مسجد سے گزر سکتا ہے۔ مگر نماز کے لیے یا کسی دوسرے کام کے لیے مسجد میں رک نہیں سکتا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص مسجد میں سویا ہوا تھا اور اسے احتلام ہوگیا تو بیدار ہونے پر وہ مسجد میں رکے نہیں بلکہ وہاں سے نکل جائے۔ واضح رہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سفر میں جنبی ہوجانے پر تیمم کو اچھا نہیں سمجھتے تھے اور یہ ان کی کچھ سیاسی مصلحت تھی کہ لوگ اس رعایت سے ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں ورنہ وہ اس سنت کا انکار نہیں کرتے تھے۔ جیسا کہ اوپر درج شدہ حدیث نمبر ٥ سے واضح ہے۔ تاہم بہت سے صحابہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی اس مصلحت سے اتفاق نہیں کیا۔ اور حدیث نمبر ٦ سے تو واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ دین میں سختی کی بجائے نرمی ہے۔ سیدنا عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس سوائے شدید سردی کے اور کوئی عذر نہ تھا اور انہیں خطرہ تھا کہ اگر نہا لیا تو بیمار پڑجائیں گے۔ لہٰذا آپ نے جنبی ہونے پر نہانے کی بجائے تیمم کرلیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نکیر نہیں فرمائی۔ دین میں تنگی نہیں :۔ اس سلسلہ میں وہ واقعہ بھی مدنظر رکھنا چاہیے جسے ابو داؤد نے تیمم کے باب میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر پر نکلے۔ اثنائے سفر ہمارے ایک ساتھی کو سر پر ایک پتھر لگا جس سے اس کا سر زخمی ہوگیا۔ اسی دوران اسے احتلام ہوگیا تو وہ اپنے ساتھیوں سے پوچھنے لگا کیا تمہارے خیال میں تیمم کی رخصت سے فائدہ اٹھا سکتا ہوں؟ انہوں نے جواب دیا کہ تم کیسے فائدہ اٹھا سکتے ہو جبکہ پانی موجود ہے۔ چنانچہ اس نے غسل کیا جس سے اس کی موت واقع ہوگئی۔ پھر جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں آئے تو آپ سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ انہیں غارت کرے ان لوگوں نے اسے مار ڈالا۔ جب انہیں یہ مسئلہ معلوم نہ تھا تو انہوں نے کیوں نہ پوچھ لیا ؟ جہالت کی درماندگی کا علاج تو پوچھ لینا ہی ہوتا ہے۔ اسے اتنا ہی کافی تھا کہ وہ اپنے زخم پر پٹی باندھ لیتا اور اس پر مسح کرلیتا اور باقی جسم کو دھو لیتا۔‘‘ اور وضو کے متعلق احادیث سورۃ مائدہ کی آیت نمبر ٦ کے تحت درج کی جائیں گی۔ النسآء
44 [٧٧] کچھ حصہ اس لحاظ سے کہ علمائے یہود نے کتاب الٰہی کا ایک حصہ گم کردیا تھا اور جو باقی رہ گئی تھی، اس میں بھی تحریف و تاویل سے انہوں نے اسے کچھ کا کچھ بنا دیا تھا ان کی تمام تر دلچسپیاں اور قابلیتیں ظاہری الفاظ اور لفظی بحثوں اور فقہی موشگافیوں اور فلسفیانہ پیچیدگیوں تک محدود ہو کر رہ گئی تھیں۔ لیکن ان کے قلوب و اذہان منشائے الٰہی اور دینداری کی روح سے خالی تھے اور اپنی ایسی گمراہ کن باتوں میں مسلمانوں کو بھی الجھانا چاہتے تھے۔ النسآء
45 النسآء
46 [٧٧۔ الف] تورات عبرانی زبان میں نازل ہوئی تھی لیکن اصل تورات تو دو دفعہ گم ہوئی۔ پھر مختلف زبانوں میں اس کے تراجم پر انحصار کیا گیا۔ آج کل تورات اور انجیل کے مجموعہ کو بائیبل مقدس کا نام دیا گیا ہے۔ تورات کے حصہ کو عہد نامہ عتیق اور انجیل کے حصہ کو عہد نامہ جدید کہتے ہیں۔ ان میں تحریف کے علاوہ بہت سے الحاقی مضامین بھی شامل ہوچکے ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ عبارت الہامی نہیں ہو سکتی۔ جیسا کہ درج ذیل عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے : ١۔ ’’سو موسیٰ خداوند کا بندہ خداوند کے حکم کے موافق موآب کی سرزمین میں مر گیا۔ اسے اس نے موآب کی ایک وادی میں بیت فغور کے مقابل گاڑا۔ پر آج کے دن تک کوئی اس کی قبر کو نہیں جانتا‘‘ (کتاب استثناء باب ٣٤) اس عبارت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب الٰہی کا حصہ نہیں بلکہ الحاقی مضمون ہے جو سیدنا موسیٰ کی وفات سے مدتوں بعد بائیبل میں شامل کردیا گیا۔ ٢۔ ’’پھر بنی اسرائیل نے کوچ کیا اور اپنا خیمہ عیدر کے ٹیلے کے اس پار ایستادہ کیا۔‘‘ (کتاب پیدائش باب ٣٥، آیت ٢١) یہ عبارت اس لیے الحاقی ہے کہ عیدر اس منارہ کا نام ہے جو شہر یروشلم کے دروازہ پر تھا اور یہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے کئی سو سال بعد بنایا گیا تھا۔ ٣۔ ’’خداوند نے بنی اسرائیل کی آواز سنی اور کنعانیوں کو گرفتار کروا دیا اور انہوں نے انہیں اور ان کی بستیوں کو حرام کردیا اور اس نے اس مکان کا نام حرمہ رکھا۔‘‘ (کتاب گنتی باب ٢١، آیت ٣) یہ عبارت بھی الہامی نہیں کیونکہ یہ واقعہ تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام تو درکنار سیدنا یوشع علیہ السلام کے بھی بعد پیش آیا۔ کیونکہ موسیٰ علیہ السلام تو اپنی زندگی میں کنعان تک پہنچے بھی نہیں تھے۔ بستیوں کو حرام کیسے قرار دے دیا؟ اس کے جواب میں اکثر اہل کتاب کے علماء یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ جملے الحاقی ہیں اور ان کو سیدنا عزیر علیہ السلام نے ملا دیا ہے لیکن اس کی سیدنا عزیر علیہ السلام نے کوئی تصریح نہیں کی کہ یہ میرا کلام ہے۔ علاوہ ازیں کلام کے تسلسل سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ کلام متصل ہے۔ یہ مقامات تو ایسے ہیں جو تاریخی لحاظ سے بھی غلط ثابت ہوتے ہیں لیکن بائیبل کی اکثر عبارتیں ایسی ہیں جو اللہ کا کلام نہیں بلکہ کسی دوسرے کا کلام معلوم ہوتی ہیں۔ مثلاً : ٤۔ کتاب خروج باب ٢ کی آیت نمبر ١١ یوں ہے۔ ’’ان روزوں میں یوں ہوا کہ جب موسیٰ بڑا ہوا‘‘ غور فرمائیے یہ اللہ کا کلام معلوم ہوتا ہے یا کسی سوانح نگار کا ؟ اسی طرح اسی کتاب اور اسی باب کی آیت نمبر ١٥ یوں ہے۔ ’’جب فرعون نے یہ سنا تو چاہا کہ موسیٰ کو قتل کر دے پر موسیٰ فرعون کے حضور سے بھاگا۔‘‘ غرضیکہ ان کتابوں کی بے شمار آیات ایسی ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اللہ کا کلام نہیں ہو سکتیں، اور نہ وہ انبیاء کا کلام ہیں بلکہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ بہت مدت بعد کسی سوانح نگار نے یہ حالات قلمبند کیے۔ پھر انہیں بھی کتاب مقدس میں شامل کردیا گیا تھا۔ [٧٨] یہود کی شرارتیں : جو یہود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں آیا کرتے تھے ان کی تین طرح کی حرکتوں کا ان آیات میں ذکر ہوا ہے۔ ایک یہ کہ جب وہ کوئی حکم الٰہی سنتے تو بلند آواز سے تو 'سَمِعْنَا'کہتے مگر آہستہ آواز سے یا دل میں 'عَصَیْنَا'(یعنی ہم مانیں گے نہیں) کہہ دیتے۔ یا'اَطَعْنَا ' کے لفظ کو ہی زبان کو موڑ دے کر یوں ادا کرتے کہ وہ 'اَطَعْنَا ' کی بجائے' عَصَیْنَا ' ہی سمجھ میں آتا۔ (٢) 'اِسْمَعْ ' (ہماری بات سنیے) یعنی جب کوئی بات ان کی سمجھ میں نہ آتی اور کچھ پوچھنا درکار ہوتا تو 'اِسْمَعْ ' کہتے اور ساتھ ہی'غَیْرَ مُسْمَعٍ ' بھی دل میں کہہ دیتے (یعنی تم سن ہی نہ سکو یا بہرے ہوجاؤ) (٣) اور کبھی 'اِسْمَعْ' کی بجائے 'رَاعِنَا ' کہتے اور زبان کو موڑ دے کر 'رَاعِیْنَا ' (ہمارے چرواہے) کہہ دیتے۔ پھر آپس میں یہ بھی کہا کرتے کہ اگر یہ فی الواقع نبی ہوتا تو اسے ہماری ان باتوں پر اطلاع ہوجانا یقینی تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان کی ایسی شرارتوں اور خباثتوں سے مطلع کردیا اور ساتھ ہی یہ بتا دیا کہ جو لوگ اپنی ضلالت میں اس درجہ پختہ ہوچکے اور ہٹ دھرم بن چکے ہیں ان سے ایمان لانے کی توقع عبث ہے۔ الا ماشاء اللہ النسآء
47 [٧٩] یعنی تمہارے جرائم اتنے شدید ہوچکے ہیں کہ تمہیں وہی سزا دی جانی چاہیے جو اصحاب سبت کو دی گئی تھی۔ یا تو تمہاری شکلیں یوں مسخ کردی جائیں کہ تمہارے چہرے پشتوں کی طرف موڑ دیئے جائیں یا پھر تمہیں بھی بندر بنا دیا جائے۔ لہٰذا ان کے لیے بہتر یہی ہے کہ کسی ایسی ذلت کے مسلط ہونے سے پہلے ہی ایمان لے آئیں۔ لفظی اعتبار سے تو ﴿فَنَرُدَّھَا عَلٰٓی اَدْبَارِھَآ ﴾کا ظاہری مفہوم وہی ہے جو مذکور ہوا۔ تاہم یہ الفاظ محاورتاً بھی استعمال ہوتے ہیں اس صورت میں اس کا معنی یہ ہوگا کہ جو اقبال اور ترقی ہم نے تمہیں دے رکھی تھی اسے الٹ کر تمہیں قعر مذلت میں دھکیل دیں گے اور جس غلامی اور اسیری کے ایام تم پہلے دیکھ چکے ہو اسی کی طرف لوٹا دیں گے اور عرب سے نکال کر پھر سے تمہیں بے سرو سامانی اور ذلت کی حالت میں ملک شام کی طرف لوٹا دیں گے گویا یہ ایک پیشین گوئی تھی جو دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور پھر عہد فاروقی میں حرف بحرف پوری ہوگئی۔ جب یہ لوگ مدینہ سے جلاوطن کیے گئے تھے تو اپنے چولہے چکی تک اپنے سروں پر اٹھائے انہیں وہاں سے نکلنا پڑا۔ اس آیت میں دو طرح کے متبادل عذابوں کا ذکر ہے یعنی یا تو ہم تمہیں پہلی سی خستہ حالی اور غلامی و رسوائی کی حالت میں لوٹا دیں گے یا پھر ایسا عذاب بھیج دیں گے جیسا کہ داؤد علیہ السلام کے زمانہ میں اصحاب سبت پر آیا تھا اور انہیں بندر بنا دیا گیا تھا۔ چنانچہ ان دونوں میں سے پہلی صورت کا عذاب ہی ان سرکش یہود مدینہ کے مقدر ہوا۔ النسآء
48 [٨٠] شرک ناقابل معافی جرم :۔ یہاں شرک کا ذکر اس لیے آیا ہے کہ یہود و نصاریٰ دونوں ہی مشرک تھے۔ اگرچہ دعویٰ توحید کا کرتے تھے اور شرک ہی سب گناہوں سے بڑا گناہ ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حتمی طور پر وعید سنا دی ہے کہ یہ ناقابل معافی جرم ہے۔ اب شرک سے متعلق چند احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! سب سے بڑا گناہ کونسا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’یہ کہ تم اللہ کا شریک بناؤ۔ حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب المحاربین۔ باب اثم الزناۃ۔۔، مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب بیان کون الشرک اقبح الذنوب ) ٢۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میں اپنے حصہ داروں کی نسبت اپنا حصہ لینے سے بے نیاز ہوں۔ جس شخص نے ایسا عمل کیا جس میں میرے ساتھ غیر کو شریک بنایا تو میں اس صاحب عمل اور اس عمل دونوں کو چھوڑ دیتا ہوں (فرمان خداوندی)‘‘ (بخاری، کتاب الزکوۃ، باب قول اللہ تعالیٰ (لَا یَسْــَٔـلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا..... مسلم، کتاب الزہد۔ باب تحریم الربٰو) ٣۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’جو شخص مجھ سے زمین بھر گناہوں کے ساتھ ملے جبکہ اس نے میرے ساتھ کسی چیز کو بھی شریک نہ بنایا ہو تو میں اتنی ہی بخشش کے ساتھ اسے ملوں گا۔‘‘ (مسلم، کتاب الذکر، باب فضل الذ کر والدعائ) ٤۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سب سے کم عذاب والے دوزخی سے فرمائے گا۔ ’’اگر زمین بھر کی کل اشیاء تیری ملک ہوں تو کیا تو اس عذاب سے نجات کے بدلے میں دے دے گا ؟‘‘ وہ کہے گا 'ہاں'! اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’میں نے تو تجھ سے اس سے بہت آسان بات کا سوال کیا تھا اور تو اس وقت صلب آدم میں تھا کہ میرے ساتھ شرک نہ کرنا مگر تو شرک کیے بغیر نہ رہا۔‘‘ (بخاری، کتاب بدء الخلق۔ باب (وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰۗیِٕکَۃِ۔۔۔ صفۃ القیامۃ، باب طلب الکافر الفدائ) اس آیت میں دراصل دو اعلان ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ شرک کو کبھی معاف نہیں کرے گا جیسا کہ مذکورہ بالا احادیث سے بھی واضح ہے۔ اور دوسرا اعلان یہ ہے کہ شرک کے علاوہ باقی جتنے بھی گناہ ہیں وہ سب قابل معافی ہیں لہٰذا اے اہل کتاب! اگر اب بھی تم شرک سے باز آ جاؤ اور ضد اور ہٹ دھرمی چھوڑ کر اسلام قبول کرلو تو اللہ تمہارے سب گناہ معاف فرما دے گا۔ النسآء
49 [٨١] سستی نجات کے عقیدے :۔ ان لوگوں سے مراد بھی علمائے یہود و نصاریٰ ہیں کہ جب انہیں ان کی بری کرتوتوں کو چھوڑنے اور ایمان لانے کی دعوت دی جاتی تو وہ شیخی میں آ کر کہتے ﴿نَحْنُ اَبْنٰۗؤُا اللّٰہِ وَاَحِبَّاۗؤُہٗ﴾ (5 : 18)یعنی ہم تو اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں۔ نیز چونکہ پیغمبروں کی اولاد ہیں لہٰذا پاکیزہ نفوس کے مالک ہیں۔ اور نصاریٰ نے کفارہ مسیح کا عقیدہ گھڑ لیا تھا جس کی رو سے سب عیسائیوں کے گناہ تو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی گردن پر اٹھائے اور سولی چڑھ گئے اور اس طرح ان کی سب امت پاک ہوگئی۔ اور جنت کی مستحق ٹھہری۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اپنے منہ میاں مٹھو بننے سے کچھ نہیں بنتا۔ پاکیزہ تو صرف وہ ہے جو اپنے آپ کو گناہوں سے پاک صاف رکھے اور اللہ اسے پاکیزہ قرار دے۔ یہود و نصاریٰ کی طرح مسلمانوں میں بھی یہ عقیدہ کسی نہ کسی شکل میں پایا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اپنے آپ کو سید اور آل رسول کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری پشت ہی پاک ہے یعنی ہم پشت در پشت پاک لوگ ہیں اور یہی عقیدہ یہود کا تھا کہ ہم انبیاء کی اولاد ہیں۔ پھر کچھ لوگوں نے اس دنیا میں بہشتی دروازے بنا رکھے ہیں کہ جو شخص عرس کے دن اس دروازہ کے نیچے سے گزر جائے گا وہ مرنے کے بعد سیدھا بہشت میں چلا جائے گا۔ وغیرہ ذلک من الخرافات۔ النسآء
50 [٨٢] یعنی ان کا اپنے منہ سے ایسی باتیں کہنا بالکل جھوٹ ہے جو انہوں نے خود گھڑ کر اللہ کے ذمہ لگا دیا ہے ان کے دوسرے گناہوں کو تو چھوڑیے اکیلا یہ گناہ ہی ان کے فی الواقع گناہگار ہونے کے ثبوت کے لیے کافی ہے۔ النسآء
51 [٨٣] جبت اور طاغوت جبت دراصل اوہام و خرافات کے لیے ایک جامع لفظ ہے جس میں جادو، ٹونے، ٹوٹکے، جنتر منتر سیاروں کے انسانی زندگی پر اثرات، فال گیری، گنڈے، نقش اور تعویذ وغیرہ سب کچھ شامل ہے۔ اور طاغوت ہر وہ باطل قوت اور نظام ہے جس کی اطاعت کرنے پر لوگ مجبور ہوں اور اللہ کی اطاعت کے مقابلہ میں انہیں اس فرد، ادارہ یا حکومت کی اطاعت کرنے پر مجبور کیا جائے یا مجبور بنا دیا جائے اور لوگ انہیں احکام الٰہیہ کے علی الرغم تسلیم کرلیں۔ یہ گاؤں کے چودھری بھی ہو سکتے ہیں، پیر و مشائخ بھی، سوشلزم یا جمہوریت کی طرح باطل نظام بھی۔ اور فرعون و نمرود کی طرح سرکش بادشاہ بھی۔ یہود کا مشرکوں کو مسلمانوں سے بہتر قرار دیا :۔ یعنی ان یہود و نصاریٰ کی اکثریت ایسی ہے جو اوہام و خرافات اور ٹونے ٹوٹکے کے پیچھے پڑی ہوئی ہے اور اللہ پر ایمان لانے کی بجائے طاغوت کے آگے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں۔ اپنی ایسی گمراہ حالت کے باوجود دوسرے کافروں (مشرکین وغیرہ) سے یہ کہتے ہیں کہ ان ایمان لانے والوں (مسلمانوں) سے تو تم ہی اچھے ہو اور ان سے زیادہ ہدایت یافتہ ہو۔ یعنی خود تو سراسر ضلالت میں ڈوبے ہیں اور مشرکوں کو مسلمانوں سے زیادہ ہدایت یافتہ ہونے کے سرٹیفکیٹ بھی دے رہے ہیں۔ یاد رہے کہ مشرکین مکہ نے جب بھی مدینہ پر چڑھائی کی تو یہود ہمیشہ قولاً اور عملاً ان کا ساتھ دیتے رہے۔ ایسے ہی کسی موقع پر مشرکوں نے یہودیوں سے پوچھا کہ سچ بتانا کہ یہ مسلمان بہتر ہیں یا ہم؟ اور ان سے پوچھا اس لیے گیا کہ عرب بھر میں یہود کی علمی ساکھ تھی۔ لیکن یہ بے ایمان محض مشرکوں کو خوش کرنے کی خاطر ایسا جواب دے دیتے۔ حالانکہ حقیقت انہیں پوری طرح معلوم تھی کہ شرک اللہ کے ہاں ناقابل معافی جرم ہے اور مسلمان موحد ہونے کی بنا پر مشرکوں سے ہزار درجہ بہتر ہیں۔ النسآء
52 [٨٣۔ الف] یعنی جب کوئی قوم علمی خیانت اور بددیانتی میں اس قدر نچلی سطح پر اتر آئے تو اس وقت ان پر اللہ کی لعنت برسنا شروع ہوجاتی ہے۔ یہودیوں کے سردار کعب بن اشرف اور حیی بن اخطب قریش مکہ کے ہاں گئے تو اس لیے تھے کہ آؤ مل کر مسلمانوں کا کچومر نکالیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ قریش مکہ تو ایک طرف، اگر سارا جہاں بھی یہ لوگ اپنے ساتھ ملا لیں تو جو لعنت اللہ کی طرف سے ان کے مقدر ہوچکی ہے اس سے وہ بچ نہیں سکتے نہ ہی انہیں کوئی ان پر مسلط ہونے والی ذلت سے بچا سکتا ہے۔ النسآء
53 [٨٤] یہود کا بخل اور تنگ نظری :۔ یہاں یہود کی ایک مشہور رذیل صفت بخل کا ذکر کیا گیا ہے کہ اگر ان کے پاس کسی ملک کی حکومت بھی ہو تو بھی وہ کسی کو پھوٹی کوڑی تک نہ دیں گے اور ان کے بخل کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ اتنے تنگ نظر ہیں کہ حق بات کا اعتراف کرنا بھی ان کے لیے محال ہے۔ کیونکہ یہ مشرکین مکہ کو توحید پرستوں سے برتر قرار دے رہے ہیں۔ النسآء
54 [٨٥] یہاں دوسرے لوگوں سے مراد مسلمان ہیں جنہیں دن بدن عروج حاصل ہو رہا تھا اور وہ خود دن بدن ذلیل سے ذلیل تر ہو رہے تھے۔ [٨٦] آل ابراہیم سے مراد سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک سب پیغمبر ہیں اور کتاب اللہ کا علم و حکمت انہی انبیاء کے پاس رہا اور بہت بڑی بادشاہی بھی۔ جیسے سیدنا یوسف، سیدنا داؤد، سیدنا سلیمان علیہم السلام وغیرہ سب بادشاہ بھی تھے اور نبی بھی۔ اور اس لفظ کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ تمام اقوام عالم پر ہمیشہ آل ابراہیم ہی کا قائدانہ اقتدار رہا ہے۔ اگرچہ آپ کے زمانہ میں یہ اقتدار یہود سے مسلمانوں کی طرف منتقل ہوگیا۔ تاہم آل ابراہیم ہی میں رہا۔ آل اسحاق سے آل اسماعیل میں آ گیا یعنی جس طرح پہلے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو حکومت اور عزت اور دنیا کی قیادت عطا فرمائی تھی اب ویسی ہی شان و شوکت، عزت اور حکومت ان سے چھین کر مسلمانوں کو عطا کی جائے گی۔ النسآء
55 [٨٧] اس آیت کے بھی دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اسحاق علیہ السلام کی اولاد میں سے جو انبیاء مبعوث ہوتے رہے ہیں ان سب پر بھی یہود ایمان نہیں لائے تھے، بہت سے انبیاء کا انکار کردیا اور بہت سے نبیوں کو قتل بھی کردیا۔ اس لحاظ سے اس آیت کے مخاطب صرف یہود ہیں اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر بنو اسحاق کی بجائے آل ابراہیم ہی سمجھا جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے والے تو بنو اسماعیل تھے اور انکار کرنے والے بنو اسحاق یعنی یہود و نصاریٰ وغیرہ۔ بہرحال جو بھی انبیاء کی دعوت سے انکار کرتا رہا یا دوسروں کو روکتا رہا اس کو لازماً عذاب اخروی سے دو چار ہونا پڑے گا اور اپنے اپنے جرائم کے مطابق اسے سخت سے سخت سزا دی جائے گی۔ یہ لوگ دنیا میں حسد کی آگ میں جلتے رہے اور آخرت میں جہنم کی آگ میں جلتے رہیں گے۔ النسآء
56 [٨٨] کھالوں کی تبدیلی اس لیے کی جائے گی کہ ان کی تکلیف میں کمی کی بجائے کچھ اضافہ ہی ہوتا رہے کیونکہ جلی ہوئی کھال کو جلانے سے تکلیف نسبتاً کم ہوتی ہے۔ النسآء
57 النسآء
58 [٨٩] اس جملہ کے بہت سے مطلب ہو سکتے ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ جس کسی نے تمہارے پاس کوئی امانت رکھی ہو اسی کو اس کی امانت ادا کر دو۔ زید کی امانت بکر کے حوالے نہ کرو۔ امانت کا دوسرا مطلب ذمہ دارانہ مناصب ہیں۔ یعنی حکومت کے ذمہ دارانہ مناصب انہی کے حوالے کرو جو ان مناصب کے اہل ہوں۔ نااہل، بے ایمان بددیانت اور راشی قسم کے لوگوں کے حوالے نہ کرو۔ اس لحاظ سے یہ مسلمانوں سے اجتماعی خطاب ہے کیونکہ بدکار لوگوں کی حکومت سے ساری قوم کی اخلاقی حالت تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔ امانت کا تیسرا مطلب حقوق بھی ہیں یعنی تمہارے ذمہ جو حقوق ہیں خواہ اللہ کے ہوں یا بندوں کے، سب کے حقوق بجا لاؤ۔ کسی حکومت کے استحکام کی یہ پہلی بنیاد ہے اور انہی حقوق کی عدم ادائیگی سے فساد رونما ہوتا ہے۔ [٩٠] حکومت کے استحکام کی دوسری بنیاد عدل و انصاف ہے لہٰذا کسی قوم سے دشمنی تمہارے عدل و انصاف پر اثر انداز نہ ہونی چاہیے۔ جیسا کہ یہود نے صرف اسلام دشمنی کی بنا پر مشرکوں سے یہ کہہ دیا تھا کہ تم دینی لحاظ سے مسلمانوں سے بہتر ہو۔ حالانکہ مسلمانوں کی پاکیزہ سیرت اور مشرکوں کے کردار میں فرق اتنا واضح تھا جو دشمنوں کو بھی نظر آ رہا تھا اور خود یہود بھی اس حقیقت حال سے پوری طرح آگاہ تھے۔ انصاف سے فیصلہ کرنا اور انصاف کی بات کہنا بہت بلند درجہ کا عمل ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے : ١۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’انصاف کرنے والے اللہ کے نزدیک ہوں گے، رحمٰن عزوجل کے دائیں نور کے منبروں میں ہوں گے اور رحمن کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں۔ جو اپنے فیصلہ کے وقت اپنے اہل میں اور اپنی رعایا میں انصاف سے فیصلہ کرتے ہیں۔‘‘ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضیلۃ الامیر العادل) ٢۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سات قسم کے آدمیوں کو اپنے سایہ میں رکھے گا اور یہ ایسا دن ہوگا جب اور کسی جگہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔ اس میں سرفہرست آپ نے امام عادل یعنی انصاف کرنے والے حاکم کا ذکر فرمایا۔ دوسرے وہ نوجوان جس نے جوانی میں خوشدلی سے اللہ کی عبادت کی۔ تیسرے وہ شخص جس کا دل مسجد میں ہی اٹکا رہتا ہے۔ چوتھے وہ دو شخص جنہوں نے اللہ کی خاطر دوستی کی، اسی کی خاطر اکٹھے رہے اور آخر موت نے جدا کیا۔ پانچویں وہ شخص جسے کسی مالدار اور حسن و جمال والی عورت نے بدکاری کے لیے بلایا تو اس نے کہہ دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ چھٹے وہ شخص جس نے اللہ کی راہ میں یوں چھپا کر صدقہ دیا کہ داہنے ہاتھ نے جو کچھ دیا، بائیں کو اس کی خبر تک نہ ہوئی۔ ساتویں وہ شخص جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور اس کی آنکھیں بہ نکلیں۔ (بخاری، کتاب الاذان، باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلوۃ۔۔) النسآء
59 [٩١] اسلامی حکومت کے چار اصول :۔ اس آیت میں ایک اسلامی حکومت کی چار مستقل بنیادوں کا ذکر کیا گیا ہے : ١۔ اسلامی نظام میں اصل مطاع صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ وہی کائنات کا خالق و مالک ہے لہٰذا ہر طرح کے قانونی اور سیاسی اختیارات کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ آج کی زبان میں یوں کہیے کہ قانونی اور سیاسی مقتدر اعلیٰ صرف اللہ ہی کی ذات ہے۔ قانون سازی اور حلت و حرمت اور اوامر و نواہی کے اختیارات اسی کے لیے ہیں۔ اس وقت دنیا میں جس قدر نظام ہائے سیاست رائج ہیں ان سب میں مقتدر اعلیٰ یا کوئی انسان ہوتا ہے یا ادارہ۔ جبکہ اسلامی نظام خلافت میں مقتدر اعلیٰ کوئی انسان یا ادارہ نہیں ہوسکتا بلکہ اللہ تعالیٰ ہوتا ہے اور یہی اصل اس نظام سیاست کو دوسرے تمام نظام ہائے سیاست سے ممتاز کرتی ہے۔ جمہوریت خلافت کی ضد ہے :۔ آج کل بیشتر ممالک میں خواہ وہ مسلم ملک ہوں یا غیر مسلم۔ جمہوری نظام سیاست ہی رائج ہے۔ جمہوری نظام سیاست میں سیاسی مقتدر اعلیٰ تو عوام ہوتے ہیں۔ بالفاظ دیگر طاقت کا سرچشمہ عوام ہوتے ہیں اور قانونی مقتدر اعلیٰ پارلیمنٹ ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ کو قانون سازی کے جملہ اور وسیع اختیارات حاصل ہوتے ہیں جنہیں چیلنج نہیں کیا جا سکتا اور عدالتوں کا کام محض یہ ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے کریں۔ اس لحاظ سے یہ نظام مردود اور نظام خلافت کی عین ضد ہے۔ ٢۔ رسول کی اطاعت اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے پاس اللہ کے احکام کی اس کی منشاء کے مطابق بجاآوری کا رسول کی اطاعت کے بغیر کوئی ذریعہ نہیں۔ لہٰذا رسول کی اطاعت بھی حقیقتاً اللہ ہی کی اطاعت ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے اللہ کی اور رسول کی اطاعت ایک ہی اطاعت قرار پاتی ہے۔ علاوہ ازیں رسول کی اطاعت کی ایک مستقل حیثیت بھی ہوتی ہے۔ وہ یوں کہ جہاں کتاب اللہ خاموش ہو اور رسول ہمیں کوئی حکم دے۔ خواہ یہ حکم قانون سے تعلق رکھتا ہو یعنی حلت و حرمت سے متعلق ہو یا اوامر و نواہی سے تو ایسا حکم ماننا بھی ہم پر ایسے ہی فرض ہے جیسے اللہ کی اطاعت اور چونکہ ایسی اطاعت کا بھی اللہ نے خود ہمیں حکم دیا ہے تو اس لحاظ سے یہ بھی اللہ کی اطاعت کے تحت آ جاتی ہے۔ ٣۔ تیسری اطاعت ان حکام کی ہے جو مسلمان ہوں۔ حکام (اولی الامر) سے مراد وہ ہر قسم کے حکام ہیں جو کسی ذمہ دارانہ منصب پر فائز ہوں۔ یہ انتظامیہ سے تعلق رکھتے ہوں یا عدلیہ سے یا علماء مجتہدین سے۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت تو غیر مشروط ہوتی ہے لیکن اولی الامر کی اطاعت صرف اس صورت میں ہوگی جب وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے خلاف نہ ہو۔ اگر خلاف ہو تو اس کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ ٤۔ اور چوتھی بنیاد یہ ہے کہ اگر کسی حاکم کے اور رعایا کے درمیان کسی معاملہ میں نزاع پیدا ہوجائے، تو ایسا معاملہ (آپ کی زندگی میں) آپ کی طرف اور (آپ کی زندگی کے بعد) کتاب اللہ اور سنت رسول کی طرف لوٹایا جائے گا۔ اور حَکَم کی حیثیت کتاب و سنت کی ہوگی۔ اور آخر میں یہ بتا دیا گیا کہ اگر تم نے ان چار اصولوں میں سے کسی بھی اصول میں کوتاہی کی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تمہارا اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں ہے۔ اور اگر تمہارا اللہ اور آخرت پر ایمان کا دعویٰ سچا ہے تو تمہیں بہرحال ان چار اصولوں پر عمل پیرا ہونا ہوگا اور جب تک تم نے ان چاروں امور کا خیال رکھا اس وقت تک تمہارے اخلاق و کردار درست اور تمہاری حکومت مستحکم رہے گی۔ امیر یا حاکم کی اطاعت کس قدر ضروری ہے اور کن حالات میں ضروری ہے۔ اس کے لیے مندرجہ ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ اطاعت امیر کی اہمیت اور حدود :۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔‘‘ (مسلم، کتاب الامارۃ۔ باب وجوب طاعۃ الامراء۔۔ بخاری، کتاب الاحکام۔ باب قولہ اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول۔۔) ٢۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ہر شخص پر امیر کا حکم سننا اور اسے ماننا فرض ہے خواہ اسے پسند ہو یا ناپسند، جب تک کہ اسے گناہ کا حکم نہ دیا جائے اور اگر اسے اللہ کی نافرمانی کا حکم دیا جائے تو پھر نہ ایسے حکم کو سننا لازم ہے اور نہ اس کی اطاعت‘‘ (بخاری، کتاب الاحکام، باب السمع والطاعۃ للامام مالم تکن معصیۃ) ٣۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص امیر کی اطاعت اور جماعت سے الگ ہوا، پھر اسی حال میں مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔ اور جو شخص کسی اندھے (جھنڈے) کے تحت لڑائی کرے اور تعصب کے لیے جوش دلائے یا تعصب کی طرف بلائے اور تعصب کے لیے مدد کرے پھر مارا جائے تو وہ بھی جاہلیت کی موت مرا۔‘‘ (مسلم، کتاب الامارۃ۔ باب ملازمۃ المسلمین) ٤۔ سیدنا حارث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں جن کا اللہ نے مجھے حکم دیا ہے۔ (امیر کا حکم) سننا اور اطاعت کرنا، جہاد کرنا، ہجرت کرنا اور جماعت (سے چمٹے رہنا) کیونکہ جو شخص بالشت بھر بھی جماعت سے الگ ہوا اس نے اسلام کا پٹہ اپنی گردن سے اتار پھینکا۔ الا یہ کہ وہ واپس لوٹ آئے۔‘‘ (ترمذی ابو اب الامثال) ٥۔ امیر سے تنازعہ :۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر روا نہ کیا اور اس کا امیر ایک انصاری (عبداللہ بن حذافہ) کو مقرر کیا اور لشکر کو ان کی اطاعت کا حکم دیا۔ وہ امیر ان سے کسی بات پر خفا ہوگیا اور ان سے پوچھا ’’کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہیں میری اطاعت کا حکم نہیں دیا تھا۔‘‘ وہ کہنے لگے ’’کیوں نہیں؟‘‘ امیر نے کہا ’’اچھا تو ایندھن جمع کرو اور آگ جلاؤ اور اس میں داخل ہوجاؤ۔‘‘ انہوں نے لکڑیاں جمع کیں اور آگ جلائی اور جب داخل ہونے کا ارادہ کیا تو ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ کسی نے کہا ’’ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت ہی اس لیے کی ہے کہ آگ سے بچ جائیں، تو کیا ہم آگ میں داخل ہوں؟‘‘ اتنے میں آگ بجھ گئی اور امیر کا غصہ بھی ٹھنڈا ہوگیا۔ اس بات کا ذکر آپ سے کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر تم آگ میں داخل ہوجاتے تو اس سے کبھی نہ نکلتے۔ اطاعت تو صرف معروف کاموں میں ہے۔‘‘ اور مسلم کی روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں۔ اطاعت صرف معروف کاموں میں ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب الاحکام۔ باب السمع والطاعۃ للامام مالم تکن معصیۃ۔۔ مسلم، کتاب الامارۃ، باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ) ٦۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’عنقریب فتنے فساد ہوں گے تو جو اس امت کے معاملہ میں تفرقہ ڈالے جبکہ وہ متحدہ ہو۔۔ اور ایک روایت میں ہے کہ جماعت کا کسی ایک شخص پر اتحاد و اتفاق ہو اور وہ شخص تمہاری جمعیت میں پھوٹ ڈالنا چاہے تو اس کی گردن اڑا دو۔ خواہ وہ کوئی ہو۔ ‘‘ (مسلم، کتاب الامارۃ۔ باب من فرق امر المومنین و ہو مجتمع) یہ تو اطاعت امیر سے متعلقہ احکام تھے۔ اب امیر سے تنازعہ کا مسئلہ یوں ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں مسجد نبوی کی توسیع کا ارادہ کیا تو سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا مکان اس میں رکاوٹ تھی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے کہا بلکہ انہیں مجبور کیا کہ وہ جائز قیمت لے کر مکان دے دیں لیکن ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مکان کو فروخت کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ تنازعہ بڑھ گیا تو فریقین نے جن میں مدعی حکومت وقت یا امیر المومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تھے اور مدعا علیہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو اپنا ثالث (یا عدالت) بنانا منظور کرلیا۔ تنقیح طلب معاملہ یہ تھا کہ اسلام انفرادی ملکیت کو کس قدر تحفظ دیتا ہے اور آیا اجتماعی مفاد کی خاطر انفرادی مفادات کو قربان کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ چنانچہ کتاب و سنت کی رو سے سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اس مقدمہ کا فیصلہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے خلاف دے دیا۔ جب سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے مقدمہ جیت لیا تو انہوں نے یہ مکان بلاقیمت ہی مسجد کی توسیع کے لیے دے دیا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ تنازعہ دراصل مکان کی فروخت کا نہیں بلکہ ضد بازی اور امیر اور اس کی رعیت کے درمیان اپنے اپنے حقوق کی تحقیق سے تعلق رکھتا تھا۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو مکان فروخت کردینے پر مجبور کیا تو سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ جو اپنے آپ کو حق پر سمجھتے تھے اور جانتے تھے کہ کسی چیز کا مالک اسے بیچنے یا نہ بیچنے کے مکمل اختیارات رکھتا ہے، تو وہ بھی احقاق حق کے لیے ڈٹ گئے اور ثالث نے فیصلہ بھی انہی کے حق میں دیا۔ سیاسی تنازعات اور ان کا حل :۔ تنازعات کی دوسری قسم وہ ہے جو دو گروہوں یا دو قوموں یا دو ملکوں کے درمیان ہوتے ہیں، جسے ہم سیاسی تنازعات کہہ سکتے ہیں اور ایسے تنازعات نے امت مسلمہ کی وحدت کو پارہ پارہ کردیا ہے۔ آپ نے جو امت تشکیل فرمائی تھی اس میں حبشی، رومی، فارسی، عربی، گورے اور کالے مہاجر اور انصار سب بنیادی طور پر ہم مرتبہ تھے۔ اگر کسی کو تفوق اور فضیلت تھی تو محض تقویٰ کی بنا پر تھی اور یہی قرآن کی تعلیم تھی۔ لیکن آج اس وحدت پر سب سے زیادہ کاری ضرب قوم و وطن کے موجودہ نظریہ نے لگائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے معروف خطبہ حجۃ الوداع میں ارشاد فرمایا تھا کہ ’’لوگو! بے شک تمہارا پروردگار ایک ہے۔ تمہارا باپ ایک ہے۔ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر، سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں۔ برتری صرف تقویٰ کی بنا پر ہے۔ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے۔‘‘ وطن اور علاقہ یا زبان کے اختلاف کی بنیاد پر قوموں کی جداگانہ تشکیل یورپ کی پیدا کردہ لعنت ہے۔ وطن پرستی، علاقہ پرستی۔ زبان پرستی اور رنگ پرستی ہی آج کے سب سے بڑے معبود ہیں جن کی خاطر لوگ آپس میں الجھتے اور کٹتے مرتے ہیں۔ انہی باتوں نے امت مسلمہ کو بیسیوں ممالک میں اور پھر ذیلی تقسیم میں تقسیم در تقسیم کے ذریعہ ذلیل و خوار کیا اور تباہی اور بربادی کے جہنم میں دھکیل دیا ہے اور اس جہنم سے نجات صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ کتاب و سنت کو حکم تسلیم کیا جائے اور اپنے آپ کو کتاب و سنت کی تعلیم کے سانچہ میں ڈھالا جائے۔ مذہبی تنازعات اور ان کا حل :۔ تنازعات اور اختلافات کی تیسری بڑی نوع فقہی اور مذہبی اختلافات ہیں۔ اور ہمارے علماء اور فقہاء بھی اولی الامرمنکم کے زمرہ میں آتے ہیں۔ ہمارے ہاں آج کل چار فقہیں یا چار مذاہب رائج ہیں جو اپنی اپنی فقہ کو سینہ سے چمٹائے ہوئے ہیں اور ان میں اس قدر تعصب پیدا ہوچکا ہے کہ ہر فرقہ اپنے آپ کو حق پر اور دوسروں کو غلط سمجھتا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن سب کا ایک ہے اور سنت بھی ایک ہے لیکن فقہ چار ہیں اور اگر شیعہ حضرات کی فقہ جعفریہ کو بھی شامل کرلیں تو پانچ ہیں۔ فقہ یا قیاس دین کی بنیاد نہیں ہے :۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی فقہ دین کی بنیاد نہیں ہے اور نہ ہی کسی ایک مخصوص فقہ پر اصرار کرنا واجب ہے نیز اس سے دوسرا نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ اگر پہلے سے پانچ فقہ موجود ہیں تو موجودہ زمانہ کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اجتہاد کر کے اگر چھٹی فقہ بھی مرتب کرلی جائے تو اس میں کچھ ہرج نہیں ہے مگر برا ہو تعصب اور اندھی عقیدت کا جس نے تقلید شخصی جیسی قابل مذمت روایت کو جنم دیا۔ پھر صرف جنم ہی نہیں دیا بلکہ اسے واجب قرار دے دیا اور آئندہ کے لیے اجتہاد کے دروازہ کو بند کردیا گیا ایسے تنازعات کو ختم کرنے کا بھی واحد حل یہی ہے کہ ہر فقہ کے مسئلہ کو کتاب و سنت پر پیش کیا جائے اور تعصب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جو اجتہادی مسئلہ کتاب و سنت کے مطابق یا زیادہ اقرب ہو اسے قبول کرلیا جائے باقی کو چھوڑ دیا جائے۔ ہر قسم کے نظاموں اور فرقوں کی بنیاد کوئی بدعی عقیدہ یا عمل ہوتا ہے :۔ واضح رہے کہ جتنے بھی مذہبی فرقے ہیں ان میں کوئی نہ کوئی بدعی عقیدہ ضرور شامل ہوتا ہے اور جب تک کوئی بدعی عقیدہ شامل نہ ہو یا شامل نہ کیا جائے کوئی نیا فرقہ وجود میں آ ہی نہیں سکتا۔ مثلاً چار مذاہب میں بدعی عقیدہ صرف اپنے اپنے امام کی تقلید، تقلید شخصی کا وجوب اور آئندہ کے لیے اجتہاد کے دروازہ کو تاقیامت بند رکھنا ہے۔ شیعہ حضرات کا سب سے بڑا بدعی عقیدہ بارہ اماموں کی تعیین اور انہیں معصوم عن الخطاء سمجھنا صرف انہی کے اقوال کو قبول کرنا ہے۔ نیچریوں کا بدعی عقیدہ خوارق عادات امور اور معجزات سے انکار ہے وغیرہ وغیرہ، یہی حال سیاسی نظاموں کا ہے۔ جمہوریت کا بدعی عقیدہ اللہ تعالیٰ کے بجائے عوام کی بالادستی سمجھنا اور انہیں ہی طاقت کا سرچشمہ قرار دینا ہے۔ اشتراکیت کا بدعی عقیدہ انفرادی ملکیتوں کا غصب اور اللہ تعالیٰ کی ذات سے انکار ہے۔ غرضیکہ جتنے بھی فرقے ہیں، خواہ وہ مذہبی ہوں یا سیاسی، ان کا کوئی نہ کوئی عقیدہ یا عمل ضرور کتاب و سنت کے خلاف ہوگا۔ عام تنازعات :۔ تنازعات کی چوتھی قسم ذاتی اور انفرادی معاملات کے جھگڑے ہیں اور ان کے علاوہ اور بھی تنازعات کی کئی اقسام ہو سکتی ہیں۔ خواہ ان کا تعلق اولی الامر سے ہو یا نہ ہو، جیسے بھی تنازعات ہوں ان سب کا واحد حل یہی ہے کہ انہیں کتاب و سنت پر پیش کیا جائے اور اپنے اعتقادات اور تعصبات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انہیں بسر و چشم قبول کر کے ان کی تعمیل کی جائے۔ النسآء
60 [٩٢] منافقوں کا آپ کے پاس فیصلہ لانے سے گریز :۔ جو دعویٰ تو مسلمانوں کا سا کرتے ہیں مگر حقیقت میں منافق ہیں اور طاغوت کا مفہوم پہلے بتایا جا چکا ہے کہ اس سے مراد ہر وہ فرد، عدالت، ادارہ یا نظام ہے جو اللہ کے حکم کے مقابلہ میں اپنا حکم لوگوں پر مسلط کرنا چاہتا ہو۔ منافقوں کا طریقہ یہ تھا کہ جس مقدمہ میں انہیں توقع ہوتی کہ فیصلہ ان کے حق میں ہوگا اسے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے آتے اور جس مقدمہ میں یہ خطرہ ہوتا کہ فیصلہ ان کے خلاف ہوگا اسے آپ کے پاس لانے میں پس و پیش کرنے لگتے حتیٰ کہ انکار بھی کردیتے تھے۔ یہی حال آج بھی نام نہاد مسلمانوں کا ہے۔ اگر شریعت کا فیصلہ ان کے حق میں ہو تو سر آنکھوں پر، ورنہ وہ ہر اس قانون، ہر اس رسم و رواج اور ہر اس عدالت کے دامن میں جا پناہ لیں گے جہاں سے انہیں اپنی منشا کے مطابق فیصلہ ہوجانے کی توقع ہو اور یہ بات دراصل نفاق کی علامت ہے۔ النسآء
61 [٩٣] سیدنا عمر کا منافق کے حق میں فیصلہ :۔ ہوا یہ تھا کہ ایک یہودی اور ایک منافق (مسلمان) کا کسی معاملہ میں جھگڑا ہوگیا۔ یہودی چونکہ حق بجانب تھا لہٰذا اس نے منافق سے کہا کہ چلو اس کا فیصلہ تمہارے رسول سے کرا لیتے ہیں (یعنی یہودیوں کا بھی یہ ایمان ضرور تھا کہ یہ نبی حق ہی کا ساتھ دیتا ہے) مگر منافق اس سے پس و پیش کرنے لگا۔ اسے بھی یہ خطرہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حق کا ساتھ دیں گے اور فیصلہ میرے خلاف ہوجائے گا لہٰذا وہ لیت و لعل کرنے لگا اور کہنے لگا کہ یہ مقدمہ تمہارے سردار کعب بن اشرف کے پاس لے چلتے ہیں جہاں اس منافق کو توقع تھی کہ مکر و فریب اور رشوت سے فیصلہ میرے حق میں ہوسکتا ہے۔ مگر یہودی یہ بات نہ مانا کیونکہ اسے بھی اپنے اس سردار کے کردار کا پتہ تھا اور منافق چونکہ کھل کر یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ جاؤں گا اس لیے بالآخر یہی طے پایا کہ فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کرایا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فریقین کی بات سن کر یہودی کے حق میں فیصلہ دے دیا تو اب منافق کہنے لگا کہ چلو اب یہ مقدمہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ابن خطاب کے پاس لے جا کر ان کا بھی فیصلہ لیتے ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ان دنوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجازت سے اور ان کے نائب کی حیثیت سے مدینہ میں مقدمات کے فیصلے کیا کرتے تھے۔ منافق کا یہ خیال تھا کہ چونکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ میں اسلامی حمیت بہت ہے لہٰذا وہ میرے حق میں فیصلہ دے دیں گے۔ چنانچہ یہودی اور منافق دونوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ہاں جا کر اس مقدمہ کا فیصلہ چاہا۔ پھر اپنے اپنے بیان دیے۔ یہودی نے اپنا بیان دینے کے بعد یہ بھی کہہ دیا کہ ہم یہ مقدمہ تمہارے نبی کے پاس لے گئے تھے اور انہوں نے میرے حق میں فیصلہ دیا ہے یہ سنتے ہی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اندر گئے اور تلوار نکال لائے اور آتے ہی اس منافق کا سر قلم کردیا اور فرمایا کہ جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کو تسلیم نہ کرے اس کے لیے میرے پاس یہی فیصلہ ہے۔ النسآء
62 [٩٤] منافق کے قتل کے بعد اس کے وارث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے قصاص کا مقدمہ کردیا اور مقدمہ کی بنیاد یہ بنائی کہ ہمارا ارادہ آپ کے فیصلہ کے خلاف سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے فیصلہ لینا ہرگز نہ تھا بلکہ ہمارا ارادہ یہ تھا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ان دونوں فریقین کے درمیان صلح اور سمجھوتہ کرا دیں گے اور اپنے اس بیان پر اللہ کی قسمیں بھی کھانے لگے کہ فی الواقع ہمارا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جانے کا مقصد سمجھوتہ ہی تھا۔ النسآء
63 [٩٥] مگر اللہ تعالیٰ نے منافق کے وارثوں کی اس چال سے آپ کو مطلع کردیا اس طرح اللہ تعالیٰ نے قصاص کے مقدمہ کو یہ آیات نازل فرما کر خارج کردیا کہ جو لوگ اپنے مالی یا جانی مقدمات میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دل و جان سے حکم تسلیم نہیں کرتے وہ فی الحقیقت مومن ہی نہیں ہیں لہٰذا قصاص کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جیسا کہ اس سے آگے آ رہا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس فیصلہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فاروق کا لقب عطا فرمایا۔ [٩٦] یعنی آپ ان منافقوں کی قطعاً پروا نہ کیجئے البتہ انہیں دل نشین انداز میں وعظ و نصیحت کرتے رہیے اور انہیں یہ سمجھائیے کہ اللہ تعالیٰ اپنا رسول بھیجتا ہی اس لیے ہے کہ اس کے حکم کی اطاعت کی جائے اور اسی کو دل و جان سے حکم تسلیم کیا جائے۔ اور جب وہ کوئی غلطی یا زیادتی کر بیٹھے تھے تو انہیں چاہیے تھا کہ آپ کے پاس آ کر اللہ سے معافی مانگتے اور آپ بھی ان کے لیے معافی مانگتے تو اللہ تعالیٰ ان کی توبہ کو قبول فرما لیتا۔ النسآء
64 النسآء
65 [٩٧] یہ سابقہ آیات کا تتمہ ہے جس میں ایک مستقل قانون دیا گیا ہے جو صرف مقدمہ کے منافق کے لیے ہی نہیں بلکہ ساری امت کے لیے ہے اور قیامت تک کے لیے ہے اور وہ یہ ہے کہ جو مسلمان آپ کے ارشاد، حکم یا فیصلہ کو بدل و جان قبول کرلینے اور اس کے آگے سر تسلیم خم کردینے پر آمادہ نہیں ہوتا وہ سرے سے مسلمان ہی نہیں ہو سکتا۔ اور آپ کے ارشادات، احکام اور فیصلے سب کچھ کتب احادیث میں مذکور ہوچکے ہیں۔ اب جو شخص ان کے مقابلہ میں کسی اور شخص، عالم، پیر یا امام کے قول کو ترجیح دے گا وہ بھی اس حکم میں داخل ہے۔ یہ آیت بھی امت کے تمام اختلافات اور جھگڑوں کا فیصلہ کرنے میں ہماری رہنما اور کسوٹی ہے۔ اس آیت سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ کتاب و سنت کی موجودگی میں قیاس کرنا حرام ہے۔ اس مضمون کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا’’کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنی خواہشات کو اس چیز کے تابع نہ بنا دے جو میں لے کر آیا ہوں۔‘‘ (شرح السنۃ بحوالہ مشکوٰۃ، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ فصل ثانی) اور بالخصوص اس آیت کا شان نزول کتب احادیث میں درج ذیل مذکور ہے : اختلافات کے خاتمہ کا واحد حل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کا جواب :۔ سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ زبیر رضی اللہ عنہ (میرے باپ) اور ایک انصاری میں حرہ میں واقع پانی کی نالی پر جھگڑا ہوا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ کو کہا ’’تم اپنے درختوں کو پانی پلا لو پھر اسے اپنے ہمسایہ کے باغ میں جانے دو۔‘‘ یہ سن کر وہ انصاری کہنے لگا ’’کیوں نہیں آخر زبیر آپ کی پھوپھی کا بیٹا جو ہوا۔‘‘ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ متغیر ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ کو کہا ’’زبیر! اپنے کھیت کو پانی پلاؤ اور جب تک پانی منڈیروں تک نہ پہنچ جائے اس کے لیے پانی نہ چھوڑو۔‘‘ یعنی جب انصاری نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ دلایا تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر کو اس کا پورا حق دلایا۔ جبکہ آپ کے پہلے حکم میں دونوں کی رعایت ملحوظ تھی۔ زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ آیت اسی مقدمہ میں نازل ہوئی۔ (بخاری، کتاب التفسیر و کتاب المساقاۃ، باب سکر الانہار۔۔ مسلم، کتاب الفضائل باب وجوب اتباعہ ) النسآء
66 [٩٨] یعنی ایسے منافقین جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیصلہ کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔ اگر ہم کسی بنا پر ان پر قتل واجب کردیتے جیسا کہ بچھڑا پوجنے والوں پر واجب کیا تھا یا یہاں (مدینہ) سے کسی اور جگہ نقل مکانی یا ہجرت کرنے کو کہتے تو اس قسم کی قربانیاں یہ لوگ کیسے بجا لا سکتے تھے؟ اور اگر یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کردیتے تو ان کی منزل مقصود قریب تر ہوجاتی اور یہ بہرحال فائدہ میں رہتے۔ یہاں دنیا میں بھی باوقار زندگی نصیب ہوتی اور آخرت میں بھی بڑے اجر کے مستحق ہوتے۔ النسآء
67 النسآء
68 النسآء
69 [٩٩] منعم علیہم کون کون ہیں؟ اس آیت میں چار قسم کے لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جو کہ فضیلت اور درجہ کے لحاظ سے بلند تر مقام رکھتے ہیں (١) انبیاء۔ اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ نبی ہی اپنی امت کا افضل ترین فرد ہوتا ہے جسے اللہ نبوت کے لیے چن لیتا ہے۔ (٢) صدیق سے مراد ایسا شخص ہے جو اپنے ہر معاملہ میں راست باز ہو حق کا ساتھ دینے والا، ہمیشہ سچ بولنے والا، حق کی فوراً گواہی دینے والا اور باطل کے خلاف ڈٹ جانے والا ہو۔ (٣) شہید کا بنیادی معنیٰ گواہ ہے۔ اور اللہ کی راہ میں جان دینے والے کو شہید اس لیے کہتے ہیں کہ وہ اپنے ایمان کی صداقت پر اپنی زندگی کے پورے طرز عمل سے شہادت دیتا ہے۔ حتیٰ کہ اپنی جان دے کر یہ ثابت کردیتا ہے کہ وہ جس چیز پر ایمان لایا تھا اسے فی الواقع درست سمجھتا تھا۔ (٤) صالح سے مراد ایسا نیک سرشت آدمی ہے جس کے ہر عمل اور ہر حرکت سے اس کی نیکی ظاہر ہوتی ہو اور اپنی پوری زندگی میں نیک رویہ رکھتا ہو۔ جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی بسر و چشم اطاعت کرتا ہو، اس آیت میں اسے اخروی زندگی میں مندرجہ بالا چار قسم کے لوگوں کی رفاقت کی خوشخبری دی گئی ہے۔ اور یہ دراصل اس کے اعمال کا بدلہ نہیں بلکہ محض اللہ کا فضل ہوگا۔ مندرجہ ذیل احادیث اسی مضمون کی تفسیر پیش کرتی ہیں : ١ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کیسے؟ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد سے باہر نکل رہے تھے۔ دروازے پر ہمیں ایک آدمی ملا اور کہنے لگا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا ’’کیا تو نے قیامت کے لیے کچھ تیاری کر رکھی ہے؟‘‘ وہ کچھ جھینپ سا گیا اور کہنے لگا۔ ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں نے نہ کچھ لمبے چوڑے روزے رکھے ہیں نہ نماز ہے اور نہ صدقہ۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو ’’(قیامت کے دن) اسی کے ساتھ ہوگا جس سے محبت رکھتا ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب الاحکام، باب القضاء والفتیا فی الطریق) ٢۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ہر نبی کو اس کے مرض میں اختیار دیا جاتا ہے کہ چاہے تو دنیا میں رہے اور چاہے تو آخرت کو پسند کرے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب مرض الموت میں سخت دھچکا لگا تو میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے ﴿مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ ﴾..... تو میں سمجھ گئی کہ آپ کو بھی یہ اختیار ملا (اور آپ نے سفر آخرت کو پسند فرمایا)۔ (بخاری، کتاب التفسیر) ٣۔ سیدنا ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس رہا کرتا اور آپ کے پاس وضو اور حاجت کا پانی لایا کرتا۔ ایک دفعہ (میں آپ کو وضو کروا رہا تھا تو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (خوش ہو کر) فرمایا’’مانگ کیا مانگتا ہے؟‘‘ میں نے کہا ’’میں جنت میں آپ کی رفاقت چاہتا ہوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اس کے علاوہ کوئی اور بات بتاؤ‘‘ میں نے کہا ’’میں تو یہی چیز مانگتا ہوں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اچھا تو پھر کثرت سجود (نماز نوافل وغیرہ) کو اپنے آپ پر لازم کرلو اور اس طرح اس سلسلہ میں میری مدد کرو۔ ‘‘ (مسلم، کتاب الصلوۃ باب مایقال فی الرکوع والسجود) کیونکہ سجدہ ہی وہ عبادت ہے جس میں بندے کو اللہ سے نہایت قرب حاصل ہوتا ہے۔ النسآء
70 النسآء
71 [١٠٠] جنگ احد کے بعد مسلمانوں کی حالت اور احکام :۔ یہ آیت اس دور میں نازل ہوئی جب مسلمان میدان احد میں ایک دفعہ شکست سے دو چار ہوچکے تھے اور ابو سفیان نے واپسی کے وقت اپنے خطبہ میں اپنی کامیابی کا اعلان بھی کیا تھا۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ یہودیوں، منافقوں اور مدینہ کے اردگرد پھیلے ہوئے قبائل کے حوصلے بڑھ گئے اور اسلام دشمنی میں اپنی کوششیں تیز تر کردی تھیں۔ بسا اوقات ایسی خبریں آتیں کہ اب فلاں قبیلہ جنگ کی تیاریاں کر رہا ہے اور اب فلاں قبیلہ مسلمانوں پر چڑھائی کے لیے مدینہ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اسی دور میں مسلمانوں سے پے در پے غداریاں بھی کی گئیں۔ ان کے مبلغین کو فریب سے دعوت دی جاتی اور قتل کردیا جاتا تھا اور مدینہ کی حدود سے باہر مسلمانوں کا جان و مال محفوظ نہ تھا۔ اور مدینہ پر ہر وقت خوف و ہراس طاری رہتا تھا۔ تو ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ہدایت فرمائی کہ ایک تو ہر وقت محتاط اور چاک و چوبند رہو اور اپنے ہتھیار اپنے پاس رکھا کرو۔ دوسرے اکا دکا سفر نہ کیا کرو بلکہ جب کسی سفر پر نکلنا ہو تو دستوں کی شکل میں یا سب اکٹھے مل کر نکلا کرو۔ النسآء
72 [١٠١] یہ خطاب منافقوں کے لیے ہے اور جنگ کے دوران ان کے کردار کا ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو دیدہ دانستہ اور حیلوں بہانوں سے جہاد پر نکلنے میں دیر کرتے اور پیچھے رہ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر اگر اس سفر جہاد میں مسلمانوں کو کچھ تکلیف پہنچے تو بڑے خوش ہوتے اور کہتے ہیں کہ اللہ کا شکر ہے کہ میں پیچھے رہ گیا۔ ورنہ مجھے بھی وہی دکھ اٹھانا پڑتا جو دوسرے مسلمانوں نے اٹھایا ہے۔ النسآء
73 [١٠٢] اور اگر مسلمانوں کو فتح اور خوشی نصیب ہو اور غنیمت کا مال ہاتھ لگے تو حسرت سے کہتے ہیں کہ اگر ہم بھی ان میں شامل ہوتے تو ہمارا بھی کام بن جاتا۔ اور یہ جملہ وہ اس انداز سے ادا کرتے ہیں جیسے پہلے ان کا اور مسلمانوں کا کوئی تعلق تھا ہی نہیں اور ان دونوں صورتوں میں انہیں محض دنیوی تکلیف اور دنیوی مفادات کا ہی احساس ہوتا ہے۔ اخروی زندگی یا رضائے الہی سے انہیں کبھی کوئی غرض نہیں ہوتی اور یہی ان کے منافق ہونے اور اللہ اور آخرت پر ایمان نہ رکھنے کی دلیل ہے۔ النسآء
74 [١٠٣] اس آیت میں مسلمانوں کو محض اللہ کی رضا اور اسلام کی سربلندی کی خاطر لڑنے کی ترغیب دی جا رہی ہے اور بتایا گیا ہے کہ مسلمان خواہ لڑائی میں شہید ہوجائے یا بچ کر گھر واپس آ جائے اسے دونوں صورتوں میں فائدہ ہی فائدہ ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔جہادکی ترغیب‘اہمیت اور فوائد:۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا ’’کوئی شخص مال غنیمت کے لیے لڑتا ہے، کوئی شہرت اور ناموری کے لیے اور کوئی اپنی بہادری دکھانے کے لیے لڑتا ہے اور کوئی غصے اور قومی حمیت کی وجہ سے لڑتا ہے۔ ان میں سے کون اللہ کی راہ میں لڑتا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ کی راہ میں لڑنے والا صرف وہ ہے جس کا مقصد یہ ہو کہ اس سے اللہ کا کلمہ بلند ہو۔ ‘‘ (بخاری، کتاب الجہاد۔ باب من قاتل لتکون کلمۃ اللہ ھی العلیا۔۔ مسلم۔ کتاب الامارۃ۔ باب من قاتل لتکون کلمۃ اللہ ہی العلیا فھو فی سبیل اللہ۔۔ بخاری۔ کتاب العلم۔ باب من سأال و ہو قائم عالما جالسا) ٢۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص اس حال میں مرے کہ نہ اس نے اللہ کے راستے میں جنگ کی اور نہ ہی کبھی اس کے دل میں اس کا خیال گزرا ہو تو اس کی موت نفاق کی ایک شاخ پر ہوگی۔‘‘ (مسلم، کتاب الامارۃ۔ باب ذم من مات ولم یغز ولم یحدث نفسہ بالغزو) ٣۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ’’لوگوں میں سب سے افضل کون ہے؟‘‘ فرمایا ’’جو اللہ کی راہ میں اپنی جان اور مال سے جہاد کرے۔‘‘ (بخاری، کتاب الجہاد، باب افضل الناس مومن مجاھد بنفسہ و مالہ) ٤۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر میری امت پر یہ بات گرانبار نہ ہوتی تو میں کسی لشکر سے پیچھے نہ رہتا اور میں تو یہ چاہتا ہوں کہ میں اللہ کی راہ میں مارا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر مارا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں۔‘‘ (بخاری، کتاب الایمان، باب الجہاد من الایمان۔۔ مسلم۔ کتاب الجہاد۔ باب فضل الجہاد) ٥۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جنت میں سو درجے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے (بلندی درجات کے حساب سے) مجاہدین فی سبیل اللہ کے لیے تیار کیا ہے اور ہر درجے میں اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان کے درمیان فاصلہ ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب الجہاد۔ باب درجات المجاہدین فی سبیل اللہ۔۔ مسلم، کتاب الامارۃ۔ باب بیان ما اعد اللہ تعالیٰ للمجاہد فی الجنۃ من الدرجات) ٦۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس بندے کے قدم اللہ کی راہ میں غبار آلود ہوں تو یہ نہیں ہوسکتا کہ پھر اسے آگ چھوئے‘‘ (بخاری، کتاب الجہاد، باب من اغبرت قد ماہ فی سبیل اللہ) ٧۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’خوب جان لو! جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب الجہاد، باب الجنۃ تحت بارقۃ السیوف) ٨۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ کی راہ میں ایک صبح یا ایک شام نکلنا دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب الجہاد۔ باب الغدوۃ والروحۃ فی سبیل اللہ مسلم، کتاب الامارۃ فضل الغدوۃ والروحۃ فی سبیل اللہ ) ٩۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص اللہ کی راہ میں خالصتاً جہاد کرنے کی نیت سے اپنے گھر سے نکلے اور اللہ کے ارشادات کا اسے یقین ہو تو اللہ اسے یا تو شہادت کا درجہ دے کر جنت میں داخل کرے گا یا ثواب اور مال غنیمت دلا کر بخیر و عافیت اسے اس کے گھر لوٹائے گا۔‘‘ (بخاری، کتاب التوحید باب ولقد سبقت کلمتنا۔۔) النسآء
75 [١٠٤] ہجرت نہ کرسکنے والے :۔ اس آیت میں ان کمزور مسلمانوں، بیواؤں اور بچوں کی طرف اشارہ ہے جو مکہ یا بعض قبائل میں آباد تھے۔ اسلام قبول کرچکے تھے مگر ہجرت کرنے پر قدرت نہ رکھتے تھے اور کافروں کے ظلم و تشدد برداشت کرنے پر مجبور تھے اور اللہ سے دعا کیا کرتے تھے کہ یا اللہ ! ان ظالموں سے رہائی کی کوئی صورت پیدا فرما دے یا ہمارا کوئی حامی و مددگار بھیج جو ہمیں ان ظالموں کے پنجہ سے نکال لے جائے۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے لوگوں کے حق میں نماز میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد دعا فرماتے کہ ’’یا اللہ ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور دوسرے ناتواں مسلمانوں کو جو مکہ میں ہیں کافروں کی قید سے چھڑا دے۔ یا اللہ ! مضر کے کافروں پر سخت گرفت فرما اور ان پر ایسا قحط بھیج، جیسا یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں قحط پڑا تھا۔‘‘ (بخاری، کتاب الادب، باب تسمیۃ الولید) اور سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما جب یہ آیت پڑھا کرتے تو کہا کرتے کہ ’’میں اور میری ماں (دونوں مکہ میں) ان لوگوں میں سے تھے جنہیں اللہ نے معذور رکھا۔‘‘ (بخاری، کتاب التفسیر) اس آیت میں مسلمانوں کو ایسے ہی کمزور و ناتواں مسلمانوں کی مدد کو پہنچنے اور ایسے ظالموں سے جہاد کر کے انہیں ان کے ظلم سے بچانے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ النسآء
76 [١٠٥] وقتی اور سیاسی اتحاد شیطانی اتحاد ہے جس کی بنیاد کمزور ہوتی ہے :۔ یہاں طاغوت سے مراد سرداران قریش کی اپنی اپنی چودھراہٹیں اور اسی طرح یہودیوں اور دوسرے قبائل عرب کے سرداروں کی سرداریاں ہیں۔ جن کی بنا پر ان کا عوام پر تسلط قائم تھا۔ جوں جوں اسلام کو اللہ نے ترقی دی تو ان سرداروں کو اپنی سرداریاں متزلزل اور ڈگمگاتی نظر آنے لگیں تو انہوں نے مسلمانوں کے خلاف محاذ آرائی شروع کردی۔ گویا مسلمانوں کے خلاف تمام اسلام دشمن قومیں متحد ہو کر اسلام کو مٹانے پر آمادہ ہوجاتی تھیں اور اسلام کے مقابلہ میں کفر کا یہ اتحاد دراصل شیطانی اتحاد تھا اور یہ محض وقتی اور سیاسی اتحاد ہوتا تھا۔ ورنہ اس اتحاد میں شامل قوموں کے باہمی اختلافات بدستور موجود تھے لہٰذا اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ہدایت فرمائی کہ اس شیطانی لشکر کا پوری ہمت اور جرات کے ساتھ مقابلہ کرو کیونکہ ان کے اتحاد کی بنیاد ہی کمزور ہے۔ النسآء
77 [١٠٦] مکہ میں جہاد پر بندش :۔ مکہ میں مسلمانوں پر قریش مکہ نے جو ظلم و ستم ڈھائے تھے ان کا نشانہ صرف غلام مسلمان ہی نہ تھے، بلکہ آزاد اور معزز قسم کے مسلمانوں کا بھی ان لوگوں نے طرح طرح سے عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا۔ حتیٰ کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان لوگوں کے ہاتھوں متعدد بار ایذائیں پہنچیں۔ اس وقت بعض جرأت مند مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان لوگوں کے ساتھ جنگ کی اجازت چاہی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابھی مجھے جنگ کی اجازت نہیں دی گئی۔ لہٰذا تم بھی ان مصائب کو صبر سے برداشت کیے جاؤ اور اپنی تمام تر توجہ نماز کے قیام اور زکوٰۃ کی ادائیگی پر صرف کرو۔ چنانچہ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ جو السابقون الاولون میں سے تھے انہی لوگوں میں سے تھے جو جنگ کی اجازت چاہ رہے تھے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے : سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی مکہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا ’’اللہ کے رسول ! ہم عزت والے تھے جبکہ ہم مشرک تھے پھر جب ایمان لائے تو ذلیل ہو گئے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’(ابھی) مجھے درگزر کرنے کا حکم دیا گیا ہے لہٰذا جنگ نہ کرو۔‘‘ پھر جب اللہ نے ہمیں مدینہ منتقل کردیا تو ہمیں جنگ کا حکم دیا گیا اور بعض لوگ جنگ سے رک گئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (نسائی۔ کتاب الجہاد، باب وجوب الجہاد) کیاوحی ساری کی ساری قرآن میں محصور ہے؟ یہاں چند امور کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ سورۃ نساء مدنی دور میں غزوہ احد اور غزوہ احزاب کے درمیانی عرصہ میں نازل ہوئی تھی اور اس آیت کے الفاظ ﴿قِیْلَ لَھُمْ کُفُّوْٓا اَیْدِیَکُمْ ﴾ سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ مکی دور میں مسلمانوں کو ہاتھ اٹھانے سے روک دیا گیا تھا۔ حالانکہ قرآن کی مکی سورتوں میں ایسا کوئی حکم موجود نہیں ہے۔ اب دو ہی صورتیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بذریعہ وحی خفی کوئی ایسا حکم ملا ہو جس کی بعد میں مدنی دور میں اس آیت کے ذریعہ توثیق کردی گئی۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ یہ آپ کا ذاتی اجتہاد ہو کہ اس انقلابی تحریک کے آغاز میں مسلمانوں کو قطعاً ہاتھ نہ اٹھانا چاہئے۔ آپ کے اس اجتہاد پر چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نکیر وارد نہیں ہوئی لہٰذا یہ اجتہاد وحی تقریری کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے ان لوگوں کا رد ہوا جو کہتے ہیں کہ وحی تمام تر قرآن میں محصور ہے اور وحی خفی یا وحی تقریری کی کچھ حیثیت نہیں سمجھتے۔ اور دوسرے یہ بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات بھی ویسے ہی واجب الاتباع ہیں جیسے قرآن کے احکام۔ مکی دور میں ہاتھ نہ اٹھانے یا عدم تشدد کے فوائد :۔ دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس تیرہ سالہ طویل دور میں، جبکہ مسلمانوں پر کفار انتہائی شدید قسم کے مظالم ڈھا رہے تھے مسلمانوں کو ہاتھ اٹھانے یا مدافعت کرنے سے کیوں روک دیا گیا تھا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام ایک انقلابی تحریک ہے۔ عرب کے تمام تر معاشرتی، سیاسی اور تمدنی نظام کی بنیاد بت پرستی پر قائم تھی۔ اور اسلام نے اسی بت پرستی کے خلاف ہی سب سے پہلے آواز بلند کی۔ تو اس باطل نظام میں جو لوگ معاشی، تمدنی یا سیاسی فائدے اٹھا رہے تھے وہ سب اسلام، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کے دشمن بن گئے۔ اور ان پر سختیاں شروع کردیں۔ اس مرحلہ پر مسلمانوں کو تاکیدی حکم یہ دیا گیا کہ اپنی مدافعت میں ہاتھ تک نہ اٹھائیں بلکہ جیسے بھی ظلم و ستم ان پر ہو رہے ہیں وہ برداشت کرتے جائیں۔ اس عدم تشدد کے حکم یا پالیسی سے تین قسم کے فوائد حاصل ہوئے۔ پہلا یہ کہ اگر مسلمان اس مرحلہ پر مقابلہ شروع کردیتے تو مشرکین کو جو قوت، قدرت میں مسلمانوں سے بدرجہا بڑھ کر تھے اس تحریک کو شدت کے ساتھ کچل دینے کا اخلاقی جواز ہاتھ آجاتا۔ اس عدم تشدد کی پالیسی کی وجہ سے تبلیغ کا کام جاری رہا اور یہ اسی صورت میں ممکن تھا۔ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کو مصائب برداشت کرنے اور قائد تحریک نبی اکرم کا ہر حال میں حکم ماننے کی تربیت دی جارہی تھی۔ اور تیسرا فائدہ یہ ہوا کہ غیر جانبدار قسم کے لوگوں کی خاموش اکثریت کی ہمدردیاں مسلمانوں سے وابستہ ہوگئیں۔ کیونکہ ہر انسان ناروا ظلم سے طبعاً نفرت کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جب پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ گھبرائے ہوئے گھر آئے تو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے ہاں لے گئیں جنہوں نے تمام ماجرا سن کر کہا :’’کاش! میں اس وقت تک زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کو مکہ سے نکال دے گی‘‘ ورقہ کی یہ بات سن کر آپ کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جو قوم آج تک مجھے اپنی آنکھوں کا تارا سمجھتی ہے وہ کل کو مجھے مکہ سے نکال دے گی؟ چنانچہ آپ نے نہایت تعجب سے ورقہ سے یہی سوال کیا تو اس نے کہا کہ جو نبی بھی ایسی دعوت لے کر آیا، اس کی قوم نے اس سے ایسا ہی سلوک کیا، (بخاری۔ کتاب الوحی) ورقہ کی اس اطلاع کا آپ پر یہ اثر ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت کو ناکامی سے بچانے کی خاطر اپنی دعوت کا آغاز نہایت خفیہ طریق سے اور اپنے گھر سے کیا اور گھر کے درج ذیل افراد فوراً آپ پر ایمان لے آئے : (١) آغازوحی کے وقت اسلام لانے والے :۔ آپ کی جان نثار بیوی سیدہ خدیجۃ رضی اللہ عنہا جن کی عمر اس وقت ٥٥ سال تھی۔ (٢) آپ کے غلام زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ جو فی الحقیقت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے غلام تھے۔ لیکن انہوں نے اسے آپ کو دے دیا تھا۔ (٣) سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب جو آپ کے چچا ابو طالب کے بیٹے تھے۔ آپ کے زیر کفالت اور آپ ہی کے گھر میں رہتے تھے۔ اس وقت ان کی عمر ایک روایت کے مطابق ٨ سال اور دوسری کے مطابق ١٠ سال تھی۔ بہرحال اس وقت وہ ایسا شعور ضرور رکھتے تھے۔ اولاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم :۔ آپ کی اولاد میں سے ایسا کوئی بھی نہ تھا جو اس وقت آپ پر ایمان لاتا۔ آپ کی پہلونٹی کی بیٹی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا تھیں جن کا نکاح ابو العاص بن ربیع سے ہوچکا تھا۔ سیدہ زینب تو بعد میں جلد ہی ایمان لے آئیں مگر ابو العاص فتح مکہ کے بعد ایمان لائے تاہم ابو العاص کے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے اور اپنے داماد سے خوش رہے۔ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب ذکر اصہار النبی) دوسرے نمبر پر آپ کے بیٹے سیدنا قاسم تھے۔ اسی نام کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت ابو القاسم تھی۔ یہ بعثت سے پہلے وفات پاچکے تھے۔ تیسرے نمبر پر آپ کی بیٹی رقیہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ بعثت نبوی کے وقت ان کی عمر صرف چھ سات برس تھی۔ بعد میں ان کا نکاح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے ہوا اور جس دن مسلمانوں کو مدینہ میں فتح بدر کی خوشخبری ملی اسی دن آپ رضی اللہ عنہا نے وفات پائی۔ چوتھے نمبر پر ام کلثوم رضی اللہ عنہا تھیں۔ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد ان کا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے نکاح ہوا۔ پانچویں نمبر پر آپ کے بیٹے عبداللہ تھے جنہیں طیب اور طاہر بھی کہا جاتا ہے۔ یہ سن بلوغ کو پہنچنے سے قبل ہی فوت ہوگئے۔ چھٹے نمبر پر آپ کی سب سے چھوٹی بیٹی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا تھیں جن کی عمر اس وقت صرف ایک سال تھی۔ پندرہ برس کی عمر میں آپ کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے نکاح ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے وقت آپ کی اولاد میں سے صرف یہی زندہ تھیں۔ چھ ماہ بعد یہ بھی فوت ہوگئیں۔ السابقون الاولون:۔ گھر کے باہر کے لوگوں میں سے سب سے پہلے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ ایمان لائے۔ آپ ماہر انساب، صاحب الرائے، دولت مند اور فیاض انسان تھے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دلی دوست، آپ کے اخلاق سے متاثر اور بعثت نبوی سے پہلے ہی شرکیہ اعمال و عقائد سے متنفر تھے۔ مکہ میں آپ کا خاصا اثر و رسوخ تھا۔ آپ ہی کی درپردہ کوششوں سے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ اور طلحہ رضی اللہ عنہ ایمان لائے۔ پھر ان سب حضرات کی مشترکہ کوششوں اور رازدارانہ تبلیغ سے درج ذیل حضرات ایمان لائے : سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ ۔ پھر ان کی تبلیغ سے ان کے والد یاسر رضی اللہ عنہ اور والدہ سمیہ رضی اللہ عنہ بھی اسلام لے آئے یہ لوگ ابو جہل کے قبیلہ بنو مخزوم کے غلام تھے۔ سیدنا بلال بن رباح رضی اللہ عنہ جو امیہ بن خلف کے غلام تھے۔ جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سفارش پر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے خرید کر آزاد کردیا۔ سیدنا خباب رضی اللہ عنہ بن ارت، سیدنا ارقم، سیدنا سعید رضی اللہ عنہ بن زید (سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بہنوئی) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ، عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ ، ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ ، صہیب رومی رضی اللہ عنہ ہیں۔ خفیہ تبلیغ کے تین سال :۔ ابتدائی تین سال تبلیغ یونہی سینہ بہ سینہ ہوتی رہی حتیٰ کہ مسلمانوں کی تعداد چالیس تک پہنچ گئی۔ یہ اصحاب عبادت بھی چھپ چھپا کر کرتے تھے اور دارارقم کو مرکز بنا لیا گیا تھا۔ اسی دور میں قائد تحریک حضور اکرم کو کفار نے اپنی طنز، تشنیع اور تضحیک کا نشانہ بنایا تھا۔ کبھی وہ آپ کو کاہن کہتے، کبھی شاعر، کبھی دیوانہ، کبھی اللہ کی آیات کا تمسخر اڑاتے اور کبھی آنکھوں ہی آنکھوں میں آپ کو مرعوب بنا کر آپ کے عزم اور ہمت کو شکست دینا چاہتے تھے۔ اس دور میں مشرکین مکہ کا مسلمانوں پر دباؤ کتنا تھا اور کسی کا اسلام لانا کس قدر کٹھن اور جان جوکھوں کا کام تھا اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے جسے سیدنا ابو ذرغفاری رضی اللہ عنہ نے اپنے اسلام لانے سے متعلق خود بیان کیا ہے اور جسے ہم نے صحیح بخاری سے سورۃ انفال کے حاشیہ نمبر ٢٦ میں درج کیا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ صحیح مسلم میں مذکور ہے۔ سیدنا عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ نے بھی انہی ایام میں اسلام قبول کیا تھا۔ عمرو ایام جاہلیت میں ہی یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ تمام لوگ مشرک اور گمراہ ہیں۔ جب انہوں نے سنا کہ مکہ میں ایک شخص آسمانی خبریں بیان کرتا ہے تو فوراً سوار ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے اور فوراً اسلام لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ضروری احکام کی تعلیم دی اور مشورہ دیا کہ فی الحال اپنے وطن واپس چلے جاؤ اور جب تم سنو کہ اسلام کو غلبہ ہوگیا ہے تو پھر تم میرے پاس چلے آنا۔ (مسلم۔ کتاب الصلٰوۃ۔ باب الاسلام عمرو بن عبسہ) اور یہ وہی مشورہ تھا جو اس سے پہلے آپ نے سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کو بھی دیا تھا اور یہ مشورہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان نو مسلموں سے ہمدردی کی خاطر دیتے تھے مکہ میں تو یہ حال تھا کہ جس شخص کے متعلق پتہ چل جاتا کہ وہ مسلمان ہوگیا ہے، اس کی شامت آجاتی تھی۔ پھر ان سب مسلمانوں کو جتنا دکھ پہنچتا تھا، اکیلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اتنا دکھ پہنچ جاتا تھا۔ کیونکہ آپ رحمۃ للعالمین تھے اور دردمند دل رکھتے تھے۔ علاوہ ازیں معاشی مسئلہ بھی پیدا ہوجاتا تھا جس کے حل کرنے پر اس وقت مسلمان کچھ قدرت نہ رکھتے تھے۔ علی الاعلام تبلیغ اورا س کے اثرات :۔ نبوت کے پہلے تین سال تبلیغ کا یہی انداز رہا پھر جب ﴿ وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ﴾ (26: 214)’’اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ‘‘ کا فرمان باری نازل ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یکے بعد دیگرے تین بار اپنے قبیلہ والوں کو اکٹھا کیا اور ان پر اسلام پیش کیا۔ مگر ہر بار ابو لہب ہی آڑے آتا اور مخالفت میں پیش پیش رہتا تھا جس کا تفصیلی ذکر اسی مندرجہ آیت کے تحت اور سورۃ لہب میں آئے گا اس کے بعد اب پہلا سا خفیہ طریقہ تبلیغ نہ رہا اور مشرکین کو کسی نہ کسی حد تک یہ بھی معلوم ہوچکا تھا کہ کون کون شخص اسلام لا چکا ہے۔ لہٰذا انہوں نے اسلام، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کو سختی سے کچل ڈالنے کے مشن کو پہلے سے تیز تر کردیا۔ جو منصوبے پیغمبر اسلام کو ختم کرنے کے لئے بنائے گئے اور سازشیں کی گئیں ان کا ذکر تو ﴿وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ﴾کے تحت سورۃ مائدہ کے حاشیہ نمبر ١١٣ میں آئے گا۔ یہاں ہم صرف ان مظالم کا اجمالاً ذکر کریں گے جو اس دور میں مسلمانوں پر ڈھائے گئے۔ عرب معاشرہ میں غلاموں کا طبقہ بھی معاشرہ کا ایک معتدبہ حصہ تھا۔ جنہیں انسان سمجھا ہی نہیں جاتا تھا۔ مالک اپنے غلام پر جتنا بھی ظلم روا رکھے، حتیٰ کہ جان سے بھی مار ڈالے تو اسے کوئی پوچھنے والا نہ تھا بلکہ آزاد معاشرہ کو اسی کی تائید و حمایت حاصل تھی اور غلاموں میں اپنے مالک کے سامنے نہ چوں و چرا کرنے کی ہمت تھی اور نہ بھاگ جانے کی۔ لہٰذا زیادہ تشدد کا یہی طبقہ شکار ہوا۔ ابو جہل کے آل یاسر پر مظالم :۔ ابو جہل کا مسلمانوں پر جبر و ستم ڈھانے کا طریقہ کار یہ تھا کہ اگر اسلام لانے والا کوئی آزاد، معزز اور طاقتور آدمی ہوتا تو اسے برا بھلا کہنے، ذلیل و رسوا کرنے اور اس کے مال و جاہ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا اور عرب کے قبائلی نظام میں وہ اس سے زیادہ کچھ کر بھی نہ سکتا تھا۔ اور اگر اسلام لانے والا کوئی غلام یا کمزور آدمی ہوتا تو اسے خود بھی مارتا اور دوسروں کو بھی ایذا رسانی پر اکساتا رہتا۔ اور اس معاملہ میں نہایت سنگدل واقع ہوا تھا۔ آل یاسر یعنی سیدنا عمار رضی اللہ عنہ ، ان کے والد یاسر اور والدہ سمیہ اسلام لاچکے تھے۔ یہ قبیلہ بنومخزوم (یعنی ابو جہل کے اپنے قبیلے کے) غلام تھے۔ ان پر ابو جہل نے خوب مشق ظلم و ستم کی اور اس قدر مظالم ڈھائے کہ یاسر ان کی تاب نہ لا کر راہی ملک عدم ہوئے۔ ان کی بیوی سمیہ کو اس بدبخت نے شرمگاہ میں نیزہ مار کر ہلاک کردیا۔ اسلام میں یہ پہلی شہیدہ ہیں جو اس بیدردی اور بے رحمی سے شہید کی گئیں۔ رہے عمار رضی اللہ عنہ خود تو انہیں کبھی کڑکتی دوپہر میں پتھریلی زمین پر ننگا لٹا کر اوپر سرخ اور وزنی پتھر رکھ دیا جاتا اور کبھی پانی میں غوطے دیئے جاتے۔ ایک دفعہ آپ کو ننگے بدن دوپہر کو پتھریلی زمین پر لٹا کر اذیتیں دی جارہی تھیں کہ ادھر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر ہوا۔ وہ ہستی جو سارے جہان کے لئے رحمت بن کر مبعوث ہوئی تھی، یہ نظارہ دیکھ کر آپ کے دل پر جو بیتی ہوگی وہ اللہ ہی جانتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ آپ صبر و استقامت کے عظیم پیکر بھی تھے۔ پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور انہیں دلاسا دیتے ہوئے فرمایا : (اصبروا ال یاسر فان موعد کم الجنۃ) ’’آل یاسر! صبر پر قائم رہنا، تمہارے لئے جنت کا وعدہ ہے‘‘ امیہ بن خلف کے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ پر مظالم : سیدنا بلال بن رباح رضی اللہ عنہ (حبشی) امیہ بن خلف کے غلام تھے۔ امیہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کے گلے میں رسی ڈال کر انہیں گلی محلے کے اوباش لڑکوں کے حوالے کردیتا اور وہ انہیں مکہ کے پہاڑوں کی وادیوں میں گھسیٹتے پھرتے جس سے بدن زخمی ہوجاتا اور گلے میں رسی کا نشان پڑجاتا۔ خود امیہ انہیں رسی سے باندھ کر ڈنڈے مارا کرتا۔ کبھی چلچلاتی دھوپ میں بٹھائے رکھتا اور کھانے پینے کو کچھ نہ دیتا اور سینہ پر بھاری پتھر رکھ دیتا۔ پھر کہتا : اللہ کی قسم! تو اسی طرح پڑا رہے گا تاآنکہ تو مرجائے یا پھر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کفر کرے۔ لیکن ایمان کا مزا بھی کچھ عجیب ہی قسم کا ہوتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ یہ سب تکلیفیں برداشت کرتے مگر زبان سے احد احد ہی پکارتے تھے۔ (سیرۃ النبی ج ١ ص ٢٣٢) ایک دن آپ رضی اللہ عنہ کو ایسی ہی اذیتیں دی جارہی تھیں کہ ادھر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر ہوا۔ آپ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ پر یہ ظلم برداشت نہ کرسکے۔ لہٰذا سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ بلال رضی اللہ عنہ کو اس مصیبت سے نجات دلائیں۔ چنانچہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے امیہ بن خلف کو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی منہ مانگی قیمت ادا کرکے خریدا، پھر آزاد کردیا۔ ایک روایت کے مطابق یہ قیمت ایک کلو سے زائد چاندی تھی۔ (ابن ہشام ٩: ٣١٧-٣١٨ رحمۃ للعالمین ١: ٥٧) سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کے ذریعہ امیہ بن خلف کی دردناک موت :۔ اب حالات نے یوں پلٹا کھایا کہ جنگ بدر میں میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا۔ جاہلیت کے دور میں امیہ بن خلف اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ میں دوستی تھی۔ جب مسلمان کافروں کو گرفتار کر رہے اور مال غنیمت اکٹھا کر رہے تھے اس وقت سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ چند زرہیں سنبھالے جارہے تھے۔ امیہ نے انہیں دیکھ لیا اور پکار کر کہا : تمہیں میری ضرورت ہے؟ میں تمہاری ان زرہوں سے بہتر ہوں۔ امیہ کا مطلب یہ تھا کہ اگر عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ مجھے قیدی بنا کر اپنی پناہ میں لے لیں تو میں کم از کم جان سے تو بچ جاؤں گا اور اگر زندہ رہا تو انہیں اس کام کا اتنا معاوضہ دوں گا جو ان زرہوں سے کہیں بہتر ہوگا۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں کہ میں امیہ بن خلف اور اس کے بیٹے علی دونوں کو گرفتار کرکے آگے بڑھا ہی تھا کہ اتفاق سے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی نظر امیہ بن خلف پر پڑگئی۔ امیہ کو دیکھتے ہی انہیں وہ زمانہ یاد آگیا جب امیہ ان پر مشق ستم کیا کرتا تھا۔ وہ فوراً پکار اٹھے ’’اوہ! کفر کا سر! امیہ بن خلف! آج یا میں زندہ رہوں گا یا یہ زندہ رہے گا‘‘ میں نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو بہتیرا سمجھایا کہ یہ میرا قیدی ہے مگر وہ کسی صورت نہ مانے اور انصار کو بلا کر وہی بات کہی کہ ’’آج یا میں زندہ رہوں گا یا یہ کفر کا سر‘‘ چنانچہ ان لوگوں نے ہمیں گھیرے میں لے لیا۔ میں ان کا بچاؤ کر رہا تھا بلکہ اپنے آپ کو امیہ پر ڈال رہا تھا۔ مگر ہجوم کے سامنے میری کچھ پیش نہ گئی۔ ان لوگوں نے امیہ کو میرے نیچے سے نکال کر باپ اور بیٹے دونوں کو بیدردی سے قتل کردیا۔ مرنے سے پہلے امیہ نے ایسی دردناک چیخ ماری جیسی میں نے پہلے کبھی نہ سنی تھی۔ سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے اللہ تعالیٰ بلال رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے۔ جنگ بدر کے دن میری زرہیں بھی گئیں اور میرے قیدی کے بارے میں مجھے تڑپا بھی دیا۔ (بخاری۔ کتاب الجہاد باب دعاء النبی علی المشرکین) ابو فکیہہ پر امیہ کے مظالم :۔ سیدنا ابو فکیہہ رضی اللہ عنہ، صفوان بن امیہ کے غلام تھے۔ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کے ساتھ اسلام لائے۔ امیہ کو جب یہ معلوم ہوا تو ان کے پاؤں میں رسی باندھی اور لوگوں سے کہا : اسے گھسیٹتے ہوئے لے جائیں اور تپتی ہوئی زمین پر لٹا دیں۔ ایک 'گبریلا' راہ میں جارہا تھا۔ امیہ نے ان سے کہا۔ کیا یہی تو تیرا خدا نہیں؟ ابو فکیہہ نے جواب دیا ’’ میرا اور تمہارا دونوں کا خدا اللہ تعالیٰ ہے‘‘ اس پر امیہ نے اس زور سے ان کا گلا گھونٹا کہ لوگ سمجھے کہ دم نکل گیا۔ ایک دفعہ ان کے سینے پر اتنا بھاری پتھر رکھ دیا کہ زبان باہر نکل آئی۔ (سیرۃ النبی، ج ١ ص ٢٣٤) خباب بن ارت پر مظالم :۔ سیدنا خباب رضی اللہ عنہ بن ارت نہایت شریف الطبع انسان تھے اور قبیلہ بنو خزاعہ کی ایک عورت ام انمار کے غلام تھے۔ مشرکین ان کے سر کے بال نوچتے۔ سختی سے گردن مروڑتے۔ ایک دفعہ دہکتے کوئلوں پر آپ رضی اللہ عنہ کو چت لٹا دیا گیا اور ایک شخص چھاتی پر پاؤں رکھے کھڑا رہا۔ تاکہ کروٹ نہ بدل سکیں۔ یہاں تک کہ پشت کے نیچے کے کوئلے ٹھنڈے پڑگئے۔ خباب رضی اللہ عنہ نے مدتوں بعد یہ واقعہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے بیان کیا اور پیٹھ کھول کر دکھائی جو برص کے داغ کی طرح سفید ہوگئی تھی۔ (سیرۃ النبی، ج ١ ص ٢٣٢) کنیزوں پر مظالم :۔ عورتیں بھی ایسے مظالم سے بچ نہ سکیں۔ سیدہ لبینہ ایک کنیز تھیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اسے مارتے مارتے تھک جاتے تو کہتے کہ میں نے تمہیں رحم کھا کر نہیں بلکہ اس لئے چھوڑا ہے کہ میں تھک گیا ہوں اور ذرا دم لے لوں۔ وہ نہایت استقلال سے جواب دیتیں کہ اگر تم اسلام نہ لاؤ گے تو اللہ اس کا انتقام لے گا۔ (حوالہ ایضاً) سیدہ زنیرہ رضی اللہ عنہا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے گھرانے کی کنیز تھیں۔ اس وجہ سے وہ اسے بہت تکلیفیں پہنچاتے تھے۔ ابو جہل نے انہیں اس قدر مارا کہ ان کی آنکھیں جاتی رہیں۔ اسی طرح نہدیہ اور ام عبیس دونوں کنیزیں تھیں اور اسلام لانے کے جرم میں سخت مصیبتیں جھیلتی رہیں۔ (سیرۃ النبی، ج ١ ص ٢٣٢) سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پر مظالم :۔ اگرچہ مسلمانوں پر مشرکین کے مظالم و شدائد کا اصل ہدف لونڈی غلام قسم کے لوگ تھے تاہم آزاد اور معزز مسلمانوں پر مظالم کی فہرست بھی خاصی طویل ہے۔ سب سے زیادہ مظالم تو انبیاء پر ہی ڈھائے جاتے ہیں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مظالم کا قصہ دوسرے کئی مقامات پر مذکور ہے۔ یہاں ہم صحابہ پر مظالم کے چند واقعات مختصراً ذکر کریں گے۔ ان میں سرفہرست تو سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو لیجئے۔ آپ کا جس قدر مکہ میں اثر و رسوخ تھا اس کا کچھ ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ آپ نے کئی مسلمان غلاموں اور لونڈیوں کو خرید کر انہیں مشرکین کے مظالم سے نجات دلائی تھی۔ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ، عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ (جو ہجرت نبوی کے موقعہ پر آپ کے ساتھ تھے) لبینہ، زنیرہ، نہدیہ اور ام عبیس رضی اللہ عنهن کو آپ نے مالکوں کی منہ مانگی قیمت دے کر آزاد کردیا تھا۔ اور ان ایام میں آپ کے آزاد کردہ لونڈی، غلاموں کی تعداد سترہ تک پہنچ گئی تھی لیکن ان کا اپنا یہ حال تھا کہ ایک دفعہ قریش نے آپ کو بری طرح مارا۔ عتبہ بن ربیعہ نے آپ کو دو پیوند لگے جوتوں سے اس قدر مارا کہ چہرہ اور ناک کا پتا نہیں چلتا تھا۔ ان کے قبیلے بنوتمیم کے لوگ انہیں کپڑے میں لپیٹ کر گھر لے گئے ان کا یہی خیال تھا کہ اب زندہ نہ بچیں گے۔ کچھ دیر بعد انہیں ہوش آیا تو پہلی بات جو آپ نے زبان سے نکالی یہ تھی کہ اللہ کے رسول کس حال میں ہیں؟ اور جب تک انہیں ان کی خیریت معلوم نہ ہوئی انہوں نے کھانے پینے سے بھی انکار کردیا اور اپنی ماں کو اس بات پر مجبور کردیا کہ جیسے بھی بن پڑے وہ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں لے چلے۔ چنانچہ ان کی ماں انہیں آپ کے پاس لے گئیں اور جب ان کو معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول بخیرو عافیت ہیں، تب جاکر انہوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ (البدایہ والنہایہ، ٣: ٣٠) قریش مکہ کی ایسی ہی سختیوں سے تنگ آکر آپ رضی اللہ عنہ بھی حبشہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے اور برک غماد تک جا بھی پہنچے تھے کہ قبیلہ قارہ کا سردار ابن دغنہ انہیں اپنی پناہ میں لے کر واپس مکہ لے آیا۔ (بخاری۔ کتاب احادیث الانبیاء۔ باب ہجرۃ النبی ) سیدنا عمر کا گھر میں محصور ہونا :۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جیسے بہادر شخص کا یہ حال تھا کہ جب مشرکوں میں ان کے ایمان کی خبر پھیل گئی تو انہوں نے آپ کے گھر کا محاصرہ کرلیا اور آپ کو اپنی جان کا خطرہ لاحق ہوگیا اور آپ اپنے ہی گھر میں محصور ہوگئے۔ آخر عاص بن وائل سہمی نے، جو آپ کے قبیلہ کا حلیف تھا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اپنی پناہ میں لے کر ہجوم کو منتشر کردیا۔ (بخاری، کتاب المناقب، باب اسلام عمر بن الخطاب) سیدنا عثمان غنی بن عفان رضی اللہ عنہ صاحب عزوجاہ تھے مگر جب اسلام لائے تو ان کے چچا نے انہیں باندھ کر مارا تھا۔ (طبقات ترجمہ عثمان بن عفان) سیدنا سعید بن زید بن عمرو بن نفیل سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے چچازاد بھائی بھی تھے اور بہنوئی بھی۔ بہن اور بہنوئی دونوں اسلام لے آئے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جو ان کے بہت بعد اسلام لائے، ان دونوں کو رسیوں سے باندھ کر مارا کرتے تھے۔ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب اسلام سعید بن زیدرضي الله عنه) دوسرے آزاد مسلمانوں پر اکفر کے مظالم :۔ سیدنا ابو ذرغفاری رضی اللہ عنہ نے اسلام لانے کے بعد کعبہ میں کلمہ شہادت پکارا تو اس جرم میں ان کی دو بار پٹائی ہوئی۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ انہیں مشرکوں سے چھڑاتے رہے ان کا قصہ تفصیل سے سورۃ انفال کے حاشیہ نمبر ٢٦ میں مذکور ہے۔ سیدنا زبیر بن عوام کا مسلمان ہونے والوں میں پانچواں نمبر تھا۔ جب اسلام لائے تو ان کے چچا ان کو چٹائی میں لپیٹ کر ان کی ناک میں دھواں دیتے تھے۔ (سیرۃ النبی، ج ١ ص ٢٣٥) سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اسلام لائے تو انکی ماں نے ان کا دانہ پانی بند کردیا اور گھر سے باہر نکال دیا۔ (رحمۃ للعالمین ١: ٥٨) سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اسلام لائے تو آپ نے ارادہ کیا کہ کعبہ میں جاکر قرآن کریم بلند آواز سے پڑھیں۔ لوگوں نے منع کیا۔ لیکن آپ رضی اللہ عنہ باز نہ آئے اور مقام ابراہیم کے پاس کھڑے ہو کر بلند آواز سے سورۃ الرحمن کی تلاوت شروع کردی۔ قریش رحمان کے لفظ سے ہی چڑ گئے۔ ہر طرف سے آپ پر پل پڑے اور آپ کے منہ پر طمانچے مارنا شروع کردئے۔ آپ مار کھاتے رہے لیکن جہاں تک پڑھنا چاہتے تھے پڑھ کر دم لیا۔ (طبری، ج ٣ ص ١١٨٨) حبشہ کی طرف ہجرت :۔ غرض کوئی بھی مسلمان خواہ وہ کیسے عزوجاہ کا مالک تھا، مشرکین مکہ کے جورو ستم سے محفوظ نہ رہ سکا۔ اس طرح جب مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا تو آپ نے انہیں حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ چنانچہ پہلی دفعہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی سر کردگی میں گیارہ مرد اور چار عورتوں نے ہجرت کی۔ عورتوں میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی بیوی یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی رقیہ رضی اللہ عنہا بھی موجود تھیں۔ اس موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بعد یہ پہلا جوڑا ہے جو اللہ کی راہ میں ہجرت کے لئے نکلا۔ (رحمۃ للعالمین، ج ٢ باب بنات النبی) ہجرت حبشہ کا ذکر سورۃ مائدہ کے حاشیہ نمبر ١٣٩ میں تفصیل سے مذکور ہے۔ ہجرت حبشہ کے بعد بھی کفار کے تشدد کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔ بلکہ کفار کی طرف سے تشدد اور مسلمانوں کی طرف سے صبر و برداشت اور ہاتھ نہ اٹھانے کا یہ مرحلہ پورے مکی دور میں یعنی تیرہ سال پر محیط ہے۔ جس میں مسلمانوں کو نماز اور زکوٰۃ کے ذریعہ اپنے نفوس کا تزکیہ کرنے، مصائب پر صبر کرنے، اپنے قائد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکمل طور پر اطاعت کرنے کی تربیت دی جارہی تھی۔ کئی مسلمانوں نے جان کا نذرانہ پیش کردیا مگر نہ زبان سے کسی کو برا بھلا کہا اور نہ ہاتھ اٹھائے۔ حالانکہ موت کے وقت تو آقائی اور غلامی کے سب امتیازات اٹھ جاتے ہیں اور مرنے والا یہ چاہتا ہے کہ اسے مرنا ہی ہے تو دو چار کو مار کر مرے۔ بلکہ بلی بھی جب عاجز ہوتی ہے تو شیر پر حملہ کردیتی ہے۔ یہ بس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت اور مسلمانوں کی طرف سے مکمل اطاعت کا ہی اثر تھا کہ اسلام کی انقلابی تحریک ناکام ہونے سے محفوظ رہی اور ترقی کے مراحل طے کرتی گئی۔ پھر جب مسلمانوں کو مدینہ میں آزاد فضا میسر ہوگئی تو ہاتھ اٹھانے کی اجازت بھی مل گئی۔[١٠٧] اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ بات کہنے والے معاذ اللہ منافق تھے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ہر قسم کے معاشرہ میں تمام لوگ ایک ہی جیسے جرأت والے نہیں ہوتے، کچھ ناتواں اور کم ہمت ہوتے ہیں اور پورے مومن ہونے کے باوجود ہر ایک کی استعداد الگ ہوتی ہے۔ کوئی کسی کام کے لیے زیادہ موزوں ہوتا ہے اور کوئی دوسرا کسی اور کام کے لیے۔ لہٰذا جن کمزور دل لوگوں نے یہ بات کہی تھی اللہ تعالیٰ نے ان کی ڈھارس بندھاتے ہوئے فرمایا کہ ایسے لوگوں کو بھی پامردی دکھانا چاہیے کیونکہ یہ دنیا کی زندگی اور اس کے مفادات تو چند روزہ ہیں لہٰذا انہیں آخرت پر نظر رکھنی چاہیے جو ہر لحاظ سے بہتر ہے اور اگر ان کا عمل تھوڑا بھی ہوا تب بھی انہیں اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ النسآء
78 [١٠٨] موت اپنے وقت پر ہی آئے گی اور آ کے رہے گی : یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا مسلمان تو درکنار کوئی کافر بھی انکار نہیں کرتا۔ یہاں اس حقیقت کے ذکر کا مقصود یہ ہے کہ اگر یہ کمزور دل مسلمان اس حقیقت کو ہر وقت سامنے رکھیں تو لڑائی سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ موت کا وقت بھی مقرر ہے اور جگہ بھی۔ لہٰذا اگر وہ تمہارا مقدر ہوچکی ہے تو گھر پر بھی یقیناً آ کے رہے گی اور اگر تمہاری زندگی ابھی باقی ہے تو پھر میدان جنگ میں بھی یقیناً موت نہیں آئے گی۔ اور بعض مفسرین کے نزدیک یہ خطاب منافقین کو ہے جو جنگ احد میں شکست دیکھ کر اپنے بھائی بندوں سے کہتے تھے کہ اگر تم ہماری بات مان لیتے تو تمہارے عزیز اس لڑائی میں نہ مارے جاتے۔ اور یہ قول اس لحاظ سے درست معلوم ہوتا ہے کہ اسی آیت میں آگے منافقوں سے ہی خطاب ہے۔ [١٠٩] مصیبت کو رسول کی طرف منسوب کرنے والے :۔ یہ خطاب منافقوں سے ہے جس میں ان کے ساتھی یہود بھی شامل تھے۔ اگر انہیں کوئی راحت اور سکون کے لمحات میسر آتے اور خوشی نصیب ہوتی جیسے غلہ کی ارزانی یا جنگ میں مال غنیمت ہاتھ آتا تو اسے تو اللہ کی طرف منسوب کرتے ہوئے کہتے کہ یہ اللہ کا فضل و کرم ہے اور اگر کوئی دکھ یا مصیبت پہنچے، تو پھر یہ الزام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر لگاتے اور کہتے کہ یہ آپ کی بے تدبیری یا غلط تدبیر کا نتیجہ ہے۔ جیسا کہ جنگ احد کے موقعہ پر شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ اور خود اپنے آپ کو ہر طرح سے بری الذمہ قرار دیتے۔ اگر منافق یوں سمجھتے کہ اگر فتح ہوتی ہے تو وہ بھی آپ کی حسن تدبیر سے آپ کے ذریعہ اور آپ کی برکت سے ہوتی ہے تب بھی بات کسی حد تک درست بن جاتی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ فائدہ ہو یا نقصان سب کچھ اللہ کی ہی طرف سے ہوتا ہے اور یہ مسلمانوں کے عقیدہ کا ایک اہم جزو ہے اور اس پر واضح دلیل یہی آیت ہے۔ نیز فرمایا ﴿ وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ ﴾ (37: 96) اللہ نے تمہیں بھی پیدا کیا ہے اور ان اعمال کو بھی جو تم کرتے ہو یعنی اگر فائدہ یا تکلیف کو اعمال ہی کا نتیجہ قرار دیا جائے تب بھی چونکہ تمہارے اعمال کا خالق اللہ تعالیٰ ہے لہٰذا نفع و نقصان بھی اللہ ہی کی طرف سے ہوا۔ النسآء
79 [١١٠] اب اسی عقیدہ تقدیر کا دوسرا رخ ملاحظہ فرمائیے۔ اللہ کی مشیت کے علاوہ انسان کو قوت ارادہ اور اختیار بھی دیا گیا ہے اور خیر و شر کی دونوں راہیں بھی بتا دی گئی ہیں۔ اسی لحاظ سے انسان کو اس کے اعمال کا بدلہ ملتا ہے۔ (اگر انسان اچھے اعمال کرے تو اسے اس کا اچھا بدلہ مل جائے تو یہ خالصتاً اللہ کا فضل و احسان ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انسان پر سابقہ احسانات ہی اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کے شکریہ کے طور پر وہ جتنی بھی اطاعت و عبادت کرے ان احسانات کا عوض نہیں بن سکتی۔ اب اگر اللہ تعالیٰ اس عبادت و اطاعت کی مزید جزا بھی عطا فرما دے تو اس لحاظ سے یہ محض اس کا فضل و احسان ہوا۔ اور نافرمانی اور گناہ کے کام کرے گا تو یہ اللہ تعالیٰ کے سابقہ احسانات کی انتہائی ناشکری ہوگی اور اسے اس کی سزا ضرور ملنی چاہیے۔ اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے درج ذیل آیت میں واضح طور پر بیان فرما دیا ہے : ﴿لَیِٕنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَیِٕنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ ﴾ (14: 7) اگر تم نے شکر ادا کیا، تو میں تمہیں اور بھی زیادہ دوں گا اور اگر تم نے ناشکری کی تو (یاد رکھو) میرا عذاب بڑا سخت ہے۔ اس لحاظ سے اگر انسان کو کوئی دکھ یا مصیبت آئے تو بسا اوقات اس کی اپنی اسی شامت اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے اور خوشی اور فائدے کی بات تو محض اللہ کا فضل و احسان ہوتا ہے۔ [١١١] سب لوگوں سے مراد صرف دور نبوی کے لوگ ہی نہیں بلکہ تاقیامت آپ تمام اقوام عالم کے لیے رسول ہیں جیسا کہ بعض دوسری آیات سے بھی واضح ہوتا ہے۔ اگر تمام لوگ تا قیامت آپ ہی کی رسالت کی بات تسلیم نہ کریں تو بھی اس حقیقت پر اللہ کی شہادت بہت کافی ہے۔ النسآء
80 [١١٢] اس لیے کہ اللہ کے احکام کی اطاعت کا عملی نمونہ اللہ کا رسول ہی پیش کرسکتا ہے اور اس کے احکام کی حکمت اور منشا کو اس کا رسول ہی سب سے بہتر سمجھ سکتا ہے لہٰذا رسول کی اتباع اور اس کی اطاعت اللہ ہی کی اطاعت ہوگی۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی شخص رسول کے احکام سے اعراض کرتا ہے تو جبر و اکراہ سے اطاعت کرانا رسول کی ذمہ داری نہیں ہے۔ النسآء
81 [١١٣] یعنی منافقین آپ کے سامنے تو آپ کی اطاعت کا دم بھرتے ہیں اور آپ کی اور مسلمانوں کی خیر خواہی کی باتیں بھی کرتے ہیں۔ لیکن ان کے خفیہ مشورے ان باتوں سے بالکل الگ نوعیت کے ہوتے ہیں اور ان کی سوچ اور انداز فکر ہی مختلف ہوتا ہے۔ وہ یہ سوچتے ہیں کہ ان مسلمانوں کو کیسے نقصان پہنچایا جا سکتا ہے تاکہ ان کی قوت کمزور ہو اور ان سے پیچھا چھڑایا جا سکے یا انہیں مدینہ ہی سے نکال دیا جائے اور اس غرض کے لیے یہود مدینہ سے مشورے اور گٹھ جوڑ کرتے رہتے ہیں۔ سو آپ ان کی ایسی ناپاک سازشوں کی مطلق پروا نہ کیجئے۔ فقط اللہ پر بھروسہ رکھیے۔ اللہ تعالیٰ خود ان سے نمٹ لے گا۔ النسآء
82 [١١٤] قرآن میں اختلاف نہ ہونا ہی منزل من اللہ ہونے کی دلیل ہے :۔ منافقوں کی جن باتوں پر انہیں تنبیہ کی گئی ہے ان کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہیں قرآن کے منزل من اللہ ہونے میں بھی شک تھا۔ اس آیت میں اس شک کو دور کرنے کی عقلی دلیل پیش کی گئی ہے جو یہ ہے، کہ انسان کی حالت یہ ہے کہ بچپن میں اس کی عقل ناپختہ ہوتی ہے۔ جوانی میں قدرے ترقی کر جاتی ہے اور پختہ عمر میں عقل بھی پختہ ہوجاتی ہے اور اس کے ان تینوں ادوار کے کلام میں نمایاں فرق ہوتا ہے۔ پھر زندگی بھر اس کے نظریات بدلتے رہتے ہیں۔ بچپن میں خیالات و نظریات اور طرح کے ہوتے ہیں، جوانی میں اور طرح کے اور بڑھاپے میں اور طرح کے۔ پھر انسان جس شہر یا ملک میں جاتا ہے تو وہاں کے معاشرتی ماحول کا اثر قبول کرلیتا ہے۔ پھر کبھی انسان غصہ کی حالت میں ہوتا ہے تو سب مخاطبوں کو دہشت زدہ بنا دیتا ہے۔ یہی افراط و تفریط کی کیفیت اس کے ہر قسم کے جذبات میں نمایاں طور پر پائی جاتی ہے۔ گویا اگر کسی بھی ایک انسان کے زندگی بھر کے کلام کا مجموعہ تیار کیا جائے تو اس میں سینکڑوں اختلافات اور تضادات آپ کو مل جائیں گے اس کے برعکس اب اللہ کے کلام پر نظر ڈالیے جو ٢٣ سال تک مختلف اوقات اور مختلف پس مناظر اور مختلف مواقع پر نازل ہوتا رہا۔ جو آخر میں ترتیب پا کر ایک مجموعہ بن گیا۔ اب دیکھیے ادبی لحاظ سے اس کی فصاحت و بلاغت میں کہیں کوئی فرق ہے؟ یا اس کے نظریات میں، اس کی اخلاقی اقدار کی تعیین میں کوئی اختلاف آپ دیکھتے ہیں؟ یا ایسی صورت ہے کہ مثلاً اگر یہود پر عتاب نازل ہوا ہو تو سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا گیا ہو۔ اور اس میں سے ان کے اچھے لوگوں کو مستثنیٰ نہ کیا گیا ہو۔ اور ان کی خوبیاں الگ بیان نہ کردی گئی ہوں؟ غرض جتنے بھی پہلو آپ سامنے لائیں گے آپ اسی نتیجہ پر پہنچیں گے کہ یہ انسان کا کلام نہیں ہوسکتا اور اس کو نازل کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہوسکتا ہے۔ سرسری نظر دیکھنے سے اگرچہ قرآن میں کچھ اختلافات نظر آتے ہیں لیکن اس کی وجہ عدم رسوخ یا قرآن کے جملہ مضامین پر پوری طرح مطلع نہ ہونا ہوتا ہے اور اس قسم کے اختلافات کا جواب بھی قرآن ہی سے مل جاتا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے ظاہر ہے : قرآن میں اختلاف معلوم ہو تو اس کی وجہ نافہمی ہے۔ سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں تو قرآن میں کئی اختلافات کی باتیں پاتا ہوں۔ مثلاً ١۔ ایک آیت میں ہے ﴿فَلَآ اَنْسَابَ بَیْنَہُمْ یَوْمَیِٕذٍ وَّلَا یَتَسَاۗءَلُوْنَ﴾ (قیامت کے دن ان میں کوئی رشتہ حائل نہ رہے گا اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے) اور دوسرے مقام پر ہے ﴿ وَاَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَّتَسَاۗءَلُوْنَ﴾ )ان میں سے کچھ ان کے سامنے آ کر ایک دوسرے سے سوال کریں گے) ٢۔ ایک آیت میں ہے ﴿وَلَا یَکْتُمُوْنَ اللّٰہَ حَدِیْثًا ﴾ (وہ اللہ سے کوئی بات چھپا نہ سکیں گے) اور دوسری آیت میں ہے کہ قیامت کے دن مشرکین کہیں گے ﴿وَاللّٰہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِیْنَ ﴾(اللہ کی قسم! ہم شرک نہیں کیا کرتے تھے) گویا وہ اصل بات چھپائیں گے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ فرمایا ﴿ ءَاَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَاۗءُ ۭ بَنٰیہَا .... دحٰها﴾ تک۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آسمان کی پیدائش زمین سے پہلے ہوئی اور سورۃ حٰم السجدہ میں فرمایا ﴿ قُلْ اَیِٕنَّکُمْ لَتَکْفُرُوْنَ بالَّذِیْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِیْ یَوْمَیْنِ وَتَجْعَلُوْنَ لَہٗٓ اَنْدَادًا ۭذٰلِکَ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ ﴾ اس سے یہ معلوم ہوا کہ زمین آسمان سے پہلے پیدا ہوئی۔ ٤۔ نیز فرمایا ﴿وَکَان اللّٰہُ غَفُوْراً رَّحِیْماً۔۔ عَزِیْزاً حَکِیْماً۔۔ سَمِیْعاً بَصِیْراً﴾ ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان صفات سے زمانہ ماضی میں موصوف تھا مگر اب نہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سوالوں کے جواب میں فرمایا : ١۔ ﴿فَلَآ اَنْسَابَ بَیْنَہُمْ﴾ میں اس وقت کا ذکر ہے جب پہلی دفعہ صور پھونکا جائے گا اور آسمان و زمین والے سب بے ہوش ہوجائیں گے اس وقت نہ کوئی رشتہ ناطہ رہے گا اور نہ ایک دوسرے سے کچھ بھی پوچھنے کا ہوش ہوگا۔ اور دوسری آیت میں جو ایک دوسرے سے سوال کرنے کا ذکر ہے یہ دوسرے نفخۂ صور کے بعد ہوگا۔ ٢۔ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ اخلاص والوں (موحدین) کے گناہ بخش دے گا تو مشرک آپس میں صلاح کریں گے کہ چلو ہم بھی جا کر کہہ دیتے ہیں کہ ’’ہم مشرک نہیں تھے‘‘ تو اللہ تعالیٰ ان کے منہ پر مہر لگا دے گا اور ان کے ہاتھ اور پاؤں بولنا شروع کردیں گے اور انہیں معلوم ہوجائے گا کہ اللہ سے کوئی بات چھپائی نہیں جا سکتی۔ یہی وہ وقت ہوگا کہ جب کافر یہ آرزو کریں گے کہ کاش وہ (دنیا میں) مسلمان ہوتے۔ ٣ آسمان اور زمین کی تخلیق میں ترتیب :۔ اللہ تعالیٰ نے (پہلے) زمین کو دو دن میں پیدا کیا۔ پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا تو اگلے دو دنوں میں ان کو (سات آسمان) بنایا۔ اس کے بعد زمین کو پھیلایا اور زمین کا پھیلانا یہ ہے کہ اس سے پانی نکالا، گھاس، چارہ پیدا کیا۔ پہاڑ، جانور اور ٹیلے وغیرہ اگلے دو دنوں میں بنائے۔ اس طرح زمین و آسمان کی پیدائش چھ دنوں میں مکمل ہوئی اور چار دن (دو ابتدائی، دو آخری) زمین کی پیدائش اور اسے سنوارنے میں لگے۔ ٤۔ 'کَانَ ' کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ صفات ازلی ہیں اور یہ سب اس کے نام ہیں یعنی وہ ہمیشہ سے ان صفات کا ملک ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ وہ جو چاہے وہ کرسکتا ہے۔۔ گویا اب کوئی اختلاف نہ رہا۔ اور ہو بھی کیسے سکتا ہے جبکہ یہ سارا قرآن اسی کی طرف سے نازل ہوا ہے (بخاری، کتاب التفسیر سورۃ حٰم السجدہ) النسآء
83 [١١٥] افواہوں کی تخلیق کا حکم :۔ غزوہ احد اور غزوہ خندق کا درمیانی دور مسلمانوں کے لیے ابتلا کا دور تھا جبکہ غزوہ احد میں ایک دفعہ مسلمانوں کی شکست کی وجہ سے یہودیوں، مشرکوں، قریش مکہ اور قبائل عرب، غرض سب اسلام دشمن طاقتوں کے حوصلے بڑھے ہوئے تھے اور مدینہ پر ہر طرف ایک ہنگامی قسم کی فضا چھائی ہوئی تھی اس صورتحال سے اسلام دشمن لوگ خوب فائدہ اٹھاتے اور کبھی تو مسلمانوں کو مرعوب اور دہشت زدہ بنانے کے لیے ایسی افواہیں پھیلا دیتے کہ فلاں مقام پر مسلمانوں کے خلاف بڑا بھاری لشکر جمع ہوچکا ہے اور عنقریب وہ مدینہ پر چڑھائی کرنے والا ہے۔ اور کبھی ایسا ہوتا کہ خطرہ کی بات فی الواقع موجود ہوتی لیکن غلط بیانی اور افواہوں کی بنا پر مسلمانوں کو غافل رکھا جاتا۔ اور یہ بات صرف منافقوں یا یہودیوں تک ہی محدود نہ تھی۔ یا اس کی وجہ محض اسلام دشمنی ہی نہ ہوتی تھی بلکہ بعض لوگ ازراہ دلچسپی ایسی افواہوں کے پھیلانے میں حصہ دار بن جاتے تھے۔ اسی سلسلہ میں مسلمانوں کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ وہ ایسی افواہوں میں ہرگز حصہ دار نہ بنیں بلکہ اگر کوئی افواہیں سن پائیں تو اسے حکام بالا تک پہنچا دیں تاکہ وہ صورتحال کی تحقیق کرسکیں۔ ربط مضمون کے لحاظ سے اگرچہ اس آیت کی وہی تشریح مناسب معلوم ہوتی ہے جو اوپر کردی گئی ہے۔ تاہم اس کا حکم عام ہے اور ہر موقعہ پر افواہوں کے بارے میں یہی رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس آیت کا شان نزول بالکل الگ بیان کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ لوگ مسجد نبوی کے صحن میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے اور جب میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جا کر اس کی تحقیق کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ آپ نے طلاق نہیں دی۔ یہ آیت اسی بارے میں نازل ہوئی۔ (مسلم، کتاب الطلاق۔ باب فی الایلاء) نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کی یہی دلیل کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے بیان کر دے‘‘ (مسلم، مقدمہ، باب النھی عن الحدیث بکل ماسمع ) [١١٦] یعنی اگر اللہ تعالیٰ تمہیں ایسی ہدایات وقت پر نہ دیتا تو تم افواہوں کی رو میں بہہ جاتے اور دینی اور دنیوی دونوں لحاظ سے نقصان اٹھاتے۔ ضمناً اس سے یہ معلوم ہوا کہ افواہوں کی تحقیق کیے بغیر انہیں آگے بیان کردینا شیطان کی اطاعت ہے جس سے طرح طرح کے فتنے رونما ہو سکتے ہیں۔ النسآء
84 [١١٧] یعنی اگر آپ ہر وقت اللہ کی راہ میں لڑنے کو تیار رہیں گے اور مسلمانوں کو بھی ترغیب دیتے رہیں گے تو مسلمان یقیناً آپ کے ساتھ مل کر جہاد پر کمر بستہ ہوجائیں گے۔ جس کا اثر یہ ہوگا کہ دشمن آپ کی حرکات اور سکنات دیکھ کر خود ہی لڑائی کے ارادہ سے رک جائے گا اور اگر ایسا نہ ہوا اور انہوں نے حملہ کی ٹھان لی تو اللہ ان سے نمٹنے پر قادر ہے اور انہیں خوب سزا دے سکتا ہے (جیسا کہ جنگ خندق میں فی الواقع ہوا تھا) بہرحال آپ کو جہاد کے لیے ہر وقت کمر بستہ رہنا چاہیے۔ النسآء
85 [١١٨] یہاں ربط مضمون کے لحاظ سے اچھی سفارش سے مراد یہ ہے کہ جو شخص مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دے گا اس کے جہاد میں اس کا بھی حصہ ہوگا اور جو منافق حوصلہ شکنی کرتے ہیں تو اس صورت میں ان کا بھی حصہ ہے تاہم اس کا حکم عام ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے ظاہر ہے : سفارش کرنے والے کا اجر :۔ سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کوئی سائل آتا یا آپ سے کسی چیز کا سوال کیا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے فرماتے ’’تم سفارش کرو اس کا تمہیں ثواب ملے گا اور اللہ جو چاہتا ہے اسے نبی کی زبان سے جاری کرا دیتا ہے یا فیصلہ کرا دیتا ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب التحریض علی الصدقۃ و الشفاعۃ فیہا۔۔۔ مسلم، کتاب البر والصلۃ والادب۔ باب استحباب الشفاعہ فیما لیس بحرام) اسی طرح اگر کوئی شخص چور کی سفارش کر کے اسے چھڑاتا ہے جو پھر چوریاں کرتا ہے تو سفارش کرنے والے کو بھی اس کے گناہ سے حصہ ملتا رہے گا۔ النسآء
86 [١١٩] جب کوئی شخص دوسرے کو سلام کہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کے حق میں اللہ تعالیٰ سے سلامتی کی دعا کرتا ہے۔ شرعی نقطہ نظر سے آپس میں سلام کہنا نہایت پسندیدہ عمل ہے کیونکہ اس سے اسلامی معاشرہ میں اخوت پیدا ہوتی ہے۔ چنانچہ اس بارے میں چند احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ''بہتر اسلام کونسا ہے؟'' آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’یہ کہ تم (دوسروں کو) کھانا کھلاؤ اور اسے بھی سلام کرو جسے تم جانتے ہو اور اسے بھی جسے تم نہیں جانتے‘‘ (بخاری، کتاب الایمان، باب اطعام الطعام من الاسلام۔ الاستیذان، باب السلام للمعرفۃ و غیر المعرفۃ) ٢۔ سلام کے آداب :۔ سیدنا عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا ''السلام علیکم'' تو آپ نے فرمایا ''دس'' (یعنی اس کے لیے دس نیکیاں ہیں) پھر ایک اور آدمی آیا اور اس نے کہا ''السلام علیکم و رحمۃ اللہ '' تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''بیس'' پھر ایک اور آدمی آیا اس نے کہا ''السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ'' آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''تیس'' (ترمذی۔ ابو اب الاستیذان، باب فضل السلام) ٣۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو ملے تو اسے سلام کہے۔ پھر اگر ان دونوں کے درمیان کوئی درخت، دیوار یا پتھر آ جائے۔ پھر اس سے ملاقات کرے تو پھر سلام کہے۔‘‘ (ابو داؤد، کتاب الادب۔ باب فی الرجل یفارق الرجل ثم یلقاہ ایسلم علیہ) ٤۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’چھوٹا بڑے کو سلام کرے، چلنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے۔ تھوڑے آدمی زیادہ کو سلام کریں۔ سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے اور چلنے والا کھڑے کو سلام کرے۔‘‘ (بخاری، کتاب الاستیذان باب تسلیم الصغیر علی الکبیر۔۔ مسلم، کتاب السلام، باب یسلم الراکب علی الماشی۔۔ ترمذی، ابو اب الاستیذان) ٥۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ چند یہودی آپ کے پاس آئے اور کہا ''السام علیک'' (تجھے موت آئے) میں سمجھ گئی وہ کیا کہہ رہے ہیں، تو میں نے کہا ''علیکم السام واللعنہ '' آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ٹھہرو عائشہ ! اللہ ہر کام میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ نے سنا نہیں وہ کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میں نے وعلیکم تو کہہ دیا تھا‘‘ (بخاری، کتاب الاستیذان، باب کیف الرد علی اھل الذمۃ السلام۔ مسلم، کتاب السلام، باب النہی عن ابتداء اہل الکتاب بالسلام و کیف یردعلیھم) ٦۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’لوگوں میں سے اللہ سے زیادہ قریب وہ ہے جو ان میں سے پہلے سلام کرتا ہے۔‘‘ (ابو داؤد، کتاب الادب، باب فضل من بدأ بالسلام) ٧۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب کوئی مجلس میں آئے تو سلام کہے اور جب جانے لگے تو بھی سلام کہے اور یہ دونوں سلام ایک ہی جیسے ضروری ہیں‘‘ (ابو داؤد، کتاب الادب۔ باب فی السلام اذاقام من المجلس) النسآء
87 [١٢٠] وہ سچی بات یہ ہے کہ قیامت یقیناً آ کے رہے گی۔ اس دن تمام قسم کے لوگ منافقین بھی، مشرکین بھی اور مسلمان بھی سب اللہ کے حضور اکٹھے کر کے لائے جائیں گے اور ان سب کا پورا پورا محاسبہ کیا جائے گا۔ نیز سچی بات یہ ہے کہ اسلام دشمن عناصر جتنی بھی کوششیں کرسکتے ہیں کر دیکھیں نہ وہ اسلام کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں نہ اللہ کے قانون کو بدل سکتے ہیں۔ النسآء
88 [١٢١] منافقوں کے بارے میں دو گروہ :۔ اس آیت کا شان نزول درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے : زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم احد کی طرف نکلے تو کچھ لوگ (منافقین) آپ کو چھوڑ کر مدینہ واپس آ گئے۔ ان واپس ہونے والوں کے بارے میں صحابہ کے دو گروہ ہوگئے۔ ایک کہتا تھا کہ ہم ان سے (بھی) لڑائی کریں گے اور دوسرا کہتا تھا کہ ہم ان سے لڑائی نہ کریں گے۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری، کتاب التفسیر، نیز کتاب المغازی، باب غزوہ احد۔۔ مسلم، کتاب صفۃ المنافقین) [١٢٢] یعنی ان منافقوں نے واپس جا کر اپنی منافقت کا ثبوت مہیا کردیا ہے۔ اب اگر تم یہ چاہو کہ ہمیں ان سے لڑائی نہ کرنی چاہیے شاید کہ وہ راہ راست پر آ جائیں تو یہ بات تمہارے بس میں نہیں۔ اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ ایسے منافقین واجب القتل ہیں کیونکہ حقیقتاً ان کے ارادے یہ ہیں کہ تمہیں بھی اپنے جیسا بنا کے چھوڑیں۔ النسآء
89 [١٢٣] مدینہ کے پاس کے منافقین ان کی اقسام :۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ منافقوں کی ایک قسم ایسی بھی تھی جو مدینہ کے اردگرد پھیلے ہوئے قبائل سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ لوگ مسلمانوں سے خیر خواہی اور محبت کا اظہار ضرور کرتے تھے مگر عملی طور پر اپنے ہم وطن کافروں کا ساتھ دیتے تھے یا دینے پر مجبور تھے ان کے لیے معیار یہ مقرر کیا گیا کہ اگر وہ ہجرت کر کے تمہارے پاس مدینہ آ جائیں اور تمہارے ساتھ شامل ہوجائیں تو اس صورت میں تم انہیں سچا بھی سمجھو اور اپنا ہمدرد بھی۔ اور اگر وہ اسلام کی خاطر اپنا گھر بار چھوڑنے کی قربانی دینے پر تیار نہیں حالانکہ وہ ایسا کرسکتے ہیں تو تم ان پر ہرگز اعتماد نہ کرو نہ انہیں اپنا دوست بناؤ اور نہ سمجھو اور اگر ایسے لوگ کافروں کے ساتھ تمہارے خلاف صف بستہ ہوجاتے ہیں تو انہیں قتل کرنے سے ہرگز دریغ نہ کرو۔ النسآء
90 [١٢٤] کن لوگوں سے جنگ جائز نہیں :۔ البتہ اس حکم قتل سے دو قسم کے لوگ مستثنیٰ ہیں۔ ایک وہ لوگ جو کسی ایسی قوم میں چلے جائیں جن سے تمہارا معاہدہ ہوچکا ہے کہ وہ اتنی مدت تک مسلمانوں سے جنگ نہ کریں گے تو ان کا تعاقب نہیں کیا جائے گا (جیسا کہ صلح حدیبیہ کے دوران کفار مکہ سے معاہدہ ہوا تھا) یا ایسے منافق بھی مستثنیٰ ہیں جو فی الحقیقت غیر جانبدار رہنا چاہتے ہیں۔ نہ وہ اپنی قوم سے تمہارے ساتھ مل کر لڑنا چاہتے ہیں اور نہ ان کے ساتھ مل کر تم سے لڑنا چاہتے ہیں۔ خواہ وہ اپنی قوم کے ساتھ مل کر آ ہی گئے ہوں۔ مگر مسلمانوں کے خلاف لڑنے سے دل میں تنگی محسوس کر رہے ہوں جیسے میدان بدر میں مشرکین کے ساتھ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اور بنی ہاشم کے کئی لوگ آ تو گئے تھے مگر لڑائی کے وقت علیحدہ رہے۔ [١٢٥] یعنی اگر ایسے لوگ مسلمانوں کے ساتھ لڑنے سے دل برداشتہ نہ ہوتے اور کفار کا ساتھ دے کر ان کی قوت بڑھاتے تو ممکن ہے یہی لوگ تم پر غالب آ جاتے۔ لہٰذا جو منافقین یا دوسرے لوگ امن پسند ہیں لڑائی سے گریز کرتے ہیں۔ تمہاری راہ میں حائل بھی نہیں ہوتے یا صلح کرنے پر آمادہ ہیں تو ایسے لوگوں سے تمہیں تعرض نہ کرنا چاہیے۔ النسآء
91 [١٢٦] بدترین منافق :۔ ایسے منافق بدترین قسم کے منافق ہیں جو ڈھنڈورا تو اپنی امن پسندی کا پیٹیں اور جب داؤ لگ جائے تو اسلام دشمنی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں۔ ان کی امن پسندی کی تین ہی صورتیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ مسلمانوں سے صلح کرلیں۔ دوسرے یہ کہ لشکر کفار میں شامل نہ ہوں۔ اور تیسرے یہ کہ اگر انہیں مجبوراً شامل ہونا ہی پڑے تو پھر اپنے ہاتھ روکے رکھیں یعنی عملاً لڑائی میں شامل نہ ہوں۔ اور اگر یہ تینوں باتیں نہ پائی جائیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کی نیت میں فتور ہے اور وہ امن پسندی کی آڑ میں دھوکہ دے کر مسلمانوں سے انتقام لینا چاہتے ہیں لہٰذا ایسے منافقوں کا علاج یہ ہے کہ جب بھی موقع ملے سب سے پہلے انہیں قتل کر کے ختم کرو۔ دوسرے کافروں سے جنگ بعد میں کرو۔ النسآء
92 [١٢٧] قتل خطا کی صورتیں اور کفارہ :۔ اس آیت میں قتل خطا کے احکام بیان ہوئے ہیں۔ قتل خطا کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں مثلاً تیر یا پتھر مارا تو شکار کو تھا لیکن وہ کسی مسلمان کو لگ گیا اور وہ مر گیا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ماری تو کوئی چیز عمداً ہی تھی مگر مارنے والے کو ہرگز یہ گمان نہ تھا کہ وہ اس ہلکی سی ضرب سے مر ہی جائے گا۔ تیسری یہ کہ لڑائی وغیرہ کسی ہنگامے میں کسی مسلمان کو کافر سمجھ کر مار ڈالے۔ جیسا کہ جنگ احد میں شکست کے بعد مسلمانوں نے بدحواسی کے عالم میں سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کے والد سیدنا یمان رضی اللہ عنہ کو کافر سمجھ کر مار ڈالا تھا۔ حالانکہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ یہ کہتے ہی رہے کہ یہ تو میرے والد ہیں مگر اس افراتفری کے عالم میں کسی نے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کی آواز کو سنا ہی نہ تھا۔ اور چوتھی صورت جو آج کل بہت عام ہے، یہ کہ ٹریفک کے حادثہ میں کسی گاڑی کے نیچے آ کر، یا اس کی ضرب سے مارا جائے۔۔ قتل خطا کے احکام یا اس کے کفارہ کی صورتیں یہ ہیں : ١۔ اگر مقتول کے وارث مسلمان ہیں تو ایک غلام مومن (خواہ مرد ہو یا عورت) آزاد کرنا ہوگا اور مقتول کے وارثوں کو خون بہا بھی ادا کرنا ہوگا۔ خون بہا یا دیت سو اونٹ یا ان کی قیمت کے برابر رقم ہے۔ جو قاتل کے وارث مقتول کے وارثوں کو ادا کریں گے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ادائیگی دیت کی زیادہ سے زیادہ مدت تین سال تک ہے اور یہ دیت مقتول کے وارث چاہیں تو معاف بھی کرسکتے ہیں۔ اور اگر قاتل کو (آزاد کرنے کے لیے) غلام میسر نہ آئے تو وہ متواتر دو ماہ روزے بھی رکھے گا۔ واضح رہے کہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کے والد جنگ احد میں اجتماعی صورت میں کئی مسلمانوں کے ہاتھوں شہید ہوئے جنہیں سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے علی الاعلان معاف کردیا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اہل احد کی خطائیں معاف کردی تھیں لہٰذا وہاں کفارے کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ ٢۔ اگر مقتول تو مومن ہو مگر دشمن قوم سے تعلق رکھتا ہو تو اس کا کفارہ صرف ایک مسلمان غلام آزاد کرنا ہے۔ اور اگر میسر نہ آئے تو دو ماہ کے متواتر روزے ہیں اور اس کی دیت نہ ہوگی۔ ٣۔ اور اگر مومن مقتول کا تعلق کسی معاہد قوم سے ہو تو اس کے وہی احکام ہیں جو پہلی صورت کے ہیں۔ النسآء
93 [١٢٨] قتل خطا کے کفارے کی مختلف صورتیں اور توبہ کا طریقہ تو بیان کردیا گیا مگر کسی مومن کا قتل عمدً انتہائی شدید جرم ہے جس کا اس دنیا میں کفارہ ممکن ہی نہیں۔ قتل ناحق کسی غیر مسلم کا ہو تو وہ بھی شدید جرم ہے پھر اگر مومن کا ہو تو مزید شدید جرم بن جاتا ہے۔ نیز جرم بیان کرنے کے بعد اللہ کا غضب اور اس کی لعنت کے الفاظ سے اس جرم کی شدت واضح ہوجاتی ہے۔ رہا یہ سوال کہ ایسے مجرم کی توبہ بھی قبول ہے یا نہیں؟ تو اگرچہ اس میں علماء کا اختلاف موجود ہے تاہم سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اسی بات کے قائل ہیں کہ ایسے مجرم کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے جہاں یہ بات واضح ہوتی ہے وہاں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتنا بڑا جرم ہے۔ ١۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنے خطبہ حجۃ الوداع) میں فرمایا ’’اللہ نے تم پر ایک دوسرے کے خون، مال اور آبرو اسی طرح حرام کردی ہیں جس طرح تمہارے اس دن (یوم النحر) کی تمہارے اس شہر (مکہ) کی اور تمہارے اس مہینہ (ذوالحجہ) کی حرمت ہے۔‘‘ نیز فرمایا کہ ’’میرے بعد ایک دوسرے کی گردنیں مار کر کافر نہ بن جانا۔‘‘ (بخاری، کتاب الحدود۔ باب ظہر المومن حمی الافی حد او فی حق) ٢۔ قتل ناحق اور قتل عمد :۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’جب دو مسلمان تلوار لے کر باہم لڑیں تو قاتل و مقتول دونوں جہنمی ہیں۔‘‘ میں نے کہا ’’اے اللہ کے رسول ! یہ تو قاتل تھا، مقتول کا کیا قصور‘‘فرمایا ’’اس لیے کہ وہ بھی اپنے ساتھی کے قتل کے درپے تھا۔‘‘ (بخاری، کتاب الدیات۔ باب قول اللہ و من احیاھا ) ٣۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تین آدمیوں پر اللہ (قیامت کے دن) سب سے زیادہ غضب ناک ہوگا۔ (١) حرم میں الحاد کرنے والا، (٢) اسلام میں طریقہ جاہلیت کا متلاشی اور (٣) ناحق کسی کا خون بہانے کا طالب۔‘‘ (بخاری، کتاب الدیات۔ باب من طلب دم امری بغیر حق) ٤۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’قیامت کے دن قاتل کی پیشانی کے بال اور سر مقتول کے ہاتھ میں ہوگا اور اس کے گلے کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا اور اللہ سے فریاد کرے گا کہ اے میرے رب! اس نے مجھے قتل کیا تھا یہاں تک کہ عرش کے قریب لے جائے گا۔ راوی کہتا ہے کہ لوگوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے سامنے توبہ کا ذکر کیا تو انہوں نے یہی آیت پڑھی اور کہا کہ یہ آیت نہ منسوخ ہے اور نہ بدلی گئی۔ پھر اس کی توبہ کیسے قبول ہو سکتی ہے؟‘‘ (ترمذی، ابو اب التفسیر) ٥۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ یہ آیت اخیر زمانہ میں نازل ہوئی (لہٰذا محکم ہے) اسے کسی چیز نے منسوخ نہیں کیا۔ (بخاری، کتاب التفسیر) النسآء
94 [١٢٩] جنگ کے دوران قتل خطا : ابتدائے اسلام میں ''السلام علیکم'' کا لفظ مسلمانوں کے لیے شعار اور فریقین کے مسلمان ہونے کی علامت سمجھا جاتا تھا کیونکہ اس دور میں عرب کے نو مسلموں اور کافروں کے درمیان لباس، زبان یا کسی دوسری چیز میں نمایاں امتیاز نہ تھا جس کی بنا پر ایک مسلمان سرسری طور پر دوسرے مسلمان کو پہچان سکتا ہو لیکن کافروں سے لڑائی کے دوران یہ پیچیدگی پیش آ جاتی کہ جس قوم پر مسلمان حملہ آور ہوتے ان میں سے کوئی شخص السلام علیکم یا لا الہ الا اللہ کہنے لگتا جس سے مسلمانوں کو یہ مغالطہ ہوتا کہ وہ حقیقتاً مسلمان نہیں بلکہ محض اپنی جان بچانے کے لیے یہ کلمہ زبان سے ادا کر رہا ہے تو وہ اپنے اسی گمان کی بنا پر اسے قتل کردیتے اور اس کا مال لوٹ لیتے۔ چنانچہ درج ذیل احادیث میں اسی قسم کے دو واقعات کا ذکر ہے : ١۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص تھوڑی سی بکریاں لیے ہوئے مسلمانوں کو ملا اور السلام علیکم کہا۔ مسلمانوں نے اسے (بہانہ خور سمجھ کر) مار ڈالا۔ اور اس کی بکریاں لے لیں (اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کیا) اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔ (بخاری، کتاب التفسیر) ٢۔ جنگ کے دوران کلمہ اسلام کہنے والے کافر کا قتل جرم عظیم ہے :۔ سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حرقات (قبیلہ جہینہ) کی طرف بھیجا۔ ہم نے علی الصبح ان پر حملہ کیا اور انہیں شکست دی۔ اور میں اور ایک انصاری ان کے ایک آدمی سے ملے اور جب ہم نے اس پر قابو پا لیا تو اس نے لا الـٰہ الا اللہ کہا۔ اب انصاری تو اس سے رک گیا مگر میں نے نیزہ چلا دیا حتیٰ کہ وہ مر گیا۔ جب ہم واپس آئے تو یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کہا ’’اسامہ! کیا تو نے لا الہ الا اللہ کہنے کے بعد اسے قتل کیا ؟‘‘ میں نے کہا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اس نے پناہ چاہنے کے لیے یہ کہا تھا‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا ’’کیا تو نے اسے لا الہ الا اللہ کہنے کے بعد قتل کیا ؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ الفاظ کئی بار دہراتے رہے حتیٰ کہ میں نے خواہش کی کہ میں آج سے پہلے اسلام ہی نہ لایا ہوتا۔ (بخاری، کتاب الدیات۔ باب قول اللہ ومن احیاھا) ٣۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے (بنی ہدبہ کی جنگ میں) کافروں کو مارنا شروع کیا (حالانکہ وہ کہتے جاتے تھے کہ ہم نے دین بدلا ہم نے دین بدلا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب یہ حال سنا تو فرمایا ’’یا اللہ ! میں خالد کے کام سے بیزار ہوں۔‘‘ (بخاری، کتاب الجہاد، باب اذا قالوا صبانا ولم یحسنوا اسلمنا) اور بعض روایات میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعد میں ایسے مقتولوں کی دیت بھی بیت المال سے ادا کردی تھی۔ اور بعض دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ’’کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا کہ وہ محض اپنی جان بچانے کی خاطر لا الہ الا اللہ کہہ رہا ہے۔‘‘ ٤۔ مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! بھلا دیکھیے اگر میں کسی کافر سے لڑائی کروں اور وہ مجھ سے لڑائی کرے اور اپنی تلوار سے میرا ایک ہاتھ کاٹ دے پھر مجھ سے بچ کر ایک درخت میں چلا جائے اور کہنے لگے میں اللہ کے لیے اسلام لایا تو اس کے یہ کہنے کے بعد میں اسے قتل کرسکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! اسے مت قتل کر۔ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اس نے میرا ہاتھ کاٹنے کے بعد ایسا کہا تھا۔ پھر بھی میں اسے قتل نہ کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اسے مت قتل کر اگرچہ تجھے اس سے تکلیف پہنچی۔ ورنہ وہ اس مقام پر آ جائے گا جو تیرے قتل کرنے سے پہلے تیرا مقام تھا (یعنی وہ ظالم تھا اور تم حق پر تھے) اور اگر تو نے کلمہ اسلام کہنے کے بعد اسے قتل کیا تو تم اس کے مقام پر آ جاؤ گے (یعنی تم ظالم اور وہ مظلوم ہوگا) (مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب تحریم قتل الکافر بعد قول لا الہ الا اللہ ) اس حدیث سے ضمناً یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شریعت کے احکام ظاہر کے مطابق جاری ہوتے ہیں اور باطن کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے۔ چونکہ ایسا گمان شرعی نقطہ نظر سے غلط ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے واقعہ کی پوری طرح چھان بین کا حکم دیا۔ تحقیق کے بغیر چھوڑ دینے میں اگر یہ امکان ہے کہ ایک کافر جھوٹ بول کر اپنی جان بچا لے تو قتل کرنے میں اس کا بھی امکان ہے کہ ایک بے گناہ مومن تمہارے ہاتھ سے مارا جائے اور تمہارا ایک کافر کو چھوڑ دینے میں غلطی کرنا اس سے بدرجہا بہتر ہے کہ تم ایک مومن کو قتل کرنے میں غلطی کرو۔ واضح رہے کہ آیت نمبر ٩٢ میں اللہ تعالیٰ نے کسی مومن کے قتل خطا کے احوال و ظروف کے لحاظ سے تین صورتیں اور ان کے کفارے کا یوں بیان فرمایا : ١۔ مسلمان مقتول مسلمانوں ہی میں موجود ہو۔ اس کا کفارہ مسلمان غلام آزاد کرنا ہے اور دیت بھی۔ غلام نہ ملنے کی صورت میں متواتر دو ماہ کے روزے۔ ٢۔ مسلمان مقتول جو غیر مسلموں میں رہتا ہو۔ اس کا کفارہ صرف مسلمان غلام آزاد کرنا یا متبادل صورت میں روزے رکھنا ہے اس کے وارثوں کو دیت نہیں دی جائے گی اس لیے کہ اس سے اسلام کے دشمنوں کو ہی فائدہ پہنچے گا۔ ٣۔ اور اگر مسلمان مقتول ایسے غیر مسلموں سے ہو جن کے درمیان معاہدہ امن ہوچکا ہو تو اس کا کفارہ وہی ہوگا جو نمبر (١) کی صورت میں ہے۔ اب دیکھئے ان تینوں صورتوں میں مسلمان غلام آزاد کرنا لازم قرار دیا گیا ہے وہ اس لیے کہ جس طرح اس نے بے احتیاطی سے ایک مسلمان کو مار ڈالا ہے تو اس کے کفارہ میں مسلمان غلام آزاد کرنے کا مطلب یہ ہوا، کہ مسلمان غلام کو آزاد کردینا گویا ایک مسلمان کو زندہ کردینے کے مترادف ہے کیونکہ غلامی انسان کی صفت ملکیت اور آزادی کو، جسے اللہ نے انسان کی فطرت میں رکھا ہے اور یہی اس کی زندگی کا مقتضٰی ہے، زائل کرتی ہے اور اس کفارہ میں نوع انسان پر احسان بھی ہے۔ دوسری قابل وضاحت بات یہ ہے کہ قتل کی کل پانچ قسمیں ہیں : ١۔ قتل کی پانچ اقسام :۔ مسلمان کا قتل عمد۔ اس کی اخروی سزا یہاں مذکور ہوئی ہے اور دنیا میں اس کی سزا قصاص ہے یا اس کے متبادل دیت اور مقتول کے وارثوں کی طرف سے معافی وغیرہ جس کا ذکر سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ١٧٨، ١٧٩ کے حواشی نمبر ٢٢٢ تا ٢٢٥ میں تفصیل سے گزر چکا ہے۔ ٢۔ قتل خطا جبکہ خطا سمجھنے میں ہو جیسے کسی کو کافر سمجھ کر مار ڈالے جس کا بیان اوپر گزر چکا ہے۔ ٣۔ قتل خطا جبکہ خطا فعل میں ہو جیسے گولی یا تیر مارا تو کسی شکار کو تھا اور وہ لگ جائے کسی مسلمان کو جس سے اس کی موت واقع ہوجائے۔ ٤۔ قتل خطا جبکہ خطا اتفاقاً واقع ہوجائے جیسے کوئی آدمی گاڑی کے نیچے آ کر مر جائے۔ ٥۔ قتل شبہ عمد۔ یعنی کسی شخص کی ایسی چیز سے موت واقع ہوجائے جس سے عموماً موت واقع نہ ہوتی ہو جیسے کسی کو مکا یا چھڑی ماری جائے جس سے وہ مر جائے۔ ان پانچ صورتوں میں پہلی صورت کے سوا باقی سب قتل خطا کے ضمن میں آتی ہیں اور ان میں قصاص نہیں دیت ہوتی ہے جو قاتل کے ان رشتہ داروں پر پڑتی ہے جو اس کے نفع و نقصان میں شریک ہوتے اور جنہیں عاقلہ کہتے ہیں اور دیت کی ادائیگی کی زیادہ سے زیادہ مدت تین سال تک ہے۔ [١٣٠] قتل اور دوسرے جرائم کی تحقیق ضروری ہے خواہ سفر ہو یا حضر :۔ اس آیت میں تحقیق کا حکم سفر کے ساتھ اس لیے متعلق کیا گیا ہے کہ ایسا واقعہ سفر جہاد میں ہوا تھا ورنہ تحقیق کا حکم حضر میں بھی ایسے ہی ہے جیسے سفر میں۔ تحقیق کے بغیر کسی السلام علیکم کہنے والے کو جلدی سے قتل کردینے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ کچھ لوٹ کا مال بھی ہاتھ لگ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہارے لیے بہت سے ایسے مواقع پیش آنے والے ہیں جن سے اموال غنیمت تمہیں بکثرت حاصل ہوں گے لہٰذا لوٹ مار کی ہوس کی بنا پر ایسے کام ہرگز نہ کرو۔ [١٣١] ایک وقت وہ بھی تھا جب تم خود بھی کفار کے تشدد کی وجہ سے اپنے ایمان کو چھپایا کرتے تھے اور اپنا ایمان کسی دوسرے مسلمان پر صرف السلام علیکم کہہ کر ہی ظاہر کیا کرتے تھے اب اگر اللہ کی مہربانی سے تمہیں اسلامی ریاست میسر آ گئی ہے اور تم اسلامی شعائر بجا لانے میں آزاد ہو تو کم از کم تمہیں ایسے لوگوں کا ضرور احساس کرنا چاہیے جو تمہارے والی ہی سابقہ منزل سے گزر رہے ہیں۔ لہٰذا ایسے موقع پر تحقیق انتہائی ضروری ہے۔ النسآء
95 [١٣٢] اس آیت کے شان نزول کے بارے میں درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے : براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت ﴿ لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾اتری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو بلایا انہوں نے یہ آیت لکھی۔ اتنے میں ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ آئے اور شکوہ کیا کہ میں تو اندھا ہوں (میرا کیا قصور؟) اس وقت اللہ تعالیٰ نے غیر اولی الضرر کے الفاظ نازل فرمائے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) گویا اللہ تعالیٰ نے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ بن ام مکتوم کے عذر کو قبول فرما لیا لیکن اس رخصت کے باوجود آپ کا جذبہ جہاد اتنا بلند تھا کہ نابینا ہونے کے باوجود آپ مشقت اٹھا کر بھی کئی غزوات میں شریک ہوئے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو مسلمان جنگ بدر میں شریک ہوئے اور جو نہیں ہوئے یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔ (حوالہ ایضاً) جہاد فرض عین نہیں :۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ جہاد فرض عین نہیں اور اس کے کئی پہلو ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ معاشرہ میں کئی افراد بوڑھے، ناتواں، کمزور، اندھے، لنگڑے، لولھے، بیمار وغیرہ ہوتے ہیں جو جہاد پر جا ہی نہیں سکتے۔ جیسا کہ حدیث بالا سے ظاہر ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ کچھ لوگ ملک کے اندرونی دفاع، مجاہدوں کے گھروں کی حفاظت، ان کے اہل و عیال کی دیکھ بھال کے لیے بھی ضرور پیچھے رہنے چاہئیں۔ اور اس لیے بھی کہ مجاہدین کو بروقت کمک مہیا کرتے رہیں، خواہ یہ رسد اور سامان خورد و نوش سے متعلق ہو یا افرادی قوت سے۔ پھر کچھ لوگ زخمیوں کی دیکھ بھال کے لیے بھی ضروری ہوتے ہیں اور ایسے سب لوگ بھی درجہ بدرجہ جہاد میں شامل سمجھے جاتے ہیں۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : جہاد سے معذور لوگ :۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ تبوک سے واپس ہوئے اور مدینہ کے قریب پہنچے تو فرمایا ’’مدینہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ جب تم کوئی سفر کرتے ہو یا کوئی وادی طے کرتے ہو تو وہ تمہارے ساتھ ہوتے ہیں‘‘ صحابہ کرام نے پوچھا ’’باوجود اس کے کہ وہ مدینہ میں ہوتے ہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ہاں! یہ وہ لوگ ہیں جنہیں کسی عذر نے روک لیا ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب المغازی۔ باب غزوہ تبوک۔۔ مسلم۔ کتاب الامارۃ، باب ثواب من حبسہ عن الغزو مرض او عذر آخر) اور جہاد کے فرض عین نہ ہونے پر یہ آیت بھی دلالت کرتی ہے ﴿ وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَاۗفَّۃً ﴾ (9: 122)(مومنوں کے لیے ممکن ہی نہیں کہ سب کے سب نکل کھڑے ہوں) اور آج کل تو حکومتوں نے محکمہ دفاع ہی الگ بنا رکھا ہے۔ البتہ اگر ایک اسلامی حکومت جہاد کا اعلان کر کے عام لوگوں کو جہاد کے لیے کہے تو اس صورت میں عام لوگوں پر بھی جہاد فرض ہوجائے گا لیکن پھر بھی یہ فرض کفایہ ہی ہوگا۔ فرض عین نہیں ہوگا۔ تاہم جہاد ایک اہم فرض کفایہ ہے جس سے غفلت کا نتیجہ قوم کی موت کی صورت میں نکلتا ہے اور یہ تاقیامت جاری رہے گا۔ مجاہدین کے درجے :۔ دوسری بات جو اس آیت سے معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرنے والوں کے ہی دوسروں کی بہ نسبت درجات بلند ہوتے ہیں اور وہی اجر عظیم کے مستحق ہوتے ہیں۔ کیونکہ جان اور مال سے ہی انسان کو سب سے زیادہ محبت ہوتی ہے پھر جس نے اللہ کی راہ میں ان دونوں چیزوں کی قربانی دے دی اس سے بڑھ کر کس کا درجہ ہوسکتا ہے۔ چنانچہ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا ’’لوگوں میں سب سے افضل کون ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو اللہ کی راہ میں اپنی جان اور مال سے جہاد کرے۔‘‘ (بخاری، کتاب الجہاد۔ باب افضل الناس مومن یجاہد بنفسہ ومالہ) اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جنت میں سو درجے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے مجاہدین فی سبیل اللہ کے لیے تیار کیا ہے اور ہر درجہ کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان کے درمیان ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب الجہاد، باب درجات المجاہدین فی سبیل اللہ ) صوفیاء کا جہاد اصغر اور جہاد اکبر کا نظریہ :۔ اس مقام پر ایک عوامی عقیدہ کا جائزہ لینا ضروری معلوم ہوتا ہے جس کا صوفیہ کے طبقہ نے ریاضت و مجاہدہ کی فضیلت ثابت کرنے کے لیے خوب خوب پرچار کیا ہے اور وہ عقیدہ یہ ہے کہ جہاد بالسیف جہاد اصغر ہے اور نفس سے جہاد کرنا جہاد اکبر ہے اور جہاد اصغر سے جہاد اکبر بہتر ہے۔ اس سلسلہ میں اس حدیث کا سہارا لیا جاتا ہے والْمُجَاھِدُ مَنْ جَاھَدَ نَفْسَہُ فِیْ طَاعَۃِ اللّٰہِ مجاہد وہ ہے جو اللہ کی اطاعت میں اپنے نفس سے جہاد کرے۔ اس حدیث میں فی طاعۃ اللہ کے الفاظ اس گمان باطل کو رد کرنے کے لیے کافی ہیں۔ کیونکہ ان کے ریاضت و مجاہدہ میں بے شمار ایسی چیزیں ہیں جو صریحاً کتاب و سنت کے خلاف ہیں مثلاً ترک نکاح، چلے کاٹنا اور اپنے جسم کی تعذیب اور اسے مختلف طریقوں سے مضمحل کر کے کمزور بنانا وغیرہ اور حقیقت یہ ہے کہ ان کے ایسے کام مجاہدہ نفس نہیں بلکہ نفس کشی ہوتی ہے اور فی طاعۃ اللہ کے بجائے فی معصیۃ اللہ ہوتی ہے اور اللہ کی اطاعت اور اسلامی نقطہ نگاہ سے ان چیزوں کا دور کا بھی تعلق نہیں۔ یہ حدیث بیہقی نے شعب الایمان میں فضالہ سے روایت کی ہے کہ جس کے پورے الفاظ یہ ہیں ’’اور مجاہد وہ ہے جس نے اللہ کی اطاعت میں اپنے نفس سے جہاد کیا اور مہاجر وہ ہے جس نے چھوٹے اور بڑے گناہوں کو چھوڑا۔‘‘ ظاہر ہے کہ اس حدیث میں جہاد اور ہجرت کے اس پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے جس طرف ذہن عموماً منتقل نہیں ہوتا۔ بتایا یہ گیا ہے کہ جہاد اور ہجرت کا ایک پہلو یہ بھی ہے۔ ورنہ جس طرح ہجرت وہی ہے جو مسلمانوں نے فتح مکہ سے پہلے کی ہے یا ایسے حالات میں مسلمان اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے کریں۔ اسی طرح جہاد حقیقتاً وہی ہے جسے جہاد بالسیف کہا جاتا ہے اور ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس آیت میں صوفیاء کے اس نظریہ کی پرزور تردید موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دوبارہ فرمایا کہ جو لوگ اپنی جانوں اور اپنے اموال سے اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں وہ بیٹھنے والوں سے افضل ہیں اور یہ تو ظاہر ہے کہ نفس سے خواہ کوئی کس انداز سے مجاہدہ کرے وہ بیٹھنے والوں میں ہی شامل رہے گا۔ مجاہدین فی سبیل اللہ میں شامل نہیں ہو سکتا۔ علاوہ ازیں ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہی بات صراحت سے ثابت ہوتی ہے کہ جہاد کو آپ نے افضل الاعمال قرار دیا ہے۔ صوفیاء نے اپنے اس نظریہ کو درست ثابت کرنے کے لیے ایک موضوع حدیث بھی گھڑ رکھی ہے جو یہ ہے کہ آپ نے ایک دفعہ جہاد سے واپسی پر فرمایا کہ رجعنا من الجھاد الا صغر الی الجھاد الاکبر ہم چھوٹے جہاد (یعنی جہاد بالسیف) سے بڑے جہاد (یعنی جہاد بالنفس) کی طرف لوٹ آئے ہیں۔ اس حدیث کے متعلق مولانا حسین احمد مدنی کہتے ہیں کہ صوفیاء اس کو حدیث کہتے ہیں لیکن امام عسقلانی کہتے ہیں کہ امام نسائی نے اسے ابراہیم بن عیلہ کا قول بتایا ہے۔ الفاظ کی رکاکت زبردست قرینہ ہے کہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول نہیں ہوسکتا اور نہ حدیث کی کتابوں میں شاہ عبدالعزیز جیسے معتبر محدث نے دیکھا ہے۔ ایسی احادیث کا فیصلہ محدثین کے اصول و قواعد کی رو سے کیا جائے گا بیچارے صوفیاء جن پر حسن ظن کا غلبہ رہتا ہے۔ ان حضرات کو تنقید و تفتیش کی فرصت کہاں؟ ان کے حسن ظن سے کسی قول کا حدیث رسول ہونا تو ثابت نہیں ہوجائے گا۔ (مکتوبات شیخ الاسلام ٣٠٧۔ ٣٠٨ بحوالہ اسلامی تصوف یوسف سلیم چشتی ١٢٣) صوفیہ کے اس نظریہ نے مسلمانوں کو جتنا نقصان پہنچایا شاید ہی کسی اور وجہ سے پہنچا ہو اس نظریہ نے مسلمانوں سے جہاد کی روح کو ختم کر کے دنیا میں ذلیل اور رسوا بنا دیا اور ایسے افعال سے مجاہدہ نفس شروع کیا جس سے انسانیت کو بھی شرم آنے لگے۔ دسویں صدی ہجری کے اواخر تک اس نظریہ نے مسلمانوں کو اس قدر مفلوج، کاہل اور بے فہم بنا دیا تھا کہ فرانسیسی فاتحین کے حملوں کا دفاع جامعہ ازہر میں بیٹھ کر اور اراد و وظائف کے ذریعے کر رہے تھے۔ نابلیوں کا انتخاب کر کے انہیں صوفیاء کی گودڑی پہنائی گئی اور اس کی رہنمائی میں ذکر و فکر کی مجالس قائم کی گئیں۔ بخاری شریف کا ختم بھی کرایا گیا۔ لیکن ان سب باتوں کا کچھ بھی فائدہ نہ ہوا اور مسلمان مار ہی کھاتے رہے۔ بالآخر جب مسلمان مجاہدین نے یورپ کی سرزمین میں لوگوں سے جنگیں کیں تب جا کر حالات نے پلٹا کھایا۔ (مقدمہ الفکرا لصوفی ٦) اس گوشہ نشینی کا جو اثر ان صوفیاء کی ذات پر مترتب ہوتا ہے وہ ابو بکر شبلی کی زبانی ملاحظہ فرمائیے۔ روایت ہے کہ کچھ عرصہ شبلی اپنے مقام سے غائب رہے۔ ہرچند تلاش کیا پتہ نہ چلا۔ ایک روز محفلوں کے گروہوں میں دیکھے گئے۔ لوگوں نے پوچھا اے شیخ! یہ کیا بات ہے؟ فرمایا : یہ گروہ (صوفیہ) دنیا میں نہ مرد ہیں نہ عورت۔ میں بھی اسی حالت میں گرفتار ہوں نہ مرد ہوں نہ عورت پس ناچار میری جگہ انہی میں ہے۔ (خزینۃ الاصفیاء ص ١٤٧) شیخ جنید کے مریدوں کا جہاد بالسیف :۔ شبلی کے پیر و مرشد جنید بغدادی کے مریدوں کو ایک دفعہ جہاد بالسیف کا شوق چرایا یہ داستان اس طرح ہے کہ شیخ جنید کے آٹھ مرید تھے جو سب کے سب کامل و اکمل تھے۔ ایک روز انہوں نے خدمت شیخ میں عرض کی کہ اے شیخ! شہادت ایک عجیب نعمت جان فزا ہے اس لیے شہادت کے لیے جہاد کرنا چاہیے شیخ نے ان کی تائید کی اور ان کے ساتھ ملک روم کی طرف جہاد کے لیے چل پڑے۔ ایک جگہ کفار سے مقابلہ ہوگیا۔ ایک گبر (آتش پرست) کے ہاتھوں شیخ کے آٹھوں مرید ایک ایک کر کے شہید ہوگئے۔ شیخ فرماتے ہیں کہ میں نے اس وقت ہوا میں نو کجاوے معلق دیکھے۔ میرے ساتھیوں میں سے جو شہید ہوتا تھا، اس کی روح ایک کجاوے میں رکھتے اور آسمان کی طرف لے جاتے۔ آخر ایک کجاوہ باقی رہ گیا۔ میں سمجھ گیا کہ یہ کجاوہ میرے لیے ہے اور جنگ میں مشغول ہوگیا دوران جنگ وہی گبر جس نے میرے ساتھیوں کو شہید کیا تھا میرے پاس آیا اور کہا : ابو القاسم ! یہ آخری کجاوہ میرے لیے ہے۔ تو واپس بغداد چلا جا اور اپنی قوم کی قیادت و سیادت کر اور اپنا مذہب میرے سامنے پیش کر۔ میں نے اسے تلقین کی وہ مسلمان ہوا اور کفار سے لڑتا ہوا شہید ہوگیا۔ میں نے دیکھا کہ اس آخری کجاوے میں اس کی روح کو آسمان کی طرف لے گئے ہیں (خزینۃ الاصفیاء ص ١٤٢) جہاد اکبر کے اس نظریہ کے اثرات :۔ خزینۃ الاصفیاء کی اس روایت سے درج ذیل نتائج سامنے آتے ہیں : ١۔ اللہ تعالیٰ نے ابتداً ء ایمان کا یہ معیار بتایا تھا کہ ایک مومن دس کافروں پر غالب ہونا چاہیے۔ بعد ازاں اس میں تخفیف کر کے یہ معیار مقرر ہوا کہ کم از کم ایک مومن کو دو کافروں پر ضرور بھاری ہونا چاہیے۔ مگر یہاں یہ صورت حال ہے کہ شیخ جنید کے آٹھ کامل و اکمل مرید ایک کافر کے ہاتھوں شہید ہو رہے ہیں چاہیے تو یہ تھا کہ اگر انہیں شہادت کا اتنا ہی شوق تھا تو بیس پچیس کافروں کو مار کر خود شہید ہوتے۔ مگر یہ سب ایک کافر کے ہاتھوں یوں مارے جا رہے ہیں جیسے قصاب بکروں کو ذبح کرتا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ معیار کے مطابق ان میں ایمان کا جتنا حصہ تھا وہ آپ خود ہی اندازہ فرما لیجئے۔ یہی وہ قباحت ہے جس کی بنا پر اسلام نے رہبانیت یا طریقت کو مذموم قرار دیا۔ ٢۔ شیخ جنید بغدادی کو خود اپنی شہادت کا بھی خطرہ لاحق ہو چلا تھا۔ وہ تو خیریت گزری کہ اس گبر کا نور فراست شیخ جنید کے نور فراست سے زیادہ تھا اور اس گبر کو شیخ جنید سے پہلے معلوم ہوگیا کہ نواں کجا وہ شیخ کے لیے نہیں بلکہ میرے لیے ہے۔ ٣۔ اسلام لانے کا یہ بھی کیسا انوکھا طریقہ ہے کہ کافر خود کسی مسلمان کو کہے کہ میرے سامنے اسلام پیش کر تاکہ میں اسلام لاؤں۔ بہرحال ولایت کی دنیا الگ ہے اور بمصداق 'رموز مملکت خویش خسرواں دانند' یہ بات بھی تسلیم کر ہی لینی چاہیے۔ ٤۔ البتہ اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ روم تو سارا عہد فاروقی اور عہد عثمانی میں فتح ہوچکا تھا اور شیخ جنید کے زمانہ میں بغداد سے لے کر روم تک سارا علاقہ اسلامی مملکت میں شامل تھا تو روم کے راستے میں ان کو کفار کا لشکر کہاں ملا تھا ؟ ٥۔ اس قصہ سے بہرحال یہ ضرور معلوم ہوجاتا ہے کہ صوفیہ کے اس 'نظریہ جہاد اکبر' کے نظریہ نے مسلمانوں کو کس قدر نقصان پہنچایا ہے۔ [١٣٣] اور تیسری بات اس آیت سے یہ معلوم ہوئی کہ جنت میں داخلہ کے لیے جہاد لازمی شرط نہیں ہے بلکہ توحید پر ثابت قدم رہنے والے اور دوسرے احکام الہی بجا لانے والے مسلمان بھی جنت میں ضرور جائیں گے اگرچہ انکے درجات مجاہدین فی سبیل اللہ سے کم ہوں گے۔ النسآء
96 النسآء
97 [١٣٤] جنت میں داخلہ کے لئے جہاد شرط نہیں : یہ آیت ایسے مسلمانوں سے متعلق ہے جنہوں نے ہجرت پر قادر ہونے کے باوجود ہجرت نہیں کی اور اپنا گھر بار چھوڑ کر دارالہجرت (مدینہ) جانے میں پس و پیش کرتے رہے۔ اور یہی ان کا اپنی جانوں پر ظلم تھا۔ اور مسلمانوں پر ظلم یہ تھا کہ جنگ کے موقعہ پر انہیں مشرکوں کا ساتھ دینا پڑتا تھا اور مشرک یہ چال چلتے تھے کہ ایسے مسلمانوں کو اپنی صفوں کے آگے کردیتے تھے کہ وہ ان کے لیے ڈھال اور دفاع کا کام دیں۔ اب یہ مسلمانوں کے لشکر کے لیے بڑی الجھن بن جاتی تھی کہ اگر لڑائی لڑیں، تیر برسائیں، تلوار چلائیں تو ان کے مسلمان بھائی ہی مرتے تھے اور اگر ہاتھ روکے رکھیں تو خود انہیں نقصان پہنچ جاتا تھا۔ چنانچہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کے شان نزول کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’(مکہ میں) مسلمانوں میں سے کچھ ایسے لوگ تھے جو مشرکوں کا ساتھ دیتے اور مقابلہ کے وقت ان کی جمعیت بڑھاتے پھر (مسلمانوں کی طرف سے) کوئی تیر ان کو بھی لگ جاتا یا کسی کو تلوار لگتی تو وہ زخمی ہوتا یا مر جاتا، ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔‘‘ (بخاری، کتاب التفسیر) ہجرت نہ کرنے کا نقصان :۔ ایسے مسلمانوں کے لیے اس آیت میں جو وعید آئی ہے اس سے ضمناً یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ ایسا کمزور ایمان اللہ کے ہاں مقبول نہیں۔ لہٰذا اگر مشرکین انہیں ڈھال کے طور پر استعمال کریں تو مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کی خاطر انہیں بےدریغ قتل کردینا چاہیے اور ایسے لوگوں کے کمزور ہونے کے عذر کو اللہ نے قبول نہیں فرمایا کیونکہ یہ کمزوری نہیں بلکہ گھر بار کی محبت اور مال و دولت کی ہوس تھی جس کی وجہ سے وہ ہجرت نہیں کرتے تھے یا پھر اسے بزدلی پر محمول کیا جائے گا۔ النسآء
98 [١٣٥] ہجرت نہ کرسکنے والے :۔ جو مسلمان فی الواقع کمزور تھے اور ہجرت کرنے کی کوئی راہ انہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔ مستضعفین یا کمزور سے مراد وہ لوگ ہیں جو فی الحقیقت معذور ہوں جیسے بیمار، بچے، بوڑھے، عورتیں اور کافروں کی قید میں پڑے ہوئے مسلمان۔ اور وسائل محدود ہونے سے یہ مراد ہے کہ ان کے پاس نہ تو کوئی سواری کا بندوبست ہو اور نہ وہ پیدل سفر کی مشقت اٹھانے کے قابل ہوں۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے مندرجہ بالا گروہ سے مستثنیٰ قرار دیا، اور ان کے ہجرت نہ کرنے کے قصور کی معافی کا وعدہ فرمایا۔ چنانچہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ ’’میں اور میری ماں ایسے ہی لوگوں میں سے تھے جنہیں اللہ نے معذور رکھا۔‘‘ (بخاری، کتاب التفسیر) نیز ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور کئی دوسرے ناتواں مسلمان بھی تھے جن کی نجات کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز میں رکوع کے بعد دعا فرمایا کرتے۔ (بخاری، کتاب الادب، باب تسمیۃ الولید) النسآء
99 النسآء
100 [١٣٦] ہجرت کے مقاصد اور ضرورت :۔ ہجرت اس لیے فرض کی گئی تھی کہ ایک تو مسلمان کفار کے تشدد سے آزاد ہو کر اپنے اسلامی شعائر آزادی کے ساتھ بجا لا سکیں۔ اور دوسرے اس لیے کہ مدینہ کی طرف ہجرت کر کے مسلمانوں کی اجتماعی قوت کے لیے مددگار ثابت ہوں۔ پھر جب مکہ فتح ہوگیا اور پورے خطہ عرب میں اسلام کا بول بالا ہوگیا تو پھر ہجرت کی ضرورت نہ رہی۔ جیسا کہ کئی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اب تاقیامت ہجرت فرض نہیں۔ بلکہ جب بھی دوبارہ ایسا موقع پیدا ہوجائے کہ کسی علاقہ میں مسلمانوں کو اپنے شعائر اسلام کو بجا لانا بھی مشکل ہو رہا ہو تو مسلمانوں کو کوئی ایسا خطہ تلاش کرنا چاہیے جہاں انہیں آزادی سے شعائر اسلام بجا لانے کی سہولت میسر ہو اور اپنے میں سے کوئی امیر منتخب کر کے اس طرف ہجرت کرنا اور اپنی اجتماعی قوت کو مرکوز کرنا اور پھر جہاد کرنا سب کچھ فرض ہوجائے گا۔ بلکہ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو ہجرت بھی جہاد کا ہی ایک حصہ ہوتی ہے۔ پھر جب اس علاقہ میں اسلام کا غلبہ ہوجائے تو وہاں بھی ہجرت کی ضرورت باقی نہ رہے گی۔ دارالکفر میں رہنے کی رخصت کی شرائط :۔ ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ مسلمانوں کا دارالکفر میں رہنے کا جواز صرف دو صورتوں میں ہے ایک یہ کہ کوئی شخص اس خطہ میں اسلام کو غالب کرنے اور نظام کفر کو نظام اسلام میں تبدیل کرنے کی جدوجہد میں لگا رہے۔ جیسا کہ انبیاء علیہم السلام اور ان کے ابتدائی پیرو کرتے رہے ہیں اور دوسرے یہ کہ وہ فی الواقع وہاں سے نکلنے کی کوئی راہ نہ پاتا ہو۔ اور بیزاری اور نفرت سے مجبوراً وہاں رہ رہا ہو۔ ان صورتوں کے علاوہ دارالکفر میں رہنا مستقل معصیت ہے۔ [١٣٧] اللہ کا غفور الرحیم ہونا :۔ اس آیت میں صرف ہجرت کے سفر کا ذکر ہے۔ جبکہ کئی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ اللہ کی راہ میں کوئی سفر کیا جائے خواہ یہ ہجرت کا سفر ہو یا جہاد کا سفر ہو یا حج و عمرہ کا سفر ہو یا دینی علوم کے حصول کے لیے سفر ہو، اور دوران سفر حصول مقصد سے بعد یا پہلے موت واقع ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کا پورا پورا اجر عطا کردیتا ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے : سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’بنی اسرائیل میں سے ایک شخص نے ننانوے قتل کیے تھے۔ پھر وہ اپنے متعلق مسئلہ پوچھنے لگا۔ وہ ایک راہب کے ہاں گیا اور اسے پوچھا : کیا میرے لیے (توبہ کی) گنجائش ہے؟‘‘ اس نے کہا ''نہیں'' تو اس نے راہب کو بھی مار ڈالا (اور سو پورے کردیے) پھر لوگوں سے یہی مسئلہ پوچھتا رہا۔ کسی آدمی نے اسے کہا کہ فلاں فلاں بستی میں (توبہ کے لیے) چلے جاؤ۔ راستہ ہی میں اسے موت نے آ لیا۔ اس نے اپنا سینہ بستی کی طرف جھکا دیا۔ ابرحمت کے اور عذاب کے فرشتے آپس میں جھگڑنے لگے۔ جس بستی کی طرف وہ جا رہا تھا اللہ نے زمین کو حکم دیا کہ نزدیک ہوجا اور جس بستی سے جا رہا تھا اسے حکم دیا کہ دور ہوجا۔ اور فرشتوں سے فرمایا کہ فاصلہ ناپ لو۔ چنانچہ جہاں اسے جانا تھا وہ بستی ایک بالشت بھر قریب نکلی تو اسے بخش دیا گیا۔ (بخاری، کتاب الانبیاء باب ماذکر عن بنی اسرائیل) النسآء
101 [١٣٨] اس آیت میں اگرچہ سفر کے ساتھ دشمن کے اندیشہ کا بھی ذکر ہے تاہم سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ ہر طرح کے سفر میں نماز قصر کی جا سکتی ہے۔ نیز یہ بھی ضروری نہیں کہ یہ سفر فی سبیل اللہ ہی ہو بلکہ ہر سفر میں قصر کی جا سکتی ہے رہی یہ بات کہ کتنے فاصلہ کو سفر کہہ سکتے ہیں اس میں بھی اگرچہ اختلافات موجود ہیں۔ تاہم ہمارے لیے یہ امر کافی اطمینان کا باعث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’کوئی عورت ایک رات بھی محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔‘‘ (بخاری، کتاب العمرۃ، باب حج النسائ) گویا اتنی مسافت جہاں سے ایک انسان پیدل رات کو اپنے گھر واپس نہ پہنچ سکتا ہو، وہ سفر ہے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے دور خلافت میں ایک عورت کے سفر پر محمول کرتے ہوئے اس دور کے ٩ میل کی مسافت کو سفر قرار دیا تھا جو آج کل کے پیمانہ کے لحاظ سے ٢٥ کلومیٹر بنتا ہے۔ یعنی ایک کمزور انسان پیدل ایک دن میں ٢٥ کلومیٹر جانے کا اور اتنا ہی آنے کا کل ٥٠ کلومیٹر مسافت طے نہیں کرسکتا۔ لہٰذا اتنی مسافت پر سفر کا اطلاق ہوگا۔ سفر میں اگر قصر نہ کی جائے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ تاہم قصر کرنا ہی افضل ہے۔ پھر سفر میں دو نمازیں اکٹھی کر کے پڑھنے کا موقع آ جاتا ہے۔ ایسی تفصیلات کے لیے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ سفر میں قصر جمع اور سفر کی تعیین :۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ’’ابتداء سفر و حضر میں نماز دو رکعت فرض کی گئی تھی۔ پھر سفر کی نماز تو اتنی ہی برقرار رکھی گئی اور حضر کی نماز میں اضافہ کیا گیا۔ (منیٰ میں‘‘) (بخاری، ابو اب تقصیرالصلٰوۃ، باب یقصر اذا خرج من موضعہ۔۔ (مسلم، کتاب الصلٰوۃ، باب صلٰوۃ المسافرین) ٢۔ حارث بن وہب فرماتے ہیں کہ منیٰ میں ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت (نماز قصر) پڑھائی۔ حالانکہ آپ بالکل امن میں تھے۔ (بخاری، ابو اب تقصیر الصلٰوۃ، باب الصلٰوۃ بمنیٰ) ٣۔ یعلٰی بن امیہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تمہیں (کافروں کا) خوف ہو تو نماز میں قصر کرو اور اب تو ہم امن میں ہیں۔‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا ’’اسی بات پر میں نے بھی تعجب کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’یہ ایک صدقہ ہے جو اللہ نے آپ پر کیا لہٰذا اس کا صدقہ قبول کرو۔‘‘ (ترمذی، ابو اب القصر) ٤۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر میں جلدی ہوتی تو مغرب کو مؤخر کر کے تین رکعت پڑھتے پھر سلام پھیرتے۔ پھر تھوڑی دیر بعد عشاء کی اقامت ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعت پڑھتے پھر سلام پھیرتے۔‘‘ (بخاری، ابو اب تقصیرالصلٰوۃ، باب یصلی المغرب ثلاثا فی السفر) ٥۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آپ نے مدینہ میں رہ کر (یعنی بلاسفر) سات رکعتیں مغرب اور عشاء کی اور آٹھ رکعتیں ظہر اور عصر کی (ملا کر) پڑھیں۔ ایوب سختیانی نے جابر بن زید سے کہا ’’شاید بارش کی رات میں ایسا کیا ہو؟‘‘ انہوں نے کہا ''شاید'' (بخاری، کتاب مواقیت الصلٰوۃ، باب تاخیر الظہر الی العصر) النسآء
102 [١٣٩] اس آیت میں نماز خوف کا طریقہ بیان کیا گیا ہے۔ نماز خوف کی کئی صورتیں ممکن ہیں۔ اور احادیث میں ایسی چھ سات صورتیں مذکور بھی ہیں۔ وہ صورتیں اس طرح بنتی ہیں کہ مقتدی جس نے ایک رکعت امام کے ساتھ ادا کی ہے تو آیا وہ دوسری رکعت خود موقع ملنے پر ادا کرے گا یا نہیں؟ یا اگر کرے گا تو کیسے کرے گا اور نماز مغرب جس کی قصر بھی تین رکعت ہے اس کی صورت کیا ہوگی؟ اور غالباً یہ طریقہ صرف اس ہنگامی حالت کے لیے ہے جبکہ معرکہ کار زار گرم نہ ہوا ہو۔ کیونکہ معرکہ گرم ہونے کی صورت میں تو جماعت کا موقع ہی نہیں آتا۔ جیسا کہ جنگ خندق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سمیت اکثر مسلمانوں کی نماز عصر قضا ہوگئی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور مجاہدین نے سورج غروب ہونے کے بعد قضا کے طور پر ادا کی۔ پھر اس کے بعد نماز مغرب ادا کی۔ (بخاری، کتاب مواقیت الصلٰوۃ۔ باب من صلی بالناس جماعۃً بعد ذھاب الوقت) دراصل نماز خوف کے طریق کار کا انحصار بہت حد تک جنگی حالات پر ہے۔ اگر جماعت کا موقع ہی میسر نہ آئے تو انسان اکیلا بھی پڑھ سکتا ہے۔ سواری پر بھی پڑھ سکتا ہے اور اشارے سے بھی پڑھ سکتا ہے۔ بس دو باتوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ ایک یہ کہ موجودہ جنگی حالات میں کونسا طریقہ بہتر ہے پھر اسے اختیار کیا جائے اور دوسرے یہ کہ ایسے حالات میں اللہ کی یاد کو بھلانا نہیں چاہیے۔ اب اس ضمن میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ’’اللہ نے تمہارے نبی کی زبان سے حضر میں چار، سفر میں دو اور خوف میں ایک رکعت نماز فرض کی ہے۔‘‘ (مسلم، کتاب الصلوۃ، باب صلٰوۃ المسافرین وقصرھا) ٢۔ نماز خوف کی مختلف صورتیں :۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم نے ضجنان اور عسفان کے درمیان پڑاؤ کیا۔ مشرکوں نے کہا : ان مسلمانوں کی ایک نماز ہے جسے وہ اپنے باپ اور بیٹوں سے زیادہ محبوب رکھتے ہیں اور وہ عصر کی نماز ہے لہٰذا تم اپنے اسباب جمع کرو اور اس وقت یکبارگی ان پر حملہ کر دو۔ اتنے میں جبریل علیہ السلام نازل ہوئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کے دو حصے کریں۔ ایک حصے کو نماز پڑھائیں اور دوسرا حصہ دشمن کے مقابل ان کے پیچھے کھڑا رہے اور اپنی ڈھالیں اور اپنے ہتھیار پہنے رہیں۔ پھر دوسرا حصہ آئے اور آپ کے ساتھ نماز پڑھے اور پہلے حصے والے اپنی ڈھالیں اور ہتھیار پہن لیں۔ اس طرح ہر گروہ کی ایک ایک رکعت، اور نبی اکرم کی دو رکعتیں ہوں گی۔ (ترمذی، ابو اب التفسیر) ٣۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے جب کوئی پوچھتا کہ ہم نماز خوف کیسے پڑھیں؟ تو وہ کہتے کہ امام آگے بڑھے کچھ لوگ اس کے ساتھ نماز ادا کریں۔ امام انہیں ایک رکعت پڑھائے۔ باقی لوگ ان کے اور دشمنوں کے درمیان کھڑے رہیں۔ نماز نہ پڑھیں۔ جب یہ لوگ امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھ چکیں تو سرک کر پیچھے چلے جائیں اور جنہوں نے نماز نہیں پڑھی اب وہ لوگ آ جائیں اور امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھیں۔ امام تو اپنی نماز (دو رکعت) سے فارغ ہوگیا۔ اب یہ دونوں گروہ باری باری ایک ایک رکعت پوری کرلیں تو ان کی بھی دو دو رکعت ہوجائیں گی اور اگر خوف اس سے زیادہ ہو تو پاؤں پر کھڑے کھڑے، پیدل یا سواری پر رہ کر نماز ادا کرلیں۔ منہ قبلہ رخ ہو یا نہ ہو۔ امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ نافع نے کہا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے۔ (بخاری، کتاب التفسیر) [١٤٠] آیت مذکورہ میں صرف دو صورتوں میں ہتھیار اتارنے کی اجازت ہے۔ پہلی یہ کہ بارش ہو رہی ہو کپڑے اور ہتھیار بھیگ رہے ہوں۔ دوسری یہ کہ کوئی شخص بیماری کی وجہ سے ہتھیار بند رہنے کا متحمل نہ ہو۔ ان صورتوں کے علاوہ ہتھیار اتارنے کی اجازت نہیں۔ اس لیے آخر میں تاکیدی طور پر دوبارہ سہ بارہ اس حکم کو دہرایا۔ ﴿خُذُوْا حِذْرَکُمْ ﴾کے الفاظ بڑے وسیع مفہوم میں استعمال ہوتے ہیں، اس کے معنی ہوشیار اور چوکنا رہنا مسلح رہنا اور اپنے بچاؤ کے تمام ذرائع اختیار کیے رکھنا ہے۔ مثلاً مورچوں کی حفاظت کرنا اور ان میں پناہ پکڑنا، لڑائی سے پہلے سامان جنگ تیار رکھنا۔ دشمن کی نقل و حرکت سے باخبر رہنا، اس کا مداوا سوچنا بے خبری میں دشمن کے حملے کے لیے تیار رہنا سب کچھ ﴿خُذُوْا حِذْرَکُمْ﴾ کے مفہوم میں سما جاتا ہے۔ دور نبوی میں اسلحہ جنگ ہر مجاہد کی انفرادی ملکیت ہوتا تھا مگر آج اسلحہ جنگ مہیا کرنا حکومتوں کی ذمہ داری ہے لہٰذا اسلحہ جنگ کے تیار کرنے والے کارخانوں، اسلحہ کے ذخائر اور دشمن سے ان کا بچاؤ بھی﴿خُذٌوْا حِذْرَکُمْ﴾ میں شامل ہے۔ غرض قوم و ملک کا تحفظ، افراد فوج کے تحفظ کی تدابیر، آلات جنگ کا تحفظ، لڑائی کے منصوبوں کو صیغہ راز میں رکھنا سب کچھ اس حکم میں داخل ہے۔ آج دشمن سب سے پہلے اسلحہ کے محفوظ ذخائر کو یا اسلحہ ساز فیکٹریوں کو اچانک حملے کے ذریعے تباہ کردیتا ہے۔ ان سب امور کی طرف مسلمانوں کو اس آیت میں متوجہ کیا گیا ہے۔ النسآء
103 [١٤١] نمازوں کے اوقات جنگ میں نماز اسی وقت ہی ادا کی جا سکتی ہے جب موقع ملے، اس دوران بھی اللہ کو ہر وقت یاد رکھنا چاہیے پھر جب حالات معمول پر آ جائیں تو نماز بھی معمول کے مطابق پڑھی جائے اور نمازوں کے اوقات کا بھی خیال رکھا جائے۔ احادیث کی رو سے نمازوں کے اوقات درج ذیل ہیں : ١۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ظہر کا وقت سورج ڈھلنے سے لے کر آدمی کا سایہ اس کے برابر ہونے تک ہے۔ اور عصر کا وقت (سایہ برابر ہونے سے لے کر) دھوپ میں زردی آنے تک ہے۔ اور نماز مغرب کا وقت (سورج غروب ہونے سے لے کر) شفق غائب ہونے تک ہے اور عشاء کا وقت (شفق غائب ہونے سے لے کر ٹھیک آدھی رات تک ہے اور صبح کا وقت طلوع فجر سے لے کر طلوع آفتاب تک ہے‘‘ (مسلم، کتاب المساجد و مواضع الصلٰوۃ باب اوقات الصلٰوۃ الخمس) ٢۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ دونوں فرماتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’گرمی کے موسم میں ظہر کی نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھا کرو اس لیے کہ گرمی کی سختی دوزخ کی بھاپ سے ہوتی ہے‘‘ (بخاری، کتاب، مواقیت الصلٰوۃ، باب الابراد بالظھر فی شدۃ الحر۔۔ مسلم، کتاب المساجد و مواضع الصلوۃ باب استحباب الابراد بالظھر فی شدۃ الحرم ) ٣۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم عورتیں چادروں میں لپٹی ہوئی جب نماز صبح سے فارغ ہو کر مسجد سے نکلتیں تو اندھیرے کی وجہ سے کوئی ان کو پہچان نہ سکتا تھا۔ (بخاری، کتاب مواقیت الصلٰوۃ، باب وقت الفجر) ٤۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشا کی نماز اس وقت پڑھائی جب رات کا کافی حصہ گزر چکا تھا۔ پھر فرمایا ’’اگر میری امت پر یہ بات شاق نہ ہوتی تو عشاء کی نماز کا اصل وقت یہی وقت ہے‘‘ (بخاری، کتاب مواقیت الصلٰوۃ، باب النوم قبل العشاء لمن غلب ) ٥۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز اس وقت پڑھاتے جب ہم میں سے کوئی شخص (فراغت کے بعد) اپنے ساتھ والے کو پہچان لیتا اور آپ اس نماز میں ساٹھ سے لے کر سو تک آیتیں پڑھتے۔ اور ظہر اس وقت پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا۔ اور عصر اس وقت کہ کوئی شخص عصر پڑھ کر شہر کے پرلے حصہ (تقریباً چار میل) تک اپنے گھر جاتا تو سورج ابھی تیز ہوتا اور شام سورج غروب ہونے پر اور عشاء کی نماز میں تہائی رات تک دیر کرنے کی پروا نہیں کرتے تھے۔‘‘ (بخاری، کتاب مواقیت الصلٰوۃ، باب وقت الظہر عند الزوال) ٦۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب کوئی شخص سورج ڈوبنے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پا لے وہ اپنی نماز پوری کرے (اس کی نماز ادا ہوئی یا قضا) اور جو سورج نکلنے سے پہلے فجر کی ایک رکعت پا لے وہ بھی اپنی نماز پوری کرے۔‘‘ (بخاری، کتاب مواقیت الصلٰوۃ، باب من ادرک رکعۃ من العصر قبل الغروب) ٧۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز کے بعد سورج چڑھنے تک نماز پڑھنے سے منع کیا۔ اور عصر کی نماز کے بعد سورج ڈوبنے تک۔ (بخاری، کتاب مواقیت الصلٰوۃ باب الصلٰوۃ بعد الفجر حتی ترتفع الشمس) ٨۔ عبداللہ بن ابی قتادہ رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم (خیبر سے واپسی پر) رات کو آپ کے ہمراہ سفر کر رہے تھے۔ بعض لوگوں نے کہا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا اچھا ہو جو یہاں اتر پڑیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مجھے خطرہ ہے کہ تم سو جاؤ گے اور نماز فجر کے لیے نہ اٹھو گے۔‘‘ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے کہا 'میں جگا دوں گا۔' چنانچہ سب لوگ سو گئے۔ اور بلال رضی اللہ عنہ نے اپنی اونٹنی سے پیٹھ لگائی تو نیند نے غلبہ کیا اور وہ بھی سو گئے پھر آپ اس وقت اٹھے جب سورج کا کنارہ نکل آیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا 'تمہارا قول کہاں گیا ؟' بلال رضی اللہ عنہ کہنے لگے 'مجھے تو ایسی نیند آئی جیسے پہلے کبھی نہ آئی تھی۔' آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ نے جب چاہا تمہاری روحیں قبض کرلیں اور جب چاہا تمہیں واپس دے دیں۔ اے بلال اٹھ اور نماز کے لیے اذان دے‘‘ چنانچہ بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور جب سورج ذرا بلند اور سفید ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی۔ (بخاری، کتاب مواقیت الصلٰوۃ۔ باب الاذان بعد ذھاب الوقت ) ٩۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص نماز ادا کرنا بھول جائے یا اس وقت سویا ہوا ہو تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ یاد آتے ہی ادا کرلے۔‘‘ (بخاری، کتاب مواقیت الصلٰوۃ، باب من نسی صلٰوۃ فلیصل اذا ذکرھا۔۔ مسلم، کتاب المساجد و مواضع الصلٰوۃ، باب قضاء الصلٰوۃ الفائتۃ۔۔ الخ) ١٠۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’منافق کی نماز یہ ہے کہ وہ سورج کو دیکھتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان آ جاتا ہے تو اٹھتا ہے اور چار ٹھونگیں مار لیتا ہے اور اللہ کا ذکر تھوڑا بہت ہی کرتا ہے۔‘‘ (مسلم، کتاب الصلٰوۃ، باب استحباب التبکیر بالعصر) ١١۔ سیدنا ام فروہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا عمل افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’نماز اول وقت پر ادا کرنا۔‘‘ (ترمذی، ابو اب الصلٰوۃ، باب ماجاء فی الوقت الاول من الفضل ) ١٢۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ کی خوشنودی نماز کو اول وقت ادا کرنے میں ہے اور آخر وقت میں ادا کرنا اللہ کی طرف سے معافی ہے۔‘‘ (ترمذی، حوالہ ایضاً) ١٣۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی بھی نماز آخر وقت میں نہ پڑھی مگر صرف دو بار۔ یہاں تک کہ وفات پائی۔ (ترمذی، حوالہ ایضاً) ١٤۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا ’’علی! تین باتوں میں تاخیر نہ کرنا (١) نماز میں جب اس کا وقت آ جائے (٢) جنازہ کی تدفین میں جب تو وہاں موجود ہو (٣) اور رنڈوے مرد یا رنڈوی عورت کے نکاح میں جب کہ اس کا بر (کفو) مل رہا ہو۔ ‘‘ (ترمذی، حوالہ ایضاً) النسآء
104 [١٤٢] یعنی جنگ میں جیسے تمہیں جانی نقصان یا دکھ پہنچتا ہے ویسے ہی دشمن قوم کو بھی پہنچتا ہے۔ پھر جب وہ باطل پر ہو کر یہ سب کچھ برداشت کرتے ہیں تو پھر تم حق پر ہو کر کیوں برداشت نہ کرو؟ علاوہ ازیں تم میں سے کوئی شہید ہوجائے یا زندہ سلامت گھر آ جائے دونوں صورتوں میں تم اللہ سے اجر و ثواب کی توقع رکھتے ہو جو ان کو مطلق نہیں ہوتی۔ پھر تم آخر ان کا پیچھا کر کے ان کا قلع قمع کیوں نہ کرو۔ اس معاملہ میں ہرگز کمزوری یا سستی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ النسآء
105 [١٤٣] گمشدہ سامان سامان کی برآمدگی سے چوری ثابت نہیں ہوتی :۔ اس آیت اور اس سے اگلی چند آیات کا پس منظر یہ ہے کہ انصار کے قبیلہ بنی ظفر کے ایک آدمی بشیر بن ابیرق نے کسی دوسرے انصاری کے گھر سے آٹے کا تھیلا اور ایک زرہ چوری کی۔ اور چالاکی یہ کی کہ آٹے کا تھیلا اور زرہ راتوں رات ایک یہودی کے ہاں امانت رکھ آیا۔ تھیلا اتفاق سے کچھ پھٹا ہوا تھا جس سے آٹا تھوڑا تھوڑا گرتا گیا جس سے سراغ لگانے میں بہت آسانی ہوگئی۔ اصل مالک نے پیچھا کیا تو بشیر بن ابیرق کے گھر پہنچ گیا اور اس سے اپنی چوری کا ذکر کیا لیکن وہ صاف مکر گیا اور خانہ تلاشی بھی کرا دی جہاں سے کچھ برآمد نہ ہوسکا۔ اب مالک پیچھا کرتا ہوا اس یہودی کے ہاں پہنچا اور اپنی چوری کا ذکر کیا تو یہودی کہنے لگا ایسی زرہ تو میرے پاس موجود ہے لیکن وہ تو فلاں شخص نے میرے پاس بطور امانت رکھی ہے۔ لہٰذا میں تمہیں نہیں دے سکتا۔ بالآخر مالک یہ مقدمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عدالت میں لے گیا۔ اب چور اور اس کے خاندان والوں نے آپس میں یہ طے کیا کہ اصل مجرم اس یہودی کو ہی ثابت کیا جائے اور امانت کا درمیان میں نام ہی نہ آنے دیا جائے اور اس واقعہ سے قطعی لاعلمی کا اظہار کردیا جائے اور وہ یہ سمجھے کہ آپ یہود کی بات کا اعتبار نہیں کریں گے اس طرح ہم بری ہوجائیں گے۔ چنانچہ فی الواقع ایسا ہی ہوا۔ انصاری چور اور اس کے حمایتیوں نے اس واقعہ سے قطعاً لاعلمی کا اظہار کیا اور قسمیں بھی کھانے لگے جس کے نتیجہ میں آپ ان خائنوں کی باتوں میں آ گئے اور یہودی کو جھوٹا سمجھا اور قریب تھا کہ آپ اس انصاری چور کو بری قرار دے دیں اور یہودی کو مجرم قرار دے دیں اور یہودی کے حق میں قطع ید کا فیصلہ سنا دیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بذریعہ وحی اصل صورت حال سے مطلع فرما دیا اور تنبیہ فرمائی، کہ آپ کو ایسے بددیانت لوگوں کی قطعاً حمایت نہ کرنا چاہیے۔ [١٤٤] اس آیت میں ایسے مسلمانوں کو خائن قرار دیا گیا ہے جنہوں نے محض خاندان اور قبیلہ کی عصبیت کی بنا پر مجرم کی حمایت کی تھی اور تمام لوگوں کو یہ بتا دیا گیا ہے کہ انصاف کے معاملہ میں کسی قسم کا تعصب برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اگر ایک فریق دشمن قوم سے تعلق رکھتا ہے اور وہ حق پر ہے تو اسی کی حمایت کی جائے گی۔ مسلمانوں کی نہیں کی جائے گی۔ النسآء
106 [١٤٥] قاضی ظاہری شہادات کی بنا پر فیصلہ کرنے کا پابند ہے اس لحاظ سے اگر آپ انصاری کے حق میں فیصلہ دے بھی دیتے تو آپ کا کچھ قصور نہ تھا۔ تاہم آپ کی عظمت شان کی وجہ سے آپ کو بخشش طلب کرنے کی ہدایت کی گئی ہے کہ ایک غلط سوچ آپ کے ذہن میں راہ پانے لگی تھی۔ النسآء
107 [١٤٦] ان لوگوں سے مراد وہی چور انصاری کے خاندان کے لوگ ہیں جنہوں نے محض خاندانی تعصب کی بنا پر چور کی حمایت کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے چور کے مجرم نہ ہونے کے متعلق قسمیں بھی کھائی تھیں اور سارا الزام بے گناہ یہودی کے سر تھوپ دیا تھا اور مجرم کے گناہ دو تھے، ایک چوری، دوسرے اس یہودی کو مورد الزام ٹھہرانا۔ النسآء
108 [١٤٧] زرہ کا چور دراصل سچا مسلمان نہیں بلکہ منافق آدمی تھا اور اس کے خاندان والے بھی کچھ پختہ ایمان والے نہ تھے۔ جب یہ مقدمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں چلا گیا تو ان لوگوں کے مشورے کا موضوع یہ ہوتا تھا کہ چور کس طرح چوری کے اس جرم سے بچ سکتا ہے اور یہ جرم اس یہودی کے سر کیسے تھوپا جائے۔ دراصل اس طرح راتوں کو مشورے کرنا اور یہ سمجھنا کہ اس طرح ان کے جرم پر پردہ پڑا رہے گا، یہی ان لوگوں کے ایمان کی کمزوری کی دلیل ہے اور اللہ سے کوئی معاملہ بھلا کیسے چھپا رہ سکتا ہے۔ النسآء
109 [١٤٨] یہ خطاب اس منافق چور کے حمایتیوں سے ہے کہ اگر آج تم چور کے حمایتی بن بھی گئے تو کل قیامت کے دن اللہ کے روبرو تم میں سے کون اس کی وکالت کرے گا جبکہ تمہارے لیے تمہارا اپنا ہی یہ گناہ کافی ہوگا۔ ضمناً اس واقعہ سے یہ معلوم ہوا کہ کسی شخص کے پاس سے چوری کا مال برآمد ہوجانا اس بات کا یقینی ثبوت نہیں ہوتا کہ وہ فی الواقع چور ہے لہٰذا ایسے معاملات میں انتہائی تحقیق اور احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لیے آپ نے حدود قائم کرنے کے سلسلہ میں بہت سی ہدایات فرمائی ہیں جن کا ذکر کسی دوسرے مناسب مقام پر کردیا گیا ہے۔ النسآء
110 [١٤٩] اپنے گناہ دوسروں کے ذمہ لگانا اور بہتان تراشی :۔ اصل چور کی حمایت کی دو صورتیں تھیں۔ ایک یہ کہ چور نے جھوٹ بول کر اپنے حمائیتوں کو مطمئن کردیا ہو کہ میں فی الواقع مجرم نہیں ہوں یعنی ان کا یہ گناہ نادانستہ یا غلطی کی بنا پر ہو۔ اور دوسری صورت یہ تھی کہ حمائیتوں کو ٹھیک طرح معلوم ہوچکا ہو کہ جس کی حمایت کر رہے ہیں وہ فی الواقع مجرم ہے اور اس کا یہ گناہ دیدہ دانستہ ہو۔ پہلی صورت کو اللہ تعالیٰ نے سوء اً سے تعبیر فرمایا اور دوسری صورت کو اپنے آپ پر ظلم سے۔ ان دونوں صورتوں میں اگر یہ حمایتی لوگ مجرم کی حمایت سے دستبردار ہوجاتے اور اللہ سے بخشش مانگتے تو یقیناً اللہ ان کا گناہ معاف کردیتا۔ واضح رہے کہ ان آیات میں اگرچہ خطاب مذکورہ بالا لوگوں سے ہے تاہم ایسی سب آیتوں کا حکم عام ہوتا ہے۔ غلطی سے یا نادانستہ کوئی گناہ کسی بے قصور کے سر تھوپ دینے کی ایک مثال حدیث میں مذکور ہے جو درج ذیل ہے : بہتان تراشی کالی اور کمربند :۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ کسی عرب قبیلے کے پاس ایک کالی لونڈی تھی۔ جسے انہوں نے آزاد کردیا تھا مگر وہ ان کے ساتھ ہی رہا کرتی۔ ایک دفعہ اسی قبیلے کی ایک لڑکی جو دلہن تھی، نہانے کو نکلی اور اپنا لال تسموں والا کمر بند اتار کر رکھ دیا۔ ایک چیل نے اسے جو پڑا دیکھا تو گوشت سمجھ کر جھپٹ لے گئی۔ لوگوں نے کمر بند تلاش کیا مگر وہ نہ ملا۔ آخر انہوں نے اس کالی لونڈی پر تہمت لگا دی۔ وہ کہنے لگی کہ ’’ان لوگوں نے میری تلاشی لینا شروع کی حتیٰ کہ میری شرمگاہ بھی دیکھی۔ اللہ کی قسم! میں ان کے پاس ہی کھڑی تھی کہ وہی چیل گزری جس نے کمر بند پھینک دیا اور وہ ان کے درمیان گرا۔ میں نے کہا یہ ہے وہ کمر بند جس کی تم مجھ پر تہمت لگا رہے تھے۔ حالانکہ میں اس سے بری تھی۔ اب سنبھالو اسے۔‘‘ پھر وہ لڑکی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئی اور اسلام لے آئی۔ اس کا خیمہ مسجد میں تھا۔ کبھی کبھی وہ میرے پاس آ کر باتیں کیا کرتی اور جب بھی وہ میرے پاس آتی، وہ یہ شعر ضرور پڑھتی تھی: ویوم الوشاح من تعاجیب ربنا الا انہ من بلدۃ الکفر انجانی (کمر بند کا دن ہمارے پروردگار کے عجائبات میں سے ہے۔ اسی واقعہ نے تو مجھے کفر کی سرزمین سے نجات بخشی تھی) (بخاری۔ کتاب الصلٰوۃ۔ باب نوم المرأۃ فی المسجد) النسآء
111 النسآء
112 [١٥٠] کیونکہ اس نے دو جرم کیے ہیں۔ ایک وہ جو خود گناہ کا کام کیا اور دوسرا گناہ اس سے بڑا ہے کہ اس گناہ کو کسی بے قصور کے سر تھوپ کر اسے مجرم بنا دینے کی کوشش کی جائے۔ النسآء
113 [١٥١] آپ پر اللہ نے بہت بڑا فضل کیا تھا :۔ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت یہ تھی کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اصل صورت حال سے بذریعہ وحی مطلع فرما دیا۔ ورنہ اس کے نتائج صرف یہی نہ تھے کہ مجرم بچ جاتا اور ایک بے قصور مجرم قرار پاتا بلکہ اس کے نتائج بڑے دوررس تھے جو عوام الناس کی نظروں میں مسلمانوں کی ساکھ اور ان کے کردار کو مجروح بنا سکتے تھے، ایسے لوگ جو آپ کو بہکا کر اپنے حق میں فیصلہ کرانا چاہتے تھے اپنی ہی عاقبت خراب کر رہے تھے۔ اس سے آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اور اللہ کے ہاں مجرم وہ تھے نہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم۔ مقدمہ میں چالاکی سے دوسرے کا مال ہتھیانا :۔ جو شخص کسی حاکم کو دھوکہ دے کر اپنے حق میں فیصلہ کرا لیتا ہے۔ وہ دراصل خود اپنے آپ کو اس غلط فہمی میں مبتلا کرتا ہے کہ ان تدبیروں سے وہ فی الواقع اس چیز کا حقدار بن گیا۔ حالانکہ اللہ کے نزدیک حق جس کا ہوتا ہے اسی کا رہتا ہے اور فریب خوردہ حاکم کے فیصلہ سے حقیقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’میں بھی تمہاری طرح ایک انسان ہی ہوں۔ تم لوگ میرے پاس جھگڑے لے کر آتے ہو اور ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی زیادہ چرب زبان ہو اور میں اس کے دلائل سن کر اس کے حق میں فیصلہ دے دوں تو اس طرح اگر میں اس کے بھائی کے حق سے کوئی چیز اس چرب زبان کے حق میں فیصلہ کر کے دے دوں تو یاد رکھو کہ میں اسے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں۔‘‘ (بخاری، کتاب الاحکام، باب موعظۃ الامام للخصوم) ربط مضمون کے لحاظ سے اس جملہ کا وہی مطلب ہے جو اوپر مذکور ہوا تاہم اس کا حکم عام ہے اور اس کا مطلب ایسے فضائل ہیں جو دوسرے کسی پیغمبر کو بھی نہیں ملے اور وہ فضائل آپ نے خود ان الفاظ میں بتائے ہیں : جابر بن عبداللہ (انصاری) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ مجھے پانچ چیزیں ایسی ملی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی پیغمبر کو نہیں ملیں۔ ایک یہ کہ ایک ماہ کی مسافت پر دشمن پر میرا رعب طاری رہتا ہے دوسرا یہ کہ ساری زمین میرے لیے مسجد اور پاک بنائی گئی ہے۔ لہٰذا میری امت کا ہر شخص جہاں نماز کا وقت آئے نماز پڑھ لے تیسرے یہ کہ اموال غنائم میرے لیے حلال ہوئے جو مجھ سے پہلے کسی کے لیے جائز نہیں تھے۔ چوتھے یہ کہ شفاعت کبریٰ (قیامت کے دن) ملی اور پانچویں یہ کہ پہلے ہر نبی کس خاص قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا جبکہ میں تمام لوگوں کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ (بخاری۔ کتاب الصلٰوۃ۔ باب قول النبی جعلت لی الارض مسجدا وطھورا) اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں مندرجہ ذیل چھ باتیں مذکور ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے چھ باتوں میں دوسرے پیغمبروں پر فضیلت دی گئی ہے مجھے جو امع الکلم عطا کئے گئے۔ یعنی ایسا کلام جس میں الفاظ کم اور معانی بہت ہوں دوسرے دشمن پر رعب سے میری مدد کی گئی تیسرے مجھ پر غنیمتیں حلال کی گئیں۔ چوتھے میرے لیے ساری زمین پاک کرنے والی اور نماز کی جگہ بنائی گئی۔ پانچویں میں تمام لوگوں (جنوں اور انسانوں) کی طرف بھیجا گیا ہوں اور چھٹے مجھ پر نبوت ختم کی گئی۔ (مسلم کتاب المساجد۔ باب المساجد و مواضع الصلٰوۃ) النسآء
114 [١٥٢] کون سے خفیہ مشورے بہتر ہیں؟ منافق لوگ جو راتوں کو الگ بیٹھ کر مشورے کرتے ہیں۔ وہ بسا اوقات بری باتیں ہی سوچتے ہیں، جو خیر سے خالی ہوتی ہیں۔ کیونکہ بھلائی کی اور صاف ستھری سچی بات کو چھپانے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی البتہ کچھ امور ایسے ہیں جو چھپا کر کرنا بہتر ہوتے ہیں مثلاً کسی کو صدقہ دے تو چھپا کر دے تاکہ لینے والا شرمندہ نہ ہو۔ یا صدقہ دینے کے متعلق الگ مشورہ کرنا بھی اچھا کام ہے۔ اسی طرح بھلائی کے کاموں اور بالخصوص لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے متعلق اگر خفیہ مشورہ بھی کیا جائے تو بھی یہ ایک نیکی کا کام ہے لیکن افسوس ہے کہ یہ لوگ ان امور میں سے تو کسی بات کا مشورہ نہیں کرتے۔ وہ ایسے مشورے کرتے ہیں جن سے شر پیدا ہو اور دوسروں کو نقصان پہنچے۔ اور جو شخص مذکورہ بالا امور کے متعلق محض اللہ کی رضا کے لیے مشورہ کرے تو یہ بڑے نیکی کے کام ہیں۔ لوگوں میں اصلاح کے لئے اپنی طرف سے کوئی اچھی بات کہہ دینا جھوٹ نہیں: چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ صحابہ کرام سے فرمایا ’’کیا میں تمہیں ایسے کام کی خبر نہ دوں جو نماز، روزہ اور صدقہ سے بھی افضل ہے؟‘‘ صحابہ نے عرض کیا ''بتائیے'' تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’دو شخصوں کے درمیان صلح کرانا۔ کیونکہ دو آدمیوں کے درمیان فساد ڈالنا (دین کو) مونڈنے والا (برباد کرنے والا) کام ہے۔‘‘ (ترمذی، ابو اب صفۃ القیامۃ) نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لئے اگر کوئی شخص (اپنی طرف سے) کوئی اچھی بات کسی فریق کی طرف منسوب کر دے یا کوئی اچھی بات کہہ دے تو وہ جھوٹا نہیں ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب الصلح، باب لیس الکاذب الذی یصلح بین الناس) النسآء
115 [١٥٣] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کی مختلف صورتیں :۔ ربط مضمون کے لحاظ سے تو اس آیت کا خطاب اسی منافق سے ہے جس نے چوری کی تھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وحی الٰہی کی بنا پر مذکورہ مقدمہ کا فیصلہ بے گناہ یہودی کے حق میں دے دیا۔ تو اس منافق کو سخت صدمہ ہوا۔ وہ مدینہ سے نکل کر اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمنوں کے پاس مکہ چلا گیا اور کھلم کھلا مخالفت پر اتر آیا۔ لیکن حکم کے لحاظ سے یہ خطاب سب لوگوں کے لیے ہے جس میں مسلمان بھی شامل ہیں اور یہ حکم قیامت تک کے لیے ہے۔ یعنی جو شخص بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طریق زندگی کو چھوڑ کر کوئی دوسرا طریق اختیار کرے گا وہ گمراہ ہوجائے گا اور جس قدر زیادہ مخالفت کرے گا اسی قدر گمراہی میں بڑھتا چلا جائے گا۔ اس کی یہ ذہنی اور عملی مخالفت اسے جہنم میں پہنچا کے چھوڑے گی۔ اب اس مخالفت یا گمراہی کی کئی صورتیں ہیں۔ مثلاً شرکیہ عقائد و اعمال اپنا لے یا سنت کو چھوڑ کر بدعات میں جا پڑے یا سنت رسول کو حجت ہی نہ سمجھے، یا کوئی نیا نبی بھی تسلیم کرلے یا ایسے بدعی عقائد اپنے مذہب میں شامل کرے جن کا اس دور میں وجود نہ تھا وغیرہ وغیرہ۔ غرض مخالفت اور گمراہی کی بے شمار اقسام ہیں لہٰذا اس معاملہ میں مسلمان کو انتہائی محتاط رہنا چاہیے۔ [١٥٣۔ الف] اجماع صحابہ حجت ہے :۔ اس جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اجماع امت یا صحابہ کرام کا کسی مسئلہ پر متفق ہوجانا منجملہ ادلہ شرعیہ ایک قابل حجت امر ہے اور اس اجماع کی مخالفت کرنے والا اور اجماع کو تسلیم نہ کرنے والا گناہ گار ہوتا ہے تاہم اس سلسلہ میں دو باتوں کو ذہن نشین رکھنا چاہیے۔ ایک یہ کہ صحابہ کرام کے اجماع کے حجت ہونے میں تو کسی کو کلام نہیں لیکن مابعد کے ادوار کا حجت ہونا بذات خود مختلف فیہ مسئلہ ہے اور راجح قول یہی ہے کہ مابعد کا اجماع امت کے لیے قابل حجت نہیں ہے۔ اور دوسرا یہ کہ صحابہ کا اجماع تو ثابت کیا جا سکتا ہے کیونکہ ان کا زمانہ بھی محدود اور علاقہ بھی محدود تھا۔ لیکن مابعد کے ادوار میں اجماع امت کا ثابت کرنا ہی بہت مشکل ہے جبکہ امت اقصائے عالم میں پھیل چکی ہے اور علماء بھی ہر جگہ موجود ہیں۔ دور صحابہ کے بعد جتنے مسائل کے متعلق یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان پر امت کا اجماع ہے، ان میں سے زیادہ ایسے ہیں کہ ان کو فی الواقع ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ النسآء
116 [١٥٤] اس آیت سے درج ذیل باتیں معلوم ہوئیں : ١۔ شرک ناقابل معافی جرم ہے جسے اللہ کسی صورت میں بھی معاف نہیں کرے گا۔ ٢۔ کیسے گناہوں کی معافی کی توقع ہو سکتی ہے :۔ دوسرے گناہوں کے متعلق یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ وہ معاف ہوجائیں گے۔ اللہ جس کو چاہے اور جونسا گناہ چاہے معاف کردینے کا اختیار رکھتا ہے اور چاہے تو ان پر مواخذہ بھی کرسکتا ہے۔ گناہ بھی دو قسم کے ہوتے ہیں یا ایک ہی گناہ میں دو قسم کے حقوق ہوتے ہیں۔ ایک اللہ کا حق، دوسرے بندوں کا حق، اللہ جسے چاہے اپنا حق معاف کر دے اور جسے چاہے نہ کرے مگر بندوں کے حقوق کی ادائیگی لازمی ہے تب ہی اللہ اپنا حق بھی معاف کرے گا۔ بندوں کا حق خواہ اس دنیا میں ادا کردیا جائے یا ان سے معاف کرا لیا جائے یا اللہ تعالیٰ اپنی مہربانی سے حقدار کو بدلہ اپنی طرف سے ادا کر دے۔ بہرحال بندوں کے حقوق کی معافی کے بعد اللہ کے حق کی معافی کی توقع ہو سکتی ہے۔ ٣۔ اور تیسری بات یہ کہ شرک ہی سب سے بڑی گمراہی ہے۔ شرک کو ہی ایک دوسرے مقام پر ''ظلم عظیم'' کہا گیا ہے۔ النسآء
117 [١٥٥] مشرکوں میں شرک کی جملہ اقسام پائی جاتی ہیں :۔ شرک کی موٹی موٹی تین اقسام ہیں اور وہ تینوں ہی اس جملہ میں آ گئی ہیں مثلاً (١) شرک فی الذات۔ اس لحاظ سے مشرکین اپنی دیویوں کو اللہ کی بیویاں اور بیٹیاں سمجھتے تھے اور ان دیویوں کے ناموں سے ہی یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے جیسے الٰہ سے لات اور عزیز سے عزی وغیرہ (٢) شرک فی الصفات۔ اللہ کی یہ صفت ہے کہ جہاں سے بھی اسے کوئی شخص پکارے وہ اس کی فریاد سنتا ہے اور مشرکین کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ دیویاں ان کی فریاد سنتی ہیں (٣) شرک فی العبادت۔ قرآن کی تصریح کے مطابق کسی کو اس عقیدہ سے پکارنا کہ وہ اس کی فریاد سن کر اس کی مشکل دور کرسکتا ہے یا اسے کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے اس کی عین عبادت ہے اور مشرکین بھی ایسا ہی عقیدہ رکھ کر دیویوں کو پکارتے تھے اور یہ صریح شرک ہے۔ نیز وہ اپنی دیویوں کے سامنے عبادت کے وہ سب مراسم بجا لاتے تھے جو صرف اللہ کے لیے سزا وار ہیں۔ [١٥٦] ابلیس کا انسانوں کو گمراہ کرنے کا دعویٰ :۔ شیطان کو پکارنا اس لحاظ سے ہے کہ انسان کو شرک کی جتنی راہیں سجھائی ہیں سب شیطان ہی نے سجھائی ہیں۔ گویا ایسا عقیدہ رکھ کر خواہ کسی کو بھی پکارا جائے وہ پکار بھی شیطانی ہے اور شیطان ہی کو پکارنے کے مترادف ہے اگرچہ سب لوگ شیطان کو اللہ کا باغی اور سرکش سمجھ کر ظاہری طور پر گالیاں ہی دیتے ہیں۔ النسآء
118 [١٥٧] یہ مقررہ حصہ وہ لوگ ہیں جو شیطان کے فریب میں آ کر اللہ کے ساتھ شرک کریں گے اور گمراہ ہوجائیں گے۔ اور یہ مقررہ حصہ آدھے سے بھی بہت زیادہ ہوگا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر فرمایا : ﴿ وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ ﴾ اور ہم نے بہت سے جن اور انسان جہنم کے لیے پیدا کیے ہیں۔ النسآء
119 [١٥٨] شیطانی فریب کی صورتیں :۔ ایسی جھوٹی آرزوئیں جن کا شریعت میں کوئی ثبوت نہ ہو۔ جیسے یہود کا یہ عقیدہ کہ انہیں دوزخ کی آگ چھو ہی نہیں سکے گی۔ ماسوائے ان چند دنوں کے جن میں گؤ سالہ پرستی کی تھی۔ یا جیسے یہ کہ ہم چونکہ انبیاء کی اولاد ہیں اور اللہ کے چہیتے اور پیارے ہیں لہٰذا ہمیں آخرت میں عذاب نہ ہوگا۔ ایسی جھوٹی آرزوئیں اور عقائد شیطان ہی خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے جس سے انسان گناہوں پر دلیر ہوجاتا ہے اور یہ بات یہودی تک محدود نہیں نصاریٰ اور مسلمان بھی اس معاملہ میں شیطان سے فریب خوردہ ہیں۔ نصاریٰ نے کفارہ مسیح کا عقیدہ گھڑ رکھا ہے اور مسلمانوں میں سید حضرات کہتے ہیں کہ ہماری خیر سے نسل ہی پاک ہے نیز پیروں کی سفارش کا عقیدہ بھی اسی ضمن میں آتا ہے۔ پھر یہ آرزوئیں صرف آخرت سے ہی متعلق نہیں ہوتیں، شیطان انسان کو کئی طرح کی دنیوی کامیابیوں، شادمانیوں اور عیش و عشرت کے سبز باغ دکھا کر بسا اوقات اسے گمراہ کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔ [١٥٩] جیسا کہ اہل عرب کیا کرتے تھے کہ جب کوئی اونٹنی دس بچے جن لیتی یا جس اونٹ کے نطفہ سے دس بچے پیدا ہو چکتے تو اسے اپنے دیوتا کے نام پر چھوڑ دیتے اور اس سے کام لینا حرام سمجھتے اور علامت کے طور پر اس کے کان چیر دیتے تھے۔ [١٦٠] شکل وصورت میں تبدیلی :۔ اس آیت کے بہت سے مفہوم ہیں مثلاً ایک یہ کہ کوئی مرد ایسی شکل و صورت بنائے کہ وہ عورت معلوم ہونے لگے یا کوئی عورت ایسی ہئیت کذائی بنائے کہ وہ مرد معلوم ہو۔ دوسرے یہ کہ بہروپ دھار کر لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کی جائے۔ تیسرے یہ کہ اپنی ہی شکل و صورت میں اپنی مرضی کے مطابق ایسی قطع و برید کی جائے جس سے وہ خوبصورت بن سکے۔ داڑھی منڈانا بھی اس ضمن میں آتا ہے۔ چوتھے یہ کہ کسی مخلوق سے وہ کام لیا جائے جس کے لئے اللہ نے اسے پیدا نہیں کیا۔ مثلاً لڑکوں سے لواطت کرنا یا جس کام کے لئے اللہ نے کسی مخلوق کو پیدا کیا ہے، اس سے وہ کام نہ لینا۔ مثلاً مردوں اور عورتوں کو بانجھ بنانا، برتھ کنٹرول، منصوبہ بندی، اسقاط حمل سے انسانی نسل کو روکنا، خصی کرنا وغیرہ۔ عورتوں کو گھر کے میدان سے باہر لاکر کھیتوں اور معیشت کے میدان میں لانا۔ اور ایسے کام دراصل فطرت کے خلاف جنگ ہے جس کے نتائج ہمیشہ برے ہی نکلتے ہیں اور فطرت کے خلاف جنگ میں بالآخر انسان ہی ناکام رہتا ہے۔ اور یہ سب پٹیاں شیطان ہی پڑھاتا ہے۔ اور ہر زمانہ میں اس کی صورتیں بدلتی رہتی ہیں۔ النسآء
120 [١٦١] مثلاً شیطان کا یہ پٹی پڑھانا کہ توحید کے ہوتے ہوئے باقی سب گناہ معاف ہوجائیں گے اور اس طرح گناہوں پر دلیر بنا دینا یا اولیاء اللہ کی ان کے مریدوں کے حق میں سفارش کرکے چھڑا لینے کے عقیدہ کو پختہ کردینا، یا یہ کہ ابھی کافی زندگی باقی ہے۔ نیک اعمال کے لئے اور توبہ کے لئے ابھی جلدی بھی کیا پڑی ہے۔ ایسے سب وعدے اور امیدیں شیطان انسان کو فریب میں مبتلا رکھنے کے لئے کرتا رہتا ہے۔ اور اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ شیطان انسان کے دل میں بے جا آرزوئیں پیدا کرتا رہتا ہے۔ جن سے انسان کی حرص اور طول امل میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جوں جوں ابن آدم بوڑھا ہوتا جاتا ہے اس کی حرص اور خواہشیں جواں ہوتی رہتی ہیں اور یہی دو باتیں تمام گناہوں کا سرچشمہ ہیں۔ طول امل کی وجہ سے انسان کو یہ خیال بھی نہیں آتا کہ اسے کسی وقت اس دنیا سے رخصت بھی ہونا ہے۔ اپنی موت سے بھول سے یاد نہیں آتی۔ حالانکہ ایسی آرزوئیں کسی کو ساری عمر نہ حاصل ہوئی ہیں اور نہ ہوں گی۔ ایسی ہی آرزؤں کی تکمیل لئے وہ کئی قسم کے گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے اور ہوتا رہتا ہے تاآنکہ موت اسے یکدم آکر دبوچ لیتی ہے۔ اور اس کی طویل خواہشات کے سلسلہ کو منقطع کردیتی ہے۔ النسآء
121 النسآء
122 [١٦٢] یہاں اہل ایمان اور جنت کا ذکر اللہ تعالیٰ کی اس سنت کے مطابق لایا گیا ہے کہ جہاں ترہیب کا ذکر ہو رہا ہو تو ساتھ ہی ترغیب کا اور جہاں ترغیب کا ذکر ہو رہا ہو تو ساتھ ہی ترہیب کا ذکر عموماً قرآن کریم میں آیا کرتا ہے۔ پچھلی آیات میں شیطان کے پیروکاروں کا ذکر تھا اور یہ بتایا گیا تھا کہ شیطان کے وعدے اور امیدیں دلانا سب کچھ مکروفریب ہوتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ ایمان والوں سے اللہ نے جس جنت کا وعدہ کر رکھا ہے۔ وہ بالکل سچا ہے اور اللہ سے بڑھ کر سچا ہو بھی کون سکتا ہے؟ لوگوں کے اعمال کے اچھے اور برے نتائج اس نے جو اطلاع دی ہے اور جنت اور دوزخ کے جو حالات بتائے ہیں وہ سب اس کی نظروں کے سامنے ہیں۔ زمان و مکان کی رکاوٹیں تو ہمارے لئے ہیں اور جنت اور دوزخ ہمارے لئے تو غیب ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے لئے سب باتیں شہود ہی شہود ہیں۔ اس کے لئے زمان و مکان بھی کوئی چیز نہیں۔ النسآء
123 [١٦٣] سستی نجات کا عقیدہ :۔ شیطان جن راہوں سے انسان کو گمراہ کرتا ہے ان میں سب سے زیادہ قابل ذکر ''سستی نجات کا عقیدہ'' ہے۔ تو اس میدان میں مسلمان یہود و نصاریٰ سے بھی دو ہاتھ آگے ہی ہوں گے جنہوں نے پیروں کی سفارش کے علاوہ اس دنیا میں بھی بہشتی دروازے بنا رکھے ہیں کہ جو شخص اس دروازے سے اس پیر کے عرس کے دن گزر گیا وہ بہشتی ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایسی خرافات کی تردید کرتے ہوئے نجات کی صحیح راہ بیان فرمائی اور وہ راہ اللہ تعالیٰ کا قانون جزا و سزا ہے۔ یہ قانون قرآن کریم میں متعدد مقامات پر مذکور ہے اور اس قانون کی قابل ذکر دفعات یہ ہیں : (١) قانون جزاء وسزاء کی دفعات :۔ ہر انسان کو صرف وہی کچھ ملے گا جو اس نے خود کمایا ہو، برے عمل کا بدلہ برا ہوگا اور اچھے عمل کا اچھا۔ (٢) جزا و سزا کے لحاظ سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں (٣) اگر کسی نے چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی کی ہوگی تو بھی اس کا اسے ضرور بدلہ ملے گا اللہ کسی کی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھی نظر انداز نہیں فرمائے گا۔ کسی کی ذرہ برابر بھی حق تلفی نہیں ہوگی۔ (٤) قیامت کے دن کوئی بھی شخص خواہ وہ اس کا پیر ہو یا کوئی قریبی رشتہ دار ہو دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھائے گا (٥) یہ ناممکن ہے کہ زید کے گناہ کا بار بکر کے سر ڈال دیا جائے (٦) شفاعت کے مستحق صرف گناہگار موحدین ہوں گے وہ بھی ان شرائط کے ساتھ کہ اللہ جس کے حق میں خود سفارش چاہے گا اسی کے حق میں کی جا سکے گی اور جس شخص کو سفارش کرنے کی اجازت دے گا صرف وہی سفارش کرسکے گا۔ اس قانون کے علاوہ نجات کی جتنی راہیں انسان نے سوچ رکھی ہیں، وہ سب شیطان کی بتلائی ہوئی راہیں ہیں۔ ان کا کچھ فائدہ نہ ہوگا البتہ یہ نقصان ضرور ہوگا کہ انسان ایسی امیدوں کے سہارے دنیا میں گناہوں پر اور زیادہ دلیر ہوجاتا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ وضاحت فرما دی کہ قیامت کے دن لوگوں کے ایسے من گھڑت سہارے کسی کام نہ آ سکیں گے جو اسے اللہ کے عذاب سے بچا سکیں۔ النسآء
124 النسآء
125 [١٦٤] دین ابراہیم کی صفات :۔ سیدنا ابراہیم کے دین کی قابل ذکر صفات دو ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ کے مقابلہ میں انہوں نے تمام طاغوتی طاقتوں سے ٹکر لی۔ تقلید آباء کا انکار کیا، بت پرستی اور نجوم پرستی سے ٹکر لی۔ نمرود کی خدائی کا انکار کیا اور چونکہ انہوں نے اپنے وقت کی تمام طاغوتی طاقتوں سے ٹکر لی اور ان کا مقابلہ کرتے ہوئے صرف ایک اللہ کے دامن میں پناہ لی۔ لہٰذا وہ حنیف کہلائے اور حنیف کا یہی معنیٰ ہے اور دوسری صفت یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کے تمام تر احکام کے سامنے برضا و رغبت اپنا سر تسلیم خم کردیا تھا۔ یہ نہیں کیا کہ جو بات آسان یا نفس کو مرغوب تھی اسے تو قبول کرلیا اور جو مشکل یا ناپسند تھی اسے چھوڑ دیا، یا اس کی حسب پسند تاویل کر کے اسی کے مطابق عمل کرلیا۔ یہی دو صفات تھیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم کو مختلف تجربوں اور آزمائشوں سے گزارنے کے بعد اپنا دوست بنا لیا تھا ۔ اب جو شخص ملت ابراہیم کی پیروی کا دعویٰ کرتا ہے اسے انہی دو صفات کو کسوٹی بنا کر دیکھ لینا چاہیے کہ وہ اپنے دعویٰ میں کس حد تک سچا ہے، اس سے غرض نہیں کہ وہ یہودی ہو یا عیسائی ہو یا مسلمان ہو یا کوئی اور ہو۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا دین ہی وہ دین ہے جسے اللہ تعالیٰ نے سب دینوں سے بہتر قرار دیا ہے اور اسی دین کا نام اسلام ہے جو سب انبیاء کا شیوہ رہا ہے۔ اور اس دین کے اہم اجزاء دو ہیں (١) اللہ کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کردینا (٢) اچھے اعمال بجا لانا اور ان دو اجزاء کا مفہوم اس قدر وسیع ہے جس میں پوری کی پوری شریعت سما جاتی ہے۔ النسآء
126 [١٦٥] جزاء و سزا کا قانون بیان کرنے کے بعد یہ فرمانا کہ کائنات کی ایک ایک چیز اللہ ہی کی ملک ہے اس لحاظ سے ہے کہ وہ اپنے اس قانون کو نافذ کرنے کی پوری پوری قدرت رکھتا ہے اور تم اس کی گرفت سے کسی صورت بچ نہیں سکتے۔ النسآء
127 [١٦٦] یتیم لڑکیوں سے ناانصافی :۔ یتیم لڑکیوں کے بارے میں جو احکام پہلے سنائے جا چکے ہیں وہ اسی سورۃ نساء کی آیت نمبر ٣ میں مذکور ہیں اور اس آیت کا اس آیت سے گہرا تعلق ہے۔ ہوتا یہ تھا کہ یتیم لڑکیوں کے سرپرست ان سے نکاح کرنے کے سلسلہ میں کئی طرح کی بے انصافیوں کا ارتکاب کرتے تھے جن کی تفصیل اسی سورۃ کی آیت نمبر ٣ کے تحت بیان کی جا چکی ہے۔ ان بے انصافیوں سے بچنے کی خاطر ایسی یتیم لڑکیوں کے سرپرستوں نے یہ محتاط رویہ اختیار کیا کہ ان سے نکاح کرنا ہی چھوڑ دیا تھا تاکہ ان سے ان یتیم لڑکیوں کے حق میں کوئی بے انصافی کی بات سرزد نہ ہوجائے۔ لیکن اس طرح بھی بعض دفعہ نقصان کی صورت پیش آ جاتی تھی اور وہ یہ تھی کہ جس قدر اخوت اور بہتر سلوک انہیں سرپرستوں سے نکاح کرنے میں میسر آ سکتا تھا، غیروں کے ساتھ نکاح کرنے سے وہ میسر آ ہی نہ سکتا تھا اور بعض دفعہ ان کی زندگی تلخ ہوجاتی۔ اس آیت کے ذریعہ اولیاء کو ان کے زیر کفالت یتیم لڑکیوں سے نکاح کی اجازت دے دی گئی مگر اس شرط کے ساتھ کہ ایک تو ان کے حق مہر میں کمی نہ کرو اور دوسرے جو کچھ تم طے کرو وہ ادا ضرور کر دو اور ان کے جو دوسرے حقوق وراثت وغیرہ ہوں، بھی انہیں ادا کر دو۔ اور بعض مفسرین نے اس آیت سے یتیم بچیوں کا وراثت میں حصہ مراد لیا ہے جس کے احکام پہلے اسی سورۃ کی آیت نمبر ١١ میں گزر چکے ہیں۔ دور جاہلیت کا دستور یہ تھا کہ وہ نہ میت کی بیوی کو وراثت سے کچھ حصہ دیتے تھے اور نہ یتیم لڑکیوں کو۔ بلکہ وراثت کے حقدار صرف وہ لڑکے سمجھے جاتے تھے جو لڑائی کرنے اور انتقام لینے کے قابل ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے آیت میراث کی رو سے بیواؤں، یتیم لڑکیوں کے علاوہ چھوٹے بچوں کو بھی وراثت میں حقدار بنا دیا اور اس آیت میں ماکَتَبَ لَھُنَّ کے الفاظ اسی بات پر دلالت کرتے ہیں۔ [١٦٦] یعنی ایسے یتیم بچے جو ان کے ولی کے زیر کفالت ہیں ان کے حقوق بھی انہیں پورے پورے ادا کرو۔ اور کسی طرح سے بھی ان سے ناانصافی نہ کرو، یتیموں سے حسن سلوک کے سلسلہ میں بھی پہلے سورۃ نساء کی ابتدا میں تفصیل گزر چکی ہے۔ النسآء
128 [١٦٧] اس آیت کی تفسیر میں درج ذیل دو احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ زوجین کا باہمی سمجھوتہ :۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس آیت کا مطلب یہ بیان فرماتی ہیں کہ مثلاً ایک شخص کے پاس عورت ہو جس سے وہ کوئی میل جول نہ رکھتا ہو اور اسے چھوڑ دینا چاہے اور عورت کہے کہ اچھا میں تجھے اپنی باری یا نان و نفقہ معاف کردیتی ہوں (مگر مجھے طلاق نہ دے) یہ آیت اس باب میں اتری۔ (بخاری، کتاب التفسیر) ٢۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کو اندیشہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں طلاق نہ دے دیں، تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ’’مجھے طلاق نہ دیجیے اپنے پاس ہی رکھیے اور میں اپنی باری عائشہ رضی اللہ عنہا کو دے دیتی ہوں‘‘ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا ہی کیا اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ گویا میاں بیوی جس شرط پر بھی صلح کرلیں وہ جائز ہے۔ (ترمذی، ابو اب التفسیر) [١٦٩] یہاں لالچ سے مراد صرف مال و دولت کا لالچ نہیں بلکہ اس میں تمام مرغوبات نفس شامل ہیں جیسا کہ حدیث نمبر ٢ سے معلوم ہوتا ہے۔ یعنی اگر عورت اپنے خاوند کی پسند کو ملحوظ خاطر رکھے گی تو یقیناً مرد کا دل بھی نرم ہوجائے گا اور صلح کے امکانات روشن ہوجائیں گے۔ [١٧٠] یعنی اگر تم بغیر کسی لالچ کے محض اللہ سے ڈر کر اپنی بیوی سے بہتر سلوک کرو اور اسے طلاق نہ دو تو اللہ سے یقیناً تمہیں اس احسان کا بدلہ مل جائے گا۔ النسآء
129 [١٧١] کسی ایک بیوی کی طرف میلان طبع کی وجوہ :۔ وہ اس لیے کہ مثلاً ایک بیوی جوان ہے، دوسری بوڑھی ہے، ایک خوبصورت ہے دوسری قبول صورت یا بدصورت ہے، ایک کنواری ہے دوسری شوہر دیدہ ہے، ایک خوش مزاج ہے دوسری تلخ مزاج ہے ایک ذہین و فطین ہے تو دوسری غبی اور کند ذہن ہے۔ اب ظاہر ہے کہ یہ ایسی صفات ہیں جن میں اگرچہ عورت کا اپنا کچھ عمل دخل نہیں تاہم یہ خاوند کے لیے میلان یا عدم میلان طبع کا باعث ضرور بن جاتی ہیں اور یہ فطری امر ہے۔ اس قسم کے میلان و عدم میلان پر انسان کا چونکہ اپنا کوئی کنٹرول نہیں ہوتا لہٰذا ایسے امور پر اللہ کی طرف سے گرفت اور مواخذہ نہیں۔ مواخذہ تو صرف ان باتوں پر ہوگا جو انسان کے اپنے اختیار میں ہوں مثلاً نان و نفقہ اور دیگر ضروریات زندگی کا خیال رکھنا عورتوں کی باری مقرر کرنا وغیرہ۔ اب جو باتیں انسان کے بس میں نہیں ان کے متعلق ہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم کما حقہ عدل نہ کرسکو گے۔ [١٧٢] بیویوں کے درمیان عدل کی حقیقت :۔ یعنی جن باتوں میں انسان انصاف کرنے کا اختیار رکھتا ہے ان کا ضرور لحاظ رکھا کرو۔ اس سے خودبخود ہی یہ نتیجہ پیدا ہوجائے گا کہ نہ تو تم ایک ہی بیوی کی طرف پوری طرح جھکو گے اور نہ کسی دوسری سے بالکل بے تعلق رہ سکو گے۔ اس آیت کی تفسیر میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان میں سے ایک کی طرف میلان رکھے تو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو جھکا ہوا ہوگا۔‘‘ (دارمی، کتاب النکاح، باب فی العدل بین النسائ) ٢۔ سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا نے اپنا باری کا دن (اور ایک روایت میں ہے کہ دن اور رات) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کردیا تھا۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں دو دن رہا کرتے، ایک ان کا اپنا باری کا دن اور ایک سودہ رضی اللہ عنہا کا دن۔ (بخاری، کتاب النکاح باب المراۃ تھب یومھا من زوجہا لضرتھا و کیف یقسم ذلک) ٣۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ کا یہ دستور تھا کہ عصر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام بیویوں کے ہاں جایا کرتے تھے۔ (بخاری، کتاب النکاح، باب دخول الرجل علی نسائہٖ فی الیوم) ٤۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب (مرض الموت میں) بیمار ہوئے اور بیماری شدت اختیار کرگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی بیویوں سے اجازت لی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیمار داری میرے گھر میں کی جائے تو تمام بیویوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اجازت دے دی۔ (بخاری، کتاب الہبہ، باب ھبۃ الرجل لامرأتِہٖ والمراۃ لزوجھا) ٥۔ نظریہ زوجگی کا رد :۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، یہ سنت ہے کہ جب کسی کنواری سے نکاح کرے تو اس کے ہاں سات دن رہے پھر باری مقرر کرے۔ اور جب شوہر دیدہ سے نکاح کرے تو اس کے ہاں تین دن رہے پھر باری مقرر کرے۔ (بخاری کتاب النکاح، باب اذاتزوج البکر علی الثیب و باب اذاتزوج الثیب علی البکر) بعض مسلمان جو تہذیب مغرب سے مرعوب ہیں اور یک زوجگی کے قائل ہیں، یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام ایک طرف تو تعدد ازواج کی اجازت دیتا ہے لیکن دوسری طرف عدل کو ناممکن قرار دے کر عملاً اس اجازت کو منسوخ کردیتا ہے۔ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عدل کو ناممکن صرف ان امور میں کہا ہے جو انسان کے بس سے باہر ہیں اور ان پر مواخذہ بھی نہیں جیسا کہ اوپر ذکر ہوا۔ اور دوسرا جواب اسی آیت کے اندر موجود ہے جو اللہ تعالیٰ نے یہ فرما دیا کہ ’’لہٰذا ایک ہی بیوی کی طرف نہ جھک جاؤ۔‘‘ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایک سے زیادہ بیویوں کی اللہ نے اجازت دے رکھی ہے۔ اس طرح ان کے شبہ یا اعتراض کی مکمل تردید ہوجاتی ہے۔ النسآء
130 [١٧٣] اور اگر ان میں نباہ اور حسن معاشرت کی کوئی صورت نظر نہ آ رہی ہو تو اسلام اس بات پر مجبور نہیں کرتا کہ ایک گھرانہ میں ہر وقت کشیدگی کی فضا قائم رہے اور جہنم زار بنا رہے۔ اس سے بہتر ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں۔ خواہ مرد طلاق دے دے یا عورت خلع لے لے۔ پھر دونوں کا اللہ مالک ہے وہ ان کے لیے بہت سامان پیدا فرما دے گا۔ اور یہ بات کئی بار تجربہ میں آ چکی ہے کہ جن دو میاں بیوی کا آپس میں نباہ ہونا ناممکن نظر آ رہا تھا اور وہ دونوں ہی ایک دوسرے سے نالاں اور ایک دوسرے پر الزام دھرتے تھے جب دونوں الگ ہوگئے تو ان دونوں کو اللہ نے اپنے اپنے گھروں میں سکھ چین سے آباد کردیا اور پھر زندگی بھر ان نئے جوڑوں میں موافقت و موانست کی فضا برقرار رہی اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ بسا اوقات میاں اور بیوی دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے ذہن میں دوسرے کے متعلق ایسی بدظنیاں اور بدگمانیاں پیدا ہوجاتی ہیں کہ وہ ہر سیدھی بات سے بھی غلط نتیجہ ہی اخذ کرتے ہیں۔ پھر جب انہیں نیا ماحول میسر آ جاتا ہے جس میں ذہن ایک دوسرے کی طرف سے بالکل صاف ہوتے ہیں تو ایسی کوئی کشیدگی پیدا نہیں ہوتی اور ان دونوں کی خوش باش زندگی کا نیا دور شروع ہوجاتا ہے۔ النسآء
131 [١٧٤] اللہ کی بے نیازی :۔ اس کائنات اور اس عالم دنیا سے اللہ کی بے نیازی کا یہ عالم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے پچھلے، انسان اور جن ّسب کے سب، سب سے زیادہ متقی آدمی کے دل کی طرح ہوجائیں تو اس سے میری سلطنت میں کچھ اضافہ نہ ہوگا۔ اور اگر تمہارے اگلے پچھلے انسان اور جن سب کے سب، سب سے فاجر آدمی کے دل کی طرح ہوجائیں تو اس سے میری سلطنت میں کچھ بھی کمی واقع نہ ہوگی۔ اور اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے اور پچھلے انسان اور جن سب کے سب ایک میدان میں کھڑے ہو کر مجھ سے مانگیں اور میں ہر ایک کو اس کی مطلوبہ چیز دے دوں تو جو کچھ میرے پاس ہے اس میں کوئی کمی نہ آئے گی مگر اتنی جتنی سوئی کو سمندر میں ڈبونے سے آتی ہے۔‘‘ (مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب تحریم ظلم المسلم و خذلہ۔۔ الخ) النسآء
132 [١٧٥] شرعی احکام انسانوں کی مصالح پر مبنی ہیں :۔ ان آیات ١٣٠ تا ١٣٢ میں تین بار یہ جملہ دہرایا گیا ہے ﴿ وَلِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ﴾ اور تینوں دفعہ اس کا استعمال الگ الگ مقصد کے لیے ہوا ہے۔ پہلی بار سے کشائش اور وسعت مقصود ہے یعنی اس کے یہاں کسی چیز کی کمی نہیں۔ کیونکہ آسمانوں اور زمین کی ایک ایک چیز اسی کی ملکیت ہے، اگر کسی جوڑے میں حالات کی ناسازگاری کی بنا پر جدائی ہوگئی ہے تو اللہ ان دونوں کے لیے بہتر حالات پیدا کرسکتا ہے کیونکہ ہر طرح کے اسباب و وسائل پر اس کا پورا پورا کنٹرول ہے۔ دوسری بار یہ جملہ ایک دوسرے مدلول کی دلیل کے طور پر آیا ہے جو یہ ہے کہ یہ اللہ کی خاص مہربانی اور فضل ہے کہ اس نے تم سے پہلے لوگوں کو بھی اور خاص تمہیں بھی شریعت نازل فرما کر ان احکام پر عمل کرنے اور اللہ سے ڈرتے رہنے کا حکم دیا اور شریعت کے یہ تمام احکام تمہارے ہی دینی اور دنیوی مصالح پر مبنی ہوتے ہیں، جن میں تمہارا فائدہ ہوتا ہے۔ وہ واجب کردیئے جاتے ہیں اور جن کاموں میں تمہارا نقصان ہوتا ہے وہ حرام کردیئے جاتے ہیں اب اگر تم ان احکام پر عمل کرو گے تو اس میں تمہارا ہی فائدہ ہے اور اگر نہ کرو گے تو اس میں تمہیں ہی نقصان پہنچے گا۔ اللہ کا نہ تمہاری اطاعت سے کچھ سنورتا ہے اور نہ تمہاری نافرمانی سے کچھ بگڑ سکتا ہے اس لیے کہ پوری کائنات کا مالک تو وہ پہلے ہی ہے۔ لہٰذا وہ تمہاری فرمانبرداری یا نافرمانی سے بے نیاز ہے اور اس کے کارنامے ایسے ہیں جو خود اس بات کی شہادت دے رہے ہیں کہ اس کائنات کا خالق مالک اور منتظم فی الواقع مستحق حمد ہے، تمہارے اس کی حمد کرنے یا نہ کرنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ النسآء
133 [١٧٦] اور جو تیسری بار اس جملہ کو دہرایا تو اس کا مدلول مسلمانوں کے مستقبل کے حالات ہیں یعنی اے مسلمانو! اگر تم اللہ کی نافرمانی کرو گے تو اس کے کاموں کا انحصار تمہیں پر نہیں وہ ایسا کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہے کہ اس صورت میں کوئی اور قوم آگے لے آئے اور اس کے ہاتھ سے تمہیں پٹوا کر پیچھے دھکیل دے جیسا کہ یہود اللہ کی نافرمانیوں اور بدکرداریوں میں مبتلا ہوئے تو انہیں عیسائیوں کے ہاتھوں پٹوا کر پیچھے دھکیل دیا تھا۔ اور اب تمہارے ہاتھوں ان دونوں کو پٹوا رہا ہے۔ اللہ کو تو اپنے دین کو سربلند کرنا ہے لہٰذا جو لوگ بھی اللہ کے اس مشن کو جاری رکھنے کے قابل ہوں گے وہ انہی کو آگے لے آئے گا لہٰذا تمہارا مفاد اسی میں ہے کہ تم ہی اس کے فرمانبردار بن کر رہو۔ النسآء
134 [١٧٧] دنیا وآخرت دونوں کا مطالبہ کیوں؟ یعنی اللہ کے ہاں تو سب کچھ موجود ہے۔ اب یہ ہر انسان کا اپنا اپنا ظرف ہے۔ اگر وہ دنیا کے فائدے ہی چاہتا ہے اور دنیا میں ہی مگن ہوگیا ہے تو اسے دنیا کے فائدے حاصل ہوجائیں گے اور جو آخرت کی بھلائی بھی چاہتا ہے اسے یقیناً آخرت میں اجر و ثواب ملے گا۔ اور اس کے علاوہ دنیا کے فائدوں میں سے بھی جو کچھ اس کے مقدر ہوچکا ہے وہ اسے مل کر رہے گا، لہٰذا عقلمند اور صاحب ظرف انسان کا کام یہ ہے کہ وہ اپنی تمام تر توجہ آخرت کے اجر و ثواب پر مبذول کرے۔ النسآء
135 [١٧٨] انصاف کی گواہی کا تاکیدی حکم :۔ اپنے خلاف گواہی دینے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے جرم کا برملا اعتراف کرلے خواہ اس کا کتنا ہی نقصان برداشت کرنا پڑے اور یہ بڑا حوصلے اور اجر و ثواب کا کام ہے۔ اپنے بعد سب سے قریبی والدین ہوتے ہیں پھر اس کے بعد دوسرے قرابت دار۔ اور ظاہر ہے کہ جو شخص اپنے خلاف گواہی دینے کی جرأت کرسکتا ہے وہ والدین اور اقرباء کے خلاف بدرجہ اولیٰ ایسی جرات کرسکے گا۔ اپنے خلاف گواہی دینے اور حق کی بات صاف صاف کہہ دینے سے بسا اوقات مخالف فریق پر بہت خوشگوار اثر پڑتا ہے اور اس کا دل از خود نرمی کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔ [١٧٩] دولت مند کے حق میں غلط گواہی اس لیے دی جاتی ہے کہ اس طرح گواہی دینے والا اس سے کوئی دنیوی مفاد حاصل کرسکے۔ اور غریب کے حق میں اس لیے کہ امیر کے مقابلہ میں غریب پر رحم اور ترس کھانا چاہیے اور اس طرح شاید اس کا کچھ بھلا ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ یہ فرما رہے ہیں کہ ان دونوں کا اللہ وارث ہے اور وہ ان دونوں کا تم سے زیادہ خیر خواہ ہے۔ ان کا بلکہ تمہارا اپنا بھی نفع و نقصان تمہارے ہاتھ میں نہیں۔ لہٰذا جو بھی صورت ہو گواہی تمہیں انصاف کے ساتھ بالکل ٹھیک ٹھیک اور اللہ سے ڈر کر دینی چاہیے۔ [١٨٠] گواہی میں ہیرا پھیری کی صورتیں :۔ شہادت کے وقت لگی لپٹی یا گول مول سی بات مت کرو جس سے کسی فریق کو نقصان پہنچ جائے۔ اور اس کی کئی صورتیں ہیں مثلاً مبنی برحق شہادت کا کچھ حصہ چھپایا جائے اور سمجھے کہ میں نے شہادت کے وقت جھوٹ نہیں بولا۔ تو یہ کتمان حق، جھوٹی شہادت سے بھی بڑا گناہ ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ گواہ کو واقعہ کا پورا پورا علم ہے لیکن وہ اس ترتیب سے توڑ موڑ کر اور ہیرا پھیری کر کے بیان کرے کہ بات کچھ کی کچھ بن جائے۔ اور اس کا مقصد کسی ایک فریق کو فائدہ پہنچانا ہوتا ہے جس سے دوسرے کو از خود نقصان پہنچ جاتا ہے اور بعض دفعہ گواہ کسی اپنے ذاتی مفاد کے لیے بھی ایسے کام کرنے لگتا ہے۔ یہ سب صورتیں عدل و انصاف اور تقویٰ کے خلاف ہیں۔ واضح رہے کہ اگر اس آیت کو ظاہری مفہوم میں لیا جائے تو اس کا وہی مفہوم ہے جو اوپر بیان ہوا ہے تاہم ( کونوا قوامین بالقسط) کے الفاظ اس سے وسیع تر مفہوم کے حامل ہیں۔ قوام، قائم سے مبالغہ کا صیغہ ہے اور قسط ایسا عام لفظ ہے جس میں دنیوی معاملات، خانہ داری، باہمی معاملات اور لین دین، اپنے اور بیگانے، کافر اور مومن ہر ایک سے انصاف کرنے کا حکم شامل ہے اور یہ صرف عدالت میں گواہی دینے تک محدود نہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے لیے، اس سے ڈرتے ہوئے جو بات کرو انصاف کی کرو۔ نیک کو نیک اور بد کو بد کہو۔ بات کہو تو سچی کہو خواہ اس میں تمہارا اپنا نقصان ہو رہا ہو یا اس کی زد تمہارے والدین یا کسی قریبی رشتہ دار پر پڑ رہی ہو۔ امیر اور غریب، کافر اور مومن کسی سے بھی رعایت نہ کرو بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کی رعایت رکھو۔ النسآء
136 [١٨١] ایمان کے درجات :۔ اس آیت میں ایمان کا لفظ دو معنوں میں یا ایمان کے دو مختلف درجوں میں استعمال ہوا ہے۔ اٰمنوا کا مطلب یہ ہے، لوگو جو تم مومنوں کی جماعت میں شامل ہوچکے ہو۔ اور اٰمنوا کا مطلب یہ ہے کہ خلوص نیت سچے دل اور پختہ عزم اور سنجیدگی کے ساتھ ایمان لاؤ اور اپنی سوچ، اپنے عمل، اپنے رویہ، اپنے نظریات، اپنے مذاق، اپنے کردار، اپنی دوستی اور دشمنی، اپنی اغراض، اپنی جدوجہد غرض ہر چیز کو اس عقیدے کے مطابق بناؤ جس پر تم ایمان لائے ہو۔ تب ہی تم میں انصاف پر قائم رہنے کی صفت پیدا ہو سکے گی۔ [١٨٢] قرآن سے پہلے کی نازل شدہ کتاب یا کتابوں پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ فی الواقع وہ کتاب بھی اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ جو کچھ مواد ان میں آج کل پایا جاتا ہے وہ سب کچھ منزل من اللہ ہے اس آیت میں اور اسی طرح دیگر متعدد آیات میں ایمان بالغیب کے پانچ اجزا کا ذکر آیا ہے جو یہ ہیں اللہ پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، اس کے فرشتوں پر اور آخرت کے دن پر بن دیکھے ایمان لایا جائے۔ یعنی ان پر پختہ یقین رکھا جائے۔ ایمان بالغیب کا چھٹا جزو تقدیر پر ایمان ہے یعنی ہر طرح کی بھلائی اور برائی اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے اور یہ عقیدہ بھی قرآن ہی کی متعدد آیات سے مستنبط ہے۔ اگرچہ اس آیت میں مذکور نہیں۔ [١٨٣] کفر کے درجے :۔ جس طرح پہلی آیت میں ایمان کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوا ہے اسی طرح اس آیت میں کفر کا لفظ بھی دو معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ایک یہ کہ سرے سے مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہی نہ ہو اور ان سب امور مذکورہ کا انکار کر دے۔ دوسرے یہ کہ ایمان کا زبانی دعویٰ کر کے مسلمانوں میں شامل تو ہوجائے لیکن جو اثرات اس عقیدہ کے اس کی طبیعت پر مترتب ہونا چاہیے تھے وہ نہ ہوں۔ نہ ہی وہ اپنے طریق زندگی کو شرعی تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے۔ ایسا ایمان بھی کچھ فائدہ نہ دے گا اور یہ سراسر گمراہی ہے۔ النسآء
137 [١٨٤] ایمان اور فکر کی بار بار تبدیلی :۔ ان سے مراد منافقین اور مرتدین کا گروہ ہے جو ہر وقت مذبذب ہی رہتے کہ جس طرف کا پلہ بھاری نظر آئے اس میں شامل ہوجائیں۔ ایسے لوگ ہوا کا رخ دیکھتے، حالات کا جائزہ لے کر اپنی خواہش نفس کے پیروکار ہوتے ہیں اور جتنی دفعہ بھی ہوا کا رخ بدلے اتنی دفعہ ہی ان کا ایمان اور کفر بدلتا رہتا ہے۔ ایسے ایمان کا چونکہ کچھ فائدہ نہیں ہوتا لہٰذا ان پر کفر ہی کی چھاپ مضبوط ہوتی جاتی ہے۔ اور کفر میں بڑھتے چلے جانے کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ خود تو کافر ہیں ہی دوسروں کو بھی کافر بنانے کے لیے اور اسلام کی راہ روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے رہتے ہیں ایسے لوگوں کی راہ راست پر آنے کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔ النسآء
138 النسآء
139 [١٨٥] کافروں سے دوستی منافق کی مثال اور کردار :۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بنانا یا سمجھنا منافقت کی واضح علامت ہے۔ یہ لوگ کافروں کے ساتھ میل جول رکھ کر ان کے نزدیک مقبول بننا چاہتے ہیں۔ حالانکہ نتیجہ اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے ''دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا'' والی بات بن جاتی ہے ایسے منافق، مسلمانوں کی نظروں سے بھی گر جاتے ہیں اور کافروں کی نظروں میں بھی ذلیل ہی رہتے ہیں اور ہر جگہ سے اپنا اعتماد کھو بیٹھتے ہیں اور جو شخص ہر حال میں ایک ہی گروہ سے منسلک رہے وہ دشمن کی نظروں میں بھی کم از کم قابل اعتماد ضرور ہوتا ہے۔ چنانچہ مسلم میں اسی مضمون کی ایک حدیث بھی وارد ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’منافق کی مثال بکریوں کے دو گلوں کے درمیان پھرنے والی بکری کی سی ہے جو کبھی اس گلے میں جاتی ہے اور کبھی اس گلے میں۔‘‘ (مسلم، کتاب صفۃ المنافقین و احکامھم) یہ بات بھی قابل غور ہے کہ منافق لوگ کافروں سے میل جول اس لیے رکھتے ہیں کہ ان کے ہاں وہ معتبر، مقبول اور معزز بن سکیں۔ لیکن اگر اللہ ان کافروں کو ہی، جن کے ہاں یہ عزت تلاش کر رہے ہیں ذلیل کر دے تو انہیں عزت کہاں سے ملے گی۔ النسآء
140 [١٨٦] یہ حکم مکہ میں سورۃ انعام کی آیت نمبر ٦٨ میں نازل ہوا تھا جو یہ تھا کہ ’’جو لوگ ہماری آیات میں کج بحثیاں کرتے ہیں آپ ان سے الگ رہیے تاآنکہ وہ کسی دوسری بات میں لگ جائیں اور اگر کبھی شیطان آپ کو یہ بات بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھو۔‘‘ یعنی جو لوگ ایسی مجالس میں بیٹھیں جہاں علانیہ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تضحیک اور استہزاء کیا جا رہا ہو یا سرے سے انکار ہی کیا جا رہا ہو اور وہ ایسی باتیں ٹھندے دل سے سن کر وہیں بیٹھے رہیں اور ان کی غیرت ایمانی کو ذرا بھی حرکت نہ ہو تو ان میں اور ان کافروں میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ ایسی صورت میں ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ اپنی ناراضگی کا اظہار کر دے، ان کی زبانیں بند کر دے اور اگر دلائل سے انہیں حق بات کا قائل کرسکتا ہو تو ضرور کرے اور اگر یہ دونوں کام نہیں کرسکتا تو کم از کم خود وہاں سے اٹھ کر چلا جائے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم میں سے جو شخص کوئی برا (خلاف شرع) کام ہوتا دیکھے تو اسے چاہیے کہ بزور بازو اسے مٹا دے اور اگر وہ ایسا نہیں کرسکتا تو زبان سے ہی منع کر دے اور اگر اتنی بھی طاقت نہ ہو تو کم از کم دل میں ہی اسے برا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور تر درجہ ہے۔‘‘ (مسلم، کتاب الایمان، باب کون النہی عن المنکر من الایمان) اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ اگر دل میں بھی برا نہ جانے تو سمجھ لے کہ اس میں رائی برابر بھی ایمان نہیں۔ واضح رہے کہ سورۃ انعام مکہ میں نازل ہوئی تھی اور مکہ میں اللہ کی آیات کا تمسخر اڑانے والے کفار مکہ تھے اور یہ سورۃ نساء مدینہ میں نازل ہوئی، یہاں اللہ کی آیات کا تمسخر اڑانے والے یہود مدینہ اور منافقین تھے گویا اللہ کے رسولوں، اور اللہ کی آیات کا مذاق اڑانا ہر طرح کے کافروں کا پرانا دستور ہے۔ النسآء
141 [١٨٧] منافقوں کی مفاد پرستی :۔ منافقین کا طبقہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی موجود تھا اور ہر دور میں موجود رہتا ہے اور آج بھی موجود ہے۔ ان میں ایمان نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی بلکہ ان کا ایمان صرف مفاد کا حاصل کرنا ہوتا ہے اور اصول، جھوٹ اور مکر و فریب ہوتا ہے۔ ایسے لوگ بس ہوا کا رخ دیکھتے رہتے ہیں۔ جدھر سے مفاد حاصل ہونے کی توقع ہو فوراً باتیں بنا کر ادھر لڑھک جاتے ہیں۔ اس آیت میں دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے منافقوں کا حال بیان کیا گیا ہے اگر مسلمانوں کو فتح نصیب ہو تو مال غنیمت میں سے حصہ لینے کی غرض سے کہتے ہیں کہ آخر ہم بھی تو مسلمان اور تمہارے ساتھی ہیں لہٰذا ہمیں بھی حصہ ملنا چاہیے۔ اور کافروں کو فتح ہو تو ان سے جا ملتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تمہارے ساتھ ہماری ہمدردیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ تمہیں فتح حاصل ہوگئی۔ ورنہ اگر ہم دل جمعی سے مسلمانوں کا ساتھ دیتے تو فتح پانا تو درکنار مسلمان تمہارا کچومر نکال دیتے لہٰذا ہمیں تم کیسے نظر انداز کرسکتے ہو۔ اس طرح وہ دونوں طرف سے مفاد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور آج کل ہمارے یہاں مفاد پرستوں کی ایک کثیر جماعت دو سیاسی پارٹیوں کے درمیان پھرتی رہتی ہے۔ ہوا کا رخ دیکھتے ہی فوراً اپنی پارٹی بدل کر ایسی پارٹی میں جا شامل ہوتے ہیں جو برسراقتدار ہو یا اس کے برسراقتدار آنے کی توقع ہو۔ ایسے لوگوں کے لیے ''لوٹا'' کی سیاسی اصطلاح وضع کی گئی ہے جو ''بے پیندا لوٹا'' کے محاورہ کا اختصار ہے جو ہر طرف لڑھکتا رہتا ہے۔ ان لوگوں کا دین و ایمان صرف پیسہ اور دوسرے مفادات ہوتے ہیں، جدھر سے زیادہ مل جائیں ادھر چلے جاتے ہیں۔ [١٨٨] اسی مضمون کو متعدد آیات میں دوسرے الفاظ سے دہرایا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ کافر اور منافق اللہ کے نور کو بجھانے کی جتنی بھی سر توڑ کوششیں کرسکتے ہیں، کر کے دیکھ لیں، اللہ اپنے اس ہدایت کے نور کو پورا کر کے رہے گا۔ بالآخر تمام ادیان پر اللہ کا دین ہی غالب ہو کر رہے گا۔ ایسی صورت ناممکن ہے کہ کافر مسلمانوں پر غالب آ جائیں۔ النسآء
142 [١٨٩] یعنی منافقوں کا تو کام ہی فریب کاریوں سے اپنا مفاد حاصل کرنا ہے اور جو سازشیں کرتے رہتے ہیں ان سے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بذریعہ وحی مطلع کردیتا ہے تو یہ اپنی سازش میں نامراد رہنے کے علاوہ مسلمانوں کی نظروں میں ذلیل و رسوا بھی ہوجاتے ہیں پھر کوئی اور پینترا بدل لیتے ہیں تو کافران سے بدظن ہوجاتے ہیں اس طرح ان کی فریب کاریوں کا وبال انہی پر ہی پڑتا رہتا ہے۔ [١٩٠] منافق کی نماز اور ان کا کردار :۔ نماز اسلام کا اہم رکن ہے اور مومن اور کافر میں فرق کرنے کے لیے یہ ایک فوری امتیازی علامت ہے منافقین چونکہ اسلام کے مدعی تھے لہٰذا انہیں نماز ضرور ادا کرنا پڑتی تھی کیونکہ جو شخص نماز باجماعت میں شامل نہ ہوتا تو فوراً سب کو اس کے نفاق کا شبہ ہونے لگتا تھا۔ لیکن ایک مومن اور منافق کی نماز میں فرق ہوتا تھا۔ مومن بڑے ذوق و شوق سے آتے اور وقت سے پہلے مسجدوں میں پہنچ جاتے۔ نماز نہایت اطمینان اور خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرتے اور نماز کے بعد بھی کچھ وقت ذکر اذکار میں مشغول رہتے اور مسجدوں میں ٹھہرے رہتے تھے۔ ان کی ایک ایک حرکت سے معلوم ہوجاتا تھا کہ انہیں واقعی نماز سے دلچسپی ہے اس کے برعکس منافقوں کی یہ حالت تھی کہ اذان کی آواز سنتے ہی ان پر مردنی چھا جاتی۔ دل پر جبر کر کے مسجدوں کو آتے۔ نماز میں خشوع و خضوع نام کو نہ ہوتا تھا۔ دلوں میں وہی مکاریوں اور فائدہ کے حصول کے خیالات اور نماز ختم ہوتے ہی فوراً گھروں کی راہ لیتے۔ ان کی تمام حرکات و سکنات اور ان کے ڈھیلے پن سے واضح طور پر معلوم ہوجاتا تھا کہ انہیں نہ نماز کی اہمیت کا احساس ہے نہ اللہ سے کچھ محبت ہے اور نہ ہی اللہ کے ذکر سے کوئی رغبت ہے۔ وہ مسجدوں میں آتے ہیں تو محض حاضری لگوانے کے لیے اور نماز پڑھتے ہیں تو دکھانے کے لیے۔ علاوہ ازیں منافقین نماز باجماعت کا التزام بھی کم ہی کرتے تھے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث میں منافقوں کی اسی کیفیت کا ذکر کیا گیا ہے۔ ١۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’منافق کی نماز یہ ہے کہ بیٹھا سورج کو دیکھتا رہتا ہے یہاں تک کہ جب سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان آ جاتا ہے تو اٹھ کر (نماز عصر کے لیے) چار ٹھونگیں مار لیتا ہے اور اس میں اللہ کو کم ہی یاد کرتا ہے۔‘‘ (مسلم، کتاب الصلٰوۃ۔ باب استحباب التبکیر بالعصر) ٢۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’منافقوں پر کوئی نماز صبح اور عشاء کی نماز سے زیادہ بھاری نہیں۔ اور اگر لوگ اس ثواب کو جانتے جو ان نمازوں میں ہے تو گھسٹ کر بھی پہنچتے۔ اور میں نے ارادہ کیا کہ موذن سے کہوں وہ تکبیر کہے اور کسی کو لوگوں کی امامت کا حکم دوں اور آگ کا شعلہ لے کر ان لوگوں (کے گھروں) کو جلا دوں جو ابھی تک نماز کے لیے نہیں نکلتے۔‘‘(بخاری، کتاب الاذان، باب فضل صلوۃ العشاء فی الجماعۃ) النسآء
143 [١٩١] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم قیامت کے دن اللہ کے ہاں بدتر اس شخص کو دیکھو گے جو دو رخا ہو۔ ان کے پاس آئے تو ان کی سی کہے اور ان کے پاس جائے تو ان کی سی کہے۔‘‘ (بخاری، کتاب الادب، باب ماقیل فی ذی الوجھین۔۔ مسلم، کتاب البروالصلۃ، باب ذم ذی الوجہین و تحریم فعلہ) النسآء
144 [١٩٢] منافقوں سے دوستی کی ممانعت :۔ وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے تو تمہیں غیر مسلموں اور منافقوں سے دوستی گانٹھنے سے منع فرمایا ہے پھر اگر تم اللہ کے حکم کے علی الرغم یہی کام کرو گے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ کے حضور تم خود ہی اپنے آپ کو سزا کے مستحق قرار دے رہے ہو۔ یہ حکم نہایت جامع قسم کا ہے جس کا تعلق افراد سے بھی ہے اور حکومت سے بھی۔ اس دنیا سے بھی ہے اور آخرت سے بھی۔ یعنی جس طرح ایک شخص کو کسی غیر مسلم یا منافق سے دوستی لگانے میں نقصان ہی کا احتمال ہے، اسی طرح اگر کوئی اسلامی یا مسلمان حکومت بھی غیر مسلموں سے دوستی کے روابط قائم کرے گی تو نقصان ہی اٹھائے گی۔ اور اس کا تجربہ بارہا ہو بھی چکا ہے اور بسا اوقات منافقوں اور غداروں نے ہی جو حکومت کے ذمہ دارانہ مناصب پر فائز تھے، مسلمانوں کی حکومتوں کو ڈبویا ہے۔ النسآء
145 [١٩٣] منافقوں کی علامات :۔ جس طرح جنت کے بہت سے درجات ہیں اسی طرح جہنم کے بھی بہت سے درجات ہیں۔ اور منافقین یا ان سے دوستی رکھنے والوں کا ٹھکانہ جہنم کا سب سے نچلا درجہ ہوگا۔ جہاں سب سے زیادہ عذاب ہوگا اور یہ کافروں کے عذاب سے بھی سخت ہوگا کیونکہ کافر اپنے دین و ایمان کے معاملہ میں کسی کو دھوکا نہیں دیتا۔ جبکہ منافق، کافروں اور مسلمانوں دونوں کو دھوکہ میں رکھ کر ان دونوں سے مفادات حاصل کرتا یا حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ منافقوں کی چند ظاہری علامات احادیث میں مذکور ہوئی ہیں۔ جو یہ ہیں : ١۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ جب بات کرے تو جھوٹ بولے اور وعدہ کرے تو اس کا خلاف کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھیں تو خیانت کرے۔‘‘ ٢۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’جس میں چار باتیں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان میں سے کوئی ایک ہوگی تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہوگی تاآنکہ اسے چھوڑ نہ دے۔ (اور وہ یہ ہیں) جب اس کے پاس امانت رکھیں تو خیانت کرے اور جب بات کرے تو جھوٹ بولے، کوئی عہد کرے تو بے وفائی کرے اور جب جھگڑا کرے تو بکواس بکے۔‘‘ (بخاری، کتاب الایمان، باب علامۃ المنافق) النسآء
146 [١٩٤] یعنی جن منافقوں نے توبہ کر کے اپنے اعمال درست کرلیے پھر دین اسلام پر مضبوطی سے جم گئے اور اپنی ہمدردیاں اور وفاداریاں صرف اللہ اور اس کے دین کو مضبوط بنانے کے لیے وقف کردیں اور اپنے آپ میں یہ چار اوصاف پیدا کرلیے تو وہ اس اخروی سزا سے بچ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کے سابقہ گناہ معاف کر کے انہیں مومنوں کی جماعت میں شامل کر دے گا اور جو مفادات دنیوی یا اخروی مومنوں کو حاصل ہوں گے وہ انہیں بھی حاصل ہوں گے۔ النسآء
147 [١٩٥] شکر کی تعریف اور اس کی ممانعت :۔ شکر کا معنیٰ اعتراف نعمت ہے اور اس کے تین مدارج ہیں (١) قلبی۔ یعنی انسان دل سے اللہ کے یا کسی کے حسانات کا اعتراف کرے۔ (٢) قولی۔ تحدیث نعمت کے طور پر زبان سے بھی اس کا اقرار کرے اور اللہ کے احسانات کا دوسروں کے سامنے تذکرہ کرے (٣) عملی۔ یعنی اس شکر کے اثرات اس کے اعضاء و جوارح سے بھی ظاہر ہوں۔ اور یہ تینوں درجات دراصل لازم و ملزوم ہیں۔ اور بالترتیب وجود میں آتے ہیں۔ انسان جب اللہ کے احسانات کا خیال کرتا ہے تو اس کا دل اللہ کی محبت اور وفاداری کے جذبات سے لبریز ہوجاتا ہے۔ پھر اسی وفور جذبات کا ہی یہ اثر ہوتا ہے کہ خود اکیلے بھی اور دوسروں کے سامنے بھی ان احسانات کا تذکرہ کرتا ہے اور اس سے دل میں خوشی محسوس ہوتی ہے پھر اسی محبت و اخلاص کا اس کی فکر پر یہ اثر ہوتا ہے کہ اللہ کے جتنے زیادہ مجھ پر احسانات ہیں اتنا ہی زیادہ مجھے اس کا مطیع و فرمانبردار اور عبادت گزار بننا چاہیے اور اس کی واضح مثال یہ واقعہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی آخری زندگی میں رات کو اتنا قیام فرماتے کہ آپ کے پاؤں متورم ہوجاتے۔ صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اللہ نے تو آپ کے سب اگلے اور پچھلے گناہ معاف فرما دیئے ہیں۔ پھر آپ اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہی'' تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ’’تو کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں‘‘ یہ واقعہ بہت سی احادیث صحیحہ میں مذکور ہے اور اس کا ماحصل یہ ہے کہ سچے مومن پر اللہ کے جتنے احسانات اور فضل و اکرام ہوتا ہے اتنا ہی اس کے جذبات محبت، خلوص اور وفاداری جوش میں آتے ہیں اور وہ ہر طرح سے ان احسانات کے شکر کا اظہار کرنے لگتا ہے۔ [١٩٦] لفظ ''شکر'' کی نسبت جب اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس کا مطلب قدر دانی یا قدر شناسی ہوتا ہے یعنی انسان اگر تھوڑا سا عمل یا شکر ادا کرے تو اللہ انسان کے عمل سے بہت بڑھ کر اس کا صلہ عطا فرماتا ہے اور چھوٹے موٹے گناہوں کو ویسے ہی معاف فرما دیتا ہے جبکہ انسان کا یہ حال ہے کہ وہ اکثر ناشکرا ہی واقع ہوا ہے اور کوئی شخص اس کی مرضی کے خلاف کام کرے تو اس سے محاسبہ میں سختی کرتا ہے۔ اللہ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ مہربان ہے جتنا ایک ماں اپنے بچہ پر مہربان ہوتی ہے لہٰذا اگر انسان شرک کر کے، یا پے در پے نافرمانیاں کر کے اپنے اللہ کو ناراض نہ کرلے تو اللہ کبھی کسی کو خواہ مخواہ سزا نہیں دیتا۔ النسآء
148 [١٩٧] مظلوم کس کس سے شکوہ کرسکتا ہے؟ یعنی مظلوم کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اللہ کے حضور ظالم کے لیے بددعا کرے یا حاکم کے سامنے ظالم کا ظلم بیان کر کے اس سے استغاثہ چاہے یا دوسرے لوگوں سے بیان کرے تاکہ وہ اس ظالم کا ہاتھ روکیں، یا کم از کم خود ظالم کے اس قسم کے ظلم سے بچ جائیں۔ یا مثلاً اگر کسی نے اسے گالی دی ہے تو وہ بھی ویسی ہی گالی دے دے۔ مگر زیادتی نہ کرے۔ اور ظالم کوئی بھی ہوسکتا ہے خواہ وہ مسلم ہو یا منافق، یہودی ہو یا کافر ہو۔ مظلوم کے علاوہ کسی کو یہ حق نہیں کہ کسی دوسرے کی بری بات لوگوں سے بیان کرتا پھرے اور اسی کا نام غیبت یا گلہ ہے جو گناہ کبیرہ ہے۔ جس کا مقصد محض کسی شخص کو دوسروں کی نظروں میں ذلیل بنانا ہوتا ہے اور جس شخص کی غیبت کی جائے اس کو جب معلوم ہو تو اس کے جذبات کا بھڑک اٹھنا ایک فطری بات ہے۔ مکہ میں مسلمانوں پر مظالم کی نوعیت اور تھی اور مدینہ میں اور تھی۔ مدینہ میں یہود اور منافقین مسلسل مسلمانوں کو دکھ پہنچاتے رہتے تھے، کبھی استہزاء سے، کبھی سازشوں اور مکر و فریب کی چالوں سے کبھی کج بحثیوں اور بیجا قسم کے اعتراضات اور بیہودہ قسم کی گفتگو سے۔ اور ایسے حالات میں مسلمانوں کے جذبات کا بھڑک اٹھنا معمولی بات تھی۔ ایسے ہی حالات میں مسلمانوں کو یہ ہدایت دی جا رہی ہے تاکہ کوئی بھی بات بتنگڑ بن کر کسی بڑے فتنہ کا باعث نہ بن جائے لہٰذا وہ اپنے جذبات کو کنٹرول میں رکھیں۔ النسآء
149 [١٩٨] عفو ودرگزر :۔ اس کے برعکس اے مسلمانو! اگر تم کسی زیادتی کا جواب بھلائی سے دو یا ظالم کو بددعا کی بجائے دعا دو یا علانیہ یا خفیہ اس کی بھلائی کی کوئی تدبیر سوچو یا اس کا قصور معاف بھی کر دو تو یہ تمہارے حق میں بہت بہتر ہے۔ کیونکہ تمہارا پروردگار ہر طرح کی قدرت رکھنے کے باوجود ظالموں حتیٰ کہ مشرکوں اور کافروں کو رزق بھی دیئے جاتا ہے اور انہیں مہلت بھی دیئے جاتا ہے اور ضمناً ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح کسی کی برائی بیان کرنا یعنی غیبت گناہ کبیرہ ہے اسی طرح کسی کے عیب پر پردہ ڈالنا یا پردہ پوشی بہت بڑی نیکی ہے اب معافی اور پردہ پوشی کے متعلق چند احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’معاف کردینے سے اللہ تعالیٰ بندے کی عزت ہی بڑھاتا ہے۔‘‘ (مسلم، کتاب البر والصلۃ باب استحباب العفو والتواضع) ٢۔ پردہ پوشی بہت بڑی نیکی ہے :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میری تمام امت کو معاف کردیا جائے گا بجز (گناہ) ظاہر کرنے والوں کے، اور وہ گناہ یہ ہے کہ آدمی رات کو کوئی (برا) کام کرے۔ پھر جب صبح ہو تو اگرچہ اللہ نے اس عمل پر پردہ ڈال دیا تھا، وہ کہے 'اے فلاں! میں نے آج رات یہ اور یہ کام کیا تھا۔ اللہ نے تو اس کے عیب پر پردہ ڈالا تھا مگر اس نے اپنے عیب سے اللہ کے پردہ کو کھول دیا۔‘‘ (مسلم، کتاب الزہد، باب النھی عن ہتک الانسان ستر نفسہ۔۔ بخاری کتاب الادب، باب ستر المومن علی نفسہ) ٣۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی قیامت کے دن اللہ اس کی پردہ پوشی کرے گا۔‘‘ (بخاری، کتاب المظالم، باب لایظلم المسلم المسلم) ٤۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (قیامت کے دن) تم میں سے کوئی شخص اپنے پروردگار سے اتنا قریب ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر اپنا بازو رکھ دے گا۔ پھر فرمائے گا، تم نے فلاں فلاں کام کیے تھے۔ وہ کہے گا 'ہاں۔' پھر اللہ تعالیٰ پوچھیں گے 'تم نے فلاں اور فلاں کام بھی کیا تھا ؟' وہ کہے گا 'ہاں' گویا وہ ہر جرم کا اقرار کرے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا 'میں نے دنیا میں ان پر پردہ ڈال دیا تھا اور آج تجھے معاف کرتا ہوں۔' (بخاری، کتاب الادب باب ستر المومن علی نفسہ نیز کتاب المظالم، باب قول اللہ تعالیٰ الالعنۃ اللہ علی الظالمین) ٥ سب سے آخر میں جنت میں داخل ہونے والا شخص اور اللہ تعالیٰ کی پردہ پوشی :۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس شخص کو جانتا ہوں جو سب سے آخر جنت میں داخل ہوگا اور سب سے بعد دوزخ سے نکلے گا۔ وہ شخص قیامت کے دن حاضر کیا جائے گا اور حکم ہوگا کہ اس کے ہلکے گناہ پیش کرو، بھاری نہ کرو۔ چنانچہ اس کے ہلکے گناہ پیش کر کے اسے کہاں جائے گا۔ کہ تو نے فلاں فلاں دن فلاں فلاں کام کیے تھے۔ وہ کہے گا ہاں اور انکار نہ کرسکے گا اور اپنے بڑے گناہوں سے ڈر رہا ہوگا کہ کہیں وہ پیش نہ کردیئے جائیں۔ اس کے لیے حکم ہوگا کہ تیری ہر برائی کے عوض تجھے ایک نیکی دی جاتی ہے۔ یہ سن کر وہ کہے گا اے میرے پروردگار! میں نے تو کچھ اور بھی کام کیے تھے جنہیں میں یہاں نہیں دیکھ رہا۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ اس بات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اتنا ہنسے کہ آپ کی داڑھیں نظر آنے لگیں۔ (مسلم کتاب الایمان۔ باب اثبات الشفاعۃ و اخراج الموحدین من النار) ان احادیث سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ کسی شخص کو ایسا ہرگز نہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنی سابقہ زندگی کے عیوب، جن پر اللہ نے پردہ ڈال رکھا تھا لوگوں کی سامنے ظاہر کرے اور نہ ہی توبہ اس بات کی مقتضی ہے کہ کسی کے سامنے اپنا کچا چٹھہ کھولے۔ جیسا کہ عیسائیوں میں یہ دستور ہے کہ توبہ کے وقت پادری کے سامنے گزشتہ عیوب کا اظہار و اقرار کرایا جاتا ہے۔ النسآء
150 [١٩٩] اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کا مطلب :۔ اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرنے والوں سے مراد دہریہ نیچری، یا مادہ پرست ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہیں کہ اللہ یا خالق کائنات کے وجود کو تو مانتے ہیں لیکن رسولوں کو نہیں مانتے ادر یہ بعض فلاسفروں اور سائنس دانوں کا طبقہ ہے کیونکہ ان کے نظریہ کے مطابق خالق کے بغیر کائنات کا وجود میں آنا اور اس میں ایسا مربوط اور منظم نظام پایا جانا عقلاً محال ہے۔ اور تیسرا گروہ وہ ہے جو اللہ پر اور اس کے بعض رسولوں پر ایمان لاتا ہے اور بعض پر نہیں لاتا۔ جیسے یہود نہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام پر اور نہ بعض دوسرے انبیاء پر ایمان لائے اور نہ نبی آخر الزمان پر۔ اور عیسائی باقی پیغمبروں پر تو ایمان لاتے ہیں مگر نبی آخر الزمان پر ایمان نہیں لاتے۔ حالانکہ ان کی کتابوں میں ہر آنے والے نبی کی بشارات موجود ہوتی تھیں۔ اور تیسری راہ اختیار کرنے والوں سے مراد یہی تیسرا گروہ یا اہل کتاب ہیں۔ ان کا ایمان تو یہ تھا کہ اللہ اور اپنے دور کے نبی اور اس پر ایمان لانے کا دعویٰ کیا۔ اور کفر یہ تھا کہ ان کے نبی نے جو ان سے آنے والے نبی کی اطاعت کا عہد لیا تھا یا ان کتابوں میں جو بشارات موجود تھیں ان کا انکار کردیا۔ اس لحاظ سے نہ وہ اللہ پر صحیح طور پر ایمان لائے نہ اپنے نبی پر اور نہ اپنی کتاب پر۔ النسآء
151 [٢٠٠] یعنی یہ تیسرا گروہ بھی ایسے ہی پکا کافر ہے جیسے پہلے دو طرح کے لوگ پکے کافر ہیں ان میں کوئی فرق نہیں اور پکا کافر ہونے میں سب یکساں ہیں۔ النسآء
152 [٢٠١] رسولوں کی ایک دوسرے پر فضیلت :۔ اس لیے کہ صحیح ایمان کی شرط ہی یہ ہے کہ اللہ اور اس کے تمام رسولوں اور نبیوں پر ایمان لایا جائے اور ان میں تفریق نہ کی جائے۔ اور تفریق کرنے کے بھی دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ کسی پر ایمان لایا جائے، کسی پر نہ لایا جائے۔ اور دوسرا یہ کہ بلحاظ درجہ نبوت سب برابر ہیں۔ اسی لحاظ سے آپ نے فرمایا کہ ’’کوئی شخص یہ نہ کہے کہ میں یونس بن متیٰ سے افضل ہوں۔‘‘ (بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ انعام۔ باب و یونس و لوطاً و کلاً فضلنا) رہے نبوت کے علاوہ دوسرے فضائل، تو ایک نبی پر دوسرے نبی کے ایسے فضائل کتاب و سنت میں صراحتاً مذکور ہیں اور اس لحاظ سے آپ افضل الانبیاء ہیں۔ اور ایسا صحیح ایمان لانے والوں کا ایمان ہی اللہ کے ہاں مقبول ہوگا اور ان کے اعمال کا انہیں پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ النسآء
153 [٢٠٢] یہود کا ایمان لانے کے لئے نوشتہ کا مطالبہ :۔ مثل مشہور ہے ''خوئے بدرابہانہ بسیار'' اسی مثل کے مصداق یہود مدینہ نے آپ سے یہ مطالبہ کیا کہ اگر آسمان سے کوئی لکھی ہوئی کتاب آپ پر آسمان سے نازل ہو تو ہم اس پر ایمان لے آئیں گے جیسا کہ موسیٰ پر تورات کی تختیاں نازل ہوئی تھیں۔ ان کے اس مطالبہ کے اللہ نے مختلف مقامات پر کئی طرح سے جواب دیئے ہیں۔ الزامی بھی اور تحقیقی بھی۔ الزامی جواب یہ ہے کہ سوال کرنا اور سوال کرتے جانا یہود کی عادت ثانیہ بن چکی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب ان پر آسمان سے تورات لکھی لکھائی نازل ہوئی تھی تو کیا یہ اس پر ایمان لے آئے تھے؟ مطالبہ دیدار الہٰی :۔ انہوں نے تو اس سے بھی بڑا مطالبہ پیش کردیا تھا جو یہ تھا کہ ہم جب تک اللہ کو نہ دیکھ لیں اور وہ بھی یہ کہے کہ واقعی یہ کتاب تورات میں نے ہی نازل کی ہے۔ اس وقت تک اے موسیٰ ہم تمہارا کیسے اعتبار کریں۔ اگرچہ ان کا ہر مطالبہ انتہائی سرکشی پر مبنی تھا۔ تاہم موسیٰ علیہ السلام انہیں کوہ طور کے دامن میں لے گئے۔ بھلا اللہ تعالیٰ کی جس تجلی کو خود سیدنا موسیٰ علیہ السلام بھی نہ سہار سکے تھے اور بے ہوش ہو کر گر پڑے تھے یہ لوگ بھلا کیسے سہار سکتے تھے؟ چنانچہ جب بجلی کی صورت میں تجلیات ان پر پڑیں، تو سب کے سب مر گئے۔ پھر سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے زندہ ہوئے اور یہ واقعہ تفصیل سے سورۃ بقرہ میں گزر چکا ہے۔ لہٰذا اب پھر اگر ان کی خواہش کے مطابق اتارا جائے تو یہ لوگ وہی کچھ کریں گے جو پہلے کرچکے ہیں۔ [٢٠٣] معجزات موسیٰ:۔ یہ واضح دلائل یہ تھے۔ عصائے موسیٰ، ید بیضاء آل فرعون پر چچڑیوں، جوؤں، مینڈکوں اور خون کا عذاب، جو سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے دور کردیا جاتا مگر پھر بھی وہ لوگ ایمان نہ لاتے۔ جادوگروں کے مقابلہ میں سیدنا موسیٰ کی نمایاں کامیابی اور جادوگروں کا ایمان لانا، دریا کا پھٹنا اور اس میں فرعون اور آل فرعون کا غرق ہونا، اور بنی اسرائیل کا فرعونیوں سے نجات پانا وغیرہ۔ غرض ایسے دلائل یا معجزات بے شمار تھے۔ انہیں دیکھ کر بھی جو لوگ کماحقہ، ایمان نہ لائے تھے۔ اگر آپ پر کتاب اتار بھی دی جائے تو کیا یہ لوگ ایمان لے آئیں گے؟ [٢٠٤] گؤسالہ پرستی :۔ تم اس قدر ظالم لوگ تھے کہ تم نے یہ نہ سمجھا کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے ہوتا رہا بلکہ تم میں سے اکثر نے یہی سمجھا کہ ہماری یہ نجات گؤ سالہ پرستی کی وجہ سے ہوئی ہے لہٰذا تم نے پھر سے گؤ سالہ پرستی شروع کردی۔ اور جب کسی بچھڑے کا نصب شدہ بت نہ ملا تو تم نے خود ہی بچھڑے کا بت بنا کر اس کی پوجا شروع کردی۔ یہ تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ النسآء
154 النسآء
155 [٢٠٥] قوم موسیٰ ٰکی نافرمانیاں :۔ ان آیات میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام پر تورات کی تختیاں جو نازل ہوئی تھیں تو ان پر تمہارا ایمان کس قسم کا تھا۔ جواب اس نبی سے ایسی ہی آسمان سے نازل شدہ تحریر کا مطالبہ کر رہے ہو۔ ہم نے ان الواح تورات پر عمل کرنے کا عہدا گر لیا تو تم پر پہاڑ کو اوندھا کرلیا ورنہ تم اتنے سرکش لوگ ہو کہ ان احکام کی پابندی کے لیے ہرگز تیار نہ تھے۔ اس کے بعد بھی تم نے ہر ہر حکم کی خلاف ورزی کی۔ تمہیں حکم تھا کہ شہر اریحا کی فتح کے بعد شہر کے دروازہ سے سجدہ ریز ہو کر اور عاجزی کرتے ہوئے داخل ہونا لیکن تم سرینوں کے بل اکڑتے ہوئے اور مادہ پرستانہ ذہن کے ساتھ گندم گندم پکارتے ہوئے داخل ہوئے۔ تم نے ہمارے حکم کے علی الرغم ہفتہ کے دن میں بھی مکر و فریب سے مچھلیوں کا شکار کیا۔ اسی طرح اللہ کی بہت سی آیات کا انکار کیا۔ اپنے کیے ہوئے پختہ عہدوں کو توڑا اور سب سے بڑھ کر یہ ظلم کیا کہ انبیاء کی اطاعت کے بجائے انہیں ناحق قتل کرتے رہے۔ کیا تورات پر ایمان لانے کے یہی انداز ہیں؟ [٢٠٦] دلوں کا پردہ میں محفوظ ہونا :۔ پھر جب انہیں کوئی ہدایت کی بات سنائی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہمارے دل اس قدر محفوظ ہیں کہ ہمارے عقائد و نظریات میں کوئی بات بھی نہ داخل ہو سکتی ہے اور نہ اثر انداز ہو سکتی ہے جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ان کی انہی نافرمانیوں اور عہد شکنیوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر بدبختی اتنی زیادہ چھا چکی ہے کہ اب کوئی بھی ہدایت کی بات ان پر بے اثر ثابت ہوتی ہے اور یہ لوگ اس قدر کج فہم ہوچکے ہیں کہ اپنی اس بدبختی کو بھی اپنی خوبی کے انداز میں پیش کر رہے ہیں۔ النسآء
156 النسآء
157 [٢٠٧] یہود کی الزام تراشیاں :۔ یہود کے دلوں پر اللہ نے جو بدبختی کی مہر لگائی تھی تو اس کی وجوہ صرف وہی نہیں جو اوپر مذکور ہو چکیں۔ بلکہ ان کے جرائم کی فہرست آگے بھی چلتی ہے۔ جن میں سے ان کا ایک جرم یہ تھا کہ سیدہ مریم علیہا السلام پر تہمت لگا دی اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو ولد الحرام کہتے تھے اور سیدنا زکریا علیہ السلام سے منسوب کرتے تھے اور دوسرا جرم یہ تھا کہ وہ کہتے تھے کہ ہم نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو سولی پر چڑھا کر مار ڈالا ہے۔ یعنی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش اور وفات جو دونوں معجزانہ طور پر واقع ہوئی تھیں ان کا صرف انکار ہی نہیں بلکہ ماں بیٹا دونوں پر الزامات بھی لگاتے رہے۔ ان الزامات اور ان کے جوابات کے لیے دیکھیے سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ٥٤، ٥٥ کے حواشی۔ النسآء
158 النسآء
159 [٢٠٨] یعنی جب قیامت کے نزدیک عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اس دنیا پر نزول فرمائیں گے تو سارے اہل کتاب (یہود بھی عیسائی بھی) سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی طبعی موت سے پیشتر ان پر ضرور ایمان لائیں گے۔ اس ضمن میں درج ذیل احادیث خاصی روشنی ڈالتی ہیں : ١۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ عنقریب تم میں ابن مریم عادل حکمران کی حیثیت سے نازل ہوں گے۔ وہ صلیب توڑ ڈالیں گے، جزیہ اٹھا دیں گے۔ اس زمانے میں مال کی اتنی کثرت ہوگی کہ اسے کوئی قبول نہ کرے گا اور ایک سجدہ ان کے نزدیک دنیا و مافیہا سے بہتر ہوگا۔ اگر چاہو تو پڑھ لو وان من اھل الکتٰب الا لیومنن بہ قبل موتہ ( بخاری، کتاب الانبیائ، باب نزول عیسیٰ بن مریم۔۔ مسلم، کتاب الایمان، باب نزول عیسیٰ بن مریم) ٢۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب عیسیٰ بن مریم تم میں نازل ہوں گے اور تمہارا امام تم ہی میں سے ہوگا۔ (یعنی وہ بھی شریعت محمدی کی پیروی کریں گے۔)‘‘ (بخاری، کتاب الانبیاء، باب نزول عیسیٰ بن مریم) ٣۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’میں رات کو اپنے تئیں خواب میں دیکھتا ہوں جیسے میں کعبہ کے پاس ہوں۔ میں نے دیکھا کہ ایک خوش شکل آدمی، گندمی رنگ، بال کندھوں تک اور سنہرے تھے اور سر سے پانی ٹپک رہا تھا۔ وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو دو آدمیوں کے کندھوں پر رکھے کعبہ کا طواف کر رہا ہے۔ میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا ’یہ مسیح ابن مریم ہیں۔‘ ان کے پیچھے میں نے ایک اور شخص کو دیکھا جس کے بال سخت گھونگریالے، رنگ کا سرخ اور داہنی آنکھ سے کانا اور اس کی آنکھ جیسے پھولا ہوا انگور ہو، جن لوگوں کو میں نے دیکھا ہے ان میں سے عبدالعزیٰ بن قطن کے بہت مشابہ جو دور جاہلیت میں مر گیا تھا اپنے دونوں ہاتھ ایک شخص کے کندھوں پر رکھے طواف کر رہا ہے۔ میں نے پوچھا 'یہ کون ہے؟' لوگوں نے کہا 'یہ مسیح دجال ہے۔' (حوالہ ایضاً) ٤۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ حق پر لڑتی رہے گی اور قیامت تک غالب رہے گی۔ پھر عیسیٰ بن مریم نازل ہوں گے تو اس جماعت کا امیر کہے گا آئیے! ہمیں نماز پڑھائیے۔‘‘ وہ کہیں گے ’’نہیں! اللہ کی طرف سے اس امت کو یہ شرف حاصل ہے کہ ان میں سے ہی کوئی دوسروں پر امیر ہو۔‘‘ (مسلم، کتاب الایمان۔ باب نزول عیسیٰ بن مریم) ٥۔ نزول مسیح اور فتنہ دجال :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’دجال اسی حال میں ہوگا کہ اللہ مسیح ابن مریم کو مبعوث فرمائے گا جو دمشق کے شرقی سفید مینار کے پاس اتریں گے اور زرد رنگ کا جوڑا پہنے اور اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے بازوؤں پر رکھے ہوں گے۔ جب اپنا سر جھکائیں گے تو قطرے ٹپکیں گے اور جب اٹھائیں گے تو بھی موتیوں کی طرح قطرے گریں گے۔ کافر ان کے سانس کی بو پاتے ہی مر جائے گا اور ان کا سانس حد نگاہ تک پہنچے گا۔ پھر وہ دجال کی تلاش کریں گے تو اسے باب لد پر پائیں گے۔ پھر اسے قتل کردیں گے۔‘‘ (مسلم، کتاب الفتن، باب ذکر الدجال ) ٦۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’دجال میری امت میں نکلے گا تو وہ چالیس۔۔ رہے گا مجھے نہیں معلوم کہ چالیس دن یا چالیس ماہ یا چالیس سال۔ (نواس بن سمعان کی روایت میں چالیس دن ہے) پھر اللہ تعالیٰ عیسیٰ بن مریم کو بھیجے گا۔ وہ ایسے ہوں گے جیسے عروہ بن مسعود ہے۔ عیسیٰ دجال کو تلاش کریں گے پھر اسے مار ڈالیں گے۔ پھر سات سال تک لوگ اس طرح رہیں گے کہ دو آدمیوں میں دشمنی نہ ہوگی۔‘‘ (مسلم، کتاب الفتن، باب ذکر الدجال) اہل کتاب کا سیدنا عیسیٰ پر ایمان لانا :۔ اہل کتاب میں سے عیسائی تو پہلے ہی رفع عیسیٰ علیہ السلام کے قائل ہیں البتہ یہودی بزعم خود ضرور یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو سولی پر چڑھا کر مار ڈالا تھا۔ قیامت کے قریب جب سیدنا عیسیٰ نزول فرمائیں گے تو ان کی شان و شوکت کو دیکھ کر یہود کو بھی اعتراف کرنا پڑے گا کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام واقعی اللہ کے رسول تھے اور انہوں نے ولدالحرام ہونے سے متعلق جو الزام لگایا تھا وہ سراسر غلط تھا۔ نیز ان کا یہ گمان باطل کہ انہوں نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو مار ڈالا ہے، بھی غلط ثابت ہوجائے گا۔ نزول عیسیٰ کے منکرین کی تاویل :۔ بعض منکرین معجزات یہ کہتے ہیں کہ ﴿وَاِنْ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ﴾ کی ضمیر اہل کتاب کی طرف لوٹتی ہے۔ اس لحاظ سے وہ اس کا مطلب یہ بتاتے ہیں کہ اہل کتاب اپنی موت کے وقت جبکہ غیب کے سب پردے ہٹ جاتے ہیں مرنے سے پیشتر ضرور عیسیٰ علیہ السلام کی رسالت اور نبوت پر ایمان لے آئیں گے۔ اس تاویل کے بعد وہ احادیث مندرجہ بالا کو ناقابل اعتماد قرار دے کر نزول مسیح سے انکار کردیتے ہیں۔ یہ تاویل اس لحاظ سے غلط ہے کہ موت کے وقت غیب کے پردے ہٹ جانے سے تو بے شمار حقائق منکشف ہوجاتے ہیں اور یہود کو یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ جن جن انبیاء کو یہود نے جھوٹا سمجھ کر قتل کردیا تھا وہ سب سچے تھے پھر اس میں سیدنا عیسیٰ کی کیا تخصیص رہ گئی اور ان کی کیا خصوصیت اور فوقیت ثابت ہوئی جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے؟ علاوہ ازیں ہمیں کوئی کمزور سے کمزور روایت بھی ایسی نہیں ملتی جو ان لوگوں کے اس نظریہ کی تائید کرتی ہو۔ جبکہ نزول عیسیٰ سے متعلق اس قدر احادیث کتب احادیث میں موجود ہیں جو حد تواتر کو پہنچتی ہیں۔ النسآء
160 [٢٠٩] گمراہ کن نظاموں کے موجد یہودی ہیں :۔ یہود کی بدکرداریوں کا سلسلہ ابھی مزید چل رہا ہے۔ اس آیت میں جو جرم بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ وہ نہ تو خود ایمان لاتے ہیں اور نہ دوسروں کو ایمان لانے دیتے ہیں بلکہ جو شخص ایمان لانے پر آمادہ ہو ان کے ذہن میں کئی طرح کے شکوک و شبہات پیدا کر کے اسے اللہ کی راہ سے باز رکھتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ صرف دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی متعلق نہیں بلکہ غالباً یہ بدبختی بھی تاقیامت انہی یہود کا مقدر ہوچکی ہے۔ موجودہ دور میں فلسفہ اشتراکیت کا موجد ایک یہودی تھا جسے یہودی دماغوں نے ہی ایک نظام کی شکل دی۔ اور اس نظریہ کی بنیاد ہی اللہ تعالیٰ کے صریح انکار پر قائم ہوتی ہے۔ آج کا دوسرا گمراہ کن فلسفہ سگمنڈ فرائڈ کا ہے جس نے فحاشی اور بے حیائی کو انتہائی فروغ بخشا ہے اور یہ فرائڈ بھی بنی اسرائیل ہی کا ایک فرد ہے۔ [٢١٠] ان کے ایسے جرائم کی ایک سزا تو انہیں یہ ملی کہ ان کے دلوں پر ایسی بدبختی مسلط ہوگئی کہ وہ حق بات کو سننے پر بھی آمادہ نہیں ہوتے اور دوسری سزا یہ ملی کہ بعض کھانے پینے کی چیزیں جو ان پر پہلے حلال تھیں وہ حرام کردی گئیں۔ (دیکھئے سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ٩٣ کا حاشیہ نمبر ٨٢) النسآء
161 [٢١١] یہود کی سود خوری اور حرام خوری کے سلسلہ میں دیکھئے سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ٧٥ کا حاشیہ نمبر ٦٦، اور ٦٧۔ [٢١٢] ذلت اور مسکنت :۔ آج بھی دنیا میں سب سے بڑی سود خور اور حرام خور اور مالدار قوم یہود ہی ہے لیکن اپنی اس مالداری کے باوجود یہود ہمیشہ پٹتے ہی رہے ہیں اور کہیں بھی امن کی زندگی بسر نہیں کرسکے۔ موجودہ دور میں جو یہود کی حکومت اسرائیل قائم ہوئی ہے وہ بھی دوسری حکومتوں سے قائم ہے اور انہی کے زیر سایہ چل رہی ہے اور ان کی اس غاصبانہ حکومت کو آج تک بیشتر ممالک نے تسلیم ہی نہیں کیا۔ یہ عذاب تو دنیا میں ملا۔ اور آخرت میں تو بہرحال انہیں ان کی سب نافرمانیوں اور بدعہدیوں کی سزا مل کے ہی رہے گی۔ النسآء
162 [٢١٣] علم میں پختہ وہ لوگ ہیں جو منزل من اللہ وحی کے متلاشی ہوں اور وہیں سے دلیل اور رہنمائی حاصل کریں۔ لکیر کے فقیر نہ ہوں۔ نہ تقلید آباء کے پابند ہوں اور نہ ایسے رسم و رواج کے جو دین میں راہ پا کر اس کا حصہ بن گئے ہوں جیسے بدعات وغیرہ۔ جیسے عبداللہ رضی اللہ عنہ بن سلام اور ان کے ساتھی تھے۔ [٢١٤] دوہرا اجر پانے والے :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اہل کتاب میں سے جو شخص (خواہ وہ یہودی ہو یا نصرانی) اسلام لائے اس کو دوہرا اجر ملے گا۔ ایک اجر اپنے پیغمبر پر ایمان لانے کا اور دوسرا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے کا۔‘‘ (بخاری، کتاب الجہاد، باب فضل من اسلم من اہل الکتابین) [٢١٥] اس آیت پر آ کر یہود کے اس مطالبہ کے جواب ختم ہو رہے ہیں جو انہوں نے آپ سے کیا تھا کہ اگر آپ پر قرآن ایسے یکبارگی آسمان سے اترے جیسے سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر تورات کی الواح نازل ہوئی تھیں، تو تب ہی ہم آپ پر ایمان لائیں گے۔ درمیان میں یہود کے تورات پر ایمان لانے کی کیفیت، ان کی بدکرداریاں اور عہد شکنیاں ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ اہل علم کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی کتاب پر پوری طرح ایمان لاتے ہیں پھر اس کے احکام کی پوری طرح پابندی کرتے ہیں۔ حیلے بہانے، اعتراضات، مطالبات اور کٹ حجتی نہیں کرتے۔ ایسے ہی لوگ اجر عظیم کے مستحق ہوتے ہیں۔ النسآء
163 [٢١٦] اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آنے کا طریق کار وہی تھا جو دوسرے انبیاء کے لیے تھا۔ اور یہ طریق کار سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبان سے سنئے : ١۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ پہلے جو وحی آپ پر شروع ہوئی وہ پاکیزہ خواب تھے۔ سوتے میں آپ جو خواب دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح واضح ہوتا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہائی پسند آنے لگی اور آپ غار حرا میں اکیلے رہنے لگے مسلسل کئی راتیں وہاں رہ کر عبادت کرتے۔ پھر جب توشہ ختم ہوجاتا تو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس لوٹ کر آتے اور اتنا توشہ اور لے جاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی حال میں غار حرا میں تھے کہ آپ کے پاس فرشتہ آیا۔ جس نے کہا ''اقرأ '' آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ میں نے ک’’میں پڑھا لکھا نہیں۔۔ ‘‘(آگے تفصیل کے لیے دیکھئے سورۃ علق) ٢۔ وحی کے مختلف طریقے :۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حارث بن ہشام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ پر وحی کیسے آتی ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کبھی تو ایسے آتی ہے جیسے گھنٹے کی جھنکار۔ اور یہ وحی مجھ پر سخت ناگوار ہوتی ہے پھر جب فرشتے کی کہی ہوئی بات مجھے یاد رہ جاتی ہے تو یہ موقوف ہوجاتی ہے اور کبھی فرشتہ مرد کی صورت میں میرے پاس آتا ہے، مجھ سے بات کرتا ہے تو میں اس کی کہی ہوئی بات یاد کرلیتا ہوں۔‘‘ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ جب سخت سردی کے دن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترتی، پھر جب موقوف ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی سے پسینہ پھوٹ نکلتا۔ (بخاری، باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دوسرا مطلب یہ ہے کہ آپ پر جو وحی کی جاتی ہے اس کے مضامین وہی کچھ ہیں جو سابقہ انبیاء کو وحی کیے جاتے رہے ہیں۔ یعنی اگر کوئی شخص آج بھی تورات اور انجیل کا بنظر غائر مطالعہ کرے جن میں تحریف بھی ہوچکی ہے اور بہت سے الحاقی مضامین بھی ان میں شامل ہوچکے ہیں۔ تاہم بے شمار مقامات ایسے بھی آ جاتے ہیں جن سے ایک عالم شخص یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ان تمام کتب سماویہ کا سرچشمہ ایک ہی ہے۔ [٢١٧] یہود زبور کو وحی الہٰی تسلیم کرتے ہیں حالانکہ وہ الواح تورات کی طرح یکبارگی نازل نہیں ہوئی تھی۔ یہاں یہود کے لیے زبور کا ذکر بالخصوص اس لیے آیا ہے کہ تم اگر یکبارگی نازل ہونے کے باوجود اسے وحی الہی مانتے ہو تو آخر قرآن کو وحی الہی ماننے سے کیا چیز مانع ہے۔ یہ دراصل یہود کے مذکورہ مطالبہ کا ہی جواب ہے۔ النسآء
164 [٢١٨] وحی کو رسول تک پہنچانے کے دو طریقے تو اوپر حدیث نمبر ٢ میں بیان ہوچکے۔ تیسرا طریق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پردے کے پیچھے سے کسی رسول سے کلام کرے اور یہ فضیلت بالخصوص سیدنا موسیٰ کو عطا ہوئی۔ اس لیے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا خاص طور پر ذکر کیا گیا۔ البتہ معراج کے موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی عطا ہوئی تھی۔ اور ان تینوں صورتوں کا ذکر قرآن کریم میں سورۃ شوریٰ کی آیت نمبر ٥١ میں بھی مذکور ہے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی نبوت و رسالت کا آغاز ہی ایسی وحی سے ہوا جس میں اللہ تعالیٰ سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے ہم کلام ہوئے تھے اور یہ آواز ایک درخت کے پیچھے سے آ رہی تھی (تفصیل آگے سورۃ ق میں آئے گی) پھر اس کے بعد بھی کوہ طور پہ ہم کلامی نصیب ہوئی اسی لیے موسیٰ کو کلیم اللہ کہا جاتا ہے۔ النسآء
165 [٢١٩] کائنات میں انسان کی حیثیت اور اللہ کی طرف سے اتمام حجت :۔ اللہ تعالیٰ نے فطرتاً انسان کو اتنی عقل عطا کی ہے کہ وہ اللہ اور اس کی صفات کی معرفت حاصل کرسکے انسان اتنا تو جانتا ہی ہے کہ کوئی چیز اس کے خالق کے بغیر وجود میں نہیں آ سکتی۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اگر کوئی چیز مدتہائے دراز سے ایک مربوط نظام کے تحت حرکت کر رہی ہے تو لازماً وہ اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ اس چیز کی نگہداشت کرنے والی بھی کوئی ہستی ضروری موجود ہے کیونکہ کوئی چیز خواہ کتنی ہی مضبوط ہو، کچھ مدت کے بعد بگڑنا شروع ہوجاتی ہے۔ اور اگر اس بگاڑ کو بر وقت درست نہ کردیا جائے تو با لآخر تباہ ہوجاتی ہے۔ لہٰذا اگر یہ کائنات محض اتفاقات کا نتیجہ ہوتی تو کب کی فنا ہوچکی ہوتی لیکن چونکہ سب انسان ایک جیسی عقل کے مالک نہیں ہوتے لہٰذا اللہ تعالیٰ نے رسول بھیج کر انسان کو تمام حقائق سے مطلع فرما دیا کہ انسان کی اس پوری کائنات میں حیثیت کیا ہے؟ اسے یہاں رہ کر کیا کردار ادا کرنا ہے اور اگر وہ اس کردار کو ادا کرنے میں کامیاب رہا تو اس کی اخروی زندگی میں اسے اس کا کیا کچھ اجر ملے گا اور اگر ناکام رہا تو اسے اخروی زندگی میں کیا کچھ دکھ اور مصائب برداشت کرنا ہوں گے اور رسول بھیجنے کا یہ طریقہ اس لیے جاری کیا کہ قیامت کے دن کوئی شخص اللہ کے حضور یہ نہ کہہ سکے کہ مجھے تو ان حقائق کا علم ہی نہ تھا لہٰذا میں معذور ہوں۔ اور یہ انبیاء اور رسل دنیا میں اس کثرت سے آئے اور اپنے بعد نازل شدہ کتابیں چھوڑ گئے کہ عالم انسانی پر کوئی ایسا دور نہیں آیا جبکہ کوئی نبی یا اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کوئی کتاب دنیا میں موجود نہ ہو، جو انسان کی ان حقائق تک رہنمائی نہ کرتی ہو۔ پھر بھی اگر انسان اس کی طرف توجہ ہی نہ کرے یا اللہ کی تعلیمات کا انکار کر دے تو اس کا وبال اس کی اپنی گردن پر ہوگا۔ اس آیت سے ضمناً یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچ چکا ہے ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پیغام کو ان لوگوں تک بھی پہنچا دیں، جن تک یہ پیغام ابھی تک نہ پہنچا ہو۔ کیونکہ ایسے علماء ہی حقیقتاً انبیاء کے وارث ہوتے ہیں۔ النسآء
166 [٢٢٠] قرآن علم الہی کا خزانہ ہے :۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ یہ قرآن علم الٰہی کا مخزن ہے۔ وحی کے ذریعہ انسان کو ایسی باتوں کا علم ہوا جنہیں معلوم کرنے کا اس کے پاس کوئی ذریعہ نہ تھا مثلاً دشمنوں کی سازشوں کی بروقت اطلاع، مسلمانوں کی بروقت امداد، ہنگامی پس منظر میں احکام الہی کا فوری نزول، مستقبل کے متعلق بہت سی پیشین گوئیاں جو قرآن کریم میں مذکور ہیں۔ مثلاً روم کا ایران پر غلبہ، دین اسلام کی تمام ادیان پر سر بلندی، قیامت سے پہلے اور مابعد کے حالات نشر و حشر اور جنت دوزخ سے متعلق معلومات وغیرہ۔ اور اسی وحی الہیٰ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ایک مبتدی اور ایک منتہی دونوں ہی قرآن سے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق فیض یاب ہوتے ہیں۔ تیسرا پہلو یہ ہے کہ جوں جوں انسان آیات الہی میں غور کرتا ہے نئے نئے حقائق اس کے سامنے آنے لگتے ہیں۔ اور یہ سب باتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ قرآن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے علم سے نازل فرمایا ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کے علم کی وسعت لامحدود ہے اسی طرح اس کے کلام کی پہنائیاں اور حقائق بھی لامحدود ہیں۔ [٢٢١] فرشتوں کی گواہی اس لحاظ سے قابل اعتبار ہے کہ وہ مدبرات امر ہیں اور کائنات کے جملہ امور اللہ کے اذن سے انہی کے ہاتھوں سر انجام پا رہے ہیں اور اللہ کا کلام بھی انہی کے ذریعہ نازل ہوتا ہے۔ اگرچہ فرشتوں کی گواہی کی بھی ضرورت نہیں بلکہ اللہ کی گواہی ہر لحاظ سے کافی ہے کیونکہ وہ ہر چیز کا خالق اور اس کا منتظم ہے اور فرشتے تو اسی کے حکم کے پابند ہیں۔ النسآء
167 [٢٢٢] یعنی جس نے اللہ کی آیات کا انکار کیا اس نے اللہ کے علم کا بھی انکار کردیا اور اس کی گواہی کا بھی۔ پھر صرف خود ہی انکار نہ کیا بلکہ اس کی راہ میں روڑے بھی اٹکاتا رہا اور جو لوگ ایمان والے تھے ان کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کر کے ان کو راہ راست سے روکتا رہا یقیناً وہ بہت بڑی گمراہی میں پڑگیا ایسے لوگوں کے جرائم ناقابل معافی ہیں اور گمراہی اور جہنم کے علاوہ انہیں کوئی اور راہ سوجھتی ہی نہیں۔ یہود کا تحریف شدہ تورات پر اور اپنے اہل علم ہونے کا ناز :۔ یہود کی علمی ساکھ چونکہ اہل عرب کے ہاں مسلم تھی (اور وہ غیر یہود کو امی یا ان پڑھ یا جاہل کہا کرتے تھے۔) اس لیے ان کی ہر جائز اور ناجائز بات کو اہل عرب درخور اعتنا سمجھتے تھے اس علمی ساکھ سے یہود نے بہت ناجائز فائدے اٹھائے۔ اور جن باتوں سے وہ لوگوں کو شکوک و شبہات میں مبتلا کرتے تھے ان کا ذکر اکثر مقامات پر گزر چکا ہے۔ منجملہ ایک یہ تھا کہ یہود یہ سمجھتے تھے کہ ان کی شریعت اور بالخصوص تورات تا قیامت ناقابل تنسیخ ہے اور اس کے احکام میں رد و بدل نہیں ہو سکتا۔ حالانکہ تورات پر جو تاریخی حادثے گزر چکے تھے اور دو بار تورات ان سے گم بھی ہوگئی تھی وہ انہیں معلوم تھا۔ پھر ان کے علماء کو بھی یہ علم تھا کہ تورات میں بہت سے الحاقی مضامین شامل کرلیے گئے ہیں اور بعض دفعہ خود علمائے یہود کو یہ الجھن پیش آ جاتی تھی اور وہ خود بھی یہ تمیز نہ کرسکتے تھے کہ ان میں سے کونسا اور کتنا مضمون الہامی ہے اور کتنا الحاقی ہے۔ پھر اس میں علمائے یہود حسب منشاء اور ضرورت تحریف بھی کر ڈالتے تھے لیکن ان سب باتوں کے باوجود وہ یہ سمجھتے تھے کہ جو تورات ان کے پاس موجود ہے۔ وہ ناقابل تغیر اور ناقابل تنسیخ ہے اور یہی بات وہ دوسروں کے ذہن نشین کرا کر انہیں اسلام لانے سے روکتے تھے۔ اور دوسرا ان کا زعم باطل یہ تھا کہ آنے والا نبی آخر الزمان انہی بنی اسرائیل میں سے آئے گا۔ حالانکہ اس کا ان کے پاس کوئی علمی ثبوت موجود نہ تھا۔ پھر جب وہ بنی اسماعیل میں مبعوث ہوگیا۔ تو ایک تو حسد کے مارے اس کا انکار کردیا اور کہا کہ ہم اہل علم ہو کر امیوں کے نبی پر کیسے ایمان لا سکتے ہیں؟ دوسرے اسی بنیاد پر وہ دوسرے لوگوں کو اسلام لانے سے روکتے تھے اور کہتے تھے کہ چونکہ یہ نبی علمی خاندان یعنی بنی اسرائیل سے تعلق نہیں رکھتا لہٰذا یہ سچا نبی نہیں ہو سکتا۔ النسآء
168 النسآء
169 النسآء
170 [٢٢٣] یعنی اللہ کی طرف سے تم پر اتمام حجت ہوچکی ہے اور روز آخرت تمہارے پاس پیش کرنے کو کوئی عذر نہ ہوگا اور سب شہادتیں تمہارے خلاف جائیں گی لہٰذا بہتر یہی ہے کہ بروقت سنبھل جاؤ اور رسول پر اور اللہ کی آیات پر ایمان لا کر اخروی زندگی سنوار لو، ورنہ اس روز اللہ کی گرفت اور اس کے عذاب سے کبھی بچ نہ سکو گے۔ جو کائنات کی ہر چیز پر مکمل قبضہ و اختیار رکھتا ہے۔ وہ تمہاری سب شرارتوں کو بھی جانتا ہے اور اپنے احکام کی خلاف ورزی کرنے والوں سے نمٹنے کا طریقہ بھی اسے آتا ہے۔ النسآء
171 [٢٢٤] غلو کیا ہے :۔ غلو کا معنیٰ ایسا مبالغہ ہے جو غیر معقول ہو۔ خواہ یہ مبالغہ افراط کی جانب ہو یا تفریط کی جانب۔ جیسے عیسیٰ کے متعلق نصاریٰ کا یہ عقیدہ تھا کہ اللہ کے بیٹے تھے اور اس کے بالکل برعکس یہود کا یہ عقیدہ کہ وہ نبی نہ تھے بلکہ یہود (معاذ اللہ) انہیں ولد الحرام سمجھتے تھے۔ اسی بنا پر انہوں نے آپ کو سولی پر چڑھانے میں اپنی کوششیں صرف کردیں۔ گویا ایک ہی رسول کے بارے میں غلو کی بنا پر اہل کتاب کے دونوں بڑے فرقے گمراہ ہوگئے۔ امت محمدیہ میں غلو کی مثالوں کے لیے سورۃ فرقان کا حاشیہ نمبر ٣ ملاحظہ کیجئے۔ [٢٢٥] الوہیت مسیح کا عقیدہ :۔ یہ خطاب نصاریٰ کو ہے جنہوں نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو کبھی خدا کا یٹا قرار دیا اور کبھی تین خداؤں میں سے تیسرا خدا قرار دیا حالانکہ انجیل میں عیسیٰ علیہ السلام کی معجزانہ پیدائش کے متعلق وہی الفاظ استعمال ہوئے ہیں جو قرآن میں استعمال ہوئے ہیں۔ یعنی عیسیٰ اللہ کا کلمہ تھے اور اس کی طرف سے روح تھے۔ پھر جب عیسائیت پر فلسفیانہ اور راہبانہ خیالات و نظریات غالب آنے لگے تو لفظ کلمہ کو جو فرمان الٰہی یا لفظ کن کا ہم معنی تھا، کلام کا ہم معنی قرار دے کر اسے اللہ تعالیٰ کی ازلی صفات میں سے سمجھا گیا۔ اور یہ سمجھا گیا کہ اللہ کی یہ ازلی صفت ہی سیدہ مریم علیہا السلام کے بطن میں متشکل ہو کر عیسیٰ علیہ السلام کی صورت میں نمودار ہوئی۔ اور 'اس کی طرف سے روح' کا معنی یہ سمجھا گیا کہ اللہ کی روح ہی عیسیٰ کے جسم میں حلول کرگئی تھی اس طرح عیسیٰ کو اللہ کا ہی مظہر قرار دے دیا گیا اور ان غلط عقائد کو پذیرائی اس لیے حاصل ہوئی کہ عیسیٰ کو جو جو معجزات دیئے گئے تھے ان سے ان کے عقائد کی تائید ہوجاتی تھی۔ حالانکہ بے شمار ایسی باتیں بھی موجود تھیں جن سے ان کے عقائد کی پرزور تردید ہوتی تھی۔ مثلاً انجیل میں صرف ایک اللہ کے الٰہ ہونے پر بہت زور دیا گیا ہے۔ نیز سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ دونوں مخلوق اور حادث تھے۔ وہ دونوں کھانا کھاتے تھے اور انہیں وہ تمام بشری عوارضات لاحق ہوتے تھے جو سب انسانوں کو لاحق ہوتے ہیں۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام اپنی ذات کو سولی پر چڑھنے اور ایسی ذلت کی موت سے بچا نہ سکے تو وہ خدا کیسے ہو سکتے تھے۔ پھر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ دونوں خود بھی ایک اللہ کی عبادت کرتے رہے اور دوسروں کو بھی یہی تعلیم دیتے رہے یہ سب باتیں ان کی خدائی کی پرزور تردید کرتی ہیں۔ [٢٢٦] عقیدہ تثلیث کی پیچیدگی :۔ عیسائیوں کا عقیدہ تثلیث ایسا گورکھ دھندا ہے جس کو وہ خود بھی دوسرے کو سمجھا نہیں سکتے اور وہ عقیدہ یہ ہے کہ خدا، عیسیٰ اور روح القدس تینوں خدا ہیں اور یہ تینوں خدا مل کر بھی ایک ہی خدا بنتے ہیں یعنی وہ توحید کو تثلیث میں اور تثلیث کو توحید میں یوں گڈ مڈ کرتے ہیں کہ انسان سر پیٹ کے رہ جائے اور پھر بھی اسے کچھ اطمینان حاصل نہ ہو۔ مثلاً وہ اس کی مثال یہ دیتے ہیں کہ ایک پیسہ میں تین پائیاں ہوتی ہیں اور یہ تینوں مل کر ایک پیسہ بنتی ہیں۔ اس پر یہ اعتراض ہوا کہ جب سیدہ مریم علیہاالسلام اور عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہی نہ ہوئے تھے تو کیا خدا نامکمل تھا اور اگر نامکمل تھا تو یہ کائنات وجود میں کیسے آ گئی۔ اور اس پر فرماں روائی کس کی تھی؟ غرض اس عقیدہ کی اس قدر تاویلیں پیش کی گئیں جن کی بنا پر عیسائی بیسیوں فرقوں میں بٹ گئے۔ پھر بھی ان کا یہ عقیدہ لاینحل ہی رہا اور لاینحل ہی رہے گا۔ [٢٢٧] صفات الٰہی میں موشگافیاں :۔ یعنی تین خدا کہنے سے باز آ جاؤ یا صفات الٰہی میں فلسفیانہ اور راہبانہ موشگافیاں کرنے سے باز آ جاؤ کیونکہ جس نے بھی صفات الہی میں کرید شروع کی ہے وہ گمراہ ہی ہوا ہے۔ واضح رہے کہ صفات الٰہی سے متعلقہ آیات متشابہات سے تعلق رکھتی ہیں جن کے متعلق یہ حکم ہے کہ ان کے پیچھے نہ پڑنا چاہیے۔ کیونکہ ان پر نہ اوامر و نواہی کا دار و مدار ہوتا ہے اور نہ حلت و حرمت کا، نہ ہی انسانی ہدایت سے ان کا کچھ تعلق ہوتا ہے۔ لہٰذا انہیں جوں کا توں ہی تسلیم کرلینا چاہیے کہ یہ بھی اللہ ہی کی طرف سے نازل شدہ ہیں۔ نیز ایسی آیات کے پیچھے وہی لوگ پڑتے ہیں جن کے دلوں میں ٹیڑھ ہوتی ہے۔ لہٰذا اے گروہ نصاریٰ ! تمہارے لیے بہتر یہی ہے کہ وحی الٰہی کو جوں کا توں مان لو اور ان کی موشگافیوں سے باز آ جاؤ اور وحی الٰہی یہی ہے کہ صرف اللہ اکیلا ہی الٰہ ہے، اسے کسی بیٹی بیٹے کی کوئی ضرورت نہیں اور وہ ایسی باتوں سے پاک و صاف ہے۔ [٢٢٨] یعنی اللہ ہر چیز کا مالک ہے اور ہر چیز اس کی مملوک ہے اور اولاد مملوک نہیں ہوتی بلکہ ہمسر ہوتی ہے۔ لہٰذا ان دونوں باتوں میں سے ایک ہی بات صحیح ہو سکتی ہے۔ اگر وہ مملوک ہے تو بیٹا نہیں اور اگر بیٹا ہے تو مملوک نہیں۔ علاوہ ازیں جب عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے بھی اللہ اکیلا ہی کائنات کا پورا نظام چلا رہا تھا تو پھر اسے بیٹا بنانے کی ضرورت کیا پیش آئی، لہٰذا کچھ تو عقل سے کام لو۔ النسآء
172 [٢٢٩] الوہیت مسیح کی تردید :۔ اس آیت میں الوہیت مسیح کی تردید میں ایک اور دلیل پیش کی گئی ہے۔ جو یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کا بندہ اور غلام بن کر رہنے میں کچھ عار محسوس کرنا تو درکنار، اسے قابل فخر سمجھتے تھے اور یہی حال مقرب فرشتوں کا بھی ہے۔ لہٰذا نہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کی الوہیت میں شریک بن سکتے ہیں اور نہ مقرب فرشتے۔ کیونکہ جو کسی کا بندہ اور غلام ہو وہ اس کا شریک نہیں ہو سکتا۔ اور جو اس کا شریک ہو وہ اس کا بندہ اور غلام نہیں ہو سکتا۔ عیسائیوں پر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے عبادت کرنے سے حجت اس لیے قائم کی گئی کہ وہ خود اس بات کا اقرار کرتے تھے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام زیتون کی پہاڑی پر اللہ کی عبادت کیا کرتے تھے۔ ان سے پوچھا یہ جا رہا ہے کہ اگر وہ اللہ یا اللہ کا حصہ یا اللہ کا بیٹا تھے تو وہ اس کی عبادت کیوں کرتے تھے؟ پھر فرشتے ایسی مخلوق ہیں جن کا نہ باپ ہے اور نہ ماں۔ لیکن اللہ ہونے کے وہ بھی مدعی نہیں بلکہ وہ بھی برضا و رغبت اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں۔ پھر جب فرشتے جو عیسیٰ علیہ السلام سے لطیف تر مخلوق ہیں، اللہ کی عبادت میں عار محسوس نہیں کرتے تو پھر عیسیٰ علیہ السلام کیسے کرسکتے ہیں؟۔ النسآء
173 [٢٣٠] تکبر کا انجام :۔ تکبر اور بڑائی صرف اللہ تعالیٰ کو لائق ہے۔ مخلوق میں سے کوئی بھی اللہ کے سامنے اکڑے گا، تو یقیناً دوزخ میں جائے گا۔ عہد آدم علیہ السلام میں سب سے پہلے ابلیس نے تکبر کیا تو راندہ بارگاہ الہی قرار پایا۔ جس شخص میں بھی کبر و نخوت ہو لوگ اسے پسند نہیں کرتے۔ اللہ اسے دنیا میں بھی ذلیل کرتا ہے اور آخرت میں بھی ذلیل کر کے اس کی اکڑ توڑ دے گا اور جہنم میں داخل کرے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ پروردگار کے سامنے جنت اور دوزخ کا جھگڑا ہوا۔ جنت نے کہا ’’پروردگار! میرا تو یہ حال ہے کہ مجھ میں وہی لوگ آ رہے ہیں جو دنیا میں ناتواں اور حقیر تھے۔‘‘ اور دوزخ کہنے لگی ’’کہ مجھ میں وہ لوگ آ رہے ہیں جو متکبر تھے۔‘‘ اللہ نے جنت سے فرمایا تو میری رحمت ہے اور دوزخ سے فرمایا تو میرا عذاب ہے۔ (بخاری، کتاب التوحید، باب ماجاء فی قول اللہ إن رحمۃ اللہ قریب من المحسنین) ـــــــ اور ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کیا میں تمہیں بتاؤں کہ بہشتی کون ہیں اور دوزخی کون؟ جنتی ہر وہ کمزور اور منکسر المزاج ہے کہ اگر وہ اللہ کے بھروسے پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ اسے سچا کر دے۔ اور دوزخی ہر موٹا، اجڈ اور متکبر آدمی ہوتا ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الایمان، باب قول اللہ تعالیٰ واقسموا باللہ جہد ایمانہم) النسآء
174 [٢٣١] قرآن برہان کیوں ہے؟ برہان ایسی واضح دلیل کو کہتے ہیں کہ فریقین کے درمیان فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہو۔ قرآن اس لحاظ سے برہان ہے کہ اس نے اپنے مخالب تمام کفار کو چیلنج کیا کہ ’’اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ اللہ کا کلام نہیں بلکہ کسی انسان کا کلام ہے تو تم سب مل کر اور ایک دوسرے کی مدد کر کے قرآن جیسی ایک سورت ہی بنا لاؤ‘‘ لیکن عرب بھر کے تمام فصحاء، بلغاء اور شعراء ایسا کلام پیش کرنے سے عاجز رہ گئے۔ اسی ایک چیلنج سے تین چیزوں کا ثبوت ملتا ہے اور یہ ثبوت بھی ایسا ہے جو فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے (١) وجود باری تعالیٰ کا ثبوت (٢) قرآن کے اللہ کا کلام ہونے کا ثبوت اور (٣) آپ کی نبوت کا ثبوت۔ اسی لحاظ سے قرآن کو برہان کہا گیا ہے۔ اور نورمبین اس لحاظ سے ہے کہ ہدایت انسانی یعنی دنیوی طریق زندگی اور اخروی نجات کے لیے زندگی کے ہر ہر پہلو پر روشنی ڈالنے والا ہے۔ النسآء
175 [٢٣٢] لہٰذا جو شخص اس قرآن کو مشعل راہ بنائے رکھے گا وہ نہ راہ بھٹکے گا نہ بھولے گا اور نہ غلط راہوں پر جا پڑے گا۔ اللہ کی رحمت اور اس کا فضل اس کے شامل حال رہیں گے اور یہی قرآن کی سیدھی راہ اسے اللہ تک پہنچا دے گی۔ النسآء
176 [٢٣٣] یہ آیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری ایام میں نازل ہوئی جس وقت سورۃ نساء مکمل ہوچکی تھی۔ اس میں کلالہ کی میراث کے ایک دوسرے پہلو کا ذکر ہے جس کے متعلق صحابہ کرام نے آپ سے استفسار کیا تھا۔ چونکہ کلالہ کی میراث کا حکم اسی سورۃ کی آیت نمبر ١٢ میں مذکور ہے اور باقی احکام میراث بھی اسی سورۃ کی آیت نمبر ١١، ١٢ میں بیان ہوئے ہیں۔ اس لیے اس آیت کو بھی بطور تتمہ اسی سورۃ کے آخر میں شامل کیا گیا۔ واضح رہے کہ کسی بھی سورۃ کی آیات میں ربط اور ان کی ترتیب توقیفی ہے۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وحی الٰہی کی روشنی میں سب آیات کو اپنے مناسب مقام پر رکھا ہے۔ [٢٣٤] کلالہ کی میراث کی تقسیم :۔ اولاد تین قسم کی ہوتی ہیں (١) عینی یا حقیقی یا سگے بہن بھائی جن کے ماں اور باپ ایک ہوں۔ (٢) علاتی یا سوتیلے جن کا باپ تو ایک ہو اور مائیں الگ الگ ہوں۔ (٣) اخیافی یا ماں جائے۔ جن کی ماں ایک ہو اور باپ الگ الگ ہوں۔ اسی سورۃ کی آیت نمبر ١٢ میں جو کلالہ کی میراث کے احکام بیان ہوئے تھے وہ اخیافی بہن بھائیوں سے تعلق رکھتے ہیں اور جو اس آیت نمبر ١٧٦ میں بیان ہو رہے ہیں یہ حقیقی یا سوتیلے بہن بھائیوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ کلالہ کی میراث کی تقسیم میں دو باتوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے، ایک یہ کہ اگر کلالہ کے حقیقی بہن بھائی بھی موجود ہوں اور سوتیلے بھی تو حقیقی بہن بھائیوں کی موجودگی میں سوتیلے محروم رہیں گے اور اگر حقیقی نہ ہوں تو پھر سوتیلوں میں جائیداد تقسیم ہوگی۔ اور دوسرے یہ کہ کلالہ کے بہن بھائیوں میں تقسیم میراث کی بالکل وہی صورت ہوگی جو اولاد کی صورت میں ہوتی ہے۔ یعنی اگر صرف ایک بہن ہو تو اس کو آدھا حصہ ملے گا۔ دو ہوں یا دو سے زیادہ بہنیں ہوں تو ان کو دو تہائی ملے گا اور اگر صرف بھائی ہی ہو تو تمام ترکہ کا واحد وارث ہوگا اور اگر بہن بھائی ملے جلے ہوں تو ان میں سے ہر مرد کو ٢ حصے اور ہر عورت کو ایک حصہ ملے گا۔ کلالہ اس مرد یا عورت کو کہتے ہیں جس کی نہ تو اولاد ہو اور نہ ماں باپ، بلکہ آباء کی جانب میں کوئی رشتہ دار موجود نہ ہو۔ اب کلالہ کی بھی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ عورت ہو اور اس کا خاوند بھی موجود نہ ہو یا مرد ہو اور اس کی بیوی بھی نہ ہو۔ اور دوسری یہ کہ میت مرد ہو اور اس کی بیوی موجود ہو۔ یا میت عورت ہو تو اس کا خاوند موجود ہو۔ دوسری صورت میں زوجین بھی وراثت میں مقررہ حصہ کے حقدار ہوں گے۔ مثلاً کلالہ عورت ہے جس کا خاوند موجود ہے اور اس کی ایک بہن بھی زندہ ہے تو آدھا حصہ خاوند کو اور آدھا بہن کو مل جائے گا۔ اور اگر بہنیں دو یا دو سے زیادہ ہوں تو پھر عول کے طریقہ پر کل جائیداد کے چھ کے بجائے سات حصے کر کے تین حصے خاوند کو اور چار حصے بہنوں کو مل جائیں گے اور اگر بہن بھائی ملے جلے ہیں تو حسب قاعدہ للذکر مثل حظ الانثیین آدھی میراث ان میں تقسیم ہوگی۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر پہلی صورت ہو یعنی کلالہ عورت کا خاوند بھی نہ ہو یا مرد کی بیوی بھی نہ ہو اور اس کی صرف ایک بہن ہو تو آدھا تو اس کو مل گیا۔ باقی آدھا کسے ملے گا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ آدھا رد کے طور پر بہن کو بھی دیا جا سکتا ہے اور ذوی الارحام (یعنی ایسے رشتہ دار جو ذوی الفروض ہوں اور نہ عصبہ) یعنی دور کے رشتہ داروں مثلاً ماموں، پھوپھی وغیرہ یا ان کی اولاد موجود ہو تو انہیں ملے گا۔ اور اگر وہ بھی نہ ہوں تو بقایا آدھا حصہ بیت المال میں بھی جمع کرایا جا سکتا ہے اور ایسے حالات شاذ و نادر ہی پیش آتے ہیں۔ [٢٣٥] یعنی صحابہ کرام کو کلالہ کی میراث کی تقسیم کے بعض پہلوؤں میں جو پریشانی ہوئی تھی اس کا حل اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے لہٰذا اب تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ضمناً اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب صحابہ کرام آپ سے کوئی مسئلہ پوچھتے تو آپ از خود اس کا جواب دینے کے بجائے وحی الٰہی کا انتظار کرتے رہتے تھے۔ النسآء
0 المآئدہ
1 [١] ایفائے عہد :۔ قرآن میں کئی مقامات پر یہ صراحت موجود ہے کہ یہود کی بدعہدیوں اور عہد شکنیوں کے باعث ان پر کئی ایسی چیزیں حرام کردی گئی تھیں جو پہلے ان کے لیے حلال تھیں لہٰذا اس سورۃ میں حلت و حرمت کے احکام بیان کرنے سے پیشتر بطور تمہید اپنے معاہدات کو پورا کرنے کی تاکید کی جا رہی ہے خواہ یہ عہد اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے ہوں یا لوگوں سے، بیع و شرا سے متعلق ہوں یا نکاح اور منگنی وغیرہ سے، اپنوں سے تعلق رکھتے ہوں یا غیر مسلموں سے، صلح سے متعلق ہوں یا جنگ سے غرض ہر طرح کے معاہدات کو پورا کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ عہد کو پورا نہ کرنا نفاق کی علامت ہے جیسا کہ پہلے اس ضمن میں صحیح احادیث درج کی جا چکی ہیں۔ [٢] حلال اور حرام جانور :۔ انعام سے اہل عرب کے ہاں اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری وغیرہ مراد لیے جاتے ہیں اور بہیمہ وہ جانور ہیں جن کا گزارا گھاس پات پر ہوتا ہو۔ اس طرح اس قبیل میں وہ جانور بھی شامل ہوجاتے ہیں جو نباتاتی غذاؤں پر پرورش پاتے ہوں اور عرب کے علاوہ دوسرے ممالک میں پائے جاتے ہوں مثلاً گائے کے ساتھ نیل گائے، بھینس اور بکری کے ساتھ ہرن اور بارہ سنگھا وغیرہ بھی حلال ہوں گے اور جو جانور حیوانی غذا پر پرورش پاتے ہیں بالفاظ دیگر جو جانور گوشت خور ہیں وہ سب حرام ہیں جنہیں عام زبان میں درندے کہا جاتا ہے چنانچہ سیدنا ثعلبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہر کچلی والے درندے کے کھانے سے منع فرمایا (بخاری۔ کتاب الصید والذبائح۔ باب اکل کل ذی ناب من السباع۔ مسلم۔ کتاب الصید والذبائح۔ باب تحریم اکل ذی ناب) نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر شکاری پرندے کو حرام قرار دیا جو اپنے پنجوں سے شکار کرتا ہے۔ (حوالہ ایضاً) [٣] یعنی اس سورۃ کی تیسری آیت میں بیان ہوں گے۔ [٤] احرام کیا ہے؟ احرام اس فقیرانہ لباس کو کہتے ہیں جو حج اور عمرہ کرنے والے اپنے میقات سے باندھتے ہیں اور یہ مردوں کے لیے صرف ایک تہبند اور ایک چادر پر مشتمل ہوتا ہے۔ اور عورتوں کے لیے ان کا عام لباس ہی احرام کا بھی لباس ہوتا ہے۔ احرام کی حالت میں انہیں کوئی چیز چہرہ پر نہ ڈالنا چاہیے۔ احرام کی حالت میں چند پابندیاں ضروری ہیں مثلاً وہ خوشبو یا زیب و زینت کی چیزیں استعمال نہیں کرسکتا۔ نہ ہی اپنی بیوی سے صحبت کرسکتا ہے۔ محرم کو شکار کی ممانعت :۔ انہی پابندیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ نہ تو خود شکار کرسکتا ہے اور نہ ہی دوسرے کو شکار کرنے میں مدد دے سکتا ہے البتہ شکار کردہ جانور سے کچھ کھا لینے میں کوئی حرج نہیں۔ چنانچہ سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم (حدیبیہ کے سال) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ روانہ ہوئے اور اپنے چند ساتھیوں سمیت جو احرام باندھے تھے، پیچھے رہ گئے لیکن ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے احرام نہیں باندھا تھا۔ ان احرام باندھے ہوئے ہمراہیوں نے ایک گورخر دیکھا جس پر ابو قتادہ کی نظر نہ پڑی۔ انہوں نے بھی ابو قتاد ہ رضی اللہ عنہ کو شکار کے متعلق کچھ نہ بتلایا، یہاں تک کہ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کی خود اس شکار پر نظر پڑگئی۔ وہ اپنے گھوڑے پر جس کا نام جرادہ تھا سوار ہوئے اور اپنے ساتھیوں سے کہا، ذرا میرا کوڑا مجھے پکڑا دو۔ لیکن انہوں نے انکار کردیا۔ آخر ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے خود اتر کر اپنا کوڑا لیا اور اس گورخر پر حملہ کیا اور اس کو زخمی کر کے اسے گرا دیا۔ پھر ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے اس شکار میں سے خود بھی کھایا اور ان ساتھیوں نے بھی کھایا جو احرام باندھے ہوئے تھے۔ پھر جب یہ لوگ آپ سے جا کر ملے اور ان سے قصہ بیان کیا تو آپ نے پوچھا، کیا اس شکار کا کچھ گوشت باقی ہے؟ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں۔ ایک ران ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ ران لے لی اور اس میں سے گوشت کھایا۔ (بخاری کتاب الجہاد۔ باب اسم الفرس والحمار) پھر جس طرح احرام کی حالت میں شکار کرنا حرام ہے اسی طرح حرم مکہ میں بھی شکار کرنا حرام اور ممنوع ہے فرق صرف یہ ہے کہ حرم مکہ میں کسی وقت بھی شکار نہیں کیا جا سکتا خواہ کوئی احرام کی حالت میں ہو یا نہ ہو۔ جبکہ احرام باندھنے والا احرام کھولنے کے بعد حرم مکہ کے علاوہ دوسرے مقامات سے شکار کرسکتا ہے اور جس طرح احرام کی چند ایک پابندیاں ہیں اسی طرح حرم مکہ کی بھی ہیں۔ ان کی تفصیل کے لیے دیکھئے سورۃ حج کی آیت نمبر ٢٥ کا حاشیہ۔ [٥] حلت وحرمت کے اختیارات :۔ یعنی حلت و حرمت کے یا بالفاظ دیگر قانون سازی کے جملہ اختیارات اللہ ہی کو ہیں۔ لہٰذا جس چیز کو وہ چاہے حلال قرار دے اور جس کو چاہے حرام کر دے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو چند اشیاء کی حلت و حرمت کے احکام دیئے ہیں وہ یا تو اس اختیار کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے احکام دیئے ہیں جو اللہ نے آپ کو بحیثیت اللہ کے رسول تفویض فرمائے یا پھر وحی خفی کے ذریعہ آپ کو مطلع کیا گیا تھا اہل ہنود تین چیزوں خدا، روح اور مادہ کو ازلی ابدی قرار دیتے ہیں۔ روح کو ازلی ابدی تسلیم کرنے کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ تمام ذی حیات یا جاندار اشیاء انسان کے ہم مرتبہ ہیں لہٰذا انسان کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی موذی جانور کو گزند پہنچائے یا اسے مار ڈالے یا اپنے ذاتی فائدے کی خاطر اسے ذبح کر کے اس کا گوشت پوست اپنے استعمال میں لائے۔ وحی الٰہی تو وحدت انسان کا تصور پیش کرتی ہے۔ لیکن اس وحدت کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے انسان کو چار ذاتوں میں تقسیم کر ڈالا۔ اور یہ لوگ وحدت انسان کی بجائے وحدت حیات کا تصور پیش کرتے ہیں۔ موذی جانوروں کو دکھ نہ دینے کا نظریہ چونکہ غیر فطری ہے لہٰذا ان لوگوں نے اس نظریہ میں خاصی لچک پیدا کرلی۔ اور بعض دفعہ ایسے جانوروں کی کثرت کے عذاب سے بھی دو چار ہوئے۔ رہا ان کا یہ اعتراض کہ اسلام مسلمانوں کو بے زبان جانوروں کو اپنے ذاتی مفاد کی خاطر مار ڈالنے کا حکم کیوں دیتا ہے تو اس کا نقلی جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں جو چیز بھی پیدا کی ہے۔ انسان کے فائدہ کے لیے پید اکی ہے اور انسان شریعت کے قوانین کے تحت ان چیزوں سے انتفاع کا حق رکھتا ہے اور یہی بات اس آیت سے واضح ہوتی ہے کہ اللہ جو کچھ چاہے حکم دیتا ہے اور عقلی جواب یہ ہے کہ روح اور جسم کے انفصال کے وقت ہر جاندار کو بہرحال تکلیف پہنچتی ہے۔ ایک جاندار جو طبعی موت مرتا ہے وہ بوڑھا ہو کر اور بیماری کے دکھ سہہ سہہ کر مرتا ہے اور ذبح یا شکار کی صورت میں غالباً اس سے کم عرصہ کے لیے تکلیف پہنچتی ہے۔ المآئدہ
2 [٦] شعائر کا مفہوم :۔ شعائر، شعیرہ کی جمع ہے۔ یعنی امتیازی علامت۔ ہر مذہب اور ہر نظام کی امتیازی علامات کو شعائر کہا جاتا ہے۔ مثلاً اذان نماز باجماعت اور مساجد مسلمانوں کے، گرجا اور صلیب عیسائیوں کے، تلک، زنار، چوٹی اور مندر ہندوؤں کے کیس۔ کڑا اور کرپان سکھوں کے۔ ہتھوڑا اور درانتی اشتراکیت کے اور سرکاری جھنڈے، قومی ترانے، فوج اور پولیس کے یونیفارم وغیرہ حکومتوں کے امتیازی نشان ہوتے ہیں۔ جن کا احترام ضروری سمجھا جاتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے بھی کئی شعائر ہیں۔ [٧] حرمت کے مہینے :۔ اللہ تعالیٰ کے شعائر بے شمار ہیں جن میں سے چند ایک کے نام اس آیت میں آ گئے ہیں۔ ان کی توہین یا بے حرمتی سے انسان گنہگار ہوجاتا ہے۔ ان میں سے سرفہرست حرمت والے مہینہ کا ذکر فرمایا۔ حرمت والے مہینے چار ہیں۔ ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب۔ اور ان کی حرمت کا مطلب یہ ہے کہ ان مہینوں میں اہل عرب لوٹ مار اور لڑائی وغیرہ سے باز رہتے تھے۔ دور جاہلیت میں پورے عرب میں قبائلی نظام رائج تھا اور یہ قبیلے آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے تھے انہوں نے آپس میں یہ طے کیا ہوا تھا کہ ان مہینوں میں کوئی قبیلہ کسی دوسرے قبیلہ پر چڑھ کر نہ آئے گا۔ دوسرے عرب قبائل ایک دوسرے کو بھی لوٹا کرتے تھے اور تجارتی قافلوں کو بھی۔ ان حرمت والے مہینوں میں وہ اس کام سے بھی باز رہتے تھے اور ان چار مہینوں میں سے ذیقعدہ، ذی الحجہ اور محرم کو حرمت والے مہینے قرار دینے کی وجہ یہ تھی کہ ان ایام میں لوگ دور دور سے حج کرنے آتے تھے اور پھر واپس جاتے تھے اور رجب حرمت والا مہینہ قرار دینے کی وجہ یہ تھی کہ اس مہینہ میں لوگ بیت اللہ کے لیے نذرانے لایا کرتے تھے اور متولیان کعبہ یہ نذرانے وصول کیا کرتے تھے۔ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو یہ سب کچھ کعبہ شریف کے اعزاز کی وجہ سے تھا اور متولیان کعبہ، کعبہ کی وجہ سے کئی قسم کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی فائدے اٹھا رہے تھے اور قریش مکہ کے قافلے تو سارا سال ہی بے خوف و خطر سفر کرسکتے تھے۔ ان کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر دیکھتا بھی نہ تھا۔ اللہ کے شعائر :۔ یہ سب کچھ چونکہ کعبہ کے اعزاز کی وجہ سے تھا اسی لیے اسلام نے اس جاہلی دستور کو بحال رکھا اور اس لیے بھی کہ یہ ایک باہمی معاہدہ امن تھا جسے اسلام پسند کرتا ہے۔ اسلام میں جب زکوٰۃ فرض ہوئی تو اس کی وصولی کے لیے عمال کو ماہ رجب میں روانہ کیا جایا کرتا تھا۔ اس کی وجہ بھی غالباً یہ ہو کہ اس مہینہ میں لوگ کعبہ کے لیے نذرانہ دینے کے پہلے سے عادی تھے۔ دوسرے نمبر پر ہدی کا ذکر فرمایا یعنی وہ قربانی کے جانور جو قربانی کے لیے کعبہ بھیجے جائیں اور تیسرے نمبر پر قلائد کا ذکر فرمایا۔ یہ سب چیزیں اللہ کے شعائر ہیں قلائد سے مراد وہ پٹے ہیں جو کعبہ بھیجے جانے والے قربانی کے جانوروں کے گلے میں ڈال دیئے جاتے تھے ان کے علاوہ تمام مناسک حج بھی شعائر اللہ میں داخل ہیں۔ ان میں سے بالخصوص قربانی کے جانوروں کے ذکر کی مناسبت سے یہاں چند احادیث درج کی جاتی ہیں۔ ١۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قربانی کے اونٹوں کے پٹے بٹے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پٹے اونٹوں کے گلے میں ڈال دیئے اور ان کے کوہانوں سے خون نکالا۔ پھر انہیں بیت اللہ روانہ کردیا۔ (بخاری۔ کتاب المناسک۔ من اشعر وقلد بذی الحلیفۃ ثم احرم۔ مسلم۔ کتاب الحج۔ باب استحباب بعث الھدی الی الحرم ) ٢۔ سیدنا زویب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھ قربانی کے اونٹ بھیجتے اور فرماتے اگر ان میں سے کوئی اونٹ چل نہ سکے اور اس کے مرنے کا خطرہ ہو تو اسے ذبح کر دو پھر اپنی جوتی اس کے خون میں آلودہ کر کے اس کے پہلو میں مارو۔ پھر اسے نہ تم کھاؤ اور نہ تمہارا کوئی ساتھی کھائے۔ (مسلم۔ کتاب الحج۔ باب مایفعل بالہدی اذاعطب فی الطریق) اور ترمذی میں یہ اضافہ ہے کہ دوسرے لوگ ایسے ذبح شدہ قربانی کے جانور کا گوشت کھا سکتے ہیں۔ (ترمذی۔ ابو اب الحج۔ باب ماجاء اذا عطب بالھدی ) ٣۔ قربانی کے جانور پر سواری کی اجازت :۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو قربانی کا اونٹ ہانکے جا رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اس پر سوار ہوجا۔‘‘ وہ کہنے لگا ’’یہ قربانی کا جانور ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا 'اس پر سوار ہوجا۔' اس نے پھر کہہ دیا کہ 'یہ تو قربانی کا اونٹ ہے' پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری یا تیسری بار اسے فرمایا ’’تجھ پر افسوس! اس پر سوار ہوجا۔‘‘ (بخاری، کتاب المناسک۔ باب رکوب البدن) (مسلم۔ کتاب الحج۔ باب جواز رکوب البدنۃ المھداۃ) اور مسلم میں یہ الفاظ زیادہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا۔’’معروف طریقہ سے سوار ہو سکتے ہو۔ بشرطیکہ تم سوار ہونے پر مجبور ہو تاآنکہ تمہیں کوئی دوسری سواری مل جائے۔‘‘ (مسلم۔ حوالہ ایضاً) [٨] احرام خود بھی شعائر اللہ میں سے ہے۔ لہٰذا اگر تم انہیں تنگ کرو گے۔ تو شعائر اللہ کی توہین کے مرتکب ہوگے۔ اگرچہ یہاں امر کا صیغہ استعمال ہوا ہے اور امر عموماً وجوب کے لیے آتا ہے لیکن یہاں یہ صیغہ اجازت اور رخصت کے معنوں میں ہے۔ یعنی جب تم احرام کھول دو تو شکار کرسکتے ہو جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جب تم احرام کھولو تو ضرور شکار کرو یا کیا کرو۔ نیز یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ امر کا صیغہ رخصت اور اجازت کے معنی میں بھی آ سکتا ہے۔ [٩] کفار مکہ نے مسلمانوں کو حج و عمرہ اور طواف کعبہ سے روک دیا تھا اور یہ رکاوٹ فتح مکہ تک بدستور قائم رہی ماسوائے عمرہ قضا کے۔ پھر جب کافروں اور مسلمانوں میں کوئی جنگ چھڑتی تو کافر قبیلے کافروں ہی کا ساتھ دیتے تھے۔ اور حدیبیہ کے موقع پر ان تمام شعائر اللہ کی توہین کی تھی جن کا اس آیت میں ذکر ہوا ہے۔ انہوں نے بیت اللہ جانے کی راہ روکی۔ حرمت والے مہینہ میں لڑائی پر آمادہ ہوئے اور قربانی اور پٹے والے جانوروں کی مطلق پروا نہ کی لہٰذا مسلمانوں کے دل میں یہ خیال آ سکتا تھا کہ جو کافر قبیلے قافلوں کی شکل میں حج و عمرہ کرنے جاتے ہیں اور مسلمانوں کے پاس سے گزرتے ہیں وہ بھی مشتعل ہو کر ان کو حج و عمرہ سے روک دیں اور ان کے مال اسباب لوٹ لیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر ایسے خیالات سے بھی منع فرما دیا۔ [١٠] ربط مضمون کے لحاظ سے تو اس جملہ کا یہ مطلب ہے کہ جو کافر حج و عمرہ کو جاتے ہیں۔ اگرچہ وہ کافر اور مشرک ہیں تاہم اس وقت وہ نیکی اور تقویٰ کا کام کرنے جا رہے ہیں تو ان کی زندگی میں نیکی اور تقویٰ کا جو حصہ ہے اس میں تمہیں ان کی راہ روکنے کی بجائے ان سے تعاون کرنا چاہیے۔ حرف فجار اور حلف الفضول میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شمولیت :۔ تاہم اس آیت کا حکم عام ہے یعنی کوئی مسلم ہو یا غیر مسلم اگر وہ نیکی اور تقویٰ کا کام کرتا ہے تو تمہیں اس کا ساتھ دینا چاہیے اور گناہ یا سرکشی کا کام خواہ کوئی مسلمان کر رہا ہو اس سے کسی قسم کا تعاون نہیں کرنا چاہیے چنانچہ آپ کی بعثت سے پہلے کی بات ہے کہ اہل مکہ بری طرح قبائلی خانہ جنگی کی زد میں آ گئے۔ لڑائیوں کے اس لامتناہی سلسلہ نے سینکڑوں گھرانے برباد کردیئے تھے۔ حرب فجار جو قیس اور قریش کے قبیلوں کے درمیان چھڑی تھی اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حصہ لیا اور قریش کا ساتھ دیا تھا تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔ یہ لڑائی حرب فجار کے نام سے اس لیے موسوم ہوئی کہ یہ حرمت والے مہینوں میں بھی جاری رہی۔ اس جنگ کے خاتمہ پر بعض صلح پسند طبیعتوں میں اصلاح کی تحریک پیدا ہوئی۔ قریش کے چند معززین عبداللہ بن جدعان کے گھر جمع ہوئے اور معاہدہ ہوا کہ ’’ہم میں سے ہر شخص مظلوم کی حمایت کرے گا اور کوئی ظالم مکہ میں نہ رہنے دیا جائے گا۔‘‘ اس معاہدہ کو حلف الفضول کہا جاتا ہے اور اس کی وجہ تسمیہ یہ تھی کہ جن لوگوں کو ایسے معاہدہ کا خیال آیا تھا ان کے ناموں میں فضل کا مادہ بطور قدر مشترک شامل تھا۔ اس معاہدہ کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوسکا کیونکہ اس وقت کوئی ایسی قوت موجود نہ تھی جو قبائلی عصبیتوں کا خاتمہ کرسکتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عہد نبوت میں فرمایا کرتے تھے ک’’ 'اگر اس معاہدہ کے مقابلہ میں مجھے سرخ اونٹ بھی دیئے جاتے تو میں نہ لیتا۔ اور اگر آج بھی مجھے کوئی ایسے معاہدہ کے لیے بلائے تو میں حاضر ہوں۔‘‘ (سیرۃ النبی۔ ج ١ ص ١٨٤، ١٨٥ شبلی نعمانی) المآئدہ
3 [١١] حلت وحرمت کی علت :۔ حلت و حرمت کے قانون میں شریعت نے صرف اس بات کو ملحوظ نہیں رکھا کہ حرام چیزوں کے طبی لحاظ سے جسم انسانی پر کیا مفید یا مضر اثرات پڑتے ہیں۔ اگر ایسی بات ہوتی تو سب سے پہلے سنکھیا اور دوسرے زہروں کا نام لیا جاتا، بلکہ زیادہ تر اس بات کو ملحوظ رکھا گیا ہے کہ ان حرام اشیاء کے انسان کے اخلاق پر کیسے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور طہارت اور پاکیزگی سے ان کا کس قدر تعلق ہے نیز ایسی تمام چیزیں بھی حرام قرار دی گئیں جنہیں نیت کی گندگی اور عقیدہ کی خباثت حلال سے حرام بنا دیتی ہے۔ لہٰذا یہ ضروری نہیں کہ جو چیز اللہ نے حرام کی ہے اس کی حکمت بہرحال انسان کی سمجھ میں آ جائے۔ [١٢] اس آیت میں جن حرام کردہ چیزوں کا ذکر ہے۔ ان میں سے پہلی چار چیزوں کا ذکر پہلے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ١٧٣ میں آ چکا ہے اس کا حاشیہ ملاحظہ فرما لیا جائے۔ [١٣] چونکہ خون حرام ہے اس لیے موت کی ہر وہ صورت جس میں خون جسم سے نکل نہ سکے وہ بدرجہ اولیٰ حرام ہوئی۔ ایسی ہی چار صورتوں کا یہاں ذکر ہوا ہے۔ پہلی صورت اختناق یا گلا گھونٹ کر مرنے کی ہے پھر اسی کی آگے کئی صورتیں ہیں جیسے کوئی گلا دبا کر یا مروڑ کر مار ڈالے۔ یا اسی رسی کا پھندا لگ جائے یا گردن کسی درخت کی شاخوں میں پھنس جائے اور جانور مر جائے۔ دوسری صورت چوٹ یا ضرب سے مرنے کی ہے۔ یہ چوٹ کسی پتھر وغیرہ کی بھی ہو سکتی ہے اور لاٹھی وغیرہ کی بھی۔ تیسری صورت گر کر مرنا ہے خواہ کسی پہاڑی یا درخت سے گر کر مر جائے یا کسی کھڈ یا کنوئیں یا ندی نالے میں گر کر مر جائے۔ اور چوتھی صورت یہ ہے کہ سینگ دار جانور اپنے سینگوں سے لڑیں اور ان میں سے کوئی مر جائے ایسے سب مردار حرام ہیں۔ [١٤] شکار کے احکام :۔ عدی رضی اللہ عنہ بن حاتم کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا :’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اگر میں بسم اللہ پڑھ کر سکھایا ہوا کتا شکار پر چھوڑوں اور وہ میرے لیے شکار روکے تو‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’وہ تم کھا سکتے ہو۔‘‘ میں نے کہا ’’اگر کتے نے اسے مار ڈالا ہو مگر کھایا نہ ہو تو؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’کھا سکتے ہو۔‘‘ اور اگر تمہارے کتے کے ساتھ کوئی دوسرا کتا بھی ہو اور شکار مر چکا ہو تو مت کھاؤ۔ کیونکہ تمہیں علم نہیں کہ کس کتے نے اسے مارا ہے۔ پھر میں نے پوچھا :’’اگر شکار چوڑائی میں لگنے والی کسی چیز سے مر جائے تو؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’اگر پھٹ جائے یعنی خون نکل آئے تو کھا سکتے ہیں ورنہ نہیں۔‘‘ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک دوسری روایت کے مطابق) فرمایا۔ ’’اگر بسم اللہ پڑھ کر سکھائے ہوئے کتے نے شکار سے خود بھی کچھ کھالیا ہو تو پھر مت کھاؤ کیونکہ اس کتے نے یہ شکار اپنے لیے کیا تھا تمہارے لیے نہیں۔‘‘ (مسلم۔ کتاب الصید والذبائح۔ باب الصید بالکلاب المعلمۃ) [١٥] ایسا مقام جس کی نسبت عوام میں مشہور ہو کہ وہاں جا کر قربانی دینے سے یا ایسی نذر ماننے سے انسانوں کی فلاں تکلیف رفع ہوجاتی ہے یا اسے فلاں فائدہ پہنچتا ہے اور لوگ اسے مقدس سمجھتے ہوں خواہ وہاں کوئی بت موجود ہو یا نہ ہو۔ اور اگر کسی درخت یا کسی پتھر سے ایسے ہی فوائد منسوب کیے گئے ہوں تو وہ بھی اسی حکم میں داخل ہوگا چنانچہ درج ذیل حدیث اسکی پوری وضاحت کرتی ہے۔ آستانے کی تعریف اور ان پر قربانی کا حکم :۔ سیدنا ثابت بن ضحاک فرماتے ہیں کہ دور نبوی میں ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ بوانہ کے مقام پر ایک اونٹ قربانی کرے گا پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا۔ ’’میں نے بوانہ کے مقام پر ایک اونٹ ذبح کرنے کی منت مانی تھی۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ’’کیا وہاں دور جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی عبادت کی جاتی رہی ہو۔‘‘ لوگوں نے کہا 'نہیں' پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ’’کیا وہاں مشرکوں کی عیدوں میں سے کوئی عید (میلہ، عرس) تو نہیں لگتا تھا ؟‘‘ لوگوں نے کہا 'نہیں' تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے کہا، ’’اپنی نذر پوری کرو۔ البتہ اللہ کی نافرمانی میں نذر پوری کرنا جائز نہیں اور نہ ایسی چیز میں جو ابن آدم کی ملکیت میں نہ ہو۔‘‘ (ابو داؤد کتاب الایمان والنذور۔ باب۔ مایومر بہ من الوفاء عن النذر) [١٦] قسمت کے تیروں کے ذریعہ غیب کی خبریں یا اپنی اچھی یا بری قسمت کا حال معلوم کرنا محض توہم پرستی ہے اور ایمان بالجبت میں داخل ہے۔ یہ تیر عموماً کسی بت خانہ میں یا کافروں کے گمان کے مطابق کسی مقدس مقام پر پڑے رہتے تھے۔ جب کوئی اہم کام یا سفر درپیش ہوتا تو پہلے ان تیروں سے حالات معلوم کرتے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے ظاہر ہے۔ ١۔ عرب میں فال گیری کا رواج :۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا واقعہ ہجرت بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ سراقہ بن مالک بن جعشم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعاقب کرنا چاہا۔ سراقہ خود کہتے ہیں کہ میں نے اپنا گھوڑا دوڑایا تاکہ جلد از جلد انہیں جا پکڑوں جب میں ان کے قریب پہنچ گیا تو گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور میں گرگیا ۔ میں نے اٹھ کر اپنا ہاتھ اپنے ترکش میں ڈالا۔ اس سے تیر نکال کر یہ فال نکالی کہ میں ان لوگوں کو نقصان پہنچاؤں یا نہ پہنچاؤں۔ مگر فال میں وہ چیز نکلی جو مجھے پسند نہ تھی۔ تاہم میں اپنے گھوڑے پر سوار ہوگیا اور فال کی کوئی پروا نہ کی۔ (بخاری باب بنیان الکعبہ۔ باب ھجرۃ النبی واصحابہ الی المدینۃ) ٢۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ (فتح مکہ کے موقع پر) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے اندر تصویریں دیکھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر داخل نہیں ہوئے یہاں تک کہ آپ کے حکم سے ساری تصویریں مٹا دی گئیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کی تصویروں کو دیکھا، ان کے ہاتھوں میں تیر تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ کی قسم انہوں نے کبھی تیروں سے فال نہیں نکالی تھی۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الانبیاء باب قول اللہ تعالیٰ و اتخذ اللہ ابراہیم خلیلا ) [١٧] یعنی اب اسلام کو اتنا عروج حاصل ہوچکا ہے کہ کافر اب اپنی پوری کوشش کے باوجود اس کی راہ نہیں روک سکتے۔ نہ ہی اب کفر کے غالب آنے کی امید رکھ سکتے ہیں۔ [١٨] تکمیل دین کا مطلب :۔ دین سے مراد شریعت کے تمام اصول اور جزئی احکام و ہدایات ہیں اور ان احکام پر عمل پیرا ہونے کا وہ طریقہ اور نمونہ بھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام مسلمانوں کے سامنے پیش فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد مسلمانوں کو زندگی کے کسی بھی پہلو میں خواہ وہ معاشرتی پہلو ہو یا معاشی ہو یا سیاسی ہو۔ باہر سے کوئی بھی اصول اسلام میں درآمد کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی اس لحاظ سے اسلام میں موجودہ مغربی جمہوریت، اشتراکیت، کمیونزم، سوشلزم یا اور کسی ازم کو داخل کرنے کی گنجائش نہیں رہتی۔ یہی صورت حال بدعات کی ہے۔ [١٩] اسلام بہت بڑی نعمت ہے :۔ اللہ کی انسان پر اور بالخصوص مسلمانوں پر سب سے بڑی نعمت یہی ہے کہ اس نے مسلمانوں کو ایسی جامع ہدایات و احکام عطا فرما دیئے ہیں۔ جن سے دنیا کی زندگی بھی کامیاب اور خوشگوار ہوجاتی ہے اور اخروی نجات بھی حاصل ہوجاتی ہے اور دوسروں کا دست نگر بھی نہیں بننا پڑتا۔ [٢٠] یعنی جس طرح کائنات کی تمام اشیاء اللہ کے حکم کے سامنے بلا چون و چرا سر تسلیم خم کیے ہوئے ہیں اسی طرح انسان بھی اختیار رکھنے کے باوجود اللہ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دے اور کائنات سے ہم آہنگ ہوجائے اور اپنی زندگی کے ہر پہلو میں اسی بات کو اپنا ضابطہ حیات بنا لے۔ ان معنوں میں سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر نبی آخر الزماں تک تمام انبیاء کا یہی دین یعنی اسلام ہی دین رہا ہے۔ اور اسی کو اللہ نے مسلمانوں کے لیے پسند فرمایا ہے۔ یہ آیت ٩ ذی الحجہ ١٠ ھ کو عرفہ کے دن نازل ہوئی تھی اور اس دن جمعہ کا دن تھا جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے۔ ١۔ تکمیل دین کا دن :۔ یہودی لوگ (کعب احبار) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے : تم ایک ایسی آیت پڑھتے ہو کہ اگر وہ آیت ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اسے عید (جشن) کا دن مقرر کرلیتے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ آیت کب اور کہاں اتری اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں تشریف رکھتے تھے۔ یہ آیت عرفہ کے دن اتری اور ہم اس وقت عرفات میں تھے۔ سفیان (ایک راوی) نے کہا۔ مجھے شک ہے اس دن جمعہ تھا یا کوئی اور دن۔ (بخاری کتاب التفسیر) اور بخاری کی دوسری روایات مثلاً کتاب الایمان۔ باب زیادۃ الایمان و نقصانہ) اور کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ۔ نیز مسلم۔ کتاب التفسیر میں وضاحت ہے کہ یہ جمعہ کا دن تھا۔ ٢۔ سیدناجابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نو سال تک (مدینہ میں) رہے مگر حج نہیں کیا۔ پھر دسویں سال لوگوں میں اعلان کیا گیا کہ آپ حج کرنے جا رہے ہیں۔ چنانچہ بہت سے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمراہی کے لئے مدینہ آ گئے۔ (مسلم۔ کتاب الحج۔ باب حجۃ النبی) [٢١] سورۃ بقرہ کی آیت ١٧٣ میں یہی مضمون آ چکا ہے۔ یہاں ﴿ غیر متجانف لاثم﴾ کے الفاظ ہیں اور وہاں غیر باغ ولا عاد کے اور مفہوم دونوں کا ایک ہی ہے تفصیل مذکورہ آیت میں دیکھ لی جائے۔ سابقہ آیت میں حرام کردہ اشیاء مذکور ہوئی تھیں اس آیت کا یہ جملہ انہیں اشیاء سے متعلق ہے۔ المآئدہ
4 [٢٢] ہر چیز کی اصل اباحت ہے :۔ اس آیت میں کھانے پینے کی اشیاء کی حلت و حرمت کے متعلق ایک عظیم الشان اصول دیا گیا ہے جسے فقہی زبان میں یوں ادا کیا جاتا ہے کہ ’’ہر چیز کی اصل اباحت ہے‘‘ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ کھانے پینے کی تمام اشیاء دو شرطوں کے ساتھ تمہارے لیے حلال ہیں ایک یہ کہ وہ چیز پاکیزہ اور صاف ستھری ہو گندی باسی۔ سڑی ہوئی اور بدبودار نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ اس کے متعلق شریعت میں یہ صراحت نہ ہو کہ وہ حرام ہے اس طرح حرام اشیاء کا دائرہ بہت محدود ہوجاتا ہے اور حلال اشیاء کا دائرہ بہت وسیع ہوجاتا ہے۔ جبکہ اس آیت کے نزول سے پہلے عموماً یہی سمجھا جاتا تھا کہ حلال صرف وہ چیز ہو سکتی ہے جس کے متعلق شریعت میں واضح ثبوت موجود ہو۔ جیسا کہ اس آیت میں مسلمانوں کے یہی سوال کرنے سے بھی ظاہر ہوتا ہے اس آیت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے سابقہ نظریہ کو بدل کر اور حلال اشیاء کا دائرہ وسیع کر کے مسلمانوں پر احسان عظیم فرمایا ہے۔ [٢٣] شکار کے متعلق احکام :۔ شکاری جانوروں میں پرندے بھی شامل ہیں جیسے باز اور شکرا وغیرہ۔ یعنی کتا، چیتا، باز، شکرا جسے بھی یہ بات سکھائی گئی ہو کہ وہ شکار کو اپنے مالک کے لیے روک رکھے گا۔ خود اس میں سے کچھ نہ کھائے گا۔ اس آیت کی تشریح کے لیے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے۔ ١۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب تم اپنے سدھائے ہوئے کتوں کو چھوڑو اور ان پر اللہ کا نام لو تو ان کا کیا ہوا شکار کھالو۔ ‘‘ (مسلم۔ کتاب الصید والذبائح۔ باب الصید۔ باب الصید بالکلاب المعلمۃ والرمی ) ٢۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب تم اپنا تیر چھوڑو تو بسم اللہ کہہ لو۔‘‘ (مسلم۔ ایضاً) ٣۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب تم تیر چھوڑو اور شکار غائب ہوجائے تو جب ملے اسے کھا سکتے ہو بشرطیکہ سڑ نہ جائے۔‘‘ (مسلم۔ کتاب الصید و الذبائح، باب اذاغاب عنہ الصید ثم وجدہ) ٤۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر تم شکار پر تیر چھوڑو۔ پھر اس شکار کو ایک یا دو دن کے بعد پاؤ۔ پھر دیکھو کہ اس پر تمہارے تیر کے علاوہ کوئی اور نشان نہیں تو اسے کھا سکتے ہو۔ اور اگر وہ شکار پانی میں گر پڑا ہو تو اسے مت کھاؤ۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الذبائح والصید۔ باب الصید اذا غاب عنہ یومین اوثلاثہ) ٥۔ سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکری (پھینک کر شکار کرنے) سے منع فرمایا اور فرمایا کہ اس کے ذریعہ شکار نہ کیا جائے۔ (بخاری۔ کتاب الذبائح والصید۔ باب الخذف والبندقۃ۔ مسلم۔ کتاب الصید والذبائح۔ باب اباحۃ مایستعان بہ علی الاصطیاد) ٦۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں احسان کرنا فرض کردیا ہے لہٰذا جب تم کسی جاندار کو مارو یا ذبح کرو تو احسن طریقہ سے مارو (یعنی اپنی چھری وغیرہ کو خوب تیز کرلو۔ تاکہ اس مذبوحہ جانور کو کم سے کم تکلیف ہو) ‘‘(مسلم۔ کتاب الصید والذبائح۔ باب الامر باحسان الذبح والقتل ) المآئدہ
5 [٢٤] اہل کتاب کا کھانا کن شرائط کے تحت حلال ہے؟:۔ اہل کتاب کا کھانا انہی شرائط کے تحت حلال ہے جو اوپر مذکور ہو چکیں۔ یعنی ذبیحہ پر اللہ کا نام لیا گیا ہو، چیز پاکیزہ ہو اور ان کے دسترخوان پر کوئی حرام چیز مثلاً شراب یا سور کا گوشت وغیرہ نہ ہو۔ اور اگر ان کے دسترخوان پر ایسی اشیاء رہتی ہوں تو ان کے ساتھ کھانا تو درکنار ان کے برتن استعمال کرنا بھی جائز نہیں تاآنکہ انہیں خوب دھو کر پاک صاف کرلیا جائے اور یہ استعمال مجبوراً ہو۔ رہے غیر اہل کتاب تو نہ ان کا ذبیحہ کھانا جائز ہے اور نہ ان کے ساتھ کھانا کھانا جائز ہے۔ نیز جو جانور ذبح نہ کیے جائیں بلکہ آرے سے ان کا گلا کاٹ کر الگ کردیا جائے یا کسی اور طریقہ سے انہیں مارا جائے۔ یا ذبح کے وقت اللہ کا نام نہ لیا جائے تو ایسے جانور کا گوشت کھانا جائز نہیں ہے۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ دور نبوی میں یہودیوں اور عیسائیوں کا کم از کم اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان ضرور تھا مگر آج کل اہل مغرب جن میں سے اکثر اپنے آپ کو عیسائی کہلاتے ہیں۔ یہ لوگ نیچری اور دہریہ قسم کے ہوتے ہیں یا دین سے بیزار ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا کھانا کیسے مسلمانوں کے لیے جائز سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ ان میں اور غیر اہل کتاب میں موجودہ دور میں کوئی فرق نہیں ہے۔ [٢٥] کتابیہ عورت کا نکاح :۔ کتابیہ عورتوں سے نکاح کی شرائط وہی ہیں جو مسلمان عورتوں کے لیے ہیں۔ یعنی نکاح کا مقصد محض شہوت رانی نہ ہو بلکہ مستقل بنیادوں پر ہو اور اس نکاح کا باقاعدہ اعلان ہو اور ان کے حق مہر انہیں ادا کردیئے جائیں۔ مگر کتابیہ عورت سے نکاح صرف اس صورت میں جائز ہوگا جب کسی فتنہ کا خطرہ نہ ہو۔ مثلاً ایک شخص اگر کسی خوبصورت کتابیہ عورت سے نکاح کے بعد اس کے دین کی طرف مائل ہوجائے تو ایسی صورت میں نکاح ہرگز جائز نہ ہوگا جیسا کہ اس آیت کے آخر میں الفاظ ﴿وَمَنْ یَّکْفُرْ بالْاِیْمَانِ ﴾ سے ظاہر ہوتا ہے اس خطرہ کے پیش نظر حتی الامکان کتابیہ عورتوں سے نکاح سے بچنا ہی بہتر ہے۔ اور اگر ایسی اضطراری حالت ہو کہ نکاح نہ کرنے سے فتنہ میں پڑنے کا اندیشہ ہو تو پھر نکاح کرلینے میں کوئی حرج نہیں۔ المآئدہ
6 [٢٦] حلت وحرمت کے احکام سے مقصود نفس کی طہارت تھا۔ اب جسم کی طہارت کے احکام بیان ہو رہے ہیں۔ اس آیت میں وضو، تیمم اور غسل جنابت کا ذکر آیا ہے۔ تیمم اور غسل جنابت کے متعلق احادیث تو پہلے سورۃ نساء کی آیت نمبر ٣۔ ٤ کے تحت درج کی جا چکی ہیں وہاں سے دیکھ لی جائیں اور وضو اور طہارت کے متعلق احادیث یہاں درج کی جا رہی ہیں : وضو سے متعلق احکام: ایک دفعہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے پانی کا برتن منگوایا۔ پھر پہلے اپنی ہتھیلیوں پر تین بار پانی ڈال کر انہیں دھویا پھر داہنا ہاتھ برتن میں ڈالا، پھر کلی کی، پھر ناک جھاڑی، پھر تین بار اپنا منہ دھویا، پھر دونوں ہاتھ کہنیوں تک تین بار دھوئے، پھر ایک ہی بار سر کا مسح کیا، پھر دونوں پاؤں ٹخنوں تک تین بار دھوئے پھر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’جو کوئی میرے اس وضو کی طرح وضو کرے پھر (تحیۃ الوضوء کی) دو رکعتیں اس طرح ادا کرے کہ اس کے دل میں کوئی دنیوی خیال نہ ہو اس کے پہلے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الوضوئ۔ باب الوضوء ثلثا ثلثا ) ٢۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلاء میں جاتے تو کہتے' اللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ 'اے اللہ میں بھوتوں اور بھتنیوں سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ (بخاری۔ کتاب الوضوئ۔ باب مایقول عندالخلاء) ٣۔ ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم میں سے جب کوئی قضائے حاجت یعنی پاخانہ کرنے کے لیے آئے تو قبلہ کی طرف نہ منہ کرے نہ پیٹھ بلکہ مشرق کی طرف یا مغرب کی طرف منہ کرو۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الوضوء باب۔ استقبال القبلۃ لغائط او بول ) ٤۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے کسی باغ پر سے گزرے وہاں دو آدمیوں کی آواز سنی جنہیں ان کی قبروں میں عذاب ہو رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’انہیں کسی بڑے گناہ میں عذاب نہیں ہو رہا۔‘‘ پھر فرمایا ’’ان میں سے ایک تو اپنے پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغلی کھاتا پھرتا تھا۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہری ٹہنی منگوائی۔ اس کے دو ٹکڑے کر کے ہر قبر پر ایک حصہ گاڑ دیا۔ صحابہ نے پوچھا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ نے ایسا کیوں کیا ؟‘‘ فرمایا ’’جب تک یہ سوکھیں نہیں شاید ان کے عذاب میں کچھ کمی ہو۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الوضوئ۔ باب من الکبائر ان لایستترمن بولہ) ٥۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم میں سے کوئی کھڑے پانی میں جو جاری نہ ہو پیشاب نہ کرے پھر اس میں نہائے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الوضو۔ باب البول فی الماء الدائم) ٦۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا ہے کہ جس شخص کو حدث ہو اس کی نماز قبول نہیں ہوتی جب تک وضو نہ کرلے۔’’ حضرموت کے ایک آدمی نے مجھ سے پوچھا :ابوہریرہ حدث کیا ہوتا ہے؟‘‘ میں نے کہا ’’پھسکی یا پاد‘‘ (بخاری۔ کتاب الوضوء۔ باب لاتقبل الصلٰوۃ بغیر طہور) ٧۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک صاع پانی سے پانچ مد تک پانی سے غسل کرلیا کرتے اور ایک مد پانی سے وضو کرلیا کرتے۔ (بخاری۔ کتاب الوضوئ۔ باب الوضوء بالمد) ٨۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میری مذی بہت نکلتی تھی میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھنے میں شرم محسوس کی اور مقداد بن اسود سے کہا، تم پوچھ دو۔ مقداد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اس میں وضو ہے۔‘‘ (بخاری کتاب الوضوئ۔ باب من لم یرالوضوء الا من المخرجین القبل والدبر۔ نیز کتاب العلم۔ باب من استحیا۔۔) ٩۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے وضو کیا اور اپنے قدم پر ناخن بھر جگہ (خشک) چھوڑ دی۔ آپ نے دیکھا تو اسے فرمایا 'واپس جاؤ اور اچھی طرح وضو کرو۔ ' چنانچہ وہ شخص واپس ہوا۔ پھر (وضو کر کے) نماز پڑھی (مسلم۔ کتاب الطہارۃ۔ باب وجوب استیعاب جمیع اجزاء محل الطہارۃ) ١٠۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس حال میں پایا کہ نماز کا وقت ہوگیا تھا اور ہم وضو کر رہے تھے اور اپنے پاؤں پر مسح کر رہے تھے تو آپ نے تین مرتبہ بلند آواز سے پکارا وَیْلٌ للاَعْقَابِ مِنَ النَّار یعنی ان خشک ایڑیوں کے لیے بربادی ہے۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ ’’وضو مکمل کرو‘‘ (بخاری۔ کتاب الوضوء۔ باب غسل الرجلین ولا یمسح علی القدمین) ١١۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ میں مسواک لیے ہوئے مسواک کر رہے تھے۔ آپ اع اع کی آواز نکال رہے تھے اور مسواک آپ کے منہ میں تھی گویا قے کر رہے ہیں۔ (بخاری کتاب الوضوء۔ باب السواک) ١٢۔ عروہ بن مغیرہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں ایک سفر ( غزوہ تبوک) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا (آپ وضو کر رہے تھے) میں جھکا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے موزے اتار دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’رہنے دو! میں نے انہیں باوضو پہنا ہے۔‘‘ پھر ان پر مسح کیا۔ (بخاری۔ کتاب الوضوء۔ باب اذا ادخل رجلیہ و ہما طاہرتان ) ١٣۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ پیا اور پھر کلی کی اور فرمایا کہ’’دودھ میں چکنائی ہوتی ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الوضوء باب ھل یمضمض من اللبن) واضح رہے کہ اس آیت میں جن اعضاء کے دھونے کا ذکر آیا ہے۔ ان کو دھونا فرض ہے یا بالفاظ دیگر وہ وضو کے فرائض ہیں جن کے بغیر وضو ناتمام رہتا ہے اور وہ یہ ہیں۔ (١) اپنے چہرہ کو دھونا (٢) اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک دھونا اور کہنیاں اس میں شامل ہیں۔ (٣) اپنے سر کا مسح کرنا اور (٤) اپنے دونوں پاؤں کو ٹخنوں تک دھونا اور ٹخنے ان میں شامل ہیں۔ قرآن میں ان اعضاء کو دھونے یا سر کے مسح کی اجمالی کیفیت بیان ہوئی ہے جس کی تفصیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے یا احادیث سے ملتی ہے ایسی کچھ احادیث اوپر ذکر کردی گئی ہیں جن سے وضو کی سنتیں معلوم ہوتی ہیں۔ یعنی ایسے افعال جو صرف آپ کی سنت سے معلوم ہوئے ہیں۔ ان میں سے چند افعال کا ذکر مندرجہ بالا احادیث میں آ چکا۔ باقی افعال یا مذکورہ افعال کی کچھ مزید وضاحت ذیل میں درج کی جاتی ہے : ١۔ وضو کی ابتدا میں سب سے پہلے ہاتھوں کو گٹوں تک دھونا، پھر کلی کرنا، پھر ناک میں پانی چڑھانا اور ناک جھاڑنا، وضو سے پہلے یا ہاتھ دھونے کے بعد کلی کرتے وقت مسواک کرنا۔ ہاتھ اور پاؤں دھوتے وقت ہاتھ اور پاؤں کی انگلیوں میں خلال کرنا۔ منہ دھوتے وقت داڑھی اگر گھنی ہو تو بالوں میں خلال کرنا اور ہلکی ہو تو جڑوں تک دھونا، سر کے مسح کی ترکیب اور ساتھ ہی کانوں اور گردن کا مسح کرنا۔ یہ سب باتیں سنت سے معلوم ہوتی ہیں۔ ٢۔ جن اعضاء کو دھونے کا قرآن میں ذکر ہے انہیں ایک بار دھونے سے بھی فرض کی ادائیگی ہوجاتی ہے اور سنت یہ ہے کہ انہیں دو بار یا تین بار دھویا جائے۔ تین بار دھونا افضل ہے۔ اسی طرح کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا بھی تین بار افضل اور تین بار سے زیادہ دھونا مکروہ ہے۔ ٣۔ پہلے دایاں ہاتھ دھویا جائے پھر بایاں۔ اسی طرح پاؤں میں بھی یہی ترتیب ملحوظ رکھنی چاہیے۔ دائیں سے شروع کرنا اور اسے ترجیح دینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ ٤۔ ہر نماز کے لیے نئے سرے سے وضو کرنا واجب نہیں بلکہ ایک ہی وضو سے (یعنی اگر حدث نہ ہوا ہو) تو متعدد نمازیں ادا کی جا سکتی ہیں۔ ٥۔ سفر میں ایک وضو کر کے موزے یا جرابیں پہننے کے بعد ان پر تین دن تک مسح کیا جا سکتا ہے اور حضر میں اس کی مدت صرف ایک دن ہے۔ ٦۔ اگر کوئی عضو زخمی ہو جسے دھونے سے نقصان کا اندیشہ ہو تو اس پر پٹی باندھ کر اس پر مسح کیا جا سکتا ہے۔ پاؤں دھونے میں شیعہ حضرات کا اختلاف :۔ پاؤں کے دھونے میں شیعہ حضرات نے اختلاف کیا ہے اور اس اختلاف کی وجہ قراءت کا اختلاف ہے، آیت کے الفاظ یہ ہیں ﴿وَامْسَحُوْا بِرُءُوْسِکُمْ وَاَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ (یعنی ایڑیاں نہ دھونے کی خرابی یہ ہے کہ انہیں آگ کا عذاب چھوئے گا لہٰذا ﴿ اَرْجُلَکُمْ﴾ میں لام پر فتحہ والی قراءت کو ہی راجح قرار دیا جا سکتا ہے اور دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر اَرْجُلَکُمْ میں لام پر کسرہ کی قراءۃ کو بھی درست قرار دیا جائے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ﴿اَرْجُلَکُمْ﴾ پر ﴿بِرءُ َوُسِکُمْ﴾ کا عطف تسلیم کیا جائے کیونکہ لام پر کسرہ عطف کی وجہ سے نہیں بلکہ جر جوار کے طور پر آیا ہے اور اس کی مثالیں قرآن کریم میں متعدد جگہ موجود ہیں جیسے سورۃ ہود میں ہے ﴿عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ ﴾ (11: 44)اور سورۃ ئواقعہ میں ہے ﴿ وَحُوْرٌ عِیْنٌ ﴾(56: 22) مطلب یہ ہے کہ عربی گرامر کے مطابق حرکات بسا اوقات قریب کے لفظ کے مطابق آ جاتی ہیں اس لحاظ سے ﴿اَرْجُلَکُمْ کا برءُ َوُسْکُمْ﴾ پر عطف نہیں بلکہ بِرَوُسِکُمْ سے قریب ہونے کی وجہ سے کسرہ یا جر میں شریک ہے، مسح کرنے میں نہیں۔ اور تیسرا جواب عقلی ہے جو یہ ہے کہ سر چونکہ بدن کا سب سے اعلیٰ حصہ ہے لہٰذا وہ اکثر نجاست اور غلاظت سے محفوظ رہتا ہے پھر بسا اوقات ڈھکا ہوا بھی ہوتا ہے لہٰذا اسے دھونے کے بجائے اس کا مسح ہی کافی سمجھا گیا ہے جبکہ پاؤں بدن کا سب سے نچلا حصہ ہے جو نجاست اور کثافت سے اکثر متاثر ہوتا رہتا ہے لہٰذا زیادہ احتیاط اسی میں ہے کہ پاؤں پر مسح کرنے کے بجائے انہیں دھویا جائے۔ [٢٧] دین میں آسانی :۔ یعنی تمہاری مجبوریوں کا لحاظ رکھتے ہوئے تمہیں رخصتیں عطا کردیتا ہے مثلاً جس مریض کو پانی کے استعمال سے تکلیف کا یا تکلیف کے بڑھ جانے کا اندیشہ ہو تو اسے خواہ حدث اصغر (پھسکی یا پاد وغیرہ) لاحق ہو یا حدث اکبر (یعنی جنبی ہو خواہ احتلام سے یا صحبت سے) وہ وضو یا غسل کی بجائے تیمم کرسکتا ہے یا ایسا مسافر جسے وضو یا غسل کے لیے پانی مل ہی نہ رہا ہو اس کے لیے بھی یہی رعایت ہے۔ [٢٨] اتمام نعمت کیا ہے؟ :۔ یعنی اتمام نعمت اسی شکل میں ہو سکتی ہے کہ نفس کی پاکیزگی کے احکام کے ساتھ ساتھ جسم کی پاکیزگی کے احکام بھی دیئے جائیں۔ ایک مسلمان کے لیے جسم کی صفائی بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی نفس کی پاکیزگی اور صفائی۔ چنانچہ آپ نے فرمایا ہے کہ جسمانی صفائی ایمان کا حصہ یا آدھا ایمان ہے۔ (مسلم۔ کتاب الطہارۃ باب فضل الوضوء) المآئدہ
7 [٢٩] یعنی تم ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ قبائلی عصبیتوں نے تمہیں عداوتوں اور لڑائیوں میں پھنسا کر تمہاری زندگی تم پر حرام کردی تھی اور تم ان حالات سے نجات کی راہ سوچتے تھے مگر ایسی کوئی راہ تمہیں نظر نہیں آتی تھی۔ پھر اللہ نے تم پر پے در پے کئی احسانات کیے۔ تمہیں اسلام کی توفیق بخشی پھر اسی اسلام کی وجہ سے تمہاری دیرینہ اور مسلسل عداوتوں کا خاتمہ کر کے تمہیں ایک دوسرے کا مونس و غمخوار اور بھائی بھائی بنا دیا۔ [٣٠] بیعت عقبہ کا عہد :۔ یعنی وہ پختہ عہد جو تم نے عقبہ کی رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا تھا کہ ہم ہر حال میں آپ کی فرمانبرداری کریں گے واضح رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت عقبہ کے بعد بھی جس شخص سے بیعت لی اسی عہد پر بیعت لی۔ اور خلفائے راشدین بھی اسی عہد پر مسلمانوں سے بیعت لیتے رہے۔ امیر کی اطاعت سے ہی جماعت کا نظم و نسق اور امت میں اتحاد قائم رہ سکتا ہے اسی لیے حضور نے امیر کی اطاعت کی بہت تاکید فرمائی ہے۔ تفصیل کے لیے سورۃ نساء کی آیت ٥٩ کا حاشیہ نمبر ٩١ ملاحظہ فرمایا جائے۔ بیعت عقبہ کے عہد اور اس کے پس منظر کو ہم ذرا تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ ١٠ نبوی میں ابو طالب کی وفات ہوگئی۔ پھر اس کے چند ہی دن بعد آپ کی ہمدرد اور غمگسار بیوی سیدہ خدیجۃ الکبریٰ بھی وفات پا گئیں گھر کی دنیا میں سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سہارا تھیں اور باہر کی دنیا میں ابو طالب۔ چند دنوں کے وقفہ سے یہ دونوں سہارے چھن گئے۔ گویا آپ پر غم و الم ٹوٹ پڑا۔ اسی وجہ سے اس سال کا نام ہی عام الحزن پڑگیا۔ ابو طالب کی وفات کے بعد مشرکین مکہ کے حوصلے بڑھ گئے۔ اور وہ مسلمانوں پر مزید تشدد کی تجویز سوچنے لگے اور یہ بھی کہ اب پیغمبر اسلام کو ٹھکانے لگانے کا بہترین موقع میسر آ گیا ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت تو پہلے ہی حبشہ کی طرف ہجرت کرچکی تھی اور جو باقی تھے ان کی اب زندگی بھی خطرہ میں تھی۔ ان حالات میں آپ نے مناسب سمجھا کہ اب مکہ سے باہر کسی مقام پر تبلیغ کے لیے مرکز بنانا چاہیے۔ اور اس مقصد کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے جڑواں شہر طائف کا انتخاب کیا جو ایک زرخیز اور شاداب علاقہ تھا۔ اہل مکہ کے رئیسوں کی وہاں جائیدادیں بھی تھیں اور رشتے ناطے کے علاوہ تجارتی تعلقات بھی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے غلام زید بن حارثہ کو اپنے ہمراہ لیا اور طائف کی طرف روانہ ہوگئے۔ راستہ میں جہاں موقع میسر آتا تبلیغ کرتے جاتے تاآنکہ بیس دن کی پیدل مسافت کے بعد آپ طائف پہنچ گئے۔ طائف میں بنو ثقیف آباد تھے اور تین بھائی مسعود، حبیب اور عبد یا لیل اس شہر کے سردار اور رؤسائے مکہ کے ہمسر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اللہ کا پیغام سنایا اور اسلام کی دعوت دی۔ وہ اہل مکہ سے گونا گوں تعلقات کی بنا پر پہلے سے ہی مکہ اور اہل مکہ کے حالات سے واقف تھے چنانچہ انہوں نے بھی قریش مکہ ہی کی روش اختیار کی اور نہ صرف یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو ٹھکرا دیا بلکہ بڑی بدتمیزی سے پیش آئے اور گستاخانہ جواب دیئے۔ ایک بھائی نے کہا : اگر واقعی تمہیں اللہ نے بھیجا ہے تو بس پھر وہ کعبہ کا غلاف نچوانا چاہتا ہے۔ دوسرے نے کہا : کیا اللہ میاں کو رسالت کے لیے تیرے سوا کوئی مناسب آدمی نہ مل سکا۔ تیسرا بولا : اللہ کی قسم! میں تجھ سے بات نہیں کروں گا۔ کیونکہ اگر تم واقعی اللہ کے رسول ہو تو پھر آپ کو جواب دینا مناسب نہیں ہے اور اگر تم (نعوذ باللہ) جھوٹے ہو تو پھر اس قابل نہیں کہ تم سے بات کی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت بردباری سے انہیں جواب دیا کہ اگر تم مجھے رسول ماننے کو تیار نہیں تو کم از کم میری راہ میں رکاوٹ نہ ڈالیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے لوگوں کو دعوت دینا اور وعظ و نصیحت شروع کردی۔ ان بدبختوں نے اپنے غلاموں، خادموں اور شہر کے اوباش لڑکوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بھیج دیا کہ وہ آپ کو طائف سے باہر نکال دیں۔ چنانچہ ان اوباشوں کا غول آپ کے پیچھے لگ گیا۔ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم وعظ کے لیے کھڑے ہوتے تو یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے، شور مچاتے اور پتھر مارتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نڈھال ہوجاتے تو یہ غنڈے آپ کو بازو سے پکڑ کر اٹھا دیتے اور پھر ٹخنوں پر پتھر مارتے اور تالیاں بجا بجا کر ہنستے۔ خون بے تحاشا بہہ رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتیاں اندر اور باہر سے لتھڑ گئیں۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک باغ کے احاطہ میں پناہ لی۔ یہ باغ رئیس مکہ عتبہ بن ربیعہ اور اسکے بھائی شیبہ کا تھا۔ عتبہ ایک رحم دل انسان تھا۔ اس نے یہ حالت دیکھی تو اپنے غلام عداس کے ہاتھ ایک پلیٹ میں انگور بھجوائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگوروں کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہی پہلے بسم اللہ پڑھا پھر انگور کھانا شروع کئے۔ عداس کہنے لگا۔ اللہ کی قسم! یہ کلمہ یہاں کے لوگ تو کبھی نہیں کہتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہاں کے رہنے والے ہو اور تمہارا مذہب کیا ہے؟ وہ بولا میں عیسائی ہوں اور نینوا کا باشندہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : گویا تم مرد صالح یونس بن متیٰ کے شہر کے ہو۔ وہ میرا بھائی ہے۔ وہ بھی نبی تھا اور میں بھی نبی ہوں۔ غلام نے یہ سنا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر اور ہاتھوں کو بوسہ دیا۔ عتبہ اور شیبہ نے یہ ماجرا دیکھا تو جب عداس واپس آیا تو اسے ملامت کی اور کہا کہ تم یہ کیا حرکت کر رہے تھے۔ تم نے اپنا مذہب خراب کرلیا ہے۔ عداس نے جواب دیا کہ اس شخص نے مجھے ایک ایسی بات بتائی ہے جو صرف ایک نبی ہی بتاسکتا ہے۔ اس سفر میں آپ کو جتنی اذیت اٹھانی پڑی اس کا اندازہ درج ذیل حدیث سے ہوجاتا ہے : سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا آپ پر احد کے دن سے بھی زیادہ سخت دن گزرا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عائشہ ! میں نے تیری قوم (قریش) کی طرف سے جو جو تکلیفیں اٹھائی ہیں وہ میرا ہی دل جانتا ہے۔ سب سے زیادہ سخت دن مجھ پر طائف کا دن گزرا ہے جب میں نے اپنے تئیں عبد یا لیل بن کلال پر پیش کیا۔ اس نے میری دعوت کو قبول نہ کیا تو میں افسردہ خاطر ہو کر واپس ہوا اور مجھے اس وقت قدرے افاقہ ہوا جب میں قرن ثعالب (ایک مقام کا نام) پہنچ گیا۔ میں نے اوپر سر اٹھایا تو دیکھا کہ ابر کا ایک ٹکڑا مجھ پر سایہ کئے ہوئے ہے اور اس میں جبریل موجود ہیں۔ جبریل نے مجھے پکارا اور کہا کہ تمہاری قوم نے جو تجھے جواب دیا وہ اللہ نے سن لیا۔ اب اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کے فرشتے کو تمہارے پاس بھیجا ہے تاکہ آپ جیسا چاہیں اسے حکم دیں۔ اتنے میں پہاڑوں کے فرشتے نے مجھے سلام کہا اور کہنے لگا۔ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر آپ چاہیں تو میں مکہ اور طائف کے پہاڑوں کو ملا کر سب کو چکنا چور کر دوں۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (ایسا مت کرو) بلکہ مجھے امید ہے کہ ان کی اولاد میں سے اللہ ایسے لوگ پید اکرے گا جو صرف اکیلے اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے۔ (بخاری۔ کتاب باب اذا قال احدکم آمین والملئکۃ فی السماء۔۔) (مسلم۔ کتاب الجہاد والسیر۔ باب مالقی النبی من اذی المشرکین والمنافقین ) اس متفق علیہ حدیث سے معلوم ہوا کہ طائف کا دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا سخت اور مشکل ترین دن تھا۔ حتیٰ کہ احد کے دن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہوگئے تھے اس سے سخت دن تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر جس صبر و استقامت کا ثبوت دیا۔ اور انتقام کا اختیار مل جانے کے باوجود جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عفوو درگزر سے کام لیا وہ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبرانہ عظمت کی دلیل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریش مکہ کی طرف سے اسلام لانے سے تو مایوس ہو ہی چکے تھے اس واقعہ طائف نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غم و اندوہ میں مزید اضافہ کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ واپس آئے تو دامن حرمین میں ٹھہر گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال بچے مکہ میں تھے اور مکہ والے آپ کے جانی دشمن تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو خزاعہ کے ایک آدمی کے ہاتھ اخنس بن شریق کو پیغام بھیجا کہ وہ مکہ میں آپ کو پناہ دے۔ اخنس نے یہ کہہ کر معذرت کردی کہ میں حلیف ہوں اور حلیف پناہ نہیں دے سکتا۔ پھر آپ نے یہی پیغام سہیل بن عمرو کو بھیجا۔ اس نے بھی یہ کہہ کر معذرت کردی کہ بنو عامر کی دی ہوئی پناہ بنو کعب پر لاگو نہیں ہوتی۔ پھر آپ نے یہی پیغام مطعم بن عدی کو بھیجا۔ جس نے پناہ دینا منظور کرلیا۔ اور اپنے بیٹوں اور قوم کے لوگوں کو بلا کر کہا کہ ہتھیار بند ہو کر خانہ کعبہ کے گوشوں پر جمع ہوجاؤ۔ کیونکہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پناہ دے دی ہے۔' اس انتظام کے بعد اس نے آپ کو پیغام بھیجا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تشریف لا سکتے ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تشریف لائے اور حرم میں داخل ہوگئے۔ مطعم بن عدی نے اپنی سواری پر کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ قریش کے لوگو! میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پناہ دی ہے۔ (سیرۃ النبی ١ : ٣٥٦ بحوالہ ابن سعد ص ١٤٢) اس کے بعد آپ حجر اسود پر پہنچے۔ اسے چوما۔ نماز پڑھی۔ پھر اپنے گھر تشریف لے گئے۔ اس دوران مطعم کے بیٹوں نے ہتھیار بند ہو کر آپ کا پہرہ دیا۔ اس کے بعد مکی دور کا باقی حصہ آپ مطعم کی پناہ میں مکہ میں قیام پذیر رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم زندگی بھر مطعم کے اس احسان کو نہیں بھولے۔ جنگ بدر میں بہت سے مشرک قید ہوگئے تھے۔ ان میں سے بعض کی سفارش کے لیے مطعم کے بیٹے سیدنا جبیر (جو بعد میں مسلمان ہوگئے تھے) آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر آج مطعم زندہ ہوتے اور ان ناپاک قیدیوں کے متعلق بات کرتے تو میں ان سب کو چھوڑ دیتا۔‘‘ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوۃ البدر) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے مکہ واپس آئے تو حج کا موسم شروع ہوچکا تھا۔ آپ بغرض تبلیغ منیٰ تشریف لے گئے۔ اور مدینہ کے قبیلہ اوس کے آدمیوں کو اسلام کی دعوت دی۔ مدینہ میں قبیلہ اوس اور خزرج میں سال ہا سال سے خانہ جنگی چلی آ رہی تھی۔ جس سے سنجیدہ طبقہ سخت نالاں تھا لیکن اسے اس سے نجات کی کوئی راہ نظر نہیں آ رہی تھی۔ یہ لوگ دراصل حج کے علاوہ اس غرض سے بھی آئے تھے کہ خزرج کے خلاف قریش مکہ کی مدد حاصل کریں جب ان لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام کی دعوت دی اور اس کے احکام بتائے تو اوس کے قبیلہ کا ایک ذہین آدمی کہنے لگا۔ واللہ ! جس کام کے لیے تم آئے ہو اس سے یہ کام بہتر ہے۔ یعنی ان لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں وہ بات نظر آ گئی جس کی انہیں مدتوں سے تلاش تھی کہ خانہ جنگیوں سے کس طرح چھٹکارا مل سکتا ہے۔ چنانچہ ذی الحجہ ١٠ نبوی میں اسی مقام پر جسے عقبہ کہتے ہیں۔ پانچ اور بعض روایات کے مطابق چھ آدمیوں نے اسلام قبول کرلیا۔ یہ امید کی پہلی کرن تھی جو اس عام الحزن کے آخر میں نمودار ہوئی۔ ان آدمیوں کے ذریعہ قبیلہ خزرج میں بھی اسلام کی اشاعت ہوئی۔ یہ لوگ ایک تو باہمی خانہ جنگی سے پریشان تھے۔ کہ مدینہ کے یہودی قبائل ایک دوسرے سے حلیف بن کر انہیں لڑاتے رہتے تھے چنانچہ اگلے سال یعنی ذی الحجہ ١١ ھ میں اسی مقام پر اوس اور خزرج کے بارہ آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر اسلام لے آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر باضابطہ بیعت کی جو بیعت عقبہ اولیٰ کے نام سے مشہور ہے۔ اس کی شرائط یہ تھیں کہ ہم صرف ایک اللہ کی عبادت کریں گے اور کسی کو اس کا شریک نہیں بنائیں گے، چوری اور زنا کے مرتکب نہ ہوں گے۔ لڑکیوں کو زندہ درگور نہیں کریں گے۔ کسی پر تہمت نہیں لگائیں گے۔ کسی کی غیبت نہ کریں گے اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر حکم مانیں گے۔ یہ بیعت گئی رات نہایت خفیہ انداز میں ہوئی تھی۔ ان نو مسلم صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ہمارے ساتھ کسی معلم کو بھیجا جائے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو قرآن کے احکام سکھانے اور تبلیغ کے لیے مدینہ روانہ فرمایا۔ مصعب مدینہ میں اسعد بن زرارہ کے مکان پر قیام پذیر ہوئے جو مدینہ کے ایک معزز رئیس تھے۔ یہ وہی مصعب بن عمیر ہیں جو مکہ کے ایک امیر گھرانہ کے چشم و چراغ تھے۔ بڑے خوش شکل اور حسین نوجوان تھے اور قیمتی لباس پہنتے تھے۔ مگر جب اسلام قبول کیا تو ماں نے ان کا دانہ پانی بھی بند کردیا اور گھر سے باہر نکال دیا تھا۔ انہوں نے دین حق کی خاطر سب کو برداشت کیا اور امیری پر فقیری کو ترجیح دی۔ انہیں مدینہ میں اسلام کا پہلا داعی ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ غزوہ بدر میں لشکر اسلام کی علمبرداری کے منصب پر فائز ہوئے اور غزوہ احد میں شہادت پائی تھی ان کی کوششوں سے مدینہ سے قبا تک گھر گھر اسلام پھیل گیا۔ قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ اور اسید بن حضیر بھی مشرف بہ اسلام ہوگئے ان دو سرداروں کے ذریعہ اسلام کی قوت میں خاصا اضافہ ہوا چنانچہ اگلے سال مدینہ کے ٧٥ افراد جن میں دو عورتیں بھی شامل تھیں۔ مکہ میں حج کے موقع پر ایام تشریق میں عقبہ کے مقام پر (جو منیٰ اور مکہ کے درمیان ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کر کے حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ یہ بیعت بھی تہائی رات گزرنے کے بعد نہایت خفیہ انداز سے ہوئی اور بیعت عقبہ ثانیہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس بیعت کی سب سے اہم شرط جس کی طرف قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے وہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی زبانی سنیے۔ جو بیعت عقبہ اولیٰ اور ثانیہ دونوں میں شریک تھے اور انکی اس ہدایت کو بخاری اور مسلم دونوں نے ذکر کیا ہے : عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس بات پر بیعت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں جو حکم دیں گے ہم مانیں گے۔ چاہے آسانی ہو یا تنگی ہو، خواہ وہ ہمیں اچھی لگے یا ناگوار محسوس ہو۔ خواہ آپ دوسروں کو ہم پر ترجیح دیں اور جس کو بھی آپ امیر مقرر فرمائیں گے ہم اس کا حکم مانیں گے اس سے بحث نہیں کریں گے اور ہر صورت میں حق بات ہی کہیں گے اور اس معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔ (بخاری۔ کتاب الاحکام۔ مسلم۔ کتاب الامارۃ۔ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ۔۔) اور اس شرط کی اہمیت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ٧٥ آدمیوں میں سے انصار کی مرضی کے مطابق ١٢ نقیب یا امیر مقرر فرما دیئے تھے تاکہ اسلام کی انقلابی تحریک کا جو کام ہو وہ نظم و ضبط کے تحت ہو۔ اور عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ خود بھی نقیب مقرر کئے گئے تھے۔ کتب سیر میں جو مزید تفصیلات ملتی ہیں وہ یہ ہیں کہ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مدینہ آنے کی دعوت دی تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا : اے گروہ انصار! محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خاندان میں معزز محترم ہیں۔ دشمنوں کے مقابلہ میں ہم ہمیشہ ان کے لیے سینہ سپر رہے۔ اب وہ تمہارے پاس جانا چاہتے ہیں۔ اگر مرتے دم تک ان کا ساتھ دے سکو تو بہتر ورنہ ابھی جواب دے دو۔ انصار نے اس بات کا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو تو جواب نہیں دیا البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے جو عہد لیں ہم حاضر ہیں۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس بات کا عہد کرو تم دین حق کی اشاعت میں میری پوری پوری مدد کرو گے اور جب میں تمہارے ہاں آ بسوں تو تم اپنے اہل وعیال کی طرح میری اور میرے ساتھیوں کی حمایت کرو گے۔ انصار نے پوچھا کہ اس کے عوض ہمیں کیا ملے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جنت‘‘ ایک انصاری ابو الہیشم نے بات کاٹ کر کہا کہ کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ جب آپ کو قوت اور اقتدار حاصل ہوجائے تو آپ ہمیں چھوڑ کر اپنے وطن واپس چلے جائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکرا کر فرمایا۔ ایسا نہیں ہوگا۔ میرا مرنا اور میرا جینا تمہارے ہی ساتھ ہوگا۔ عہد و بیان کی یہ جزئیات طے ہونے کے بعد سب سے پہلے براء بن عازب بن معرور رضی اللہ عنہ نے پھر سب ساتھیوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ یہ عہد و پیمان اگرچہ انتہائی راز داری اور خفیہ طریقہ سے طے پائے تھے۔ تاہم مشرکین مکہ کو اس کی بھنک پڑگئی۔ چنانچہ کافروں کا ایک وفد قبیلہ خزرج کے ہاں پہنچ گیا۔ خزرج کے مشرکین چونکہ خود بھی اس معاہدہ کے متعلق کچھ نہیں جانتے تھے لہٰذا انہوں نے اس وفد کو یقین دہانی کرا دی کہ ایسا کوئی معاہدہ طے نہیں پایا۔ لہٰذا یہ وفد واپس لوٹ آیا۔ البتہ اس واقعہ کا یہ اثر ضرور ہوا کہ خزرج کے مسلمان چوکنے ہوگئے اور انہوں نے جھٹ مدینہ کی راہ لی۔ بعد میں مشرکین مکہ کو معلوم ہوگیا کہ معاہدہ والی بات محض افواہ نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی تھی۔ لہٰذا وہ خزرج کے مسلمانوں کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے۔ مگر مسلمان تیز رفتاری سے آگے جا چکے تھے۔ البتہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ جو قبیلہ خزرج کے سردار تھے اور اسلام لا چکے تھے پکڑے گئے۔ مشرکوں نے انہیں زدوکوب کرنا چاہا تو مطعم بن عدی اور حرب بن امیہ آڑے آ گئے جس کی وجہ یہ تھی کہ قریش کے تجارتی قافلے سعد بن عبادہ کی پناہ میں ہی مدینہ کے پاس سے گزرتے تھے لہٰذا مشرکوں کو اپنا غیظ و غضب ضبط کرنا پڑا۔ اس طرح تمام مسلمان بخیر و عافیت مدینہ پہنچ گئے۔ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے بعد عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ مدینہ پہنچے۔ یہ دونوں حضرات مدینہ کے مسلمانوں کو قرآن کی تعلیم دیتے تھے۔ ان کے بعد عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ، بلال بن رباح رضی اللہ عنہ اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ مدینہ پہنچے، ان کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بیس مسلمانوں کے ہمراہ مکہ کے قریشیوں کو للکارتے ہوئے ہجرت کے لیے نکلے اور مدینہ پہنچے اور آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ مدینہ تشریف لائے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر سورۃ اعلیٰ بروایت براء بن عازب) اس طرح اسلام کی انقلابی تحریک کا مرکز مکہ سے مدینہ منتقل ہوگیا۔ المآئدہ
8 [٣١] دشمن قوم پر بھی گواہی میں انصاف :۔ پہلے سورۃ نساء کی آیت نمبر ١٣٥ میں اس سے ملتا جلتا مضمون گزر چکا ہے کہ تم اللہ کی خاطر انصاف پر قائم رہتے ہوئے گواہی دیا کرو خواہ یہ گواہی تمہارے اپنے خلاف جا رہی ہو یا تمہارے والدین اور اقرباء کے خلاف جا رہی ہو۔ یہاں اس آیت میں یہ سمجھایا جا رہا ہے کہ تم سابقہ دشمنیوں اور قبائلی عصبیتوں سے بالکل بے نیاز ہو کر انصاف کی گواہی دیا کرو۔ کسی شخص کی یا کسی قوم کی دشمنی تمہاری گواہی پر یا تمہارے عدل و انصاف پر ہرگز اثر انداز نہ ہونی چاہیے اس کی واضح مثال تو اس انصاری کا واقعہ ہے جس نے کسی مسلمان کی ایک زرہ چرا لی اور ایک یہودی کے پاس امانت رکھ آیا تھا (یہ واقعہ سورۃ نساء کی آیت نمبر ١٠٧ کے تحت بیان ہوچکا ہے) مالک یہ مقدمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عدالت میں لے گیا چور (جو حقیقتاً منافق تھا) کی سوچ ہی یہی تھی کہ میں چونکہ مسلمان ہوں اس لیے یہودی کے مقابلہ میں یقیناً آپ میری حمایت کریں گے۔ پھر اس چور اور اس کے خاندان والوں نے اسی قبائلی عصبیت کی بنا پر اس کا ساتھ دیا اور قسمیں بھی کھائیں کہ ہم اس چوری کے قصہ میں بالکل بے تعلق ہیں اور قریب تھا کہ آپ یہودی کے خلاف اور اس منافق کے حق میں فیصلہ بھی دیتے کہ اللہ نے بذریعہ وحی آپ کو حقیقی صورت سے مطلع فرما دیا۔ اس آیت میں تمام مسلمانوں کو ایک جامع ہدایت دی گئی ہے کہ جس شخص کے حق میں تمہیں گواہی دینا پڑے، گواہی بالکل ٹھیک ٹھیک دیا کرو خواہ وہ تمہارا دوست ہو یا دشمن قوم سے تعلق رکھتا ہو۔ کیونکہ تم میں عدل و انصاف اور تقویٰ پیدا کرنے والے اسباب میں سے یہ ایک موثر ترین سبب ہے اور تمہیں شہادت دیتے وقت ہر لمحہ یہ ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ جو کچھ تم کہو گے اللہ سن رہا ہے اور جو کچھ کرو گے اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔ اور بعض مفسرین نے ﴿کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَاۗءَ ﴾ کا یہ مطلب لیا ہے کہ اللہ کے دین کو قائم کرنے والے بن جاؤ۔ یعنی تم پر یہ فریضہ عائد کیا گیا ہے کہ تم تمام اقوام عالم کو اپنے قول سے بھی اور فعل سے توحید اور احکام اخلاق کی تعلیم دینے کے ذمہ دار بن جاؤ۔ جیسا کہ صحابہ کرام نے اس پر عمل کر کے دکھایا اسی ذمہ داری کو تمہیں بحال رکھنا چاہیے اور آگے بڑھانا چاہیے اور اس سلسلہ میں تمہیں عدل و انصاف کے تقاضوں کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے۔ المآئدہ
9 [٣١۔ الف] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دو طرح کے اعمال کا ذکر فرمایا۔ ایک ایمان کا، دوسرے اعمال صالحہ کا اور دو طرح کا ہی وعدہ فرمایا ایک مغفرت کا اور دوسرے اجر عظیم کا۔ جس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور اس کے ساتھ کبھی کسی کو شریک نہیں کیا۔ ان کی بھی مغفرت ہوجائے گی رہا اجر عظیم تو وہ صرف ان لوگوں کو ملے گا جو ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ بھی بجا لاتے رہے ہوں گے۔ المآئدہ
10 المآئدہ
11 [٣٢] پہلا احسان تو مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ انہیں اسلام کی توفیق بخشی اور اسلام کی بدولت ان کی قبائلی عصبیتوں کا خاتمہ ہوا، لڑائیاں ختم ہوئیں اور آپس میں تم بھائیوں کی طرح زندگی گزارنے لگے دوسرا بڑا احسان یہ تھا کہ حدیبیہ کے مقام پر کافر یہ چاہتے تھے کہ تم پر حملہ آور ہو کر تمہیں صفحہ ہستی سے ناپید کردیں۔ لیکن اللہ نے ایسے حالات پیدا کردیئے کہ وہ اپنا ارادہ پورا نہ کرسکے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے۔ ١۔ حدیبیہ کے دن جنگ روکنا اللہ کا احسان تھا۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اہل مکہ کے اسی (٨٠) آدمی مسلح ہو کر تنعیم پہاڑ کی جانب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ آور ہوئے۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب غافل ہوں تو حملہ کردیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پکڑ کر قید کرلیا پھر انہیں چھوڑ دیا تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (مسلم۔ کتاب الجہاد۔ باب ھوالذی کف ایدیکم عنھم) ٢۔ سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے چچا عامر نے قبیلہ عبلات کے ایک مکرز نامی شخص کو، جو ایک جھول پڑے ہوئے گھوڑے پر سوار اور ستر مشرکوں کا ساتھی تھا گھیر کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مشرکوں کی طرف دیکھا پھر فرمایا: انہیں چھوڑ دو (عہد نامہ حدیبیہ کی بدعہدی کے) گناہ کی ابتدا بھی انہوں نے کی اور تکرار بھی انہی سے ہوئی۔ اسی سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (مسلم۔ کتاب الجہاد۔ باب غزوہ ذی قرد) اگرچہ مندرجہ بالا احادیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت صلح حدیبیہ یا اسی کے گرد و پیش حالات کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ تاہم دور نبوی میں کئی بار ایسے مواقع پیش آتے رہے کہ کبھی کفار مکہ نے جنگ کے ذریعہ اور کبھی یہودیوں نے سازشوں کے ذریعہ اسلام کو ختم کردینے کی کوششیں کیں۔ پھر کبھی تو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ مسلمانوں کو دشمنوں کی سازشوں سے مطلع فرما دیا۔ اور کبھی حالات ایسے پیدا کردیئے کہ کافروں کو حملہ آور ہونے کی جرأت ہی نہ ہوسکی۔ المآئدہ
12 [٣٣] بنی اسرائیل کے بارہ نقیب اور ان کی ذمہ داریاں :۔ نقیب کے معنی ہیں نگرانی اور تفتیش کرنے والا۔ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے اور موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں موجود تھے۔ بنی اسرائیل نے جب موسیٰ علیہ السلام سے پانی کا مطالبہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ فلاں پتھر پر اپنا عصا مارو تو بارہ چشمے پھوٹ پڑیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ہر قبیلہ نے اپنا اپنا چشمہ یا پانی پینے کی جگہ پہچان لی اور اس پر قابض ہوگیا۔ انہیں بارہ قبائل میں سے ہر قبیلہ سے ایک ایک نقیب مقرر کیا گیا۔ جس کا کام یہ تھا کہ وہ لوگوں کے اخلاق و کردار کی نگرانی کرے اور انہیں بےدینی اور بداخلاقی سے بچانے کی کوشش کرتا رہے۔ [٣٤] اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ معیت چار باتوں سے مشروط تھا۔ (١) بنی اسرائیل نماز کو قائم کرتے رہیں (٢) زکوٰۃ ادا کرتے رہیں (٣) بعد میں جو رسول مبعوث ہوں ان پر ایمان بھی لائیں اور ان کی جان اور مال سے مدد بھی کریں اور (٤) لوگوں کو قرضہ حسنہ دیتے رہیں۔ گویا جو ذمہ داری ان نقیبوں پر ڈالی گئی تھی ان میں سے مذکورہ چار کام سب سے اہم تھے اور ان سے عہد یہ تھا کہ اگر وہ ذمہ داری پوری کرتے رہیں گے تو یقیناً اللہ ان کے ساتھ ہوگا اور ان کی ہر معاملہ میں مدد فرمائے گا۔ [٣٥] برائیاں دور کرنے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ جو شخص نیکی کے مذکورہ بالا بڑے بڑے کاموں میں لگا رہے اس کا ذہن برائیوں کی طرف منتقل ہوتا ہی نہیں اور وہ برائیوں سے بچا رہتا ہے اور برائیاں اس سے دور رہتی ہیں۔ دوسرے یہ کہ اگر ان سے کچھ برائیاں سرزد ہو بھی جائیں تو وہ ایسی بڑی نیکیوں کے تلے دب جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ ان پر گرفت ہی نہیں فرماتے۔ [٣٦] سیدھی راہ اور اس کی صفات :۔ سواء السبیل سے مراد وہ راہ ہے جو متوازن، معتدل اور افراط و تفریط سے پاک ہو۔ کیونکہ یہ راہ اس علیم و حکیم ہستی کی بتلائی ہوئی ہے جو تمام حقائق سے پوری طرح واقف ہے اور سب انسان اس کی نظروں میں یکساں ہیں۔ یہ کسی انسان کی بتائی ہوئی راہ نہیں۔ جس پر اس کے اپنے جذبات، وطن اور قوم کی محبت یا دوسری معاشی اور معاشرتی عوامل اثر انداز ہوجاتے ہیں اور وہ ایسی معتدل، متوازن اور افراط و تفریط سے پاک راہ کا سراغ لگا بھی نہیں سکتا۔ یہ اللہ کی خاص مہربانی ہے کہ اس نے خود ہی انسانون کو یہ راہ بتلا دی جس سے انہیں اس دنیا میں بھی اس راستہ کی تلاش کے لیے کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی اور آخرت میں بھی وہ کامرانیوں سے ہمکنار ہوجائے گا۔ المآئدہ
13 [٣٧] بنی اسرائیل کی اپنے عہد کی ایک ایک شق کی خلاف ورزی :۔ بنی اسرائیل نے اپنے اس مضبوط عہد کی چنداں پروا نہ کی۔ قیام صلٰوۃ اور ایتائے زکوٰۃ میں غفلت برتی۔ زکوٰۃ کے بجائے بخل کی راہ اختیار کی اور قرضہ حسنہ دینے کی بجائے سود خوری اور حرام خوری شروع کردی۔ اللہ کے رسولوں پر ایمان لانا تو درکنار، جی بھر کر ان کی مخالفت کی اور بعض انبیاء کو ناحق قتل بھی کرتے رہے غرض یہ کہ اس عہد کی ایک ایک شق کو توڑنے میں کوئی کمی نہ چھوڑی جس کے عوض ہم نے ان پر لعنت کی اور انہیں اپنی رحمت سے دور کردیا اور دوسری سزا یہ دی کہ ان کے دل سخت بنا دیئے جس کی وجہ سے ایک تو راہ حق قبول کرنے سے قاصر ہوگئے دوسرے آپس میں الفت و موانست کے جذبات کے بجائے ان میں خود غرضی، سنگدلی اور باہمی منافرت نے راہ پا لی۔ [٣٨] ان دونوں سزاؤں کے مزید نتائج یہ نکلے کہ ان لوگوں نے کتاب اللہ میں تحریف شروع کردی۔ فلسفیانہ موشگافیاں اور خود غرضانہ تاویلات کے ذریعہ کتاب کی اکثر آیات کا مفہوم ہی بدل ڈالا اور اسے کچھ کا کچھ بنا دیا اور دوسرا نتیجہ یہ نکلا کہ انہیں کہا تو یہ گیا تھا کہ وہ کتاب اللہ سے نصیحت اور عبرت حاصل کریں۔ یہ بات تو انہوں نے یکسر چھوڑ ہی دی اور اسکے بجائے اپنا سارا زور الفاظ کی گتھیوں کو سلجھانے میں صرف کرنے لگے اور ایسا مطلب اخذ کرنا شروع کیا جو انکی خواہش کے مطابق ہو (نیز دیکھئے سورۃ نساء کا حاشیہ نمبر ٧٧۔ ا) [٣٩] یہ چند آدمی عبداللہ بن سلام اور انہی کا سا راست باز ذہن رکھنے والے کچھ ساتھی تھے۔ ان کے علاوہ جتنے بھی یہودی تھے سب سازشیقسم کے لوگ، بدعہد اور خائن تھے اور موقع بہ موقع مسلمانوں کو ان کی سازشوں، کرتوتوں، بدعہدیوں اور خیانتوں کا از خود ہی پتا چلتا رہتا تھا۔ پھر چونکہ یہودیوں کی اکثریت ایسے ہی بدعہد اور خائن قسم کے لوگوں پر مشتمل تھی لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ آپ ان کی ہر قابل گرفت بات سے دل گرفتہ ہوں گے تو آپ کو یہ ایک الگ پریشانی لاحق ہوجائے گی لہٰذا ان کی باتوں کو درخور اعتناء سمجھنا چھوڑ دیجئے اور جن جن خیانتوں پر آپ مطلع ہوتے رہتے ہیں ان سے محاسبہ نہ کیجئے۔ اللہ خود ان سے نمٹ لے گا۔ آپ درگرز اور احسان کی راہ اختیار کیجئے۔ کیونکہ یہی راہ اللہ کو پسند ہے۔ المآئدہ
14 [٤٠] نصاریٰ سے بھی اسی قسم کا پختہ عہد لیا گیا تھا تو انہوں نے بھی وہی کچھ کیا جو یہود نے کیا تھا۔ انہوں نے بھی کتاب اللہ سے ہدایت حاصل کرنا چھوڑ دیا اور فلسفیانہ اور راہبانہ قسم کی موشگافیوں میں لگ گئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ کئی فرقوں میں بٹ گئے اور ایک دوسرے کی تکفیر کرنے لگے اور مستقل طور پر ان میں منافرت اور دشمنی کا بیج پرورش پانے لگا۔ پھر اسی پر ہی معاملہ ختم نہ ہوا بلکہ نصاریٰ اور یہود میں مستقل طور پر عداوت اور دشمنی چل نکلی۔ اور جہاں کہیں نصاریٰ کی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے یہودیوں پر جی بھر کر ظلم ڈھائے اور ان کی یہ دشمنی تاقیامت جاری رہے گی۔ کیونکہ ان کی کتابوں میں تحریف ہوچکی ہے۔ اور کوئی ایسی الہامی متفق علیہ چیز ان کے ہاں موجود ہی نہیں رہی جس کی بنیاد پر کسی وقت ان کے اتحاد کی بنیاد اٹھائی جا سکے۔ المآئدہ
15 [٤١] اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب نے بے شمار آیات کی یا تو تاویل کر ڈالی تھی یا پھر انہیں لوگوں سے چھپایا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسی آیات کا علم عطا کیا ہوا تھا۔ پھر ان میں بہت سی آیات ایسی تھیں جن کا آپ نے یہود سے ذکر ہی نہیں کیا۔ کیونکہ انہیں بتانے کی کوئی حقیقی ضرورت نہیں تھی اور جن آیات کا ذکر کیا وہ بھی بہت تھیں تھوڑی نہیں تھیں جن کا بتانا دین حق کے قیام کے لیے ناگزیر تھا۔ جیسا کہ انہوں نے رجم کی آیت کو چھپانے کی کوشش کی تھی اور یہ بات درج ذیل حدیث سے صاف واضح ہے۔ یہود کا آیات اللہ کو چھپانا :۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ کے پاس ایک یہودی مرد اور عورت کو لایا گیا جنہوں نے زنا کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود سے پوچھا ’’تم اپنی کتاب میں اس کا کیا حکم پاتے ہو؟‘‘ وہ کہنے لگے ’’ہمارے علماء ایسے لوگوں کا منہ کالا کر کے گدھے پر سوار کرتے اور گشت کراتے ہیں‘‘ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ان کے علماء کو تورات سمیت بلائیے۔ جب تورات لائی گئی تو ان میں سے ایک نے رجم کی آیت پر ہاتھ رکھ کر آگے پیچھے سے پڑھنا شروع کردیا۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے اسے کہا ’’اپنا ہاتھ تو اٹھاؤ‘‘ اس نے ہاتھ اٹھایا تو اس کے نیچے سے رجم کی آیت نکلی۔ چنانچہ آپ نے انہیں رجم کا حکم دے دیا اور وہ سنگسار کیے گئے۔ (بخاری۔ کتاب المحاربین۔ باب الرجم بالبلاط۔ مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب رجم الیہود اہل الذمۃ فی الزنیٰ) یا جیسے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے متعلق سب آیات کو چھپا جاتے تھے۔ [٤٢] اگرچہ اس آیت میں بعض علماء نے نور سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات با برکات بھی لی ہے تاہم اکثر مفسرین نور کو کتاب مبین ہی کی صفت قرار دیتے ہیں اور واؤ کو عطف مغائرت کے بجائے عطف تفسیری سمجھتے ہیں اور اسکی وجہ درج ذیل ہیں۔ ١۔ اس آیت کی ابتدا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر پہلے ہی آ چکا ہے۔ یہ آیت یوں شروع ہوتی ہے۔ ﴿یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ قَدْ جَاۗءَکُمْ رَسُوْلُنَا ......﴾ ٢۔ اگر نور اور کتاب مبین دو الگ الگ چیزیں ہوتیں تو بعد والی آیت میں ﴿یَھْدِی بِہِ اللّٰہُ﴾ کے بجائے ﴿یَھْدِیْ بِھِمَا اللّٰہُ﴾ آنا چاہیے تھا۔ ٣۔ قرآن میں قرآن اور دوسری آسمانی کتابوں کو ہی بہت سے مقامات پر نور کہا گیا ہے مثلاً ١۔ ﴿وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا﴾ (4: 175)اور ہم نے تمہاری طرف نور مبین نازل کیا (قرآن کے لیے) ٢۔ ﴿ اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰیۃَ فِیْہَا ہُدًی وَّنُوْرٌ ﴾ (5: 65)ہم نے ہی تورات اتاری جس میں ہدایت اور نور تھا (تورات کے لیے) ٣۔ ﴿وَاٰتَیْنٰہُ الْاِنْجِیْلَ فِیْہِ ہُدًی وَّنُوْرٌ ﴾ (5: 46)اور ہم نے (سیدنا عیسیٰ عليہ السلام) کو انجیل عطا کی جس میں ہدایت اور نور تھا (انجیل کے لیے) ٤۔ ﴿مَنْ اَنْزَلَ الْکِتٰبَ الَّذِیْ جَاۗءَ بِہٖ مُوْسٰی نُوْرًا وَّہُدًی لِّلنَّاسِ ﴾ (6: 16)وہ کتاب کس نے اتاری تھی جو موسیٰ لائے تھے جو لوگوں کے لیے نور اور ہدایت تھی (تورات کے لیے)۔ ٥۔ ﴿ وَاتَّبَعُوْا النُّوْرَ الَّذِیْ اَنْزَلَ مَعَہُ﴾ (٧ : ١٥٧) اور اس نور کی پیروی کی جسے ہم نے آپ کے ساتھ اتارا ہے (قرآن کے لیے) ٦۔ ﴿وَلٰکِنْ جَعَلْنٰہُ نُوْرًا نَّھْدِیْ بِہِ مَنْ نَشَاءُ﴾ (٤٢ : ٥٢) لیکن ہم نے اس کو نور بنایا جس سے ہم جسے چاہیں ہدایت دیتے ہیں (قرآن کے لیے) ٧۔ ﴿فَامَنِوُاْ باللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ وَالنُّوْرِ الَّذِیْ اَنْزَلْنَا﴾ (٦٤ : ٨) تو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس نور پر بھی جسے ہم نے اتارا ہے۔ (قرآن کے لیے) نور وبشر کی بحث :۔ اس کے برعکس تمام انبیاء کو ہر مقام پر بشر ہی کہا گیا ہے البتہ ایک مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سراجاً منیراً (روشنی دینے والا چراغ) بھی کہا گیا ہے (٣٣ : ٤٦) تاہم اگر یہاں نور سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی لیا جائے تو اس سے مراد نور نبوت اور نور ہدایت ہوگا نہ کہ وہ نور جس کی آج کل کے بریلوی حضرات نے رٹ لگا رکھی ہے کیونکہ مولانا احمد رضا خاں کا ترجمہ قرآن (کنز الایمان) اور اس پر مولانا نعیم الدین صاحب مراد آبادی کا حاشیہ (خزائن العرفان) یوں ہے :’’بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب‘‘ (کنز الایمان) اور اس پر حاشیہ یہ ہے کہ ’’سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو نور فرمایا۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تاریکی کفر دور ہوئی اور راہ حق واضح ہوئی‘‘ (خزائن العرفان) اکابر بریلوی علماء کی شہادت :۔ اسی طرح ﴿ وَّدَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًا ﴾ کا ترجمہ یوں ہے ’’اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا ہے اور چمکا دینے والا نور ہے‘‘ (کنز الایمان) اور حاشیہ یوں ہے ’’درحقیقت ہزاروں آفتابوں سے زیادہ روشنی آپ کے نور نبوت نے پہنچائی اور کفر و ضلالت کے ظلمات شدیدہ کو اپنے نور حقیقت افروز سے دور کردیا اور خلق کے لیے معرفت الٰہی تک پہنچنے کی راہیں روشن اور واضح کردیں اور ضلالت کی تاریک وادیوں میں راہ گم کرنے والوں کو اپنے نور ہدایت سے راہ یاب فرمایا اور اپنے نور نبوت سے ضمائر اور قلوب و ارواح کو منور کیا۔‘‘ (خزائن العرفان) اگر یہ معاملہ یہیں تک محدود رہتا تو پھر بھی اختلاف کی کوئی بات نہ تھی۔ بھلا کون مسلمان ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نور نبوت اور نور ہدایت ماننے کو تیار نہ ہوگا۔ اختلاف اس وقت واقع ہوا جب کچھ غالی قسم کے حضرات نے یہ مسئلہ پیدا کردیا کہ آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نور ہیں یا بشر؟ اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر نہیں تھے بلکہ نور تھے اور جو لوگ آپ کو بشر کہتے تھے انہیں گستاخان رسول کا لقب دیا گیا۔ اور جو آپ کو نور تسلیم کریں انہیں عاشقان رسول کا۔ لفظی تحریف :۔ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ قرآن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے شمار مقامات پر بشر قرار دیا گیا ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کہلوایا گیا ہے کہ ’’آپ کہہ دیجئے کہ میں تمہاری طرح کا بشر ہی ہوں۔‘‘ اس کا کیا جواب دیا جائے؟ اس سوال کے دو طرح سے جواب تیار کیے گئے۔ ایک تو تحریف لفظی اور معنوی دونوں کے ضمن میں آتا ہے یعنی ﴿ قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ﴾ میں لفظ انما کے دو الگ الگ لفظ ان ما پڑھے گئے اور ما کو نافیہ قرار دے لیا گیا اور اس کا ترجمہ یوں کرلیا گیا ’’کہ تحقیق نہیں ہوں میں تمہاری طرح کا بشر‘‘ اس طرح یہ حضرات لفظی تحریف کے مرتکب ہوئے اور دوسرا جواب یہ سوچا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جواب کافروں کو دیا تھا۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر کہتے اور سمجھتے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ چلو انہیں کہہ دو کہ میں تمہاری طرح کا بشر ہی ہوں مگر رسول بھی ہوں۔ یعنی یہ جواب صرف کافروں کے لیے مخصوص تھا مسلمانوں کے لیے نہیں تھا کیونکہ حقیقتاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر نہیں بلکہ نور تھے یہ معنوی تحریف ہوئی۔ اس جواب سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے متعلق جو تصور قائم ہوتا ہے وہ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ بایں ہمہ یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہا صحابہ کرام کے سامنے بھی اپنے بشر ہونے کا برملا اعتراف کیا تھا۔ ایسی تین مثالیں سورۃ کہف کی آیت نمبر ١١٠ کے تحت درج کردی گئی ہیں یعنی تین مستند اور صحیح احادیث معہ مکمل حوالہ لکھ دی گئی ہیں۔ جس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف تین بار اپنے لیے بشر ہونے کا اعتراف کیا تھا بلکہ صرف تین مثالیں اس لیے درج کی ہیں کہ ثبوت مدعا کے لیے یہ تین مثالیں بہت کافی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کس قسم کے نور تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت سے انکار کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور ہونے میں بھی اختلاف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس قسم کا نور ہیں۔ بریلوی اکابرین کے کچھ اقتباسات تو اوپر دیئے گئے ہیں۔ مزید یہ کہ مفتی احمد یار صاحب بریلوی لکھتے ہیں کہ ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رب کے نور ہونے کے نہ تو یہ معنی ہیں کہ (ا) حضور صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے نور کا ٹکڑا ہیں (ب) نہ یہ کہ رب کا نور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کا مادہ ہے (ج) نہ یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی طرح ازلی، ابدی، ذاتی نور ہیں اور (د) نہ یہ کہ رب تعالیٰ حضور میں سرایت کر گیا ہے تاکہ کفر اور شرک لازم آئے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہی نور ہیں جیسے اسلام اور قرآن نور ہیں۔‘‘ (رسالہ نور ص ٧ مصنفہ مولانا احمد رضا خاں صاحب) لیکن غالی حضرات اپنے اکابرین کی بات بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں بلکہ ان میں (نُوْرٌ مِنْ نُوْرِ اللّٰہ) کا عقیدہ راسخ ہوگیا ہے یا کردیا گیا ہے۔ اور یہ الفاظ اس درود کا باقاعدہ حصہ ہیں جو بریلوی حضرات مساجد میں اکثر لاؤڈ سپیکر پر پڑھتے ہیں۔ اگر یہ لوگ (نُوْرٌ مِنْ نُوْرِ اللّٰہِ) کی بجائے (نُوْرٌ مِنْ نُوْرِ اللّٰہِ) یا (نُوْرٌ مِنْ انُوْار اللّٰہِ) کہتے تو پھر بھی اس کی کچھ توجیہہ کی جا سکتی تھی۔ لیکن (نُوْرٌ مِنْ نُوْرِ اللّٰہِ) تو ایسا واضح کفر و شرک ہے جسے مولانا احمد رضا خاں صاحب نے بھی کفر و شرک تسلیم کیا ہے۔ رہی یہ بات کہ ان لوگوں کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور ہونے کا کیا ثبوت ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس نظریہ کا ماخذ چند موضوع احادیث ہیں جو یہ ہیں : ١۔ آپ کو نور ثابت کرنے کے لئے موضوع احادیث کا سہارا :۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا :' اِنَّ اَوْلَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرٌنَبِیُّکَ یَا جَابِرُ '(اے جابر! اللہ نے سب سے پہلے تیرے نبی ( محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نور کو پیدا کیا) اسی حدیث کو یوں بھی بیان کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا 'اِنَّ اَوَّلَ مَاخَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِی' (بے شک پہلی چیز جو اللہ نے پیدا کی وہ میرا نور تھا) یہ حدیث مصنف عبدالرزاق کی ہے اور بلاسند ہے۔ مصنف عبدالرزاق چوتھے درجہ کی حدیث کی کتاب ہے جس میں ضعیف اور موضوع احادیث کی بھرمار ہے۔ پھر بلا سند حدیث ویسے بھی محدثین کے نزدیک مردود اور ناقابل اعتبار ہوتی ہے۔ ٢۔ حکیم ترمذی کی کتاب نوادر الاصول میں ذکوان سے روایت کی گئی ہے کہ ’’سورج اور چاند کی روشنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سایہ نہیں ہوتا تھا‘‘ اب نوادر الاصول کی حدیث کی کتابوں میں جو قدر و قیمت ہے وہ سب جانتے ہیں۔ حکیم ترمذی خود طبقہ صوفیاء سے تعلق رکھتے تھے۔ جن سے محدثین 'اَخَذَتْہُ غَفْلَۃُ الصَّالِحِیْنَ' کہہ کر کوئی حدیث قبول کرنا گوارا نہیں کرتے تھے۔ اور یہ ذکوان خود تابعی ہیں (صحابی نہیں ہیں) پھر جب انہوں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہی نہیں تو ان کے متعلق ایسی محیر العقول بات کیسے کہہ سکتے ہیں اور اگر کسی صحابی سے سنا تھا تو اس کا نام کیوں نہیں بتاتے۔ غرض یہ حدیث بھی ہر لحاظ سے ساقط الاعتبار اور موضوع ہے۔ علاوہ ازیں اس حدیث کے باقی راوی بھی کذاب اور مفتری قسم کے ہیں۔ ٣۔ تیسری حدیث یوں ہے ’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاتھ سے سوئی گر گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کے بعد چہرہ یا مسکراہٹ کی روشنی کی وجہ سے وہ مل گئی۔‘‘ اس حدیث کو اور اس سے پہلی سایہ والی حدیث دونوں پر تبصرہ کرنے کے بعد سید سلیمان ندوی نے موضوع قرار دیا ہے۔ (سیرۃ النبی ج ٣ ص ٧٧٥، ٧٧٦) پھر یہ احادیث عقلی لحاظ سے بھی ساقط الاعتبار ہیں۔ دعویٰ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سورج سے بھی زیادہ روشنی تھی اور اس بات کا تقاضا یہ ہے کہ کم از کم مکہ اور مدینہ میں رات کا اور تاریکی کا وجود ہی باقی نہ رہتا۔ جسے اللہ تعالیٰ نے آرام کے لیے بنایا اور اپنی عظیم نعمتوں سے شمار کیا ہے۔ پھر یہ بھی غور فرمائیے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی سورج جیسی تھی تو پھر گھر میں داخل ہونے پر گمشدہ سوئی ملنے کا کیا مطلب؟ سورج کی روشنی تو از خود ہر جگہ پہنچ جاتی ہے۔ اب ان موضوع احادیث کے مقابلہ میں صحیح احادیث ملاحظہ فرمائیے۔ ١۔ صحیح احادیث سے موضوعات کا رد :۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے سب سے پہلے جس چیز کو پیدا کیا وہ قلم ہے۔ پھر قلم سے کہا 'لکھو' قلم نے پوچھا’’کیا لکھوں؟‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہر اس چیز کی تقدیر لکھو جو ہوچکی یا تاقیامت تک ہونے والی ہے (وجود میں آنے والی ہے) اللہ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا۔ (ترمذی ابو اب القدر۔ باب بلا عنوان) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کو نہیں بلکہ قلم کو پیدا فرمایا تھا۔ ٢۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ’’ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے پاس نہ پایا۔ میں نے گمان کیا کہ شاید وہ کسی دوسری بیوی کے ہاں چلے گئے ہوں پھر جب میں نے ٹٹولنا شروع کیا تو پتہ چلا کہ آپ سجدہ میں تھے۔‘‘ (نسائی جلد ٢ ص ٨٦) اس حدیث سے ان لوگوں کے اس نظریہ کی تردید ہوجاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نور تھے یا آپ سے سورج اور چاند جیسی روشنی پھوٹتی تھی جس سے گم شدہ سوئی بھی نظر آ سکے۔ ٣۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں رات کو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز (تہجد) ادا کرتے تو میں آپ کے سامنے پاؤں دراز کئے پڑی ہوتی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرنے لگتے تو مجھے ہاتھ لگاتے تو میں اپنے پاؤں سمیٹ لیتی۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیام فرماتے تو میں پاؤں لمبے کرلیتی۔ (بخاری۔ کتاب التہجد۔ باب مایجوز من العمل من الصلوۃ ) اس حدیث سے اس نظریہ 'نور' کی تردید ہوجاتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھنے کے دوران بھی گھر میں اندھیرا ہی رہتا تھا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ لگا کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو متنبہ کرتے تھے کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرنے والے ہیں۔ نظریہ نور والی حدیث دراصل یونانی فلسفہ سے متاثر ہو کر گھڑی گئی۔ فلاسفر جس چیز کو عقل دوم کہتے ہیں صوفیاء اسے ہی نور محمدی کہتے ہیں۔ اب اس موضوع حدیث کی مزید تفسیر بھی ملاحظہ فرمائیے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اے جابر! تحقیق اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء سے پہلے اپنے نور سے تیرے نبی کا نور پیدا کیا۔ پھر وہ نور قدرت الٰہیہ ہے جہاں اللہ کو منظور ہوا سیر کرتا رہا اور اس وقت نہ لوح تھی، نہ قلم، نہ بہشت نہ دوزخ، نہ آسمان و زمین، نہ سورج چاند، نہ جن اور نہ انسان۔ پھر جب اللہ نے مخلوق کو پیدا کرنا چاہا تو اس نور کے چار حصے کیے۔ حصہ اول کا قلم بنایا۔ حصہ دوم کی لوح، تیسرے حصہ کا عرش اور چوتھے سے کل کائنات (شرح قصیدہ حمزیہ ١٥ بحوالہ ریاض السالکین ص ٢٤٨) یہ حدیث سننے کے بعد ممکن ہے آپ کو یہ معلوم کرنے کی خواہش ہو کہ اس نور نبی کو پیدا ہوئے کتنی مدت ہوچکی تھی؟ تو لیجئے اس کے لیے بھی ایک موضوع حدیث حاضر خدمت ہے۔ ’’سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا کہ تمہاری عمر کتنی ہے؟ جبرئیل نے عرض کی ’’آقا! میں اپنی عمر ٹھیک طرح سے نہیں جانتا مگر اتنا جانتا ہوں کہ چوتھے حجاب میں ایک ستارہ تھا جو ستر ہزار سال کے بعد طلوع ہوا کرتا تھا اور میں نے اس کو بہتر ہزار مرتبہ دیکھا ہے۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مجھے پروردگار کے عزت و جلال کی قسم! وہ ستارہ میں ہی ہوں۔‘‘ اب دیکھئے کہ جبرئیل نے اپنی عمر ٧٠٠٠٠ x ٢٠٠٠=٧ پانچ ارب چون کروڑ سال بتائی ہے اور یہ ستارہ یعنی نور نبی اس سے بہرحال مدتوں پہلے کا تھا۔ اس موضوع حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے نور کی عمر نہیں بتائی۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس 'حدیث تراش' کو اس سے زیادہ حساب آتا ہی نہ تھا۔ پھر یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ اس نور نبی کو اللہ تعالیٰ نے اپنے چہرے کے نور سے پیدا کیا تھا۔ کیونکہ اس بات کا اقرار اللہ تعالیٰ خود ان الفاظ میں فرما رہے ہیں (گویا یہ موضوع حدیث حدیث قدسی ہے) اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’کہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے چہرے کے نور سے پیدا کیا۔‘‘ اور چہرہ سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات مقدس ہے۔ (سر الاسرار ١١٦ سطر ٨ بحوالہ ریاض السالکین ص ٩٠) پھر اللہ تعالیٰ نے اس موضوع قدسی حدیث کی تائید ایک اور موضوع قدسی حدیث سے فرما دی جو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’تو میں ہوں اور میں تو ہے‘‘ (جواہر غیبی ٢٨٢ بحوالہ ریاض السالکین ص ٩٢) اسی موضوع قدسی حدیث کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوں فرمائی کہ (میں اللہ کے نور سے ہوں اور کل میرے نور سے ہیں) (مدارج النبوت ج ٢ ص ٦٠ بحوالہ ریاض السالکین ص ٢٤٩) اب بات یوں ہوئی کہ اللہ نے سب سے پہلے نور محمدی کو پیدا کیا اور یہ نور ایک ستارہ تھا یا ایک ستارہ میں تھا۔ جس سے سیدنا جبریل نے اپنی عمر کا حساب بتلایا تھا۔ اب اس نور محمدی یا ستارہ سے ہی عرش، لوح و قلم، کرسی، بہشت دوزخ اور شمس و قمر اور باقی ساری کائنات پیدا کیے جا رہے ہیں جس سے معلوم ہوا کہ کائنات کی ہر چیز میں نور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود ہے اب اس نظریہ کو ثابت کرنے کے لیے ایک اور موضوع اور قدسی حدیث گھڑی گئی جو یہ ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’میری عزت اور جلال کی قسم اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اگر تم نہ ہوتے تو میں دنیا کو پیدا ہی نہ کرتا۔‘‘ (ریاض السالکین ص ٢٤٤) اور ایک دوسری موضوع قدسی حدیث یوں بھی آئی ہے 'لَوْلاَکَ لَمَا خَلَقْتُ الاَفْلاَکَ ' (ریاض السالکین ص ١٩١) یعنی اگر اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! تم نہ ہوتے تو میں کائنات کی کوئی چیز بھی پیدا نہ کرتا۔ پھر اس کی تائید میں ایک اور موضوع حدیث بھی ملاحظہ فرمائیے : جب سیدنا آدم جنت سے نکال کر دنیا میں بھیجے گئے تو ہر وقت روتے اور استغفار کرتے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو عرض کی ’’اے باری تعالیٰ ! سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے مغفرت چاہتا ہوں۔‘‘ وحی نازل ہوئی کہ ’’بتاؤ تو محمد کون ہیں؟‘‘ عرض کی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پیدا کیا تو میں نے عرش پر لکھا ہوا دیکھا ’’ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ میں سمجھ گیا کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی اونچی ہستی نہیں ہے۔ جس کا نام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نام کے ساتھ لکھ رکھا ہے۔ وحی نازل ہوئی کہ وہ خاتم النبیین ہیں۔ تمہاری اولاد میں سے ہیں لیکن وہ نہ ہوتے تو تم بھی پیدا نہ کیے جاتے۔ (ریاض السالکین ص ٣٠٢) اب دیکھئے کہ ان موضوع حدیث میں یہ کہیں ذکر نہیں کہ پھر سیدنا آدم علیہ السلام کی توبہ قبول بھی ہوئی تھی یا نہیں۔ الٹا اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر سیدنا آدم علیہ السلام کو اور بھی مایوس کردیا کہ ’’اگر وہ نہ ہوتے تو تم بھی نہ ہوتے۔‘‘ غور فرمائیے کہ اگر کسی سائل مغفرت کو ایسا جواب دیا جائے تو اس کے دل پر کیا بیتتی ہے؟ البتہ اس حدیث نے اور کئی مسئلے حل کردیئے مثلاً (١) خواہ کتنے ہی برس اللہ سے رو رو کر مغفرت چاہیں قبول نہیں ہوتی جب تک کسی کا وسیلہ نہ پکڑیں اور یہ بات قرآن کی تعلیم ﴿ وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ﴾ کے بالکل برعکس ہے۔ ٢۔ پھر یہ وسیلہ اپنے نیک اعمال یا کسی زندہ بزرگ ہستی کا نہیں بلکہ ایسی ہستی کا بھی ہوسکتا ہے جو ابھی تک وجود میں نہ آئی ہو۔ یا پاس موجود نہ ہو۔ کاش یہ باتیں سیدنا آدم کو اتنی مدت رونے سے پہلے ہی معلوم ہوجاتیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نور ثابت کرنے کی ضرورت اور فوائد :۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے نور ثابت کرنے کے اور بھی کئی فوائد ہیں۔ پہلا یہ کہ جس طرح اللہ تعالیٰ حاضر و ناظر ہے آپ بھی اسی طرح حاضر و ناظر ہوئے۔ چنانچہ عرشی صاحب نے مندرجہ ذیل قرآنی آیت سے اس کا ثبوت بھی مہیا فرما دیا ہے ﴿وَیَکُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا ﴾ (2: 143)اور رسول تم پر گواہ یعنی حاضر و ناظر رہتے ہیں۔ جب رسول پاک ہر وقت گواہ رہتے ہیں تو پھر اپنے امتی کے اعمال سے باخبر ہیں کہ فلاں کے اعمال کیسے ہیں اور دین کے کس درجہ میں ہے؟ (ریاض السالکین ص ٢٣٤) حاضر و ناظر کی یہ دلیل تو خوب ہے مگر مشکل یہ ہے کہ اس آیت کا اگلا حصہ یوں ہے ﴿لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَی النَّاسِ ﴾ پھر کیا تمام صحابہ کرام بھی حاضر و ناظر ہیں جو دوسرے لوگوں کے گواہ اور ان کے اعمال کے نگران ہیں؟ اگر ایسا ہے تو پھر آپ کی خصوصیت کیا رہی؟ البتہ اس کھینچا تانی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر ثابت کرنے کا ایک فائدہ ضرور ہوجاتا ہے جو یہ ہے کہ تمام پیروں فقیروں یعنی اولیاء اللہ کے حاضر و ناظر ہونے اور اپنے مریدوں کے اعمال پر نگران بنے رہنے کا راستہ صاف ہوجاتا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کے نور سے نور ثابت کرنے کا دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ یا نور کو موت نہیں اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی دائمی زندگی ثابت کی جاتی ہے اور تصرف فی الامور بھی۔ اگر یہ کام نہ کیا جاتا تو پیروں، فقیروں اور بزرگوں یعنی اولیاء کرام کی موت کے بعد دائمی زندگی اور تصرف فی الامور کا راستہ کبھی بھی صاف نہ ہوسکتا تھا۔ المآئدہ
16 [٤٣] قرآن سے گمراہی کیسے؟ یعنی قرآن کے ذریعے اللہ تعالیٰ لوگوں کو غلط انداز فکر، غلط رجحانات اور غلط نظریات سے محفوظ رکھتا ہے اور انہیں صراط مستقیم کی روشنی کی طرف لے آتا ہے بشرطیکہ انسان قلب سلیم اور عقل صحیح کے ساتھ قرآن سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کرے اور جو شخص اپنے پہلے سے قائم کردہ غلط نظریات و عقائد قرآن سے کشید کرنے کی کوشش کرے یا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں قرآن سے دلائل طلب کرنے کی کوشش کرے تو ایسا شخص اسی قرآن سے گمراہ بھی ہوجاتا ہے۔ [٤٤] روشنی کا لفظ تو بطور واحد استعمال فرمایا اور اندھیروں کا لفظ بطور جمع۔ کیونکہ گمراہیوں اور ضلالتوں کی اقسام بے شمار ہیں جبکہ ہدایت کی راہ صرف ایک ہی ہو سکتی ہے۔ قرآن اللہ کے اذن سے اسی ہدایت کی راہ دکھاتا ہے اور مشعل راہ کا کام دیتا ہے۔ المآئدہ
17 [٤٥] نصاریٰ کا قول کہ عیسیٰ ہی عین اللہ ہے اور اس کا رد :۔ یہ کافر لوگ عیسائی یا نصاریٰ ہیں جنہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کی بشریت میں الوہیت کو ضم کرنے کی کوشش کی۔ یہ انداز فکر چونکہ سراسر گمراہی اور شرک پر مبنی تھا۔ اس لیے گمراہی کی کئی راہیں پیدا ہوگئیں۔ ایک فرقے نے الوہیت کے پہلو کو نمایاں کیا تو کہا کہ اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کے جسم میں حلول کر گیا لہٰذا وہ اللہ تعالیٰ کا عین ہے یا عین اللہ تعالیٰ ہے اور جنہوں نے بشریت کے پہلو کو نمایاں کیا انہوں نے کہا کہ عیسیٰ عین اللہ تو نہیں البتہ ابن اللہ ضرور ہیں۔ اور جنہوں نے درمیانی تیسری گمراہی کی راہ اختیار کی انہوں نے کہا کہ اللہ ایک نہیں بلکہ تین ہیں اور تینوں ہی ازلی ابدی ہیں۔ ایک اللہ دوسرے عیسیٰ علیہ السلام اور تیسرے روح القدس پھر یہ تین مل کر بھی ایک الہ بنتا ہے۔ پھر مدتوں بعد سیدہ مریم کو بھی الوہیت میں شریک سمجھا جانے لگا (وغیرہ من الخرافات ) [٤٢] عیسائی حضرات عیسیٰ علیہ السلام اور سیدہ مریم علیہا السلام دونوں کو الوہیت میں شریک بناتے ہیں جبکہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اپنے آپ کو (بقول نصاریٰ) صلیب پر چڑھنے سے اور سیدہ مریم علیہاالسلام یہود کی تہمت سے اپنے آپ کو بچا نہ سکے تو پھر ان کی الوہیت کیسی تھی؟ اور اگر اللہ ان دونوں کو اور ان کے علاوہ جتنے بھی انسان اس زمین پر موجود ہیں سب کو آن کی آن میں نیست و نابود کر دے تو کوئی ہے جو اس کا ہاتھ پکڑ سکے؟ کیونکہ ان تمام چیزوں کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہے اور مالک بھی وہی ہے۔ اور مالک کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنی ملکیت کی چیز میں جیسے چاہے تصرف کرے۔ [٤٧] یعنی اس نے عیسیٰ علیہ السلام کو بغیر باپ کے پیدا کیا اور حوا کو ماں کے بغیر اور سیدنا آدم علیہ السلام کی وساطت سے پیدا کیا اور سیدنا آدم علیہ السلام کو ماں اور باپ دونوں کے بغیر پیدا کیا اور چوتھی اور سب سے عام شکل یہ ہے کہ وہ مرد اور عورت کے ملاپ سے پیدا کرتا ہے اور وہ ہر طرح سے پیدا کرنے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ [٤٨] یہود ونصاری کا یہ قول کہ ہم اللہ کے بیٹے اور چہیتے ہیں :۔ یعنی وہ سزا جو انہیں اس دنیا میں ہی مل رہی ہے اگر وہ فی الواقع اللہ کے محبوب ہیں تو یہ سزا اور رسوائی کیوں ہو رہی ہے۔ سابقہ ادوار میں دو دفعہ تمہیں تباہ و برباد کیا گیا اور آج تمہاری کیا حالت ہے؟ کیا کوئی اپنے محبوب یا پیاروں کو بھی سزا دیتا اور رسوا کرتا ہے؟ اس سے یہ معلوم ہوا کہ ان کا یہ دعویٰ بالکل باطل اور بے بنیاد ہے۔ دوسرا دعویٰ ان کا یہ تھا کہ ہم انبیاء کی اولاد ہیں اس لحاظ سے اللہ کے محبوب ہیں اور اخروی عذاب ہمیں نہیں ہوگا۔ اس دعویٰ کی تردید اللہ نے یوں فرمائی کہ اگر تم اپنے اس دعویٰ میں سچے ہو تو پھر تو تمہیں جلد از جلد مرنے کی آرزو کرنی چاہیے جس سے معلوم ہوا کہ صرف انسان کے اعمال ہی اس کی نجات اخروی کا ذریعہ بن سکتے ہیں حسب و نسب وہاں کچھ کام نہ آسکے گا۔ قیامت کے دن حسب ونسب کچھ کام نہ آئے گا :۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس شخص کو اس کے عمل نے پیچھے کردیا اس کا نسب اسے آگے نہ کرسکے گا‘‘ (مسلم کتاب الذکر۔ باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن) اور جب سورۃ شعراء کی آیت ﴿وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ ﴾ نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رشتہ داروں کو بلایا اور ان کے نام لے لے کر کہا مثلاً اے عباس بن عبدالمطلب! میں تیرے کچھ کام نہ آ سکوں گا۔ اے صفیہ! ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھوپھی) میں آپ کے کچھ کام نہ آ سکوں گا۔ اے فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میرے مال میں سے جو تم چاہو مجھ سے (دنیا میں) طلب کرلو۔ میں تمہارے کسی کام نہ آ سکوں گا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر سورۃ شعرائ۔ مسلم کتاب الایمان۔ باب۔ وانذر عشیر تک الاقربین ) المآئدہ
18 [٤٩] یعنی تم کوئی بالاتر مخلوق نہیں بلکہ عام انسانوں کی طرح ہی ہو۔ تمہاری بھی اللہ کے حضور ویسے ہی باز پرس ہوگی جیسے دوسرے لوگوں کی ہوگی پھر اللہ جسے چاہے گا معاف کر دے گا اور جسے چاہے گا اس کے گناہوں کے عوض اسے دھر لے گا اور جو کچھ وہ کرے وہ مختار کل ہے۔ کیونکہ وہ کائنات کی ہر چیز کا مالک ہے کوئی چیز اس کے آگے دم نہیں مار سکتی اور اس کے حضور سب کو پیش ہونا پڑے گا اور یہ ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی مفر نہیں۔ المآئدہ
19 [٥] اہل کتاب کو نبی آخر الزمان کا انتظار :۔ بنی اسرائیل میں بیک وقت ایک ہی زمانہ میں متعدد انبیاء مبعوث ہوتے رہے۔ دینی قیادت بھی انہیں کے پاس ہوتی تھی اور دنیوی قیادت بھی۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بعد انبیاء کی بعثت کا سلسلہ بند ہوا اور مسلسل چھ سو سال تک بند رہا۔ اس کے بعد نبی آخر الزمان مبعوث ہوئے یہود اس نبی کے انتظار میں رہا کرتے اور مشرکین سے کہا کرتے کہ جب نبی آخر الزماں آئے گا تو ہم اس کے جھنڈے تلے جمع ہو کر تم پر فتح حاصل کریں گے۔ مگر جب نبی آخر الزمان تشریف لائے تو یہود نے انہیں دی ہوئی بشارات کے مطابق ٹھیک طرح پہچان لیا۔ پھر صرف اس بنا پر آپ کی نبوت کا انکار کردیا کہ آپ بنی سرائیل میں سے نہ تھے۔ انہی یہود کو اللہ تعالیٰ مخاطب کر کے فرما رہے ہیں کہ جس بشیر و نذیر کا تمہیں انتظار تھا وہ آ چکا۔ اب تمہارے پاس کچھ عذر باقی نہیں رہ گیا۔ لہٰذا اگر اب تم اس سے انکار کر رہے ہو تو خوب سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس جرم کفر کی سزا دینے پر پوری طرح قادر ہے۔ یہود کی طرح نصاریٰ کو بھی نبی آخر الزماں کا انتظار تھا اور ان کا یہ خیال تھا کہ وہ نبی ہم میں سے ہوگا اور ہم اس کے ساتھ مل کر یہود سے بدلہ لیں گے۔ پھر جب ان کی یہ آرزو پوری نہ ہوسکی تو ان میں سے بھی اکثر نبی آخر الزماں کے مخالف ہوگئے۔ المآئدہ
20 [٥١] بنی اسرائیل کے انبیاء جو بادشاہ بھی تھے :۔ بنی اسرائیل مصر میں نہایت ذلت سے غلامانہ زندگی بسر کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو مبعوث فرمایا تو انہیں عظیم سلطنت بھی عطا فرمائی تھی۔ مصر اور اس کے گرد و نواح کے ممالک میں آپ ہی کی فرمانروائی تھی اس زمانہ میں بنی اسرائیل کو عزت سے زندگی بسر کرنا نصیب ہوئی اور دینی اور دنیوی قیادت سب کچھ ان کے ہاتھ میں تھا، لیکن بعد میں اپنی نافرمانیوں کی بنا پر وہ عزت ان سے چھین لی گئی تاآنکہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام جس وقت مبعوث ہوئے تو بنی اسرائیل مصر میں لاکھوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود فرعون کے تحت محکومانہ اور نہایت ذلت کی زندگی گزار رہے تھے۔ موسیٰ علیہ السلام آئے تو انہوں نے بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات دلائی۔ اس دور میں بنی اسرائیل کے یہ غلامانہ ذہنیت رکھنے والے لوگ حاکم قوم کی دیکھا دیکھی گؤ سالہ پرستی میں مبتلا ہوچکے تھے۔ خدائے واحد کی پرستش کا تصور ہی ان کے ذہنوں سے نکل چکا تھا اور غضب یہ کہ ان کے دلوں میں بچھڑے کی پرستش اور اس دین سے محبت یوں گھر کرچکی تھی جیسا کہ اللہ تعالیٰ سے ہونا چاہیے تھی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر تھی اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ قصور بھی معاف کردیا۔ پھر ان میں سیدنا داؤد علیہ السلام اور سیدنا سلیمان علیہ السلام مبعوث کیے جنہیں اللہ تعالیٰ نے بادشاہی بھی عطا کی تھی۔ المآئدہ
21 [٥٢] فلسطین کا حال معلوم کرنے والا وفد :۔ جب فرعون بحر قلزم میں غرق ہوگیا اور بنی اسرائیل اس سے پار اتر گئے تو ان لوگوں کی یہ ہجرت ان کے آبائی وطن فلسطین کی طرف بتائی گئی تھی جو سیدنا ابراہیم سیدنا اسحاق اور سیدنا یعقوب علیہم السلام وغیر ہم کی تبلیغ کا مرکز رہا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کو بذریعہ وحی اللہ تعالیٰ نے اطلاع دی تھی کہ ان مہاجرین کو ساتھ لے جا کر فلسطین پر چڑھائی کرو تو بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ فتح دے گا اور اس طرح ان کا آبائی وطن ان کو واپس مل جائے گا۔ چنانچہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے ان کو جہاد کی ترغیب دی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے فتح و نصرت کی بشارت بھی دی مگر ان لوگوں نے یہ سوچا کہ پہلے ہمیں فلسطین کے موجودہ حالات سے پوری طرح واقف ہونا چاہیے تب ہی جنگ کی کوئی بات سوچ سکتے ہیں۔ چنانچہ ان لوگوں نے خود تو دشت فاران میں ڈیرے ڈال دیئے اور اپنے میں سے بارہ آدمیوں کو فلسطین کے سیاسی حالات کا جائزہ لینے کے لیے روانہ کردیا سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے ان لوگوں کو روانہ کرتے وقت یہ تاکید کردی تھی کہ حالات جیسے بھی ہوں آ کر صرف مجھے بتانا۔ ہر کس و ناکس کے سامنے تشہیر نہ کرنا۔ المآئدہ
22 [٥٣] وفد کی رپورٹ اور جہاد سے انکار :۔ لیکن ان لوگوں نے موسیٰ علیہ السلام کے حکم کی خلاف ورزی کی اور جب فلسطین کے علاقہ کا دورہ کر کے واپس آئے، تو اس کی رپورٹ خفیہ طور پر سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو دینے کی بجائے ہر ایک کو وہاں کے حالات بتانا شروع کردیئے۔ اور وہ رپورٹ یہ تھی کہ فلسطین کا علاقہ واقعی بڑا زرخیز و شاداب ہے۔ وہاں پانی اور دودھ کی نہریں بہتی ہیں لوگوں کی معاشی حالتاچھی ہے لیکن وہ لوگ بڑے طاقتور، زور آور اور قدآور ہیں۔ ہم ان کے مقابلہ میں ٹڈے معلوم ہوتے تھے اور وہ بھی ہمیں ٹڈے ہی سمجھتے تھے۔ لہٰذا ان لوگوں پر فتح حاصل کرنا ہماری بساط سے باہر ہے اور موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگے کہ ان طاقتور لوگوں کی موجودگی میں ہمارا وہاں داخل ہونا اور پھر مقابلہ کر کے فتح یاب ہونا ناممکنات سے ہے اور اگر اللہ نے یہ علاقہ ہمارے مقدر میں لکھا ہوا ہے تو وہ کوئی ایسا انتظام کر دے کہ وہ وہاں سے نکل جائیں تو تب ہی ہم اس میں داخل ہو سکتے ہیں۔ المآئدہ
23 [٥٤] فلسطین کے سیاسی حالات کا جائزہ لینے کے لیے بارہ افراد پر مشتمل جو وفد بھیجا گیا تھا ان میں دو آدمی یوشع بن نون اور کالب بھی تھے۔ اور یہ دونوں پکے مومن تھے یوشع تو غالباً وہی ہیں جنہوں نے سیدنا خضر کی تلاش میں سفر میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا ساتھ دیا تھا۔ اور بعد میں ان کے خلیفہ بھی بنے۔ ان دونوں نے موسیٰ علیہ السلام کی ہدایت کے مطابق وہاں کے حالات کی عام لوگوں کے سامنے تشہیر نہیں کی تھی اور تمام حالات خفیہ طور پر سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے بیان کیے تھے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے ساتھی انتہائی بزدلی کا مظاہرہ کر رہے ہیں تو اپنی قوم سے کہنے لگے، چونکہ اللہ نے فتح و نصرت کا ہم سے وعدہ کر رکھا ہے لہٰذا ان جباروں سے ڈرنے کی بجائے اللہ پر بھروسہ کرو۔ کمر ہمت باندھو اور دروازے میں داخل ہوجاؤ۔ اگر تم نے اتنی جرأت کرلی تو یقیناً اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تم ہی غالب ہو گے۔ المآئدہ
24 [٥٥] بنی اسرائیل کا موسیٰ علیہ السلام کو جہاد کرنے سے جواب :۔ لیکن یہ قوم جو مدت دراز سے فرعونیوں کی غلامی میں زندگی بسر کر رہی تھی اور اللہ کی بجائے بچھڑے کی پرستش کر رہی تھی اس قدر پست ہمت اور بزدل بن چکی تھی کہ موسیٰ علیہ السلام کو مخاطب کر کے کہنے لگی کہ جب تک وہ لوگ وہاں سے نکل نہیں جاتے ہم وہاں کبھی نہ جائیں گے اور نہ ہی اپنے آپ کو دیدہ دانستہ ہلاکت میں ڈالنے کو تیار ہیں اگر تمہیں جہاد پر اتنا ہی اصرار ہے تو جاؤ تم اور تمہارا رب جا کر ان سے مقابلہ کرو ہم تو یہاں سے آگے نہیں جائیں گے۔ المآئدہ
25 [٥٦] موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم سے یہ جواب سن کر سخت مایوس اور غمگین ہوگئے اور اللہ کے حضور دعا کی کہ ایسی قوم سے تو میں اکیلا ہی بھلا۔ جیسے تو حکم دے میں خود حاضر ہوں یا پھر میرا بھائی ہارون۔ جو خود نبی تھے اور مصر میں فرعون اور فرعونیوں کے سامنے ہر دکھ سکھ میں شریک رہے تھے، جو میرے کہنے میں ہے۔ اگر ایسی نافرمان قوم میری بات نہیں مانتی تو اب میں کیا کرسکتا ہوں؟ المآئدہ
26 [٥٧] وعدہ میں چالیس سال کی تاخیر سے بطور علاج :۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایسی بزدل اور نافرمان قوم کی سزا یہ ہے کہ ان سے جو فلسطین کی فتح و نصرت کا وعدہ تھا وہ چالیس سال تک کے لیے موخر کردیا جاتا ہے۔ یہ چالیس سال کی تاخیر دراصل اس بزدل اور پس ہمت قوم کی امراض کا علاج تھا کہ وہ اتنی مدت اسی جنگل میں ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر دھکے کھاتی پھرے جنگل میں زندگی گزارنے کی صعوبتیں برداشت کریں۔ اس چالیس سال کے عرصہ میں اس قوم کی جوان اور بزدل نسل مر کھپ جائے اور جو نئی نسل پیدا ہو آزاد فضاؤں میں پرورش پائے۔ نرمی گرمی برداشت کرنے کی عادی اور ہمت والی بن جائے۔ پھر وہ لوگ اس قابل ہوں گے کہ اگر انہیں جہاد کے لیے ترغیب دی جائے تو وہ اٹھ کھڑے ہوں۔ لہٰذا اے موسیٰ ! اس قوم کو جو یہ علاج کے طور پر سزا دی جا رہی ہے آپ کو ایسے لوگوں پر ترس نہ آنا چاہیے۔ المآئدہ
27 [٥٨] بنی اسرائیل کا جہاد سے اس طرح گریز کرنے کا قصہ بیان کرنے کے بعد اب آدم کے دو بیٹوں کا قصہ بیان کیا جا رہا ہے۔ یہ دو بیٹے ہابیل اور قابیل تھے۔ ان میں سے قابیل عمر میں بڑا تھا۔ کاشت کاری کرتا تھا۔ جسم کا قوی اور تند مزاج تھا اس کا چھوٹا بھائی ہابیل بھیڑ بکریاں پالتا اور چرایا کرتا تھا۔ نیک، سرشت، فرمانبردار اور منکسر المزاج تھا۔ ان دونوں میں کسی بات پر تنازعہ پیدا ہوا اور بالآخر قابیل نے ظلم و تشدد کی راہ اختیار کرتے ہوئے اپنے مظلوم بھائی کو جان ہی سے مار ڈالا۔ سابقہ آیات سے اس قصہ کا ربط یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہود بھی مظلوموں کے قتل میں بڑے دلیر واقع ہوئے تھے حتیٰ کہ انبیاء کو ناحق قتل کرتے رہے۔ یعنی یہود قتل کی سازشوں میں اور مظلوموں کو قتل کرنے میں بڑے دلیر واقع ہوئے تھے مگر جب جہاد کا موقعہ آیا تو ایسی بزدلی دکھائی کہ اپنی جگہ سے ہلنے کا نام ہی نہ لیتے تھے جس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ مکر و فریب کی چالوں سے مظلوموں پر ہاتھ اٹھانے والے لوگ معرکہ کار زار میں نامرد ہی ثابت ہوا کرتے ہیں۔ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی مدینہ کے یہودیوں کی بالکل یہی صورت حال تھی۔ قصہ ہابیل اور قابیل :۔ ہابیل اور قابیل میں تنازعہ کس بات پر تھا ؟ قرآن اس سوال کا جواب دینے سے خاموش ہے البتہ تفاسیر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آدم علیہ السلام جس لڑکی سے ہابیل کا نکاح کرنا چاہتے تھے، قابیل یہ چاہتا تھا کہ یہ لڑکی اس کے نکاح میں آئے۔ اس کا یہ مطالبہ چونکہ بے انصافی پر مبنی تھا لہٰذا اسے تسلیم نہ کیا گیا۔ اس سے قابیل اور بھی طیش میں آ گیا۔ جس کا حل سیدنا آدم نے یہ پیش کیا کہ دونوں اللہ کے حضور قربانی پیش کرو۔ جس کی قربانی کو آگ آ کر کھا جائے یعنی جس کی قربانی اللہ کے ہاں مقبول ہوجائے اسی سے اس لڑکی کا نکاح کردیا جائے گا۔ اور یہ تنازعہ ختم ہوجائے گا۔ [٥٩] چنانچہ دونوں نے قربانی پیش کی۔ ہابیل ویسے بھی نیک سیرت انسان تھا اور اس لڑکی سے نکاح کا حق بھی اسی کا بنتا تھا۔ نیز اس نے قربانی میں جو اشیاء پیش کی تھیں وہ سب اچھی قسم کی تھیں اور خالصتاً رضائے الٰہی کی نیت سے پیش کی تھیں لہٰذا اسی کی قربانی کو اللہ کے حضور شرف قبولیت بخشا گیا اس کے مقابلہ میں قابیل بے انصاف اور اچھے کردار کا مالک نہ تھا اور قربانی میں بھی ناقص اور ردی قسم کی اشیاء رکھی تھیں۔ لہٰذا اس کی قربانی کی چیزیں جوں کی توں پڑی رہیں گویا اس قربانی کی کسوٹی نے بھی ہابیل ہی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ المآئدہ
28 [٦٠] جب قابیل کی قربانی مردود ہوگئی تو اس کا طیش انتقام میں بدل گیا اور اس نے علی الاعلان اپنے بھائی ہابیل کو دھمکی دے دی ’’میں تمہیں جان سے مار ڈالوں گا‘‘ (شاید قابیل کا یہ خیال ہو کہ ہابیل کے مرنے کے بعد اس لڑکی پر میرا ہی حق باقی رہ جائے گا) اس کا جواب ہابیل نے یہ دیا کہ اگر تمہاری قربانی قبول نہیں ہوئی تو اس میں میرا کیا قصور ہے؟ بلکہ تمہیں تو یہ چاہیے تھا کہ پرہیزگاری کی راہ اختیار کرتے اس صورت میں شاید تمہاری قربانی قبول ہوجاتی اور اگر تم مجھے مارنے پر ہی تلے ہوئے ہو تو میرا ایسا قطعاً کوئی ارادہ نہیں ہے میں بہرحال اس معاملہ میں ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا کیونکہ میں اسے بہت بڑا ظلم سمجھتا ہوں۔ المآئدہ
29 [٦١] یعنی ناحق قتل کرنے والے کی سزا صرف یہی نہیں ہوتی کہ اسے اس جرم کے عوض جہنم میں ڈال دیا جائے بلکہ اس کے ساتھ مقتول کے گناہ بھی اس کے کھاتے میں ڈال دیئے جاتے ہیں۔ چنانچہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اگر مجھے دو لشکروں یا دو صفوں میں سے کسی ایک صف میں زبردستی لایا جائے پھر کسی شخص کی تلوار میری گردن اڑا دے یا کسی کا تیر مجھے مار ڈالے تو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’قاتل اپنے اور تیرے گناہ سمیٹ کر اللہ کے پاس آئے گا اور وہ جہنمی ہے (اور تم پر کوئی گناہ نہیں)‘‘ (مسلم۔ کتاب الفتن۔ باب نزول الفتن کمواقع القطر) نیز کئی احادیث میں صراحت سے مذکور ہے کہ قیامت کے دن ظالم کی نیکیاں مظلوم کو دے دی جائیں گی اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوں گی تو مظلوم کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی۔ المآئدہ
30 [٦٢] قابیل نے اپنے بھائی کی باتیں سنیں تو کچھ عرصہ ان پر غور کرتا رہا، لیکن بالآخر اس نے یہ فیصلہ کیا کہ جب تک ہابیل زندہ رہے گا اس کا نکاح اس لڑکی سے نہیں ہوسکتا لہٰذا اسے ختم کردینے سے ہی اسے کچھ فائدہ پہنچ سکتا ہے اور نفس کے شیطان نے اسے سبز باغ دکھا کر اس بات پر آمادہ کرلیا کہ وہ اپنے بھائی کا قصہ پاک کر دے۔ پھر جب اس نے اسے مار ڈالا تو اس پر ہر طرف سے لعنت اور پھٹکار پڑنے لگی کہ ایسے نیک سیرت اور مشفق بھائی کو اس نے بے قصور مار ڈالا ہے اور آخرت میں جو اس کے لیے سزا ہے وہ تو بہرحال مل کے رہے گی۔ المآئدہ
31 [٦٣] دنیا میں پہلا قتل اور وہ بھی ناحق :۔ قابیل نے اپنے نیک سیرت بھائی کو جب مار ڈالا تو تھوڑی دیر بعد لاش میں سڑانڈ اور بدبو پیدا ہونے لگی۔ اب اسے یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اس لاش کو کیا کرے؟ یہ تو امر واقع ہے کہ روئے زمین پر نوع انسانی میں یہ پہلا قتل تھا اور وہ بھی ناحق قتل تھا۔ اور غالب خیال یہ ہے کہ اس وقت تک کوئی انسان مرا بھی نہ تھا ورنہ اگر انسان کی لاش کو دفن کرنے کا طریقہ معلوم ہوتا تو قابیل تذبذب میں نہ پڑتا۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے اس کی رہنمائی کے لیے دو کوے بھیجے جو آپس میں لڑ رہے تھے۔ ان میں سے ایک کوے نے دوسرے کو چونچیں مار کر ہلاک کر ڈالا۔ پھر اس نے اپنی چونچ سے زمین کو کریدنا شروع کردیا تاآنکہ اس میں اتنا گڑھا بن گیا جس میں مردہ کوے کی لاش کو چھپایا جا سکے۔ کوے نے مردہ کوے کی لاش کو اس گڑھے میں رکھ کر اوپر سے مٹی ڈال کر اسے زمین میں دفن کردیا۔ قابیل یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ اس وقت وہ سوچنے لگا کہ مجھ میں اس کوے جتنی بھی عقل نہیں۔ خیر اس نے بھی اسی طرح زمین میں گڑھا کھود کر اپنے بھائی کی لاش کو زمین میں دبا دیا۔ جب دبا چکا تو اب اس کا نفس اسے ملامت کرنے لگا کہ ایک نیک سیرت اور شفیق بھائی اس سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگیا اور اس بات پر بھی اسے ندامت ہوئی کہ اس نے اپنے بھائی کو قتل کر کے انتہائی وحشیانہ حرکت کا ارتکاب کیا ہے۔ المآئدہ
32 [٦٤] جن صورتوں میں قتل جائز ہے :۔ شریعت نے صرف تین صورتوں میں قتل کو جائز قرار دیا ہے (١) قتل کے بدلے قتل یعنی قصاص (٢) شادی شدہ مرد یا عورت اگر زنا کرے تو حد قائم کرنے کی صورت میں انہیں رجم کر کے مار ڈالنا اور (٣) ارتداد کے جرم میں قتل کرنا۔ ان تینوں صورتوں کے علاوہ جو بھی قتل ہوگا وہ قتل ناحق اور فساد فی الارض کے ضمن میں ہی آئے گا اور ایسے ہی قتل کے متعلق یہ لکھا تھا کہ جس نے ایک آدمی کو بھی ناحق قتل کیا اس نے گویا سب لوگوں کو قتل کیا۔ کیونکہ ایسا آدمی پوری انسانیت کا اور امن عامہ کا دشمن ہوتا ہے اور دوسرے لوگ بھی اسے یہ جرم کرتے دیکھ کر اس پر دلیر ہوجاتے ہیں لہٰذا اس جرم کی سزا کا اظہار ان الفاظ سے کیا گیا اور بنی اسرائیل چونکہ اس جرم کا ارتکاب کرتے رہتے تھے اس لیے بطور خاص ان الفاظ سے تنبیہ کی گئی ہے اور اس جرم کے برعکس اگر کوئی شخص کسی کو مظلومانہ موت سے نجات دلا کر بچا لیتا ہے تو وہ بھی اتنی ہی بڑی نیکی ہے کیونکہ ایسا شخص انسانیت کا ہمدرد اور امن عامہ میں ممد و معاون بنتا ہے۔ اب اسی ضمن میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے۔ (١) قتل ناحق کے گناہ کا حصہ آدم کے پہلے بیٹے پر :۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص بھی مظلوم قتل ہوتا ہے تو اس کے خون کا گناہ آدم کے پہلے بیٹے پر بھی لاد دیا جاتا ہے کیونکہ وہی پہلا شخص ہے جس نے قتل کو جاری کیا۔‘‘ (بخاری۔ کتاب بدء الخلق باب اذ قال ربک للملئِکۃ۔ نیز کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ۔ باب من دعا الی ضلالۃ مسلم۔ کتاب القسامۃ باب اثم من سنّ القتل ) (٢) سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم‘‘ صحابہ نے عرض کیا ’’مظلوم کی مدد تو ٹھیک ہے مگر ظالم کی کیسے مدد کریں؟‘‘ فرمایا ’’ظلم سے اس کا ہاتھ پکڑ لو‘‘ (بخاری۔ کتاب المظالم۔ باب اعن اخاک ظالما او مظلوما مسلم۔ کتاب الفتن۔ باب اذا توجہ المسلمان بسیفھما) (٣) سیدنا جریر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ ’’لوگوں کو چپ کراؤ‘‘ (میں نے چپ کرا دیا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’لوگو! میرے بعد ایک دوسرے کی گردنیں مار کر کافر نہ بن جانا‘‘ (بخاری کتاب العلم۔ باب الانصات للعلماء ) تیسری حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان کا قاتل مسلمان نہیں رہتا بلکہ کافر ہوجاتا ہے۔ [٦٥] بینات سے مراد معجزات انبیاء بھی ہو سکتے ہیں۔ جن سے ان انبیاء کی نبوت کی تصدیق بھی مطلوب ہوتی ہے یعنی انبیاء کی تصدیق ہوجانے کے بعد بھی بنی اسرائیل ان کا انکار ہی کرتے رہے۔ ان سے دشمنی بھی رکھی۔ ان کی راہ میں روڑے بھی اٹکائے۔ حتیٰ کہ انہیں ناحق قتل ہی کیا اور بینات سے مراد واضح احکام بھی ہیں یعنی ٹھیک ٹھیک احکام دیئے جانے کے باوجود بھی ان میں سے اکثر لوگ فساد فی الارض کے مرتکب ہی رہے۔ المآئدہ
33 [٦٦] اللہ اور اس کے رسول سے محاربہ کی صورتیں اور سزائیں :۔ اس آیت میں اللہ اور رسول سے جنگ سے مراد عموماً حرابہ یعنی ڈکیتی یا راہزنی سمجھا جاتا ہے۔ پھر اس آیت میں چار قسم کی سزاؤں کو جرائم کی نوعیت کے لحاظ سے اس طرح متعلق کیا جاتا ہے کہ : (١) اگر مجرم نے قتل تو کردیا ہو مگر مال لینے کی نوبت نہ آئی ہو تو اسے قصاص میں قتل کیا جائے گا اور (٢) اگر قتل بھی کردیا ہو اور مال بھی لوٹ لیا ہو تو اسے سولی پر لٹکایا جائے گا۔ اور (٣) اگر صرف مال ہی چھینا ہو قتل نہ کیا ہو تو اس کے ہاتھ پاؤں مخالف سمت میں کاٹے جائیں گے اور (٤) اگر ابھی قتل بھی نہ کیا اور مال بھی چھیننے سے پہلے گرفتار ہوجائے تو اسے جلاوطن کیا جائے گا۔ نیز قاضی جرم کی نوعیت کے لحاظ سے ان سزاؤں میں سے کسی دو کو اکٹھا بھی کرسکتا ہے اور کسی ایک میں کمی بیشی بھی کرسکتا ہے۔ مگر اس آیت کے الفاظ میں عموم ہے چنانچہ محدثین اسی آیت کے تحت عکل اور عرینہ کے واقعہ کو درج کرتے ہیں۔ یہ حدیث درج ذیل ہے: قصہ عکل اور عرینہ :۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’عکل اور عرینہ (قبیلوں) کے کچھ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ میں آئے اور اسلام کا کلمہ پڑھنے لگے۔ انہوں نے کہا۔ یا رسول اللہ ! ہم گوجر لوگ ہیں کسان نہیں۔ انہیں مدینہ کی آب و ہوا راس نہ آئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند اونٹ اور ایک چرواہا ان کے ساتھ کیا اور کہا کہ تم لوگ (جنگل میں) چلے جاؤ۔ ان اونٹوں کا دودھ اور بول پیتے رہو۔ وہ حرہ کے پاس اقامت پذیر ہوئے اور اس علاج سے وہ خوب موٹے تازے ہوگئے۔ پھر ان کی نیت میں فتور آ گیا اور اسلام سے مرتد ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے (یسار) کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیر کر اسے کئی طرح کی تکلیفیں پہنچا کر مار ڈالا اور اونٹ بھگا کر چلتے بنے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں گرفتار کرنے کے لیے آدمی روانہ کیے۔ جب وہ گرفتار ہو کر آ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیری گئیں۔ ان کے ہاتھ پاؤں کاٹے گئے اور حرہ کے ایک کونے میں پھینک دیئے گئے اور وہ اسی حال میں مر گئے۔‘‘ وہ پانی مانگتے تھے لیکن کوئی پانی نہ دیتا تھا۔ ابو قلابہ کہتے ہیں کہ یہ اس لیے کہ انہوں نے چوری کی، خون کیا، ایمان کے بعد کفر اختیار کیا اور اللہ اور اس کے رسول سے محاربہ کیا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب قصۃ عکل و عرینۃ نیز کتاب التفسیر۔ زیر آیت مذکورہ۔ نیز کتاب الوضوء باب ابو ال الابل ) اس واقعہ میں محض ڈکیتی کی ہی واردات نہیں بلکہ مکر و فریب سے لوٹ مار، قتل اور ارتداد بھی شامل ہے اور یہ سب کچھ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ اور فساد فی الارض کے ضمن میں آتا ہے۔ علاوہ ازیں اسلام کے خلاف گمراہ کن پراپیگنڈہ، مجرمانہ سازشیں، اسلامی حکومت سے غداری اور بغاوت یہ سب کچھ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ اور فساد فی الارض کے ضمن میں تو آ سکتے ہیں مگر ڈکیتی کے ضمن میں نہیں آتے۔ لہٰذا اس آیت کے مفہوم کو اپنے وسیع مفہوم پر ہی محمول کرنا چاہیے اور قاضی ہر جرم کی نوعیت کے مطابق ان سزاؤں میں کمی بیشی کرسکتا ہے۔ المآئدہ
34 [٦٧] اسلام اور توبہ سے سابقہ گناہوں کی معافی :۔ اس کی بھی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ کوئی شخص حالت کفر میں فساد فی الارض کرتا رہا پھر مسلمان ہو کر مسلمانوں کے پاس آ گیا اور اپنی سب سابقہ عادات ترک کردیں تو اس سے سابقہ گناہوں پر مواخذہ نہ ہوگا کیونکہ اسلام لانا ہی ایسا عمل ہے جو اپنے سے پہلے گناہوں کو ختم کردیتا ہے اور دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص اسلام لا کر بھی فساد کا مجرم رہا لیکن بعد میں اس نے توبہ کرلی اور امن پسند اور مطیع قانون بن کر زندگی گزارنے لگا۔ تو اب اس کے سابقہ گناہوں کا سراغ لگا کر اسے سزا نہیں دی جائے گی اس سے سرکاری جرائم تو معاف ہوجائیں گے لیکن بندوں کے جو حقوق اس نے غصب کیے ہیں ان کی تلافی بہرحال اس کے ذمہ رہے گی۔ خواہ ان کی ادائیگی کرے یا معاف کروا لے۔ المآئدہ
35 [٦٨] وسیلہ کی تعریف اور اس کی تلاش :۔ جو بھی ذریعہ یا سبب اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے اختیار کیا جائے اسے وسیلہ کہتے ہیں اور وسیلہ کی دو ہی جائز صورتیں ہیں ایک یہ کہ کسی زندہ شخص کو اپنی دعا کی قبولیت کے لیے وسیلہ بنایا جائے اور اس کی دلیل درج ذیل حدیث ہے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب قحط پڑتا تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلے سے دعا کرتے اور کہتے : یا اللہ پہلے ہم تیرے پاس اپنے پیغمبر کا وسیلہ لایا کرتے تو تو پانی برساتا تھا۔ اب اپنے پیغمبر کے چچا کا وسیلہ لائے ہیں، ہم پر بارش برسا۔ راوی کہتا ہے کہ پھر بارش ہوجاتی۔ (بخاری کتاب الاستسقائ۔ باب سوال الناس الامام) اور دوسری صورت اپنے ہی نیک اعمال کو وسیلہ بنانا ہے۔ اور اس کی دلیل وہ طویل حدیث ہے جو بخاری میں بھی متعدد مقامات پر مذکور ہوئی ہے کہ بنی اسرائیل کے تین شخص ایک دفعہ سفر میں جاتے ہوئے طوفان باد و باراں میں گھر گئے تو ایک غار میں جا کر پناہ لی۔ اتفاق سے ایک بڑا پتھر پہاڑ کے اوپر سے لڑھکتا آیا جس نے غار کا منہ بند کردیا اور اب وہ تینوں اپنی زندگی سے مایوس ہوگئے۔ انہوں نے سوچا کہ اس وقت صرف اللہ سے دعا ہی کام آ سکتی ہے لہٰذا ہم میں سے ہر شخص اپنے کسی ایسے نیک عمل کا واسطہ دے کر اللہ سے دعا کرے جو اس نے خالصتاً اللہ کی رضامندی کے لئے کیا ہو۔ چنانچہ پہلے شخص نے اپنے عمل کا واسطہ دے کر دعا کی تو تیسرا حصہ پتھر غار کے منہ سے سرک گیا۔ پھر دوسرے نے دعا کی تو پتھر مزید تیسرا حصہ سرک گیا۔ پھر تیسرے نے اپنے عمل کے وسیلہ سے دعا کی تو سارا پتھر غار کے منہ سے ہٹ گیا اور وہ باہر نکل آئے۔۔ (بخاری۔ کتاب البیوع۔ باب من اشتری شیا لغیرہ نیز کتاب الاجارات۔ باب من استاجرا جیرا۔ نیز کتاب ابو اب الحرث والمزارعۃ وما جاء فیہ باب اذا زرع بمال قوما بغیر اذنھم) مگر ہمارے ہاں وسیلہ پکڑنے کا بہت غلط مفہوم رائج ہوچکا ہے۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے سورۃ بنی اسرائیل کا حاشیہ نمبر ٧٠ اور سورۃ زمر کا حاشیہ نمبر ٩٤۔) نیز وسیلہ جنت میں عرش رحمان کے نزدیک ایک مقام کا نام بھی ہے۔ اذان کے بعد جو دعا سکھائی گئی ہے اس میں ہر مسلمان رسول اللہ کے لیے دعا مانگتا ہے کہ یا اللہ آپ کو وسیلہ عطا فرما۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص میرے لیے وسیلہ کی دعا کرے گا میں اس کی شفاعت کروں گا۔ (بخاری۔ کتاب الاذان۔ باب الدعاء عندالنداء ) [٦٩] اصل وسیلہ اللہ کی راہ میں جہاد ہے :۔ یعنی اخروی کامیابی کے لیے بہترین وسیلہ تو جہاد ہے اور یہ بھی دوسری صورت ہی کی ایک قسم ہے جہاد کی سب سے اعلیٰ قسم قتال فی سبیل اللہ ہے تاہم جہاد انسان کی ہر اس کوشش کو بھی کہہ سکتے ہیں جو اسلام کی اشاعت اور اسلامی نظام کے قیام میں ممد و معاون ثابت ہو سکے یا اس راہ کی رکاوٹوں کو دور کرنے والی ہو خواہ یہ زبان سے ہو، تحریری ہو یا ہاتھ سے کی جائے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔ منکرات کے خلاف جہاد :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ نے جس نبی کو بھی اس کی امت میں مبعوث فرمایا تو اس کے کچھ حواری اور اصحاب ہوتے جو اس کی سنت پر کاربند اور اس کے حکم پر چلتے تھے۔ پھر ان کے بعد ایسے ناخلف آتے کہ جو کچھ وہ کہتے تھے کرتے نہیں تھے اور ایسے کام کرتے جن کا انہیں حکم نہیں دیا گیا تھا۔ اب جو کوئی ایسے لوگوں سے ہاتھ سے جہاد کرے، وہ مومن ہے اور جو زبان سے جہاد کرے وہ بھی مومن ہے اور جو دل سے جہاد کرے (برا سمجھے) وہ بھی مومن ہے اور اس کے بعد رائی کے دانہ برابر بھی ایمان نہیں۔‘‘ (مسلم کتاب الایمان) جہاد کا ہدف سب سے پہلے اپنا نفس ہونا چاہیے پھر اقرباء پھر درجہ بدرجہ دوسرے لوگ۔ چنانچہ آپ نے فرمایا ’’تم میں سے کوئی شخص جب کوئی برا کام ہوتے دیکھے تو اسے چاہیے کہ بزور بازو اس میں تبدیلی لائے۔ اور اگر ایسا نہ کرسکے تو پھر زبان سے (تقریر سے یا تحریر سے) اس میں تبدیلی لائے اور اگر یہ بھی نہ کرسکے تو پھر کم از کم دل ہی میں برا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور تر درجہ ہے۔‘‘ (مسلم۔ حوالہ ایضاً) المآئدہ
36 [٧٠] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن جس دوزخی کو سب سے ہلکا عذاب ہوگا اس سے اللہ تعالیٰ پوچھے گا’’اگر تیرے پاس زمین میں جو کچھ ہے اور اس کے برابر کوئی چیز ہو تو اپنے چھٹکارے کے لیے دے دو گے؟‘‘ وہ کہے گا ’’ہاں۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’جب تو انسانی قالب میں تھا اس وقت میں نے تجھ سے اس سے بہت ہلکی چیز مانگی تھی کہ تو میرے ساتھ شرک نہ کرے مگر تو نے اس بات کو تسلیم نہ کیا‘‘ (اور شرک کرتا رہا) (بخاری۔ کتاب الرقاق۔ باب صفۃ الجنۃ والنار ) المآئدہ
37 [٧١] یہ معاملہ تو کافروں سے ہوگا مگر بہت سے گنہگار مسلمان بھی دوزخ میں جائیں گے جو اپنے اپنے گناہوں کی سزا بھگت کر اور گناہوں سے پاک صاف ہو کر مختلف اوقات میں جنت میں داخل ہوتے رہیں گے۔ بلکہ بعض علماء کا خیال ہے کہ کافروں کو بھی کبھی نہ کبھی دوزخ سے نجات مل جا ئیگی۔ صرف مشرکین ہی وہ لوگ ہو نگے جنہیں کبھی بھی دوزخ سے نجات حاصل نہ ہوگی۔ المآئدہ
38 [٧٢] حرابہ یا ڈکیتی کی سزا بیان کرنے کے بعد اب چور کی سزا کا بیان شروع ہوتا ہے۔ چور کی سزا میں دونوں ہاتھ نہیں بلکہ ایک ہاتھ اور پہلی بار کی چوری پر دایاں ہاتھ کاٹا جائے گا اور یہ پہنچے تک کاٹا جائے گا۔ (اور یہ سب باتیں سنت سے ثابت ہیں) تاکہ وہ آئندہ کے لیے ایسی حرکت سے باز رہے اور دوسروں کو عبرت حاصل ہو۔ اور اگر اس سے مال مسروقہ برآمد ہوجائے تو وہ اصل مالک کو لوٹایا جائے گا اس سلسلہ میں درج ذیل احادیث کا مطالعہ مفید ہوگا۔ ١۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ایک مخزومی عورت (فاطمہ) نے چوری کی تو قریش کو (ہاتھ کٹ جانے پر) بہت فکر لاحق ہوئی۔ کہنے لگے کون ہوسکتا ہے جو اس سلسلہ میں رسول اللہ سے بات کرے اور اسامہ کے سوا اور کون ایسی جرأت کرسکتا ہے جو رسول اللہ کے محبوب ہیں؟ (چنانچہ قریش کے کہنے پر) اسامہ نے آپ سے گفتگو کی تو آپ نے اسامہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا’’'کیا تم اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کرتے ہو؟‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا ’’لوگو! تم سے پہلے لوگ صرف اس وجہ سے گمراہ ہوگئے کہ اگر ان میں سے کوئی شریف آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد لگاتے اور اللہ کی قسم! اگر فاطمہ (رضی اللہ عنہا) بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا‘‘ (اور ایک روایت میں ہے کہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کے ہاتھ کاٹ دینے کا حکم دیا۔ اس کے بعد وہ میرے پاس آیا کرتی تو میں اس کی حاجت رسول اللہ تک پہنچا دیا کرتی۔ اس نے توبہ کی اور اس کی توبہ اچھی رہی۔ (بخاری۔ کتاب الحدود۔ باب کراھیۃ الشفاعۃ فی الحد، نیز باب توبۃ السارق۔ مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب قطع السارق الشریف) ٢۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ چور پر لعنت کرے۔ ایک انڈے کی چوری کرتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے اور ایک رسی کی چوری کرتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الحدود باب لعن السارق اذالم یسم ) ٣۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈھال چرانے پر ہاتھ کاٹا جس کی قیمت تین درہم تھی۔ (بخاری۔ کتاب الحدود۔ باب السارق والسارقۃ۔ مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب حدالسرقہ و نصابہا) ٤۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’چور کا ہاتھ چوتھائی دینار یا اس سے زائد پر کاٹ دیا جائے‘‘ (بخاری۔ کتاب الحدود۔ باب السارق والسارقۃ ) ٥۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ لٹکے ہوئے پھل کی چوری کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر کوئی شخص بھوکا ہو اور کھا لے مگر ساتھ نہ لے جائے تو اس پر کوئی حد نہیں اور جو شخص دامن بھر کر نکلے تو اس سے دوگنی قیمت وصول کی جائے اور سزا دی جائے۔ اور جو شخص پھلوں کو محفوظ مقام پر پہنچائے جانے کے بعد اس میں چوری کرے اور پھل کی قیمت ڈھال کی قیمت تک پہنچ جائے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے اور اگر قیمت ڈھال سے کم ہو تو دوگنی قیمت لی جائے اور سزا دی جائے۔‘‘ (ابو داؤد۔ کتاب الحدود۔ باب مالایقطع فیہ ) ٦۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’خائن، لٹیرے اور اچکے پر ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں۔‘‘ (ترمذی۔ ابو اب الحدود۔ باب ماجاء فی الخائن والمختلس) ٧۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جنگ کے دوران (میدان جنگ میں) ہاتھ کاٹنے کی سزا نہ دی جائے۔‘‘ (ابو داؤد کتاب الحدود۔ باب السارق یسرق فی الغزو) اور اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ میدان جنگ میں سب لوگ مسلح ہوتے ہیں اگر سزا پانے والا طیش میں آ کر کوئی غلط حرکت کر بیٹھے تو یہ عین ممکن ہے۔ اس طرح اپنے ہی لشکر میں انتشار پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ لہٰذا صرف چوری کی حد ہی نہیں۔ ہر قابل حد یا قابل تعزیر جرم کی سزا کو موخر کردیا گیا۔ نیز سیدنا عمر نے قحط کے ایام میں چوری کی سزا یعنی ہاتھ کاٹنے کی سزا موقوف کردی تھی اور ان کا استدلال اس واقعہ سے تھا کہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں عباد بن شرجیل نے کسی کھیت سے غلہ لے لیا۔ کھیت کے مالک نے عباد بن شرجیل کو پکڑ لیا۔ اسے مارا اور اس کا کپڑا بھی چھین لیا۔ پھر اسے پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مالک سے فرمایا۔ (اگر یہ نادان تھا تو تو نے اس کو تعلیم کیوں نہ دی اور اگر یہ بھوکا تھا تو تو نے اسے کھانے کو کیوں نہ دیا) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بھوکے چور کو کوئی سزا نہیں دلوائی۔ الٹا مالک نے اسے کپڑا بھی واپس کیا اور مار کے بدلے بہت سا غلہ بھی دیا۔ ٨۔ چور کی چوری جب عدالت میں ثابت ہوجائے تو اس کا ہاتھ ضرور کاٹا جائے گا اور مقدمہ عدالت میں پہنچنے سے پیشتر اگر مالک چور کو معاف کر دے تو یہ جائز ہے مگر عدالت میں پہنچنے کے بعد معاف نہیں کرسکتا۔ چنانچہ سیدنا صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ ایک دفعہ مسجد میں اپنی چادر کا تکیہ بنا کر اپنے سر کے نیچے رکھ کر سوئے ہوئے تھے کہ ایک شخص آیا اور آہستہ سے اس نے وہ چادر آپ کے سر کے نیچے سے کھینچ لی۔ اتنے میں صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کو بھی جاگ آ گئی تو وہ اسے پکڑ کر رسول اللہ کے پاس لے آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا۔ (اس پر صفوان رضی اللہ عنہ کو اس آدمی پر ترس آ گیا) اور کہنے لگا، یا رسول اللہ ! میں نے اس کا قصور معاف کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اے ابو وہب (یہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کی کنیت ہے) تم نے اسے ہمارے ہاں لانے سے پہلے کیوں نہ معاف کردیا۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کٹوا دیا۔ (نسائی۔ کتاب قطع السارق۔ باب الرجل یتجاوز للسارق۔۔) نیز سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’تم آپس میں ہی ایک دوسرے کو حدود معاف کردیا کرو۔ پھر جب مقدمہ مجھ تک پہنچ گیا تو حد واجب ہوجائے گی۔‘‘ (ابو داؤد۔ نسائی بحوالہ مشکوۃ کتاب الحدود۔ فصل ثانی) ٩۔ سیدنا ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’چور جب (پہلی بار) چوری کرے، تو اس کا دایاں ہاتھ کاٹ دو۔ پھر (دوسری بار) چوری کرے تو اس کا (بایاں) پاؤں کاٹ دو۔ پھر (تیسری بار) چوری کرے تو اس کا (بایاں) ہاتھ کاٹ دو۔ پھر (چوتھی بار) چوری کرے تو اس کا (دایاں) پاؤں کاٹ دو۔‘‘ (شرح السنہ بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب الحدود۔ قطع السرقتہ۔ دوسری فصل) [٧٣] یہ ہاتھ کاٹنے کی سزا اس کو چوری کرنے کے بدلہ میں ملی ہے۔ رہا مال مسروقہ۔ تو اس کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔ راجح قول یہی ہے کہ اگر مال مسروقہ چور سے برآمد ہوجائے یا وہ اتنی مالیت کی ادائیگی کرسکتا ہو تو اس سے مال بھی وصول کر کے اصل مالک کو دلوایا جائے گا۔ کیا اسلامی سزائیں غیر انسانی ہیں :۔ آج کل یورپ کی نام نہاد مہذب اقوام اسلامی سزاؤں کو غیر مہذب اور وحشیانہ سزائیں سمجھتی ہیں اور بدنی سزاؤں کو غیر انسانی سلوک اور ظلم کے مترادف سمجھتی ہیں۔ علامہ اقبال سے یورپ میں ان کے کسی دوست نے کہا کہ اسلام میں چوری کی سزا تو بڑی غیر مہذبانہ ہے تو علامہ اقبال نے اس کا یہ جواب دیا تھا کہ کیا تمہارے خیال میں چور 'مہذب' ہوتا ہے؟ ان لوگوں نے اپنے اسی نظریہ کے تحت اقوام متحدہ کے بنیادی حقوق کے چارٹر میں اس کو غیر انسانی سلوک قرار دے کر ایسی سزاؤں کو ترک کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ اس نظریہ کے دعویدار اپنی حکومتوں میں سیاسی ملزموں پر بند کمروں میں ایسے دردناک مظالم ڈھاتے اور بدنی سزائیں دیتے ہیں جن کے تصور سے روح کانپ اٹھتی ہے اور مشاہدہ یہ ہے کہ بند کمروں میں ایسی سزائیں دینا مجرموں کو اپنے کردار میں مزید پختہ بنا دیتا ہے۔ پھر یہ بھی عام مشاہدہ ہے کہ جہاں جہاں عدالتوں میں بدنی سزائیں موقوف ہوئیں وہاں جرائم میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ ہم حیران ہیں کہ اگر انسانی جسم کو بچانے کے لیے پھوڑے کا آپریشن محض جائز ہی نہیں بلکہ اسے عین ہمدردی سمجھا جاتا ہے تو معاشرہ کو ظلم و فساد سے بچانے کے لیے بدمعاشوں کو بدنی سزا دینا کیسے غیر انسانی سلوک بن جاتا ہے؟ اور چوروں اور بدمعاشوں پر رحم کر کے معاشرہ میں بدامنی کو کیوں گوارا کرلیا جاتا ہے۔ اور ایسے لوگوں کے لیے مہذب اقوام کی ہمدردیاں کیوں پیدا ہوجاتی ہیں؟ کیا یہ معاشرہ کے ساتھ غیر انسانی اور ظالمانہ سلوک نہیں؟ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ غیر انسانی سلوک کے یہ علمبردار اپنے ممالک میں قیام امن میں کہاں تک کامیاب ہوئے ہیں۔ آج کل سعودی عرب میں شرعی سزائیں رائج ہیں تو وہاں جرائم کی تعداد حیرت انگیز حد تک کم ہوچکی ہے۔ اس کے مقابلہ میں امریکہ جیسے سب سے مہذب ملک میں جرائم کی تعداد اس سے سینکڑوں گنا زیادہ ہے۔ ہمارے خیال میں اس غنڈہ عنصر کی پشت پناہی کی وجہ محض یہ ہے کہ موجودہ جمہوری دور میں 'غیر انسانی سلوک کے یہ علمبردار' خود غنڈہ عناصر کے رحم و کرم کے محتاج اور انہی کی وساطت سے برسراقتدار آتے ہیں تو ایسے لوگ اپنے مددگاروں کے حق میں برسر عام بدنی سزائیں کیسے گوارا کرسکتے ہیں؟ المآئدہ
39 المآئدہ
40 المآئدہ
41 [٧٤] کفار اور منافقوں کی معاندانہ سرگرمیوں سے آپ کی دل گرفتگی :۔ مکہ میں مسلمانوں اور پیغمبر اسلام کو دکھ پہنچانے والے اور پریشانی میں مبتلا رکھنے والے صرف قریش مکہ تھے مگر مدینہ آ کر آپ کو چار قسم کے لوگوں سے دکھ پہنچ رہا تھا۔ ایک منافقین دوسرے یہود، تیسرے مشرک قبائل عرب اور چوتھے مشرکین مکہ جنہوں نے فتح مکہ تک اپنی معاندانہ سرگرمیوں میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی تاہم اس آیت میں صرف دو قسم کے لوگوں کا ذکر آیا ہے ایک منافقین دوسرے یہود۔ اور ان کی معاندانہ سرگرمیاں بھی طرح طرح کی تھیں۔ مسلمانوں کے دلوں میں طرح طرح کے شکوک پیدا کرنا، مسلمانوں میں ہی فتنہ کی آگ بھڑکانا، لوگوں کو اسلام لانے سے روکنا، مسلمانوں اور پیغمبر اسلام کو بدنام کرنا اور گالی دینا اور جنگ کے وقت مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنا اور جنگ کے دوران کافروں کا ساتھ دینا۔ ایک تو آپ اس بات پر بھی بہت دل گرفتہ رہتے تھے کہ لوگ کیوں اسلام قبول نہیں کرتے۔ اس پر مستزاد یہ معاندانہ سرگرمیاں بھی شامل ہوجاتیں۔ تو آپ سخت پریشان اور دل گرفتہ ہوجاتے تھے اور ایسا ہونا ایک فطری امر تھا۔ آپ کی اسی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے آپ کی تسلی کے لیے یہ ہدایت فرمائی کہ آپ کو ان حالات سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ سب لوگ اللہ کے علم میں ہیں اور یہ اپنے انجام کو پہنچ کے رہیں گے۔ آپ کو صرف اللہ پر ہر وقت نظر رکھنا چاہیے۔ [٧٥] زانی جوڑے کی سزا :۔ اس آیت میں ایک واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ ہوا یہ تھا کہ خیبر کے ایک امیر گھرانے کے ایک شادی شدہ یہودی اور یہودن نے زنا کیا تھا اور وہ چاہتے یہ تھے کہ رجم کی سزا سے بچ جائیں کیونکہ تورات میں ان کی سزا رجم مقرر تھی۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ نبی آخر الزماں کی شریعت میں ایسے زنا کی سزا کوڑے ہے رجم نہیں ہے۔ لہٰذا انہوں نے اس یہودی اور یہودن کا مقدمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں پیش کیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آپ کا یہود مدینہ سے جو معاہدہ ہوا تھا اس کی رو سے یہودی اس بات میں آزاد تھے کہ اپنے مقدمات اور تنازعات خود ہی تورات کے مطابق فیصلہ کرلیا کریں اور اگر چاہیں تو وہ اپنے مقدمات نبی آخر الزماں کی عدالت میں لے جائیں اس صورت میں آپ کا کیا ہوا فیصلہ ہی ان پر لاگو ہوگا۔ اور یہود یہ مقدمہ اس غرض سے آپ کے پاس لائے تھے کہ یہ امیر زانی جوڑا رجم کی سزا سے بچ جائے اور آپس میں طے یہ کیا کہ اگر یہ نبی کوڑوں کی سزا کا فیصلہ دے تو اس کا فیصلہ تسلیم کرلینا اور اگر رجم کا فیصلہ سنائے تو تسلیم نہ کرنا۔ مسلم کی روایت جو براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور آگے آ رہی ہے یوں ہے کہ یہود نے اس امیر زانی یہودی کو کوڑوں کی سزا دی تھی اور اس کا منہ کالا کر کے اور گدھے پر سوار کر کے گشت کروا رہے تھے تو آپ نے خود ان کو اپنے پاس بلایا۔ اس طرح یہ مقدمہ آپ کی عدالت میں آ گیا۔ [٧٦] یہودی نہ تورات کے متبع تھے نہ نبی کے :۔ فتنہ کا مطلب یہ ہے کہ اصل میں وہ نہ تو رات کی اتباع کرنے پر تیار تھے اور نہ نبی کے فیصلہ کو تسلیم کرنے کو تیار تھے بلکہ اپنے نفس کی خواہش کی پیروی کر رہے تھے۔ کتاب اللہ یعنی تورات کے منکر اس لیے کہ تورات میں رجم کا حکم موجود تھا اور یہ بات وہ خوب جانتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر اس لیے کہ وہ فیصلہ کو مشروط طور پر ماننا چاہتے تھے یعنی اگر وہ ان کی خواہش کے مطابق (یعنی کوڑوں کی سزا) ہوا تو مان لیں گے اور اگر خواہش کے مخالف (یعنی رجم کی سزا) ہوا تو نہ مانیں گے لہٰذا یہ اتباع نہ تورات کی ہوئی اور نہ نبی کی بلکہ ان کی اپنی خواہش کی اتباع ہوئی اور جو شخص خود ہی فتنہ میں پڑا رہنا چاہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے لیے فتنہ کی راہ ہی کھول دیتا ہے اور اللہ کے حکم سے بغاوت کی بنا پر ان کے دلوں کو ایسے خبیث امراض سے پاک نہیں کرتا۔ وہ صرف اس کا دل پاک کرتا ہے جو خود بھی اسے پاک کرنا چاہتا ہے۔ المآئدہ
42 [٧٧] ان لوگوں کے خبث باطن کی دیگر وجوہات کے علاوہ دو وجوہ یہ بھی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ مسلمانوں کی اور آپ کی مجالس میں آتے ہی اس لیے ہیں کہ یہاں سے جو کچھ سنیں اسے اپنے لفظوں میں ڈھال کر اور توڑ موڑ کر اس طرح پیش کریں جس سے انہیں مسلمانوں کو اور پیغمبر اسلام کو بدنام اور رسوا کرنے کا موقع ہاتھ آئے۔ اور دوسری وجہ یہ کہ وہ حرام خور ہیں اور حرام خوری کے اثرات جو نفس انسانی پر مترتب ہوتے ہیں وہ اس قدر قبیح اور گندے ہوتے ہیں کہ ایسے شخص کی نہ عبادت قبول ہوتی ہے اور نہ دعا۔ [٧٨] گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اختیار تو دے دیا گیا کہ چاہے تو یہودیوں کے باہمی تنازعات کا فیصلہ کریں اور چاہے تو نہ کریں۔ لیکن اگر کرنا چاہو تو پھر انصاف کے ساتھ ہی فیصلہ کرنا ہوگا۔ اس آیت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ مقدمہ خود ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لائے تھے۔ کچھ لوگ تو مقدمہ لانے والے تھے اور کچھ پیچھے بیٹھے ہدایات دینے والے تھے کہ اگر فیصلہ ایسے ہوا تو مان لینا ورنہ نہ ماننا۔ تاہم مسلم کی درج ذیل روایت میں اس بات میں اختلاف ہے کہ آپ کے پاس یہ مقدمہ کی صورت میں آیا تھا۔ زانی یہودی اور یہودن کا مقدمہ :۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک یہودی نکلا جس کا منہ کالا کیا گیا تھا اور کوڑے مارے گئے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو بلایا اور ان سے پوچھا ’’کیا تم اپنی کتاب میں زانی کی یہی سزا پاتے ہو؟‘‘ انہوں نے کہا 'ہاں' پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے علماء میں سے ایک آدمی کو بلایا اور اسے فرمایا ’’میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں جس نے موسیٰ پر تورات نازل کی تھی، بتاؤ کیا تم اپنی کتاب میں زانی کی یہی سزا پاتے ہو؟‘‘ اس نے کہا 'نہیں۔' اور اگر آپ مجھے اللہ کی قسم نہ دیتے تو میں آپ کو نہ بتلاتا (بات یہ ہے کہ) ہم تورات میں رجم کی سزا ہی پاتے ہیں مگر جب ہمارے شرفاء میں زنا کی کثرت ہوگئی تو جب ہم کسی شریف کو پکڑتے تو اسے چھوڑ دیتے اور کمزور کو پکڑتے تو اس پر حد جاری کرتے۔ پھر ہم نے آپس میں کہا کہ ایسی سزا پر متفق ہوجائیں جسے شریف اور رذیل سب پر نافذ کرسکیں تو ہم نے کوڑے مارنا اور منہ کالا کرنا نافذ کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اے اللہ ! سب سے پہلے میں تیرے اس حکم کو زندہ کرتا ہوں جبکہ ان لوگوں نے اس کو مردہ کردیا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا اور وہ رجم کیا گیا۔ تب یہ آیت نازل ہوئی ﴿ یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ لَا یَحْزُنْکَ الَّذِیْنَ ....﴾ ’’یہودی کہا کرتے، محمد کے پاس چلو۔ اگر وہ تمہیں منہ کالا کر کے کوڑے مارنے کا حکم دے تو اسے قبول کرلو اور اگر رجم کرنے کا فتویٰ دے تو بچو۔ تب یہ آیت نازل ہوئی۔ ﴿وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ ﴾۔۔ (مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب رجم الیہود اہل الذمۃ فی الزنی ) اس حدیث میں یہود کے جس عالم کا ذکر ہے۔ بعض دوسری روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ابن صوریا تھا۔ فدک کا رہنے والا تھا۔ اور اسے تورات کا سب سے بڑا عالم سمجھا جاتا تھا۔ اور تمام یہودیوں کے ہاں وہ قابل اعتبار و قابل اعتماد سمجھا جاتا تھا جس نے صحیح صورت حال کو کھول کر بیان کردیا۔ المآئدہ
43 [٧٩] یعنی ایک طرف تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا نبی سمجھتے ہیں اور پھر فیصلہ بھی آپ کے پاس لاتے ہیں۔ اور دوسری طرف تورات ہے جسے اللہ کی سچی کتاب سمجھتے تو ہیں لیکن حکم اس کا بھی نہیں مانتے اس سے بڑھ کر ان کے بے ایمان ہونے کی کیا دلیل ہو سکتی ہے؟ المآئدہ
44 [٨٠] یہودی مذہب الہامی نہیں :۔ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ یہودی مذہب کوئی الہامی مذہب نہیں۔ نہ ہی کتاب اللہ میں انہیں یہودی بننے کو کہا گیا تھا بلکہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے عقائد و اعمال میں بہت کچھ شامل کرلیا تھا اور اپنے آپ کو یہودی کہلانے لگے تھے اور اللہ نے جو کتاب تورات نازل کی تھی وہ ایک ایسا دستور العمل تھا جس کے مطابق تمام مسلمان (فرمانبردار) انبیاء خود بھی عمل پیرا تھے اور ان یہودیوں کے تنازعات کے فیصلے بھی اسی کتاب اللہ کے مطابق کیا کرتے تھے اور ان کے متقی علماء و مشائخ کا بھی یہی حال تھا کہ وہ اسی کے مطابق فیصلے کرتے تھے جس کی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے کتاب اللہ کی حفاظت کا کام انہیں لوگوں کے سپرد کر رکھا تھا۔ یہ حفاظت دونوں صورتوں میں تھی ایک علمی دوسرے عملی۔ علمی حفاظت یہ تھی کہ نہ تو تورات کے الفاظ میں رد و بدل یا ترمیم و تنسیخ کی جائے اور نہ ہی ان آیات کو غلط مفہوم پہنایا جائے۔ اور عملی یہ تھی کہ اس پر ٹھیک طرح سے عمل کیا جائے اور فیصلے اسی کے مطابق کیے جائیں مگر بعد میں جب ناخلف علماء و مشائخ پیدا ہوئے تو انہوں نے تحریف معنوی بھی کی اور لفظی بھی۔ بعض آیات کو چھپایا اور بعض اضافے کتاب اللہ میں شامل کردیئے اور اس طرح کتاب اللہ کو بیچ کر کھانے لگے۔ یعنی عملی لحاظ سے بھی کتاب اللہ کے احکام کو پس پشت ڈال دیا۔ [٨١] ربط مضمون کے لحاظ سے تو اس جملہ میں خطاب یہود کو ہے لیکن نفس مضمون کے لحاظ سے اس کا خطاب عام ہے جس میں یہود و نصاریٰ کے علاوہ مسلمان بھی شامل ہیں اور اس میں بتایا گیا ہے کہ کتاب اللہ یا منزل من اللہ وحی کے مطابق فیصلہ نہ کرنا کافروں کا کام ہوتا ہے مسلمانوں کا نہیں۔ المآئدہ
45 [٨٢] سابقہ شریعتوں کے احکام شریعت محمدی میں :۔ یہاں ایک بنیادی بات یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی حکم جو تورات میں یہود کو دیا گیا ہو اور قرآن اس کو یوں بیان کرے کہ اس میں کسی ترمیم و تنسیخ کا ذکر نہ کرے اور نہ ہی آپ نے نکیر فرمائی ہو تو وہ حکم بعینہ ہو تو وہ حکم مسلمانوں کے لیے بھی قابل عمل ہوگا اگرچہ قرآن اسے مسلمانوں کے لیے الگ سے بیان کرے یا نہ کرے اس کی ایک مثال تو یہی آیت ہے اور دوسری مثال رجم کا حکم ہے اور اس آیت میں قصاص کی جو صورت بیان ہوئی ہے احادیث اسی کی تائید و تشریح کرتی ہیں چنانچہ درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے۔ ١۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک یہودی نے ایک مسلمان لڑکی کا جو زیور پہنے ہوئے تھی۔ محض زیور حاصل کرنے کے لیے سر کچل دیا۔ اس لڑکی سے پوچھا گیا کہ کس نے اس کا سر کچلا ؟ فلاں نے یا فلاں نے؟ یہاں تک کہ جب قاتل یہودی کا نام لیا گیا تو اس نے سر کے اشارے سے بتایا 'ہاں' وہ یہودی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا۔ اس نے جرم کا اقرار کرلیا تو آپ نے بھی دو پتھروں کے درمیان اس کا سر رکھ کر کچلوا دیا۔ (مسلم۔ کتاب القسامہ۔ باب ثبوت القصاص فی القتل بالحجر) (بخاری۔ کتاب الدیات۔ باب سوال القاتل حتی یقرو الاقرار فی الحد۔ باب اقاد بحجر) ٢۔ سیدنا یعلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک جنگ میں گیا۔ وہاں ایک شخص نے دوسرے کو دانت سے کاٹا۔ اس نے زور سے اپنا ہاتھ کھینچا تو کاٹنے والے کا دانت ٹوٹ گیا۔ پھر وہ قصاص کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا قصاص باطل قرار دیا اور فرمایا ’’کیا وہ اپنا ہاتھ تیرے منہ میں رہنے دیتا کہ تو اسے یوں چبا جائے جیسے اونٹ چبا ڈالتا ہے‘‘ (بخاری۔ کتاب الدیات۔ باب اذا عض رجلا۔۔) ٣۔ احکام قصاص :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جان کی دیت سو اونٹ ہیں۔‘‘ (نسائی۔ کتاب القسامۃ والقود الدیۃ۔ باب ذکر حدیث عمر و بن حزم فی العقول) ٤۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میری پھوپھی ربیع بنت نضر نے ایک انصاری لڑکی کا دانت توڑ ڈالا۔ لڑکی کے وارثوں نے قصاص کا مطالبہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مقدمہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص کا حکم دے دیا۔ انس بن نضر رضی اللہ عنہ جو انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے چچا (اور ربیع کے بھائی) تھے کہنے لگے ’’یا رسول اللہ ! اللہ کی قسم ایسا کبھی نہ ہوگا کہ ربیع کا دانت توڑا جائے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’انس (یہ کیا کہہ رہے ہو) قصاص تو اللہ کا حکم ہے‘‘ پھر (اللہ کی قدرت کہ) لڑکی کے وارث قصاص کی معافی اور دیت لینے پر راضی ہوگئے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں کہ (اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے) قسم کھا بیٹھیں تو اللہ ان کی قسم سچی کردیتا ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ نیز کتاب الدیات۔ باب السن بالسن۔ مسلم کتاب القسامۃ) ٥۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک شخص قتل ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قاتل کو مقتول کے وارث کے حوالہ کردیا۔ قاتل کہنے لگا ’’یا رسول اللہ ! اللہ کی قسم! میرا قتل کا ارادہ نہ تھا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتول کے وارث سے فرمایا ’’اگر قاتل (اپنے بیان میں) سچا ہے اور تو نے اسے قتل کردیا تو تو دوزخ میں جائے گا۔‘‘ چنانچہ وارث نے اسے چھوڑ دیا۔ (ترمذی۔ ابو اب الدیات۔ باب ماجاء فی حکم ولی القتیل فی القصاص والعفو) [٨٣] قصاص میں یہودی قبائل کی ایک دوسرے پر برتری کا تصور :۔ مدینہ میں یہود کے تین قبائل آباد تھے۔ بنو قینقاع۔ بنو نضیر اور بنو قریظہ۔ ان میں سے بنو نضیر اور بنو قریظہ کی آپس میں چپقلش رہتی تھی۔ بنو نضیر طاقتور اور مالدار تھے اور بنو قریظہ ان کی نسبت کافی کمزور تھے اسی وجہ سے ان کے درمیان رسم یہ چل نکلی تھی کہ اگر بنو قریظہ کے ہاتھوں بنو نضیر کا کوئی آدمی قتل ہوجاتا تو اس کے بدلے بنو نضیر بنو قریظہ سے دوگنا دیت وصول کرتے تھے جبکہ خود اس سے نصف دیتے تھے اس طرح وہ تورات کے دو حکموں کی خلاف ورزی کرتے ایک یہ کہ تورات میں قصاص کا قانون تو تھا لیکن دیت کا نہیں تھا۔ دوسرے بنو نضیر کے خون کی دیت بنو قریظہ کے خون کی دیت سے دوگنا تھی۔ ایک دفعہ بنو نضیر کا ایک آدمی بنو قریظہ کے کسی آدمی کے ہاتھوں قتل ہوگیا تو انہوں نے دوگنی دیت کا مطالبہ کردیا۔ بنو قریظہ نے جواب دیا کہ اب وہ وقت گئے جب تم ہم سے دگنی دیت وصول کیا کرتے تھے۔ اب ہم یہ مقدمہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عدالت میں پیش کریں گے۔ کیونکہ یہود آپ کو جھوٹا نبی کہنے کے باوجود یہ یقین رکھتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں گے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم الٰہی کے مطابق برابر دیت کا فیصلہ دیا۔ [٨٤] قرآن کریم کے الفاظ ﴿فَہُوَ کَفَّارَۃٌ لَّہٗ ﴾ کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور دونوں ہی درست ہیں۔ ایک یہ کہ اگر مجروح جارح کو معاف کر دے تو اس کا یہ معافی دینا اس کے اپنے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔ اور دوسرا یہ کہ مجروح کا معافی دینا جارح کے جرم کا کفارہ بن جائے گا اور ان دونوں کو ملانے سے مطلب یہ نکل سکتا ہے کہ مجروح کا معاف کردینا جارح کے جرم کا بھی کفارہ بن جاتا ہے اور مجروح کے اپنے گناہوں کا بھی۔ المآئدہ
46 [٨٥] نئی الہامی کتاب کی ضرورت کیوں ہوتی ہے؟ یعنی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کوئی نیا دین لانے والے نبی نہ تھے۔ وہ خود زبانی بھی پہلی نازل شدہ کتابوں کی تصدیق کرتے تھے اور انجیل میں بھی یہ بات مذکور تھی۔ واضح رہے کہ بعد میں آنے والے نبی کا کام یہ ہوتا ہے کہ اس سے پہلی امت نے کتاب اللہ کی تفاسیر و شروح لکھ کر اس کے مفہوم و معانی میں جو تاویلیں کر کے اختلاف پیدا کرلیا ہے یا عقائد و عمل میں راہ حق سے بھٹک گئے ہیں، یا کتاب اللہ میں کچھ تحریف یا اضافے کرلیے ہیں۔ تو لوگوں کو ان تمام باتوں پر مطلع کر کے انہیں راہ حق پر لانے کی کوشش کرے اور اس کام کے لیے کسی بنیاد کا ہونا ضروری ہے اور وہ بنیاد منزل من اللہ کتاب ہی ہوتی ہے لہٰذا اس کے منزل من اللہ ہونے پر ایمان رکھنا ہر نبی اور اس کے متبعین کے لیے ضروری ہے چنانچہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور ان سے پہلے کے نبیوں اور امتوں نے تورات کی تصدیق کی اور مسلمان سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سمیت تمام سابقہ انبیاء کی اور تورات اور انجیل بلکہ سب آسمانی صحیفوں کی تصدیق کرتے ہیں کیونکہ عیسیٰ علیہ السلام کے بعد نبی آخر الزماں تک کوئی نبی نہیں آیا اور نہ ہی انجیل کے بعد اور قرآن سے پہلے کوئی آسمانی کتاب نازل ہوئی جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ انبیاء علاتی بھائی ہیں :۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میں سب لوگوں سے زیادہ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام سے (دنیا اور آخرت میں) تعلق رکھتا ہوں۔ انبیاء سب علاتی (ماں جائے) بھائی ہیں۔ جن کا باپ ایک (یعنی عقائد) اور مائیں (فروعی مسائل) جدا جدا ہیں۔ میرے اور عیسیٰ کے درمیان کوئی پیغمبر نہیں ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الانبیائ۔ باب قول اللہ ( وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ مَرْیَمَ 16 ۝ ۙ) 19۔ مریم :16) المآئدہ
47 [٨٦] اللہ کے حکم کے مطابق نہ فیصلے کرنے والے کون ؟ اللہ کی طرف سے نازل شدہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والے آیت نمبر ٤٤ کی رو سے کافر ہیں آیت نمبر ٤٥ کی رو سے ظالم اور آیت نمبر ٤٧ کی رو سے فاسق قرار دیئے گئے ہیں۔ اگرچہ ان آیات کے مخاطب یہود و نصاریٰ ہیں تاہم یہ حکم عام ہے اور مسلمانوں کو بھی شامل ہے اور ان تینوں آیات میں جو مختلف درجات بیان کیے گئے ہیں ان کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ احکام الٰہی کے خلاف فیصلہ کرنے والا فاسق بھی ہوتا ہے، ظالم بھی اور کافر بھی۔ کیونکہ یہ سب حق سے انحراف کے ہی درجات ہیں۔ یعنی ابتداء میں فاسق ہوتا ہے جب اس گناہ سے آگے بڑھ جائے تو ظالم اور جب اسے معمول بنا لے تو کافر ہوجاتا ہے اور دوسرا مطلب جرم کی شدت کی نوعیت کے اعتبار سے ہے جیسے یہود نے رجم کے حکم پر عمل نہ کیا پھر اسے چھپایا تو یہ کفر ہوا اور بنو نضیر نے بنو قریظہ سے دوگنی دیت لی تو یہ عدل و انصاف کے خلاف ہے پس یہ ظلم ہوا۔ اور اگر اس سے بھی کم تر درجہ کا گناہ ہوگا تو وہ فسق ہوگا اور کبھی جرم کی نوعیت اتنی شدید ہوتی ہے کہ مجرم ان تمام صفات کا حامل قرار پاتا ہے جیسے بنی اسرائیل کے بعدئی بادشاہ بت پرست تھے اور رعایا کو بھی اللہ کے بجائے اپنا حکم تسلیم کرواتے تھے۔ المآئدہ
48 [٨٧] قرآن سابقہ کتب پر مہیمن کیسے؟ مھیمن کے معنی ہیں محافظ اور نگران۔ حفاظت اور نگرانی کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ مھیمن سے مراد ایسی حفاظت اور نگرانی ہے جیسے ایک مرغی اپنے سب بچوں کو اپنے پروں کے نیچے سمیٹ لیتی ہے تاکہ کوئی پرندہ جیسے چیل وغیرہ ان پر حملہ آور نہ ہو سکے یا وہ اپنے بچوں کو سردی سے بچا سکے۔ یہاں قرآن کو باقی سب کتب سماوی پر مھیمن کہنے سے مراد یہ ہے کہ اس میں پہلے کی تمام کتب سماویہ کے مضامین آ گئے ہیں۔ نیز قرآن ان سب کتابوں کے لیے ایک کسوٹی کے معیار کا کام دیتا ہے وہ اس طرح کہ : ١۔ انجیل و تورات میں جو مضمون قرآن کے مطابق ہوگا وہ یقیناً اللہ ہی کا کلام ہوگا۔ ٢۔ اور جو مضمون قرآن کے خلاف ہوگا وہ ہرگز اللہ کا کلام نہیں ہو سکتا۔ وہ یقیناً لوگوں کا کلام ہے۔ جو کتاب اللہ میں شامل کردیا گیا ہے۔ جیسے موجودہ اناجیل میں عقیدہ تثلیث اور الوہیت مسیح اور کفارہ مسیح کے عقائد پائے جاتے ہیں اور بائیبل میں انبیاء کی توہین کے علاوہ کئی ایسے مضامین پائے جاتے ہیں جن سے واضح طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ اللہ کا کلام نہیں ہو سکتے۔ ٣۔ اور جو مضمون قرآن کے نہ مطابق ہو نہ مخالف اس کے متعلق مسلمانوں کو خاموش رہنے کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ نہ اس کی تصدیق کریں اور نہ تکذیب۔ [٨٨] شریعتوں کا فرق :۔ یعنی سب انبیاء اور ان کی امتوں کا دین تو ایک تھا لیکن شریعتیں الگ الگ تھیں۔ دین سے مراد بنیادی عقائد و نظریات ہیں مثلاً صرف اللہ کو ہی خالق و مالک اور رازق سمجھنا اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنانا اور صرف اسی اکیلے کی عبادت کرنا۔ اللہ اور اس کے رسولوں کی پوری طرح اطاعت کرنا اور آخرت کے دن پر اور اپنے کیے کی جزا و سزا بھگتنے پر ایمان لانا وغیرہ اور شریعت سے مراد وہ احکام ہیں جو اس دور کے تقاضوں کے مطابق دیئے جاتے رہے۔ مثلاً تمام امتوں کو نماز، زکوٰۃ اور روزہ کا حکم تھا۔ مگر نمازوں کی تعداد اور ترکیب نماز میں فرق تھا اسی طرح نصاب زکوٰۃ اور شرح زکوٰۃ میں بھی فرق تھا اور روزوں کی تعداد میں بھی۔ یا مثلاً آدم کی اولاد میں بہن بھائی کا نکاح جائز تھا اور یہ ایک اضطراری امر تھا۔ بعد میں حرام ہوگیا جب اس کی ضرورت نہ رہی۔ امت مسلمہ سے پہلے بیویوں کی تعداد پر کوئی پابندی نہ تھی جیسا کہ سیدنا سلیمان کی سو بیویاں تھیں وغیرہ وغیرہ اور ایسے مسائل بے شمار ہیں اور زندگی کے ہر پہلو سے تعلق رکھتے ہیں۔ [٨٩] عقل صحیح کا تقاضا اور دنیا میں امتحان :۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے قوت تمیز، قوت ارادہ اور قوت اختیار دی ہی اس لیے ہے کہ یہ معلوم ہو سکے کہ انسانوں میں سے کون اللہ اور اس کے رسولوں کی اطاعت اور فرمانبرداری کرتا ہے اور کون اس سے انحراف کرتا ہے اور اگر اللہ چاہتا تو انسان کو جاندار ہونے کے باوجود ان قوتوں سے نہ نوازتا تو انسان بھی اللہ اور اس کے رسولوں کی اطاعت پر اسی طرح مجبور و پابند ہوتا جس طرح کائنات کی دوسری اشیاء احکام الٰہی کے سامنے مجبور اور اس کی پابند ہیں۔ اس طرح کسی امت میں کبھی بھی کوئی اختلاف واقع نہ ہوتا۔ لیکن اس طرح تخلیق انسان، اسے دنیا میں بھیجنے اور دنیا کو دارالعمل اور دارالابتلاء بنانے کا مقصد پورا نہ ہوسکتا تھا لہٰذا اب انسان کا اصل کام یہ نہیں کہ ان قوتوں کا غلط استعمال کر کے اپنی خواہشات کے پیچھے پڑ کر احکام الٰہی سے انحراف کرے اور کتاب اللہ کی آیات کے مفہوم و معانی میں تاویل کر کے امت میں اختلاف کی راہ کھول دے اور اپنی اس آزادی کا غلط استعمال کرتے ہوئے فرقہ بندیوں کی بنیاد رکھ دے بلکہ اس کا اصل کام یہ ہونا چاہیے کہ اس آزادی رائے، ارادہ اور اختیار کو احکام الٰہی کے تابع رکھتے ہوئے نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لے۔ [٩٠] یعنی فرقہ پرستوں کے اختلافات ان کی اپنی ہٹ دھرمی اور باہمی ضد کی وجہ سے اس دنیا میں ختم نہیں ہو سکتے۔ ان کا آخری فیصلہ نہ مجالس مناظرہ میں ہوسکتا ہے اور نہ میدان جنگ میں۔ یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ خود قیامت کے دن کر دے گا اس وقت انہیں معلوم ہوجائے گا کہ جن جھگڑوں میں انہوں نے اپنی عمریں ضائع کردی تھیں ان میں حق کا پہلو کتنا تھا اور باطل کا کتنا ؟ المآئدہ
49 [٩١] حق کے لئے بہت بڑے فائدے سے دستبردار ہونا :۔ یہود کی آپس میں کسی مسئلہ میں نزاع کی صورت پیدا ہوگئی۔ ایک فریق میں ان کے بڑے بڑے علماء و مشائخ شامل تھے۔ یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے۔ آپ ہمارے اس نزاع کا فیصلہ کر دیجئے۔ پھر اگر آپ فیصلہ ہمارے حق میں کردیں تو ہم خود بھی اور اکثر یہود بھی ایمان لے آئیں گے کیونکہ یہود کی اکثریت ہمارے ہی زیر اثر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے رشوتی اسلام کو قبول نہ کیا اور ان کی خواہشات کی پیروی سے صاف انکار کردیا۔ اسی دوران یہ آیات نازل ہوئیں۔ (ابن کثیر) اللہ تعالیٰ نے اس دوران یہ آیت اس لیے نازل فرمائیں کہ کسی ایک فرد کا بھی اسلام لانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انتہائی محبوب تھا چہ جائیکہ یہود کی اکثریت کے ایمان لانے کی توقع ہو اور اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بات ماننے کی طرف مائل ہوجائیں یعنی ایک بہت بڑے فائدے کے حصول کی خاطر ان کی بات مان لیں جس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ حق پرستی کی خاطر اگر ہمیں کسی بہت بڑے متوقع فائدہ سے دستبردار ہونا پڑے تو اس میں دریغ نہ کرنا چاہیے اور ہر قیمت پر حق پر ہی قائم رہنا چاہیے۔ المآئدہ
50 [٩٢] اسلام اور جاہلیت کا تقابل :۔ جاہلیت کا لفظ اسلام کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے۔ اسلام سراسر روشنی ہے جبکہ جاہلیت اندھیرے ہی اندھیرے ہیں اسلام ایسی روشنی اور ایسا علم ہے جو دنیاوی زندگی کے ہر پہلو میں بھی رہنمائی کرتا ہے اور اخروی زندگی میں نجات کی راہیں بھی دکھاتا ہے جبکہ جاہلیت اس دنیا میں بھی انسان کو سرگرداں اور پریشان حال بنائے رکھتی ہے اور آخرت میں عذاب الیم سے دو چار کر دے گی اسلام سے پہلے کے دور کو دور جاہلیت کہا جاتا ہے اور اس کا اطلاق ان تمام رسوم و رواج پر ہوتا ہے جن کی وجہ سے کسی انسان کی جان و مال اور آبرو محفوظ نہ تھی۔ ہر انسان دوسرے کا دشمن اور خون کا پیاسا تھا۔ کفر و شرک عام تھا۔ انسان کی زندگی اس قدر اجیرن بن چکی تھی کہ ہر عقلمند انسان اس سے نکلنے کی فکر میں تھا مگر اسے کوئی راہ نہ ملتی تھی اور دور جاہلیت کے فیصلہ سے مراد ہر وہ فیصلہ ہے جو بے انصافی پر مبنی ہو۔ آج کے دور پر بھی دور جاہلیت کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ آج کی نئی روشنی اسی پرانے دور جاہلیت سے ملتی جلتی ہے جس قسم کی فحاشی و بدکرداری اور بے حیائی اس دور میں پائی جاتی تھی آج بھی پائی جاتی ہے۔ المآئدہ
51 [٩٣] یہود ونصاریٰ سے دوستی کی ممانعت :۔ کفار سے ظاہری موالات، رواداری اور حسن سلوک (بالخصوص جبکہ وہ ذمی یا معاہد ہوں) اور چیز ہے اور انہیں قابل اعتماد دوست سمجھنا اور بنانا اور چیز ہے اس سلسلہ میں سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ٢٨ ﴿اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقٰیۃً﴾ کا حاشیہ بھی ملاحظہ کرلیا جائے۔ اس آیت میں بالخصوص یہ ہدایت دی جا رہی ہے کہ یہود اور نصاریٰ کے باہمی اختلاف گو شدید ہیں اور ان دونوں فرقوں میں گروہی اختلافات اور دشمنی بھی شدید ہے تاہم اسلام دشمنی کی خاطر وہ سب مل بیٹھتے ہیں اور سمجھوتہ کرلیتے ہیں لہٰذا ان میں سے کوئی بھی تمہارا حقیقی اور قابل اعتماد دوست کبھی نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا تم بھی ان سے محبت کی پینگیں نہ بڑھاؤ اور نہ ہی دوستی کے قابل سمجھو۔ جب بھی انہیں موقع میسر آیا وہ تمہیں نقصان پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے اور اگر کوئی مسلمان ان سے دوستی رکھتا اور ان کی محبت کا دم بھرتا ہے تو وہ مسلمان نہیں اسے بھی انہیں میں کا ایک فرد سمجھو۔ ایسے لوگوں کو راہ راست نصیب نہیں ہو سکتی اور تمہیں ایسے لوگوں سے بھی محتاط رہنا چاہیے۔ المآئدہ
52 [٩٤] منافقوں کی یہود ونصاریٰ سے خفیہ سازباز کی وجہ :۔ یہود و نصاریٰ سے دلی دوستی رکھنے والے منافقین تھے جو بظاہر مسلمان تھے مگر ان کی دلی ہمدردیاں یہود و نصاریٰ اور کفار ہی کے ساتھ تھیں اور جنگ احد کے بعد ان کی ہمدردیوں میں کچھ اضافہ بھی ہوگیا تھا جنگ بدر کے بعد اگرچہ اسلام ایک قوت بن چکا تھا تاہم اسلام کو حقیقتاً غلبہ فتح مکہ کے بعد ہی حاصل ہوا۔ اس درمیانی عرصہ میں اسلام یا کفر میں سے کسی کے متعلق بھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ ان میں سے کون سی قوت غالب ہوگی اور کونسی مغلوب؟ اب ظاہری صورت حال یہ تھی کہ یہود و نصاریٰ دونوں مسلمانوں کی نسبت بہت زیادہ مالدار تھے عرب کے سرسبز و شاداب خطے بھی انہیں کے قبضہ میں تھے یہودی سودی کاروبار بھی کرتے تھے اس لحاظ سے بھی لوگ ان کے محتاج تھے۔ غرض عرب کی معیشت پر دراصل یہی یہود و نصاریٰ ہی چھائے ہوئے تھے ان حالات میں منافق یہ سوچتے تھے کہ اگر مسلمان ہار گئے تو ہم تو کہیں کے نہ رہے لہٰذا وہ ان سے دوستی کرنا، دوستانہ مراسم رکھنا، خفیہ طور پر اسلام دشمن سازشوں میں ان کا ساتھ دینا، جنگ کے دوران ان سے مسلمانوں کے خلاف خفیہ معاہدے کرنا یہ سب ان کے خیال کے مطابق ان کی انتہائی اہم ضرورتیں تھیں۔ پھر دوسری طرف یہ بھی خطرہ تھا کہ کہیں اسلام ہی غالب نہ آجائے۔ لہٰذا بظاہر مسلمانوں کی جماعت میں شامل رہتے اور نماز ادا کرتے تھے۔ انہیں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ منافقین بھی حقیقتاً مسلمان نہیں بلکہ یہود و نصاریٰ ہی ہیں۔ [٩٤۔ الف] فتح مکہ پر قبائل عرب کی نظریں :۔ قرآن کریم نے اکثر مقامات پر الفتح سے مراد فتح مکہ لی ہے یعنی مشرکین عرب، یہود مدینہ، منافقین اور نصاریٰ وغیرہ سب سمجھتے تھے کہ عرب میں مسلمانوں اور قریش مکہ میں سے بالاتر قوت وہی سمجھی جا سکتی ہے جس کا مکہ اور بیت اللہ پر قبضہ ہو۔ قریش مکہ کی ثروت اور سیاسی قیادت کا سبب یہی کعبہ کی تولیت تھی اللہ تعالیٰ اس آیت میں منافقوں سے یہ خطاب فرما رہے ہیں کہ عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ عنقریب مسلمانوں کو فتح مکہ سے ہمکنار کر دے اور اس فتح مکہ سے پہلے بھی ایسے حالات پیش آ سکتے ہیں جس میں منافقوں کے سب پول کھل جائیں اور وہ پوری طرح ننگے ہوجائیں اور نادم و شرمسار ہو کر رہ جائیں اور جو بات وہ دلوں میں چھپاتے تھے صرف یہ نہ تھی کہ پتہ نہیں کہ کس فریق کو غلبہ حاصل ہوتا ہے بلکہ یہ تھی کہ مسلمانوں کے پورے اہل عرب کی مخالفت کے علی الرغم مکہ پر فتح حاصل کرلینا ناممکنات سے ہے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ کافروں سے خفیہ ساز باز رکھتے اور اسے کسی قیمت پر چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے تھے۔ المآئدہ
53 [٩٥] اسلام کے غلبہ کا منافقوں پر اثر :۔ ان کی اسلام دشمن خفیہ حرکات سے جب مسلمانوں کو ان کے منافق ہونے کا شک ہونے لگتا ہے تو اللہ کی قسمیں کھا کھا کر مسلمانوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم تمہارے ہی ساتھ ہیں اور ان یہود سے جو ہماری بات چیت ہوتی ہے وہ محض رسمی اور مروت کے طور پر ہوتی ہے اور منافقوں کا دستور یہ تھا کہ ہر آڑے وقت میں مسلمانوں کو دغا دیا کرتے بلکہ بعد میں قسمیں کھانے لگتے اور اگر مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں شامل نہ ہوتے تو بہانے تراشنے لگتے اور اپنے آپ کو سچا ظاہر کرنے کے لیے قسمیں کھانے لگتے۔ ان لوگوں کا دنیا میں تو یہ حشر ہوا کہ مسلمانوں کو بالآخر فتح نصیب ہوئی۔ مکہ فتح ہوا تو تمام قبائل عرب کو معلوم ہوگیا کہ اب اسلام ہی غالب قوت بن کر ابھر چکا ہے اور اب کفر اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اس طرح منافقوں کی تمام امیدوں اور آرزوؤں پر اوس پڑگئی۔ مسلمانوں کے سامنے پہلے ہی ناقابل اعتماد ٹھہر چکے تھے لہٰذا حسرت و یاس کے سوا انہیں کچھ ہاتھ نہ آیا اور آخرت میں اس لحاظ سے خسارہ میں رہے کہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جو ارکان اسلام بجا لاتے رہے وہ سب ان کی منافقت کی وجہ سے ضائع ہوجائیں گے۔ کیونکہ انہوں نے یہ کام اللہ کی رضا کے لیے تو کیے ہی نہ تھے وہ تو مسلمانوں سے مفادات حاصل کرنے کے لیے کیے تھے اور وہ مفادات حاصل کرچکے۔ باقی جو مسلمانوں سے غداری کرتے رہے اس کے عوض انہیں دوزخ کے سب سے نچلے درجہ میں عذاب دیا جائے گا۔ المآئدہ
54 [٩٦] مرتدین کے متعلق پیشین گوئی :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک بڑی پیشین گوئی فرمائی ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی تو اکثر قبائل عرب نے یہ سمجھا کہ اسلام کو جتنی کامیابیاں اور کامرانیاں نصیب ہوئیں۔ اس کا باعث صرف رسول اللہ کی ذات تھی جن پر وحی کے ذریعہ ہر وقت مسلمانوں کے لیے حالات کے مطابق ہدایات نازل ہوتی رہتی تھیں۔ اب چونکہ آپ انتقال کرچکے ہیں۔ لہٰذا اب پھر کفر کو غلبہ نصیب ہوگا۔ اس خیال سے عرب کے بہت سے قبائل اسلام سے مرتد ہوگئے اور بعض کہنے لگے کہ اب زکوٰۃ ادا کرنے کا اور اسلام کی دوسری پابندیاں سہنے کا کیا فائدہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد مسلمانوں کو انتہائی نازک اور ہنگامی حالات سے دو چار ہونا پڑا۔ ایک تو مسلمانوں کو آپ کی وفات کا سخت صدمہ تھا دوسرے اسی حالت میں بہت سے قبائل مرتد ہوگئے تھے جن سے جہاد لازمی تھا۔ تیسرے بعض قبیلوں نے زکوٰۃ کی ادائیگی سے سرے سے انکار کردیا تھا حالانکہ اس وقت جہاد کے لیے بہت زیادہ اخراجات کی ضرورت تھی۔ پھر لشکر اسامہ کی روانگی کا مسئلہ بھی تھا جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں ترتیب دے چکے تھے۔ شامی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اس لشکر کی روانگی بھی ضروری تھی گویا مسلمان اس وقت اندرونی اور بیرونی دونوں طرح سے خطرات سے دوچار تھے اور سب سے بڑی مشکل یہ کہ فنڈز بھی موجود نہ تھے ان فتنوں میں سب سے بڑا فتنہ تھا جس کا ذکر اس آیت میں ہوا ہے لہٰذا اس کا ذکر ہم ذرا تفصیل سے کریں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں چند جاہ طلب مدعیان نبوت اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ جن میں سرفہرست مسیلمہ ہے جو یمنی قبیلہ بنو حنیفہ سے تعلق رکھتا تھا۔ اس قبیلہ کا ایک وفد ٩ ھ کو مدینہ آیا۔ اس وفد میں مسیلمہ سمیت سترہ آدمی تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام لائے۔ مگر مسیلمہ جو اس وفد کا سردار تھا، اپنے کبر و نخوت کی وجہ سے کچھ دور دور ہی رہا۔ وہ کہتا تھا کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے بعد مجھے نبوت دینے کا وعدہ کریں تو میں ان کی پیروی کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ثابت بن قیس خطیب انصار کو ساتھ لے کر مسیلمہ کے سر پر جا کھڑے ہوئے۔ مسیلمہ نے اپنی بات کو دہراتے ہوئے کہا کہ اگر آپ چاتے ہیں کہ ہم حکومت کے معاملہ میں آپ کو آزاد چھوڑ دیں تو اپنے بعد اسے آپ ہمارے لیے طے فرما دیجئے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ’’اگر تم مجھ سے اس معاملہ میں یہ چھڑی بھی مانگو تو میں نہیں دینے کا اور یاد رکھو تم اللہ کے فیصلے سے آگے نہیں جا سکتے اور تم نے پیٹھ پھیری تو اللہ تعالیٰ تمہیں توڑ کے رکھ دے گا۔ اور اللہ کی قسم! میں تو تجھے وہی آدمی سمجھتا ہوں جو مجھے خواب میں دکھلایا گیا ہے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمجھانے کا معاملہ قیس بن ثابت رضی اللہ عنہ کے سپرد کر کے خود واپس چلے آئے۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب وفد بنی حنیفۃ و حدیث ثمامۃ بن اثال ) سب سے پہلے مرتدین مسیلمہ کذاب اور اس کی امت :۔ واپس جا کر مسیلمہ اس معاملہ پر غور کرتا رہا۔ بالآخر اس نے خود نبوت کا دعویٰ کردیا اور کہا کہ مجھے کاروبار نبوت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک کیا گیا ہے اس نے اپنی قوم کے لیے زنا اور شراب کو حلال کردیا تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی شہادت بھی دیتا رہا یعنی اس نے بھی ظلی نبی ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ ان مراعات سے قوم میں اس کی خوب قدر و منزلت ہوئی اور اسے یمامہ کا رحمان کہا جانے لگا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خط لکھا کہ ’’مجھے آپ کے ساتھ اس کام میں شریک کردیا گیا ہے آدھی حکومت ہمارے لیے ہے اور آدھی قریش کے لیے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جواب لکھا کہ ’’زمین اللہ کے لیے ہے جسے چاہتا ہے اسے اس کا وارث بنا دیتا ہے اور انجام متقین کے لیے ہے۔‘‘ پھر مسیلمہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دو قاصد ابن نواحہ اور ابن اثال بھی بھیجے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا تھا ’’کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔‘‘ وہ کہنے لگے ’’ہم گواہی دیتے ہیں کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا۔ اگر قاصد کو قتل کرنا جائز ہوتا تو میں تم دونوں کو قتل کردیتا۔‘‘ (مسند احمد۔ بحوالہ مشکوٰۃ ج ٢ ص ٣٤٧) یہی مسیلمہ اور اس کو ماننے والوں کی سب سے پہلی مرتدین کی جماعت تھی۔ چنانچہ ربیع الاول ١١ ھ کے آغاز میں ان لوگوں پر فوج کشی کی گئی۔ بنو حنیفہ بڑے جنگجو اور دلیر لوگ تھے وہ بڑی بے جگری سے لڑے اور بڑے گھمسان کا رن پڑا۔ اگرچہ اس جنگ میں، جو جنگ یمامہ کے نام سے مشہور ہوئی، مسلمانوں کے بھی بہت سے قاری شہید ہوئے اور کافی جانی نقصان ہوا تاہم میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا۔ مسیلمہ کذاب خود وحشی بن حرب کے ہاتھوں اپنے کیفر کردار کو پہنچ گیا۔ یہ وہی وحشی بن حرب ہے جس نے جنگ احد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا سیدنا حمزہ کو حربے سے شہید کیا تھا۔ اس جنگ میں اس نے کفارہ کے طور پر اسی حربہ سے مسیلمہ کو قتل کیا۔ (بخاری کتاب المغازی۔ باب غزوہ احد) دوسرا مدعی نبوت اسود عنسی :۔ دوسرا مدعی نبوت اسود عنسی تھا۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے ہاتھ میں دو سونے کے کنگن ہیں اس بات سے مجھے فکر لاحق ہوگئی۔ پھر خواب میں ہی مجھے کہا گیا کہ ان پر پھونک مارو۔ میں نے پھونک ماری تو وہ دونوں اڑ گئے۔ اس کی تعبیر یہی ہے کہ میرے بعد دو جھوٹے نبی نکلیں گے ان میں سے ایک اسود عنسی ہے اور دوسرا مسیلمہ کذاب یمامہ والا۔ (بخاری۔ کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام) اسود عنسی قبیلہ بنو مدلج کا سردار تھا اسے ذوالحمار بھی کہتے ہیں۔ جادوگر تھا۔ اس نے اطراف یمن پر قبضہ کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمال کو نکال دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور یمن کے رئیسوں کو اس کی سرکوبی کے لیے لکھا۔ آخر یہ شخص فیروز دیلمی کے ہاتھوں قتل ہوا۔ اس کے قتل کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت دے دی تھی۔ اگرچہ یمن سے یہ خبر دو ماہ بعد آئی تھی۔ تیسرا مرتد قبیلہ بنو اسد تھے جن کے سردار طلیحہ بن خویلد نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ اس پر بھی لشکر کشی کی گئی اور وہ شکست کھا کر ملک شام کی طرف بھاگ گیا۔ بعدہ اس نے پھر سچے دل سے اسلام کو اختیار کرلیا۔ یہ تین قبائل تو وہ تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری ایام میں ارتداد اختیار کیا تھا اور ان کی بروقت سرکوبی بھی کردی گئی تھی۔ عہد صدیقی میں مرتد ہونے والے قبائل :۔ سات قبیلے ایسے تھے جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ارتداد اختیار کیا تھا : (١) فزارہ عیینہ ابن حصن کی قوم (٢) غطفان قرۃ بن سلمہ قشیری کی قوم (٣) بنو سلیم۔ فجارہ بن عبدیالیل کی قوم (٤) بنو یربوع مالک بن نویرہ کی قوم (٥) بنو تمیم کے بعض لوگ جو سجاح بنت منذر کے مرید ہوگئے اس عورت نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور مسیلمہ سے نکاح کرلیا تھا (٦) کندہ اشعث بن قیس کی قوم اور (٧) بحرین میں بنو بکر بن وائل، حطم بن زید کی قوم۔ لشکر اسامہ کی روانگی :۔ گویا وفات نبوی کے بعد ہنگامی طور پر مسلمانوں کے لیے تشویش ناک حالات پیدا ہوگئے تھے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ان حالات میں سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے لشکر اسامہ کی روانگی سے متعلق مشورہ کیا تو ایسے نازک حالات میں ساری شوریٰ لشکر اسامہ کی فوری روانگی کے خلاف تھی لیکن سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ساری شوریٰ کے علی الرغم اپنا دو ٹوک فیصلہ ان الفاظ میں فرمایا ’’اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی جان ہے اگر مجھے یہ یقین ہو کہ درندے آ کر مجھے اچک لے جائیں گے تو بھی میں اسامہ کا لشکر ضرور بھیجوں گا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا اور اگر اس بستی میں میں اکیلا ہی رہ جاؤں تب بھی میں یہ لشکر ضرور بھیجوں گا۔‘‘ (طبری ج ٣ ص ٢٢٥) مانعین زکوٰۃ سے جہاد :۔ چنانچہ یہ لشکر بھیجا گیا جو چالیس دن کے بعد ظفریاب ہو کر واپس آ گیا۔ اب مانعین زکوٰۃ کے متعلق سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مہاجرین و انصار کو بلا کر تمام صورت حال ان کے سامنے بیان کر کے ان سے مشورہ طلب کیا تو آپ کی تقریر سے مجمع پر سکتہ طاری ہوگیا۔ طویل خاموشی کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’اے خلیفہ رسول! میری رائے تو یہ ہے کہ آپ اس وقت نماز ادا کرنے کو ہی غنیمت سمجھیں۔ اللہ تعالیٰ اسلام کو قوت دے گا تو پھر ان سے نمٹ لیں گے اس وقت تو ہم میں تمام عرب و عجم کے مقابلہ کی سکت نہیں۔‘‘ اس کے بعد ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے تو انہوں نے بھی سیدنا عمر کی رائے کی تائید کی پھر سیدنا علی نے بھی اسی کی تائید کردی۔ پھر اس کے بعد تمام انصار و مہاجرین اسی رائے کی تائید میں یک زبان ہوگئے۔ آپ نے سیدنا عمر کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا۔ تم کفر کی حالت میں تو بہت جری اور دلیر تھے اب اسلام میں آ کر کمزوری دکھاتے ہو؟ پھر پوری شوریٰ سے خطاب کیا کہ اللہ کی قسم! میں برابر امر الٰہی پر قائم رہوں گا اور اس کی راہ میں جہاد کروں گا۔ جب تک یہ لوگ پوری کی پوری زکوٰۃ ادا نہ کریں جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ادا کرتے تھے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نماز اور زکوٰۃ میں کوئی فرق نہیں کیا اس واقعہ کو امام بخاری نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب آپ کی وفات ہوگئی اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ بن گئے تو عرب کے کچھ قبائل کافر ہوگئے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا : آپ ان لوگوں سے کیسے لڑیں گے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’مجھے لوگوں سے اس وقت تک لڑنے کا حکم ہے جب تک وہ لا الہ الا اللہ نہ کہیں۔ پھر جس نے یہ شہادت دے دی اس نے اپنا مال اور اپنی جان مجھ سے بچا لیے الا یہ کہ وہ کوئی ایسا کام کرے جس سے اس کے مال یا جان کا نقصان ہو اور اس کے باطن کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔‘‘ اس کے جواب میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا ’’اللہ کی قسم! میں اس شخص سے ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے گا اس لیے کہ زکوٰۃ مال کا حق ہے (جیسے نماز جسم کا) اللہ کی قسم! اگر یہ لوگ مجھے ایک بکری کا بچہ بھی نہ دیں گے جو آپ کو دیا کرتے تھے تو میں ان سے ضرور لڑوں گا۔‘‘ تب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ’’اللہ کی قسم۔ اس کے بعد میں سمجھ گیا کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دل میں جو لڑائی کا ارادہ ہوا ہے یہ اللہ تعالیٰ ہی نے ان کے دل میں ڈالا ہے اور میں پہچان گیا کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی رائے درست ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب استتابۃ المعاندین والمرتدین ) چنانچہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خود جہاد کو روانہ ہونے پر تیار ہوگئے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے انہیں یہ رائے دی کہ آپ کا مدینہ میں موجود رہنا جہاد پر روانہ ہونے سے زیادہ ضروری ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مانعین زکوٰۃ اور مرتدین دونوں کی سرکوبی کے لیے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو سپہ سالار بنا کر روانہ کیا اور اس وقت تک جہاد کا کام جاری رکھا جب تک کہ مرتدین اور مانعین زکوٰۃ کو راہ راست پر نہیں لے آئے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ اس وقت کے مسلمانوں سے تہدید کے طور پر فرماتا ہے کہ اللہ کے دین کی سربلندی کا انحصار تم پر ہی نہیں۔ اگر تم میں سے کوئی مرتد ہوجائے گا تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو آگے لے آئے گا جن میں یہ اور یہ اوصاف ہوں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری ایام میں اور آپ کی وفات کے بعد جو بے شمار قبائل مرتد ہوگئے تھے ان کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کون سے لوگ لایا تھا اور ان کا سردار کون تھا جس کے ہاتھ پر یہ وعدہ پورا ہوا ؟ اور جو لوگ تاریخ اسلام سے تھوڑے بہت بھی واقف ہیں وہ بے ساختہ کہہ دیں گے کہ ان مرتدوں کے مقابلہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انصار و مہاجرین اور اہل یمن کے لوگ اٹھے تھے۔ جنہوں نے ان سب مرتد لوگوں کی سرکوبی کی تھی اور ان کے سردار اور خلیفہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ اب اس آیت سے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی اس پیشین گوئی کے پورا ہونے کی تصدیق ہوتی ہے اسی طرح سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت بھی برحق ثابت ہوتی ہے۔ شیعہ حضرات کا نظریہ ارتداد اور اس کا رد :۔ یہ تو تھی فتنہ ارتداد کی تاریخی حیثیت۔ اب شیعہ حضرات یہ کہتے ہیں کہ دراصل مرتدین کی سرکوبی کرنے والے گروہ کے سردار اور اس وعدہ کی تکمیل کے مہتمم سیدنا علی رضی اللہ عنہ تھے اور لوگوں کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنانا اور ان کا حق تلف کر کے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنا دینا اور سیدہ فاطمہ کو حق باغ فدک نہ دینا ہی اصل ارتداد ہے۔ چونکہ ان لوگوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بجائے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا۔ لہٰذا وہ سب مرتد ہوگئے۔ اگر شیعہ حضرات کے اس نظریہ ارتداد کو درست تسلیم کیا جائے۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنانے کی وجہ سے مرتد ہوگئے تھے تو کیا سیدنا علی نے ان کی سر کو بی کی تھی؟ نیز وہ کونسی قوم تھی جن کے ذریعہ اللہ نے ان مرتدوں کی سرکوبی کر کے اپنے وعدہ کو پورا کیا تھا ؟ نیز یہ کہ کیا اللہ کا یہ وعدہ پورا ہوا بھی تھا یا نہیں؟ یہ سوال ان حضرات کے اس نظریہ کی بھرپور تردید کرتے ہیں۔ بلکہ اس کے برعکس ہوا یہ تھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہمیشہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ و سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی مجلس شوریٰ کے معزز رکن اور ان کے کاموں میں ان کے معاون و مددگار رہے۔ اور مرتدین پر چڑھائی کرنے میں ان کے ساتھ بدل و جان شریک رہے۔ رہا شیعہ حضرات کا یہ احتمال کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ دل سے شریک نہ تھے تو ایک تو یہ بات ﴿وَلَا یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَاۗیِٕم﴾ کے خلاف ہے۔ دوسرے اگر سیدنا علی رضی اللہ عنہ خود بھی ارتداد کا یہی مطلب سمجھتے تھے تو کم از کم یہ تو کرسکتے تھے کہ خود ان کا ساتھ نہ دیتے اور ان کی مدد نہ کرتے۔ تیسرے یہ کہ ان کا آپس میں باہمی رشتوں کا لین دین بھی تاریخ سے ثابت ہے۔ یہ سب باتیں اس بات پر قوی دلیل ہیں کہ ارتداد سے مراد وہ نہیں جو شیعہ حضرات کہتے ہیں اور نہ ہی سیدنا علی نے اسے ارتداد قرار دیا ہے۔ [٩٧] مومنوں کے حق میں نرم دل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی قوت مسلمانوں کو دبانے، ستانے یا نقصان پہنچانے میں صرف نہیں ہوتی بلکہ وہ آپس میں نرم خو، رحم دل اور ایک دوسرے کے ہمدرد ہوتے ہیں اور کافر پر سخت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے ایمان کی پختگی، دیانتداری میں خلوص اور اصول کی مضبوطی سیرت و کردار اور ایمانی فراست مخالفین اسلام کے مقابلہ میں پتھر کی چٹان ثابت ہوتی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ کافروں سے بدمزاجی اور درشتی سے پیش آتے ہیں یا انہیں گالیاں دیتے ہیں یا جب انہیں دیکھتے ہیں تو ان کے چہرہ پر غصہ اور نفرت کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ مومنوں کا دامن ایسے اخلاق رذیلہ سے پاک ہوتا ہے اور ایسے مومنوں کی چوتھی صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ مخالفین کے طعن و تشنیع، ان کے اعتراضات اور ان کی پھبتیوں کی مطلق پروا نہیں کرتے اور جادہ حق پر پورے عزم و استقلال کے ساتھ گامزن رہتے ہیں۔ [٩٨] ارتداد کے فتنہ کو کچلنے والے :۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ فضل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اس جماعت تک ہی محدود نہیں۔ بلکہ جب بھی کہیں ارتداد کا فتنہ کھڑا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے مرتدین کی سرکوبی کے لیے ایسے جاں نثار اور اسلام کے وفادار مسلمان کھڑے کردیتا ہے جو مرتدین سے علم اور قوت دونوں لحاظ سے بہتر ہوتے ہیں اور اس فتنہ کا زور توڑ کے رکھ دیتے ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ میں ایسے بے شمار فتنے پیدا ہوئے اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے اور اللہ تعالیٰ ان فتنوں کی سرکوبی کے لیے اپنے بندے پیدا کرتا رہا اور آئندہ بھی کرتا رہے گا۔ اور ایسے لوگوں میں بھی مندرجہ بالا صفات کسی نہ کسی درجہ میں ضرور پائی جاتی ہیں۔ اور یہ ارتداد کے فتنے بھی دو طرح کے ہوتے ہیں ایک سیاسی دوسرے تحریری۔ دونوں کا سر کچلنے کے لیے اللہ تعالیٰ مناسب لوگوں کو پیدا کرتا رہا ہے اور کرتا رہے گا۔ اور ان کے لیے بشارت یہ ہے کہ یہ ایسے لوگ اللہ کے محبوب ہوتے ہیں۔ المآئدہ
55 المآئدہ
56 [٩٩] غلبہ صرف سچے مومنوں کو ہوگا :۔ یعنی مسلمانوں کو یہ یقین رکھنا چاہیے کہ ان کے حقیقی خیر خواہ صرف وہ مسلمان ہی ہو سکتے ہیں جو سچے مسلمان ہیں۔ فتح مکہ سے پہلے مسلمانوں کی صورت حال یہ تھی کہ کفار کے مقابلہ میں تعداد میں کم تھے۔ ان کے معاشی حالات بھی کچھ اچھے نہ تھے۔ فتح خیبر میں اموال غنیمت میں بہت سے کھجوروں کے درخت مسلمانوں کے حصہ میں آئے تو یہ پہلا موقع تھا کہ مسلمانوں کو سیر ہو کر کھانے کو کھجوریں ملیں اور مہاجروں نے انصار کے وہ کھجوروں کے درخت واپس کیے جن میں وہ محنت کرتے تھے اور عوضانہ کے طور پر نصف پیداوار لیا کرتے تھے۔ سیاسی حالات بھی کچھ ایسے تھے کہ تمام اہل عرب اس بات کے منتظر تھے کہ دیکھئے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ اسلام کو غلبہ نصیب ہوتا ہے یا کفر غالب آتا ہے؟ یہود، مشرکین، عیسائی، اور دیگر قبائل عرب سب نے مل کر مسلمانوں کو سخت پریشان کر رکھا تھا۔ ایسی صورت حال میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بطور تسلی یہ یقین دلا رہے ہیں کہ کفار سے دوستانہ مراسم رکھنے سے پوری طرح اجتناب کرو اور دوستی اور محبت صرف ان لوگوں سے رکھو جو اللہ سے ڈرنے والے اور اس کے احکام بجا لانے والے سچے مسلمان ہیں اور کامیابی اور غلبہ یقیناً تمہیں ہی حاصل ہوگا۔ [٩٩۔ الف] کافروں منافقوں اہل کتاب سب سے دوستی کی ممانعت :۔ اس آیت میں مکرر سہ کرر مسلمانوں کو اس بات کی تاکید اور تاکید مزید کی جا رہی ہے کہ اہل کتاب ہوں یا دوسرے کافر و مشرک ہوں، جو لوگ بھی اللہ کا، اللہ کے رسول کا، اللہ کی آیات کا اور اللہ کے دین کی دوسری باتوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ان میں سے کسی سے کبھی دوستی نہ گانٹھو۔ ایسے لوگ کبھی تمہارے خیر خواہ نہیں ہو سکتے ایسے لوگوں سے متعلق پہلے احکام گزر چکے ہیں کہ جہاں یہ لوگ ایسی مجلس لگائے ان خرافات میں مشغول ہوں وہاں تم ہرگز نہ بیٹھا کرو۔ الا یہ کہ تم میں اتنی قوت ہو کہ تم ان کو زور بازو یا دلیل کی قوت سے روکنے کی کوشش کرو۔ المآئدہ
57 المآئدہ
58 [١٠٠] اذان کا تمسخر اڑانے والے اور ابو محذورہ :۔ اذان مسلمانوں کے شعائر میں سے ایک شعار ہے جس میں یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ اور یہ اعلان ہی دراصل تمام کافروں، خواہ وہ مشرکین ہوں یا یہود و نصاریٰ ہوں سب کے لیے دکھتی رگ تھا۔ کیونکہ مشرکین تو اللہ کے صرف اکیلے الٰہ ہونے کے ہی قائل نہ تھے دوسرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول ماننے کو تیار نہ تھے۔ اس طرح یہود و نصاریٰ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا نبی سمجھنے کو تیار نہ تھے اور یہی کلمات دراصل ان کے اور مسلمانوں کے درمیان باعث نزاع اور موجب جنگ بنے ہوئے تھے پھر دن میں جب پانچ بار بہ بانگ دہل انہیں کلمات کا اعلان کیا جاتا تو سیخ پا ہوجاتے اور اللہ کا، اس کے رسول کا اور مسلمانوں سب کا مذاق اڑاتے اور پھبتیاں کسنے لگتے تھے۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ مدینہ میں ایک عیسائی تھا۔ جب وہ اشھد ان محمد رسول اللہ کے کلمات سنتا تو کہا کرتا۔ ''قَدْ حَرَقَ الکَاذِبُ'' (یعنی جھوٹا جل کر تباہ ہوا) بددعا کے یہ کلمات دراصل اس کے دل کی جلن کا مظہر تھے۔ اب اتفاق کی بات ہے کہ ایک رات ایک لڑکی اس کے گھر میں آگ لے کر آئی۔ وہ خود اور اس کے اہل خانہ سو رہے تھے۔ نادانستہ طور پر وہ آگ کی چنگاری اس کے ہاتھ سے گر گئی جس سے سارا گھر اور گھر والے بھی جل گئے۔ اس طرح اللہ نے اس کی بددعا کو اسی کے حق میں سچ کر دکھایا۔ اس کا قول سچا ہوگیا اور جو جھوٹا تھا واقعی جل گیا۔ نیز ایک اور واقعہ بھی صحیح روایات میں منقول ہے اور وہ یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حنین سے واپس آ رہے تھے تو راستہ میں سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اذان کہی۔ چند نوجوانوں نے اذان کے کلمات کی ہنسی اڑائی اور اس کی نقل اتارنے لگے۔ ان نوجوانوں میں ابو محذورہ بھی شامل تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنے پاس بلوایا اور اسلام کی دعوت پیش کی۔ ابو محذورہ کے دل میں اللہ نے اسلام ڈال دیا۔ خوش آواز تھے لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مکہ کا مؤذن مقرر فرما دیا۔ اس طرح اللہ کی قدرت سے نقل اصل بن گئی۔ (مسلم، ترمذی، نسائی، احمد، ابو داؤد بحوالہ سبل السلام۔ کتاب الصلٰوۃ۔ باب الاذان عن ابی محذورۃ ) المآئدہ
59 [١٠١] چاہئے تو یہ تھا کہ یہود نصاری مسلمانوں سے محبت رکھتے :۔ یہود کو مسلمانوں سے اور پیغمبر اسلام سے اصل میں تو یہ بیر تھا کہ نبی آخر الزماں ان یہود میں سے ہی کیوں مبعوث نہیں ہوا۔ یہ بات وہ علی الاعلان تو کہہ نہیں سکتے تھے اور اس کے بجائے اپنے دل کی جلن اور بھڑاس نکالنے کے لیے پیغمبر اسلام کو طرح طرح سے مطعون کرتے اور انہیں دکھ پہنچاتے رہتے تھے۔ ان کی اصل تکلیف کا بھی اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر جواب دیا ہے کہ نبوت کے تم اجارہ دار نہیں ہو کہ جتنی بھی بدعہدیاں تم کرتے جاؤ نبوت بہرحال تمہارے ہی خاندان میں رہے۔ نبوت تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جسے مناسب سمجھتا ہے دے دیتا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر سے فرماتے ہیں کہ ان یہود سے بھلا پوچھو تو کہ آخر ہم نے تمہارا کیا بگاڑا ہے جو مستقل طور پر ہم سے عداوت پر اتر آئے ہو۔ ہم تو تورات پر بھی ایمان لاتے ہیں اور انجیل پر بھی اور تمام انبیاء پر بھی ایمان لاتے ہیں۔ اس لحاظ سے چاہیے تو یہ تھا کہ ہم تم سے عداوت رکھتے کیونکہ تم نہ قرآن پر ایمان لاتے ہو اور نہ مجھ پر۔ لیکن یہاں معاملہ بالکل برعکس ہے۔ المآئدہ
60 [١٠٢] یہود جو بندر اور سور بنائے گئے :۔ یعنی تمہارے اسلاف تم سے بھی گئے گزرے تھے۔ بارہا انہوں نے اللہ کی نافرمانیاں کیں جن کی وجہ سے اللہ کا غضب نازل ہوچکا ہے پھر کچھ ایسے بدکردار بھی تھے جنہیں بندر اور سور بنا دیا گیا تھا اور کچھ ایسے تھے جنہوں نے اللہ کے بجائے اللہ کی نافرمان طاقتوں کی فرمانبرداری کی اور ان کی وجہ سے بڑے بڑے جرائم کے مرتکب ہوئے تھے حتیٰ کہ انبیاء کو ناحق قتل کرتے اور کراتے رہے یعنی تمہاری اپنی بداعمالیوں کی تو حد نہیں اس پر مزید ڈھٹائی یہ کر رہے ہو کہ اگر کوئی دوسرا فریق اللہ پر ایمان لا کر سچی دینداری اور اچھے کردار ادا کرتا ہے تو ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑجاتے ہو۔ المآئدہ
61 [١٠٣] انہیں یہود میں سے کچھ لوگ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آتے تو وعظ و نصیحت سن کر ہاں میں ہاں ملا دیتے اور منافقانہ طور پر اپنے اسلام لانے کا دعویٰ کرتے تھے حالانکہ ان کا یہ کام بھی مسلمانوں سے مکر و فریب کرنے کے لیے ہوتا تھا۔ ایمان ایک منٹ کے لیے بھی ان کے دلوں میں داخل نہ ہوتا تھا جیسے کفر کو اپنے دلوں میں چھپائے آتے ویسے ہی کفر کو لیے ہوئے وہاں سے رخصت ہوتے تھے اور ان کی ہر چال سے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو مطلع فرما دیتا تھا۔ المآئدہ
62 المآئدہ
63 [١٠٤] پہلے یہود کے عوام کے اخلاقی تنزل کی حالت بیان کی گئی۔ اب ان کے خواص یعنی علماء و مشائخ کا حال بیان کیا جا رہا ہے کہ وہ ان عوام کی کرتوتوں پر خاموش رہتے ہیں اور ان پر جو نھی عن المنکر کی ذمہ داری ہے اسے پورا نہیں کرتے (شریعت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت کے لیے (دیکھئے سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ١٠٤ اور ١١٠) گویا یہود کے عوام و خواص سب ہی بہت برے کام کر رہے ہیں۔ المآئدہ
64 [١٠٥] یہود کا اللہ کو بخیل ہونے کا طعنہ دینا :۔ یہودی حرام خور بھی تھے اور سود خور بھی۔ اور سود خوری کی صفت یہ ہے کہ وہ انسان میں خود غرضی اور بخل پیدا کرتا ہے۔ اور ان میں بخل اس حد تک پہنچ چکا تھا کہ جب انہیں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے یا قرض حسنہ دینے کو کہا جاتا تو طرح طرح کے بکواس شروع کردیتے۔ پہلے سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ١٨١ میں گزر چکا ہے کہ جب ان سے قرض حسنہ دینے کو کہا گیا تو کہنے لگے کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ فقیر ہوگیا ہے اور ہم غنی ہیں تبھی تو وہ ہم سے قرض مانگتا ہے۔ اس آیت میں یہ مذکور ہے کہ جب یہود کی بدکرداریوں کی وجہ سے اللہ کی برکات اور نوازشات بند ہوگئیں تو کہنے لگے کہ اب اللہ بخیل بن گیا ہے جس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ بخیل تو تم خود ہو۔ پھر اوپر سے جو یہ بکواس کرتے ہو یہ تمہارا دوہرا جرم ہے اسی وجہ سے تو تم ملعون ہوئے۔ اللہ کے رویہ میں کچھ فرق نہیں پڑا۔ وہ تو دونوں ہاتھ سے ہر وقت خرچ کر رہا ہے۔ لیکن خرچ وہاں کرتا ہے جہاں چاہتا ہے۔ اس کے خرچ کا مصرف تم جیسے بدکردار لوگ نہیں ہو سکتے۔ چنانچہ : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ کے دونوں ہاتھ بھرے ہوئے ہی رہتے ہیں۔ رات اور دن کا خرچ کرنا اس سے کچھ بھی کم نہیں کرتا۔ بھلا دیکھو۔ آسمان اور زمین کی پیدائش سے لے کر آج تک وہ کتنا خرچ کرچکا ہے لیکن اس خرچ نے جو اس کے ہاتھ میں ہے اسے کم نہیں کیا۔‘‘ (بخاری کتاب التوحید باب قول اللہ (لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ 75؀) 38۔ ص :75) [١٠٦] قرآن سے گمراہ کون ہوتے ہیں :۔ یعنی جس طرح کسی لاعلاج مریض کو صالح غذائیں بھی راس نہیں آتیں بلکہ بعض دفعہ اس کی بیماری میں اضافہ ہوجاتا ہے اسی طرح ان کی اخلاقی حالت اس قدر پست ہوچکی ہے اور قلبی امراض اس قدر پیچیدہ ہوچکے ہیں کہ انہیں قرآن کی نصیحت آموز باتیں راس نہیں آتیں بلکہ ان کی سرکشی اور کفر میں مزید اضافہ کا باعث بن جاتی ہیں۔ جب قرآن ان کی کسی شرارت پر مسلمانوں کو متنبہ کرتا ہے کہ ان سے ہوشیار رہیں تو وہ ایسی باتوں سے نصیحت قبول کرنے کی بجائے مزید سیخ پا ہو کر پہلے سے بدتر شرارتیں سوچنے لگتے ہیں۔ [١٠٧] یہود اور نصاریٰ دونوں کی آپس میں ایسی دشمنی ہے جو تاقیامت چلتی رہے گی۔ اسی طرح ہر گروہ کے اپنے اپنے فرقوں میں بھی اختلاف، بغض اور عداوتیں ہیں۔ اگرچہ یہ مسلمانوں کے خلاف متحد ہوجاتے ہیں تاہم ان کی آپس کی پھوٹ انہیں کامیاب نہیں ہونے دے گی اور بالآخر مسلمانوں سے مات کھا جائیں گے۔ [١٠٨] شماس یہودی کا فتنہ جنگ بھڑکانا :۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ جب جنگ بدر میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی تو منافقوں کے علاوہ یہود کے بھی تن بدن میں آگ لگ گئی۔ ایک بوڑھے یہودی شماس نے چند یہودی نوجوانوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ جہاں کہیں اوس و خزرج کے لوگ مل کر مجلس جمائے بیٹھے ہوں تو وہاں جا کر جنگ بعاث کے متعلق فریقین کے کہے ہوئے اشعار پڑھنا۔ چنانچہ جب ان کے کسی نوجوان یہودی نے ایسی مجلس میں یہ اشعار پڑھے تو اوس و خزرج دونوں کی قبائلی عصبیت عود کر آئی اور وہ پھر سے بپھر اٹھے اور لڑنے کو تیار ہوگئے۔ لڑائی کا میدان طے پا گیا اور لوگ ہتھیار بند ہو کر وہاں جمع ہونے لگے۔ قریب تھا کہ سب انصار ایک خوفناک جنگ کی زد میں آ جاتے کہ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوگئی۔ آپ فوراً موقع پر پہنچ گئے اور فرمایا۔ ’’میری موجودگی میں ایسی جاہلیت کی باتیں؟‘‘ اس پر انصار چونک اٹھے اور فوراً احساس ہوگیا کہ وہ شیطان کے بہکاوے میں آ گئے تھے۔ پھر وہ آپس میں گلے مل کر رونے لگے اور یہود تو ایسی فتنہ انگیزیوں پر بروقت آمادہ رہتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی ایسی کوششیں بار آور نہ ہونے پاتی تھیں۔ اور اللہ تعالیٰ ان کی لگائی ہوئی آگ کو فوراً بجھا دیتا تھا۔ [١٠٩] یعنی جو کچھ وہ سوچتے ہیں یا کہتے ہیں یا کرتے ہیں سب کچھ فتنہ و فساد برپا کرنے کی غرض سے کرتے ہیں ان کی چند فساد انگیزیاں درج ذیل احادیث میں ملاحظہ فرمائیے : ١۔ یہود کی فتنہ انگیزی زہریلی بکری سے دعوت :۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’جب خیبر فتح ہوا تو آپ کی خدمت میں بکری کا گوشت بطور ہدیہ پیش کیا گیا۔ جس میں زہر ملایا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ یہاں جتنے یہودی ہیں سب کو جمع کرو۔ جب انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا ’’کیا تم نے اس بکری کے گوشت میں زہر ملایا تھا ؟‘‘ وہ کہنے لگے 'ہاں' آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ’’تمہیں اس کام پر کس بات نے آمادہ کیا ؟‘‘ وہ کہنے لگے ’’ہم چاہتے تھے کہ اگر آپ جھوٹے ہیں تو ہمیں آپ سے نجات مل جائے گی اور اگر آپ سچے نبی ہیں تو زہر آپ کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الطب۔ باب مایذکر فی سم النبی ) ٢۔ یہود کا قتل ناحق اور قسامت :۔ سہل بن ابی حثمہ کہتے ہیں کہ تین آدمی (عبدالرحمن، حویصہ اور محیصہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا : یا رسول اللہ ! ہم خیبر کی طرف گئے تھے وہاں ہم نے اپنے ایک آدمی (عبداللہ بن سہل) کو مقتول پایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بڑی عمر والے کو بات کرنے دو۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کیا تمہارے پاس گواہ ہیں جنہوں نے قاتل کو قتل کرتے دیکھا ہو؟‘‘ انہوں نے کہا ’’گواہ تو کوئی نہیں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’پھر یہودی (پچاس) قسمیں کھائیں گے۔‘‘ وہ کہنے لگے ’’ہم یہود کی قسموں پر راضی نہیں‘‘ اور ابو قلابہ کی روایت میں یہ زیادہ ہے کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کہا ’’تم پچاس آدمی قسمیں کھاتے ہو کہ واقعی ہمارے ساتھی کو یہود نے قتل کیا ہے؟‘‘ انہوں نے کہا ’’ہم تو ایسی قسمیں نہیں کھا سکتے‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو ناپسند کیا کہ عبداللہ بن سہل کا خون رائیگاں جائے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ کے اونٹوں میں سے دیت کے سو اونٹ اس کے وارثوں کو دلوا دیئے۔ (بخاری۔ کتاب الدیات۔ باب القسامۃ) ان احادیث سے بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ یہودی اس قدر فتنہ پرداز تھے کہ پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کو گزند پہنچانے حتیٰ کہ مار ڈالنے میں کس قدر سرگرم اور موقع کی تلاش میں رہتے تھے۔ نیز اپنی بدعہدیوں کی وجہ سے مسلمانوں کی نظروں میں اس قدر ناقابل اعتماد بن چکے تھے کہ مسلمان ان کے پچاس آدمیوں کی قسموں پر بھی اعتبار نہیں کرتے تھے۔ المآئدہ
65 [١١٠] یعنی ان کی بھلائی اس بات میں تھی کہ ایسی شرارتیں اور فتنہ و فساد بپا کرنے والے کام چھوڑ کر ایمان لے آتے تو انہیں دوہرا اجر ملتا جیسا کہ حدیث میں وارد ہے کہ ’’اہل کتاب سے جو شخص ایمان لائے اس کو دوہرا اجر ملے گا ایک اپنے نبی اور کتاب پر ایمان لانے کا اور دوسرا مجھ پر اور قرآن پر ایمان لانے کا۔‘‘ (بخاری۔ کتاب العتق۔ باب، فضل من ادب جاریتہ و علمھا ) المآئدہ
66 [١١١] اچھے اور برے اعمال کے اثرات دل اور فضاؤں پر میں :۔ اگرچہ یہ خطاب بظاہر اہل کتاب کو ہے جس میں یہود و عیسائی مخاطب ہیں تاہم یہ حکم عام ہے یعنی کوئی بھی امت جو کتاب اللہ پر سچے دل سے پوری دیانتداری اور ایمانداری کے ساتھ عمل پیرا ہوگی اس پر اوپر سے ابر رحمت برسے گا، نیچے زمین سے پھل اور میوے بکثرت پیدا ہوں گے۔ ارضی اور سماوی برکات نازل ہوں گی۔ آفات دور ہوں گی۔ سب کو فراخی سے رزق ملے گا۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ حدود اللہ میں سے ایک حد قائم کرنے سے اتنی رحمت اور برکتیں نازل ہوتی ہیں جیسے چالیس دن بارش سے نازل ہوتی ہیں اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری اور نیک اعمال کا ایک نتیجہ تو انسان کے دل پر مرتب ہوتا ہے جس سے اس کا دل سلیم اور مطمئن اور صابر و شاکر بن جاتا ہے اور انہی اعمال کا دوسرا نتیجہ کائنات کی فضاؤں میں مرتب ہوتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی برکتوں اور رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ کی نافرمانی، سرکشی اور کفر کا ایک نتیجہ انسان کے دل پر مرتب ہوتا ہے جس سے ایسے انسان کا دل شقی، سیاہ اور پریشان حال بن جاتا ہے اور دوسرا نتیجہ فضاؤں میں مرتب ہوتا ہے جس سے ایسے لوگوں پر لعنت برستی ہے اور مصائب نازل ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور یہ فضائی اثرات انفرادی طور پر بھی مرتب ہوتے ہیں اور اجتماعی طور پر بھی۔ پھر جب کسی قوم کا ڈول گناہوں سے بھر جاتا ہے تو وہی وقت ہوتا ہے جب ان پر عذاب الٰہی نازل ہوتا ہے۔ المآئدہ
67 [١١٢] تمام رسولوں کی چار اہم ذمہ داریوں کا ذکر قرآن کریم میں متعدد بار آیا ہے۔ ان میں سب سے پہلی اور اہم ذمہ داری تبلیغ رسالت ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے زیادہ توجہ اس طرف دی ہے۔ کفار کی ایذا رسانیوں کو سہہ سہہ کر اور پر مشقت سفر کر کرکے آپ انفرادی اور اجتماعی طور پر لوگوں سے ملتے اور انکے کڑے کسیلے جواب سننے کے باوجودآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری ذمہ داری سے یہ فریضہ انجام دیا۔ پھر زندگی کے آخری دور میں تین مختلف اوقات میں ہزاروں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مجمع میں ان سے گواہی لی۔ کہ آیا میں نے تبلیغ رسالت کا پیغام تمہیں پہنچا دیا ؟ پھر جب انھوں نے اثبات میں جواب دیاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بآواز بلند فرمایا ’’ یا اللہ گواہ رہنا ‘‘۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تاکیداً فرمایا کہ وہ ان لوگوں کو رسالت کا پیغام پہنچا دیں جن تک یہ پیغام نہیں پہنچا۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے۔ ١۔ تبلیغ رسالت کا فریضہ :۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ (حجۃ الوداع کے موقع پر) خطبہ دینے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’تم سے میرے بارے میں سوال کیا جائے گا تو تم کیا کہو گے؟‘‘ صحابہ نے عرض کیا’’ہم گواہی دیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور (حق تبلیغ) ادا کردیا اور خوب نصیحت و خیر خواہی کی۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین بار فرمایا ’’اے اللہ ! گواہ رہنا۔‘‘ (مسلم کتاب الحج۔ باب حجۃ النبی ) ٢۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں تمام مسلمانوں کو حکم دیا کہ سن لو! تم میں سے جو لوگ موجود ہیں وہ ان لوگوں کو (اس خطبہ کے ارشادات) پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں۔ (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب لیبلغ العلم الشاھد الغائب) کیونکہ حاضر شاید ایسے غیر موجود شخص کو خبر دے جو اس بات کو اس سے زیادہ یاد رکھنے والا ہو۔ (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب قول النبی رب مبلغ اوعی من سامع ) ٣۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ (ایک دفعہ نماز کسوف کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطبہ دیا اور اللہ کی حمد و ثناء بیان کرنے کے بعد فرمایا ’’یہ سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں۔ انہیں نہ کسی کی موت کی وجہ سے گہن لگتا ہے اور نہ کسی کی پیدائش کی وجہ سے۔‘‘ (خطبہ ختم کرنے کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر فرمایا ’’اے اللہ ! میں نے یقیناً تیرا پیغام پہنچا دیا۔‘‘ (مسلم۔ کتاب الکسوف پہلی حدیث) ہوا یہ تھا کہ جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم کا انتقال ہوا تھا اسی دن سورج کو بھی اتفاق سے گہن لگ گیا۔ قدیم عرب کا اعتقاد تھا کہ چاند گرہن اور سورج گرہن کسی بڑے آدمی کی موت سے لگا کرتا ہے۔ اس واقعہ پر کچھ مسلمان بھی یہ کہنے لگے کہ سورج ابراہیم کی موت کی وجہ سے گہنا گیا اور یہ دن ٢٩ شوال ١٠ ھ روز دو شنبہ بمطابق ٢٧ جنوری ٦٣٢ ء کا دن تھا۔ جب سورج کو گہن لگنا شروع ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو دو رکعت طویل نماز پڑھائی جس میں چار رکوع اور چار سجدے کئے۔ اور صحابہ کو حکم دیا کہ جب سورج کو گرہن یا چاند گرہن لگے تو نماز پڑھا کرو۔ نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طویل خطبہ دیا جس میں اس جاہلی عقیدہ کا بھرپور رد کیا کہ سورج اور چاند تو اللہ کی نشانیاں ہیں۔ کسی بھی شخص کی موت یا زندگی سے انہیں گرہن نہیں لگا کرتا۔ طویل خطبہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مخاطب کر کے پوچھا کہ آیا میں نے تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا ؟ صحابہ نے اثبات میں جواب دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھوں کو اوپر اٹھا کر فرمایا۔ اے اللہ ! گواہ رہنا۔ میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا۔ (بخاری۔ ابو اب الکسوف، مسلم۔ کتاب الکسوف) ٤۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرض الموت میں اپنے سر سے کپڑا ہٹایا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی (اس حال میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار یہ الفاظ دہرائے ’’اے اللہ ! یقیناً میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا۔‘‘ (مسلم کتاب الصلٰوۃ۔ باب نہی عن قراءۃ القرآن فی الرکوع والسجود ) اور تبلیغ کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس بات کو زیادہ تر ملحوظ رکھتے تھے وہ درج ذیل احادیث سے ظاہر ہے : ٥۔ وعظ کے آداب :۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نصیحت کرنے کے لیے وقت اور موقع کی رعایت فرماتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو برا سمجھتے کہ ہم اکتا جائیں۔ (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب ماکان النبی یتخولھم بالموعظۃ والعلم کی لاینفروا ) ٦۔ ابو وائل کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہر جمعرات کو لوگوں کو وعظ کرتے۔ ایک شخص نے ان سے کہا۔ ’’ابو عبدالرحمن! میں چاہتا ہوں کہ آپ ہمیں ہر روز وعظ سنایا کریں۔‘‘ انہوں نے کہا ’’یہ میں اس لیے نہیں کرتا کہ تمہیں اکتا دینا مجھے اچھا معلوم نہیں ہوتا اور میں وقت اور موقع دیکھ کر تمہیں وعظ سناتا ہوں جیسے رسول اللہ ہمارا وقت اور موقع دیکھ کر ہمیں نصیحت فرماتے تھے آپ کو یہی ڈر تھا کہ ہم اکتا نہ جائیں۔‘‘ (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب ماکان النبی یتخولھم، بالموعظہ والعلم کی لاینفروا) مردوں کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے لئے کبھی کبھی بالخصوص الگ اہتمام فرماتے تھے جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے : ٧۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (عیدالفطر کا خطبہ دے کر) مردوں کی صف سے نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال ہوا کہ شاید عورتوں تک میری آواز نہیں پہنچی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو نصیحت کی اور انہیں خیرات کرنے کا حکم دیا۔ کوئی عورت اپنی بالی پھینکنے لگی، کوئی انگوٹھی اور بلال رضی اللہ عنہ نے اپنے کپڑے کے کونے میں یہ (صدقہ) لینا شروع کیا۔ (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب عظۃ الامام النساء وتعلیمھن ) ٨۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ عورتوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مرد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے میں ہم پر غالب ہوئے۔ لہٰذا آپ خود ہمارے لیے ایک دن مقرر کر دیجئے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے وعدہ فرما لیا۔ اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں وعظ فرمایا اور انہیں احکام شرع بتائے اور احکام میں سے ایک یہ بھی تھا جس عورت کے تین چھوٹے بچے فوت ہوجائیں (اور وہ صبر کرے) تو وہ ان کے لیے دوزخ سے آڑ بن جائیں گے کسی عورت نے کہا ’’اور اگر دو ہوں تو ؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اور دو بھی‘‘ (بخاری۔ کتاب العلم۔ ھل یجعل للنساء یوما علی حدۃ فی العلم ) [١١٣] نبی اور رسول میں فرق :۔ علماء نے ایک نبی اور ایک رسول میں جو فرق بیان کیے ہیں وہ یہ ہیں : (١) آنے والے رسول کی بشارت پہلے ہی کتاب اللہ میں دے دی جاتی ہے جبکہ نبی کے لیے یہ بات ضروری نہیں ہوتی۔ (٢) رسول پر اللہ کی کتاب یا صحیفے نازل ہوتے ہیں اور وہ الگ سے اپنی امت تشکیل دیتا ہے جبکہ نبی اپنے سے پہلی کتاب ہی کی اتباع کرتا اور کرواتا ہے۔ (٣) رسول کی جان کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ خود لے لیتا ہے جبکہ انبیاء ناحق بھی سرکش کافروں کے ہاتھوں قتل ہوتے رہے۔ اور رسول اللہ چونکہ تمام دنیا کے لیے اور قیامت تک کے لیے رسول ہیں۔ لہٰذا دوسروں کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ذمہ داری بھی زیادہ تھی۔ اسی لیے بطور خاص اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطمینان دلایا۔ یہ آیت جنگ احد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخمی ہونے کے بہت بعد نازل ہوئی۔ اس سے پہلے بعض دفعہ ایسے ہنگامی حالات پیش آ جاتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہرہ کے بغیر رات کو سو بھی نہ سکتے تھے۔ اس آیت کے نزول کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر کبھی پہرہ نہیں بٹھایا۔ تبلیغ رسالت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جان کا کس قدر خطرہ تھا ؟ اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قریش مکہ، یہود اور منافقوں کی طرف سے تقریباً سترہ بار قاتلانہ حملے ہوئے اور ہر بار اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت فرمائی اور ایسے کافروں کو ذلیل و رسوا کیا۔ ان حملوں کا اجمالی ذکر درج ذیل ہے : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ نبوت ٢٣ سال ہے۔ ابتدائی تین سال تو انتہائی خفیہ تبلیغ کے ہیں۔ باقی بیس سال کے عرصہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سترہ بار قاتلانہ حملے یا آپ کو قتل کردینے کی سازشیں تیار ہوئیں۔ ان میں سے ٩ حملے تو قریش مکہ کی طرف سے ہوئے، تین یہود سے، تین بدوی قبائل سے ایک منافقین سے اور ایک شاہ ایران خسرو پرویز سے اور غالباً اس دنیا میں کسی بھی دوسرے شخص پر اتنی بار قاتلانہ حملے نہیں ہوئے اور ہر بار اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی مطلع کر کے یا مدد کر کے آپ کو دشمنوں سے بچا کر اپنا وعدہ پورا کردیا۔ اب ہم ان قاتلانہ حملوں کے واقعات کو زمانی ترتیب کے ساتھ مختصراً ہدیہ قارئین کرتے ہیں۔ ١۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان بچانے والے کی شہادت : کوہ صفا پر اپنے اقربین کو دعوت دینے کے بعد جب آیت﴿فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ﴾نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرم کعبہ میں جا کر توحید کا اعلان فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اعلان مشرکین مکہ کی سب سے بڑی توہین کے مترادف تھا۔ چنانچہ دفعتاً ایک ہنگامہ بپا ہوگیا اور ہر طرف سے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پل پڑے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ربیب (سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پہلے خاوند سے بیٹے) حارث بن ابی ہالہ گھر میں موجود تھے انہیں خبر ہوئی تو دوڑتے ہوئے آئے اور آپ کو بچانا چاہا۔ اب ہر طرف سے ان پر تلواریں پڑنے لگیں اور وہ شہید ہوگئے۔ اسلام کی راہ میں یہ پہلا خون تھا جو بہایا گیا۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ ذکر حارث بن ابی ہالہ بحوالہ سیرت النبی ج ١ ص ٣١٤) ٢۔ ابو جہل کا ارادہ قتل : ایک دن ابو جہل نے اپنے ساتھیوں سے کہا ’’میں نے اللہ سے یہ عہد کر رکھا ہے کہ کسی وقت جب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدہ میں جائیں تو بھاری پتھر سے ان کا سر کچل دوں تاکہ یہ روز روز کا جھگڑا ختم ہو۔ اس کے بعد چاہے تو تم لوگ مجھے بالکل بےیار و مددگار چھوڑ دو کہ بنو عبد مناف مجھ سے جیسا چاہے سلوک کریں اور چاہے تو میری حفاظت کرو۔ ‘‘ اس کے ساتھیوں نے کہا ’’واللہ ! تمہیں بےیارومددگار نہ چھوڑیں گے۔ لہٰذا تمہارا جو جی چاہے کر گزرو۔ ‘‘ اس تجویز کے مطابق ابو جہل ایک بھاری پتھر لے کر کعبہ میں پہنچا اور مناسب موقع کا انتظار کرنے لگا۔ چنانچہ جب آپ سجدہ میں گئے تو ابو جہل پتھر لے کر آپ کے قریب پہنچا مگر یکدم خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹنے لگا اس کا رنگ اڑا ہوا تھا اور پتھر کو بھی مشکل سے نیچے رکھ سکا۔ اس کے ساتھی بڑے متعجب تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ انہوں نے پوچھا ’’ابو الحکم! یہ کیا ماجرا ہے؟‘‘ وہ کہنے لگا ’’میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بڑھ رہا تھا تو ایک مہیب شکل کا اونٹ مجھے نظر آیا۔ بخدا میں نے کسی اونٹ کی ایسی ڈراؤنی کھوپڑی، گردن اور ایسے ڈراؤنے دانت کبھی نہیں دیکھے۔ وہ اونٹ مجھے کھا جانا چاہتا تھا اور میں نے مشکل سے پیچھے ہٹ کر اپنی جان بچائی تھی۔‘‘ (ابن ہشام ١ : ٢٩٨-٢٩٩ بحوالہ الرحیق المختوم ص ١٥١) ٣۔ عقبہ بن ابی معیط کا ارادہ قتل : عقبہ ہر وقت اس تاک میں رہتا تھا کہ آپ کا گلا گھونٹ کر آپ کا کام تمام کر دے۔ اور ایسا موقع مشرکین کو اس وقت میسر آتا تھا جب آپ کعبہ میں نماز ادا کر رہے ہوتے تھے۔ چنانچہ سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ ’’مشرکین مکہ نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے سخت ایذا پہنچائی وہ کیا تھی؟‘‘ تو انہوں نے اپنا چشم دید واقعہ یوں بیان کیا کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ میں نماز ادا کر رہے تھے۔ عقبہ بن ابی معیط آیا اور اپنی چادر آپ کے گلے میں ڈال کر اسے اس قدر بل دیئے کہ آپ کا گلا گھٹنا شروع ہوگیا۔ آنکھیں باہر نکل آئیں اور قریب تھا کہ آپ کا کام تمام ہوجاتا۔ اتنے میں سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آن پہنچے۔ انہوں نے زور سے عقبہ کو پرے دھکیل کر آپ کو چھڑایا اور فرمایا’’کیا تم اس شخص کو صرف اس لیے مار ڈالنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے۔ حالانکہ وہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہاری طرف واضح نشانیاں بھی لے کر آیا ہے؟‘‘(٤٠: ٢٨) (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب فضل ابی بکر بعدالنبی کتاب التفسیر سورۃ مومن) اور سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کی روایت میں مزید تفصیل یہ ہے کہ جب عقبہ نے آپ کی گردن میں چادر ڈال کر زور سے گھونٹا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چیخ نکل گئی کہ ’’اپنے ساتھی کو بچاؤ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ چیخ سن کر ہی سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کے لیے آئے تھے اور جب سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عقبہ کو دھکیل کر پرے ہٹا دیا تو مشرکین سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پر حملہ آور ہوئے اور جب وہ واپس لوٹے تو ان کی اپنی یہ کیفیت تھی کہ ہم ان کی چوٹی کا جو بال بھی چھوتے تھے وہ ہماری چٹکی کے ساتھ چلا آتا تھا۔ (مختصر سیرۃ الرسول ص ١٣ بحوالہ الرحیق المختوم ٨ ص ١٥٣) ٤۔ سیدنا عمر کا اسلام لانے سے قبل آپ کو قتل کرنے کا ارادہ : ایک دفعہ مشرکین مکہ کعبہ میں بیٹھ کر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی افتاد سے نجات حاصل کرنے کے سلسلہ میں غور و فکر کر رہے تھے۔ سیدنا عمر جوش میں آ کر کہنے لگے کہ میں ابھی جا کر یہ جھنجھٹ ختم کیے دیتا ہوں اور ننگی تلوار لے کر اس ارادہ سے نکل کھڑے ہوئے راہ میں ایک مسلمان نعیم بن عبداللہ ملے اور پوچھا ’’عمر! آج کیا ارادے ہیں؟‘‘ کہنے لگے ’’تمہارے پیغمبر کا کام تمام کرنے جارہا ہوں‘‘ نعیم رضی اللہ عنہ کہنے لگے ’’پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو۔ تمہاری بہن اور بہنوئی دونوں مسلمان ہوچکے ہیں۔‘‘ سیدنا عمر نے اسی غصہ کی حالت میں ان کے گھر کا رخ کیا۔ دروازہ بند تھا۔ اندر سے قرآن پڑھنے کی آواز آ رہی تھی اور خباب بن الارت رضی اللہ عنہ انہیں قرآن کی تعلیم دے رہے تھے۔ سیدنا عمر نے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا۔ انہوں نے دروازہ کھولا تو سیدنا عمر نے اپنے بہنوئی کو بے تحاشہ پیٹنا شروع کردیا۔ ان کی بہن فاطمہ آڑے آئیں تو انہیں بھی لہولہان کردیا۔ فاطمہ کہنے لگیں ’’عمر! تم ہمیں مار بھی ڈالو تب بھی ہم اسلام کو چھوڑ نہیں سکتے۔‘‘ بہن کی اس بات پر آپ کا دل پسیج گیا۔ کہنے لگے اچھا مجھے بھی یہ کلام سناؤ۔ قرآن نے مزید دل کو متاثر کیا اور آپ کے دل کی دنیا ہی بدل گئی۔ وہاں سے اٹھے اور سیدھے دارارقم کی طرف ہو لیے۔ تلوار اسی طرح ہاتھ میں تھی مگر اب ارادہ یکسر بدل چکا تھا۔ دارارقم پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا۔ مسلمانوں نے دراڑ سے دیکھا کہ عمر ننگی تلوار لیے دروازہ پر کھڑے ہیں۔ مسلمان سہم سے گئے۔ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ بھی وہاں موجود تھے کہنے لگے، دروازہ کھول دو۔ اگر عمر کسی برے ارادہ سے آیا ہے تو اسی کی تلوار سے اس کا سر قلم کر دوں گا۔ دروازہ کھولا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود آگے بڑھے اور عمر کا دامن کھینچ کر پوچھا’’عمر کس ارادہ سے آئے ہو؟‘‘ سیدنا عمر نے بڑے ادب سے کہا ’’اسلام لانے کے لیے حاضر ہوا ہوں‘‘ چنانچہ سب کے سامنے آپ نے کلمہ شہادت پڑھا جس پر سب مسلمانوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔ گویا سیدنا عمر کا ارادہ قتل ہی آپ کے اسلام لانے کا سبب بن گیا۔ (سیرۃ النبی شبلی نعمانی ج ١ ص ٢٢٨ بحوالہ طبقات ابن سعد و ابن عساکر و کامل لابن الاثیر) ٥۔ قتل کے ارادہ سے ابو طالب سے سودا بازی : جب قریشی سرداروں کو یقین ہوگیا کہ ابو طالب اپنے بھتیجے کی حمایت سے کسی صورت بھی دستبردار ہونے کو تیار نہیں تو انہوں نے ایک نہایت گھناؤنی سازش سے ابو طالب کو فریب دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سکیم تیار کی۔ چند قریشی سردار مکہ کے رئیس اعظم ولید بن مغیرہ کے بیٹے عمارہ کو ہمراہ لے کر ابو طالب کے پاس آئے اور کہا’’یہ قریش کا سب سے بانکا اور خوبصورت نوجوان ہے آپ اسے اپنی کفالت میں لے لیں اور اپنا متبنیٰ بنا لیں۔ اس کی دیت اور نصرت کے آپ حقدار ہوں گے اور اس کے عوض آپ اپنے بھتیجے کو ہمارے حوالہ کردیں جو ہمارے آباؤ اجداد کے دین کا مخالف ہے اور انہیں احمق قرار دیتا ہے اور قوم کا شیرازہ منتشر کر رہا ہے ہم اسے قتل کرنا چاہتے ہیں اور یہ ایک آدمی کے بدلے ایک آدمی کا حساب ہے۔‘‘ ابو طالب کہنے لگے۔ ’’واللہ ! یہ کتنا برا سودا ہے جس کی تم مجھے ترغیب دینے آئے ہو۔ تم چاہتے ہو کہ میں تو تمہارے بیٹے کو کھلاؤں پلاؤں اور پالوں پوسوں اور اس کے عوض تم میرا بیٹا مجھ سے لے کر اسے قتل کر دو۔ واللہ ! یہ ناممکن ہے۔‘‘ اس پر مطعم بن عدی ابو طالب سے کہنے لگا ’’بخدا! تم سے تمہاری قوم نے انصاف کی بات کہی ہے۔ مگر تم تو کسی بات کو قبول ہی نہیں کرتے۔‘‘ ابو طالب کہنے لگے ’’بخدا! یہ انصاف کی بات نہیں ہے بلکہ مجھے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ تم بھی میرا ساتھ چھوڑ کر مخالفوں سے مل گئے ہو۔ اگر ایسی ہی بات ہے تو ٹھیک ہے جو چاہو کرو۔ ‘‘ (ابن ہشام ١ : ٢٦٦، ٢٦٧ بحوالہ الرحیق المختوم ص ١٤٥) ابو طالب کے اس جواب سے مایوس ہو کر قریش کا یہ مجمع منتشر ہو کر چلا گیا۔ ٦۔ وہ مشورہ قتل جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کا سبب بنا : یہ واقعہ سورۃ انفال کی آیت نمبر ٣٠ میں مذکور ہے اور حاشیہ میں اس کی پوری تفصیل آ گئی ہے وہاں سے ملاحظہ کرلیا جائے۔ مختصراً یہ کہ اس مجلس مشاورت میں ابلیس خود بھی شامل ہوا تھا اور بالآخر طے یہ پایا تھا کہ مختلف قبائل کے گیارہ آدمی فلاں رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کیے رہیں اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم علی الصبح گھر سے نکلیں تو سب آدمی یکبارگی حملہ کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام تمام کردیں۔ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکوں کی اس سازش کی اطلاع بھی دے دی۔ اور ہجرت کی اجازت بھی دے دی۔ چنانچہ نہایت خفیہ طور پر ہجرت کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان مشرکین و کفار کے شر سے بال بال بچ گئے۔ اور کافروں کا یہ منصوبہ بھی بری طرح ناکام ہوگیا۔ ٧۔ ہجرت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گرفتاری یا قتل پر سو اونٹ انعام کی پیش کش : اس بھاری انعام کے لالچ میں لوگ فرداً فرداً بھی اور ٹولیاں بن کر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش اور تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے اور ایک گروہ تو نقوش پا کا سراغ لگاتے لگاتے غار ثور کے دھانہ تک پہنچ بھی گیا۔ یہ لوگ غار کے منہ کے اس قدر قریب ہوگئے تھے کہ اگر وہ اپنے پاؤں کی طرف دیکھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پر نظر پڑ سکتی تھی۔ اس موقعہ پر بھی صبر و استقامت کے اس پیکر اعظم میں ذرہ بھر بھی لغزش نہ آئی۔ اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا ’’غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ (٩ : ٤٠) یہ واقعہ بھی سورۃ توبہ آیت نمبر ٤٠ میں مذکور ہے وہاں حاشیہ دیکھ لیا جائے۔ انفرادی تعاقب کرنے والوں میں سراقہ بن مالک کا واقعہ خاص طور پر قابل ذکر ہے جو فی الواقع آپ کے سر پر جا پہنچا تھا مگر اس کے گھوڑے نے یک لخت ٹھوکر کھائی تو وہ گر پڑا۔ پھر سوار ہوا تو پھر گھوڑے نے دوسری بار ٹھوکر کھائی۔ پھر گرا۔ پھر سوار ہوا تو گھوڑے نے تیسری بار ٹھوکر کھائی۔ اب وہ سمجھ گیا کہ اس کی خیر اسی میں ہے کہ وہ ان کے قریب تک نہ جائے۔ رسول اللہ نے مڑ کر جو سراقہ کو دیکھا تو دعا کی 'اے اللہ اسے گرا دے' چنانچہ اس کا گھوڑا گھٹنوں تک زمین میں دھنس گیا۔ (بخاری۔ کتاب الانبیائ۔ باب ہجرۃ النبی واصحابہ الی المدینۃ) مزید تفصیل سورۃ توبہ کی آیت نمبر ٤٠ کے حاشیہ یعنی واقعہ ہجرت میں آئے گی۔ ٨۔ عمیر بن وہب جمحی کا ارادہ قتل ٢ ھ: عمیر بھی آپ کے صف اول کے دشمنوں میں سے تھا۔ جنگ بدر میں اس کا بیٹا گرفتار ہو کر مسلمانوں کی قید میں چلا گیا تو یہ شخص غصہ سے بے تاب ہوگیا اور انتقام لینے کا تہیہ کرلیا۔ ایک دن عمیر نے حطیم میں بیٹھ کر صفوان بن امیہ کے سامنے بدر کے کنوئیں میں پھینکے جانے والے مقتولین کا ذکر کیا تو صفوان کہنے لگا ’’واللہ ! اب تو جینے کا کچھ مزا نہیں‘‘عمیر کہنے لگا ’’اگر میرے سر پر قرض نہ ہوتا اور میرے اہل و عیال نہ ہوتے تو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جا کر اسے قتل کر ڈالتا۔‘‘ صفوان کہنے لگا ’’تمہارے قرض کی ادائیگی میرے ذمہ رہی اور بال بچوں کی نگہداشت بھی۔ اگر میرے پاس کچھ کھانے کو ہوگا تو انہیں بھی ضرور ملے گا۔‘‘ عمیر نے کہا ’’ٹھیک ہے مگر اب اس بات کو اپنی ذات تک محدود رکھنا۔‘‘ اور صفوان نے اس بات کا اقرار کرلیا۔ اب عمیر نے اپنی تلوار کو زہر آلود کرایا اور مدینہ جا کر مسجد نبوی میں پہنچ گیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو اطلاع دی کہ آپ کا دشمن عمیر بن وہب گلے میں تلوار حمائل کیے آیا ہے اور آپ سے ملاقات کی اجازت چاہتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اسے آنے دو‘‘ تاہم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ازراہ احتیاط اس کی تلوار کا پر تلا لپیٹ کر پکڑ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا ’’اس کی تلوار کو چھوڑ دو‘‘ پھر عمیر سے پوچھا ’’بتاؤ کیسے آنا ہوا ؟‘‘ عمیر کہنے لگا ’’میرا بیٹا آپ کی قید میں ہے آپ احسان فرما دیجئے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر یہی بات ہے تو پھر تلوار کیوں حمائل کر رکھی ہے۔‘‘ کہنے لگا ’’یہ تلواریں بھلا پہلے کس کام آئیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ٹھیک ٹھیک بات بتاؤ۔ ادھر ادھر کی مت ہانکو۔ ‘‘ اور جب عمیر نے پھر وہی پہلی بات دہرا دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بات یوں نہیں۔ بلکہ تم مجھے قتل کرنے کے ارادہ سے آئے ہو۔ تم نے اور صفوان بن امیہ نے حطیم میں بیٹھ کر یہ مشورہ کیا۔ صفوان نے تمہارے قرض اور بال بچوں کی نگہداشت کی ذمہ داری قبول کی اور تم مجھے قتل کرنے یہاں آ گئے۔ لیکن یاد رکھو اللہ میرے اور تمہارے درمیان حائل ہے۔‘‘ عمیر نے خیال کیا کہ یہ معاملہ ایسا تھا جس کا صفوان کے علاوہ کسی کو بھی علم نہ تھا اسے کس نے بتایا ؟ یقیناً یہ نبی ہی ہوسکتا ہے اور ہم ہی غلطی پر ہیں۔ اس خیال کے آتے ہی اس نے آپ کے سامنے کلمہ شہادت کا اقرار کیا اور مسلمان ہوگیا۔ آپ نے صحابہ سے فرمایا : اپنے بھائی کو دین سمجھاؤ، قرآن پڑھاؤ اور اس کے بیٹے کو آزاد کر دو۔ ‘‘ ادھر صفوان نے مکہ میں مشہور کر رکھا تھا کہ میں عنقریب تم لوگوں کو ایک خوشخبری سناؤں گا مگر اس کے بجائے جب اسے عمیر کے مسلمان ہوجانے کی اطلاع ملی تو غصہ سے جل بھن گیا اور اس نے قسم کھالی کہ آئندہ عمیر سے بات تک نہ کروں گا اور نہ ہی اسے کسی قسم کا نفع پہنچاؤں گا۔ عمیر اسلام سیکھ کر چند دن بعد مکہ آیا۔ اور یہاں آ کر دعوت کا کام شروع کردیا اور اس کے ذریعہ بہت سے لوگ مسلمان ہوئے۔ (ابن ہشام ١ : ٦٦١ تا ٦٦٣ بحوالہ الرحیق المختوم ص ٣٧٢) (٩) یہود کا منصوبہ قتل ٤ ھ: بئر معونہ کے واقعہ نے ایک دفعہ پھر غزوہ احد کے چرکہ کی یاد تازہ کردی۔ ستر قاریوں میں سے صرف عمرو بن امیہ ضمری بچے جنہیں کافروں نے گرفتار کرلیا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ غزوۃ الرجیع و بئرمعونہ) مگر آپ ان کی قید سے نکل بھاگے اور مدینہ پہنچ کر اس دردناک واقعہ کی آپ کو اطلاع دی۔ راستہ میں عمرو بن امیہ نے غلطی سے دو آدمیوں کو دشمن سمجھ کر ان کا صفایا کردیا حالانکہ وہ معاہد تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ کو بہت دکھ ہوا اور فرمایا کہ’’اب ہمیں ان دو آدمیوں کی دیت ادا کرنا ہوگی۔‘‘ چنانچہ اس رقم کی فراہمی میں مشغول ہوگئے۔ میثاق مدینہ کی رو سے یہود بھی اس طرح کی دیت میں برابر کے شریک قرار دیئے گئے تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چند صحابہ کو ساتھ لے کر بنو نضیر کے ہاں تشریف لے گئے۔ ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مکان کے صحن میں بٹھایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے اور یہود وہاں سے اس بہانہ سے اٹھ کر چلے آئے کہ ہم جا کر رقم اکٹھی کرتے ہیں۔ وہاں سے باہر آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کے مشورے ہونے لگے۔ ایک یہودی کہنے لگا ’’کون ہے جو مکان کی چھت پر جا کر اوپر سے چکی کا پاٹ گرا کر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر گرا کر اسے کچل ڈالے؟‘‘ ایک دوسرا بدبخت فوراً اس کام کے لیے تیار ہوگیا۔ ان لوگوں کے اس ارادہ کی آپ کو بذریعہ وحی خبر ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوراً وہاں سے اٹھے اور مسجد کی طرف روانہ ہوگئے۔ صحابہ کو بھی آپ نے راہ ہی میں یہود کے اس مذموم ارادہ سے مطلع فرمایا۔ یہود کی یہی غداری غزوہ بنو نضیر کا فوری سبب بن گئی اور بالآخر انہیں جلاوطن ہونا پڑا۔ (الرحیق المختوم ص ٤٦٢) (١٠) ثمامہ بن اثال کا ارادہ قتل ٦ ھ : سنہ ٦ ہجری میں مسلمانوں کا ایک چھوٹا سا لشکر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کی سر کردگی میں یمنی قبیلوں کی سیاسی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا گیا۔ یہ لشکر قبیلہ بنو حنیفہ کے سردار ثمامہ بن اثال حنفی کو گرفتار کر کے مدینہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا۔ ثمامہ مسیلمہ کذاب کے حکم سے بھیس بدل کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے ارادہ سے نکلا تھا کہ مسلمانوں کے اس لشکر کے ہتھے چڑھ گیا اور مسلمانوں نے اسے گرفتار کرلیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھ دینے کا حکم دیا اور پوچھا ’’ثمامہ! کیا صورت حال ہے؟‘‘ ثمامہ کہنے لگا ’’اگر مجھے قتل کر دو گے تو میرا قصاص لیا جائے گا اور اگر معاف کر دو گے تو ایک قدردان کو معاف کرو گے اور مال چاہتے ہو تو جتنا چاہو مل جائے گا۔‘‘ آپ ثمامہ کا یہ جواب سن کر واپس چلے گئے اور کوئی جواب نہ دیا۔ دوسرے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر تشریف لائے اور وہی پہلا سا سوال کیا۔ جواب میں ثمامہ نے بھی وہی پہلی باتیں دہرا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس چلے آئے اور کوئی جواب نہ دیا۔ تیسرے دن پھر ایسا ہی سوال و جواب ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثمامہ کا وہی پہلا جواب سن کر صحابہ سے فرمایا کہ ’’اسے رہا کر دو۔ ‘‘ رہائی کے بعد ثمامہ نے ایک باغ میں جا کر غسل کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آ کر اسلام قبول کرلیا۔ اور کہنے لگا ’’واللہ ! آج سے پہلے مجھے آپ کا چہرہ سب سے زیادہ ناپسند تھا مگر آج سب سے زیادہ محبوب ہے اور آپ کا دین سب ادیان سے زیادہ ناپسند تھا مگر آج یہی دین سب سے زیادہ محبوب ہے میں عمرہ کا ارادہ کر رہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے مجھے پکڑ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بشارت دی اور عمرہ کرنے کی ہدایت فرمائی۔ چنانچہ جب ثمامہ عمرہ کرنے کی غرض سے مکہ آئے تو مشرکین مکہ کہنے لگے ’’ثمامہ بےدین ہوگیا ہے‘‘ ثمامہ نے کہا ’’نہیں بلکہ میں تو مسلمان ہوا ہوں اور دیکھو! آئندہ تمہیں یمن سے گندم کا ایک دانہ بھی نہ پہنچے گا تاآنکہ رسول اللہ مجھے اس بات کا حکم نہ دیں۔‘‘ چنانچہ بعد میں واقعتاً بھی یہی کچھ ہوا۔ ثمامہ بن اثال کا واقعہ صحیحین میں کئی مقامات پر مذکور ہے مگر ان میں یہ صراحت نہیں کہ ثمامہ جب گرفتار ہوئے تو اس وقت مسیلمہ کذاب کے حکم کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کے ارادہ سے نکلے تھے اس بات کی وضاحت سیرۃ طیبہ میں موجود ہے (سیرۃ طیبہ ٢ : ٢٩٧ بحوالہ الرحیق المختوم ص ٥٠٦) ١١۔ زہر آلود بکری کے گوشت سے آپ کے قتل کی یہودی سازش ٧ ھ : خیبر کے فتح ہونے اور یہود سے مزارعت کا معاملہ طے ہوجانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند دن خیبر میں قیام فرمایا۔ غدار اور مکار شکست خوردہ یہود نے ان ایام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہلاک کرنے کی ایک سازش تیار کی۔ سلام بن مشکم کی بیوی کو، جو یہودی سردار مرحب کی بیٹی تھی، اس کام کے لیے آلہ کار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ زینب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت کا پیغام بھیجا جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازراہ کرم قبول کرلیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیا گیا کہ آپ کون سا گوشت کھانا پسند فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا 'دستی کا'اس دعوت میں آپ چند صحابہ سمیت وقت معینہ پر پہنچ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا شروع کیا تو پہلا نوالہ منہ میں ڈالتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر کا اثر محسوس ہونے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ لیکن سیدنا بشر رضی اللہ عنہ بن براء نے چند ایک لقمے کھا لیے تھے لہٰذا وہ اس زہر کے اثر سے ایک دو دن بعد شہید ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب کو بلا کر پوچھا تو اس نے اعتراف جرم کرلیا اور یہ بھی بتا دیا کہ اس سازش میں پوری یہودی قوم شریک تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں سے پوچھا کہ ’’تم نے یہ کام کیوں کیا ؟‘‘ وہ کہنے لگے کہ ’’ہمارا خیال تھا کہ اگر آپ سچے نبی ہیں تو آپ پر زہر اثر نہیں کرے گا اور اگر جھوٹے ہیں تو ہمیں آپ سے نجات مل جائے گی۔‘‘ (بخاری کتاب الطب۔ باب مایذکر فی سم النبی۔۔) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے تو زینب اور یہود کو معاف فرما دیا لیکن سیدنا بشر رضی اللہ عنہ کے قصاص میں زینب کے قتل کا حکم دے دیا۔ (ابن ہشام ٢ : ٢٣٥ تا ٢٣٧ بحوالہ الرحیق المختوم ص ٥٩٨) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرض الموت میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا ' عائشہ رضی اللہ عنہا ! اب مجھے معلوم ہوا کہ جو لقمہ میں نے خیبر میں کھایا تھا اس کے زہر کے اثر سے میری رگ جان کٹ گئی (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب مرض النبی۔۔) ١٢۔ خسرو پرویز شاہ ایران کا ارادہ قتل ٧ ھ : صلح حدیبیہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہان عجم کے نام دعوت نامے بھیجے۔ شاہ ایران کو جب یہ دعوت نامہ پہنچا تو غصہ سے خط پھاڑ دیا اور کہنے لگا : ’’میرا غلام ہو کر ایسا خط لکھتا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ ’’اے اللہ ان لوگوں کو بھی ہلاک کر دے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب کتاب النبی الی کسریٰ و قیصر) پھر اس نے حاکم یمن باذان کو حکم بھیجا کہ وہ کسی آدمی کو بھیج کر اس مدعی نبوت کو گرفتار کرکے ہمارے حضور پیش کرے۔ باذان نے دو آدمی اس غرض سے مدینہ بھیجے۔ انہوں نے مدینہ پہنچ کر عرض کی کہ ’’شہنشاہ عالم کسریٰ نے تم کو بلایا ہے اگر اس کے حکم کی تعمیل نہ کرو گے تو وہ تمہیں اور تمہارے ملک کو تباہ و برباد کر دے گا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا’’اچھا تم کل آنا۔‘‘ دوسرے دن جب وہ حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تمہارے شہنشاہ عالم کو آج رات اس کے بیٹے نے قتل کر ڈالا ہے۔ تم واپس چلے جاؤ اور اسے کہہ دینا کہ اسلام کی حکومت ایران کے پایہ تخت تک پہنچے گی۔‘‘ وہ آدمی جب یمن واپس آئے تو خسرو کے قتل کی خبر وہاں پہنچ چکی تھی۔ یہ ماجرا دیکھ کر وہ لوگ مسلمان ہوگئے۔ (سیرۃ النبی۔ شبلی نعمانی ج ١ ص ٤٨٢) ١٣۔ جادو کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہلاک کرنے کی یہودی سازش : زہر آلود بکری کے گوشت کے واقعہ کے بعد یہود نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہلاک کرنے کا ایک نیا منصوبہ بنایا۔ اپنے حلیف لبید بن اعصم سے جو بڑا ماہر جادوگر تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسا خطرناک جادو کرنے کی درخواست کی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جلد از جلد ہلاک کر ڈالے۔ لبید نے اس سلسلہ میں اپنی دو لڑکیوں کو ذریعہ بنایا جنہوں نے کسی نہ کسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے کچھ بال حاصل کرلیے۔ ان بالوں پر منتر پڑھے گئے پھر ان میں گانٹھیں دے کر پھونکیں ماری گئیں۔ پھر انہیں کھجوروں کے خوشوں کے غلاف میں چھپا کر ذروان نامی کنوئیں کی تہہ میں ایک پتھر کے نیچے دبا دیا گیا۔ یہ جادو اتنا تیز اور سخت تھا کہ اس کے اثر سے اس کنوئیں کے پانی کا رنگ اتنا سرخ اور خونی ہوگیا جیسے اس میں مہندی ڈال دی گئی ہو اور اس کنوئیں پر واقع درختوں کے خوشے یوں لگتے تھے جیسے سانپوں کے پھن ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں فرشتے بھیج کر اس کی حقیقت بتلا دی اور اس طرح اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس شر سے بھی محفوظ کرلیا۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے بخاری۔ کتاب بدء الخلق باب صفۃ ابلیس و جنودہ۔ نیز کتاب الادب۔ باب ( اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ 90؀) 16۔ النحل :90) اور سورۃ فلق کا حاشیہ نمبر ٥ ١٤۔ دشمن قبیلہ کے ایک بدوی کا ارادہ قتل : غزوہ ذات الرقاع سے واپسی پر اسلامی لشکر نے ایک مقام پر پڑاؤ کیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم الگ الگ درختوں کے نیچے آرام کرنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک درخت کے نیچے جا بیٹھے تلوار درخت سے لٹکائی اور لیٹتے ہی نیند غالب آ گئی۔ اتنے میں دشمن قبیلہ کا ایک بدو وہاں پہنچ گیا۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے لیے اس موقعہ کو نہایت غنیمت سمجھا اور بڑھ کر تلوار درخت سے اتارنے لگا۔ وہ تلوار کو اتار ہی رہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جاگ آ گئی۔ بدو تلوار ہاتھ میں پکڑ کر کہنے لگا۔ ’’اب بتلاؤ! تمہیں مجھ سے کون بچا سکتا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت اطمینان سے جواب دیا ’’میرا اللہ ‘‘ یہ الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قدر بے باکی سے کہے کہ بدو سخت مرعوب ہوگیا اور کانپنے لگا۔ تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تلوار سنبھال لی۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر قابو پا لیا تو صحابہ کو بلا کر اس ماجرا سے آگاہ کیا۔ بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بدو کو معاف کردیا۔ (بخاری۔ کتاب الجہاد، باب من علق سیفہ بالشجرۃ فی السفر عند القائلۃ) واضح رہے کہ یہ بدوی اسی قبیلہ سے تھا جس کی سرکوبی کے لیے آپ نکلے ہوئے تھے۔ ١٥۔ فضالہ بن عمیر کا ارادہ قتل ٨ ھ : یہ فضالہ اسی عمیر بن وہب کا بیٹا تھا جو صفوان بن امیہ سے مشورہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے لیے مدینہ پہنچا تھا اور نتیجتاً اسلام لا کر واپس مکہ جا کر مقیم ہوگیا تھا۔ اس کا بیٹا فضالہ ابھی تک مشرک ہی تھا۔ فتح مکہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کا طواف فرما رہے تھے کہ فضالہ کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سوجھی۔ جب وہ اس ارادہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اسے اس کے ارادہ سے مطلع کردیا۔ جس پر وہ اپنے باپ کی طرح مسلمان ہوگیا (الرحیق المختوم ص ٦٤٨) ١٦۔ منافقوں کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی سازش ٩ ھ : غزوہ تبوک سے واپسی پر تقریباً چودہ یا پندرہ منافقوں نے یہ سازش تیار کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کھلے راستہ کے بجائے گھاٹی والے راستہ کی طرف رہنمائی کی جائے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پہنچ جائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سواری سے اٹھا کر نیچے گھاٹی میں پھینک کر ہلاک کردیا جائے اسی سازش کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کو اس راہ پر ڈال دیا گیا۔ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ جب گھاٹی قریب آنے کو تھی تو چند منافق منہ پر ڈھاٹے باندھے رات کی تاریکی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھنے لگے۔ دریں اثنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعہ منافقوں کے اس مذموم ارادہ کی اطلاع مل گئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ ان منافقوں کی سواریوں کے چہروں پر مار مار کر انہیں تتر بتر کردیں۔ اس کام سے منافقوں کو بھی شبہ ہوگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مذموم ارادہ سے مطلع ہوچکے ہیں۔ لہٰذا اب انہیں اپنی جانیں بچانے کی فکر دامن گیر ہوئی اور انہوں نے راہ فرار اختیار کی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے منافقوں کا یہ منصوبہ قتل بھی ناکام بنا دیا۔ (الرحیق المختوم ص ٦٨٦) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو ان منافقوں کے نام معہ ولدیت بتلا دیئے تھے اور سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ ان کو پہنچانتے بھی تھے۔ تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ ہدایت کردی تھی کہ عام مسلمانوں میں انہیں مشہور نہ کیا جائے۔ یہ سازشی منافق بعد میں اہل عقبہ کے نام سے مشہور ہوئے اور ان کا ذکر مسلم، کتاب صفۃ المنافقین میں بھی مجملاً مذکور ہے۔ نیز دیکھئے (سورہ حجرات کا حاشیہ نمبر ٣٤) ١٧۔ عامر بن طفیل اور اربد کی سازش قتل ١٠ ھ : ١٠ ھ میں مدینہ میں جو وفود آئے ان میں سے ایک وفد عامر بن صعصعہ کا بھی تھا۔ یہ وفد رشد و ہدایت کی غرض سے نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے ناپاک ارادہ سے آیا تھا۔ ایک وفد میں ایک تو عامر بن طفیل تھا اور یہ وہی شخص ہے جس نے فریب کاری سے بئرمعونہ کے ستر قاریوں کو شہید کردیا تھا۔ دوسرا اربد بن قیس۔ تیسرا خالد بن جعفر اور چوتھا جبار بن اسلم تھا۔ یہ سب کے سب قوم کے سردار اور شیطان صفت انسان تھے۔ عامر اور اربد نے راستہ ہی میں یہ سازش تیار کی کہ دھوکہ دے کر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کردیں گے چنانچہ جب یہ وفد مدینہ پہنچا تو عامر نے گفتگو کا آغاز کیا تاکہ آپ کو دھیان لگائے رکھے۔ اتنے میں اربد گھوم کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پہنچ گیا۔ وہ میان سے تلوار نکال ہی رہا تھا کہ اللہ نے اس کے ہاتھ کی حرکت بند کردی اور وہ اسے بے نیام بھی نہ کرسکا اور ان کی یہ سازش دھری کی دھری رہ گئی اور ان کے عزائم طشت ازبام ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں پر بددعا کی۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔ چنانچہ واپسی پر اربد اور اس کے اونٹ پر بجلی گری جس سے وہ جل کر مر گیا۔ رہا عامر تو واپسی کے سفر کے دوران اس کی گردن پر ایک ایسی گلٹی نکلی جس نے اسے موت سے دوچار کردیا۔ مرتے وقت اس کی زبان پر یہ الفاظ تھے ’’آہ : اونٹ کی گلٹی جیسی گلٹی اور ایک فلاں خاندان کی عورت کے گھر میں موت۔‘‘ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق عامر نے اپنی گفتگو کا جو آغاز کیا وہ یوں تھا ’’میں آپ کو تین باتوں کا اختیار دیتا ہوں۔ (١) دیہاتی آبادی کے حاکم آپ ہوں اور شہری آبادی کا حاکم میں ہوں گا۔ (٢) یا آپ کے بعد آپ کا خلیفہ میں بنوں گا اور (٣) اگر یہ دونوں باتیں نامنظور ہوں تو میں غطفان کے ایک ہزار گھوڑوں اور ایک ہزار گھوڑیوں کو آپ پر چڑھا لاؤں گا (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوۃ الرجیع و رعل و ذکوان) اس واقعہ کے بعد وہ ایک عورت کے گھر میں طاعون کا شکار ہوگیا اور مرتے وقت اس کی زبان پر یہ الفاظ تھے ’’اونٹ کی گلٹی جیسی گلٹی اور وہ بھی بنی فلاں کی ایک عورت کے گھر میں۔ میرے پاس میرا گھوڑا لاؤ۔‘‘ چنانچہ وہ گھوڑے پر سوار ہوا اور اسی حالت میں اسے موت نے آ لیا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوۃ الرجیع و رعل و ذکوان) سو یہ ہے ان قاتلانہ حملوں اور سازشوں کی مختصر داستان جن میں بالخصوص اس محسن اعظم کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کرنے کے منصوبے تیار کیے گئے تھے اس محسن انسانیت کے لیے جو دنیا بھر کے لوگوں کی اصلاح و فلاح کا یکساں درد رکھتا تھا اور اللہ تعالیٰ نے ایسی تمام سازشوں اور حملوں کو ناکام بنا کر ﴿وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ﴾ کا وعدہ پورا کردیا۔ المآئدہ
68 [١١٤] جب اس سے معلوم ہوا کہ دین کی اصل بنیاد صرف کتاب اللہ یا منزل من اللہ وحی ہوتی ہے۔ لہٰذا اپنے ہر عقیدہ اور عمل کو اسی کسوٹی پر پرکھنے سے انسان گمراہی سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ چنانچہ یہود و نصاریٰ دونوں کو مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کہ تم عقائد و اعمال کو اللہ کی نازل کردہ کتاب پر پیش کر کے خود ہی فیصلہ کرلو کہ تم اس پر ایمان لانے کے دعویٰ میں کس حد تک سچے ہو۔ [١١٥] دیکھئے اسی سورۃ کی آیت نمبر ٦٤ کا حاشیہ نمبر ١٠٦ المآئدہ
69 [١١٦] دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں رائج ادیان کا مختصر تعارف :۔ اس آیت کی ابتدا میں ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ سے بعض علماء نے منافقین کا گروہ مراد لیا ہے۔ تاہم اس سے وہ مسلمان بھی مراد لیے جا سکتے ہیں جو اپنے ایمان و عمل میں راسخ نہیں ہیں۔ دوسرے مخاطب یہود ہیں۔ یہود پر ایک وقت ایسا آ چکا تھا جب اللہ تعالیٰ نے انہیں تمام اقوام عالم پر فضیلت دے رکھی تھی۔ اور ہر قسم کے انعامات اور برکات سے انہیں نوازا تھا جس سے ان کے دل میں یہ زعم پیدا ہوگیا تھا کہ ہم چونکہ انبیاء کی اولاد ہیں لہٰذا اللہ کے چہیتے ہیں اور ہم کو دوزخ کا عذاب کسی صورت میں بھی نہیں ہوگا۔ اور اس سے بڑھ کر یہ غلط فہمی پیدا ہوگئی تھی کہ اخروی نجات کے واحد حقدار صرف یہودی ہیں ان کے علاوہ جتنے بھی لوگ ہیں سب دوزخ کا ایندھن بنیں گے۔ تیسرے مخاطب صابی ہیں جن کو عام طور پر 'بے دین لوگ' سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ ان کا اپنا بھی ایک دین تھا جو یہ تھا کہ اللہ تک رسائی کے لیے وہ کسی پیغمبر کی ضرورت نہیں سمجھتے تھے۔ اور وہ اپنے آپ کو سیدنا نوح علیہ السلام سے منسوب کرتے تھے۔ وہ نجوم و کواکب اور ارواح کی عبادت کرتے۔ انہیں ارواح کو اللہ تک رسائی کا ذریعہ یا وسیلہ قرار دیتے اور انہیں کے لیے قربانی اور نذر و نیاز دیتے تھے۔ چوتھے مخاطب نصاریٰ یا عیسائی تھے جو کفارہ مسیح کے عقیدہ کے قائل تھے اور اس لحاظ سے اپنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اخروی نجات کا واحد حقدار سمجھتے تھے۔ ان چار گروہوں کا نام اس لیے لیا گیا ہے کہ اس دور میں عرب میں یہی چار مشہور گروہ تھے جو کسی نہ کسی رنگ میں اخروی زندگی کے قائل تھے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ تنبیہہ فرمائی کہ نجات اخروی کا دار و مدار نہ خاص فرقہ سے منسلک ہونے میں ہے، نہ حسب و نسب میں اور نہ انبیاء کی اولاد ہونے میں ہے بلکہ اس کا دار و مدار سچے دل سے محمد رسول اللہ اور آپ پر نازل شدہ کتاب پر اور صحیح معنوں میں روز جزا و سزا پر ایمان لانے اور اس کے بعد انہیں عقائد کے مطابق اعمال صالحہ کے بجا لانے میں ہے ان سب فرقوں میں سے جو کوئی یہ کام کرے گا۔ اخروی آلام و مصائب اور عذاب سے نجات صرف اسے ہی حاصل ہوگی۔ انہیں نہ کسی آنے والے خطرہ کا خوف ہوگا اور نہ اپنی گزشتہ دنیوی زندگی کے متعلق کچھ غم ہوگا۔ المآئدہ
70 [١١٧] اخروی نجات کے حقدار کون؟ بنی اسرائیل کی ایسی کرتوتوں کا ذکر قرآن میں کئی مقامات پر آیا ہے اور اس میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان کا دین صرف اپنی خواہشات کی پیروی تھا۔ کتاب اللہ میں سے ایسی چیزوں کی پیروی کرلینا جو ان کی خواہشات کے مطابق ہوں اور جو باتیں خواہشات کے خلاف ہوں ان میں عصیان و سرکشی کی راہ اختیار کر جانا دراصل کتاب اللہ کی پیروی نہیں بلکہ اپنی خواہشات ہی کی پیروی ہوتی ہے اور یہی کچھ وہ کیا کرتے تھے اور اس خواہش نفس کی پیروی میں وہ اس حد تک بڑھے ہوئے تھے اور انبیاء کو جھٹلانا تو درکنار، قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔ المآئدہ
71 [١١٨] بخت نصر کے بعد سیدنا زکریا ویحییٰ کو قتل کروانا :۔ انہوں نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم چونکہ انبیاء کی اولاد ہیں لہٰذا ہم جو کچھ کرلیں ہم پر عذاب الٰہی نہیں آ سکتا۔ اس عقیدہ نے انہیں ہر طرح کے جرائم پر دلیر بنا دیا تھا۔ پھر ان پر بخت نصر کی صورت میں قہر الٰہی نازل ہوا۔ جس نے ان کی سلطنت کو تہس نہس کردیا اور بے شمار افراد کو قیدی بنا کر اپنے ساتھ بابل لے گیا۔ مدتوں وہ قید و بند کی سختیاں جھیلتے رہے۔ آخر اللہ کی طرف رجوع کیا تو اللہ نے پھر ان کی خطائیں معاف کردیں اور ملوک فارس کی مدد سے انہیں بخت نصر کی قید سے رہائی ملی۔ پھر جب اللہ نے ان پر مہربانی فرمائی اور عیش و آرام سے زندگی گزارنے لگے تو پھر کفر و عصیان میں پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئے۔ سیدنا زکریا اور سیدنا یحییٰ دونوں کو قتل کردیا اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر چڑھوانے کی مقدور بھر کوشش کی اور بزعم خود انہیں سولی پر چڑھا کے چھوڑا۔ المآئدہ
72 [١١٩] الوہیت مسیح اور سیدنا عیسیٰ کی تعلیم :۔ عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق عیسائیوں کے مختلف فرقوں کے مختلف عقائد ہیں۔ کچھ انہیں عقیدہ تثلیث کا جزو یا تین خداؤں میں کا ایک مانتے ہیں۔ کچھ انہیں اللہ کا بیٹا مانتے ہیں اور کچھ انہیں اللہ ہی سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کے جسم میں اللہ نے حلول کیا اور وہ اللہ ہی کا مظہر تھے۔ ان تینوں اقوال میں جو چیز قدر مشترک ہے وہ الوہیت مسیح کا عقیدہ ہے۔ یعنی سب فرقے انہیں کسی نہ کسی رنگ میں الٰہ مانتے ہیں اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ عیسیٰ علیہ السلام تو خود کہتے تھے کہ’’صرف اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا پروردگار ہے‘‘ یعنی وہ خود اس بات کا اقرار کرتے تھے کہ ’’میں اللہ کی عبادت کرتا ہوں اور اس کا بندہ ہوں‘‘ اب جو شخص کسی کا بندہ ہو، وہ اس کا شریک نہیں ہوسکتا اور جو شریک ہو وہ اس کا بندہ نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا عقل کے ناخن لو اور انہیں اللہ کا شریک بنانے سے باز آجاؤ۔ کیونکہ جو شخص بھی کسی کو اللہ کا شریک بنائے گا اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں جلنا پڑے گا۔ پھر انہیں وہاں نہ عیسیٰ علیہ السلام بچا سکیں گے اور نہ ہی کوئی دوسرا شخص ان کی کسی طرح سے مدد کرسکے گا۔ المآئدہ
73 [١٢٠] عقیدہ تثلیث اور اس کا رد :۔ متی، مرقس اور لوقا کی انجیلوں میں عیسیٰ علیہ السلام کے الٰہ ہونے کی گنجائش نہیں خود عیسیٰ علیہ السلام نے ہمیشہ اپنے آپ کو ایک انسان ہی کی حیثیت سے پیش کیا تھا۔ تثلیث اور الوہیت مسیح کا عقیدہ چوتھی صدی عیسوی میں رائج ہوا۔ اس عقیدہ کی بنیاد تو یونانی فلسفہ کے افکار و نظریات پر اٹھائی گئی تھی جیسا کہ آج کل بعض مسلمان بھی اسی فلسفہ کے مسئلہ عقول عشرہ پر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کے نور کا حصہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسے نظریات عموماً پیروں فقیروں میں فروغ پاتے ہیں۔ انبیاء کے متعلق ایسے نظریات عموماً ان کی عقیدت و محبت میں افراط کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں جو انسان کو اللہ کے مقام تک جا پہنچاتے ہیں یہ صریح شرک ہے اور اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو کہیں کافر فرمایا ہے اور کہیں مشرک۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے پیشتر جو نہایت اہم وصیتیں اپنی امت کو کی تھیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ ’’مجھے ایسا نہ بڑھانا جیسے نصاریٰ نے عیسیٰ ابن مریم کو بڑھایا تھا۔ میں تو بس اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الانبیائ۔ باب قول اللہ واذکر فی الکتاب مریم ) المآئدہ
74 المآئدہ
75 [١٢١] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کی الوہیت کی تردید میں تین واضح دلائل پیش فرمائے ہیں جو درج ذیل ہیں : (١) عیسیٰ کی الوہیت کی تردید میں دلائل :۔ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے رسول تھے، اللہ نہیں تھے۔ یہ ناممکن ہے کہ ایک ہی ذات اللہ بھی ہو اور اللہ کا رسول بھی۔ علاوہ ازیں یہ کہ ان سے پہلے کئی رسول انہیں جیسے گزر چکے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان رسولوں کے بعد آئے بالفاظ دیگر وہ حادث تھے قدیم نہ تھے جبکہ اللہ کی ذات قدیم ازلی، ابدی اور حوادث زمانہ یا اس کے تغیرات سے ماوراء ہے لہٰذا جو چیز یا جو ذات حادث ہو وہ الٰہ یا اللہ نہیں ہو سکتی۔ (٢) الوہیت مسیح اور والدہ مسیح کی تردید میں چار دلائل :۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ ’’ان کی ماں راست باز تھی‘‘ اس سے ایک تو یہ بات معلوم ہوئی جو یہودی ان پر زنا کا الزام لگاتے ہیں وہ جھوٹے اور بکواسی ہیں اور دوسرے یہ کہ عیسیٰ علیہ السلام کی ماں بھی تھی جس نے عیسیٰ علیہ السلام کو جنم دیا۔ آپ اس کے پیٹ سے پیدا ہوئے تھے ان کی ماں کو وضع حمل کے وقت ایسی ہی دردیں شروع ہوئیں جو عام عورتوں کو ہوا کرتی ہیں اور عیسیٰ علیہ السلام اسی فطری اور عادی طریقہ سے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے ہیں جیسے عام انسان پیدا ہوتے ہیں۔ لہٰذا عیسیٰ علیہ السلام نہ خود الٰہ ہو سکتے ہیں اور نہ ان کی والدہ کیونکہ اس قسم کی باتیں اللہ کے لیے سزاوار نہیں۔ (٣) تیسری دلیل یہ ہے کہ ’’وہ دونوں کھانا کھاتے تھے‘‘ یعنی وہ اپنی زندگی کو قائم اور باقی رکھنے کے لیے کھانے کے محتاج تھے اور جو خود محتاج ہو وہ الٰہ یا اللہ نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اللہ ہر طرح کی احتیاج سے بے نیاز ہے۔ پھر جو شخص کھانا کھاتا ہے اس کے اندر سے پاخانہ، پیشاب اور گندی ہوا جیسے فضلات اور نجاستوں کا اخراج بھی ہوتا ہے اور یہ سب ایسی نجاستیں ہیں جن سے طہارت لازم آتی ہے۔ پھر اگر یہی کھانا کسی انسان کے اندر جا کر رک جاتا ہے یا کوئی اور خرابی پیدا کردیتا ہے تو انسان بیمار اور پریشان حال ہوجاتا ہے جب تک ایسے عوارضات کا علاج نہ کیا جائے۔ لہٰذا جو شخص کھانا کھاتا ہے وہ اللہ یا الٰہ نہیں ہو سکتا۔ اس لحاظ سے بھی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ دونوں کی الوہیت کا عقیدہ غلط ثابت ہوتا ہے۔ ان عام فہم اور موٹی موٹی باتوں کے باوجود بھی اگر یہ لوگ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو الٰہ سمجھیں تو پھر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ان کی عقل جواب دے گئی ہے۔ واضح رہے کہ جب عقیدہ تثلیث وضع کیا گیا تو اس کے تین ارکان یا عیسائیوں کی اصطلاحی زبان میں تین اقنوم باپ، بیٹا اور روح القدس تھے لیکن کچھ مدت بعد ان میں سے روح القدس کو خارج کر کے اس کی جگہ مریم کو داخل کیا گیا گویا نئے عقیدہ تثلیث کے مطابق اس کے تین اقنوم۔ باپ، بیٹا اور ماں قرار پا گئے۔ المآئدہ
76 [١٢٢] اس آیت میں عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کی الوہیت کی تردید میں چوتھی دلیل بیان کی گئی ہے یعنی وہ دونوں اپنے بھی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے تھے۔ یہود نے انہیں ایذائیں اور دکھ پہنچائے وہ از خود ان کی مدافعت بھی نہ کرسکتے تھے۔ یہود نے سیدہ مریم پر زنا کی تہمت لگائی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی بریت بیان فرمائی اور ان کی معجزانہ پیدائش کو واضح طور پر بیان کیا لیکن یہود پھر بھی باز نہ آئے۔ اور عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی بھر ان کے درپے آزار رہے حتیٰ کہ حکومت سے ساز باز کر کے انہیں سولی پر چڑھوا دیا۔ لیکن یہ دونوں نہ اپنے آپ کی مدافعت کرسکے نہ یہود کا کچھ بگاڑ سکے پھر کیا وہ اللہ یا الٰہ یا الوہیت میں شریک قرار دیئے جا سکتے ہیں؟ المآئدہ
77 [١٢٣] فلسفہ گمراہی؟ یہ لوگ وہی یونانی فلاسفر ہیں جن کے افکار و نظریات سے متاثر ہو کر عیسائیوں کے علماء و مشائخ نے چوتھی صدی عیسوی میں تثلیث کا عقیدہ ایجاد کیا۔ پھر حکومت کی سرپرستی کی بنا پر اس عقیدہ کو فروغ حاصل ہوگیا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فلاسفر قسم کے لوگ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کی گمراہی کا سبب بھی بنتے ہیں۔ مسلمانوں میں غلو کی مثالوں کے لیے (دیکھئے سورۃ فرقان کا حاشیہ نمبر ٢) اور سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’بال کی کھال اتارنے والے (فرقہ پرستی کی بنا پر) تباہ ہوئے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین بار فرمائی۔ (مسلم۔ کتاب العلم۔ باب النہی عن اتباع متشابہ القرآن) المآئدہ
78 [١٢٤] بندر اور خنزیر والے کون لوگ تھے؟ داؤد علیہ السلام کا زمانہ بعثت عیسیٰ علیہ السلام سے کم و بیش ایک ہزار سال پہلے کا ہے اس لیے آیت میں لفظ کفر کا اطلاق صرف اس بات پر نہیں ہوگا کہ بنی اسرائیل جو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان نہیں لائے تھے وہ کافر ہوگئے بلکہ یہاں ان کے کفر سے مراد ان کی نافرمانیاں، عہد شکنیاں اور حدود اللہ سے تجاوز کرنا ہے۔ اور انہیں جرائم کی بنا پر انہیں کافر کہا گیا ہے اور ایسے لوگ زبور میں بھی ملعون قرار دیئے گئے ہیں اور انجیل میں بھی۔ اور یہ اسی لعنت کا اثر تھا کہ ان میں سے کچھ لوگ بندر بنا دیئے گئے تھے اور کچھ خنزیر۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ داؤد علیہ السلام کی بعثت سے قبل ہفتہ کے دن کی بے حرمتی کرنے والے لوگ بندر بنائے گئے تھے اور یہ اسی دور کا واقعہ ہے اور جن لوگوں نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے آسمان سے دستر خوان اترنے کا مطالبہ کیا تھا۔ پھر دسترخوان اترنے کے باوجود بھی ایمان نہ لائے تھے انہیں خنزیر بنایا گیا تھا۔ واللہ اعلم بالصواب۔ بہرحال یہ تو قرآن کریم سے ثابت ہے کہ بنی اسرائیل کے کچھ لوگوں کو بندر اور کچھ لوگوں کو سور بنا دیا گیا تھا اور یہ اسی لعنت کا اثر تھا۔ المآئدہ
79 [١٢٥] برائی سے منع نہ کرنے والوں پر لعنت :۔ کسی معاشرہ میں جب کوئی برائی رواج پاتی ہے تو ابتدا ً چند ہی لوگ اس کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اگر ایسے لوگوں کا بروقت اور سختی سے محاسبہ کیا جائے تو وہ برائی رک بھی جاتی ہے لیکن اگر اس سلسلہ میں نرم گوشہ اختیار کیا جائے تو اس بدی کا ارتکاب کرنے والوں میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور ایک وقت ایسا بھی آ جاتا ہے کہ اس بدی سے بچنے والے لوگ نہ صرف یہ کہ بدی کرنے والوں کو روکتے نہیں، بلکہ ان سے میل ملاپ رکھنے اور شیر و شکر بن کر رہنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے اور بدی عام پھیل جاتی ہے یہی وہ وقت ہوتا ہے جب عذاب الٰہی نازل ہوتا ہے پھر اس عذاب سے نہ بدی کرنے والے بچتے ہیں اور نہ اس بدی سے اجتناب کرنے والے۔ اس آیت میں بتایا یہ گیا ہے کہ جس طرح بدی کا ارتکاب کرنا جرم ہے اسی طرح بدی سے نہ روکنا بھی جرم ہے اور جرم کے لحاظ سے دونوں برابر ہوتے ہیں اور اللہ کی لعنت یا عذاب الٰہی کا اثر اور نقصان دونوں کو یکساں پہنچتا ہے۔ برائی سے منع نہ کرنے والوں کی مثال :۔ ایسے تباہ ہونے والے معاشرہ کی مثال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائی جیسے ’’کچھ لوگوں نے جہاز میں سوار ہونے کے لیے قرعہ ڈالا اور قرعہ کی رو سے کچھ لوگ نچلی منزل میں بیٹھے اور کچھ اوپر والی منزل میں۔ نچلی منزل والوں کو پانی اوپر کی منزل سے حاصل کرنا پڑتا تھا جس سے اوپر کی منزل والے تنگ پڑتے تھے۔ اب نچلی منزل والوں نے اس کا حل یہ سوچا کہ کیوں نہ جہاز کے نچلے تختہ میں سوراخ کر کے پانی نیچے سمندر سے حاصل کرلیا جائے۔ پھر اگر نچلی منزل والے اور اوپر کی منزل والے دونوں مل کر ان سوراخ کرنے والوں کا ہاتھ نہ روکیں گے تو نچلے اور اوپر والے سب غرق ہوجائیں گے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب المظالم۔ ابو اب الشرکۃ ھل یقرع فی القسمۃ) اس حدیث کی رو سے بدی سے نہ روکنے والوں کا جرم بدی کرنے والے سے بھی زیادہ ثابت ہوتا ہے۔ نیز سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا ہے کہ’’جب لوگ ظالم کو دیکھیں اور اس کے ہاتھ نہ پکڑیں تو قریب ہے کہ اللہ کی طرف سے ان پر عام عذاب نازل ہو۔ ‘‘ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر۔ زیر آیت ٥ : ١٠١) المآئدہ
80 [١٢٦] یہود کی مشرکوں سے دوستی :۔ یہاں کافروں سے مراد مشرکین ہیں کیونکہ ان نافرمانوں، حد سے تجاوز کرنے والوں اور بدی سے نہ روکنے والوں کو سابقہ آیت میں پہلے ہی کافر قرار دیا جا چکا ہے اور ایسے یہود کا مشرکین سے دوستی گانٹھنا بھی اسی لعنت کا باطنی اثر تھا جو ان پر کی گئی تھی۔ ظاہری اثر تو یہ ہوا کہ ان کی صورتیں مسخ کر کے انہیں بندر اور سور بنا دیا گیا تھا اور باطنی یہ کہ اللہ پر، اس کے انبیاء پر، اس کی کتاب پر اور روز آخرت پر ایمان رکھنے کے باوجود وہ دوستی ایسے لوگوں سے گانٹھتے ہیں جن کا نہ روز آخرت پر ایمان ہے نہ کسی کتاب پر اور نہ انبیاء پر بلکہ انبیاء کی تعلیم کے بجائے وہ دیوی دیوتاؤں کے معتقد ہیں اور انہی کی پرستش کرتے ہیں۔ المآئدہ
81 [١٢٧] انہیں چاہیے تو یہ تھا کہ وہ کسی اہل کتاب سے ہی دوستی لگاتے۔ تاکہ کسی نہ کسی حد تک ان میں عقائد کی ہم آہنگی ہوتی جو ان کی دوستی کی بنیاد بن سکتی لیکن وہ اسلام دشمنی میں اتنے اندھے ہوگئے ہیں کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں مشرکین کو دوستی کے لیے چنتے ہیں اور زبانی بھی مشرکوں سے کہتے ہیں کہ دین کے لحاظ سے تم مسلمانوں سے اچھے ہو۔ المآئدہ
82 [١٢٨] یہود ونصاریٰ کے کردار کا تقابل :۔ عیسائیوں کی مسلمانوں سے کم تر دشمنی اور قریب تر دوستی کی اللہ نے تین وجوہ بیان فرمائیں۔ ایک یہ کہ ان میں عالم لوگ موجود ہیں۔ (یاد رہے عالم سے مراد ہمیشہ عالم باعمل ہوتا ہے) دوسرے ان میں مشائخ موجود ہیں اور تیسرے یہ عیسائی لوگ متکبر نہیں ہوتے بلکہ متواضع اور منکسر المزاج ہوتے ہیں۔ اب ان کے مقابلہ میں یہود کے حالات دیکھئے ان کے علماء آیات اللہ کو بیچ کھانے والے آیات کو اور حق بات کو چھپا جانے والے اور سازشیں کرنے والے، ان میں رہبان یا مشائخ نام کو نہیں تھے بلکہ پوری قوم حب دنیا میں اس قدر مبتلا تھی کہ سود خوری اور حرام خوری سے باز نہیں آتے تھے اور ہر جائز و ناجائز ذریعہ سے دولت حاصل کرتے تھے۔ پھر انہی منکرات کا یہ اثر تھا کہ انتہائی سنگدل، بخیل اور متکبر بن گئے تھے۔ ان کے سب سردار مثلاً کعب بن اشرف، سلام بن ابی الحقیق اور حیی بن اخطب سب کے سب ہی متکبر اور بدنہاد تھے۔ اگر ان کے مقابلہ میں ہر قل شہنشاہ روم، مقوقس شاہ مصر اور نجاشی شاہ حبشہ کے کردار کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ یہود کے مقابلہ میں یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں سے کس قدر قریب تر تھے اور اختلافات کے باوجود دوسروں کی نسبت مسلمانوں سے دوستی رکھنے کو ترجیح دیتے تھے۔ اور یہود کی اسلام دشمنی کا یہ حال تھا کہ خود پیغمبر اسلام کو تین دفعہ ہلاک کرنے کی کوشش کی لیکن ہر بار اللہ نے آپ کو ان کے شر سے بچا لیا۔ ایک دفعہ نہایت سخت قسم کا جادو کر کے، دوسری بار زہریلی بکری کو کھلا کر اور تیسری بار چھت کے اوپر سے آپ پر ایک بھاری پتھر گرا کر جبکہ آپ نیچے بیٹھے ہوئے تھے۔ المآئدہ
83 [١٢٩] ہجرت حبشہ اور نجاشی کا کردار :۔ مشرکین مکہ کی ایذا رسانیوں سے تنگ آ کر ٥ نبوی میں مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ شاہ حبشہ کے ساتھ قریش مکہ کے تجارتی مراسم تھے۔ ان کا ایک وفد ان کو واپس لانے کے لیے وہاں پہنچا۔ اور چند درباریوں سے مل کر انہیں تحفے اور تحائف دے کر اس بات پر آمادہ کیا کہ کل جب ہم نجاشی کے سامنے اپنی عرضداشت پیش کریں تو وہ ہماری ہاں میں ہاں ملا دیں اور سفارش بھی کریں۔ دوسرے دن اس وفد نے دربار میں حاضر ہو کر کہا کہ ہمارے کچھ لوگ وہاں سے بھاگ کر آپ کے ملک میں آ گئے ہیں۔ وہ ہمیں واپس کر دیجئے۔ رشوت لینے والے درباریوں نے بھی ہاں میں ہاں ملا دی۔ لیکن نجاشی بڑا انصاف پسند بادشاہ تھا۔ اس نے کہا : جب تک دوسرے فریق کی بات نہ سنوں گا میں انہیں تمہارے حوالہ نہیں کرسکتا۔ چنانچہ دوسرے دن مہاجر مسلمانوں کو دربار میں بلا کر ان کا بیان لیا گیا۔ جب انہوں نے ان مشرکوں کی ایذا رسانیوں اور مسلمانوں کی مظلومیت کی داستان سنائی تو اس نے مشرکین مکہ کو صاف جواب دے دیا اور انہیں اپنا سا منہ لے کر رخصت ہونا پڑا۔ اسی وفد کے ایک آدمی کو ایک تدبیر سوجھی جس کی کامیابی اسے یقینی محسوس ہونے لگی۔ وہ اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا ہم کل پھر دربار میں پیش ہوں گے اور میں ایک ایسی بات پیش کروں گا کہ بادشاہ از خود ان مسلمانوں کو ہمارے حوالہ کر دے گا۔ اور وہ بات یہ تھی کہ اس وقت تک پوری عیسائی دنیا میں عیسیٰ علیہ السلام کے ابن اللہ ہونے کا عقیدہ رائج ہوچکا تھا جبکہ مسلمان انہیں ابن اللہ نہیں مانتے تھے۔ فقط اللہ کا رسول اور اس کا کلمہ ہی سمجھتے تھے۔ چنانچہ دوسرے دن یہ وفد دربار میں حاضر ہوا اور نجاشی سے کہا : ان مفرور بےدینوں سے آپ یہ تو پوچھئے کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتے ہیں؟ اور کچھ غلط سلط باتیں بھی بتائیں دوسرے دن پھر مسلمانوں کی دربار میں طلبی ہوئی۔ انہیں یہ معلوم ہوچکا تھا کہ کفار مکہ نے اب ہم پر جو نیا وار کیا ہے وہ کس قسم کا ہے۔ بہرحال ان مظلوم مسلمانوں نے آپس میں یہی طے کیا کہ جو بات بھی کہیں گے سچ ہی کہیں گے خواہ ہمیں اس کی کتنی ہی سزا بھگتنی پڑے۔ مسلمانوں نے اس غرض کے لیے سیدنا جعفر طیار کو جو سیدنا علی کے بھائی تھے اپنا نمائندہ منتخب کرلیا۔ دوسرے دن جب نجاشی نے مسلمانوں سے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق سوال کیا تو سیدنا جعفر طیار نے جواب میں سورۃ مریم کی متعلقہ آیات پڑھ کر سنا دیں۔ یہ آیات سن کر نجاشی نے ایک تنکا اٹھایا اور مسلمانوں سے کہنے لگا ’’واللہ ! جو کچھ تم نے کہا : عیسیٰ علیہ السلام اس تنکے کے برابر بھی اس سے زیادہ نہیں ہیں۔‘‘ نجاشی کے اس تبصرہ پر درباری بھی برہم ہوئے اور قریشی سفارت کی تمام امیدوں پر اوس پڑگئی مگر نجاشی نے کسی کی بھی پروا نہ کی اور مسلمانوں کو اپنے ملک میں رہنے کی کھلے دل سے اجازت دی۔ اور وفد کو بری طرح ذلیل ہو کر واپس آنا پڑا۔ اس واقعہ کے کئی سال بعد نجاشی نے ستر نو مسلم عیسائیوں پر مشتمل ایک وفد مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں روانہ کیا۔ یہ لوگ جب قرآن سنتے تو ان پر رقت طاری ہوجاتی، وفور جذبات سے آنسو بہنے لگتے اور زبان سے ﴿ رَبَّنَا آمَنَّا﴾۔۔ کہنا شروع کردیتے۔ اس آیت میں انہی لوگوں کی کیفیت بیان کی گئی ہے۔ نجاشی کا غائبانہ نماز جنازہ :۔ شاہ حبشہ نجاشی اگرچہ آپ کی خدمت میں حاضر نہ ہوسکا تاہم مسلمان ضرور ہوچکا تھا اور اس پر واضح دلیل یہ ہے کہ جب وہ فوت ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اس کی وفات کی خبر دی پھر اس پر غائبانہ نماز جنازہ پڑھی۔ (بخاری۔ کتاب الجنائز۔ باب الصفوف علی الجنازۃ) المآئدہ
84 المآئدہ
85 المآئدہ
86 [١٣٠] غور فرمائیے یہ نصاریٰ بھی اہل کتاب تھے اور مدینہ کے یہود اور ان کے سردار بھی اہل کتاب۔ لیکن مسلمانوں کے ساتھ ان کے رویہ کے لحاظ سے ان میں جو زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اسی فرق کو سابقہ آیت میں بیان کیا گیا ہے اہل کتاب اور توحید کا دعویٰ رکھنے کے لحاظ سے یہود کو بھی چاہیے تو یہی تھا کہ وہ عیسائیوں کی طرح مشرکین کے بجائے مسلمانوں کے قریب تر ہوتے لیکن معاملہ اس کے برعکس تھا۔ یہود نے اللہ کی ان آیات کو جھٹلا دیا جو تورات میں موجود تھیں۔ لہٰذا ایسے بدکردار لوگوں کی سزا دوزخ ہی ہو سکتی ہے۔ المآئدہ
87 [١٣١] حلال چیزوں کو حرام ٹھہرانے والے گروہ اور اس کی صورتیں :۔ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ شرعی نقطہ نظر سے تمام اشیاء انسان کے لیے مباح اور حلال ہیں ماسوائے ان چیزوں کے جن کی حرمت کے متعلق شریعت نے وضاحت کردی ہو۔ اب اس آیت اور اس سے بعد والی آیت میں حلال اشیاء سے فائدہ اٹھانے کے چند جامع اصول بیان کردیئے گئے ہیں اور یہ سب لاَ تَعْتَدُوْا کے ضمن میں آتے ہیں مثلاً (١) جو چیزیں اللہ نے حلال کی ہیں انہیں عقیدتاً یا عملاً حرام نہ بنا لو۔ جیسے صوفی قسم کے لوگ نکاح سے عملاً اس لیے پرہیز کرتے ہیں کہ نکاح سے جو ذمہ داریاں انسان پر پڑتی ہیں۔ وہ عبادت الٰہی میں آڑے آتی ہیں۔ اس قسم کے لوگ عیسائیوں میں بھی موجود تھے اور مسلمانوں میں بھی موجود ہیں بلکہ ایسا رجحان صحابہ کرام میں بھی چل نکلا تھا۔ صوفی منش صحابہ میں سے ہی کسی نے کہا کہ میں ساری عمر نکاح نہ کروں گا اور کسی نے کہا میں ساری رات اللہ کی عبادت میں گزارا کروں گا۔ جس سے اپنے جسم کے، بیوی کے اور مہمانوں کے سب کے حقوق تلف ہوتے تھے اور کسی نے کہا کہ میں ہمیشہ دن کو روزہ رکھا کروں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان باتوں کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صحابہ کو سخت تنبیہ کی اور فرمایا ’’میں اللہ کا رسول اور تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں اور میں نے نکاح کیے ہیں۔ میں رات کو سوتا بھی ہوں اور قیام بھی کرتا ہوں اور میں (نفلی) روزے رکھتا بھی ہوں اور چھوڑتا بھی ہوں، یہی میرا طریقہ ہے اور جس نے میری سنت سے اعراض کیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ (بخاری۔ کتاب النکاح۔ باب الترغیب فی النکاح) دوسری صورت یہ ہے کہ جسم کو جتنی غذا کی ضرورت ہے اس سے بھی کم یا بہت کم کھائے یا مرغوب اشیاء سے پرہیز کرے۔ یہ چیز بھی صوفی طبقہ میں ہی پائی جاتی ہے۔ جن کا نظریہ یہ ہے کہ جسم کو جس قدر مضمحل اور نحیف و نزار بنایا جائے اسی قدر روح کو تقویت ہوگی۔ رہبانیت کا نظریہ بھی سنت نبوی کے سراسر خلاف ہے۔ حد سے بڑھنے کی تیسری صورت بسیار خوری ہے۔ جیسے فرمایا ﴿وَّکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا ﴾ اور اپنی ذات پر ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا بھی اس میں شامل ہے۔ ظاہر ہے کہ جو شخص ان باتوں میں مبتلا ہوگا وہ دوسروں کے حقوق کا خیال نہیں رکھے گا۔ نیز بسیار خوری سے انسان جہاں اللہ کی یاد سے غافل ہوجاتا ہے وہاں کئی طرح کے جسمانی عوارض و امراض بھی لاحق ہوجاتے ہیں اور اعتداء کی چوتھی صورت یہ ہے کہ چیز تو حلال ہو مگر انسان کمائی کے ذریعہ اسے حرام بنا لے۔ جیسے چوری، ڈاکہ، غصب، خیانت، سود اور دیگر ناجائز ذرائع سے حاصل کیا ہوا مال۔ اور یہ بھی ﴿لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکُمْ﴾ کے ضمن میں آتا ہے۔ اور یہود کی اکثریت انہی امراض میں مبتلا تھی۔ المآئدہ
88 المآئدہ
89 [١٣٢] قسموں کے مسائل سے متعلق درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ لغو قسموں سے مراد ایسی قسمیں ہیں جو انسان تکیہ کلام کے طور پر (نیت سے نہیں) کہہ دیتا ہے جیسے لا واللہ۔ بلی واللہ۔ نیز آپ فرماتی ہیں کہ میرے والد (سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ) کبھی قسم نہیں توڑتے تھے یہاں تک کہ اللہ نے کفارہ کی آیت نازل فرمائی اس وقت وہ کہنے لگے ’’میں جب قسم کھا لوں پھر اس کے خلاف کو اچھا سمجھوں تو اللہ کی رخصت منظور کر کے وہ کام کرلیتا ہوں جسے اچھا سمجھتا ہوں۔‘‘ (بخاری کتاب التفسیر) ٢۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر کسی نے قسم کھانا ہو تو اللہ کی قسم کھائے ورنہ چپ رہے‘‘ (بخاری کتاب الایمان والنذور۔ مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب النھی عن الحلف بغیر اللہ تعالیٰ) ٣۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس نے اللہ کے علاوہ کسی اور کی قسم کھائی اس نے شرک کیا۔‘‘ (ابو داؤد۔ کتاب الایمان والنذور باب۔ فی کراھیۃ الحلف بالاباء) ٤۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’نہ اپنے باپوں کی قسم کھاؤ، نہ ماؤں کی اور نہ شریکوں کی اور اللہ کی قسم بھی اس وقت کھاؤ جب تم سچے ہو۔‘‘ (ابو داؤد۔ کتاب الایمان والنذور باب۔ فی کراھیہ الحلف بالاباء نسائی۔ کتاب الایمان والنذور۔ باب الحلف بالامہات) ٥۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کبیرہ گناہ یہ ہیں : اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کو ستانا، کسی کو قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الایمان والنذور۔ باب الیمین الغموس ( وَلَا تَتَّخِذُوْٓا اَیْمَانَکُمْ 94؀) 16۔ النحل :94) ٦۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص کسی کام کے کرنے کی قسم کھائے پھر ان شاء اللہ کہے تو اس پر (قسم توڑنے کا) کوئی گناہ نہیں ہوگا۔‘‘ (ترمذی۔ ابو اب النذور والایمان۔ باب فی الاستثناء فی الیمین) ٧۔ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم دینے والے کی قسم کو پورا کرنے کا حکم دیا‘‘ (بخاری۔ کتاب الایمان والنذورباب واقسموا باللہ جھد ایمانھم) ٨۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’قسم میں قسم دلانے والے کی نیت کا اعتبار ہوگا۔‘‘ (مسلم۔ کتاب الایمان والنذور۔ باب الیمین علی نیۃ المستحلف) ٩۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر تم کسی کام کے کرنے کی قسم کھالو، پھر کسی اور کام میں بہتری سمجھو تو اپنی قسم کا کفارہ ادا کرو اور وہ کام کرو جو بہتر ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الایمان والنذور۔ باب۔ (لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ باللَّغْوِ فِیْٓ اَیْمَانِکُمْ ٢٢٥۔) 2۔ البقرۃ :225) مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب ندب من حلف یمینا) [١٣٢۔ الف] قسموں کی قسمیں :۔ کلام عرب سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل عرب میں بات بات پر قسمیں کھانے کا عام رواج تھا۔ اور ان میں سے زیادہ تر قسمیں یا تو محض تکیہ کلام کے طور پر ہوا کرتی تھیں یا پھر کلام میں حسن پیدا کرنے کے لئے۔ ایسی ہی قسموں کے لئے اللہ تعالیٰ نے لغو کا لفظ استعمال فرمایا ہے جن کا کوئی کفارہ نہیں۔ رہیں وہ قسمیں جو دل کے ارادہ سے اٹھائی جائیں تو ان کی بھی دو قسمیں ہیں : ایک وہ جو کسی درست بات پر اٹھائی جائیں اور اگر ان کا تعلق مستقبل سے ہو تو انہیں قسم کے مطابق پورا بھی کردیا جائے۔ ایسی قسموں پر کفارہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دوسری وہ قسم جس کا تعلق مستقبل سے ہو اور جس کام پر قسم اٹھائی گئی وہ ممنوع تو نہ تھا مگر اس کام پر قسم نہ اٹھانا ہی بہتر تھا۔ جیسے ایک دفعہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آئندہ شہد نہ پینے پر قسم اٹھا لی تو اللہ تعالیٰ نے اس پر تنبیہ فرمائی (التحریم آیت : ١) یا کسی صحابی نے ایک مرغی کو غلاظت میں چونچ مارتے دیکھ لیا تو آئندہ مرغی نہ کھانے پر قسم اٹھائی تھی۔ ایسی قسموں کو بھی توڑ کر ان کا کفارہ ادا کرنا چاہئے۔ جیسا کہ مندرجہ بالا احادیث میں سے حدیث نمبر ١۔ اور حدیث نمبر ٩ سے واضح ہے۔ قسمیں اور ان کا کفارہ۔ کفارے میں قدر مشترک۔ غلام کی آزادی :۔ کفارہ کا لغوی معنی وہ نیکی کا کا کم کرنا ہے جو کسی پہلے سے کئے ہوئے برے کام کا عوض بن کر اس کو ڈھانپ دے یا ختم کردے۔ قرآن کریم اور احادیث میں بہت سے ایسے گناہوں کا ذکر آیا ہے جن کے کفارے بیان گئے ہیں۔ مثلاً قتل خطا کا کفارہ ’’ ظہار کا کفارہ‘‘ احرام کی حالت میں شکار کرنے کا کفارہ’’ فرضی روزہ توڑنے کا کفارہ‘‘ قسم توڑنے کا کفارہ اور کسی کو رخمی کرنے کا کفارہ وغیرہ ان میں سے اکثر کفاروں میں قدر مشترک، غلام کو آزاد کرنا ہے۔ جیسا کہ قسم توڑنے کے کفارے میں بھی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی نقطہ نگاہ سے غلامی کا رواج ایک مذموم چیز تھی جسے آہستہ آہستہ ختم کردیا گیا۔ آج الحمدللہ غلامی کا رواج نہیں رہا۔ لہٰذا قسم کے کفارہ کی باقی تین متبادل صورتیں رہ گئی ہیں۔ ایک دس مسکینوں کو اپنی اپنی حیثیت کے مطابق درمیانہ درجہ کا کھانا کھلانا یا دس مسکینوں کو پوشاک مہیا کرنا یا تین روزے رکھنا۔ اب یہ ضروری نہیں کہ دس مسکینوں کو بلا کر انہیں اکٹھا بٹھا کر کھانا ہی کھلایا جائے بلکہ اس کی قیمت لگا کر یہ رقم دس مسکینوں کو یا کسی ایک کو یا دو تین مسکینوں کو بھی دی جا سکتی ہے۔ یہی صورت حال پوشاک کی بھی ہے۔ اور روزوں کے متعلق بظاہر اس آیت میں کوئی پابندی نہیں کہ وہ اکٹھے ہی ایک ساتھ تین دن رکھے جائیں۔ اس میں گنجائش موجود ہے کہ یہ روزے الگ الگ دنوں میں بھی رکھے جا سکتے ہیں۔ المآئدہ
90 [ ١٣٣[ شراب اور اس کی حرمت کے متعلق درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ حرمت شراب میں تدریج :۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دعا کی یا اللہ! شراب کے بارے میں ہمارے لیے شافی بیان واضح فرما۔ تو سورۃ بقرہ کی یہ آیت نازل ہوئی ﴿یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ﴾ چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بلا کر ان پر یہ آیت پڑھی گئی۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دعا کی : یا اللہ ! شراب کے بارے میں ہمارے لیے شافی بیان نازل فرما۔ تو سورۃ نساء کی یہ آیت نازل ہوئی ﴿یٰایُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَتَقْرَبُوْا الصَّلٰوٰۃَ﴾ چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بلا کر ان پر یہ آیت پڑھی گئی۔ آپ نے پھر دعا کی۔ یا اللہ ہمارے لیے شراب کے بارے میں شافی بیان واضح فرما۔ تو سورۃ مائدہ کی یہ آیت نازل ہوئی۔ ﴿اِنَّمَا یُرِِیْدُ الشَّیْطٰنُ۔۔ مُنْتَھُوْنَ﴾ تک، چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بلا کر ان پر یہ آیت پڑھی گئی تو انہوں نے کہا ’’ہم باز آئے۔ ہم باز آئے۔‘‘ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر۔ بخاری کتاب الاشربۃ باب نزول تحریم الخمر) ٢۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ’’احد کے دن صبح کچھ لوگوں نے شراب پی تھی۔ اسی حال میں وہ شہید ہوئے۔ اس وقت تک شراب حرام نہیں ہوئی تھی‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) ٣۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہو کر فرما رہے تھے ’’لوگو! شراب حرام ہوئی شراب پانچ چیزوں سے بنا کرتی ہے۔ انگور، کھجور، شہد، گیہوں اور جو سے اور جس مشروب سے عقل میں فتور آئے وہ خمر (شراب) ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) ٤۔ حرمت شراب کے وقت کا منظر :۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ابو طلحہ کے گھر لوگوں کا ساقی بنا ہوا تھا اور ان دنوں شراب فضیخ (گندی کھجوروں کی) ہی تھی۔ میں ابو طلحہ، ابو عبیدہ، ابی بن کعب، ابو ایوب، ابو دجانہ، سہیل بن بیضاء اور اپنے چچاؤں اور کسی دوسرے صحابہ کرام کو کھڑا ہوا شراب پلا رہا تھا اور میں ان سب سے چھوٹا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک منادی کو حکم دیا کہ وہ اعلان کر دے کہ شراب حرام ہوگئی۔ ابو طلحہ نے مجھے کہا جاؤ! باہر جا کر سنو۔ میں باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک منادی اعلان کر رہا ہے۔ ’’سن لو! شراب حرام ہوگئی۔‘‘ اتنے میں ایک آدمی آیا اور اس نے پوچھا کیا تمہیں کوئی خبر پہنچی ہے؟ وہ کہنے لگے ’’کیسی خبر؟‘‘ اس نے کہا ’’شراب حرام ہوگئی ہے۔‘‘ ابو طلحہ نے مجھے کہا ’’باہر جا کر مٹکا توڑ دو اور شراب بہا دو‘‘ میں باہر نکلا اور سل کے ایک بٹے کو اٹھا کر مٹکے کے پیندے میں مارا۔ مٹکا ٹوٹ گیا اور شراب بہہ گئی۔ (اس دن) مدینہ کے گلی کوچوں میں شراب بہہ رہی تھی۔ اس شخص سے یہ خبر سننے کے بعد لوگوں نے نہ اس کی تصدیق کی اور نہ ہی پھر کبھی شراب پی۔ (بخاری کتاب الاشربہ۔ باب۔ نزول تحریم الخمر و کتاب المظالم باب صب الخمر فی الطریق۔ مسلم کتاب الاشربہ باب تحریم الخمر) ٥۔ حرمت شراب سے متعلقہ مسائل :۔ سیدنا عبداللہ بن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص انگور اترنے کے زمانے میں انگور سٹاک کر رکھے تاکہ اسے شراب بنانے والوں کے ہاتھ فروخت کرے اس نے دیدہ دانستہ آگ میں جانے کی کوشش کی۔‘‘ (رواہ الطبرانی فی الاوسط، اسنادہ حسن) ٦۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا ’’کیا شراب بطور دوا استعمال ہو سکتی ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’شراب تو خود بیماری ہے یہ شفا کیا دے گی۔‘‘ (ترمذی۔ ابو اب الطب۔ باب ماجاء فی التداویٰ بالمسکر) ٧۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ہر نشہ آور چیز حرام ہے‘‘ (مسلم۔ کتاب الاشربہ۔ باب۔ بیان ان کل مسکر خمر) ٨۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس چیز کی کثیر مقدار حرام ہو اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہوتی ہے۔‘‘ (ترمذی۔ ابو اب الاشربہ باب ما اسکر کثیرۃ فقلیلہ حرام ) ٩۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ’’کیا ہم شراب کا سرکہ بنا کر اسے استعمال کرسکتے ہیں؟‘‘ فرمایا 'نہیں' (مسلم۔ کتاب الاشربہ باب۔ تحریم تخلیل الخمر ) ١٠۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ قبیلہ ربیعہ کا ایک وفد مدینہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو حکم دیا کہ فلاں فلاں برتن (آپ نے ایسے برتنوں کا نام لیا جن میں اس زمانہ میں شراب بنائی جاتی تھی) کسی دوسرے استعمال میں نہ لائے جائیں (انہیں بھی توڑ دیا جائے) اور ان میں نبیذ بھی نہ بنائی جائے۔‘‘ (ترمذی۔ ابو اب الاشربۃ۔ فی کراھیہ ان ینبذ فی الدباء والنقیر والحنتم ) ١١۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میری امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو زنا، ریشم، شراب اور آلات موسیقی کے کوئی دوسرے نام رکھ کر انہیں جائز قرار دے لیں گے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الاشربہ۔ باب ماجاء فی من یستحل الخمر ویسمیہ بغیر اسمہ ) ١٢۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص لایا گیا جس نے شراب پی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ٹہنیوں سے اسے چالیس مرتبہ مارا۔ (مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب حدالخمر) ١٣۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے جس چیز کا پینا حرام ٹھہرایا ہے اس کی خرید و فروخت بھی حرام کر دی‘‘ (مسلم۔ کتاب البیوع۔ باب۔ تحریم بیع الخمر) ١٤۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب سود سے متعلق سورۃ بقرہ کی آیات نازل ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں آئے ان آیتوں کو پڑھ کر سنایا پھر فرمایا کہ ’’شراب کی خرید و فروخت حرام ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الصلٰوۃ۔ باب تحریم تجارۃ الخمر فی المسجد) ١٥۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کے سلسلہ میں دس لوگوں پر لعنت فرمائی (١) شراب نچوڑنے والا (٢) نچڑوانے والا (٣) لینے والا (٤) اٹھانے والا (٥) جس کے لئے لے جائی جائے (٦) پلانے والا۔ (٧) بیچنے والا (٨) اس کی قیمت کھانے والا (٩) خریدنے والا (١٠) جس کے لیے خریدی گئی۔‘‘ (ترمذی ابو اب البیوع۔ باب ماجاء فی بیع الخمر و نہی عن ذالک) شراب اور جوئے سے متعلق اگرچہ اس آیت میں تحریم یا حرام ہونے کا لفظ صراحت سے مذکور نہیں ہوا تاہم انداز بیان سے سب صحابہ کو معلوم ہوگیا کہ یہ چیزیں حرام ہوگئی ہیں۔ اس انداز بیان میں انما حصر کا لفظ لا کر شراب، جوئے کو الانصاب اور ازلام کے ساتھ ملایا گیا ہے جن کی حرمت کی کئی مقامات پر وضاحت ہے (٢) ان چیزوں کو ناپاک کہا گیا (٣) انہیں شیطانی عمل قرار دیا گیا (٤) ان سے اجتناب کا حکم دیا گیا (٥) انہیں باہمی عداوت کا پیش خیمہ قرار دیا گیا (٦) اور اللہ کی یاد سے غافل کرنے والی چیزیں قرار دیا گیا اور آخر میں (٧) طنزیہ اور سوالیہ انداز میں پوچھا گیا کہ آیا ان تمام تر قباحتوں کے باوجود بھی تم باز آتے ہو یا نہیں؟ جس کے جواب میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ ’’ہم باز آئے۔‘‘ شراب کی حد کے بارے میں بعض لوگوں نے اختلاف کیا ہے کہ شراب کی سزا حد ہے یا تعزیر۔ اور اس شبہ کی وجہ یہ ہے کہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں سزا دینے والی چیز صرف کوڑے ہی نہیں تھے بلکہ بعض دفعہ ہاتھوں سے، جوتوں سے، چھڑی سے، کپڑے سے اور ٹہنی سے مار کر سزا دی جاتی تھی اور بعض احادیث میں چالیس کی تعداد کا بھی ذکر نہیں جیسا کہ درج ذیل احادیث میں سے حدیث نمبر ٣ سے معلوم ہوتا ہے۔ نیز امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک باب کے عنوان میں حد کا نام ہی نہیں لیا باب کا عنوان ہے ماجاء فی ضرب شارب الخمر شراب کی سزا کا بیان نیز حدیث نمبر ٧ میں سیدنا علی ص کی حدیث کے آخری الفاظ یہ ہیں ذلک ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لم یسنہ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا کوئی متعین طریقہ بیان نہیں فرمایا یا مقرر نہیں کیا۔ اور جو لوگ اسے تعزیر نہیں بلکہ حد سمجھتے ہیں اور اکثریت کا یہی مذہب ہے ان کی دلیل درج ذیل حدیث ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اللہ کی حدوں کے سوا کسی کو بھی دس کوڑوں سے زیادہ سزا نہ دی جائے۔ (مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب قدر اسواط التعزیر) اور چونکہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی شرابی کی سزا چالیس کوڑے مارنا ثابت ہے لہٰذا یہ حد ہے تعزیر نہیں۔ اب ہم ایسی احادیث درج کرتے ہیں جو شرابی کی سزا کے بارے میں بخاری اور مسلم میں وارد ہیں۔ ١۔ عتبہ بن حارث کہتے ہیں کہ نعیمان کا بیٹا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں لایا گیا۔ اس نے شراب پی تھی۔ جو لوگ اس گھر میں موجود تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اسے ماریں۔ چنانچہ میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے اسے چھڑیوں اور جوتوں سے مارا تھا۔ (بخاری۔ کتاب الحدود۔ باب ماجاء فی ضرب شارب الخمر) ٢۔ سائب بن یزید کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کی شروع خلافت میں شراب پینے والا جب لایا جاتا تو ہم اٹھ کر اسے ہاتھوں سے، جوتوں سے اور چادروں سے مارتے۔ یہاں تک کہ سیدنا عمر ر ضی اللہ عنہ کی خلافت کا آخری دور آ گیا تو انہوں نے شرابی کو چالیس کوڑے لگائے مگر جب لوگوں نے سرکشی اور نافرمانی کی راہ اختیار کی تو انہوں نے اسی کوڑے لگائے۔ (بخاری۔ کتاب الحدود۔ باب ماجاء فی ضرب شارب الخمر) ٣۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ کے زمانہ میں ایک شخص کو لوگ عبداللہ حمار کہا کرتے تھے۔ وہ رسول اللہ کو ہنسایا کرتا تھا۔ آپ نے اس کو شراب کی حد بھی لگائی تھی۔ ایک دفعہ ( غزوہ خیبر کے دوران) اس نے شراب پی اور لوگ اسے پکڑ لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوڑے لگانے کا حکم دیا جو اسے لگائے گئے۔ اتنے میں ایک شخص (خود سیدنا عمر رضی اللہ عنہ) بول اٹھے، یا اللہ اس پر لعنت کر کمبخت کتنی مرتبہ شراب کی وجہ سے لایا جا چکا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس پر لعنت نہ کرو۔ اللہ کی قسم! میں تو یہی جانتا ہوں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے۔ اور دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے بھائی کے مقابلہ میں شیطان کی مدد نہ کرو۔ (بخاری۔ کتاب الحدود۔ باب ماجاء فی ضرب شارب الخمر) ٤۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص لایا گیا جس نے شراب پی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دو چھڑیوں سے چالیس بار مارا۔ اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں بھی ایسا ہی کیا۔ پھر جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں صحابہ سے مشورہ کیا۔ سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سب حدوں میں سے ہلکی حد اسی کوڑے ہیں (یعنی حد قذف جو قرآن میں مذکور ہے) تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے شرابی کے لیے اسی کوڑوں کی حد کا حکم دیا۔ (مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب حد الخمر) ٥۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شراب میں جوتوں اور ٹہنیوں سے چالیس ضربیں مارتے تھے۔ (مسلم۔ کتاب الحدود باب حد الخمر) ٦۔ حسین بن منذر سے روایت ہے کہ میری موجودگی میں لوگ ولید بن عقبہ کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس لائے۔ ولید نے شراب پی تھی اور اس پر دو آدمیوں نے گواہی بھی دی۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے (ازراہ توقیر و تکریم) سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اٹھو اور اسے کوڑے لگاؤ۔ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ (اپنے بیٹے کو) کوڑے لگانے کے لیے کہہ دیا۔ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے جواب دیا جس نے خلافت کا مزہ چکھا ہے اسے ہی اس کا گرم بھی چکھنے دیجئے۔ (یعنی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو ہی کوڑے لگانے دیجئے۔) اس بات پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ پر خفا ہوئے اور عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اٹھ اور ولید کو کوڑے لگا۔ عبداللہ اٹھے اور ولید کو کوڑے لگانا شروع کیے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ گنتے جاتے تھے۔ جب چالیس کوڑے لگ چکے تو کہنے لگے۔ ذرا ٹھہر جاؤ پھر فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس کوڑے لگائے اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بھی چالیس لگائے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسی کوڑے لگائے اور یہ سب سنت ہیں۔ اور میرے نزدیک چالیس لگانا بہتر ہے۔ ٧۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں اگر کسی پر حد قائم کروں اور وہ مر جائے تو مجھے اس کی کچھ پروا نہیں۔ البتہ اگر شراب کی حد میں کوئی مر جائے تو اس کی دیت دلاؤں گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بیان نہیں فرمایا۔ (مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب حد الخمر۔ بخاری۔ کتاب الحدود۔ باب ماجاء فی ضرب شارب الخمر) [١٣٤] جوئے کی اقسام :۔ میسر بمعنی وہ کثیر مال و دولت جو مفت میں یا آسانی سے ہاتھ لگ جائے۔ اسے ہی جوا اور قمار بازی بھی کہتے ہیں جوئے کی معروف قسم تو شرعاً اور قانوناً حرام ہے اور جواری کو کسی معاشرہ میں بھی معاشرہ کا معزز فرد نہیں سمجھا جاتا مگر موجودہ دور میں جوئے کی کئی نئی اقسام بھی وجود میں آ چکی ہیں جن میں کوئی قباحت نہیں سمجھی جاتی اور بعض کو حکومتوں کی سرپرستی بھی حاصل ہوتی ہے حالانکہ ایسی سب نئی شکلیں بھی حرام ہیں مثلاً لاٹری، معمہ بازی، ریفل ٹکٹ، انعامی بانڈ، ریس کو رس اور بیمہ کی بعض شکلیں۔ نیز چوسر اور شطرنج وغیرہ بھی قمار ہی کی قسمیں ہیں۔ [١٣٥] بت اور آستانے :۔ ایسے مقامات جنہیں کسی موجود یا غیر موجود بت یا کسی دوسرے شرکیہ عقیدہ کی بنا پر عوام میں تقدس کا درجہ حاصل ہو اور وہاں نذریں نیازیں بھی چڑھائی جاتی ہوں۔ ان میں مرکزی کردار چونکہ کسی بت پیر فقیر یا اس کی روح کا ہوتا ہے لہٰذا بت گری، بت پرستی اور بت فروشی سب چیزوں کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے اور اس کے علاوہ مجسمے اور جاندار اشیاء کی تصویر کشی بھی حرام قرار دی گئی بالخصوص ایسے انسانوں کی جنہیں دینی یا دنیوی لحاظ سے معاشرہ میں کوئی ممتاز مقام حاصل ہو یا رہ چکا ہو۔ [١٣٦] ازلام کے لیے دیکھئے سورۃ مائدہ کی آیت نمبر ٣ حاشیہ نمبر ١٦ المآئدہ
91 [١٣٧] شراب کس طرح باہمی عداوت اور بغض کا سبب بنتی ہے اس کے لیے مندرجہ ذیل دو احادیث ملاحظہ فرمائیے۔ ١ ۔ شراب اور جوا باہمی عداوت کا باعث کیسے بنتے ہیں؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بدر کے دن ہمیں جو غنیمت کا مال ملا اس میں سے مجھے ایک جوان اونٹنی ملی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی حصہ تھا۔ اور ایک جوان اونٹنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عنایت فرمائی تھی۔ میں ان دونوں اونٹنیوں کو ایک انصاری آدمی کے دروازے پر باندھا کرتا تھا۔ میرا کام یہ تھا کہ ان دونوں اونٹنیوں پر اذخر (گھاس) لاد کر لاؤں اور اس کو بیچوں۔ میرے ساتھ اس کام میں بنو قینقاع کا ایک سنار بھی تھا۔ میرا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا (بنت رسول) سے نکاح ہونے والا تھا اور میں چاہتا تھا کہ اس آمدنی سے ولیمہ کروں۔ ایک دن سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب (آپ کے چچا) اسی گھر میں بیٹھے شراب پی رہے تھے اور ایک مغنیہ گانا گا رہی تھی۔ اس مغنیہ نے یہ مصرعہ گایا۔ الا یا حمزۃ للشرف النواء (اٹھو حمزہ فربہ جوان اونٹنیاں) یہ مصرعہ سنتے ہی سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ تلوار لے کر ان اونٹنیوں کی طرف لپکے اور ان کے کوہان کاٹ ڈالے اور پیٹ پھاڑ کر ان کے کلیجے نکال لیے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں نے یہ منظر دیکھا تو سخت گھبرا گیا اور اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سارا قصہ سنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بیٹھے تھے۔ چنانچہ ہم تینوں روانہ ہوئے اور سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ آپ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ سے ناراض ہوئے مگر حمزہ رضی اللہ عنہ نے (جو نشہ میں دھت تھے) آنکھ اٹھائی اور کہا : تم ہو کیا، تم لوگ میرے باپ دادا کے غلام ہی تو ہو۔ یہ صورتحال دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پچھلے پاؤں واپس لوٹ آئے۔ اس وقت تک شراب حرام نہیں ہوئی تھی۔ (بخاری۔ کتاب المساقاۃ۔ باب بیع الحطب والکلاء) ٢۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں مہاجرین و انصار کی ایک مجلس میں گیا وہ کہنے لگے، آؤ تمہیں کھلائیں اور شراب پلائیں اور یہ شراب کے حرام ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے چنانچہ میں ان کے ہاں ایک باغ میں گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ان کے پاس ایک اونٹ کی بھنی ہوئی سری اور شراب کا ایک مشکیزہ رکھا ہوا ہے۔ میں نے بھی ان کے ساتھ کھایا اور پیا۔ پھر میں نے ان سے مہاجرین و انصار کا ذکر کیا اور کہا کہ مہاجرین انصار سے اچھے ہیں (یہ سن کر) ایک آدمی نے سری کا ایک جبڑا جو مجھے مارا تو میری ناک کو زخمی کردیا اور چیر دیا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور انہیں یہ بات بتائی۔ تو اللہ عزوجل نے میرے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی ﴿ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ﴾ الا یة (مسلم۔ کتاب الفضائل۔ باب فی فضل سعد بن ابی وقاص) اور جوئے کا معاملہ بعض دفعہ شراب سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ ہارا ہوا فریق جب اپنا کثیر مال و دولت حتیٰ کہ بعض دفعہ اپنی بیوی تک بھی ہار بیٹھتا ہے تو دنیا اس کے آگے اندھیر بن جاتی ہے اور اب اس میں جو عداوت پڑتی ہے وہ دیوانہ وار ہوتی ہے جو بہت سے دوسرے جرائم کا بھی سبب بنتی ہے۔ یہ تو شراب اور جوئے کے ظاہری اثرات ہیں اور باطنی اثر یہ ہوتا ہے کہ یہ دونوں چیزیں لوگوں کو اللہ کی یاد سے غافل کردیتی ہیں۔ المآئدہ
92 [١٣٧۔ الف] یعنی ان چیزوں سے بچو جن کی حرمت سابقہ آیات میں مذکور ہوئی ہے مثلاً شراب، جوئے، آستانوں کے تقدس اور تیروں کے ذریعہ فال لینے سے بچو اور اگر اس حکم کو عموم پر محمول کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سب برے کاموں سے بچو یا اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی سے بچتے رہو۔ [١٣٨] اس آیت سے معلوم ہوا کہ اگرچہ اللہ کی اطاعت کا طریق کار بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی اطاعت سے حاصل ہوتا ہے تاہم رسول کی اطاعت اپنی الگ مستقل حیثیت بھی رکھتی ہے۔ بالفاظ دیگر کتاب اللہ اور سنت رسول دونوں کی اتباع واجب ہے اور قرآن کی رو سے ان دونوں کے واجب الاتباع ہونے میں کوئی فرق نہیں۔ اس مقام پر یہ آیت لانے کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم کسی چیز کے فوائد اور نقصانات کا احاطہ نہ کرسکو تو تمہارے لیے بہترین روش یہی ہے کہ اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے جاؤ۔ المآئدہ
93 [١٣٩] سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب شراب کی حرمت نازل ہوئی میں ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں لوگوں کو (ساقی بن کر) شراب پلا رہا تھا۔ جب شراب کی حرمت کی منادی ہوئی تو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جا کر سب شراب بہا دو۔ میں نے بہا دی جو مدینہ کی گلیوں میں بہتی چلی گئی۔ پھر بعض لوگ کہنے لگے کہ : ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جن کے پیٹ میں شراب تھی اور وہ شہید ہوگئے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) [١٤٠] ایمان کے مختلف درجے :۔ اس آیت میں تین بار ایمان اور تقویٰ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں کیونکہ ایمان اور تقویٰ کے مختلف درجات ہیں۔ ایک شخص جب ایمان لاتا ہے تو اس کا تقویٰ کم تر درجہ کا ہوتا ہے پھر جب صالح اعمال کرتا ہے تو اس کا ایمان بھی مضبوط ہوتا جاتا ہے اور تقویٰ میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے بالفاظ دیگر ایمان اور تقویٰ معلوم کرنے کا معیار صالح اعمال کی کمی بیشی ہوتا ہے اور صالح اعمال کی بجا آوری سے ایمان اور تقویٰ میں اضافہ ہوتا ہے گویا یہ دونوں ایک دوسرے کے ممدو معاون ثابت ہوتے ہیں ایمان اور تقویٰ کا بلند تر درجہ احسان ہے احسان کا لفظی معنی کسی کام کو اپنے دل کی رضاء ورغبت اور نہایت اچھے طریقے سے بجا لانا ہے۔ اور جو بھی عمل صالح ان شرائط سے بجا لایا جائے گا احسان کے درجہ میں ہوگا۔ حدیث جبریل میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کے اس سوال کے جواب میں کہ ’’احسان کیا ہے؟‘‘ فرمایا کہ ’’احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت ایسے کرے جیسے تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو ایسا نہ کرسکے تو کم از کم یہ سمجھے کہ اللہ تجھے دیکھ رہا ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب سوال جبریل النبی۔۔) اور عبادت کا مفہوم اتنا وسیع ہے کہ جس کا اطلاق ہر عمل صالح پر ہوسکتا ہے۔ المآئدہ
94 [١٤١] یعنی محرم شکار کے لیے نہ کسی دوسرے کو کہہ سکتا ہے نہ شکار کی طرف یا شکار کرنے کے لیے کسی کو اشارہ کرسکتا ہے اور نہ ہی شکار میں کسی طرح کی مدد کرسکتا ہے۔ البتہ اگر کسی غیر محرم نے شکار کیا ہو تو اس میں سے کھا سکتا ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ محرم پر شکار کی پابندی :۔ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم جب حدیبیہ کے سفر پر روانہ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ نے احرام باندھا صرف میں نے نہیں باندھا تھا۔ میرے ساتھیوں نے راستہ میں ایک جنگلی گدھا دیکھا اور وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسنے لگے۔ میں اپنی جوتی سینے میں مشغول تھا لیکن انہوں نے مجھے نہ بتایا اگرچہ وہ چاہتے تھے کہ میں اسے دیکھ لوں۔ اچانک میں نے نظر اٹھائی تو گدھے کو دیکھا۔ میں گھوڑے پر زین کس کر اس پر سوار ہوگیا اور (جلدی سے) کوڑا اور نیزہ لینا بھول گیا۔ میں نے انہیں کہا کہ مجھے کوڑا اور نیزہ اٹھا کر دے دو۔ انہوں نے کہا ’’اللہ کی قسم! ہم اس کام میں تمہاری کچھ مدد نہ کریں گے۔‘‘ مجھے غصہ آ گیا۔ خیر میں نے اتر کر کوڑا اور نیزہ پکڑا اور پھر سوار ہوگیا۔ پھر میں اس گدھے پر حملہ آور ہوا اور نیزہ چبھو کر اسے روک دیا۔ میں نے پھر ان سے مدد طلب کی۔ انہوں نے پھر میری مدد کرنے سے انکار کردیا۔ الغرض ہم سب نے اس میں سے کھایا۔ پھر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملا۔ میں نے کہا کہ ہم نے ایک جنگلی گدھے کا شکار کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا ’’کیا تم میں سے کسی نے شکار کیا تھا یا حملہ کرنے کو کہا تھا یا اس کی طرف اشارہ کیا تھا یا کسی قسم کی مدد کی تھی؟‘‘ صحابہ نے کہا ''نہیں'' پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے جو کہ احرام باندھے ہوئے تھے کہا ’’تم بھی اسے کھا سکتے ہو۔‘‘ پھر پوچھا ’’کیا تمہارے پاس اس میں سے کچھ باقی ہے؟‘‘ میں نے دستی پیش کی جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کاٹ کر کھایا۔ (مسلم۔ کتاب الحج۔ باب تحریم الصید للمحرم) بخاری۔ ابو اب العمرۃ۔ باب اذا رای المحرمون صیداً فضحکوا۔۔ الخ) واضح رہے کہ جس طرح احرام باندھے ہوئے کو شکار کرنا حرام ہے اسی طرح حرم مکہ میں داخل ہونے والے پر بھی حرام ہے کیونکہ انتم حرم کا لفظ ان دونوں صورتوں کو شامل ہے۔ اور یہ آزمائش اس لحاظ سے تھی کہ حدیبیہ کے سفر میں راستہ میں شکار کی بڑی افراط تھی اور مسلمانوں کی خوراک کے لیے اس کی ضرورت بھی تھی حتیٰ کہ بعض جانور اور پرندے صحابہ کے خیموں اور ڈیروں میں گھس آتے تھے۔ تاہم مسلمان اس آزمائش میں پورے اترے جبکہ بنی اسرائیل کے سمندر کے کنارے بسنے والے ماہی گیر ایسے ہی امتحان میں بری طرح ناکام ہوئے اور مکر و فریب سے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی جس کی پاداش میں وہ بندر بنا دیئے گئے تھے۔ المآئدہ
95 [١٤٢] شکار کرنے کا کفارہ :۔ یعنی دو معتبر اور منصف مزاج یہ فیصلہ کریں گے کہ کونسا جانور اس شکار کردہ جانور کے بدلہ میں اسی کی جنس سے اور اسی کی قیمت کے برابر ہے۔ یہ جانور کعبہ لے جا کر ذبح کیا جائے گا اور کفارہ دینے والا خود اس سے کچھ نہیں کھا سکتا اور اگر ایسا جانور میسر نہیں آتا تو دو عادل یہ فیصلہ کریں گے کہ شکار کردہ جانور کی قیمت کیا ہے اس قیمت کا غلہ لے کر یا مسکینوں کو کھانا کھلا دیا جائے یا وہ غلہ ان میں تقسیم کردیا جائے نیز یہ فیصلہ بھی انہیں پر منحصر ہوگا کہ اتنے غلہ سے کتنے مسکینوں کو روزہ رکھایا جا سکتا ہے یا ایک مسکین کو کتنے روزے رکھائے جا سکتے ہیں۔ دانستہ شکار کرنے والا کفارہ کے طور پر اتنے ہی روزے بھی رکھے گا۔ رہی یہ بات کہ اگر کسی نے بھول کر شکار کرلیا یا غلطی سے اس کا تیر شکار کو جا لگا تو کیا اس پر بھی یہ کفارہ ہے بعض فقہاء ایسے قتل خطا اور عمد میں کوئی فرق نہیں کرتے لیکن آیت میں متعمداً سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ قتل خطا پر کفارہ نہ ہونا چاہیے۔ اسی طرح ایک اختلاف یہ بھی ہے کہ اگر شکار کا جانور مرا نہیں بلکہ صرف زخمی ہوا ہے تو کیا اس پر بھی کچھ کفارہ ہے؟ آیت سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ کفارہ صرف قتل کی صورت میں ہے تاہم بعض فقہاء اس بات کے قائل ہیں کہ زخم کی نسبت سے اس کا بھی کفارہ لازم ہے کیونکہ اس نے یہ کام عمداً کیا ہے اور ایک اختلاف یہ ہے کہ آیا شکار کی طرف اشارہ کرنے والوں یا اس کام میں مدد دینے والوں پر بھی کچھ کفارہ ہے۔ کیونکہ سنت میں ان کاموں سے بھی باز رہنے کا حکم ہے۔ اور مندرجہ بالا حدیث ابو قتادہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان پر بھی کفارہ پڑنا چاہیے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ البتہ پانچ جانور ایسے ہیں جنہیں حالت احرام میں بھی اور حرم میں بھی مارا جا سکتا ہے۔ چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سیدہ حفصہ ام المومنین رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچ جانور ایسے ہیں جن کے مار ڈالنے میں کوئی قباحت نہیں۔ کوا۔ چیل۔ چوہا۔ بچھو اور کاٹنے والا کتا۔‘‘ (بخاری۔ ابو اب العمرۃ۔ باب مایقتل المحرم من الدواب ) [١٤٢۔ الف] یعنی جو شخص اللہ کے اس حکم کی تعمیل یا اس کے شعائر کی تعظیم نہیں کرے گا۔ اللہ اسے مختلف ارضی اور سماوی بلاؤں میں مبتلا کر دے گا۔ اور ایسے لوگوں کے لیے آخرت کا عذاب تو بہرحال یقینی ہے۔ المآئدہ
96 [١٤٣] یہ اجازت محرم اور غیر محرم سب کو ہے۔ محرم صرف خشکی کے جانوروں کا شکار نہیں کرسکتا۔ سمندر کے شکار کی اجازت میں غالباً مصلحت یہ ہے کہ اگر سمندر میں زاد راہ ختم ہوجائے تو سمندر میں مزید زاد راہ کا حصول خشکی کی نسبت بہت مشکل ہوتا ہے۔ ہر طرح کا سمندری جانور حلال ہے :۔ اس آیت کی رو سے تمام سمندری جانور حلال ہیں۔ البتہ مینڈک اور مگر مچھ یا اسی قبیل کا کوئی اور جانور جو پانی اور خشکی دونوں جگہ زندہ رہ سکتا ہو ان کی حلت میں اختلاف ہے۔ مزید یہ کہ ان سمندری جانوروں کو ذبح کرنے کی بھی ضرورت پیش نہیں آتی۔ کیونکہ وہ پانی سے جدا ہوتے ہی مر جاتے ہیں اور اگر چند لمحے زندہ بھی رہیں تو بھی انہیں ذبح کرنے کی ضرورت نہیں جیسے مچھلی خواہ وہ زندہ ہو یا مر چکی ہو ہر حال میں حلال ہے۔ اور اگر زندہ مچھلی کو پانی سے نکال لیا جائے تو وہ چند ساعت بعد خودبخود مر جاتی ہے۔ [١٤٤] سمندری وہیل مچھلی اور غزوہ سیف البحر :۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (٨ ھ میں) سمندر کے کنارے ایک لشکر بھیجا اور سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو اس کا سردار مقرر کیا۔ یہ تین سو آدمی تھے اور میں بھی ان میں شامل تھا۔ راستہ میں ہمارا زاد راہ ختم ہوگیا۔ ابو عبیدہ نے حکم دیا کہ سب لوگ اپنا اپنا توشہ لا کر اکٹھا کریں۔ ایسا کیا گیا تو کل زاد راہ کھجور کے دو تھیلے جمع ہوئے۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ ان میں سے ہم کو تھوڑا تھوڑا دیا کرتے۔ حتیٰ کہ وہ بھی ختم ہونے کو آئے تو فی کس ایک کھجور یومیہ دینے لگے۔ وہب کہتے ہیں کہ میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ایک کھجور سے تمہارا کیا بنتا ہوگا۔ انہوں نے کہا جب وہ بھی نہ رہی تب ہمیں معلوم ہوا کہ وہ ایک کھجور بھی غنیمت تھی۔ پھر جب ہم سمندر پر پہنچے تو دیکھا کہ پہاڑ کی طرح ایک بہت بڑی مچھلی پڑی ہے۔ لشکر کے لوگ اٹھارہ دن تک اسی میں سے کھاتے رہے۔ پھر ابو عبیدہ نے حکم دیا۔ اس کی دو پسلیاں کھڑی کی گئیں تو اونٹ ان کے نیچے سے نکل گیا اور پسلیوں کی بلندی تک نہ پہنچا۔ (بخاری۔ باب الشرکۃ فی الطعام وغیرہ) المآئدہ
97 [١٤٥] اس آیت میں قِیَاماً للنَّاسِ کے تین الگ الگ مطلب لیے جا سکتے ہیں اور وہ تینوں ہی درست ہیں۔ (١) الناس سے مراد اس دور کے اور اس سے پہلے اور پچھلے قیامت تک کے سب لوگ مراد لیے جائیں۔ اس صورت میں معنیٰ یہ ہوگا کہ کعبہ کا وجود کل عالم کے قیام اور بقا کا باعث ہے اور دنیا کا وجود اسی وقت تک ہے جب تک خانہ کعبہ اور اس کا احترام کرنے والی مخلوق موجود ہے۔ جب اللہ کو یہ منظور ہوگا کہ یہ کارخانہ عالم ختم کردیا جائے تو اس وقت بیت اللہ کو اٹھا لیا جائے گا جیسا کہ سب سے پہلے اس زمین پر یہ مکان بنایا گیا تھا امام بخاری نے اس معنیٰ کو ترجیح دی ہے اور اسی آیت کے تحت درج ذیل حدیث لائے ہیں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (قیامت کے قریب) ایک چھوٹی پنڈلیوں والا (حقیر) حبشی کعبہ کو ویران کرے گا۔ (بخاری۔ کتاب المناسک۔ باب قول اللہ تعالیٰ جعل اللّٰہ الکعبۃ البیت الحرام قیاماً للناس۔۔) اس حدیث سے ضمناً دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس سے پہلے کوئی مضبوط سے مضبوط اور طاقتور دشمن کعبہ کو منہدم کرنے کے ناپاک عزائم میں کامیاب نہ ہو سکے گا۔ اور اللہ تعالیٰ نے جس طرح اصحاب الفیل (ابرہہ) کو ذلیل اور ناکام بنا دیا تھا ایسے ہی ہر اس شخص کو یا قوم یا حکومت کو ہلاک کر دے گا جو کعبہ کی تخریب کی مذموم حرکت کرے گی۔ (٢) الناس سے مراد صرف عرب کے لوگ لیے جائیں۔ جو حرمت والے مہینوں میں بڑی آزادی سے سفر کرتے تھے بالخصوص جب وہ قربانی کے پٹہ والے جانور بھی بغرض قربانی ساتھ جا رہے ہوں۔ کیونکہ سب قبائل عرب ایسے جانوروں کا احترام کرتے تھے اور یہ سب کچھ کعبہ کے تقدس کی بنا پر ہوتا تھا۔ حج و عمرہ کرنے والے اور تجارتی قافلے تہائی سال نہایت اطمینان سے سفر کرتے۔ اس طرح کعبہ پورے ملک کی تمدنی اور معاشی زندگی کا سہارا بنا ہوا تھا۔ (٣) الناس سے مراد مکہ اور اس کے ارد گرد کے لوگ لیے جائیں۔ اس صورت میں معنیٰ یہ ہوگا کہ بے آب و گیاہ وادی میں کعبہ کا وجود مکہ اور آس پاس کے تمام لوگوں کی معاش کا ذریعہ ہے۔ اقصائے عالم سے حج و عمرہ کے لیے آنے والے لوگوں کو قیام و طعام اور نقل و حرکت کی خدمات مہیا کرنے کے عوض ان لوگون کو اتنی آمدنی حاصل ہوجاتی ہے جس سے وہ سال بھر گزارہ کرسکیں بلکہ اس سے بہت زیادہ بھی۔ نیز انہیں دوسرے بھی بہت سے معاشرتی اور سیاسی فوائد حاصل ہو رہے ہیں۔ [١٤٦] قربانی اور پٹے والے جانوروں کے لیے دیکھئے سورۃ مائدہ کی آیت نمبر ٢ کا حاشیہ نمبر ٧۔ [١٤٧] شرعی احکام لوگوں کے مصالح پر مبنی ہیں :۔ یعنی اس بے آب و گیاہ وادی میں بسنے والی مخلوق کی ضروریات سے اور مصالح سے وہ خوب واقف ہے اس نے اپنے گھر کو قابل احترام خطہ قرار دے کر اور اسے تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے ایک مرکز قرار دے کر ان کی جملہ ضروریات کا سامان بہم پہنچا دیا ہے کہ انہیں کھانے کے لیے رزق کی جملہ انواع کھچ کھچ کر وہاں پہنچ جاتی ہیں۔ صرف ایک اسی بات میں غور کیا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ کا ایک ایک حکم انسان ہی کے مصالح پر مبنی ہے خواہ وہ مصالح دینی ہوں یا دنیوی ہوں۔ پھر یہ بات صرف اسی خطہ تک محدود نہیں بلکہ وہ سب لوگوں کے حالات، ضروریات اور مصالح سے پوری طرح واقف ہے اور اسی کے مطابق حکم دیتا ہے۔ المآئدہ
98 المآئدہ
99 [١٤٨] یعنی رسول کی ذمہ داری صرف اللہ کے احکام پہنچا دینے تک ہے آگے ان احکام کی فرمانبرداری کی ذمہ داری تم پر ہے۔ اگر تم نافرمانی کرو گے تو رسول تمہاری اس نافرمانی سے بری الذمہ ہے اور اللہ تمہارے ظاہری اعمال و اقوال کے علاوہ باطنی خیالات تک سے واقف ہے کہ تم میں اس کی اطاعت کا جذبہ کیسا ہے؟ المآئدہ
100 [١٤٨۔ الف] خبیث اور طیب کے مختلف معانی :۔ اس آیت کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں مثلاً (١) غلاظت کے ڈھیر سے عطر کا ایک قطرہ زیادہ قدر و قیمت رکھتا ہے یا ایک گندے پانی کے نالہ سے صاف ستھرے پانی کا ایک گلاس زیادہ قدر و قیمت رکھتا ہے۔ (٢) حرام طریقہ سے کمائی ہوئی دولت اگر ایک سو روپیہ ہو تو حلال طریقے سے کمائے ہوئے پانچ روپے اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں زیادہ قدر و قیمت رکھتے ہیں اگرچہ تمہیں وہ سو روپے کی حرام کمائی کتنی ہی اچھی نظر آتی ہو۔ (٣) بدکار اور نافرمان آدمیوں کے ایک لشکر کے مقابلہ میں اللہ کے نزدیک گنتی کے چند فرمانبردار اور متقی لوگ زیادہ محبوب ہیں اور جو لوگ صاحب عقل و شعور ہیں وہ ان متضاد اشیاء کو کبھی یکساں قرار نہیں دے سکتے لہٰذا تم اللہ سے ڈرتے ہوئے وہی بات کہو جسے اہل عقل و دانش بھی درست سمجھتے ہوں۔ اسی صورت میں کامیابی کا امکان ہے۔ المآئدہ
101 [١٤٩] یعنی ایسے سوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ کیا کرو جن میں نہ تمہارا کوئی دینی فائدہ ہو اور نہ دنیوی کیونکہ خواہ مخواہ سوال پوچھنے سے انسان کو نقصان ہی ہوتا ہے یا اس پر کوئی پابندی عائد ہوجاتی ہے جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔ ١۔ کثرت سوال کی ممانعت :۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی باتیں پوچھیں کہ آپ کو برا معلوم ہوا۔ جب بہت سوال جواب ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اب جو چاہو پوچھتے جاؤ۔‘‘ ایک شخص (عبداللہ بن حذافہ، جسے لوگ متہم کرتے تھے) نے کہا : میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تیرا باپ حذافہ ہے۔‘‘ پھر دوسرا شخص (سعد بن سالم) کہنے لگا : یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ فرمایا’’تیرا باپ سالم ہے شیبہ کا غلام۔‘‘ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کے غصہ کو دیکھا تو کہنے لگے’’ یا رسول اللہ ! ہم اللہ عزوجل کی بارگاہ میں توبہ کرتے ہیں‘‘ تب یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب الغضب فی الموعظۃ والتعلیم اذا رای مایکرہ) ٢۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک شخص نے پوچھا : میرا باپ کہاں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’دوزخ میں‘‘ (بخاری۔ کتاب الاعتصام۔ باب مایکرہ من کثرۃ السوال ) ٣۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بڑا قصور وار وہ مسلمان ہے جو ایک بات پوچھے جو حرام نہ ہو لیکن اس کے پوچھنے کی وجہ سے حرام ہوجائے۔‘‘ (حوالہ ایضاً) ٤۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا : بے فائدہ بک بک کرنے، زیادہ سوال کرنے، مال و دولت ضائع کرنے، ماؤں کو ستانے، لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے، دوسروں کا حق دبانے سے۔ (بحوالہ ایضاً) ٥۔ ایک شخص (اقرع بن حابس) نے پوچھا : یا رسول اللہ ! کیا حج ہر سال فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپ رہے۔ سائل نے دوبارہ یہی سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’نہیں۔ اگر میں ہاں کہہ دیتا تو تم پر ہر سال حج واجب ہوجاتا (اور تم نباہ نہ سکتے)‘‘ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) ٦۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو میں چھوڑوں یعنی اس کا ذکر نہ کروں تم بھی اس کا ذکر نہ کرو۔ کیونکہ تم سے پہلے لوگ زیادہ سوال کرنے اور اپنے انبیاء سے اختلاف کرنے کی بنا پر تباہ ہوگئے۔ (مسلم۔ کتاب الفضائل۔ باب توقیرہ و ترک اکثار سوالہ ممالا ضرورۃ الیہ۔۔ الخ) ٧۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کام سے میں تمہیں منع کروں اس سے باز رہو اور جس کام کا حکم دوں اسے جہاں تک ہو سکے بجا لاؤ کیونکہ تم سے پہلے لوگ زیادہ سوال کرنے اور اپنے پیغمبروں سے اختلاف کرنے کی وجہ سے تباہ ہوگئے۔ (مسلم حوالہ ایضاً) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ نے کچھ فرائض تم پر عائد کیے ہیں، انہیں ضائع نہ کرو (ٹھیک طرح سے بجا لاؤ) اور کچھ چیزیں حرام کی ہیں ان کے پاس نہ پھٹکو، کچھ حدود مقرر کی ہیں ان سے تجاوز نہ کرو اور کچھ چیزوں کے متعلق خاموشی اختیار کی ہے بغیر اس کے اس کو بھول لاحق ہو لہٰذا ان کی کرید نہ کرو۔ ‘‘ (بیہقی بحوالہ الموافقات للشاطبی اردو ترجمہ ج ١ ص ٢٩١) المآئدہ
102 [١٥٠] شریعت کے اجمالی حکم کی جزئیات کا قیاس نہ کیا جائے :۔ یہ یہود تھے جنہوں نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے سوال کر کر کے انہیں پریشان کر رکھا تھا جیسا کہ سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ١٠٨ سے واضح ہوتا ہے۔ کہ جب انہیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تو انہوں نے پے در پے سوالات شروع کردیئے کہ ہمیں اللہ سے پوچھ کر بتاؤ کہ اس گائے کی عمر کیا ہو، اس کا رنگ کیسا ہو اس کی کیفیت کیسی ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ اگر وہ کوئی بھی سوال نہ کرتے تو کوئی سی گائے ذبح کرنے میں آزاد تھے۔ مگر پے در پے سوال کرنے سے اپنے آپ پر پابندی ہی بڑھاتے گئے اور یہی زیادہ سوال کرنے کا نقصان ہوتا ہے۔ شریعت اگر ایک حکم اجمالاً بیان کرے تو اس کے اجمال سے فائدہ اٹھانے میں بھی مسلمانوں کے لئے آسانی ہے۔ اجتہاد و استنباط کر کے اس کی تفصیلات معین کر کے مسلمانوں کے لئے مشکلات کا یا الجھنوں کا سبب نہ بننا چاہیے۔ المآئدہ
103 [١٥١] بحیرہ ، سائبہ ، وصیلہ ، حام کی رسوم :۔ سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ ''بحیرہ'' وہ دودھ دینے والا جانور ہے جس کا دودھ بتوں کے نام پر روک دیا جائے کہ کوئی اس کا دودھ نہ دوہے۔ سائبہ وہ جانور ہے جسے بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے اس پر کوئی نہ بوجھ لادتا نہ سواری کرتا (یعنی سانڈ) وصیلہ وہ اونٹنی ہے جو پہلی بار بھی مادہ جنے اور دوسری بار بھی ایسی اونٹنی کو بھی وہ بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے اور حام وہ نر اونٹ ہے جس کے نطفہ سے دس بچے پیدا ہوچکے ہوں۔ اسے بھی بتوں کے نام پر بطور سانڈ چھوڑ دیا جاتا تھا۔ سعید بن مسیب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میں نے عمرو بن عامر خزاعی کو دیکھا کہ وہ دوزخ میں اپنی انتڑیاں گھسیٹتا پھرتا ہے۔ سانڈ کی رسم سب سے پہلے اسی نے نکالی تھی۔‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) جس عمرو بن عامر خزاعی کا نام اس حدیث میں آیا ہے ایک دوسری روایت میں اس کا نام عمرو بن لحی خزاعی بھی مذکور ہے۔ یہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے تقریباً تین سو سال پہلے مکہ کا فرمانروا بن گیا تھا۔ اس نے دین ابراہیمی میں بہت سی خرافات شامل کردیں۔ بہت سی حلال چیزوں کو حرام اور حرام چیزوں کو حلال کردیا۔ مکہ مکرمہ میں بت پرستی کو بھی اسی نے رواج دیا تھا۔ اور ہوتا یہ ہے کہ امراء و سلاطین یا بڑے لوگ بد رسمیں ایجاد کرتے ہیں اور ان کے زیر لوگ انہیں قبول اور پسند کرنے لگتے ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ یہی بد رسوم دین کا حصہ سمجھی جانے لگتی ہیں۔ مزید ستم ظریفی یہ تھی کہ ایسی مشرکانہ رسوم کی ایجاد تو ان کے بڑے بزرگ کرتے تھے مگر ان کے پچھلے اسے اللہ سے منسوب کردیتے کہ اللہ نے ایسا حکم دیا ہے اور جہلاء جن کی ہر معاشرہ میں عموماً اکثریت ہوتی ہے ان کے اس افتراء کو تسلیم کرلیتے تھے اس طرح ایسی رسوم رواج پا جاتی تھیں۔ اسی بات کی تردید میں اللہ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ المآئدہ
104 [١٥٢] تقلید آباد کی مذمت :۔ تقلید آباء بھی دراصل شرک ہی کی ایک قسم ہے کیونکہ ایسی صورت میں اللہ اور رسول کے احکام کے مقابلہ میں دین آباء کو ترجیح دی جاتی ہے اور اس کی ابتدا یوں ہوتی ہے کہ ہر شخص فطرتاً اپنے بزرگوں سے اچھا گمان رکھتا ہے اور ان سے محبت کی بنا پر اس کا یہ گمان عقیدہ کی شکل اختیار کرجاتا ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ ہمارے بزرگ ہم سے بہت زیادہ نیک، عالم اور دین کو سمجھنے والے تھے۔ حالانکہ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ انبیاء کے علاوہ کوئی شخص معصوم نہیں ہوتا۔ اور ہر شخص سے دانستہ یا نادانستہ طور پر غلطی کا صدور ممکن ہے اور تقلید آباء کی صورت میں یہ غلطی نسل در نسل منتقل ہوتی چلی جاتی ہے چنانچہ ہر عقیدہ اور عمل کی صحت معلوم کرنے کا صرف یہ طریقہ ہے کہ اسے کتاب و سنت پر پیش کیا جائے ورنہ محض تقلید آباء کا منطقی نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ گمراہی کی طرف دھکیل دے گی۔ المآئدہ
105 [١٥٣] سب سے پہلے اپنی اصلاح ضروری ہے :۔ یعنی تمہیں سب سے پہلے اپنے نفس کی اصلاح کرنی چاہیے۔ یہ نہ دیکھنا چاہیے کہ دوسرا کیا کر رہا ہے۔ بلکہ اپنے عقائد، اپنے کردار، اخلاق و اعمال کی اصلاح کتاب و سنت کی روشنی میں کرنی چاہیے۔ دوسروں کی کجروی اور گمراہی تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ یعنی سب سے پہلے تمہیں اپنی دینی بنیادیں اس قدر مضبوط بنانا چاہئیں کہ دوسرے لوگوں کی ضلالت تم پر کسی طرح اثر انداز نہ ہو سکے۔ پھر اس کے بعد تمہیں بگڑے ہوئے دوسرے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنا چاہیے۔ یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دوسرے جو کچھ بھی کرتے رہیں، تمہیں ان سے بے نیاز ہو کر بس اپنی ہی فکر کرنا چاہئے۔ کیونکہ ﴿اَمَرْ بالْمَعْرُوْفِ﴾ اور ﴿نَھَی عَنِ الْمُنْکَرِ﴾ کا فریضہ اس قدر اہم ہے کہ بعض علماء کے نزدیک یہ فرض عین ہے۔ اور ہر شخص کو اپنی قوت، اپنے علم، اپنی استعداد کے مطابق اپنے حلقہ اثر میں یہ فرض ضرور سر انجام دینا چاہیے۔ پھر بھی اگر کوئی شخص روکنے کے باوجود باز نہ آئے۔ تو روکنے والے پر کچھ الزام نہ ہوگا۔ المآئدہ
106 [١٥٤] سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ بنو سہم کا ایک آدمی تمیم داری اور عدی کے ساتھ سفر پر نکلا اور یہ سہمی ایسی جگہ مر گیا جہاں کوئی مسلمان نہ تھا۔ تمیم داری اور عدی اس کا ترکہ لے کر آئے تو سہمی کے وارثوں نے اس میں ایک پیالہ نہ پایا جو چاندی کا تھا اور سونے سے مرصع تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمیم اور عدی سے قسم کھانے کو کہا اور وہ قسم کھا گئے کہ (پیالہ ان کے پاس نہیں) پھر وہ پیالہ بازار مکہ سے مل گیا۔ اور انہوں نے کہا کہ ہم نے تمیم داری اور عدی سے خریدا ہے۔ اب سہمی کے وارثوں سے دو شخص کھڑے ہوئے اور اللہ کی قسم کھا کر گواہی دی کہ یہ پیالہ ہمارے ہی آدمی کا ہے اور یہ کہ ہماری گواہی ان دونوں سے زیادہ سچی ہے۔ یہ آیت اسی سلسلہ میں نازل ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب الوصایا۔ باب قول اللہ تعالیٰ یٰاایہا الذین آمنوا شھادۃ۔۔ ) چوری کے پیالہ کا مقدمہ :۔ یہ واقعہ جو دور نبوی میں ہوا تھا اس کی کچھ تفصیل تو مندرجہ بالا حدیث میں آ گئی ہے تاہم اختصار کی وجہ سے کئی پہلو تشنہ رہ گئے ہیں جو ہم یہاں بیان کریں گے تاکہ بات پوری طرح سمجھ میں آ جائے۔ ہوا یہ تھا کہ بنو سہم کا ایک مسلمان، جس کا نام بدیل تھا۔ اپنے دو ساتھیوں تمیم اور عدی کے ساتھ، جو نصرانی تھے اور ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ شام کی طرف ایک تجارتی سفر پر روانہ ہوئے۔ بدیل وہاں شام جا کر بیمار پڑگیا جس سے اسے افاقہ ہوتا نظر نہیں آ رہا تھا۔ اس نے اپنا اثاثہ باندھا اور اپنے ان دونوں ساتھیوں کے حوالہ کردیا۔ اور تاکید کی کہ یہ سامان میرے وارثوں کے حوالہ کردیں۔ اس نے یہ عقلمندی کی کہ چپکے سے اپنے سامان کی ایک فہرست تیار کر کے سامان میں کسی محفوظ جگہ رکھ دی اور اپنے ساتھیوں کو اس کی خبر نہ کی۔ اس سامان میں ایک قیمتی پیالہ تھا جو چاندی کا تھا اور اس پر سونے کا پانی چڑھا ہوا اور نقش و نگار بنے ہوئے تھے۔ ان نصرانیوں نے اس کے مرنے کے بعد جب سامان دیکھا تو ان کی نیت میں فتور آ گیا اور یہ پیالہ سامان میں سے چرا لیا۔ جب وہ واپس آئے تو سامان بدیل کے ورثاء کے حوالہ کردیا اور پیالہ بازار میں کسی سنار کے پاس فروخت کردیا۔ ورثاء نے جب سامان کھولا تو اس میں سامان کی فہرست بھی ملی۔ اس کے مطابق سامان چیک کیا تو وہ قیمتی پیالہ ندارد تھا۔ انہوں نے سامان لانے والے ساتھیوں سے پوچھا کہ مرنے والے نے اپنی کوئی چیز فروخت تو نہیں کی تھی؟ ممکن ہے اسے بیماری کے علاج معالجہ کے لیے ضرورت پڑگئی ہو اور اس نے کچھ سامان بیچ ڈالا ہو؟ انہوں نے اس کا جواب نفی میں دیا۔ یہ تسلی کرلینے کے بعد ورثاء نے یہ مقدمہ عدالت نبوی میں پیش کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمیم اور عدی دونوں کو بلا کر بیان لیا تو وہ کہنے لگے کہ ہمیں اس پیالہ کا کچھ علم نہیں اور قسمیں کھا کر اپنے بیان کی توثیق کی۔ اب چونکہ اس بات کا امکان تھا کہ سامان کی فہرست تیار کرنے کے بعد میت نے وہ پیالہ اپنی ضرورت سے بیچ دیا ہو اور شرعی شہادات پوری نہیں ہو رہی تھیں لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان نصرانیوں کو بری قرار دے دیا۔ کچھ مدت بعد بدیل کے وارثوں نے وہی پیالہ ایک سنار کے پاس دیکھ لیا تو اس سے پوچھا کہ یہ پیالہ تم نے کہاں سے لیا ہے؟ اس نے کہا میں نے یہ تمیم اور عدی سے خریدا ہے۔ چنانچہ مدعی دوبارہ یہ مقدمہ آپ کی عدالت میں لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر نصرانیوں کو بلایا اور ان کے سامنے وارثوں میں سے دو گواہوں نے قسم اٹھا کر گواہی دی کہ یہ پیالہ ہمارے ہی آدمی کا ہے نصرانی اپنی قسم میں جھوٹے ہیں اور ہم اللہ سے ڈرتے ہوئے بالکل صحیح اور سچی گواہی دے رہے ہیں۔ یہ گواہیاں میت کے نہایت قریبی وارثوں کی تھیں جو مسلمان تھے۔ نیز یہ گواہیاں نماز عصر کے بعد قسم کے بعد مسجد میں ہوئی تھیں لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میت کے وارثوں کے حق میں فیصلہ دے دیا اور نصرانیوں سے اس پیالہ کی قیمت (ایک ہزار درہم) میت کے وارثوں کو دلائی گئی۔ اس وقت یہ آیات نازل ہوئیں۔ پھر کچھ عرصہ بعد جب ان دونوں نصرانیوں میں سے تمیم نے اسلام قبول کرلیا تو اس نے اعتراف کیا کہ واقعی اس نے جھوٹی قسم کھائی تھی اور جو کچھ اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا تھا وہ درست تھا۔ المآئدہ
107 [١٥٥] اس واقعہ اور ان آیات کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ ہر حال میں گواہی ٹھیک ٹھیک اور سچی ہی دینا چاہیے اور یہ مضمون قرآن کریم میں بے شمار مقامات پر آیا ہے اور جھوٹی یا گول مول یا ہیرا پھیری کی شہادت کو گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے بھی واضح ہے۔ جھوٹی شہادت کبیرہ گناہ ہے :۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا ’’کیا میں تمہیں بڑے بڑے گناہوں کی خبر نہ دوں؟‘‘ صحابہ نے کہا : یا رسول اللہ ! ضرور بتائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی‘‘ اس وقت آپ تکیہ لگائے ہوئے تھے۔ پھر سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا ’’خبردار! جھوٹا قول اور جھوٹی شہادت۔ خبردار جھوٹا قول اور جھوٹی شہادت۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کلمات دہراتے ہی رہے۔ میں سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپ ہی نہ ہوں گے۔ (بخاری کتاب الادب۔ باب عقوق الوالدین من الکبائر) (مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب بیان الکبائرواکبرھا) المآئدہ
108 [١٥٦] ان آیات میں چند باتیں قابل ذکر ہیں جو یہ ہیں۔ (١) یہاں پہلی دفعہ شہداء کا جو ذکر آیا ہے وہ وصی کے معنوں میں آیا ہے یعنی وہ لوگ جن کو میت اپنا ترکہ حوالہ کر کے انہیں وصیت کرے (٢) غیر مسلموں کو صرف اس صورت میں وصی بنایا جا سکتا ہے جب مسلم وصی دستیاب نہ ہو رہے ہوں جیسے سفر میں اکثر ایسی ضرورت پیش آ جاتی ہے (٣) آئندہ کے لیے یہ قانون مقرر کردیا گیا کہ اگر وصی کے بیانات میں کچھ شک پڑجائے تو اس کے بعد ان سے اہل تر گواہوں کی شہادت کی بنا پر اوصیاء کی گواہی کو کالعدم بھی قرار دیا جا سکتا ہے لہٰذا انہیں چاہیے کہ گواہی ٹھیک ٹھیک دیا کریں تاکہ بعد میں رسوائی نہ ہو اور (٤) صحیح تر بات یہ ہے کہ وہ اپنی رسوائی سے ڈرتے ہوئے سچ بولنے کی بجائے اگر اللہ سے ڈر کر سچی گواہی دیں تو یہی بات زیادہ مناسب ہے۔ المآئدہ
109 [١٥٧] روز قیامت پیغمبروں سے سوال :۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ رسولوں کو ان کی امتوں نے جو جو جواب دیئے تھے ان کا انہیں کسی نہ کسی حد تک علم ضرور تھا مگر روز حساب میں ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب دہشت اتنی زیادہ ہوگی کہ ماسوائے محمد رسول اللہ کے انبیاء و رسل سمیت سب نفسی نفسی پکار رہے ہوں گے اور اپنی اپنی نجات کی فکر کے سوا کسی کو کوئی بات سوجھ ہی نہیں رہی ہوگی اسی بنا پر رسول ایسے وقت میں انتہائی مختصر اور جامع سا جواب دیں گے اور یہ جواب اس لحاظ سے مبنی بر حقیقت بھی ہے کہ اللہ کے علم کے مقابلہ میں دوسروں کا علم کچھ حقیقت نہیں رکھتا نیز لفظ ﴿مَاذَا اَجَبْتُمْ﴾ کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو دعوت تم نے لوگوں کو دی تھی اس کا رد عمل کیسا رہا اور لوگوں نے اس دعوت کو کہاں تک قبول کیا تھا اس کا جواب پیغمبر یہ دیں گے کہ اے اللہ ! یہ بات تو آپ ہی خوب جانتے ہیں اس کا علم ہمیں کیسے ہوسکتا ہے؟ المآئدہ
110 [١٥٨] یعنی پہلے تمام انبیاء سے اجتماعی طور پر پوچھا جائے گا کہ ان کی قوم نے انہیں کیا جواب دیا تھا یا ان کی دعوت کو کس حد تک قبول کیا تھا پھر ہر نبی سے الگ الگ یہی سوال ہوگا اور عیسیٰ علیہ السلام کے سوال و جواب کو بالخصوص اس لیے ذکر کیا گیا کہ آپ کی امت نے مستقلاً کئی خدا بنا لیے تھے۔ [١٥٩] سوال و جواب سے پیشتر اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام پر اپنے احسانات کا تذکرہ کیا ہے یہ احسانات قرآن کریم میں جا بجا مذکور ہیں۔ ان میں اکثر اس مقام پر یک جا کر کے ذکر کیے گئے ہیں۔ اور وہ حسب ذیل ہیں۔ (١) اللہ تعالیٰ کے عیسیٰ اور ان کی والدہ پر احسانات :۔ عیسیٰ علیہ السلام پر سب سے بڑا احسان اور ان کی سب سے بڑی فضیلت یہ تھی کہ آپ نفخہ جبریلیہ سے پیدا ہوئے تھے آپ کی پیدائش فطری طریق سے ہٹ کر خرق عادت اور معجزانہ طور پر واقع ہوئی تھی۔ اسی لیے آپ کو روح اللہ اور کلمۃ اللہ کہا جاتا ہے۔ (٢) آپ کی والدہ مریم پر اللہ کا یہ احسان تھا کہ آپ کو یہودیوں کی تہمت سے بری قرار دیا۔ (٣) عیسیٰ علیہ السلام بالکل چھوٹی عمر میں، جبکہ بچہ بولنا سیکھتا بھی نہیں، اس طرح کلام کرتے تھے جیسے ایک پختہ عقل والا آدمی گفتگو کرتا ہے۔ (٤) آپ بارہ سال کی عمر میں تورات کی عبارتیں زبانی یوں فر فر سنا دیا کرتے تھے کہ یہود کے بڑے بڑے علماء اور فریسی یہ صورت حال دیکھ کر دنگ رہ جاتے تھے۔ پھر تیس سال کی عمر میں آپ کو نبوت عطا ہوئی، اور آپ پر انجیل نازل ہوتی رہی۔ (٥) معجزات عیسیٰ:۔ شاید یہ نفخہ جبریلیہ ہی کا اثر تھا کہ آپ مٹی کا کوئی پرندہ بناتے پھر اس میں پھونک مارتے تو وہ پرندہ اللہ کے حکم سے سچ مچ کا جاندار پرندہ بن کر اڑنے لگتا تھا۔ (٦) نیز اسی نفخہ جبریلیہ کے اثر یا روح القدس کی تائید سے مادر زاد اندھے کی آنکھوں پر ہاتھ پھیرتے تو وہ اللہ کے حکم سے بینا بن جاتا تھا اور اس کی آنکھیں بالکل ٹھیک ہو کر دیکھنے لگتی تھیں۔ (٧) اگر آپ کسی برص والے یعنی کوڑھی کے بدن پر ہاتھ پھیرتے تو وہ اللہ کے حکم سے بالکل تندرست ہوجاتا تھا۔ (٨) آپ کسی قبر میں پڑے ہوئے مردے کو زندہ ہو کر اٹھ کھڑا ہونے کو کہتے تو وہ اللہ کے حکم سے قبر سے نکل کر کھڑا ہوجاتا تھا۔ (٩) اتنے ڈھیروں معجزات کے باوجود بنی اسرائیل نے آپ کو جھٹلا دیا اور کہنے لگے کہ تم جادوگر ہو اور تمہارے یہ کارنامے سب کچھ جادو ہی کا کرشمہ ہیں لہٰذا وہ تمہارے درپے آزار ہوگئے اور تمہیں صلیب پر چڑھانے کی کوشش کی مگر اللہ نے انہیں ان سے بچا کر اپنے پاس اٹھا لیا تھا۔ (١٠) جب بنی اسرائیل کے سب لوگ ان کے دشمن بن گئے اور کوئی ایمان نہ لایا تو حواریوں کو اللہ نے الہام کیا تھا کہ مجھ پر اور آپ پر ایمان لا کر آپ کی ہر طرح سے مدد اور تعاون پر کمر بستہ ہوجائیں۔ غرض اللہ تعالیٰ نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام پر جو احسانات کیے تھے وہ اس لیے جتلائے جا رہے ہیں کہ ان میں اشارتاً یہ بات پائی جاتی ہے کہ اگر وہ اللہ یا اللہ کے بیٹے ہوتے تو انہیں ان احسانات کی کیا حاجت تھی؟ نیز سیدنا عیسیٰ کی ولادت سے لے کر ان کو اپنے ہاں اٹھانے تک کے تمام واقعات ایسے ہیں جو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی عبدیت پر دلالت کرتے ہیں۔ المآئدہ
111 [١٦٠] عیسائیوں کے مختلف نام۔۔ حواری کون تھے؟ یہ حواری ہی دراصل سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی امت تھے جنہوں نے اپنے آپ کو مسلمان کہا۔ عیسائی یا ناصری یا مسیحی نہیں کہا۔ یہ الفاظ بہت بعد کی پیداوار ہیں۔ اور ان کیلئے یہ نام ان کے دشمنوں یعنی یہود نے ان کیلئے تجویز کیے تھے۔ عیسیٰ علیہ السلام ناصرہ بستی میں پیدا ہوئے اور یہ بستی فلسطین کے ضلع گلیل میں واقع تھی۔ اس لحاظ سے یہود انہیں ناصری یا گلیلی بدعتی فرقہ کہتے تھے اور مسیحی بھی دشمنوں کا رکھا ہوا نام تھا جسے بعد میں عیسائیوں نے نہ صرف گوارا کرلیا بلکہ بعد میں اس نسبت پر فخر کرنے لگے اور آج تک مسیحی کہلاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو مسلمان یا انصار یا نصاریٰ کے ناموں سے ذکر کیا ہے۔ المآئدہ
112 [١٦١] یہ مکالمہ روز قیامت سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ یہ اس دنیا کا اور عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کا ایک واقعہ ہے جسے موقعہ کی مناسبت سے اور جملہ معترضہ کے طور پر یہاں بیان کیا جا رہا ہے۔ [١٦٢] حواریوں کا خوان نعمت کا مطالبہ :۔ حواری جو اسلام لا چکے تھے وہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے یہ پوچھنے لگے کہ کیا تمہارے پروردگار میں اتنی قدرت ہے کہ ہم پر آسمان سے تیار شدہ کھانا نازل کرے اور اپنے اس مطالبہ کی انہوں نے تین وجوہ بتائیں۔ ایک یہ کہ ہم فکر معاش کے دھندوں سے آزاد ہو کر یکسو ہو کر اللہ کی عبادت کرسکیں۔ دوسرے یہ کہ ہمیں یہ یقین حاصل ہوجائے کہ آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ بالکل حقیقت ہے اور اللہ واقعی ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اور تیسرے یہ کہ جس دن اس دسترخوان کا نزول ہو ہم اس دن خوشی کا جشن اور عید منائیں اور آئندہ بھی اس دن عید مناتے رہیں۔ عیسوی عقائد ما بعد کی پیداوار ہیں :۔ حواریوں کے اس مطالبہ سے یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے متبعین آپ کو الٰہ یا اللہ یا ابن اللہ یا تین خداؤں میں سے ایک خدا نہیں سمجھتے تھے بلکہ انہیں محض اللہ کا بندہ اور اس کا رسول سمجھتے تھے ورنہ ان کے مطالبہ کا انداز یہ ہوتا کہ ’’کیا تم میں یہ قدرت ہے کہ ہمارے لیے آسمان سے دسترخوان اتار کر دکھاؤ۔‘‘ [١٦٣] عیسیٰ علیہ السلام نے جواب میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا امتحان نہ لو۔ اس سے ڈرتے رہو اور اس کے فرمانبردار بن کر رہو۔ اور فرمانبردار کا یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ اپنے آقا کا امتحان لینا شروع کر دے۔ المآئدہ
113 المآئدہ
114 [١٦٤] لیکن حواری سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے سمجھانے پر بھی اپنے مطالبہ سے باز نہ آئے۔ آخر عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے پروردگار کے حضور ان لوگوں کا یہ مطالبہ پیش کردیا اور دعا کی کہ ان لوگوں کے لیے غیب سے رزق عطا فرما، جو سب اگلوں پچھلوں کے لیے ایک یادگار خوشی کا دن قرار پائے۔ اور یہ ایسا معجزہ ہوگا جسے سب لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔ المآئدہ
115 [١٦٥] مطالبہ کے معجزہ کے بعد نافرمانی پر عذاب لازم آتا ہے :۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اللہ کا قانون یہ ہے کہ جب کوئی قوم اپنے نبی سے کسی خاص قسم کے معجزہ کا مطالبہ کرے۔ پھر اللہ تعالیٰ اس قوم کو اس کا مطلوبہ معجزہ دکھا دے۔ لیکن یہ قوم پھر بھی ایمان نہ لائے تو پھر اس پر اسی دنیا میں کوئی انتہائی سخت عذاب نازل ہوتا ہے۔ یہی حقیقت اس آیت میں بیان کی گئی ہے۔ اس کی واضح مثال تو قوم ثمود کا اپنے نبی صالح علیہ السلام سے یہ مطالبہ تھا کہ اس پہاڑ سے حاملہ اونٹنی نکلے جو ہمارے سامنے بچہ جنے تب ہم ایمان لائیں گے۔ اللہ نے یہ معجزہ دکھادیا۔ لیکن ثمود نے ایمان لانے کی بجائے پھر سرکشی کی روش اختیار کی اور اس اونٹنی کو بھی ہلاک کر ڈالا تو ان پر سخت قسم کا زلزلہ آیا اور ساتھ ہی بڑی شدید اور کرخت آواز پیدا ہوئی جس سے سب کے سب تباہ ہوگئے تھے اور دوسری مثال یہی مطالبہ ہے۔ اس کے متعلق درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے۔ خوان نعمت کا مطالبہ کرنے والوں کا انجام :۔ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جو دسترخوان آسمان سے اتارا گیا تھا اس میں روٹی اور گوشت تھا اور انہیں حکم یہ دیا گیا تھا کہ اس میں نہ خیانت کریں گے اور نہ کل کے لیے ذخیرہ کریں گے۔ پھر ان لوگوں نے خیانت بھی کی اور کل کے لیے بھی اٹھا رکھا۔ لہٰذا انہیں بندر اور سور بنا دیا گیا۔ ‘‘ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر۔ زیر آیت مذکورہ) اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایسا دسترخوان صرف ایک دن نہیں بلکہ کچھ عرصہ تک نازل ہوتا رہا مطالبہ کرنے والوں نے کہا تھا کہ اس دسترخوان سے غریب، نادار، معذور اور بے کس لوگ کھایا کریں گے مگر بعد میں کھاتے پیتے لوگ بھی اس دسترخوان میں شریک ہونے لگے۔ یہ ان کی خیانت تھی۔ علاوہ ازیں کل کے لیے سٹور بھی کرنا شروع کردیا اور ان کے بے جا طمع اور اللہ پر عدم توکل کی دلیل تھا اور اس سے انہیں روکا بھی گیا تھا۔ دیگر بھی کئی نافرمانیاں کیں جن کی پاداش میں ان میں اسی کے قریب آدمیوں کی صورتیں مسخ کر کے بندر اور سور کی سی بنا دی گئیں۔ امام ترمذی کی تصریح کے مطابق یہ حدیث مرفوع نہیں بلکہ موقوف ہے اسی لیے بعض علماء نے اس واقعہ سے اختلاف کیا ہے۔ ان کا قول یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسا معجزہ طلب کرنے سے ڈرایا تو وہ فی الواقع ڈر گئے اور اپنے مطالبہ سے باز آ گئے۔ لہٰذا دسترخوان اترا ہی نہیں تھا لیکن ایسے اقوال کے علی الرغم ہم موقوف حدیث کو ہی ترجیح دیتے ہیں کیونکہ یہ واقعہ قرآن میں اسی انداز سے مذکور ہے۔ المآئدہ
116 [١٦٦] مریم کی خدائی کی آغاز کب ہوا ؟ سیدہ مریم علیہا السلام کو خدائی مقام عطا کرنا اور اس کی پوجا پاٹ کا عقیدہ، عقیدہ تثلیث سے بھی بعد کی پیداوار ہے۔ عقیدہ تثلیث میں خدا یہ تھے۔ اللہ، عیسیٰ اور روح القدس اور یہ عقیدہ چوتھی صدی عیسوی میں سرکاری طور پر رائج ہوا۔ جبکہ سیدہ مریم علیہا السلام کے خدا ہونے کا عقیدہ پانچویں صدی عیسوی کی ایجاد ہے۔ سیدہ مریم کو مادر خدا ہونے کے لقب سے نوازا گیا اور یہ عقیدہ اتنا عام ہوا کہ پہلے تین خداؤں پر چھا گیا۔ سیدہ مریم کو دیوی کا درجہ دے کر ان کے مجسمے اور تصویریں بنائی گئیں جو آج تک عیسائیوں کے گرجوں کی زینت بنی ہوئی ہیں اور عیسائی حضرات اس کے آگے سر نیاز خم کرتے ہیں۔ عیسائی حکومتوں کے قومی جھنڈے پر سیدہ مریم کی تصویر بنائی جاتی۔ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جو ہرقل شاہ روم تھا اس کے جھنڈے پر بھی یہ تصویر موجود تھی اور جنگ کے دوران اسی کے وسیلہ سے فتح و نصرت کی دعائیں مانگی جاتی تھیں۔ [١٦٧] قیامت کے دن سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے ان کی الوہیت کے متعلق تین سوال :۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کو مذکورہ بالا احسانات یاد دلانے کے بعد ان سے یہ پوچھیں گے کہ کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کے بجائے مجھے اور میری ماں کو الٰہ بنا لینا اور اپنی تمام حاجات ہم سے طلب کرنا۔ کیا میرے احسانات کا یہی بدلہ تھا ؟ عیسیٰ علیہ السلام نہایت عاجزی سے جواب دیں گے کہ یا اللہ میں ایسی بات کیوں کر کہہ سکتا تھا جو میرے لیے سزاوار ہی نہ تھی علاوہ ازیں تو تو چھپی اور علانیہ سب باتوں کو خوب جانتا ہے اگر میں نے ایسی بات کہی ہوتی تو یقیناً تیرے علم میں ہوتی۔ واضح رہے کہ قیامت کے دن کا یہ مکالمہ اس لیے بیان نہیں کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کو اس بات کا علم ہوجائے بلکہ یہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے ان پیرو کاروں کی تہدید اور سرزنش کے لئے بیان کیا جا رہا ہے جنہوں نے آپ کے بعد انہیں اور ان کی والدہ کو الٰہ بنا لیا تھا تاکہ ان کے خلاف ان کے رسول ہی کی شہادت قائم ہوجائے جس کی وہ پرستش کرتے رہے۔ المآئدہ
117 [١٦٨] انبیاء کو بھی غیب کا علم نہیں :۔ تو نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں خود بھی تیری بندگی اور عبادت کروں اور لوگوں سے بھی تیری ہی بندگی اور عبادت کراؤں اور اسے میں بجا لاتا رہا اور جب تک میں ان لوگوں میں موجود رہا اس وقت تک تو میں نے تیرے حکم کا پوری طرح دھیان رکھا البتہ میرے بعد کے حالات کا مجھے کچھ علم نہیں۔ بعد کے حالات تو تو ہی جانتا ہے کہ ان لوگوں نے کب اور کس طرح یہ غلط روش اختیار کی تھی اور کیوں کی تھی؟ قیامت کے دن انبیاء کی اپنی امت کے اعمال سے بے خبری :۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطبہ کے دوران فرمایا ’’لوگو! تم اللہ کے سامنے ننگے پاؤں، ننگے بدن، بے ختنہ حشر (جمع) کیے جاؤ گے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی ﴿کَمَا بَدَانَا اَوَّلَ خَلْقٍ نُعِیْدُہُ وَعْدًا عَلَیْنَا اِنَّا کُنَّا فَاعِلِیْنَ﴾ تا آخر پھر فرمایا ’’سن لو! قیامت کے دن ساری خلقت میں سب سے پہلے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو کپڑے پہنائے جائیں گے اور میری امت کے کچھ لوگ حاضر کیے جائیں گے جنہیں فرشتے بائیں طرف (دوزخ کی طرف) لے چلیں گے۔ میں کہوں گا پروردگار! یہ تو میرے صحابی (ساتھی) ہیں۔‘‘ جواب ملے گا : ’’آپ نہیں جانتے۔ آپ کے بعد ان لوگوں نے کیا کیا نئی باتیں (بدعتیں) نکالیں۔ اس وقت میں وہی کچھ کہوں گا جو اللہ کے نیک بندے،عیسیٰ علیہ السلام نے کہا (یعنی) جب تک میں ان لوگوں میں رہا ان کا حال دیکھتا رہا۔ پھر جب تو نے مجھے (دنیا سے) اٹھا لیا تو اس کے بعد تو ہی ان پر نگران تھا۔ جواب ملے گا جب سے تم ان سے جدا ہوئے اسی وقت سے یہ لوگ برابر ایڑیوں کے بل (اسلام سے) پھرتے رہے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) اس آیت اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کو غیب کا علم نہیں ہوتا مگر اتنا ہی جتنا اللہ تعالیٰ بتا دے۔ نیز یہ کہ انبیاء کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد انہیں اپنی امت کے اعمال کی خبر نہیں ہوتی۔ المآئدہ
118 [١٦٩] پھر عیسیٰ علیہ السلام نہایت حکیمانہ انداز میں ان کی سفارش کریں گے پہلے اللہ کی کبریائی بیان کرتے ہوئے کہیں گے کہ اگر تو انہیں عذاب دے گا تو یہ تیرے بندے ہی ہیں نہ دم مار سکتے ہیں نہ بھاگ کر کہیں جا سکتے ہیں اور اگر انہیں معاف ہی فرما دے تو تیری شان غفاری کے کیا کہنے۔ بہرحال تو ہر چیز پر اور ہر کام پر غالب ہے اور تیرا کوئی کام بھی حکمت سے خالی نہیں۔ تیری حکمت انہیں عذاب کی متقاضی ہے تو بھی تو مختار ہے اور معاف فرما دے تو بھی مختار ہے۔ المآئدہ
119 [١٧٠] سب سے سچی بات کلمہ توحید ہے :۔ اللہ تعالیٰ جواب فرمائیں گے آج عدل و انصاف کا دن ہے آج تو سچ اور سچی بات ہی کچھ فائدہ دے سکتی ہے اور سب سے سچی بات کلمہ توحید ہے یعنی جن لوگوں نے کسی کو اللہ کا شریک نہ سمجھا ہو پھر زندگی بھر راست بازی کے ساتھ اس پر قائم رہے ہوں۔ انہی کی نجات ہو سکتی ہے۔ انہیں ہی جنت میں داخل کیا جائے گا۔ اور طرح طرح کے انعامات سے نوازا جائے گا۔ ایسے لوگوں سے اللہ راضی اور وہ اللہ سے راضی۔ اور چونکہ مقام رضائے الٰہی جنت ہی ہے۔ یہ انہیں بہرحال حاصل ہوجائے گی اور یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ المآئدہ
120 [١٧١] اس آیت میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور سیدہ مریم دونوں کی الوہیت کی تردید کی دلیل ہے کیونکہ جو چیز کسی کی ملکیت ہو وہ اس کی مملوک یا غلام تو ہو سکتی ہے اس کی شریک نہیں ہو سکتی۔ نہ اسے اللہ تعالیٰ کی الوہیت میں شریک سمجھا جا سکتا ہے۔ المآئدہ
0 الانعام
1 [١] دلائل توحید :۔ یہ خطاب مشرکین مکہ کو ہے جو یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ہر چیز کا خالق اور مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اسی نے اس کائنات کو پیدا کیا اسی نے سورج اور چاند بنائے اور رات دن پیدا کیے اور کائنات پر اسی کی حکمرانی ہے۔ سورج، چاند، ستارے سب اسی کے حکم کے تحت گردش کر رہے ہیں اور خود ہمیں بھی اسی نے پیدا کیا ہے۔ پہلی دلیل :۔ اللہ تعالیٰ انہیں مخاطب کر کے یہ فرما رہے ہیں کہ وہ ذات جو اتنی بڑی کائنات کا نظام نہایت حسن و خوبی سے چلا رہی ہے کیا وہ تمہاری ضروریات پوری نہیں کرسکتی اور تمہاری مشکلات کو حل نہیں کرسکتی۔ جو تم لات و عزیٰ، منات اور ہبل جیسے معبودوں کو پکارتے ہو، ان کا اس بھری کائنات میں کوئی عمل دخل ہے؟ انسان کا حق تو یہ تھا کہ وہ اسی خالق کے آگے سجدہ ریز ہوتا، اسی سے دعائیں مانگتا جس نے اسے پیدا کیا اور زمین کو پیدا کر کے اس کی تمام ضروریات زندگی اس سے منسلک کردی ہیں۔ پھر آخر ان دیوی دیوتاؤں کی پرستش کی ضرورت تمہیں کیوں پیش آئی جو اللہ کا حق ان دیوی دیوتاؤں کو دیتے ہو اور انہیں اپنے پروردگار کا ہمسر قرار دیتے ہو؟ الانعام
2 [٢] دوسری دلیل :۔ یعنی ابو البشر سیدنا آدم علیہ السلام کو مٹی سے بنایا۔ پھر تمہاری تمام غذائی ضروریات اسی مٹی سے پوری ہو رہی ہیں۔ پھر مرنے کے بعد بھی تم اسی مٹی میں مل جاؤ گے گویا اس نے تمہیں ایک بے جان چیز سے پیدا کیا اور تمہیں زندگی بخشی پھر اسی طرح زندہ کو بے جان چیز میں مدغم کر دے گا۔ پھر کیا تمہیں اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ دوبارہ تمہیں اسی مٹی سے اٹھائے گا اور ایسی زندگی بخشنے پر وہ قادر ہے۔ لہٰذا اگر سوچو تو تمہیں نہ اللہ کے بارے میں شک ہونا چاہیے نہ قیامت کے بارے میں۔ اس آیت میں پہلے لفظ اجل سے مراد انسان کی موت تک کا وقت ہے جو کہ ہر انسان کے لیے قیامت صغریٰ ہے چنانچہ آپ نے فرمایا ہے کہ ’’جو شخص مر گیا اس کی قیامت قائم ہو گئی‘‘ اور اجل مسمیٰ سے مراد قیامت کا دن یا قیامت کبریٰ ہے۔ جبکہ سب لوگ قبروں سے اٹھا کھڑے کیے جائیں گے اور اللہ کے حضور ان سے باز پرس اور ان کا محاسبہ ہوگا۔ الانعام
3 [٣] اللہ کا ہر جگہ موجود ہونا :۔ انسان کے اوپر آسمان، اس کے نیچے زمین اور ان کے درمیان چاند سورج تارے اور ہوائیں غرض جو کچھ بھی انسان کو نظر آتا ہے ان سب کا انتظام و انصرام اللہ اکیلے کے ہاتھ میں ہے پھر وہ تمہارے ظاہر و باطن حتیٰ کہ دلوں کے راز تک جانتا ہے۔ تبھی تو وہ ہر چیز کو اپنے کنٹرول میں رکھے ہوئے ہے اس آیت اور اس جیسی بعض دوسری آیات سے بعض لوگوں کو یہ دھوکہ ہوا کہ اللہ بذات خود ہر جگہ موجود ہے اور بعض نے کہا کہ ہر شے میں موجود ہے جبکہ بہت سی دوسری آیات اور صحیح احادیث سے یہ ثابت ہے کہ اللہ کی ذات ساتوں آسمانوں سے ماوراء عرش پر ہے۔ رہی اللہ کی زمین و آسمان میں اور ہر جگہ اس کی موجودگی تو وہ اس کے علم اور اس کی قدرت کے لحاظ سے اور ان صفات میں کمال کی وجہ سے ہے۔ اس کی قدرت اور اس کے علم کا یہ حال ہے کہ وہ عرش پر ہوتے ہوئے بھی رتی رتی چیز کو دیکھ رہا ہے اس کی نگرانی کر رہا ہے۔ ہر پکارنے والے کی پکار سن رہا ہے ماسوائے چند گمراہ فرقوں کے جمہور اہل سنت کا یہی عقیدہ ہے۔ الانعام
4 [٤] یہاں آیت سے مراد قرآن کی کوئی آیت بھی ہو سکتی ہے کوئی معجزہ اور کوئی واضح دلیل بھی۔ یعنی جو کافر انکار کرنے کا ہی تہیہ کیے بیٹھے ہیں ان کے لیے نہ کوئی دلیل کارگر ہو سکتی ہے، نہ معجزہ اور نہ پند و نصیحت۔ الانعام
5 [٥] حق سے کیا مراد ہے ؟ حق سے مراد قرآن کریم بھی ہوسکتا ہے اور رسول اللہ کی ذات بھی۔ ان دونوں کا دعویٰ یہ تھا کہ اسلام ہی بالآخر غالب آ کے رہے گا۔ کفار مکہ بالخصوص اس بات کا مذاق اڑاتے تھے کہ یہ کمزور سی مٹھی بھر جماعت ہے جسے کھانے پینے کی چیزیں بھی میسر نہیں آتیں، وہ اگر محلوں کے خواب دیکھے تو یہ دیوانگی نہیں تو کیا ہے؟ اسی کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عنقریب ان لوگوں کو ایسی خبریں آنے لگیں گی۔ مسلمانوں کی کامیابی کی پیشین گوئی :۔ واضح رہے کہ یہ پوری سورت ماسوائے چھ آیات کے ﴿وَمَا قَدَرُوْا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہِ﴾ سے تین آیتیں اور ﴿قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ﴾ سے تین آیتیں ساری کی ساری ایک ہی رات نازل ہوئی تھی۔ اور اس کا زمانہ نزول تقریباً ہجرت سے ایک سال پہلے کا ہے جبکہ مسلمان انتہائی مشکلات میں پھنسے ہوئے تھے۔ ان کے اکثر ساتھی حبشہ کی طرف ہجرت کر کے وہاں مقیم ہوچکے تھے اور مکہ میں کفار نے مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی تھی۔ اس وقت قرآن نے جو یہ پیشین گوئی فرمائی۔ جو جنگ بدر سے ہی پوری ہونا شروع ہوگئی اور جنگ بدر میں مسلمانوں کی فتح کی خبر عرب بھر میں پھیل گئی۔ حتیٰ کہ آپ کی زندگی ہی میں اسلام کو پورے عرب پر غلبہ حاصل ہوگیا۔ الانعام
6 [٦] قوموں کے عروج زوال کی وجہ :۔ جیسے قوم عاد، ثمود، قوم نوح اور آل فرعون وغیرہ بے شمار ایسی اقوام ہیں جنہیں تم سے بڑھ کر اقتدار بخشا تھا وہ تم سے طاقتور اور زور آور بھی زیادہ تھے۔ کھانے پینے کی افراط اور خوشحالی تھی۔ سر سبز باغ، کھیت اور نہریں سب کچھ موجود تھا لیکن جب انہوں نے پیغمبروں کی تکذیب کی اور کفر اور نافرمانیوں میں حد سے تجاوز کر گئے تو اپنے کرتوتوں کی پاداش میں انہیں ہلاک کردیا گیا۔ پھر کسی دوسری قوم کو ان کا جانشین بنا دیا گیا اس طرح زمین کی آبادکاری میں کچھ بھی خلل واقع نہ ہوا اور پہلی سرکش قوم کا نام و نشان صفحہ ہستی سے مٹ گیا کیونکہ اس دنیا میں اللہ کی سنت جاریہ یہی ہے کہ ایک قوم کو آگے بڑھاتا ہے خوب آباد کرتا ہے اور مال و دولت عطا کرتا ہے۔ پھر جب اس میں ان نعمتوں کی وجہ سے غرور اور تکبر پیدا ہوجاتا ہے اور اللہ کے احکام کو پس پشت ڈالنا شروع کردیتی ہے تو اللہ اسے تباہ کر کے کسی دوسری قوم کو آگے لے آتا ہے پھر ان کے اعمال دیکھتا ہے اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا ہے اور قیامت تک ایسے ہی چلتا رہے گا۔ الانعام
7 [٧] کفار کے اعراضات اور ان کے جواب :۔ یہ کفار مکہ کے ایک اعتراض کا جواب ہے جو کہتے تھے کہ ہم تو تب ہی ایمان لائیں گے جب ہمارے سامنے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کتاب نازل ہو اور ساتھ چار فرشتے بھی ہوں جو اس بات کی گواہی دیں کہ یہ واقعی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ کتاب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ جواب دیا کہ یہ کافر اس قدر ہٹ دھرم واقع ہوئے ہیں کہ اگر ہم ان کا مطالبہ پورا کر بھی دیں، وہ کتاب کو چھو کر دیکھ بھی لیں کہ یہ محض نظر بندی کا چکر نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے تب بھی وہ یہ کہہ دیں گے کہ یہ سب کچھ جادو ہے اور تم جادوگر ہو۔ الانعام
8 [٨] یہ کفار کے دوسرے اعتراض کا جواب ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر فرشتہ اپنی اصلی شکل میں کیوں نازل نہیں ہوتا۔ جسے ہم دیکھ سکیں اور ہمیں یقین آ جائے۔ اور پیغمبر جو یہ کہتا ہے کہ مجھ پر فرشتہ نازل ہوتا ہے وہ سچ کہتا ہے؟ اس اعتراض کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر فرشتہ اپنی اصلی شکل میں آتا تو یہ دہشت کے مارے فوراً مر جاتے انہیں ایمان لانے یا انکار کرنے کی مہلت ہی کہاں ملتی۔ فرشتہ کو اس کی اصلی شکل میں دیکھنے کے متحمل انبیاء ہی ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل فرشتہ کو اس کی اصلی شکل میں دو بار دیکھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ ’’اس کے چھ سو پر تھے اور اس کی جسامت سے تمام افق بھر گیا تھا۔‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ باب قول اللہ فاوحیٰ الیٰ عبدہ ما اوحیٰ) کسی دوسرے نبی کا جبریل فرشتہ کو اپنی اصلی شکل میں دیکھنا احادیث سے ثابت نہیں۔ الانعام
9 [٩] پیغمبر کے فرشتہ ہونے پر اعتراضات :۔ فرشتہ نازل کرنے کی دوسری صورت یہ تھی کہ وہ انسانی شکل میں آتا۔ جیسے جبریل آپ کے پاس دحیہ کلبی کی شکل میں کبھی کبھار آتے تھے۔ یا سیدنا ابراہیم سیدنا لوط اور سیدنا داؤد علیہم السلام کے پاس انسانی شکل میں آئے تھے۔ اور اگر فرشتہ پیغمبر بن کر انسانی شکل میں آتا تو اس پر بھی وہ تمام اعتراضات وارد ہو سکتے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وارد ہوتے رہے۔ پھر یہ ایک الگ اعتراض پیدا ہوجاتا کہ جو شخص اپنے آپ کو فرشتہ اور پیغمبر کہہ رہا ہے آیا یہ فی الواقع فرشتہ ہے بھی یا نہیں؟ یا کوئی جادوگر انسان ہے جو ہمیں چکمہ دے رہا ہے گویا ان کا وہ اشتباہ پھر بھی بدستور باقی رہتا جو انہیں اب پڑا ہوا ہے نیز اگر کوئی رسول فرشتہ ہو تو اتمام حجت کا معاملہ ہی ختم ہوجاتا۔ ایسے رسول پر ایمان لانے والے اپنی بے عملی کے جواز کے لیے یہ معقول بہانہ پیش کرسکتے تھے کہ رسول تو فرشتہ ہے اور ہم بشر ہیں لہٰذا ہم اس کی پورے طور پر اتباع کیسے کرسکتے ہیں؟ اور یہی رسول کے بشر ہونے میں سب سے بڑی حکمت ہے۔ الانعام
10 [١٠] ان اعتراضات کا جواب دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ ہٹ دھرم کافروں کا ہمیشہ یہی وطیرہ رہا ہے پہلے رسولوں سے بھی یہی کچھ ہوتا رہا لہٰذا آپ ان کی پروا نہ کیجئے اور انجام کار انہیں اسی قسم کے عذاب سے ہلاک کیا گیا جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔ الانعام
11 [١١] یعنی ان تباہ شدہ قوموں کے آثار کو نگاہ عبرت سے دیکھو تو حقیقت حال تم پر منکشف ہوجائے گی اور تم اسی نتیجہ پر پہنچو گے کہ ان تباہ شدہ قوموں میں جو بات قدر مشترک ہے وہ اللہ کی نافرمانی اور اس کی آیات کی تکذیب اور اس کے رسولوں کی نافرمانی ہے۔ الانعام
12 [١٢] اس سوال کا جواب اللہ تعالیٰ نے خود ہی اس لیے دیا ہے کہ مشرکین اس سوال کا جواب دینا نہیں چاہتے تھے وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ عقیدتاً اس بات کے قائل تھے کہ ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اب اگر وہ اس بات کا اقرار کرتے تو اس اقرار سے استدلال ان کے خلاف پڑتا تھا اور اگر انکار کرتے تو یہ بات ان کے عقیدہ کے خلاف تھی لہذا جب انہوں نے جواب دینے کے بجائے خاموشی اختیار کی تو اللہ نے خود ہی اس کا جواب دے دیا۔ اور یہ جواب ایسا تھا جو ان کے نزدیک بھی مسلم تھا۔ [١٣] ویسے تو انسان کا تربیت اور پرورش پانا بھی اللہ کی رحمت کے بغیر ممکن نہیں۔ ایک ایک قدم پر اللہ کی رحمت شامل ہو تو تب ہی وہ زندہ رہ سکتا ہے مزید برآں یہ کہ وہ مشرکوں کو شرک کرتے دیکھتا ہے۔ کافروں کو اپنی آیات کا انکار اور ہٹ دھرمی کرتے دیکھتا ہے۔ لیکن انہیں ہلاک نہیں کرتا۔ بلکہ انہیں بھی رزق دیئے جاتا ہے اور اس کی وجہ محض اس کی رحمت ہے۔ چنانچہ حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’میری رحمت میرے غصہ پر سبقت لے گئی ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب التوحید۔ باب قولہ وکان عرشہ علی الماء) پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے نافرمان قوموں کو ہلاک کرنے کا ذکر کیا تو ساتھ ہی اس آیت میں اپنی صفت رحمت کا ذکر اس انداز سے کیا کہ اللہ تعالیٰ کی صفت قہاریت پر صفت رحمت بہرحال اور اکثر ادوار میں غالب رہی ہے علاوہ ازیں اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نہایت لطیف انداز میں سب سے پہلے اپنی ذات پر، پھر اپنی سب سے اہم صفت رحمت پر اور آخر میں آخرت کا ثبوت پیش کیا ہے۔ [١٤] یعنی عقل اور فطرت سلیمہ دونوں سے کام لینا چھوڑ دیا ہے لہذا وہ خود ہی خسارہ میں رہنے پر تلے ہوئے ہیں۔ الانعام
13 الانعام
14 [١٥] الٰہ ہونے کا سب سے بڑا ثبوت کسی کا محتاج نہ ہونا ہے :۔ یعنی اللہ کے حقیقی الٰہ ہونے کا ایک معیار تو یہ ہے کہ تمام کائنات کو اسی نے پیدا کیا ہے۔ کائنات کی تخلیق میں چونکہ کسی بھی دوسرے الٰہ کا حصہ نہیں لہذا وہ الٰہ نہیں ہو سکتا۔ اور دوسرا معیار یہ ہے کہ وہ سب دوسروں کو کھلاتا ہے لیکن خود کسی سے کچھ نہیں کھاتا۔ اس کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ جو کھانا کھاتا ہے وہ کبھی الٰہ نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ کھانے کا محتاج ہے اور اللہ کھانے کا محتاج نہیں ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ دوسرے سب لوگ کھانے تک کے لیے اس کے دست نگر ہیں۔ یعنی جو محتاج ہے الٰہ نہیں ہو سکتا۔ حقیقی الٰہ وہی ہوسکتا ہے جو کسی کا دست نگر اور محتاج نہ ہو۔ اب دیکھئے مشرکوں نے جن جن کو اپنا خدا بنا رکھا ہے وہ ان بندوں کو رزق دینے کے بجائے الٹا ان سے رزق لینے کے محتاج ہیں کوئی فرعون خدائی کے ٹھاٹھ جما ہی نہیں سکتا جب تک اس کے بندے اسے ٹیکس اور نذرانے نہ دیں۔ نہ کسی صاحب قبر کی شان معبودیت قائم رہ سکتی ہے جب تک اس کے عقیدت مند اور پرستار اس کا مقبرہ تعمیر نہ کریں اور کسی دیوتا کا دربار خداوندی اس وقت تک سج ہی نہیں سکتا جب تک اس کے پجاری اس کا مجسمہ بنا کر کسی عالی شان مندر میں نہ رکھیں۔ گویا یہ سب مصنوعی الٰہ بے چارے خود اپنے بندوں کے محتاج ہوتے ہیں۔ بس اللہ تعالیٰ ہی کی ذات وہ ذات ہے جو اپنے بل بوتے پر قائم ہے اسے کسی کی احتیاج نہیں بلکہ سب اسی کے محتاج ہیں اور یہی اس کے حقیقی الٰہ ہونے کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ لہذا اسی کے سامنے سر تسلیم خم کرنا چاہیے۔ الانعام
15 [١٦] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے اللہ کی نافرمانی ہونا ناممکنات سے ہے دراصل یہ دوسرے لوگوں کو تنبیہ و تہدید کے طور پر کہا جا رہا ہے کہ اگر رسول بھی اللہ کی نافرمانی کرے تو قیامت کے دن اس سے بھی باز پرس ہو سکتی ہے پھر دوسرے لوگ اپنا انجام خود سوچ لیں۔ الانعام
16 [١٧] یعنی جنت میں اعلیٰ درجات تو دور کی بات ہے اگر کوئی شخص اس دن دوزخ کے عذاب سے نجات بھی پا جائے تو سمجھے کہ اس نے بڑی کامیابی حاصل کی ہے اور اللہ نے اس پر اپنا خاص فضل و کرم کیا ہے۔ الانعام
17 [١٨] اس آیت سے شرک کی جڑ کٹ جاتی ہے کیونکہ جس انسان کا یہ عقیدہ پختہ ہوجائے کہ دکھ درد کو دور کرنے والا اور فائدہ پہنچانے والا صرف اللہ ہی ہے تو وہ کسی دوسرے کو کیوں پکارے گا یا اس کی نذر و نیاز کیوں دے گا ؟ یا اس کے آگے سر تسلیم خم کیوں کرے گا ؟ کیونکہ انسان جب بھی شرک کرتا ہے تو انہی دو باتوں کی خاطر کرتا ہے ایک فائدہ کے حصول کی خاطر دوسرے دفع مضرت۔ اگر ان دونوں باتوں کا مالک و مختار اللہ کو ہی سمجھ لے گا تو اسے شرک کی ضرورت پیش آ ہی نہیں سکتی۔ الانعام
18 [١٩] یعنی کوئی شخص غلبہ و اقتدار کے پنجے سے نکل نہیں سکتا، نہ کہیں بھاگ کر جا سکتا ہے۔ لہذا بندوں کے لئے بہتر روش یہی ہے کہ اسکے آگے سر تسلیم خم کردیں۔ وہ بندوں کے حالات سے پوری طرح آگاہ ہے اور خوب سمجھتا ہے کہ ان کے لئے کونسی کارروائی مناسب ہوگی۔ الانعام
19 [٢٠] اللہ کی شہادت سب سے بڑھ کر کیسے؟ شہادت دو طرح سے ہوتی ہے ایک آنکھوں دیکھا حال کسی قاضی، جج یا حکم کے سامنے بیان کرنا جسے انگریزی میں (WITNESS) کہتے ہیں۔ دوسرے یقین کامل کی بنا پر شہادت جسے انگریزی میں (EVIDENCE) کہتے ہیں۔ ہم مسلمان اپنے یقین کامل کی بنا پر یہ گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ تو یہ شہادت آنکھوں دیکھی شہادت نہیں۔ نہ ہم عینی شاہد یا چشم دید گواہ ہیں کیونکہ ہم نے اللہ کو دیکھا ہے اور نہ رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کو بلکہ ہم یہ گواہی اپنے یقین کامل یا ایمان کی بنا پر دیتے ہیں اور اللہ کی گواہی اس لحاظ سے سب سے بڑھ کر سچی ہے کہ اس میں شہادت کے دونوں پہلو پائے جاتے ہیں وہ چونکہ ہر جگہ حاضر و ناظر ہے۔ اس لحاظ سے یہ آنکھوں دیکھی شہادت ہے پھر وہ کائنات کی ایک ایک چیز کا خالق و مالک اور اس کا مربی بھی ہے لہذا اس جیسا یقین کامل بلکہ حقیقی علم کسی کو نہیں ہو سکتا۔ [٢١] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت تا قیامت اور سب کے لئے ہے :۔ کفار مکہ کے بعد جب یہود و نصاریٰ کی اکثریت نے بھی آپ کو جھٹلا دیا تو کفار کہنے لگے کہ بتاؤ اب تمہاری رسالت کی گواہی کون دیتا ہے؟ تب یہ آیت نازل ہوئی۔ یعنی اللہ میرے اور تمہارے درمیان اس بات پر گواہ ہے کہ میں فی الواقع اس کا رسول ہوں اور جو کچھ کہہ رہا ہوں اسی کے حکم سے کہہ رہا ہوں اور وہ اس بات پر بھی گواہ ہے کہ یہ قرآن اسی نے مجھ پر نازل کیا ہے اور مجھے رسول بنانے اور قرآن نازل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ میں تم لوگوں کو بھی آخرت کے عذاب سے بروقت متنبہ کر دوں اور اس قرآن کے ذریعے ان لوگوں کو بھی ڈراؤں جن جن تک یہ آواز پہنچے۔ اس آیت سے رسول اللہ کی رسالت تمام اقوام عالم کے لیے اور قیامت تک کے لیے ثابت ہوئی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ امت مسلمہ کا یہ فرض ہے کہ قرآن کی آواز کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچا دے۔ [٢٢] یعنی گواہی محض قیاس اور ظن و تخمین کی بنا پر نہیں دی جا سکتی جب تک اس کے متعلق یقین کامل یا حقیقی علم نہ ہو یا اسے واضح دلائل سے ثابت نہ کیا جا سکتا ہو۔ سو ائے مشرکین مکہ! بتاؤ تم اپنے ان معبودوں کے متعلق ایسی گواہی دے سکتے ہو؟ اور اگر تم ایسی گواہی دے بھی دو تو کم از کم میں ایسی گواہی دینے کو تیار نہیں۔ الانعام
20 [٢٣] اہل کتاب کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانا :۔ عرب میں یہ الفاظ بطور محاورہ بولے جاتے ہیں یعنی اگر کسی شخص کو کسی چیز کے متعلق پختہ یقین ہوتا تو کہتے کہ وہ اسے ایسے پہچانتا ہے جیسے اپنے بیٹے کو۔ یعنی جس طرح ایک باپ بچوں کے اجتماع میں اپنے بیٹے کو فوراً پہچان لیتا ہے بالکل اسی طرح اہل کتاب، اپنی کتاب میں مذکور نشانیوں کے مطابق نبی آخر الزماں کو پہچان چکے تھے کہ وہ فی الواقع وہی نبی ہے جس کی بشارات دی گئی ہیں پھر بھی اگر وہ ایمان نہیں لاتے تو اس کی وجوہ دوسری ہیں مثلاً قومی عصبیت، اپنی اپنی سرداریوں اور گدیوں کا خاتمہ، حسد اور بغض وغیرہ یا یہ عقیدہ کہ موسوی شریعت قیامت تک کے لیے غیر متبدل ہے یا یہ کہ کوئی نبی بنی اسرائیل کے علاوہ آ ہی نہیں سکتا۔ جو کچھ بھی ہو یہ بہرحال اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں۔ الانعام
21 [٢٣] شرکیہ عقائد کی قسمیں :۔ مثلاً یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات میں تصرف کے اختیارت بعض اولیاء اللہ کو بھی دے رکھے ہیں جیسا کہ مشرکین کا اپنے دیوی دیوتاؤں کے متعلق عقیدہ ہوتا ہے کہ وہ ہماری حاجت روائی اور مشکل کشائی کرسکتے ہیں یا یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ ہم گنہگاروں کی دعا و فریاد کب سنتا ہے لہذا ضروری ہے کہ ہم اپنی فریاد کسی بزرگ کو سنائیں اور وہ ہماری فریاد اللہ تک پہنچا دے۔ یا یہ دعویٰ کرنا کہ اللہ کے ساتھ دوسری بھی بہت سی ہستیاں اس کائنات کی خدائی میں اس کی شریک اور ممد و معاون ہیں یا یہ عقیدہ رکھنا کہ ہمارا فلاں بزرگ قیامت کے دن ہماری سفارش کر کے ہمیں اللہ کی گرفت اور عذاب الٰہی سے چھڑا لے گا۔ ایسی سب باتیں اللہ پر بہتان اور شرک کا سرچشمہ ہیں۔ [٢٥] اللہ کی آیات کون کون سی ہیں :۔ آیات سے مراد صرف قرآن کی آیات ہی نہیں بلکہ وہ آیات بھی ہیں جو انسان کے جسم کے اندر موجود ہیں اور اللہ تعالیٰ کے کمال علم و حکمت پر دلیل ہونے کے علاوہ اس کے وحدہ لاشریک ہونے پر بھی دلالت کرتی ہیں۔ نیز وہ آیات بھی جو انسان کے باہر پوری کائنات میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں اب جو شخص ان سب طرح کی آیات سے اعراض کرتا جائے تو اس کی نجات کیسے ممکن ہے؟ الانعام
22 الانعام
23 [٢٦] مشرکین مکہ مسلمانوں سے کہا کرتے کہ اگر بالفرض قیامت ہوئی بھی اور ہماری بازپرس بھی ہوئی تو ہمارے یہ لات و عزیٰ ہمیں بچا لیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس دن تو دہشت ہی اس قدر ہوگی کہ نہ عابد اپنے معبود کو پہچان سکے گا اور نہ معبود عابد کو، حالانکہ عابد و معبود سب وہاں حاضر ہوں گے۔ اس وقت جب اللہ مشرکوں سے پوچھے گا کہ بتاؤ تمہارے معبود کدھر ہیں۔ جنہیں تم میرا شریک بنایا کرتے تھے؟ اس وقت وہ اپنے شرکیہ اعمال سے صاف مکر جائیں گے اور قسمیں اٹھا کر کہہ دیں گے کہ ہم نے تو کبھی کسی کو تیرا شریک بنایا ہی نہ تھا۔ الانعام
24 [٢٧] یعنی اس دن کی دہشت اور اپنی بے بسی اور درماندگی کی بنا پر اپنے بچاؤ کی یہی راہ انہیں سجھائی دے گی کہ اس سے صاف مکر جائیں اور دنیا میں وہ جو کچھ کرتے رہے تھے دہشت کی وجہ سے سب بھول جائیں گے انہیں یہ یاد ہی نہ پڑے گا کہ وہ دنیا میں کس کس کو پوجتے اور کس کس قسم کا شرک کیا کرتے تھے؟ الانعام
25 [٢٨] صفات کا سدہ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کیوں؟ وہ باتیں اس لیے دھیان سے سنتے ہیں کہ دیکھیں وہ کون کونسی بات پر اعتراض کرسکتے ہیں اور کون سی بات کا مذاق اڑا سکتے ہیں ان کی نیت کبھی بخیر نہیں ہو سکتی کہ ہدایت حاصل کرنے کے لیے آئیں۔ لہٰذا ہدایت کی باتوں کو وہ ایسے سنی ان سنی کردیتے ہیں جیسے ثقل سماعت کی وجہ سے وہ سن ہی نہیں سکے اور جب سنتے ہی نہیں تو اسے سمجھنے کی خاک کوشش کریں گے۔ یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اسباب کو اختیار کرنا انسان کے اپنے بس میں ہے اور اسی بات کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے مسببات یا ان اسباب سے نتائج پیدا کرنا انسان کے اختیار میں نہیں ہوتا بلکہ اللہ کے اختیار میں ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک نبی کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ کی طرف بلائے۔ اب لوگ اس کی دعوت کو قبول کرتے ہیں یا رد کرتے ہیں یا کتنے قبول کرتے ہیں اور کتنے نہیں کرتے۔ یہ نبی کے اختیار میں نہیں ہوتا بلکہ اللہ کے اختیار میں ہے۔ لیکن اکثر اوقات یہ ہوتا ہے کہ اسباب اختیار کرنے سے متوقع نتائج حاصل ہوجاتے ہیں ایسے نتائج کی نسبت بھی اللہ ہی کی طرف ہوگی۔ اسی لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے نتائج کی نسبت اپنی طرف کر کے فرمایا کہ ﴿وَّجَعَلْنَا عَلٰی قُلُوْبِہِمْ اَکِنَّۃً ﴾ ورنہ حقیقی مجرم وہی لوگ ہیں جنہوں نے ایسے اسباب اختیار کیے تھے جن سے اس قسم کے نتائج برآمد ہوئے۔ [٢٩] حق ہمیشہ سے چلا آرہا ہے اور پرانا ہے لہٰذا محض پرانا ہونا غلط ہونے کی دلیل نہیں : انبیاء علیہم السلام جتنے بھی دنیا میں آتے رہے سب دعوت حق ہی پیش کرتے رہے اور ان کے منکر اور ہٹ دھرم بھی ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ یہ پرانی باتیں ہیں جو ہم پہلے بھی سن چکے ہیں گویا ان احمقوں کا نظریہ یہ ہوتا ہے کہ کسی بات کے حق ہونے کے لیے اس کا نیا ہونا بھی ضروری ہے اور جو بات پرانی ہے وہ حق نہیں ہے۔ حالانکہ حق ہر زمانے میں ہمیشہ ایک ہی رہا ہے اور ہمیشہ ایک ہی رہے گا۔ دین کے معاملہ میں کوئی نئی بات وہی پیش کرسکتا ہے جسے حق سے دشمنی ہو اور وہ اپنے ذہن سے کوئی نئی بات گھڑ کر اسے حق کے نام سے پیش کر دے کسی نئے فرقہ کی بنیاد ڈال دے۔ اس طرح اسے اس دنیا میں تو شاید بعض لوگوں کی پیشوائی کا مقام حاصل ہوجائے لیکن حقیقتاً وہ خود بھی گمراہ اور دوسروں کو بھی گمراہ کرنے والا شخص ہوگا۔ الانعام
26 [٣٠] گویا وہ دہرے مجرم ہیں اور جو لوگ ان کی کوششوں کی وجہ سے راہ حق سے دور رہتے ہیں۔ ان کے گناہوں میں سے حصہ رسدی گناہوں کا بوجھ اپنے اوپر لاد رہے ہیں لہٰذا ایسے لوگوں کی ہلاکت کس قدر شدید ہوگی؟ اور اس بات کی انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ خود ہی اپنے ہاتھوں کیسے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار رہے ہیں؟ الانعام
27 [٣١] یعنی اس وقت تک ان ہٹ دھرموں کے ہوش و حواس ٹھکانے نہیں آئیں گے جب تک یہ دوزخ کے عذاب کو دیکھ نہ لیں۔ اس وقت ان کی سب شیخیاں کر کری ہوجائیں گی۔ اس وقت وہ یہ آرزو کریں گے کہ کاش انہیں دوبارہ دنیا میں جانے کا موقع میسر ہو تو ہم یقینا اللہ کے فرمانبردار بندے بن کے رہیں گے۔ الانعام
28 [٣٢] یعنی ایسے دلائل جن سے حق واضح ہوتا تھا، ان کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ کوئی ان دلائل کو سن بھی نہ سکے اور ان پر پردہ ہی پڑا رہے۔ وہ حق آج ظاہری صورت میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے تو دوبارہ دنیا میں جانے کی آرزو اور فرماں بردار بن کر رہنے کا جو وعدہ کریں گے وہ وعدہ چونکہ شوق و رغبت کی بنا پر نہ ہوگا بلکہ جہنم کے عذاب کو دیکھ کر اضطراری وعدہ ہوگا اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ کم بخت اب بھی جھوٹ بول رہے ہیں کیونکہ اگر انہیں دنیا میں دوبارہ بھیج بھی دیا جائے تو یہ بدبخت پھر بھی وہی کچھ کریں گے جو پہلے دنیا میں کرتے رہے۔ پھر یہ دنیا کی رنگینیوں میں منہمک ہو کر اللہ کی نافرمانیوں پر اتر آئیں گے اور اپنا وعدہ بھول جائیں گے جیسا کہ بسا اوقات مصائب اور بیماریوں میں پھنس کر انسان اللہ کی طرف رجوع کرتا اور توبہ تائب کرتا ہے مگر اس مصیبت سے نجات پانے کے بعد جب چند دن عیش و آرام میں گزارتا ہے تو اسے یہ یاد ہی نہیں رہتا کہ اس وقت کیا عہد و پیمان کیے تھے؟ الانعام
29 [٣٣] تخلیق کائنات کے مختلف نظریئے۔ وجود باری تعالیٰ کے متعلق وحی سے بے نیاز ہو کر محض عقل و خرد سے کائنات کی تخلیق کی گتھی سلجھانے والے لوگ بھی ایک رائے پر متفق نہیں ہو سکے ایک گروہ کا خیال یہ ہے کہ یہ کائنات مادہ سے بنی ہے۔ اور مادہ اور اتفاقات کے نتیجہ میں ظہور پذیر ہوئی ہے۔ اصل چیز مادہ ہے اور وہی ازلی ابدی ہے۔ کائنات میں انسان کی وہی حیثیت ہے جو سمندر میں ایک بلبلہ کی ہے جو ہوا کی لہروں سے پیدا ہوتے اور پھر سمندر ہی میں مدغم ہوجاتے ہیں اسی طرح ہم پیدا ہوتے اور مر جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ہستی اور آخرت کے متعلق مختلف نظریات :۔ یہ لوگ وجود باری تعالیٰ کے بھی منکر اور آخرت کے بھی منکر ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کو مادہ پرست یا دہریے یا نیچری کہتے ہیں۔ اہل کتاب حتیٰ کہ مسلمانوں میں سے بھی بعض لوگ عقیدتاً اور بعض عملاً نیچری ہوتے ہیں۔ دوسرا گروہ بعض فلاسفروں اور سائنسدانوں کا ہے جو اس کائنات اور اس کے مربوط و منظم نظام کو دیکھ کر اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ کسی کنٹرول کرنے والی ہستی کے بغیر کائنات کا نظام چلنا محال ہے لہٰذا کسی ایسی ہستی کو تسلیم کرنے کے بغیر چارہ نہیں جو اس کائنات کو وجود میں لائی اور اس کا نظام چلانے والی ہے اس طرح یہ لوگ وجود باری تعالیٰ کے تو قائل ہیں مگر اخروی زندگی پر ان کا ایمان نہیں ہوتا۔ غالباً اس کی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ یہ لوگ دین کی پابندیوں سے آزاد رہ کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ مشرکین مکہ کا مذہب بہت حد تک انہی لوگوں سے ملتا جلتا ہے جو اللہ کے خالق و مالک ہونے کے تو قائل ہیں مگر اخروی زندگی کے قائل نہیں تھے۔ تاہم وہ اپنے آپ کو ملت ابراہیمی کا متبع قرار دیتے تھے۔ دیوی دیوتاؤں کی پوجا وہ دو وجہ سے کرتے تھے ایک یہ کہ ان کی دنیوی حاجات بر آئیں اور مشکلات دور ہوں اور دوسرے اس لیے کہ ان کے وسیلہ سے اللہ کا تقرب حاصل ہو۔ ایمان بالاخرت بھی چونکہ ایمان بالغیب کا ایک اہم جزو ہے لہٰذا اللہ کی ذات کو تسلیم کرنے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو کافر قرار دیا ہے۔ الانعام
30 [٣٤] یعنی جب انہیں دنیا میں کیے ہوئے اعمال کی باز پرس اور حساب کتاب کے لیے اللہ کے حضور کھڑا کیا جائے گا اور سب حقائق ان کی آنکھوں کے سامنے آ جائیں گے تو پھر انکار کی مجال ہی نہ رہے گی۔ اس وقت وہ حسرت و یاس کے عالم میں کہیں گے کہ ہم دنیا میں کیسے غلط انداز سے سوچتے رہے اور آج کے دن کے لیے کچھ بھی نہ کرسکے۔ اس دن اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے پوچھیں گے کہ ’’بتاؤ اب بھی تمہیں اس آخرت کے بارے میں کچھ شک و شبہ باقی رہ گیا ہے؟ کیا یہ جزا و سزا کا عمل ایک ٹھوس حقیقت بن کر تمہارے سامنے نہیں آ گیا ؟‘‘ وہ کہیں گے ’’ہمارے پروردگار! اب ہمیں کیا شک ہوسکتا ہے جبکہ ہم یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’اچھا تو اب اپنے کیے کی سزا بھگتو اور اپنے کفر کا بدلہ جہنم کی آگ کی صورت میں چکھو۔‘‘ الانعام
31 [٣٥] گناہوں کا بوجھ محض خیالی اور تصوراتی نہیں ہوگا بلکہ یہ بوجھ ممثل بنا کر بعض جانوروں کی شکل میں گنہگاروں کی پشتوں پر لاد دیا جائے گا۔ جیسا کہ صحیح احادیث میں یہ صراحت موجود ہے۔ الانعام
32 [٣٦] دنیا کی زندگی کھیل تماشاکس لحاظ سے ہے :۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا کی زندگی میں سرے سے کوئی سنجیدگی ہے ہی نہیں۔ اور یہ محض کھیل تماشے یا سیر و تفریح کے لیے بنائی گئی ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آخرت کی حقیقی اور پائیدار زندگی کے مقابلہ میں یہ زندگی ایسی ہے جیسے کوئی شخص کچھ دیر کھیل تفریح میں دل بہلا کر بعد میں پھر سے اپنے اصل کام کی طرف متوجہ ہوجائے۔ یہ کھیل تماشا صرف ظاہر بین اور دنیا پرست لوگوں کے لیے ہے اور دنیا میں بسنے والے لوگوں کی اکثریت چونکہ ایسی ہی ہے جو اس دنیا کی رنگینیوں میں ہی کھو کر رہ جاتی ہے۔ لہٰذا کہیں اس دنیا کی زندگی کو کھیل تماشا اور کہیں دھوکے کا سامان کہا گیا ہے ورنہ ایماندار اور اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے تو اس دنیا کی زندگی کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے کیونکہ جو کچھ بھی وہ اس دنیا میں بوئیں گے وہی جا کر آخرت میں کاٹیں گے۔ الانعام
33 [٣٧] کفار مکہ آپ کی نہیں بلکہ آیات اللہ کی تکذیب کرتے تھے :۔ نبوت سے پہلے مشرکین مکہ آپ کو صادق اور امین کہا کرتے تھے نبوت کے اعلان کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی بڑے سے بڑے دشمن نے بھی دنیوی معاملات میں آپ کو کبھی جھوٹا نہیں کہا۔ البتہ دین کے متعلق آپ جو کچھ کہتے تھے کافر اسے جھٹلاتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ خود ابو جہل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات کہی تھی کہ محمد! ہم آپ کو جھوٹا نہیں کہتے بلکہ جو کچھ تم لائے ہو ہم اسے جھٹلاتے ہیں۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) اور اس جھٹلانے کی ایک بڑی وجہ قریش کی قبائلی عصبیت تھی۔ ابو جہل جو قبیلہ بنو مخزوم سے تعلق رکھتا تھا ایک بار کہنے لگا ’’ہم اور بنو عبد مناف (آل ہاشم) ہمیشہ حریف مقابل کی حیثیت سے رہے۔ انہوں نے مہمان نوازیاں کیں تو ہم نے بھی کیں۔ انہوں نے خون بہا دیئے تو ہم نے بھی دیئے۔ انہوں نے فیاضیاں کیں تو ہم نے بھی کیں یہاں تک کہ ہم نے ان کے کندھے سے کندھا ملا دیا۔ اب بنو ہاشم پیغمبری کے دعویدار بن بیٹھے ہیں۔ واللہ ہم اس پیغمبر پر کبھی ایمان نہیں لا سکتے۔ نہ ہی ہم اس کی تصدیق کریں گے۔‘‘ (ابن ہشام ص ١٠٨) گویا شخصی حیثیت سے قریش مکہ کو آپ سے کوئی شکایت نہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخالفت اور عداوت محض دین کی دعوت کی وجہ سے تھی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ رسول اللہ کو تسلی دیتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ یہ لوگ تمہاری تکذیب نہیں کر رہے ہیں بلکہ یہ ظالم ہماری اور ہماری آیات کی تکذیب کر رہے ہیں۔ آپ زیادہ پریشان نہ ہوں ہم ان سے خود نمٹ لیں گے۔ الانعام
34 [٣٨] حق کو غالب کرنے کے لئے اللہ کی سنت یا قوانین کیا ہیں؟ کلمات سے یہاں مراد اللہ کے وہ قوانین یا سنت جاریہ ہے جو حق و باطل کے معرکہ میں پیش آتے ہیں۔ ہوتا یوں ہے کہ کوئی نبی یا رسول جب اپنی دعوت کا آغاز کرتا ہے تو ہر طرف سے اس کی مخالفت پر لوگ کمر بستہ ہوجاتے ہیں۔۔ پھر انہی میں سے کچھ سلیم فطرت اور اخلاق فاضلہ رکھنے والے لوگ نبی پر ایمان لاتے ہیں اور اس کا ساتھ دیتے ہیں۔ اب یہ ایمان لانے والی جماعت اور خود نبی کی ذات مخالفین کے ظلم و تشدد کا نشانہ بنتے، ظلم و ستم سہتے اور صبر و ثبات سے کام لیتے ہیں۔ آہستہ آہستہ ان کی افرادی قوت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے جب یہ ستم زدہ لوگ مقابلتاً کمزور ہونے کے باوجود باطل سے ٹکر لینے پر کمر بستہ ہوجاتے ہیں۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب اللہ کی مدد ان کے شامل حال ہوتی ہے اس سے پہلے نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہرگز نہیں کہ ایمان لانے والوں کو آزمائے بغیر اور انہیں مشکلات و مصائب سے گزارے بغیر از خود ہی بعض معجزانہ قسم کے حالات پیدا کر کے حق کو باطل پر غالب کر دے۔ یہ ایسے قوانین ہیں جن میں کوئی بھی تبدیلی نہیں لا سکتا۔ جیسا کہ آپ کو پہلے رسولوں کے حالات سے یہ باتیں معلوم ہو ہی چکی ہیں۔ الانعام
35 [٣٩] کفار کا حسی معجزہ کا مطالبہ اور آپ کی خواہش :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تبلیغ کرتے اور کفار کی سختیاں سہتے ایک طویل مدت گزر گئی اور کافروں کی اکثریت انکار ہی کرتی رہی تو اس سے آپ کو سخت گھٹن محسوس ہوتی تھی۔ کبھی کبھار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خیال بھی آ جاتا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ ان کافروں کو کوئی حسی معجزہ دکھلاوے تو امید ہے یہ لوگ ایمان لے آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آرزو کا جواب یہ دیا کہ کوئی حسی معجزہ دکھا کر لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور بنا دینا ہمارا طریقہ نہیں ہاں اگر آپ ایسا ہی چاہتے ہیں تو خود ہی اپنا زور لگا دیکھیں۔ زمین میں کوئی سرنگ لگا کر یا آسمان میں سیڑھی لگا کر ان کا مطلوبہ معجزہ لا سکتے ہیں تو لے آئیں مگر یہ بات میری مشیئت کے خلاف ہے۔ اور اگر اللہ چاہتا تو معجزہ کے بغیر بھی انہیں ایمان لانے اور سب لوگوں کو ایمان پر اکٹھا کردینے کی پوری قدرت رکھتا ہے مگر اس سے وہ مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے جس کی خاطر انسان کو عقل اور قوت ارادہ و اختیار دے کر آزمائش کی خاطر اس دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ [٤٠] یعنی اللہ کی مشیئت کے خلاف سوچنا یا تدبیر اختیار کرنا نادانی کی بات ہے کیونکہ اللہ کی مشیئت تو بہرحال پوری ہو کے رہے گی اور ایسا سوچنے والے کو شکست اور ندامت کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔ الانعام
36 [٤١] جن لوگوں کو ہدایت مطلوب ہوتی ہے وہ تمہاری باتوں کو غور سے سنتے ہیں پھر وہ ہدایت قبول بھی کرتے ہیں مگر جن لوگوں کے دل اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے مر چکے ہیں وہ معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائیں گے یہ لوگ جیتے جی اپنے اختیار سے تو اللہ کی طرف رجوع کرنے والے نہیں۔ البتہ جب مر جائیں گے اور اللہ انہیں دوبارہ زندہ کرے گا تب انہیں اضطراری طور پر اللہ کے حضور پیش ہونا ہی پڑے گا۔ الانعام
37 [٤٢] یعنی ایسے حسی معجزہ کا مطالبہ کرنا جس سے انسان کو کامل یقین حاصل ہوجائے نادانی کی بات ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ بات اللہ کے دستور ابتلاء کے منافی ہے اور ایسے جبری اور اضطراری ایمان کا کچھ فائدہ بھی نہیں۔ جیسے موت کے وقت جب انسان غیب کے پردے اٹھنے کے بعد سب کچھ دیکھ لیتا ہے تو پھر اس وقت اس کا ایمان لانا کچھ فائدہ نہیں دیتا۔ الانعام
38 [٤٣] یعنی سب جانداروں کو خواہ وہ حشرات الارض ہوں یا پرندے ہوں یا چرندے ہوں، اللہ کی طرف سے وحی ہوتی ہے جیسے تمہیں ہوتی ہے اور یہ سب انواع اللہ کے قوانین کی پابند ہیں اور اپنی فطری حدود سے سر مو تجاوز نہیں کرتیں اور نہ کرسکتی ہیں۔ ان سب جانداروں کو وحی کے ذریعہ وہ علوم سکھائے جاتے ہیں جو ان کی نوع کے لیے اور نوع کی بقا کے لیے کارآمد اور ضروری ہیں اور ان چیزوں سے منع کیا جاتا ہے جو ان کے لیے مضر ہیں۔ مثلاً گائے، بھینس اور بھیڑ بکری وغیرہ پر حرام ہے کہ وہ گوشت کھائیں اور اگر وہ اس جرم کا ارتکاب کریں گے تو اس کا انہیں ضرور نقصان پہنچے گا۔ اسی طرح شیر پر گھاس کھانا حرام اور گوشت کھانا فرض ہے۔ اس کا الٹ کرے گا تو سخت نقصان اٹھائے گا اور زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ شہد کی مکھیوں کو بذریعہ وحی سکھا دیا کہ وہ اس قسم کا گھر تیار کریں۔ پھر پھلوں اور پھولوں سے رس چوس کر شہد بنائیں اور بہرحال اپنی سردار مکھی یعسوب کی اطاعت کریں۔ الغرض ہر نوع کی طرف وحی کی جاتی ہے اور اس کی شریعت جداگانہ ہے۔ اب انسان کو جو قوت ارادہ و اختیار دی گئی ہے تو اس کے ساتھ ابتلاء و آزمائش بھی انسان ہی کے لیے ہے۔ انسان کی بہتری اور نجات اسی صورت میں ہے کہ وہ کسی حسی معجزہ کا مطالبہ کیے بغیر اپنے عقل و ارادہ سے کام لے کر دوسری انواع کی طرح اپنے آپ کو احکام الٰہی کا پابند بنا لے۔ [٤٤] جانوروں کا حشر :۔ اس آیت سے نیز ایک دوسری آیت ﴿ وَاِذَا الْوُحُوْشُ حُشِرَتْ ﴾ سے معلوم ہوتا ہے کہ جانوروں کا بھی قیامت کے دن حشر ہوگا ان سے کفر و شرک اور ایمان و اعمال کا محاسبہ تو نہیں ہوگا مگر جو ظلم کسی جانور نے دوسرے پر زیادتی سے کیا ہوگا اس کا بدلہ ضرور دلایا جائے گا کیونکہ اتنی عقل انہیں بھی بخشی گئی ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے ظاہر ہے : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’قیامت کے دن تم سے حقداروں کے حق ادا کروائے جائیں گے حتیٰ کہ سینگ والی بکری سے بے سینگ والی بکری کا بدلہ دلوایا جائے گا۔‘‘ (مسلم۔ کتاب البروالصلۃ۔ باب تحریم الظلم) الانعام
39 [٤٥] جو شخص اللہ کی آیات کو جھٹلا دے اس پر ہدایت کی سب راہیں مسدود ہوجاتی ہیں اور اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی گونگا۔ بہرا شخص گہرے اندھیروں میں ہو۔ وہ اندھیروں کی وجہ سے خود کچھ دیکھ نہیں سکتا۔ بہرا ہونے کی وجہ سے ہدایت کی بات سن نہیں سکتا اور گونگا ہونے کی وجہ سے کسی سے پوچھ نہیں سکتا۔ ایسا شخص گمراہ نہ ہوگا تو کیا ہوگا ؟ ہاں اگر کوئی شخص اپنا رویہ بدل لے اور آیات الٰہی میں غور کرنا شروع کر دے تو پھر اللہ اسے سیدھی راہ دکھا دیتا ہے۔ الانعام
40 الانعام
41 [٤٦] عکرمہ بن ابو جہل کا اسلام لانا :۔ مشرکین مکہ کی عادت تھی کہ مصیبت کے وقت اور بالخصوص جب ان کا جہاز طوفان کی زد میں آ جاتا تو اپنے معبودوں کو پکارنا شروع کردیتے پھر جب وہ مصیبت نہ ٹلتی اور موت سامنے کھڑی نظر آنے لگتی تو کہتے اب صرف ایک اللہ ہی کو پکارو۔ ان کی اسی عادت کا ذکر ان آیات میں کیا گیا ہے اور ایک انسان کو ہدایت کی راہ پانے کے لیے یہی ایک بات کافی ہے۔ چنانچہ فتح مکہ کے بعد عکرمہ بن ابی جہل اس خیال سے مکہ سے بھاگ کھڑے ہوئے کہ مفتوحین سے پتہ نہیں کیسا سلوک کیا جائے گا۔ جدہ پہنچے اور وہاں سے کشتی پر سوار ہو کر حبشہ کی راہ لی۔ راستہ میں کشتی طوفان میں گھر گئی تو مشرکوں نے اپنی عادت کے مطابق اپنے دیوی دیوتاؤں کو پکارنا شروع کردیا طوفان بڑھتا ہی گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کشتی اب ڈوبی کہ ڈوبی۔ مصیبت میں صرف اللہ ہی کام آتا ہے؟ اس وقت مشرک کہنے لگے : اب صرف اللہ ہی کو پکارو۔ وہی ہمیں اس مصیبت سے اور موت سے نجات دے سکتا ہے۔ ایسے نازک وقت میں یہ جملہ سن کر عکرمہ کی آنکھیں کھل گئیں وہ سوچنے لگے کہ اگر سمندر میں مصیبت کے وقت اللہ ہی کام آتا ہے تو خشکی میں بھی اللہ ہی کام آنا چاہیے۔ وہ سوچنے لگے کہ بیس سال ہم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسی بات پر لڑتے رہے وہ کہتے تھے مصیبت میں کام آنے والا صرف اللہ ہے اور تمہارے معبود نہ تمہار کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ سنوار سکتے ہیں چنانچہ اس نے عہد کیا کہ اگر آج زندگی بچ گئی تو سیدھا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جا کر ان کی بیعت کرلوں گا۔ اللہ کا کرنا ہوا کہ طوفان تھم گیا اور کشتی والوں کی زندگیاں بچ گئیں۔ عکرمہ واپس آ گئے اور آ کر اسلام قبول کرلیا اور باقی عمر خدمت اسلام میں صرف کردی۔ حق پرستی کا جذبہ انسان میں موجود ہے :۔ یہ بات صرف عکرمہ تک ہی محدود نہیں بلکہ جب موت سامنے نظر آنے لگتی ہے تو دہریہ قسم کے لوگوں کی زبان پر بھی بے اختیار اللہ کا نام آ جاتا ہے اور اسے فریاد کے طور پر پکارنے لگتے ہیں۔ جو اس بات کی بین دلیل ہے کہ انسان خواہ کتنی ہی ضد اور ہٹ دھرمی کرتا رہے اس کے اندر فطری طور پر حق پرستی کا داعیہ رکھ دیا گیا ہے وہ آڑے وقتوں میں بے اختیار کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔ الانعام
42 الانعام
43 الانعام
44 [٤٧] دنیا میں عذاب سے متعلق اللہ کا قانون :۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مواخذہ کا قانون بیان فرمایا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ جب کسی قوم میں اللہ کی نافرمانی کا آغاز ہوتا ہے تو اللہ ان پر ہلکے ہلکے عذاب نازل فرماتا ہے مثلاً قحط یا خشک سالی یا کوئی وبا وغیرہ۔ اور یہ عذاب تنبیہ یا وارننگ کے طور پر آتا ہے تاکہ لوگ اللہ کی گرفت سے ڈر جائیں اور اس کے حضور توبہ کریں۔ اور عاجزی کریں۔ اگر قوم فی الواقع متنبہ ہو کر اللہ کی طرف متوجہ ہوجائے تو اس سے وہ سختی بھی دور کردی جاتی ہے اور آئندہ اللہ کی رحمتوں کا نزول شروع ہونے لگتا ہے اور اگر توبہ نہ کرے اور نافرمانیوں اور سرکشی میں ہی بڑھتی چلی جائے تو اس پر دوسری طرح کا عذاب آتا ہے اور وہ ہے عیش و عشرت کی فراوانی جس میں لوگ ایسے مگن ہوجاتے ہیں کہ اللہ کو یکسر بھول ہی جاتے ہیں اور سمجھتے یہ ہیں کہ ہماری تہذیب و تمدن اور ملکی معیشت میں ترقی ہو رہی ہے پھر ان پر یکدم ایسا سخت عذاب آتا ہے جو اس قوم کو تہس نہس کر کے صفحہ ہستی سے مٹا دیتا ہے اور وہ قصہ پارینہ بن جاتی ہے۔ الانعام
45 [٤٨] یعنی یہ بھی اللہ کا لوگوں پر بہت بڑا احسان ہے کہ وہ ظالموں کو وقتاً فوقتاً نیست و نابود کرتا رہتا ہے تاکہ مظلوم لوگ ان کے ظلم و ستم سے نجات پا کر اپنی زندگی آرام اور چین سے گزار سکیں۔ جنہوں نے ان کی زندگی اجیرن بنا رکھی تھی۔ الانعام
46 [٤٩] آنکھ، کان اور دل اللہ کی آیات کیسے ہیں؟ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی تین نعمتوں کا ذکر کر کے انہیں اپنی آیات یا اللہ تعالیٰ کی ذات پر دلالت کرنے والی نشانیاں قرار دیا ہے سب سے پہلے سماعت کا ذکر کہ کس طرح کسی آواز سے ہوا میں لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ پھر وہ لہریں کان کے پردوں سے ٹکراتی ہیں۔ اس تصادم کی آواز اعصاب کے ذریعہ دماغ تک پہنچتی ہے۔ دماغ فوراً اس آواز کا مطلب و مفہوم سمجھتا ہے اور پھر انسان اپنی زبان سے فوراً بات کرنے والے کو اس کا جواب دیتا ہے اور یہ سب کام اتنی جلدی وقوع پذیر ہوتے ہیں کہ بات کرنے والے کو فوراً اس کا جواب مل جاتا ہے۔ یہی صورت بصارت کی ہے۔ آنکھ کوئی چیز دیکھتی ہے تو اس چیز کی تصویر یا فوٹو یا عکس عدسہ پر پڑتا ہے۔ پھر وہی تصویر باریک سی نالیوں کے ذریعے دماغ کے پردہ پر پڑتی ہے اور دماغ فوراً یہ فیصلہ دیتا ہے کہ جو چیز آنکھ نے دیکھی وہ فلاں چیز ہے، فلاں رنگ کی ہے اور اس کی شکل اور قد و قامت اتنا اور اتنا ہے۔ دل کا نظام ان سے بھی پیچیدہ ہے۔ قوت تمیز، عقل ارادہ و اختیار کی سب قوتیں اس سے متعلق ہیں۔ کسی بات کو سوچنا، تدبیر کرنا اور فیصلہ کرنا سب کچھ اسی کا کام ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ اس سماعت، بصارت یا دل کے عمل کو اور اس کے نظام کو سلب کرلے تو کیا ان مشرکوں کے کسی الٰہ میں یہ طاقت ہے کہ وہ اس نظام کو بحال کر دے؟ لیکن یہ لوگ تو اللہ کی ان آیات میں غور ہی نہیں کرتے بلکہ جہاں اللہ کی آیات کا ذکر ہوتا ہو وہاں سے اپنا رخ ہی موڑ لیتے ہیں۔ اب اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ انسان نے جتنے بھی کمالات حاصل کیے ہیں۔ خواہ ان کا تعلق ایجادات سے ہو یا علم اور فلسفہ سے یا انسان کی خوشحالی اور حسن تدبیر سے، اور یہی وہ چیزیں ہیں جن پر انسان فخر و ناز کرتا ہے اور پھولا نہیں سماتا۔ حالانکہ ان تمام چیزوں کے حصول کا ذریعہ یہی آنکھیں، کان اور دل ہیں اور یہ خالصتاً اللہ کا عطیہ ہیں۔ پھر اگر اللہ اپنی دی ہوئی چیز واپس لے لے تو ان کے کسی الٰہ میں یہ قدرت ہے کہ وہ ان کی یہ چیزیں بحال کر دے؟ اور اگر وہ ایسا نہیں کرسکتے تو اللہ کے کاموں میں شریک کیسے ہوئے؟ الانعام
47 [٥٠] یکدم سے مراد ایسا عذاب ہے جس کی علامات پہلے مطلقاً ظاہر نہ ہوں اور جہرۃ یا علانیہ سے مراد ایسا عذاب ہے جس کی علامات پہلے سے ظاہر ہونا شروع ہوجائیں۔ [٥١] اس جملہ کے کئی مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ عذاب آنے کی اطلاع اللہ تعالیٰ انبیاء کو بذریعہ وحی دیتا ہے اور انہیں ہدایت کردی جاتی ہے کہ وہ اپنے پیرو کاروں کو ساتھ لے کر اس مقام سے نکل جائیں جہاں عذاب آنے والا ہو۔ اس طرح عذاب کی زد میں صرف ظالم ہی آتے ہیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ چونکہ عذاب ظالموں کے ظلم کی وجہ سے ہی آتا ہے۔ لہٰذا ظالموں کو چاہیے کہ بلاتاخیر توبہ کرلیں۔ اور عذاب الٰہی سے خود بھی بچ جائیں اور دوسروں کی ہلاکت کا بھی سبب نہ بنیں۔ اور تیسرا مطلب یہ ہے کہ اصل میں تباہی اور ہلاکت تو ظالموں کے لیے ہی ہے کہ مرنے کے بعد بھی انہیں دوزخ کا عذاب بھگتنا ہوگا اور صالح افراد تو موت کے بعد اللہ کے فضل و کرم کے مزید حقدار بن جائیں گے۔ الانعام
48 الانعام
49 الانعام
50 [٥٢] نبوت اور ولایت کے لئے جہلاء کے معیار :۔ انبیاء کا اصل کام یہ ہوتا ہے کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں انہیں جنت اور اللہ کے فضل و کرم اور اس کی رضامندی کی خوشخبری دیں اور جو لوگ ان نبیوں کا یا اللہ کی آیات کا انکار کردیں انہیں اللہ کے غضب اور دوزخ کی آگ سے ڈرائیں۔ مگر جاہل قسم کے لوگوں نے انبیاء اور خدا رسیدہ لوگوں کی صداقت جانچنے کے لیے کچھ الگ ہی معیار مقرر کر رکھے ہیں۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ ایسے لوگوں سے خرق عادت امور صادر ہوں۔ وہ کچھ معجزات یا کرامات انہیں دکھائیں، انہیں ان کے دلوں کا حال بتائیں، آئندہ پیش آنے والے حالات سے انہیں مطلع کریں۔ ان کی نظر کرم سے ایک گنہگار فوراً ولی کے مقام پر پہنچ جائے۔ وغیرہ وغیرہ یہ تو ایجابی معیارہے اور سلبی معیار یہ ہوتا ہے کہ ایک خدا رسیدہ انسان کو تارک دنیا ہونا چاہیے اور جو انسان نکاح کرتا، کھاتا پیتا اور لذائذ دنیا سے لطف اندوز ہوتا ہے وہ بھلا خدا رسیدہ کیسے کہلا سکتا ہے وہ تو ہم جیسا طالب دنیا ہی ہوا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کے ایسے احمقانہ نظریات کی تردید کرتے ہوئے آپ کی زبان سے کہلوایا کہ نہ تو میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں کہ تمہیں تمہارے منہ مانگے معجزات دکھا سکوں اور تمہاری حاجات کو فوراً پورا کردیا کروں نہ ہی میں غیب جانتا ہوں کہ تمہیں بتا سکوں۔ یہ کہ چوری فلاں چور نے فلاں وقت کی تھی۔ یا اس وقت تم اپنے دل میں کیا سوچ رہے ہو۔ اور میں فرشتہ بھی نہیں کہ مجھے کھانے پینے، چلنے پھرنے، یا نکاح کی حاجت نہ ہو۔ میرے فرائض صرف یہ ہیں کہ ایمان لانے والوں کو خوشخبری دوں اور انکار کرنے والوں کو ڈراؤں اور ہر حال میں اپنی یہ ذمہ داری نبھانے کی کوشش کروں۔ [٥٣] ایک نبی اور عام آدمی میں فرق :۔ ہاں مجھ میں اور تم میں یہ فرق ضرور ہے کہ مجھ پر اللہ کی طرف سے وحی آتی ہے جس سے مجھے یقینی علم حاصل ہوتا ہے اور بسا اوقات غیب کے پردے ہٹا کر مجھے مطلع بھی کردیا جاتا ہے اور پھر میں اس وحی کے مطابق اس کے تمام احکام کی پیروی بھی کرتا ہوں لیکن تمہیں ان سے کوئی چیز بھی میسر نہیں۔ تمہارے نظریات کی بنیاد محض تمہارے گمان ہیں۔ اب بتاؤ کہ میں اور تم یا ایک بینا اور نابینا برابر ہو سکتے ہیں؟ یا ایک راہ پانے والا اور دوسرا گمراہ یا ایک عالم اور دوسرا جاہل دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ الانعام
51 [٥٤] آپ سب لوگوں کے ہدایت پانے کی فکر نہ کیجئے بلکہ جو لوگ ایمان لا چکے ہیں، روز آخرت پر یقین رکھتے ہیں اور اللہ کے حضور جواب دہی کے تصور اور دوزخ کے عذاب سے ڈرتے ہیں ان کا ضرور خیال رکھیے اور وحی کے احکام ان تک ضرور پہنچایا کیجئے۔ اور جو لوگ روز آخرت پر یقین تو رکھتے ہیں مگر ساتھ ہی یہ اعتقاد بھی رکھتے ہیں کہ وہ بزرگوں کی اولاد ہیں یا بزرگ ان کی سفارش کر کے انہیں بچا لیں گے انہیں خبردار کیجئے کہ اس دن کسی کی سفارش کام نہ آسکے گی نہ حسب و نسب اور نہ ہی کوئی قریبی سے قریبی رشتہ دار۔ لہٰذا اپنے اپنے اعمال کی خود فکر کیجئے یہی ان کے متقی بننے کی صورت ہے۔ اور بعض مفسرین یہ کہتے ہیں کہ اس آیت کے مخاطب مومن نہیں بلکہ کافر ہیں کیونکہ یہی لوگ اللہ کے ہاں جانے سے زیادہ ڈرتے ہیں۔ لہٰذا انہیں ڈرانے کی زیادہ ضرورت ہے اس مفہوم کی بھی اس آیت میں گنجائش موجود ہے۔ الانعام
52 [٥٥] قریشی سرداروں کا ناتواں صحابہ کو اپنے ہاں سے اٹھانے کا مطالبہ :۔ بعض معززین قریش، جن میں سے اقرع اور عیینہ کا بالخصوص ذکر آیا ہے، آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ہمارا آپ کی مجلس میں آنے کو جی تو چاہتا ہے مگر آپ کے گرد یہ کچھ حقیر قسم کے لوگ بیٹھے ہوتے ہیں۔ لہٰذا ہم جھجک محسوس کرتے ہیں۔ البتہ اگر آپ انہیں اپنی مجلس سے نکال دیں تو ہم آپ کے پاس آنے کو تیار ہیں آپ چونکہ ان بڑے بڑے قریشیوں کے ایمان لانے پر بڑے حریص تھے لہٰذا دل میں کوئی ایسی ترکیب سوچ ہی رہے تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے : سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم چھ آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے۔ مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ’’ان لوگوں کو اپنی مجلس سے نکال دیجئے تاکہ یہ ہم پر جرأت نہ کریں۔‘‘ وہ چھ آدمی یہ تھے۔ میں خود، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ، ہذیل کا ایک آدمی، بلال رضی اللہ عنہ اور دو آدمی جن کا میں نام نہیں لیتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں جو اللہ نے چاہا، خیال آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات سوچ ہی رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (مسلم۔ کتاب الفضائل۔ باب فی فضل سعد بن ابی وقاص) اور ابن ماجہ کی روایت کے مطابق یہ چھ آدمی درج ذیل تھے : سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ، صہیب رومی رضی اللہ عنہ ، عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ ، مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ اور بلال بن رباح رضی اللہ عنہ (حبشی) اقرع اور عیینہ نے تنہائی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہمیں ان غلاموں کے ساتھ بیٹھنے میں شرم محسوس ہوتی ہے۔ لہٰذا جب ہم آپ کے پاس آئیں تو انہیں اٹھا دیا کیجئے۔ تب یہ آیت نازل ہوئی۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا صحابہ کی بہت تعریف بیان فرمائی اور فرما دیا کہ ان کو ہٹانے کی بات ہرگز نہ سوچئے۔ یہ انتہائی بے انصافی ہے کہ سچے مومنوں کو اس طمع سے اٹھایا جائے کہ دوسرے لوگ آ کر بیٹھیں جن کا ایمان لانا بھی یقینی نہ ہو۔ الانعام
53 [٥٦] قریشی سرداروں کی ناتواں صحابہ پر طعنہ زنی :۔ یعنی اقرع اور عیینہ کو آزمائش میں ڈال دیا ہے جو اپنی شرافت اور مالداری پر مغرور ہیں اور غریب بے کس اور سچے مسلمانوں کو اتنا حقیر سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ مل کر بیٹھنا بھی انہیں گوارا نہیں۔ حالانکہ یہ لوگ انتہائی خلوص کے ساتھ اللہ کی رضا کے طالب تھے۔ پھر یہی اقرع اور عیینہ اور دوسرے مغرور سرداران قریش زبانی بھی کہا کرتے تھے کہ اس شخص ( محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو ساتھی بھی کیسے ملے ہیں۔ کیا ہم لوگوں میں سے اللہ کو یہی لوگ ایسے ملے تھے جنہیں برگزیدہ کیا جا سکتا تھا نیز ان کا مذاق اڑاتے اور ان پر پھبتیاں کستے تھے۔ اور اگر کسی کی کسی سابقہ اخلاقی کمزوری کا علم ہوتا تو کہتے کہ کل تک تو فلاں شخص کا یہ حال تھا اور آج یہ برگزیدہ لوگوں میں شامل ہیں۔ نیز ﴿بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ ﴾ کے الفاظ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آیا یہ نادار اور ناتواں مسلمان بھی کفار کی ایسی حقارت آمیز اور طعن و تشنیع پر مشتمل باتوں کو سن کر ان پر صبر کرتے ہیں؟ اور کس حد تک صبر کرتے ہیں۔ الانعام
54 [٥٧] مسلمانوں میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن سے زمانہ جاہلیت میں کئی بڑے گناہ سرزد ہوچکے تھے۔ اگرچہ اب انہوں نے بہت حد تک اپنی اصلاح کرلی تھی اور ان کی زندگی بدل چکی تھی لیکن مخالفین اسلام انہیں ان کے سابقہ اعمال و عیوب پر طعنے دینے سے باز نہیں آتے تھے۔ اس پس منظر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرمایا جا رہا ہے کہ اہل ایمان کو تسلی دیں اور کہیں کہ آپ کا پر ورگار بڑا غفور رحیم ہے جو شخص اسلام لا کر یا توبہ کر کے اپنی اصلاح کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ یقینا پچھلے گناہوں پر گرفت نہیں کرے گا جیسا کہ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ’’جب کوئی شخص اسلام لائے اور ٹھیک طور پر لائے تو اس کی سابقہ تمام برائیاں دور کردی جاتی ہیں اور اس کے بعد جو حساب شروع ہوگا وہ یوں ہوگا کہ ہر نیکی کے عوض دس سے لے کر سات سو تک نیکیاں لکھی جائیں گی اور برائی کے عوض ایک ہی برائی لکھی جائے گی۔ الا یہ کہ اللہ وہ بھی معاف فرما دے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب حسن اسلام المرء۔۔) لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے لوگوں کو یقین دلائیے کہ تم پر اللہ کی طرف سے سلامتی ہے۔ اللہ کی رحمت بڑی وسیع ہے۔ وہ یقیناً تمہاری اسلام لانے سے پہلے کی برائیوں کو معاف فرما دے گا۔ پھر اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص غلطی سے یا لاعلمی سے کوئی گناہ کا کام کر بیٹھے پھر اللہ کے حضور توبہ کرلے تو اللہ یقینا اپنے بندوں کے لیے غفور رحیم ہے۔ [٥٨] ١۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدا کرنے سے پہلے ایک کتاب لکھی (جس میں یہ لکھا کہ) میری رحمت میرے غضب سے آگے نکل گئی۔ اور یہ بات اس کے پاس عرش پر لکھی ہوئی ہے۔‘‘ (بخاری کتاب التوحید۔ باب قول اللہ تعالیٰ بل ہو قرآن مجید فی لوح محفوظ) ٢۔ ننانوے آدمیوں کے قاتل کے احوال :۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :بنی اسرائیل میں سے ایک شخص نے ننانوے آدمی ناحق قتل کیے تھے۔ پھر وہ اپنے متعلق مسئلہ پوچھنے نکلا۔ وہ ایک راہب کے ہاں گیا اور اس سے پوچھا ’’کیا میرے لیے توبہ (کی گنجائش) ہے؟‘‘ اس نے کہا ''نہیں'' تو اس نے راہب کو بھی مار ڈالا (سو پورے کردیئے) پھر لوگوں سے یہی مسئلہ پوچھتا رہا۔ کسی آدمی نے اسے کہا کہ : فلاں فلاں بستی میں (توبہ کے لیے) چلے جاؤ۔ راستہ میں ہی اسے موت نے آن لیا۔ اس نے اپنا سینہ بستی کی طرف جھکا دیا۔ اب رحمت کے اور عذاب کے فرشتے آپس میں جھگڑنے لگے۔ جس بستی کو وہ جا رہا تھا اسے اللہ نے حکم دیا کہ نزدیک ہو اور جس بستی سے جا رہا تھا اسے حکم دیا کہ دور ہوجا اور فرشتوں سے فرمایا کہ فاصلہ ناپ لو۔ چنانچہ جہاں اسے جانا تھا وہ بستی بالشت بھر قریب نکلی تو اسے بخش دیا گیا۔ (بخاری۔ کتاب الانبیائ۔ باب ماذکر عن بنی اسرائیل ) ٣۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے لوگوں میں سے ایک شخص کا ذکر کیا۔ اللہ نے اس کو مال اور اولاد دی تھی۔ جب وہ مرنے لگا تو اپنے بیٹوں سے پوچھا : میں تمہارا کیسا باپ تھا ؟ وہ کہنے لگے۔ اچھا باپ تھا۔ باپ نے کہا : دیکھو! میں نے کوئی نیکی اللہ کے ہاں جمع نہیں کی اور اگر میں اللہ کے ہاں پہنچ گیا تو وہ ضرور مجھے سزا دے گا۔ لہٰذا تم ایسا کرنا کہ میں جب مر جاؤں تو میری لاش کو جلا دینا اور جب میں کوئلہ ہوجاؤں تو باریک پیس کر اس کے ذرات تیز آندھی میں بکھیر دینا۔ اس نے اپنی اولاد سے قسم دے کر یہ عہد لیا۔ چنانچہ اس کی اولاد نے اس کے مرنے کے بعد ایسا ہی کیا۔ اللہ تعالیٰ نے کلمہ کن کہا تو وہ شخص اللہ کے حضور کھڑا ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا : میرے بندے! جو کچھ تو نے کیا ہے کونسی بات اس کی محرک بنی تھی؟ وہ کہنے لگا : فقط تیرے ڈر سے میں نے ایسا کیا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ڈرنے کا بدلہ یہ دیا کہ اس پر رحم فرما دیا (بخش دیا)۔ (بخاری۔ کتاب الرقاق۔ باب الخوف من اللہ ) الانعام
55 [٥٩] مجرمین کی صفات :۔ ایسے مجرموں کے اوصاف کچھ تو پہلے بیان ہوچکے ہیں یعنی جو لوگ ایمان لانے کے قریب تو آتے نہیں مگر مطالبات اور اعتراضات کیے جاتے ہیں مثلاً یہ کہ ہمیں فلاں معجزہ لا کر دکھا دو یا فلاں بات کا پتہ دو تو تب ہی ہم ایمان لائیں گے کبھی یہ کہ نبی تو ہم ہی جیسا بشر ہے اور کبھی یہ کہتے ہیں کہ اگر حقیر قسم کے لوگ آپ اپنی مجلس سے نکال دیں تو تب ہی ہم آپ کی مجلس میں آ سکتے ہیں۔ کچھ صفات تو ان مجرموں کی سابقہ آیات میں مذکور ہو چکیں اور کچھ آگے ذکر ہو رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم یہ تفصیلات اس لیے بیان کر رہے ہیں کہ ایسے ہٹ دھرم مجرموں کی صفات کھل کر سامنے آ جائیں۔ الانعام
56 [٦٠] مجرموں کی خواہش کیا تھی :۔ مشرکین مکہ یا مجرمین یہ چاہتے تھے کہ کوئی سمجھوتہ کی راہ نکل آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے معبودوں یا دیوی دیوتاؤں کی توہین نہ کریں اور ہم انہیں کچھ نہ کہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم یہ تھی کہ یہ بت نہ کسی کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ سنوار سکتے ہیں اور اس تعلیم سے صرف ان کے بتوں کی توہین نہیں ہوتی تھی بلکہ ان کے آباؤ اجداد کی بھی ہوتی تھی اور ان کی بھی۔ اسی لیے وہ سٹپٹاتے تھے۔ اسی بات کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان سے کہہ دو کہ نہ میں تمہاری اس خواہش کو پورا کرسکتا ہوں نہ ہی ان دیوی دیوتاؤں کی تعظیم کرسکتا ہوں میں تو مامور ہی اس بات پر ہوں کہ لوگوں کا رشتہ ان معبودوں سے توڑ کر اللہ سے جوڑ دوں۔ پھر اگر میں نے خود ہی وحی الٰہی کے خلاف کیا تو میں تو خود بھی ہدایت پانے والوں میں سے نہ رہوں گا۔ دوسرے کیسے ہدایت پا سکیں گے اور چونکہ یہ حکم مجھے اللہ کی طرف سے ملا ہے لہٰذا میں کسی قیمت پر بھی اس کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا۔ الانعام
57 [٦١] اگر تم سچے ہو تو ہم پر عذاب کیوں نہیں آتا ؟ اس آیت میں ایسے مجرموں یا ہٹ دھرموں کی ایک اور صفت بیان کی گئی ہے۔ کفار مکہ یہ کہتے تھے کہ اگر تم سچے نبی ہوتے تو تم اور تمہارے ساتھی ایسی بے بسی اور درماندگی کی حالت میں کیوں ہوتے؟ اور جس طرح ہم تم لوگوں پر سختیاں کر رہے ہیں اگر تم سچے ہوتے تو اب تک ہم پر وہ عذاب آ جانا چاہیے تھا جس کی تم ہمیں دھمکیاں دیتے رہتے ہو۔ مجرموں کی اسی بات کا جواب اللہ نے یہ دیا ہے کہ آپ ان سے کہہ دیجئے کہ میرے اپنے اطمینان کے لیے یہ بات کافی ہے کہ ٹھیک ٹھیک اس راہ راست پر جا رہا ہوں جو اللہ نے میری طرف وحی کیا ہے۔ رہی یہ بات کہ تم پر وہ عذاب اب تک کیوں نہیں آ چکا تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا عذاب لے آنا میرے اختیار میں نہیں۔ یہ کام تو اللہ کا ہے۔ جب وہ ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرنا چاہے گا تمہیں ایسے عذاب سے دوچار کر دے گا۔ الانعام
58 [٦٢] اور اگر ایسا عذاب لانا میرے اختیار میں ہوتا تو وہ کب کا آچکا ہوتا اور یہ سارے جھگڑے ختم ہوچکے ہوتے مگر تم پر عذاب آنے کا ٹھیک وقت تو اللہ ہی کو معلوم ہے۔ اللہ کا علم، اس کا حلم اور اس کی حکمت بالغہ جب تم پر عذاب لانے کی مقتضی ہوگی اس وقت اس کے عذاب کو کوئی ٹال نہیں سکے گا۔ الانعام
59 [٦٣] غیب کی خبریں بتانے والے :۔ میں جو ظالموں پر عذاب آنے کی بات کرتا ہوں تو یہ بھی وحی الٰہی کی بنا پر کرتا ہوں۔ رہی یہ بات کہ وہ عذاب کب آئے گا اس کا مجھے کچھ علم نہیں الا یہ کہ اللہ مجھے اس سے آگاہ فرما دے کیونکہ غیب کے تمام تر وسائل و ذرائع صرف اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جان سکتا اور اگر کوئی شخص غیب جاننے کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ہے اور اللہ کی اس صفت کا منکر ہے اور جو شخص کسی غیب کی خبر دینے والے کی تصدیق کرتا ہے یا اس پر یقین رکھتا ہے وہ بھی برابر کا مجرم ہے جس پر درج ذیل احادیث شاہد ہیں۔ ١۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص کسی عراف (غیب کی خبریں بتانے والے) کے پاس جائے اور اس سے کچھ پوچھے اس کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں ہوتی۔‘‘ (مسلم۔ باب السلام۔ باب تحریم الکہانۃ و اتیان الکھان) ٢۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص کسی کاہن کے پاس جا کر اس سے کچھ دریافت کرے، پھر اس کی تصدیق کرے تو اس نے اس چیز سے کفر کیا جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی۔‘‘ (ابو داؤد باب الکھانت والتفسیر۔ باب النھی عن اتیان الکھان ) ٣۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’نجومی کاہن ہے اور کاہن جادوگر ہے اور جادوگر کافر ہے‘‘ (بخاری کتاب المناقب۔ باب ایام الجاھلیۃ۔۔) ٤۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کہ غیب کی کنجیاں پانچ ہیں جنہیں اللہ ہی جانتا ہے (یعنی) قیامت کب آئے گی؟ وہی بارش برساتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ ارحام میں کیا کچھ (تغیر و تبدل) ہوتا رہتا ہے۔ نیز کوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کو کیا کرے گا اور نہ ہی وہ یہ جانتا ہے کہ وہ کس جگہ مرے گا۔ اللہ ہی ان باتوں کو جاننے والا اور باخبر ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) اللہ تعالیٰ کے علم کی وسعت :۔ اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ غیب کے سب علوم ایک مخصوص مقام پر خزانوں کی صورت میں سربمہر بند ہیں۔ اور مقفل ہیں اور ان تالوں کی چابیاں صرف اللہ کے پاس ہیں۔ اسی مقام پر ہر چیز کی مقادیر اللہ تعالیٰ نے پہلے سے لکھ رکھی ہیں اسی مقام کو قرآن میں کسی جگہ لوح محفوظ (٨٥ : ٢٢) کسی جگہ ام الکتاب (٤٣ : ٤) کسی جگہ امام مبین (٢٦ : ١٢٧) کسی جگہ کتاب مکنون (٥٦ : ٧٨) اور کسی جگہ کتاب مبین فرمایا ہے اور سب اس مقام یا ان غیب کے خزانوں کے صفاتی نام ہیں۔ ان خزانوں تک ان خزانوں کے مالک حق سبحانہ کے علاوہ اور کسی کی رسائی ممکن نہیں گویا یہی لکھی ہوئی مقادیر تمام مخلوقات کا مبدا یا نقطہ آغاز ہیں۔ پھر ان خزانوں کی وسعت کو عام لوگوں کے ذہن نشین کرانے کے لیے اس کے چند پہلوؤں پر روشنی ڈالی مثلاً اللہ ہی خشکی اور سمندروں کی سب اشیاء کو جانتا ہے خشکی میں جنگل بھی ہیں آبادیاں بھی، پہاڑ بھی، غاریں بھی۔ بے شمار درخت اور جڑی بوٹیاں بھی اور لاتعداد مخلوق حیوانات بھی اور انسان بھی اور سمندروں کی مخلوق تو اس سے بھی کہیں زیادہ ہے یہ تو اللہ تعالیٰ کے اجمالی علم سے متعلق تھا اور تفصیلی یہ ہے کہ وہ مثلاً کسی درخت کے پتوں تک انفرادی علم رکھتا ہے کہ اس کی نشوونما کیسے ہو رہی ہے اور کب وہ جھڑ کر اپنے درخت سے نیچے گر پڑے گا اسی طرح جو غلہ زمین سے پیدا ہو رہا ہے اس کے ایک ایک دانے کا اسے علم ہے۔ علاوہ ازیں وہ زمین کے اندر کی مخفی چیزوں تک کو جانتا ہے پھر وہ یہ بھی جانتا ہے کہ کائنات میں اب تک کیا کچھ ہوچکا ہے اور آئندہ کیا کچھ ہونے والا ہے اور ان باتوں کے متعلق بھی وہ تفصیلی علم رکھتا ہے اجمالی نہیں گویا کتاب مبین یا لوح محفوظ ایسا نورانی تختہ ہے جس میں ازل سے کائنات کا نقشہ کھینچ دیا گیا ہے اسی کے مطابق اسی عالم میں واقعات ظہور پذیر ہو رہے ہیں اسی کے مطابق اس عالم کا خاتمہ ہوگا اور پھر روز آخرت قائم ہوگا۔ [٦٤] لکھی ہوئی تقدیر :۔ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا ’’اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی تقدیریں آسمان و زمین سے پچاس ہزار سال پہلے لکھ لی تھیں جبکہ اس کا عرش پانی پر تھا۔‘‘ (مسلم۔ کتاب القدر۔ باب حجاج آدم و موسیٰ علیہ السلام) الانعام
60 [٦٥] روح کی قسمیں اور حشر ونشر پر دلیل :۔ روح دو قسم کی ہوتی ہے ایک حیوانی دوسرے روحانی یا نفسانی۔ رات کو یا نیند کے دوران روح نفسانی جسم سے نکل جاتی ہے۔ جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ اسے قبض کرلیتا ہے۔ اس روح کے جسم سے علیحدہ ہونے کا اثر یہ ہوتا ہے کہ انسان کی سماعت، بصارت اور قلب و دماغ اپنا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں لیکن حیوانی روح جسم میں موجود رہتی ہے جس کی وجہ سے انسان میں دوران خون جاری رہتا ہے اور وہ سانس بھی لیتا رہتا ہے اور نیند پوری ہونے کے بعد یا سوئے ہوئے کو جگانے سے روح نفسانی بھی جسم میں واپس لوٹ آتی ہے اور ان دونوں قسم کی روحوں کا آپس میں تعلق یہ ہوتا ہے کہ کسی ایک روح کے خاتمہ سے یا قبض کرنے سے دوسرے کا از خود خاتمہ ہوجاتا ہے اور انسان پر موت واقع ہوجاتی ہے گویا سوئے ہوئے انسان پر آدھی موت طاری ہوچکی ہوتی ہے اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیند کو موت کی بہن قرار دیا ہے اسی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا اور اس حقیقت سے ایک دوسری بڑی حقیقت پر استدلال کیا ہے جو یہ ہے کہ جس طرح اللہ تمہاری نفسانی روح رات کو قبض کر کے صبح واپس تمہارے جسم میں بھیج دیتا ہے اسی طرح موت کے وقت تمہاری روح قبض کرلیتا ہے اور جب قیامت قائم ہوگی تو وہی روح واپس بھیج کر تمہیں تمہاری قبروں سے اٹھا کھڑا کرے گا۔ الانعام
61 [٦٦] سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تم میں دن اور رات کے فرشتے ایک دوسرے کے بعد باری باری آتے رہتے ہیں۔ عصر اور فجر کی نماز کے وقت وہ جمع ہوجاتے ہیں پھر وہ فرشتے جو رات کو تمہارے پاس رہے تھے اوپر چڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے کہ ’’تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ؟‘‘ حالانکہ وہ تم سے خوب واقف ہوتا ہے۔ فرشتے عرض کرتے ہیں ’’ہم نے جب انہیں چھوڑا وہ نماز پڑھ رہے تھے۔‘‘ اور ’’جب انکے پاس گئے تو بھی نماز پڑھ رہے تھے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب مواقیت الصلٰوۃ۔ باب فضل صلٰوۃ العصر۔ بخاری کتاب التوحید۔ باب قول اللہ تعرج الملئکۃ والروح الیہ ) حفاظت کرنے والے اور اعمال لکھنے والے فرشتے :۔ اس حدیث میں ان فرشتوں کا ذکر ہے جو انسان کا نامہ اعمال مرتب کرتے ہیں۔ رات کے فرشتے الگ ہیں اور دن کے الگ۔ ان کے علاوہ کچھ فرشتے ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس کی جان کی حفاظت کرتے ہیں۔ بسا اوقات ایسے واقعات پیش آ جاتے ہیں جب انسان اپنی موت اپنے سامنے کھڑی دیکھ لیتا ہے۔ لیکن حالات کا رخ ایسا پلٹا کھاتا ہے کہ اس کی جان بچ جاتی ہے اور وہ خود یہ اعتراف کرتا ہے کہ ’’اس وقت اللہ ہی تھا جس نے اس کی جان بچا لی۔‘‘یا یہ کہ ’’ابھی زندگی باقی تھی ورنہ بچنے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔‘‘ اور یہ اس لیے ہوتا ہے کہ ابھی اس انسان کی موت کا معین وقت آیا نہیں ہوتا۔ اس حقیقت کو قرآن نے ایک دوسرے مقام پر ان الفاظ میں بیان فرمایا ﴿قُلْ مَنْ یَّـکْلَـؤُکُمْ بالَّیْلِ وَالنَّہَارِ ﴾ انسانی زندگی اور موت کے سب مراحل اضطراری ہیں :۔ اس آیت کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَہُوَ الْقَاہِرُ فَوْقَ عِبَادِہٖ ﴾ یعنی تمام مخلوقات اور انسان اللہ تعالیٰ کے طبعی قوانین کے سامنے بالکل بے کس اور مجبور محض ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے رحم مادر میں ہر شخص کی شکل و صورت جیسے خود چاہی ویسی ہی بنا دی۔ اس میں اس کا اپنا کچھ عمل دخل نہ تھا۔ پھر جب پیدا ہوا اور ماں کے پیٹ سے باہر آیا تو اس وقت بھی اس کی اپنی مرضی کو کچھ عمل دخل نہ تھا۔ پھر پیدا ہو کر وہ کھانے پینے پر مجبور ہے تاکہ اس کی تربیت اور پرورش ہو۔ اسی طرح وہ بچپن، جوانی اور بڑھاپے کے مراحل طے کرنے پر بھی مجبور ہے اور جنسی ملآپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی مجبور ہے لیکن اولاد پیدا کرنے میں اس کا کچھ عمل دخل نہیں۔ چاہے تو کسی نادار کو کثیرالاولاد بنادے اور چاہے تو کسی امیر کبیر کو اولاد سے محروم کر دے۔ پھر وہ اپنے مرنے پر بھی مجبور ہے اور زندگی کے دن پورے کرنے پر بھی جب تک اس کی موت کا متعین وقت نہ آئے خواہ وہ کیسے ہی حوادث سے دو چار ہو فرشتے اس کی جان کی حفاظت کرتے رہتے ہیں اور جب وہ معین وقت آ جاتا ہے کوئی حکیم، کوئی ڈاکٹر یا اس کا مال و دولت اور اس کے نہایت قریبی رشتہ دار اسے موت کے منہ سے بچا نہیں سکتے۔ پھر رزق کے حصول میں بھی بہت حد تک مجبور ہے۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ وہ امیر کبیر بن جائے لیکن اسے رزق ملتا اتنا ہی ہے جو اس کے مقدر میں ہوتا ہے اور جو مقدر میں ہوتا ہے وہ مل کے رہتا ہے۔ بعینہ انسان موت کے بعد کی منازل یعنی دوبارہ زندہ ہوجانے، اپنے اعمال کی جواب دہی کے لیے اللہ کے حضور پیش ہوجانے اور ان اعمال کی جزا و سزا پانے پر مجبور ہے اور کوئی چیز اسے ان نتائج سے نہ بچا سکتی ہے، نہ آڑے آ سکتی ہے اور ان تمام معاملات میں اس کی اپنی مرضی کو کچھ بھی عمل دخل نہیں ہوگا اور یہی اس جملہ کا مطلب ہے۔ [٦٧] یعنی وہ اپنی ڈیوٹی میں کسی طرح کی غفلت نہیں کرتے۔ انسان کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا فعل یا عمل یا قول ایسا نہیں ہوتا جسے فرشتے اس کے نامہ اعمال میں لکھ نہ لیتے ہوں۔ یا جس شخص کی ابھی موت نہ آئی ہو اس کی حفاظت نہ کریں اور وہ معینہ وقت سے پہلے مر جائے۔ یا کسی کا معینہ وقت آ چکا ہو لیکن اس کی روح کو قبض نہ کریں۔ یا موت تو زید کی معین ہو اور وہ اس کے بجائے بکر کی روح قبض کرلیں۔ ان میں سے کوئی صورت بھی ممکن نہیں ہوتی۔ وہ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے حکم میں کسی طرح کی کمی بیشی کر ہی نہیں سکتے۔ الانعام
62 [٦٨] موت کے بعد کے احوال اور قبر میں سوال وجواب :۔ اس بارے میں بہت سی احادیث وارد ہیں۔ مختصراً یہ کہ جب فرشتے انسان کی روح قبض کرنے آتے ہیں تو فرشتوں کے رویہ سے ہی مرنے والے کو یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اہل جنت سے ہے یا اہل دوزخ سے۔ جنتی کی روح کو ریشم کے کپڑوں میں لپیٹ کر آسمان کی طرف جاتے ہیں تو اس روح کی خاصی پذیرائی ہوتی ہے اور آسمان کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے پھر اسے عزت و اکرام سے واپس بھیج دیا جاتا ہے اور یہ روح اپنی میت کے ساتھ ساتھ رہتی ہے اور پکارتی رہتی ہے کہ مجھے جلدی جلدی تدفین کے لیے لے چلو۔ پھر تدفین کے بعد قبر میں جب سوال و جواب ہو چکتے ہیں تو اسے مقام علیین پہنچا دیا جاتا ہے اور دوزخی کی روح کو فرشتے بدبودار کپڑوں میں لپیٹ کر آسمان کی طرف لے جاتے ہیں تو اس کے لیے دروازہ ہی نہیں کھلتا پھر اسے وہاں سے اپنی میت کی طرف پھینک دیا جاتا ہے اور وہ پکار پکار کر کہتی ہے کہ مجھے تدفین کے لئے نہ لے جاؤ۔ پھر جب تدفین کے بعد قبر میں سوال و جواب ہوتے ہیں اور وہ اس امتحان میں ناکام رہتا ہے تو مقام سجین میں قیامت تک کے لیے قید کردیا جاتا ہے۔ [٦٩] یعنی عذاب و ثواب کا سلسلہ مرنے کے ساتھ ہی شروع ہوجاتا ہے پھر قبر میں جنتی کے لیے جنت کی ایک کھڑکی کھول دی جاتی ہے اور وہ قیامت تک ایسے اکرام اور مسرت کی نیند سوتا ہے جیسے کوئی دلہن سوتی ہے اور دوزخی کے لیے دوزخ کی طرف کھڑکی کھول دی جاتی ہے جس کی وجہ سے اسے طرح طرح کا عذاب شروع ہوجاتا ہے اور یہ عذاب و ثواب قیامت کے بعد کے عذاب و ثواب کی نسبت بہت ہلکے ہوتے ہیں۔ قیامت کو حساب و کتاب کے بعد دوزخی کو جو عذاب ہوگا وہ اس سے شدید تر ہوگا۔ اسی طرح جنتی پر جو انعامات ہوں گے وہ قبر کے انعام سے بہت زیادہ ہوں گے۔ الانعام
63 [٧٠] یعنی خواہ تم کسی سمندر کا سفر طے کر رہے ہو یا خشکی کے مقام پر ہو تو کوئی ایسا واقعہ پیش آ جائے جس سے تمہیں موت سامنے کھڑی نظر آنے لگے تو اس بے بسی کے عالم میں کبھی تو تم بے اختیار ہو کر لاشعوری طور پر اللہ کو پکارنے لگتے ہو اور کبھی دل ہی دل میں گڑگڑا کر اللہ کے حضور فریاد کرنے لگتے ہو کہ آج اگر اللہ نے ہمیں اس مصیبت سے نجات دے دی تو ہم ضرور اللہ کے فرمانبردار بن جائیں گے۔ اور یہ ایسی حقیقت ہے جو ہر انسان کو اپنی زندگی میں متعدد بار پیش آتی رہتی ہے۔ الانعام
64 [٧١] ایسے آڑے وقتوں میں مشرک کو اپنے سب دیوی دیوتا اور بزرگ بھول جاتے ہیں اور اللہ ہی یاد آتا ہے حتیٰ کہ اللہ کے منکر اور دہریے بھی بے اختیار اللہ سے فریاد کرنے لگتے ہیں۔ لیکن جب یہ بلا سر سے ٹل جاتی ہے پھر انہیں اللہ سے اپنا کیا ہوا وعدہ یاد ہی نہیں رہتا اور ایسی کھلی علامت دیکھ لینے کے باوجود بعد میں وہ اللہ کے تصرف و اختیار میں ایسی ہستیوں کو شریک بنا لیتے ہیں جن کے لیے علمی دلیل یا ثبوت ان کے پاس موجود نہیں ہوتا۔ (نیز دیکھئے اسی سورۃ کی آیت نمبر ٤٦ کا حاشیہ اور سورۃ یونس کا حاشیہ نمبر ٣٤) الانعام
65 [٧٢] عذاب کی قسمیں : اس آیت میں عذاب کی تین اقسام بیان فرمائیں (١) عذاب سماوی جیسے طوفان بادو باراں، کڑک، بجلی کا گرنا، تیز آندھی، پتھروں کی بارش وغیرہ (٢) عذاب ارضی جیسے دریاؤں کا سیلاب، زلزلے اور زمین میں دھنس جانا (٣) فرقہ بازی۔ خواہ یہ مذہبی قسم کی ہو یا سیاسی یا قبائلی ہو۔ یہ تینوں قسم کے عذاب اگلی امتوں پر آتے رہے ہیں۔ تیسری قسم کا عذاب تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے بھی موجود تھا۔ حرب فجار اور حرب بعاث مکہ میں حرب فجار اور مدینہ میں حرب بعاث نے خاندانوں کے خاندان تباہ کردیئے تھے۔ سینکڑوں گھرانے اجڑ گئے مگر یہ قبائلی جنگیں ختم ہونے میں نہ آتی تھیں اور پہلی دو قسموں کا عذاب اس وقت آیا کرتا تھا جب کسی قوم کا اس کی سرکشی کی بنا پر مکمل طور پر استیصال مقصود ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب قسم کے عذابوں سے پناہ مانگی اور دعا کی کہ میری امت پر ایسے عذاب نہ آئیں۔ چنانچہ پہلی دو قسم کے عذابوں کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول ہوگئی مگر تیسری قسم کے متعلق قبول نہیں ہوئی یعنی پہلی دو قسم کا عذاب اس امت کے کلی استیصال کے لئے نہیں آئے گا البتہ جزوی طور پر آ سکتا ہے۔ رہا تیسری قسم کا عذاب تو وہ اس امت میں موجود ہے جس نے ملت اسلامیہ کی وحدت کو پارہ پارہ کر کے مسلمانوں کو ایک مقہور اور مغلوب قوم بنا رکھا ہے اور یہ بھی سرکشی اور اللہ کے احکام کی نافرمانی کا ہی نتیجہ ہے۔ الانعام
66 [٧٣] یہاں ھو سے مراد قرآن اور اس کی آیات بھی ہو سکتی ہیں، کفار سے عذاب کا وعدہ بھی اور روز آخرت بھی۔ کیونکہ یہ سب چیزیں اٹل حقائق ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسول سے فرماتے ہیں کہ انہیں کہہ دیجئے کہ اگر تم ان حقائق پر ایمان نہیں لاتے اور تمہیں یہ یقین نہیں آتا تو میرا یہ کام نہیں ہے کہ میں یہ باتیں ہر ممکن طریقہ سے تم سے منوا کر چھوڑوں۔ الانعام
67 [٧٤] سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا عمرہ کے لئے آنا :۔ اس کی ایک مثال یہ واقعہ ہے کہ انصار کے قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ جنگ بدر سے پہلے عمرہ کی نیت سے مکہ آئے اور اپنے حلیف دوست امیہ بن خلف کے پاس ٹھہرے اور اس سے اپنے ارادہ کا اظہار کیا۔ اس وقت ابو جہل رئیس مکہ نے یہ پابندی لگا رکھی تھی کہ کوئی مسلمان کعبہ میں داخل ہونے اور طواف نہ کرنے پائے۔ امیہ بن خلف رواداری کی وجہ سے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو کعبہ لے گیا وہ طواف کر ہی رہے تھے کہ ابو جہل نے دیکھ لیا تو سیدنا سعدرضی اللہ عنہ پر برس پڑا۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کڑک کر جواب دیا کہ اگر تم مجھے روکو گے تو میں تمہارے تجارتی قافلہ کی راہ روک کر تمہارا ناک میں دم کر دوں گا۔ امیہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ ابو جہل سے آرام سے بات کرو۔ یہ مکہ کا سردار ہے۔ امیہ بن خلف کے حق میں پیشین گوئی :۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کہنے لگے تم ابو جہل کی اتنی طرف داری نہ کرو۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ تم ان کے اصحاب کے ہاتھوں قتل ہو گے۔ امیہ نے پوچھا ’’کیا یہاں مکہ میں؟‘‘ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ میں یہ نہیں جانتا۔ پھر کہنے لگے کہ تمہارے قتل کا سبب یہی ابو جہل بنے گا۔ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب علامات النبوۃ فی الاسلام) یہ ایک خبر تھی اور اس خبر کے ظہور کا وقت جنگ بدر تھا۔ اس جنگ میں ابو جہل امیہ بن خلف کو سخت مجبور کر کے لے گیا۔ جہاں یہ دونوں انتہائی ذلت کے ساتھ قتل ہوئے۔ ایسے ہی وحی سے معلوم شدہ ہر خبر اور عذاب کے ظہور کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے اور جب وہ وقت آ جاتا ہے تو اس کا ظہور ہو کے رہتا ہے اور یہی مستقر کا مطلب ہے۔ الانعام
68 [٧٥] یہ مضمون پہلے سورۃ نساء کی آیت نمبر ١٤٠ میں گزر چکا ہے۔ حاشیہ وہاں سے ملاحظہ کرلیا جائے۔ الانعام
69 [٧٦] کفار مکہ کی مجالس استہزاء میں بیٹھنے کی ممانعت اور استثنائی صورت :۔ ربط مضمون کے لحاظ سے تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ جو لوگ مجلسوں میں بیٹھ کر اللہ کی آیات کا مذاق اڑاتے ہیں ان کے گناہوں کا بار انہی پر ہے اور جو لوگ ایسی مجلسوں میں شامل ہونے یا بیٹھنے سے گریز کرتے ہیں ان پر نہیں۔ ہاں اگر کوئی شخص اس غرض سے ایسی مجلسوں میں جائے کہ انہیں جا کر سمجھائے اور نصیحت کرے تو یہ جائز بلکہ ضروری ہے۔ ممکن ہے وہ اس نصیحت سے متاثر ہو کر اپنی کرتوتوں سے باز آ جائیں۔ تاہم یہ حکم صرف مجالس سے ہی مخصوص نہیں بلکہ عام ہے۔ ظالموں کے گناہوں کا بار انہیں پر ہے جو لوگ ان سے اجتناب کرتے ہیں اور ان سے کسی قسم کا تعاون نہیں کرتے۔ ان پر نہیں بلکہ نھی عن المنکر کا فریضہ ہر شخص پر اور ہر ضرورت کے وقت واجب ہے اور اس سے بعض لوگوں کو فی الواقع ہدایت نصیب ہو ہی جاتی ہے۔ الانعام
70 [٧٧] دین کو کھیل تماشا سمجھنے والے :۔ یعنی وہ لوگ جو پیروی تو اپنی خواہشات کی کرتے ہیں مگر خول مذہب کا چڑھا رکھا ہے۔ وہ اگر اپنے اپنے قبیلے کے الگ الگ خدا مقرر کرلیں تو بھی ان کے دین میں کچھ خلل نہیں آتا اور اگر دوسروں پر ظلم روا رکھیں ناجائز طریقوں اور لوٹ مار سے دوسروں کا مال ہتھیا لیں تو بھی جائز اور ہر طرح کے بے حیائی کے کام بھی ان کے لیے جائز۔ ان کے علاوہ اللہ کی آیات، اسلام، پیغمبر اسلام اور ان کے پیروکاروں کا مذاق اڑانا بھی انہوں نے اپنا دینی فریضہ سمجھ رکھا ہے اور چونکہ ان کی معاشی حالت اچھی ہے اور معاشرہ میں انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لہٰذا وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر سے فرمایا کہ انہیں بروقت اس بات سے متنبہ کر دیجئے کہ تم میں سے ہر ایک کا اور اس کے ایک ایک فعل کا حساب لیا جائے گا اور پھر اسے اس کی سزا بھگتنا ہوگی جس سے وہ کسی صورت بچ نہیں سکتا۔ اخروی عذاب سے نجات کی صورتیں :۔ سزا سے بچنے کی ممکنہ صورتیں تو یہی ہو سکتی ہیں کہ کوئی اس کا ایسا حمایتی اٹھ کھڑا ہو جو سزا دینے والے پر اثر انداز ہوسکتا ہو یا سزا دینے والے کا مقرب ہو اور وہ اس کی سفارش کرے تاکہ اسے سزا سے معاف رکھا جائے اور تیسری صورت یہ ہے کہ کچھ دے دلا کر اپنی گلو خلاصی کرا لے، وہاں یہ تینوں صورتیں ناممکن ہوں گی اور انہیں اپنے کرتوتوں کی سزا بہرحال بھگتنا ہی پڑے گی۔ الانعام
71 [٧٨] الٰہ محتاج نہیں ہوسکتا :۔ اس آیت میں ایک بڑی حقیقت بیان کی جا رہی ہے جو یہ ہے کہ حقیقی معبود وہ ہستی ہو سکتی ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچا سکے اور ان کی مشکلات کو دور کرسکے۔ لیکن اپنی زندگی اور اس کی بقا کے لیے دوسروں کی محتاج نہ ہو۔ اس معیار پر اگر پرکھا جائے تو تمام معبودان باطل خواہ وہ زندہ شخصیتیں ہوں یا فوت شدہ ہوں، دیویاں ہوں یا دیوتا، پتھر ہوں یا شجر ہوں یا کوئی اور جاندار چیز ہو سب کی از خود نفی ہوجاتی ہے۔ جن، بتوں، پتھروں اور درختوں اور جانداروں کی تو بات ہی چھوڑیئے۔ جن انبیاء یا بزرگوں کو یا اماموں کو یہ منصب عطا کیا جاتا ہے آپ دیکھئے کہ ان کی زندگی میں کوئی مشکل وقت آیا تھا ؟ اور اگر آیا تھا تو کیا انہوں نے اپنے آپ کو اس سے بچا لیا تھا ؟ اور اگر وہ اپنے آپ کو نہ بچا سکے تو پھر دوسروں کو کیسے بچا سکتے ہیں۔ جلب منفعت یا حاجت روائیوں کے لیے بھی یہی معیار اگر آپ مدنظر رکھیں گے تو آپ کو معلوم ہوجائے گا۔ کہ معبود برحق صرف اللہ ہی کی ذات ہو سکتی ہے۔ [٧٩] مشرکوں کی اپنے ساتھیوں کو دعوت :۔ جس طرح ہدایت کا راستہ صرف ایک ہے اور گمراہی کی راہیں لاتعداد ہیں اسی طرح اللہ کے پرستاروں کا حاجت روا اور مشکل کشا صرف اللہ ہی ہوتا ہے اور مشرکوں کے حاجت روا اور مشکل کشا لاتعداد ہوتے ہیں۔ عرب کے دور جاہلیت کو ہی لیجئے جہاں ہر قبیلے کا حاجت روا اور مشکل کشا الگ الگ تھا کسی کا ہبل تھا کسی کا لات کسی کا منات کسی کا عزیٰ اور کسی کے اساف اور نائلہ، پھر ہندوستان اور مصر کے دیوی دیوتاؤں پر نظر ڈالیے وہ بھی ان گنت نظر آئیں گے۔ عیسائیوں کے بھی تین خدا تو عقیدہ تثلیث کی رو سے ہوئے اور چوتھا انہوں نے سیدہ مریم کو بھی اسی مقام پر فائز کردیا۔ مسلمانوں میں ہر پیر فقیر اور بزرگ ان کا حاجت روا اور مشکل کشا ہے۔ اگر کسی کی ایک قبر پر نذر و نیاز چڑھانے سے حاجت روائی نہیں ہوتی تو وہ کسی دوسرے بڑے بزرگ کی قبر پر چلا جاتا ہے اور پھر کسی تیسرے کے پاس اور انہیں بھیجنے والے شیاطین ہی ہوتے ہیں۔ اب اسے یہ سمجھ نہیں آتی کہ کرے تو کیا کرے ہر الٰہ کے پرستار اسے اپنے الٰہ کی طرف دعوت دیتے اور کہتے ہیں کہ ادھر آؤ یہاں سے تمام مرادیں بر آئیں گی۔ مشرکوں کی یہ مثال دے کر اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر سے فرماتے ہیں کہ ان سے زیادہ بحث و مناظرہ کی ضرورت نہیں۔ انہیں بس یہی کہہ دو کہ ہمیں تو اللہ کا یہی حکم ہے کہ ہم صرف اسی کے فرمانبردار بن کر رہیں۔ ادھر ادھر ہرگز نہ دیکھیں۔ اسی سے ڈریں اور اسی کے حکم کے مطابق نماز قائم کریں۔ الانعام
72 الانعام
73 [٨٠] تخلیق کائنات کا مقصد :۔ یعنی اس لیے زمین و آسمان کو پیدا کیا گیا کہ اس سے تعمیری نتائج پیدا ہوں۔ محض کھیل اور شغل کے طور پر پیدا نہیں کیا۔ جیسے بچے مٹی سے کھیلتے ہوئے اس سے مختلف شکلیں بناتے ہیں پھر انہیں خود ہی ڈھا کر مٹی میں ملا دیتے ہیں۔ بلکہ زمین و آسمان کو ایک خاص مقصد کے تحت پیدا کیا ہے۔ اس خاص مقصد کا اگرچہ قرآن میں صریح الفاظ میں ذکر نہیں آیا تاہم بعض دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب چیزیں انسان کی خدمت پر مامور ہیں اور انسان ہی ساری کائنات میں اشرف المخلوقات ہے۔ انسان کو ہی قوت تمیز اور ارادہ و اختیار دیا گیا ہے تاکہ اسے آزمایا جا سکے کہ آیا وہ اختیاری امور میں بھی اللہ کا فرمانبردار بن کر رہتا ہے یا نہیں؟ گویا انسان کی تخلیق کا مقصد صرف ایک اللہ کی عبادت ہے پھر اس جہان کے بعد اسے فنا کر کے ایک دوسرا جہان پیدا کیا جائے گا اور جو کچھ اچھے یا برے اعمال انسان نے اس دنیا میں سر انجام دیئے ہوں گے اس دوسرے جہان میں ان کی جزا و سزا ملے گی اور یہ دنیا اور آخرت سارے کا سارا ایک مربوط نظام ہے۔ الانعام
74 [٨١] یعنی جس دن اللہ تعالیٰ اس جہان کو درہم برہم کرنا چاہے گا۔ تو فرشتہ اسرافیل صور میں پھونک مارے گا۔ اس سے زمین پر آباد تمام مخلوق مر جائے گی۔ پھر کچھ مدت کے بعد دوبارہ صور میں پھونکا جائے گا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ نفخہ صور دو بار ہوگا۔ اور عجب الذنب :۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صور دو بار پھونکا جائے گا اور ان دونوں میں چالیس کا فاصلہ ہوگا۔ لوگوں نے پوچھا 'چالیس دن کا ؟' کہنے لگے ’’ میں نہیں کہہ سکتا‘‘ لوگوں نے کہا ’’چالیس ماہ کا ؟‘‘ کہنے لگے ’’میں نہیں کہہ سکتا‘‘ پھر لوگوں نے پوچھا ’’چالیس برس کا ؟‘‘ کہنے لگے ’’میں نہیں کہہ سکتا‘‘ اس کے بعد ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش برسائے گا تو لوگ زمین سے اس طرح اگ آئیں گے جیسے سبزہ اگ آتا ہے۔ دیکھو! آدمی کے بدن کی ہر چیز گل سڑ جاتی ہے مگر ایک ہڈی (کی نوک) وہ اس مقام کی ہڈی ہے جہاں جانور کی دم ہوتی ہے قیامت کے دن اسی ہڈی سے مخلوق کو جوڑ جاڑ دیا جائے گا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر سورۃ النبا آیت نمبر ١٨) معبود حقیقی کی چند صفات :۔ معبودان باطل اور ان کے پرستاروں کی تردید کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں معبود حق کی یعنی اپنی ایسی چھ صفات بیان فرمائیں جو صرف اللہ تعالیٰ میں پائی جاتی ہیں۔ دوسرے کسی باطل معبود میں ان کا پایا جانا ناممکن ہے اور وہ یہ ہیں (١) اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین یعنی اس کائنات کو تعمیری نتائج کا حامل بنا کر پیدا کیا ہے (٢) پھر وہ اس کائنات میں وسعت بھی پیدا کرتا رہتا ہے اور تغیر و تبدل بھی۔ جب اسے کچھ کرنا منظور ہوتا ہے تو وہ اس کے ہوجانے کا حکم دے دیتا ہے اور وہ چیز یا حادثہ وجود میں آنا شروع ہوجاتا ہے۔ (٣) اس کی ہر بات کا ہر حکم سچا اور ٹھوس حقیقت پر مبنی ہوتا ہے۔ (٤) جس دن اسے اس کائنات کو ختم کر کے روز آخرت میں لانا منظور ہوگا۔ تو اس عالم آخرت میں بھی اسی کی مکمل طور پر فرمانروائی ہوگی۔ (٥) اس کے لیے غیب اور شہادت سب کچھ یکساں، اس کی نظروں کے سامنے اور اس کے علم میں ہے شہادت سے مراد وہ اشیاء ہیں جو کسی انسان کے سامنے موجود ہیں یا ان تک انسان کی دسترس ہوچکی ہے یا ایسے طبعی قوانین جو انسان کے علم میں آ چکے ہیں اور غیب سے مراد ایسی اشیاء ہیں جو انسان کے علم میں نہیں آئیں خواہ وہ ماضی سے تعلق رکھتی ہوں یا مستقبل سے یا ایسے تمام قوانین جن تک تاحال انسان کی رسائی نہیں ہوسکی ایسی سب باتیں اللہ کے علم میں ہیں۔ (٦) اس کے ہر کام میں اور ہر حکم میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور موجود ہوتی ہے خواہ انسان کو اس کا علم ہو یا نہ ہو۔ اس لیے کہ وہ ہر چیز کی قلیل سے قلیل مقدار تک سے بھی پوری طرح باخبر ہے۔ الانعام
75 [٨١۔ ١] ابراہیم علیہ السلام کا کائناتی مطالعہ :۔ نجوم پرستی کا آغاز عراق کے علاقہ میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی بعثت سے بہت پہلے ہوچکا تھا۔ ستاروں اور چاند، سورج وغیرہ کی ارواح کی تصوراتی شکلیں متعین کر کے ان کے مجسمے بنائے جاتے اور ان مجسموں کو مندروں میں پرستش کے لیے رکھا جاتا تھا۔ ان سیاروں کے انسانی زندگی پر طرح طرح کے اثرات تسلیم کیے جاتے تھے اور لوگ اپنی زندگی اور موت، مرض اور صحت، خوشحالی اور تنگ دستی ایسے ہی کئی دوسرے امور کو سیاروں کی چال سے منسوب کرتے اور ان کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے متعلقہ ستاروں کے مجسموں کے سامنے مندروں میں نذر و نیاز پیش کرتے تھے۔ مندروں کے نام پر بڑی بڑی جاگیریں وقف ہوتیں اور ان کے سرمایہ کو تجارت اور صنعت پر بھی لگایا جاتا اور یہ سب کام مندروں کے پجاریوں کی معرفت طے پاتے تھے۔ اس طرح کہ یہ جاگیر دار اور سرمایہ دار ملک کے تمدن، معیشت اور سیاست پر بہت حد تک اثر انداز ہوتے تھے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا باپ ایسے ہی کسی بڑے مندر کا شاہی مہنت تھا۔ نذرانے وصول کرنے کے علاوہ بت گری اور بت فروشی کا کاروبار بھی کرتا تھا۔ کھانے پینے کی فراغت کے علاوہ معاشرہ کے معززین میں اس کا شمار ہوتا تھا۔ آپ علیہ السلام نے ایسے ہی ماحول میں پرورش پائی۔ آپ کو معلوم ہوا کہ فلاں فلاں قسم کے بت فلاں ستارہ کے ہیں اور فلاں بت چاند کے اور فلاں سورج کے، علاوہ ازیں ان لوگوں نے اپنے شہروں کے نام بھی انہی بتوں کے نام پر رکھے ہوئے تھے۔ آپ کو بچپن میں ہی فطرت سلیمہ عطا ہوئی تھی۔ معاشرہ کی ان حرکات سے اور گھر کے ایسے ماحول سے ان کی طبیعت بے زار رہتی تھی۔ اور ہر وقت گہری سوچ میں پڑے رہتے تھے ایک دن انہوں نے رات کو ایک چمکدار ستارہ دیکھا جو کچھ عرصہ بعد مغرب میں جا کر غروب ہوگیا انہیں یکدم خیال آیا کہ جو چیز میرے پاس موجود بھی نہیں رہ سکتی وہ میری یا کسی دوسرے کی مشکلات کو کیا دور کرے گی۔ پھر چاند کو دیکھا تو اس کا بھی یہی حال تھا۔ پھر سورج پر غور کیا تو اس کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا۔ جو ایک مقررہ رفتار سے چلتے ہوئے مشرق سے طلوع ہوتے اور مغرب میں غروب ہوجاتے تھے۔ انہوں نے سوچا جو چیزیں نظم و ضبط کی اس قدر پابند اور اپنے اپنے کام پر مجبور و بے بس ہیں وہ خدا کیسے ہو سکتی ہیں خدا تو وہ ہوسکتا ہے جس نے ان تمام چیزوں کو کنٹرول میں رکھا ہوا ہے۔ آپ نے ایک طویل مدت ان حالات پر غور کیا بالآخر اللہ نے خود آپ کی رہنمائی کی اور آپ کو نبوت کے منصب پر سرفراز فرمایا اور وحی کے ذریعہ اس کائنات کے اسرار آپ پر منکشف کردیئے۔ اس وقت آپ نے اللہ کا شکر ادا کیا جس نے آپ کو ان تفکرات سے نجات دلائی جس میں آپ مدتوں سے سوچ بچار کر رہے تھے اور ان گمراہیوں سے نکال لیا جن میں آپ کی پوری کی پوری قوم ڈوبی ہوئی تھی۔ آپ کو جب یہ یقین حاصل ہوگیا تو سب سے پہلے آپ نے اپنے گھر سے اصلاح احوال کا آغاز کیا اور اپنے باپ سے کہا کہ آپ نے اور آپ کی قوم نے جو یہ مندروں میں بت ٹکا رکھے ہیں اور انہیں اپنا حاجت روا سمجھ رہے ہو یہ تو انتہائی غلط روش اور سراسر گمراہی ہے۔ باپ نے ڈانٹ پلا کر خاموش کردیا تو آپ نے اپنی قوم کے دوسرے لوگوں کو یہی ہدایت کی باتیں سمجھانا شروع کردیں۔ الانعام
76 الانعام
77 [٨٢] انبیاء کے والدین کو شرک سے بری ثابت کرنے کا نظریہ :۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے باپ کا اصلی نام تارح تھا اور آزر ان کا لقب تھا۔ پھر وہ لقب سے زیادہ مشہور ہوگئے اور بعض یہ کہتے ہیں کہ ان کا اصل نام آزر تھا اور تارح لقب تھا۔ یہ باتیں تو ایسی ہیں جن میں کسی کے اختلاف کرنے کی ضرورت نہیں مگر جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے باپ کا نام تارح تھا اور آزر آپ کے چچا کا نام تھا اور اس کی وجہ یہ بتلاتے ہیں کہ پیغمبر کا باپ مشرک نہیں ہو سکتا۔ یہ بات ایک تو قرآن کے ظاہر الفاظ کے خلاف ہے دوسرے اس کی جو وجہ بیان کی گئی ہے وہ بناء فاسد علی الفاسد پر مبنی ہے کیونکہ پیغمبروں کے مبعوث ہونے کا وقت ہی وہ ہوتا ہے جب دنیا میں کفر و شرک اور فتنہ و فساد عام پھیل جاتا ہے اور اس کلیہ سے مستثنیٰ صرف وہ انبیاء ہیں جن کی قرآن یا حدیث میں صراحت آ گئی ہے۔ مثلاً سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے اسماعیل اور اسحاق علیہما السلام اور ان کے بیٹے اور پوتے یعنی یعقوب اور یوسف علیہما السلام سب نبی تھے یا سلیمان علیہ السلام کے باپ داؤد علیہ السلام نبی تھے۔ ان انبیاء کے علاوہ دوسرے نبیوں کے باپ یا ماں باپ دونوں کو غیر مشرک ثابت کرنا ایسا تکلف ہے جسے تکلف کرنے کے باوجود بھی ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ الانعام
78 الانعام
79 الانعام
80 [٨٣] نجوم پرست کی مخالفت :۔ اس قوم کے ہر ایک فرد کی رگ رگ میں یہ بات رچی ہوئی تھی کہ انسانی زندگی پر سیاروں کے اثرات انفرادی طور پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں اور اجتماعی طور پر بھی۔ پھر انہیں سیاروں کی ارواح کے خیالی مجسمے مندروں میں نصب کر کے ان کی پرستش کی جاتی تھی، انہیں نفع و نقصان کا مالک سمجھنے کی وجہ سے ان کے آگے نذریں اور قربانیاں پیش کر کے انہیں خوش رکھنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ اور اسی نظام سے ان کی سر سے پاؤں تک کی زندگی وابستہ ہوچکی تھی، ان کے سامنے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ان تمام بتوں اور مجسموں سے بے زاری کا اظہار کرنا اور پوری قوم کو گمراہ قرار دینا بھڑوں کے چھتہ کو چھیڑنے کے مترادف تھا۔ لہٰذا پوری قوم کی آپ سے بحث وجدال اور مخالفت شروع ہوگئی۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے انہیں برملا کہہ دیا کہ جن جن معبودوں کو تم اللہ کے اختیار و تصرف میں شریک سمجھ رہے ہو، میں ان سے کسی ایک کو بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ میں اپنی زندگی اور موت، صحت اور تندرستی، خوشحالی اور تنگدستی کا مالک صرف ایک اللہ کو سمجھتا ہوں۔ اور اس کے اختیارات میں کسی کو رتی بھر شریک نہیں سمجھتا۔ الانعام
81 [٨٤] معبودوں کی طرف سے سزاکی دھمکی :۔ ان بت پرستوں کے پاس سب سے بڑا ہتھیار یہ تھا کہ جن بتوں کی تم توہین کر رہے ہو وہ خود تم سے نمٹ لیں گے جیسا کہ ان کا اپنا اعتقاد تھا۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے ان کو یہ جواب دیا کہ اگر تم اللہ سے نہیں ڈرتے جس کی پوری کائنات پر حکمرانی ہے تو پھر تمہارے ان بتوں سے میں کیوں ڈروں جن کو تم نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے اور ایسے بے جان پتھر ہیں جو اپنے وجود اور اپنے بقا کے لیے تمہارے محتاج ہیں یہ بھلا میرا یا تمہارا کیا بگاڑ سکتے ہیں یا سنوار سکتے ہیں ؟ دوسری بات یہ ہے کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں اس علم حقیقی کی بنا پر کہہ رہا ہوں جو مجھے اللہ کی طرف سے حاصل ہوا ہے لیکن تمہارا ان بتوں کو نفع و نقصان کا مالک و مختار سمجھنا تمہارا اپنا وہم اور قیاس ہے جس کے لیے تمہارے پاس کوئی دلیل موجود نہیں ہے لہٰذا تم خود ہی سوچ سمجھ لو کہ اللہ کی طرف سے عذاب کا مستحق کون ہوگا اور امن و سلامتی کا مستحق کون؟ الانعام
82 [٨٥] ظلم معنی شرک :۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ پر بہت گراں گزری (کیونکہ انہوں نے ظلم کو اس کے عام معنوں، معصیت یا زیادتی پر محمول کیا تھا) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ہم میں سے کون ایسا ہے جس نے کبھی ظلم نہ کیا ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بتایا کہ یہاں ظلم کا لفظ اپنے خاص معنوں یعنی شرک کے معنی میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ سورۃ لقمان میں آیا ہے کہ لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ بیٹا کبھی شرک نہ کرنا کیونکہ شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر، نیز کتاب الایمان باب ظلم دون ظلم نیز کتاب الانبیائ۔ باب قول اللہ تعالیٰ واتخذ اللہ ابراہیم خلیلا ) منکرین حدیث اور اہل قرآن کا ردّ:۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زبان بھی اگرچہ عربی زبان تھی اور قرآن بھی عربی زبان میں نازل ہوا تھا۔ تاہم بعض دفعہ انہیں آیت کا صحیح مفہوم سمجھنے میں دشواری پیش آجاتی تھی۔ اور یہی مطلب ہے ﴿وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْہِمْ ﴾ کا۔ مگر مسلمانوں میں سے ہی بعض لوگ ایسے ہیں جو حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے نیاز ہو کر محض لغت کی مدد سے قرآن کا مفہوم متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں اپنے اس نظریہ کا انجام سوچ لینا چاہیے اس آیت کے متعلق دو اقوال ہیں ایک یہ کہ یہ جملہ بھی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ہی قول ہے اور ان کی اس بحث کا حصہ ہے جو وہ اپنی قوم سے کر رہے تھے۔ کیونکہ اس سے پہلی آیت میں بھی امن و سلامتی کا ذکر ہے اور اس آیت میں بھی۔ اور یہ امن و سلامتی صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو شرک سے اجتناب کرتے ہیں اور دوسرا قول یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنا قول ہے جو ایک حقیقت کے طور پر یہاں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے قصہ کے درمیان بیان کردیا گیا ہے۔ الانعام
83 [٨٦] ابراہیم علیہ السلام نے مشرکوں کو کیا دلیل دی تھی؟ وہ دلیل یہ تھی کہ اگر ہر چیز کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہے تو ہر چیز پر تصرف اور اختیار بھی صرف اسی کا ہونا چاہیے۔ یہ کس قدر ناانصافی کی بات ہے کہ ہر چیز کا خالق و مالک تو اللہ تعالیٰ ہو اور اس کے اختیارات میں اور اس کی عبادت میں دوسروں کو بھی شریک کرلیا جائے۔ اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قوم بھی اس بات کی قائل تھی کہ اس کائنات کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہے اگر وہ اس بات کی قائل نہ ہوتی تو اس بحث کا انداز بیان کسی اور انداز کا ہوتا۔ (نیز دیکھئے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٢٥٨ کا حاشیہ) الانعام
84 الانعام
85 [٨٣] شرک کو ختم کرنا سب سے بڑا جہاد ہے :۔ قرآن میں اکثر مقامات پر جب انبیائے کرام کا ذکر ہوا تو اس میں ترتیب زبانی بھی پائی جاتی ہے لیکن یہاں غالباً اس صفت کو زیادہ تر ملحوظ رکھا گیا ہے کہ ان میں سے کس نے شرک کے خلاف سب سے زیادہ جہاد کیا تھا یا بعض دوسری صفات کو ملحوظ رکھا گیا ہے تو ان میں سے سرفہرست سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ہی ذکر کیا جنہیں اللہ تعالیٰ نے اسی صفت کی بنا پر (اُمَّۃً قَانِۃً) فرمایا اور اپنا دوست بنایا۔ پھر سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر انعامات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کے بیٹے اسحاق علیہ السلام اور پھر ان کے بیٹے یعقوب علیہ السلام کو نبوت سے سرفراز فرمایا اور آئندہ کے لیے نبوت انہیں کی اولاد سے مختص کردی، بعد ازاں سیدنا نوح علیہ السلام کا ذکر فرمایا جنہوں نے ساڑھے نو سو سال کا طویل عرصہ شرک ہی کے خلاف جہاد میں گزارا تھا۔ حالانکہ ان کا زمانہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے بہت پہلے کا ہے۔ ان پر انعام یہ ہوا کہ ان کے بعد نبوت آپ کی اولاد میں مختص ہوگئی تھی پھر اس کے بعد سیدنا داؤد علیہ السلام اور ان کے بیٹے سیدنا سلیمان علیہ السلام کا ذکر فرمایا۔ جنہیں نبوت کے علاوہ حکومت بھی عطا ہوئی تھی اور انہوں نے بزور شمشیر شرک کے زور کو توڑا تھا۔ پھر سیدنا ایوب علیہ السلام کا ذکر کیا جنہوں نے اس حق و باطل کی کشمکش میں کمال صبر کا مظاہرہ کیا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ﴿ِنَّا وَجَدْنٰہُ صَابِرًا ﴾ کا خطاب دیا اور سیدنا یوسف علیہ السلام کے صبر کی تعریف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمائی آپ سات سال بے قصور قید میں پڑے رہے پھر جب شاہ مصر کی طرف سے بلاوا آیا تو آپ علیہ السلام نے قاصد سے کہا کہ پہلے بادشاہ سے پوچھو کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے مجھ پر الزام لگایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں اتنی مدت قید میں پڑا ہوتا تو قاصد سے کچھ کہے بغیر ہی اس کے ساتھ ہو لیتا۔ (بخاری۔ کتاب الانبیاء۔ باب لقد کان فی یوسف۔۔) اللہ نے انہیں بھی حکومت عطا فرمائی تھی اور ایک حدیث میں آتا ہے کہ صحابہ نے آپ سے پوچھا کہ سب سے مکرم کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’یوسف جو خود بھی نبی تھے۔ ان کا باپ بھی نبی، دادا بھی نبی اور پڑدادا (سیدنا ابراہیم علیہ السلام) بھی نبی تھے۔‘‘ اس کے بعد موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کا ذکر فرمایا۔ موسیٰ کلیم اللہ تھے اور انہی کی درخواست پر سیدنا ہارون علیہ السلام کو نبوت ملی تھی تاکہ صدیوں سے بگڑے ہوئے بنی اسرائیل کو راہ راست پر لانے کے لیے ان کا ہاتھ بٹائیں۔ انہوں نے بھی ساری زندگی بنی اسرائیل کے ہاتھوں تکلیفیں ہی اٹھائیں۔ پھر ان کے بعد سیدنا زکریا، یحییٰ اور عیسیٰ علیہم السلام کا ذکر فرمایا۔ ان میں سے دو کو تو بنی اسرائیل نے دعوت حق دینے کی پاداش میں قتل کروا دیا تھا اور تیسرے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر لٹکوانے کی کوشش کی۔ پھر سیدنا الیاس، اسماعیل، الیسع، یونس اور لوط علیہم السلام کا ذکر فرمایا پھر سب انبیاء کے متعلق ایک یکساں تبصرہ فرمایا۔ یہ سب لوگ صالح تھے اور اپنے اپنے وقت میں تمام اقوام عالم اور افراد سے افضل تھے اس لیے کہ انہوں نے شرک کے خلاف جہاد کیا اور توحید کا بول بالا کرنے کے لیے اور دعوت حق کی خاطر تکلیفیں اٹھائی تھیں۔ الانعام
86 [٨٧۔ ا] اس آیت میں فرمایا کہ یہ سب انبیاء (یعنی ١٨۔ انبیاء کا ان آیات میں ذکر آیا ہے) سب صالح لوگ تھے اور اس اگلی آیت میں فرمایا کہ ان میں ہر ایک کو ہم نے تمام اقوام عالم پر فضیلت دی تھی۔ قرآن کریم کی ان تصریحات سے انبیاء کی کمال عصمت ثابت ہوتی ہے۔ بالفاظ دیگر یہ تمام انبیاء معصوم عن الخطاء تھے جبکہ بائیبل ان انبیاء میں سے کئی انبیاء کی سیرت کو داغدار کر کے پیش کرتی ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے سورۃ کی آیت نمبر ٤٨ کا حاشیہ نمبر ٥٤) اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے اٹھارہ انبیاء و رسل کا یک جا ذکر فرمایا اور قرآن میں کل ستائیس انبیاء و رسل کا ذکر آیا ہے ان میں سے سیدنا لقمان علیہ السلام کی نبوت اختلافی ہے اور جن انبیاء کا یہاں ذکر نہیں آیا وہ یہ ہیں۔ سیدنا آدم، ادریس، ہود، صالح، شعیب، ذوالکفل، عزیر علیہم السلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور جن اٹھارہ انبیاء کا ذکر آیا ہے مناسب ہے کہ یہاں ترتیب زمانی کے لحاظ سے ان انبیاء کے مختصر حالات زندگی درج کردیئے جائیں۔ (١) سیدنا نوح علیہ السلام : آپ کی عمر ایک ہزار سال تھی۔ آپ کی بعثت تین ہزار سے ساڑھے تین ہزار سال قبل مسیح ہوئی تھی۔ عراق میں دریائے دجلہ اور فرات کا درمیانی علاقہ آپ کی تبلیغ کا مرکز تھا۔ آپ کی قوم بت پرست تھی اور پانچ بتوں ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کی پوجا کرتی تھی۔ اور اس معاملہ میں بہت ضدی اور ہٹ دھرم واقع ہوئی تھی کہ آپ کی ساڑھے نو سو سال کی تبلیغ کے نتیجہ میں صرف چالیس آدمی ایمان لائے آخر آپ نے دل برداشتہ ہو کر ان کے حق میں بددعا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک بڑی کشتی تیار کرنے کا حکم دیا اور اس کو بنانے کے لیے ہدایات بھی دیں۔ جب کشتی تیار ہوگئی تو آپ نے سب ایمانداروں کو اس میں بیٹھنے کا حکم دیا۔ علاوہ ازیں سب جانوروں کا ایک ایک جوڑا بھی اس کشتی میں رکھ لیا گیا، اس کے بعد زمین سے پانی کے چشمے ابلنے شروع ہوگئے اور آسمان سے مسلسل اور موسلادھار بارش، زمین پر اتنا پانی جمع ہوگیا جس نے پہاڑوں کو بھی اپنے اندر چھپا لیا۔ آپ کا نافرمان بیٹا یام بھی آپ کے دیکھتے دیکھتے اس طوفان کی نذر ہوگیا۔ چھ ماہ پانی چڑھتا رہا۔ پھر اترنا شروع ہوا۔ بارش بند ہوگئی۔ زمین نے پانی کو جذب کرنا اور سورج اور ہواؤں نے خشک کرنا شروع کردیا کشتی جودی پہاڑ پر ٹک گئی۔ چالیس دن بعد جب زمین خشک ہوگئی تو سب لوگ بسلامت اس کشتی سے اتر کر زمین پر آ گئے۔ طوفان کے بعد آپ ٣٥٠ سال زندہ رہے اور تبلیغ کرتے رہے۔ (٢) سیدنا ابراہیم علیہ السلام : آپ کی عمر ١٧٥ سال تھی۔ آپ کی بعثت کا زمانہ دو ہزار اور اکیس سو قبل مسیح کے درمیان ہے آپ کی قوم بت پرست اور نجوم پرست تھی۔ آپ کا باپ آزر نمرود شاہ عراق کی طرف سے شاہی بت خانہ کا مہنت اور منتظم تھا وہ بت تراش بھی تھا اور بت فروش بھی۔ آپ نے سب سے پہلے اپنےباپ ہی کو نہایت نرم الفاظ میں تبلیغ کرنا شروع کی۔ اس نے نمرود سے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ذکر کیا تو اس نے آپ کو دربار میں طلب کرلیا۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے نمرود پر حجت قائم کر کے اسے مناظرہ میں لاجواب کردیا تو باپ اور بھی زیادہ مخالف ہوگیا۔ کیونکہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی بات ماننے سے اس کا عہدہ بھی جاتا تھا اور ذریعہ معاش بھی تباہ ہوتا تھا لہٰذا اس نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو یہاں تک کہہ دیا کہ میرے گھر سے نکل جاؤ ورنہ رجم کر دوں گا۔ باپ کے بعد آپ نے قوم کو بت پرستی سے منع کرنا شروع کردیا اور ایک دفعہ موقع پا کر ان کے بت توڑ دیئے۔ اس بات پر قوم نے سیخ پا ہو کر آپ کو آگ کے ایک بڑے الاؤ میں پھینک دیا۔ مگر اللہ نے آپ کو بال بال بچا لیا۔ آخر آپ ہجرت کر کے سیدنا لوط علیہ السلام کے ہمراہ فلسطین کی طرف چلے گئے پھر وہاں سے مصر کی طرف ہجرت کی تو شاہی کارندے آپ کی بیوی سارہ کو پکڑ کرلے گئے جس سے بادشاہ کو کافی تکلیف پہنچی۔ بالآخر اس نے ہاجرہ کو سیدہ سارہ کی خادمہ بنا کر ہمراہ کردیا۔ اسی ہاجرہ سے سیدنا اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے۔ آپ نے ان ماں بیٹے کو اللہ کے حکم سے کعبہ شریف کے قریب لا بسایا۔ جب سیدنا اسماعیل علیہ السلام جوان ہوئے تو ان کی قربانی کا معاملہ پیش آیا۔ اس امتحان میں دونوں باپ بیٹا پورے اترے۔ پھر ان دونوں نے خانہ کعبہ کی تعمیر کا فریضہ بھی سر انجام دیا۔ زندگی بھر آپ پر اللہ کی طرف سے کڑی سے کڑی آزمائشیں آئیں۔ ان سب میں آپ پورے اترے تو اللہ نے آپ کو اپنا خلیل قرار دیا اور رہتی دنیا کے لیے آپ کو سب کا امام اور پیشوا بنا دیا۔ (٣) سیدنا لوط علیہ السلام : سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے چچا زاد بھائی ہیں عراق سے ہجرت کے وقت آپ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے ہمراہ تھے بعد میں آپ کو بھی نبوت عطا ہوئی تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے آپ کو تبلیغ کے لیے شرق اردن کی طرف بھیج دیا۔ بحر میت یا بحر لوط کے اردگرد سدوم کا شہر اور اردگرد عمورہ کی بستیاں آپ کی تبلیغ کا علاقہ تھا آپ کی قوم شرک اور دوسری بد اخلاقیوں کے علاوہ لواطت میں گرفتار بلکہ اس بدفعلی کی موجد بھی تھی۔ لوط علیہ السلام کے سمجھانے پر بھی یہ لوگ اپنی کرتوتوں سے باز نہ آئے بلکہ الٹا سیدنا لوط علیہ السلام اور معدودے چند مسلمانوں کو اپنے شہر سے نکل جانے کی دھمکیاں دینے لگے۔ آخر فرشتے اس قوم پر قہر الٰہی ڈھانے کے لیے نازل ہوئے سیدنا جبریل علیہ السلام نے ان کی بستیوں کو اکھاڑ کر اپنے پروں پر اٹھایا اور بلندی پر لے جا کر اور اٹھا کر نیچے پٹخ دیا۔ پھر اوپر سے پتھروں کی بارش برسائی گئی۔ چنانچہ یہ خطۂ زمین سطح سمندر سے چار سو کلومیٹر نیچے چلا گیا اور اوپر پانی آ گیا۔ اسی پانی کے ذخیرہ کو بحر مردار، بحر میت یا غرقاب لوطی کہا جاتا ہے۔ (٤) سیدنا اسماعیل علیہ السلام : سیدنا ابراہیم خلیل اللہ کے بڑے صاحبزادے مصر میں اقامت کے دوران ہاجرہ کے بطن سے پیدا ہوئے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے ان دونوں ماں بیٹے کو مکہ کی بے آب و گیاہ زمین میں لابسایا۔ اللہ تعالیٰ نے وہاں زمزم کا چشمہ جاری کردیا۔ آپ کی پرورش بنو جرہم نے کی۔ جب بالغ ہونے کو آئے تو ذبح عظیم کی آزمائش کا واقعہ پیش آیا۔ آپ اس میں کامیاب اترے تو ذبیح اللہ کا لقب پایا۔ بعد ازاں آپ نے اپنے باپ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے تعاون سے خانہ کعبہ کو از سر نو تعمیر کیا اور اس کی خدمت پر مامور ہوئے۔ بنو جرہم میں ہی آپ کی شادی ہوئی اور یہی علاقہ آپ کی تبلیغ کا مرکز قرار پایا۔ آپ کی عمر ١٣٧ سال ہوئی۔ (٥) سیدنا اسحاق علیہ السلام : سیدنا ابراہیم خلیل اللہ کے دوسرے صاحبزادے جو فرشتوں کی بشارت کے مطابق سیدہ سارہ کے بطن سے پیدا ہوئے۔ اس وقت سیدہ سارہ کی عمر نوے سال کے قریب اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی عمر سو سال سے زائد تھی۔ فلسطین کا علاقہ آپ کی تبلیغ کا مرکز اور بیت المقدس کی خدمت آپ کے سپرد تھی۔ نبی آخرالزماں کے سوائے باقی سب انبیاء بنی اسرائیل آپ کی اولاد سے ہوئے اور اسی علاقہ میں اپنے باپ سیدنا ابراہیم کے پہلو میں دفن ہوئے۔ آپ کی عمر ١٨٠ سال ہوئی۔ (٦) سیدنا یعقوب علیہ السلام : سیدنا اسحاق علیہ السلام کے صاحبزادے ہیں۔ علاقہ کنعان کی طرف مبعوث ہوئے۔ بعد میں ہجرت کر کے قدان آئے۔ آپ کا دوسرا نام اسرائیل ہے۔ آپ کو اپنے بیٹے یوسف سے بہت محبت تھی۔ اللہ نے اسی میں آپ کی آزمائش کی۔ چنانچہ آپ نے سیدنا یوسف علیہ السلام کی گمشدگی کا صدمہ نہایت صبر و تحمل سے برداشت کیا۔ آخر عمر میں سیدنا یوسف علیہ السلام کی دعوت پر مصر میں جا کر آباد ہوئے۔ لیکن آپ کی میت کو آپ کی وصیت کے مطابق قدس خلیل میں ہی لا کر سیدنا اسحاق اور سیدنا ابراہیم علیہما السلام کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ آپ نے ١٤٧ سال کی عمر پائی۔ (٧) سیدنا یوسف علیہ السلام : آپ سیدنا یعقوب کے ہاں کنعان میں پیدا ہوئے۔ آپ کی داستان حیات زبان زد خاص و عام ہے۔ ١٧ سال کی عمر میں کنوئیں میں ڈالے گئے تقریباً سات سال عزیز مصر کے گھر میں رہے پھر ٧ سال قید میں۔ پھر مصر کے منتظم اعلیٰ بنے اور آٹھ سال بعد آپ کے قحط گزرنے کے بعد خوشحالی کے ایام میں اور دور بادشاہت میں اپنے والدین اور سب گھر والوں کو اپنے ہاں بلا لیا۔ والد محترم سے فرقت کا زمانہ ٢٣ سال ہے آپ نبی بھی تھے اور بادشاہ بھی۔ اسی مصر کی زمین میں ١١٠ سال کی عمر میں وفات پائی۔ اور وصیت کی کہ جب بھی بنو اسرائیل واپس اپنے وطن کنعان جائیں تو آپ کی نعش کو وہاں لے جا کر دوبارہ دفن کریں۔ چنانچہ جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام بنو اسرائیل کو لے کر مصر سے نکلے تو آپ کی قبر سے تابوت نکال کر ساتھ لے گئے اور مشہد خلیل میں آباء و اجداد کے ساتھ دفن کیا۔ (٨) سیدنا ایوب علیہ السلام : آپ کی بعثت کا زمانہ ڈیڑھ ہزار سال قبل مسیح ہے۔ آپ کثرت اموال و اراضی میں مشہور تھے۔ ستر سال کی عمر میں نبوت عطا ہوئی۔ پھر آپ پر اللہ کی طرف سے آزمائش کا دور جو آیا تو ہر چیز ہاتھ سے نکل گئی۔ اور ایسے بیمار پڑے کہ ایک بیوی کے سوا سب نے ساتھ چھوڑ دیا۔ آپ نے اس بیماری میں اور مال و دولت کے چھن جانے پر صبر و استقامت کا ایسا بے مثال مظاہرہ کیا جو ضرب المثل بن چکا ہے۔ صحیح روایات کے مطابق آپ کا دور ابتلاء ١٣ سال ہے۔ جب آپ اس امتحان میں کامیاب اترے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی بیماری بھی دور کردی اور مال و دولت بھی پہلے سے دو گنا عطا فرمایا اور صابر کا لقب بھی عطا فرمایا۔ ١٤٠ سال کی عمر میں فوت ہوئے۔ (٩۔ ١٠) سیدنا موسیٰ اور ہارون علیہما السلام : سیدنا موسیٰ علیہ السلام پہلے رسول ہیں جنہیں کتاب دی گئی اور مستقل شریعت عطا ہوئی۔ بڑے صاحب جلال تھے۔ آپ کی تربیت نہایت معجزانہ طور پر فرعون کے گھر میں اور اس کے اخراجات پر ہوئی اور ان ایام میں ہوئی جب فرعون مصر بنی اسرائیل کے نوزائیدہ بچوں کو قتل کرا دیتا تھا۔ سیدنا یعقوب علیہ السلام اور ان کی اولاد جو سیدنا یوسف علیہ السلام کے عہد بادشاہی میں مصر میں آ کر آباد ہوئے تھے اب لاکھوں کی تعداد تک پہنچ چکے تھے اور محکومانہ اور مقہورانہ زندگی گزار رہے تھے۔ سیدنا یوسف اور سیدنا موسیٰ علیہما السلام کا درمیانی عرصہ تقریباً چار سو سال ہے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا مشن یہ تھا کہ انہیں فرعون کی غلامی سے آزاد کرا کر واپس اپنے وطن فلسطین میں لے جائیں اور اس علاقہ میں وہ حاکمانہ حیثیت سے آباد ہوں۔ مگر صدیوں کی غلامی نے بنی اسرائیل کو اتنا بزدل بنا دیا تھا کہ وہ بسا اوقات سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے الجھ پڑتے۔ اس مشکل ذمہ داری کو نبھانے کے لیے سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے دعا کی تھی کہ ان کے بڑے بھائی سیدنا ہارون کو بھی نبوت عطا کر کے بطور مددگاران کے ہمراہ فرعون کی طرف بھیجا جائے اور اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی یہ درخواست منظور فرما لی تھی۔ فرعون کے مظالم کو برداشت کرنا بنو اسرائیل کی عادت ثانیہ بن چکی تھی۔ اہل مصر گائے بیل کی پرستش کرتے تھے۔ ان کی یہ ادا بھی بنو اسرائیل میں رچ بس گئی تھی۔ آخر اللہ تعالیٰ نے بنو اسرائیل کو فرعون سے نجات دی۔ اور سب فرعونیوں کو سمندر میں غرق کردیا۔ اب اگلا مرحلہ جہاد کر کے شام و فلسطین کے علاقہ پر قبضہ کرنا تھا۔ لیکن اس قوم نے روایتی بزدلی کی بنا پر جہاد سے صاف انکار کردیا۔ جس کی پاداش میں ٤٠ سال میدان تیہ میں بھٹکتے رہے۔ اسی ارض تیہ میں سیدنا ہارون اور سیدنا موسیٰ علیہماالسلام دونوں بھائیوں کی وفات ہوئی۔ سیدنا موسیٰ نے اپنی وفات سے پہلے یوشع بن نون کو اپنا خلیفہ مقرر کیا۔ یہی یوشع سیدنا خضر سے ملاقات کے دوران سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے ہم سفر تھے۔ انہی کی قیادت میں اللہ تعالیٰ نے بنو اسرائیل کو موعودہ علاقہ پر اقتدار عطا فرمایا اور انہوں نے سب سے پہلے اریحاء کا علاقہ فتح کیا۔ ٤٠ سال کے دوران بنو اسرائیل کی پرانی بزدل نسل تو مر کھپ گئی اور نئی نسل کی تربیت جنگل کی بامشقت زندگی میں ہوئی تھی لہٰذا نئی نسل جرأت مند پیدا ہوئی جس نے جہاد کر کے موعودہ علاقہ کو فتح کیا۔ (١١) سیدنا الیاس علیہ السلام : الیاس اور الیاسین ایک ہی نام ہے جیسے طور سینا اور طُوْرِ سینِیْنَایک ہی نام ہے۔ آپ کی دعوت کا مرکز بعلبک تھا آپ کی قوم بعل نامی بت کی پوجا کرتی تھی۔ بعل کے لغوی معنیٰ مالک آقا، سردار اور خاوند ہے گویا یہ بت ان لوگوں کا خاص دیوتا یا مہا دیوتا تھا۔ بابل سے لے کر مصر تک پورے شرق اوسط میں بعل پرستی پھیلی ہوئی تھی۔ مصر سے بنی اسرائیل واپس آئے تو وہ بھی اس بعل پرستی کے مرض میں مبتلاء ہوگئے۔ بعل کے نام کا ایک مذبح بھی بنا ہوا تھا جس پر قربانیاں کی جاتی تھیں۔ آپ نے ان لوگوں کو بہت سمجھایا لیکن وہ اپنے شرکیہ کاموں سے باز نہ آئے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک ظالم حکمران ان پر مسلط کردیا اور سیدنا الیاس علیہ السلام نے ہجرت کر کے بیت المقدس میں اقامت اختیار کی۔ (١٢) الیسع علیہ السلام : آپ سیدنا الیاس علیہ السلام کے نائب اور خلیفہ تھے۔ بعد میں نبوت بھی عطا ہوئی۔ آپ کا حلقہ تبلیغ شام کا علاقہ تھا۔ (١٣) سیدنا داؤد علیہ السلام : آپ اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے پست قد تھے اور ماہر تیر انداز اور نشانہ باز تھے۔ طالوت کی فوج میں سپاہی کی حیثیت سے لڑے۔ اپنی فلاخن میں پتھر رکھ کر جالوت کو مارا جس سے وہ ہلاک ہوگیا اور حکومت بنو اسرائیل کے ہاتھ لگی۔ سیدنا داؤد علیہ السلام کو ایک ممتاز عہدہ پر فائز کیا گیا اور طالوت کی بیٹی سے نکاح ہوا۔ طالوت کی وفات کے بعد خودمختار بادشاہ بنے اور نبوت بھی عطا ہوئی۔ آپ پر زبور نازل ہوئی۔ اتنے خوش الحان تھے کہ جب تسبیحات پڑھتے تو پوری فضا پر وجد طاری ہوجاتا۔ آپ کے ہاتھوں میں لوہا، تانبا موم کی طرح نرم ہوجاتا۔ بعض لوگ اسے معجزہ نہیں سمجھتے بلکہ کہتے ہیں کہ آپ لوہا اور تانبا کی ڈھلائی کے خوب ماہر تھے۔ اپنے ہاتھ سے زرہیں تیار کرنا آپ کا ذریعہ معاش تھا۔ اپنی زندگی میں بیت المقدس کی بنیاد رکھی جسے بعد میں سیدنا سلیمان علیہ السلام نے پورا کیا۔ ستر سال کی عمر میں وفات پائی۔ آپ کا زمانہ ١٠١٥ ق م تا ٩٤٥ ق م ہے۔ (١٤) سیدنا سلیمان علیہ السلام : آپ سیدنا داؤد علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ آپ نبی بھی تھے اور بادشاہ بھی۔ بنی اسرائیل میں آپ کی شان کا کوئی بادشاہ نہیں ہوا۔ جن اور پرندوں پر بھی آپ کی حکومت تھی۔ جانوروں کی بولی سمجھتے ان کو حکم دیتے اور ان سے کام لیتے تھے۔ ہوا بھی آپ کی تابع فرمان تھی۔ آپ ایک ماہ کا سفر ہوائی سفر کے ذریعہ چند گھنٹوں میں طے کرلیتے تھے۔ ملکہ سبا آپ کی کوشش سے مسلمان ہوئی۔ بیت المقدس کو نہایت عالی شان طریقہ پر مکمل کیا۔ (١٥) سیدنا یونس علیہ السلام : آپ کا زمانہ بعثت نویں صدی قبل مسیح ہے اہل نینوا کی طرف مبعوث ہوئے قوم نے آپ کی دعوت کا انکار کیا تو از خود ہی چالیس دن بعد عذاب آنے کی انہیں وعید سنا دی۔ جب یہ مدت گزرنے کے قریب پہنچی اور آپ نے عذاب کی کوئی نشانی نہ دیکھی تو فرار ہوئے اور ایک بڑی مچھلی کا لقمہ بنے۔ مچھلی کے پیٹ میں تسبیحات پڑھتے رہے آخر اللہ نے اس مشکل سے نجات دی اور مچھلی نے انہیں صحیح و سالم برلب ساحل اگل دیا۔ جب ذرا طاقت آئی تو اللہ تعالیٰ نے اسی قوم یعنی اہل نینوا ہی کی طرف آپ کو دوبارہ بھیجا۔ اب دوسری طرف صورت حال یہ بنی کہ جب سیدنا یونس مفرور ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے قول کو پورا کردیا۔ اہل نینوا کو وقت پر عذاب کے آثار نظر آنے لگے تو یہ سب لوگ اپنے بال بچوں سمیت کھلے میدان میں نکل آئے اور اللہ کے حضور گڑگڑائے اور سچے دل سے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ عذاب ٹال دیا۔ اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ میں ایک ہی استثناء ہے کہ آیا ہوا عذاب ٹل گیا ہو۔ اب اس قوم کی طرف جب سیدنا یونس علیہ السلام دوبارہ آئے تو وہ پہلے ہی نرم ہوچکی تھی لہٰذا آپ کی تبلیغ نہایت موثر ثابت ہوئی۔ (١٦) سیدنا زکریا علیہ السلام : آپ سیدہ مریم بنت عمران (والدہ عیسیٰ علیہ السلام) کے حقیقی خالو تھے۔ چنانچہ سیدنا زکریا علیہ السلام ہی سیدہ مریم کے مربی اور کفیل قرار پائے۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام چونکہ محض اللہ کی قدرت سے بن باپ پیدا ہوئے تھے لہٰذا یہودیوں نے زکریا علیہ السلام پر ہی سیدہ مریم سے (نعوذ باللہ) زنا کی تہمت لگا دی اور انہیں قتل کرنا چاہا۔ آپ نے انہیں بہت سمجھایا مگر وہ اس سے باز نہ آئے۔ آخر چند شیطان سیرت آدمیوں نے آپ کو شہید کردیا۔ (١٧) سیدنا یحییٰ علیہ السلام : آپ کفیل مریم سیدنا زکریا علیہ السلام کے فرزند ہیں۔ سیدنا زکریا علیہ السلام بوڑھے ہوچکے تھے مگر بے اولاد تھے۔ سیدہ مریم کے پاس بے موسم پھل دیکھ کر بے اختیار پکار اٹھے کہ ’’یا اللہ اگر مجھے بھی بے موسم پھل یعنی لڑکا عطا فرما دے تو کیا عجب ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمائی، بچے کی بشارت بھی دی اور اس کا نام بھی یحییٰ خود ہی تجویز فرمایا۔ آپ کو بچپن ہی میں نبوت عطا ہوئی۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے خالہ زاد بھائی تھے۔ نہایت نرم دل اور ہر وقت اللہ کے ڈر سے اور اخروی محاسبہ سے روتے رہتے تھے۔ اس وقت کے ایک یہودی حاکم ذونو اس نے اپنی ایک رقاصہ کے مطالبہ اور دلجوئی کی خاطر آپ کا سر قلم کروا دیا۔ (١٨) سیدنا عیسیٰ علیہ السلام : آپ اللہ کے کلمہ سے بن باپ پیدا ہوئے۔ آپ کا لقب روح اللہ ہے۔ ماں کی طرف سے ٢٦ ویں پشت پر جا کر سیدنا سلیمان علیہ السلام سے سلسلہ نسب جا ملتا ہے۔ بنی اسرائیل کے سب سے آخری اور صاحب شریعت نبی ہیں۔ آپ کو بچپن میں نبوت مل گئی تھی اور انجیل آپ پر نازل ہوئی۔ آپ کی پیدائش ناصرہ کے مقام پر ہوئی۔ گود ہی میں کلام کر کے والدہ کی برئیت پر حجت قائم کی مگر یہودی تہمت تراشیوں سے باز نہ آئے آپ بڑے فصیح البیان مقرر اور وجیہ تھے کسی کو آپ کے منہ پر الزام دینے یا تہمت تراشی کی جرأت نہ ہوئی۔ آپ کو چند محیر العقول معجزات بھی عطا ہوئے تھے۔ جوں جوں آپ کی عزت اور شہرت بڑھتی گئی یہودیوں میں حسد کی آگ بھڑکتی گئی اور شاہ وقت کو اس بات پر آمادہ کرلیا کہ انہیں گرفتار کر کے سولی پر لٹکا دیا جائے لیکن اللہ تعالیٰ نے عین وقت پر عیسیٰ علیہ السلام کو بجسد عنصری آسمان پر اٹھایا (اس وقت آپ کی عمر ٣٣ سال تھی) اور مخبری کرنے والے کی شکل و صورت سیدنا عیسیٰ کے مشابہ بنا دی چنانچہ وہی سولی دیا گیا اور اپنے کیے کی سزا پائی۔ آپ آخری زمانہ میں نازل ہوں گے۔ دجال کو قتل کریں گے۔ شادی کریں گے اولاد ہوگی۔ بعد ازاں آپ کی طبعی وفات ہوگی۔ اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء کا ذکر کر کے آخر میں فرمایا کہ یہ سب ہی اچھے لوگ تھے۔ اس طرح انبیاء کی حسن سیرت کا دائمی سرٹیفکیٹ عطا کردیا۔ جبکہ بائیبل بڑے بڑے انبیاء کی سیرت کشی کرتی اور ان میں کئی طرح کے عیوب کی نشاندہی کرتی ہے مثلاً : ١۔ یہود کے انبیاء پر اتہامات :۔ سیدنا نوح علیہ السلام شراب پی کر بدمست اور بدحواس ہوئے کہ تمام ستر برہنہ ہوگیا اور ان کے بیٹوں نے ڈھانکا۔ (پیدائش باب ٩) ٢۔ سیدنا لوط علیہ السلام نے شراب پی کر اپنی دونوں بیٹیوں سے زنا کیا اور یہ معاملہ دو بار وقوع میں آیا۔ (پیدائش باب ١٩) ٣۔ سیدنا یعقوب علیہ السلام نے بکری کے بچوں کی کھال ہاتھوں پر لپیٹ کر جھوٹ بولا اور اپنے باپ اسحاق علیہ السلام کو دھوکا دینے کے لیے اپنا نام عیص بتایا۔ (پیدائش باب ٢٧) ٤۔ حمور کے بیٹے سکم نے سیدنا یعقوب علیہ السلام کی بیٹی دینہ سے زنا کیا اور یعقوب کے بیٹوں نے اس سے یہ مکر کیا کہ تو اور تیری تمام قوم اگر ختنہ کرے تو دینہ کی شادی تجھ سے کردیں چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور ان نبی زادوں نے ایسا موقع پا کر اس کو اور اس کی تمام قوم بے گناہ کو نہایت بے رحمی سے تہ تیغ کیا اور مال و اسباب لوٹ لیا اور ان کی بیویوں اور بچوں کو غلام بنایا مگر سیدنا یعقوب نے منع کرنا تو درکنار اس نالائق حرکت پر اپنی ناراضگی بھی ظاہر نہ کی۔ (پیدائش باب ٣٤) ٥۔ بنی اسرائیل کے کہنے پر موسیٰ علیہ السلام کی غیبت میں ہارون علیہ السلام نے زیور کا ایک بت بنایا اور تمام بنی اسرائیل سے اس کو پجوایا اور اس کے لیے قربانیاں گزارنے کا حکم دیا۔ (کتاب خروج باب ٣٢) ٦۔ سیدنا داؤد علیہ السلام اپنے بام پر چڑھے۔ اتفاقاً اوریاہ کی جورو بت سبع کو نہاتے دیکھ کر اس پر فریفتہ ہوگئے اور آدمی بھیج کر اس کو بلوایا اور اس سے زنا کیا جس سے وہ عورت حاملہ ہوئی پھر اس کے خاوند کو ایک مکر و تدبیر کر کے مروا ڈالا۔ جس پر ناتن نبی کی معرفت داؤد پر بڑی زجر و توبیخ ہوئی (سموئیل کی دوسری کتاب باب ١١) ٧۔ سیدنا سلیمان علیہ السلام نے باوجود سخت ممانعت کے موآبی اور عمونی وغیرہ بت پرست عورتوں کو بیوی بنایا۔ اور خواہش نفسانی کو یہ طغیانی ہوئی کہ سات سو بیگمات اور تین سو حرموں تک نوبت پہنچی اور پھر ان پر عاشق اور مرید زن ہوئے کہ بتوں کی طرف اور تعمیر بت خانوں میں مصروف اور شامل ہوگئے اور آخر عمر میں ایمان کو بھی سلام کر گئے (کتاب اول سلاطین باب ١١) ٨۔ یہ بات قرآن سے ثابت ہے کہ یہود کتاب الٰہی کی درس و تدریس کے بجائے جادو منتر وغیرہ میں ہمہ تن مصروف ہوگئے تھے۔ پھر ستم کی بات یہ تھی کہ وہ سیدنا سلیمان علیہ السلام کو بہت بڑا جادو گر اور ان کی بادشاہی اور عروج کا ذریعہ جادو ہی کو سمجھتے تھے اور یہ تفصیل پہلے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ١٠٢ کے حاشیہ میں گزر چکی ہے۔ ٩۔ سیدنا عیسیٰ اور سیدہ مریم صدیقہ کے متعلق یہود نے جس بد زبانی سے کام لیا تھا ان ناشائستہ کلمات کا ذکر کرنا بھی نامناسب ہے اور عیسائی خود بھی ان باتوں کا اقرار کرتے تھے نیز یہود یہ بھی کہتے تھے کہ بموجب بشارت عیسیٰ علیہ السلام اگر سچے نبی ہوتے تو قتل نہ کیے جاتے۔ حالانکہ وہ قتل کیے گئے۔ الانعام
87 [٨٨] ان سب انبیاء علیہم السلام کی جماعت کے علاوہ ہم نے ان کے آباؤ اجداد، آل اولاد اور ان کے بھائیوں میں سے بھی بہت سے لوگوں کو راہ راست کی طرف ہدایت سے مستفیض فرمایا تھا۔ اور اس ہدایت میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ وہ توحید پرست تھے اور شرک سے سخت بے زار تھے کیونکہ شرک ایسی بری بلا ہے کہ اگر مذکورہ بالا انبیاء بھی شرک کرتے تو ان کے سب اعمال برباد ہوجاتے۔ یہ بات بغرض تسلیم اور دوسروں کے لیے شدید تنبیہ کے طور پر بیان کی گئی ہے ورنہ انبیاء سے شرک کا صدور ناممکنات سے ہے۔ انبیاء کی تو بعثت کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ شرک کا استیصال کریں اور بندوں کا براہ راست اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑ دیں۔ الانعام
88 الانعام
89 [٨٩] انبیاء کو تین خبریں عطا کی جاتی ہیں :۔ مذکورہ انبیاء کو تین چیزیں عطا کرنے کا ذکر فرمایا گیا ہے ایک کتاب یعنی منزل من اللہ ہدایت نامہ دوسرے حکم سے مراد اللہ کی کتاب کا صحیح فہم، ان پر عمل کرنے کا طریق کار اور اس ہدایت کو عملی زندگی پر منطبق کرنے کی صورتیں اور مختلف نزاعات اور مقدمات میں صحیح قوت فیصلہ کی استعداد اور نبوت سے مراد اس ہدایت الٰہی کے مطابق لوگوں کی رہنمائی ہے۔ [٩٠] اگر یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو نہ لائیں۔ ان کی جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایسے بندے پیدا کردیئے ہیں جو ہماری نعمتوں کے قدردان ہیں۔ حق کو تسلیم کرتے ہیں اور کسی ہدایت کی بات سے منہ نہیں موڑتے۔ ایسے ہی لوگ انبیاء کے حقیقی متبعین اور ان کے جانشین ہوتے ہیں۔ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین مہاجرین و انصار کی یہی صفات تھیں۔ الانعام
90 [٩١] سابقہ شریعتوں کا اتباع کس صورت میں :۔ یعنی تمام انبیاء کا دین یا دستور اساسی ایک ہی رہا ہے۔ جیسے توحید پرستی، شرک سے بے زاری اور اس کے خلاف جہاد، اللہ کی فرمانبرداری اور روز آخرت پر ایمان وغیرہ۔ لہٰذا جو کچھ ان کا دین تھا، آپ کو بھی وہی دین اختیار کرنا چاہیے، اسی ہدایت کی اتباع کیجئے اور شریعت ہر نبی کو الگ الگ اس کے زمانہ کے احوال، ظروف کے مطابق دی گئی ہے۔ اس آیت سے ایک اور اہم بات کا پتا چلتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جو حکم کسی بھی نبی کی شریعت میں مذکور ہو اور اللہ تعالیٰ نے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ حکم بیان کرتے وقت اس پر نکیر نہ فرمائی ہو۔ وہ حکم امت محمدیہ کے لیے بھی واجب الاتباع ہوگا۔ قرآن کریم میں اس کی مثال اعضاء و جوارح کا قصاص ہے۔ بنی اسرائیل کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت اور اسی طرح زخموں کا بھی ویسا ہی قصاص ہوگا۔ یہ تورات کا حکم ہے جسے قرآن نے سورۃ مائدہ کی آیت نمبر ٤٥ میں بیان فرمایا ہے اور اس پر نکیر نہیں فرمائی۔ لہٰذا یہ حکم امت محمدیہ کے لیے بھی قابل اتباع ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کے مطابق دانت کے مقدمات کا فیصلہ فرمایا۔ اسی طرح تورات میں شادی شدہ زانی اور زانیہ کو سنگسار کرنے کا حکم تھا۔ آپ کے پاس ایک ایسے ہی شادی شدہ یہودی اور یہودن کا مقدمہ لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سنگسار کرنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا’’اے اللہ ! سب سے پہلے میں تیرے اس حکم کو زندہ کرتا ہوں جسے ان یہود نے مردہ کردیا تھا۔‘‘ (مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب رجم الیہود و اہل الذمۃ فی الزنا، مزید تفصیل سورۃ مائدہ کی آیت نمبر ٤٤ کے حاشیہ ٨٢ میں ملاحظہ فرمائیے) یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بجائے نکیر کے اس حکم کو زندہ کرنے کی تحسین فرمائی۔ تو یہ رجم کا حکم امت محمدیہ کے لیے واجب الاتباع ہوا۔ اور احادیث رسول اللہ میں اس کی بہت سی مثالیں مل جاتی ہیں۔ [٩٢] اس سے معلوم ہوا کہ آپ کی رسالت بھی تمام اقوام عالم کے لیے اور قیامت تک کے لیے ہے اور یہ قرآن بھی اسی طرح سب لوگوں کے لیے کتاب ہدایت ہے اس کے بعد نہ کوئی نبی یا رسول آنے والا ہے اور نہ ہی اللہ کی طرف سے تاقیامت کتاب نازل ہوگی۔ الانعام
91 [٩٣] قرآن کا نزول بشر پر ؟ یہ خطاب یہود کو ہے جنہوں نے رسول دشمنی، بغض و عناد کی بنا پر ایک ایسی حقیقت کا انکار کردیا جو ان کے اپنے ہاں بھی مسلم تھی۔ وہ کہتے تھے کہ اللہ نے کسی بشر پر کوئی کتاب نازل نہیں فرمائی۔ اس اعتراض کے اللہ تعالیٰ نے دو طرح سے جواب دیئے ایک یہ کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی پوری معرفت ہی نہیں کیونکہ نہ تو اللہ خود لوگوں سے کلام کرتا ہے اور نہ ہی اس کام کے لیے انسانوں کے لیے کوئی فرشتہ بھیجتا ہے۔ اس کی ممکنہ صورت یہی ہے کہ اللہ اپنا کلام فرشتوں کے ذریعہ صرف نبی پر نازل فرمائے۔ اور دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ تو تم تسلیم کرتے ہو کہ موسیٰ علیہ السلام بشر تھے، آدم علیہ السلام کی اولاد سے تھے اور ان کے ماں باپ بھی موجود تھے تو ان پر جو کتاب اتاری گئی تھی وہ کس نے اتاری تھی؟ اگر یہ کتاب اللہ نے نہیں اتاری تھی تو پھر تم اسے اتنا سنبھال سنبھال کر کیوں رکھتے ہو؟ اور اس کتاب میں جو ہدایت کی باتیں اور علم کی روشنی ہے کیا اللہ کے علاوہ کوئی اور ایسی باتیں بتا سکتا ہے؟ جو ہدایت کی باتیں اس کتاب میں موجود ہیں انہیں نہ تم جانتے تھے اور نہ تمہارے آباؤ اجداد۔ پھر ایسی کتاب اللہ کے سوا کوئی اتار سکتا تھا ؟ تمہارا اس کتاب کا کچھ حصہ لوگوں کو بتانا اور اپنی خواہشات کے مطابق کچھ حصہ کو چھپانا یہ سب کچھ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ کتاب منزل من اللہ ہے اور تمہارے لیے حجت ہے ورنہ اگر یہ کسی انسان کی تصنیف ہوتی تو تمہیں ایسا کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ بشر اور رسول کی بحثیں فضول ہیں! یہ ایسے سوال تھے جن کا جواب نہ دینے میں ہی یہود نے اپنی عافیت سمجھی۔ کیونکہ اس کا جواب ان کے خلاف پڑتا تھا لہٰذا اللہ نے خود ہی اس کا جواب بتا دیا کہ ان سے کہہ دیجئے کہ تورات تو اتارنے والا اللہ ہی ہے اور اس نے اسے ایک بشر ہی پر نازل کیا تھا۔ وہی فضول قسم کی بحثیں، مثلاً چونکہ فلاں بشر ہے اس لیے وہ نبی نہیں ہوسکتا یا چونکہ فلاں نبی ہے اس لیے بشر نہیں ہو سکتا۔ تو انہیں ان بحثوں میں ہی الجھا رہنے دیجئے۔ ایسے لوگ ہدایت کے طالب نہیں ہوتے۔ [٩٣۔ الف] دور نبوی میں تورات کی صورت :۔ اس آیت کے اس جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے زمانہ میں جو تورات یہود کے پاس تھی وہ مجلد کتاب کی صورت میں نہیں تھی بلکہ الگ الگ اوراق کی صورت میں تھی اور یہود کے لیے ایسی صورت میں بددیانتی کرنا نسبتاً بہت آسان تھا وہ جن آیات کو چھپانا چاہتے وہ ورق ہی غائب کردیتے تھے اور جو کچھ اس کتاب میں تحریف کرنا اور من ما فی تاویل یا شرح کرنا مقصود ہوتی تو الگ نیا ورق لکھ کر اس میں شامل کردیتے تھے۔ رجم کی آیت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلقہ آیات کو وہ اسی طرح چھپا جاتے تھے کہ ایسے اوراق درمیان سے نکال کر انہیں غائب کردیتے تھے اور اس بات کی یعنی تورات کے الگ الگ اوراق پر لکھا ہونے کی تائید اس حدیث سے ہوجاتی ہے کہ ایک دفعہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ایسے چند اوراق مل گئے جنہیں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھنا شروع کردیا۔ جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ پر ناراضگی کے آثار نمودار ہوگئے اور یہ حدیث اپنے مناسب مقام پر گزر چکی ہے۔ دوسری بات جو اس آیت سے معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ تورات کی کئی آیات ایسی بھی تھیں جن کا صحیح مطلب علمائے یہود کو اس وقت معلوم ہوا جب قرآن کی تعلیم عام ہوئی۔ اس سے پہلے نہ علمائے یہود کو ان آیات کے مفہوم کا علم تھا اور نہ ان کے آباؤ اجداد کو۔ الانعام
92 [٩٣۔ ب] قرآن بابرکت کتاب کیسے؟ یہ قرآن کریم ہی کے بابرکت ہونے کا نتیجہ تھا کہ اس نے عرب جیسی جاہل قوم کو، جو قبائلی عصبیت کی وجہ سے ہر وقت برسرپیکار اور لڑتی مرتی رہتی تھی۔ ایک مہذب قوم بنا کر چند ہی سالوں میں اس کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔ ان کے اخلاق و عادات اس قدر اعلیٰ بن گئے کہ یہی جاہل، وحشی اور اجڈ قوم تمام اقوام عالم کی پیشوا بن گئی۔ بڑی بڑی طاقتوں کو سرنگوں کیا اور دنیا کے ایک کثیر حصہ پر قابض ہو کر ان میں علوم و تہذیب پھیلانے کا سبب بن گئی۔ قرآن کی تعلیم نے انہیں ذلت کی گہرائیوں سے نکال کر عزت کے بلند مقامات پر پہنچا دیا۔ [٩٤] قرآن کریم کے اللہ کا کلام ہونے پر چار دلائل :۔ اس سے پہلی آیت میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ ایک بشر پر اللہ کا کلام نازل ہوسکتا ہے۔ اس سے از خود یہ معلوم ہوگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنہیں سب لوگ بشر تسلیم کرتے تھے پر اللہ کا کلام نازل ہوسکتا ہے۔ رہی یہ بات کہ یہ کتاب قرآن فی الواقع اللہ کا کلام ہے تو اس پر چار دلائل پیش کئے گئے۔ ایک یہ کہ یہ کتاب اتنی خیر و برکت والی ہے کہ تمہاری زندگی کے ہر پہلو اور شعبے کے لیے تمہیں ہدایت فراہم کرتی ہے جو عقائد صحیحہ اور اخلاق فاضلہ اور پاکیزہ زندگی بسر کرنے کی تعلیم دیتی ہے اور اس میں انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے بہترین اصول پیش کیے گئے ہیں۔ اور اس کے منزل من اللہ ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ اس کی بنیادی تعلیمات وہی ہیں جو سابقہ کتب سماویہ کی ہیں۔ کوئی نئی بات پیش نہیں کرتی بلکہ انہی چیزوں کی تصدیق و تائید کرتی ہے جو پہلی کتب میں پیش کی گئی تھیں۔ تیسرے یہ کہ اس کتاب کا مقصد غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کو خواب غفلت سے جھنجھوڑنا اور انہیں ان کے برے انجام سے ڈرانا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت کی گئی کہ آپ اس کام کا آغاز اس مرکزی شہر مکہ اور اس کے پاس کی بستیوں سے کیجئے اور چوتھی بات جو بطور نتیجہ بتائی گئی یہ ہے کہ اس کتاب سے ہدایت صرف وہ لوگ پائیں گے جو اپنی خواہشات نفس کے غلام نہ ہوں بلکہ اللہ اور روز آخرت کی باز پرس سے ڈرتے ہوں اور اس کی واضح علامت کے طور پر نماز کی باقاعدگی سے محافظت کرتے ہوں۔ اور یہ سب ایسی باتیں ہیں جو کسی انسان کی تصنیف شدہ کتاب میں نہیں ہو سکتیں۔ الانعام
93 [٩٥] سب سے زیادہ ظالم کون ہے؟ :۔ اس آیت میں سب سے بڑے ظالموں کی تین اقسام بیان فرمائیں ایک وہ جس نے کوئی بات تو خود تراشی ہو اور اللہ کے ذمے لگا دے کہ یہ اللہ کا حکم ہے۔ اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو شرک و بدعات کی مختلف اقسام کو ایجاد تو خود کرتے ہیں پھر انہیں شریعت سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اس طرح ان رسوم و بدعات پر مذہبی تقدس کا خول چڑھا دیتے ہیں اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اللہ کی آیات کا غلط مطلب نکال کر اور ان کی غلط تاویل کر کے غلط سلط فتوے دیتے ہیں اور اس کے عوض عارضی فوائد حاصل کرتے ہیں۔ دوسرے وہ جھوٹے نبی جنہوں نے آپ کے بعد اپنی نبوت کا دعویٰ کیا ہے یا کریں گے حالانکہ آپ خاتم النبیین ہیں جیسے مسیلمہ کذاب، اسود عنسی، سجاح بنت حارث اور مرزا غلام احمد قادیانی اور ایسے ہی دوسرے لوگ اور آپ نے فرمایا ہے کہ میرے بعد تیس کے لگ بھگ ایسے کذاب اور دجال پیدا ہوں گے جو اپنی نبوت کا دعویٰ کریں گے (مسلم۔ کتاب الفتن۔ باب قولہ ان بین یدی الساعۃ کذابین قریبا من ثلاثین) اور تیسرے وہ لوگ جو یہ دعویٰ کریں کہ ہم بھی قرآن جیسی چیز بنا سکتے ہیں۔ جیسا کہ ایک دفعہ کفار مکہ نے بھی کہا تھا کہ ﴿لَوْ نَشَاۗءُ لَقُلْنَا مِثْلَ ہٰذَآ ﴾ (18: 31)حالانکہ جب قرآن نے ان کو ایسی ایک ہی سورت بنا لانے کا چیلنج کیا تو وہ اپنی بھرپور اور اجتماعی کوششوں کے باوجود اس کی نظیر لانے پر قادر نہ ہو سکے تھے۔ [٩٦] مندرجہ بالا اقسام کے ظالم اس لحاظ سے سب سے بڑھ کر ظالم ہیں کہ انہوں نے براہ راست اللہ پر الزام لگائے انہیں سزا بھی سب ظالموں سے بڑھ کر ہوگی۔ ان پر موت طاری ہوتے ہی فرشتے انہیں ڈانٹنا شروع کردیں گے اور نہایت شدت اور سختی کے ساتھ ان کی روحیں قبض کریں گے اسی وقت انہیں اپنی قدر و عافیت ٹھیک ٹھیک معلوم ہوجائے گی اور سب شیخیاں کر کری ہوجائیں گی اور اسی دن سے انہیں رسوا کرنے والے عذاب سے دو چار کردیا جائے گا۔ الانعام
94 [٩٧] مرنے کے بعد انسان کی بے بسی :۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مندرجہ بالا اقسام سے بھی بڑھ کر ظلم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اختیار تصرف میں کسی دوسرے کو بھی شریک سمجھا جائے۔ اسے اپنے نفع و نقصان کا مالک سمجھا جائے، حاجت روا اور مشکل کشا تسلیم کیا جائے اور یہ سمجھا جائے کہ ہمارے یہ معبود بت یا اولیاء و بزرگ اللہ سے سفارش کر کے ہمیں اخروی عذاب سے بچا لیں گے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ موت کے ساتھ ہی انسان کی اللہ کے حضور پیشی ہوجاتی ہے اس پیشی کے وقت نہ اس کا مال و دولت موجود ہوتا ہے نہ رشتہ دار نہ وہ بزرگ جن کے متعلق انہوں نے سستی نجات کا عقیدہ وابستہ کر رکھا تھا کیونکہ موت کے بعد انسان ویسے ہی تن تنہا قبر میں جاتا ہے جیسا کہ تن تنہا ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا اور جیسے پیدائش کے بعد یہ مختلف قسم کے تعلقات پیدا ہوئے تھے۔ موت کے ساتھ ہی یہ سب رشتے کٹ جاتے ہیں اور صرف انسان کے اپنے اعمال پر ہی اخروی انجام کا دار و مدار ہوگا۔ موت کے بعد ان ظالموں کو یہ یاد ہی نہ رہے گا کہ دنیا میں ان کے تعلقات کس کس سے تھے اور یہ تعلقات کس کس نوعیت کے تھے۔ الانعام
95 [٩٧۔ ١] نباتات کی روئیدگی میں اللہ کی قدرتیں :۔ یہ اللہ تعالیٰ کے خالق و مالک اور قادر مطلق ہونے کی ایک بہت بڑی دلیل ہے کہ وہ ہر قسم کے غلوں کے دانوں یا بیج کو اور ہر قسم کے پھلوں کی گٹھلیوں کو پھاڑنے والا ہے غلہ کے بیج یا پھل کی گٹھلی کو جب زمین میں دبا دیا جاتا ہے پھر جب اس زمین کو سیراب کیا جاتا ہے تو یہ بیج یا گٹھلی پھٹ کر دو حصوں میں بٹ جاتی ہے اور دو شاخیں نکلتی ہیں۔ ایک شاخ تو زمین کے اندر جڑ کی صورت میں نیچے کی طرف بڑھنا شروع ہوجاتی ہے اور دوسری شاخ کونپل بن کر زمین کو پھاڑ کر اس سے باہر نکل آتی ہے پھر اسی سے برگ و بار اور پھل پھول نکلنے شروع ہوجاتے ہیں اور اس بات کے باوجود کہ تخم ایک ہوتا ہے۔ زمین ایک، پانی ایک اور طبیعت ایک مگر زمین سے باہر نکلنے والی شاخ کے اثرات زمین کے اندر جانے والی شاخ سے بالکل مختلف ہوتے ہیں اور باہر نکلنے والی شاخ کے آثار بھی کئی طرح کے ہیں۔ پتوں کی شکل اور ہے پھولوں کی اور پھلوں کی اور اور ہر بیج یا گٹھلی اسی پودے کے برگ و بار پیدا کرتا ہے جس کا وہ بیج یا گٹھلی ہوتی ہے یہ سب باتیں اللہ کی قدرت کی کمال کاریگری پر دلالت کرتی ہیں۔ [٩٨] آخروی زندگی پر دلیل :۔ یہ اللہ کے خالق و مالک اور قادر مطلق ہونے کی دوسری دلیل ہے کہ وہ زندہ چیز سے مردہ اور مردہ چیز سے زندہ چیز پیدا کرتا ہے کوئی انسان یا کوئی دوسری مخلوق یہ دونوں کام نہیں کرسکتی۔ پھر جب صورت حال یہ ہے تو دوسرے اللہ کے اختیار و تصرف میں شریک کیسے بن جاتے ہیں۔ پھر مردہ سے زندہ اور زندہ سے مردہ پیدا کرنے کی بھی کئی صورتیں ہیں مثلاً اللہ نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا جو بے جان چیز ہے پھر اس کی تمام ضروریات اسی مٹی یا زمین سے وابستہ کردیں۔ پھر یہ زندہ انسان مرنے کے بعد اسی مردہ مٹی میں چلا جاتا ہے۔ اسی حقیقت سے اللہ تعالیٰ نے معاد پر استدلال فرمایا ہے مثلاً زمین سے پودے اور درخت پیدا ہوتے ہیں جن میں زندگی کے آثار موجود ہوتے ہیں پھر یہی چیزیں زمین میں مل کر پھر مردہ بن جاتی ہیں۔ یا مثلاً مرغی سے انڈا پیدا ہوتا ہے پھر انڈا سے مرغی پیدا ہوتی ہے گویا زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ پیدا ہونے کی بے شمار مثالیں اس دنیا میں موجود ہیں اور یہ سب کام ایسے ہیں جو کسی انسان یا کسی دوسری ہستی کے بس کا روگ نہیں۔ اسی پر اخروی زندگی کو قیاس کیا جا سکتا ہے اور یہ سمجھنے میں کچھ دقت پیش نہیں آتی کہ انسان کے جسم کا مٹی میں مل کر مٹی بن جانے کے بعد اللہ اسے مٹی سے ہی دوبارہ پیدا کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ الانعام
96 [٩٩] اس آیت اور اس سے اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ایسی آیات یا نشانیاں بیان فرمائی ہیں جنہیں اس خالق و مالک اور قادر مطلق کے سوا کوئی بھی وجود میں نہیں لا سکتا اور ان میں ایک غور و فکر کرنے والے انسان کے لیے وجود باری تعالیٰ پر واضح دلائل مل جاتے ہیں اور اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے مثلاً ایک یہ کہ گردش لیل و نہار کا نظام اس لیے بنایا کہ تم دن کو اپنے کام کاج کرسکو اور رات کو اپنی تھکاوٹ دور کرنے کے لیے آرام کرسکو۔ کام کاج کے لیے روشنی کی ضرورت ہوتی ہے تو اس نے رات کے ختم ہوتے ہی روشنی کا انتظام فرما دیا اور آرام کرنے کے لیے اندھیرا درکار ہوتا ہے تو اس کا انتظام فرما دیا۔ پھر چاند اور سورج کو اپنی اپنی گردش میں قواعد و ضوابط کا اس قدر پابند بنا دیا ہے جس سے وہ سر مو تجاوز نہیں کرتے نہ ہی لمحہ بھر کی تقدیم و تاخیر ہوتی ہے۔ پھر انہیں سے تم دنوں، مہینوں اور سالوں کا شمار کر کے تاریخ مرتب کرتے ہو۔ کیا اس نظام کائنات میں اللہ کا کوئی شریک ہے؟ یا اللہ کے سوا کوئی دوسرا ایسا نظام وجود میں لا سکتا ہے؟ الانعام
97 [١٠٠] سورج اور چاند کے علاوہ اللہ نے ستارے بھی پیدا فرمائے ہیں جو تاریک راتوں میں جب چاند بھی غائب ہوتا ہے تو کچھ نہ کچھ روشنی پہنچاتے رہتے ہیں نیز ان کی چال میں بھی چونکہ ایک ترتیب ہے لہٰذا رات کی تاریکی میں ان کی چال سے یہ بھی معلوم کیا جا سکتا ہے کہ رات کا کتنا حصہ گزر چکا ہے اور کتنا باقی ہے سمت بھی معلوم کی جا سکتی ہے کہ اس وقت ہم کونسی سمت میں سفر کر رہے ہیں اور اس طرح راستہ کا بھی تعین ہوسکتا ہے اور یہ فوائد جیسے خشکی پر حاصل ہوتے ہیں ویسے ہی سمندری سفر میں بھی حاصل ہوتے ہیں۔ یہ ستاروں کی پیدائش اور ان کی مقررہ چال اور ان سے انسان کے لیے ایسے فوائد کا حصول بھی اللہ کی ذات اور اس کی قدرت کی واضح نشانی ہے کیونکہ اس کے بغیر نہ کوئی ستارے پیدا کرسکتا ہے اور نہ ہی مقرر چال کا پابند بنا سکتا ہے کہ ان سے مذکور فوائد حاصل ہوں اور جو لوگ غور و فکر کرنے والے ہیں انہیں ان سے اللہ کی معرفت بھی حاصل ہوجاتی ہے۔ الانعام
98 [١٠١] وجود باری تعالیٰ پر دلائل :۔ سیدنا آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کر کے اس میں اپنی روح سے پھونکا تو اس میں عقل، قوت تمیز اور ارادہ و اختیار پیدا کیا جو دوسرے جانداروں اور جانوروں میں نہیں پایا جاتا۔ پھر اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا پھر تناسل و توالد کے ذریعہ لاتعداد مرد اور عورت پیدا کردیئے یہ بھی اللہ ہی کا کارنامہ ہے۔ کوئی انسان یا کوئی دوسری ہستی ایک آدمی بھی نہیں بنا سکتی پھر ان مردوں اور عورتوں میں سے ہر ایک کے لیے ایک جائے قرار اور ایک سپردگی کا مقام ہے۔ اکثر علماء کے خیال کے مطابق جائے قرار سے مراد روئے زمین پر اس کی زندگی کی مدت ہے اور مستودع سے مراد اس کی قبر ہے یا وہ جگہ جہاں سے مرنے کے بعد ٹھکانے لگایا جاتا ہے یہ دونوں باتیں اٹل حقیقت ہونے کے باوجود کسی کو معلوم نہیں کہ وہ روئے زمین پر کتنا عرصہ رہے گا اور کہاں اور کب مرے گا اور کہاں دفن ہوگا ؟ بعض علماء کے نزدیک ان سے مراد زندگی اور موت کے چاروں مراحل ہیں ایک مرحلہ اگر مستقر ہے تو دوسرا مرحلہ اس کا مستودع ہے علیٰ ہذا القیاس۔ الانعام
99 [١٠٢] یعنی زمین بھی ایک اور اس پر برسنے والا پانی بھی ایک جیسا، لیکن زمین سے پیدا ہونے والی نباتات اور پھلوں کے درختوں میں سے ہر ایک کے پھل پر غور کرو کھجور کے پھل پر اور اس کی ترکیب کو دیکھو، پھر انگور کو دیکھو جس میں بیج تک بھی نہیں ہوتا، انار کو دیکھو کہ اس کے دانے آپس میں کس طرح جڑے ہوئے ہیں۔ پھر یہ دیکھو کہ زمین ایک، درخت کی جنس ایک، پانی ایک لیکن ایک کا پھل ناقص ہے اور دوسرے کا عمدہ۔ پھر کسی ایک درخت کے پھل پر، پھل لگنے سے لے کر اس کے پکنے تک کے مراحل پر غور کرو۔ ایک ایک بات سے تمہیں اللہ کی قدرت کے نشانات ملتے جائیں گے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کوئی غور کرنے والا تو ہو؟ اور اگر کوئی انہیں عام معلومات سمجھ کر ان میں غور و فکر کرنے کی زحمت ہی گوارا نہ کرے تو اسے اللہ کی یہ نشانیاں کہاں نظر آ سکتی ہیں؟ الانعام
100 [١٠٣] اللہ کی اولاد کا عقیدہ :۔ اللہ تعالیٰ کی ان سب نشانیوں کے باوجود اور یہ جاننے کے باوجود کہ اللہ کے بغیر کوئی ہستی ان کے پیدا کرنے میں اس کی شریک نہیں۔ ان مشرکوں نے محض اپنے وہم و گمان سے یہ طے کرلیا کہ اتنی وسیع کائنات کا پورا نظام اکیلا اللہ کیسے سنبھال سکتا ہے۔ ضروری ہے کہ اس پورے نظام میں اور انسانوں کی قسمت کے بنانے اور بگاڑنے میں کئی دوسری پوشیدہ ہستیاں بھی شریک ہوں۔ کوئی بارش کا دیوتا ہے کوئی روئیدگی کا، کوئی پھلوں میں رس بھرنے کا، کوئی دولت کی دیوی ہے کوئی صحت کی اور کوئی مرض اور بیماریوں کی وغیرہ وغیرہ۔ اس قسم کے لغو خیالات دنیا کی تمام مشرک قوموں میں پائے جاتے ہیں۔ بالعموم تمام ستارہ پرست قوموں کا یہی شیوہ رہا ہے جو ان ستاروں کی ارواح اور ان کی خیالی شکلوں کے مجسمے بناتی ہیں انہیں ارواح کو قرآن نے کہیں جن اور کہیں شیاطین کے الفاظ سے ذکر کیا ہے پھر ان لوگوں نے ان دیوی دیوتاؤں کی نسل چلا کر ایک پوری دیو مالا مرتب کردی۔ ہندی، مصری، یونانی اور بابلی تہذیبوں میں ایسی پوشیدہ ارواح کی پرستش کا عقیدہ بالعموم پایا جاتا رہا ہے انہیں دیوی اور دیوتاؤں میں سے بعض کو انہوں نے اللہ کے بیٹے اور بیٹیاں قرار دے دیا۔ اہل عرب بھی فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ جواب دیا کہ جن تو اللہ کی مخلوق ہیں اور جو مخلوق ہو وہ بندہ اور غلام تو ہوسکتا ہے شریک نہیں بن سکتا اور اللہ کی جب بیوی ہی نہیں اور وہ اس سے بے نیاز بھی ہے تو پھر اس کے بیٹے اور بیٹیاں کیسے ہو سکتے ہیں؟ الانعام
101 [١٠٤] اس نے زمین و آسمان کو بغیر کسی مادہ کے اور بغیر کسی سابقہ نقشہ یا نظیر کے وجود بخشا۔ اس سے مادہ پرستوں کا رد ہوا۔ اور چونکہ اس کی بیوی ہی نہیں لہٰذا اللہ کا کوئی بیٹا اور بیٹی بھی نہیں ہو سکتے۔ اس سے یہود و نصاریٰ اور مشرکین سب کارد ہوا۔ یہود عزیر کو ابن اللہ کہتے تھے اور نصاریٰ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو اور مشرکین عرب فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے اور دوسرے ممالک کے مشرکوں نے تو اس قدر اللہ کے بیٹے بیٹیاں بنا ڈالے جن کا شمار بھی مشکل ہے۔ انہوں نے تو ایسے دیوی دیوتاؤں کی پوری نسل ہی چلا دی۔ حالانکہ یہ سب چیزیں اللہ کی مخلوق ہیں۔ الانعام
102 الانعام
103 [١٠٥] ان تمام مذکورہ اشیاء کو پیدا کرنے والی ہستی ایسی ہے جسے انسان اپنی ان آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ کیا اس دنیا میں دیدار الہی ممکن ہے؟ مسروق بن اجدع کہتے ہیں کہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بیٹھا تھا۔ انہوں نے مجھے (مخاطب کر کے) کہا : ابو عائشہ (مسروق کی کنیت) تین باتیں ایسی ہیں کہ ان میں سے کوئی بات بھی اگر کسی نے کہی تو اس نے اللہ پر جھوٹ باندھا۔ جس نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (شب معراج میں) اپنے پروردگار کو دیکھا اس نے اللہ پر بڑا جھوٹ باندھا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ ۡ وَہُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ ۚ وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ ﴾ نیز فرماتا ہے : ﴿وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَاۗیِٔ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِہٖ مَا یَشَاۗءُ ۭ اِنَّہٗ عَلِیٌّ حَکِیْمٌ ﴾ میں اس وقت تکیہ لگائے ہوئے تھا۔ میں اٹھ کر بیٹھ گیا اور کہا : ام المومنین! جلدی نہ کیجئے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا : ﴿ وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْرٰی﴾ نیز فرمایا : ﴿ وَلَقَدْ رَاٰہُ بالْاُفُقِ الْمُبِیْنِ﴾ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : اللہ کی قسم! میں نے اس بارے میں رسول اللہ سے پوچھا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ تو جبریل تھے جنہیں میں نے دیکھا تھا۔ اور دونوں بار ان کی اصلی صورت میں نہیں بلکہ آسمان سے اترتے دیکھا اور وہ اتنے بڑے تھے کہ زمین و آسمان کے درمیان کی فضا بھر گئی تھی۔ اور جس نے یہ سمجھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منزل من اللہ وحی سے کچھ چھپایا۔ اس نے اللہ پر جھوٹ باندھا کیونکہ اللہ فرماتا ہے : ﴿ یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ ﴾ اور جس نے یہ سمجھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کل کو ہونے والی بات جانتے تھے۔ اس نے اللہ پر جھوٹ باندھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ ﴾ (ترمذی ابو اب التفسیر) البتہ قیامت کو انسان اللہ تعالیٰ کو دیکھ سکے گا جیسا کہ بے شمار آیات اور احادیث سے ثابت ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی ہے جو کائنات کی رتی رتی چیز کو دیکھ رہا ہے اور ہر لمحہ انکی خبر گیری کر رہا ہے۔ پھر ان کی ہر چھوٹی موٹی ضرورت کو پورا بھی کرتا رہتا ہے۔ الانعام
104 [١٠٦] قرآن آپ نے کس سے سیکھا ہے؟ یعنی اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی معرفت کے لیے بہت سے ایسے دلائل ذکر کردیئے گئے ہیں کہ اگر کوئی شخص ان میں غور و فکر کرے گا تو یقیناً حقیقت کو پا لے گا اور اس میں اسی کا بھلا ہے۔ اور جو خود ہی کچھ نہیں سمجھنا چاہتا تو وہ خود ہی اس کا نقصان برداشت کرے گا۔ اس سے آگے یک لخت متکلم بدل گیا ہے پہلے سلسلہ کلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا اور ’’میں تم پر محافظ نہیں‘‘ یہ جملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ہے۔ اس طرح کی ضمائر کی تبدیلی کلام عرب میں بکثرت پائی جاتی ہے اور ایسے کلام کو اتنا ہی زیادہ فصیح شمار کیا جاتا ہے۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما رہے ہیں کہ جو لوگ ان بصیرت افروز دلائل میں غور و فکر کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے تو میرے ذمہ یہ ڈیوٹی نہیں کہ میں وہ دلائل ایسے لوگوں کو دکھا کے یہ سمجھا کے چھوڑوں۔ الانعام
105 [١٠٧] قرآن میں ایسی آیات الٰہی بہت سے مقامات پر مذکور ہیں جو مختلف اوقات میں، مختلف ماحول میں اور مختلف انداز بیان سے نازل ہوتی رہیں۔ اگرچہ ان میں حقائق وہی ہیں جو پہلے بھی بیان ہوچکے ہیں۔ اس طرح نئے نئے پیرایہ میں دلائل بیان کرنے کے دو بڑے فائدے ہیں ایک یہ کہ آیات الٰہی میں غور و فکر کرنے والوں کو کسی وقت بھی ہدایت نصیب ہو سکتی ہے اور دوسرے یہ کہ متعصب اور معاند لوگوں کی کج فہمی کھل کر سامنے آ جائے جو یہ بات تو کسی صورت ماننے کو تیار نہیں کہ یہ کلام اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے بلکہ اس کے علاوہ ہر غیر معقول صورت بتانے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ اور ایسی کڑیاں ملانے کی کوشش کرتے ہیں جن سے یہ ثابت کرسکیں کہ اس امی نے ایسا کلام یقیناً کسی عالم سے پڑھا ہے۔ الانعام
106 [١٠٨] پہلے بتایا جا چکا ہے کہ یہ سورۃ ہجرت سے تقریباً ایک سال پہلے نازل ہوئی تھی (ماسوائے چھ آیات کے) اور اس وقت مسلمانوں پر سخت آزمائش کا دور تھا۔ اس وقت یہی حکم تھا کہ مشرکوں سے کنارہ کش رہا جائے۔ لیکن جب فتح مکہ کے بعد اسلام کو غلبہ حاصل ہوگیا۔ تو پھر یہ حکم نہ رہا بلکہ ان کے ساتھ جنگ وجدال کا حکم ہوا۔ اور کعبہ میں ان کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا۔ جیسا کہ سورۃ توبہ کے آغاز میں مشرکین کے لیے احکام بیان ہوئے ہیں۔ الانعام
107 الانعام
108 [١٠٩] کسی بڑے فتنہ سے بچنے کے لئے کوئی اچھا کام چھوڑ دینا یا چھوٹنا فتنہ گوارا کرلینا :۔ صبر و ضبط سے کام لو اور غصہ میں آ کر ان کے معبودوں کو برا بھلا نہ کہو ورنہ ردعمل کے طور پر تمہارے معبود حقیقی اللہ کو گالیاں دینا شروع کردیں گے اور بالواسطہ تم خود ہی اللہ کو گالی دینے کا سبب بن جاؤ گے حالانکہ ان کے معبودوں کے برا ہونے میں کوئی شک نہیں اور ان کو برا کہنے میں کوئی حرج بھی نہیں بلکہ اچھی بات ہے اس آیت سے یہ اصول معلوم ہوا کہ اگر کسی اچھے کام کے کرنے سے اس کے ردعمل کے طور پر کسی بڑے فتنہ کا خوف ہو تو اس اچھے کام کو چھوڑ دینا چاہیے بلکہ اس سے بھی آگے یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب کسی چھوٹے فتنہ سے بچنے کی صورت میں کسی بڑے فتنہ کے بپا ہونے کا خطرہ ہو تو اس چھوٹے فتنہ کو گوارا کرلینا چاہیے اس کی واضح مثال یہ ہے کہ مکہ میں کچھ مسلمان اپنی کمزوری ایمان کی وجہ سے ہجرت نہیں کر رہے تھے اور مشرکین مکہ کے پاس ہی پناہ لیے ہوئے تھے۔ جب ان مشرکوں کی مسلمانوں سے جنگ ہوتی تو مشرک ان ہجرت نہ کرنے والوں کو اپنی فوج کے آگے کردیتے (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ سورۃ توبہ) اب اگر مسلمانوں کی فوج ان مسلمانوں کو مارے تو ان کے قتل کی مجرم بنتی ہے اور نہ مارے تو سارے مسلمان مرتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں ان مسلمانوں کو مار دینا ہی قرین صواب ہے اور اللہ نے ایسے ہجرت نہ کرنے والے مسلمانوں پر سخت نکیر فرمائی ہے۔ جمہوری نظام پر تبصرہ اور ووٹ ڈالنے کی حیثیت :۔ موجودہ دور میں اس کی مثال کسی جمہوری نظام سیاست میں الیکشن کے دوران ووٹ ڈالنے کا مسئلہ ہے۔ اور یہ بات تو واضح ہے کہ جمہوری نظام اسلام اور اسلامی نظام خلافت کی عین ضد ہے۔ جمہوری نظام میں مقتدر اعلیٰ کوئی انسان یا ادارہ ہی ہوسکتا ہے جبکہ اسلامی نقطہ نظر سے مقتدر اعلیٰ کوئی انسان ہو ہی نہیں سکتا۔ بلکہ مقتدر اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے یہی وہ بنیادی فرق ہے جس کی بنا پر ہم دعویٰ سے کہہ سکتے ہیں کہ اسلام اور جمہوریت میں سمجھوتہ ہونا ناممکن ہے اگرچہ پاکستان کے دستور میں یہ الفاظ لکھ دیئے گئے ہیں کہ ’’مقتدر اعلیٰ اللہ تعالیٰ ہے‘‘ مگر اس پر عمل درآمد ناممکن ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اگر فی الواقع اللہ تعالیٰ کو مقتدر اعلیٰ تسلیم کرلیا جائے تو موجودہ جمہوری نظام کا از خود جنازہ نکل جاتا ہے۔ علاوہ ازیں جمہوری نظام میں پانچ باتیں ایسی ہیں جن میں سے کسی ایک کے بغیر بھی جمہوریت کی گاڑی چل ہی نہیں سکتی اور یہ باتیں شرعاً ناجائز ہیں اور وہ یہ ہیں۔ ١۔ سیاسی پارٹیوں کے وجود کا ضروری ہونا۔ ٢۔ طلب امارت یعنی نمائندہ اسمبلی بننے کے لیے از خود درخواست دینا۔ پھر اس کے لیے ہر جائز و ناجائز ذرائع سے تگ و دو کرنا۔ ٣۔ کثرت رائے کو معیار حق قرار دینا۔ ٤۔ حق بالغ رائے دہی۔ یعنی ہر کس و ناکس کو بشمول خواتین ووٹ کا حق دینا اور ٥۔ ہر کس و ناکس کے ووٹ کی قیمت برابر قرار دینا۔ اس صورت حال میں مناسب تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ووٹ ڈال کر اس نظام کی قطعاً حوصلہ افزائی نہ کی جائے مگر اس سے بھی بسا اوقات یہ خطرہ پیدا ہوجاتا ہے کہ کوئی دین سے بے زار عنصر ہی برسراقتدار نہ آ جائے لہٰذا جو پارٹی دینی لحاظ سے نسبتاً بہتر ہو اس سے تعاون کرنا ضروری ہوجاتا ہے اور اس کا جواز صرف اس حد تک ہی ہے کہ ایک بڑے فتنہ کے سدباب کے لیے ایک چھوٹے فتنہ کو گوارا کرلیا جاتا ہے یہ تو اس کا وقتی علاج ہے اور اصل علاج یہ ہے کہ اس کا فرانہ نظام سیاست کو بدلنے کے لیے وہی راہ اختیار کی جائے جو انبیائے کرام کا شیوہ رہا ہے۔ [١١٠] ہر فرقہ اپنے ہی عقائد و اعمال میں کیوں خوش رہتا ہے؟ یہ دنیا چونکہ دارالامتحان ہے اس کا نظام ہم نے ایسا رکھا ہے اور ایسے اسباب جمع کردیئے ہیں کہ یہاں ہر قوم اپنے اعمال اور طور و طریق پر نازاں رہتی ہے اللہ نے انسانی دماغ کی ساخت ایسی نہیں بنائی کہ وہ صرف سچائی کے قبول اور پسند کرنے پر مجبور ہو اور غلطی کی طرف جانے کی اس میں گنجائش نہ ہو۔ البتہ اللہ کے پاس جا کر جب حقائق سامنے آ جائیں گے تو ہر ایک کو معلوم ہوجائے گا کہ دنیا میں جو کام وہ کرتا رہا ہے کیسا تھا ؟ اس دنیا میں اگر کوئی فرقہ حق کی مخالفت میں بھی سر گرم ہو تو اسے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہت اچھا کام کر رہا ہے۔ الانعام
109 [١١١] کفار مکہ کا معجزہ کا مطالبہ اور اس مطالبہ کے جواب :۔ کفار مکہ کہتے تھے کہ اگر کوہ صفا خالص سونے کا بن جائے تو ہم یقینا ایمان لے آئیں گے اور بعض مسلمانوں کو یہ خیال آ گیا کہ اگر ان کی یہ حجت پوری ہوجائے تو اچھی بات ہوگی۔ اس آیت میں اس پس منظر کو ملحوظ رکھا گیا ہے اللہ نے اپنے نبی سے فرمایا کہ ان کفار کو ایسا معجزہ پیش کرنے سے صاف جواب دے دو۔ اور کہہ دو کہ ایسا معجزہ دکھانا اللہ کے اختیار میں ہے، میرے اختیار میں کچھ نہیں اور مسلمانوں سے یوں خطاب فرمایا کہ تمہیں یہ کیسے معلوم ہوگیا کہ اگر انہیں ایسا معجزہ دکھا دیا جائے تو یہ لوگ ضرور ایمان لے ہی آئیں گی۔ یہ لوگ تو ایسے بدبخت ہیں کہ کوئی بھی معجزہ دیکھ لیں، ایمان نہیں لانے کے۔ لہٰذا ان سے کسی طرح کی خیر کی توقع مت رکھو۔ الانعام
110 [١١٢] یعنی اگر یہ لوگ معجزہ دیکھ کر ایمان لانے والے ہوتے تو قرآن بذات خود کیا کم معجزہ تھا جس کے کھلے کھلے چیلنج کے باوجود یہ سب مل کر بھی اس جیسی ایک سورۃ بھی پیش نہ کرسکے اور اب اگر مزید ہم انہیں کوئی معجزہ دکھائیں گے تو پھر بھی ان کی یہ کیفیت ہوگی۔ یہ پھر اسی طرح بصارت اور بصیرت کے لحاظ سے اندھے بن جائیں گے جس طرح پہلے سے بنے ہوئے ہیں۔ رہی یہ بات کہ اللہ نے ان کی گمراہی کی نسبت اپنی طرف کیوں کی کہ ہم انہیں ان کی سرکشی میں بھٹکتا چھوڑ دیں گے تو اس کے متعلق پہلے وضاحت کی جا چکی ہے کہ اسباب کا اختیار کرنا انسان کے اپنے اختیار میں ہے اور اسی اختیار پر انسان کا مواخذہ ہوگا۔ رہے ان اسباب کے نتائج تو نتائج پیدا کرنا اللہ کے اختیار میں ہے۔ لہٰذا نتائج کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف بھی ہو سکتی ہے۔ اور عمل کرنے والوں کی طرف بھی اور قرآن میں یہ دونوں صورتیں موجود ہیں۔ الانعام
111 [١١٣] اس آیت میں بھی کفار کے کسی حسی معجزہ کے مطالبہ کا جواب دیا جا رہا ہے یعنی ان بدبختوں کا یہ حال ہے کہ اگر ہم فرشتے نازل کرتے جو ان کے سامنے گواہی دیتے کہ یہ پیغمبر واقعی اللہ کا رسول ہے اور یہ کتاب واقعی منزل من اللہ ہے۔ اور قبروں سے مردے اٹھ کر ان کو بتاتے کہ واقعی جو کچھ یہ پیغمبر کہتا ہے سچ کہتا ہے اور مرنے کے بعد کے حالات کچھ ہم دیکھ چکے ہیں بلکہ لاکھ معجزے ان کو دکھا دیتے تو صاف کہہ دیتے کہ یہ تو صاف جادو ہے اور ہماری نظر بندی کردی گئی ہے ایمان لانے کی طرف پھر بھی نہ آتے۔ [١١٤] ﴿ اِنْ یَشَاِ اللّٰہُ﴾ کا ایک مطلب تو وہی ہے جو ترجمہ میں بیان کردیا گیا ہے یعنی کوئی ایک آدھ آدمی ایمان لے آتا جس کے نصیب میں ہوتا اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ کی مشیئت میں ہوتا تو یہ سب ایمان لا سکتے تھے مگر اس طرح کا جبری ایمان نہ اللہ کی مشیئت میں ہے اور نہ اس کا کچھ فائدہ ہوتا ہے۔ [١١٥] یہ خطاب ان مسلمانوں کی طرف بھی ہوسکتا ہے جو یہ چاہتے تھے کہ اگر ان کے معجزہ کے مطالبہ کی حجت پوری کردی جائے تو شاید یہ کافر ایمان لے ہی آئیں اور بتایا یہ جا رہا ہے کہ یہ نادانی کی باتیں ہیں ان سے ایمان لانے کی توقع رکھنا عبث اور فضول ہے اور ان کافروں کی طرف بھی جو کسی حسی معجزہ کا مطالبہ کر رہے تھے ان کا یہ مطالبہ ہی ان کی نادانی کی دلیل ہے کہ جو شخص اپنے اندر اور اپنے باہر کائنات میں پھیلی ہوئی لاکھوں نشانیوں سے ہدایت حاصل نہیں کرنا چاہتا وہ ایسے معجزہ کو دیکھ کر بھی باتیں ہی بناتا رہے گا۔ الانعام
112 [١١٦] کافروں کی گمراہ کن تدبیریں اور پروپیگنڈے :۔ یعنی یہ معرکہ حق و باطل ہر نبی کو پیش آتا رہا ہے۔ سب شیطانی قوتیں انبیاء کے مقابلہ میں ڈٹ کر آ کھڑی ہوتی ہیں اور ان دشمنوں میں صرف انسان ہی نہیں ہوتے شیطان بھی شامل ہوجاتے ہیں جو اپنے دوستوں کے دلوں میں کئی خوش آئند تدابیر القاء کرتے رہتے ہیں کہ اسلام اور پیغمبر کے خاتمہ کے لیے یہ تدبیر بھی کارگر ہو سکتی ہے اور یہ تدبیر اس سے زیادہ بہتر ہے۔ نیز وہ کچھ ایسی تدبیریں پیش کرتے ہیں جو بظاہر اچھی معلوم ہوتی ہیں لیکن اصل میں وہ مکر و فریب ہوتا ہے جیسے یہودیوں نے یہ تدبیر کی تھی کہ کچھ یہود ایمان لے آئیں پھر تھوڑے عرصہ بعد مرتد ہوجائیں۔ معاشرہ ہمارے اس فعل سے یہ اثر لے گا کہ یقینا دال میں کچھ کالا کالا ہے ورنہ یہودی تو عالم لوگ ہیں اگر اسلام سچا مذہب ہوتا تو یہ حق سے کیسے انحراف کرسکتے تھے پھر ایسی باتوں کا لوگوں میں پروپیگنڈہ بھی خوب کرتے ہیں۔ یا جیسے مشرک کہتے تھے کہ کیسی عجیب بات ہے کہ مسلمان اللہ کے مارے ہوئے (مردار) کو تو حرام سمجھتے ہیں اور اپنے مارے ہوئے (ذبح کردہ) کو حلال قرار دیتے ہیں۔ الانعام
113 [١١٧] ایسی مکر و فریب والی تدابیر یہ شیاطین اس لیے کرتے ہیں کہ جن لوگوں کا ایمان لانے کا ارادہ ہو وہ ان کے بھرے میں آ جائیں اور یہ سمجھ لیں کہ ہم پہلے سے جس دین پر قائم ہیں وہی حق اور درست ہے۔ پھر اپنی تمام مساعی اپنے اسی پرانے دین کی مدافعت میں صرف کرنے لگیں۔ الانعام
114 [١١٨] اہل کتاب کی ثالثی؟ یہ رسول اللہ کا خطاب مشرکین مکہ کو ہے جنہوں نے کہا تھا کہ یہود اور نصاریٰ دونوں اہل کتاب بھی ہیں اور عالم بھی ہیں لہٰذا آپ ان میں سے کسی کو ثالث تسلیم کرلیں۔ جو ہم میں فیصلہ کر دے کہ ہم میں کون حق پر ہے یا وہ صلح یا سمجھوتہ کی کوئی راہ نکال دیں۔ ان کی اس تجویز کا جواب یہ ہے کہ میرا حکم صرف اللہ تعالیٰ ہے جس نے ایسی کتاب نازل فرمائی ہے جس میں ہدایت کی وہ ساری باتیں آ گئی ہیں جو تورات اور انجیل میں ہیں۔ علاوہ ازیں وہ یہ بھی بتاتی ہے کہ ان لوگوں نے اپنی کتابوں سے کیا سلوک کیا کن کن آیات کی وہ لفظی اور معنوی تحریف کرچکے ہیں اور کون کون سی آیات کو چھپا رہے ہیں۔ تو کیا میں اللہ کو چھوڑ کر ایسے غلط کار لوگوں کو اپنا منصف تسلیم کروں؟ یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ [١١٩] الذین سے مراد اہل کتاب بھی ہو سکتے ہیں اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ کو اس بات میں ہرگز شک نہ ہونا چاہیے کہ اہل کتاب یہ بات خوب سمجھتے ہیں کہ یہ کتاب قرآن اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے اور حقائق پر مبنی ہے اگرچہ زبان سے اقرار نہ کریں۔ اور الذین سے مراد مسلمان بھی ہو سکتے ہیں جن کے بارے میں کسی قسم کے شک کی گنجائش ہی نہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت قرآن کو ہدایت کا سرچشمہ، منزل من اللہ اور ٹھیک ٹھیک امر حق کی نشاندہی کرنے والی کتاب سمجھتی ہے۔ الانعام
115 [١٢٠] قرآن پاک کی تمام تر خبریں سچی اور احکام معتدل ہیں :۔ یعنی اس کتاب میں توحید باری تعالیٰ پر اتنے دلائل دیئے جا چکے ہیں کہ جن سے حق نکھر کر سامنے آ چکا ہے۔ آپ کے پروردگار کے فرامین سچائی اور انصاف کے ساتھ پورے ہوچکے۔ اس کتاب کی تمام تر خبریں سچی ہیں اور اس کے احکام معتدل اور منصفانہ ہیں۔ کسی کی مجال نہیں کہ ان احکام و فرامین میں کسی طرح کا رد و بدل کرسکے یا اس میں سے کسی آیت کو چھپا سکے یا اپنی طرف سے کچھ اضافہ کرسکے۔ واضح رہے کہ کسی بھی الہامی کتاب کو سرسری طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ جس کا تعلق اخبار یا خبر دینے سے ہوتا ہے جو وہ گزشتہ قوموں اور انبیاء کے حالات ہوں یا آئندہ کے متعلق پیش گوئیاں ہوں مثلاً قیامت سے پیشتر کون کون سے فتنے یا حوادث پیش آنے ہیں اور خواہ ان کا تعلق مابعد الطبیعیات سے ہو جیسے دوبارہ زندہ ہونا، اللہ کے حضور پیشی اور اپنے اپنے اعمال کی باز پرس اور جنت اور دوزخ وغیرہ کے حالات کا بیان اور دوسرا حصہ وہ ہے جس میں اوامر و نواہی بیان کیے جاتے ہیں خواہ اللہ کے حقوق سے متعلق ہوں یا بندوں کے حقوق سے یا خواہ معاشرتی اور تمدنی احکام ہوں یا معاشی یا سیاسی ہو یا عائلی زندگی سے متعلق ہوں۔ قرآن کریم میں پہلی قسم سے متعلق جو خبریں دی گئی ہیں وہ مکمل اور ٹھوس حقائق پر مبنی اور سچی ہیں۔ اور دوسرے حصہ میں جو احکام بیان کیے گئے ہیں وہ افراط و تفریط سے پاک اور نہایت معتدل اور متوازن ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سب لوگوں کی خود باتیں سننے والا اور ان کے ہر طرح کے حالات کو خوب جاننے والا ہے۔ الانعام
116 [١٢١] اکثریت کا مذہب محض تقلید اور وہم وقیاس پر ہے :۔ تاریخ اور مشاہدہ دونوں اس حقیقت پر گواہ ہیں کہ کسی بھی معاشرہ میں اہل خرد اور ذہین اور بااصول لوگ کم ہی ہوا کرتے ہیں۔ معاشرہ کی اکثریت جاہل عوام پر مشتمل ہوتی ہے۔ قرآن نے متعدد مقامات پر ایسی اکثریت کو جاہل، فاسق، ظالم اور مشرک قرار دیا ہے ان لوگوں کا اپنا کوئی اصول نہیں ہوتا۔ نہ انہیں کسی بات کا علم ہوتا ہے اور نہ ہی وہ علم حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں اپنے کھانے پینے کے سوا نہ کسی چیز کی فکر ہوتی ہے اور نہ ہی اس کے علاوہ وہ کوئی اور بات سوچنے کی زحمت گوارا کرتے ہیں۔ ان کے زندگی گزارنے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ جس رخ لوگوں کی اکثریت جا رہی ہو ادھر ہی وہ بھی چل پڑتے ہیں۔ وہ کسی بات کی تحقیق نہ کرنا چاہتے ہیں اور نہ کرسکتے ان کے عقائد اور ان کے اعمال سب کچھ وہم و قیاس پر مبنی ہوتے ہیں۔ پھر چونکہ اکثریت کی آراء مختلف بھی ہوتی ہیں اور بدلتی بھی رہتی ہیں۔ لہٰذا اکثریت کی اتباع ہمیشہ گمراہی پر منتج ہوا کرتی ہے اسی لیے آپ کو اور مسلمانوں کو ان کے کہنے پر چلنے سے روک دیا گیا ہے۔ اس کے برعکس اللہ کی ہدایت کا راستہ صرف ایک ہی ہے اور ہمیشہ سے ایک ہی رہا ہے اور ایک ہی رہے گا۔ سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر نبی آخر الزماں تک تمام انبیاء کو اسی راستہ پر چلنے کی تاکید کی جاتی رہی ہے لہٰذا طالب حق کو ہرگز وہ نہ دیکھنا چاہیے کہ دنیا کے لوگوں کی اکثریت کس راستہ پر چل رہی ہے بلکہ پوری ثابت قدمی کے ساتھ اس راہ پر چلنا چاہیے جو اللہ نے بتائی ہے خواہ اس راہ پر چلنے والوں کی تعداد کتنی ہی قلیل ہو۔ اسی آیت سے موجودہ مغربی جمہوری نظام بھی باطل قرار پاتا ہے جس میں اکثریت کی رائے کو حق کا معیار قرار دیا گیا ہے نیز ہر کس و ناکس کی رائے کو مساوی حیثیت دی گئی ہے۔ اس نظام میں ایک عالم اور ایک جاہل کی رائے کو یکساں درجہ دیا جاتا ہے اور یہ دونوں باتیں قرآن کی صریح آیات کے خلاف ہیں۔ الانعام
117 الانعام
118 [١٢٢] حلال جانور کو کھانے کی شرائط :۔ کسی حلال جانور کو کھانے کے لیے شریعت نے دو شرائط عائد کی ہیں۔ ایک یہ کہ ذبح کیا جائے اور اس کا خون نکال دیا جائے دوسرے ذبح کرتے وقت اس پر اللہ کا نام لیا جائے۔ علمائے یہود نے مشرکین مکہ کو یہ شرارت سمجھائی کہ مسلمانوں سے پوچھو کہ جو چیز اللہ نے ماری ہو اسے تو تم حرام قرار دیتے ہو اور جو چیز تم خود مارو اسے حلال سمجھتے ہو۔ ایمان لانے کے بعد وحی کی اتباع ضروری ہے خواہ اس حکم کی سمجھ آئے یا نہ آئے :۔ اس پس منظر میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے فرمایا کہ جب تم نے بنیادی طور پر دلائل صحیحہ کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور قرآن کریم کی حقانیت کو تسلیم کرلیا ہے تو اب فروع و جزئیات کی صحت کو تسلیم کرنا ناگزیر ہے۔ اگر ہر اصل اور فرع کو قبول کرنا ہمارے ہی عقلی قیاسات پر موقوف ہو تو پھر وحی اور نبوت کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے؟ بالفاظ دیگر ہر شخص ایمان لانے یا نہ لانے کی حد تک تو خودمختار ہے۔ چاہے ایمان لائے یا نہ لائے۔ لیکن جب ایمان لا چکا تو پھر اسے وحی کے تابع رہ کر چلنا ہوگا خواہ اسے شرعی احکام کی علت یا مصلحت سمجھ میں آئے یا نہ آئے تاہم علماء نے اس بات کی تصریح کردی ہے کہ اللہ نے صرف وہ چیزیں حرام کی ہیں جن کا کھانا انسان کی جسمانی یا روحانی صحت کے لئے مضر ہو۔ ذبح کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ خون جسے اللہ نے حرام کردیا ہے جانور کے جسم سے نکل جاتا ہے اور جانور پاک ہوجاتا ہے۔ اگر یہ خون جسم میں رہ جائے تو جسمانی صحت کے لیے مضر ہوتا ہے اور اللہ کا نام لینے کا حکم کھانے میں برکت اور روحانی تربیت کے لیے دیا گیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ ذبح پر مشرکوں کا اعتراض اور مردار کھالینا : کافروں کا دستور یہ تھا کہ وہ مرا ہوا جانور تو کھا لیتے ہیں لیکن خود اپنے ہاتھوں سے ذبح کر کے نہیں کھاتے تھے۔ مرے ہوئے کے متعلق وہ یہ سمجھتے تھے کہ چونکہ اسے اللہ نے مارا ہے لہٰذا اس کا کھانا جائز ہے اور خود ذبح کرنے کو کسی جانور کا خون کرنے کے مترادف سمجھتے تھے خواہ اس پر اللہ کا نام ہی لیا جائے۔ اسی بنا پر یہود نے ان کو مسلمانوں کے خلاف اکسایا تھا حالانکہ یہود تو اصل حقیقت سے واقف تھے۔ مگر اسلام دشمنی نے ان دونوں کو ہم نوا بنا دیا تھا۔ یہود کے اس پروپیگنڈے کی تردید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان کی گمراہ کن چال سے متنبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جس جانور پر اللہ کا نام لیا جائے یعنی حلال طریقہ پر ذبح کیا جائے۔ اس کے کھانے میں تمہیں کسی قسم کا تامل نہ ہونا چاہیے اور ان لوگوں کے اس پروپیگنڈہ کا کچھ اثر قبول نہ کرنا چاہیے اس لیے کہ جو اشیاء فی الواقع حرام ہیں ان کے متعلق احکام تمہیں پہلے بتلائے جا چکے ہیں۔ الانعام
119 [١٢٣] یہ غالباً سورۃ نحل کی آیت نمبر ١١٥ کی طرف اشارہ ہے وہاں بھی مردار، خون، خنزیر اور غیر اللہ کے نام پر مشہور کردہ چیزوں کا ذکر ہے پھر انہی چیزوں کا ذکر اسی سورۃ کی آیت نمبر ١٤٥ میں بھی آیا ہے۔ پھر سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ١٧٣ پھر سورۃ مائدہ کی آیت نمبر ٣ میں کچھ مزید تفصیلات بھی آ گئی ہیں۔ لہٰذا سورۃ مائدہ کی آیت نمبر ٣ کا حاشیہ ملاحظہ کرلیا جائے۔ [١٢٤] ان لوگوں سے مراد وہی علمائے یہود ہیں جنہوں نے مشرکین مکہ کو یہ پٹی پڑھائی تھی اور وہ حد سے گزرنے والے اس لحاظ سے تھے کہ ایک تو خود گمراہ تھے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرنا چاہتے تھے اور شکوک و شبہات میں ڈالنا چاہتے تھے اور دوسرے اس لیے کہ یہ سب کچھ انہوں نے ازراہ شرارت کیا تھا۔ ورنہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو وہ خوب جانتے تھے۔ الانعام
120 [١٢٥] ظاہری گناہ کیا ہیں اور باطنی کیا ؟ ربط مضمون کے لحاظ سے تو اس فقرہ کا مطلب یہ ہوگا کہ ان مشرکوں کے بہکانے پر نہ ظاہراً کوئی عمل کرو اور نہ دل میں کسی قسم کا شک و شبہ رکھو تاہم یہ حکم عام ہے۔ ظاہری گناہوں سے مراد ایسے گناہ ہیں جنہیں دوسرے لوگ دیکھ سکیں اور باطنی گناہ وہ ہیں جنہیں دیکھا نہ جا سکے جیسے کفر اور شرک کا عقیدہ حسد، بغض، بخل، تکبر وغیرہ جن کا تعلق دل سے ہوتا ہے۔ الانعام
121 [١٢٦] جس چیز پر ذبح کرتے وقت اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام لیا جائے وہ قرآن کی متعدد آیات کی تصریح کے مطابق حرام ہے اور جس پر عمداً اللہ کا نام نہ لیا جائے وہ اس آیت کی رو سے حرام ہے اور اگر ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینا بھول جائے تو اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مسلمان کا ذبیحہ حلال ہے۔ نیز اس کی دلیل سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہمارے پاس لوگ گوشت بیچنے آ جاتے ہیں۔ وہ نیا نیا اسلام لائے ہیں۔ معلوم نہیں انہوں نے ذبح کے وقت اللہ کا نام لیا تھا یا نہیں لیا تھا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم خود بسم اللہ پڑھ لیا کرو اور اسے کھالیا کرو۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الذبائح والصید والتسمیہ۔ باب ذبیحہ الاعراب و نحو ہم) نیز دیکھئے اسی سورۃ کی آیت نمبر ١٣٨ کا حاشیہ۔ [١٢٧] عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے’’کیا جس چیز کو ہم خود ماریں (ذبح کریں) اسے تو کھا لیں اور جسے اللہ مارے (یعنی مر جائے) اسے نہ کھائیں؟‘‘ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (ترمذی، ابو اب التفسیر) [١٢٨] حلت وحرمت کا اختیار صرف اللہ کو ہے :۔ یعنی شرک صرف یہی نہیں کہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کی پرستش کی جائے یا اسے حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لئے پکارا جائے یا اس کے نام کی قربانی یا نذر و نیاز دی جائے بلکہ اللہ کے سوا کسی کے حلال بتائے ہوئے کو حلال اور حرام بتائے ہوئے کو حرام سمجھنا بھی شرک ہی ہوتا ہے کیونکہ حلال و حرام ٹھہرانے کے جملہ اختیارات صرف اللہ کو ہیں چنانچہ جب یہ آیت ﴿ اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَالْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ ۚ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوْٓا اِلٰــہًا وَّاحِدًا ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۭسُبْحٰنَہٗ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ﴾ نازل ہوئی تو عدی بن حاتم (جو پہلے عیسائی تھے) کہنے لگے ’’یا رسول اللہ ! ہم لوگ اپنے علماء و مشائخ کو رب تو نہیں سمجھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عدی رضی اللہ عنہ سے پوچھا : کیا جس چیز کو وہ حلال کہتے یا حرام کہتے تو تم ان کی بات مان لیتے تھے؟ عدی کہنے لگے : ہاں! یہ تو تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بس یہی رب بنانا ہے۔‘‘ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) اس آیت میں مسلمانوں کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ وہ یہودیوں کی اس طرح کی گمراہ کن اور شرک میں مبتلا کرنے والی چالوں میں نہ آئیں اور اگر انہوں نے یہود کا کہنا مان لیا تو وہ بھی مشرک ہی بن جائیں گے۔ الانعام
122 [١٢٩] ایک کافر اور ایماندار کی مثال :۔ یہاں مردہ سے مراد روحانی طور پر مردہ ہے۔ یعنی ایک شخص پہلے کافر تھا پھر وہ اسلام لے آیا اور اسے وحی کے علم کی روشنی نصیب ہوئی۔ لوگوں میں رہ کر وہ اسی روشنی کے مطابق اپنی زندگی بسر کر رہا ہے اور دوسرا شخص کفر و شرک اور جہالت و ضلالت کی تاریکیوں میں ڈبکیاں کھا رہا ہے اور اسے ان تاریکیوں سے نکلنے کی کوئی راہ بھی نہیں مل رہی تو کیا ان دونوں کی حالت یکساں ہو سکتی ہے اور نکلنے کی راہ اس لیے نہیں ملتی کہ انہیں یہ تاریکیاں ہی روشنی معلوم ہونے لگتی ہیں اور ان کے برے کام انہیں بھلے معلوم ہونے لگتے ہیں ہر بدکاری میں انہیں مزہ آتا ہے اور ہر حماقت کو وہ تحقیق سمجھنے لگتے ہیں۔ الانعام
123 [١٣٠] کفار کے مکر انہی پر الٹ پڑتے ہیں :۔ یعنی جس طرح مکہ کے قریشی سردار مسلمانوں کے خلاف ظلم و ستم کر رہے ہیں اور دوسروں کی انگے خت پر مکروفریب کر رہے ہیں۔ تو یہ بات صرف مکہ کے سرداروں سے ہی مختص نہیں بلکہ ہر بستی کے سرداروں کا یہی حال ہوتا ہے وہ حق کے راستہ میں روڑے اٹکاتے اور مکر و فریب کرتے ہی رہتے ہیں اور یہی لوگ اللہ کے نزدیک سب سے بڑے مجرم ہوتے ہیں اور وہ یہ کام اس لیے کرتے ہیں کہ حق کی دعوت سے ان کی سرداری پر کاری ضرب لگتی ہے جیسے فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کے معجزات دیکھ کر کہہ دیا تھا کہ یہ تو صریح جادو ہے اور اس کا مقصد حکومت پر قبضہ کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جتنے مکر و فریب یہ چاہیں کر دیکھیں آخر خود ہی وہ اس جال میں پھنس جائیں گے مگر اس وقت انہیں اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی۔ الانعام
124 [١٣١] رسالت وہبی چیز اور کفار کا مطالبہ رسالت :۔ جیسے مثلاً انشقاق قمر کا معجزہ دیکھا تو کہہ دیا کہ یہ صاف جادو ہے یہ ان کی ہٹ دھرمی کی ایک دلیل ہے اور اب کہہ رہے ہیں کہ رسولوں کی طرح ہم پر فرشتہ نازل ہو اور رسولوں کو جو کتاب و حکمت اور نبوت دی گئی ہے۔ یہ چیزیں جب تک ہمیں میسر نہ ہوں ہم ایمان نہیں لا سکتے حالانکہ وحی کا بار ہر انسان اٹھانے کا متحمل ہی نہیں ہوتا۔ یہ استعداد اللہ تعالیٰ انبیاء کے قلوب میں پیدائش ہی سے رکھ دیتا ہے اور یہ صفت اللہ کا دین اور فضل ہوتی ہے۔ محنت مشقت اور ریاضتوں سے حاصل نہیں ہو سکتی اور یہ بات بھی اللہ ہی جانتا ہے کہ انسانوں میں کون نبوت کا بار اٹھانے کے قابل ہے اور یہ لوگ جو کچھ کر رہے ہیں تکبر اور سرکشی کی بنا پر کر رہے ہیں اور حق کے راستہ میں اپنے مکر و فریب سے جو کانٹے بچھا رہے ہیں اس کی پاداش میں انہیں ذلت اور رسوائی کے عذاب سے اس دنیا میں بھی دوچار ہونا پڑے گا اور آخرت میں بھی۔ الانعام
125 [١٣٢] انشراح صدر کیا ہے ؟ سینہ کھول دینے سے مراد یہ ہے کہ وہ فراخدلی کے ساتھ اسلام کی دعوت کو قبول کرلیتا ہے اور اس کی حقانیت پر اس کا دل مکمل طور پر مطمئن ہوجاتا ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی اور سینہ میں گھٹن پیدا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کی دعوت سنتے ہی اس کے دل میں گھٹن پیدا ہوجاتی ہے وہ اس دعوت کو سمجھنے اور اس میں غور کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتا پھر اس کے اس رویہ سے یہ گھٹن دم بدم بڑھتی جاتی ہے۔ پھر اس کی یہ حالت ہوجاتی ہے کہ حق اس کے دل میں داخل ہی نہیں ہو سکتا۔ اس وقت اسے اسلام کی کامیابی سے اتنی کوفت ہوتی ہے جیسے وہ بمشکل کسی بلندی یا پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ رہا ہو اور سانس پھولنے کے باوجود وہ بلندی پر چڑھنے کے لیے مجبور ہو۔ [١٣٣] سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس مقام پر رجس کا ترجمہ شیطان سے کیا ہے اس طرح مطلب یہ ہوگا کہ ہم ایسے شخص پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں جو اسے ایمان لانے کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتا۔ نیز رجس کا معنی ناپاکی بھی ہے اور عذاب بھی۔ ترجمہ میں ناپاکی ہی معنیٰ لکھا گیا ہے اور اگر عذاب ہو تو اس سے مراد ہے کہ دنیا میں اس پر لعنت کا عذاب مسلط کردیا جاتا ہے اور آخرت میں جو عذاب ہوگا وہ سخت تر ہے۔ الانعام
126 الانعام
127 [١٣٤] یعنی اللہ کے فرمانبردار بندوں کے لیے اللہ تعالیٰ ایسی جائے رہائش عطا فرمائیں گے جہاں ہر تکلیف سے سلامتی اور حفاظت ہوگی وہ گھر قیامت کی رستاخیز ہولناکیوں سے اور دوزخ کی آگ کی گرمی سے محفوظ ہوگا وہاں ان پر اللہ کی طرف سے بھی سلامتی نازل ہوگی۔ فرشتے بھی ان کی سلامتی کی دعا کریں گے۔ آپس میں بھی وہ ایک دوسرے کو سلامتی کی دعا دیں گے۔ انہیں وہاں کسی مرض سے یا تکلیف سے یا غم و اندوہ سے بھی دو چار نہ ہونا پڑے گا۔ بلکہ انہیں وہاں مسلسل اور لازوال نعمتیں مہیا ہوں گی۔ الانعام
128 [١٣٥] جنوں کا انسانوں کے سر چڑھنا :۔ سورۃ جن میں اللہ تعالیٰ نے اسی مضمون سے ملتا جلتا مضمون بیان فرمایا ہے کہ آدمیوں میں سے کچھ لوگ ایسے تھے جو جنوں سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ انسانوں کے اس فعل نے جنوں کی سرکشی کو اور بڑھا دیا۔ یعنی جن انسانوں کے سر پر چڑھ گئے۔ دور جاہلیت میں جب کوئی شخص جنگل میں پھنس جاتا یا کسی سفر میں اسے جان کا خطرہ درپیش ہوتا تو وہ یوں کہتا میں اس جنگل کے مالک کی پناہ میں آتا ہوں۔ یعنی ان لوگوں کے وہم کے مطابق ہر جنگل کا الگ الگ بادشاہ ہوتا تھا اور جو شخص اس سے پناہ مانگتا تو وہ اس کی فریاد کو بھی پہنچتا تھا اور یہ بادشاہ کوئی شیطان یا جن ہی ہوا کرتا تھا۔ جو آدمیوں کی ایسی فریاد سن کر خوشی سے پھولا نہ سماتا اور کہتا میں جنوں کے علاوہ آدمیوں کا بھی سردار بن گیا۔ جن ایک غیر مرئی مخلوق ہے جو مختلف شکلیں اختیار کرسکتے ہیں۔ ان میں بھی انسانوں کی طرح اکثریت برے لوگوں کی ہے جنہیں خبیث روحیں بھی کہا جاتا ہے۔ یہ روحیں بعض دفعہ سفر میں اور بالخصوص ناپاک جگہوں میں کوئی بری سی شکل دھار کر انسانوں کو خوفزدہ کرتی ہیں اور ان پر اپنا رعب جماتی ہیں۔ ایسی بد روحوں کو ہمارے ہاں عموماً بھوت اور چڑیل کہا جاتا ہے۔ بیت الخلاء میں جاتے وقت ہمیں جو دعا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی ہے وہ یوں ہے ’’اے اللہ ! میں جنوں اور جننیوں (بد روحیں مذکر ہوں یا مونث) سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الاستیذان۔ باب الدعاء عندالخلاء) جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ایسی بد روحیں انسان کو تنگ اور پریشان کرسکتی ہیں۔ جنوں اور انسانوں کا ایک دوسرے سے فائدہ اٹھانا :۔ اب جنوں اور انسانوں کی ایک دوسرے سے فائدہ اٹھانے کی صحیح صورتیں تو ہمیں معلوم نہیں تاہم ایک مشہور و معروف صورت جو ہم دیکھتے ہیں وہ تسخیر جنات کی صورت ہے۔ جنوں کو مسخر کرنے والے انسانوں کو ہماری زبان میں عامل کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ قرآن کریم کی مختلف سورتوں، آیتوں یا بعض دوسرے جنتروں منتروں کی زکوٰۃ نکالتے ہیں۔ اور زکوٰۃ نکالنا، کی اصطلاح ان کے پورے عمل کو ظاہر کرنے کے لیے وضع کی گئی ہے۔ ان کے زکوٰۃ کے عمل کی یہ صورت ہوتی ہے کہ مثلاً ایک شخص سورۃ جن کی زکوٰۃ نکالنا چاہتا ہے تو وہ چالیس دن رات کو کسی جنگل میں جا کر مقررہ تعداد میں سورۃ مذکور کو پڑھے گا اور اپنے گرد ایک حصار یا گول دائرہ کھینچ لے گا اور یہ عمل چالیس دن تک برابر جاری رکھے گا اور ان دنوں میں فلاں فلاں کھانے یا فلاں کام کرنے سے پرہیز رکھے گا۔ جب وہ یہ عمل رات کو کر رہا ہوگا تو جن طرح طرح کی شکلیں بن کر اسے ڈرانے آتے رہیں گے۔ لیکن حصار کے اندر داخل ہو کر اس پر حملہ نہ کرسکیں گے۔ اگر اس دوران عامل جنوں سے ڈر گیا تو جن اس سے انتقام لیں گے۔ مثلاً بیمار کردیں گے، اپاہج بنا دیں گے، پاگل بنا دیں گے، اس سے چمٹ کر طرح طرح کی اذیتیں دیں گے یا جان ہی سے مار ڈالیں گے۔ یہ سزا وہ اس عامل کے اس وقت تک کیے ہوئے عمل کے مطابق دیں گے۔ اور اگر وہ عامل پوری دلجمعی سے اپنا عمل جاری رکھے اور بد روحوں سے ہرگز خوفزدہ نہ ہو اور چالیس دن کا کو رس پورا کرلے تو پھر وہ کامیاب ہے۔ کوئی نہ کوئی جن اس کا تابع بن جائے گا جس سے وہ طرح طرح کے کام لے سکتا ہے جب اس جن کی ضرورت پیش آئے تو ایک دفعہ سورۃ جن پڑھ کر اسے بلائے تو وہ حاضر ہوجائے گا اور عامل اس کو مطلوبہ کام پر مامور کر کے اس سے کام کروا سکتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جس عامل نے کوئی جن یا بدروح مسخر کرلی ہو وہ اسے مطلوبہ کام پر لگا کر دنیوی مفادات بھی حاصل کرسکتا ہے۔ جب کوئی جن کسی عورت کے جسم میں حلول کر کے اسے پریشان کر رہا ہو (یاد رہے کہ جن عموماً عورتوں کو ہی پڑتے ہیں مردوں کو کم ہی پڑتے ہیں) تو عامل کو بلایا جاتا ہے۔ وہ جن کو حاضر کر کے حالات معلوم کرتا، مریض کے علاج معالجہ کا وعدہ کرتا اور گھر والوں سے نذرانے وصول کرتا ہے یہاں ایک بات اور بھی قابل ذکر ہے کہ جن عموماً اس بستی میں عورتوں کو پریشان کرتے ہیں جہاں کوئی عامل رہتا ہو۔ جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اپنے مفادات کی خاطر عامل بعض دفعہ خود ہی جن ڈالتے ہیں پھر جب اسے علاج کے لیے بلایا جائے تو اپنے نذرانے وصول کرتے ہیں۔ بہرحال جنوں کے انسانوں کو تنگ کرنے اور عاملوں کے کارناموں کے متعلق طرح طرح کی داستانیں مشہور ہیں اور کچھ واقعات دیکھنے میں بھی آتے رہتے ہیں اور حقیقت کا علم صرف اللہ ہی کو ہے۔ [١٣٦] یہ سارا کاروبار چونکہ جادو سے ملتا جلتا ہے اور جنوں کے ذریعہ غیب کے حالات معلوم کرنے کا دھندا بھی اس میں شامل ہے۔ لہٰذا قرآن کی نظروں میں یہ بھی کفر ہے اسی لیے اللہ نے ایسے جنوں اور انسانوں کی سزا دوزخ مقرر کی ہے۔ [١٣٧] گناہوں کی سزا احوال و ظروف کو مدنظر رکھ کردی جاتی ہے اور یہی انصاف کا تقاضا ہے۔ لہٰذا ایسے لوگوں کے عذاب دوزخ کی مدت میں کمی بیشی عین انصاف کے مطابق ہوگی۔ الانعام
129 الانعام
130 [١٣٨] سلسلہ نبوت اب صرف انسانوں میں ہے :۔ انسان سے پہلے اس زمین پر جن ہی آباد تھے اور قرین قیاس یہی بات ہے کہ ان میں بھی رسول آتے ہوں گے۔ لیکن انسان کے زمین پر آباد ہونے کے بعد سلسلہ نبوت انسانوں سے ہی مختص ہوگیا۔ جو رسول انسانوں کے لیے ہوتا وہ جنوں کے لیے بھی ہوتا۔ انسانوں میں رسول آنے کی وجہ یہ ہے کہ انسان ہی اشرف المخلوقات ہے جن نہیں۔ اور جن رسول سے استفادہ کرسکتے ہیں کیونکہ رسول بشر ہوتا ہے جو اپنی شکل بدل نہیں سکتا۔ لیکن اگر رسول جنوں میں سے ہوتے تو ان سے انسان استفادہ بھی نہ کرسکتا تھا۔ چنانچہ رسول اللہ کا جنوں کے لیے بھی رسول ہونا قرآن میں دو مقامات سے ثابت ہے۔ سورۃ احقاف میں بھی ذکر آیا ہے اور سورۃ جن میں بھی۔ الانعام
131 [١٣٩] اللہ تعالیٰ کی یہ عادت نہیں کہ لوگوں کو ان کے گناہوں کے انجام سے خبردار کیے بغیر انہیں اس دنیا میں تباہ کر ڈالے یا آخرت میں عذاب دے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے بے شمار انبیاء لوگوں کی ہدایت اور انہیں ڈرانے کے لیے بھیجے اور قرآن میں ایک جگہ فرمایا﴿وَاِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْہَا نَذِیْرٌ ﴾ یعنی کوئی بستی ایسی نہیں جہاں کوئی ڈرانے والا نہ بھیجا گیا ہو۔ اور یہ ڈرانے والے جنوں اور انسانوں دونوں کے لیے ہوتے تھے۔ پھر جس جس نے ان انبیاء کی دعوت پر لبیک کہا اور اعمال صالحہ بجا لایا۔ تو ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق درجات عطا ہوں گے۔ الانعام
132 الانعام
133 [١٤٠] تم پر اللہ کی مہربانی ہے کہ وہ تم سے دین کی خدمت لے رہا ہے :۔ یعنی اللہ کی کوئی غرض تمہاری وجہ سے ان کی ہوئی نہیں ہے نہ ہی اس کا کوئی مفاد تم سے وابستہ ہے کہ تمہاری نافرمانی سے اس کا کچھ بگڑتا ہو اور فرمانبرداری سے اس کا کچھ سنورتا ہو بلکہ یہ اس کی انتہائی رحمت اور مہربانی ہے کہ اس نے تمہیں ہدایت کی راہ دکھائی۔ جس پر عمل کر کے تم عذاب سے بھی بچ سکتے ہو اور بلند درجات بھی حاصل کرسکتے ہو۔ اس کے مہربان ہونے کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ تمہارے گناہوں کی پاداش میں تمہیں فوراً سزا نہیں دے رہا اور تمہارے قصور معاف کرتا چلا جاتا ہے۔ ورنہ اگر وہ سخت گیر ہوتا تو تمہارے جرائم اتنے زیادہ ہیں کہ تمہیں اس دنیا سے رخصت کردیتا اور تمہاری جگہ دوسرے لوگ لے آتا۔ جیسے تمہیں پہلی قوموں کے بعد لایا گیا ہے اور یہ کام اس کے لیے کچھ مشکل بھی نہیں۔ لہٰذا اس کی فرمانبرداری میں ہی تمہاری بھلائی ہے۔ الانعام
134 [١٤١] یعنی اللہ نے جس قیامت کے دن کا تم سے وعدہ کر رکھا ہے وہ بہرحال آ کے رہے گا۔ تم اپنی سر توڑ کوششیں کر دیکھو تم اس دن کو ٹالنے پر کبھی قادر نہیں ہو سکتے۔ پھر اس دن تمہارا پورا پورا محاسبہ کیا جائے گا۔ نیز یہاں وعدہ سے مراد عذاب کا وعدہ بھی ہوسکتا ہے۔ ایسا عذاب بھی جیسا کافروں پر آیا تو پھر انہیں نجات کی کوئی راہ نہ ملی۔ الانعام
135 [١٤٢] یعنی اگر تم اپنی غلط روی سے باز نہیں آتے تو اس پر جمے رہو اور مجھے اپنی راہ پر چلنے دو۔ عنقریب ہم سب کو یہ معلوم ہوجائے گا کہ انجام ہمارا بہتر رہا یا تمہارا۔ بہرحال یہ بات تو یقینی ہے کہ ظالم کبھی فلاح نہیں پاتے نہ اس دنیا میں اور نہ آخرت میں۔ یہاں ظلم سے مراد شرک ہے جیسا کہ سیدنا لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی تھی کہ ’’بیٹے! کبھی شرک نہ کرنا کیونکہ شرک ہی سب سے بڑا ظلم ہے۔‘‘اور یہاں ظلم سے شرک اس لیے مراد لیا گیا ہے کہ آئندہ مشرکوں کے بعض افعال و رسومات کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ الانعام
136 [١٤٣] صدقہ وخیرات میں مشرکوں کی ناانصافیاں :۔ مشرکین نے صدقہ و خیرات کرتے وقت اللہ کا حصہ الگ مقرر کر رکھا تھا اور اپنے بتوں یا دیوی دیوتاؤں کا الگ۔ ان کا پہلا ظلم تو یہ تھا کہ اس بات کے اعتراف کے باوجود کہ ان کی کھیتی اور مویشیوں کا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ انہوں نے اللہ کے ساتھ دوسروں کا بھی حصہ مقرر کردیا۔ اور دوسرا ظلم یہ تھا کہ وہ اپنے وہم و گمان کی بنا پر اپنے شارع خود ہی بن بیٹھے تھے اور ان کا زعم باطل یہ تھا کہ ہم اللہ کا حصہ تو اس لیے نکالتے ہیں کہ ہماری کھیتی اور مویشیوں کو پیدا کرنے والا وہی ہے اور دوسرے معبودوں یعنی دیوی دیوتاؤں، فرشتوں، ستاروں کی ارواح اور پہلے بزرگوں کی روحوں کا حصہ اس لیے نکالتے ہیں کہ جو کچھ انہیں مل رہا ہے انہی کی نظر کرم کی وجہ سے مل رہا ہے۔ بالفاظ دیگر وہ انہیں اپنے نفع و نقصان کا مالک سمجھ کر ان کا حصہ نکالتے تھے اور یہی چیز اصل شرک ہے۔ اس شکل میں اگر اللہ کے نام پر کچھ دیا بھی جائے تو قطعاً اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہوتا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میں اپنے حصہ داروں کی نسبت اپنا حصہ لینے سے بے نیاز ہوں۔ جس شخص نے ایسا عمل کیا جس نے میرے ساتھ غیر کو حصہ دار بنایا تو میں اس صاحب عمل اور اس عمل دونوں کو ہی چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘ (مسلم۔ کتاب الزہد۔ باب تحریم الربا۔ بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب قول اللہ تعالیٰ لا یسئلون الناس الحافا) [١٤٤] تیسرا ظلم وہ مشرک یہ کرتے تھے کہ اگر معبودوں کے حصہ میں کسی طرح کمی واقع ہوجاتی، فصل کم پیدا ہوتی یا طوفان سے تباہ ہوجاتی تو یہ کمی اللہ کے حصہ سے پوری کردیا کرتے تھے اور اگر اللہ کے حصہ میں کمی واقع ہوتی تو اسے معبودوں کے حصہ سے پورا نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے اللہ کا حصہ کتنا مقرر کر رکھا تھا اور اپنے معبودوں کا کتنا ؟ یہ تفصیل کہیں نہیں ملتی۔ یہ بس ان کی اپنی ہی قیاس آرائیوں کے مطابق طے کیا گیا تھا۔ اللہ کا حصہ تو وہ فقیروں یتیموں وغیرہ میں تقسیم کردیتے اور معبودوں کا حصہ مندروں کے پجاریوں یا سرپرستوں کو۔ اور بتوں کے سامنے جو نذر و نیاز رکھی جاتی وہ بھی بالواسطہ ان پجاریوں کو ہی پہنچ جاتی تھی۔ ان مہنتوں اور پجاریوں نے ہی اپنے ذاتی مفاد کی خاطر مشرکین کو یہ پٹی پڑھائی تھی کہ اگر اللہ کے حصہ میں کمی واقع ہوجائے تو کوئی پروا نہ کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ غنی ہے وہ اپنے خزانوں سے یہ کمی پوری کرسکتا ہے، مگر ان دیوی دیوتاؤں کے حصہ میں کسی طرح کمی واقع نہ ہونی چاہیے گویا اس مشرکانہ رسم میں وہ لوگ تین طرح کے جرائم کا ارتکاب کرتے تھے۔ (١) مالی عبادت میں اللہ کے ساتھ اپنے معبودوں کو شریک بنانا (٢) اللہ کا الگ اور معبودوں کا الگ حصہ مقرر کرنا۔ اس بات میں پروہتوں کا یہ شرک تھا کہ انہوں نے اپنے آپ کو شارع کی حیثیت دے رکھی تھی اور عام لوگوں کا شرک یہ تھا کہ وہ ان کی اس بات کو مذہبی طور پر تسلیم کرتے تھے۔ (٣) اس تقسیم میں بھی اللہ کے حق میں ناانصافی کرتے تھے اور اس جرم میں پروہت اور عام مشرک سب شریک تھے۔ الانعام
137 [١٤٥] قتل اولاد کی تین وجوہ :۔ دور جاہلیت میں اولاد کو تین وجوہ سے قتل کیا جاتا تھا۔ (١) بیٹیوں کو اس عار کی وجہ سے زندہ درگور کرتے تھے کہ کوئی نہ کوئی ان کا داماد بنے گا جس کے آگے ان کی آنکھیں نیچی ہوں گی اور اس لیے بھی کہ اگر وہ کسی دوسرے قبیلے میں چلی گئی یا بیاہی گئی تو کئی پیچیدہ مسائل پیدا ہوجائیں گے کیونکہ ان میں رائج قبائلی نظام عصبیت کے سہارے چلتا اور جھگڑوں اور جنگوں پر ختم ہوتا تھا۔ (٢) اللہ پر عدم توکل۔ بعض لوگ اپنی اولاد کو خواہ بیٹا ہو یا بیٹی، اس لیے مار ڈالتے تھے کہ ان کا خرچ برداشت نہ کرسکیں گے یا اپنا معیار زندگی برقرار نہ رکھ سکیں گے اور اس جرم میں آج کی دنیا کا تقریباً پورا معاشرہ شریک ہے جو خاندانی منصوبہ بندی کے نام پر برتھ کنٹرول، اسقاط حمل اور عورتوں اور مردوں کو بانجھ بنانے کے طریقے دریافت کر کے اس جرم کا علانیہ ارتکاب کر رہے ہیں اور یہ کام حکومتوں کی سرپرستی میں ہوتے ہیں اور اس فعل کو بہت مستحسن قرار دیا گیا ہے۔ (٣) بتوں کے نام پر منت۔ یعنی اگر میرے ہاں اتنے بیٹے پیدا ہوں تو میں ایک بیٹا فلاں بت کے حضور قربان کروں گا جیسا کہ آپ کے دادا عبدالمطلب نے بھی یہ منت مانی تھی کہ اگر میرے ہاں بارہ بیٹے پیدا ہوئے تو ایک بیٹے کی قربانی دوں گا۔ پھر اس منت کا قرعہ آپ کے باپ عبداللہ کے نام نکلتا تھا جو بالآخر سو اونٹوں کی دیت کے مقابل ٹھہرایا مثلاً یہ کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو میں ایک بیٹا یا بیٹی فلاں بت کے حضور قربانی دوں گا۔ مبتدعین بھی دراصل اللہ کے شریک ہوتے ہیں :۔ اس آیت میں شریکوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے قتل کی مندرجہ بالا صورتوں کو ایجاد کیا تھا اور جنہیں معاشرہ نے قبول کرلیا تھا۔ چونکہ شرعی نقطہ نظر سے ہر طرح کی قانون سازی کا اختیار اللہ کو ہے لہٰذا ان رسوم کے موجد اللہ کے شریک ٹھہرے۔ ان لوگوں کا جرم صرف یہ نہ تھا کہ وہ اپنی اولاد کو قتل کرتے تھے بلکہ اس سے بھی بڑا جرم یہ تھا کہ وہ ایسے کاموں کو جرم سمجھنے کی بجائے انہیں اچھے اور اپنی فلاح و بہبود کے کام سمجھتے تھے۔ [١٤٦] ہلاکت سے مراد دونوں طرح کی ہلاکت ہے اخلاقی بھی اور تمدنی بھی۔ اخلاقی اس لحاظ سے کہ قتل بذات خود ایسا شدید ترین جرم ہے جو انسان میں شقاوت اور سنگدلی پیدا کرتا ہے جس سے وہ مزید قتل پر دلیر ہوجاتا ہے اور قتل اولاد تو عام قتل سے بھی بڑا جرم ہوا۔ یہ اسی کا اثر تھا کہ قبائلی عرب میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر اگر جھگڑا اٹھ کھڑا ہوتا تو فوراً قتل و غارت شروع ہوجاتی۔ اس معاشرہ میں انتہا درجہ کی خون کی ارزانی واقع ہوچکی تھی اور اخلاقی انحطاط اس درجہ پیدا ہوگیا تھا کہ نہ کسی کی جان محفوظ رہی تھی نہ مال اور نہ آبرو۔ اور تمدنی ہلاکت اس لحاظ سے کہ جو قوم اس طرح اپنی اولاد کو ختم کرنا شروع کر دے وہ اس دنیا میں کب تک اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہے۔ پھر ایسے کاموں کے نتیجہ میں آخرت میں ان کی ہلاکت ایسی حقیقت ہے جس میں کسی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں۔ [١٤٧] مشرکین مکہ کی بعض اچھی صفات :۔ مشرکین مکہ اپنے آپ کو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا پیروکار قرار دیتے تھے۔ پھر ان میں کچھ اچھی باتیں بھی موجود تھیں جن سے اس بات کا شبہ ہوتا تھا۔ مثلاً عبادات میں بیت اللہ کا طواف، صفا و مروہ کی سعی اور حج و عمرہ کی عبادات بجا لانا اگرچہ ان میں بھی کئی غلط رسوم اور عقائد شامل ہوچکے تھے اور اخلاقیات اور معاملات میں مہمان نوازی، عہد کی پابندی اور صدق مقال جھوٹ سے اجتناب، کسی کو امان دینا تو پھر اسے پوری ذمہ داری سے نبھانا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن دور نبوی تک ان کا مذہب شرک و بدعات کے ملغوبہ میں دب کر رہ گیا تھا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ صحف ابراہیم محفوظ نہیں رہے تھے اور یہ معلوم کرنے کا کوئی معیار نہ تھا کہ فلاں کام یا فلاں رسم کب شروع ہوئی اور اس کا کوئی شرعی جواز ہے یا نہیں۔ دوسری وجہ امتداد زمانہ ہے یعنی سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے لے کر آپ کی بعثت تک تین ہزار سال کی مدت۔ اس دوران بے شمار شرک و بدعات کے موجد پیدا ہوتے رہے اور اپنی اختراعات اس دین میں شامل کرتے رہے اور کوئی حقیقی معیار موجود نہ ہونے کی وجہ سے قوم انہیں دین کا جزو سمجھتی اور اس پر عمل پیرا ہوتی رہی۔ مشرکین مکہ میں آخرت کے انکار کا عقیدہ کب رائج ہوا ؟ ان امور کی تو کسی نہ کسی حد تک سمجھ آتی ہے مگر جس بات کا سراغ لگانا مشکل ہے وہ یہ بات ہے کہ مشرکین مکہ میں سے اکثر اللہ کے خالق و مالک ہونے کے تو قائل تھے مگر حشر و نشر، قیامت اور اخروی جزا و سزا کے منکر تھے۔ کسی نبی کے پیروکاروں میں ایمان کے ایسے لازمی جز کا مفقود ہوجانا بڑی حیرانگی کی بات ہے۔ ان مشرکین میں آخرت کے انکار کے عقیدہ کا موجد کون تھا اور یہ عقیدہ کس زمانہ میں ایجاد ہوا تھا، اس کے متعلق کچھ کہنا مشکل ہے۔ الانعام
138 [١٤٨] مشرکوں کی اپنی وضع کردہ شریعت :۔ ان مشرکوں کی مشرکانہ رسوم کی فہرست بڑی طویل ہے۔ ان کے بزرگوں نے آہستہ آہستہ پوری شریعت ہی وضع کر ڈالی تھی جن میں سے چند مزید امور کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت اور اس سے اگلی آیت میں ذکر فرمایا ہے اور وہ یہ ہیں۔ (١) ان مشرکوں کے ہاں یہ دستور تھا کہ جس کھیتی یا مویشی کے متعلق وہ یہ منت مان لیتے کہ وہ فلاں بت یا فلاں دربار یا فلاں سیدہ کے لیے مخصوص ہے تو ایسی نیاز کو ہر ایک نہیں کھا سکتا تھا بلکہ اس کے متعلق بھی انہوں نے ایک فہرست بنا رکھی تھی۔ کہ فلاں قسم کی نذر ہو تو اسے فلاں فلاں لوگ کھا سکتے ہیں اور فلاں قسم کی ہو تو فلاں فلاں۔ (٢) جن مویشیوں کو بتوں یا درباروں کی نذر کیا جاتا ان پر عام لوگوں اور اصل مالک کا بھی سواری کرنا حرام تھا حتیٰ کہ حج کے سفر میں بھی اس پر سوار ہونا ممنوع تھا۔ کیونکہ اس وقت انہیں (لبیک اللھم لبیک) کہنا پڑتا تھا۔ (٣) ان نذر کردہ جانوروں سے صرف دربار کے مجاور اور بتوں کے پروہت ہی فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ مگر اب ان پر اللہ کا نام لینا ممنوع تھا کیونکہ وہ معبودان باطل کے لیے وقف ہوچکے تھے۔ دودھ دوہتے وقت، سواری کرتے وقت، ذبح کرتے وقت اور کھاتے وقت غرض کسی وقت بھی ان پر اب اللہ کا نام لینا ممنوع تھا۔ تاکہ اس معبود کی نذر و نیاز میں اللہ کی شراکت نہ ہونے پائے۔ (٤) جو مویشی بتوں یا آستانوں کے نام وقف ہوچکے مثلاً بحیرہ، سائبہ وغیرہ وغیرہ ان میں ماداؤں کو ذبح کرنے کے بعد اگر ان کے پیٹ سے زندہ بچہ نکلے تو اس کا گوشت صرف مرد ہی کھا سکتے ہیں عورتیں نہیں کھا سکتیں۔ ہاں اگر بچہ مردہ پیدا ہو یا پیدا ہوتے ہی مر جائے تو اس میں عورتیں بھی شریک ہو سکتی ہیں اور ایسی یا اس سے ملتی جلتی رسوم ہمارے ہاں بھی رائج ہیں مثلاً بی بی صاحبہ کی صحنک جسے صرف سہاگن عورتیں ہی کھا سکتی ہیں۔ مرد اور بیوہ عورتیں نہیں کھا سکتیں۔ یہ سب کفر و شرک کی باتیں ہیں۔ الانعام
139 الانعام
140 [١٤٩] مشرکوں کی اس خود ساختہ شریعت کی ایک ایک دفعہ پر غور کرنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ (١) بتوں اور درباروں کے مجاوروں نے قانون سازی کے جملہ اختیارات خود سنبھال رکھے تھے۔ (٢) وہ اپنی ان اختراعات کو دین کا حصہ بنا دیتے تھے (٣) اور حیلوں بہانوں سے لوگوں سے مال بٹورتے اور اللہ تعالیٰ کے حقوق کو تلف کردیتے تھے (٤) حلال و حرام قرار دینے کے جملہ اختیارات بھی انہیں کے پاس تھے (٥) وہی قتل اولاد کے مجرم تھے۔ غرض یہ کہ شرک کی کوئی قسم باقی نہ رہ گئی تھی جو انہوں نے اختیار نہ کی ہو۔ اللہ تعالیٰ ان کے جرائم بتا کر مسلمانوں کو متنبہ فرماتے ہیں کہ ایسے سر سے پاؤں تک شرک میں پھنسے ہوئے لوگوں کے راہ راست پر آنے کا کوئی امکان نہیں ہے یا یہ مطلب ہے کہ ان کے جن اسلاف اور بزرگوں نے اللہ پر اس طرح کے جھوٹ گھڑ لیے تھے انہیں ہدایت یافتہ قرار دیا جا سکتا ہے؟ جو خود بھی گمراہ ہوئے اور آنے والی نسلوں کو بھی گمراہی کی راہ پر ڈال دیا۔ الانعام
141 [١٥٠] اس آیت اور اس سے اگلی آیت میں مشرکوں کو یہ تنبیہ کی جا رہی ہے کہ کھیتیاں اور مویشی جن کے متعلق تم نے احکام کی ایک طویل فہرست اختراع کر رکھی ہے ان کو پیدا کرنے والا تو اللہ تعالیٰ ہے پھر کیا یہ نمک حرامی نہیں کہ تم اللہ کے دیئے ہوئے رزق سے درباروں اور بتوں کے حصے نکالو اور اس میں بھی بتوں کے ہی حصوں کو تمہیں پورا کرنے کی فکر ہوتی ہے اور اللہ سے زیادہ تم انہیں سے ڈرتے ہو۔ کھیتی اور مویشی تو اللہ نے پیدا کیے مگر حلال و حرام کے اختیار تم نے خود سنبھال رکھے ہیں۔ [١٥١] اس میں درختوں، پھلوں اور کھیتی کے متعلق جو کچھ ذکر ہوا ہے ان میں سے ایک ایک بات پر غور کیا جائے تو ان سے اللہ کی معرفت حاصل ہو سکتی ہے۔ اور ایسے حقائق بیان کیے جا رہے ہیں جنہیں سب اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ [١٥٢] زکوٰۃ اللہ کا بندوں پر حق ہے :۔ اللہ کے حق سے مراد وہ صدقہ ہے جو اللہ کے نام پر اس فصل میں سے فقراء و مساکین وغیرہ کو دیا جائے کیونکہ یہ فصل اللہ نے ہی اپنے فضل سے پیدا کی ہے۔ اس مقام پر اس ''حق'' کی مقدار معین نہیں کی گئی اور اسے صدقہ دینے والوں کی مرضی پر چھوڑا گیا۔ یہ سورۃ مکی ہے جبکہ زکوٰۃ مدینہ میں فرض ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حق متعین فرما دیا کہ بارانی زمین سے زکوٰۃ پیداوار کا دسواں حصہ ہوگی اور آبپاشی والی زمین سے پیداوار کا بیسواں حصہ۔ نیز یہ بھی بتایا کہ کون کون سی پیداوار پر زکوٰۃ واجب ہے اور کتنی پیداوار ہو تو واجب ہے۔ اس سلسلہ میں درج ذیل امور کا لحاظ رکھا جائے گا۔ (١) پیداوار کی زکوٰۃ کے متعلق مسائل اور احادیث :۔ زرعی زکوٰۃ میں سال گزرنے کی شرط نہیں ہوتی۔ بلکہ جب فصل کاٹی جائے یا پھل توڑا جائے۔ اسی وقت زکوٰۃ واجب ہوگی جیسا کہ آیت مذکورہ سے واضح ہے۔ (٢) کھیتی اگر چشمہ یا بارانی پانی سے سیراب ہو تو اس میں عشر یا دسواں حصہ زکوٰۃ ہے اور اگر پانی مصنوعی طریقوں یعنی کنوئیں یا ٹیوب ویل یا نہروں سے دیا جا رہا ہو۔ جس پر محنت بھی ہو اور خرچ بھی تو اس میں نصف عشر یا بیسواں حصہ زکوٰۃ ہے۔ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ باب العشر فیما یسقی من ماء السماء والماء الجاری ) (٣) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں گندم، جو، منقیٰ (خشک انگور) اور کھجور سے زکوٰۃ لی جاتی تھی۔ مگر ہمارے یہاں اور بھی کئی اجناس بکثرت پیدا ہوتی ہیں۔ جیسے چاول، چنے، جوار، باجرہ، مکئی وغیرہ ان سب پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔ (٤) غلہ کی پیداوار اگر پانچ وسق یا ٩٤٨ کلو گرام سے کم پیدا ہو تو اس پر زکوٰۃ نہیں ہوگی، یہی غلہ کا نصاب ہے۔ اور اس قدر زکوٰۃ کو کاشتکار یا زمیندار کے گھر کا سالانہ خرچہ ہی تصور کیا جائے گا۔ ہاں اگر اس سے تھوڑی سے بھی زائد ہو تو ساری مقدار پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’پانچ وسق کھجور سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے اور پانچ اوقیہ چاندی (ساڑھے باون تولہ) سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے اور پانچ اونٹ سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب لیس فی مادون خمس ذود صدقۃ) (٥) عرب میں خشک پھلوں میں سے منقیٰ اور کھجور کا ذکر آیا ہے جبکہ ہمارے ہاں اور بھی بہت سے خشک پھل کثیر مقدار میں پیدا ہوتے ہیں۔ جیسے اخروٹ، بادام، خوبانی، مونگ پھلی، کشمش وغیرہ۔ یہ سب چیزیں جب حد نصاب کو پہنچ جائیں تو ان پر زکوٰۃ واجب ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ عرب میں گھوڑے بہت کم تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑوں کو زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار دیا۔ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب لیس علی المسلم فی فرسہ صدقۃ) مگر دور فاروقی میں جب ایران فتح ہوا جہاں گھوڑے بکثرت پائے جاتے تھے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے گھوڑوں پر زکوٰۃ عائد کردی اور انہیں گائے کے مثل قرار دیا۔ (٦) ایسی سبزیاں اور ترکاریاں جو جلد خراب نہیں ہوتیں مثلاً آلو، لہسن، ادرک، پیٹھا وغیرہ ان پر زرعی زکوٰۃ واجب ہوگی اور جو جلد خراب ہوجانے والی ہیں مثلاً کدو، ٹینڈا، کریلے، توریاں وغیرہ ان پر زرعی زکوٰۃ عائد نہیں ہوتی بلکہ سال کے بعد ان کے منافع پر تجارتی زکوٰۃ عائد ہوگی یعنی اڑھائی فیصد یا چالیسواں حصہ۔ (٧) حد نصاب پانچ وسق یا ٩٤٨ کلو گرام کا اطلاق صرف اس غلہ پر ہوگا جو عموماً اس ملک میں روزمرہ خوراک کا حصہ ہو اور کثیر مقدار میں پیدا کیا جاتا ہو۔ جیسے ہمارے ملک میں چاول، گندم اور چنے وغیرہ اور جو غلہ اس ملک کی خوراک کا حصہ نہ ہو اور کم پیدا ہوتا ہو یا کیا جاتا ہو۔ جیسے ہمارے ہاں جوار، باجرہ اور مکئی وغیرہ۔ ان میں حد نصاب شرط نہیں۔ جیسے دور نبوی میں کھجور اور منقیٰ بطور خوراک استعمال ہوتے تھے تو آپ نے ان چیزوں کو محل نصاب قرار دیا مگر ہمارے یہاں کوئی بھی پھل بطور خوراک استعمال نہیں ہوتا لہٰذا ان پر حد نصاب شرط نہ ہوگی۔ [١٥٣] اسراف کی صورتیں :۔ اسراف کے بھی کئی پہلو ہیں مثلاً ایک شخص فرض شدہ زکوٰۃ سے زیادہ دینا چاہتا ہے تو بلاشبہ یہ ایک بہت اچھا عمل اور نیکی کا کام ہے مگر اتنا بھی زیادہ نہ دے کہ خود محتاج ہوجائے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرما دی ہے کہ ’’افضل صدقہ وہ ہے جس کے بعد آدمی خود محتاج نہ ہوجائے۔‘‘ (مسلم۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب افضل الصدقہ عن ظھر غنی) اسراف کی دوسری شکل یہ ہے کہ کسی گناہ کے کام میں یا غیر ضروری کام میں خرچ کر دے۔ ایسے کاموں میں تھوڑا سا خرچ کرنا بھی گناہ ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اپنی ذات پر ضرورت سے زیادہ خرچ کرے۔ غرض اسراف کی جتنی صورتیں ہیں سب ناجائز ہیں۔ الانعام
142 [١٥٤] حمولہ کے معنی باربر دار جانور جیسے اونٹ، بیل، گھوڑا، گدھا وغیرہ اور فرشاً بمعنی پست قد جانور جیسے بھیڑ بکری وغیرہ۔ ان میں سے حلال جانوروں کا گوشت کھا بھی سکتے ہو۔ اور شیطان کے قدموں پر چلنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی حلت و حرمت اور ان کے کھانے یا نہ کھانے کے متعلق تم خود ہی اپنی طرف سے ضابطے نہ بنا ڈالو۔ جیسا کہ مشرکین مکہ کے بارے میں ایسی کئی صورتیں مذکور ہوچکی ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے حلال و حرام اور ان کے کھانے یا نہ کھانے پر پابندیاں عائد کرنے والے اور ایجاد کرنے والے سب لوگوں کو شیطان قرار دیا ہے اور ایسے لوگوں کی باتیں ماننے والوں کو شیطان کے پیروکار۔ الانعام
143 [١٥٥] اس آیت میں اور اس سے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان مشرکوں کی ان خود ساختہ پابندیوں کا عقلی طور پر محاسبہ کیا ہے تاکہ ان کی بات کی غیر معقولیت کھل کر سامنے آ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے آٹھ جوڑوں کا ذکر کیا یعنی کل جنسیں چار ہیں اور جوڑے آٹھ مثلاً بھیڑ اور مینڈھا، بکرا اور بکری، اونٹ اور اونٹنی اور گائے اور بیل۔ اور یہی جانور ہیں جو عرب میں پائے جاتے تھے۔ اب اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر سے فرمایا کہ ان مشرکوں سے پوچھو کہ یہ کیا بات ہوئی کہ ایک ہی جنس کا نر تو حلال ہو اور مادہ حرام ہو۔ یا مادہ حلال ہو اور نر حرام ہو یا جانور خود تو حلال ہو؟ مگر اس کے پیٹ سے نکلا ہوا بچہ زندہ ہو تو کسی پر حرام ہو اور کسی پر حلال اور مردہ ہو تو وہ سب کے لیے حلال ہو؟ یہ تو ایسی غیر معقول باتیں ہیں جنہیں عقل سلیم ماننے سے انکار کرتی ہے۔ پھر کیا اللہ ایسی لغو باتوں کا حکم دے سکتا ہے اور کیا تم ایسے غیر معقول احکام کسی آسمانی کتاب سے دکھا سکتے ہو؟ الانعام
144 [١٥٦] مشرکین کے حلت وحرمت کے عقائد کی عقلی ونقلی تردید :۔ یعنی کسی چیز کی تحقیق کے لیے شہادتیں ضروری ہیں اور یہ شہادت دو طرح کی ہوتی ہے ایک یقینی علم کی بنا پر شہادت، دوسرے آنکھوں دیکھی شہادت۔ اس سے پہلی آیت کے آخر میں ﴿نَبِّـــــُٔـوْنِیْ بِعِلْمٍ﴾ فرما کر علمی شہادت کی تردید فرمائی یعنی اللہ کی کسی کتاب سے یہ مشرک کوئی ایسی دلیل پیش نہیں کرسکتے جس سے ان کی حلت و حرمت کے متعلق خود ساختہ پابندیوں کا جواز معلوم ہوتا ہو اور اس آیت کے آخر میں یہ فرما کر کہ ’’کیا تم اس وقت موجود تھے جب اللہ نے ایسا حکم دیا تھا۔‘‘ عینی شہادت کی تردید فرما دی۔ مطلب یہ ہے کہ مشرکوں کے یہ توہمات اور اختراعات جو عقائد میں شامل ہوچکے ہیں ایسے لغو ہیں جنہیں کسی طرح بھی معقول یا منجانب اللہ ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ الانعام
145 [١٥٧] بنیادی طور پر کونسی اشیاء حرام ہیں؟ یہی مضمون سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ١٧٣ اور سورۃ مائدہ کی آیت نمبر ٣ میں گزر چکا ہے۔ ان سب مقامات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر چار ہی چیزیں ہیں جو حرام ہیں۔ (١) مردار (٢) خون (٣) خنزیر کا گوشت اور (٤) ہر وہ چیز جو اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کے نام پر مشہور کردی جائے۔ اس آیت میں یہ وضاحت مزید ہے کہ خون سے مراد وہ خون ہے جو ذبح کرتے وقت جانور کے جسم سے نکل جاتا ہے اور اگر کچھ تھوڑا بہت جسم میں رہ جائے تو وہ حرام نہیں اور سورۃ مائدہ کی آیت نمبر ٣ میں مردار کی بھی بعض صورتیں بیان ہوئی ہیں یعنی خواہ وہ مردار گلا گھٹ کر مرا ہو یا چھڑی کی ضرب سے یا بلندی سے گر کر یا سینگ کی ضرب سے مرا ہو۔ کچھ جانوروں اور پرندوں کی حرمت سنت نبوی سے ثابت ہے۔ (تفصیل محولہ بالا آیات میں دیکھئے) [١٥٨] دیکھئے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ١٧٣ کا حاشیہ۔ الانعام
146 [١٥٩] بنی اسرائیل پر حرام کردہ اشیاء:۔ حیوانی غذاؤں میں سے بنی اسرائیل پر حرام کردہ اشیاء کا بیان سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ٩٣ اور سورۃ نساء کی آیت نمبر ١٦٠ میں بھی بیان ہوا ہے۔ ان سب آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر یہی چیزیں، جو شریعت محمدی میں حرام ہیں بنی اسرائیل پر بھی حرام تھیں۔ سورۃ آل عمران میں فرمایا کہ ان بنیادی چیزوں کے علاوہ باقی تمام چیزیں بنی اسرائیل پر حلال تھیں۔ مگر وہ چیزیں جنہیں اسرائیل (سیدنا یعقوب علیہ السلام) نے خود اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔ اور تورات کے زمانہ نزول تک یہی صورت حال تھی۔ مگر بنی اسرائیل ان چیزوں کو بھی حرام ہی سمجھتے رہے جنہیں سیدنا یعقوب علیہ السلام نے اپنی بیماری یا طبیعت کی کراہت کی بنا پر اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔ تورات میں ان کی حرمت کا حکم موجود نہ تھا اور نہ ہی قرآن کے زمانہ نزول تک ایسا حکم تورات میں درج تھا۔ کیونکہ قرآن نے چیلنج کیا تھا کہ اگر تورات میں ان اشیاء کی حرمت کا ذکر موجود ہے تو تورات لا کر دکھا دو۔ لیکن یہود نے اس چیلنج کو قبول نہیں کیا تھا۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ دور کی متداول تورات میں اضافہ ہے جو زمانہ مابعد میں کسی وقت کیا گیا ہے۔ نیز اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان چار بنیادی چیزوں کے علاوہ کچھ اور چیزیں بھی یہود پر حرام کی گئیں یعنی ہر ناخن والا جانور یعنی جس کی انگلیاں پھٹی ہوئی نہ ہوں۔ جیسے اونٹ، شتر مرغ، بطخ یا ہر کھر والا جانور جیسے گورخر وغیرہ۔ اور گائے اور بکری کی چربی بھی ان پر حرام کی گئی تھی۔ اور یہ چیزیں گو بنیادی طور پر حرام نہ تھیں تاہم ان کی سرکشی کی پاداش میں حرام کی گئیں۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ اشیاء سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے بہت بعد کسی وقت حرام کی گئی تھیں۔ اور زمانہ نزول قرآن تک تو تورات میں ان چیزوں کی حرمت کا اضافہ نہیں کیا گیا تھا۔ بعد میں ایسی حرام چیزیں بھی تورات میں شامل کردی گئیں۔ الانعام
147 الانعام
148 [١٦٠] مشیت الہٰی اور رضائے الہٰی کا فرق :۔ انسان کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنی کوتاہی اور قصور کا اعتراف کرلینے کی بجائے اسے کسی دوسرے کے سر تھوپنے اور خود بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتا ہے یا اس کی کوئی اور ایسی وجہ تلاش کرتا ہے جس سے اس کے ذمہ کوئی الزام نہ آئے اور یہ صرف یہود ہی کی بات نہیں بلکہ ان سے پہلے لوگ بھی ایسا ہی جواب دیتے رہے جیسا کہ اسی آیت میں آگے ذکر ہو رہا ہے اور آئندہ بھی ایسا جواب دیتے رہیں گے۔ اور اس غرض کے لیے سب سے عمدہ بہانہ مشیت الٰہی کا ہوتا ہے حالانکہ مشیئت الٰہی کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہوسکتا۔ ممکن ہے مشیئت الٰہی میں یہ بات ہو کہ یہ مشرکین اسی طرح شرک میں پھنس کر اور اپنے آباؤ اجداد کی تقلید کر کے دنیا میں بھی عذاب کے مستحق قرار پائیں اور آخرت میں بھی۔ مشیئت الٰہی کو اپنے بچاؤ کے لیے ڈھال بنانے والے عموماً یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اللہ کی مشیئت اور اللہ کی رضا میں بہت فرق ہے۔ مثلاً اللہ کی رضا اس بات میں ہے کہ سب لوگ اس کے فرمانبردار بن جائیں اور کوئی شخص کفر و شرک یا ظلم و زیادتی کی راہ اختیار نہ کرے مگر اس کی مشیئت یہ ہے کہ اس دنیا میں لوگوں کا امتحان لیا جائے۔ اسی لیے اللہ نے انسان کو قوت تمیز اور قوت ارادہ و اختیار عطا کی، پھر اسے اسلام اور کفر و شرک اور نیکی اور بدی کی راہیں الگ الگ سمجھا دیں۔ پھر جو شخص اپنے ارادہ و اختیار سے اللہ کا فرمانبردار ہو اسے اس کا اچھا بدلہ ملے اور جو شخص کفر و شرک کی راہ اختیار کرے اسے اس کی سزا ملے۔ پھر ان دونوں گروہوں میں حق و باطل کا معرکہ بھی مشیئت الٰہی ہے کسی کا ہدایت قبول کرنا مشیئت الٰہی بھی ہے اور رضائے الٰہی بھی۔ اور کفر و شرک اختیار کرنا مشیئت الٰہی تو ہے مگر رضائے الٰہی ہرگز نہیں ہے۔ مشیت کو بہانہ بنانے والے :۔ لطف کی بات یہ ہے کہ انسان کو مشیئت الٰہی کی بات اس وقت یاد آتی ہے جب وہ اللہ کے حقوق کو پامال کر رہا ہو۔ لیکن جب اس کے اپنے حقوق تلف ہو رہے ہوں تو وہ کبھی مشیئت الٰہی کے عذر کو قبول نہیں کرتا مثلاً کسی کے گھر چوری ہو یا ڈاکہ پڑے تو وہ یہ کبھی نہ کہے گا کہ چونکہ مشیئت الٰہی ہی یہ تھی اس لیے چور یا ڈاکو کا کیا قصور ہے؟ لہٰذا اسے کچھ نہ کہنا چاہیے اسے اس وقت وہ اختیار یاد آ جاتا ہے جو مجرم نے جرم کرتے وقت استعمال کیا لہٰذا اسے مجرم اور خود اپنے آپ کو مظلوم سمجھتا ہے۔ حالانکہ مشیئت الٰہی کے اسی ضابطہ کے مطابق اسے اپنے آپ کو مظلوم بھی نہ سمجھنا چاہیے کیونکہ مشیئت الٰہی ہی ایسی تھی۔ مشیت الٰہی کا بہانہ اس وقت نہیں ہے جب جرم اپنا ہو :۔ مشیئت الٰہی کو بہانہ بنانے کی مثال اس واقعہ سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لائے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے درمیان بیٹھ کر بات چیت کرنے لگے۔ اس گفتگو کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا ’’کیا تم تہجد کی نماز کے لیے اٹھتے ہو؟‘‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا۔ یا رسول اللہ ! ہماری روحیں تو اللہ کے قبضہ میں ہوتی ہیں۔ اگر وہ واپس بھیج دے تو ہم نماز پڑھ لیں گے۔ اس جواب پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی رانوں پر ہاتھ مارتے جاتے تھے اور یہ آیت پڑھتے جاتے تھے ﴿وَکَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شَیْءٍ جَدَلًا ﴾ یعنی انسان اپنی اکثر باتوں میں جھگڑالو واقع ہوا ہے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) غور فرمائیے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مشیئت الٰہی کا سہارا لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اس قول کو غلط قرار نہیں دیا۔ بلکہ آپ کو افسوس اس بات پر ہوا کہ عمل کرنے کا اختیار انسان کو دیا گیا ہے۔ اسے وہ کیوں بھول گئے؟ [١٦١] یعنی انہیں مشرکانہ رسوم و رواج کے لیے تمہارے پاس کتاب الٰہی سے کوئی دلیل ہے۔ جن کا ذکر سابقہ آیات میں ہوچکا اور ظاہر ہے کہ جب کوئی علمی دلیل نہ ہو تو باقی صرف ظن و گمان ہی رہ جاتا ہے۔ الانعام
149 [١٦٢] یعنی اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر اتمام حجت کردی ہے اور اپنے رسول اور کتابیں بھیج کر تمام لوگوں کو نیکی اور بدی کی راہوں اور ان کے انجام سے پوری طرح مطلع کردیا ہے اور حلت و حرمت کے احکام بھی واضح کردیئے ہیں۔ [١٦٣] یہ مشرکوں کے اس عذر لنگ کا جواب ہے جو یہ ہے کہ فی الواقع اس کی مشیئت یہی ہے کہ تمہیں ہدایت نصیب نہ ہو لیکن یہ اس کی رضا نہیں۔ اور چونکہ اللہ اتمام حجت کرچکا ہے لہٰذا تمہیں تمہارے جرائم کی سزا ضرور دے گا۔ الانعام
150 [١٦٤] یہود سے شہادت طلب کرنے کی وجہ :۔ یہاں شہادت سے مراد یقین کی بنا پر شہادت ہے اور وہ یہ شہادت دیں کہ واقعی فلاں فلاں چیزیں اللہ نے فلاں فلاں کے لیے حرام یا حلال قرار دی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی شہادت وہ دے نہیں سکتے تھے۔ تاہم اگر کچھ لوگ ڈھیٹ بن کر جھوٹی شہادت دینے پر آمادہ ہو ہی جائیں تو آپ ان کے ہمنوا نہ بن جائیں۔ ان سے یہ شہادت اس لیے نہیں طلب کی جارہی کہ اگر وہ شہادت دیں تو آپ ان کی بات مان لیں بلکہ اس لیے طلب کی جا رہی ہے کہ جب وہ ایسی شہادت پیش نہ کرسکیں گے تو ممکن ہے کہ بعض صحیح عقل رکھنے والے لوگ ایسی مشرکانہ رسوم سے باز آ جائیں جو سراسر توہمات اور ظن و تخمین پر مبنی ہیں۔ اور اس قسم کی جھوٹی شہادت دینے پر ایسے لوگ ہی آمادہ ہو سکتے ہیں جنہیں آخرت کے دن پر اور اللہ کے حضور اپنے اعمال کی جواب دہی پر ایمان ہی نہ ہو۔ ایسے ہی لوگ اللہ کی آیات کو جھٹلاتے اور حلت و حرمت کے احکام اپنے ہاتھ میں لے کر اللہ کے ہمسر بنتے ہیں۔ الانعام
151 [١٦٥] یعنی تم نے جو اپنی خود ساختہ شریعت بنا رکھی ہے اور خواہ مخواہ اپنے آپ پر کئی طرح کی پابندیاں لگا رکھی ہیں ان کی تمہارے پاس کوئی علمی یا عقلی دلیل موجود نہیں۔ اب میں تمہیں بتاتا ہوں اور کتاب اللہ سے پڑھ کر سناتا ہوں کہ اللہ نے کیا کچھ تم پر حرام کیا ہے اور کیا کیا پابندیاں عائد کی ہیں جو انسان کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہیں اور ہمیشہ سے اللہ کی شریعت کا جزو رہی ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اس مقام پر اللہ نے جن جن احکام کا ذکر فرمایا ہے مشرکین اور یہود دونوں ان کی خلاف ورزیاں کیا کرتے تھے۔ [١٦٦] مشرکین مکہ میں شرک کی تمام قسمیں پائی جاتی تھیں :۔ سب سے پہلی اور سرفہرست بات یہ ہے کہ کسی کو بھی اللہ کا شریک نہ بناؤ۔ شرک کی تین بڑی اقسام ہیں (١) شرک فی الذات (٢) شرک فی الصفات اور (٣) شرک فی العبادات۔ اور یہ تینوں قسمیں ان مشرکوں اور یہودیوں میں موجود تھیں۔ مشرکین فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ پھر اپنے دیوی دیوتاؤں کی پوری نسل کو اللہ کی نسل بنا دیا تھا اور اس سے منسلک کر رکھا تھا۔ یہود عزیر علیہ السلام کو ابن اللہ کہتے تھے یعنی ان کے عقیدہ کے مطابق اللہ تعالیٰ عزیر علیہ السلام کے جسم میں حلول کر گیا تھا۔ شرک فی الصفات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرح کسی دوسری ہستی کو بھی حاجت روا اور مشکل کشا سمجھا جائے۔ یعنی جو کسی کی بگڑی بنا بھی سکتا ہو اور مشکلات میں پھنسا بھی سکتا ہو۔ اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ اس ہستی کو عالم الغیب اور حاضر و ناظر اور صاحب تصرف و اختیار بھی سمجھا جائے۔ شرک کی یہ قسم بھی ان لوگوں میں عام تھی۔ اور شرک فی العبادات یہ ہے کہ جس ہستی کو مشکل کشا یا حاجت روا سمجھتا ہو اسے فریاد کے طور پر پکارے اس کی قربانی اور نذر و نیاز دے اور ان کی پرستش و تعظیم اس طرح کرے جیسے اللہ تعالیٰ کی کی جاتی ہے۔ [١٦٧] والدین سے بہتر سلوک :۔ قرآن میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ کے حقوق کے فوراً بعد والدین سے بہتر سلوک کا ذکر آیا ہے اس مقام پر بھی، سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر ٢٣ میں بھی اور سورۃ لقمان کی آیت نمبر ١٤ میں بھی۔ وجہ یہ ہے کہ انسان کا حقیقتاً تربیت کنندہ اللہ تعالیٰ ہے جس نے انسانی جسم کی ضروریات پیدا کیں۔ ہوا اور پانی پیدا فرمایا پھر انسان کی تمام تر غذائی ضروریات کو زمین سے متعلق کردیا۔ پھر اس کے بعد ظاہراً انسان کی تربیت کے ذمہ دار اس کے والدین ہی ہوتے ہیں۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کی نافرمانی یا انہیں ستانے کو بڑے بڑے ہلاک کرنے والے گناہوں میں سے تیسرے نمبر پر شمار کیا ہے۔ (بخاری۔ کتاب الادب۔ بابعقوق الوالدین من الکبائر) والدین سے بہتر سلوک کے لیے دیکھئے سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر ٢٣، ٢٤ کے حواشی نمبر ٢٥ تا ٢٨) [١٦٨] قتل اولاد :۔ یعنی اگر خود تمہیں کھانے کو مل رہا ہے تو یقین رکھو کہ تمہاری اولاد کو بھی کھانے کو ملے گا اور وہ فاقہ سے مر نہیں جائیں گے۔ اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل کرنا صرف اللہ پر عدم توکل اور عدم اعتماد ہی کی دلیل نہیں بلکہ اس کی صفت رزاقیت پر براہ راست حملہ ہے جو مخلوق کو پیدا تو کیے جاتا ہے مگر اس کی تربیت کے لیے اس کی غذائی ضروریات فراہم نہیں کرتا۔ اسی لیے رسول اللہ نے اس گناہ کو بڑے بڑے گناہوں میں سے دوسرے نمبر پر شمار فرمایا ہے (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ باب ﴿فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَادً﴾) قتل اولاد اور مالتھس نظریہ آبادی :۔ بات دراصل یہ ہے کہ انسان کی نظر محض ان ظاہری اسباب و عوامل پر ہوتی ہے جو اس وقت موجود ہوتے ہیں اور وہ مخفی اسباب جو اس وقت غیر موجود یا آئندہ زمانہ میں پیدا ہونے والے ہوتے ہیں وہ اس کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں۔ ظاہر بین ماہرین معاشیات اس مسئلہ میں اکثر دھوکا کھا جاتے ہیں۔ برطانیہ کے مشہور ماہر معاشیات۔۔ مالتھس (١٧٦٦۔ ١٨٣٤ء) نے ١٧٩٨ء میں ایک کتاب ''اصول آبادی'' لکھ کر یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ انسانی آبادی جیومیٹری کے حساب یعنی ١۔ ٢۔ ٤۔ ٨۔ ١٦ کی نسبت سے بڑھ رہی ہے جبکہ وسائل پیداوار حساب کی نسبت یعنی ١۔ ٢۔ ٣۔ ٤۔ ٥ کی نسبت سے بڑھتے ہیں اور اپنے اس نظریہ کے مطابق برطانیہ کی موجود آبادی اور وسائل پیداوار کا حساب لگا کر یہ پیشین گوئی کی کہ اگر انسانی پیدائش اور وسائل پیداوار کی یہی صورت حال رہی تو برطانیہ پچاس سال کے اندر اندر افلاس کا شکار ہوجائے گا۔ اور اس کا علاج یہ تجویز کیا کہ انسانی پیدائش پر کنٹرول کیا جانا چاہیے اور شادی میں حتی الوسع تاخیر سے کام لینا چاہیے۔ لیکن تاریخ نے مالتھس کے اس نظریہ افلاس کو غلط ثابت کردیا۔ پیدائش پر کنٹرول نہ کرنے کے باوجود برطانیہ کی خوشحالی بڑھتی گئی۔ اس کی اصل وجہ تو وہی ہے جس کا ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جتنی خلقت پیدا کرتا ہے تو اس کے مطابق ان کے رزق کا بھی انتظام فرما دیتا ہے اور ظاہری سبب یہ بنا کہ برطانیہ میں صنعتی انقلاب آ گیا جس کے آغاز کا ذکر مالتھس نے خود بھی کیا ہے اور یہی وہ سبب تھا جو مالتھس کی نظروں سے اوجھل تھا مگر اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا چنانچہ بعد میں آنے والے معیشت دانوں نے مالتھس کو ''جھوٹا پیشین گو'' کے نام سے یاد کیا۔ کیونکہ برطانیہ اس صنعتی انقلاب کی وجہ سے پہلے سے بھی زیادہ خوشحال ہوگیا۔ مالتھس کا یہ سراسر مادی نظریہ ایک اور قباحت کو بھی اپنے ساتھ لایا اور یہ قباحت فحاشی اور بدکاری کی لعنت تھی جس کا اس آیت میں متصلاً ذکر ہوا ہے۔ مالتھس کے نزدیک برتھ کنٹرول یعنی حمل کو ادویات کے ذریعہ ضائع کردینے کا عمل وقت کی بہت بڑی ضرورت تھی۔ یہی بات عیاشی، فحاشی اور بدکاری کا بہت بڑا سبب بن گئی۔ مالتھس کے بعد ایک تحریک اٹھی جس کا بنیادی اصول یہ تھا کہ نفس کی خواہش یعنی شہوانی خواہش کو آزادی کے ساتھ پورا کیا جائے۔ مگر اس کے فطری نتیجہ یعنی اولاد کی پیدائش کو سائنٹیفک ذرائع سے روک دیا جائے۔ اس طبقہ کے لٹریچر میں جس طرز استدلال پر زور دیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ہر انسان کو فطری طور پر تین پرزور حاجتوں سے سابقہ پڑتا ہے اور وہ خوراک، آرام اور شہوت ہیں۔ اور تینوں باتوں کو پورا کرنے سے ہی انسان کو تسکین نصیب ہوتی ہے اور خاص لذت بھی۔ اب عقل اور منطق کا تقاضا یہ ہے کہ انسان ان کی تسکین کی طرف لپکے۔ پہلی دو باتوں کے متعلق تو انسان کا طرز عمل ہے بھی یہی لیکن عجیب بات یہ ہے کہ تیسری چیز کے معاملہ میں انسان کا طرز عمل یکسر مختلف ہے۔ اجتماعی اخلاق نے یہ پابندی عائد کر رکھی ہے کہ اس خواہش کو نکاح سے باہر پورا نہ کیا جائے اور مزید پابندی یہ کہ اولاد کی پیدائش کو نہ روکا جائے یہ پابندیاں سراسر لغو، عقل اور منطق کے خلاف اور انسانیت کے لیے بدترین نتائج پیدا کرنے والی ہیں۔ یہ نظریات لوگوں میں مقبول ہوئے تو بے حجابی، فحاشی اور بدکاری کا بے پناہ سیلاب آ گیا پھر لطف کی بات یہ کہ انہی باتوں کو تہذیب و ترقی کی علامت سمجھا جانے لگا۔ اور مغرب اور مغربی تہذیب سے مرعوب تمام ممالک نے ان نظریات کو اپنے اپنے ممالک میں درآمد کرنا شروع کردیا۔ تاکہ تہذیب و ترقی کی اس رفتار میں مغرب سے پیچھے نہ رہیں اور حد یہ کہ پردہ، عفت اور احکام الٰہیہ کا الٹا مذاق اڑایا جانے لگا اور آج یہ صورت حال ہے کہ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ اسی بے حجابی، بے حیائی، فحاشی اور بدکاری کو پھیلانے میں سرگرم عمل ہیں۔ خاندانی منصوبہ بندی :۔ دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی برتھ کنٹرول کا سرکاری محکمہ قائم ہوگیا اور اسے خوبصورت اور اچھے اچھے نام دیئے جانے لگے۔ پہلے اس محکمہ کا نام خاندانی منصوبہ بندی تجویز کیا گیا۔ پھر اسی محکمہ کا نام تبدیل کر کے محکمہ بہبود آبادی رکھ دیا گیا۔ لیکن چونکہ حمل کو ادویات کے ذریعہ روکنے کا عمل فطرت کے خلاف جنگ ہے لہٰذا اس کے نتائج توقعات کے خلاف نکلنا شروع ہوگئے۔ پہلے ایک آدمی کی اولاد اوسطاً چار بچے ہوتی تھی اور اب یہ اوسط ٨ بچے تک سمجھی جاتی ہے اور پاکستان میں یہ محکمہ قائم ہونے کے بعد پیدائش کی رفتار پہلے کی نسبت سے بہت زیادہ ہوگئی ہے اور اس کا دوسرا نتیجہ یہ نکلا کہ ایسی مانع حمل ادویات استعمال کرنے والی عورتیں طرح طرح کی خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہوجاتی ہیں۔ فطرت کے خلاف جنگ کے نتائج :۔ اب لوگوں کی معیشت کی طرف نظر کیجئے تو بھی حکومت کے خدشات لغو اور باطل ثابت ہوئے ہیں۔ پاکستان جب بنا تھا تو اس وقت اس کی آبادی پانچ اور چھ کروڑ کے درمیان تھی اور آج ٥١ سال بعد تیرہ کروڑ یعنی دو گنا سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔ اب ہر شخص اپنے ہی حالات پر نظر کر کے دیکھ لے کہ پاکستان بننے کے وقت اس کی معاشی حالت کیا تھی اور آج کیا ہے؟ آج ہر شخص اس وقت کی نسبت سے بہت زیادہ خوشحال ہے اور اس دوران اللہ تعالیٰ نے کئی زمینی خزانے پاکستان کو عطا فرمائے جن کا کسی کو وہم و گمان تک نہ تھا۔ ان چشم دید اور ہر شخص کے تجربہ میں آنے والے واقعات کے بعد اللہ تعالیٰ کی رزاقیت، اس کے وسعت علم اور اس کی قدرت کاملہ میں کوئی شک کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟ [١٦٩] یعنی ایسے وسائل بھی اختیار نہ کرو جو تمہیں بے حیائی کے کاموں کے قریب لے جائیں اور انسان کے جنسی جذبات میں تحریک پیدا کریں۔ جیسے بے حجابی۔ غیر محرم عورت کی طرف دیکھنا، تماش بینی، سینما، ٹی وی، جنسی لٹریچر کا مطالعہ، عورتوں کی تصاویر کی عام نشر و اشاعت سب کچھ اس ضمن میں آتا ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’آنکھوں کا زنا (غیر عورتوں کو دیکھنا ہے) کانوں کا زنا (فحاشی کی باتیں سننا ہے) زبان کا زنا (فحاشی کی بات چیت کرنا ہے) ہاتھ کا زنا (پکڑنا ہے) اور پاؤں کا زنا (چلنا ہے) دل کا زنا، اس کی خواہش اور تمنا کرنا ہے۔ پھر شرمگاہ، ان سب کی یا تو تصدیق کردیتی ہے۔ یا تکذیب۔‘‘ (مسلم۔ کتاب القدر۔ باب قدر علی ابن آدم حظہ الزنا) وغیرہ۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ سے بڑھ کر کوئی غیرت والا نہیں۔ اسی لیے تو اس نے بے حیائی کے تمام کاموں کو حرام کردیا۔‘‘ نیز سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اللہ کو سب سے زیادہ غیرت اس بات پر آتی ہے جب وہ اپنے کسی بندے یا بندی کو زنا کرتے دیکھتا ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب النکاح۔ باب الغیرۃ) [١٧٠] قتل بالحق کی صورتیں :۔ قرآن کی رو سے تین صورتوں میں قتل کرنا برحق اور جائز ہے۔ (١) قتل عمد کے قصاص کی صورت میں (٢) میدان میں کفار کا قتل (٣) بغاوت یعنی دیار اسلام میں بدامنی پھیلانے والے اور اسلامی حکومت کا تختہ الٹنے والے کا قتل۔ اور سنت کی رو سے دو صورتیں ہیں (١) شادی شدہ جو زنا کرے اور (٢) جو شخص ارتداد کا مرتکب ہو یعنی اسلام کو چھوڑ کر کوئی دوسرا مذہب اختیار کرلے۔ یہ کل پانچ صورتیں ہوئیں۔ ان کے علاوہ کسی بھی صورت میں کسی کو قتل کرنا قتل ناحق کہلاتا ہے۔ اور اس گناہ کو رسول اللہ نے سات بڑے ہلاک کرنے والے گناہوں میں سے تیسرے نمبر پر شمار کیا ہے (بخاری۔ کتاب المحاربین۔ باب رمی المحصنات) الانعام
152 [١٧١] یتیم کا مال کھانا :۔ یعنی اگر یتیم کا مال تمہاری تحویل میں ہے تو اسے صرف اس طریقے سے خرچ کرو جس میں یتیم کا بھلا اور بہتری ہو۔ اس سے کوئی اپنا ذاتی مفاد حاصل کرنے کی مطلق کوشش نہ کرو نہ ہی اس قسم کی بات دل میں سوچو یتیم کا مال اس کا ولی صرف اس صورت میں کھا سکتا ہے جبکہ وہ خود تنگ دست اور محتاج ہو اور اس صورت میں بھی وہ صرف معروف طریقے سے اس میں سے لے سکتا ہے جو کسی بھی فریق کے لیے قابل اعتراض نہ ہو۔ یتیم کا مال کھانے کی ممانعت قرآن کریم میں متعدد مقامات پر آئی ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گناہ کو سات بڑے بڑے ہلاک کردینے والے گناہوں میں سے پانچویں نمبر پر شمار کیا ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو۔‘‘ صحابہ نے پوچھا۔ ’’یا رسول اللہ ! وہ کون کون سے ہیں؟‘‘ فرمایا ’’اللہ سے شرک کرنا، جادو، ایسی جان کو ناحق کرنا جسے اللہ نے حرام کیا ہے، سود، یتیم کا مال کھانا، میدان جنگ سے بھاگنا اور بھولی بھالی پاکباز مومن عورتوں پر تہمت لگانا۔‘‘ (بخاری۔ کتاب المحاربین۔ باب رمی المحصنات) [١٧٢] ناپ تول میں کمی بیشی کے ذریعہ دوسروں کا مال کھانا اتنا بڑا جرم ہے کہ جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے سیدنا شعیب علیہ السلام کی قوم کو تباہ و برباد کر ڈالا تھا۔ قرآن کریم میں ایک سورۃ کا نام ہی المطففین ہے یعنی وہ لوگ جو ناپ تول کرتے وقت اپنا حق تو دوسروں سے زیادہ وصول کرتے ہیں اور دیتے وقت دوسروں کو ان کے اصل حق سے کم دیتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ایسے کام فریب کاری سے ہی ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ ایسا کام وہی لوگ کرسکتے ہیں جنہیں روز آخرت اور اللہ کے حضور باز پرس کا خوف نہ ہو۔ پھر ان کا انجام یہ بتایا کہ ایسے لوگوں کے لیے تباہی ہی تباہی ہے۔ [١٧٣] عدل وانصاف سے بات کہنا :۔ اگرچہ عام بات چیت میں بھی کسی کے متعلق بے انصافی کی بات کرنا جرم ہے لیکن اگر شہادت کی صورت میں ہو تو جرم عظیم بن جاتی ہے۔ چنانچہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے بڑے گناہوں کا ذکر کیا تو فرمایا : ’’بڑے گناہ یہ ہیں۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنا، ناحق خون کرنا اور والدین کو ستانا۔‘‘ پھر فرمایا ’’میں تمہیں سب سے بڑا گناہ نہ بتاؤں؟ وہ ہے قول الزور (یعنی ناانصافی کی بات، یا ایسی بات جس میں ہیرا پھیری سے جھوٹ کو سچ بنانے کی کوشش کی جائے) یا ایسی ہی جھوٹی شہادت۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب عقوق الوالدین من الکبائر) اور آیت کا مفہوم اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ جب بھی تم بات کرو تو انصاف کی کرو سچے کو سچا کہو اور جھوٹے کو جھوٹا۔ خواہ اس کی زد تمہاری اپنی ذات پر پڑتی ہو یا کسی قریبی سے قریبی رشتہ دار یا دوست پر۔ کوئی بات گول مول یا ہیرا پھیری سے بھی نہ کرو جس سے کسی دوسرے کی توہین کا پہلو نکلتا ہو یا اس کا کوئی حق تلف ہوتا ہو۔ یا اس سے متکلم کی ذات کو کسی قسم کا فائدہ پہنچتا ہو۔ [١٧٤] عہد کو بہرحال پورا کرنا فرض ہے خواہ یہ عہد انسان نے اللہ سے کیا ہو جیسے کوئی نذر یا منت ماننا یا اللہ کا نام لے کر دوسروں سے کیا ہو اور اس میں عقد نکاح اور بیوع بھی شامل ہیں۔ یا وہ عہد جسے عہد الست کہا جاتا ہے اور وہ انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ [١٧٥] یعنی اے مشرکین اور یہود! کرنے کا کام تو یہ نو قسم کے احکام ہیں جن کی علمی سند ہر کتاب اللہ میں موجود ہے۔ ان کا تو تم خیال نہیں رکھتے اور خلاف ورزیاں کیے جاتے ہو اور جن شرکیہ افعال کو تم بجا لا رہے ہو۔ وہ تمہارے اپنے ہی خود ساختہ ہیں جن کی کوئی علمی سند موجود نہیں۔ لہٰذا اگر ہدایت مطلوب ہے تو اپنی سابقہ روش چھوڑ کر یہ طریقہ اختیار کرنا ہوگا۔ واضح رہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو کوہ طور پر لکھی لکھائی تختیاں دی گئیں۔ ان میں دس احکام مذکور تھے جنہیں احکام عشرہ کہتے ہیں۔ یہ احکام بعد میں تورات میں شامل کردیئے گئے۔ ان دس احکام میں سے ایک حکم سبت کے دن کی تعظیم تھا۔ اگر اسے نکال دیا جائے تو باقی یہی نو احکام رہ جاتے ہیں جو ان آیات میں مذکور ہیں۔ یہود کو بالخصوص تنبیہہ کی جا رہی ہے کہ تمہارے لیے جو بنیادی احکام تھے ان میں سے ایک ایک حکم کی تم نے خلاف ورزی کی اور اس کی دھجیاں اڑا دیں اور ان کے بجائے ایسے کاموں میں لگ گئے ہو جن کا تمہاری کتاب میں کہیں اشارہ تک نہیں ملتا۔ الانعام
153 [١٧٦] سیدھی راہ اورغلط راہیں ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سیدھی لکیر کھینچی۔ پھر اس لکیر کے دائیں بائیں بہت سی لکیریں کھینچ دیں۔ اس کے بعد فرمایا کہ یہ سیدھی لکیر تو اللہ تعالیٰ کی راہ ہے اور دائیں اور بائیں جتنی لکیریں ہیں یہ شیطان کی راہیں ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت پڑھی (نسائی بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب الاعتصام الفصل الثانی) یعنی سیدھی راہ سے بھٹکتے ہی ادھر ادھر بے شمار پگڈنڈیاں سامنے آ جاتی ہیں۔ اللہ کی راہ چھوڑنے کے بعد کوئی ایک پگڈنڈی پر جا پڑتا ہے کوئی دوسری پر اور کوئی تیسری پر۔ اس طرح پوری نوع انسانی بھٹک کر پراگندہ ہوجاتی ہے اور نوع انسانی کے ارتقاء کا خواب بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہونے پاتا۔ اسی حقیقت کو اس فقرے میں بیان کیا گیا ہے۔ الانعام
154 [١٧٦۔ الف] اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آج کل بائیبل میں جو عہد نامہ عتیق پایا جاتا ہے اور جسے تورات سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ وہ تورات نہیں جو موسیٰ علیہ السلام پر نازل کی گئی تھی۔ کیونکہ وہ تورات تو دو بار گم ہوئی اور از سر نو لکھی جاتی رہی پھر اس میں الحاقی مضامین شامل ہوئے اور تحریف بھی ہوئی۔ اور جو تورات موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی اس میں نیک لوگوں کی ہدایت کے لیے کوئی کسر نہیں رہ گئی تھی۔ اخلاقی، تمدنی، معاشرتی اور معاشی احکام کے ہر لحاظ سے مکمل تھی اور اس کی نمایاں خوبی یہ تھی کہ اس سے آخرت پر ایمان پختہ ہوتا تھا۔ [١٧٧] آخرت پر ایمان رکنے اور نہ رکھنے اور نہ رکھنے والے کی زندگی کا تقابل :۔ پروردگار سے ملاقات سے مراد اللہ کے حضور اعمال کی جواب دہی کا تصور ہے۔ یہی وہ تصور ہے جو انسان کی زندگی کا رخ بدل سکتا ہے۔ ایک آخرت پر ایمان نہ رکھنے والے انسان کی زندگی نہایت آزادانہ، غیر ذمہ دار بلکہ وحشیانہ قسم کی بھی ہو سکتی ہے۔ یہ آخرت کی عنداللہ مسؤلیت ہی کا تصور ہے جو انسان کو اوامر الٰہی کی اطاعت اور نواہی سے اجتناب کا پابند بناتا اور دنیا میں انتہائی محتاط ذمہ دارانہ زندگی گزارنے کا پابند بناتا ہے یعنی بنی اسرائیل کو یہ کتاب اس لیے دی گئی تھی کہ اس کتاب کی حکیمانہ تعلیمات سے ان میں ذمہ داری کا احساس پیدا ہو اور آخرت پر ایمان رکھنے والے اور نہ رکھنے والے کی زندگیوں کا مشاہدہ انہیں انکار سے ایمان کی طرف کھینچ لائے۔ الانعام
155 [١٧٨] قرآن تورات سے یادہ بابرکت کیسے ہے؟ تورات کے مقابلہ میں قرآن کے زیادہ بابرکت ہونے کے بھی کئی پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ تورات صرف ایک قوم یعنی بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے نازل ہوئی تھی جبکہ قرآن سب لوگوں کے لئے ہے اور تمام اقوام عالم سے مخاطب ہے۔ دوسرے یہ کہ تورات ایک مخصوص زمانہ کے لئے تھی جبکہ قرآن قیامت تک کے لئے ہے۔ تیسرے وہ صرف قومی مسائل کا حل پیش کرنے والی تھی۔ یہ پوری انسانیت کے مسائل کا جواب دیتی ہے۔ پھر اس میں پہلی تمام آسمانی کتب و صحائف کے مضامین کو سمو دیا گیا ہے۔ لہٰذا اب تمہیں دائیں بائیں دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ اگر اللہ کی رحمت سے حظ وافر لینا چاہتے ہو تو اس کی اتباع کرو۔ اور اس بات سے اللہ سے ڈرتے رہو کہ اس کتاب کے کسی حصہ کی خلاف ورزی تم سے سرزد نہ ہو۔ الانعام
156 [١٧٩] قرآن کے نزول سے کفار مکہ پر اتمام حجت :۔ یہ خطاب کفار مکہ سے ہے یعنی ان کی طرف یہ کتاب دو وجہ سے نازل کی گئی ہے۔ ایک وجہ تو اتمام حجت ہے کہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ یہود و نصاریٰ کی طرف جو کتابیں اتاری گئی ہیں وہ تو انہی کے لیے تھیں، سب لوگوں کے لیے تو نہ تھیں کہ ہم بھی ان سے مستفید ہونے کی کوشش کرتے۔ اب جو کچھ اور جیسے وہ ان کتابوں کو پڑھتے پڑھاتے رہے اس کی ہمیں کیا خبر ہوسکتی ہے؟ اور دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ کتابیں تو عجمی زبانوں میں تھیں عربی میں نہیں تھیں لہٰذا ہم ان کتابوں کو کیسے پڑھ سکتے یا پڑھا سکتے تھے۔ اور دوسری وجہ جذبہ مسابقت ہے یعنی تمہاری طرف کتاب نازل نہ ہونے کی صورت میں تم یہ کہہ سکتے تھے کہ ہمارے دلوں میں یہ ولولہ اٹھ سکتا تھا کہ اگر ہمارے پاس اللہ کی کتاب آتی تو ہم دوسروں سے بڑھ کر اس پر عمل کر کے دکھا دیتے۔ سو اب جو کتاب تمہاری طرف نازل کی جا رہی ہے وہ کئی لحاظ سے تو تورات سے بہتر ہے اور اب تم اپنی مسابقت کا شوق پورا کرسکتے ہو۔ الانعام
157 [١٨٠] ایسی بابرکت اور عظیم الشان کتاب کے نزول کے بعد بھی اگر کوئی شخص اللہ کی آیات سے اعراض کرتا ہے تو یہ انتہائی بدبختی کی بات ہے اور ایسے اعراض کرنے والے یقیناً بدترین سزا کے مستحق ہیں۔ اس آیت میں خطاب کفار مکہ کو ہے لیکن جب ان کے اعراض اور اس کی سزا کا ذکر کیا تو خطاب کو عام کردیا تاکہ چڑ اور ضد نہ پیدا ہوجائے۔ الانعام
158 [١٨١] فرشتہ آئے یا پروردگار، عام انسان ان کے دیدار تک کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ایسی صورتوں میں اس پر فوراً موت واقع ہوجائے گی اور موت کے وقت کا ایمان قبول نہیں ہوتا اور اگر انسان کوئی ایسا حسی معجزہ دیکھ لے جو اسے ایمان لانے پر مجبور بنا دے تو ایسا جبری ایمان بھی قابل قبول نہیں کیونکہ ایسی صورتوں میں ایمان بالغیب رہتا ہی نہیں اور فائدہ ایمان بالغیب کا ہے۔ موجود اور آنکھوں دیکھی چیز پر تو سب ہی یقین رکھتے ہیں۔ جب حقیقت سے پردہ اٹھ گیا تو پھر ایمان کے کیا معنی؟ لہٰذا یقینی چیز یا کوئی یقینی علامت دیکھنے کے بعد اس پر ایمان لانے کا کچھ فائدہ نہیں جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے : ١۔ سورج کا مغرب سے طلوع ہونا :۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب تک سورج مغرب سے نہ طلوع ہو قیامت قائم نہ ہوگی۔ پھر جب لوگ سورج کو مغرب سے نکلتا دیکھ لیں گے تو سب کے سب ایمان لے آئیں گے۔ مگر اس وقت ایمان لانا کچھ فائدہ نہ دے گا۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی۔‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) ٢۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب تین چیزیں ظاہر ہوں گی تو کسی کا ایمان لانا فائدہ نہ دے گا۔ جو پہلے سے ایمان نہ لایا ہو۔ دجال اور دابۃ الارض اور سورج کا مغرب سے طلوع ہونا‘‘ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) اور موت کے وقت ایمان کے فائدہ نہ دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ نجات کا دار و مدار ایمان اور اعمال صالحہ دو باتوں پر ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر ایمان کے زبانی اقرار کی تصدیق تو اعمال صالحہ سے ہی ہو سکتی ہے۔ اور مرنے والے کو عمل کا وقت ہی نہیں ملتا لہٰذا مرتے وقت ایمان لانا کچھ فائدہ نہیں دیتا۔ الانعام
159 [١٨٢] تفرقہ بازی کی بنیاد حب جاہ ومال ہوتی ہے :۔ فرقہ بازی ایسی لعنت ہے کہ ملت کی وحدت کو پارہ پارہ کر کے رکھ دیتی ہے اور ایسی قوم کی ساکھ اور وقار دنیا کی نظروں سے گر جاتا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرقہ بندی کو عذاب ہی کی ایک قسم بتایا ہے اور دوسرے مقام پر فرقہ بازوں کو مشرکین کے لفظ سے ذکر کیا گیا ہے وجہ یہ ہے کہ کسی بھی مذہبی فرقہ کا آغاز کسی بدعی عقیدہ سے یا عمل سے ہوتا ہے۔ مثلاً کسی نبی یا رسول یا بزرگ اور ولی کو اس کے اصل مقام سے اٹھا کر اللہ تعالیٰ کی صفات میں شریک بنا دینا یا کسی کی شان کو بڑھا کر بیان کرنا یا کسی سے بغض و عناد رکھنا وغیرہ۔ یہی وہ غلو فی الدین ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے شدت سے منع فرمایا اور بدعی اعمال کا زیادہ تر تعلق سنت رسول سے ہوتا ہے۔ کسی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ترک کردینا یا کسی نئے کام کا ثواب کی نیت سے دین میں اضافہ کردینا وغیرہ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دین میں اس کام کی پہلے کمی رہ گئی تھی جو اب پوری کی جا رہی ہے۔ پھر یہ فرقہ بازیاں عموماً دو ہی قسم و کی ہوتی ہیں ایک مذہبی جیسے کسی مخصوص امام کی تقلید میں انتہا پسندی۔ یا کسی معمولی قسم کے اختلاف کو اہم اور اہم اختلاف کو معمولی بنا دینا۔ اور دوسرے سیاسی۔ جیسے علاقائی، قومی، لسانی اور لونی بنیادوں پر فرقہ بنانا۔ غرض جتنے بھی فرقے بنائے جاتے ہیں ان کی تہہ میں آپ کو دو ہی باتیں کارفرما نظر آئیں گی ایک حب مال اور دوسرے حب جاہ۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بھیڑوں کے کسی ریوڑ میں دو بھوکے بھیڑیئے اتنی تباہی نہیں مچاتے جتنا حب مال یا حب جاہ کسی کے ایمان کو برباد کرتے ہیں‘‘ (ترمذی بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب الرقاق الفصل الثانی) نیز حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جماعت المسلمین اور ان کے امام سے چمٹے رہنا۔‘‘ میں نے عرض کیا کہ ’’اگر جماعت نہ ہو اور امام بھی نہ ہو تو کیا کروں؟‘‘ فرمایا ’’تو پھر ان تمام فرقوں سے الگ رہنا خواہ تمہیں درختوں کی جڑیں ہی کیوں نہ چبانی پڑیں۔ یہاں تک کہ تمہیں اسی حالت میں موت آجائے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الفتن۔ باب کیف الا مر اذا لم تکن جماعۃ مسلم۔ کتاب الامارۃ باب وجوب ملازمۃ المسلمین عند ظھور الفتن) نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’میری امت بہتر فرقوں میں بٹ جائے گی جن میں سے ایک فرقہ نجات پائے گا باقی سب جہنمی ہوں گے۔‘‘ صحابہ نے پوچھا : وہ نجات پانے والا فرقہ کونسا ہوگا ؟ فرمایا ’’جو اس راہ پر چلے گا جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں۔‘‘ (ترمذی۔ کتاب الایمان۔ باب افتراق ھذہ الامۃ) الانعام
160 [١٨٣] یہ اللہ کا کتنا بڑا احسان اور رحمت ہے کہ نیکی کے بدلے میں صرف اتنی ہی نیکی کا اجر نہیں بلکہ اس سے بہت زیادہ اجر و ثواب دیتا ہے مگر برائی کا بدلہ اسی قدر ہی دیتا ہے جتنی برائی ہو۔ اس کی مزید وضاحت درج ذیل حدیث سے بھی ہوجاتی ہے۔ نیکی کا بدلہ دس گنا :۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور اس کا فرمانا سچ ہے کہ جب میرا بندہ نیکی کا ارادہ کرے تو (اے فرشتو!) اس کی ایک نیکی لکھ لو۔ پھر اگر وہ کرچکے تو اس کی دس نیکیاں لکھو۔ اور اگر وہ برائی کا ارادہ کرے تو کچھ بھی نہ لکھو۔ اور اگر کرچکے تو ایک ہی برائی لکھو۔ اور اگر نہ کرے تو اس کے لیے بھی ایک نیکی لکھ دو۔‘‘ پھر آپ نے یہی آیت پڑھی۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) اور بخاری میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے جو روایت ہے اس میں یوں ہے کہ جب کوئی شخص نیکی کا ارادہ کرنے کے بعد نیکی کرتا بھی ہے تو اللہ اسے دس سے لے کر سات سو تک نیکیاں عطا کرتا ہے۔ (بخاری۔ کتاب الرقاق۔ باب من ہم بحسنۃ اوسیئۃ ) الانعام
161 [١٨٤] اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ذکر اس لیے فرمایا کہ یہود و نصاریٰ اور مشرکین مکہ تینوں فریق انہیں اپنا پیشوا تسلیم کرتے تھے اور یہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام خالصتاً ایک اللہ ہی کی پرستش کرتے تھے۔ حتیٰ کہ مشرکین مکہ کو بھی یہ اعتراف تھا کہ ابراہیم علیہ السلام بت پرست نہیں تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میری سیدھی راہ یہی ہے اور اسی پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام گامزن تھے۔ لہٰذا تم لوگ اس دین میں الگ عقیدے گھڑ کر شامل نہ کرو، اور اس طرح الگ الگ فرقے نہ بنو۔ الانعام
162 [١٨٥] یہی توحید خالص کا نمونہ ہے جس پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام عمل پیرا تھے اور جس کا تقاضا یہ تھا کہ میری تمام بدنی عبادات بھی اللہ کے لیے ہیں اور مالی عبادات بھی۔ واضح رہے کہ نسک کا معنیٰ گو قربانی ہی کیا جاتا ہے مگر اس کے وسیع معنیٰ میں سب مالی عبادات مثلاً صدقہ، خیرات، نذر و نیاز اور منت وغیرہ سب کچھ اس میں آ جاتا ہے۔ پھر میرے جینے کا مقصد ہی شرک کو ختم کرنا اور اللہ کے کلمہ کو بلند کرنا ہے تاآنکہ اسی راہ میں مجھے موت آ جائے۔ الانعام
163 [١٨٦] ہر نبی پر یہ فرض ہوتا ہے کہ سب سے پہلے اپنی نبوت پر خود ایمان لائے اور وحی کی اتباع کرے اسی لحاظ سے رسول اللہ اپنی امت میں اول المسلمین ہیں۔ الانعام
164 [١٨٧] یعنی کائنات کی ہر چیز کا پروردگار تو اللہ ہے اور میں بھی کائنات کا ایک حصہ ہوں تو پھر میرا پروردگار کوئی دوسرا کیسے ہوسکتا ہے۔ کائنات کی ایک ایک چیز اللہ کے مقرر کردہ قوانین کے مطابق چل رہی ہے اور میں بھی اضطراری امور میں انہی مقررہ قوانین کا پابند ہوں۔ پھر جن باتوں میں مجھے تھوڑا بہت اختیار دیا گیا ہے میں کیوں نہ ان اختیارات کو اللہ کی مرضی کے تابع بنا دوں اور پوری کائنات سے الگ الٹی روش کیوں اختیار کروں؟ [١٨٨] یہ ناممکن ہے کہ کرے کوئی بھرے کوئی! مشرکین مکہ میں سے اکثر جو روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتے تھے وہ مسلمانوں سے کہتے تھے کہ ایسی توحید کو چھوڑ کر ہماری طرف آ جاؤ، اگر قیامت آئی بھی تو پھر تمہارے اس گناہ کا بوجھ ہم اٹھا لیں گے جیسا کہ سورۃ عنکبوت کی آیت نمبر ١٢ میں ذکر ہوا ہے۔ اس آیت میں مشرکوں کے اسی قول کا جواب دیا گیا ہے کہ ناممکن ہے کہ گناہ تو زید کرے اور اس کی سزا بکر بھگتے۔ ہر ایک سے اس کے اپنے اعمال کا محاسبہ ہوگا۔ پھر اسے ہی سزا دی جائے گی۔ [١٨٩] اس دن تم پر سب کچھ واضح ہوجائے گا کہ جن ہستیوں کو تم اللہ کا شریک سمجھ رہے تھے ان سے فریادیں کرتے اور مشکل کشائی کے لیے پکارتے تھے ان کی اللہ کے سامنے کیا حیثیت ہے اور جن اختلافات پر تم نے اپنے اپنے فرقوں کی بنیاد رکھی تھی سب کھل کر تمہارے سامنے آ جائیں گے۔ الانعام
165 [١٩٠] اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انسان دنیا میں اللہ کا خلیفہ ہے اسے کچھ اختیارات دیئے گئے ہیں تاکہ زمین پر خلافت الٰہیہ قائم کرے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انسان زمین میں اپنے سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کا خلیفہ ہے اور یہ بحث پہلے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٣٠ کے تحت گزر چکی ہے۔ [١٩١] انسان کا امتحان انہی چیزوں پر ہے جو اللہ نے اسے دے رکھی ہیں :۔ یعنی کوئی امیر ہے، کوئی غریب، کوئی عالم ہے کوئی جاہل، کوئی عقلمند ہے کوئی بے وقوف، کسی میں قوت کار کی استعداد زیادہ ہے کسی میں کم، جسمانی لحاظ سے کوئی مضبوط اور طاقتور ہے اور کوئی کمزور و نحیف۔ غرض اس دنیا میں انسانوں کے درجات میں تفاوت کے بے شمار پہلو ہیں۔ ان تفاوت درجات سے ہی دنیا کا نظام قائم رہ سکتا ہے اور اس دنیا میں ہر انسان کا امتحان اس کی اپنی استعداد کے مطابق ہی ہوتا ہے جو خوبی اللہ نے کسی کو دے رکھی ہے اسی میں اس کا امتحان ہوگا۔ [١٩٢] امیر کی آزمائش یہ ہے کہ وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے یا نہیں، دوسروں کے جو مالی حقوق اس پر عائد ہوتے ہیں وہ ادا کرتا ہے یا نہیں؟ اگر غریب ہے تو صبر و قناعت سے کام لیتا ہے یا جزع فزع شروع کردیتا ہے اور اس حال میں بھی اللہ کا شکر ادا کرتا ہے یا نہیں؟ اور عالم کیا باعمل بھی ہے یا نہیں اور اپنے علم سے کیا دوسروں کو مستفید کرتا ہے اور دوسروں کو بھی سکھاتا ہے یا نہیں؟ یعنی علم کی بنا پر اس پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں وہ ادا کرتا ہے یا نہیں؟ اگر کوئی حاکم ہے تو وہ اپنی رعایا سے کیسا سلوک کرتا ہے؟ اگر رعایا کا فرد ہے تو اپنے حکام کی کس قدر اطاعت کرتا ہے۔ غرض ہر انسان کا اس دنیا میں ایک خاص مقام ہے خواہ اس کا درجہ اونچا ہے یا نیچا اور اس مقام پر ہی اس کے حسب حال اس دنیا میں آزمائش ہو رہی ہے اگر وہ اس امتحان میں ناکام رہتا ہے تو اللہ جلد ہی اسے سزا دینے پر قدرت رکھتا ہے اور اگر وہ فرمانبردار ہے لیکن اس سے کو تاہیاں ہوگئی ہیں تو اللہ بخش دینے والا ہے اور اگر اس امتحان میں کامیاب رہا ہے تو اللہ اس کے حق میں بہت مہربان ہے۔ اسے دنیا میں بھی عزت بخشے گا اور آخرت میں بھی اپنے انعامات سے نوازے گا۔ یہ آیت اس سورۃ کا تتمہ ہے جس میں بنی نوع انسان پر یہ واضح کیا گیا ہے کہ اس کائنات میں اس کی کیا حیثیت ہے اور کس مقصد کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے۔ الانعام
0 [ ١] یہ سورۃ انعام سے پہلے مکہ میں نازل ہوئی البتہ اس میں آٹھ آیات ﴿ وَسْــــَٔـلْہُمْ عَنِ الْقَرْیَۃِ الَّتِیْ کَانَتْ حَاضِرَۃَ الْبَحْرِ ﴾ سے لے کر ﴿وَاِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَہُمْ کَاَنَّہٗ ظُلَّـۃٌ وَّظَنُّوْٓا اَنَّہٗ وَاقِعٌۢ بِہِمْ ۚ﴾ تک مدنی ہیں اور اس سورۂ کا نام اعراف اس لیے ہے کہ اس میں جنت اور دوزخ کے درمیانی مقام اعراف اور اصحاب اعراف کا ذکر آیا ہے۔ الاعراف
1 الاعراف
2 [ ٢] یہاں کتاب سے مراد یہی سورہ اعراف ہے اور قرآن میں جب کبھی سورۃ کے ابتداء میں کتاب کا لفظ آتا ہے تو اس کا معنی وہ سورت ہی ہوتا ہے گویا قرآن کریم کی ہر سورہ ایک مستقل کتاب ہے جو اپنی ذات، میں مکمل ہے اور قرآن ایسی ہی ایک سو چودہ کتابوں (یا سورتوں) کا مجموعہ ہے جیسا کہ سورۃ ’’البینہ‘‘ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ رَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰہِ یَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَہَّرَۃً 0 فِيهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ﴾ (البینہ: 2۔3) پھر لفظ کتاب کا اطلاق پورے قرآن پر بھی ہوتا ہے۔ [ ٣] جب کبھی کوئی سورۃ نازل ہوتی اور آپ لوگوں کو سناتے تو کافروں کی طرف سے ردّعمل یہ ہوتا کہ کبھی صاف انکار کردیتے کبھی مذاق اڑاتے، کبھی اعتراضات شروع کردیتے، کبھی کسی حِسی معجزہ کا مطالبہ شروع کردیتے۔ غرض یہ کہ ان کی طرف سے حوصلہ شکنی اور دل شکنی کی تمام صورتیں واقع ہوجاتیں مگر حوصلہ افزائی کی کوئی صورت نہ ہوتی اسی وجہ سے بعض دفعہ آپ کی طبیعت میں سخت انقباض اور گھٹن پیدا ہوجاتی اللہ تعالیٰ آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرماتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن لوگوں تک صرف پہنچا دیں اور انہیں ڈرائیں کفار سے جو ردعمل ہو رہا ہے یا وہ ہدایت قبول نہیں کرتے تو اس کے لیے آپ پریشان نہ ہوں اللہ خود ان سے نمٹ لے گا، البتہ اس قرآن کے سنانے کا ایک فائدہ تو یقینی ہے جو یہ ہے کہ جو لوگ ایمان لا چکے ہیں ان کے لیے یہ نصیحت بھی ہے اور یاد دہانی بھی جو ان کے ایمان کو مزید پختہ اور مضبوط بنا دے گی۔ اور یاد دہانی سے مراد عہد ﴿اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ﴾ ( الاعراف :172) کی یاددہانی ہے جو ہر انسان کے تحت الشعور میں موجود ہے اور کسی بھی خارجی داعیے سے اس کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ یہ قرآن اسی دبے ہوئے شعور کو بیدار کرتا اور اس عہد کی یاد تازہ کرتا ہے۔ الاعراف
3 [٤] ٭اسلام میں باہر سے کوئی نظریہ : یہاں اولیاء سے مراد پیشوا اور قائدین ہیں یعنی انسانی زندگی کے لیے جو قوانین اس کتاب میں مذکور ہیں آپ صرف انہیں کا اتباع کیجئے۔ آج بھی غیرمسلم قائدین سے مسلمانوں کو کسی طرح کے قواعد و احکام اسلام میں درآمد کرنے کی ضرورت نہیں رہی کہ وہ مسائل شرعیہ علمائے یہود سے پوچھیں، زہد اور رہبانیت کے لیے ہندی اور یونانی فلسفہ کے محتاج ہوں اپنا معاشی نظام لینن اور کارل مارکس سے حاصل کریں یا روس اور چین سے درآمد کریں۔ سیاسی نظام کے لیے امریکی جمہوریت کو اسلام کے اندر لا گھسائیں بلکہ انسانی زندگی کی ہر طرح کی ضرورت کے لیے انہیں یہ کتاب اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کافی ہے مگر آج کے مسلمان یہ بات ذرا کم ہی سوچتے ہیں۔ الاعراف
4 الاعراف
5 [٥] یعنی اللہ کی گرفت ہمیشہ اس وقت آتی ہے جب انسان اللہ کی تنبیہات سے بے نیاز ہو کر غفلت کی نیند سو جاتا ہے پھر جب اللہ کی گرفت یا اس کا عذاب واقع ہوجاتا ہے تو اس وقت یہ اعتراف کرنے لگتا ہے کہ یہ ہمارا ہی قصور تھا جو ہم غفلت میں پڑے رہے مگر وقت گزرنے کے بعد ایسا اعتراف کوئی فائدہ نہیں دیتا، بلکہ حسرت و یاس کا سبب بن جاتا ہے اللہ تعالیٰ فرما یہ رہے ہیں کہ تمہارے سامنے بیسیوں ایسی مثالیں موجود ہیں۔ پھر کیا یہ ضروری ہے کہ تم اسی وقت عبرت حاصل کرو جب تم خود عذاب میں گرفتار ہوجاؤ؟ آخر تم گزشتہ اقوام کے انجام سے کیوں عبرت حاصل نہیں کرتے؟ الاعراف
6 الاعراف
7 [٦] ٭انصاف کا تقاضا اور شہادت کی اہمیت : یعنی کسی قوم پر ایسا عذاب آنا اس کے جرائم کی مکمل سزا نہیں ہوتی بلکہ اس کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کسی عادی مجرم کو گرفتار کرلیا جائے تاکہ آئندہ اس کے ظلم سے لوگ محفوظ رہیں بالفاظ دیگر اس قوم کے مظالم دوسری اقوام کو بھی متاثر نہ کرنے لگیں۔ پھر ایسے مجرموں پر اللہ تعالیٰ کی عدالت میں باقاعدہ مقدمہ پیش ہوگا۔ ایک فریق تو رسول ہوں گے جو ان کی طرف بھیجے گئے تھے اور دوسرا فریق یہ مجرم قوم ہوگی، دونوں کی شہادتیں ہوں گی، رسول کی شہادت یہ ہوگی کہ یا اللہ میں نے اس قوم کو تیرا پیغام پہنچا دیا تھا۔ مگر چونکہ قوم کو سزا کا خوف ہوگا اس لیے اسے رسول کی شہادت کے خلاف شہادت دینے کے سوا کوئی چارہ کار نظر نہ آئے گا پھر اللہ تعالیٰ ان پر پوری حقیقت حال واضح فرمائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ سے تو کسی وقت بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں تھی مگر اللہ تعالیٰ کی اس وضاحت کے باوجود ان پر فرد جرم عائد نہیں کی جائے گی بلکہ ان کے ان اعضاء و جوارح کو اللہ تعالیٰ زبان عطا کریں گے جن سے اس جرم کے دوران کام لیے گئے تھے وہ ان مجرموں کے خلاف شہادت دیں گے پھر جب شہادت کے نصاب کی تکمیل ہوجائے گی تو اس وقت ان پر فرد جرم عائد ہوجائے گی اور انہیں سزا دی جائے گی جیسا کہ قرآن کی بعض دوسری آیات میں یہ وضاحت موجود ہے۔ مندرجہ بالا تصریحات سے ضمناً چند باتیں معلوم ہوتی ہیں ایک یہ کہ دنیا میں بے شمار مجرم ایسے ہیں جو ظلم و ستم کرتے رہتے ہیں مگر کسی قسم کی سزا پائے بغیر وہ اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کی صفت عدل کا تقاضا یہ ہے کہ ان مجرموں کو سزا ضرور ملنی چاہیے اور علی رؤس الشہادات ملنی چاہیے تاکہ کسی کو اس کے جرم کی سزا نہ زیادہ ملے اور نہ اس پر ظلم ہو اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ انسان کو ایک دوسری زندگی ملے جس میں ایسے تمام تر مقدمات کے فیصلے ہوں۔ ٭ فیصلہ کرنے کے لئے شہادت ضروری ہے : اور دوسری بات یہ مستنبط ہوتی ہے کہ قاضی محض اپنے علم کی بنا پر مقدمے کا فیصلہ نہیں دے سکتا بلکہ فیصلہ اور سزا شہادتوں کی بنا پر ہی دئیے جا سکتے ہیں اور اس کی دلیل یہ واقعہ ہے کہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مدینہ میں ایک فاحشہ عورت رہتی تھی لوگوں کی اس کے ہاں آمد و رفت کی وجہ سے اس کی فحاشی کھل کر سامنے آ چکی تھی اور زبان زد عام تھی اس کے متعلق ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اگر شہادتوں کا نصاب اور نظام نہ ہوتا تو میں اس عورت کو رجم کردیتا۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الطلاق۔ باب لوکنت راجما بغیربیّنۃ۔۔) الاعراف
8 الاعراف
9 [٧] ٭اعمال کا وزن حق کے ساتھ کیسے؟ آیت کے الفاظ یہ ہیں آیت ﴿وَالْوَزْنُ یَوْمَیِٕذِۨ الْحَقُّ﴾ (الاعراف :8) (یعنی اس دن وزن صرف حق یا حقیقت کا ہوگا) یعنی جتنی کسی عمل میں حقیقت ہوگی اتنا ہی وہ عمل وزنی ہوگا مثلاً ایک شخص اپنی نماز نہایت خلوص نیت سے اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اس کی رضامندی چاہتے ہوئے خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرتا ہے تو اس کا یہ عمل یقیناً اس شخص کی نماز سے بہت زیادہ وزنی ہوگا جس نے اپنی نماز بےدلی سے، سستی کے ساتھ اور دنیوی خیالات میں مستغرق رہ کر ادا کی اور جس عمل میں حق کا کچھ بھی حصہ نہ ہوگا اس کا وزن کیا ہی نہیں جائے گا، جیسے سورۃ کہف کی آیت نمبر ١٠٥ میں مذکور ہے کہ ’’جن لوگوں نے اپنے پروردگار کی آیات سے کفر کیا ہوگا ان کے لیے ہم میزان قائم ہی نہیں کریں گے۔‘‘ اور سورۃ فرقان کی آیت نمبر ٢٣ میں فرمایا کہ ’’ہم ایسے کافروں کے اعمال کی طرف پیش قدمی کریں گے تو انہیں اڑتا ہوا غبار بنا دیں گے‘‘ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ میزان عدل صرف ان لوگوں کے لیے قائم کی جائے گی جو ایمان لائے تھے اور ان کے اعمال اچھے اور برے، وزنی اور کم وزن والے ملے جلے ہوں گے۔ کافروں کے لیے ایسی میزان قائم کرنے کی ضرورت ہی نہ ہوگی اور ان الفاظ کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اعمال کا حق کے ساتھ وزن کیا جائے گا یعنی فلاں شخص کے فلاں عمل میں حقیقت کتنی تھی۔ اس بات کا فیصلہ بھی نہایت انصاف کے ساتھ کیا جائے گا۔ کتاب و سنت کی تصریحات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اعمال کی میزان (ترازو) ایسی ہی ہوگی جیسی ہمارے استعمال میں آتی ہے، اس کے دو پلڑے ہوں گے ایک میں نیکیاں رکھی جائیں گی اور دوسرے میں برائیاں۔ اس ترازو کی زبان بھی ہوگی زبان سے مراد ترازو کے اوپر کے ڈنڈے کے درمیان میں لگی ہوئی وہ سوئی ہے جو خفیف سے خفیف فرق کو بھی ظاہر کردیتی ہے اور یہ باتیں صرف ہمارے سمجھانے کے لیے کافی سمجھی گئی ہیں باقی اس کی صحیح کیفیت کیا ہوگی؟ یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ بعض علماء کا قول یہ ہے کہ اس دنیا میں تو اعمال اعراض کی شکل میں ہوتے ہیں لیکن اس دن اعمال کو مجسم کیا جائے گا اور جس عمل میں جس قدر حق ہوگا اسے اتنا ہی بڑا جسم والا اور وزنی بنایا جائے گا پھر انہیں اس ترازو میں تولا جائے گا۔۔ واللہ اعلم بالصواب۔ الاعراف
10 [٨] یعنی انسان پر اللہ تعالیٰ کے انعامات اس قدر زیادہ ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی بھی ایک کم کردیا جائے مثلاً ہوا کا وجود ہی ختم ہوجائے یا دھوپ کبھی نہ نکلے تو اس دنیا میں اس کا جینا محال ہوجائے ان احسانات کا بدلہ تو یہ ہونا چاہیے کہ انسان اللہ کے شکر گزار بندے بن جاتے مگر ایسا خیال کم ہی لوگوں کو آتا ہے۔ الاعراف
11 [٩]٭ تخلیق آدم اور نظریہ ارتقاء : اس آیت سے جو یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا آدم علیہ السلام کو فرشتوں کے سجدہ کرنے کے حکم سے پہلے ہی انسانوں کی تخلیق ہوچکی تھی اور شکل و صورت بھی بنا دی گئی تھی تو اس سے مراد یہ ہے کہ اس وقت سیدنا آدم علیہ السلام کی پشت سے قیامت تک پیدا ہونے والی اولاد کی ارواح پیدا کی گئی تھیں اور ان روحوں کو وہی صورت عطا کی گئی تھی جو اس دنیا میں آنے کے بعد اس روح کے جسم کی ہوگی اور انہیں ارواح ہی سے اللہ تعالیٰ نے عہد آیت ﴿اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ﴾(الاعراف :172) لیا تھا۔ جسم میں روح کی یا روح کے جسم میں موجود ہونے کی مثال یوں دی جاتی ہے جیسے زیتون کے درخت میں روغن زیتون یا کوئلہ میں آگ یا جلنے والی گیس۔ اور بعض دوسرے علماء کا قول یہ ہے کہ سیدنا آدم علیہ السلام کو اپنی تمام اولاد کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے یہاں ''کم '' کی ضمیر بطور جمع مذکر مخاطب استعمال ہوئی ہے یعنی اس وقت صرف سیدنا آدم علیہ السلام کو بنا کر پھر اسے صورت عطا کر کے فرشتوں کو یہ حکم دیا تھا۔ اس مقام پر یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ مسلمانوں میں بھی کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو ڈارون کے نظریہ ارتقاء کے قائل ہیں اور انسان کو اسی ارتقائی سلسلہ کی آخری کڑی قرار دیتے ہیں وہ اسی آیت سے اپنے نظریہ کے حق میں استدلال کرتے ہیں اور ثابت یہ کرنا چاہتے ہیں کہ آیت مذکورہ میں جمع کا صیغہ اس بات کی دلیل ہے کہ آدم سے پہلے بنی نوع انسان موجود تھی کیونکہ آدم (علیہ السلام) کو ملائکہ کے سجدہ کا ذکر بعد میں ہوا ہے۔ نیز اسی سورۃ کی اگلی آیات (١١ سے ٢٥ تک) کی طرف توجہ دلاتے ہیں جہاں کہیں تو آدم (علیہ السلام) اور اس کی بیوی کے لیے تثنیہ کا صیغہ آیا ہے لیکن اکثر مقامات پر جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ اس کا ایک جواب تو اوپر دیا جا چکا ہے کہ آدم (علیہ السلام) کے سجدہ کرنے سے پیشتر ارواح کی تخلیق کی گئی۔ انہیں صورتیں دی گئیں اور انہی سے وعدۂ الست لیا گیا تھا اور یہ بات قرآن کریم سے ثابت ہے اور ان حضرات کے لیے دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر وہ سورۃ اعراف کی ان آیات کے ساتھ سورۃ بقرہ کی آیات نمبر ٣٠ تا ٣٦ دوبارہ ملاحظہ فرما لیں تو اس تثنیہ کے صیغہ کی حقیقت از خود معلوم ہوجائے گی۔ نیز اس مقام پر ابتداء میں دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام موجود انسانوں کو مخاطب کیا گیا ہے کہ ’’اپنے پروردگار کی طرف سے نازل شدہ وحی کی اتباع کرو۔‘‘ پھر آگے چل کر آدم (علیہ السلام)، آپ کی بیوی اور ابلیس وغیرہ کا قصہ مذکور ہے، تو قرآن میں حسب موقع و محل صیغوں کا استعمال ہوا ہے ان آیات کے مخاطب آدم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد ہے نہ کہ آدم (علیہ السلام) اور اس کی بیوی کے آباؤ اجداد یا بھائی بند۔ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے کے بعد اللہ نے فرشتوں سے اسے سجدہ کروایا پھر اس سے حوا علیہا السلام کو پیدا کیا پھر انہیں جنت میں آباد کیا۔ اگر آدم سلسلہ ارتقاء کے نتیجہ میں پیدا ہوئے تھے تو اس وقت ان کے آباؤ اجداد یا بھائی بند کہاں تھے؟ اب چونکہ اس مسئلہ ارتقاء کے قائلین کی بحث چھڑ ہی گئی ہے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دوسرے قرآنی دلائل کا بھی جائزہ لے لیا جائے تاکہ حقیقت نکھر کر سامنے آ جائے۔ ٭ دوسری دلیل اور اس کا جواب : ان حضرات کی دوسری دلیل سورۃ نساء کی پہلی آیت ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’لوگو! اپنے اس پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کیا پھر اس سے اس کا جوڑا بنایا۔ پھر ان دونوں سے کثیر مرد اور عورتیں (پیدا کر کے روئے زمین پر) پھیلائے۔‘‘ (النساء: 1) یہ آیت اپنے مطلب میں صاف ہے کہ نفس واحدہ سے مراد آدم علیہ السلام اور ان کے زوج سے مراد ان کی بیوی حوا (علیہا السلام) ہے مگر ہمارے یہ دوست نفس واحدہ سے مراد پہلا جرثومہ حیات لیتے ہیں جو سمندر کے کنارے کائی سے پیدا ہوا تھا۔ اس جرثومہ حیات کے متعلق نظریہ یہ ہے کہ وہ کٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا پھر ان میں سے ہر ایک ٹکڑا بڑا ہو کر پھر کٹ کر دو دو ٹکڑے ہوتا گیا اس طرح زندگی میں وسعت پیدا ہوتی گئی جو جمادات سے نباتات، نباتات سے حیوانات اور حیوانات سے انسان تک پہنچی ہے۔ یہ دلیل اس لحاظ سے غلط ہے کہ آیت ﴿خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَہَا﴾ ( النسآء :1) کے الفاظ اس بات کی دلیل ہیں کہ اس جوڑے سے آئندہ نسل توالد و تناسل کے ذریعہ سے چلی تھی جبکہ جرثومہ حیات کی صورت یہ نہیں ہوتی آج بھی جراثیم کی پیدائش و افزائش اسی طرح ہوتی ہے کہ ایک جرثومہ کٹ کر دو حصے بن جاتا ہے اسی طرح افزائش تو ہوتی چلی جاتی ہے مگر ان میں توالد و تناسل کا سلسلہ نہیں ہوتا لہذا وہ ایک جرثومہ کے دو ٹکڑے تو کہلا سکتے ہیں زوج نہیں کہلا سکتے۔ ٭ تیسری دلیل اور اس کا جواب : ان حضرات کی تیسری دلیل سورۃ علق کی دوسری آیت ہے کہ ’’اللہ نے انسان کو علق سے پیدا کیا۔‘‘ (العلق : ٤) علق کے لغوی معنی جما ہوا خون یا خون کی پھٹکی بھی ہے اور جونک بھی۔ ہمارے یہ دوست اس سے دوسرے معنی مراد لیتے ہیں اور اسے رحم مادر کی کیفیت قرار نہیں دیتے بلکہ اس سے ارتقائی زندگی کے سفر کا وہ دور مراد لیتے ہیں جب جونک کی قسم کے جانور وجود میں آئے تھے اور کہتے ہیں کہ انسان بھی جانداروں کی ارتقائی شکل ہے۔ اس اشکال کو کہ آیا یہ رحم مادر کا قصہ ہے یا ارتقائی زندگی کے سفر کی داستان ہے سورۃ مومنوں کی آیت ١٤ دور کردیتی ہے جو یہ ہے۔ ’’پھر ہم نے نطفہ سے علقۃ (لوتھڑا، جما ہوا خون، خون کی پھٹکی) بنایا پھر لوتھڑے سے بوٹی بنائی پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں پھر ان ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر اس انسان کو نئی صورت میں بنا دیا تو اللہ سب سے بہتر بنانے والا بڑا بابرکت ہے۔‘‘ (المؤمنون : ١٤) انسان کی پیدائش کے یہ تدریجی مراحل صاف بتلا رہے ہیں کہ یہ رحم مادر میں ہونے والے تغیرات ہیں کیونکہ ارتقائے زندگی کے مراحل ان پر منطبق نہیں ہوتے۔ نیز یہ بھی کہ قرآن کریم نے علق سے مراد جما ہوا خون ہی لیا ہے۔ اس سے ارتقائی مراحل کی جونک مراد نہیں۔ اب ہم اپنی طرف سے نظریہ ارتقاء کے ابطال پر چند دلائل پیش کرتے ہیں : پہلی دلیل مراحل تخلیق : قرآن نے آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کے جو سات مراحل بیان فرمائے ہیں وہ درج ذیل ہیں :۔ (١) تراب بمعنی خشک مٹی (٤٠ : ١٧)۔ (٢) ارض بمعنی عام مٹی یا زمین (٧١ : ١٧) (٣) طین بمعنی گیلی مٹی یا گارا (٦ : ٢)۔ (٤)﴿ طِیْنٍ لَّازِب﴾ (٣٧ : ١١)۔ (٥) آیت ﴿حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ ﴾ ( الحجر :26) بمعنی بدبودار کیچڑ (١٥ : ١٦)۔ (٦) صلصال بمعنی ٹھیکرا، حرارت سے پکائی ہوئی مٹی (١٥ : ١٦)۔ (٧) آیت ﴿صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ﴾ 55۔ الرحمن :14) یعنی ٹن سے بجنے والی ٹھیکری (٥٥ : ١٤) یہ ساتوں مراحل بس جمادات ہی میں پورے ہوجاتے ہیں۔ مٹی میں پانی کی آمیزش ضرور ہوئی لیکن بعد میں وہ بھی پوری طرح خشک کردیا گیا۔ غور فرمائیے اللہ تعالیٰ نے تخلیق انسان کے جو سات مراحل بیان فرمائے ہیں وہ سب کے سب ایک ہی نوع (جمادات) سے متعلق ہیں ان میں کہیں نباتات اور حیوانات کا ذکر آیا ہے؟ اگر انسان کی تخلیق نباتات اور حیوانات کے راستے سے ہوتی تو ان کا بھی کہیں تو ذکر ہونا چاہیے تھا۔ سیدنا آدم علیہ السلام کی تخلیق میں دو باتیں خصوصی نوعیت رکھتی ہیں ایک یہ کہ سیدنا آدم علیہ السلام کا پتلا اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے بنایا اور قرآن کے الفاظ آیت ﴿لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ ﴾ (ص :75) اس کا ثبوت ہیں اور دوسرے پتلا تیار ہوجانے کے بعد اس میں اللہ تعالیٰ کا اپنے روح سے پھونکنا، جس کی وجہ سے انسان میں قوت ارادہ و اختیار اور قوت تمیز و عقل پیدا ہوئی جو دوسرے کسی جاندار میں نہیں ہے ہمارے یہ دوست عموماً اللہ تعالیٰ کے ہاتھ سے مراد دست قدرت یا قوت لے لیا کرتے ہیں مگر سوچنے کی بات تو صرف یہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز کو اللہ تعالیٰ نے اپنے دست قدرت اور قوت ہی سے پیدا کیا ہے پھر صرف آدم (علیہ السلام) کی تخلیق سے متعلق خصوصی ذکر کی کیا ضرورت تھی کہ میں نے اسے اپنے ہاتھ سے بنایا۔ دوسرے انسان میں جو قوت ارادہ و اختیار ہے وہ تسلسل ارتقاء کی صورت میں کب اور کیسے پیدا ہوگئی؟ ٩ ہجری میں نجران کے عیسائی مدینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مناظرہ کرنے آئے۔ موضوع الوہیت مسیح تھا۔ ان کا طرز استدلال یہ تھا کہ جب تم مسلمان خود تسلیم کرتے ہو کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا باپ نہیں تھا اور یہ بھی تسلیم کرتے ہو کہ وہ مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے تو بتاؤ کہ اگر وہ اللہ کے بیٹے نہ تھے تو ان کا باپ کون تھا ؟ اس دوران یہ آیت نازل ہوئی : ’’ اللہ کے نزدیک عیسیٰ (علیہ السلام) کی مثال آدم (علیہ السلام) کی سی ہے آدم (علیہ السلام) کو اللہ نے مٹی سے پیدا کیا پھر اس سے کہا کہ ہوجا تو آدم ایک جیتا جاگتا انسان بن گیا۔ ‘‘ (٣ : ٥٩) یعنی عیسائیوں کو جواب یہ دیا گیا کہ اگر باپ کا نہ ہونا الوہیت کی دلیل بن سکتا ہے تو پھر آدم الوہیت کے زیادہ حق دار ہیں کیونکہ ان کی باپ کے علاوہ ماں بھی نہ تھی مگر انہیں تم اللہ یا اللہ کا بیٹا نہیں کہتے تو عیسیٰ (علیہ السلام) کیسے اللہ یا اس کا بیٹا ہو سکتے ہیں؟ الوہیت مسیح کی تردید میں یہ دلیل اللہ تعالیٰ نے اس لیے دی تھی کہ عیسیٰ علیہ السلام کے بن باپ پیدا ہونے میں عیسائی اور مسلمان دونوں متفق تھے لیکن آج مسلمانوں کا ایک طبقہ تو ایسا ہے جو معجزات کا منکر ہے وہ آدم (علیہ السلام) کی بغیر ماں باپ پیدائش کو تو تسلیم کرتا ہے مگر عیسیٰ (علیہ السلام) کی بن باپ پیدائش کو تسلیم نہیں کرتا۔ دوسرا فرقہ قرآنی مفکرین کا وہ ہے جو ارتقائی نظریہ کے قائل ہونے کی وجہ سے آدم (علیہ السلام) کی بھی بن باپ پیدائش کے قائل نہیں۔ مندرجہ بالا آیت میں ان فرقوں کا رد موجود ہے وہ یوں کہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کو آدم (علیہ السلام) کی پیدائش کے مثل قرار دیا ہے، جس کی ممکنہ صورتیں یہ ہو سکتی ہیں۔ ١۔ دونوں کی پیدائش مٹی سے ہے یہ توجیہ اس لیے غلط ہے کہ تمام بنی نوع انسان کی پیدائش مٹی سے ہوئی اس میں آدم (علیہ السلام) و عیسیٰ (علیہ السلام) کی کوئی خصوصیت نہیں۔ ٢۔ دونوں کی پیدائش ماں باپ کے ذریعہ سے ہوئی یہ توجیہ بھی غلط ہے کیونکہ انسان کی پیدائش کے لیے یہ عام دستور ہے آدم (علیہ السلام) و عیسیٰ (علیہ السلام) کی اس میں کوئی خصوصیت نہیں کہ اللہ صرف ان دونوں کی پیدائش کو ایک دوسرے کی مثل قرار دیتے۔ لامحالہ دونوں کی پیدائش غیر فطری طریق سے ہوئی۔ ٣۔ اب تیسری صورت صرف یہ باقی رہ جاتی ہے کہ دونوں کے باپ کا نہ ہونا تسلیم کیا جائے اور یہی ان دونوں میں مثلیت کا پہلو نکل سکتا ہے جس میں دوسرے انسان شامل نہیں گویا یہ آیت بھی نظریہ ارتقاء کو باطل قرار دیتی ہے (نظریہ ارتقاء کی مزید تفصیلات کے لیے سورۃ حجر کی آیت نمبر ٣٩ کا حاشیہ نمبر ١٩ اور اس کے علاوہ میری تصنیف ’’عقل پرستی اور انکار معجزات‘‘ ملاحظہ فرمائیے۔ [ ١٠] ابلیس کی حقیت سمجھنے کے لیے دیکھیے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٣٤ کا حاشیہ نمبر ٤٧) الاعراف
12 [١١]٭ آگ اور مٹی کے خواص کا تقابل : ابلیس کا گمان یہ تھا کہ آگ مٹی سے افضل ہے کیونکہ آگ لطیف ہوتی ہے اور مٹی کثیف۔ آگ نیچے سے اوپر کو اٹھتی ہے اور مٹی اوپر سے نیچے کو گرتی ہے آگ اپنی شکل اور رنگ بدل سکتی ہے مگر مٹی میں بغیر محنت شاقہ کے یہ صفت نہیں پائی جاتی اس ظاہری برتری کے بعد اگر نتیجہ دیکھیں تو آگ ہر چیز کو جلا کر فنا کردیتی ہے جبکہ مٹی سے نباتات یا ہر قسم کے پھل، غلے اور درخت پیدا ہوتے ہیں آگ کی طبیعت میں سرکشی ہے، مٹی کی طبیعت میں انکسار اور تواضع ہے۔ اسی آگ کی فطرت کی بنا پر ابلیس نے اللہ کی نافرمانی کی اور تکبر کی راہ اختیار کی اور راندہ درگاہ الٰہی بن گیا اور آدم علیہ السلام سے اللہ کی نافرمانی ہوگئی تو اس نے گناہ کی معافی مانگ لی اور اللہ کے مقرب بن گئے۔ بعض علماء نے آگ اور مٹی کا تقابل کر کے انہیں وجوہ کی بنا پر مٹی کو آگ سے افضل قرار دیا ہے۔ الاعراف
13 [١٢] حقیقتاً ابلیس کے تین قصور تھے ایک اللہ کے حکم کو نہ مانا، دوسرے فرشتوں کی جس جماعت میں وہ رہتا تھا سجدہ کرتے وقت وہ اس جماعت سے الگ ہوا تیسرے اس نافرمانی پر نادم ہونے کی بجائے تکبر کیا، خود کو بڑا سمجھا اور سیدنا آدم علیہ السلام کو حقیر سمجھا، لہذا اس پر اللہ کی لعنت و پھٹکار ہوئی اور ذلیل و خوار ہوا اور یہ لعنت و پھٹکار ہمیشہ کے لیے اس کا مقدر ہوگئی۔ الاعراف
14 الاعراف
15 [١٣] ٭ابلیس کے عزائم : شیطان چونکہ سیدنا آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے راندہ درگاہ الٰہی ہوا تھا اس لیے وہ سیدنا آدم علیہ السلام کا دشمن بن گیا اس نے اپنے کسی قصور کا احساس نہ کیا اور ان گناہوں کی سزا کا اصل سبب سیدنا آدم علیہ السلام کو قرار دیا اور قیامت تک اللہ سے مہلت بھی مانگی اور آدم (علیہ السلام) اور اس کی اولاد کو بہکانے اور ورغلانے کا اختیار بھی مانگا تو اللہ نے اسے یہ اختیار دے دیا۔ اس عرصے میں سیدنا آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کو بہکا کر اور گمراہ کر کے یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ آدمی فی الواقع خلافت ارضی کا اہل نہیں ہے اور میں نے جو اسے سجدہ نہیں کیا تو اس معاملہ میں میں ہی راہ راست پر تھا۔ الاعراف
16 [١٤] ٭ابلیس کا اللہ تعالیٰ پر الزام : ابلیس نے مزید جرم یہ کیا کہ اپنی اس نافرمانی اور گمراہی کا الزام اللہ تعالیٰ پر لگا دیا اور کہا کہ تو نے مجھے ایسی مخلوق کو سجدہ کرنے کا حکم دیا جو مجھ سے فروتر تھی اس سے میرے نفس کی غیرت اور پندار کو ٹھیس پہنچی اور تو نے مجھے ایسی آزمائش میں ڈال دیا کہ میں تیری نافرمانی پر مجبور ہوگیا اور چونکہ میری گمراہی کا ذریعہ آدم (علیہ السلام) بنا ہے لہذا اب میں جس طرح بھی مجھ سے بن پڑا اسے اور اس کی اولاد کو ہر حیلے بہانے گمراہ کر کے چھوڑوں گا اور تجھے معلوم ہوجائے گا کہ میں آدم اور اس کی اولاد کی اکثریت کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہوجاؤں گا تھوڑے ہی بندے ایسے رہ جائیں گے جو تیرے فرمانبردار اور شکر گزار ہوں گے۔ الاعراف
17 الاعراف
18 [١٥] یہ سب گفتگو شیطان کے سیدنا آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے کے موقعہ پر ہوئی۔ ابلیس کی اس گستاخانہ گفتگو کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسے جنت سے نکل جانے کا حکم دے دیا اور فرمایا کہ جنت میں تیرے جیسے متکبر، سرکش اور نافرمان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اور ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ آدم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے جو تیرے بھرے میں آ جائیں گے وہ سب جہنم میں تیرے ساتھی ہوں گے۔ الاعراف
19 [١٦] ابلیس کو تو اللہ تعالیٰ نے جنت سے نکال دیا اور آدم (علیہ السلام) کے بعد اس کی بیوی کو پیدا کر کے ان دونوں سے فرمایا کہ یہ جنت تمہارا مسکن ہے یہاں سے جو چا ہو اور جتنا چاہو کھاؤ پیو البتہ اس ایک درخت کے قریب بھی نہ پھٹکنا۔ یہ درخت کون سا تھا ؟ اس کی صراحت نہیں کی گئی اور نہ اس کی ضرورت ہی تھی۔ اس حکم سے مقصود صرف آدم و حوا علیہما السلام کی آزمائش تھی کہ وہ کہاں تک اللہ کا یہ حکم بجا لاتے ہیں اور شیطان جو اپنی چھاتی پر ہاتھ مار کر کہتا ہے کہ میں آدم (علیہ السلام) اور اس کی اولاد کو گمراہ کر کے چھوڑوں گا کیا یہ اس کی چالوں میں آتے ہیں یا نہیں؟ الاعراف
20 الاعراف
21 [١٧] ٭شیطان کے انسان کو گمراہ کرنے کے طریقے : ان دو آیات میں شیطان کے انسان کو گمراہ کرنے کے طریق کار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس طریق کا آغاز شیطان کا انسان کے دل میں وسوسہ پیدا کرنے سے ہوتا ہے اور وسوسہ سے مراد ہر وہ خیال ہے جس پر عمل کرنا کسی امر الٰہی کی نافرمانی پر منتج ہوتا ہو یعنی انسان کو گمراہ کرنے کے لیے شیطان کا پہلا حملہ اس کے خیالات پر ہوتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شیطان انسان کی رگوں میں یوں دوڑتا ہے جیسے انسان کا خون دوڑتا ہے (بخاری۔ کتاب بدء الخلق۔ باب صفۃ ابلیس و جنودہ) (٢) شیطان انسان کو کبھی کوئی برا راستہ دکھا کر گمراہ نہیں کرتا، نہ کرسکتا ہے بلکہ ہمیشہ اسے سبز باغ دکھا کر گمراہ کرتا ہے۔ مثلاً اگر یہ کام کرو گے تو تمہاری حالت موجودہ حالت سے بدرجہا بہترین ہو سکتی ہے اور فلاں کام کرنے سے تمہارے کاروبار میں خاصی ترقی ہو سکتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ سیدنا آدم و حوا (علیہما السلام) کو بھی اس نے ایسے ہی سبز باغ دکھائے کہ اگر تم اس درخت کو کھالو گے تو پھر فرشتوں کی طرح یا فرشتے بن جاؤ گے تو پھر تمہارا اس جنت سے نکلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا۔ (٣) ابلیس یا اس کے چیلے چانٹے سبز باغ ہی نہیں دکھاتے بلکہ طرح طرح کے دلائل اس کے دل میں ڈال کر اسے یہ یقین دہانی کرا دیتے ہیں کہ جو راہ اس نے دکھائی وہ فی الواقع اس کے لیے بہتری اور اس کی خیر خواہی کی راہ ہے اس میں اس کا اپنا کچھ مفاد نہیں اور اس یقین دہانی کے لیے اگر اسے قسمیں بھی کھانا پڑیں تو کھائے جاتا ہے۔ (٤) شیطان کا سب سے پہلا ہدف انسان کے صنفی یا جنسی اعضاء ہوتے ہیں انسان کو گمراہ کرنے کی سب سے آسان صورت یہ ہوتی ہے کہ فحاشی کے دروازے کھول دے اور جنسی معاملات میں اسے بے راہ رو بنا دے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان میں فطری طور پر جو شرم و حیا کا جذبہ رکھ دیا ہے اس جذبہ کو کمزور تر بنا دے ابلیس اور اس کے چیلوں چانٹوں کی یہ روش آج تک جوں کی توں قائم ہے ایسے لوگوں کے نزدیک تہذیب و تمدن کی ترقی کا کوئی کام شروع ہی نہیں ہوسکتا جب تک وہ عورت کو بے حیا بنا کر بازار میں نہ لا کھڑا کریں اور اختلاط مرد و زن کی ساری راہیں کھول نہ دیں۔ عورت کے گھر میں رہ کر بچوں کی دیکھ بھال کو ان لوگوں نے عورت کے لیے قید خانے کا نام دے رکھا ہے اور پردے کو ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہیں اور یہ سب کچھ شیطان کی سکھائی ہوئی چالیں ہیں۔ اور یہ خیال کہ شیطان نے پہلے حوا( علیہا السلام) کو گمراہ کیا اور پھر حوا (علیہا السلام) کے کہنے پر سیدنا آدم علیہ السلام نے بھی اس درخت کا پھل کھالیا ، غالباً اسرائیلیات سے لیا گیا ہے کتاب و سنت میں اس کی کوئی صراحت نہیں ملتی۔ قرآن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ شیطان نے دونوں سے وعدے وعید کیے اور دونوں اس کے چکمے میں آ گئے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ نے اس درخت کے قریب جانے سے سیدنا آدم علیہ السلام و حوا کو منع کردیا تھا تو پھر وہ کیسے شیطان کے دام میں پھنس گئے تو اس کا جواب یہ ہے کہ مدتوں گزر چکی تھیں کہ آدم و حوا دونوں عیش و آرام سے جنت میں رہ رہے تھے اور انہیں اس درخت کے پاس آنے کا کبھی خیال ہی نہ آیا تھا۔ حتیٰ کہ اللہ کا یہ حکم انہیں بھول ہی گیا تھا اس وقت شیطان کو اس نافرمانی پر اکسانے کا موقع مل گیا۔ جیسا کہ قرآن کریم کی اس آیت سے واضح ہے آیت ﴿فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا ﴾ ( طہ :115) ’’پھر آدم علیہ السلام اللہ کا حکم بھول گئے اور ہم نے اس میں نافرمانی کا کوئی ارادہ نہ پایا۔‘‘ الاعراف
22 [١٨] یعنی یہ نہیں ہوا کہ ادھر شیطان نے ان دونوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالا اور سبز باغ دکھائے تو فوراً سیدنا آدم وحوا (علیہما السلام) اس درخت کا پھل کھانے کو تیار ہوگئے بلکہ وہ مدتوں ان باتوں کی یقین دہانی کراتا رہا کہ اگر تم نے یہ پھل کھالیا تو تم فی الواقع انسانیت سے ترقی کر کے فرشتوں کے درجہ پر پہنچ جاؤ گے۔ اس دوران وہ قسمیں بھی کھاتا رہا تاآنکہ وہ انہیں اس نافرمانی پر اکسانے کی کوشش میں کامیاب ہوگیا۔ [ ١٩] ٭حیا اور مقامات ستر کو ڈھانپنا انسانی فطرت میں داخل ہے : اس کا مطلب یہ ہے کہ شرم و حیا کا جذبہ اور اپنے مقامات ستر کو ڈھانپ کر رکھنا عورت اور مرد دونوں کی فطرت کے اندر داخل ہے پھل کھانے کی وجہ سے جب سیدنا آدم علیہ السلام و حوا (علیہ السلام) کا جنتی لباس چھن گیا تو سب سے پہلی فکر جو انہیں دامن گیر ہوئی وہ یہ تھی کہ اپنے مقامات ستر کو چھپائیں اور فوری طور پر کچھ نہ ملا تو جنت کے درختوں کے پتوں ہی کو ایک دوسرے پر یا اپنے بدن پر چسپاں کر کے اپنی شرمگاہوں کو چھپا دیا۔ اس آیت سے ان ’’محققین‘‘ کے بیان کی تردید ہوجاتی ہے جو انسانی تہذیب و تمدن کی داستان لکھنے بیٹھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ انسان ابتداء ننگا رہا کرتا تھا اور مدتوں بعد اس نے لباس تیار کیا اور بدن ڈھانپنا سیکھا اور یہ وہی محققین ہیں جو انسان کو حیوان ہی کی ترقی یافتہ شکل قرار دیتے ہیں اور چونکہ حیوان اپنے مقامات ستر نہیں ڈھانپتے اس لیے انہوں نے سمجھ لیا کہ انسان بھی ابتداء ایسا ہی تھا۔ قرآن ان سب باتوں کی پر زور تردید کرتا ہے، وہ انسان کو ایک مستقل اور الگ مخلوق کی حیثیت دیتا ہے جو آدم (علیہ السلام) سے شروع ہوئی اور آدم (علیہ السلام) کا پتلا اللہ نے اپنے ہاتھ سے بنایا، پھر اسے سنوارا اور بہت اچھی شکل و صورت بنائی، پھر اس میں اپنی روح میں سے پھونک کر اسے باقی مخلوق سے افضل و برتر بنا دیا، پھر سیدنا آدم علیہ السلام کو نبوت عطا فرمائی لہٰذا وہ خالص موحد تھے جبکہ ہمارے ان محققین کا انسان ابتداء مظاہر پرست تھا وجہ یہ ہے کہ ان محققین کا سارا انحصار ظن و تخمین پر ہے۔ جب کہ وحی الٰہی ہمیں حقیقی علم عطا کرتی ہے۔ الاعراف
23 [٢٠] ٭ابلیس وآدم (علیہ السلام) کے خصائل کا فرق :۔ ان آیات سے شیطان اور آدم (علیہ السلام) کی سرشت کا فرق معلوم ہوجاتا ہے جو یہ ہے کہ (١) ابلیس نے اللہ کی نافرمانی عمداً کی جبکہ آدم علیہ السلام سے بھول کر ہوئی۔ (٢) ابلیس سے باز پرس ہوئی تو اس نے اعتراف کرنے کی بجائے تکبر کیا اور اکڑ بیٹھا اور آدم (علیہ السلام) سے ہوئی تو انہوں نے اعتراف کیا اور اللہ کے حضور توبہ کی۔ (٣) ابلیس نے اپنی نافرمانی اور گمراہی کا الزام اللہ کے ذمے لگا دیا جبکہ آدم علیہ السلام نے یہ اعتراف کیا کہ واقعی یہ قصور ہمارا ہی تھا۔ (٤) ابلیس انہی جرائم کی وجہ سے بارگاہ الٰہی سے ہمیشہ کے لیے ملعون اور راندہ ہوا قرار دیا گیا اور آدم (علیہ السلام) اپنی غلطی کے اعتراف اور توبہ کی وجہ سے مقرب بارگاہ الٰہی بن گئے اور انہیں نبوت عطا ہوئی۔ الاعراف
24 [٢١] ٭ابلیس و آدم (علیہ السلام) کی ایک دوسرے سے دشمنی کی وجہ : ابلیس آدم علیہ السلام کا اس لیے دشمن بن گیا کہ اس کی آزمائش کا جس میں وہ سخت ناکام رہا سبب آدم علیہ السلام بنے تھے اور آدم (علیہ السلام) اس لیے ابلیس کے دشمن بنے کہ اس نے مکر و فریب سے سبز باغ دکھا کر اور جھوٹی قسمیں کھا کر آدم علیہ السلام کو اللہ کی نافرمانی پر آمادہ کر ہی لیا چنانچہ ان دونوں کو جنت سے نکال کر زمین میں لا بسایا گیا کیونکہ جنت ایسی محاذ آرائی کی جگہ نہیں ہے ایسی محاذ آرائی کے لیے زمین ہی موزوں تھی مناسب یہی تھا کہ حق و باطل کے سب معرکے زمین ہی پر واقع ہوں اس طرح اللہ کی وہ مشیت خود بخود پوری ہوگئی جس کے لیے اس نے انسان کو پیدا کیا تھا۔ یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے جس میں اکثر لوگ مبتلا ہوجاتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ اگر اللہ کی مشیت ہی یہی تھی کہ آدم و حوا اور ان کی اولاد زمین میں آباد ہو اور شیطان ان کا دشمن بن کر آدم (علیہ السلام) اور اولاد آدم کو گمراہ کرتا رہے اور ان کے درمیان محاذ آرائی کا عمل جاری رہے اور اس طرح اس دنیا کو بنی آدم کے لیے دارالامتحان بنایا جائے تو پھر آخر اس قصہ آدم و ابلیس میں ابلیس کا یا آدم (علیہ السلام) کا قصور ہی کیا تھا ہونا تو وہی تھا جو اللہ کی مشیت میں تھا۔ پھر آدم و ابلیس اللہ کی نافرمانی کے مورد الزام کیوں ٹھہرائے گئے؟ ٭اللہ کی مشیت اور تقدیر کا مسئلہ : اس طرح کے سوالات قرآن کریم میں اور بھی متعدد مقامات پر پیدا ہوتے ہیں جیسے اسی سورۃ میں ایک مقام پر فرمایا کہ ’’ہم نے جنوں اور انسانوں کی اکثریت کو جہنم کے لیے پیدا کیا ہے۔‘‘ (٧ : ١٧٩) یہاں بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب جنوں اور انسانوں کی اکثریت کو پیدا ہی جہنم کے لیے کیا گیا ہے تو پھر اس میں جنوں اور انسانوں کا کیا قصور ہے؟ اسی طرح احادیث صحیحہ میں بھی یہ مضمون بکثرت وارد ہے مثلاً جب شکم مادر میں روح پھونکی جاتی ہے تو ساتھ ہی فرشتہ یہ بھی لکھ دیتا ہے کہ یہ شخص جنتی ہوگا یا جہنمی۔ اور ایسے مقامات کتاب و سنت میں بے شمار ہیں۔ جہاں انسان یہ سوچتا ہے کہ ہم تو قدرت کے ہاتھ میں محض کھلونے ہیں مشیت تو اللہ کی پوری ہوتی ہے پھر ہمیں سزا کیوں ملے گی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ کو کسی چیز کے نتیجہ کے متعلق پیشگی علم ہونا یا اس کا علم غیب کسی انسان کو اس بات پر مجبور یا اس کا پابند نہیں بناتا کہ وہ وہی کچھ کرے جو اللہ کے علم یا اس کی مشیت یا تقدیر میں لکھا ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو کچھ انسان اپنے پورے ارادہ و اختیار سے کرنے والا ہوتا ہے اس کا اللہ کو پہلے سے علم ہوتا ہے اس بات کو ہم یہاں ایک مثال سے سمجھائیں گے۔ ایک بادشاہ اپنی مہمات میں اکثر اپنے درباری نجومی سے مشورہ لیا کرتا تھا نجومی اسے سیاروں کی چال کے زائچے تیار کر کے امور غیب سے مطلع کردیتا نجومی کی یہ خبریں کبھی درست ثابت ہوتیں اور کبھی کوئی خبر غلط بھی ثابت ہوجاتی۔ ایک دفعہ بادشاہ اس نجومی سے خفا ہوگیا اور وہ اس نجومی کو کسی بہانے سزا دینے کے متعلق سوچنے لگا اسے یک دم ایک خیال آیا اور اس نے ایک ایسا کمرہ بنانے کا حکم دیا جس کے چاروں طرف دروازے ہوں جب ایسا کمرہ تیار ہوگیا تو اس نے اس نجومی کو بلا کر کہا : میں اس کمرے میں داخل ہونے والا ہوں تم حساب لگا کر بتاؤ کہ میں اس کمرے کے کون سی سمت والے دروازے سے باہر نکلوں گا۔ نجومی کو بھی بادشاہ کی خفگی کا علم تھا وہ سمجھتا تھا کہ یہ سوال در اصل اس کی زندگی اور موت کا سوال ہے۔ چنانچہ اس نے کہا کہ سوال کا جواب تو میں دے دوں گا لیکن میری شرط یہ ہے کہ میں اس سوال کا جواب لکھ کر آپ کے کسی معتمد علیہ وزیر کے پاس سربمہر کر کے امانت رکھ دیتا ہوں آپ یہ جواب اس وقت دیکھیں جب آپ کمرہ سے باہر نکل آئیں۔ بادشاہ نے اس شرط کو منظور کرلیا نجومی نے سوال کا جواب لکھ کر سربمہر کر کے وزیر کے حوالے کردیا تو بادشاہ نے اپنے معمار کو بلا کر کہا کہ میں اس کمرہ میں داخل ہوتا ہوں اس کے چاروں دروازے مقفل کردینا اور مجھے چھت پھاڑ کر اور سیڑھی لگا کر اوپر سے نکال لانا۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ باہر آ کر بادشاہ نے نجومی کا جواب طلب کیا جو سب کے سامنے پڑھا گیا اس میں لکھا تھا کہ بادشاہ کسی بھی دروازے سے نہیں بلکہ چھت پھاڑ کر باہر نکلے گا بادشاہ یہ جواب سن کر دم بخود رہ گیا اور نجومی اس کے عتاب سے بچ گیا۔ اب دیکھئے کہ نجومی کی پہلے سے لکھی ہوئی تحریر نے بادشاہ کو ہرگز اس بات پر مجبور نہیں کیا کہ چھت پھاڑ کر باہر نکلے بلکہ وہ اس کام میں مکمل طور پر آزاد اور بااختیار تھا بالکل یہی صورت ان مسائل کی ہے جن کا اوپر ذکر ہوا ہے انسان جو کچھ کرتا ہے مکمل طور پر اپنے ارادہ و اختیار سے کرتا ہے اسی بناء پر اسے جزا و سزا ملے گی۔ رہی پیشگی لکھنے یا مشیت یا تقدیر کی بات تو یہ چیز اسے مجبور سمجھنے پر دلیل نہیں بن سکتی بلکہ یہ بات تو اللہ کے علم کی وسعت کی دلیل ہے۔ الاعراف
25 [٢٢] ٭شیطان سیرت اور حق پرست انسانوں کا تقابل : یعنی اس زمین پر ابلیس کی اولاد میں اور آدم کی اولاد میں یہ محاذ آرائی قیامت تک جاری رہے گی جب کہ پہلی بار صور پھونکا جائے گا۔ اس محاذ آرائی یا حق و باطل کے معرکے میں شیطان کے پیروکاروں کی بالکل وہی صفات ہوں گی جن کی ابلیس نے نمائندگی کی تھی یعنی وہ حق سے انحراف کریں گے اللہ کی نافرمانی کریں گے۔ تنبیہ ہونے پر اپنے گناہوں کے اعتراف کی بجائے مزید سرکشی اختیار کریں گے پھر خود ہی سرکشی نہ کریں گے بلکہ اوروں کو مکر و فریب اور جھوٹے وعدوں سے گمراہ کرنے کی کوشش کریں گے اور ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے کوئی عذاب نازل ہوا تو دوسروں کو مورد الزام ٹھہرائیں گے اب ان کے مقابلہ میں حق پرستوں کے اوصاف بھی وہی ہوں گے جن کی نمائندگی سیدنا آدم علیہ السلام نے کی۔ یعنی اصل کے لحاظ سے وہ اللہ کے فرمانبردار ہوں گے اگر غلطیاں ان سے ہوں گی تو کسی شیطانی انگیخت کی بنا پر نادانستہ ہوں گی انہیں اپنی اس غلطی کا جلد ہی احساس ہوجائے گا تو وہ اس غلطی کو اپنا ہی قصور تسلیم کریں گے اور اللہ کے حضور توبہ کریں گے۔ الاعراف
26 [٢٣] ٭لباس کے اخلاقی اور طبعی فوائد اور لباس کا بنیادی مقصد : لباس کو نازل کرنے سے مراد یہ ہے کہ آدم علیہ السلام کو فوری طور پر الہام کیا گیا کہ وہ اپنی شرمگاہوں کو ڈھانپیں اور ممکن ہے اس سے مراد شرم و حیا کی وہ فطری جبلت ہو جو انسان کے اندر رکھ دی گئی ہے اور اس سے مراد یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آدم علیہ السلام کے زمین پر آ جانے کے بعد بارش ہوئی جس سے زمین میں سے روئی یا دوسری ریشہ دار نباتات اگ آئیں جس سے انہوں نے لباس بنا لیا ہو اور لباس سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے بدن کو ڈھانپا جا سکے اور اس لباس کے اللہ تعالیٰ نے دو فائدے بتائے ایک اخلاقی دوسرا طبعی۔ اخلاقی فائدہ یہ ہے کہ اپنے مقامات ستر ڈھانپ کر بے حیائی سے بچا جا سکے اور طبعی فائدہ یہ ہے کہ لباس انسان کے لیے زینت ہے اور یہ سردی اور گرمی کے موسمی اثرات سے بھی بچاتا ہے اور اخلاقی فائدے کو اللہ تعالیٰ نے پہلے بیان فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ لباس کا بنیادی مقصد سترکو ڈھانپنا ہے۔ [٢٤] ٭تقویٰ کے لباس کا مفہوم : تقویٰ کے لباس کا مطلب یہ ہے کہ لباس پردہ پوش یا ساتر ہو ایسا پتلا یا شفاف نہ ہو کہ پہننے کے باوجود جسم کی سلوٹیں اور مقامات ستر سب کچھ نظر آتا رہے۔ دوسرے یہ کہ لباس فاخرانہ اور متکبرانہ نہ ہو نہ دامن دراز ہو اور نہ اپنی حیثیت سے کم تر درجہ ہی کا اور گندہ ہو کیونکہ یہ سب باتیں تقویٰ کے خلاف ہیں تیسرے وہ لباس ایسا بھی نہ ہو کہ مرد عورتوں کا لباس پہن کر عورت بننے کی کوشش کرنے لگیں اور عورتیں مردوں کا سا پہن کر مرد بننے کی کوشش کرنے لگیں کیونکہ اس سے ان کی اپنی اپنی جنس کی توہین ہوتی ہے اور چوتھے یہ کہ اپنا لباس ترک کر کے کسی حاکم یا سربر آوردہ قوم کا لباس استعمال نہ کریں کیونکہ سربر آوردہ قوم کی تہذیب و تمدن اور اس کا لباس اختیار کرنے سے جہاں تمہارا قومی تشخص مجروح ہوگا وہاں یہ بات اس قوم کے مقابلہ میں تمہاری ذہنی مرعوبیت کی بھی دلیل ہوگی اور پانچویں یہ کہ مرد ریشمی لباس نہ پہنیں۔ اور بعض علماء کے نزدیک لباس سے مراد صرف ظاہری لباس ہی نہیں بلکہ اس سے مراد رنگ ڈھنگ اور پورا طرز زندگی ہے جس میں لباس بھی شامل ہے یعنی انسان کی ایک ایک عادت ایسی ہونی چاہیے جس سے تقویٰ کا رنگ ٹپکتا ہو ان کے نزدیک لباس کا لفظ مجازی معنوں میں ہے جیسے ’’مذہبی تقدس کا پردہ‘‘ میں پردہ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ الاعراف
27 [٢٥] ٭شیطانی حملہ اور اس سے بچاؤ کے لئے ہدایات : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو چند حقائق سے آگاہ فرمایا۔ ایک یہ کہ شیطان کے مکر و فریب سے ہوشیار رہیں وہ اگر تمہارے باپ کو مکر و فریب سے اور سبز باغ دکھا کر جنت سے نکلوا سکتا ہے تو تمہارے ساتھ وہ کیا کچھ نہیں کرسکتا اور دوسرے یہ کہ شیطان کا سب سے پہلا وار یہ ہوتا ہے کہ انسانوں کو فحاشی میں مبتلا کر دے بے حجابی کو عام کر دے اور تمہارے پردہ شرم و حیا کو تار تار کر دے تیسرے یہ کہ تمہارا دشمن تو تمہیں دیکھ رہا ہوتا ہے جبکہ تم اسے نہیں دیکھ سکتے اور ظاہر ہے کہ ایسا دشمن اپنے مد مقابل (انسان) پر وار اس وقت کرے گا جب وہ غفلت میں پڑا ہو اور اس کا یہ وار شدید تر ہوگا اور چوتھے یہ کہ اس کا وار صرف ان لوگوں پر چل سکے گا جو ایمان نہیں لاتے۔ کیونکہ ایمان لانے والے اور اللہ کی فرمانبرداری کرنے والے ایک ایسی ہستی کی پناہ میں آ جاتے ہیں جو خود تو ان شیطانوں کو دیکھتا ہے لیکن شیطان اسے نہیں دیکھ سکتے گویا معاملہ بالکل الٹ ہوجاتا ہے اور ایسے لوگوں پر شیطان کا حملہ بہت کم کارگر ہوتا ہے اور اگر کسی وقت وہ شیطان کے بہکاوے میں آ بھی جائیں تو اللہ سے معافی مانگ کر اور اس کے دامن میں پناہ لے کر شیطانی حملے کے اثر سے پاک صاف ہوجاتے ہیں۔ الاعراف
28 [٢٦] ٭ننگے طواف کرنا، برہنگی ہر جاہلی تہذیب کا جزء ہے : دور جاہلیت میں عرب لوگ ننگا ہوجانے کو کوئی معیوب فعل تصور نہیں کرتے تھے۔ بغیر پردہ یا اوٹ کے ننگے نہانا، راستے میں ہی بلا جھجک رفع حاجت کے لیے بیٹھ جانا یا محفل میں کسی کے ستر کھل جانے کو وہ عیب نہیں سمجھتے تھے اور اہل عرب ہی کا کیا ذکر ہر جاہلی معاشرہ میں یہی حالت ہوتی ہے۔ اہل عرب میں جو اس سے بھی زیادہ شرمناک فعل تھا وہ یہ تھا کہ وہ کعبہ کا طواف بھی ننگے ہو کر کرتے تھے اور انہوں نے اپنے اس فعل کو مذہبی تقدس کا درجہ دے رکھا تھا عورتیں اس شرمناک فعل میں مردوں سے بھی دو ہاتھ آگے تھیں جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایام جاہلیت میں عورت برہنہ ہو کر کعبہ کا طواف کرتی اور کہتی جاتی کہ ’’کوئی ہے جو مجھے عاریتاً ایک کپڑا دے تاکہ میں اس سے شرمگاہ ڈھانپ لوں۔ پھر کہتی آج یا تو کچھ شرمگاہ کھلی رہے گی یا پوری کھلی رہے گی بہرحال جتنی بھی کھلی رہے گی میں اسے کسی پر حلال نہیں کروں گی۔‘‘ آیت ﴿خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ كُلِّ مِسْجِدٍ﴾ (الاعراف :31) اسی بارے میں نازل ہوئی (مسلم۔ کتاب التفسیر) اور یہ بد رسم فتح مکہ کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے ختم کی گئی۔ ٩ ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیر حج بنا کر بھیجا اور بعد میں تاکید مزید کے طور پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔ چنانچہ حج کے اجتماع میں جو عام اعلان کیا گیا اس کے دو اہم نکات یہ تھے کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک بیت اللہ میں داخل نہیں ہوسکتا اور دوسرا یہ کہ آئندہ کوئی ننگے ہو کر کعبہ کا طواف نہیں کرسکتا۔ (بخاری۔ کتاب المناسک۔ باب لایطوف بالبیت عریانا ) ٭ جس کام میں بے حیائی ہو وہ اللہ کا حکم نہیں ہوسکتا :۔ مشرکین مکہ اگرچہ برہنگی کو باعث عار اور معیوب فعل نہیں سمجھتے تھے تاہم انہیں یہ اعتراف ضرور تھا کہ ایسی برہنگی اور بے حیائی کوئی اچھا کام نہیں پھر جب انہیں اس کام سے روکا جاتا تو وہ جواب یہ دیتے کہ ہمارے آباو اجداد اور بڑے بزرگ بھی کعبہ کا طواف ننگے ہو کر کرتے آئے ہیں وہ بزرگ ہم سے زیادہ دیندار تھے پھر بھلا ہم کیوں نہ کریں۔ تقلید آباء کے رد میں اللہ تعالیٰ نے یہ جواب دیا کہ جب تمہارے سب سے بڑے باپ اور بزرگ آدم علیہ السلام شیطان کے بہکاوے میں آ گئے تھے تو پھر یہ بزرگ کیوں شیطان کے ہتھے نہیں چڑھ سکتے اور چونکہ وہ اس طواف کو متبرک اور دین ہی کا حکم سمجھتے تھے لہذا فوراً کہہ دیتے کہ یہ اللہ ہی کا حکم ہوگا جو ہمارے بزرگ برہنہ ہو کر طواف کرتے تھے۔ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ اللہ تعالیٰ تو بے حیائی کے کاموں سے روکتا ہے وہ اس کا حکم کیسے دے سکتا ہے؟ بالفاظ دیگر جس چیز میں بے حیائی پائی جاتی ہو وہ اللہ کا حکم کبھی نہیں ہو سکتا۔ الاعراف
29 [٢٧] مشرکوں نے طواف کعبہ کے دوران اللہ کے ساتھ اپنے دوسرے معبودوں کو پکارنے اور ننگا طواف کرنے کی رسوم ایجاد تو خود کرلی تھیں اور ذمے اللہ کے لگا رکھی تھیں اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا کہ اللہ نے جو حکم نہیں دیا وہ تو تم اس کے ذمے لگاتے ہو اور جو حکم دیا ہے وہ کرتے نہیں۔ اس نے حکم یہ دیا ہے کہ جو بات کرو انصاف کی کرو، خواہ مخواہ جرم کسی اور کے ذمے نہ لگاؤ اپنی زندگی عدل اور راستی پر استوار کرو جب بھی عبادت کے لیے کسی مسجد میں جاؤ تو تمہاری توجہ صرف اللہ ہی کی طرف ہونا چاہیے، خالصتاً اسی کی عبادت کرو اس میں دوسروں کو شریک نہ بناؤ اور یہ ملحوظ رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں تمہارے اعمال کی جزا و سزا دینے کا پورا اختیار رکھتا ہے نیز یہ کہ جس طرح تم اکیلے اکیلے دنیا میں آئے تھے بعینہٖ اسی طرح حساب و کتاب کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور اکیلے اکیلے حاضر کیے جاؤ گے وہاں تم سے تمہارے اعمال کی باز پرس بھی ہوگی اور جزا و سزا بھی ملے گی۔ الاعراف
30 [٢٨] ٭شیطان کا برے کام کو اچھا بنا کر پیش کرنا کردار دو ہیں ایک شیطان کی راہ پر چلنے والے، دوسرے سیدنا آدم علیہ السلام کی راہ پر چلنے والے، واضح رہے کہ کوئی شخص یہ تسلیم کرنے پر کبھی تیار نہیں ہوتا کہ وہ شیطان کی راہ پر چل رہا ہے بلکہ وہ شیطان کا نام سن کر یا نام لے کر دو چار گالیاں بھی اسے سنا دے گا۔ نہ شیطان نے انسان کو گمراہ کرتے وقت کبھی اپنا آپ بتایا ہی ہے بس اس کا کام یہ ہے کہ کسی برے طریقہ کو خوبصورت کر کے پیش کر دے اور ویسے ہی سبز باغ دکھائے جیسے ہمارے باپ سیدنا آدم علیہ السلام کو دکھائے تھے اس میں خواہ وہ کسی دینی مصلحت کی امید دلائے یا کسی دنیوی مفاد کی، اس طرح انسان اس کے بھرے میں آ جاتا ہے اور جس شخص نے اللہ کی سیدھی راہ سے ذرہ بھر بھی انحراف کیا وہ سمجھ لے کہ وہ شیطان کے فریب میں آ چکا ہے کیونکہ اس راہ کے سوا باقی سب شیطانی راہیں ہیں اور چونکہ شیطان بھی کوئی اچھی بات ہی سجھاتا ہے،لہٰذا یہ شیطان کے پیروکار بھی سمجھتے یہی ہیں کہ وہ اچھے کام کر رہے ہیں حالانکہ وہ سب شیطانی چالیں ہوتی ہیں۔ الاعراف
31 [٢٩] ٭نمازی کے لباس میں کتنے کپڑے ہوں :۔ یہاں زینت سے مراد لباس ہے اور یہ لباس صاف ستھرا اور پاکیزہ ہونا چاہیے تاکہ زینت کا باعث ہو اس لباس میں کون کون سا کپڑا شامل ہونا چاہیے؟ اس سوال کے جواب میں مندرجہ ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے۔ ١۔ عمر و بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (صرف) ایک کپڑے میں نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے دونوں کناروں کو مخالف سمتوں میں کندھوں پر ڈال لیا تھا۔ (بخاری۔ کتاب الصلوٰۃ، باب عقد الازار علی القفا فی الصلوۃ) ٢۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ تم میں سے کوئی ایک کپڑے میں اس طرح نماز نہ پڑھے کہ اس کے کندھے پر کچھ نہ ہو۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ ، باب إذا صلی فی الثوب الواحد فلیجعل علی عاتقیہ) ٣۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدۃ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک پردہ تھا جسے انہوں نے اپنے گھر میں ایک طرف لٹکایا ہوا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ پردہ دیکھ کر) فرمایا : ’’یہ اپنا پردہ یہاں سے ہٹا لو اس کی تصویریں میری نماز میں حارج ہوتی ہیں۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب ان صلی فی ثوب مصلب او تصاویر۔۔ ) ٤۔ ابو مسلمہ سعید بن یزید ازدی کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا : ’’کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جوتیوں سمیت نماز پڑھ لیتے تھے؟‘‘ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’ہاں۔‘‘ (بخاری، کتاب الصلوۃ، باب الصلوۃ فی النعال) ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ :۔ ١۔ کم از کم ایک کپڑے میں بھی نماز ہو سکتی ہے بشرطیکہ وہ اتنا بڑا ہو کہ مخالف سمتوں میں کندھوں پر ڈالنے کے بعد بھی دونوں طرف پنڈلیوں تک بدن ڈھانپ سکتا ہو۔ ٢۔ دونوں کندھوں پر کپڑا ہونا ضروری ہے، سر پر کوئی کپڑا ہونا ضروری نہیں ہے۔ ٣۔ کوئی کپڑا ایسے نقش و نگار والا یا تصویروں والا نہیں ہونا چاہیے جو اللہ کی طرف سے توجہ ہٹا کر اپنی طرف مبذول کرلے۔ ٤۔ زیادہ کپڑوں کی کوئی حد نہیں، پگڑی یا ٹوپی وغیرہ کا تو ذکر کیا، جوتوں سمیت بھی نماز ادا کی جا سکتی ہے بشرطیکہ اس کا تلا صاف ستھرا ہو اور جوتوں سمیت نماز گھروں میں بھی پڑھی جا سکتی ہے اور مساجد میں بھی جیسا کہ بالخصوص نیا جوتا پہنتے وقت شکرانہ کے نوافل پڑھے جاتے ہیں۔ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسے واضح احکام کے باوجود بعض لوگوں نے ننگے سر نماز پڑھنے کو وجہ نزاع بنا لیا ہے ایک فریق اس انتہا کو چلا گیا کہ ننگے سر نماز ہوتی ہی نہیں اور دوسرا فریق دوسری انتہا کو چلا گیا اس نے اس مسئلے کو محض جواز تک محدود نہ رکھا بلکہ اسے اپنا شعار بنا لیا۔ پہلے فریق کی غلط روش تو واضح ہے کیونکہ حالت احرام میں ساری نمازیں اور طواف وغیرہ بھی ننگے سر ہی ادا ہوتے ہیں اگر ننگے سر نماز ہو ہی نہیں سکتی تو حالت احرام میں یقیناً سر پر کوئی کپڑا رکھنے کی تاکید کردی جاتی۔ جیسا کہ عورتوں کے لیے ایسا ہی حکم ہے رہا دوسرا فریق تو اس کی وجہ استدلال درج ذیل حدیث ہے :۔ ٭ ننگے سر نماز کا مسئلہ : محمد بن منکدر کہتے ہیں کہ ’’جابر (بن عبداللہ) رضی اللہ عنہ نے ایک تہبند میں نماز پڑھی جسے اپنی گدی پر باندھ لیا اور ان کے کپڑے تپائی پر رکھے ہوئے تھے کسی (عبادہ بن ولید) نے ان سے کہا تم (کپڑے ہوتے ہوئے) ایک تہبند میں نماز پڑھتے ہو؟ ‘‘ جابر رضی اللہ عنہ کہنے لگے : ’’یہ اس لیے کہ تیرے جیسا بے وقوف مجھے دیکھ لے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہم لوگوں میں سے کس کے پاس دو کپڑے تھے؟‘‘ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ ، باب عقد الازار علی القفا فی الصلوۃ) اس حدیث سے مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ ١۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ جنہوں نے کپڑے پاس ہوتے ہوئے صرف ایک کپڑے میں (یعنی ننگے سر) نماز ادا کی، ان کا یہ روزمرہ کا معمول نہیں تھا۔ ورنہ سائل کو ایسا سوال کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ ٢۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے یہ کام عمداً اس لیے کیا کہ ناواقف لوگوں پر واضح ہوجائے کہ صرف ایک کپڑے میں بھی نماز جائز ہے اگرچہ سر ننگا ہی رہے۔ ٣۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے اس کی وجہ بھی بتا دی کہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اکثر لوگوں کے پاس دو کپڑے بھی نہیں ہوتے تھے۔ ان تصریحات کا ماحصل یہ ہے کہ جواز کی حد تک ننگے سر نماز ادا کرنے میں نہ کوئی کلام ہے اور نہ قباحت لیکن اگر ٹوپی یا عمامہ وغیرہ موجود ہو تو اسے پہننا ہی افضل ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا معمول تھا کیونکہ سر ڈھانپنا بھی زینت کا ایک حصہ ہے، لہٰذا ننگے سر نماز پڑھنا شعار نہ بنا لیا جائے۔ ہاں کپڑوں کی موجودگی میں بھی کبھی کبھار کسی ضرورت یا مصلحت کی غرض سے ننگے سر نماز ادا کرلینے میں کوئی حرج نہیں۔ [٣٠] ٭کھانے پینے میں اسراف کا نقصان :۔ بعض اطباء کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس مختصر سے جملہ میں طب کا آدھا علم بیان فرما دیا ہے کیونکہ اکثر امراض خوراک کی زیادتی یا اس میں بے احتیاطی ہی سے پیدا ہوتی ہیں۔ اسراف کا مطلب بسیار خوری بھی ہوسکتا ہے۔ وقت بے وقت کھانا اور بدپرہیزی بھی۔ یہ تو اسراف کے طبعی نقصانات ہیں اور جو اخلاقی نقصانات ہیں وہ اس سے بھی زیادہ ہیں مثلاً جو انسان اپنے ہی کھانے پینے کی فکر رکھے گا دوسروں سے احسان کرنا تو درکنار وہ دوسروں کے جائز حقوق بھی ادا کرنے کے قابل نہ رہے گا۔ پھر مال کے ضیاع سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں شدت سے منع فرمایا ہے اور اس کے نتائج بڑے دوررس ہوتے ہیں۔ الاعراف
32 [٣١] ٭ترک دنیا کی مذمت :۔ اللہ تعالیٰ نے تو لباس اور زینت اور کھانے پینے کی سب حلال چیزیں اپنے بندوں کے فائدہ اٹھانے ہی کے لیے پیدا کی ہیں، اب جو لوگ گدڑی پہنتے، کم سے کم خوراک کھاتے، لذائذ دنیا کو ترک کرتے، راتوں کو ریاضتیں کرتے اور نکاح سے اس لیے پرہیز کرتے ہیں کہ یہ ان کے روحانی ارتقاء میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے تو ایسے روحانی ارتقاء کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسلام میں روحانی ارتقاء کا راستہ ترک دنیا پر قطعاً منحصر نہیں ہے بلکہ یہ راستہ معاملات دنیا کو احسن طریقے پر ادا کرتے ہوئے اسی دنیا سے آگے چلتا ہے جس میں جسم کی بھی پرورش ہو اور روح کی بھی۔ اور جو لوگ ترک دنیا کی راہ اختیار کر کے روحانی ارتقاء چاہتے ہیں تو یہ پابندیاں اللہ نے قطعاً نہیں لگائیں یہ ان کی اپنی خودساختہ ہیں اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ اس نے کسی شخص پر جو انعام کیے ہیں ان کا اثر اس کے طرز زندگی سے ظاہر ہونا چاہیے اس سلسلہ میں درج ذیل حدیث بھی ملاحظہ فرمائیے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تین آدمی (عمرو بن عا ص رضی اللہ عنہ، علی رضی اللہ عنہ اور عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج کے گھروں کے قریب آئے اور ازواج مطہرات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عبادت کا حال پوچھا جب انہیں آپ کی عبادت کی خبر دی گئی تو انہوں نے اسے کمتر سمجھا اور کہا : ’’ کہاں ہم اور کہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی تو اگلی پچھلی سب لغزشیں معاف ہو چکیں۔‘‘ پھر ان میں سے ایک نے کہا: ’’میں ہمیشہ ساری رات قیام کیا کروں گا۔‘‘ دوسرے نے کہا : ’’میں ہمیشہ روزے رکھا کروں گا، افطار نہ کروں گا۔‘‘ تیسرے نے کہا : ’’میں عورتوں سے علیحدہ رہوں گا کبھی نکاح نہ کروں گا۔‘‘ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تشریف لے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی گفتگو کی خبر دی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا تم ہی ہو جنہوں نے ایسا اور ایسا کہا تھا ؟ سنو اللہ کی قسم! میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور سب سے زیادہ متقی ہوں لیکن میں روزے رکھتا بھی ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں میں رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں اب جس شخص نے میری سنت (طریقے) سے بے رغبتی کی اس کا مجھ سے کوئی سروکار نہیں۔ (بخاری، کتاب النکاح، باب الترغیب فی النکاح) [٣٢] اس لیے کہ جو لوگ اللہ کی نعمتوں پر اس کا شکر بجا لاتے ہیں وہی نمک حلال ہوتے ہیں اور وہی مزید نعمتوں کے مستحق ہوتے ہیں اور جو اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کریں اس کی نعمتوں کے حقدار نہیں ہو سکتے لیکن چونکہ یہ دنیا دارالامتحان ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نمک حراموں کو بھی رزق دیئے جاتا ہے بلکہ بسا اوقات زیادہ بھی دیتا ہے تاہم آخرت میں اللہ کی نعمتیں صرف اللہ کے فرمانبرداروں ہی کے لیے مخصوص ہوں گی۔ الاعراف
33 [٣٣] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پانچ حرام چیزوں کا ذکر فرمایا جن کا تعلق کھانے کی چیزوں سے نہیں بلکہ اعمال سے ہے سب سے پہلے بے حیائی کا ذکر اس لیے فرمایا کہ سیدنا آدم علیہ السلام کے قصے سے یہ بیان چلا آ رہا ہے کہ کس طرح شیطان نے آدم و حوا (علیہما السلام) کو بے ستر کیا۔ پھر مشرکین مکہ کا ذکر کیا جو طواف تک برہنہ ہو کر کرتے اور اسے مذہبی تقدس کا درجہ دیتے تھے اور گناہ کا لفظ اگرچہ چھوٹے بڑے ہر طرح کے گناہ پر استعمال ہوتا ہے تاہم غالباً یہ لفظ یہاں ایسے گناہ کے لیے آیا ہے جس کا اثر اس کی ذات تک محدود رہے کسی دوسرے کو اس کا نقصان نہ پہنچ رہا ہو اور ناحق زیادتی سے مراد ایسے گناہ ہیں جن سے دوسروں کے حقوق تلف ہوتے ہوں اور شرک تو تمام حرام کاموں میں سرفہرست ہے اور اللہ کے ذمے لگانے کی اس مقام پر وہی مثال کافی ہے جو مشرک کہتے تھے کہ آیت ﴿وَاللّٰہُ اَمَرَنَا بِہَا﴾ (الاعراف :28) الاعراف
34 [٣٤] ٭عذاب کے وقت میں تقدیم و تاخیر ناممکن ہے :۔ اس آیت میں تقدیم کا لفظ تاخیر ہی کی تاکید کے لیے لایا گیا ہے اجل جب آ گئی تو تقدیم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کی مثال یوں سمجھئے جیسے کوئی گاہک دکاندار سے کسی چیز کی قیمت پوچھنے کے بعد کہتا ہے کوئی کمی بیشی؟ تو دکاندار کہتا ہے قیمت میں نے پہلے ہی ٹھیک بتلائی ہے کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکتی۔ حالانکہ اس گفتگو میں گاہک اور دکاندار دونوں کا کمی بیشی کے لفظ سے مراد صرف کمی ہوتا ہے بیشی نہیں ہوتا اسی طرح یہاں بھی یہی مراد ہے کہ جب کسی شخص کی موت یا کسی قوم کے خاتمہ کا وقت آ جاتا ہے تو پھر اس میں قطعاً تاخیر نہیں ہو سکتی۔ قوم کی اجل کا وقت آتا کب ہے؟ اس کے لیے اللہ نے ایک ضابطہ مقرر کر رکھا ہے یعنی ہر قوم کے عروج و زوال کا ایک ضابطہ ہے جیسا کہ اقبال نے کہا ہے میں تجھ کو بتاتا ہوں کہ تقدیر امم کیا ہے۔۔ شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر اسی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ جب کسی قوم (کے گناہوں) کا ڈول بھر جاتا ہے تو یہی وقت اس کی تباہی کا وقت ہوتا ہے اور اس کا تعلق مدت یا عرصے سے نہیں بلکہ فساد فی الارض اور گناہوں کی رفتار پر ہوتا ہے۔ الاعراف
35 [٣٥] ٭جنت کا دوبارہ حصول کیسے ممکن ہے؟ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاں بھی آدم (علیہ السلام) و ابلیس اور جنت سے آدم کے نکلنے کا قصہ بیان فرمایا تو بنی آدم کی دلجوئی کے لیے بھی آیات نازل فرمائیں۔ ابلیس نے جنت میں آدم و حوا کو بے ستر کیا تھا، تو لباس اور اس کے نعمت ہونے اور اچھا لباس پہننے کے لیے کئی آیات نازل فرمائیں۔ جنت میں آدم (علیہ السلام) و حوا (علیہا السلام) جنت کے پھل بافراغت کھاتے تھے صرف ایک درخت کا کھانا حرام کیا تھا تو اس دنیا کے متعلق بھی فرمایا کہ ماسوائے چند حرام کردہ اشیاء کے جو کچھ زمین میں ہے سب تمہارے لیے مباح ہے، لہٰذا حلال اور پاکیزہ اشیاء میں سے جو چاہو کھا سکتے ہو البتہ اسراف نہ کرنا۔ فرق یہ ہے کہ جنت میں بلا مشقت کھانے پینے کی چیزیں ملتی تھیں لیکن دنیا میں مشقت اور جستجو بھی کرنا ہوگی اور اسی مشقت اور جستجو ہی میں انسان کی آزمائش ہے۔ اس طرح تقدیر کا لکھا پورا ہو کے رہا۔ اب رہا قصہ اس جنت گم گشتہ کو پھر سے حاصل کرنے کا تو اس کے متعلق فرمایا کہ تمہارے پاس تمہاری رہنمائی کے لیے میرے رسول آتے رہیں گے جو تمہیں میری ہدایات اور میرے احکام بتلاتے رہیں گے۔ پھر جس شخص نے ان رسولوں کی پیروی کی، اللہ کی نافرمانیوں سے بچا رہا اور اپنی اصلاح کرلی تو اس کے لیے وہ جنت دوبارہ حاصل کرنا کچھ مشکل نہ ہوگا۔ نہ انہیں اپنے مسقتبل کے متعلق کوئی فکر دامن گیر ہوگی اور نہ انہیں دنیا میں گزاری ہوئی زندگی پر کچھ افسوس و ندامت ہوگی لیکن جن لوگوں نے رسولوں کو اور میرے احکامات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور شیطان کی طرح اکڑ بیٹھے تو ان کے دوبارہ جنت میں جانے کی کوئی صورت ممکن نہ ہوگی۔ مزید برآں اخروی زندگی میں ان کو ہمیشہ دوزخ میں جلنا اور دکھ کا عذاب سہنا ہوگا۔ الاعراف
36 الاعراف
37 [٣٦] ٭افتراء علی اللہ کی اقسام : اس آیت میں قبول ہدایت کے لحاظ سے لوگوں کی اقسام بیان فرمائیں : ایک تو ایسے لوگ ہیں جو خود جھوٹی نبوت کا دعویٰ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں اللہ کی طرف سے وحی آئی ہے یا وہ نبوت کا دعویٰ تو نہیں کرتے تاہم اپنے آپ کو اسی مقام پر سمجھتے ہیں باتیں خود گھڑتے ہیں پھر انہیں اللہ کی طرف منسوب کردیتے ہیں اور ایک وہ ہیں جو سچے رسولوں کی تصدیق بھی نہیں کرتے اور ان پر نازل شدہ آیات سے انکاربھی کردیتے ہیں یہ سب طرح کے لوگ سب سے بڑھ کر ظالم ہیں، کیونکہ یہ صرف خود گمراہ نہیں ہوتے بلکہ بے شمار مخلوق کو گمراہ کرنے میں حصہ دار بنتے ہیں ایسے لوگوں کو بھی اس دنیا میں رزق جتنا ان کے مقدر میں ہے وہ ملتا ہی رہے گا کیونکہ انسانوں کی آزمائش صرف اسی صورت میں ہو سکتی ہے دیکھنا یہ ہے کہ کون رسولوں کا تابع فرمان بنتا ہے اور کون ابلیس اور اس کے چیلوں کا۔ [٣٧]٭ قبر میں سوال وجواب : اس آیت اور اس جیسی دوسری آیات سے واضح ہوتا ہے کہ موت کے وارد ہوتے ہی ایسے مجرموں کو اپنے انجام کا پتہ چل جاتا ہے ایک اپنے انجام بد کی ہولناکی، دوسرے جان قبض کرنے والے فرشتوں کا کرخت لہجہ اور گفتگو، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے تمام شرکیہ افعال بھول جاتے ہیں اور احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قبر میں جب سوال و جواب ہوتا ہے تو ایمان دار آدمی فرشتوں کے سب سوالوں کے صحیح صحیح جواب دیتا ہے مگر کفار اور مشرکین سے جب پوچھا جاتا ہے کہ تمہارا پروردگار کون ہے؟ تمہارا دین کیا تھا اور رسول کون تھا ؟ تو وہ کوئی جواب نہیں دے سکتے۔ افسوس! میں ان سوالوں کا جواب نہیں جانتا میں تو وہی کچھ کہہ دیا کرتا تھا (دنیوی زندگی میں) جو کچھ لوگ کہا کرتے تھے۔ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ، ابو اب الکسوف، باب صلوۃ النساء مع الرجال فی الکسوف) ایک دفعہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا : یا رسول اللہ! جب قبر میں ہم سے سوال و جواب ہوگا تو اس وقت ہمارے حواس اور ہوش ٹھیک ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ہاں۔‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے پھر ہم ان سوالوں کا جواب دے لیں گے۔ (مسلم۔ کتاب صفہ الجنۃ و نعیمھا، باب مقعد المیت من الجنۃ والنار) لیکن جن لوگوں نے کفر و شرک میں زندگی بسر کی ہوگی اور اپنی سستی نجات کے لیے کئی سہارے تجویز کر رکھے ہوں گے ان کو سب کچھ بھول جائے گا اور ان کا کچھ جواب نہ دینا ہی ان کے کفر پر دلیل بن جائے گا بلکہ زبان سے بھی اقرار کرلیں گے کہ ہم نے اپنی زندگی کفر وشرک ہی میں گزار دی۔ (تفصیل سورۃ ابراہیم کے حاشیہ ٣٥ میں دیکھیے) الاعراف
38 [٣٨] یہاں پہلی اور پچھلی جماعت سے مراد ایک ہی جنس کے اسلاف اور اخلاف ہیں مثلاً یہود یا نصارٰی یا مشرکین یا مسلمانوں میں سے ایک فریق گمراہ کرنے والا اور دوسرا فریق گمراہ ہونے والا۔ گمراہ ہونے والے اللہ تعالیٰ سے کہیں گے یا اللہ ہمارے ان اسلاف کو دوگنا عذاب کر۔ اس لیے کہ وہ خود تو گمراہ ہوئے ہی تھے ہمیں بھی اپنے ساتھ لے ڈوبے اور گمراہ کرنے والے اپنے اخلاف سے کہیں گے کہ ملعونو! اگر ہم گڑھے میں گر گئے تھے تو کیا تم اندھے ہوگئے تھے جو اسی گڑھے میں تم بھی گر گئے۔ آخر تمہارا جرم کس لحاظ سے کم ہے؟ گویا دونوں اپنے گناہ اور بدبختی ایک دوسرے کے سر تھوپنے کی کوشش کریں گے۔ [٣٩] ٭مکافات عمل کے تقاضے :۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ سب کے لیے دگنا عذاب ہے اس لیے کہ مکافات عمل کا یہی تقاضا ہے۔ ایک شخص مثلاً زید ایک شرکیہ رسم ایجاد کرتا ہے اب اس کا بیٹا، پھر پوتا، پھر پڑپوتا اور اسی طرح اگلی نسلیں اس شرکیہ رسم کو ادا کرتی چلی جاتی ہیں تو زید کو یہی نہیں کہ صرف اپنے شرکیہ رسم ایجاد کرنے کی سزا ملے گی۔ بلکہ بعد میں آنے والے جتنے لوگ اس شرکیہ رسم کو بجا لائیں گے تو زید کو بھی ان کے گناہ سے حصہ رسدی پہنچے گا اور اس کے اعمال نامے میں درج ہوتا رہے گا۔ زید کے بیٹے اور اس سے آگے پوتوں پڑپوتوں کا جرم صرف یہی نہیں کہ وہ اپنے باپ کی شرکیہ رسم کیوں بجا لاتے رہے۔ بلکہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے بلاتحقیق اور اللہ کے فرمانبرداروں کے سمجھانے کے باوجود اپنے آباو اجداد کی تقلید کیوں کی جبکہ تقلید آباء بذات خود گناہ کبیرہ اور شرک کے مترادف ہے۔ پھر زید کے بیٹے اور ان سے آگے چلنے والی نسلوں کے لوگوں کو صرف اپنے ہی جرم کی سزا نہیں ملے گی بلکہ ان کے بعد ایسا عمل کرنے والوں کے گناہ میں سے بھی حصہ پہنچتا رہے گا اس لحاظ سے کسی بھی شرکیہ یا بدعیہ رسم کا موجد اور اس کے مقلدین اپنے جرم کی سزا کے علاوہ کئی گنا زیادہ سزا کے مستوجب بن جاتے ہیں۔ مکافات عمل (یعنی کسی عمل کا پورا پورا بدلہ دئیے جانے) کی اس بنیاد کو قرآن کریم میں متعدد بار دہرایا گیا ہے۔ مثلاً جہاں آدم علیہ السلام کے قاتل بیٹے کا قصہ بیان کیا تو فرمایا : ’’اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا تھا کہ جس کسی نے کسی کو ناحق قتل کیا تو اس نے گویا سب لوگوں کو قتل کیا۔‘‘ (٥ : ٣٢) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جہاں بھی کوئی ناحق قتل ہوتا ہے تو اس قتل کے گناہ کا کچھ حصہ آدم علیہ السلام کے اس بیٹے کے کھاتے میں بھی ڈالا جاتا ہے جس نے یہ طرح ڈالی۔‘‘ نیز اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر فرمایا: ’’کہ ہم ایسے لوگوں کے لیے عذاب پر مزید عذاب بڑھاتے چلے جائیں گے۔‘‘ (١٦ : ٨٨) نیز فرمایا کہ ’’وہ اپنے گناہوں کا بوجھ بھی اٹھائیں گے اور اپنے علاوہ دوسروں کے گناہوں کا بوجھ بھی۔‘‘ (٢٩ : ١٣) اور ایک مقام پر فرمایا : ’’وہ ان لوگوں کے گناہوں کا بوجھ بھی اٹھائیں گے جنہیں انہوں نے بغیر علم کے گمراہ کیا تھا۔‘‘ (١٦ : ٢٥) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس نے کسی اچھے کام کی طرح ڈالی تو اس پر عمل کرنے والوں کے ثواب سے اس طرح ڈالنے والے کو بھی ملتا رہے گا اور جس نے کسی برے کام کی طرح ڈالی تو اس پر عمل کرنے والوں کی سزا میں سے حصہ رسدی اسے بھی ملتا رہے گا۔‘‘ (مسلم۔ کتاب العلم، باب من سن سنۃ حسنۃ او سیئۃ) ٭مکافات عمل کے لئے یوم آخرت ضروری ہے :۔ مکافات عمل کے اس اصول کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کو مرنے کے بعد طویل بلکہ لامحدود مدت کی زندگی حاصل ہوتا کہ وہ اپنے کیے کی پوری پوری جزاء و سزا پا سکے مثلاً دیکھئے ایک شخص پچاس آدمیوں کو ناحق قتل کرتا ہے تو ایک شخص کے قتل کے عوض تو قصاص کے طور پر اس کی جان لی جا سکتی ہے یا برطانوی قانون کے مطابق اسے ١٤ سال یا ٢١ سال یا عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ باقی ٤٩ آدمیوں کے قتل کی سزا وہ یہاں کیسے بھگت سکتا ہے یا مثلاً ایک شخص جنگ کا فتنہ برپا کرنے کا سبب بنتا ہے جس میں لاکھوں انسان ناحق مر جاتے ہیں تو اس کے اس جرم کی سزا اسے اس دنیا میں کیسے دی جا سکتی ہے ؟ جبکہ اس کی عمر کی مدت محدود ہے اور سزا کے لیے لامحدود مدت درکار ہے۔ لہٰذا مکافات عمل کا اور عدل کا تقاضا یہی ہے کہ مرنے کے بعد انسان کو لامحدود زندگی حاصل ہوتا کہ اسے اس کے اعمال کی پوری پوری جزا یا سزا دی جا سکے۔ الاعراف
39 الاعراف
40 [٤٠] یہ عربی زبان کا محاورہ ہے جو کسی ناممکن العمل بات کے موقع پر بولا جاتا ہے یعنی جس طرح اونٹ کا سوئی کے ناکے میں داخل ہونا ناممکن ہے۔ ویسے ہی شیطان سیرت آدمیوں کا جنت میں داخل ہونا ناممکن ہے اور جنت میں داخلہ تو دور کی بات ہے ایسے لوگوں کی روح کو جب فرشتے لے کر آسمان کی طرف جاتے ہیں تو آسمان کا دروازہ ہی نہیں کھولا جاتا جبکہ نیک لوگوں کا شاندار استقبال کیا جاتا ہے۔ بدکار لوگوں کی روح کو وہیں سے نیچے پھینک دیا جاتا ہے اور قبر کے امتحان میں ناکامی کے بعد اسے سجین میں قید کردیا جاتا ہے۔ وَلَجَ کے معنی کسی تنگ جگہ میں داخل ہونا، گھسنا یا گھسنے کی کوشش کرنا ہے جیسے تلوار کا میان میں یا بارش کے پانی کا زمین میں داخل ہونا ہے اور اولج کے معنی کسی چیز کو تنگ جگہ میں داخل کرنا یا گھسیڑنا ہے جیسے ارشاد باری ہے: ﴿ یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّہَارِ وَیُوْلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیْلِ ۭ ﴾ (الحدید :6) یعنی اللہ تعالیٰ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں۔ اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر یوں فرمایا : ﴿ یُکَوِّرُ الَّیْلَ عَلَی النَّہَارِ وَیُکَوِّرُ النَّہَارَ عَلَی الَّیْلِ ﴾ ( الزمر :5) یعنی رات کو دن پر لپیٹتا ہے اور دن کو رات پر۔ اور ﴿یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِ﴾ 7۔ الاعراف :40) عربی زبان کا محاورہ ہے۔ الاعراف
41 الاعراف
42 [٤١] یعنی جنت میں داخلے کی خاطر ہر ایک کے لیے ایک ہی مقررہ مقدار عمل ضروری نہیں بلکہ ہر ایک شخص کا اس کی استعداد اور قوت کار کے مطابق ہی امتحان لیا جاتا ہے اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک لکھ پتی آدمی سو روپے صدقہ کرتا ہے اور اسی وقت ایک مفلس پانچ روپے صدقہ کرتا ہے تو عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں مفلس کے پانچ روپے صدقے کی قدر و قیمت لکھ پتی کے سو روپے کے صدقے کی قدر و قیمت سے زیادہ ہو، لہٰذا ہر شخص کے احوال و ظروف کا لحاظ رکھ کر اور اس کے اعمال کی قدر و قیمت کا صحیح اندازہ لگانے کے بعد اسے جنت میں داخل کیا جائے گا۔ الاعراف
43 [٤٢] ٭جنت میں داخلے سے پہلے باہمی کدورتوں کا خاتمہ :۔ یہاں لفظ غل استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں خفگی’’ میل‘‘ کدورت ’’کینہ‘‘ حسد وغیرہ۔ اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ جنت میں داخل ہونے والوں میں سے اگر کسی کے دل میں دوسرے کے متعلق کچھ ملال، خفگی، میل و کدورت اس دنیا میں رہی ہوگی اور کسی ناگوار واقعہ کی یاد کسی کے دل میں موجود ہوگی تو جنت میں داخلے سے پیشتر ایسے ملال کو اللہ تعالیٰ دلوں سے محو کردیں گے، انہیں کچھ یاد ہی نہ رہے گا اور وہ ایک دوسرے کے متعلق بالکل صاف دل ہو کر جنت میں داخل ہوں گے اور دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جنت کے سو درجے ہیں اور ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق درجہ ملے گا اور یہ ممکن ہے کہ نچلے درجے والوں کے دلوں میں اوپر کے درجے والوں کی نسبت حسد پیدا ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ایسی صورت میں ہم ان کے دل سے حسد نکال دیں گے ہر ایک اپنے اپنے درجے پر قانع اور مطمئن ہوگا اور بلند درجات والوں کے لیے اس کے دل میں حسد وغیرہ مطلقاً نہ ہوگا۔ [ ٤٣] ٭اسلام کی اعلیٰ اخلاقی تعلیم کی مثالیں :۔ یہ آیت اسلام کی اعلیٰ اخلاقی تعلیم اور لوگوں کے باہمی معاملات کو استوار اور خوشگوار رکھنے کا ایک نادر نمونہ ہے۔ اگرچہ اس میں کچھ متضاد باتیں بھی معلوم ہو رہی ہیں۔ میں پہلے اس کی ایک دو مثالیں بیان کروں گا۔ مثلاً دیکھیے زید بکر سے کچھ رقم ایک مقررہ مدت کے لیے قرض لیتا ہے۔ اب بکر کو یہ حکم ہے کہ اگر زید مقررہ وعدہ کے مطابق قرض ادا نہیں کرسکا یا ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں تو وہ اسے مزید مہلت دے دے اور اس اضافی مہلت کا ایک ایک دن اس کے لیے صدقے کا ثواب ہوگا اور اگر وہ معاف ہی کر دے تو اس کے لیے اور بھی بہتر ہے۔ (٢ : ٢٨٠) کیونکہ ایسے شخص کو اللہ نے اس کے گناہ معاف کردینے کا وعدہ فرمایا ہے۔ دوسری طرف مقروض یعنی زید کو یہ تاکیدی حکم دیا کہ وہ اپنے کیے ہوئے عہد کو پورا کرے اور مقررہ وقت پر یا اس سے پہلے قرضہ ادا کر دے اور اگر وہ قرضہ ادا کیے بغیر مر گیا تو اس کی نجات نہ ہوگی تاآنکہ اس کے وارثوں میں سے کوئی شخص اس کے قرضے کی ادائیگی نہ کر دے یا کوئی شخص اس کے قرضے کی ادائیگی کا ضامن نہ بن جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے مقروض کی نماز جنازہ اس وقت تک نہیں پڑھاتے تھے جب تک اس کے قرضے کا کوئی ضامن نہ بن جاتا ورنہ آپ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے فرما دیتے کہ تم خود ہی اپنے بھائی پر نماز جنازہ پڑھ لو۔ (بخاری۔ کتاب فی الاستقراض، باب الصلوۃ علی من ترک دینا ) اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ مثلاً زید بکر پر کوئی احسان کرتا ہے اب بکر کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ بھی کسی وقت اس کے اس احسان کا بدلہ دے اور اگر وہ اس پوزیشن میں نہیں تو کم از کم اس کا شکریہ ہی ادا کر دے اور اگر دونوں کام کرے تو اور بھی اچھی بات ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص لوگوں ہی کا شکریہ ادا نہیں کرتا (جن کا احسان اسے محسوس بھی ہو رہا ہے) تو وہ اللہ کا کیا شکر ادا کرے گا۔ (ترمذی۔ ابو اب البروالصلہ، باب فی الشکرلمن احسن الیک) دوسری طرف زید (احسان کرنے والے) کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ بکر سے نہ کسی بدلہ احسان کی توقع رکھے اور نہ شکریے کی۔ (٧٦ : ٩) ٭ جنت کا ملنا محض اللہ کی رحمت ہے :۔ بالکل یہی صورت اس آیت میں ہے جنت میں داخل ہونے والے لوگ یہ کہیں گے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی توفیق اور دستگیری اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رہنمائی ہمیں نصیب نہ ہوتی تو ہم اس جنت تک پہنچ ہی نہ سکتے تھے یہ تو محض اللہ کا فضل ہے کہ ہمیں یہ جنت ملی ہے دوسری طرف اللہ تعالیٰ ان اہل جنت کی حوصلہ افزائی کی خاطر فرما رہے ہیں کہ یہ جنت تمہارے ہی ان اعمال کا بدلہ ہے جو تم دنیا میں کرتے رہے اور اس بات کو بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن میں متعدد بار ذکر کیا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ کوئی شخص اس دنیا میں کتنے ہی نیک اعمال کرلے وہ تو اللہ کے سابقہ احسانات کا بدلہ بھی نہیں چکا سکتا پھر جنت کا حق دار کیسے ہوسکتا ہے اسی حقیقت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دفعہ بیان فرمایا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں یا رسول اللہ ! کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے اعمال کے بدلے میں جنت میں نہ جا سکیں گے؟ فرمایا : ’’میں بھی نہیں‘‘ پھر فرمایا : ((إلا أن یتغمدنی اللہ برحمۃ))’’اِلا یہ کہ اللہ اپنی رحمت سے مجھے ڈھانپ لے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الرقاق، باب القصد والمداومۃ علی العمل ) ٭جنت کی نعمتیں :۔ مزید برآں اس آیت میں یہ اشارہ بھی پایا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ جنت تمہیں بطور ورثہ دی جا رہی ہے اور ورثہ پانے کا مدار کسی عمل پر نہیں ہوتا۔ دوسرا اشارہ اس میں یہ پایا جاتا ہے کہ یہ وہی جنت ہے جس سے تمہیں نکالا گیا تھا چونکہ تم نے دنیا کی زندگی اللہ کے فرمانبردار بن کر گزاری ہے اس لیے وہی جنت تمہیں بطور ورثہ عطا کی جا رہی ہے اور اہل جنت کو بن مانگے وہاں نعمتیں میسر ہوں گی۔ ان کا ذکر درج ذیل حدیث میں ملاحظہ فرمائیے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ دونوں سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : ایک منادی ندا کرے گا: ’’اے اہل جنت! تم تندرست رہو گے کبھی بیمار نہ ہو گے زندہ رہو گے تمہیں کبھی موت نہیں آئے گی۔ جوان رہو گے، تم پر کبھی بڑھاپا نہیں آئے گا، عیش میں زندگی گزارو گے تمہیں کبھی حزن و ملال نہ ہوگا۔‘‘ یہی مطلب ہے اللہ کے اس فرمان کا۔ ﴿وَتَوَدُّوْا .... تَعلمون﴾ (مسلم۔ کتاب الجنۃ و صفۃ نعیمھا واھلھا ) الاعراف
44 [٤٣۔ الف] جنت اور دوزخ میں اتنا زیادہ فاصلہ ہوگا جس کا ہمارے لیے اس دنیا میں تصور بھی ممکن نہیں اور قرآن کی اس آیت اور بعض دوسری آیات سے اہل جنت اور اہل دوزخ کا مکالمہ بھی ثابت ہے۔ جس سے کئی باتوں کا پتہ چلتا ہے مثلاً ایک یہ کہ اس دوسری زندگی میں لوگوں کو جو سمعی اور بصری قوتیں عطا کی جائیں گی وہ موجودہ زندگی سے بہت زیادہ قوی ہوں گی۔ دوسرے وہاں کا مواصلاتی نظام بھی موجودہ دنیا کے نظام سے بہت زیادہ سریع التاثیر ہوگا۔ موجودہ دور میں ہم ٹیلی ویژن پر دنیا کے دور دراز ملکوں کے لوگوں کے مکالمات سن بھی سکتے ہیں اور انہیں دیکھ بھی سکتے ہیں اور اس دوسری زندگی میں یہ ہوگا کہ اہل جنت میں سے اگر کسی کو اپنے ان ساتھیوں کا خیال آیا جو کافر اور دوزخ کے مستحق تھے اور وہ ان سے کلام کرنا چاہے گا تو ان کی اور ان کے احوال و ظروف کی تصویر ہی سامنے نہیں آئے گی بلکہ وہ اپنے اپنے مقام پر بیٹھے ہوئے ایک دوسرے سے گفتگو بھی کرسکیں گے۔ یہ سورۃ مکی ہے اور اس مقام پر جن اہل دوزخ کا ذکر آیا ہے اس سے مراد غالباً وہی لوگ ہیں جو مسلمانوں کو حقیر مخلوق سمجھتے تھے اور ان کے متعلق قسمیں کھا کر کہا کرتے تھے کہ ایسے لوگ کبھی اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے مستحق نہیں ہو سکتے ایسے ہی ناتواں اور نادار مسلمان جنت میں آرام پانے کے بعد اپنے ان متکبر ساتھیوں سے ہم کلام ہونا چاہیں گے جو انہیں حقیر سمجھا کرتے تھے۔ پھر ان میں وہی گفتگو ہوگی جو اس آیت میں مذکور ہے اور یہ مکالمہ ایسے لوگوں کو عبرت دلانے کے لیے اور اس دنیا میں حسرت و یاس بڑھانے کے لیے یہاں مذکور ہوا ہے اور ایسے ظالموں پر اس دنیا میں بھی لعنت ہے اور اس جہان میں بھی لعنت ہوگی۔ الاعراف
45 [٤٤] ٭اسلام کی راہ روکنے والے مسلمان :۔ اس آیت میں ظالموں کی ایک اور قسم کا ذکر کیا گیا ہے اور ایسے لوگ بھی ہر امت میں پائے جاتے ہیں مثلاً مسلمانوں میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو دعویٰ تو اپنے مسلمان ہونے کا کرتے ہیں مگر کہتے یہ ہیں کہ اسلام نے جو حدود مقرر فرمائی ہیں یہ وحشیانہ سزائیں ہیں۔ آج کے دور میں ان پر عمل درآمد محال ہے۔ اسلام نے عورتوں کو گھروں میں رہنے کا حکم دے کر انہیں قیدی بنا دیا ہے۔ لونڈی غلاموں کے جواز کا زمانہ لد گیا اسلام اپنے دور میں تو ایک زندہ تحریک تھی مگر آج یہ نظام فرسودہ ہوچکا ہے جو زمانے کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ وہ اپنا سیاسی نظام بھی غیروں سے درآمد کرتے ہیں اور معاشی نظام بھی اوروں سے لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آج کے دور میں سود کے بغیر ہماری معیشت چل ہی نہیں سکتی۔ یہ سب باتیں اسلام کا راستہ روکنے اور اس کی سیدھی راہ میں کجی پیدا کرنے کی باتیں ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگ روز آخرت پر اور اللہ کے حضور جوابدہی پر ایمان نہیں رکھتے ورنہ وہ ایسی باتیں کیسے کہہ سکتے تھے؟ الاعراف
46 [٤٥] اعراف کیا ہے ؟ اعراف جنت اور دوزخ کے درمیان ایک اوٹ ہے سورۃ حدید میں اس اوٹ کی یہ تفصیل ملتی ہے کہ وہ ایک دیوار ہوگی جس میں ایک دروازہ ہوگا اس کے بیرونی طرف تو عذاب ہوگا اور اندرونی طرف رحمت (٥٧ : ١٣) یعنی یہ دیوار جنت کے لذائذ اور خوشیوں کو جہنم کی طرف جانے سے اور جہنم کی کلفتوں کو اور آگ کی لپیٹ اور گرمی اور دھوئیں کو جنت کی طرف جانے سے روک دے گی۔ [٤٦] اعراف اور اہل اعراف :۔ اصحاب اعراف کون لوگ ہیں؟ اس کے متعلق بہت سے اقوال ہیں جن میں سے راجح تر یہی قول ہے کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر برابر ہوں گی وہ اس مقام پر مقیم ہوں گے ان کے ایک طرف اہل جنت ہوں گے جنہیں وہ ان کے نورانی چہروں کی بدولت پہچانتے ہوں گے اور دوسری طرف اہل دوزخ ہوں گے جن کی رو سیاہی اور کالی کلوٹی رنگت کی بنا پر انہیں بھی پہچانتے ہوں گے۔ [٤٧] اس آیت کے دو مطلب بیان کیے گئے ہیں ایک یہ کہ جو لوگ جنت میں داخل ہوچکے ہوں گے انہیں دیکھ کر اصحاب اعراف انہیں سلام علیکم کہیں گے اور ان اصحاب اعراف کی اپنی کیفیت یہ ہوگی کہ وہ بھی جنت میں داخل ہونے کی توقع رکھتے ہوں گے دوسرے یہ کہ کئی اہل جنت ابھی حساب و کتاب سے فارغ نہ ہوئے ہوں گے مگر اصحاب اعراف ان کے نورانی چہرے دیکھ کر پہچان لیں گے کہ وہ جنتی ہیں تو انہیں سلام علیکم کے بعد جنت کی خوشخبری دیں گے اور ان حساب کتاب میں مشغول لوگوں کی اپنی کیفیت یہ ہوگی کہ گو وہ ابھی تک جنت میں داخل نہ ہوئے ہوں گے تاہم وہ اس کی امید ضرور رکھتے ہوں گے۔ جنت میں دیدار الٰہی :۔ اہل جنت اور اہل دوزخ کے درمیان مکالمہ، اصحاب اعراف کا ان سے مکالمہ اور ان کو بعید مقامات سے دیکھ کر پہچان لینے اور ایک دوسرے کی آوازیں سن کر ان کا جواب دینے کو اور روز محشر کے احوال کو موجودہ قوتوں اور عقل سے جانچنا درست نہیں اور اس کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے فرمایا کہ’’اس دن تم اپنے پروردگار کو اس طرح بلاتکلف دیکھ سکو گے جس طرح چاند کو دیکھ رہے ہو اور تمہیں کوئی رکاوٹ محسوس نہ ہوگی‘‘ (بخاری۔ کتاب التوحید باب ( وُجُوْہٌ یَّوْمَیِٕذٍ نَّاضِرَۃٌ 22؀ۙ) 75۔ القیامۃ :22) حالانکہ اس دنیا میں موجودہ آنکھوں سے دیدار الٰہی ناممکن ہے۔ الاعراف
47 [٤٨] اہل اعراف کا اہل دوزخ سے مکالمہ :۔ یعنی اصحاب اعراف دوزخیوں کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہ کریں گے کیونکہ وہ خود بھی بیم و رجاء کی حالت میں ہوں گے دوزخ سے ڈر رہے ہوں گے اور جنت کی آس لگائے ہوئے ہوں گے لہٰذا ان کی آنکھوں کو اہل جہنم کی طرف پھیرا جائے گا تو پہلی بات جو ان کے منہ سے نکلے گی وہ یہ ہوگی کہ اے اللہ! ہمیں ان ظالم لوگوں میں شامل نہ کرنا۔ پھر جب نظر پڑ ہی گئی تو سب سے پہلی بات جو وہ اہل دوزخ سے پوچھیں گے یہ ہوگی کہ آج تمہارا وہ جتھا کہاں گیا جس کے متعلق شیخیاں بگھارا کرتے تھے۔ جیسا کہ جب سورۃ مدثر کی یہ آیت نازل ہوئی کہ ’’دوزخ پر انیس داروغے مقرر ہیں‘‘ تو کافر کہنے لگے کہ ’’ہم تو ہزاروں کی تعداد میں ہیں ہم میں سے دس آدمی بھی ایک کا مقابلہ نہ کرسکیں گے؟ پھر ان میں سے ایک پہلوان قسم کا آدمی کہنے لگا کہ ان میں سے سترہ کو تو میں سنبھال لوں گا باقی دو کے لیے تم سب بھی کافی نہ ہو گے‘‘ اور دوسری بات وہ اہل دوزخ سے یہ کہیں گے کہ دیکھ لو جنت میں وہی لوگ جا رہے ہیں جنہیں تم فقیر مسکین اور غلام کہہ کر حقیر سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ ’’ایسے لوگوں پر اللہ کی رحمت کیسے ہو سکتی ہے؟ اور اگر ہونا ہوتی تو یہاں اس دنیا میں بھی اس رحمت کا کچھ حصہ انہیں مل جاتا۔‘‘ انہیں سے یہ کہا جا رہا ہے کہ آج بلاخوف و خطر جنت میں داخل ہوجاؤ اس طرح اصحاب اعراف اہل دوزخ پر ان کی کذب بیانی، ان کے تکبر اور غلط تصورات کو واضح کردیں گے۔ الاعراف
48 الاعراف
49 الاعراف
50 [ ٤٩] دوزخی جب آگ میں جل رہے ہوں گے تو اپنے دنیا کے شناسا اہل جنت سے فریاد کریں گے کہ ہم پر کچھ پانی ہی گرا دو تاکہ ہمیں کچھ آرام مل سکے یا کچھ کھانے کے لیے ہی گرا دو۔ اہل جنت اس کا یہ جواب دیں گے کہ یہ چیزیں تم پر حرام کردی گئی ہیں لہٰذا ہم اللہ کی نافرمانی کر کے خود گناہ گار نہیں بننا چاہتے۔ الاعراف
51 [٥٠] کھیل تماشا ہی کو اپنا دین سمجھنے والے :۔ جو انسان روز آخرت پر اور اللہ کے سامنے جواب دہی پر ایمان نہیں رکھتا اس کی زندگی ایمان رکھنے والوں سے یکسر مختلف ہوتی ہے اس کی زندگی کا منتہائے مقصود صرف یہ رہ جاتا ہے کہ دنیا میں جس قدر عیش و عشرت کرسکتا ہے کرلے، جس جائز یا ناجائز طریقے سے مال آتا ہے آئے۔ ان کی نظروں میں یہ دنیا بس ایک تفریح گاہ رہ جاتی ہے جس میں ہر شخص کو اپنی حیثیت کے مطابق عیش و عشرت اور سیر و تفریح کر کے اس دنیا سے رخصت ہونا چاہیے۔ قیامت کے دن ایسے لوگوں سے سلوک بھی ان کے نظریہ کے مطابق کیا جائے گا۔ انہوں نے روز آخرت کو اور اللہ کے سامنے جوابدہی کو بھلایا تو اللہ بھی انہیں ایسے ہی بھلا دے گا وہ آگ میں جل رہے ہوں تو جلتے رہیں بھوکے پیاسے ہیں تو بھوکے پیاسے ہی رہیں انہیں نہ کچھ کھانے کو ملے گا نہ پینے کو۔ تاکہ دنیا میں جو عیاشیاں کرچکے ہیں ان کا ردعمل بھی دیکھ لیں۔ الاعراف
52 [٥١] کتاب اللہ رحمت کیسے :۔ یعنی ہم نے اپنے علم کی بنا پر یہ بتلا دیا ہے کہ نیکوکاروں کا انجام ایسا ہوگا اور بدکاروں کا ایسا روز آخرت بھی یقینی ہے اور ہر عمل کی جزا و سزا بھی مل کے رہے گی۔ بدکاروں پر اس دنیا میں بھی عذاب آتا ہے اور آخرت میں تو عذاب یقینی ہے۔ غرض ہر طرح کی تفصیل اس کتاب میں مذکور ہے۔ مگر اس کتاب سے فائدہ صرف وہی لوگ اٹھاتے ہیں جو اس پر ایمان لاتے ہیں۔ ایمان لاتے ہی ان کی زندگی میں خوشگوار تبدیلی شروع ہوجاتی ہے۔ ان کے اخلاق سنور جاتے ہیں وہ دوسروں کو فائدہ پہنچانے اور ان کی بھلائی کی باتیں سوچنے لگتے ہیں۔ ان کی زندگی انتہائی ذمہ دارانہ زندگی بن جاتی ہے پھر ان کی آخرت بھی سنور جاتی ہے اس طرح یہ کتاب ان کی دنیوی زندگی میں بھی ہدایت اور رحمت ثابت ہوتی ہے اور آخرت میں بھی۔ الاعراف
53 [٥٢] اہل دوزخ کی دوبارہ دنیا میں آنے کی درخواست اور اس کا جواب :۔ تاویل سے مراد کسی خبر کا مصداق یا اس کے واقع ہونے کا وقت ہے اور یہاں مراد قیامت کا واقع ہونا ہے یعنی جب قیامت واقع ہوجائے گی تو اس وقت کافر کہیں گے کہ وہ بات تو سچ نکلی جو رسول کہا کرتے تھے۔ اب کیا کیا جائے؟ اب تو ہمیں یقیناً سزا ملے گی پہلے وہ عذاب سے بچاؤ کے لیے کوئی سفارشی دیکھیں گے جب وہ نہ ملے گا تو دنیا میں دوبارہ آنے اور دوبارہ امتحان دینے کی درخواست کریں گے اور کہیں گے کہ اب کی بار ہم یقیناً اللہ کے فرمانبردار بن کے رہیں گے اور یقیناً اس امتحان میں کامیاب اتریں گے۔ اللہ نے اس مقام پر ان کی اس درخواست کا جواب ذکر نہیں فرمایا تاہم بعض دوسرے مقامات پر انہیں دو طرح کے جواب دیئے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ جب انہوں نے حقیقت کا مشاہدہ کرلیا اور غیب کے پردے اٹھ گئے تو پھر اب ایمان کیسا اور فرمانبرداری کیسی؟ کیونکہ ایمان کی صفت ہی غیب پر ایمان لانا ہے اور آنکھوں دیکھی چیزوں پر تو کافر بھی یقین کرلیتے ہیں لہٰذا اس وقت ایمان لانے کا کچھ مطلب ہی نہیں اور نہ ایسا ایمان کچھ فائدہ ہی دے سکتا ہے اور دوسرا جواب یہ دیا گیا کہ اگر انہیں دوبارہ دنیا میں بھیج بھی دیا جائے تو یہ بدبخت دنیا کی رنگینیوں میں پھر بھی ایسے ہی محو ہوجائیں گے اور اسی طرح کے نافرمان بن جائیں گے جیسے پہلے تھے اور انہیں یہ وعدہ یاد تک نہ رہے گا جیسے دنیا میں جو کچھ یہ لوگ باتیں بنایا کرتے تھے آج انہیں ان میں سے کچھ یاد نہیں پڑتا۔ اسی طرح دوبارہ دنیا میں جا کر اس وقت کے وعدہ کو بھی بھول جائیں گے۔ الاعراف
54 [٥٣] یہاں دن سے مراد ہمارا یہ ٢٤ گھنٹے کا دن نہیں جو سورج سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ یہ سورج تو اس وقت موجود ہی نہ تھا۔ قرآن کریم میں ایک اور مقام پر یوم کی مقدار ایک ہزار سال کا ذکر آیا ہے (٢٢ : ٤٧) اور دوسرے مقام پر پچاس ہزار سال کا (٧٠ : ٤) لہٰذا یہاں چھ دن سے چھ ادوار ہی مراد لیے جا سکتے ہیں۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھئے سورۃ حم السجدہ ٤١ کی آیات ٩ تا ١٢) [٥٤] استواء علی العرش کا مفہوم :۔ قرآن میں جہاں بھی استویٰ علی کا لفظ آیا ہے تو اس کے معنی قرار پکڑنا یا جم کر بیٹھنا ہے لیکن بعض عقل پرست فرقے جن میں جہمیہ اور معتزلہ سرفہرست ہیں آیت ﴿اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ ﴾کا ترجمہ عرش پر متمکن ہوگیا یا کائنات کے نظام پر غالب آ گیا یا زمام اختیار و اقتدار سنبھالی وغیرہ کرتے ہیں اور استویٰ کے معنی استولیٰ سے کرتے ہیں جن کے متعلق امام ابن قیم نے فرمایا کہ نون الیھود ولام جھمی ھما------ فی وحی رب العرش زائد تان یعنی یہودیوں کا نون ( حطة کی بجائے حنطة کہنا) اور جہمیہ کالام (یعنی استویٰ کی بجائے استولیٰ سمجھنا) دونوں باتیں وحی الٰہی سے زائد ہیں۔ فرقہ جہمیہ کا تعارف :۔ جہمیہ فرقہ کا بانی جہم بن صفوان دوسری صدی ہجری کے آغاز میں ہشام بن عبدالملک (١٠٥ ھ تا ١٢٥ ھ) کے زمانہ میں ظاہر ہوا۔ یہ شخص ارسطو کے تجریدی نظریہ ذات باری سے متاثر تھا (ارسطو ایک یونانی فلاسفر تھا جو ذات باری کے وجود کا قائل تھا مگر تجریدی نظریہ رکھتا تھا اور آخرت کا منکر تھا) جہم اپنے زعم کے مطابق اللہ تعالیٰ کی مکمل تنزیہہ بیان کرتا تھا اور اللہ تعالیٰ کی ان صفات کی نفی کرتا تھا جو کتاب و سنت میں وارد ہیں اور اس تنزیہہ میں اس نے اس قدر غلو اور مبالغہ سے کام لیا کہ بقول امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اس نے اللہ تعالیٰ کو لاشے اور معدوم بنا دیا وہ اللہ تعالیٰ کے لیے جہت یا سمت مقرر کرنے کو شرک قرار دیتا تھا اور اس کی طرف ہاتھ، پاؤں، چہرہ، آنکھیں اور پنڈلی کی نسبت کرنے کو، جن کا قرآن میں ثبوت موجود ہے، ناجائز قرار دیتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے خود اپنے لیے عرش پر قرار پکڑنے یا اپنے ہاتھوں، آنکھوں، چہرے اور پنڈلی کا غیر مبہم الفاظ میں قرآن میں ذکر فرمایا ہے تو اس کی تنزیہہ خود اس سے زیادہ بہتر اور کون کرسکتا ہے۔ رہی یہ بات کہ اس کا عرش کیسا ہے یا اس نے کس طرح عرش پر قرار پکڑا ہے یا اس کا چہرہ، آنکھیں اور ہاتھ وغیرہ کیسے ہیں تو یہ جاننے کے ہم مکلف نہیں ہیں کیونکہ اس نے خود ہی فرمایا ہے کہ ﴿فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰہِ الْاَمْثَالَ﴾نیز فرمایا ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ﴾ تو بس ایک مسلمان کا کام یہ ہے کہ جو کچھ کتاب و سنت میں مذکور ہے اسے جوں کا توں تسلیم کرلے اسے عقل اور فلسفہ کی سان پر چڑھا کر اس کی دوراز کار تاویلات و تحریفات پیش کرنا ایک مسلمان کا شیوہ نہیں ہوسکتا اور نہ قرآن ایسی فلسفیانہ موشگافیوں کا متحمل ہی ہوسکتا ہے کیونکہ جن لوگوں پر یہ قرآن نازل ہوا تھا وہ امی تھے اور فلسفیانہ موشگافیوں سے قطعاً نابلد تھے۔ صفات الہٰی میں بحثیں کرنے والے ملعون ہیں :۔ قرآن کی ایسی آیات جن میں اللہ تعالیٰ کی صفات مذکور ہوں ان کی کرید کرنا اور ان کی عقلی توجیہات تلاش کرنا ان لوگوں کا کام ہے جن کے دلوں میں ٹیڑھ ہوتی ہے اور وہ یہ کام کسی فتنہ انگیزی یعنی کسی نئے فرقے کی طرح ڈالنے کی خاطر کرتے ہیں جس کے وہ قائد شمار ہو سکیں اور اس طرح امت کو فرقہ بازی کے فتنے سے دو چار کردیتے ہیں (ملاحظہ ہو سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ٧ اور ٨) اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿وَذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْٓ اَسْمَاۗیِٕہٖ﴾ یعنی جو لوگ اللہ کے اسماء (صفات الہی) میں ٹیڑھی راہیں اختیار کرتے ہیں ان کی کوئی بات نہ مانو یاد رہے کہ الحاد کا تعلق عموماً ایسے باطل عقائد سے ہوتا ہے جو صفات الٰہی سے متعلق ہوتے ہیں۔ [٥٥] یعنی اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کو پیدا کر کے عرش پر قرار پکڑنے کے بعد بیٹھ نہیں گیا جیسا کہ بعض دوسرے گمراہ فرقوں کا خیال ہے بلکہ وہ پوری کائنات پر اکیلا کنٹرول کر رہا ہے یہ سورج چاند ستارے اس کی مقرر کردہ چال کے مطابق اپنے اپنے کام پر لگے ہوئے ہیں اور اس کے حکم سے سرمو ادھر ادھر نہیں ہو سکتے اور کائنات میں جو کچھ تصرفات اور حوادث رونما ہو رہے ہیں سب اسی کے حکم اور اسی کی قدرت سے واقع ہوتے ہیں۔ [٥٦] حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ کے لیے ہے :۔ یعنی یہ نہیں ہوسکتا کہ کائنات کی ایک ایک چیز کا خالق تو اللہ تعالیٰ ہو اور تدبیر امور کائنات میں دوسرے بھی اس کے ساتھ شامل ہوجائیں کوئی بارش برسانے کا دیوتا ہو تو کوئی فصلیں پیدا کرنے والا اور کوئی دوسرا مال و دولت عطا کرنے والا ہو۔ جو چیزیں خود اللہ تعالیٰ کے فرمان کے آگے بے بس اور مجبور ہوں وہ دوسری چیزوں پر کیا حکم چلا سکتی ہیں؟ اور انسانی زندگی پر کیسے اثر انداز ہو سکتی ہیں؟ مالک ہی یہ حق رکھتا ہے کہ اپنی مملوکہ چیز میں جیسے چاہے تصرف کرے اور مملوک اسی کا تابع فرمان ہو۔ اگرچہ ربط مضمون کے لحاظ سے یہاں ستارہ پرستی کا رد مقصود ہے تاہم اس جملہ کا حکم عام ہے۔ یعنی اس دنیا میں انسانوں پر اللہ کے حکم کے سوا کسی دوسرے کا حکم چلنے کی کوئی وجہ نہیں۔ انسان اللہ کی مخلوق ہیں اور اسی کا عطا کردہ رزق کھاتے ہیں لہٰذا یہاں نہ حاکم کو اختیار ہے کہ وہ اللہ کے حکم کے خلاف کوئی حکم دے اور نہ عام انسانوں کو چاہیے کہ وہ اللہ کے حکم کے سوا کسی دوسرے کا حکم مانیں۔ جیسا کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ جس کام میں اللہ کی نافرمانی ہوتی ہو ایسے کام میں کسی مخلوق کی اطاعت نہ کرنی چاہیے۔ نیز اس آیت کی رو سے نظام خلافت کے سوا باقی سب نظام ہائے سیاست باطل قرار پاتے ہیں جن میں اللہ کے سوا دوسروں کا قانون نافذ ہوتا ہے۔ [٥٧] برکت کا مفہوم :۔ برکت کا مطلب یہ ہے کہ جن متوقع فوائد اور خیر و بھلائی کے لیے کوئی چیز پیدا کی گئی ہے وہ پورے کے پورے فوائد اس سے حاصل ہوجائیں یہاں اللہ تعالیٰ کے بابرکت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی کوئی بھی چیز جس مقصد اور خیر و بھلائی کے لیے بنائی تھی اس سے پورے کے پورے مقاصد حاصل ہو رہے ہیں۔ الاعراف
55 [٥٨] دعا کے آداب :۔ ایسے ہی ہر چیز کے خالق و مالک اور بابرکت اللہ تعالیٰ کے سامنے تمہیں اپنی حاجات پیش کرنا چاہئیں۔ اسی سے فریاد کرو اور اسی کی عبادت کرو۔ عجز و انکسار کے ساتھ دعا کرو اور تہہ دل سے اور دل میں کرو اور دعا میں ریاکاری کا دخل نہ ہو اور دعا میں حد ادب سے نہ بڑھنا چاہیے مثلاً ایسی چیزوں کی دعا نہ مانگے جو عادتاً یا شرعاً محال ہوں یا معاصی یا سائل لغو چیزوں کی طلب کرنے لگے یا ایسا سوال کرے جو مانگنے والے کی شان اور حیثیت کے مطابق حال نہ ہو۔ مثلاً کوئی اپنے لیے بادشاہ بننے کی دعا کرے کہ بیٹھے بٹھائے بادشاہت مل جائے تو ایسی دعا کرنا بھی حد سے بڑھنے کے ضمن میں آ جاتا ہے۔ الاعراف
56 [٥٩] فساد فی الارض کیا ہے ؟:۔ فساد فی الارض یہ ہے کہ انسان اللہ کی بندگی چھوڑ کر اپنے نفس کی یا دوسروں کی اطاعت شروع کر دے اور اللہ کی بتلائی ہوئی راہ ہدایت کو چھوڑ کر اپنے اخلاق، معاشرت، معیشت، سیاست اور تمدن کی عمارت کو ایسے اصول و قوانین پر قائم کرے جو کسی اور کی رہنمائی سے ماخوذ ہوں یہی وہ بنیادی فساد ہے جس سے زمین کے انتظام میں خرابی کی بے شمار صورتیں پیدا ہوجاتی ہیں اور ایسے پیچیدہ مسائل اٹھ کھڑے ہوتے ہیں جن کے حل کی کوئی صورت نظر نہیں آتی اور اگر کوئی حل سوچا بھی جائے تو مسائل سلجھنے کی بجائے مزید پیچیدہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ضمناً اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء زمین میں اصلاح ہی اصلاح تھی کیونکہ پہلے بشر آدم خود نبی تھے بعد میں شیطانی عناصر نے اس اصلاح میں بگاڑ کی صورتیں پیدا کیں تو اللہ تعالیٰ انبیاء بھیج کر اس بگاڑ کو ختم کرتا رہا۔ جبکہ انسانی تمدن کی داستان لکھنے والے یہ نظریہ قائم کرتے ہیں کہ انسان ظلمت سے نکل کر بتدریج روشنی میں آیا ہے اور اس کی زندگی بگاڑ سے شروع ہوئی جو بتدریج سنور رہی ہے قرآن اس نظریہ کی پر زور تردید کرتا ہے۔ معاشرے کی اصلاح کا آغاز توحید ہی سے ہوسکتا ہے :۔ یعنی بگاڑ کو درست کرنے کی واحد صورت یہ ہے کہ اس کی ابتدا توحید سے کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام انبیاء جو دنیا میں آئے عموماً ان حالات میں آئے کہ معاشرے میں طرح طرح کا بگاڑ پیدا ہوچکا تھا، تو انہوں نے اپنی دعوت کا آغاز توحید ہی سے کیا کہ اللہ کے ساتھ کسی بھی دوسرے کی بندگی سے اجتناب کو شرط اول قرار دیا یہ اصول اپنانے کے بعد معاشرہ سے برائیاں خود بخود رخصت ہوتی چلی جاتی ہیں۔ الاعراف
57 [٦٠] خوف اور طمع سے پکارنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنی تمام امیدیں اللہ سے وابستہ رکھے اور اس کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہو اور ڈرنا اس بات سے چاہیے کہ کسی غلطی یا تقصیر کی وجہ سے کہیں اللہ کی بارگاہ میں مردود ہی نہ جاؤں۔ دونوں پہلوؤں کو بہرحال ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ تاہم اللہ سے حسن ظن کا پہلو غالب رہنا چاہیے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے تین دن پہلے فرمایا’’تم میں سے ہر شخص کو مرتے وقت اللہ سے حسن ظن رکھنا ضروری ہے۔‘‘ (مسلم۔ کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا باب الامر بحسن ظن باللہ تعالیٰ ) [٦١] مردہ زمین کی زندگی سے بعث بعد الموت پر استدلال :۔ اکثر دہریت پسندوں اور مشرکین مکہ کی دوسری زندگی کے انکار پر یہ دلیل ہوا کرتی کہ ہر چیز جو زمین میں چلی جاتی ہے مٹی میں مل کر مٹی ہوجاتی ہے پھر دوبارہ ہم کس طرح اٹھا کھڑے کیے جائیں گے اس آیت میں ایسے لوگوں کی دلیل کا رد پیش کیا جا رہا ہے مثلاً یہ کہ ہر چیز جو زمین میں چلی جائے وہ مٹی نہیں ہوجاتی بلکہ مناسب موقع اور احوال سے اس میں زندگی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کی ایک مثال تو غلے کا دانہ ہے جو زمین میں دبا دیا جاتا ہے اور جب اس کی مناسب آبیاری کی جاتی ہے اور موسم موافق ہوتا ہے تو اگ آتا ہے مٹی میں مل کر مٹی نہیں ہوجاتا اور دوسری مثال یہ ہے کہ ایک زمین مدتوں سے بے کار اور بنجر پڑی ہے اس پر باران رحمت کا نزول ہوتا ہے تو جس جس درخت کے بیج اس میں کسی وقت گرے تھے اس مردہ زمین سے ان پھلوں کے بیجوں سے ان کے درخت اگ آتے ہیں وہ پڑے ہوئے بیج اس طویل مدت میں مٹی میں مل کر مٹی نہیں ہوگئے اور اگر ہو بھی گئے تھے تو مناسب حالات ملنے پر اگ آئے۔ مردہ بیجوں میں زندگی پیدا ہوگئی اور مردہ زمین میں بھی بارش سے زندگی پیدا ہوگئی کہ اس سے مختلف قسم کے پھل اور طرح طرح کی نباتات پیدا ہونے لگیں اسی طرح انسانی جسم مٹی میں مل کر مٹی ہو بھی جائے تو بھی مناسب حالات ملنے پر اس میں زندگی کے آثار پیدا ہوجائیں گے اور انسان کی دوبارہ زندگی کے لیے مناسب وقت نفخہ ئصور ثانی ہے اور حدیث میں آتا ہے کہ انسان کا جسم مٹی میں مل کر مٹی بن جاتا ہے صرف اس کی ریڑھ کی ہڈی کی دم جسے عجب الذنب کہتے ہیں باقی رہے گی اور یہی ہڈی بیج کا کام دے گی۔ نیز حدیث میں آیا ہے کہ جب صور میں دوسری بار پھونکا جائے گا تو لوگ زمین سے اس طرح اگ آئیں گے جیسے بارش سے نباتات اگ آتی ہے اور یہی اس آیت کا مطلب ہے۔ الاعراف
58 [٦٢] معاشرے میں دو قسم کے لوگ :۔ سابقہ آیت میں مردہ زمین کے زندہ ہوجانے سے اخروی زندگی پر استدلال کیا گیا ہے اور اس آیت میں مختلف قسم کے لوگوں کے دلوں کی کیفیت کو زمین کے مختلف طبقات کے مانند قرار دے کر لوگوں کا حال بیان کیا جا رہا ہے یعنی جس طرح زمین کے بعض قطعات عمدہ، زرخیز اور شاداب ہوتے ہیں اور بعض ردی ہوتے ہیں جن میں مفید نباتات کی بجائے جھاڑ جھنکار ہی پیدا ہوتا ہے حالانکہ ان سب پر بارش ایک ہی جیسی برستی ہے۔ اسی طرح لوگوں کی کیفیت ہے اور وحی الٰہی کی باران رحمت سے سلیم الفطرت لوگ تو خوب پھلتے پھولتے ہیں لیکن جن کے دلوں میں خبث بھرا ہوتا ہے۔ اس باران رحمت کے بعد ان کے اندر سے وہی خبث باطن جھاڑ جھنکار کی صورت اختیار کر کے باہر نکل آتا ہے اور انہیں اعتراضات اور استہزاء کے سوا کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ اس مثال کے بعد اللہ تعالیٰ نے چند معروف انبیاء کی دعوت کا ذکر کر کے بتلایا کہ ان کی مخاطب قوم اسی طرح دو حصوں میں بٹ گئی ایک سلیم الفطرت لوگ تھے جو وحی الٰہی کی باران رحمت سے خوب برگ و بار لائے دوسرے خبیث سرشت والے، جن کے اندر کا کھوٹ اسی باران رحمت سے جھاڑ جھنکار کی صورت میں باہر نکل آیا۔ آخر کار اس خبیث عنصر کو اسی طرح چھانٹ کر پھینک دیا گیا جس طرح ایک مالی اپنے باغ سے جھاڑ جھنکار کو کاٹ کر پرے پھینک دیتا ہے۔ الاعراف
59 [٦٣] سیدنا نوح علیہ السلام کی بعثت سے پہلے شرک کا آغاز کیسے ہوا تھا ؟ سیدنا آدم علیہ السلام کی وفات کے بعد مدتوں ان کی اولاد راہ ہدایت پر قائم رہی پھر آہستہ آہستہ ان میں بگاڑ پیدا ہونے لگا اور یہ پہلے بتلایا جا چکا ہے کہ فساد فی الارض کی بنیاد شرک پر ہی اٹھتی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کے مطابق اس شرک کا آغاز اس طرح ہوا کہ اس قوم میں سے وقتاً فوقتاً پانچ بزرگ اور صالح قسم کے لوگ وفات پا گئے جنہیں دیکھ کر ہی اللہ تعالیٰ کی یاد آنے لگتی تھی جب یہ بزرگ فوت ہوگئے تو عبادت گزار لوگوں نے ان کے خلا کو بری طرح محسوس کیا شیطان نے انہیں پٹی پڑھائی کہ اگر تم ان بزرگوں کے مجسمے بنا کر سامنے رکھ لو تو تمہیں مطلوبہ فائدہ ہوسکتا ہے تمہارا اللہ کی عبادت میں اسی طرح دل لگا کرے گا جس طرح ان کی موجودگی میں لگا کرتا تھا۔ سادہ لوح لوگ شیطان کے اس فریب میں آگئے اور انہوں نے ان پانچ بزرگوں کے مجسمے بنا کر مسجدوں میں اپنے سامنے رکھ لیے۔ یہ لوگ تو ان مجسموں کو دیکھ کر اللہ ہی کی عبادت کرتے رہے مگر بعد میں آنے والی نسلوں نے انہی مجسموں کی پرستش شروع کردی اور جب سیدنا نوح علیہ السلام مبعوث ہوئے تو ان کی قوم بری طرح ان پانچ بزرگوں، جن کے نام ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر سورۃ نوح میں مذکور ہیں کی پرستش میں پھنس چکی تھی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ نوح) سیدنا نوح علیہ السلام کا مرکز تبلیغ :۔ نوح علیہ السلام کا مرکز دعوت عراق کا علاقہ تھا اور غالباً اس وقت دنیا کا صرف یہی علاقہ انسانوں سے آباد تھا اور ابتداً ء دجلہ و فرات کا درمیانی علاقہ آپ کی تبلیغ کا مرکز بنا۔ ماسوائے سیدنا آدم علیہ السلام کے باقی تمام انبیاء کی دعوت کا آغاز شرک سے امتناع اور خالص اللہ کی پرستش سے ہوتا ہے اور ایک بگڑے ہوئے معاشرے کی اصلاح کا آغاز سیدنا نوح علیہ السلام نے بھی اسی دعوت سے کیا اور ساتھ ہی اس بات پر متنبہ کردیا کہ اگر تم شرک سے باز نہ آئے تو تم پر سخت قسم کا عذاب واقع ہوگا۔ الاعراف
60 [٦٤] سرداروں کی مخالفت کی وجوہ :۔ انبیاء علیہم السلام کی دعوت کی مخالفت میں عموماً سرداران قوم ہی پیش پیش ہوا کرتے ہیں اس کی بڑی وجہ تو یہ ہوتی ہے کہ اگر وہ نبی کی دعوت قبول کرلیں تو انہیں ان مناصب یا اس مقام سے دستبردار ہونا پڑتا ہے جو معاشرے میں انہیں حاصل ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں جب نبی یہ دعوت دیتا ہے کہ اللہ کے سوا تمہارا کوئی کار ساز حاجت روا اور مشکل کشا نہیں تو اس سے از خود ان کے بتوں کی توہین ہوجاتی ہے اور اس کے ساتھ ان کی اپنی عقلوں اور آباؤ اجداد کی عقلوں کی بھی توہین ہوجاتی ہے۔ لہٰذا یہ سردار قسم کے لوگ انبیاء علیہم السلام کی دعوت پر فوراً بھڑک اٹھتے ہیں اور یہی وہ طبقہ ہوتا ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿لَا یَخْرُجُ اِلَّا نَکِدًا﴾ اس طرح ان کا خبث باطن کھل کر سامنے آ جاتا ہے پھر صرف یہی نہیں کہ یہ لوگ خود دعوت قبول نہیں کرتے بلکہ عام طبقہ کو بھی اس راہ سے روکتے اور قبول دعوت پر طرح طرح کی پابندیاں لگا دیتے ہیں اور ایسے لوگوں نے جو سیدنا نوح علیہ السلام کو جواب دیا تو ان کا استدلال یہ تھا کہ اپنے باپ دادا کے دین کو چھوڑ دینے اور کوئی اور دین اختیار کرنے سے بڑی گمراہی اور کیا ہو سکتی ہے؟ لہٰذا صریح گمراہی میں ہم نہیں بلکہ تم ہو۔ الاعراف
61 الاعراف
62 [٦٥] نوح علیہ السلام نے جواب میں کہا کہ گمراہی میں میں نہیں بلکہ تم گمراہی میں پڑے ہوئے ہو۔ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا بلکہ اللہ کا رسول ہونے کی حیثیت سے اس کا پیغام تمہیں پہنچا رہا ہوں اور اگر تم میری دعوت قبول کرلو تو اس میں تمہاری ہی بھلائی اور خیر خواہی ہے ایک تو تمہاری دنیا اور آخرت سنور جائے گی دوسرے عذاب الٰہی سے بچ جاؤ گے۔ الاعراف
63 [٦٦] ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کی دعوت کے جواب میں منکرین کی طرف سے ایک ہی جیسے اعتراضات کیے جاتے رہے ہیں ایسے ہی اعتراضات میں سے ایک یہ ہے کہ تم ہمارے ہی جیسے آدمی ہو کر اللہ کے رسول کیسے ہو سکتے ہو۔ اس مقام پر گو اس اعتراض کا جواب نہیں دیا گیا تاہم بہت سے مقامات پر اس اعتراض کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ انسانوں کی ہدایت کا اس کے سوا کوئی ذریعہ ممکن ہی نہیں کہ انہی میں سے ایک رسول مبعوث کیا جائے جو انہی کی زبان میں انہیں اللہ کا پیغام پہنچا سکے۔ الاعراف
64 [٦٧] انبیاء کے قصوں میں تکرار و اختصار کی وجہ :۔ نوح علیہ السلام کا قصہ جس اختصار کے ساتھ یہاں بیان کیا گیا ہے اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان میں اور ان کی قوم میں جو سوال و جواب ہوئے وہ بس دو چار ملاقاتوں میں ہوگئے ہوں گے۔ حالانکہ نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو ساڑھے نو سو سال تبلیغ کی تھی۔ نوح علیہ السلام کا قصہ قرآن میں متعدد بار مذکور ہوا ہے اور ہر موقع پر کوئی نہ کوئی تفصیل مل جاتی ہے۔ یہ قرآن کا مخصوص انداز بیان ہے کہ جس مقام پر موضوع کی نسبت سے جتنا ذکر درکار تھا اتنا ہی بیان کردیا گیا کیونکہ قرآن کا مقصود محض قصہ گوئی نہیں بلکہ اس وقت جو بات انسانی ہدایت کے لیے اہم ہو صرف اتنی ہی بیان کی جاتی ہے مثلاً یہاں یہ موضوع جاری ہے کہ انبیاء کو ہمیشہ سے جھٹلایا جاتا رہا۔ جھٹلانے والے لوگ قوم کے سردار ہوتے ہیں جو اپنی ہٹ دھرمی پر اڑے رہتے ہیں بالآخر ان پر اللہ کا عذاب آتا ہے جو انہیں تباہ کر کے رکھ دیتا ہے اس لیے یہاں اتنا ہی ذکر کیا گیا اور جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مخالفین کے مظالم پر صبر کرنے کی تلقین مقصود تھی وہاں یہ بیان کیا گیا کہ نوح علیہ السلام نے تو ساڑھے نو سو سال تک صبر کیا تھا لہٰذا تمہیں بھی صبر کرنا چاہیے اور جہاں نوح علیہ السلام کے نافرمان بیٹے کے غرق ہونے کا ذکر مقصود تھا نیز یہ کہ وہ کیوں غرق ہوا وہاں طوفان نوح علیہ السلام کی تفصیل بیان کی گئی تمام انبیاء علیہم السلام کے حالات کے متعلق قرآن میں آپ کو اسی انداز کا بیان ملے گا۔ [٦٨] قوم نوح کی غرقابی :۔ ساڑھے نو سو سال کی تبلیغ کے نتیجہ میں مٹھی بھر لوگ اور بعض اقوال کے مطابق صرف چالیس آدمی آپ پر ایمان لائے۔ جب نوح علیہ السلام باقی لوگوں کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے تو آپ نے ان کے حق میں بددعا کی کہ یا اللہ ان میں سے اب کسی کو بھی زندہ نہ چھوڑنا کیونکہ جس ہٹ دھرمی پر یہ اتر آئے ہیں، ان کی اولاد بھی اب فاسق و فاجر ہی بنے گی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کشتی تیار کرنے کا حکم دیا پھر جب سیلاب آنا شروع ہوا تو آپ نے اس سے ذرا پہلے اپنے پیروکاروں کو اس میں سوار کیا اور جانداروں کا ایک ایک جوڑا بٹھا لیا۔ پھر سیلاب اس وسیع پیمانے پر آیا جس سے یہ ساری کی ساری بدکار قوم ڈوب کر مر گئی۔ (نیز دیکھیے سورۃ ہود کی آیت نمبر ٤٤ کا حاشیہ ) [ ٦٩] اندھے اس لحاظ سے تھے کہ انہوں نے نہ حق و باطل میں تمیز کی نہ اپنے نفع کو سوچا بلکہ ایسے ہٹ دھرم واقع ہوئے تھے کہ اندھے ہو کر اپنی سرکشی اور رسول کی تکذیب اور بغاوت پر ڈٹے رہے مگر بت پرستی سے باز نہ آئے بلکہ ایک دوسرے کو تاکید کرتے تھے کہ دیکھو نوح علیہ السلام کے کہنے پر چل کر کہیں اپنے معبودوں کو چھوڑ نہ دینا۔ الاعراف
65 [٧٠] سیدنا ہود علیہ السلام کا مرکز تبلیغ :۔ طوفان نوح کے بعد بھی ایک مدت سیدنا نوح علیہ السلام زندہ رہے پھر اس طوفان کے تقریباً چھ سو سال بعد سیدنا ہود علیہ السلام کو قوم عاد کی طرف بھیجا گیا یہ سام کی اولاد میں سے تھے جو عاد عرب کی قدیم ترین قوم تھی، جس کے افسانے عرب میں زبان زد عام تھے اس قوم کو عاد اولیٰ بھی کہا جاتا ہے اس کی شان و شوکت بھی ضرب المثل تھی اور دنیا سے اس کا نام و نشان تک مٹ جانا بھی ضرب المثل بن گیا تھا۔ اسی شہرت کی وجہ سے عربی زبان میں ہر قدیم چیز کے لیے عادی کا لفظ بولا جاتا ہے۔ آثار قدیمہ کو عادیات کہتے ہیں اور جس زمین کے مالک باقی نہ رہے ہوں یا مدت سے بنجر پڑی ہو اسے عادی الارض کہا جاتا ہے۔ اس قوم کا اصل مسکن احقاف کا علاقہ تھا جو حجاز، یمن اور یمامہ کے درمیان الربع الخالی کے جنوب مغرب میں واقع ہے یہیں سے پھیل کر ان لوگوں نے یمن کے مغربی سواحل اور عمان اور حضرموت سے عراق تک اپنی طاقت کا سکہ رواں کردیا تھا۔ یہ قوم بڑی قد آور، مضبوط اور سرکش تھی۔ رہنے کے لیے زمین دوز شہروں کے شہر بسا رکھے تھے اور بت پرستی میں بری طرح پھنسے ہوئے تھے۔ سیدنا ہود علیہ السلام نے انہیں بت پرستی سے منع کیا اور سمجھایا کہ یہ بت نہ کسی کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ سنوار سکتے ہیں لہٰذا صرف ایک اللہ کی عبادت کرو جو ہر چیز کا خالق و مالک ہے اور ہر قسم کے اختیارات و تصرفات صرف اسی کے قبضۂ قدرت میں ہیں۔ لہٰذا انہیں اپنی اس غلط روش سے پرہیز کرنا چاہیے۔ الاعراف
66 [٧١] زیادہ خداؤں کی ضرورت کا نظریہ اور سیدنا ھود علیہ السلام پر کم عقلی کا الزام :۔ مشرکین کسی بھی قوم یا کسی بھی مقام سے تعلق رکھتے ہوں وہ عموماً اللہ تعالیٰ اور اس کی فرمانروائی کو بھی دنیا کے کسی بادشاہ اور اس کی حکمرانی کی طرح خیال کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ جیسے بادشاہ اکیلا اپنی مملکت پر فرمانروائی نہیں کرسکتا بلکہ اس نے اپنے بہت سے مددگار و معاون افسر اپنے ماتحت رکھے ہوتے ہیں جنہیں وہ کچھ اختیارات بھی تفویض کرتا ہے اور ان کی مدد ہی سے حکومت کرتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی بعض ہستیوں کو بعض چیزوں کے اختیارات تفویض کر رکھے ہیں جن کی مدد سے وہ کائنات کی فرمانروائی کر رہا ہے، گویا وہ اللہ تعالیٰ کو بھی ایک عام انسان کی طرح خیال کرتے ہیں جو اپنی بادشاہی کے انتظام اور اسے چلانے کے لیے دوسروں کا محتاج ہوتا ہے اور بعض ملکوں کے مشرکین یہ ممد و معاون ہستیاں فرشتوں کو قرار دیتے ہیں۔ بعض دیوی دیوتاؤں کو بعض سیاروں کی ارواح کو اور بعض اولیاء اللہ کو۔ ان کی سمجھ میں یہ آ ہی نہیں سکتا کہ اللہ اکیلا بھی ساری کائنات کا انتظام چلا سکتا ہے۔ اس لیے جب ہود علیہ السلام نے انہیں سمجھایا کہ اللہ اکیلا ہی تمہارے سارے کے سارے کام سنوار سکتا ہے اسے کسی معاون کی ضرورت نہیں تو انہوں نے جواب میں کہا کہ دو ہی باتیں ہیں یا تو تم کم عقل ہو جسے یہ موٹی سی بات بھی سمجھ میں نہیں آ رہی یا پھر تم جھوٹے ہو۔ الاعراف
67 الاعراف
68 [٧٢] ہود علیہ السلام نے جواب میں کہا کہ نہ میں نادان ہوں نہ جھوٹا ہوں بلکہ اس اللہ کا جسے تم بھی رب اکبر تسلیم کرتے ہو۔ پیامبر ہوں اور تمہیں اللہ ہی کا پیغام پہنچا رہا ہوں اپنے پاس سے کچھ نہیں کہہ رہا کہ خود ہی کوئی بات بناکر اللہ کے ذمے لگا دوں اور حقیقتاً میں تمہارا خیر خواہ ہوں اور چاہتا ہوں کہ تمہیں کوئی روز بد نہ دیکھنا پڑے اور یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ میں ایک امین اور دیانت دار آدمی ہوں لہٰذا جو کچھ اور جتنا پیغام اللہ نے دیا ہے وہ بغیر کسی کمی بیشی کے تمہیں پہنچا رہا ہوں۔ الاعراف
69 [٧٣] قوم عاد کا قد و قامت اور ڈیل ڈول :۔ بعض روایات کے مطابق عاد کے لوگوں کے قد اوسطاً بارہ ہاتھ تھے اتنی ڈیل ڈول رکھنے والے انسانوں کی قوت اور طاقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے پھر انہیں رزق کی فراوانی بھی حاصل تھی۔ سیدنا ہود علیہ السلام نے اللہ کے احسان جتلا کر انہیں بتلایا کہ دیکھو نوح علیہ السلام کی قوم نے بت پرستی نہ چھوڑی تو ان کا جو حشر ہوا وہ تمہارے سامنے ہے لہٰذا اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو اور اسی کی عبادت کرو۔ الاعراف
70 [٧٤] تقلید آباء کا عذر :۔ ان نصائح کے جواب میں قوم نے وہی جواب دیا جو عام طور پر مشرکین دیا کرتے ہیں کہ ہم بھلا اپنے باپ دادا کے دین کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں جبکہ ہمارے اسلاف ہم سے بہت زیادہ نیک اور عالم تھے ہم تمہاری یہ بات کبھی نہ مانیں گے اور اگر تم فی الواقع سچے ہو تو جس عذاب کی دھمکی دے رہے ہو وہ لا سکتے ہو تو لے آؤ۔ یہ یاد رہے کہ ایسے جواب صرف قوم کے سردار قسم کے لوگ دیا کرتے ہیں اور وہ ایسے ہٹ دھرم کیوں واقع ہوتے ہیں؟ اس کی وجہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں باقی کچھ کمزور قسم کے لوگ ہر نبی پر ایمان لانے والے بھی ہوتے ہیں۔ یہی حال سیدنا ہود علیہ السلام کی قوم کا تھا۔ الاعراف
71 [٧٥] کسی کو اختیارات تفویض ہونے کی کوئی علمی سند نہیں :۔ قوم کے سرداروں کو ہود علیہ السلام نے جواب دیا کہ جب تمہاری سرکشی اور گستاخانہ بے حیائی اس حد تک پہنچ چکی ہے تو بس سمجھ لو کہ اب تم پر اللہ کا عذاب آنے ہی والا ہے۔ رہی تمہارے معبودوں کی بات جن میں سے تم کسی کو بارش کا دیوتا کہتے ہو کسی کو ہواؤں کا، کسی کو فصلوں کا کسی کو صحت کا اور کسی کو مال و دولت کا، تو یہ نام بھی تم نے یا تمہارے باپ دادوں ہی نے خود تجویز کیے تھے کسی آسمانی کتاب یا صحیفے میں یہ قطعاً مذکور نہیں کہ اللہ نے فلاں قسم کے اختیارات فلاں ہستی کو سونپ دیئے ہیں اور فلاں چیز کے اختیارات فلاں ہستی کو۔ ہمارے ہاں بھی ایسے نام بکثرت پائے جاتے ہیں مثلاً فلاں بزرگ غوث (فریاد رس) ہے فلاں ولی داتا ہے فلاں گنج بخش ہے فلاں مشکل کشا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس دور کے مشرک ایسی صفات کو دیوتاؤں، دیویوں، فرشتوں یا بعض ارواح کی طرف منسوب کرتے تھے اور ہمارے زمانہ میں یہ صفات بزرگوں کی طرف منسوب کردی جاتی ہیں خواہ وہ زندہ ہوں یا فوت ہوچکے ہوں۔ اللہ تعالیٰ یہ فرماتے ہیں کہ ایسی باتوں کے لیے شریعت الٰہی میں کوئی سند نہیں ہے کہ میرا فلاں ولی یا بزرگ مشکل کشا ہوسکتا ہے اور میں نے اسے ایسے اختیارات دے رکھے ہیں۔ الاعراف
72 [٧٦] قوم عاد پر ٹھنڈی آندھی کا عذاب :۔ جب اس قوم کی سرکشی انتہا کو پہنچ گئی اور حضرت ھود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کا چیلنج دے دیا تو ان پر تیز آندھی کا عذاب آیا جس میں شدید ٹھنڈک تھی۔ یہ آندھی ان کے زمین دوز گھروں میں گھس گئی اور مسلسل آٹھ دن اور سات راتیں چلتی رہی اور اس نے اس قوم کے ایک ایک فرد کو ان کے اپنے گھروں ہی کے اندر ہلاک کر ڈالا اور وہ تن و توش رکھنے والی اور اپنی قوت و طاقت پر گھمنڈ کرنے والی قوم اپنے گھروں میں یوں گری پڑی تھی جیسے کھجوروں کے کھوکھلے تنے ہوں۔ اس طرح اس قوم کا نام و نشان ہی صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا گیا رہے وہ چند لوگ جو سیدنا ہود علیہ السلام پر ایمان لائے تھے تو سیدنا ہود علیہ السلام کو بذریعہ وحی ایسے عذاب کی آمد سے پہلے ہی مطلع کردیا گیا تھا۔ وہ اپنے پیروکاروں کے ساتھ ایک احاطہ میں محصور ہوگئے تھے اور یہ احاطہ آندھی کی زد سے باہر تھا لہٰذا یہ لوگ محفوظ و مامون رہے اور قوم ثمود بھی انہی کی نسل سے پیدا ہوئی جسے عاد ثانیہ بھی کہتے ہیں اور آگے اسی قوم کا ذکر آ رہا ہے۔ الاعراف
73 [٧٧] سیدنا صالح علیہ السلام کا مرکز تبلیغ اور قوم ثمود :۔ قوم ثمود کا علاقہ حجاز اور شام کے درمیان واقع تھا انہیں قرآن کریم نے اصحاب الحجر بھی کہا ہے حجر ان کے ایک بارونق شہر کا نام تھا جو مدینہ سے تبوک کے راستے پر واقع ہے چنانچہ جب آپ غزوہ تبوک سے واپس آئے تو مقام حجر پر اترے۔ کچھ صحابہ رضوان اللہ علہیم اجمعین نے جلدی سے وہاں کے کسی کنوئیں سے پانی لے کر آٹا گوندھ لیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گوندھے ہوئے آٹے کو پھینک دینے یا اونٹوں کو کھلا دینے کا حکم دیا اور جو پانی مشکوں میں بھرا گیا تھا اسے بہا دینے کا حکم دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو وہ کنواں دکھلایا جہاں سے صالح علیہ السلام کی اونٹنی پانی پیا کرتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر پانی لینا ہے تو اس کنوئیں سے لے کر استعمال کرو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جلد از جلد وہاں سے کوچ کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ گنہگاروں کی بستیوں میں نہ جایا کرو مگر روتے ہوئے، اللہ سے ڈرتے ہوئے اور استغفار کرتے ہوئے جاؤ کہیں ایسا نہ ہو کہ جو عذاب ان پر آیا تھا کہیں تم پر بھی آن پڑے یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کجاوے ہی پر اپنا منہ چادر سے ڈھانک لیا۔ (بخاری۔ کتاب بدالانبیاء۔ باب قول اللہ والی ثمودا خاہم صالحا ) یہ قوم بھی بت پرستی میں مبتلا تھی صالح علیہ السلام نے کہا : لوگو! ایک اللہ کے سوا تمہارا کوئی نہ حاجت روا ہے اور نہ مشکل کشا۔ لہٰذا تمہیں صرف اسی کی عبادت کرنا چاہیے اور اسی سے فریاد کرنا چاہیے اور میں تمہیں تمہارے پروردگار کا رسول ہونے کی حیثیت سے یہ پیغام دے رہا ہوں۔ اللہ کی اونٹنی اور اس کے اوصاف :۔ انہوں نے کہا کہ اپنی نبوت کی صداقت پر کوئی حسی معجزہ ہمیں دکھلا دو تب ہم تمہاری بات تسلیم کرلیں گے آپ نے پوچھا کیسا معجزہ چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ اس پہاڑ سے ایک حاملہ اونٹنی برآمد ہو پھر وہ ہمارے سامنے بچہ جنے تو ہم سمجھیں گے کہ واقعی تم اللہ کے رسول ہو اور تم پر ایمان لے آئیں گے۔ سیدنا صالح علیہ السلام نے اللہ سے دعا کی تو پہاڑ پھٹا جس سے ایک بہت بڑے قد و قامت کی اونٹنی برآمد ہوئی جس نے ان کے سامنے بچہ جنا اس وقت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ اس اونٹنی کو آزادانہ چلنے پھرنے دو کیونکہ یہ تمہارا مطلوبہ معجزہ اور اللہ کی نشانی ہے جہاں سے چاہے چرتی پھرے اور جہاں سے چاہے پانی پئے اب صورت حال یہ تھی کہ ایک تو اس علاقہ میں پہلے ہی پانی کی قلت تھی دوسرے یہ قد آور اور بہت بڑے ڈیل ڈول کی اونٹنی ایک دن میں اتنا پانی پی جاتی تھی جتنا ان کے سارے جانور پیتے تھے۔ اس لیے سیدنا صالح علیہ السلام نے کہا کہ باری مقرر کرلو اس کنوئیں سے ایک دن تمہارے جانور پانی پیا کریں اور ایک دن یہ اونٹنی (جسے اللہ نے دوسرے مقام پر ناقتہ اللہ یعنی اللہ کی اونٹنی کہا ہے) پانی پیا کرے گی اور ساتھ ہی یہ بھی تنبیہ کردی کہ اگر تم نے اس اونٹنی سے کوئی برا سلوک کیا تو اللہ تعالیٰ کا سخت عذاب تم پر ٹوٹ پڑے گا۔ الاعراف
74 [٧٨] قوم ثمود کے گھروں کی ساخت :۔ ان لوگوں کے قد و قامت بھی بہت بڑے اور عمریں بھی بہت لمبی ہوتی تھیں اور اگر وہ عام لکڑی کی چھت والے مکان بناتے تو بنانے والے کی زندگی ہی میں کئی بار بوسیدہ ہو کر گر پڑتے تھے۔ عام روایت کے مطابق اس دور میں ان کی عمریں تین سو سے چھ سو سال کے درمیان ہوتیں اور لکڑی کے مکان زیادہ سے زیادہ ایک سو سال چلتے پھر بوسیدہ اور کمزور ہو کر گر پڑتے تھے اس لیے وہ اپنے مکان پہاڑوں میں بناتے۔ اعلیٰ درجے کے سنگ تراش اور انجینئر تھے۔ پہاڑوں کو اندر سے تراش تراش کر مکان بنا لیتے جن میں کھڑکیاں دروازے سب کچھ موجود ہوتا تھا اور ان کی پائیداری کی وجہ سے ایک طویل عرصہ وہاں گزار سکتے تھے اور کسی ہموار زمین پر مکان بناتے تو وہ بھی اتنا مضبوط ہوتا جیسے کوئی محل کھڑا کردیا گیا ہو۔ [٧٩] قوم ثمود کا فساد فی الارض :۔ جب ان لوگوں کی اکثریت اپنا مطلوبہ معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہ لائی تو صالح علیہ السلام نے انہیں اللہ کے احسانات یاد کرائے اور فرمایا : قوم عاد نے اللہ کی نافرمانی اور سرکشی کی تو ان کا حشر تم نے دیکھ لیا پھر اللہ نے تمہیں ان کا قائم مقام بنایا تمہیں قوت دی اور اتنی طاقت اور خوش حالی دی کہ تم رہنے کے لیے معمولی گھروں کے بجائے محل بنا کر رہتے ہو تو اللہ کے ان احسانات کا شکریہ ادا کرو اور فساد فی الارض کے موجب نہ بنو۔ یہاں فساد فی الارض سے مراد کفر و شرک کو اختیار کرنا، انبیاء کی دعوت ہدایت کو ازراہ تکبر ٹھکرا دینا۔ دعوت قبول کرنے والوں کا استہزاء اور ان پر سختیاں روا رکھنا، اور ان سے محاذ آرائی ہے اور ان سب باتوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کہیں ان کی اپنی سرداریاں ختم نہ ہوجائیں۔ پھر اس قسم کے معاشرے میں یہ متکبر قسم کے بڑے لوگ غریبوں کا جس طرح استحصال کرتے ہیں اور ان پر ظلم روا رکھتے ہیں وہ سب کو معلوم ہے اور یہ سب باتیں فساد فی الارض کے ضمن میں آتی ہیں۔ الاعراف
75 الاعراف
76 [٨٠] قوم کا اکڑ جانا اور استہزا :۔ یہ بھی استہزاء کی ہی ایک قسم ہے یعنی متکبر لوگ جو اپنے آپ کو انتہائی عقل مند سمجھتے تھے، ایمان لانے والے کمزور مسلمانوں سے پوچھتے تھے بھلا صالح علیہ السلام کی جس دعوت کی ہمیں سمجھ نہیں آ رہی اور ہم اسے غیر معقول باتیں سمجھتے ہیں تم انہیں کیسے معقول سمجھ کر ایمان لے آئے ہو؟ کمزور مسلمانوں نے اپنی ایمانی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جواب دیا کہ جس بات کو تم غلط کہتے ہو ہم اسی کو معقول اور برحق سمجھ کر ایمان لائے ہیں اور اسے واقعی رسول برحق سمجھتے ہیں۔ متکبر لوگ کہنے لگے ہم تو بہرحال تمہاری احمقانہ باتوں کو کبھی قبول نہیں کرسکتے۔ الاعراف
77 [٨١] اللہ کی اونٹنی کا انجام اور اسے مارنے والا :۔ اس قوم نے جس معجزہ کا مطالبہ کیا تھا وہ ان کے لیے وبال جان بن گیا کیونکہ جتنا پانی ان کے تمام جانور پیتے تھے اتنا وہ اکیلی ہی پی جاتی تھی اور ان کے ہاں پانی کی قلت بھی تھی اسی لیے پانی کی باری مقرر کی گئی تھی اور جتنا سب جانور کھاتے تھے اتنا وہ اکیلی کھا جاتی تھی۔ مگر وہ اس اونٹنی کو برے ارادے سے ہاتھ بھی نہیں لگاتے تھے کیونکہ وہ دل سے یقین کرچکے تھے کہ صالح علیہ السلام سچا پیغمبر ہے اور اگر ہم نے اس اونٹنی سے کوئی برا سلوک کیا تو پھر ہماری خیر نہیں لیکن دل سے ہر کافر یہ چاہتا تھا کہ کسی نہ کسی طرح اس اونٹنی کا وجود ختم ہوجائے تو بہتر ہے۔ آخر باہمی مشورے اور اتفاق رائے سے ان میں سے ایک تنومند اور سب سے زیادہ بدبخت انسان نے اس بات کا ذمہ لیا کہ اس اونٹنی کو میں ٹھکانے لگاتا ہوں چنانچہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خطبہ کے دوران فرمایا کہ یہ شخص اپنی قوم کا ایک زور آور، شریر مضبوط شخص تھا جو اونٹنی کو زخمی کرنے کی مہم پر اٹھ کھڑا ہوا اس کا نام قدار تھا اور وہ اپنی قوم میں ایسے ہی تھا جیسے تم میں ابو زمعہ (جو سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کا چچا تھا)۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ والشمس) یہ قدار بن سالف سرخ رنگ کا، نیلی آنکھوں والا، بڑے ڈیل ڈول کا مالک اور ولدالزنا تھا۔ خود بھی بدکار تھا اور شہر کے مشہور و معروف نو بدمعاشوں کا سرغنہ تھا۔ اس نے اپنی آشنا عورت کی انگیخت ہی پر اونٹنی کو زخمی کرنے کا یہ کارنامہ سر انجام دیا تھا البتہ اس نے دوسرے کافروں اور ان کی عورتوں سے اس کے متعلق مشورہ ضرور کرلیا تھا اور یہ سب لوگ اس بات پر خوش تھے کہ اس اونٹنی سے کسی طرح ہمیں نجات مل جائے۔ چنانچہ جب اس نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں تو اونٹنی نے ایک ہولناک قسم کی چیخ ماری اور دوڑ کر اسی پہاڑ کی طرف چلی گئی جس سے برآمد ہوئی تھی اس کا بچہ بھی اپنی ماں کے ساتھ چلا گیا اور یہ دونوں معجزانہ طور پر اسی پہاڑ میں غائب ہوگئے۔ [ ٨٢] اونٹنی سے نجات پا کر ان لوگوں نے خوشیاں منائیں اور صالح علیہ السلام نے بذریعہ وحی اطلاع پا کر ان لوگوں کو عذاب کی دھمکی دے دی اور فرمایا کہ بس اب تمہارے لیے تین دن کی مہلت ہے۔ تین دن تم مزے اڑا لو پھر اس کے بعد تم پر اللہ کا عذاب آنے ہی والا ہے۔ لیکن قوم نے صالح علیہ السلام کی اس تنبیہ کو کچھ اہمیت نہ دی اور آپ کو جھوٹا سمجھا اور کہا کہ جس عذاب کی دھمکی دیتے ہو وہ اب لے بھی آؤ اور در پردہ اب سیدنا صالح علیہ السلام کے قتل کی بھی تیاریاں ہونے لگیں۔ منصوبہ یہ تیار ہوا کہ سب لوگ مل کر آپ کے گھر کا محاصرہ کریں اور مشترکہ طور پر یکبارگی حملہ کر کے ان کا کام تمام کردیں۔ بعد میں اگر کوئی پوچھے تو سب قسمیں کھا کر یہ کہہ دیں کہ ہمیں تو اس قصے کا کچھ علم ہی نہیں۔ الاعراف
78 [٨٣] قوم ثمود کے کھنڈرات :۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا صالح علیہ السلام کو بھی ان کے منصوبہ کی اطلاع دے دی اور ہجرت کا حکم بھی آ گیا۔ تیسرے دن ان لوگوں کو پہاڑوں کی طرف سے ایک سیاہ بادل ان کی طرف بڑھتا ہوا نظر آیا تو بڑے خوش ہوئے کہ اب بارش ہونے والی ہے مگر یہ بارش برسانے والا بادل نہ تھا بلکہ ان کی جانوں پر مسلط ہوجانے والا اللہ کا عذاب تھا جس میں سیاہ غلیظ گندھک کے بخارات ملا ہوا دھواں تھا۔ ساتھ ہی کسی پہاڑ سے کوئی لاوا پھٹا جس سے شدید زلزلہ آ گیا اور اس سے ہولناک چیخوں کی آواز بھی آتی رہی جس سے دل دہل جاتے اور کان پھٹے جاتے تھے اور غلیظ دھوئیں نے ان کے جسم کے اندر داخل ہو کر ان کے دلوں اور کلیجوں کو ماؤف کردیا اور انہیں سانس تک لینا بھی محال ہوگیا جس سے یہ ساری کی ساری قوم چیخ چیخ کر اور تڑپ تڑپ کر وہیں ڈھیر ہوگئی اور اس شدید زلزلے نے ان کے محلات کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا پہاڑوں میں تراشے ہوئے مکانات سوائے چند ایک سب چکنا چور ہوگئے۔ جب غزوہ تبوک سے واپسی پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھوڑی دیر کے لیے حجر کے مقام پر اترے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو وہ کنواں بھی دکھلایا جہاں سے اونٹنی پانی پیتی تھی اس درہ کو فج الناقۃ کہتے ہیں۔ پھر کچھ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ان کے کھنڈرات بطور سیر و تفریح دیکھنے چلے گئے تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ایسے مقامات جہاں پر اللہ کا عذاب نازل ہوچکا ہو مقام عبرت ہوتے ہیں وہاں داخل ہو تو اللہ سے ڈرتے ہوئے اور روتے ہوئے داخل ہو اور وہاں سے جلد نکل جایا کرو مبادا ایسا عذاب تم پر بھی آ جائے جو ان پر آیا تھا۔ (بخاری۔ کتاب بدالانبیاء باب قول اللہ ( وَاِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاہُمْ صٰلِحًا 61 ؀) 11۔ ھود :61) الاعراف
79 [٨٤] ہجرت سے پہلے اپنی قوم کو خطاب :۔ حجر جیسے متمدن شہر کے کھنڈرات دیکھنے ہی سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس شہر کی آبادی چار پانچ لاکھ کے لگ بھگ ہوگی مگر ان میں سے صرف ایک سو بیس آدمی سیدنا صالح علیہ السلام پر ایمان لائے تھے اللہ تعالیٰ نے سیدنا صالح علیہ السلام کو عذاب کی آمد کے وقت سے مطلع کردیا تھا چنانچہ انہوں نے ان پیروکاروں کو لے کر فلسطین کا رخ کیا اور جاتے جاتے اپنی قوم کے لوگوں سے نہایت افسوس سے یہ خطاب کیا کہ میں نے تو تمہیں اللہ کا پیغام بھی پہنچا دیا تھا اور تمہاری خیر خواہی کی بھی انتہائی کوشش کی تھی لیکن تم ان باتوں کا مذاق ہی اڑاتے رہے اب تم جانو تمہارا کام۔ یہ کہہ کر آپ شہر سے باہر نکلے ہی تھے کہ اس قوم پر عذاب نازل ہوگیا فلسطین پہنچ کر آپ اپنے ساتھیوں سمیت رملہ کے قریب آباد ہوگئے اور کچھ عرصہ بعد اسی مقام پر وفات پائی۔ الاعراف
80 [٨٥] سیدنالوط علیہ السلام کا مرکز تبلیغ :۔ سیدنا لوط علیہ السلام سیدنا ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ کے بھتیجے تھے اور ان پر ایمان لائے تھے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے جب عراق سے شام و فلسطین کی طرف ہجرت کی تو سیدنا لوط علیہ السلام ان کے ساتھ تھے اور بطور معاون تبلیغ رسالت کا فریضہ سر انجام دیتے رہے پھر آپ کو بھی نبوت عطا ہوئی اب سیدنا ابراہیم علیہ السلام تو مصر کی طرف چلے گئے اور سیدنا لوط علیہ السلام کو شرق اردن کی طرف بھیج دیا جس کا صدر مقام سدوم نامی شہر تھا یہی سیدنا لوط علیہ السلام کا مرکز تبلیغ تھا۔ سدوم کا آج کہیں نام و نشان نہیں ملتا۔ اغلب گمان یہی ہے کہ یہ شہر بحیرہ مردار میں غرق ہوچکا ہے جسے بحر لوط بھی کہا جاتا ہے۔ قوم لوط میں دوسری اخلاقی برائیوں کے علاوہ سب سے بڑی برائی یہ تھی کہ یہ لوگ عورتوں کی بجائے مردوں ہی سے ان کی دبر میں جنسی شہوت پوری کرتے تھے۔ اس فحاشی کی موجد بھی یہی قوم تھی اور اس فحاشی میں اس قوم نے شہرت دوام حاصل کی۔ حتیٰ کہ ایسی فحاشی کا نام بھی قوم لوط کی نسبت سے لواطت پڑگیا یعنی فحاشی کی وہ قسم جس کے خلاف سیدنا لوط علیہ السلام نے جہاد کیا تھا۔ ممکن ہے کہ شیطان نے ان لوگوں کو اولاد کی تربیت اور اس کی ذمہ داریوں سے فرار کے لیے یہ راہ سجھائی ہو جیسا کہ بہت سے ادوار میں یہی بات قتل اولاد کی بھی محرک بنی رہی ہے۔ عمل قوم لوط اور تہذیب مغرب :۔ سیدنا لوط علیہ السلام کی قوم کے بعد دوسرے بدکردار لوگ بھی اس فحش مرض میں مبتلا رہے ہیں لیکن یہ فخر یونان کو حاصل ہے کہ اس کے فلاسفروں نے اس گھناؤنے جرم کو ایک اخلاقی خوبی کے مرتبہ تک پہنچا دیا اور رہی سہی کسر جدید مغربی تہذیب نے پوری کردی ہے جس نے علی الاعلان ہم جنسی ( Sex۔ Homo) کے حق میں پروپیگنڈا کیا یعنی اگر مرد، مرد سے اور عورت، عورت سے لپٹ کر اپنی جنسی خواہش پوری کرلیں تو اس میں کوئی قباحت نہیں اور ملکی قانون کو ہرگز اس میں مزاحم نہ ہونا چاہیے۔ حتیٰ کہ کئی ممالک کی مجالس قانون ساز نے اس فعل کو جائز قرار دے دیا ہے۔ الاعراف
81 [٨٦] عمل قوم لوط غیر فطری اور حیوانی سطح سے بھی گرا ہوا فعل ہے :۔ اس لیے کہ یہ فعل فطرت کی وضع کے خلاف ہے اور مرد اور عورت کے جنسی اعضاء کی ساخت ان کے اس فعل بد کی تردید کا کھلا ہوا ثبوت ہے سوا ازیں انسانوں کے علاوہ دوسرے جانور خواہ وہ درندے ہوں یا پالتو ہوں یا پرندے ہوں کوئی بھی ایسی مذموم حرکت نہیں کرتا کہ نر، نر پر کودنے لگے جس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان حیوانات کی سطح سے بھی نیچے اتر آیا ہے۔ اب دیکھیے اگر مرد، مردوں سے اپنی شہوانی اغراض پوری کرلیں تو ایسے معاشرے میں عورتوں کی کیا حیثیت رہ جائے گی۔ اس کے علاوہ اگر عورتیں بھی عورتوں سے لپٹ کر یا کسی دوسرے جانور مثلاً کتے وغیرہ سے اپنی شہوت پوری کرلیں تو گویا سارا معاشرہ فحاشی کے سمندر میں ڈوب جائے گا۔ پھر انسان کی نسل آگے کیسے چلے گی؟ کیا یہ اپنی قوم کو اپنے ہاتھوں تباہ کرنے ہی کا ذریعہ نہیں؟ یہ تو ایسے واضح نتائج ہیں جو ایسے معاشرے کا تصور کرنے سے ہی سامنے آ جاتے ہیں اور جو اس کے دور رس نتائج ہیں وہ بے شمار ہیں۔ الاعراف
82 [٨٧] قوم کے اس جواب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا لوط علیہ السلام پر ایمان لانے اور اس بدفعلی سے اجتناب کرنے والے کم ہی لوگ تھے یہ قوم جب اپنی اس بدفعلی کا کوئی عقلی جواز پیش نہ کرسکی تو الزامی جواب پر اتر آئے اور کہنے لگے کہ ہم تو ہوئے گندے لوگ اور لوط اور اس کے پیروکار پاکباز رہنا چاہتے ہیں تو ان کا ہم گندوں میں کیا کام؟ لہٰذا انہیں اپنی بستی سے نکال دینا چاہیے تاکہ یہ روز روز کی تکرار اور جھگڑا ختم ہوجائے۔ الاعراف
83 [٨٨] لوط علیہ السلام کی بیوی کا کردار :۔ چونکہ لوط علیہ السلام کی بیوی ان بدکرداروں سے پوری ساز باز رکھتی تھی۔ گھر میں کوئی مہمان آتا تو فوراً خفیہ طور پر اطلاع کردیتی اور ان لوگوں کو اس مہمان سے بدکرداری کرنے کی ترغیب دیا کرتی تھی لہٰذا وہ بھی قوم کے جرم میں برابر کی شریک تھی اور اسے بھی اسی عذاب سے دو چار ہونا پڑا جو اس قوم پر نازل ہوا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ لوط علیہ السلام کی بیوی بھی انہی کی قوم سے تعلق رکھتی تھی اور لوط علیہ السلام بابل سے ہجرت کر کے یہاں مقیم ہوئے تھے۔ الاعراف
84 [٨٩] قوم لوط کا انجام :۔ اس مقام پر صرف اتنا ہی مذکور ہے کہ اس قوم پر ہم نے بدفعلی اور پھر سرکشی کی پاداش میں بری طرح کی بارش برسائی۔ لیکن قرآن کے دوسرے مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم کی سب بستیوں کو اٹھا کر بلندی سے زمین پر دے مارا گیا۔ سیدنا جبرئیل علیہ السلام آئے انہوں نے زمین کے اتنے حصہ کو زمین سے علیحدہ کر کے اپنے پروں پر اٹھایا پھر اوپر سے زمین پر پٹخ دیا پھر اوپر سے اللہ تعالیٰ نے پتھروں کی بارش برسائی اس طرح اس بدکار قوم کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا۔ اب ایسا عذاب کیوں نہیں آتا ؟:۔ یہاں ایک سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ ایسے جرائم تو آج کل بھی ہو رہے ہیں پھر ان پر کیوں ایسا عذاب نہیں آتا تو اس کی وجوہ درج ذیل ہیں۔ ١۔ جب اللہ کا نبی کسی قوم کو اس کی بدفعلی یا جرائم سے منع کرے لیکن قوم باز آنے کی بجائے اکڑ جائے اور اللہ کے رسول اور اس کی آیات کی تکذیب کرے اس کا مذاق اڑانے اور انہیں دکھ پہنچانے لگے تو اس کا جرم اصل جرم سے کئی گنا بڑھ جاتا ہے حالانکہ بنیادی جرم کی حیثیت بنیادی ہی رہتی ہے بخلاف ان لوگوں کے جو محض اس ایک جرم میں مبتلا ہوتے ہیں لہٰذا یہ اتنے شدید مجرم نہیں ہوتے کہ انہیں فوراً ہلاک کردیا جائے اور ان کے لیے معذرت کی گنجائش کو باقی نہ چھوڑا جائے۔ اللہ کا عذاب صرف اس صورت میں آتا ہے جب معاشرے کی اکثریت اس جرم میں مبتلا ہوجاتی ہے کسی جرم کو جرم نہ سمجھنے یا اسے جائز قرار دینے یا کچھ افراد کے اس میں مبتلا ہونے ہی پر عذاب نہیں آجایا کرتا اور جب کسی معاشرے کی اکثریت اس جرم میں مبتلا ہوجائے تو اسے اس کے منطقی نتائج سے دو چار ہونا ہی پڑتا ہے اور انہی منطقی نتائج کا نام شریعت کی اصطلاح میں اللہ کی سنت جاریہ ہے جس میں کبھی تبدیلی نہیں ہوا کرتی جیسے اس قوم کی نسل میں کمی یا انقطاع بھی عذاب کی قسم ہے۔ آج کل تہذیب مغرب کا علمبردار امریکہ ہے جہاں ہم جنسی کا قانون بھی پاس ہوچکا ہے اور وہاں گورے اور کالے کا مسئلہ بھی شدت اختیار کرچکا ہے گورے یعنی حکمران قوم امریکہ کی پرانی آبادی یعنی کالے لوگوں سے بڑی نفرت کرتے ہیں اور انہیں مساوی شہری حقوق بھی نہیں دیتے۔ اب گورے لوگوں کی عورتوں میں یہ رجحان چل نکلا ہے کہ وہ کالے لوگوں کو شادی کے لیے پسند کرتی ہیں جس کی وجہ صرف یہ ہے کہ گورے لوگ لواطت کے عادی ہوچکے ہیں اور کالے اس قسم کی فحاشی سے بچے ہوئے ہیں۔ گوری عورتوں کے اس رجحان نے حکمران قوم کے لیے یہ ایک سنگین مسئلہ کھڑا کردیا ہے اور یہ بھی اللہ کی طرف سے ایک عذاب ہے۔ ٢۔ عذاب کی طبعی توجیہات :۔ اللہ کا عذاب آج بھی مختلف زلزلوں، سیلابوں، طوفان باد و باراں اور خسف کی صورت میں آتا ہی رہتا ہے لیکن ہمارے ظاہر بین سائنس دان اور دانش وران قوم اس عذاب کی ایسی طبعی یا تاریخی توجیہات تلاش کر کے عوام کے سامنے پیش کردیتے ہیں کہ عوام کا ذہن اس حقیقت کی طرف منتقل ہی نہ ہونے پائے۔ جو قرآن ہمیں سمجھانا چاہتا ہے اور اس کے انداز بیان سے صاف طور پر واضح ہو رہا ہے۔ الاعراف
85 [٩٠] شعیب علیہ السلام کا مرکز تبلیغ :۔ مدین کا علاقہ حجاز کے شمال مغرب اور فلسطین کے جنوب میں بحر احمر اور خلیج عقبہ کے کنارے پر واقع تھا اور جو تجارتی قافلے یمن سے ساحل سمندر کے ساتھ راستہ اختیار کر کے شام اور فلسطین جاتے نیز جو قافلے مصر سے اسی غرض کے لیے جاتے ہیں ان کے راستہ میں پڑتا ہے بلکہ اس قوم کی بستیاں ان دونوں تجارتی شاہراہوں کے چوراہوں میں واقع تھیں لہٰذا یہ علاقہ پورے کا پورا ایک تجارتی مرکز بن گیا تھا، اور مدین کے لوگ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے مدیان کی اولاد سے تعلق رکھتے تھے۔ اسی نسبت سے انہیں آل مدیان اور ان کے علاقہ کو مدین یا مدیان کہا جاتا تھا یہ لوگ دین ابراہیم علیہ السلام ہی کے متبع ہونے کا دعویٰ رکھتے تھے۔ مگر مرور زمانہ کی وجہ سے ان میں بھی کئی اعتقادی اور اخلاقی بیماریاں پیدا ہوچکی تھیں۔ اعتقادی خرابیوں میں سب سے بڑی خرابی تو شرک ہے جو اکثر اقوام میں پایا جاتا رہا ہے اور شرک کا اصل سبب اللہ کی حقیقی معرفت سے جہالت ہوتا ہے اور دوسری اخلاقی بیماری یہ تھی کہ اپنے تجارتی کاروبار میں ہر طرح کی ہیرا پھیریاں کرتے تھے۔ جھوٹ بول کر مال بیچنا، کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا اور کسی کو دیتے وقت کم دینا اور لیتے وقت زیادہ لینا غرض تجارت میں ہر طرح کی بددیانتی کرتے تھے چیز دیتے وقت ناپ یا تول میں کیا ہتھکنڈے اختیار کیے جا سکتے ہیں جس سے لینے والے کو معلوم بھی نہ ہو سکے کہ اسے مطلوبہ چیز کم ملی ہے اور اس کے برعکس بھی۔ یہ ایسے معروف طریقے ہیں جن سے ہماری قوم بھی خوب واقف ہے اور ان کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ [٩١] لین دین میں ہیراپھیریاں :۔ یہ وہی سیدنا شعیب علیہ السلام ہیں جو سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے سسر تھے اور دس سال تک سیدنا موسیٰ علیہ السلام ان کی تربیت میں رہے تھے۔ آپ پہلے نبی ہیں جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی وفات کے تقریباً چھ سو سال بعد (یعنی تقریباً ١٥٠٠ ق م میں) اہل مدین کی طرف بھیجے گئے چونکہ یہ لوگ اپنے آپ کو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے دین کے پیرو سمجھتے تھے لہٰذا سیدنا شعیب علیہ السلام نے انہیں مخاطب بھی اسی بات کا لحاظ رکھتے ہوئے کیا اور فرمایا کہ تمہارے پاس واضح دلیل یعنی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے صحائف یا تعلیمات تو آ چکی ہیں پھر تم کیسے شرک میں مبتلا ہوگئے اور یہ تجارتی لین دین میں دغا بازیاں کیوں کرتے ہو؟ اور اللہ اور اس کے بندوں دونوں کے حقوق تلف کر کے فساد فی الارض کا موجب بن رہے ہو؟ الاعراف
86 [٩٢] ہیرا پھیریوں اور لوٹ مار کی قسمیں :۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ تجارتی راستوں پر بیٹھ کر ان قافلوں کو لوٹنے کے درپے نہ ہوجاؤ پھر یہ لوٹنا بھی کئی قسم کا ہوتا ہے۔ ایک تو عام صورت ہے کہ جیسی کوئی رہزن کسی کمزور کا مال چھین لیتا ہے دوسرے تجارتی منڈی میں پہنچنے سے پیشتر اس سے مال کا سودا کرلینا جبکہ اس راہ رو کو منڈی کے بھاؤ کی خبر نہ ہو اس طرح فریب کے ساتھ راہرو سے سستا مال لے لینا بھی لوٹنے کے مترادف ہے اور اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع فرمایا ہے اور تیسرا یہ کہ اپنی سیاسی پوزیشن کی بنا پر ان تاجروں کو بلیک میل نہ کیا کرو۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ نبی پر ایمان لانا چاہتے ہیں انہیں ڈراؤ دھمکاؤ نہیں یا ان کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کر کے نبی کی بتلائی ہوئی سیدھی راہ میں ٹیڑھ مت پیدا کرو جیسا کہ انبیاء کے مخالفین ہر زمانے میں ایسی حرکتیں کرتے اور چالیں چلتے آئے ہیں چنانچہ مشرکین مکہ نے بھی آپ کی راہ روکنے کے لیے ایسے تمام حربے استعمال کیے تھے۔ الاعراف
87 [٩٢۔ الف] شہر میں داخل ہونے والے راستوں پر ان لوگوں کے بیٹھنے کے دو مقاصد تھے ایک یہ کہ جہاں داؤ لگتا مسافروں اور راہ گیروں کو لوٹ لیتے اور دوسرے جو لوگ شہر میں آنا چاہتے انہیں سیدنا شعیب علیہ السلام کے پاس جانے سے روکتے بھی تھے، بہکاتے بھی تھے اور دھمکاتے بھی تھے اور کہتے کہ یہ شخص دغا باز اور فریبی ہے اس کا کہنا نہ ماننا نہ اس کی چالوں ہی میں آنا اور آپ کی تعلیم اور شریعت میں سینکڑوں قسم کی جاہلانہ نکتہ چینیاں کرتے اور عیب لگاتے تھے اور سیدنا شعیب علیہ السلام پر ایمان لانے والے معدودے چند لوگوں پر طرح طرح کی سختیاں بھی کرتے تھے کہ وہ ان کے دین سے باز آ جائیں۔ سیدنا شعیب علیہ السلام نے ان لوگوں کو بڑے نرم الفاظ میں پہلے اللہ کے ان پر احسانات یاد دلائے پھر فرمایا کہ اگر چند لوگ ایمان لے آئے ہیں تو انہیں پریشان کیوں کرتے ہو۔ ہم میں سے جو بھی جھوٹا ہے اللہ اس سے خود نمٹ لے گا تھوڑی دیر صبر تو کرو۔ الاعراف
88 [٩٣] سرداران قوم کی دھمکی :۔ جب متکبر سرداروں کے انکار اور ہٹ دھرمی کے باوجود کچھ لوگ سیدنا شعیب علیہ السلام پر ایمان لے آئے اور ایسے مومنوں کی ایک کمزور سی جمعیت سامنے آ گئی تو سرداروں کی آنکھوں میں یہ لوگ کھٹکنے لگے لہٰذا انہیں دھمکی دینے پر اتر آئے گویا جس میدان میں عقلی طور پر مات کھاچکے تھے اب ڈنڈے کے زور سے اس مسئلے کو حل کرنے کے درپے ہوئے اور یہی جہالت کی سب سے بڑی دلیل ہوتی ہے انہوں نے کہا شعیب! بس دو ہی باتیں ہیں جن میں سے ایک تمہیں بہرحال قبول کرنا پڑے گی یا تو اس نئے دین کی تبلیغ سے باز آؤ اور وہی پرانا دین اختیار کرلو یا پھر ہم تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو اس آبادی سے نکال دیں گے تمہارے توحید پر قائم رہتے ہوئے یہاں رہنے کی کوئی صورت نہیں۔ الاعراف
89 [٩٤] شعیب علیہ السلام کا جواب :۔ شعیب علیہ السلام نے جواب میں کہا تمہاری یہ دونوں باتیں ہمیں نامنظور ہیں وہ اس لیے کہ اگر ہم دوبارہ تمہارا دین اختیار کرلیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ میں اور میرے ساتھی آج تک جھوٹ ہی بولتے رہے اور اللہ کے ذمے جھوٹ ہی لگاتے رہے پھر جس کام پر اللہ نے مجھے مامور فرمایا ہے اگر میں ہی یا میرے ساتھی ہی اس کی خلاف ورزی کرنے لگیں تو ہم سے بڑھ کر بے انصاف کون ہوگا ؟ اور ان شاء اللہ ہمارا عزم یہی ہے کہ ہم اپنے دین پر نہایت عزم سے ثابت قدم رہیں گے اور اللہ کی توفیق ہمارے شامل حال رہی تو ہم کبھی تمہارے دین میں جانا پسند نہیں کریں گے رہی دوسری بات کہ تم لوگ ہمیں یہاں سے نکال باہر کرو گے تو ہمیں یہ بات بھی پسند نہیں ہاں اگر تم ہمیں مجبور کر کے زبردستی یہاں سے نکالنا چاہتے ہو تو کر دیکھو مگر ہوگا وہی جو کچھ اللہ ہمارے پروردگار کو منظور ہوگا۔ ہم اسی پر بھروسہ کرتے ہیں اور ہمارا سارا معاملہ اللہ ہی کے سپرد ہے۔ [٩٥] جب حق و باطل کی محاذ آرائی اس حد تک پہنچ گئی کہ معاندین اور سرکش سردار سیدنا شعیب علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو ملک بدر کرنے پر آمادہ ہوگئے اس وقت سیدنا شعیب علیہ السلام نے اللہ سے دعا کی کہ یا اللہ! اب وہ وقت آ گیا ہے کہ ان ظالموں کو مزید پند و نصیحت کے فائدہ کا کچھ امکان باقی نہیں رہ گیا لہٰذا اب ان کے اور ہمارے درمیان تو خود ہی فیصلہ کر دے کہ اب آئندہ کے لیے ہمارا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے۔ الاعراف
90 [٩٦] سچائی اختیار کرنے پر نقصان کا نظریہ :۔ سرداروں کے اس قول کے مخاطب وہ لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو شعیب علیہ السلام پر ایمان لائے تھے اس صورت میں اس کا معنی یہ ہوں گے کہ اگر تم نے شعیب کا ساتھ نہ چھوڑا تو ہم تمہارا ناک میں دم کردیں گے اور جینا تم پر حرام کردیں گے لہٰذا اس کا ساتھ دینے سے باز آ جاؤ۔ اور وہ لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو ان منکرین کے اپنے گروہ سے تعلق رکھتے تھے اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر تم نے کاروبار میں سچ بولنے اور درست ناپ تول رکھنے کا طریقہ اختیار کرلیا جیسا کہ یہ شعیب کہتا ہے تو تمہیں تمہارے کاروبار اور تجارتی لین دین میں کبھی فائدہ نہ ہوگا اور ہمیشہ نقصان ہی اٹھاؤ گے اور بالآخر سارا کاروبار ہی ٹھپ ہو کر رہ جائے گا۔ اور یہ نظریہ صرف اہل مدین کا نظریہ نہیں تھا بلکہ ہر زمانے میں مفسد قسم کے لوگوں کا یہی خیال رہا ہے کہ تجارت، سیاست اور دوسرے دنیوی معاملات جھوٹ اور بے ایمانی کے بغیر چل ہی نہیں سکتے اور آج بھی ہمارے تاجروں اور سیاست دانوں کی اکثریت کا یہی حال ہے حالانکہ یہی باتیں فساد فی الارض کی اصل جڑ ہیں اور انہی سے لوگوں کے حقوق پامال ہوتے ہیں اور بالآخر ایسے دغا باز لوگ پورے معاشرہ کو لے ڈوبتے ہیں۔ الاعراف
91 [٩٧] اہل مدین پر عذاب :۔ اہل مدین پر عذاب کے بارے میں قرآن کریم کی بعض دوسری آیات کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان پر تین طرح کا عذاب آیا تھا ظلۃ۔ صیحۃ اور رجفۃ یعنی ان پر پہلے ایک ایسا بادل چھا گیا جس میں سے آگ کے شعلے اور چنگاریاں نکلنے لگیں پھر اسی سے ایک ہولناک اور جگر خراش کرخت قسم کی آواز پیدا ہوئی اور اسی دوران نیچے سے زلزلہ نے آ لیا اس طرح یہ لوگ اپنے اپنے گھروں میں موت کی آغوش میں چلے گئے اس حال میں کہ انہوں نے اوندھے پڑ کر اپنے سینوں کو زمین سے چمٹا رکھا تھا تاکہ انہیں اس عذاب سے کم سے کم تکلیف محسوس ہو۔ رہے شعیب علیہ السلام اور ان کے ساتھی تو انہیں اللہ نے پہلے ہی اس بستی سے نکل جانے کا حکم دے دیا تھا۔ الاعراف
92 [٩٨] اس عذاب کے بعد ان کی بستیاں یوں سنسان اور ویران ہوگئیں جیسے وہاں کبھی لوگ آباد ہی نہیں ہوئے تھے۔ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے شعیب علیہ السلام کو یہ دھمکی دی تھی کہ ہم تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو یہاں سے ملک بدر کردیں گے یا پھر تمہیں ہمارا ہی مذہب اختیار کرنا پڑے گا یہ تھا اللہ کے پیغمبر اور اس کی آیات کو جھٹلانے کا انجام کہ دھمکی دینے والے خود ہی نیست و نابود ہوگئے۔ الاعراف
93 [٩٩] عذاب سے پہلے قوم سے خطاب :۔ یعنی افسوس تو اس پر آتا ہے کہ جو بے چارا بھول چوک یا نادانستگی میں مارا جائے اور جو انجام سمجھانے کے باوجود آگے سے اکڑتا چلا جائے اور اسے اپنی خیر خواہی کی بات سننا بھی گوارا نہ ہو اس پر افسوس آ بھی کیسے سکتا ہے؟ اس نے تو دیدہ دانستہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالا تھا۔ الاعراف
94 [١٠٠] اس سورۃ کی آیت نمبر ٥٩ سے لے کر آیت نمبر ٩٣ تک چار رکوعوں میں پانچ مشہور و معروف انبیاء سیدنا نوح علیہ السلام، سیدنا ہود علیہ السلام، سیدنا صالح علیہ السلام ، سیدنا لوط علیہ السلام، اور سیدنا شعیب علیہ السلام کا اور ان کی طرف سے دعوت، منکرین کی مخالفت ان کے سوال و جواب اور بالآخر ان معاندین کی ہلاکت کا ذکر کیا گیا ہے یہ سورۃ اعراف مکہ میں اس وقت نازل ہوئی جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب اسی قسم کے یا ان سے ملتے جلتے حالات سے دو چار تھے مشرکین مکہ کی طرف سے مخالفت اور معاندانہ سرگرمیاں، دھمکیاں ظلم، تشدد اور اسلام کی راہ روکنے کے تقریباً وہی طریقے اختیار کیے جا رہے تھے جو ان انبیاء سے پیش آ چکے تھے یہاں انبیاء کے یہ حالات بیان کرنے سے مقصد یہ تھا کہ ایک تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمیعن مخالفین کی ایسی سرگرمیوں پر صبر و ضبط سے کام لیں اور دوسرے یہ سمجھانا مقصود تھا کہ ظالموں کو بالآخر اپنے برے انجام سے دو چار ہونا ہی پڑتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ان لوگوں کے مظالم سے نجات دے دیتے ہیں اور کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کرتے ہیں۔ دنیوی عذاب سے متعلق اللہ کا ضابطہ :۔ مذکورہ بالا انبیاء کا الگ الگ اور تفصیلی ذکر کرنے کے بعد نبوت کی دعوت اور اس دعوت کے عواقب کا اجمالی ذکر فرمایا بالفاظ دیگر اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت کا ضابطہ بیان فرمایا کہ جب بھی کوئی نبی کسی بستی میں بھیجا جاتا ہے اور وہ لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دیتا ہے تو اس دعوت کی مخالفت کی جاتی ہے اور اکثر لوگ اس دعوت کو قبول کرنے سے انکار کردیتے ہیں تو ہم ان منکرین پر ہلکے ہلکے عذاب بھیج دیتے ہیں۔ مثلاً قحط اور خشک سالی کا عذاب یا کسی وبا اور بیماری کا عذاب یا معمولی قسم کے زلزلے یا سیلاب کا عذاب اور یہ عذاب ان لوگوں کو تنبیہ کے طور پر دیئے جاتے ہیں تاکہ وہ اپنی حرکتوں سے باز آ جائیں اور اللہ کی طرف رجوع کریں پھر جب وہ ان تنبیہات کا کوئی اثر قبول نہیں کرتے تو پھر ہم انہیں خوشحالی کی آزمائش میں ڈال دیتے ہیں، ان کی افرادی قوت بھی بڑھ جاتی ہے، مال و دولت میں فراوانی ہوجاتی ہے اور عیش و آرام سے زندگی گزارنے لگتے ہیں تو انہیں پہلے کے چھوٹے چھوٹے عذاب اللہ کی طرف سے کوئی تنبیہ محسوس ہی نہیں ہوتے اور وہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اچھے اور برے دنوں کا انبیاء کی دعوت کو قبول یا رد کرنے سے کیا تعلق ہے یہ تو سب اتفاقات زمانہ یا گردش ایام کا نتیجہ ہے اور ایسے اچھے اور برے دنوں سے ہمارے آباو اجداد بھی دو چار ہوتے رہے ہیں جب ان کی یہ کیفیت ہوجاتی ہے کہ انہیں کسی بھی حالت میں اللہ کی گرفت کا خطرہ محسوس نہیں ہوتا اور دنیا میں مست اور مگن ہوجاتے ہیں تو یہی وقت ہمارے عذاب کا ہوتا ہے اور ہمارا عذاب اس طرح یکدم ان پر آن پڑتا ہے کہ کسی کو اس طرح عذاب آ جانے کا پہلے احساس تک نہیں ہونے پاتا۔ قریش مکہ پر قحط کا عذاب :۔ ایسا ہی ایک ہلکا عذاب قریش مکہ پر بھی بطور تنبیہ آیا تھا جس کا ذکر سورۃ دخان میں موجود ہے۔ ہوا یہ تھا کہ جب قریش مکہ کی معاندانہ سرگرمیاں حد سے بڑھ گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں بددعاء فرمائی کہ یا اللہ ان پر سیدنا یوسف علیہ السلام کے زمانہ جیسا قحط نازل فرما۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول ہوئی اور مکہ میں ایسا قحط پڑا جس میں یہ معززین قریش مردار، ہڈیاں اور چمڑا تک کھانے پر مجبور ہوگئے باہر سے بھی کہیں سے غلہ نہیں پہنچ رہا تھا اور ان لوگوں کی حالت ایسی ہوگئی تھی کہ جب آسمان کی طرف دیکھتے تو بھوک اور کمزوری اور نقاہت کی وجہ سے دھواں ہی دھواں نظر آتا۔ قحط سے تنگ آ کر ان لوگوں نے ابو سفیان کو آپ کے پاس بھیجا اور اس نے آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ تو کہتے ہیں کہ میں رحمت ہوں جبکہ آپ کی قوم خشک سالی سے تباہ ہو رہی ہے ہم آپ کو رحم اور قرابت کا واسطہ دے کر کہتے ہیں کہ اس قحط کے دور ہونے کی دعا کیجئے اور اگر یہ مصیبت دور ہوگئی تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے بارش ہوگئی۔ اتفاق سے باہر سے غلہ آنا بھی شروع ہوگیا پھر جب حالات میں تبدیلی آ گئی تو ان متعصب لوگوں کے دل پھر برگشتہ ہونے لگے پھر سرداران قوم نے یہ کہنا شروع کردیا کہ زمانے میں ایسے اتار چڑھاؤ پہلے بھی آتے رہتے ہیں اگر اس مرتبہ قحط پڑگیا تو یہ کون سی نئی بات ہے لہٰذا ایسی چیزوں سے متاثر ہو کر اپنے دین کو ہرگز نہ چھوڑنا۔ یہ واقعہ بخاری میں بھی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت سے کئی مقامات پر مذکور ہے۔ الاعراف
95 الاعراف
96 [١٠١] اللہ کے فرمانبردار معاشرے پر برکتوں کا نزول :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا اصول بیان فرمایا ہے جس کی ظاہر بین عقل پرستوں کو سمجھ آ ہی نہیں سکتی البتہ تجربہ اور مشاہدہ دونوں اس حقیقت پر گواہ ہیں کہ جس علاقے میں اللہ کے احکامات کی جس حد تک تعمیل کی جا رہی ہو اس علاقے پر اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کا نزول شروع ہوجاتا ہے موجودہ دور میں اس کی مثال کسی حد تک سعودی عرب میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ کی مقرر کردہ حدود میں سے کسی ایک حد کے قائم کرنے سے اتنی برکات اور رحمتوں کا نزول ہوتا ہے جتنا چالیس دن کی بارش سے ہوتا ہے (نسائی۔ کتاب قطع السارق باب الترغیب فی اقامۃ الحد) الاعراف
97 الاعراف
98 [١٠٢] ان آیات سے ایک تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ کی گرفت یا عذاب دفعۃً آتا ہے، جبکہ لوگ مطلقاً اس سے غافل اور بے خبر ہوتے ہیں خواہ یہ عذاب دن کے وقت آئے جبکہ لوگ اپنے کاروبار، کام کاج یا کھیل تفریح میں مشغول ہوں اور خواہ رات کے وقت آ جائے جبکہ وہ غفلت کی نیند سو رہے ہوں۔ یعنی موت کی طرح اس عذاب کا بھی کوئی وقت مقرر نہیں بلکہ موت کے آثار تو بسا اوقات محسوس ہونے لگتے ہیں مگر ایسی گرفت ہمیشہ ناگہانی طور پر آتی ہے اور دوسری یہ بات کہ جب ان لوگوں میں بھی کفر و عصیان اور سرکشی کی وہی امراض و علامات پائی جائیں جن کی بنا پر پہلی قوموں پر عذاب آیا تھا تو آخر ان پر کیوں نہیں آ سکتا پھر ان لوگوں کے نڈر ہونے کی کوئی معقول وجہ نہیں۔ الاعراف
99 [١٠٣] اوصاف ذمیمہ کی نسبت اللہ کی طرف کیسے؟ یہاں اللہ تعالیٰ کے لیے مکر کا لفظ استعمال ہوا ہے اور ایسے الفاظ مشاکلہ کی صورت میں عربی زبان میں عام مستعمل ہیں۔ مثلاً برائی کا رد عمل جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوگا اسے بھی برائی کا نام دیا جائے گا۔ جیسے ﴿جَزَاۗءُ سَـیِّئَۃٍۢ بِمِثْلِہَا ﴾ منافقوں اور کافروں کے مکر کا ردعمل یا جو سزا انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوگی اسے بھی مکر ہی کا نام دیا جائے گا ایسے مقامات پر سمجھنے کی بات صرف یہ ہے کہ ایسے الفاظ کی نسبت جب اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس کے مورد الزام صرف کافر، مشرک اور منافق وغیرہ ہی ہوں گے۔ الاعراف
100 [١٠٤] یعنی اگر وہ چاہتے تو اپنی پیش رو قوم کے انجام سے عبرت حاصل کرسکتے تھے اور یہ بات وہ خوب سمجھ سکتے تھے کہ جن جرائم کی پاداش میں پہلی قومیں ہلاک کی گئی ہیں اگر ہم میں بھی وہ جرائم پائے جائیں تو ہم پر بھی ویسی ہی مصیبت نازل ہو سکتی ہے اور ہمارے دلوں پر بھی ایسی ہی مہر لگ سکتی ہے جب ہمارے کان کوئی ہدایت کی بات سننے پر آمادہ ہی نہ ہوں۔ الاعراف
101 [١٠٥] یعنی سیدنا نوح علیہ السلام سیدنا ہود علیہ السلام، سیدنا صالح علیہ السلام، سیدنا لوط علیہ السلام اور سیدنا شعیب علیہ السلام کے علاقہ ہائے تبلیغ رسالت۔ [١٠٦] دل پر مہر کب اور کیسے لگتی ہے؟ آیت کے اس حصہ میں دو باتیں بیان ہوئی ہیں ایک یہ کہ دل پر مہر کب اور کیسے لگتی ہے؟ اور دوسرے یہ کہ اس مہر لگنے کی نسبت اللہ کی طرف کس لحاظ سے ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کے دل پر مہر یوں لگتی ہے کہ وہ جس بات کا ایک دفعہ انکار کردیتا ہے یا اسے جھٹلا دیتا ہے پھر اسے کوئی نشانی دیکھنے سے یا کسی کے سمجھانے سے حقیقت سمجھ میں آ بھی جائے تو محض اس لیے اپنے پہلے سے کیے ہوئے انکار پر ڈٹ جاتا ہے کہ اس سے اس کی انامجروح ہوتی ہے۔ جب کوئی انسان اس حالت کو پہنچ جائے تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اس کے دل پر اللہ کی مہر لگنے کا وقت آ گیا ہے اور آئندہ وہ حق بات تسلیم کرنے کے قابل ہی نہ رہے گا۔ مہر لگنے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کیوں؟ اور مہر لگانے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف اس لیے ہے کہ اسباب کو اختیار کرنا انسان کے اپنے بس میں ہے اور اسی وجہ سے اسے سبب اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کے اعمال کی جزا و سزا کا دار و مدار بھی اسباب کو اختیار کرنے کی بنا پر ہے۔ لیکن ان اسباب کے مسببات یا نتائج حاصل کرنا انسان کے اختیار میں نہیں ہے یہ نتائج اکثر اوقات تو اختیار کردہ اسباب کے مطابق ہی برآمد ہوتے ہیں لیکن کبھی کبھار ان کے خلاف بھی برآمد ہو سکتے ہیں لہٰذا نتائج کی نسبت اسباب اختیار کرنے والے کی طرف بھی ہو سکتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف بھی۔ اور قرآن میں یہ نسبت دونوں طرح سے استعمال ہوئی ہے۔ بہرحال یہ نسبت اگر اللہ تعالیٰ کی طرف بھی ہو تو بھی یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ کسی سبب اختیار کرنے والے مجرم کے عمل کے نتیجے میں ہے۔ اور حقیقتاً مجرم وہ ہے جس نے ایسے اسباب اختیار کیے تھے۔ الاعراف
102 [١٠٧] عہد کو پورا نہ کرنا فسق ہے :۔ عہد سے مراد وہ فطری عہد بھی ہوسکتا ہے جو انسان کی سرشت میں موجود ہے اور یہ عہد﴿اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ﴾ کے نام سے مشہور ہے جس کی رو سے ہر انسان نے عہد کیا تھا کہ وہ اپنے پروردگار کے سوا کسی دوسرے کو معبود نہیں بنائے گا اور وہ عہد بھی جو انسان دوسرے انسانوں سے کرتا ہے خواہ یہ لین دین کے معاملات سے تعلق رکھتا ہو یا نکاح و طلاق کے معاملات سے، اور وہ عہد بھی جو کوئی انسان ذاتی طور پر اپنے پروردگار سے کرتا ہے یعنی عہد خواہ کسی طرح کا ہو اسے توڑنے والا فاسق ہوتا ہے۔ الاعراف
103 [١٠٨] یعنی مذکورہ پانچ معروف پیغمبروں کے حالات بیان کرنے کے بعد پھر وہی سلسلہ شروع ہو رہا ہے اور اس کا آغاز سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے تفصیلی حالات سے ہو رہا ہے۔ درمیان میں انبیاء علیہم السلام کی دعوت اور منکرین دعوت کے انجام کے درمیانی مراحل اور ان کے متعلق اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ کا ذکر کیا گیا جو ان سب انبیاء علیہم السلام کے حالات میں قدر مشترک کے طور پر پائی جاتی ہے۔ [١٠٩] اللہ کی آیات سے فرعون کی ناانصافی :۔ ناانصافی کی بات یہ تھی کہ انہوں نے ان معجزات کو جادو کے کرشمے کہہ دیا۔ اور یہ ناانصافی ویسی ہی تھی جیسے قریش مکہ نے قرآن سن کر یہ کہہ دیا تھا کہ یہ تو کسی دوسرے آدمی کی تصنیف ہے اور اس جیسا کلام ہم بھی پیش کرسکتے ہیں پھر جب انہیں قرآن نے اس بات کا باقاعدہ طور پر چیلنج کردیا تو اپنی سر توڑ کوششوں کے باوجود ان کے فصیح و بلیغ ادیبوں سے کچھ بھی بن سر نہ آیا بالکل اسی طرح فرعون اور اس کے درباریوں نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کو جادو کے کرشمے سمجھ کر اپنے ملک کے بلند پایہ جادوگروں کو آپ سے مقابلے کے لیے لاکھڑا کیا۔ پھر جب ان جادوگروں نے عصائے موسیٰ کی کیفیت دیکھی تو برملا اعتراف کرلیا کہ یہ جادو سے بالاتر کوئی چیز ہے اگر یہ جادو ہوتا تو ناممکن تھا کہ وہ ہماری دسترس سے باہر ہوتا۔ الاعراف
104 [١١٠] لقب فرعون کی حقیقت اور فرعون کی سلطنت کی وسعت :۔ اس دور میں مصر کے ہر بادشاہ کا لقب فرعون ہوا کرتا تھا اور ان کا اصلی نام الگ ہوا کرتا تھا۔ فرعون کے لقب کے پیچھے یہ تصور کار فرما تھا کہ سب سے بڑے دیوتا سورج کی روح بادشاہ کے جسم میں حلول کر جاتی ہے اس لحاظ سے وہ بادشاہ اس زمین میں اسی سبب سے بڑے دیوتا یا مہا دیو کا جسمانی مظہر ہوتا ہے اسی بنا پر تمام فراعنہ زمین پر اپنی خدائی کا دعویٰ بھی رکھتے تھے۔ موسیٰ علیہ السلام کو اپنی زندگی میں دو فرعونوں سے پالا پڑا تھا ایک وہ فرعون جس نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی پرورش کی تھی اور اس کا نام رعمسیس تھا۔ جب موسیٰ علیہ السلام مصر سے بھاگ کر دس سال کا عرصہ سیدنا شعیب علیہ السلام کے زیر تربیت رہے اس دوران یہ فرعون مر چکا تھا اور اس کا بیٹا تخت نشین ہوچکا تھا۔ ان کے زمانہ کا صحیح صحیح تعین بہت مشکل ہے کیونکہ تاریخوں میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے تاہم یہ زمانہ سوا ہزار قبل مسیح سے لے کر ڈیڑھ ہزار قبل مسیح کے درمیان ہی ہوسکتا ہے جس فرعون کے سامنے سیدنا موسیٰ علیہ السلام اپنے معجزات لے کر گئے تھے یہ وہی رعمسیس کا بیٹا تھا جس کی سلطنت بڑی وسیع تھی جو شام سے لے کر لیبیا تک اور بحر روم کے سواحل سے حبش تک پھیلی ہوئی تھی یہ فرعون اس وسیع علاقے کا صرف بادشاہ ہی نہ تھا بلکہ معبود بھی بنا ہوا تھا۔ الاعراف
105 [١١١] سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے فرعون سے مطالبات :۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے پاس پہنچ کر اسے دو باتیں ارشاد فرمائیں ایک یہ کہ میں اللہ رب العالمین کا فرستادہ ہوں اور میرے اس بیان کی صداقت کے طور پر مجھے دو معجزے بھی عطا کیے گئے ہیں لہٰذا تم اپنی خدائی سے دستبردار ہو کر ایمان لے آؤ (جیسا کہ بعض دوسری آیات قرآنی میں اس کی وضاحت موجود ہے) اور دوسری یہ کہ بنی اسرائیل کو آزاد کر کے میرے ہمراہ روانہ کر دو تاکہ میں انہیں یہاں سے فلسطین کی طرف لے جاؤں۔ ان دو آیات میں کئی امور قابل غور اور وضاحت طلب ہیں مثلاً : ١۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو یہ کیسے جرأت ہوئی کہ ایک اتنی عظیم الشان سلطنت کے مالک جابر اور متکبر بادشاہ کے سامنے نڈر ہو کر اسے ایمان لانے کی بھی دعوت دے دی اور بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ بھی کردیا بالخصوص ان حالات میں کہ وہ ان مصریوں کا ایک آدمی قتل کر کے یہاں سے بھاگے تھے اور انہیں اس بات کا خطرہ بھی تھا کہ کہیں فرعونی مجھے اسی سابقہ جرم میں گرفتار کر کے قتل نہ کردیں۔ فرعون کے سامنے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی بے مثال جرات کی وجوہ :۔ اس کا صحیح جواب تو یہی ہے کہ انبیاء و رسل کو جو ذمہ داری سونپی جاتی ہے انہیں اپنی جان پر کھیل کر بھی ذمہ داری ادا کرنا ہی پڑتی ہے چنانچہ کئی انبیاء علیہم السلام اسی ذمہ داری کو ادا کرتے ہوئے شہید بھی کردیئے گئے تاہم رسولوں کی حد تک ان کی جان بچانے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ خود اپنے ذمے لے لیتے ہیں اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے جب فرعون کے پاس آنے سے پیشتر اپنی جان کا خطرہ محسوس کیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ یقین دہانی کرا دی تھی کہ وہ تجھے قتل نہ کرسکیں گے پھر آپ کو چند باتوں کی تائید مزید بھی حاصل تھی ایک یہ کہ آپ فرعون کے دربار کے ماحول سے پوری طرح واقف تھے اور اپنی زندگی کا ابتدائی حصہ یہیں گزار کر گئے تھے اس لیے آپ پر دربار اور درباریوں کی وہ مرعوبیت طاری نہ ہو سکتی تھی جو ایک اجنبی کے لیے ہو سکتی تھی دوسرے آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ میرے بھائی ہارون کو نبوت عطا کر کے اس کام میں میرا مددگار بنا دے آپ کی یہ دعا بھی قبول ہوئی اور جب آپ فرعون کے پاس گئے تو سیدنا ہارون علیہ السلام بھی آپ کے ساتھ تھے۔ آپ کو اصل خطرہ اس بات کے نتیجے سے قطعاً نہ تھا کہ آپ اللہ کا پیغام من و عن انہیں پہنچا دیں بلکہ اس بات سے تھا کہ میں ان کا ایک مفرور مجرم بھی ہوں تو اس جرم کی پاداش میں وہ مجھے پکڑ کر مار ہی نہ ڈالیں تو اس بات کی یقین دہانی اللہ تعالیٰ نے کرا دی کہ وہ ایسا ہرگز نہ کرسکیں گے۔ ٢۔ موسیٰ علیہ السلام نے جو یہ فرمایا کہ ’’میں اللہ رب العالمین کا فرستادہ ہوں‘‘ تو وہ اس لحاظ سے تھا کہ فرعون اور فرعونی سب یہ بات تسلیم کرتے تھے کہ اس کائنات اور اس میں موجود تمام چیزوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ان کے تمام دیوی دیوتاؤں سے برتر ہے اور فرعون کا خدائی کا دعویٰ اس لحاظ سے تھا کہ وہ تمام لوگوں کا کار ساز اور حاجت روا اور مشکل کشا ہے موسیٰ علیہ السلام نے انہیں یہ بتلایا کہ جس اللہ کا میں رسول ہوں وہ تمہارے عقیدے کے مطابق بھی تمہاری خدائی سے بہت بلند و بالا ہے۔ ٣ سیدنا یوسف علیہ اسلام نے اپنے والدین اور اپنے بھائیوں کو چار سو سال پیشتر کنعان سے مصر میں بلا لیا تھا یہیں ان کی نسل بڑھتی اور پھلتی پھولتی رہی اس وقت اس کی حیثیت ایک حکمران قوم کی تھی۔ کچھ مدت بعد ان میں وہ تمام امراض پیدا ہوگئے جو کسی قوم کی موت کا سبب بن جاتے ہیں اور جب موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے تو یہ بنی اسرائیل جو لاکھوں کی تعداد تک پہنچ چکے تھے فرعونیوں کے ماتحت محکوم قوم کی حیثیت سے نہایت ذلت کی زندگی بسر کر رہے تھے جس کا ذکر قرآن کریم میں متعدد مقامات پر آیا ہے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو اپنی قوم کی اس مظلومانہ اور ذلت کی زندگی کا بچپن ہی سے شدید احساس ہوگیا تھا اور اسی بنا پر انہوں نے ایک اسرائیلی کی حمایت میں ایک فرعونی کو نادانستہ طور پر مار ڈالا تھا لہٰذا اللہ تعالیٰ نے بھی سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی رسالت کا دوسرا بڑا مقصد بنی اسرائیل کی آزادی قرار دیا۔ الاعراف
106 الاعراف
107 الاعراف
108 [١١٢] عصائے موسیٰ اور ید بیضاء :۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے مطالبہ پر اپنا عصا زمین پر پھینکا تو وہ تھوڑی دیر میں بہت بڑا اژدہا بن گیا اور اپنا منہ کھول کر فرعون ہی کی طرف لپکا۔ فرعون نے سخت دہشت زدگی کی حالت میں موسیٰ علیہ السلام سے التجا کی کہ اس سانپ کو سنبھال لے۔ آپ علیہ السلام نے اسے ہاتھ لگایا تو وہ پھر عصا بن گیا پھر آپ نے اپنا ہاتھ اپنی بغل میں دبایا اور اسے نکالا تو وہ سفید اور چمکدار تھا۔ حالانکہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا اپنا رنگ گندمی تھا یہ ہاتھ اتنا تابدار ہو کر بغل سے نکلتا تھا جس سے آنکھیں چندھیانے لگتی تھیں۔ یہاں بعض عقل پرست فرقوں کی طرف سے ایک اور بحث بھی چل نکلی ہے کہ آیا اس طبعی دنیا میں ایسے خرق عادت واقعات کا ظہور ممکن بھی ہے یا نہیں؟۔ دوسرے الفاظ میں اس بحث کا عنوان یہ ہے کہ اس کائنات میں انتظام کے لیے اللہ نے جو طبعی قوانین بنائے ہیں کیا وہ خود ان قوانین میں کسی وقت اپنی مرضی کے مطابق تصرف یا رد و بدل بھی کرسکتا ہے یا نہیں؟ عقل پرست ایسے خرق عادت واقعات کا انکار کردیتے ہیں اور قرآن میں جہاں کہیں ایسے واقعات مذکور ہیں ان کی دوراز کار تاویلات کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ایسی دوراز کار کہ قرآن کی عبارت جن کی متحمل ہی نہیں ہوسکتی ان حواشی میں اس طویل بحث کی گنجائش نہیں (تفصیل کے لیے دیکھیے میری تصنیف ''عقل پرستی اور انکار معجزات'' نیز آئینہ پرویزیت حصہ اول و دوم) الاعراف
109 الاعراف
110 [١١٣] اور بعض دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کو جادوگر قرار دینے کی بات فرعون نے پہلے خود کی تھی بعد میں اس کے درباریوں نے ہاں میں ہاں ملا دی۔ الاعراف
111 الاعراف
112 [١١٤] فرعون اور درباریوں کی مرعوبیت :۔ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی باتیں سن کر فرعون اور فرعونیوں کو واقعی یہ خدشہ پیدا ہوگیا تھا کہ یہ شخص اس ملک میں انقلاب لا سکتا ہے اور اس کی وجوہ کئی تھیں ایک یہ کہ موسیٰ علیہ السلام نے انہی میں رہ کر تربیت پائی تھی فنون جنگ سیکھے تھے بلکہ ایک دفعہ حبش پر چڑھائی کے دوران انہیں سپہ سالار بنا کر بھی بھیجا گیا اور وہ کامیاب و کامران واپس آئے تھے۔ وہ جرأت مند، دلیر اور مضبوط قد و قامت کے مالک تھے اور ان کی صداقت کے سب لوگ معترف تھے۔ دوسرے یہ کہ موسیٰ علیہ السلام نے یہ وضاحت کردی تھی کہ میں اس اللہ تعالیٰ کا فرستادہ ہوں جسے تم بھی رب اکبر تسلیم کرتے ہو۔ نیز یہ کہ میں بعینہٖ وہی بات کر رہا ہوں جو میرے پروردگار نے مجھے کہی ہے۔ تیسرے یہ کہ آپ کے معجزات نے فرعون اور فرعونیوں سب کو مرعوب اور دہشت زدہ بنا دیا تھا۔ اور ان لوگوں نے جو موسیٰ علیہ السلام کو جادوگر کہہ دیا تو یہ محض ایک طفل تسلی، دل کے بہلاوے، وقت کو ٹالنے اور عوام الناس کو اندھیرے میں رکھنے کی غرض سے کہی گئی کہ شاید کچھ مدت گزرنے پر حالات کوئی دوسرا رخ اختیار کر جائیں۔ ورنہ کون نہیں جانتا کہ کوئی جادوگر نہ کبھی کوئی سیاسی انقلاب لایا ہے نہ لا سکتا ہے۔ الاعراف
113 الاعراف
114 [١١٥] جادوگروں سے مقابلہ :۔ مقابلے کے لیے عید کا دن طے ہوا جس میں عوام الناس کو بھی شمولیت کی عام دعوت دی گئی تھی اس بھرے مجمع میں فرعون اپنے سب درباریوں سمیت حاضر ہوا اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور سیدنا ہارون علیہ السلام بھی بروقت پہنچ گئے اور جادوگروں کو چونکہ شاہی دربار سے بلاوا آیا تھا لہٰذا انہوں نے آتے ہی یہ سوال کردیا کہ انہیں ان کے ایسے بڑے مقابلہ کرنے کے عوض کچھ مزدوری بھی ملے گی؟ اسی ایک بات سے ایک جادوگر اور ایک نبی کا فرق واضح ہوجاتا ہے۔ جادوگر جو کچھ کرتا ہے اپنے پیٹ کی خاطر کرتا ہے اور یہی اس کا پیشہ ہوتا ہے جبکہ انبیاء علیہم السلام ہمیشہ اپنی قوم سے یہی کہتے رہے کہ ’’ہم تم سے کچھ نہیں مانگتے ہمارا اجر اللہ کے ذمے ہے۔‘‘ خیر جادوگروں کے اس سوال پر فرعون نے جادوگروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ صرف مزدوری کی کیا بات کرتے ہو تمہیں میرے ہاں مناصب بھی ملیں گے اور فرعون نے ایسا جواب اس لیے دیا کہ یہ اس کی عزت اور بے عزتی کا مسئلہ بن گیا تھا۔ الاعراف
115 [١١٦] جادوگروں کو چونکہ یہی بتلایا گیا تھا کہ ان کا ایک بڑے جادوگر سے مقابلہ ہے لہٰذا سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی عزت و تکریم کی خاطر یہ بات موسیٰ علیہ السلام سے پوچھی جیسا کہ ایسے مقابلے کے وقت یہی دستور رائج تھا۔ الاعراف
116 [١١٧] اور موسیٰ علیہ السلام نے جو جواب دیا وہ ازراہ تکریم نہیں تھا نہ ہی اس لئے کہ ان کی نگاہ میں جادوگر کوئی قابل تعظیم چیز تھے بلکہ اس لیے کہ حق کی وضاحت ہو ہی اس صورت میں سکتی ہے کہ پہلے باطل اپنا پورا زور دکھا لے پھر اس کے بعد اگر حق غالب آئے تو سب لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ مثلاً اگر موسیٰ علیہ السلام پہلے اپنا عصا ڈال دیتے تو ممکن تھا کہ مقابلے کی نوبت ہی نہ آتی اور جادوگر پہلے ہی ہتھیار ڈال دیتے تو لوگوں میں کئی طرح کے شکوک پیدا ہو سکتے تھے یا دوبارہ مقابلے کے لیے جادوگر وقت طلب کرسکتے تھے۔ [١١٨] جادوگروں کا بہت بڑا جادو :۔ جادوگروں نے جب میدان میں اپنی لاتعداد لاٹھیاں اور رسیاں لا پھینکیں اور جادو کے ذریعے لوگوں کی نظر بندی کردی تو لوگوں کو سارا میدان متحرک سانپوں سے بھرا ہوا نظر آنے لگا لوگ دہشت زدہ ہوگئے کیونکہ اس شاہی دنگل کے لیے جادوگروں نے اتنی تیاریاں کی تھیں کہ اتنے بڑے جادو کی سابقہ ادوار میں نظیر ملنا مشکل تھی۔ الاعراف
117 [١١٩] مقابلے میں فرعون کی شکست :۔ اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا پھینکا تو وہ اژدہا بن کر ان رسیوں اور لاٹھیوں کے مصنوعی سانپوں کو نگلنے لگا اور چونکہ یہ مصنوعی سانپ حقیقتاً سانپ نہیں تھے بلکہ حقیقتاً وہ رسیاں اور لاٹھیاں ہی تھیں محض لوگوں کی نظر بندی ہوئی تھی۔ اس لیے جو کچھ موسیٰ علیہ السلام کے اژدہا نے نگلا وہ فی الحقیقت رسیاں اور لاٹھیاں ہی تھیں۔ آیت کے ظاہری الفاظ سے یہی مطلب واضح ہوتا ہے اور اکثر مفسرین اسی طرف گئے ہیں اور دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جہاں جہاں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا اژدہا پہنچتا تھا تو مصنوعی سانپ لوگوں کو پھر سے رسیاں اور لاٹھیاں ہی نظر آنے لگتے تھے اور وہ اژدہا صرف ان کی شعبدہ کاری کا خاتمہ کر رہا تھا جو جادوگر نظر بندی کے ذریعے لوگوں کو دکھلا رہے تھے۔ الاعراف
118 الاعراف
119 الاعراف
120 [١٢٠] جادوگروں کا سجدے میں گرنا اور ایمان کا اعلان :۔ یعنی اس مقابلے میں جب فرعون اور اس کے درباری مغلوب اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام و ہارون علیہ السلام غالب آئے تو ان دونوں نبیوں نے سجدہ شکر ادا کیا انہیں دیکھ کر جادوگروں پر ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ وہ بھی بے اختیار ان کے ساتھ سجدہ میں گر گئے بعد میں اسی بھرے مجمع میں اپنے ایمان لانے کا اعلان کیا کہ ہم اس اللہ رب العالمین پر ایمان لاتے ہیں جو موسیٰ علیہ السلام و ہارون علیہ السلام کا پروردگار ہے اور یہ وضاحت اس لیے کی کہ فرعون بھی اپنے رب ہونے کا دعویٰ رکھتا تھا۔ رہی یہ بات کہ ان جادوگروں کے دلوں پر کیا گزری اور کیسے ایسی کیفیت طاری ہوگئی کہ وہ مجبوراً اپنے پروردگار کے سامنے سر بسجود ہوگئے اس کیفیت کی وضاحت کے لیے ہم یہاں معجزہ اور جادو کا فرق مختصراً بیان کرتے ہیں۔ معجزے اور جادو میں فرق :۔ ١۔ جادو میں اشیاء کی حقیقت نہیں بدلتی بلکہ لوگوں کی نظروں کو فریب دیا جاتا ہے جبکہ معجزے میں اس چیز کی حقیقت ہی بدل جاتی ہے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا عصا معجزے سے زندہ سانپ بن جاتا تھا تبھی تو وہ ان جعلی سانپوں کو نگلنے لگتا تھا جبکہ جادوگروں کے بنائے ہوئے سانپ ایک دوسرے کو نگل نہیں سکتے تھے اسی بنا پر جادوگر سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے تھے کیونکہ ایک ماہر فن ہونے کی حیثیت سے وہ یہ بات خوب جانتے تھے کہ جو چیز سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے پیش کی ہے وہ جادو کی انتہائی پرواز سے بھی ماوراء ہے۔ ٢۔ جادو شدہ چیز کا اہلاک ممکن ہے جیسے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے عصا نے اژدہا بن کرجادوگروں کے بنائے ہوئے سانپوں یا لاٹھیوں کو نگل کر ان کا وجود ہی ختم کردیا تھا مگر معجزے میں ایسا اہلاک ممکن نہیں۔ وہ چیز یا تو اپنی سابقہ حالت پر لوٹ آتی ہے جیسے موسیٰ علیہ السلام کا عصا پھینکنے پر اژدہا بن جانا پھر جب اسے پکڑتے تو وہ عصا بن جاتا تھا یا آپ علیہ السلام کا ہاتھ دوبارہ بغل میں ڈالنے پر اپنی سابقہ عام حالت پر آ جاتا تھا۔ صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی رگ کاٹی گئی تو وہ اسی پہاڑی میں چلی گئی جہاں سے نکلی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں چاند پھٹا تو پھر جڑ کر پورا ہوگیا یا پھر اس حالت میں طویل مدت تک برقرار رہتی ہے جیسے چاہ زمزم یا عصا مارنے سے بارہ چشموں کا پھوٹنا۔ ٣۔ اگر کوئی قوم اپنے نبی سے کوئی خاص معجزہ طلب کرے اور وہی معجزہ اس نبی کو عطا کردیا جائے پھر بھی وہ قوم اپنی ضد پر اڑی رہے تو اس قوم پر عذاب کا نازل ہونا یقینی ہوتا ہے۔ جیسے صالح علیہ السلام کی قوم ثمود پر عذاب آیا تھا یا دسترخوان کا مطالبہ کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے متنبہ فرمایا تھا لیکن جادو کا انکار کرنے سے کسی کا کچھ بھی نہیں بگڑتا خواہ مطالبے پر ہی کوئی چیز ظہور پذیر ہوئی ہو۔ ٤۔ معجزہ براہ راست اللہ کا فعل ہوتا ہے جس کا صدور نبی سے ہوتا ہے اور یہ کسی طبعی قانون یا اصل پر مبنی نہیں ہوتا جسے سیکھا اور سکھلایا جا سکے جبکہ جادو ایک فن ہے اور یہ سیکھا اور سکھلایا جا سکتا ہے اور اس کا ماحصل شعبدہ بازی ہوتا ہے جس سے لوگوں کو فریب دیا جا سکے اور اسے پیشہ بنا کر پیٹ کا دھندا کیا جاتا ہے۔ ٥۔ جادوگر کی تمام زندگی خوف، دہشت، ایذا رسانی اور بدعملی سے وابستہ ہوتی ہے لہٰذا لوگ اس کے شر سے بچنے کے لیے اس سے خوف کھاتے اور مرعوب ہوتے ہیں جبکہ نبی کی تمام زندگی صداقت، خلوص، مخلوق خدا کی ہمدردی،خیر خواہی، بھلائی اور تقویٰ و طہارت سے عبارت ہوتی ہے نبی کبھی اس معجزے کو پیشہ نہیں بناتا بلکہ کسی اہم موقع پر صداقت و حق کی حمایت میں اس کا مظاہرہ کرتا ہے اور وہ لوگوں میں معزز اور محبوب ہوتا ہے۔ الاعراف
121 الاعراف
122 الاعراف
123 الاعراف
124 [١٢١] فرعون کی دوسری چالاکی، جادوگروں پر عتاب :۔ فرعون نے اپنے بچاؤ کے لیے پہلی تدبیر تو یہ کی تھی کہ موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بھائی کو عوام میں محض ایک جادوگر کی حیثیت سے متعارف کرایا جائے اور اسی لیے اس نے باہمی مشورے سے یہ شاہی دنگل رچایا تھا پھر جب اس مقابلے میں مات کھا گیا تو اپنی خفت اور ندامت کو مٹانے کے لیے دوسری تدبیر یہ اختیار کی کہ ان ایمان لانے والے جادوگروں پر یہ الزام لگا دیا کہ تم پہلے ہی اس سازش میں شریک تھے موسیٰ ( علیہ السلام) تمہارا استاد ہے اور تم سب اس کے چیلے چانٹے ہو اور تم سب مل کر یہ چاہتے ہو کہ یہاں کے اصل باشندوں کو نکال کر اس ملک پر قبضہ کرلو اس معرکے میں جس انداز سے تم نے فوراً اپنی شکست تسلیم کرلی ہے اس سے یہی کچھ معلوم ہوتا ہے لہٰذا میں تمہیں اس جرم کی قرار واقعی سزا دوں گا اور اس اعلان سے اس کے دو مقصد وابستہ تھے ایک یہ کہ عوام الناس کہیں فی الواقع اللہ کا رسول نہ سمجھنے لگیں، وہ اسے محض ایک جادوگر ہی سمجھیں اور دوسرے یہ کہ اگر کوئی ان پر ایمان لایا تو اس کا بھی وہی حشر ہوگا جس کا ان جادوگروں کے متعلق اعلان کیا گیا ہے۔ الاعراف
125 الاعراف
126 [١٢٢] جادوگروں کی ایمانی جرأ ت :۔ فرعون کی یہ تیسری تدبیر بھی بری طرح ناکام ہوگئی وہ چاہتا یہ تھا کہ جادوگروں کو جسمانی عذاب اور قتل کی دھمکی دے کر اس سازش کے الزام کا اعتراف کروا لے لیکن جادوگروں نے اپنے آپ کو ہر سزا کے لیے پیش کر کے یہ ثابت کردیا کہ ان کا یہ ایمان لانا کسی سازش کا نتیجہ نہیں بلکہ اعتراف حق کا نتیجہ ہے یاد رہے کہ یہ وہی جادوگر ہیں جو مقابلے سے پہلے فرعون سے یہ پوچھ رہے تھے کہ اگر ہم نے اپنے مذہب کو موسیٰ علیہ السلام کے حملے سے بچا لیا تو ہمیں کچھ انعام و اکرام بھی ملے گا ؟ اور اب ایمان لانے کے بعد ان کی کیفیت یہ ہوگئی کہ وہ فرعون کی ہر سزا کو خندہ پیشانی سے قبول کرنے پر آمادہ ہوگئے ہیں دوسری طرف وہی فرعون جو انہیں انعام و اکرام کے علاوہ کرسیاں (اعلیٰ مناصب) بھی دینے کا وعدہ کر رہا تھا اس مقابلے کے فوراً بعد ان کا جانی دشمن بن گیا۔ [١٢٣] یعنی جس پروردگار کی نشانیوں پر ایمان لانے سے ہم تیری نگاہ میں مجرم ٹھہرے ہیں ہم اسی سے التجا کرتے ہیں کہ وہ تیری سختی اور ظلم و ستم پر ہمیں صبر کی توفیق بخشے اور راہ مستقیم پر قائم رکھے ایسا نہ ہو کہ ہم گھبرا کر کوئی بات اس کی تسلیم و رضا کے خلاف کر گزریں۔ الاعراف
127 [١٢٤] لوگوں کا ایمان لانا اور فرعونیوں کو بغاوت کا خطرہ :۔ فرعون کی اس تدبیر کا بھی الٹا ہی اثر پڑا اور بہت سے اسرائیلی سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے حتیٰ کہ چند قبطی (فرعونی) بھی آپ پر ایمان لے آئے تو فرعونیوں کے لیے ایک تشویشناک صورت حال پیدا ہوگئی۔ وہ فرعون سے کہنے لگے اس صورت حال پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہیں یہ سب مل کر ملک میں بغاوت نہ کھڑی کردیں۔ اور تجھے اور تیرے معبودوں کو چھوڑ نہ دیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعون کے اور بھی کئی دیوتا تھے جن کی پرستش کی جاتی تھی۔ ایک تو فرعون نے ہر جگہ عبادت کے لیے اپنے مجسمے تیار کرا کے نصب کرا رکھے تھے۔ دوسرے قرآن سے اتنا تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم گؤ سالہ پرستی میں مبتلا تھی یعنی بیل کی پوجا کرنا ان کا مذہبی شعار بن چکا تھا اور وہ سورج کے علاوہ اور بھی کئی ستاروں کی روحوں کے فرضی مجسموں کو پوجتی تھی۔ [١٢٥] بنی اسرائیل کو نبیوں کے قتل کی دوسری بار سزا :۔ بنی اسرائیل پر بیٹوں کے قتل کا عذاب دو بار مسلط کیا گیا۔ پہلی دفعہ تو فرعون رعمسیس نے ایسا آرڈر نافذ کیا تھا جب اسے نجومیوں نے بتلایا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہوگا جو تیری سلطنت کا تختہ الٹ دے گا چنانچہ فرعون نے بنی اسرائیل کے ہاں سب پیدا ہونے والے بیٹوں کے قتل کی مہم کا آغاز کیا مگر جو کچھ اللہ کو منظور تھا وہ ہو کے رہا۔ جس بچے کو اس سلطنت کا تختہ الٹنا تھا اللہ تعالیٰ نے ایسا بندوبست کردیا کہ اس کی تربیت اور پرورش اسی فرعون کے گھر میں ہوتی رہی اور دوسری بار اسی فرعون کے بیٹے منفتاح نے اپنے باپ کے نقش قدم پر چل کر اسی بیٹوں کے قتل والی مہم کو شروع کردیا جس کا مقصد یہ تھا کہ کچھ مدت بعد بنی اسرائیل کی نسل ہی کو ختم کردیا جائے وہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو لونڈیاں بناکر ان سے طرح طرح کی بیگار لیا کرتے تھے اس طرح بزعم خود ان لوگوں نے اپنی سلطنت کو اور اپنے آپ کو آنے والے خطرے سے بچانے کی تدابیر مکمل کرلیں۔ الاعراف
128 الاعراف
129 [١٢٦] بنی اسرائیل پر مصائب، صبر کی تلقین اور وعدہ فتح ونصرت :۔ جب بنی اسرائیل کو دوبارہ ایسی سخت آزمائش میں ڈال دیا گیا وہ سخت پریشان ہوگئے اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے فریاد کے طور پر کہنے لگے کہ تمہارے آنے سے پہلے بھی ہم پر یہی ظلم و ستم ہوتا رہا اور اب تم پر ایمان لانے کی بعد بھی ہم دوبارہ وہی ظلم و ستم سہہ رہے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے انہیں صبر کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کا ظلم توڑ کے رکھ دیتا ہے بس تم اللہ سے مدد مانگتے رہو عنقریب وہ تمہارے اس دشمن کو ہلاک کر کے تمہیں اس سرزمین میں حکومت عطا کرے گا پھر تمہاری ایک دوسرے انداز سے آزمائش ہوگی آج تمہاری آزمائش سختیوں اور مظالم سے ہو رہی ہے کہ تم صبر سے برداشت کرتے ہو یا نہیں پھر تمہیں حکومت عطا کر کے دیکھے گا کہ تم حاکم بن کر کیسے کام کرتے ہو۔ واضح رہے کہ جس دور میں یہ سورۃ نازل ہوئی اس دور میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی ایسے ہی مصائب و شدائد کے دور سے گزر رہے تھے اور بمصداق گفتہ آید در حدیث دیگراں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی صبر کی تلقین کی جا رہی ہے اور ان سے حکومت ملنے کا وعدہ فرمایا جا رہا ہے۔ الاعراف
130 الاعراف
131 [١٢٧] یہ ویسی ہی تنبیہات ہیں جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ چھوٹے موٹے عذاب بھیج کر لوگوں کی آزمائش کرتے ہیں کہ وہ اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں یا نہیں ان تنبیہات کا نتیجہ بھی ان کے حق میں صفر ہی رہا جب بھلے دن آتے تو کہتے کہ یہ ہماری عقل مندی اور حسن تدبیر کا نتیجہ ہے اور ہم فی الواقع اس بھلائی کے مستحق تھے اور جب برے دن آتے تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور آپ کے اصحاب کو مطعون کرنے لگتے کہ ان لوگوں کی نحوست سے ہمیں یہ برے دن دیکھنے نصیب ہوئے ان کے اپنے گناہوں کی طرف ان کی نظر جاتی ہی نہ تھی۔ حالانکہ یہ بات تو اللہ کے علم میں ہے کہ ان کی نحوست کے اصل اسباب کیا تھے؟ الاعراف
132 [١٢٨] مصر میں قحط کا عذاب :۔ ان کی عقل پر کچھ ایسے پتھر پڑگئے تھے کہ قحط اور خشک سالی کے مصائب کو بھی موسیٰ علیہ السلام کے جادو کا نتیجہ قرار دے رہے تھے حالانکہ جادوگر میں ایسی ہرگز کوئی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے جادو کے اثر سے کسی علاقہ پر قحط یا خشک سالی مسلط کر دے اس کے باوجود وہ یہی کہتے تھے کہ موسیٰ ( علیہ السلام) ! تم ہم پر کیسا بھی جادو کر دو، ہم کبھی تمہاری بات تسلیم نہیں کریں گے۔ الاعراف
133 [١٢٩] طوفان، ٹڈیوں، جوؤں، مینڈکوں اور خون کا عذاب :۔ اس خشک سالی کے بعد اللہ نے ان پر زور دار بارش برسائی جو طوفان کی صورت اختیار کرگئی، اور اس سے ان کی فصلیں پانی میں ڈوب کر تباہ ہونے لگیں تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے التجا کی کہ اپنے پروردگار سے دعا کرو اگر بارش تھم گئی اور ہماری فصلیں بچ گئیں تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی تو بارش رک گئی اور فصلیں بھی بچ گئیں لیکن پھر وہ اپنے عہد سے پھر گئے تو اس کی سزا کے طور پر اللہ نے ان کی پکی ہوئی تیار فصلوں پر ٹڈیوں کے دل کے دل بھیج دیئے جب انہوں نے دیکھا کہ یہ ٹڈیاں تو ان کی ساری فصلوں کو چٹ کر جائیں گی تو پھر موسیٰ علیہ السلام کی طرف دوڑے اور پہلے کی طرح اللہ سے دعا کی درخواست کی، آپ کی دعا سے انہیں اس عذاب سے بھی نجات مل گئی اور انہوں نے غلہ کاٹ کر گھروں میں محفوظ کرلیا تو پھر اکڑ بیٹھے۔ اب اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر ان کے ذخیرہ کردہ غلہ میں سرسری کا عذاب بھیج دیا (قرآن میں قمل کا لفظ ہے جو چھوٹے چھوٹے جانداروں مثلاً چچڑی، مچھر، جوئیں، سُرسری اور ایسے ہی دوسرے کیڑوں کے لیے مستعمل ہے) کہ ذخیرہ کردہ غلہ پڑا پڑا ہی ناکارہ ہوجائے یہ صورت حال دیکھ کر وہ پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے اور دعا کی درخواست اور ایمان لانے کا عہد و پیمان کیا پھر جب آپ علیہ السلام کی دعا سے یہ عذاب دور ہوا تو پھر عہد شکنی کی تو اللہ نے یہ عذاب نازل کیا کہ مینڈکوں کی اس قدر بہتات ہوگئی کہ کھانا کھانے بیٹھتے تو ہر طرف سے مینڈک چڑھ آتے کبھی کھانے میں جا پڑتے کبھی سالن کے برتن میں اور کبھی ان کے کھانے کے لیے کھولے ہوئے منہ میں اور پانی پینے لگتے تو وہ خون کی شکل اختیار کرجاتا غرض جب ان کا جینا دوبھر ہوگیا تو پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے اور وہی التجا اور وعدے کیے۔ آپ علیہ السلام نے پھر دعا کی۔ ان سے یہ عذاب بھی ٹل گیا مگر پھر بھی وہ اکڑ بیٹھے اور ان سب تنبیہات کو جادو ہی کے کرشمے سمجھتے رہے۔ الاعراف
134 [١٣٠] چھٹا طاعون کا عذاب :۔ یعنی اس قوم کا یہ وطیرہ بن گیا کہ مذکورہ پانچ عذابوں میں سے جب کوئی عذاب آتا تو فوراً سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے پاس دعا کے لیے التجا کرتے اور کہتے کہ تمہارے پروردگار نے جو تم سے عہد کر رکھا ہے اس کے مطابق تمہاری دعا ضرور قبول ہوگی اور اگر تمہاری دعا سے ہم پر سے عذاب ٹل گیا تو پھر ہم تمہارا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ روانہ کردیں گے اس طرح پانچ دفعہ یہی واقعہ ہوا اور یہ فرعونی ہر بار اپنا عہد توڑ دیتے تھے۔ اور بعض مفسرین نے یہاں لفظ رجز کے معنی عذاب کے بجائے طاعون کے لیے ہیں اور ایک حدیث سے اس معنی کی تائید بھی ہوجاتی ہے اس لحاظ سے یہ فرعونیوں پر چھٹا عذاب تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جب فرعونیوں پر طاعون کا عذاب نازل ہوا تو ان کے بے شمار آدمی مرنے لگے اور ہر گھر میں صف ماتم بچھ گئی۔ اسی دوران سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو ہجرت کا حکم دیا گیا کہ راتوں رات بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر شام کی طرف نکل جائیں چونکہ فرعونی اپنی پریشانی میں مبتلا تھے لہٰذا وہ فوری طور پر انکا تعاقب نہ کرسکے اور جب فرعون اپنا لاؤ لشکر لے کر ان کے تعاقب میں روانہ ہوا تو اس وقت وہ بحیرہ قلزم کے قریب پہنچ چکے تھے۔ الاعراف
135 الاعراف
136 [١٣١] آل فرعون کی غرقابی :۔ جب بنی اسرائیل اس سمندر کے کنارے پہنچ گئے تو انہیں فرعون کے تعاقب کی خبر ہوگئی وہ سخت گھبرائے کہ اگر اب ہم ان کے ہتھے چڑھ گئے تو پھر ہماری خیر نہیں۔ ایسی پریشان کن اور نازک صورتحال میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل فرمائی کہ وہ اپنا عصا سمندر پر ماریں۔ عصا سمندر پر مارنے کی دیر تھی کہ اللہ کے حکم سے ادھر کا پانی ادھر ہی تھم گیا اور ادھر کا ادھر تھم گیا جیسے ساکت و جامد پہاڑوں کے بڑے بڑے تودے کھڑے ہوں درمیان میں خشک راستہ بن گیا اس خشک راستے سے بنی اسرائیل جب سمندر کے دوسرے کنارے پر جا پہنچے تو فرعونیوں نے بھی وہاں پہنچ کر اسی خشک راستے پر اپنے گھوڑے ڈال دیئے جب یہ لشکر عین وسط میں پہنچ گیا تو اللہ تعالیٰ نے پانی کو حکم دیا کہ وہ مل جائے اس طرح فرعون اپنے لاؤ لشکر سمیت اپنے اس انجام بد کو پہنچ گیا جس کی خبر اسے موسیٰ علیہ السلام کئی بار دے چکے تھے۔ الاعراف
137 [١٣٢] یہاں کمزور لوگوں سے مراد یہی بنی اسرائیل ہیں جو فرعونیوں کی غلامی کی چکی میں پس رہے تھے اور وہ اپنے کئی وعدوں کے باوجود انہیں آزاد کرنے پر تیار نہ ہوتے تھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سارے کے سارے بنی اسرائیل سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ نہیں گئے تھے بلکہ کچھ مصر ہی میں رہ گئے تھے اور فرعون اور اس کے لاؤ لشکر کی ہلاکت کے بعد یہ اس سر زمین پر بھی قابض ہوگئے تھے جیسا کہ اسی سورت کی آیت نمبر ١٢٩ سے اور بعض دوسری آیات سے بھی اس کی تائید ہوجاتی ہے واللہ اعلم بالصواب۔ پھر بعد میں سیدنا داؤد علیہ السلام اور سیدنا سلیمان علیہ السلام نے اس علاقے میں مستحکم حکومت قائم کی۔ [١٣٣] برکت والا علاقہ؟:۔ اس سر زمین سے مراد ملک شام ہے اس کی ظاہری برکات تو یہ ہیں کہ یہ علاقہ نہایت سرسبز و شاداب، خوش منظر اور زرخیز ہے اور باطنی برکات یہ ہیں کہ یہ ملک بہت سے انبیاء کا مسکن و مدفن ہے دریائے قلزم کو پار کرنے کے بعد بنی اسرائیل چالیس برس تک تو صحرائے تیہ میں سرگرداں پھرتے رہے جس کی پوری تفصیل سورۃ بقرہ میں گزر چکی ہے اسی میدان میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی وفات ہوئی اس کے بعد بنی اسرائیل نے سیدنا یوشع بن نون علیہ السلام کے ساتھ مل کر عمالقہ سے جہاد کیا اس میں انہیں فتح ہوئی اور اللہ نے اپنا وعدہ پورا کیا اور بنی اسرائیل اپنے آبائی وطن ملک شام کے وارث بن گئے۔ الاعراف
138 [١٣٤] گؤسالہ پرستی کی استدعا :۔ بنی اسرائیل اگرچہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لا چکے تھے اور اپنے موحد ہونے کا اقرار بھی کرتے تھے تاہم اس کے اندر گؤسالہ پرستی کے جراثیم ہنوز باقی تھے جس میں انہوں نے اپنی عمریں گزار دی تھیں۔ سمندر پار کرتے ہی انہوں نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ بچھڑے کا ایک پیتل کا بنا ہوا بت عبادت خانہ میں اپنے سامنے رکھ کر اس کی پوجا پاٹ میں مشغول تھے انہیں دیکھ کر بنی اسرائیل کو اپنی پرانی یاد تازہ ہوگئی اور گؤ سالہ پرستی کے لیے جی للچا آیا حتیٰ کہ موسیٰ علیہ السلام کو یہ بات کہہ بھی دی۔ موسیٰ علیہ السلام نے انہیں کہا کہ یہ تم کیسی جہالت کی باتیں کر رہے ہو؟ ابھی تک یہ بات تمہاری سمجھ میں نہیں آسکی کہ عبادت کے لائق صرف اللہ کی ذات ہے۔ پیکر محسوس اور تصور شیخ کی علّت اور ذات انواط :۔ بت پرست لوگ عموماً یہ کہا کرتے ہیں کہ ہم ان بتوں کی پوجا نہیں کرتے بلکہ اللہ ہی کی پوجا کرتے ہیں مگر چونکہ انسانی طبیعت کا خاصہ ہے کہ وہ ایک محسوس چیز کی طرف زیادہ مائل ہوتی ہے اس لیے کسی بت کو سامنے رکھنے سے ہم اللہ کی طرف زیادہ متوجہ ہوتے ہیں اور مسلمان کسی کا بت تو سامنے نہیں رکھتے مگر اپنے شیخ کا تصور یا تصویر اس طرح اپنے ذہن میں پختہ کرتے ہیں کہ اس کا تصور یا تصویر آنکھوں کے سامنے رہے اور کہتے ہیں کہ عبادت ہم اللہ ہی کی کرتے ہیں ایسی سب باتیں شرک ہی کا پیش خیمہ ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسی ہر بات سے منع فرما دیا ہے جس میں شرک کا شائبہ تک بھی پایا جاتا ہو چنانچہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی لڑائی میں تشریف لے گئے وہاں مسلمانوں نے ایک بیری کا درخت دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ خواہش ظاہر کی کہ جس طرح کافروں نے ایک درخت مقرر کر رکھا ہے جس پر وہ اپنے کپڑے اور ہتھیار لٹکاتے اور اس کے گرد جمے رہتے ہیں اور اسے ذات انواط کہتے ہیں اسی طرح آپ ہمارے لیے بھی ایک ذات انواط مقرر فرما دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تو وہی مثال ہوئی جیسے بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا کہ ہمیں بھی ایک بت بنا دیجئے جس طرح ان لوگوں کے بت ہیں۔ (ترمذی۔ ابو اب الفتن۔ باب لترکبن سنن من کان قبلکم ) الاعراف
139 [١٣٥] یعنی میرا تو مشن ہی یہی ہے کہ ایسے بتوں کو برباد کر دوں اور ایسے باطل پرستوں کو ختم کر دوں اور ایک تم ہو کہ مجھی سے کہہ رہے ہو کہ میں تمہیں بت بنا دوں۔ اللہ نے تمہیں فضیلت اس لیے تو نہیں بخشی کہ تم اپنے سے حقیر اور اپنے ہاتھوں سے بنائی ہوئی چیز کے سامنے سجدہ ریز ہوجاؤ لہٰذا ایسی جہالت کی باتیں نہ کرو۔ الاعراف
140 الاعراف
141 الاعراف
142 [١٣٦] طور کے دامن میں چالیس راتیں :۔ جب بنی اسرائیل کو غلامانہ زندگی سے نجات مل گئی تو اب انہیں ایک ضابطہ یا شریعت کی ضرورت تھی اس غرض کے لیے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو کوہ سینا پر بلایا کہ یہاں مبارک وادی میں آ کر تنہائی میں اللہ کی عبادت کریں اور اس کے لیے کم سے کم مدت ایک ماہ اور زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن مقرر کی گئی تھی۔ تاہم سورۃ بقرہ میں چالیس راتوں ہی کا ذکر آیا ہے۔ اس عرصے کے لیے آپ کو حکم یہ تھا کہ دن کو روزے سے رہیں اور شب و روز اللہ کی عبادت اور تفکر و تدبر کر کے اور دل و دماغ کو یکسو کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ شریعت (الواح) کو اخذ کرنے کی استعداد اپنے اندر پیدا کریں۔ [١٣٧] سیدنا ہارون علیہ السلام کی نیابت اور قوم کی گؤسالہ پرستی :۔ موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کی متلون مزاجی اور ضعیف الاعتقادی کا پورا تجربہ رکھتے تھے اس لیے کوہ سینا کو روانہ ہونے سے پیشتر اپنے بھائی سیدنا ہارون علیہ السلام کو اس بات کی تاکید کی کہ اگر یہ لوگ میرے بعد کسی طرح کی گڑبڑ پیدا کرنے کی کوشش کریں تو ان کی اصلاح کی کوشش کرتے رہنا اور فساد پیدا کرنے والوں کی بات ہرگز نہ ماننا۔ گویا اس قوم کی قیادت کے جو اختیارات سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے پاس تھے وہ آپ نے سب لوگوں کے سامنے سیدنا ہارون علیہ السلام کو تفویض کردیئے۔ قوم کے متعلق سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا خدشہ سو فیصد درست نکلا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے جانے کے بعد جلد ہی ان لوگوں نے گؤ سالہ پرستی شروع کردی۔ سیدنا ہارون علیہ السلام نے انہیں اپنی امکانی حد تک بہت کچھ سمجھایا لیکن یہ قوم کچھ ایسی اکھڑ واقع ہوئی تھی کہ سیدنا ہارون علیہ السلام کے حکم کو کچھ اہمیت ہی نہ دیتی تھی پھر سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی واپسی پر ان دونوں بھائیوں میں جو مکالمہ ہوا اس کا تفصیلی ذکر آگے آ رہا ہے۔ الاعراف
143 [١٣٨] سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا مطالبہ دیدار اور آپ کا بے ہوش کر گرپڑنا :۔ چالیس دن کی اس شبانہ روز عبادت و ریاضت کے بعد اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو کسی مخصوص و ممتاز رنگ میں شرف کلام بخشا۔ آپ کو بلا واسطہ اللہ کی بات سننے سے عجیب لذت حاصل ہوئی اور اسی لذت کے اثر سے دل میں متکلم کے دیدار کی آرزو پیدا ہوئی تو بے ساختہ دیدار کے لیے درخواست کردی کہ الہٰی! درمیان سے یہ حجاب اور موانع دور کر دے تاکہ میں ایک نظر تجھے دیکھ سکوں جواب ملا کہ تم اس فنا ہونے والے وجود اور فانی آنکھوں سے میرے دیدار کے کبھی متحمل نہ ہو سکو گے۔ اگر اتنی ہی آرزو ہے تو اس پہاڑ کی طرف دیکھو جس پر میں تھوڑا سا اپنی تجلیات کا پرتو ڈالوں گا اگر پہاڑ اس پرتو کو برداشت کرسکا اور وہ اپنی جگہ قائم رہا تو شاید تم بھی برداشت کرسکو اور یہ بات اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم تھی کہ یہ پرتو نہ پہاڑ برداشت کرسکے گا اور نہ موسیٰ علیہ السلام ۔ جیسا کہ پہلے ہی کہہ دیا تھا اور یہ بات صرف اس لیے کہی تھی کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی دل شکنی نہ ہو۔ چنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پر اپنا پرتو ڈالا تو وہ ریزہ ریزہ ہو کر زمین بوس ہوگیا اور موسیٰ علیہ السلام جو پاس کھڑے یہ منظر دیکھ رہے تھے اس دہشت سے بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ جب ہوش آیا تو پہلی بات یہ کی کہ میں نے جو یہ ناجائز قسم کا مطالبہ کردیا تھا اس سے توبہ کرتا ہوں، تیری عظمت و جلال کا اقرار کرتا ہوں اور اس بات پر ایمان لاتا ہوں کہ اس فانی دنیا میں اور ان فانی آنکھوں سے تیرا دیدار ناممکن ہے۔ لیکن جب یہ فانی دنیا ہی تبدیل کردی جائے گی اور انسانی قویٰ اور بالخصوص اس کی آنکھوں میں ایسی تبدیلی لائی جائے گی کہ وہ دیدار الٰہی کی متحمل ہو سکیں تو ایک مرتبہ لوگوں پر ایسا ہی غشی کا عالم طاری ہوگا جیسے موسیٰ علیہ السلام پر اس دنیا میں طاری ہوا تھا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ الاعراف
144 [١٣٩] یعنی اگر دیدار نہیں ہوسکا تو اور تھوڑی نعمتیں اور فضیلتیں تمہیں عطا کی ہیں تمہیں اپنا رسول بنایا اور براہ راست ہم کلامی کا شرف بخشا اور تمام جہان سے تمہیں منتخب کرلیا ہے لہٰذا اب میں جو شرعی احکام تمہیں دے رہا ہوں ان پر اچھی طرح عمل کرنا اور ان نعمتوں پر میرا شکر ادا کرتے رہنا۔ الاعراف
145 [١٤٠] تورات کی تختیاں :۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ تورات انہی تختیوں پر لکھی گئی تھی اور بعض کہتے ہیں کہ ان تختیوں میں صرف چند جامع اور بنیادی احکام لکھے گئے تھے اور تورات بعد میں آپ پر نازل ہوئی۔ ان تختیوں پر کتاب کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف فرمائی۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ان تختیوں کی تعداد کتنی تھی؟ ان تختیوں میں وہی احکام مذکور ہیں جو سورۃ انعام کی آیت نمبر ١٥١ اور ١٥٢ میں مذکور ہیں اور یہ سبت کی تعظیم کے حکم سمیت دس احکام بنتے ہیں۔ [١٤١] احسن کے معانی :۔ قرآن کا لفظ باحسنہا کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ایک تو وہی ہے جو ترجمہ میں ذکر کردیا گیا ہے یعنی ان پر عمل بےدلی سے اور بے کار سمجھ کر نہ کریں بلکہ نہایت خوش دلی، نشاط اور اللہ کی رضا جوئی کے لیے بہتر طریقہ سے ان احکام پر عمل پیرا ہوں اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان تختیوں پر لکھی ہوئی عبارت کا جو مفہوم ایک سلیم الطبع انسان کی عقل میں فوری طور پر آ جاتا ہے اسی پر عمل کریں ان احکام کی عبارت کو فلسفیانہ موشگافیوں کی سان پر نہ چڑھائیں اور الٹی سیدھی تاویلات میں مشغول نہ ہوجائیں۔ [١٤٢] اس جملہ کے بھی دو مطلب ہیں ایک یہ کہ تم لوگ اب شام کی طرف جا رہے ہو راستہ میں تم کئی تباہ شدہ قوموں کے آثار قدیمہ کے پاس سے گزرو گے جس سے تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ اللہ کی نافرمان قوموں کا کیا انجام ہوتا ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ دارالفاسقین سے مراد ملک شام میں عمالقہ کے گھر ہیں جن سے ان بنی اسرائیل کو جہاد کے لیے کہا جا رہا تھا اس معنی کی رو سے یہ جملہ ان کے لیے فتح کی خوشخبری کی حیثیت رکھتا ہے۔ الاعراف
146 [١٤٣] تکبر کی تعریف اور علامات :۔ تکبر کی جامع تعریف درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتی ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جس کے دل میں رائی برابر بھی تکبر ہو۔‘‘ ایک شخص نے کہا : ہر انسان اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو اس کی جوتی اچھی ہو (کیا یہ تکبر ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ خوب صورت ہے، خوبصورتی کو پسند کرتا ہے، تکبر تو یہ ہے کہ تو حق کو ٹھکرا دے اور لوگوں کو حقیر سمجھے‘‘ (مسلم، کتاب الایمان۔ باب تحریم الکبروبیانہ ) یعنی تکبر کی ایک علامت تو یہ ہوتی ہے کہ متکبر انسان اللہ کے احکام کی کچھ پروا نہیں کرتا اور اپنے آپ کو اللہ کی بندگی کے مقام سے بالاتر سمجھنے لگتا ہے جیسے نہ تو وہ اللہ کا بندہ ہے اور نہ ہی اللہ اس کا پروردگار ہے اور دوسری علامت یہ ہے کہ اپنے آپ کو عام لوگوں سے کوئی بالاتر مخلوق سمجھنے لگتا ہے اور دوسروں کو اپنے سے فروتر سمجھ کر ان سے ویسا ہی سلوک کرتا ہے حالانکہ اس کی اس خودسری کے لیے کوئی وجہ جواز نہیں اللہ کی زمین پر رہتے ہوئے اور اس کا رزق کھاتے ہوئے کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اللہ کا نافرمان اور متکبر بن کر رہے اسی لیے اللہ نے یہاں بغیر الحق کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ [ ١٤٣۔ الف] تکبرکا اثر انسانی طبائع پر :۔ پورے جملہ کا مفہوم یہ ہوگا کہ بلاوجہ تکبر کرنے والوں کی نگاہیں اللہ کی آیات کی طرف اٹھتی ہی نہیں۔ خواہ پوری کی پوری کائنات اللہ کی ایسی نشانیوں سے بھری ہوئی ہو اور ایسی ہی بے شمار آیات ان کے اپنے جسم کے اندر بھی موجود ہوں یا انہیں اللہ کی آیات پڑھ کر سنائی جائیں تو ان کے دل کوئی اثر قبول نہیں کرتے اور اگر کوئی خرق عادت معجزہ بھی دیکھ لیں تو اس کی تاویلات و توجیہات تلاش کرنے پر تو تیار ہوجاتے ہیں لیکن راہ راست پر آنے کا نام نہیں لیتے ہاں اگر کوئی گمراہی کی بات ہو اپنے خواہشات نفس کی پیروی کی بات ہو اللہ کی آیات کا مذاق اڑایا جا رہا ہو یا کمزور مسلمانوں پر پھبتیاں کسی جا رہی ہوں تو ایسی باتیں ان کو بہت راس آتی ہیں اور بھلی معلوم ہوتی ہیں۔ الاعراف
147 [١٤٤] کافروں کے اچھے اعمال کا بدلہ بھی نہ ملنے کی وجہ :۔ اس لیے کہ کسی عمل کے بارآور ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ کی رضامندی کے لیے ہو۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق ہو اور جس عمل میں یہ تصور ہی موجود نہ ہو کہ وہ عمل اس نیت سے کر رہا ہے کہ آخرت میں مجھے اس کا صلہ ملے گا اس کا صلہ آخر مل بھی کیسے سکتا ہے؟ یہ تو ان اعمال کا حال ہوگا جو اچھے ہوں گے اور جو عمل اللہ کی نافرمانی اور معصیت کی صورت میں ہوں گے ان کی سزا البتہ ضرور ملے گی اور ملنی بھی چاہیے کیونکہ جو شخص اللہ کی زمین پر رہ کر اس کی مخلوق ہو کر اور اس کا رزق کھا کر اس کی مرضی کے خلاف عمل کرتا ہے اسے سزا آخر کیوں نہ ملے؟ اس دنیا میں یہی اصول کار فرما ہے اگر ایک غلام اپنے آقا یا ماتحت اپنے افسر کے حکم کے خلاف کوئی کام کرتا ہے تو اس کو اس کی سزا ملتی ہے اور جو کام وہ اپنے مالک کے لیے نہیں کر رہا اس کا بدلہ اس کے مالک کی طرف سے اسے کبھی نہیں ملتا اسے بدلہ صرف اس کام کا ملتا ہے جو وہ اپنے مالک کے حکم یا مرضی کے مطابق کرتا ہے۔ الاعراف
148 اس آیت کی تفسیر اگلی آیت کےساتھ ملاحظہ کیجئے۔ الاعراف
149 [١٤٥] حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عدم موجودگی میں بنی اسرائیل کی گؤسالہ پرستی :۔ موسیٰ علیہ السلام تو اللہ تعالیٰ کے مقررہ وعدہ اور وقت کے مطابق کوہ طور پر چلے گئے، اور بنی اسرائیل کی قیادت سیدنا ہارون علیہ السلام کے سپرد کر کے یہ تاکید کردی تھی کہ یہ بگڑی ہوئی قوم ہے۔ ان کی اصلاح کے لیے خصوصی دھیان رکھنا اور یہ بات موسیٰ علیہ السلام نے اس وجہ سے کہی تھی کہ ایک مرتبہ پہلے وہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے کہہ چکے تھے کہ ہمیں بھی ایک معبود بنا دیجئے اور موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سرزنش بھی کی تھی حالانکہ انہیں ایمان لائے کافی مدت گزر چکی تھی دوسری بات یہ تھی کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام خود جلالی طبیعت کے مالک اور رعب داب رکھنے والے پیغمبر تھے اور اس بگڑی ہوئی قوم پر انہیں کنٹرول رکھنے کا سلیقہ آتا تھا ان کے مقابلہ میں ہارون علیہ السلام اگرچہ ان کے حقیقی بھائی اور عمر میں بھی تین سال بڑے تھے تاہم نرم طبیعت انسان تھے انہیں سیدنا موسیٰ علیہ السلام اپنا قائم مقام بنا کر جا رہے تھے ان حالات میں موسیٰ علیہ السلام کے دل میں جو خدشہ تھا بالکل بجا تھا اور انہی وجوہ کی بنا پر آپ نے پر زور تاکید کی تھی۔ چنانچہ وہی کچھ ہوا جس کا خطرہ تھا۔ بنی اسرائیل نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی عدم موجودگی کو غنیمت جانا اور جس کام کی خواہش ان کے دلوں میں رہ رہ کر انگڑائیاں لے رہی تھی وہ انہوں نے پوری کرلی۔ ایک بچھڑا بنایا اور اس کی پرستش شروع کردی اس بچھڑے کو سامری نے بنایا اپنے جیسے گؤ سالہ پرستی کی خواہش رکھنے والے لوگوں سے سونے کے زیورات اکٹھے کیے اور انہیں پگھلا کر سونے کے بچھڑنے کا پتلا بنا دیا اور اس کی پوجا پاٹ کرنے لگے ہرچند سیدنا ہارون علیہ السلام نے انہیں منع کیا مگر وہ ان سے کہاں باز آنے والے تھے؟۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام تو ان کے لیے ایسے احکام و ہدایات لانے کے لیے گئے تھے جس سے ان کی دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں مگر ان عقل کے اندھوں کو اتنی بھی سمجھ نہ آئی جو معبود انہوں نے گھڑ لیا ہے وہ جب کوئی بات ہی نہیں کرتا تو ان کی رہنمائی کیا کرے گا اس کے باوجود انہوں نے اسے معبود قرار دے لیا تو اس سے بڑھ کر بھی کوئی بے انصافی، ظلم اور شرک کی بات ہو سکتی ہے؟ [١٤٦] وہ لوگ کب شرمسار ہوئے اور اللہ نے ان کی توبہ کس شرط پر قبول کی، اس کی تفصیل سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٥٤ میں گزر چکی ہے۔ الاعراف
150 [١٤٧] سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا ہارون علیہ السلام پر مواخذہ اور ان کا جواب :۔ موسیٰ علیہ السلام کو وہاں کوہ طور پر ہی بذریعہ وحی یہ اطلاع دے دی گئی تھی کہ سامری نے ایک بچھڑا تیار کیا ہے اور قوم کے بہت سے لوگ گؤ سالہ پرستی میں مبتلا ہوچکے ہیں لہٰذا جب واپس اپنی قوم کے پاس آئے تو غصہ اور رنج پہلے سے ہی طبیعت میں موجود تھا۔ آتے ہی لوگوں سے کہا کہ میرے بعد تم نے یہ کیا گل کھلا دیئے۔ کہ فوراً اپنی کفر و شرک والی زندگی تم میں عود کر آئی پھر اسی غصہ کے عالم اور دینی حمیت کے جوش میں تختیاں تو نیچے ڈال دیں اور سیدنا ہارون علیہ السلام کے داڑھی اور سر کے بال کھینچتے ہوئے کہا تم نے میرے قائم مقام بن کر یہ سب کچھ کیسے برداشت کرلیا ؟ اس کے مقابلہ میں سیدنا ہارون علیہ السلام نے نہایت پیار کے لہجہ میں اور معذرت خواہانہ انداز میں کہا : میرے ماں جائے بھائی! ذرا میری بات سن لو میں نے انہیں سمجھانے میں کچھ کوتاہی نہیں کی مگر یہ اتنے سرکش لوگ ہیں کہ میری بات کو کچھ سمجھتے ہی نہ تھے بلکہ الٹا مجھے مار ڈالنے کی دھمکیاں دینے لگے تھے لہٰذا ان بدبختوں کو مجھ پر ہنسنے اور بغلیں بجانے کا موقع نہ دو اور یہ ہرگز نہ سمجھو کہ انہوں نے جو ظلم روا رکھا ہے اور شرک کیا ہے وہ میری شہ پر کیا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بائیبل میں بعض انبیاء کو مختلف قسم کے شدید گناہوں میں ملوث قرار دیا گیا ہے ان میں سے ایک سیدنا ہارون علیہ السلام بھی ہیں جنہیں بنی اسرائیل کے اس شرک کے جرم میں شریک ہی نہیں بلکہ اس کا محرک اور اس میں معاون قرار دیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں بائیبل کی درج ذیل عبارت ملاحظہ فرمائیے۔ ''جب موسیٰ کو پہاڑ سے اترنے میں دیر لگی تو بنی اسرائیل نے بے صبر ہو کر سیدنا ہارون علیہ السلام سے کہا کہ ہمارے لئے ایک معبود بنا دو اور ہارون علیہ السلام نے ان کی فرمائش کے مطابق سونے کا ایک بچھڑا بنا دیا جسے دیکھتے ہی بنی اسرائیل پکار اٹھے کہ اے اسرائیل! یہی تیرا وہ خدا ہے جو تجھے ملک مصر سے نکال لایا ہے پھر ہارون علیہ السلام نے اس کے لیے ایک قربان گاہ بنائی اور اعلان کر کے دوسرے روز تمام بنی اسرائیل کو جمع کیا اور اس کے آگے قربانیاں چڑھائیں۔‘‘ (خروج باب ٣٢ آیت ١ تا ٦) بائبل میں سیدنا ہارون علیہ السلام پر گؤ سالہ پرستی کا اتہام :۔ قرآن کریم نے سیدناہارون علیہ السلام کو یہود کے اس اتہام سے بالکل بری قرار دیا ہے اور وضاحت کردی کہ بچھڑا بنانے والا ہارون علیہ السلام نہیں بلکہ سامری تھا اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کو سابقہ تمام آسمانی کتب پر مھیمن قرار دیا ہے یعنی ان کتابوں میں جو بات قرآن کے خلاف ہوگی وہ الہامی نہیں ہو سکتی وہ یقینا دوسروں کی اختراعات ہوں گی۔ الاعراف
151 [١٤٨] سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی اپنے اور اپنے بھائی کے لئے دعائے مغفرت :۔ سیدنا ہارون علیہ السلام کے حلیمانہ جواب سے جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی طبیعت کچھ اعتدال پر آئی تو سمجھے کہ انہوں نے اس معاملہ میں اپنے بھائی پر زیادتی کی ہے لہٰذا فوراً اپنے پروردگار کی طرف رجوع ہوئے کہ مجھے بھی بخش دے اور اگر میرے بھائی سے ان لوگوں کو شرک سے باز رکھنے میں کچھ کوتاہی واقع ہوئی ہے تو اسے بھی معاف فرما دے اور ہمیں اپنی رحمت سے ڈھانپ لے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے اپنے بھائی سیدنا ہارون علیہ السلام کو اس دعائے مغفرت و رحمت میں شریک کرنے کی دوسری وجہ یہ بھی تھی جو سیدنا ہارون علیہ السلام نے کہا تھا کہ مجھ پر میرے دشمنوں کو ہنسنے کا موقع نہ دو۔ اس قسم کی دعا سے اس شکایت کا ازالہ بھی مقصود تھا۔ الاعراف
152 [١٤٩] گؤسالہ پرستوں کا قتل عام :۔ اللہ کا غضب وہی تھا جس کا ذکر سورۃ بقرہ کی آیت ٥٤ میں گزر چکا ہے کہ ایسے بچھڑا پرست مشرکوں کو قتل کر کے باقی معاشرہ کو شرک سے پاک کردیا جائے۔ گؤ سالہ پرستی کے معاملہ میں بنی اسرائیل کے تین گروہ ہوگئے تھے ایک وہ لوگ تھے جنہوں نے بچھڑے کی پرستش کی تھی دوسرے وہ تھے جنہوں نے خود پرستش تو نہ کی مگر کرنے والوں کو منع بھی نہیں کرتے تھے اور تیسرے وہ تھے جنہوں نے پرستش بھی نہ کی اور پرستش کرنے والوں کو منع بھی کرتے رہے۔ جب ان لوگوں کو اپنے اس جرم عظیم کا احساس ہوا اور اللہ سے توبہ کی درخواست کی تو اللہ نے توبہ کی قبولیت کی شرط یہ قرار دی کہ تمام گؤ سالہ پرست مشرکوں کو قتل کردیا جائے اور انہیں قتل کرنے والے وہ لوگ ہوں گے جو خود اس شرک سے بچتے بھی رہے اور مشرکوں کو اس شرک سے منع بھی کرتے رہے۔ الاعراف
153 [١٥٠] بنی اسرائیل کی اس طرح توبہ کے بعد اب انہیں اس جرم کا آخرت میں عذاب نہیں ہوگا۔ بنی اسرائیل کے ان مشرکوں کے لیے توبہ کی یہ اس قدر مشکل شرط اس لیے عائد کی گئی تھی کہ انہوں نے اس جرم کا ارتکاب ایمان لانے کے بعد انبیاء علیہم السلام کی موجودگی میں اور ان کے روکنے کے باوجود کیا تھا ورنہ عام حالات میں مشرکوں کے لیے صرف سچے دل سے توبہ ہی کافی ہے اور اگر وہ سچے دل سے توبہ کرلیں تو انہیں اللہ سے امید رکھنی چاہیے کہ وہ ان کا گناہ معاف فرما دے گا۔ الاعراف
154 [١٥١] تورات کی اشاعت :۔ اپنے اور اپنے بھائی کے حق میں دعائے مغفرت و رحمت کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے گؤ سالہ پرستوں کے حق میں اپنا فیصلہ بتلا دیا۔ اتنی دیر میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا غصہ فرو ہوچکا تو آپ نے وہ تختیاں زمین سے اٹھائیں۔ پھر ان تختیوں کی مختلف قبائل کے لیے نقول تیار کرائی گئیں۔ ان میں اگرچہ زندگی کے لیے رہنمائی تو موجود تھی اور اس لحاظ سے یہ اللہ کی رحمت بھی تھی مگر یہ رہنمائی تو اسی شخص کو سود مند ہو سکتی ہے جو یہ سمجھتا ہو کہ یہ واقعی اللہ کی طرف سے ہماری رہنمائی کرتی ہے اور اللہ سے ڈرتے ہوئے ان پر عمل بھی کرے مگر جو لوگ خود ہی ہدایت کے طالب نہ ہوں انہیں ان سے ہدایت نہیں ملے گی۔ الاعراف
155 [١٥٢] ستر منتخب آدمیوں کا دیدار الہٰی کا مطالبہ اور ان کی موت :۔ جب انہیں اپنی زندگی کا لائحہ عمل بنانے کے لیے یہ تختیاں دی گئیں تو ان لوگوں نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر بھی بداعتمادی کا اظہار کردیا اور کہنے لگی کہ ہمیں کیسے معلوم ہو کہ یہ واقعی اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے قوم کا یہ سوال اللہ کے حضور پیش کردیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اچھا ان میں سے ستر آدمی منتخب کر کے فلاں وقت کوہ طور پر لے آؤ۔ موسیٰ علیہ السلام نے ہر قبیلہ کے چھ چھ آدمی منتخب کیے تو یہ (72) بہتر ہوگئے۔ آپ نے فرمایا کہ جو دو آدمی رضاکارانہ طور پر پیچھے رہ جائیں ان کو بھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا جانے والوں کو ملے گا۔ اس طرح دو آدمی رضاکارانہ طور پر الگ ہوگئے اور باقی ستر (٧٠) آدمی سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کوہ طور کی جانب روانہ ہوگئے۔ وہاں پہنچے تو ان سب لوگوں کی موجودگی میں اللہ تعالیٰ سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے ہم کلام ہوئے تو ان لوگوں نے یہ اعتراض جڑ دیا کہ ہمیں یہ کیسے معلوم ہو کہ تم سے (اے موسیٰ ) ہم کلام ہونے والا اللہ ہے جب تک ہم اس ہم کلام ہونے والے یعنی اللہ کو واضح طور پر دیکھ نہ لیں ہم کیسے یقین کریں۔ ان کا یہ مطالبہ ناممکن الوقوع تھا۔ جب موسیٰ علیہ السلام خود بھی اللہ کی تجلی کو برداشت نہ کرسکے تھے تو یہ بے چارے کس کھیت کی مولی تھے پھر ان کی کٹ حجتیوں کی بھی انتہا ہوچکی تھی اور یہ لاتوں کے بھوت باتوں سے ماننے والے بھی نہ تھے چنانچہ ان پر اللہ کا قہر نازل ہوا۔ اوپر سے صاعقہ (جیسا کہ سورۃ بقرہ میں مذکور ہے) اور نیچے سے زلزلہ (جیسے یہاں مذکور ہے) کا عذاب آیا اور یہ ستر کے ستر آدمی اسی جگہ پر ہلاک ہوگئے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے ان 70 ستر آدمیوں کا دوبارہ زندہ ہونا :۔ اب موسیٰ علیہ السلام حیران و پریشان کھڑے تھے کہ کریں تو کیا کریں نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن والا معاملہ بن گیا تھا۔ قوم کے پاس آتے تو اس کا پہلا سوال یہی ہوتا کہ جو آدمی آپ کے ساتھ گئے تھے وہ کہاں ہیں؟ اور ان ہلاک شدہ لوگوں کے پاس رہنے کا بھی کچھ فائدہ نہ تھا آخر اللہ ہی سے فریاد کی کہ یا اللہ اگر انہیں بلکہ مجھے بھی ہلاک کرنا ہی تھا تو ان کی قوم کے سامنے کرتا تاکہ مجھ پر تو کوئی الزام نہ آتا۔ اب تیرے علانیہ دیدار کا مطالبہ تو چند نادانوں نے کیا تھا جس کی پاداش میں تو نے سب کو ہلاک کردیا۔ یہ سارے کا سارا واقعہ ایک آزمائش تھا جس میں کچھ لوگ گمراہ ہوئے اور باقی راہ راست پر بھی قائم رہے لہٰذا ہم پر رحم فرماتے ہوئے ہمیں معاف فرما دے چنانچہ آپ کی دعا سے ان ہلاک شدہ لوگوں کا قصور معاف کردیا گیا اور انہیں دوبارہ زندگی بخشی گئی جیسا کہ سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٥٦ میں مذکور ہے۔ الاعراف
156 [١٥٣] اللہ کی رحمت دنیا میں سب کے لئے عام ہے :۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی امت کے لیے دنیا اور آخرت دونوں جگہ کی بھلائی طلب فرمائی، تو اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا اصل چیز جس پر یہ کائنات کا سارا نظام چل رہا ہے وہ میری رحمت ہے اور ساری مخلوق میری رحمت سے مستفید ہو رہی ہے۔ سزا تو میں صرف اس شخص کو دیتا ہوں جس کے حق میں اس کی نافرمانیوں کی بنا پر وہ مقدر ہوچکی ہے بلکہ وہ بھی بسا اوقات دنیا میں میری رحمتوں سے مستفیض ہوتے رہتے ہیں اور جس خیر اور بھلائی کا تم مطالبہ کر رہے ہو کہ دنیا میں بھی یہ نعمت ملے اور آخرت میں بھی یہ صرف ان لوگوں کا حصہ ہے جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں اور تقویٰ کی راہ اختیار کرتے اور اپنے اموال سے ہمارا حق یعنی زکوٰۃ بھی ادا کرتے ہیں ایسے لوگ دنیا اور آخرت دونوں جگہ میری رحمت سے ہم کنار ہوں گے۔ یہاں تک موسیٰ علیہ السلام کی دعا کا جواب ختم ہوتا ہے۔ الاعراف
157 [١٥٤] بائیبل کی آپ کے متعلق بشارتیں :۔ اس آیت میں خطاب دور نبوی کے اہل کتاب اور دوسرے لوگوں سب کے لیے عام ہے کیونکہ آج بھی اللہ کی رحمت کے حصول کے ذرائع وہی ہیں جو سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو ان کی دعا کے جواب میں بتلائے گئے تھے یعنی جو لوگ اللہ کی آیات پر ایمان لائیں، اللہ کی نافرمانی سے ڈرتے رہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے رہیں اور مزید شرط یہ ہے کہ اس موجودہ نبی امی کی اطاعت و اتباع بھی کریں جس کی بشارت آج بھی تورات اور انجیل میں موجود ہے اور اہل کتاب انہیں پڑھتے اور اچھی طرح سمجھتے اور جانتے ہیں۔ مثلاً: ١۔ استثناء باب ١٨، آیت ١٥ تا ١٩ ٢۔ متی باب ٢١، آیت ٣٣ تا ٤٦ ٣۔ یوحنا باب ١، آیت ١٩ تا ٢١ ٤۔ یوحنا باب ١٤، آیت ١٥ تا ١٧، نیز آیت ٢٥ تا ٣٠ ٥۔ یوحنا باب ١٤، آیت ٢٥ اور ٢٦ ٦۔ یوحنا باب ١٦، آیت ٧ تا ١٥ اور امی کا لفظ غالباً ام (یعنی والدہ) کی طرف منسوب ہے یعنی جس طرح بچہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے اور کسی کا شاگرد نہیں ہوتا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بھر کسی مخلوق کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ نہیں کیا اس کے باوجود جن علوم و معارف شرعیہ کے آپ معلم بنے پوری دنیا اس کی معترف ہے اور پڑھے لکھے اور دانش وروں میں سے کسی کی طاقت نہیں کہ اس کا عشر عشیر بھی پیش کرسکیں پس نبی امی کا لقب آپ کے لیے مایہ صد افتخار ہے اور آپ کے امی ہونے میں جو حکمت تھی وہ قرآن نے اسے متعدد مقامات پر بیان کردیا ہے۔ [١٥٥] امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت :۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ اتنا اہم ہے جسے تمام آسمانی شریعتوں میں واجب قرار دیا گیا ہے بہت سی قوموں پر محض اس لیے عذاب آیا کہ انہوں نے اس فریضہ پر عمل کرنا چھوڑ دیا تھا۔ چنانچہ کسی نبی کے سچا ہونے کا ایک معیار یہ بھی ہے کہ کیا وہ اپنے پیروؤں کو اس فریضہ کو بجا لانے کا حکم دیتا ہے یا نہیں۔ ہرقل شہنشاہ روم نے جب ابو سفیان کو بلا کر چند سوالات پوچھے تو ان میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ وہ نبی کیسی باتوں کا حکم دیتا ہے تو ابو سفیان نے بتلایا کہ وہ فلاں فلاں (بھلے) کاموں کا حکم دیتا ہے اور فلاں فلاں برے کاموں سے روکتا ہے تو ہرقل نے کہا کہ تمام نبی ایسا ہی کرتے رہے ہیں۔ (بخاری، باب کیف کان بدء الوحی) [١٥٦] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بعض چیزوں کو حلال اور حرام کرنا :۔ وہ پاکیزہ اور حلال اشیاء جن کو یعقوب علیہ السلام نے اپنے اوپر حرام قرار دے لیا تھا پھر علمائے یہود نے ان چیزوں کو مستقل طور پر حرام قرار دے دیا یا وہ چیزیں جو ان کی نافرمانیوں کے باعث ان پر حرام کردی گئیں تھیں وہ سب شریعت محمدیہ میں حلال کردی گئیں۔ مثلاً اونٹ کا گوشت، گائے اور بکری کی چربی وغیرہ اور بعض حرام چیزوں کو یہود نے حلال قرار دے لیا تھا جنہیں آپ کی شریعت میں پھر سے حرام قرار دیا گیا جیسے سود اور غیر یہودی لوگوں کا مال ہر جائز و ناجائز طریقے سے حلال اور جائز سمجھ کر حاصل کرنا اس جملہ کا روئے سخن اگرچہ اہل کتاب کی طرف معلوم ہوتا ہے تاہم اس کا حکم عام ہے جس میں مسلمان بھی شامل ہیں چنانچہ اللہ کے عطا کردہ اسی اختیار کی رو سے آپ نے تمام درندوں اور شکاری پرندوں اور گھریلو گدھے کا گوشت کھانا حرام قرار دیا۔ علاوہ ازیں خبائث میں وہ اشیائے خوردنی بھی شامل ہیں جو گندی، باسی، بدبودار یا گل سڑ گئی ہوں۔ [١٥٧] بنی اسرائیل پر احکام میں سختی :۔ اس میں وہ قیود اور بندشیں بھی شامل ہیں جن کا انہیں شرعاً حکم تھا جیسے انہیں قتل کے بدلے صرف قصاص کا حکم دیا گیا تھا دیت یا خون بہا کی رعایت یا رخصت نہیں دی گئی تھی یا اگر ان کے جسم کے کسی حصہ پر پیشاب کے چھینٹے پڑجاتے، تو وہ جسم کا اتنا حصہ قینچی سے کاٹ دیتا (نسائی، کتاب الطہارۃ باب البول الی السترۃ یستربھا) جبکہ ہماری شریعت میں ایسا حصہ صرف دھونے سے پاک ہوجاتا ہے اور ایسی بندشیں بھی جو ان کے علماء نے از خود عائد کرلی تھیں جیسے اگر ان کی کوئی عورت حائضہ ہوجاتی تو نہ ان کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھاتے نہ اس کے ساتھ کھاتے بلکہ اسے اپنے گھر میں بھی نہ رہنے دیتے اور ایسی عورتوں کا کسی الگ جگہ رہائش کا بندوبست کیا کرتے تھے (مسلم، کتاب الحیض۔ باب جواز غسل الحائض راس زوجھا) جبکہ ہماری شریعت میں ماسوائے صحبت کے اور کوئی پابندی نہیں۔ پھر ان میں وہ پابندیاں بھی شامل تھیں جو ان کے فقیہوں نے فقہی موشگافیوں سے اور ان کے زاہدوں نے اپنی پرہیزگاری میں غلو کی وجہ سے اور جاہل عوام نے اپنے توہمات سے عائد کر رکھی تھیں۔ اس نبی امی کا کام یہ ہے کہ ایسی تمام جکڑ بندیوں کے بوجھ سے لوگوں کو نجات دے۔ [١٥٨] نور سے مراد کتاب وسنت یا وحی الہٰی :۔ اس نبی امی کی مذکورہ بالا صفات اور لوگوں پر اس کے احسانات کا ذکر کرنے کے بعد تمام لوگوں سے اللہ فرماتے ہیں کہ تمہیں ایسے نبی پر ایمان بھی لانا چاہیے اس کی عزت و تکریم میں بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھنا چاہیے اور اس کی حمایت میں اس کا بھرپور ساتھ دینا چاہیے اور اس روشنی کی پیروی کرنا چاہیے جو ہم نے اس کے ساتھ نازل فرمائی ہے روشنی سے مراد کتاب اللہ بھی ہے اور اس پر عمل کرنے کا طریق کار یعنی سنت نبوی بھی۔ اگر تم مذکورہ بالا کام کرو گے تو تب ہی تم کامیاب ہو سکتے ہو۔ الاعراف
158 [١٥٩] آپ صلی اللہ علیہ وسلم تا قیامت اور تمام لوگوں کے لیے رسول ہیں :۔ اس جملہ سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سابقہ انبیاء کی طرح نہ نسلی یا قومی پیغمبر تھے اور نہ علاقائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلقہ تبلیغ پوری دنیا کے انسان ہیں اور سارے کے سارے لوگ ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وقتی یا کسی مخصوص زمانہ کے بھی پیغمبر نہیں بلکہ قیامت تک کے لیے پیغمبر ہیں اور آپ کی رسالت کا کام تاقیامت جاری رہے گا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی اللہ کی طرف سے آنے والا نہیں اور اگر کوئی نبوت کا دعویٰ کرے تو وہ جھوٹا اور کذاب ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی بھر امکانی حد تک تبلیغ رسالت کا فریضہ سر انجام دیا حجۃ الوداع کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی تاکید سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر یہ ذمہ داری ڈالی کہ جن لوگوں تک اللہ کا پیغام نہیں پہنچ سکا، ان تک وہ پہنچا دیں لہٰذا اب اس امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام کی دعوت کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کا کام سر انجام دیں اور اس کام کے لیے جو ممکن ذرائع اختیار کیے جا سکتے ہوں وہ کیے جائیں۔ [١٦٠] نبی خود سب سے پہلے اپنی نبوت پر ایمان لاتا ہے :۔ اس جملہ سے معلوم ہوا کہ ہر نبی اور ہر رسول پر یہ فرض ہوتا ہے کہ سب سے پہلے وہ خود اپنی نبوت اور رسالت پر ایمان لائے پھر دوسرے لوگوں کو دعوت دے اور تمہارا یہ نبی امی بھی سب سے پہلے اس اللہ اور اس کے کلمات ہدایت و ارشاد پر ایمان لا چکا ہے جو زمین و آسمان کی سلطنت کا خالق و مالک اور خود تمہاری زندگی اور موت کا بھی مالک ہے اس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق ہے اور نہ کارساز۔ لہٰذا اگر ہدایت چاہتے ہو تو اس پر ایمان لا کر اس کی اتباع کرتے جاؤ۔ الاعراف
159 [١٦١] ہر معاشرہ میں کچھ انصاف پسند لوگ بھی موجود ہوتے ہیں :۔ اس سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں یہود کے گروہوں میں ایک گروہ انصاف پسند موجود تھا۔ اگرچہ یہ گروہ قلیل تعداد میں تھا تاہم اس آیت کو صرف دور نبوی سے مختص کرنے کی کوئی وجہ نہیں بلکہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تک ایک ایسا انصاف پسند گروہ موجود رہا ہے تو یہ زیادہ مناسب ہوگا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگرچہ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔ تاہم ان میں سے ایک گروہ ایسا ہوگا جو تاقیامت حق پر قائم رہے گا اور اگر ربط مضمون کے لحاظ سے یہ کہا جائے کہ جب بنی اسرائیل گؤ سالہ پرستی جیسے بڑے شرک میں مبتلا تھے تو اس وقت بھی امت میں ایک انصاف پسند گروہ موجود تھا جو دوسروں کو ہدایت پر رہنے کی تلقین کرتا تھا تو یہ بھی مناسب ہے۔ الاعراف
160 [١٦٢] بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے اور نقیبوں کی ذمہ داری :۔ بنی اسرائیل کی مردم شماری، پھر ان کو سیدنا یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں کی اولاد ہونے کے لحاظ سے بارہ قبیلوں میں منظم کرنے کا کام سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے سر انجام دیا تھا پھر ان قبیلوں میں سے ہر قبیلہ کا ایک نقیب یا سردار مقرر کیا۔ اس سردار کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اپنے قبیلہ کے دینی، تمدنی اور معاشی مسائل کی نگرانی کرے اور ان لوگوں کو راہ راست پر رکھنے کا حتی المقدور انتظام کرے۔ پھر ان سب پر بنی لاوی کے سردار کی یہ ڈیوٹی لگائی کہ وہ اپنے قبیلہ کے مسائل کی نگرانی کے علاوہ دوسرے سب قبائل کے حالات کی بھی نگرانی کرے گا اور یہ وہی قبیلہ تھا جس سے سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور سیدنا ہارون علیہ السلام خود بھی تعلق رکھتے تھے۔ [١٦٣] صحرائے سینا میں بنی اسرائیل پر انعامات، بادل، من وسلویٰ کا نزول اور بارہ چشمے پھوٹنا :۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بنی اسرائیل پر تین احسانات کا ذکر فرمایا ہے اور یہ اس دور کے واقعات ہیں جب بنی اسرائیل کو چالیس سال کے طویل عرصہ کے لیے صحرائے سینا میں روک دیا گیا تھا کیونکہ ان لوگوں نے جہاد سے انکار کر کے انتہائی بزدلی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس میدان میں دور تک کہیں پانی کا نام و نشان نظر نہ آتا تھا نہ کوئی کھانے پینے کی چیز ملتی تھی اور نہ کہیں کوئی سایہ یا مکان نظر آتا تھا جہاں جا کر وہ دھوپ سے پناہ لے سکیں گویا ان تینوں چیزوں سے ہر چیز انسان کی بنیادی ضروریات سے تعلق رکھتی تھی۔ اگر ان میں سے کوئی ایک چیز بھی انہیں وہاں عطا نہ کی جاتی تو سب کے سب وہیں ہلاک ہوجاتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی ان ضروریات کا یوں اہتمام فرمایا کہ پورا چالیس سال کا عرصہ جب دھوپ تیز ہونے لگتی تو آسمان پر بادل چھا جاتے اور انہیں دھوپ سے بچاتے تھے پھر یہ کہ وہ برستے بھی نہیں تھے کہ بارش کی وجہ سے انہیں کہیں پناہ لینی پڑے اس طرح اس لاکھوں کی تعداد میں موجود انسانوں کے مکانات کا مسئلہ حل ہوا پینے کو پانی نہیں مل رہا تھا تو اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ چٹان پر اپنا عصا ماریں اس سے بارہ الگ الگ چشمے پھوٹ نکلے اور یہ چشمے بھی اس طویل مدت میں بہتے ہی رہے ہر قبیلہ کو الگ الگ چشمہ پر قابض بنا دیا گیا تاکہ ان میں پانی کی تقسیم پر جھگڑا نہ پیدا ہو اس طرح ان کے پانی کی ضروریات کا مسئلہ حل ہوا پھر کھانے کو من اور سلویٰ نازل فرمائے۔ غور فرمائیے کہ اس لاکھوں کی تعداد میں لشکر کے لیے کس قدر روزانہ اس من و سلویٰ کی ضرورت ہوتی ہوگی اور وہ اسی مقدار میں نازل کیا جاتا رہا اس طرح ان کی خوراک کا مسئلہ حل ہوا پھر یہ بھی غور فرمائیے کہ اس لاکھوں کی تعداد کے لشکر کے لیے اگر اپنی ضروریات کا کسی بادشاہ یا کسی حکومت کو انتظام کرنا پڑتا تو اس کے کس قدر مصارف اٹھتے۔ بالخصوص اس صورت میں جبکہ یہ انتظام پورے چالیس سال کے عرصہ تک کرنا پڑتے نیز یہ کہ اس چالیس سال کے عرصہ میں بنی اسرائیل کی اپنی ہی تربیت کی جا رہی تھی۔ تاکہ اس عرصہ میں ان کے اندر سے گؤ سالہ پرستی کے جراثیم دور ہوں اور اللہ کے ان احسانات کا شکر ادا کرتے ہوئے صرف اسی کی عبادت بجا لائیں اور ان سے وہ بزدلی دور ہو جو غلامی کی طویل زندگی میں ان کی رگ رگ میں بس گئی تھی اور اس صحرائی زندگی کی وجہ سے ان میں کچھ جرأت اور دلیری پیدا ہو اور پرانی بزدل نسل مر کھپ جائے اور نئی نسل آزادی کی فضاؤں میں جرأت مند پیدا ہو تاکہ وہ لوگ اس جہاد کے لیے تیار ہو سکیں جس کا انہیں حکم دیا گیا تھا۔ [١٦٤] مگر ان لوگوں نے اللہ کے ان احسانات کا شکر ادا کرنے کی بجائے اس کی نافرمانیاں شروع کردیں اور تاکیدی حکم کے باوجود من و سلویٰ کو ذخیرہ کرنا اور دوسروں کو ان کے حق سے محروم کرنا شروع کردیا پھر انہیں ان نافرمانیوں کی سزا خود ہی بھگتنا پڑی۔ ان کی ان نافرمانیوں سے آخر ہمارا کیا بگڑ سکتا ہے؟ الاعراف
161 [١٦٥] یہ غالباً اریحا کا شہر تھا جو سب سے پہلے بنی اسرائیل کے ہاتھوں فتح ہوا یہاں انہیں آباد ہونے کا حکم دیا گیا اور آئندہ کے لیے لائحہ عمل بتلایا گیا اور ساتھ ہی ہدایت کی گئی کہ جب فاتحانہ انداز میں اس شہر میں داخلہ ہو تو اللہ کے حضور سجدہ کرتے ہوئے اس کا شکر بجا لاتے ہوئے اور اپنے لیے دعائے مغفرت کرتے ہوئے داخل ہونا۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فتح مکہ کے دن حکم ہوا تھا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سجدہ شکر ادا کیا۔ فتح مکہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں اللہ کے حضور عجز و انکساری پہلے سے بھی بڑھ گئی اور پہلے سے زیادہ اللہ کی عبادت کرنے لگے فتح کے بعد اپنے قدیمی دشمنوں سے انتقام لینے کے بجائے ان کے لیے عام معانی کا اعلان کردیا تھا۔ الاعراف
162 [١٦٦] فتحیاب فوج کا تکبر اور عذاب :۔ لیکن ان بدبختوں نے ہمارے حکم کی پوری پوری خلاف ورزی کی۔ فتح کے بعد ان میں عجز و انکساری کے بجائے فخر اور گھمنڈ پیدا ہوگیا اور اترانے لگے پھر اموال غنیمت میں بھی جی بھر کر خیانت کی۔ مفتوحہ علاقہ میں ظلم و تشدد کو روا رکھا۔ غرض یہ کہ وہ سب کچھ روا رکھا جو دنیا دار قسم کے لوگ فتح کے موقعہ پر کیا کرتے ہیں ان کے یہ لچھن دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل فرمایا یہ عذاب کیا تھا اس کے متعلق مفسرین کے دو اقوال ہیں ایک یہ کہ ان میں طاعون کی وباء پھوٹ پڑی تھی اور دوسرا یہ کہ دشمن قوم نے بنی اسرائیل کو پھر سے شکست دے کر بنی اسرائیل کو بےدریغ قتل کیا۔ الاعراف
163 [١٦٧] یعنی ذرا یہود مدینہ سے سبت والوں کی بات تو پوچھئے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ قصہ ان میں بڑا مشہور و معروف تھا اور بروایت تواتر چلا آ رہا تھا۔ جس سے یہود انکار نہیں کرسکتے تھے یہ کوئی ایسا حکم نہیں تھا جس کا بجا لانا آپ کے لیے ضروری ہو یا فی الواقع آپ نے یہود سے پوچھا ہو اس واقعہ کی تفصیل بھی پہلے سورۃ بقرہ کی آیت ٦٥ کے حواشی میں گزر چکی ہے اور اس قصہ کو یہاں بیان کرنے کا مقصد یہ جتلانا ہے کہ یہ یہود نسلاً بعد نسل سرکش اور نافرمان چلے آ رہے ہیں۔ سرکشی اور نافرمانی ان کی رگ رگ میں رچی ہوئی ہے۔ لہٰذا ان کی اسلام دشمن سرگرمیاں اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے کچھ تعجب نہ ہونا چاہیے۔ رہی یہ بات کہ ان کی شکلیں فی الواقع بندروں جیسی بن گئی تھیں یا نہیں تو اگرچہ بعض لوگوں نے اس کا انکار کیا تھا تاہم راجح قول یہی ہے کہ وہ فی الواقع بندر بنا دیئے گئے جو ایک دوسرے کو پہچانتے، چیخیں مارتے اور روتے تھے پھر اسی حالت میں تین دن کے بعد مر گئے اور بعض کہتے ہیں کہ ان کے چہروں میں اس قسم کا ورم پیدا ہوا جس سے ان کے چہرے بالکل بندروں جیسے معلوم ہوتے تھے۔ آخر اسی حالت میں تین روز بعد مر گئے اور یہ واقعہ سیدنا داؤد علیہ السلام کے زمانہ میں پیش آیا تھا۔ الاعراف
164 [١٦٨] یہ وہ لوگ تھے جو خود تو مچھلیاں پکڑنے کے جرم کے مرتکب نہیں تھے مگر پکڑنے والوں کو منع بھی نہیں کرتے تھے۔ جب اللہ کا عذاب آیا تو صرف وہ لوگ بچائے گئے جو خود بھی مچھلیاں نہیں پکڑتے تھے اور پکڑنے والوں کو منع بھی کرتے رہے اور اس درمیانی گروہ کو محض اس لیے سزا ملی کہ وہ اس گناہ کے کام سے منع کیوں نہ کرتے تھے۔ گویا جیسے کوئی برائی کرنا جرم ہے ویسے ہی برائی سے نہ روکنا بھی جرم ہے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے بھی واضح ہوتا ہے۔ نہی عن المنکر کے متعلق احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم :۔ ١۔ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ کی حدود کی خلاف ورزی کرنے والوں اور خلاف ورزی دیکھ کر خاموش رہنے والوں کی مثال ایسی ہے جیسے ان لوگوں کی جنہوں نے کسی جہاز میں بیٹھنے کے لیے قرعہ اندازی کی۔ کچھ لوگوں کے حصے میں نچلی منزل آئی اور دوسروں کے حصہ میں اوپر کی منزل۔ اب نچلی منزل والے جب پانی لے کر بالائی منزل والوں کے پاس سے گزرتے تو انہیں اس سے تکلیف پہنچتی۔ یہ دیکھ کر نچلی منزل والوں میں سے ایک نے کلہاڑی لی اور جہاز کے پیندے میں سوراخ کرنے لگا۔ بالائی منزل والے اس کے پاس آئے اور کہا تمہیں یہ کیا ہوگیا ہے۔ اس نے جواب دیا تمہیں ہماری وجہ سے تکلیف پہنچی اور ہمارا پانی کے بغیر گزارا نہیں۔ اب اگر اوپر والوں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا تو اسے بھی بچا لیا اور خود بھی بچ گئے اور اگر اسے چھوڑ دیا تو اسے بھی ہلاک کیا اور اپنے آپ کو بھی ہلاک کیا۔‘‘ (بخاری۔۔ کتاب الشرکۃ ہل یقرع فی القسمۃ۔ نیز کتاب الشہادات۔ باب القرعۃ فی المشکلات۔) ٢۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جو شخص تم میں سے کوئی برائی دیکھے تو اسے چاہیے کہ اپنے ہاتھ (قوت) سے بدل دے اور اگر ایسا نہ کرسکے تو زبان سے روکے یہ بھی نہ کرسکے تو دل میں ہی برا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔‘‘ (مسلم، کتاب الایمان باب بیان کون النہی عن المنکر من الایمان) ٣۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ کہتے سنا ہے کہ جب لوگ ظالم کو (ظلم کرتے) دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو قریب ہے کہ اللہ کی طرف سے ان پر عام عذاب نازل ہو۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر۔ زیر آیت سورۃ مائدہ آیت نمبر ١٠١) اصحاب السّبت پر عذاب کی نوعیت :۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ قرآن میں ان تینوں گروہوں میں سے ایک کے متعلق فرمایا کہ ہم نے برائی سے منع کرنے والوں کو بچا لیا اور جو نافرمانی کرنے والے تھے انہیں عذاب میں پکڑ لیا۔ رہا درمیان میں تیسرا گروہ جو خود نافرمانی نہیں کرتا تھا اور منع بھی نہ کرتا تھا اس کے لئے قرآن نے سکوت اختیار کیا ہے تو ہمیں بھی سکوت اختیار کرنا چاہیے۔ ایک تیسرا قول یہ ہے کہ عذاب دو طرح کے آئے تھے۔ ایک بڑا عذاب جس کا ذکر آیت نمبر ١٦٥ میں ہے اس میں دونوں گروہ ماخوذ ہوئے نافرمانی کرنے والے بھی اور برائی سے منع نہ کرنے والے بھی اور دوسرا عذاب بندر بنا دینے کا تھا اور وہ حد سے گزرنے والوں کے لیے تھا اس عذاب میں صرف وہی لوگ ماخوذ ہوئے جو نافرمان تھے۔ الاعراف
165 الاعراف
166 الاعراف
167 [١٦٩] یہود کی ذلت و مسکنت کی تاریخی داستان :۔ تاذن کا عربی میں وہی مفہوم ہے جو ہمارے ہاں نوٹس دینے کا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے یہود کو خبردار کردیا تھا کہ اگر تم اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو تم پر تا قیامت ایسے حکمران مسلط کر دے گا جو انہیں طرح طرح کے دکھ پہنچاتے رہیں گے۔ ان دکھوں سے مراد ان کی محکومانہ زندگی ہے چنانچہ یہود کبھی یونانی اور کلدانی بادشاہوں کے محکوم بنے رہے کبھی بخت نصر کے شدائد کا نشانہ بنے جس نے بیت المقدس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور ان یہود کی کثیر تعداد کو غلام بنا کر اپنے ساتھ بابل لے گیا۔ پھر یہ لوگ دور نبوی سے پہلے مجوسیوں کے باج گزار رہے۔ پھر اللہ نے مسلمان حکمرانوں کو ان پر مسلط فرما دیا۔ غرض مالدار قوم ہونے کے باوجود انہیں کہیں بھی عزت کی زندگی نصیب نہ ہوسکی اور ہمیشہ محکوم بن کر ذلت کی زندگی گزارتے رہے اور اس بیسویں صدی کے اوائل میں ہٹلر کے ہاتھوں بری طرح پٹے اور اس نے لاکھوں یہودیوں کو بےدریغ قتل کردیا۔ اس بیسویں صدی ہی کے وسط میں چند حکومتوں کے سہارے تھوڑے سے علاقہ پر اپنی حکومت بنائی ہے۔ مگر امن پھر بھی نصیب نہیں اور قیامت کے قریب جب دجال کا ظہور ہوگا تو یہ اس کے مددگار ہوں گے پھر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے مسلمان رفقاء کے ہاتھوں سب کے سب تہہ تیغ کردیئے جائیں گے۔ جیسا کہ بے شمار احادیث صحیحہ سے واضح ہوتا ہے۔ الاعراف
168 [١٧٠] اسلاف یہود کا کردار :۔ یعنی یہود کو تفرقہ بازی کے عذاب میں مبتلا کردیا (جس میں آج کل مسلمان بھی مبتلا ہیں) جس کی وجہ سے قوم کی ساکھ ختم ہوجاتی ہے۔ امت کی وحدت پارہ پارہ ہوجاتی ہے اور دنیا کی نظروں میں وہ حقیر بن جاتی ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرقہ بازی کو عذاب کی ایک مستقل قسم قرار دیا ہے (نیز سورۃ انعام کی آیت نمبر ٦٥ کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیے۔) الاعراف
169 [١٧١] یعنی ان یہود کے اسلاف میں کچھ اچھے لوگ بھی تھے اور کچھ فاسق تھے، اگرچہ اکثریت ان فاسقوں ہی کی تھی مگر ان کے اخلاف تو بالکل ناخلف اور نااہل ثابت ہوئے انہوں نے اللہ کی کتاب کو بیچنا شروع کردیا اور دنیا کے کتے بن گئے مزید ستم یہ کہ وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ ہم جیسے بھی عمل کرلیں ہمیں اللہ عذاب نہیں کرے گا اور معاف کردے گا کیونکہ ہم انبیاء علیہ السلام کی اولاد اور اللہ کے چہیتے ہیں پھر بجائے اس کے کہ وہ گناہ کر کے نادم اور شرمسار ہوں اور اللہ کے حضور توبہ کریں وہ پھر سے تیار بیٹھے ہوتے ہیں کہ کوئی آدمی فتویٰ یا مسئلہ پوچھنے والا آئے تو اس سے بھی رشوت لے لیں یا مال و دولت جھاڑ لیں حالانکہ ان سے یہ پختہ عہد لیا گیا تھا کہ وہ کوئی غلط اور ناحق بات اللہ کی طرف منسوب نہیں کریں گے اور یہ بات وہ کتاب میں پڑھتے پڑھاتے بھی ہیں اس کے باوجود انہوں نے اللہ کے ذمہ یہ بات لگا دی کہ وہ جیسے بھی عمل کرلیں اللہ انہیں عذاب نہیں دے گا کیونکہ وہ انبیاء کی اولاد اور اللہ کے چہیتے ہیں کیا یہ بات وہ تورات سے دکھلا سکتے ہیں؟ [١٧٢] اس جملہ کے دو مطلب ہوسکتے ہیں اور دونوں ہی درست ہیں ایک یہ کہ آخرت کا گھر اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے بہتر ہے (جیسا کہ ترجمہ کیا گیا ہے) اور جو اللہ سے نہیں ڈرتے ان کے لیے ہرگز بہتر نہیں، انہیں وہاں عذاب اور دکھ ہی سہنا پڑیں گے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ سے ڈرنے والے لوگ بہرحال آخرت کے گھر کو ہی بہتر سمجھتے ہیں اور دنیا کے مقابلہ میں آخرت کے گھر کو ہی ترجیح دیتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ ان کی اخروی زندگی اس دنیا سے بدرجہا بہتر ہوگی کاش تم لوگوں کو اس بات کی سمجھ آجائے۔ الاعراف
170 [١٧٣] ہر معاشرے میں کچھ انصاف پسند موجود ہوتے ہیں :۔ اللہ تعالیٰ نے ان ناخلف لوگوں سے جن کی اوپر صفات بیان کی گئی ہیں ان لوگوں کو مستثنیٰ کردیا جو دیانتداری کے ساتھ دین پر قائم رہتے ہیں اور نماز کی پابندی کرتے ہیں جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ معاشرہ میں خواہ کتنا فساد پھیل جائے کچھ نہ کچھ لوگ ایسے بھی نکل ہی آتے ہیں جو اللہ سے ڈرنے والے اپنے دین کا خیال رکھنے والے ہوتے ہیں اللہ ایسے لوگوں کو ضرور ان کے اچھے اعمال کا بدلہ دے گا کیونکہ اس کے عدل کا یہی تقاضا ہے۔ الاعراف
171 [١٧٤] اس کی تشریح سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٦٣ کے تحت لکھی جا چکی ہے وہاں ملاحظہ کرلی جائے۔ الاعراف
172 [١٧٥] سابقہ آیت میں ایک خاص عہد کا ذکر تھا جو یہود سے لیا گیا تھا اور اس آیت میں عام عہد کا ذکر ہے جو فرداً فرداً تمام انسانوں سے لیا گیا تھا اور یہ اس دور کا واقعہ ہے جب اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام کو پیدا کرچکے تھے اور خلافت ارضی کے لیے انہیں منتخب کیا جا چکا تھا۔ کتاب و سنت کی تصریحات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی پشت پر ہاتھ پھیرا اور ان کی نسل سے تاقیامت پیدا ہونے والی اولاد کی روحوں کو اپنے سامنے حاضر کرلیا اور ان ارواح کو وہی شکل عطا کی گئی جو ان کی پیدائش کے بعد انہیں میسر ہونے والی تھی اور بعض احادیث کے مطابق ان ارواح کی شکل چیونٹیوں کی سی تھی۔ پھر ان ارواح کو مخاطب کر کے فرمایا : اس بھری کائنات کو خوب دیکھ بھال کر بتلاؤ کہ یہاں میرے سوا تمہیں کوئی اور پروردگار نظر آتا ہے اور کیا تمہارا پروردگار بھی میں ہی نہیں؟ تو ان سب ارواح نے مل کر یقین کے ساتھ یہ شہادت دی کہ اے اللہ صرف توہی ہمارا پروردگار ہے۔ بالفاظ دیگر یہ اس بات کی شہادت تھی کہ ہم کبھی کسی دوسرے کو تیرا شریک نہیں بنائیں گے۔ عہد الست کی تفصیل اور حالات ارضی :۔ یہ واقعہ محض تمثیلی طور پر بیان نہیں ہوا جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے بلکہ اس خارجی کائنات میں فی الواقع اسی طرح وقوع پذیر ہوا تھا جس طرح آدم علیہ السلام کی خلافت کے متعلق آدم علیہ السلام کی تخلیق سے پیشتر اللہ تعالیٰ کا فرشتوں سے مکالمہ کا واقعہ ظہور پذیر ہوا تھا اور یہ اقرار اس لیے لیا گیا تھا کہ خلافت ارضی کی بنیاد اس وقت تک اٹھ ہی نہیں سکتی جب تک انسان ان دو باتوں کا اقرار نہ کرلے۔ ایک یہ کہ اس کائنات کا یقینی طور پر کوئی خالق موجود ہے اور دوسرے یہ کہ وہی خالق اس کائنات کی تربیت کر کے اس کو حد کمال تک پہنچانے والا ہے اور اس کے سوا کوئی پروردگار نہیں گویا یہی شہادت خلافت ارضی کے لیے بنیادی پتھر کا کام دیتی ہے اگر اس بنیاد کو نیچے سے کھینچ لیا جائے تو خلافت ارضی کا تصور بھی محال ہے لہٰذا بنی آدم کی تمام تر ارواح میں اس بنیادی حقیقت کی تخم ریزی کردی گئی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ عہد اتنا اہم تھا تو انسان کو یاد کیوں نہیں رہا ؟ اس کا الزامی جواب تو یہ ہے کہ انسان کو تو یہ بھی یاد نہیں کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ میں رہا تھا پھر اس سے پیدا ہوا کہاں پیدا ہوا ؟ کس وقت ہوا۔ غرض یہ کہ بے شمار ایسی باتیں ہیں جو انسان کو یاد نہ رہنے کے باوجود اپنی جگہ پر ٹھوس حقیقتیں ہوتی ہیں لہٰذا یاد نہ رہنے کا عذر معقول نہیں ہوسکتا اور حقیقی جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہی نہ تھا کہ وہ عہد انسان کو ہر وقت یاد رہے کیونکہ اس صورت میں انسان اللہ سے بغاوت اور اس کی نافرمانی کر ہی نہیں سکتا تھا اور یہ بات مشیت الہٰی کے خلاف ہے کیونکہ یہ دنیا انسان کے لیے دارالامتحان ہے لہٰذا اس واقعہ کو انسان کے شعور میں نہیں بلکہ تحت الشعور یا وجدان میں رکھ دیا گیا اور یہ اسی داعیہ کا اثر ہے کہ بعض دفعہ پکے کافر اور دہریہ قسم کے لوگ بھی اللہ تعالیٰ کی ذات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں یا مصیبت کے وقت لاشعوری طور پر اسے پکارنے لگتے ہیں۔ اس عہد کے لاشعور میں موجود ہونے کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ انسان میں دو طرح کی استعدادیں رکھی گئی ہیں ایک بالقوۃ، دوسری بالفعل۔ مثلاً ایک انسان پینٹر بننا چاہتا ہے تو وہ اسی صورت میں ممکن ہے جبکہ اس میں یہ استعداد بالقوۃ موجود ہو یعنی وہ پینٹر بننے کی صلاحیت رکھتا ہو پھر اسے اس کے مطابق خارجی ماحول میسر آجائے یعنی اسے کوئی استاد وقت اور متعلقہ آلات اور سامان مل جائے تو محنت سے وہ پینٹر بن جائے گا۔ اس وقت اس کی وہ استعداد جو بالقوۃ تھی وہ بالفعل میں تبدیل ہوگئی اور اگر انسان یہ چاہے کہ وہ فرشتہ بن جائے تو وہ کبھی نہ بن سکے گا خواہ لاکھوں کوششیں کرے کیونکہ اس میں فرشتہ بننے کی استعداد بالقوۃ موجودہی نہیں ہے۔ قرآن کس لحاظ سے ذکر اور تذکرہ ہے؟ :۔ اب ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ اس عہد الست کی یاد اور خلافت ارضی کی استعداد انسان میں بالقوۃ موجود ہے پھر جب اسے خارج سے موافق ماحول اور سامان میسر آ جاتا ہے تو اس کی یہی استعداد بالفعل میں تبدیل ہوجاتی ہے موافق سامان اور ماحول سے یہاں مراد اللہ تعالیٰ کے پیغمبر اور اس کی کتابیں ہیں جو انسان کی استعداد کو صحیح راستے پر چلا دیتی ہیں تو اس ماحول سے ایسا صالح عنصر وجود میں آ جاتا ہے جو خلافت کی ذمہ داریوں کو سنبھالنے کے معیار پر پورا اترتا ہے اسی لیے قرآن میں انبیاء و رسل کو مذکر (اس عہد الست بربکم کی یاددہانی کرانے والے) اور خود قرآن کو ذکر اور تذکرہ (یاد دہانی) کہا گیا ہے گویا انبیاء علیہم السلام اور کتابوں کا یہ کام ہوتا ہے جو استعداد انسان کے اندر بالقوۃ موجود تھی اس کو یاد دہانی کراتے رہیں اور اسے بالفعل کے مقام پر لے آئیں۔ الاعراف
173 [١٧٦] عہدِالست اور اتمام حجت :۔ اس ازلی عہد کی اللہ تعالیٰ نے دو اغراض بیان فرمائیں ایک یہ کہ انسان پر اتمام حجت ہوجائے اور کوئی مشرک، ملحد، کافر یا نافرمان انسان قیامت کے دن یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں تو اس حقیقت کا پتہ ہی نہ چل سکا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس عہد کو سمجھنے کی استعداد بھی انسان کے اندر رکھ دی ہے اور خارج میں انبیاء علیہم السلام اور کتابیں بھی بھیج دیں اور دوسری یہ کہ انسان اپنی سابقہ نسلوں پر یا بگڑے ہوئے ماحول پر اپنی گمراہی کی ذمہ داری ڈال کر خود بری الذمہ نہیں ہوسکتا کیونکہ ہر شخص سے یہ عہد انفرادی طور پر لیا گیا تھا وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اصل میں مشرک یا قصوروار تو ہمارے بڑے بزرگ تھے اور ہمیں محض ان کی اولاد ہونے کی سزا کیوں دی جا رہی ہے؟ معتزلہ کا اس عہد الست سے انکار اور اس کی تردید :۔ عہد الست کے وقت تمام بنی آدم کی ارواح کو حاضر کرنے کا قصہ بہت سی کتب احادیث مثلاً ترمذی، ابو داؤد، مالک اور احمد میں کئی صحابہ سے منقول ہے اس کے باوجود معتزلہ نے اس قصہ کا انکار کیا ہے اور ایسی احادیث کو خبر واحد کی بنا پر رد کردیا ہے وہ اس آیت کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی ذریت اس طرح نکالی کہ وہ بصورت نطفہ پشت آباء میں تھے۔ پھر وہاں سے اپنی ماؤں کے رحموں میں آئے پھر ان کو علقہ، پھر مضغہ وغیرہ مراحل طے کرا کے کامل الخلقت بنا کر ماؤں کے پیٹ سے نکالا پھر عقل و حواس عطا کیا جس سے وہ کائنات میں غور کر کے اس کی وحدانیت پر دلائل قائم کرنے کے قابل ہوئے۔ سو یہی دلائل گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے عہد اور خود ان کو اس بات پر گواہ بنانا ہے اور اللہ تعالیٰ کا کائنات میں ایسے دلائل پیدا کرنا ہی گویا اقرار لینا اور ان کا اس حالت میں زبان حال سے اقرار کرلینا اور گواہ بننا ہے۔ معتزلہ اپنے اس مطلب کے حق میں دو دلائل پیش کرتے ہیں ایک نقلی، دوسری عقلی۔ نقلی دلیل یہ ہے کہ اس آیت میں آدم علیہ السلام کا ذکر ہے اسی طرح بنی آدم کی وجہ سے من ظہورہم کے الفاظ آئے ہیں اگر یہ قصہ سیدنا آدم علیہ السلام سے ہی متعلق ہوتا تو من ظہور ہم کی بجائے من ظہرہ آنا چاہیے تھا۔ ان کی اس دلیل کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مراد یہ ہے کہ سلسلہ وار ہر ایک نبی کی پشت سے اس کی اولاد نکالی جو تاقیامت پیدا ہونے والی ہے۔ مثلاً زید کو عمرو کی پشت سے اور عمرو کو اس کے باپ خالد کی پشت سے علیٰ ہذا القیاس تو لامحالہ اوپر کی جانب سیدنا آدم علیہ السلام پر ہی یہ سلسلہ منتہی ہوگا کیونکہ سب بنی آدم کے وہی باپ ہیں یعنی آدم علیہ السلام کی اولاد پھر اس کی اولاد علیٰ ہذا القیاس تمام بنی آدم کی ارواح حاضر کرلی گئیں جن میں آدم علیہ السلام بھی شامل اور موجود تھے اور قیامت تک ان کی ہونے والی ساری اولاد بھی۔ اب اگر آدم علیہ السلام کے اور من ظہرہ کے الفاظ ہوں تو بھی یہی مفہوم نکلتا ہے جو بنی آدم اور من ظہورہم کے الفاظ آنے سے نکلتا ہے گویا الفاظ کے اختلاف کی وجہ سے مفہوم میں کچھ فرق نہیں پڑتا۔ اور ان کی عقلی دلیل یہ ہے کہ عہد تو اہل عقل و ادراک سے لیا جاتا ہے اور ارواح کو عقل و ادراک نہیں تھا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ہم کو یاد بھی ہونا چاہیے تھا حالانکہ ایسا عہد کسی کو یاد نہیں اس دلیل کا جواب اوپر دیا جا چکا ہے۔ ان دو دلائل کے بعد معتزلہ نے جو اس آیت کا مطلب پیش فرمایا وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کائنات میں دلائل پید اکر دینا ہی گویا اقرار لینا ہے اور لوگوں کا یا نبی آدم علیہ السلام کا اس حالت میں زبان حال سے اقرار کرلینا اور گواہ بننا ہے۔ بالفاظ دیگر کوئی واقعہ بھی ظہور میں نہیں آیا۔ اللہ نے کائنات پیدا کردی تو اللہ کا اقرار لینا ہوگیا اور لوگوں نے اس کائنات کو دیکھ لیا تو یہ ان کا اقرار کرلینا اور گواہ بننا ہوگیا اس توجیہہ میں جتنا وزن ہے وہ آپ خود ہی ملاحظہ فرما لیجئے۔ الاعراف
174 الاعراف
175 [١٧٧] دنیا اور خواہشات نفس کے پیچھے پڑنے والے لوگوں کی مثال :۔ اس شخص کا نام نہ قرآن میں مذکور ہے اور نہ احادیث میں اور جو مفسرین کے اقوال ہیں وہ بھی مختلف ہیں کیونکہ اللہ اور اس کے رسول کا طریق بیان ایسا ہے کہ عموماً کسی برے شخص کا نام لے کر اسے بدنام نہیں کیا جاتا بلکہ صرف اس کی خصلت کو بیان کردیا جاتا ہے تاکہ دوسرے لوگ اس سے بچ جائیں اور یہ بات انتہائی اخلاقی بلندی کی دلیل ہے کہ کسی کو بدنام بھی نہ کیا جائے اور اصل مقصد بھی حاصل ہوجائے اور اس کی مثال ہر اس شخص پر صادق آ سکتی ہے جو ایسی صفات رکھتا ہو۔ یہ شخص آیات الٰہی کا عالم تھا باعمل اور مستجاب الدعوات تھا اور لوگوں میں اس کے زہد و اتقاء کی شہرت بھی تھی چند لوگوں نے اس کے پاس آ کر ایک ایسی دعا کی درخواست کی جو شرعاً ناجائز تھی پہلے تو اس نے ایسی ناجائز دعا کرنے سے انکار کردیا لیکن جب ان لوگوں نے اسے بہت سے مال و دولت کا لالچ دیا تو تھوڑی سی پس و پیش کے بعد وہ اس ناجائز کام پر آمادہ ہوگیا اس طرح اسے دنیوی فائدہ تو حاصل ہوگیا لیکن جس مقام بلند پر وہ جا رہا تھا اور آگے جانے کا اردہ رکھتا تھا اس سے گرگیا ۔ ایک دفعہ جب اس پر شیطان کا داؤ چل گیا تو آگے شیطان کا کام نسبتاً آسان تھا۔ چنانچہ تھوڑے ہی عرصہ بعد وہ محض دنیوی مفادات کی خاطر اللہ کا پورا نافرمان بن گیا اور اپنے ارفع مقام سے گرتا گرتا زمین کی انتہائی پستی تک پہنچ گیا اس شخص یا اس جیسے شخص کی مثال اللہ تعالیٰ نے اس کتے سے دی ہے جس کی حرص اور لالچ کا عالم یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص اس کی طرف پتھر پھینکے تو بھی یہی سمجھتا ہے کہ شاید اس نے کوئی ہڈی یا روٹی کا ٹکڑا پھینکا ہوگا۔ پھر وہ اسے نوچتا اور ایک بار ضرور منہ میں لیتا ہے اس کی زبان ہر وقت باہر نکلی اور رال ٹپکتی رہتی ہے اور ہر چیز کو اس لیے سونگھنے کی کوشش کرتا ہے کہ شاید کہیں سے کھانے کی بو پا سکے اس کی حرص و آز کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اگر اسے کھانے کے لیے کہیں سے مردار پڑا مل جائے اور وہ اس کی ضرورت سے بہت زیادہ ہو تو بھی اس کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ کوئی دوسرا کتا اس کے ساتھ اس مردار کے کھانے میں شریک نہ ہو اور یہ مثال ان دنیا کے کتوں پر راس آتی ہے جو اپنی خواہش اور دنیوی مفادات کی خاطر اپنی اچھی سے اچھی قدروں کو قربان کردینے پر تیار ہوجاتے ہیں۔ الاعراف
176 [١٧٧۔ الف] ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے کتے کی دو حالتیں بیان فرمائیں ایک اضطراری دوسری اختیاری۔ یعنی ہر حال میں وہ زبان منہ سے باہر نکالے رکھتا اور ہانپتا رہتا ہے۔ دنیا کے کتے کی بھی یہی کیفیت ہوتی ہے ایک دفعہ جو شیطان کے پھندے میں آ گیا تو پھر اس کی حالت ہی یہ ہوجاتی ہے کہ اسے کوئی مجبوری ہو یا نہ ہو بہرحال وہ دنیا کے طمع کی طرف لپکتا ہے اور حرام و حلال یا جائز و ناجائز کی تمیز اس سے ختم ہوجاتی ہے۔ بعض مفسرین نے تورات کے حوالہ سے لکھا ہے کہ اس آیت کا روئے سخن بلعم بن باعوراء کی طرف ہے۔ یہ شخص بڑا عابد، زاہد اور مستجاب الدعوات تھا جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل موآب کے میدانوں میں شہر یریحو (اریحاء) کے مقابل اترے تو اس وقت بلق بن صفور موآبیوں کا بادشاہ تھا۔ شکست کے خوف سے اس نے بلعم کے پاس قاصد بھیجے کہ وہ آ کر ان پر بددعا کرے پہلے تو اس نے انکار کیا مگر لالچ میں پڑ کر آخر آنے پر راضی ہوگیا۔ بلعم بلق کے پاس گیا اور ایک پہاڑ پر چڑھ کر بنی اسرائیل کو دیکھا تو بنی اسرائیل کے حق میں لعنت کے بجائے بے ساختہ کلمات برکت نکل گئے (تورات۔ کتاب عدد باب ٢٣، ٢٤) مگر چونکہ اس کا ارادہ بددعا کا تھا لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس کو جو کرامات و برکات دی تھیں سب اس سے سلب ہوگئیں۔ الاعراف
177 الاعراف
178 [١٧٨] علم گمراہی کا سبب بھی بن سکتا ہے :۔ یعنی انسان کو اس کا علم و فضل صرف اس صورت میں فائدہ دے سکتا ہے جبکہ اللہ کی طرف سے اس علم پر عمل کرنے کی توفیق بھی نصیب ہو لہٰذا کسی شخص کو اپنی علمی قابلیت اور فضیلت پر نازاں نہ ہونا چاہیے۔ بلکہ عقل کی کجروی سے بچنے اور سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرتے رہنا چاہیے۔ کیونکہ شیطان علم کی راہ سے بھی انسانوں کو گمراہ کرسکتا ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ سب گمراہ فرقوں کے قائدین عموماً ذہین و فطین اور عالم لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔ الاعراف
179 [١٧٩] جنوں اور انسانوں کی اکثریت جہنم میں کیوں؟:۔ یعنی جنوں اور انسانوں کو ہم نے دل و دماغ اس لیے دیئے تھے کہ وہ غور و فکر سے کام لیں، آنکھیں اس لیے دی تھیں کہ ان سے اللہ کی نشانیوں کو دیکھیں اور کان اس لیے دیئے تھے کہ ان سے اللہ تعالیٰ کا کلام اور حق کی باتیں سنیں لیکن ان میں اکثریت ایسی تھی جس نے اللہ کی ان عطا کردہ نعمتوں کو صحیح طور پر استعمال نہ کیا اور ان سے اتنا ہی کام لیا جتنا حیوان لیتے ہیں اور گمراہ ہوگئے جس کے نتیجہ میں انہیں جہنم میں داخل کیا جائے گا اور یہ پہلے بتلایا جا چکا ہے کہ اسباب کو اختیار کرنا انسان کے اپنے اختیار میں ہے اور اسی اختیار کے عوض انہیں جزا یا سزا ملے گی۔ رہے ان اسباب کے مسببات یا نتائج۔ تو ان نتائج پر صرف اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے۔ مثلاً اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اس جہنم میں داخل ہونے والی اکثریت میں سے کسی کو معاف بھی کرسکتا ہے لہٰذا ان مسببات کی نسبت کرنے والوں کی طرف بھی ہو سکتی ہے کیونکہ انہوں نے ایسے اسباب اختیار کیے تھے اور اللہ تعالیٰ کی طرف بھی کیونکہ مسببات کا خالق وہ ہے۔ اس آیت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اللہ نے جنوں اور انسانوں کو پیدا کرتے وقت یہ ٹھان لیا تھا کہ ان کی اکثریت کو جہنم میں داخل کرنا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا تو جنوں اور انسانوں کی پیدائش سے مقصد یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں۔ (٥١ : ٥٦) اس آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب اللہ نے جنوں اور انسانوں کی اکثریت یا کثیر تعداد کو پیدا ہی اس لیے کیا تھا کہ انہیں جہنم داخل کیا جائے گا تو اس میں جنوں اور انسانوں کا کیا قصور ہے؟ اس شبہ کے ازالہ کے لیے اسی سورت کی آیت نمبر ٢٤ کے تحت حاشیہ نمبر ٢١ ملاحظہ کیا جائے۔ [١٨٠] کافر چوپایوں سے بھی بدتر کیسے؟ چوپایوں سے گئے گزرے اس لحاظ سے کہ چوپایوں کو تو عقل و تمیز عطا ہی نہیں کی گئی لہٰذا وہ ہدایت کی راہ تلاش کرنے یا اس پر چلنے کے مکلف ہی نہیں جبکہ انسان کو ہدایت کی راہ تلاش کرنے اور روحانی کمال تک پہنچنے کے لیے ایسی قوتیں عطا کی گئی ہیں پھر بھی اگر وہ ان سے کام نہیں لیتا اور گمراہ ہوتا ہے تو وہ چوپایوں سے بدتر ہوا۔ الاعراف
180 [١٨١] الحاد اور اس کی قسمیں :۔ اللہ تعالیٰ کا ذاتی نام صرف اللہ تعالیٰ ہے باقی اس کے جتنے بھی نام ہیں سب صفاتی ہیں۔ صحیح احادیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جو شخص انہیں یاد کرلے وہ جنت میں داخل ہوگا (بخاری کتاب التوحید باب ان للہ مائۃ اسم الا واحدۃ) اور اللہ تعالیٰ کے ان ناموں یا صفات میں کجروی کا ہی دوسرا نام الحاد ہے اور الحاد کی کئی قسمیں ہیں مثلاً ایک یہ کہ جو صفات اللہ تعالیٰ سے مختص ہیں وہ کسی دوسرے میں بھی تسلیم کرنا جیسے کسی اور کو بھی عالم الغیب یا رزاق اور داتا اور حاجت روا، مشکل کشا اور کار ساز سمجھنا اور دوسرے یہ کہ انہیں ناموں سے استدلال کر کے باطل چیزوں کے امکان پر بحث کرنا جیسے مثلاً یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ تو سب کچھ جانتا ہے کیا وہ جادو کا علم بھی جانتا ہے یا یہ بحث کہ اللہ تو ہر چیز پر قادر ہے تو کیا وہ جھوٹ بولنے پر بھی قادر ہے۔ تیسرے یہ کہ ان صفات میں فلسفیانہ موشگافیاں پیدا کرنا جیسے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی صفات حادث ہیں یا قدیم۔ مثلاً کلام کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے تو قرآن حادث اور مخلوق ہے یا نہیں؟ یا یہ کہ اللہ جو ہر جگہ موجود ہے اور ہر شخص کی شہ رگ سے بھی قریب ہے تو وہ عرش پر کیسے ہوا ؟ غرض الحاد کی جتنی بھی صورتیں ہیں سب کفر و شرک اور گمراہی کی طرف لے جانے والی ہیں لہٰذا ایک مسلمان کو کبھی بھی اللہ تعالیٰ کی صفات کو زیر بحث لا کر اس کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش نہ کرنا چاہیے کیونکہ یہ بات اس کے بس سے باہر ہے انسان کی عقل محدود اور اللہ تعالیٰ کی صفات کی وسعت لامحدود ہے نیز اللہ تعالیٰ نے خود بھی ﴿فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰہِ الْاَمْثَالَ ۭ اِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ﴾ کہہ کر ایسی باتوں سے منع فرما دیا ہے۔ پھر یہ اعتقادی بیماریاں ایک تو آگے منتقل ہوتی جاتی ہیں دوسرے زندگی کا رخ غلط راہوں پر ڈال دیتی ہیں۔ الاعراف
181 [١٨٢] ایک فرقہ ہمیشہ حق پر رہتا ہے :۔ بلکہ ہر امت میں ایک گروہ ایسا رہا ہے جو حق پر قائم رہتا ہے خواہ اس کی تعداد کتنی ہی کم ہو اور یہ اس لیے کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں پر اتمام حجت ہوتی رہے چنانچہ امت محمدیہ کے متعلق بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت (73) تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی تاہم ان میں ایک فرقہ ایسا ہوگا جو ہمیشہ حق پر قائم رہے گا تاآنکہ قیامت قائم ہو۔ (بخاری۔ کتاب الاعتصام۔ باب لاتزال طائفۃ من امتی۔۔) اور سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم بھی پہلے لوگوں کی راہوں پر جا پڑو گے اگر وہ بالشت بھر بڑھے تو تم ہاتھ بھر بڑھو گے۔ حتیٰ کہ اگر وہ کسی گوہ کے سوراخ میں گھسے تھے تو تم بھی ضرور گھسو گے۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! پہلے لوگوں سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں؟ فرمایا ’’اور کون ہیں؟‘‘ (مسلم، کتاب العلم، باب النھی عن اتباع متشابہ القرآن) الاعراف
182 الاعراف
183 [١٨٣] قانون امہال وتدریج :۔ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ وہ مجرم لوگوں پر سرزنش اور تنبیہ کے طور پر پہلے چھوٹے چھوٹے دکھ اور تکلیفیں نازل فرماتا ہے اگر لوگ ان سے عبرت حاصل کرلیں تو خیر ورنہ انہیں ایک دوسرے طریقہ سے آزماتا ہے۔ یعنی ان پر خوش حالی اور آسودگی کا دور آتا ہے جس میں وہ ایسے مگن اور مستغرق ہوجاتے ہیں کہ انہیں سابقہ تکلیفیں یاد ہی نہیں رہتیں اور وہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان پر مہربان ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ انہیں محض اس لیے مہلت دے رہا ہوتا ہے کہ جس انتہا کو پہنچنا چاہتے ہیں پہنچ جائیں تو پھر یکدم انہیں ان کے انجام سے دو چار کردیتا ہے اس وقت لوگوں کو کوئی طاقت اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچا نہیں سکتی۔ الاعراف
184 [١٨٤] مجنون اور نبی میں فرق :۔ اب ایسے لوگوں کے بعض شبہات کا جواب دیا جا رہا ہے مثلاً : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری زندگی ان قریش مکہ کے سامنے ہے نبوت سے پیشتر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساری قوم نہایت سلیم الطبع اور صحیح الدماغ نیز صادق اور امین کی حیثیت سے جانتی تھی۔ پھر جب نبوت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا پیغام لوگوں کو پہنچایا اور انہیں اخروی انجام سے ڈرایا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مجنون اور آسیب زدہ کہنے لگے حالانکہ نبی جو کچھ کہتا ہے سب سے پہلے وہ خود اس پر عمل پیرا ہوتا ہے اور اپنی بات پر اپنے پاکیزہ سیرت و کردار سے مہر تصدیق ثبت کرتا ہے ذرا سوچو! کسی مجنون میں یہ صفات پائی جاتی ہیں؟ پھر تم کس لحاظ سے اسے مجنون کہتے ہو؟ کیا صرف اس لیے کہ جو حقائق وہ پیش کرتا ہے وہ تمہاری طبائع قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہو رہیں۔ حالانکہ اس کائنات کے نظام میں اگر وہ کچھ بھی غور و فکر کرتے تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ جو کچھ ان کا ساتھی انہیں سمجھا رہا ہے کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی شہادت دے رہا ہے۔ الاعراف
185 [١٨٥] یہاں حدیث سے مراد قرآن کریم ہے یعنی ان کے ساتھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں ان کے اخروی انجام سے متنبہ کردیا ہے جس سے انہیں یقیناً دو چار ہونا پڑے گا اور موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں لہٰذا ان کو جلد از جلد اس رسول پر اور اس کتاب پر ایمان لانا چاہیے ایسا نہ ہو کہ تم اپنی سوچ بچار میں یا اس کی مخالفت میں لگے رہو اور یکدم تمہیں موت آ جائے تو پھر افسوس اور حسرت کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ الاعراف
186 الاعراف
187 [١٨٦] قیامت اچانک آئے گی :۔ قیامت کے اس بڑے حادثہ کی بہت سی علامات قرآن میں مذکور ہیں مثلاً زمین میں شدید زلزلے اور متواتر جھٹکے آئیں گے اور انسان حیرت سے یہ پوچھے گا کہ آج اس زمین کو کیا ہوگیا ہے ستارے بے نور ہوجائیں گے، سورج کی بساط لپیٹ دی جائے گی پہاڑ دھنکی ہوئی روئی کی طرح ادھر ادھر اڑنے لگیں گے اور ایسی ہی بہت سی باتیں یکدم ظاہر ہونے لگیں گی۔ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت (یوں اچانک) واقع ہوگی کہ دو آدمیوں نے اپنے درمیان کپڑا پھیلا رکھا ہوگا اور وہ اس کی خرید و فروخت نہ کرسکیں گے نہ اسے لپیٹ سکیں گے اور ایک آدمی اپنی اونٹنی کا دودھ دھو کر لوٹ رہا ہوگا مگر وہ اسے پی نہ سکے گا اور ایک آدمی اپنا حوض درست کر رہا ہوگا مگر وہ اس میں سے اپنے جانوروں کو پانی نہ پلا سکے گا اور ایک آدمی اپنا نوالہ منہ کی طرف اٹھائے ہوگا مگر وہ اسے کھا نہ سکے گا۔ (بخاری۔ کتاب الرقاق۔ باب طلوع الشمس من مغربہا) [١٨٧] قیامت کا وقت نہ بتلانے کا فائدہ :۔ لوگ آپ سے قیامت کا سوال اس طرح کرتے ہیں جیسے آپ اسی مسئلہ کی تحقیق و تفتیش اور کھوج میں لگے ہوئے ہیں اور تلاش کے بعد اس کے علم تک رسائی حاصل کرچکے ہیں۔ حالانکہ قیامت کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور انبیاء علیہ السلام کسی ایسی بات کے پیچھے نہیں پڑا کرتے جس کا بتلانا اللہ تعالیٰ نے کسی خاص مصلحت کی بنا پر روک دیا ہو اور ظاہر ہے کہ اگر قیامت کا علم متعین تاریخ اور سن کے ساتھ دے دیا جاتا یا کسی کو اس کے موت کے وقت سے آگاہ کردیا جاتا تو اس طرح یہ دنیا انسان کے لیے دارالامتحان نہ رہ سکتی تھی لہٰذا ان باتوں کا کسی نبی تک کو نہ بتلانا مشیت الٰہی کے عین مطابق ہے اور لوگوں کو ایسے سوال کے پیچھے ہرگز نہ پڑنا چاہیے۔ بلکہ اس کے لیے کچھ تیاری کرنا چاہیے۔ الاعراف
188 [١٨٨] علم غیب جاننے کے فائدے، غیب کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے علم غیب جاننے کے دو فائدے بتلائے ہیں۔ ایک یہ کہ علم غیب جاننے والا اپنے لیے بہت سی بھلائیاں جمع کرسکتا ہے مثلاً ایک عام مثال لیجئے اگر کسی کو یہ بات یقینی طور پر معلوم ہو کہ فلاں وقت فلاں چیز کا بھاؤ اس حد تک چڑھ جائے گا تو وہ آسانی سے بہت نفع حاصل کرسکتا اور بہت سا مال و دولت کما سکتا ہے اور دوسرا یہ کہ ایسے شخص کو کوئی تکلیف نہیں پہنچ سکتی۔ اس لیے کہ وہ بروقت یا وقت سے پہلے اس کا علاج سوچ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے فرمایا کہ آپ لوگوں سے کہہ دیجئے کہ میں تو اپنے بھی نفع و نقصان کا کچھ اختیار نہیں رکھتا تو تمہارا یا دوسروں کے نفع و نقصان کا کیسے مختار ہوسکتا ہوں، اور دوسری بات اس سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ جب مجھے اتنا بھی علم غیب حاصل نہیں کہ اپنا ہی نفع و نقصان سوچ سکوں تو قیامت کے واقع ہونے کے متعلق آپ کو کیا بتا سکتا ہوں؟۔ غیب کی خبریں بتلانے والے :۔ اب اسی معیار پر ان لوگوں کو آپ پرکھ لیجئے جو ستاروں کی چالوں سے، ہاتھ کی لکیروں سے، مختلف طریقوں سے فال لینے سے یا جفرور مل کے علم سے یا اپنے کشف سے علم غیب جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کے اس دعویٰ کی کیا حقیقت ہے۔ مثلاً ایک نجومی، جوتشی جو فٹ پاتھ پر بیٹھ کر قسمت کی انگوٹھیاں بیچتا اور مختلف طرح سے لوگوں کو ان کی قسمت کے احوال سے مطلع کرتا ہے اگر وہ یہ علم جانتا ہوتا تو کیا اس کی یہ حالت زار ہو سکتی تھی؟ کیا وہ چند دنوں میں امیر کبیر نہ بن سکتا تھا ؟ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کاہن حضرات لوگوں کو غیب کی خبریں بتلایا کرتے اور اس غرض سے بڑے بڑے لوگ دور دور سے ان کے آستانوں پر آتے اور گراں قدر نذرانے پیش کرتے تھے۔ اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص غیب کی خبریں بتلانے والے کے پاس جائے اور اس سے کچھ پوچھے تو اس کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں ہوتی۔‘‘ (مسلم۔ کتاب السلام، باب تحریم الکھانۃ ورتیان الکھان بحوالہ کتاب التوحیدباب ٢٦ ماجاء فی الکھان ونحوھم) نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’جو کوئی کسی کاہن کے پاس جا کر دریافت کرے پھر اسے سچا سمجھے تو اس نے اس سے اظہار براءت کیا جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا ہے۔‘‘(ابو داؤد۔ کتاب الطب باب فی الکاھن۔ باب الکھانۃ والتطیر) ان احادیث سے از خود یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ غیب کی خبریں بتلانے والا خود کافر ہوتا ہے۔ الاعراف
189 الاعراف
190 [١٨٩] اولاد کے بارے میں شرکیہ افعال :۔ ترمذی میں ایک روایت آتی ہے کہ آدم و حوا علیہما السلام کے ہاں جو بچے پیدا ہوتے وہ مر جاتے تھے کیونکہ وہ کمزور الخلقت ہوتے تھے۔ ایک دفعہ جب سیدہ حوا علیہا السلام کو حمل ہوا تو آدم و حوا علیہا السلام دونوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اگر تندرست بچہ پیدا ہوا تو ہم اللہ کے شکر گزار ہوں گے۔ اسی دوران شیطان نے حوا علیہا السلام کو پٹی پڑھائی کہ اگر وہ اس ہونے والے بچے کا نام عبدالحارث رکھیں تو ان کا بچہ یقیناً تندرست ہوگا اور زندہ رہے گا۔ حارث دراصل ابلیس کا نام تھا اور جن دنوں وہ فرشتوں میں ملا ہوا تھا اسی نام سے پکارا جاتا تھا۔ چنانچہ حوا علیہا السلام نے شیطان سے اس بات کا وعدہ کرلیا اور سیدنا آدم علیہ السلام کو بھی اس بات پر راضی کرلیا۔ اس روایت کو حافظ ابن کثیر نے تین وجہ سے معلول قرار دیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ سارا قصہ اسرائیلیات سے ماخوذ ہے نیز قرآن ہی کے الفاظ سے یہ قصہ کئی وجوہ سے باطل قرار پاتا ہے اور وہ یہ ہیں :۔ ١۔ ﴿ جَعَلاَلَہُ شُرَکَاءَ﴾ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کا شریک صرف ایک شیطان ہی نہیں بنایا گیا بلکہ یہ شریک ایک جماعت یا کم از کم دو سے زیادہ ہیں۔ ٢۔ ﴿عَمَّا یُشْرِکُوْنَ﴾ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ شرک کرنے والے دو (آدم و حوا علیہما السلام) نہ تھے بلکہ یہ بھی ایک جماعت ہے۔ ٣۔ اگر شیطان کو ہی شریک بنایا تھا تو اس کے لیے من آنا چاہیے تھا جو ذوی العقول کیلئے آتا ہے حالانکہ یہاں ﴿ مَالاَیَخْلُقُ﴾ کے الفاظ ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو سب نام سکھلا دیئے تھے اگر ابلیس یا شیطان کا کوئی نام حارث بھی ہوتا تو وہ آپ کو ضرور معلوم ہونا چاہیے تھا کیونکہ اسی سے تو براہ راست آپ کی دشمنی ٹھن گئی تھی۔ علاوہ ازیں کسی بھی سند صحیح سے یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ سیدنا آدم علیہ السلام کے کسی بیٹے کا نام عبدالحارث بھی تھا۔ اس آیت کے مخاطب دراصل مشرکین مکہ ہیں۔ ابتداء میں سیدنا آدم و حوا علیہما السلام کا ذکر ضرور ہے مگر بعد میں روئے سخن دور نبوی کے مشرکین کی طرف مڑ گیا ہے جن کی عادت تھی کہ جب بچہ پیٹ میں ہوتا تو اس کی سلامتی اور تندرست و صحیح سالم بچہ پیدا ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ ہی سے دعائیں کیا کرتے تھے لیکن جب صحیح و سالم بچہ پیدا ہوجاتا تو اللہ تعالیٰ کے اس عطیہ میں دوسروں کو بھی شکریے کا حصہ دار ٹھہرا لیتے تھے اور ان کے نام ایسے ہی رکھ دیتے جن میں شرک پایا جاتا مثلاً عبدالشمس، عبدالعزّٰی، عبد مناف وغیرہ اور نذریں نیازیں بھی اپنے دیوی دیوتاؤں کے آستانوں پر چڑھایا کرتے تھے۔ یہ حالت تو دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشرکین کی تھی۔ مگر آج کے دور کے مشرکین جو خود مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان مشرکوں سے چار ہاتھ آگے نکل گئے ہیں۔ یہ اولاد بھی غیروں سے مانگتے ہیں حمل کے دوران منتیں بھی غیروں کے نام ہی کی مانتے ہیں اور بچہ پیدا ہونے کے بعد نیاز بھی انہی کے آستانوں پر جا کر چڑھاتے ہیں اور نام بھی مشرکانہ رکھتے ہیں جیسے پیراں دتہ، پیر بخش وغیرہ۔ پھر بھی یہ موحد کے موحد اور مسلمان کے مسلمان ہی رہتے ہیں۔ الاعراف
191 [١٩٠] مخلوق الٰہ نہیں ہو سکتی :۔ اس آیت میں الوہیت کا یہ معیار پیش کیا گیا ہے کہ جو مخلوق ہو وہ الٰہ نہیں ہو سکتی۔ اس معیار کے مطابق اللہ کے سوا سب الٰہ باطل قرار پاتے ہیں خواہ وہ فرشتے ہوں یا انبیاء ہوں، یا شجر و حجر ہوں یا اولیاء و بزرگ ہوں، خواہ وہ زندہ ہوں یا فوت شدہ۔ کیونکہ ان میں سے ہر چیز اللہ کی مخلوق ہے اور جو مخلوق ہے وہ فانی بھی ہوگا اور جو فانی ہے وہ الٰہ نہیں ہو سکتا۔ الاعراف
192 [١٩١] محتاج الٰہ نہیں ہوسکتا :۔ یعنی ایک تو اللہ کی جاندار مخلوق ہے جسے تم الٰہ بناتے ہو جیسے فرشتے یا انبیاء و اولیاء وغیرہ جنہیں حاجت روا اور مشکل کشا تصور کیا جاتا ہے یا کیا جاتا رہا ہے یہ بھی الٰہ نہیں ہو سکتے تو پھر جو تم پتھر کے بت بنا کر اور انہیں خدائی کا درجہ دے کر ان کی پوجا پاٹ شروع کردیتے ہو وہ کیسے الٰہ ہو سکتے ہیں وہ تو اپنے منہ سے مکھی بھی نہیں اڑا سکتے وہ تمہاری مدد کیا کریں گے؟ اور تمہاری کیا رہنمائی کریں گے کہ اگر تم خود انہیں راہ کی طرف بلاؤ تو وہ آ بھی نہیں سکتے تم انہیں بلاؤ یا نہ بلاؤ ایک ہی بات ہے کیونکہ وہ تو حرکت کر ہی نہیں سکتے۔ الاعراف
193 الاعراف
194 [١٩٢] جو پکار نہ سن سکے وہ الٰہ نہیں :۔ یہ دوسری قسم کے الٰہ ہیں یعنی وہ انبیاء اور بزرگ جو فوت ہوچکے اور انہیں حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر پکارا جاتا ہے اس لیے کہ پتھر کے بتوں کے لیے عباد کا لفظ استعمال نہیں ہوتا اور ان کے الٰہ ہونے کی تردید کے لیے یہ بات کافی ہے کہ جب تم انہیں پکارتے ہو تو وہ جواب بھی نہیں دے سکتے اور وہ تمہارے ہی جیسے ہیں تم سے کوئی بالاتر مخلوق نہیں۔ الاعراف
195 [١٩٣] جو بت مشرکوں نے بنا رکھے تھے ان کے ہاتھ، پاؤں، ناک، کان، آنکھیں وغیرہ سب کچھ ہوتا تھا اللہ تعالیٰ مشرکوں سے یہ پوچھتے ہیں کہ ان بتوں کے جو تم نے پاؤں بنا رکھے ہیں کیا یہ ان کے ساتھ چل بھی سکتے ہیں کیونکہ پاؤں بنانے کا مقصد تو یہی ہوتا ہے کہ ان سے چلا جا سکے پھر جب یہ پاؤں اپنی غرض اور مقصد پورا نہیں کرسکتے تو ایسے پاؤں بنانے کا فائدہ کیا ہے؟ اسی طرح ان کے جو تم نے ہاتھ بنا رکھے ہیں ان سے یہ پکڑ بھی نہیں سکتے۔ تمہاری بنائی ہوئی آنکھوں سے یہ دیکھ بھی نہیں سکتے اور نہ کانوں سے سن سکتے ہیں تو ایسے مصنوعی اعضاء بنانے کا فائدہ کیا ہے جو اپنی غرض پوری نہیں کرتے۔ شرک کی مختلف صورتیں :۔ مشرکوں کے شرک میں تین صورتیں پائی جاتی ہیں مثلاً ایک شخص سورج پرست ہے تو شرک کی ایک صورت تو یہ ہے کہ وہ بالخصوص سورج کے نکلتے وقت اور غروب ہوتے وقت اس کی طرف منہ کر کے اور اس کے سامنے ہاتھ باندھ کر ادب سے کھڑا ہوجائے۔ دوسری شکل یہ ہے کہ ان ستاروں کی روح کی پوجا کی جاتی ہے اور انہیں عند الضرورت پکارا جاتا ہے اور تیسری صورت یہ ہے کہ ان ارواح کی خیالی صورتیں متعین کر کے ان کے مجسمے بنا کر عبادت خانوں میں یا آستانوں میں رکھے جاتے ہیں پھر ان کی پوجا کی جاتی ہے اور تصور یہ ہوتا ہے کہ اس مجسمے کے ساتھ اس کی روح کا تعلق قائم رہتا ہے لہٰذا ان مجسموں کی جو پوجا پاٹ کی جاتی ہے وہ ان مجسموں کی نہیں بلکہ ان کی ارواح کی ہوتی ہے۔ مسلمانوں میں بھی یہ مرض عام ہے وہ مجسموں کی بجائے اولیاء اللہ کی قبروں سے یہی تمام تر عقائد وابستہ کردیتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں شرک کی ان سب اقسام کا رد فرما دیا ہے۔ [١٩٤] مشرکوں کا اپنے معبودوں سے ڈرنا :۔ مشرکین مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کرتے تھے کہ ہمارے معبودوں کی بے ادبی کرنا چھوڑ دو ورنہ یہ معبود تم پر کوئی نہ کوئی آفت نازل کردیں گے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ زمر میں فرمایا:﴿وَیُخَوِّفُوْنَکَ بالَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہٖ ﴾(39 : 36)اسی کا جواب یہاں دیا جا رہا ہے کہ آپ ان مشرکین سے کہہ دیجئے کہ تم اپنے تمام معبودوں سے درخواست کرو کہ وہ میرا جو کچھ بگاڑ سکتے ہیں اس میں کچھ بھی کسر نہ چھوڑیں اور مجھے مہلت بھی نہ دیں جو کرسکتے ہیں فوراً کریں اور میں دیکھوں گا کہ وہ میرا کیا بگاڑ سکتے ہیں؟۔ الاعراف
196 [١٩٥] جب میرا سر پرست اور کارساز اللہ تعالیٰ ہے جس نے یہ قرآن نازل کیا ہے تو پھر مجھے تمہارے ان معبودوں سے نقصان پہنچنے کا کیا خطرہ ہوسکتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ بات صرف مجھی پر منحصر نہیں اللہ اپنے سب نیک بندوں کی سرپرستی فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی یہ سرپرستی کیا کم ہے کہ اس نے قرآن جیسی بابرکت کتاب ہمارے لیے نازل فرمائی ہے جو زندگی کے ہر پہلو میں ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ الاعراف
197 الاعراف
198 [١٩٦] مجسموں کی کیفیت :۔ اس آیت میں پھر مشرکوں کے مجسموں کا ذکر ہے کہ وہ ان کی آنکھیں ایسی موٹی موٹی اور کھلی ہوئی بناتے ہیں جن سے آپ کو ایسا معلوم ہو کہ وہ آپ کو دیدے پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے ہیں حالانکہ ان میں بصارت نام کو نہیں ہوتی۔ نیز اس آیت کے مخاطب خود مشرکین اور منکرین بھی قرار دیئے جا سکتے ہیں جو ظاہری آنکھوں سے تو دیکھتے معلوم ہوتے ہیں لیکن دل کی آنکھوں سے کچھ نہیں دیکھتے اور اپنی بصیرت سے کوئی کام نہیں لیتے۔ الاعراف
199 [١٩٧] داعی حق کے لئے ہدایات۔ ١۔ عفو ودرگزر ، ٢۔ اچھی باتوں کا حکم ، ٣۔ بحث میں پرہیز۔ ٤۔ جوابی کارروائی سے اجتناب :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہایت مختصر الفاظ میں تین نصیحتیں بیان فرمائی ہیں جو ہر داعی حق کے لیے نہایت اہم ہیں گویا داعی حق کو درپیش مسائل کا حل چند الفاظ میں بیان کر کے دریا کو کوزہ میں بند کردیا گیا ہے اور وہ یہ ہیں۔ ١۔ پچھلی چند آیات میں مشرکین کے معبودان باطل پر اور خود مشرکوں پر سنجیدہ الفاظ میں تنقید کی گئی ہے۔ جس کا یہ نتیجہ نکل سکتا ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف زہر اگلنا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہنا شروع کردیں۔ اندریں صورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو درگزر کرنے کی روش اختیار کرنا چاہیے، حوصلہ اور برداشت سے کام لینا چاہیے۔ اپنے رفقاء کی کمزوریوں پر بھی اور اپنے مخالفین کی اشتعال انگیزیوں پر بھی اپنے مزاج کو ٹھنڈا رکھنا چاہیے کیونکہ دعوت حق کے دوران اشتعال طبع سے بسا اوقات اصلی مقصد کو نقصان پہنچ جاتا ہے اور یہ صفت آپ میں بدرجہ اتم موجود تھی۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا﴿فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ ....﴾ (3: 159) ٢۔ صاف اور سادہ الفاظ میں ایسی بھلائیوں کی طرف دعوت دینا چاہیے جن کو عقل عامہ تسلیم کرنے کو تیار ہو اور اس انداز میں دینا چاہیے جسے لوگ گران بار محسوس نہ کریں اس کی بہترین مثال یہ واقعہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو یہ ہدایات فرمائیں۔ سب سے پہلے لوگوں کو ایک اللہ کی طرف دعوت دو پھر جب وہ اسلام لے آئیں تو انہیں بتلاؤ کہ تمہارے پروردگار نے تم پر دن بھر میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں پھر جب وہ اس پر عمل کرنے لگیں تو پھر بتلانا کہ تمہارے اموال پر اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ فرض کی ہے اور دیکھو زکوٰۃ وصول کرتے وقت ان کے عمدہ عمدہ مال لینے سے اجتناب کرنا اور مظلوم کی بددعا سے بچتے رہنا، کیونکہ اللہ اور مظلوم کی بددعا کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔ (بخاری۔ کتاب الزکوۃ۔ باب لاتؤخَذَ کرائم اموال الناس فی الصدقۃ ) اس حدیث میں دعوت کی ترتیب اور خطاب کا جو انداز بیان کیا گیا ہے اس میں داعی حق کے لیے بے شمار اسباق موجود ہیں نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی داعی کو روانہ فرماتے تو انہیں ارشاد فرماتے: (بَشِّرُوْا وَلاَتُنَفِّرُوْا وَیَسِّرُوْا وَلاَ تُعَسِّرُوْا) (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب بعث ابی موسیٰ و معاذ الیٰ یمن) یعنی جہاں تم جاؤ تمہاری آمد لوگوں کے لیے خوشی کا باعث بنے نفرت کا باعث نہ بنے اور تم لوگوں کے لیے سہولت کا موجب بنو، تنگی اور سختی کا موجب نہ بنو۔ ٣۔ اور تیسری بات یہ ہے کہ اعتراض برائے اعتراض اور بحث برائے بحث کرنے والوں سے کنارہ کش رہنے کی کوشش کرو اگر تم ان کی ہی باتوں میں الجھ گئے تو دعوت حق کے فروغ کا کام وہیں رک جائے گا لہٰذا ایسے لوگوں کے اعتراضات اور طعن و تشنیع کا جواب دینے میں اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان سے بے نیاز ہو کر اپنا سفر جاری رکھنا چاہیے۔ الاعراف
200 [١٩٨] یہ دراصل چوتھی ہدایت ہے کہ اگر کسی وقت معترضین کے اعتراضات یا مخالفین کی شرارتوں پر اشتعال آ بھی جائے تو سمجھ لو کہ یہ شیطان کی انگیخت ہے کیونکہ شیطان تو چاہتا ہی یہ ہے کہ دعوت حق کے راستے میں مختلف طریقوں سے رکاوٹیں کھڑی کر دے تو اسی وقت اللہ سے شیطان مردود سے پناہ مانگنا چاہیے کہ وہ اسے جوش میں بے قابو ہونے سے بچا لے اور اللہ چونکہ سمیع علیم ہے لہٰذا وہ آپ کے دل سے ایسے خیال کو دور کر دے گا۔ الاعراف
201 [١٩٩] ربط مضمون کے لحاظ سے یہاں شیطانی انگیخت سے مراد ایسا شر یا شرارت سجھانا ہے جو کسی فتنہ و فساد پر منتج ہوتا ہو اور اس آیت میں روئے سخن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہٹ کر تمام داعیان حق کی طرف ہوگیا ہے۔ مثلاً فلاں شخص نے جو تمہاری تردید کر کے یا دشنام طرازی کر کے تم پر جو وار کیا ہے اس کا تمہیں ضرور جواب دینا چاہیے اور شیطان کی طرف سے یہ وسوسہ داعی حق کے دل پر کئی دینی مصلحتوں کے خوبصورت لباس میں لپیٹ کر پیدا کیا جاتا ہے لیکن جب یہ اللہ سے ڈرنے والے داعی ایسے وسوسہ پر غور و فکر کرتے ہیں تو اس کے نتائج دیکھ کر ایک دم چونک پڑتے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں جس نے بروقت انہیں غلط کام کا انجام سجھا دیا اور شیطان کے فتنہ سے بچا لیا۔ تاہم یہ حکم عام ہے خواہ کوئی داعی حق ہو یا نہ ہو اور شیطانی وسوسہ اللہ کی یاد سے غفلت یا کسی بھی گناہ کے کام کی رغبت پر محمول ہو۔ ہر صورت میں جب اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے اس شیطانی وسوسہ کے انجام پر غور کرتے ہیں تو یکدم صحیح صورت حال ان کے سامنے آ جاتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنے لگتے ہیں۔ الاعراف
202 [٢٠٠] لیکن ایسا ہی وسوسہ اگر شیطان کسی کے نافرمان یا باغی کے دل میں ڈال دے اور ایسے لوگ فوراً اس وسوسہ میں پھنس کر معصیت کی رو میں بہہ جاتے ہیں اس کے بعد بھی شیطان انہیں معاف نہیں کرتا بلکہ ان کا حوصلہ بڑھاتا رہتا ہے اور اسے جب بھی موقع ملے اپنے ان بھائیوں کو گمراہی میں کھینچتا چلا جاتا ہے۔ الاعراف
203 [٢٠١] آپ پر قرآن تصنیف کرنے کا الزام اور اس کا جواب :۔ اس آیت سے موضوع سخن بدل گیا ہے اور اس میں کافروں کے ایک مطالبہ کا اور اس کے جواب کا ذکر ہے اگر اس آیت کا معنی قرآن کی کوئی آیت ہی کیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ جب کوئی قرآنی سورت یا آیات کے نازل ہونے میں دیر واقع ہوجاتی تو کافر کہنے لگتے کہ اپنی مرضی کی کوئی آیت تمہیں اب تک لے آنا چاہیے تھی اور ایسے استہزاء سے ان کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ پہلے جو قرآن تم ہمیں سناتے ہو وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ نہیں بلکہ تمہارا اپنا ہی تصنیف کردہ ہے لہٰذا اب اگر دیر ہوگئی تو کیا ہوا ؟ کچھ اور بھی اپنی پسندیدہ آیات تمہیں اب تک تصنیف کر کے پیش کردینا چاہئیں تھیں۔ اور اگر آیت کا معنی معجزہ لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ جس حسی معجزہ کے لانے کا ہم آپ سے مطالبہ کرچکے ہیں ان میں سے جو بات آپ کو پسند ہو اسی کے لیے آپ اللہ سے تعالیٰ کہیں کہ وہ ہمیں دکھلا دے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ انہیں واضح الفاظ میں بتلا دیجئے کہ معجزات دکھلانا میرا کام نہیں نہ میرا معجزات پر کوئی اختیار ہے میرا کام صرف یہ ہے کہ جو وحی مجھ پر نازل ہوتی ہے میں خود بھی اس کی پیروی کروں اور دوسروں کو بھی اس کی پیروی کی دعوت دوں اور اگر تم سوچو تو یہ قرآن بذات خود ایک بڑا معجزہ ہے جس میں ہر ہدایت کے متلاشی کے لیے بے شمار بصیرت افروز دلائل موجود ہیں اور چونکہ یہ کتاب دنیوی اور اخروی کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے لہٰذا یہ کتاب ہدایت ہونے کے علاوہ لوگوں کے لیے ایک بہت بڑی رحمت بھی ہے۔ الاعراف
204 [٢٠٢] قرآن کا سننا باعث رحمت ہے :۔ مشرکین مکہ نے جیسے مسلمانوں پر یہ پابندی عائد کر رکھی تھی کہ وہ بیت اللہ میں داخل ہو کر نہ نماز ادا کرسکتے ہیں اور نہ طواف کرسکتے ہیں۔ اسی طرح یہ پابندی بھی لگا رکھی تھی کہ مسلمان نماز میں قرآن بلند آواز سے نہ پڑھا کریں کیونکہ اس طرح ان کے بچے اور ان کی عورتیں قرآن سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتیں۔ دوسرے انہوں نے آپس میں سمجھوتہ کر رکھا تھا کہ ہم میں سے کوئی شخص قرآن نہ سنے۔ اگرچہ قرآن کی فصاحت و بلاغت اور شیریں انداز کلام سے وہ خود بھی متاثر ہو کر اپنی اس تدبیر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کبھی کبھی قرآن سن لیا کرتے تھے۔ اور قرآن کی دعوت کو روکنے کے لیے ان کی تیسری تدبیر یہ تھی کہ جہاں قرآن پڑھا جا رہا ہو وہاں خوب شوروغل کیا جائے تاکہ قرآن کی آواز کسی کے کانوں میں نہ پڑ سکے اس طرح تم اپنے مشن میں کامیاب ہو سکتے ہو۔ (٤١ : ٢٦) اسی پس منظر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس روش کو چھوڑ دو اور ذرا غور سے سنو تو سہی کہ اس میں کیا تعلیم دی گئی ہے کیا عجب کہ تم خود بھی اسی رحمت کے حصہ دار بن جاؤ جو ایمان لانے والوں کو نصیب ہوچکی ہے۔ مخالفین کی معاندانہ سرگرمیوں کے مقابلہ میں یہ ایسا دل نشین انداز تبلیغ ہے جس سے ایک داعی حق کو بہت سے سبق مل سکتے ہیں۔ قرآن کو خاموشی سے سننا :۔ اس آیت میں جو حکم دیا گیا ہے وہ مسلم اور غیر مسلم سب کے لیے عام ہے اور اس سے یہ بات بھی مستنبط ہوتی ہے کہ جہاں قرآن پڑھا اور سنا جاتا ہو وہاں اللہ کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ایک مسئلہ یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب جہری نمازوں میں امام قراءت کر رہا ہو تو مقتدی کو بھی بالخصوص سورۃ فاتحہ ساتھ ساتھ دل میں پڑھنی چاہیے یا نہیں۔ اس مسئلہ میں اگرچہ بعض علماء نے اختلاف کیا ہے تاہم ہمارے خیال میں اس مسئلہ میں وہ حدیث قول فیصل کا حکم رکھتی ہے جو سورۃ فاتحہ کے حاشیہ نمبر ١ میں درج کی جا چکی ہے۔ الاعراف
205 [٢٠٣] تلاوت قرآن کے آداب :۔ صبح و شام سے مراد یہ دونوں مخصوص وقت بھی ہو سکتے ہیں اور صبح و شام کی نمازیں بھی اور صبح و شام بطور محاورہ استعمال ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہر وقت اللہ کو یاد کرتے رہنا یا دل میں اس کی یاد رکھنا چاہیے۔ اسی طرح ذکر سے مراد قرآن کریم کی تلاوت بھی ہو سکتی ہے کیونکہ سب سے بڑا ذکر تو خود قرآن کریم ہے اور نمازیں بھی ہو سکتی ہیں جن میں اللہ کو یاد کیا جاتا ہے اور ہر وقت دل میں یاد رکھنا بھی مراد ہوسکتا ہے اور جس ذکر میں دل اور زبان دونوں مشغول ہوں تو دل میں عاجزی اور خضوع ہونا چاہیے اور آواز پست ہونا چاہیے خواہ یہ ذکر جہراً ہی کیا جا رہا ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کا یہی تقاضا ہے۔ [٢٠٤] سب سے بڑی غفلت تو یہی ہے کہ انسان یہ بھول جائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اس دنیا میں جو دارالامتحان ہے اسے اللہ کا بندہ بن کر ہی رہنا چاہیے۔ نیز یہ بھول جائے کہ آخرت میں اس کے سب اعمال پر جواب طلبی اور مواخذہ ہوگا۔ دنیا میں جب بھی کوئی فتنہ و فساد پیدا ہوا ہے تو اسی قسم کی غفلت سے پیدا ہوا ہے اسی لیے مسلمانوں کو بار بار تاکید کی جا رہی ہے کہ انہیں کسی وقت بھی ایسی غفلت میں نہ رہنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے رہنا چاہیے جو اس غفلت کا صحیح علاج ہے۔ الاعراف
206 [٢٠٥] کیونکہ اکڑنا شیطان کا کام ہے اس کے مقابلہ میں فرشتوں کا کام یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے، اپنی غلطی کا اعتراف کرتے اور ہر وقت اس کی تسبیح و تقدیس میں لگے رہتے ہیں جیسا کہ سورۃ بقرہ میں قصہ آدم علیہ السلام و ابلیس میں گزر چکا ہے۔ [٢٠٦] اس آیت کے اختتام پر مسلمانوں کو بھی سجدہ کا حکم دیا گیا ہے تاکہ اس کا حال بھی ملائکہ مقربین کے حال کے مطابق ہوجائے۔ چنانچہ : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب ابن آدم سجدہ کی آیت پڑھتا ہے اور سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتے ہوئے علیحدہ ہوجاتا ہے اور کہتا ہے ’’میری بربادی، ابن آدم کو سجدہ کا حکم ملا تو اس نے سجدہ کیا اور اس کے لیے جنت ہے اور مجھے حکم ملا تو میں نے انکار کیا اور میرے لیے دوزخ ہے۔‘‘ (مسلم کتاب الایمان۔ باب بیان اطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلوۃ) سجدہ ہائے تلاوت :۔ قرآن کریم میں ١٤ مقامات ہیں جہاں آیات سجدہ آئی ہیں۔ لیکن سجدہ تلاوت کے وجوب میں اختلاف ہے۔ بعض علماء اسے واجب سمجھتے ہیں اور بعض سنت یا مستحب۔ علاوہ ازیں بعض علماء کے نزدیک سجدہ تلاوت کے لیے نہ وضو ضروری ہے اور نہ قبلہ رخ ہونا اور نہ سلام پھیرنا، نیز یہ سواری پر بھی سر جھکانے سے ادا ہوجاتا ہے تاہم مستحب یہی ہے کہ سجدہ تلاوت بھی انہیں آداب کے ساتھ بجا لایا جائے جیسا کہ نماز میں سجدہ کیا جاتا ہے یعنی باوضو اور قبلہ رخ ہو کر ادا کیا جائے۔ الاعراف
0 الانفال
1 [١] انفال سے مراد کون سے اموال ہیں؟:۔ اموال زائدہ یا انفال سے مراد وہ اموال ہیں جو کسی کی محنت کا صلہ نہ ہوں بلکہ اللہ نے محض اپنے فضل و کرم سے عطا کئے ہوں اور ان کی کئی اقسام ہیں مثلاً (١) اموال غنیمت جو اگرچہ مجاہدین کی محنت کا صلہ معلوم ہوتا ہے۔ تاہم اسے اس لیے انفال میں شمار کیا گیا کہ پہلی امتوں پر غنیمت کے اموال حرام تھے۔ ایسے سب اموال ایک میدان میں اکٹھے کردیئے جاتے پھر رات کو آگ اتر کر ان کو بھسم کردیتی تھی۔ مگر اس امت پر حلال کی گئی ہے (٢) اموال فے یعنی ایسے اموال جو لڑے بھڑے بغیر مسلمانوں کے ہاتھ لگ جائیں (٣) اموال سلب یعنی وہ مال جو ایک مجاہد مقتول دشمن کے جسم سے اتارتا ہے (٤) دیگر اموال جیسے جزیہ، صدقات اور عطیات وغیرہ۔ یہ سب انفال کے ضمن میں آتے ہیں۔ [ ٢] سورۃ انفال کا شان نزول، غزوہ بدر اور اموال غنیمت میں جھگڑا :۔ غزوہ بدر کے اختتام پر یہ صورت پیدا ہوئی کہ جس فریق نے اموال غنیمت لوٹے تھے وہ ان پر قابض ہوگیا تھا۔ ایک دوسرا فریق جس نے کفار کا تعاقب کیا تھا یہ کہتا تھا کہ ہم بھی ان اموال میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ اگر ہم کفار کا تعاقب نہ کرتے تو وہ مڑ کر حملہ کرسکتے تھے اور اس طرح فتح شکست میں تبدیل ہو سکتی تھی اور ایک تیسرا فریق جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد حفاظت کی خاطر حصار بنائے ہوئے تھا وہ کہتا تھا کہ ہم بھی ان اموال میں برابر کے حصہ دار ہیں کیونکہ اگر ہم آپ کی حفاظت نہ کرتے اور خدانخواستہ آپ کو کوئی گزند پہنچ جاتا تو فتح شکست میں بدل سکتی تھی۔ مگر قابضین ایسی باتیں قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ جس سے ان مجاہدین میں کشیدگی پیدا ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس صورت حال کا حل دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے اور وحی الٰہی کا انتظار کرنے لگے۔ اس وقت یہ آیت بلکہ اس سورۃ کا کثیر حصہ نازل ہوا۔ جس کی ابتدا ہی مسلمانوں کی اخلاقی کمزوریوں اور ان کی اصلاح کے طریقوں سے کی گئی ہے۔ [ ٣] اموال غنیمت اللہ اور اس کے رسول کے لئے کیوں؟:۔ اموال غنیمت وغیرہ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے دو ٹوک فیصلہ دے دیا کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔ لہٰذا تمہیں اس میں جھگڑا کرنے کی ضرورت نہیں۔ اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان اموال کے متعلق جو فیصلہ کرے گا وہی تمہیں تسلیم کرنا پڑے گا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بدر کے دن میں ایک تلوار لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ! اللہ نے مشرکین (کو قتل کرنے) سے میرا سینہ ٹھنڈا کردیا۔ یا کچھ ایسے ہی الفاظ کہے اور کہا کہ یہ تلوار آپ مجھے ہی دے دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’یہ تلوار میری ہے نہ تیری ہے۔‘‘ میں نے (دل میں) کہا : ہوسکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تلوار کسی ایسے آدمی کو دے دیں۔ جس نے مجھ جیسی محنت نہ کی ہو، پھر میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قاصد آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کہا کہ : تو نے مجھ سے تلوار مانگی تھی۔ اس وقت وہ میری نہ تھی اور اب مجھے اختیار دیا گیا ہے۔ لہٰذا وہ تمہیں دیتا ہوں۔ اس وقت یہ آیت اتری۔ (ترمذی، ابو اب التفسیر، مسلم، کتاب الجہادوالسیہ، باب الانفال) اور اموال غنیمت کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حق قرار دینے کی وجہ یہ تھی کہ غزوہ بدر میں مسلمانوں کو فتح خالصتاً اللہ کی مدد اور مہربانی سے حاصل ہوئی تھی۔ جیسا کہ اس کی تفصیل آگے آئے گی۔ پھر اسی سورۃ کی آیت نمبر ٤١ کی رو سے اموال غنیمت میں پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے مقرر کیا گیا اور باقی ٥؍٤ مجاہدین میں برابر تقسیم کا حکم دیا گیا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ نے مال غنیمت ہمارے ہاتھوں سے نکال کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اختیار میں دے دیا۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو برابر تقسیم کردیا (حاکم، کتاب التفسیر) رہے اموال فئ، اموال سلب اور متفرق اموال تو ان کے الگ الگ احکام ہیں جو اپنے اپنے موقعہ پر بیان ہوں گے۔ [ ٤] یعنی اموال غنیمت کے جھگڑے میں پڑ کر اپنے تعلقات خراب نہ کرلو۔ بلکہ اللہ سے ڈرتے ہوئے اس کے حکم کو تسلیم کرو اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان اموال کو جس طرح تقسیم کرے اسے قبول کرو اور ہر کام میں اس کی اطاعت کو اپنا شعار بنا لو اور اگر تم فی الواقع اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان رکھتے ہو تو تمہیں برضا و رغبت ان احکام کو تسلیم کرلینا چاہیے۔ الانفال
2 [٥] سچے مومن کی علامات :۔ اس آیت اور اس سے اگلی آیت میں مومنوں کی چند علامات ذکر کر کے بتلایا ہے کہ مومن ہونے کا وہی دعویٰ کرسکتے ہیں جن میں یہ علامات پائی جاتی ہوں، سرفہرست یہ ہے کہ جب ان کے تنازعات کے درمیان اللہ کا ذکر یا اس کا حکم آ جائے تو ان کے دل دہل جاتے ہیں اور وہ اس کی نافرمانی سے کانپ اٹھتے ہیں۔ دوسری علامت یہ ہے کہ جب ان پر اللہ کے احکام بیان کئے جائیں تو وہ بسر و چشم اس کی اطاعت کرتے ہیں جس سے ان کے ایمان میں مزید اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایمان ایک ہی حالت پر نہیں رہتا بلکہ اللہ کی فرمانبرداری سے اس میں اضافہ اور اس کی نافرمانی سے اس میں کمی واقع ہوتی رہتی ہے اور تیسری علامت یہ ہے کہ جس کام کا انہیں حکم دیا جاتا ہے وہ اس کے جملہ اسباب تو اختیار کرتے ہیں مگر ان کا بھروسہ ان اسباب پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ پر ہوتا ہے۔ اپنی پوری کوششوں کے بعد وہ اس کے انجام اور نتیجہ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیتے ہیں۔ الانفال
3 [٦] ان کی چوتھی علامت یہ ہے کہ وہ نماز کو اس کے پورے آداب اور حقوق کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور پانچویں علامت یہ ہے کہ اپنے اموال میں سے اللہ کے اور بندوں کے حقوق بھی ادا کرتے ہیں۔ مثلاً حج و عمرہ اللہ تعالیٰ کا لوگوں پر حق ہے۔ اموال زکوٰۃ میں اللہ کا اور بندوں کا دونوں کا حق ہے۔ اسی طرح نفلی صدقات، اقرباء، فقراء اور مساکین کے لیے ہوتے ہیں۔ الانفال
4 [٧] سچے مومنوں کا درجہ :۔ جن ایمان داروں میں یہ پانچ علامات پائی جاتی ہیں انہیں اللہ تعالیٰ نے پکے سچے مومن قرار دیا ہے۔ ایسے ہی مومنوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں بلند درجات بھی ہوں گے، بخشش بھی اور عزت کی روزی بھی۔ اب دیکھئے پہلی آیت میں جن تین علامات کا ذکر کیا گیا ہے وہ قلبی عبادت سے تعلق رکھتی ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا ذکر درمیان میں آ جانے سے دلوں کا دہل جانا اللہ تعالیٰ کی آیات سے ایمان میں اضافہ ہوجانا اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھنا اور نماز بدنی عبادت ہے اور انفاق فی سبیل اللہ مالی عبادت ہے۔ اب بعض علماء نے ان میں یہ نسبت قائم کی ہے کہ قلبی عبادات کے عوض درجات میں بلندی ہوگی اور بدنی عبادات کے عوض مغفرت ہوگی اور مالی عبادات کے عوض عزت کی روزی ملے گی۔ الانفال
5 [٨] جنگ بدر کا پس منظر :۔ اموال غنیمت کے متعلق فیصلہ کرنے اور مومن کو پند و نصائح کے بعد اب یہ بتلایا جا رہا ہے کہ غزوہ بدر کی ابتداء کن حالات میں اور کیسے ہوئی۔ صورت حال یہ تھی کہ کفار مکہ کے ظلم و ستم سے مجبور ہو کر اور لٹ پٹ کر مسلمان ہجرت کر کے مدینہ آ گئے تھے۔ مگر ان کفار نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اکا دکا ناکام سے حملے بھی کرچکے تھے اور آئندہ مسلمانوں کے مکمل طور پر استیصال کی تدبیریں سوچ رہے تھے۔ ان حالات میں مسلمانوں نے یہ سوچا کہ قریش کی تجارتی شاہراہ کی ناکہ بندی کردی جائے چنانچہ اس غرض کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شاہراہ کے قریب بسنے والے قبائل سے معاہدے بھی کئے، ان میں سے بعض قبائل تو مسلمانوں کے حلیف بن گئے اور بعض سے غیر جانبدار رہنے کا معاہدہ کیا گیا۔ اور اس ناکہ بندی سے مقصود یہ تھا کہ اس تجارت سے کمایا ہوا مال جو مسلمانوں کے استیصال پر خرچ ہونا ہے اس پر مسلمان کنٹرول کرسکیں۔ دوسرے ان مشرکوں نے مسلمانوں کو بے سرو سامانی کی حالت میں ہجرت کرنے پر مجبور کیا اور بعد میں ان کی جائیدادوں پر بھی قبضہ کرلیا تھا۔ پھر انہی جائیدادوں کو بیچ کر ان سے اس تجارتی قافلہ کے لیے سرمایہ مہیا کیا گیا تھا۔ اور طے یہ ہوا تھا کہ اس تجارتی قافلہ کا منافع تو مسلمانوں کے استیصال پر خرچ کیا جائے۔ اور اصل زر ان لوگوں کو واپس کردیا جائے جنہوں نے مسلمانوں کی جائیدادیں فروخت کر کے سرمایہ لگایا تھا۔ اس طرح وہ گویا مسلمانوں پر دوہرا ظلم ڈھا رہے تھے۔ اور ان واقعات کی خبریں مدینہ بھی پہنچ رہی تھیں۔ لہٰذا مسلمانوں کے لیے اس قافلہ کی ناکہ بندی ضروری ہوگئی تھی۔ چنانچہ ٢ ھ میں قریش کا یہی قافلہ ابو سفیان کی سر کردگی میں شام سے واپس مکہ جا رہا تھا۔ اس قافلہ کے محافظ تو صرف چالیس پچاس آدمی تھے۔ جبکہ یہ قافلہ ایک ہزار بار بردار اونٹوں پر مشتمل تھا اور تقریباً پچاس ہزار دینار کا مال لے کر مکہ جا رہا تھا۔ مسلمانوں نے ارادہ کیا کہ اس قافلہ پر حملہ کردیا جائے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ قافلہ پر حملہ کی تیاری :۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسیسہ کو جاسوس بنا کر بھیجا تاکہ وہ معلوم کر کے آئیں کہ ابو سفیان کا قافلہ کس حال میں ہے۔ بسیسہ جب واپس آئے تو اس وقت گھر میں میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا کوئی نہ تھا۔ بسیسہ نے خبر سنائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے گئے اور فرمایا : ’’ہمیں قافلہ کی طلب ہے۔ لہٰذا جس کے پاس سواری ہو وہ ہمارے ساتھ چلے۔ بعض لوگوں نے دور کے مقام سے اپنی سواریاں لانے کی اجازت طلب کی۔ آپ نے فرمایا : نہیں جس کی سواری حاضر ہے وہ چلیں۔ پھر آپ صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ روانہ ہوگئے۔‘‘ (مسلم، کتاب الامارہ، باب ثبوت الجنۃ للشہید) ابوجہل کا جنگ پر اصرار :۔ اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کی غرض سے کسی کو شامل ہونے کی دعوت نہیں دی تھی۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھر سے نکال لانے میں اللہ کی حکمت یہ تھی کہ کافروں سے مڈ بھیڑ ہو اور حق و باطل کا معرکہ بپا ہو۔ چنانچہ حالات کا پانسہ یوں بدلا کہ ابو سفیان کو بھی مسلمانوں کے اس ارادہ کی خبر ہوگئی تو اس نے قافلہ کی حفاظت کے لیے ایک تیز رفتار سوار کو مکہ بھیج کر کفار مکہ کو مسلمانوں کے اس ارادہ سے مطلع کردیا۔ چنانچہ ایک ہزار آدمیوں پر مشتمل لشکر ابو جہل کی سر کردگی میں اس تجارتی قافلہ کی حفاظت کے لیے روانہ ہوگیا۔ اب اللہ تعالیٰ کا کرنا یہ ہوا کہ ابو سفیان اپنی راہ بدل کر خیر خیریت سے واپس مکہ مکرمہ پہنچ گیا اور کافروں کا یہ لشکر میدان بدر تک جا پہنچا۔ وہاں پہنچ کر ان لوگوں کو بھی خبر مل گئی کہ تجارتی قافلہ بخیریت مکہ پہنچ گیا ہے۔ لہٰذا کچھ لوگوں کی رائے یہ ہوئی کہ اب ہمیں واپس مکہ چلے جانا چاہیے کیونکہ جس مقصد سے ہم آئے تھے وہ پورا ہوچکا۔ لیکن ابو جہل اس بات پر مصر تھا کہ یہاں تک تو یہ لشکر پہنچ ہی چکا ہے اور مسلمان بھی آ پہنچے ہیں تو اب ان سے جنگ کر کے اور ان کا استیصال کر کے ہی جانا چاہیے۔ اس طرح اس معرکہ حق و باطل کے لیے فضا سازگار بن گئی۔ الانفال
6 الانفال
7 الانفال
8 [٩] جو مسلمان تجارتی قافلہ پر حملہ کی غرض سے نکلے تھے۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ اب ہم تین سو تیرہ نہتے آدمیوں کو شاید کفار کے ایک ہزار مسلح لشکر سے جنگ کرنا پڑے۔ تو ان میں سے کچھ لوگوں کو یہ بات سخت ناگوار گزری۔ موت انہیں منہ کھولے سامنے نظر آنے لگی۔ ان کا تقاضا یہ تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں دو گروہوں (تجارتی قافلہ پر یا کفار کے لشکر پر فتح) میں سے ایک کا وعدہ کیا ہے تو پھر ہمیں تجارتی قافلہ کا رخ کرنا چاہیے جو غیر مسلح ہے اور آدمی بھی تھوڑے ہیں اور مال بھی بہت ہاتھ آئے گا مگر اللہ تعالیٰ کی حکمت کچھ اور تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی کفار سے معرکہ کو ہی درست قرار دیتے تھے۔ تاہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی مشورہ کرنا ضروری سمجھا بالخصوص انصار سے، کیونکہ انصار اپنے معاہدہ کی رو سے اس بات کے تو پابند تھے کہ اگر مدینہ پر کفار کا حملہ ہو تو وہ آپ کا ساتھ دیں گے۔ مگر یہ حملہ مدینہ پر نہیں تھا۔ لہٰذا ان انصار سے مشورہ ضروری تھا۔ اس مشورہ کی روداد درج ذیل حدیث میں ملاحظہ فرمائیے۔ جنگ کے متعلق مشورہ اور انصار کا جواب :۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ابو سفیان کے نکل جانے کی اطلاع ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بات کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعراض فرمایا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بات کی تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعراض کیا۔ پھر سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ کا اشارہ شاید ہماری طرف ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اگر آپ ہمیں سمندر میں کودنے کا حکم دیں گے تو ہم کود جائیں گے اور اگر آپ ہمیں برک الغماد تک گھوڑے دوڑا دوڑا کر ہلاک کر ڈالنے کا حکم دیں تو ہم تعمیل کریں گے۔‘‘ (مسلم، کتاب الجہاد، باب غزوہ بدر) اور مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’ہم وہ بات نہیں کہیں گے جو موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے کہی تھی کہ تم اور تمہارا پروردگار دونوں جا کر لڑو، ہم تو آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی، آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی۔‘‘ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ چمکنے لگا اور ان کے اس قول نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش کردیا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب اذ تستغیثون ربکم ) معرکہ حق وباطل :۔ چنانچہ اس مشورہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے مسلح لشکر کی طرف بڑھنے کا ارادہ کرلیا اور اللہ کی بھی یہی مشیت تھی کہ حق و باطل میں فیصلہ کن معرکہ ہو اور اس طرح مسلمانوں کو پوری طرح جانچنے کے بعد کامیابی سے ہمکنار کرے اور اپنا وعدہ پورا کرے۔ دوسری طرف ابو جہل کی ضد کافروں کو مقابلے کے میدان میں گھسیٹ کرلے آئی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ جس طرح حق و باطل کے معرکہ میں کفر کا سر توڑنا چاہتے تھے، اس کے اسباب پیدا ہوگئے۔ اموال غنیمت کے متعلق فیصلہ سنانے اور سچے مومنوں کی علامات بتلانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آیت نمبر ٥ اور ٦ میں فرمایا ؟؟؟$کَمَآ اَخْرَجَکَ رَبُّکَ مِنْۢ بَیْتِکَ بالْحَقِّ ۠ وَاِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَکٰرِہُوْنَ؟؟؟ یعنی جس طرح بعض اموال غنیمت لوٹنے والوں کو اللہ کا فیصلہ ان کی طبائع پر ناگوار گزرا۔ اسی طرح یہ بات بھی بعض مسلمانوں کو ناگوار گزری کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھر سے حق و باطل کا معرکہ بپا کرنے، حق کو غالب اور سر بلند کرنے اور باطل کا سر کچلنے کے لیے نکالا تھا، تجارتی قافلہ کو لوٹنے کے لیے نہیں نکالا تھا اور یہی بات بعض مسلمانوں کو اتنی ناگوار تھی کہ وہ لڑائی کو موت کے منہ میں جانے کے مترادف سمجھ رہے تھے اور ان کا جھگڑا اسی حق و باطل کی جنگ کے سلسلہ میں تھا وہ کہتے تھے کہ جب اللہ نے ہم سے دو باتوں میں سے کسی ایک کا وعدہ کر رکھا ہے تو آخر ہم لڑائی ہی کی راہ کیوں اختیار کریں اور کیوں نہ تجارتی قافلے کا تعاقب کریں۔ الانفال
9 [١٠] عریش میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا :۔ جب بدر کے مقام پر دونوں لشکروں نے آمنے سامنے ڈیرہ ڈال لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ مسلمان کافروں کے مقابلہ میں تہائی سے بھی کم ہیں، نہتے بھی ہیں اور سامان رسد بھی موجود نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے لیے ایک خیمہ نصب کرنے کا حکم دیا، جسے عریش کہتے ہیں۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ساری رات اللہ کے حضور دعاؤں اور آہ و زاری میں گزاردی، جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بدر کے دن جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشرکین پر نظر ڈالی تو وہ ایک ہزار تھے اور مسلمان ٣١٩ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبلہ رو ہو کر دونوں ہاتھ پھیلا دیئے۔ پھر اپنے رب سے فریاد کرنے لگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح دعا کی : ’’اے اللہ! تو نے جو وعدہ کیا ہے اسے پورا کر۔ اے اللہ اگر مسلمانوں کی اس جماعت کو تو نے ہلاک کردیا تو پھر زمین پر تیری عبادت نہ ہوگی۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کافی دیر قبلہ رو ہو کر ہاتھ پھیلائے رہے۔ یہاں تک کہ چادر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں سے گر گئی۔ اتنے میں سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آئے۔ انہوں نے چادر اٹھا کر آپ کے کندھوں پر ڈالی۔ پھر پیچھے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چمٹ گئے اور کہا : اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔ آپ نے اپنے رب سے آہ و زاری کرنے میں حد کردی۔ بے شک اللہ آپ سے اپنا وعدہ پورا کرے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (مسلم، کتاب الجہاد، باب الامداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر ) [ ١١] فرشتوں کا نزول :۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک مسلمان ایک کافر کے پیچھے دوڑ رہا تھا کہ اسے اوپر سے ایک کوڑے کی آواز آئی اور سوار کی بھی آواز آئی، وہ سوار کہہ رہا تھا کہ حیزوم (غالباً اس کے گھوڑے کا نام تھا) آگے بڑھ۔ اتنے میں اس مسلمان نے دیکھا کہ وہ کافر اس کے سامنے چت پڑا ہے۔ اس کی ناک پر نشان تھا اور اس کا سر پھٹ گیا تھا۔ گویا کسی نے اسے کوڑا مارا ہے۔ پھر اس کا سارا جسم سبز ہوگیا۔ وہ انصاری حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور سارا ماجرا بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم سچ کہتے ہو۔ یہ فرشتے تیسرے آسمان سے مدد کے لیے آئے تھے۔ (مسلم، کتاب الجہاد، باب الامداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر ) ٢۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یہ جبریل امین ہیں اپنے گھوڑے کا سر تھامے ہوئے اور ان پر لڑائی کے ہتھیار ہیں۔‘‘ (بخاری، کتاب المغازی، باب شھود الملائکۃ بدرا) انہی سے روایت ہے کہ مسلمانوں نے ستر کافروں کو قتل کیا اور ستر کو قید کیا۔ (مسلم، کتاب الجہاد، باب الامداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر) نیز دیکھئے سورۃ آل عمران آیت ١٢٥) الانفال
10 [١٢] فرشتوں کی اطلاع ثابت قدم رکھنے کے لئے :۔ یعنی اگر اللہ چاہتا تو فرشتوں کے بغیر بھی تمہاری مدد کرسکتا اور تمہیں کامیابی سے ہمکنار کرسکتا تھا، اور اگر فرشتے بھیج کر مدد کی تو بھی اسی کی مدد تھی۔ تمہیں پہلے مطلع کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ تم کہیں اپنے سے تین گنا کافروں کا مسلح لشکر دیکھ کر حوصلہ نہ چھوڑ بیٹھو، یہ اطلاع فقط تمہارا حوصلہ بڑھانے اور تمہیں ثابت قدم رکھنے کی وجہ سے دی گئی تھی۔ الانفال
11 الانفال
12 [١٣] مسلمانوں کی قدرتی وسائل سے امداد :۔ اب یہاں سے ان قدرتی اسباب کا ذکر شروع ہوتا ہے جو بالآخر مسلمانوں کی فتح کا سبب بنے تھے اور یہ اسباب چار تھے۔ بالفاظ دیگر اس جنگ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی چار طرح سے مدد فرمائی تھی اور اس ذکر سے اس طرف بھی اشارہ کرنا مقصود ہے کہ جب اس جنگ میں فتح کے قدرتی اسباب کا بہت زیادہ عمل دخل ہے تو پھر تم مال غنیمت پر تنازعہ اور قبضہ کیسے کرسکتے ہو۔ یہ تو محض اللہ کی مدد سے تمہیں میسر آیا ہے۔ لہٰذا یہ مال اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہی ہونا چاہیے۔ اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسے چاہے اسے تقسیم کرے گا۔ ہوا یہ تھا کہ میدان بدر میں مسلمانوں کے پہنچنے سے پہلے کافر پہنچ کر ایک پکی زمین پر اپنا پڑاؤ ڈال چکے تھے اور جو جگہ مسلمانوں کو پڑاؤ کے لیے میسر آئی ریتلی تھی۔ بلندی پر واقع تھی اور وہاں پانی نام کو نہ تھا اس کے بجائے گرد و غبار اڑ رہا تھا۔ مسلمانون کو ایک تو پیاس نے ستایا ہوا تھا، دوسرے وضو اور طہارت کے لیے بھی پانی نہیں مل رہا تھا۔ تیسرے سامنے کافروں کے مسلح لشکر جرار کو دیکھ کر سخت گھبراہٹ میں مبتلا تھے اور شیطان طرح طرح کے وسوسے ان کے دلوں میں ڈال رہا تھا کہ تمہیں خوراک تو درکنار پینے کو پانی بھی میسر نہیں پھر بھلا تم اتنے بڑے لشکر کا مقابلہ کیسے کرسکو گے؟ اس حال میں اللہ کی مدد یوں مسلمانوں کے شامل حال ہوئی کہ رات کو زور سے بارش ہوئی جس کے تین فائدے ہوئے (١) مسلمانوں نے بڑے بڑے حوض بنا کر پانی جمع کرلیا۔ انہیں پینے اور نہانے دھونے کے لیے پانی میسر آ گیا (٢) نیچے سے ریت جم گئی، جہاں پہلے قدم پھسلتے جاتے تھے وہاں جمنے شروع ہوگئے اس طرح وہ سب شیطانی وساوس دور ہوگئے جو شیطان مسلمانوں کے دلوں میں ڈال رہا تھا۔ (٣) یہی پانی کا ریلا جب بہہ کر کفار کے لشکر کی طرف گیا تو وہاں کیچڑ اور پھسلن پیدا ہوگئی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مدد کی پہلی صورت تھی۔ دوسری صورت یہ تھی کہ جنگ کی ابتداء میں ہی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر غنودگی طاری کردی، جس کا اثر یہ ہوا کہ ایک تو بدن سے تھکاوٹ دور ہوگئی۔ دوسرے کافروں کی جو ہیبت ذہنوں پر سوار تھی وہ دور ہوگئی۔ تازہ دم اور تازہ دماغ ہونے کی وجہ سے ان میں چستی پیدا ہوگئی۔ چنانچہ جب آپ خود ساری رات عریش میں اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد اور آہ و زاری کرنے کے بعد سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی درخواست پر باہر نکلے تو اس وقت غنودگی کی کیفیت طاری ہوگئی اور جب اس حالت سے سنبھلے تو آپ کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور آپ یہ آیت تلاوت فرما رہے تھے :۔ ﴿اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ ﴾ ﴿ سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ﴾ (بخاری، کتاب الجہاد باب ماقیل فی درع النبی) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے بڑے کافروں کے قتل ہوجانے کی خبر دی اور ان کے قتل کی جگہیں بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو دکھلادیں۔ تیسری صورت یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے میدان بدر میں مسلمانوں کی مدد کے لیے فرشتوں کا لشکر بھیج دیا جیسا کہ اوپر کے حاشیہ میں درج شدہ احادیث سے واضح ہوتا ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ جن کافروں کی موت فرشتوں کے ہاتھوں واقع ہوتی ہم اس لاش کو پوری طرح پہچان لیتے تھے۔ فرشتوں کی آمد سے جہاں مسلمانوں کے دلوں کو ثبات و قرار حاصل ہوا وہاں کافر سخت بد دل اور مرعوب ہوگئے اور چوتھی صورت کا ذکر آگے آ رہا ہے۔ الانفال
13 [١٤] کفار مکہ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیفیں پہنچانا اور آپ کی بددعا :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جس طرح کی ایذائیں پہنچائی جاتی تھیں ان کا ایک نمونہ درج ذیل حدیث میں ملاحظہ فرمائیے : سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ خانہ کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے اور ابو جہل اور اس کے ساتھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے وہ آپس میں کہنے لگے کہ ’’تم میں سے کون جاتا ہے اور فلاں لوگوں نے جو اونٹنی کاٹی ہے اس کا بچہ دان لا کر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سجدہ کرے تو اس کی پیٹھ پر رکھ دیتا ہے؟‘‘ یہ سن کر ان کا بدبخت ترین (عقبہ بن ابی معیط) اٹھا اور بچہ دان اٹھا لایا اور دیکھتا رہا، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدہ میں گئے تو بچہ دان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں کندھوں کے درمیان میں پیٹھ پر رکھ دیا۔ میں خود یہ دیکھ رہا تھا، لیکن کچھ نہ کرسکتا تھا۔ کاش (اس دن) میرا کچھ زور ہوتا۔ کافر ہنستے اور ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں ہی پڑے رہے اور سر نہیں اٹھا سکتے تھے حتیٰ کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی) فاطمہ آئیں اور بچہ دان کو پیٹھ سے اٹھا کر پرے پھینکا۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اور دعا کی : ’’یا اللہ قریش سے نمٹ لے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار یہ الفاظ دہرائے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بد دعا کر رہے تھے تو کافروں پر گراں گزرا۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اس شہر میں دعا قبول ہوتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لے لے کر بددعا کی کہ یا اللہ! ابو جہل سے نمٹ لے اور عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط سے نمٹ لے اور عمرو بن میمون نے ساتویں شخص (عمارہ بن ولید) کا نام بھی لیا جو ہمیں یاد نہ رہا۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ’’اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جن لوگوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لے کر بددعا کی تھی، میں نے دیکھا کہ ان سب کی لاشیں بدر کے کنویں میں پھینکی گئیں۔ (بخاری، کتاب الوضوء، باب، اذا القی علی ظھر المصلی القذرًا اوجیفۃ۔۔) الانفال
14 الانفال
15 الانفال
16 [١٥] جنگ سے منہ موڑنا کبیرہ گناہ ہے :۔ جنگ سے پسپائی کی کئی صورتیں ہیں۔ مثلاً پوری فوج کی جنگی پالیسی ہی یہ ہو کہ اس مقام سے ہٹ کر فلاں مقام سے حملہ کرنا زیادہ سودمند ہوگا یا کوئی فوجی دستہ وہاں سے ہٹ کر اپنے مرکز سے جا ملنا چاہتا ہو، یا کوئی فرد پینترا بدلنے کی غرض سے پیچھے ہٹ آیا تو ایسی سب صورتیں جنگی تدبیریں کہلاتی ہیں۔ انہیں جنگ سے فرار یا پسپائی نہیں کہا جاتا بلکہ فرار سے مقصد ایسی پسپائی ہے جس سے محض اپنی جان بچانا مقصود ہو اور یہ گناہ کبیرہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس فعل کو ان سات بڑے بڑے گناہوں میں شمار کیا ہے جو انسان کو ہلاک کردینے والے ہیں۔ (بخاری، کتاب المحاربین، باب رمی المحصنات) اس گناہ کی شدت کی وجہ صرف یہ نہیں کہ ایک شخص اپنی جان بچا کر فوج میں ایک فرد کی کمی کا باعث بنتا ہے۔ بلکہ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس فعل سے باقی لوگوں کے بھی حوصلے پست ہوجاتے ہیں اور بھگدڑ مچ جاتی ہے اور بسا اوقات ایک یا چند شخصوں کا فرار پوری فوج کی شکست کا سبب بن جاتا ہے۔ الانفال
17 [١٦] ریت کی مٹھی کا کرشمہ :۔ میدان بدر میں اللہ کی مدد کی چوتھی صورت یہ تھی کہ جب جنگ پورے زوروں پر تھی اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریت اور کنکریوں کی ایک مٹھی لی اور اسے کافروں کے لشکر کی طرف پھینک دیا اور فرمایا شاھت الوجوہ اس ریت کے ذرات کافروں کی آنکھوں میں جا لگے جس سے وہ آنکھیں ملتے رہ گئے اور انہیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو موقع دیا۔ کہ وہ کافروں کو بےدریغ قتل کرسکیں۔ بعض عقل پرست حضرات کہتے ہیں کہ مٹھی پھینکنے کے وقت ہوا کا رخ چونکہ کافروں کی طرف تھا، اس لیے کافروں کو یہ حادثہ پیش آیا تھا۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ مٹھی بھر ریت کے ذرات آخر سب کافروں تک کیسے پہنچ گئے۔ پھر یہ ذرات آنکھوں میں ہی کیوں جا لگے۔ کسی اور جگہ بھی لگ سکتے تھے۔ آنکھ تو انتہائی مختصر حصہ جسم ہے۔ لازماً یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فعل تھا۔ جس کا صدور اس کے نبی کے ہاتھوں معجزہ کے طور پر ہوا تھا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس فعل کی نسبت براہ راست اپنی طرف کی ہے۔ الانفال
18 [١٧] یعنی مدد کی ان سب صورتوں کا فائدہ تو مسلمانوں کو پہنچتا رہا اور ساتھ ہی ساتھ کافروں کو اتنا ہی نقصان بھی پہنچتا رہا اور جو تدبیر وہ مسلمانوں کے استیصال کے لیے کر رہے تھے۔ اللہ نے اسے توڑ کے رکھ دیا۔ اور ان کے سب منصوبے خاک میں ملا دیئے۔ الانفال
19 [١٨] کافروں کو اپنی سرگرمیوں سے رک جانے کی نصیحت :۔ کفار مکہ مسلمانوں سے کہا کرتے تھے کہ اگر تم دعویٰ میں سچے ہو تو یہ فیصلہ کب ہوگا ؟ (٣٢ : ٢٨) یعنی ہمارے اور تمہارے درمیان کب فیصلہ ہوگا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کا خطاب انہیں ہزیمت خوردہ کافروں سے ہے کہ اب وہ فیصلہ آ چکا ہے۔ جسے تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو کہ کس طرح حالات کی ناسازی کے باوجود مسلمانوں کو معجزانہ طور پر فتح نصیب ہوئی ہے۔ لہٰذا اب بھی اگر راہ راست پر آجاؤ تو یہی بات تمہارے حق میں بہتر ہوگی اور اگر پھر تم نے پہلی سی نافرمانی، مخالفت اور سرکشی والی روش اختیار کی تو ہم پھر تمہیں اسی طرح سزا دیں گے اور جس طرح آج تمہارا لاؤ لشکر کسی کام نہیں آ سکا۔ آئندہ بھی نہیں آئے گا۔ وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا ساتھی اور حامی و ناصر خود ان کا پروردگار ہے۔ بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ مکہ سے روانگی کے وقت ابو جہل وغیرہ نے کعبہ کا پردہ پکڑ کر یہ دعا کی تھی کہ یا اللہ ہم دونوں فریقوں سے جو اعلیٰ و افضل ہے اسے فتح نصیب فرما اور فساد مچانے والے کو مغلوب کر۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرما کر کہ ’’اب فیصلہ تمہارے پاس آ چکا۔‘‘ اس بات کا فیصلہ کردیا کہ ان دونوں فریقوں میں اعلیٰ و افضل کون سا فریق تھا اور مفسد کون سا۔ الانفال
20 [١٩] پہلی آیت میں فرمایا تھا کہ ’’اللہ تعالیٰ مومنوں کے ساتھ ہے۔‘‘ یہاں ایسے مومنوں کی ہی تعریف کو دہرایا گیا ہے۔ یعنی ایسے مومن جو کسی حال میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے سرتابی نہ کریں۔ خواہ اس میں اپنا فائدہ نظر آ رہا ہو یا نقصان۔ جیسا کہ مسلمانوں میں سے ہی ایک گروہ غزوہ بدر سے جی چرا رہا تھا۔ الانفال
21 [٢٠] یہاں سننے سے مراد اس کو قبول کرنا ہے اور اس آیت میں روئے سخن بالخصوص منافقوں کی طرف ہے۔ الانفال
22 [٢١] بدترین مخلوق کون ہیں؟ اس آیت کا مضمون سورۃ اعراف کی آیت نمبر ١٧٩ میں گزر چکا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب انسان اعضاء سے وہ کام لینا چھوڑ دے جس کے لیے وہ بنائے گئے ہیں تو پھر بالآخر وہ اعضاء اپنا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ مثلاً آنکھیں اس لیے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی کائنات کو دیکھیں، کان اس لیے کہ وہ حق بات کو سنیں اور عقل اس لیے کہ وہ آنکھ اور کان کی بہم پہنچائی ہوئی معلومات میں غور و فکر کرے۔ اب جو شخص ان اعضاء سے کام نہ لیتے ہوئے انہیں بے کار بنا دیتا ہے تو ایسے لوگ جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔ جنہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کو برباد کردیا۔ الانفال
23 [٢٢] بالآخر ایسے لوگوں میں بھلائی کا جوہر موجود ہی نہیں رہتا اور اگر لوگ اپنے آپ میں کچھ ایسا جوہر موجود رہنے دیتے تو اللہ تعالیٰ انہیں سنا بھی دیتا۔ مگر ان کی موجودہ حالت یہ ہے کہ اگر انہیں اللہ تعالیٰ کی آیات سنا اور سمجھا بھی دی جائیں تو یہ ضدی اور معاند لوگ سمجھ کر بھی انہیں تسلیم و قبول کرنے پر تیار نہ ہوں گے۔ الانفال
24 [٢٣] اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ کی زندگی بخش دعوت :۔ یعنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دعوتی پیغام ایسا ہے جس سے تمہیں دنیا میں بھی عزت و اطمینان کی زندگی نصیب ہوگی اور آخرت میں بھی نعمتوں سے بھرپور ابدی زندگی حاصل ہوگی، اس کے مفہوم کو پوری طرح سمجھنے کے لیے یہ ذہن میں رکھئے کہ یہ سورت غزوہ بدر کے بعد نازل ہوئی۔ جب کہ مسلمانوں کی ایک ریاست قائم ہوچکی تھی اور وہ آزادانہ زندگی گزار رہے تھے اور غزوہ بدر میں فتح نے انہیں ایک مساوی قوم کا درجہ دے دیا تھا اور وہ آپس میں نہایت پیار، محبت اور بھائی بھائی بن کررہ رہے تھے۔ اب اس کے مقابلہ میں دور جاہلیت کے معاشرہ کو سامنے لائیے جب کہ لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے مدینہ میں جنگ بعاث نے اور مکہ میں حرب فجار نے گھروں کے گھروں کا صفایا کردیا تھا۔ قبائلی جنگیں کسی طرح ختم ہونے کو نہ آتی تھیں اور تم لوگ ان سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے تھے۔ ہر طرف لوٹ مار کا بازار گرم تھا اور شراب کے دور چلتے تھے۔ کسی کی جان، مال اور عزت محفوظ نہیں رہی تھی اور لوگوں پر ان کا جینا حرام ہوچکا تھا۔ پھر اللہ اور اس کے رسول نے تمہیں وہ تعلیم دی کہ تمہاری زندگی کا رخ ہی موڑ دیا اور اب تم امن چین سے زندگی گزار رہے ہو۔ لہٰذا تمہیں فوراً اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنا چاہیے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بلانے پر فوراً حاضر ہوجانا چاہیے۔ کیونکہ اسی میں تمہاری زندگی کا راز مضمر ہے۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان خواہ کتنے ہی ضروری کام مثلاً فریضہ نماز میں بھی مشغول ہو تو اسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بلانے پر نماز چھوڑ کر فوراً حاضر ہونا چاہیے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ رسول کے بلانے پر فورا حاضر ہونا :۔ ابو سعیدبن معلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے سامنے سے گزرے اور مجھے بلایا۔ میں نماز پڑھ کر حاضر ہوا تو مجھے فرمایا : تم میرے بلانے پر فوراً کیوں نہ آئے؟ کیا تم نے اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا ﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ ﴾ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میں جانے سے پہلے تمہیں قرآن کی بڑی سورت بتلاؤں گا۔‘‘ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانے لگے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات یاد دلائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’وہ سورت ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾ ہے۔ اس میں سات آیتیں ہیں جو (ہر نماز میں) مکرر پڑھی جاتی ہیں۔‘‘ (بخاری، کتاب التفسیر) اور حدیث جریج سے علماء نے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ والدین میں سے کسی ایک کے بلانے پر انسان کو نفلی نماز توڑ کر فوراً حاضر ہوجانا چاہیے۔ [ ٢٤] اللہ کے آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہونے کا مطلب دل کو شیطانی وساوس سے بچانے کی کوشش :۔ یعنی اللہ تعالیٰ انسان کے دل کے اتنا قریب ہے کہ وہ اس کے راز، ارادوں اور نیت تک کو جانتا ہے اور یہ دل ہی خیر و شر کا منبع ہے۔ لہٰذا مسلمان کو اللہ کے رسول کی اطاعت میں دیر نہ کرنی چاہیے۔ ورنہ ممکن ہے کہ بعد میں کوئی اور خیال پیدا ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کا تو قانون ہی یہ ہے کہ انسان جیسا ارادہ یا نیت کرتا ہے۔ اللہ اس کے دل کو اسی طرح کی راہیں سجھانے لگتا ہے لہٰذا حتی الامکان دل کو شیطانی وساوس کی آماجگاہ بننے سے بچانا چاہیے اور اس کی واحد صورت یہ ہے کہ بلاتاخیر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی جائے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ اللّٰھُمَّ ثَبِّتْ قُلُوْبُنَا عَلٰی دِیْنِکَ یا الفاظ یہ ہوتے تھے۔ یا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قُلُوْبُنَا عَلٰی دِیْنِکَ الانفال
25 [٢٥] برائی کو روکنا ہر ایک پر واجب ہے :۔ اس آیت میں اجتماعی زندگی کے فتنہ سے بچاؤ اور نھی عن المنکر کے فریضہ کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ فرض کیجئے کہ کسی معاشرہ میں اللہ کے رسول کی نافرمانی یا کوئی برائی پیدا ہوتی ہے اور لوگ اس کا بروقت نوٹس نہیں لیتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ برائی معاشرہ میں پھیل جاتی ہے تو اس برائی کی پاداش میں اللہ کی طرف سے جو عذاب آئے گا وہ سب لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ یہ ممکن نہ رہے گا کہ جو لوگ یہ برائی کا کام نہیں کرتے تھے وہ بچ جائیں۔ کیونکہ ان لوگوں کا جرم یہ ہوتا ہے کہ جب وہ برائی پیدا ہوئی یا بڑھنے لگی تھی تو اس وقت انہوں نے اسے روکنے میں غفلت کیوں کی تھی، اگر وہ روکتے تو سب لوگ عذاب سے بچ سکتے تھے۔ الانفال
26 [٢٦] اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمانوں پر سختیاں :۔ اس آیت کی تشریح کے لیے درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے جس میں سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کا ذکر ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمان کن مصائب اور حوصلہ شکن حالات سے دو چار تھے۔ سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کا اسلام لانا :۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ خود بیان کرتے ہیں کہ میں غفار قبیلے کا ایک شخص تھا مجھے خبر ملی کہ مکہ میں ایک شخص پیدا ہوا ہے جو اپنے تئیں پیغمبر کہتا ہے۔ میں نے اپنے بھائی (انیس) سے کہا کہ مکہ جا کر اس شخص سے ملو۔ بات چیت کرو اور اس کا حال مجھے آ کر بتلاؤ۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مل کر واپس میرے پاس آیا اور کہا ’’واللہ! وہ اچھی بات کا حکم کرتا اور بری بات سے منع کرتا ہے۔‘‘ اس جواب سے میری تسلی نہ ہوئی اور خود مکہ آ گیا۔ یہاں میں کسی کو پہچانتا نہیں تھا۔ نہ مجھے کسی سے آپ کا حال پوچھنا مناسب معلوم ہوا۔ میں زمزم کا پانی پیتا رہا اور مسجد میں بیٹھ رہا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ میرے سامنے سے گزرے اور پوچھا :’’ تم مسافر معلوم ہوتے ہو۔‘‘ میں نے کہا : ہاں۔ آپ نے کہا۔ تو میرے گھر چلو۔ میں ان کے ساتھ روانہ ہوا۔ نہ انہوں نے مجھ سے کچھ پوچھا اور نہ ہی میں نے کوئی بات کی۔ صبح پھر میں مسجد میں آ گیا۔ میرا مطلب یہ تھا کہ کسی سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کچھ پوچھوں، مگر مجھے کوئی ایسا آدمی نہ ملا۔ دوسرے دن سیدنا علی رضی اللہ عنہ پھر میرے پاس سے گزرے اور پوچھا تجھے ابھی تک کوئی ٹھکانہ نہیں ملا۔ میں نے کہا : نہیں۔ انہوں نے کہا ’’تو میرے ساتھ چلو اور بتلاؤ تمہارا کیا کام ہے ؟ یہاں کیسے آئے ہو؟‘‘ میں نے کہا : اگر تم کسی کو بتلاؤ نہیں تو میں آپ کو بتلاتا ہوں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا ٹھیک ہے۔’’ تب میں نے انہیں اپنے بھائی کو بھیجنے کا واقعہ سنایا اور کہا کہ میں اس نبی کو ملنا چاہتا ہوں۔‘‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا : یہ تمہارے لیے بہت اچھا اتفاق ہوا کہ میں بھی اسی نبی کے پاس جا رہا ہوں، تم میرے پیچھے پیچھے چلے آؤ۔ جہاں میں داخل ہوا تم بھی داخل ہوجانا اور اگر کوئی خطرہ کی بات ہوئی تو میں دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑا ہوجاؤں گا جیسے اپنا جوتا صاف کرنے لگا ہوں (اور ایک روایت میں ہے جیسے پیشاب کرنے لگا ہوں) تم وہاں سے آگے نکل جانا۔ اس طرح ہم ایک مکان میں داخل ہوئے۔ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے۔ میں نے عرض کی کہ آپ مجھے اسلام سکھلائیے۔ پھر میں اسی وقت مسلمان ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابو ذر! اپنے ایمان کو چھپائے رکھو اور اپنے وطن واپس لوٹ جاؤ۔ جب تمہیں ہمارے غلبہ کی خبر پہنچے تو چلے آنا۔ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اللہ کی قسم! میں اسلام کا کلمہ کافروں کے سامنے ببانگ دہل پکاروں گا۔ پھر میں مسجد میں آیا اور پکارا : قریشیو! میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ یہ سنتے ہی وہ کہنے لگے: اٹھو اس بےدین کی خبر لو۔ پھر انہوں نے مجھے خوب مارا۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے مجھے دیکھ لیا اور آ کر مجھ پر جھک گئے اور کہا ’’تمہاری خرابی! تم ایک غفاری کو مار رہے ہو، جبکہ تمہارا تجارتی راستہ اسی قوم پر سے گزرتا ہے‘‘ یہ سن کر انہوں نے مجھے چھوڑ دیا۔ دوسرے دن صبح پھر میں مسجد میں آ گیا اور وہی کلمہ کہا جو کل کہا تھا قریشیوں نے پھر وہی بات کہی کہ اٹھو اور اس کی خبر لو۔ چنانچہ مجھے مار پڑنے لگی۔ اتنے میں سیدنا عباس رضی اللہ عنہ آن پہنچے، وہ مجھ پر جھک گئے اور وہی بات کہی جو کل کہی تھی تو انہوں نے مجھے چھوڑ دیا۔ (بخاری، کتاب المناقب، باب قصہ زمزم، نیز باب اسلام ابی ذر) یعنی مکی زندگی میں مسلمانوں پر ایسا وقت بھی آیا جبکہ اپنے اسلام کو ظاہر کرنا بھی جان جوکھوں کا کام تھا۔ پھر مکی زندگی کے آخری دور تک مسلمانوں پر کفار کی طرف سے سختیوں میں کمی واقع نہیں ہوئی انہیں سختیوں سے تنگ آ کر مسلمانوں نے دو بار حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی۔ بالآخر مسلمانوں کو مکہ چھوڑ کر مدینہ کی طرف ہجرت کرنا پڑی۔ یہاں آ کر مسلمان قریش مکہ کے مظالم سے کسی حد تک محفوظ ہوگئے۔ مگر مسلمانوں کی مخالفت عامہ میں اور بھی اضافہ ہوگیا۔ مکی دور میں مسلمانوں کے دشمن صرف کفار مکہ تھے۔ جب کہ مدینہ میں کفار مکہ کے علاوہ دوسرے عرب مشرک قبائل اور مدینہ کے یہودی بھی دشمن بن گئے تھے۔ اور صورت حال کچھ اس قسم کی پیدا ہوگئی تھی کہ مسلمان رات کو آرام سے سو بھی نہ سکتے تھے تاآنکہ پہرہ کا کوئی معقول بندوبست نہ کرلیں۔ اس آیت میں مسلمانوں کی اسی حالت کی طرف اشارہ ہے۔ پھر جب میدان بدر میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عظیم فتح عطا فرمائی اور باطل کی کمر ٹوٹی تب جا کر مسلمانوں کو آزادی سے سانس لینا نصیب ہوا اور مسلمانوں کو بھی قریش مکہ کے ہمسر سمجھا جانے لگا۔ غزوہ بدر سے پہلے تک کفار مکہ کی یہی ذہنیت رہی کہ مسلمان ان کے مفرور قیدی ہیں۔ ان کی اس ذہنیت میں غزوہ بدر کے بعد ہی تبدیلی واقع ہوئی۔ [ ٢٧] یعنی مدینہ میں آزاد سلطنت عطا فرمائی۔ فتح بدر سے تمہاری پوزیشن خاصی مضبوط ہوگئی اور اموال غنائم سے تمہیں پاکیزہ رزق بھی دیا۔ اب تم دل سے، زبان سے اور عمل سے اللہ کا شکر ادا کرو اور عمل سے شکر کی صورت یہ ہے کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت پر مستعد رہا کرو۔ الانفال
27 [٢٨] امانتوں میں خیانت کی مختلف صورتیں :۔ امانتوں میں خیانت کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ امانتوں سے مراد وہ تمام عہد، معاہدے اور وہ ذمہ داریاں ہیں جو کسی انسان پر عائد کی گئی ہوں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ سے انسان کا عہد، عہد میثاق بھی ہے جس کو پورا کرنے پر انسان اللہ کا نافرمان رہ ہی نہیں سکتا اور وہ عہد بھی جو انسان ذاتی طور پر اللہ سے باندھتا ہے جیسے نذریں اور منتیں وغیرہ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خیانت یہ ہے کہ جن باتوں پر کسی مسلمان نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی ہے۔ ان میں فرار کی راہیں سوچنے لگے اور لوگوں سے معاہدے دین کے بھی ہو سکتے ہیں۔ صلح و جنگ کے سمجھوتے بھی، نکاح کے بھی، پھر انسان پر اس کے منصب کے لحاظ سے طرح طرح کی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ غرض اس آیت کے مضمون میں انسان کی پوری زندگی آ جاتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسان کو اپنی زندگی کے ہر واقعہ کے وقت متنبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ کسی حال میں خیانت نہ کرے۔ اور بالخصوص جس بات پر اس آیت میں مسلمانوں کو متنبہ کیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ کفار سے متعلق مسلمانوں کی پالیسی کو منافقوں یا مشکوک لوگوں کے سامنے ظاہر نہ کریں اور اس سلسلہ میں انتہائی احتیاط سے کام لیں۔ کیونکہ ہر قسم کی جنگی تدابیر اللہ اور اس کے رسول کی امانت ہیں اور ایسے اقدامات کے متعلق کافروں کو اشارتاً یا کنایتہ مطلع کرنا یعنی جنگی راز کو فاش کرنا بھی امانت میں خیانت ہے۔ جس کے نتائج انتہائی خطرناک ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ بسا اوقات فتح شکست میں بدل جاتی ہے۔ الانفال
28 [٢٩] مال اور اولاد سے آزمائش :۔ مال اور اولاد ایسی چیزیں ہیں جن سے انسان کا فطری لگاؤ اور محبت ہوتی ہے اور انہیں کے ذریعہ مسلمان کے ایمان کی آزمائش ہوتی ہے اور یہ آزمائش ایسی پر خطر ہوتی ہے کہ انسان کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ آزمائش میں پڑا ہوا ہے۔ سابقہ آیت کی طرح یہ آیت بھی اپنے اندر بڑا وسیع مفہوم رکھتی ہے۔ پھر ان میں سے مال کا فتنہ اولاد کے فتنہ سے شدید ہوتا ہے۔ جیسا درج ذیل احادیث میں واضح ہے۔ ١۔ عمر و بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے (جو بنی عامر کے حلیف تھے) کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ کی قسم! میں تمہارے محتاج ہونے سے نہیں ڈرتا۔ بلکہ میں تو اس بات سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر کشادہ کردی جائے گی جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ کی گئی تھی۔ پھر تم اس میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنے لگ جاؤ، تو وہ تمہیں اس طرح ہلاک کر دے جیسے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا تھا۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب، شہودالملائکۃ بدرا) نیز (کتاب الرقاق، باب مایحذرمن زھرۃ الدنیاوالتنافس فیھا) ٢۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہر امت کی ایک آزمائش ہے اور میری امت کی آزمائش مال ہے۔ (ترمذی بحوالہ مشکوۃ، کتاب الرقاق، دوسری فصل) ٣۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا ہے۔ محتاج مہاجرین دولت مند مہاجرین سے پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔ (ترمذی، ابو اب الزہد۔ باب ان فقراء المھاجرین یدخلون الجنۃ قبل اغنیاء ھم ) ٤۔ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا : میں نے جنت میں جھانکا تو دیکھا کہ وہاں ان لوگوں کی کثرت ہے جو دنیا میں محتاج تھے۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب فضل الفقر ) ٥۔ مال کا فتنہ :۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (خطبہ ارشاد فرمانے) منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا: اپنے بعد میں جس بات سے ڈرتا ہوں وہ یہ ہے کہ زمین کی برکتیں تم پر کھول دی جائیں گی۔ (تم مالدار ہوجاؤ گے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کی آرائش کا بیان شروع کیا، پہلے ایک بات بیان کی، پھر دوسری۔ اس دوران ایک شخص کھڑا ہو کر کہنے لگا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا بھلائی سے برائی پیدا ہوگی؟ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے ہم سمجھے کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے اور لوگ ایسے خاموش بیٹھے تھے جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے منہ سے پسینہ پونچھا (وحی بند ہوئی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : وہ سائل کہاں ہے جو ابھی پوچھ رہا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کا جواب دیتے ہوئے تین بار فرمایا : ’’مال و دولت سے بھلائی ہی نہیں ہوتی۔ پھر فرمایا : بھلائی سے تو بھلائی ہی پیدا ہوتی ہے مگر بہار کے موسم میں جب ہری ہری گھاس پیدا ہوتی ہے (جو ایک نعمت ہے، اس کا زیادہ کھا لینا) جانور کو یا تو مار ڈالتا ہے یا مرنے کے قریب کردیتا ہے۔ الا یہ کہ جانور اپنی کو کھیں بھرنے کے بعد دھوپ میں جا کھڑا ہو اور پیشاب کرے پھر اس کے ہضم ہوجانے کے بعد اور گھاس چرے اور یہ مال و دولت بھی ہرا بھرا اور شیریں ہے اور بہتر مسلمان وہ ہے جو اپنے حق کے مطابق ہی لے پھر اس میں سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اور یتیموں اور مسکینوں پر خرچ کرے اور جو شخص اپنے حق پر اکتفا نہ کرے اس کی مثال اس کھانے والے کی سی ہے جس کا پیٹ بھرتا ہی نہیں اور یہ مال قیامت کے دن اس کے خلاف گواہی دے گا۔‘‘ (بخاری، کتاب الجہاد، باب فضل النفقہ فی سبیل اللہ ) ٦۔ ابراہیم بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک روز کھانا رکھا گیا۔ تو کہنے لگے مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ جنگ احد میں شہید ہوگئے اور وہ مجھ سے بہتر تھے ان کے کفن کے لیے ایک چادر ملی اور حمزہ یا کسی اور کا نام لے کر کہا کہ وہ شہید ہوئے اور وہ بھی مجھ سے بہتر تھے ان کے کفن کو بھی صرف ایک چادر تھی۔ میں ڈرتا ہوں کہیں ایسا نہ ہو کہ عیش و آرام کے سامان ہمیں دنیا میں ہی دے دیئے جائیں، یہ کہہ کر رونا شروع کردیا۔ (بخاری، کتاب الجنائز، باب الکفن من جمیع المال) ٧۔ سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بلاشبہ قیامت کے دن بہت مال و دولت رکھنے والے ہی زیادہ نادار ہوں گے۔ مگر جسے اللہ نے دولت دی اور اس نے اپنے دائیں سے بائیں سے، آگے سے، پیچھے سے ہر طرف سے دولت کو اللہ کی راہ میں لٹا دیا اور اس مال سے بھلائی کمائی۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب المکثرون ھم المقلون) ٨۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’جو شخص اللہ عزوجل سے ڈرتا ہو اس کو دولت مندی کا کوئی خطرہ نہیں۔‘‘ (احمد، بحوالہ مشکوۃ، باب استحباب المال، فصل ثالث) اولاد کے ذریعہ آزمائش کیسے ہوتی ہے ؟:۔ اور اولاد کے ذریعہ انسان کی آزمائش کا دائرہ مال کی آزمائش سے زیادہ وسیع ہے۔ اولاد اگر کسی کے ہاں نہ ہو تو بھی یہ ایک آزمائش ہے۔ ایسی صورت میں انسان اور بالخصوص عورتیں شرک جیسے بدترین گناہ پر آمادہ ہوجاتی ہیں اور پیروں فقیروں کے مزاروں اور مقبروں کے طواف کرتی اور ان کی منتیں مانتی ہیں اور اگر کسی کے ہاں زیادہ ہو تو وہ دوسری طرح آزمائش ہوتی ہے۔ کفار مکہ میں جو قتل اولاد کا دستور عام رائج تھا تو اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ہم انہیں کھلائیں گے کہاں سے؟ گویا اولاد کے رزق کا اپنے آپ کو ٹھیکیدار سمجھنا اور اللہ پر قطعاً توکل نہ کرنا بھی شرک سے ملتا جلتا اور بعض پہلوؤں میں اس سے بڑھ کر کبیرہ گناہ ہے۔ پھر اولاد کی تربیت کا مرحلہ آتا ہے تو یہ بھی انسان کے لیے بہت بڑی آزمائش کا وقت ہوتا ہے کہ آیا وہ اپنی اولاد کو دینی تربیت دیتا اور دین کی راہ پر چلاتا ہے یا محض ان کے لئے دنیا کمانے کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور یہ انسان کی زندگی کا ایسا نازک موڑ ہوتا ہے جس کے اچھے یا برے نتائج خود اس کو اس دنیا میں بھگتنا پڑتے ہیں اور آخرت میں تو ان پر سزا و جزا کا مرتب ہونا ایک یقینی بات ہے۔ پھر اس کے بعد اولاد کی آرزوؤں کی تکمیل کا مرحلہ پھر ان کی شادی اور شادی کے سلسلہ میں رشتہ کے انتخاب کا مرحلہ آتا ہے کہ وہ کس قسم کا رشتہ اپنے بیٹے یا بیٹی کے لیے پسند کرتا ہے اور یہ بھی ایسا مرحلہ ہوتا ہے جس کے نتائج انتہائی دور رس ہوتے ہیں اور ایسے ہی مرحلہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شخص اپنی دینداری کے دعویٰ میں کس حد تک سچا اور مخلص ہے اور اسے اللہ اور اس کے رسول سے کس قدر محبت ہے۔ مختصر یہ کہ اولاد کا فتنہ ایسا فتنہ ہے جس کے ذریعہ انسان کی ہر وقت آزمائش ہوتی رہتی ہے۔ پھر بعض دفعہ مال اور اولاد دونوں کے فتنے ایک فتنہ میں مشترک ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ بعض مسلمانوں نے محض مال اور اولاد کی خاطر مدینہ کی طرف ہجرت نہیں کی تھی۔ حالانکہ اگر وہ چاہتے تو ان میں ہجرت کرنے کی استطاعت موجود تھی۔ ان پر جائیداد اور اولاد کی محبت غالب آ گئی اور انہوں نے کافروں میں رہنا اور ذلت کی زندگی بسر کرنا گوارا کرلیا۔ ایسے مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں سخت وعید فرمائی ہے۔ الانفال
29 [٣٠] تقویٰ کے ثمرات :۔ یعنی اگر تم اس بات سے ڈرتے رہے کہ تم سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو جو اللہ کی رضا کے خلاف ہو تو اللہ تمہارے اندر ایسا نور بصیرت یا قوت تمیز پیدا کر دے گا جو زندگی کے ہر موڑ پر تمہاری رہنمائی کرے گا کہ فلاں کام اللہ کی رضا کے مطابق ہے اور فلاں اس کی مرضی کے خلاف ہے یعنی جو لوگ ایمان لانے کے بعد تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں تین قسم کے انعامات سے نوازتا ہے۔ ایک تو ان میں حق و باطل میں تمیز کرنے کی بصیرت پیدا ہوجاتی ہے۔ دوسرے ان کی برائیوں کو مٹا دیا جاتا ہے اور تیسرے ان کے اکثر و بیشتر گناہ معاف ہی کردیئے جاتے ہیں اور تقویٰ کے یہ ثمرات محض تقویٰ کی بنا پر نہیں بلکہ اس لیے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ لامحدود فضل کا مالک ہے۔ الانفال
30 [١ ٣] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قید، جلاوطن یا قتل کرنے کا مشورہ :۔ جب کچھ مسلمان ہجرت کر کے مدینہ چلے آئے تو کفار مکہ کو خطرہ لاحق ہوا کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہاں مکہ سے ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا تو پھر یہ خطرہ ہمارے قابو سے نکل جائے گا۔ لہٰذا جیسے بھی ممکن ہو اس کا علاج فوری طور پر سوچنا چاہیے۔ اس غرض کے لیے انہوں نے دارالندوہ میں میٹنگ کی اور شرکائے مجلس سے تجاویز و آراء طلب کی گئیں۔ کسی نے کہا کہ اسے پابہ زنجیر کر کے قید کردیا جائے۔ شیطان جو خود اس میٹنگ میں انسانی صورت میں حاضر ہوا تھا کہنے لگا : یہ تجویز درست نہیں۔ کیونکہ اس کے پیروکار اس کے اس قدر جانثار ہیں کہ وہ اپنی جانیں خطرہ میں ڈال کر بھی اس کو کسی نہ کسی وقت چھڑا لے جانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ دوسرے نے کہا اسے یہاں سے جلاوطن کردیا جائے۔ اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ کم از کم ہم تو ہر روز کی بک بک سے نجات پا جائیں گے۔ شیطان نے کہا یہ تجویز بھی درست نہیں۔ کیونکہ اس شخص کے کلام اور بیان میں اتنا جادو ہے کہ وہ جہاں جائے گا وہیں اس کے جانثار پیدا ہوجائیں گے۔ پھر وہ انہیں لے کر کسی وقت بھی آپ پر حملہ آور ہوسکتا ہے۔ بعد میں ابو جہل بولا کہ ہم سب قبائل میں سے ایک ایک نوجوان لے لیں اور یہ سب مل کر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یکبارگی حملہ کر کے اسے جان سے ہی ختم کردیں۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ بنو عبد مناف سب قبیلوں سے لڑائی کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ لامحالہ خون بہا پر فیصلہ ہوگا جو سب قبائل مل کر حصہ رسدی ادا کردیں گے۔ یہ رائے سن کر شیطان کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوگئی اور اس نے اس رائے کو بہت پسند کیا۔ پھر اس کام کے لیے وقت بھی اسی مجلس میں مقرر ہوگیا کہ فلاں رات یہ سب نوجوان مل کر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کرلیں اور جب باہر نکلے تو سب یکبارگی اس پر حملہ کر کے اس کا کام تمام کردیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کا فوری سبب :۔ ادھر یہ مشورے ہو رہے تھے ادھر اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اپنے نبی کو اس مجلس کی کارروائی سے مطلع کردیا اور ہجرت کی اجازت بھی دے دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کڑکتی دوپہر میں، جب لوگ عموماً آرام کر رہے ہوتے ہیں، چھپتے چھپاتے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر گئے اور انہیں بتلایا کہ ہجرت کی اجازت مل گئی ہے سیدنا ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ پہلے ہی اس موقع کے منتظر بیٹھے تھے۔ چنانچہ سیدنا ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ چھپتے چھپاتے غار ثور تک پہنچ گئے۔ (اس کی تفصیل کسی اور مقام پر آئے گی) اسی رات قاتلوں کے گروہ نے آپ کا محاصرہ کرنے کا پروگرام بنا رکھا تھا۔ وہ بروقت اپنی ڈیوٹی پر پہنچ گئے۔ جب صبح تک آپ گھر سے نہ نکلے تو پھر وہ خود اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی موجود نہیں اور جب انہیں معلوم ہوا کہ آپ جا چکے ہیں تو ان کی برہمی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ کیونکہ اللہ نے ان کی اس پورے ہاؤس کی منظور کردہ تدبیر کو بری طرح ناکام بنا دیا تھا۔ الانفال
31 [٣٢] نضر بن حارث کا قول کہ ہم بھی ایسا کلام لا سکتے ہیں :۔ یہ نضر بن حارث تھا جو روسائے قریش میں سے تھا اور فارس کی طرف تجارتی سفر کیا کرتا تھا وہ کہتا تھا کہ اس کلام کو ہم نے سن لیا ہے۔ اس میں سوائے قصے کہانیوں کے اور کیا رکھا ہے ہم چاہیں تو ایسا کلام لا سکتے ہیں۔ چنانچہ وہ فارس سے رستم و اسفند یار کے قصے اٹھا لایا اور کہنے لگا کہ قرآن میں عاد اور ثمود کے قصے ہیں اور میرے پاس رستم و اسفند یار کے قصے ہیں۔ لیکن اس کی اس بات کو اس کے ہم مشرب کافروں نے بھی تسلیم نہ کیا۔ کیونکہ جب قرآن نے ایک مرتبہ نہیں کئی مرتبہ کفار کو چیلنج کیا کہ اپنے تمام ادیبوں اور شاعروں کو اکٹھا کر کے قرآن جیسی ایک ہی سورت بنا لاؤ تو سب نے عاجزی کا اظہار کردیا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نضر بن حارث کا اپنا ادبی ذوق بھی انتہائی پست قسم کا تھا۔ قرآن کی ہدایات پر اس کی نظر پڑنا تو بڑی دور کی بات ہے۔ الانفال
32 [٣٣] ابو جہل کا مطالبہ عذاب :۔ یہ بات ابو جہل نے کہی تھی اور ازراہ طنز کہی تھی اور مسلمانوں کو سنا کر کہی تھی۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ اگر یہ مسلمان سچے ہیں تو جس قدر دکھ اور تکلیفیں ہم انہیں پہنچا رہے ہیں اس کی پاداش میں تو ہم پر اب تک آسمان سے عذاب نازل ہوجانا چاہیے تھا اور وہ عذاب چونکہ آج تک ہم پر نازل نہیں ہوا۔ لہٰذا مسلمانوں کا دین جھوٹا ہے اور یہ اللہ کی طرف سے نہیں ہو سکتا۔ ابوجہل کی اس دعا کا ایک جواب تو پہلے اسی سورۃ میں گزر چکا ہے۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے کافروں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اس (غزوہ بدر) سے پہلے تم حق اور باطل میں فیصلہ کرنے کے لیے دعائیں کرتے تھے۔ سو اب غزوہ بدر کی صورت میں میرا فیصلہ تم کو معلوم ہوچکا اور اگر تم لوگ اب بھی باز آ جاؤ تو تمہارا بھلا اسی میں ہے اور اگر اب بھی باز نہ آئے تو پھر میں تمہیں دوبارہ ایسی ہی سزا دوں گا اور دوسرا جواب اگلی آیت میں مذکور ہے۔ الانفال
33 [٣٤] عذاب سے امان کی صورتیں :۔ ابو جہل کے اس قول کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔ ١۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابو جہل نے یہ کہا تھا کہ اے اللہ! اگر یہ قرآن تیری طرف سے (نازل شدہ) سچا کلام ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا کوئی عذاب ہم پر بھیج دے۔ اس کے جواب میں اگلی آیات وَمَاکَان اللّٰہُ سے لے کر عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ تک نازل ہوئیں۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) ٢۔ ابو موسیٰ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لیے دو امان کی چیزیں اتاری ہیں۔ پھر یہ آیت پڑھی۔ پھر فرمایا کہ جب میں (دنیا سے) چلا گیا تو تمہارے لیے امن کی چیز استغفار کو قیامت تک کے لیے چھوڑ جاؤں گا۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) یعنی فوری طور پر تم پر پتھروں کا عذاب نازل نہ کرنے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ تم میں ابھی اللہ کا رسول موجود ہے۔ اس کی موجودگی میں تم پر عذاب نہیں آ سکتا۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ کا رسول اور مومنوں کی جماعت ہر وقت اللہ سے استغفار کرتے رہتے ہیں اور میرا قانون یہ ہے کہ جب تک کسی قوم میں استغفار کرنے والے لوگ موجود رہیں میں اس پر عذاب نازل نہیں کیا کرتا۔ الانفال
34 [٣٥] تولیت کعبہ کے لئے شرائط ، کفار مکہ کا بیت اللہ پر غاصبانہ قبضہ :۔ یعنی ان لوگوں کے عذاب کے مستحق ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ اگر ان پر عذاب نہیں آ رہا تو اس کی مندرجہ بالا وجوہ ہیں اور ان کے عذاب کے مستحق ہونے کی بھی دو وجہیں ہیں ایک یہ کہ انہوں نے مسلمانوں پر بیت اللہ میں داخلہ پر پابندی لگا رکھی ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ انہوں نے بیت اللہ پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اور کہتے ہیں کہ ہم اس کے متولی ہیں کیونکہ ہم سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہیں۔ حالانکہ متولی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کو بیت اللہ میں داخل ہونے سے ہی روک دے۔ نیز یہ کہ تولیت کے لیے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے ہونا کافی نہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے دین پر ہو اور وہ موحد تھے۔ مشرک نہیں تھے۔ یعنی اگر اولاد ابراہیم مشرک ہے تو اس سے تولیت چھین کر اس شخص کو دی جائے گی جو موحد اور پرہیزگار ہو خواہ وہ اولاد ابراہیم سے ہو یا نہ ہو۔ کعبہ کی تولیت کے لیے شرط اول پرہیزگاری اور اللہ کا تقویٰ ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہونا نہیں۔ الانفال
35 [٣٦] کفار مکہ کی عبادت بیت اللہ :۔ ان مشرک متولیوں کی بیت اللہ کے اندر عبادت کے بھی عجیب اطوار ہیں جو ننگے ہو کر طواف کرتے ہیں اور سیٹیاں اور تالیاں بجا کر جو اپنی تفریح طبع کا سامان کرتے ہیں۔ اس کا نام انہوں نے عبادت رکھ لیا۔ پھر اس پر دعویٰ یہ کہ اگر مسلمانوں کا دین سچا ہے تو ہم پر عذاب کیوں نازل نہیں ہوتا غالباً وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عذاب صرف آسمان سے پتھروں کی شکل میں یا خوفناک چیخ یا زبردست زلزلہ وغیرہ کی صورت میں ہی آیا کرتا ہے جو خرق عادت کے طور پر واقع ہو۔ حالانکہ غزوہ بدر میں ان کی شکست فاش اللہ کا ایسا عذاب تھا جس نے کفر اور کافروں کی کمر توڑ کے رکھ دی۔ انہوں نے جنگ پر اصرار تو محض اس توقع پر کیا تھا کہ مسلمانوں کی اس قلیل سی جماعت کو لگے ہاتھوں صفحہ ہستی سے نیست و نابود کرتے چلیں۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ یہ جنگ ہی اللہ کا عذاب بن کر ان پر مسلط ہونے والی ہے یا یہ کہ ان کی دعا کی قبولیت کا وقت اب آ چکا ہے اور تقدیر الٰہی کا فیصلہ ہمارے خلاف صادر ہونے والا ہے۔ الانفال
36 [٣٧] کفار کا مالی اور جانی نقصان پر حسرت کرنا :۔ غزوہ بدر کے دوران کافروں کے ایک ہزار لشکر کی خوراک کا خرچہ روزانہ دس اونٹ تھا۔ اور یہ صرف گوشت کا خرچہ تھا۔ دیگر سب اخراجات اس کے علاوہ تھے۔ پھر ابو سفیان کے تجارتی قافلہ کا سارے کا سارا منافع مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا گیا تھا۔ غرض اس آیت میں جو غزوہ بدر کے بعد نازل ہوئی کافروں کے حق میں ایک ایسی پیشین گوئی کی گئی جو بعد کے ادوار میں حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی۔ یعنی غزوہ بدر کے بعد بھی کافر خرچ بھی کرتے رہیں گے اور شکست کھا کر پٹتے بھی رہیں گے اور ایک وقت آئے گا جب اسلام دشمنی کی راہ میں ان کا خرچ کیا ہوا مال، خرچ کیا ہوا وقت اور اپنی جسمانی مشقتیں اور جانوں کا نقصان ایک ایک چیز ان کے لیے حسرت کا باعث بن جائے گی۔ پھر اس دنیا میں پٹنے کے علاوہ جو اخروی زندگی میں جہنم کا عذاب ہوگا وہ مستزاد ہے۔ الانفال
37 [٣٨] یعنی اسلام کے بتدریج غلبہ اور کفر کے بتدریج استیصال سے یہ فائدہ از خود حاصل ہوتا رہا ہے کہ معاندین اسلام مرکھپ جائیں گے یا قتل ہوجائیں گے اور باقی صرف وہ لوگ رہ جائیں گے۔ جن کے نصیب میں اسلام قبول کرنا ہوگا۔ اور معاندین کے اس گندے عنصر کو اللہ تعالیٰ ایک دوسرے کے اوپر رکھ کر اس سارے ملبے کو جہنم میں پھینک دے گا۔ ان لوگوں کا نقصان اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ جس راہ میں انہوں نے اپنا تمام وقت، تمام محنت، تمام قابلیت اور پورا سرمایہ زندگی کھپا دیا ہو اور آخر میں انہیں یہ معلوم ہو کہ یہ راہ تو ہمیں تباہی اور جہنم کی طرف لے آئی ہے۔ الانفال
38 [٣٩] یعنی غزوہ بدر میں شکست فاش سے دو چار ہونے کے بعد اگر اب بھی یہ کافر اپنی معاندانہ سرگرمیوں سے باز آ جائیں تو ان کی سابقہ خطائیں معاف ہو سکتی ہیں اور اگر باز نہیں آتے تو ان کا بھی وہی حشر ہوگا جو غزوہ بدر میں ان کے پیشروؤں کا ہوچکا ہے ﴿سنۃ الاولین﴾ کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کافر قوم پر بھی اسی طرح اللہ کا عذاب آئے گا۔ جس طرح سابقہ سرکش اقوام پر آتا رہا ہے۔ الانفال
39 [٤٠] فتنہ کا مفہوم اور جہاد کی ضرورت :۔ فتنہ کا لفظ بڑا وسیع المعنیٰ ہے اور یہاں اس کا مفہوم اسلام کے خلاف ہر وہ معاندانہ کوشش ہے جو اسلام کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہو۔ ایسی رکاوٹ کو راستے سے ہٹانے اور اسلام کی راہ صاف کرنے کا نام جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ اب ان معاندانہ سرگرمیوں کی بھی دو قسمیں ہیں۔ ایک یہ کہ جہاں مسلمان رہتے ہوں وہاں کے کافر انہیں شرعی احکام بجا لانے کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کردیں یا ان پر عرصہ حیات تنگ کردیں اور دوسری قسم یہ ہے کہ مسلمان اپنی جگہ تو آزاد ہوں مگر دوسروں تک اسلام کی آواز پہنچانے میں رکاوٹیں کھڑی کردی جائیں۔ اسلام ان دونوں صورتوں میں جہاد کا حکم دیتا ہے۔ آج کی زبان میں پہلی قسم کے جہاد کا نام دفاعی جنگ ہے اور دوسری قسم کے جہاد کا نام جارحانہ جنگ ہے۔ اسلام ان دونوں طرح کی جنگوں میں کوئی فرق نہیں کرتا۔ کیونکہ جہاد فی سبیل اللہ کی تعریف ہی یہ ہے کہ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا یعنی اللہ کے کلمہ کا بول بالا ہو اور یہ اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے کہ ہر طرح کی رکاوٹ یا فتنہ کا قلع قمع کردیا جائے۔ [٤١] جارحانہ جہاد کے لیے شرائط :۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ جب تک ساری دنیا مسلمان نہ ہوجائے جہاد کرتے رہو۔ ایسی جارحانہ جنگ کا کوئی جواز نہیں۔ کیونکہ اسلام لانے پر کسی کو مجبور نہیں کیا جا سکتا چہ جائیکہ بزور شمشیر اسلام لانے پر مجبور کیا جائے۔ بلکہ یہ مطلب ہے کہ کوئی ملک یا علاقہ یا قوم اسلام کی راہ میں رکاوٹ کھڑی نہ کرے اور اس کی کئی صورتیں ہیں۔ مثلاً وہ مسلمان ہوجائے یا جزیہ دینا قبول کرلے یا مسلمانوں کی حلیف بن جائے یا غیر جانبدار رہنا گوارا کرلے اور معاہد بن جائے ان صورتوں میں اس سے تعرض نہیں کیا جائے گا۔ بالفاظ دیگر اس جملہ کا یہ مطلب ہوگا کہ اسلام کی بالادستی قائم ہوجائے اور اس بالادستی کی مکمل ترین صورت یہ ہے کہ ساری دنیا مسلمان ہوجائے جیسا کہ نزول مسیح کے بعد عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں ہوگا۔ الانفال
40 [٤٢] یعنی اگر یہ لوگ اب بھی نہیں مانتے تو نہ مانیں۔ یہ تمہارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکیں گے جس طرح اللہ نے غزوہ بدر میں تمہاری سرپرستی اور مدد کی ہے۔ آئندہ بھی ان کے مقابلہ میں کرتا رہے گا۔ اور اللہ سے بڑھ کر اچھا سرپرست اور مددگار اور کون ہوسکتا ہے؟ الانفال
41 [٤٣] اللہ اور اس کے رسول کے پانچویں حصہ کی تقسیم کیسے ہوگی؟:۔ اس آیت میں اس سوال کا تفصیلی جواب دیا جا رہا ہے۔ جس سے اس سورۃ کی ابتدا ہوئی تھی۔ وہاں صرف اتنا جواب دیا گیا کہ چونکہ یہ فتح خالصتاً اللہ کی امداد کے نتیجہ میں حاصل ہوئی تھی اس لیے سب اموال زائدہ (غنیمت سمیت) اللہ اور اس کے رسول کے ہیں۔ لہذا تمہیں آپس کا نزاع فوری طور پر بند کردینا چاہیئے اور تفصیلی جواب یہ ہے کہ اموال غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول کا اور باقی ٥/٤ حصہ مجاہدین کا ہے۔ چنانچہ غنیمت کا مال پورے کا پورا ایک جگہ اکٹھا کیا گیا اور اس کا ٥/٤ حصہ جہاد میں حصہ لینے والے مجاہدین میں برابر تقسیم کردیا گیا۔ اب جو اللہ اور اس کے رسول کا پانچواں حصہ تھا اس کے پانچ مصرف بیان فرمائے۔ تاہم ان حصوں میں کمی بیشی اور تقسیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صوابدید پر چھوڑ دی گئی۔ اس میں جو اللہ کا حصہ ہے یعنی پانچویں کا پانچواں حصہ یہ جہاد کی ضرورتوں اور مساجد کی تعمیر اور دیکھ بھال پر خرچ ہوگا، اور رسول کا جو حصہ ہے وہ آپ کی گھریلو یا خانگی ضروریات کے لیے مقرر ہوا۔ کیونکہ دینی مصروفیات کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی دوسرا کام کاج نہ کرسکتے تھے۔ تیسرا حصہ آپ کے رشتہ داروں یعنی بنی ہاشم، یا بنوعبد مناف کا تھا اور ان میں سے جس کو مستحق سمجھتے تھے اور جتنا سمجھتے دے دیتے تھے یہ اس لیے کہ بنو ہاشم نے آڑے وقتوں میں اسلام کی بہت حد تک حمایت اور مدد کی تھی اور اس لیے بھی کہ ان لوگوں کے لیے زکوٰۃ کا مال لینا ممنوع قرار دیا گیا تھا اور چوتھا اور پانچواں مصرف محتاجوں اور مسافروں کی ضروریات کو پورا کرنا تھا۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں کا حصہ ختم ہوا اور باقی صرف تین مصرف رہ گئے اور بعض کا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ موجودہ امیر المومنین کو اور قرابت داروں کا حصہ خاندان نبوت کے محتاجوں کے لیے ہے۔ کیونکہ زکوٰۃ لینا ان کے لیے ممنوع ہے اور ہمارے خیال میں معاملہ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ حالات میں بہت تغیر رونما ہوچکا ہے اور اسی لحاظ سے ان مسائل میں بھی شوریٰ کے فیصلہ کے مطابق تبدیلی ہوگی۔ مثلاً دور نبو صلی اللہ علیہ وسلم ی میں صحابہ رضاکارانہ یا فرض سمجھ کر جہاد پر نکلتے، سواری اور ہتھیاروں کا اہتمام خود کرتے تھے جس کے عوض انہیں حصہ ملتا تھا مگر آج فوج کا محکمہ ہی الگ ہوتا ہے اور اس کی ابتدا دور فاروقی سے ہی ہوگئی تھی۔ یہ فوجی یا مجاہدین تنخواہ دار ہوتے ہیں۔ اسلحہ اور سواری کا اہتمام حکومت کے ذمہ ہوتا ہے۔ لہذا اب عام مسلمانوں پر جہاد فرض نہ رہا اور تنخواہ کی وجہ سے مجاہدین میں ایسی تقسیم کا قصہ بھی ختم ہوا۔ امیر کے حصہ کا بھی کیونکہ وہ خود سرکاری خزانہ کا تنخواہ دار ہوتا ہے اور فقراء وغیرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنا ویسے ہی ایک اسلامی حکومت کا فریضہ ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جنگوں کے طریق کار کا نقشہ یکسر بدل چکا ہے۔ بنو ہاشم کے لئے صدقات کی حرمت کے متعلق اجتہاد کی ضرورت :۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اموال غنیمت کی تقسیم میں ایسی تبدیلی کی وجہ سے بنو ہاشم کے محتاجوں کی امداد کا مسئلہ ختم ہوگیا اور صدقات بالخصوص زکوٰۃ ویسے ہی ان کے لیے ممنوع ہے تو بنو ہاشم کے محتاجوں کی امداد کی آج کیا صورت ہو سکتی ہے۔ بالخصوص اس صورت میں جبکہ کسی ملک میں اسلامی نظام بھی قائم نہ ہو؟ بعض علماء کے نزدیک صدقات و زکوٰۃ کی بنو ہاشم کے لیے ممانعت کی وجہ یہ تھی کہ صدقات و زکوٰۃ کی تقسیم بحیثیت قائد ملت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں تھی۔ اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقات اپنے خاندان کے لیے حرام قرار دیئے تھے۔ پھر بھی منافق لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر صدقات کی تقسیم میں الزام لگاتے رہے۔ لہٰذا آج ان صدقات کی ممانعت کا حکم مسلمانوں کے امیر اور اس کے خاندان کے لیے ہوگا۔ اسی طرح جو لوگ آج کل بنو ہاشم کی اولاد یا سید کہلاتے ہیں ان کے لیے صدقات و زکوٰۃ کی حرمت بھی ختم ہوجانی چاہیے۔ لہذا ان مسائل میں اجتہاد کرنا ضروری ہے کہ موجودہ دور میں بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب کی اولاد دنیا کے کس کس ملک میں پائی جاتی ہے اور ان کے محتاجوں کی امداد کس ذریعہ سے ممکن ہے۔ [٤٣۔ الف] غزوہ بدر یوم الفرقان کیسے تھا ؟:۔ یہ یوم الفرقان اس لحاظ سے تھا کہ اس معرکہ نے یہ فیصلہ کردیا تھا کہ حق کس فریق کے ساتھ ہے اور باطل پر کونسا فریق ہے اور یہ جمعۃ المبارک کا دن ١٧ رمضان المبارک ٢ ھ تھا اور جمعہ کا دن تھا۔ رہی یہ بات کہ اللہ تعالیٰ نے اس دن اپنے بندے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کیا نازل کیا تھا ؟ تو اس سے مراد بارش بھی ہو سکتی ہے اور فرشتے بھی اور تائید الٰہی کی دوسری صورتیں بھی جن میں اکثر کا ذکر گزر چکا ہے اور کچھ آگے مذکور ہیں اور سب چیزیں اور اسباب اس لیے پیدا ہوگئے کہ اللہ تعالیٰ ہر طرح کے ظاہری اور باطنی اسباب پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ ضمناً اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو شخص نزول ملائکہ یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ریت یا مٹی پھینکنے سے کافروں کے اندھا ہونے کو یا ایسے ہی دوسرے خوارق کو تسلیم نہیں کرتا یا ان کی تاویل کرتا ہے وہ اللہ پر پوری طرح ایمان نہیں رکھتا۔ الانفال
42 [٤٤] اس کنارے یا نزدیکی کنارے سے مراد وہ سمت ہے جو مدینہ کی طرف تھی اور پرلے کنارے سے مراد اس سے مخالف سمت ہے جو مکہ کی طرف تھی۔ [٤٥] جنگ بدر اضطراراً واقع ہوئی تھی :۔ یعنی مسلمان جب مدینہ سے نکلے تو جہاد کی غرض سے نہیں بلکہ تجارتی قافلہ پر حملہ کی غرض سے نکلے تھے۔ اسی وجہ سے غزوہ بدر سے پیچھے رہ جانے والے مسلمانوں پر کوئی مواخذہ نہیں اور کافر اس غرض سے نہیں نکلے تھے کہ جنگ لڑیں گے بلکہ اپنے قافلہ کو بچانے کی غرض سے نکلے تھے۔ اب اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ وہ قافلہ تو بچ بچا کر نکل آیا۔ اس طرح دونوں لشکروں کی آپس میں مڈ بھیڑ ہوگئی، اور یہ سب کچھ اللہ کی مشیت کے مطابق ہو رہا تھا۔ [٤٦] یعنی اگر کافر اور مسلمان آپس میں لڑائی کے لیے کوئی عہد و پیمان کرتے تو عین ممکن تھا کہ دونوں فریق یا کوئی ایک فریق وعدہ خلافی کر کے مقررہ وقت اور مقررہ جگہ پر نہ پہنچ سکتا یا پہنچنے سے راہ فرار اختیار کرجاتا اور اس طرح یہ معرکہ حق و باطل وقوع پذیر ہی نہ ہوتا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے حالات ہی ایسے پیدا کردیئے کہ یہ جنگ واقع ہو کے رہی۔ [٤٧] جنگ بدر حق وباطل میں فیصلہ کن معرکہ تھا :۔ یعنی مرنے والے کافر بھی اور زندہ رہنے والے بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ حق پر کون فریق تھا اور کس فریق کی اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی۔ یا اس کا مطلب یہ ہے کہ کافروں کا یہ انجام دیکھنے کے بعد پھر بھی جو کافر کفر پر ہی قائم رہنا چاہتا ہے۔ وہ اپنی ہی گور گردن پر رہے جو اسلام لانا چاہے تو وہ اللہ کی یہ واضح تائید دیکھ کر اسلام لائے اور اس کا اسی کو فائدہ ہوگا۔ بہرحال شرک و کفر کے باطل ہونے کا ایک جیتا جاگتا ثبوت اللہ تعالیٰ نے سب کو دکھلا دیا ہے۔ الانفال
43 [٤٨] کافروں کی تعداد تھوڑی دکھلانے کا مقصد :۔ یعنی یہ بھی اللہ تعالیٰ کی امداد ہی کی ایک صورت تھی کہ عریش میں اللہ کے حضور آہ و زاری و فتح و نصرت کی دعائیں مانگنے کے بعد جب آپ پر نیند کا غلبہ ہوا تو حالت خواب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کفار کی تعداد ان کی اصل تعداد سے کم دکھلائی گئی اور اس کا فائدہ یہ تھا کہ مسلمان کہیں کفار کی تعداد اور ان کے اسلحہ جنگ سے مرعوب ہو کر ہمت ہی نہ ہار بیٹھیں اور مشورہ کی صورت میں جنگ کرنے یا نہ کرنے کی مصلحتوں پر غور کیا جانے لگے۔ پھر اس میں اختلاف ہونے لگے۔ گویا ایسا خواب دکھلانے کا ایک مقصد تو مسلمانوں کی ہمت بندھانا تھا اور دوسرا اختلافات سے بچانا اور جنگ پر دلیر بنانا تھا۔ الانفال
44 [٤٩] آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خالی مربع کی صورت میں صف بندی :۔ یعنی تم مسلمان کافروں کی تعداد اصل تعداد سے تھوڑی سمجھ رہے تھے اور دشمن یہ سمجھتا تھا کہ مسلمان ہماری نسبت بہت تھوڑے ہیں۔ اس طرح فریقین کے حوصلے بڑھ گئے اور لڑنے کے لیے تیار ہوگئے۔ اس طرح جو کام مشیت الٰہی میں ہونا مقدر تھا۔ اس کے اسباب پیدا ہوتے گئے اور وہ بالآخر ہو کے رہا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب دونوں لشکر ابھی صف آرا نہ ہوئے تھے اور جب صف آرا ہوگئے تو اس وقت کافروں کو مسلمانوں کی تعداد ان کی اصل تعداد سے دگنی نظر آنے لگی تھی۔ جیسا سورۃ آل عمران میں مذکور ہے۔ ﴿یَّرَوْنَھُمْ مِّثْلَیْہِمْ رَاْیَ الْعَیْنِ ﴾اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک نہایت ماہرانہ جنگی تدبیر تھی کہ آپ نے صحابہ کی صف آرائی خالی مربع (Hollow Square) کی شکل میں کی تھی جس کی وجہ سے کافروں کو مسلمانوں کی تعداد فی الواقع دو گنا نظر آنے لگی تھی اور اس طرح ان کے حوصلے پست ہوجانا لازمی امر تھا۔ اور بعض علماء کا قول ہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب غزوہ بدر میں فرشتوں کا نزول ہوا تھا۔ میرے خیال میں تو یہ توجیہ درست نہیں کیونکہ فرشتے تو اکثر مسلمانوں کو بھی نظر نہیں آتے تھے۔ کافروں کو کیسے نظر آ سکتے تھے؟ الانفال
45 [٥٠] دوران جنگ اللہ تعالیٰ کو بکثرت یاد کرنا اور اسی پر بھروسہ کرنا :۔ یہاں سے آگے جنگ سے متعلق مسلمانوں کو ہدایات اور ان کی جنگی داخلی اور خارجہ پالیسی کے متعلق احکام بیان کئے جا رہے ہیں :۔ سب سے پہلی ہدایت یہ ہے کہ اگر مقابلہ پیش آ جائے تو پھر پوری دلجمعی اور ثابت قدمی سے مقابلہ پر ڈٹ جاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ دشمن سے مقابلہ کی آرزو مت کرو اور اگر مڈبھیڑ ہوجائے تو پھر پوری ہمت اور ثابت قدمی سے مقابلہ کرو۔ اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سایہ تلے ہے۔ (بخاری۔ کتاب الجہاد، باب لاتمنوالقاء العدو) اور اس دوران اللہ کو بکثرت یاد کیا کرو۔ ہر وقت اللہ کو یاد رکھنا تمہاری ثابت قدمی کا باعث بن جائے گا اور بالخصوص میدان جنگ میں بھی اپنی نمازوں کا خیال رکھو، اسی پر بھروسہ رکھو۔ یہی تمہاری کامیابی کا راز ہے۔ محض اسباب پر تکیہ نہ کرو۔ الانفال
46 [٥١] اختلاف اور جھگڑے کی ممانعت :۔ اور جو کچھ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہیں حکم دے۔ اس میں نہ اختلاف پیدا کرو اور نہ تنازعہ کی شکل بنا لو۔ اگرچہ یہ حکم عام ہے۔ تاہم دوران جنگ اس کی اہمیت کے پیش نظر اس کو بالخصوص بیان کیا گیا ہے۔ اگر تم اس دوران اختلاف کا شکار ہوگئے تو تمہاری ہمتیں پست ہوجائیں گی اور تمہاری ساکھ کو سخت دھچکا لگے گا جو بالآخر تمہاری شکست کا پیش خیمہ بن سکتا ہے اور اس دوران پیدا ہونے والی مشکلات کو برداشت کرنے اور ان پر قابو پانے کو اپنا شعار بناؤ اور یہ یاد رکھو کہ اگر ایسی مشکلات پر صبر کرو گے تو یقیناً اللہ تعالیٰ تمہاری مدد فرمائے گا۔ الانفال
47 [٥٢] لشکر کفار کا شان وشوکت کا مظاہرہ :۔ یہاں ’’ان لوگوں‘‘ سے مراد مشرکین ہیں۔ جن کا سردار ابو جہل اپنا لشکر لے کر مکہ سے بڑی دھوم دھام اور باجے گاجے کے ساتھ نکلا تھا تاکہ مسلمان انہیں دیکھ کر ہی مرعوب ہوجائیں۔ نیز دوسرے قبائل عرب پر ان کی دھاک بیٹھ جائے۔ راستہ میں اسے ابو سفیان کا یہ پیغام مل بھی گیا کہ قافلہ خطرہ سے بچ نکلا ہے لہٰذا تم واپس آ جاؤ۔ لیکن ابو جہل نے غرور سے کہا۔’’ اب ہم اس وقت تک واپس نہیں جائیں گے جب تک بدر کے چشمہ پر پہنچ کر مجلس طرب و نشاط منعقد نہ کرلیں۔ وہاں گانے بجانے والی عورتیں خوشی اور کامیابی کے گیت گائیں گی۔ ہم وہاں شراب پئیں گے۔ مزے اڑائیں گے اور تین دن تک اونٹ ذبح کر کے قبائل عرب کی ضیافت کا اہتمام کریں گے تاکہ یہ دن عرب میں ہمیشہ کے لیے یادگار رہیں اور ان مٹھی بھر مسلمانوں پر ہمارا ایسا رعب طاری ہو کہ پھر کبھی ہمارے مقابلہ کی جرأت نہ کرسکیں۔‘‘ گویا اس وقت تک ابو جہل کا ارادہ صرف اپنی شان و شوکت جتلانے اور مسلمانوں پر رعب طاری کرنے کا تھا، لڑائی کا نہ تھا۔ پھر جب مسلمان بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت وہاں پہنچ گئے اور لڑائی کی فضا بن گئی تو اس وقت بھی چند سرداروں نے ابو جہل کو لڑائی سے روکا۔ مگر پھر اس کا پندار اور غرور غالب آیا اور جن لوگوں نے اسے لڑائی روک دینے کا مشورہ دیا تھا انہیں بزدلی کے طعنے دینے لگا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کی مشیت پوری ہوگئی اور ابو جہل کو بالخصوص اس عذاب سے دوچار ہونا پڑا جس کی وہ طنزیہ دعا کیا کرتا تھا۔ اس کی موت دو نوجوان لڑکوں کے ہاتھوں واقع ہوئی اور وہ نہایت ذلت کی موت مرا۔ الانفال
48 [٥٣] جنگ بدر میں سراقہ بن مالک کا موجود ہونا اور کافروں کی حوصلہ افزائی :۔ قریش اور بنو کنانہ کی آپس میں دشمنی تھی اور انہیں یہ خطرہ تھا کہ بنو کنانہ کہیں مسلمانوں کی حمایت کر کے ہمارے لیے خطرہ یا شکست کا باعث نہ بن جائیں۔ ان کے اس خدشہ کو مٹانے کے لیے شیطان خود بنو کنانہ کے رئیس سراقہ بن مالک کی شکل میں کافروں کے لشکر میں آ موجود ہوا اور ابو جہل سے کہنے لگا کہ ہماری طرف سے تم لوگ بالکل مطمئن رہو۔ اس معاملہ میں ہم لوگ تمہاری حمایت کریں گے اور مل کر مسلمانوں کا استیصال کریں گے۔ ویسے بھی تم لوگوں کی فتح یقینی ہے۔ تمہاری اتنی بڑی جمعیت کے سامنے ان تھوڑے سے مسلمانوں کی کیا حیثیت ہے۔ پھر جب میدان کار زار گرم ہوا اور اس نے مسلمانوں کی مدد کے لیے فرشتے اترتے دیکھ لیے اور یہ اندازہ کرلیا کہ اب مشرکین کی شکست یقینی ہے تو وہاں سے کھسکنے لگا۔ اس وقت ابو جہل نے کہا : عین مشکل کے وقت اب کہاں جاتے ہو؟ کہنے لگا جو کچھ مجھے نظر آ رہا ہے وہ تم نہیں دیکھ سکتے۔ یہ کہہ کر چلتا بنا۔ اس وقت بھی شیطان لعین نے اپنے ساتھیوں کو یہ نہ بتلایا کہ جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں اس کے مطابق تمہاری ہلاکت ہونے والی ہے۔ لہٰذا تم بروقت اس کا تدارک سوچ لو۔ بلکہ انہیں دغا دے کر واپس چلا گیا۔ الانفال
49 [٥٤] مجاہدین بدر کو یہودیوں اور منافقوں کا طعنہ :۔ مدینہ کے منافق اور یہودی یہ کہتے تھے کہ یہ مسلمان اپنے دینی جوش میں دیوانے ہوگئے ہیں۔ بھلا ان کی اس مٹھی بھر بے سروسامان جماعت کا قریش جیسی زبردست طاقت سے ٹکر لینے کے لیے تیار ہوجانا دیوانگی نہیں تو کیا ہے۔ یہ لوگ پتہ نہیں کس دھوکہ میں پڑے ہوئے ہیں۔ جب کہ ہمیں تو اس معرکہ میں ان کی تباہی یقینی نظر آ رہی ہے اور سب کچھ دیکھتے بھالتے یہ لوگ اپنی موت کو دعوت دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : دیوانے مسلمان نہیں بلکہ دیوانے یہ خود ہیں جو یہ بات نہیں سمجھتے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کی مدد کرتا ہے وہ مدد کرنے پر غالب بھی ہے اور ایسے سب طریقے بھی خوب جانتا ہے۔ الانفال
50 [٥٥] ربط مضمون کے لحاظ سے تو اس کا یہی مطلب ہے کہ اس آیت میں روئے سخن ان کافروں کی طرف ہے جو غزوہ بدر میں مارے گئے تھے جیسا کہ ترجمہ میں ظاہر کیا گیا ہے۔ تاہم اس کا حکم عام ہے۔ اور سب کافروں سے ایسا معاملہ پیش آ سکتا ہے کہ ان کی موت کے وقت فرشتے ان کے چہروں اور پشتوں پر چوٹیں بھی لگائیں اور جہنم کے عذاب کی نوید بھی سنائیں اور کہیں کہ یہ سزا تمہیں تمہارے ہی شامت اعمال سے مل رہی ہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ کو تمہیں سزا دینے کا کوئی شوق نہیں۔ الانفال
51 الانفال
52 [٥٦] یعنی آل فرعون اور قوم عاد، ثمود اور نوح وغیرہ میں اور ان مشرکین مکہ میں کوئی فرق نہیں۔ انہوں نے بھی اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کیا اور نافرمانی اور سرکشی پر اتر آئے تھے اور یہ لوگ بھی وہی کچھ کر رہے ہیں۔ لہٰذا جیسے انہیں اپنے گناہوں کی پاداش میں عذاب سے دو چار ہونا پڑا تھا۔ اسی طرح انہیں بھی عذاب بدر سے دو چار ہونا پڑا اور آگے ہونا پڑے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسی سزا دینے کی پوری طاقت رکھتا ہے۔ الانفال
53 [٥٧] نیت کے فتور سے نعمت چھن جاتی ہے :۔ اس آیت کے الفاظ بڑے وسیع معنی رکھتے ہیں اور اس کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں مثلاً ایک یہ کہ ''ما '' کو کسی قوم کی خوشحالی پر محمول کیا جائے۔ اس صورت میں اس کے وہی معنی ہیں جو ترجمہ میں کئے گئے ہیں۔ البتہ مَا بِاَنْفُسِہِمْ کا معنی طرز عمل کے بجائے نیت کا فتور بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی جب تک کوئی قوم اللہ تعالیٰ کی فرمانبردار بن کر رہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے وہ نعمت نہیں چھینتا، پھر جب ان لوگوں کی نیتوں میں فتور آ گیا یا بگاڑ پیدا ہوگیا۔ تو اللہ تعالیٰ کی نعمت بھی ان سے چھین لی جاتی ہے۔ اور اگر ''ما'' کو کسی قوم کی بدحالی اور مصائب پر محمول کیا جائے تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ جو قوم بدحالی اور مصائب کا شکار ہے۔ جب تک وہ خود اپنی اس پریشانی اور بدحالی کو بدلنے کی کوشش نہ کرے گی۔ اللہ بھی انہیں اسی حال میں رہنے دیتا ہے اور اس کی بدحالی کو دور نہیں کرتا جیسا کہ حالی نے کہا ہے خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی۔۔۔۔۔ نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا الانفال
54 [ ٥٧۔ الف] یعنی ان کفار مکہ سے پہلے ہم نے آل فرعون پر اور بہت سی دوسری اقوام پر انعامات کی بارش کی تھی۔ لیکن انہوں نے ان انعامات کی ناقدری کی۔ ان کی نیتوں میں فتور آ گیا۔ اللہ کا شکر ادا کرنے اور اس کی فرمانبرداری کرنے کے بجائے وہ اس کی نافرمانی اور سرکشی پر اتر آئے تھے۔ لہٰذا ہم نے انہیں ان کے گناہوں کی پاداش میں تباہ و برباد کر ڈالا اور آل فرعون کو تو سمندر میں ڈبو کر ان کا نام و نشان تک ختم کر ڈالا۔ یہ سب قومیں نافرمان تھیں اور سب ہی ہلاک کردی گئی تھیں تو اب کیا یہ کافر اپنے انجام بد سے محفوظ رہ سکتے ہیں؟ الانفال
55 [٥٨] بدترین مخلوق کون ہے؟ :۔ بدترین اس لحاظ سے کہ انہیں عقل اور تمیز کی قوت بخشی گئی ہے جو عام جانوروں کو عطا نہیں ہوئی۔ پھر اگر یہ لوگ ان قوتوں کے باوجود حق کو سمجھنے یا دیکھنے یا سننے کی زحمت ہی گوارا نہ کریں اور نہ حق پر ایمان لانے پر آمادہ ہوں تو یہ عام جانوروں سے بدتر ٹھہرے۔ الانفال
56 [٥٩] میثاق مدینہ اور اس کی دفعات اور یہود قبائل کا اسے باری باری تسلیم کرنا :۔ انہی بدترین جانوروں میں بالخصوص وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اپنے عہد کو ہر بار توڑتے رہتے ہیں۔ یہاں ان لوگوں سے مراد مدینہ کے یہود ہیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ نے مدینہ کے یہودیوں اور دوسرے مشرک قبائل سے معاہدات کی داغ بیل ڈالی جو بعد میں میثاق مدینہ کے نام سے مشہور ہوا۔ یہود سے آپ نے جو معاہدہ کیا اس کی اہم دفعات یہ تھیں۔ ١۔ مسلمان اور یہود آپس میں امن و آشتی سے رہیں گے۔ کوئی ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی نہیں کرے گا۔ ان کے تعلقات خیر خواہی اور فائدہ رسانی کی بنیاد پر ہوں گے۔ ٢۔ اگر مدینہ پر کوئی بیرونی حملہ ہوا تو مسلمان اور یہود دونوں مل کر اس کا دفاع کریں گے اور اخراجات بھی حصہ رسدی ادا کریں گے۔ ٣۔ یہود اپنے جھگڑوں کا اپنی شریعت کے مطابق خود ہی فیصلہ کریں گے۔ ہاں اگر وہ چاہیں تو اپنے مقدمات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس فیصلہ کے لیے لا سکتے ہیں۔ اس صورت میں آپ کا کیا ہوا فیصلہ ان پر نافذ العمل ہوگا۔ ٤۔ قریش اور ان کے مددگاروں کو پناہ نہیں دی جائے گی۔ ٥۔ کوئی آدمی اپنے حلیف کی وجہ سے مجرم نہ ٹھہرے گا۔ ٦۔ اس معاہدہ کے سارے شرکاء پر مدینہ میں ہنگامہ آرائی اور کشت وخون حرام ہوگا۔ ٧۔ اس معاہدہ کے فریقوں میں اگر کوئی جھگڑا ہوجائے تو اس کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کریں گے۔ (ابن ہشام ج اول ١ : ٥٠٣، ٥٠٤) یہود کے تین قبائل مدینہ میں آباد تھے۔ تینوں نے اس معاہدہ کو باری باری تسلیم کرلیا۔ لیکن اپنی موروثی عادت کے مطابق بارہا اس معاہدہ کی خلاف ورزیاں کیں۔ انہوں نے اوس و خزرج کے درمیان دوبارہ عداوت ڈالنے کی کوششیں کیں۔ منافقوں کے ساتھ مل کر خفیہ اور معاندانہ سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ ایک مسلمان عورت بنو قینقاع کے بازار میں ایک سنار کے ہاں گئی تو اسے ان لوگوں نے ازراہ شرارت ننگا کردیا۔ جس پر فریقین میں بلوہ ہوگیا۔ غزوہ بدر کے بعد کعب بن اشرف خود مکہ گیا اور مشرکین مکہ کو مسلمانوں کے خلاف جنگ پر بھڑکایا۔ ایک دفعہ یہود نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھت سے پتھر گرا کر ہلاک کرنا چاہا۔ جنگ خیبر کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت میں بکری کا گوشت کھلانے کی کوشش کی جس میں زہر ملا ہوا تھا۔ غرض ان کی بد عہدیاں اور عہد شکنیاں اور معاندانہ سرگرمیاں اتنی زیادہ ہیں جن کا بیان یہاں ممکن نہیں۔ الانفال
57 [٦٠] یہود مدینہ کی لاف زنی اور بزدلی اور انجام :۔ یہود مسلمانوں سے معاہدہ امن و آشتی کے باوجود اپنی شرارتوں، فتنہ انگیزیوں اور عہد شکنیوں سے باز نہیں آتے تھے۔ بڑ مارنے اور شیخیاں بگھارنے میں بڑے ماہر تھے۔ مگر بزدل انتہا درجہ کے تھے غزوہ بدر کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ ان کے بازار واقع محلہ بنو قینقاع میں تشریف لے گئے اور یہود کو جمع کر کے انہیں ان کی ایسی شر انگیز حرکتوں پر عار دلائی اور فرمایا کہ ایسے کاموں سے باز آ جاؤ اور اسلام قبول کرلو تو تمہارے حق میں بہتر رہے گا۔ ورنہ تمہیں بھی ایسی ہی مار پڑے گی جیسی قریش مکہ کو پڑچکی ہے۔ اس دعوت کا انہوں نے انتہائی توہین آمیز جواب دیا اور کہنے لگے۔ تمہارا سابقہ قریش کے اناڑی لوگوں سے پڑا تھا اور تم نے میدان مار لیا۔ ہم سے پالا پڑا تو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوجائے گا۔ ان کا یہ جواب دراصل معاہدہ امن کو توڑنے اور اعلان جنگ کرنے کے مترادف تھا تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر سے کام لیا۔ پھر انہی دنوں یہودیوں نے انصار کی ایک عورت کو ننگا کردیا جس پر مسلمانوں اور بنو قینقاع میں بلوہ ہوگیا۔ اب ان سے جنگ کرنے کے بغیر کوئی چارہ نہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لشکر لے کر ان کے ہاں جا پہنچے تو یہ جوانمردی کی ڈھینگیں مارنے والے اور قریش کو بزدلی کا طعنہ دینے والے یہود سامنے آنے کی جرأت ہی نہ کرسکے اور فوراً قلعہ بند ہوگئے۔ پندرہ دن تک قلعہ میں محصور رہنے کے بعد ہتھیار ڈال دیئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں قید کرنے کا حکم دیا۔ پھر عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین جس سے ان یہودیوں کی مسلمانوں کے خلاف ہمیشہ ساز باز رہی، کی پرزور سفارش پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قید معاف کردی اور جلاوطن کردیا اور یہ لوگ شام کو چلے گئے۔ اس کے بعد اسی طرح بنو نضیر جلاوطن ہوئے۔ پھر جنگ خندق کے بعد بنو قریظہ بھی قلعہ بند ہوئے جو بالآخر قتل کئے گئے اور بچے اور عورتیں غلام بنائے گئے۔ خیبر کے موقعہ پر بھی یہود قلعہ بند ہوگئے۔ غرض جب بھی لڑائی کا موقعہ پیش آیا تو ان یہود کو کھلے میدان میں مسلمانوں سے لڑنے کی کبھی جرأت ہی نہ ہوئی۔ حتیٰ کہ غزوہ احد اور غزوہ خندق کے موقعہ پر کفار کے ساتھ مل کر بھی انہیں کھلے میدان میں سامنے آنے کی جرأت ہی نہ ہوئی۔ یہ لوگ ہمیشہ سازشوں، شرارتوں، فتنہ انگیزیوں اور عہد شکنیوں سے ہی مسلمانوں کو پریشان کرتے رہے تاہم انہیں وہ سزا ملتی ہی رہی جو اس آیت میں مذکور ہے۔ الانفال
58 [٦١] معاہدہ قوم کے ساتھ اسلام کی خارجہ پالیسی، مکر و فریب کی شدید مذمت :۔ اس آیت میں مسلمانوں کو یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ کوئی بھی قوم جس سے تمہارا معاہدہ امن ہوچکا ہو، خواہ وہ تمہاری ریاست کے اندر ہو باہر ہو اور اس قوم سے تمہیں عہد شکنی یا دغا بازی کا خطرہ پیدا ہوجائے تو تم اس کے خلاف کوئی خفیہ کارروائی یا سازش نہیں کرسکتے۔ ایسی صورت میں تمہیں علی الاعلان اس قوم پر واضح کردینا چاہیے کہ اب ہمارا تمہارا معاہدہ ختم ہے تاکہ وہ کسی طرح کے دھوکہ میں نہ رہیں اور تم پر عہد شکنی کا الزام نہ آئے۔ اس کی مثال یہ واقعہ ہے کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور روم میں میعادی معاہدہ تھا، دشمن کی حرکات و سکنات دیکھ کر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی روم کی سرحد پر فوجیں جمع کرنا شروع کردیں اور اس انتظار میں رہے کہ معاہدہ کی مدت ختم ہوتے ہی روم پر حملہ کر دینگے۔ یہ صورت حال دیکھ کر سیدنا عنبسہ رضی اللہ عنہ آپ کے پاس پہنچے اور انہیں خبردار کیا کہ آپ کتاب و سنت کے احکام کے مطابق ایسا نہیں کرسکتے۔ الا یہ کہ آپ پہلے دشمن کو اپنے ارادہ سے مطلع کردیں چنانچہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے فوجیں پیچھے ہٹا لیں۔ دشمن کی بدعہدی کو اعلان جنگ سمجھا جائے :۔ البتہ اگر معاہدہ کی خلاف ورزی فریق ثانی کی طرف سے تو پھر ایسے اعلان کی ضرورت نہیں۔ فریق ثانی کی بد عہدی کو ہی اعلان جنگ سمجھا جائے گا۔ اس کی مثال یہ واقعہ ہے کہ صلح حدیبیہ کی رو سے مسلمانوں اور کفار مکہ میں میعادی معاہدہ امن ہوا۔ بنو بکر مشرکین مکہ کے حلیف تھے اور بنو خزاعہ مسلمانوں کے، قریش مکہ نے بنو بکر کی حمایت کرتے ہوئے اعلانیہ بنو خزاعہ کی خوب پٹائی کی بنوخزاعہ کے چند آدمی فریادی بن کر مدینہ پہنچے اور اس عہد شکنی کا اعتراف قریش کو بھی تھا۔ کیونکہ اس کے بعد ابو سفیان تجدید عہد کے لیے مدینہ پہنچا۔ لیکن اس کی اس درخواست کو آپ نے قبول نہیں کیا اور بالآخر قریش کی یہی عہد شکنی اور غداری مکہ پر چڑھائی اور اس کی فتح کا سبب بنی۔ الانفال
59 [ ٦١۔ الف] یعنی کافروں کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ ان کا جھوٹ، دغا، مکر و فریب، عیاری و مکاری اور ان کی سازشیں اسلام کا راستہ روکنے میں کبھی کامیاب نہ ہو سکیں گی۔ اس آیت کے مخاطب بھی یہود مدینہ اور منافقین ہیں جو ہر وقت مسلمانوں کو زیر کرنے کی تدبیر سوچتے اور ایک دوسرے کے ہمراز بنے رہتے تھے۔ الانفال
60 [٦٢] سامان حرب و فنون سپہ گری کی ترغیب :۔ یعنی مسلمانوں کو عام حالات کے علاوہ کسی غدار معاہد کے ہنگامی حملہ کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی ہر وقت جنگ کے لیے تیار رہنا چاہیے اور جہاں تک ممکن ہو اسلحہ جنگ مہیا رکھنا چاہیے۔ اس کا یہ فائدہ بھی ہوگا کہ تمہارے کھلے اور چھپے دشمن سب تم سے مرعوب رہیں گے اور اس غرض پر جتنا بھی تمہارا خرچ ہوگا سب فی سبیل اللہ شمار ہوگا، اور اس کا تمہیں اللہ تعالیٰ سے پورا پورا اجر مل جائے گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں اسلحہ جنگ میں تیر، نیزے، تلوار اور جنگی گھوڑے ہوتے تھے۔ اور دفاعی سامان میں ڈھال، زرہ اور خود وغیرہ تھے اور جنگی تربیت کے لحاظ سے پہلا نمبر تیر اندازی کا تھا۔ مسلمانوں کی جنگی ترتیب اور سامان حرب کے استعمال اور فراہمی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دلچسپیوں کا اندازہ درج ذیل احادیث سے ہوتا ہے۔ ١۔ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے برسر منبر یہ آیت پڑھی اور فرمایا کہ قوت سے مراد تیر چلانا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تین بار دہرایا اور فرمایا۔ سن لو! اللہ تعالیٰ تمہیں زمین میں فتح دے گا اور محنت سے کفایت کرے گا۔ لہٰذا کوئی بھی تم میں سے اپنے تیروں سے کھیلنے میں سستی نہ کرے (ترمذی، ابو اب التفسیر) ٢۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس نے تیر اندازی سیکھی، پھر اسے چھوڑ دیا وہ ہم سے نہیں یا اس نے نافرمانی کی۔‘‘ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الرمی والحث علیہ الخ) ٣۔ سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ اسلم کی ایک جماعت کے پاس سے گزرے وہ تیر اندازی کر رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’اے بنی اسماعیل! تیر اندازی کرو۔ بے شک تمہارے باپ بڑے تیر انداز تھے اور میں بنی فلاں کے ساتھ ہوں۔‘‘ اب دوسرے فریق نے اپنے ہاتھ روک لیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ تم تیر اندازی کیوں نہیں کرتے؟‘‘ انہوں نے کہا : ’’ہم کیسے تیر پھینکیں جبکہ آپ ان کے ساتھ ہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تیر اندازی کرو میں سب کے ساتھ ہوں۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب التحریص علی الرمی) ٤۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جو گھوڑے گھڑ دوڑ کے لیے تیار کئے گئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دوڑ حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک اور جو تیار نہیں کئے گئے تھے۔ ان کی دوڑ مسجد بنی زریق تک مقرر فرمائی اور میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے گھوڑے دوڑائے تھے۔ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ، باب ھل یقال مسجد بنی فلاں ) ٥۔ سیدۃ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک (عید کے) دن میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے حجرے کے دروازے پر دیکھا۔ اور حبشی مسجد میں اپنے ہتھیاروں سے کھیل رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چادر سے مجھے ڈھانپے ہوئے تھے اور میں بھی ان کا کھیل دیکھ رہی تھی۔ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب اصحاب الحراب فی المسجد) مگر آج تیر و تلوار کا زمانہ نہیں۔ بلکہ کلاشن کو فوں اور میزائلوں اور بموں کا زمانہ ہے۔ لہٰذا آج مسلمانوں کو ان جدید آلات سے پوری طرح آگاہ اور ان کے استعمال کرنے کی تربیت ہونی چاہیے۔ آج مسلمان اس معاملہ میں جتنی غفلت برت رہے ہیں اسی نسبت سے دوسری قوموں کے محتاج اور ان کے سامنے ذلیل ہو رہے ہیں۔ جہاد اور امریکی پالیسی :۔ آج مسلمانوں کی ایمانی حرارت سرد پڑچکی ہے۔ ان کا اللہ پر توکل اٹھ گیا ہے۔ وہ زبان سے تو ہر روز اپنی نمازوں میں سینکڑوں مرتبہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ سب سے بڑا ہے۔ مگر حقیقتاً وہ امریکہ کو سب سے بڑا سمجھتے ہیں اور امریکہ کی ناراضگی کا خوف انہیں اللہ کے خوف سے بڑھ کر ہے۔ لہٰذا وہ امریکہ سے دوستی بڑھانے میں ہی اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ حالانکہ قرآن کی صراحت کے مطابق امریکہ کبھی مسلمانوں کا دوست نہیں ہو سکتا۔ وہ اس دوستی کی آڑ میں بھی مکر و فریب سے ان مسلمانوں کا ستیا ناس ہی کرے گا۔ مسلمان ممالک کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ مادی وسائل عطا فرمائے ہیں۔ مگر ان کی سب سے بڑی بدبختی یہ ہے کہ وہ متحد نہیں ہوتے اور سب کے سب ہی امریکہ کے دست نگر اور اس کے وفادار بنے ہوئے ہیں اور اپنے مسائل کے حل کے لیے اللہ یعنی کتاب و سنت کی طرف رجوع نہیں کرتے بلکہ امریکہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اور امریکہ صرف ان ممالک سے خوش ہوتا ہے جو اپنے ملک سے جہاد کی روح کا جنازہ نکال دیں۔ جو ملک ایٹم بم بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ اس منصوبے کو بالکل ملیا میٹ کردیں۔ مجاہدین کے لیے اس نے ایک نئی اصطلاح ''دہشت گرد'' تجویز فرمائی ہے اور مسلمان ملک اس بات سے ہر وقت خائف رہتے ہیں کہ کہیں امریکہ بہادر ان کو دہشت گرد قرار نہ دے دے۔ گویا امریکہ بہادر مسلمان ممالک سے جہاد کی روح کو بھی ختم کرنا چاہتا ہے اور جنگی قوت کو بھی جس کے لیے اس آیت میں مسلمانوں کو تاکیدی حکم دیا جا رہا ہے، اور اگر مسلمان ممالک کا یہی وطیرہ رہا تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ابھی ان کی بدبختی کے دن ختم نہیں ہوئے۔ الانفال
61 [٦٣] معاہدہ کے لئے تیار رہنا چاہئے خواہ دشمن سے غداری کا خطرہ ہو کیونکہ اسلام امن پسند مذہب ہے :۔ یعنی جو قوم بھی مسلمانوں سے صلح یا معاہدہ امن کے لیے پیش قدمی یا پیشکش کرے تو مسلمانوں کو یہ نہ سوچنا چاہیے کہ ممکن ہے یہ لوگ اپنی کسی ذاتی مصلحت کے لیے یا کسی مناسب موقعہ کے انتظار کے لیے ایسا کر رہے ہیں اور جب انہیں موقعہ میسر آئے گا تو وہ مسلمانوں سے فریب اور غداری کر جائیں گے بلکہ دلیر ہو کر اور اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے ان کی اس پیش کش کو قبول کرلینا چاہیے۔ رہا ان کی نیت کا فتور تو وہ اللہ تعالیٰ کو سب کچھ معلوم ہے۔ ایسی صورت میں اللہ یقیناً ان لوگوں کی مدد کرے گا جو صلح اور امن کے لیے ہر وقت تیار رہتے اور اپنے معاہدہ کو پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ یہ آیت واضح طور پر ثابت کرتی ہے کہ اسلام امن و آشتی کا دین اور اس کا پیامبر ہے۔ الانفال
62 [٦٤] یہود جیسی غدار قوم سے معاہدہ اور اللہ کی مدد :۔ یعنی امن کا معاہدہ کرنے والے لوگ (یہود) پہلے بھی جب کبھی عہد شکنی اور غداری کے مرتکب ہوئے تو اللہ نے خود بھی آپ کی مدد فرمائی اور بظاہر مسلمانوں کے ذریعہ سے بھی آپ کو یہ تائید حاصل ہوچکی۔ آئندہ بھی اگر کوئی معاہد قوم غداری کی نیت سے آپ سے معاہدہ کرے گی تو اللہ پھر آپ کی اسی طرح مدد فرمائے گا جس طرح پہلے کرچکا ہے۔ الانفال
63 [٦٥] جانی دشمن قبائل میں الفت ومحبت اللہ کی قدرت کا کرشمہ :۔ یعنی مسلمانوں کی جماعت میں تقریباً عرب کے تمام قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد موجود تھے اور عرب میں قبائلی نظام کی وجہ سے یہ سب ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے۔ بالخصوص انصار کے قبائل اوس و خزرج کی تو یہ کیفیت تھی کہ مسلمانوں کی مدینہ میں آمد سے پہلے یہ دونوں قبیلے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے اور ایک دوسرے کا وجود ہی صفحہ ہستی سے مٹا دینے پر تلے ہوئے تھے۔ یہ محض اللہ ہی کا فضل و کرم ہے کہ صرف دو تین سال کے عرصہ میں ان کے دلوں میں ایسی محبت و الفت ڈال دی کہ آج وہ حقیقی بھائیوں سے بھی بڑھ کر ایک دوسرے کے ہمدرد بن گئے ہیں اور ایسا عظیم الشان کارنامہ محض دنیوی اسباب سے کبھی سر انجام نہیں پا سکتا تھا۔ پھر ان سب مسلمانوں کی الفتوں کا اجتماعی مرکز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات تھی اور یہ سب کچھ اللہ کی قدرت کا کرشمہ اور اس کی کمال حکمت کی دلیل ہے کہ اس نے باطل کی سرکوبی کے لیے مسلمانوں کو اس طرح متحد و متفق بنا دیا۔ (نیز دیکھئے۔ سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ١٠٣ کا حاشیہ) الانفال
64 [٦٦] اس آیت کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ آپ کو بھی کافی ہے اور ان مومنوں کو بھی جو آپ کی پیروی کرتے ہیں اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ اور مسلمانوں کی یہ جماعت جو آپ کی پیروی کرتی ہے۔ آپ کو کافی ہے۔ خواہ ان کی تعداد کتنی ہی تھوڑی کیوں نہ ہو۔ گویا یہ مطلب سابقہ آیت ﴿ہُوَ الَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ کا ہی خلاصہ ہوا۔ الانفال
65 [٦٧] جہاد کی ترغیب :۔ اس حکم پر آپ نے مسلمانوں کو جہاد کے لیے جیسے ترغیب دی وہ درج ذیل احادیث میں ملاحظہ فرمائیے۔ ١۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ایک صبح یا شام اللہ کے راستے میں نکلنا دنیا و مافیہا سے افضل ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب الجہاد، باب الغدوۃ والروحۃ، فی سبیل اللہ- مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الغدوۃ والروحۃ فی سبیل اللہ) ٢۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی مثال، اور اللہ خوب جانتا ہے کہ اس کی راہ میں جہاد کرنے والا کون ہے۔ ایسے ہے جیسے ہمیشہ کا روزہ دار اور شب زندہ دار۔ اللہ نے اپنی راہ میں جہاد کرنے والے کے لیے اس بات کی ضمانت دی ہے کہ اگر اسے موت آ گئی تو جنت میں داخل کرے گا یا پھر اسے اجر اور غنیمت کے ساتھ صحیح و سالم واپس لوٹائے گا۔‘‘ (بخاری، کتاب الجہاد، باب افضل الناس مومن مجاھد بنفسہ ومالہ) ٣۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جو شخص اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے گھوڑا پا لے اور اس کی وجہ اللہ پر ایمان اور اس کے وعدوں کی تصدیق ہو تو بلاشبہ اس گھوڑے کا کھانا پینا، لید، پیشاب قیامت کے دن اس مجاہد کے ترازو میں (بطور نیکی) رکھے جائیں گے۔‘‘ (بخاری، کتاب الجہاد من احتبس فرسا) [٦٨] ایک مسلمان کا دس کافروں پر غالب آنے کی وجہ؟:۔ یعنی لڑائی سے کفار کا مقصد قبائلی یا قومی عصبیت کے سوا کچھ نہیں۔ جبکہ مومنوں کا اپنی جان تک قربان کرنے کا مقصد اللہ کے کلمہ کی سربلندی اور بالادستی اور رضائے الٰہی کا حصول ہے۔ علاوہ ازیں وہ یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ مرنے کے ساتھ ہی وہ سیدھے جنت میں پہنچ جائیں گے جبکہ کافروں کو موت بہر صورت ناگوار ہوتی ہے اور وہ لڑائی میں اپنی جان بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ مومن جان دینے اور شہادت کا درجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی وہ ایمانی قوت ہے جس کی بنا پر ایک مومن اپنے جیسے ہم طاقت دس کافروں کے مقابلہ سے بھی جی نہیں چراتا اور نہ ہی اسے ہمت ہارنا چاہیے، بلکہ انہیں اپنے سے دس گنا کافروں پر غالب آنا چاہیے۔ الانفال
66 [٦٩] مسلمانوں میں بعد میں کمزوری کی وجہ پہلے حکم کی منسوخی نہیں بلکہ حالات ہیں :۔ اگرچہ یہ آیت اور اس سے پہلی آیت ایک ساتھ رکھی گئی ہیں۔ مگر ان دونوں کے زمانہ نزول میں کافی مدت کا فرق ہے اور انہیں صرف مضمون کی مناسبت سے اکٹھا رکھا گیا ہے۔ پہلی آیت کا زمانہ نزول تو غزوہ بدر کے بعد کا ہے۔ جبکہ اس سورۃ کا بیشتر حصہ نازل ہوچکا تھا۔ اور دوسری آیت کے زمانہ نزول کے متعلق حتمی طور پر تو کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ تاہم یہ غزوہ حنین اور اس کے مابعد کا زمانہ معلوم ہوتا ہے۔ فتح مکہ کے موقعہ پر جو لوگ مسلمان ہوئے وہ ابتدا سے اسلام لانے والوں جیسا حوصلہ نہیں رکھتے تھے اور اس ضعف کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ مسلمان ابتداءً اقلیت میں تھے اور اقلیت کو اپنی بقاء کی خاطر بھی اکثریت کے مقابلہ میں بہت زیادہ چاک و چوبند اور جرأت مند بن کر رہنا پڑتا ہے۔ دوسرے یہ کہ مہاجرین اور سابقین انصار کی جس انداز میں تربیت ہوئی تھی ان میں سے کچھ مدت کے بعد بہت سے افراد بوڑھے اور کمزور ہوگئے اور کچھ شہید ہوگئے یا وفات پا گئے اور جو لوگ نئے مسلمان ہوئے یا جو نئی پود سامنے آئی ان میں پرانے مہاجرین و انصار جیسی بصیرت، استقامت اور جرأت نہ تھی۔ مزید برآں تعداد میں کثرت سے اللہ پر توکل میں کمی واقع ہوجانا یا کثرت تعداد پر اترانے لگنا طبیعت انسان کا خاصہ ہے۔ لہٰذا ایسے لوگوں پر جب ایک آدمی کو دس آدمیوں پر غالب آ جانے کا حکم گراں گزرنے لگا تو اللہ نے اس حکم میں تخفیف کردی۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب پہلا حکم منسوخ یا ساقط العمل ہوگیا ہے۔ بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ جب ان نومسلموں کی پوری طرح تربیت ہوجائے اور ان کی ایمانی قوت پوری طرح پختہ ہوجائے تو پھر سابقہ حکم ہی نافذ العمل ہوگا۔ چنانچہ دور نبوی کی آخری جنگوں میں عملاً ایسا ہوا بھی تھا۔ ایک جنگ میں ایک ہزار مسلمانوں نے (80) اسی ہزار کافروں کا مقابلہ کیا اور جنگ مؤتہ کے موقع پر تین ہزار مسلمان ایک لاکھ کافروں کے مقابلہ میں ڈٹے رہے اور یہ نسبت ایک اور دس کی نسبت سے بھی زیادہ بنتی ہے۔ پھر خلفائے راشدین کے زمانہ میں بھی ایسی بہت سی مثالیں مل جاتی ہیں۔ البتہ اس تخفیف والی آیت سے علماء نے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ اگر کافروں کی تعداد دگنی یا اس سے کم ہو تو اس صورت میں جنگ سے فرار حرام ہے۔ ویسے بھی مسلمانوں کا تخفیف والی آیت پر ہی انحصار کرلینا ان میں صبر اور برداشت کی کمی کا باعث بن جاتا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ تخفیف کا منفی نتیجہ :۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ : جب یہ آیت نازل ہوئی کہ تمہارے بیس صابروں کو دو سو پر غالب آنا چاہیے تو یہ مسلمانوں پر گراں گزری۔ جب کہ اللہ نے مومنوں پر یہ فرض کیا کہ ایک مسلمان دس کافروں کے مقابلہ میں نہ بھاگے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں تخفیف فرما دی اور فرمایا کم از کم سو کو دو سو کے مقابلہ میں ضرور غالب آنا چاہیے۔ چنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے شمار میں کمی کردی تو اتنا ہی مسلمانوں میں صبر بھی کم ہوگیا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) الانفال
67 اس آیت کی تفسیر اگلی آیت کے ساتھ ملاحظہ کیجئے الانفال
68 [٧٠] اسارٰی بدر کے متعلق مشورہ اور اللہ کی طرف سے عتاب نازل ہونا :۔ آیت نمبر ٦٧ اور ٦٨ کے شان نزول سے متعلق مندرجہ ذیل دو احادیث ملاحظہ فرمائیے :۔ ١۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر کے بعد جب قیدی قید کرلیے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا : تمہاری ان قیدیوں کے بارے میں کیا رائے ہے؟ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی۔ اے اللہ کے نبی! یہ چچا کے بیٹے اور خاندان کے لوگ ہیں۔ میری رائے یہ ہے کہ ان سے فدیہ لیا جائے تاکہ کفار کے مقابلہ میں ہمیں قوت حاصل ہو اور شاید اللہ انہیں اسلام کی ہدایت دے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا :’’ اے ابن خطاب! تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا : ’’اے اللہ کے رسول! میری رائے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مختلف ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ آپ انہیں ہمارے حوالہ کر دیجئے تاکہ ہم ان کی گردنیں اڑائیں۔ عقیل کو علی کے حوالہ کیجئے کہ وہ اس کی گردن اڑا دیں۔ میرے حوالے فلاں کو کیجئے تاکہ میں اس کی گردن اڑا دوں۔ اس لیے کہ یہ لوگ کفر کے ستون اور سرغنے ہیں۔‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی رائے کی طرف مائل ہوئے اور میری رائے کی طرف مائل نہ ہوئے۔ دوسرے دن صبح میں کیا دیکھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بیٹھے رو رہے ہیں۔ میں نے کہا’’اللہ کے رسول! مجھے بتلائیے آپ اور آپ کے دوست کس وجہ سے رو رہے ہیں۔ تاکہ اگر مجھے رونا آئے تو روؤں اور اگر نہ آئے تو آپ کی وجہ سے رونے والی شکل ہی بنا لوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میں اس وجہ سے رو رہا ہوں جو تمہارے ساتھیوں نے قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑنے کے سلسلہ میں مجھ سے کہی تھی۔ میرے سامنے ان کا عذاب پیش کیا گیا، جو اس درخت سے بھی زیادہ قریب تھا۔ چنانچہ اللہ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ ماکان لنبی۔۔ تاآخر (مسلم، کتاب الجہاد، باب الامداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر) ٢۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بدر کے دن جنگی قیدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا : تمہاری ان قیدیوں کے بارے میں کیا رائے ہے پھر اس حدیث میں پورا قصہ ذکر کیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ان میں سے ہر ایک کو یا فدیہ دینا ہوگا یا اس کی گردن اڑا دی جائے گی۔‘‘ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا یا رسول اللہ! بجز سہیل بن بیضاء کے کیونکہ میں نے سنا ہے کہ وہ اسلام کا ذکر کرتا ہے۔ اس بات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چپ ہو رہے۔ مجھے اس دن بہت خوف لاحق ہوگیا کہ کہیں آسمان سے مجھ پر پتھر نہ برسیں۔ میں اسی خوف میں مبتلا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’بجزسہیل بن بیضاء کے‘‘ اور قرآن میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق یہ آیات نازل ہوئیں﴿ماکان لنبی﴾۔۔ تاآخر (ترمذی، ابو اب التفسیر) کیا عتاب فدیہ لینے کے فیصلہ کی وجہ سے تھا یا قتل کی بجائے قیدی بنانے کی وجہ سے؟:۔ مزید تفصیل یہ ہے کہ غزوہ بدر میں کافروں کے (70) ستر آدمی مارے گئے اور (70) ستر قید ہوئے تھے۔ قیدیوں کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ خواہ انہیں قتل کردیا جائے، یا فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے، اور اس اختیار میں مسلمانوں کی آزمائش مقصود تھی کہ وہ ان دونوں صورتوں میں سے کونسی صورت اختیار کرتے ہیں۔ اسی فیصلہ کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوریٰ بلائی اکثریت کی رائے فدیہ لے کر چھوڑ دینے کے متعلق ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی طبعی نرمی کی بنا پر اسی فیصلہ کو ترجیح دی۔ لیکن اللہ کی رضا یہ تھی کہ قیدیوں سے فدیہ لینے کی بجائے ان کو قتل کردیا جائے۔ اسی وجہ سے ان آیات میں عتاب نازل ہوا۔ جیسا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سے ظاہر ہو رہا ہے۔ کیونکہ یہ عین ممکن تھا کہ اگر کفر کے ان ستر سرغنوں کو قتل کردیا جاتا۔ تو کافروں کو دوبارہ مدینہ پر حملہ آور ہونے کی ہمت ہی نہ رہتی۔ دوسری توجیہ یہ ہے کہ عتاب اس لیے نازل نہیں ہوا تھا کہ صحابہ کی اکثریت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمیت فدیہ لینے کی رائے کو اختیار کر کے اجتہادی غلطی کی تھی۔ کیونکہ قتل یا فدیہ دونوں میں سے ایک صورت کا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے ہی اختیار دیا جا چکا تھا تو پھر فدیہ کی رائے قبول کرلینے پر عتاب کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی۔ بلکہ اس عتاب کی اصل وجہ یہ تھی کہ صحابہ نے میدان جنگ میں ہی ان قیدیوں کی اکثریت کو قتل کیوں نہ کردیا۔ گویا اس عتاب کا روئے سخن ان صحابہ کی طرف ہے جنہوں نے دنیوی مفاد کی خاطر ان کافروں کو قتل کرنے کی بجائے قید کیا تھا اور آیت کے الفاظ ﴿مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗٓ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ ﴾ سے بھی مفہوم واضح ہوتا ہے۔ فدیہ کی مقدار :۔ ان قیدیوں سے جو فدیہ لیا گیا اس کی مقدار چار ہزار درہم فی کس تھی اور ان قیدیوں میں آپ کے چچا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد ابو العاص، نوفل بن حارث اور آپ کے چچا زاد بھائی عقیل بن ابی طالب بھی شامل تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ زینب نے فدیہ میں وہ ہار بھیجا جو ان کی والدہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو شادی کے وقت جہیز میں دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب وہ ہار دیکھا تو آنکھیں نم آلود ہوگئیں۔ اور رقت آمیز لہجہ میں صحابہ سے پوچھا : اگر تم پسند کرو تو میں زینب کے قیدی کو چھوڑ دوں اور زینب کا ہار واپس کردوں۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے پوچھا کہ فدیہ کا مال بھی اموال غنائم کے مشترکہ اموال میں شمار ہوتا تھا۔ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کی اجازت دے دی۔ حالانکہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سپہ سالار بھی تھے۔ اسلامی ریاست کے سربراہ مملکت بھی اور ایسے رسول بھی جن کی غیر مشروط اور بلاچوں و چرا اطاعت سب مسلمانوں پر واجب تھی۔ لیکن جب انصاف کا معاملہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رضامندی کو لازم سمجھا۔ یہ ہے اسلامی اور غیر اسلامی اقدار کا فرق۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زر فدیہ کی وصولی میں بھی انتہائی نرمی اختیار کی جن کافروں کے پاس زر فدیہ نہیں تھا اور وہ پڑھے لکھے تھے۔ ان کا زر فدیہ یہ طے ہوا کہ وہ دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھلا دیں۔ اور بعض کافروں کو صرف اس وعدے پر بھی چھوڑ دیا گیا کہ وہ آئندہ مسلمانوں کے خلاف کسی جنگ میں حصہ نہیں لیں گے۔ الانفال
69 [٧١] فدیہ کا مال حلال وطیب ہے :۔ جب قیدیوں کو بروقت میدان جنگ میں قتل نہ کردینے اور گرفتار کر کے ان کے عوض فدیہ لینے کی بنا پر عتاب نازل ہوا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شک پیدا ہوا کہ یہ مال جو بطور فدیہ لیا گیا ہے شاید حلال و طیب نہ رہا ہو، اسی شبہ کو دور کرنے کے لیے یہ آیت نازل ہوئی۔ کیونکہ فدیہ کی رقوم بھی اموال غنائم میں شامل تھیں اور فرمایا کہ یہ مال اللہ کا عطیہ ہے اسے بطیب خاطر استعمال میں لاؤ۔ البتہ جہاد کے سلسلہ میں دنیا کے مال پر نظر رکھنا اور اسے اس قدر اہمیت نہ دینا چاہیے کہ جہاد کا بلند تر مقصد ثانوی حیثیت اختیار کر جائے۔ الانفال
70 [٧٢] سیدنا عباس کا فدیہ، اسلام لانے کی وجہ اور آپ پر اللہ کی مہربانی :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اپنا اور اپنے دونوں بھتیجوں کا فدیہ جمع کراؤ۔ انہوں نے کہا میرے پاس تو مال نہیں اور جنگ میں مجھ سے چوبیس اوقیہ چھین لیے گئے ہیں۔ یعنی زبردستی چندہ لیا گیا ہے وہی ہمارا فدیہ سمجھ لیجئے۔ ان کا خیال تھا کہ شاید مجھے کچھ دیئے بغیر ہی رشتہ داری کی بنا پر چھوڑ دیا جائے گا (آپ مالدار تھے لیکن طبعاً بخیل بھی تھے۔ کیونکہ سودی کاروبار کرتے تھے۔ چنانچہ جب سود حرام ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے عظیم اجتماع میں یہ اعلان فرمایا تھا کہ سب سے پہلے میں اپنے خاندان سے عباس بن عبدالمطلب کا سود کالعدم قرار دیتا ہوں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ اپنے چچا کی طبیعت سے واقف تھے۔ لہٰذا صحابہ سے کہہ دیا کہ انہیں فدیہ کے مال سے ایک پیسہ بھی نہ چھوڑنا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا سے مخاطب ہو کر فرمایا : تمہارا مال کہاں گیا جو تم نے اور ام الفضل نے مل کر گاڑا ہے؟ یہ ایسی بات تھی جس کا ان کے سوا کسی کو علم نہ تھا۔ جب سیدنا عباس نے یہ بات سنی تو کہنے لگے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اسلام لے آئے۔ پھر اپنا، اپنے دونوں بھتیجوں اور اپنے حلیف عتبہ بن عمر کا فدیہ ادا کردیا۔ آپ کہا کرتے تھے کہ مجھ سے بیس اوقیہ بطور فدیہ لیا گیا۔ لیکن اس کے عوض اللہ نے دنیا میں مجھے بہت زیادہ مال دیا۔ اس وقت میرے پاس بیس غلام ہیں۔ جن کی کمائی سے مجھے بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے زمزم کی تولیت بھی مجھے عطا فرمائی۔ علاوہ ازیں میں اللہ سے مغفرت کی امید بھی رکھتا ہوں۔ الانفال
71 [٧٣] جب اسلام سے مقصود دھوکا ہو تو بھی قبول کرو۔ اللہ فیصل ہوگا :۔ یعنی اگر ان جنگی قیدیوں کا اظہار اسلام سے مقصود صرف آپ کو دھوکا دینا ہو تو بھی کوئی بات نہیں آپ ان پر اعتماد کیجئے، کیونکہ اس قسم کے لوگ پہلے اللہ سے بھی بدعہدی کرچکے ہیں اور ان سے مراد بنی ہاشم کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے ابو طالب کی زندگی میں آپ کی حمایت کا عہد کیا اور اس پر اتفاق کیا تھا اور قسمیں کھائی تھیں۔ پھر انہی میں سے کچھ لوگ کافروں کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑنے آئے تو اللہ نے ان کو سزا دے دی اور وہ آپ کے قیدی بن گئے اور اگر اب بھی بدعہدی کریں گے تو بھی اللہ کی گرفت سے بچ نہیں سکتے۔ الانفال
72 [٧٤] ولی کا مفہوم۔۔ مواخات اور وراثت :۔ ولی کا لفظ عربی لغت میں بہت وسیع المعنی ہے اور اس کے معنی دوست، حمایتی، مددگار، سرپرست، وارث، پشتیبان اور قریبی رشتہ دار سب معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور اس سے مراد عموماً ایسا شخص ہوتا ہے جو کسی کی موت یا مصیبت کے وقت مدد یا دیت کی ادائیگی یا وراثت کے لحاظ سے سب سے قریب تر ہو۔ ان آیات میں دارالاسلام اور دارالحرب میں رہنے والے مسلمانوں کے باہمی تعلقات کے متعلق احکام بیان کیے جا رہے ہیں۔ جو مسلمان مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ پہنچ رہے تھے۔ ان کا ایک بنیادی مسئلہ ان کی آبادکاری اور فکر معاش کا تھا۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین و انصار کے درمیان مواخات یا بھائی چارہ کا سلسلہ قائم کیا اور بروایت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھر میں مختلف اوقات میں تین مجلسوں میں تقریباً تینتالیس مہاجرین اور انصار کو مواخات کے سلسلہ میں منسلک کردیا۔ یعنی ایک مہاجر کو ایک انصاری کے ساتھ ملا کر انہیں بھائی بھائی بنا دیا اور اس مہاجر کے مسائل اور بنیادی ضروریات کو اس انصاری کے ذمہ ڈال دیا۔ جسے انصار نے نہایت وسیع الظرفی اور خوشدلی کے ساتھ قبول کرلیا اور یہ بھائی چارہ یا ولایت اس درجہ تک بڑھی کہ اصلی وارثوں کو چھوڑ کر یہی بھائی ایک دوسرے کے ولی اور وارث ہوتے تھے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر زیر آیت ﴿وَالَّذِیْنَ عَقَدَتْ اَیْمَانُکُمْ فَاٰتُوْھُمْ نَصِیْبَھُمْ ﴾اب یہ تو ظاہر ہے کہ اس وقت دارالاسلام صرف مدینہ تھا۔ جہاں مکہ اور دیگر اطراف سے مسلمان ہجرت کر کے پہنچ رہے تھے اور مدینہ کے سوا باقی سارا عرب دارالحرب یا دارالکفر تھا۔ جبکہ مسلمان مکہ اور دیگر اطراف میں بھی موجود تھے۔ اس پس منظر میں اس سورۃ انفال کی آخری چار آیات میں دارالاسلام کے مسلمانوں کے آپس میں تعلقات بیرونی مسلمانوں سے تعلقات اور حکومتوں کے باہمی معاہدات سے احکام دیئے گئے ہیں جو پیش خدمت ہیں۔ دارالحرب اور دارالاسلام میں رہنے والے مسلمانوں کے باہمی تعلقات کی مختلف صورتیں اور اسلام کی خارجہ پالیسی :۔ ١۔ انصار اور مہاجرین جو مدینہ آ چکے ہیں۔ یہ سب مواخات کی رو سے، ایک دوسرے کے ولی بھی ہیں اور وارث بھی جیسا کہ سورۃ نساء کی آیت نمبر ٣٣ سے بھی واضح ہوتا ہے۔ ٢۔ اور جو مسلمان ہجرت کر کے مدینہ نہیں پہنچے۔ وہ نہ تمہارے ولی یا وارث ہیں اور نہ تم ان کے ولی یا وارث ہو سکتے ہو تاآنکہ وہ ہجرت کر کے تمہارے پاس نہ پہنچ جائیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک دارالحرب میں رہنے والا مسلمان دارالاسلام میں رہنے والے مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتا اور اس کے برعکس بھی۔ جیسا کہ ایک مسلمان کافر کا یا کافر مسلمان کا وارث نہیں ہو سکتا۔ ٣۔ دارالاسلام میں رہنے والے مسلمانوں یا ان کی حکومت پر دارالحرب میں رہنے والے مسلمانوں سے متعلق کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ اس حکم کے مطابق ان تمام بین الاقوامی تنازعات کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ جہاں کوئی حکومت کسی دوسری حکومت میں بسنے والی اقلیت کی ذمہ داریاں اپنے سر لیتی ہے۔ ٤۔ اگر دارالحرب میں بسنے والے مسلمانوں پر زیادتی اور ظلم روا رکھا جا رہا ہو اور وہ دارالاسلام کے مسلمانوں یا ان کی حکومت سے اس کے مقابلہ میں مدد طلب کریں تو دارالاسلام کے مسلمانوں پر ان کی مدد کرنا فرض ہوجاتا ہے۔ ٥۔ اور اگر مدد طلب کرنے والے مسلمان کسی ایسے ملک میں بستے ہوں۔ جس کا اسلامی حکومت سے معاہدہ امن و آشتی طے پا چکا ہو تو اس صورت میں مسلمانوں کی مدد کرنے کے بجائے بین الاقوامی معاہدہ کا پاس رکھنا زیادہ ضروری ہے اور مسلمانوں کی مدد مانگنے کے باوجود ان کی مدد نہیں کی جائے گی۔ ٦۔ البتہ ایسے مسلمان جو اس معاہدہ کرنے والی اسلامی حکومت کی حدود سے باہر رہتے ہیں۔ وہ اس اضافی پابندی کے ذمہ دار نہیں۔ وہ چاہیں تو ایسے مظلوم مسلمانوں کی مدد کرسکتے ہیں اور جس طرح چاہیں کرسکتے ہیں۔ معاہدہ کرنے والی اسلامی حکومت ان کے بارے میں مسؤل نہیں ہوگی۔ الانفال
73 [٧٥] مسلمانوں کے اتحاد نہ کرنے برے نتائج :۔ یعنی کافر اور مسلم میں نہ حقیقی رفاقت ہے اور نہ وہ ایک دوسرے کے وارث ہو سکتے ہیں۔ ہاں کافر کافر کا ولی بھی ہے اور وارث بھی۔ بلکہ سارے کے سارے کافر تمہاری دشمنی میں متحد ہو کر ایک بن جاتے ہیں اور جہاں بھی مسلمانوں کو پاتے ہیں ان کے درپے آزار ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح اگر مسلمان بھی ایک دوسرے کے ولی اور مددگار نہ ہوں گے یا کمزور مسلمان اپنے آپ کو آزاد مسلمانوں کے ساتھ رہنے اور ان کا ہر طرح سے ساتھ دینے کی کوشش نہ کریں گے تو بہت بڑا فتنہ رونما ہوجائے گا۔ کمزور مسلمانوں پر ناروا ظلم و زیادتی ہوگی اور ان کا مال بلکہ ایمان بھی محفوظ نہ رہے گا اور اگر اس جملے کا تعلق سابقہ تمام احکام سے جوڑا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ اگر دارالحرب میں رہنے والے مسلمان دارالاسلام میں آنے میں کوتاہی کریں یا ایسے کمزور مسلمان آزاد مسلمانوں سے مددطلب کریں اور وہ مدد کو نہ پہنچیں' یا معاہدہ کرنے والی اسلامی حکومت اپنے معاہدہ کا پاس نہ رکھتے ہوئے ان کمزور مسلمانوں کی مدد شروع کر دے تو ان سب صورتوں میں عظیم فتنہ رونما ہوجائے گا۔ ایسا فتنہ جو دارالاسلام میں بسنے والے آزاد مسلمانوں کو بھی طرح طرح کی پریشانیوں میں مبتلا کرسکتا ہے۔ الانفال
74 [٧٦] مہاجرین وانصار کی فضیلت :۔ اس لیے جس آڑے وقت میں اسلام کی سربلندی کے لیے ان مہاجرین و انصار نے اپنی جان اور مال سے قربانیاں پیش کی ہیں۔ ان کا اعزاز اور ان کے درجات یقیناً ان مسلمانوں سے بلند ہوں گے اور ہونے چاہئیں جو اس وقت ایمان لائے یا ہجرت کی یا جہاد کیا۔ جبکہ اسلام پوری طرح جڑ پکڑ چکا ہے اور اس وقت اسلام لانے میں کسی خوف و خطر کی فکر تو درکنار فائدہ ہی فائدہ نظر آ رہا تھا۔ ان دونوں قسم کے مسلمانوں میں حقیقی اور راست باز مسلمان تو وہی قرار دیئے جا سکتے ہیں جنہوں نے کئی قسم کے خطرات مول لے کر اپنے گھر اور وطن کو خیر باد کہا یا پھر وہ لوگ جنہوں نے ان خستہ حال مسلمانوں کو وہاں پہنچتے ہی اپنے گلے سے لگا لیا اور اس طرح مہاجرین و انصار دونوں نے اپنے اسلام کے دعویٰ پر اپنے عمل سے مہر تصدیق ثبت کردی۔ یقیناً یہی لوگ زیادہ اجر و ثواب کے مستحق ہیں۔ الانفال
75 [٧٧] یعنی ان بعد والوں میں اسلام لانے، ہجرت کرنے اور جہاد میں شامل ہونے والوں کے قانونی حقوق بالکل وہی ہوں گے جو ﴿وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ﴾ کے ہیں۔ کیونکہ اب یہ سب ایک برادری میں منسلک ہوچکے ہیں۔ تقدیم و تاخیر کی وجہ سے ان کے فرائض و حقوق میں کوئی فرق نہ ہوگا۔ معاہدات میں وہ برابر کے شریک ہوں گے۔ صلح و جنگ اور وراثت وغیرہ کے احکام میں کوئی فرق نہ ہوگا۔ [٧٨] مواخات کی بنا پر احکام وراثت کا منسوخ ہونا :۔ اس جملہ کی رو سے نیز سورۃ نساء کی آیت نمبر ٣٣ کی رو سے وراثت کے اصل حقدار قریبی رشتہ دار ہی قرار پائے اور مہاجرین و انصار مواخات کی بنا پر جو ایک دوسرے کے وارث بن جاتے تھے۔ وہ حکم منسوخ ہوا اس لیے کہ اب مہاجرین کی معاشی حالت بہت بہتر ہوچکی تھی۔ البتہ ایسے بھائیوں کے لیے وصیت، حسن سلوک اور مروت اور دینی بھائی چارہ کی ہدایات بدستور برقرار ہیں، اور وراثت کے احکام میں یہ تبدیلی اس لیے ہوئی کہ اللہ مسلمانوں کے حالات سے پوری طرح باخبر ہے۔ الانفال
1 [١] سورۃ توبہ کے آغاز میں بسم اللہ نہ لکھنے کی وجہ :۔ سورۃ توبہ کا نام سورۃ برأت بھی ہے جو اس سورۃ کا ابتدائی لفظ ہے۔ یہ سورۃ برأت، سورۃ انفال کے بہت بعد یعنی ٩ ہجری میں نازل ہوئی لیکن چونکہ ان دونوں کے مضامین آپس میں بہت حد تک ملتے جلتے ہیں اور یہ سب مضامین کافروں، مشرکوں سے جنگ، معاہدات، صلح اور اسلام کی سربلندی سے متعلق ہدایات و احکام پر مشتمل ہیں لہٰذا ان کو یکجا کردیا گیا ہے اور ان کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی جاتی۔ جو کہ دو سورتوں کی الگ الگ ہونے کی علامت ہے۔ نہ ہی اس سورۃ کی ابتدا میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نازل ہوئی۔ نہ ہی کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی تھی اور وہی دستور آج تک مصاحف کی کتابت میں ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ [٢] مشرکین سے اعلان براءت :۔ رمضان ٨ ہجری میں مکہ فتح ہوگیا تو مسلمانوں پر سے وہ پابندیاں از خود اٹھ گئیں جو مشرکین مکہ نے مسلمانوں کے بیت اللہ شریف میں داخلہ، عبادات، طواف اور حج و عمرہ پر لگا رکھی تھیں۔ ٨ ہجری میں تو مسلمان حج کر ہی نہ سکے۔ کیونکہ فتح مکہ کے بعد غزوہ حنین اور طائف سے واپس مدینہ پہنچنے تک اتنا وقت نہ رہا تھا کہ مسلمان حج کے لیے مدینہ سے آتے۔ ٩ ہجری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حج کے لیے بھیجا اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اس قافلہ حج کا امیر مقرر کردیا۔ ابھی تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے مشرکوں کے داخلہ پر کوئی پابندی عائد نہ کی گئی تھی۔ لہٰذا اس حج میں مشرکین بھی شریک تھے۔ مسلمانوں نے اپنے طریقہ پر حج ادا کیا اور مشرکین نے اپنے طریقہ پر۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی روانگی کے بعد اس سورۃ کی یہ ابتدائی آیات نازل ہوئیں۔ جن کی بنا پر مشرکین سے صرف بیت اللہ شریف میں داخلہ پر ہی پابندی نہ لگائی گئی بلکہ ان سے مکمل برأت کا اعلان کیا گیا۔ اس اعلان کی اہمیت کے پیش نظر آپ نے یہ بہتر سمجھا یا مدینہ میں موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے آپ کو یہ مشورہ دیا کہ یہ اعلان آپ کے کسی قریبی رشتہ دار کی طرف سے ہونا چاہیے جو مشرکوں کی نگاہ میں آپ ہی کے قائم مقام سمجھا جا سکے چنانچہ ان آیات کے نزول کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھی بھیج دیا کہ وہ حج کے اجتماع عظیم میں ان آیات کا اعلان کردیں جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے :۔ ١۔ کعبہ کا ننگے طواف کرنا :۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس حج میں سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دسویں تاریخ کو دوسرے منادی کرنے والوں کے ساتھ مجھے بھی بھیجا تاکہ یہ منادی کریں کہ ’’اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ ہی کوئی ننگا ہو کر طواف کرے۔‘‘ حمید بن عبدالرحمن (ایک راوی) کہتے ہیں کہ (ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو روانہ کرنے کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیچھے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھی روانہ کیا اور انہیں بھی حکم دیا کہ سورۃ برأت (کافروں کو) سنا دیں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بھی ہمارے ساتھ منیٰ میں برأت کی منادی کی اور کہا کہ’’اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کو نہ آئے اور نہ کوئی ننگا ہو کر بیت اللہ کا طواف کرے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) ٢۔ اعلان برا ءت کی چار دفعات :۔ زید بن یثیَعْ کہتے ہیں کہ ہم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ حج میں تمہیں کیا پیغام دے کر بھیجا گیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ چار باتیں۔ ایک یہ کہ کوئی شخص ننگا ہو کر بیت اللہ کا طواف نہ کرے۔ دوسرے جس کافر کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معاہدہ صلح ہے وہ مدت مقررہ تک بحال رہے گا۔ اور تیسرے جن کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ان کے لیے چار ماہ کی مدت ہے یا تو وہ اسلام لے آئیں اور وہ جنت میں داخل ہوں گے یا پھر یہاں سے چلے جائیں اور چوتھے یہ کہ اس سال کے بعد مشرک اور مسلمان (حج میں) جمع نہ ہوں گے۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) ٣۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حج اکبر کے دن کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’قربانی کا دن‘‘ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) صاف دل سے معاہدہ کرنے والے مشرک قبائل کو رعایت :۔ چنانچہ دس ذی الحجہ کو حج اکبر یعنی یوم نحر کے دن یہ اعلان پہلے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے منیٰ کے مقام پر کیا۔ پھر اس کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کیا اور اس کی اہم دفعات چار تھیں۔ (١) آئندہ کبھی کوئی شخص ننگا ہو کر طواف نہ کرسکے گا۔ ایسی فحاشی کعبہ کے اندر کسی صورت پر برداشت نہیں کی جا سکتی۔ جبکہ مشرک ننگا ہو کر طواف کرنے کو اپنے خیال کے مطابق بہتر سمجھتے اور کہتے کہ اس میں زیادہ انکساری پائی جاتی ہے۔ (٢) مشرکین کا کعبہ کا متولی ہونا تو درکنار، وہ اس سال کے بعد کعبہ کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتے۔ جیسا کہ اسی سورۃ کی آیت نمبر ٢٨ میں اس کی وضاحت موجود ہے (٣) جن مشرکوں سے مسلمانوں کا کوئی معاہدہ صلح نہیں انہیں چار ماہ کی مدت دی جاتی ہے۔ اس مدت میں وہ خوب سمجھ لیں کہ وہ مسلمانوں سے جنگ کو تیار ہیں یا یہ ملک چھوڑ کر نکل جانا چاہتے ہیں یا اسلام لانا چاہتے ہیں اور اگر وہ اسلام لے آئیں تو وہ بھی ان شاء اللہ جنت میں داخل ہوں گے اس دفعہ میں وہ مشرک قبائل بھی شامل ہیں جو صلح کا معاہدہ تو کرلیتے تھے مگر صلح کی شرائط ہی ایسی طے کرتے تھے کہ ان کے لیے فتنہ اور نقض عہد کی گنجائش باقی رہے یعنی ایسے قبائل جن کی طرف سے مسلمانوں کو عہد شکنی یا فتنہ انگیزی کا خطرہ تھا ان کا ایسا عہد بھی اس اعلان کے ذریعہ ختم کردیا گیا۔ جیسا کہ سورۃ انفال کی آیت نمبر ٥٨ میں حکم دیا گیا ہے۔ (٤) اور جن مشرک قبائل نے صدق دل سے مسلمانوں سے معاہدہ امن کر رکھا ہے انہوں نے نہ کبھی بدعہدی کی ہے اور نہ ہی مسلمانوں کو ان کی طرف سے کچھ خطرہ ہے۔ ایسے مشرک قبائل کو معاہدہ کے اختتام تک مہلت دی گئی۔ اس کے بعد ان کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوگا جو دوسرے مشرک قبائل کے ساتھ ہوگا اور ایسے صاف نیت قبائل صرف تین تھے : بنو خزاعہ، بنو کنانہ اور بنو ضمرہ۔ جنہوں نے نہ خود عہد شکنی کی تھی اور نہ ہی علی الاعلان یا درپردہ مسلمانوں کے خلاف کسی دوسرے کی حمایت کی تھی۔ التوبہ
2 التوبہ
3 [٣] جزیرۃ العرب کی شرک اور مشرکوں سے تطہیر :۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو اس جزیرۃ العرب کی مشرکین سے تطہیر مطلوب ہے اور تمہاری کوئی بھی کوشش اللہ تعالیٰ کے اس ارادہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ گویا اس اعلان سے صرف بیت اللہ ہی کو شرک کی نجاست سے بچانا مقصود نہ تھا بلکہ پورے جزیرہ عرب کو ان ناپاک مشرکوں سے پاک کرنا مقصود تھا۔ التوبہ
4 التوبہ
5 [٤] یہاں حرمت والے مہینوں سے مراد ١٠ ذی الحجہ ٩ ہجری سے لے کر ١٠ ربیع الثانی ١٠ ہجری تک چار ماہ کی مدت ہے جو مشرکوں کو سوچ بچار کے لیے دی گئی تھی۔ یہاں حرمت والے مہینوں سے مراد ذیقعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب نہیں ہیں جو دور جاہلیت میں بھی حرمت والے سمجھے جاتے تھے اور اسلام نے بھی ان کی حرمت کو بحال رکھا ہے۔ [٥] مشرکوں سے جنگ نہ کرنے کی شرائط :۔ درج ذیل حدیث اس کی مزید وضاحت کر رہی ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک لوگوں سے جنگ کروں جب تک وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی نہ دیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ پھر جب وہ یہ کام کریں تو انہوں نے مجھ سے اپنی جانیں اور اپنے مال محفوظ کرلیے سوائے اسلام کے حق کے اور ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب فان، تابوا۔۔ مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب الامر بقتال الناس حتی۔۔) یعنی ان مشرکوں کو محض اسلام لانے کا اعلان یا توبہ کرنا ہی کافی نہیں بلکہ انہیں اپنے دعویٰ کو درست ثابت کرنے کے لیے نماز کا قیام اور زکوٰۃ کی ادائیگی بھی ضروری ہے۔ اور اگر کوئی مشرک ظاہری طور پر یہ تینوں شرائط پوری کر دے تو اس سے تعرض نہیں کیا جائے گا خواہ اس کی نیت میں فتور بدستور موجود ہو۔ اور اگر ایسی صورت ہو تو اللہ اس سے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ایسے لوگوں سے نمٹ لے گا۔ اس آیت سے یہ اصول مستنبط ہوتا ہے کہ کوئی مسلمان خواہ وہ موروثی مسلمان ہو یا نو مسلم ہو اگر وہ نماز قائم کرتا اور زکوٰۃ ادا کرتا ہے تو ایک اسلامی حکومت میں اسے حقوق شہریت مل سکتے ہیں اور اگر نہیں کرتا تو اسے مسلمانوں جیسے حقوق نہیں مل سکتے۔ مرتدین اور بالفعل زکوٰۃ نہ دینے والوں سے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا جہاد :۔ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس اعلان کے بعد مشرکوں نے صرف تیسری راہ اختیار کی یعنی وہ اسلام لے آئے۔ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پھر ایسے مشرکوں نے سر اٹھایا۔ کچھ تو سرے سے اسلام سے ہی مرتد ہوگئے اور کچھ ایسے تھے جنہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا تھا۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایسے لوگوں کے بارے میں جنگ کرنے سے متعلق مجلس شوریٰ طلب کی۔ اور ایسے نازک حالات میں ان مانعین زکوٰۃ کے خلاف جہاد کرنے کے متعلق مشورہ کیا۔ اس مجلس میں اکثر صحابہ نے حالات کی نزاکت کے پیش نظر ان سے فی الحال تعرض نہ کرنے کا مشورہ دیا اور بعض نے یہ کہا کہ آپ ایسے لوگوں سے کیسے جنگ کرسکتے ہیں جو کلمہ شہادت پڑھ کر اسلام میں داخل ہوچکے ہیں تو سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اسی آیت سے استدلال کر کے شوریٰ پر ثابت کردیا کہ اسلام کے دعویٰ کی صداقت کے لیے جیسے نماز کی ادائیگی شرط ہے ویسے ہی زکوٰۃ کی ادائیگی بھی شرط ہے چنانچہ شوریٰ کو اس بات کا قائل ہونا پڑا اور آپ نے ان مانعین زکوٰۃ سے کفار و مشرکین کی طرح جہاد کیا۔ التوبہ
6 [٦] مشرک کو امان مانگنے پر امان دینا اور اسلام سمجھانا چاہئے :۔ یعنی اگر کوئی مشرک اس چار ماہ کی معینہ مدت کے اندر یا بعد میں پکڑ دھکڑ کے دوران یہ درخواست کرے کہ مجھے اسلام کی تعلیم پوری طرح سمجھا دو۔ تو اس کی اس درخواست کو رد نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسے اپنے ہاں پناہ دو تاکہ دوسرا کوئی مسلمان بھی اس سے تعرض نہ کرے۔ پھر اسے اسلام کے اصول و ارکان اور اس کے حقائق پوری طرح سمجھا دو۔ پھر بھی اگر وہ اسلام نہیں لاتا اور معاندانہ روش اختیار کرتا ہے تو وہیں اسے قتل نہ کردو بلکہ اسے اس کی حفاظت کے مقام پر پہنچا دو۔ پھر اس کے بعد تم اس سے وہی سلوک کرسکتے ہو جو دوسرے مشرکوں سے کرنا چاہیے۔ یہ رعایت اس لیے دی گئی کہ کسی مشرک کے لیے اتمام حجت کا عذر باقی نہ رہے۔ پناہ یا امان بھی دراصل ایفائے عہد ہی کی ایک قسم ہے جس میں پناہ لینے والے کو یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ پناہ دینے والا اس کی جان و مال کی دشمنوں سے حفاظت کی ذمہ داری لیتا ہے۔ اور وہ خود بھی اسے کسی قسم کا نقصان نہ پہنچائے گا۔ مسلمانوں کا اس قسم کا ایفائے عہد یا امان کی پاسداری اس قدر زبان زد تھی کہ دشمن نے بعض دفعہ مسلمانوں کی کسی واقعہ سے لاعلمی سے فائدہ اٹھا کر امان حاصل کی اور عظیم فائدے حاصل کیے اور مسلمان جو پناہ دے چکے تھے۔ یہ جاننے کے باوجود کہ یہ امان مکر و فریب سے حاصل کی گئی ہے اپنا نقصان اٹھا کر بھی اس عہد کو پورا کیا۔ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اگر صرف ایک مسلمان خواہ وہ آزاد ہو یا غلام یا عورت ہو کسی کو پناہ دے دے تو وہ تمام مسلمانوں کی طرف سے امان سمجھی جائے گی۔ چنانچہ خوزستان (ایران) کی فتوحات کے سلسلہ میں ایک مقام شابور کا مسلمانوں نے محاصرہ کیا ہوا تھا۔ ایک دن شہر والوں نے خود شہر پناہ کے دروازے کھول دیئے اور نہایت اطمینان سے اپنے کام کاج میں لگ گئے۔ مسلمانوں کو اس بات پر بڑی حیرت ہوئی۔ سبب پوچھا تو شہر والوں نے کہا کہ تم ہم کو جزیہ کی شرط پر ایمان دے چکے ہو۔ اب کیا جھگڑا رہا (واضح رہے کہ جزیہ کی شرط پر امان کا اصل وقت جنگ شروع ہونے سے پہلے ہے۔ دوران جنگ یا فتح کے بعد نہیں) سب کو حیرت تھی کہ امان کس نے دی۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ ایک غلام نے لوگوں سے چھپا کر امن کا رقعہ لکھ دیا ہے۔ ابو موسیٰ اسلامی سپہ سالار نے کہا کہ ایک غلام کی امان حجت نہیں ہو سکتی۔ شہر والے کہتے تھے کہ ہم آزاد غلام نہیں جانتے۔ آخر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خط لکھا گیا۔ آپ نے جواب میں لکھا کہ ’’مسلمانوں کا غلام بھی مسلمان ہے اور جس کو اس نے امان دی تمام مسلمان امان دے چکے۔‘‘ (الفاروق ص ٢٣١) اور عورت کی امان کے سلسلہ میں درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے :۔ فتح مکہ کے موقعہ پر ام ہانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئیں۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پس پردہ غسل فرما رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ’’کون ہے؟‘‘ ام ہانی کہنے لگیں ’’میں ام ہانی ہوں‘‘ پھر ام ہانی نے عرض کیا ’’اے اللہ کے رسول! میری ماں کے لڑکے (علیص) یہ کہتے ہیں کہ وہ ہبیرہ (ام ہانی کے خاوند کا نام) کے لڑکے کو قتل کردیں گے جبکہ میں اسے پناہ دے چکی ہوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''ام ہانی! جس کو تم نے پناہ دی ہم نے بھی اس کو پناہ دی۔'' (بخاری کتاب الغسل۔ باب التستر فی الغسل) مسلمانوں کی اس راستبازی اور ایفائے عہدکی بنا پر دشمن دھوکا دے کر بھی امان حاصل کرلیتے تھے۔ چنانچہ عراق و ایران کی جنگوں میں خارق کے مقام پر سیدنا ابو عبیدہ ابن الجراح اور ایرانیوں کے سپہ سالار جاپان کی افواج کا مقابلہ ہوا۔ جاپان شکست کھا کر گرفتار ہوگیا۔ مگر جس مجاہد نے اسے گرفتار کیا تھا وہ اسے پہچانتا نہیں تھا۔ جاپان نے اس کی لاعلمی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے عوض دو نوجوان غلام دینے کا وعدہ کر کے امان لے لی۔ اتنے میں کسی دوسرے نے اسے پہچان لیا اور پکڑ کر ابو عبیدہ کے پاس لے گئے۔ سیدنا ابو عبیدہ نے یہ صورت حال دیکھ کر فرمایا: اگرچہ ایسے دشمن کو چھوڑ دینا ہمارے حق میں بہت مضر ثابت ہوگا مگر ایک مسلمان اسے پناہ دے چکا ہے اس لیے بدعہدی جائز نہیں چنانچہ اس امان کی بنا پر اسے چھوڑ دیا گیا۔ (تاریخ اسلام۔ حمید الدین ص ١٣٢) اب اس کے مقابلہ میں عیسائی دنیا کی صلیبی جنگوں میں امان، کا قصہ بھی سن لیجئے۔ پہلی صلیبی جنگ کے بعد طرابلس کے مسلمان بادشاہ نے کاؤنٹ بوہیمانڈ کو پیغام بھیجا کہ وہ معاہدہ کرنے کو تیار ہے اور ساتھ ہی دس گھوڑے اور سونا بھی خیر سگالی کے طور پر بھیجا اور یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا تھا جب کاؤنٹ امان دے چکنے کے بعد پورے شہر کے زن و مرد کو موت کی گھاٹ اتار رہا تھا۔ بوہیمانڈ نے ترجمان کے ذریعہ مسلمان امیروں کو بتایا کہ اگر وہ صدر دروازے کے اوپر والے محل میں پناہ لے لیں تو ان کو، ان کی بیویوں اور ان کے بچوں کو پناہ دے دی جائے گی اور ان کا مال واپس کردیا جائے گا۔ شہر کا ایک کونا بھی مسلمانوں کی لاشوں سے خالی نہ تھا اور چلنا پھرنا دشوار ہوگیا تھا بوہیمانڈ نے جن کو پناہ دی تھی ان کا سونا چاندی اور زیورات ان سے لے لیے اور ان میں سے بعض کو تو مروا دیا اور باقی ماندہ کو انطاکیہ میں غلام بنا کر بیچ ڈالا گیا۔ (پہلی صلیبی جنگ ص ٤٥ بحوالہ جہاد از بریگیڈیئر گلزار احمد ص ٢٦٧) التوبہ
7 [٧] صلح حدیبیہ اور حلیف قبائل :۔ ان سے مراد وہ تین مشرک قبائل ہیں بنو خزاعہ، بنو کنانہ اور بنو ضمرہ۔ جو صلح حدیبیہ کے وقت مسلمانوں کے حلیف بنے تھے۔ اور جب اعلان برأت ہوا تو ان سے معاہدہ کی میعاد میں ابھی نو مہینے باقی تھے۔ اس سورۃ کی آیت نمبر ٤ کے مطابق اس مدت میں ان سے تعرض نہیں کیا گیا۔ نیز اس آیت کی رو سے اس بات کی بھی اجازت دے دی گئی کہ کوئی مشرک جب تک اپنے معاہدہ پر قائم رہتا ہے اس وقت تو تمہیں بہرحال قائم رہنا چاہیے اور اگر وہ اپنا عہد توڑتا ہے تو اس وقت تمہیں بھی مخالفانہ کارروائی کرنے کی اجازت ہے۔ بالفاظ دیگر معاہدہ کی خلاف ورزی کی ابتداء تمہاری طرف سے بہرصورت نہیں ہونی چاہیے اور اس کی مثال معاہدہ یا صلح حدیبیہ ہے جس کی رو سے طے پایا تھا کہ آئندہ مسلمان اور قریش مکہ آپس میں دس سال تک جنگ نہیں کریں گے اور جو قبائل مسلمانوں کے حلیف ہیں قریش ان پر بھی کوئی زیادتی نہ کریں گے اور جوقریش کے حلیف ہیں ان پر مسلمان کوئی زیادتی نہ کریں گے۔ اسی معاہدہ کی رو سے بنو خزاعہ تو مسلمانوں کے حلیف بنے اور بنو بکر قریش کے۔ اور بنو خزاعہ اور بنو بکر کی آپس میں لگتی تھی۔ صلح حدیبیہ کو ابھی سال کا عرصہ بھی نہ گزرا تھا کہ بنو خزاعہ اور بنو بکر کی آپس میں لڑائی ہوگئی اور قریش نے معاہدہ حدیبیہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بنو بکر کو ہتھیار بھی مہیا کیے اور کھل کر ان کا ساتھ بھی دیا۔ اور بنو خزاعہ کی خوب پٹائی کی۔ بنو خزاعہ کا ایک وفد عمر و بن سالم کی سر کردگی میں مدینہ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فریاد کی اور کہا کہ قریش نے عہد توڑ ڈالا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اچھا میں اب تمہاری مدد کرنے میں حق بجانب ہوں گا۔ قریش کی عہد شکنی دراصل مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ تھا۔ تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے سامنے تین شرطیں پیش کیں کہ ان میں سے کوئی ایک قبول کرلی جائے۔ ١۔ بنو خزاعہ کے مقتولین کا خون بہا ادا کیا جائے۔ ٢۔ قریش بنو بکر کی حمایت سے دستبردار ہوجائیں۔ ٣۔ اعلان کیا جائے کہ حدیبیہ کا معاہدہ ختم ہوگیا۔ قاصد نے جب یہ شرائط قریش کے سامنے پیش کیں تو ان کا نوجوان طبقہ فوراً بھڑک اٹھا اور ان میں سے ایک شخص فرط بن عامر نے قریش کی طرف سے اعلان کردیا کہ صرف تیسری شرط منظور ہے۔ جب قاصد واپس چلا گیا تو ان لوگوں کے ہوش ٹھکانے آ گئے اور ابو سفیان کو تجدید معاہدہ کے لیے مدینہ بھیجا گیا۔ ابو سفیان نے مدینہ پہنچ کر تجدید معاہدہ کی درخواست کی جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہ دیا۔ پھر علی الترتیب سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ حتیٰ کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا تک سفارش کے لیے التجا کی۔ لیکن جب سب نے جواب دے دیا تو مسجد نبوی میں کھڑے ہو کر اس نے یک طرفہ ہی اعلان کردیا کہ میں نے معاہدہ حدیبیہ کی تجدید کردی۔ لیکن اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش کردہ شرائط میں سے کسی کا جواب نہیں دیا تھا۔ لہٰذا اب اصلاح کی کوئی گنجائش نہ رہی تھی اور قریش کی یہی بدعہدی بالآخر مکہ پر چڑھائی کا سبب بن گئی۔ قریش اور بنو بکر کی بدعہدی مکہ پر مسلمانوں کی چڑھائی :۔ ایفائے عہد اسلام کی بنیادی تعلیمات سے ہے اور بدعہدی ایک کبیرہ گناہ ہے جسے احادیث میں منافق کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ یہ عہد خواہ اللہ سے ہو یا کسی بندے سے، لین دین سے تعلق رکھتا ہو یا نکاح و طلاق سے یا صلح و جنگ سے۔ ایک شخص کا دوسرے سے ہو یا کسی قوم سے ہو یا کسی قوم کا دوسری قوم سے ہو بہرحال اسے پورا کرنا واجب ہے خواہ اس سے کتناہی نقصان پہنچ جانے کا خطرہ ہو۔ اس سورۃ میں چونکہ صلح و جنگ سے متعلق ہی قوانین بیان کیے جا رہے ہیں لہٰذا ہم یہی پہلو سامنے رکھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمن زندگی بھر بدعہدی اور غداری کرتے رہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوابی کارروائی کے طور پر کبھی بھی نقض عہد کو برداشت نہیں کیا۔ یہود کی بدعہدی تو زبان زد ہے انہوں نے میثاق مدینہ کی ہر ہر بار خلاف ورزی کی اور ان کی غداریوں اور بدعہدیوں کا کئی مقام پر ذکر ہوچکا ہے۔ دوسرے قبائل نے بھی بدعہدی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ صلح حدیبیہ کے بعد قریش مکہ نے بنو بکر کی حمایت کر کے معاہدہ حدیبیہ کی صریح خلاف ورزی کی۔ بنو ثعلبہ نے تبلیغ اسلام کی خاطر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دس آدمی طلب کیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوٹی کے دس عالمان دین ان کے ساتھ روانہ کردیئے اور انہوں نے غداری سے انہیں شہید کردیا۔ یہی کام بنو عکل و قارہ نے کیا انہوں نے تبلیغ اسلام کے نام پر دس عالمان دین کو غداری سے شہید کردیا اور بئر معونہ کا واقعہ تو بڑا ہی دردناک ہے جس میں ستر ممتاز قاری اور عالمان دین کے مقابلہ میں قبیلہ رعل و ذکوان کی جمعیت لا کر انہیں شہید کردیا۔ جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انتہائی صدمہ ہوا۔ علاوہ ازیں اس واقعہ کے بعد دشمن قبائل کے مسلمانوں کے خلاف حوصلے اور بھی بڑھ گئے اور تھوڑی مدت تک اسلام دشمن قومیں اور قبائل جنگ احزاب کی شکل میں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے۔ اب ان کے مقابلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایفائے عہد کے واقعات بھی سن لیجئے کہ کیسے نازک موقعوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض ایفائے عہد کی خاطر اپنے ہر طرح کے مفادات کو قربان کردیا :۔ ١۔ سیدنا حذیفہ بن یمان اور ان کے والد یمان، جن کی کنیت ابو حُسَیْل تھی۔ غزوہ بدر میں شرکت کے لیے روانہ ہوئے مگر راستہ میں کفار قریش کے ہتھے چڑھ گئے انہوں نے ان کو اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک کہ جنگ میں عدم شرکت کا وعدہ نہ لے لیا۔ پھر یہ دونوں غزوہ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے اور یہ واقعہ بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا کہ’’مدینے چلے جاؤ اور جنگ کی اجازت نہیں دی اور فرمایا ہم ہر حال میں وعدہ وفا کریں گے۔ ہم کو اللہ کی مدد درکار ہے۔‘‘ (مسلم۔ کتاب الجہاد۔ والسیر۔ باب الوفاء بالعھد) حالانکہ اس موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ایک آدمی کی شدید ضرورت تھی۔ ٢۔ بئرمعونہ کے حادثہ میں ٧٠ میں سے ایک شخص عمرو بن امیہ بچ نکلے لیکن بعد میں گرفتار ہوگئے۔ عامر بن طفیل جس نے ان قاریوں کو شہید کروایا تھا۔ نے عمرو بن امیہ کو دیکھ کر کہا ’’میری ماں نے ایک غلام آزاد کرنے کی منت مانی تھی لہٰذا میں یہ منت پوری کرنے کی خاطر عمر و بن امیہ کو آزاد کرتا ہوں۔‘‘ عمرو بن امیہ وہاں سے چلے تو راستہ میں اسی قاتل قبیلہ کے دو افراد مل گئے جنہیں آپ نے قتل کردیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دو آدمیوں کو امان دے چکے تھے جس کا عمرو بن امیہ کو علم نہ تھا۔ اب حالات کا تقاضا تو یہ تھا کہ بنو عامر کی غداری کی بنا پر ان سے جتنی بھی سختی برتی جا سکے برتی جائے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عہد کا لحاظ رکھتے ہوئے ان کا خون بہا ادا کردیا (البدایہ والنہایہ ج ٤ ص ٧٣) ٣۔ صلح حدیبیہ کی شرائط لکھی جا چکی تھیں مگر ابھی اس تحریری معاہدہ پر دستخط ہونا باقی تھے کہ قریش کے نمائندہ صلح سہیل بن عمرو کے بیٹے ابو جندل، جو اسلام لانے کی وجہ سے قید میں ڈال دیئے گئے تھے، قید سے فرار ہو کر پابہ زنجیر مسلمانوں کے پاس پہنچے اور اپنے زخم دکھا دکھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے التجا کر رہے تھے کہ اب مجھے واپس نہ کیجئے۔ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دل بھر آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی رحمتہ للعالمین تھے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض ایفائے عہد کی خاطر اسے واپس کردیا اور کہا : ابو جندل صبر کرو۔ اللہ تمہارے لیے کوئی راہ پیدا کر دے گا۔ اب صلح کی شرط ہوچکی اور ہم بد عہدی نہیں کرسکتے۔ (بخاری۔ کتاب الشروط۔ باب الشروط علی الجھاد والمصالحۃ) ٤۔ ایسے ہی مظلوم مسلمانوں میں سے ایک عتبہ بن اسید (ابو بصیر) تھے جو قریش کے مظالم سے تنگ آ کر مکہ سے فرار ہو کر مدینہ تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ شرائط صلح حدیبیہ کے مطابق قریش کے دو آدمی بھی ابو بصیر کو لینے مدینہ پہنچ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایفائے عہد کی خاطر ابو بصیر کو کافروں کے حوالہ کردیا اسے بھی آپ نے صبر کی تلقین فرمائی اور فرمایا جلد ہی اللہ تعالیٰ کوئی راہ نکال دے گا (اس واقعہ کی تفصیل سورۃ فتح کے ابتدائی حاشیہ میں ملاحظہ فرمائیے۔) ٥۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایفائے عہد کے واقعات اس کثرت سے ہیں کہ دشمن بھی آپ کی اس خوبی کا برملا اعتراف کرتے تھے۔ جنگ احزاب کے موقعہ پر جب یہود کے قبیلہ بنو نضیر کے سردار حیی بن اخطب نے بنو قریظہ کے سردار کعب بن اسداس کو عہد شکنی پر مجبور کیا تو کعب نے اسے کہا اِنِّیْ لَمْ اَرَمِنْ مُحَمَّدٍ اِلَّا صِدْقًا وَّ وَفَآئً (میں نے ہمیشہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سچا اور عہد کو پورا کرنے والا دیکھا ہے) (طبری ج ١۔ غزوہ خندق) پھر یہ خوبی آپ کی ذات تک ہی محدود نہ تھی بلکہ آپ کے جانشینوں نے بھی عہد کی پوری پوری پابندی کر کے مثال قائم کردی۔ ٦۔ دور فاروقی میں شام کی فتوحات کا سلسلہ جاری تھا۔ سیدنا ابو عبیدہ نے دمشق کا محاصرہ کر رکھا تھا سیدنا خالد بن ولید نے چند جانبازوں کے ہمراہ فصیل پر کمند لگائی اور اوپر چڑھ کر قلعہ کے دروازے کھول دیئے۔ سیدنا خالد کی فوج فاتحانہ انداز میں قلعہ میں داخل ہوگئی۔ اہل دمشق نے دوسری جانب سیدنا ابو عبیدہ سے مصالحت کی درخواست کردی۔ جو انہوں نے نئی صورت حال سے لاعلمی کی بنا پر قبول کرلی۔ جب انہیں اصل صورت حال کا علم ہوا تو انہیں بہت محسوس ہوا مگر ایفائے عہد کی خاطر ابو عبیدہ نے مفتوحہ علاقہ اہل دمشق کو واپس دے دیا۔ (تاریخ اسلام حمید الدین ص ١٣٨) ٧۔ شام کی فتوحات کے دوران عیسائیوں نے صلح کے لیے اپنے قاصد جارج کو سیدنا ابو عبیدہ کے پاس بھیجا۔ وہ شام کے وقت پہنچا اور نماز باجماعت کا پرکیف منظر دیکھ کر بہت متاثر ہوا۔ بعد میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق چند سوال کیے جن کا سیدنا ابو عبیدہ نے شافی جواب دیا نتیجتاً جارج مسلمان ہوگیا اور چاہا کہ اب وہ عیسائیوں کے پاس واپس نہ جائے۔ لیکن ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے محض اس خیال سے کہ رومیوں کو مسلمانوں کی طرف سے بد عہدی کا گمان پیدا نہ ہو۔ جارج کو مجبور کیا اور کہا کہ کل یہاں سے جو سفیر جائے گا ایک دفعہ ضرور اس کے ہمراہ وہاں جاؤ اور اصل صورت حال سے انہیں خود مطلع کرنے کے بعد واپس آ جانا۔ (الفاروق ص ١٩٦) اب ذرا موجودہ دور کی مہذب اور متمدن اقوام اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کے معاہدات پر بھی نظر ڈال لیجئے۔ جو ظاہری معاہدات کے علاوہ زیر زمین خفیہ معاہدات کا بھی ایک جال بچھا رکھتے ہیں اور ایسی منافقت اور بدعہدی کا ایک خوبصورت نام ڈپلومیسی (DIPLOMACY) تجویز کر رکھا ہے اس منافقت کا جو منظر جنگ عظیم اول میں سامنے آیا وہ کچھ اس طرح ہے :۔ اس جنگ میں ایک طرف جرمنی، آسٹریا اور ہنگری تھے جنہیں جارح یا ظالم کا لقب دیا گیا۔ دوسری طرف برطانیہ، فرانس، روس اور اٹلی تھے جو اپنے آپ کو حق پرست، انسانی حقوق کے علمبردار اور مظلوموں کے مددگار کہتے تھے۔ ان حق پرستوں نے عربوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے انہیں یقین دلایا کہ وہ عربوں کو ترکی کے تسلط سے آزاد کرائیں گے اور جنگ کے بعد انہیں آزاد اور خود مختار حکومت بنانے کا موقع دیں گے تاکہ وہ اپنے شعائر اسلام آزادی سے بجا لا سکیں۔ اس طرح یہ حق پرست دراصل ملت اسلامیہ کے مرکز ترکی کی خلافت کا گلا گھونٹنا چاہتے تھے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں ١٩١٧ ء میں جنرل ماؤ نے برسر عام اعلان کر کے عربوں سے کیے ہوئے معاہدہ کی تصدیق بھی کردی کہ وہ اس ملک میں فاتحانہ حیثیت سے نہیں بلکہ آزادی دینے کے لیے آئے ہیں۔ لیکن اصل حقیقت اس کے علاوہ کچھ اور تھی۔ فرانس اور برطانیہ نے ١٩١٥ ء اور ١٩١٦ ء میں آپس میں خفیہ معاہدات کیے ١٩١٦ ء کے خفیہ معاہدہ، جو سائیکس پیکو کے نام سے مشہور ہے، کی رو سے یہ طے ہوا تھا کہ جنگ کے بعد :۔ i عراق کلیتہً برطانیہ کے قبضہ میں رہے گا۔ ii شام پورے کا پورا فرانسیسی سلطنت کے دائرہ میں رکھا جائے گا۔ iii فلسطین ایک بین الملی علاقہ ہوگا اور حیفہ اپنی بندرگاہ سمیت برطانیہ کے زیر اثر ہوگا۔ iv باقی رہے وہ ممالک جو عراق اور سواحل شام کے درمیان واقع ہیں تو انہیں دو حصوں میں تقسیم کیا جائے گا ایک حصہ برطانیہ کے زیر اثر رہے گا اور دوسرا فرانس کے۔ برطانیہ اور فرانس چونکہ اپنے دوسرے حق پرست ساتھیوں سے بھی زیادہ حق پرست تھے۔ اس لیے انہوں نے اس معاہدہ کو اپنے ساتھیوں سے بھی چھپائے رکھا اور ظاہری طور پر یہی اعلان کرتے رہے کہ ہم عربوں کو پوری آزادی دلانے آئے ہیں۔ پھر جب عربوں نے دیکھا کہ شام کے سواحل پر فرانسیسی فوجیں مسلط ہیں اور عراق اور فلسطین میں انگریزی فوجیں پہنچ گئی ہیں تب جا کر انہیں معلوم ہوا کہ انکے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے اور یہ چال محض ترکوں اور عربوں میں نفاق ڈال کر ملک چھیننے کے لیے چلی گئی تھی۔ عربوں کو جب ہوش آیا تو انہوں نے بہتیرے ہاتھ پاؤں مارے اور فیصل بن حسین کے تحت ایک وطنی حکومت بھی قائم کرلی مگر اب پانی سر سے اوپر ہوچکا تھا۔ برطانیہ نے نہایت عیاری سے عربوں میں سے ہی اپنی مرضی کے چند آدمی منتخب کر کے ان کی حکومت بنا دی جو کلیتہً برطانیہ کے زیر اثر تھی۔ اس طرح انگریز بہادر نے اپنے سب مفادات بھی حاصل کرلیے اور یہ کہنے کے قابل بھی ہوگیا کہ اس نے عربوں سے اپنا وعدہ پورا کردیا ہے۔ پھر ان خفیہ معاہدات کا حلقہ صرف عربوں تک ہی محدود نہ تھا۔ اتحادی آپس میں بھی ہوا کا رخ دیکھ کر ایسے معاہدات کرلیتے تھے جنہیں دوسرے حق پرستوں سے بھی صیغہ راز میں رکھا جاتا تھا۔ بین الاقوامی ڈاکہ زنی کی یہ سکیم صیغہ راز میں ہی رہ جاتی۔ اگر دوران جنگ روس انقلاب کا شکار نہ ہوجاتا۔ اپریل ١٩١٧ ء میں جب ان کی حکومت کا تختہ الٹا اور بالشویکوں کی حکومت قائم ہوگئی تو انہوں نے سرمایہ دار حکومتوں کے گھناؤنے کردار کو بے نقاب کرنے کے لیے وہ تمام خفیہ معاہدات شائع کردیئے جو انہیں زار کی حکومت کے نہاں خانوں سے دستیاب ہوئے تھے۔ ان معاہدات کی کوئی دفعہ ایسی نہیں تھی جس میں مخالف سلطنتوں کے کسی نہ کسی علاقہ یا ان کی اقتصادی ثروت کے کسی نہ کسی وسیلے کو ان حق پرستوں نے آپس میں بانٹنے کا فیصلہ نہ کر رکھا ہو۔ التوبہ
8 [٨] چونکہ اب ان کا مسلمانوں پر قابو نہیں رہا اور مسلمان ایک مقابلہ کی طاقت بن چکے ہیں اس لیے وہ معاہدہ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں لیکن اس وقت بھی زبانی دعوے کر کے تمہیں خوش رکھنا چاہتے ہیں۔ ورنہ ان کے دل ایک منٹ کے لیے بھی اس عہد پر راضی نہیں ہوتے اور عہد شکنی کے لیے مناسب موقعہ کے انتظار میں رہتے ہیں پھر جب انہیں ایسا موقعہ میسر آ جاتا ہے تو پھر انہیں نہ اپنا عہد یاد رہتا ہے اور نہ قرابت کا خیال آتا ہے ایسی بدعہد اور دغا باز قوم سے اللہ اور اس کے رسول کا کیا عہد ہوسکتا ہے؟ التوبہ
9 [٩] بدعہد قوم کے اوصاف :۔ یعنی ایک طرف تو اللہ کی آیات ان کو بھلائی، راستی، عہد کی پابندی کی دعوت دیتی ہیں۔ دوسری طرف ان کے کچھ ذاتی مفادات وابستہ ہوتے ہیں اور وہ چند روزہ دنیوی فائدے کے حصول کی خاطر اپنی خواہش نفس کی پیروی کو ترجیح دیتے ہیں اور سب اخلاقی اقدار اور اللہ کے احکام کو اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ پھر وہ اسی پر بس نہیں کرتے بلکہ دوسروں کو بھی مسلمانوں سے بدعہدی پر اکساتے اور اسی راہ پر چلنے کی دعوت دیتے ہیں جس پر خود چل رہے ہوتے ہیں۔ ربط مضمون کے لحاظ سے تو اس جملہ کا یہی مفہوم ہے تاہم اس کے الفاظ عام ہیں اور ان الفاظ سے کافروں کی ہر معاندانہ کوشش مراد لی جا سکتی ہے جس کے ذریعہ وہ اسلام کے راستہ میں روک بن جاتے ہیں اور ایسی کوششیں کئی قسموں کی ہو سکتی ہیں جن کا قرآن میں جا بجا ذکر موجود ہے۔ التوبہ
10 التوبہ
11 [١٠] اسلامی ریاست میں حقوق شہریت کی شرائط :۔ اسی سورۃ کی آیت نمبر ٥ میں فرمایا تھا کہ اگر مشرک لوگ توبہ کرلیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کی راہ چھوڑ دو۔ یعنی اب ان کے اموال اور ان کی جانیں تمہارے ہاتھوں سے محفوظ ہوگئیں اور اس آیت میں فرمایا کہ اگر وہ تینوں شرائط پوری کرلیں تو صرف یہی نہیں کہ ان کے جان و مال محفوظ ہوجائیں گے بلکہ وہ اسلامی برادری کا ایک فرد بن جائیں گے اور انہیں وہ تمام تمدنی، معاشرتی، قانونی اور معاشی حقوق اسی طرح حاصل ہوجائیں گے جس طرح دوسرے مسلمانوں کو حاصل ہیں۔ التوبہ
12 [١١] ذمیوں کی معاندانہ سرگرمیاں :۔ اس آیت کے مفہوم میں وہ کافر و مشرک قبائل بھی شامل ہیں جو اعلان برأت سے پیشتر اپنے عہد توڑتے اور دین میں طعنہ زنی کرتے رہے اور وہ بھی شامل ہیں جو اعلان برأت کے بعد بظاہر اسلام لے آئے لیکن ان کے دل اسلام کی طرف ہرگز مائل نہیں تھے بلکہ وہ محض وقتی مصلحت اور مسلمانوں کے غلبہ کے دباؤ کے تحت اسلام لائے تھے اور کسی مناسب موقع کے منتظر تھے کہ کب وہ اسلام میں کوئی کمزوری دیکھیں تو اپنے اسلام لانے کے عہد کو توڑ دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تو انہیں ایسا موقع میسر نہ آیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد فوراً انہوں نے اس عہد کو توڑ ڈالا اور پھر سے مرتد ہوگئے کیونکہ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ اسلام کو جو کچھ غلبہ اور شان و شوکت حاصل ہوئی ہے وہ صرف رسول اللہ کے دم قدم سے تھی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد ایسے قبائل نے پوری قوت کے ساتھ بغاوت کا علم بلند کردیا اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس آیت کے مصداق ان کی ٹھیک ٹھیک سرکوبی کی۔ توہین رسالت کی سزا موت :۔ ضمناً اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی اسلامی حکومت میں رہنے والے اہل الذمہ دین اسلام کا تمسخر اڑائیں یا طعنہ زنی کریں تو ان کا معاہدہ ختم اور ان کی سرکوبی کرنا اسلامی حکومت کا فرض ہوتا ہے اور یہ بھی کہ جو ذمی یا کوئی دوسرا شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی کوئی باتیں کرے وہ واجب القتل ہے کیونکہ یہ دین میں طعنہ زنی کی ایک بدترین قسم کا جرم ہے۔ التوبہ
13 [١٢] اعلان براءت کے بعد جہاد پر زور وترغیب کی وجوہ :۔ اس سے پیشتر مسلمانوں کو جہاد کی متعدد بار ترغیب دی جا چکی تھی اور مسلمان کئی معرکے اور جنگیں بھی کرچکے تھے۔ اب اعلان برأت کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان کے پچھلے مظالم یاد دلا دلا کر کافروں سے جنگ کرنے کی جو پرزور ترغیب دی ہے تو اس کی چند وجوہ تھیں مثلاً اعلان برأت کے وقت بھی مشرکین کی تعداد جزیرۃ العرب میں مسلمانوں سے زیادہ تھی اس لیے انہیں یہ خیال آ سکتا تھا کہ ایسی ذلت گوارا کرنے کے بجائے سب مل کر اسلام کا ہی نام و نشان مٹا دیں اور عرب جیسی جنگ جوا اور دلیرقوم سے ایسا خطرہ کچھ بعیداز عقل بھی نہ تھا۔ کیونکہ ایک تو ان کے تمام معاہدات کالعدم قرار دیئے جا رہے تھے اور دوسرے جلاوطنی کی دھمکی یا جنگ پر تیار ہوجانے کا چیلنج دے دیا گیا تھا، تیسرے کعبہ سے ان کی تولیت کو ختم کردیا گیا تھا۔ چوتھے کعبہ میں ان کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا تھا اور مکہ ہی وہ تجارتی مرکز تھا جس پر بالخصوص مقامی مشرکوں اور آس پاس کے رہنے والے مشرک قبائل کی معیشت کا زیادہ تر انحصار تھا۔ پانچویں یہ کہ جو لوگ نئے نئے مسلمان ہو رہے تھے ان کے اکثر اقربا ابھی تک مشرک تھے۔ اور ان سے تعلقات برقرر رکھنے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔ لہٰذا ان وجوہ کی بنا پر یہ عین ممکن تھا کہ سب مشرک متحد ہو کر مسلمانوں سے ایک عظیم جنگ کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے یا کم از کم عرب بھر میں وسیع پیمانہ پر مسلمانوں سے خانہ جنگی شروع ہوجاتی لہٰذا ضروری تھا کہ ایسے موقع پر مسلمانوں کو جہاد کی پرزور تلقین کی جاتی اور ان کے ذہن سے ان خطرات کو دور کیا جاتا جو اس پالیسی پر عملدرآمد کرنے کی صورت میں انہیں نظر آ رہے تھے اور انہیں ہدایت کی جاتی کہ انہیں اللہ کی مرضی پوری کرنے میں کسی بات سے خائف نہیں ہونا چاہیے۔ التوبہ
14 [١٣] اعلان براءت کے بعدمشرکوں کے وفود کی مدینہ میں آمد اور قبول اسلام :۔ مسلمان یہ سمجھ رہے تھے کہ اس اعلان برأت کے بعد نامعلوم انہیں کیسے تلخ حالات سے دوچار ہونا پڑے گا اور ان کے یہ اندیشے بے جا بھی نہ تھے۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے انہیں دو باتوں کی تلقین فرمائی ایک یہ کہ جہاد کے لیے پوری طرح مستعد رہیں، دوسرے لوگوں سے ڈرنے کے بجائے صرف اللہ سے ڈریں اور اسی پر بھروسہ کریں۔ چنانچہ اللہ نے مشرکوں کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور بجائے اس کے کہ انہیں مقابلہ کی سوجھتی وہ وفود کی شکل میں مدینہ آئے اور اسلام قبول کرنے لگے اور ایسے وفود کی تعداد (70) ستر کے قریب شمار کی گئی ہے جیسا کہ سورۃ نصر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿اِذَاجَاءَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَ رَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا﴾چنانچہ جو قبائل اسلام لائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس علاقے کا انتظام انہی کے سپرد فرما دیتے تھے۔ جہاد کے نتیجہ میں مسلمانوں سے پانچ وعدے :۔ آیت نمبر ١٤ اور ١٥ میں اللہ تعالیٰ نے جہاد کے متعلق پانچ وعدے فرمائے۔ بالفاظ دیگر جہاد کے فوائد سے تعلق رکھنے والی پانچ خوشخبریاں سنائیں جو سب کی سب پوری ہوئیں۔ پہلی یہ کہ تمہارے دشمنوں پر کوئی ارضی یا سماوی عذاب نہیں آئے گا بلکہ انہیں یہ عذاب تمہارے ہاتھوں سے دلوایا جائے گا اور اس عذاب کی ابتداء غزوہ بدر سے ہی شروع ہوگئی تھی۔ دوسری یہ کہ مشرکوں کو رسوا کرے گا۔ اب اعلان برأت میں مشرکوں کی رسوائی کے جس قدر پہلو موجود ہیں اور جن کی تفصیل حاشیہ نمبر ٣ میں دی گئی ہے اس سے بڑھ کر ان کی رسوائی کیا ہو سکتی ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس رسوائی کو برداشت کرنے کے بغیر ان کے پاس کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ تیسری یہ کہ تمہیں ان پر مدد دے گا اور اس مدد کا آغاز بھی غزوہ بدر سے شروع ہوگیا تھا جس کی تفصیل پہلے دی جا چکی ہے۔ پھر اللہ کی یہ مدد ہر دم مسلمانوں کے شامل حال رہی، چوتھی یہ کہ مسلمانوں کے دل مشرکوں کے ظلم و ستم سہہ سہہ کر بہت زخمی ہوچکے تھے اور ابتداً انہیں ہاتھ تک اٹھانے کی بھی اجازت نہ تھی۔ صرف ان کے ظلم و ستم برداشت کرنے کی اور درگزر کرنے کی تاکید کی جاتی رہی۔ پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ انہیں ستم رسیدہ کمزور مسلمانوں کے ہاتھوں ان مغرور و سرکش مشرکوں کو پٹواتا رہا تو ان مسلمانوں کے دل ان کی طرف سے ٹھنڈے ہوگئے کہ دلوں میں جاگزیں رنجشیں اور غصے سب کافور ہوگئے اور پانچویں یہ کہ انہیں مغرور کافروں میں سے اللہ جسے چاہے گا توبہ کی توفیق دے کر تمہارا بھائی اور تمہارا غمگسار بھی بنا دے گا اور اس کی مثالیں بے شمار ہیں جو ابتدائے اسلام سے لے کر تاہنوز جاری ہیں۔ التوبہ
15 التوبہ
16 [١٤] کافروں کو دخیل یا ہمراز بنانے کے مہلک نتائج :۔ یہ خطاب ان مسلمانوں کے لیے ہے جو نئے نئے اسلام لائے تھے۔ ورنہ ابتدائی مہاجرین و انصار تو اس معیار پر، جو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے، پہلے ہی کئی بار پورے اتر چکے تھے اور اپنے اس امتحان میں کامیاب ہوچکے تھے اس معیار میں بالخصوص دو باتیں بیان فرمائیں ایک اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد، دوسرے صرف اللہ اس کے رسول اور مومنوں سے ہی دلی اور راز داری کی دوستی۔ یعنی کسی مسلمان کے لیے یہ کسی صورت میں جائز نہیں کہ وہ غیر مسلم کو اپنے معاملات میں دخیل اور اپنا ہم راز بنائے۔ غیر مسلم کو اسلامی حکومت کے کسی ذمہ دار منصب پر فائز کرنا، یا کسی غیر مسلم کو کوئی جنگی راز وغیرہ بتلا دینا ایسے خطرناک کام ہیں جن کے نتائج ایک مسلم حکومت یا معاشرہ کے لیے نہایت مہلک ثابت ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا کسی غیر مسلم سے ایسی دوستی گانٹھنے سے ہی سختی سے منع کردیا گیا۔ التوبہ
17 [١٥] مشرکین مکہ کن کن باتوں سے بیت اللہ کی توہین کرتے تھے؟:۔ یعنی کعبہ یا کسی بھی مسجد کی تولیت، مجاوری اور آباد کاری مشرکوں کے لیے مناسب ہی نہیں۔ کعبہ خالصتاً اللہ کی عبادت کے لیے بنایا گیا تھا اور ایسے ہی دوسری مساجد بھی اسی غرض کے لیے بنائی جاتی ہیں لیکن یہ مشرک بیت اللہ میں بھی اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک بناتے تھے۔ چنانچہ مشرکوں نے اللہ کے اس گھر میں تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے۔ دیواروں پر اپنے بزرگوں اور دیوی دیوتاؤں کی تصویریں بنا رکھی تھیں۔ اور ان ظالموں نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے مجسمے بنا کر ان کے ہاتھوں میں فال گیری کے تیر پکڑا رکھے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد بیت اللہ کو ان سب چیزوں سے پاک کیا۔ پھر بیت اللہ میں ایسی فحاشی روا رکھی جاتی کہ کیا مرد کیا عورت ننگے طواف کرتے تھے۔ پھر یہ ظالم طواف کے دوران یہ الفاظ کہہ کر اپنے شرک کی شہادت دیتے تھے لاَشَرِِیْکَ لَکَ الاَّ شَرِیْکَ ھُوَلَکَ تَمْلِکُہُ (مسلم۔ کتاب الحج) ان کی نظروں میں سرے سے بیت اللہ کے احترام کا تصور ہی نہ تھا حتیٰ کہ انہوں نے اپنی عبادت کو سیٹیوں، تالیوں اور گانے بجانے کی محفلیں بنا رکھا تھا۔ پھر کیا ایسے لوگ مساجد کی آباد کاری اور سرپرستی کے مستحق ہو سکتے ہیں؟ [١٦] کیونکہ اعمال کی جزا کا انحصار اللہ اور روز آخرت پر ایمان ہے اور مشرک تو روز آخرت پر ایمان ہی نہیں رکھتے تھے اور اللہ پر ایمان کے معاملہ میں ان کا تصور ہی غلط تھا۔ انہوں نے سب خدائی اختیارات و تصرفات تو اپنے دیوی دیوتاؤں اور بزرگوں کو دے رکھے تھے لہٰذا ایمان نہ لانے کی وجہ سے ان کے اچھے اعمال ضائع ہوں گے اور شرک اور بداعمالی کی وجہ سے ہمیشہ دوزخ میں رہنا ہوگا۔ التوبہ
18 [١٧] مساجد کی آبادی کا مطلب آباد کرنے والوں کی صفات :۔ آباد کرنے سے مراد مساجد میں نمازوں کے لیے آنا جانا، مساجد کی صفائی، ان میں روشنی کا انتظام، مساجد کی تعمیر، ان کی مرمت اور تولیت وغیرہ سب کچھ شامل ہے اور یہ صرف ان لوگوں کا کام ہے جن میں بالخصوص چار باتیں پائی جائیں۔ اللہ اور روز آخرت پر ایمان، پھر اسی ایمان کی ظاہری شہادت کے طور پر نماز کا قیام اور زکوٰۃ کی ادائیگی اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرنا۔ یعنی اللہ کے سوا دوسرے دیوی، دیوتا، بزرگ یا فرشتوں اور ستاروں کی ارواح کے متعلق یہ گمان رکھنا کہ اگر وہ ناراض ہوگئے تو اسے کوئی نقصان پہنچا سکتے یا کسی مصیبت سے دو چار کرسکتے ہیں پھر اسی بنا پر ان کی نذر و نیاز اور منتیں ماننا یا عبادت کی کوئی بھی رسم بجا لانا کسی ایماندار کا شیوہ نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ایسے لوگ کبھی ہدایت پا سکتے ہیں خواہ وہ نبی کی اولاد ہی کیوں نہ ہوں اور ایسی تولیت ان کے ورثہ میں چلی آ رہی ہو۔ مساجد کی آباد کاری اور ان کا ادب و احترام نہایت اعلیٰ درجہ کا عمل ہے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے :۔ ١۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ’’جس نے اللہ کی رضا جوئی کے لیے مسجد بنائی اللہ ویسا ہی گھر اس کے لیے بہشت میں بنائے گا۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب من بنی مسجدا ) ٢۔ سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر تم کسی آدمی کو مسجد میں آنے جانے کا عادی دیکھو تو اس کے ایمان کی گواہی دو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ کی مسجدیں صرف وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں۔‘‘ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) ٣۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’سات آدمیوں کو اللہ تعالیٰ اس دن اپنے سائے میں رکھے گا جس دن اس کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہوگا۔ ١۔ عادل بادشاہ، ٢۔ وہ جوان جو جوانی کی امنگ سے اللہ کی عبادت میں رہا۔ ٣۔ وہ شخص جس کا دل مسجد میں لگا رہتا ہے، ٤۔ وہ دو مرد جنہوں نے اللہ کی خاطر محبت کی پھر اس پر قائم رہے۔ اور اسی پر جدا ہوئے، وہ شخص جسے کسی حسب و جمال والی عورت نے (بدی کے لیے) بلایا مگر اس نے کہا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں، وہ مرد جس نے داہنے ہاتھ سے ایسے چھپا کر صدقہ دیا کہ بائیں ہاتھ تک کو خبر نہ ہوئی۔ وہ مرد جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا تو اس کے آنسو بہہ نکلے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب الصدقۃ بالیمین) ٤۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’فرشتے اس شخص کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں جو نماز پڑھنے کے بعد مسجد میں اپنی نماز کی جگہ پر بیٹھا رہے جب تک اس کو حدث لاحق نہ ہو۔ فرشتے یوں کہتے رہتے ہیں۔ یا اللہ اس کو بخش دے یا اللہ اس پر رحم کر۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب الحدث فی المسجد) ٥۔ سائب بن یزید کہتے ہیں کہ میں مسجد نبوی میں کھڑا تھا اتنے میں ایک شخص نے مجھ پر کنکر پھینکا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ عمر بن خطاب ہیں۔ مجھے کہنے لگے ’’جاؤ ان دو آدمیوں کو بلا لاؤ۔ ‘‘ میں بلا لایا۔ سیدنا عمر نے ان سے پوچھا ’’کہاں سے آئے ہو؟‘‘ وہ کہنے لگے ’’طائف سے‘‘ سیدنا عمر نے فرمایا ’’اگر تم اس شہر کے رہنے والے ہوتے تو میں تمہیں خوب سزا دیتا۔ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں اپنی آوازیں بلند کرتے ہو؟‘‘ (بخاری۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب رفع الصوت فی المسجد) التوبہ
19 [١٨] جہاد کے مسائل :۔ اس آیت کے شان نزول سے متعلق درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے :۔ سیدنا نعمان بن بشیر کہتے ہیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک شخص کہنے لگا’’مجھے کوئی پروا نہیں اگر میں اسلام لانے کے بعد کوئی عمل نہ کروں سوائے حاجیوں کو پانی پلانے کے۔‘‘ دوسرے نے کہا ’’مجھے کوئی پروا نہیں اگر میں اسلام لانے کے بعد کوئی عمل نہ کروں سوائے مسجد حرام کی تعمیر و آبادی کے۔‘‘ تیسرے نے کہا ’’اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ان کاموں سے افضل ہے جن کا تم ذکر کر رہے ہو۔ ‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ڈانٹا کہ منبر کے پاس اپنی آوازیں بلند نہ کرو۔ نعمان کہتے ہیں کہ وہ جمعہ کا دن تھا۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ’’میں جمعہ کی نماز کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں گا اور جس بات میں تم اختلاف کر رہے ہو اس بارے میں ضرور سوال کروں گا۔‘‘ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (مسلم۔ کتاب الامارۃ باب فضل الشھادۃ فی سبیل اللہ) اس آیت میں روئے سخن مسلمانوں اور مشرکوں سب کے لیے عام ہے۔ مشرکوں کے لیے اس لحاظ سے کہ وہ بڑے فخر سے کہا کرتے تھے کہ ہم حاجیوں کی خدمت کرتے، انہیں پانی پلاتے اور انہیں کھانا کپڑا مہیا کرتے ہیں نیز ہم مسجد حرام کی مرمت یا غلاف کعبہ یا روشنی وغیرہ کا بھی انتظام کرتے ہیں اگر مسلمان اپنے جہاد و ہجرت کو افضل اعمال سمجھتے ہیں تو ہمارے پاس بھی عبادات کا یہ ذخیرہ موجود ہے۔ انہیں تو یہ جواب دیا گیا کہ جب تمہارا آخرت اور اللہ پر ایمان ہی نہیں تو تمہارے یہ سب اعمال رائیگاں جائیں گے اور اگر اس آیت کا روئے سخن مسلمانوں کی طرف سمجھا جائے تو اس سے مراد ان کے اعمال کا باہمی موازنہ ہوگا۔ یعنی صرف اللہ اور آخرت پر ایمان لانے والے مسلمان اللہ کے نزدیک ان مسلمانوں کے برابر نہیں ہو سکتے جو ایمان بھی لائے اور جہاد بھی کیا۔ التوبہ
20 [١٩] جہاد کے فضائل کتاب و سنت میں بہت سے مقامات پر مذکور ہیں یہاں ہم صرف دو احادیث پر اکتفا کرتے ہیں۔ ١۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا ’’مجھے ایسا عمل بتلائیے جو جہاد کے ہم پلہ ہو؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میں ایسا کوئی عمل نہیں پاتا۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب فضل الجھاد والسیر) ٢۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا : اللہ کے رسول! لوگوں میں سب سے افضل کون ہے؟ فرمایا ’’مومن جو اللہ کی راہ میں اپنی جان اور مال سے جہاد کرتا ہو۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب أفضل الناس مومن۔۔ مسلم۔ کتاب الجہاد۔ باب فضل الجھاد والرباط) التوبہ
21 [٢٠] ایمان، جہاد اور ہجرت کا اجررحمت رضائے الہٰی اور جنت :۔ پہلی آیت میں تین چیزوں کا ذکر تھا۔ ایمان، جہاد اور ہجرت ان تین اعمال کے بدلے تین طرح کی بشارت دی گئیں۔ رحمت، اللہ کی رضا اور ہمیشہ کے لیے جنت میں قیام۔ بعض علماء نے ان اعمال اور ان کے اجر میں یہ نسبت قائم کی ہے کہ اللہ کی رحمت تو ایمان کی وجہ سے ہوگی کیونکہ آخرت میں اللہ کی رحمت اور مہربانی صرف اس شخص پر ہوگی جو ایمان لایا ہوا ور رضوان یا اللہ کی رضامندی جہاد کے عوض ہوگی۔ کیونکہ جس طرح سب اعمال سے افضل اللہ کی راہ میں اپنی جان اور مال کی قربانی پیش کرنا ہے اسی طرح جنت کی سب نعمتوں سے بڑی نعمت اللہ کی رضامندی ہے جیسا کہ متعدد احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ اور ہجرت کے عوض انہیں جنت میں ہمیشہ کا قیام نصیب ہوگا۔ انہوں نے اللہ کی خاطر اپنا وطن مالوف چھوڑا تو اس کے عوض انہیں اپنے وطن سے بہتر وطن اپنے گھر سے بہتر گھر ملے گا جس میں ہر طرح کی نعمتیں ہوں گی اور اس گھر کو چھوڑنے یا اس کے چھوٹ جانے کا کبھی سوال ہی پیدا نہ ہوگا۔ التوبہ
22 التوبہ
23 [٢١] ایمان کی تکمیل کب ؟ :۔ یعنی ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اگر باپ یا بھائی کافر ہوں تو ان سے قرابت تو کیا رفاقت بھی نہ رکھی جائے اور اگر مومن یا مسلمان اس معیار پر پورا نہیں اترتا تو سمجھ لے کہ اس کا ایمان مکمل نہیں۔ اس مضمون کو کتاب و سنت میں متعدد مقامات پر مختلف پیرایوں میں بیان کیا گیا ہے چنانچہ ایک دفعہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ مجھے اپنی ذات کے سوا سب سے زیادہ محبوب ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ابھی تمہارا ایمان مکمل نہیں ہوا۔‘‘ پھر کسی وقت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ’’اللہ کی قسم! آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اب تمہارا ایمان مکمل ہوا۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الایمان والنذور۔ باب کیف کانت یمین النبی ) التوبہ
24 [٢٢] دنیوی مرغوبات میں پھنس کر جہاد چھوڑنے کی سزا :۔ اس آیت میں جن رشتوں کا ذکر کیا گیا ہے ان سے انسان کو فطری لگاؤ ہوتا ہے اور بعض مسلمانوں کے باپ یا بیٹے یا بیویاں کافر تھیں جنہیں چھوڑ کر ہجرت کرنا مشکل سی بات تھی۔ اسی طرح انسان کو اپنے کمائے ہوئے مال و دولت، اپنے کاروبار سے اور جائیداد سے بھی بہت محبت ہوتی ہے کیونکہ یہ چیزیں اس کے گاڑھے خون پسینے کی کمائی کے نتیجہ میں اسے حاصل ہوتی ہے لہٰذا انہی چیزوں سے مومنوں کے ایمان کا امتحان لیا گیا ہے کہ آیا وہ ان چیزوں کو چھوڑ کر دین کی خاطر ہجرت اور جہاد کرتے ہیں یا نہیں؟ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اکثریت اس معیار پر بھی پوری اتری۔ تھوڑے ہی مسلمان ایسے تھے جو انہی فطری کمزوریوں کی وجہ سے مکہ میں یا اطراف و جوانب میں رہ گئے تھے اس آیت میں مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر تم نے ان کمزوریوں کو دور نہ کیا اور اپنی جانوں اور اموال سے جہاد کرنے میں کوتاہی کی اور رشتہ داروں کی محبت، تن آسانی اور دنیا طلبی کی راہ اختیار کی اور خواہشات نفس میں پھنس کر اللہ کے احکام کی تعمیل نہ کی تو تمہیں حقیقی کامیابی نصیب نہ ہوگی۔ اور حدیث میں ہے کہ جب تم جہاد چھوڑ دو گے تو اللہ تم پر ایسی ذلت مسلط کر دے گا جس سے تم کبھی نکل نہ سکو گے۔ (ابن ماجہ۔ کتاب الجہاد، باب التغلیظ فی الجھاد ) التوبہ
25 [٢٣] غزوہ حنین اور اس کے اسباب :۔ حنین مکہ اور طائف کے درمیان ایک مقام ہے جہاں فتح مکہ کے بعد شوال ٨ ھ میں حق و باطل کا ایک بہت بڑا معرکہ پیش آیا تھا۔ عرب کے اکثر بدوی قبائل اس انتظار میں تھے کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قریش پر غالب آ گئے اور مکہ فتح ہوگیا تو بلاشبہ وہ پیغمبر ہیں اور ان کی دعوت کو قبول کرلینا چاہیے۔ چنانچہ مکہ کی فتح کے بعد بہت سے قبائل خودبخود آپ کی صلی اللہ علیہ وسلم خدمت میں حاضر ہو کر اسلام لے آئے لیکن ہوازن اور ثقیف کا معاملہ دوسرے قبائل کے بالکل برعکس تھا۔ یہ قبائل نہایت جنگجو اور فنون حرب و ضرب کے خوب ماہر تھے اور جوں جوں اسلام کو غلبہ حاصل ہوتا تھا یہ قبائل اس غلبہ کو اپنی ریاست و اقتدار کے لیے خطرہ سمجھ کر اور بھی زیادہ سیخ پا ہوجاتے تھے۔ مکہ کی فتح کے بعد ان دونوں قبائل نے باہمی اتفاق سے یہ پروگرام بنایا کہ اس وقت مسلمان مکہ میں جمع ہیں۔ اسی مقام پر ان پر ایک بھرپور حملہ کر کے ان کا زور توڑ دیا جائے۔ ان لوگوں کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنی عورتیں اور بچے بھی ساتھ لے آئے تھے تاکہ کسی کو پسپائی کا خیال ہی پیدا نہ ہو۔ ایک تیس سالہ نوجوان مالک بن عوف ان کا سپہ سالار تھا۔ مسلمانوں کی پسپائی :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں ہی مقیم تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان حالات کا علم ہوا۔ فتح مکہ سے تو کچھ مال غنیمت وصول ہی نہ ہوا تھا۔ اب سوال یہ تھا کہ اس نئی جنگ کے لیے اخراجات کہاں سے آئیں؟ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ربیعہ سے تیس ہزار درہم قرض لیے اور اسلحہ جنگ کے طور پر سو زر ہیں اور اس کے لوازمات صفوان بن امیہ سے مستعار لیے اور ان قبائل سے مقابلہ کے لیے مکہ سے نکل کر ان کی طرف بڑھے اور حنین کے مقام پر دونوں لشکر آمنے سامنے آ گئے۔ اس وقت اسلامی لشکر کی تعداد بارہ ہزار تھی جن میں نو مسلم بھی شامل تھے اور دشمن کی تعداد صرف چار ہزار تھی۔ مقابلہ ہوا تو ہوازن کے تیر اندازوں نے کمین گاہوں سے اس طرح تیروں کی بوچھاڑ کی اور اس قدر بے جگری سے لڑے کہ اسلامی لشکر کے جو آج اپنی کثرت تعداد پر نازاں ہونے کی وجہ سے کچھ بے خوف اور لاپروا سے ہو رہے تھے، چھکے چھوٹ گئے اور ان کے پاؤں اکھڑ گئے اور راہ فرار اختیار کی۔ حتیٰ کہ ایک وقت ایسا آیا جب آپ اکیلے دشمن کے سامنے کھڑے رہ گئے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس قدر جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کیا۔ اس کا اندازہ درج ذیل احادیث سے ہوتا ہے۔ نیز جنگ کے حالات پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ آپ کی مثالی جرأت :۔ ١۔ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم مال غنیمت پر ٹوٹ پڑے اور دشمن نے ہم پر تیر برسانے شروع کردیئے۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب و یوم حنین۔ مسلم کتاب الجہاد۔ باب فی غزوۃ حنین ) ٢۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حنین کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دس ہزار مجاہدین کے علاوہ طلقاء (جنہیں فتح مکہ کے بعد معافی دی گئی تھی) بھی تھے۔ وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ گئے تھے اور آپ اکیلے رہ گئے تھے۔ (غزوہ طائف۔ بخاری کتاب المغازی۔ مسلم کتاب الجہاوالسیر باب اعطاء المؤلفۃ قلوبھم ) ٣۔ اصحاب شجرہ کا پکارنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچنا :۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حنین کی جنگ میں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ میں اور ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں چھوڑا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفید خچر پر سوار تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فروہ بن نغاثہ جذامی نے ہدیہ کیا تھا۔ جب کفار اور مسلمانوں کا مقابلہ ہوا تو مسلمان پیٹھ پھیر کر بھاگے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر پر کفار کی طرف جانے کے لیے ایڑ لگانے لگے۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر کی لگام پکڑے ہوئے تھا کہ کہیں وہ تیزی سے دشمن کی طرف نہ چلا جائے اور ابو سفیان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا ’’عباس! اصحاب شجرہ کو آواز دو (کیونکہ میں بلند بانگ تھا) میں نے بلند آواز سے پکارا : اصحاب شجرۃ کہاں ہیں؟ آواز سنتے ہی وہ اس طرح لوٹ آئے جیسے گائے اپنے بچوں کے پاس آتی ہے۔ وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ہم حاضر ہیں۔ ہم حاضر ہیں۔ انصار کو یوں بلایا گیا۔ یا معشر الانصار! یا معشر الانصار! پھر بنو الحارث بن خزرج پر بلانا ختم ہوا۔ انہیں یوں بلایا گیا۔ اے بنو الحارث بن خزرج۔ اے بنو الحارث بن خزرج! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفید خچر پر سوار تھے اور اونچے ہو ہو کر لڑائی دیکھ رہے تھے۔ (مسلم۔ کتاب الجہادوالسیر۔ باب فی غزوۃ حنین) ٤۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشعار پڑھنا :۔ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’جب لوگوں کو ندا دی گئی اس وقت آپ یہ شعر پڑھ رہے تھے۔ انا النبی لاکذب۔۔۔۔۔ انا ابن عبدالمطلب اور فرما رہے تھے اے اللہ اپنی نصرت نازل فرما۔ اللہ کی قسم! جب جنگ شدت اختیار کر جاتی تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اپنا بچاؤ کرتے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہوجاتے تھے اور ہم میں بہادر وہ تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر کھڑا ہوتا۔‘‘ (مسلم۔ کتاب الجہادوالسیہ۔ باب غزوہ حنین) پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پکار پر مہاجرین و انصار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہوگئے تو اس وقت تک اپنی کثرت پر نازاں ہونے کی بو دماغوں سے نکل چکی تھی۔ پھر جم کر لڑے۔ اللہ کی مدد شامل حال ہوئی تو اللہ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی۔ اس جنگ میں مسلمانوں کو بہت سا مال غنیمت بھی حاصل ہوا اور بہت سے لونڈی غلام بھی بنائے گئے کیونکہ یہ لوگ اپنے بیوی بچوں کو بھی ساتھ لائے تھے۔ گویا جس چیز کو وہ حوصلہ افزائی کے لیے لائے تھے وہی چیز اللہ نے ان کے لیے وبال جان بنا دی۔ التوبہ
26 [٢٤] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ریت کی مٹھی پھینکنا اور نصرت الہٰی کی صورتیں :۔ مدد کی بھی کئی صورتیں تھیں ان میں سے دو کا ذکر تو اس آیت میں ہے۔ یعنی اونگھ طاری کر کے مسلمانوں کو تسکین بخشنا اور فرشتوں کا نزول جو اس جنگ میں لڑے نہیں بلکہ صرف کافروں کو مرعوب کرنے کے لیے بھیجے گئے اور تیسری قسم کا ذکر درج ذیل حدیث میں ہے۔ مدد کی انہی صورتوں سے پہلے اللہ نے بدر اور احد میں بھی مسلمانوں کی مدد فرمائی تھی۔ سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب دشمنوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیر لیا تو صلی اللہ علیہ وسلم آپ خچر سے اترے اور زمین سے ایک مٹھی خاک اٹھائی اور کفار کی طرف پھینکی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’دشمنوں کے چہرے بگڑ جائیں۔ پھر کفار میں سے کوئی بھی ایسا نہ بچا جس کی آنکھوں میں اس مٹھی کی وجہ سے مٹی نہ پڑگئی ہو۔ ‘‘ (مسلم۔ کتاب الجہادوالسیہ۔ باب غزوہ حنین) التوبہ
27 [٢٥] لونڈی غلاموں کی واپسی :۔ جنگ کا یہ انجام دیکھ کر ان قبائل کے بہت سے لوگ اسلام لے آئے۔ پھر تقریباً دو مہینہ بعد یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جو اس وقت مکہ میں مقیم تھے اور درخواست کی کہ ان کے اموال ان کو واپس کردیئے جائیں اور لونڈی غلام آزاد کردیئے جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک یہ سب کچھ مجاہدین میں تقسیم کرچکے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جواب دیا کہ تم بہت دیر سے آئے۔ میں تمہارا انتظار کرتا رہا۔ اب تو میں سب کچھ تقسیم کرچکا ہوں۔ اب تو یہی ہوسکتا ہے کہ تم اپنے اموال واپس لے لو یا لونڈی غلام۔ ان لوگوں نے لونڈی غلام لینے کو ترجیح دی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی تعمیل کرتے ہوئے برضا و رغبت مسلمانوں نے سارے کے سارے لونڈی غلام واپس کردیئے۔ التوبہ
28 [٢٦] مشرکوں کے جانے سے میدان معیشت میں خلا کا خدشہ :۔ اس آیت میں مشرکوں کو ناپاک کہا گیا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ فی ذاتہ ناپاک ہوتے ہیں کہ ان سے اگر ہاتھ لگ جائے تو ہاتھ دھونا پڑے بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان کے عقائد ناپاک اور گندے، اخلاق ناپاک اور نیتوں میں ہر وقت فتور اور مکر و فریب اور اعمال گندے ہیں۔ جو ہر وقت اسلام دشمنی، مسلمانوں پر ظلم و تشدد اور معاندانہ سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ اس آیت کی رو سے مسلمانوں کو واضح حکم دے دیا گیا کہ اب مشرکین بیت اللہ کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتے۔ مکہ جہاں ایک مقدس مقام تھا وہاں تجارتی مرکز بھی تھا اور یہ تجارت زیادہ تر مشرکین مکہ کے ہاتھ میں تھی۔ لہٰذا مکہ اور اس کے آس پاس بسنے والے بالخصوص نو مسلموں کو خدشہ لاحق ہوا کہ اب ضروریات کیسے پوری ہوں گی۔ نیز ذرائع روزگار بھی متاثر ہونے کا اندیشہ تھا۔ اللہ نے ان مسلمانوں کو تسلی دی اور اس خدشہ کا مداوا یوں ہوا کہ مسلمانوں نے معیشت کے سارے میدان خود سنبھال لیے جن میں اللہ نے برکت عطا فرمائی اور مسلمانوں کو غنی بنا دیا۔ اس صورت حال کا صحیح اندازہ یوں کیا جا سکتا ہے کہ جب پاکستان بننے کے وقت ١٩٤٧ ء میں ہندو لوگ، جن کے ہاتھ میں معیشت کی باگ ڈور تھی، پاکستان کو چھوڑ کر ہندوستان جا رہے تھے اور زندگی کے ہر میدان میں اور بالخصوص معیشت کے میدان میں بہت بڑا خلا پیدا ہوگیا تو عرصہ تک تجارتی منڈیاں ہی بند رہیں آخر مسلمانوں نے ان منڈیوں کو سنبھال لیا تو اللہ نے انہیں بہت جلد غنی کردیا۔ التوبہ
29 [٢٧] اللہ اور آخرت پر ایمان کا صحیح مفہوم :۔ یہ خطاب اہل کتاب سے ہے حالانکہ وہ اللہ پر بھی اور آخرت پر بھی ایمان رکھنے کے مدعی تھے۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ پر ایمان لانے کا حق ہے ویسے وہ ایمان نہیں رکھتے تھے۔ انہوں نے اللہ کے شریک بھی بنائے۔ خود باتیں گھڑ کر اللہ کے نام منسوب کیں۔ اللہ کی آیات کو چھپایا، انہیں بیچا، ان میں تحریف و تاویل کی۔ اگر وہ فی الواقع اللہ اور اس کی صفات پر ایمان لانے والے ہوتے تو یہ کام کبھی نہ کرتے۔ اسی طرح ان کا آخرت پر ایمان اس طرح کا تھا کہ بس ہم ہی جنت میں جائیں گے باقی سب دوزخ میں جائیں گے اس لیے کہ ہم اللہ کے چہیتے اور پیغمبروں کی اولاد ہیں اور اگر ہمیں آگ نے چھوا بھی تو بس چند دن کی بات ہے۔ اسی طرح نصاریٰ نے کفارہ مسیح کا عقیدہ گھڑا اور اللہ کے ہاں مسؤلیت سے بے خوف ہوگئے۔ آخرت پر ایمان لانے کے یہ معنی ہیں کہ انسان اس بات پر بھی یقین رکھے کہ وہاں کوئی سفارش، کوئی نسب، کوئی فدیہ، کسی بزرگ سے انتساب خواہ یہ نسلی ہو یا پیری مریدی کے رنگ میں ہو کچھ بھی کام نہ آسکے گا۔ [٢٨] یعنی جو کچھ ان کی شریعت میں ان پر نازل ہوا تھا اسے بھی پوری طرح تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور اس رسول کی تو سینہ تان کر مخالفت پر اتر آئے ہیں۔ [٢٩] غیرمسلموں سے جزیہ :۔ اس آیت میں صرف اہل کتاب سے جزیہ لینے کا ذکر ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجوس سے بھی جزیہ لیا تھا۔ جس سے معلوم ہوا کہ ہر مذہب کے غیر مسلموں سے جزیہ لیا جا سکتا ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث میں بھی کسریٰ شاہ ایران سے جزیہ کے مطالبہ کا ذکر ہے اور ظاہر ہے کہ یہ لوگ سورج پرست اور آتش پرست تھے۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا کسریٰ کے سپہ سالاروں کو خطاب :۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کسی جنگ کے موقع پر کسریٰ کے سپہ سالار سے فرمایا : ’’ہم عرب لوگ سخت بدبختی اور شدید مصیبت میں مبتلا تھے۔ بھوک کی وجہ سے چمڑے اور کھجور کی گٹھلیاں چوسا کرتے اور چمڑے اور بالوں کی پوشاک پہنتے تھے۔ درختوں اور پتھروں کی پوجا کرتے تھے۔ پھر زمین و آسمان کے مالک عزوجل نے ہماری طرف ہم میں سے ہی ایک نبی مبعوث کیا جس کے والدین سے ہم اچھی طرح واقف تھے۔ ہمارے نبی ہمارے پروردگار کے رسول نے ہمیں حکم دیا کہ تم سے جنگ کریں تاآنکہ تم اللہ اکیلے کی عبادت کرو یا پھر جزیہ ادا کرو۔ ہمارے نبی نے ہمیں پروردگار کا یہ پیغام بھی پہنچایا کہ جو شخص ہم میں سے قتل ہوگا وہ جنت کی ایسی نعمتوں میں رہے گا جو کسی نے دیکھی بھی نہیں۔ اور جو بچ گیا وہ تمہاری گردنوں کا مالک ہوگا۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب الجزیۃ الموادعۃ مع اہل الذمۃ والحرب) جزیہ ان غیر مسلم اقوام سے لیا جاتا ہے جو اسلام قبول نہ کرنا چاہتے ہوں۔ خواہ یہ مسلمانوں کی مفتوحہ قوم ہو۔ یا کسی اسلامی ریاست میں بطور ذمی رہتی ہو جسے آج کی زبان میں اقلیت کہا جاتا ہے۔ مسلمانوں پر زکوٰۃ کی ادائیگی فرض ہے جس کی شرح مقرر ہے لیکن غیر مسلم قوم پر زکوٰۃ کے بجائے جزیہ کی ادائیگی لازم ہوتی ہے اور اس کی شرح میں اس قوم کی مالی حیثیت کے مطابق کمی بیشی کی جاسکتی ہے اور یہ سب رقوم سرکاری بیت المال میں جمع ہوتی ہے۔ اسلامی حکومت اس جزیہ کے عوض اس قوم کو دفاعی ذمہ داریوں سے سبکدوش کردیتی ہے۔ اور انہیں اپنے مذہبی افعال کی ادائیگی کی پوری اجازت دی جاتی ہے مگر اس بات کی اجازت نہیں دی جاتی کہ وہ اسلام پر کیچڑ اچھالیں یا اس کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کریں۔ اور اگر کسی وقت مسلمان غیر مسلموں پر سے دفاعی ذمہ داریوں کو پورا نہ کرسکیں تو انہیں جزیہ کی رقم واپس دینا ہوگی اور مسلمانوں کی تاریخ میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ چنانچہ شام کی فتوحات کے سلسلہ میں بعض جنگی مقاصد کے پیش نظر اسلامی سپہ سالار سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح کو جب حمص سے واپس جانا پڑا تو آپ نے ذمیوں کو بلا کر کہا کہ ’’ہمیں تم سے جو تعلق تھا وہ اب بھی ہے لیکن اب چونکہ ہم تمہاری حفاظت سے قاصر ہیں لہٰذا تمہارا جزیہ تمہیں واپس کیا جاتا ہے۔‘‘ چنانچہ کئی لاکھ کی وصول شدہ رقم انہیں واپس کردی گئی۔ عیسائیوں پر اس واقعہ کا اتنا اثر ہوا کہ روتے جاتے تھے اور جوش کے ساتھ کہتے جاتے تھے کہ اللہ تمہیں واپس لائے۔یہودیوں پر اس سے بھی زیادہ اثر ہوا۔ انہوں نے تورات کی قسم کھا کر کہا کہ جب تک ہم زندہ ہیں قیصر حمص پر قبضہ نہیں کرسکتا۔ یہ کہہ کر شہر پناہ کے دروازے بند کرلیے اور ہر جگہ چوکی پہرہ بٹھا دیا۔ (الفاروق۔ شبلی نعمانی ١٩١) عرب کی ہمسایہ اور متمدن حکومت ایران میں دو قسم کے ٹیکسوں کا رواج تھا ایک زمین کا لگان جو صرف زمینداروں سے لیا جاتا تھا اور اسے یہ لوگ خراگ کہتے تھے۔ خراج کا لفظ اسی سے معرّب ہے۔ دوسرا ٹیکس عام لوگوں سے دفاعی ضروریات کے پیش نظر لیا جاتا تھا۔ جسے یہ لوگ گزیت کہتے تھے۔ جزیہ کا لفظ اسی سے معرب ہے مسلمانوں نے جب یہ علاقے فتح کیے تو انہوں نے مفتوح اقوام پر کوئی نیا بار نہیں ڈالا بلکہ وہی دونوں قسم کے ٹیکس ان پر عائد کیے گئے جو شاہ ایران اپنی رعایا سے وصول کرتا تھا۔ جبکہ جنگ کے موقعہ پر جزیہ کے علاوہ شاہ ایران کی طرف سے عوام سے جبری ٹیکس بھی وصول کیے جاتے تھے۔ جزیہ اور اس کے متعلقہ احکام :۔ جزیہ کو چونکہ مستشرقین اور اقوام مغرب نے خاصا بدنام کر رکھا ہے لہٰذا اس کے متعلق چند تصریحات ضروری معلوم ہوتی ہیں :۔ ١۔ جزیہ صرف ان افراد پر عائد کیا جاتا ہے جو لڑنے کے قابل ہوں۔ غیر مقاتل افراد مثلاً بچے، بوڑھے، عورتیں معذور لوگ، صوفی اور گوشہ نشین قسم کے حضرات اس سے مستثنیٰ ہوتے ہیں۔ جزیہ ادا کرنے کے بعد یہ لوگ دفاعی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوجاتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں (جنہیں عرف عام میں اہل الذمہ یا ذمی کہتے ہیں) کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی سخت تاکید فرمائی ہے۔ ٢۔ جزیہ ان لوگوں کی مالی حالت کا لحاظ رکھ کر عائد کیا جاتا ہے چنانچہ سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ ’’میں نے مجاہد سے پوچھا کہ شام کے کافروں سے تو سالانہ چار دینار لیے جاتے ہیں اور یمن کے کافروں سے صرف ایک دینار لیا جاتا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے کہا کہ اس لیے کہ شام کے کافر زیادہ مالدار ہیں۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب الجزیۃ الموادعۃ) ٣۔ جزیہ کی وصولی میں انتہائی نرمی اختیار کی جاتی تھی اور سیدنا عمر کو اس سلسلہ میں دو باتوں کا بہت زیادہ خیال رہتا تھا۔ ایک یہ کہ جزیہ کی شرح ایسی ہو جسے لوگ آسانی سے ادا کرسکیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عراق کی مفتوحہ زمینوں پر خراج کی تعیین کے لیے سیدنا حذیفہ بن یمان اور سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہما جیسے اکابر صحابہ کو مقرر کیا جو اس فن کے ماہر تھے جب ان بزرگوں نے یہ حساب پیش کیا تو آپ نے ان دونوں کو بلا کر کہا کہ تم لوگوں نے تشخیص جمع میں سختی تو نہیں کی؟ سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں۔ بلکہ وہ اس سے دگنا بھی ادا کرسکتے تھے۔ (کتاب الخراج ص ٢١) اور دوسری یہ کہ ہر سال جب عراق کا خراج آتا تو دس معتمد اشخاص کوفہ سے اور اتنے ہی بصرہ سے طلب کیے جاتے۔ سیدنا عمر ان کو چار دفعہ شرعی قسم دلا کر پوچھتے کہ رقم کی وصولی میں کسی شخص پر ظلم یا زیادتی تو نہیں کی گئی۔ (الفاروق ص ٣٢٦) ٤۔ جزیہ چونکہ دفاعی ذمہ داریوں کے عوض لیا جاتا ہے لہٰذا جو لوگ ایسی خدمات خود قبول کرتے ان سے جزیہ نہیں لیا جاتا تھا۔ مثلاً ا۔ طبرستان کے ضلعی شہر جرجان کے رئیس مرزبان نے مسلمانوں کے سالار سوید سے صلح کی اور صلحنامہ میں بتصریح لکھا گیا کہ مسلمان جرجان اور طبرستان وغیرہ کے امن کے ذمہ دار ہیں اور ملک والوں میں سے جو لوگ بیرونی حملوں کو روکنے میں مسلمانوں کا ساتھ دیں گے وہ جزیہ سے بری ہیں۔ (الفاروق ص ٢٣٩) ب۔ آذر بائی جان کی فتح کے بعد باب متصل کا رئیس شہر براز خود مسلمانوں کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میں تمہارا مطیع ہوں لیکن میری درخواست یہ ہے کہ مجھ سے جزیہ نہ لیا جائے بلکہ جب ضرورت پیش آئے تو فوجی امداد لی جائے۔ چنانچہ اس کی یہ شرط منظور کرلی گئی۔ (الفاروق ص ٢٤٣) ج۔ عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ نے جب فسطاط فتح کیا تو مقوقس والی مصر نے جزیہ کی بجائے یہ شرط منظور کی کہ اسلامی فوج جدھر رخ کرے گی، سفر کی خدمت (یعنی راستہ صاف کرنا۔ سڑک بنانا۔ پل باندھنا وغیرہ) مصری سر انجام دیں گے۔ چنانچہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ جب رومیوں کے مقابلہ کے لیے اسکندریہ کی طرف بڑھے تو مصری خود منزل بمنزل پل باندھتے، سڑک بناتے اور بازار لگاتے گئے۔ علامہ مقریزی نے لکھا ہے کہ چونکہ مسلمانوں کے سلوک نے تمام ملک کو گرویدہ بنا لیا تھا اس لیے قبطی خود بڑی خوشی سے یہ خدمات سر انجام دیتے تھے۔ (الفاروق ص ١٩٤) جزیہ پر اعتراض اور اس کا جواب :۔ اب ان متمدن اور مہذب مغربی اقوام کا حال بھی سن لیجئے۔ وہ جزیہ کو بدنام کرنے اور اسے ذلت کی نشانی ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ یہ لوگ فتح کے بعد مفتوح قوم سے اپنا سارا جنگ کا خرچہ بطور تاوان جنگ وصول کرتے ہیں۔ پچھلی چند صدیوں میں تو تاوان جنگ کے علاوہ سیاسی اور اقتصادی غلامی پر بھی مفتوح اقوام کو مجبور کیا جاتا رہا۔ البتہ دسری جنگ عظیم کے بعد سیاسی غلامی کو متروک قرار دے کر اس کے بدلے اقتصادی غلامی کے بندھن مضبوط تر کردیئے ہیں ان کے زرخیز ترین علاقہ پر ایک طویل مدت کے لیے قبضہ کرلیا جاتا ہے اور اس معاملہ میں انتہائی سختی سے کام لیا جاتا ہے تاکہ مفتوح قوم میں بعد میں اٹھنے کی سکت ہی باقی نہ رہ جائے۔ اسلام نے جزیہ کی ایسی نرم شرائط سے ادائیگی کے بعد نہ تاوان جنگ عائد کرنے کی اجازت دی ہے اور نہ ہی کسی طرح کی اقتصادی غلامی کی۔ التوبہ
30 [٣٠] بخت نصر بابلی سے یہودیوں کی پٹائی :۔ سیدنا سلیمان علیہ السلام کی حکومت کے بعد پھر یہودیوں پر اللہ کی نافرمانیوں کی وجہ سے زوال آیا اور بخت نصر بابلی نے فلسطین پر پے در پے حملے کر کے اس کو تباہ و برباد کردیا۔ تورات اور تمام مذہبی کتابوں کو جلا کر خاکستر کرایا اور بنی اسرائیل کی ایک کثیر تعداد کو قید کر کے اپنے ساتھ بابل لے گیا۔ انہیں قیدیوں میں عزیر علیہ السلام بھی تھے جو ابھی کمسن ہی تھے۔ کچھ مدت غالباً سات سال بعد اس نے ان قیدیوں کو رہا کیا۔ اس دوران یہ اسرائیل اپنی زبان تک بھول چکے تھے۔ عزیر علیہ السلام نے اپنے وطن واپسی کے دوران ایک اجڑی بستی کو دیکھا جو بخت نصر کے ہاتھوں ہی برباد ہوئی تھی۔ اس واقعہ کا ذکر سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٢٥٩ کے تحت تفصیل سے گزر چکا ہے۔ اس کے بعد آپ کو چالیس سال کی عمر میں نبوت عطا ہوئی۔ آپ کو تورات پوری کی پوری زبانی یاد تھی۔ لہٰذا آپ نے ازسر نو تورات لکھی اس طرح یہود کی الہامی کتاب دوبارہ ان کے ہاتھ آئی۔ (تورات میں آپ کا نام عزرا مذکور ہے) اسی وجہ سے یہودی آپ کی بہت تعظیم کرتے تھے۔ اور بعض نے اس تعظیم میں اس درجہ غلو کیا کہ انہیں اللہ کا بیٹا کہنے لگے۔ اللہ کی اولاد قرار دینے والے فرقے :۔ اور نصاریٰ نے مسیح کو اللہ کا بیٹا قرار دے دیا تھا جس کی وجہ ان کی معجزانہ پیدائش، آپ کو اللہ کے عطاکردہ معجزات اور آپ کا آسمان پر اٹھایا جانا تھا۔ جس کا ذکر قرآن میں جا بجا مذکور ہے۔ ان اہل کتاب نے دراصل سابقہ اقوام کے فلسفہ و اوہام سے متاثر ہو کر ایسے گمراہ کن عقائد اختیار کرلیے تھے۔ بعض نصاریٰ ایسے بھی تھے جو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو خدا یا تین خداؤں میں سے ایک خدا ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے اور کچھ انہیں خدا کا بیٹا قرار دیتے تھے اور اس آیت میں سابقہ اقوام سے مراد یونانی، ہندی اور مصری تہذیبیں ہیں۔ جنہوں نے اللہ کی بیوی، بیٹے بیٹیاں پھر اس سے آگے اس کی اولاد کی نسل چلا کر ایسے دیوی دیوتاؤں کی ایک پوری دیو مالا تیار کردی تھی اور اس کے اثرات ملک عرب میں بھی پائے جاتے تھے۔ التوبہ
31 [٣١] اہل کتاب کا اپنے علماء ومشائخ کو رب بنانا :۔ ان اہل کتاب کا دوسرا شرک یہ تھا کہ حلت و حرمت کے اختیارات انہوں نے اپنے علماء و مشائخ کو سونپ رکھے تھے۔ حالانکہ یہ اختیار صرف اللہ کو ہے۔ وہ کتاب اللہ کو دیکھتے تک نہ تھے بس جو کچھ ان کے علماء و مشائخ کہہ دیتے اسے اللہ کا حکم سمجھ لیتے تھے جبکہ ان کے علماء و مشائخ کا یہ حال تھا کہ تھوڑی سی رقم لے کر بھی فتوے ان کی مرضی کے مطابق دے دیا کرتے تھے۔ اس طرح انہوں نے اپنے علماء و مشائخ کو رب کا درجہ دے رکھا تھا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے :۔ سیدنا عدی بن حاتم کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا میری گردن میں سونے کی صلیب تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’عدی! اس بت کو پرے پھینک دو۔ ‘‘ اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سورۃ برأت کی یہ آیت پڑھتے سنا ﴿اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَالْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ ۚ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوْٓا اِلٰــہًا وَّاحِدًا ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۭسُبْحٰنَہٗ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ﴾پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ لوگ ان مولویوں اور درویشوں کی عبادت نہیں کرتے تھے لیکن جب یہ مولوی اور درویش کسی چیز کو حلال کہہ دیتے تو وہ حلال جان لیتے اور جب حرام کہہ دیتے تو حرام سمجھ لیتے تھے۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) یہ دونوں آیات دراصل ان سے پہلی آیت کی تشریح کے طور پر آئی ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ اہل کتاب اللہ پر ایمان نہیں لاتے۔ یعنی ایسے طرح طرح کے شرک کی موجودگی میں اللہ پر ایمان لانے کا دعویٰ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ التوبہ
32 [٣٢] اللہ کے نور سے مراد :۔ اللہ کے نور سے مراد آفتاب ہدایت یا کتاب و سنت کی روشنی ہے جس طرح سورج کی روشنی کو پھونکوں سے بجھایا یا ماند نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح ان کافروں کی معاندانہ سرگرمیوں سے، ان کے لغو اعتراضات سے، ان کی آیات الٰہی میں شبہات پیدا کرنے سے یا اللہ کی آیات، اللہ کے رسول اور مسلمانوں کا مذاق اڑانے سے دین اسلام کی راہ کو روکا نہیں جا سکتا۔ جسے اللہ ہر صورت میں پورا کرنا چاہتا ہے اور یہ تو یقینی بات ہے کہ کافروں کو اسلام کی ترقی ایک آنکھ بھی نہیں بھاتی۔ ہر ترقی کے قدم پر وہ جل بھن کے رہ جاتے ہیں۔ التوبہ
33 [٣٣] آپ کی بعثت کا مقصد اسلام کی نظریاتی اور سیاسی بالادستی :۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ نے رسول اس لیے بھیجا ہے کہ ساری دنیا کو مسلمان بنا کے چھوڑے۔ بلکہ یہ مطلب ہے کہ دنیا میں جو جو دین یا نظام ہائے زندگی رائج ہیں ان سب پر بلحاظ عقل اور دلیل و حجت اسلام کی بالادستی قائم ہوجائے۔ مثلاً دور نبوی میں یہودیت ایک دین تھا۔ عیسائیت، مجوسیت، منافقت، صائبیت، مشرکین کا دین۔ ان سب ادیان کے عقائد الگ الگ تھے۔ اور انہی عقائد کی مناسبت سے ان کا پورے کا پورا نظام زندگی ترتیب پاتا تھا۔ رسول کی بعثت کا مقصد اللہ کے نزدیک یہ ہے کہ ان تمام باطل ادیان کے نظام ہائے زندگی پر اسلام کی برتری اور بالادستی قائم کر دے۔ اور عقل اور دلیل و حجت کے لحاظ سے اسلام کی یہ برتری اور بالادستی آج تک قائم ہے۔ بیرون عرب ادیان باطل کی مثالیں۔ ہندو ازم، سکھ ازم، بدھ ازم، جمہوریت اور اشتراکیت وغیرہ ہیں۔ ایسے سب ادیان پر اسلام کی برتری اور بالادستی کو بہ دلائل ثابت کرنا علمائے اسلام کا فریضہ ہے۔ یہ تو نظریاتی برتری ہوئی۔ اور سیاسی برتری کے لحاظ سے بھی اللہ نے اسے کئی صدیوں تک غالب رکھا۔ بعد میں جب مسلمانوں میں اخلاقی انحطاط اور انتشار رونما ہوا تو مسلمانوں سے یہ نعمت چھین لی گئی۔ اور اس کا اصول یہ ہے کہ جب تک اور جہاں تک مسلمان اپنے نظام زندگی اسلامی نظریات کے مطابق ڈھالیں گے اسی حد تک مسلمانوں کو غیر مسلم اقوام پر سیاسی بالادستی اور برتری حاصل ہوگی جس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام میں بالقوۃ یہ استعداد موجود ہے کہ وہ سیاسی طور پر بھی تمام غیر مسلم اقوام اور نظریات پر غلبہ حاصل کرے۔ اگرچہ مسلمانوں کی عملی کوتاہیوں کی وجہ سے یہ استعداد بالفعل منظر عام پر نہ آ سکتی ہو۔ التوبہ
34 [٣٤] اہل کتاب کی حرام خوری :۔ ان کے ناجائز طریقے یہ تھے کہ انہوں نے سود کو جائز قرار دے لیا تھا۔ بالخصوص غیر یہود سے سود وصول کرنا نیکی کا کام سمجھتے تھے۔ نیز غیر یہود کے اموال جس جائز و ناجائز طریقہ سے ہاتھ لگ جائیں وہ ان کے نزدیک حلال اور طیب تھے۔ رشوتیں لے کر غلط فتوے دیتے تھے۔ نجات نامے فروخت کرتے تھے۔ حرام کردہ چیزوں مثلاً چربی کو پگھلا کر ان کی قیمت کھا لیتے تھے۔ شادی یا غمی کی کوئی رسم ہو اس میں اپنا حصہ اور نذرانے وصول کرتے تھے۔ اور ان کی یہی کارستانیاں بالواسطہ اللہ کے دین میں رکاوٹ کا سبب بن جاتی تھیں۔ [٣٥] خزانہ جمع کرنے سے مراد :۔ اس جملہ کے مخاطب صرف اہل کتاب ہیں یا ان میں مسلمان بھی شامل ہیں۔ اس بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان بھی اختلاف تھا۔ مثلاً سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس بات کے قائل تھے کہ جس مال سے زکوٰۃ ادا کردی جائے وہ خزانہ کے حکم میں نہیں رہتا جبکہ سیدنا ابوذر غفاری اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم خزانہ جمع کرنے کے مخالف تھے جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے :۔ ١۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جبکہ ابھی زکوٰۃ کی فرضیت نازل نہیں ہوئی تھی۔ پھر جب زکوٰۃ فرض ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے اموال کو زکوٰۃ سے پاک کردیا۔ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب مااُدِّی زکوٰتہ فلیس بکنز) ٢۔ احنف بن قیس کہتے ہیں کہ : میں قریش کی ایک جماعت میں بیٹھا ہوا تھا۔ اتنے میں ایک شخص آیا جس کے بال سخت، موٹے جھوٹے کپڑے اور سیدھی سادی شکل تھی۔ اس نے سلام کیا۔ پھر کہنے لگا ’’ان کو خوشخبری سنا دو کہ ایک پتھر دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا وہ ان کی چھاتی پر رکھ دیا جائے گا اور ان کے مونڈھے کی اوپر والی ہڈی پر رکھ دیا جائے گا جو چھاتی کی بھٹنی سے پار ہوجائے گا اسی طرح وہ پتھر ڈھلکتا رہے گا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے پیٹھ موڑی اور ایک درخت کے پاس جا بیٹھا۔ میں نے اس سے کہا ’’میں سمجھتا ہوں تمہاری یہ بات ان لوگوں کو ناگوار گزری ہے‘‘ وہ کہنے لگا۔ یہ لوگ تو بے وقوف ہیں۔ مجھ سے میرے جانی دوست نے کہا۔ میں نے پوچھا ’’تمہارا جانی دوست کون ہے؟‘‘ کہنے لگا ’’رسول اللہ اور کون؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ابو ذر! تو احد پہاڑ دیکھتا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا ''جی ہاں'' فرمایا ’’میں نہیں چاہتا کہ میرے پاس احد پہاڑ برابر سونا ہو۔ اگر ہو تو میں تین دینار کے علاوہ سب اللہ کی راہ میں خرچ کر ڈالوں۔‘‘ اور یہ لوگ تو بے وقوف ہیں جو روپیہ اکٹھا کرتے ہیں اور میں تو اللہ کی قسم! ان سے نہ تو دنیا کا کوئی سوال کروں گا اور نہ دین کی کوئی بات پوچھوں گا۔ یہاں تک کہ اللہ سے جا ملوں۔ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب ما ادی زکوٰتہ فلیس بکنز ) ٣۔ سیدنا ابوذر غفاری کا مسلک :۔ زید بن وہب کہتے ہیں کہ میں نے ربذہ (مدینہ کے قریب ایک مقام ہے) میں ابوذر غفاری کو دیکھا تو پوچھا ’’تم یہاں جنگل میں کیسے آ گئے؟‘‘ انہوں نے کہا’’ہم ملک شام میں تھے۔ مجھ میں اور معاویہ (گورنر شام) میں جھگڑا ہوگیا۔ میں نے یہ آیت پڑھی ﴿وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا یُنْفِقُوْنَہَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ۙ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ ﴾ تو امیر معاویہ نے کہا کہ یہ آیت مسلمانوں کے حق میں نہیں (اگر وہ زکوٰۃ ادا کرتے رہیں) بلکہ اہل کتاب کے حق میں ہے جبکہ میں یہ کہتا تھا کہ یہ آیت (عام) ہے اور ان کے اور ہمارے درمیان مشترک ہے۔‘‘ (حوالہ ایضاً) التوبہ
35 [٣٦] زکوٰۃ ادا نہ کرنے کی وعید :۔ اس آیت کی وضاحت کے لیے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :۔ ١۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جسے اللہ نے مال دیا اور اس نے زکوٰۃ ادا نہ کی تو اس کا مال گنجے سانپ کی شکل میں اس کے پاس لایا جائے گا جس کی پیشانی پر دو نقطے ہوں گے۔ قیامت کے دن اس کا طوق بنایا جائے گا، پھر وہ اس کے دونوں جبڑوں کو کاٹے گا اور کہے گا:میں تیرا مال ہوں۔ میں تیرا خزانہ ہوں‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ آل عمران کی یہ آیت تلاوت فرمائی :﴿وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰیھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِھٖ ھُوَ خَیْرًا لَّھُمْ ۭ بَلْ ھُوَ شَرٌّ لَّھُمْ ۭ سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ۭ وَلِلّٰہِ مِیْرَاث السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ ﴾ (بخاری کتاب الزکوٰۃ۔ باب اثم مانع الزکوٰۃ ) ٢۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو سونے اور چاندی کا مالک اس کا حق ادا نہیں کرے گا تو قیامت کے دن اس کے لیے آگ کے تختے بنائے جائیں گے۔ پھر انہیں دوزخ کی آگ سے خوب گرم کر کے اس کے پہلو، پیشانی اور پیٹھ پر داغ لگائے جائیں گے۔ جب وہ ٹھنڈے ہوجائیں گے تو دوبارہ گرم کیے جائیں گے اور اس دن مسلسل یہی ہوتا رہے گا جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے۔ بالآخر جب بندوں کا حساب ہوجائے گا تو یا تو اسے جنت کا راستہ بتا دیا جائے گا یا دوزخ کا۔‘‘ (مسلم۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب اثم مانع الزکوٰۃ) التوبہ
36 [٣٧] حرمت کے مہینوں میں تقدیم و تاخیر، حرمت کے مہینے عرب کا رواج ہے جسے اسلام نے بحال رکھا :۔ جس طرح اہل کتاب اپنی اغراض اور دینی مفاد کی خاطر احکام الٰہی میں ہیرا پھیری کرلیتے تھے اسی طرح عرب کے مشرکین بھی کرلیا کرتے تھے اور اسی مناسبت سے یہاں ان کا ذکر آ رہا ہے۔ مشرکین عرب کے نزدیک چار ماہ حرمت والے تھے۔ ذیقعدہ، ذی الحجہ اور محرم حج کے لیے اور رجب عمرہ کے لیے۔ ان مہینوں میں لوٹ مار اور جدال و قتال حرام تھا اور اس دوران لوگ آزادی کے ساتھ سفر اور تجارت وغیرہ کرسکتے تھے۔ اگرچہ لوٹ مار اور لڑائی جھگڑا ہر وقت ہی ایک گناہ کا کام تھا تاہم ان مہینوں میں اسے شدید تر گناہ سمجھا جاتا تھا لیکن مشرک اپنی اغراض کی خاطر ان مہینوں میں ادل بدل کر کے سال میں چار حرمت والے مہینوں کی تعداد پوری کرلیتے تھے۔ مثلاً کوئی زور آور قبیلہ جب محرم میں اپنے کسی کمزور دشمن قبیلے سے انتقام لینایا جنگ چھیڑنا چاہتا تو وہ یہ اعلان کردیتا کہ اس سال محرم کے بجائے صفر حرمت والا مہینہ قرار دیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس طرح وہ اپنی من مانی اغراض پوری کرلیتا اور اگلے سال پھر اعلان کردیتا کہ اس سال محرم کا مہینہ ہی حرمت والا مہینہ شمار ہوگا۔ اور اس غرض کے لیے رد و بدل عموماً محرم اور صفر کے متعلق ہی ہوا کرتا تھا۔ اور ایسا اعلان کرنے والا شخص بنو کنانہ کا ایک سردار تلمس تھا۔ اس طرح یہ لوگ مہینوں کی حلت و حرمت کے خود بخود ہی مختار بن بیٹھے تھے۔ قمری تقویم ہی حقیقی تقویم ہے :۔ دوسری بات جو اس آیت میں بتلائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ وقت کی پیمائش کا قدرتی طریقہ قمری تقویم ہے شمسی نہیں۔ ایک ماہ کی مدت ایک ہلال کی رؤیت سے لے کر اگلے ہلال کی رؤیت تک ہے اور یہ مدت کبھی تیس دن ہوتی ہے اور کبھی انتیس۔ نہ ٢٩ دن سے کم ہو سکتی ہے اور نہ ٣٠ دن سے زیادہ۔ ایسے جب بارہ ماہ گزر جائیں تو یہ ایک سال کی مدت ہے جو کبھی ٣٥٤ دن کا ہوتا ہے کبھی ٣٥٥ دن کا۔ نہ اس سے کم نہ زیادہ۔ کیونکہ بارہ مہینے گزرنے پر تقریباً ویسا ہی موسم آ جاتا ہے جیسا کہ ایک سال پہلے تھا۔ قمری تقویم کی حکمت :۔ جن شرعی احکام میں ایک ماہ یا اس سے زائد مدت کا تعلق ہو تو اس میں قمری ماہ ہی شمار ہوں گے جیسے عدت و رضاعت کے احکام۔ نیز روزہ اور حج و عمرہ کا تعلق بھی قمری مہینوں سے ہے اور عیدین کا بھی۔ قمری سال شمسی سال سے تقریباً دس دن چھوٹا ہوتا ہے۔ اور موسموں اور فصلوں کے پکنے کا تعلق سورج اور موسم سے ہوتا ہے چاند سے نہیں ہوتا۔ شرعی احکام کی بجاآوری کے لیے قمری تقویم کو بنیاد بنانے کی حکمت یہ ہے کہ مثلاً حج کے سفر کے لیے مسلمان ہر موسم کی صعوبتیں برداشت کرنے کے خوگر ہوجائیں۔ نیز رمضان کا مہینہ کسی خاص ملک میں ایک ہی موسم میں نہ آیا کرے۔ ایسا نہ ہو کہ ایک ملک میں تو روزے ہمیشہ سرد موسم میں اور چھوٹے دنوں کے آیا کریں اور دوسرے ملک میں گرم موسم اور بڑے دنوں کے آیا کریں۔ [٣٨] جہاد قیامت تک جاری رہے گی :۔ آیت کے اس جملہ میں مسلمانوں کو دو قسم کی ہدایات دی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ حرمت والے مہینوں میں جنگ کی ابتداء تمہاری طرف سے ہرگز نہ ہونی چاہیے۔ ہاں اگر مشرک لڑائی چھیڑ ہی دیں تو پھر تمہیں بھی ان سے لڑنے کی اجازت ہے۔ دوسری یہ کہ جس طرح مشرکوں کے سب قبائل اپنی باہمی رنجشیں چھوڑ کر تمہارے مقابلہ میں متحد ہوجاتے ہیں اسی طرح تمہیں بھی ان کے مقابلہ میں اکٹھے ہو کر ان کا مقابلہ کرنا چاہیے نیز کَآفَۃً کے مفہوم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ تمہیں ہر حال میں مشرکوں کا مقابلہ کرنا چاہیے جس سے ضمناً یہ معلوم ہوتا ہے کہ کفر اور مشرکین سے جہاد قیامت تک کے لیے فرض ہے۔ اس آیت اور اس مضمون کی دوسری آیات جن میں جہاد کی ترغیب دی گئی ہے مخالفین اسلام نے یہ پروپیگنڈہ شروع کر رکھا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے اور اس اعتراض کے کئی بار کافی و شافی جواب بھی دیئے جا چکے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ اعتراض نہ نقلی اعتبار سے درست ہے نہ عقلی اعتبار سے اور نہ تاریخی اعتبار سے ذیل میں ہم انہی باتوں کا مختصر سا جائزہ پیش کر رہے ہیں :۔ نقلی اعتبار سے یہ اعتراض درج ذیل آیات کی رو سے غلط ہے۔ ١۔ ﴿ لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ﴾ (2: 256)دین میں کوئی جبر یا زبردستی نہیں۔ ٢۔ ﴿ اَفَاَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ ﴾ (10: 99)کیا آپ لوگوں پر زبردستی کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کیوں ایمان نہیں لاتے؟ ٣۔ ﴿فَمَنْ شَاۗءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاۗءَ فَلْیَکْفُرْ ﴾ جو شخص چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے۔ ایسی واضح آیات کی موجودگی میں کیا یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس حکم کی خلاف ورزی کی ہوگی اور کسی شخص کو تلوار دکھا کر یا کسی دباؤ کے ذریعہ اسلام لانے پر مجبور کیا ہوگا ؟ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’اگر کوئی مشرک تم سے پناہ کا خواستگار ہو تو اسے پناہ دو تاآنکہ وہ اللہ کا کلام سن لے۔ پھر اسے اس کی امن کی جگہ تک پہنچا دو۔‘‘ غور فرمائیے کہ دباؤ کا اس سے بہتر بھی کوئی موقع ہوسکتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اسے مجبور کرو کہ وہ اسلام لائے یا پھر اسے موت کے گھاٹ اتار دو بلکہ یوں فرمایا کہ اسے اللہ کا کلام سنانے کے بعد اسے اس کی مرضی پر چھوڑ دو۔ پھر اگر وہ اسلام لانے پر آمادہ نہ ہو تو اسے اس کے محفوظ علاقہ تک پہنچانا بھی پناہ دینے والے کے ذمہ ڈال دیا گیا۔ کیا اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جس شان و شوکت اور رعب و دبدبہ والے خلیفہ تھے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ آپ کا ایک غلام اسبق نامی عیسائی تھا۔ وہ چونکہ سمجھدار اور ہوشیار آدمی تھا لہٰذا سیدنا عمر نے اسے کہا کہ اگر تم مسلمان ہوجاؤ تو ہم مسلمانوں کے کام میں تم سے مدد لیں گے۔ یہ واضح اشارہ تھا کہ آپ اسے کوئی اچھا منصب دینا چاہتے تھے۔ لیکن جب اس پر اسلام پیش فرماتے تو وہ انکار کردیتا اور آپ لاَاِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ کہہ کر چپ ہوجاتے (الجہاد فی الاسلام ص ١٦٣) گویا تلوار یا دباؤ کے ذریعہ تو سیدنا عمر اپنے غلام کو بھی مسلمان نہ بنا سکے پھر یہ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ وسیع و عریض مفتوحہ علاقہ میں انہوں نے مفتوحین کو تلوار کے ذریعہ مسلمان بنا لیا ہوگا ؟ اور عقلی اعتبار سے یہ مفروضہ اس لیے غلط ہے کہ تلوار کے ذریعہ کسی سے کوئی بات منوائی نہیں جا سکتی اور کوئی شخص وقتی طور پر دباؤ کے تحت کوئی بات مان بھی جائے تو اس بات پر قائم و دائم نہیں رکھا جا سکتا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ مسلمان ہوئے وہ دل و جان سے اسلام کے اس طرح فدائی و شیدائی بن گئے کہ کفار کے ظلم اور مصائب برداشت کرتے رہنے کے باوجود اس دین سے باز نہیں آتے تھے اور یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ تلوار یا دباؤ سے بات منوائی نہیں جا سکتی۔ کیونکہ اس وقت تلوار یا دباؤ کفار مکہ کے ہاتھ میں تھا اور آج بھی اگر کوئی شخص یا کوئی حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ دین کو تلوار کے ذریعے پھیلانا ممکن ہے تو اپنا دین پھیلا کر دکھا دے۔ اور تاریخی لحاظ سے یہ اس لیے غلط ہے کہ اگر اس نظریہ کو تسلیم کرلیا جائے تو مندرجہ ذیل سوالات ذہن میں ابھر آتے ہیں۔ ١۔ ابتداً جو لوگ مسلمان ہوئے اور ١٣ سال تک مکہ میں ظلم و ستم کی چکی میں پستے رہے، انہیں کونسی تلوار نے مسلمان بنایا تھا ؟ ٢۔ مکہ میں مسلمانوں کے دشمن صرف قریش مکہ تھے لیکن مدینہ میں دشمنوں کی تعداد ایک سے چار ہوگئی تھی۔ قریش مکہ۔ یہود مدینہ۔ منافقین اور عرب بھر کے مشرک قبائل اور مسلمان ان کے مقابلہ میں انتہائی کمزور تھے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ غزوہ بدر میں شامل ہونے والوں کی تعداد صرف تین سو تیرہ تھی جبکہ ایک سال بعد جنگ احد میں خالص مسلمانوں کی تعداد سات سو تھی یعنی دگنی سے بھی زیادہ۔ اس عرصہ میں مسلمانوں کے پاس کونسی تلوار تھی کہ اسلام اس تیزی سے بڑھنے لگا تھا ؟ ٣۔ مزید دو سال بعد جنگ خندق میں لڑنے والے مسلمانوں کی تعداد تین ہزار یعنی چار گنا سے زیادہ ہوگئی تھی۔ اس وقت مسلمانوں کے پاس کونسی تلوار یا قوت تھی جو لوگوں کو مسلمان بنائے جا رہی تھی؟ ٤۔ صلح حدیبیہ میں کونسی تلوار چلائی گئی تھی جس کے نتیجہ میں لوگ دھڑا دھڑ اسلام میں داخل ہونے لگے تھے؟ ٥۔ فتح مکہ میں تلوار تو چلائی ہی نہیں گئی تاہم فتح کے بعد جب لوگوں کو عام معافی مل گئی تھی تو انہیں اسلام لانے پر کونسی تلوار نے مجبور کیا تھا؟ ٦۔ یہود سے جو جنگیں ہوئیں تو ان کے نتیجہ میں کوئی یہودی مسلمان بنا تھا ؟ ٧۔ محاصرہ طائف میں محاصرہ اٹھا لینے کے بعد اہل طائف کو کونسی مجبوری پیش آ گئی تھی کہ وہ از خود اسلام لے آئے تھے؟ اشاعت اسلام کے اصل اسباب :۔ مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ تو واضح ہوجاتا ہے کہ تلوار کے ذریعہ اسلام پھیلنے کا نظریہ غلط ہے لیکن اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ ’’اسلام واقعی نہایت کثرت سے پھیلا تھا۔‘‘ لہٰذا ہمیں وہ اسباب تلاش کرنے چاہئیں جو اس کثرت اشاعت کا سبب بنے۔ ہمارے خیال میں یہ اسلام کی ذاتی خصوصیات ہیں جن میں سے چند ایک کا ہم یہاں ذکر کریں گے۔ ١۔ کثرت اشاعت اسلام کا سب سے بڑا اور بنیادی سبب معاشرتی مساوات ہے یعنی جب کوئی شخص یا قوم اسلام لاتی ہے تو اسے سابقہ مسلمانوں جیسا معاشرتی درجہ حاصل ہوجاتا ہے اور وہ آپس میں بھائی بھائی بن جاتے اور سمجھے جاتے ہیں۔ اگرچہ اس کی مثالیں قرون اولیٰ میں بے شمار ہیں مگر ہم طوالت سے بچنے کی خاطر اپنے ہی ملک کی ایک دو مثالوں پر اکتفا کرتے ہیں :۔ ا۔ الف ٤ جولائی ١٩٨١ ء کے نوائے وقت میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ’’جنوبی بھارت میں اونچی ذات کے ہندوؤں کے مظالم سے تنگ آ کر ١٣٠٠ ہریجنوں نے اسلام قبول کرلیا۔‘‘ غور فرمائیے کہ اونچی ذات کے ہندو یعنی برہمن بھی ہندو ہیں اور نیچی ذات کے ہریجن بھی ہندو ہی ہیں لیکن محض معاشرتی تفاوت کی بنا پر اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔ آخر انہیں کونسی تلوار نے اسلام لانے پر مجبور کیا تھا؟ پھر دوسرے دن یعنی ٥ جولائی کو اسی نوائے وقت میں ہندوستان کی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی کی طرف سے یہ خبر شائع ہوئی کہ ’’مجھے تکلیف ان لوگوں کی اسلام لانے پر نہیں بلکہ اسباب پر ہے۔‘‘ اور یہ ''اسباب'' جن پر وزیراعظم صاحبہ کو تکلیف ہوئی وہ ان کے مذہب کا جزولاینفک ہیں۔ ہندومت، برہمن کو تو بالاتر مخلوق سمجھتا ہے اور شودر کو انسان بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ شودر برہم کا پیدائشی غلام ہے اور غلامی کا یہ پھندا کسی صورت اس کی گردن سے اتر نہیں سکتا۔ انہی ''اسباب'' کو اسلام نے ختم کیا اور انہی اسباب کے خاتمہ کی و جہ سے اسلام ہر دور میں پھیلتا رہا اور ہندوستان میں بھی پھیلا۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ ان برہمنوں نے ہندومذہب کی اس انسانیت کش ذات پات کی تقسیم سے تنگ آکر آخراسلام ہی کیوں قبول کیا کوئی دوسرا مذہب کیوں نہ قبول کرلیا اس بات کا جواب آپ کو درج ذیل واقعہ سے مل جائے گا۔ ب۔ ٣١ جولائی ١٩٨١ ء نوائے وقت میں ایک خبر شائع ہوئی کہ ’’پانڈی چری میں ڈیڑھ ہزار ہریجن مسلمان ہو گئے‘‘ اور ٣٠ جولائی یعنی ایک دن پہلے یہ خبر شائع ہوئی کہ ہریجنوں کے لیڈر مسٹر سی کرشنا مورتی نے اسلام لانے کے بعد اخباری نمائندوں کو بتایا کہ عیسائی مذہب قبول کرنے سے ان کی سماجی حیثیت بلند نہیں ہوتی لیکن اسلام لانے سے ہمارا سماجی مرتبہ بڑھ جاتا ہے۔ ہمارا یہ فیصلہ حتمی ہے اور اس میں کوئی سیاسی مصلحت نہیں۔۔ واضح رہے کہ اس سے قبل تامل ناڈو کے موضع منبا کشی پورم میں ہریجنوں نے اجتماعی طور پر مذہب اسلام قبول کرلیا ہے۔ (نوائے وقت حوالہ مذکورہ صفحہ ٥) تہذیب ومعاشرت کی مساوات :۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ آج کے جمہوری اور مہذب ترین ممالک میں گورے اور کالے کے جھگڑے اور امیر اور غریب کے مسائل بدستور موجود ہیں۔ عیسائیوں کے ہاں امراء کے گرجے ہی الگ ہوتے ہیں اور بعض گرجوں میں امراء کے لیے کرسیاں اور غریبوں کو فرش پر بیٹھنا پڑتا ہے۔ لیکن اسلام ہر طرح کے امتیازات کو ختم کر کے سب کو ایک صف میں لاکھڑا کرتا ہے۔ یہاں بلال رضی اللہ عنہ حبشی جیسے پست قد، کالے رنگ اور موٹے ہونٹوں والے آزاد شدہ غلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے کہ اَرِحْنا یا بلال اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جیسے رعب و دبدبہ والے خلیفہ آپ کو سیدنا بلال کہہ کر پکارا کرتے تھے اور یہ خوبی غالباً اسلام کے علاوہ دوسرے کسی دین میں نہیں پائی جاتی۔ دوسرا سبب قانونی مساوات :۔ اشاعت اسلام کا دوسرا سبب قانونی مساوات ہے۔ قانونی مساوات کا مطلب یہ ہے کہ معاشرہ کا کوئی ممتاز سے ممتاز فرد حتیٰ کہ امیر یا صدر یا بادشاہ بھی قانون کی دسترس سے بالاتر نہیں ہوتا اور یہ ایک ایسا امتیاز ہے جو اسلامی ریاست کے علاوہ کہیں پایا جانا ممکن نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ایسی ریاست کا اقتدار اعلیٰ خود اللہ کی ذات ہوتی ہے۔ کوئی ایک فرد یا ادارہ یا پارلیمنٹ نہیں ہوتی۔ باقی سب لوگ اللہ کے ایک جیسے محکوم اور اطاعت گزار بندے ہوتے ہیں۔ اور جمہوریت کا دعوی کرنے والے ممالک حتیٰ کہ پاکستان کا یہ حال ہے کہ صدر مملکت، وزیراعظم، گورنر اور وزرائے اعلیٰ پر نہ تو کوئی فوجداری مقدمہ دائر ہوسکتا ہے اور نہ انہیں عدالت کسی فوجداری مقدمہ میں ملوث قرار دے سکتی ہے اور ملک کی کوئی بڑی سے بڑی عدالت بھی انہیں طلب نہیں کرسکتی۔ جب کہ اسلامی ریاست کا یہ حال ہے کہ ایک دفعہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو پیش کر کے یہ اعلان کردیا کہ ’’جس کسی نے مجھ سے کوئی بدلہ یا قصاص لینا ہو وہ آج لے سکتا ہے‘‘ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبیلہ قریش کی ایک عورت فاطمہ مخزومی نے چوری کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حد موقوف کرنے کی سفارش کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’پہلی امتوں کی ہلاکت کا سبب ہی یہ تھا کہ جب ان میں سے کوئی کمزور جرم کرتا تو اسے سزا دیتے اور اگر شریف وہی جرم کرتا تو اس کی سزا موقوف کردی جاتی۔ یہ تو فاطمہ مخزومی کی بات ہے اللہ کی قسم! اگر میری اپنی بیٹی فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الحدود۔ باب اقامہ الحدود ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء نے ایسا نظام عدالت رائج کیا جہاں مفت اور بلاتاخیر انصاف حاصل ہوتا تھا۔ خلافت راشدہ کے دوران کئی بار ایسا ہوا کہ خلیفہ وقت کو مدعی یا مدعا علیہ کی صورت میں عدالت میں پیش ہونا پڑا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اکثر مقدمہ کا فیصلہ ان کے خلاف صادر ہوا۔ دور فاروقی میں شام کے گورنر سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح نے سیدنا معاذ بن جبل کو رومیوں کے پاس سفیر بنا کر بھیجا۔ شنہشاہ کا دربار اور اس کی شان و شوکت دیکھ کر آپ نے فرمایا :۔ ’’تم لوگوں کو اس پر ناز ہے کہ تم ایسے شہنشاہ کی رعایا ہو جس کو تمہاری جان و مال کا اختیار ہے لیکن ہم نے جسے اپنا بادشاہ بنا رکھا ہے وہ کسی بات میں اپنے آپ کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ اگر وہ زنا کرے تو اسے درے لگائے جائیں۔ چوری کرے تو ہاتھ کاٹ ڈالے جائیں۔ وہ پردے میں نہیں بیٹھتا، اپنے آپ کو ہم سے بڑا نہیں سمجھتا اور مال و دولت میں اس کو ہم پر ترجیح نہیں۔‘‘ (الفاروق ص ١٢٥) سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اپنے دور خلافت میں ان کی اپنی زرہ چوری ہوگئی جو آپ نے ایک یہودی کے پاس دیکھ لی تو سیدنا علی رضی اللہ نے یہ نہیں کیا کہ اس یہودی سے اپنی زرہ چھین کر اسے کیفر کردار تک پہنچا دیتے بلکہ قاضی شریح کی عدالت میں اس پر دعویٰ دائر کردیا اور اپنے بیٹے حسن اور غلام کو گواہ کے طور پر پیش کیا۔ قاضی شریح نے آپ کا مقدمہ صرف اس بنا پر خارج کردیا کہ بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں اور غلام کی گواہی آقا کے حق میں قبول نہیں اور عدل کے تقاضے پورے نہیں ہوتے حالانکہ عدالت کو خوب معلوم تھا کہ مدعی اور گواہ سب عادل اور ثقہ ہیں۔ عدل کی یہ صورت دیکھ کر اس یہودی نے زرہ بھی واپس کردی اور خود بھی مسلمان ہوگیا۔ غور فرمائیے کہ اس یہودی کو اسلام لانے پر کس نے مجبور کیا تھا اور کیا وہ اکیلا ہی مسلمان ہوا ہوگا یا اس کا خاندان اور قبیلہ بھی۔ ایسے واقعات دراصل انفرادی نتائج کے حامل نہیں ہوتے بلکہ ایک جہان کے افکار و نظریات میں تلاطم بپا کردیتے ہیں۔ اشاعت اسلام کی تیسری وجہ مسلمانوں کے اپنے کردار کی پاکیزگی ہے۔ صدر اول کے مسلمانوں کا سب سے بڑا ذریعہ تبلیغ ان کا اپنا عمل اور کردار تھا۔ ان کی زندگی سادہ اور تکلفات سے پاک تھی حتیٰ کہ دشمن بھی ان کے کردار کی عظمت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوجاتا تھا۔ چنانچہ حمص اور دمشق میں شکست کھانے کے بعد شکست خوردہ عیسائی انطاکیہ پہنچے اور ہر قل شہنشاہ روم سے فریاد کی کہ اہل عرب نے تو تمام شام کو پامال کردیا۔ ہر قل نے ان میں سے چند تجربہ کار اور معزز آدمیوں کو دربار میں بلا کر پوچھا کہ عرب تم سے نہ جمعیت میں زیادہ ہیں نہ سر و سامان اور قوت میں۔ پھر تم ان کے مقابلہ میں کیوں نہیں ٹھہر سکتے؟ اس سوال پر سب نے ندامت سے سر جھکا لیا البتہ ایک تجربہ کار بڈھے نے عرض کی کہ : تیسرا سبب کردار کی پاکیزگی :۔ ’’بات یہ ہے کہ اہل عرب کے اخلاق ہم سے اچھے ہیں وہ رات کو عبادت کرتے اور دن کو روزے رکھتے ہیں۔ کسی پر ظلم نہیں کرتے اور ایک دوسرے کے ساتھ برابری سے ملتے ہیں اور ہمارا یہ حال ہے کہ شراب پیتے ہیں، بدکاریاں کرتے ہیں۔ عہد کی پابندی نہیں اور دوسرے پر ظلم کرتے ہیں اس کا یہ اثر ہے کہ ان کے کام میں جوش اور استقلال پایا جاتا ہے اور ہمارا جو بھی کام ہوتا ہے ہمت اور استقلال سے خالی ہوتا ہے۔‘‘ (الفاروق ص ١٨٩) محمد بن قاسم سندھ اور ملتان کے علاقہ میں تھوڑی ہی مدت رہا۔ وہ عظیم جرنیل ہونے کے علاوہ صفات جہاں بانی سے بھی مالا مال تھا، رعایا، حکومت اور سندھی بت پرستوں سے مذہبی رواداری نے سندھیوں کے دلوں کو کچھ اس طرح موہ لیا تھا کہ جب محمد بن قاسم سندھ سے واپس گیا تو سندھی اس کی تصویریں بنا کر اپنے پاس رکھتے تھے وہ اسے رحمت کا فرشتہ سمجھتے تھے۔ پھر جب انہیں محمد بن قاسم کی دردناک موت کا حال معلوم ہوا تو سارے ملک نے سوگ منایا۔ (تاریخ اسلام۔ حمید الدین ص ٣٠٨) یہ سندھی لوگ مسلمان نہیں تھے۔ پھر آخر وہ کیا چیز تھی جس نے انہیں محمد بن قاسم کا اتنا گرویدہ بنا دیا تھا۔ محمد بن قاسم نے بھی انہیں مسلمان بنانے کی ہرگز کوشش نہیں کی تھی لیکن ان باتوں کے باوجود وہ ازخود اسلام کے قریب تر آ رہے تھے اور تھوڑے ہی عرصہ بعد مسلمان بھی ہوگئے تھے۔ کیا یہ بھی تلوار کا کرشمہ تھا ؟ چوتھا سبب معاملات کی صفائی :۔ اشاعت اسلام کا چوتھا سبب مسلمانوں کے معاملات کی صفائی ہے۔ اسلام میں اکل حلال کو بہت اہمیت حاصل ہے وہ جائز و ناجائز مال کی بڑی تفصیل سے وضاحت کرتا اور ناجائز ذرائع سے کمائے ہوئے مال کو حرام قرار دیتا ہے۔ لین دین اور معاملات کی صفائی ایسے حالات میں ایک امتحان بن جاتی ہے جب کسی محنت یا حق کا معاوضہ تو پیشگی لیا جا چکا ہو اور اس حق یا محنت کی ادائیگی یا عدم ادائیگی کا اختیار بھی کلیتاً معاوضہ وصول کرنے والے کے ہاتھ میں ہو۔ ایسی صورت میں اگر کوئی شخص یا ادارہ جائز و ناجائز یا حلال و حرام میں تمیز کرتا ہے تو وہ فی الواقع قابل تعریف ہے اور دوسرے لوگ اس کے کردار کی عظمت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ شام کی فتوحات کے سلسلہ میں کچھ جنگی مصلحتوں کے پیش نظر مسلمانوں کو حمص سے واپس دمشق جانا پڑا۔ مسلمانوں کے سپہ سالار سیدنا ابو عبیدہ بن جراح اہالیان حمص سے جزیہ وصول کرچکے تھے اور ان کی دفاعی حفاظت کی ذمہ داری قبول کرچکے تھے۔ آپ نے ان لوگوں کو اکٹھا کیا اور کہا۔’’ہمیں جو تعلق تمہارے ساتھ تھا وہ اب بھی ہے مگر چونکہ اس وقت ہم تمہاری حفاظت کے ذمہ دار نہیں ہو سکتے لہٰذا تمہار اجزیہ جو اس خدمت کا معاوضہ تھا تمہیں واپس کیا جاتا ہے۔‘‘ چنانچہ آپ نے کئی لاکھ وصول شدہ رقم و اپس کردی۔ عیسائیوں پر اس واقعہ کا اس قدر اثر ہوا کہ وہ روتے جاتے تھے اور جوش کے ساتھ کہتے جاتے تھے خدا تمہیں واپس لائے اور یہودیوں پر اس سے بھی زیادہ اثر ہوا۔ انہوں نے کہا، تورات کی قسم! جب تک ہم زندہ ہیں قیصر حمص پر قبضہ نہیں کرسکتا، یہ کہہ کر شہر پناہ کے دروازے بند کردیئے گئے اور ہر جگہ چوکی پہرہ بٹھا دیا۔ (الفاروق ص ١٩١) پانچواں سبب عفو و درگزر :۔ اشاعت اسلام کا پانچواں سبب عفو و درگزر ہے۔ جب کسی جانی دشمن پر پوری طرح قابو پا لیا جائے اس وقت اس کے جرائم سے چشم پوشی کر کے اسے معاف کردینا بڑے دل گردہ کا کام ہے۔ فتح مکہ ہی ایسی جنگ ہے جس میں دشمن پر پوری طرح تسلط حاصل ہوا۔ اگر اس وقت آپ ان سے بھرپور بدلہ لے لیتے تب بھی ان کی طرف سے کسی انتظامی کاروائی کا اسلام کو خطرہ لاحق نہیں ہوسکتا تھا اور یہی لوگ اسلام کے سب سے پہلے اور سب سے بڑے جانی دشمن تھے۔ اس کے باوجود آپ نے عام معافی کا اعلان فرما دیا جس کا اثر یہ ہوا کہ اسلام اس تیزی اور کثرت سے پھیلا کہ اس سے پہلے اس کی مثال نہیں ملتی۔ صلح حدیبیہ کے دوران ابتداً ٢٠٠ نوجوان مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے مگر شکست کھا کر گرفتار ہوگئے آپ نے ان سب کو خیر سگالی کے طور پر چھوڑ دیا اور چونکہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ کی نیت سے آئے تھے لہٰذا بیعت رضوان مکمل ہونے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے توہین آمیز شرائط پر صلح کر کے یہ ثابت کردیا کہ مسلمان فطرتاً جنگجو نہیں بلکہ صلح پسند ہیں۔ اس صلح کے بعد بھی اسلام کی خوب اشاعت ہوئی اور اس میں تلوار یا جبر کو کچھ عمل دخل نہ تھا بلکہ بظاہر مسلمانوں کی خفت تھی۔ لیکن نتیجہ اشاعت اسلام کی صورت میں سامنے آیا۔ قول فیصل :۔ یہ اور اس کے علاوہ اور بھی کئی باتیں ہیں جو اشاعت اسلام کا سبب بنیں۔ لیکن بایں ہمہ حقیقت یہی ہے کہ اسلام کی اشاعت میں تلوار کو بھی ایک گونہ تعلق ضرور ہے خواہ یہ دسواں حصہ ہی کیوں نہ ہو۔ معاندین اسلام اپنا سارا زور اس بات پر صرف کردیتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا۔ یہ لوگ بھی انتہا تک پہنچ گئے ہیں۔ دوسرا گروہ یعنی مسلمان اپنا سارا زور اس الزام کی مدافعت میں صرف کردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلام کی اشاعت محض اس کی خوبیوں کی بنا پر ہوئی۔ ہمارے خیال میں یہ گروہ بھی دوسری انتہا کو پہنچ گیا ہے۔ مانا کہ اسلام میں یہ خوبیاں موجود ہیں لیکن ان خوبیوں کو آشکار کرنے اور ''حق'' کو بروئے کار لانے کے لیے بھی قوت کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ قوت اسلام کو تلوار کے ذریعہ مہیا ہوئی۔ اگر اشاعت اسلام میں تلوار کا کچھ بھی حصہ نہ تھا تو جہاد کی ترغیب کیوں دی گئی؟ اور کیا مکہ میں رہ کر اسلام بار آور نہ ہوسکتا تھا ؟ اشاعت اسلام میں تلوار کا حصہ :۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تعلیم کے دو حصے ہیں (١) امر بالمعروف (٢) نہی عن المنکر امر بالمعروف کو ماننا یا نہ ماننا مخاطب کی اپنی مرضی پر منحصر ہے ایک شخص اگر کسی دوسرے کو عقیدہ توحید یا آخرت یا اسلام لانے کی دعوت دیتا ہے اور وہ قبول کرنے سے انکار کردیتا ہے تو اس پر نہ جبر کیا جا سکتا ہے اور نہ تلوار سے ڈرایا یا دھمکایا جا سکتا ہے اور جہاں تک نہی عن المنکر کا تعلق ہے تو یہ فریضہ قوت یا تلوار کے بغیر پورا ہو ہی نہیں سکتا۔ اسلام محض عقائد و نظریات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک زندہ جاوید قانون ہے جو مکمل ضابطہ حیات پیش کرتا ہے اور اس قانون کے نفاذ کے لیے قوت چاہتا ہے۔ اگر کسی جگہ ظلم ہو رہا ہو۔ زنا، چوری، ڈاکہ، قتل و غارت کی وارداتیں ہو رہی ہو۔ لوگوں کا امن و چین غارت ہو رہا ہو تو اسلام کا قانون حرکت میں آئے گا اور تلوار ہاتھ میں لے کر اس کی اصلاح کرے گا۔ خواہ یہ علاقہ مشرکین کا یا اہل کتاب کا اور خواہ اس میں مسلمان بھی رہتے ہوں۔ مکی زندگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قوت نہیں تھی لہٰذا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر دونوں طرح کے کام زبانی تبلیغ سے سر انجام دیئے جاتے رہے۔ قرآن جیسا معجزانہ کلام، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سا بلند کردار، آپ کے جانثاروں کی قربانیاں، آپ کا تبلیغ میں اپنی جان تک کھپا دینا اور بہترین طریق تبلیغ، ان سب طرح کی کوششوں کے باوجود یہ تو نہ ہوسکا کہ قریش مکہ ایمان لاتے۔ بے شک وہ اسلام کی حقانیت کے دل سے معترف ہوچکے تھے لیکن اسلام اپنا ضابطہ اور پابندیاں بھی عائد کرتا تھا جو انہیں گوارا نہ تھیں نیز انہیں عرب بھر میں سیاسی اور معاشرتی لحاظ سے جو مقام حاصل تھا۔ اسلام لا کر وہ اس سے دستبردار ہونے کو قطعاً تیار نہ تھے۔ ایسے بگڑے ہوئے لوگ ڈنڈے کے بغیر کبھی سیدھے نہیں ہو سکتے۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے کبھی نہیں مانتے۔ تلوار کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ ایسی بگڑی ہوئی طبیعتوں کو راہ راست کی طرف لاتی اور راستہ کی ایسی رکاوٹوں کو دور کردیتی ہے۔ کیونکہ جب تک تعصب اور ہٹ دھرمی کا علاج نہ کیا جائے۔ تبلیغ خواہ کتنی ہی دلنشین انداز میں ہو غیر موثر ہو کر رہ جاتی ہے۔ اگر تلوار کا اشاعت اسلام میں کچھ حصہ نہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے ہجرت کرنے کی بھی ضرورت پیش نہ آتی۔ تلوار کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ تبلیغ کے بیج کے لیے زمین کو نرم کردیتی ہے۔ اسلام کی تلوار نے حق کی دشمن، معاند اور ہٹ دھرم قوتوں کا قلع قمع کر کے اسلام کے بیج کے لیے زمین کو ہموار اور نرم بنا دیا۔ اسلام کے بیج میں اتنی اہلیت اور قوت ہے کہ اگر اسے فضا سازگار میسر آ جائے تو پھل پھول کر تناور اور سدا بہار درخت بن سکتا ہے۔ التوبہ
37 [٣٩] لیپ کا طریقہ کیوں رائج ہوا اور لیپ کے ذریعے ٣٦ سالوں میں ایک حج گم کردینا :۔ مہینوں کو آگے پیچھے کرلینے کا ایک دوسرا طریق بھی مشرکین عرب میں رائج ہوچکا تھا۔ اور وہ یہ تھا کہ ہر قمری سال میں ١٠ دن زیادہ شمار کر کے اسے شمسی سال کے مطابق بنا لیتے تھے۔ اور اسے کبیسہ یا لوند یا لیپ (LeAP) کہا کرتے تھے اور اسی کبیسہ کا دوسرا طریقہ یہ تھا کہ ہر تین قمری سال بعد ایک ماہ زائد شمار کرلیا جاتا تھا تاکہ قمری سال بھی شمسی سال کے مطابق رہے۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ حج کے موقعہ پر بیت اللہ کے متولیوں کو اور دوسرے عبادت خانوں کے مجاوروں کو جو نذرانے پیش کیے جاتے تھے وہ عموماً غلہ کی صورت میں ہوتے تھے اور غلہ پکنے کا تعلق سورج یا شمسی سال سے ہوتا ہے۔ اگر وہ قمری تقویم پر قائم رہتے تو ان کے نذرانے انہیں بروقت نہیں مل سکتے تھے۔ محض اس دنیوی مفاد کی خاطر انہوں نے دوسرے ملکوں کی دیکھا دیکھی یہ کبیسہ کا طریق اختیار کیا تھا۔ اس طرح بعض دوسری قباحتوں کے علاوہ ایک بڑی قباحت یہ واقع ہوتی تھی کہ ٣٦ قمری سال کے عرصہ میں ٣٥ حج ہوتے تھے اور ایک حج گم کردیا جاتا تھا۔ اتفاق کی بات ہے کہ جب ١٠ ھ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا تو حج کے ایام انہی اصلی قمری تاریخوں اور قمری تقویم کے مطابق تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی موقع پر اپنے خطبہ حجۃ الوداع میں کبیسہ کے اس غیر شرعی اور مذموم طریقہ کو کالعدم قرار دے کر شرعی احکام کو قمری تقویم پر استوار کردیا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے :۔ سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حجۃ الوداع کے خطبہ میں) فرما’’دیکھو! زمانہ گھوم پھر کر پھر اسی نقشہ پر آ گیا جس دن اللہ نے زمین اور آسمان پیدا کیے تھے۔ سال بارہ ماہ کا ہوتا ہے ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔ تین تو لگاتار ہیں ذیقعدہ، ذی الحجہ اور محرم اور چوتھا رجب کا جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان آتا ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ نیز کتاب المغازی۔ باب حجۃ الوداع) التوبہ
38 [٤٠] غزوہ تبوک میں مسلمانوں کے مقابل اتحادی، عیسائی، مشرک قبائل،مدینہ کے منافق اور یہود :۔ یہاں سے ایک بالکل نیا مضمون یعنی غزوہ تبوک کا آغاز ہو رہا ہے جس کا پس منظر یہ تھا کہ مکہ اور حنین کی فتح کے بعد جب عرب بھر میں اسلام کا بول بالا ہوگیا تو شام کی سرحد پر بسنے والے عرب قبائل اور ان کے بادشاہ غسان نے جو قیصر روم کے ماتحت تھے، مسلمانوں کی ان کامیابیوں کو اپنے لیے عظیم خطرہ سمجھا اور مسلمانوں بلکہ اسلام کی کمر توڑنے کے لیے ایک فیصلہ کن جنگ کی تیاریاں شروع کردیں۔ دوسری طرف عرب بھر میں شکست خوردہ مشرکین اس کی مدد کو موجود تھے اور تیسری طرف مدینہ کے منافقین نے ابو عامر راہب کی وساطت سے غسان اور قیصر روم سے ساز باز شروع کر رکھی تھی۔ یہود بھی ان منافقوں کا ساتھ دے رہے تھے اور منافقوں نے اسی ساز باز کی غرض سے مسجد ضرار بھی تعمیر کی تھی۔ گویا کفر کی اندرونی اور بیرونی طاقتیں اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانے میں مصروف تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شام کی سرحد پر رومی فوجوں کے عظیم اجتماع کی خبریں دم بدم پہنچ رہی تھیں۔ مسلمانوں کے حالات کی ناساز گاری :۔ دوسری طرف صورت حال یہ تھی کہ مدینہ میں قحط سالی کا دور دورہ تھا۔ شدید گرمی کا موسم تھا۔ فصلیں پکنے کے قریب تھیں۔ فاصلہ دور کا اور پر مشقت تھا سامان اور سواریوں کی کمی تھی اور مقابلہ اس عظیم طاقت سے تھا جس نے حال ہی میں کسریٰ شاہ ایران کو شکست دے کر دنیا پر اپنے رعب و دبدبہ کی دھاک بٹھا رکھی تھی۔ گویا ہر لحاظ سے یہ حق و باطل کی فیصلہ کن جنگ تھی۔ انہیں حالات میں اللہ کا نام لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہ روم سے ٹکر لینے کا فیصلہ کرلیا اور مسلمانوں میں عام اعلان جہاد کردیا۔ اور معمول کے خلاف سب کو صاف صاف بتلا دیا کہ شام کو جانا ہے اور ملک غسان اور قیصر کے مقابلہ کے لیے جانا ہے ان حالات میں منافقوں کا جنگ سے جی چرانا تو فطری امر تھا بعض کمزور دل اور ضعیف اعتقاد والے مسلمان بھی تذبذب میں پڑگئے تھے۔ اس آیت میں انہیں ہی خطاب کیا جا رہا ہے اور جہاد کی پرزور ترغیب دی جا رہی ہے۔ [٤١] جہاد میں عدم شمولیت سے تم زیادہ سے زیادہ اپنی جانیں یا کچھ مال بچا لو گے۔ فصلیں کاٹ لو گے یا سفر کی صعوبتوں سے بچ جاؤ گے اور یہ سب مفادات جنت کی دائمی نعمتوں کے مقابلہ میں کچھ قدر و قیمت نہیں رکھتے۔ التوبہ
39 [٤٢] اسلامی حکومت کے اعلان پر جہاد فرض عین ہے :۔ یعنی یہ اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے اسلام کی سر بلندی کے لیے تمہیں منتخب کرلیا ہے ورنہ وہ تمہارے بجائے دوسرے لوگوں سے بھی یہ خدمت لے سکتا ہے اور تمہارے انکار کی صورت میں تمہیں ان سے پٹوا بھی سکتا ہے اور خود بھی سزا دے سکتا ہے۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ اگر اسلامی حکومت جہاد کا اعلان عام کر دے تو جہاد فرض عین ہوجاتا ہے۔ التوبہ
40 [٤٣] آپ کو ہجرت کی اجازت :۔ ہم یہاں پہلے بخاری سے ہجرت کے کچھ چیدہ چیدہ واقعات بیان کریں گے۔ پھر اس آیت کے نکات پیش کریں گے۔ سیدۃ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ایک دن ٹھیک دوپہر کو ہم اپنے گھر بیٹھے تھے۔ کسی نے کہا۔ دیکھو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنا منہ چھپائے ہمارے ہاں آ رہے ہیں۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کہنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو اس وقت تشریف لائے ہیں ضرور کوئی اہم معاملہ ہے اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم آ پہنچے۔ اندر آنے کی اجازت چاہی۔ اجازت دی گئی وہ اندر داخل ہوئے تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا ’’دوسروں کو یہاں سے نکال دو۔‘‘ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا۔ ’’یا رسول اللہ! یہاں آپ کے گھر کے لوگ ہی تو ہیں۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی۔‘‘ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کہنے لگے ’’مجھے بھی ساتھ لے جائیں گے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''ہاں'' ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’ان دو اونٹنیوں میں سے ایک آپ لے لیجئے۔ ‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’قیمتاً لوں گا‘‘ چنانچہ میں نے جلدی سے ان دونوں کا سامان تیار کیا۔ توشہ ایک چمڑے کے تھیلے میں رکھا۔ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نے اپنا کمر بند پھاڑ کر تھیلے کا منہ باندھ دیا۔ اس دن سے ان کا نام ذوالنطاق یا ذالنطاقین پڑگیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ثور پہاڑ کی غار میں چلے گئے اور تین راتیں وہیں چھپے رہے۔ عبداللہ بن ابو بکر جو ایک ہوشیار اور نوجوان آدمی تھے رات ان کے ہاں گزارتے اور منہ اندھیرے مکہ قریش کے ہاں آ جاتے جیسے رات مکہ میں گزاری ہو۔ اور دن بھر قریش کی ان دونوں کو نقصان پہنچانے والی باتیں سنتے اور رات کے اندھیرے میں وہاں جا کر انہیں بتلا دیتے۔ اور عامر بن فہیرہ جو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے غلام تھے گلہ سے ایک دودھ دینے والی بکری روک کے رکھتے۔ جب رات کی ایک گھڑی گزر جاتی تو وہ اس بکری کو غار میں لے آتے تو دونوں صاحب تازہ اور گرم دودھ پی کر رات بسر کرتے اور منہ اندھیرے ہی بکریوں کو آواز دینا شروع کردیتے۔ وہ تین راتیں ایسا ہی کرتے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قبیلہ بنی وائل کے ایک شخص (عبداللہ بن اریقط) کو اجرت پر راستہ بتلانے والا خریت مقرر کیا تھا۔ اگرچہ یہ کافر ہی تھا تاہم دونوں صاحبوں نے اس پر اعتماد کیا اور مکہ سے نکلتے وقت اپنی اونٹنیاں اس کے حوالہ کر کے کہا تھا کہ تین رات کے بعد وہ اونٹنیاں لے کر غار ثور پر آ جائے۔ چنانچہ وہ تین راتیں گزارنے کے بعد صبح اونٹنیاں لے کر آ گیا۔ عامر بن فہیرہ بھی ساتھ ہی روانہ ہوئے اور راہ بتانے والے نے ساحل کا راستہ اختیار کیا۔ سراقہ بن مالک کا تعاقب :۔ سراقہ بن مالک بن جعشم کو اپنے بھتیجے عبدالرحمن بن مالک سے خبر ملی کہ قریش نے ان دونوں صاحبوں میں سے ہر ایک کے قتل یا گرفتار کرنے پر سو اونٹ (انعام) کا وعدہ کیا ہے۔ ایک دن میری ہی قوم (بنی مدلج) کے ایک آدمی نے مجھے کہا’’سراقہ! میں نے ابھی چند آدمی دیکھے جو ساحل کے رستہ سے جا رہے تھے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ وہی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس کے ساتھی ہیں۔‘‘ سراقہ کہتے ہیں میں سمجھ تو گیا مگر بظاہر یہی کہا کہ وہ لوگ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس کے ساتھی نہیں بلکہ فلاں فلاں ہوں گے جو اپنی کسی گم شدہ چیز کی تلاش میں گئے ہیں۔ یہ کہہ کر میں نے چوری چھپے اپنا برچھا سنبھالا اور اپنا گھوڑا ان کے تعاقب میں سر پٹ دوڑایا۔ جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گیا تو گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور میں گر پڑا۔ میں نے تیروں سے فال نکالی جو میرے ارادہ کے خلاف نکلی مگر انعام کے لالچ میں پھر گھوڑے پر سوار ہو کر دوڑایا تو میرے گھوڑے کے پاؤں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئے اور میں گر پڑا۔ میں نے پھر فال نکالی وہ بھی میرے ارادہ کے خلاف نکلی۔ آخر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امان کے لیے آواز دی کیونکہ میں سمجھ گیا تھا کہ عنقریب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بول بالا ہوگا۔ پھر میں نے انہیں قریش کی سب خبریں بتلا دیں اور دیت والی خبر بھی بیان کی اور توشہ یا سامان کی پیشکش کی جو انہوں نے قبول نہ کی۔ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اتنا کہا کہ ہمارے حالات کسی کو نہ بتلانا۔ پھر میں نے امان کی تحریر کا مطالبہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عامر بن فہیرہ کو تحریر لکھنے کو کہا تو اس نے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر مجھے تحریر لکھ دی اور آگے روانہ ہوگئے۔ یہودی کا چلانا۔۔ اور مسجد قبا کی بنیاد :۔ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ اور دوسرے کئی تاجر مسلمان جو شام سے اسی ساحلی راستہ پر واپس آ رہے تھے۔ ان لوگوں کی آپ کے قافلہ سے ملاقات ہوئی۔ سیدنا زبیر رضی اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سفید کپڑے پہنائے۔ مدینہ والوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ سے روانہ ہونے کی خبر مل چکی تھی۔ وہ ہر روز صبح حرّہ تک آتے اور انتظار کرتے رہتے۔ پھر جب دوپہر کی گرمی شروع ہوجاتی تو واپس چلے جاتے۔ ایک دن ایک یہودی اپنے محل پر چڑھا تو اس نے آپ کو سفید کپڑوں میں ملبوس مدینہ کی طرف آتے دیکھ لیا۔ وہ بے اختیار چلا اٹھا کہ جس سردار کی تمہیں انتظار تھی وہ آ گئے۔ یہ سنتے ہی مسلمانوں نے ہتھیار سنبھالے اور حرہ جا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے۔ آپ بنی عمر و بن عوف کے محلہ میں جا کر اترے یہ پیر کا دن اور ربیع الاول کا مہینہ تھا۔ یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی (مسجد قبا) کی بنیاد رکھی۔ اور نمازیں ادا کرتے رہے پھر (جمعہ کے دن) آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کو روانہ ہوئے۔ مسجد نبوی کی تعمیر :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی وہاں جا کر بیٹھ گئی جہاں مسجد نبوی ہے۔ ان دنوں وہاں چند مسلمان نماز پڑھا کرتے تھے۔ یہ جگہ دو یتیم لڑکوں سہل اور سہیل کی تھی جو اسعد بن زرارہ کی پرورش میں تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلا کر اس زمین کی قیمت پوچھی اور فرمایا کہ ہم یہاں مسجد بنائیں گے۔ انہوں نے کہا ’’یا رسول اللہ! ہم یہ زمین آپ کو مفت دیتے ہیں۔‘‘ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مفت لینے سے انکار کردیا۔ آخر انہیں قیمت ادا کر کے مسجد بنانا شروع کردی۔ مسجد بنتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی دوسرے لوگوں کے ساتھ اینٹیں ڈھو رہے تھے۔ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب ھجرۃ النبی ) غارثور میں آپ کا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو تسلی دینا :۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ہجرت کے وقت غار (ثور) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ میں نے غار (کے اندر سے) کافروں کے پاؤں دیکھے (جو ہماری تلاش میں غار تک پہنچ گئے تھے) میں نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ! اگر ان میں سے کوئی اپنے پاؤں اٹھا کر دیکھے تو ہمیں دیکھ لے گا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ان دو آدمیوں کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ تعالیٰ ہو۔ ‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ کتاب المناقب۔ باب ہجرۃ النبی ) اللہ نے کن کن مشکل اوقات میں اپنے رسول کی مدد کی؟:۔ یعنی اللہ اکیلے نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وقت بھی مدد کی جب مکہ کے تمام قریشی قبائل نے مل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی سازش تیار کی تھی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ بھی کرلیا تھا۔ اس وقت بھی اللہ اپنے نبی کو ان کے چنگل سے نکال لایا تھا پھر اس وقت بھی مدد کی تھی جب تعاقب کرنے والے غار ثور کے منہ پر کھڑے تھے۔ پھر اس وقت بھی مدد کی تھی جب سراقہ بن مالک نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعاقب کر کے آپ کو جا لیا تھا۔ اور دوران ہجرت بھی مدد کی تھی کہ اسے بخیر و عافیت مدینہ پہنچا دیا تھا۔ اگر اللہ اس وقت اپنے نبی کی مدد کرسکتا ہے تو وہ اکیلا اس غزوہ تبوک میں بھی مدد کرسکتا ہے لہٰذا تم اس موقع کو غنیمت سمجھو کہ تمہارے ہاتھوں اسلام کا بول بالا ہو، تمہیں دنیا میں بھی عزت اور سرخ روئی حاصل ہو اور آخرت میں اجر ملے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہجرت کے لیے نبی نہایت خفیہ طور پر نکلے تو خود تھے۔ کفار تو انہیں نکالنے کی بجائے ان کا تعاقب کر کے واپس لانا چاہتے تھے مگر چونکہ ہجرت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کافروں کے ظلم و ستم کی وجہ سے ہی مجبور ہوگئے تھے لہٰذا اللہ تعالیٰ نے نکالنے کی نسبت کافروں کی طرف کی ہے۔ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے نکلے تو حسرت بھرے لہجہ میں مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’اگر میری قوم مجھے یہاں سے نکال نہ دیتی تو میں تیرے سوا کہیں رہنا گوارا نہ کرتا۔‘‘ (ترمذی۔ ابو اب المناقب۔ باب فضل المکۃ) [٤٤] اللہ کے غیر مرئی لشکر :۔ اللہ کے یہ لشکر فرشتوں کے علاوہ دوسری مخلوق کے بھی ہو سکتے ہیں مثلاً مکڑیوں کا وہ لشکر بھی اللہ ہی کا لشکر تھا جس نے آناً فاناً غار ثور کے منہ پر جالا تن دیا تھا۔ قریش جب اپنے قائف (کھوجی، سراغ رساں) کے ہمراہ اس غار پر پہنچے تو مکڑی کا تنا ہوا جالا دیکھ کر اپنے قائف کو جھوٹا اور غلط کہنے لگے کیونکہ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے یہ جالا مدتوں پہلے بنا ہوا تھا یا وہ بھی اللہ کے فرشتوں کا لشکر ہی تھا جس نے مشرکوں کی نگاہوں کو غار کے اندر جھانکنے سے پھیر دیا تھا۔ اور وہ بھی اللہ ہی کے لشکر تھے جنہوں نے سراقہ کا گھوڑا زمین میں دھنسا دیا تھا اور وہ بھی اللہ ہی کے لشکر تھے جنہوں نے دوران سفر ہجرت آپ کو ہر خطرہ سے بچایا تھا۔ اس طرح کفار تو دانت پیستے رہ گئے اور اللہ جو اپنے نبی کو بخیریت مدینہ پہنچانا چاہتا تھا وہ ہو کے رہا۔ التوبہ
41 [٤٥] اس جملہ کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں یعنی خواہ برضا و رغبت نکلو یا بکراہت اور بوجھل دل سے نکلو، یا بے سر و سامانی کی حالت میں نکلو یا ساز و سامان کے ساتھ اور خواہ تم پیدل ہو یا سوار یا مجرد ہو یا عیالدار، مفلس ہو یا نادار جو بھی صورت ہو تمہیں اللہ کی راہ میں نکلنا ضرور چاہیے۔ اور اپنے اموال اور جانوں سے جہاد کرنا ہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب تک کوئی اسلامی حکومت جہاد کا عام اعلان نہ کرے اس وقت تک تو جہاد فرض کفایہ ہوتا ہے لیکن جب ایسا اعلان کر دے تو جہاد مسلمانوں پر فرض عین بن جاتا ہے۔ التوبہ
42 [٤٦] منافقوں کے عذر :۔ یعنی اگر تھوڑی سی محنت کے بعد منافقوں کو مال غنیمت ہاتھ آ جانے کی توقع ہوتی اور سفر بھی اتنا طویل اور پر مشقت نہ ہوتا تو پھر تو یہ منافق یقیناً آپ کے ہمراہ نکلنے کو تیار ہوجاتے۔ لیکن شام تک کا سفر، وہ بھی شدید گرمی کے موسم میں جبکہ سواریاں بھی بہت کم ہیں اور آگے مقابلہ بھی ایک بہت دبدبے والی حکومت سے ہے جہاں فتح کے بجائے ناکامی کے آثار دکھائی دیتے ہیں تو ایسی صورت میں یہ کیسے آپ کا ساتھ دے سکتے ہیں۔ اب تو وہ یہی قسمیں کھائیں گے کہ اس وقت ہمارے حالات سازگار نہیں۔ ورنہ ہمیں آپ کے ہمراہ جانے میں کوئی عذر نہ ہوتا۔ اور وہ جھوٹے اس لحاظ سے نہیں ہیں کہ حقیقتاً جو باتیں اور خدشات انہیں جہاد پر جانے سے روک رہے ہیں انہیں وہ اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں اور آپ کے سامنے ظاہر کر ہی نہیں سکتے۔ لہٰذا ادھر ادھر کی باتیں عذر کے طور پر پیش کردیتے ہیں۔ التوبہ
43 [٤٧] آپ پر عتاب سے پہلے معافی کا اعلان :۔ اس موقع پر منافقوں نے یہ روش اختیار کی کہ جھوٹے حیلے تراش کر آپ سے مدینہ میں رہ جانے کی اجازت طلب کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی کسی حد تک یہ جاننے کے باوجود کہ ان کی یہ معذرت حقیقی نہیں بلکہ عذر لنگ ہے، اپنی نرم طبع کی بنا پر انہیں اجازت دے دیتے تھے جبکہ اللہ کو یہ بات پسند نہ تھی۔ اللہ کو یہ منظور تھا کہ ان منافقوں کا خبث باطن اور مکر کھل کر سب کے سامنے آ جائے۔ جہاد پر روانہ ہونے کی ہمت اور ارادہ تو وہ سرے سے رکھتے ہی نہ تھے پھر یہ اس اجازت کا سہارا کیوں لیں۔ کیوں نہ ننگے ہو کر سامنے آئیں۔ اس صورت حال پر اللہ کا عتاب ہوا مگر ساتھ ہی اللہ نے اپنے حبیب پر کمال عنایت بھی ظاہر کی کہ تقصیر بیان کرنے سے پہلے ہی معافی کا اعلان فرما دیا۔ التوبہ
44 [٤٨] اللہ اور آخرت پر ایمان سے مراد اللہ کے وعدوں کو سچا سمجھنا ہے :۔ یہاں اللہ پر ایمان لانے سے مراد اللہ کے وہ وعدے ہیں جو اس نے فتح و نصرت سے متعلق مسلمانوں سے کیے ہیں اور آخرت پر ایمان سے مراد بھی جنت میں داخل کرنے اور بڑے درجات عطا کرنے کے وعدے ہیں اس لحاظ سے جن لوگوں کا اللہ اور آخرت پر ایمان ہے وہ تو فوراً اپنے اموال اور جانوں سے جہاد پر روانہ ہوجائیں گے اور ایسے لوگوں کو رخصت مانگنے کی نوبت ہی پیش نہیں آتی۔ البتہ جن منافقوں کا یہ یقین ہی نہیں کہ اللہ کے وعدہ کے مطابق مسلمانوں کو فتح نصیب ہوگی اور نہ ہی آخرت کے وعدوں پر پورا یقین ہے۔ وہ بس اپنے دنیوی مفادات کا ہی موازنہ کرنے میں مشغول ہیں۔ کبھی یہ سوچتے ہیں کہ شاید ان کا جہاد پر جانا سودمند ثابت ہو اور کبھی یہ خیال آتا ہے کہ کہیں الٹا لینے کے دینے نہ پڑجائیں اور وہیں موت سے دوچار ہونا پڑے۔ بس اسی گومگو کی حالت میں پڑے سوچتے ہیں۔ بالآخر انہیں یہی تدبیر کامیاب نظر آتی ہے کہ حیلوں بہانوں سے آپ سے معذرت کرلیں تاکہ ان کے جھوٹ اور بدنیتی پر پردہ پڑا رہے۔ التوبہ
45 التوبہ
46 [٤٩] منافقوں کی سچائی کا معیار :۔ اگر انہوں نے جہاد کی تیاری مکمل طور پر کرلی ہوتی تو پھر کوئی ایسا حادثہ پیش آ جاتا جس کی وجہ سے وہ فی الواقع جہاد پر جانے سے معذور ہوتے تو اس صورت میں تو ان کی سچائی پر اعتماد کیا جا سکتا تھا۔ لیکن جس صورت میں انہیں کوئی ایسی فکر لاحق ہی نہ ہوتی ہو اور ان کا سارا دار و مدار صرف حیلوں بہانوں پر ہی موقوف ہو تو اس صورت میں انہیں سچا کیسے سمجھا جا سکتا ہے؟ اور حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی جہاد میں شمولیت اللہ کو پسند بھی نہیں جس سے اسلامی فوج کو ان سے کسی فائدہ کے بجائے نقصان کا خطرہ زیادہ ہو۔ چنانچہ عورتوں اور بچوں کے ساتھ گھروں میں ہی بیٹھ رہنا ان کے نصیب ہوا۔ التوبہ
47 [٥٠] میدان کارزار میں منافقوں کے فتنے :۔ یعنی ایسے منافقوں سے لشکر مجاہدین میں شامل ہونے پر بھی خیر اور بھلائی کی توقع کم تھی بلکہ الٹا یہ کئی طرح کی خرابیاں پیدا کرسکتے تھے۔ مثلاً جنگ سے فرار کی راہ اختیار کر کے دوسروں کے حوصلے بھی توڑ دیتے۔ یا دشمن کو اسلامی لشکر کے حالات سے مطلع کردیتے یا اس سے ساز باز شروع کردیتے۔ یا اسلامی لشکر میں اختلاف کا سبب بن جاتے اور ان میں باہمی نزاع پیدا کردیتے یا بے بنیاد افواہیں اڑا کر مسلمانوں میں بد دلی پھیلانے لگتے۔ لہٰذا اللہ کی مشیئت میں ان کا نہ جانا ہی بہتر تھا۔ [٥١] سادہ لوح مسلمانوں کو ہدایت :۔ یعنی اے مسلمانو! تم میں بھی بعض ایسے سادہ لوح افراد موجود ہیں۔ جو ان منافقوں کی باتیں بڑے غور سے سنتے اور ان سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ وہ انہیں اپنا ہمدرد سمجھتے ہیں اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں میں کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں۔ جو منافقوں کے لیے جاسوسی کرتے ہیں۔ تاکہ مسلمانوں کے حالات سے انہیں مطلع کرتے رہیں اور ایسے مسلمانوں کی نیت میں چونکہ فتور نہیں ہوتا اس لحاظ سے ان کی یہ اطلاعات مسلمانوں کے حق میں مفید بھی ہو سکتی ہیں۔ یعنی جب وہ مسلمانوں کی اولوالعزمی اور بے جگری سے لڑنے کے واقعات منافقوں سے بیان کریں گے تو خواہ مخواہ ان کے دلوں پر مسلمانوں کی ہیبت قائم ہوگی۔ تاہم اس آیت میں مسلمانوں کو یہی تنبیہ کی جا رہی ہے کہ ایسے سادہ لوح مسلمانوں کے بارے میں بھی تمہیں احتیاط ملحوظ رکھنی چاہیے کہ کہیں ان کی یہی سادہ لوحی تمہارے لیے کسی فتنہ کا موجب نہ بن جائے۔ التوبہ
48 [٥٢] عبداللہ بن ابی کا فتنہ :۔ منافقوں کی فتنہ انگیزیوں کی فہرست بڑی طویل ہے۔ عبداللہ بن ابی کو دراصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ میں تشریف آوری ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پیشتر عبداللہ بن ابی کے سر پر اوس و خزرج دونوں کی سرداری کا تاج رکھا جانے والا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو اس کی سرداری کا معاملہ کھٹائی میں پڑگیا۔ یہی وہ حسد اور کینہ تھا جس نے اسے اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی پر عمر بھر اکسائے رکھا۔ غزوہ بدر سے پہلے اس کی قریش مکہ سے مراسلت رہی۔ پھر جب بدر میں قریش مکہ کو شکست فاش اور مسلمانوں کو عظیم فتح نصیب ہوئی تو یہ جل بھن گیا مگر اپنے مفادات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ظاہری طور پر تو اسلام قبول کرلیا مگر دل میں اسلام دشمنی بدستور موجود رہی۔ جنگ احد میں اس نے مسلمانوں سے غداری کی اور نہایت نازک موقع پر اپنے تین سو ساتھیوں کو لشکر سے کاٹ لایا تاکہ مسلمان شکست سے دو چار ہوں۔ زندگی بھر اس کی ہمدردیاں یہودیوں سے رہیں۔ انہیں اکسا کر مسلمانوں کے خلاف جنگ پر آمادہ کرنا اس کا پسندیدہ شغل تھا۔ وہ بھی اس کی مہربانی سے مسلمانوں کے ہاتھوں پٹتے ہی رہے اور ہر موقعہ پر اللہ کی تائید مسلمانوں کے شامل حال رہی۔ غزوہ بنو مصطلق سے واپسی پر اس نے سیدۃ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگا دی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو ذہنی کوفت میں مبتلا کیے رکھا تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے سیدۃ عائشہ رضی اللہ عنہا کی بریت نازل فرمائی۔ اسی غزوہ میں اس نے انصار کو اکسایا کہ اس نبی کو مدینہ سے نکال دو۔ پھر مسجد ضرار تعمیر کر کے انہی ناپاک سازشوں کے لیے ایک نیا اڈا بنا لیا۔ اور قیصر روم سے ساز باز شروع کردی۔ غرض ہر موقع پر اس کی انتہائی کوشش یہ ہوتی تھی کہ اسلام مغلوب ہو اور مدینہ کا رئیس اعظم میں بن جاؤں۔ آخر یہی حسرت دل میں لیے ہوئے اس نے اس جہان سے کوچ کیا۔ التوبہ
49 [٥٣] جد بن قیس منافق کا عذر لنگ :۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جدبن قیس منافق کو رومی کافروں سے جہاد کے لیے کہا تو کہنے لگا ’’اگرچہ میری کئی بیویاں ہیں مگر میں ایک حسن پرست آدمی ہوں اور روم کی عورتیں خوبصورت ہوتی ہیں۔ میں ڈرتا ہوں کہ کسی فتنہ میں نہ پڑجاؤں اور میری اس عادت کو میری قوم جانتی ہے لہٰذا آپ مجھے اپنے ساتھ لے جانے سے معاف فرمائیے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یہ دیا کہ یہ بدبخت فتنہ میں تو پہلے پڑچکا ہے اب اگر اپنی باطنی خباثت کو چھپا کر اس پر ظاہری تقدس اور تقویٰ کا پردہ ڈال رہا ہے تو یہ فتنہ نہیں تو کیا ہے۔ اور دوسرا فتنہ وہ ہے جس میں یہ سارے ہی منافق پڑگئے ہیں۔ مسلمان تو جہاد کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور یہ منافق اس فتنہ میں مبتلا ہیں کہ اب کریں تو کیا کریں، ان کے لیے اس سے بڑا فتنہ کیا ہوگا کہ صاف انکار بھی نہیں کرسکتے اور جانے کو جی بھی نہیں چاہتا۔ ان کے لیے تو نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن والا معاملہ بن گیا ہے۔ التوبہ
50 [٥٤] یعنی اگر فتح نصیب ہو تو یہ جل بھن جاتے ہیں اور اگر خدانخواستہ شکست سے دو چار ہونا پڑے تو کہتے ہیں کہ ہم نے ازراہ دور اندیشی پہلے ہی اپنے بچاؤ کا انتظام کرلیا تھا ہم سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کا یہی حشر ہونے والا ہے لہٰذا ان کے ساتھ گئے ہی نہیں۔ پھر وہ خوشی خوشی ڈھینگیں مارتے اور بغلیں بجاتے اپنی مجلسوں سے اپنے گھروں کو واپس جاتے ہیں۔ التوبہ
51 [٥٥] مومن اور کافر یا منافق کی خصلت کا فرق :۔ اس آیت میں مومنوں اور منافقوں کے نظریاتی اختلاف کو بیان کیا گیا ہے۔ منافق جو کچھ بھی کرتا ہے اسے صرف اپنا دنیوی مفاد ملحوظ ہوتا ہے۔ پھر اگر اسے کامیابی ہو تو اترانے لگتا ہے اور خوشی سے پھولا نہیں سماتا اور اگر ناکامی ہو تو مایوس ہو کر رہ جاتا ہے جبکہ مومن کی شان یہ ہے کہ وہ جو کچھ کرتا ہے دین کی سربلندی اور اللہ کی رضا کے لیے کرتا ہے اگر کامیابی ہو تو اللہ کی مہربانی سمجھتا ہے اور اس کا شکر ادا کرتا ہے مگر اتراتا نہیں اور ناکامی ہو تو وہ بھی اسے مایوس نہیں کرتی اور وہ اسے اللہ ہی کی طرف سے سمجھتا ہے کیونکہ اسباب کو اختیار کرنا مومن کا کام ہے اور اس کے اچھے یا برے نتائج پیدا کرنا اللہ کا کام ہے۔ لہٰذا وہ ہر حال میں اللہ ہی بھروسہ رکھتا ہے۔ التوبہ
52 [٥٦] مسلمان اور منافق سب کو دو باتوں کا انتظار ہے :۔ یعنی اے منافقو! تم ہمارے متعلق صرف یہ انتظار کر رہے ہو کہ مسلمان شاہ روم سے شکست کھاتے ہیں یا اس کے مقابلہ میں کامیاب ہوتے ہیں جبکہ ہماری سوچ یہ ہے کہ ہم ہر حال میں کامیاب ہی کامیاب ہیں۔ اگر فتح ہوئی اور مال غنیمت سمیت گھروں کو واپس آ گئے تو اسے تو تم بھی کامیابی سمجھتے ہو اور اگر ہم شہید ہوگئے تو پھر بھی ہماری کامیابی ہے اور ضمیر مطمئن کہ راہ حق میں جان دے دی اور پھر آخرت میں جنت بھی ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اللہ نے اس بات کی ضمانت دی ہے کہ جو شخص میری راہ میں نکلے اور اس کو مجھ پر ایمان اور میرے رسولوں کی تصدیق کے علاوہ اور کسی چیز نے نہ نکالا ہو تو میں اسے یا تو اجر اور غنیمت کے ساتھ واپس کر دوں گا یا جنت میں داخل کروں گا۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب الجہاد من الایمان) (مسلم۔ کتاب الامارۃ۔ باب فضل الجہاد والخروج فی سبیل اللہ) اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ احدی الحسنیین سے مراد فتح یا شہادت ہے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) اور تمہارے متعلق ہماری سوچ بھی دو باتوں سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ تو یقینی بات ہے کہ تمہیں سزا مل کے رہے گی۔ اب ہم اس انتظار میں ہیں کہ آیا یہ سزا اللہ تمہیں خود ہی کوئی عذاب بھیج کردیتا ہے۔ یا تمہیں ہمارے ہاتھوں سے دلواتا ہے۔ لہٰذا تم اپنی سوچ کے مطابق انتظار کرو اور ہم اپنی سوچ کے مطابق انتظار کرتے ہیں۔ التوبہ
53 [٥٧] منافق کا مال بھی قبول نہیں :۔ جد بن قیس نے رومی عورتوں کے فتنہ میں مبتلا ہوجانے کا بہانہ کر کے جہاد پر جانے سے تو معذرت کرلی مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ البتہ میں مالی اعانت کرنے کو تیار ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب دیا۔ تم لوگ یہ مالی اعانت خوشی سے کرو یا مجبوراً کرو یہ قابل قبول نہیں۔ یہ بھی تم اپنے پاس ہی رکھو کیونکہ یہ تو واضح بات ہے کہ نافرمان یا منافق لوگ صرف اللہ کی رضا کے لیے کبھی صدقہ نہیں کرتے۔ وہ جب بھی کریں گے یا ریا کے لیے کریں گے یا مجبور ہو کر کریں گے۔ پھر ایسا صدقہ لینے کی بھی کیا ضرورت ہے؟۔ التوبہ
54 [٥٨] صدقہ قبول نہ ہونے کی وجہ :۔ مشرکوں سے اعلان براءت اور ان سے اس علاقہ کے انخلاء کے دوران اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اگر وہ ایمان لے آئیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تو ان کی راہ چھوڑ دو۔ یعنی اگر یہ تین باتیں پائی جائیں تو انہیں مسلمان سمجھا جائے گا اور باطن کا معاملہ اللہ کے سپرد۔ ان تینوں باتوں میں بھی یہ منافق اس معیار پر پورے نہیں اترتے تھے۔ وہ اللہ اور رسول کے وعدوں کا یقین نہیں کرتے تھے۔ لہٰذا ان کا اللہ اور رسول پر ایمان مشکوک ہوگیا اور یہ انکار کے مترادف ہے۔ نماز کو آتے ہیں تو طبیعت ایسی گرانبار اور سست ہوتی ہے جیسے کوئی بیگار کاٹنے جا رہے ہوں اور اگر صدقہ ادا کرنا پڑے تو ایسے جیسے کوئی تاوان یا جرمانہ ادا کرنا پڑ رہا ہو۔ پھر ایسے لوگوں کے صدقات کیوں قبول کیے جائیں۔ نیز ایسے صدقات کا ان کو آخرت میں بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا البتہ نقصان ضرور ہوسکتا ہے۔ التوبہ
55 [٥٩] منافقوں کو مال اور اولاد سے سزا کیسے ملی؟ مدینہ میں جتنے منا فق تھے سب سن رسیدہ اور مالدار لوگ تھے اور منافقوں کا مطمح نظر محض دنیوی مفادات کا حصول ہوتا ہے لہٰذا عام مادہ پرستوں اور دنیا پرستوں کی طرح ان کے نزدیک بھی عز و جاہ کا معیار اولاد اور مال و دولت کی فراوانی تھی۔ اب انہیں مشکل یہ پیش آئی کہ ان کی اولادیں مسلمان ہوگئیں۔ جن کے نزدیک عز و جاہ کا معیار ان کے معیار سے بالکل برعکس تھا۔ جن کی نظروں میں مال اور جائیداد کی قدر و قیمت اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کے مقابلہ میں ہیچ تھی اور ان کے نزدیک عز و جاہ کا معیار یہ تھا کہ جتنا بھی کوئی اللہ کے رسول کا شیدائی اور فرمانبردار ہوگا اتنا ہی وہ اسلامی معاشرہ میں معزز و مکرم سمجھا جائے گا۔ اس نظریاتی اختلاف نے انہیں اپنی اولاد ہی کی نظروں میں ذلیل کردیا۔ اس طرح اللہ نے ان کی اولاد ہی کے ذریعہ انہیں دنیا میں سزا دے دی۔ اور چونکہ وہ اپنی خود پرستی والی طبیعت کو بھی بدل نہیں سکتے تھے۔ لہٰذا وہ آخر دم تک اسی ننانوے کے چکر میں ہی پڑے رہے تاآنکہ انہیں موت آ گئی اور وہ اسی نفاق اور ذلت کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوئے۔ التوبہ
56 [٦٠] منافقوں کی بے چارگی اور مجبوری :۔ یہ منافق مدینہ میں انتہائی بے بسی اور بے چارگی کی زندگی گزار رہے تھے۔ وہ کفر کو دل سے پسند کرتے تھے مگر مدینہ میں رہ کر اس بات کا نہ اظہار کرسکتے تھے اور نہ اعلان کرسکتے تھے کیونکہ اس وقت اسلامی حکومت ایک برتر قوت کی حیثیت اختیار کرچکی تھی اور کفر کے اظہار سے وہ مسلمانوں کے بلکہ اپنی اولادوں کے ہاتھوں بھی پٹ سکتے تھے اور مدینہ چھوڑ کر کسی دوسری جگہ جا بھی نہیں سکتے تھے اس لیے کہ اس طرح انہیں اپنی جائیدادوں سے دستبردار ہونا پڑتا تھا جن میں ان کی جانیں اٹکی ہوئی تھیں اور یہ ان کی عمر بھر کی جائز و ناجائز کمائیوں کا نتیجہ تھیں۔ لہٰذا انہیں مجبوراً یہ نفاق کی راہ اختیار کرنا پڑی تھی۔ مگر اس حالت میں بھی انہیں کچھ چین میسر نہ تھا۔ انہیں ظاہر داری کے طور پر پانچ وقت کی نمازیں بھی ادا کرنا پڑتی تھیں اور صدقات و خیرات بھی دینا پڑتے تھے اور یہ دونوں باتیں انہیں سخت ناگوار تھیں۔ مزید رسوائی یہ تھی کہ مسلمان انہیں مسلمان نہیں سمجھتے تھے اور ان کی یہ حالت دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا، کے مصداق بن گئی تھی۔ اور وہ ڈرپوک اس لحاظ سے تھے کہ اپنی یہ حالت زار کسی سے بیان بھی نہ کرسکتے تھے۔ التوبہ
57 [٦١] یعنی جس بے چارگی اور ذلت کے عالم میں یہ اپنی زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے یہ ہیں کہ کوئی چھوٹی موٹی پناہ گاہ انہیں مل جائے جہاں وہ اسلامی حکومت کے تسلط سے آزاد رہ سکیں۔ اور اگر انہیں کوئی ایسی پناہ گاہ مل جائے خواہ یہ کتنی ہی تنگ جگہ کیوں نہ ہو یہ لوگ ایک منٹ کی تاخیر نہ کریں اور فوراً دوڑتے ہوئے وہاں چلے جائیں۔ التوبہ
58 [٦٢] صدقات کی تقسیم میں منافقوں کا الزام :۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے رنگے ہوئے چمڑے میں کچھ سونا، جس سے مٹی علیحدہ نہیں کی گئی تھی۔ یمن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چار آدمیوں عیینہ بن بدر، اقرع بن حابس، زید الخیل اور علقمہ یا عامر بن طفیل کے درمیان تقسیم کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی نے کہا : اس مال کے تو ہم ان لوگوں سے زیادہ حقدار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’کیا تم لوگوں کو مجھ پر اطمینان نہیں حالانکہ میں آسمان والے کا امین ہوں۔ میرے پاس صبح و شام آسمان کی خبریں آتی ہیں۔‘‘ ایک آدمی جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی، رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئی، پیشانی باہر نکلی ہوئی، داڑھی گھنی اور سر منڈا ہوا تھا۔ اپنا تہمد پنڈلیوں سے اٹھاتے ہوئے کھڑا ہو کر کہنے لگا ’’اللہ کے رسول! اللہ سے ڈریئے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تیرے لیے بربادی ہو۔ کیا میں روئے زمین پر اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے کا مستحق نہیں ہوں؟‘‘ وہ آدمی چلا گیا تو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’نہیں شاید وہ نماز پڑھتا ہو۔ ‘‘ خالد کہنے لگے:کتنے ہی نمازی ہیں جو زبان سے ایسی باتیں کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہوتیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’مجھے لوگوں کے دلوں میں نقب لگانے اور ان کے پیٹوں کو چاک کرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔‘‘ ابو سعید کہتے ہیں کہ جب وہ پیٹھ موڑے جا رہا تھا تو آپ نے اس کی طرف دیکھ کر فرمایا : ''اس کی نسل سے وہ لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن کو مزے لے لے کر پڑھیں گے مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔'' ابو سعید کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ اگر میں اس قوم کے زمانہ میں موجود رہا تو قوم ثمود کی طرح انہیں قتل کروں گا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب بعث علی بن ابی طالب۔ بر کتاب استتابتہ المرتدین۔ مسلم کتاب الزکوٰۃ۔ باب اعطاء المؤلفۃ القلوب وذکر الخوارج) [٦٣] منافقوں کے نزدیک انصاف کا معیار :۔ منافقوں کا مطمح نظر محض ذاتی مفادات کا حصول ہوتا ہے۔ اس لیے ان کے نزدیک صدقات کی تقسیم میں انصاف کی صورت صرف یہ ہوتی ہے کہ انہیں ضرور کچھ ملنا چاہیے۔ اگر انہیں کچھ مل جائے تو باقی سب ٹھیک ہے اور خوش بھی ہوجاتے ہیں اور اگر انہیں کچھ نہ ملے تو ان کے نزدیک انصاف کے تقاضے بھی پورے نہیں ہوتے لہٰذا وہ ناراض ہوجاتے ہیں۔ تقسیم صدقات میں آپ کا مطمح نظر :۔ یہاں یہ بات ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ صدقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کے رشتہ داروں پر حرام تھا اس لیے یہ تو گمان بھی نہ ہوسکتا تھا کہ شاید کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے رکھ لیا ہو یا اپنے رشتہ داروں کو دے دیا ہو۔ منافقوں کو اعتراض صرف یہ ہوتا تھا کہ فلاں کو کیوں دیا اور مجھے کیوں نہ دیا یا فلاں کو زیادہ کیوں دیا اور مجھے کم کیوں دیا۔ اور یہ اعتراض محض ان کی حرص اور تنگ نظری اور آپ کی ذات پر عدم اعتماد کی بنا پر ہوتا تھا۔ اور آپ صدقات کی تقسیم میں جس چیز کو ملحوظ رکھتے تھے وہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :۔ عمرو بن تغلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں اللہ کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا: ’’میں بعض لوگوں کو (مال وغیرہ) دیتا ہوں اور بعض کو نہیں دیتا۔ جنہیں میں دیتا ہوں وہ اس لیے نہیں دیتا کہ مجھے زیادہ محبوب ہیں بلکہ اس لیے کہ میں ان میں بے چینی اور بوکھلا پن پاتا ہوں اور جنہیں نہیں دیتا تو ان کی سیر چشمی اور بھلائی پر بھروسہ کرتا ہوں جو اللہ نے انہیں دے رکھی ہے۔ ایسے ہی لوگوں میں سے ایک عمرو بن تغلب ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے یہ بات سن کر مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ اگر مجھے سرخ اونٹ مل جاتے تو بھی اتنی خوشی نہ ہوتی۔ (بخاری۔ کتاب الجمعہ۔ باب خطبۃ الجمعۃ) التوبہ
59 [٦٤] یعنی منافقوں کے حق میں بہتر یہی تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر اعتماد کرتے اور جو کچھ اللہ نے انہیں پہلے ہی دے رکھا ہے اور اب جو رسول نے انہیں دیا ہے اس پر قناعت کرتے اور راضی ہوجاتے اور اگر انہیں بزعم خود کچھ کسر لگ گئی تھی تو آئندہ کے لیے اللہ کے فضل و کرم پر نگاہ رکھتے۔ التوبہ
60 [٦٥] یہاں صدقات سے مراد صرف فرضی صدقہ یا زکوٰۃ ہے جیسا کہ بعد کے الفاظ فریضۃ من اللّٰہ سے واضح ہوتا ہے۔ صدقات کی تقسیم پر بھی منافقوں کو اعتراض ہوا تھا تو اس کی تقسیم کی مدات اللہ تعالیٰ نے خود ہی مقرر فرما دیں تاکہ ان کی تقسیم میں اعتراض کی گنجائش ہی نہ رہے یا کم سے کم رہ جائے۔ اور یہ کل آٹھ مدات ہیں جو درج ذیل ہیں۔ [٦٦] زکوٰۃ کے حقدار مسکین اور فقیر میں فرق :۔ فقیر اور مسکین کی تعریف اور ان میں فرق سے متعلق علماء کے کئی اقوال ہیں۔ اس سلسلہ میں درج ذیل حدیث قول فیصل کی حیثیت رکھتی ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’مسکین وہ نہیں جو ایک یا دو لقموں کے لیے لوگوں کے پاس چکر لگائے کہ اسے ایک یا دو کھجوریں دے کر لوٹا دیا جائے بلکہ مسکین وہ ہے جس کے پاس اتنا مال نہ ہو جو اسے بے نیاز کر دے۔ نہ اس کا حال کسی کو معلوم ہوتا ہے کہ اسے صدقہ دیا جائے، نہ وہ لوگوں سے کھڑا ہو کر سوال کرتا ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ (لَا یَسْــَٔـلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا ، مسلم۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب المسکین الذی لایجد غنی ) گویا احتیاج کے لحاظ سے فقیر اور مسکین میں کوئی فرق نہیں۔ ان میں اصل فرق یہ ہے کہ فقیر وہ ہے جو لوگوں سے سوال کرتا پھرے اور مسکین وہ ہے جو احتیاج کے باوجود قانع رہے اور سوال کرنے سے پرہیز کرے جسے ہمارے ہاں سفید پوش کہا جاتا ہے۔ [٦٧] محنت کرنے والے کو معاوضہ لے لینا چاہئے :۔ یعنی زکوٰۃ کو وصول کرنے والے، تقسیم کرنے والے اور ان کا حساب کتاب رکھنے والا سارا عملہ اموال زکوٰۃ سے معاوضہ یا تنخواہ لینے کا حقدار ہے۔ اس عملہ میں سے اگر کوئی شخص خود مالدار ہو تو بھی معاوضہ یا تنخواہ کا حقدار ہے اور اسے یہ معاوضہ لینا ہی چاہیے خواہ بعد میں صدقہ کر دے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ سیدنا عبداللہ بن السعدی کہتے ہیں کہ دور فاروقی میں میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا۔ انہوں نے مجھے کہا : ’’مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم لوگوں کے کام کرتے ہو اور جب تمہیں اس کی اجرت دی جائے تو تم اسے ناپسند کرتے ہو؟‘‘ میں نے کہا ’’ہاں‘‘ انہوں نے پوچھا ’’پھر اس سے تمہارا کیا مطلب ہے؟‘‘میں نے جواب دیا کہ ’’میرے پاس گھوڑے ہیں غلام ہیں اور مال بھی ہے میں چاہتا ہوں کہ اپنی اجرت مسلمانوں پر صدقہ کر دوں۔‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’ایسا نہ کرو، کیونکہ میں نے بھی یہی ارادہ کیا تھا جو تم نے کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کچھ دیتے تو میں کہہ دیتا کہ یہ آپ اسے دے دیں جو مجھ سے زیادہ محتاج ہے۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’یہ لے لو، اس سے مالدار بنو، پھر صدقہ کرو، اگر تمہارے پاس مال اس طرح آئے کہ تم اس کے حریص نہ ہو اور نہ ہی اس کا سوال کرنے والے ہو تو اس کو لے لیا کرو اور اگر نہ ملے تو اس کی فکر نہ کیا کرو۔ ‘‘ (بخاری۔ کتاب الاحکام۔ باب رزق الحاکم والعاملین علیھا- مسلم۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب اباحۃ الاخذ لمن اعطی من غیر مسئلۃ ) زکوٰۃ کی فراہمی اور تقسیم حکومت کی ذمہ داری :۔ ضمناً اس جملہ سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ زکوٰۃ کی فراہمی اور تقسیم اسلامی حکومت کا فریضہ ہے اور انفرادی طور پر زکوٰۃ صرف اس صورت میں ادا کرنا چاہیے جب ایسا نظام زکوٰۃ قائم نہ ہو اور اگر کوئی خاندان، برادری، یا قوم اپنے اہتمام میں اجتماعی طور پر فراہمی زکوٰۃ اور اس کی تقسیم کا کام کرلے تو یہ انفرادی ادائیگی سے بہتر ہے۔ [٦٨] تالیف کے حقدار :۔ اس مدد سے ان کافروں کو بھی مال دیا جا سکتا ہے جو اسلام دشمنی میں پیش پیش ہوں اگر یہ توقع ہو کہ مال کے لالچ سے وہ اپنی حرکتیں چھوڑ کر اسلام کی طرف مائل ہوجائیں گے اور ان نو مسلموں کو بھی جو نئے مسلم معاشرہ میں ابھی اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل نہ ہوں اور انہیں اپنی معاشی حالت سنبھلنے تک مستقل وظیفہ بھی دیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو سونا بھیجا تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی کافروں میں تقسیم کیا تھا۔ سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں یہ کہہ کر اس مد کو حذف کردیا تھا کہ اب اسلام غالب آ چکا ہے اور اب اس مد کی ضرورت نہیں رہی۔ لیکن حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے لہٰذا عندالضرورت اس مد کو بھی بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ [٦٩] اجتماعی غلامی کا حال :۔ اس کی بھی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ کسی غلام کو خرید کر آزاد کردیا جائے۔ دوسری کسی مکاتب غلام کی بقایا رقم ادا کر کے اسے آزاد کرایا جائے۔ آج کل انفرادی غلامی کا دور گزر چکا ہے اور اس کے بجائے اجتماعی غلامی رائج ہوگئی ہے۔ بعض مالدار ممالک نے تنگ دست ممالک کو معاشی طور پر اپنا غلام بنا رکھا ہے۔ لہٰذا آج علماء کو یہ غور کرنا چاہیے کہ ایسے غلام ممالک کی رہائی کے لیے ممکنہ صورتیں کیا ہونی چاہئیں؟ مثلاً آج کل پاکستان بیرونی ممالک اور بالخصوص امریکہ کے سودی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے اور مسلمان تاجر اتنے مالدار بھی ہیں کہ وہ حکومت سے تعاون کریں تو وہ یہ قرضہ اتار بھی سکتے ہیں بشرطیکہ انہیں یہ یقین دہانی کرا دی جائے کہ ان کی زکوٰۃ کا یہ مصرف درست ہے اور حکومت اسلامی نظام کے نفاذ میں مخلص ہے۔ [٧٠] مقروض کے قرضہ کی ادائیگی :۔ یہاں قرض سے مراد خانگی ضروریات کے قرضے ہیں تجارتی اور کاروباری قرضے نہیں اور قرض دار سے مراد ایسا مقروض ہے کہ اگر اس کے مال سے سارا قرض ادا کردیا جائے تو اس کے پاس نقد نصاب سے کم مال رہتا ہو۔ یہ مقروض خواہ برسر روزگار ہو یا بے روزگار ہو اور خواہ وہ فقیر ہو یا غنی ہو۔ اس مد سے اس کا قرض ادا کیا جا سکتا ہے۔ [٧١] یعنی ہر ایسا کام جس میں اللہ کی رضا مطلوب ہو۔ اور یہ میدان بڑا وسیع ہے۔ اکثر ائمہ سلف کے اقوال کے مطابق اس کا بہترین مصرف جہاد فی سبیل اللہ میں خرچ کرنا ہے اور قتال فی سبیل اللہ اسی کا ایک اہم شعبہ ہے۔ بالفاظ دیگر اس مد سے دینی مدارس کا قیام اور اس کے اخراجات پورے کیے جا سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں ہر وہ ادارہ بھی اس مصرف میں شامل ہے جو زبانی یا تحریری طور پر دینی خدمات سر انجام دے رہا ہے یا اسلام کا دفاع کر رہا ہو۔ بعض علماء کے نزدیک اس مد سے مساجد کی تعمیر و مرمت پر بھی خرچ کیا جا سکتا ہے۔ [٧٢] مسافر خواہ وہ فقیر ہو یا غنی ہو۔ اگر دوران سفر اسے ایسی ضرورت پیش آ جائے تو اس کی بھی مدد کی جا سکتی ہے مثلاً فی الواقع کسی کی جیب کٹ جائے یا مال چوری ہوجائے وغیرہ وغیرہ۔ [٧٣] محتاج زکوٰۃ کے زیادہ حقدار ہیں :۔ واضح رہے کہ زکوٰۃ کی فراہمی اور تقسیم کے لحاظ سے معاشرہ کو تین طبقوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک اغنیاء کا طبقہ جن سے زکوٰۃ وصول کی جائے گی دوسرا فقراء و مساکین یا مقروضوں وغیرہ کا طبقہ۔ جسے زکوٰۃ دی جائے گی اور تیسرا متوسط طبقہ جس پر زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی تاہم وہ زکوٰۃ کا مستحق بھی قرار نہیں دیا جا سکتا اور اس کے آمدنی کے ذرائع اتنے ہوتے ہیں جس سے اس کے اخراجات پورے ہوجاتے ہیں۔ غنی کی عام تعریف یہ ہے کہ جس شخص کے پاس محل نصاب اشیاء میں سے کوئی چیز بقدر نصاب یا اس سے زائد موجود ہو وہ غنی ہے اور جس کے پاس کوئی چیز بھی بقدر نصاب موجود نہ ہو وہ فقیر یا مسکین ہے۔ دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ زکوٰۃ جس مقام کے اغنیاء سے وصول کی جائے گی اس کے سب سے زیادہ حقدار اسی مقام کے فقراء وغیرہ ہوتے ہیں۔ اگر کچھ رقم بچ جائے تو وہ مرکزی بیت المال میں جمع ہوگی۔ اس سلسلہ میں اب درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :۔ سیدنا ابراہیم بن عطاء اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ عمران ابن الحصین کو زکوٰۃ کی وصولی پر روانہ کیا گیا۔ وہ خالی ہاتھ واپس آ گئے تو ان سے پوچھا گیا کہ زکوٰۃ کا مال کہاں ہے؟ انہوں نے جواب دیا ’’مجھے زکوٰۃ کی وصولی اور تقسیم کے واسطے روانہ کیا گیا۔ میں نے جن لوگوں سے لینا چاہیے تھا لیا اور جہاں دینا چاہیے تھا دے دیا۔‘‘ (ابن ماجہ۔ ابو اب الصدقہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ غنی کی حد کیا ہے؟ فرمایا ’’پچاس درہم یا اس کے برابر مالیت کا سونا (یا نقدی)‘‘ (نسائی۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب حد الغنیٰ) اور درہم چاندی کا ساڑھے چار ماشہ کا سکہ تھا اور پچاس درھم کا عوض ڈھائی دینار ہے جبکہ دینار ساڑھے تین ماشے سونے کا سکہ تھا۔ یعنی جس کے پاس تقریباً ٩ ماشہ سونا ہو وہ غنی ہے۔ اور ایسا شخص متوسط طبقہ میں شمار ہوگا۔ علاوہ ازیں درج ذیل قسم کے لوگ زکوٰۃ کے حقدار نہیں ہوتے :۔ الف۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور آپ کے رشتہ دار جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :۔ ١۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے زکوٰۃ کی کھجوروں میں سے ایک کھجور اٹھا کر منہ میں ڈال لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''چھی چھی'' تاکہ حسن اس کھجور کو منہ سے نکال پھینکیں۔ پھر فرمایا ’’کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم صدقہ کا مال نہیں کھاتے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب الصدقۃ للنبی ) لیکن اگر صدقہ کی کوئی چیز کسی مستحق کے واسطہ سے ہدیہ آل نبی کو مل جائے تو وہ جائز ہوگی۔ ٢۔ ام عطیہ کہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں جا کر پوچھا’’کچھ کھانے کو ہے؟‘‘ انہوں نے کہا ’’کچھ نہیں صرف بکری کا وہ گوشت ہے جو آپ نے نُسَیْبَہ کو خیرات دی تھی اور نُسَیْبَہ نے تحفہ کے طور پر ہمیں بھیجا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’لاؤ۔ خیرات تو اپنے ٹھکانے پر پہنچ چکی ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب اذا تحولت الصدقۃ) ٣۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وہ گوشت لایا گیا جو بریرہ کو خیرات میں ملا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بریرہ پر یہ صدقہ تھا اور ہمارے لیے یہ تحفہ ہے۔‘‘ (بخاری۔ حوالہ ایضاً) ب۔ جو شخص تندرست، طاقتور اور کمانے کے قابل ہو وہ زکوٰۃ کا حقدار نہیں ہوتا :۔ ١۔ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ تقسیم فرما رہے تھے۔ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر صدقہ طلب کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’صدقات کی تقسیم میں اللہ کسی نبی یا کسی دوسرے کی تقسیم پر راضی نہیں ہوا۔ اس نے خود فیصلہ کیا اور اسے آٹھ اجزاء میں تقسیم کردیا۔ اگر تو بھی ان کے ذیل میں آتا ہے تو میں تمہیں دے دیتا ہوں۔‘‘ (ابو داؤد۔ نسائی۔ کتاب الزکوٰۃ باب مسئلۃ القوی المکتسب) ٢۔ حجۃ الوداع کے موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ تقسیم فرما رہے تھے۔ دو ہٹے کٹے آدمی آئے اور صدقہ کا سوال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر اٹھا کر انہیں دیکھا۔ پھر نظر نیچے کرلی اور فرمایا ’’اگر تم چاہتے ہو تو میں تمہیں دے دیتا ہوں لیکن صدقہ میں غنی اور قوی کا کوئی حصہ نہیں۔ جو کما سکتا ہو۔ ‘‘ (ابو داؤد۔ نسائی۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب مسئلۃ القوی المکتسب ) ج۔ جو افراد کسی کے زیر کفالت ہوں۔ وہ انہیں زکوٰۃ نہیں دے سکتا۔ مثلاً بیوی اور اولاد کو۔ اسی طرح اگر باپ بوڑھا ہوچکا ہو اور اس کی کفالت اس کے بیٹے کے ذمہ ہو تو بیٹا باپ کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :۔ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں صاحب مال ہوں اور میرا والد محتاج ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تو اور تیرا مال سب کچھ تیرے باپ کا ہے۔ اولاد ہی تمہاری پاکیزہ کمائی ہوتی ہے اور اپنی اولاد کی کمائی سے تم کھا سکتے ہو۔ ‘‘ (ابو داؤد۔ ابن ماجہ بحوالہ مشکوۃ۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب النفقات وحق المملوک) اس لحاظ سے عورت اپنے خاوند کو زکوٰۃ دے سکتی ہے کیونکہ خاوند بیوی کے زیر کفالت نہیں ہوتا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :۔ سیدہ زینب (زوجہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آئیں۔ وہاں ایک اور انصاری عورت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر پایا۔ وہ بھی وہی مسئلہ پوچھنے آئی تھی جو میں پوچھنا چاہتی تھی۔ اتنے میں بلال رضی اللہ عنہ نکلے۔ ہم نے ان سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو کہ اگر میں اپنے خاوند اور چند یتیموں کو جو میری پرورش میں ہیں خیرات کر دوں تو کیا یہ درست ہوگا ؟ ہم نے بلال رضی اللہ عنہ سے یہ بھی کہا کہ ہمارا نام نہ لینا۔ بلال رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ دو عورتیں یہ مسئلہ پوچھ رہی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ’’کونسی عورتیں؟‘‘ بلال رضی اللہ عنہ نے کہ’’زینب نامی ہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ’’کونسی زینب؟‘‘ بلال رضی اللہ عنہ نے کہا ’’ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی'' آپ نے فرمایا ’’ہاں یہ صدقہ درست ہے اور اس کے لیے دوہرا اجر ہے ایک قرابت کا دوسرے صدقہ کا۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب الزکوٰۃ علی الزوج والا یتام فی الحجر) التوبہ
61 [٧٤] منافقوں کا آپ کو لائی لگ کہنا اور اس کا جواب :۔ منافقوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ شکایت تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر شخص کی بات سن لیتے ہیں اور پھر اسے درست بھی سمجھ لیتے ہیں۔ دراصل ان کی خواہش یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان مسلمانوں کی باتوں پر اعتماد نہ کیا کریں جو ہم جیسے معزز لوگوں کی خبریں یعنی ہماری سازشوں اور شرارتوں کے حالات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلع کرتے رہتے ہیں۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نبی کا ایسا ہونا دراصل تمہارے ہی حق میں بہتر ہے۔ تم ان کے سامنے اپنے ایمان کے جھوٹے دعوے کرتے، مسلمانوں کے ہمدرد ہونے پر جھوٹی قسمیں کھاتے اور جہاد سے فرار کے لیے جھوٹے بہانے بناتے ہو۔ مگر وہ صبر سے کام لیتا ہے۔ اگر وہ اسی وقت ہر بات کی تحقیق شروع کردیتا تو سب سے پہلے تمہاری ہی شامت آ جاتی۔ [٧٥] متقی کی بات قابل اعتبار ہے :۔ یعنی رسول سنتا تو سب کی ہے مگر اعتماد صرف ان لوگوں پر کرتا ہے جو سچے مومن ہیں اور اللہ سے ڈرنے والے اور جھوٹ اور چغل خوری سے پرہیز کرنے والے ہیں۔ لہٰذا اگر وہ تمہاری شرارتوں اور معاندانہ سرگرمیوں کی اطلاع دیتے ہیں تو وہ فی الواقع قابل اعتماد ہوتی ہیں۔ التوبہ
62 [٧٦] منافقوں کی جب بھی کوئی سازش یا دغا بازی پکڑی جاتی تو فوراً اس سے مکر جاتے اور اپنے جھوٹے بیان پر قسمیں کھا کھا کر مسلمانوں کو مطمئن اور راضی کرنے کی کوشش کیا کرتے۔ حالانکہ یہی بات ان کی منافقت کو مزید تقویت پہنچا دیتی تھی۔ اس کے بجائے اب بھی اگر وہ اللہ سے ڈر جاتے اور اپنی غلطیوں اور گناہوں کا اعتراف کر کے اللہ اور اس کے رسول کو راضی کرنے کی کوشش کرتے تو یہ فی الواقع ان کے اللہ پر یقین رکھنے کی دلیل بن سکتی تھی۔ التوبہ
63 [٧٧] منافقوں کی رسوائی کیسے؟ یعنی ایک رسوائی تو اس وقت ہوتی ہے جب ان کی کوئی سازش اور دغا بازی سب لوگوں کے سامنے آ جاتی ہے جس کی وجہ سے ان کو مزید جھوٹی باتیں بنا کر اور قسمیں کھا کر اپنی طرف سے مسلمانوں کو اپنی صفائی کی یقین دہانی کرانا پڑتی ہے اور یہ رسوائی اس رسوائی کے مقابلہ میں بہت ہلکی ہے جو انہیں قیامت کے دن سب کے سامنے اٹھانا پڑے گی۔ جب ان کی یہ سب شرارتیں کھل کر سامنے آ جائیں گی اور معذرتوں کا بھی موقع نہ ہوگا پھر انہیں جہنم کا دائمی عذاب بھگتنا پڑے گا۔ التوبہ
64 التوبہ
65 [٧٨] منافقوں کی دل لگی کا موضوع؟ غزوہ تبوک میں منافقین کی ایک جماعت بھی شامل تھی۔ جنہیں چار و ناچار ساتھ جانا پڑگیا تھا۔ مگر راستہ میں بھی انہیں شرارتیں ہی سوجھتی رہیں اور ایسی باتیں کرنے لگے جس سے مسلمانوں کے حوصلے پست ہوجائیں۔ مثلاً ایک نے کہا : یہ مسلمان بھی عجیب غلط فہمی اور دیوانگی میں مبتلا ہیں جو یہ سمجھ رہے ہیں کہ اگر ہم مکہ کے قریش پر غالب آ گئے ہیں تو قیصر روم کا مقابلہ کرنے کے لیے چڑھ دوڑے ہیں حالانکہ روم وہ عظیم طاقت ہے جو کسریٰ کو بھی شکست دے چکا ہے اور اس وقت اس کا طوطی بول رہا ہے۔ دوسرا کہنے لگا میں تو سمجھتا ہوں کہ ہم سب جکڑ بند کر کے قید کردیئے جائیں گے اور شاید ان کے ہاتھوں ہماری بڑی سخت پٹائی بھی ہو۔ پھر کبھی انہیں یہ خیال بھی آنے لگتا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پیغمبر کو اللہ تعالیٰ ہماری ان باتوں پر اور دلوں کے حالات پر وحی کے ذریعہ مطلع کر دے۔ چنانچہ ان کا یہ خطرہ سچ ثابت ہوا۔ اور جب آپ کو فی الواقع بذریعہ وحی ان لوگوں کے حالات سے مطلع کیا گیا تو آپ نے انہیں بلا کر باز پرس کی تو کہنے لگے : ہم تو یہ باتیں اس طویل سفر میں محض دل بہلاوے کے طور پر کر رہے تھے سنجیدگی سے نہیں کر رہے تھے۔ اللہ نے اس کا یہ جواب دیا کہ کیا تمہیں اس دل بہلاوے اور ہنسی مذاق کے لیے ایسی ہی باتیں سوجھتی ہیں جن میں اللہ اور اس کے رسول کی سبکی ہوتی ہو اور اسلام کی سربلندی کے مقصد کو نقصان پہنچتا ہو؟ اور کوئی بات تمہیں دل بہلاوے کے لیے نہیں سوجھتی۔ التوبہ
66 [٧٩] اس گروہ سے وہ منافق مراد ہیں جنہوں نے اس طرح کی گفتگو میں حصہ نہیں لیا تھا۔ اور وہ گروہ بھی مراد لیا جا سکتا ہے جو بعد میں فی الواقع نفاق کی راہ کو چھوڑ کر حقیقی معنوں میں مسلمان بن گیا تھا۔ التوبہ
67 [٨٠] منافق امر تو منکرات کا کرتے ہیں اور نہی اوامر کی :۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی کتاب و سنت میں اتنی زیادہ تاکید آئی ہے جس سے بعض علماء نے اس فریضہ کو فرض کفایہ کے بجائے فرض عین سمجھ لیا ہے اور یہ منافق لوگ خواہ مرد ہوں یا عورتیں سب اس اہم فریضہ کے برعکس کام کرتے ہیں۔ کوئی برائی کی بات ہو، کفر و شرک کا معاملہ ہو یا اسلام کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا، ان کے دل فوراً ادھر مائل ہوجاتے ہیں اور اس میں ہر طرح سے امداد و تعاون پر تیار ہوجاتے ہیں اور ایسے کاموں میں ان کے دلوں کو اطمینان اور راحت ملتی ہے اور جب کوئی اچھا کام ہو رہا ہو یا دین کی سربلندی کا معاملہ درپیش ہو تو ایسی خبر سنتے ہی ان کے دل بجھ جاتے ہیں۔ پھر وہ ایسی تدبیروں میں مصروف ہوجاتے ہیں کہ یا تو وہ کام شروع ہی نہ ہو اور اگر ہوچکا ہے تو تکمیل کو نہ پہنچ سکے۔ [٨١] یعنی وہ رسم ورواج، دکھلاوے اور حرام کاموں میں تو اپنے دل کی خوشی سے اور فراخدلی سے خرچ کرتے ہیں۔ لیکن جب جہاد کے لیے یا کسی بھی بھلے کام کے لیے چندہ کی ضرورت پیش آتی ہے تو ان کے دلوں میں گھٹن پیدا ہوجاتی ہے اور کوئی چیز ہاتھوں سے نکالنے کو جی نہیں چاہتا۔ [٨٢] بھلانے کی نسبت اللہ کی طرف :۔ اللہ کا بھلانا یہ ہے کہ اس نے ان منافقوں کو اپنے فضل اور رحمت سے محروم کردیا اور اس کے بجائے سب مسلمانوں کی نظروں میں اللہ نے ذلیل و رسوا بنا دیا۔ نیز عرب میں محاورہ یہ ہے کہ کسی چیز کے بدلے پر بھی اس کا نام بول دیتے ہیں۔ اور اسے مشا کلہ کہتے ہیں جیسے ﴿يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُم﴾ (وہ اللہ کو دھوکا دیتے ہیں اور اللہ انہیں ان کے دھوکے کا بدلہ دیتا ہے) اب اللہ نے اپنے بھلانے کی جو جو سزا بھی مقرر کر رکھی ہے۔ ان سب سزاؤں پر اس لفظ کا اطلاق ہوگا۔ جیسا کہ ان سزاؤں کی وضاحت اللہ تعالیٰ نے اس سے اگلی آیت میں کردی ہے یعنی اللہ کے بھلانے سے مراد ان پر اللہ کی پھٹکار اور ان کے لیے دائمی عذاب ہے۔ التوبہ
68 التوبہ
69 [٨٣] یعنی قوم عاد، ثمود، نوح، ابراہیم وغیرہ وغیرہ ایسی اقوام تھیں جن کی شان و شوکت تم لوگوں سے بڑھ کر تھی۔ انہوں نے تم سے بہت زیادہ عیش و عشرت سے زندگی بسر کی تھی۔ وہ لوگ طاقت کے لحاظ سے بھی تم سے مضبوط تر تھے اور مال اور اولاد کے لحاظ سے بھی تم سے بہت آگے تھے۔ وہ لوگ بھی دنیا میں مست ہو کر آیات کو بھول گئے تھے۔ اس کی نافرمانیوں پر اتر آئے اور اللہ کی آیات سے مذاق اور دل بہلاوے کرنے لگے تھے۔ اور آج تم بھی بعینہ وہی کچھ کر رہے ہو۔ اللہ کو بھول جانے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی نے دنیا میں کوئی اچھے کام کیے بھی ہوں تو آخرت میں وہ سب رائیگاں جائیں گے کیونکہ اعمال کی جزا تو صرف اس صورت میں ملتی ہے کہ اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان ہو اور جب یہ بنیاد ہی موجود نہ ہو تو پھر جزاء کیسی؟ اور اس سے بڑھ کر خسارہ کیا ہوسکتا ہے کہ کسی شخص کو اس کی کی ہوئی محنت کا ثمرہ ہی نہ مل سکے۔ التوبہ
70 [٨٤] یہ سب اقوام ایسی ہیں جن کا اپنے اپنے وقتوں میں ڈنکا بجتا تھا۔ پھر جب انہوں نے اللہ کے رسول اور اس کی آیات کو جھٹلایا اور نافرمانی اور مخالفت کی راہ اختیار کی تو ان پر اللہ کی طرف سے ارضی یا سماوی عذاب آیا جس نے انہیں تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ ایسی قوموں کے حالات کی تفصیل پہلے سورۃ اعراف میں بھی گزر چکی ہے اور آئندہ بھی متعدد مقامات پر مذکور ہوگی۔ الٹائی ہوئی بستیوں سے مراد سیدنا لوط علیہ السلام کی قوم کی بستیاں ہیں۔ سیدنا جبریل نے بحکم الٰہی ان بستیوں کو اپنے پر کے اوپر اٹھایا اور بلندیوں پر لے جا کر انہیں اٹھا کر زمین پر دے مارا تھا۔ پھر بھی اس قوم پر اللہ کا غضب کم نہ ہوا تو ان پر پتھروں کی بارش برسائی گئی۔ سیدنا لوط کا مرکز تبلیغ سدوم کا شہر تھا۔ اور یہ الٹائی ہوئی بستیاں غالباً آج کل بحیرہ مردار میں دفن ہوچکی ہیں۔ [٨٥] یعنی اللہ تعالیٰ کو نہ ان لوگوں سے کوئی دشمنی تھی، نہ انہیں عذاب دینے کا شوق تھا اور نہ ضرورت تھی بلکہ جس طریق زندگی کو انہوں نے اختیار کیا اور اس پر مصر رہے وہ راستہ ہی ہلاکت اور بربادی کا تھا اور اس بات کی اطلاع انہیں رسولوں کے ذریعہ دی جا چکی تھی۔ التوبہ
71 [٨٦] منافق کے مقابلہ میں مومنوں کی زندگی :۔ اب منافقوں کے مقابلہ میں اس آیت میں سچے مومنوں کے خصائل کا ذکر کیا جا رہا ہے اور بتلایا جا رہا ہے کہ اگرچہ منافق بھی مسلمانوں میں شامل رہتے ہیں اور ان سے ملے جلے رہتے ہیں مگر ان دونوں طبقوں کے اخلاقی مزاج، عادات و خصائل ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ منافق برے کاموں پر خوش ہوتے ہیں اور ان میں مددگار ثابت ہوتے ہیں تو مومن برے کاموں سے خود بھی بچتے ہیں اور دوسروں کو بھی منع کرتے ہیں منافق اچھے کاموں پر خود بھی عمل پیرا نہیں ہوتے اور دوسروں کو بھی ان سے منع کرتے ہیں یا ایسے کاموں میں رکاوٹیں کھڑی کردیتے ہیں جبکہ مومن خود بھی بھلے کام کرتے، دوسروں کو ان کی تلقین کرتے اور ایسے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد اور تعاون کرتے ہیں۔ منافق کی نماز دکھلاوے کی ہوتی ہے جسے وہ ایک بیگار سمجھ کر ادا کرتا ہے، اسی طرح وہ زکوٰۃ بھی جرمانہ اور تاوان سمجھ کر ادا کرتا ہے تاکہ اسے مسلمانوں میں سے ہی سمجھا جا سکے جبکہ مومن یہ دونوں کام اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ان کے اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے۔ وہ یہ کام دل کی خوشی سے کرتے ہیں تاکہ انہیں اللہ کی رضا حاصل ہو۔ اس لحاظ سے مومن اور منافق اگرچہ ایک ہی امت کے اجزاء ہیں تاہم یہ ایک دوسرے کی عین ضد ہیں اور اسی لحاظ سے منافقوں کے کفر میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا۔ کیونکہ وہ مومنوں کی عین ضد ہیں۔ التوبہ
72 [٨٧] اللہ کی خوشنودی سے مراد؟ جنت کی نعمتیں بے شمار، لاتعداد اور لازوال ہیں جن کا ذکر کتاب و سنت میں بہت سے مقامات پر آیا ہے اور صحیح احادیث میں یہ بھی مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل جنت کو جنت میں داخل کرنے کے بعد پکارے گا جنتی لبیک کہیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان سے پوچھے گا۔ ’’اب تم خوش ہو؟‘‘ وہ جواب دیں گے ’’پروردگار! کیا اب بھی ہم خوش نہ ہوں گے جب کہ تو نے یہاں ہمیں ہر طرح کی نعمتیں عطا کر رکھی ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’کیا میں تمہیں ان سب نعمتوں سے بڑھ کر نعمت نہ عطا کروں؟‘‘ جنتی پوچھیں گے ’’اے پروردگار! ان نعمتوں سے افضل اور کیا چیز ہو سکتی ہے؟‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’اب میں تم پر اپنی رضا اور خوشنودی اتارتا ہوں اور آج کے بعد میں کبھی تم سے ناراض نہ ہوں گا۔‘‘ (بخاری۔ کتاب التوحید۔ باب کلام الرب مع اہل الجنۃ) التوبہ
73 [٨٨] منافقوں پر غزوہ تبوک تک سختی کیوں نہ کی گئی؟۔ (١) آپ کی نرمی (٢) داخلی انتشار ( ٣) اغیار کے طعنے۔ یہ آیات غزوہ تبوک کے بعد نازل ہوئیں جبکہ منافقوں کو اپنی سازشوں اور اسلام دشمن سرگرمیوں میں نو سال گزر چکے تھے اب تک ان منافقوں سے جو نرم رویہ اختیار کیا جاتا رہا اس کی متعدد وجوہ تھیں۔ پہلی وجہ تو یہی تھی کہ آپ طبعاً نرم خو واقع ہوئے تھے۔ آپ کی طبیعت مجرم کو سرزنش کرنے یا سزا دینے کی بجائے اس سے درگزر کرنے اور اسے معاف کردینے کی طرف زیادہ مائل رہتی تھی۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ اگر آپ ان پر سختی کرتے تو مسلمانوں کے اندر داخلی فتنہ اٹھ کھڑا ہوتا اور غزوہ تبوک سے پہلے پہلے مسلمانوں کی سلطنت اتنی مضبوط نہیں تھی کہ بیرونی اور اندرونی ہر طرح کے خطرات کا مقابلہ کرسکے اور اگر ایسا کام کرنا ہی پڑتا تو اسلام کی نشر و اشاعت کے مقاصد بہت پیچھے جا پڑتے۔ اس کی تیسری وجہ اغیار یعنی غیر مسلموں کے طعنے تھے چنانچہ غزوہ بنی مصطلق کی واپسی پر جب عبداللہ بن ابی نے اوس اور خزرج کے درمیان انتشار کا فتنہ کھڑا کرنے کی کوشش کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں نازیبا کلمات کہے تو سیدنا عمرضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی کہ میں اسے قتل نہ کر دوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر سے کہا ’’نہیں جانے دو لوگ کیا کہیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ساتھیوں کو بھی قتل کرنے لگا ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ باب (یَقُوْلُوْنَ لَیِٕنْ رَّجَعْنَآ .....) منافقوں پر سختی اور جبر کی صورتیں :۔ مگر جب ان لوگوں کی ریشہ دوانیاں حد سے بڑھ گئیں تو ان آستین کے سانپوں سے سختی سے نمٹنے کا حکم دیا گیا۔ واضح رہے کہ کفار سے جہاد سے مراد بسا اوقات تلوار سے جنگ ہی ہوتی ہے۔ مگر منافقوں سے ایسی جنگ اس لیے نہیں کی جا سکتی کہ اسلامی احکام ظاہری احوال پر لاگو ہوتے ہیں اور باطن کا معاملہ اللہ کے سپرد ہوتا ہے۔ اور منافقوں کو اسلام لانے کا سب سے بڑا فائدہ ہی یہ تھا کہ ان کے جان و مال محفوظ رہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان منافقوں سے کسی وقت بھی قتال بالسیف نہیں کیا۔ یہاں منافقوں سے جہاد اور ان پر سختی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ ان کی باتوں پر اعتماد نہ کیا جائے۔ ان کی فتنہ پردازیوں پر پردہ نہ ڈالا جائے تاکہ انہیں مسلم معاشرہ میں نفاق کا زہر پھیلانے کا موقع نہ مل سکے اور ان کی سازشوں کو کھلم کھلا بے نقاب کیا جائے۔ ان کی شہادت کو معتبر نہ سمجھا جائے۔ انہیں جماعتی مشوروں سے الگ رکھا جائے کوئی عہدہ یا منصب ان لوگوں کے سپرد نہ کیا جائے۔ ان سے مخلصانہ میل جول اور تعلقات قطع کیے جائیں تاکہ ان لوگوں پر خوب واضح ہوجائے کہ ایک اسلامی معاشرہ میں ان کے لیے عزت و وقار کا کوئی مقام نہیں ہے۔ التوبہ
74 [٨٩] توہین رسالت کلمہ کفر ہے :۔ وہ کفر کا کلمہ کیا تھا جو ان منافقوں نے بکا تھا ؟ قرآن نے یہاں اس کی تصریح نہیں کی۔ یہ اس لیے کہ یہ کوئی ایک آدھ واقعہ نہ تھا بلکہ ان لوگوں نے کئی موقعوں پر ایسے کفر کے کلمے کہے تھے جیسا کہ روایات میں مذکور ہے مگر ہم اسی واقعہ پر اکتفا کریں گے جو سورۃ منافقون میں اجمالاً اور بخاری میں ذرا تفصیل سے مذکور ہے۔ سیدنا زید بن ارقم کہتے ہیں کہ ایک لڑائی میں (غزوہ بنی مصطلق سے واپسی پر جب مہاجرین اور انصار میں جھگڑا ہوگیا تو) میں نے عبداللہ بن ابی کو یہ کہتے سنا ’’لوگو! تم ایسے کرو کہ پیغمبر کے پاس جو لوگ (مہاجرین) جمع ہوگئے ہیں تم ان کو خرچ کے لیے کچھ نہ دو۔ وہ خودبخود اسے چھوڑ کر چلے جائیں گے اور اگر ہم لڑائی سے لوٹ کر مدینہ پہنچے تو عزت والا (یعنی عبداللہ بن ابی خود) ذلت والے (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نکال باہر کرے گا۔ میں نے اس کی یہ باتیں اپنے چچا (سعد بن عبادہ) سے یا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کیں۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے مجھے بلایا اور دریافت کیا تو میں نے ان باتوں کا اقرار کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلایا تو وہ مکر گئے اور قسمیں کھانے لگے کہ ہم نے ہرگز ایسا نہیں کہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جھوٹا سمجھا اور عبداللہ بن ابی کو سچا (کیونکہ وہ اور اس کے ساتھی بھی قسمیں کھا رہے تھے) مجھے اس بات کا اتنا رنج ہوا جتنا پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ میں گھر میں بیٹھ رہا۔ میرے چچا کہنے لگے ’’ارے! یہ تم نے کیا کیا۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھے جھوٹا سمجھا اور ناراض ہوئے اس وقت اللہ تعالیٰ نے سورۃ منافقون نازل فرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلا بھیجا اور یہ سورۃ منافقون مجھے پڑھ کر سنائی۔ بعد میں فرمایا:زید اللہ نے تمہاری تصدیق فرما دی۔‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ سورۃ المنافقون) [٩٠] منافقوں کی چند سازشیں جن میں وہ ناکام رہے :۔ ایسے واقعات بھی بے شمار ہیں جو کتاب و سنت سے ثابت ہیں مثلاً ایک وہی واقعہ جو اوپر بیان ہوا۔ دوسرے ہر جنگ میں ان کی قریش مکہ سے یا یہودیوں سے سازباز رہتی تھی کہ مسلمانوں کو شکست سے دو چار ہونا پڑے وہ اس مقصد میں بھی ناکام رہے۔ تیسرے انہوں نے اپنی خفیہ سازشوں اور فتنہ انگیزیوں کے لیے مسجد ضرار کی شکل میں ایک پرفریب اڈا تعمیر کیا تھا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک سے واپسی پر فوراً بحکم الٰہی آگ لگوا کر تباہ کردیا اور چوتھے اس غزوہ تبوک کی مناسبت سے وہ واقعہ ہے جو اس سفر سے واپسی کے دوران پیش آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قاتلانہ حملہ کی ناکام سازش :۔ اور جس میں منافقوں نے معاذ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردینے کی سازش تیار کر رکھی تھی اور ان سازشیوں کو بعد میں اہل عقبہ (گھاٹی والے) کا نام دیا گیا۔ ان کا پروگرام یہ تھا کہ رات کے وقت پہاڑی کے دشوار گزار رستوں پر چلتے چلتے گھاٹی کی جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لشکر سے الگ لے جا کر اچانک آپ پر حملہ کردیا جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سواری سے اٹھا کر نیچے گھاٹی میں پھینک کر ہلاک کردیا جائے اور اس واقعہ کی کسی کو خبر بھی نہ ہو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس گھاٹی پر پہنچے تو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی مطلع فرما دیا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو حکم دیا کہ سارے لشکر میں منادی کر دے کہ کوئی شخص گھاٹی کی طرف نہ آئے اور بطن وادی کی طرف سے جائے جو آسان اور کھلا راستہ ہے۔ اس وقت سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کو آگے سے پکڑے چل رہے تھے اور سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ پیچھے سے چلا رہے تھے اس اعلان پر سب مسلمانوں نے بطن وادی کی راہ لی مگر یہ منافقین صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے حکم کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنے ناپاک ارادہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے درپے تھے اچانک چار منافق اپنے چہروں پر ڈھاٹے باندھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حذیفہ کو حکم دیا کہ ان منافقوں کی سواریوں کے چہروں پر کاری ضربیں لگائیں۔ انہوں نے اپنی ڈھال سے ان کی سواریوں کے چہروں پر زور دار حملے کیے، ساتھ ہی یہ کہتے جاتے تھے ’’اللہ کے دشمنو! دفع ہوجاؤ۔‘‘ سیدنا حذیفہ کی اس پکار سے منافقوں کو معلوم ہوگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ارادہ کی اطلاع ہوچکی ہے۔ لہٰذا یہ لوگ جلدی جلدی مسلمانوں کے لشکرسے جا ملے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان منافقوں اور ان کے باپوں تک کے نام سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کو بتلا دیئے تھے اور یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ان کے نام کسی کو نہ بتلائے جائیں۔ سیدنا حذیفہ ان منافقوں کو پوری طرح پہچانتے تھے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ راز افشا نہیں کرتے تھے اسی لیے آپ کو ’’رازدان رسول‘‘ کہا جاتا ہے۔ صحیح مسلم کی درج ذیل حدیث اس واقعہ پر پوری روشنی ڈالتی ہے۔ ایک دفعہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ اور عقبہ والوں میں سے ایک شخص کے درمیان جھگڑاہو گیا۔ اس شخص نے کہا’’میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ عقبہ والے کتنے تھے؟ لوگوں نے سیدنا حذیفہ کو کہا کہ جب وہ پوچھتا ہے تو آپ بتلا دیجئے۔ سیدنا حذیفہ کہنے لگے’’ہمیں خبر دی گئی ہے کہ وہ چودہ تھے اور اگر تو بھی ان میں شامل تھا تو پندرہ تھے اور میں اللہ کی قسم کھا کر گواہی دیتا ہوں کہ ان میں سے بارہ تو دنیا اور آخرت میں اللہ اور اس کے رسول کے دشمن ہیں۔ باقی رہے تین تو انہوں نے عذر کیا تھا کہ ہم نے اللہ کے رسول کی منادی کی آواز نہیں سنی تھی۔ اور نہ ہمیں یہ معلوم ہوسکا کہ ان لوگوں کا ارادہ کیا تھا۔‘‘ (مسلم۔ کتاب صفۃ المنافقین واحکامھم ) [٩١] مسلمانوں کے ساتھ ساتھ منافقوں کی بھی آسودگی :۔ جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ آئے تو اس وقت مدینہ کی معیشت پر یہودی چھائے ہوئے تھے۔ وہ مالدار اور سودخوار قوم تھی۔ تجارت ان کے ہاتھ میں تھی۔ وہی جنگی آلات بناتے اور بیچتے تھے۔ علاوہ ازیں شراب کا کاروبار بھی کرتے تھے۔ اس معاشی برتری کے ساتھ ساتھ اوس اور خزرج کو آپس میں لڑا کر سیاسی برتری بھی انہوں نے حاصل کر رکھی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو یہ سیاسی برتری یہود کے بجائے مسلمانوں کے حصہ میں آ گئی۔ مواخات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت سے مسلمانوں کی معیشت سنبھلتی گئی۔ پھر اموال غنیمت سے مسلمان آسودہ ہوگئے اور ان سب باتوں میں منافق بھی حصہ دار تھے۔ اللہ تعالیٰ منافقوں سے یہ فرما رہے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کی وجہ سے تو تمہیں آسودگی حاصل ہوئی ہے پھر اگر انہی سے دشمنی کر کے ان سے نمک حرامی کا ثبوت دو گے تو تمہیں دنیا میں ذلت و رسوائی اور آخرت میں سخت عذاب بھگتنا پڑے گا۔ التوبہ
75 التوبہ
76 [٩٢] منافقوں کا زکوٰۃ کو تاوان سمجھنا :۔ یہ بھی کسی ایک شخص کی بات نہیں بلکہ منافقوں کی اکثریت ایسی ہی تھی کہ پہلے تو دعائیں مانگتے کہ ہم مال دار ہوجائیں پھر ہم اتنی اور اتنی خیرات کریں گے فلاں فلاں نیک کام کرینگے۔ اللہ کی شکر گزاری کریں گے۔ مگر جب ان پر اللہ اپنا فضل وکرم کرتا تو بخل کرنے لگتے اور یہ دعویٰ کرتے کہ یہ مال تو ہماری اپنی دن رات کی محنت کا نتیجہ ہے۔ حدیث میں منافق کی تین نشانیاں بیان کی گئی ہیں۔ جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے اور جب امانت دی جائے تو خیانت کرے اور ایک دوسری حدیث کے مطابق چوتھی علامت یہ ہے کہ جب جھگڑا کرے تو گالی گلوچ کرے۔ حقیقت میں زکوٰۃ نہ دینے والا اور اس کا انکار کرنے والا پکا کافر ہے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے :۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو عرب کے کچھ لوگ کافر ہوگئے ( اور زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ لوگوں سے کیونکر جہاد کریں گے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مجھے لوگوں سے اس وقت تک لڑنے کا حکم دیا ہے جب تک وہ لا الہ الا اللہ نہ کہیں۔ جب یہ کہنے لگیں تو انہوں نے اپنے مال اور جانیں مجھ سے بچالیں مگر حق کے ساتھ۔ اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہوگا۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا میں تو اللہ کی قسم اس سے ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے گا۔ کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے۔ واللہ! اگر یہ لوگ ایک بکری کا بچہ بھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے مجھے نہ دیں گے تو میں ان سے ضرور لڑائی کروں گا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا۔ اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کا سینہ کھول دیا تھا اور میں جان گیا کہ حق یہی ہے۔ ( بخاری۔ کتاب الزکوۃ) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا کہ کوئی آدمی ایسا نہیں جو پانچوں نمازیں ادا کرے اور رمضان کے روزے رکھے اور اپنے مال کی زکوٰۃ نکالے اور سات کبیرہ گناہوں سے بچے مگر اس کے لیے جنت کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور اسے کہا جائے گا کہ سلامتی کے ساتھ (جنت میں) داخل ہوجا۔ (سنن النسائی۔ باب وجوب الزکوۃ) التوبہ
77 [٩٣] ان آیات سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ جو شخص اپنے دل کی خوشی کے بجائے زکوٰۃ کو تاوان سمجھ کر یا معاشرہ کے دباؤ کے تحت مجبور ہو کر بادل نخواستہ زکوٰۃ ادا کرے وہ منافق ہے اور دوسرے یہ کہ ایسے منافق کی زکوٰۃ قبول نہیں کی جائے گی اور اگر وہ ازخود ادا کر بھی دے تو اس کا آخرت میں اسے کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ منافقوں کا قصور یہی نہیں ہوتا تھا کہ دعا کے وقت جو وہ انفاق فی سبیل اللہ کا وعدہ کرتے تھے وہ پورا نہ کرتے تھے بلکہ آپ کے محصل کے سامنے جھوٹ بول کر ٹال مٹول بھی کرتے رہتے تھے۔ جبکہ آج کل کے بعض نام نہاد مسلمانوں کا بھی یہی وطیرہ ہے۔ التوبہ
78 التوبہ
79 [٩٤] غزوہ تبوک کے لئے چندہ دینے والے :۔ غزوہ تبوک کے موقعہ پر قحط سالی بھی تھی۔ ابھی فصلیں بھی نہیں پکی تھیں۔ سفر بھی دور دراز کا تھا۔ مقابلہ بھی رومیوں سے تھا اور اسلحہ اور سواری کی بھی خاصی قلت تھی۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد فنڈ کے لیے پرزور اپیل کی جس کے نتیجہ میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اتنا چندہ دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوگئے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنے گھر کا آدھا اثاثہ بانٹ کر جہاد فنڈ کے لیے لے آئے اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سارا ہی اثاث البیت لے کر حاضر ہوگئے اور ہر مسلمان نے اس فنڈ میں حسب توفیق حصہ لیا۔ نادار لوگوں نے اپنی حیثیت کے مطابق اور اغنیاء نے اپنی حیثیت اور رغبت کے مطابق۔ ایک صحابی ابو عقیل نے رات بھر مزدوری کی جس کی اجرت ایک صاع کھجور تھی۔ ان میں سے آدھا صاع گھر لے گیا اور آدھا صاع لا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کردیا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ سورۃ توبہ زیر آیت ہذا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس آدھے صاع سے اتنی خوشی ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کھجوریں ڈھیر کے اوپر پھیلا دیں۔ یہ دراصل آدھا صاع کھجور کی قدر و قیمت نہ تھی بلکہ اس نیت، شوق اور رغبت کی تھی جس کی بنا پر اس نے اہل و عیال کا پیٹ کاٹ کر آدھا صاع حاضر کردیا تھا۔ چندہ دینے والوں کو منافقوں کی طعنہ زنی :۔ اس موقعہ پر منافقوں کو پھبتیاں کسنے کا خوب موقع ملا۔ اگر کسی نے جی کھول کر چندہ دیا ہوتا تو کہتے کہ یہ سب کچھ دکھلاوا اور ریاکاری ہے۔ اور اگر کوئی تھوڑا دیتا تو کہتے کہ اتنے مال سے کونسی جنگی ضرورت پوری ہو سکتی ہے یہ لوگ تو لہو لگا کے شہیدوں میں اپنا نام لکھوانا چاہتے ہیں۔ اور اللہ کو اس کی کیا پروا تھی۔ غرض ان کی طعن و ملامت سے کوئی بھی نہ بچتا تھا۔ یہی پس منظر اس آیت کا شان نزول ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :۔ ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔ جب ہمیں صدقہ کا حکم دیا گیا ہم اس وقت مزدوری پر بوجھ اٹھایا کرتے تھے۔ ابو عقیل (اسی مزدوری سے) آدھا صاع کھجور لے کر آئے تو منافق کہنے لگے : ابو عقیل کی خیرات کی بھلا اللہ کو کیا پروا تھی۔ ایک اور آدمی (عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ) بہت سا مال لائے تو منافق کہنے لگے کہ اس نے ریا (ناموری) کے لیے اتنا مال خیرات کیا ہے۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔) (مسلم۔ کتاب الزکوٰۃ باب الحمل باجرۃ یتصدق بھا ) التوبہ
80 [٩٥] آپ کا عبداللہ بن ابی منافق کا جنازہ پڑھانے کی وجوہ :۔ غزوہ تبوک سے واپسی کے تھوڑی ہی مدت بعد عبداللہ بن ابی بن سلول کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بیٹے کا نام بھی عبداللہ تھا اور یہ پکے سچے مسلمان صحابی تھے اور اپنے باپ کی کرتوتوں سے خوب واقف تھے۔ جب غزوہ بنی مصطلق کے واپسی سفر کے دوران عبداللہ بن ابی نے کہا تھا کہ مدینہ جا کر عزت والا (یعنی خود) ذلت والے کو مدینہ سے نکال کر باہر کرے گا۔ تو یہ اپنے باپ کی راہ روک کر کھڑے ہوگئے جس کا مطلب یہ تھا کہ میری بھی نظروں میں چونکہ تم ہی ذلیل ہو لہٰذا تمہیں مدینہ میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معافی مانگی تب عبداللہ رضی اللہ نے اپنے باپ کو مدینہ میں داخل ہونے دیا تھا۔ مگر باپ کی وفات پر خون نے جوش مارا اور طبیعت میں رحم، ہمدردی اور پدرانہ شفقت کے جذبات ابھر آئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتہ مانگا تاکہ اس میں باپ کو دفن کریں تاکہ شاید کچھ عذاب میں کمی واقع ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین وجوہ کی بنا پر اسے کرتہ دے دیا ایک یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی طبیعت میں رحم اور عفو کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، دوسرے یہ کہ اساریٰ بدر کے فیصلہ کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا سیدنا عباس ننگے تھے۔ وہ طویل القامت تھے۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی سے قمیص مانگی جو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے قد کے موافق تھی۔ وہ اس نے دے دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ اس احسان کا بدلہ چکا دیں۔ اور تیسرے یہ کہ اس حالت میں عبداللہ صحابی کا دل شکستہ نہ ہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی درخواست پر اس منافق کا جنازہ پڑھانے کے لیے اس کے ساتھ ہوئے نیز اس کے منہ میں اپنا لعاب دہن بھی لگایا۔ مزید تفصیل درج ذیل حدیث میں ملاحظہ فرمائیے :۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب عبداللہ بن ابی بن سلول مر گیا تو اس کے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور درخواست کی کہ اپنا کرتہ عنایت فرمائیے تاکہ میں اپنے باپ کو اس میں کفن دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کرتہ دے دیا۔ پھر اس نے درخواست کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر نماز جنازہ پڑھیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر نماز جنازہ پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو سیدنا عمر رضی اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن تھام لیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ اس پر نماز پڑھتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسے لوگوں پر نماز پڑھنے سے منع کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے (منع نہیں کیا بلکہ) اختیار دیا ہے اور فرمایا ہے تو ان لوگوں کے لئے دعا کرے یا نہ کرے اگر تو ستر بار بھی ان کے لیے دعا کرے تب بھی اللہ انہیں بخشے گا نہیں۔ میں ایسا کروں گا کہ ستر بار سے زیادہ دفعہ اس کے لیے دعا کروں گا۔‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ وہ تو منافق تھا اور اس کی کئی کرتوتیں یاد دلائیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس کے باوجود) اس پر نماز جنازہ پڑھی۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ منافقوں میں جب کوئی مر جائے تو نہ اس کی نماز جنازہ پڑھو اور نہ ہی (دعائے خیر کے لیے) اس کی قبر پر کھڑے ہونا (٩ : ٨٤) (بخاری۔ کتاب التفسیر نیز کتاب الجنائز۔ باب الکفن فی القمیص) (مسلم۔ کتاب فضائل الصحابہ۔ باب من فضائل عمر) نیز اسی سورۃ کی آیت نمبر ٨٤ کا حاشیہ نمبر ٩٩ بھی اسی سے متعلق ہے۔ التوبہ
81 [٩٦] منافقوں کا غزوہ تبوک میں شامل ہونے والوں کی حوصلہ شکنی :۔ منافق بظاہر تو اللہ اور رسول پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے تھے لیکن اس دعویٰ کی تصدیق کے لئے جن اعمال صالحہ کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان میں مفقود تھے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے نہ ان کے دعوؤں کو قابل اعتبار سمجھا اور نہ ان کی قسموں کو۔ اسی وجہ سے متعدد مقامات پر انہیں جھوٹا کہا اور بعض دوسرے مقامات پر کافر قرار دیا ور کہیں دونوں صفات کو ملا کر بیان کیا۔ اپنے دعوٰی کے خلاف اعمال میں سے ہی ایک یہ تھا کہ ان میں سے کچھ لوگ تو اپنے اموال اور جانوں سے جہاد کرتے ہی نہ تھے اور جو جاتے تھے وہ بھی بادل نخواستہ جاتے تھے تاکہ مسلمان انہیں منافق نہ سمجھنے لگیں اور ایک صفت ان میں مشترکہ یہ تھی کہ جہاد پر جانے والوں کی حوصلہ شکنی کیا کرتے تھے۔ غزوہ تبوک کے اعلان جہاد کے وقت چونکہ گرمی زوروں پر تھی اور سفر بھی طویل اور تکلیف دہ تھا۔ لہٰذا انہوں نے اپنے ساتھیوں کو اسی وجہ سے جہاد سے روکنا شروع کردیا۔ جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس گرمی کا علاج تو تم نے سوچ لیا مگر اس کے بدلے جہنم کی آگ جو اس گرمی سے ستر گنا زیادہ گرم ہوگی اس کا کیا علاج کرو گے؟ التوبہ
82 [٩٧] جس قسم کے کام یہ دنیا میں کر رہے ہیں چاہیے تو یہ تھا کہ یہ بہت کم ہنستے اور روتے زیادہ۔ اور اگر آج انہیں یہ سمجھ نہیں آ رہی تو قیامت میں انہیں یہی کچھ کرنا پڑے گا۔ التوبہ
83 [٩٨] منافقوں کے وعدے ناقابل اعتماد ہیں :۔ اس آیت میں منافقوں کی سیرت پر تبصرہ کیا گیا ہے یعنی جب آپ غزوہ تبوک سے واپس مدینہ پہنچیں گے تو جو منافق اس جنگ میں شریک نہیں ہوئے تھے آئندہ کسی جنگ میں آپ کا ساتھ دینے کے پرزور دعوے کریں گے تو آپ ان کے ایسے دل خوش کردینے والے اور زبانی دعوؤں کا قطعاً اعتبار نہ کیجئے۔ کیونکہ اگر کوئی ایسا وقت آ بھی گیا تو یہ لوگ اس وقت بھی یہی کچھ کریں گے جو اس دفعہ کرچکے ہیں۔ یعنی پھر وہ جھوٹے بہانے تراش تراش کر آپ سے معذرت کرنے لگیں گے تو اس سے بہتر یہی ہے کہ ابھی سے انہیں پکی رخصت دے دو اور کہہ دو کہ تمہارے نصیب میں بس عورتوں اور بچوں کی طرح پیچھے رہنا ہی لکھا ہے۔ لہٰذا تم خوش ہو لو۔ اس طرح آئندہ تمہیں نہ کوئی حیلہ بہانہ گھڑنا پڑے گا اور نہ کسی معذرت کی ضرورت پیش آئے گی۔ التوبہ
84 [٩٩] منافقوں کے لئے مغفرت بے فائدہ ہے :۔ اس آیت کا تعلق اسی سورۃ کی آیت نمبر ٨٠ سے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی کا جنازہ پڑھایا تو وہ اس لحاظ سے تھا کہ منافقین اگرچہ دل سے کافر تھے مگر ظاہری طور پر ان پر شرعی احکام ویسے ہی نافذ ہوتے تھے جیسے سچے مومنوں پر لاگو ہوتے تھے اور حدیث مندرجہ بالا سے واضح ہے کہ بالخصوص جنازہ پڑھانے اور دعائے مغفرت کرنے کے بارے میں سیدنا عمر کی رائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے سے مختلف تھی حتیٰ کہ سیدنا عمر نے آپ سے تکرار بھی کی اور اللہ تعالیٰ نے سیدنا عمر کی رائے کے مطابق وحی نازل فرمائی۔ جس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اب منافقوں سے نرم قسم کی پالیسی اختیار کرنے کا دور گزر چکا تھا۔ اور ان سے سخت رویہ اختیار کرنا عین منشائے الٰہی کے مطابق تھا۔ ضمناً ان آیات سے یہ معلوم ہوا کہ آپ کے کسی گنہگار کے حق میں استغفار کرنے سے اس کی معافی ہو سکتی ہے۔ لیکن بد اعتقاد لوگوں کی معافی کی کوئی صورت نہیں خواہ آپ کتنی ہی زیادہ دفعہ اس کے لیے استغفار کریں۔ منافقوں کی نماز جنازہ :۔ چنانچہ اس حکم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقوں کی نماز جنازہ پڑھانا یا ان کے حق میں استغفار کرنا چھوڑ دیا تھا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بعد کسی پر نفاق کا فتویٰ لگانا بہت مشکل کام ہے کیونکہ دلوں کے احوال تو اللہ ہی جانتا ہے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنے دور میں یہ دیکھتے تھے کہ سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ جنازہ میں شریک ہیں یا نہیں۔ اگر وہ شریک ہوتے تو آپ بھی شریک ہوجاتے تھے اور اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ وہ صاحب جنازہ مومن آدمی تھا۔ منافق نہیں تھا۔ کیونکہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقوں کی پہچان کرا دی تھی اور وہ ’’رازدان رسول‘‘ تھے۔ التوبہ
85 [١٠٠] اس آیت کا پورا مضمون اسی سورۃ کی آیت نمبر ٥٥ میں گزر چکا ہے لہٰذا اس کی تشریح کے لیے آیت نمبر ٥٥ کا حاشیہ نمبر ٥٩ دیکھ لیا جائے۔ التوبہ
86 التوبہ
87 [١٠١] مال و دولت، خوشحالی اور آسودگی اگرچہ اللہ کی نعمت ہے مگر جب یہی چیزیں اللہ کے احکام کی تعمیل میں رکاوٹ بن جائیں تو یہی انسان کے لیے فتنہ اور عذاب کا باعث بن جاتی ہیں۔ ایک تو ان میں نفاق کا مرض پہلے ہی موجود تھا دوسرے عیش و آرام کی زندگی بھی میسر ہو تو منافقوں کو جہاد میں مال و دولت کا خرچ کرنا اور سفر کی صعوبتیں کیسے گوارا ہو سکتی تھیں۔ چنانچہ ایسے موقعوں پر حیلہ بازیاں اور معذرتیں کرنا ان کی ایک عادت ثانیہ سی بن چکی تھی۔ ان کی اسی عادت کو اللہ تعالیٰ نے مہر لگانے سے تعبیر کیا ہے۔ لہٰذا اگر انہیں جہاد کی ترغیب دی جائے تو اب ان کے دلوں پر رتی بھر بھی اثر نہیں ہوتا۔ مزید برآں اپنی اس بزدلی اور بے غیرتی پر شرمانے کی بجائے پیچھے رہنے پر خوش ہوتے ہیں۔ التوبہ
88 [١٠٢] یہاں درمیان میں حقیقی مسلمانوں، جہاد کے سلسلہ میں ان کی مخلصانہ کوششوں اور ان کے اجر کا ذکر منافقوں کے کردار کے بالکل برعکس بیان ہو رہا ہے جیسا کہ قرآن میں اکثر یہی سنت جاری ہے۔ اس کے بعد پھر رخصت لینے والوں اور منافقوں کا ذکر ہو رہا ہے۔ التوبہ
89 التوبہ
90 [١٠٣] بہانے تراشنے والے بدوی منافقین :۔ مدینہ کے آس پاس آباد ہونے والے لوگوں کو اعراب یا بدوی (یعنی دیہاتی) کہا جاتا تھا۔ ان میں بھی منافقین کا عنصر موجود تھا۔ اس آیت میں ایسے ہی منافقوں کا ذکر ہے جو جہاد کے اعلان سے پہلے تو بلند بانگ دعوے کرتے تھے مگر وقت آنے پر اپنے عہد سے پھر گئے اور مدینہ کے منافقوں کی طرح بہانے تراش کر جہاد سے رخصت مانگنے لگے تھے۔ اگلی آیات میں ان لوگوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جو فی الواقع معذور ہوتے ہیں۔ نیز یہ کہ ان کا عذر کس شرط کے تحت قابل قبول سمجھا جا سکتا ہے۔ التوبہ
91 [١٠٤] تین طرح کے معذور اور عذر قبول ہونے کی شرط خیرخواہی اور اموال غنیمت میں ان کا حصہ :۔ اس آیت میں تین طرح کے لوگوں کو جہاد سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ ایک وہ جو بڑھاپے یا کسی اور وجہ سے اتنے کمزور ہوچکے ہوں کہ جہاد پر جانے کے قابل ہی نہ رہے ہوں۔ دوسرے مریض جو اس وقت جہاد پر جا ہی نہ سکتے ہوں اور اس شق میں ایسے تیماردار بھی شامل ہیں جن کا بیمار کے پاس رہنا لازمی ہو اور اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہو جیسے غزوہ بدر میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ صرف اس وجہ سے شامل نہ ہو سکے تھے کہ ان کی زوجہ رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخت بیمار تھیں اور جب مجاہدین واپس آئے تو ان کی وفات ہوچکی تھی۔ اور تیسرے وہ لوگ جن کے پاس جہاد کے لیے خرچ نہ ہو۔ کیونکہ اس دور میں ہر مجاہد کو اپنی سواری، اسلحہ اور زاد راہ کا خود انتظام کرنا ہوتا تھا اور اس کے عوض انہیں مال غنیمت سے مقررہ حصہ ملتا تھا۔ پھر ان تینوں قسم کے معذورین کے ساتھ یہ لازمی شرط بھی عائد کردی کہ ’’وہ اللہ اور اس کے رسول کے خیر خواہ ہوں۔‘‘ بالفاظ دیگر جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے خیر خواہ نہ ہوں ان کا کوئی عذر قابل قبول نہ ہوگا کیونکہ ایسے لوگ صرف منافق ہی ہو سکتے ہیں۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک شخص بیمار ہے اور اس بیماری کی حالت میں جہاد کا اعلان ہوجاتا ہے۔ اب اگر وہ شخص منافق ہے تو اس کے احساسات یہ ہوں گے کہ کیا اچھا ہوا کہ میں اس وقت بیمار ہوں اور جہاد سے بچنے کا یہ کیسا معقول بہانہ میسر آ گیا ہے۔ اس کے برعکس ایک مومن کے احساسات یہ ہوں گے کہ کاش میں اس وقت بیمار نہ ہوتا اور اس اجر سے محروم نہ رہتا جو جہاد کرنے والوں کو ملے گا، یا وہ یہ آرزو کرے گا کہ اللہ اسے جلد از جلد صحت عطا کرے تاکہ وہ بھی جہاد میں شامل ہو سکے یا وہ اپنے تیمارداروں سے کہے گا کہ میرا اللہ مالک ہے تم وقت ضائع نہ کرو اور جہاد پر چلے جاؤ۔ غرض ایک ایک بات سے انسان کی نیت اور احساسات کا پتہ چل سکتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ مریض ہونے کے لحاظ سے تو یہ دونوں یکساں ہیں مگر ان کے احساسات بالکل متضاد ہیں کہ یہ احساسات ہی انہیں منافق اور مومن کی قسموں میں تقسیم کردیتے ہیں اور جن لوگوں کے احساسات میں اللہ اور اس کے رسول کی خیر خواہی ہے انہی کا عذر شرعی لحاظ سے قابل قبول ہے اور ایسے لوگوں کو جہاد میں شامل ہی سمجھا جائے گا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مدینہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ جب تم کوئی سفر کرتے ہو یا کوئی وادی عبور کرتے ہو تو وہ تمہارے ساتھ ہوتے ہیں۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا : اس کے باوجود کہ وہ مدینہ میں ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اس کے باوجود کہ وہ مدینہ میں ہیں انہیں عذر نے روکا ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب نزول النبی الحجر۔ مسلم۔ کتاب الامارۃ۔ باب ثواب من حبسہ عن الغزو مرض او عذر ) بلکہ ایسے معذور لوگوں کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اموال غنیمت سے حصہ بھی نکالا ہے۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ جنگ خیبر کی فتح کے فوراً بعد جو مہاجر حبشہ سے ہجرت کر کے پہنچے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اموال غنائم میں شریک کرلیا تھا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوۃ خیبر) التوبہ
92 [١٠٥] حقیقی معذوروں کی کیفیت، سواری مانگنے والے :۔ اس آیت میں ایسے حقیقی مومنوں کا ذکر ہے جن کے لیے شرعی عذر موجود تھا۔ یعنی اتنے طویل سفر کے لیے سواری کا بندوبست نہ تھا تاہم وہ جہاد پر جانے کے لیے بے چین تھے۔ وہ درخواست لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سواری کا کوئی بندوبست کر دیجئے۔ اتفاق سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی اس وقت سواری کا کوئی بندوبست نہ تھا لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جواب دے دیا۔ جس سے انہیں اس قدر صدمہ ہوا کہ آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور وہ صدمہ صرف یہ تھا کہ شاید اب ہم جہاد پر نہ جا سکیں گے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے ساتھیوں نے مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سواری مانگنے کے لیے بھیجا۔ میں نے جا کر عرض کی ’’یا رسول اللہ! میرے ساتھیوں نے مجھے سواری طلب کرنے کے لیے آپ کے پاس بھیجا ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’واللہ میں تمہیں کوئی سواری نہ دوں گا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت غصہ میں تھے مگر میں سمجھا نہیں۔ میں غمگین ہو کر واپس آیا اور اپنے ساتھیوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار کی اطلاع دی۔ مجھے ایک تو یہ غم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سواری نہ دی اور دوسرا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں مجھ سے خفا نہ ہوجائیں۔ مجھے واپس آئے تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ میں نے سنا بلال رضی اللہ عنہ مجھے پکار رہے ہیں۔ میں نے جواب دیا تو وہ کہنے لگے ’’چلو ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو بلا رہے ہیں۔‘‘ میں حاضر خدمت ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’یہ اونٹ کے جوڑے ہیں چھ اونٹ لے لو اور اپنے ساتھیوں سے کہنا کہ یہ اونٹ اللہ نے یا اللہ کے رسول نے تمہیں سواری کے لیے دیئے ہیں انہیں کام میں لاؤ۔‘‘ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوہ تبوک وہی غزوۃ العسرۃ) اور بخاری ہی کی ایک دوسری حدیث میں یہ تفصیل بھی موجود ہے کہ سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ نے تو سواری نہ دینے کی قسم کھائی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب مجھے بہتر عمل کرنے کا موقع ملتا ہے تو میں وہ کام کرلیتا ہوں اور قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الایمان والنذور) التوبہ
93 التوبہ
94 [١٠٦] عذر اور توبہ کے سچا ہونے کا معیار آئندہ کا عمل ہے :۔ کچھ منافق تو ایسے تھے جنہوں نے غزوہ تبوک پر روانگی سے پہلے ہی حیلے بہانے بنا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رخصت طلب کرلی تھی۔ اور بہت سے ایسے تھے جو رخصت کے بغیر ہی مدینہ میں رہ گئے تھے اور اس انتظار میں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئیں تو معذرت کرلی جائے۔ چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے تو منافقین آنے لگے اور اپنے اپنے بہانے پیش کرنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اللہ کی ہدایت کے مطابق کہہ دیا کہ پہلے جو کچھ تم نے کیا ہے وہ ہمیں معلوم ہوچکا ہے۔ اب آئندہ کے طرز عمل کی فکر کرو۔ تمہارا آئندہ کا طرز عمل ہی اس چیز کی وضاحت کرے گا کہ تم ان بہانوں میں کہاں تک سچے تھے۔ التوبہ
95 [١٠٧] قسمیں کھانے کا مقصد یہ ہے کہ انہیں مسلمان ہی سمجھا جائے :۔ یعنی جب وہ آ کر اپنے عذر پیش کر کے اپنے بیان پر قسمیں کھانے لگے تو ان سے مختلف سوالات کر کے ان کے بیانات کی تحقیق نہ شروع کردینا۔ وہ اپنے عذر اس لیے پیش نہیں کر رہے کہ آپ ان سے سوالات شروع کردیں بلکہ اس لیے کہ آپ ان سے درگزر کریں اور کچھ تعرض نہ کریں۔ سو آپ ان سے پوری طرح اعراض کیجئے۔ کیونکہ یہ نجس اور بد باطن لوگ ہیں۔ مسلمانوں کو ان سے میل ملاپ بھی نہ رکھنا چاہیے تاکہ انہیں اپنے کرتوتوں کا کچھ احساس ہوجائے۔ ان کے قسمیں کھانے کا اصل مقصد تو یہ ہے کہ آپ ان سے راضی رہیں۔ اور ان سے مسلمانوں کے تعلقات ویسے ہی برقرار رہیں جیسے پہلے تھے لیکن نفاق پوری طرح کھل جانے کے بعد کسی مسلمان کو جائز نہیں کہ ان سے دوستی یا محبت کے تعلقات برقرار رکھے۔ کیونکہ اللہ ایسے منافقوں سے کبھی راضی نہ ہوگا۔ التوبہ
96 التوبہ
97 [١٠٨] بدوی کافروں اور منافقوں کے خصائل :۔ جنگلوں، صحراؤں اور دیہاتوں میں رہنے والے بدوؤں کی تعداد شہری آبادی سے زیادہ تھی اور یہ سب ایسے لوگ تھے جن کے سامنے زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہوتا ماسوائے اس کے کہ کسی نہ کسی طرح شکم پروری کرلی جائے ان کی زندگی حیوانی زندگی کی سطح پر ہی ہوتی ہے اس سے زیادہ نہ انہیں کبھی سوچنے کی ضرورت پیش آتی ہے اور نہ وہ سوچ ہی سکتے ہیں۔ مدینہ میں جب اسلامی ریاست کی داغ بیل پڑگئی۔ تو انہیں بھی ایسی موٹی موٹی خبریں پہنچتی رہتی تھیں۔ ان لوگوں کا کوئی اخلاقی نظریہ تو ہوتا ہی نہیں۔ وہ صرف یہ دیکھ رہے تھے کہ ان مسلمانوں اور قریش مکہ میں جو محاذ آرائی شروع ہے تو ان میں سے کون غالب آتا ہے تاکہ جو فریق غالب آئے یہ بھی اس کے ساتھ لگ جائیں۔ اس طرح انہوں نے فتح مکہ کے بعد اسلام تو قبول کرلیا مگر یہ صرف چڑھتے سورج کو سلام کرنے کے مترادف تھا۔ اس سے ان کے اخلاق یا مقاصد میں کوئی بلند نظری پیدا نہیں ہوئی تھی۔ دین کو سمجھنے کے معاملہ میں دیہاتی لوگ زیادہ اجڈ ہوتے ہیں :۔ وہ اسلام صرف اس لیے لائے تھے کہ اب اسلام لانے میں ہی انہیں زیادہ فائدہ پہنچ سکتا ہے لیکن جو پابندیاں اسلام کی رو سے عائد ہوتی ہیں مثلاً نماز کا باقاعدہ اہتمام، زکوٰۃ کی ادائیگی، اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد اور اس راہ میں پیش آنے والے مصائب پر صبر اور برداشت وغیرہ ان باتوں کے لیے یہ لوگ ذہنی طور پر تیار نہیں تھے۔ ایسے لوگوں کی طبیعت میں صحرائی زندگی کی وجہ سے اجڈ پن اور اکھڑ پن موجود ہوتا ہے پھر علم و حکمت کی مجلسوں سے دور رہنے کی وجہ سے تہذیب و شائستگی کا اثر اور علم و عرفان کی روشنی بہت کم قبول کرتے ہیں۔ اس لیے ان کا نفاق بھی شہری منافقوں کی نسبت زیادہ سخت ہوتا ہے۔ پھر انہیں ایسے مواقع بھی کم ہی دستیاب ہوتے ہیں کہ اہل علم و اصلاح کی صحبت میں رہ کر دین اسلام کے وہ قاعدے اور قانون معلوم کریں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر پر نازل فرمائے ہیں۔ کیونکہ دین کا علم ہی وہ چیز ہے جو انسان کے دل کو نرم کرتا ہے اور اسے مہذب بناتا ہے اور جو لوگ جہالت میں اس قدر غرق ہوں ان کے دلوں میں نہ نرمی پیدا ہو سکتی ہے اور نہ ہی وہ شرعی احکام کی مصلحتوں کو سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ التوبہ
98 [١٠٩] بدوی منافق اور زکوٰۃ:۔ یعنی وہ اسلام میں داخل تو اس لیے ہوئے تھے کہ کچھ دنیوی مفادات حاصل ہوں گے مگر یہاں ان مفادات کے ساتھ کچھ لینے کے دینے بھی پڑگئے۔ تو سمجھنے لگے کہ ہم تو پہلے ہی اچھے تھے لہٰذا وہ پھر کسی گردش زمانہ کے منتظر بیٹھے ہیں کہ کب اسلام کا خاتمہ ہو اور اس کی پابندیوں سے ان کی جان چھوٹے بالخصوص زکوٰۃ سے جسے وہ تاوان سمجھ کر انتہائی ناخوشی اور کراہت کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ پھر جب ڈیڑھ دو سال بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی تو ان لوگوں نے اس موقع کو غنیمت جانا اور اپنی پہلی ہی فرصت میں ان میں سے بعض تو اسلام ہی سے پھر گئے اور کفر کا راستہ اختیار کرلیا اور بعض نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا تھا۔ جن سے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جہاد کیا تھا۔ [١١٠] بدوی منافقوں کی رسوائی :۔ ایک سزا تو انہیں یہ مل رہی ہے کہ منافق ہونے کے باوجود انہیں اسلام کی پابندیاں ادا کرنا پڑ رہی ہیں۔ اور جب ان لوگوں نے زکوٰۃ سے انکار یا ارتداد کی راہ اختیار کی تو ان کے خلاف جہاد کیا گیا۔ جس میں ان لوگوں کو ہزیمت ہوئی۔ اسلام کو اللہ نے سربلند کرنا ہی تھا۔ البتہ یہ لوگ مارے بھی گئے جو بچے وہ ذلیل و رسوا بھی ہوئے اور زکوٰۃ بھی پوری کی پوری ادا کرنا پڑی۔ التوبہ
99 [١١١] بدوی مومنوں کا کردار :۔ یعنی یہ بدو لوگ بھی سب ایک جیسے نہیں۔ ان میں سے بھی کچھ حقیقی مومن ہیں۔ قرآن کی معجزانہ تاثیر اور آپ کی تعلیم سے کافی حد تک متاثر ہوچکے ہیں اور اللہ کی راہ میں رغبت اور خوش دلی سے خرچ کرتے ہیں اور خرچ کرتے وقت دو مقاصد ان کے پیش نظر ہوتے ہیں۔ ایک قرب الٰہی کا حصول دوسرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا لینے کی آرزو۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی تھی کہ جب آپ صدقہ وصول کریں تو صدقہ دینے والے کو دعا دیا کریں۔ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا انکے لیے باعث تسکین ہوتی ہے۔ اور اس دعا کا ثمرہ بھی اللہ کی رحمت اور قرب الٰہی کا ذریعہ ہی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو بشارت دی ہے کہ واقعی ان لوگوں کا دیا ہوا صدقہ قرب الہٰی کا ذریعہ بن جاتا ہے اور وہ اللہ کی رحمت کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ التوبہ
100 [١١٢] اولین مہاجر وانصار صحابہ اور ان کے نام :۔ مردوں میں سب سے پہلے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ ایمان لائے تھے۔ عورتوں میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا۔ لڑکوں میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور غلاموں میں سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ۔ ان میں ماسوائے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے باقی سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے افراد تھے۔ پھر سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کوشش سے جو حضرات ایمان لائے ان کے نام یہ ہیں: سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ، سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ ، سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ، سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ ۔ پھر ان کے بعد بہت سے لوگ مسلمان ہوئے اور یہ سب مہاجرین اولین اور سابقین ہیں۔ اور انصار میں سابقین و اولین وہ پانچ شخص ہیں جنہوں نے پہلے لیلۃ العقبہ میں بیعت کی تھی یعنی حضرت سعد رضی اللہ عنہ، عوف رضی اللہ عنہ ، رافع رضی اللہ عنہ، قطبہ رضی اللہ عنہ اور جابر رضی اللہ عنہ ۔ پھر جنہوں نے دوسری دفعہ عقبہ میں بیت کی وہ بارہ اشخاص تھے۔ پھر تیسرے عقبہ میں ستر اشخاص نے بیعت کی۔ اور یہ سب ہجرت نبوی سے پہلے اسلام لائے تھے۔ السابقون الاولون سے مراد تو وہ ابتدائی مسلمان ہیں جنہوں نے ہر تنگی و ترشی کے وقت اسلام اور پیغمبر اسلام کا ساتھ دیا تاآنکہ اللہ کا کلمہ بلند ہوگیا۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جن مسلمانوں نے کفار اور مشرکین کے بے پناہ مظالم برداشت کیے تھے ان کا درجہ عام مسلمانوں سے بلند ہی ہونا چاہیے اور اسی لحاظ سے اللہ کے ہاں وہ اجر و ثواب اور بلندی درجات کے بھی زیادہ مستحق ہیں۔ مگر ان کی تعیین میں علماء نے بہت اختلاف کیا ہے۔ بعض کے نزدیک اس سے وہ مسلمان مراد ہیں جنہوں نے ہجرت نبوی سے پہلے اسلام قبول کیا تھا۔ بعض کے نزدیک وہ مسلمان ہیں جنہوں نے دونوں قبلوں (بیت المقدس اور کعبہ) کی طرف نماز پڑھی۔ بعض کے نزدیک غزوہ بدر تک کے مسلمان سابقین اولین ہیں۔ بعض اس دائرہ کو صلح حدیبیہ تک وسیع کرتے ہیں اور بعض کے نزدیک تمام مہاجرین و انصار، اطراف کے مسلمانوں اور بعد میں آنے والی نسلوں کے اعتبار سے سابقین اولین ہیں۔ اور معنیٰ کے لحاظ سے ان تمام اقوال میں کوئی تعارض نہیں کیونکہ سبقت اور اولیت اضافی چیزیں ہیں۔ لہٰذا ایک ہی شخص (یا جماعت) ایک اعتبار سے سابق اور دوسرے اعتبار سے لاحق ہوسکتا ہے۔ السابقون الاولون کی تعیین :۔ ہمارے خیال میں سابقین اولین سے مراد غزوہ بدر تک کے مسلمان ہیں۔ اس لیے کہ فتح بدر کے بعد اسلام ایک مقابلہ کی قوت بن گیا تھا اور دوسرے اموال غنائم سے مسلمانوں کی معیشت کو بھی تقویت پہنچی تھی۔ یا زیادہ سے زیادہ اس دائرہ کو فتح خیبر تک وسیع کیا جا سکتا ہے جبکہ حبشہ کے مہاجرین بھی واپس پہنچ گئے تھے اور مسلمانوں کی معاشی حالت اتنی سنبھل چکی تھی کہ انہوں نے انصار سے مستعار لیے ہوئے کھجوروں کے درخت بھی انہیں واپس کردیئے تھے۔ بعد کے مسلمانوں کو نہ پہلے مسلمانوں جیسے مصائب برداشت کرنا پڑے اور نہ معاشی تنگی۔ [١١٣] تابعین کی فضیلت :۔ سابقین اولین کی طرح متبعین کی تعیین میں بھی اختلاف ہے کیونکہ جو بھی حد ہم سابقین اولین کی مقرر کریں گے اس کے بعد سے متبعین کا آغاز ہوجائے گا۔ بعض کے نزدیک ان سے مراد باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں بعض کے نزدیک تابعین بھی ان میں شامل ہیں اور بعض کے نزدیک تبع تابعین بھی اور قیامت تک کے مسلمان ان میں شامل ہیں۔ بشرطیکہ وہ سابقین اولین کے طریق پر قائم ہوں۔ یعنی کتاب و سنت کے پابند ہوں اور اعمال صالحہ بجا لاتے ہوں اور نہایت نیک نیتی کے ساتھ ان کی پیروی کرتے ہوں۔ التوبہ
101 [١١٤] مدینہ کے چالاک منافقین :۔ یعنی وہ اس قدر ہوشیار اور چالاک ہیں اور ان کا نفاق اتنا گہرا اور پراسرار ہے کہ وہ اپنی منافقت کو ظاہر نہیں ہونے دیتے تاہم اپنی منافقت پر پوری مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں۔ عام مسلمان انہیں پکے مسلمان ہی سمجھتے ہیں۔ حتیٰ کہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ اپنی پیغمبرانہ فراست کے باوجود انہیں نہیں جانتے۔ ان کے نفاق کو بس اللہ ہی جانتا ہے جو دلوں کے ارادوں اور رازوں تک سے واقف ہے۔ [١١٥] منافقوں کو دو سزائیں :۔ دو مرتبہ عذاب سے مراد اگر جنس عذاب لیا جائے تو ایک دنیا کا عذاب ہوگا۔ دوسرا عالم برزخ کا اور یہ دونوں قیامت کے بڑے عذاب سے پہلے انہیں بھگتنا ہوں گے اور اگر دنیا کے عذاب ہی مراد لیے جائیں تو ایک عذاب تو ان کی اپنی اولادوں اور تمام مومنوں کے سامنے ذلت و رسوائی ہے جو ان کے نفاق کی چالوں سے پردہ فاش ہوجانے کی صورت میں انہیں برداشت کرنا پڑتی ہے۔ دوسرے وہ ذہنی اور روحانی کوفت ہے کہ اسلام کی ترقی کے ساتھ ساتھ دم بدم بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ التوبہ
102 [١١٦] غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے سات مسلمان جنہوں نے اپنے آپ کو مسجد کے ستون سے باندھ دیا تھا :۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک سے واپس تشریف لائے تو (80) اسی سے زیادہ منافق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو ہو کر طرح طرح کے بہانے بنانے لگے اور قسمیں کھا کھا کر اس بات کی یقین دہانی کرانے لگے کہ ہم فی الواقع معذور تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کچھ تعرض نہ فرمایا بس اتنا کہہ دیا کہ اللہ تمہیں معاف کرے۔ ان کے علاوہ سات مسلمان ایسے تھے جو پیچھے رہ گئے تھے ان کے پاس کوئی معقول عذر نہ تھا الا یہ کہ وہ سستی کی وجہ سے شامل جہاد نہ ہو سکے تھے۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باز پرس سے پہلے ہی اپنے جرم کا اعتراف یوں کیا کہ اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ستون سے باندھ دیا اور اپنے آپ پر نیند اور خوردو نوش کو حرام کرلیا اور قسم کھائی کہ جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ان مجرموں اور قیدیوں کو اپنے ہاتھ سے نہ کھولیں گے اسی طرح بندھے رہیں گے۔ خواہ انہیں اسی حال میں موت ہی کیوں نہ آ جائے۔ ان میں سرفہرست ابو لبابہ بن عبدالمنذر تھے جو ہجرت نبوی سے پہلے بیعت عقبہ کے موقعہ پر اسلام لائے تھے پھر غزوہ بدر اور دوسرے معرکوں میں شریک رہے بس اسی غزوہ تبوک میں نفس کی کمزوری نے غلبہ کیا تو پیچھے رہ گئے۔ ان کے باقی چھ ساتھیوں کا بھی سابقہ طرز زندگی بےداغ تھا۔ ان لوگوں کا یہ حال دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’واللہ جب تک اللہ حکم نہ دے میں انہیں کھول نہیں سکتا۔‘‘ چنانچہ کئی روز تک یہ لوگ بے آب و دانہ اور بے خواب ستون سے بندھے رہے حتیٰ کہ بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ تب یہ آیات نازل ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے ہاتھ سے کھولا اور توبہ کی بشارت سنائی۔ التوبہ
103 [١١٧] ایسے توبہ کرنے والوں سے صدقہ قبول کیجئے :۔ ان مسلمانوں نے یہ سمجھا کہ چونکہ مال و دولت کی محبت ہی جہاد کے فریضہ میں کوتاہی کا سبب بنی ہے۔ لہٰذا یہ سب کچھ اللہ کی راہ میں دے دینا چاہئے۔ چنانچہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا ہماری توبہ میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہم اپنا سارا مال صدقہ کردیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’سارا مال دینے کی ضرورت نہیں بلکہ ایک تہائی مال کا صدقہ کافی ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا کہ ان کے صدقات قبول کیجئے۔ کیونکہ یہ سب سچے مومن اور اللہ کے رسول کے خیر خواہ تھے پھر آپ ان کے حق میں دعا بھی کریں۔ ربط مضمون کے لحاظ سے اگرچہ اس کا مطلب وہی ہے جو اوپر بیان ہوا مگر اس کا حکم عام ہے۔ اسی لیے علماء مسئلہ زکوٰۃ میں اس آیت کو بھی پیش کرتے آئے ہیں۔ اور اس آیت سے مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ زکوٰۃ کے فائدے :۔ زکوٰۃ کی وصولی اور تقسیم وغیرہ اسلامی حکومت کا فریضہ ہے۔ (٢) خذ کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں صدقہ سے مراد فرضی صدقہ یعنی زکوٰۃ ہے (٣) زکوٰۃ کی ادائیگی کے دو فائدے ہیں ایک یہ کہ باقی مال گناہ کی آلودگیوں سے پاک ہوجائے اور دوسرے یہ کہ حب دنیا، حرص، بخل وغیرہ جیسے باطنی امراض سے دلوں کا تزکیہ ہوجائے۔ اب ہم زکوٰۃ اور اس کی وصولی سے متعلق چند احادیث بیان کریں گے :۔ ١۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’غلہ سے غلہ، بکریوں سے بکریاں، اونٹوں سے اونٹ اور گایوں سے گائیں۔‘‘ (بطور زکوٰۃ لی جائیں) (ابوداؤد۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب صدقۃ الزرع ) ٢۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’زکوٰۃ میں عمدہ عمدہ مال لینے سے پرہیز کی جائے۔‘‘ (ملا جلا مال لیا جائے۔) (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب محاسبۃ المصدقین ) ٣۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس زمین کو آسمان یا چشمے کا پانی دیا جائے یا وہ زمین خود بخود سیراب ہو اس سے دسواں حصہ زکوٰۃ لی جائے اور جس کھیتی کو کنوئیں سے پانی دیا جائے اس سے بیسواں حصہ لیا جائے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب العشر فیمایسقی من ماء السماء والماء الجاری) ٤۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’پیداوار کا ذریعہ بننے والے اونٹوں پر زکوٰۃ نہیں۔‘‘ (ابوداؤد۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب فی زکوٰۃ السائمہ ) ٥۔ سہیل بن ابی خیثمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب تم (زکوٰۃ کے لیے) پھلوں وغیرہ کا اندازہ کرنے لگو تو ایک تہائی چھوڑ دو۔ اور اگر سمجھوکہ ایک تہائی زیادہ ہے تو چوتھا حصہ چھوڑ دو۔ ‘‘ (ابو داؤد۔ کتاب الزکوٰۃ باب الخرص) ٦۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جانور سے جو نقصان پہنچے اس کا کچھ بدلہ نہیں اور کنوئیں اور کان کا بھی یہی حکم ہے اور رکاز (دفینہ) میں پانچواں حصہ زکوٰۃ ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب فی الرکاز الخمس) ٧۔ احکام زکوٰۃ کے متعلق احادیث :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تمہارے پاس (عاملین زکوٰۃ) کے چھوٹے چھوٹے ٹولے آئیں گے جو تمہیں ناگوار گزریں گے جب وہ آئیں تو انہیں خوش آمدید کہو اور تشخیص مال (زکوٰۃ کے معاملہ میں) انہیں اپنی مرضی کرنے دو۔ پھر اگر وہ انصاف سے کام لیں تو اس کا انہیں اجر ملے گا اور اگر زیادتی کریں تو اس کا بار انہی پر ہوگا۔ تم انہیں خوش رکھو کیونکہ تمہاری زکوٰۃ کی تکمیل کا انحصار ان کی رضا پر ہے اور انہیں چاہیے کہ وہ (زکوٰۃ وصول کرنے کے بعد) تمہارے حق میں دعا بھی کریں۔‘‘ (ابوداؤد۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب رضا المتصدق) آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ عاملین ہم پر زیادتی کرتے ہیں تو کیا ہم اتنا مال چھپا لیا کریں (کہ حساب برابر رہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ایسا مت کرو۔ ‘‘ (ابوداؤد حوالہ ایضاً) ٨۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’عامل ایک جگہ بیٹھ کر علاقے کے مویشی اپنے پاس نہ منگوائے اور نہ صاحب مال اپنا مال دور لے جائیں بلکہ جہاں کوئی رہتا ہے وہیں جا کر زکوٰۃ وصول کی جائے۔‘‘ (ابوداؤد۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب این تصدق الاموال) ٩۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’مسلمانوں سے (زرعی زکوٰۃ) ان کے آبپاشی کے مقامات پر وصول کی جائے۔‘‘ (احمد بحوالہ مشکوۃ کتاب الزکوٰۃ) ١٠۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا 'زکوٰۃ میں زیادتی کرنے والا (عامل) ایسا ہی ہے جیسے زکوٰۃ نہ دینے والا۔‘‘ (ترمذی ابو اب الزکوٰۃ۔ باب فی المعتدی فی الصدقۃ) ١١۔ زکوٰۃ دینے والے کو دعا دینے کا حکم :۔ عبداللہ بن ابی اوفٰی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کسی قسم کی زکوٰۃ آتی تو آپ فرماتے ’’اے اللہ ان پر رحمت فرما۔‘‘ میرے باپ جب زکوٰۃ لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اے اللہ! آل ابی اوفیٰ پر رحمت فرما۔‘‘ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوہ حدیبیہ۔ مسلم۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب الدعاء لمن اتیٰ بصدقتہٖ ) ١٢۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عباس رضی اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ’’آیا زکوٰۃ سال گزرنے سے پہلے بھی دی جا سکتی ہے؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دے دی۔ (ترمذی۔ ابو اب الزکوٰۃ۔ باب فی تعجیل الزکوٰۃ) ١٣۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں آپ کے پاس آیا تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں داغ دینے کا آلہ تھا جس سے آپ صدقہ کے اونٹوں کو داغ دے رہے تھے۔ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب وسم الامام ابل الصدقۃ ) ١٤۔ سرکاری ملازمین کے تحفے رشوت کی قسم ہے :۔ ابو حمید ساعدی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بنی سلیم کی زکوٰۃ کی وصولی کے لیے) ایک شخص (عبداللہ بن لُتْبِیّہ) کو عامل بنا کر بھیجا۔ جب وہ اپنے کام سے فارغ ہو کر آیا تو آ کر کہا ’’یا رسول اللہ! یہ آپ کے لیے (زکوٰۃ کا مال) ہے اور یہ مجھے تحفہ کے طور پر ملا ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تو اپنے ماں باپ کے گھر کیوں نہ بیٹھا رہا۔ پھر دیکھتا کہ تمہیں کوئی تحفہ دیتا ہے یا نہیں؟‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا اور حمد و ثنا کے بعد عاملین کا حال بیان کیا پھر فرمای’’اس پروردگار کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے تم میں سے جو شخص زکوٰۃ کے مال میں سے کچھ چرائے گا تو قیامت کے دن اسے اپنی گردن پر لادے ہوئے آئے گا۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الایمان والنذور باب کیف کان یمین النبی ) بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایک ایسا طبقہ بھی پیدا ہوچکا ہے جو یہ کہتا ہے کہ زکوٰۃ کا جو نصاب اور جو شرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمائی تھی وہ صرف ان کے دور اور اس دور کے تقاضوں کے مطابق تھی اور آج ایک اسلامی حکومت اس دور کے تقاضوں کے مطابق جو بھی ٹیکس وصول کرتی ہے۔ وہی زکوٰۃ ہے۔ اسلامی حکومت اگر چاہے تو شرح زکوٰۃ میں کمی بیشی کرنے کی بھی مجاز ہے اور نئے ٹیکس عائد کرنے کی بھی۔ ایک اسلامی حکومت اس سلسلہ میں جو کچھ بھی وصول کرے وہ زکوٰۃ ہی ہوگی۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہی ہے کہ انہوں نے اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق محل نصاب اشیاء اور شرح زکوٰۃ مقرر کی تھی اور ہم اپنے دور کے مطابق یہ امور طے کریں۔ یہ نظریہ چونکہ اسلام کے ایک بنیادی مسئلہ پر براہ راست حملہ ہے اس لیے ہم اس کا جواب ذرا تفصیل سے دیں گے اور اس بحث کو دو حصوں میں تقسیم کریں گے۔ ایک یہ کہ ٹیکس اور زکوٰۃ میں کون کون سا فرق ہے دوسرا یہ کہ آیا زکوٰۃ کی موجودگی میں ایک اسلامی حکومت کوئی اور ٹیکس لگانے کی مجاز ہے یا نہیں؟ زکوۃ اور ٹیکس میں فرق :۔ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے دور میں مسلمانوں سے تو زکوٰۃ وصول کی جاتی تھی اور غیر مسلموں سے خراج اور جزیہ۔ عرب کا ہمسایہ ملک ایران ایک متمدن حکومت تھی۔ اس میں زمینداروں سے جو مالیہ وصول کیا جاتا اسے خراگ کہتے تھے۔ خراج کا لفظ اسی سے معرب ہے اور خراگ کے علاوہ دوسرے ٹیکسوں کو گزیت کہتے تھے۔ جزیہ کا لفظ اسی سے معرب ہے۔ گویا غیر مسلموں پر تو وہی ٹیکس بحال رکھے گئے جو زمانہ کے دستور کے مطابق تھے مگر مسلمانوں سے یہ عام ٹیکس ساقط کردیئے گئے اور ان کے بجائے زکوٰۃ عائد کی گئی۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ زکوٰۃ کا نصاب اور شرح ہمیشہ غیر متبدل رہی جبکہ جزیہ اور خراج کی شرح میں تبدیلی ہوتی رہی۔ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جزیہ کی شرح ایک دینار فی کس سالانہ تھی اور یہ رقم اجتماعی طور پر بوڑھے بچے، عورت اور معذوروں کی تعداد کے مطابق لی جاتی تھی مگر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس میں اصلاح کی۔ بوڑھے، بچوں، عورتوں اور معذوروں سے جزیہ ساقط کردیا اور کمانے والے افراد کے بھی تین درجے مقرر کیے جن سے علی الترتیب چار دینار، دو دینار اور ایک دینار سالانہ کے حساب سے جزیہ وصول کیا جاتا تھا۔ اسی طرح قبیلہ بنی تغلب کے عیسائیوں نے مسلمانوں سے درخواست کی کہ ان سے خراج کی بجائے دوگنا عشر لے لیا جائے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی درخواست قبول کرلی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس دور میں زکوٰۃ کو تو دین کا رکن سمجھا جاتا تھا اور اس کے احکامات غیر متبدل تھے جبکہ جزیہ اور خراج کی شرح میں تغیر و تبدل کرلیا جاتا تھا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ مسلمانوں سے زکوٰۃ کے علاوہ جو کچھ بھی زائد وصول کیا جائے اسے عربی میں مکس کہتے ہیں مشکوۃ میں صاحب مکس کا معنی ای من یاخذالعشر و یزید علیہ شیأ بتلاتے ہیں یعنی وہ شخص جو عشر وصول کرتا ہے اور اس سے کچھ زیادہ بھی لیتا ہے۔ ان الفاظ کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ زکوٰۃ وصول کرنے والا جو کچھ بطور رشوت لے وہ مکس ہے اور یہ بھی زکوٰۃ کے علاوہ کوئی دوسرا ٹیکس عائد کر دے۔ یعنی ١٠% کے بجائے بارہ چودہ فیصد وصول کرے اور یہ بھی کہ حکومت زکوٰۃ کے علاوہ کوئی دوسرا ٹیکس عائد کردے۔ تاہم لغت اسی تیسرے مفہوم کی تائید کرتی ہے۔ مکس کے معنی المنجد (عربی۔ اردو) نے محصول ٹیکس اور چونگی لکھے ہیں اور ماکس کے معنی ٹیکس وصول کرنے والا۔ منتہی الارب (عربی۔ فارسی) نے اس کے معنی باج، خراج گرفتن اور مقائیس اللغتہ (عربی میں اس کا معنی کلمۃ تدل علی جبی المال ہے اور جبایۃ کا لفظ محصول اکٹھا کرنے کے لیے محاورۃً استعمال ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ عین ممکن ہے کہ مکس کا لفظ ہی دوسری زبان میں جا کر ٹیکس بن گیا ہو۔ اب مکس کی شرعی حیثیت یہ ہے کہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جب قبیلہ غامدیہ کی عورت کو زنا کے جرم میں سنگسار کیا گیا تو سیدنا خالد بن ولید نے اسے ایک پتھر مارا جس کی وجہ سے خون کے چند چھینٹے سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کے منہ پر بھی پڑے سیدنا خالدرضی اللہ عنہ نے اس عورت کو برابھلاکہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا خالد رضی اللہ عنہ سے فرمایا ’’خالد! یہ کیا بات ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر کوئی ٹیکس وصول کرنے والا بھی ایسی توبہ کرے تو معاف کردیا جائے۔‘‘ (مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب حدالزنا) گویا مکس کا جرم زنا سے کسی صورت کم نہیں ہے اور ایک دفعہ آپ نے یوں فرمایا ’’ٹیکس وصول کرنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا۔‘‘ تیسرا فرق مقصد کے لحاظ سے ہے۔ ٹیکس کا مقصد عوام کی آمدنی کا ایک حصہ لے کر اس سے نظام حکومت چلانا، رفاہ عامہ کے کام کرنا اور اس سے ملکی ضروریات کو پورا کرنا ہوتا ہے جبکہ زکوٰۃ کے اصل مقصد دو ہیں ایک تطہیر مال، دوسرا تزکیہ نفس۔ جیسا کہ اس حاشیہ کی ابتداء میں واضح کیا جا چکا ہے اور یہ دونوں فائدے زکوٰۃ دینے والے کو پہنچتے ہیں اور اس کا معاشرتی فائدہ یہ ہے کہ اس سے غریب مقروض اور محتاج عنصر کی مالی امداد ہوجاتی ہے۔ چوتھا فرق محاصل کا ہے یعنی ٹیکس کن لوگوں سے لیا جاتا ہے اور زکوٰۃ کن سے۔ اسلامی نقطہ نظر سے معاشرہ کو معاشی لحاظ سے صرف تین طبقوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ١۔ وہ لوگ جن سے زکوٰۃ وصول کی جاتی ہے یہ لوگ اہل نصاب یا غنی ہیں۔ ٢۔ دوسرے وہ لوگ جن میں زکوٰۃ تقسیم ہوگی۔ یہ لوگ فقراء و مساکین ہیں۔ ٣۔ متوسط طبقہ جو نہ زکوٰۃ دینے کا اہل ہوتا ہے، نہ زکوٰۃ لینے کا۔ مثلاً ابو داؤد کی ایک حدیث کے مطابق جس کے پاس ایک اوقیہ چاندی کی مالیت کے برابر کوئی بھی چیز موجود ہو وہ زکوٰۃ لینے کا مستحق نہیں جبکہ زکوٰۃ کا حد نصاب ٥ اوقیہ چاندی ہے۔ اصول یہ ہے کہ زکوٰۃ طبقہ نمبر ١ سے لے کر طبقہ نمبر ٢ میں تقسیم کردی جائے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجتے وقت ہدایت فرمائی تھی۔ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ باب محاسبۃ المصدقین) تیسرے طبقہ کا زکوٰۃ سے کچھ تعلق نہیں ہوتا۔ وہ نہ دینے والوں میں ہیں نہ لینے والوں میں اس کے برعکس ٹیکس کی رقوم کا بیشتر حصہ غریبوں کی جیب سے نکلتا ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ مثلاً ٧٧۔ ١٩٧٦ ء کے گوشوارہ کے مطابق ہماری حکومت کی مجموعی آمدنی کا ٧٥ فیصد حصہ صرف ٹیکسوں سے وصول ہوا تھا پھر یہ ٹیکس دو طرح کے ہوتے ہیں ایک بلاواسطہ یا براہ راست ٹیکس جیسے انکم ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس، دولت ٹیکس وغیرہ۔ یہ ٹیکس امراء پر لگائے جاتے ہیں۔ ٧٧۔ ١٩٧٦ ء کے مطابق ان ٹیکسوں سے ٹیکسوں کی مجموعی آمدنی کا صرف ٣/ ١٢ فیصد وصول ہوا۔ باقی ٧/ ٨٧ فیصد بالواسطہ ٹیکسوں سے وصول ہوا۔ بالواسطہ ٹیکس وہ ہیں جو ادا تو تاجر یا صنعت کار کرتے ہیں مگر یہ ٹیکس قیمت فروخت میں شامل کر کے اس کا بوجھ صارفین پر ڈال دیتے ہیں۔ جیسے سیلز ٹیکس، ایکسائز ڈیوٹی وغیرہ جو چینی، سریا، سیمنٹ، سوتی کپڑا، درآمدات اور دیگر بے شمار اشیاء پر لگائے جاتے ہیں اور چونکہ ہمارے ہاں صارفین کا بیشتر حصہ غریب طبقہ ہے۔ لہٰذا ٹیکسوں کا زیادہ تر بوجھ یہی طبقہ برداشت کرتا ہے۔ پانچواں فرق مصارف کے لحاظ سے ہے۔ زکوٰۃ کا سب سے بڑا اور اہم مصرف غریب طبقہ کی بنیادی ضروریات کی کفالت ہے جبکہ ٹیکس ملکی ضروریات کو پورا کرنے اور رفاہ عامہ کے کاموں پر خرچ ہوتے ہیں۔ گو یہ سب چیزیں سب کے لیے مشترک ہوتی ہیں تاہم عملاً ان سے امیر طبقہ ہی مفاد حاصل کر پاتا ہے مثلاً اعلیٰ تعلیم کے حصول یا حصول انصاف جو کسی غریب کے بس کا روگ نہیں۔ اسی طرح اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ امیر طبقہ اپنے اثر اور وسائل کی بنا پر ہر چیز سے زیادہ فائدہ اٹھا جاتا ہے گویا ٹیکس کی رقم جس کا زیادہ حصہ غریب کی جیب سے نکلا تھا اس سے امیر زیادہ فائدہ اٹھا گیا۔ مختصراً یہ کہ زکوٰۃ دین اسلام کا ایسا رکن ہے جس کے ذریعہ دولت کا بہاؤ امیر سے غریب کی طرف مڑتا ہے جبکہ ٹیکس سرمایہ دارانہ نظام کے دو اہم ارکان سود اور ٹیکس میں سے دوسرا رکن ہے۔ تو جس طرح سود سے بالآخر سرمایہ دار اور امیر طبقہ کو فائدہ پہنچتا ہے اور غریب طبقہ پستا ہے اسی طرح ٹیکس کا بار تو غرباء پر زیادہ ہوتا ہے اور فائدہ امیر حاصل کرتا ہے۔ چھٹا فرق مزاج اور نتائج کے لحاظ سے ہے۔ ٹیکس عموماً آمدنی پر لگتا ہے جس سے دولت جمع کرنے کی ہوس بڑھتی ہے جبکہ زکوٰۃ عموماً بچت پر لگتی ہے جس سے اندوختہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ سرمایہ حرکت میں رہتا ہے جس سے معیشت پر خوشگوار اثر پڑتا ہے۔ زکوٰۃ بچت پر لگنے کا فائدہ یہ ہے کہ اس میں فرد کی ضرورتوں اور اخراجات کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ جبکہ عام ٹیکس آمدنی پر لگتے ہیں۔ مثلاً فرض کیجئے کہ زید اور بکر دونوں تین تین ہزار روپے تنخواہ لیتے ہیں۔ زید کی ابھی شادی بھی نہیں ہوئی اور وہ بآسانی دو ہزار روپے بچا لیتا ہے مگر بکر کے پانچ چھ بچے بھی ہیں اور وہ اس رقم میں بمشکل گزر بسر کرتا ہے تو ٹیکس ان کے اس امتیاز میں کوئی فرق نہیں کرے گا۔ علاوہ ازیں ٹیکس کو ہر شخص ایک بوجھ تصور کرتا ہے ٹیکس دہندہ کبھی پوری مالیت ظاہر نہیں ہونے دیتے اور ٹیکس وصول کرنے والے بھی رشوت لے کر خود ٹیکس چوری کی راہیں بتلا دیتے ہیں۔ اس ملی بھگت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حکومت کو متوقع رقم کا نصف بھی حاصل نہیں ہوتا اور وہ ٹیکس مزید بڑھانے اور مزید ٹیکس لگانے کی راہ اختیار کرلیتی ہے۔ جبکہ زکوٰۃ ایک دینی فریضہ اور مالی عبادت ہے جسے اکثر مسلمان فریضہ سمجھ کر ہی ادا کرتے ہیں اس میں ہیرا پھیری نہیں کرتے اور اس میں رشوت کا امکان بھی بہت کم ہوتا ہے۔ زکوٰۃ کی شرح میں بتدیلی اور دوسرے ٹیکس :۔ ان حضرات کا یہ دعویٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق محل زکوٰۃ اشیاء اس حد نصاب اور اس کی شرح مقرر فرمائی تھی بالکل غلط ہے وجہ یہ ہے کہ اگر یہ باتیں تدبیری امور میں شامل ہوتیں تو آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ضرور مشورہ کرتے۔ کیونکہ قرآن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی حکم دیا گیا ہے اور بہت سے تدبیری امور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ سے مشورہ کرنا احادیث سے ثابت بھی ہے لیکن یہ حضرات کسی ضعیف سے ضعیف حدیث حتیٰ کہ تاریخ کی کسی کتاب سے بھی یہ ثابت نہیں کرسکتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ لیا ہو۔ اس کے برعکس ہم قرآن سے یہ ثابت کریں گے کہ شرح زکوٰۃ اور محل نصاب اشیاء کی تعیین سب کچھ منزل من اللہ تھا جس میں آپ کی رائے یا مرضی کو کچھ عمل دخل نہ تھا ارشاد باری ہے :۔ ﴿ وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌ - لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ﴾(70: 24، 25) اور ان (مومنوں) کے اموال میں مانگنے اور نہ مانگنے والوں کا حصہ مقرر ہے۔ یہاں لفظ معلوم استعمال ہوا ہے جس کا مادہ علم ہے گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حق کا علم دیا گیا تھا۔ اور قرآن میں اکثر مقامات پر لفظ علم کا اطلاق وحی کے علم پر ہوا ہے لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق معلوم یا شرح زکوٰۃ کی جو تعیین فرمائی وہ اپنی مرضی سے نہیں فرمائی نہ صحابہ کے مشورہ سے فرمائی اور اس کی مثال ایسی ہے جیسے قرآن میں نماز ادا کرنے کا حکم تو سینکڑوں بار آیا ہے۔ لیکن اس کی ترتیب، تعداد رکعات وغیرہ کا کہیں ذکر نہیں۔ یہی حال مناسک حج وغیرہ کا ہے اور یہ سب چیزیں ایسی ہیں جو منزل من اللہ وحی کی محتاج ہیں اور زکوٰۃ کے بارے میں تو آپ کی خصوصی احتیاط یہ بھی تھی کہ آپ یہ سب تفاصیل تحریراً صوبوں کے گورنروں کو بھجواتے تھے۔ اور محل نصاب اشیاء درج ذیل آیات سے ثابت ہیں۔ ١۔ نقدی اور سونا چاندی وغیرہ ﴿وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ ﴾ (9 : 35) اور جو لوگ سونے اور چاندی وغیرہ کا ذخیرہ کرتے ہیں۔ ٢۔ زرعی پیداوار یعنی غلہ اور پھلوں کی زکوٰۃ ﴿وَاٰتُوْا حَقَّہٗ یَوْمَ حَصَادِہٖ﴾(6: 142)اور جس دن فصل کاٹو تو اس میں سے اللہ کا حق ادا کرو۔ ٣۔ باقی ذرائع آمدنی کے لیے جس میں مویشیوں کی زکوٰۃ اور اموال صنعت و تجارت کی زکوٰۃ وغیرہ سب کچھ شامل ہے۔ ﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ ﴾ (2: 267)اے ایمان والو! جو بھی پاکیزہ مال تم کماتے ہو اس میں سے خرچ کرو۔ ٤۔ زمینوں اور معدنیات کے لیے مندرجہ بالا آیات کا اگلا حصہ یوں ہے۔ ﴿وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ ﴾(2: 267) اور ان چیزوں سے بھی خرچ کرو جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالی ہیں۔ یہ آیت جیسے دفینوں، معدنیات اور زمین کے خزانوں کے لیے عام ہے۔ ویسے ہی نباتاتی اور زرعی پیداوار کے لے بھی عام ہے۔ ان تصریحات سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ زکوٰۃ سے متعلق جملہ امور منزل من اللہ تھے اور ان میں رد و بدل کا خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اختیار نہ تھا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کچھ اختیار ہوتا تو فرضیت زکوٰۃ کے بعد کئی مواقع ایسے آئے جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس شرح کو بڑھا سکتے تھے جیسے غزوہ تبوک کا موقع جبکہ آپ کو فنڈ کی شدید ضرورت تھی۔ علاوہ ازیں ابتدائے اسلام سے آج تک ان امور کا غیر متبدل رہنا ہی اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ ان میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی۔ زکوٰۃ کی موجودگی میں دوسرے ٹیکس :۔ اسلام نے جس شدت اور تاکید کے ساتھ بغیر حق کے ایک مسلمان کے خون کو حرام کیا ہے اسی شدت اور تاکید کے ساتھ مسلمانوں کے اموال اور عزت و آبرو کو بھی حرام کیا ہے جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ حجۃ الوداع شاہد ہے (مسلم۔ کتاب الحج۔ باب حجۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم) علاوہ ازیں مسلمانوں کے جان و مال اور آبرو کی حرمت کے متعلق یہ خطبہ احادیث کی تقریباً تمام کتب میں مذکور ہے۔ پھر ایسے صریح احکام کی موجودگی میں حکومت کے پاس وہ کون سا حق ہے جس کی بنا پر وہ مسلمانوں سے زکوٰۃ کے علاوہ کسی اور طریقے سے جبراً کچھ وصول کرے؟ اگر ایک شخص اپنی ضرورت کے لیے مکان بنا لیتا ہے تو اس پر پراپرٹی ٹیکس کیونکر عائد کیا جا سکتا ہے؟ اس سلسلہ میں فقہائے امت نے اگر کچھ لچک پیدا کی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ اگر قحط کا زمانہ ہو۔ غریب لوگ بھوکوں مر رہے ہوں۔ بیت المال میں اتنی رقم موجود نہ ہو جس سے ضروریات پوری کی جا سکیں اور اغنیاء حکومت کی اپیل کے باوجود خود غریبوں کا احساس نہ کر رہے ہوں تو ان چار شرطوں کے ساتھ حکومت اسلامیہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ امراء پر ٹیکس لگا کر غرباء کی ضروریات کو پورا کرے اور امراء پر ٹیکس لگانے میں عدل سے کام لیا جائے گا یعنی صرف اس قدر مال لیا جائے گا جس سے ضرورت پوری ہو سکے اس سے زائد نہیں۔ نیز اس ٹیکس کی حیثیت ہنگامی اور عارضی ہوگی، دوامی نہیں ہوگی۔ رہے ایسے ٹیکس جن کا مقصد ہی اہل اقتدار کی عیاشیوں اور ہوس پرستیوں کو پورا کرنا ہو ان کی ایک اسلامی حکومت میں کوئی گنجائش نہیں۔ نئے ٹیکس اور حکومت کی ضروریات :۔ نئے ٹیکس عائد کرنے کے جواز میں یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ آج کل حکومتیں بہت سی ذمہ داریاں اپنی سر لے لیتی ہے اور اخراجات بہت بڑھ چکے ہیں لہٰذا نئے ٹیکس لگانا ضروری ہوگیا ہے۔ اس کے جواب میں ہماری معروضات یہ ہیں :۔ ١۔ اگر حکومت کے اخراجات بڑھ چکے ہیں تو آمدنی کی بھی مدات بڑھ چکی ہیں کئی محکمے کاروباری طریق پر چل رہے ہیں جن سے معقول آمدنی متوقع ہوتی ہے جیسے محکمہ ڈاک و تار، ٹیلی فون، واپڈا، ریلوے اور انہار وغیرہ۔ ان محکموں میں خسارہ صرف اس صورت میں ہوسکتا ہے جب عملہ بددیانت ہو۔ ورنہ نقصان کی کوئی صورت نہیں۔ ٢۔ کئی محکمے ایسے ہیں جن کی ایک اسلامی نظام میں سرے سے گنجائش نہیں مثلاً خاندانی منصوبہ بندی یا محکمہ بہبود آبادی، فحاشی پھیلانے والے ثقافتی مراکز اور ثقافت کی بین المملکتی نقل و حرکت پر اٹھنے والے اخراجات۔ ٣۔ حکومت کے انتظامی اخراجات توجہ طلب ہیں۔ لاتعداد محکمے اور ان میں آئے دن اضافہ تاکہ صاحب اقتدار پارٹی کے جیالوں اور وفاداروں کو کھپایا جا سکے۔ ان کی تعداد، الاؤنسز اور سفری اخراجات کم کرنے سے کافی بچت کی جا سکتی ہے۔ ٤۔ اہل اقتدار کی عیاشیوں اور ہوس پرستیوں پر جو بے پناہ اخراجات اٹھتے ہیں اور ان کا بار قومی خزانہ پر ڈال دیا جاتا ہے۔ اسلامی نظام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ سرکاری افسر سرکاری املاک کو استعمال تو خود اپنی ذات کے لئے کرتے ہیں۔ لیکن اخراجات قومی خزانہ پر ڈال دیتے ہیں۔ اور ان باتوں کا سدباب صرف اس لیے نہیں ہوتا کہ سب سرکاری افسر جب یہی کچھ کر رہے ہوں تو کون دوسرے کا محاسبہ کرے؟ ٥۔ اخراجات میں اضافہ کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ملازموں کو بھرتی کرتے وقت صرف ان کی سند، ڈگری یا نمبروں کو سامنے رکھا جاتا ہے اور جو انسانیت کے اصل جوہر ہیں یعنی دیانتداری، تقویٰ یا دینی تعلیم وغیرہ ان چیزوں کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے جس کا نتیجہ کام چوری، رشوت اور بددیانتی کی شکل میں سامنے آتا ہے جس دفتر میں دس ملازموں سے دیانتداری سے کام چل سکتا ہو وہاں بیس بھرتی کرلیے جاتے ہیں۔ جن میں بیشتر اپنی سیٹوں سے غیر حاضر اور باہر نکل کر اپنے 'گاہکوں' سے سودا بازی اور رشوت کا معاملہ طے کر رہے ہوتے ہیں اور چونکہ سارا عملہ ہی انہی کاموں میں لگا ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ لوگ کسی گرفت میں بھی نہیں آتے۔ مزید ستم یہ کہ ان کو قانونی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ جب تک کوئی ملازم کسی سنگین بدعنوانی کا مرتکب نہ ہو جس کو کسی صورت چھپایا نہ جا سکتا ہو۔ اسے نہ معطل کیا جا سکتا ہے اور نہ برطرف کیا جا سکتا ہے۔ ان چند در چند وجوہ کی بنا پر دفتری کاموں کی رفتار تو بہت سست رہ جاتی ہے مگر اخراجات آٹھ گنا بڑھ جاتے ہیں۔ ٦۔ اخراجات کے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ ہمارا موجودہ نظام ہے مثلاً عدلیہ کو لیجئے جہاں فوجداری مقدمات بھی سالہا سال تک چلتے ہیں۔ دیوانی مقدمات کا اور بھی برا حال ہے۔ اسلامی نظام میں قتل جیسے مقدمہ میں ایک ماہ کا عرصہ درکار ہے۔ ظاہر ہے کہ جہاں آج کل سو جج کام کر رہے ہیں۔ اسلامی نظام میں دس جج بھی کفایت کرسکتے ہیں۔ اس طرح عدلیہ کے اخراجات بھی اسی نسبت سے کم ہوں گے اور ساتھ ہی ساتھ پولیس کے بھی پھر جہاں مدعی اور مدعا علیہ کا وقت اور خرچ بچے گا تو وہاں ٹریفک کا دباؤ بھی از خود کم ہوجائے گا۔ اور سڑکوں کی تعمیر پر اخراجات بھی کم ہوجائیں گے گویا صرف عدلیہ کے نظام میں تبدیلی سے ہی اتنے اخراجات کم ہو سکتے ہیں۔ پھر اگر پورے طور پر اسلامی نظام رائج ہو تو اخراجات میں حیرت انگیز حد تک کمی از خود واقع ہوجائے گی۔ ٧۔ اور ہمارے خیال میں بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ یہی حکومت کا ٹیکس بڑھانے اور نئے ٹیکس لگائے جانے کا حق ہے۔ گویا یہ حق بڑھتے ہوئے اخراجات کے مرض کا علاج نہیں بلکہ یہی اصل مرض ہے۔ اسی حق کی بنا پر حکومت بہت سے غیر دانشمندانہ اور غیر ترقیاتی منصوبے شروع کردیتی ہے اور اگر اس کا بار ٹیکسوں سے پورا ہوتا نظر نہ آتا ہو تو حکومت نئے نوٹ چھاپ کر اپنے اخراجات پورے کرلیتی ہے یہ گویا ایک جبری اور بدترین قسم کا ٹیکس ہے جسے خفیہ ٹیکس(Hidden Tex)کہا جاتا ہے جس کا عوام کو پتہ تک نہیں چلتا لیکن اس کا بار عوام پر پڑجاتا ہے اور اشیاء کی قیمتیں چڑھ جاتی ہیں اور مہنگائی زیادہ سے زیادہ ہوتی جاتی ہے حکومت کے پاس یہی وہ حربہ ہے جس کی بنا پر وہ اپنے اخراجات کم کرنے کی طرف توجہ ہی نہیں دیتی اور اخراجات بڑھاتی ہی چلی جاتی ہے۔ ان وجوہ اور ان تصریحات کے بعد ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ بیت المال کی جائز آمدنی سے حکومت کے جائز اخراجات آج بھی بطریق احسن پورے ہو سکتے ہیں جس کے لیے ہم تاریخ سے شواہد پیش کرسکتے ہیں۔ دور فاروقی میں اسلامی مملکت عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی گنا زیادہ پھیل چکی تھی۔ کئی نئے محکمے بھی وجود میں آ چکے تھے۔ مثلاً محکمہ مال گزاری، فوج، پولیس، جیل اور ڈاک وغیرہ جو آپ ہی کے عہد میں قائم ہوئے۔ زمانہ کے تقاضے بھی بدل چکے تھے مثلاً دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مسجد نبوی ہی عدلیہ کا صدر دفتر تھا جبکہ دور فاروقی میں عدلیہ کے لیے الگ عمارت اور عملہ کا بندوبست ہوا۔ علی ہذا القیاس ضروریات اور اخراجات بڑھ چکے تھے مگر اسی بیت المال سے حکومت کا نظم و نسق چلتا رہا اور تمام اخراجات پورے ہوتے رہے۔ اسی طرح مسلمانوں کے چھ سات سو سال طویل دور حکومت میں کبھی مسلمانوں پر زکوٰۃ کے علاوہ کوئی ٹیکس بھی عائد نہ کیا گیا اور اخراجات تمام تر بیت المال سے پورے ہوتے رہے۔ کہا جاتا ہے کہ دور فاروقی میں بے شمار فتوحات ہوئیں جہاں سے کافی مال و دولت ہاتھ لگ گیا تھا۔ لہٰذا کوئی نیا ٹیکس لگانے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ یہ اعتراض اس لحاظ سے غلط ہے کہ جن علاقوں سے مال و دولت آتی تھی اسی نسبت سے انہی علاقوں کے انتظام و انصرام پر خرچ بھی ہوجاتی تھی اور یہ ایک ایسی ذمہ داری تھی جسے حکومت اپنا فرض سمجھتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنے سپہ سالاروں کو مزید علاقے فتح کرنے سے روکتے رہتے تھے۔ لہٰذا آج بھی کرنے کا کام یہ ہے کہ بڑھتے ہوئے اخراجات کے مرض کے اسباب تلاش کر کے انہیں دور کیا جائے۔ نہ یہ کہ ٹیکس کے جواز کے لیے دلائل تلاش کیے جائیں۔ جس کی حقیقت پہلے واضح کی جا چکی ہے۔ التوبہ
104 التوبہ
105 [١١٨] ایک مسلمان اور منافق کا عذر جانچنے کے اصول :۔ ان آیات سے دراصل ایک منافق اور ایک غلطی سے گناہ کرنے والے مسلمان کے درمیان فرق کو واضح کیا گیا ہے۔ ١۔ منافق گناہ کر کے جھوٹے بہانے بناتے اور قسمیں اٹھاتے ہیں جبکہ مومن اپنے گناہ کا صاف صاف اقرار کرلیتے ہیں۔ ٢۔ گناہ گار مومن کی سابقہ زندگی اس بات پر شاہد ہوتی ہے کہ یہ گناہ اس سے نفس کی کمزوری سے واقع ہوگیا ہے جبکہ منافق کا سابقہ ریکارڈ بھی گندہ ہوتا ہے۔ ٣۔ توبہ صرف اس کی قبول ہوتی ہے جس کا سابقہ ریکارڈ درست ہو اور یہ موجودہ گناہ بہ تقاضائے بشریت واقع ہوگیا ہو۔ عادی مجرموں یعنی منافقوں کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ صدقات صرف ان کے قبول کرتا ہے جو برضاء و رغبت صدقات دیتے ہیں اور اسے قرب الٰہی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ نمائش یا مجبور ہو کر یا کراہت سے دیئے ہوئے صدقے اللہ قبول ہی نہیں کرتا۔ ٥۔ منافقوں کے صدقات اس لحاظ سے بھی ناقابل قبول ہیں کہ صدقہ مصائب کو ٹالتا اور گناہوں کی معافی کا ذریعہ بنتا ہے۔ اللہ کے ہاں چونکہ منافق کی مغفرت کی کوئی صورت نہیں لہٰذا صدقہ کی بھی ضرورت نہیں۔ ٦۔ توبہ کی مقبولیت کا اس بات سے بھی واضح طور پر پتہ چل سکتا ہے کہ توبہ کے بعد توبہ کرنے یا معذرت کرنے والا کیسے اعمال بجا لاتا ہے۔ اگر ان میں ایمان و اخلاص آ گیا تو سمجھنا چاہیے کہ وہ نفاق کی سزا سے بچ نکلا۔ التوبہ
106 [١١٩] معذرت کرنے والوں کی قسمیں :۔ غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے تین طرح کے لوگ تھے۔ ایک منافقین جو (80) اسی سے کچھ زیادہ تھے اور جھوٹی معذرتیں پیش کر رہے تھے۔ دوسرے سیدنا ابو لبابہ اور آپ کے چھ ساتھی جنہوں نے آپ سے سوال و جواب سے پہلے ہی اپنے آپ کو مسجدنبوی کے ستون سے باندھ دیا تھا جن کا قصہ پہلے گزر چکا ہے اور تیسرے سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اور ان کے دو ساتھی سیدناہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ اور مرارہ بن الربیع۔ یہ تینوں بھی پکے مومن تھے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی بہانہ یا عذر پیش نہیں کیا بلکہ سچی سچی بات برملا بتلا دی۔ ان کے معاملہ کو تاحکم الٰہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے التواء میں ڈال دیا ان کا قصہ آگے اسی سورت کی آیت نمبر ١١٨ کے تحت تفصیل سے بیان ہوگا۔ التوبہ
107 [١٢٠] مسجد ضرار اور راہب ابو عامر کا کر دار :۔ مسجد ضرار منافقین مدینہ نے تعمیر کی تھی اور اس کی تعمیر میں مرکزی کردار ابو عامر راہب تھا۔ یہ شخص انصار کے قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتا تھا۔ عیسائی عالم تھا جس نے درویشی طریقہ اختیار کرلیا تھا۔ اور عام لوگوں میں اس کی درویشی کی اچھی شہرت تھی۔ خصوصاً خزرج کا قبیلہ اس کے زہد اور درویشی کا بڑا معتقد اور اس کی بہت تعظیم کرتا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو جس طرح عبداللہ بن ابی منافق نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا سیاسی حریف سمجھ کر اسلام دشمنی کی منافقانہ روش اختیار کی تھی۔ ابو عامر نے آپ کو اپنا روحانی حریف سمجھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عداوت کی راہ اختیار کرلی۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بعد لوگوں کی توجہ ابو عامر کی طرف سے ہٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مبذول ہوگئی تھی۔ پہلے تو یہ شخص اس انتظار میں رہا کہ قریش مکہ ہی اس شخص اور اس کے ساتھیوں سے نمٹنے کے لیے کافی ہیں۔ مگر جب بدر میں قریش مکہ کو شکست فاش ہوئی تو اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف اس کی چھپی ہوئی عداوت بھڑک اٹھی۔ پھر بعد میں اس نے اپنا اثر و رسوخ استعمال میں لاتے ہوئے عرب قبائل میں اسلام کے خلاف تبلیغ شروع کردی۔ اور غزوہ بدر کے بعد جتنی بھی جنگیں ہوئی مثلاً جنگ احد اور جنگ خندق اور جنگ حنین وغیرہ ان میں خود بھی شریک رہا اور کفار کو جنگوں پر ابھارنے میں بڑا موثر کردار ادا کرتا رہا۔ اسلام کے خلاف کوئی سازش بھی کفار یا منافقین کی طرف سے تیار ہوتی تو اس میں اس کا عمل دخل ضرور ہوتا تھا۔ مسجد ضرار کی تعمیر کا مقصد :۔ جب حنین میں کافروں کو شکست ہوگئی تو اس نے سمجھ لیا کہ اب عرب کے اندر کوئی طاقت ایسی نہیں رہ گئی جو اسلام اور مسلمانوں کو کچل سکے۔ لہٰذا اس نے اپنے مذہب کے واسطہ سے قیصر روم کو مسلمانوں پر چڑھا لانے کا منصوبہ تیار کیا۔ مدینہ کے منافقین ایسے تمام کاموں میں اس کے ہمراز اور معاون تھے۔ جب وہ اس غرض کے لیے روم کی طرف روانہ ہونے لگا تو اس نے منافقوں سے کہا کہ فوراً ایک مسجد تیار کرو جہاں ہم لوگ جمع ہو کر صلاح و مشورہ کرسکیں اور میں یا میرا کوئی قاصد آئے تو وہ وہاں اطمینان سے قیام کرسکے اور ایسی ناپاک سازشیں چونکہ مذہبی تقدس کے پردہ میں ہی چھپ سکتی تھیں۔ لہٰذا ایسی اغراض کے لیے مسجد ہی کی تعمیر ضروری سمجھی گئی۔ وہ مقصد جو مسلمانوں کو بتلایا گیا اور آپ سے افتتاح کی درخواست :۔ چنانچہ مسجد قبا اور مسجد نبوی کے درمیان قبا سے قریب ایک تیسری مسجد تیار ہونے لگی اور اس کی ضرورت یہ بتلائی گئی کہ ہم میں سے بہت سے لوگ کمزور اور ناتواں ہیں جو بارش اور سردی کے موسم میں مسجد قبا تک نہیں پہنچ سکتے نیز مسجد قبا میں جگہ بھی تنگ ہے لہٰذا نمازیوں ہی کی سہولت کے لیے یہ مسجد بنائی جا رہی ہے۔ مسجد کی تعمیر کے بعد یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے اور عرض کی کہ آپ وہاں چل کر ''افتتاح'' کے طور پر دو رکعت نماز پڑھا دیجئے۔ اس سے منافقوں کی غرض صرف مسلمانوں کو فریب دینا اور سازشوں سے شک و شبہ کے خطرات کو دور کرنا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا کہ ’’اس وقت تو میں جہاد پر جا رہا ہوں۔ واپسی پر دو رکعت نماز جا کر پڑھا دوں گا۔‘‘ منافقین کے مشورے :۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک پر روانہ ہوگئے تو پیچھے رہ جانے والے منافق بغلیں بجانے لگے، انہیں یقین تھا کہ اب مسلمان بچ کر واپس نہیں آ سکیں گے اور قیصر روم کی فوجیں مسلمانوں کو کچل کے رکھ دیں گی لہٰذا وہ اس مسجد میں بیٹھ کر یہ صلاح مشورہ کر رہے تھے کہ جونہی مسلمانوں کی شکست کی خبر ملے تو تاج شاہی عبداللہ بن ابی منافق کے سر پر رکھ دیا جائے۔ اور اسے اپنا بادشاہ تسلیم کرلیا جائے۔ غزوہ تبوک کے نتائج :۔ مگر ان منافقوں کی توقعات کے علی الرغم اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ہوا یہ کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک پہنچے تو ملک غسان کو مقابلہ پر آنے کی ہمت ہی نہ پڑی اور اس کی وجہ دو تھیں۔ ایک یہ کہ ملک غسان کچھ عرصہ پہلے جنگ مؤتہ میں مسلمانوں کی جرأت ایمانی ملاحظہ کرچکا تھا کہ کس طرح اس کا ایک لاکھ کا لشکر ٣ ہزار مجاہدین پر بھی غالب نہ آسکا اور سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کس بےدردی کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا تھا اور اس غزوہ میں مسلمان مجاہدین کی تعداد بیس ہزار تھی۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ اسے قیصر روم سے مزید کمک کی توقع تھی۔ لیکن قیصر روم نے جب ابو سفیان سے بھرے دربار میں پیغمبر اسلام کے حالات سنے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت سے اتنا متاثر ہوا کہ اسلام لانے کو تیار تھا مگر اپنے وزیروں مشیروں کے تیور دیکھ کر اس نے اسلام کا اعلان کرنے کی جرأت نہ کی اندریں صورت حال قیصر روم نے ملک غسان کو کمک بھیجنے سے انکار کردیا۔ اس طرح ملک غسان کے لشکر کے حوصلے پست ہوگئے اور مسلمانوں سے مقابلہ پر آنے کی جرأت نہ کرسکا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس دن تبوک میں رہ کر اس کا انتظار کیا۔ اس قیام سے ایک تو دشمن پر اپنی دھاک بٹھانا مقصود تھا۔ دوسرے بہت سے عربی قبائل جو پہلے قیصر روم کے باجگزار تھے اس سے کٹ کر اسلامی ریاست کے تابع ہوگئے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنی بہت سی نعمتوں سے نوازا۔ مسجد ضرار کا انہدام :۔ تبوک کے واپسی کے سفر میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے قریب ذی اوان کے قریب پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو مسجد ضرار کی تعمیر کی غرض و غایت اور منافقوں کی ناپاک سازشوں سے مطلع کردیا اور حکم دیا کہ آپ کو ہرگز اس مسجد میں افتتاح کے لیے نماز نہ پڑھانا چاہیے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہیں سے دو صحابہ مالک بن خشم اور معن بن عدی کو حکم دیا کہ فوراً جا کر اس مسجد کو آگ لگادیں۔ انہوں نے فوراً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ پہنچنے سے پہلے ہی اس مسجد کو پیوند خاک کردیا گیا۔ اس آیت میں من حارب اللہ و رسولہ سے وہی مرکزی کردار ابو عامر فاسق مراد ہے۔ التوبہ
108 [١٢١] تقویٰ پر تعمیر شدہ مسجد کونسی ہے؟ وہ مسجد کونسی تھی اور کیسے حالات میں تعمیر ہوئی؟ اس کی وضاحت کے لیے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :۔ ١۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دو آدمیوں نے اس بات میں جھگڑا کیا کہ وہ کونسی مسجد ہے جس کی پہلے دن سے تقویٰ پر بنیاد رکھی گئی تھی۔ ایک نے کہا وہ مسجد قبا ہے اور دوسرے نے کہا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد ہے۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’وہ یہی میری مسجد ہے۔‘‘ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) ٢۔ مسجد نبوی کی تعمیر اور بعد میں وسعت :۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو مدینہ کے بلند حصہ قبیلہ بنی عمرو بن عوف میں اترے آپ چوبیس (اور ایک روایت کے مطابق چودہ) راتیں وہاں رہے۔ پھر بنی نجار کو بلا بھیجا جو تلواریں لٹکائے حاضر ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹنی پر سوار ہوئے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کی خواصی میں اور بنی نجار کے سردار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد تھے۔ یہاں سے چل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابو ایوب کے گھر میں اترے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پسند تھی کہ جہاں نماز کا وقت آئے وہیں نماز پڑھ لیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بکریوں کے باڑے میں بھی نماز پڑھ لیتے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعمیر مسجد کا حکم دیا۔ اور بنی نجار کے سرداروں کو بلا بھیجا اور فرمایا ’’تم اپنے اس باغ کی قیمت مجھ سے طے کرلو۔‘‘ وہ کہنے لگے۔ ’’نہیں اللہ کی قسم ہم تو اس کی قیمت اللہ تعالیٰ سے ہی لیں گے۔‘‘ اس باغ میں کچھ تو مشرکوں کی قبریں تھیں، کچھ کھنڈر اور کچھ کھجور کے درخت۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو مشرکوں کی قبریں کھود ڈالی گئیں، کھنڈر برابر کیے گئے اور کھجور کے درخت کاٹ کر ان کی لکڑیاں قبلے کی طرف جما دی گئیں۔ اس کے دونوں طرف پتھروں کا پشتہ لگایا۔ صحابہ شعر پڑھ پڑھ کر پتھر ڈھو رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ شعر پڑھتے اور فرماتے :؎ اَللّٰھُمَّ لَاخَیْرَ اِلَّا خَیْرَالْاٰ خِرَۃَ....... فَاغْفِرِ الْاَنْصَارَ وَالْمُھَاجِرَۃَ (اے اللہ! بھلائی تو وہی ہے جو آخرت کی ہو اے اللہ انصار اور مہاجرین کو بخش دے۔) (بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب ھل ینبش قبور مشرکی الجاھلیہ) ٣۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (مسجد نبوی کی تعمیر کے وقت) ہم ایک ایک اینٹ اٹھا رہے تھے اور عمار رضی اللہ عنہ دو دو اینٹیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمار رضی اللہ عنہ کو دیکھا تو ان کے بدن سے مٹی جھاڑنے لگے اور فرمایا’’افسوس عمار رضی اللہ عنہ کو باغی جماعت مار ڈالے گی۔ یہ تو انہیں بہشت کی طرف بلائے گا اور وہ اسے دوزخ کی طرف بلائیں گے۔‘‘ چنانچہ عمار رضی اللہ عنہ کہا کرتے : میں فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب التعاون فی بناء المسجد ) ٤۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسجد نبوی کچی اینٹ سے بنی ہوئی تھی، چھت پر کھجور کی ڈالیاں اور ستون کھجور کی لکڑی کے تھے۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے (اپنے دور خلافت میں) کچھ نہیں بڑھایا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد کو بڑھایا لیکن عمارت ویسی ہی رکھی جیسی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھی یعنی اینٹوں اور کھجور کی ڈالیوں کی۔ البتہ کھجور کی لکڑی کے ستون دوبارہ لگائے گئے پھر سیدنا عثمان رضی اللہ نے اسے بدل ڈالا اور بہت بڑھایا اور اس کی دیواریں نقشی پتھر اور گچ سے بنوائیں اور اس کے ستون بھی نقشی پتھر کے تھے اور اس کی چھت ساگوان سے بنوائی۔ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب بنیان المسجد) التوبہ
109 [١٢٢] جرف سے مراد دریا وغیرہ کا ایسا کنارہ ہے جس کے نیچے کی زمین دریا بہا کرلے گیا ہو اور وہ کسی وقت بھی پانی کی ایک ہی ٹکر سے گر کر دریا میں گر پڑے۔ اس آیت میں اللہ کے خوف اور اس کی رضا کو پختہ اور ٹھوس زمین سے اور نفاق کو کھوکھلے گڑھے یا کھائی سے تشبیہ دی گئی ہے یعنی جس عمل کی بنیاد نفاق پر ہو وہ خواہ دیکھنے میں اچھا نظر آتا ہو، جیسے کوئی مسجد بنانا وہ اسے جہنم کی گہرائیوں میں جا پٹکے گا۔ التوبہ
110 [١٢٣] گو یہ عمارت گرائی جا چکی ہے مگر ان منافقوں کے دلوں میں نفاق کا روگ اس قدر جڑ پکڑ چکا ہے جو کبھی ختم ہی نہیں ہو سکے گا۔ الا یہ کہ ان کے دلوں کے اندر اتنے چھید ہوجائیں کہ جڑ پکڑنے کی گنجائش ہی نہ رہے۔ دلوں کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے مراد ان کا مر جانا ہے یعنی مرتے دم تک نفاق ان کے دلوں سے نکل نہیں سکتا۔ التوبہ
111 [١٢٤] جان ومال فروخت کرنے کا مفہوم :۔ اس کا ایک مفہوم تو ترجمہ سے ہی واضح ہوجاتا ہے یعنی جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے جان و مال سے جہاد کرتے ہیں پھر خواہ وہ شہید ہوجائیں یا بچ کر آ جائیں بہرصورت ان کو جنت ضرور ملے گی۔ یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ حقیقت میں تو ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اور مومنوں کی جانوں اور اموال کا بھی ہے لیکن اس نے یہ چیزیں بطور امانت دے رکھی ہیں اور ان میں تصرف کا اختیار بھی انسان کو دے رکھا ہے۔ اسی اختیار سے دستبردار ہوجانے اور اس اختیار کو اللہ کی رضا کے تابع بنا دینے کی قیمت یہ ہے کہ اللہ انہیں جنت عطا کرے گا اور چونکہ یہ قیمت یعنی جنت نقد بہ نقد نہیں ملتی بلکہ ادھار ہے جو مرنے کے بعد ہی ملے گی۔ لہٰذا یہ توثیق بھی فرما دی۔ اللہ کا یہ وعدہ سب الہامی کتابوں میں بالخصوص تورات، انجیل اور قرآن میں موجود ہے مزید برآں یہ وضاحت بھی فرما دی کہ اللہ سے بڑھ کر اپنے وعدہ کو پورا کرنے والا اور کون ہوسکتا ہے۔ لہٰذا مومنوں کے لیے اس وعدہ میں شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اہل ایمان نے اپنی جانوں اور اموال میں تصرف کے جملہ اختیارات تو اللہ کے ہاتھ فروخت کردیئے ہیں اور بوقت ضرورت جان و مال کا نذرانہ پیش کرنا اور جہاد فی سبیل اللہ میں حصہ لینا پھر شہید ہوجانا یا بچ کر آ جانا یہ سب کچھ وقتی باتیں اور اسی اصل معاہدہ بیع کا ایک حصہ ہیں۔ اصل معاہدہ بیع یہی ہے کہ مومن اپنی جان میں اور اموال میں اللہ کی مرضی کے مطابق ہی تصرف کرے گا۔ یہ معاہدہ بیع انسان کی موت تک چلتا ہے۔ اس سے پہلے یہ پتہ چل ہی نہیں سکتا کہ انسان نے یہ معاہدہ بیع اپنی عمر بھر نبھایا بھی ہے یا نہیں۔ اور جب موت آ جاتی ہے تو اس وقت اسے اس کی قیمت یعنی جنت فوراً مل جاتی ہے۔ اس صورت میں ادھار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس مفہوم کے مطابق یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر کسی شخص کو زندگی بھر جہاد کا موقع ہی میسر نہ آیا ہو۔ مگر اس نے اپنی جان ، اپنے مال اور اپنے اختیار تصرف کو اللہ کی مرضی کے تحت رکھا ہو تو اس سے بھی جنت کا وعدہ ہے۔ التوبہ
112 [١٢٥] معاہدہ بیع میں پورا اترنے والوں کی صفات :۔ سابقہ آیات میں گزر چکا ہے کہ جو سچے مومن غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے انہوں نے کس طرح سچے دل سے توبہ کی۔ گویا بعض اوقات سچے مومن بھی بہ تقاضائے بشر یہ اس معاہدہ بیع کو بھول جاتے ہیں جس کی رو سے مومنوں نے اللہ سے یہ عہد کر رکھا ہے کہ وہ اپنی جانوں اور اموال میں تصرف اسی کی مرضی کے تابع رہ کر کریں گے۔ اور جب بھی کوئی ایسا موقع آتا ہے تو ایسے مومنوں کی شان یہ ہوتی ہے کہ جب بھی انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے تو فوراً اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اللہ سے ہر ایسے موقع پر توبہ و استغفار کرتے رہتے ہیں۔ [١٢٦] سائح کا لغوی مفہوم :۔ سائح کا ایک معنی روزہ دار ہے۔ ایسا روزہ جس میں روزہ دار کھانے پینے کی پابندیوں کے علاوہ اخلاقی پابندیوں کا بھی لحاظ رکھے۔ جیسے جھوٹ، گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑے سے بھی پرہیز کرے اور صاحب منجد کے نزدیک وہ روزہ دار ہے جو مسجد میں قیام پذیر ہو۔ جبکہ صائم کا معنی محض روزہ دار ہے اگرچہ اسے بھی اخلاقی پابندیوں کی تاکید کی گئی ہے۔ اور اس کا دوسرا معنی سیاحت کرنے والا ہے۔ سیر و تفریح کے لیے نہیں بلکہ طلب علم کے لیے، جہاد فی سبیل اللہ کے لیے کسب حلال کے لیے، آثار اقوام قدیمہ سے عبرت حاصل کرنے کے لیے، کائنات میں اللہ تعالیٰ کی پھیلی ہوئی آیات کا مشاہدہ کرنے کے لیے، دین اسلام کی اشاعت و تبلیغ کے لیے اور ہر اس کام کے لیے جس میں اللہ کی رضا مطلوب ہو۔ [١٢٧] یعنی جو لوگ صرف اپنی اصلاح نفس پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ ازراہ خیر خواہی دوسروں کو بھی حسب استطاعت اپنے ہاتھ سے یا زبان و قلم سے اچھے کاموں کی تلقین کرتے اور برے کاموں سے روکتے ہیں۔ جو مومنوں کے لیے ایک نہایت اہم فریضہ ہے۔ [١٢٨] ان حدود کا دائرہ بہت وسیع ہے جو انسان کی پوری زندگی کو محیط ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے عقائد، عبادات، اخلاق، معاشرت، تمدن، معیشت، سیاست، عدالت اور صلح و جنگ کے معاملات میں جو حدیں مقرر کر رکھی ہیں۔ ان سے تجاوز نہیں کرتے۔ اور جن مومنوں میں مذکورہ سب صفات پائی جائیں انہی کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ وہ اس معاہدہ بیع کے پابند ہیں جس کے عوض میں انہیں جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ التوبہ
113 [١٢٩] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یتیم پیدا ہوئے تھے۔ آٹھ سال کی عمر تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دادا عبدالمطلب کے زیر تربیت رہے۔ پھر عبدالمطلب بھی فوت ہوگئے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کے سپرد کر گئے۔ ابو طالب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت پیار و محبت سے تربیت کی جب چالیس سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا اعلان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمن بن گئی لیکن ابو طالب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھرپور حمایت کی اور اسلام نہ لانے کے باوجود ہر مشکل وقت میں ابو طالب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ڈھال کا کام دیتے رہے۔ شعب ابی طالب میں تین سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ابو طالب سے بہت محبت تھی۔ نبوت کے آٹھویں سال ابو طالب کی وفات ہوگئی جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شدید صدمہ ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو طالب کی پدرانہ شفقت اور اسلامی خدمات کے جذبات سے متاثر ہو کر اس کے حق میں استغفار کا وعدہ کیا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ مشرکین کے لئے دعائے مغفرت کی ممانعت اور قصہ ابو طالب :۔ مسیب بن حزن (سعید بن مسیب کے والد) کہتے ہیں کہ جب ابو طالب کی وفات کا وقت آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے اس وقت ان کے پاس ابو جہل بیٹھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو طالب سے کہا ’’چچا لا الہ الا اللہ کہہ لو۔ مجھے اپنے پروردگار کے ہاں (تمہاری مغفرت کے لیے) ایک دلیل مل جائے گی۔‘‘ ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ کہنے لگے : کیا تم عبدالمطلب کے دین کو چھوڑ دو گے؟ دونوں برابر یہی سمجھاتے رہے آخر ابو طالب نے آخری بات جو کہی وہ یہ تھی کہ میں عبدالمطلب کے دین پر (مرتا) ہوں۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہارے لیے بخشش کی دعا کرتا رہوں گا۔ جب تک مجھے اس سے منع نہ کیا جائے اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ قصہ ابی طالب) اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کے نزول سے پہلے مشرکوں کے لیے دعائے مغفرت کرنا منع نہ تھا۔ التوبہ
114 [١٣٠] سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے باپ آزر کا انجام :۔ یعنی جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے باپ آزر نے ان سے کہا تھا کہ یہاں سے نکل جاؤ اور میری آنکھوں سے دور ہوجاؤ ورنہ میں تمہیں سنگسار کر دوں گا (١٩ : ٤٧) تو اس وقت آپ نے باپ سے کہا تھا : تم سلامت رہو میں جا رہا ہوں البتہ تمہارے لیے بخشش کی دعا کرتا رہوں گا اور یہ بات میرے اختیار میں نہیں کہ میں تمہیں اللہ کی گرفت سے بچا سکوں (٦٠ : ٤) چنانچہ اسی وعدہ کے مطابق آپ نے اس کے حق میں دعا فرمائی کہ اے اللہ! میرے باپ کو معاف فرما دے کیونکہ وہ گمراہوں سے ہے اور اس دن مجھے رسوا نہ کرنا جب سب لوگ اٹھائے جائیں گے (٢٦ : ٨٦، ٨٧) پھر جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو معلوم ہوگیا کہ وہ راہ راست کی طرف آنے والا نہیں۔ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے اپنی بے زاری کا اظہار کردیا۔ اور جو دعا آپ نے اپنے حق میں کی تھی کہ’’مجھے قیامت کے دن رسوا نہ کرنا‘‘ اس کی تفصیل درج ذیل حدیث میں ملاحظہ فرمائیے : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ابراہیم قیامت کے دن اپنے والد آزر کو دیکھیں گے کہ ان کے منہ پر سیاہی اور گرد و غبار ہوگا۔ آپ اس سے کہیں گے میں نے تمہیں کہا نہ تھا کہ میری نافرمانی نہ کرنا۔‘‘ آپ کا باپ کہے گا : آج میں تمہاری نافرمانی نہیں کروں گا۔ اس وقت سیدنا ابراہیم علیہ السلام عرض کریں گے ’’پروردگار! تو نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ میں قیامت کے دن تجھے رسوا نہ کروں گا۔ اور اس سے بڑھ کر کیا رسوائی ہو سکتی ہے کہ میرا باپ اس حال میں ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے ’’میں نے کافروں پر جنت حرام کردی ہے۔‘‘ پھر کہا جائے گا ’’ابراہیم ذرا اپنے پاؤں تلے تو دیکھو۔‘‘ اسی وقت انہیں باپ کی جگہ ایک نجاست سے لتھڑا ہوا بجو نظر آئے گا۔ فرشتے اس کے پاؤں پکڑ کر دوزخ میں ڈال دیں گے۔ (بخاری کتاب الانبیاء۔ باب (وَاتَّخَذَ اللّٰہُ اِبْرٰہِیْمَ خَلِیْلًا ١٢٥۔) 4۔ النسآء :125) گویا اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے لیے رسوائی کو اس طرح دور کیا کہ ان کے باپ کی شکل ہی بدل دی اور رسوائی کا دار و مدار تو شناخت پر ہے۔ جب یہ شناخت ہی نہ رہے کہ کیا چیزدوزخ میں پھینکی گئی تو پھر کسی کی رسوائی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ [١٣١] اوّاہ کے معنی آہیں بھرنے والا، آہ وزاری کرنے والا، بہت دعائیں کرنے والا۔ رقیق القلب اور نرم دل سب کچھ آتے ہیں۔ ان کی نرم دلی اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے کہ باپ تو کہہ رہا ہے کہ یہاں سے نکل جاؤ ورنہ تمہیں رجم کر دوں گا اور آپ اس کو جواب دیتے ہیں کہ میں تو جا رہا ہوں تم سلامت رہو اور میں تمہارے لیے اپنے رب سے معافی بھی مانگوں گا۔ التوبہ
115 [١٣٢] شرعی حکم نہ جاننے والا جاہل ہے گمراہ نہیں :۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ وہ لوگوں پر پوری طرح واضح کردیتا ہے کہ انہیں کن کن باتوں سے بچنا ضروری ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتمام حجت بھی ہے اور ہدایت بھی۔ اب جو لوگ اللہ کی ہدایت کی راہ چھوڑ کر غلط راستہ پر چل پڑتے ہیں یعنی گمراہی کا راستہ اختیار کرتے ہیں تو اللہ انہیں اسی راہ پر چلنے کی توفیق دیتا ہے کیونکہ جبراً کسی کو ہدایت کی راہ پر چلائے رکھنا اللہ کا دستور نہیں ہے۔ ضمناً اس آیت سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ جس بات کی ممانعت صراحتاً نازل نہ ہوئی ہو اس کا کرنے والا نہ گمراہ ہوتا ہے اور نہ گنہگار۔ گویا اس بات کا اشارہ کردیا کہ جو لوگ ممانعت سے پہلے مشرکوں کے لیے استغفار کرچکے ہیں ان پر مؤاخذہ نہیں لیکن حکم مل جانے کے بعد ایسا کرنا گمراہی ہے۔ اسی طرح اگر کسی حکم شرعی کا پتہ ہی نہ ہو تو اسے جاہل تو کہہ سکتے ہیں۔ گمراہ نہیں کہہ سکتے۔ التوبہ
116 التوبہ
117 [١٣٣] اس آیت میں تنگی کے وقت سے مراد غزوہ تبوک پر روانگی کا وقت ہے جبکہ شدید گرمی کا موسم تھا قحط سالی تھی، فصلیں پکنے والی تھیں بے سرو سامانی کی حالت تھی، سفر طویل اور پر مشقت تھا۔ چنانچہ اس وقت بعض سچے مسلمان بھی جہاد پر روانہ ہونے سے گھبرانے لگے تھے۔ آخر ان کے ایمان کی پختگی ان کے نفس پر غالب آئی اور وہ پورے عزم کے ساتھ جہاد پر نکل کھڑے ہوئے اور یہاں اللہ کی مہربانی سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے اس گھبراہٹ کے عالم میں انہیں روانگی کے لیے ہمت و جرأت عطا فرمائی اور نبی پر مہربانی سے مراد وہ آیت ہے جس کا آغاز ہی اس طرح ہوا تھا کہ اللہ آپ کو معاف فرمائے آپ نے ایسے ہٹے کٹے، تنومند اور کھاتے پیتے منافقوں کو جہاد پر جانے سے رخصت کیوں دے دی (٩ : ٤٣) التوبہ
118 [١٣٤] سیدنا کعب بن مالک اور ان کے دوسرے ساتھیوں کا قصہ :۔ یہ وہ تین آدمی ہیں جن کا اجمالی ذکر اس سورۃ کی آیت نمبر ١٠٦ میں آ چکا ہے اور وہ سیدنا کعب بن مالکص، ہلال بن امیہ اور مرارہ بن الربیع صتھے اور تینوں پہلے بارہا اپنے اخلاص کا ثبوت دے چکے تھے اور کعب بن مالک تو ان صحابہ میں سے تھے جنہوں نے لیلۃ العقبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ غزوہ بدر میں شریک نہ ہو سکے تاہم آپ اکثر کہا کرتے تھے کہ مجھے لیلۃ العقبہ کی بیعت میں شمولیت غزوہ بدر میں شمولیت سے زیادہ عزیز ہے۔ بہت سی صحیح احادیث میں ان کا قصہ خود انہی سے مروی ہے۔ ان میں سے دو احادیث ہم یہاں درج کرتے ہیں : ١۔ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ خود بیان کرتے ہیں کہ جس غزوہ میں بھی نبی اکرم شریک ہوتے ہیں ان کے ساتھ ہوتا بجز دو لڑائیوں کے ایک غزوہ عسرہ (جنگ تبوک) اور دوسری غزوہ بدر۔ جنگ تبوک کے موقع پر میں نے پکی نیت کرلی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کے وقت مدینہ تشریف لائیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچ سچ کہہ دوں گا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر جب سفر سے تشریف لاتے تو چاشت کے وقت ہی آتے۔ پہلے مسجد میں جاتے اور دو رکعت نماز ادا کیا کرتے۔ جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچ سچ بات بتلا دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مجھ سے اور میرے (جیسے) دو ساتھیوں (ہلال بن امیہ اور مرارہ بن الربیع) سے بات چیت کرنے سے منع کردیا۔ ہم تین آدمیوں کے سوا جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے اور (جھوٹے عذر پیش کر رہے تھے) ان کے لیے یہ حکم نہیں دیا۔ اب صحابہ نے ہم سے بات چیت کرنا چھوڑ دی اس حال میں زندگی مجھ پر دوبھر ہوگئی۔ مجھے بڑی فکر یہ تھی کہ اگر میں اسی حال میں مر گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے جنازے پر نماز بھی نہیں پڑھیں گے یا (خدانخواستہ) آپ کی وفات ہوجائے تو میں ساری عمر اسی مصیبت میں مبتلا رہوں گا نہ مجھ سے کوئی بات چیت کرے گا اور اگر مر گیا تو کوئی نماز بھی نہ پڑھے گا۔ آخر (پچاس دن گزرنے کے بعد) اللہ تعالیٰ نے ہماری معافی کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا۔ اس وقت تہائی رات باقی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں تھے۔ ام سلمہ میری بھلائی کی فکر میں تھیں اور میری مدد کرنا چاہتی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے کہا ’’ام سلمہ! کعب بن مالک کی توبہ قبول ہوگئی۔‘‘ تو انہوں نے کہا ’’میں کعب کو مبارک باد کہلا بھیجوں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’لوگ ہجوم کر آئیں گے اور تمہاری نیند خراب کردیں گے۔‘‘ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھی تو لوگوں کو ہماری توبہ قبول ہونے کی خبر دی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی کوئی اچھی خبر ملتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ یوں چمکنے لگتا جیسے چاند کا ایک ٹکڑا ہے۔ ہم تین آدمیوں کے لیے، جن کا معاملہ التواء میں ڈال دیا گیا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے معافی کا حکم اتارا اور باقی جن لوگوں نے جھوٹے بہانے تراشے تھے ان کا ذکر بری طرح کیا گیا۔ اتنا برا ذکر اللہ نے اور کسی کا نہیں کیا۔ فرمایا ’’جب تم ان کے پاس واپس آؤ گے تو وہ آپ کے سامنے معذرت شروع کردیں گے۔ آپ ان سے کہہ دیجئے:بہانے نہ بناؤ، ہم تمہاری باتوں پر یقین نہیں کریں گے۔ کیونکہ اللہ نے ہمیں تمہارے حالات بتلا دیئے ہیں۔ اور آئندہ بھی اللہ اور اس کا رسول تمہارے کام دیکھ لیں گے۔۔‘‘ تاآخر (آیت نمبر ٩٤) (بخاری کتاب التفسیر) ٢۔ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ ان تین آدمیوں میں سے تھے جو جنگ تبوک میں پیچھے رہ گئے تھے اور ان کا معاملہ التواء میں ڈال دیا گیا تھا۔ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ آخر عمر میں نابینا ہوگئے تھے اور ان کے بیٹے عبداللہ بن کعب انہیں لے کر چلا کرتے تھے۔ عبداللہ بن کعب کہتے ہیں کہ جب کعب اپنا قصہ بیان کرتے تو فرمایا کرتے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا ’’میں اپنی توبہ کے قبول ہونے کے شکریہ میں اپنا سارا مال اللہ اور اس کے رسول کی رضا کے لیے صدقہ کرتا ہوں۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’نہیں تھوڑا سا مال اپنے لیے بھی رکھ لو یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) پہلی حدیث میں چند اہم باتیں مذکور نہیں جو دوسری احادیث میں مذکور ہیں اور وہ یہ ہیں : ١۔ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جن دنوں میرے ساتھ صحابہ کی گفتگو بند کی گئی تھی انہی دنوں میں شام کے عیسائیوں میں سے مجھے ایک شخص ملا اور اس نے شاہ غسان کا حریر میں لپٹا ہوا خط مجھے دیا۔ اس خط میں لکھا تھا کہ ’’ہم نے سنا ہے کہ تمہارے صاحب نے تم پر تشدد کیا ہے۔ تم ایسے حقیر آدمی نہیں جسے ضائع کیا جائے۔ اگر تم ہمارے پاس آ جاؤ تو ہم تمہاری پوری پوری قدر کریں گے۔‘‘ میں نے یہ خط پڑھ کر سمجھ لیا کہ یہ ایک اور آزمائش مجھ پر نازل ہوئی ہے چنانچہ میں نے اس خط کو فوراً چولہے میں جھونک دیا۔ ٢۔ جب چالیس دن اسی حالت میں گزر گئے تو ہم تینوں کو حکم ہوا کہ ہم اپنی بیویوں سے بھی الگ رہیں۔ میں نے پوچھا ’’طلاق دے دوں؟‘‘ جواب ملا ’’نہیں بس الگ رہو۔ ‘‘ہلال بن امیہ کی بیوی آپ کے پاس گئی اور کہنے لگی کہ ہلال بن امیہ نہایت کمزور ہے اور وہ اکیلا نہیں رہ سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے خاوند کے پاس رہنے کی اجازت دے دی صحبت وغیرہ کی اجازت نہیں دی۔ مگر میں نے اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ تم اپنے میکے چلی جاؤ۔ اور انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس معاملہ کا فیصلہ کر دے۔ ٣۔ مزید دس دن یعنی کل پچاس دن گزر جانے کے بعد ہم لوگوں کی اللہ تعالیٰ نے توبہ قبول کرلی۔ اللہ تعالیٰ نے ان مخلص صحابہ کا جو کڑا امتحان لیا تھا اس میں وہ پورے اترے۔ پھر اللہ نے نہایت شفقت بھرے الفاظ میں ان کی صرف توبہ ہی قبول نہیں فرمائی بلکہ اگلی آیت میں ان کی سچائی، راست بازی اور وفاداری کی تعریف بھی فرمائی۔ التوبہ
119 [١٣٥] سچ بولنے کی فضیلت اور فائدہ :۔ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والوں کا قصہ بیان کرنے کے بعد کہا کرتے : اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا کہ اللہ نے کسی شخص کو سچ کہنے کی توفیق دے کر اس پر اتنا احسان کیا ہو جیسا کہ مجھ پر کیا۔ میں نے اسی وقت سے لے کر آج تک قصداً کبھی جھوٹ نہیں بولا اور اللہ تعالیٰ نے اسی باب میں یہ آیات اتاریں ﴿لَقَدْ تَّاب اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ وَالْمُہٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ فِیْ سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ مِنْۢ بَعْدِ مَا کَادَ یَزِیْغُ قُلُوْبُ فَرِیْقٍ مِّنْھُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَیْہِمْ ۭ اِنَّہٗ بِہِمْ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ ﴾ (بخاری۔ کتاب التفسیر) التوبہ
120 [١٣٦] رسول اللہ کو اپنی جان سے عزیز سمجھنے سے ایمان کی تکمیل ہوتی ہے :۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو سفر تبوک کی صعوبتیں برداشت کریں اور مسلمان ان کے بعد اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھے رہیں۔ اور اللہ کے رسول کی جان سے اپنی جانوں کو عزیز تر سمجھیں۔ ایک صحابی ابو خیثمہ رضی اللہ عنہ بھی غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے۔ وہ اپنے باغ میں گئے وہاں ٹھنڈا سایہ تھا۔ آپ کی بیوی نے پانی چھڑک کر زمین کو خوب ٹھنڈا کیا۔ چٹائی کا فرش کیا۔ تازہ کھجور کے خوشے سامنے رکھے اور ٹھنڈا میٹھا پانی بھی حاضر کیا۔ یہ سامان عیش دیکھ کر دفعتاً ابو خیثمہ کے دل میں بجلی کی سی ایک لہر دوڑ گئی۔ بولے تف ہے اس زندگی پر کہ میں تو خوشگوار سائے، ٹھنڈے پانی اور باغ و بہار کے مزے لوٹوں اور اللہ کا رسول ایسی سخت لو اور تپش اور تشنگی کے عالم میں سفر کر رہے ہوں۔ یہ خیال آتے ہی سواری منگائی، تلوار حمائل کی، نیزہ سنبھالا اور فوراً چل کھڑے ہوئے۔ اونٹنی تیز ہوا کی طرح چل رہی تھی۔ آخر لشکر کے پاس پہنچ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دور سے دیکھا کہ کوئی شتر سوار ہوا کے دوش پر سوار گرد اڑاتا چلا آرہا ہے اور فرمایا اللہ کرے یہ ابو خیثمہ ہو۔ تھوڑی دیر میں دیکھ لیا کہ وہ ابو خیثمہ رضی اللہ عنہ ہی تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تک کوئی مومن مجھے اپنی جان سے بھی عزیز نہ سمجھے اس وقت تک اس کا ایمان مکمل ہی نہیں ہوتا جیسا کہ درج ذیل حدیث میں آیا ہے۔ عبداللہ بن ہشام فرماتے ہیں کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عمر کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے : ’’یا رسول اللہ! آپ میرے نزدیک اپنی جان کے علاوہ ہر چیز سے محبوب ہیں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ جب تک میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی زیادہ عزیز (محبوب) نہ ہوجاؤں تم مومن نہیں ہو سکتے۔‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ’’اللہ کی قسم! اب آپ میرے نزدیک میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ہاں اے عمر! (یعنی اب تم صحیح مسلمان ہو)‘‘ (بخاری۔ کتاب الایمان والنذور۔ باب کیف کانت یمین النبی ) [١٣٧] یعنی جہاد کے سفر میں مجاہد کے ہر ایک فعل کے بدلے ایک عمل صالح اس کے اعمال نامہ میں لکھ دیا جاتا ہے خواہ یہ فعل غیر اختیاری ہو۔ جیسے بھوک پیاس کو برداشت کرنا یا تھکاوٹ یا کوئی ایسی تکلیف اسے اس راہ میں پیش آ رہی ہو یہ سب اس کے صالح اعمال میں شمار ہوں گے اور خواہ یہ فعل اختیاری ہوں جیسے سفر طے کرنا، دشمن سے کوئی علاقہ چھیننا یا اس سے جنگ کر کے کامیابی حاصل کرنا، ان تمام تر کاموں کا اللہ کے ہاں انہیں اجر ملے گا۔ التوبہ
121 [١٣٨] پہلی آیت میں ہر اختیاری و غیر اختیاری فعل کے بدلے اعمال صالحہ لکھنے کا ذکر کیا۔ اس آیت میں بالخصوص ان اعمال کا ذکر کیا جو اختیاری ہی ہو سکتے ہیں اور جہاد فی سبیل اللہ کی بنیاد ہیں۔ یعنی زاد سفر، سواری اور اسلحہ پر جو بھی میسر آسکے خرچ کرتے ہیں۔ پھر سفر جہاد پر نکل بھی کھڑے ہوتے ہیں۔ اللہ انہیں ان کاموں کا بہتر صلہ ضرور عطا فرمائے گا یعنی یہ اعمال بلند تر درجہ کے صالح اعمال ہوئے اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کاموں کا جو بہتر سے بہتر بدلہ ہوسکتا ہے وہی اللہ انہیں عطا فرمائے گا۔ التوبہ
122 [١٣٩] دین کا علم سیکھنا فرض کفایہ ہے :۔ اس آیت کے دو مفہوم بیان کیے جاتے ہیں۔ اور وہ دونوں ہی درست ہیں۔ ایک یہ کہ یہ آیت جہاد سے متعلق ہے۔ اور اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جہاد فرض عین نہیں البتہ جب اسلامی حکومت کی طرف سے جہاد کا اعلان عام ہوجائے تو اس وقت صاحب استطاعت لوگوں پر جہاد فرض عین ہوجاتا ہے جیسا کہ غزوہ تبوک میں ہوا تھا اور اس صورت میں جہاد سے پیچھے رہ جانے والے گنہگار ہوتے ہیں اور سب لوگوں کے لیے یہ ممکن اس لیے نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات مسلمانوں کا ایک حصہ پیچھے رہنا ضروری ہوتا ہے تاکہ دارالخلافہ یا دوسرے اہم مقامات کی دشمن سے حفاظت کرسکیں۔ عند الضرورت فوج کو رسد اور کمک بھیج سکیں۔ علاوہ ازیں معاشرہ میں کئی طرح کے معذور افراد بھی ہوتے ہیں۔ اس صورت میں اس آیت کا یہ معنی ہوگا کہ ہر بستی اور ہر قبیلہ کے کچھ لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جانا ضروری ہے تاکہ وہ ان کی صحبت میں رہ کر دین کی سمجھ بوجھ پیدا کریں اور جب واپس اپنے گھروں کو آئیں تو ان سینکڑوں حوادث و واقعات سے متعلق ان لوگوں کو مطلع کریں جو جہاد پر نہیں گئے تھے اور اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود جنگ پر تشریف نہیں لے گئے تھے تو جو کچھ پیچھے رہنے والوں نے نبی اکرم کی صحبت سے دین کی باتیں اور سمجھ بوجھ سیکھی ہے اس سے ان لوگوں کو مطلع کریں جو جہاد پر گئے ہوئے تھے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کی جہالت دور کرے :۔ اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اس آیت کا تعلق جہاد سے نہیں بلکہ علم دین حاصل کرنے سے ہے یعنی تمام مسلمانوں اور بالخصوص بدوی قبائل (جن کے متعلق پہلے اسی سورۃ کی آیت نمبر ٩٧ میں بتلایا گیا ہے کہ وہ دین کی حدود اور اس کی حکمتوں کو سمجھ نہیں سکتے) کے لیے یہ ممکن نہیں کہ دین کا علم اور اس میں فہم حاصل کرنے کے لیے سب کے سب مدینہ آپ کے پاس چلے آئیں۔ لہٰذا لوگوں میں دینی شعور اور سمجھ بوجھ پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر قبیلہ، قوم اور بستی میں سے کچھ لوگ مدینہ آ جائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیض حاصل کریں پھر وہ واپس آ کر اپنی اپنی بستی، قوم یا قبیلہ کے لوگوں کو علم دین کی تعلیم دیں تاکہ ان کی جہالت دور ہو اور ان میں اسلامی نظام حیات کا صحیح صحیح شعور پیدا ہو۔ اور وہ اپنے طرز زندگی کو اسی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ حقیقی علم دین کا علم ہے :۔ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جبکہ اسلام عرب کے اکثر حصہ پر غالب آ چکا تھا۔ بدوی قبائل دھڑا دھڑ اسلام میں داخل ہو رہے تھے مگر ابھی تک ان کے نہ جاہلی نظریات ختم ہوئے تھے اور نہ دین کا ابھی حقیقی شعور پیدا ہوا تھا اس آیت میں علم کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے اور بتلایا گیا ہے کہ اسلامی حکومت کا کام محض علاقے فتح کرنا نہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ لوگوں کی جہالت دور کرنا اور اسلامی نظریات کے مطابق ان کی تربیت کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا جہاد ضروری ہے ضمناً اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی علم وہی کہلا سکتا ہے جس سے دین کی سمجھ بوجھ پیدا ہو اور ان سے دین کی تبلیغ و اشاعت میں کام لیا جا سکتا ہو۔ رہے دوسرے علوم تو وہ دنیا کی زندگی کے لیے خواہ کتنے ہی مفید کیوں نہ ہوں حقیقی علم نہیں کہلا سکتے۔ اس آیت کو خواہ جہاد پر نکلنے سے متعلق کیا جائے یا دین کا علم حاصل کرنے کے لیے نکلنے سے متعلق کیا جائے دونوں طرح درست ہے کیونکہ دین کا علم حاصل کرنے کے لیے نکلنا بھی جہاد فی سبیل اللہ ہی کی ایک قسم ہے اور اسلامی نظام حیات کے قیام کے لیے یہ دونوں شعبے ہی نہایت اہم اور فرض کفایہ ہیں۔ التوبہ
123 [١٤٠] پہلے متصل علاقہ کے کافروں سے جہاد پھر آگے بالترتیب :۔ یعنی اگر یہ جنگ اسلام کے راستہ کی رکاوٹوں کو دور کرنے یا بالفاظ دیگر فتنہ کو دور کرنے کی خاطر ہو تو سب سے پہلے اپنی ریاست سے متصل علاقے کے کافروں سے جنگ کی جائے پھر اس کے بعد ان سے جو اس کے ساتھ ملتے ہیں۔ یہ اس لیے کہ اگر متصل علاقے کو چھوڑ کر اگلے علاقہ سے جنگ شروع کی جائے تو درمیانی علاقہ والے کافر مسلمانوں کو آگے اور پیچھے دونوں اطراف سے حملہ کر کے خطرات سے دو چار کرسکتے ہیں۔ اور اگر جنگ دفاعی قسم کی ہو جیسے مثلًا روس نے افغانستان پر حملہ کردیا تھا۔ تو سب سے پہلے جہاد میں حصہ لینا افغانستان پر فرض ہوگا پھر ان علاقوں یا ملکوں پر جو افغانستان کی سرحد کے ساتھ ملتے ہیں یعنی پاکستان اور ایران وغیرہ پر۔ [١٤١] یعنی ان سے جان توڑ کر مقابلہ کرنا چاہیے اور ان سے نرمی کا برتاؤ ہرگز نہ ہونا چاہیے بلکہ ایسی سختی سے پیش آنا چاہیے کہ انہیں دوبارہ سر اٹھانے کی جرأت نہ ہو سکے۔ یہ مضمون قرآن میں متعدد مقامات پر آیا ہے کہ مومنوں کی شان ہی یہ ہے کہ وہ آپس میں تو بڑے رحم دل اور مہربان ہوتے ہیں لیکن کفار کے لیے بڑے سخت دل ہوتے ہیں۔ [١٤٢] جنگ کے ضابطوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے :۔ سختی کا یہ مطلب نہیں کہ تم ان تمام ضابطوں اور احکام کو بھول جاؤ جو اللہ اور رسول نے تمہیں دوران جنگ کے لیے دے رکھے ہیں مثلاً کافروں کی عورتوں، بچوں، راہب قسم کے لوگوں یا میدان جنگ میں عملاً شریک نہ ہونے والے لوگوں کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ کسی کی لاش کا مثلہ نہ کیا جائے گا۔ معاہدہ کی خلاف ورزی کسی قیمت پر نہ کی جائے گی۔ دشمن کے درختوں اور کھیتوں اور چوپایوں کو بر باد نہیں کیا جائے گا الا یہ کہ درخت وغیرہ جنگ کی راہ میں حائل ہو رہے ہوں۔ وغیرہ وغیرہ۔ ایسے تمام امور میں اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیے اور اللہ ایسے ڈرنے والوں ہی کا ساتھ دیتا اور ان کی مدد فرماتا ہے۔ التوبہ
124 [١٤٣] یعنی منافق اپنے منافق ساتھیوں سے یا ضعیف الاعتقاد مسلمانوں سے طنزیہ یہ سوال کر کے اپنے خبث باطن کا اظہار کرتے ہیں جس سے ان کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ اس سورت میں تو کوئی ایسی چیز موجود ہی نہیں جو ایمان اور یقین میں اضافہ کا باعث بن سکتی ہو۔ التوبہ
125 [١٤٤] منافقوں کے نفاق میں ہر سورت سے اضافہ ہی ہوتا جاتا ہے :۔ منافقوں کے اس سوال کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جن لوگوں کے دلوں میں ایمان پہلے سے موجود ہے ان کے لیے تو یہ سورت یقیناً ان کے ایمان میں اضافہ کا باعث بن جاتی ہے۔ لیکن جن لوگوں کے دلوں میں پہلے سے ہی نفاق کی گندگی موجود ہے تو اس سورت سے ان کی گندگی پر، مزید گندگی کا ایک اور ردہ چڑھ جاتا ہے حتیٰ کہ ہر سورت ان کے اس گندگی کے ڈھیر میں مزید اضافہ ہی کیے جاتی ہے تاآنکہ انہیں موت آ جاتی ہے اور اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہے کہ جیسے آسمان سے بارش اللہ کی رحمت کی صورت میں نازل ہوتی ہے۔ اب جو اچھی اور عمدہ زمین ہے وہ تو اس بارش سے لہلہا اٹھتی ہے اور جو گندی یا بنجر زمین ہے وہاں پہلے تو کوئی چیز پیدا نہ ہوگی اور ہوگی بھی تو وہ جھاڑ جھنکار ہی ہوگا۔ التوبہ
126 [١٤٥] یعنی کوئی سال ایسا نہیں گزرتا جس میں سال میں ایک یا دو دفعہ ان کی رسوائی نہ ہوتی ہو۔ کبھی ان کی کوئی سازش پکڑی جاتی ہے کبھی ان کا راز فاش ہوجاتا ہے۔ کبھی کوئی جنگ پیش آ جاتی ہے جو ان کے ایمان کے لیے آزمائش بن جاتی ہے۔ کبھی یہ لوگ خود ہی ایسی بکواس کر بیٹھتے ہیں جن کی وجہ سے انہیں رسوا ہونا پڑتا ہے اور جب بھی کوئی ایسا موقع پیش آتا ہے تو بجائے اس کے کہ وہ سیدھی راہ پر آ جائیں مکر و فریب اور جھوٹ سے اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح ان کے دلوں کی نجاست میں ہر آن اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے۔ التوبہ
127 [١٤٦] وحی نازل ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ کو مسجد میں بلاکر وحی سنانا :۔ جب کوئی سورت نازل ہوتی تو بسا اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو مسجد نبوی میں بلا کر بطور خطبہ انہیں یہ سورت سنا دیا کرتے۔ اب منافقوں کی مجبوری یہ تھی کہ انہیں ایسے اعلان پر مسجد میں جانا پڑتا تھا اور اپنے آپ سے نفاق کا شبہ دور کرنے کے لیے انہیں ایسی حاضری لگوانا ہی پڑتی تھی مگر اس بیگار کو زیادہ دیر تک برداشت بھی نہ کرسکتے تھے اور چاہتے یہ تھے کہ حاضری لگوانے کے بعد فوراً مسلمانوں سے نظریں بچا کر نکل جائیں اور ان میں سے اکثر یہی کچھ کرتے تھے۔ تو جب ان لوگوں نے رشد و ہدایت کی مجلس سے یوں بھاگنا شروع کیا تو اللہ نے بھی ان کے دلوں کو ویسا ہی بنا دیا۔ [١٤٧] یعنی ہر سال ایک یا دو دفعہ رسوا ہونے کے باوجود انہیں یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ہمیں اس رسوائی سے نجات کیسے مل سکتی ہے اور اس کے بجائے عزت کیسے نصیب ہو سکتی ہے نیز ہماری دین و دنیا کی بھلائی کس بات میں ہے۔ التوبہ
128 [١٤٨] یعنی وہ رسول تمہارے ہی قبیلہ سے ہے تم اس کی زندگی بھر کے حالات اور عادات و خصائل سے خوب واقف ہو اور اس کی دیانت، امانت اور صداقت کے شاہد ہو۔ اور وہ تمہاری ہی زبان میں گفتگو کرتا ہے جو تمہارے لیے باعث فخر اور رحمت ہے۔ [١٤٩] آپ کو مومنوں کی تکلیف کا شدید احساس تھا :۔ یعنی جب تمہیں کوئی سختی یا دکھ پہنچے تو اس کی جان پر بن جاتی ہے اور اسے اس کے دفعیہ کی فکر دامن گیر ہوجاتی ہے اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ آپ ہر ممکن طریقہ سے یہ چاہتے ہیں کہ امت پر آسانی ہو۔ آپ جو دین لائے وہ بھی سہل اور نرم ہے اور آپ اپنے عمال کو بھیجتے وقت بھی ہدایت فرمایا کرتے تھے کہ لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنا، سختی نہ کرنا۔ [١٥٠] سب سے زیادہ حرص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تھی کہ لوگ اخروی عذاب یعنی دوزخ سے بچ جائیں اور اس کا واحد راستہ یہی تھا کہ وہ آپ پر ایمان لا کر اللہ اور اس کے رسول کے فرمانبردار بن جائیں۔ یعنی رسول کے دل میں تمہاری خیر خواہی اور بھلائی کے لیے خاص تڑپ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جب لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لاتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخت بے قرار ہوجاتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس کیفیت کو قرآن میں متعدد بار دہرایا گیا ہے۔ [١٥١] اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین تھے تاہم مومنوں کے تو بہت زیادہ ہمدرد اور ان پر مہربان تھے۔ مومنین کے حق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صفات کو یکجا ذکر کیا گیا۔ ایک رؤف دوسرے رحیم۔ رحم یا مہربانی کا تعلق تو ہر طرح کے حالات میں یکساں ہے اور رؤف وہ شخص ہے جس کا دل کسی پر مصیبت یا سختی دیکھ کر فوراً پسیج جائے اور اسے ترس آنے لگے۔ التوبہ
129 [١٥٢] یعنی اگر یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت، حدر درجہ شفقت، خیر خواہی اور دلسوزی کی کچھ بھی قدر نہیں کرتے تو جانے دیجئے۔ اگر یہ سب لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے منہ پھیر لیں تو یقیناً اللہ تعالیٰ ہی آپ کی مدد کے لیے کافی ہے اور اسی پر بھروسہ کیجئے جو کائنات کی ایک ایک چیز حتیٰ کہ عرش عظیم کا بھی مالک ہے۔ التوبہ
0 یونس
1 [١] یہ سورۃ مکی ہے اور اس کے مخاطب وہ قریش مکہ ہیں جو اللہ کے متعلق بھی غلط قسم کا تصور رکھتے تھے اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کرنے کی بجائے اسلام کی تعلیم اور قرآنی آیات پر طرح طرح کے اعتراضات وارد کر رہے تھے اور عملاً مسلمانوں پر اتنی سختیاں اور مظالم ڈھا رہے تھے کہ ان کا عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا۔ یونس
2 [٢] لوگوں کی ہدایت کے لئے رسول انسان ہی ہوسکتا ہے :۔ ان کا پہلا اعتراض یہ تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ شخص جو ہم جیسا ہی ایک آدمی ہے۔ ہماری طرح ہی پوری زندگی بسر کرتا ہے، کھاتا ہے، پیتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ وہ اللہ کا رسول ہو، اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر دیا ہے کہ انسانوں کی رہنمائی کے لیے صرف انسان ہی رسول ہوسکتا ہے جو انہی کی زبان بولتا اور سمجھتا ہو اس کے علاوہ کوئی صورت ممکن ہی نہ تھی نہ کسی فرشتہ کو رسول بنایا جاسکتا تھا اور نہ کسی جن یا دوسری مخلوق کو اور اگر ایسا کیا بھی جاتا تو وہ لوگوں کے لیے حجت کیسے بن سکتا تھا ؟ [٣] اس رسول کو بھیجنے سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو ان کے برے انجام سے بروقت مطلع کر دے اور انہیں اللہ کے جملہ احکام پہنچا دے اور بتلا دے کہ عزت اور سرفرازی صرف ان لوگوں کے لیے ہی ہوسکتی ہے جو اس کی تعلیم کو تسلیم کرلیں لہٰذا لوگوں کو تو یہ سوچنا چاہیے کہ آخر وہ کیا بات ہے جس پر وہ تعجب کر رہے ہیں؟ [٤] آپ کو جادوگر کیوں کہا جاتا تھا ؟ کیونکہ آپ اللہ کا جو کلام پیش کر رہے تھے اس میں لطافت، شیرینی اور تاثیر اتنی زیادہ تھی کہ کافر بھی یہ کلام سن کر مسحور ہوجاتے تھے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا ارشاد ہے کہ ''اِنَّ مِنَ الْبَیَان لسحرًا'' (بخاری بحوالہ مشکوۃ۔ کتاب الآدب۔ باب البیان والشعر فصل اول) یعنی کوئی بیان ایسا ہوتا ہے جو جادو کا سا کام کرجاتا ہے۔ قرآن کی ایسی تاثیر کی وجہ سے قریش نے بلند آواز سے قرآن پڑھنے پر پابندی لگا رکھی تھی اور کہتے تھے کہ اس سے ہماری عورتیں اور بچے متأثر ہوتے ہیں۔ حالانکہ یہ پابندی لگانے والے قریشی سردار خود قرآن سن کر اس سے لطف اندوز ہوتے تھے اور اپنے باہمی معاہدہ کے باوجود چوری چھپے قرآن سن لیا کرتے تھے۔ ضما دازدی کا اسلام لانے کا قصہ :۔ ایک دفعہ یمن کے قبیلہ ازد کے ایک بااثرفرد ضماد ازدی مکہ تشریف لائے تو سرداران قریش نے انہیں متنبہ کیا کہ یہاں ایک شخص محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے جس کے کلام میں جادو ہے کہیں اس کے ہتھے نہ چڑھ جانا۔ ضماد ازدی خود دم جھاڑ کا کام کرتے تھے اس لیے انہیں یہ خیال آیا کہ اس شخص کی بات تو سننی چاہیے۔ میں بھی آخر ایک اچھا بھلا عقل مند آدمی ہوں اگر اس کی بات اچھی لگی تو قبول کرلوں گا ورنہ چھوڑدوں گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ اگر اسے کچھ آسیب ہوا تو اللہ میرے ہاتھوں اسے شفا دے۔ اس خیال سے میں ان کے پاس چلا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا کلام سنانے کی درخواست کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خطبہ مسنونہ ''الحمد للہ۔۔ عبدہ و رسولہ '' تک سنایا یہ خطبہ اگرچہ کوئی مستقل قرآنی آیت نہیں تاہم قرآنی کلمات کا ہی مجموعہ ہے جب ضماد نے یہ کلمات سنے تو جھوم اٹھا اور کہنے لگا پھر دہرائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دہرائے تو کہنے لگا’’ایک بار پھر دہرائیے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ جب یہ کلمات دہرائے تو کہنے لگا ’’میں نے کاہنوں کا کلام بھی سنا ہے اور جادوگروں کا بھی، شاعری کے اشعار بھی سنے ہیں۔ مگر ان کلمات جیسا پہلے کبھی کوئی کلام نہیں سنا بے شک یہ کلمات تو سمندر کی تہہ تک پہنچ گئے ہیں‘‘ پھر اس نے اپنا ہاتھ بڑھا کر بیعت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اور اپنی قوم کی طرف سے؟‘‘ ضماد کہنے لگے ’’ہاں میں اپنی قوم کی طرف سے بھی بیعت کرتا ہوں‘‘ (مسلم، کتاب الجمعہ، باب تخفیف الصلوۃ والخطبۃ) ضماد ازدی کا یہ بیان کہ ’’یہ کلمات تو سمندر کی تہہ تک پہنچ گئے ہیں‘‘ وہی بات ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کی پہلی آیت میں ﴿تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْحَکِیْمِ ﴾ فرمایا ہے یعنی یہ کتاب دانائی سے اس قدر معمور ہے۔ کہ اس کی ہر بات استدلال اور اس کے منطقی نتیجہ پر منتج ہوتی ہے اور جو فصاحت و بلاغت، لطافت و شیرینی ہے وہ اس کی زائد خوبیاں ہیں۔ پھر چونکہ یہی قرآن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیش فرما رہے تھے جو لوگوں کو مسحور بنا دیتا تھا لہٰذا کافر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جادوگر کہہ دیتے تھے اور اکثر انبیاء ورسل کو کفار کی جانب سے اسی لقب سے نوازا جاتا رہا ہے جن کو کوئی حسی معجزہ عطا کیا گیا تھا۔ حالانکہ ایک رسول اور ایک جادوگر کی زندگی میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ مثلاً: ١۔ نبی اور جادوگر میں فرق :۔ جادو ایک فن ہے جو سیکھنے سے حاصل ہوتا ہے ہر جادوگر کسی استاد کا شاگرد ہوتا ہے جبکہ معجزہ محض اللہ کی طرف سے عطا ہوتا ہے یہ سیکھنے سکھلانے کی چیز نہیں ہوتی۔ ٢۔ جادو ایک پیشہ ہے جسے مال و دولت کے حصول کے لیے اختیار کیا جاتا ہے اور اس معاملہ میں جادوگر انتہائی پست ذہنیت کے مالک ہوتے ہیں جیسا کہ فرعون نے جب جادوگروں کو بلایا تو ان کا پہلا سوال ہی یہ تھا کہ ’’ہمیں اس کا کچھ معاوضہ بھی ملے گا ؟‘‘ جبکہ نبی انسانیت کی بے لوث خدمت کرتا ہے وہ برملا لوگوں سے کہہ دیتا ہے کہ میں تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا۔ ٣۔ جادو بالعموم ایسی باتوں کے لیے کیا جاتا ہے جن سے کسی کو دکھ اور تکلیف پہنچانا مقصود ہو جبکہ معجزہ بندوں کی ہدایت کے لیے بطور نشان نبوت پیش کیا جاتا ہے اور اس سے مقصود سراسر بھلائی ہی بھلائی ہوتی ہے۔ ٤۔ جادوگر کے اخلاق و کردار دونوں مکروہ ہوتے ہیں اور لوگ اگر ان کی عزت کرتے ہیں تو ان کے شر سے بچنے کی خاطر کرتے ہیں جبکہ انبیاء کے اخلاق اور کردار نہایت پاکیزہ ہوتے ہیں اور اسی بنا پر ان کی عزت کی جاتی ہے اور ان کی گذشتہ زندگی کو کفار کے سامنے معیار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ایسے واضح تضاد کے باوجود مخالفین اگر انبیاء کو جادوگر کہتے رہے کہ تو اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی تھی کہ انہیں اتنا نمایاں فرق بھی نظر نہ آتا تھا بلکہ اس کی وجوہ محض ان کی ضد، ہٹ دھرمی، عناد، اپنے آباؤ اجداد کے مذہب کا تعصب اور اپنے مناصب اور سرداریوں کا ختم ہوجانا وغیرہ ہوتا تھا۔ یونس
3 [٥] عبادت کا مستحق صرف وہ ہے جو پروردگار ہو :۔ اس آیت سے ربوبیت کے دلائل اور ان کے نتائج کا آغاز ہو رہا ہے۔ پہلی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے ارض و سماوات کو چھ ایام (ادوار) میں پیدا کیا یعنی یہ کائنات از خود ہی وجود میں نہیں آگئی جیسا کہ دہریوں کا خیال ہے پھر عرش پر قرار پکڑا (تشریح کے لیے دیکھئے سورۃ اعراف کی آیت نمبر ٥٤) پھر وہ کائنات کو پیدا کرکے بیٹھ نہیں گیا جیسا کہ بعض گمراہ لوگوں کا خیال ہے۔ بلکہ اس کا پورا انتظام چلارہا ہے۔ شمس و قمر اور ستارے سب اسی کے حکم کے مطابق گردش کر رہے ہیں اس کا رعب و داب اور اس کا تصرف اتنا زیادہ ہے کہ کوئی اس کے سامنے کسی دوسرے کی سفارش بھی کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا الا یہ کہ وہ خود ہی کسی کو سفارش کی اجازت دے لہٰذا ان سب باتوں کا تقاضا یہ ہے کہ تم لوگ اسی بااختیار اور مقتدر ہستی کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو، کیونکہ وہی تمہارا پروردگار ہے۔ رب اور عبادت دونوں الفاظ بڑے وسیع معنی رکھتے ہیں جو سورۃ فاتحہ میں بتلائے جاچکے ہیں۔ یہاں اتنا اشارہ کافی ہے کہ اللہ کو فی الواقع رب تسلیم کرلینے کا نتیجہ ہی یہ نکلتا ہے کہ عبادت کی تمام اقسام صرف اسی کے لیے مختص کردی جائیں۔ یونس
4 [٦] اخروی زندگی کا مقصد :۔ پہلی دلیل اللہ کے مالک و مختار ہونے سے متعلق تھی اور یہ دوسری دلیل دوسری زندگی کے حشر و نشر سے متعلق ہے اور وہ دلیل یہ ہے کہ جس اللہ نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا ہے وہ تمہیں مرنے کے بعد دوبارہ بھی پیدا کرسکتا ہے بلکہ دوبارہ پیدا کرنا اس کے لیے پہلے کی نسبت زیادہ آسان ہے اور تمہیں دوبارہ پیدا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس دارفانی میں جس کسی نے ایمان لاکر اچھے کام کیے ہوں انہیں اس کا بدلہ دیا جائے اور جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہو انہیں اس کا بدلہ دیا جائے کیونکہ اس دنیا میں نہ تو انسان کے ایمان کا بدلہ دیا جانا ضروری ہے اور نہ ہی یہ دنیا کی زندگی اتنی طویل ہے کہ اس میں اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جاسکے لہٰذا دوسری زندگی کا قیام ناگزیر ہے۔ یونس
5 [٧] ضیاء اور نور کافرق :۔ ضیاء اور نور میں فرق یہ ہے کہ نور کا لفظ عام ہے اور ضیاء کا خاص۔ گویا ضیاء بھی نور ہی کی ایک قسم ہے نور میں روشنی اور چمک ہوتی ہے جبکہ ضیاء میں روشنی اور چمک کے علاوہ حرارت، تپش اور رنگ میں سرخی بھی ہوتی ہے۔ قرآن کریم نے عموماً ضیاء کا لفظ سورج کی روشنی کے لیے اور نور کا لفظ چاند کی روشنی کے لیے استعمال فرمایا ہے۔ [٨] چاند کی منزلیں :۔ بطلیموسی نظریہ ہیئت کے مطابق ہئیت دانوں نے آسمان پر چاند کی اٹھائیس منزلیں مقرر کر رکھی ہیں دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں یہی نظریہ ہیئت مقبول عام تھا اور درس گاہوں میں اسی نظریہ کی درس و تدریس ہوتی تھی۔ لہٰذا اس آیت میں اگر وہی ٢٨ منزلیں مراد لی جائیں تو بھی کوئی حرج نہیں تاہم اکثر علماء منازل قمر سے اشکال قمر مراد لیتے ہیں اور ان کی یہ دلیل ایک دوسری آیت ﴿وَالْقَمَرَ قَدَّرْنٰہُ مَنَازِلَ حَتّٰی عَادَ کَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْمِ ﴾ (36: 39)سے ماخوذ ہے جس کے آخر میں ہلال (نئے یاپہلی رات کے چاند) کا ذکر کیا گیا ہے۔ [٩] قمری تقویم اور اس کی خصوصیات :۔ اس سے معلوم ہوا کہ قمری تقویم ہی حقیقی تقویم ہے شمسی نہیں۔ لہٰذا جہاں بھی ایک ماہ یا اس سے زائد مدت کا شمار ہوگا شرعی نقطہ نگاہ سے وہ قمری تقویم کے مطابق ہی ہوگا جیسے ایام عدت و رضاعت، معاہدات میں مدت کی تعیین وغیرہ نیز احکام اسلام مثلاً حج، روزہ، حرمت والے مہینے، عیدین سب کا تعلق قمری تقویم سے ہے قمری تقویم کی نمایاں خصوصیات یہ ہیں کہ یہ سادہ اور فطری تقویم ہے جو انسانی دستبرد (مثلاً کبیسہ اور اس کی اقسام مختلف) سے پاک ہے اس میں مہینہ کے دنوں کی تعداد کو بدلا نہیں جاسکتا اس میں سال ہمیشہ بارہ ہی ماہ کا ہوگا اور اس میں تمام دنیا کے لوگوں کے لیے مساوات اور ہمہ گیری کا اصول کار فرما ہے، اور اس پر دنیوی رسم و رواج اور اغراض اثر انداز نہیں ہوسکتیں۔ (مزید تفصیلات کے لیے میری تصنیف ''الشمس والقمر بحسبان'' ملاحظہ فرمائیے) [١٠] سورج اور چاند کی کی گردش کے فوائد :۔ یعنی سورج اور چاند کی مقررہ حساب کے مطابق گردش بلامعنی نہیں بلکہ اس کے کئی فوائد ہیں۔ پہلا فائدہ یہ ہے کہ نمازوں کے اوقات اور کاروبار کے اوقات سورج کی گردش سے متعین کرسکتے ہو، اور جب مدت کا شمار صرف ایک ماہ سے کم ہوگا تو یہ مدت سورج سے متعین ہوسکتی ہے اور چاند سے بھی، مگر جب یہ مدت ایک ماہ سے زائد ہوگی تو اس کا شمار چاند کے حساب سے ہوگا جس کی تقسیم انسانی دستبرد سے محفوظ ہے اس طرح تم مدت کا صدیوں تک کا حساب رکھ سکتے ہو دوسرا فائدہ یہ ہے کہ سورج، چاند اور دیگر ستاروں کی گردش کا نظام اس قدر مربوط، منظم اور فرمان الٰہی کا پابند ہے کہ اس میں ایک لمحہ کی تقدیم و تاخیر ناممکن ہے۔ اور اس طرح تم آئندہ بھی صدیوں تک کے لیے تقویم تیار کرسکتے ہو اور تیسرا سب سے اہم اور حقیقی فائدہ یہ ہے کہ تم ان چیزوں کو پیدا کرنے والی، انہیں اپنی گردش میں اس طرح جکڑ بند کرنے والی ہستی کے تصرف اور اختیار پر غور کرو اور دیکھو جو ہستی اتنے اتنے عظیم الشان کارنامے سرانجام دے سکتی ہے وہ تمہیں دوبارہ پیدا نہیں کرسکتی، یہ گویا معاد پر دوسری دلیل ہوئی۔ یونس
6 [١١] چاند اور سورج کی گردش کے صرف وہی فوائد نہیں جو اوپر مذکور ہوئے بلکہ انہی کی گردش سے دن رات پیدا ہوتے ہیں اور انہی سے ہمیں دن اور رات کو روشنی حاصل ہوتی ہے انہی سے موسم بنتے ہیں فصلیں پکتی ہیں۔ چاند جن دنوں میں زائد النور ہوتا ہے، پھلوں میں رس تیزی سے بڑھتا ہے اور جب ناقص النور ہوتا ہے تو یہ رفتار سست پڑجاتی ہے وغیرہ وغیرہ، ان سب امور میں اللہ تعالیٰ کی معرفت کی بے شمار نشانیاں ہیں اور جو لوگ ان میں غور و فکر کرتے ہیں ان پر اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلالت پوری طرح واضح ہوجاتی ہے۔ لہٰذا وہ اللہ کی نافرمانی سے خوف کھانے لگتے ہیں۔ یونس
7 [١٢] روز آخرت پر ایمان نہ ہونے سے اخلاقی اقدار بدل جاتی ہیں :۔ یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کی مذکورہ آیات میں غور و فکر کی زحمت ہی گوارہ نہ کریں اور نہ اس کی ضرورت محسوس کریں بس دنیا کی زندگی پر ہی مست رہیں اور اپنی ساری زندگی اسی دنیا کے کاروبار میں منہمک ہو کر گزار دیں تو ایسے لوگوں کو بھلا اخروی زندگی کا یقین کیسے آئے اور چونکہ اللہ نے انسان کو قوت تمیز، عقل اور ارادہ و تصرف کا اختیار عطا کیا ہے لہٰذا جو لوگ عقل کو کام میں نہ لاتے ہوئے بس دنیا میں مگن اور دنیوی مفادات کے لیے ہی سب کچھ کرتے ہیں انہیں اس غفلت کا بدلہ جہنم کی صورت میں مل کر رہے گا۔ اس آیت سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوجاتی ہے کہ نیک اعمال صرف وہی لوگ بجالاسکتے ہیں، جو روز آخرت میں اللہ کے سامنے جواب دہی کے نظریہ پر یقین رکھتے ہوں گویا روز آخرت پر ایمان ہی وہ بنیاد ہے جس پر انسان کی صالح طرز زندگی کی عمارت اٹھائی جاسکتی ہے اگر یہ بنیاد کمزور ہو یا موجود ہی نہ ہو تو کوئی ایسی طاقت نہیں جو انسان کو بے راہروی سے محفوظ رکھ سکے۔ اندریں صورت انسان کے اچھے اخلاق یا اعمال کی پہچان صرف یہ رہ جاتی ہے کہ صرف وہ کام اچھا ہے جس کا فائدہ اس کی اپنی ذات کو، اس کی قوم کو یا معاشرہ کو اس دنیا میں پہنچ سکتا ہے غیروں کے لیے ان کے اخلاق و اعمال کی قدریں ہی بدل جاتی ہیں۔ یونس
8 یونس
9 [١٣] البتہ جن لوگوں نے اپنی خداداد عقل کو ٹھیک طرح استعمال کیا اس کی آیات میں غورو فکر کرکے اس کی معرفت حاصل کی۔ خالق کائنات اس کے بے پناہ اقتدار اور روز آخرت کا یقین کیا اور آخرت میں جوابدہی سے ڈرتے اور اللہ کے احکام کے مطابق نیک اعمال کرتے رہے انہیں ان کے اعمال کا بدلہ جنت کی صورت میں ملے گا جس کی نعمتیں لاتعداد، بے حساب اور لازوال ہوں گی۔ یونس
10 [١٤] یعنی جب اہل جنت کو جب کسی چیز کی خواہش یا طلب ہوگی تو وہ براہ راست اس خواہش کا مطالبہ نہیں کریں گے۔ بلکہ اس کی بجائے سبحانک اللھم یا سبحان اللہ کہیں گے تو فرشتے ان کی خواہش کے مطابق وہ چیز حاضر کردیں گے۔ دنیا میں بھی مہذب معاشرہ میں یہ دستور چلتا ہے کہ جب کوئی مہمان کسی چیز کو پسند کرکے صرف اس چیز کی تعریف کردے تو غیور میزبان کوشش کرتا ہے کہ وہ چیز اس مہمان کو ہدیہ کردے۔ [١٥] جیسا کہ اس دنیا میں بھی انہیں ایک دوسرے کو سلام کہنے کی عادت تھی اور ملاقات کے وقت سلام کا یہ طریقہ اللہ کے ہاں اتنا پسندیدہ ہے کہ فرشتے بھی اہل جنت کو سلام کہیں گے بلکہ اللہ تعالیٰ خود بھی انہیں سلام کہا کریں گے جیسا کہ سورۃ یٰسین کی آیت نمبر ٥٨ ﴿ سَلٰمٌ ۣ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ﴾میں مذکور ہے۔ [١٦] یعنی جب اہل جنت کی خواہش کی اشیاء انہیں مہیا کردی جائیں گی اور وہ ان سے استفادہ کرلیں گے یا آپس میں سلام و دعا کے بعد محو گفتگو ہوں گے ان کا آخری طرز عمل یا اختتام یہ ہوگا کہ وہ اللہ کی تسبیح و تقدیس میں مشغول ہوجائیں گے جس سے وہ دنیا میں مانوس تھے۔ یونس
11 [١٧] قریش مکہ پر قحط :۔ قریش مکہ کی مسلسل ایذا رسانیوں اور نافرمانیوں کے نتیجہ میں مکہ میں سخت قحط نمودار ہوا جس کی مصیبت سے اہل مکہ بلبلا اٹھے قریشی متکبرین کی اکڑی ہوئی گردنیں جھک گئیں۔ کھانے کو کچھ نہ ملتا تھا حتیٰ کہ یہ لوگ ہڈیاں اور چمڑہ تک کھانے پر مجبور ہوگئے اور آسمان کی طرف دیکھتے تو بھوک کی شدت اور جسمانی کمزوری کی وجہ سے انہیں دھواں ہی دھواں نظر آتا تھا اور ان دنوں وہ اللہ سے آہ زاریاں بھی کرتے تھے اور بت پرستی میں بھی خاصی کمی آگئی تھی جب اس قحط نے طول کھینچا تو ابو سفیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا! آپ قحط کے عذاب سے نجات کے لیے دعا کریں، آپ تو صلہ رحمی کا سبق دیتے ہیں جبکہ ہم بھوکوں مر رہے ہیں۔ اگر یہ عذاب دور ہوگیا تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی تو بارشیں ہونے لگیں اور قحط دور ہوگیا اور یہ دعائیں انسانوں کی بھلائی اور خوشحالی کے لیے تھیں۔ اچھی دعاجلدی قبول ہوجاتی ہے اور بری نہیں ہوتی :۔ دوسری طرف کافر لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے کہ اے اللہ اگر یہ قرآن برحق ہے اور تیری ہی طرف سے ہے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش برسادے (٨: ٣٢) یہ دعا انسانوں کی برائی اور تباہی کے لیے تھی جسے اللہ تعالیٰ نے قبول نہ کیا حتیٰ کہ بعض دفعہ رسول اللہ کی بددعا کے جواب میں فرما دیا۔ ﴿لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ ﴾ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنا دستور یہ بتلایا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے جب کوئی اچھی چیز طلب کی جائے تو وہ قبول فرماتا ہے اس طرح اگر وہ تم لوگوں کی بددعائیں بھی قبول کرنے لگتا تو اس وقت تک تم میں سے کوئی بھی زندہ نہ رہتا۔ اللہ کا دستور یہ ہے کہ برے کاموں کے بدلہ میں یا بددعاؤں کے نتیجہ میں فوراً عذاب نہیں نازل کیا کرتا بلکہ لوگوں کو سنبھلنے کا موقع دیتا رہتا ہے پھر اگر باربار کی تنبیہات کے باوجود بھی لوگ نافرمانیوں سے باز نہ آئیں تب ان پر عذاب آتا ہے۔ یونس
12 [١٨] شرکیہ کام خوشحالی میں ہی بھلے لگتے ہیں :۔ انسان کی ایک عادت تو یہ ہے کہ وہ دوسرے کے حق میں یا اپنے لیے کوئی بددعا کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کی یہ بددعا جلد از جلد قبول ہو جس کا لازمی نتیجہ سب لوگوں کی تباہی پر منتج ہوتا ہے اور اس کی دوسری عادت یہ ہے کہ جب کوئی مصیبت پڑتی ہے تو اللہ تعالیٰ کو سچے دل سے پکارنے لگتا ہے اور اللہ سے کئی طرح کے وعدے کرتا ہے لیکن جب اللہ وہ مصیبت دور کردیتا ہے تو سب کچھ بھول جاتا ہے نہ اسے اللہ یاد رہتا ہے اور نہ اس سے کیے ہوئے وعدے یاد رہتے ہیں پھر اسے اپنے خود ساختہ حاجت روا اور مشکل کشا یاد آنے لگتے ہیں جیسا کہ قریش مکہ نے بھی یہی کچھ کیا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے قحط دور ہوگیاتو ان لوگوں کی وہی سرکشیاں، بداعمالیاں، اپنے معبودوں سے لگاؤ اور دین برحق کے خلاف پہلی سی سرگرمیاں پھر شروع ہوگئیں اور مصیبت کے وقت جو دل اللہ کی طرف رجوع کرنے لگے تھے پھر اپنی سابقہ روش اور غفلتوں میں ڈوب گئے اور انہی کاموں میں انہیں لطف آنے لگا اور اچھے معلوم ہونے لگے۔ یونس
13 [١٩] قرن کے معنی ایک عہد کے لوگ ہیں اور یہاں قرون سے ایسی اقوام مراد ہیں جنہوں نے اپنے اپنے دور میں عروج حاصل کیا تھا اور اقوام عالم میں نامور شمار ہوئی تھیں اور ہلاک کرنے سے یہی مراد نہیں کہ ان پر کوئی ارضی و سماوی عذاب وغیرہ بھیج کر ان کی نسل تک کو تباہ کر ڈالا تھا بلکہ ہلاکت کی ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ جتنا اس قوم نے عروج حاصل کیا تھا اتنا ہی وہ زوال پذیر ہوجائے حتیٰ کہ اتنی کہ قعرمذلت میں گرے اقوام عالم میں وہ شمار کے قابل بھی نہ رہے یعنی ان کے گناہوں کی پاداش میں بتدریج اسے صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے۔ [٢٠] ظلم کا مفہوم :۔ ظلم کا مفہوم اتنا وسیع ہے کہ اس کا اطلاق ہر گناہ اور زیادتی کے کام پر ہوسکتا ہے چنانچہ سب سے بڑے گناہ شرک کو ظلم عظیم کہا گیا ہے اس آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ جب کوئی قوم سر نکالتی یا عروج حاصل کرتی ہے تو یہی وقت اس کے ظلم و زیادتی کا ہوتا ہے وہ دوسرے لوگوں کو اپنے سے کمتر سمجھ کر ان پر ہر جائز و ناجائز طریقے سے تسلط جمانا اپنا حق سمجھتی ہے اور اللہ کی یاد سے غافل ہو کر ہر گناہ کے کام کی مرتکب ہوتی ہے ایسے ہی اوقات میں اللہ تعالیٰ ان کے پاس اپنے رسول بھیجتا ہے مگر جو لوگ اپنی عیش و عشرت میں مست اور گناہوں کے کاموں میں مستغرق ہوں وہ بھلا رسولوں کی بات کیسے مانیں گے چنانچہ عموماً ایسی مجرم ضمیر قوموں نے رسولوں کا انکار ہی کیا اس طرح جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے حجت پوری ہوجانے کے بعد بھی انہوں نے اپنا طرز زندگی نہ بدلا تو اللہ نے ان کے جرائم کی پاداش میں انہیں ہلاک کر ڈالا۔ یونس
14 [٢١] یعنی اے اہل عرب! اب تمہاری باری آچکی ہے پہلی قوموں کی جگہ تم نے لے لی ہے اور جیسی زیادتیاں اور ظلم تم سے پہلے لوگ کرتے رہے وہ تم بھی کر رہے ہو ان کے پاس بھی ہم نے رسول بھیجے تھے اور تمہارے پاس بھی بھیجا ہے اور اب ہم یہ دیکھیں گے کہ تم سابقہ اقوام کے انجام سے عبرت حاصل کرتے ہو یا نہیں؟ اور رسول پر ایمان لاکر اپنی باغیانہ روش سے باز آتے ہو یا نہیں؟ یونس
15 [٢٢] کفار مکہ اپنے آپ کو ملت ابراہیمی کا پیروکار سمجھتے تھے وہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے تو پوری طرح قائل تھے مگر الوہیت کی صفات میں اپنے مختلف دیوی دیوتاؤں کو بھی شریک کرلیا تھا اور عقیدہ آخرت کے تو سخت منکر تھے۔ انکار آخرت کا عقیدہ کس دور میں ان کے مذہب میں شامل ہوا تھا یہ معلوم نہیں ہوسکا۔ [٢٣] کفار کی طرف سے قرآن میں تبدیلی کا مطالبہ :۔ گویامشرکین قریش یہ سمجھتے تھے کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے نازل شدہ نہیں بلکہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہی تصنیف کردہ ہے لہٰذا اپنے اس زعم باطل کو بنیاد بنا کر انہوں نے دو مطالبات پیش کردیئے ایک یہ کہ اس قرآن کے بجائے کوئی ایسا قرآن لاؤ جو ہمارے لیے بھی قابل قبول ہو اور دوسرا یہ کہ اگر سارا قرآن دوسری قسم کا نہیں لاسکتے تو کم از کم اس میں کچھ ترمیم و تنسیخ کردو جس کی بنا پر ہم تمہارے ساتھ صلح و سمجھوتہ کی راہ استوار کرسکیں۔ بالفاظ دیگر قرآن میں سے اس حصہ کو حذف کر دو جو بت پرستی وغیرہ سے متعلق ہے اس کے عوض ہماری طرف سے تم لوگوں کو عام اجازت ہوگی کہ جیسے اور جب چاہو اپنے اللہ کو پکارو اور اسی کی عبادت کرو وغیرہ وغیرہ۔ اور یہی وہ نظریہ ہے جسے آج کل بھی مختلف مذاہب کے درمیان صلح و آشتی کی بنیاد قرار دیا جارہا ہے ’’یعنی اپنی چھوڑو نہ اور دوسروں کو چھیڑو نہ‘‘ اور یہی وہ فاسد نظریہ ہے جس کے متعلق اقبال نے کہا تھا : باطل دوئی پرست ہے حق لاشریک ہے......... شرکت میانہ حق باطل نہ کر قبول [٢٤] اس جملہ میں کفار کے دونوں نظریات کی تردید کردی گئی یعنی یہ قرآن میری اپنی تصنیف نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر وحی کیا گیا ہے۔ لہٰذا یہ بات میرے اختیار سے باہر ہے کہ میں کوئی اور قرآن لاؤں نیز میں اس وحی کی پیروی کا پابند ہوں جو اس قرآن میں ہے لہٰذا مجھے ایسا کوئی اختیار نہیں کہ اس میں کچھ ترمیم و تنسیخ کرکے اسے اس قابل بناسکوں جس کی بنیاد پر ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی سمجھوتہ یا درمیانی راہ طے پاسکے۔ نیز اگر میں کوئی ایسا کام کر گزروں درآں حالیکہ میں ہی اس قرآن کی اتباع کا داعی ہوں تو پھر مجھ سے بڑھ کر مجرم کون ہوسکتا ہے؟ میں تو اس تصور اور پھر اس کے نتیجہ میں عذاب اخروی کے تصور سے ہی کانپ اٹھتا ہوں۔ یونس
16 [٢٥] آپ کی سابقہ زندگی سے قرآن کے منزل من اللہ ہونے کا ثبوت :۔ یہ کفار کے مطالبات کا دوسرا جواب ہے یعنی اللہ کی یہی مشیت تھی کہ اس نے مجھے اپنا پیغمبر بنا کر بھیجا تاکہ میں تمہیں اس کے پیغام سے آگاہ کر دوں اور اگر وہ نہ چاہتا تو نہ میں تمہیں قرآن سناتا اور نہ ہی تم اس کے مضامین پر آگاہ ہوتے اس میں میرے اپنے اختیار کی کوئی بات نہیں البتہ ایک بات کی طرف تمہاری توجہ ضرور دلاتا ہوں اور وہ ہے میری سابقہ زندگی جو میں نے تمہارے ہی درمیان گزاری ہے اور تم ان باتوں سے خوب واقف ہو کہ : ١۔ میں خود امی یا ان پڑھ ہوں تمام تر زندگی میں نے کسی کے سامنے زانوئے تلمذ طے نہیں کیا کہ کسی دوسرے سے سیکھ کر ایسا کلام پیش کردیتا جس کی مثل پیش کرنے سے تمہارے سب شعراء اور ادباء عاجز آچکے ہیں۔ ٢۔ نبوت سے پیشتر میں نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے یہ شبہ ہوسکے کہ ایسا کلام کہنا میری جبلّت میں موجود تھا جس میں ترقی کرتے کرتے میں ایسا کلام پیش کرنے کے قابل ہوگیا ہوں جیسا کہ شعراء اور ادباء کی زندگی میں ایسا ملکہ ابتداء سے ہی موجود ہوتا ہے۔ ٣۔ میں نے کبھی نہ کسی سے جھوٹ بولا نہ فریب کیا اور تم لوگ میری صداقت و راست بازی اور دیانت و امانت کے معترف بھی ہو اور کئی دفعہ اپنی زبانی ایسا اعتراف بھی کرچکے ہو۔ پھر ان حقائق کی موجودگی میں تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو کہ میں قرآن بنا لایا ہوں یا بناسکتا ہوں نیز یہ کہ آج تک میں نے کسی آدمی کے ذمہ کوئی جھوٹی بات منسوب بھی نہیں کی تو پھر اللہ کی نسبت ایسا جھوٹ کیسے منسوب کرتا ہوں کہ یہ قرآن اللہ نے میری طرف وحی کیا ہے۔ یونس
17 [٢٦] سب سے بڑھ کر ظالم کون ؟:۔ اللہ پر جھوٹ باندھنے سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخض ایک بات تو خود گھڑے یا تصنیف کرے پھر اسے اللہ کی طرف منسوب کردے جیسا کہ مشرکین مکہ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خیال مذکور ہوا ہے ایسا شخص بھی سب سے بڑھ کر ظالم ہے اور اگر نبی اپنے قول میں سچا ہے تو اللہ کی آیات کا منکر بھی ویسا ہی سب سے بڑھ کر ظالم ہوگا اور دونوں کے ظلم میں کوئی فرق نہیں۔ [٢٧] نظریہ کی تبدیلی سے فلاح کے معیار میں تبدیلی :۔ فلاح سے مراد کامیابی سے ہم کنار ہونا ہے لیکن نظریہ کی تبدیلی سے کامیابی کا معیار بھی بدل جاتا ہے مثلاً ایک دنیادار اور آخرت کے منکر کے نزدیک انتہائی کامیابی یہ ہے کہ اسے امن وچین اور عیش و عشرت سے زندگی بسر کرنا نصیب ہو اور لمبی عمر حاصل ہو جبکہ ایک دیندار اور آخرت پر یقین رکھنے والے کے نزدیک کامیابی کا معیار اخروی عذاب سے نجات ہے اگرچہ وہ بھی اللہ سے فلاح دارین کا طالب ہوتا ہے۔ چنانچہ اس دنیا میں بھی اسے وہ کچھ نصیب ہوتا ہے جو اس کے مقدر ہوتا ہے لیکن وہ اس دنیا کی مزعومہ کامیابی کو کامیابی کا معیار قرار نہیں دیتا اس آیت میں جس کامیابی کا ذکر ہے اس سے مراد اخروی فلاح ہے یعنی اللہ پر جھوٹ باندھنے یا اس کی آیات کو جھٹلانے والوں کو کبھی اخروی فلاح نصیب نہیں ہوگی۔ یونس
18 [٢٨] من دون اللہ کی سفارش؟ یعنی اللہ کے سوا کوئی ہستی ایسی نہیں جو کسی کی بگڑی کو بناسکے یا اسے کوئی فائدہ پہنچا سکے لہٰذا ایسا عقیدہ رکھ کر کسی دوسرے کی پرستش کرنا عبث ہے اور اس لحاظ سے کہ اس نے اللہ کی صفات میں دوسروں کو شریک کیا، بہت بڑا جرم بھی ہوتا ہے۔ اور جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ ان کی پرستش کیوں کرتے ہو؟ تو کہتے ہیں کہ بے شک بڑا خدا تو ایک ہی ہے مگر ان دیوی دیوتاؤں کی پرستش اور انہیں خوش رکھنا اس لیے ضروری ہے کہ جو تھوڑے بہت اختیار انہیں حاصل ہیں ان کے مطابق ہمارے کام درست کردیں اور جو نہیں ان کی سفارش کردیں اور اگر موت کے بعد دوسری زندگی کا سلسلہ ہوا تو وہاں بھی یہ ہماری سفارش کریں گے۔ [٢٩] عقیدہ سفارش مروجہ کی کوئی سند نہیں :۔ مشرکوں کا بتوں یا دیوی دیوتاؤں کے سامنے سجدہ ریز ہونے یا ان کی تعظیم بجا لانے کے متعلق عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دراصل ان پتھر کے مجسموں کی عبادت یا تعظیم نہیں کرتے بلکہ ان مجسموں کی ارواح کی تعظیم بجا لاتے ہیں جو ان کے عقیدہ کے مطابق ان مجسموں پر موجود رہتی ہیں اور یہ مجسمے بزرگوں کے بھی ہوتے ہیں۔ اللہ کی بیٹیوں اور بیٹوں کے بھی اور بعض فرشتوں کے بھی اور آج کا مسلمان یہی عقیدہ اپنے بزرگوں کی قبروں سے وابستہ کردیتا ہے اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے جواب میں فرمایا کہ بتوں کا شفیع ہونا اور کسی شفیع کا مستحق عبادت ہونا یہ دونوں دعوے غلط اور بے اصل ہیں اور یہ ناممکن ہے کہ کسی چیز کی اصل تو موجود ہو لیکن اللہ کو اس کا علم نہ ہو پھر کیا یہ مشرک اللہ کو ایسی خود تراشیدہ باتوں کی خبر دینا چاہتے ہیں جن کا زمین و آسمان میں کہیں وجود ہی نہیں پھر یہ کن سفارشیوں کی اللہ کو خبر دینے لگے ہیں۔ یونس
19 [٣٠] یعنی سیدنا آدم علیہ السلام کے بعد کافی مدت لوگ ایک ہی دین پر رہے پھر اختلاف کرکے فرقے بن گئے ان میں سے کچھ لوگ تو سیاروں کے انسانی زندگی پر اثرات تسلیم کرنے کے بعد ان کے پجاری بن گئے اور کچھ لوگوں نے اپنے بزرگوں کے مجسمے بنائے اور ان کی عبادت کرنے لگے اور توحید کی سیدھی راہ کو چھوڑ کر شرک کی راہوں پر جا پڑے۔ [٣١] پہلے سے طے شدہ کلمہ کیا ہے ؟ وہ طے شدہ بات یہ تھی کہ چونکہ یہ دنیا دارالعمل اور دارالامتحان ہے اس لیے کسی کو بھی اس کے جرم کی پاداش میں فوری طور پر سزا نہیں دی جائے گی اگر یہ بات پہلے سے مشیت الٰہی میں نہ ہوتی تو جب کچھ لوگ کوئی نیا فرقہ بناتے تو اللہ کا عذاب انہیں فوراً تباہ و برباد کردیتا اور اس طرح یہ دنیا کب کی ختم ہوچکی ہوتی اور اگر کچھ لوگ بچ جاتے اور وہ ایمان لے بھی آتے تو ایسے جبری ایمان کا کچھ فائدہ بھی نہ تھا۔ یونس
20 [٣٢] کفار مکہ کا حسی معجزہ کا مطالبہ :۔ معجزہ سے مراد ایسا حسی معجزہ ہے جس کا کفار مطالبہ کر رہے تھے۔ مثلاً یہ کہ فلاں پہاڑ سونے کا بن جائے یا اس سرزمین سے کوئی چشمہ پھوٹ نکلے یا ہمارے گزرے ہوئے آباؤ اجداد زندہ ہو کر ہمارے سامنے آکر ہمیں حقیقت حال سے مطلع کریں وغیرہ وغیرہ۔ ان کا مطالبہ کچھ اس لیے نہ تھا کہ جونہی وہ معجزہ دیکھ لیں گے تو فوراً ایمان لے آئیں گے بلکہ یہ محض ایمان نہ لانے کا بہانہ تھا ورنہ وہ کئی معجزات ایسے دیکھ چکے تھے جو ایمان لانے کے لیے بہت کافی تھے مثلاً ان میں سرفہرست قرآن بذات خود ایک ایسا معجزہ تھا۔ ان کافروں کے مطالبہ معجزہ کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہیے کہ جو نشانیاں آچکیں وہ تم نے بھی دیکھ لی ہیں اور میں نے بھی۔ اور جو ابھی آنے والی ہیں ان کا مجھے بھی کچھ علم نہیں۔ کیونکہ میں غیب کی باتیں نہیں جانتا لہٰذا تم بھی ایسی آنے والی نشانی کا انتظار کرو اور میں بھی کرتا ہوں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو اپنی کئی نشانیاں دکھلا دیں۔ مثلاً ان کی خواہشات اور پیہم رکاوٹوں کے علی الرغم اسلام کا بول بالا ہوا، مسلمانوں کو اکثر جنگوں میں تائید الٰہی میسر آتی رہی اور کافر ہر میدان میں پٹتے اور ذلیل و خوار ہوتے رہے تاآں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک جزیرہ عرب سے کفر و شرک کا مکمل طور پر خاتمہ ہوگیا۔ یونس
21 [٣٣] اس آیت میں اسی قحط کی طرف اشارہ ہے جس کا اسی سورۃ کی آیت نمبر ١١ میں ذکر آیا ہے۔ یہ قحط مکہ پر مسلسل سات سال تک مسلط رہا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے یہ مصیبت دور ہوئی اب سوال یہ ہے کہ اس قحط میں اور اس کے دور ہونے میں تمہارے لیے کوئی نشانی نہیں کہ تم اب کسی اور معجزہ کا مطالبہ کرنے لگے ہو اس قحط کے دوران تم نے دیکھ لیا کہ باوجود تمہاری فریادوں کے تمہارے معبود تمہاری اس مصیبت کو تم سے دور نہ کرسکے پھر جب اللہ نے تمہاری مصیبت دور کردی تو پھر تم اپنے وعدوں سے فرار کی راہ سوچنے لگے اور ایسے مکر اور بہانے بنانے شروع کردیے جس سے انہیں اپنے قدیم شرک پر جمے رہنے کے لیے تائید حاصل ہو اور توحید کے اقرار سے بچ سکو جو کچھ بھی چالیں تم چل رہے ہو اس کا وبال تمہیں پر پڑے گا اور تمہاری ان سب چالوں کا ریکارڈ ہمارے پاس موجود ہے۔ یونس
22 [٣٤] جب موت سامنے کھڑی نظر آئے تو صرف اللہ کو پکارنا :۔ اس آیت میں ایک بہت بڑی حقیقت بیان کی گئی ہے جو یہ ہے کہ جب انسان پر کوئی ایسا مشکل وقت آپڑتا ہے جب تمام اسباب اور سہارے منقطع ہوتے نظر آنے لگتے ہیں تو اس وقت اس کی نظر اسباب سے اٹھ کر ایک اللہ پر آلگتی ہے اور وہ خالصتاً اللہ کو پکارنے لگتا ہے پھر جب وہ سختی کا وقت گزر جاتا ہے تو پھر انسان اللہ کو بھول جاتا ہے اور اس کی نظر پھر اسباب کی طرف جمنے لگتی ہے۔ وہ اس بات سے نہیں ڈرتا کہ کہیں پھر اللہ تعالیٰ ویسی ہی تکلیف اور سختی کا ایک اور سبب نہ کھڑا کردے کیونکہ اسباب کی باگ ڈور بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ عکرمہ بن ابی جہل کا اسلام لانا :۔ مشرکین مکہ کی بھی ایسی ہی عادت تھی جس کا اس آیت میں ذکر آیا ہے چنانچہ فتح مکہ کے بعد ابو جہل کا بیٹا عکرمہ (جو ابھی تک مسلمان نہ ہوا تھا) مکہ سے بھاگ کھڑا ہوا تاکہ کہیں قیدی نہ بنالیا جائے۔ جدہ سے بحری سفر اختیار کیا راستہ میں کشتی کو طوفانی ہواؤں نے گھیر لیا حتیٰ کہ مسافروں کو اپنی موت سامنے نظر آنے لگی اس وقت ناخدا نے مسافروں سے کہا کہ اب صرف ایک اللہ کو پکارو یہاں تمہارے دوسرے معبود کچھ کام نہ دیں گے یہ بات سن کر عکرمہ کے ذہن میں یک دم ایک انقلاب سا آگیا وہ سوچنے لگا یہ تو وہی اللہ ہے جس کی طرف محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بلاتے ہیں اگر سمندر میں اس کے بغیر نجات نہیں مل سکتی تو خشکی میں بھی وہی کام آسکتا ہے۔ پھر اللہ سے عہد کیا کہ اگر تو نے اس مصیبت سے نجات دی تو فوراً واپس جاکر اسلام قبول کرلوں گا چنانچہ انہوں نے اپنا یہ عہد پورا کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ مگر آج کا نام نہاد مسلمان شرک میں مشرکین مکہ سے دو چار ہاتھ آگے نکل گیا ہے وہ کم از کم مصیبت کے وقت تو صرف اللہ کو پکارتے تھے مگر یہ لوگ اس وقت بھی اپنے مشکل کشاؤں کو پکارتے ہیں اور شرک سے باز نہیں آتے شیطان نے ان پر ایسا تسلط جما رکھا ہے کہ مرتے وقت بھی اللہ کو پکارنے کی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔ ایسے عقائد کی بنیاد دراصل تصور شیخ کا عقیدہ ہے صوفیاء نے سلوک کی منازل طے کرانے کے تین درجے مقرر کر رکھے ہیں۔۔ (١) فنا فی الشیخ، (٢) فنا فی الرسول، (٣) فنافی اللہ، فنا فی الشیخ کے درجے کی ابتداء تصور شیخ سے کرائی جاتی ہے۔ تصور شیخ سے مراد صرف پیر کی ’’غیر مشروط اطاعت‘‘ ہی نہیں ہوتی بلکہ اسے یہ ذہن نشین کرایا جاتا ہے کہ اس کا پیر ہر وقت اس کے حالات سے باخبر رہتا ہے اور بوقت ضرورت اس کی مدد کو پہنچ جاتا ہے اس عقیدہ کو مرید کے ذہن میں راسخ کرنے کے لیے اسے یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ ہر وقت پیر کی شکل کو اپنے ذہن میں رکھے یہی واہمہ اور مشق بسا اوقات ایک حقیقت بن کر سامنے آنے لگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو مسلمانوں کو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر مشروط اطاعت کا حکم دیا تھا لیکن صوفیاء کی اس قسم کی تعلیم مرید اور پیر کو عبد اور معبود کے مقام پر لاکھڑا کرتی ہے جس کا کسی نبی کو بھی حق نہ تھا۔ صوفیاء نے پیری کے فن کو خاص تکنیک دے کر عوام پر اس طرح مسلط کردیا ہے کہ کوئی آدمی اس وقت تک اللہ کے ہاں رسائی پا ہی نہیں سکتا جب تک باقاعدہ کسی سلسلہ طریقت میں داخل نہ ہو۔ پہلے تصور شیخ کی مشق کرے حتیٰ کہ فنا فی الشیخ ہوجائے یعنی اسے اپنی ذات کے لیے حاضر وناظر، افعال و کردار اور گفتار کو دیکھنے اور سننے والا سمجھنے لگے تب جاکر یہ منزل ختم ہوتی ہے اور عملاً ہوتا یہ ہے کہ مرید بے چارے تمام عمر فنا فی الشیخ کی منزل میں ہی غوطے کھاتے کھاتے ختم ہوجاتے ہیں یہ گویا اللہ اور اس کے رسول سے بیگانہ کرنے اور اپنا غلام بنانے کا کارگر اور کامیاب حربہ ہے چنانچہ مولانا اشرف علی تھانوی کا درج ذیل اقتباس اس حقیقت پر پوری طرح روشنی ڈالتا ہے۔ تصور فی الشیخ کا گمراہ کن عقیدہ :۔ ان (صوفیاء) کے طریق میں بعض ایسی چیزیں جو نصوص میں وارد نہیں، شرط طریق ہیں اور شرط بھی اعظم واہم۔ چنانچہ تصور شیخ باوجودیکہ کسی نص میں وارد نہیں اور پھر خطرناک بھی ہے اور بعض کو اس میں غلو بھی ہوگیا ہے اور اسی خطرہ و غلو کے سبب مولانا شہیداس کو منع فرماتے تھے مگر باوجود ان باتوں کے اکابر نقشبندیہ اس کو مقصود فرماتے ہیں چنانچہ انوار العارفین ''ذکر تصور شیخ'' میں کنز الہدایہ بحوالہ مکتوبات مجدد صاحب کا ارشاد نقل ہے کہ ’’ذکر تنہا بے رابطہ و بے فنا فی الشیخ موصل نیست۔ ذکر ہرچند از اسباب وصول است لیکن غالباً مشروط برابطہ محبت و فنا فی الشیخ است‘‘ (تجدید تصوف و سلوک ص ٤٤٣)۔ (ترجمہ) فنا فی الشیخ ہونے کے بغیر تنہا ذکر سے اللہ تک رسائی نہیں ہوسکتی اگرچہ ذکر بھی رسائی کا ایک سبب ہے لیکن اس کی غالب شرط (پیر سے) محبت کا تعلق اور اس میں فنا ہونا ہے۔ اقتباس بالا سے مندرجہ ذیل نتائج سامنے آتے ہیں : ١۔ تصور شیخ کے عقیدہ کا قرآن و سنت میں کہیں سراغ نہیں ملتا۔ ٢۔ یہ عقیدہ انتہائی خطرناک اور گمراہ کن ہے۔ ٣۔ ان دونوں باتوں کے باوجود صوفیاء اور خصوصاً نقشبندیوں نے اللہ تک رسائی کی سب سے بڑی اور اہم شرط قرار دیا ہے : چنانچہ مولانا روم اسی فلسفہ تصور ثلاثہ کی اہمیت یوں بیان فرما رہے ہیں : پیر کامل صورت ظل الٰہ یعنی دید پیر دید کبریا برکہ پیر و ذات اور ایک نہ دید نے مرید نے مرید نے مرید (ترجمہ) ’’پیر کامل اللہ کے سایہ کی صورت ہوتا ہے یعنی پیر کو دیکھنا حقیقتاً اللہ ہی کو دیکھنا ہے جس نے پیر اور اللہ کی ذات کو ایک نہ دیکھا وہ ہرگز مرید نہیں ہے، مرید نہیں ہے، مرید نہیں ہے‘‘ اسی عقیدہ کا یہ اثر ہے کہ معین الدین اجمیری نے فرمایا کہ ’’اگر روز قیامت اللہ تعالیٰ کا جمال میرے پیر کی صورت میں ہوگا تو دیکھوں گا ورنہ اس کی طرف منہ بھی نہ کروں گا۔‘‘ (ریاض السالکین، ص ٢٣١) اور بابا فرید گنج شکر نے فرمایا: ’’اگر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ میرے پیر کی صورت کے سوا کسی دوسری صورت میں اپنا جمال یا کمال دکھائے گا تو میں اس کی طرف آنکھ بھی نہ کھولوں گا‘‘ (اقتباس الانوار، ص ٢٩٠، مطبوعہ مجتبائی دہلی بحوالہ ایضاً) اور شیخ محمد صادق نے فرمایا : ’’اللہ کا دیدار بھی اگر پیر دستگیر کی صورت میں ہوا تو دیکھوں گا ورنہ اسے بالکل نہ چاہوں گا‘‘ (ریاض السالکین، ص ٢٣١) دیکھا آپ نے تصور شیخ کا یہ فارمولا کیسے شاندار نتائج پیدا کرکے مرید کو بس شیخ ہی کی جھولی میں ڈال دیتا ہے یہ عقیدہ جہاں ایک طرف پیر کو خدائی تقدس عطا کرتا ہے تو دوسری طرف مرید کو اندھی عقیدت میں مبتلا کردیتا ہے اس عقیدہ کو مرید کے ذہن میں راسخ کرنے کے لیے جس طرح کے افسانے تراشے جاتے ہیں ان کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے جس کے راوی امام اہل سنت احمد رضا خاں مجدد مائۃً حاضر ہیں اور غالباً ’’حدیقہ ندیہ‘‘ کے حوالہ سے روایت کرتے ہیں کہ جنیدبغدادی اور تصورشیخ :۔ ’’ایک مرتبہ سیدی جنید بغدادی دجلہ پر تشریف لائے اور یا اللہ کہتے ہوئے اس پر زمین کی طرح چلنا شروع کردیا بعد میں ایک شخص آیا اسے بھی پار جانے کی ضرورت تھی کوئی کشتی اس وقت موجود نہ تھی جب اس نے حضرت کو جاتے دیکھا عرض کیا میں کیسے آؤں؟ فرمایا یا جنید یا جنید کہتا چلا آ۔ اس نے یہی کہا اور دریا پر زمین کی طرح چلنے لگا جب بیچ دریا میں پہنچا تو شیطان لعین نے دل میں وسوسہ ڈالا کہ حضرت خود تو یا اللہ کہیں اور مجھ سے یا جنید کہلواتے ہیں۔ میں بھی یا اللہ کیوں نہ کہوں؟ اس نے یا اللہ کہا اور ساتھ ہی غوطہ کھایا پکارا یا حضرت! میں چلا۔ فرمایا وہی کہہ ’’یاجنید یا جنید‘‘ جب کہا دریا سے پار ہوا۔ عرض کیا حضرت یہ کیا بات تھی؟ آپ اللہ کہیں تو پار ہوں اور میں کہوں تو غوطہ کھاؤں؟ فرمایا : اے نادان! ابھی تو جنید تک تو پہنچا نہیں اللہ تک رسائی کی ہوس ہے۔ اللہ اکبر‘‘ (ملفوظات مجدد مائۃً حاضر اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی) اب دیکھئے اس واقعہ کے محض ایک افسانہ ہونے کی نقلی دلیل تو یہ ہے کہ آپ اسے غالباً ''حدیقہ ندیہ'' کے حوالہ سے پیش فرما رہے ہیں۔ یعنی محض عقائد کا سہارا لے کر ان تمام اصول اسناد کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے۔ جو علمائے اسلام کی نظر میں علم و حکمت کی روح سمجھے جاتے رہے ہیں اور عقلی دلیل یہ ہے کہ میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اگر آج تمام مشائخ اور پیران کرام مل کر بھی ایسا کرشمہ دکھا دیں ان میں سے کوئی ایک دریا پر زمین کی طرف چل کر دکھا دے اور اس کا مرید اللہ کہنے سے غوطہ کھانے لگے تو میں اور میرا کنبہ سب اس کے مرید ہوجائیں گے اور اس افسانہ تراش نے کمال یہ دکھایا ہے کہ اس ایک واقعہ سے قرآن کی بے شمار آیات کا رد پیش فرما دیا ہے۔ مثلاً: ١۔ ہم ہر نماز میں اور اس کی ہر رکعت میں ﴿اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ﴾ پڑھتے ہیں یعنی صرف تجھ اکیلے سے استعانت چاہتے ہیں لیکن یہ واقعہ اللہ کو نظر انداز کرکے پیر سے استعانت کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ﴾ لیکن یہ واقعہ بتلاتا ہے کہ مشکل وقت میں اللہ کو پکارنے سے سخت نقصان ہوتا ہے اس کی بجائے اپنے پیر کو بلایا جائے تو بہت ہی فائدہ ہوسکتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ : ﴿وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ﴾ (2: 186)لیکن یہ واقعہ بتلاتا ہے کہ قریب پیر ہے اللہ تو بہت دور ہے لہٰذا اگر اللہ تعالیٰ تک رسائی چاہتے ہو تو اپنے پیر کا ذکر کرو۔ اس واقعہ نے شرک کی بہت سی راہیں کھول دی ہیں اور ندا، لغیر اللہ، استمداد، توسل، استعانت اور تصور شیخ جیسے اہم مسائل کو انتہائی ضروری قرار دیا ہے وہاں افسانہ تراش کا کمال یہ ہے کہ ایسا لاجواب افسانہ گھڑا کہ مرید بے چارے کو تسلیم کرنا پڑا کہ میرا اللہ کو پکارنا واقعی ایک شیطانی وسوسہ تھا۔ اب غالباً آپ سمجھ چکے ہوں گے کہ مشرکین مکہ جب سمندر میں گھر جاتے تھے اور موت سامنے کھڑی نظر آنے لگتی تھی تو اس وقت صرف اکیلے اللہ کو کیوں پکارنے لگتے تھے اور ہمارے دور کے مشرک اس وقت بھی اپنے پیر کو کیوں پکارتے ہیں؟ یونس
23 یونس
24 [٣٥] ﴿فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ ﴾ کے دو مفہوم ہیں ایک یہ کہ بارش کے پانی سے پیداوار اس کثرت سے پیدا ہوئی کہ آپس میں ایک دوسرے سے گتھ گئی ایک پودے کی شاخیں دوسرے میں جاگھسیں اور دوسرے کی پہلے میں۔ اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ پانی سے جو پیداوار یا نباتات حاصل ہوئی وہ انسانوں اور چوپایوں کے لئے ملی جلی یا مشترکہ تھی جیسے گندم کے دانے تو انسان کی خوراک ہیں اور بھوسہ چوپایوں کی۔ اور نباتات کی اکثر اقسام میں یہی صورت حال ہوتی ہے۔ [٣٦] دنیا کی زندگی کی کھیتی سے مثال :۔ اس آیت میں دنیا کی بے ثباتی کی مثال بیان کی گئی ہے جس طرح نباتات پر جوبن آتا ہے پھلوں اور پھولوں کے مختلف رنگ ہوتے ہیں جو زمین کے اس قطعہ کو خوب زینت بخشتے ہیں اسی طرح انسانوں پر بھی جوانی آتی ہے جب اسے دنیا کی ہر چیز حسین نظر آنے لگتی ہے اور وہ دنیا کی رعنائیوں میں پوری طرح اپنا دل لگا لیتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اب کچھ دن مزے اور عیش و آرام سے گزاریں گے اور زندگی کا لطف اٹھائیں گے کہ اتنے میں اسے اللہ کا حکم یعنی موت اچانک آلیتی ہے اور جس طرح کھیتی پر کوئی ناگہانی آفت آنے یا اس کے کٹ جانے کے بعد چند دنوں تک اس کا وجود ہی ختم ہوجاتا ہے اسی طرح مرجانے والا انسان بھی تھوڑی مدت بعد لوگوں کے دلوں سے محو ہوجاتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے جب اس کا نام ونشان تک دنیا سے مٹ جاتا ہے اور اس دنیا میں آباد ہو کر رخصت ہونے والے ننانوے فی صد لوگوں کا یہی حال ہوتا ہے۔ یونس
25 [٣٧] دنیا کی اس فانی زندگی کے مقابلہ میں آخرت کی ایک پائیدار اور لازوال زندگی بھی ہے جس کی زینت اور رعنائیاں اس دنیا سے بدرجہا زیادہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمہیں اسی سلامتی کے گھر کی طرف بلارہا ہے جہاں کسی ارضی یا سماوی آفت کے آپڑنے کا کوئی اندیشہ نہیں نہ ہی وہاں موت کا خطرہ ہے اور وہاں تک پہنچنے کا راستہ بھی بتلا رہا ہے۔ لہٰذا دنیا کی پرفریب اور فانی زندگی پر مفتون نہ ہوجاؤ بلکہ اللہ کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اس ہر آفت سے محفوظ گھر کا قصد کرو جہاں فرشتے بھی تمہارے لیے سلامتی کی دعائیں کریں گے اور خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی تحفہ سلام پہنچے گا۔ یونس
26 [٣٨] دیدار الہٰی کی لذت :۔ سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب جنت والے جنت میں داخل ہوجائیں گے تو ایک پکارنے والا ندا دے گا کہ تم سے اللہ نے ایک اور بھی وعدہ کر رکھا ہے جسے وہ پورا کرنے والا ہے۔ جنتی کہیں گے کیا ہمارے چہرے روشن نہیں ہوئے یا اس نے ہمیں دوزخ سے نجات نہیں دی اور جنت میں داخل نہیں کردیا ؟ (تو اب کون سی کمی رہ گئی ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تب اللہ تعالیٰ حجاب کو ہٹا دے گا اللہ کی قسم! جنتیوں کو جو کچھ بھی ملا ہوگا ان سب چیزوں سے زیادہ محبوب انہیں اللہ کی طرف نظر (دیدار) کرنا ہوگا‘‘ (ترمذی، کتاب التفسیر) اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ نیکوکاروں کو صرف ان کے اعمال کا اچھا بدلہ ہی نہ ملے گا بلکہ اللہ کے فضل و کرم سے اس سے بہت زیادہ ملے گا اور یہ دس گنا بھی ہوسکتا ہے سات سو گنا بھی بلکہ اس سے زیادہ بھی جبکہ بدکاروں کو اتنا ہی بدلہ دیا جائے جتنی برائی انہوں نے کی ہوگی۔ [٣٩] یعنی قیامت کے اس طویل دن میں جس کی مدت اس دنیا کے حساب سے پچاس ہزار برس کے برابر ہے کسی وقت بھی نیک اعمال کرنے والوں کے چہروں پر ایسی سیاہی اور ذلت نہیں چھائے گی جو کفار و فجار کے چہروں پر چھائی ہوگی بلکہ ان کے چہرے تر و تازہ، بارونق اور نورانی ہوں گے۔ یونس
27 [٤٠] اس دنیا میں بھی جب کوئی مجرم پکڑا جاتا ہے یا اپنی رہائی سے مایوس ہوجاتا ہے تو اس کے چہرے پر سیاہی اور ذلت چھا جاتی ہے اور یہ لوگ چونکہ عادی مجرم ہوں گے پھر ان کے بچاؤ کی کوئی صورت نہ ہوگی۔ لہٰذا ان کے چہروں پر اس قدر تاریکی چھا رہی ہوگی جیسے اندھیری رات کا کچھ حصہ ان کے چہروں پر جما دیا گیا ہے۔ یونس
28 [٤١] زَیّل کے معنی کسی چیز کو اس کے اصل مقام سے ہٹا کر اس طرح الگ کردینا ہے جس سے وہ دوسروں سے ممیز ہوسکے یعنی میدان محشر میں پہلے تو ہم مشرکوں کو اور ان کے معبودوں کو کہیں گے کہ تم اپنی جگہ کھڑے رہو پھر عبادت کرنے والوں کو الگ اور معبودوں کو الگ ایک دوسرے کے آمنے سامنے لا کھڑا کریں گے تاکہ ایک دوسرے کو روبرو ہو کر سوال و جواب کرسکیں۔ [٤٢] ان میں وہ سب اشیاء شامل ہیں جن کی دنیا میں پوجا کی جاتی رہی ہے اس میں شجر و حجر بھی شامل ہیں۔ مویشی بھی، جیسے گائے بیل، فرشتے بھی، انبیاء بھی جیسے عیسیٰ علیہ السلام اور عزیر علیہ السلام اور بزرگان دین اور مشائخ اور پیران طریقت بھی۔ دیوی دیوتا اور ان کے مجسمے بھی۔ غرض جس جس چیز کی بھی کسی نہ کسی رنگ میں عبادت کی جاتی رہی ہے سب کو وہاں اکٹھا کیا جائے گا۔ [٤٣] اہل قبور پکارنے والوں کی پکار نہیں سنتے :۔ معبودوں میں کچھ ایسی اشیاء ہیں جو بے جان ہیں جیسے پتھر کے بت اور کچھ بے زبان جیسے سورج، چاند ستارے، سانپ اور بیل وغیرہ ان سب چیزوں کو اللہ تعالیٰ قوت گویائی عطا کر دے گا اور وہ اپنے عبادت گزاروں کے سامنے ان کی عبادت کا انکار کردیں گے کیونکہ ان میں نہ جان ہوتی ہے نہ عقل۔ وہ کیا جانیں کہ عبادت کیا ہے اور شرک کیا ؟ لہٰذا وہ مکمل لاعلمی ظاہر کرنے میں فی الواقع حق بجانب ہوں گے رہے وہ معبود جو ذوی العقول سے تعلق رکھتے ہیں مثلاً فرشتے، انبیاء اور اولیاء جن کی غیر موجودگی میں ان کی عبادت کی جاتی رہی تھی ان کے انکار سے سماع موتیٰ کا ایک اہم مسئلہ حل ہوجاتا ہے جو اکثر مقامات پر شرک کی بنیاد بنا ہوا ہے؟ قبر پرستی کا رواج محض اس غلط عقیدہ کی وجہ سے پڑگیا ہے کہ مردے سنتے ہیں اس آیت اور بعض دوسری آیات میں واضح طور پر اس کی تردید کی گئی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھئے میری تصنیف '' روح عذاب قبر اور سماع موتیٰ'' یونس
29 یونس
30 [٤٤] مشرکوں کے اپنے مشکل کشاؤں کے متعلق عقائد اور بے جا توقعات :۔ مشرک مندرجہ ذیل غلط عقائد کی بنا پر اپنے معبودوں کی پرستش کرتے ہیں : یہ معبود ہمارے حاجت روا اور مشکل کشا ہیں ہم جہاں کہیں سے ان کو پکاریں وہ ہماری بات کو سنتے اور فریاد کو پہنچتے ہیں۔ اللہ ہماری بات نہیں سنتا۔ ہمارے یہ معبود درمیان میں واسطہ کا کام دیتے ہیں۔ ہمارے معبود ہمیں اللہ سے قریب کرنے کا ذریعہ ہیں اگر قیامت ہوئی تو یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہوں گے اور ہمیں اخروی عذاب سے بچا لیں گے حتیٰ کہ بعض لوگوں کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ فلاں پیر کی بیعت ہوجانا ہی اخروی عذاب سے نجات کی ضمانت ہے جب قیامت کے دن حقیقت حال مشرکوں کے سامنے آجائے گی تو ایسی سب باتیں بھول جائیں گی اور انہیں خود بھی یاد نہ رہے گا کہ وہ کا ہے کو ان معبودوں کی عبادت کرتے رہے تھے؟ یونس
31 [٤٥] مشرکین مکہ ان سب باتوں کے قائل تھے جو اس آیت میں بیان کی گئی ہیں اور جن سے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت عامہ ثابت ہوتی ہے اور اس کے ہمہ گیر اختیار و اقتدار کا پتہ چلتا ہے چنانچہ ان کے اسی عقیدہ کو بنیاد بنا کر ان سے پوچھا جا رہا ہے کہ جب تم یہ سب باتیں مانتے ہو کہ خالق کائنات، مالک الملک، رب مطلق اور علی الاطلاق متصرف صرف اللہ تعالیٰ ہے تو پھر ڈرنا بھی اس سے چاہیے اور عبادت بھی اسی کی کرنی چاہیے گویا توحید فی الربوبیت کی بنیاد پر شرک فی الالوہیت کی تردید پر دلیل پیش کی جارہی ہے۔ یونس
32 [٤٦] یعنی توحید فی الربوبیت کے متعلق تم لوگوں کا جو عقیدہ ہے وہ عین حقیقت ہے اور درست اور سچ ہے اب اس حقیقت کے علاوہ جو کچھ بھی ہوگا وہ باطل ہی ہوسکتا ہے جس کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ توحید فی الربوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ عبادت بھی صرف اسی کی کی جائے اور یہی بات حق اور درست ہے اور اگر تم اللہ کے علاوہ دوسروں کی بھی عبادت کرو گے یا انہیں پکارو گے تو پھر یہ سراسر گمراہی ہی ہوگی۔ [٤٧] اس سوال میں مجہول کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی گمراہ کرنے والا دوسرا شخص یا گروہ موجود ہے جس کا کام ہی یہ ہے کہ لوگوں کو درست انداز فکر سے ہٹا کر غلط رخ پر ڈال دے لہٰذا یہ سوال کیا گیا ہے کہ تم خود اندھے بن کر غلط قسم کے رہنماؤں کے پیچھے کیوں چل پڑتے ہو خود اپنی عقل سے کیوں کام نہیں لیتے؟ گویا گمراہ کرنے والے شخص یا اشخاص کو پردہ میں رکھا گیا ہے تاکہ ان میں اشتعال نہ پیدا ہو اور ہر ایک کو ٹھنڈے دل سے غور کرنے کا موقع میسر آئے۔ یونس
33 [٤٨] یعنی ایسے لوگ جو حقائق کے مقابلہ پر محض ضد اور تعصب سے کام لے رہے ہوں ان کے متعلق اللہ کا یہی فیصلہ ہوا کرتا ہے کہ جو لوگ ضد اور ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہیں وہ کبھی راہ راست پر نہیں آسکتے اور نہ ہی انہیں ایمان نصیب ہوتا ہے۔ یونس
34 [٤٩] مشرکین مکہ یہ تو تسلیم کرتے تھے کہ اللہ ہی نے انہیں اور ساری کائنات کو پیدا کیا ہے اور اس کام میں ان کے شریکوں کا کوئی حصہ نہیں لیکن وہ معاد یا اخروی زندگی کے قائل نہیں تھے اس آیت میں دو باتوں پر ان مشرکوں کو مطلع کیا گیا ہے۔ ایک یہ کہ جو ہستی پہلی بار پیدا کرسکتی ہے وہ دوسری بار بھی پیدا کرسکتی ہے بلکہ دوبارہ پیدا کرنا اس کے لیے سہل تر ہے اور دوسری یہ کہ جب پہلی بار کی تخلیق میں تمہارے معبودوں کا کچھ حصہ نہیں تو دوسری تخلیق میں بھی وہ حصہ دار نہیں ہوسکتے۔ اب تخلیق اول کے متعلق سوال کا جواب قریش مکہ کی زبان سے بیان فرمایا گیا کیونکہ وہ اس بات کے قائل تھے اور تخلیق ثانی یا معاد کے وہ چونکہ قائل نہیں تھے لہٰذا اس کا جواب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے دلوایا گیا۔ یونس
35 [٥٠] ہدایت انسان کی اہم ضرورت ہے اور وہ صرف اللہ ہی دے سکتا ہے :۔ ہدایت حق سے مراد زندگی گزارنے کا وہ صحیح راستہ ہے جس سے انسان کو ہر شعبہ حیات مثلاً تہذیب، اخلاق، تمدن و معاشرت، حکومت و سیاست، معرفت و روحانیت، معیشت و کسب حلال وغیرہ کے متعلق ایسے اصول بتلا دیئے جائیں جن میں فرد اور معاشرہ میں سے ہر ایک کے حقوق کی پوری پوری نگہداشت ملحوظ رکھی گئی ہو اور ظاہر ہے کہ ایسی ہدایت، بے جان اور بے سمجھ معبود تو کجا سمجھ دار معبود بھی نہیں دے سکتے۔ ایسی جامع ہدایات کے لیے جس قدر وسیع علم و حکمت کی ضرورت ہے وہ اللہ کے علاوہ کسی کے پاس موجود نہیں اور اگر کوئی انسان یا سربراہ مملکت یا کوئی ادارہ ایسی ہدایات دینا بھی چاہے تو اس پر اس کی اپنی قوم اور اپنے ماحول کے تاثرات و تعصبات کی چھاپ ضرور موجود ہوگی بس اللہ ہی کی ایک ایسی ذات ہے جس کی نظروں میں سب مخلوق اور سارے انسان یکساں ہیں لہٰذا وہی ایسی ہدایات اور احکام دینے کا حقدار ہے۔ رہے معبودان باطل اور اللہ کے سوا جتنے بھی معبود ہیں وہ سب باطل ہی ہوتے ہیں تو ان کے متعلق مشرکین کو بھی یہ اعتراف ہے کہ وہ ایسی ہدایت نہیں دے سکتے۔ اور کسی کو ہدایت دینا تو درکنار ان معبودوں میں سے ذوی العقول بھی خود ہدایت کے محتاج ہیں پھر کیا ایسے اللہ کی اتباع کرنا چاہیے جو فی الواقع ہدایت حق دینے کا حق دار ہے یا ان کی جو خود بھی اپنے لیے ہدایت کی راہ نہیں پاسکتے؟ مندرجہ بالا سوالات سے یہ معلوم ہوا کہ انسان کی ضروریات دو طرح کی ہیں۔ ایک یہ کہ اس کا معبود ایسا ہونا چاہیے جو اس کا ملجا و ماویٰ ہو، دعاؤں کو سننے والا، انہیں قبول کرنے والا، حاجات کو پورا کرنے والا، مشکلات سے نجات دینے والا ہو اور اس پر پوری طرح بھروسہ کیا جاسکے اوپر کے سوالات نے یہ فیصلہ کردیا کہ اللہ کے سوا ایسی کوئی ذات نہیں ہے۔ انسان کی دوسری اہم ضرورت یہ ہے کہ اس کا کوئی ایسا رہنما ہونا چاہیے جو دنیا میں زندگی بسر کرنے کے صحیح اصول بتائے تاکہ انسانیت تجربوں اور ناکامیوں سے ہی دو چار نہ ہوتی رہے۔ اس آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ ایسی ذات بھی اللہ کے سوا دوسری کوئی نہیں ہوسکتی لہٰذا اللہ کے سوا کوئی بھی معبود نہ اس قابل ہے کہ اس کی پرستش کی جائے اور نہ اس قابل ہے کہ اس کی اتباع کی جائے ان حقائق کی وضاحت کے بعد صرف ضد اور ہٹ دھرمی ہی رہ جاتی ہے جس کی بنا پر انسان مشرکانہ مذاہب اور لادینی اصول تمدن و اخلاق و سیاست سے چمٹا رہے۔ یونس
36 [٥١] انسان کے وضع کردہ قوانین حیات کی بنیاد ظن پر ہوتی ہے :۔ یعنی جن لوگوں نے مشرکانہ عقائد اور مذاہب کی داغ بیل ڈالی یا جن لوگوں نے انسانوں کے لیے قوانین حیات وضع کیے ان میں سے کسی بھی چیز کی بنیاد علم پر نہیں بلکہ محض ظن و اوہام پر ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے نتائج غلط نکلتے رہتے ہیں اور انسان کو آئے دن ان میں ترامیم اور تبدیلیوں کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے اور جو لوگ ایسے مذہبی یا دنیوی رہنماؤں کی پیروی کرتے ہیں وہ بھی گمان و قیاس ہی سے کرتے ہیں، کہ جب بڑے بڑے لوگ یہ بات کہتے ہیں یا ہمارے آباؤ و اجداد ایسا کہتے یا کرتے چلے آئے ہیں اور لوگوں کی اکثریت ان کی پیروی کر رہی ہے تو یہ باتیں ضرور ٹھیک ہی ہوں گی ان کے پاس بھی کوئی علمی بنیاد موجود نہیں ہوتی پھر بھلا اٹکل کے تیر حق و صداقت کی بحث میں کیا کام دے سکتے ہیں؟ یاد رہے کہ یہاں حق سے مراد ایسے یقینی دلائل ہیں جو کتاب و سنت میں موجود ہوں۔ یونس
37 [٥٢] قرآن کے معجزہ ہونے کے مختلف پہلو :۔ قرآن صرف اس لحاظ سے ہی معجزہ نہیں کہ اس میں فصاحت و بلاغت بے مثل ہے روانی اور سلاست ہے زبان میں شیرینی ہے بلکہ اس لحاظ سے بھی بے مثل ہے کہ اس میں پوری انسانیت کی رہنمائی کے لئے جو جامع اور ہمہ گیر ہدایات دی گئی ہیں وہ اللہ کے سوا کوئی دے ہی نہیں سکتا اور اس لحاظ سے بھی بے مثل ہے کہ اس کی آیات میں جتنا بھی غور کیا جائے، نئے سے نئے مفہوم و معانی سامنے آتے چلے جاتے ہیں نیز اس لحاظ سے بھی کہ اس میں پیش کردہ دلائل انتہائی سادہ اور عام فہم ہیں جن سے سب لوگ فیض یاب ہوسکتے ہیں۔ اور یہ صفات صرف اللہ کے کلام میں ہی پائی جاسکتی ہیں جس طرح کوئی انسان اللہ کے بنائے ہوئے چاند سورج جیسا چاند سورج، اس کی بنائی ہوئی زمین جیسی زمین اور آسمان جیسا آسمان نہیں بنا سکتا۔ اسی طرح کوئی انسان اللہ کے کلام جیسا کلام بھی پیش نہیں کرسکتا۔ [٥٣] اس جملہ میں قرآن کی دو مزید صفات بیان فرمائیں ایک یہ کہ یہ پہلی الہامی کتابوں کی تصدیق و توثیق کرتا ہے یعنی جو اصول دین (یعنی الکتاب یا کتاب کی اصل ہیں) ان الہامی کتابوں میں مذکور ہوئے وہی اس میں بھی مذکور ہیں یہ کوئی نئے اصول پیش نہیں کر رہا اور دوسری یہ کہ جو کچھ اصول دین سابقہ کتابوں میں مذکور ہوئے ہیں ان کو مختلف پیرایوں میں اور دلائل و براہین کے ساتھ ان کی تشریح و توضیح بھی کرتا ہے اور یہی اوصاف قرآن کے مُنَزِّلْ مِنَ اللّٰہِ ہونے کے ثبوت ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں موجود عیسائی مشنریوں کے مبلغین کی طرف سے یہ اعتراض بڑی شد ومد سے اٹھایا گیا ہے کہ اگر قرآن سابقہ الہامی کتابوں کی تعلیم ہی پیش کرتا ہے اور ان سابقہ کتابوں کی تصدیق بھی کرتا ہے تو پھر قرآن کے نازل ہونے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ پھر’’عدم ضرورت قرآن‘‘ پر مستقل کتابیں بھی لکھی گئیں اور لوگوں میں تقسیم کی گئیں اس اعتراض کا الزامی جواب تو یہ ہے کہ انجیل بھی کوئی مستقل الہامی کتاب نہیں بلکہ تورات ہی کی توضیح و تشریح پیش کرتی ہے تو پھر آخر اس کی کیا ضرورت تھی اور عیسیٰ علیہ السلام کے مبعوث ہونے کا کیا فائدہ تھا اب اس سے آگے چلئے۔ تورات کے نزول سے پہلے یعنی موسیٰ علیہ السلام پر تورات نازل ہونے سے پہلے سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر سیدنا موسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیاء پر جو وحی نازل ہوتی رہی اس کے بھی کلیات دین وہی تھے جو تورات میں مذکور ہیں تو پھر آخر تورات کی بھی کیا ضرورت تھی؟ اور اس اعتراض کا حقیقی جواب یہ ہے کہ سابقہ تمام الہامی کتب میں کسی کتاب کا بھی اصل متن محفوظ نہیں رہا جس زبان میں وہ نازل ہوئی تھیں ان کتابوں کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے انبیاء متعلقہ کے بعد ان کے علماء پر ڈالی تھی۔ خود ان کتابوں کی حفاظت کی ذمہ داری نہیں لی تھی۔ جیسا کہ درج ذیل آیت سے واضح ہے : ﴿ اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰیۃَ فِیْہَا ہُدًی وَّنُوْرٌ ۚ یَحْکُمُ بِہَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ ہَادُوْا وَالرَّبّٰنِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ کِتٰبِ اللّٰہِ وَکَانُوْا عَلَیْہِ شُہَدَاۗءَ ۚ﴾(5: 44) ’’ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی اللہ کے فرمانبردار انبیاء اور یہود کے مشائخ اور علماء یہود کے درمیان اسی کے مطابق فیصلے کرتے تھے اس لیے کہ اللہ کی کتاب کی حفاظت ان کے ذمہ ڈالی گئی تھی کہ وہ اس کے نگہبان تھے‘‘ گویا تورات سے متعلق مشائخ اور علمائے یہود پر دو طرح کی ذمہ داری ڈالی گئی تھی ایک تو اس کتاب اللہ کی حفاظت کریں دوسرے اس کے احکام پر عمل کرکے اور اسی کے مطابق فیصلے کرکے اس کی عملی حفاظت کا بھی اہتمام کریں اور یہود کے کتاب کی حفاظت کرنے کا یہ حال ہے کہ انہیں تورات لکھی لکھائی مل گئی جو دو دفعہ ضائع ہوئی پھر سینکڑوں سال بعد لکھی گئی اس میں تحریف بھی کی گئی اور علماء کے اقوال اور الحاقی مضامین شامل کیے گئے اور نوبت بایں جارسید کہ خود علمائے یہود کو یہ معلوم کرنا دشوار ہوگیا تھا کہ وہ کتاب کے الہامی اور الحاقی حصے کو الگ الگ کرکے پیش کرسکیں اور عملی حفاظت کا حال اس سے بھی برا تھا انہوں نے کئی حرام چیزوں کو حلال اور حلال کو حرام بنا لیا تھا وہ غیر یہود کے اموال کو ہر جائز و ناجائز طریقے سے ہضم کر جانا درست اور جائز سمجھتے تھے۔ سود کو حلال بنا لیا تھا غلط فتوے دے کر پیسے بٹورتے تھے۔ شرفا کے لئے حدود اللہ کو ساقط کردیتے تھے اور تورات کی بہت سی آیات کو چھپا جاتے اور لوگوں تک نہیں پہنچاتے تھے۔ اندریں صورت حال ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ ایک نئے جلیل القدر نبی کو مبعوث کرکے اور کتاب انجیل نازل کرکے لوگوں کو صحیح الہامی تعلیم سے روشناس کرائیں چنانچہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے یہی فریضہ سر انجام دیا تھا۔ اب انجیل کا حال سنیے۔ انجیل سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی موجودگی میں لکھی ہی نہیں گئی بعد میں سب کام روایت پر چلایا گیا اس کے ابتدائی راوی چار ہیں پھر انہوں نے خود قلم بند نہیں کی بلکہ بعد میں آنے والے شاگردوں نے کی جن میں نہ اسناد کا ذکر ہے اور نہ ہی روایت و درایت کا کوئی معیار ملحوظ رکھا گیا ہے پھر یہ جو کچھ بھی تھا وہ بھی اصل زبان میں محفوظ نہیں رہا بلکہ ان چار انجیلوں کے صرف تراجم ہی ملتے ہیں جن میں بے شمار اختلافات پائے جاتے ہیں اور ان میں تحریف بھی ثابت شدہ امر ہے۔ اندریں حالات ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ ایک اور جلیل القدر نبی بھیج کر حقیقی تعلیم سے لوگوں کو متنبہ کریں اور یہ ضرورت قرآن کو نازل کرکے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کرنے سے پوری کی گئی۔ جو ان تمام امور و عقائد میں دو ٹوک فیصلہ دیتی ہے جن میں اہل کتاب میں اختلاف واقع ہوئے تھے اور وہ کئی فرقوں میں بٹ گئے تھے۔ قرآن کے بعد کسی الہامی کتاب کی ضرورت نہیں :۔ یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے اختلافات تو آج کل مسلمانوں میں بھی عام ہیں پھر کیا آج بھی کسی نئے نبی یا نئی الہامی کتاب کی ضرورت ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کے بعد کسی نئی الہامی کتاب کی ضرورت نہیں رہی وجہ یہ ہے کہ قرآن کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لے رکھا ہے اور مسلم تو درکنار اغیار بھی یہ بات ماننے پر مجبور ہیں کہ قرآن جس طرح نازل ہوا تھا آج بھی بعینہ اسی اپنی اصلی حالت میں محفوظ ہے اور اللہ کی حفاظت کا حال یہ ہے کہ اگر دنیا بھر کے معاندین قرآن کو صفحہ ہستی سے ناپید کرنے یا اس میں ردوبدل کرنے کی کوشش کریں تو وہ ایسا نہیں کرسکتے کیونکہ ہر دور میں اس قرآن کریم کے کروڑوں حافظ موجود رہے ہیں۔ پھر قلمی حفاظت کے لاتعداد ذرائع سے بھی ابتداء سے لے کر آج تک حفاظت ہوتی رہی ہے۔ اور تا قیامت ہوتی رہے گی۔ اور اس کی عملی حفاظت کا بھی انتظام اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے مسلمانوں میں اگرچہ بے شمار اختلاف اور فرقے ہیں تاہم یہ سب کے سب گمراہ نہیں بلکہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ان میں تا قیامت ایک فرقہ ایسا موجود ہے اور موجود رہے گا جو حق پر قائم رہے گا اور یہ فرقہ وہ ہے جو صرف کتاب و سنت پر انحصار کرتا ہے۔ نہ اس میں کوئی کمی گوارا کرتا ہے اور نہ اضافہ۔ وہ اپنے دین میں کوئی بدعی عقیدہ یا عمل کو برداشت نہیں کرتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جس طرح قرآن کے الفاظ کی حفاظت کا ذمہ لے رکھا ہے اسی طرح اس کے مطالب و معانی اور تشریح و تعبیر کی حفاظت کا ذمہ لے رکھا ہے ورنہ محض الفاظ کی حفاظت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ قرآن کی تشریح و توضیح اور صحیح تفسیر ہمیں احادیث یا سنت رسول میں ملتی ہے اس سنت کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے کیسے فرمائی یہ ایک الگ مضمون ہے جسے ہم نے اس کے مناسب مقامات پر درج کردیا ہے۔ ان تصریحات سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن و سنت کی حفاظت اور ایک فرقہ حقہ کی موجودگی میں نہ کسی نئے نبی کی ضرورت باقی رہتی ہے اور نہ کسی نئی الہامی کتاب کی۔ یونس
38 [٥٤] مشرکین مکہ کے اس اعتراض کے جواب میں قرآن نے متعدد مقامات پر چیلنج کیا ہے کہ اگر تمہارے خیال کے مطابق قرآن محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود ہی بنا لیا ہے تو تم بھی ہمت آزمائی کر دیکھو اور اس سلسلے میں اپنے مددگاروں کو بھی اپنے ساتھ ملا لو لیکن اپنی بھرپور کوششوں کے باوجود جب وہ ایسا کلام پیش کرنے سے قاصر رہے تو انہیں دوزخ کی وعید سنا دی گئی۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کی اس اعجازی حیثیت سے تین باتیں از خود ثابت ہوجاتی ہیں (١) اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت، (٢) قرآن کے منزل من اللہ ہونے کا ثبوت اور (٣) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ثبوت۔ اب جو شخص پھر بھی ایمان نہ لائے اور اپنی ضد، ہٹ دھرمی یا تعصب میں پڑا رہے اس کی سزا جہنم کے سوا کیا ہوسکتی ہے؟ (تفصیل سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٢٣ حاشیہ نمبر ٢٧ میں ملاحظہ فرما لیجئے) یونس
39 [٥٥] قرآن کے منزل من اللہ ہونے کے داخلی اور خارجی ثبوت :۔ کسی چیز کو جھٹلانے کے لیے دو طرح کے ثبوت درکار ہوتے ہیں ایک خارجی شہادت یا شہادات اور دوسرے داخلی شہادت یا شہادات۔ خارجی شہادت کی نفی تو اس طرح ہوتی ہے کہ کسی معترض نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ کوئی شخص آپ کو آکر قرآن سکھلا جاتا تھا یا آپ قرآن سیکھنے کے لیے کبھی کسی کے پاس گئے ہوں یا یہ کام خط و کتابت یا قاصدوں کے ذریعہ سر انجام پاتا ہو اور داخلی شہادات کی نفی اس طرح ہوجاتی ہے کہ قرآن نے جو بھی خبر دی یا پیشین گوئی کی وہ کبھی جھوٹی ثابت نہیں ہوئی بلکہ تاریخ اور وقوع کے اعتبار سے درست ہی ثابت ہوئی ان دو وجوہ کو علمی یا یقینی قرار دیا جاسکتا ہے ان کے علاوہ اور کوئی معقول وجہ نہیں ہوسکتی جس کی بنا پر قرآن کو جھٹلایا جاسکے۔ [٥٦] تاویل کا مطلب اور اس کی مثالیں :۔ تاویل سے مراد کسی دی ہوئی خبر کے وقوع پذیر ہونے کا وقت ہے پھر جب وہ خبر وقوع پذیر ہوجاتی ہے تو اس وقت سب لوگوں کو اس کی پوری طرح سمجھ آجاتی ہے خواہ اس سے پیشتر اس آیت کی سمجھ لاعلمی کی وجہ سے نہ آرہی ہو یا ذہول و نسیان کی وجہ سے اور ایسی مثالیں بھی قرآن میں بہت ہیں جن میں سے یہاں صرف ایک مثال پر اکتفا کیا گیا ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دار فانی سے رحلت فرما گئے تو یہ صدمہ صحابہ کرام کے لیے ایسا جانکاہ تھا کہ بعض صحابہ کے اوسان خطا ہوگئے دوسروں کا کیا ذکر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جیسے زیرک اور مدبر صحابی کھڑے ہو کر خطبہ دینے لگے کہ’’جو شخص یہ کہے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں، میں اس کی گردن اڑا دوں گا‘‘ اتنے میں سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور لوگوں کو مخاطب کرکے یہ آیت پڑھی ﴿ وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ ۭ اَفَا۟یِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ﴾ ’’(یعنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک رسول ہی ہیں جن سے پہلے کئی رسول گزر چکے ہیں اگر وہ فوت ہوجائیں یا مارے جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟‘‘ صحابہ کہتے ہیں کہ جب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ یہ آیت سنائی تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ آیت آج ہی نازل ہوئی ہے پھر جسے دیکھو یہی آیت پڑھ رہا تھا۔ حالانکہ یہ آیت مدتوں پہلے نازل ہوچکی تھی اور صحابہ سینکڑوں مرتبہ اسے پڑھتے بھی رہے مگر اس کی سمجھ اس وقت آئی جب آپ فی الواقع وفات پاگئے۔ مندرجہ بالا مثال ذہول سے متعلق ہے اور لاعلمی کی مثالیں وہ تمام سائنسی نظریات ہیں جو وحی سے متصادم ہیں مثلاً کائنات کا آغاز کیسے ہوا آدم کی تخلیق کیونکر ہوئی۔ زمین، سورج اور چاند کیسے وجود میں آئے۔ کائنات کا انجام کیا ہوگا ؟ ان باتوں کے متعلق ہئیت دانوں نے جو نظریات قائم کیے ہیں وہ محض ظن و تخمین پر مبنی ہیں اور ان کا علم بھی محدود ہے جبکہ وحی یقینی چیز ہے جو ایسی علیم و بصیر ہستی سے نازل ہوئی ہے جس کا علم لا محدود ہے اور بعض ایسے امور ہیں جن کی تاویل کا وقت آچکا ہے اور سائنس نے وحی کے آگے سرتسلیم خم کردیا ہے مثلاً سورج کو ساکن قرار دیا جاتا رہا مگر آج اسے متحرک سمجھا جاتا ہے آج یہ بھی تسلیم کیا جانے لگا ہے کہ تمام انسانوں کی آوازیں فضا میں محفوظ ہیں اور یہ بھی کہ انسان کے اعمال کے اثرات اس کے جسم پر مترتب ہوتے ہیں یہی وہ بات ہے جسے قرآن نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ فرشتے انسان کے تمام اعمال لکھتے جاتے ہیں اور ہمارے پاس اس کا پورا ریکارڈ موجود ہے۔ یونس
40 [٥٧] ایمان نہ لانے والے مفسد اس لحاظ سے ہوتے ہیں کہ وہ اللہ کے کسی حکم کی پروا نہیں کرتے اور یہی بات فساد کی سب سے بڑی جڑ ہے علاوہ ازیں وہ اسلام لانے والوں کو تکلیفیں بھی پہنچاتے ہیں اور اسلام کے راستہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے سلسلہ میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔ یونس
41 یونس
42 یونس
43 [٥٨] دل بینا اور ظاہری بینائی :۔ یعنی جو لوگ دل کے بہرے ہیں وہ اگر آپ کی باتیں سن بھی لیں تو ان کے دل پر کیا اثر ہوسکتا ہے؟ بالخصوص اس صورت میں کہ وہ بے عقل بھی ہوں کہ اگر وہ سن نہیں سکتے تو کم از کم اشاروں سے ہی کچھ سمجھ جائیں۔ اسی طرح کچھ لوگ ایسے ہیں جو دل کے اندھے ہیں ان کا دل آپ کی باتوں کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتا۔ پھر اگر وہ آپ کی باتیں سننے کے لیے آپ کی طرف دیکھ بھی رہے ہوں تو اس دیکھنے کا انہیں کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے بالخصوص اس صورت میں کہ وہ بے بصیرت بھی ہوں کہ اگر کوئی بات ان کے کانوں میں پڑ بھی جائے تو اسے سمجھ ہی نہ سکیں۔ مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے ظاہری طور پر سننے اور دیکھنے سے آپ یہ توقع مت رکھیں کہ آپ کی باتوں کا ان پر کچھ اثر ہوگا اور وہ ایمان لے آئیں گے ایک دوسرے مقام پر قرآن میں ایسے لوگوں کو چوپایوں سے بھی بدتر قرار دیا گیا ہے کیونکہ ایسے لوگوں کا سننا اور دیکھنا بالکل چوپایوں کی طرح ہے وہ بھی عقل و فہم سے کورے یہ بھی کورے۔ اور بدتر اس لحاظ سے کہ چوپایوں میں تو عقل و فہم کا ملکہ پیدا ہی نہیں کیا گیا، جبکہ ان میں ایسا ملکہ موجود ہونے کے باوجود اس سے کام نہیں لے رہے۔ یونس
44 [٥٩] یعنی اللہ نے انہیں سننے کو کان، دیکھنے کو آنکھیں اور فہم و بصیرت کے لیے دل و دماغ سب کچھ عطا کیا تھا تاکہ وہ حق اور باطل میں تمیز کرسکیں پھر اگر وہ ان سے کام نہ لے کر عذاب کے مستحق بنتے ہیں تو یہ ان کا اپنا ہی قصور ہے اللہ کبھی کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ یونس
45 [٦٠] قیامت کے دن کی مدت پچاس ہزار سال ہے اس کے مقابلہ میں انہیں اپنی دنیا کی زندگی یوں محسوس ہوگی کہ بس چند گھنٹے ہی دنیا میں گزارے تھے اس دن وہ ایک دوسرے کو ایسے ہی پہچانتے ہوں گے جیسے دنیا میں پہچانتے تھے مگر کوئی کسی کے کام نہ آسکے گا ہر ایک کو بس اپنی اپنی ہی پڑی ہوگی بلکہ ایک دوسرے سے اپنے کسی دکھ سکھ اور ہمدردی کی بات چیت کے بھی روادار نہ ہوں گے اور اگر اپنا کوئی رشتہ دار نظر آئے گا تو اس سے راہ فرار اختیار کرنے کی کوششیں کریں گے بعض علماء نے ﴿یَتَعَارَفُوْنَ بَیْنَھُمْ ﴾ کو دنیوی زندگی سے متعلق کرکے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ انہیں ایسا محسوس ہوگا کہ وہ دنیا میں بس چند گھنٹے ایک دوسرے کی جان پہچان کے لیے ٹھہرے تھے اور حقیقی زندگی کا آغاز تو اب ہو رہا ہے۔ [٦١] اس لیے کہ نتیجہ ان کی توقع کے خلاف نکلا اور اس دن کے لیے کچھ تیاری نہ کی تھی اور ساری زندگی دنیا کی دلچسپیوں میں گزار دی تھی ان لوگوں کو اس دن واضح طور پر معلوم ہوجائے گا کہ وہ دنیا میں غلط راستے پر پڑے ہوئے تھے اور یوم آخرت سے انکار کے نتیجہ نے انہیں راہ راست پر آنے ہی نہ دیا۔ یونس
46 [٦٢] کافروں پر عذاب کی پیشگوئی کیسے پوری ہوئی؟:۔ کافروں اور مشرکوں کے لیے سب سے بڑا دکھ اور عذاب اسلام کا غلبہ اور ان کی ذلت آمیز شکست ہی ہوسکتا تھا تو اس عذاب کا بہت بڑا حصہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ہی آپ نے خود اور سب مسلمانوں اور کافروں نے دیکھ لیا اسلام بدستور آگے بڑھتا رہا اور ترقی کی منازل بڑی تیزی سے طے کرتا گیا اور غزوہ بدر سے لے کر غزوہ تبوک تک کافروں کو میدان جنگ میں بھی اور معاشرتی طور پر بھی شکست اور ذلت ہی نصیب ہوتی رہی۔ رہی سہی کسر اللہ تعالیٰ نے آپ کی وفات کے بعد نکال دی اور دور عثمانی تک ایک وقت ایسا آیا جب کہ قریب قریب ساری دنیا میں اسلام کا ڈنکا بجتا تھا اور کفر پوری طرح مغلوب و مقہور ہوچکا تھا۔ [٦٣] پھر کافروں سے عذاب کا وعدہ صرف دنیا کی زندگی پر ہی موقوف نہ تھا بلکہ آخرت میں عذاب کا وعدہ مستقل طور پر موجود تھا یہ نہیں ہوسکتا کہ اگر دنیا میں وہ عذاب سے دوچار ہوچکے تو آخرت میں چھوٹ جائیں گویا دنیا کی زندگی میں اگر کوئی کافر عذاب سے بچ بھی جائے تو اخروی عذاب تو بہرحال یقینی اور بڑا سخت ہے۔ یونس
47 [٦٤] اور یہ ضابطہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت سے ہی مختص نہیں بلکہ تمام امتوں کے متعلق اللہ کا یہی دستور رہا ہے کہ جب لوگ اللہ کی نافرمانیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو خبردار کرنے کے لیے اپنا رسول بھیجتا ہے اس طرح لوگوں پر اتمام حجت کرتا ہے پھر کچھ لوگ اس پر ایمان لاتے ہیں اور کچھ اس کا انکار کرکے اس کے درپے آزار ہوجاتے ہیں اس طرح حق اور باطل کی سرد اور گرم جنگ شروع ہوجاتی ہے اور اللہ کا وعدہ یہ ہے کہ وہ حق پرستوں کی تائید کرتا ہے اور باطل پرستوں کو ذلت اور عذاب سے دوچار کردیتا ہے اور اللہ کا یہ فیصلہ اس لیے انصاف پر مبنی ہوتا ہے کہ اللہ اتمام حجت سے پہلے کسی کو سزا نہیں دیتا۔ یونس
48 [٦٥] عذاب کے وعدہ پر کافروں کا مذاق اور اس کا جواب :۔ کافروں کو دھمکی یہ دی گئی تھی کہ اگر وہ اللہ کی آیات کی تکذیب کریں گے تو انھیں ذلت اور رسوائی نصیب ہوگی اور بالآخر اسلام کا بول بالا ہوگا لیکن کافروں کی سمجھ میں یہ بات آہی نہیں سکتی تھی کہ یہ مٹھی بھر ستم رسیدہ اور بے سروسامان مسلمان کسی وقت ان پر غالب آجائیں گے لہذا وہ از راہ تمسخر مسلمانوں سے پوچھتے تھے کہ بھئی اگر تم اپنے قول میں سچے ہو تو ایسا وعدہ کب پورا ہوگا ؟ ان کے اس تمسخر کا جواب اللہ نے دو طرح سے دیا ہے۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا کہ آپ ان سے کہہ دیجئے کہ میں تو اپنے بھی نفع و نقصان کا مالک نہیں مگر صرف اتنا ہی جتنا اللہ کو منظور ہوتا ہے پھر میں تم پر کیا عذاب ڈھا سکتا ہوں؟ عذاب دینا اللہ کا کام ہے میرا نہیں اور نہ ہی میں نے کوئی ایسا دعویٰ کیا ہے کہ میں تمہیں عذاب میں مبتلا کردوں گا یا فلاں وقت عذاب آئے گا ہاں جب اللہ کی مشیئت ہوگی تو تم پر ایسا عذاب آکے رہے گا اور دوسرا جواب یہ ہے کہ عذاب دینے کے متعلق بھی اللہ کا ایک قانون ہے جو یہ ہے کہ اللہ کسی کے گناہوں پر فوراً گرفت کرکے اس پر عذاب ڈھا کر اسے تباہ نہیں کردیتا بلکہ اس کو سنبھلنے کے لیے مہلت دیئے جاتا ہے پھر جب بار بار کی تنبیہ کے باوجود وہ راہ راست پر نہیں آتا تو اس وقت اس پر عذاب آتا ہے وہ وقت کب ہوتا ہے یہ اللہ ہی جانتا ہے اور جب عذاب کا وقت آجاتا ہے تو پھر اس میں قطعاً تقدیم و تاخیر نہیں ہوسکتی۔ عذاب کا معین وقت بتلا دینا اللہ کے دستور کے خلاف ہے یا جیسا کہ کسی کی موت یا قیامت کا وقت معین بھی بتلانا دستور کے خلاف ہے اس لیے کہ اس طرح یہ دنیا دارالامتحان نہ رہے گی جبکہ اللہ کی مشیئت یہی ہے کہ انسان کے لیے یہ دنیا دارالامتحان اور دارالعمل ہے۔ یونس
49 یونس
50 [٦٦] یعنی عذاب کے آنے میں ایسی کون سی مزے اور خوشی کی بات ہے جس کی وجہ سے مجرم اسے جلد طلب کر رہے ہیں یا یہ مطلب ہے کہ تعجب کا مقام ہے کہ مجرم کیسی خوفناک چیز کے لیے جلدی مچا رہے ہیں حالانکہ ایک مجرم کے لائق تو یہ تھا کہ وہ ملنے والی سزا کے تصور سے کانپ اٹھتا اور ڈر کے مارے ہلاک ہوجاتا۔ اور ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب اللہ کا عذاب آجائے گا تو اس وقت یہ لوگ جلد جلد اپنا کیا بچاؤ کرسکیں گے؟ یہ عذاب طلب کرنے والوں کے لیے تیسرا جواب ہے۔ یونس
51 [٦٧] یعنی ان کا عذاب کے جلد آنے کا مطالبہ اس لیے ہے کہ انھیں ہرگز اس کا یقین نہیں ہے اور ان کا یہ تقاضا محض جھٹلانے اور مذاق اڑانے کی نیت سے تھا اور انھیں یقین اسی وقت آئے گا جب فی الواقع ان پر عذاب آپڑے گا لیکن اس وقت یقین آنا یا اللہ کی آیات پر ایمان لانا بے سود ہوگا۔ یونس
52 یونس
53 [٦٨] اس سے مراد ہر وہ چیز لی جاسکتی ہے جس کا مشرکین مکہ انکار کر رہے تھے۔ مثلاً قرآن، عذاب الٰہی کا ان پر واقع ہونا، موت کے بعد دوبارہ زندگی اور ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق جزاء و سزا دیا جانا وغیرہ۔ ان کے سوال کا انداز ہی اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ وہ یہ باتیں ماننے کو قطعاً تیار نہ تھے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر سے فرمایا کہ آپ پورے وثوق کے ساتھ اپنے پروردگار کی قسم کھا کر اور اسے شاہد بنا کر کہہ دو کہ یہ امور ایسے حقائق ہیں جو ہو کر رہنے والے ہیں اور تم نہ انھیں روک سکتے ہو اور نہ ہی اللہ کے قبضۂ قدرت سے تم فرار کی راہ اختیار کرسکتے ہو۔ یونس
54 [٦٩] فدیہ میں سارے جہان کی مال ودولت :۔ یعنی آخرت میں صرف وہ اعمال صالحہ کام آئیں گے جو کسی نے اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لاتے ہوئے اپنے لیے آگے بھیجے ہوں گے۔ اعمال کے سوا وہاں نہ مال و دولت کام آئے گا نہ قرابت اور نہ سفارش۔ آیت مذکورہ میں مال و دولت کا ذکر بفرض تسلیم ہے یعنی اگر کسی مجرم کے پاس آخرت کو دنیا بھر کے خزانے اور مال و دولت موجود ہوں تو وہ یہ سب کچھ دے دلا کر عذاب سے اپنی جان چھڑا لے مگر یہ بات وہاں ناممکن ہوگی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کم سے کم عذاب والے دوزخی سے فرمائیں گے اگر تیرے پاس دنیا ومافیہا کی دولت موجود ہو تو کیا اسے اپنے فدیہ میں دے دو گے؟‘‘ وہ کہے گا ’’ہاں۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’میں نے تو تجھ سے دنیا میں اس سے آسان تر بات طلب کی تھی اور کہا تھا کہ اس بات (یعنی توحید) پر قائم رہے گا تو میں تجھے جہنم میں داخل نہ کروں گا مگر تو شرک پر اڑا رہا‘‘ (مسلم، کتاب صفۃ القیامۃ۔ باب الکفار) [٧٠] ندامت کو اس لیے چھپائیں گے کہ انہوں نے غلط راستہ لاعلمی یا جہالت کی بنا پر نہیں بلکہ ضد، ہٹ دھرمی اور تعصب کی بناء پر اختیار کیا تھا لیکن اس ندامت کو چھپانے میں بھی کامیاب نہ ہوسکیں گے۔ یونس
55 یونس
56 یونس
57 [٧١] قرآن کی چار صفات اور ان کی ترتیب۔ موعظت ' شفا' ہدایت اور رحمت :۔ اس آیت میں قرآن کریم کی چار صفات بیان کی گئی ہیں۔ پہلی صفت موعظت ہے موعظت ایسی نصیحت کو کہتے ہیں جو انسان کی توجہ کو دنیا کے انہماک سے ہٹا کر اللہ کی یاد اور روز آخرت کی طرف مبذول کرے اور اس سے دلوں میں رقت اور دنیا سے بے رغبتی اور آخرت سے لگاؤ پیدا ہو۔ دوسری صفت یہ ہے کہ یہ قرآن دلوں کی بیماریوں مثلاً شرک اور کفر کا عقیدہ، حسد، بغض، خود غرضی، بخل، لالچ وغیرہ کے لیے شفا کا کام دیتا ہے جو شخص قرآن پڑھتا اور اس پر عمل کرتا ہے یہ روگ از خود اس کے دل سے دور ہوجاتے ہیں۔ تیسری صفت یہ ہے کہ قرآن انسان کی زندگی کے تمام شعبوں میں اس کی پوری طرح رہنمائی کرتا ہے وہ ہر فرد کے الگ الگ حقوق متعین کرتا ہے اور ایسے قوانین بتلاتا ہے جس سے فرد، معاشرہ اور حکومت میں سے کسی کے حقوق مجروح بھی نہ ہوں اور کسی دوسرے پر زیادتی بھی نہ ہو۔ اور اس کی چوتھی صفت یہ ہے کہ جو شخص قرآن پر عمل پیرا ہوتا ہے یا جو معاشرہ یا حکومت اس کی اتباع کرتی ہے اس پر اس دنیا میں بھی اللہ کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے اور آخرت میں بھی ہوگا۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔ ١۔ قرآن کے ذریعے سربلندی اور ذلت :۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ اس کتاب (قرآن کریم) کے ذریعہ بہت سے لوگوں کو سربلندی عطا فرمائے گا اور بہت سے لوگوں کو ذلیل کرے گا‘‘ (مسلم۔ کتاب فضائل القرآن، باب من یقوم بالقرآن ویعلمہ) ٢۔ سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ کی کتاب میں ہدایت ہے اور روشنی ہے جس نے اسے مضبوطی سے پکڑے رکھا وہ ہدایت پر قائم ہوگیا اور جس نے اس سے غفلت برتی وہ گمراہ ہوگیا‘‘ اور زید بن ارقم ہی کی دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں : ’’یہ کتاب اللہ کی رسی ہے جو اس پر عمل پیرا ہوا وہ ہدایت پر ہوگا اور جس نے اسے چھوڑ دیا وہ گمراہی پر ہوگا۔‘‘ (مسلم، کتاب الفضائل۔ باب من فضائل علی بن ابی طالب) یونس
58 [٧٢] قرآن مال دولت سے بہتر ہے :۔ لہٰذا آپ لوگوں کو بتلا دیجئے کہ یہ اللہ کا انتہائی فضل اور اس کی کمال مہربانی ہے جو اس نے تمہارے لیے اتنی خوبیوں والی کتاب نازل فرمائی ہے لہٰذا تمہیں ایسی کتاب کے نازل ہونے پر خوشیاں منانا چاہیے اور جس مال و دولت کے جمع کرنے کے لیے یہ لوگ سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ اس سے اس کتاب کا علم حاصل کرلینا ہزار درجہ بہتر ہے کیونکہ مال و دولت تو ڈھلتی چھاؤں ہے اور ایک فنا ہونے والی چیز ہے جبکہ اللہ کی کتاب ایسی نعمتوں کا راستہ دکھلاتی ہے۔ جو لازوال ہیں اور انھیں کبھی فنا نہیں مثلاً اخلاق فاضلہ، اعمال صالحہ اور جنت کی ابدی نعمتیں وغیرہ۔ یونس
59 [٧٣] رزق وسیع تر مفہوم :۔ رزق سے عموماً کھانے پینے کی چیزیں ہی مراد لیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ لفظ بڑے وسیع مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً آپ یہ دعا مانگتے تھے۔ ''اللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ عِلْمًا نَافِعًا'' (یا اللہ مجھے نفع دینے والا علم عطا فرما) اسی طرح ایک مشہور دعا ہے۔ ''اَللّٰھُمَّ اَرِِنَا الْحَقَّ حَقًا وَارْ زُقْنَا اِتَّبَاعَہُ وَاَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلاً وَارْزُقْنَا اِجْتِنَابِہُ '' اس پہلی دعا میں رزق کا لفظ عطا کرنے یا عطیہ کے معنوں میں آیا ہے۔ اور دوسری دعا میں توفیق عطا کرنے کے معنوں میں اور اصل یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو انسان کی جسمانی یاروحانی تربیت میں کوئی ضرورت پوری کرتی ہو وہ رزق ہے چنانچہ ﴿وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ ﴾ میں بھی رزق سے مراد صرف مال و دولت ہی نہیں جس سے صدقہ فرضی یا نفلی ادا کیا جائے بلکہ اگر اللہ نے علم عطا کیا ہے تو وہ بھی رزق ہے اور اسے بھی خرچ کیا جائے یعنی دوسروں کو سکھلایا جائے اور اگر صحت عطا کی ہے تو کمزوروں کی مدد کرکے صحت سے صدقہ ادا کیا جائے گا۔ [٧٤] حلال وحرام اطلاق صرف کھانے پینے کی اشیاء تک محدود نہیں اور یہ اختیار صرف اللہ کو ہے :۔ کھانے پینے کی چیزوں اور جانوروں میں سے جو کچھ اللہ نے حرام کیا ہے اس کا ذکر قرآن میں کئی مقامات پر آچکا ہے اور جو کچھ مشرکوں اور رسم و رواج کے پرستاروں نے از خود حرام بنا لیا تھا اس کا ذکر سورۃ مائدہ کی آیت نمبر ١٠٣ اور سورۃ انعام کی آیت نمبر ١٤٣ میں گذر چکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دینے کا اختیار تو صرف اللہ کو ہے ان لوگوں کو کس نے یہ اختیار دیا تھا کہ جس چیز کو یہ چاہیں حرام قرار دے لیں اور چاہیں تو حرام چیز کو حلال بنا لیں۔ پھر یہ بات یہاں تک ہی محدود نہیں رہتی بلکہ وہ اس پر مذہبی تقدس کا لبادہ بھی چڑھا دیتے ہیں اور اسے اللہ کی طرف منسوب کردیتے ہیں کہ یہ اللہ کا یا شریعت کا حکم ہے اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے یہ پوچھتے ہیں کہ آیا وہ اس نسبت کو کسی الہامی کتاب سے پیش کرسکتے ہیں؟ اور ایسا نہیں کرسکتے تو صاف واضح ہے کہ یہ اللہ پر افتراء ہے لہٰذا یہ دوہرے مجرم ہوئے۔ یہ معاملہ تو کھانے پینے کی چیزوں کا تھا جبکہ اللہ نے اور بھی بہت سی چیزیں حرام کی ہیں جن میں سے سرفہرست شرک ہے اور جو لوگ شرک کو حلال بنالیں اور اس پر مذہبی تقدس کا لبادہ چڑھا کر انھیں اللہ کی طرف منسوب کردیں نیز وہ لوگ جو اخلاقی و تمدنی حدود و قیود میں کسی چیز کو اپنی خواہش کے مطابق حلال اور حرام بنالیتے ہیں جیسا کہ مشرکین مکہ حرمت والے مہینوں کو حلال بنا لیا کرتے تھے وہ سب اس آیت کے ضمن میں آتے ہیں اور ایسی حرام سے حلال اور حلال سے حرام کردہ چیزیں بے شمار ہیں۔ یونس
60 [٧٥] یعنی قیامت کے دن ان حلال اور حرام بنانے والوں سے کیسا سلوک کیا جائے گا ؟ اس دن انھیں جو مار پڑے گی اور دکھ کا عذاب سہنا پڑے گا اس کے متعلق بھی ان افتراء پردازوں نے کبھی غور کیا ہے؟ اللہ تو لوگوں پر بڑا مہربان ہے جس نے ہر وقت انھیں ہر اچھے اور برے کام کے انجام سے مطلع کردیا ہے لیکن بجائے اس کے کہ لوگ اللہ کی اس مہربانی پر اس کے شکر گزار ہوتے الٹا اس کی حدود کی خلاف ورزی بھی کرتے ہیں پھر اسی کے نام سے منسوب بھی کردیتے ہیں۔ یونس
61 [٧٦] آپ کی اور مشرکوں کی سرگرمیوں کا تقابل :۔ اس آیت میں بیک وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مخاطب بنایا گیا ہے اور مشرکین مکہ کو بھی۔ اور ان دونوں کی سرگرمیوں کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا ہے یعنی ایک طرف تو آپ کی ذات مبارک ہے جنہوں نے لوگوں کی ہدایت کے لیے دن رات ایک کردیا تھا اور اسی مقصد کے لیے اپنی جان تک کھپارہے ہیں لوگوں کو جا جا کر قرآن سنارہے ہیں اور اس کے ذریعہ جہاد کر رہے ہیں اور جب لوگ ایمان نہیں لاتے تو آپ کو انتہائی صدمہ ہوتا ہے دوسری طرف آپ کے مخالفین ہیں جو آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو دکھ دینے اور تکلیفیں پہنچانے، مسلمانوں کا مذاق اڑانے اور اسلام کی ہر راہ کو روکنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ اللہ تعالیٰ یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی اس کی آنکھوں سے اوجھل نہیں رہ سکتی گویا اس آیت میں کافروں کو متنبہ کیا جارہا ہے کہ جو کرتوتیں بھی تم کرتے ہو یا کرنے کا ارادہ رکھتے ہو وہ سب کچھ اللہ کے علم میں پہلے سے ہی موجود ہے پھر وہ تمہاری ایک ایک حرکت کو دیکھ بھی رہا ہے اور وہ ریکارڈ بھی ہوتی جارہی ہے لہٰذا اپنی ان سرگرمیوں کے انجام کی ابھی سے فکر کرلو اور نبی کو یہی بات کہہ کر تسلی دی جارہی ہے اور صبر کی تلقین کی جا رہی ہے۔ یونس
62 [٧٧] اولیاء اللہ کی پہچان :۔ اولیاء اللہ کی تعریف اگلی آیت میں یہ بتلائی گئی ہے کہ جو لوگ ایمان لائیں اور اللہ سے ڈرتے رہیں اور متقین کی صفات جو سورۃ بقرہ کی ابتداء میں بیان ہوئی ہیں وہ یہ ہیں وہ لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، جو رزق ہم نے انھیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں اور اس کتاب یعنی قرآن اور سابقہ کتابوں پر ایمان لاتے ہیں اور روز آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ گویا جن ایمان لانے والوں میں مذکورہ صفات پائی جائیں وہ سب اولیاء اللہ ہیں پھر چونکہ ایمان اور اتقاء کے بھی کئی درجے ہیں اس لحاظ سے اولیاء اللہ کے بھی کئی درجے ہوئے اور عرف عام میں اولیاء اللہ ان لوگوں کو کہتے ہیں جو ایمان و تقویٰ کے بلند درجات پر فائز ہوں اس کی مثال یوں سمجھیے کہ پچاس، سو روپیہ بھی مال و دولت ہے لیکن مالدار اسی شخص کو کہتے ہیں جس کے پاس ہزاروں اور لاکھوں روپے اپنی ضروریات زندگی سے زائد موجود ہوں اسی لحاظ سے بعض صحابہ سے ولی کی یہ صفت منقول ہے کہ ولی وہ مسلمان ہے جسے دیکھ کر اللہ یاد آئے اور مخلوق خدا سے انھیں بے لوث محبت ہو۔ موجودہ دور میں اولیاء اللہ کا مفہوم :۔ قرن اول میں بھی کچھ ایسے مسلمان موجود تھے جن کی طبائع زہد و تقویٰ اور عبادت کی طرف زیادہ مائل ہوگئیں پہلی صدی اور دوسری صدی ہجری میں انھیں زہاد اور صالحین کا نام دیا جاتا تھا لیکن تیسری صدی میں جب مسلمانوں پر یونانی اور ہندی فلسفہ کے اثرات پڑنے لگے تو یہ طبقہ ترک دنیا اور رہبانیت کی طرف مائل ہوگیا اور اولیاء اللہ کا مفہوم یکسر بدل گیا اور یہ لفظ صرف ان لوگوں کے لیے مختص ہوگیا جو ریاضتیں اور چلہ کشیاں کریں اور باقاعدہ کسی شیخ یا ولی کی بیعت کے رشتہ میں منسلک ہوں اور ان سے کرامات کا ظہور ہو۔ پھر اس طبقہ میں وحدت الوجود، وحدت الشہود اور حلول جیسے غیراسلامی عقائد داخل ہوگئے اور ولی کی ولایت کا معیار یہ قرار پایا کہ جس کسی سے کرامات کا ظہور جتنا زیادہ ہو وہ اسی درجہ کا ولی ہے پھر ان لوگوں میں بعض نے یہ دعویٰ بھی کردیا کہ ہمیں براہ راست اللہ سے خبریں ملتی ہیں اور ہمیں رسول کی ضرورت نہیں ہے۔ بعض نے شریعت کو ہڈیاں اور اپنے دین طریقت کو اصل مغز قرار دیا اور ولایت کے ایک باقاعدہ باطنی نظام کی داغ بیل رکھ دی۔ ان میں پیری مریدی لازمی قرار دی گئی اور یہ لوگ اپنے اس مخصوص طبقہ کو ہی برتر اور اولیاء اللہ قرار دینے لگے اور ان اولیاء اللہ کے علم غیب، تصرف اور ہیبت سے لوگوں کو ڈرایا جانے لگا اور ایسے نظریات مسلمانوں میں خوب شائع و ذائع کیے گئے۔ شرعی نقطہ نظر سے ایسے نظریات بالکل بے بنیاد ہیں۔ [٧٨] اولیاء اللہ کے لئے بشارت :۔ خوف کا لفظ کسی پیش آنے والے خطرہ کے لیے اور غم کا لفظ ماضی میں کسی چھن جانے والی نعمت کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس بشارت کا اطلاق دونوں جہانوں میں ہوتا ہے یعنی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ دنیا میں ان اولیاء اللہ کا اپنے پروردگار پر اس قدر بھروسہ ہوتا ہے کہ انھیں نہ تو کسی چیز کا خوف خوفزدہ کرسکتا ہے اور نہ ہی انھیں ایسا غم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی سابقہ زندگی اللہ سے غفلت اور بیکار کاموں میں گذاری ہے یہی صورت آخرت میں بھی ہوگی انھیں نہ اس دن کی ہیبت، ہیبت زدہ کرے گی نہ پیاس ستائے گی اور نہ ہی اور کسی قسم کے دکھ یا عذاب کا خطرہ ہوگا اور نہ دنیا میں گزاری ہوئی زندگی کے متعلق کچھ حسرت اور ندامت ہوگی نہ کسی مطلوب چیز کے چھن جانے کا افسوس ہوگا۔ یونس
63 یونس
64 [٧٩] اللہ تعالیٰ کی یہ بشارت ایسی ہے کہ جو حتمی، یقینی اور ناقابل تغیر و تبدل ہے بالفاظ دیگر جو اللہ کے دوست ہوں یا جن کا دوست اللہ تعالیٰ ہو وہ کہیں بھی اور کسی حال میں بھی پریشان نہ ہوں گے اور ان کے لیے یہی بات سب سے بڑی کامیابی ہے۔ یونس
65 [٨٠] اولیاء اللہ کے بعد اب ساتھ ہی اعداء اللہ کا ذکر فرمایا جو حق کا انکار کرتے تھے پیغمبر اسلام اور مسلمانوں پر پھبتیاں کستے اور ان کا مذاق اڑاتے تھے اور انھیں تکلیفیں پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے تھے اس آیت میں پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کو یہ کہہ کر تسلی دی جارہی ہے کہ غلبہ، قوت، اقتدار اور عزت تو سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اللہ تمہیں کبھی اس حال میں نہ رہنے دے گا بلکہ ایسے حالات پیدا کردے گا کہ منکرین حق ذلیل اور رسوا ہوں اور عزت اور غلبہ اہل حق کو نصیب ہوگا۔ یونس
66 یونس
67 [٨١] یعنی اللہ کو تو مختار کل ماننے کے لیے بے شمار دلائل موجود ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے رات اور دن کو پیدا فرمایا اب اس ایک نشانی میں غور کرنے سے مزید بے شمار ایسی نشانیاں مل جاتی ہیں جو اللہ کے مختار کل، قادر مطلق اور مقتدر ہستی ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ تنہا اسے ہی حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنے نیز اسے پکارنے اور خالص اسی کی عبادت کرنے کے لیے تو ایسے ٹھوس حقائق موجود ہیں لیکن جو لوگ اللہ کے سوا دوسری چیزوں کو پکارتے یا ان کی پرستش کرتے ہیں ان کے پاس ایسی کون سی دلیل موجود ہے جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ ان کا بھی اس کائنات میں کچھ حصہ یا اختیار و تصرف ہے لہٰذا ایسے سب لوگوں نے محض ظن و تخمین سے کام لے کر قیاسی فلسفے گھڑ رکھے ہیں جن کے نیچے کوئی ٹھوس یا علمی بنیاد موجود نہیں ہے۔ یونس
68 [٨٢] کیا اللہ کو بیٹے کی ضرورت ہے ؟ اولاد بنانے کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ وہ اولاد صلبی ہو اس سے لازم آتا ہے کہ اس کی بیوی بھی ہو اور وہ اس کا محتاج بھی ہو اور جو محتاج ہو وہ معبود حقیقی نہیں ہوسکتا۔ معبود حقیقی کی شان ہی یہ ہے کہ وہ کسی چیز کا بھی محتاج نہیں ہوتا اور ہر چیز سے بے نیاز ہوتا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کسی کو متبنّٰی بنالے اور دنیا میں متبنیٰ عموماً وہ لوگ بناتے ہیں جو بے اولاد ہوں اور متبنّٰی بنانے سے ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ متبنّٰی اس کا وارث بن سکے لیکن اللہ تعالیٰ کو اس کی بھی احتیاج نہیں کیونکہ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ گویا اس لحاظ سے بھی وہ بے نیاز ہے لہٰذا جو لوگ ایسی باتیں بناتے ہیں سب بے بنیاد ہیں اور اللہ تعالیٰ ایسے تمام عیوب سے پاک ہے۔ [٨٣] بیٹا نہ ہونے کی عقلی دلیل :۔ یہ اللہ تعالیٰ کی اولاد نہ ہونے پر دوسری دلیل ہے اور وہ دلیل یہ ہے کہ اس کائنات میں جو چیز بھی موجود ہے وہ اللہ کی ملکیت ہے اور اولاد اپنے والد کی ملکیت نہیں ہوتی لہٰذا اللہ کی اولاد ہونا محال ہوا لہٰذا جو لوگ ایسی بات کہتے ہیں بلادلیل کہتے ہیں اور ایسی بات اللہ کے ذمہ لگاتے ہیں جن کی انھیں سزا مل کر رہے گی دنیا کی چند روزہ زندگی میں وہ جو کچھ کہتے ہیں یا کرتے ہیں کرلیں بالآخر انھیں ہمارے پاس ہی آنا ہے ہم انھیں ان کے اس شرکیہ عقیدہ کی پوری پوری سزا دیں گے۔ یونس
69 یونس
70 یونس
71 [٨٤] اولیاء اللہ کی شان میں گستاخی، سیدنا نوح علیہ السلام کا اپنی قوم کو چیلنج :۔ مشرکوں کے پاس اپنے مذہب کی صداقت میں سب سے مؤثر جواب یہ ہوتا ہے کہ اگر تم لوگوں نے ان کے معبودوں یا اولیاء اللہ کی شان میں کوئی گستاخی کی بات کی یا ان کی توہین کی تو وہ تم پر فلاں فلاں مصیبت ڈھا دیں گے اور تباہ و برباد کرکے رکھ دیں گے ایسے عقائد کے وہ خود بھی معتقد ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی ڈراتے دھمکاتے رہتے ہیں اور ان کا یہ عقیدہ سیدنا نوح علیہ السلام سے لے کر آج تک بدستور چلا آرہا ہے آپ آج بھی اولیائے کرام کا کوئی تذکرہ اٹھا کر دیکھ لیجیے آپ کو اس میں ایسی تہدید اور دھمکیاں مل جائیں گی کہ فلاں بزرگ کی فلاں شخص نے یوں توہین کی اس کا ستیاناس ہوگیا وغیرہ وغیرہ اور ایسے واقعات عموماً من گھڑت ہوتے ہیں جو ان پیروں کے حواری ان کی اولیائی کی دھاک بٹھانے کے لیے گھڑتے اور پھر شائع کردیتے ہیں یہی بات جب نوح علیہ السلام کو بھی کہی گئی تو انہوں نے اپنی قوم کے مشرکوں کو کھرا کھرا جواب دے دیا اور فرمایا : تم خود بھی اور تمہارے یہ معبود بھی سب مل کر میرا جو کچھ بگاڑ سکتے ہو بگاڑ لو اور مجھے مہلت بھی نہ دو کیونکہ میں اپنے اللہ پر بھروسہ رکھتا ہوں اور اللہ پر پوری طرح بھروسہ رکھنے والا اللہ کے سوا کسی اور سے نہیں ڈرتا اور اگر بالفرض تسلیم اسے کوئی تکلیف پہنچتی بھی ہے تو وہ تکلیف پہلے ہی اللہ کی مشیئت میں ہوتی ہے اس کا کسی معبود کی خدائی یا کسی بزرگ کی اولیائی سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یونس
72 [٨٥] اسلامی خدمات اور تبلیغ کی اجرت لینا جائز ہے :۔ یعنی اگر تم لوگوں کو میری نصیحت کی باتیں اچھی نہ لگیں تو بھی میں اس کام سے باز نہیں آنے کا بلکہ تمہیں سمجھاتا ہی رہوں گا کیونکہ مجھے اللہ کا یہی حکم ہے میں اس کی طرف سے مامور ہوں اور اسی کے ذمہ میرا اجر ہے میں نہ تمہارا تنخواہ دار ہوں اور نہ تم سے کچھ طمع رکھتا ہوں کہ اگر تمہیں یہ باتیں پسند نہ آئیں تو تم میری تنخواہ روک دو گے یا مجھے کچھ نہ دو گے۔ میں تم سے ایسی کوئی حرص نہیں رکھتا۔ میں تو صرف اللہ کے حکم کا پابند اور اسی کا فرمانبردار ہوں۔ سیدنا نوح علیہ السلام کے علاوہ باقی انبیاء کا بھی یہی شیوہ رہا ہے وہ یہ ہے کہ انبیاء کو عموماً اس وقت مبعوث کیا جاتا ہے جب کسی قوم کے حالات بگڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ کفر و شرک اور ظلم و عدوان عام ہوتا ہے ان حالات میں مخالفین اگر انبیاء کی بات ہی سن لیں تو بڑی بات ہے اور اجر تو اس کے ذمہ ہوتا ہے جس نے انھیں اس کام پر لگایا ہوا ہے اس سے یہ معلوم ہوا کہ اگر اسلامی حکومت یا مسلمانوں کا کوئی ادارہ کسی کو تبلیغ کے کام پر مامور کرے تو اس حکومت یا ادارہ سے تنخواہ یا اجرت لینا جائز ہے خواہ یہ تبلیغ کا کام اندرون ملک ہو یا بیرون ملک؟ دارالاسلام میں ہو یا دارالحرب میں۔ اگر تبلیغ کرنے والا اس تنخواہ کا محتاج نہیں تو بھی اسے لے لینا چاہیے اور آگے صدقہ کردینا چاہیے جیسا کہ احادیث صحیحہ سے بھی یہی بات ثابت ہے۔ (بخاری، کتاب الاحکام، باب رزق الحاکم مسلم۔ کتاب الزکوۃ۔ باب اباحۃ الاخذ لمن اعطی من غیر مسئلۃ) یونس
73 [٨٦] اس موقعہ پر نوح علیہ السلام کے واقعات کو ذکر کرنے کا ایک مقصد تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینا چاہتے ہیں کہ اگر آپ کی قوم آپ کو جھٹلا رہی ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں۔ سابقہ پیغمبر بھی ایسے ہی حالات سے دو چار ہوئے تھے اور انہوں نے صبر اور برداشت کا کمال مظاہرہ کیا تھا لہٰذا آپ کو صبر اور برداشت سے کام لینا چاہیے اور دوسرا مقصد جھٹلانے والوں کو متنبہ کرنا ہے کہ جن لوگوں نے ہمارے انبیاء کو جھٹلایا تھا ان کے انجام پر غور کرلو اور خوب سمجھ لو اگر تم اپنی ضد اور ہٹ دھرمی سے باز نہ آئے تو تمہارا بھی ایسا ہی انجام ہونے والا ہے۔ [٨٧] طوفان نوح کی کیفیت :۔ یعنی جھٹلانے والوں پر اللہ کا عذاب اس صورت میں آیا کہ نیچے زمین سے پانی کے چشمے جاری ہونے لگے اور اوپر سے موسلا دھار بارش ہونے لگی اور یہ عمل مفسرین کے قول کے مطابق چھ ماہ تک جاری رہا اور پانی سطح زمین سے اتنا بلند ہوا کہ پہاڑ تک اس میں غرق ہوگئے۔ مجرمین بھلا کیسے بچ سکتے تھے۔ بچے صرف وہی چند لوگ جو ایمان لائے تھے اور نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی میں سوار تھے چھ ماہ بعد بارشیں بھی ختم ہوگئیں اور زمین بھی پانی کو جذب کرنے لگی کچھ ہواؤں نے پانی کو خشک کیا کشتی تو جودی پہاڑ پر ٹک گئی تھی چالیس دن بعد جب زمین کی سطح خشک ہوگئی تو یہی مومن جو کشتی میں سوار تھے زمین پر اتر آئے اور کافروں کی زمینوں پر قابض ہوئے اور آئندہ نسل انہی سے چلی۔ یونس
74 [٨٨] مہر لگانے کا مفہوم :۔ سیدنا نوح علیہ السلام کے بعد ہود، صالح، ابراہیم، لوط اور شعیب علیہم السلام کو ہم نے ان کی قوموں کی طرف واضح نشانات دے کر بھیجا تھا۔ ان سب رسولوں سے وہی معاملہ پیش آیا جو سیدنا نوح علیہ السلام کو پیش آیا۔ یعنی جب ان لوگوں نے پہلی بار انکار کردیا تو بس پھر اسی پر ڈٹ گئے اور رسولوں کے ہزار بارسمجھانے کے باوجود بھی ان سے یہ نہ ہوسکا کہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرلیں جب لوگ اس حالت کو پہنچ جاتے ہیں تو اللہ ان کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان کے دل اس قابل ہی نہیں رہے کہ وہ آئندہ ہدایت قبول کرسکیں اور مہر لگنے کی نسبت اللہ کی طرف محض اس حیثیت سے ہوتی ہے کہ اسباب کے مسبب یا نتائج اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ انسان اسباب کے اختیار کرنے میں پوری طرح مختار ہوتا ہے اور اسی وجہ سے اس کی سزا و جزا اس کے اسباب اختیار کرنے پر ہی مترتب ہوتی ہے گویا مہر لگنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک سزا ہے جو انھیں انکار و مخالفت کے جرم کی پاداش میں ملتی ہے۔ یونس
75 [٨٩] سیدنا موسیٰ کے فرعون سے مطالبات اور اس کا جواب :۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کا قصہ پہلے سورۃ اعراف (آیت نمبر ١٠٣ تا ١٧١) میں پوری تفصیل سے گزر چکا ہے لہٰذا ان حواشی کو بھی مدنظر رکھا جائے جو پہلے پیش کیے جاچکے ہیں جب یہ دونوں پیغمبر، فرعون اور اس کے درباریوں کے ہاں پہنچے تو انھیں دو باتوں کی دعوت دی۔ ایک یہ کہ صرف ایک ہی سچے معبود پر ایمان لاؤ اور اسی کی عبادت کرو اور دوسرے یہ کہ بنی اسرائیل کو اپنی غلامی سے آزاد کرکے میرے ہمراہ روانہ کردو۔ ظاہر ہے کہ فرعون جیسے جابر اور خود خدائی کا دعویٰ کرنے والے حکمران کو یہ دعوت کسی طرح بھی راس نہ آسکتی تھی لہٰذا اس نے فوراً یہ مطالبہ پیش کردیا کہ تم فی الواقع اللہ کے پیغمبر ہو تو اپنی نبوت کی تصدیق کے طور پر کوئی نشانی پیش کرو۔ اس پر سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا زمین پر پھینک دیا جو دیکھتے ہی دیکھتے ایک خوفناک اژدھا کی شکل اختیار کر گیا اور دوڑنے لگا جس سے فرعون اور اس کے سب درباری ڈر کر موسیٰ علیہ السلام کی طرف ملتجیانہ نظروں سے دیکھنے لگے۔ آپ نے اس اژدہا کو پکڑ لیا اور وہ پھر سے عصا بن گیا پھر سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے دوسری نشانی بھی دکھلائی۔ اپنا داہنا ہاتھ اپنی بغل میں رکھا پھر نکالا تو وہ چمک رہا تھا اور اس سے سفید رنگ کی روشنی پھوٹ رہی تھی۔ آپ نے پھر اسے اپنی بغل میں رکھا تو وہ اپنی اصل حالت پر آگیا۔ یہ دونوں نشانیاں اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی بے مثال جرأت دیکھ کر فرعون اور اس کے درباری دل میں ڈر گئے۔ انھیں یہ یقین ہوگیا کہ موسیٰ علیہ السلام اور اس کا بھائی دونوں اللہ کے سچے پیامبر ہیں اور وہ ان خطرات کو بھی بھانپ رہے تھے جو ان کو پیش آنے والے تھے لیکن وہ اپنی صورت حال کو رعایا سے چھپانا بھی چاہتے تھے۔ لہٰذا ان معجزات کو جادو قرار دے دیا اور موسیٰ علیہ السلام کو جادوگر۔ اور اس سے ان کا مقصد صرف اپنی رعایا کو الو بنانا تھا اور انھیں یہ تاثر دینا تھا کہ جس طرح دوسرے جادوگر شعبدہ بازیاں دکھلاتے ہیں اسی طرح کے یہ بھی شعبدے ہیں لہٰذا ان سے ڈرنے یا گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ یونس
76 یونس
77 [٩٠] سیدنا موسیٰ کا جواب، جادوگر اور نبی کا فرق :۔ فرعون اور اس کے درباریوں کے اس جواب پر سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے ان سے پوچھا کہ جس انداز میں میں تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا رہا ہوں کیا جادوگروں کے بھی ایسے رنگ ڈھنگ ہوتے ہیں؟ جو اگر تمہارے پاس آنا چاہیں تو پہلے واسطہ تلاش کرتے اور داخلے کی اجازت چاہتے ہیں پھر اگر وہ اس مرحلہ میں کامیاب ہو کر تم لوگوں تک پہنچ جائیں تو نہایت ذلت سے سر عجزو نیاز جھکائے تمہیں دعائیں دیتے اور آداب بجا لاتے ہیں۔ پھر شعبدہ دکھلانے کی اجازت چاہتے ہیں۔ پھر اس دھندہ سے فارغ ہوں تو پھر سلام کرتے اور انعام و اکرام کا مطالبہ کرتے ہیں اگر تم چاہو تو انھیں کچھ دو یا جھڑک کر کسی بھی مرحلہ پر نکال دو یا اندر آنے کی اجازت ہی نہ دو اور ان کی ساری زندگی اسی ذلت اور اسی دھندے میں گذر جاتی ہے اور ان کی ہوس ختم نہیں ہوتی تو کیا تمہیں ایک جادوگر میں اور مجھ میں کچھ بھی فرق نظر نہیں آتا ؟ (مزید وضاحت کے لیے دیکھیے جادو اور معجزہ کا فرق سورۃ اعراف، آیت نمبر ١٢٠) نیز ایک رسول اور جادوگر میں فرق کے لیے دیکھیے اسی سورۃ یونس کی آیت نمبر ٢) یونس
78 [٩١] فرعون اور درباریوں کے اس جواب سے بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ خوب جانتے تھے کہ سیدنا موسیٰ اور ہارون علیہما السلام جادوگر نہیں ہیں۔ جادوگر کو تو معاشرہ کی ایک حقیر سی مخلوق سمجھا جاتا ہے۔ اس کی بھلا بڑائی قائم ہوسکتی ہے؟ اور اگر وہ حقیقت کا اعتراف کرلیتے تو اپنے تمام مناصب سے دستبردار ہونا پڑتا تھا۔ لہٰذا انہوں نے وہی جواب دیا جو دلیل سے عاجز اور ضدی لوگ دیا کرتے ہیں کہ تم تو ہمیں اپنے آباؤ و اجداد کے دین سے برگشتہ کرنے آئے ہو مگر ہم تمہارے جھانسے میں کبھی نہیں آئیں گے۔ یونس
79 یونس
80 [٩٢] فرعون نے یہ سب کچھ جان لینے کے بعد جادوگر کیوں بلائے اور مقابلہ کا ڈھونگ کیوں رچایا ؟ اور اپنی اس تدبیر میں وہ کیسے ناکام ہوا اس کی تفصیل پہلے سورۃ اعراف میں گزر چکی ہے۔ یونس
81 [٩٣] فیصلہ کن معرکہ حق و باطل میں حق کو یقینا تائید الٰہی حاصل ہوتی ہے :۔ جب جادوگر اپنی شعبدہ بازیاں دکھلا چکے اور ان کی پھینکی ہوئی رسیاں اور لاٹھیاں لوگوں کو سانپوں کی طرح حرکت کرتی اور بل کھاتی دکھائی دینے لگیں اور تماشا دیکھنے والے سب لوگ ان سے ڈر بھی گئے اور متاثر بھی ہوگئے تو اس وقت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ جو کچھ تم نے پیش کیا ہے یہ فی الواقع جادو ہے اور جو میں پیش کررہا ہوں وہ جادو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ معجزہ ہے جو تمہاری ان تمام شعبدہ بازیوں کا خاتمہ کر دے گا۔ وجہ یہ ہے کہ یہ بات اللہ کی عادت اور حکمت کے خلاف ہے کہ کسی جگہ حق و باطل کا معرکہ درپیش ہو۔ مصلح کے مقابلہ میں مفسد کھڑے ہوں اور اس سے مقصود اتمام حجت ہو تو اللہ مفسدوں کی بات کو سربلند کرے اور کلمہ حق کو پست و مغلوب کردے بلکہ ایسے مواقع پر اللہ تعالیٰ حق کی مدد کرتا اور سچ کو سب لوگوں کے سامنے سچ کرکے دکھلا دیتا ہے۔ یونس
82 یونس
83 [٩٤] ذریت کے معنی نوجوان جرأ تمند نسل :۔ لفظ ذریت کا لغوی معنی اولاد ہے اور یہاں ذریت سے مراد بنی اسرائیل کی نوجوان نسل ہے ان نوجوانوں میں سے بھی چند آدمیوں نے ہمت کرکے سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے کا اعلان کردیا ورنہ بڑے بوڑھے لوگ تو فرعون کی چیرہ دستیوں سے اس قدر خائف تھے کہ دل سے ایمان لانے کے باوجود اپنے ایمان کا اظہار کرنے میں اپنی موت سمجھتے تھے۔ طویل مدت کی غلامی، بڑھاپے کی کمزوری اور فرعون کے مظالم نے انھیں اتنا پست ہمت بنا دیا تھا کہ وہ اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہوئے بھی ڈرتے تھے۔ جادوگروں کے ایمان لانے کے بعد بنی اسرائیل کے یہ چند نوجوان ہی اتنے دلیر ثابت ہوئے کہ انہوں نے پیش آنے والے مصائب و مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا تہیہ کرلیا اور اپنے ایمان کا برملا اعلان کردیا۔ اس طرح موسیٰ علیہ السلام کو کچھ تقویت حاصل ہوگئی اور آپ نے ان نومسلموں کی تربیت شروع کردی اور سمجھایا کہ اب تمہیں نہایت ثابت قدمی اور استقلال کے ساتھ میرا ساتھ دینا ہوگا اور اگر تم اللہ کے فرمانبردار بن کر رہے اور اسی پر بھروسہ کیا تو فرعون تمہارا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے گا۔ موسیٰ علیہ السلام کے اس دور کے حالات اور آپ کے حالات کی مماثلت' نوجوان صحابہ اور ان کی عمریں :۔ بالکل ایسی صورت حال مکہ میں بھی پیش آئی تھی۔ آپ پر جو لوگ ایمان لائے تھے ان میں اکثر نوجوان طبقہ ہی تھا۔ مثلاً سیدنا علی رضی اللہ عنہ ، جعفر طیار رضی اللہ عنہ ، زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ ، سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ ، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہم، یہ سب قبول اسلام کے وقت بیس سال سے کم عمر کے تھے۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ، بلال بن رباح رضی اللہ عنہ اور صہیب رضی اللہ عنہ کی عمریں بیس سے تیس سال کے درمیان تھیں۔ لے دے کر دو صحابہ کو ہی بڑا کہا جا سکتا ہے ایک سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوسال چھوٹے یعنی ٣٨ سال کے تھے اور سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ آپ کے ہم عمر تھے۔ بالفاظ دیگر ان ﴿وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ﴾ میں سے بوڑھا کوئی بھی نہ تھا۔ ابتدائی مراحل میں حق کا ساتھ دینے اور مشکلات کے سامنے سینہ سپر ہوجانے کے لیے نوجوان خون اور ان کی جرأت ہی کام آتی ہے۔ بوڑھوں کی مصلحت کوشیاں کام نہیں آتیں الاماشاء اللہ۔ [٩٥] یعنی ایسے لوگ جو اپنے مقصد کے حصول کے لیے ہر جائز و ناجائز ذریعہ استعمال کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے اور ان کے لیے کوئی قانونی یا اخلاقی حد ایسی نہیں ہوتی جہاں جاکر وہ رک جائیں۔ فرعون ایسا ہی سرکش، متکبر اور جابر و قاہر قسم کا انسان تھا۔ یونس
84 یونس
85 [٩٦] کامیابی کے لئے وسائل اور اسباب اختیار کرنا اور دعا کرنا دونوں لازم و ملزوم ہیں :۔ اس آیت میں انبیاء کی دعوت و تبلیغ کے ابتدائی دور کا نقشہ پیش کیا جارہا ہے۔ انبیاء کی دعوت کو ابتداء میں قبول کرنے والے چند نوجوان اور باہمت لوگ ہی ہوتے ہیں جنہیں مخالفین کے شدائد اور ظلم و ستم کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ پھر ان کے بزرگوں کی مصلحت کوشیاں بھی ان کے آڑے آتی ہیں اور ایک کثیر طبقہ تماشا دیکھنے والوں کا بھی موجود ہوتا ہے جو ان حالات میں غیر جانب دار رہتے ہیں وہ صرف اس انتظار میں رہتے ہیں جو فریق بھی غالب ہوگا وہ اس کے ساتھ مل جائیں گے اور اگر ان جوانوں کی جماعت کو کوئی مصیبت پیش آجائے تو ان کے لیے اپنے بزرگ بھی جو دل سے مومن ہوتے ہیں ان کی پیش رفت پر طعنہ زنی کرنے اور کیڑے نکالنے لگتے ہیں گویا یہ دور ہر طرح سے اس مختصر سی مسلمان جماعت کے لیے سخت ابتلا کا دور ہوتا ہے۔ یہی صورتحال موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے والے ان نوجوانوں کی تھی جو اپنے ایمان پر ثابت قدم رہتے اور اللہ پر بھروسہ کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ سے دعائیں بھی کرتے تھے کہ ’’اے ہمارے پروردگار! ہم پر رحم فرما اور جن مشکلات میں ہم گھرے ہوئے ہیں اس سے نجات کی راہ پیدا فرما دے‘‘ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کے لیے وسائل و اسباب کو اختیار کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ سے دعا کرتے رہنا دونوں باتیں کامیابی کے لیے لازم و ملزوم ہیں نیز یہ بھی کہ وسائل و اسباب کو اختیار کیے بغیر محض دعاؤں پر انحصار کرنے کا کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ دعا بھی صرف اس صورت میں قبول کرتا اور اپنی رحمت اور مدد نازل فرماتا ہے جب انسان یا کوئی قوم اپنے مقدور بھر اسباب و وسائل کو بھی اختیار کرتی ہے۔ یونس
86 یونس
87 [٩٧] دین کی سربلندی کے لئے جماعتی نظم ونسق اور جماعتی نظم ونسق کے لئے مساجد اور اقامت الصلوٰۃ دونوں ضروری ہیں :۔ طاغوتی اور لادینی حکومتوں میں بھی ان کی رعایا کو اپنے اپنے مذہب کے مطابق مراسم و عبادات بجا لانے کی اجازت ہوا کرتی ہے اور ایسی عبادت کو اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ایک ذاتی معاملہ کی حد تک محدود رکھا جاتا ہے ایسی آزادی سے حکومتوں کو کچھ نقصان بھی نہیں ہوتا اور اگر وہ اتنی آزادی بھی نہ دیں تو حکومتیں چل بھی نہیں سکتیں حکومتوں کو اعتراض صرف اس وقت پیدا ہوتا ہے جب یہ مذہبی لوگ سیاست میں دخل دینے لگیں اور انبیاء کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ ایسی حکومتوں سے ٹکر لینے کے لیے مسلمانوں میں جماعتی نظام پیدا کرتے ہیں اور اس تنظیم کا اولین مرکز مسجد ہوتی ہے فرعون کے زمانہ میں بھی سیدنا موسیٰ و ہارون علیہما السلام پر ایمان لانے والے نوجوان اور کمزور ہمت بوڑھے لوگ اپنے گھروں میں نماز ادا کرتے تھے جب ان لوگوں نے کافروں سے نجات کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے ان دونوں پیغمبروں کی طرف وحی کی کہ اگر اللہ کی مدد چاہتے ہو تو جماعتی نظم و نسق قائم کرو، چند گھروں کو مسجد کے طور پر منتخب کرلو اور نماز باجماعت کا اہتمام کرو یہی مساجد تمہاری عبادت، تمہاری معاشرت، تمہاری معیشت اور تمہاری سیاست کے بھی مرکز ہوں گے اس طرح جب تم ایک دوسرے کے معاون و رفیق بن جاؤ گے اور خود کو ایک جماعتی نظم میں منسلک کرلو گے تو یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ ضرور تمہاری مدد کرے گا اور تمہاری دعاؤں کو ضرور قبول فرمائے گا اور اسی صورت میں تم کامیاب ہوسکو گے۔ یونس
88 [٩٨] جماعتی نظم ونسق کے ساتھ ساتھ دشمن کی طاقت کو کمزور بنانے کے لئے وسائل سوچنا اور اس کے لئے دعا بھی ضروری ہے :۔ کسی دشمن سے مقابلہ کے لیے دو گونہ اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے ایک یہ کہ اپنی جماعت کو مربوط منظم اور طاقتور بنایا جائے دوسرے یہ کہ جہاں تک ممکن ہو دشمن کی جماعت کو کمزور بنایا جائے اب موسیٰ علیہ السلام کی مٹھی بھر جماعت کے مقابلہ میں فرعون جیسا جابر اور خود سر بادشاہ تھا جو مال و دولت اور شان و شوکت کی فراوانی کے علاوہ جملہ اسباب و وسائل پر قابض بھی تھا اور انہی وجوہات کی بنا پر وہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کے کام میں سدراہ بنا ہوا تھا کیونکہ وہ خوب جانتا تھا کہ اگر موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کو فروغ حاصل ہوگیا تو اس کا اقتدار خطرہ میں پڑجائے گا لہٰذا وہ اس دعوت کو روکنے میں اپنا ایڑی چوٹی کا زور صرف کر رہا تھا اور ظاہر ہے کہ جو شخص دعوت حق کی مخالفت میں اس حد تک جا پہنچے اس کے خود ایمان لانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لہٰذا موسیٰ علیہ السلام نے اپنی مقدور بھر کوششوں کے ساتھ ساتھ اللہ سے یہ دعا بھی کی کہ چونکہ دعوت حق کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ فرعون اور اس کے درباریوں کا شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ اور مال و دولت کی فراوانی ہے اور یہی چیزیں ایک دنیا دار کی نظر میں زندگی کی کامیابی کا منتہائے مقصود ہیں لہٰذا اے ہمارے پروردگار! ان لوگوں کے مال و دولت اور وسائل کو تباہ و برباد کر دے تاکہ یہ لوگ کم از کم دوسرے لوگوں کی راہ تو نہ روکیں، ان کے اپنے دل تو اس قابل ہی نہیں رہے کہ وہ ایمان لے آئیں الا یہ کہ کوئی سخت عذاب اپنے آپ پر نازل ہوتا دیکھ لیں۔ یونس
89 [٩٩] کامیابی کے لئے صبرو استقلال کی اہمیت :۔ پیغمبروں کی دعا کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے انھیں اور مسلمانوں کی جماعت کو صبر، استقلال اور ثابت قدمی کی تلقین فرمائی اور یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جو لوگ زندگی کی کامیابی کا منتہائے مقصود صرف دنیا کے مال و دولت اور شان و شوکت ہی کو سمجھ بیٹھے ہیں ان کی طرف مطلقاً التفات نہ کرو کیونکہ ان کا یہ نظریہ محض جہالت پر مبنی ہے اور اللہ تعالیٰ جلد ہی تمہیں ان لوگوں سے نجات دے دے گا۔ یونس
90 [١٠٠] جن حالات میں موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر نکلے تھے اور جس طرح بعد میں فرعون اور اس کے لشکر نے ان کا تعاقب کیا تھا نیز دریا کے پھٹنے، بنی اسرائیل کے بخیر و عافیت پار اتر جانے اور فرعون اور اس کے لشکر کے اس دریا میں غرق ہونے کی تفصیل پہلے سورۃ اعراف آیت نمبر ١٣٦ میں گزر چکی ہے۔ یہاں صرف یہ بتلانا مقصود ہے کہ فرعون کو جب موت سامنے نظر آگئی تو کہنے لگا کہ ’’فی الواقع رب میں نہیں تھا بلکہ حقیقی معبود وہی ہے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں میں بھی اب اس پر ایمان لاتا ہوں اور اس کا فرمانبردار بن کر رہوں گا‘‘ فرعون کا یہ اقرار دراصل اقتدار سے اپنی دستبرداری کا اعلان تھا بشرطیکہ اسے موت سے نجات مل جائے اور یہ وہی بات ہے جس کا موسیٰ علیہ السلام نے اپنی دعا میں ذکر کیا تھا کہ ان کے دل اس قدر سخت ہوچکے ہیں کہ جب تک کوئی سخت عذاب نہ دیکھ لیں ایمان لانے پر تیار نہ ہوں گے۔ یونس
91 [١٠١] فرعون کا غرقابی کے وقت ایمان لانا :۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون کے اس اقرار کے جواب میں فرمایا کہ جیسا اقرار تم اب کر رہے ہو ویسا اقرار پہلے بھی کئی دفعہ کرچکے ہو پھر بعد میں عہد شکنی کرکے بغاوت ہی کرتے رہے ہو لہٰذا تمہارا اب کا یہ اقرار قطعاً ناقابل اعتبار ہے اگر تمہیں اب بھی ہم نجات دے دیں تو پھر بھی تم وہی کچھ کرو گے جو پہلے کرتے رہے ہو اور اس مطلب پر دلیل درج ذیل حدیث ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب فرعون نے یہ کلمات کہے تھے تو جبریل علیہ السلام نے مجھے کہا کہ : ’’کاش اے محمد! آپ دیکھتے میں نے اس وقت دریا سے کیچڑ لے کر فرعون کے منہ میں ٹھونس دیا کہ مبادا اب بھی کہیں اللہ کی رحمت اسے نہ آلے‘‘ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اب تمہارے اس اقرار کا کچھ فائدہ نہیں کیونکہ یہ دنیا دارالامتحان ہے۔ تمہاری موت آچکی اور امتحان اور توبہ کا وقت گذر چکا ہے لہٰذا اب ایسا اقرار بے کار ہے اس مطلب پر بھی بے شمار آیات و احادیث شاہد ہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ نے تین امور کا معین وقت کسی کو بھی نہیں بتلایا، ایک یہ کہ کسی قوم پر عذاب کب آئے گا، دوسرے یہ کہ کسی کی موت کا وقت کب ہے؟ اور تیسرے یہ کہ قیامت کب آئے گی کیونکہ ان امور کا معین وقت بتلا دیا جائے تو دنیا کے دارالامتحان ہونے کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے اور فرعون کے معاملہ میں تو دو باتیں اکٹھی ہوگئی تھیں۔ ایک عذاب دوسرے موت۔ لہٰذا اس وقت اس کا ایمان کیسے قبول ہوسکتا تھا ؟ یونس
92 [١٠٢] فرعون کی لاش کی حفاظت کا مطلب :۔ یعنی تیری لاش نہ تو سمندر میں ڈوب کر معدوم ہوجائے گی اور نہ مچھلیوں کی خوراک بنے گی، چونکہ فرعون کے ڈوب کر مر جانے کے بعد ایک لہر اٹھی جس نے اس کی لاش کو سمندر کے کنارے ایک اونچے ٹیلے پر پھینک دیا تاکہ باقی لوگ فرعون کا لاشہ دیکھ کر عبرت حاصل کریں کہ جو بادشاہ اتنا طاقتور اور زور آور تھا اور خود خدائی کا دعویدار تھا بالآخر اس کا انجام کیا ہوا ؟ مگر انسانوں کی اکثریت ایسی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ایسی نشانیاں دیکھنے اور ان کا اعتراف کرنے کے باوجود عبرت حاصل نہیں کرتے اور نہ ہی اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ یہ لاش مدتوں اسی حالت میں پڑی رہی اور گلنے سڑنے سے بچی رہی اور بعد میں آنے والی نسلوں کے لیے نشان عبرت بنی رہی۔ جدید تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ یہ لاش آج تک محفوظ ہے جس پر سمندر کے پانی کے نمک کی تہہ جمی ہوئی ہے۔ جو اسے بوسیدہ ہونے اور گلنے سڑنے سے بچانے کا ایک سبب بن گئی ہے اور یہ لاش قاہرہ کے عجائب خانہ میں آج تک محفوظ ہے۔ واللہ اعلم۔ تاہم الفاظ قرآنی کی صحت اس کے ثبوت پر موقوف نہیں کہ اس کی لاش تاقیامت محفوظ ہی رہے۔ عاشورہ کا روزہ :۔ فرعون کی غرقابی کا واقعہ ١٠ محرم کو پیش آیا تھا اسی لیے یہود فرعون سے نجات کی خوشی کے طور پر روزہ رکھتے تھے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مسلمانوں کو اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا اور یہود کی مخالفت کے لیے ساتھ ٩ محرم یا ١١ محرم کاروزہ رکھنے کا حکم دیا پھر جب ماہ رمضان کے روزے فرض ہوئے تو اس دن کے روزہ کی حیثیت نفلی روزہ کی سی رہ گئی۔ یونس
93 [١٠٣] بنی اسرائیل کا شام کے علاقہ پر قبضہ اور تفرقہ بازی : یعنی ملک مصر میں بھی ان کو غلبہ دیا اور شام میں بھی اور یہ دونوں سر سبز اور شاداب ملک ہیں جہاں ہر طرح کے پھل اور غلے بکثرت پیدا ہوتے ہیں پھر ان مادی نعمتوں کے علاوہ انھیں تورات بھی عطا کی۔ جس میں ان کی زندگی کے ہر شعبہ کے لیے مکمل ہدایات موجود تھیں لیکن بعد میں یہی لوگ کئی فرقوں میں بٹ گئے تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ تورات ان کی صحیح رہنمائی کرنے کے لیے ناکافی تھی بلکہ اس کی وجہ نئے نئے فلسفیانہ مباحث پیدا کرنا، پھر آپس میں اختلاف کرنا، پھر فرقے بنانا اور اپنی اپنی چودھراہٹ کی خاطر ان کی آبیاری کرنا تھی۔ علماء و مشائخ کے حب جاہ نے ان فرقوں میں اتنا تعصب پیدا کردیا تھا کہ ان میں اتحاد کی صورت باقی نہ رہ گئی تھی حالانکہ اگر وہ اللہ کی کتاب کی طرف رجوع کرتے تو وہ پھر سے متحد ہوسکتے تھے۔ تفرقہ بازی کی وجہ اور اس کا علاج :۔ آج مسلمان بھی اسی فرقہ بازی کی لعنت کا شکار ہیں جس کا شکار یہود اور نصاریٰ ہوچکے تھے اور آج تک شکار ہیں۔ مسلمانوں کے فرقے بھی اسی ہٹ دھرمی اور ضد کا شکار ہیں اور ہر فرقہ اپنے اپنے حال میں مست اور مگن ہے۔ ان فرقوں کے قائدین کے حب مال اور جاہ کی خواہش اور ان کے مناصب سے ان کی دستبرداری ان فرقوں کے متحد ہونے میں آج بھی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ حالانکہ آج بھی اللہ کی کتاب اور رسول کی سنت موجود ہے۔ اگر اس کی طرف رجوع کیا جائے تو اتحاد کی صورت آج بھی ممکن ہے بلکہ اتحاد کی ممکنہ صورت یہی ہوسکتی ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسول کی طرف رجوع کیا جائے اور اماموں، علماء اور مشائخ کے اقوال کو کتاب و سنت کے مقابلہ میں درخور اعتناء نہ سمجھا جائے۔ یونس
94 [١٠٤] شک کا علاج اہل علم سے تحقیق کرنا ہے :۔ بظاہر یہ خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے لیکن اس سے مراد دوسرے لوگ ہیں اور یہ خطاب محض تاکید مزید کی بنا پر ہے وجہ یہ ہے کہ ہر نبی منزل من اللہ وحی پر سب سے پہلے خود ایمان لاتا ہے پھر دوسروں کو دعوت دیتا ہے اور شک اور ایمان دو بالکل متضاد چیزیں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھلا اس بات میں کیسے شک کرسکتے تھے جس کی تمام دنیا کو دعوت دے رہے تھے اور سننے والوں کے دلوں میں بھی پہاڑ سے زیادہ مضبوط یقین پیدا کردیتے تھے اب اگر اللہ کی نازل کردہ وحی میں کسی شخص کو شک پیدا ہو کہ آیا یہ واقعی اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے یا نہیں تو اس کا علاج یہ نہیں کہ وہ شک میں ہی پڑا رہے بلکہ یہ ہے کہ جن لوگوں پر سابقہ آسمانی کتابیں نازل ہوئی ہیں اور وہ ان کتابوں کو پڑھتے بھی ہیں۔ یعنی یہود و نصاریٰ، ان سے پوچھ کر اپنا شک دور کرسکتا ہے۔ اگرچہ یہود و نصاریٰ کی اکثریت ایسی تھی جو آپ پر ایمان نہیں لائے تھے تاہم ان میں کچھ انصاف پسند لوگ بھی موجود تھے جن میں سے کچھ ایمان لے آئے اور بعض نے بعض دوسری وجوہ کی بنا پر قبول نہیں کیا تھا پھر چونکہ اصولی لحاظ سے سب آسمانی کتابوں کی تعلیم ملتی جلتی ہے لہٰذا اہل کتاب میں سے بھی منصف لوگ یہ شہادت دے دیتے تھے کہ فی الواقع یہ آسمانی کتاب ہے۔ اور آپ کے اور صحابہ کے شک نہ کرنے کا عملی ثبوت یہ ہے کہ آپ نے یا صحابہ نے کبھی اہل کتاب سے یہ بات نہ پوچھی۔ یونس
95 یونس
96 [١٠٥] شک کے مرتکب :۔ شک اور تکذیب کے کئی مراحل ہیں سب سے پہلے شک پیدا ہوتا ہے اگر اس کا ازالہ نہ کیا جائے اور شک ترقی کرکے جدل کی صورت اختیار کرلیتا ہے یعنی ایسا شخص دلیل بازیوں پر اتر آتا ہے اور دوسروں سے جھگڑا شروع کردیتا ہے۔ پھر اس کے بعد تکذیب کا درجہ آتا ہے یعنی ایسا انسان یکسر اللہ کی آیات کا انکار کردیتا ہے پھر جب وہ اس تکذیب میں پختہ ہوجاتا ہے تو پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ کوئی حق بات قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ اس سے قبول حق کی استعداد ہی چھن جاتی ہے۔ مہر کب لگتی ہے؟ یہی وہ کیفیت ہوتی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر مہر لگنے سے تعبیر فرمایا ہے ایسے لوگوں کو اللہ کی کوئی بھی نشانی یا معجزہ راہ راست کی طرف لانے میں ممد ثابت نہیں ہوسکتا وہ بس اس وقت ہی ایمان لاتے ہیں جب کوئی جان لیوا عذاب دیکھ لیتے ہیں جیسے فرعون جب غرق ہونے لگا تھا تو اس وقت ایمان لایا تھا۔ یونس
97 یونس
98 [١٠٦] سیدنایونس علیہ السلام کا مرکز تبلیغ نینوا :۔ سیدنا یونس علیہ السلام کا ذکر یہاں پہلی دفعہ آیا ہے اور غالباً اسی وجہ سے اس سورۃ کا نام سورۃ یونس ہے البتہ آگے تین مقامات پر بھی اجمالی ذکر ہوگا یعنی سورۃ انبیاء کی آیات ٨٧۔ ٨٨ میں اور سورۃ الصافات کی آیات ١٣٩ تا ١٤٨ میں اور سورۃ قلم کی آیات ٤٨ تا ٥٠ میں، آپ تقریباً آٹھ سو سال قبل مسیح اہل نینوا کی طرف مبعوث ہوئے۔ نینوا اس زمانے میں دریائے دجلہ کے کنارے ایک بہت بڑا اور بارونق شہر تھا اور اس شہر کے کھنڈرات موجودہ شہر موصل (عراق) کے عین مقابل پائے جاتے ہیں یہی شہر اشوریوں (قوم یونس) کا دارالسلطنت تھا اور اس کے کھنڈرات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شہر تقریباً ساٹھ مربع میل میں پھیلا ہوا تھا۔ یونس علیہ السلام کا فرار اور عذاب کا ٹل جانا :۔ اشوری لوگ بھی بت پرست تھے سیدنا یونس نے سات سال تک انھیں تبلیغ کی اور اللہ کا پیغام پہنچایا مگر ان پر کچھ بھی اثر نہ ہوا اور اپنے نبی کی تکذیب اور مخالفت پر کمر بستہ رہے ایسے سرکش اور ہٹ دھرم لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ یہی ہے کہ ان پر عذاب نازل کرکے انھیں تباہ و برباد کردے اور ایسے عذاب سے انبیاء اپنی اپنی سرکش قوموں کو ڈراتے بھی رہے ہیں۔ سیدنا یونس علیہ السلام نے ان لوگوں سے مایوس ہو کر اور تنگ آکر انھیں ایک معینہ وقت پر (بعض روایات کے مطابق ٣ دن اور بعض روایات کے مطابق چالیس دن بعد) عذاب نازل ہونے کی دھمکی دے دی حالانکہ معین وقت کی قید کے ساتھ عذاب کی دھمکی دینا اللہ تعالیٰ کی سنت کے خلاف ہے۔ اس قوم نے پھر بھی کوئی پرواہ نہ کی اور جب عذاب آنے کے موعودہ وقت میں ایک آدھ دن باقی رہ گیا اور عذاب کے آثار نظر نہ آئے تو سیدنا یونس علیہ السلام اللہ کے اذن کے بغیر وہاں سے چل کھڑے ہوئے کہ مبادا عذاب نہ آئے اور ان لوگوں کی نظروں میں جھوٹے ثابت ہوں۔ آپ کا اس طرح بلا حکم الٰہی نکل کھڑے ہونا بھی اگرچہ اللہ کی رضا کے خلاف تھا تاہم آپ کو سچا کرنے کی خاطر معینہ وقت پر عذاب آگیا، سیاہ بادل چھا گئے اور تاریک دھواں اس قوم کے گھروں کی طرف بڑھنے لگا اس وقت لوگوں نے سیدنا یونس علیہ السلام کو تلاش کرنا شروع کیا اور جب وہ نہ ملے تو خود اپنے بال بچوں بلکہ حیوانوں سمیت ایک وسیع میدان میں اکٹھے ہوگئے اور اللہ کے حضور اپنے گناہوں کا اعتراف اور آہ و زاری کرنے لگے اور اس گریہ و زاری میں اتنا مبالغہ کیا کہ اللہ نے ان کی توبہ قبول فرما لی اور ان پر واقع ہونے والے عذاب سے انھیں نجات دے دی۔ اللہ کی سنت جاریہ میں استثناء کی یہ واحد مثال ہے کہ اس قوم پر سے آنے والے عذاب کو روک دیا گیا۔ عذاب کے ٹلنے کی وجوہ :۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس قوم سے یہ امتیازی اور استثنائی سلوک کیوں ہوا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ امتیازی سلوک بھی اللہ کے ایک دوسرے قانون کے مطابق ہوا تھا جو یہ تھا کہ سیدنا یونس علیہ السلام امر الٰہی کے بغیر انھیں چھوڑ کرچلے گئے اور ابھی ان پر اتمام حجت کا وقت پورا نہیں ہوا تھا اور اس کی دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جس انداز سے ان لوگوں نے اللہ کے حضور آہ ورازی کی اور اپنے گناہوں سے توبہ کی اس طرح پہلے کسی قوم نے نہ کی تھی۔ واللہ اعلم بالصواب یونس
99 [١٠٧] یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تو انتہائی خواہش تھی کہ سب کے سب لوگ ہی ایمان لے آئیں اور اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا کر بھی سکتا تھا مگر یہ بات اللہ کی مشیئت کے خلاف ہے۔ اللہ کی مشیئت یہ ہے کہ جو لوگ ایمان لائیں علی وجہ البصیرت اور اپنے اختیار و ارادہ کو پوری آزادی کے ساتھ استعمال کرکے لائیں لہٰذا آپ کی یہ ذمہ داری نہیں کہ کسی کو ایمان لانے پر مجبور کریں اور نہ ہی آپ کو ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے کچھ رنج کرنے یا پریشان ہونے کی ضرورت ہے۔ یونس
100 [١٠٨] اللہ کے اذن کا مفہوم :۔ یعنی اللہ کی توفیق اور منظوری کے بغیر کسی کو ایمان کی نعمت نصیب نہیں ہوتی اور یہ توفیق صرف اس شخص کو نصیب ہوتی ہے جو حق کی تلاش میں اپنی عقل سے کام لے اور اسے حق کی تلاش کی فکر دامن گیر ہو۔ اور وہ ہر طرح کے تعصبات اور خارجی نظریات سے ذہن کو پاک کرکے اللہ کی آیات میں خالی الذہن ہو کر غور و فکر کرے اور جو شخص اس انداز سے حق کا متلاشی ہو تو اللہ تعالیٰ یقیناً اسے حق کی راہ دکھا دیتا ہے اور ایمان لانے کی توفیق بھی بخشتا ہے اور اسی کا نام اللہ کا اذن ہے لیکن جو شخص آبائی تقلید، مذہبی تعصبات اور خارجی نظریات سے بالا تر ہو کر کچھ سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہ کرے اسے اللہ، ایمان کی نعمت نصیب نہیں کرتا۔ اس کی قسمت میں جہالت، گمراہی، غلط کاری، غلط بینی اور کفر و شرک کی نجاستوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ یونس
101 [١٠٩] ضد اور تعصب کی موجودگی میں اللہ کی کوئی نشانی فائدہ نہیں دیتی :۔ جو لوگ اللہ کی نشانیوں میں غور و فکر کرتے ہیں ان کے لیے تو کائنات کی ایک ایک چیز میں اللہ کی معرفت کے دلائل مل سکتے ہیں حتیٰ کہ درختوں کے پتے، پھولوں کی مہک اور ان کے مختلف رنگ اور شکلیں بھی اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی توحید پر بے شمار دلائل پیش کر رہی ہیں اور جو لوگ غور و فکر کے بجائے ہٹ دھرمی، ضد اور تعصب سے کام لیتے ہیں ان کے لیے حسی معجزے بھی بیکار ثابت ہوتے ہیں وہ انھیں بھی دیکھ کر یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو محض جادو کی کرشمہ سازیاں ہیں ان کے لیے نہ کوئی نصیحت کارگر ثابت ہوتی ہے اور نہ ہی اللہ کے عذاب اور اس کی گرفت کا خوف انھیں ایمان لانے پر آمادہ کرسکتا ہے۔ یونس
102 [١١٠] ایسے لوگ اس وقت تک ایمان لانے پر آمادہ نہیں ہوتے جب تک کہ وہ عذاب کی شکل میں اپنی موت کو اپنے سامنے دیکھ نہ لیں۔ سابقہ اقوام کے انجام سے عبرت حاصل کرنا ان کے لیے خارج از بحث ہوتا ہے کیونکہ وہ ایسے انجام کی بھی مادی توجیہات تلاش کرنے کے درپے ہوجاتے ہیں لہٰذا ایسے لوگوں کو سمجھانا بھی بے سود ہی ثابت ہوتا ہے ایسے لوگوں کو یہی جواب مناسب ہوتا ہے کہ تم بھی انتظار کرو اور میں بھی انتظار کرتا ہوں تاآنکہ اللہ تعالیٰ خود ہی ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کی کوئی ایسی صورت پیدا کر دے جس سے ہر ایک کو یہ معلوم ہوجائے کہ دونوں فریقوں میں سے حق پر کون ہے اور باطل پر کون؟ اور ایسا فیصلہ عموماً منکرین حق پر عذاب الٰہی کی صورت میں ہی ہوا کرتا ہے۔ یونس
103 [١١١] رسول پر ایمان لانے والوں کو عذاب سے بچانا اللہ کی ذمہ داری ہے :۔ اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ سے یہ دستور رہا ہے کہ جب کسی مجرم قوم پر اپنے رسول کی تکذیب کی وجہ سے عذاب نازل کرتا ہے تو وہ وحی کے ذریعہ اس عذاب کی آمد سے رسول کو مطلع کردیتا ہے اور اس عذاب سے بچاؤ کی صورت بھی سمجھا دیتا ہے۔ اس طرح رسول اور اس پر ایمان لانے والے تو اس عذاب سے بچ جاتے ہیں اور مجرمین اس عذاب سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ اس آیت میں دراصل اہل مکہ کو انتباہ ہے جو اسلام اور پیغمبر اسلام کی مخالفت میں، اسلام کی راہ روکنے اور مسلمانوں کو اذیتیں پہنچانے میں اپنا ایڑی چوٹی کا زور صرف کر رہے تھے اور انھیں بتلانا یہ مقصود تھا کہ تمہارا بھی وہی حشر ہونے والا ہے جو سابقہ مجرموں کا ہوچکا ہے اور ان کمزور اور ستم رسیدہ مسلمانوں کو تمہاری چیرہ دستیوں سے بچانا اور انھیں تم پر غالب کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ یونس
104 [١١٢] موت سے متعلق تین حقائق :۔ موت کے متعلق چند ایسے اٹل حقائق ہیں جن کا کوئی بھی انسان انکار نہیں کرسکتا خواہ وہ مومن ہو یا مشرک ہو یا دہریہ اور نیچری ہو۔ ایک یہ کہ ہر ذی روح کو موت آکے رہے گی کوئی انسان موت کی گرفت سے آج تک نہ بچ سکا ہے اور نہ بچ سکتا ہے دوسری یہ کہ جب موت کا وقت آجائے تو اسے ٹالا نہیں جاسکتا۔ اور تیسری یہ کہ موت ہر ذی روح کے لیے ناگوار ہوتی ہے اور کوئی بھی مرنا پسند نہیں کرتا۔ الا یہ کہ مومنوں کو موت کے وقت آئندہ کے بہتر انجام کی خوشخبری دی جاتی ہے یا انھیں جنت میں ان کا مقام دکھلا دیا جاتا ہے جس کی بنا پر وہ موت کو برضاء و رغبت قبول کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں جیسا کہ سیدۃ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے اور ان تینوں حیثیتوں کو مشرکین مکہ بھی تسلیم کرتے تھے بالخصوص اس حقیقت کو کہ موت کو ان کے معبود ٹال نہیں سکتے نیز یہ کہ موت اور زندگی کا رشتہ سرتا سر خالص اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ معبودان باطلہ کی اقسام اور ان کی بے بسی :۔ دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ جن چیزوں کو معبود یا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھا جاتا رہا ہے۔ ان کی تین ہی قسمیں ہوسکتی ہیں ایک توہماتی ارواح جیسے جن، فرشتے مختلف سیاروں یا بزرگوں کی ارواح، ایسی چیزوں کو معبود یا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنے کی بنیاد محض انتہائی توہمات ہیں۔ دوسرے بے جان معبود جیسے بت مجسمے اور شجر و حجر وغیرہ اور تیسرے پیر و مشائخ وغیرہ۔ ان میں سے بے جان تو محض توہماتی چیزیں ہیں رہے پیرو مشائخ جنہیں حاجت روا اور مشکل کشا سمجھا جاتا ہے۔ ان کے متعلق بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا انہوں نے اپنے آپ کو موت جیسی ناگوار چیز کی گرفت سے بچا لیا تھا یا اس کے وقت کو مؤخر کرنے میں وہ کامیاب ہوگئے تھے؟ اور اگر وہ اپنی بھی مصیبت دور نہیں کرسکے تو دوسروں کی کیسے دور کرسکتے ہیں؟ زندگی اور موت پر اللہ کے سوا کسی معبود کا اختیار نہیں چلتا :۔ اسی حوالہ سے مشرکوں کو انتباہ کیا جارہا ہے اور پیغمبر کی زبان سے یہ کہلوایا جارہا ہے کہ آپ انھیں کہیے کہ میں صرف اسی ہستی کی پرستش کرتا ہوں جس کے قبضہ قدرت میں تمہاری جانیں ہیں تمہاری جانوں پر تمہارے تمام معبودوں میں سے کسی کا بھی تصرف نہیں چلتا تو پھر میں آخر اسی اکیلے معبود کی کیوں نہ پرستش کروں جو میری اور تمہاری سب کی جانوں پر پورا پورا تصرف رکھتا ہے ہم سب کی زندگی اور موت کی باگ ڈور خالصتاً اسی کے ہاتھ میں ہے اور کان کھول کر سن لو کہ جن معبودوں کی تم پرستش کرتے ہو میں ایسے بے بس اور لاچار معبودوں کی کبھی پرستش کا خیال تک بھی دل میں نہیں لاسکتا۔ یونس
105 [١١٣] ہدایت کے حصول کے لئے تین ہدایات :۔ اس آیت اور اس سے اگلی دو آیات میں بھی خطاب بظاہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے جبکہ یہ ارشادات عام لوگوں اور بالخصوص مسلمانوں کے لیے ہیں اس لیے کہ نبی کی دعوت کا تو آغاز ہی شرک کی تردید سے ہوتا ہے اور اس کی نبوت سے پہلے کی زندگی بھی شرک سے مبرا ہوتی ہے اور قرآن کریم میں یہ انداز تاکید مزید کے لیے اختیار کیا گیا ہے اور ارشاد یہ ہو رہا ہے کہ دین اسلام کا جو راستہ اللہ تعالیٰ نے بتلایا اور دکھلایا ہے بالکل ناک کی سیدھ اسی پر چلتے جائیے دائیں بائیں یا آگے پیچھے مڑ کر دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ کی سیدھی راہ کے علاوہ ادھر ادھر جتنے راستے ہیں سب شیطانی راہیں ہیں۔ دوسری ہدایت یہ ہے کہ اس راہ پر ہر قسم کے قبائلی تعصبات جاہلانہ اور مشرکانہ رسم و رواج، مذہبی تعصبات اور خارجی یا سابقہ نظریات کو بالکل چھوڑ چھاڑ کر اور یکسو ہو کر چلنا ہوگا اور تیسری ہدایت یہ ہے کہ بالخصوص مشرکانہ عقائد اور رسم و رواج، ان کے عادات و خصائل اور کردار سب سے پاک صاف رہ کر اللہ کی راہ کو اختیار کرنا ہوگا۔ یونس
106 [١١٤] مشرک کی عام فہم تعریف، کسی کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا :۔ انسان جب بھی کسی ہستی یا معبود کو پکارتا ہے تو اس سے اس کی اغراض دو ہی قسم کی ہوسکتی ہیں یا تو کسی ایسے کام کے لیے پکارے گا جس سے اسے کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہو جیسے اولاد یا رزق کی طلب یا کسی ایسے کام کے لیے پکارے گا جس سے اس کی کوئی مصیبت یا تکلیف دور ہوسکتی ہو۔ اصطلاح عام میں ان دونوں اغراض کو جلب منفعت اور دفع مضرت اور آسان تر الفاظ میں حاجت روائی اور مشکل کشائی کہا جاتا ہے اور ان دونوں طرح کے اغراض کے لیے اللہ کے سوا کسی کو پکارنا ہی اس کی عبادت ہوتی ہے اور اس مضمون پر کتاب و سنت میں بے شمار دلائل موجود ہیں۔ اور یہی بات سب سے بڑا شرک یا ظلم عظیم ہوتا ہے۔ یونس
107 [١١٥] عام فہم دلائل سے شرک کی تردید :۔ اس آیت میں حاجت روائی اور مشکل کشائی کی حقیقت یوں واضح کی گئی ہے کہ یہ دونوں باتیں خالصتاً اللہ تعالیٰ ہی کے قبضۂ قدرت میں ہیں یعنی اگر کوئی تکلیف تمہارے مقدر میں لکھی ہوئی ہے تو کوئی جن یا فرشتہ یا نبی اور بزرگ ، پیر فقیر یا کوئی اور آستانہ مافوق الفطرت اسباب کے ذریعہ اس کو دور نہیں کرسکتا۔ ما فوق الفطرت اور فطری اسباب کے نتائج اللہ کے اختیار میں ہیں :۔ اسی طرح اللہ اگر کسی پر کوئی بھلائی کرنا چاہے تو دنیا کی کوئی طاقت مافوق الفطرت اسباب سے اسے روک نہیں سکتی یہاں تک تو معبودان باطل کے تصرف کی تردید کا تعلق ہے اور فطری اسباب کے تحت بھی حاجت روائی اور مشکل کشائی بظاہر نظر آ تو رہی ہوتی ہے مگر اس کی تکمیل اسی صورت میں ہوتی ہے جب کہ اللہ کی طرف سے اذن بھی ہو اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک مریض ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے جو نہایت احتیاط کے ساتھ اس کا علاج کرتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی شفا اسی صورت میں ہوگی جب اللہ کو منظور ہوگا ورنہ نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر ایک کسان پوری احتیاط سے اچھی قسم کا بیج بوتا اور اپنی فصل کی پوری طرح آبیاری اور نگہداشت کرتا ہے مگر پکی ہوئی فصل کا اسے ملنا یا نہ مل سکنا یا تھوڑی ملنا یا زیادہ ملنا یہ سب کچھ اللہ کے اذن پر موقوف ہے توحید کو سمجھنے میں یہ عقیدہ اس قدر ہمہ گیر ہے کہ اس سے ہر قسم کے شرک کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ یونس
108 [١١٦] ہدایت کے تین اصول، ہدایت قبول کرنے کے فوائد :۔ گویا مندرجہ بالا تین آیات میں مجملاً ہدایت کا مفہوم بیان کردیا گیا ہے جو درج ذیل اصولوں پر مشتمل ہے ہر طرح کے شرک سے مکمل اجتناب، خالصتاً اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ رکھنا اور اسے نفع و نقصان کا مالک سمجھنا اور منزل من اللہ شریعت پر ادھر ادھر دیکھے بغیر پوری یکسوئی کے ساتھ گامزن ہوجانا اور ایسی ہدایت اختیار کرنے والے کو دنیا میں تو یہ فائدہ پہنچتا ہے کہ زندگی کے ہر شعبہ کے لیے اسے مکمل رہنمائی حاصل ہوجاتی ہے اور اسے بیرونی نظریات اور فلسفوں کی ضرورت نہیں رہتی اور زندگی ذمہ دارانہ اور پرسکون طور پر گزرتی ہے اور آخرت میں یقیناً فلاح نصیب ہوگی اور جو شخص ایسی ہدایت کو اختیار نہیں کرتا وہ ساری زندگی ادھر ادھر لڑھکتا ہی رہتا ہے اسے دنیا تو اتنی مل ہی جاتی ہے جتنی اس کے نصیب میں ہوتی ہے مگر سکون نہیں مل سکتا اور آخرت میں اس کی تباہی و بربادی یقینی ہے اور اس تباہی کا ذمہ دار وہ خود ہوتا ہے۔ یونس
109 [١١٧] یہ سورۃ مکی زندگی کے آخری دور میں نازل ہوئی تھی جبکہ مسلمانوں پر کفار کے شدائد و مظالم کی انتہا ہوچکی تھی اور بعض جرأت مند صحابہ کی خواہش کے باوجود ابھی تک مسلمانوں کو جہاد کرنے کی بھی اجازت نہیں ملی تھی لہٰذا اس سورۃ کے اختتام پر ایک دفعہ پھر آپ کو اور مسلمانوں کو ابھی سب کچھ صبر کے ساتھ برداشت کرنے اور وحی کی اتباع کرنے کی تلقین کی جارہی ہے اور ساتھ ہی انھیں اچھے دنوں کی آمد کی خوشخبری بھی دی جارہی ہے۔ یونس
0 ھود
1 [١] محکم آیات کا مفہوم :۔ سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ٧ میں بیان کیا گیا ہے کہ قرآن کریم کی بعض آیات محکم ہیں اور بعض دوسری متشابہ۔ لغوی لحاظ سے تو محکم ہر اس چیز کو کہا جاسکتا ہے جسے حکمت، دانائی اور تجربہ سے اس کو ساخت میں مضبوط بنادیا گیا ہو جیسے ارشاد باری ہے ﴿ثُمَّ یُحْکِمُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖ ﴾(۵۲:۲۲) اور جب محکم کے مقابلے میں متشابہ کا لفظ آئے تو محکم کا معنی ایسی آیات ہیں جن میں کوئی لفظی یا معنوی اشتباہ نہ ہو بالفاظ دیگر اس کے معنی بالکل واضح ہوں جن کی کوئی اور تاویل نہ ہوسکتی ہو یعنی قرآن کی آیات محکم ہیں اور ان کی حکمت اور تفصیل بعض دوسرے مقامات پر دوسری آیات میں بیان کردی گئی ہے مثلاً لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ایک ایسی حقیقت ہے جو تمام آسمانی شریعتوں میں مذکور ہے اور قرآن کریم میں بیسیوں بلکہ سینکڑوں مقامات پر مختلف اوقات میں اس کی تفصیلات نازل ہوتی رہی ہیں لیکن وہ سب اس حقیقت کو مزید مستحکم و مضبوط بناتی چلی جاتی ہیں اور ان میں کہیں بھی اختلاف یا تضاد واقع نہیں ہوتا جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قرآن کریم سارے کا سارا ہی کسی حکیم اور خبیر ہستی سے نازل شدہ ہے۔ بعض مفسرین آیات کو محکم بنانے سے مراد یہ لیتے ہیں کہ قرآن کریم کی آیات ایسی ہیں جن میں عقل سلیم اگر غور و فکر کرے تو کوئی خرابی اور نقص معلوم نہیں ہوتا اور وہ ہر معیار پر پوری اترتی ہیں وہ ماضی کے حالات سے متعلق ہوں یا آئندہ کے متعلق پیشین گوئیاں ہوں اور وہ احکام سے متعلق ہوں جو تہذیب اخلاق سے لے کر سیاست ملکی تک نیز عالم آخرت میں سعادت عظمیٰ تک پھیلے ہوئے ہوں اور زندگی کے کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتے ہوں اور اثبات توحید کے دلائل ہوں اور ان میں سے جن احکام کی اس دنیا میں تجربہ کی کسوٹی پر جانچ کی جاسکتی ہے وہ سچ اور درست ہی ثابت ہوتے ہیں ایسے اخبار اور ایسے احکام بھی قرآن میں جابجا کہیں اجمالاً اور کہیں تفصیلاً مذکور ہوئے ہیں اور ایسی تمام آیات میں کسی نقص، خرابی یا اختلاف کا نہ ہونا ہی اس بات پر دلیل ہے کہ یہ کسی حکیم و خبیر ہستی کی طرف سے نازل شدہ ہیں۔ ھود
2 [٢] فساد فی الارض کا علاج صرف دعوت توحید ہے :۔ یہ آیت بھی لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ ہی کی تفصیل ہے کہ جب اللہ کے سوا کوئی الٰہ یعنی معبود برحق موجود نہیں تو عبادت بھی اسی کی کی جانی چاہئے یہی وہ حکم ہے جس سے تمام انبیاء نے اپنی دعوت کا آغاز کیا ہے اور یہ تو واضح ہے کہ تمام انبیاء کی بعثت ایسے اوقات میں ہوتی رہی جب تمام آباد دنیا ظلم و جور سے بھر جاتی تھی یہ ظلم و جور خواہ کفر و شرک جیسے گندے عقائد سے تعلق رکھتا ہو خواہ کردار و اعمال سے۔ بہرحال فساد فی الارض کی جتنی بھی قسمیں ہیں ان سب کا واحد اور بنیادی علاج یہی ہے کہ انھیں ایک اللہ کی خالصتاً عبادت کی دعوت دی جائے اور ان میں اللہ تعالیٰ کی صحیح معرفت پیدا کی جائے پھر جو لوگ اس دعوت کو قبول کرنے سے انکار کردیں انھیں دنیا اور آخرت میں ان کے برے انجام سے ڈرایا جائے اور جو اسے قبول کرکے اس کے تقاضوں کے مطابق اعمال بجا لانے لگیں انھیں دنیوی و اخروی فلاح کی بشارت دی جائے۔ ھود
3 [٣] توبہ واستغفار کے فائدے :۔ اس آیت میں توبہ و استغفار کی کمال فضیلت بیان ہوئی ہے توبہ و استغفار سے اصل مطلوب تو اپنے گناہوں کی بخشش ہے اگر خلوص نیت سے توبہ کی جائے تو اللہ تعالیٰ یقیناً گناہ معاف فرما دینے والا ہے۔ مزید فائدہ یہ ہے کہ جب تک توبہ و استغفار کرنے والا زندہ رہے گا اللہ اسے متاع حسن سے نوازے گا۔ متاع حسن سے مراد پاکیزہ اور حلال رزق، اس رزق میں برکت اور قلبی اطمینان اور سکھ چین کی زندگی ہے اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا کہ اللہ اس قوم پر عذاب نازل نہیں کرتا جس میں توبہ و استغفار کرنے والے لوگ موجود ہوں (٨: ٣٣) نیز استغفار سے ایسے ہی مصائب اور بلائیں دور ہوتی ہیں جیسے صدقہ سے ہوتی ہیں جیسا کہ بہت سی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ متاع حسن اور متاع غرور :۔ متاع حسن کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لیے متاع الغرور کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ یعنی کافروں کو جو متاع زیست دیا جاتا ہے خواہ وہ مومنوں کے سامان زیست سے زیادہ ہی ہو اور بسا اوقات ہوتا بھی ایسے ہی ہے تو وہ سامان زیست انھیں دھوکہ اور فریب میں مبتلا کیے رکھتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ بہترین زندگی گزر رہی ہے اور اللہ ان پر مہربان ہے حالانکہ حلال و حرام کی تمیز کے بغیر وہی کمایا ہوا مال و دولت بسا اوقات اس دنیا میں بھی ان کے لیے وبال جان بن جاتا ہے اور آخرت میں تو یقینی طور پر بن جائے گا۔ [٤] یعنی اللہ تعالیٰ توبہ و استغفار کرنے اور نیک اعمال بجا لانے والوں کا بڑا قدر دان ہے کسی نے جتنے بھی نیک اعمال کیے ہوں گے اللہ تعالیٰ اسے اتنا ہی بلند درجہ عطا فرمائے گا واضح رہے کہ توبہ و استغفار کرتے رہنا بجائے خود بہت بڑا نیک عمل ہے۔ [٥] ہولناک دن کے عذاب سے ڈرنا تو ان لوگوں کو چاہیے جو دعوت حق سے منہ پھیرتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو یہ فرمایا کہ میں تم پر واقع ہونے والے عذاب سے ڈرتا ہوں تو یہ آپ کی اس کمال شفقت اور ہمدردی کی وجہ سے ہے جو آپ کو تمام لوگوں سے تھی۔ ھود
4 [٦] کسی مجرم کو سزا دینے کے لیے دو باتوں کی ضرورت ہوتی ہے ایک یہ کہ مجرم حاضر ہو دوسرے سزا دینے والا اسے سزا دینے کی قدرت رکھتا ہو چنانچہ اللہ تعالیٰ ایسے دعوت حق سے اعراض کرنے والوں کو اپنے پاس حاضر کرنے کی بھی قدرت رکھتا ہے اور سزا دینے کی بھی، ایسے مجرموں کو اپنے انجام سے ضرور ڈرنا چاہیے۔ ھود
5 [٧] اس آیت کا مقصد تو اللہ تعالیٰ کے علم محیط کی وسعت کو بیان کرنا ہے کہ کھلی اور چھپی چیزیں تو کجا وہ تو دلوں کے ارادوں تک سے واقف ہے مگر اس آیت کے ابتدائی جملہ کی تفسیر میں مفسرین نے بہت اختلاف کیا ہے ان میں سے ہم صرف سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بخاری میں مذکور روایت پر اعتماد کرتے ہیں جو درج ذیل ہے : محمد بن عبید بن جعفر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ یہ آیت کس باب میں اتری ہے تو انہوں نے کہا : کچھ لوگ رفع حاجت کے وقت یا اپنی بیویوں سے صحبت کرتے وقت آسمان کی طرف ستر کھولنے سے (پروردگار سے) شرماتے اور شرم کے مارے جھکے جاتے تھے اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری، کتاب التفسیر) یعنی اگر تمہیں بوقت ضرورت بدن کھولنے میں اللہ سے حیا آتی ہے اور اس طرح جھکے جاتے ہو تو کیا جس وقت کپڑے اتارتے اور پہنتے ہو اس وقت تمہارا ظاہر و باطن اللہ کے سامنے نہیں ہوتا ؟ اور جب انسان اللہ سے کسی وقت بھی چھپ نہیں سکتا تو پھر ضرورت بشریہ سے متعلق اس قدر غلو سے کام لینا درست نہیں۔ ھود
6 [٨] اللہ کی رزاقیت :۔ یعنی صرف انسانوں کا نہیں بلکہ زمین پر چلنے والے جانوروں حتیٰ کہ کیڑے مکوڑوں اور چیونٹیوں کا رزق بھی اللہ کے ذمے ہے اور یہ اللہ کی ذمہ داری ہے کہ ہر جاندار کو رزق اسے اس کے مقام پر پہنچائے۔ اس آیت سے جہاں اللہ کی کمال رزاقیت کا اندازہ ہوتا ہے وہاں اس کے وسعت علم کا بھی اندازہ ہوتا ہے اللہ کے رزق کی فراہمی کا ذریعہ یہ ہے کہ وہ آسمان سے بارش برساتا ہے جس سے زمین میں سے ہر طرح کی نباتات اگتی ہیں۔ پھر اسی نباتات، فصلوں اور پھلوں وغیرہ سے ہر جاندار کو بالواسطہ یا بلاواسطہ روزی مہیا ہوتی ہے اور ہر جاندار کی جملہ ضروریات زندگی اسی زمین سے مہیا ہو رہی ہیں اور اللہ تعالیٰ جتنی بھی مخلوق پیدا فرماتا ہے تو اس کے مطابق زمین بھی اپنے نئے سے نئے خزانے اگلتی جارہی ہے اور آئندہ بھی اگلتی چلی جائے گی۔ لیکن اس رزق کے حصول کے لیے اس نے اسباب و وسائل اختیار کرنے کا بھی حکم دے دیا ہے اور جب کوئی انسان یا جاندار اسباب اختیار کرنے سے عاجز ہو تو اللہ تعالیٰ خود ہی اسباب بھی مہیا فرما دیتا ہے۔ محکمہ خاندانی منصوبہ بندی کی ناکامی اور قحط کے اسباب :۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر رزق کی فراہمی اللہ کے ذمے ہے تو قحط سے یا بعض دوسری وجوہ سے انسان ہزاروں کی تعداد میں مر کیوں جاتے ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ قحط تو اللہ کا عذاب ہے جو لوگوں کی نافرمانیوں کی وجہ سے انسانوں پر مسلط کیا جاتا ہے اور دوسری وجوہ بعض انسانوں کی دوسروں پر ظلم و زیادتی اور معاشی وسائل کی ناہموار تقسیم کی بنا پر ایسے حادثات وجود میں آتے ہیں اور یہ سب کچھ انسانوں کے کسب اعمال کا ہی نتیجہ ہوتا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جانداروں کے رزق میں کمی یا کوتاہی کا تصور بھی ممکن نہیں۔ ماہرین معاشیات کی کوتاہ بینی :۔ آج عالمی سطح پر یہ ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے کہ آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور وسائل رزق اس کا ساتھ نہیں دے رہے لہٰذا خاندانی منصوبہ بندی اور اولاد پر کنٹرول ضروری ہے اس سلسلہ میں آج کے ماہر معاشیات کی کوتاہ فہمی اور فطرت سے جنگ کے نتیجہ میں ان کی ناکامی کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ جہاں جہاں ایسے محکمے قائم کیے جارہے ہیں شرح پیدائش نسبتاً بڑھتی جارہی ہے اور عجیب اتفاق ہے کہ لوگ بھی پہلے سے زیادہ آسودہ اور خوشحال ہیں جس کا اندازہ ہر شخص اپنی پچاس سال پہلے کی زندگی سے کرسکتا ہے ان مادہ پرست ماہرین کے فکر کی اصل وجہ محض اللہ تعالیٰ کی رزاقیت پر عدم توکل ہے ورنہ اللہ تعالیٰ تو آبادی کی افزائش کے ساتھ ساتھ زمین کے خزانوں میں اضافہ فرما رہا ہے صدیوں سے بنجر پڑی ہوئی زمینیں آباد ہو رہی ہیں زمین سال میں دو کی بجائے چار چار فصلیں دینے لگی ہے کہیں تیل دریافت ہو رہا ہے کہیں جلانے کی گیسیں اور کہیں دوسری معدنیات نیز انسان حصول رزق کے نئے سے نئے وسائل بھی دریافت کر رہا ہے اور سب باتیں اس آیت کا جیتا جاگتا مصداق ہیں۔ مادہ پرست ماہرین معاشیات یہ تو اندازہ کرلیتے ہیں کہ اتنے سال بعد موجودہ شرح پیدائش کے مطابق دنیا کی آبادی اتنی ہوجائے گی لیکن اس دوران اللہ تعالیٰ جو نئے نئے وسائل رزق مہیا کرتا ہے اس کا وہ کچھ اندازہ نہیں کرسکتے لہٰذا ان کے اکثر اندازے غلط ثابت ہوتے ہیں اس مادہ پرستی اور محض مادی وسائل پر نظر رکھنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اللہ پر توکل اٹھ جاتا ہے جو اس آیت کا مقصود اصلی ہے۔ اللہ پر توکل کی فضیلت :۔ چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر تم اللہ پر ایسا توکل کرتے جیسا کرنے کا حق ہے تو تم کو بھی اسی طرح رزق دیا جاتا جس طرح پرندوں کو دیا جاتا ہے وہ صبح کو بھوکے جاتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں‘‘ (ترمذی، ابو اب الزہد۔ باب ماجاء فی قلۃ الطعام) [٩] قرآن کے الفاظ ہیں مستقر (قرار گاہ) اور مستودع (سونپے جانے کی جگہ) اور مستودع اس گودام کو بھی کہتے ہیں جہاں کوئی چیز ذخیرہ کی جاتی ہے یا امانتیں بطور حفاظت رکھی جاتی ہیں ان دونوں الفاظ کی تعبیر میں مفسرین کا خاصا اختلاف ہے ان میں سے ہم ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کو اختیار کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک مستقر سے مراد وہ جگہ ہے جہاں کسی نے اس دنیا میں زندگی (کا اکثر حصہ) بسر کیا ہو اور مستودع سے مراد وہ جگہ ہے جہاں وہ دفن ہوا اور ہر جاندار کے ان دونوں مقامات کا اللہ کو پوری طرح علم ہے۔ [١٠] لوح محفوظ ہی کتاب مبین ہے :۔ کتاب مبین سے مراد لوح محفوظ ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ عمران بن حصین کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’: اللہ تھا اور اس سے پہلے کوئی چیز نہ تھی اس کا عرش پانی پر تھا پھر اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور لوح محفوظ میں ہر چیز لکھی‘‘ (بخاری، کتاب التوحید۔ باب قولہ وکان عرشہ علی الماء) ھود
7 [١١] مادی اشیاء میں پانی سب سے پہلے پیدا کیا گیا :۔ اس آیت سے اور مندرجہ بالا حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پانی کی تخلیق زمین و آسمان کی تخلیق سے پہلے ہوچکی تھی یہ پانی کہاں تھا اور آیا یہ پانی وہی پانی ہے جو معروف ہے یا کوئی مائع قسم کا مادہ تھا ؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو ہماری سمجھ سے باہر ہیں اور انھیں سمجھنے کے ہم مکلف بھی نہیں البتہ یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش سے پہلے تو اللہ کا عرش پانی پر تھا اور تخلیق کے بعد یہ عرش سات آسمانوں اور کرسی کے بھی اوپر ہے۔ [١٢] تخلیق کائنات کا مقصد تخلیق آدم ہے، دنیا دارالامتحان ہے :۔ اس آیت سے کئی حقائق سامنے آتے ہیں مثلاً زمین و آسمان اور کائنات کی دوسری اشیاء کی تخلیق کا مقصد تخلیق آدم ہے اور یہ زمین یہ آسمان یہ سورج یہ چاند یہ ہوائیں یہ فضائیں اس لیے پیدا کی گئیں کہ ان کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا تھا اور تخلیق آدم کا مقصد یہ ہے کہ انسان کا اس دنیا میں امتحان لیا جائے اور امتحان کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ کچھ لوگ اچھے عمل کریں اور کامیاب ہوں اور کچھ برے عمل کریں اور ناکام ہوں، کامیاب اور اچھے لوگوں کو ان کے اچھے اعمال کا اچھا بدلہ دیا جائے اور بدکرداروں کو پوری پوری سزا دی جائے پھر بعض اچھے اعمال یا برے اعمال اپنے پورے پورے بدلہ کے لیے ایک طویل مدت کا تقاضا کرتے ہیں جو اس دنیا میں میسر آنا ناممکن ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اس عالم دنیا کے بعد ایک اور عالم قائم کیا جائے جس میں ہر قسم کے انسانوں کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جاسکے یہ معاد پر ایک دلیل ہوئی علاوہ ازیں اس موجودہ کائنات کا مربوط اور منظم نظام اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ یہ کسی علیم و خبیر ہستی کا پیدا کردہ ہے اور اسی کی مرضی کے مطابق چل رہا ہے نہ ہی یہ ممکن ہے کہ یہ کائنات محض اتفاقات کا نتیجہ ہو اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ یہ سب کچھ ایک کھیل تماشا ہو کیونکہ کھیل تماشہ کے کاموں میں ایسی ہم آہنگی ناممکن ہے اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ انسان اس دنیا میں بری بھلی جیسی بھی چاہے زندگی گزار کر مرجائے اور اس سے کوئی باز پرس کرنے والا ہی نہ ہو۔ لہٰذا عالم آخرت کا قیام اور مرنے والوں کو دوبارہ زندگی دے کر اٹھا کھڑا کرنا ضروری ہوا اور کافر جو یوم آخرت کے منکر ہیں جب وہ ایسے دلائل سنتے ہیں تو فوراً پکار اٹھتے ہیں کہ یہ بیان تو کھلا ہوا جادو ہے جس نے بہت سے لوگوں کو مرعوب اور مسحور کرلیا ہے مگر ہم پر یہ جادو کار گر نہ ہوگا۔ ھود
8 ھود
9 ھود
10 [١٣] انسان کی تنگ ظرفی اور ناشکری :۔ اس آیت اور اس سے پہلی آیت میں ایک دنیا دار اور خدا فراموش انسان کی کم حوصلگی اور تنگ ظرفی کا نقشہ پیش کیا گیا ہے جو یہ ہے کہ اگر زندگی بھر اللہ کی نعمتیں میسر آتی رہیں پھر کسی وقت کوئی مصیبت آجائے تو اسی وقت مصیبت کا رونا رونے لگتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے متعلق سخت سست الفاظ کہنے لگتا ہے اور یہ بھول ہی جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کتنی مدت آسودہ حال بھی رکھا تھا جس کا اس نے شکر بھی کبھی ادا نہیں کیا تھا اور اگر ہم اسے مصیبت سے نجات دے دیں تو پھر بھی اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا بلکہ اس وقت بھی اللہ سے غافل اور مغرور ہو کر شیخیاں بگھارنے لگتا ہے اور پھولے نہیں سماتا جیسے پھر اسے کوئی مصیبت آئے گی ہی نہیں۔ حالانکہ اسے چاہیے تھا کہ پچھلی حالت کو فراموش نہ کرتا اور اللہ کا شکر ادا کرتا اور اس کے احسانات کے سامنے جھک جاتا۔ ھود
11 [١٤] اس مقام پر صبر کا لفظ مزاج کے استقلال کے معنوں میں استعمال ہوا ہے یعنی وہ لوگ جو نہ تو مصیبت کے وقت دل برداشتہ اور مایوس ہوں بلکہ اسے صبر و استقلال سے برداشت کریں اور نہ ہی کسی خوشی کے موقعہ پر آپے سے باہر ہوں بلکہ اپنے آپ کو قابو میں رکھیں اور ہر حال میں اللہ کا شکر بجا لائیں اور مصیبت یا خوشی کے مواقع پر ان کی طبیعت میں غیر سنجیدہ قسم کا اتار چڑھاؤ نمایاں نہ ہو بلکہ وہ ہر حال میں اپنے ذہنی توازن کو برقرار رکھتے ہیں نہ مال و دولت اور آسودگی ان کا مزاج خراب کرتی ہے اور نہ ہی تنگی ترشی کے دوران اپنی ہمت ہار بیٹھتے ہیں ایسے ہی لوگوں کے اللہ قصور بھی معاف کرتا ہے اور ان کے نیک کاموں کے عوض انھیں بہت زیادہ اجر بھی عطا فرماتا ہے۔ ھود
12 [١٥] آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریش مکہ کے معبودوں کو نہ کوئی گالی دیتے تھے اور نہ ہی انھیں برا بھلا کہتے تھے بلکہ صرف یہ کہتے تھے کہ تمہارے یہ معبود نہ کسی کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ سنوار سکتے ہیں اور اسی بات پر مشرکین چڑ جاتے تھے کیونکہ اس بات کو وہ اپنے معبودوں کی بھی توہین تصور کرتے تھے اپنی بھی اور اپنے آباؤ اجداد کی بھی۔ اس بات کا کوئی معقول جواب تو ان کے پاس تھا نہیں اس کے بجائے وہ یہ کرتے کہ کبھی اللہ تعالیٰ کی آیات کا مذاق اڑانے لگتے، کبھی تکذیب کرتے اور کبھی کچھ اعتراضات یا مطالبے شروع کردیتے ممکن ہے ان کی مسلسل اس قسم کی حرکات کے نتیجہ میں آپ کے دل میں یہ خیال آیا ہو کہ انھیں ایسی آیات سنانے کا کیا فائدہ ہے جبکہ وہ ایمان لانے کے بجائے الٹا چڑ جاتے ہیں اور پھبتیاں کسنے لگتے ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ان باتوں سے آپ کو رنجیدہ خاطر اور تنگ دل نہ ہونا چاہیے جو وحی آپ پر نازل ہو رہی ہے آپ انھیں سنا دیا کریں۔ آپ کی اتنی ہی ذمہ داری ہے اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں اللہ ان سے خود نمٹ لے گا۔ قریش کی معجزہ طلبیاں :۔ قریش مکہ کے اعتراضات یا مطالبات میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اگر تم واقعی اللہ کے پیغمبر ہو تو تم پر اللہ کی طرف سے کوئی خزانہ بھی نازل ہونا چاہیے تھا جس سے تمہاری مالی حالت بہتر ہوجاتی اور اس مادی قوت کے بل بوتے پر ہی تم لوگوں کو اپنا ہم نوا بنا سکتے یا کوئی فرشتہ ہی تمہارے ساتھ موجود رہنا چاہیے تھا جس سے تمہیں روحانی طاقت بھی حاصل ہوجاتی اور لوگوں کو بھی تمہاری نبوت کا یقین ہوجاتا اور وہ تم پر ایمان لے آتے جب ان میں سے کوئی بھی چیز تمہیں میسر نہیں تو ہم تم پر کیسے ایمان لے آئیں؟ آپ کافروں کی ان باتوں سے دل گرفتہ نہ ہوں کیونکہ معجزے دکھلانا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے آپ کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ اللہ کا پیغام ان لوگوں تک پہنچا دیں اور انھیں ان کے برے انجام سے ڈرائیں۔ رہی معجزے کی بات تو معجزے دکھلانا اللہ کا کام ہے جو ہر چیز کا مالک و مختار ہے۔ ھود
13 [١٦] قرآن جیسی سورت بنا لانے کا چیلنج :۔ قریش مکہ کا آپ کی نبوت سے انکار کے معاملہ میں ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے کہاں؟ یہ تو تمہارا اپنا تصنیف کردہ ہے اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے انھیں چیلنج کیا کہ اگر تم اپنے اس دعویٰ میں سچے ہو تو تم بھی اس جیسی دس سورتیں بنا کے دکھا دو۔ واضح رہے کہ یہاں تو کفار سے دس سورتیں بنا کر لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے جبکہ سورۃ یونس کی آیت نمبر ٣٧، ٣٨ میں صرف ایک سورت بنا لانے کا مطالبہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ سورۃ یونس، سورۃ ہود کے بعد نازل ہوئی تھی اسی طرح سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٢٣ میں بھی صرف ایک ہی سورت بنا لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے اور یہ سورۃ ہود اور سورۃ یونس کے بعد نازل ہوئی۔ یہ دونوں سورتیں مکی ہیں جبکہ سورۃ بقرہ مدنی سورتوں میں سے پہلی سورت ہے اور قرآن جیسی سورت بنا لانے کے چیلنج اور قرآن کی امتیازی خصوصیات کی تفصیل کے لیے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٢٣ پر حاشیہ نمبر ٢٧ ملاحظہ فرمائیے۔ ھود
14 [١٧] چیلنج کا جواب نہ دے سکنے کے نتائج :۔ قریش مکہ سب مل کر بھی اور اپنی مقدور بھر کوششوں کے بعد بھی جب اس چیلنج کے جواب میں کوئی اس جیسی سورت پیش نہ کرسکے تو اس سے درج ذیل نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ ١۔ یہ قرآن کسی انسان کا (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کا تصنیف کردہ نہیں ہے کیونکہ اس میں ایسی باتیں ہیں جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔ مثلاً پیشین گوئیاں اور حشر و نشر کے مفصل حالات، اگر یہ انسان کا تصنیف کردہ ہوتا تو تم لوگ اس کی مثل پیش کرنے سے عاجز کیسے رہ سکتے تھے؟ ٢۔ چونکہ تم سب مل کر بھی اس جیسی ایک سورت بھی پیش نہیں کرسکے تو معجزہ کا یہی معنی ہے پھر تم اور کون سا معجزہ طلب کرتے ہو؟ اور کیوں کرتے ہو؟ ٣۔ اگر یہ انسان کا کلام نہیں تو پھر یہ لامحالہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے اور یہ آپ کی نبوت کی بھی دلیل ہے اور وجود باری تعالیٰ کی بھی۔ ٤۔ سورۃ بقرہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس چیلنج کو قبول کرنے کے لیے اپنے معبودوں کی امداد بھی حاصل کر دیکھو شاید وہ تم میں اتنی طاقت بھر دیں کہ تم ایسا کلام پیش کرسکو پھر جب اس آڑے وقت میں وہ تمہارے کسی کام نہیں آئے تو اور کس وقت آئیں گے اس طرح از خود ان معبودوں کا ابطال ہوگیا اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ ان آیات کے نزول کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کا وسیع علم ہے جس کے مقابلہ میں کوئی چیز نہیں ٹھہر سکتی۔ [١٨] یعنی ایسے واضح دلائل کے بعد بھی مسلمان ہونے اور اللہ کا فرمانبردار بننے میں تمہیں کسی اور چیز کا انتظار ہے؟ ھود
15 ھود
16 [١٩] دنیا میں نیک اعمال بجالانے والے کافروں کو اخروی عذاب کیوں ہوگا ؟ آیت نمبر ١٥ اور ١٦ کے مخاطب صرف کافر نہیں بلکہ اس میں مسلمان بھی شامل ہیں اور ان میں جو قانون بیان کیا گیا ہے وہ سب پر ایک جیسا لاگو ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جو نیکی کا کام صرف دنیا کے حصول کے لیے کیا جائے گا اس کا پورا پورا ثمرہ اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں دے دیتے ہیں مگر آخرت میں اس کا کچھ اجر نہ ہوگا بلکہ اسے دوزخ کا عذاب بھی ہوگا یہاں ہم اس کی چند مثالیں پیش کریں گے مثلاً ایک کافر اپنے کاروبار میں جھوٹ، فریب اور دغا بازی سے پرہیز کرتا ہے اور دیانت داری سے کام لیتا ہے تو اس کا ثمرہ یہ ہے کہ اس کے کاروبار کو فروغ حاصل ہو تو وہ یقیناً حاصل ہوگا اور اگر یہی کام ایک مسلمان کرتا ہے اور جھوٹ، فریب اور دغابازی سے اس لئے پرہیز کرتا ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے تو اس کی تجارت کو بھی فروغ حاصل ہوگا آخرت میں اللہ کی فرمانبرداری کا اجر بھی ملے گا اس کی مثال یہ ہے کہ ایک صحابی نے اپنا گھر بناتے وقت مسجد کی طرف کھڑکی رکھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پوچھا کہ یہ کھڑکی یہاں کس خیال سے رکھی ہے؟ اس نے عرض کیا اس لیے کہ ہوا کی آمدورفت رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر تم یہ نیت کرلیتے کہ ادھر سے اذان کی آواز آئے گی تو تمہیں اس کا ثواب بھی مل جاتا اور ہوا کی آمد و رفت تو بہرحال ہونا ہی تھی۔ اس کی دوسری مثال مسلم کی وہ حدیث ہے جو ریا کاری کے باب سے متعلق ہے کہ قیامت کے دن ایک ریا کار اور دنیا دار عالم کو اللہ کے حضور پیش کیا جائے گا اللہ تعالیٰ اس پر اپنا احسان جتلاتے ہوئے پوچھے گا کہ تم نے دنیا میں کیا نیک عمل کیا ؟ وہ کہے گا میں نے تیری خاطرخود دین کا علم سیکھا اور لوگوں کو سکھلاتا رہا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا جھوٹ کہتے ہو تم نے یہ کام اس لیے کیا تھا کہ تمہیں بڑا عالم کہا جائے وہ دنیا میں تمہیں کہا جاچکا اور تم اپنے کام کا پورا بدلہ لے چکے اب میرے پاس تمہارے لیے کوئی اجر نہیں پھر فرشتوں کو حکم دیا جائے گا کہ اسے دوزخ میں پھینک دیا جائے۔ اسی طرح ریا کار سخی اور مجاہد سے بھی یہی سوال و جواب اور یہی سلوک ہوگا۔ ( مسلم۔ کتاب الامارۃ۔ مَنْ قَاتَلَ للرَّ یَاءِ وَالسُّمْعَۃِ اِسْتَحَقَّ النَّارَ) یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک کافر اس دنیا میں پاکیزہ زندگی گزارتا ہے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے اپنا کاروبار دیانت داری سے کرتا ہے اسلام دشمن سرگرمیوں میں بھی حصہ نہیں لیتا تو یہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ اسے دنیا میں اس کے نیک کاموں کا ثمرہ مل جائے اور آخرت میں کچھ نہ ملے مگر دوزخ کا عذاب کس جرم کی پاداش میں ہوگا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس سزا کے لیے بنیادی جرم ہی دوسرا ہے اور وہ ہے اللہ کی طرف سے اتمام حجت کے بعد اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہ لانا ایسے شخص کو نہ کسی کام میں اللہ کی رضا مطلوب ہوتی ہے نہ ہی وہ اللہ کے احسانات کا شکریہ ادا کرتا ہے نہ حدود اللہ کا خیال رکھ سکتا ہے بلکہ ایک ایمان لانے والے اور نہ لانے والے دونوں کی زندگی کی راہیں ہی جداجدا ہوجاتی ہیں آگ کا عذاب اسے ان دوسرے جرائم کی پاداش میں ہوگا۔ کفار مکہ ایک یہ حجت بھی پیش کیا کرتے تھے کہ ہم مسافروں کو کھانا کھلاتے ہیں یتیموں کی پرورش کرتے ہیں، بھوکوں کی خبرگیری کرتے ہیں راستوں پر کنوئیں کھدواتے ہیں سایہ دار درخت لگاتے ہیں اور بھی بہت سے نیک کام کرتے ہیں جن کا مقبول ہونا بھی ثابت ہے کہ ایسے ہی کاموں کی وجہ سے ہم دنیا میں پھلتے پھولتے ہیں اولاد اور مال میں برکت اور امن اور تندرستی نصیب ہوتی ہے تو ہمیں یہی بات کافی ہے اس کے بعد قرآن کے اتباع کی ضرورت بھی کیا رہ جاتی ہے؟ اس آیت میں اللہ نے کافروں کی اسی حجت کا جواب دیا ہے ان نیک کاموں کا ہم فی الواقع انھیں دنیا میں اچھا بدلہ دے دیتے ہیں۔ رہا آخرت کا معاملہ تو نہ آخرت پر ان کا اعتقاد ہے اور نہ ہی آخرت میں بدلہ لینے کی غرض سے یہ کام کرتے ہیں۔ لہٰذا انھیں ان کاموں کا آخرت میں کچھ بدلہ نہیں ملے گا اور عذاب اس وجہ سے ہوگا کہ وہ آخرت کے منکر ہیں۔ ھود
17 [٢٠] دونوں شہادتوں کے بعد بھی ایمان نہ لانے والے :۔ یہاں واضح دلیل سے مراد داعیہ فطرت یا عہد الست ہے جو ہر انسان کے تحت الشعور میں موجود ہے (تفصیل کے لیے دیکھیے الاعراف کی آیت نمبر ١٧٢، ١٧٣) اب اگر اس آیت میں شخص سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات لی جائے تو شاہد سے مراد جبرئیل علیہ السلام ہیں اور اگر شخص سے مراد عام آدمی لیا جائے تو شاہد سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ یعنی یہ داعیہ فطرت ہر انسان کے تحت الشعور میں پہلے سے ہی موجود ہے کہ اس کائنات کا اور خود ہمارا بھی خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہے جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہوسکتا پھر اس داعیہ کی تائید میں خارج سے دو قوی شاہد بھی مل جائیں جن میں سے ایک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن ہے اور دوسرے تورات جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مدتوں پہلے نازل ہوئی تھی تو کیا ایسے شخص کے ایمان لانے میں کوئی چیز آڑے آسکتی ہے اسے فوراً اس داعیہ فطرت پر لبیک کہتے ہوئے ایمان لے آنا چاہیے اور جو پھر بھی ایمان نہیں لاتا اس کا علاج دوزخ کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے خواہ وہ شخص کسی بھی مذہب اور فرقہ سے تعلق رکھتا ہو؟ [١ ٢] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یہ خطاب صرف بطور تاکید مزید ہے اصل میں اس کے مخاطب عام لوگ ہیں جیسا کہ اس کی تفصیل پہلے بیان کی جاچکی ہے۔ ھود
18 [٢ ٢] اللہ پر جھوٹ لگانے کی مختلف صورتیں :۔ افتراء کے معنی یہ ہے کہ کوئی بات خود ایجاد کرکے اللہ کے ذمہ لگا دی جائے یا اسے شریعت سے ثابت کرنے کی کوشش کی جائے اور یہ کام گناہ کبیرہ ہے پھر افتراء کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ مثلاً کسی حلال چیز کو حرام یا حرام کو حلال قرار دینا اور شریعت کا حکم ثابت کرنا یا اللہ کے سوا کسی دوسرے بزرگ، نبی یا پیر فقیر کو یا آستانے کو اپنے نفع و نقصان کا مالک سمجھنا یا یہ سمجھنا کہ اگر قیامت کو ہم سے مواخذہ ہوا تو ہمارے پیروں میں اتنی قدرت ہے کہ وہ ہمیں چھڑا لیں گے یا منزل من اللہ کلام کو منزل من اللہ نہ سمجھنا اور یہ سب باتیں شرک یا اس سے ملتی جلتی ہیں ایسے لوگوں سے قیامت کے دن کسی قسم کی رو رعایت نہیں ہوگی۔ علی رؤس الاشہادان کے جرم کو ثابت کرکے قرار واقعی سزا دی جائے گی جبکہ دوسرے مومن گنہگاروں سے اس قسم کی سختی نہ ہوگی بلکہ اللہ تعالیٰ ان سے نرمی کا سلوک اختیار کریں گے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ سستی نجات کا عقیدہ رکھنے والے دراصل آخرت کے منکرہیں :۔ ایک دفعہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما طواف کر رہے تھے کہ ایک شخص نے ان سے پوچھا : ابن عمر ! سرگوشی کے متعلق آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا ہے؟ (جو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مومنوں سے کرے گا) انہوں نے کہا : میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے : مومن اپنے پروردگار کے قریب لایا جائے گا یہاں تک کہ پروردگار اپنی ایک جانب کرلے گا پھر اس کے سارے گناہ اسے بتلائے گا اور فرمائے گا ’’فلاں گناہ تجھے معلوم ہے؟‘‘ مومن کہے گا ’’پروردگار! مجھے معلوم ہے‘‘ دوبارہ یہی سوال و جواب ہوگا پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’دنیا میں میں نے تیرا گناہ چھپائے رکھا اور آج تجھے معاف کرتا ہوں‘‘ پھر اس کی نیکیوں کا دفتر لپیٹ دیا جائے گا (اس کو دے دیا جائے گا) رہے دوسرے لوگ یا کافر لوگ۔ تو شہادتیں مکمل ہوجانے کی بنا پر ان کے متعلق اعلان کیا جائے گا کہ یہی لوگ ہیں جنہوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا تھا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) [٢ ٢۔ الف] اشہاد۔ شاہد کی جمع بھی آتی ہے جیسے صاحب کی جمع اصحاب آتی ہے اور شہید کی بھی جیسے شریف کی جمع اشراف آتی ہے اور یہ گواہ فرشتے اور کراماً کاتبین بھی ہوسکتے ہیں۔ انبیاء بھی، عامۃ الناس بھی اور جب اپنا جرم تسلیم نہ کرنے پر اصرار کریں گے تو اس کے اعضاء و جوارح بھی اس کے خلاف گواہی دیں گے اور شہادتوں کی بنا پر ہی اس پر فرد جرم عائد کی جائے گی کہ فی الواقع ان لوگوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا تھا۔ ھود
19 [٣ ٢] یعنی اللہ پر افتراء کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی خصوصی لعنت ہے ان لوگوں کے ایسے ایجاد کیے ہوئے جھوٹ ہی لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکنے اور اس میں کجروی اختیار کرنے کا سبب بن جاتے ہیں اور جن لوگوں نے اپنی اخروی نجات کے لیے ایسے ایجاد کردہ سہارے اللہ کے ذمے لگا رکھے ہیں۔ یہ لوگ حقیقتاً آخرت کے منکر ہی ہوتے ہیں کیونکہ آخرت میں اعمال کی باز پرس کا جو تصور شریعت نے پیش کیا ہے یہ لوگ اسے قطعاً ملحوظ نہیں رکھتے۔ ھود
20 [٤ ٢] اللہ کے ذمہ جھوٹ لگانے پر سخت ترین عذاب کیوں ہوگا :۔ یعنی اگر اللہ چاہتا تو دنیا میں ہی ان کو سزا دے کر تباہ و برباد کرسکتا تھا اور یہ لوگ اللہ کی گرفت سے بچ کر کہیں نہیں جاسکتے تھے اور آج قیامت کے دن بھی ان کا کوئی حامی و ناصر نہیں ہوگا اور انھیں دگنا عذاب اس لیے دیا جائے گا کہ ایک تو خود گمراہ ہوئے دوسرے یہی گمراہی کی میراث اپنی اولاد کے لیے اور دوسرے پیروکاروں کے لیے چھوڑ گئے۔ جن کے عذاب سے حصہ رسدی ان کے کھاتے میں بھی جمع ہوتا رہا۔ [٥ ٢] دگنے عذاب کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ایک تو خود وہ سیدھی راہ دیکھنے کی کوشش ہی نہ کرتے تھے اور دوسرے اس لیے کہ اگر انھیں کوئی سیدھی راہ بتلانے کی کوشش کرتا تو اس کی بات سننا بھی انھیں گوارا نہ تھی بلکہ اس کے درپے آزار ہوجاتے تھے۔ ھود
21 [٦ ٢] یہاں افتراء پردازیوں سے مراد وہی سستی نجات کے عقیدے ہیں کہ مثلاً اگر ہم فلاں بزرگ کی بیعت میں منسلک ہوجائیں گے تو وہ ہمیں اللہ کی گرفت اور باز پرس سے بچا لیں گے اور ایسی بہت سی حکایات آج بھی اولیاء کے تذکروں میں موجود ہیں۔ جب اس قسم کے لوگ قیامت کی ہولناکیوں اور اللہ تعالیٰ کے دربار عدالت اور شہادتوں کی بنا پر تحقیق جرائم کا نقشہ دیکھیں گے تو ایسے سب عقائد از خود ان کے ذہن سے محو ہوجائیں گے۔ ھود
22 [٧ ٢] ایک شخص اللہ کے کسی حکم کی تعمیل ہی نہیں کرتا اسے اس کی سزا ملے گی اور ایک دوسرا شخص تعمیل تو کرتا ہے مگر غلط طریقے سے کرتا ہے اور کسی دوسرے کو بھی اس میں شریک بنا لیتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس غلط تعمیل کرنے والے کو زیادہ نقصان ہوگا ایک تو اس نے تعمیل کی مشقت اٹھائی دوسرے اسے سزا بھی زیادہ ملے تو اس سے بڑھ کر زیادہ نقصان اٹھانے والا کون ہوسکتا ہے؟ ھود
23 [٨ ٢] یہ درمیان میں ایمان والوں اور ان کی جزا کے متعلق جو آیت آئی ہے تو یہ اللہ کی اس سنت کے مطابق ہے کہ جہاں کفار اور ان کے انجام کا ذکر آتا ہے تو ساتھ ہی اہل ایمان اور ان کی جزا کا بھی ذکر آتا ہے اور اس کے برعکس بھی۔ ھود
24 [٩ ٢] بینا اور نابینا کون لوگ ہیں؟ کافر اور مومن کی زندگی کا تقابل :۔ یہ دو فریق کافر اور مومن ہیں۔ کافر اندھا بھی ہوتا ہے اور بہرا بھی۔ اسے کائنات میں ہر طرف اللہ کی قدرت کی نشانیوں میں سے کچھ بھی نظر نہیں آتا اور اگر کوئی اسے بتلانا چاہے تو سن بھی نہیں سکتا کیونکہ وہ بہرا ہے۔ اب دیکھیے ایک اندھا کسی راہ پر چل رہا ہو تو اس کے گمراہ ہونے یا کسی کھڈ میں جا گرنے سے بچنے کا کوئی امکان ہوتا ہے بالخصوص اس صورت میں اگر کوئی اسے راستہ بتلائے بھی تو وہ اس کی بات سن بھی نہ سکے اس کے مقابلہ میں ایک شخص خود ہی راستہ دیکھ رہا ہے اور وحی الٰہی کی روشنی میں اپنی منزل طے کر رہا ہے اور وہ منزل اس کے سامنے ہے اور اگر اسے کہیں اشتباہ پیدا ہوجائے تو راستہ بتلانے والے بھی موجود ہیں جن کی آواز وہ سن بھی سکتا ہے اور سننا چاہتا بھی ہے تو ظاہر ہے کہ ایسے شخص کے راہ گم کردینے یا کسی حادثہ کا شکار ہونے کے امکانات ختم ہوجاتے ہیں اور اس کا اپنی منزل پر بسلامت پہنچ جانا یقینی ہوتا ہے یہی وہ نمایاں فرق ہے جو ایک کافر اور مومن کی زندگی کے سفر میں ہوتا ہے۔ ھود
25 [٣٠] سیدنا نوح علیہ السلام کا قصہ پہلے سورۃ اعراف کے رکوع نمبر ٨ میں بھی گذر چکا ہے لہٰذا وہ حواشی بھی مدنظر رکھے جائیں۔ [٣١] یعنی تمہیں صاف صاف بتارہا ہوں کہ کن باتوں اور کاموں کے ارتکاب سے تم پر عذاب آنے کا اندیشہ ہے اور اس عذاب سے بچنے کے ذرائع کیا ہیں؟ ھود
26 [٣٢] قوم نوح علیہ السلام اپنے پانچ فوت شدہ بزرگوں کے مجسموں کی پجاری تھی یعنی ود، سواع، یغوث، یعوق، اور نسر کے مجسموں کو پوجتے تھے۔ اس کی تفصیل پہلے سورۃ اعراف میں گذر چکی ہے۔ اور سورۃ نوح میں بھی یہ ذکر آئے گا۔ [٣٣] المناک دن سے مراد قیامت کا دن بھی ہے اور وہ دن بھی جب طوفان نوح آیا تھا۔ ھود
27 [٣٤] یہ وہی اعتراض ہے جو کہ منکرین حق کی طرف سے تمام انبیاء پر ہوتا رہا ہے جن کے خیال میں نبی کو یا تو مافوق البشر مخلوق ہونا چاہیے یا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ ہر وقت رہنا چاہیے یا کم از کم دنیوی وجاہت کے لحاظ سے یعنی مال و دولت اور شان و شوکت کے لحاظ سے سب سے بڑھ کر ہونا چاہیے۔ جب تک ان کے نظریہ کے مطابق نبی کو ان چیزوں میں سے کوئی امتیازی چیز حاصل نہ ہو وہ نبی نہیں ہوسکتا۔ [٣٥] کسی نبی کے ابتدائی پیر وکاروں کے خصائل :۔ منکرین حق کا دوسرا بڑا اعتراض یہی ہوتا ہے کہ کیونکہ نبی پر سب سے پہلے ایمان لانے والے لوگ وہ ہوتے ہیں جو معاشرہ اور قوم کے چودھریوں کے ہاتھوں ستم رسیدہ ہوں، غریب ہوں، نوجوان اور باہمت ہوں اور جو ایسے ظالمانہ معاشرہ کے سامنے ڈٹ جانے کی کچھ جرأت بھی رکھتے ہوں ایسے ہی لوگ ہر نبی کا ابتدائی سرمایہ ہوتے ہیں اور یہی لوگ قوم کے چودھریوں کی نظروں میں کھٹکتا خار بن جاتے ہیں حتیٰ کہ چودھری لوگ ان کی موجودگی میں نبی کے پاس بیٹھنا اور کوئی بات سننا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ ان چودھریوں کے نظریات چونکہ خالصتاً مادہ پرستانہ ہوتے ہیں لہٰذا نبی کی دعوت کو رد کرنے کا انھیں یہ بہانہ بھی ہاتھ لگ جاتا ہے کہ اس نبی کے ہم نشین تو رذیل قسم کے لوگ ہیں لہٰذا ہم اسے سچا کیسے سمجھ سکتے ہیں کچھ شریف لوگ اس کے پیروکار ہوتے تو ہم بھی ان کے ساتھ بیٹھتے اور اس نبی کی بات سنتے۔ ھود
28 [٣٦] نبی اور عام کافروں کی زندگی کا فرق :۔ نوح علیہ السلام نے جواب دیا کہ امتیازی باتیں تو مجھ میں موجود ہیں یہ الگ بات ہے کہ تمہارے امتیاز کا معیار اور ہے اور میرے نزدیک دوسرا ہے۔ میں نے ایک اللہ کے سوا کسی کی پوجا نہیں کی ہمیشہ حق بات کہتا ہوں اور حق کی ہی دعوت دیتا ہوں ہر ایک شخص کا ہمدرد ہوں کسی کو دکھ نہیں پہنچاتا نہ دغا فریب کرتا ہوں۔ مزید یہ کہ اللہ نے مجھے نبوت عطا کرکے اپنی رحمت سے نوازا بھی ہے گویا میری اور تمہاری زندگی میں زمین و آسمان کا فرق ہے پھر بھی اگر تمہیں کوئی امتیازی فرق نظر نہیں آتا تو میں زبردستی تمہیں کیسے قائل کرسکتا ہوں؟ ھود
29 [٣٧] نبوت اور رسالت پر اجر؟ میں نہ تمہارا تنخواہ دار ہوں نہ تم سے کسی معاوضہ کا مطالبہ کرتا ہوں پھر تم مجھ سے یہ مطالبہ کیسے کرسکتے ہوں کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں انھیں میں اپنے ہاں سے رخصت کردوں تم یہ کیسی جہالت کی باتیں کرتے ہو۔ میں انھیں اس لحاظ سے تم سے بدرجہا بہتر سمجھتا ہوں کہ انہوں نے حق کو حق سمجھ کر قبول کرلیا ہے یہ لوگ اللہ سے ڈرنے والے ہیں تمہاری طرح سرکش اور ہٹ دھرم نہیں اللہ کے ہاں تو معزز وہ ہے جو ایمان دار اور پرہیزگار ہو ذات کا اونچا یا نیچا ہونا چنداں فائدہ نہیں دیتا اور اگر بالفرض میں تمہارے کہنے پر انھیں اپنے ہاں سے نکال دوں تو میں تو خود اللہ کے ہاں مجرم ٹھہرتا ہوں پھر اللہ کے مقابلہ میں کوئی ہے جو اس وقت میری مدد کرسکے؟ ھود
30 ھود
31 [٣٨] جاہلانہ معیار صداقت کی تردید :۔ جاہل قسم کے منکرین حق کے نزدیک کسی نبی کی صداقت کے معیار عجیب قسم کے ہوتے ہیں مثلاً یہ کہ اس سے خرق عادت واقعات یعنی معجزات کا اکثر صدور ہوتا ہو وہ مٹی پر نظر التفات کرے تو وہ سونا بن جائے وہ یہ بھی بتا سکے کہ فلاں چوری فلاں چور نے فلاں وقت کی تھی اسے طالب دنیا بھی نہ ہونا چاہیے کہ وہ عام لوگوں کی طرح کھاتا پیتا اور چلتا پھرتا ہو اور نکاح وغیرہ بھی کرے بلکہ اسے دنیا سے دلچسپی نہ ہونا چاہیے۔ اس آیت میں اسی جاہلانہ معیار صداقت کی تردید کی گئی ہے۔ نوح علیہ السلام کی زبان سے کفار کے ایسے مطالبات کا دو ٹوک فیصلہ سنا دیا گیا ہے کہ میرا ایسی باتوں کا ہرگز کچھ دعویٰ نہیں ہے میرے پاس اللہ کے خزانے نہیں کہ میں مٹی یا پتھر پر نظر کرم ڈالوں تو وہ سونا بن جائے میں غیب بھی نہیں جانتا کہ میں تمہیں بتلا سکوں کہ اس وقت تمہارے دل میں کیا خیال آرہا ہے یا فلاں چوری فلاں شخص نے فلاں وقت کی تھی اور اس طریقہ سے کی تھی اور اب چوری کا مال فلاں جگہ پر چھپایا ہوا ہے میرا یہ بھی دعویٰ نہیں کہ میں فرشتہ ہوں کہ مجھے کھانے پینے کی احتیاج نہ ہو یا دوسرے بشری حوائج سے مبرا ہوں۔ نیز جن لوگوں کو تم حقیر سمجھ رہے ہو میں ان کے مستقبل کے متعلق بھی کچھ نہیں جانتا البتہ جس راہ پر یہ گامزن ہیں اس بات کی توقع ضرور رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انھیں علم و حکمت اور دوسری بھلائیوں سے نوازے گا مگر یہ بات میں دعویٰ کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ میں غیب کی باتیں نہیں جانتا۔ واضح رہے کہ کچھ اسی قسم کے معیار ہم نے بھی بزرگان دین سے متعلق وابستہ کر رکھے ہیں حالانکہ جو لوگ دعویٰ کے ساتھ انھیں دکھلاتے ہیں وہ شعبدہ باز تو ہوسکتے ہیں اللہ کے ولی نہیں ہوسکتے۔ ھود
32 [٣٩] نوح علیہ السلام کا زمانۂ تبلیغ ساڑھے نو سو سال ہے انہوں نے اپنی قوم کو مختلف طریقوں سے سمجھانے کی کوشش کی اور اس کوشش میں رات دن ایک کردیا بالآخر ان لوگوں نے سیدنا نوح علیہ السلام کو وہی جواب دیا جو عموماً دلائل سے عاجز لوگ دیا کرتے ہیں یعنی اگر تم سچے ہو تو جس عذاب کی دھمکی دے رہے ہو وہ لے کیوں نہیں آتے تاکہ یہ روز روز کی تکرار ہی ختم ہوجائے۔ ھود
33 [٤٠] نوح علیہ السلام نے اس کا جواب بھی صاف صاف دے دیا کہ عذاب کا لانا یا نہ لانا میرے قبضہ اختیار میں نہیں۔ یہ عذاب تو اللہ کی مشیئت کے مطابق اپنے وقت پر ہی آئے گا ہاں میں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اگر تم اسی طرح اپنی سرکشی پر ڈٹے رہے تو عذاب آئے گا ضرور اور جب عذاب آگیا تو پھر تم بچ نہ سکو گے اور یہ سب باتیں بھول جاؤ گے۔ ھود
34 [٤١] البتہ تمہارے عذاب پر اصرار اور ہٹ دھرمی سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ تم پر وہ عذاب آکر رہے گا اور میں تمہاری کتنی ہی خیر خواہی کرنا چاہوں اس کا کچھ فائدہ ہوتا نظر نہیں آرہا۔ پھر یہ معاملہ یہیں تک محدود نہ رہے گا کہ اللہ کا عذاب تمہیں ہلاک کردے بلکہ آخرت میں بھی اللہ تم سب کو حاضر کرکے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں ڈال دے گا۔ ھود
35 [٤٢] کفار مکہ اور قوم نوح میں مماثلت :۔ سابقہ آیات میں نوح علیہ السلام کے جو حالات بیان کیے گئے ہیں اور جو کچھ ان کی قوم ان کو جواب دیتی اور ان سے تکرار کرتی رہی وہ بعینہ ویسے ہی تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں قریش مکہ کی طرف سے پیش آرہے تھے لہٰذا قریش مکہ کو یہ شبہ لاحق ہوا کہ یہ تو ہمارے ہی حالات اور سوال و جواب ہیں جو نوح علیہ السلام کا نام لے کر ہمارے سامنے پیش کیے جارہے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک الزام یہ بھی لگا دیا کہ یہ باتیں تو یہ خود ہی بنا کر ہمارے سامنے بیان کر رہا ہے اور ’’گفتہ آید در حدیث دیگراں‘‘ کے مصداق ہم پر ہی یہ چوٹ کی جارہی ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ قریش مکہ سیدنا نوح علیہ السلام کے واقعات سے عبرت حاصل کرتے مگر اس کے بجائے ان کا ذہن برے پہلو کی طرف گیا اور اپنی اصلاح کرنے کی بجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک اور الزام لگا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ آپ ان سے کہیے کہ اگر تمہارے کہنے کے مطابق یہ واقعہ میں نے گھڑا ہے تو پھر میں ہی اس جرم کا ذمہ دار ہوں لیکن جو جرائم تم کر رہے ہو ان کی بھی کچھ فکر ہے؟ وہ تو تمہیں ہی بھگتنا ہوں گے نہ کہ مجھے۔ ھود
36 [٤٣] عذاب صرف گندے عنصر پر آتا ہے :۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کی دعوت اور قوم کے انکار کے نتیجہ میں عذاب اس وقت تک نہیں آتا جب تک اس میں کچھ بھلے آدمیوں کے نکل آنے کا امکان باقی ہو اور جب ایمان لانے والے ایمان لاچکتے ہیں اور باقی صرف گندہ عنصر ہی رہ جاتا ہے تو یہی عین عذاب کا وقت ہوتا ہے۔ اسی حقیقت کو سورۃ نوح میں سیدنا نوح علیہ السلام نے خود بھی دعا کرتے وقت کہا تھا کہ ’’یا اللہ اب اس قوم کو غارت کردے کیونکہ اب ان لوگوں میں کسی کے ایمان لانے کی توقع نہیں رہی بلکہ جو اولاد یہ جنیں گے وہ بھی فاسق و فاجر ہی پیدا ہوگی لہٰذا ان میں سے ایک گھرانہ بھی زندہ نہ چھوڑ‘‘ (٧١: ٢٦، ٢٧) ھود
37 [٤٤] جب یہ صورت حال پیدا ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کو بذریعہ وحی حکم دیا کہ اب ہماری ہدایات کے مطابق ایک بہت بڑی کشتی بنانا شروع کردو اور دیکھو جو لوگ اب تک ایمان نہیں لائے ان سب کو میں غرق کرنے والا ہوں لہٰذا ان میں سے کسی پر تمہیں ترس نہ آجائے کہ تم اس کی نجات کے لیے مجھ سے درخواست کرنے لگو۔ تورات کی تصریح کے مطابق اس کشتی کی لمبائی تین سو ہاتھ، چوڑائی پچاس ہاتھ اور اونچائی تیس ہاتھ تھی اور اس کے تین درجے یا منزلیں تھیں اور اس میں روشندان اور دروازے اور کھڑکیاں اور کوٹھڑیاں تھیں اور اندر اور باہر رال لگادی گئی تھی گویا یہ موجودہ دور کے لحاظ سے بھی ایک درمیانہ درجہ کا بحری جہاز تھا جسے بنی نوع انسان کی تاریخ میں سیدنا نوح علیہ السلام نے غالباً پہلی بار بنایا تھا اور اس کے بنانے کا طریقہ اللہ تعالیٰ نے خود بذریعہ وحی سکھلایا تھا۔ ھود
38 [٤٥] کشتی بنانے پر قوم کا مذاق اڑانا :۔ وہ مذاق یہ کرتے تھے کہ جہاز جتنی بڑی کشتی جو تم بنا رہے ہو اسے کیا خشکی پر چلاؤ گے؟ یہاں نہ تو نزدیک کوئی دریا ہے جس میں اسے چلا سکو۔ بارشوں کو ہم ترس رہے ہیں خشک سالی بھی ہے اور کسی دریا وغیرہ میں سیلاب کا خطرہ بھی نہیں تو پھر اسے بنا کر کیا کرو گے؟ وہ تو نوح علیہ السلام کو دیوانہ سمجھ رہے تھے اور نوح علیہ السلام انھیں دیوانہ سمجھ رہے تھے کیونکہ انہوں نے قوم کو خبردار کردیا تھا کہ تم پر سیلاب کا عذاب آنے والا ہے وہ اپنی قوم پر اس بات سے حیران تھے کہ عنقریب ان لوگوں کی تباہی ہونے والی ہے اور انھیں اپنی ذرا بھی فکر نہیں الٹا مجھے دیوانہ سمجھ کر مذاق اڑا رہے ہیں۔ نوح علیہ السلام نے انھیں جواب دیا، کوئی بات نہیں آج تم ہمارا مذاق اڑا لو، جلد ہی ایسا وقت آنے والا ہے جب ہم تمہارا مذاق اڑائیں گے اس وقت تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ رسوا کرنے والا عذاب کس پر نازل ہوتا ہے؟ ھود
39 ھود
40 [٤٦] طوفان نوح کا آغاز :۔ طوفان نوح کا آعاز تنور سے چشمہ پھوٹنے سے ہوا۔ ایک قول کے مطابق تنور سے مراد و ہی معروف تنور ہے جس میں روٹیاں پکائی جاتی ہیں اور ایک قول کے مطابق تنور سے مراد سطح زمین ہے۔ پھر ارد گرد کی زمین سے کئی مزید چشمے پھوٹنے شروع ہوگئے اور اوپر سے لگاتار بارش شروع ہوگئی۔ پہلا چشمہ پھوٹنے پر نوح علیہ السلام کو حکم دے دیا گیا کہ سب ایمان والوں کو اس کشتی میں سوار کرلو اور جو جانور بھی اس وقت روئے زمین پر موجود ہیں اور نر و مادہ سے پیدا ہوتے ہیں ان کا ایک ایک جوڑا (یعنی نر و مادہ) بھی اس کشتی میں رکھ لو۔ اپنے گھر والوں میں سے جو مومن ہیں ان سب کو بھی سوار کرلو اور وہ حام، سام، یافث اور ان کے اہل و عیال تھے اور جو ایمان نہیں لائے انھیں اس کشتی میں مت سوار کرنا اور ان میں نوح علیہ السلام کا بیٹا یام بھی تھا جسے کنعان بھی کہا جاتا تھا اور نوح علیہ السلام کی بیوی واعلہ جو کافر تھی اور کنعان کی والدہ تھی۔ آپ کے خاندان سے یہ دو افراد بھی طوفان کی نذر ہوئے تھے اور ایمان لانے والے بہت تھوڑے لوگ ہی تھے جن کی تعداد ٨٠ سے متجاوز نہیں تھی۔ ھود
41 [٤٧] کشتی پر سوار ہونے کی دعا :۔ نوح علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ اللہ کا نام لے کر اس کشتی پر سوار ہوجاؤ کچھ فکر مت کرو اس کا چلنا اور ٹھہرنا سب اللہ کے اذن اور اس کے نام کی برکت سے ہے۔ غرقابی کا کوئی اندیشہ نہیں کیونکہ میرا پروردگار مومنوں کی کوتاہیوں سے درگذر کرنے والا اور ان پر بہت مہربان ہے۔ وہ یقیناً اپنے فضل و کرم سے ہم کو بخیریت اتارے گا۔ ضمناً اس آیت سے چند باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ مومن کو صرف اسباب پر بھروسہ نہ کرنا چاہیے بلکہ اللہ سے اس کے فضل و کرم کی دعا بھی کرتے رہنا چاہیے کیونکہ اسباب کی باگ ڈور بھی اسی کے ہاتھ میں ہے اور دوسری یہ کہ کشتی یا جہاز پر سوار ہوتے وقت یہ دعا پڑھنی چاہیے ﴿بِسْمِ اللّٰہِ مَجْــرٖیہَا وَمُرْسٰیہَا ۭ اِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ﴾ ھود
42 [٤٨] طوفان کی کیفیت اور نوح علیہ السلام کا اپنے بیٹے کو نصیحت کرنا :۔ طوفان کی یہ صورت تھی کہ مسلسل چھ ماہ تک چشمے زمین سے پانی اگلتے رہے اور آسمان سے مسلسل بارش ہوتی رہی۔ حتیٰ کہ ٹیلے اور پہاڑ سب کچھ اس پانی میں ڈوب گئے کشتی پانی کے ساتھ ساتھ اوپر اٹھ رہی تھی اور جس طرح اللہ اسے چلاتا چلتی جارہی تھی۔ جب پانی ابھی اوپر اٹھ رہا تھا اور پانی کی سطح زمین سے خاصی بلند ہو رہی تھی اور پانی کی لہریں پہاڑ کی طرح اٹھ اٹھ کر ایک دوسرے سے ٹکرا رہی تھیں۔ اس دوران ایک واقعہ پیش آیا۔ نوح علیہ السلام کا کافر بیٹا یام یا کنعان جسے کشتی میں سوار نہیں کیا گیا تھا ایک پہاڑی کے کنارے لگ کر کھڑا طوفان کی ہولناکیاں دیکھ رہا تھا۔ نوح علیہ السلام کی اس پر نظر پڑگئی تو پدرانہ شفقت نے جوش مارا اور اسے کہنے لگے ’’بیٹے! ایمان لے آؤ اور ہمارے ساتھ اس کشتی میں سوار ہوجاؤ اور کافروں کا ساتھ چھوڑ دو‘‘ ھود
43 [٤٩] بیٹے کا جواب :۔ ضدی بیٹے نے باپ کی آرزو کو ٹھکراتے ہوئے کہا کہ ’’میں ابھی پہاڑ پر چڑھ کر اپنی جان بچا لوں گا‘‘ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پانی اتنا چڑھ جانے والا ہے کہ وہ اس پہاڑ کو بھی اپنے اندر چھپا لے گا۔ نوح علیہ السلام نے اسے کہا ’’بیٹے کس خبط میں پڑے ہو یہ کوئی معمولی سیلاب نہیں بلکہ اللہ کا عذاب ہے اور پہاڑ کی کیا حقیقت ہے کوئی چیز بھی آج کسی کو اللہ کے عذاب سے بچا نہیں سکتی الا یہ کہ اللہ خود ہی کسی پر رحم فرما کر اسے بچا لے‘‘ یہ گفتگو ابھی پوری بھی نہ ہونے پائی تھی کہ ایک تند و تیز لہر اٹھی جس نے بیٹے کی طرف رخ کرکے ان دونوں کو ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے سے جدا کردیا اور یہ کافر اور نافرمان بیٹا سیدنا نوح علیہ السلام کی آنکھوں کے سامنے طوفان میں غرق ہوگیا اور سیدنا نوح جیسے اولوالعزم پیغمبر بھی اس کی کچھ مدد نہ کرسکے۔ ھود
44 [٥٠] طوفان کا خاتمہ :۔ چھ ماہ تک پانی کی سطح بلند ہوتی رہی پہاڑ تک اس میں ڈوب گئے مجرمین اپنے انجام کو پہنچ گئے اور ان میں سے کوئی بھی اس عذاب سے بچ نہ سکا تو اللہ نے زمین کو حکم دیا کہ اپنا پانی پھر سے اپنے اندر جذب کرلے اور اللہ کے حکم سے بارش بھی رک گئی۔ کچھ پانی ہواؤں نے خشک کیا اور کشتی جودی پہاڑ پر جاکر ٹک گئی۔ یہ پہاڑ عراق میں موصل شہر سے کچھ فاصلے پر واقع ہے اور آج بھی اسی نام سے مشہور ہے۔ سیلاب دنیا کے کتنے حصے میں آیا :۔ طوفان نوح کے متعلق دو باتیں ہنوز قابل تحقیق ہیں ایک یہ کہ آیا یہ طوفان تمام روئے زمین پر آیا تھا یا صرف قوم نوح علیہ السلام کے علاقہ میں آیا تھا۔ اکثر مورخین کا خیال ہے کہ یہ تمام روئے زمین پر آیا تھا اور اس کی دلیل یہ پیش کی جاسکتی ہے کہ دنیا کی سب اقوام کی قدیم تاریخ میں طوفان نوح کا ذکر موجود ہے لیکن قرآن اس بارے میں خاموش ہے اور عقلی لحاظ سے یہی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ طوفان صرف اس علاقہ میں ہی آیا ہو جہاں کے مجرموں کو سزا دینا مقصود تھا اور جہاں عذاب الٰہی کے لئے اتمام حجت ہوچکی تھی اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ اس دور میں زمین کا صرف یہی خطہ آباد ہو۔ رہا سب اقوام کی قدیم تاریخ میں طوفان نوح علیہ اسللام کے ذکر کا مسئلہ تو یہ دونوں صورتوں میں ممکن ہے۔ کیا نوح کے آدم ثانی ہونے کا نظریہ درست ہے؟:۔ اور دوسری قابل تحقیق بات یہ ہے کہ طوفان نوح کے بعد نسل انسانی صرف نوح علیہ السلام کی اولاد سے ہی پھیلی تھی یا یہ ان تمام لوگوں کی اولاد سے ہے جو کشتی میں سوار تھے؟ عام مورخین کا خیال ہے کہ اس طوفان کے بعد صرف نوح علیہ السلام کے تین بیٹوں حام، سام، یافث سے ہی پھیلی ہے اور اس خیال کی تائید قرآن کریم کی اس آیت سے بھی ہوجاتی ہے۔ ﴿ وَجَعَلْنَا ذُرِّیَّتَہٗ ہُمُ الْبٰقِیْنَ ﴾(۷۷:۳۷) اور ہم نے دنیا میں نوح کی اولاد کو ہی باقی رکھا) اسی لحاظ سے نوح علیہ السلام کو آدم ثانی بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن قرآن کریم کی ہی دو آیات ایسی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ طوفان نوح کے بعد نسل انسانی ان تمام لوگوں کی اولاد سے چلی جو اس کشتی میں سوار تھے مثلاً (١) ﴿ ذُرِّیَّــۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ ﴾ تم ان لوگوں کی اولاد ہو جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کرلیا تھا۔ اور (٢) ﴿مِنْ ذُرِّیَّۃِ اٰدَمَ ۤ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ ﴾ (۵۸:۱۹) آدم کی اولاد سے اور ان لوگوں کی اولاد سے جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کرلیا تھا۔ اس دوسری آیت سے ضمناً یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ طوفان نوح پوری دنیا پر نہیں آیا تھا۔ واللہ اعلم بالصواب زیادہ قرین قیاس بات یہی ہے کہ اس طوفان کے بعد نسل انسانی ان تمام لوگوں سے چلی جو کشتی میں سوار تھے۔ ھود
45 اس آیت کی تفسیر اگلی آیت کے ساتھ ملاحظہ کیجئے۔ ھود
46 [٥١] بدکردار بیٹا بھی نبی کا اہل نہیں ہوسکتا :۔ جب دیکھتے ہی دیکھتے سیدنا نوح علیہ السلام کے سامنے ان کا بیٹا غرق ہوگیا تو ملول ہوگئے اور اللہ سے اس انداز میں التجا کی کہ ’’یا اللہ تیرا وعدہ تھا کہ میں تیرے اہل کو بچا لوں گا اور وعدہ بھی سچا اور تیرا فیصلہ بھی سب حاکموں سے بہتر اور آخری جس کی کوئی اپیل بھی نہیں اور یہ غرق ہونے والا بیٹا بھی تو میرے اہل میں سے ہی تھا۔‘‘ پھر اسے غرق کرنے میں کیا حکمت تھی؟ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یہ دیا کہ ’’ایک بدکردار آدمی نبی کے اہل میں سے کیسے ہوسکتا ہے وہ ہرگز تمہارے اہل میں سے نہیں تھا خواہ وہ تمہارا صلبی بیٹا ہی تھا اور دیکھو آئندہ مجھ سے ایسا جاہلانہ سوال کبھی نہ کرنا‘‘ نبوت زادگی اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتی :۔ اس سوال و جواب سے ایک نہایت اہم سبق ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں صرف ایمان اور عمل صالح ہی کی قدر وقیمت ہے صرف یہی نہیں کہ کنعان کی نبوت زادگی اس کے کچھ کام نہ آسکی بلکہ ایک اولوالعزم نبی اپنے بیٹے کے لیے نجات کی التجا کر رہا ہے تو الٹا اس پر ہی عتاب نازل ہوتا ہے اس سے ان لوگوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے جنہوں نے سستی نجات کے لیے طرح طرح کے عقیدے وضع کر رکھے ہیں کسی شخص کا سید ہونا یا کسی بزرگ کا دامن پکڑنا اللہ کے ہاں کچھ وقعت نہیں رکھتا۔ ھود
47 [٥٢] نوح کی اپنی غلطی پر مغفرت کی درخواست :۔ نوح علیہ السلام آخر ایک انسان تھے اور جو سوال انہوں نے کیا بشری تقاضا سے مجبور ہو کر کیا تھا لہٰذا یہ اتنا بڑا گناہ معلوم نہیں ہوتا جس پر اس طرح سے عتاب نازل ہو مگر انبیاء کی تمام تر زندگی چونکہ امت کے لیے بطور نمونہ ہوتی ہے اسی لیے ان کی چھوٹی چھوٹی لغزشوں پر بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے گرفت ہوتی ہے اور اس نمونہ کو پاک صاف بنایا جاتا ہے اور یہی عصمت انبیاء کا مفہوم ہے چنانچہ نوح علیہ السلام کو جب اللہ کی طرف سے تنبیہ ہوئی تو اپنی اس لغزش کا احساس کرکے کانپ اٹھے فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا اور نہایت عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے معافی کے طلب گار ہوئے۔ ھود
48 [٥٣] نوح علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں کا پھر زمین پر آباد ہونا :۔ جب کشتی جودی پہاڑ پر ٹک گئی تو نوح علیہ السلام کو بذریعہ وحی مطلع کیا گیا کہ اب پانی نہیں چڑھے گا بلکہ اترتا چلا جائے گا لہٰذا کشتی سے سب سوار بخیر و عافیت اتر آؤ۔ یہ لوگ پہلے جودی پہاڑ پر اترے پھر آہستہ آہستہ زمین کے خشک ہونے پر زمین پر اتر آئے اس سیلاب کے بعد زمین سے پھل اور غلہ بافراط پیدا ہوئے جس سے نوح علیہ السلام کے ساتھی خوشحال ہوگئے اور امن و چین سے پھر زمین پر آباد ہو کر رہنے لگے۔ ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ خبر بھی دے دی کہ ان لوگوں کی اولاد سے بھی سرکش لوگ پیدا ہوں گے تو انھیں بھی اللہ اپنے دستور کے مطابق عذاب سے دوچار کرے گا۔ ھود
49 [٥٤] نوح علیہ السلام کا زمانہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تقریباً چار ہزار سال پیشتر کا ہے اس دور کے مستند اور صحیح ترین حالات کی اطلاع دینا اللہ ہی کا کام ہوسکتا ہے۔ اہل مکہ ان حالات سے مطلقاً بے خبر تھے گویا یہ نوح علیہ السلام کا قصہ اس تفصیل سے بتا دینا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی دلیل ہے۔ [٥٥] یعنی بالآخر اچھا انجام اللہ سے ڈرنے والوں کا ہی ہوتا ہے جیسا کہ نوح علیہ السلام کے ساتھیوں کا ہوا بلکہ ہر حق و باطل کے معرکہ میں، خواہ اس کا تعلق انبیاء سے ہو یا نہ ہو۔ بالآخر غلبہ حق کو ہی حاصل ہوتا ہے اور حق پرست ہی انجام کے لحاظ سے بہتر رہتے ہیں اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ اخروی زندگی میں بہرحال اللہ سے ڈرنے والوں کا ہی انجام بخیر ہوگا اور یہ دونوں مطلب درست ہیں گویا اس آیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو خوش خبری بھی دی گئی ہے۔ ھود
50 [٥٦] قوم عاد کا بیان پہلے سورۃ اعراف کی آیت نمبر ٦٥ تا ٧٢ میں گذر چکا ہے لہٰذا وہ حواشی بھی ملحوظ رکھے جائیں۔ [٥٧] یعنی اپنے معبودوں کے متعلق جو عقائد تم نے خود ہی گھڑ رکھے ہیں ان کے لیے کوئی دلیل موجود نہیں عقائد کے علاوہ ان معبودوں کے مجسمے بھی تمہارے خود ساختہ ہیں۔ ھود
51 [٥٨] دعوت اور رسالت پر اجر :۔ ہر پیغمبر نے اپنی قوم سے یہ بات کہی ہے کہ میں بغیر کسی لالچ کے تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا رہا ہوں اور تم ہو کہ مجھے اپنا دشمن سمجھ کر مجھ سے دست و گریبان ہوتے ہو۔ میں نے اپنا عیش و آرام بھی چھوڑا ہے دنیا کمانے کی فکر بھی چھوڑ رکھی ہے تم سے بھی کسی معاوضہ کا مطالبہ نہیں کر رہا پھر تم سب کی دشمنی بھی مول لے رہا ہوں آخر تم خود بھی کچھ سوچو تو سہی کہ میرا اس میں کیا ذاتی فائدہ ہوسکتا ہے ایسے شخص کی بات اتنی بے وزن تو نہیں ہوسکتی کہ اسے بلا سوچے سمجھے رد کردیا جائے۔ ھود
52 [٥٩] توبہ واستغفار سے رزق میں فراوانی :۔ قوم عاد کو کھیتی باڑی سے بڑی دلچسپی تھی اور زیادہ تر زراعت ہی ان کا ذریعہ معاش تھا وہ تین سال سے خشک سالی کی مصیبت میں گرفتار تھے اور بارش نہیں ہو رہی تھی۔ اس مصیبت کے دفعیہ کے لیے ہودعلیہ السلام نے انھیں اپنے گناہوں سے توبہ و استغفار کرنے کی تلقین فرمائی اور انھیں یقین دلایا کہ اگر تم ایک اللہ کی طرف رجوع کرکے اپنے سابقہ گناہوں کی سچے دل سے معافی طلب کرو گے تو یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر آسمان سے بارش برسا کر رزق کے دروازے کھول دے گا جس سے تمہاری مالی اور بدنی قوت دونوں میں اضافہ ہوگا نیز خوش حالی کا دور دورہ ہوجائے گا اس بات کا تو قوم نے کوئی جواب نہ دیا البتہ کسی صریح معجزہ کا مطالبہ کردیا۔ ھود
53 [٦٠] ویسے تو ہر نبی کو ایسے واضح دلائل دیئے جاتے ہیں جو ایمان لانے والوں کی تسلی اور تشفی کے لیے کافی ہوتے ہیں مگر ہٹ دھرم لوگ عموماً کسی ایسے حسی معجزے کے طالب ہوتے ہیں جو ان کی گردنیں پکڑ کر انھیں ایمان لانے پر مجبور کر دے اور وہ اس وقت تک ایمان لانے کو تیار نہیں، ہوتے جب تک ایسا معجزہ دیکھ نہ لیں۔ حالانکہ اس وقت ایمان لانے کا کچھ فائدہ بھی نہیں ہوتا اور ایسا معجزہ پیش کرنا ویسے بھی مشیت الٰہی کے خلاف ہے۔ ھود
54 [٦١] معبودوں اور بزرگوں کی گستاخی کا انجام :۔ کوئی بھی نبی جب اپنی دعوت پیش کرتا ہے تو اس پر ایمان لانے والے تو بہت کم لوگ ہوتے ہیں اور کثیر طبقہ ایسا ہوتا ہے جو اس کی مخالفت پر اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور نبی اور ابتدائی معدودے چند مسلمانوں کو پریشان کرنے اور اسے ایذائیں دینے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتا اور ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا جاتا ہے اسی کیفیت کو دیکھ کر قوم عاد نے ہود علیہ السلام سے کہا کہ تمہاری اس پریشان حالی کا سبب ہمیں تو صرف یہ نظر آتا ہے کہ تم جو ہمارے معبودوں کی توہین اور ان کے حق میں گستاخی کرتے ہو تو انہوں نے اپنی اس توہین کی تمہیں یہ سزا دی ہے جیسا کہ پرستاران باطل کے عقائد میں عموماً یہ بات بھی شامل ہوتی ہے اور اس بات کو ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کے افسانے اور حکایتیں بھی تراشی جاتی ہیں اور یہ صرف اس دور کی بات نہیں آج بھی یہی کچھ ہو رہا ہے البتہ آج پتھر کے بتوں کی جگہ فوت شدہ بزرگوں نے لے لی ہے۔ مزاروں آستانوں کے متعلق اسی قسم کی حکایتیں آپ کو آج بھی اولیاء اللہ کے تذکروں سے مل سکتی ہیں۔ ھود
55 [٦٢] ہود کا قوم کو جواب میرا جو بگاڑ سکتے ہو بگاڑ لو :۔ ان کے اس الزام کے جواب میں ہود علیہ السلام نے جواب دیا کہ میں تمہارے معبودوں کی ایسی کرامات کا ہرگز قائل نہیں میں تو اسے اللہ کے ساتھ شرک سمجھتا ہوں اور ہر طرح کے شرک سے بیزاری کا اعلان کرتا ہوں البتہ اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ تمہارے معبود مجھے کچھ نقصان پہنچا سکتے ہیں تو یوں کرو کہ تم اور تمہارے معبود سب مل کر جو تکلیف مجھے پہنچانا چاہتے ہو پہنچاؤ اور اس میں بالکل دیر نہ کرو اور میرا تو یہ یقین ہے کہ اگر اللہ مجھے تکلیف نہ پہنچانا چاہے تو کوئی طاقت مجھے نقصان نہ پہنچا سکے گی۔ ھود
56 [٦٣] یعنی ہر جاندار کی ہر حرکت اور ہر فعل کی باگ ڈور اللہ کے قبضہ اختیار میں ہے۔ کوئی جاندار اللہ کے تصرف اور اس کی گرفت سے بچ نہیں سکتا وہ جب چاہے اسے سزا بھی دے سکتا ہے اور موت سے بھی دو چار کرسکتا ہے۔ [٦٤] رب کے صراط مستقیم کا مطلب :۔ اس بے پناہ تصرف کے باوجود اللہ تعالیٰ عدل و انصاف کے صراط مستقیم پر ہے کہ وہ کسی پر کبھی زیادتی اور ظلم نہیں کرتا۔ البتہ بسا اوقات اپنے بندوں کی خطاؤں کو معاف ضرور کردیتا ہے اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو لوگ اللہ کی بتلائی ہوئی سیدھی راہ پر گامزن ہیں اللہ ہر وقت ان کے ساتھ ہوتا ہے اور ہر آن ان کی حفاظت کرتا ہے۔ ھود
57 [٦٥] ان سب باتوں کے باوجود بھی اگر تم اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر جمے رہو گے تو اللہ عذاب بھیج کر تمہیں تباہ کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہے وہ اس کے بعد تمہاری سر زمین پر کوئی دوسرے لوگ لا کر آباد کر دے گا اور تم اس کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکو گے لہٰذا تمہاری عافیت اسی میں ہے کہ اللہ پر ایمان لے آؤ اور شرک کے کام چھوڑ دو۔ ھود
58 [٦٦] قوم عاد پر عذاب :۔ ان پر تند و تیز اور نہایت ٹھنڈی آندھی کا عذاب آیا تھا یہ آندھی اتنی تیز رفتار اور ہولناک تھی کہ اس میں انسان اور درخت اڑتے چلے آتے تھے۔ درختوں کو توڑ دیتی اور بعض کمزور چھتوں کو اڑا دیتی تھی۔ پھر یہی چیزیں ایک دوسرے سے ٹکرا ٹکرا کر پارہ پارہ اور تباہ و برباد ہو رہی تھیں پھر اس آندھی میں شدید ٹھنڈک مستزاد تھی اور یہ آندھی مسلسل آٹھ دن اور سات راتیں چلتی رہی جس نے ان کے گھروں میں داخل ہو کر انھیں تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ عذاب آنے سے پیشتر اللہ تعالیٰ نے ہودعلیہ السلام کو وحی کردی تھی کہ وہ اور ان کے ساتھی فلاں احاطہ میں جاکر محصور ہوجائیں۔ اس طرح ایمان لانے والوں کو اللہ نے اس سے بچا لیا۔ ھود
59 [٦٧] یعنی جو قد آور، مضبوط اور شاہ زور قوم اس طمطراق سے گزر بسر کر رہی تھی اور اس کا ڈنکا بجتا تھا ان کے تباہ شدہ کھنڈرات کو دیکھ کر ان سے عبرت حاصل کرو کہ اللہ کی آیات سے انکار کے نتیجہ میں انھیں یہ سزا ملی تھی اور رسول تو ان کی طرف صرف ہود آئے تھے لیکن اللہ نے رسولوں کا لفظ غالباً اس لیے استعمال فرمایا ہے کہ تمام رسولوں کی دعوت ایک ہی انداز کی رہی ہے جو توحید اور اصول دین پر مشتمل ہوتی ہے لہٰذا ایک رسول کی تکذیب حقیقتاً سب رسولوں کی تکذیب کے مترادف ہوتی ہے۔ ھود
60 [٦٨] یعنی جب بھی ان کا ذکر ہوگا بھلے الفاظ میں نہیں ہوگا اور یہ لعنت قیامت کے دن بھی ان کا پیچھا نہ چھوڑے گی۔ [٦٩] یعنی عاد اولیٰ تو اس طرح تباہ ہوئے پھر ان کے بعد قوم ثمود دنیا میں نامور ہوئی جسے عاد ثانیہ بھی کہا جاتا ہے اور جن کی طرف صالح علیہ السلام کو مبعوث کیا گیا تھا آگے اسی قوم کا ذکر آرہا ہے اس سلسلہ میں سورۃ اعراف آیت نمبر ٧٣ سے ٧٩ تک کے حواشی بھی مدنظر رکھے جائیں۔ ھود
61 [٧٠] یعنی پہلے آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا پھر تمہاری تمام تر ضروریات زندگی اسی زمین سے وابستہ کردیں اور اسی پر تمہاری آباد کاری کا بندوبست کیا۔ [٧١] یعنی یہ سب کام تو اللہ نے کیے ہیں بتاؤ کہ تمہارے معبودوں نے ان میں سے کون سا کام کیا ہے؟ جو تم ان کی پرستش کرتے ہو اگر تم اللہ کے خالق و رازق ہونے کو تسلیم کرتے ہو تو پھر تمہیں اللہ ہی کی طرف رجوع کرنا چاہیے، اسی کی اطاعت کرنا چاہیے اور اپنے گناہوں کے لیے اسی سے معافی مانگو کیونکہ تم یہ مشرکانہ افعال کرتے رہے ہو۔ [٧٢] اللہ گناہ گاروں کی بھی دعائیں سنتا اور قبول کرتا ہے :۔ دنیا دار اور جاہ طلب مذہب کے ٹھیکیداروں نے عام لوگوں کے ذہن میں یہ عقیدہ راسخ کردیا ہے کہ جس طرح ایک بادشاہ تک درخواست گزارنے کے لیے بادشاہ کے مقرب لوگوں کی ضرورت پیش آتی ہے انہی کے ذریعہ اپنی معروضات کو بادشاہ تک پیش کیا جاتا ہے اور بادشاہ نے جو کچھ جواب دینا ہو وہ بھی انھیں لوگوں کے ذریعہ مل سکتا ہے۔ سب سے بڑے بادشاہ اللہ تعالیٰ کی بھی یہی صورت ہے۔ لہٰذا اللہ کے حضور اپنی معروضات پیش کرنے کے لیے اللہ کے مقربین کا وسیلہ تلاش کرنا ضروری ہے اور ان مقربین سے مراد ان کی اپنی ذات یا معبودان باطل یا فوت شدہ بزرگ وغیرہ ہوتے ہیں جن کے یہ مجاور وغیرہ ہوتے ہیں یہ شیطانی عقیدہ اس قدر گمراہ کن ہے کہ شرک کی بے شمار اقسام اسی ایک عقیدہ سے پیدا ہوتی ہیں اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے اس عقیدہ کی دو لفظوں میں تردید فرما دی۔ یعنی ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ ہر شخص کے قریب ہے وہ ہر ایک کی بات سن سکتا ہے اور سنتا ہے دوسرے یہ کہ وہ گنہگاروں کی دعائیں بھی ایسے ہی قبول کرتا ہے جیسے مقربین کی۔ بشرطیکہ دعا کے آداب کو ملحوظ رکھا جائے۔ واضح رہے کہ کسی نیک آدمی سے اپنے حق میں اللہ سے دعا کرانا اس ضمن میں نہیں آتا اور یہ شرعاً ثابت ہے بگاڑ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب یہ عقیدہ ہو کہ اللہ تعالیٰ گنہگاروں کی بات نہ سنتا ہے اور نہ اسے قبول کرتا ہے پھر جن لوگوں کو وسیلہ بنایا جاتا ہے ان کے لیے نذر و نیاز اور ان کی تعظیم ایسے ہی کی جاتی ہے جیسے اللہ کے لیے سزاوار ہے۔ مندرجہ بالا مفہوم کے لحاظ سے اس جملہ میں قریب اور مجیب دونوں اللہ تعالیٰ کی الگ الگ صفات ہیں لیکن بعض لوگوں نے قریب کو بھی مجیب ہی کی صفت قرار دیا ہے اس صورت میں ترجمہ یہ ہوگا : ’’بلاشبہ میرا پروردگار جلد ہی (دعائیں) قبول کرنے والا ہے‘‘ ھود
62 [٧٣] یعنی تمہیں عقل مند، ہونہار اور دیانتدار سمجھ کر ہم نے تم سے اپنی بہت سی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں کہ تم باپ دادا کا نام روشن کرو گے تم نے تو الٹا باپ دادا کے دین سے سرکشی اختیار کرلی ہے۔ بلکہ ہمیں بھی اس سے روک رہے ہو جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اور ہمارے آباؤ اجداد سب کے سب غلط کار ہی تھے۔ [٧٤] نبی کی دعوت سے کافروں میں خلجان کی وجہ :۔ انبیاء کی دعوت کے ان کی قوم کے افراد پر دوگونہ اثرات مترتب ہوتے ہیں جو لوگ ان پر ایمان لے آتے ہیں ان میں قلبی اطمینان و سکون پیدا ہوجاتا ہے اور یہی قلبی سکون ہی ان میں مخالفین کے شدائد کو برداشت کرنے کی جرأت پیدا کردیتا ہے اور منکروں میں یہی دعوت خلجان اور قلبی اضطراب کا باعث بن جاتی ہے وجہ یہ ہوتی ہے کہ نبی جو دعوت پیش کرتا ہے دلائل کے ساتھ پیش کرتا ہے اور اس کی اپنی سابقہ زندگی اس دعوت کا بڑا ثبوت ہوتی ہے لیکن منکرین کے پاس تقلید آباء کے علاوہ کوئی دلیل نہیں ہوتی اور اس دلیل میں جتنا وزن ہے وہ سب کو معلوم ہے کہ ان کے کسی بزرگ نے ایک غلط رسم ڈالی جو اس کی اولاد میں نسل در نسل منتقل ہوتی چلی گئی جسے بعد میں آنے والوں نے عصبیت کی بنا پر مذہب کا لبادہ پہنا دیا۔ لہٰذا ایسے لوگوں کا خلجان آہستہ آہستہ بڑھتاہی چلا جاتا ہے۔ اس خلجان کی دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ کافروں کے کسی گھرانا سے اگر ایک شخص مسلمان ہوجاتا ہے تو اس کے لواحقین اسے دکھ دیتے اور اس سے برسرپیکار ہوجاتے ہیں۔ اسلام لانے والے کو تو ان کے شدائد سہنے کے باوجود قلبی اطمینان میسر آتا ہے لیکن تشدد کرنے والے تشدد کرنے کے باوجود پریشان اور سخت مضطرب رہتے ہیں اور چونکہ اسلام لانے والا بھی ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد ہوتے ہیں لہٰذا کافروں کے سب گھرانوں میں ایک عام اضطراب اور بے چینی کی فضا طاری رہتی ہے جو انھیں مزید تشدد پر برانگیختہ کئے رکھتی ہے۔ ھود
63 [٧٥] منکرین کا صالح علیہ السلام سے اصل مطالبہ یہ تھا کہ تم اپنے آباؤ اجداد کے دین کو بدنام نہ کرو اور اس میں واپس آجاؤ اور ہمارے لیے پریشانی کا سبب نہ بنو اس کا جواب آپ نے یہ دیا کہ جو کچھ تم کہتے اور کرتے ہو میرا ضمیر اسے پہلے بھی قبول نہیں کرتا تھا پھر اللہ نے مجھے نبوت سے نوازا ہے کہ میں اس کا پیغام تم لوگوں تک پہنچاؤں اب اگر میں تمہاری بات مانوں تو ایک تو اللہ کا مجرم بنوں جس کی گرفت سے مجھے کوئی بھی بچا نہ سکے گا دوسرے اپنے ضمیر کی آواز کو کچلوں اور ہر طرف سے نقصان اٹھاؤں۔ میں ایسا کبھی نہیں کرسکتا۔ ھود
64 [٧٦] ناقۃ اللہ کا کھانا پینا :۔ اس قوم نے خود اس معجزہ کا مطالبہ کیا تھا کہ ہم تو تب ایمان لائیں گے کہ اس پہاڑ سے ایک حاملہ اونٹنی برآمد ہو پھر وہ ہمارے سامنے بچہ جنے۔ سیدنا صالح علیہ السلام نے اللہ سے دعا کی پہاڑ میں یک لخت جنبش ہوئی پھر ایک شگاف سے ایک بہت دیو ہیکل اونٹنی برآمد ہوئی جس نے کچھ عرصہ بعد بچہ جنا اس طرح اس قوم کا منہ مانگا معجزہ کا مطالبہ پورا ہوا اسی وجہ سے اس اونٹنی کو اللہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ اونٹنی کو تکلیف پہنچانے پر تنبیہ :۔ یہ دیو ہیکل اونٹنی اتنا پانی پیتی تھی جتنا اس بستی کے سارے جانور پیتے تھے اور اتنا ہی چارہ بھی کھا جاتی تھی۔ اس کی خوراک کے سلسلہ میں قوم کو ایک نئی تشویش لاحق ہوگئی تو اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فیصلہ یہ فرما دیا کہ کنوئیں سے ایک دن تو اونٹنی پانی پیا کرے گی اور دوسرے دن دوسرے سب جانور، اور چرنے چگنے میں اس اونٹنی کو مکمل آزادی حاصل ہوگی جہاں سے وہ چاہے چرتی پھرے۔ ساتھ ہی صالح علیہ السلام نے قوم کو متنبہ کردیا کہ اگر تم نے کسی برے ارادہ سے اس اونٹنی کو ہاتھ لگایا تو تمہیں سخت عذاب سے دو چار ہونا پڑے گا۔ ھود
65 [٧٧] اونٹنی کو مارنا :۔ مگر یہ قوم اپنے اس متفقہ فیصلہ پر قائم نہ رہ سکی۔ دراصل یہ اونٹنی ان کے لیے وبال جان بن گئی اور عذاب کے ڈر کی وجہ سے اسے کوئی ہاتھ لگانے کی جرأت بھی نہیں کرتا تھا بالآخر قوم کا ایک شہ زور بدبخت اٹھا جس نے اونٹنی کو مار ڈالنے کا ارادہ کرلیا۔ پھر بستی کے ایک ایک فرد سے اس کے متعلق خفیہ مشورے کیے اور آراء طلب کیں۔ اکثریت نے یہی رائے دی کہ اس مصیبت سے جان چھوٹ جائے تو یہ بڑی خوشی کی بات ہوگی۔ اس فیصلہ کے بعد اس بدبخت نے اونٹنی کی کونچ کی رگوں کو کاٹ ڈالا اونٹنی نے ایک زبردست دل دہلا دینے والی چیخ ماری اور اسی پہاڑ میں غائب ہوگئی جس سے نکلی تھی اس کے پیچھے پیچھے اس کا بچہ بھی غائب ہوگیا اس واقعہ کے فوراً بعد خود سیدنا صالح علیہ السلام کو بھی مار ڈالنے کے خفیہ صلاح مشورے ہونے لگے۔ تین دن بعد عذاب :۔ اللہ کا یہ قانون ہے کہ اگر کوئی قوم کسی نبی سے کوئی خاص معجزہ طلب کرے اور وہ معجزہ اسے عطا کردیا جائے پھر بھی وہ قوم سرکشی کی راہ اختیار کرے تو یقیناً اس پر عذاب الٰہی نازل ہوتا ہے چنانچہ صالح علیہ السلام نے وحی کی اطلاع کے مطابق قوم کو خبردار کردیا کہ اب تمہیں صرف تین دن کی مہلت دی جاتی ہے اس کے بعد تم پر اللہ کا قہر نازل ہوگا جس سے تم بچ نہ سکو گے اور نہ ہی اس وعدہ میں کچھ تغیر و تبدل ہوسکتا ہے۔ ھود
66 [٧٨] صالح علیہ السلام کی ہجرت :۔ عذاب کے نازل ہونے سے پیشتر ہی آپ بموجب حکم الٰہی اپنے ایمان دار ساتھیوں کو لے کر فلسطین کی طرف روانہ ہوگئے اور یہ سب لوگ اس ذلت اور عذاب سے بچ گئے جو اس مجرم قوم پر نازل ہونے والا تھا۔ ھود
67 [٧٩] قوم ثمود پر عذاب کی نوعیت :۔ اس قوم پر ایک تو دھماکہ کا عذاب آیا دوسرے اسی وقت شدید زلزلہ کے جھٹکے لگنا شروع ہوگئے اور ممکن ہے کہ دھماکے کی آواز بھی زمین کے پھٹنے اور زلزلے سے پیدا ہوئی ہو اس دوہرے عذاب سے وہ اپنے گھروں میں ہی مر کھپ گئے اور یہ بستی ایسے ویران اور برباد ہوگئی جیسے یہاں کوئی کبھی انسان آباد ہی نہ ہوا تھا اور ان کا یہ عبرت ناک انجام اس لیے ہوا کہ انہوں نے اپنے خالق حقیقی کو چھوڑ کر بتوں وغیرہ کو ہی اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ رکھا تھا جو ان کے اس آڑے وقت میں ان کے کسی کام نہ آسکے۔ ھود
68 ھود
69 [٨٠] فرشتوں کا ابراہیم علیہ السلام کے پاس اسحاق کی خوشخبری لے کر جانا :۔ اس سورۃ میں بھی انبیاء کے قصص کی ترتیب وہی ہے جو پہلے سورۃ اعراف میں گذر چکی ہے یعنی ثمود کے بعد قوم لوط کی تباہی کا ذکر ہے یہاں ضمناً جو ابراہیم علیہ السلام کا ذکر آیا ہے تو بطور تمہید آیا ہے کیونکہ جو فرشتے قوم لوط کی ہلاکت کے لیے مامور کیے گئے تھے وہ پہلے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے پاس ہی ایک بیٹے کی خوشخبری دینے آئے تھے یہ فرشتے انسانی شکل میں آئے اور آکر سلام کیا سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے سلام کا جواب دیا پھر ان کی مہمان نوازی میں مشغول ہوگئے اور تھوڑی دیر میں ایک بچھڑا بھون کرلے آئے اور کھانے کے لیے ان کے سامنے رکھ دیا۔ ھود
70 [٨١] فرشتوں کا کھانے سے انکار اور ابراہیم علیہ السلام کا خدشہ :۔ جب ان فرشتوں نے کھانے کی طرف ہاتھ تک نہ بڑھائے تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو دال میں کچھ کالا محسوس ہوا اور ان سے خوف آنے لگا۔ بعض مفسرین یہ کہتے ہیں کہ یہ ڈرا اس وجہ سے تھا کہ ان لوگوں میں یہ دستور تھا کہ جو مہمان کھانا نہ کھاتا اس کے متعلق یہ سمجھا جاتا کہ وہ کسی بری نیت سے آیا ہے ممکن ہے یہ وجہ بھی ہو۔ مگر فرشتوں کا جواب اس بات کی تائید نہیں کرتا جو یہ تھا کہ ’’ہم قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں‘‘ بات دراصل یہ نہ تھی کہ فرشتوں کا انسانی شکل میں آنا یا کھانے کی طرف ہاتھ نہ بڑھانا یا فرشتوں کو پہچان نہ سکنا ایسی باتیں نہیں تھیں جن سے سیدنا ابراہیم علیہ السلام ڈر جاتے اور ایسے واقعات اولوالعزم انبیاء سے پیش آتے ہی رہتے ہیں کہ فرشتہ انسانی شکل میں آتا ہے جس کا علم انھیں بعد میں ہوتا ہے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے ڈر کی اصل وجہ :۔ بلکہ اصل بات یہ تھی کہ فرشتے چونکہ قوم لوط کو تباہ کرنے کی غرض سے آئے تھے اس لیے ان کے چہروں پر غصہ کے آثار نمایاں تھے لہٰذا انھیں یہ خطرہ پیدا ہوگیا کہ شاید مجھ سے یا میرے گھر والوں سے ایسی کوئی تقصیر ہوگئی ہے جس کی وجہ سے یہ فرشتے غضب ناک دکھائی دے رہے ہیں پھر جب فرشتوں نے یہ وضاحت کردی کہ آپ کے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں ہم تو قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا اندیشہ دور ہوگیا۔ ھود
71 [٨٢] سیدہ سارہ کو خوشخبری دینا :۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی بیوی سارہ بھی پاس کھڑی یہ مکالمہ سن رہی تھیں جب یہ اندیشہ دور ہوا تو خوشی سے ان کی ہنسی نکل گئی پھر فرشتوں نے انھیں ایک بیٹے جس کا نام اسحاق ہوگا کی خوشخبری دی اور یہ بھی بتلایا کہ اسحاق کے بعد اس سے یعقوب بھی ویسا ہی اولوالعزم پیغمبر پیدا ہوگا اور یہ خوشخبری خصوصاً سیدہ سارہ کو اس لیے دی گئی کہ وہ بے اولاد تھیں جبکہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام صاحب اولاد تھے اور دوسری بیوی ہاجرہ کے بطن سے سیدنا اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوچکے تھے اس لیے یہ خوشخبری سیدنا ابراہیم علیہ اسلام کے مقابلہ میں سیدہ سارہ کے لیے بہت زیادہ خوشی کی بات تھی۔ بعض مفسرین نے یہاں ضحکت کے معنی حاضت بھی کیا ہے یعنی ’’سیدہ سارہ کو حیض آگیا‘‘ امام راغب نے اس کی یہ وضاحت کردی ہے کہ یہ ضحکت کے معنی نہیں ہیں البتہ یہ ممکن ہے کہ بچہ کے حمل قرار پانے کی علامت کے طور پر انھیں حیض آگیا ہو اور حیض آنے کے معنی یہ تھے کہ انھیں حمل قرار پا سکتا ہے اور اولاد ہوسکتی ہے۔ ھود
72 [٨٣] اس وقت سیدہ سارہ کی عمر سو سال سے چند سال کم تھی اور حیض مدت سے بند ہوچکا تھا اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی عمر سو سال سے چند سال زائد تھی لہٰذا سیدہ سارہ کا بطور تعجب ایسے الفاظ کہنا ایک فطری امر تھا اگرچہ اس میں دل کی خوشی بھی شامل تھی۔ ھود
73 [٨٤] فرشتے کہنے لگے کہ ایک پیغمبر کی بیوی ہو کر اللہ کے کام پر تعجب کرتی ہو؟ اللہ جو چاہے وہ اس کے کرنے پر قادر ہے اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے گھر والوں پر تو اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتی رہی ہیں اور آئندہ بھی ہوتی رہیں گی جن میں سے ایک ہونے والا بچہ اسحاق کی پیدائش بھی ہے۔ ھود
74 [٨٥] سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قوم لوط پر عذاب کے بارے میں بحث :۔ اس آیت میں ’’ہم سے‘‘ سے مراد ’’ہمارے فرشتوں سے‘‘ ہے یعنی جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا خوف خوشی میں تبدیل ہوگیا تو وہ ہمارے فرشتوں سے یہ بحث کرنے لگے کہ وہاں تو لوط علیہ السلام خود بھی موجود ہیں۔ پھر تم اس بستی کو کیسے ہلاک کرو گے اور فلاں مومن بھی موجود ہے اور فلاں بھی جس سے آپ کا مقصد صرف یہ تھا کہ اگر عذاب کو موخر کردیا جائے تو شاید لوگ ایمان لے آئیں اور انھیں کچھ مزید مہلت مل جائے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نرم دل واقع ہوئے تھے اور وہ چاہتے یہ تھے کہ کسی طرح اللہ کی یہ مخلوق عذاب الٰہی سے بچ جائے۔ ھود
75 ھود
76 [٨٦] فرشتوں نے جواب دیا کہ اب اس بحث کا کچھ فائدہ نہیں اللہ تعالیٰ ان پر عذاب کا فیصلہ کرچکا ہے اور ہمیں اس نے اسی غرض کے لیے مامور کردیا ہے۔ لہٰذا اب یہ موخر نہیں ہوسکتا۔ ھود
77 [٨٧] خوش شکل فرشتے اور سیدنا لوط علیہ السلام کو خدشہ :۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے ہو کر یہ فرشتے نہایت خوبصورت جوان اور بے ریش لڑکوں کی شکل میں سیدنا لوط علیہ السلام کے پاس آئے جنہیں دیکھ کر سیدنا لوط علیہ السلام کے دل میں سخت گھٹن پیدا ہوئی کئی طرح کے خطرات ان کے سامنے منڈلانے لگے بڑا خطرہ یہی تھا کہ یہ مہمان خوبصورت لڑکے ہیں اور میری قوم جس بدکاری میں مبتلا ہے وہ انھیں کبھی چھوڑے گی نہیں اور دوسری فکر یہ تھی کہ اگر میں ان کی مدافعت بھی کرنا چاہوں تو یہ مرے بس کا روگ نہیں۔ ھود
78 [٨٨] مشٹنڈوں کا گھس آنا اور سیدنا لوط علیہ السلام کی پیش کش :۔ ان مہمانوں کی آمد کی اطلاع پاتے ہی کچھ مشٹنڈے گھر کی دیواریں پھاند کر وہاں پہنچ گئے اور سیدنا لوط علیہ السلام سے مطالبہ کیا کہ ان مہمانوں کو ہمارے حوالہ کردو یہی وہ لمحہ تھا جو سیدنا لوط علیہ السلام کے لیے سوہان روح بنا ہوا تھا۔ چنانچہ سیدنا لوط علیہ السلام نے مہمانوں کا دفاع کرنے کی خاطر کہا کہ یہ میری بیٹیاں حاضر ہیں میں تم سے ان کا نکاح کردیتا ہوں اور یہی تمہارے لیے پاکیزہ تر راستہ ہے اور مہمانوں کا مجھ سے مطالبہ نہ کرو۔ نہ ہی ان کے سامنے مجھے رسوا کرو اور یہ بات آپ نے اس لیے کہی کہ یہ لوگ آپ سے آپ کی بیٹیوں کے رشتہ کا مطالبہ کرچکے تھے لیکن آپ نے ان کی بری حرکات دیکھ کر ان کو رشتہ سے جواب دے دیا تھا اب مہمانوں کی اور اپنی عزت بچانے کی خاطر ان کا یہ مطالبہ بھی منظور کرلیا اور انھیں یہ عار بھی دلائی کہ کیا تم شرم و حیا اور بدکرداری کی سب حدیں پھاند گئے ہو اور تم میں کوئی بھی ایسا بھلامانس آدمی موجود نہیں رہا جو دوسروں کو سمجھا سکے یا میری بات مان لے۔ بیٹیوں سے مراد :۔ بعض مفسرین یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’میری بیٹیوں‘‘ سے مراد قوم کی سب بیٹیاں ہیں کیونکہ نبی پوری قوم کا روحانی باپ ہوتا ہے اور قوم کی بیٹیاں اس کی روحانی بیٹیاں ہوتی ہیں۔ اگرچہ یہ بات بھی درست ہے مگر موقعہ کی نزاکت اسی شرح کا مطالبہ کرتی ہے جو پہلے پیش کی گئی ہے اور قرآن کے ظاہری الفاظ بھی اسی کی تائید کرتے ہیں۔ ھود
79 [٨٩] یعنی اس قوم کا مزاج اس قدر بگڑ چکا تھا کہ اخلاقی انحطاط اس قدر واقع ہوچکا تھا کہ حلال کام سے فائدہ اٹھانے میں ان کی دلچسپیاں ہی ختم ہوگئی تھیں ان کی ساری دلچسپیاں لونڈے بازی جیسے مکروہ حرام اور خلاف فطرت فعل پر ہی مرکوز ہو کر رہ گئی تھیں اور جب کوئی قوم حرام کاموں کی نہ صرف عادی ہوجائے بلکہ اس میں دلچسپی لینے اور فخر محسوس کرنے لگے تو ایسی قوم کا علاج یہی ہے کہ اسے صفحہ ہستی سے نیست و نابود کرکے اللہ کی زمین کو ایسی نجاست سے پاک کردیا جائے۔ ھود
80 [٩٠] سیدنا لوط علیہ السلام کی بے بسی :۔ سیدنا لوط علیہ السلام اس علاقہ سدوم میں غریب الدیار تھے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے۔ پہلے عراق سے ہجرت کرکے فلسطین آئے پھر جب انھیں نبوت عطا ہوئی تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے انھیں بغرض تبلیغ سدوم بھیج دیا۔ یہاں ان کا کوئی کنبہ قبیلہ بھی نہ تھا۔ بیوی بھی کافر تھی اور اسی قوم کی فرد تھی اور ان لواطت کرنے والے مشٹنڈوں سے ساز باز رکھتی تھی اور جب کوئی مہمان گھر پر آتا تو انھیں خفیہ طور پر یا اشاروں سے مطلع کردیا کرتی تھی ان فرشتوں کی آمد کی بھی اسی نے ان لوگوں کو اطلاع دی تھی۔ یہ تھا سیدنا لوط علیہ السلام کی بے بسی کا عالم کہ گھر میں بیوی بھی ان کی مخالف تھی۔ اسی بے بسی کے عالم میں ان مشٹنڈوں کے بارے میں آپ کی زبان سے یہ الفاظ نکل گئے ’’کاش میں تمہارا مقابلہ کرسکتا یا کسی مضبوط سہارے کی طرف پناہ لے سکتا‘‘ یعنی اگر میرا بھی یہاں مضبوط قبیلہ یا برادری ہوتی تو شاید میں ایسا بے بس اور مجبور نہ ہوتا۔ مفسرین کہتے ہیں کہ سیدنا لوط علیہ السلام کے بعد جتنے بھی انبیاء مبعوث ہوئے سب بڑے جتھے اور قبیلے والے تھے۔ ھود
81 [٩١] مشٹنڈوں کا اندھا ہونا :۔ سیدنا لوط علیہ السلام کی زبان سے ایسے بے بسی کے الفاظ سن کر فرشتے چپ نہ رہ سکے اور کہنے لگے کہ آپ اتنے پریشان نہ ہوں ہم لڑکے نہیں بلکہ آپ کے پروردگار کے فرستادہ فرشتے ہیں اور فکر نہ کرو یہ لوگ ہمیں چھیڑنا تو درکنار تمہارا بھی کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔ بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ کہنے کے بعد سیدنا جبریل علیہ السلام نے لوط علیہ السلام کو ایک علیحدہ جگہ بٹھلا دیا اور صرف اپنا بازو تھوڑا سا ان ملعونوں کی طرف بڑھایا تو سب کے سب اندھے ہوگئے انھیں کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ بھاگو یہاں سے۔ یہ لوط علیہ السلام کے مہمان تو بڑے جادوگر معلوم ہوتے ہیں اور جب وہ بھاگنے لگے تو ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے۔ [ ٩٢] سیدنا لوط اور مومنوں کو نکلنے کی ہدایت اور بیوی کا پیچھے رہنا :۔ جب یہ لوگ سیدنا لوط علیہ السلام کے گھر سے دفع ہوگئے تو فرشتوں نے لوط علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کے پروگرام سے مطلع کرتے ہوئے کہا کہ راتوں رات اپنے گھر والوں کو لے کر یہاں سے نکل جاؤ کیونکہ صبح کے وقت ان پر عذاب آنے والا ہے اور صبح ہونے میں تھوڑا ہی وقت باقی رہ گیا ہے لہٰذا جلد از جلد نکلنے کی کوشش کرو اور دیکھو تمہاری بیوی تمہارے ساتھ نہیں جائے گی کیونکہ وہ بھی اس جرم میں برابر کی شریک ہے اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھنا مبادا کسی کو یہ خیال آجائے کہ دیکھیں تو سہی ان پر کیسے عذاب آتا ہے اور وہ بھی کہیں عذاب کی لپیٹ میں نہ آجائے۔ ھود
82 [٩٣] کیا قوم لوط پر عذاب آتش فشانی انفجار تھا ؟ یہ وہ عذاب الٰہی کا حکم تھا جس پر فرشتوں کو مامور کیا گیا تھا۔ جبر یل علیہ السلام نے شہر سدوم اور آس پاس کی بستیوں کو، جو ان بدکاروں کا مسکن تھا اس پورے خطہ زمین کو اکھاڑ کر اپنے پروں پر اٹھایا پھر فضا میں بلندی پر لے جا کر اس خطہ کو الٹا کر زمین پر پٹخ دیا۔ پھر اس خطہ زمین پر اوپر سے لگاتار کھل کر پتھر برسائے گئے اور پتھر بھی عام پتھر نہ تھے بلکہ مخصوص علامت والے پتھر تھے اور یہ دوہرا عذاب انھیں غضب الٰہی کی شدت کی بنا پر دیا گیا۔ بعض لوگ اس عذاب الٰہی کی یہ عقلی توجیہ پیش کرتے ہیں کہ یہ آتش فشانی انفجار تھا۔ زمین سے شدید قوت کے ساتھ لاوا پھوٹا جس نے اس خطہ زمین کو اوپر اٹھا لیا جو بعد میں نیچے گرگیا ۔ پھر اسی لاوا کا مائع مادہ فضا میں پہنچ کر منجمد ہو کر کھنگروں کی صورت میں اس خطہ زمین پر برسا تھا۔ یہ توجیہ ویسے تو دل لگتی ہے۔ مگر ہمیں اس توجیہ کو قبول کرنے میں تامل ہے یہ محض ایک طبعی واقعہ نہیں تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتے خاص اسی مقصد کے لیے بھیجے تھے جس کی صراحت ان آیات میں موجود ہے البتہ دوسری قوموں پر جو عذاب آتے رہے انھیں طبعی اسباب کے تحت قرار دیاجا سکتا ہے اگرچہ وہ واقعات بھی اللہ کے حکم اور اس کی مشیئت کے تحت ہی واقع ہوئے تھے۔ ھود
83 [٩٤] اس آیت کے دو مطلب ہوسکتے ہیں اور دونوں ہی درست ہیں۔ ایک کی تو ترجمہ میں ہی قوسین کے ذریعہ وضاحت کردی گئی ہے اس صورت میں خطہ سے مراد قوم لوط کا تباہ شدہ خطہ اور ظالموں سے مراد دور نبوی کے منکرین حق ہیں یعنی یہ برباد شدہ علاقہ ان ظالموں سے کچھ دور نہیں یہ سب کچھ وہ بچشم خود ملاحظہ کرسکتے ہیں اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ایسا عذاب کچھ قوم لوط علیہ السلام سے ہی مخصوص نہیں بلکہ ظالموں اور منکرین حق اور بدکرداروں کو آج بھی ایسا عذاب دینے پر اللہ تعالیٰ پوری قدرت رکھتا ہے اور یہ کوئی بعید از عقل بات نہیں۔ ھود
84 [٩٥] شرک ام الامراض ہے :۔ سیدنا شعیب علیہ السلام کا قصہ بھی سورۃ اعراف کی آیت نمبر ٨٤ تا ٩٥ میں گذر چکا ہے لہٰذا وہ حواشی بھی پیش نظر رکھنے چاہئیں۔ شرک ایسی بیماری ہے جو تقریباً ہر قوم میں پائی جاتی ہے اور بالخصوص ان اقوام میں ضرور موجود تھی جن کی طرف انبیاء مبعوث ہوتے رہے باقی تمام اخلاقی اور معاشرتی بیماریاں اور برائیاں اسی شرک سے ہی پھوٹتی ہیں گویا جس طرح جسمانی بیماریوں میں قبض کو ام الامراض قرار دیا گیا ہے اسی طرح روحانی بیماریوں میں شرک ام الامراض ہے۔ شرک سے اجتناب اور توحید کے عقیدہ سے معاشرہ کی اصلاح کیسے ہوتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ تمام انبیاء کی دعوت کا پہلا ہدف یہی مرض رہا ہے انبیاء شرک کی تردید کے ساتھ ساتھ توحید کی دعوت دیتے اور ایمان لانے والوں میں اللہ کی صحیح معرفت پیدا کرتے ہیں جس سے دلوں میں تقویٰ یا خشیت الٰہی پیدا ہوتا ہے اور یہ تقویٰ ہی ایسی چیز ہے جو تمام معاشرتی اور اخلاقی بیماریوں کے لئے شفا کا حکم رکھتا ہے۔ شرک کے علاوہ بعض قوموں میں بعض مخصوص برائیاں بھی ہوتی ہیں جیسے قوم لوط جو لونڈے بازی کی لعنت میں گرفتار تھے۔ قوم شعیب تجارتی کاروبار میں بے ایمانی کرتے تھے۔ قوم فرعون نے بنواسرائیل پر قیامت ڈھا رکھی تھی۔ شرک کے بعد انبیاء کی دعوت کا دوسرا ہدف ایسی ہی مخصوص بیماریاں ہوتی ہیں۔ اہل مدین دو تجارتی شاہراہوں کے چوک میں واقع تھے اور یہ علاقہ اس وجہ سے نہایت اہم تجارتی مرکز بن گیا تھا۔ یہ لوگ صرف ناپ تول کے پیمانوں میں ہی ہاتھ کی صفائی نہیں دکھاتے تھے بلکہ ہر وہ بددیانتی کرنا جانتے تھے جس کی وجہ سے دوسرے کا حق مارا جاسکے۔ اسی لیے شعیب علیہ السلام نے شرک کے بعد انھیں ایسی ہی تجارتی بددیانتیاں چھوڑنے کی نصیحت کی اور ان کی یہی کرتوتیں فساد فی الارض کے مترادف تھیں جن کے ذریعہ وہ دوسروں کے حق غصب کیا کرتے تھے۔ ھود
85 ھود
86 [٩٦] یعنی اچھے بھلے کھاتے پیتے لوگ ہو تمہیں بددیانتی کرنے کی کچھ ضرورت بھی نہیں لہٰذا جتنا منافع حلال ذرائع سے حاصل ہوتا ہے اسے کافی سمجھو اسی میں اللہ برکت عطا فرمائے گا۔ اگر تم یہ باتیں مان کر ان پر عمل کرو تو تمہارے حق میں بہتر ہے اور یہ سب کام اللہ سے ڈرتے ہوئے کرو میں تمہارا محتسب نہیں ہوں کہ یہ دیکھتا رہوں کہ کون کم تولتا ہے اور کون پورا ماپتا ہے اور کون سودے بازی میں بددیانتی کر رہا ہے اور کون نہیں کر رہا۔ اس جملے کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میں نے تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور میری بس اتنی ہی ذمہ داری تھی تمہیں راہ راست پہ لاکے چھوڑنا میری ذمہ داری نہیں۔ ھود
87 [٩٧] ٹھیک طرح سے نماز ادا کرنے کے اثرات :۔ نماز اگر فی الواقع سوچ سمجھ کر اور خشوع و خضوع سے ادا کی جائے تو فی الواقع وہی باتیں سکھلاتی ہے جن کی قوم شعیب کو سمجھ آگئی تھی۔ مگر افسوس ہے کہ ہم مسلمانوں کو ان باتوں کی بھی سمجھ نہیں آتی جو مدین والے سمجھ گئے تھے نماز انسان میں تقویٰ پیدا کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے اور تقویٰ ہی وہ چیز ہے جو انسان کو ہر طرح کی اعتقادی، اخلاقی اور معاشرتی برائیوں سے بچاتا ہے۔ غور فرمائیے کہ جو انسان ایک دن میں بیسیوں دفعہ سوچ سمجھ کراِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ پڑھے گا وہ مشرک رہ سکتا ہے جو انسان دن میں بیسیوں دفعہ اللہ کے آگے سجدہ ریز ہو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے وہ کیا اپنے کام کاج اور کاروبار کے وقت اللہ کو یاد نہ رکھے گا اور بددیانتیاں ترک نہ کردے گا اور حرام و حلال کی تمیز اسے ملحوظ نہ رہے گی؟ اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر یوں بیان فرمایا : ﴿اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِ (۹تا۴۵) اور فحشاء اور منکر کے الفاظ کے مفہوم میں اتنی وسعت ہے کہ ہر طرح کی برائیاں ان میں آجاتی ہیں بالفاظ دیگر نماز کی صحت کا معیار ہی یہ ہے کہ انسان میں تقویٰ پیدا ہو وہ ہر طرح کی برائیاں چھوڑ دے اور نیکی کے کاموں کی طرف راغب ہو اور کسی شخص میں نماز ایسا اثر پیدا نہیں کرتی تو سمجھ لیجئے کہ وہ نماز ادا نہیں کرتا بلکہ بے گار کاٹتا ہے۔ [ ٩٨] کیا نماز اور عبادت اللہ اور بندے کا پرائیویٹ معاملہ ہے؟ ان لوگوں کا اپنے مال میں تصرف کا مطلب یہ تھا کہ ہم جن جائز اور ناجائز ذرائع سے مال کمائیں یا جن کاموں میں ہم چاہیں خرچ کریں ہم پر کچھ پابندی نہ ہونا چاہیے اگر تم نمازیں پڑھتے ہو تو پڑھو مگر ہمیں کیوں اس سلسلہ میں تنگ کرتے ہو کیا تمہاری نماز تمہیں یہ سکھلاتی ہے کہ اسے دوسروں پر بھی لاگو کرو۔ تم تو اچھے بھلے سمجھ دار آدمی ہو یہ دوسروں کے معاملات میں دخل دینا بھلا کون سی عقل مندی ہے گویا عبادات کے متعلق ان لوگوں کا نظریہ وہی تھا جو آج کل کی اس دنیا کا ہے جسے مہذب سمجھا جاتا ہے یعنی عبادت بندے اور خدا کا ذاتی اور پرائیویٹ معاملہ ہے اور اسے دنیوی معاملات میں اثر انداز نہ ہونا چاہیے گویا وہی پرانی جاہلیت پھر سے نئی روشنی کی صورت میں عود کر آئی ہے۔ ھود
88 [٩٩] یہ واضح دلیل وہی داعیہ فطرت ہے جو ہر انسان کے تحت الشعور میں موجود ہے پھر جو لوگ اللہ کی ہر سو پھیلی ہوئی نشانیوں میں غور و فکر کرتے ہیں ان میں یہ داعیہ تحت الشعور سے شعور میں آجاتا ہے اور انھیں اللہ تعالیٰ کی صحیح معرفت حاصل ہوجاتی ہے۔ [ ١٠٠] رزق حسن سے مراد :۔ یہاں رزق حسن سے مراد نبوت اور علم وحی ہے اور اگر رزق سے مراد ظاہری حلال اور پاکیزہ رزق یا مال و دولت ہی لیا جائے تو بھی اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں تمہاری بددیانتیوں کے معاملہ میں تمہارا حامی کیسے بن سکتا ہوں بھلا کیا میں ایسے کام کرسکتا ہوں جن سے تمہیں روکتا ہوں۔ میں تو تمہاری بھی اصلاح چاہتا ہوں پھر میں ایسے کام کیوں کروں گا اور میں اپنے اس عزم پر قائم رہنے کی اللہ سے توفیق چاہتا ہوں اور ہر پریشانی کے وقت اسی پر بھروسہ کرتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ ھود
89 [١٠١] اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مختلف اوقات میں شعیب علیہ السلام اور ان کی قوم میں یہ مکالمات ہوتے رہے یہ کوئی ٹھنڈے ماحول میں نہیں ہو رہے تھے بلکہ آپ کی قوم آپ کی مخالفت میں ہٹ دھرمی پر اتر آئی تھی۔ یعنی ایسی ہٹ دھرمی جس میں انسان مخاطب کی درست بات کا بھی الٹا ہی اثر لینا شروع کردیتا ہے اسی لیے آپ نے انھیں فرمایا کہ میری مخالفت میں مشتعل ہو کر اور چڑ کر کہیں پہلے سے بھی زیادہ شرک اور کاروباری بددیانتیوں میں مستغرق نہ ہوجانا حتیٰ کہ تم اس حالت کو پہنچ جاؤ کہ تم اس عذاب الٰہی کے مستحق قرار دیئے جاؤ جو تمہاری پیشرو قوموں پر آچکا ہے جن میں سے قوم لوط علیہ السلام کا تباہ شدہ خطہ تو تم سے کچھ دور بھی نہیں اور اسے کسی بھی وقت دیکھ سکتے ہو اور پھر زمانی لحاظ سے بھی کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا اور تمہارے بڑے بزرگ تمہیں اس قوم کے حالات سنا بھی سکتے ہیں۔ ھود
90 [١٠٢] تمہارے لیے بہتر راستہ یہی ہے کہ میری باتوں پر مشتعل ہونے اور چڑنے کے بجائے اللہ سے اپنے پہلے گناہوں کی معافی مانگو اور آئندہ ایسے کام نہ کرنے کا اللہ سے عہد کرو۔ پھر صرف یہی نہیں کہ اللہ تمہارے گناہ معاف کردے گا بلکہ تم سے خوش ہوگا اور تم سے محبت بھی کرنے لگے گا۔ ھود
91 [١٠٣] حرام خور کو حلال کمانا بہت مشکل ہوتا ہے :۔ یعنی یہ جو تم کاروبار میں سچائی، راست بازی اور دیانتداری کی باتیں کرتے ہو اگر ہم ایسا کریں گے تو ہمارا سارا کاروبار ہی مندا پڑجائے گا۔ مارکیٹ میں مقابلہ بڑا سخت ہے اگر ہم یہ کام نہ کریں گے تو کمائیں گے کیا اور کھائیں گے کیا ؟ لہٰذا یہ نصیحتیں تم اپنے پاس ہی رکھو ہم اگر ایسی دیانتداری سے کام لیں جیسی تم کہتے ہو تو ہمارا تو سارا کاروبار ہی ٹھپ ہوجائے گا اور ایک دن بھی نہ چل سکے گا۔ تمہاری یہ باتیں ہماری سمجھ سے باہر ہیں۔ اور واقعہ ہے بھی یہی کہ جب انسان حرام ذرائع سے مال کمانے کا عادی ہوجاتا ہے تو اس کے لیے حلال ذریعہ سے مال کمانا اتنا ہی دشوار نظر آتا ہے جتنا کسی بلند پہاڑ پر چڑھنا۔ یہاں حسب حال مجھے ایک واقعہ یاد آگیا ہے ایک گوالے کا بیٹا کچھ دین کا علم پڑھ گیا۔ لڑکا نیک تھا ایک دن اپنے باپ سے کہنے لگا : ’’ابا ! دودھ میں پانی ملانا چھوڑ دو اور بے شک دودھ کچھ مہنگا بیچ لیا کرو۔‘‘ باپ نے بیٹے کو تلخ لہجے میں جواب دیا چل دفع ہو تم تو کسی گوالے کے بیٹے ہی نہیں ہو۔ اس مختصر سے واقعہ سے ایک حرام خور کی پوری ذہنیت سمجھ میں آجاتی ہے۔ یہی ذہنیت شعیب علیہ السلام کی قوم کی تھی جنہوں نے اپنے پیغمبر کو یوں جواب دیا تھا کہ ”تمہاری ان باتوں کی ہمیں سمجھ ہی نہیں آتی‘‘ [ ١٠٤] سیدنا شعیب علیہ السلام کو دھمکی :۔ تمہاری برادری کا ہمیں پاس ہے جو ہمارے ہی ہم خیال ہیں اگر یہ نہ ہوتے تو تم تو ایک کمزور سے آدمی ہو جس طرح تم نے ہمیں ستا رکھا ہے کب کا ہم نے تمہیں سنگسار کردیا ہوتا۔ تمہیں ہم اپنے مقابلے میں کیا سمجھتے ہیں؟ ھود
92 [١٠٥] گویا تم میری برادری کے دباؤ کے تحت میرا لحاظ کر رہے ہو جو ابھی تک مجھے سنگسار نہیں کیا حالانکہ حقیقت میں اصل دباؤ تو اس اللہ کا سمجھنا چاہیے جس کے قبضہ قدرت میں کائنات کی ایک ایک چیز ہے اور تم خود بھی اسی کے قبضہ قدرت میں ہو جس کا تمہیں کبھی بھولے سے بھی خیال نہیں آتا۔ اور اگر تمہیں میری باتیں اتنی ہی ناگوار معلوم ہوتی ہیں تو جو کچھ کر رہے ہو کیے جاؤ بہرحال میں تو اپنا کام جاری رکھوں گا۔ تاآنکہ اللہ تعالیٰ خود ہی کوئی فیصلہ کی ایسی صورت پیدا کردے جس سے ہر ایک کو معلوم ہوجائے کہ ہم میں راہ راست پر کون تھا اور غلط کار کون؟ ھود
93 ھود
94 [١٠٦] اہل مدین پر عذاب کی نوعیت :۔ یہاں قوم شعیب کا چنگھاڑ (فرشتہ کی چیخ) سے ہلاک ہونا مذکور ہے اور اعراف میں زلزلہ کا ذکر ہوا ہے اور سورۃ شعراء میں عذاب یوم الظلۃ کا ذکر ہے یعنی عذاب کے بادل سائبان کی طرح ان پر محیط ہوگئے تھے گویا اس قوم پر تینوں قسم کا عذاب آیا ہے اور قرآن نے ہر مقام پر صرف اس عذاب کا ذکر فرمایا جیسا کہ مضمون چل رہا تھا مثلاً اس سورۃ میں قوم کا لہجہ تلخ اور باتیں گستاخانہ تھیں جو سنگسار کرنے کی دھمکی دے رہے تھے تو یہاں سخت قسم کے جگر خراش عذاب یعنی چنگھاڑ کا ذکر فرمایا سورۃ اعراف میں یہ ذکر تھا کہ قوم نے دھمکی دی تھی کہ ہم تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو اس سرزمین سے نکال دیں گے تو وہ خود اسی سر زمین کے زلزلے سے ہلاک ہوئے تھے اور سورۃ شعراء میں یہ مضمون ہے کہ قوم نے شعیب علیہ السلام سے کہا : ’’اگر تم سچے ہو تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دو‘‘ اسی مناسبت سے وہاں عذاب کے بادلوں کا ذکر فرمایا اور یہ ممکن ہے کہ ہر مقام پر عذاب کی مختلف اوقات کی کیفیت مذکور ہو۔ [ ١٠٧] اس سہ گونہ عذاب سے وہ اپنے اپنے گھروں میں ہی مرگئے اور اوندھے منہ زمین سے اس لیے چمٹ گئے تھے کہ عذاب کی تکلیف کچھ کم محسوس ہو اور ان کا یہ علاقہ یوں ویران اور بے آباد نظر آتا تھا جیسے کبھی کوئی وہاں آباد ہوا ہی نہ تھا۔ ھود
95 ھود
96 [١٠٨] فرعون کو سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی دعوت :۔ سورۃ بقرہ اور پھر سورۃ اعراف میں موسیٰ علیہ السلام کے حالات اللہ تعالیٰ نے نہایت وضاحت سے بیان فرمائے۔ لیکن یہاں نہایت اختصار کے ساتھ ان کی دعوت اور اس کے انجام کا ذکر کیا گیا ہے۔ اجمال ہو یا تفصیل کسی واقعہ سے اصل مقصود تو انسان کا اس واقعہ سے یا بدکرداروں کے انجام سے عبرت حاصل کرنا ہے اور وہ ان تین آیات میں بھی ذکر کردیا گیا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام خود بڑے مضبوط جسم کے، طاقتور، جرأت مند اور جلالی طبیعت کے مالک تھے اور انھیں جس جابر و قاہر بادشاہ کی طرف بھیجا گیا اس کی نخوت اور قہر مانی کا یہ عالم تھا کہ خود خدا بنا بیٹھا تھا اور اس کی رعایا اسے فی الواقع اپنا خدا تسلیم کرتی تھی۔ اسی لیے آپ کو نبوت کے ساتھ ہی دو ایسے واضح معجزے بھی بن مانگے عطا کیے گئے تھے جن کی بنا پر آپ فرعون جیسے دبدبہ اور شان و شوکت والے بادشاہ کے سامنے کھل کر اپنی دعوت پیش کرنے کے قابل ہوگئے چنانچہ آپ بلاروک ٹوک فرعون کے کھلے دربار میں چلے گئے اور سب درباریوں کے سامنے اسے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دیا کہ وہ ایک اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کرلے اور اپنی خدائی کے دعویٰ سے دستبردار ہوجائے اور بنی اسرائیل پر ظلم کرنا چھوڑ دے اور انھیں اپنی غلامی سے آزاد کرکے انھیں (سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے) ہمراہ کردے۔ ھود
97 [١٠٩] اس دعوت کو قبول کرنے کا اثر صرف فرعون پر ہی نہیں پڑتا تھا بلکہ اس کے درباریوں پر بھی پڑتا تھا اور ہر ایک کو اپنے اپنے مناصب سے دستبردار ہونا پڑتا تھا لہٰذا ان سب نے موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کردیا حالانکہ ان سب کو یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ فرعون نے بنی اسرائیل پر جو انسانیت سوز مظالم ڈھا رکھے ہیں وہ کسی لحاظ سے بھی درست نہیں ہیں اور موسیٰ علیہ السلام اپنے اس مطالبہ میں راستی پر ہیں۔ ھود
98 [١١٠] دنیوی اعمال کے اخروی نتائج میں مماثلت :۔ اس مقام پر قصہ موسیٰ علیہ السلام و فرعون کی سب تفصیلات چھوڑ دی گئی ہیں نہ ہی یہ ذکر ہے کہ اس دنیا میں فرعون اور اس کے درباریوں اور پیروکاروں کا کیا انجام ہوا بلکہ ان لوگوں کا قیامت کے دن جو حال ہوگا اس کا نقشہ پیش کیا گیا ہے اور بتلایا گیا ہے کہ جس طرح اس دنیا میں فرعون اپنے پیروکاروں کا لیڈر بنا ہوا ہے اسی طرح قیامت کے دن بھی اپنے پیروکاروں کی قیادت کر رہا ہوگا لیکن آج تو فرعون کے پیروکاروں کو یہ نظر نہیں آرہا کہ فرعون انھیں اس ہلاکت کے گڑھے کی طرف لیے جارہا ہے لیکن قیامت کو ان سب کو یہ نظر آرہا ہوگا کہ وہ انھیں جہنم کی طرف لیے جارہا ہے لیکن اس وقت وہ اس کی پیروی کرنے پر مجبور ہوں گے اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیوی اعمال کی ان کے اخروی نتائج کے ساتھ غایت درجہ کی مماثلت ہوگی اور انسان اس دنیا میں تو کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا اختیار رکھتا ہے مگر ان کاموں کے نتائج اس کے اختیار میں نہیں ہوتے بلکہ وہ براہ راست اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہوتے ہیں لہٰذا اس دن وہ اس کے پیچھے پیچھے چلنے پر مجبور ہوں گے۔ پھر قیامت کے دن ایسی قیادت صرف فرعون سے ہی مختص نہ ہوگی بلکہ ہر قائد کا الگ الگ جھنڈا ہوگا اور وہ اپنے پیروکاروں کے آگے آگے چل کر انھیں ان کی منزل تک لے جائے گا اگر کوئی قائد دنیا میں اللہ کا فرمانبردار اور نیک بخت تھا تو وہ اپنے پیروکاروں کو لیے ہوئے جنت کی طرف روانہ ہوگا اور بدکردار لیڈر اپنے پیروکاروں کو جہنم کی طرف لے جارہے ہوں گے۔ [ ١١١] ورد کے لغوی معنی :۔ وَرَدَ کے معنی ہیں پانی پینے کے لیے پانی کے مقام یا گھاٹ پر پہنچنا اور اس کی ضد صَدَرَ ہے یعنی پانی پی کر اور سیراب ہو کر پانی کے مقام سے واپس جانا اور ورد گھاٹ کو بھی کہتے ہیں۔ یعنی فرعون اپنے پیروکاروں سمیت نکلا تو ہوگا پانی کی تلاش میں مگر یہ لوگ جا پہنچیں گے جہنم کے کنارے پر۔ یعنی دنیا میں بھی یہ موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کا انکار کرکے اپنی بھلائی چاہ رہے تھے اور ان کی یہ غلط سوچ دنیا میں بھی ان کی ہلاکت کا سبب بن گئی تھی اور آخرت میں بھی ان کی سوچ کچھ اور ہوگی اور نتیجہ ہلاکت ہوگا۔ ھود
99 ھود
100 ھود
101 [١١٢] یعنی جب اللہ کا عذاب آتا ہے تو عابد اور معبودان باطل میں کچھ امتیاز نہیں کرتا۔ معبود جب اپنے آپ کو بھی اللہ کے عذاب سے بچا نہیں سکتے تو وہ اپنے پیرکاروں کو کیسے بچا سکتے ہیں۔ اور اس سے بھی بڑھ کر جو قابل غور بات ہے وہ یہ ہے کہ انہی معبودوں کی وجہ سے ہی تو پیروکاروں پر اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے۔ پھر ان معبودوں کے ضررر ساں اور تباہ کار ہونے میں شبہ کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟ ھود
102 [١١٣] یعنی اللہ ظالم لوگوں کو مہلت دیئے جاتا ہے اور مہلت سے مقصود تنبیہ بھی ہوتا ہے اور اتمام حجت بھی۔ لیکن جس قوم پر اتمام حجت ہوچکے اور تنبیہات بھی سود مند ثابت نہ ہوں اور ان لوگوں میں خیر اور بھلائی کو قبول کرنے کی استعداد ہی باقی نہ رہے تو پھر اس وقت ان پر ایسا قہر الٰہی نازل ہوتا ہے جو ان کے لیے سخت تکلیف دہ بھی ہوتا ہے اور جان لیوا بھی۔ اور اس عذاب سے بسا اوقات اس قوم کا نام و نشان ہی صفحہ ہستی سے مٹادیا جاتا ہے۔ ھود
103 [١١٤] یعنی قوموں کے عروج و زوال کی داستان یا عروج و زوال کے قانون سے عبرت وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جن میں اللہ کا خوف ہوتا ہے اور آخرت میں اللہ کے حضور جواب دہی کے تصور سے ڈرتے رہتے ہیں اور یہ واقعات انھیں اللہ کی نافرمانی سے باز رکھنے میں موثر ثابت ہوتے ہیں۔ رہے وہ لوگ جو نہ اللہ سے ڈرتے ہیں نہ آخرت کے عذاب سے تو وہ ایسے عبرت انگیز واقعات سرسری طور پر پڑھ کر یا دیکھ کر انھیں اتفاقات زمانہ سے متعلق کردیتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ ان کی مادی یا طبیعی توجیہات تلاش کرنے لگتے ہیں۔ [١١٥] یوم مشہود کا ایک ترجمہ یہ بھی کیا گیا ہے کہ اس دن سب لوگوں کو حاضر کیا جائے گا یعنی تمام لوگ اس دن صرف جمع ہی نہیں کیے جائیں گے بلکہ انھیں باز پرس کے لیے اللہ کے سامنے حاضر بھی کیا جائے گا اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کے مقدمات پر شہادتیں قائم کی جائیں گی اور سب کارروائی تمام لوگوں کی موجودگی میں کی جائے گی۔ ھود
104 [١١٦] قیامت بدترین لوگوں پر قائم ہوگی :۔ حدیث میں ہے کہ ''لاَتَقُوْمُ السَّاعَۃُ الاَّ عَلٰی شَرَار النَّاسِ''یعنی قیامت اس وقت قائم ہوگی جب برائی اتنی عام ہوجائے گی کہ تمام نیک لوگ دنیا سے اٹھ جائیں گے یا اٹھا لیے جائیں گے قیامت کی بہت سی نشانیاں تو احادیث میں مذکور ہیں مگر اس کا معین وقت کسی کو نہیں بتلایا گیا اور نہ ہی کسی کو اس کی موت کا وقت بتلایا گیا ہے اس لیے یہ باتیں اللہ کی مشیئت کے خلاف ہیں اور اس سے وہ مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے جس کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا ہے۔ ھود
105 [١١٧] اللہ کے ہاں سفارش کی کڑی شرائط :۔ اس آیت سے ان لوگوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے جو اپنے بزرگوں کی سفارش پر تکیہ لگائے بیٹھے ہیں ہمیں اولیاء کے تذکروں میں بکثرت ایسی حکایات ملتی ہیں کہ فلاں بزرگ اکڑ کر بیٹھ جائیں گے اور اپنے ایک ایک مرید کو بخشوائے بغیر راضی نہ ہوں گے اور نہ خود جنت میں داخل ہوں گے اور بالآخر وہ اللہ میاں کو اپنی بات منوا کے ہی چھوڑیں گے حالانکہ وہ دن ایسا سخت ہوگا کہ انبیاء بھی اللہ کے حضور لوگوں کی سفارش کرنے سے ہچکچائیں گے اور بالآخر قرعہ فال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑے گا اور وہی اللہ کے حضور سفارش کریں گے۔ بلاشبہ دوسرے انبیاء اور بعض دوسرے نیک لوگوں کی سفارش کرنا بھی احادیث سے ثابت ہے مگر اس سفارش کے لیے بڑی کڑی شرائط ہیں۔ ایک یہ کہ صرف وہی شخص سفارش کرسکے گا جس کو اللہ کی طرف سے اجازت حاصل ہوگی اور وہ بھی صرف اس شخص کے حق میں سفارش کرسکے گا جس کے حق میں اللہ کو منظور ہوگا اور خاص اس جرم کے لیے جس کی سفارش اللہ کو منظور ہوگی لہٰذا ایسی سفارش پر بھروسہ کرنے والوں کو وہاں سخت مایوسی سے دو چار ہونا پڑے گا۔ ھود
106 [١١٨] اس جملہ کے دو مطلب ہیں ایک تو وہی ہے جو ترجمہ میں بیان کیا گیا ہے اور یہ مطلب قرآن کے دوسرے مقامات سے بھی ثابت ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جہنم کے بھڑکنے سے ایسی جگر خراش آوازیں پیدا ہوں گی جو ان بدبختوں کی مصیبت اور گھبراہٹ میں مزید اضافہ کرتی جائیں گی اور یہ مطلب بھی قرآن کے دوسرے مقامات سے ثابت ہے۔ ھود
107 [١١٩] یہ الفاظ بطور محاورہ استعمال کیے گئے ہیں کیونکہ اہل عرب دوام اور لا محدود مدت بیان کرنے کے لیے یہی الفاظ استعمال کرتے تھے ورنہ یہ موجودہ زمین و آسمان تو قیامت کے وقت ختم کردیے جائیں گے۔ البتہ ظاہری الفاظ کا لحاظ رکھتے ہوئے ان سے عالم اخروی کے زمین و آسمان مراد لیے جاسکتے ہیں۔ [١٢٠] کیا اعمال کے نتائج ناقابل تبدل ہیں؟ اس آیت میں ان گمراہ لوگوں کا رد ہے جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ نے اشیاء میں جو تاثیریں رکھ دی ہیں انہی کے مطابق ہی افعال کے نتائج برآمد ہوتے ہیں اور ان میں ردو بدل ناممکن ہے یہ عقیدہ دراصل اللہ کی قدرت کاملہ کا انکار ہے وہ اس کی مثال یہ دیتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے زہر کھالیا ہے تو وہ لازماً مر جائے گا اور موت ایسی یقینی ہے جس کا کوئی علاج نہیں۔ جبکہ اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ اگر اللہ چاہے تو زہر کھانے والے کو بھی بچا سکتا ہے۔ اسی طرح اگر اللہ چاہے تو کسی مجرم کو تھوڑی بہت سزا دے کر یا سزا دئیے بغیر ہی معاف کرسکتا ہے۔ ھود
108 ھود
109 [١٢١] یہ خطاب رسول اللہ کو محض تاکید مزید کے لیے ہے ورنہ خطاب عام لوگوں کو ہے نبی تو دوسرے لوگوں کے بھی اس قسم کے شکوک رفع کرتا ہے وہ خود کیسے اس قسم کے شک میں مبتلا ہوسکتا ہے؟ [١٢٢] مشرکانہ عقائد نقل، عقل اور تجربہ کے مطابق غلط ہیں :۔ یعنی جب قوم پر عذاب آیا تو ان کے بت، مجاور اور آستانے انھیں اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکے تو اب ان کفار مکہ کے معبود انھیں کیسے بچا سکتے ہیں یا ان کی حمایت کرسکتے ہیں؟ لہٰذا جو کچھ عقائد ان لوگوں نے اپنے معبودوں سے متعلق قائم کر رکھے ہیں وہ عقل اور تجربہ کی کسوٹی پر غلط ثابت ہوتے ہیں۔ لہٰذا یہ جو کچھ ہو رہا ہے محض اندھی تقلید کی بنا پر ہو رہا ہے اور ہم ایسے لوگوں کو پوری پوری سزا دیں گے۔ ھود
110 [١٢٣] کتاب کے منزل من اللہ ہونے میں اختلاف کی صورتیں :۔ یعنی جس طرح آج قرآن کے بارے میں اختلاف کیا جارہا ہے۔ کوئی کہتا ہے، یہ پہلوں کی کہانیاں ہیں کوئی کہتا ہے، کہ یہ بیان کی جادوگری ہے کوئی کہتا ہے، کہ قرآن اس نبی کا تصنیف کردہ ہے، کوئی کہتا ہے، کہ یہ کسی دوسرے سے سیکھ کر یہ قرآن پیش کر رہا ہے اور ایک حق پرست گروہ اسے منزل من اللہ بھی سمجھتا ہے، اسی طرح تورات میں بھی اختلاف کیا گیا تھا اور لوگوں کا یہ جرم اتنا شدید ہے جس پر انھیں فوری طور پر ہلاک کیا جاسکتا تھا، مگر اللہ تعالیٰ نے اتمام حجت اور لوگوں کی آزمائش کے لیے ایک مدت مقرر رکھی ہے اس لیے فوری طور پر نہ قوم موسیٰ ہلاک کی گئی تھی اور نہ آپ کی قوم کو ہلاک کیا جائے گا ان کے انکار کے باوجود اس کتاب میں ایسے بصیرت افروز دلائل ضرور موجود ہیں جنہوں نے ان کے دلوں میں اس کی سچائی کے متعلق شک ڈال کر انھیں بے چین کر رکھا ہے۔ ھود
111 ھود
112 [١٢٤] یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین بھی مخالفین کی باتوں کی قطعاً پروا نہ کریں اور اللہ کے حکم بجالانے کے لیے مضبوطی سے ڈٹ جائیں اور اس کی قائم کردہ حدود کا پورا پورا خیال رکھیں، ان سے تجاوز نہ کریں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ایک ایک فرد سے اور تمہارے تمام تر اعمال سے پوری طرح خبردار ہے۔ ھود
113 [١٢٥] کافروں سے سمجھوتہ یا دوستی کی ممانعت :۔ پہلی آیت میں ہدایات ایجابی قسم کی تھیں اور اس آیت میں سلبی قسم کی ہیں اور یہ بھی ایمان کا تقاضا ہیں یعنی اپنے مخالفوں اور اسلام دشمنوں سے دین کی باتوں میں کسی بات پر لچک پیدا نہ کرنا، نہ ان سے سمجھوتہ کیا جائے اور نہ ہی ان میں سے کسی کو دوست سمجھا یا بنایا جائے۔ اگر ان میں سے تم لوگوں نے کوئی کام بھی کیا تو وہ تمہیں بھی لے ڈوبیں گے اس صورت میں تم اللہ کی گرفت سے بچ نہ سکو گے اور نہ ہی اللہ کے سوا کوئی دوسری طاقت تمہاری کچھ مدد کرسکے گی۔ ھود
114 [١٢٦] نیکیوں سے برائیوں کا دور ہونا :۔ دن کے اطراف سے مراد صبح اور مغرب کی نماز ہے اور کچھ رات گئے سے عشاء کی نماز مراد ہے۔ گویا اس آیت سے یہ تین نمازیں ثابت ہوئیں اور نماز اگر مکمل آداب کے ساتھ ادا کی جائے تو انسان کے چھوٹے چھوٹے گناہ از خود معاف ہوجاتے ہیں جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے : ١۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کسی شخص نے ایک (انصاری) عورت کا بوسہ لے لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر اپنا گناہ بیان کیا اس وقت یہ آیت نازل ہوئی (یہ آیت سننے کے بعد) اس شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : کیا یہ امر (نماز سے صغیرہ گناہوں کا معاف ہوجانا) خاص میرے لیے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’نہیں بلکہ میری امت سے جو بھی ایسا کرے‘‘ (بخاری، کتاب التفسیر) (مسلم، کتاب التوبہ، باب ﴿اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْہِبْنَ السَّـیِّاٰتِ ﴾ میں یہ واقعہ ذرا تفصیل سے ہے) ٢۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ علیہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’آدمی کی آزمائش اس کی بیوی، اس کے مال، اس کی اولاد اور اس کے پڑوسی میں ہوتی ہے اور نماز، روزہ، صدقہ، امربالمعروف اور نہی عن المنکر ان کا کفارہ بن جاتے ہیں‘‘ (بخاری، کتاب مواقیت الصلوۃ۔ باب الصلوۃ کفارۃ) ٣۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پانچوں نمازیں، ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک کے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں جبکہ وہ بڑے گناہوں سے اجتناب کرتا رہے‘‘ (مسلم، کتاب الطھارۃ، باب فضل الوضوء والصلوۃ عقبہ ) ٤۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بھلا بتاؤ اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر نہر بہتی ہو اور وہ اس میں روزانہ پانچ بار نہا لیا کرے تو کیا اس کے جسم پر کچھ میل کچیل باقی رہ جائے گا ؟“ لوگوں نے جواب دیا،”نہیں ذرا بھی نہیں رہے گا“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یہی پانچ نمازوں کی مثال ہے اللہ ان کے ذریعہ گناہ مٹا دیتا ہے‘‘ (بخاری، کتاب مواقیت الصلوۃ باب فضل الصلوۃ لوقتھا) نیکیوں سے برائیوں کے دور ہونے کی تین صورتیں :۔ اور نیکیوں سے برائیاں دور ہونے کی تین صورتیں ہیں ایک یہ کہ جو شخص نیکیاں بکثرت کرے اس کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ دوسری یہ کہ اس سے برائی کی عادت چھوٹ جاتی ہے اور تیسری یہ کہ جس معاشرہ میں نیکی کے کام بکثرت ہو رہے ہوں برائیاں از خود وہاں سے رخصت ہونے لگتی ہیں اور سر نہیں اٹھا سکتیں۔ [١٢٧] یعنی تمہیں نیک بنانے اور برائیوں سے بچانے کا بہترین ذریعہ نماز ہے جس سے اللہ کی یاد تازہ ہوتی رہتی ہے اسی کی طاقت سے تم بدی کی انفرادی اور اجتماعی قوتوں کا مقابلہ کرسکتے ہو۔ ھود
115 [١٢٨] اس سے پہلی آیت میں نماز کی تاکید اور اس کے فوائد بیان کیے گئے تھے اور اس آیت میں صبر کی تلقین کی جارہی ہے اور یہی دو چیزیں ہیں جن کے متعلق مسلمانوں کو آڑے اور مشکل وقت میں اختیار کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ جیسا کہ سورۃ بقرہ میں فرمایا: ﴿وَاسْتَعِیْنُوْا بالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ﴾ ھود
116 [١٢٩] عذاب کے متعلق اللہ کا قانون :۔ ان دو آیات میں قوموں کے عروج و زوال یا کسی قوم پر اللہ تعالیٰ کی گرفت کا ضابطہ بیان فرمایا گیا ہے، ہوتا یہ ہے کہ جب کبھی کوئی نبی مبعوث ہوتا اور لوگوں کو ایمان لانے اور بھلے کاموں کی دعوت دیتا ہے تو معرکہ حق و باطل شروع ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں اللہ مجرموں کو ہلاک کردیتا ہے اور اہل ایمان کو بچا لیتا ہے۔ پھر ان بچے ہوئے اہل ایمان کی اولاد میں پھر سے برائی جنم لینے لگتی ہے اگر اس برائی کا پوری قوت سے سرتوڑ دیا جائے تو معاشرہ عذاب سے بچا رہتا ہے لیکن اگر غفلت کی جائے تو برائی عام ہوجاتی ہے اور اہل اصلاح و خیر تھوڑے ہی لوگ رہ جاتے ہیں۔ پھر اگر یہ اہل خیر نہی عن المنکر کا فریضہ اپنی حسب توفیق سرانجام دیتے ہیں تو بھی ان نیک لوگوں کی موجودگی کی وجہ سے اللہ کی طرف سے عذاب نہیں آتا۔ لیکن اگر یہ اہل خیر اتنے کمزور ثابت ہوں کہ نہی عن المنکر سے غفلت برتنے لگیں یا اتنے تھوڑے رہ جائیں کہ ان کی آواز غیر موثر ہو کر رہ جائے اور برائی عام ہوجائے اور خوشحال لوگ اپنی عیش کوشیوں میں ہی پڑے رہیں تو اس صورت میں اللہ تعالیٰ کا عذاب آ جاتا ہے جو غفلت شعار اہل خیر کو بھی نہیں چھوڑتا اور اس طرح گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے اور اگر اہل خیر اپنی مقدور بھر برائی کے استیصال میں کوشاں رہے ہوں تو پھر یا تو عذاب آتا ہی نہیں یا پھر اللہ انھیں بچانے کی کوئی نہ کوئی صورت پیدا کردیتا ہے۔ ھود
117 [١٣٠] اہل خیر کی موجودگی میں اللہ کا عذاب نہیں آتا :۔ یعنی ایسی صورت میں کبھی عذاب نہیں آتا کہ اس قوم میں اہل خیر موجود بھی ہوں اور وہ اصلاح کی کوششوں میں بھی لگے ہوں۔ خواہ وہ تھوڑے ہی ہوں ایسے لوگوں کی وجہ سے مجرم بھی اللہ کے عذاب سے محفوظ رہتے ہیں۔ عذاب تو صرف اس وقت آتا ہے جب سرتاسر برائی پھیل جائے، کیونکہ اللہ کو خواہ مخواہ لوگوں کو عذاب دینے کا شوق نہیں۔ ھود
118 [١٣١] اختلاف کی اصل وجہ :۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خیر و شر میں سے کوئی ایک راہ انتخاب کرنے کی مکمل آزادی دے رکھی ہے اگر یہ آزادی انتخاب و اختیار انسان سے چھین لی جائے تو اختلاف کا ہونا ممکن نہیں رہتا اور جب تک یہ آزادی موجود ہے لوگ اختلاف کرتے ہی رہیں گے نیز اگر یہ آزادی انسان سے چھین لی جائے تو انسان کی تخلیق کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے انسان کو خیر و شر کی راہیں سجھا دی گئیں۔ پھر اسی غرض کے لیے انبیاء آئے اللہ نے کتابیں نازل فرمائیں لیکن تھوڑے ہی لوگ تھے جنہوں نے اس آزادی انتخاب و اختیار کا درست استعمال کیا زیادہ لوگ ایسے غلط کار ہی ثابت ہوئے جنہوں نے گمراہی کی راہیں اختیار کرکے اپنے آپ کو جہنم کا اہل ثابت کیا۔ یہ ارادہ و اختیار کی قوت انسان کے علاوہ جنوں کو بھی دی گئی ہے انسانوں کی طرح جنوں کی اکثریت بھی گمراہ اور جہنم کی مستحق ہی رہی ہے۔ ھود
119 ھود
120 [١٣٢] انبیاء کے بار بار تذکرہ کے تین فائدے :۔ انبیاء کے حالات بار بار بیان کرنے کے اللہ تعالیٰ نے تین فائدے بتلائے ہیں۔ ایک یہ کہ جن مشکلات سے آپ اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دو چار ہیں ایسے ہی حالات سے تمام سابقہ انبیاء اور ان پر ایمان لانے والوں کو بھی دوچار ہونا پڑا تھا۔ آخر اللہ نے مخالفین کا سر توڑ دیا اور انبیاء اور مومنوں کو بچا لیا اور کامیاب کیا لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبر سے کام لیں اور اپنے عزم کو مضبوط رکھیں۔ دوسرے یہ کہ آپ اور آپ کے پیروکاروں تک سابقہ انبیاء کے صحیح صحیح حالات پہنچ جائیں جن کی آپ کو پہلے سے خبر نہیں تھی۔ تیسرے یہ کہ ان لوگوں کے حالات میں آپ سب کے لیے بہت سے اسباق موجود ہیں یعنی اللہ کے نافرمانوں کا بالآخر کیا انجام ہوتا ہے اور فرماں برداروں کا کیا ؟ ھود
121 ھود
122 [١٣٣] لہٰذا آپ پورے عزم و استقلال کے ساتھ وحی الٰہی کی پیروی کرتے جائیے اور اپنے سرکش اور ہٹ دھرم مخالفوں سے صاف کہہ دیجئے کہ تم اپنے طریقہ پر کام کرتے جاؤ ہم اپنے ہی طریقہ پر عمل پیرا رہیں گے اور اللہ ہمارے اعمال کو بھی دیکھ رہا ہے اور تمہارے اعمال کو بھی اور جو فریق جیسے انجام کا اہل ہوگا۔ اللہ ویسے ہی انجام سے دوچار کرے گا کیونکہ تمام تر مخلوقات اس کے قبضہ قدرت میں ہے اور ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق سزا و جزا دینے کی پوری قدرت رکھتا ہے۔ باطل دوئی پرست ہے حق لاشریک ہے شرکت میانہ حق باطل نہ قبول کر ھود
123 ھود
0 یوسف
1 یوسف
2 [١] قرآن کی عربی زبان اور روایت بالمعنی کی ضرورت :۔ قرآن ساری دنیا کے لیے ہدایت کی کتاب ہے۔ لیکن چونکہ اس کے اولین مخاطب اہل عرب تھے۔ اس لیے ضروری تھا کہ اسے عربی زبان میں نازل کیا جاتا۔ تاکہ پہلے عرب اس کے مطالب کو خوب سمجھیں، پھر دوسرے لوگوں تک ان لوگوں کی زبان میں اسے پہنچائیں۔ اہل عجم عربی زبان سیکھ جائیں اس سے ایک نہایت اہم مسئلہ کی بھی وضاحت ہوجاتی ہے جو یہ ہے کہ روایت بالمعنی شرعی لحاظ سے قابل اعتبار چیز ہے اور روایت بالمعنی کے بغیر یہ ممکن ہی نہ تھا کہ قرآن کے مطالب کو دوسری زبانوں میں منتقل کیا جاسکتا۔ قرآن کی ایک صفت تو یہ ہے کہ وہ عربی زبان میں ہے اور دوسری یہ کہ وہ اپنے سارے مطالب واضح الفاظ میں بیان کرتا ہے۔ یعنی ایسے مطالب جن پر انسانی ہدایت کے لیے کسی عمل کی بنیاد رکھی جاسکتی ہو۔ یوسف
3 [٢] قریش مکہ کا یہود کے کہنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال، بنی اسرائیل مصر کیسے پہنچ گئے؟:۔ اس سورۃ کا شان نزول یہ ہے کہ کفار مکہ نے یہود سے کہا کہ ہمیں کوئی ایسا سوال بتلاؤ جو ہم اس پیغمبر سے پوچھیں اور اس سوال کا وہ جواب نہ دے سکے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اس نبی کا سب بھرم کھل جائے گا۔ وہ جواب تو نہ دے سکے گا یا پھر مہلت مانگے گا اور دریں اثنا وہ ادھر ادھر کی کچھ معلومات مہیا کرے گا جس کا علم ہوجانا بعید از قیاس نہیں۔ یہود یہ تو جانتے تھے کہ یہ نبی امی ہے لہٰذا انہوں نے سوچ سمجھ کر ایک تاریخی قسم کا سوال کفار مکہ کو بتایا جو یہ تھا کہ ”سیدنا ابراہیم علیہ السلام ، سیدنا اسحاق علیہ السلام اور سیدنا یعقوب (اسرائیل) سب کا مسکن تو شام و فلسطین کا علاقہ تھا۔ پھر بنی اسرائیل مصر میں کیسے جا پہنچے جنہیں اہل مصر کی غلامی سے آزاد کرانے کے لیے سیدنا موسیٰ علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے؟‘‘ جب کفار مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا تو اسی وقت یہ سورۃ پوری کی پوری نازل ہوگئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے مسلسل یہ سورۃ ادا ہوتی گئی اور حقیقت یہ ہے کہ اس سوال کے جواب سے اس وقت نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واقف تھے اور نہ اہل مکہ اور اس جواب میں سیدنا یوسف علیہ السلام کے حالات زندگی کی پوری داستان بھی آگئی اور کئی ایسی باتوں کی طرف واضح اشارات بھی پائے جاتے تھے جو کفار مکہ اور برادران یوسف کے درمیان مشترک پائے جانے والے تھے اور اس میں کفار مکہ کے لیے عبرت کے کئی نشان بھی تھے۔ گویا یہ پوری سورۃ قریش مکہ کے حق میں ایک طرح کی پیشین گوئی کی حیثیت رکھتی تھی اور وہ سب نشان عبرت پورے ہو کر رہے۔ مثلاً: اس سورۃ کا شان نزول اور آپ کی نبوت کا ثبوت :۔ پہلی عبرت کی بات یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً ان کے سوال کا جواب دے کر یہ ثابت کردیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فی الواقع اللہ کے نبی ہیں کیونکہ وحی الٰہی کے علاوہ آپ کے پاس معلومات کا کوئی ذریعہ ممکن نہ تھا، لیکن پھر بھی یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لائے اور اپنی ہٹ پر قائم رہے۔ دوسرے یہ کہ جس طرح برادران یوسف نے اپنے بھائی کو قتل کرنے یا جلا وطن کرنے کا ارادہ اس لیے کیا کہ کھٹکتے خار کو راستہ سے ہٹا کر اپنی راہ صاف کی جائے۔ بعینہ اسی غرض کے تحت کفار مکہ نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے یا جلا وطن کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ قصہ یوسف اور قریش میں مماثلت کی وجوہ :۔ تیسرے یہ کہ جو تدابیر برادران یوسف نے یوسف علیہ السلام کو اپنی راہ سے ہٹانے کے لیے اختیار کی تھیں۔ انہی تدابیر کو اللہ نے سیدنا یوسف علیہ السلام کے عروج اور سربلندی کا ذریعہ بنا دیا۔ اسی طرح بعینہ جو تدابیر کفار مکہ نے پیغمبر اسلام اور اسلام کو نیست و نابود کرنے کے لیے اختیار کی تھیں۔ انہی سے اسلام کا عروج اور سربلندی حاصل ہوئی اور یہی تدابیر کفار مکہ اور کفر کی موت کا سبب بن گئیں۔ چوتھے یہ کہ جب اللہ تعالیٰ نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو حکومت عطا فرمائی اور ان کے بھائی نادم و شرمسار ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے انھیں ﴿لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ ﴾ کہہ کر معاف فرما دیا۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد اپنے ان جانی دشمن بھائیوں کو بالکل یہی الفاظ کہہ کر معاف کردیا۔ مزید یہ کہ انھیں جنگی قیدی بنانے کے بجائے ﴿اَنْتُمُ الطُّلَقَاء ُ﴾ کہہ کر انھیں یہ محسوس تک نہ ہونے دیا کہ وہ مغلوب و مفتوح قوم ہیں۔ اور اس تفصیل سے جو نہایت اہم سبق حاصل ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ جس شخص کو اللہ سربلند کرنا چاہے اس کے حاسد اور مخالف اسے مٹانے کی لاکھ کوششیں کریں، کارگر نہیں ہوسکتیں۔ بلکہ بمصداق ”عدوشرے برانگیزد کہ خیر مادراں باشد“ اللہ انھیں تدبیروں کا رخ یوں پھیر دیتا ہے کہ وہی تدبیریں اس شخص کی سربلندی کا ذریعہ بن جایا کرتی ہیں۔ یوسف
4 [٣] سیدنا یوسف علیہ السلام سے ان کے باپ کی محبت کی وجوہ :۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کے حقیقی بھائی صرف بن یمین تھے جو آپ سے چھوٹے تھے۔ باقی دس بھائی سوتیلے تھے۔ اور ان سے بڑے تھے۔ سیدنا یوسف علیہ السلام سے ان کے والد سیدنا یعقوب علیہ السلام کو والہانہ محبت تھی۔ جس کی وجوہ کئی ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ والدین کو عموماً چھوٹی اولاد سے نسبتاً زیادہ پیار ہوتا ہے۔ دوسرے ان دو بھائیوں کی والدہ فوت ہوچکی تھیں۔ تیسرے سیدنا یوسف علیہ السلام بہت خوبصورت اور حسین و جمیل تھے اور چوتھے یہ کہ آپ علیہ السلام سب بھائیوں کی نسبت نیک سیرت تھے۔ انہی وجوہ کی بنا پر آپ اپنے والد کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے۔ جس سے بڑے بھائی ان سے حسد کرنے لگے تھے۔ کم سنی کی عمر میں ہی آپ علیہ السلام کو ایک خواب آیا اور آپ نے اپنے والد کو بتایا تو انھیں اس خواب میں بیٹے کا روشن مستقبل نظر آگیا کیونکہ خواب بڑا واضح تھا جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ تھی۔ گیارہ ستاروں سے مراد گیارہ بھائی تھے۔ سورج سے مراد سیدنا یوسف علیہ السلام کے والد سیدنا یعقوب علیہ السلام اور چاند سے مراد ان کی سوتیلی والدہ تھی۔ سجدہ تعظیمی ؟ رہی یہ بات کہ غیر اللہ کو سجدہ کرنا تو شرک ہے پھر باپ نے جو نبی تھے اور بیٹے نے جو نبی ہونے والے تھے۔ اس بات کو درست کیسے تسلیم کرلیا تو اس کا جواب بعض علماء نے یہ دیا ہے یہ سجدہ تعظیمی ہے جو پہلی شریعتوں میں تو جائز تھا۔ مگر ہماری شریعت محمدیہ میں ایسا تعظیمی سجدہ بھی حرام قرار دیا گیا ہے اور بعض علماء کے نزدیک یہاں سجدہ سے مراد اصطلاحی سجدہ نہیں جو نماز میں ادا کیا جاتا ہے بلکہ سجدہ سے مراد محض جھک جانا ہے اور یہی اس کا لغوی معنی ہے۔ مگر اسی سورۃ کے آخر میں ﴿خَرُّوْا لِلّٰہِ سُجَّدًا﴾کے الفاظ آئے ہیں اور لفظ ﴿خَرُّوْا﴾سے پہلے قول کی ہی تصدیق ہوتی ہے۔ یوسف
5 [٤] سیدنا یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹوں کے ان منفی قسم کے جذبات سے تو واقف تھے ہی جو وہ سیدنا یوسف علیہ السلام کے متعلق رکھتے تھے۔ لہٰذا آپ نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو یہ تاکید کردی کہ ایسا واضح خواب وہ اپنے بھائیوں کو نہ بتائیں۔ ورنہ وہ حسد کے مارے جل بھن جائیں گے اور ممکن ہے وہ شیطان کی انگیخت پر سیدنا یوسف علیہ السلام کے حق میں بری تدبیر سوچنے لگیں جیسا کہ بعد میں سیدنا یعقوب علیہ السلام کا اندیشہ برحق ثابت ہوا اور برادران یوسف نے اس سلسلہ میں جو کرتوتیں کیں ان کا ذکر آگے آرہا ہے۔ یوسف
6 [٥] سیدنا یوسف علیہ السلام کے خواب کے واضح نتائج :۔ اس خواب سے سیدنا یعقوب علیہ السلام نے خود جو نتائج نکالے اور سیدنا یوسف کو بتائے وہ یہ تھے کہ اللہ تعالیٰ سیدنا یوسف علیہ السلام سے اپنے دین کی خدمت کا کام لے گا اور انھیں تاویل الاحادیث سکھائے گا۔ تاویل الاحادیث سے مراد صرف خوابوں کی تعبیر ہی نہیں بلکہ ہر بات کے موقع و محل کو سمجھنا معاملات کے نتائج کو فوراً پرکھ لینا۔ اللہ تعالیٰ کے ارشادات کے مضامین کی تہ تک پہنچ جانا وغیرہ سب کچھ شامل ہے اور تیسرے یہ کہ اللہ انھیں اس نعمت نبوت سے فیض یاب فرمائے گا جو ان کے دو باپوں سیدنا اسحاق علیہ السلام اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو عطا کرچکا ہے۔ اس مقام پر سیدنا یعقوب علیہ السلام نے از راہ تواضع اور انکساری اپنا نام لینا مناسب نہ سمجھا ورنہ آپ خود بھی جلیل القدر نبی تھے اور آپ کی اولاد میں ہی آئندہ سلسلہ نبوت جاری رہا۔ ماسوائے نبی آخرالزمان کے جو سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے تھے۔ اسی حقیقت پر درج ذیل حدیث سے روشنی پڑتی ہے : سیدنا یوسف علیہ السلام سب سے مکرم :۔ سیدنا ابو ہریرۃ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے پوچھا: ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ مکرم کون ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جو سب سے زیادہ متقی ہے‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’ہم یہ نہیں پوچھتے“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یوسف علیہ السلام اللہ کے نبی، اللہ کے نبی کے بیٹے، اللہ کے نبی کے پوتے، اللہ کے نبی کے پڑپوتے، سب سے زیادہ مکرم ہیں۔‘‘ (بخاری، کتاب الانبیاء باب قول اللہ تعالیٰ۔۔ واتخذ اللہ ابراہیم خلیلا) یوسف
7 [٦] قصہ یوسف اور سائلین یعنی کفار مکہ کے حالات میں مماثلت کی وجوہ :۔ یہ پوچھنے والے کفار مکہ تھے انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کے جواب میں جو سیدنا یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائیوں کے حالات زندگی آئے ہیں وہ خود انھیں کے حالات پر منطبق ہونے والے ہیں کفار مکہ اور برادران یوسف کے تقابلی مطالعہ میں جو عبرت کی نشانیاں یا وجوہ مماثلت پائی جاتی ہیں ان کا ذکر پہلے کیا جاچکا ہے۔ یوسف
8 [٧] یعنی باپ کی خدمت تو ہم کرتے ہیں۔ کما کر ہم لاتے ہیں۔ مشکل کے وقت کام ہم آتے ہیں اور شفقت اور پیار ہمارے بجائے یوسف اور اس کے بھائی پر ہوتا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ باپ کی توجہ ہماری طرف ہوتی لیکن توجہ کا مرکز یہ دونوں بنے ہوئے ہیں اور یہ ہمارے باپ کی صریح غلطی ہے۔ لفظ ضلال مبین کا دوسرا معنی یہ بھی ہے کہ ان حقائق کے باوجود ہمارا باپ انھیں دونوں کی محبت میں ڈوبا ہوا ہے۔ یوسف
9 [٨] صالحین کے دو مفہوم :۔ باپ کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کی ترکیب انہوں نے یہ سوچی کہ کسی طرح یوسف کو غائب ہی کردیا جائے یا تو اسے مار ہی ڈالا جائے۔ یا پھر کسی دور دراز مقام میں اسے پہنچا دیا جائے تاکہ وہاں سے وہ واپس نہ آسکے۔ اس طرح ہی وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکتے تھے۔ اب چونکہ وہ ایک جلیل القدر نبی کی اولاد بھی تھے۔ اس لیے ایسے فعل کے ارتکاب پر ان کا ضمیر انھیں ملامت بھی کر رہا تھا۔ اس کا حل یہ سوچا گیا کہ پہلے اپنی خواہش نفس تو پوری کرلیں۔ بعد میں تو بہ کرکے نیک بن جائیں گے۔ یہی وہ شیطانی چالیں تھیں جن کے متعلق یعقوب علیہ السلام کو پہلے سے ہی اندیشہ تھا۔ ﴿وَتَکُوْنُوْا مِنْ بَعْدِہٖ قَوْمًا صٰلِحِیْنَ﴾کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب تم لوگ یوسف کو ٹھکانے لگا دو گے تو اس کے بعد از خود ہی تم لوگ اپنے باپ کو اچھے لگنے لگو گے۔ یوسف
10 [٩] پھر ان میں کسی بھائی نے (غالباً سب سے بڑے بھائی یہودا نے) شاید یوسف علیہ السلام کی جان پر ترس کھا کر یہ رائے دی کہ اسے جان سے ختم نہ کرو کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے اور اسے کسی دور دراز مقام پر چھوڑ کر آنا بھی سہل کام نہیں۔ لہٰذا بہتر اور آسان طریقہ یہ ہے کہ اسے دور کسی کنویں میں پھینک دو جو تجارتی قافلوں کے راستہ پر واقع ہو۔ کوئی قافلہ آئے گا تو اسے دیکھ کر اٹھالے جائے گا۔ اس طرح خود ہی یوسف دور دراز مقام پر پہنچ جائے گا۔ ہم وہاں جانے آنے کی زحمت سے بھی بچ جائیں گے۔ یوسف
11 [١٠] بھائیوں کا باپ سے یوسف کو ساتھ لے جانے کا مطالبہ :۔ اب سوال یہ تھا کہ وہ یوسف علیہ السلام کو اپنے ساتھ کیسے لے جائیں تاکہ اپنی تجویز پر عمل کرسکیں۔ سیدنا یعقوب علیہ السلام کو تو پہلے ہی معلوم تھا کہ یوسف علیہ السلام کے حق میں ان کے بھائیوں کے دل صاف نہیں ہیں۔ اس غرض کے لیے پھر انھیں جھوٹ اور مکاری سے کام لینا پڑا۔ اپنے باپ سے عرض کیا کہ آخر ہم اس کے بھائی ہی ہیں۔ آپ اسے ہمارے ساتھ آنے جانے میں تامل کیوں کرتے ہیں ہم پر اعتماد کیجئے۔ ہم کوئی اس کے دشمن تو نہیں اور بہتر یہ ہے کہ کل جب ہم اپنے ریوڑ چرانے کے لیے ریوڑ کو جنگل کی طرف لے جائیں۔ تو آپ اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجئے۔ وہاں اس کا دل بہلے گا۔ جنگل کے پھل وغیرہ کھائے گا۔ وہ کچھ ہم سے مانوس ہوگا۔ ہم اس سے مانوس ہوں گے اور اس کی پوری طرح حفاظت بھی کریں گے۔ یوسف
12 یوسف
13 [١١] بھائیوں کے اس مطالبہ پر باپ کو ایک نامعلوم خطرہ محسوس ہوا اور خطرہ وہی تھا جس کی اطلاع آپ سیدنا یوسف علیہ السلام کو ان کے خواب کی تعبیر کے سلسلہ میں بتلاچکے تھے۔ بھائیوں کو غالباً خواب کا علم تو نہیں تھا۔ تاہم سیدنا یعقوب علیہ السلام کا وجدان انھیں یہی بتلا رہا تھا کہ بھائیوں کی نیت بخیر معلوم نہیں ہوتی۔ چنانچہ انہوں نے اپنے اس خطرہ کو ایسے الفاظ میں ظاہر کیا جس سے ان کی نیت پر شک محسوس نہ ہو اور کہا ممکن ہے تم لوگ اپنے ریوڑ کی حفاظت میں مشغول ہو اور کوئی بھیڑیا یا درندہ آکر اسے کوئی گزند پہنچا جائے اور پھاڑ کھائے اور تمہیں پتہ بھی نہ چلے۔ یوسف
14 [١٢] اس کے جواب میں بھائیوں نے کہا کہ ہم دس جوان اور مضبوط آدمی ہیں اور ہم میں سے ہر کوئی بھیڑیا تو کجا شیر کا مقابلہ کرنے اور اسے مار دینے کی طاقت رکھتا ہے۔ پھر اگر ہم یوسف علیہ السلام کی حفاظت نہ کرسکیں تو ہم پر لاکھ لعنت، آخر ہم اتنے گئے گزرے تو نہیں۔ یوسف
15 [١٣] چنانچہ یہ برادران یوسف اپنے باپ کو چکمہ دینے اور اپنا اعتماد جمانے میں کامیاب ہوگئے اور باپ نے ان پر اعتبار کرتے ہوئے سیدنا یوسف علیہ السلام کو دوسرے دن ان کے ہمراہ کردیا۔ یہ بہت بڑا مرحلہ تھا جو سرانجام پا گیا۔ پھر جب وہ اپنی اتفاق سے طے شدہ تجویز کے مطابق اسے ایک گمنام کنویں میں پھینکنے لگے تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے یوسف علیہ السلام کو صبر عطا فرمایا اور ان کے دل میں بات ڈال دی کہ ایک وقت آنے والا ہے کہ تم اپنے بھائیوں کو ان کے یہ کرتوت جتلاؤ گے۔ درآنحالیکہ وہ تمہیں پہچانتے بھی نہ ہوں گے اور اس نہ پہچاننے کی بھی دو وجوہ ممکن ہیں ایک یہ کہ یوسف کسی اتنے بلند مرتبہ پر فائز ہوں کہ برادران یوسف کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ آسکے کہ ان کا بھائی اس مقام پر سرفراز ہوسکتا ہے اور اس کا لباس و طرز بودو باش ان سے اس قدر مختلف اور مغائر ہوسکتی ہے، اور دوسرے یہ کہ اتنا طویل عرصہ گزر چکا ہو کہ شکل میں تبدیلی کی وجہ سے وہ انھیں پہچان بھی نہ سکیں۔ واضح رہے ﴿ غَیٰبَتِ الجُبِّ﴾کا مفہوم کسی کچے کنویں میں پانی کی سطح سے ذرا اوپر وہ چھوٹے چھوٹے طاقچے ہیں جن میں پاؤں جمائے جاسکیں اور چھوٹی موٹی چیز بھی رکھی جاسکے تاکہ کنویں کی صفائی وغیرہ کے لیے کنوئیں میں اترنے اس سے نکلنے میں سہولت رہے۔ اسی طرح کے ایک چھوٹے سے طاقچے میں بردران یوسف سیدنا یوسف علیہ السلام کو رکھ کر واپس آگئے۔ یوسف
16 یوسف
17 [١٤] جنگل میں برادران یوسف کے مشاغل :۔ جنگل میں برادران یوسف کے مشاغل بکریاں چرانے کے علاوہ دو قسم کے تھے اور یہ دونوں ہی ان کے پیشہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ایک بھاگ دوڑ کا مقابلہ تاکہ بوقت ضرورت کسی حملہ آور بھیڑیئے کا تعاقب کرکے اسے بھگا سکیں اور دوسرے تیر اندازی‘ اور اس سے بھی مقصد کسی حملہ آور درندے کو تیر کا نشانہ بنا کر اسے ختم کردینا تھا جب وہ سیدنا یوسف علیہ السلام کو اپنی سمجھ کے مطابق ٹھکانے لگا چکے تو اب سوال یہ تھا کہ واپس جاکر باپ کو کیا جواب دیں جو پہلے ہی ان پر اعتماد نہیں کر رہا تھا وہ کوئی عادی مجرم تو تھے نہیں، جو فریب، مکاری اور بہانہ سازی میں مہارت رکھتے ہوں، فقط حسد اور انتقام کی آگ نے اس فعل پر برانگیختہ کردیا تھا۔ لہٰذا انھیں اس بات کے سوا کوئی بہانہ نہ سوجھا جس کی طرف ان کے باپ نے اشارہ کیا تھا چنانچہ انہوں نے سیدنا یوسف علیہ السلام کی قمیص اتاری۔ ایک ہرن یا بکری کو ذبح کیا۔ اس کے خون سے قمیص کو آلودہ کیا اور کافی رات گئے اندھیرے میں روتے دھوتے اور آہ و بکا کرتے گھر واپس آئے اور باپ کو بتایا کہ ہم آپس میں بھاگ دوڑ کے مقابلہ میں مشغول تھے اور یوسف کو اپنے کپڑوں اور سامان وغیرہ کے پاس بٹھا گئے تھے جب ہم دور نکل گئے تو ایک بھیڑیا آیا جس نے یوسف کو پھاڑ کھایا اور اپنے اس ڈرامہ کو سچ ثابت کرنے کے لیے سیدنا یوسف علیہ السلام کی خون آلودہ قمیص بھی پیش کردی۔ یوسف
18 [١٥] اناڑی مجرم :۔ سیدنا یعقوب علیہ السلام ان کی طرف سے پہلے ہی مشکوک تھے۔ جب قمیص کو دیکھا تو انھیں پختہ یقین ہوگیا کہ یہ سب مکر اور فریب کاری ہے۔ کیونکہ قمیص کسی جگہ سے بھی نوچی ہوئی یا پھٹی ہوئی نہ تھی۔ ان نو آموز مجرموں کو یہ خیال ہی نہ آیا کہ اگر قمیص کو خون لگانا ہی ہے تو اسے پہلے بے ترتیبی سے کچھ پھاڑ بھی لیں تاکہ وہ کسی درندے کی نوچی ہوئی معلوم ہوسکے۔ یہ قمیص دیکھ کر سیدنا یعقوب علیہ السلام کہنے لگے وہ بھیڑیا تو بڑا سمجھدار ہوگا جس نے پہلے آرام سے یوسف کی قمیص کو اتارا پھر انھیں پھاڑ کھانے کے بعد کچھ لہو بھی اس پر لگا دیا۔ حقیقت حال کا تو اللہ ہی کو معلوم ہے۔ مگر معلوم یہی ہوتا ہے کہ تم نے یوسف کو کہیں گزند پہنچایا ہے یا غائب کردیا ہے اور تمہاری یہ آہ و بکا اور قمیص کو خون آلود کرکے دکھانا اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کے لیے ملمع سازیاں ہیں۔ [١٦] صبر جمیل ایسا صبر ہے کہ مصیبت پڑنے پر انسان اسے ٹھنڈے دل سے برداشت کر جائے جزع فزع نہ کرے نہ ہی کسی دوسرے سے اس کا شکوہ شکایت کرے۔ یعنی سیدنا یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے یہ افسانہ سننے کے بعد ان سے کچھ تعرض نہ کیا نہ انھیں برا بھلا کہا۔ کہیں وہ کوئی اور غلط حرکت نہ کر بیٹھیں۔ اگر کہا تو صرف یہی کہا کہ میری فریاد تو اللہ ہی سے ہے اور میں اسی سے مدد چاہتا ہوں۔ یوسف
19 [١٧] قافلہ والوں کا یوسف کو کنوئیں سے نکالنا :۔ برادران یوسف، یوسف علیہ السلام کو اس طرح ٹھکانے لگانے کے بعد اس کی خبر اور نگہداشت بھی رکھتے تھے۔ اتفاق سے ایک آدھ دن ہی بعد ایک قافلہ کا جو مدین سے مصر کی طرف جارہا تھا وہاں سے گزر ہوا۔ انہوں نے ایک آدمی کو پانی کی تلاش میں بھیجا جب وہ اس کنویں پر پہنچا اور پانی حاصل کرنے کی خاطر اپنا ڈول اس کنویں میں ڈالا تو یوسف اس ڈول میں بیٹھ گئے اور رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ پانی کھینچنے والے نے جب ڈول اوپر کھینچا تو اس میں پانی کے بجائے ایک خوبصورت لڑکا دیکھا، جسے دیکھ کر اس کی باچھیں کھل گئیں اور خوشی سے فوراً اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا۔ آہا۔ یہ تو خوبصورت لڑکا مل گیا ہے۔ ان دنوں بردہ فروشی کا عام رواج تھا اور یہ قافلہ بھی تجارتی قافلہ تھا۔ انھیں ایسے خوبصورت لڑکے کا اس طرح مل جانا ان کے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ تھی۔ لہٰذا قافلہ والوں نے اس واقعہ کو مشہور کرنا مناسب نہ سمجھا کہ مبادا یہ واقعہ سن کر اس بچے کا کوئی دعویدار اٹھ کھڑا ہو۔ یوسف
20 [١٨] یوسف کو بیچنے والے کون تھے؟ برادران یوسف یا قافلے والے :۔ بائیبل کی روایت کے مطابق تو قرآن کے لفظ ﴿وَشَرَوْہُ﴾کی ضمیر کا مرجع برادران یوسف ہیں۔ یعنی برادران یوسف نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو معمولی سی قیمت کے عوض قافلہ والوں کے ہاتھ بیچ ڈالا۔ کیونکہ وہ یوسف کی خبرگیری رکھتے تھے اور بروقت جھگڑا کھڑا کردیا کہ یہ لڑکا ہمارا غلام ہے جو گھر سے بھاگ آیا تھا اور ہم اس کی تلاش میں تھے۔ بالآخر انہوں نے ان قافلہ والوں سے معمولی سی قیمت کے عوض اس کی سودا بازی کرلی۔ کیونکہ یہ جو رقم انھیں مل رہی تھی مفت میں مل رہی تھی۔ لہٰذا انہوں نے اتنی قیمت کو بھی غنیمت سمجھا۔ ان کی اصل غرض تو یہی تھی کہ یوسف یہاں سے دور کسی ملک میں پہنچ جائے اور یہ مقصد پورا ہو رہا تھا اور یہی قصہ عوام میں زبان زد عام ہے۔ لیکن قرآن کا سیاق و سباق اس مفہوم کی تائید نہیں کرتا۔ قرآن کے مطابق اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ قافلہ والوں نے مصر میں جاکر اس لڑکے (یوسف علیہ السلام) کو فروخت کر ڈالا اور اسے معمولی قیمت میں اس لیے بیچ ڈالا کہ انھیں بھی یہ مال مفت میں ہاتھ لگ گیا تھا۔ لہٰذا زیادہ قیمت لگانے میں ان کی کوئی دلچسپی نہ تھی۔ یوسف
21 [١٩] مصر میں جس شخص نے اس لڑکے کو خریدا وہ کسی اعلیٰ سرکاری منصب پر فائز تھا اور بے اولاد تھا۔ اس نے لڑکے کی شکل و صورت اور عادات و خصائل دیکھ کر ہی یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ لڑکا غلام نہیں ہوسکتا۔ یہ تو کسی معزز خاندان کا ایک فرد ہے جسے حوادث زمانہ نے یہاں تک پہنچا دیا ہے۔ لہٰذا اس نے اپنے گھر کا سارا انتظام اور کام کاج سیدنا یوسف علیہ السلام کے سپرد کردیا اور بیوی سے تاکیداً کہہ دیا کہ اسے غلام نہ سمجھو بلکہ گھر کا ایک فرد سمجھو اور عزت و وقار سے رکھو، یہ ہمارے لیے بہت سود مند ثابت ہوگا اور کیا عجب کہ ہم اسے اپنا متبنّیٰ ہی بنالیں۔ [٢٠] تاویل الاحادیث سے مراد رموز مملکت اور اصول حکمرانی ہیں :۔ عزیز مصر کے ہاں سیدنا یوسف علیہ السلام کو اس طرح کا باوقار مقام حاصل ہوجانا اس مستقبل کی طرف پہلا زینہ تھا جس میں آپ علیہ السلام کو پورے ملک مصر کی حکومت اللہ کی طرف سے عطا ہونے والی تھی۔ آپ علیہ السلام کی سابقہ زندگی خالصتاً بدوی ماحول میں گزری تھی اور اس سابقہ زندگی میں بدوی زندگی کے محاسن اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے خاندان میں سے ہونے کی وجہ سے صرف اکیلے اللہ کی پرستش اور دینداری کے عنصر ضرور شامل تھے مگر اللہ تعالیٰ اس وقت کے سب سے زیادہ متمدن اور ترقی یافتہ ملک یعنی مصر میں آپ سے جو کام لینا چاہتا تھا اور اس کام کے لیے جس واقفیت تجربے اور بصیرت کی ضرورت تھی وہ آپ علیہ السلام کو عزیز مصر کے گھر میں مختار کی حیثیت سے رہنے میں میسر آگئی۔ اس آیت میں تاویل الاحادیث سے مراد یہی رموز مملکت ہیں اور اس غرض کے لیے اللہ تعالیٰ نے جس طرح اسباب کے رخ کو موڑ دیا وہ اکثر لوگوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا۔ یوسف
22 [٢١] مفسرین کے قول کے مطابق آپ ١٧ سال کی عمر میں مصر پہنچے اور تین سال کے لگ بھگ عزیز مصر کے گھر میں رہے۔ اسی دوران اللہ تعالیٰ نے آپ کو قوت فیصلہ اور حکمرانی کے اصول بھی سکھا دیئے اور علم بھی عطا فرمایا۔ علم سے مراد عموماً علم وحی ہی ہوتا ہے اور ایسا علم اللہ تعالیٰ بعثت سے پہلے بھی انبیاء کے دل میں ڈال دیتا ہے۔ اسی وجہ سے ان کی نبوت سے پہلے کی زندگی بھی پاکیزہ اور بےداغ ہوتی ہے۔ یوسف
23 [٢٢] سیدنا یوسفؑ کے لئے دور ابتلاء :۔ عزیز مصر کے گھر میں قیام کے دوران جہاں سیدنا یوسف علیہ السلام کو مذکورہ بالا فوائد حاصل ہوئے وہاں یہی دور قیام آپ کے لیے ابتلاء و آزمائش کا دور بھی ثابت ہوا۔ آپ نہایت حسین و جمیل تھے۔ غیر شادی شدہ تھے اور نوخیز نوجوانی تھی۔ دوسری طرف عزیز مصر کی بیوی جوان تھی اور بے اولاد تھی اور اپنے جاذب لباس اور پوری رعنائیوں سے اپنا آپ پیش کر رہی تھی۔ زلیخا کا یوسفؑ کو بدکاری کے لئے ورغلانا :۔ تیسری طرف معاشرہ متمدن قسم کا تھا جیسے آج کا مغربی معاشرہ ہے جس میں اختلاط مرد و زن کو معیوب نہیں سمجھا جاتا، پردہ کو دقیانوسی سمجھا جاتا ہے اور اگر فریقین باہمی رضا مندی سے بدکاری کرلیں تو اسے بھی درخور اعتناء نہیں سمجھا جاتا ان حالات میں عزیز مصر کی بیوی زلیخا میں شہوانی جذبات انگڑائیاں لینے لگے جو بالآخر عشق کی حدود کو چھونے لگے۔ لیکن سیدنا یوسف علیہ السلام اس قسم کے جذبات سے بالکل پاک صاف تھے۔ جب زلیخا نے سیدنا یوسف علیہ السلام کی طرف سے اس قدر بے اعتنائی اور اس میں اپنی توہین کا پہلو دیکھا تو اپنے مالکانہ حقوق استعمال کرتے ہوئے راست اقدام پر اتر آئی۔ ایک دن جب کہ اس کا خاوند گھر پر موجود نہ تھا۔ اس نے گھر کے تمام دروازے بند کرتے ہوئے یوسف علیہ السلام کو واشگاف الفاظ میں اور تحکمانہ انداز میں اپنی طرف بلایا تاکہ اس کے شہوانی جذبات کی تسکین ہوسکے۔ [٢٣] سیدنا یوسف علیہ السلام نے اس کے پاس جانے کی بجائے اسے جواب دیا کہ میرے پروردگار نے تو مجھ پر اس قدر انعام و اکرام فرمائے ہیں اور میں اس کی معصیت میں ایسی بدکاری کا ارتکاب کروں، یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا اور صاف طور پر انکار کردیا۔ بعض مفسرین نے اس مقام پر رب کے معنی آقا اور مالک لیا ہے جو لغوی اعتبار سے درست ہے اور قرآن کریم نے خود بھی رب کے لفظ کو آقا اور مالک کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔ اس لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ جب عزیز مصر مجھ پر اس قدر مہربان ہے تو میں اس کے گھر میں رہ کر اس کے گھر میں ہی ایسی خیانت کروں یہ نمک حرامی مجھ سے نہیں ہوسکتی اور ہم نے پہلے معنی کو اس لیے ترجیح دی ہے کہ ایک نبی یا بعد میں ہونے والا نبی ایک عام دنیا دار رئیس کو اپنا رب کہے یہ عقل و نقل سے بعید ہے اور قرآن میں اس کی کوئی مثال موجود نہیں اور دوسرے اس لیے کہ جب پہلے معنی کے لحاظ سے اخذ شدہ مطلب زیادہ وقیع اور جامع ہے تو پھر دوسرے معنی لینے کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔؟ یوسف
24 [٢٤] عصمت انبیاء کا مفہوم :۔ جب زلیخا نے اس دعوت میں اپنے آپ کو ناکام پایا اور اس میں اپنی مزید خفت محسوس کی تو اس نے اس بدکاری کے کام کو سرانجام دینے کا تہیہ کرلیا اور خود یوسف تک پہنچ کر دست درازی شروع کردی۔ اس آڑے وقت میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا یوسف علیہ السلام کی خاص رہنمائی فرمائی اور ان کی نگہداشت فرمائی۔ اس وقت اللہ نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو کون سی دلیل یا برہان دکھائی تھی وہ وہی ہے جس کا سابقہ آیات میں ذکر ہوچکا ہے۔ یعنی سیدنا یوسف اپنے سابقہ جواب اور عزم پر ہی ڈٹے رہے۔ اس طرح اللہ نے انھیں اس بدفعلی کے ارتکاب سے محفوظ رکھا۔ یہیں سے عصمت انبیاء کی حقیقت معلوم ہوجاتی ہے یعنی وہ بھی بشر ہی ہوتے ہیں اور بشری تقاضوں سے مجبور ہو کر گناہ کا ارتکاب ان سے بھی ہوسکتا ہے۔ مگر اللہ انھیں ایسے کاموں سے بچائے رکھتا ہے اور ان سے کوئی چھوٹی موٹی لغزش ہو بھی جائے تو بذریعہ وحی ان کی اصلاح کردی جاتی ہے۔ یوسف
25 [٢٥] جب زلیخا نے چھیڑ چھاڑ کے ذریعہ سیدنا یوسف علیہ السلام کے جذبات کو برانگیختہ کرنا چاہا تو آپ دروازے کی طرف بڑھے تاکہ دروازہ کھول کر باہر نکل جائیں اور زلیخا ان کے پیچھے دوڑی اور آپ کو پیچھے سے اپنے پاس کھینچنا چاہا۔ اس کشمکش میں زلیخا نے پیچھے سے سیدنا یوسف علیہ السلام کی قمیص کو پکڑ کر کھینچا تو قمیص پیچھے سے پھٹ گئی۔ تاہم یوسف علیہ السلام دروازہ کھولنے میں کامیاب ہوگئے اور جب دروازہ کھلا تو دفعتاً عزیز مصر دروازے پر کھڑا موجود تھا۔ جس نے بچشم خود دیکھ لیا کہ دونوں ایک بند کمرے سے باہر آرہے ہیں۔ آگے یوسف ہیں اور پیچھے زلیخا، اور یہ کچھ بدکاری کے امکان کے لیے کافی ثبوت تھا یا کم از کم ایسا شبہ ضرور پڑ سکتا تھا۔ [٢٦] زلیخا کا چلتر :۔ جب زلیخا نے اپنے خاوند کو دروازے پر کھڑا دیکھا تو یک لخت اسے ایک ترکیب سوجھی اس نے اس کارروائی کا تمام تر الزام سیدنا یوسف علیہ السلام کے سر تھوپ دیا۔ پھر صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ یہ کہہ کر آپ کو سزا دلوانے کی بھی کوشش کی کہ اسی نے مجھ سے برائی کا ارارہ کیا تھا۔ اس طرح کے چلتر سے اس نے ایک تیر سے دو شکار کئے۔ ایک تو اپنے آپ کو پاکدامن ثابت کرنے کی کوشش کی، حالانکہ وہ خود ہی برائی کی اصل جڑ تھی اور دوسرے جو سیدنا یوسف علیہ السلام نے اس کی خواہش کو ٹھکرا دیا تھا اور اس نے اسے اپنی توہین سمجھا تھا۔ اس کے عوض آپ کو اپنے خاوند سے سزا دلوانا چاہی اور اپنے جرم پر پردہ ڈالنے اور اپنے آپ کو بے قصور ثابت کرنے کے لیے یوسف علیہ السلام کے لیے شدید سزا یا قید کا مطالبہ کردیا۔ یوسف
26 اس آیت کی تفسیر اگلی آیت کے ساتھ ملاحظہ کیجئے۔ یوسف
27 [٢٧] قرینہ کی شہادت :۔ لیکن سیدنا یوسف علیہ السلام کا بیان زلیخا کے بالکل الٹ اور مبنی برحقیقت تھا۔ اب سوال یہ تھا یہ کیسے معلوم ہو کہ ان دونوں میں سچا کون ہے اور جھوٹا کون؟ جب یہ بات گھر والوں میں پھیل گئی تو عزیز مصر کے خاندان سے ہی ایک آدمی کہنے لگا : ذرا یوسف کی قمیص کو تو دیکھو اگر وہ پیچھے سے پھٹی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یوسف علیہ السلام آگے بھاگ رہا تھا اور زلیخا نے اسے پیچھے سے کھینچا ہے اور اس کھینچا تانی میں قمیص پھٹ گئی۔ اس صورت میں زلیخا جھوٹی ہوگی اور یوسف سچا ہوگا اور اگر قمیص آگے سے پھٹی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یوسف علیہ السلام تقاضا کر رہا تھا اور زلیخا اپنی مدافعت کر رہی تھی۔ اس کھینچا تانی میں یوسف علیہ السلام کی قمیص آگے سے پھٹ گئی۔ اس صورت میں یوسف علیہ السلام جھوٹا ہے اور زلیخا سچی۔ یہ بات سب کو معقول معلوم ہوئی۔ اس آیت میں ﴿وَشَہِدَ شَاہِدٌ مِّنْ اَہْلِہَا ﴾ کے الفاظ آئے ہیں یعنی زلیخا کے گھر والوں میں سے ایک گواہ نے گواہی دی۔ حالانکہ موقعہ پر کوئی گواہ موجود نہ تھا۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ شہادت ایک شیر خواربچہ نے دی تھی مگر اس روایت کی سند درست نہیں۔ دوسرے یہ کہ اگر یہ روایت صحیح تسلیم کی جائے تو یہ معجزہ کی صورت ہوگی اور معجزہ کی صورت میں عقلی دلیل دینے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ تیسرے یہ کہ جس صحیح روایت میں تین شیر خوار بچوں کے بولنے کا ذکر ہے وہاں اس بچے کا ذکر مفقود ہے۔ لہٰذا یہ روایت ہر لحاظ سے ناقابل اعتماد ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ قرینہ کی شہادت تھی۔ زلیخا کے جسم یا اس کے کپڑوں پر کوئی ایسی علامت موجود نہ تھی جس سے زنا بالجبر کا قیاس کیا جا سکتا ہے۔ لے دے کے ایک یہ کہ یوسف کی قمیص ہی تھی جو پھٹ گئی تھی۔ جس سے یہ قیاس کیا گیا۔ ایسا قرینہ یا موقعہ کی شہادت شرعاً معتبر ہے اور ہر عقلمند آدمی ایسے قرینہ کی شہادتوں سے نتیجہ اخذ کرسکتا ہے اور ہمارے ہاں کسی حادثہ کے موقع پر تفتیشی افسر جائے وقوع کا نقشہ مرتب کرتے ہیں جو قرینہ کی شہادت کا کام دیتے ہیں۔ قرینہ کی شہادت کی واضح مثال یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے منہ سے شراب کی بو آرہی ہو تو سمجھ لیا جاتا ہے کہ اس نے شراب پی ہے۔ یہ قرینہ کی شہادت ہے۔ کیونکہ اسے شراب پیتے کسی نے دیکھا نہیں ہوتا۔ یوسف
28 [٢٨] عورتوں کا فتنہ جب سیدنا یوسف علیہ السلام کی قمیص دیکھی گئی تو وہ آگے سے پھٹی ہوئی تھی۔ عزیز مصر کو معلوم ہوگیا کہ اصل مجرم اس کی بیوی ہے اور اس کا بیان محض فریب کاری ہے۔ لیکن اپنی اور اپنے خاندان کی بدنامی کی وجہ سے اس نے اپنی بیوی پر کوئی مواخذہ نہیں کیا، مبادا یہ بات پھیل جائے صرف اتنا ہی کہا کہ یہ بیان تیرا ایک چلتر تھا اور یوسف علیہ السلام پر بہت بڑا بہتان تھا اور تم عورتوں کے چلتر بڑے گمراہ کن ہوتے ہیں۔ یوسف علیہ السلام کی تم دہری مجرم ہو۔ ایک اسے بدکاری پر اکسایا۔ دوسرے اس پر الزام لگا دیا۔ لہٰذا اب اس سے معافی مانگو۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ اس آیت میں ﴿اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ﴾ عزیز مصر کا قول نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ چنانچہ کسی بزرگ سے منقول ہے وہ کہا کرتے تھے کہ میں شیطان سے زیادہ عورتوں سے ڈرتا ہوں۔ اس لیے کہ جب اللہ تعالیٰ نے شیطان کا ذکر کیا تو فرمایا کہ شیطان کا مکر کمزور ہے۔ (٤: ٧٦) اور جب عورتوں کا ذکر کیا تو فرمایا کہ تمہارا مکر بہت بڑا ہے۔ اور درج ذیل حدیث بھی اسی مضمون پر دلالت کرتی ہے۔ سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے زیادہ سخت کوئی فتنہ نہیں چھوڑا‘‘ (بخاری، کتاب النکاح، باب مایتقی من شؤم المراۃ) اسی طرح ﴿وَاسْتَغْفِرِیْ لِذَنْبِکِ﴾سے مراد یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یوسف سے اپنے گناہ کی معافی مانگو اور یہ بھی کہ اللہ سے اپنے گناہ کی معافی مانگو۔ یوسف
29 یوسف
30 یوسف
31 [٢٩] شہر کی عورتوں کی چہ میگوئیاں اور زلیخا کو طعنے :۔ جس بات کا عزیز مصر کو خطرہ تھا وہ ہو کے رہی۔ رفتہ رفتہ یہ بات شہر کی عورتوں میں پھیل ہی گئی کہ عزیز مصر کی بیوی زلیخا اپنے غلام پر عاشق ہے۔ اس نے اسے اپنے دام تزویر میں پھنسانا چاہا تھا۔ لیکن وہ اس کے ہتھے نہیں چڑھ سکا۔ اتنی بات تو حقیقت تھی، پھر اس بات پر عورتوں کے تبصرے کرنا بالخصوص عورتوں کا ہی میدان ہے۔ وہ کئی لحاظ سے زلیخا کو مطعون کر رہی تھیں۔ ایک یہ کہ وہ اس درجہ گھٹیا عورت ہے کہ اپنے غلام پر عاشق ہوگئی ہے اور دوسرے یہ کہ وہ اتنی بدھو ہے کہ اگر وہ یوسف پر فریفتہ ہو ہی گئی تھی تو اسے اپنی طرف مائل بھی نہ کرسکی۔ ورنہ ایک نوجوان کو اپنی طرف مائل کرلینا ایک جوان عورت کے لیے کون سی بڑی بات ہے؟ [٣٠] ضیافت کا اہتمام :۔ شہر کی عورتوں کی ایسی باتوں سے زلیخا کو بہت تکلیف ہوئی، تاہم وہ اپنے آپ کو اس معاملہ میں معذور سمجھتی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ کوئی عورت ایسی نہیں ہوسکتی جو یوسف جیسے حسین و جمیل نوجوان کو دیکھ لے تو پھر اس پر فریفتہ نہ ہو اور دوسرے اسے یہ بھی یقین ہوچکا تھا کہ کوئی عورت خواہ کتنا ہی بن ٹھن کر یوسف کے سامنے آئے وہ اتنا عظیم اور پارسا انسان ہے کہ وہ اس کی طرف مائل نہیں ہوسکتا۔ اب انھیں دو باتوں کے تجربہ کے لیے اور باتیں بنانے والی عورتوں پر اتمام حجت اور انھیں جھوٹا ثابت کرنے کے لیے اس نے ایک تدبیر سوچی۔ اس نے ایک پر تکلف ضیافت کا اہتمام کیا اور پھل وغیرہ مہیا کیے، اور ساتھ ہی چاقو چھریاں بھی پھل چھیلنے اور کاٹنے کے لیے رکھ دیں اور اس طرح کی باتیں بنانے والی سب عورتوں کو اس ضیافت میں بلایا۔ جب عورتیں آگئیں اور کھانے پینے میں مشغول ہوگئیں تو زلیخا نے یوسف علیہ السلام کو اس مجلس میں بلا لیا عورتیں یوسف علیہ السلام کا حسن و جمال دیکھ کر اس قدر محو نظارہ اور بے خود ہوگئیں کہ ان کی چھریاں پھلوں پر چلنے کی بجائے ان کے اپنے ہاتھوں پر چل گئیں اور حدیث میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کا واقعہ بیان کرنے کے دوران فرمایا : جب تیسرے آسمان کا دروازہ کھولا گیا تو وہاں سیدنا یوسف علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ اللہ نے حسن کا آدھا حصہ انھیں عطا کیا تھا۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب الاسراء برسول اللہ الی السموات وفرض الصلوات) تبصرہ کرنے والی عورتوں کی شہادت :۔ پھر انہوں نے یہ بھی بچشم خود دیکھ لیا کہ ان کی ساری دلکشیوں اور رعنائیوں کے باوجود یوسف علیہ السلام کسی طرف نظر اٹھاکر دیکھتا بھی نہیں تو بے ساختہ پکار اٹھیں کہ یہ انسان نہیں بلکہ کوئی معزز فرشتہ ہے یہ بات ناممکنات سے ہے ایک نوجوان انسان جنسی خواہشات سے اس قدر بالا تر ہو کہ وہ ہماری طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھے۔ یوسف
32 [٣١] زلیخا کی دھمکی :۔ عورتوں کے یہ الفاظ دراصل زلیخا کے اس معاملہ میں سچا ہونے کا اعلان تھا۔ اب وہ ان عورتوں میں سر اٹھا کر کہنے لگی کہ بتلاؤ میں اس معاملہ میں کس قدر قصوروار تھی اور اب میں برملا کہتی ہوں کہ میں اس کے سامنے اپنا نقد دل ہار چکی ہوں اور اب میں اسے اپنی طرف مائل کرنے پر مجبور بھی کروں گی اور اگر اس نے پھر بھی میری بات کی طرف توجہ نہ دی تو میں اسے کسی دوسرے حیلے بہانے جیل بھجوا دوں گی یا اسے میری بات ماننا ہوگی یا پھر وہ ذلیل قید و بند کی مصیبت جھیلے گا۔ یوسف
33 [٣٢] مصری تہذیب کی فحاشی کا نمونہ :۔ غور فرمائیے۔ یہ دور سیدنا یوسف علیہ السلام کے لیے کس قدر ابتلاء کا دور تھا۔ پہلے ایک عورت پیچھے پڑی تھی۔ اب شہر بھر کے رؤسا کی حسین و جمیل بیگمات آپ کے پیچھے پڑگئیں جو زبانی تو سیدنا یوسف علیہ السلام کو زلیخا کی بات مان لینے اور قید سے بچ جانے کی تلقین کر رہی تھیں مگر حقیقتاً ان میں سے ہر ایک انھیں اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ آپ کا شہر میں آزادانہ چلنا پھرنا بھی مشکل ہوگیا تھا۔ اب آپ کے سامنے دو ہی راستے رہ گئے تھے۔ ایک یہ کہ ان عورتوں کی بات مان لیں اور دوسرے یہ کہ قید ہونا گوارا کرلیں۔ ضمناً اس واقعہ سے اس دور کی اخلاقی حالت پر بھی خاصی روشنی پڑتی ہے کہ بے حیائی کس قدر عام تھی اور اس فحاشی کے سلسلہ میں عورتوں کو کس قدر آزادی اور بے باکی حاصل تھی اور ان کے مقابلہ میں مرد کتنے کمزور تھے یا کس قدر دیوث تھے؟ سیدنا یوسفؑ کی دعا اور قید کو ترجیح :۔ یہ صورت حال دیکھ کر سیدنا یوسف علیہ السلام نے اپنے آپ پروردگار سے ہی فریاد کی کہ اس دور ابتلاء میں تو ہی مجھے ثابت قدم رکھ سکتا ہے اور ان عورتوں کی مکاریوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے ورنہ ان طوفانوں کا مقابلہ کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں۔ میں تو اس گندے ماحول سے یہی بہتر سمجھتا ہوں کہ قید کی مشقت گوارا کرلوں۔ [٣٣] عالم بے عمل جاہل :۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو عالم اپنے علم کے مطابق عمل نہ کرے وہ شرعی اعتبار سے جاہل ہے اور جاہل کے لفظ کا اس پر اطلاق ہوسکتا ہے۔ یوسف
34 [٣٤] یعنی سیدنا یوسف علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ایسا عزم و استقلال بخشا کہ کسی عورت کا ان پر جادو نہ چل سکا۔ یوسف
35 [٣٥] مصر کی عدالتوں پر بڑے لوگوں کا دباؤ:۔ یعنی پورے شہر کے رؤساء اور اعیان سلطنت پر یہ بات واضح ہوچکی تھی کہ سیدنا یوسف علیہ السلام بالکل بے قصور ہیں اور مجرم زلیخا ہے۔ اس کے باوجود اس ملک کی عدالت نے یہ فیصلہ دیا کہ یوسف ہی کو کسی نامعلوم مدت کے لیے قید میں ڈال دیا جائے۔ کیونکہ اب اصل مجرم صرف زلیخا نہ رہی تھی بلکہ اعیان سلطنت کی بیگمات بھی اس جرم میں اس کی ہم نوا اور برابر کی شریک بن چکی تھیں۔ اس واقعہ سے جہاں مردوں کی اپنی بیگمات کے سامنے بے بسی پر روشنی پڑتی ہے وہاں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کی انصاف کرنے والی عدالتیں بھی ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کے اصول پر اپنے فیصلے کیا کرتی تھیں اور نامعلوم مدت اس لیے تھی کہ نہ تو کوئی فرد جرم لگ سکتی تھی اور نہ ہی یہ فیصلہ کیا جاسکتا تھا کہ اس بے گناہی کی سزا کتنی مدت ہوسکتی ہے، اور غالباً اس میں یہ مصلحت سمجھی گئی کہ جب تک لوگ اور بالخصوص عورتیں یہ واقعہ بھول نہ جائیں یوسف کو قید میں رہنے دیا جائے۔ یوسف
36 [٣٦] دو قیدیوں کا اپنے اپنے خوابوں کی تعبیر پوچھنا :۔ اسی زمانہ میں دو اور قیدی قید خانہ میں ڈالے گئے، ان میں ایک شاہ مصر کا نانبائی تھا اور دوسرا اس کا ساقی یعنی شراب پلانے والا تھا۔ ان دونوں پر الزام یہ تھا کہ انہوں نے بادشاہ کو زہر دینے کی کوشش کی ہے اور بقول بعض مفسرین الزام یہ تھا کہ انہوں نے ایک دعوت کے موقعہ پر صفائی کا پورا خیال نہیں رکھا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد ان دونوں نے ایک ہی رات الگ الگ خواب دیکھا اور چونکہ سیدنا یوسف علیہ السلام پورے قیدخانہ میں اپنی پاک سیرت، بلندی اخلاق اور اعلیٰ کردار کی وجہ سے مشہور ہوچکے تھے۔ لہٰذا ان قیدیوں نے اپنے اپنے خواب کی تعبیر معلوم کرنے کے لیے انہی کی طرف رجوع کیا۔ ساقی نے اپنا خواب یہ بیان کیا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں انگوروں سے شراب نچوڑ رہا ہوں اور یہ خواب اس کے پیشہ سے تعلق رکھتا تھا اور نانبائی نے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے سر پر بہت سی روٹیاں رکھی ہوئی ہیں اور پرندے ان روٹیوں کو نوچ نوچ کر رکھا رہے ہیں اور یہ خواب اس کے پیشہ سے تعلق رکھتا تھا۔ اپنے اپنے خواب بیان کرکے ان سے التجا کی کہ اس کی تعبیر بتائی جائے۔ یوسف
37 [٣٧] سیدنا یوسف کا قیدیوں کو اسلام کے اصول سمجھانا :۔ سیدنا یوسف علیہ السلام نے انھیں جواب دیا کہ خواب کی تعبیر تو میں تمہیں بتا ہی دوں گا اور جس وقت تمہارا کھانا آیا کرتا ہے اس سے پہلے ہی بتا دوں گا اور اس سے پہلے یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ خوابوں کی تعبیر کا علم جو اللہ نے مجھے سکھایا ہے تو یہ مجھ پر اللہ کا خاص احسان ہے اور اللہ کا فضل و احسان ان لوگوں پر ہی ہوا کرتا ہے جو اللہ ہی کے ہو کر رہتے ہیں۔ اسی کی عبادت کرتے ہیں اور اسی پر بھروسہ کرتے ہیں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتے۔ میں ان لوگوں (مصریوں) کا دین ہرگز قبول نہیں کرتا جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ روز آخرت پر، بلکہ میں تو اپنے بزرگوں سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا یعقوب علیہ السلام کے دین پر ہوں اور یہ بزرگ خالصتاً اللہ ہی کی عبادت کیا کرتے تھے کسی کو اس کی عبادت میں شریک نہیں کیا کرتے تھے اور ایسا دین اختیار کرلینا ہی اللہ کا بہت بڑا فضل و احسان ہے۔ کاش لوگ یہ بات سمجھ جائیں۔ اس موقعہ پر سیدنا یوسف علیہ السلام کے ان قیدیوں کو اصول دین سمجھانے سے ضمناً کئی باتوں کا پتہ چلتا ہے مثلاً: ١۔ تبلیغ کا بہترین وقت :۔ تبلیغ کا سب سے بہتر موقع وہ ہوتا ہے جب سننے والا خود بات سننے کا خواہش مند ہو۔ یہ قیدی اپنے اپنے خواب کی تعبیر تو بہرحال سننا ہی چاہتے تھے اور اس کے منتظر بھی تھے۔ سیدنا یوسف علیہ السلام نے اس موقعہ سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور پہلے انھیں اصول دین سمجھانا شروع کردیے۔ اگر آپ انھیں خوابوں کی تعبیر بتادیتے تو شاید وہ بعد میں ایسی باتیں سننے کو تیار ہی نہ ہوتے یا سنتے بھی تو ان میں کوئی دلچسپی نہ لیتے۔ ٢۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کی سابقہ زندگی میں بے شمار اتار چڑھاؤ آچکے تھے لیکن آپ نے کسی موقع پر اس انداز میں تبلیغ نہیں کی تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہی ایام میں آپ کو نبوت عطا ہوئی تھی۔ ٣۔ سیدنا یوسف کا زمانہ نبوت :۔ اس تبلیغ کے دوران سیدنا ابراہیم علیہ السلام ، اسحاق علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام کا نام لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان بزرگوں کی اس علاقہ مصر میں بھی خاصی شہرت تھی اور یہ نیک شہرت تھی۔ نیز یہ بتانا مقصود تھا کہ میں کوئی نئی بات پیش نہیں کر رہا بلکہ وہی کچھ کہہ رہا ہوں جو اہل حق ہمیشہ سے کہتے آئے ہیں۔ ٤۔ جس طرح آپ نے اس موقعہ کو غنیمت سمجھ کر اس سے فائدہ اٹھایا۔ قید خانے میں کم و بیش آٹھ نو سال کی طویل مدت میں یقیناً آپ کو ایسے بہت سے مواقع میسر آئے ہوں گے۔ گویا یہ قید خانہ ہی آپ کی تبلیغی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا تھا۔ یوسف
38 یوسف
39 [٣٨] یہ دونوں قیدی چونکہ پہلے ملازم تھے اس لیے انھیں ان کے حسب حال ہی دلیل پیش کی اور انھیں اس بات کی خوب سمجھ آسکتی تھی کہ بہت سے آقاؤں کی غلامی سے ایک آقا کی غلامی بہرحال بہتر ہوتی ہے بالخصوص اس صورت میں جبکہ آقا بھی ایسا ہو جو سب دوسروں سے بڑھ کر طاقت ور اور غالب ہو۔ یوسف
40 [٣٩] شرک اور تقلید آباء :۔ علاوہ ازیں یہ دوسرے آقا یا معبود جن کی عبادت کی جاتی ہے۔ ان کی اصلیت اس کے سوا کچھ نہیں کہ کسی ایک آدمی نے ایسے مشرکانہ عقائد گھڑ کر کسی معبود یا آستانے کے نام منسوب کردیے۔ پھر یہی عقائد نسلاً بعد نسل ان کی اولاد میں منتقل ہوتے چلے گئے اور بزرگوں کی اندھی عقیدت نے ایسے عقائد کو مذہبی جامہ پہنا دیا۔ کسی نے یہ تحقیق کرنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی کہ کسی الہامی کتاب میں ان کی کچھ دلیل ہے بھی یا نہیں لوگوں کی اکثریت ایسی ہی ہے جو بلاتحقیق اپنے آباؤ اجداد کی اندھی تقلید میں ان معبودوں کے ساتھ ایسے عقائد وابستہ کیے چلی آرہی ہے اور ان کے نام کی نذریں اور قربانیاں دیتی ہے تاکہ وہ انھیں کچھ فائدہ پہنچا سکیں۔ حالانکہ یہ سب ناواقفیت اور جہالت کی باتیں ہیں۔ البتہ جن لوگوں نے یہ کاروبار سنبھالا ہوا ہے۔ انھیں مفت میں نذرانے ملتے رہتے ہیں۔ لہٰذا وہ شرکیہ رسوم کسی صورت چھوڑنا گوارا نہیں کرتے۔ یوسف
41 [٤٠] خوابوں کی تعبیر :۔ اس طرح موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سیدنا یوسف علیہ السلام نے ان دونوں سوال کرنے والوں کو دل نشین پیرایہ میں اصول دین سمجھا دیئے پھر ان کے خوابوں کی تعبیر بتانا شروع کی اور ساقی سے کہا کہ تمہارے خواب کی تعبیر یہ ہے کہ تم اپنی سابقہ ملازمت پر بحال کردیئے جاؤ گے اور نانبائی سے کہا کہ تمہیں سولی پر چڑھا دیا جائے گا اور تمہاری موت کے بعد پرندے نوچ نوچ کر تمہارا گوشت کھائیں گے۔ یعنی ساقی پر الزام غلط ثابت ہوا اور نانبائی حقیقتاً مجرم قرار دیا گیا ہے۔ یہ تعبیر سن کر نانبائی کہنے لگا کہ مجھے ایسی خواب نہیں آئی تھی میں تو ویسے ہی اس طرح کے خواب کی تعبیر پوچھنا چاہتا تھا سیدنا یوسف علیہ السلام نے فرمایا : تمہیں خواب آئی تھی یا نہیں۔ بہرحال تقدیر میں یہ فیصلہ ہوچکا اور اب یہ واقعہ ہو کے رہے گا۔ یوسف
42 [٤١] لفظ ظن کے بعد جب اَن کا لفظ آئے تو یہ یقین کا معنی دیتا ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے مفردات القرآن از امام راغب اصفہانی) اور قرآن میں اس کی مثالیں اور بھی بہت ہیں۔ جیسے ﴿الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّہِمْ ﴾(۲:۴۲)یعنی جو لوگ یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے پروردگار سے ملنے والے ہیں اور یوسف علیہ السلام کو ساقی کے متعلق یہ یقین تھا کہ وہ قید سے رہا ہو کر اپنی سابقہ ملازمت پر بحال کردیا جائے۔ جب وہ قید خانہ سے جانے لگا تو یوسف علیہ السلام نے اسے کہا کہ بادشاہ سے میرے متعلق بھی تذکرہ کرنا کہ ایک بے قصور آدمی مدت سے قید خانہ میں ڈال دیا گیا ہے۔ اس کی طرف آپ کی توجہ کی ضرورت ہے۔ [٤٢] سیدنا یوسفؑ کی قید کی مدت :۔ لیکن وہ رہا ہونے والا ساقی اپنی رہائی کی اور پھر ملازمت کی بحالی کی خوشخبری میں کچھ اس طرح مگن اور بے خود ہوا کہ اسے بادشاہ کے سامنے اپنے محسن سیدنا یوسف علیہ السلام کا ذکر کرنا یاد ہی نہ رہا اور نسیان کی نسبت شیطان کی طرف اس لیے کہ گئی ہے کہ شیطان کسی بھی اچھے کام میں ممدو معاون نہیں ہوا کرتا۔ اس کے وساوس ایسے ہی ہوتے ہیں کہ یا تو کوئی کارخیر سرانجام ہی نہ پائے یا اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر جتنی بھی اس کار خیر میں زیادہ سے زیادہ تاخیر ہو وہی اس کا مقصود ہوتا ہے جیسے اللہ کے ذکر سے غفلت کی نسبت قرآن نے عموماً شیطان ہی کی طرف ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کئی سال مزید آپ کو قید میں ہی گزر گئے اور آپ علیہ السلام کے معاملہ کی طرف توجہ کا کسی کو خیال تک نہ آیا۔ قرآن نے ﴿بِضْعَ سِنِیْنَ ﴾ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جس کا اطلاق دس سے کم طاق اعداد پر ہوتا ہے اور مفسرین کے اقوال کے مطابق آپ کی قید کی مدت ٧ سال یا ٩ سال تھی۔ یوسف
43 [٤٣] شاہ مصر کا خواب :۔ طویل مدت کے بعد ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے اس رہا ہونے والے ساقی کو سیدنا یوسف علیہ السلام کا پیغام یاد دلایا۔ واقعہ یہ ہوا کہ شاہ مصر کو ایک عجیب اور ڈراؤنا سا خواب آیا۔ خواب میں اس نے دیکھا کہ سات دبلی گائیں ہیں جو اپنے سے بہت بھاری سات موٹی تازی گائیوں کا گوشت کھا رہی ہیں اور گوشت کھا کر انھیں ختم ہی کردیا ہے اور یہ سارا گوشت چٹ کر جانے کے بعد بھی وہ دبلی کی دبلی ہی ہیں۔ جیسے پہلے تھیں اور دوسرا منظر یہ دیکھا ہے کہ سات سوکھی بالیاں ہیں جو سات ہری بھری اور سرسبز بالیوں کے اوپر لپٹ گئی ہیں اور انھیں بھی سوکھا بنادیا ہے۔ یوسف
44 [٤٤] تعبیر بتانے والوں کی معذرت :۔ اس خواب نے بادشاہ کو سخت حیران اور متوحش بنا دیا۔ اس نے اپنے ملک کے دانشمندوں، نجومیوں، خوابوں کی تعبیر بتانے والوں اور درباریوں کو اکٹھا کرکے کہا کہ میں نے ایسا اور ایسا خواب دیکھا ہے۔ تم میں سے کوئی شخص مجھے اس خواب کی تعبیر بتا سکتا ہے؟ مگر اس خواب کی تعبیر بتانے سے سب نے عاجزی کا اظہار کیا اور کہہ دیا کہ یہ خواب ایسا ہے ہی نہیں جس کی تعبیر بتائی جاسکے۔ یہ تو پراگندہ اور پریشان سے خیالات ہیں اور ایسے خیالات کی کچھ تعبیر نہیں ہوتی۔ یوسف
45 یوسف
46 [٤٥] یہ جواب جب اس ساقی نے سنا جو قید سے رہا ہوا تھا تو اسے فوراً سیدنا یوسف علیہ السلام، ان کا خوابوں کی تعبیر بتانا، اس تعبیر کا حرف بحرف سچا ثابت ہونا نیز سیدنا یوسف علیہ السلام کا آخری پیغام یاد آگیا۔ اب مدت مدید کے بعد اس نے ساری باتوں کا ذکر بادشاہ سے کیا، اور یہ بھی بتا دیا کہ ایک نہایت پاکباز اور شریف النفس انسان بڑی مدت سے بے گناہ قید میں پڑا ہے۔ اب اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں اس کے پاس قید خانہ میں جاتا ہوں اور اس خواب کی تعبیر اس سے پوچھ کر آپ کو بتائے دیتا ہوں۔ [٤٦] ساقی کا سیدنا یوسف سے خواب کی تعبیر پوچھنا :۔ بادشاہ پہلے ہی متوحش تھا اور اسے تعبیر بتانے والوں کے جواب سے قطعاً اطمینان حاصل نہ ہوا تھا۔ اس کا دل یہ گواہی دے رہا تھا کہ کوئی خطرناک آفت نازل ہونے والی ہے۔ چنانچہ اس نے فوراً ساقی کو قید خانہ جانے کی اجازت دے دی۔ اس نے قید خانہ پہنچ کر ایسے الفاظ سے سیدنا یوسف علیہ السلام کو مخاطب کیا جن سے قید میں ہمراہی کے زمانہ کی یاد تازہ ہوتی تھی۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کے بلند کردار اور علم و اخلاق کے جو نقوش اس ساقی کے ذہن پر اس دوران ثبت ہوئے تھے۔ وہ ابھی تک اسے بھولے نہیں تھے اور وہ یہ تھے ”اے میرے راست باز ساتھی۔‘‘ اس خطاب کے بعد اس نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو بادشاہ کا خواب حرف بحرف سنایا۔ تعبیر بتانے والوں کا جواب بھی بتایا۔ پھر اس کے بعد خواب کی تعبیر پوچھی اور اس کی غرض یہ بتائی کہ ایک تو بادشاہ کو تعبیر بتانے والوں کو اور عام لوگوں کو اس خواب کی تعبیر کا علم ہوجائے۔ دوسرے ان سب کو یہ بھی معلوم ہوجائے کہ کس طرح ایک صاحب علم و اخلاق اور لائق ترین شخص مدتوں سے بے گناہ قید میں پڑا ہوا ہے۔ یوسف
47 [٤٧] سیدنا یوسف علیہ السلام کا خواب کی تعبیر‘ اس کا علاج اور پیش آنیوالے سب حالات بتلا دینا :۔ سیدنا یوسف علیہ السلام نے فوراً اس خواب کی تعبیر بتا دی۔ پھر صرف تعبیر ہی نہیں بتائی بلکہ اس پیش آنے والی مصیبت کا ساتھ ہی ساتھ علاج بھی تجویز فرما دیا اور یہی وہ پیغمبرانہ فراست یا اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ علم تھا جو آپ علیہ السلام کے انتہائی بلندیوں پر پہنچ جانے کا پہلا زینہ ثابت ہوا۔ آپ علیہ السلام نے اس ساقی کو بتایا کہ دیکھو! تم پر سات سال خوشحالی کا دور آئے گا۔ اس دور میں تم کفایت شعاری سے کام لینا۔ جتنا غلہ ان سالوں میں پیدا ہو اس میں سے بقدر ضرورت استعمال کرنا، باقی غلہ بالیوں میں ہی رہنے دینا۔ ان سات سالوں کے بعد سات سال قحط سالی کا دور آئے گا اس دور میں تم وہ غلہ استعمال کرنا جو تم نے پہلے سات سالوں میں بالیوں میں محفوظ رکھا ہوگا۔ بالیوں میں محفوظ رکھنے کا ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ غلہ کو کیڑا نہیں لگے۔ دوسرے اس کا بھوسہ قحط سالی کے دور میں تمہارے جانوروں کے کام آئے گا اور یہ بالیوں میں محفوظ شدہ غلہ تمہارے قحط سالی کے سالوں کو کفایت کر جائے گا۔ بلکہ اگلے سال کی فصل کے بیج کے لیے بھی بچ جائے گا۔ یوسف
48 یوسف
49 [٤٨] اس آیت کے مطابق سیدنا یوسف علیہ السلام نے جو خوشخبری سنائی یہ بادشاہ کے خواب یا اس کی تعبیر کا حصہ نہیں تاہم اللہ نے جو علم آپ کو عطا فرمایا تھا۔ اس کے مطابق آپ علیہ السلام نے لوگوں کو یہ بشارت بھی دے دی کہ ان چودہ سالوں کے بعد پندرہواں سال ایسا آئے گا جس میں خوب باران رحمت ہوگی اور جن جن چیزوں کو نچوڑ کر ان سے روغن یا رس حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ایسے سب غلوں اور پھلوں کی افراط سے پیداوار ہوگی۔ کھیتی باڑی بکثرت ہوگی۔ جانوروں کے تھن دودھ سے بھر جائیں گے اور بالخصوص انگور وغیرہ کو نچوڑ کر لوگ شراب کشید کریں گے۔ یہ آخری بات سائل کے حسب حال بیان فرمائی کیونکہ وہ یہی کام کرتا تھا۔ یوسف
50 [٤٩] الزام کی بریت سے پہلے سیدنا یوسف کا قید سے باہر آنے سے انکار :۔ بادشاہ کو جب ساقی نے قید خانہ سے واپس جاکر یہ تعبیر، یہ تدبیر اور یہ بشارت سنائی تو وہ عش عش کر اٹھا۔ اس کے دل سے وحشت دور ہوگئی اور اطمینان حاصل ہوگیا۔ وہ سیدنا یوسف علیہ السلام کے علم و فضل سے بہت متاثر ہوا اور کہنے لگا کہ ایسے شخص کو میرے پاس لایا جائے تاکہ میں اس کی زیارت سے فیض یاب ہوسکوں اور اس کے مرتبہ اور اس کی قابلیت کے مطابق اس کی عزت و تکریم کروں۔ جب بادشاہ کا پیغامبر یہ پیغام لے کر قید خانہ میں سیدنا یوسف علیہ السلام کے پاس پہنچا اور آپ کو بادشاہ کا پیغام اور قید سے رہائی کی خوشخبری سنائی تو بجائے اس کے کہ آپ علیہ السلام اس پیغامبر پر خوش ہوتے آپ علیہ السلام نے قید سے باہر آنے سے انکار کردیا اور پیغامبر سے کہا کہ واپس جاکر پہلے بادشاہ سے اس قضیہ کا فیصلہ کراؤ جس کی وجہ سے مجھے قید میں ڈالا گیا تھا۔ یعنی اس عورتوں والے قصے کی کیا صورت حال ہے جبکہ انہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے۔ بالفاظ دیگر آپ کا جواب یہ تھا کہ جب تک میرے اس جرم بے گناہی کی تحقیق نہ ہوجائے اور میری پوری طرح بریت نہ ہوجائے میں قید سے باہر آنے کو تیار نہیں۔ پھر آپ علیہ السلام نے اپنے مطالبہ میں اصل مجرم زلیخا کا نام عمداً نہ لیا کیونکہ اس کا خاوند آپ علیہ السلام کا محسن اور انصاف پسند آدمی تھا آپ اسے بدنام نہیں کرنا چاہتے تھے۔ بلکہ اجمالاً ان سب ہاتھ کاٹنے والی عورتوں کا ذکر کردیا۔ کیونکہ وہ سب ہی اس جرم میں زلیخا کی ہمنوا بن گئی تھیں اور ان سب نے مل کر ہی آپ کو قید خانے میں ڈلوایا تھا۔ آپ نے یہ بھی واضح فرما دیا کہ میرا پروردگار تو میری بے گناہی اور عفت کو جانتا ہے۔ مگر میں یہ چاہتا ہوں کہ کسی ناواقف حال کے دل میں بھی یہ شائبہ نہ رہے کہ شاید اس معاملہ میں یوسف کا بھی کچھ قصور ہو۔ یوسف
51 [٥٠] عورتوں کا اعتراف جرم :۔ اب صورت حال یہ بن گئی تھی کہ بادشاہ خود سیدنا یوسف علیہ السلام کے معاملہ میں ذاتی دلچسپی لینے لگا تھا۔ اس نے فوراً اس تکیہ دار دعوت میں شریک ہونے والی سب عورتوں کو بلا کر گواہی طلب کی اور گواہی سے پہلے بادشاہ کا یہ کہنا کہ ”جب تم نے یوسف کو ورغلانا چاہا تھا “سے معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ کو اس واقعہ کی خبر ضرور تھی۔ البتہ اس نے اعیان سلطنت کی رائے کے علی الرغم اس واقعہ کی تحقیق کو کچھ اہمیت نہ دی تھی۔ ان عورتوں کو بھی اب موقعہ کی نزاکت خوب معلوم تھی کہ اب سچ کہے بغیر چارہ نہیں۔ چنانچہ انہوں نے صاف صاف اعتراف کرلیا کہ یوسف بالکل بے قصور ہے اس نے ہم میں سے کسی کو بھی میلی آنکھ سے دیکھا تک نہیں۔ عورتوں کی اس گواہی کے بعد زلیخا کے لیے بھی کسی مکر و فریب یا جھوٹ کی کوئی گنجائش باقی نہ رہی اور اس نے سب کے سامنے برملا اعتراف کرلیا کہ اصل مجرم میں ہوں۔ میں نے ہی اس پر ڈورے ڈالنے کی کوشش کی تھی اور یوسف علیہ السلام بالکل بے قصور اور سچا ہے۔ یوسف
52 [٥١] سیدنا یوسف کا صبر وتحمل :۔ جرم کا سب سے بہتر اور اول درجہ کا ثبوت مجرم کا اپنا اعتراف ہوتا ہے اس اعتراف کے بعد جب حق نتھر کر سامنے آگیا تو اس وقت سیدنا یوسف علیہ السلام نے تمام لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ میں نے یہ مطالبہ کیا ہی اس لیے تھا کہ میری پوزیشن عام لوگوں کی نظروں میں بالکل واضح ہوجائے اور اس لیے بھی کہ لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ دغابازوں اور خائن قسم کے لوگوں کا فریب چلنے نہیں دیتا۔ اس مقام پر خائن سے مراد وہ ہاتھ کاٹنے والی عورتیں ہیں۔ جنہوں نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ یوسف علیہ السلام بالکل پاکیزہ سیرت انسان ہے اور اصل مجرم زلیخا ہے۔ سیدنا یوسف علیہ السلام پر ہی یہ دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی کہ اسے زلیخا کی بات مان لینا چاہیے۔ سیدنا یوسف علیہ السلام نے مقدمہ کی تحقیق تک اپنی قید سے رہائی کے معاملہ کو جس پیغمبرانہ صبرو تحمل سے تاخیر میں ڈالا اس کی داد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں دی ہے۔ ﴿ لَوْلَبِثْتُ فِیْ السِّجْنِ کَمَا لَبِثَ یُوْسُفُ لاَ جَبْتُ الدَّاعِیَ﴾(بخاری، کتاب التفسیر، باب لقد کان فی یوسف۔۔) (یعنی اگر میں اتنی مدت قید میں رہتا جتنی مدت یوسف علیہ السلام رہے تھے تو میں فوراً۔۔ بلانے والے کے ساتھ ہولیتا) اس جملہ میں ایک تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا یوسف علیہ السلام کے صبر و تحمل کی تعریف فرمائی اور دوسرے نہایت لطیف پیرایہ میں اپنی عبودیت کاملہ اور انکساری کا اظہار فرمایا ہے۔ یوسف
53 [٥٢] سیدنا یوسف کی کسر نفسی :۔ بھری مجلس میں مجرم کے اعتراف اور اس قضیہ میں آپ کی شاندار جیت کے بعد یہ عین ممکن تھا کہ بشری تقاضوں کے تحت آپ کے نفس میں کچھ پندار اور غرور سراٹھانے لگتا۔ اسی لیے ساتھ ہی آپ نے فرمایا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہو ہی نہیں سکتی نفس کا تو کام ہی یہ ہے کہ برائی کے کاموں پر انسان کو آمادہ کرتا رہتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی کی رحمت ہے کہ انسان اس برائی پر عمل کرنے سے بچا رہتا ہے اور جو میں بچا رہا تو اسی لیے کہ میرا اللہ تعالیٰ اپنے رحم و فضل سے مجھے بچاتا رہا۔ یوسف
54 [٥٣] شاہ مصر کی یوسف علیہ السلام کو پیش کش :۔ بادشاہ سیدنا یوسف علیہ السلام کی شخصیت سے بہت متاثر ہوچکا تھا۔ آپ کی قید سے پہلے آپ کی پاکیزہ سیرت کا چرچا اس نے بھی سنا تھا۔ اس کے ساقی نے آپ کی بہت تعریف کی تھی۔ خواب کی تعبیر کے سلسلہ میں وہ آپ کے علم و فضل اور تدبر سے بہت مرعوب ہوا تھا اور اب موجودہ قضیہ میں آپ کی مکمل بریت نے اس کے دل میں آپ کی قدر و منزلت اور بھی بڑھا دی تھی۔ لہٰذا اس نے اپنے قاصد کو حکم دیا کہ وہ یوسف علیہ السلام کو بلا لائے اور ساتھ ہی یہ بھی بتلا دیا کہ میں اسے اپنا مدار المہام بنانا چاہتا ہوں۔ پھر جب آپ علیہ السلام بادشاہ کے پاس تشریف لے آئے اور آپس میں گفتگو ہوئی تو آخر میں بادشاہ نے آپ سے کہا کہ آج سے ہی آپ ہمارے ہاں صاحب اقتدار ہیں اور ہمیں آپ کی دیانت و امانت پر پورا پورا اعتماد ہے۔ یوسف
55 [٥٤] سیدنا یوسف نے شاہ مصر سے کس چیز کا مطالبہ کیا تھا :۔ اس کے جواب میں سیدنا یوسف علیہ السلام نے کہا کہ پھر آپ مجھے ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بنا دیجئے اور یہ بات تو آپ لوگ بھی سمجھ چکے ہیں کہ میں اس نظم و نسق کو پوری احتیاط کے ساتھ چلانے کی اہلیت رکھتا ہوں۔ بادشاہ سے آپ کے اس مطالبہ سے متعلق چند امور غور طلب ہیں : بعض مفسرین نے خزائن الارض کے مطالبہ سے یہ سمجھا کہ آپ نے محکمہ مال کے افسر اعلیٰ یا وزیرخزانہ کا عہدہ طلب کیا تھا۔ جو ملکی معیشت سے تعلق رکھتا تھا۔ کیونکہ آپ نے خواب کی جو تعبیر بتلائی تھی وہ اسی شعبہ سے تعلق رکھتی تھی اور آئندہ جو برادران یوسف کے مصر میں آنے کا ذکر ہے۔ وہ بھی اسی شعبہ سے تعلق ہے لیکن اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ آیا ایک نبی کسی کافرانہ حکومت کا کل پرزہ بن کر رہ سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ ایک نبی کے لیے کسی بھی صورت یہ شایان شان نہیں کہ وہ اس بات کو گوارا کرلے۔ لہٰذا یہاں خزائن الارض سے مراد مکمل اقتدار یا ملک کے سیاہ و سفید کا مختار ہونا ہے۔ بالخصوص اس لحاظ سے کہ ان الفاظ میں اس معنی کی بھی گنجائش موجود ہے اور اس لیے بھی کہ اس سے اگلی آیت میں واضح طور پر یہ الفاظ موجود ہیں۔ ﴿وَکَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ یَتَبَوَّاُ مِنْہَا حَیْثُ یَشَاءُ ﴾ لہٰذا عَلٰی خَزَائِنِ الاَرْضِ سے محض وزارت خزانہ یا شعبہ مالیات مراد لینا درست نہیں۔ طلب امارت کس صورت میں مذموم ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ طلب امارت شرعاً ممنوع اور مذموم چیز ہے تو پھر سیدنا یوسف علیہ السلام نے ایسا مطالبہ کیوں کیا تھا ؟ بالخصوص اس صورت میں جبکہ بادشاہ کافر بھی تھا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ طلب امارت صرف اس صورت میں ممنوع اور مذموم ہے جبکہ اس کا جذبہ محرکہ یا مقصود صرف حب جاہ و مال ہو۔ لیکن جہاں ملک بھر کا انتظام درہم برہم ہو رہا ہو یا کسی بڑے مفسدہ کا خطرہ موجود ہو اور مطالبہ کرنے والے کو یہ بھی علم ہو کہ کوئی دوسرا اس کے سوا یہ بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں تو اس وقت معاملہ بالکل برعکس ہوجاتا ہے اور اس وقت مطالبہ نہ کرنا مذموم بن جاتا ہے۔ رہی یہ بات کہ سیدنا یوسف علیہ السلام نے ایک کافر بادشاہ سے مطالبہ کیوں کیا تھا تو اس کا جواب پہلے گزر چکا کہ یہ مطالبہ محض طلب امارت کا نہ تھا بلکہ پورے اقتدار کا مطالبہ تھا۔ یعنی ملک کا پورے کا پورا اقتدار ہی سیدنا یوسف علیہ السلام کے حوالہ کردیا جائے۔ چنانچہ بادشاہ نے اپنے درباریوں سے اس مطالبہ کے متعلق مشورہ کیا۔ جس میں یہی طے ہوا کہ مکمل اقتدار سیدنا یوسف علیہ السلام کے حوالہ کردیا جائے اس لیے کہ سات سالہ قحط پر کنٹرول اور ملکی معیشت کو تباہی سے بچانے کے لیے انھیں کوئی دوسرا آدمی نظر نہیں آرہا تھا۔ اور اس مشورہ پر عمل درآمد کے بعد بادشاہ صرف برائے نام بادشاہ رہ گیا تھا۔ جملہ اختیارات سیدنا یوسف علیہ السلام کی طرف منتقل ہوگئے تھے۔ لہٰذا یہ طلب امارت نہیں بلکہ حق کی فتح تھی۔ چنانچہ بعد میں ملک بھر کا پورا انتظام سیدنا یوسف علیہ السلام نے اپنی مرضی کے مطابق چلایا تھا اور قرآن نے بھی اس منتقلی اقتدار کے بعد بادشاہ کے لیے ملک کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ (نیز دیکھئے سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر ٨٢ کا حاشیہ) یوسف
56 [٥٥] اس جملہ کے الفاظ سابقہ حاشیہ کی پوری طرح تائید کر رہے ہیں۔ یعنی اب سیدنا یوسف علیہ السلام جہاں چاہتے رہتے اور جو کچھ چاہتے کرسکتے تھے اور ظاہر ہے کہ اگر محض محکمہ مال کے افسر یا وزیر خزانہ ہوتے تو آپ حکومت کے احکام کے پابند ہوتے۔ آپ کو اتنی آزادی کبھی میسر نہ آسکتی تھی اور یہ محض آزادی نہ تھی بلکہ آپ کو خوشحالی کے سالوں میں غلہ کو ذخیرہ کرنے کے لیے مختلف مقامات پر جانا ضروری ہوتا تھا۔ یوسف
57 [٥٦] یعنی اللہ تعالیٰ اپنے مومن اور متقی بندوں کو دنیا میں بھی یقیناً اپنی رحمت سے نوازتا اور اچھا بدلہ دیتا ہے جیسا کہ سیدنا یوسف علیہ السلام کو دیا تھا تاہم ایسے لوگوں کو جو آخرت میں اجر ملے گا وہ اس دنیوی اجر سے بدرجہا بہتر ہوگا۔ یوسف
58 [٥٧] عام قحط اور مصر میں غلہ کی تقسیم کا نظام :۔ برادران یوسف آپ کے پاس اس وقت آئے جب آپ کو بادشاہ بنے ہوئے آٹھ سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔ پہلے سات سال انتہائی خوشحالی کا دور تھا۔ اس دور میں آپ نے کافی غلہ محفوظ کرلیا تھا۔ اس کے بعد جب قحط سالی کا دور شروع ہوا تو یہ قحط سالی صرف ملک مصر میں ہی نہ تھی بلکہ آس پاس کے ممالک میں بھی پھیل چکی تھی۔ اب صورت حال یہ تھی کہ مصر میں تو غلہ سستا تھا جبکہ آس پاس کے علاقہ میں بہت مہنگے نرخوں پر فروخت ہو رہا تھا اور غلہ کے حصول کے لیے آس پاس کے علاقوں کے باشندے مصر کا رخ کرتے تھے۔ مصر میں غلہ کی فراہمی اور اس کی نکاس کا تمام تر انتظام سیدنا یوسف علیہ السلام نے خود سنبھال رکھا تھا اور اس انتظام کو موجودہ دور کے راشن سسٹم سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ بیرونی علاقوں سے حصول غلہ کے لیے آنے والوں کے لیے یہ شرط تھی کہ وہ درخواست پیش کریں کہ انھیں اپنے گھر کے کتنے افراد کے لیے غلہ درکار ہے۔ ان کے پورے پورے نام اور پتے لکھے جائیں اور ان کو رجسٹر میں درج کیا جائے اور درخواست کی منظوری کے لیے درخواست حکام بالا کے پاس پیش کی جائے۔ درخواست کی تحقیق کے بعد فی کس ایک بار شتر غلہ کی منظوری دے دی جاتی تھی۔ اسی سلسلہ میں برادران یوسف بھی مصر آئے تھے۔ انہوں نے بھی حسب ضابطہ درخواست دی۔ یہ درخواست بالآخر سیدنا یوسف علیہ السلام تک پہنچی۔ آپ نے درخواست کی منظوری دے دی مگر ساتھ ہی ان درخواست دہندگان کو اپنے پاس طلب کرلیا۔ اب برادران یوسف سیدنا یوسف علیہ السلام کے سامنے کھڑے تھے۔ آپ انھیں خوب پہچانتے تھے۔ لیکن ان کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ آسکتی تھی کہ جس بادشاہ کے حضور کھڑے غلہ کی درخواست پیش کر رہے ہیں وہ ان کا بھائی یوسف ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کی وہ بات پوری ہوئی جو اس نے برادران یوسف کے یوسف علیہ السلام کو کنویں میں ڈالتے وقت یوسف علیہ السلام کے دل میں ڈالی تھی۔ یوسف
59 یوسف
60 [٥٨] سیدنا یوسف کے چھوٹے بھائی کو ساتھ لانے کی تاکید :۔ برادران یوسف کی درخواست میں ان کے والد اور چھوٹے بھائی کا بھی اندراج تھا۔ لیکن منظوری فی کس ایک بار شتر غلہ صرف ان افراد کی ہوئی جو غلہ لینے آئے تھے اور سیدنا یوسف کے پاس حاضر کئے گئے تھے۔ آپ علیہ السلام نے باقی افراد کے متعلق ان سے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ ہمارا باپ سن رسیدہ آدمی ہے آنے کے قابل ہی نہیں اور چھوٹے بھائی کو ہم اس کی خبرگیری کے لیے چھوڑ آئے ہیں۔ سیدنا یوسف علیہ السلام نے انھیں کہا۔ دیکھو! تمہارا باپ تو واقعی آنے کے قابل نہ رہا ہوگا۔ البتہ اگلی بار جب آؤ اپنے چھوٹے بھائی کو ضرور ساتھ لانا۔ اس دفعہ تو تمہاری درخواست منظور کردی گئی ہے اور غلہ بھی پورا دے دیتا ہوں۔ مگر آئندہ اگر تم اپنے بھائی کو نہ لائے تو میں سمجھوں گا کہ تم جھوٹے تھے۔ لہٰذا اس صورت میں نہ تو تمہیں غلہ مل سکے گا اور نہ ہی مجھ تک رسائی ہوسکے گی۔ بلکہ میرے ہاں آنے کی کوشش ہی نہ کرنا۔ یوسف
61 [٥٩] وہ کہنے لگے، ہمارا باپ بوڑھا ہے۔ لہٰذا وہ آسانی سے اسے ہمارے ساتھ روانہ نہ کرے گا۔ تاہم ہم لوگ اپنی پوری کوشش کریں گے اور امید ہے کہ اپنے باپ کو اس بات پر آمادہ کرلیں گے۔ یوسف
62 [٦٠] غلہ کی قیمت کی واپسی :۔ سیدنا یوسف علیہ السلام نے ان کی اچھی طرح مہمان نوازی کی اور غلہ بھرنے والوں کو یہ اشارہ بھی کردیا کہ جو رقم غلہ کی قیمت کے طور پر ان سے وصول کی گئی ہے وہ بھی ان کے غلہ میں رکھ دی جائے اور یہ کام انہوں نے اس غرض سے کیا کہ ممکن ہے کہ انھیں دوبارہ آنے کے لیے رقم میسر نہ ہو اور وہ آہی نہ سکیں یا بڑی دیر بعد میسر ہو تو اس صورت میں بڑی دیر سے میرے پاس دوبارہ ان کے چھوٹے حقیقی بھائی بن یمین کو ساتھ لے کر آئیں۔ قرآن کے الفاظ سے تو رقم واپس کرنے کی یہی اصل غرض معلوم ہوتی ہے۔ تاہم بعض مفسرین کہتے ہیں کہ رقم کی واپسی سے ان کا دوسرا مقصد یا تابع مقصد یہ بھی تھا کہ وہ بھائیوں سے غلہ کی قیمت لینا پسند نہیں کرتے تھے۔ یوسف
63 یوسف
64 [٦١] بیٹوں کا بن یامین کو لے جانے پر اصرار اور باپ کا انکار :۔ جب برادران یوسف واپس اپنے گھر یعنی کنعان پہنچے تو جاتے ہی اپنے والد محترم کو اس گفتگو سے مطلع کیا جو ان کے اور شاہ مصر کے درمیان ہوئی تھی اور بڑی وضاحت سے یہ بھی بتلا دیا کہ اگر آپ بن یمین کو ہمارے ساتھ نہیں بھیجیں گے تو پھر ہمیں کبھی غلہ نہ مل سکے گا اور غلہ کی فراہمی اس دور کی سب سے اہم اور شدید ضرورت ہے۔ لہٰذا آپ ضرور اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجئے اور جہاں تک ہم سے ہوسکا ہم ضرور اس کی حفاظت کریں گے۔ سیدنا یعقوب علیہ السلام نے انھیں جواب دیا کہ بالکل ایسی ہی بات تم نے اس وقت بھی کہی تھی۔ جب تم یوسف علیہ السلام کو اپنے ہمراہ لے گئے تھے۔ پھر معلوم نہیں کہ اس کے ساتھ کیا ماجرا گزرا تم نے بھلا کونسی صحیح بات مجھے بتلائی تھی اور میری تو اس وقت سے اس کے حق میں یہی دعا رہی ہے کہ اللہ اسے زندہ سلامت قائم و دائم اور اپنی حفاظت میں رکھے۔ جہاں کہیں بھی وہ ہو، میں تو ہمیشہ اللہ سے اس کے رحم کا طالب رہا ہوں اور اب تم میرے اس چھوٹے بیٹے کو بھی مجھ سے جدا کرنا چاہتے ہو، یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔ یوسف
65 [٦٢] پھر جب غلہ کی بوریاں کھولنے اور ان سے غلہ نکالنے کے دوران انھیں وہ نقدی بھی واپس مل گئی جو انہوں نے بطور قیمت غلہ ادا کی تھی تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ شاہ مصر کے احسانات انھیں یاد آنے لگے اور بن یمین کو ساتھ لے جانے کے دوبارہ تقاضا کے لیے ایک نئی وجہ بھی پیدا ہوگئی۔ پہلے تقاضا کے وقت انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ غلہ کی رقم کب تک میسر آئے گی اور کب ہمیں دوبارہ مصر جانا ہوگا۔ اس لیے بن یمین کے ساتھ لے جانے کا مطالبہ بھی کچھ ایسا پرزور نہ تھا۔ شاید یہ خیال کرتے ہوں کہ وقت آنے پر باپ مان ہی جائے گا یا اسے منا لیں گے، مگر اب جبکہ غلہ کے لیے قیمت بھی میسر آگئی تو دوبارہ بن یمین کی حفاظت کے عہد و پیمان کرنے اور والد کو اسے ہمراہ لے جانے پر مجبور کرنے اور اس کے فوائد بتلانے لگے۔ [٦٣] یعنی بن یمین کا حصہ بھی ملے گا اور اب جبکہ ساری سہولتیں میسرہیں تو پھر کیوں نہ غلہ لانے کی کوشش کی جائے، اور بعض لوگوں نے اس آیت میں ﴿یَسِیْرٌ﴾ کے معنی آسان کے بجائے قلیل لیے ہیں۔ یعنی جو غلہ ہم لاچکے ہیں وہ ہمارے گھرانے کے لیے تھوڑا ہے۔ کب تک چلے گا۔ لہٰذا ہمیں دوبارہ غلہ لانے کے موقعہ کو کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہیے۔ یوسف
66 [٦٤] دوبارہ مطالبہ پر سیدنا یعقوب کا مشروط طور پر تسلیم کرلینا :۔ بالآخر سیدنا یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹوں کے سامنے مجبور ہوگئے۔ ان سے اللہ کے نام پر پختہ عہد دینے کا مطالبہ کیا جسے تسلیم کرنے کو وہ پہلے ہی تیار بیٹھے تھے۔ سیدنا یعقوب علیہ السلام نے مزید یہ شرط عائد کردی کہ تمہیں اس وقت تک بن یمین کی حفاظت کرنا ہوگی جب تک تمہاری جان میں جان ہے ہاں اگر تم خود ہی کہیں گھیر لیے جاؤ اور تمہیں اپنی جانوں کی حفاظت بھی مشکل ہوجائے تو یہ الگ بات ہے۔ بیٹوں نے اس بات کو بھی تسلیم کرلیا تو اس وقت سیدنا یعقوب علیہ السلام نے ان سے کہا کہ جو کچھ ہم میں قول و اقرار پایا ہے۔ اس پر اللہ گواہ ہے اور وہی اسے بخیر و عافیت سرانجام دینے والا ہے۔ یوسف
67 [٦٥] پھر جب ان گیارہ بھائیوں کی روانگی کا وقت آیا تو کئی طرح کے اندیشے سیدنا یعقوب علیہ السلام کے دل میں پیدا ہونے لگے پہلے ان کے بیٹے اجنبی مسافروں کی حیثیت سے اور بے بسی کے عالم میں مصر داخل ہوئے تھے۔ اب یہ ایک لحاظ سے شاہی دعوت کی بنا پر شان و شوکت سے روانہ ہو رہے تھے۔ گیارہ بھائی تھے۔ سب کے سب جوان اور خوبصورت، پھر پہلی بار بھی ان سے مصر میں عام لوگوں جیسا سلوک نہ ہوا تھا بلکہ ان کی بہت عزت و تکریم کی گئی تھی جسے اہل مصر خوب جانتے تھے۔ لہٰذا روانگی کے وقت سیدنا یعقوب علیہ السلام کو سب سے بڑا اندیشہ یہی تھا کہ کہیں انھیں کسی کی نظر نہ لگ جائے۔ لہٰذا احتیاطی تدبیر کے طور پر انھیں یہ ہدایت کی کہ وہ مصر کے کسی ایک ہی دروازہ سے داخل نہ ہوں۔ بلکہ الگ الگ دروازوں سے داخل ہوں۔ بعض لوگ نظر لگنے کو محض ایک وہم خیال کرتے ہیں۔ درج ذیل حدیث کی رو سے ان کا خیال باطل ہے : ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نظر لگنا برحق ہے اور اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت کرتی تو نظر کرتی۔ (مسلم، کتاب السلام، باب الطب والمرضیٰ والرقی۔۔) اس تدبیر کو اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں یہ بھی بتلا دیا کہ ہماری تدابیر بھی اس صورت میں کام آسکتی ہیں جبکہ اللہ کو منظور ہو، اور اگر اللہ کو منظور نہ ہو تو سب تدبیریں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں اور ہوتا وہی ہے جو اللہ کو منظور ہو۔ لہٰذا حقیقت یہی ہے کہ اللہ پر بھروسہ رکھنا تدابیر اختیار کرنے سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ یوسف
68 [٦٦] یعنی سیدنا یعقوب علیہ السلام کے دل کا ارمان یہ تھا کہ یہ سب بھائی بخیر و عافیت مصر جائیں اور وہاں سے غلہ لے کر بخیروعافیت واپس پہنچ جائیں۔ سیدنا یعقوب علیہ السلام کی تدبیر اور ان کا بھروسہ اس اندیشے میں تو کام آگیا کہ انھیں نظر نہیں لگی۔ لیکن ان کے دل کا ارمان پورا نہ ہوسکا۔ کیونکہ اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ لہٰذا ان کی یہ تدبیر اللہ کی اس تقدیر کے مقابلہ میں کچھ کام نہ آسکی۔ جس کے متعلق انھیں خیال تک بھی نہیں آسکتا تھا۔ [٦٧] سیدنا یعقوب کی بیٹوں کو نصیحت اور اللہ کی تقدیر :۔ وہ تعلیم جو اللہ تعالیٰ نے سیدنا یعقوب علیہ السلام کو دی تھی یہ تھی کہ محض ظاہری تدبیر پر ہی بھروسہ نہ کر بیٹھنا چاہیے بلکہ ظاہری تدابیر اختیار کرنے کے بعد بھی بھروسہ اللہ ہی پر کرنا چاہیے اور یہی تعلیم وہ اپنے بیٹوں کو دے رہے تھے۔ مگر اکثر لوگ اس تعلیم سے واقف نہیں، وہ صرف ظاہری اسباب پر ہی بھروسہ کرلیتے ہیں یا پھر کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ محض اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں اور ظاہری اسباب اختیار نہیں کرتے یا ان کی پروا نہیں کرتے۔ یہ دونوں باتیں غلط اور اللہ کی دی ہوئی تعلیم کے خلاف ہیں۔ یوسف
69 [٦٨] دو بچھڑے ہوئے بھائیوں کی اتفاقی ملاقات :۔ برادران یوسف جیسے سیدنا یوسف علیہ السلام سے حسد رکھتے تھے۔ ویسے ہی بن یمین سے بھی رکھتے تھے کیونکہ سیدنا یوسف علیہ السلام سے جدائی کے بعد بن یمین باپ کی توجہ کا مرکز و محور بن گئے تھے۔ چنانچہ روانگی کے بعد راستہ میں اسے طعن و تشنیع سے کو ستے رہے اور طرح طرح سے اپنے دل کے پھپھولے پھوڑتے رہے تھے جب یہ لوگ مصر میں داخل ہوئے تو سیدنا یوسف علیہ السلام نے ان کا استقبال کیا اور شاہی مہمان خانہ میں ٹھہرایا۔ دو دو بھائیوں کو الگ الگ کمرہ رہنے کو دیا۔ بن یمین اکیلا رہ گیا تو آپ نے اسے کہا میں تمہارے پاس رہوں گا۔ چنانچہ جب تنہائی میسر آئی تو سیدنا یوسف علیہ السلام نے بن یمین کو بتایا کہ میں ہی تمہارا گم شدہ بھائی ہوں۔ طویل مدت کے فراق اور مایوسی کے بعد و حقیقی بھائیوں کی اس طرح ہنگامی ملاقات کے دوران طرفین کے جذبات میں جو تلاطم برپا ہوتا ہے اسے عموماً سب لوگ جانتے ہیں۔ وہی سب کچھ یہاں بھی ہوا۔ سیدنا یوسف علیہ السلام نے کنویں میں پھینکے جانے کے وقت سے لے کر موجودہ وقت تک کے سب حالات سنا دیئے اور چھوٹے بھائی بن یمین نے اپنے گھر کے حالات، بیٹے کے فراق میں سیدنا یعقوب کی داستان غم کی تفصیلات اور اپنی ذات پر بھائیوں کے ناروا سلوک کے حالات سنائے تو سیدنا یوسف علیہ السلام نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا جو ہوچکا سو ہوچکا۔ اب تمہارے بھائی تمہیں کوئی تکلیف نہ پہنچا سکیں گے میں کوئی ایسی تدبیر کروں گا کہ تمہیں ان کے ساتھ روانہ ہی نہ کروں گا۔ مگر ہماری اس مجلس کی باتوں کا ان سے قطعاً ذکر نہ کرنا اور نہ ہی میرے متعلق ابھی انھیں کچھ بتانا۔ یوسف
70 یوسف
71 یوسف
72 [٦٩] شاہ مصر کے پیالہ کی چوری :۔ سیدنا یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائی بن یمین کو اپنے ہاں روک لینے کی یہ تدبیر سوچی کہ اس کے سامان میں یعنی غلہ میں اپنا مرصع پانی پینے کا پیالہ بھی رکھ دیا اور اس تدبیر کی آپ نے اپنے بھائی کو بھی خبر دے دی تاکہ وہ کسی موقع پر گھبراہٹ کا شکار نہ ہوجائے۔ چنانچہ جب برادران یوسف کا سامان تیار کیا جارہا تھا تو آپ نے چپکے سے اپنا مرصع پانی پینے کا پیالہ اپنے بھائی کے سامان میں رکھ دیا اور سامان تیار کرکے انھیں شہر مصر سے روانہ کردیا گیا۔ جب یہ لوگ ذرا آگے نکل آئے تو چند آدمی ان کے پیچھے تیزی سے آرہے تھے۔ ان میں سے ایک نے بلند آواز سے انھیں پکارا اور کہا : ذرا ٹھہر جاؤ، تم تو چور معلوم ہوتے ہو، برادران یوسف نے مڑ کر پیچھے کی طرف دیکھا کہ چند آدمی ان کی طرف بڑھ رہے ہیں اور ان سے پوچھا کہ تمہارا کیا سامان چوری ہوا ہے؟تعاقب کرنے والوں میں سے ایک شخص بولا کہ بادشاہ کا پانی پینے کا مرصع پیالہ گم ہوگیا ہے۔ اس کی ہر جگہ تلاش کی گئی لیکن ملا نہیں۔ ہم اسی کی تلاش میں نکلے ہیں۔ جو شخص یہ پیالہ تلاش کرکے بادشاہ کے پیش کرے۔ اس کے لیے ایک بار شتر غلہ انعام مقرر ہوا ہے اور میں اس بات کا ضامن ہوں کہ جو شخص پیالہ ڈھونڈ نکالے میں اس کو بادشاہ سے مقررہ انعام دلوا دوں، یا اگر خود تلاش کرسکوں تو یہ انعام خود وصول کرلوں۔ اور لفظ زعیم کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ مجھ پر ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو میں وہ پیالہ ڈھونڈ کر بادشاہ کے حضور پیش کروں اور اس صورت میں مجھے مقررہ انعام بھی ملے گا۔ صواع کے معنی :۔ نیز ان آیات میں دو بار صواع کا لفظ آیا ہے۔ صواع کو بعض لوگوں نے صاع سے مشتق سمجھ کر اس کا معنی غلہ ماپنے کا معروف پیمانہ (پنجابی ٹوپہ) کردیا ہے۔ حالانکہ یہ لفظ صاع سے مشتق یا ماخوذ نہیں ہے۔ بلکہ اس کا معنی پانی پینے کا ایسا پیالہ ہے۔ جس میں جواہرات وغیرہ جڑے ہوئے ہوں اور اگر یہ پیالہ شیشہ کا ہو تو اسے قدح، لکڑی کا ہو تو عُس، چمڑے کا ہو تو علبۃ اور مٹی کا ہو تو مرکن کہتے ہیں۔ (الجمال والکمال ص ١٧٤ ازسلمان منصور پوری) یوسف
73 یوسف
74 یوسف
75 [٧٠] کنعان میں چوری کی سزا :۔ برادران یوسف کہنے لگے ہم شریف خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ہم چور یا فسادی قسم کے لوگ نہیں۔ کنعان سے یہاں غلہ لینے آئے تھے اور اب غلہ لے کر واپس جارہے ہیں تعاقب کرنے والوں نے کہا : یہ ٹھیک ہے مگر تم اپنا سامان ہمیں دکھا دو، اور یہ بھی بتا دو کہ اگر بالفرض تم میں سے کسی کے سامان سے مسروقہ مال برآمد ہوجائے تو پھر اس کی کیا سزا ہے؟ پیالہ کی برآمدگی :۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے ملک میں چور کو یہ سزا دی جاتی ہے کہ جس شخص کے سامان میں سے یا گھر سے مسروقہ مال برآمد ہوجائے تو جس کا مال چوری ہوا ہو، چور کو سال بھر کے لیے اسی کے حوالہ کردیا جاتا ہے۔ ضامن بولا! ’’ٹھیک ہے، ہمیں تمہاری یہ بات بھی قبول ہے‘‘ یہ کہہ کر ضامن نے ان کے سامان کی تلاشی لینا شروع کردی۔ چند بھائیوں کا سامان دیکھنے کے بعد جب بن یمین کے سامان کی تلاش لی گئی تو اس سے گم شدہ پیالہ برآمد ہوگیا۔ چنانچہ اس ضامن نے مسروقہ پیالہ بھی اپنے قبضہ میں کرلیا اور بن یمین کو بھی اپنی تحویل میں لے لیا۔ یوسف
76 [٧١] اللہ کی تدبیر کیا تھی؟ سیدنا یوسف علیہ السلام اپنے بھائی بن یمین کو اپنے پاس ہی روک رکھنا چاہتے تھے۔ اور یہ بھی چاہتے تھے کہ ان کے بھائیوں پر ابھی اپنے بادشاہ ہونے کی حقیقت کا راز فاش نہ ہو۔ اسی لیے پیالہ بن یمین کے سامان میں رکھنے کی تدبیر کی گئی تھی اور جو تدبیر اللہ نے سیدنا یوسف علیہ السلام کے لیے کی وہ یہ تھی کہ آپ اس کو شاہ مصر کے قانون تعزیرات کے مطابق گرفتار کرکے جیل میں نہ بھیجیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے برادران یوسف کے منہ ہی سے یہ بات نکلوا دی کہ ہمارے ہاں چور کی سزا یہ ہوتی ہے کہ جو شخص چوری کرے وہ ایک سال کے لیے اس شخص کی غلامی کرے جس کا اس نے مال چرایا ہے۔ اس طرح باعزت طور پر بن یمین کو کم از کم ایک سال کے لیے اپنے حقیقی بھائی یوسف علیہ السلام کے پاس رہنے کا اللہ تعالیٰ نے موقع فراہم کردیا اور وہ کچھ ہو کے رہا جو اللہ کو منظور تھا۔ [٧٢] اس جملہ میں سیدنا یوسف علیہ السلام اور برادران یوسف کا تقابل پیش کیا گیا ہے کہ جس یوسف علیہ السلام کو اس کے بھائیوں نے کنویں میں ڈال کر صفحہ ہستی سے غائب کرنا چاہا تھا۔ اسے اللہ نے اتنا اعزاز بخشا کہ اس کے بھائی اسی یوسف کے رحم و کرم کے محتاج بن گئے۔ [٧٣] یعنی اگرچہ یوسف علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے علم عطا فرمایا تھا تاہم وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ کون سی ایسی تدبیر کی جائے کہ ان کا بھائی باعزت طور پر ان کے پاس رہ سکے۔ یہ تدبیر اللہ نے یوسف علیہ السلام کی خاطر پیدا کردی۔ کیونکہ وہ ہر صاحب علم سے بڑھ کر علیم ہستی ہے۔ یوسف
77 [٧٤] برادران یوسف کا یوسف پہ چوری کا الزام :۔ چند ہی لمحے پیشتر یہی برادران یوسف یہ اعلان کر رہے تھے کہ ہم لوگ شریف زادے ہیں چوری یا فساد کرنے والے نہیں ہیں۔ پھر اسی مقام پر صرف بن یمین پر ہی چوری کے الزام کو درست تسلیم نہیں کیا بلکہ اس کے بڑے بھائی ( یوسف علیہ السلام) پر چوری کا الزام جڑ دیا۔ اسی ایک جملہ سے معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ ان دونوں بھائیوں کے متعلق کس قدر معاندانہ اور حاسدانہ جذبات رکھتے تھے اور جو کچھ خود ان کے حق میں کرتے رہے۔ اس کا انھیں کبھی خیال بھی نہ آتا تھا۔ [٧٥] اس مقام پر بھی سیدنا یوسف علیہ السلام نے پیغمبرانہ صبر و تحمل سے کام لیا۔ یہ عین ممکن تھا کہ اگر اس وقت کوئی بات آپ کے منہ سے نکل جاتی تو سارا راز فاش ہوجاتا اور حالات دوسرا رخ اختیار کر جاتے لیکن سیدنا یعقوب علیہ السلام کے لیے صبر و توکل کے ابتلاء کا دور ابھی باقی تھا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ ابھی یوسف علیہ السلام کو مزید بلند درجات عطا فرمانا چاہتے تھے۔ اتنے بلند کہ آپ کے بچپن کے دیکھے ہوئے خواب کی تعبیر نتھر کر سامنے آجائے۔ البتہ ان کے دل میں یہ ضرور خیال آیا کہ یہ اخلاقی لحاظ سے کس قدر گرچکے ہیں کہ محض حسد و عناد کی بنا پر بلاتامل دوسرے پر الزام عائد کردیتے ہیں۔ یوسف
78 یوسف
79 [٧٦] جب یہ واقعہ پیش آگیا تو برادران یوسف کو فوراً خیال آیا کہ اب ہم اپنے باپ کو کیا منہ دکھاسکتے ہیں جس سے اتنا پختہ عہد کیا تھا کہ ہم بن یمین کو ضرور ساتھ لائیں گے الا یہ کہ ہم پر ہی کوئی آفت نہ پڑجائے۔ اب اگر یہ اس کے دس بھائی باپ کے پاس جاتے اور صرف بن یمین ساتھ نہ ہوتا تو اس سے زیادہ ان کے جھوٹ اور مکر و فریب کا اور کیا ثبوت ہوسکتا تھا۔ بالخصوص اس صورت میں کہ سیدنا یوسف والے واقعہ کی وجہ سے باپ پہلے ہی ان کی طرف سے بدظن تھا۔ اب لگے سیدنا یوسف علیہ السلام کے سامنے منت و سماجت کرنے کہ آپ نے ہم پر پہلے بھی بہت احسان کئے ہیں ایک یہ بھی کردیجئے کہ اس بن یمین کے بجائے ہم میں سے کوئی ایک اپنے ہاں غلام رکھ لیجئے کیونکہ اس کا باپ بہت بوڑھا بزرگ ہے اس کی جدائی کا صدمہ برداشت نہ کرسکے گا۔ اس کے جواب میں سیدنا یوسف علیہ السلام کہنے لگے کہ ایسا ظلم ہم کیسے کرسکتے ہیں ہم تو اسی کو اپنے پاس رکھیں گے جس کے سامان سے ہمارا گم شدہ مال برآمد ہوا ہے۔ اس مقام پر بھی سیدنا یوسف علیہ السلام نے بن یمین کو چور نہیں کہا نہ ان پر چوری کا الزام لگایا۔ کیونکہ فی الحقیقت انہوں نے چوری نہیں کی تھی۔ یوسف
80 [٧٧] بڑے بھائی کا واپس جانے سے انکار جب یوسف علیہ السلام نے ایسا احسان کرنے سے صاف جواب دے دیا تو سب بھائی تنہائی میں جاکر موجودہ پریشان کن صورت حال پر غور کرنے لگے۔ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن والا معاملہ بن گیا تھا۔ اگر انہوں نے پہلے یوسف کے معاملہ میں زیادتی نہ کی ہوتی تو اب صورت حال اس قدر سنگین نہ ہوتی۔ ان حالات میں بڑے بھائی نے سابقہ واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے آپ کو اپنے باپ کو منہ دکھانے کے قابل نہیں سمجھتا۔ البتہ تم لوگ جاکر باپ کو اس صورت حال سے مطلع کردو۔ میں یہیں رہوں گا اور پھر کوشش کروں گا کہ بن یمین کو ان لوگوں سے لاسکوں یا پھر مجھے موت آجائے، یا اگر میرا باپ مجھے اپنے پاس آنے کا حکم دے۔ تب ہی میں اپنے باپ کو منہ دکھا سکتا ہوں۔ اب جو بات اللہ کو منظور ہوگی وہی میرے لیے قابل قبول ہوگی اور وہی میرے حق میں کوئی بہتر فیصلہ کرے گا۔ بہرحال میں تمہارے ساتھ گھر جانے کو تیار نہیں اور اس پر موت کو ترجیح دیتا ہوں۔ یوسف
81 [٧٨] یعنی ہم نے بچشم خود دیکھا تھا کہ گمشدہ پیالہ اس کے سامان سے نکلا تھا۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ اس نے چوری کی ہے اور جب ہم نے آپ سے اس کی حفاظت کرنے کا عہد و پیمان کیا تھا اس وقت ہمیں یہ تو معلوم نہ تھا کہ وہ مصر جاکر چوری کرے گا، اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں نے ہم سے پوچھا کہ تمہارے ہاں چور کی کیا سزا ہے، تو ہم نے وہی بات بتائی جو ہم جانتے تھے یعنی چور اس شخص کی غلامی میں ایک سال رہے جس کی اس نے چوری کی ہے۔ مگر ہمیں یہ کیا خبر تھی کہ ہمارا یہ بیان ہم پر ہی لاگو ہونے والا ہے۔ یوسف
82 [٧٩] یعنی اگر آپ ہم پر اعتبار نہیں کرتے تو اہل مصر سے دریافت کرلیجئے یا اس قافلہ والوں سے پوچھ لیجئے جو ہمارے ہمراہی تھے۔ ان شہادتوں سے آپ کو یقین آجائے گا کہ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں سچی بات ہی کہہ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ یہاں قریۃ کا لفظ اہل لقریہ یعنی بستی والوں کے معنی میں اور العیر قافلہ والوں کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یوسف
83 [٨٠] گمشدہ سامان کی برآمدگی سے چوری ثابت نہیں ہوجاتی :۔ یہ بعینہ وہی الفاظ ہیں جو سیدنا یعقوب علیہ السلام نے اس وقت بھی کہے تھے جب برادران یوسف نے یوسف علیہ السلام کو کنویں میں ڈالنے کے بعد رات کو روتے ہوئے باپ کے پاس آئے تھے اور ایک جھوٹا سا واقعہ بنا کر انھیں سنا دیا تھا۔ اب کی بار آپ نے بیٹوں سے پورا واقعہ سننے کے بعد جو انھیں تنبیہ کی تو اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ کیا تم یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ کسی شخص کے سامان سے کسی گم شدہ چیز کا برآمد ہونا اس بات کا یقینی ثبوت کب ہوتا ہے کہ اس شخص نے ضرور چوری کی ہے۔ ممکن ہے کسی دوسرے نے اس کے سامان میں وہ چیز رکھ دی ہو؟ پھر تم نے یوسف پر چوری کا مزید الزام لگا کر بن یمین پر لگے ہوئے الزام کو پختہ تر بنا دیا۔ اس تنبیہ سے دو باتوں کا پتہ چلتا ہے ایک یہ کہ سیدنا یعقوب علیہ السلام کو اس بات کا پختہ یقین تھا کہ میرے یہ بیٹے چور نہیں ہوسکتے اور دوسرے یہ کہ برادران یوسف اپنے ان دونوں چھوٹے بھائیوں سے ہمیشہ بدگمان ہی رہتے تھے۔ [٨١] سب سے مراد یوسف بن یمین اور ان کا وہ بڑا بھائی ہے جو شرم و ندامت کے مارے مصر میں ہی رہ گیا تھا۔ یوسف
84 [٨٢] سیدنا یعقوب کی بینائی جانے کی وجہ :۔ یعنی اپنے بیٹوں کو کچھ لعنت ملامت نہیں کی اور درگزر سے کام لیا۔ حالانکہ اس واقعہ نے پرانے زخم کو پھر سے ہرا کردیا تھا۔ البتہ بے اختیار آپ علیہ السلام کے منہ سے ہائے یوسف کے الفاظ نکل گئے جب کہ سیدنا یوسف کا غم آپ کی رگ رگ میں سرایت کرچکا تھا۔ کظیم اس مشک کو کہتے ہیں جسے لبالب بھر کر اس کا منہ بند کردیا گیا ہو۔ بالفاظ دیگر یوسف علیہ السلام کا غم آپ کے گلے تک پہنچ چکا تھا۔ مگر پھر بھی آپ شکوہ شکایت یا بے قراری کا کوئی لفظ زبان سے نکالنا گوارا نہیں کرتے تھے اور سب کچھ ضبط ہی کئے جارہے تھے جس کا اثر آپ کی آنکھوں پر پڑا اور آپ کی بینائی جاتی رہی۔ یوسف
85 یوسف
86 [٨٣] اللہ کی رحمت سے مایوسی کفر ہے :۔ باپ کے منہ سے آہ سن کر بھی حاسد بیٹوں کو ان پر رحم نہ آیا بلکہ الٹا باپ کو ملامت کرنے لگے کہ اب اس کے قصہ کو چھوڑتے بھی ہو یا نہیں؟ یا اسی کے غم میں اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھو گے؟ مغموم باپ نے انھیں جواب دیا کہ میں تمہیں تو کچھ نہیں کہتا۔ تم نے جو کچھ چاہا کرلیا۔ میں تو اپنی پریشان حالی کو اللہ کے سامنے پیش کرتا اور اسی سے صبر کی توفیق چاہتا ہوں۔ کیونکہ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ یوسف ابھی زندہ ہے جسے اللہ نے مجھ سے دور کردیا ہے۔ کیونکہ سیدنا یوسف علیہ السلام کو جو خواب آیا تھا اس وجہ سے آپ کو یقین تھا کہ یقیناً یوسف علیہ السلام زندہ ہے اور کسی نہ کسی دن ضرور اس سے ملاقات ہوگی اور وہ خواب پورا ہوکے رہے گا اور یہی وہ بات تھی جسے یعقوب علیہ السلام تو جانتے تھے لیکن ان کے بیٹے نہیں جانتے تھے اور آپ اپنے بیٹوں کو یہ بات بتانا بھی نہیں چاہتے تھے کہ کہیں حسد کے مارے جل بھن نہ جائیں۔ یوسف
87 [٨٤] اسی یقین کی بنا پر آپ نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ جاؤ یوسف علیہ السلام اور اس کے بھائی دونوں کے لیے کوشش کرو کہ وہ ہمیں مل جائیں اور تیسرے بیٹے کا جو مصر میں رہ گیا تھا آپ نے اس لیے نام نہ لیا کہ وہ خود اسی غرض سے وہاں اٹکا ہوا تھا کہ بن یمین کے حالات پر نگہداشت رکھے اور جب بھی کوئی رہائی کی صورت ممکن ہو اسے بروئے کار لائے اور انھیں تاکید کی کہ اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا۔ کیونکہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا مسلمانوں کا شیوہ نہیں۔ یوسف
88 [٨٥] تیسری بار برادران یوسف، یوسف علیہ السلام کے دربار میں :۔ اب ان بھائیوں کو یوسف علیہ السلام کے متعلق تو کچھ علم نہ تھا کہ وہ کہاں ہوسکتا ہے اور کس سمت کو جاکر اسے تلاش کیا جائے۔ کیونکہ ظن ضرور تھا کہ جس قافلہ نے اسے کنویں سے نکالا تھا وہ مصر کو جارہا تھا۔ لہٰذا یہ امکان تھا کہ شاید وہ مصر میں ہی ہو۔ البتہ بن یمین کے متعلق یقین تھا کہ اسے شاہ مصر نے اپنے پاس رکھ لیا ہے اور تیسرا بھائی بھی ادھر ہی تھا۔ لہٰذا انہوں نے تیسری بار پھر مصر کا رخ کیا کچھ تھوڑی بہت پونجی بھی مہیا کرلی کہ اس قحط سالی کے زمانہ میں کچھ غلہ ہی لے آئیں گے اور اسی دوران اپنے بھائیوں کی بازیافت کے لیے بھی کوشش کریں گے چنانچہ مصر پہنچ کر انہوں نے سب سے پہلے شاہ مصر کا ہی رخ کیا اور اس سے التجا کی کہ ہم لوگوں پر سخت مشکل وقت آن پڑا ہے۔ کھانے کو غلہ نہیں اور غلہ کے لیے رقم بھی نہیں تھوڑی سی رقم ہم لائے ہیں۔ اگر آپ غلہ پورا دے دیں تو آپ کی انتہائی مہربانی ہوگی۔ آپ کے ہم پر پہلے بھی بہت احسانات ہیں جن کا ہم شکریہ ادا نہیں کرسکتے۔ اب بھی ہم پر احسان فرمائیے اور اللہ ہی اس کی آپ کو جزا دے گا۔ اور انشاء اللہ وہ ضرور آپ کو جزا دے گا۔ یوسف
89 [٨٦] سیدنا یوسف کا اپنا آپ جتلا دینا :۔ اپنے بھائیوں اور گھر والوں کی یہ داستان غم ان الفاظ میں سن کر سیدنا یوسف علیہ السلام اب زیادہ دیر حالات پر پردہ ڈالے رکھنا برداشت نہ کرسکے۔ دل بھر آیا اور ان کی اسی التجا کے جواب میں ان سے یہ پوچھا : ’’کچھ وہ واقعہ بھی یاد ہے جو سلوک تم نے اپنے بھائی یوسف علیہ السلام سے کیا تھا۔ پھر اس کے بعد اپنے اس چھوٹے بھائی بن یمین سے کرتے رہے ہو؟‘‘ اس سوال میں سیدنا یوسف علیہ السلام نے پیرایہ بھی ایسا اختیار کیا جس سے انھیں مزید ندامت نہ ہو یعنی جو کچھ تم کرتے رہے ہو وہ ناسمجھی یا بے وقوفی کی بنا پر کرتے رہے ہو۔ یوسف
90 [٨٧] بھائیوں کا چونک اٹھنا اور اظہار ندامت :۔ شاہ مصر کے اس سوال پر وہ ایک دم چونک اٹھے کہ اسے ان باتوں کی کیسے خبر ہوگئی؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ شاہ مصر یوسف (علیہ السلام) ہی ہو؟ پھر اپنی اس حیرت و استعجاب کو دور کرنے کے لیے شاہ مصر سے سوال کیا:’’ کیا آپ یوسف (علیہ السلام ) ہی تو نہیں؟‘‘ شاہ مصر نے جواب دیا : ’’ہاں میں یوسف ہی ہوں اور جسے میں نے پچھلی مرتبہ روک لیا تھا وہ میرا چھوٹا بھائی بن یمین ہے، جو اب میرے پاس ہے۔ دیکھ لو اللہ نے ہم پر کیسی رحمت فرمائی اور ہم دونوں بھائیوں کو طویل جدائی کے بعد ملا دیا۔ اور ذلت کو عزت سے، تکلیف کو راحت سے، اور تنگی کو آرام و سکون سے بدل دیا۔ جس بھائی کو تم نے کنویں میں ڈال دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آج اسے پورے ملک مصر کی حکومت عطا فرما دی ہے اور اللہ صبر کرنے والوں اور اس سے ڈرنے والوں کو ایسے ہی اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے۔‘‘ یوسف
91 [٨٨] سیدنا یوسف علیہ السلام کے اس جواب پر ان کے سارے کارنامے ان کی آنکھوں کے سامنے پھر گئے اور برملا اعتراف کرنے لگے بیشک غلط کار ہم ہی تھے اور آپ اسی عزت کے مستحق تھے جو اللہ نے آپ کو عطا کی ہے جس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے تھے پھر اس خیال سے کہ اگرچہ شاہ مصر ان کا بھائی ہے وہ اس وقت بادشاہ ہے۔ ممکن ہے ہمیں سابقہ خطاؤں پر مؤاخذہ کرے۔ لہٰذا دل ہی دل میں کچھ ڈر بھی رہے تھے۔ یوسف
92 [٨٩] سیدنا یوسف علیہ السلام کا بھائیوں کو فراخدلی سے معاف کردینا :۔ سیدنا یوسف علیہ السلام نے ان کے اس اندیشہ کو بھانپ لیا اور انھیں تسلی دیتے ہوئے کہا جو ہوچکا سو ہوچکا۔ آج تم پر کوئی گرفت نہیں، کوئی سرزنش نہیں اور آئندہ میں تمہاری ایسی تقصیر کا ذکر بھی نہ کروں گا۔ میں نے سب کچھ تمہیں معاف کیا اور اللہ سے دست بدعا ہوں کہ وہ بھی تمہیں معاف فرما دے اور مجھے قوی امید ہے کہ وہ ضرور تمہیں معاف فرما دے گا، کیونکہ وہ سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ یوسف
93 [٩٠] بھائیوں کے ہاتھ قمیص بھیجنا اور سارے خاندان کو مصر لانے کی تاکید کرنا :۔ برادران یوسف کی سیدنا یوسف علیہ السلام سے اس طرح حیرت انگیز ملاقات کے نتیجہ میں دو مسئلے از خود حل ہوگئے۔ ایک وہ مہم جس پر باپ نے ان بیٹوں کو بھیجا تھا۔ یعنی وہ جاکر یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کریں اور دوسرے غلہ کی فراہمی کا مسئلہ جس کے لیے برادران یوسف تھوڑا عرصہ پہلے شاہ مصر کے سامنے نہایت عاجزی سے التجا کر رہے تھے۔ اب وہ بس سیدنا یوسف علیہ السلام کے حکم کے منتظر تھے چنانچہ سیدنا یوسف علیہ السلام نے کہا کہ تم اب واپس جاؤ اور اپنے پورے خاندان کو میرے ہاں لے آؤ اور یہ میری قمیص لے جاؤ اسے میرے والد کے چہرے پر پھراؤ گے تو ان شاء اللہ ان کی بینائی بحال ہوجائے گی۔ بینائی کی واپسی کی وجہ کچھ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ جس کے فراق میں آنکھوں کی بینائی جاتی رہی تھی۔ اسی کے وصال سے وہ مصیبت دور بھی ہوجاتی اور اس طرح بینائی واپس آنا ممکن ہوتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ شدید مرض میں مبتلا مریض کے پاس جب کوئی ایسا قریبی رشتہ دار آجاتا ہے جس سے اسے دلی لگاؤ ہو تو مریض خود بخود ہی تندرست ہوجاتا ہے اور بعض دفعہ ایسا بھی کسی سخت صدمہ یا غیر معمولی خوشی کے اثر سے بعض نابینا دفعتًا بینا بن گئے۔ تاہم اگر اس بات کو سیدنا یوسف علیہ السلام کے معجزہ پر محمول کیا جائے تو بھی کچھ مضائقہ نہیں۔ یوسف
94 [٩١] سیدنا یعقوب علیہ السلام کا بیٹوں کو یوسف علیہ السلام کے زندہ ہونے کی خبر دینا اور ان کا مذاق اڑانا :۔ ادھر یہ قافلہ مصر سے روانہ ہوا تو ادھر سینکڑوں میل دور کنعان میں سیدنا یعقوب علیہ السلام اپنے جدا شدہ بیٹے یوسف علیہ السلام کی بو محسوس کرنے لگے۔ مگر جب ان کے پاس ہی ان کی بستی کے ایک کنوئیں میں پڑے رہے اس وقت اس کا علم نہ ہوا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کو اللہ تعالیٰ غیب کا اتنا ہی علم عطا کرتا ہے جتنا وہ چاہتا ہے اور اس وقت عطا کرتا ہے جب چاہتا ہے۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کی زندگی کے تمام تر واقعات میں اللہ کی مشیئت ہی کام کرتی نظر آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا یعقوب علیہ السلام کے صبر و تحمل اور توکل علی اللہ کا پورا پورا امتحان لیا۔ پھر جب اس امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد اس کے ثمرہ کا وقت آیا تو ملاقات سے پہلے ہی سیدنا یعقوب علیہ السلام پر وجدانی کیفیت طاری کردی۔ یا وحی سے مطلع کردیا۔ مگر اس کیفیت کا آپ گھر والوں سے کھل کر اظہار کرنے سے بھی ہچکچا رہے تھے اور جب کہی تو اس انداز سے کہی کہ اگر تم لوگ یوں نہ کہنے لگو کہ میں بڑھاپے کی وجہ سے کچھ بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہوں تو بات یہ ہے کہ مجھے آج یوسف علیہ السلام کی خوشبو آرہی ہے اور مشکل یہ ہے کہ یہ بات تمہاری سمجھ میں نہیں آئے گی۔ چنانچہ گھر والوں نے ویسی ہی باتیں کیں جیسا کہ آپ کو اندیشہ تھا۔ کہنے لگے : یوسف کا ذکر تو تم اکثر کرتے ہی رہتے ہوں، اس کی محبت، اس کے زندہ ہونے اور اس سے دوبارہ ملنے کا یقین تو تمہارے دل میں گھر کرچکا ہے یہ تو وہی پرانی باتیں ہیں جو یوسف علیہ السلام کی خوشبو بن کر تمہارے دماغ میں آرہی ہیں۔ یوسف سے والہانہ محبت مختلف تخیلات کی صورت میں تمہارے دل میں گردش کرتی رہتی ہے اور وہی تخیل ہمیں بتانے لگتے ہو۔ یوسف
95 یوسف
96 [٩٢] یعقوب علیہ السلام کی بینائی کی واپسی :۔ یہ خوشخبری دینے والا ان کا بڑا بھائی یہودا تھا۔ یہودا ہی تھا جس نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو قتل کرنے سے بھائیوں کو روکا تھا اور کہا تھا کہ قتل کے بجائے اسے کسی گمنام کنویں میں ڈال دیا جائے نیز وہ یہودا ہی تھا جس نے کہا تھا کہ میں اب واپس جاکر کیسے اپنا منہ اپنے باپ کو دکھاؤں۔ لہٰذا میں اب یہاں مصر میں رہوں گا اور یہ یہودا ہی تھا جو قافلہ سے پہلے سیدنا یوسف علیہ السلام کی قمیص لے کر اپنے باپ کے پاس پہنچ گیا اور انھیں یوسف علیہ السلام اور بن یمین کے مل جانے کی خوشخبری سنائی۔ پھر قمیص آپ کے چہرہ پر ڈالی تو دفعتًا آپ کی بینائی لوٹ آئی، آنکھیں درست ہوگئیں اور سب کچھ نظر آنے لگا۔ پھر اسی نے بتایا کہ میرے باقی بھائی بھی پہنچ رہے ہیں نیز یہ کہ یوسف علیہ السلام نے ہم سب کو اور ہمارے سارے خاندان کو اپنے پاس بلایا ہے اور اب ہم اسی غرض سے یہاں آئے ہیں۔ اس وقت سیدنا یعقوب علیہ السلام نے سب گھر والوں سے کہا کہ اب تو تم اس حقیقت کو جان ہی گئے ہوگے کہ جو کچھ میں کہتا تھا درست تھا۔ اس لیے کہ میں وہ کچھ جانتا تھا جو تم جان ہی نہیں سکتے تھے اور وہ باتیں یہ تھیں کہ یوسف یقینا زندہ ہے اسی لئے آپ نے بیٹوں کو اس کی تلاش میں بھیجا تھا نیز یہ کہ اس سے ملاقات ضرور ہوگی اور اللہ ہم سب کو کسی وقت اکٹھا کردے گا، اور ان باتوں کا ماخذ علم وحی بھی ہوسکتا ہے جو صرف انبیاء کو عطا ہوتا ہے اور وہ خواب بھی جسے آپ علیہ السلام اور سیدنا یوسف علیہ السلام کے سوا کوئی نہ جانتا تھا۔ یوسف
97 یوسف
98 یوسف
99 [٩٣] خاندان یعقوب کا مصر پہنچنا :۔ جب سیدنا یوسف علیہ السلام کا سارا خاندان کنعان سے روانہ ہو کر مصر پہنچا تو سیدنا یوسف بڑے بڑے اعیان سلطنت اور فوجی افسران کو ساتھ لے کر اپنے باپ اور اہل خانہ کے استقبال کے لیے نکلے اور پورے تزک و احتشام کے ساتھ انھیں دارالسلطنت میں لائے اور یہ دن جشن کا دن تھا، عورتیں، مرد، بچے سب اس جلوس کو دیکھنے کے لیے اکٹھے ہوگئے تھے اور سارے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اس وقت سیدنا یوسف علیہ السلام نے اپنے والدین سے کہا کہ یہاں مصر میں اقامت فرمایئے اور پوری دلجمعی سے رہئے، انشاء اللہ قحط وغیرہ کا بھی کوئی خطرہ نہیں۔ یوسف
100 [٩٤] سیدنا یوسف علیہ السلام کے خواب کے واقع ہونے کا وقت :۔ دوسرے دن جب سیدنا یوسف علیہ السلام شاہی دربار میں پہنچے تو آپ علیہ السلام نے اپنے والدین کو تخت شاہی پر اپنے ساتھ بٹھا لیا اور یہ والدہ سیدنا یوسف علیہ السلام کی کوئی سوتیلی والدہ ہی ہوسکتی ہے۔ کیونکہ ان دونوں چھوٹے بھائیوں کی حقیقی والدہ راحیل، بن یمین کی پیدائش کے وقت ہی فوت ہوگئی تھی۔ جب والدین اور برادران یوسف نے سیدنا یوسف کی یہ شان و شوکت دیکھی تو والدین نیچے اترے اور وہ دونوں اور گیارہ بھائی سب کے سب سیدنا یوسف علیہ السلام کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے۔ اس سجدہ کے تعظیمی سجدہ ہونے میں تو کسی کو اختلاف نہیں، اختلاف اس بات میں ہے کہ آیا اس سجدہ کی صورت وہی تھی جس پر شرعاً لفظ سجدہ کا اطلاق ہوتا ہے۔ جیسے ہم نماز میں سجدہ کرتے ہیں یا سجدہ کے معنی صرف جھک جانا ہے۔ جیسے دوسرے کو سلام کرتے وقت بھی بعض دفعہ انسان جھک جاتا ہے۔ کیونکہ لغوی لحاظ سے لفظ سجد میں اس معنی کی بھی گنجائش ہے۔ اگر دوسرے معنی لیے جائیں تو پھر تو کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ محض تھوڑا سا جھک جانے پر بھلا کیا اعتراض ہوسکتا ہے البتہ جن مفسرین نے پہلے معنی مراد لئے ہیں وہ صراحت کردیتے ہیں کہ سجدہ تعظیمی ہماری شریعت میں فی الواقع حرام ہے۔ لیکن پہلی شریعتوں میں اس کی اجازت تھی۔ سجدا سے پہلے خروا کا لفظ ہمارے خیال میں دوسرے معنی کی ہی تائید کرتا ہے۔ [٩٥] سیدنا یوسف علیہ السلام کا اللہ کے احسانات کا شکر ادا کرنا :۔ یہ صورت حال دیکھ کر سیدنا یوسف علیہ السلام کو اپنے پر اللہ کے احسانات یاد آنا شروع ہوگئے۔ اور اپنے والد محترم سے مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ جو خواب میں نے بچپن میں دیکھا تھا۔ یہ اس کی حقیقی تعبیر سب کے سامنے آگئی ہے۔ (اس خواب اور اس کی حقیقت کا برادران یوسف کو اسی مجلس میں علم ہوا۔ اس سے پہلے یہ خواب نہ سیدنا یوسف علیہ السلام نے کسی کو بتایا تھا اور نہ سیدنا یعقوب علیہ السلام نے) یہ بھی اللہ کا مجھ پر بڑا فضل و احسان ہے اور اس وقت بھی اللہ نے بڑا احسان کیا تھا۔ جب مجھے قید سے نکالا تھا اور مجھے باعزت طور پر عورتوں کے مکر و فریب سے بری کیا تھا۔ پھر اب یہ احسان کیا ہے کہ آپ سب لوگوں کو دیہات سے نکال کر یہاں میرے پاس لے آیا ہے۔ یہاں ہر طرح کی نعمتیں اللہ تعالیٰ نے بافراغت میسر کی ہیں اور ہم سب کو یہاں اکٹھا کردیا ہے کہ پیارو محبت سے گزر بسر کریں۔ ورنہ شیطان نے تو ہم بھائیوں کے درمیان فتنہ کھڑا کر ہی دیا تھا۔ (اس وقت بھی سیدنا یوسف علیہ السلام نے بھائیوں سے نہ کوئی شکایت کی اور نہ ان پر کوئی الزام رکھا تاکہ وہ مزید شرمسار نہ ہوں) پھر اسی فتنہ سے بمصداق : عدو شرے برانگیزد کہ خیر مادراں باشد۔ اللہ تعالیٰ نے غیر محسوس انداز میں میرے لئے ہر طرح کی بھلائی کی راہیں پیدا کردیں۔ کسی کو کیا معلوم ہوسکتا ہے کہ مجھے کنویں میں ڈالنے پھر قید خانہ میں ڈالنے میں اللہ کی کیا کیا حکمتیں پنہاں تھیں؟ یوسف
101 [٩٦] سیدنا یوسف علیہ السلام کی اپنے حق میں دعا :۔ باپ اور بھائیوں سے خطاب کے بعد سیدنا یوسف علیہ السلام اسی ہستی کی طرف متوجہ ہوئے جس نے آپ پر یہ سب احسانات فرمائے تھے۔ پہلے ان احسانات کا اعتراف کیا جن کی بنا پر آپ کو ہر طرح کی دنیوی اور دینی بھلائیاں میسر آئی تھیں پھر اس کی حمد و ثنا اور اپنے لیے دعا میں مشغول ہوگئے اور حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی اللہ کا بندہ جس قدر اللہ کا احسان شناس ہوتا ہے۔ اتنا ہی زیادہ وہ اللہ کی حمد و ثنا میں مشغول ہوجاتا ہے۔ اس کا دل اللہ کی عظمت اور اس کی مہربانیوں پر شکریہ ادا کرنے کے لیے جھک جاتا ہے۔ اپنے پروردگار سے اس کی محبت اور ایمان میں مزید اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ حمد و ثنا کے بعد دوبارہ آپ نے اعتراف فرمایا کہ تو ہی میرا کارساز، حامی، سرپرست اور نگہبان ہے۔ لہٰذا مجھے اپنی فرمانبرداری پر قائم رکھنا۔ مجھے موت آئے تو تیری فرمانبرداری کی حالت میں آئے اور مرنے کے بعد مجھے نیک لوگوں یعنی میرے آباؤ و اجداد سیدنا ابراہیم علیہ السلام ، سیدنا اسماعیل علیہ السلام، سیدنا اسحاق علیہ السلام اور سیدنا یعقوب علیہ السلام کے ساتھ ملا دینا، نیز اس سے تمام نیک لوگ بھی مراد لیے جاسکتے ہیں، جیسا کہ الفاظ کے عموم سے واضح ہوتا ہے۔ جب تک سیدنا یعقوب علیہ السلام زندہ رہے۔ سیدنا یوسف علیہ السلام حکومت کرتے رہے۔ لیکن جب والد فوت ہوگئے تو آپ اپنی مرضی سے اقتدار سے دست بردار ہوگئے سیدنا یعقوب علیہ السلام نے اپنی وفات کے وقت اپنے بیٹوں کو جو وصیتیں کی تھیں ان کا ذکر سورۃ بقرہ میں گزر چکا ہے۔ منجملہ ایک یہ بھی تھی کہ میری میت کو شام لے جاکر وہاں آباؤ اجداد کے ساتھ دفن کرنا۔ چنانچہ سیدنا یوسف علیہ السلام خود انھیں دفن کرنے کے لیے شام آئے اور دفن کے بعد واپس چلے گئے۔ ایک دفعہ آپ علیہ السلام (سیدنا یوسف علیہ السلام) نے فرمایا کہ ایک زمانہ آئے گا جب بنی اسرائیل مصر سے نکل جائیں گے، اس وقت وہ میری میت کو ساتھ لے جائیں چنانچہ تقریباً پانچ سو سال بعد جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے روانہ ہوئے تو سیدنا یوسف علیہ السلام کا تابوت بھی ساتھ لے گئے۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کا زلیخا سے نکاح کا افسانہ :۔ بعض مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ زلیخا بعد میں مسلمان ہوگئی تھی اور سیدنا یوسف علیہ السلام نے ان سے نکاح کرلیا تھا۔ لیکن جس قدر تکلف اور تصنع سے اسرائیلی روایات سے کھینچ تان کر یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسی سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس میں حقیقت کا حصہ کس قدر ہوسکتا ہے۔ قرآن و احادیث اس بارے میں مطلق خاموش ہیں۔ ویسے بھی کسی پیغمبر کے شایان شان نہیں ہوتا کہ وہ زلیخا جیسی حیا باختہ اور مکرو فریب کرنے والی عورت سے نکاح کرے۔ یوسف
102 [٩٧] کفار مکہ کے سوال کا جواب دینا آپ کی نبوت کی دلیل ہے :۔ اگرچہ تورات اور دوسری اسرائیلی روایات میں کئی جگہ اختلاف پایا جاتا ہے۔ مثلاً قرآن میں انبیاء کو ایک پاکیزہ صورت انسان کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ جبکہ اسرائیلی روایات انھیں کئی مقامات پر مورد الزام ٹھہراتی ہیں۔ دوسرے قرآن میں قصہ کے بیان سے زیادہ مواعظ حسنہ اور تذکیربآیات اللہ پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ جبکہ اسرائیلی روایات اس سے خالی ہیں۔ تاہم قصہ کی اصولی باتیں بہت حد تک ملتی جلتی ہیں اور یہ بھی یقینی بات ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت موجود نہیں تھے اور یہ بھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ اسرائیلیات کو پڑھا ہے اور نہ علمائے یہود سے استفادہ کیا ہے۔ پھر آپ کا اس طرح یہ واقعہ بیان کردینا بجز وحی الٰہی کے ممکن نہیں۔ لہٰذا یہ آپ کی نبوت پر واضح دلیل ہے۔ یوسف
103 [٩٨] کفار مکہ نے سوال یہ کیا تھا کہ بنی اسرائیل تو شام کے ملک میں آباد تھے وہ مصر میں کیسے جا پہنچے، اس سوال کا مفصل جواب اس قصہ میں آگیا ہے۔ اب چاہیے تو یہ تھا کہ وہ ایمان لے آتے مگر انہوں نے سوال اس لیے نہیں کیا تھا کہ اگر درست جواب مل جائے تو فوراً ایمان لے آئیں گے بلکہ وہ سوال اس لیے کرتے ہیں کہ کوئی ایسی بات ہاتھ لگ جائے جو ان کے عدم اعتماد اور بے ایمانی پر مزید اضافہ کا سبب بن سکے اور اس سے وہ دوسروں کو بھی گمراہ کرسکیں۔ لہٰذا محض آپ کی خواہش کی وجہ سے یہ لوگ کبھی ایمان لانے والے نہیں۔ یوسف
104 [٩٩] کفار کی ہٹ دھرمی :۔ یعنی اگر یہ لوگ نہیں مانتے تو نہ مانیں۔ یہ قرآن صرف ان کے لیے نہیں بلکہ تمام اہل عالم کے لیے نصیحت ہے۔ انھیں نہیں تو کوئی دوسروں کو اس سے ایمان نصیب ہوجائے گا پھر اگر یہ نہیں مانتے تو آپ کا اس میں کچھ نقصان بھی نہیں۔ آپ ان سے کچھ معاوضہ تھوڑے مانگ رہے تھے جو یہ بند کردیں گے۔ یوسف
105 [١٠٠] یعنی اگر قرآن کی آیات میں غور نہیں کرتے تو کائنات کی نشانیوں میں غور کرلیں تب بھی انھیں اللہ کی معرفت حاصل ہوسکتی ہے کائنات میں بکھری ہوئی لاتعداد نشانیاں ان کے سامنے موجود ہیں مگر یہ ادھر توجہ ہی نہیں کرتے جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ لوگ اللہ کی معرفت یا ہدایت کے طالب ہی نہیں۔ یوسف
106 [١٠١] مذہبی طبقہ کی اکثریت بھی ہمیشہ مشرک ہی ہوتی ہے :۔ اگرچہ اس دنیا میں ایک طبقہ ایسا بھی موجود رہا ہے جو اللہ تعالیٰ کے وجود کا بھی منکر ہے اور وہ اس کائنات کے وجود اور اس کے نظام کو محض اتفاقات کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔ تاہم اکثریت اسی بات کی قائل رہی ہے کہ اس کائنات کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہے اور وہی اس کا انتظام چلا رہا ہے۔ پھر اس مذہبی طبقہ میں بھی ایک قلیل طبقہ ایسا ہے جو اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور اس کی صفات میں کسی دوسرے کو شریک نہیں بناتے اور یہی طبقہ فی الحقیقت راہ مستقیم پر ہے۔ اس مذہبی طبقہ میں بھی اکثریت ایسے ہی لوگوں کی رہی ہے جو اللہ کے خالق و مالک ہونے کا اقرار بھی کرتے جاتے ہیں۔ مشرکین مکہ کا تلبیہ :۔ پھر اس کے ساتھ دوسروں کو شریک بھی بناتے جاتے ہیں اور یہ بات صرف مشرکین مکہ سے مختص نہیں بلکہ ان سے پہلے بھی یہی کچھ ہوتا رہا اور ان کے بعد آج تک بھی یہی صورت حال ہے۔ مشرکین مکہ کے اصل عقیدہ کی وضاحت اس تلبیہ سے صاف واضح ہوتی ہے جو وہ حج و عمرہ کے احرام باندھتے وقت یوں پکارتے تھے : ( لیبک لا شریک لک الا شریکا ھولک تملکہ وماملک) (مسلم، کتاب الحج، باب التلبیۃ) یعنی اے اللہ! میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں سوائے اس کے جسے تو نے اختیار دے رکھا ہے وہ خود کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ یہی عقیدہ شرک کی سب سے بڑی بنیاد ہے اور یہ آج بھی ویسے ہی پایا جاتا ہے۔ جیسا کہ مشرکین مکہ میں یا ان سے بھی پہلے پایا جاتا تھا۔ آج بھی لوگ اولیاء اللہ کے تصرفات کے بڑی شدت سے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تصرفات اور اختیارات انھیں اللہ ہی نے عطا کئے ہوئے ہیں جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ یہ بات تم کسی الہامی کتاب سے دکھلا سکتے ہو کہ اللہ نے فلاں فلاں قسم کے اختیارات فلاں فلاں لوگوں کو تفویض کر رکھے ہیں؟ یوسف
107 یوسف
108 [١٠٢] نبی کی دعوت علی وجہ البصیرت :۔ یعنی میں جس راہ پر گامزن ہوں اور اس کی طرف دوسروں کو بلاتا ہوں تو سوچ سمجھ کر اور علی وجہ البصیرت چل رہا ہوں اور میرے پیرو کار بھی ایسے ہی ہیں۔ میں دلائل سے اور تجربہ سے ثابت کرسکتا ہوں کہ اللہ کے سوا دوسرے معبودان باطل نہ کسی کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ سنوار سکتے ہیں نیز اس بات پر بھی میرا ضمیر پوری طرح مطمئن ہے کہ جو ہستی ہماری خالق و مالک اور رازق ہے۔ و ہی خالصتاً ہماری عبادت کی مستحق ہوسکتی ہے اگر اس کی عبادت میں کسی دوسرے کو شریک کیا جائے تو یہ انتہائی ناانصافی کی بات ہے۔ لہٰذا نہ میں مشرکوں کے کام کرنے کو تیار ہوں اور نہ میرے پیروکار۔ یوسف
109 [١٠٣] رسول کا اسی قوم سے اور بشر ہونا کیوں ضروری ہے؟یہ دراصل ہر دور کے منکرین رسالت اور اسی طرح کفار مکہ کے ایک اعتراض کا جواب ہے کہ ہم اپنے ہی جیسے ایک آدمی کی نبوت اور رسالت پر ایمان کیسے لائیں جسے ہماری طرح تمام بشری احتیاجات اور کمزرویاں لاحق ہیں۔ یہ اعتراض ذکر کیے بغیر اس آیت میں اس کا جواب دیا جارہا ہے۔ یعنی تمام انبیاء نے اپنی قوم کے سامنے اپنا بچپن اور جوانی گزاری، تاکہ ان کی نبوت سے پہلے کی زندگی ان کی دعوت پر گواہی کی حیثیت سے پیش کی جاسکے اور ان کی قوم ان کی دعوت کو اچھی طرح سمجھ سکے اور اگر ہم باہر سے کوئی اجنبی آدمی نبی بنا کر بھیج دیتے تو کیا وہ ان کی دعوت کو سمجھ سکتے تھے، پھر اگر وہ سمجھ ہی نہ پاتے تو کیا ایمان لاسکتے تھے؟ پھر جب اس صورت کے علاوہ کوئی دوسری صورت ممکن ہی نہیں تو ان کے لیے ایسے اعتراض کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے اور اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جن لوگوں نے ایسے ہی اعتراض کرکے انبیاء کی دعوت تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا کم از کم ان کا انجام ہی دیکھ لیتے۔ پھر اس سے یہ نتیجہ بھی نکالا جاسکتا تھا کہ جب دنیا میں ان منکریں حق کا یہ حشر ہوا ہے تو آخرت میں تو اس سے بھی بدتر ہوگا نیز یہ کہ جن لوگوں نے دنیا میں اپنی اصلاح کرلی اور اللہ سے ڈرتے رہے وہ صرف دنیا میں ہی اچھے نہ رہے بلکہ آخرت میں ان کا انجام اس سے بھی بہتر ہوگا۔ کوئی عورت نبیہ نہیں ہوئی :۔ اس آیت میں ضمناً دو باتیں مزید معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ کوئی عورت کسی دور میں نبی نہیں بنائی گئی۔ دوسرے یہ کہ کوئی نبی کسی بدوی یا جنگلی علاقہ میں مبعوث نہیں کیا گیا۔ وہ بڑی بستیوں یا شہروں میں ہی پیدا ہوئے اور وہی ان کا مرکز تبلیغ رہا۔ یوسف
110 [١٠٤] اللہ کی مدد میں تاخیر سے مومنوں پر اثر :۔ اس آخری جملہ کی تشریح کے لیے درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے : سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس کا مطلب پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبروں کو جن لوگوں نے مانا اور ان کی تصدیق کی۔ جب ایک مدت دراز تک ان پر آفت اور مصیبت آتی رہی اور اللہ کی مدد آنے میں دیر ہوگئی اور پیغمبر جھٹلانے والوں کے ایمان لانے سے ناامید ہوگئے اور یہ گمان کرنے لگے کہ جو لوگ ایمان لاچکے ہیں اب وہ بھی ہمیں جھوٹا سمجھنے لگیں گے۔ اس وقت اللہ کی مدد آن پہنچی۔ (بخاری، کتاب التفسیر) اس آیت سے اللہ کے قانون امہال (مہلت دینے کے قانون) پر روشنی پڑتی ہے۔ یعنی بسا اوقات ایسا ہوا ہے کہ رسولوں نے یہ سمجھ لیا کہ اب جن لوگوں نے ایمان لانا تھا وہ لاچکے۔ پھر بھی ان پر عذاب الٰہی نہ آیا جس کا رسولوں کی زبان سے انھیں وعدہ دیا گیا تھا۔ اب جو لوگ ایمان لاکر منکرین حق کے ظلم و ستم برداشت کر رہے تھے اور ان سے جو وعدہ فتح و نصرت کیا جارہا تھا۔ ایک تو وہ پورا نہیں ہو رہا تھا۔ دوسرے منکرین حق کو یہ یقین ہوگیا کہ نبیوں کے یہ عذاب کے وعدے سب ڈھکوسلے ہیں۔ لہٰذا ایمان لانے والے بھی یہ سمجھنے لگے کہ ان پیغمبروں نے ہمارے ساتھ کہیں جھوٹ ہی نہ بولا ہو۔ یا ایسے وعدے جھوٹے ہی نہ ثابت ہوں۔ ایسے مایوس کن حالات میں بعض دفعہ پیغمبروں کے پائے ثبات میں بھی لغزش آنے لگی ہو۔ جیسا کہ سورۃ بقرہ میں ہے۔ ﴿وَزُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ ﴾ (۲:۲۱۴) اس وقت اللہ کا عذاب آگیا اور جب عذاب کا وقت آجاتا ہے تو پھر وہ موخر نہیں ہوسکتا اور اس عذاب سے اللہ ایمان والوں کو بچانے کی کوئی راہ دکھلا ہی دیتا ہے۔ یوسف
111 [١٠٥] قرآن کی تین صفات :۔ قرآن کا موضوع، نوع انسان کی ہدایت ہے۔ لہٰذا جو بات بھی انسان کی ہدایت سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کی تفصیل اس کتاب میں آگئی ہے۔ تفصیل کُلِّ شَئْیٍ کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ اس میں سے علم طب یا حساب یا جغرافیہ وغیرہ کی تفصیلات تلاش کرنے لگیں۔ نیز یہ کتاب صرف ان لوگوں کو ہدایت کا کام دیتی ہے جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ پھر ان لوگوں کے لیے رحمت بھی ہے۔ بھلا جس شخص کو بلا کسی معاوضہ اور تکلیف کے زندگی کے ہر پہلو میں بہترین رہنمائی مل جائے اس کے لیے اس سے زیادہ نعمت اور رحمت کیا ہوسکتی ہے؟ اور اس میں جو اقوام سابقہ کے اور انبیاء و رسل کے قصے بیان ہوئے ہیں وہ اپنے اندر اہل عقل و خرد کے لیے عبرتوں کے بے شمار پہلو سمیٹے ہوئے ہیں اور یہی چیز اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کسی انسان کی تصنیف کردہ کتاب نہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ جو قرون اولیٰ کے صحیح صحیح واقعات بیان کرنے کے ساتھ ان تاریخی واقعات اور قصوں میں بھی ہدایت اور عبرت کے لیے بے شمار اسباق سمو دیتا ہے۔ یوسف
0 الرعد
1 [١] یہ عین حق وہی باتیں ہیں جو تمام انبیاء کی شریعتوں میں اصول دین رہی ہیں۔ مثلاً یہ کہ اللہ تعالیٰ کی اس کائنات کی فرمانروائی میں کوئی دوسرا اس کا شریک نہیں اور یہ کہ قیامت آکے رہے گی۔ یہ نظام درہم برہم ہوگا۔ دوسرا عالم بنایا جائے گا۔ جس میں تمام اچھے اور برے انسانوں کو ان کے اعمال کا بدلہ ضرور ملے گا اور یہ اللہ کی نازل کردہ آیات ہیں اور آپ کی نبوت برحق ہے اور یہی وہ باتیں ہیں جن پر مشرکین مکہ ایمان نہیں لا رہے تھے۔ اس تمہید کے بعد اب آگے اللہ تعالیٰ کے وحدہ لاشریک ہونے سے متعلق دلائل پیش کیے جارہے ہیں۔ الرعد
2 [٢] آسما نوں کے ستون یا کشش ثقل ؟۔ یعنی اس بات کا امکان ہے کہ آسمان ستونوں یا سہاروں پر قائم ہوں لیکن وہ ستون یا سہارے غیر مرئی ہوں، انھیں ہم دیکھ نہیں سکتے۔ چنانچہ تفسیر ابن کثیر میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما، مجاہد، حسن بصری، قتادہ اور بعض دوسروں سے ایسی ہی روایت کی گئی ہے۔ ان غیر مرئی سہاروں کو ہم آج کل کی زبان میں کشش ثقل کہہ سکتے ہیں۔ [٣] اِسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ کی تفسیر کے لیے دیکھئے (٧: ٥٤ کا حاشیہ نمبر ٥٤) [٤] سیا روں کی گر دش تا قیامت۔ یہ مقررہ مدت قیامت ہے۔ جب یہ سارا نظام کائنات درہم برہم کردیا جائے گا۔ اس آیت میں پہلے سورج اور چاند کا ذکر فرمایا۔ آگے فرمایا :﴿کُلٌ یَّجْرِیْ لاِجَلٍ مُّسَمًّی﴾حالانکہ کل کا لفظ دو کے لیے نہیں آتا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ سورج اور چاند کی طرح کے سب سیارے اپنی اپنی ڈگر پر چل رہے ہیں اور یہ قیامت تک چلتے ہی رہیں گے۔ ضمناً اس سے دو باتیں اور معلوم ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ جو لوگ سورج کو ساکن سمجھتے ہیں یا سمجھتے رہے وہ غلطی پر ہیں۔ لفظ جریان کا اطلاق گردش محوری پر نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا بھی ضروری ہے۔ اور دوسرے یہ کہ ہماری زمین بھی چونکہ ایک سیارہ ہے۔ اس لیے اس کی گردش بھی ثابت ہوتی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب [٥] کا ئنات کے نظام سے وجود باری تعالیٰ کی دلیل۔ یعنی سیاروں کی گردش کے جو قاعدے اور قوانین مقرر کر رکھے ہیں۔ وہ ان کے پابند ہیں۔ ذرہ بھر ادھر ادھر نہیں ہوسکتے۔ پھر وہ ہر وقت اپنے اس نظام کی نگرانی بھی کر رہا ہے۔ کیونکہ جو چیز ہر وقت حرکت میں رہے وہ خراب بھی ہوسکتی ہے۔ گھس بھی جاتی ہے۔ اس کی حرکت میں کمی بھی واقع ہوسکتی ہے۔ حتیٰ کہ کسی وقت وہ تباہ بھی ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسی تمام باتوں کی تدبیر بھی کر رہا ہے ان سیاروں کو صرف ان کی قوت جاذبہ اور دافعہ کے سپرد ہی نہیں کر رکھا بلکہ ان کی پوری پوری نگہداشت اور ان کی تدبیر یا واقع ہونے والی خامیوں کا علاج بھی کر رہا ہے۔ [٦] کا ئنات کے وجود سے معاد پر دلیل۔ اس جملہ میں موجودہ نظام کائنات کو یوم آخرت پر دلیل کے طور پر پیش کیا جارہا ہے یعنی جو قادر مطلق ایسا عظیم کارخانہ کائنات وجود میں لاسکتا ہے اور اس پر کنٹرول رکھ سکتا ہے اس کے لیے انسان کو دوبارہ پیدا کرنا چنداں مشکل نہیں اور اس دلیل کی دوسری صورت یہ ہے کہ جو ہستی اس نظام کائنات کو ایسے تناسب، عدل اور حکمت کے ساتھ چلا رہی ہے۔ کیا وہ انسان کو ایسا ہی بے لگام چھوڑ سکتی ہے کہ وہ اس دنیا میں جو کچھ کرنا چاہے کرتا پھرے اور اس سے کچھ مؤاخذہ نہ کیا جائے۔ لہٰذا اللہ کے عدل اور حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ جن لوگوں نے اپنی ساری زندگی ظلم و ستم ڈھانے میں گزاری ہے۔ ان کو ان کی بدکرداریوں کی ضرور سزا دی جائے۔ اسی طرح جن لوگوں نے اپنے آپ کو ساری زندگی میں اللہ تعالیٰ کی حدود و قیود میں جکڑے رکھا۔ انھیں اس کا بدلہ بھی ضرور دیا جائے اور اس دنیا میں چونکہ انسان کی عمر بہت تھوڑی ہے۔ لہٰذا از روئے عدل و حکمت دوسری زندگی کا قیام ضروری ہوا۔ الرعد
3 [٧] اس سے پہلی آیت میں نظام کائنات سے معاد پر دلیل لائی گئی تھی۔ اب ارضی آیات سے توحید اور معاد پر دلائل دیئے جارہے ہیں۔ یعنی اللہ نے زمین کو پھیلایا اور اس کے بعض مخصوص مقامات پر پہاڑ پیدا کردیے۔ پھر ان پہاڑوں سے دریا اور نہریں جاری کیں۔ پھر اس پانی سے ہر طرح کی نباتات پیدا فرمائی۔ اور ہر طرح کے پھلوں میں نر اور مادہ پیدا کردیے۔ پھر ان پھلوں اور نباتات کے بارآور ہونے کے لیے دھوپ کی بھی ضرورت تھی اور ٹھنڈک کی بھی۔ لہٰذا اللہ نے دن اور رات پیدا کردیے۔ ان تمام باتوں میں ایک خاص قسم کا نظم، اعتدال اور حکمت پائی جاتی ہے جس سے یہ واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام چیزوں کا خالق اور مدبر ایک ہی ہستی ہوسکتی ہے۔ اگر بارش اور پانی کا دیوتا کوئی اور ہوتا، پہاڑوں کا، پھلوں اور نباتات کا کوئی دوسرا تو ان تمام اشیاء میں ایسی مناسبت اور ہم آہنگی ناممکن تھی۔ الرعد
4 [٨] نباتات میں بے شمار مماثلتوں کے با وجود اختلا ف۔ اللہ تعالیٰ کی حیران کن قدرتوں میں سے ایک یہ ہے کہ کھیت ایک ہی جگہ واقع ہوتے ہیں۔ ان میں بیج ایک جیساڈالا جاتا ہے۔ پانی اس پر ایک ہی برستا ہے یا ایک ہی طرح کے پانی سے آبپاشی کی جاتی ہے۔ مگر ایک کھیت میں فصل اعلیٰ درجہ کی پیدا ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ہی ملے ہوئے کھیت میں فصل بھی کم ہوتی ہے اور ناقص بھی۔ اسی طرح مثلاً کھجور کے دو درخت ہیں مگر ان کی جڑ ایک ہی ہے، اوپر سے دو ہوگئے۔ اب ایک ہی جڑ زمین سے پانی کھینچ کر دونوں درختوں کو تر و تازہ رکھ رہی ہے اور انھیں بارآور ہونے میں تقویت پہنچا رہی ہے۔ مگر ایک درخت کے پھل کا ذائقہ الگ ہے اور دوسرے کا الگ۔ ایک کا پھل عمدہ ہوتا ہے اور دوسرے کا ناقص، کیا انہوں نے کبھی سوچا کہ کیوں ایسا ہوتا ہے اور کونسی ایسی ہستی ہے جو اتنی مماثلتوں کے باوجود پھر ان کے پھلوں میں اختلاف واقع کردیتی ہے؟ یا ایک ہی قطعہ زمین سے دو درخت ہیں، ایک کھجور کا ہے۔ دوسرا نیم کا ہے۔ دونوں کی جڑیں ایک ہی قطعہ زمین میں پانی کھینچ رہی ہیں کھجور کے پھل میں مٹھاس بھری جارہی ہے اور نیم یا بکائن کے درخت میں کڑواہٹ۔ کہ اس ایک ہی قطعہ زمین میں اتنی مٹھاس اور اس کے ساتھ ساتھ اتنی کڑواہٹ موجود ہے کہ وہ بیک وقت دونوں درختوں کے پھلوں کو مٹھاس اور کڑواہٹ بہم پہنچا سکے؟ غرض اگر یہ لوگ ایسی باتوں میں غور و فکر کریں تو معرفت الٰہی کے بے شمار دلائل مل سکتے ہیں۔ الرعد
5 [٩] نبا تات میں معرفت الہٰی پر دلائل۔ یعنی اگر آپ کو اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ یہ لوگ اللہ کی ایسی ایسی نشانیاں دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے اور ہمیں اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی ایسی حیران کن نشانیاں دیکھتے بھی ہیں اور پھر یہ پوچھتے ہیں کہ جب ہم مر کر زمین میں مل جائیں گے تو کیا پھر دوبارہ اٹھائے جائیں گے؟ وہ یہ نہیں سوچتے کہ ایک بیج زمین میں مل کر مٹی بن جاتا ہے۔ مگر جب موسم آتا ہے تو وہی بیج اگ کر ایک تناور درخت بن جاتا ہے۔ پھر آخر تم کیوں دوبارہ پیدا نہیں کئے جاسکتے؟ [١٠] اللہ کی قدرتوں سے انکار اللہ ہی کا انکار ہوتا ہے۔ گویا دوبارہ پیدا ہونے سے انکار حقیقتاً اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا انکار ہے جسے اللہ ہی کے انکار کے مترادف بتلایا گیا ہے۔ ایک تو اس وجہ سے وہ دوزخ کے مستحق ہوئے دوسرے اللہ کے حضور جواب دہی کے۔ منکرین کی زندگی عموماً بے لگام اور شتر بے مہار کی طرح گزرتی ہے۔ ایسے لوگ دراصل محض اپنی خواہشات کے غلام ہوتے ہیں۔ اسی جرم کی پاداش میں ان کی گردنوں میں طوق ڈال کر انھیں اتنا ہی جکڑ کر بند کردیا جائے گا جتنا کہ وہ دنیا میں بے لگام تھے۔ الرعد
6 [١١] عذاب میں تا خیر کے اسباب۔ منکرین حق کا یہ مطالبہ سنجیدگی پر مبنی نہیں ہوتا بلکہ ایسے مذاق اور طنز پر مبنی ہوتا ہے، جس میں ان کا انکار پوشیدہ ہوتا ہے۔ یعنی اگر تم سچے ہو تو جیسا کہتے ہو وہ عذاب ہم پر کیوں نہیں لے آتے؟ یا وہ عذاب ہم پر اب تک آیا کیوں نہیں وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ ان سے پہلے کئی بار ایسا ہوچکا ہے کہ لوگوں نے عذاب طلب کیا اور جیسا عذاب طلب کیا ان پر ویسا عذاب آگیا اور اب جو ان کے مطالبے پر ابھی تک عذاب نہیں آیا اور تو اس کی کئی وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ اگر اللہ ان لوگوں کے ایسے مطالبات فوراً پورے کرنا شروع کردیتا تو یہ دنیا کب کی تباہ ہوچکی ہوتی۔ لہٰذا یہ اللہ کی رحمت ہے کہ ایسے مطالبے فوراً پورے نہیں کردیتا۔ دوسرے یہ کہ عذاب کا بھی ایک وقت مقرر ہوتا ہے۔ اس سے پہلے مہلت کا وقت ہوتا ہے۔ اس مدت میں اگر قوم اپنی حالت بہتر بنا لے تو اللہ عذاب نازل ہی نہیں کرتا اور یہ بھی اللہ کی بندوں پر رحمت ہے۔ پھر بھی اگر قوم نہ سنبھلے تو آخری چارہ کار یہ ہوتا ہے کہ ان کو سزا دے اور عذاب نازل کرے۔ پھر جب عذاب نازل کرتا ہے تو اس کی گرفت بڑی سخت ہوتی ہے۔ الرعد
7 [١٢] حسی مطا لبات کے پورا ہونے پر بھی کافر ایمان نہیں لا تے۔ یعنی انھیں کوئی ایسا حسی معجزہ درکار ہے جس سے ان کو یقین آئے کہ آپ فی الواقع اللہ کے نبی ہیں اور سچے ہیں۔ حالانکہ منکرین حق ایسے حسی معجزات دیکھ کر بھی ایمان نہیں لایا کرتے۔ کیا صالح علیہ السلام کے معجزہ اونٹنی کو دیکھ کر ان کی قوم ان پر ایمان لے آئی تھی۔ یا عصائے موسیٰ علیہ السلام اور یدبیضا دیکھ کر ان کی قوم ان پر ایمان لے آئی تھی یا سیدنا عیسیٰ علیہ السلام جو مردوں کو زندہ کرتے تھے تو یہود ان پر ایمان لے آئے تھے؟ ایسے معجزات دیکھ کر بھی معاندین ایمان نہیں لاتے بلکہ ان کی دوسری مادی توجیہات بیان کرنا شروع کردیتے ہیں۔ لہٰذا اگر مشرکین مکہ قرآن کے دلائل اور کائنات میں ہر طرف بکھری ہوئی اللہ کی نشانیوں سے سبق حاصل نہیں کرتے تو ان کے لیے حسی معجزات بھی بے کار ہیں۔ آپ یہ فکر چھوڑ دیں۔ آپ صرف انھیں سیدھی راہ دکھانے اور انجام سے ڈرانے والے ہیں اور ہر قوم میں ہم نے جو رہنما بھیجا، اس کا اتنا ہی کام ہوتا تھا۔ منکرین کے ایسے مطالبات کو پورا کرنا نہیں ہوتا تھا۔ الرعد
8 [١٣] اللہ کے علم کی وسعت :۔ یعنی ان لوگوں کی سرشت کو خوب جانتا ہے اور اس وقت سے جانتا ہے جب یہ اپنی ماؤں کے پیٹوں میں تھے۔ اس کے علم کی وسعت کا یہ حال ہے کہ وہ یہ جانتا ہے کہ ہر مادہ کے پیٹ میں نطفہ پر کیا کچھ تغیرات واقع ہوتے ہیں۔ اس سے شکل و صورت کیونکر بنتی ہے۔ نیز یہ کہ پیٹ میں ایک بچہ ہے یا زیادہ ہیں بچہ تندرست پیدا ہوگا یا وہ اندھا یا لنگڑا اور اپاہج پیدا ہوگا۔ لمبے قد کا ہوگا یا پست قد، ناقص العقل ہوگا یا ذہین و نیک بخت ہوگا یا بدبخت، ضدی اور سرکش ہوگا یا حق کو قبول کرنے والا ہوگا۔ اس کی استعداد کار کتنی ہوگی۔ کیونکہ ہر چیز کے لیے اس نے ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔ الرعد
9 [١٤] علم غیب اور شہادت کی صورتیں :۔ یعنی ماضی، حال اور مستقبل اللہ کی نگاہوں میں یکساں حیثیت رکھتے ہیں، وہ پیش آنے والے حالات کو بھی اسی طرح جانتا ہے جس طرح گزرے ہوئے واقعات اور موجودہ حالات کو جانتا ہے یا وہ ان قوانین فطرت کو بھی اسی طرح جانتا ہے جنہیں ابھی تک انسان دریافت نہیں کرسکا یا وہ اس کی دسترس سے باہر ہیں۔ جس طرح ان قوانین کو جانتا ہے جنہیں انسان دریافت کرچکا ہے یا کر رہا ہے۔ غرض غیب اور شہادت اتنے وسیع المفہوم الفاظ ہیں کہ ان میں بہت سے معانی کی گنجائش موجود ہے اور اس کے علم کی یہ لامحدود وسعت ہی اس کے سب سے بڑا اور عالی شان ہونے کی دلیل ہے۔ الرعد
10 [ ١٥] اس آیت میں زمانہ حال سے متعلق دو مثالیں پیش کی گئی ہیں اور ان مثالوں میں غیب اور شہادت دونوں آجاتے ہیں۔ مثلاً ایک آدمی اپنے دل میں کوئی بات کرتا یا سوچتا ہے یہ ہم لوگوں کے لیے غیب ہے اور دوسرا بلند آواز سے پکار کر بات کرتا ہے۔ یہ ہم لوگوں کے لیے شہادت ہے۔ مگر اللہ کے ہاں ان دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ وہ غیب کو بھی ویسے ہی جانتا ہے جیسے شہادت کو۔ اسی طرح ایک شخص رات کی تاریکیوں میں چھپ چھپا کر کوئی کام کرتا ہے۔ یہ ہمارے لیے غیب ہے اور دوسرا دن دہاڑے برسرعام کوئی کام کر رہا ہے یہ ہمارے لیے شہادت ہے۔ مگر اللہ کے ہاں ان دونوں میں کوئی فرق نہیں وہ غیب کو بھی اتنا ہی جانتا ہے جتنا شہادت کو۔ الرعد
11 [١٦] حفاظت کرنے والے فرشتے اور باطنی اسباب :۔ یعنی اس دنیا میں صرف ظاہری اسباب ہی کارفرما نہیں بلکہ بہت سے باطنی اسباب بھی ہیں جن کو انسان دیکھ نہیں سکتا اور اس بات کا تجربہ ہر انسان کو ہوتا رہتا ہے۔ بسا اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص کسی ایسے شدید حادثہ سے دوچار ہوتا ہے کہ بظاہر اس کا جانبر ہونا ناممکن نظر آتا ہے لیکن وہ اس حادثہ سے بالکل محفوظ رہتا ہے اور ایسے موقعوں پر بے اختیار ہماری زبانوں پر یہ الفاظ آجاتے ہیں۔ ’’جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے‘‘ انہی غیر مرئی اسباب کی اس آیت میں وضاحت کی گئی کہ یہ محض اتفاقات نہیں ہوتے بلکہ اللہ تعالیٰ کے مقررہ کردہ فرشتے ہوتے ہیں جو ایسے خوفناک موقعوں سے انسان کو محفوظ رکھتے ہیں اور اس مدت تک اس کی حفاظت کرتے رہتے ہیں جب تک اس کی موت کا وقت نہیں آجاتا اور جب موت کا وقت آجاتا ہے تو پھر انسان کی سب تدبیریں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ [١٧] اس جملہ کی تشریح کے لیے دیکھئے سورۃ انفال کی آیت نمبر ٥٣ کا حاشیہ۔ [١٨] قوموں کے عروج وزوال کا قانون :۔ قوموں کے عروج وزوال کے قانون میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب مجموعی حیثیت سے کوئی قوم اخلاقی انحطاط کی انتہائی پستیوں تک پہنچ کر معاصی کے ارتکاب میں مبتلا ہوجاتی ہے تو اسی وقت سے اس کا زوال شروع ہوجاتا ہے۔ اگرچہ دنیوی لحاظ سے تہذیب و تمدن کے بلند درجہ تک پہنچ چکی ہو۔ اس کے بعد اگر وہ اپنی اصلاح کرلے تو خیر ورنہ آہستہ آہستہ اس دنیا سے نیست و نابود کردی جاتی ہے۔ پھر اسے اس کے زوال اور انحطاط سے کوئی طاقت بچا نہیں سکتی اور نہ ہی اسے کچھ مدت کے لیے اس عذاب کو ٹال سکتی ہے۔ الرعد
12 [١٩] پانی سے لدے ہوئے بادلوں کے وزن کا اندازہ کچھ اس بارش سے اور کچھ اس رقبہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ جہاں یہ بادل برستا ہے۔ ہوا جو ایک ہلکے سے کاغذ کا بھی بوجھ برداشت نہیں کرتی اور وہ زمین پر گر پڑتا ہے۔ کروڑوں ٹن پانی والے بادلوں کے بوجھ کو اس طرح اپنے دوش پر اٹھائے پھرتی ہے۔ جس کا تصور کرنے سے ہی اللہ کی بے پناہ قدرت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ یہ پانی سے بھرے ہوئے بادل کبھی تہ بہ تہ بنتے جاتے ہیں۔ اس پانی میں کہربائی قوت موجود ہوتی ہے۔ کسی تہ میں مثبت بجلی ہوتی ہے، کسی میں منفی۔ جب یہ بادل ملتے ہیں تو بجلی کے جذب و انجذاب سے زبردست دھماکہ اور آتشیں شعلہ پیدا ہوتا ہے۔ اسی آتشیں شعلہ کو برق یا چمکنے والی بجلی کہتے ہیں اور اس دھماکہ کو رعد یا کڑک کہتے ہیں۔ برق تو فوراً اہل زمین کو نظر آجاتی ہے۔ لیکن رعد یا کڑک چند لمحے بعد سنائی دیتی ہے۔ کیونکہ آواز کی رفتار روشنی کی رفتار کی نسبت بہت کم ہوتی ہے۔ اکثر تو یہ بجلی انھیں بادلوں کے پانی میں جذب ہوجاتی ہے اور جب یہ زیادہ مقدار میں پیدا ہو یا کسی دوسری وجہ سے زمین پر گرتی ہے۔ ایسی گرنے والی بجلی کو صاعقہ (ج۔ صواعق) کہتے ہیں۔ لہٰذا انسان جب بجلی چمکتے دیکھتا ہے تو اسے امید تو یہ ہوتی ہے کہ باران رحمت برسے گی اور خوف یہ کہ مہیب کڑک کہیں اسے بہرانہ کردے۔ اسی لیے سخت کڑک میں انسان اپنی انگلیاں کانوں میں ٹھوس لیتا ہے اور یہ خطرہ بھی ہوتا ہے کہ کہیں بجلی گر کر تباہی کا باعث نہ بن جائے۔ یہ تو وہ توجیہ ہے جو ہمارے ماہرین طبیعیات اور سائنس دان پیش کرتے ہیں۔ لیکن اسلامی عقیدہ کی رو سے یہ رعد اور برق وغیرہ طبعی قوانین کا نتیجہ نہیں ہوتے۔ بلکہ کائنات کے انتظام پر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو مقرر کر رکھا ہے۔ وہی مدبرات امر ہیں۔ بادل اور بارش پر میکائیل فرشتہ مقرر ہے۔ وہی بادلوں کو ہانکتا اور چلاتا ہے اور اس طرف ہانکتا ہے۔ جدھر اللہ کا حکم ہو۔ پھر بارش اسی مقام پر برستی ہے۔ جہاں اللہ کی مرضی ہو۔ اسی فرشتہ کے کوڑا مارنے سے رعد اور برق پیدا ہوتی ہے اور گرنے والی بجلی بھی صرف وہاں گرتی ہے جہاں اس فرشتہ کو اللہ کا حکم ہوتا ہے اور اللہ کو اس کا تباہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔ چنانچہ : سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گرج کی آواز سنتے تو فرماتے : اللّٰھُمَّ لاَ تَقْتُلْنَا بِغَضَبِکَ وَلاَ تُھْلِکْنَا بِعَذَابِکَ وَعَا فِنَا قَبْلَ ذٰلِکَ (ترمذی، ابو اب الدعوات باب مایقول اذا سمع الرعد) بادلوں کے برسنے، ان کی روانی اور ان کے سمت اختیار کرنے پر اللہ تعالیٰ کا جس قدر کنٹرول ہے۔ اس کا اندازہ درج ذیل حدیث سے ہوتا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایک آدمی جنگل میں جارہا تھا۔ اس نے بادل سے ایک آواز سنی جیسے کوئی کہہ رہا ہے کہ جا کر فلاں شخص کے باغ کو سیراب کرو۔ وہ بادل ایک طرف چلا۔ پھر وہاں ایک پتھریلی زمین پر برسا۔ ایک نالی نے وہ سب پانی جمع کیا۔ وہ آدمی اس پانی کے پیچھے پیچھے چلا۔ آگے چل کر اس نے دیکھا کہ ایک آدمی اپنے باغ کو سیراب کرنے کے لیے بیلچہ سے اس کی نالی درست کر رہا ہے۔ نالی درست ہوئی تھی کہ بارش کا یہ پانی وہاں پہنچ گیا۔ پیچھے پیچھے چلنے والایہ شخص اللہ کی قدرت پر بہت متعجب ہوا اور باغ والے سے پوچھا اللہ کے بندے! تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے وہی نام بتلایا جو اس نے بادل سے سنا تھا۔ اب باغ والے نے اس شخص سے پوچھا : اللہ کے بندے! تم میرا نام کیوں پوچھتے ہو۔ وہ کہنے لگا : میں نے اس بادل سے جس کے پانی سے تو اپنا کھیت سیراب کر رہا ہے۔ یہ آواز سنی تھی کہ جاکر فلاں شخص کے باغ کو سیراب کرو۔ اس میں تمہارا ہی نام لیا گیا تھا۔ اب تم یہ بتلاؤ کہ تمہارا وہ کون سا عمل ہے جس کی وجہ سے اللہ تم پر اتنا مہربان ہے؟ باغ والا کہنے لگا : ’’اب جبکہ تم نے یہ بات سن ہی لی ہے تو میں تمہیں بتا دیتا ہوں۔ اس باغ سے جو پیداوار ہوتی ہے اس کا ایک تہائی حصہ صدقہ کردیتا ہوں اور ایک تہائی میں اور میرے اہل و عیال کھاتے ہیں اور ایک تہائی اسی باغ میں لوٹا دیتا ہوں‘‘ (یعنی اگلی فصل کے خرچ اخراجات پر صرف کرتا ہوں) (مسلم، کتاب الزہد، باب فضل الانفاق علی المساکین وابن السبیل) یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مشرکین بھی تو یہی کہتے ہیں کہ بادلوں یا بارش کا مالک فلاں فرشتہ یا دیوتا ہے اور موت کا فلاں اور فلاں کام کا فلاں تو پھر ان میں اور مسلمانوں کے عقائد میں فرق کیا ہوا ؟ تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مشرکوں کا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ فلاں فرشتہ یا فلاں دیوتا بادل یا بارش کا دیوتا ہے۔ جہاں چاہے بارش برسائے۔ اسی لحاظ سے اس کی عبادت کرکے اسے خوش رکھنے یا اس کے غضب سے بچنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ان فرشتوں یا دیوتاؤں کو تدبیر امور میں اللہ کا شریک بنایا جاتا ہے لیکن اسلامی عقیدہ کی رو سے فرشتے مالک و مختار نہیں بلکہ اللہ کے فرمانبردار غلام اور مامور ہیں۔ اسی لیے ان آیات میں اللہ نے واضح طور پر فرما دیا کہ کڑک بھی اور فرشتے بھی دونوں اللہ کی تسبیح و تقدیس کرتے ہیں اور یہ عین بندگی اور غلامی ہے۔ جیسے کہ کائنات کی ہر چیز اللہ کی تسبیح و تقدیس میں مشغول ہے۔ الرعد
13 [٢٠] یعنی کہیں تو اس کی ذات میں جھگڑا کرتے ہیں کہ آیا وہ موجود بھی ہے یا نہیں اور کبھی اس کی قدرتوں میں جھگڑا کرتے ہیں۔ جیسے کوئی یہ کہہ دے کہ یہ بادل، بارش، برق، رعد اور صاعقہ وغیرہ تو محض طبیعی اسباب کی بنا پر پیدا ہوتے ہیں۔ اس میں اللہ کی قدرت کہاں سے آگئی؟ یا اللہ کا کسی بندے پر کلام نازل کرنے اور اسے نبی بنانے کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں اور یہ ایسی باتیں ہیں کہ اگر اللہ چاہے تو ایسے لوگوں کو بجلی گرا کر ہلاک کردے۔ چنانچہ مفسرین نے بعض ایسی روایات نقل بھی کی ہیں۔ [٢٠۔ الف] محال : محل کے معنی کسی کے خلاف قوت اور سختی کے ساتھ بری تدبیر کرنا (مفردات القرآن، منجد) گویا محل کے معنی میں قوت اور حیلہ دونوں باتیں پائی جاتی ہیں اور محال بمعنی حیلہ و تدبیر سے کسی شخص پر شدید گرفت کرنے والا۔ اس لحاظ سے اس کا ایک معنی تو اوپر درج ہے۔ اس جملہ کا دوسرا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کی گرفت بڑی سخت ہے اور تیسرا یہ کہ وہ بڑی قوت والا ہے۔ الرعد
14 [٢١] من دون اللہ کو پکارنے کی مثال :۔ اس لیے کہ وہ پکار سنتا ہے پھر پکارنے والے کی پکار کو قبول کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہے۔ رہے مشرکین جو دوسرے معبودوں کو پکارتے ہیں تو ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی پیاسا پانی دیکھ کر ہاتھ پھیلائے ہوئے اسے پکارے کہ آؤ ذرا آکر میری پیاس بجھاؤ۔ ظاہر ہے کہ پانی نہ تو کسی کی پکار سن سکتا ہے نہ ہی پیاسے کے پاس آنے کی قدرت رکھتا ہے۔ لہٰذا پیاسے کی ایسی پکار ایک لغو اور بے کار فعل ہوتا ہے۔ اسی طرح معبودان باطل کو ہزار بار بھی پکارا جائے تو وہ کچھ سن ہی نہیں سکتے، اور اگر بالفرض سن بھی لیں تو ایسے بے بس اور مجبور محض ہیں کہ وہ دعا کو قبول کرنے کی قدرت ہی نہیں رکھتے۔ اب وہ خود ہی سوچ لیں کہ انھیں پکارنے کا کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ الرعد
15 [٢٢] کائنات کی چیزوں کا اللہ کو سجدہ کرنے کے مطلب :۔ یعنی کائنات کی ہر چیز ان طبعی قوانین کی پابند اور ان کے آگے بے بس اور مجبور ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے بنا دیئے ہیں۔ مثلاً پانی کے لیے یہ قانون ہے کہ وہ نشیب کی طرف بہے اور یہ ناممکن ہے کہ پانی اس قانون کے خلاف بلندی کی طرف بہنا شروع کردے۔ اسی طرح پانی کے لیے ناممکن ہے کہ وہ اپنی سطح ہموار نہ رکھے۔ بس یہی چیز اس کا اللہ کے حضور سجدہ ہے۔ اسی طرح کائنات کی ہر چیز اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہے۔ حتیٰ کہ ان قوانین کا انسان بھی پابند اور ان کے آگے مجبور اور بے بس ہے۔ مثلاً اگر وہ چاہے کہ کھانے پینے کے بغیر زندہ رہے تو وہ ایسا نہیں کرسکتا، یا اگر وہ چاہے کہ موت کو اپنے آپ سے روک دے تو وہ ایسا نہیں کرسکتا اس کا اختیار صرف ان باتوں میں ہے جن میں اسے قوت ارادہ و اختیار دیا گیا ہے اور انہی میں اس کا امتحان ہے۔ [٢٣] یعنی سایوں کے لیے جو قانون مقرر ہے وہ اس کے پابند ہیں اور وہ یہ ہے کہ روشنی ہمیشہ صراط مستقیم میں سفر کرتی ہے اور صبح و شام کا ذکر اس لیے فرمایا کہ ان اوقات میں سائے بہت زیادہ لمبے اور پھیلے ہوئے ہوتے ہیں اور سایوں کے گھٹنے بڑھنے میں تدریج اسی نسبت سے ہوتی ہے۔ جس نسبت سے سورج کسی جانب سفر کرتا ہے۔ الرعد
16 [٢٤] من دون اللہ کسی چیز کے خالق ومالک نہیں تو ان کا تصرف کہاں سے آگیا ؟:۔ مشرکین مکہ یہ بات تسلیم کرتے تھے کہ آسمانوں اور زمین کا نیز کائنات کی ہر چیز کا خالق اللہ ہی ہے۔ تخلیق کائنات میں ان کے معبودوں کا کوئی حصہ نہیں اور یہ بھی مسلمہ امر ہے کہ خالق اپنے مخلوق پر پورا پورا تصرف رکھتا ہے۔ اب ان سے سوال یہ ہے کہ جب تمہارے معبودوں نے کوئی چیز بنائی ہی نہیں تو وہ تصرف کائنات میں شریک کیسے بن گئے اور تمہیں یہ کہاں سے اشتباہ پیدا ہوگیا کہ وہ بھی تصرف کائنات میں شریک اور حصہ دار ہیں۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ کوئی چیز پیدا کرنا تو درکنار وہ تو خودمخلوق اور محتاج ہیں جو اپنے بھی نفع و نقصان کے مالک نہیں تو وہ تمہیں کیا فائدہ پہنچا سکیں گے یا تمہاری تکلیف کیا دور کرسکیں گے۔ اب ایک شخص ان دلائل کی روشنی میں چلتا ہے۔ اور صرف اللہ کی عبادت کرتا ہے۔ کیونکہ وہی خالق اور نفع و نقصان کا مالک ہے اور دوسرا دلائل کی طرف نظر ہی نہیں کرتا اور آباؤ اجداد کی اندھی تقلید پر ہی جم رہا ہے تو کیا ان دونوں کی حالت ایک جیسی ہوسکتی ہے؟ الرعد
17 [٢٥] معرکہ حق وباطل کی دو مثالیں اور بقائے انفع :۔ اس مثال میں علم وحی کو باران رحمت سے تشبیہ دی گئی ہے اور ایمان لانے والے سلیم الفطرت لوگوں کو ندی نالوں سے، جو اپنے اپنے ظرف کے مطابق اس باران رحمت سے بھرپور ہو کر رواں دواں ہوجاتے ہیں اور دعوت حق کے مقابلہ میں معاندین اور منکرین جو شورش برپا کرتے ہیں اسے اس جھاگ اور خس و خاشاک سے تشبیہ دی گئی ہے جو ایسے سیلاب میں پانی کی سطح کے اوپر آجاتا ہے۔ لیکن اس جھاگ اور خس و خاشاک کی حقیقت صرف اتنی ہی ہوتی ہے کہ کسی وقت بھی دریا اچھل کر اسے کناروں پر پھینک دیتا ہے۔ جہاں ہوا اور دھوپ اسے خشک کرکے ختم کردیتی ہے اور یہ سب کچھ مٹی میں مل جاتا ہے اور پانی جو انسانوں کو نفع دینے والی چیز ہے، وہی باقی رہتی ہے۔ خواہ اس کا کچھ حصہ زمین جذب کرلے یا اکثر حصہ زمین کو سیراب کرنے کے لیے آگے رواں کردے کہ وہ کسی دوسرے علاقہ کو سیراب کرے۔ حق و باطل کی دوسری مثال یہ ہے کہ جب دھاتوں کو، جن سے زیورات یا دوسری کارآمد اشیاء بنتی ہیں۔ کٹھالی میں تپایا جاتا ہے تو اس کا ناکارہ حصہ اور کھوٹ سب کچھ ایک دم اوپر آکر کام کی چیز کو چھپاتا ہی نہیں بلکہ اس پر پوری طرح چھا جاتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ با لآخر جل جاتا ہے اور اسے باہر پھینک دیا جاتا ہے اور مائع دھات جس کا زیور وغیرہ بنتا ہے وہ نیچے ہوتی ہے اسی طرح معرکہ حق و باطل میں ایک دفعہ باطل ضرور حق پر چھا جاتا ہے۔ لیکن بالآخر حق ہی باقی رہتا ہے کیونکہ وہی لوگوں کے فائدہ کی چیز ہوتی ہے۔ ان دونوں مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن کریم اور اس کی تعلیم جو لوگوں کو نفع پہنچانے والی چیز ہے، جاودانی اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ہر دور میں قرآن کے بڑے بڑے عالم پیدا ہوئے اور ہوتے رہیں گے۔ باطل ان کے مقابلہ پر اتر آتا ہے اور ابتداء ًحق پر چھا جاتا ہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ حق سے باطل پر یا وحی الٰہی کے عالموں سے معاندین اور منکرین حق پر ضربیں اور چوٹیں لگاتا ہے تو باطل جلد ہی خس و خاشاک اور جھاگ کی طرح ختم ہوجاتا ہے اور حق ہی باقی رہ جاتا ہے اور اس کے باقی رہنے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس میں لوگوں کو فائدہ پہنچانے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ ڈارون نے اپنے نظریہ ارتقاء میں بقائللاصلاح صلح...... کی اصطلاح (SURVIVAL OF THE FITTEST) استعمال کی تھی۔ یعنی جس چیز میں باقی رہنے کی صلاحیت موجود ہو وہی باقی رہتی ہے۔ قرآن نے اس کے مقابلہ میں بقاء للانفع کا ذکر فرمایا ہے جو عقل کو ڈارونی اصطلاح سے بہت زیادہ اپیل کرتا ہے۔ یعنی ڈارون کا نظریہ یہ ہے کہ کسی چیز میں باقی رہنے کی صلاحیت ہے یا نہیں۔ اگر صلاحیت نہیں تو وہ باقی نہ رہے گی۔ جب کہ قرآن یہ بتلاتا ہے کہ جس چیز میں لوگوں کے لیے فائدہ ہو صرف وہی باقی رہتی ہے۔ کھوٹ میں لوگوں کے لیے کچھ فائدہ نہ تھا۔ لہٰذا وہ جل گیا۔ سونے میں لوگوں کے لیے فائدہ تھا۔ لہٰذا وہ باقی رہ گیا۔ الرعد
18 [٢٦] دنیا کی زندگی میں ان کے لیے بھلائی یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبہ میں اللہ کی طرف سے ایسی ہدایات اور احکام مل جاتے ہیں جن میں اس شخص کے دینی یا دنیوی مصالح مضمر ہوتے ہیں۔ دوسری بھلائی یہ ہوتی ہے کہ اسے قلبی اطمینان اور حقیقی خوشی میسر آجاتی ہے اور آخرت میں جو اس سے بہتر سلوک ہوگا وہ تو ان چیزوں سے بھی زیادہ یقینی اور پائیدار ہوگا۔ [٢٧] آسان حساب کیسے لیا جائے گا اور سخت کیسے؟ جو لوگ اللہ سے ڈرتے رہتے ہیں۔ مختلف حیلوں سے ان کے چھوٹے چھوٹے گناہ دنیا میں ہی ختم ہوتے رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ مومن کو اگر ایک کانٹا بھی چبھ جائے تو وہ اس کے کسی نہ کسی گناہ کا کفارہ بن جاتا ہے۔ پھر ان کے نیک اعمال سے چھوٹے گناہ ختم کردیئے جاتے ہیں اور اس مضمون پر بے شمار آیات و آحادیث شاہد ہیں۔ پھر جب وہ آخرت میں اللہ کے حضور پیش ہوں گے تو اعمال نامے ان کے داہنے ہاتھ میں دئیے جائیں گے اور تمام اچھے اور برے اعمال سے آگاہ کیا جائے گا، لیکن ان سے کوئی سختی نہیں کی جائے گی اور نہ ہی ان کی کچھ چھان بین ہوگی۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”قیامت کے دن جس شخص سے حساب لیا گیا وہ تباہ ہوا“میں نے کہا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ ’’جس کو اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا، اس سے جلد ہی آسان سا حساب لیا جائے گا‘‘ (٨٤: ٨) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”یہ محض پیشی ہوگی۔ انھیں ان کے اعمال بتا دئیے جائیں گے اور جس کے حساب کی تحقیق شروع ہوگئی، سمجھ لو کہ وہ مارا گیا“(بخاری، کتاب التفسیر، نیز کتاب العلم، باب من سمع شیأا فلم یفھمہ) اور جن لوگوں نے حق کو ٹھکرا دیا۔ ان کا پوری سختی سے حساب لیا جائے گا اور برے حساب سے یہی مراد ہے۔ اس کے چھوٹے اور بڑے سب گناہ کی تحقیق اور باز پرس ہوگی۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک آقا کو اگر اپنے ملازم کے متعلق یہ اعتماد ہو کہ وہ اس کا وفادار اور دیانتدار ہے تو مالک اس کی چھوٹی موٹی لغزشوں اور غلطیوں کو نظر انداز کردیتا ہے۔ لیکن اگر آقا کو ملازم کی وفاداری کا ہی اعتماد نہ ہو تو وہ ہر چھوٹی چھوٹی بات پر اس سے مزید باز پرس کرے گا یہی حال منکرین حق کا ہوگا اور انھیں اپنی نجات کی کوئی صورت نظر نہ آئے گی۔ چنانچہ آپ نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سب سے کم عذاب پانے والے دوزخی سے پوچھیں گے : ”اگر تیرے پاس ساری دنیا کا مال موجود ہو تو کیا تو اسے اپنے فدیہ میں دینا پسند کرے گا ؟“وہ جواب دے گا ”ہاں“۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا”: جب تو انسانی شکل میں تھا، اس وقت تو میں نے تم سے اس سے آسان بات کا مطالبہ کیا تھا۔ (یعنی توحید پر قائم رہنا) اور کہا تھا کہ پھر میں تجھے جہنم میں داخل نہ کروں گا مگر تو شرک پر اڑا رہا‘‘ (مسلم، کتاب صفۃ القیامۃ، باب طلب الکافر الفدائملء الارض ذھبا۔۔) الرعد
19 [٢٨] یعنی ایک شخص اللہ کی نازل کردہ ہدایات کو حق سمجھ کر اپنی پوری زندگی اس کے مطابق ڈھال لیتا ہے، حرام و حلال کی تمیز کرتا ہے۔ ظلم و زیادتی سے بچتا اور اللہ سے ڈرتا رہتا ہے اور دوسرا شخص محض اپنے مفادات کے پیچھے پڑا رہا ہے اور اس غرض کے لیے وہ ہر طرح کے جائز و ناجائز حربے اختیار کرتا، لوگوں کے حقوق غصب کرتا اور ان پر ظلم و زیادتی کرتا رہتا ہے۔ کیا یہ دونوں ایک جیسے ہوسکتے ہیں؟ یا ان کا طرز عمل ایک جیسا ہوگا ؟ مگر یہ بات تو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو کچھ عقل و فکر سے کام لیتے ہیں اور خود اللہ کی بتائی ہوئی راہ پر گامزن ہیں الرعد
20 الرعد
21 [٢٩] اللہ کی ہدایت قبول کرنے والوں کی صفات :۔ اگلی چند آیات میں چند ایسی صفات کا ذکر ہے۔ جنہیں اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہدایات کو برحق تسلیم کرنے والے اپنی طرز زندگی میں اپناتے ہیں۔ پہلی صفت یہ ہے کہ وہ اللہ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کرتے ہیں۔ اس عہد سے مراد عہد الست ہے۔ جو ہر انسان کی فطرت میں ودیعت کردیا گیا ہے اور جب انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ اللہ کے عطا کردہ رزق پر ہی پرورش پا رہا ہے اور اسی کی عطا کردہ قوتوں کو استعمال کر رہا ہے تو اسے از خود یہ معلوم ہونے لگتا ہے کہ بندگی کے لائق بھی صرف وہی ہوسکتا ہے۔ اور اگر ایسے محسن کو چھوڑ کر دوسرے کی غلامی کی جائے تو یہ نمک حرامی ہوگی۔ ان کی دوسری صفت یہ ہوتی ہے کہ وہ دوسرے لوگوں سے کئے ہوئے عہد کو بھی نہیں توڑتے۔ اس میں خرید و فروخت، لین دین اور نکاح وغیرہ کے سب عہد شامل ہیں۔ تیسری صفت یہ ہے کہ وہ ان تمام روابط کا خیال رکھتے ہیں جن کی درستی پر انسان کی اجتماعی زندگی کی صلاح و فلاح کا انحصار ہے۔ خواہ یہ روابط معاشرت سے تعلق رکھتے ہوں یا تمدن سے اور اس مد میں والدین، قریبی رشتہ داروں، یتیموں مسکینوں اور ہمسایوں سب کے حقوق آجاتے ہیں۔ چوتھی صفت یہ ہے کہ وہ اپنے تمام معاملات میں خواہ یہ عبادات سے تعلق رکھتے ہوں یا معاملات سے یا مناکحات سے، ہر ایک معاملہ میں اللہ کی نافرمانی سے بچتے اور اس کی گرفت سے ڈرتے ہیں اور پانچویں صفت یہ ہے کہ انھیں ہر وقت آخرت کی باز پرس کی فکر لگی رہتی ہے وہ اپنے نیک اعمال پر تکیہ نہیں کرتے بلکہ اللہ سے دعا کرتے رہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حساب کے مرحلہ کو آسان فرمادے۔ الرعد
22 [٣٠] یعنی راہ حق میں پیش آنے والی مشکلات کو ثابت قدمی کے ساتھ برداشت کیا اور اللہ تعالیٰ کے احکام و حدود میں اللہ کی رضا کی خاطر اپنے نفس کی خواہشات پر کنٹرول کیا۔ اس لحاظ سے ایک مومن کی ساری زندگی ہی دراصل صبر کی زندگی ہوتی ہے۔ [٣١] یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے خواہ وہ امیر ہو یا غریب ہو۔ خوشحال ہو یا تنگ دست ہو۔ ہر ایک کو اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے۔ قرآن کی بعض دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ پوشیدہ طور پر صدقہ کرنا علانیہ صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔ غالباً اسی لیے پہلے پوشیدہ صدقہ کا ذکر کیا گیا۔ پھر صدقہ کی دو بڑی قسمیں ہیں۔ ایک فرضی یعنی زکوٰۃ دوسرے نفلی۔ علماء کہتے ہیں کہ فرضی صدقہ علانیہ کرنا بہتر ہے۔ تاکہ دوسروں کو بھی رغبت پیدا ہو اور نفلی صدقات پوشیدہ طور پر کرنے چاہئیں پھر رزق سے مراد صرف مال و دولت ہی نہیں اللہ کی ہر نعمت رزق ہے جو انسان کی جسمانی یا روحانی تربیت میں کارآمد ہو۔ اس لحاظ سے علم دین، پاکیزہ فنون اور صحت وغیرہ سب رزق میں شامل ہیں اور اللہ کی راہ میں ان میں سے بھی خرچ کرنا ضروری ہے یہ مضمون بہت طویل ہے اور قرآن میں جابجا مذکور ہے۔ اس لیے یہاں اسی پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ [٣٢] یَدْرَءُ وْنَ کا لغوی معنی دور ہٹانا اور پرے کرنا ہے۔ اس لحاظ سے اس جملہ کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ جب ان سے کوئی برا کام ہوجاتا ہے تو بعد میں اچھے کام کرکے تلافی مافات کردیتے ہیں۔ کیونکہ نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب ان سے کوئی برائی کرے تو اس کا جواب برائی سے نہیں بلکہ بھلائی سے دیتے ہیں اور عفو و درگزر سے کام لیتے ہیں اور اس بارے میں بھی بہت سی احادیث وارد ہیں۔ مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بھلائی کا بدلہ بھلائی سے دے بلکہ وہ ہے کہ اگر دوسرا اسے برے سلوک سے قطع کرنے کی کوشش کرے تو وہ اچھا سلوک کرکے اسے جوڑے رکھنے کی کوشش کرے۔ (بخاری، کتاب الادب، باب لیس الواصل بالمکافئی ) اور یہ بات صرف رشتہ داروں سے مختص نہیں بلکہ ہر شخص کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرنا چاہیے۔ الرعد
23 [٣٣] اس مقام پر مومنوں کی مندرجہ بالا نو صفات بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ ایسے ہی لوگ جنت کے مستحق ہیں۔ پھر ایسے لوگوں کے آباء ان کی بیویاں اور ان کی اولاد میں سے جو لوگ نیک ہونگے۔ اگرچہ ان کے اعمال اس درجہ پر نہ پہنچے ہوں پھر بھی اللہ تعالیٰ انھیں ان کے ساتھ ملا کر جنت میں اکٹھا کردے گا اور فرشتے جس دروازے سے بھی ان پر داخل ہوں گے انھیں سلامتی کی دعائیں دیا کریں گے۔ الرعد
24 الرعد
25 [٣٤] سنت الٰہی کے مطابق یہاں بھی اہل جنت کے ساتھ اہل دوزخ کا ذکر آیا ہے اور ان کی صفات ایسی بیان کی گئی ہیں جو مومنوں کی صفات کے بالکل برعکس ہیں۔ لہٰذا ان کا انجام بھی اہل جنت کے انجام کے عین ضد ہوگا۔ جنت کے بجائے انھیں دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ اور سلامتی کی دعاؤں کے بجائے ان پر لعنت اور پھٹکار پڑتی رہے گی۔ الرعد
26 [٣٥] مال ودولت کی فراوانی اللہ کی نظر رحمت کی دلیل نہیں :۔ دنیا دار لوگوں کا ہمیشہ سے یہی دستور رہا ہے کہ وہ کسی شخص کی قدر و قیمت کو مال و دولت اور دنیوی جاہ و حشم کے پیمانوں سے ناپتے ہیں۔ ان لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ جو شخص جس قدر خوشحالی سے زندگی بسر کر رہا ہے اتنا ہی اس کا پروردگار اس پر مہربان ہے اور کسی کی معیشت کا تنگ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ اس سے ناراض ہے۔ اس آیت میں اسی نظریہ کی تردید کی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ رزق کی کمی بیشی کے لیے ایک دوسرا ہی قانون ہے جس میں دوسری قسم کی مصلحتیں ہیں دنیا میں رزق کی کمی بیشی کا انسان کی ہدایت اور فلاح و نجات سے کچھ تعلق نہیں بلکہ رزق کی زیادتی اکثر انسانوں کے لیے گمراہی کا سبب بن جاتی ہے۔ لہٰذا دنیوی مال و متاع پر ریجھ نہ جانا چاہئے۔ کیونکہ یہ سب چیزیں فانی ہیں اور ان دائمی اور پائیدار نعمتوں کے مقابلہ میں بالکل ہیچ ہیں جو اللہ کے فرمانبردار لوگوں کو اخروی زندگی میں عطا کی جائیں گی۔ الرعد
27 [٣٦] ایک ہی نشانی سے ہدایت بھی اور گمراہی بھی :۔ منکرین حق کا یہی اعتراض اس سورۃ کی آیت ٧ میں بھی گزر چکا ہے وہاں جواب اور پہلو سے دیا گیا ہے اور یہاں ایک دوسرے پہلو سے دیا گیا ہے' جو یہ ہے کہ ایک ہی چیز سے مختلف ذہن رکھنے والے لوگ مختلف نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔ مثلا قرآن ہو' یا قرآن کی آیات' کائنات میں ہر سو بکھری ہوئی اللہ کی آیات ہوں یا حسی معجزات انہی چیزوں سے ہدایت کے طالب ہدایت حاصل کرلیتے ہیں اور ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے' مگر انہی چیزوں سے ہٹ دھرم لوگ انکار کردیتے ہیں۔ پھر یہی چیزیں ان کے انکار' عناد اور ہٹ دھرمی اور گمراہی میں اضافہ کا سبب بن جاتی ہے۔ لہٰذا اگر ان کا مطالبہ پورا کر بھی دیا جائے تب بھی ان کی گمراہی میں مزید اضافہ کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔ الرعد
28 [٣٧] اللہ کا ذکر دو طرح سے ہے۔ ایک ہر وقت اللہ کو اپنے دل میں یاد رکھنا۔ دوسرے زبان سے اس کے نام کا ورد کرتے رہنا اور حدیث میں ہے کہ سب سے افضل ذکر لا الہ الا اللہ ہے یا پھر یہ قرآن ہے۔ جس کے متعلق فرمایا : ﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ﴾ (۹:۱۴)ذکر کے بے شمار فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ اس سے اللہ پر توکل پیدا ہوتا ہے اور جس شخص کو صحیح معنوں میں صرف اللہ پر توکل کی نعمت نصیب ہوگئی۔ وہ مصائب و آلام میں کبھی نہیں گھبراتا، نہ اس کا دل ہی لذائذ دنیا پر ریجھتا ہے وہ ہر حال میں اللہ پر نظر رکھتا ہے اور اسے ایسا قلبی سکون اور راحت نصیب ہوتی ہے جس کا اندازہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جنہیں اللہ نے اس نعمت سے نوازا ہو اور ربط مضمون کے لحاظ سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کے دل معجزہ دیکھنے کے بغیر بھی مطمئن ہوجاتے ہیں اور بات ہے بھی یہی کہ دلوں کو اطمینان اللہ کے ذکر سے نصیب ہوتا ہے معجزات سے نہیں۔ الرعد
29 [٣٨] طوبیٰ سے مراد کیا ہے؟ لفظ طوبٰی کے معنی ایسی خوشی حاصل ہونا ہے جس سے انسان کے دل کے علاوہ اس کے حواس بھی لطف اندوز ہوں (مفردات) اور جنت کی نعمتیں سب ایسی ہی ہوں گی بعض مفسرین نے طوبیٰ سے مراد وہ درخت لیا ہے جس کا ذکر احادیث میں آتا ہے کہ وہ جنت میں ایک درخت ہے جس کے سایہ میں ایک سوار اگر سو سال بھی چلتا رہے تو اس کا سایہ ختم نہ ہو۔ (بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ ئواقعہ زیر آیت ﴿ وَّظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ ﴾ اہل عرب کے لیے ایسے درخت کا جنت میں موجود ہونا ایک بہت بڑی خوشخبری ہے۔ کیونکہ عرب کا اکثر علاقہ سنگلاخ اور ریگستانی ہے۔ شدت کی گرمی پڑتی ہے۔ لوئیں چلتی ہیں مگر درخت یا درختوں کے سائے بہت کم پائے جاتے ہیں۔ اسی لیے جنت کی نعمتوں کا جہاں ذکر آتا ہے وہاں ٹھنڈے پانی اور گھنی اور ٹھنڈی چھاؤں کا بالخصوص ذکر ہوتا ہے۔ الرعد
30 [٣٩] رحمٰن سے کافروں کا چڑنا :۔ رحمٰن اللہ تعالیٰ کا دوسرے درجہ پر ذاتی نام ہے جیسے فرمایا ﴿ قُلِ ادْعُوا اللّٰہَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ﴾ (۱۱۰:۱۷)اسی لیے یہ لفظ بھی اللہ کی طرح کسی مخلوق کے لیے استعمال نہیں ہوتا قریش مکہ کو اس لفظ سے خاص چڑ تھی۔ جیسے یہود کو جبریل اور مکائیل فرشتوں سے چڑ تھی۔ چنانچہ صلح حدیبیہ کے موقعہ پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح نامہ کے آغاز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھوایا تو اس پر قریش کے نمائندہ سہیل بن عمرو نے یہ اعتراض کردیا کہ یہ رحمٰن کون ہے ہم اسے نہیں جانتے جب یہ جھگڑا بڑھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ جملہ مٹا کر قریش کے دستور کے مطابق باسمک اللّٰہ لکھ دیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ (بخاری، کتاب الشروط، باب الشروط فی الجہاد و المصالحۃ مع اھل الحرب۔۔) [٤٠] اس جواب سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ رحمٰن اللہ تعالیٰ ہی کا دوسرا ذاتی نام ہے اور رحمٰن رحم سے مشتق ہے اور اسم مبالغہ ہے۔ جس میں بہت زیادہ بلاغت پائی جاتی ہے یعنی بے انتہا رحم کرنے والا اور یہ اس کی رحمت ہی کا تقاضا تھا کہ اللہ نے سابقہ امتوں کی طرح اس امت میں آپ کو نبی بنا کر مبعوث فرمایا تاکہ ان کی ہدایت کے لیے آپ انھیں قرآن پڑھ کر سنائیں۔ مگر ان لوگوں کو قرآن سے چڑ ہوگئی اور اپنے معبودوں کو چھوڑنے پر قطعاً تیار نہ ہوئے اور آپ کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے اور آپ کو اور آپ کے متبعین کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا۔ ایسی صورت حال میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر سے فرمایا کہ آپ انھیں کہہ دیجئے کہ تم لوگ جو کچھ کر رہے ہو کرتے جاؤ۔ میں اپنے پروردگار پر بھروسہ کرتا ہوں۔ وہ خود ہی ان باتوں کا فیصلہ کردے گا۔ الرعد
31 [٤١] حسی معجرات دکھلانے بے سود ہیں :۔ لفظ قُطّعت آیا ہے اور قطع ارض کے معنی فاصلہ طے کرنا اور قَطّع بمعنی ٹکڑے ٹکڑے کردینا اور بمعنی پھاڑ دینا یا شق کردینا ہے اور یہ سب معنی یہاں مراد لیے جاسکتے ہیں۔ یعنی فاصلے فوراً طے کرا دیئے جاتے یا زمین ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتی یا شق ہوجاتی اور اس آیت میں قریش کے ان حسی معجزات کے مطالبوں کا ذکر ہے جو وہ گاہے گاہے کرتے رہتے تھے مثلاً ایک یہ کہ یہ جو مکہ کے ارد گرد پہاڑ ہیں۔ یہ یہاں سے ہٹا دیئے جائیں تاکہ ہمارے لیے زمین کشادہ ہوجائے، دوسرا یہ کہ یہ زمین پھٹ جائے اور اس سے چشمے جاری ہوں تاکہ ہمارے لئے پانی کی قلت دور ہوجائے۔ تیسرے یہ کہ ہمارے مرے ہوئے آباؤ و اجداد میں سے کوئی شخص زندہ ہو کر ہمارے سامنے آئے اور اس بات کی تصدیق کرے جو تم ہمیں دوبارہ جی اٹھنے کے متعلق بتاتے رہتے ہو تو تب ہم تمہاری تصدیق کریں گے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر کوئی قرآن ایسا ہوتا جس پر عمل پیرا ہونے سے ایسے واقعات وقوع پذیر ہوجاتے تو یہی قرآن ہوسکتا تھا۔ مگر تم لوگ پھر بھی ایمان نہ لاتے اور اگر ہم تمہیں ان میں سے کوئی معجزہ دکھا بھی دیں تو تم پھر بھی اسے جادو کا کرشمہ ہی کہہ دو گے۔ ایمان پھر نہیں لاؤ گے۔ [٤٢] کفار کے بار بار کسی ایسے حسی معجزہ کے مطالبہ پر بعض مسلمانوں کے دلوں میں بھی بعض دفعہ یہ خیال آنے لگتا کہ اگر اللہ تعالیٰ کوئی ایسا معجزہ دکھا دے تو بہتر ہوگا۔ یہ کافر لوگ ایمان لے آئیں تو ہماری مشکلات میں بھی کمی واقع ہوجائے گی۔ اس بات کا اللہ تعالیٰ نے یہ جواب دیا کہ فی الواقع ایسا معجزہ دکھانا، اللہ ہی کا کام ہے کیونکہ ہر طرح کے امور پر صرف اسی کا اختیار و تصرف ہے۔ مگر مومنوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ ایسا معجزہ دکھانے کا قطعاً کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ اس کی وجہ پہلے یہ بتلائی گئی کہ یہ کافر ایسا معجزہ دیکھ بھی لیں تو ایمان نہیں لائیں گے بلکہ ان کی ہٹ دھرمی میں اضافہ ہوگا اور یہاں یہ جواب دیا گیا ہے کہ اگر مطلوب یہی ہوتا کہ کافر ایسا معجزہ دیکھ کر ایمان لانے پر مجبور ہوجائیں تو اللہ انھیں ایسا معجزہ دکھائے بغیر بھی یہ قدرت رکھتا ہے کہ انھیں ایمان لانے پر مجبور کردے مگر ایسے ایمان کی کچھ قدر و قیمت نہیں۔ قدر و قیمت تو اسی صورت میں ہوسکتی ہے کہ انسان اپنے ارادہ و اختیار کی آزادی سے اور سوچ سمجھ کر ایمان لائے۔ [٤٣] لفظ تَحُلُ کو اگر واحد مونث غائب کا صیغہ سمجھا جائے تو اس کا معنی وہی ہے جو اوپر بیان ہوا ہے اور اگر اسے واحد مذکر حاضر کا صیغہ سمجھا جائے تو اس کا معنی یہ ہوگا۔ ’یا آپ ان کافروں کے گھروں کے پاس اتریں گے‘اور اس سے مراد مکہ کی فتح ہوگا جیسا کہ ﴿ وَاَنْتَ حِـۢلٌّ بِہٰذَا الْبَلَدِ ﴾ میں بھی مذکور ہے۔ اس آیت میں خطاب صرف مکہ کے کافروں سے نہیں بلکہ تمام کافروں سے ہے۔ اور پہلے معنی کے لحاظ سے ان مصائب سے مراد قحط، غزوہ بدر میں کافروں کی شکست فاش اور دوسرے مصائب ہیں اور اللہ کے وعدہ سے مراد فتح مکہ ہے جس کے نتیجہ میں کفر کی کمر ٹوٹ گئی اور اگر دوسرے معنی لیے جائیں تو ان کے گھروں کے قریب پڑنے والی مصیبت سے مراد صلح حدیبیہ جو انجام کے لحاظ سے کافروں کے حق میں بہت بری ثابت ہوئی اور اللہ کے وعدہ سے مراد بہرحال مکہ کی فتح ہے۔ الرعد
32 الرعد
33 [٤٤] معبودان باطلہ کے صفاتی نام، کوئی دلیل یا تجربہ؟ :۔ یہاں نام سے مراد ان شریکوں کے صفاتی نام ہیں۔ جیسے فرمایا : ﴿ اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ لَہُ الْاَسْمَاءُ الْحُسْنٰی ﴾ اس آیت میں بھی اسم سے مراد صفاتی نام ہیں یعنی ذرا یہ تو بتاؤ کہ تمہارے یہ شریک کیا کیا کارنامے سرانجام دے سکتے ہیں؟ اور اس کی دلیل کیا ہے؟ کیا کسی الہامی کتاب میں کہیں یہ لکھا ہے کہ اللہ نے فلاں فلاں اختیارات فلاں دیوتا یا بزرگ کو سونپ دیئے ہیں۔ یا تم اللہ کو ایسی چیز کی اطلاع دینا چاہتے ہو جس کا وجود ساری زمین میں کہیں پایا ہی نہیں جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے صرف زمین کا نام اس لیے لیا کہ مشرکوں نے معبود اسی زمین پر ہی اپنے لیے بنا رکھے تھے۔ مثلاً کسی شریک کے متعلق انہوں نے مشہور کر رکھا کہ وہ گنج بخش ہے تو کیا وہ دکھا سکتے ہیں کہ وہ معبود واقعی لوگوں کو خزانے بخشتا رہتا ہے۔ کیا زمین میں ایسی بات پائی جاتی ہے جس کی اللہ کو خبر تک نہ ہوسکی؟ یا جو کچھ ان کے جی میں آئے بک دیتے ہیں اور ایسی باتیں ان شریکوں سے منسوب کردیتے ہیں۔ [٤٥] جھوٹے معبود اور کافروں کا مکر :۔ بات یوں نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ کچھ مکار قسم کے انسانوں نے عوام پر اپنی خدائی کا سکہ جمانے کے لیے اور ان کی کمایوں میں اپنا حصہ بٹانے کے لیے کچھ بناؤٹی شریک گھڑے، ان سے متعلق کچھ حکایات تصنیف کیں اور لوگوں کو ان کے تصرفات سے ڈرایا دھمکایا، پھر لوگوں کو ان کا معتقد بنایا اور اپنے آپ کو ان کا مجاور یا خلیفہ یا نمائندہ ٹھہرا کر اپنا الو سیدھا کرنا شروع کردیا اور یہی مشرکانہ عقائد نسلاً بعد نسل جاہل عوام میں رواج پاگئے اور تسلیم کرلیے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسا مکر کرنے والوں اور اس مکر کو قبول کرنے والوں، سب کو کافر قرار دیا اور یہی لوگ دراصل اللہ کی سیدھی راہ (توحید) سے روک دیئے گئے ہیں اور لوگوں کے لیے بھی رکاوٹ بن گئے ہیں اور ایسے لوگوں کو جو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر اللہ کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں، اللہ کبھی سیدھی راہ نہیں دکھاتا۔ الرعد
34 الرعد
35 الرعد
36 [٤٦] یعنی یہود و نصاریٰ اس کتاب یعنی قرآن سے اس لیے خوش ہوتے ہیں کہ یہ ان کی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ان کے انبیاء کی تعظیم و تکریم سکھلاتی ہے۔ اس لحاظ سے تو سارے اہل کتاب قرآن سے خوش ہیں۔ پھر ان میں سے کچھ منصف مزاج ایسے بھی تھے جنہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا اور جن باتوں سے وہ انکار کرتے ہیں۔ وہ وہی باتیں ہیں جن میں انہوں نے تحریف کر ڈالی تھی۔ کتاب کے کچھ احکام چھپا جاتے تھے اور کچھ باتیں انہوں نے خود ہی تصنیف کرکے اللہ سے منسوب کردی تھیں۔ قرآن نے ایسی تمام باتوں سے پردہ اٹھا دیا اور جو حقیقت تھی اسے واشگاف الفاظ میں بیان کیا۔ اس وجہ سے ان لوگوں نے قرآن کے بعض حصوں کا انکار کیا پھر بعد میں پورے قرآن ہی سے انکار کردیا۔ [ ٤٧] اہل کتاب کی تحریف لفظی ومعنوی اور شرک کی راہ کھولنا :۔ اہل کتاب نے جن باتوں میں تحریف کی تھی، خواہ یہ تحریف لفظی تھی یا معنوی تھی، ان میں سے سب سے بری بات یہ تھی کہ انہوں نے شرک کی راہیں اختیار کرلی تھیں۔ یہود نے سیدنا عزیر کو اللہ کا بیٹا قرار دے لیا تھا۔ نیز اللہ کی بہت سی حلال کردہ چیزوں کو حرام قرار دے لیا تھا اور نصاریٰ نے پہلے تو خدائی کے تین حصے کئے اور کہا کہ اللہ تین میں کا تیسرا ہے۔ بعد میں سیدہ مریم کو الوہیت کا درجہ دے ڈالا اور یہ سب کچھ اللہ کی کتاب میں تحریف لفظی یا معنوی کا نتیجہ تھا۔ پھر وہ اپنے ان اعتقادات کی صحت پر مصر بھی تھے اور نجران کے عیسائی تو آپ سے مباحثہ کرنے کے لیے مدینہ بھی آئے تھے۔ ایسے ہی لوگوں کو جواب دیتے ہوئے اللہ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ ان سے صاف طور پر کہہ دیجئے کہ میں تمہاری اس قسم کی باتوں کو تسلیم کرنے کے لیے قطعاً تیار نہیں۔ میں اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک نہیں سمجھتا۔ اسی بات کی تم سب کو دعوت دیتا ہوں اور تمہارے انبیاء نے خود بھی اسی بات کی طرف دعوت دی تھی۔ الرعد
37 [٤٨] قرآن سابقہ کتابوں کے لئے حَکَمَ ہے :۔ یعنی جس طرح ہم نے سابقہ انبیاء کی کتابوں کو ان کی قومی زبان میں نازل کیا تھا۔ اسی طرح محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہم نے یہ قرآن ان کی قومی زبان یعنی عربی میں نازل کیا ہے اور اسے حکم بنا کر نازل کیا ہے۔ یعنی یہ سابقہ الہامی کتابوں کے لیے ایک معیار کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے بیان سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اہل کتاب نے اپنی کتابوں میں کہاں کہاں تحریف کی، کون سے احکام و آیات کو چھپاتے رہے اور اپنے دین میں از خود کون کون سے اضافے کرلیے۔ [٤٩] العلم سے کیا مراد ہے ؟:۔ اس آیت میں خطاب عام مسلمانوں کے لیے ہے۔ مگر بطور تاکید مزید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کیا گیا ہے اور علم سے مراد علم وحی ہے یعنی منزل من اللہ احکام آجانے کے بعد نہ کسی کے قول کو تسلیم کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کوئی سمجھوتہ کیا جاسکتا ہے اور اگر کوئی شخص یہ بات جان لینے کے بعد کہ ''یہ بات واقعی منزل من اللہ'' ہے کوئی ایسا کام کرے گا تو اس کو اللہ کی گرفت سے کوئی بچا نہ سکے گا۔ واضح رہے کہ کسی حدیث کی صحت معلوم ہوجانے کے بعد اتباع کے لحاظ سے کتاب اور سنت دونوں ایک ہی درجہ پر ہیں اور قرون اولیٰ میں علم حدیث کے لیے بھی العلم کا لفظ عام استعمال ہوتا رہا ہے اور جو لوگ تقلید شخصی کو واجب قرار دیتے ہیں۔ ان کے لیے اس آیت میں عبرت ہے۔ کیونکہ کسی بھی امام کی فقہ پر العلم کے لفظ کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ علاوہ ازیں تقلید شخصی ہی وہ قباحت ہے جو امت مسلمہ میں تفرقہ بازی کا ایک بڑا سبب بنی ہوئی ہے اور جب تک امت تقلیدشخصی کے وجوب کے دعویٰ سے دستبردار نہیں ہوگی اس میں اتحاد کا پیدا ہونا ناممکن ہے اور تفرقہ بازی سے نجات کی واحد صورت یہی ہے کہ اپنے اختلاف میں صرف کتاب و سنت ہی کی طرف رجوع کیا جائے۔ الرعد
38 [٥٠] نبیوں اور اللہ والوں کو بال بچوں کے دھندوں سے کیا تعلق :۔ اس جملہ میں بھی ایک اعتراض کا جواب دیا گیا ہے۔ جاہل عوام کا یہ خیال ہوتا ہے کہ نکاح کرنا اور بال بچوں والا ہونا تو دنیادار لوگوں کا کام ہے۔ بھلا نبیوں اور اللہ والوں کو دنیا کے ان دھندوں سے کیا تعلق؟ انھیں دنیا کے طالب نہیں بلکہ دنیا کا تارک ہونا چاہیے جیسا کہ یہود و نصاریٰ میں رہبانیت کا رواج پڑگیا تھا۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو رسول پہلے گزر چکے ہیں سب بال بچوں والے تھے اور ان کے سچا ہونے پر تم ایمان رکھتے ہو پھر تم کس کس کا انکار کرو گے۔ وہ بشر ہی تھے اور بشری تقاضوں کو پورا کرتے تھے اور چونکہ وہ بشر تھے۔ اس لیے ان میں سے کسی میں یہ طاقت نہ تھی کہ اپنی مرضی سے یا اپنی قدرت سے کوئی معجزہ دکھا سکتے الا یہ کہ اللہ کے حکم سے ان کے ہاتھوں کسی معجزہ کا صدور ہوتا رہا اور اگر اب بھی اللہ چاہے اس نبی کے ہاتھوں معجزات دکھانے پر قادر ہے۔ الرعد
39 [٥١] ہر دور کے لئے الگ شریعت :۔ یعنی ہر نبی ایک ہی جیسے دین کے اصول پیش کرتا رہا ہے۔ مگر ان کی شریعتوں میں ان کے دور کے تقاضوں کے مطابق فرق رہا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ موسوی شریعت میں قصاص کا حکم تھا۔ عفو و درگزر کا نہ تھا۔ پھر عیسوی شریعت میں قصاص کے حکم کو پس پشت ڈال دیا گیا اور سارا زور عفو و درگزر پر دیا گیا اور شریعت محمدی میں پھر سے قصاص کا حکم بحال کردیا گیا مگر افضلیت عفوو و درگز کو ہی دی گئی احکام میں اس قسم کا رد و بدل اس دور کے لوگوں کی طبیعتوں کی اصلاح کے لیے کیا گیا۔ اللہ نے جس حکم کو چاہا سابقہ شریعتوں سے بحال رکھا اور جسے چاہا منسوخ کرکے نئی قسم کے احکام دے دیئے اور یہ سب کچھ اللہ کے علم ازلی محیط کے مطابق ہوتا ہے جسے ام الکتاب یالوح محفوظ کہا گیا ہے۔ الرعد
40 [٥٢] کفار مکہ پر عذاب آپ کے جیتے بھی اور بعد میں بھی :۔ اس آیت میں بھی کافروں کے اس مطالبہ کا جواب ہے کہ اگر تم سچے ہو تو اب تک ہم پر عذاب آجانا چاہیے تھا یا کیوں نہیں آتا۔ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ آپ کے ذمہ صرف دعوت دین اور اس کی تبلیغ ہے آپ یہی کام کرتے جائیے۔ ان منکرین سے نمٹنا اللہ کا کام ہے اور جس عذاب کا یہ مطالبہ کر رہے ہیں وہ بھی ان پر آکے رہے گا۔ اس عذاب کا کچھ حصہ تو آپ اپنی زندگی میں جیتے جی دیکھ لیں گے اور کچھ حصہ آپ کی زندگی کے بعد ان کو دیا جائے گا اور اس طرح ان کا یہ مطالبہ بھی پوراکر دیا جائے گا۔ پھر ان منکرین کو آپ کے جیتے جی جو سزائیں ملیں ان کا ذکر قرآن اور حدیث میں وضاحت سے موجود ہے اور جو آپ کی زندگی کے بعد ملیں ان کا ذکر احادیث و آثار و تاریخ میں مل جاتا ہے۔ الرعد
41 [٥٣] زمین کو ہر طرف سے کم کرنے سے مراد؟:۔ یعنی اسلام چاروں طرف پھیلتا جارہا ہے اور کفر کی سرزمین ہر طرف سے سمٹتی اور کم ہوتی جارہی ہے اور اس کا حلقہ تنگ سے تنگ تر ہوتا جارہا ہے۔ اسلام کو غلبہ دینا اور اسے پھیلانا ایسی بات ہے جس کا اللہ فیصلہ کرچکا ہے جسے کوئی طاقت روک نہیں سکتی اور جوں جوں اسلام پھیلتا ہے ان پر عرصہ حیات تنگ ہوتا جارہا ہے۔ الرعد
42 [٥٤] یعنی آپ کی قوم سے پہلی قومیں بھی دین حق کی دعوت کو روکنے اور اس کے آگے بند باندھنے کی سرتوڑ کوششیں کرتی رہیں۔ مگر بالآخر وہی کچھ ہوا جو اللہ کو منظور تھا۔ اللہ کی تقدیر کے سامنے ان کی تدبیریں کچھ بھی کام نہ آسکیں اور اب بھی یہی کچھ ہوگا۔ ان منکرین حق کو جلد ہی پتہ چل جائے گا کہ انجام بخیر کس فریق کے حق میں ہوتا ہے، اور جو کچھ یہ لوگ اسلام کو ختم کرنے کے سلسلہ میں تدبیریں کر رہے ہیں وہ سب اللہ کے علم میں ہیں اور ان کا توڑ وہ خوب جانتا ہے۔ الرعد
43 [٥٥] یعنی تمہارے جھٹلانے سے کیا بنتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ میری نبوت پر شاہد ہے۔ اور تمہیں میری صداقت کے کئی نشان دکھا چکا ہے اور دکھا رہا ہے اور اہل کتاب میں بھی منصف مزاج لوگ میری رسالت کی گواہی دیتے ہیں۔ کیونکہ ان کی کتابوں میں میرے متعلق کئی بشارتیں موجود ہیں پھر ان میں سے بعض اسلام بھی لاچکے ہیں۔ الرعد
0 ابراھیم
1 [١] ہدایت اور اللہ کا اذن؟ روشنی یا نور کے مقابلہ میں تاریکی نہیں بلکہ تاریکیاں فرمایا اس لیے صراط مستقیم صرف ایک ہی ہوسکتی ہے اور اسی صراط مستقیم کو روشنی سے تعبیر فرمایا جبکہ ٹیڑھی یا باطل کی راہیں لاتعداد ہوسکتی ہیں اور یہ سب گمراہی کے راستے ہیں اس لیے ان سب راستوں کو تاریکیوں سے تعبیر کیا۔ گویا اس کتاب قرآن کریم کو اتارنے سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ آپ اس کے ذریعہ لوگوں کو باطل کی تمام راہوں سے ہٹا کر صراط مستقیم پر لائیں۔ اور یہ کام تب ہی ہوسکتا ہے جب لوگوں کے پروردگار کو بھی انھیں راہ راست پر لانا منظور ہو۔ اور اس منظوری کا قانون یہ ہے کہ جو ہدایت کا طالب ہو اسے اللہ یقیناً ہدایت کی توفیق دیتا ہے اور یہی اس کی منظوری یا اذن ہوتا ہے لیکن جو لوگ ہٹ دھرمی کی راہ اختیار کریں انھیں اللہ ہدایت کی توفیق نہیں بخشتا۔ ابراھیم
2 ابراھیم
3 [٢] قرآن کی رو سے کافر کون کون ہیں؟ یعنی جن کی تمام تر کوششیں دنیوی مفادات اور ان کے حصول میں لگی ہوئی ہیں آخرت کی انھیں کچھ فکر نہیں۔ وہ دنیا کے لئے آخرت کی کامیابیوں اور خوشحالیوں کو تو قربان کرنے پر تیار ہیں لیکن آخرت کی فلاح و نجات حاصل کرنے کی خاطر اس دنیا کا کوئی نقصان برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ پھر ان کی یہ کوشش بھی ہوتی ہے کہ دوسروں کو بھی انھیں دنیوی مفادات کی ترغیب دے کر اللہ کی راہ کی طرف نہ آنے دیں یا راہ حق کی طرف چلنے والوں کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتے اور انھیں اپنے ظلم اور زیادتیوں کا نشانہ بناتے ہیں یا اسی قرآن میں سے گمراہی کی راہیں نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے کافروں کو تباہ کن عذاب سے دو چار ہونا پڑے گا۔ اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ [ ٣] اللہ کی راہ میں کجی کی صورتیں :۔ یہ خطاب سب کے لیے عام ہے خواہ کافر ہوں یا مسلم۔ ٹیڑھ پیدا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دین کا حکم اپنی مرضی کے مطابق ہو اسے تو تسلیم کرلیا جائے اور جو مرضی کے مطابق نہ ہو اسے یا تو چھوڑ دیا جائے یا اس کا انکار کردیا جائے اور یا اس کی تاویل کرکے اللہ کے حکم کو اپنی خواہش کے مطابق ڈھال لیا جائے اور اس ٹیڑھ کو اختیار کرنے کے عام طور پر دو ہی سبب ہوتے ہیں ایک اتباع ہوائے نفس اور دوسرے موجودہ زمانہ کے نظریات سے مرعوبیت۔ اور اس مرض کا شکار عوام سے زیادہ علمائے سوء ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ اکثر اوقات گمراہی کی اس انتہاء کو جا پہنچتے ہیں جہاں سے ان کی واپسی ناممکن ہوتی ہے۔ ابراھیم
4 [٤] قرآن کا بیان کیا چیز ہے؟ یعنی رسول کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنی قوم کو ہم زبان ہونے کے باوجود قرآن کا بیان بتائے یا سکھائے۔ یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ بیان محض قرآن کے الفاظ کو دہرا دینے کا نام نہیں بلکہ بیان میں قرآن کے الفاظ کا صحیح صحیح مفہوم بتانا، اس کی شرح و تفسیر، اس کی حکمت عملی اور طریق امتثال بتانا سب کچھ شامل ہے قرآن کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے نازل کرنے والے اور جس پر نازل کیا گیا ہے دونوں کے نزدیک قرآن کے الفاظ کا مفہوم متعین ہو۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ زید (متکلم) بکر (مخاطب) سے کہتا ہے کہ پانی لاؤ، تو بکر زید کے حکم کی تعمیل صرف اس صورت میں کرسکے گا جبکہ متکلم اور مخاطب دونوں کے ذہن میں پانی، اور لانا، دونوں الفاظ کا مفہوم متعین ہو اور وہ ایک ہی ہو۔ اور اگر زید کوئی ذو معنی لفظ بولے گا تو جب تک اس کی مزید وضاحت نہ کرے گا بکر اس پر عمل نہ کرسکے گا اسی طرح اگر زید کا مخاطب کوئی ایسا شخص ہو جو اردو کو سمجھتا ہی نہ ہو تو بھی وہ اس کے حکم کی تعمیل نہ کرسکے گا۔ اور سوالیہ نشان بن کر رہ جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے صرف الفاظ ہی نازل نہیں فرمائے بلکہ ان کا مفہوم بھی مخاطب (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ذہن میں القا کردیا تاکہ امتثال امر میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔ یعنی مفہوم کو مخاطب کے ذہن میں متعین کردینا ہی قرآن کا بیان ہے۔ قرآن کا بیان کیوں ضروری ہے ؟:۔ نیز اللہ تعالیٰ نے سورۃ القیامۃ میں واضح طور پر فرمایا کہ قرآن کے ساتھ اس کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے اور قرآن اور بیان دونوں کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے اور یہی بیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو سکھایا تھا۔ مثلاً قرآن میں بے شمار مقامات پر ﴿اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ﴾ کا لفظ آیا ہے۔ اس آیت میں صلوٰۃ کو قائم کرنے کا حکم ہے اور جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ صلوۃ ہے کیا چیز، تب تک تعمیل ناممکن ہے۔ لغت میں اس کے معنی دیکھنے سے تو کام نہیں چلے گا۔ کیونکہ یہ ایک شرعی اصطلاح ہے جس کی لمبی چوڑی تفصیل کی ضرورت ہے۔ مثلاً نماز ادا کرنے کی ترتیب، کتنی رکعات پڑھی جائیں۔ اس سے پہلے طہارت کا حکم، نمازوں کے اوقات وغیرہ یہ سب کچھ امت کو بتانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام تھا اور یہی قرآن کا بیان ہے۔ یہی حال دوسری شرعی اصطلاحات کا ہے اور وہ بھی بکثرت ہیں۔ مثلاً الٰہ، دین، عبادت، صلوٰۃ، صوم، حج، مناسک حج، طواف، تلبیہ، رکوع، سجود، قیام، عمرہ، آخرت، معروف و منکر وغیرہ ان سب اصطلاحات کا وہی مفہوم معتبر سمجھا جائے گا جو اللہ کے رسول نے بیان فرمایا ہو۔ قرآن کا بیان آپ کی ذمہ داری ہے :۔ علاوہ ازیں کئی الفاظ کثیر المعانی ہوتے ہیں۔ کچھ محاورۃً استعمال ہوتے ہیں۔ کچھ الفاظ ایسے ہیں جن کے عرفی معانی اور ہوتے ہیں اور لغوی اور۔ ان سب الفاظ کی تفسیر و تشریح کا نام قرآن کا بیان ہے۔ کتاب کا محض اس زبان میں اترنا ہی کافی نہیں ہوتا جو قومی زبان ہو۔ بلکہ بہت سے مقامات ایسے ہوتے ہیں جن کے بیان کی ضرورت ہوتی ہے۔ قرآن کا بیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری تھی اور اسی بیان کو سنت کہا جاتا ہے۔ [ ٥] یہ بات نہیں کہ چونکہ اللہ ہر چیز پر غالب ہے لہٰذا وہ جسے چاہے گمراہ کر دے اور جسے چاہے ہدایت دے دے۔ بلکہ وہ حکیم بھی ہے اور اس کی حکمت کا یہی تقاضا ہے کہ جو ہدایت کا طالب ہو اسے ضرور ہدایت دی جائے اور گمراہ صرف اسے کرتا ہے جو گمراہی کی راہ اختیار کرے اور حق بات سننے کے لیے تیار ہی نہ ہو۔ ابراھیم
5 [٦] تذکیر بایام اللہ سے مراد؟ ایام اللہ کے لفظی معنی ہیں اللہ کے دن اور اس سے ایسے دن مراد ہوتے ہیں جو تاریخ انسانی میں یادگار دن بن جاتے ہیں خواہ یہ خوشی کے ہوں یا مصیبت کے۔ بلکہ ایک ہی دن ایک فریق کے لیے خوشی کا دن ہوتا ہے اور دوسرے فریق کے لیے مصیبت کا۔ جیسے ١٠ محرم کو فرعون اور اس کے لشکری دریا میں غرق ہوئے۔ اب یہی دن بنی اسرائیل کے لیے تو انتہائی خوشی کا دن تھا کہ انھیں فرعونیوں کے مظالم سے نجات ملی اور وہ اسی خوشی میں ١٠ محرم کو ہر سال روزہ بھی رکھا کرتے تھے اور یہی دن فرعونیوں کے لیے مصیبت کا دن تھا یہی صورت ١٧ رمضان ٢ ھ کی ہے۔ مشرکین مکہ کو غزوہ بدر میں شکست فاش ہوئی۔ یہ دن مسلمانوں کے لیے انتہائی خوشی کا دن تھا جبکہ قریش مکہ کے لیے یہ دن بڑی مصیبت کا دن تھا۔ اسی طرح پہلی مجرم قوموں پر جو عذاب الٰہی نازل ہوتا رہا تو انھیں ایام اللہ کہا جاتا ہے۔ اور تذکیر بایام اللہ سے مراد ایسے ہی یادگار دنوں سے عبرت حاصل کرنا ہے اور یہ قرآن کریم کا خاص موضوع ہے جسے بے شمار مقامات پر دہرایا گیا ہے۔ انبیاء اور اقوام سابقہ کے حالات اور قصص بیان کرنے سے قرآن کا اصل مقصد بایام اللہ ہی ہوتا ہے۔ [ ٧] صبر وشکر کی فضیلت :۔ صبر اور شکر دو ایسی صفات ہیں جو ایک مومن کی پوری زندگی کو محیط ہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ نے صابر اور شاکر الفاظ کے بجائے صبار اور شکور کے الفاظ استعمال فرمائے اور یہ دونوں مبالغہ کے صیغے ہیں یعنی ایک مومن کی زندگی یہ ہوتی ہے کہ جب اسے کوئی دکھ، تکلیف یا مصیبت پہنچتی ہے تو اس پر صبر کرتا ہے اور جب اس پر خوشحالی کے دن آتے ہیں یا کوئی خوشی یا بھلائی نصیب ہوتی ہے تو اللہ کا شکر بجا لاتا ہے۔ اور زندگی بھر اس کا یہی معمول رہتا ہے اس کے مقابلے میں ایک دنیا دار یا ایک کافر کی زندگی اس کے بالکل برعکس ہوتی ہے جب اسے کوئی دکھ پہنچے یا تنگدستی کے دن آئیں تو اللہ کے شکوے اور جزع و فزع کرنے لگتا ہے اور جب کوئی خوشی نصیب ہو یا خوشحالی کے دن آئیں تو ایسا احسان فراموش بن جاتا ہے کہ اللہ کو بھول ہی جاتا ہے۔ یعنی ایام اللہ سے عبرت صرف وہ لوگ حاصل کرتے ہیں جو صبر اور شکر کی صفات سے متصف ہوں۔ ابراھیم
6 [٨] یہ واقعات سورۃ بقرہ، سورۃ اعراف اور سورۃ ہود میں تفصیل سے گزر چکے ہیں وہاں ملاحظہ کرلیے جائیں۔ ابراھیم
7 [٩] شکر اور اس کا فائدہ :۔ شکر یا احسان شناسی میں اللہ تعالیٰ نے یہ تاثیر رکھ دی ہے کہ بھلائی کو بحال رکھتی ہے بلکہ مزید بھلائیوں کو بھی اپنی طرف جذب کرتی ہے اور ناشکری یا احسان فراموشی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے احسان ناشناس سے پہلی نعمت بھی چھن جاتی ہے اور حالات مزید بدتر پیدا ہوجاتے ہیں اور یہ نتائج اس دنیا سے گذر کر آخرت تک بھی چلتے ہیں۔ اس مضمون کی تفصیل کے لیے ہم یہاں دو احادیث درج کرتے ہیں :۔ ١۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بنی اسرائیل میں تین آدمی تھے ایک کوڑھی، ایک گنجا اور ایک اندھا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں آزمانا چاہا اور ان کی طرف ایک فرشتہ بھیجا۔ فرشتہ پہلے کوڑھی کے پاس آیا اور کہنے لگا، ”تم کیا چاہتے ہو؟“ ’’اچھا رنگ اور اچھی جلد، کیونکہ لوگ مجھ سے نفرت و کراہت کرتے ہیں‘‘ فرشتے نے اس پر اپنا ہاتھ پھیرا تو اس کا رنگ اور جلد درست ہوگئی۔ پھر فرشتے نے پوچھا، ”تمہیں کون سا مال پسند ہے؟“ وہ کہنے لگا”اونٹ“فرشتے نے اسے ایک دس ماہ کی اونٹنی مہیا کردی اور کہا ’’اللہ اس میں برکت دے گا‘‘ پھر وہ گنجے کے پاس آیا اور کہا ’’تم کیا چاہتے ہو؟‘‘اس نے کہا ’’یہی کہ میرا گنج جاتا رہے اور اچھے بال اگ آئیں‘‘ فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا وہ تندرست ہوگیا اور اچھے بال اگ آئے۔ پھر اس سے پوچھا ’’‬تمہیں کون سا مال پسند ہے؟‘‘ گنجے نے کہا ”گائیں“ چنانچہ فرشتے نے اسے ایک حاملہ گائے مہیا کردی اور کہا ”اللہ اس میں برکت دے گا“ پھر فرشتہ اندھے کے پاس آیا اور پوچھا ”تم کیا چاہتے ہو؟“اس نے کہا ’’یہی کہ یہ میری بینائی مجھ کو مل جائے“فرشتے نے اس کی آنکھوں پر ہاتھ پھیرا تو وہ بینا ہوگیا۔ پھر اس سے پوچھا ”تمہیں کون سا مال پسند ہے؟“ اس نے کہا ”بکریاں“ چنانچہ فرشتے نے اسے ایک حاملہ بکری مہیا کردی اور کہا ”اللہ اس میں برکت دے گا“کچھ مدت گزرنے پر کوڑھی کے پاس اونٹوں کا، گنجے کے پاس گائے کا اور اندھے کے پاس بکریوں کا بہت بڑا ریوڑ بن چکا تھا۔ اب فرشتہ پھر ان کے پاس (انسانی صورت میں) آیا۔ پہلے کوڑھی کے پاس گیا اور کہا ”میں محتاج آدمی ہوں میرا سب سامان جاتا رہا اب اللہ کی اور اس کے بعد تیری مدد کے بغیر میں کہیں پہنچ بھی نہیں سکتا۔ میں تم سے اس اللہ کے نام پر سوال کرتا ہوں جس نے تیرا رنگ اور جلد اچھی کردی اور تجھے بہت سا مال دیا کہ ایک اونٹ مجھے دے دو تاکہ میں اپنے ٹھکانے پر پہنچ سکوں‘‘ وہ کہنے لگا ”میں نے تو بہت سے لوگوں کا قرض دینا ہے“فرشتے نے کہا ’’میں تجھے پہچانتا ہوں تو کوڑھی تھا لوگ تجھ سے کراہت کرتے تھے اور تو محتاج تھا اور اللہ نے تم پر مہربانی کی اور یہ سب کچھ عطا کیا‘‘ کوڑھی کہنے لگا ’’واہ مجھے تو یہ سب کچھ باپ دادے کی وراثت سے ملا ہے‘‘ فرشتے نے کہا:’’اگر تم نے جھوٹ بولا ہے تو اللہ تجھے تیری پہلی حالت میں لوٹا دے‘‘ پھر وہ گنجے کے پاس آیا۔ اس سے بھی بالکل ویسے ہی سوال و جواب ہوئے جیسے کوڑھی سے ہوئے تھے اسے بھی فرشتے نے بالآخر یہی کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تجھے اپنی پہلی حالت میں پھیردے۔ اس کے بعد فرشتہ اندھے کے پاس آیا اور ویسے ہی سوال کیا جیسے کوڑھی اور گنجے سے کیا تھا۔ اندھا یہ سوال سن کر کہنے لگا ’’واقعی میں اندھا تھا۔ اللہ نے مجھے بینائی بخشی۔ میں محتاج تھا اللہ نے مجھے مالدار کردیا۔ اب تم نے مجھ سے اسی اللہ کے نام پر سوال کیا ہے جو کچھ چاہتے ہو لے لو میں روکوں گا نہیں۔‘‘ فرشتے نے کہا، (میں محتاج نہیں فرشتہ ہوں) اپنی بکریاں اپنے ہی پاس رکھو۔ اللہ نے تم تین آدمیوں کو آزمایا تھا۔ اللہ تجھ سے تو خوش ہوگیا اور تیرے دونوں ساتھیوں (کوڑھی اور گنجے) سے ناراض ہوا۔ (بخاری، کتاب الانبیاء۔ باب ما ذکربنی عن اسرائیل حدیث ابرص واقرع واعمیٰ ) ٢۔ ناشکری کا انجام :۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ''مجھے دوزخ دکھائی گئی۔ اس میں عورتیں زیادہ تھیں جو کفر کرتی ہیں” صحابہ نے کہا “کیا وہ اللہ کا کفر کرتی ہیں؟”فرمایا : “نہیں وہ خاوند کی ناشکری کرتی ہیں اور احسان فراموش ہوتی ہیں۔ اگر تم کسی عورت سے عمر بھر بھلائی کرو۔ پھر وہ تم سے کوئی ناگوار بات دیکھے تو کہہ دے گی کہ میں نے تو تجھ سے کبھی کوئی بھلائی دیکھی ہی نہیں'' (بخاری، کتاب الایمان۔ باب کفران العشیر وکفر دون کفر) ابراھیم
8 [١٠] اللہ کی بے نیازی :۔ یعنی اللہ کی ناشکری کرنے سے اس کا کچھ نہیں بگڑتا نہ ہی اس کی خدائی میں کچھ فرق آتا ہے نہ وہ کسی کے شکر کا محتاج ہے وہ ان سب باتوں سے بے نیاز ہے اس لیے کہ وہ اپنی ذات میں ہی قابل ستائش ہے اس کے کارنامے ہی ایسے ہیں کہ کائنات کی ہر چیز اس کے گن گا رہی ہے چنانچہ صحیح مسلم میں ایک قدسی حدیث ان الفاظ میں مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے پچھلے جن و انس سب کے سب اعلیٰ درجے کے متقی بن جائیں تو اس سے میری بادشاہی میں کچھ اضافہ نہیں ہوجاتا۔ اور اگر سب کے سب اگلے پچھلے جن و انس ایک بدترین شخص جیسے ہوجائیں تو اس سے میری بادشاہی میں ذرہ برابر بھی کمی واقع نہیں ہوتی‘‘ (مسلم، کتاب البر و الصلۃ۔ باب تحریم الظلم) ابراھیم
9 [١١] پچھلی آیت پر موسیٰ علیہ السلام کا خطاب ختم ہوا اور اس آیت سے اللہ تعالیٰ کا مشرکین مکہ کو خطاب شروع ہوتا ہے۔ سابقہ مقامات پر اقوام اور انبیاء کا الگ الگ ذکر ہوتا رہا۔ یہاں بحیثیت مجموعی ذکر ہو رہا ہے اور قریش مکہ سے صرف ان اقوام کا ذکر کیا گیا ہے جو ان کے آس پاس تھیں یاجن کے حالات کسی نہ کسی ذریعہ سے ان تک پہنچ سکتے تھے۔ مثلاً قوم نوح، عاد، ثمود، قوم فرعون، اصحاب مدین وغیرہ وغیرہ لیکن بہت سی ایسی اقوام بھی تھیں جن کے حالات کا علم ان کی دسترس سے باہر تھا اور ان سے کہیں دور کے علاقوں میں آباد تھیں اور ان پر بھی انکار حق کی بنا پر عذاب آیا تھا۔ لہٰذا قرآن نے ان کا تفصیل سے ذکر نہیں کیا محض اشارہ کردیا ہے۔ [ ١٢] یہ محاورہ ہے۔ اور اس سے مراد ایسا انکار ہوتا ہے جس میں تعجب بھی شامل ہو جیسے ہم اپنی زبان میں کہتے ہیں کہ اس نے اپنی انگلی منہ میں دبا لی یا اپنا ہاتھ کانوں پر رکھ لیا اور مجاہد کہتے ہیں کہ ’’یہ محاورہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا جو حکم ہوا تھا، اس سے وہ باز رہ‘‘ (بخاری، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ ابراہیم) [ ١٣] انبیاء کی دعوت سے مشرکوں کی بے چینی :۔ تمام انبیاء کے مخالفین کا یہی حال رہا ہے اگرچہ وہ بظاہر حق کی مخالفت کرتے اور اس مخالفت میں اپنا ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں مگر حق کے دلائل کے سامنے وہ بے بس ہوجاتے ہیں۔ نیز جوں جوں حق کو غلبہ نصیب ہوتا ہے ان کا قلبی سکون رخصت ہوتا جاتا ہے اور شک، اضطراب اور بے چینی بڑھتی جاتی ہے۔ اس طرح داعیان حق کو بے چین کرنے والے خود بھی چین سے محروم ہوجاتے ہیں اور اگر اس کے لفظی معنی کا اعتبار کیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ وہ لوگ رسولوں کو بات بھی نہیں کرنے دیتے تھے اور بات کرتے وقت ان کے منہ کے آگے اپنے ہاتھ رکھ دیتے تھے اور کہتے کہ ہم تمہیں رسول ہی نہیں سمجھتے تو بات کرنے اور سننے کا فائدہ کیا ہے؟ ابراھیم
10 [١٤] اللہ کے بارے میں شک :۔ مشرکین مکہ کے ہوں یا پہلی قوموں کے یا موجودہ دور کے سب کے سب اس بات کے قائل ضرور ہوتے ہیں کہ آسمانوں اور زمین یعنی اس ساری کائنات کو پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے اسی بات کو بنیاد قرار دے کر انبیاء مشرکوں سے یہ سوال کرتے آئے ہیں کہ جب تمام اشیاء کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام اختیار و تصرف بھی اللہ ہی کے پاس ہے پھر تمہارے ان معبودوں کے پاس تصرف و اختیار کہاں سے آگئے؟ لہٰذا تم ان معبودوں کو چھوڑ کر توحید کی طرف آؤ اور اگر تم نے یہ راہ اختیار کرلی تو اللہ تمہارے سب گناہ معاف فرما دے گا اور اگر تم اس کی دعوت پر ایمان نہ لاؤ گے تو کچھ مدت تو تمہیں مہلت دے گا تاکہ تم اپنی حالت پر اچھی طرح غور و فکر کرکے اپنی اصلاح کرلو۔ اور اگر پھر بھی نہ سنبھلے تو تمہیں تباہ کردے گا۔ [ ١٥] پیغمبروں کو مشرکوں کے جواب :۔ انبیاء کی دعوت پر مشرکوں کے جواب بھی ایک ہی جیسے رہے مثلاً ایک یہ کہ تم بھی ہماری طرح کے ایک انسان ہی ہو۔ ہماری طرح کھاتے ہو، پیتے ہو، سوتے ہو، بیوی بچے رکھتے ہو، چلتے پھرتے ہو، بھوک، پیاس، دکھ، بیماری، گرمی، سردی، تمہیں بھی لگتی ہے اور ہر بشری کمزوری تم میں بھی ہماری طرح موجود ہے پھر ہم یہ کیسے مان لیں کہ تمہارے پاس فرشتے آتے ہیں اور ہمکلام ہوتے ہیں اور تم اللہ کے پیغمبر ہو۔ پھر چونکہ ایسے مشرکوں کا غور و فکر دنیاوی مفادات سے آگے نہیں بڑھتا۔ لہٰذا ان کا دوسرا جواب یہ رہا ہے کہ تم ہمیں اپنے باپ دادا کے دین سے ہٹا کر ایک نیا دین پیش کرکے اپنی چودھراہٹ قائم کرنا چاہتے ہو۔ سو ہم اپنے باپ دادا کا دین چھوڑنے کو تیار نہیں، نہ ہی ان معبودوں کو چھوڑ سکتے ہیں جنہیں ہمارے آباؤ اجداد پوجتے رہے اور تیسرا جواب یہ رہا ہے کہ ہم تمہاری بات اس وقت تک تسلیم کرنے کو تیار نہیں جب تک تم کوئی حسی معجزہ نہ دکھا دو یا کوئی ایسی کھلی دلیل پیش کرو جس سے ہمیں تمہارے نبوت کے دعویٰ کی صداقت کا یقین حاصل ہوجائے۔ ابراھیم
11 [١٦] مشرکوں کے ان اعتراضات و مطالبات کا جواب بھی تمام انبیاء علیہم السلام یہی دیتے رہے کہ ہم کب کہتے ہیں کہ ہم بشر نہیں۔ ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ اللہ نے ہم پر مزید احسان کیا ہے کہ ہمیں علم حق اور بصیرت کاملہ عطا فرمائی ہے۔ اور یہ اللہ کی مرضی ہے کہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے یہ احسان کرے اور اسی علم حق کی دعوت ہم تمہیں دے رہے ہیں ہمارے اپنے اختیار میں کچھ نہیں۔ نہ ہی ہم اپنی مرضی سے تمہیں کوئی معجزہ دکھانے کی قدرت رکھتے ہیں اور نہ ہی ہم نے کبھی ایسا دعویٰ کیا ہے بلکہ ہم اپنے سب کاموں میں اللہ پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ ابراھیم
12 ابراھیم
13 [١٧] کافروں کا جواب یا دین میں واپس آؤ یا ہم تمہیں نکال دیں گے :۔ مخالفین حق جب حق کے دلائل کے سامنے عاجز آجاتے ہیں تو ان کے لیے آخری حربہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے نبی اور اس کے پیروکاروں کو یہ دھمکی دے دیتے ہیں کہ یا تو ہماری بات مان لو اور ہمارے دین میں واپس آجاؤ یا پھر ہم تمہیں یہاں سے جلاوطن کردیں گے اور ان کا یہ اقدام دراصل ان کی ذہنی شکست کا اعتراف ہوتا ہے اور ایسی دھمکی ہر نبی کو دی جاتی رہی ہے چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی دفعہ وحی نازل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرائے ہوئے گھر تشریف لائے تو سیدہ خدیجہ انھیں اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ ورقہ بن نوفل نے جب یہ واقعہ سنا تو کہا کہ یہ تو وہی فرشتہ ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوتا تھا۔ پھر ساتھ ہی کہنے لگا : ’’کاش! میں اس وقت تک زندہ رہتا جب تمہاری قوم تمہیں یہاں سے نکال دے گی اور میں اس وقت تمہاری کچھ مدد کرسکتا‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعجب سے پوچھا : ’’کیا میری قوم مجھے یہاں سے نکال دے گی؟‘‘ اور یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے پوچھی کہ پوری قوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق اور امین سمجھتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عزت و تکریم کی نگاہوں سے دیکھتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سب کے محبوب تھے۔ ورقہ بن نوفل نے کہا : ’’ہاں! کیونکہ جس نبی نے بھی ایسی دعوت پیش کی اس کی قوم اسے نکالتی چلی آئی ہے‘‘ (بخاری، باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) چنانچہ ایک وقت آیا جب آپ کی قوم نے بھی آپ کو وطن سے نکلنے پر مجبور کردیا۔ [ ١٨] کافروں کی تدبیریں انھیں پر الٹ پڑتی ہیں :۔ جب حق و باطل کا معرکہ اس مرحلہ تک پہنچ جاتا ہے کہ مخالفین حق اپنے نبی کو وطن سے نکالنے یا اس کی جان ہی لینے کے درپے ہوجاتے ہیں تو اس وقت سے ہی مخالفین کی تباہی کے اسباب کا آغاز ہوجاتا ہے اور پیغمبروں کو اس کی اطلاع کردی جاتی ہے اور یہ بھی بتا دیا جاتا ہے کہ جس مقام سے یہ تمہیں نکالنے کے درپے ہیں۔ ہم ان کو دفع کرنے کے بعد تمہیں اسی مقام پر لا کر آباد کریں گے اور قبضہ و اختیار عطا کریں گے یہ آیات اسی دور کی نازل شدہ ہیں جب قریش مکہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جلا وطن کرنے یا قتل کرنے کی تدبیریں سوچ رہے تھے اور یہ آیات دراصل ان کے خلاف ایک پیشین گوئی کی حیثیت رکھتی تھیں۔ لیکن وہ تو بہرصورت اپنے پیغمبر کی مخالفت پر تلے ہوئے تھے۔ لہٰذا اس طرف ان کا دھیان جاتا ہی نہ تھا۔ بالآخر ان کا وہی انجام ہوا جو اس آیت میں بیان ہوا ہے۔ فتح مکہ کے بعد اسی جگہ کا اقتدار مسلمانوں کے ہاتھ آگیا، جہاں سے انھیں نکالا گیا تھا اور مخالفین حق میں سے اکثر اسلام لے آئے اور جو نہ لائے وہ اس جگہ سے از خود نکل کھڑے ہوئے۔ ابراھیم
14 ابراھیم
15 [١٩] یعنی ایک طرف تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے فتح و نصرت کے لیے دعا مانگ رہے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف مخالفین یہ مطالبہ کر رہے ہوتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو وہ عذاب کیوں نہیں لے آتے جس کی تم ہمیں دھمکیاں دیتے رہتے ہو۔ اس وقت اللہ رسولوں کی مدد کرتا ہے اور سرکش معاندین اور ہٹ دھرم لوگوں کا سر کچل دیتا ہے۔ ابراھیم
16 ابراھیم
17 [٢٠] یہ سزا تو دنیا میں ملے گی اور آخرت میں انھیں جہنم میں آتش دوزخ کے علاوہ کئی طرح کی اضافی سزاؤں سے بھی دوچار ہونا پڑے گا۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ وہ گرمی کی شدت کی وجہ سے سخت قسم کی پیاس محسوس کریں گے تو پانی کے لیے فریاد کریں گے مگر پانی کے بجائے انھیں رستے ہوئے زخموں کا دھوون پینے کو دیا جائے گا اور اس کے پینے پر مجبور کیا جائے گا وہ بھی پیاس کی شدت کی وجہ سے اسے پینے پر مجبور ہوں گے۔ لیکن اس کی بدبو، اس کی رنگت اور قوام سے کراہت کی وجہ سے حلق سے بمشکل ہی نیچے اترے گا لہٰذا وہ گھونٹ گھونٹ کرکے پئیں گے۔ وہ موت کی آرزو کریں گے کہ ایسی تکلیف دہ زندگی سے تو موت ہی اچھی ہے لیکن اخروی زندگی میں موت نام کی کوئی چیز نہ ہوگی۔ اس زندگی میں موت سے کسی کو چھٹکارا نہیں حالانکہ ہر ایک کو زندہ رہنے کی ہوس ہوتی ہے۔ اس زندگی میں اہل دوزخ مرنا چاہیں گے تو مر بھی نہ سکیں گے اور ان پر عذاب سخت سے سخت تر کیا جاتا رہے گا۔ اس دنیا میں موت ایک اضطراری امر ہے۔ آخرت میں زندگی اضطراری امر ہوگا۔ ابراھیم
18 [٢١] کافروں کے اچھے اعمال کی مثال راکھ کا ڈھیر :۔ شریعت کا ایک کلیہ ہے کہ اعمال کی جزا و سزا کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مشہور ومعروف فرمان اور متواتر حدیث ہے یعنی عمل کرتے وقت انسان جیسی نیت کرتا ہے ویسا ہی اسے بدلہ ملے گا۔ ایک مومن سارے کام اس نیت سے کرتا ہے کہ یہی اعمال آخرت میں اس کے کام آئیں گے اور اس کی نجات کا ذریعہ بنیں گے لہٰذا اسے ویسا ہی بدلہ دیا جائے گا۔ مگر ایک شخص جو کہ بھلا کام اس نیت سے کرتا ہے جس سے اسے کوئی ذاتی یا قومی مفاد یا اپنی شہرت مطلوب ہوتی ہے تو اسے دنیا میں ہی اس کے اس طرح کے بھلے کاموں کا بدلہ دے دیا جاتا ہے۔ اس کے نیک اعمال خواہ بہت زیادہ ہوں، آخرت میں وہ ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے کوئی راکھ کا ڈھیر پڑا ہو اور آندھی کا ایک ہُلّہ اسے اڑا کر تتر بتر کردیتا ہے اور وہاں کچھ بھی نہیں رہتا۔ درج ذیل حدیث بھی اسی مضمون کی وضاحت کررہی ہے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ مومن پر اس کی نیکی کے سلسلے میں ذرہ سا بھی ظلم نہیں کرے گا۔ اسے اس کی نیکی کا بدلہ دنیا میں بھی دیا جائے گا اور آخرت میں بھی۔ اور کافر نے جو نیک عمل کیے ہوں گے اس کو ان کا بدلہ دنیا میں ہی دے دیا جائے گا۔ یہاں تک کہ جب وہ آخرت میں پہنچے گا تو کوئی نیکی نہ ہوگی جس کا اس کو صلہ دیا جائے۔ (مسلم، کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار، باب جزاء المومن بحسناتہ فی الدنیا والآخرۃ) اور کافروں کا چونکہ آخرت پر ایمان ہی نہیں ہوتا اور نہ آخرت میں اجر پانے کی نیت سے انہوں نے کوئی کام کیا ہوتا ہے۔ لہٰذا آخرت میں ان کے اجر کا سوال ہی پیدا نہ ہوگا اور جو برے کام انہوں نے دنیا میں کیے ہوں گے جن میں سب سے بڑا گناہ یہی آخرت کا انکار ہے۔ ان کی سزا انھیں ضرور ملے گی۔ گویا ان سے نیکی برباد اور گناہ لازم والا معاملہ بن جائے گا۔ ابراھیم
19 [٢٢] یعنی زمین و آسمان اور اس کائنات کو حکمت اور مصلحت کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اس کی بنیاد ٹھوس حقائق پر ہے۔ اسی طرح اگر اعمال صالحہ کی بنیاد کسی ٹھوس حقیقت پر ہو تو اس کا ثمرہ دائمی اور پائیدار ہوگا اور وہ آخرت میں بھی اپنا ثمرہ دے گا۔ مگر جس تعمیر کی بنیاد کسی ٹھوس جگہ کی بجائے ریت یا راکھ پر رکھ دی جائے تو تیز آندھی اسے گرا کر زمین بوس کردے گی۔ اس کی عمر اتنی ہی ہوتی ہے کہ کوئی تیز آندھی کا جھکڑ آجائے یا نیچے سے پانی بہہ جائے اور یہ جھکڑ یا حادثہ کافر کی موت ہے اس کی موت کے ساتھ ہی اس کے نیک اعمال بھی برباد ہوجاتے ہیں۔ [ ٢٣] ان آیات میں مسلسل کافروں سے ہی خطاب چل رہا ہے جو محض حق کا انکار ہی نہیں کرتے بلکہ حق کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور اس کی مخالفت اور مومنوں کی ایذا رسانی میں ہر وقت کمر بستہ رہتے ہیں۔ درمیان میں ان کے نیک اعمال کا بھی ذکر آگیا جیسے مشرکین مکہ حاجیوں کی خدمت کیا کرتے تھے، انھیں پانی پلانے کا بندوبست کرتے تھے، کمزور لوگوں کی امداد کے لیے فنڈ اکٹھا کرتے تھے وغیرہ وغیرہ۔ اس آیت میں بھی انھیں ان کی بداعمالیوں پر انتباہ کیا گیا ہے اور بتایا جارہا ہے کہ اگر تم یہی کچھ کرتے رہے تو اللہ تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو یہاں لانے اور انھیں اقتدار بخشنے کی پوری قدرت رکھتا ہے اور اس کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں۔ چنانچہ چند ہی سالوں کے بعد کفار مکہ کے ساتھ یہی کچھ ہوا۔ ابراھیم
20 ابراھیم
21 [٢٤] قیامت کو مطیع اور مطاع دونوں ایک جیسے بے بس ہوں گے :۔ اس آیت میں ان لوگوں کی اندھی تقلید کا ذکر ہے۔ یعنی دنیا میں جو لوگ آنکھیں بند کرکے دوسروں کے پیچھے چلنے کے عادی ہوتے ہیں یا اپنی کمزوری کو ایک معقول عذر سمجھ کر عالم لوگوں کی اطاعت کرتے ہیں یا اپنے بڑے بزرگوں کو پارسا سمجھ کر ان کی اندھی تقلید کرتے چلے جاتے ہیں جب وہ اللہ کی عدالت میں حاضر ہوں گے تو وہ اپنے بڑے بزرگوں سے جن کی یہ پیروی کرتے رہے تھے، پوچھیں گے کہ دنیا میں تو ہم ساری عمر تمہیں بڑا سمجھ کر تمہاری ہی اطاعت کرتے رہے۔ بتاؤ آج کی مشکل گھڑی میں ہماری کچھ حمایت کرسکتے ہو تاکہ ہمارا عذاب کچھ ہلکا ہی ہوجائے؟ وہ کہیں گے کہ آج تو ہم اور تم دونوں ایک ہی جیسے مجبور ہیں۔ دنیا میں اگر ہم سیدھی راہ پر چلتے تو تمہیں بھی سیدھی راہ پر چلاتے مگر جب ہم خود گمراہ تھے تو تمہیں کیا ہدایت دیتے؟ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں اس عذاب سے نجات کی راہ سکھا دیتا تو ہم تمہیں بھی بتا دیتے مگر آج تو ہم دونوں یکساں مجرم ہیں اور ایک ہی جیسی مصیبت میں مبتلا ہیں اور نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ نہ خاموش رہنے اور صبر کرنے میں کچھ فائدہ نظر آتا ہے اور نہ گھبرانے اور چیخنے چلانے میں۔ ابراھیم
22 [٢٥] یعنی جب لوگوں کے اعمال کا حساب لینے کے بعد اہل جنت کو جنت میں اور اہل دوزخ کو دوزخ میں بھیج دیا جائے گا۔ [ ٢٦] شیطان کا دوزخیوں سے خطاب :۔ شیطان چونکہ خود بھی دوزخ میں جائے گا تو اہل دوزخ کو جو اسے ملامت کر رہے ہوں گے، مخاطب کرکے کہے گا۔ دیکھو! ایک وعدہ تو تم سے اللہ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ کیا تھا جو یہ تھا کہ قیامت کا دن یقیناً آنے والا ہے اس دن ہر شخص کی اللہ کے حضور پیشی ہوگی۔ ہر ایک سے اس کے اعمال دنیا سے متعلق باز پرس ہوگی پھر اعمال کے مطابق ہر ایک کو جزا یا سزا دی جائے گی۔ یہ وعدہ بالکل سچا تھا جسے تم نے خود مشاہدہ کرلیا ہے۔ اور ایک وعدہ میں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ تم سے کیا تھا۔ جو یہ تھا کہ روز آخرت کا تصور محض ایک ڈھکوسلا ہے۔ مرنے کے بعد انسان مٹی میں مل کر مٹی ہوجاتا ہے۔ ہزاروں سال بعد وہ کیونکر دوبارہ زندہ ہوسکتا ہے۔ لہٰذا جو کچھ ہے بس یہی دنیا ہے۔ لہٰذا یہاں خواہ مخواہ کی اپنے آپ پابندیاں لگا کر اپنے آپ کو جکڑ بند کیے رکھنا کون سی دانشمندی ہے؟ اس دنیا میں جتنی زندگی ہے عیش و آرام سے گزارنی چاہیے یا یہ وعدہ کیا تھا کہ فلاں پیر اور فلاں بزرگ کا دامن پکڑ لو، اس کی بیعت کرلو اور اس کے حضور نذر و نیاز پیش کردیا کرو۔ اگر آخرت کا دن ہوا بھی تو وہ بزرگ تمہیں سفارش کرکے اللہ سے بچالیں گے۔ شیطان کا اعتراف کہ میرا وعدہ جھوٹا تھا :۔ میں آج اقرار کرتا ہوں کہ میرا وعدہ جھوٹا تھا۔ مگر ایک بات ضرور ہے وہ یہ کہ میں نے صرف ان باتوں کی تم میں تحریک پیدا کی تھی۔ تمہیں اس طرف متوجہ ضرور کیا تھا جسے تم نے تسلیم کرلیا لیکن میرے پاس نہ تو کوئی عقلی دلیل تھی کہ تمہیں اس کا قائل کرسکتا اور نہ میرا تم پر کچھ زور چلتا تھا کہ میں تمہیں مجبور کرکے اپنی باتوں پر لگا سکتا۔ لہٰذا اب تم مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنی عقلوں کا ماتم کرو۔ آج میں بھی ویسے ہی بے بس ہوں جیسے تم ہو۔ نہ میں تمہاری کچھ حمایت یا مدد کرسکتا ہوں نہ تم میری مدد کرسکتے ہو کیونکہ دونوں ہی یکساں مجرم ہیں۔ [ ٢٧] یعنی تم نے اللہ کے احکام کے علی الرغم میری باتوں پرلگ کر اس کی نافرمانیاں کیں اور میری اطاعت کرکے مجھے یا میرے ایجنٹوں کو جو خدائی کا درجہ دے رکھا تھا میں اس کا بھی انکار کرتا ہوں اور برملا اقرار کرتاہوں کہ اللہ ہی وحدہ لاشریک ہے اور وہی بندگی اور پرستش کے قابل ہے اور تم نے جو میری انگیخت پر کئی قسم کے معبود، حاجت روا اور مشکل کشا بنا رکھے تھے یہ سب جھوٹ ہی جھوٹ تھا اور اس جملہ کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب میں تمہارے شریک بنانے سے پہلے ہی کافر بن چکا تھا تو پھر تم نے مجھے شریک بنایا ہی کیوں تھا ؟ ابراھیم
23 [٢٨] یہاں اہل جنت کا ذکر اسی سنت الٰہی کے مطابق آیا ہے کہ جہاں اہل دوزخ کا ذکر آئے تو ساتھ ہی اہل جنت کا تھوڑا سا ذکر کردیا جائے اور جہاں اہل جنت کا تفصیلی ذکر آئے تو ساتھ ہی مختصر سا اہل دوزخ کا بھی ذکر کردیا جاتا ہے۔ [ ٢٩] تحیۃ کے معنی ہیں دعائے درازی عمر اور یہاں دنیا میں جو ایک دوسرے کی ملاقات کے وقت سلام یا السلام علیکم کہا جاتا ہے تو یہ دراصل مخاطب کے لیے امن و سلامتی اور تندرستی کی دعا ہوتی ہے اور جنت میں سلامتی تو پہلے ہی موجود ہوگی وہاں سلام کا مطلب یہ ہوگا کہ تمہیں یہ سلامتی مبارک ہو۔ ابراھیم
24 [٣٠] کلمہ طیبہ کے لغوی معنی ہے ''پاکیزہ بات'' اور اس سے مراد کلمہ توحید یعنی ﴿لاَ اِلٰہَ الاَّ اللّٰہُ﴾ ہے۔ یہی وہ کلمہ ہے کہ جب عقیدہ و عمل کی شکل اختیار کرلیتا ہے تو یہ جہاں تمام تر بھلائیوں کی بنیاد بن جاتا ہے وہاں ہر طرح کی برائی کی جڑ بھی کاٹ پھینکتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر نبی نے اپنی دعوت کا آغاز اسی کلمہ سے کیا ہے۔ [ ٣١] کلمہ طیبہ کی مثال شجرہ طیبہ ہے :۔ پاکیزہ درخت سے مراد کھجور کا درخت ہے اور پاکیزہ درخت کی مومن سے مثال پیش کی گئی ہے جس کے دل میں کلمہ طیبہ یا کلمہ توحید رچ بس گیا ہو۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا ’’بتاؤ وہ درخت کون سا ہے جس کے پتے نہیں گرتے۔ مسلمان کی مثال اسی درخت کی سی ہے اور یہ بھی نہیں ہوتا اور یہ بھی نہیں ہوتا، یہ بھی نہیں ہوتانہ تو اس کا پھل ختم ہوتا ہے اور نہ اس کا دانہ معدوم ہوتا اور نہ اس کا نفع ضائع جاتا ہے، اور ہر وقت میوہ دیتا ہے؟“ اس وقت میرے دل میں خیال آیا وہ کھجور کا درخت ہے مگر جب میں نے دیکھا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمررضی اللہ عنہ جیسے بزرگ خاموش بیٹھے ہیں تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دینا مناسب نہ سمجھا۔ پھر آپ نے خود ہی بتا دیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔ جب ہم اس مجلس سے اٹھ آئے تو میں نے اپنے والد سے کہا ”اباجان! اللہ کی قسم! میرے دل میں یہ بات آئی تھی کہ وہ کھجور کا درخت ہے‘‘ انہوں نے کہا : ’’پھر تم نے کہہ کیوں نہ دیا ؟‘‘ میں نے کہا : ’’آپ سب خاموش رہے تو میں نے (آگے بڑھ کر بات کرنا) مناسب نہ سمجھا‘‘ میرے والد کہنے لگے : ’’اگر تم کہہ دیتے تو مجھے اتنا اتنا مال ملنے سے زیادہ خوشی ہوتی‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) اور اللہ تعالیٰ نے شجرہ طیبہ کی چار صفات بیان فرمائیں (١) وہ طیب اور پاکیزہ ہے۔ اس کی یہ عمدگی خواہ شکل و صورت کے اعتبار سے ہو یا پھل پھول کے اعتبار سے یا پھل کے خوش ذائقہ، شیریں اور خوشبودار ہونے کے اعتبار سے ہو۔ (٢) اس کی جڑیں زمین میں خوب مستحکم اور گہرائی تک پیوست ہوچکی ہیں اور اس قدر مضبوط ہیں جو اپنے طویل القامت درخت کا بوجھ سہار سکتی ہیں۔ (٣) اس کی شاخیں آسمانوں میں یعنی بہت بلندی تک چلی گئی ہیں لہٰذا اس سے جو پھل حاصل ہوگا وہ ہوا کی آلودگی اور گندگی وغیرہ کے جراثیم سے پاک و صاف ہوگا۔ (٤) یہ عام درختوں کی طرح نہیں بلکہ ہر موسم میں پورا پھل دیتا ہے اور یہ باتیں کھجور کے درخت اور پھل میں پائی جاتی ہیں۔ اسی لیے اس درخت کو حدیث میں شجرہ طیبہ کہا گیا ہے اور ممکن ہے کہ اللہ کے علم میں کوئی ایسا درخت بھی ہوجو ہر وقت پھل دیتا ہو جیسا کہ آیت کے الفاظ سے متبادرہوتا ہے۔ نیز اللہ نے شجرہ طیبہ کو کلمہ طیبہ کے مثل قرار دیا ہے اور کلمہ طیبہ میں یہ صفت بدرجہ اتم موجود ہے۔ وہ سدا بہار ہے اور ہر وقت اپنے صالح برگ و بار لاتا رہتا ہے۔ ابراھیم
25 [٣٢] کلمہ طیبہ کے ثمرات :۔ یعنی جس کی کوئی فصل پھل سے خالی نہیں جاتی اور اس مثال کا مطلب یہ ہے کہ جب کلمہ توحید کسی مومن کے دل میں رچ بس جاتا ہے اور اس میں اس کی جڑ پیوست ہوتی ہے اور وہ اپنی پوری زندگی اسی کلمہ کے تقاضوں کے مطابق ڈھال لیتا ہے تو اس سے جو اعمال صالحہ صادر ہوتے ہیں۔ اس کا فائدہ صرف اس کی ذات تک محدود نہیں رہتا بلکہ آس پاس کا معاشرہ بھی ان سے فیضیاب ہوتا ہے اور ہر آن ہوتا رہتا ہے۔ پھر یہی اعمال صالحہ آسمان کی بلندیوں تک جا پہنچتے ہیں۔ جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ ﴿اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ ﴾(۱۰:۳۵)(پاکیزہ کلمہ اللہ تعالیٰ کی طرف چڑھتا ہے اور عمل صالح اسے چڑھانے کا سبب بنتا ہے) اور اللہ کی رحمت اور برکات کے نزول کا سبب بنتے ہیں اور اگر اسی کلمہ طیبہ پر مبنی کوئی معاشرہ اپنا نظریہ حیات اسی بنیاد پر استوار کرلے تو اس کے ثمرات و برکات میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ کلمہ طیبہ کی جڑ اس لحاظ سے مضبوط ہے کہ انسانی زندگی میں اس کا آغاز سیدنا آدم علیہ السلام سے ہوا اور تاقیامت یہ کلمہ برقرار رہے گا۔ آندھیوں کے جھکڑ یا باطل کے بلاخیز طوفان اسے متزلزل نہیں کرسکے۔ اور باطنی لحاظ سے اس کلمہ کا مستقر مومن کا دل ہے اور مومن کے دل میں اس کلمہ کی جڑیں اس قدر راسخ ہوتی ہیں کہ زمانہ بھر کی مشکلات اور مصائب اسے اس عقیدہ سے متزلزل نہیں کرسکتے۔ پھر یہی کلمہ طیبہ کا مومن کے دل میں پڑا ہوا بیج جب ایک تناور درخت کی شکل اختیار کرلیتا ہے تو اس کے برگ و بار سب کے سب خیر اور بھلائی کا سرچشمہ بن جاتے ہیں اور اس سے بنی نوع انسان تو درکنار اللہ کی دوسری مخلوق بھی اس کی برکتوں سے فیض یاب ہوتی ہے۔ ابراھیم
26 [٣٣] خلافت اور دوسرے نظام ہائے حیات :۔ کلمہ طیبہ کے مقابلہ میں کلمہ خبیثہ (گندی بات) یعنی شرک و کفر کی مثال ایسے پودے سے دی گئی ہے جس کی سب صفات شجرہ طیبہ کے برعکس ہیں اس کی جڑ زمین کے اندر گہرائی تک نہیں جاتی بلکہ اوپر ہی اوپر زمین کے قریب ہی رہتی ہے کہ ہوا کا ایک تیز جھونکا آئے تو اسے بیخ و بن سے اکھاڑ کر پرے پھینک دے یہ مثال ہر باطل بات اور باطل نظام پر صادق آتی ہے۔ ہمارے ہاں جو مثل مشہور ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے، وہ اسی مضمون کا مصداق ہے۔ حدیث کی رو سے شجرہ خبیثہ سے مراد اندرائن کا پودہ ہے۔ (پنجابی تمہ) جس کا پھل سخت کڑوا ہوتا ہے یعنی جہاں بھی باطل نظام حیات رائج ہوگا۔ کڑوے برگ و بار ہی لائے گا۔ معاشرہ میں بدامنی، رشوت ایک دوسرے کے حقوق کا غصب کرنا، فساد، جان ومال یا آبرو وغیرہ کا محفوظ نہ رہنا۔ غرض کہ ایسے معاشرہ میں عوام کی بے چینی اور اضطراب بڑھتا جاتا ہے اور کئی طرح کے مسائل اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اگر ان کا کوئی علاج سوچا جائے تو یہ مسائل اور پیچیدہ ہوتے اور بڑھتے جاتے ہیں کیونکہ اصل کا علاج تو کیا نہیں جاتا، ساری توجہ بس علامات پر ہی ہوتی ہے۔ اسلامی نظام حیات صرف ایک ہی طرز پر ہوتا ہے جسے خلافت بھی کہہ سکتے ہیں جبکہ باطل نظام لاتعداد ہوسکتے ہیں جو آئے دن بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں حتیٰ کہ ان کا نام تک صفحہ ہستی سے مٹ جاتا ہے اور ایسے نظام ہر دور میں مختلف اور ایک سے زیادہ بھی رہے ہیں اور آج بھی پائے جاتے ہیں اس کی وجہ صرف یہی ہوتی ہے کہ ان کی بنیاد باطل یا شجرہ خبیثہ پر ہوتی ہے اور باطل کو کبھی استحکام نصیب نہیں ہوتا اور جب تک یہ قائم رہے اس کے برگ و بار کڑوے ہی ہوتے ہیں۔ ابراھیم
27 [٣٤] کلمہ طیبہ کی برکات میں سے ایک یہ ہے کہ مومن کسی حال میں بھی نہیں گھبراتا۔ وہ مصائب و مشکلات کے دور میں بھی اللہ پر بھروسہ رکھتا، ثابت قدم رہتا اور استقلال سے سب کچھ برداشت کرجاتا ہے اور آخرت میں تو اسے بعینہ وہی حالات و مناظر پیش آئیں گے جن پر وہ پہلے ہی ایمان رکھتا تھا۔ لہٰذا وہاں بھی اس کے گھبرانے کی کوئی وجہ نہ ہوگی اور اس کلمہ کی برکت سے وہاں بھی وہ ثابت قدم رہے گا۔ [ ٣٥] قبر میں سوال و جواب :۔ دنیا اور آخرت کے علاوہ ایک تیسرا مقام عالم برزخ یا قبر کا مقام ہے یعنی قبر میں جب فرشتے میت سے سوال کریں گے تو اس وقت بھی مومن ثابت قدم رہے گا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : سیدنا براء بن عازب کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”مسلمان سے جب قبر میں سوال ہوگا تو وہ کہے گا ﴿اَشْھَدُ اَنْ لاَ اِلٰہَ الاَّاللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ﴾ اس آیت میں قول الثابت سے یہی مراد ہے“(بخاری، کتاب التفسیر، نیز کتاب الجنائز، باب ماجاء فی عذاب القبر) (مسلم، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا واھاھا۔ باب عرض مقعد المیت من الجنۃ) اور ترمذی کی روایت کے الفاظ یوں ہیں کہ جب قبر میں اس سے پوچھا جائے گا کہ ’’تیرا پروردگار کون ہے؟ دین کیا ہے؟ اور نبی کون ہے‘‘ (ترمذی۔ کتاب التفسیر) دفن کے بعد میت کے لئے دعا :۔ اسی لیے جب کسی مومن کو دفن کیا جاتا ہے تو دفن کے بعد اس کی قبر کے پہلو میں کھڑے ہو کر یہ دعا بھی کی جاتی ہے﴿اَللّٰھُمَّ ثَبِّتْہُ بالْقَوْلِ الثَّابِتِ﴾اور قول ثابت سے مراد یہی کلمہ طیبہ ہے اور ظالم یعنی کافر اور مشرک وغیرہ سے جب فرشتے قبر میں سوال کریں گے تو وہ کچھ جواب نہ دے سکے گا صرف یہ کہہ دے گا۔ ’’افسوس ! میں نہیں جانتا میں تو دنیا میں وہی کچھ کہہ دیتا تھا جو لوگ کہتے تھے‘‘ یعنی دنیا میں ان لوگوں نے جو کچھ غلط سلط عقیدے گھڑے اور اپنائے ہوئے تھے وہ بھی اسے یکسر بھول جائیں گے کیونکہ ان کی بنیاد ہی جھوٹ اور باطل پر تھی۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے : ١۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جب آدمی اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی واپس لوٹتے ہیں تو بلاشبہ وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔ اس وقت اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جو اسے اٹھا کر بٹھا دیتے ہیں اور کہتے ہیں : تو اس شخص یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتا تھا ؟ اگر وہ ایماندار ہو تو کہتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے۔ تو دوزخ میں اپنا ٹھکانہ دیکھ لے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے تجھ کو جنت میں ٹھکانہ دیا۔ تو وہ دونوں ٹھکانوں کو ایک ساتھ دیکھے گا۔ قتادہ کہتے ہیں کہ ہم سے یہ بھی بیان کیا گیا کہ اس کی قبر کشادہ کردی جاتی ہے۔ پھر انس کی حدیث بیان کرتے ہوئے کہا : اگر وہ منافق یا کافر ہے تو اس سے پوچھا جاتا ہے کہ تو اس شخص کے بارے میں کیا کہتا تھا ؟ وہ کہتا ہے۔ میں نہیں جانتا میں تو وہی کچھ کہہ دیتا تھا جو لوگ کہتے تھے۔ اس سے کہا جائے گا کہ نہ تو تو خود سمجھا اور نہ خود پڑھا۔ پھر لوہے کے ہنٹروں سے اسے ایسی مار پڑے گی کہ وہ بلبلا اٹھے گا اور اس کی یہ چیخ و پکار جن و انس کے سوا آس پاس کی تمام چیزیں سنتی ہیں۔ (بخاری، کتاب الجنائز۔ باب ماجاء فی عذاب القبر) ٢۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب میت کو قبر میں اتارا جاتا ہے۔ اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جن کا رنگ سیاہ اور آنکھیں نیلگوں ہوتی ہیں ایک کو منکر اور دوسرے کو نکیر کہا جاتا ہے وہ کہتے ہیں کہ تو اس شخص کے متعلق کیا کہتا تھا اگر وہ ایماندار ہے تو وہ کہتا ہے وہ اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہے میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم جانتے تھے کہ تو اس طرح کہے گا پھر اس کے لیے ستر ستر گز تک قبر فراخ کردی جاتی ہے پھر اس کے لیے اس میں روشنی کردی جاتی ہے پھر اسے کہا جاتا ہے کہ تو سو جا، وہ کہتا ہے میں اپنے گھر والوں کے پاس جاتا ہوں تاکہ ان کو خبر دوں وہ کہتے ہیں سوجا جس طرح دلہن سوجاتی ہے جس کو نہیں جگاتا مگر زیادہ پیارا لوگوں کا اس کی طرف یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس کے سونے کی جگہ سے جگائے گا۔ اگر منافق ہوتا ہے وہ (فرشتوں کے جواب میں) کہتا کہ میں نے لوگوں سے سنا وہ ایک بات کہتے تھے۔ میں نے اس کی مثل کہہ دی میں نہیں جانتا، وہ کہتے ہیں ہم جانتے تھے کہ تو اس طرح کہے گا۔ زمین کے لیے کہا جاتا ہے اس پر مل جا وہ اس پر مل جاتی ہے۔ مختلف ہوجاتی ہیں اس کی پسلیاں ہمیشہ رہتا ہے اس میں عذاب کیا گیا یہاں تک کہ اللہ اس کو اس کی قبر سے اٹھائے گا۔ (ترمذی، بحوالہ مشکوۃ۔ کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ۔ فصل ثانی) ٣۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا۔ فرمایا : ”میت کے پاس دو فرشتے آتے ہیں وہ اس کو بٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ شخص کون ہے جس کو تمہاری طرف بھیجا گیا تھا وہ کہتا ہے کہ وہ اللہ کا رسول ہے وہ اسے کہتے ہیں تجھے اس بات کا علم کیسے ہوا وہ کہتا ہے میں نے اللہ کی کتاب پڑھی اس کے ساتھ ایمان لایا اس کو سچا جانا۔ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ثابت رکھتا ہے۔ ان لوگوں کو جو ایمان لائے ثابت بات کے ساتھ الایۃ۔ آسمان سے ایک پکارنے والا پکارتا ہے۔ میرے بندے نے سچ کہا اس کو جنت کا بچھونا بچھا دو اور جنت کی پوشاک پہنا دو۔ جنت کی طرف دروازہ کھول دو اس کے لیے کھولا جاتا ہے اس کے پاس اس کی ہوا اور خوشبو آتی ہے اور بقدر نگاہ کی درازی کے اس کی قبر کھول دی جاتی ہے اور جو کافر ہے اس کی موت کا ذکر کیا فرمایا : پھر اس کی روح اس کے جسم میں ڈالی جاتی ہے۔ دو فرشتے آتے ہیں اسے بٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں تیرا رب کون ہے، وہ کہتا ہے ہاہ ہاہ میں نہیں جانتا۔ وہ کہتے ہیں تیرا دین کیا وہ کہتا ہے ہاہ ہاہ میں نہیں جانتا۔ وہ کہتے ہیں وہ شخص کون ہے جسے تمہاری طرف بھیجا گیا وہ کہتا ہے ہاہ ہاہ میں نہیں جانتا آسمان سے ایک پکارنے والا پکارتا ہے یہ جھوٹا ہے پس آگ سے اس کا بچھونا بچھا دو اور آگ کا لباس پہنا دو اور دوزخ کی طرف ایک دروازہ کھول دو کہا اس کی لو اور گرمی آتی ہے۔ فرمایا : فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قبر اس پر تنگ کی جاتی ہے یہاں تک اس کی پسلیاں مختلف ہوجاتی ہیں پھر ایک اندھا بہرا فرشتہ مقرر کردیا جاتا ہے اس کے پاس لوہے کا ایک گرز ہوتا ہے اگر وہ پہاڑ پر مارا جائے تو وہ بھی مٹی بن جائے وہ اس کو گرز کے ساتھ مارتا ہے کہ جن و انس کے سوا مشرق و مغرب کے درمیان جو ہے اس کی آواز سنتا ہے وہ مٹی ہوجاتا ہے پھر اس میں روح لوٹا دی جاتی ہے۔ (احمد، ابو داؤد، بحوالہ مشکوۃ کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ فصل ثانی) ابراھیم
28 [٣٦] ان لوگوں سے مراد قریشی مشرک سردار ہیں جن کے ہاتھ میں اس وقت سارے عرب کی باگ ڈور تھی۔ یہ لوگ بیت اللہ کے پاسبان تھے اور اسی پاسبانی کی وجہ سے ان کی عرب بھر میں عزت کی جاتی تھی۔ اللہ نے ان کی ہدایت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور قرآن نازل فرمایا۔ یہ اللہ کی ان پر دوسری بڑی مہربانی تھی۔ مگر ان لوگوں نے اللہ کی نعمتوں کا جواب ضد اور عناد سے دیا۔ حق کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے۔ پھر اس مخالفت میں بڑھتے ہی گئے تاآنکہ خود بھی تباہ ہوئے اور اپنی قوم کو بھی تباہ کرکے چھوڑا اور مرنے کے بعد خود بھی جہنم واصل ہوں گے اور اپنے پیرو کاروں کو بھی اپنے ساتھ لے ڈوبیں گے۔ ابراھیم
29 ابراھیم
30 ابراھیم
31 ابراھیم
32 [٣٧] اللہ کی نعمتوں کی ناشکری :۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات میں بندوں پر اپنے احسانات کا ذکر کیا ہے جن کے بغیر ان کی زندگی ممکن ہی نہ تھی۔ مثلاً زمین اور آسمان پیدا کیے۔ زمین اس کائنات میں بنی نوع انسان کا مسکن ہے پھر زمین و آسمان میں ہواؤں اور بادلوں کا نظام جاری کیا تاکہ اس زمین میں بارش برسے اور انسانوں اور دوسرے جانوروں کو خوراک مہیا ہوسکے اور وہ زندہ رہ سکیں۔ اگر بارش کا سلسلہ منقطع ہوجائے تو انسان کو نہ کچھ پینے کو ملے اور نہ کھانے کو۔ پھر دودھ اور سواری کے لیے چوپائے بنائے اور بحری سفر کے لئے کشتیاں۔ اگر کشتی کی ساخت میں چند مخصوص طبعی قوانین سے مدد نہ لی جاتی تو انسان کبھی بحری سفر کر ہی نہ سکتا۔ پانی بھی طبعی قوانین کا پابند ہے جس کی وجہ سے انسان دریاؤں سے بڑی بڑی نہریں پھر چھوٹی چھوٹی نہریں نکال کر اپنے کھیتوں کو سیراب کرتا ہے۔ پھر انسان کو کام کاج کے لیے روشنی کی اور کھیتوں کے پکنے کے لیے حرارت کی ضرورت تھی اس کے لیے سورج کو پیدا کیا۔ رات کو چاند روشنی مہیا کرتا ہے اور پھلوں میں چاند جب زائد النور ہوتا ہے رس تیزی سے بڑھنے لگتا ہے پھر سورج سے دن اور رات پیدا ہوتے ہیں۔ دن کام کاج کے لیے اور رات آرام کے لیے بنائی۔ اور ان تمام چیزوں کو اس طرح انسان کی خدمت پر لگا دیا کہ ان کے کام میں ذرہ بھر تاخیر، کمی یا کوتاہی واقع نہیں ہوتی۔ غرض انسانی زندگی کی جتنی بھی ضروریات اور مطلوبہ چیزیں تھیں وہ اللہ تعالیٰ نے اسے فراہم کردیں پھر عقل و شعور بخش کر اسے تمام مخلوقات سے افضل و اشرف بنا دیا۔ اور اگر نعمتوں کی جزئیات پر نظر ڈالی جائے تو انسان انھیں شمار کرنے سے عاجز ہے۔ پھر انسان نے اللہ کی ان نعمتوں کا کیا جواب دیا ؟ یہ کہ بعض لوگوں نے تو اس کی ذات ہی سے انکار کردیا اور جنہوں نے مانا ان میں بھی اکثریت ایسے لوگوں کی رہی جو نعمتیں تو اللہ کی استعمال کرتے رہے اور حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے دوسروں کو پکارتے رہے۔ اس سے بھی بڑھ کر کوئی بے انصافی اور احسان ناشناسی کی بات ہوسکتی ہے؟ ابراھیم
33 ابراھیم
34 ابراھیم
35 [٣٨] مکہ کو پر امن شہر بنانے کے لئے ابراہیم علیہ السلام کی دعا :۔ چند آیات پہلے مشرک رؤسائے قریش کا ذکر ہوا کہ کس طرح وہ اپنے ساتھ اپنی قوم کو بھی ہلاکت کے گڑھے تک لے گئے تھے۔ یہ قریش چونکہ اپنے آپ کو سنت ابراہیم علیہ السلام کا پیروکار سمجھتے اور کہلواتے تھے لہٰذا سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ذکر بیان کرکے انھیں بتایا جارہا ہے کہ وہ شرک سے کس قدر بیزار تھے۔ نیز یہ کہ تم ان کی اتباع کا دعویٰ کیسے کرتے ہو۔ انہوں نے تو اس شہر مکہ کو پرامن بنانے کے لیے دعا ہی یہ کی تھی کہ ’’اے میرے پروردگار مجھے بھی اور میری اولاد کو بھی شرک کی نجاستوں اور بتوں کی پوجا پاٹ سے محفوظ رکھنا۔ کیونکہ اکثر لوگ انہی بتوں کی پوجا پاٹ کی وجہ سے گمراہ ہوئے ہیں۔ میرا متبع تو صرف وہ ہے جس نے میرے طریقہ توحید کو تسلیم کیا اور جو بتوں کا پرستار ہے اس سے میرا کوئی تعلق نہیں اور جس نے میری نافرمانی کی اور توحید کاراستہ چھوڑ کر بتوں کی نجاست میں پھنس گیا وہ سزا کا مستحق تو ضرور ہے مگر اے پروردگار! تو غفور رحیم ہے چاہے تو انھیں بھی معاف کر دے۔‘‘ مشرکوں کے حق میں آپ کی ایسی دعا محض آپ کے نرم دل اور رحم دل ہونے کی وجہ سے تھی مگر جب آپ کو واضح طور پر معلوم ہوگیا کہ مشرک کی بخشش نہیں ہوسکتی تو آپ نے اپنے باپ کے حق میں بھی دعا مانگنا چھوڑ دی تھی۔ کہنے کو تو قریش مکہ اپنے آپ کو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اولاد کہتے تھے اور ان کے دین کے متبع ہونے کا دعویٰ بھی کرتے تھے مگر ان میں کئی بنیادی قباحتیں آگئیں تھیں مثلاً: ١۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ یا اللہ اس شہر مکہ کو پرامن بنا دے اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا قبول بھی ہوگئی اور قریش مکہ اس کے پرامن شہر ہونے کی وجہ سے کئی طرح کے معاشی، معاشرتی اور سیاسی فائدے بھی اٹھا رہے تھے مگر ان کا اپنا یہ حال تھا کہ اسی پر امن شہر میں اللہ کے رسول اور مسلمانوں پر ظلم و ستم میں حد کردی تھی اور ان پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا۔ حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان مکہ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ ٢۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دوسری دعا یہ تھی کہ یا اللہ مجھے اور میرے بیٹوں (یعنی اولاد) کو بتوں کی پرستش سے محفوظ رکھنا۔ لیکن قریش مکہ کی بت پرستی کی انتہا یہ تھی کہ خاص بیت اللہ میں تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے جن میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کی تصاویر بھی تھیں اور ان کے ہاتھ میں فال کے تیر بھی پکڑائے گئے تھے۔ ٣۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اس بے آب و گیاہ میدان میں اپنی بیوی اور بچوں کو اس لیے لابسایا تھا کہ وہ خود اور آپ کی اولاد بیت اللہ شریف کو آباد رکھیں اور اس میں اللہ کی عبادت، طواف اور حج و عمرہ وغیرہ کیا کریں لیکن قریش نے مسلمانوں پر محض مشرک نہ ہونے کی بنا پر یہ پابندی لگا دی تھی کہ وہ نہ کعبہ میں نماز ادا کرسکتے اور نہ طواف کرسکتے ہیں اور نہ حج و عمرہ بجا لاسکتے ہیں۔ ٤۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ اے ہمارے پروردگار! مجھے، میرے والدین اور سب ایمان لانے والوں کو قیامت کے دن معاف کردینا۔ لیکن قریش مکہ قیامت کے دن پر اعتقاد ہی نہیں رکھتے تھے۔ ٥۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے واضح طور پر فرما دیا تھا کہ جو میری تابعداری کرے گا وہ تو یقیناً میرا ہے اور جو میری نافرمانی کرے گا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں اور قریش مکہ نے مندرجہ بالا سب امور میں سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی مخالفت تھی۔ بایں ہمہ وہ اپنے آپ کو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اولاد اور ان کا متبع کہتے تھے۔ ابراھیم
36 ابراھیم
37 [٣٩] یہاں بخاری سے ایک طویل حدیث درج کی جاتی ہے کہ کن حالات میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ کو اس بے آب و گیاہ وادی میں لا کر بسایا تھا اور اللہ نے ان کے کھانے پینے کا سامان کیسے کیا۔ چاہ زمزم کا پھوٹنا اور بیت اللہ کی تعمیر وغیرہ بہت سے حالات اس حدیث میں تفصیلاً آگئے ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عورتوں میں سب سے پہلے سیدہ ہاجرہ نے کمر پٹہ باندھا تاکہ سارہ ان کا سراغ تک نہ پائیں۔ چنانچہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام ہاجرہ علیہ السلام اور اس کے بچے کو وہاں سے نکال لائے۔ ہاجرہ، اسمٰعیل علیہ السلام کو دودھ پلاتی تھی۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے انھیں ایک بڑے درخت تلے بٹھا دیا جہاں آب زمزم ہے مسجد الحرام کی بلند جانب میں۔ اس وقت نہ وہاں کوئی آدمی آباد تھا اور نہ ہی پانی تھا۔ آپ انھیں ایک تھیلہ کھجور کا اور ایک مشکیزہ پانی کا دے کر چلے آئے۔ سیدہ حاجرہ ان کے پیچھے آئیں اور پوچھا ’’ابراہیم ہمیں ایسی وادی میں چھوڑ کر کہاں جارہے ہو جہاں نہ کوئی آدمی ہے اور نہ پانی ہے؟‘‘ ہاجرہ نے کئی بار یہ بات پوچھی مگر ابراہیم علیہ السلام نے مڑ کر نہ دیکھا۔ پھر کہنے لگیں ”کیا اللہ نے آپ کو ایسا حکم دیا ہے؟“سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کہا ”ہاں“ پھر کہنے لگیں ’’اچھا پھر اللہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا ‘‘ پھر واپس آگئیں۔ ابراہیم وہاں سے چل کر جب اس ٹیلہ پر پہنچے جہاں سے انھیں دیکھ نہ سکتے تھے تو بیت اللہ کی طرف منہ کرکے اپنے ہاتھ اٹھا کر ان کلمات کے ساتھ دعا کی ’’اے اللہ! میں نے اپنی اولاد کے ایک حصہ کو ایسی وادی میں لابسایا ہے جہاں کوئی کھیتی نہیں۔۔ یشکرون تک“ صفا مروہ کی سعی کا آغاز کیسے ہوا ؟ سیدہ ہاجرہ سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کو اپنا دودھ اور یہ پانی پلاتی رہیں حتیٰ کہ پانی ختم ہوگیا۔ تو خود بھی پیاسی اور بچہ بھی پیاسا ہوگیا۔ بچہ کو دیکھا کہ وہ پیاس کے مارے تڑپ رہا ہے۔ آپ بچہ کی یہ حالت دیکھ نہ سکیں اور چل دیں۔ دیکھا کہ صفا پہاڑی ہی آپ کے قریب ہے۔ اس پر چڑھیں پھر وادی کی طرف آگئیں۔ وہ دیکھ رہی تھیں کہ کوئی آدمی نظر آئے مگر کوئی آدمی نظر نہ آیا۔ آپ صفا سے اتر آئیں حتیٰ کہ وادی میں پہنچ گئیں اور اپنی قمیص کا دامن اٹھایا اور ایک مصیبت زدہ آدمی کی طرح دوڑنے لگیں یہاں تک کہ وادی طے کرلی اور مروہ پہاڑی پر آگئیں اور مروہ پر کھڑے ہو کر دیکھا کہ کوئی آدمی نظر آتا ہے مگر انھیں کوئی آدمی نظر نہ آیا۔ اسی کیفیت میں انہوں نے سات چکر لگائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اس وقت سے ہی لوگوں نے صفا مردہ کا طواف شروع کیا‘‘ پر جب وہ ساتویں چکر میں مروہ پر چڑھیں تو ایک آواز سنی۔ انہوں نے اپنے آپ سے کہا : خاموش رہو۔ (بات سنو) پھر کان لگایا تو وہی آواز سنی۔ کہنے لگیں ’’میں نے تیری آواز سنی، کیا کچھ ہماری مدد کرسکتا ہے؟‘‘ آپ نے اسی وقت زمزم کے مقام پر ایک فرشتہ دیکھا جس نے اپنی ایڑی یا اپنا پیر زمین پر مار کر اسے کھود ڈالا۔ تو پانی نکل آیا۔ سیدہ ہاجرہ اسے حوض کی طرح بنانے لگیں اور اپنے ہاتھ سے منڈیر باندھنے لگیں اور چلوؤں سے پانی اپنے مشکیزہ میں بھرنے لگیں جب وہ چلو سے پانی لیتیں تو اس کے بعد جوش سے پانی نکل آتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ ام اسمٰعیل پر رحم فرمائے۔ اگر وہ زمزم کو اپنے حال پر چھوڑ دیتیں یا ( فرمایا) اس سے چلو چلو پانی نہ لیتیں تو زمزم ایک بہتا ہوا چشمہ بن جاتا“چنانچہ سیدہ ہاجرہ نے پانی پیا اور اپنے بچے کو دودھ پلایا۔ فرشتے نے ان سے کہا :تم جان کی فکر نہ کرو۔ یہاں اللہ کا گھر ہے یہ بچہ اور اس کا باپ تعمیر کریں گے اور اس وقت کعبہ گر کر زمین سے اونچا ٹیلہ بن چکا تھا اور برسات کا پانی اس کے دائیں بائیں سے گزر جاتا تھا۔ آب زمزم اور بنو جرہم :۔ کچھ عرصہ بعد وہاں جرہم (قبیلہ) کے لوگ یا ان کے گھر والے کداء کے راستے سے آرہے تھے ادھر سے گزرے۔ وہ مکہ کے نشیب میں اترے۔ انہوں نے وہاں ایک پرندہ گھومتا دیکھا تو کہنے لگے : یہ پرندہ ضرور پانی پر گردش کررہا ہے ہم اس میدان سے واقف ہیں یہاں کبھی پانی نہیں دیکھا۔ چنانچہ انہوں نے ایک دو آدمی بھیجے۔ انہوں نے پانی موجود پایا تو واپس جاکر انھیں پانی کی خبر دی تو وہ بھی آگئے۔ ام اسمٰعیل وہیں پانی کے پاس بیٹھیں تھیں۔ انہوں نے پوچھا : کیا ہمیں یہاں قیام کرنے کی اجازت دیں گی؟ ام اسمٰعیل علیہ السلام نے کہا : ہاں۔ لیکن پانی میں تمہارا حق نہیں ہوگا۔ وہ کہنے لگے : ’’ٹھیک ہے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ام اسمٰعیل علیہ السلام خود بھی یہ چاہتی تھیں کہ انسان وہاں آباد ہوں“چنانچہ وہ وہاں اتر پڑے اور اپنے گھر والوں کو بھی بلا بھیجا۔ جب وہاں ان کے کئی گھر آباد ہوگئے اور اسمٰعیل علیہ السلام جوان ہوگئے اور انھیں لوگوں سے عربی سیکھی تو ان کی نگاہ میں وہ بڑے اچھے جوان نکلے۔ وہ ان سے محبت کرتے تھے اور اپنے خاندان کی ایک عورت ان کو بیاہ دی۔ اور ان کی والدہ فوت ہوگئیں۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا پہلی بار وہاں سے گزرنا :۔ ایک دفعہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اپنے بیوی بچے کو دیکھنے آئے اس وقت اسمٰعیل علیہ السلام خود گھر پر نہ تھے۔ آپ نے ان کی بیوی سے ان کے متعلق پوچھا وہ کہنے لگیں ’’روزی کی تلاش میں نکلے ہیں‘‘ پھر آپ نے اس سے گزر بسر کے متعلق پوچھا تو کہنے لگی بڑی تنگی سے زندگی بسر ہو رہی ہے اور سختی کی آپ سے خوب شکایت کی۔ آپ علیہ السلام نے کہا، ”جب تیرا خاوند آئے تو اسے میرا سلام کہنا اور کہنا کہ اپنے گھر کی چوکھٹ بدل دے“ جب اسمٰعیل علیہ السلام آئے تو انہوں نے محسوس کیا جیسے کوئی مہمان آیا ہو۔ بیوی سے پوچھا کیا کوئی آیا تھا ؟ اس نے کہا ”ہاں“ اس طرح کا ایک بوڑھا آیا تھا، تمہارے متعلق پوچھتا تھا تو میں نے اسے بتا دیا۔ پھر پوچھا کہ تمہاری گزران کیسے ہوتی ہے تو میں نے کہا بڑی تنگی ترشی سے دن کاٹ رہے ہیں۔ اسمٰعیل علیہ السلام نے پوچھا ’’کچھ اور بھی کہا تھا ؟‘‘ کہنے لگی ’’ہاں‘‘ تمہیں سلام کہا تھا اور کہا تھا کہ گھر کی چوکھٹ تبدیل کردو۔ اسمٰعیل علیہ السلام کہنے لگے ’’وہ میرے والد تھے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں چھوڑ دوں۔ اب تو اپنے گھر والوں کے پاس چلی جا‘‘ چنانچہ اسمٰعیل علیہ السلام نے اسے طلاق دے دی اور ایک دوسری عورت سے شادی کرلی۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا دوسرا چکر :۔ اس کے بعد ابراہیم علیہ السلام جتنی مدت اللہ نے چاہا اپنے ملک میں قیام پذیر رہے۔ پھر یہاں آئے تو بھی اسمٰعیل علیہ السلام نہ ملے۔ آپ نے ان کی بیوی سے اسمٰعیل علیہ السلام کے متعلق پوچھا تو کہنے لگی۔ ”روزی کمانے گئے ہیں“ پھر آپ نے پوچھا ’’تمہارا کیا حال ہے اور گزر بسر کیسی ہوتی ہے؟‘‘ وہ کہنے لگی ’’اللہ کا شکر ہے بڑی اچھی گزر بسر ہو رہی ہے‘‘ آپ علیہ السلام نے پوچھا ’’کیا کھاتے ہو؟‘‘ کہنے لگی ’’گوشت‘‘ پوچھا ’’کیا پیتے ہو؟‘‘ کہنے لگی’’پانی‘‘ پھر سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی ’’یا اللہ ان کے گوشت اور پانی میں برکت دے۔‘‘ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ''ان دنوں مکہ میں اناج نام کو نہ تھا ورنہ ابراہیم علیہ السلام اس میں بھی برکت کی دعا کرتے۔ اور اگر مکہ کے علاوہ دوسرے لوگ صرف ان دو چیزوں پر گزران کریں تو انھیں موافق نہ آئیں۔ خیر ابراہیم علیہ السلام نے (اپنی بہو سے) کہا کہ ’’جب تمہارا خاوند آئے تو اسے میرا سلام کہنا اور کہنا کہ یہ چوکھٹ اچھی ہے اس کی حفاظت کرو‘‘ جب اسمٰعیل علیہ السلام آئے تو بیوی سے پوچھا ’’(آج) کوئی آیا تھا ؟‘‘ وہ کہنے لگی ’’ہاں ایک خوش شکل بزرگ آئے تھے بہت اچھے آدمی تھے۔ آپ کا پوچھتے تھے میں نے بتا دیا نیز پوچھا کہ تمہاری گزران کیسی ہے میں نے کہا بہت اچھی ہے‘‘ اسمٰعیل علیہ السلام نے پوچھا ’’کچھ اور بھی کہا تھا‘‘ کہنے لگی ’’ہاں آپ کو سلام کہا تھا اور کہا تھا کہ تمہارے دروازے کی چوکھٹ عمدہ ہے اس کو حفاظت سے رکھنا‘‘ اسمٰعیل علیہ السلام نے اسے بتایا کہ ”وہ میرے والد تھے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں تجھے اپنے پاس ہی رکھوں“ تیسرا چکربیت اللہ کی تعمیر اور اس کا مقصد :۔ پھر کچھ مدت بعد جتنی اللہ کو منظور تھی سیدنا ابراہیم علیہ السلام آئے تو اس وقت اسمٰعیل علیہ السلام زمزم کے پاس ایک درخت تلے بیٹھے اپنے تیر درست کر رہے تھے۔ والد کو دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور باپ بیٹا بڑے تپاک سے ملے۔ اس کے بعد ابراہیم علیہ السلام نے کہا ’’اسمٰعیل علیہ السلام ! اللہ نے مجھے ایک حکم دیا ہے کیا اس کام میں تو میری مدد کرے گا ؟‘‘ انہوں نے کہا ’’ضرور کروں گا‘‘ ابراہیم علیہ السلام کہنے لگے: اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اس مقام پر ایک گھر بناؤں اور ایک اونچے ٹیلے کی طرف اشارہ کیا۔ چنانچہ باپ بیٹا دونوں نے اس گھر کی بنیاد اٹھائی۔ اسمٰعیل علیہ السلام پتھر لاتے اور ابراہیم علیہ السلام تعمیر کرتے جاتے۔ جب دیواریں اونچی ہوگئیں تو اسمٰعیل علیہ السلام یہ پتھر (مقام ابراہیم) لے کر آئے اور اسے وہاں رکھ دیا۔ اب ابراہیم علیہ السلام اس پر کھڑے ہو کر چنائی کرتے اور اسمٰعیل پتھر دیتے جاتے تھے اور دونوں یہ دعا پڑھتے﴿رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ﴾غرض وہ چاروں طرف سے بیت اللہ کی تعمیر کرتے جاتے اور یہی دعا پڑھتے جاتے۔ (بخاری۔ کتاب الانبیاء۔ باب یزفون النسلان فی المشی) [ ٤٠] بیت اللہ کی آبادی کے لئے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا :۔ جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے اپنے بیوی اور بچے کو اس بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑا تھا اس وقت بیت اللہ کے صرف نشانات باقی رہ گئے تھے۔ پھر کافی مدت بعد آپ تشریف لائے جبکہ سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام جوان ہوچکے تھے۔ اس وقت باپ بیٹا دونوں نے مل کر ازسر نو بیت اللہ کو اس کی بنیادوں پر اٹھا کر اس کی عمارت کھڑی کی۔ اسی تعمیر کے دوران آپ علیہ السلام اللہ سے جو دعائیں کرتے رہے ان کے بعض جملے ان آیات میں مذکور ہیں۔ اس تعمیر کا اولین مقصد آپ کے نزدیک یہ تھا کہ آپ کی اولاد نماز کی پابند رہے اور بعد میں نسلاً بعد نسل نماز کا سلسلہ جاری رہے پھر آپ کے ذہن میں ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ اس سنگلاخ زمین اور بے آب و گیاہ وادی میں جہاں کھانے کو کچھ ملتا نہیں یہ مسجد آباد کیسے ہوگی؟ تو اس سلسلہ میں آپ نے دعا کی کہ دنیا کے لوگوں میں سے بعض کے دل اس مسجد یا میری اولاد کی طرف مائل کر دے تاکہ یہ جگہ آباد ہوجائے اور مسجد بھی آباد ہو۔ اور دوسری دعا یہ فرمائی کہ جو لوگ اس طرف مائل ہوں ان کے کھانے پینے کا سامان بھی مہیا فرما تاکہ وہ یہاں آباد رہ سکیں۔ دعا کی قبولیت :۔ آپ کی یہ دعا ٹھیک ٹھیک قبول ہوگئی۔ چنانچہ اس وقت سے لے کر آج تک لوگ دنیا کے مختلف ملکوں اور گوشوں سے بیت اللہ کے حج و عمرہ کے لیے جاتے ہیں اور یہ مسجد اتنی آباد ہوئی کہ دنیا کی کوئی مسجد اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ کی دعا یہ تھی کہ بعض لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر، اگر آپ سب لوگوں کے دلوں کو مائل کا کہہ دیتے تو بیت اللہ کی طرف آنے والوں کی اس قدر بھر مار ہوجاتی کہ رہنے کو جگہ نہ ملتی۔ رہا دعا کا دوسرا حصہ تو اس کی قبولیت کا اندازہ اس بات سے فرمائیے کہ دنیا کا کوئی پھل ایسا نہیں جو مکہ نہ پہنچتا ہو۔ اطراف عالم سے پھل وہاں پہنچ جاتے ہیں حالانکہ مکہ کی اپنی زمین ایسی ہے کہ وہاں ایک بھی ثمردار درخت نہیں۔ حتیٰ کہ جانوروں کے لیے چارہ تک پیدا نہیں ہوتا۔ ابراھیم
38 ابراھیم
39 ابراھیم
40 ابراھیم
41 [٤١] سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اپنے والدین کے حق میں معافی کی دعا یا تو مشرک کے لیے دعائے مغفرت سے امتناع سے پہلے کی ہے اور یا اپنے باپ سے اس وعدہ کی بنا پر ہے جو آپ نے گھر سے رخصت ہوتے وقت اپنے والد سے کیا تھا جس کا ذکر سورۃ توبہ کی آیت نمبر ١١٤ میں گزر چکا ہے تاہم یہ دعا اس قدر جامع ہے جو ہر مسلمان کو اپنے والدین کے حق میں مانگتے رہنا چاہیے۔ اور اسی اہمیت کے پیش نظر ہر نماز میں درود کے بعد اپنے پروردگار سے یہ دعا مانگی جاتی ہے۔ ابراھیم
42 [٤٢] قیامت کی ہولناکی کا ایک منظر :۔ کچھ ظالم ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو اللہ دنیا میں بھی سزا دیتا ہے اور آخرت میں تو بہرحال انھیں یقیناً سزا دے گا اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جنہیں زندگی بھر دنیا میں سزا نہیں ملتی اور ان کی رسی دراز رکھی جاتی ہے۔ تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ ان کی کرتوتوں سے بے خبر ہے بلکہ مجرموں کو دنیوی اور اخروی سزا دینے کے لیے بھی اللہ کے ہاں قانون مقرر ہے جس کا انحصار گناہوں کی کمیت اور کیفیت پر ہوتا ہے۔ جن مجرموں کو دنیا میں سزا نہ ملے تو ان کی سزا کو روز آخرت تک موخر کردیا جاتا ہے۔ اس دن کی ہولناکی اور دہشت کا یہ حال ہوگا کہ مجرم اپنی پلکیں بھی نہ جھپک سکیں گے اور ان کی آنکھیں مسلسل یہ منظر دیکھ رہی ہوں گی اور بند بھی نہ ہو سکیں گی۔ وہ اسی حالت میں سر اٹھائے اور نظریں سامنے جمائے میدان محشر کی طرف دوڑ رہے ہوں گے وہ نیچے کی طرف بھی نہ دیکھ سکیں گے اور دہشت سے ان کے دل دھڑک رہے ہوں گے اور کلیجے منہ کو آرہے ہوں گے۔ اس دن سب لوگ سر تاپا برہنہ ہوں گے اور دہشت کا یہ عالم ہوگا کہ کسی کو ایک دوسرے کی طرف دیکھنے کا خیال نہ آئے گا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم ننگے پاؤں، ننگے بدن اور بغیر ختنہ اٹھائے جاؤ گے‘‘ میں نے کہا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرد عورت ایک دوسرے کو دیکھیں گے نہیں؟‘‘ فرمایا : ”وہ وقت اتنا سخت ہوگا کہ اس بات کے قصد کا کسی کو ہوش ہی نہ ہوگا‘‘ (بخاری۔ کتاب الرقاق۔ باب کیف الحشر) (مسلم۔ کتاب الجنۃ۔ باب فناء الدنیا و بیان الحشر یوم القیامۃ) ابراھیم
43 ابراھیم
44 [٤٣] اس دن سے مراد یا تو ان کی موت کا دن ہے اور اس معنی کی تائید سورۃ مومنون کی آیت نمبر ١٠٠ سے ہوتی ہے اور یا آخرت کا دن ہے اور اس معنی کی تائید سورۃ السجدہ کی آیت نمبر ١٢ سے ہوتی ہے۔ نیز اس سے اللہ تعالیٰ کا کوئی بھی تباہ کرنے والا عذاب مراد لیا جاسکتا ہے۔ [٤٤] قریش کا قسم کھانا کہ انھیں کبھی زوال نہیں آئے گا :۔ یعنی زبان حال سے یا قال سے گویا انھیں اس بات کا دل میں اس قدر پختہ یقین تھا جیسے کوئی قسم کھا کر وثوق سے کہتا ہے اور وہ یہ بات تھی کہ ہماری اس شان و شوکت کو کبھی زوال نہیں آسکتا۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے یہ صورت حال سامنے لائیے کہ ابتدائے اسلام میں ایک طرف تو رؤسائے قریش تھے جنہیں کعبہ کی تولیت اور بعض دوسری وجوہ سے عرب بھر میں قیادت و سیادت حاصل تھی۔ سارے عرب میں انھیں عزت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا خوشحال اور کھاتے پیتے لوگ تھے اور ان کی عزت اور ناموری کا ڈنکا بجتا تھا۔ دوسری طرف گنتی کے چند بے بس اور ناتواں مسلمان تھے جو ان کے ظلم و استبداد کا نشانہ بنے ہوئے تھے۔ اس صورت میں ان سرداران قریش کو کبھی یہ خیال آسکتا تھا کہ کسی وقت یہ سارا نقشہ الٹ بھی سکتا ہے۔ جب کہ ہم مجبور و محکوم ہوں گے اور یہ مسلمان ہم پر حاکم اور بالادست ہوں گے۔ اسی کیفیت کو اللہ تعالیٰ نے زبان حال سے قسمیں کھانے سے تعبیر فرمایا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کسی سرکش اور متکبر کافر نے فی الواقع ایسی قسم کھائی بھی ہو۔ ابراھیم
45 [٤٥] حالانکہ ہم نے سابقہ امتوں کے انجام کی مثالیں دے دے کر تم پر یہ بات واضح کردی تھی کہ ایسا انقلاب آسکتا ہے۔ پہلے بھی آتا رہا ہے اور اب بھی آکے رہے گا اور ان کے قصے تمہارے ہاں زبان زد بھی تھے اور ان کے ہلاک کردہ علاقے تم اپنی آنکھوں سے دیکھتے بھی رہتے تھے اور انھیں کے علاقوں میں تم میں سے کچھ لوگ آج بھی آباد ہیں۔ لہٰذا یہ بھی عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں یہاں سے ہٹا کر دوسرے لوگوں کو آگے لے آئے۔ ابراھیم
46 [٤٦] کفار مکہ کی زبردست چال کیا تھی؟ :۔ یہ الفاظ بطور محاورہ استعمال ہوئے ہیں یعنی ان کی چالیں اس قدر یقینی اور تیر بہدف تھیں کہ ان کے خطا ہونے کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔ وہ چالیں کیا تھیں؟ اس کا ذکر قرآن کی دوسری آیات میں موجود ہے کہ یا تو اس پیغمبر کو جلا وطن کردیا جائے یا قید کردیا جائے یا قتل کردیا جائے۔ پھر اتقاق اس بات پر ہوا تھا کہ اس کے گھر کا محاصرہ کیا جائے اور یہ محاصرین ہر قبیلے کے ایک ایک فرد پر مشتمل ہوں گے۔ جو سب مل کر حملہ کرکے اس کو قتل کریں گے اور اس طرح پیغمبر اسلام اور اسلام دونوں کا مکمل طور پر قلع قمع ہوجائے گا وغیرذٰلِکَ یہ مطلب اس صورت میں ہے۔ جب ﴿وَاِنْ کَانَ مَکْرُہُمْ لِتَزُوْلَ مِنْہُ الْجِبَالُ ﴾ میں ان کو شرطیہ سمجھا جائے اور بعض مفسرین نے یہاں ان کو نافیہ سمجھا ہے اس صورت میں اس کا معنی یہ ہوگا کہ ان کی چالیں کوئی ایسی تو نہ تھیں کہ ان سے پہاڑ ٹل جاتے۔ یعنی اللہ کی چال کے مقابلہ میں انکی چالوں کی کوئی حیثیت نہ تھی۔ اللہ کی تدبیر ہی ایسی مستحکم ہوتی ہے کہ اس سے پہاڑ بھی ٹل جاتے ہیں۔ ناممکن باتیں بھی ممکن بن جاتی ہیں۔ اور بعض مفسرین ان الفاظ کو صرف قریش مکہ تک ہی محدود نہیں رکھتے بلکہ ان الفاظ سے تمام سرکش اقوام مراد لیتے ہیں جنہوں نے نہایت مضبوط اور بلند و بالا عمارتیں تعمیر کر رکھی تھیں کہ اللہ کا عذاب آئے بھی تو وہ محفوظ رہ سکیں۔ پہاڑ ٹل جائیں تو ٹل جائیں مگر ان کی تدبیریں ناکام نہ ہوں۔ مگر جب عذاب آیا تو تباہ و برباد ہوگئے پھر تم ان سے کیوں عبرت حاصل نہیں کرتے؟ ابراھیم
47 [٤٧] اس آیت میں بظاہر خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے مگر اصل مقصود مخالفین کو اس بات پر مطلع کرنا ہے کہ اللہ نے اپنے رسولوں سے پہلے بھی جتنے وعدے کیے تھے سب پورے کردیئے تھے اور وقت آنے پر رسولوں کی مدد کی اور ان کے مخالفین کو تباہ و برباد کیا تھا اور آپ سے جو وعدہ کیا جارہا ہے وہ بھی اللہ پورا کرکے رہے گا کیونکہ وہ سب پر غالب اور منکرین حق سے انتقام لینے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ ابراھیم
48 [٤٨] اللہ کی عدالت میں لوگوں کی پیشی اور حساب :۔ نفخہ صور اول کے وقت موجودہ نظام کائنات درہم برہم ہوجائے گا جیسا کہ سورۃ تکویر اور بعض دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے۔ اس کے بعد نفخہ صور ثانی تک کیا کیا تغیرات واقع ہوں گے اور یہ درمیانی عرصہ کتنا ہوگا۔ یہ اللہ ہی جانتا ہے۔ نفخہ صور ثانی پر ایک نیا نظام کائنات وجود میں لایا جائے گا جس میں یا تو موجودہ زمین و آسمان کی ذوات ہی تبدیل کردی جائیں گی یا ان کی ہیئت میں خاصا تغیر و تبدل واقع ہوگا۔ آیت کے الفاظ میں دونوں معنوں کی گنجائش ہے۔ اسی نفخہ ثانی کے وقت آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک پیدا شدہ سب انسانوں کو دوبارہ پیدا کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیا جائے گا۔ انہی واقعات کا نام قرآن کی اصطلاح میں حشر ونشر ہے۔ اس نئی زمین اور نئے آسمان کے لیے طبعی قوانین بھی موجودہ قوانین سے الگ ہوں گے اور اسی زمین پر اللہ تعالیٰ کی عدالت قائم ہوگی۔ میزان الاعمال رکھی جائے گی اور لوگوں کے اعمال کے مطابق ان کی جزاو سزا کے فیصلے ہوں گے۔ قرآن کی بعض آیات سے زمین میں تبدیلی کی جو صورت سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ زمین میں اس دن کوئی بلندی یا پستی نہیں رہے گی۔ سب پہاڑ زمین بوس کردیئے جائیں گے اور سب کھڈے بھر دیئے جائیں گے اس طرح سطح زمین ہموار اور پہلے سے بہت زیادہ بڑھ جائے گی اور سب سے اہم تبدیلی یہ ہوگی کہ سمندروں، دریاؤں اور ندی نالوں کو خشک کردیا جائے۔ اور سمندر کی سطح کا رقبہ خشکی کے رقبہ سے تین گناہ زیادہ ہے اس طرح موجودہ زمین سے اس وقت کی تبدیل شدہ زمین کم از کم چار گنا بڑھ جائے گی اور دوسرے وہ زمین بالکل ہموار ہوگی۔ ابراھیم
49 [٤٩] مجرموں کی باپہ زنجیر پیشی :۔ مجرموں کو اللہ کے حضور قیدیوں کی صورت میں پابند سلاسل بنا کر پیش کیا جائے گا اور اس کا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک ہی نوعیت کے سب مجرموں کو اکٹھا کرکے سب کو ایک ہی زنجیر کے ذریعہ منسلک کردیا جائے گا جیسا کہ قرآن کی بعض دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے۔ ابراھیم
50 [٥٠] قَطِران سے مراد ہر وہ جلنے والا غلیظ مادہ ہے جو بدبودار، گاڑھا اور سیاہ دھواں چھوڑتا ہوا جلتا ہے اور تادیر جلتا رہتا ہے اور بجھنے میں نہیں آتا۔ اس کی آگ کا درجہ حرارت بہت زیادہ ہوتا ہے۔ یہ آگ مجرموں کے تمام جسم سے لپٹ رہی ہوگی اور چہرہ کا نام بالخصوص اس لیے لیا گیا کہ بدن کی ظاہری ساخت میں سب سے اشرف حصہ چہرہ ہی ہوتا ہے اور چہرہ کو جو تکلیف پہنچتی ہے وہ دوسرے جسم کی نسبت سے زیادہ شدید ہوتی ہے۔ ابراھیم
51 ابراھیم
52 [٥١] نزول قرآن کے تین مقاصد :۔ یعنی قرآن کا پیغام ایسی چیز ہے جسے تمام لوگوں تک پہنچانا ضروری ہے اور اس کے تین فائدے ہیں ایک یہ کہ لوگوں کو ان کے برے اعمال کے انجام سے بر وقت خبردار کیا جائے اور ڈرایا جائے۔ دوسرے یہ کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ ان کے اعمال پر گرفت کرنے والی صرف ایک ہی ہستی ہے۔ لہٰذا ہر حال میں صرف اسی کی طرف رجوع کیا جائے، اس کی بندگی کی جائے اور اپنے نفع و نقصان کے وقت اسی کو پکارا جائے اور تیسرے یہ کہ اس قرآن میں مذکور آیات اور واقعات سے اہل دانش عبرت اور سبق حاصل کریں۔ ابراھیم
0 الحجر
1 [١] قرآن کیا کچھ واضح کرنے والا ہے؟ اس کا ایک مطلب اوپر ترجمہ میں مذکور ہوا۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن انسان کو تمام تر کیفیات سے آگاہ کرنے والا ہے۔ اس کی پیدائش سے پہلے کے حالات سے بھی، پیدائش سے موت تک کی کیفیات سے بھی اور مرنے کے بعد بھی جو صورت احوال واقع ہونے والی ہے اسے کھول کھول کر بیان کرنے والا ہے۔ الحجر
2 [٢] کافر کون کون سے وقت مسلمان ہونے کی خواہش کریں گے؟ ربما تکثیر اور تقلیل دونوں مواقع پر استعمال ہوتا ہے یعنی اس کا معنی بسا اوقات اور اکثر اوقات بھی ہوسکتا ہے اور ’’کبھی کبھی‘‘ بھی۔ اور اس لفظ کا استعمال بالخصوص اس صورت میں ہوتا ہے جب کسی سے ہمہ وقت یا اکثر اوقات یاد کرنا متوقع ہو لیکن وہ یاد نہ کرے تو اسے کہتے ہیں کہ کبھی تو ہمیں یاد کرو گے۔ اور اس سے مراد ہر وہ وقت ہوسکتا ہے جب کسی کافر کو اپنی سابقہ زندگی اور اعمال پر حسرت اور ندامت ہو اور اپنے مقابلہ میں مسلمانوں کو عزت اور فلاح و بہبود سے سرفراز ہوتا دیکھے۔ جیسے غزوہ بدر کے موقع پر کافروں کی خوب پٹائی ہوئی اور مسلمانوں کو عزت اور فتح نصیب ہوئی اور ایسے مواقع بے شمار ہوسکتے ہیں۔ دنیا میں بھی، آخرت میں بھی حتیٰ کہ موت کے وقت بھی۔ جب فرشتے مہیب شکل و صورت میں کافر کی جان نکالنے کے لیے آئیں گے اور ایسی آرزو کا آخری موقع وہ ہوگا جب قیامت کے دن کافر کچھ گنہگار مسلمانوں کو بھی اپنے ساتھ دوزخ میں دیکھ کر کہیں گے۔ تم بھی ہمارے ساتھ دوزخ میں ہو تو تمہارے ایمان اور توحید نے تمہیں کیا فائدہ دیا ؟ اس پر اللہ تعالیٰ کسی موحد کو جہنم میں نہ رہنے دے گا۔ یہ فرماکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت پڑھی گویا یہ آخری موقع ہوگا جب کافر اپنے مسلمان ہونے کی تمنا کریں گے۔ الحجر
3 الحجر
4 الحجر
5 الحجر
6 [٣] قریش کا آپ کو مجنوں کہنا :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرداران قریش سے کہا تھا کہ اگر تم میری ایک بات مان لو تو میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ تم عرب و عجم کے مالک بن جاؤ گے۔ انہوں نے کہا : ’’ایک کیا ہم آپ کی ایسی دس باتیں بھی ماننے کو تیار ہیں‘‘ تب آپ نے کلمہ توحید کی دعوت پیش کی۔ اس پر یہ قریشی سردار تلملا اٹھے اور کہنے لگے کہ یہ پیغمبر اور اس کے چند ساتھی عجیب طرح کے خبط اور دیوانگی میں پڑے ہوئے ہیں۔ انھیں کھانے کو ملتا نہیں، مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ اسلحہ جنگ نام کو نہیں اور خواب دیکھتے ہیں قیصر و کسریٰ جیسی سپر طاقتوں کو فتح کرنے کے۔ یہ اس پیغمبر کی دیوانگی نہیں تو کیا ہے؟ الحجر
7 الحجر
8 [٤] فرشتے کن کن حالات میں آتے ہیں؟ ہم فرشتے نہ تو تماشہ دکھانے کے لیے اتارتے ہیں اور نہ اس لیے اتارتے ہیں کہ وہ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کردیں۔ بلکہ فرشتے تو مجرموں پر قہرالٰہی بن کر آتے ہیں۔ جیسے غزوہ بدر میں آئے تھے یا تمہاری جانیں نکالنے کے لیے آتے ہیں یا پھر کسی قوم کو صفحۂ ہستی سے نیست و نابود کرنے کے لیے آتے ہیں۔ پھر جب یہ آجاتے ہیں تو تمہارا کام تمام کرکے چھوڑتے ہیں۔ اس وقت ان کے آنے کی نہ تمہیں آرزو ہوتی ہے اور نہ ہی ان کے آنے کا تمہیں کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ وہ اپنے مقررہ وقت سے پہلے نہیں آتے۔ لیکن جب وہ آتے ہیں تو اپنا کام کرکے جاتے ہیں۔ اس وقت مہلت دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ الحجر
9 [٥] ذکر اور قرآن کا فرق :۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کے بجائے ذکر کا لفظ استعمال فرمایا۔ جس کا لغوی معنی یاددہانی یا نصیحت ہے۔ اگرچہ صفاتی پہلو سے قرآن کریم کا ایک نام ذکر بھی ہے تاہم یہ دونوں نام ایک دوسرے کے مترادف نہیں۔ جیسے سورۃ قمر میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ للذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ ﴾جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ قرآن اور ذکر دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ ذکر جب یاد دہانی کے معنوں میں آتا ہے تو اس سے مراد تمام منزل من اللہ وحی ہوتی ہے۔ یعنی کتاب بھی اور وہ بصیرت بھی جو اللہ تعالیٰ کتاب کے بیان کے لیے اپنے رسولوں کو عطا فرماتا ہے۔ اسی بصیرت کو ہم سنت بھی کہہ سکتے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے صرف قرآن کی حفاظت کا ہی ذمہ نہیں لیا بلکہ اس کے معانی و مطالب کا بھی ذمہ لے رکھا ہے۔ اب ہم یہ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ ذمہ داری کس طرح پوری فرمائی؟ حفاظت قرآن بذریعہ کتابت :۔ حفاظت قرآن کے کئی پہلو ہیں اور یہ حفاظت بذریعہ کتابت بھی کی گئی اور بذریعہ حفظ بھی اور اس حفاظت کا تمام تر کام اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے لیا۔ بذریعہ کتابت قرآن کریم کی حفاظت کے سلسلہ میں درج ذیل دو احادیث ملاحظہ فرمایئے۔ ١۔ سیدنا زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ (کاتب وحی) کہتے ہیں کہ جب (١١ ھ میں) یمامہ کی لڑائی میں (جو مسیلمہ کذاب سے ہوئی تھی) بہت سے صحابہ شہید ہوگئے تو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھے بلا بھیجا۔ اس وقت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی ان کے پاس موجود تھے۔ میں گیا تو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا : میرے پاس عمر رضی اللہ عنہ آئے اور کہا کہ ’’یمامہ کی لڑائی میں بہت سے مسلمان شہید ہوگئے اور میں ڈرتا ہوں کہ اگر اسی طرح اور لڑائیوں میں بھی مسلمان مارے جائیں تو بہت سا قرآن دنیا سے اٹھ جائے گا۔ اگر قرآن کو ایک جگہ جمع کرلیا جائے تو یہ ڈر نہ رہے گا۔ لہٰذا آپ قرآن کو جمع کرا دیں‘‘ اور میں (ابوبکر رضی اللہ عنہ )نے عمررضی اللہ عنہ کو یہ جواب دیا کہ ’’میں وہ کام کیسے کروں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا‘‘ عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے۔ ’’اللہ کی قسم! یہ اچھا کام ہے اور بار بار یہی کہتے رہے تاآنکہ اللہ نے میرا سینہ کھول دیا اور میں عمر رضی اللہ عنہ کی رائے سے متفق ہوگیا‘‘ سیدنا زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ’’عمر رضی اللہ عنہ خاموشی سے یہ بات سنتے رہے‘‘ پھر سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مجھے کہنے لگے ’’تم جوان اور عاقل ہو اور ہم تمہیں سچا جانتے ہیں اور دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کاتب وحی رہے ہو تو اب ایسا کرو کہ قرآن (کی جا بجا لکھی ہوئی تحریروں) کو تلاش کرو اور سب کو اکٹھا کردو‘‘ زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اگر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مجھے پہاڑ ڈھونے کو کہتے تو مجھے اتنا مشکل معلوم نہ ہوتا جتنا قرآن جمع کرنا معلوم ہوا آخر میں نے کہا ’’تم دونوں ایسا کام کرتے ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا‘‘ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کہنے لگے ’’اللہ کی قسم! یہ اچھا کام ہے‘‘ میں نے ان سے بڑا تکرار کیا تاآنکہ اللہ نے میرا سینہ بھی کھول دیا اور میں نے یہ کام شروع کردیا۔ قرآن کہیں پرچوں پر، کہیں مونڈھے کی ہڈیوں پر، کہیں کھجور کی لکڑیوں پر لکھا ہوا تھا پھر اکثر لوگوں کو یاد بھی تھا۔ یہاں تک کہ میں نے سورۃ توبہ کی آخری دو آیتیں یعنی ﴿لَقَدْ جَاءَکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ ﴾ تاآخر، خزیمہ بن ثابت انصاری کے سوا کسی کے ہاں نہ پائیں۔ پھر یہ مصحف جس میں قرآن جمع کیا تھا۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زندگی تک ان کے پاس رہا۔ پھر سیدنا عمررضی اللہ عنہ کی زندگی تک ان کے پاس رہا۔ ان کی وفات کے بعد ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہ کو ملا۔ (بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ توبہ۔ باب جمع القرآن) ٢۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حذیفہ بن یمان سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے جن دنوں وہ شام و عراق کے مسلمانوں کے ساتھ آرمینیا اور آذربائیجان فتح کرنے کی خاطر جہاد کر رہے تھے۔ وہ قرآن کی قراءت میں مسلمانوں کے اختلاف سے گھبرائے ہوئے تھے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے : امیر المومنین! اس سے پہلے کہ مسلمان یہود اور نصاریٰ کی طرح قرآن میں اختلاف کرنے لگیں، اس امت کی خبر لیجئے۔ چنانچہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو لکھ بھیجا کہ ’’ہمیں اپنا مصحف بھیج دیں۔ ہم اس کی نقول تیار کرکے آپ کا مصحف آپ کو واپس کردیں گے‘‘ چنانچہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہ نے بھیج دیا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ ، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ، سعید بن عاص رضی اللہ عنہ اور عبدالرحمن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ کو حکم دیا۔ انہوں نے اس کی نقلیں تیار کیں۔ آپ نے یہ ہدایت کردی تھی کہ اگر زید بن ثابت رضی اللہ عنہ (انصاری) قراءت کے بارے میں باقی تینوں (قریشی) لوگوں سے اختلاف کریں تو قریش کے محاورہ کے مطابق لکھنا کیونکہ قرآن انہی کے محاورہ پر اترا ہے۔ جب نقلیں تیار ہوگئیں تو آپ نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا مصحف انھیں واپس کردیا اور اس کی ایک نقل ہر مرکزی مقام میں بھجوادی۔ نیز حکم دیا کہ لوگوں کے پاس جو الگ الگ پرچیوں اور اوراق میں لکھا ہوا قرآن موجود ہے اسے جلا دیا جائے۔ (بخاری، کتاب التفسیر۔ باب جمع القرآن) تحریف لفظی سے بچاؤ کی صورتیں :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبانی حفاظت قرآن پر نسبتاً بہت زیادہ توجہ دی تھی۔ سب سے پہلے تو حافظ قرآن آپ خود تھے۔ جتنا قرآن نازل ہوچکا ہوتا۔ رمضان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا جبریل علیہ السلام سے دور بھی فرمایا کرتے اور اپنی زندگی کے آخری سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دفعہ دور فرمایا۔ پھر صحابہ کو یاد کرواتے اور ان سے سنتے اور بعض دفعہ سناتے بھی تھے۔ قرآن کریم کے مصاحف لکھنے والے صحابہ کی نسبت قرآن کریم کے حافظوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور حفظ قرآن کا یہ سلسلہ نسلاً بعد نسل آج تک چلا آرہا ہے اور یہ دونوں طریقے ایک دوسرے کی محافظت کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن سے محبت رکھنے والے کچھ ایسے لوگ بھی پیدا کردیئے جنہوں نے قرآن کریم کی آیات، الفاظ حتیٰ کہ حروف اور اعراب تک شمار کر ڈالے۔ نتیجہ یہ کہ نزول قرآن سے لے کر آج تک قرآن کے الفاظ و حروف میں سرموفرق نہیں آیا اور ان حالات میں کمی و بیشی ممکن ہی نہ رہی اور تحریف لفظی کے سب امکانات ختم ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حفظ قرآن پر جو زیادہ توجہ مبذول فرمائی اس کی وجوہ درج ذیل ہیں : ١۔ حفظ اور کتابت کی خوبیوں کا تقابل :۔ قرآن کریم مکتوبہ شکل میں نہیں بلکہ صوتی انداز میں نازل ہوا جس طرح جبریل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن پڑھایا، اسی انداز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سنایا اور حفظ کروایا۔ اسی طریق حفاظت میں نہ کسی مخصوص رسم الخط کی ضرورت تھی۔ نہ حروف کی شکلوں' نقاط ' اعراب وغیرہ کی اور نہ ہی آیات کے ربط میں رموز و اوقاف (Punctuation) وغیرہ کی معلومات کی۔ یہ طریقہ نہایت سادہ اور فطری تھا لہٰذا اسی پر زیادہ توجہ صرف کی گئی۔ ٢۔ اہل عرب کا حافظہ نہایت قوی تھا لیکن لکھے پڑھے لوگ بہت کم تھے اور ان کی تعداد پانچ فیصد سے بھی کم تھی۔ ٣۔ تورات جو لکھی ہوئی شکل میں نازل ہوئی تھی صرف پڑھے لکھے طبقے ہی سے مخصوص ہو کر رہ گئی تھی پھر بعد میں آنے والے پڑھے لکھے لوگوں نے ہی اس میں تحریف کر ڈالی۔ ٤۔ لکھے ہوئے کو پڑھتے وقت ایک کم لکھا پڑھا آدمی غلطی کرجاتا ہے لیکن حافظ تلاوت کرتے وقت ایسی غلطی نہیں کرتا۔ اب اس کے مقابلہ میں تحریر کے بھی کچھ فوائد ہیں مثلاً ١۔ حافظ قرآن کسی وقت بھی بھول سکتا ہے۔ تحریر موجود ہو تو ایسی بھول کا ازالہ ممکن ہوجاتا ہے۔ ٢۔ حافظ کا علم اس کی موت کے ساتھ ختم ہوجاتا ہے جبکہ کتابت بعد میں بھی موجود رہتی ہے اور یہی وہ خوبی ہے جس کی بنا پر قرآن کو جمع کرنا اور ضبط تحریر میں لانا ضروری سمجھا گیا جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ سے واضح ہے۔ لہٰذا حفاظت قرآن کے لیے یہ دونوں ہی طریقے لازم و ملزوم سمجھ کر اختیار کیے گئے۔ البتہ افضلیت کا درجہ حفظ ہی کو حاصل رہا اور اس حقیقت کو قرآن نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے : ﴿ بَلْ ہُوَ اٰیٰتٌ بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ ﴾ (۴۹:۲۹)بلکہ وہ (قرآن) تو واضح آیات ہیں جو ان لوگوں کے سینوں میں ہیں جنہیں علم دیا گیا ہے اور جہاں اللہ نے کتابت قرآن کا ذکر فرمایا تو وہاں عطیہ علم کا ذکر نہیں فرمایا : ارشاد باری ہے۔ ﴿وَالطُّوْرِِ وَکِتَابٍ مَّسْطُوْرٍ فِیْ رَقٍّ مَّنْشُوْرٍ﴾(۱:۵۲تا۳) قسم ہے طور (پہاڑ) کی اور اس کتاب کی جو پھیلے ہوئے کاغذ پر لکھی ہوئی ہے۔ شیعہ حضرات اور قرآن کی حفاظت :۔ ان سب باتوں کے باوجود شیعہ حضرات میں سے کچھ لوگ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو مطعون کرتے ہیں کہ انہوں نے جمع قرآن کے وقت قرآن کی بہت سی آیات اور کئی سورتیں جو اہل بیت کی مدح میں تھیں خارج کردیں اور انھیں قرآن میں شامل نہیں کیا۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا یہ طعن گو بظاہر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر ہے لیکن حقیقتاً اس طعن کی زد اللہ تعالیٰ کی حفاظت کی ذمہ داری پر پڑتی ہے۔ فاعتبروا یا ولی الابصار۔ علاوہ ازیں یہ سوال بھی ذہن میں ابھرتا ہے کہ اس وقت سیدنا علی شیر خدا تو بفضلہ زندہ سلامت موجود تھے انہوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے اتنے زبردست ارتکاب جرم کو کیسے گوارا کرلیا تھا ؟ تحریف معنوی سے حفاظت :۔ اس حفاظت ذکر سے متعلق تیسرا پہلو تحریف معنوی کا ہے یعنی اگر الفاظ قرآن کے ساتھ ساتھ مطالب قرآن کی حفاظت نہ ہو تو محض الفاظ کی حفاظت بے سود ہے اور اس صورت میں یہ قرآن ملحدین کی اور دوسرے گمراہ فرقوں کی طبع آزمائی کا تختہ مشق بن سکتا ہے لہٰذا ضروری تھا کہ قرآن کے جو معنی خود حامل قرآن یاصحابہ کرام نے سمجھے تھے ان کی بھی حفاظت کی جائے تاکہ باطل کسی طریقے سے بھی قرآن میں داخل نہ ہونے پائے اور اگر داخل ہونے کی کوشش کرے تو تحقیق کرکے اسے رد کیا جاسکے۔ اس غرض کے لیے اللہ تعالیٰ نے محدثین کرام کی جماعت کو پیدا فرمایا۔ جنہوں نے اپنی زندگیاں اسی مقصد کی خاطر کھپا دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر طرح کی سنت کو محفوظ کردیا۔ جو درحقیقت قرآن کے معانی اور مطالب ہی کی حفاظت ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے ہاتھوں قرآن کریم کی حفاظت کا ایسا مضبوط انتظام فرما کر اپنا وعدہ پورا کیا کہ غیر مسلم بھی اس کی مکمل حفاظت کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکے۔ الحجر
10 الحجر
11 الحجر
12 الحجر
13 [٦] کافروں کی ایمان نہ لانے کے لئے کٹ حجتیاں :۔ جس طرح منکرین حق اللہ کی آیات کا مذاق اڑاتے ہیں۔ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اختراع کا الزام لگاتے ہیں کبھی کہتے ہیں یہ محض جادوگری اور جادو بیانی ہے۔ کبھی کسی معجزہ کا مطالبہ کرتے ہیں اور کبھی فرشتوں کے نزول کا، کبھی بشر ہونے کی بنا پر آپ کی رسالت کا انکار کرتے ہیں اور کبھی جادوگر اور کبھی دیوانہ کہہ دیتے ہیں تو یہ سب کچھ ان کے آیات الٰہی کو نہ ماننے کے لیے کٹ حجتیاں ہیں اور ایسا استہزاء صرف آپ سے ہی نہیں کیا جارہا بلکہ منکرین حق پہلے رسولوں سے بھی یہی کچھ کرتے چلے آئے ہیں۔ اللہ کی آیات سن لینے کے بعد انھیں سوجھتا ہی یہی کچھ ہے۔ ایسی آیات کو نازل کرنے کا ایک اہم مقصد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو تسلی دینا بھی ہے جو سخت سنگین حالات سے دو چار تھے اور چونکہ یہ تیرہ سال کا طویل عرصہ تھا لہٰذا ایسی آیات کا نزول بھی وقتاً فوقتاً بہ تکرار ہوتا رہا۔ الحجر
14 اس آیت کی تفسیر اگلی آیت کے ساتھ آ رہی ہے۔ الحجر
15 [٧] کافر حسی معجزہ دیکھ کر بھی تعصب سے باز نہیں آتے :۔ اور ان کے معجزات کو دیکھ کر ایمان لانے کا معاملہ یہ ہے کہ اگر ہم کوئی ایسا سلسلہ بنا دیں کہ یہ لوگ آسمان کی بلندیوں پر چڑھنے لگ جائیں۔ خود چڑھیں پھر اتریں تو بھی بعد میں یہی کہہ دیں گے کہ اس میں حقیقت کچھ بھی نہیں تھی یہ تو محض نظر کا فریب تھا یا زیادہ سے زیادہ یہ کہہ دیں گے کہ یہ جو کچھ ہوا ہے سب جادو کے کرشمے ہیں اور جادو ہی کے زور سے ہم چڑھتے اور اترتے رہے۔ مطلب یہ ہے کہ ضدی اور ہٹ دھرم جب میں نہ مانوں والا رویہ اختیار کرلیں تو پھر کسی عقلی دلیل کا کیا ذکر، معجزہ دیکھ کر بھی حق کو حق تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوسکتے۔ الحجر
16 [٨] آسمانوں کے برج :۔ اس آیت میں اگر کوئی شخص بروج کے لفظ سے وہ ہی بارہ برج مراد لیتا ہے جو قدیم اہل ہیئت نے فلک ہشتم پر بنا رکھے ہیں تو اس کی مرضی ہے ورنہ آیت کا سیاق اس کی تائید نہیں کرتا کیونکہ ان برجوں میں سے اکثر برجوں کی اشکال کا زینت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ بھلا سرطان (کیکڑا) عقرب (بچھو) ترازو اور ڈول وغیرہ کیا خوبصورتی پیدا کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر علماء نے یہاں بروج سے ستارے اور سیارے مراد لیے ہیں جو رات کے وقت آسمان کو زینت بخشتے ہیں۔ لغوی لحاظ سے ہم نمایاں طور پر ظاہر ہونے والی ہر چیز کو برج کہہ سکتے ہیں خواہ وہ کوئی عمارت ہو یا گنبد ہو یا قلعہ ہو۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا آسمان کو ایسا مزیں بنا دینا بذات خود اس کی قدرت کی بہت بڑی نشانی ہے۔ پھر اس کے بعد انھیں اس کی اور کیا نشانی درکار ہے؟ الحجر
17 الحجر
18 [٩] شہاب ثاقب کی حقیقت :۔ اس آیت کی تفسیر کے لیے درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ تمام آسمان میں جب کسی حکم کا فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے اس کا حکم بجا لانے کے لیے نہایت عاجزی سے اپنے پر پھڑپھڑاتے ہیں اور ایسی آواز پیدا ہوتی ہے جیسے کسی صاف پتھر پر زنجیر ماری جا رہی ہو۔ اس طرح اللہ تعالیٰ فرشتوں تک اپنا پیغام پہنچا دیتا ہے پھر جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہوتی ہے تو دور والے فرشتے نزدیک والوں سے پوچھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کیا ارشاد فرمایا ؟ وہ کہتے ہیں جو فرمایا بجا ارشاد فرمایا۔ فرشتوں کی یہ باتیں چوری چھپے سے سننے والے (شیطان) سن لیتے ہیں اور اوپر تلے رہ کر وہاں تک جاتے ہیں۔ پھر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ فرشتے اس بات کو سننے والے شیطان پر آگ کا شعلہ پھینکتے ہیں جو اسے نیچے والے شیطان کو بات پہنچانے سے پہلے ہی جلا ڈالتا ہے۔ اور کبھی یہ شعلہ اسے بات پہنچانے کے بعد پہنچتا ہے تو اوپر والا شیطان نچلے کو بات پہنچانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ اس طرح وہ بات زمین تک آپہنچتی ہے۔ پھر وہ بات ساحر (کاہن، نجومی) کے منہ پر جاری ہوتی ہے۔ تو اس میں وہ سو جھوٹ ملا کر لوگوں سے بیان کرتا ہے پھر اگر اس کی کوئی بات سچی نکل آئے تو لوگ کہتے ہیں دیکھو اس نجومی نے ہمیں خبر دی کہ فلاں وقت ایسا ایسا ہوگا اور وہ بات سچ نکلی۔ یہ وہ بات ہوتی ہے جو آسمان سے چرائی گئی تھی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر سورۃ سبا ) اس آیت میں شہاب مبین کے لفظ ہیں اور ایک دوسرے مقام پر ( ۱۰:۳۷) کے الفاظ ہیں جن کے معنی ہیں چھید کر جانے والا چمکدار شعلہ۔ رات کو بسا اوقات ایسے شعلہ دار ستارے نظر آتے ہیں۔ جنہیں ہم اپنی زبان میں ٹوٹنے والے تارے کہتے ہیں اور ہمیں ایک شعلہ تیزی سے فضا میں سفر کرتا نظر آتا ہے پھر اچانک بجھ جاتا ہے۔ ممکن ہے یہ شیطان کو جلا کر بھسم کردینے والے وہی ستارے ہوں جنہیں آج کل علم ہیئت کی اصطلاح میں شہاب ثاقب کہا جاتا ہے جو کثیر تعداد میں فضا میں پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن ان کا کثیر حصہ فضا میں ہی گم ہوجاتا ہے اور کبھی کبھی یہ زمین پر گڑ پڑتے ہیں اگر یہ سب ستارے زمین پر گرتے تو ممکن ہے کہ انسان کا اس زمین پر زندہ رہنا ہی محال ہوجاتا۔ یہ بس اللہ تعالیٰ ہی کا نظام ہے جو ہر چیز کو اپنے کنٹرول میں رکھے ہوئے ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ جس شہاب ثاقب کا ذکر کتاب و سنت میں آیا ہے وہ معروف شہاب ثاقب کے علاوہ کوئی اور قسم کا ہو جس تک تاحال علم انسانی کی رسائی نہ ہوسکی ہو۔ الحجر
19 [٠ ١] ہر چیز کی پیدائش اور افزائش اللہ کے مقررہ اندازے کے مطابق ہی ہو سکتی ہے موجودہ تحقیقات سے یہ معلوم ہوا ہے کہ نباتات کی ہر نوع میں تناسل کی اس قدر زبردست طاقت ہے کہ اگر صرف ایک ہی پودے کو زمین میں بڑھنے اور پھلنے پھولنے کا موقع دیا جائے تو چند ہی سالوں میں اسی جنس کے پودے تمام روئے زمین پر پھیل جائیں اور کسی دوسری قسم کے پودے کے لیے کوئی جگہ باقی نہ رہے اور یہ حکیم و علیم اور قادر مطلق کا سوچا سمجھا اندازہ ہی ہے جس کے مطابق بے شمار قسم کی نباتات اس زمین پر اگ رہی ہے اور ہر نوع کی پیداوار اپنی ایک مخصوص حد تک پہنچ کر رک جاتی ہے مزید یہ کہ ہر نوع کی پیداوار کو اس علاقہ کی ضرورت اور وہاں کے لوگوں کی طبیعت کے مطابق پیدا کیا جاتا ہے۔ بالکل یہی صورت انسان کے نطفہ کی ہے۔ اس کے ایک دفعہ کے انزال میں بارآور کرنے والے اتنی کثیر تعداد میں جرثومے پائے جاتے ہیں جو تمام دنیا کی عورتوں کو بار آور کرسکتے ہیں۔ یہ بس اللہ کی حکمت ہی ہے کہ وہ جتنے انسان پیدا کرنا چاہتا ہے اتنے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ پھر ہر چیز زمین سے خوراک حاصل کرکے بڑھتی اور پھلتی پھولتی ہے لیکن وہ بھی ایک مخصوص حد تک پہنچ کر رک جاتی ہے مثلاً آج کل انسان عموماً پانچ سے چھ فٹ تک لمبا ہے تو ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی انسان دوگنی خوراک کھا کر بارہ فٹ لمبا ہوجائے۔ یہی حال دوسری مخلوق کا ہے خواہ یہ نباتات کی قسم سے ہو یا حیوانات کی قسم سے یا انسان ہو۔ غرض جاندار کیا اور بے جان کیا۔ ہر چیز کے ہر ہر پہلو سے تعلق رکھنے والی اللہ نے حدیں مقرر کر رکھی ہیں جن سے وہ تجاوز نہیں کرسکتیں۔ الحجر
20 [١ ١] ایسی مخلوق بھی انسانوں کی تعداد سے زیادہ ہے اور اس میں ہر قسم کے چرند، پرند، درندے اور تمام حشرات الارض وغیرہ شامل ہیں۔ ان سب کی روزی بھی اسی طرح زمین کے ساتھ ہی وابستہ ہے جیسے تمہاری وابستہ ہے۔ الحجر
21 [٢ ١] ضروریات زندگی کی مناسب مقدار میں فراہمی :۔ اللہ کے پاس ہر چیز کے خزانے موجود ہیں لہٰذا وہ چاہتا تو تمام انسانوں کو وافر رزق اور مال و دولت عطا کرسکتا تھا۔ مگر اس کی حکمت کا تقاضا ایسا نہیں کیونکہ ایک تو رزق کی فراوانی عموماً اللہ کو بھول جانے اور گمراہ ہوجانے کا سبب بن جاتی ہے۔ الاماشاء اللہ اور دوسرے اگر تمام لوگ ہی مالدار ہوتے اور محتاج کوئی بھی نہ ہوتا تو دنیا کا موجودہ نظام چل ہی نہیں سکتا تھا۔ یہ اسی صورت میں چل سکتا ہے کہ ایک کو دوسرے کی احتیاج ہو۔ امیر کو غریب کی احتیاج ہو اور غریب کو امیر کی۔ پھر اس میں انسان کی آزمائش بھی ہے لہٰذا رزق کی کمی بیشی کا تمام تر معاملہ اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے۔ پھر یہ معاملہ صرف رزق تک محدود نہیں بلکہ اس میں ضروریات زندگی کی تمام اشیاء شامل ہیں۔ مثلاً ہوا، پانی، روشنی، حرارت، گرمی، سردی، ان میں سے کوئی بھی چیز اپنی مقرر حد سے بڑھ جائے یا کم ہوجائے تو انسان کی زندگی محال ہوجائے۔ گویا اللہ کے پاس خزانے تو ہر چیز کے ہیں مگر وہ انھیں اپنی حکمت اور طے شدہ مقدار کے مطابق ہی مہیا کرتا ہے۔ مثلاً پانی کی افراط بھی اگر طوفان کی صورت اختیار کرجائے تو وہ بھی انسان کی ہلاکت کا موجب ہے اور تفریط ہو تو وہ بھی۔ یہی حال دوسری ضروریات زندگی کا ہے۔ الحجر
22 [١٣] زندگی کے لئے پانی کی اہمیت :۔ پانی کا ذخیرہ یا تو زمین کے نیچے ہوتا ہے۔ وہ بھی اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ وہ چاہے تو پانی کی سطح کو بہت نیچے لے جائے اور انسان پانی حاصل ہی نہ کرسکے۔ یا بارش کی صورت میں نازل ہوتا ہے۔ وہ بھی خالصتاً اللہ کے قبضہ ئقدرت میں ہے۔ وہ چاہے تو کسی مقام پر سالہا سال بارش ہی نہ ہو یا پھر پہاڑوں پر سردیوں میں برفباری ہوتی ہے جو گرمیوں میں پگھل کر دریاؤں کی صورت میں رواں ہوتی ہے۔ لیکن کئی دفعہ دریاؤں میں پانی کی انتہائی کمی واقع ہوجاتی ہے حالانکہ پانی اللہ کی اتنی بڑی نعمت ہے جس کے بغیر نہ انسان زندہ رہ سکتا ہے نہ دوسرے جاندار اور نہ ہی نباتات اگ سکتی ہیں۔ یعنی پانی نہ ہونے سے انسان خوراک سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔ الحجر
23 [٤ ١] ہر چیز کا مالک اور وارث اللہ تعالیٰ ہے :۔ پیدائش اور موت دونوں ایسی چیزیں ہیں جن پر انسان کا ذرہ بھر بھی اختیار نہیں۔ نہ اپنی مرضی سے پیدا ہوتا ہے اور نہ اپنی مرضی سے مرتا ہے۔ پھر اس کے ہاں جو اولاد ہوتی ہے وہ بھی اس کی مرضی سے نہیں ہوتی۔ پھر اس اولاد کی زندگی اور موت بھی اللہ ہی کے قبضۂ قدرت میں ہوتی ہے۔ اور یہ سلسلہ یونہی آگے چلتا جاتا ہے۔ پھر جو کچھ انسان اپنی زندگی میں کماتا ہے۔ اس کا بھی عارضی طور پر ہی مالک ہوتا ہے۔ اس کی موت کے بعد اس کی کمائی اس کے وارثوں کے قبضہ میں چلی جاتی ہے اور یہ انتقال زر اور جائیداد بھی اضطراری ہوتا ہے جس میں انسان کا اپنا کچھ اختیار نہیں ہوتا۔ پھر یہ وارثوں کا قبضہ بھی عارضی ہوتا ہے۔ اور بالآخر یہ سب کچھ اللہ کے خزانے میں جمع ہوجاتا ہے جو حقیقتاً اصلی مالک تھا۔ الحجر
24 [٥ ١] الفاظ میں عمومیت ہے اور ان سے مراد وہ لوگ بھی ہوسکتے ہیں جو پہلے گزر چکے ہیں اور جو بعد میں آنے والے ہیں اور یہ بھی کہ جو اسلام لانے میں آگے نکل جانے والے ہیں یا پیچھے رہنے والے ہیں۔ یا کسی بھی نیک کام میں یا برے کام میں آگے نکل جانے اور پیچھے والے۔ اللہ ان سب پوری طرح باخبر ہے۔ الحجر
25 [٦ ١] کافر یہ کہتے ہیں کہ جب ہم مر کر مٹی میں مل کر مٹی بن جائیں گے یا ہماری خاک کا ذرہ ذرہ منتشر ہوجائے گا تو ہم دوبارہ کیسے پیدا کیے جائیں گے۔ یہ اعتراض کرنے والے لوگ نہ تو اللہ کی صفت حکمت کی معرفت رکھتے ہیں اور نہ ہی اس کے لامحدود علم کی وسعت کی۔ اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ سب سے کو دوبارہ پیدا کرے پھر انھیں ان کے اچھے یا برے اعمال کی جزا و سزا دے اور اس کا علم اس قدر وسیع ہے کہ وہ ان کی خاک کے منتشر شدہ ذرات تک کو جانتا ہے اور انھیں اکٹھا کرکے انھیں دوبارہ زندگی بخش کر اپنے پاس حاضر کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہے۔ الحجر
26 [٧ ١] آدم کی پیدائش مٹی سے ہوئی :۔ مٹی کے لیے عربی زبان میں عام لفظ تراب ہے جو ہر طرح کی مٹی پر بولا جاسکتا ہے۔ جیسے سیدنا آدم علیہ السلام کے متعلق ایک مقام پر فرمایا : ﴿خَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ ﴾(۳تا۵) تاہم تراب کا لفظ عموماً خشک مٹی کے لیے بولا جاتا ہے اور انسان کے پتلے کی ساخت میں مٹی کی جن اقسام کا ذکر قرآن میں آیا ہے وہ یہ ہیں۔ طین یعنی گیلی مٹی یا وہ خشک مٹی جس میں پانی ملایا گیا ہو طین لازب چپک دار گیلی مٹی ( چکنی مٹی) اس کے بعد اسی مٹی کو حَمَاٍمَّسْنُوْنٍ کی شکل دی گئی یعنی ایسی مٹی یا گارا جو گل سڑ کر سیاہ رنگ کی ہوگئی ہو خمیر اٹھ رہا ہو اور بو پیدا ہوگئی ہو۔ ایسی ہی مٹی سے آدم علیہ السلام کا پتلا بنایا گیا۔ پھر اسے حرارت یا آگ میں اس قدر تپایا گیا کہ وہ کھنکھنانے سے کھن کھن کی آواز پیدا کرتا ایسی مٹی کو صَلْصَالٍ اور صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ کا نام دیا گیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم علیہ السلام کی پیدائش میں غالب عنصر مٹی ہی تھا۔ الحجر
27 [٨ ١] جنوں کی پیدائش آگ سے ہوئی :۔ جنوں کو ایسی آگ سے پیدا کیا گیا جس میں ہوا ملی ہوئی تھی۔ سموم بمعنی سخت گرم ہوا۔ یعنی اتنی گرم ہوا سے جو آگ جیسی گرم ہو اور ہر چیز کو جھلس کر رکھ دے۔ جس سے معلوم ہوا کہ جنوں کی پیدائش میں غالب عنصر آگ تھا۔ ابلیس اصل میں جنوں کی جنس سے تعلق رکھتا تھا۔ مگر اپنی ہمہ وقت عبادت گزاری کی وجہ سے فرشتوں کی صفوں میں شامل ہوگیا تھا۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے سورۃ بقرہ کا حاشیہ نمبر ٥٣) جانّ اور جن کا لغوی مفہوم اور مراد :۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ جس طرح آدمیوں یا انسانوں کے جد امجد کا نام آدم علیہ السلام ہے۔ اسی طرح جنوں کا جد امجد جانّ ہے۔ اور جن کا لغوی معنی کسی چیز کو ڈھانپ کر چھپا دینا ہے کہ وہ نظروں سے اوجھل ہوجائے۔ اور جنوں کو بھی جن اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ انسانوں کے لیے غیر مرئی مخلوق ہے جو انسانوں کی نظروں سے اوجھل رہتی ہے۔ جن اپنی شکل و صورت بدل سکتے ہیں کبھی یہ دیو، بھوت پریوں کی شکل میں انسانوں کے سامنے نمودار ہوتے ہیں اور کبھی سانپ کی شکل میں۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے کہ اگر تم گھروں میں سانپ دیکھو تو مارنے سے پہلے اسے کہہ لو کہ اگر وہ جن ہے تو چلا جائے۔ قرآن میں بھی جان کا لفظ سانپ کے لیے استعمال ہوا ہے۔ (٢٧ : ١٠) اور جان صرف ایسے سانپ کو کہتے ہیں جو عصا کی طرح لمبا اور پتلا ہو۔ الحجر
28 الحجر
29 [٩ ١] فرشتوں کو آدم کو سجدہ کرنے کا حکم :۔ جب انسان کا پتلا تیار ہوگیا تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ ’’میں کھنکھناتی مٹی سے ایک بشر پیدا کرنے لگا ہوں۔ جب میں اس کی نوک پلک درست کرکے اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم اسی وقت اس کے سامنے سجدہ میں گر پڑنا‘‘ روح پھونکنے سے مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا ہلکا سا پر تو انسان میں پیدا ہوجائے اور انسان کو جو دوسری تمام جانداروں سے زیادہ عقل و تمیز، قوت ارادہ و اختیار، مختلف اشیاء کے خواص معلوم کرنے کا علم نیز غور و فکر کے ذریعہ استنباط یا تنائج حاصل کرنے کا علم دیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ اسی نفخہ کا نتیجہ ہے اور اسی بنا پر انسان زمین میں اللہ کا خلیفہ بنایا گیا۔ عقیدہ حلول اور ارتقاء کا رد :۔ ﴿نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ ﴾ کے الفاظ سے بعض لوگوں نے بڑا گمراہ کن مفہوم اخذ کیا ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ انسان کی ذات میں حلول کر گیا ہے۔ بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ جتنا حصہ اللہ نے اپنی روح کا آدم میں پھونکا تو اتنا اس سے کم ہوگیا۔ (نَعُوْذُ باللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ) حالانکہ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے سورج اپنی شعاعیں زمین پر ڈالتا ہے تو وہ روشنی سے جگمگا اٹھتی ہے اس سے نہ سورج کی روشنی میں کچھ کمی واقع ہوتی ہے اور نہ ہی یہ کہا جاسکتا ہے کہ سورج زمین میں حلول کر گیا ہے۔ دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ انسان کی پیدائش کسی ارتقاء کا نتیجہ نہیں ہے۔ یہ نظریہ چونکہ آج کل ہمارے کالجوں میں پڑھایا جاتا ہے اور بعض مسلمان بھی اس نظریہ سے مرعوب ہوچکے ہیں۔ نیز اس نظریہ نے مذہبی دنیا میں ایک اضطراب سا پیدا کردیا ہے لہٰذا یہاں ہم کچھ اس کی تفصیل پیش کر رہے ہیں : واضح رہے کہ انسان اور دوسرے حیوانات کی تخلیق کے متعلق دو طرح کے نظریات پائے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے بحیثیت انسان ہی پیدا کیا ہے۔ جیسا کہ اس آیت اور قرآن کریم کی بعض دوسری آیات سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا آدم علیہ السلام کو پیدا کیا پھر اس سے اس کی بیوی پیدا کی۔ پھر اس سے بنی نوع انسان تمام دنیا میں پھیلی۔ آدم کا پتلا جب اللہ تعالیٰ نے بنایا تو اس میں اپنی روح سے پھونکا۔ اور ایسی روح کسی دوسری چیز میں نہیں پھونکی گئی۔ یہ اسی روح کا اثر ہے کہ انسان میں دوسرے تمام حیوانات سے بہت زیادہ عقل و شعور، قوت ارادہ و اختیار اور تکلم کی صفات پائی جاتی ہیں۔ اس طبقہ کے قائلین اگرچہ زیادہ تر الہامی مذاہب کے لوگ ہیں تاہم بعض مغربی مفکرین نے بھی اس نظریہ کی حمایت کی ہے۔ تخلیق انسانی سے متعلق مختلف نظریات :۔ دوسرا گروہ مادہ پرستوں کا ہے جو اسے خالص ارتقائی شکل کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ اس نظریہ کے مطابق زندگی اربوں سال پہلے ساحل سمندر سے نمودار ہوئی۔ پھر اس سے نباتات اور اس کی مختلف انواع وجود میں آئیں۔ پھر نباتات ہی سے ترقی کرتے کرتے حیوانات پیدا ہوئے۔ انہی حیوانات سے انسان غیر انسانی اور نیم انسانی حالت کے مختلف مدارج سے ترقی کرتا ہوا مرتبہ انسانیت تک پہنچا ہے۔ اس تدریجی اور ارتقائی سفر کے دوران کوئی ایسا نقطہ متعین نہیں کیا جاسکتا جہاں سے غیر انسانی حالت کا وجود ختم کرکے نوع انسانی کا آغاز تسلیم کیا جائے۔ تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظریہ سب سے پہلے ارسطو (٣٨٤۔ ٣٢٢ ق م) نے پیش کیا تھا۔ قدیم زمانہ میں تھیلیس، عناکسی میندر، عناکسی مینس، ایمپی ووکل اور جوہر پسند فلاسفہ بھی مسئلہ ارتقاء کے قائل تھے۔ مسلمان مفکرین میں سے ابن خلدون، ابن مسکویہ اور حافظ مسعودی نے بھی اشیائے کائنات میں مشابہت دیکھ کر کسی حد تک اس نظریہ ارتقاء کی حمایت کی ہے۔ (انسائیکلو پیڈیا مطبوعہ فیروز سنز، زیر عنوان ارتقائیت) کیا انسان بندر کی اولاد ہے ؟:۔ انیسویں صدی عیسوی سے پہلے یہ نظریہ ایک گمنام سا نظریہ تھا۔ انیسویں صدی میں سر چارلس ڈارون (١٨٠٨ ء۔ ١٨٨٢ء) نے ایک کتاب اصل الانواع (Spices of Origin) لکھ کر اس نظریہ کو باضابطہ طور پر پیش کیا۔ اس نظریہ کو ماننے والوں میں بھی کافی اختلاف ہوئے۔ ڈارون نے بندر اور انسان کو ایک ہی نوع قرار دیا کیونکہ حس و ادراک کے پہلو سے ان دونوں میں کافی مشابہت پائی جاتی ہے۔ گویا ڈارون کے نظریہ کے مطابق انسان بندر کا چچیرا بھائی ہے۔ لیکن کچھ انتہا پسندوں نے انسان کو بندر ہی کی اولاد قرار دیا۔ کچھ ان سے بھی آگے بڑھے تو کہا کہ تمام سفید فام انسان تو چیمپیزی (Chimpazy) سے پیدا ہوئے ہیں۔ سیاہ فام انسانوں کا باپ گوریلا ہے اور لمبے سرخ ہاتھوں والے انسان تگنان بندر کی اولاد ہیں۔ مورخین نے تو ان مختلف اللون انسانوں کو سیدنا نوح علیہ السلام کے بیٹوں حام، سام اور یافث کی اولاد قرار دیا تھا۔ مگر یہ حضرات انھیں چیمپیزی، گوریلا اور تگنان کی اولاد قرار دیتے ہیں۔ پھر کچھ مفکرین کا یہ خیال بھی ہے کہ انسان بندر کی اولاد نہیں بلکہ بندر انسان کی اولاد ہے۔ اس رجعت قہقری کی مثالیں بھی اس کائنات میں موجود ہیں۔ قرآن سے بھی اس نظریہ کی کسی حد تک تائید ہوجاتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے کچھ بدکردار اور نافرمان لوگوں کو فرمایا ﴿ُكُوْنُوْا قِرَدَۃً خٰسِـــِٕیْنَ ﴾ تخلیق کائنات بشمولیت انسان سے متعلق تیسرا نظریہ آفت گیری (Catastrophism) ہے جس کا بانی کو پیئر (Copier) (١٧٩٦۔ ١٨٣٢ء ) ہے جو فرانس کا باشندہ اور تشریح الاعضاء کا ماہر تھا۔ اس کے نظریہ کے مطابق تمام اقسام کے تابئے علیحدہ علیحدہ طور پر تخلیق ہوئے۔ یہ ارضی و سماوی آفات میں مبتلا ہو کر نیست و نابود ہوگئے۔ پھر کچھ اور حیوانات پیدا ہوئے۔ یہ بھی کچھ عرصہ بعد نیست و نابود ہوگئے۔ اسی طرح مختلف ادوار میں نئے حیوانات پیدا ہوتے اور فنا ہوتے رہے ہیں (اسلام اور نظریہ ارتقاء ص ٨٥ ازاحمد باشمیل۔ ادارہ معارف اسلامی کراچی مطبوعہ البدر پبلی کیشنز لاہور) ڈارون کے نظریہ کے مطابق زندگی کی ابتداء ساحل سمندر پر پایاب پانی سے ہوئی۔ پانی کی سطح پر کائی نمودار ہوئی پھر اس کائی کے نیچے حرکت پیدا ہوئی۔ یہ زندگی کی ابتدا تھی پھر اس سے نباتات کی مختلف قسمیں بنتی گئیں۔ پھر جرثومہ حیات ترقی کرکے حیوانچہ بن گیا۔ پھر یہ حیوان بنا۔ یہ حیوان ترقی کرتے کرتے پردار اور بازوؤں والے حیوانات میں تبدیل ہوا۔ پھر اس نے فقری جانور (ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے) کی شکل اختیار کی پھر انسان کے مشابہ حیوان بنا۔ اور اس کے بعد انسان اول بنا جس میں عقل' فہم اور تکلم کی صلاحیتیں نہیں تھیں۔ بالآخر وہ صاحب فہم و ذکاء انسان بن گیا۔ ان تمام تبدلات، تغیرات اور ارتقائے زندگی کے سفر کی مدت کا اندازہ کچھ اس طرح بتلایا جاتا ہے۔ ارتقائی انسان کتنی مدت میں وجود میں آیا ؟:۔ آج سے دو ارب سال پیشتر سمندر کے کنارے پایاب پانی میں کائی نمودار ہوئی۔ یہ زندگی کا آغاز تھا۔ ٦٠ کروڑ سال قبل یک خلوی جانور پیدا ہوئے۔ پھر ٣ کروڑ سال بعد اسفنج اور سہ خلوی جانور پیدا ہوئے۔ ٤٥ کروڑ سال قبل پتوں کے بغیر پودے ظاہر ہوئے اور اسی دور میں ریڑھ کی ہڈی والے جانور پیدا ہوئے۔ ٤٠ کروڑ سال قبل مچھلیوں اور کنکھجوروں کی نمود ہوئی۔ ٣٠ کروڑ سال قبل بڑے بڑے دلدلی جانور پیدا ہوئے۔ یہ عظیم الجثہ جانور ٤ فٹ لمبے اور ٣٥ ٹن تک وزنی تھے۔ ١٣ کروڑ سال بعد یا آج سے ١٧ کروڑ سال پہلے بےدم بوز نہ سیدھا ہو کر چلنے لگا (یعنی وہ بندر ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ انسان کا جداعلیٰ ہے) اس سے ٣٠ لاکھ سال بعد یا آج سے ستر لاکھ سال پہلے اس بےدم بوز نے کی ایک قسم تپھکن تھروپس سے پہلی انسانی نسل پیدا ہوئی۔ مزید ٥٠ لاکھ سال بعد یا آج سے ٢٠ لاکھ سال پہلے پہلی باشعور انسانی نسل پیدا ہوئی۔ جس نے پتھر کا ہتھیار اٹھایا۔ مزید ٢ لاکھ سال بعد اس میں ذہنی ارتقاء ہوا اور انسانی نسل نے غاروں میں رہنا شروع کیا۔ (زریں معلومات مطبوعہ فیروز سنز ص ٧ تا ٩) ڈارون نے اپنی پہلی کتاب اصل الانواع ١٨٥٩ ء میں لکھی پھر اصل الانسانOrigin of man)) اور پھر تسلسل انسانی(Decent of man) لکھ کر اپنے نظریہ کی تائید مزید کی۔ اور اپنے اس نظریہ کو مندرجہ ذیل چار اصولوں پر استوار کیا ہے : ١۔ تنازع للبقاءStruggle for Existence)) اس سے مراد زندگی کی بقا کے لیے کشمکش ہے جس میں صرف وہ جاندار باقی رہ جاتے ہیں جو زیادہ مکمل اور طاقتور ہوں اور کمزور جاندار ختم ہوجاتے ہیں مثلاً کسی جنگل میں وحشی بیل ایک ساتھ چرتے ہیں۔ ان میں سے جو طاقتور ہوتا ہے وہ گھاس پر قبضہ جما لیتا ہے اور اس طرح مزید طاقتور ہوجاتا ہے مگر کمزور خوراک کی نایابی کے باعث مزید کمزور ہو کر بالآخر ختم ہوجاتا ہے اسی کشمکش کا نام تنازع للبقاء ہے۔ ٢۔ دوسرا اصول طبعی انتخاب ( Natural Selection) ہے مثلاً اوپر کی مثال میں وہی وحشی بیل دور کی مسافت طے کرنے اور دشوار گزار راستوں سے گزرنے میں کامیاب ہوتے ہیں جو طاقتور اور مضبوط ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو خطرات سے محفوظ رکھ سکتے ہیں اور کمزور خود بخود ختم ہوتے جاتے ہیں گویا فطرت خود طاقتور اور مضبوط کو باقی رکھتی اور کمزور اور ناقص کو ختم کرتی رہتی ہے۔ ٣۔ ماحول سے ہم آہنگی (Adaption) اس کی مثال یوں سمجھئے کہ شیر ایک گوشت خور درندہ جانور ہے فطرت نے اسے شکار کے لیے پنجے اور گوشت کھانے کے لیے نوکیلے دانت عطا کیے ہیں۔ اب اگر اسے مدت دراز تک گوشت نہ ملے تو اس کی دو ہی صورتیں ہیں۔ یا تو وہ بھوک سے مر جائے گا یا نباتات کھانا شروع کردے گا۔ اس دوسری صورت میں اس کے تیز دانت اور پنجے رفتہ رفتہ خود بخود ختم ہوجائیں گے اور ایسے نئے اعضاء وجود میں آنے لگیں گے جو موجودہ ہیئت کے مطابق ہوں۔ اس کی آنتیں بھی طویل ہو کر سبزی خور جانوروں کے مشابہ ہوجائیں گی۔ اسی طرح اگر شیر کو خوراک ملنے کی واحد صورت یہ ہو کہ اسے کسی درخت پر چڑھ کر حاصل کرنی پڑے تو ایسے اعضاء پیدا ہونا شروع ہوجائیں گے جو اسے درختوں پر چڑھنے میں مدد دے سکیں۔ ٤۔ قانون وراثت(Law of Heritence) اس کا مطلب یہ ہے کہ اصول نمبر ٢ یعنی ہیئت اور ماحول کے اختلاف سے جو تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں وہ نسلاً بعد نسل آگے منتقل ہوتی جاتی ہیں تاآنکہ یہ اختلاف فروعی نہیں بلکہ نوعی بن جاتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو الگ الگ نسلیں ہیں جیسے گدھا اور گھوڑا ایک ہی نوع ہے مگر گدھا گھوڑے سے اس لیے مختلف ہوگیا کہ اس کی معاشی صورت حال بھی بدل گئی اور حصول معاش کے لیے اس کی جدوجہد میں بھی اضافہ ہوگیا۔ سو یہ ہے ڈارون کے نظریہ ارتقاء کا خلاصہ، جو اس وقت بھی صرف ایک نظریہ ہی تھا اور آج بھی نظریہ سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ اس نظریہ کو کوئی ایسی ٹھوس بنیاد مہیا نہیں ہوسکی جس کی بنا پر یہ نظریہ سائنس کا قانون ( Scientific Law) بن سکے اس نظریہ پر بعد کے مفکرین نے شدید اعتراض کیے ہیں مثلاً : ١۔ نظریہ ارتقاء پر اعتراضات :۔ پہلا اعتراض یہ ہے کہ زندگی کی ابتدا کیسے ہوگئی؟ معلول تو موجود ہے لیکن علت کی کڑی نہیں ملتی گویا اس نظریہ کی بنیاد ہی غیر سائنسی یا ان سائینٹفک ہے۔ اس سلسلہ میں پرویز صاحب اپنی کتاب ''انسان نے کیا سوچا'' کے صفحہ ٥٥ پر لکھتے ہیں کہ : ’’یہ تو ڈارون نے کہا تھا لیکن خود ہمارے زمانے کا ماہر ارتقاء (Simpson) زندگی کی ابتدا اور سلسلہ علت ومعلول کی اولیں کڑی کے متعلق لکھتا ہے کہ زندگی کی ابتداء کیسے ہوگئی؟ نہایت دیانتداری سے اس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں اس کا کچھ علم نہیں۔۔ یہ معمہ سائنس کے انکشافات کی دسترس سے باہر ہے اور شاید انسان کے حیطہ ادراک سے بھی باہر۔۔ اور میرا خیال ہے کہ ذہن انسانی اس راز کو کبھی پا نہیں سکے گا۔ ہم اگر چاہیں تو اپنے اپنے طریق پر اس علت اولیٰ (اللہ تعالیٰ) کے حضور اپنے سر جھکا سکتے ہیں لیکن اسے اپنے ادراک کے دائرے میں کبھی نہیں لاسکتے‘‘ ٢۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ ارتقاء کا کوئی ایک چھوٹے سے چھوٹا واقعہ بھی آج تک انسان کے مشاہدہ میں نہیں آیا۔ یعنی کوئی چڑیا ارتقاء کرکے مرغا بن گئی ہو یا گدھا ارتقاء کرکے گھوڑا بن گیا ہو یا لوگوں نے کسی چمیپنزی یا گوریلا یا بندر یا بن مانس کو انسان بنتے دیکھا ہو۔ نہ ہی یہ معلوم ہوسکا ہے کہ فلاں دور میں ارتقاء ہوا تھا بلکہ جس طرح حیوانات ابتدائے آفرینش سے تخلیق کیے گئے ہیں آج تک اسی طرح چلے آتے ہیں اور جو اوپر ارتقائی مدت اربوں اور کروڑوں سال کے حساب سے بیان کی گئی ہے وہ محض ظن و تخمین پر مبنی ہے جسے سائینٹفک نہیں کہا جاسکتا۔ البتہ بعض ایسی مثالیں ضرور مل جاتی ہیں جو اس نظریہ ارتقاء کی تردید کردیتی ہیں مثلاً حشرات الارض جیسی کمزور مخلوق کو آج تک فنا ہوجانا چاہیے تھا مگر وہ بدستور موجود اور اپنے موسم پر پیدا ہوجاتی ہے۔ ریشم کے کیڑے کی داستان حیات اس کی پرزور تردید کرتی ہے۔ اسی طرح بعض کمتر درجے کے بحری جانور جو ابتدائے زمانہ میں پائے جاتے تھے آج بھی اسی شکل میں موجود اور اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں اسی لیے بہت سے منکرین اس نظریہ ارتقاء کے منکر ہیں اور وہ اس نظریہ کے بجائے تخلیق خصوصی (Special Creation) یعنی ہر نوع زندگی کی تخلیق بالکل الگ طور پر ہونا کے قائل ہیں۔ ٣۔ اس نظریہ پر تیسرا اعتراض یہ ہے کہ ارتقائی سلسلہ کی درمیانی کڑیاں غائب ہیں۔ مثلاً جوڑوں والے اور بغیر جوڑوں والے جانوروں کی درمیانی کڑی موجود نہیں۔ فقری اور غیر فقری جانوروں کی درمیانی کڑی بھی مفقود ہے۔ مچھلیوں اور ان حیوانات کے درمیان کی کڑی بھی مفقود ہے جو خشکی اور پانی کے جانور کہلاتے ہیں اسی طرح رینگنے والے جانوروں اور پرندوں اور رینگنے والے ممالیہ جانوروں کی درمیانی کڑیاں بھی مفقود ہیں۔ اس نظریہ کی یہ وہ دشواری ہے جو سو سال سے زیر بحث چلی آرہی ہے۔ بعض نظریہ قائلین اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ درمیانی کڑی کا کام جب پورا ہو چکتا ہے تو وہ از خود غائب ہوجاتی ہے اس جواب میں جتنا وزن یا معقولیت ہے اس کا آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں۔ ٤۔ چوتھا اعتراض یہ ہے کہ اس نظریہ کی رو سے پہلا انسان کمزور جسم اور ناقص العقل ثابت کیا جاتا ہے اب سوال یہ ہے کہ اگر یہی صورت تھی تو اس نے شیروں اور چیتوں کے درمیان گزارہ کیسے کرلیا ؟ اور اس کمزوری اور بے عقلی کے باوجود وہ تنازع للبقاء میں کامیاب کیسے ہوگیا؟ ٥۔ پانچواں اعتراض بڑا وزنی ہے جو یہ ہے کہ ابتدائے زندگی سے بندر تک جو شعوری ترقی دو ارب سال میں واقع ہوئی ہے اور بندر اور انسان کے درمیان جو شعوری فرق ہے اس کے لیے تو اس حساب سے ارب ہا سال کی مدت درکار ہے جبکہ زمین کی عمر صرف ٣ ارب سال بتلائی جاتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس قدر عظیم الشان ذہنی ترقی انسان میں یکدم کیونکر آگئی؟ ٦۔ چھٹا اعتراض یہ کہ ڈارون نے ارتقاء کے جو اصول بتلائے ہیں وہ مشاہدات کی رو سے صحیح ثابت نہیں ہوتے مثلاً: الف۔ قانون وراثت کے متعلق ڈارون کہتا ہے کہ لوگ کچھ عرصہ تک کتوں کی دم کاٹتے رہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کتے بےدم پیدا ہونے لگے۔ جس پر اعتراض یہ ہوتا ہے کہ عرب اور عبرانی لوگ عرصہ دراز سے ختنہ کرواتے چلے آئے ہیں لیکن آج تک کوئی مختون بچہ پیدا نہیں ہوا۔ ب۔ ماحول سے ہم آہنگی پر اعتراض یہ ہے کہ انسان کے پستانوں کا بدنما داغ آج تک کیوں باقی ہے جس کی کسی دور میں بھی کبھی کوئی ضرورت پیش نہیں آئی۔ نیز انسان سے کمتر درجہ کے جانوروں (نروں) میں یہ داغ موجود نہیں تو انسان میں کیسے آگیا ؟ علاوہ ازیں یہ کہ ایک ہی جغرافیائی ماحول میں رہنے والے جانوروں کے درمیان فرق کیوں ہوتا ہے؟ ٧۔ رکاز (Paleontology) کی دریافت بھی نظریہ ارتقاء کو باطل قرار دیتی ہے۔ رکاز سے مراد انسانی کھوپڑیاں یا جانوروں کے وہ پنجر اور ہڈیاں ہیں جو زمین میں مدفون پائی جاتی ہیں۔ نظریہ ارتقاء کی رو سے کمتر درجہ کے جانوروں کی ہڈیاں زمین کے زیریں حصہ میں اور اعلیٰ انسان کے رکاز زمین کے بالائی حصہ میں پائے جانے چاہئیں۔ جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہے اور رکاز کی دریافت اس نظریہ کی پرزور تردید کرتی ہے۔ یہ ہیں وہ اعتراضات جنہوں نے اس نظریہ کے انجر پنجر تک ہلا دیئے ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ صدی نے اس نظریہ میں استحکام کے بجائے اس کی جڑیں تک ہلا دیں ہیں۔ اب اس نظریہ کے متعلق چند مغربی مفکرین کے اقوال بھی ملاحظہ فرما لیجئے : نظریہ ارتقاء پر مغربی مفکرین کے تبصرے ١۔ ایک اطالوی سائنسدان روزا کہتا ہے کہ گذشتہ ساٹھ سال کے تجربات نظریہ ڈارون کو باطل قرار دے چکے ہیں۔ (اسلام اور نظریہ ارتقاء) ٢۔ ڈی وریز (De-Varies) ارتقاء کو باطل قرار دیتا ہے وہ اس کے بجائے انتقال نوع (Mutation) کا قائل ہے جسے آج کل فجائی ارتقاء (Emergency Evelution) کا نام دیا جاتا ہے اور یہ نظریہ علت و معلول کی کڑیاں ملانے سے آزاد ہے۔ (ایضاً، ص ٥٩) ٣۔ ولاس (Wallace) عام ارتقاء کا تو قائل ہے لیکن وہ انسان سے مستثنیٰ قرار دیتا ہے۔ (ایضاً ص ٦١) ٤۔ فرخو کہتا ہے کہ انسان اور بندر میں بہت فرق ہے اور یہ کہنا بالکل لغو ہے کہ انسان بندر کی اولاد ہے۔ (ایضاً) ٥۔ میفرٹ کہتا ہے کہ ڈارون کے مذہب کی تائید ناممکن ہے اور اس کی رائے بچوں کی باتوں سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی۔ ٦۔ آغا سیز کہتا ہے کہ ڈارون کا مذہب سائنسی لحاظ سے بالکل غلط اور بے اصل ہے اور اس قسم کی باتوں کا سائنس سے کوئی تعلق نہیں ہوسکتا۔ (ایضاً ص ٦٢) ٧۔ ہکسلے (Huxley) کہتا ہے کہ جو دلائل ارتقاء کے لیے دیئے جاتے ہیں ان سے یہ بات قطعاً ثابت نہیں ہوتی کہ نباتات یا حیوانات کی کوئی نوع کبھی طبعی انتخاب سے پیدا ہوئی ہو۔ (ایضاً ص ٦٣) ٨۔ ٹنڈل کہتا ہے کہ نظریہ ڈارون قطعاً ناقابل التفات ہے کیونکہ جن مقدمات پر اس نظریہ کی بنیاد ہے وہ ناقابل تسلیم ہی نہیں ہیں۔ (ایضاً ص ٦٣) نظریہ ارتقاء کی مقبولیت کے اسباب :۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر یہ نظریہ ارتقاء اتنا ہی غیر سائینٹیفک ہے تو یہ مقبول کیسے ہوگیا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا پرچار کرنے والوں میں مادہ پرست، دہریت پسند اور اشتراکیت نواز سب شامل ہوجاتے ہیں۔ دہریت مادہ پرستی، لا ادریت، اور اشتراکیت بذات خود الگ الگ مذہب ہیں۔ یہ نظریہ چونکہ الحاد اور اللہ کی ہستی سے انکار کی طرف لے جاتا ہے لہٰذا ان سب کو ایک دلیل کا کام دیتا ہے۔ ڈارون اصل الانواع لکھنے سے پہلے خدا پرست تھا۔ یہ کتاب لکھنے کے بعد لا ادریت کے مقام پر آگیا۔ پھر جب اور بھی دو کتابیں لکھ کر اپنے نظریہ میں پختہ ہوگیا تو اللہ تعالیٰ کی ہستی کا منکر بن گیا اور اہل کلیسا نے اس پر کفر و الحاد کا فتویٰ لگا دیا۔ نظریہ ارتقاء کی برصغیر میں درآمد اور منکرین قرآن :۔ ہمارے ہاں مغربی افکار سے مرعوب قرآنی مفکرین نے اسے فوراً اپنا لیا۔ سرسید احمد خاں نے جنہوں نے یورپ میں ایک عرصہ گزارا اور ڈارون کے ہم عصر اور سوامی دیانند سے شدید متاثر تھے اس نظریہ کو فطرت کے مطابق پایا تو اسے قبول کرلیا اور آج ادارہ طلوع اسلام سرسید کی تقلید میں اس نظریہ کے پرچار میں سرگرم ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ جس نظریہ کو بہت سے مغربی مفکرین مادی اور سائنسی لحاظ سے بھی مردود قرار دے چکے ہیں اسے ہمارے قرآنی مفکرین کو حدیث سے ظنی علم کو رد کرکے اس ''یقینی علم'' کو سینے سے لگانے کی کیا ضرورت تھی سائنسی نظریات کا تو یہ حال ہے کہ جب وہ اپنے تجرباتی اور تحقیقی مراحل سے گزرنے کے بعد سائنسی (Law) قانون بن جاتے ہیں تب بھی انھیں آخری حقیقت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بعد میں آنے والے مفکر ایسے قوانین کو رد کردیتے ہیں۔ نیوٹن کے دریافت کردہ قانون کشش ثقل کو آئن سٹائن نے مشکوک قرار دیا یہی صورت حال اس کے قوانین حرکت کی ہے تو ایسی صورت میں ان نظریات کو تحریف و تاویل کے ذریعہ ثابت کرنا کوئی دینی خدمت یا قرآنی فکر قرار دیا جاسکتا ہے؟ پرویز صاحب نے اس نظریہ ارتقاء کو دو شرائط کے ساتھ اپنایا ہے ایک یہ کہ پہلے جرثومہ حیات میں زندگی کسی طرح خود بخود ہی پیدا نہیں ہوگئی تھی بلکہ یہ زندگی خدا نے عطا کی تھی اور دوسری یہ کہ انسان کا فکر و شعور ارتقاء کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ نفخ خداوندی کا نتیجہ ہے اور یہ نفخ روح خداوندی فجائی ارتقاء کے طور پر واقع ہوا۔ فجائی ارتقاء کے نظریہ کا موجد موجودہ دور کا امام لائڈ مارگن ہے جس نے یہ ثابت کردیا ہے کہ فجائی ارتقاء ممکن العمل ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر اللہ ہی کو خالق زندگی اور نفخ روح خداوندی کو بطور فجائی ارتقاء عامل تسلیم کرنا ہے تو پھر کیوں نہ آدم علیہ السلام کی خصوصی تخلیق ہی کو تسلیم کرلیا جائے؟ تاکہ نظریہ ارتقاء پر پیدا ہونے والے کئی اعتراضات کا ازالہ بھی ہوجائے۔ مثلاً یہ کہ جب نوع انسان پہلے سے چلی آرہی تھی تو کیا نفخ روح اس نوع کے سارے افراد میں ہوا تھا یا کسی فرد واحد میں؟ اور اگر کسی فرد واحد میں ہوا تھا تو وہ کون تھا۔ اور یہ واقعہ کس دور میں ہوا تھا ؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا ان حضرات کے پاس کوئی جواب نہیں۔ نظریہ ارتقاء کے حق میں قرآنی دلائل :۔ اب ہم ان قرآنی دلائل کا جائزہ لیں گے جن سے یہ حضرات اپنے اس نظریہ ارتقاء کو کشید کرتے ہیں پہلی دلیل سورۃ نساء کی پہلی آیت ہے”کہ اے لوگو! اپنے اس پروردگار سے ڈر جاؤ جس نے تمہیں نفس واحدہ سے پیدا کیا۔ پھر اس سے اس کا زوج بنایا پھر ان دونوں سے کثیر مرد اور عورتیں روئے زمین پر پھیلا دیئے‘‘ (٤: ١) یہ آیت اپنے مطلب میں صاف ہے کہ نفس واحدہ سے مراد آدم علیہ السلام اور زوج سے مراد ان کی بیوی حوا ہیں اور یہی کچھ کتاب و سنت اور آثار سے معلوم ہوتا ہے مگر ہمارے یہ دوست نفس واحد سے مراد پہلا جرثومہ حیات لیتے ہیں اس جرثومہ کے متعلق نظریہ یہ ہے کہ وہ کٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا۔ پھر ان میں سے ہر ایک ٹکڑا کٹ کر دو دو ٹکڑے ہوتا گیا۔ اس طرح زندگی میں وسعت پیدا ہوتی گئی۔ جو بالآخر جمادات سے نباتات، نباتات سے حیوانات اور حیوانات سے انسان تک پہنچی ہے۔ یہ تصور اس لحاظ سے غلط ہے کہ آج بھی جراثیم کی افزائش اسی طرح ہوتی ہے یعنی ایک جرثومہ کٹ کر دو ٹکڑے ہوتا چلا جاتا ہے پھر کسی جرثومہ کو آج تک کسی نے نباتات میں تبدیل ہوتے دیکھا ہے؟ لہٰذا لامحالہ ہمیں یہی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ نفس واحدہ سے مراد آدم، زوج سے مراد ان کی بیوی ہے اور توالد و تناسل کے ذریعہ ان کی اولاد مرد اور عورتیں روئے زمین پر پھیل گئے۔ ٢۔ دوسری دلیل سورۃ علق کی ابتدائی دو آیات ہیں (’’اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے پروردگار کے نام سے پڑھئے جس نے (کائنات کو) پیدا کیا اور انسان کو علق (جما ہوا خون) سے پیدا کیا‘‘ (٩٦: ١، ٢) دوسری دلیل علق کا مفہوم :۔ علق کا لغوی مفہوم نرو مادہ کے ملاپ کے بعد نطفہ کا جمے ہوئے خون کی شکل اختیار کرلینا ہے۔ کہتے ہیں عَلَّقَتِ الاُنْثٰی بالْوَلَدِ مادہ حاملہ ہوگئی (المنجد) اور چونکہ یہ جما ہوا خون جونک جیسی لمبوتری شکل اختیار کرلیتا ہے لہٰذا جونک کو بھی علق کہہ دیتے ہیں۔ ہمارے یہ کرم فرما اس سے دوسرا معنی یعنی جونک مراد لیتے ہیں اور رحم مادر کی کیفیت قرار نہیں دیتے بلکہ ارتقائی زندگی کے سفر کا وہ دور مراد لیتے ہیں جب جونک کی قسم کے جانور وجود میں آئے اور کہتے ہیں کہ انسان انہی جانداروں کی ارتقائی شکل ہے۔ رہی یہ بات کہ آیا یہ رحم مادر کا قصہ ہے یا ارتقائے زندگی کے سفر کی داستان ہے تو اس اشکال کو قرآن ہی کی سورۃ مومنون کی یہ آیت دور کردیتی ہے : ’’پھر ہم نے نطفہ کو علق بنایا پھر علق کو لوتھڑا بنایا پھر لوتھڑے کی ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر انسان کو نئی صورت میں بنا دیا۔ اللہ بڑی بابرکت ہستی ہے جو سب سے بہتر خالق ہے‘‘ (٢٣ : ١٤) اب سوال یہ ہے کہ اگر علق سے مراد رحم مادر کا قصہ نہیں بلکہ وہ دور مراد ہے جب جونک کی قسم کے جانور وجود میں آئے تھے تو یہ بھی بتلانا پڑے گا کہ نطفہ سے ارتقائی سفر کا کون سا دور مراد ہے کیونکہ اللہ نے علق کو نطفہ سے بنایا ہے اور دوسرا سوال یہ ہے کہ آیا قرآن کے اولین مخاطب یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہ علق سے وہ مفہوم سمجھ سکتے ہیں جو یہ حضرات آج کل ذہن نشین کرانا چاہتے ہیں؟ ٣۔ تیسری دلیل۔ اطوار مختلفہ :۔ ان حضرات کی تیسری دلیل سورۃ نوح کی آیت ﴿ وَقَدْ خَلَقَکُمْ اَطْوَارًا ﴾ تمام مفسرین نے اطوار سے مراد وہ تخلیقی مراحل لیے ہیں جو رحم مادر میں واقع ہوتے ہیں جبکہ پرویز صاحب اس آیت سے ارتقائے زندگی کے مراحل مراد لیتے ہیں۔ اس پر بھی وہی سوال پیدا ہوتے ہیں جو دوسری دلیل میں بیان کئے جا چکے ہیں۔ ٤۔ چوتھی دلیل۔ زمین سے روئیدگی :۔ چوتھی دلیل سورۃ نوح کی یہ آیت ہے ﴿ وَاللّٰہُ اَنْبَتَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًا ﴾ اس کا پرویز صاحب یہ ترجمہ کرتے ہیں کہ ’’ہم نے تمہیں زمین سے اُگایا، ایک طرح کا اگانا‘‘ اور مراد یہ لیتے ہیں کہ انسان نباتات اور حیوانات کے راستہ سے ہوتا ہوا وجود میں آیا ہے۔ جہاں تک انسان کا مٹی یا زمین سے پیدا ہونے کا تعلق ہے اس میں تو کسی کو کچھ اختلاف نہیں۔ اختلاف صرف اس بات میں ہے کہ انبت کا معنی صرف اگانا ہے یا کچھ اور بھی؟ لغوی لحاظ سے یہ لفظ خلق یعنی پیدا کرنے کے معنوں میں بھی آتا ہے کہتے ہیں نبت ثدی الجاریۃ بمعنی لڑکی کے پستان پیدا ہوگئے یا ابھر آئے۔ چنانچہ اکثر مفسرین نے انبت کا معنی پیدا کرنا ہی لکھا ہے پھر اس لفظ کا معنی اچھی طرح پرورش کرنا بھی ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿فَتَقَبَّلَہَا رَبُّہَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ وَّاَنْبَتَہَا نَبَاتًا حَسَـنًا ﴾’’تو اللہ نے مریم کو پسندیدگی سے قبول فرمایا اور اسے اچھی طرح پرورش کیا‘‘ لہٰذا یہ آیت بھی ذومعنی ہونے کی بنا پر نظریہ ارتقاء کے لیے دلیل نہیں بن سکتی۔ ٥۔ پانچویں دلیل نسل انسانی کے بعد فرشتوں کا آدم کو سجدہ کرنا :۔ پرویز صاحب کی پانچویں دلیل سورۃ اعراف کی یہ آیت ہے : ﴿وَلَقَدْ خَلَقْنٰکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰکُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰئِکَۃِ اسْجُدُوْا لاِدَمَ﴾(۱۱:۷)”اور ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہاری شکل وصورت بنائی پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو“ اس سے آپ ثابت یہ کرنا چاہتے ہیں کہ آیت مذکورہ میں جمع کا صیغہ اس بات کی دلیل ہے کہ آدم سے پہلے نوع انسانی موجود تھی کیونکہ فرشتوں کو سجدہ کا حکم بعد میں ہوا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ سورۃ اعراف کی ابتدا میں دور نبوی کے تمام موجود انسانوں کو مخاطب کیا گیا ہے کہ ’’اپنے پروردگار کی طرف سے نازل شدہ وحی کی تابعداری کرو‘‘ پھر آگے چل کر آدم آپ کی بیوی اور ابلیس کا قصہ مذکور ہے تو قرآن میں حسب موقع صیغوں کا استعمال ہوا۔ ان آیات کے مخاطب آدم اور ان کی اولاد ہے نہ کہ آدم اور ان کے آباء و اجداد اور بھائی بند۔ جو پرویز صاحب کے خیال کے مطابق اس جنت میں رہتے تھے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ”اے آدم! تو اور تیری بیوی جنت میں رہو“(٢: ٢٥) اگر آدم اور آدم کے آباء و اجداد پہلے ہی اس جنت میں رہتے تھے تو صرف آدم اور اس کی بیوی کو جنت میں رہنے کی ہدایت بالکل بے معنی ہوجاتی ہے۔ نظریہ ارتقاء کے ابطال پر قرآنی دلائل :۔ اب ہم قرآن سے ایسے دلائل پیش کریں گے جن سے نظریہ ارتقاء باطل قرار پاتا ہے۔ تخلیق انسانی کے مراحل :۔ پہلی دلیل تخلیق انسانی کے وہ مراحل ہیں جو قرآن سے معلوم ہوتے ہیں اور وہ مٹی پر ہی وارد ہونے والی مختلف صورتیں ہیں اور وہ یہ ہیں : ١۔ اللہ نے انسان کو تراب یعنی خشک مٹی سے پیدا کیا۔ (٤٠: ٦٧) ٢۔ ارض یعنی زمین یا عام مٹی سے پیدا کیا۔ (٧١: ١٧) ٣۔ اسے طین یعنی گیلی مٹی یا گاڑے سے پیدا کیا۔ (٦: ٢) ٤۔ اسے طین لازب یعنی لیسدار اور چپکدار مٹی سے پیدا کیا۔ (٣٧: ١١) ٥۔ اسے حماٍ مسنون بمعنی بدبودار مٹی اور گلے سڑے کیچڑ سے پیدا کیا۔ (١٥: ٢٦) ٦۔ اسے صلصال یعنی حرارت سے پکائی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔ (١٥: ٢٦) ٧۔ اسے صلصال کالفخار یعنی ٹن سے بجنے والی ٹھیکری سے پیدا کیا۔ (٥٥: ١٤) یہ ہیں وہ مٹی پر وارد ہونے والے اطوار یا مراحل جن کا قرآن نے ذکر کیا کہ ان اطوار کے بعد آدم علیہ السلام کا پتلا تیار ہوا تھا۔ اور یہ ساتوں مراحل بس جمادات میں ہی پورے ہوجاتے ہیں۔ مٹی میں پانی کی آمیزش ضرور ہوئی لیکن بعد میں وہ پوری طرح خشک کردیا گیا۔ اب دیکھئے ان مراحل میں کہیں نباتات اور حیوانات کا ذکر آیا ہے کہ اس راستہ سے انسان وجود میں آیا ہے؟ ٢۔ دوسری دلیل درج ذیل آیات ہے : ﴿ھَلْ اَتٰی عَلَی الاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّھْرِ لَمْ یِکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًا﴾(۱:۷۶) ’’بلاشبہ انسان پر زمانے سے ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا‘‘ ٢۔ تخلیق انسان سے پہلے کا زمانہ قابل ذکر چیز نہیں :۔ اب دیکھئے دھر سے مراد وہ زمانہ ہے جس کا آغاز زمین و آسمان کی پیدائش سے ہوا۔ اور عصر سے مراد وہ زمانہ ہے جس کا آغاز تخلیق آدم سے ہوا۔ کیونکہ اللہ نے انسانی افعال و اعمال پر عصر کو بطور شہادت پیش کیا ہے۔ دہر کو نہیں کیا۔ ارشاد باری ہے کہ اس دہر میں انسان پر ایسا وقت بھی آیا ہے۔ جبکہ وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا۔ اگر وہ نباتات، حیوانات یا بندر کی اولاد ہوتا تو یہ سب چیزیں قابل ذکر ہیں اور ان مراحل میں اربوں سال بھی صرف ہوئے تو ان کا نام لینے میں کیا حرج تھا ؟ ہمارے خیال میں یہی آیت ڈارون کے نظریہ ارتقاء کو کلی طور پر مردود قرار دینے کے لیے کافی ہے۔ ٣۔ نظریہ ارتقاء کے ابطال پر تیسری دلیل یہ آیت ہے : ﴿ قَالَ یٰٓـاِبْلِیْسُ مَا مَنَعَکَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ ﴾ اللہ نے فرمایا : ’’اے ابلیس! جس کو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا اسے سجدہ کرنے سے تجھے کس چیز نے منع کیا ؟ ‘‘ آدم کی خصوصی تخلیق :۔ معتزلین اور پرویزی حضرات اللہ تعالیٰ کے ہاتھ تسلیم کرنے کے قائل نہیں لہٰذا وہ لفظ ید کا ترجمہ قوت یا قدرت یا دست قدرت سے کرلیتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ یہاں بیدی کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یعنی ’’اپنے دونوں ہاتھوں سے‘‘ اب اگر ید کا معنی قوت یا قدرت کیا جائے تو اس لفظ کا کیا مفہوم ہوگا کہ جسے میں نے دو قوتوں یا دو قدرتوں سے بنایا ہے؟ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک چیز کو اپنی قدرت اور قوت ہی سے بنایا ہے پھر صرف سیدنا آدم علیہ السلام کے متعلق خصوصی ذکر کی کیا ضرورت تھی کہ میں نے آدم کو اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔ ٤۔ نظریہ ارتقاء کے ابطال پر چوتھی دلیل قرآن کی یہ آیت ہے : ﴿ اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ خَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ ﴾ (۵۹:۳) ”اللہ کے ہاں عیسیٰ علیہ السلام کی مثال آدم کی سی ہے جسے اللہ نے مٹی سے پیدا کیا پھر کہا (انسان) بن جا تو وہ انسان بن گئے“ آدم کی بن باپ تخلیق :۔ ٩ ھ میں نجران کے عیسائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ آئے اور ابنیت مسیح کے موضوع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مناظرہ کی ٹھانی۔ عیسائی بھی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی بن باپ پیدائش کے قائل تھے اور مسلمان بھی۔ عیسائیوں کی دلیل یہ تھی کہ جب تم مسلمان یہ تسلیم کرتے ہو کہ عیسیٰ علیہ السلام کا باپ نہ تھا اور یہ بھی تسلیم کرتے ہو کہ وہ مردوں کو زندہ کرتے تھے تو بتاؤ اگر وہ اللہ کے بیٹے نہ تھے تو ان کا باپ کون تھا ؟ اسی دوران یہ آیت نازل ہوئی۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ جواب دیا کہ اگر باپ کا نہ ہونا ہی اللہ کے بیٹے یا الوہیت مسیح کی دلیل بن سکتا ہے تو آدم الوہیت کے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ ان کی باپ کے علاوہ ماں بھی نہ تھی۔لیکن تم آدم کو الٰہ نہیں کہتے تو عیسیٰ علیہ السلام کیسے الٰہ ہوسکتے ہیں؟ مگر آج کے مسلمانوں میں ایک فرقہ ایسا ہے جو آدم کی بن باپ پیدائش کو تسلیم کرتا ہے کہ اس کے بغیر چارہ نہیں مگر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی بن باپ پیدائش کو تسلیم نہیں کرتا اور دوسرا مفکرین قرآن کا ہے جو نہ عیسیٰ علیہ السلام کی بن باپ پیدائش کے قائل ہیں اور نہ سیدنا آدم علیہ السلام کی بن ماں باپ پیدائش کے۔ اس آیت میں ان دونوں فرقوں کا رد موجود ہے۔ وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کو آدم علیہ السلام کی پیدائش کے مثل قرار دیا ہے اور اس مثلیث کی ممکنہ صورتیں یہ ہوسکتی ہیں : ١۔ دونوں کی پیدائش مٹی سے ہے۔ یہ توجیہہ اس لیے غلط ہے کہ تمام انسانوں کی پیدائش مٹی سے ہوئی اس میں آدم علیہ السلام و عیسیٰ علیہ السلام کو کوئی خصوصیت نہیں۔ ٢۔ دونوں کی پیدائش ماں باپ کے ذریعہ ہوئی ہو۔ یہ توجیہہ اس لیے غلط ہے کہ انسان کی پیدائش کے لیے عام دستور یہی ہے اور اس میں بھی آدم علیہ السلام و عیسیٰ علیہ السلام کی کوئی خصوصیات نہیں۔ ٣۔ اب تیسری صورت یہ رہ جاتی ہے کہ دونوں کا باپ نہ ہونا تسلیم کیا جائے اور یہی ان دونوں کی پیدائش میں مثلیت کا پہلو نکل سکتا ہے جس میں دوسرے انسان شامل نہیں۔ اس طرح یہ آیت بھی نظریہ ارتقاء کو مکمل طور پر مردود قرار دیتی ہے۔ الحجر
30 الحجر
31 الحجر
32 الحجر
33 الحجر
34 الحجر
35 الحجر
36 الحجر
37 الحجر
38 [٢٠] سجدہ سے ابلیس کا انکار :۔ ابلیس کے سجدہ سے انکار کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اور ابلیس میں جو مکالمہ ہوا اس کا بیان پہلے سورۃ اعراف کے دوسرے رکوع کی آیت نمبر ١٣ حاشیہ نمبر ١٢ میں گزر چکا ہے۔ وہی حواشی ملاحظہ فرما لیں۔ الحجر
39 [٢٠۔ الف] ابلیس نے اپنی گمراہی کا الزام اللہ کے ذمہ لگا دیا اور اس کی جو وجہ بتلائی وہ سورۃ اعراف کی آیت نمبر ١٦ کے حاشیہ نمبر ١٤ میں ملاحظہ فرمایئے۔ [ ٢١] ابلیس کے انسان کو گمراہ کرنے کے طریقے :۔ ابلیس نے کہا میں دنیا کی زندگی، اس کی لذتوں اور اس کے عارضی فوائد کو انسانوں کے لیے ایسا خوشنما بنا کر پیش کروں گا کہ وہ اس دنیا کی دلچسپیوں میں ایسے محو رہیں گے کہ خلافت اور اس کی ذمہ داریوں اور آخرت کی باز پرس کو بالکل بھول جائیں گے اور تجھے بھی یا تو بالکل فراموش کردیں گے یا تجھے یاد رکھنے کے باوجود تیری نافرمانیاں کرتے رہیں گے اور دوسروں کو تیری خدائی میں شریک بناتے رہیں گے اور میرے اس پھندے سے صرف وہی لوگ بچ سکیں گے جو اپنے ایمان میں مضبوط، مستقل مزاج اور ثابت قدم رہنے والے ہوں گے۔ الحجر
40 الحجر
41 [٢٢] وہ سیدھا راستہ جو اللہ تک پہنچتا ہے یہ ہے کہ انسان خالصتاً اسی کی عبادت کرے اور اسی پر توکل کرے اور ایمان لانے کے بعد کماحقہ اس کے تقاضوں کو پورا کرے اور اپنے ایمان میں مستقل اور ثابت قدم رہے۔ ایسے لوگ جو اس راہ پر چلتے جائیں کبھی شیطان کے پھندے میں نہیں آسکتے۔ الحجر
42 [٢٣] شیطان کو کس حد تک اختیار دیا گیا ہے؟:۔ شیطان کو صرف اتنا اختیار دیا گیا ہے کہ وہ دھوکے سے، فریب سے، جھوٹ بول کر، وسوسے ڈال کر، دنیا کے فوائد میں الجھا کر، غلط قسم کی توقعات اور وعدے دے کر انسان کو گمراہ کرسکتا ہے تو کرے مگر اسے یہ اختیار قطعاً نہیں دیا گیا کہ وہ کسی کو زبردستی کھینچ کر اللہ کی راہ سے ہٹا کر اپنی راہ پر ڈال دے۔ جیسا کہ پہلے سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر ٢٢ میں گزر چکا ہے کہ شیطان خود اہل دوزخ کے سامنے اس بات کا اعتراف کرے گا کہ میں نے تم سے جھوٹا وعدہ کیا اور تمہیں اپنی طرف بلایا جس کی میرے پاس کوئی دلیل نہ تھی پھر بھی تم نے میری دعوت کو تسلیم کرلیا۔ حالانکہ میرا تم پر کچھ زور نہ تھا لہٰذا آج مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنی عقلوں کا ماتم کرو۔ الحجر
43 الحجر
44 [٢٤] جہنم کے دروازے،طبقے اور ان کے نام :۔ تقسیم شدہ حصہ سے مراد یہ ہے کہ ایک ہی گناہ کے مجرم الگ کردیئے جائیں گے اور وہ سب ایک ہی دروازہ سے داخل ہوں گے۔ جیسے دہریے ایک دروازے سے، مشرک الگ دروازہ سے، منافق الگ دروازے سے وغیرہ وغیرہ۔ بالفاظ دیگر جہنم کے ہر طبقہ کے لیے الگ الگ دروازہ ہوگا اور یہ طبقات بھی سات ہی ہوں گے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نزدیک ان کے نام یہ ہیں۔ جہنم، سعیر، لظیٰ، حطمہ، سقر جحیم اور ہاویہ اور جہنم کا لفظ ان سب طبقات کے لیے عام بھی ہے اور پہلے طبقہ کا نام بھی ہے۔ اور بعض لوگوں نے ان طبقات کے لیے گنہگاروں کی یوں تقسیم کی ہے۔ پہلے طبقہ جہنم میں گنہگار مسلمان۔ دوسرے طبقہ سعیر میں یہود، تیسرے طبقہ لظیٰ میں نصاریٰ، چوتھے طبقے حطمہ میں صائبین، پانچویں طبقہ سقر میں مجوس، چھٹے طبقہ میں مشرک اور ساتویں طبقہ میں منافق جو سب سے نچلا طبقہ ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ واضح رہے کہ جہنم کے تو سات دروازے ہیں جبکہ جنت کے دروازے آٹھ ہیں۔ الحجر
45 الحجر
46 الحجر
47 [٢٥] جنت میں داخلہ سے پہلے دلوں کی صفائی :۔ دنیا کی زندگی میں نیک لوگوں کے درمیان بعض غلط فہمیوں کی بنا پر کچھ رنجش اور ناراضگی دلوں میں رہ بھی گئی ہوگی تو جنت میں داخل ہونے سے پہلے پہلے ایسی سب چیزیں اللہ تعالیٰ دلوں سے نکال دے گا اور وہ بھائی بھائی بن کر جنت میں داخل ہوں گے۔ پچھلی سب باتیں دلوں سے محو کردی جائیں گی۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یہی آیت پڑھ کر فرمایا تھا کہ مجھے امید ہے کہ اللہ میرے،عثمان رضی اللہ عنہ، طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ کے درمیان بھی صفائی کرا دے گا۔ واضح رہے کہ یہ چاروں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان چھ رکنی کمیٹی کے ممبر تھے جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے وفات سے پیشتر نئے خلیفہ کے انتخاب کے سلسلہ میں تشکیل دی تھی اور یہ رنجش بعض غلط فہمیوں کی بنا پر پیدا ہوگئی تھی۔ اور بعض لوگوں نے اس سے یہ مراد لی ہے کہ جنت میں اہل جنت کے درجات مختلف ہوں گے۔ کوئی اعلیٰ درجہ کی جنت کا مستحق ہوگا اور کوئی نچلے درجہ والی جنت کا۔ تو داخلہ سے پہلے ہر ایک کے دل سے رشک اور رنجش وغیرہ نکال دی جائے گی ہر جنتی اپنے اپنے درجہ پر قانع اور مطمئن ہوگا۔ الحجر
48 [٢٦] یعنی دنیوی زندگی کی طرح اپنا پیٹ پالنے کے لیے وہاں کچھ محنت و مشقت نہیں کرنی پڑے گی۔ ہر مطلوبہ چیز طلب کرنے پر فوراً حاضر کردی جائے گی۔ انھیں ان چیزوں کے حصول کے لیے نقل مکانی کی بھی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ اور ان کے لیے یہ سب نعمتیں دائمی ہوں گی اور ان کی زندگی بھی دائمی زندگی ہوگی۔ الحجر
49 الحجر
50 [٢٧] اللہ تعالیٰ سے امید بھی اور خوف بھی :۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی دو صفات کا اکٹھا ذکر کردیا۔ تاکہ لوگ نہ تو اللہ تعالیٰ کی بخشش پر ہی تکیہ کرکے بے خوف ہوجائیں اور گناہ کے کاموں پر دلیر ہوجائیں اور نہ ہی اللہ سے اتنا زیادہ ڈرنے لگیں کہ اس کی رحمت سے مایوس ہوجائیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرنے کے بعد بھی اپنے نیک اعمال پر تکیہ کرکے بے خوف نہ ہوجانا چاہیے بلکہ اپنی بعض تقصیرات کی وجہ سے اس سے ڈرتے بھی رہنا چاہیے انہی دو صفات کا اکٹھا ذکر اللہ تعالیٰ نے اور بھی بہت سے مقامات پر فرمایا ہے مثلاً مومنوں کی ایک صفت یہ بیان فرمائی۔ ﴿یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا﴾ اور فرمایا ﴿وَادْعُوْہُ خَوْفًا وَّطَمَعًا ﴾(۵۶:۷) تاہم اللہ کی رحمت کا پہلو ہی راجح ہونا چاہیے کیونکہ اس کے ساتھ ہی فرما دیا کہ ﴿اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ ﴾(۵۶:۷) الحجر
51 [٢٨] سیدنا ابراہیم کے مہمان فرشتے :۔ یہ مہمان فرشتے تھے جو اصل میں تو لوط علیہ السلام کی قوم کی طرف بھیجے جارہے تھے کہ ان کی بستی کو تباہ کر ڈالیں۔ پہلے وہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی طرف آئے اور انھیں مہمان اس لیے کہا گیا کہ وہ اجنبی صورت میں آئے تھے وہ انھیں ایک بیٹے یعنی سیدنا اسحاق علیہ السلام کی بشارت دینے آئے تھے۔ یہ واقعہ پہلے سورۃ ہود کی آیت نمبر ٦٩ تا ٧٤ میں بھی گزر چکا ہے۔ الحجر
52 الحجر
53 الحجر
54 الحجر
55 [٢٩] سورۃ ہود میں اور اس مقام میں قدرے اختلاف ہے سورۃ ہود کے مطابق فرشتوں نے یہ خوشخبری سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی بیوی سارہ کو دی تھی جو پاس ہی کھڑی فرشتوں اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا مکالمہ سن رہی تھی۔ اس نے بھی اس بڑھاپے کی عمر میں بچہ پیدا ہونے کی بشارت پر تعجب کا اظہار کیا تھا اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے بھی از راہ تعجب فرشتوں سے یہی بات پوچھی کہ یہ کیا خوشخبری دے رہے ہو؟ [ ٣٠] سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا یہ تعجب اس لیے نہ تھا کہ وہ اس بات کو ناممکن سمجھتے تھے یا اللہ کی رحمت سے مایوس ہوچکے تھے بلکہ اس لیے تھا کہ وہ اس تکرار سے تاکید مزید اور اسی نسبت سے اپنی مسرت میں مزید اضافہ کے خواہشمند تھے۔ الحجر
56 الحجر
57 [٣١] سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے ڈرنے کی وجہ :۔ ان فرشتوں کی آمد سے سیدنا ابراہیم علیہ السلام سمجھ گئے کہ یہ کسی خاص مہم پر آئے ہیں۔ ورنہ لڑکے کی خوشخبری دینے کے لیے تو ایک فرشتہ بھی کافی تھا نیز یہ کہ کئی فرشتوں کا انسانی شکل میں آناغیر معمولی حالات میں ہی ہوا کرتا ہے۔ لہٰذا آپ علیہ السلام نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ تمہاری اس طرح آمد کی اصل غرض و غایت کیا ہے؟ واضح رہے کہ قرآن نے یہاں خطب کا لفظ استعمال فرمایا ہے اور یہ لفظ کسی ناگوار صورت حال کے لیے آتا ہے گویا آپ ان فرشتوں کی آمد سے فی الواقع ڈر رہے تھے۔ پھر جب فرشتوں نے بتایا کہ وہ قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں تو آپ علیہ السلام کا ڈر جاتا رہا۔ الحجر
58 الحجر
59 الحجر
60 الحجر
61 الحجر
62 [٣٢] سیدنا لوط اور آل لوط کو نکل جانے کا حکم اور ہدایات :۔ یہ فرشتے جب لوط علیہ السلام کے ہاں آئے تو خوبصورت اور بے ریش نوجوانوں کی صورت میں آئے۔ سیدنا لوط علیہ السلام کے یہ مہمان بالکل اجنبی مہمان تھے۔ آپ کو بھی ان کی آمد سے خطرہ محسوس ہوا لیکن آپ کے خطرہ کی نوعیت بالکل الگ تھی۔ آپ اپنی قوم کا حال بھی جانتے تھے اور یہ نوجوان لڑکے بہت خوبصورت تھے لہٰذا دل ہی دل میں آپ پیش آنے والے حالات سے سخت خوفزدہ تھے۔ فرشتوں نے آپ کو اصل صورت حال بتلا کر آپ کے اس خوف کو دور کردیا۔ ساتھ ہی یہ بھی بتادیا کہ اس مجرم قوم کے گناہوں کا پیمانہ اب لبریز ہوچکا ہے۔ لہٰذا ہم ان کے مکمل استیصال کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ اب آپ ایسا کریں کہ جب گہری رات چھا جائے تو آپ اپنے گھر والوں اور ایمان دار لوگوں کو ساتھ لے کر یہاں سے نکل جائیں۔ البتہ تمہاری بیوی تمہارے ساتھ نہیں جائے گی۔ کیونکہ وہ ان لوگوں کے گناہوں میں برابر کی شریک ہے۔ صبح دم ان پر عذاب آنے والا ہے اور جب تم نکلو تو خود سب سے پیچھے رہو اور تم لوگوں میں سے کوئی بھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے کیونکہ یہ نہ تو تماشا دیکھنے کا وقت ہے اور نہ مجرم قوم کی ہلاکت پر آنسو بہانے کا بلکہ اگر کوئی آدمی پیچھے کھڑا رہ گیا تو ممکن ہے اسے بھی کچھ گزند پہنچ جائے۔ الحجر
63 الحجر
64 الحجر
65 [٣٣] آپ کی تبلیغ کا مرکز سدوم کا شہر تھا۔ اور یہ عذاب اسی شہر اور اس کے مضافات پر آیا تھا۔ ان کا علاقہ عراق اور فلسطین کے درمیان واقع تھا جہاں آج کل شرق اردن ہے۔ یہاں سے آپ کو شام کی طرف ہجرت کرجانے کا حکم دیا گیا تھا۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ سورۃ ہود میں واقعہ کی ترتیب یہ ہے کہ جب فرشتے سیدنا لوط علیہ السلام کے ہاں آئے تو قوم کے بدمعاش اور غنڈے فوراً سیدنا لوط علیہ السلام کے گھر پہنچ گئے۔ اور آپ کو اپنے ان مہمانوں کو ان غنڈوں سے بچانے کی فکر لاحق ہوگئی۔ تاآنکہ آپ علیہ السلام نے یہ فرمایا کہ ’’کاش! مجھ میں ان کی مدافعت کی طاقت ہوتی یا میں کسی مضبوط سہارے کی طرف پناہ لے سکتا“ تو اس وقت فرشتوں نے اپنا تعارف کرایا اور تسلی دی کہ آپ کو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ اور یہاں ترتیب یہ ہے کہ عذاب کا ذکر پہلے آیا ہے اور باقی تفصیلات بعد میں۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں مضمون کے تسلسل اور مناسبت کی بنا پر عذاب کا ذکر پہلے کردیا گیا ہے ورنہ واقعہ کی اصل ترتیب وہی ہے جو پہلے سورۃ ہود میں مذکور ہوئی۔ الحجر
66 الحجر
67 [٣٤] غنڈوں کا سیدنا لوط کے گھر میں گھس آنا :۔ اہل سدوم لواطت کے معاملہ میں اس قدر بے حیا اور بیباک ہوچکے تھے کہ سیدنا لوط علیہ السلام کا بھی کچھ لحاظ نہ کرتے تھے بلکہ الٹا انھیں یہ کہتے تھے کہ اگر تم اتنے پاکباز بنتے ہو تو ہمارے شہر سے نکل جاؤ۔ چنانچہ یہ خوبصورت لڑکے لوط علیہ السلام کے گھر پہنچے ہی تھے کہ آپ کی بیوی نے مخبری کردی اور وہ دیوار پھاند کر آپ علیہ السلام کے گھر میں گھس آئے۔ سیدنا لوط علیہ السلام نے ان کی منت کرتے ہوئے کہ دیکھو ! یہ میرے مہمان ہیں ان پر دست درازی کرکے مجھے رسوا نہ کرو۔ الحجر
68 الحجر
69 الحجر
70 [٣٥] اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے سیدنا لوط علیہ السلام سے پہلے ہی کہہ رکھا تھا کہ تم مسافروں اور اجنبیوں کو اپنے ہاں پناہ نہ دیا کرو۔ گویا ان کے شہر میں کسی مسافر کی بھی عزت محفوظ نہ تھی۔ پھر لواطت کے علاوہ ان میں مزید قباحتیں بھی موجود تھیں وہ مسافروں سے بدفعلی کرنے کے بعد ان کا مال اسباب ان سے چھین کر اپنی بستی سے باہر نکال دیا کرتے تھے۔ اب ان خوش شکل نوجوان کو دیکھ کر بھلا وہ اپنی حرکتوں سے کیسے باز رہ سکتے تھے؟ فوراً کہنے لگے کہ ہم تو تمہیں پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ سارے جہاں کے ٹھیکیدار مت بنو اور کسی مسافر کو اپنے ہاں پناہ نہ دیا کرو۔ اپنی ہی خیر مناؤ تو یہ بھی بڑی بات ہے۔ الحجر
71 [٣٦] سیدنا لوط علیہ السلام کی بیٹیاں :۔ اس کا ایک مطلب تو وہی ہے جو آیت کے ظاہری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنی بیٹیوں کو ان کے نکاح میں دینے پر تیار ہوگئے حالانکہ پہلے یہی لوگ ان بیٹیوں کا رشتہ طلب کرتے تھے اور آپ نے ان لوگوں کی بدکرداری دیکھ کر رشتہ دینے سے انکار کردیا تھا اور دوسرا مطلب ہے کہ ہر نبی اپنی قوم کا روحانی باپ ہوتا ہے لہٰذا آپ قوم کی بیٹیوں کے بھی روحانی باپ تھے اور آپ نے انھیں کہا یہ تھا کہ تمہارے گھروں میں جو تمہاری بیویاں ہیں وہ بھی میری بیٹیاں ہیں۔ اگر اتنی ہی تم پر شہوت غالب آرہی ہے تو ان سے پوری کرلو۔ اس آیت سے ہرگز یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ آپ نے بدکاری کے لیے اپنی بیٹیاں پیش کردی تھیں۔ کیونکہ سیدنا لوط علیہ السلام جس بدی کے خلاف جہاد کر رہے تھے اسی طرح کی ایک دوسری برائی کا خود ارتکاب کیسے کرسکتے تھے؟ بالخصوص اس صورت میں کہ آپ اللہ کے نبی تھے۔ الحجر
72 [٣٧] غنڈوں کی بدمستی :۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان سے زیادہ اکرم و افضل کوئی جان پیدا نہیں کی۔ مجھے یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان عزیز کے علاوہ کسی اور جان کی قسم کھائی ہو۔ یہی قسم کھا کر اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اس وقت ان خوبصورت لڑکوں کو دیکھ کر وہ اپنی شہوت رانی کی مستی میں اندھے اور دیوانے بنے ہوئے تھے کہ ایسا شکار شاید انھیں بعد میں کبھی بھی میسر نہ آسکے۔ الحجر
73 الحجر
74 [٣٨] قوم لوط کی تباہ کردہ بستیوں کا حال :۔ یہ کل چار بستیاں تھیں جن میں چار لاکھ لڑنے والے مرد موجود تھے اور یہ سب بدکار اور مجرم تھے۔ جبرئیل علیہ السلام نے اس پورے خطہ زمین کو اپنے پروں پر اٹھایا پھر فضا میں بلندی پر لے کر انھیں اٹھا کر زمین پر دے مارا۔ اور اس کے ساتھ ہی ایک زبردست دھماکے کی آواز پیدا ہوئی۔ اس پر بھی اللہ کا غضب فرو نہ ہوا تو پھر اسی خطہ ئزمین پر اوپر سے پتھروں کی بارش کی گئی۔ چنانچہ یہ خطہ زمین سطح سمندر سے ٤٠٠ کلومیٹر نیچے چلا گیا اور اوپر پانی آگیا۔ یہی پانی بحر میت یا غرقاب لوطی ہے۔ الحجر
75 [٣٩] متوسّم سے مراد وہ لوگ ہیں جو قرائن و علامات اور آثار سے کسی نتیجہ پر پہنچنے کی اہلیت رکھتے ہوں یعنی غور و فکر اور دھیان کرنے والے اہل دانش کے لیے اس واقعہ لوط میں عبرت کے بہت سے نشان موجود ہیں۔ الحجر
76 الحجر
77 الحجر
78 [٤٠] اصحاب الایکہ کون تھے؟ یعنی بن کے رہن والے۔ یعنی ایسی قوم جو درختوں کے ذخیرہ کے پاس رہتی تھی اور یہ مدین کے پاس ہی تھے اور ان کی طرف بھی شعیب علیہ السلام ہی مبعوث ہوئے تھے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اصحاب مدین اور اصحاب الایکہ الگ الگ قومیں تھیں اور بعض کے نزدیک ایک ہی قوم تھی۔ ان کا جرم شرک کے علاوہ تجارتی بددیانتیاں نیز ناپ تول میں کمی بیشی کرنا تھا۔ ان کا حال پہلے سورۃ اعراف کی آیت ٨٥ میں تفصیل سے گزر چکا ہے۔ الحجر
79 [٤١] اہل مدین اور مدین کا علاقہ :۔ حجاز سے شام و فلسطین نیز عراق سے مصر کو جو تجارتی راستہ جاتا ہے۔ قوم لوط کا تباہ شدہ علاقہ اسی راستہ میں پڑتا ہے۔ وہیں ذرا نیچے اتر کر قوم شعیب کا مسکن تھا۔ دونوں کے آثار راستہ چلنے والوں کو نظر آتے ہیں۔ الحجر
80 [٤٢] وادی حجر کے لوگوں سے مراد قوم ثمود ہے جس کی طرف صالح علیہ السلام کو مبعوث فرمایا گیا تھا اور یہاں جو ایک رسول کے بجائے کئی رسولوں کا ذکر فرمایا تو یہ اس لحاظ سے ہے کہ تمام رسولوں کی بنیادی تعلیم ایک ہی رہی ہے لہٰذا ایک رسول کو جھٹلانا سب رسولوں کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ الحجر
81 [٤٣] یہ نشانیاں اللہ کی اونٹنی اور اس کا بچہ تھیں۔ اور یہ معجزہ ان کے مطالبہ پر انھیں عطا ہوا تھا علاوہ ازیں رسولوں پر منزل من اللہ تعلیم پر بھی ان الفاظ یعنی آیات اللہ کا اطلاق ہوتا ہے ان کے انکار کا قصہ بھی پہلے سورۃ اعراف اور سورۃ ہود میں گزر چکا ہے۔ الحجر
82 [٤٤] اصحاب الحجر یا قوم ثمود :۔ یہ لوگ بڑے طویل القامت، مضبوط جسم اور لمبی عمروں والے تھے۔ سنگ تراش اور انجینئر قسم کے لوگ تھے۔ اور اس فن میں اتنے ماہر تھے کہ پہاڑوں کو تراش کر ان میں اپنے گھر بنالیتے تھے۔ اور یہ گھر اتنے مضبوط ہوتے تھے جو ہر طرح کی ارضی و سماوی آفات مثلاً زلزلہ، سیلاب، طوفان بادوباراں وغیرہ کا مقابلہ کرسکتے تھے لہٰذا ہر طرح کے خوف و خطر سے نڈر ہو کر ان میں رہتے تھے۔ الحجر
83 الحجر
84 [٤٥] قوم ثمود کی تباہ شدہ بستیاں :۔ ان پر جو عذاب الٰہی نازل ہوا وہ ایک زبردست قسم کی دہشت ناک آواز تھی ان کے مکان جو باقی ہر طرح کی ارضی و سماوی آفات سے مامون تھے اس عذاب کے لیے کچھ بھی کارآمد ثابت نہ ہوسکے۔ اللہ نے ان پر عذاب ہی ایسا بھیجا جو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ آسکتا تھا۔ اور اس کے مقابلہ میں ان کی کوئی تدبیر بھی کارگر نہ ہوسکتی تھی۔ چنانچہ وہ اپنے گھروں میں ہی مرگئے اور وہیں گلتے سڑتے رہے۔ ان کا علاقہ اس راستہ پر پڑتا ہے جو مدینہ سے تبوک جاتا ہے اور ان کے بہت سے آثار طویل مدت تک دوسروں کے لیے باعث عبرت بنے رہے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے بھی واضح ہوتا ہے : عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ سفر تبوک میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجر کے مقام پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ ”ان کے کنوئیں سے نہ پانی پیئیں اور نہ ڈول بھریں“ صحابہ نے عرض کیا کہ ’’ہم نے تو اس سے آٹا گوندھ لیا ہے اور اسے بھر بھی لیا ہے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’آٹا پھینک دو اور پانی بہا دو‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹا اونٹوں کو کھلانے کی اجازت دے دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ’’اس کنوئیں سے پانی پلاؤ جس سے (صالح علیہ السلام کی) اونٹنی پانی پیتی تھی۔ اور ان ظالموں کے گھروں میں داخل نہ ہو بجز اس صورت کے کہ تم رو رہے ہو اور اگر رونا نہ آئے تو وہاں سے مت گزرو۔ ایسا نہ ہو کہ ان کا سا عذاب تم پر بھی نازل ہو‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر سے اپنا سر ڈھانک لیا اور تیزی سے اپنی سواری کو چلاتے ہوئے وہاں سے نکل گئے۔ (بخاری، کتاب الانبیاء ، باب قولہ تعالیٰ والی ثمود اخاہم صالحا۔ نیز کتاب التفسیر۔ نیز کتاب الصلوٰۃ۔ باب الصلٰوۃ فی مواضع الخسف) الحجر
85 [٤٦] ان قوموں پر عذاب الٰہی نازل کرکے ان کی بیخ وبن سے اکھاڑ دینے کی وجہ یہ تھی کہ ان کا طرز زندگی کسی ٹھوس حقیقت پر مبنی نہیں تھا بلکہ اوہام پرستی اور باطل پر تھا جبکہ کائنات کی ہر ایک چیز ٹھوس حقائق پر پیدا کی گئی ہے اور انہی حقائق سے یہ دلیل بھی ملتی ہے کہ یہ کائنات بے مقصد پیدا نہیں کی گئی اور اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ قیامت ضرور قائم ہونا چاہیے اور مجرم لوگ تو ہمیشہ روز آخرت اور اللہ کے حضور باز پرس کے تصور کے منکر رہے ہیں۔ لہٰذا ان کا انجام ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔ اور اب یہ مشرکین مکہ جو اسی ڈگر پر چل رہے ہیں ان کا بھی وہی انجام ہونے والا ہے لہٰذا ان سے الجھنے کی ضرورت نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی ان سے درگزر سے کام لیجئے۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ وہ مناسب وقت پر ان سے خود نمٹ لے گا۔ الحجر
86 الحجر
87 [٤٧] سبع المثانی یا قرآن العظیم، فضائل سورۃ فاتحہ :۔ سات بار بار دہرائی جانے والی آیات سے مراد سورۃ فاتحہ ہے۔ چنانچہ سیدنا سعید بن معلیٰ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا : ’’میں تجھے قرآن کی ایک ایسی سورت بتاؤں گا جو قرآن کی سب سورتوں سے بڑھ کر ہے اور وہ ہے ﴿اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾ وہی سبعا من المثانی اور قرآن العظیم ہے جو مجھے دیا گیا۔‘‘ (بخاری، تفسیر سورۃ فاتحہ، نیز کتاب التفسیر، سورۃ انفال زیر آیت نمبر ٢٤ ﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا ﴾ نیز سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’سورہ الحمد ہی ام القرآن، ام الکتاب اور سات دہرائی جانے والے آیتیں ہیں۔‘‘ (ترمذی، ابو اب التفسیر سورۃ محمد) اور یہ سورت قرآن عظیم اس لحاظ سے ہے کہ اس میں پورے قرآن کی تعلیم کا خلاصہ آگیا ہے۔ گویا سمندر کو کوزے میں بند کردیا گیا ہے۔ سب سے پہلے اللہ کی معرفت اور اس کی حمد و ثنا، پھر روز آخرت میں جزا و سزا کا جامع ذکر، پھر شرک کی تمام اقسام سے کلی اجتناب کا اقرار، پھر صراط مستقیم کی ہدایت کی طلب۔ یہ ہی مضامین قرآن میں مختلف انداز سے اجمالاً اور تفصیلاً بیان کیے گئے ہیں اور بعض علماء کہتے ہیں کہ اس سورۃ کا مزید اختصار ﴿ اِیَّاَکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ﴾ ہے تفصیل کے لیے دیکھئے سورۃ فاتحہ کے حواشی۔ الحجر
88 [٤٨] مسلمانوں اور قریشیوں کی معاشی حالت کا تقابل :۔ جب ہم نے آپ کو قرآن عظیم جیسی نعمت عطا فرما دی تو پھر کافروں کو دی ہوئی ناپائیدار اور فانی نعمتوں کی طرف توجہ نہ کرنا چاہیے۔ جب یہ ہدایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دی گئی اس وقت صورت حال یہ تھی کہ رسالت کی ذمہ داریوں کی بنا پر آپ سے تجارت کا شغل بھی چھوٹ چکا تھا اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا والا سرمایہ بھی ختم ہو رہا تھا۔ اور قریش مکہ کے معاشرتی بائیکاٹ کی وجہ سے جو چند جوان صحابہ کاروبار یا دوسرے کام کاج کرتے تھے وہ بھی چھوٹ چکے تھے۔ ویسے بھی کچھ صحابہ غلام اور کچھ آزاد کردہ غلام تھے۔ غرضیکہ مسلمانوں پر یہ سخت تنگدستی کا دور تھا۔ دوسری طرف قریش مکہ خاصے مالدار تھے۔ تجارت کرتے تھے اور ٹھاٹھ باٹھ سے رہتے تھے۔ ایسے ہی حالات میں مسلمانوں کو تسلی کے طور پر ایسی ہدایات دی جا رہی تھیں۔ الحجر
89 الحجر
90 الحجر
91 [٤٩] قسمیں کھانے والے اور ان پر عذاب کا نزول :۔ اس آیت کے دو مطلب بیان کیے گئے ہیں ایک یہ کہ اگر مقتسمین کے معنی تقسیم کرنے والے یا بانٹ لینے والے، قرار دیا جائے۔ اس صورت میں یہود و نصاریٰ دونوں ہیں جنہوں نے قرآن کے بعض حصوں کو تو تسلیم کیا اور بعض حصوں کا انکار کردیا اور بعض کے نزدیک ان سے مراد کفار مکہ ہیں۔ جن کا مطالبہ یہ تھا کہ قرآن کی جن آیات میں ہمارے بتوں کی توہین ہوتی ہے وہ نکال دو پھر باقی باتیں ہم مان لیں گے اور بعض کے نزدیک ان سے مراد صرف تفرقہ باز یہود ہیں اور قرآن سے مراد ان کی کتاب اللہ تورات ہے۔ ان لوگوں نے کتاب اللہ کے بعض حصوں کو مان کر، بعض کا انکار کرکے، بعض آیات کو چھپا کر اور بعض کو تحریف لفظی یا معنوی کرکے بیسیوں فرقے بنا ڈالے تھے اور ان کی طرف اللہ تعالیٰ نے وقتاً فوقتاً اپنی تنبیہات یا عذاب نازل فرمایا۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ مقتسمین کے معنی باہم قسمیں کھانے والے قرار دیا جائے۔ اس صورت میں اس سے مراد وہ لوگ یا وہ قومیں ہیں جنہوں نے انبیاء کی تکذیب یا بعض دوسری جھوٹی باتوں پر قسمیں کھائی تھیں اور انہوں نے کتب سماویہ کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے تھے۔ حافظ ابن کثیر اسی معنی کی تائید کرتے ہیں۔ اور اس معنی کی تائید میں کئی آیات پیش کی ہیں۔ مثلاً قوم ثمود نے آپس میں قسمیں کھائیں کہ ہم رات کو شبخون مار کر سیدنا صالح علیہ السلام اور ان کے گھر والوں کو قتل کر ڈالیں گے (٢٧: ٤٩) یا مثلاً کافروں نے پختہ قسمیں کھا کر کہا کہ جو مر چکا ہے اللہ اسے دوبارہ پیدا نہیں کرے گا۔ (١٦: ٣٨) یا قریش مکہ نے قسمیں کھا کر کہا تھا کہ ان کی شان و شوکت کو زوال نہیں آئے گا۔ (١٤: ٢٤) یا اعراف والے دوزخیوں کو مخاطب کرکے کہیں گے کہ کیا یہی اہل جنت وہ لوگ نہیں جن کے متعلق تم قسمیں کھاتے تھے کہ اللہ ان پر کبھی رحمت نہیں کرے گا، وغیرہ وغیرہ۔ ایسے سب لوگوں پر عذاب آیا اور قیامت کو ان سے سختی سے بازپرس بھی ہوگی۔ الحجر
92 الحجر
93 الحجر
94 [٥٠] علی الاعلان تبلیغ رسالت کا حکم :۔ ابتداًء دعوت اسلام کا آغاز خفیہ طور پر ہوتا رہا اور یہ دور تین سال سے زائد عرصہ پر محیط ہے۔ پھر وہ دور آیا جب مسلمان خانۂ ارقم سے باہر اپنے اپنے گھروں کی بعض کھلی جگہوں پر نمازیں ادا کرتے اور قرآن پڑھتے تھے۔ اس دور میں قریش نے پابندی لگا رکھی تھی کہ مسلمان بلند آواز سے قرآن نہ پڑھا کریں کیونکہ اس سے ان کے بچے اور عورتیں متاثر ہوتی ہیں نیز ان پر کعبہ میں نماز ادا کرنے یا قرآن پڑھنے پر بھی پابندی تھی اور قریش کا دباؤ اتنا زیادہ تھا کہ مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ پھر چند سال بعد یہ دور آیا جب اللہ تعالیٰ نے علی الاعلان تبلیغ کا حکم دے دیا اور فرمایا کہ اس سلسلہ میں شرک کرنے والوں کے استہزاء کی مطلق پروا نہ کریں ہم ایسے لوگوں سے خود نمٹ لیں گے۔ الحجر
95 الحجر
96 الحجر
97 الحجر
98 [٥١] مشکل اوقات میں نماز کی تلقین :۔ جب ان مشرکوں کے استہزاء سے یا ایمان نہ لانے سے یا ان کی ایذاؤں سے آپ کے دل میں تنگی اور گھٹن پیدا ہو تو اس کا بہترین حل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی طرف رجوع کیجئے اس کی تسبیح و تقدیس بیان کیجئے، نماز ادا کیجئے۔ ان چیزوں سے ایک تو آپ کے دل میں گھٹن کی بجائے اطمینان پیدا ہوگا تمہارا حوصلہ بڑھائیں گی، استقامت پیدا ہوگی اور دعوت دین کے سلسلہ میں آپ کو جو تکلیفیں اور مصائب پیش آرہے ہیں یہ باتیں آپ میں ان کے مقابلے کی قوت پیدا کردیں گی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی پریشانی لاحق ہوتی یا رزق کی تنگی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی نماز کی طرف جھپٹتے اور اپنے گھر والوں کو بھی ایسا ہی حکم فرماتے۔ الحجر
99 الحجر
0 النحل
1 [١] قریش پر اللہ کے عذاب کی صورت اور اس کا آغاز ہجرت نبوی سے :۔ مشرکین مکہ اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چڑانے کے لیے کہا کرتے تھے کہ اگر تم سچے ہو تو جیسے تم کہتے ہو، ہم پر اب تک عذاب آ کیوں نہیں گیا وہ دیکھ رہے تھے کہ پیغمبرصلی اللہ علیہ و سلم کو عذاب کا وعدہ دیتے دس بارہ سال گزر چکے ہیں اور عذاب تو آیا نہیں لہٰذا یہ الفاظ گویا ان کا تکیہ کلام بن گئے تھے۔ اور اس بات سے وہ دو باتوں پر استدلال کرتے تھے۔ ایک اپنے مشرکانہ مذہب کی سچائی پر اور دوسرے پیغمبر اسلام کی نبوت کی تکذیب پر۔ انھیں باتوں کے جواب سے اس سورت کا آغاز ہو رہا ہے۔ پہلی بات کا جواب یہ دیا گیا کہ عذاب کا آنا یقینی ہے اس کے لیے جلدی مچانے کی ضرورت نہیں کیونکہ جلد ہی تمہیں اس سے سابقہ پڑنے والا ہے یوں ہی سمجھو کہ وہ سر پر آپہنچا۔ اب رہا یہ سوال کہ وہ عذاب کون سا تھا اور کب آیا ؟ تو اس کے متعلق یہ بات تو طے شدہ ہے کہ نبی کی ذات جب تک کسی قوم میں موجود ہو اس وقت تک عذاب نہیں آتا۔ آگے پھر دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ نبی کو اور اس کے ساتھیوں کو ہجرت کا حکم دے کر وہاں سے نکال لیا جاتا ہے یا کسی بھی دوسرے ذریعہ سے انھیں بچا لیا جاتا ہے اور باقی مجرموں پر قہر الٰہی نازل ہوتا ہے اور عذاب کی دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ انھیں ہجرت کرنے والوں کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ مجرم قوم کی پٹائی کراتا ہے۔ تاآنکہ کفر و شرک کا سر توڑ دیتا ہے۔ عذاب کی ان دونوں صورتوں کا ذکر سورۃ توبہ کی آیت نمبر ٥٢ میں موجود ہے لہٰذا ہمارے خیال میں اس عذاب کا نقطۂ آغاز ہجرت نبوی ہی تھا۔ جس کا حکم اس سورۃ کے نزول کے تھوڑے ہی عرصہ بعد دے دیا گیا تھا۔ یہی ہجرت مشرکین مکہ کے ظلم و ستم کے خاتمہ کا سبب بنی اور مسلمانوں کو آزادی سے سانس لینا نصیب ہوا اور یہی ہجرت غزوہ بدر کا پیش خیمہ ثابت ہوئی جس میں کفر کی خوب پٹائی ہوئی اور اس ہجرت کے صرف آٹھ دس سال بعد بتدریج کافروں اور مشرکوں کا اس طرح قلع قمع ہوا اور کفر و شرک کا یوں استیصال ہوا کہ سارے عرب سے اس کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ [ ٢] یہ ان کے دوسرے استدلال کا جواب ہے کہ اگر ہمارا مشرکانہ مذہب سچا نہ ہوتا تو اب تک ہم پر عذاب آچکا ہوتا۔ عذاب آجانے پر اس استدلال کی از خود تردید ہوگئی۔ اور سب کو معلوم ہوگیا کہ ان کے معبود ان کے کسی کام نہ آسکے لہٰذا وہ باطل ہیں۔ النحل
2 [٣] روح کے مختلف معانی :۔ روح کا لفظ قرآن میں مندرجہ ذیل تین معنوں میں استعمال ہوا ہے : ١۔ روح بمعنی وہ لطیف جوہر جو جاندار میں موجود ہے اور جس کی وجہ سے اس جاندار کے اعضاء و جوارح حرکت کرتے ہیں اور جب یہ روح نکل جاتی ہے تو جاندار بے جان ہوجاتا یا مر جاتا ہے جس طرح اس روح کی حقیقت کا علم انسان کو بہت کم دیا گیا ہے اسی طرح روح کے معانی پر احاطہ کرنا بھی انسان کی دسترس سے باہر ہے۔ (١٧: ٨٥) ٢۔ روح بمعنی فرشتہ جیسے فرمایا :﴿فَاَرْسَلْنَآ اِلَیْہَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَہَا بَشَرًا سَوِیًّا ﴾ (۱۷:۱۹)(یعنی ہم نے مریم کی طرف اپنی روح یا فرشتہ بھیجا جو ایک تندرست انسان کی شکل بن گیا) روح سے مراد عام فرشتہ بھی ہوسکتا ہے اور جبرئیل علیہ السلام بھی۔ مگر جب روح القدس یا روح الامین کا لفظ آئے تو اس سے مراد صرف سیدنا جبرئیل علیہ السلام ہوں گے۔ ٣۔ روح بمعنی وہ پیغام جو فرشتہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لائے اور اس سے مراد وحی بھی ہوسکتا ہے اور سارا قرآن بھی۔ روح کے ساتھ جب من الامر یامن امر کے الفاظ آئیں تو اس سے مراد وحی ہی ہوتی ہے جیسا کہ اس مقام پر ہے بالروح من امرہ اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا ﴿وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا ﴾اس مقام پر روح سے مراد پورا قرآن ہے نیز ایک دوسرے مقام پر وحی یا رسالت کے معنوں میں اس طرح آیا ہے﴿یُلْقِی الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَاءُ مِنْ عِبَادِہٖ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنا پیغام نازل کرتا ہے۔ اور اس مقام پر جو وحی کے لیے روح کا لفظ استعمال فرمایا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح جسمانی زندگی کے لیے روح کی ضرورت ہوتی ہے کہ اگر روح نہ رہے تو زندگی ختم ہوجاتی ہے۔ اسی طرح صالح طرز زندگی یا نظام حیات کے لیے وحی الٰہی کی ضرورت ہوتی ہے جس کے بغیر صالح نظام قائم ہو ہی نہیں سکتا اور اگر وحی الٰہی کے مطابق عمل نہ کیا جائے تو اس نظام کا شیرازہ بکھر جاتا ہے اور اس کی جگہ کوئی اور فاسد نظام رائج ہوجاتا ہے۔ [ ٤] الملئکۃ جمع کا صیغہ ہے مگر اس سے مراد صرف ایک فرشتہ ہے یعنی جبرئیل علیہ السلام کیونکہ وہی پیغامبر اور پیغام رسانی کرنے والے فرشتوں کے سردار ہیں اور محاورۃ عرب میں سردار رئیس کے لیے جمع کا صیغہ استعمال کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں اس کی اور بھی نظائر موجود ہیں اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بھی یہی قول ہے۔ اس جملہ میں مشرکین مکہ کے دو اعتراضات کا جواب آگیا ہے ایک تو وہی اعتراض کہ اگر یہ نبی سچا ہے تو ہم پر عذاب کیوں نہیں آیا اور اس سے ان کی مراد نبی کی تکذیب ہوتی تھی۔ ان کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ اگر اللہ نے کسی کو نبی بنانا ہی تھا تو کیا مکہ اور طائف کے سردار مارے گئے تھے بس یہی آدمی اللہ کو نبوت کے لیے ملا تھا (سورہ زخرف آیت ٣١) اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یہ دیا کہ مجھے اس معاملہ میں تمہارے مشورہ کی ضرورت نہیں۔ میں خود ہی بہتر سمجھتا ہوں کہ نبوت کا مستحق کون ہے۔ اور اس کے لیے کن صفات کا ہونا ضروری ہے۔ لہٰذا میں جسے چاہتاہوں اس فضل سے نوازتا ہوں تاکہ وہ لوگوں کو متنبہ کریں کہ الٰہ صرف میں ہی ہوں لہٰذا تمہیں صرف مجھی سے ڈرنا چاہیے۔ النحل
3 [٥] کائنات میں ہم آہنگی‘ توحید کا ثبوت :۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بے شمار مقامات پر شرک کی تردید میں زمین اور آسمانوں کی پیدائش کو ثبوت کے طور پر پیش کیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کی ایک ایک چیز میں ہم آہنگی ہے۔ کائنات کا ہر کل پرزہ دوسرے کی تائید و توثیق کر رہا ہے۔ پھر اس کائنات کے نظام میں بے شمار فوائد، حکمتیں اور مصلحتیں ہیں۔ اور سب نتائج تعمیری قسم کے پیدا ہو رہے ہیں۔ اگر اس کائنات کی تخلیق میں کوئی دوسرا بھی شریک ہوتا تو ایسا نظام وجود میں آہی نہ سکتا تھا اور اگر بالفرض محال آ بھی جاتا تو فوراً درہم برہم ہوجاتا۔ گویا کائنات کی ایک ایک چیز اس بات کی شہادت دے رہی ہے کہ اس خالق کا کوئی شریک نہیں ہوسکتا۔ النحل
4 [٦] خصیم مبین سے مراد؟ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ انسان جو ایک ننھی سی پانی کی بوند سے پیدا ہوا ہے نفخہ روح خداوندی کی بدولت وہ بحث و استدلال کا ڈھنگ سیکھ جاتا ہے اور اپنے مدعا پر طرح طرح کے دلائل پیش کرنے کے قابل بن جاتا ہے۔ اس مطلب میں قدرت خداوندی کا اظہار مقصود ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی اوقات کی طرف نظر نہیں کرتا کہ وہ ایک حقیر سی پانی کی بوند سے پیدا کیا گیا ہے پھر جب اس میں کچھ عقل آتی ہے تو حق کے مقابلہ میں کٹ حجتیاں پیش کرنے لگ جاتا ہے حتیٰ کہ اپنے خالق اللہ تعالیٰ کے بارے میں بھی جھگڑا کرنے سے باز نہیں آتا اور اس مطلب سے مقصود انسان کی سرکشی کا اظہار ہے اور اسی مطلب کی تائید سورۃ یٰسین کی آیت نمبر ٧٧، ٧٨ سے بھی ہوتی ہے۔ النحل
5 النحل
6 [٦۔ الف] مویشیوں سے شان وشوکت کا اظہار :۔ اہل عرب کا اکثر پیشہ ریوڑ پالنا ہوتا تھا اور یہ ریوڑ عموماً بھیڑ بکریوں اور اونٹوں پر مشتمل ہوتے تھے۔ خچر، گدھے اور گھوڑے بھی ہوتے تھے مگر نسبتاً کم ہوتے تھے۔ قریش مکہ تو تاجر پیشہ لوگ تھے اور ان کا مال و دولت نقدی درہم و دینار کی صورت میں ہوتا تھا۔ جبکہ عام قبائل عرب کے مالدار ہونے کی علامت یہی جانور تھے۔ جس کے پاس جتنے زیادہ جانور ہوتے اتنا ہی وہ مالدار سمجھا جاتا تھا اور یہی جانور اسکی چلتی پھرتی دولت سمجھے جاتے تھے اسی میں اس کی شان و شوکت ہوتی تھی۔ شام کے وقت ایسے گلوں اور ریوڑوں کے مالک ان کے انتظار میں اپنی آبادیوں یا گاؤں سے باہر نکل کر بیٹھتے۔ یہ مویشی جب چر چگ کر اور سیر ہو کر شام کو گھر واپس آتے تو اس کے مالک انھیں دیکھ کر پھولے نہ سماتے تھے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کے واپس آنے کا پہلے ذکر فرمایا اور صبح جانوروں کی روانگی کے وقت بھی عجب گہما گہمی اور مسرت کی کیفیت ہوتی تھی۔ اسی مسرت اور ٹھاٹھ کی کیفیت کو اللہ نے ذکر فرمایا۔ جو دوسرے فوائد سے زائد تھی۔ النحل
7 النحل
8 [٧] ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے مویشیوں کو بھی انسان ہی کی خدمت کے لیے پیدا فرمایا ہے جن سے وہ طرح طرح کے فوائد حاصل کرتا ہے بعض جانور ایسے ہیں جن کے گوشت کو غذا کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ دودھ، مکھن اور گھی انھیں سے حاصل کرتا تھا۔ گرم پوشاک انھیں مویشیوں کی اون سے مہیا ہوتی ہے۔ وہ اس کے باربرداری کے کام بھی آتے ہیں اور سواری کے بھی۔ ان کے چمڑے سے وہ بہت سی قیمتی چیزیں تیار کرتا ہے۔ حتیٰ کہ ان کی ہڈیوں تک کو اپنے کام میں لاتا ہے پھر مزید یہ کہ اس کے لیے زینت بھی ہیں اور شان و شوکت کا سامان بھی۔ آج کے مشینی دور میں گو بہ لحاظ سواری اور بار برداری مویشیوں کی قدر و قیمت بہت کم ہوگئی ہے۔ تاہم ابھی تک ان کی ضرورت بدستور باقی ہے لیکن اس مشینی دور کو شروع ہوئے ابھی تین سو سال سے زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ ذرا غور فرمائیے اس مشینی دور سے پہلے اگر یہ مویشی نہ ہوتے تو انسان بالخصوص بار برداری کے مسئلے میں کسی قدر مشقت میں پڑ سکتا تھا۔ پھر اس مشینی دور نے بھی ان جانوروں کے فوائد کے صرف ایک حصہ یعنی سواری اور بار برداری کو کم کیا ہے۔ اور آج بھی دشوار گزار راستوں پر انہی جانوروں سے سواری اور بار برداری کا کام لیا جاتا ہے۔ ان جانوروں کے باقی سب فوائد بدستور باقی ہیں اور یہ سب احسانات اللہ تعالیٰ نے انسان پر اس لئے کیے کہ اس کی جسمانی زندگی کے بقا کے لیے اس کے ممد و معاون ثابت ہوں۔ مندرجہ بالا آیات میں اللہ تعالیٰ نے جہاں سواری اور زینت کا ذکر فرمایا تو گھوڑوں، خچروں اور گدھوں کا نام لیا اور جہاں بار برداری اور جمال کا ذکر فرمایا تو وہاں انعام کا لفظ استعمال فرمایا اور انعام نعم کی جمع ہے گو اس کا اطلاق درندوں کے علاوہ باقی سب جانوروں پر ہوتا ہے تاہم اس کا زیادہ تر استعمال اونٹ کے لیے ہی ہوتا ہے کیونکہ عربوں کے لیے اونٹ سے بڑھ کر کوئی نعمت نہ تھی جس کی کئی وجوہ ہیں۔ مثلاً اونٹ باقی سب جانوروں سے زیادہ بوجھ اٹھا سکتا ہے۔ عام اندازے کے مطابق گدھا ٥ من یا ٢ بوریاں غلہ اٹھاسکتا ہے۔ گھوڑے اور خچر ٣ بوریاں جبکہ اونٹ ٤ بوریاں بآسانی اٹھا سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ باقی سب جانوروں پر انھیں کھڑا کرکے بوجھ لادا جاتا ہے صرف اونٹ ایک ایسا جانور ہے جسے بٹھا کر اس پر بوجھ لادا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی لمبوتری گردن میں اتنی قوت رکھی ہے کہ وہ اس کے سہارے بھرے ہوئے بوجھ سمیت اٹھ کھڑا ہوتا ہے اونٹ میں بار برداری کے لحاظ سے تیسری خوبی یہ ہے کہ وہ عرب کے لق و دوق صحراؤں کے ریگستان میں بآسانی سفر کرسکتا ہے اور چوتھی یہ کہ پانی کے بغیر یہ جانور کئی دنوں تک اپنا سفر جاری رکھ سکتا ہے اونٹ کی انہی خوبیوں کی بنا پر اسے ''صحراء کا جہاز'' کا نام دیا گیا ہے۔ آج کے مشینی دور میں بھی جہاں پٹرول کی گاڑیاں کام نہیں دیتیں یہی صحرائی جہاز کام دیتا ہے۔ [٨] مویشیوں کے فوائد :۔ اس جملہ کے بھی دو مطلب ہیں ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے کئی ایسی چیزیں تمہارے لیے پیدا کر رکھی ہیں جو تمہاری خدمت پر مامور ہیں لیکن تم انھیں جان نہیں سکتے یا ابھی تک جان نہیں سکے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری سواری اور باربرداری اور دوسرے فوائد کے لیے مستقبل میں کئی ایسی چیزیں پیدا کرے گا جن کا فی الحال تم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ مثلاً سواری کے لیے اللہ تعالیٰ نے بسیں، ریل گاڑیاں اور ہوائی جہاز پیدا کردیئے اور معلوم نہیں کہ آئندہ کیا کچھ پیدا کرے گا۔ یہی حال زندگی کے دوسرے شعبوں میں نت نئی نئی ایجادات کا ہے۔ النحل
9 [٩] وحی کے بغیر ہدایت انسانی ناممکن ہے :۔ جس طرح تمہاری جسمانی زندگی کی بقا کے لیے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ضرورت کی سب چیزیں پیدا کی ہیں اسی طرح تمہاری روحانی زندگی کی بقا کے اسباب مہیا کرنا بھی اسی کے ذمہ ہے۔ محض عقل سے یہ ضرورت پوری نہیں ہوسکتی کیونکہ عقل کی سوچ و فکر کا میدان انتہائی محدود ہے لہٰذا اس ذمہ داری کو بھی اللہ تعالیٰ نے عہد الست لے کر پیغمبر اور کتابیں بھیج کر پورا کردیا یہی وہ راہ ہے جو سیدھی ہے اور صرف ایک ہے اور عقل جن راہوں پر چلتی ہے وہ ٹیڑھی بھی ہیں اور لاتعداد بھی کیونکہ نہ ہر انسان میں عقل ایک جیسی ہوتی ہے اور نہ ہر انسان کی عقل کا صحت کے لیے قائم کردہ معیار ایک جیسا ہوتا ہے۔ عقلوں کے اسی فرق کی بنا پر بے شمار راہیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ عقل کی مثال دراصل آنکھ کی سی ہے جسے دیکھنے کے لیے کسی خارجی روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔ خارجی روشنی کے بغیر آنکھ صحیح کام نہیں کرتی۔ اور یہ خارجی روشنی وحی الٰہی ہے۔ روشنی میں انسان جو کچھ دیکھتا ہے اس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے مگر اندھیرے میں چلنے والا ٹامک ٹوئیاں ہی مارتا ہے کبھی کسی راہ پر جاپڑتا ہے اور کبھی کسی پر پھر اس کے کسی گڑھے یا کھڈ میں گر پڑنے کا بھی خطرہ ہوتا ہے، ٹھڈے لگنے کا بھی اور کسی سخت اور اونچی چیز سے ٹکرانے کا اور چوٹ لگ جانے کا بھی۔ لہٰذا اس خارجی روشنی کی انسان کو شدید ضرورت تھی تاکہ وہ بلا تکلف سیدھی راہ پر گامزن رہ سکے اور انسان کی یہ ضرورت اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور کتابیں بھیج کر پوری کردی ہے اسی مضمون کو اللہ نے کئی مقامات پر ان الفاظ میں بیان فرما دیا ہے۔ کیا بینا اور نابینا برابر ہوسکتے ہیں؟ اور انسانیت ہمیشہ تجربوں اور ناکامیوں میں بھٹکتی رہتی ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے خود ہی انسان کو سیدھی راہ بتا کر اس پر بہت بڑا احسان فرمایا ہے۔ [ ١٠] جبری ہدایت دینا اللہ کا دستور نہیں :۔ اس لیے کہ جبری ہدایت سے انسان کی تخلیق کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو دوسری ہر مخلوق سے زیادہ عقل و تمیز بخشی، قوت ارادہ اور تصرف کا اختیار بھی دیا۔ ہدایت اور گمراہی کے راستے بھی واضح طور پر سمجھا دیئے کہ وہ یہ دیکھے کہ اب کون شخص کون سی راہ اختیار کرتا ہے اور یہی مشیت الٰہی ہے۔ یہ نہیں کہ اللہ سب کو خود ہی ہدایت کی راہ پر لگا دیتا۔ النحل
10 النحل
11 [١١] سابقہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کا ذکر کیا جن سے انسان لحمی غذائیں، روغن اور دوسرے فوائد حاصل کرتا ہے۔ ان دو آیات میں ایسی چیزوں کا ذکر کیا ہے جو ہمارے جسم کے لئے نباتاتی غذاؤں کا کام دیتی ہیں۔ اور ان آیات میں جس بات کی طرف غور و فکر کرنے کی توجہ دلائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش برساتا ہے اسی پانی سے تم خود بھی سیراب ہوتے ہو اور تمہارے ہی لیے زمین بھی سیراب ہوتی اور تمہارے لیے پانی کا ذخیرہ بھی محفوظ رکھتی ہے۔ پھر یہی ایک ہی قسم کا پانی، ایک ہی زمین، ایک ہی ہوا اور ایک ہی سورج ہے لیکن زمین سے ایک نہیں بلکہ لاکھوں قسموں کی نباتات اگ آتی ہیں۔ جھاڑیاں، جڑی بوٹیاں، غلے اور بے پھل اور پھل دار درخت پھر ان پودوں، غلوں اور پھلدار درختوں کی بھی بے شمار اقسام ہیں۔ جن میں سے کچھ تمہارے مویشیوں کی خوراک بنتی ہیں اور کچھ تمہاری خوراک کا کام دیتی ہیں۔ کیا یہ سمندروں سے بخارات کا اٹھنا، پھر بادلوں کی صورت میں رواں ہونا، پھر بارش کی شکل میں ان کا برسنا پھر اسی پانی کا زمین کو سیراب کرنا۔ زمین کا سب جانداروں کے لیے خوراک مہیا کرنا۔ پھر فالتو پانی کا ندی نالوں کی صورت میں بہہ کر دوسرے علاقوں کی زمین کو سیراب کرنا اور زائد پانی کا پھر سمندر میں جاگرنا۔ اور پھر سمندر سے بخارات بننا۔ اس پورے چکر میں تمہارے لیے بھی اور تمہارے مویشیوں کے لیے خوراک کا انتظام تو ہوگیا لیکن کیا یہ نظام از خود ہی چل رہا ہے؟ یا اسے کوئی حکیم و خبیر ہستی چلا رہی ہے؟ یا کیا اس پورے نظام میں اللہ کے سوا کسی دوسرے شریک کی کوئی مداخلت کہیں نظر آتی ہے؟ اگرچہ اس پورے نظام کے لیے اللہ نے طبعی قوانین بنا دیئے ہیں پھر بھی اس سارے نظام کی باگ ڈور اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ ایک ہی مقام پر ایک مقررہ موسم میں کسی سال بارش بہت زیادہ ہوجاتی ہے اور کبھی بہت کم۔ اگر یہ محض طبعی قوانین کا کھیل ہوتا تو ایسا ہونا ناممکن تھا۔ النحل
12 [١٢] چاند سورج کی گردش کے فوائد :۔ اس آیت میں انسان کی ایک اور اہم ضرورت کا ذکر ہے یعنی انسان جب تک پوری طرح آرام نہ کرلے وہ آگے نہ کام کرسکتا ہے نہ زندہ رہ سکتا ہے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے رات اور دن کے ایک مقررہ حساب کے تحت آنے جانے کا انتظام فرما دیا۔ سورج کی گردش سے دن رات پیدا ہوتے ہیں۔ نیز سورج ہمیں روشنی بھی پہنچاتا ہے اور دھوپ اور حرارت بھی جو ہماری زندگی کے لیے نہایت ضروری چیزیں ہیں۔ اسی طرح چاند اور ستارے ہمیں رات کو روشنی بہم پہنچاتے ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتے تو رات اس قدر تاریک اور گھناؤنی ہوجاتی ہے کہ راہ کا نظر آنا تو درکنار، انسان ایک دوسرے کو بھی دیکھ نہ سکتے۔ ان چیزوں کے علاوہ انسان کے لیے سورج، چاند اور ستاروں میں اور بھی بہت سے فوائد ہیں اور یہ صرف اس وجہ سے حاصل ہو رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان سیاروں کو انسان کی خدمت کے لیے مقررہ قواعد کا پابند بنادیا۔ النحل
13 [١٣] ذوق جمال اور نباتات کی رنگینی :۔ اللہ تعالیٰ نے محض انسان کی ضروریات کو ہی ملحوظ نہیں رکھا بلکہ اس کے ذوق جمال کو بھی ہر کام میں ملحوظ رکھا ہے۔ رات کو اگر فضا صاف ہو تو یہی چاند اور ستارے انسان کو ایک بڑا حسین منظر پیش کرتے ہیں۔ پھر آپ کسی لہلہاتے کھیت میں جائیے۔ کسی باغ کی سیر کیجئے۔ وہاں بعض طویل القامت اور بعض چھوٹے درختوں کے مناظر دیکھئے۔ مختلف رنگ کے پھول دیکھئے۔ پھر ایک ہی پھول کے مختلف رنگ اور اس کی پنکھڑی اور کونپل کو ملاحظہ فرمائیے۔ پھر ان کی مہک اور خوشبو سے لطف اندوز ہوئیے۔ یہ ان تمام اشیاء انسانوں کی ضرورتیں بھی پوری کرتی ہیں اور اس کے ذوق جمال کو تسکین دینے کے علاوہ اسے سرور مہیا کرتی اور اس کی صحت پر بڑا خوشگوار اثر ڈالتی ہیں اور اگر انسان ان چیزوں کی تخلیق میں دھیان کرے تو اللہ کی قدرتوں پر بے اختیار عش عش کرنے لگتا ہے۔ النحل
14 [١٤] سمندروں کے فوائد :۔ پھر ٹھاٹھیں مارنے والے سمندر کو اور تلاطم خیز موجوں کو اپنے مخصوص قوانین کا پابند بنا دیا حتیٰ کہ انسان سمندر کے پانی کے اندر اور اوپرتصرف کرنے کے قابل بن گیا۔ ورنہ ایسے وسیع اور مہیب سمندر کے مقابلہ میں بے چارے انسان کی حقیقت ہی کیا تھی۔ اب وہ سمندری جانوروں کا شکار کرکے اپنی غذائی ضروریات بھی فراہم کرتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سمندر کا پانی تو سخت شور اور کڑوا ہوتا ہے جبکہ اس کے جانوروں اور بالخصوص مچھلی کا گوشت انتہائی لذیذ ہوتا ہے۔ اس میں شور کا اثر نام کو نہیں ہوتا پھر اس سے گھونگے، صدف اور مرجان اور کئی دوسری چیزیں نکال کر اپنے زیور اور آرائش کی چیزیں بھی بناتا ہے پھر کشتیوں اور جہازوں کے ذریعہ سمندر کی پشت پر سوار ہو کر ایک کنارے سے دوسرے کنارے اور ایک ملک سے دوسرے ملک جاپہنچتا ہے اور اس طرح ایک ملک کی چیزیں دوسرے ملک پہنچا کر تجارتی فوائد حاصل کرتا ہے۔ اگر پانی اپنے مخصوص فطری قوانین کا پابند نہ ہوتا یانہ رہے تو انسان اس سے کبھی ایسے فوائد حاصل نہ کرسکتا تھا۔ یہ اللہ کی خاص مہربانی ہے کہ اس نے تمام اشیاء کے لیے مخصوص قوانین بنا دیئے ہیں جن کی وہ بہرحال پابند رہتی ہیں۔ اس طرح انسان ان سے فائدہ اٹھانے کے قابل ہوجاتا ہے۔ النحل
15 [١٥] پہاڑوں کے فوائد :۔ رواسی ایسے سلسلہ ہائے کوہ کو کہا جاتا ہے جو سینکڑوں میلوں تک پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کی تخلیق کا مقصد اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ زمین ہچکولے نہ کھائے اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین کو پیدا کیا گیا تو وہ ڈگمگاتی اور ہچکولے کھاتی تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس پر پہاڑ رکھ دیئے۔ (ترمذی، ابو اب التفسیر، سورۃ الناس) جس کا مطلب یہ ہے کہ زمین پر پہاڑوں کو کسی خاص ترتیب اور حکمت سے پیدا کیا اور رکھا گیا ہے۔ کہیں اونچے اونچے پہاڑ ہیں۔ کہیں پھیلاؤ زیادہ ہے لیکن بلندی کم ہے۔ کہیں دور دور تک پہاڑوں کا نام و نشان ہی نہیں ملتا اور یہ سب کچھ زمین کے توازن (Balance) کو قائم رکھنے کے لیے کیا گیا ہے۔ اور جدید تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ پہاڑوں کا وجود زلزلوں کو روکنے میں بڑا ممد ثابت ہوا ہے۔ گویا پہاڑوں کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ انسان زمین پر سکون سے رہ سکتا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھئے جیسے ایک خالی کشتی پانی میں ادھر ادھر ہلتی اور ڈگمگاتی رہتی ہے۔ پھر جب اس میں بوجھ ڈال دیا جائے تو اس کا ہلنا جلنا بند ہوجاتا ہے۔ ہماری زمین بھی جدید نظریہ ہیئت کے مطابق فضا میں تیزی سے تیر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر متناسب اور متوازن پہاڑ ٹھونک کر اس کی ڈگمگاہٹ کو بند کردیا۔ واضح رہے کہ زمین کی سورج کے گرد گردش کا مسئلہ ایک اختلافی مسئلہ ہے جو آج تک چار دفعہ بدل چکا ہے۔ بہرحال موجودہ تحقیق یہی ہے کہ زمین سورج کے گرد گردش کر رہی ہے۔ کل کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے (مزید تفصیل کے لیے دیکھئے میری تصنیف ''الشمس والقمر بحسبان'' نیز اس گردش کے مسئلہ کا زمین کے ہچکولے کھانے کے مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں۔ پھر انھیں پہاڑوں سے اللہ نے دریاؤں کو رواں کیا۔ چنانچہ دنیا کے بیشتر دریاؤں کے منابع پہاڑوں ہی میں واقع ہوئے ہیں۔ پھر انہی پہاڑوں سے ندی نالے نکلتے ہیں اور پھر دریاؤں کے ساتھ ساتھ راستے بھی بنتے چلے جاتے ہیں۔ ان قدرتی راستوں کی اہمیت پہاڑی علاقوں میں تو بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اگرچہ میدانی علاقوں میں بھی کچھ کم اہم نہیں ہیں۔ النحل
16 [١٦] نشان راہ کی اہمیت :۔ کسی جگہ کوئی ٹیلہ ہے یا کوئی ندی نالا بہہ رہا ہے یا گھاٹی ہے۔ ایسی علامت اور بعض دیگر عارضی علامات جیسے کوئی بلند درخت، یا قصبہ، یا بلند عمارت وغیرہ۔ ایسی چیزوں کے دوسرے فوائد کے ساتھ ساتھ ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ مسافر ان علامات کے ذریعہ یہ معلوم کرسکتا ہے کہ وہ ٹھیک راستہ پر جارہا ہے۔ ان علامات کی صحیح قدر و قیمت اس وقت معلوم ہوتی ہے جب انسان کو کسی ایسے لق ودق صحرا میں سفر کرنا پڑے۔ جہاں کوئی نشان راہ اور علامت نہ ہو۔ ایسی جگہ پر راہ بھول جانے اور بھول بھلیوں میں پڑجانے کا سخت اندیشہ ہوتا ہے۔ اور اگر ایک دفعہ کوئی راہ بھول جائے تو دوبارہ راستہ ملنا بڑا دشوار ہوتا ہے۔ [ ١٧] ستاروں سے رہنمائی :۔ رات کے وقت انسان ستاروں کی چال سے وقت بھی معلوم کرسکتا ہے کہ رات کا کتنا حصہ گزر چکا ہے اور کتنا باقی ہے اور سمت بھی۔ رات کے وقت سفر میں ستارے پوری رہنمائی کا کام دیتے ہیں خواہ یہ سفر بحری ہو یا بری۔ آج کل سفر میں عموماً قطب نما سے مدد لی جاتی ہے جبکہ حقیقتاً یہ بھی ستاروں سے بالواسطہ رہنمائی ہے۔ آپ دنیا کے کسی بھی حصہ میں ہوں قطب نما کی سوئی ہمیشہ عین شمال یا قطبی ستارہ کی طرف ہوجاتی ہے جس سے دوسری سمتوں کے نشان اس قطب نما پر لگا دیئے جاتے ہیں۔ النحل
17 [١٨] اوپر اللہ تعالیٰ کی جس قدر نشانیاں اور قدرتیں مذکور ہوئی ہیں وہ سب فطری چیزیں ہیں۔ جنہیں ہر شخص بچشم خود ملاحظہ کرسکتا ہے اور ایسے سیدھے سادے انداز میں بیان ہوئی ہیں جن کو سمجھنے کے لیے کسی خاص علم کی ضرورت نہیں۔ ہر شہری اور دیہاتی، ہر پڑھا لکھا اور ان پڑھ سب ان کو دیکھ کر ان میں غور کرسکتے ہیں اور ایسی ہی چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے اور پوچھا ہے کہ یہ سب کچھ تو اللہ نے پیدا کیا ہے۔ اب تم بتاؤ کہ تمہارے شریکوں نے کیا پیدا کیا ہے؟ اور اگر انہوں نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا تو وہ اللہ کے شریک کیسے بن سکتے ہیں؟ النحل
18 [١٩] اللہ کی نعمتوں کا شمار ناممکن ہے :۔ یہ چند موٹی موٹی چیزیں ذکر کی گئی ہیں لیکن اگر تم ان کی جزئیات میں یا دوسری چیزوں میں غور کرو تو اللہ کی اس قدر نعمتیں معلوم ہوں گی جو شمار میں بھی نہیں آسکتیں۔ انسان کو چاہئے تو یہ تھا کہ ان نعمتوں کی وجہ سے وہ اللہ کا شکرگزار بنتا۔ مگر اس نے الٹا اللہ کے شریک بنانا شروع کردیئے پھر بھی اللہ ان کے ایسے جرائم کو درگزر کرتے ہوئے از راہ مہربانی انھیں ان تمام نعمتوں سے فیضیاب کر رہا ہے۔ النحل
19 [٢٠] الٰہ ہونے کی خصوصیات :۔ ناشکرے، نافرمان اور مشرک لوگ یہ نہ سمجھیں کہ اللہ کو ان کی تقصیرات اور کرتوتوں کا علم نہیں بلکہ وہ ان کی تمام ظاہر اور پوشیدہ حرکات و سکنات جانتے ہوئے بھی از راہ کرم و فضل انھیں مسلسل ان نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیئے جارہا ہے۔ النحل
20 [٢١] ان کے بنائے ہوئے شریکوں کا یہ حال ہے کہ وہ کسی چیز کو پیدا تو کیا خاک کریں گے۔ وہ تو خود مخلوق ہیں اور جو مخلوق ہو وہ اپنے بنانے والے کا محتاج بھی ہوگا۔ نیز جو چیز مخلوق ہو وہ ضرور فنا بھی ہوگی۔ لہٰذا ایسے شریک نہ خود الٰہ ہوسکتے ہیں اور نہ صفات الوہیت میں اللہ کے شریک بن سکتے ہیں۔ النحل
21 [٢۲] من دون اللہ سے مراد صرف بت نہیں :۔ ان دو آیات سے صاف واضح ہے کہ یہاں ایسے معبودوں کو ذکر نہیں کیا جارہا جو بے جان ہیں مثلاً سورج، چاند، ستارے، شجر و حجر اور لکڑی یا پتھر یا مٹی وغیرہ کے بت۔ کیونکہ ان کے لیے بعث بعد الموت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور جاندار یا ذوی العقول میں سے فرشتوں، فوت شدہ انبیاء، اولیاء اور صالحین کو خدائی صفات میں شریک بنایا جاتا رہا ہے۔ ان میں فرشتوں پر ﴿ اَمْوَاتٌ غَیْرُاَحْیَاءٍ﴾ کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ وہ زندہ ہیں مرتے نہیں۔ باقی صرف اصحاب قبور رہ جاتے ہیں جن پر ﴿ اَمْوَاتٌ غَیْرُاَحْیَاءٍ﴾ کا بھی اطلاق ہوسکتا ہے اور ان کے لیے بعث بعد الموت بھی ضروری ہے گویا﴿اَلَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ﴾ سے مراد وہ انبیاء، اولیاء، شہداء اور صالحین ہیں جنہیں ان کی وفات کے بعد فریاد رس، غوث، داتا، گنج بخش وغیرہ وغیرہ القاب دے ڈالے گئے۔ اور صفات الوہیت میں انہیں اللہ کا شریک بنا لیا گیا۔ اس قسم کا شرک بھی عرب میں عام پایا جاتا تھا۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ یہود پر لعنت کرے جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا اور اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ لوگ آپ کی قبر کو سجدہ گاہ بنا لیں گے تو آپ کی قبر مرجع خاص و عام بنا دی جاتی۔ (بخاری، کتاب المغازی۔ باب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم ) اور مسلم کتاب الصلوۃ میں جو حدیث سیدنا جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں یہود کی تخصیص نہیں۔ نیز انبیاء کی قبروں کے ساتھ صالحین کی قبروں کو سجدہ گاہ بنانے کا ذکر ہے۔ اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے کہ ” توجہ سے سنو! تم سے پہلے لوگوں نے اپنے نبیوں اور بزرگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا۔ میں تمہیں ایسی باتوں سے منع کرتا ہوں“ نیز سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی درج ذیل حدیث بخاری، احمد، مسلم، نسائی سب کتب حدیث میں موجود ہے۔ آپ نے کہا کہ یہ سب لوگ (و د، سواع، یغوث، یعوق، نسر) قوم نوح کے اولیاء اللہ تھے۔ جب وہ مرگئے تو لوگ ان کی قبروں پر اعتکاف کرنے لگے۔ پھر ان کے مجسمے بنائے اور ان کی عبادت کرنے لگے۔ پھر یہی بت قبائل عرب میں پھیل گئے۔ ان احادیث سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ دور نبوی میں صرف بتوں ہی کی خدائی کو تسلیم نہیں کیا جاتا تھا بلکہ فوت شدہ بزرگوں کو بھی صفات الوہیت میں شریک بنایا جاتا تھا۔ اور ان آیات میں اسی قسم کے معبودوں کی حاجت روائی یا مشکل کشائی کے لیے پکارنے کا ذکر کیا گیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ مخلوق تھے اور جو مخلوق ہو وہ نہ الٰہ ہوسکتی ہے اور نہ صفات الوہیت میں شریک بن سکتی ہے یعنی ایسے لوگ جنہیں یہ بھی علم نہیں کہ خود انہیں کب اٹھایا جائے گا، وہ نہ تو تمہاری پکار سن سکتے ہیں اور نہ ہی فریاد رسی کرسکتے ہیں۔ النحل
22 [٢٣] آخرت کا انکار تکبرہے :۔ تکبر اس لحاظ سے ہے کہ یوم جزاء و سزا کے قائم ہونے سے انکار دراصل اللہ تعالیٰ کی دو صفات کا انکار ہے۔ ایک اللہ کا عادل ہونا دوسرے قادر مطلق ہونا اور جو شخص اتنے واضح اور فطری دلائل کو دیکھتے ہوئے بھی اللہ کی قدرت مطلقہ سے انکار کرتا ہے تو اس سے بڑھ کر اور اکڑ باز کون ہوسکتا ہے؟ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبر کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ تکبر یہ ہے کہ حق بات کو ٹھکرا دیا جائے اور دوسروں کو حقیر سمجھا جائے۔ (مسلم، کتاب الایمان۔ باب تحریم الکبر و بیانہ) النحل
23 النحل
24 [٢٤] قرآن میں بس پہلے لوگوں کی کہانیاں ہی ہیں :۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا چرچا حدود مکہ سے نکل کر آس پاس کے علاقوں میں بھی پھیل گیا تو کفار مکہ جہاں کہیں جاتے اور لوگ ان سے پوچھتے کہ تم میں جو نبی پیدا ہوا ہے اس کی تعلیم کیا ہے اور وہ کس چیز کی دعوت دیتا ہے تو یہ لوگ بڑی بے نیازی اور لاپروائی سے کہہ دیتے کہ بس کچھ پہلے لوگوں کی داستانیں اور قصے کہانیاں ہی سنا دیتا ہے۔ کوئی نئی یا کام کی بات ان میں نہیں ہوتی اور ایسی باتیں ہم پہلے ہی بہت سن چکے ہیں۔ النحل
25 [٢٥] یعنی ایک تو خود مجرم تھے دوسرے اور لوگوں کو پیغمبر کی اصل دعوت نہ بتانے کی وجہ سے انھیں بھی روک دیا لہٰذا ان کی گمراہی کا بار بھی انہوں نے اپنے اوپر لاد لیا۔ قیامت کے دن گناہوں کا یہ بار مجسم شکل میں ان کی پشتوں پر لاد دیا جائے گا۔ النحل
26 [٢٦] قریش کی اسلام دشمن سرگرمیاں :۔ قریش مکہ صرف یہی نہیں کہ لوگوں میں غلط پروپیگنڈا کرکے انھیں اسلام سے دور رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ بلکہ اسلام کو روکنے کے لیے کئی طرح کی تدبیریں کرتے رہتے تھے۔ وہ اسلام لانے والوں پر ناروا سختیاں کرتے، انھیں تنگ کرتے۔ بیت اللہ میں داخلہ اور بالخصوص طواف پر پابندیاں قرآن بلند آواز سے پڑھنے پر پابندیاں اور دھمکیاں اور پھر معاشرتی بائیکاٹ، یہ سب کچھ وہ اس لیے کر رہے تھے کہ اسلام اور اس کی دعوت کا کلی طور پر استیصال کردیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان سے پہلے لوگ بھی دعوت حق کے مقابلے میں ایسی ہی چالیں چلتے رہے اور ان چالوں کے اونچے اور مضبوط محل کھڑے کردیئے۔ لیکن جب اللہ کا عذاب آیا تو ان کی چالوں کے محل بنیادوں ہی سے اکھڑ کر زمین پر آرہے۔ وہ خود اپنی ہی چالوں میں ایسے پھنس گئے جس کا انھیں وہم و گمان بھی نہ ہوسکتا تھا۔ النحل
27 [٢٧] ایسے راہ حق میں رکاوٹیں پیدا کرنے والوں کا دنیا میں تو یہ انجام ہوا اور آخرت میں یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ انھیں سب کے سامنے حاضر کرکے پوچھے گا کہ ’’بتاؤ تمہارے وہ بناوٹی شریک کدھر ہیں جنہیں تم نے میرے مقابلہ میں لا کھڑا کیا تھا اور میرے رسولوں سے دنیا میں ہمیشہ جھگڑا کرتے رہے تھے آج وہ کہاں ہیں اور تمہاری مدد کو کیوں نہیں پہنچتے؟‘‘ وہ اس سوال کا کچھ جواب نہ دے سکیں گے اور یہی بات ان کے لیے سب کے سامنے رسوائی کا باعث بن جائے گی۔ پھر انھیں اس شرک کا جو بدلہ دیا جائے گا وہ انتہائی رسوا کن ہوگا۔ [ ٢٨] یعنی مشرک اللہ تعالیٰ کے سوال کا کوئی جواب نہ دے سکیں گے۔ سارے میدان محشر میں ایک سناٹا چھا جائے گا۔ کافروں اور مشرکوں کی زبانیں گنگ ہوجائیں گی اور وہ دم بخود رہ جائیں گے۔ پھر کچھ دیر بعد اہل علم یعنی انبیاء کرام اور ان کے متبعین انھیں کافروں اور مشرکوں کو مخاطب کرکے کہیں گے کہ ہم نے تمہیں بتایا نہ تھا کہ قیامت کے دن تمہیں سخت رسوائی اور برے انجام سے دو چار ہونا پڑے گا۔ النحل
28 [٢٩] عذاب قبر اور اس کی کیفیت :۔ جن فرشتوں کے آنے کا اپنے نبی سے تقاضا کرتے رہے جب وہ آجاتے ہیں تو ان کی سب شیخیاں کر کری ہوجاتی ہیں اور جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں پھر اسی پر بس نہیں کرتے بلکہ اپنی نافرمانیوں اور حق کے خلاف سرگرمیوں سے یکسر انکار کردیں گے اور اپنے ہتھیار ڈال دیں گے تاکہ انھیں فرشتوں کی طرف سے امن نصیب ہو۔ جس کا جواب انھیں یہ دیا جائے گا کہ کیا اب تم جھوٹ بول کر اللہ کو فریب دینا چاہتے ہو۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ تمہاری ایک ایک حرکت سے باخبر ہے کہ کس طرح تم نبیوں کے دشمن بنے رہے اور حق کو ٹھکراتے رہے اور اپنے کفر و شرک پر ڈٹے رہے۔ تمہاری اس سرکشی کی سزا یہ ہے کہ اب تم ہمیشہ کے لیے جہنم میں داخل کردیئے جاؤ۔ فرشتوں کی یہ دھمکی مجرموں کو اسی دنیا میں مل جاتی ہے یعنی موت کی آخری ہچکی کے ساتھ ہی ہر شخص کو اپنا انجام نظر آنے لگتا ہے بلکہ فرشتے اسے واضح طور پر بتادیتے ہیں۔ موت کی آخری ہچکی سے لے کر دوبارہ روز آخرت کو جی اٹھنے تک کے عرصہ کا نام برزخ ہے اور اسی عرصہ کو حدیث میں ''قبر اور جدث'' کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے خواہ میت فی الواقع مکمل ہو یا نہ ہو یا کسی دوسرے طریقے سے ٹھکانے لگا دی گئی ہو۔ کسی درندے نے پھاڑ کھایا ہو یا پانی میں غرق ہوگئی ہو۔ منکرین حدیث جو عذاب قبر کے منکر ہیں ان آیات میں ان کی تردید موجود ہے۔ جب روح بدن سے نکل جاتی ہے جسے موت کہا جاتا ہے تو اس وقت بھی روح نہ مرتی ہے نہ فنا ہوتی ہے بلکہ اپنی شخصیت کے ساتھ قائم رہتی ہے اور یہی روح دوبارہ حشر و نشر کے دن اپنے جسم میں داخل کی جائے گی جو اسے اس دن مہیا کیا جائے گا۔ اسی کا نام دوسری زندگی ہے اور عالم برزخ میں جو عذاب یا ثواب ہوتا ہے جس کا مذکورہ آیات میں ذکر ہے وہ صرف روح کو ہوتا ہے جیسے کہ انسان کو خواب میں بسا اوقات دکھ پہنچتا ہے اسے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس کی پٹائی ہو رہی ہے اور اس پٹائی کی اسے تکلیف بھی ہوتی ہے حالانکہ یہ سب واردات روح سے پیش آتی ہے اور جسم اپنے بستر پر پڑا ہوتا ہے۔ پھر جب وہ جاگتا ہے تو خواب میں پٹائی کے اثرات صرف اس کے ذہن میں ہی نہیں بلکہ بعض دفعہ جسم پر بھی پائے جاتے ہیں اور وہ خوفزدہ معلوم ہوتا ہے۔ بالکل ایسی ہی کیفیت عذاب قبر کی بھی ہوتی ہے۔ اسی طرح خواب میں انسان کو راحت و مسرت کے واقعات بھی پیش آتے ہیں اور جب وہ اٹھتا ہے۔ تو وہ خود ہشاش بشاش ہوتا ہے اور سب کو اس کا چہرہ خوشی سے کھلا ہوا نظر آتا ہے۔ ثواب قبر کی بھی یہی کیفیت ہوتی ہے۔ گویا عالم برزخ ایسی نیم زندگی کی کیفیت ہوتی ہے جس میں موت کے اثرات چونکہ زیادہ نمایاں ہوتے ہیں۔ اس لیے برزخ کی اس نیم زندگی کی حالت کو موت ہی سے تعبیر کیا گیا ہے (مزید تفصیل کے لیے میری تصنیف ’’روح، عذاب قبر اور سماع موتی‘‘ ملاحظہ فرمائیے۔ النحل
29 [٢٩۔ الف] یہ مضمون پہلے سورۃ الحجرأت آیت ٤٤ میں آچکا ہے وہاں سے حاشیہ دیکھ لیا جائے۔ النحل
30 [٣٠] قرآن سراسر بھلائی ہے :۔ کفار مکہ سے جب آس پاس کے لوگ یہی سوال کرتے تو وہ کہتے کہ وہ تو بس پہلی قوموں کے قصے کہانیاں ہی ہیں جو ہم پہلے ہی بہت سن چکے ہیں لیکن وہی بیرونی لوگ جب یہی سوال کسی ایمان لانے والے اور متقی شخص سے کرتے ہیں تو ان کا جواب کفار مکہ کے جواب کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ نبی پر جو تعلیم نازل ہوئی ہے اس میں دنیا اور آخرت کی بھلائیاں ہی بھلائیاں ہیں۔ پھر یہ لوگ صرف زبان سے ہی ان باتوں کا اقرار نہیں کرتے بلکہ اللہ کی اس نازل کردہ تعلیم کو اپنے آپ پر نافذ بھی کرتے ہیں۔ اور جن کاموں کے کرنے کا انھیں حکم ہوتا ہے وہ احسن طور پر بجا لاتے ہیں اور جن کاموں سے منع کیا جائے ان سے رک جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو دنیا میں بھی بھلائیاں ہی نصیب ہوتی ہیں اور آخرت میں بھی دائمی خوشیاں اور بھلائیاں نصیب ہوں گی۔ گویا یہی قرآن کافروں کے لیے مزید گمراہی کا اور اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے مزید ہدایت کا سبب بن جاتا ہے۔ النحل
31 النحل
32 [٣١] برزخ میں مومن اور کافر سے سلوک کا تقابل :۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو پاکیزہ سیرت ہوتے ہیں جب فرشتے اس قسم کے لوگوں کی روح قبض کرنے کے لیے آتے ہیں تو فرشتے خود انھیں السلام علیکم کہہ کر انھیں پہلے سلامتی کی دعا دیتے ہیں۔ پھر انھیں جنت کی خوشخبری دیتے ہیں اور ابھی وہ اس دنیا سے پوری طرح رخصت بھی نہیں ہوچکے ہوتے کہ انھیں جنت میں داخل ہونے کو کہہ دیا جاتا ہے اور احادیث میں آیا ہے کہ جب مومن کو دفن کیا جاتا ہے اور فرشتوں سے سوال و جواب ہوچکتے ہیں تو اس کی قبر میں جنت کی طرف سے ایک کھڑکی کھول دی جاتی ہے۔ جس کی خوشبو سے اس کا دماغ معطر ہوتا ہے اور اسے کہا جاتا ہے کہ ایسے آرام اور مسرت سے سو جاؤ جیسے ایک نئی نویلی دلہن سوتی ہے۔ (احمد، بحوالہ مشکوۃ۔ کتاب الجنائز، باب مایقال عند من حضرہ الموت۔ الفصل الثالث) اور ابھی وہ اپنی نیند بھی پوری نہیں کرچکا ہوتا کہ بعث بعد الموت کا وقت آجاتا ہے۔ اور وہ یہی سمجھتا ہے کہ شاید گھنٹہ دو گھنٹے سویا رہا ہوں گا لیکن اسے بتایا جاتا ہے کہ تم یہاں حشر کے دن تک سوئے رہے (٣٠: ٥٦) اور کافر کو قبر یعنی عالم برزخ میں طرح طرح کے عذاب دیئے جاتے ہیں مگر وہ عذاب آخرت کے عذاب کے مقابلہ میں اتنے ہلکے ہوتے ہیں کہ جب انھیں قبر سے اٹھایا جائے گا اور اپنے سامنے میدان محشر کے دہشت ناک مناظر دیکھیں گے تو کہیں گے : ہائے افسوس! ہمیں ہماری خوابگاہوں سے کس نے اٹھا دیا۔ یہ تو وہی چیز ہے جس کا اللہ نے وعدہ کر رکھا تھا اور رسول ٹھیک ہی کہتے تھے۔ (٣٦: ٥٢) النحل
33 [٣٢] فرشتوں کی آمد کا مطالبہ :۔ یہ بھی منکرین حق کے ایک اعتراض کا جواب ہے جو وہ کہتے تھے کہ ہمارے پاس فرشتے کیوں نہیں آتے جو اس بات کی تصدیق کریں کہ واقعی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نبی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس اعتراض کے جواب میں فرمایا کہ فرشتے ان کے پاس بھی آتے ہیں۔ لیکن اس کی دو ہی صورتیں ہیں۔ ایک ان کی روح قبض کرنے کے لیے اور دوسرے ان پر قہر الٰہی نازل کرنے کے لیے اور یہ اعتراض صرف یہی کفار مکہ ہی نہیں کر رہے تھے۔ اس سے پہلے بھی منکرین حق اپنے اپنے دور میں انبیاء کو ایسی ہی باتیں کہتے چلے آئے ہیں۔ اور ان کا بھی اسی طرح مذاق اڑاتے رہے ہیں۔ بالآخر انھیں اپنی کرتوتوں کی پاداش میں فرشتوں سے دو چار ہونا ہی پڑا جو ان پر اللہ کا عذاب لے کر آئے تھے۔ اور اب ان لوگوں کو بھی ایسے ہی انجام سے دوچار ہونا پڑے گا اور اللہ سے وہ جس بات کا مطالبہ کرتے ہیں اللہ اسے ضرور پورا کر دے گا۔ النحل
34 النحل
35 [٣٣] اہل کتاب کا اپنے احبار ورہبان کو رب بنا لینے کا مفہوم :۔ اللہ تعالیٰ کی کسی حلال کردہ چیز کو حرام اور حرام کو حلال بنا لینا بھی واضح شرک ہے جیسا کہ سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے﴿ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ ﴾(۹:۱۳) کی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھی تھی۔ سیدنا عدی رضی اللہ عنہ بن حاتم پہلے عیسائی تھے پھر اسلام لائے تھے۔ جب سورۃ توبہ کی یہ آیت نازل ہوئی تو کہنے لگے : یارسول اللہ ہم اپنے علماء و مشائخ کو رب تو نہیں سمجھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جس چیز کو وہ حلال یا حرام کہہ دیتے تم اسے جوں کا توں تسلیم نہیں کرلیتے تھے؟‘‘ سیدنا عدی رضی اللہ عنہ کہنے لگے ’’یہ بات تو تھی‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”یہی رب بنانا ہوتا ہے“ (ترمذی، ابو اب التفسیر، تفسیر آیت مذکورہ) مشرکین مکہ نے بھی کئی حلال چیزوں کو حرام اور حرام چیزوں کو حلال بنا لیا تھا جن کا ذکر سائبہ، بحیرہ، وصیلہ اور حام (٥: ١٠٣) کے حواشی میں گزر چکا ہے۔ مشرکوں کا یہ جواب دراصل ”عذر گناہ بد تر از گناہ“کے مصداق ہوتا ہے۔ تاکہ اس طرح پیغمبروں کو لاجواب کردیں اور کج بحث قسم کے مجرم اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کے لیے اکثر مشیئت الٰہی کا ہی بہانہ پیش کیا کرتے ہیں۔ حالانکہ اللہ کی مشیئت اور اللہ کی رضا میں بڑا فرق ہوتا ہے اور اس فرق کو پہلے سورۃ انعام آیت نمبر ١٤٤ کے حاشیہ میں تفصیل سے ذکر کیا جا چکا ہے وہاں ملاحظہ کرلیا جائے۔ [ ٣٤] جب مشرکوں کو پیغمبر اسلام اور قرآن کی تعلیم کے متعلق پوچھا جاتا تو وہ یہی جواب دیتے تھے کہ اس تعلیم میں رکھا کیا ہے۔ بس پہلے لوگوں کی داستانیں ہیں کوئی نئی بات تو ہے نہیں۔ گویا انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض یہ تھا کہ یہ پرانے لوگوں کی ہی باتیں پیش کرتا ہے ان کے جواب میں انھیں بتایا جارہا ہے کہ تم جو اپنے مشرکانہ کاموں کے جواز میں دلیل پیش کر رہے ہو، یہ بھی کوئی دلیل نہیں۔ وہی پرانی بات ہے جو گمراہ لوگ ہمیشہ سے کہتے چلے آرہے ہیں کہ اگر اللہ کو منظور نہ ہوتا تو ہم ایسے کام کیوں کرتے؟ حالانکہ مشرکوں کی اس دلیل میں بھی اس کا رد موجود ہے۔ جو یہ ہے کہ اگر اللہ کو مشرکوں کا یہ شرک گوارا یا منظور ہوتا تو چاہئے تھا کہ اللہ مشرکوں کے اس کام پر سکوت اختیار فرماتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول بھیج کر ان افعال کی پرزور تردید اور مذمت کی ہے۔ پھر وہ یہ بات کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے یہ کام اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہیں۔ [ ٣٥] مشرکوں کا یہ جواب اس لحاظ سے بھی غلط ہے کہ ہمارے رسولوں نے انھیں بروقت مطلع کردیا تھا کہ جو مشرکانہ کام تم کر رہے ہو اللہ ان سے ہرگز راضی نہیں بلکہ وہ اس قدر ناراض ہے کہ تمہارے ان کاموں کی پاداش میں تم پر اپنا عذاب بھیج سکتا ہے۔ اور انہوں نے اپنی اس ذمہ داری میں کبھی کوتاہی نہیں کی تھی۔ النحل
36 [٣٦] طاغوت کے معنی :۔ طاغوت کا اطلاق ہر اس شخص، ادارے، بادشاہ یا حکومت پر ہوسکتا ہے جو اللہ کا نافرمان ہو اور لوگ اس کی اطاعت پر مجبور ہوں۔ ایسا شخص یا ادارہ یا بادشاہ اللہ کا باغی ہوتا ہے اور اپنے زیر اثر لوگوں کو اپنی بات منوانا چاہتا ہے اور یہی کام شیطان کا ہوتا ہے لہٰذا اس لفظ کا ترجمہ عموماً شیطان سے کردیا جاتا ہے اور اگر انسان اللہ کے احکام کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنے ہی نفس کی اتباع کرنے لگے تو اس کے نفس پر بھی طاغوت کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ [٣٧] تذکیر بایام اللہ :۔ جب بھی کوئی رسول اپنی قوم کی طرف بھیجا گیا اور اس نے اللہ کی عبادت اور اپنی فرمانبرداری کی دعوت دی تو اس کی قوم دو حصوں میں بٹ جاتی رہی۔ ایک ماننے والے اور دوسرے اس دعوت سے انکار کرنے والے۔ اب تم محض تاریخ یا لوگوں سے سنی سنائی باتوں پر اعتبار مت کرو۔ بلکہ خود چل پھر کر خود حالات کا جائزہ لو اور دیکھو کہ کیا عذاب الٰہی انہی لوگوں پر نہیں آیا تھا جنہوں نے انبیاء کی دعوت کو جھٹلا دیا تھا۔ قوم عاد، ثمود، نوح، قوم لوط، اصحاب مدین اور قوم فرعون یہ سب قومیں ایسی ہیں جو تمہارے آس پاس ہی رہا کرتی تھیں۔ اور تمہارے لیے وہاں جاکر ان کا انجام دیکھنا آسان بھی ہے۔ پھر ایسا ایک دو بار نہیں ہوا۔ بلکہ جتنی قوموں کے حالات سے تم مطلع ہوسکتے ہو ان سب سے ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کیا پھر بھی تم ان مسلسل تاریخی شہادتوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کرسکتے؟ اور یہ سوچ نہیں سکتے کہ اگر ہم بھی اپنے رسول کی تکذیب کریں گے تو ہمارا بھی یہی انجام ہوسکتا ہے؟ النحل
37 [٣٨] یعنی جو لوگ نہ پیغمبروں کی دعوت کو قبول کریں نہ اللہ تعالیٰ کی کائنات میں ہر سو بکھری ہوئی قدرتوں میں غور کریں اور نہ ہی اقوام سابقہ کے انجام سے کچھ عبرت حاصل کریں تو سمجھ لیجئے کہ گمراہی ان کے لیے مقدر ہوچکی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ایمان لانے کی خواہ کتنی ہی آرزو کریں کوئی بات اب انھیں ایمان لانے کی طرف مائل نہیں کرسکتی۔ النحل
38 [٣٩] جب انھیں ان کے برے انجام سے ڈرایا جاتا ہے تو ضد اور چڑ میں آکر اللہ کی پختہ قسمیں بھی کھانے لگتے ہیں کہ دوبارہ جی اٹھنے کی بات سراسر لغو اور خلاف عقل بات ہے۔ حالانکہ ان کا یہ دعویٰ ہی خلاف عقل اور جہالت پر مبنی ہے۔ کیونکہ کائنات کی ایک ایک چیز اس بات کی شہادت دے رہی ہے کہ اللہ جو کچھ چاہتا ہے اسے کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہے۔ النحل
39 [٤٠] روز آخرت کا قیام ضروری ہونے کی دو وجوہ :۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کے اس دعویٰ کا نقلی جواب یہ دیا کہ یہ اللہ کا وعدہ ہے جسے وہ پورا کرکے رہے گا۔ اور یہ وعدہ سابقہ انبیاء کی زبان سے لوگوں کو بتایا گیا اور تمام الہامی کتابوں میں موجود ہے اور مشرکین مکہ کو بھی اہل کتاب کا یہ عقیدہ اچھی طرح معلوم تھا۔ اور عقلی جواب یہ دیا کہ بھلا جو ہستی پہلی بار کائنات کا یہ وسیع سلسلہ وجود میں لاچکی ہے اس کے لیے تمہیں دوبارہ پیدا کرنا یا ایسا ہی کائنات کا دوبارہ نظام وجود میں لانا کیا مشکل ہے؟ لہٰذا وہ اس بات کی پوری قدرت رکھتا ہے۔ پھر بعث بعد الموت کی دو وجوہ اور بھی ہیں۔ ایک یہ کہ آزادی و اختلاف رائے کی بنا پر دنیا میں بے شمار اختلافات رونما ہوئے اور نئے سے نئے نظریئے نئے نئے مذاہب اور نظام حیات رائج ہوتے رہے۔ کوئی قومیت کا پرستار ہے تو کوئی وطنیت کا، کوئی دہریت کا اور کوئی سوشلزم کا، کوئی کمیونزم کا اور کوئی سرمایہ داری کا اور کوئی خلافت کا ان میں ٹکراؤ ہوا۔ جنگیں ہوئیں۔ دونوں طرف سے لوگ ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں قتل ہوئے۔ لیکن یہ فیصلہ نہ ہوسکا کہ ان میں سے کوئی سچا بھی تھا یا نہیں۔ یا اگر کوئی سچا تھا تو وہ کون سا گروہ تھا اور جھوٹا کون سا ؟ اور یہ کائنات چونکہ حق پر مبنی ہے لہٰذا اس بات کا فیصلہ ضروری تھا کہ اللہ ایسے لوگوں پر صحیح صورت حال کی وضاحت کر دے اور کافروں کو بالخصوص اس بات کا پتہ چل جائے کہ وہی جھوٹے تھے۔ اختلافات کی وضاحت اور مکافات عمل :۔ اور دوسرا یہ کہ جن لوگوں نے اپنی پوری کی پوری زندگی ظلم و زیادتی کرنے میں گزاری تھی اور ان کے جرائم کی سزا کے لیے دنیا کی زندگی کی مدت بہت ناکافی تھی۔ اسی طرح جن لوگوں نے راہ حق میں قربانیاں دیں اور اعمال صالحہ بجا لاتے رہے اور یہ دنیا کی زندگی کی مدت ان کی جزاء کے لیے ناکافی تھی۔ لہٰذا روز آخرت کا قیام عین عقل، عدل اور حکمت کے مطابق ہے۔ النحل
40 [٤١] کلمہ کن فیکون کی صورت :۔ اللہ کا ارادہ کرلینا ہی اس کا حکم دینا ہے اسے اپنی زبان سے کن کا لفظ ادا کرنا ضروری نہیں ہوتا بلکہ اس کا ارادہ ہی حکم کا درجہ رکھتا ہے اور جب وہ ارادہ کرتا ہے تو اس کی تکمیل کے لیے اسباب و وسائل از خود ہی مہیا ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور وہ کام ہو کے رہتا ہے کوئی چیز اس میں مزاحم نہیں ہوسکتی۔ اور جتنے عرصہ میں اللہ اسے وجود میں لانا چاہتا ہے اتنے ہی عرصہ میں وہ وجود میں آجاتی ہے۔ النحل
41 [٤٢] ہجرت حبشہ :۔ یہ سورت چونکہ مکی ہے لہٰذا یہاں مہاجرین سے مراد صرف وہ لوگ ہیں جنہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی اور یہ اسی (٨٠) کے قریب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے جن پر قریش مکہ کی طرف سے مظالم ڈھائے جاتے رہے اور وہ مقدور بھر صبر سے برداشت کرتے رہے لیکن بالآخر قریش مکہ نے انھیں اس قدر نشانہ ستم بنایا کہ وہ اپنا گھر بار، مال و جائیداد اور عزیز و اقارب سب کچھ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے اور اللہ کے دین کی خاطر اپنے وطن مکہ کو چھوڑ کر حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے۔ پھر یہی لوگ حبشہ سے دوبارہ ہجرت کرکے مدینہ اس وقت پہنچے جب خیبر فتح ہوچکا تھا۔ اس کے بعد اللہ نے اپنے فضل اور اپنی رحمت سے نوازا اور یہی لوگ ان مشرکوں اور کافروں کے حاکم بن گئے جنہوں نے انھیں مکہ سے ہجرت کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ النحل
42 [٤٣] یعنی مکہ میں قریش مکہ کے مظالم پر صبر کرتے رہے۔ اور حبشہ میں اپنی نئی زندگی کے دوران پیش آنے والی مشکلات اور مصائب کو صبر و شکر کے ساتھ برداشت کرتے رہے۔ اور انھیں اس بات کا یقین کامل تھا کہ اللہ نے ان سے جو وعدے کر رکھے ہیں۔ وہ یقیناً پورے ہو کے رہیں گے۔ لہٰذا وہ اپنے ہر مشکل وقت میں اللہ ہی پر بھروسہ کیے رہے۔ النحل
43 [٤٤] رسول اللہ کا بشر ہونا،تاریخی پہلو :۔ یہ بھی مشرکوں کے ایک اعتراض کا جواب ہے جو پہلے بھی کئی بار مذکور ہوچکا ہے کہ یہ نبی تو ہم جیسا ہی انسان ہے۔ ہماری طرح کھاتا، پیتا، چلتا، پھرتا اور عائلی زندگی گزارتا ہے آخر اس میں وہ کون سی امتیازی صفت ہے کہ ہم اسے اللہ کا رسول تسلیم کرلیں۔ اس اعتراض کے مختلف مقامات پر مختلف پہلوؤں سے جواب دیئے گئے ہیں۔ یہاں صرف تاریخی پہلو کے لحاظ سے جواب دیا جارہا ہے کہ آپ سے پہلے جتنے بھی رسول آئے ہیں وہ سب انسان اور مرد ہی ہوا کرتے تھے۔ سیدنا آدم علیہ السلام، نوح علیہ السلام، ابراہیم علیہ السلام(جن کی اتباع کا مشرکین مکہ دعویٰ کرتے تھے)، اسحاق علیہ السلام، اسماعیل علیہ السلام، یعقوب علیہ السلام، یوسف علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام، عیسیٰ وغیرہم سب کے سب انسان ہی تھے اور یہ بات تم جانتے بھی ہو اور اگر کچھ شک ہو تو اہل علم حضرات سے پوچھ لو جو سابقہ انبیاء سے اور ان کے حالات سے باخبر ہیں اور یہاں اہل علم سے مراد علمائے یہود و نصاریٰ ہیں۔ کہ آیا وہ بشر یا انسان ہی تھے یا کوئی اور قسم کی مخلوق تھے؟ النحل
44 [٤٤۔ الف] اہل الذکر کون ہیں :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کا لفظ نہیں بلکہ ذکر کا لفظ استعمال فرمایا ہے اور اس سے پہلی آیت میں بھی اہل کتاب کا لفظ استعمال نہیں فرمایا بلکہ اہل الذکر کا استعمال فرمایا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ ذکر اور کتاب یا قرآن دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ اس فرق کی وضاحت کے لیے سورۃ الحجر کا حاشیہ نمبر ٥ ملاحظہ فرمائیے۔ مختصراً یہ کہ ذکر میں اللہ کی کتاب کے علاوہ وہ بصیرت بھی شامل ہوتی ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء کو کتاب کے بیان کے سلسلہ میں عطا کی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے اہل الذکر سے مراد دینی علوم کے ماہر ہیں اور ذکر سے مراد تمام منزل من اللہ وحی ہے یعنی کتاب اللہ کے علاوہ سنت رسول بھی ذکر کے مفہوم میں شامل ہے اور لوگوں کو ہدایت یہ دی جارہی ہے کہ اگر کوئی شرعی مسئلہ معلوم نہ ہو تو اسے دینی علوم کے کسی ماہر سے پوچھ لینا چاہیے۔ چنانچہ اصول فقہ میں علماء نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ کسی مسئلہ کی شرعی حیثیت معلوم کرنے کے لیے سب سے پہلے کتاب اللہ کی طرف رجوع کیا جائے وہاں سے نہ ملے تو سنت رسول کی طرف رجوع کیا جائے وہاں بھی نہ ملے تو اجماع صحابہ سے معلوم کیا جائے۔ اور اگر مسئلہ ہی مابعد کے دور کا ہو تو پھر اس میں اجتہاد و استنباط کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ اجتہاد بھی سارے لوگ تو نہیں کرسکتے کیونکہ اس کے لیے علوم شرعیہ میں مہارت کے علاوہ خاصے غور و فکر کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور یہ ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ اور جو لوگ اجتہاد کرنے کے اہل ہوتے ہیں انھیں مجتہد کہتے ہیں اور یہی لوگ اہل الذکر کہلانے کے مستحق ہوتے ہیں اور عام لوگوں کو یہ حکم ہے کہ وہ ان سے شرعی مسائل پوچھ لیا کریں۔ تقلید شخصی کیوں حرام ہے :۔ مقلد حضرات تقلید کو شرعی حجت ثابت کرنے کے لیے اسی آیت سے استدلال فرماتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تقلید ایک شرعی ضرورت ہے۔ اگر معاملہ یہیں تک رہتا تو پھر نہ اس میں اختلاف کی گنجائش تھی اور نہ تنازعہ کی۔ تنازعہ تو اس وقت شروع ہوتا ہے جب کسی شخص کو کسی ایک خاص امام مجتہد کا مقلد بنے رہنے کا پابند کیا جاتا ہے پھر ان میں گروہی تعصب پیدا ہوتا ہے تو ہر صاحب علم اپنے امام کی برتری بیان کرنے اور دوسرے مجتہدین کی تنقیص کرنے لگتا ہے۔ پھر جب مزید تعصب پیدا ہوجاتا ہے تو اپنے امام کے قول کو حدیث کے مقابلہ میں ترجیح دینے کی کوشش کی جاتی ہے اور حدیث کی صرف اس لیے تاویل یا تضعیف کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان کے امام کے قول کی صحت پر آنچ نہ آنے پائے۔ ایسی اندھی تقلید کا نام ہی تقلید شخصی ہے جسے کسی صورت مستحسن قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی کسی شخص کو ایک خاص امام کی تقلید کا پابند کرنا کوئی مستحسن فعل ہے۔ تقلید شخصی کے حق میں جو دلیل دی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اس طرح لوگ ہر امام کی رعایتوں سے اور رخصتوں سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔ ان حضرات سے گزارش ہے کہ اگر کوئی مجتہد یا اہل علم شریعت سے ہی ایک رخصت استنباط کرتا ہے تو کسی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ شریعت کی رخصتوں پر پابندیاں لگا کر دین کی راہوں کو مشکل بنا دیں اور اللہ کی وسیع رحمت کے آگے بند باندھیں اور یہ تقلید شخصی حرام اس لحاظ سے ہے کہ یہ تعصب اور تشدد کی بنا پر فرقہ بندی کی بنیاد بنتی ہے جو شرعاً حرام ہے۔ [ ٤٥] قرآن کا بیان کیا چیز ہے ؟ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی ذمہ داری صرف یہی نہیں تھی کہ جو کلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ کی طرف سے نازل ہو، اسے پڑھ کر لوگوں کو سنا دیا کریں یا لکھوا دیا کریں یا آپ اسے خود بھی یاد کرلیں اور دوسروں کو بھی یاد کروادیا کریں۔ بلکہ اس کے علاوہ آپ کی تین مزید اہم ذمہ داریاں بھی تھیں۔ جن میں سے یہاں ایک کا ذکر کیا جارہا ہے جو یہ ہے کہ جو کچھ آپ پر نازل ہوا ہے اس کا مطلب اور تشریح و توضیح بھی لوگوں کو بتا دیا کریں۔ اگر کسی کو کسی بات کی سمجھ نہ آئے تو سمجھا دیا کریں۔ اگر وہ کوئی سوال کریں تو انھیں اس کا جواب دیا کریں۔ رہی یہ بات کہ قرآن کی وضاحت یا قرآن کا بیان کیا چیز ہے اس کے لیے سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر ٤ کا حاشیہ ملاحظہ فرمایئے۔ منکرین حدیث اور اہل قرآن کا رد :۔ ضمناً اس آیت سے تین باتوں کا پتہ چلتا ہے ایک تو اس آیت میں ان منکرین حدیث یا اہل قرآن کا پورا رد موجود ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کی حیثیت (معاذ اللہ) صرف ایک چٹھی رساں کی تھی۔ آپ پر قرآن نازل ہوا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوں کا توں امت کے حوالہ کردیا۔ آپ کی ذمہ داری بس اتنی ہی تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری کردی۔ اور قرآن میں امت کے لیے پوری رہنمائی موجود ہے اور ان کا رد اس لحاظ سے ہے کہ قرآن خود بتا رہا ہے کہ اس کے بیان یا وضاحت کی ضرورت بھی باقی رہتی ہے اور یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری ہے کیونکہ قرآن کے بیان کے بغیر اس کی اتباع ناممکن ہے۔ دوسرے یہ کہ آپ کا بیان یا وضاحت یا ارشادات یا اصطلاحی زبان میں آپ کی سنت یا حدیث بھی اتباع کے لحاظ سے بعینہ اسی طرح واجب ہے جس طرح قرآن کی اتباع واجب ہے اور تیسرے یہ کہ جو شخص قرآن کے بیان کا منکر ہے وہ یقیناً قرآن ہی کا منکر ہے۔ النحل
45 النحل
46 النحل
47 [٤٦] تخو ّف کے معنی کی تحقیق، عذاب کی قسم :۔ ایک دفعہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بر سر منبر تخوف کے معنی پوچھے تو قبیلہ بنو ہذیل کے ایک آدمی نے جواب میں کہا کہ ہماری لغت میں تخوف کا لفظ تنقص (آہستہ آہستہ گھٹاتے جانا) کے معنی میں آتا ہے پھر ثبوت کے طور پر ایک شعر بھی پڑھا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جاہلیت کے اشعار یاد رکھو کیونکہ اس میں تمہاری کتاب کی تفسیر ہے ( الموافقات للشاطبی ج ١ مترجم اردو ص ٧٨) نیز سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بھی علی تخوف کے معنی تنقص ہی بیان فرمائے ہیں (بخاری، کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ نہل) ان تین آیات میں عذاب الٰہی کی مختلف صورتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک عذاب ایسا ہے جو دفعتاً آن پڑتا ہے خواہ وہ ارضی ہو یا سماوی ہو۔ اس کی آگے بے شمار قسمیں ہیں جیسے بارش کی صورت میں پتھروں کی طرح آدھ آدھ سیر کے اولے گرنے لگیں اور وہ فصلیں اور جانداروں کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیں یا زمین میں زلزلہ آئے تو شہر کے شہر زلزلہ سے پھٹی ہوئی زمین کے اندر دھنس جائیں یا سمندر میں طغیانی آئے تو وہ کناروں پر آباد شہروں کو پانی میں غرق کر دے۔ یا آتش فشاں پہاڑ پھٹے جس سے ہر چیز جل کر راکھ ہوجائے اور عذاب کی یہ سب قسمیں ایسی ہیں جن کی پہلے سے کسی کو خبر نہیں ہوتی۔ دوسری قسم کے عذاب وہ ہیں جو دوران سفر پیش آتے ہیں۔ جیسے کوئی دیو ہیکل وہیل مچھلی کسی جہاز کو ٹکر مار کر اسے غرق کر دے یا کسی بحری، بری جہاز یا کسی طرح کی دوسری گاڑی کا انجن خراب ہوجائے یا چلنا بند ہوجائے۔ یا ریلوں یا بسوں کا تصادم ہوجائے۔ یا کوئی بس کسی کھڈ میں نیچے جاگرے اور مسافر غرق ہوجائیں یا ہلاک ہوجائیں۔ غرض اس قسم کی بھی آگے بے شمار صورتیں ہیں۔ اور تیسری قسم وہ ہے جس کے متعلق علٰی تخوّف کے الفاظ آئے ہیں۔ ایسے لوگوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہو پاتا کہ وہ عذاب الٰہی میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ ایسا عذاب اندر ہی اندر بتدریج اپنا کام کرتا جاتا ہے اور ایسا معاشرہ زوال پذیر ہونا شروع ہوجاتا ہے حتیٰ کہ وہ ہلاکت تک پہنچ جاتا ہے اور ایسے عذاب کی کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ النحل
48 [٤٦۔ الف] مثلاً پہلے پہر اگر آپ جنوب کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوں تو سایہ آپ کی دائیں جانب ہوگا اور شمال کی طرف منہ کریں تو بائیں جانب پھر جب سورج سر پر آجائے گا تو آپ کا سایہ آپ کے قدموں میں آجائے گا اور سردیوں میں شمال کی جانب سیدھ میں آجائے گا۔ اور پچھلے پہر سمت بالکل برعکس ہوجائے گی۔ اس آیت میں دائیں جانب کے لیے تو اللہ نے واحد کا صیغہ (یمین) استعمال فرمایا اور بائیں جانب کے لیے جمع کا (شمائل واحد شمال) یہ بھی عرب کا محاورہ اور ان کی فصاحت کی ایک قسم ہے۔ اہل عرب جب دو صیغے جمع کے لانا چاہتے ہیں تو ایک کو مفرد کرکے لاتے ہیں۔ قرآن میں اس کی دوسری مثال یہ ہے ﴿خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ وَعَلٰی سَمْعِھِمْ﴾ [ ٤٧] کائنات کی ہر چیز کا سجدہ کیسے ؟ اللہ نے جو چیز بھی پیدا کی ہے اسے چند طبعی قوانین کا پابند بنا دیا ہے۔ ان قوانین کا پابند رہنا ہی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ مخلوق اپنے خالق کے سامنے سجدہ ریز، مجبور محض اور انتہائی عجز کا اظہار کر رہی ہے مثلاً روشنی کے لیے ایک قانون بنادیا کہ وہ اگر ایک ہی قسم کے مادہ سے گزرے تو وہ ہمیشہ خط مستقیم میں چلتی ہے۔ اسی قانون کے مطابق ہر چیز کا سایہ بنتا ہے۔ گھٹتا اور بڑھتا ہے اور اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ سایہ صرف مادی چیز اور ٹھوس قسم کی چیز کا ہوتا ہے اور یہ چیزیں سب اللہ کی مخلوق ہیں۔ جو اللہ کے ایک ہمہ گیر قانون کی گرفت میں جکڑی ہوئی ہیں اور چونکہ مخلوق ہیں لہٰذا کسی نہ کسی وقت تباہ بھی ہوجائیں گی لہٰذا ان میں الوہیت کا شائبہ تک نہیں ہے بلکہ سب اللہ کے حکم میں جکڑی ہوئی اور اس کی عاجز مخلوق ہیں۔ النحل
49 [٤٨] فرشتوں کی الوہیت کا رد :۔ تمام مخلوقات میں سے فرشتوں کا بالخصوص الگ ذکر فرمایا۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر ممالک میں اور اسی طرح عرب ممالک میں بھی فرشتوں کو معبود سمجھا جاتا رہا ہے۔ ان فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دیا جاتا اور انھیں اللہ تعالیٰ یا بڑے خدا کا نائب اور کائنات میں بعض خاص امور کے تصرف کرنے والے اور اس کام میں اللہ کے مددگار سمجھا جاتا تھا۔ مصری اور یونانی اور ہندی تہذیب میں انہی فرشتوں کو یا ان کی ارواح کو دیوی دیوتاؤں کے نام سے پکارا جاتا ہے مثلاً بارش کا مالک فلاں دیوتا ہے۔ دولت کی مالک فلاں دیوی ہے اور محبت کی فلاں وغیرہ وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے اس باطل عقیدہ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ فرشتے موجود ضرور ہیں اور مدبرات امر بھی ہیں لیکن اللہ کے حکم کے سامنے مجبور محض ہیں۔ اپنی مرضی سے کچھ بھی تصرف نہ کرتے ہیں نہ کرسکتے ہیں۔ پھر یہی نہیں بلکہ وہ اللہ کے بندے ہیں اور بندے اور غلام بن کر رہتے ہیں۔ اسی کی عبادت اور تسبیح و تقدیس کرتے رہتے ہیں اور اس بات میں قطعاً عار محسوس نہیں کرتے۔ پھر اس سے ڈرتے بھی رہتے ہیں اور اپنے خالق و مالک کی نافرمانی کر ہی نہیں سکتے۔ پھر اگر اللہ کو منظور نہ ہو تو وہ تمہاری احتیاج کیسے پوری کرسکتے ہیں لہٰذا اصل حکمرانی اللہ ہی کے لیے ثابت ہے۔ النحل
50 [٤٩] جب اس کائنات کی تخلیق اور انتظام میں کسی دوسرے کا کچھ بھی حصہ نہیں تو پھر وہ تمہیں کیسے فائدہ یا نقصان پہنچا سکتے ہیں اور اگر ان دونوں باتوں میں وہ بے بس اور عاجز ہیں تو پھر تمہیں ان سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ڈرنا تو اس سے چاہیئے جو اس کائنات میں تصرف کرسکتا ہو۔ اور وہ صرف اکیلا اللہ تعالیٰ ہی ہے لہٰذا عبادت بھی صرف اسی کی خالصتاً کرنا چاہیے، اپنی تمام تر حاجات کو اسی کے سامنے پیش کرنا چاہیے اور یہی راستہ معقول سمجھا جاسکتا ہے۔ سجدہ تلاوت واجب نہیں :۔ اس آیت پر سجدہ کرنا چاہیے تاہم سجدہ تلاوت واجب نہیں ہے۔ چنانچہ ربیعہ بن عبداللہ بن ہدیر تیمی کہتے ہیں کہ ایک دفعہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن منبر پر سورۃ نحل پڑھی۔ جب سجدے کی آیت پر پہنچے تو منبر پر سے اترے اور سجدہ کیا اور لوگوں نے بھی ان کے ساتھ سجدہ کیا۔ دوسرے جمعہ کو پھر یہی سورۃ پڑھی۔ جب سجدہ کی آیت پر پہنچے تو کہنے لگے :’’ لوگو! ہم سجدہ کی آیت پڑھتے چلے جاتے ہیں پھر جو کوئی سجدہ کرے اس نے اچھا کیا اور جو کوئی نہ کرے اس پر کوئی گناہ نہیں‘‘ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سجدہ نہیں کیا اور نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے نقل کیا کہ اللہ تعالیٰ نے سجدہ تلاوت فرض نہیں کیا اسے ہماری خوشی پر رکھا۔ (بخاری، کتاب الصلوۃ۔ باب من رای ان اللہ عزوجل لم یوجب السجود) النحل
51 [٥٠] دو خداؤں کا عقیدہ رکھنے والے مجوسی مذہب کا تعارف :۔ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایران میں مجوسی مذہب رائج تھا یہ لوگ سورج پرست اور آتش پرست تھے۔ اپنے آپ کو سیدنا نوح علیہ السلام کا پیرو کار بتاتے اور باقی سب نبیوں کے دشمن تھے۔ ان کے عقیدہ کے مطابق خدا ایک نہیں بلکہ دو ہیں۔ ایک خیر اور نور کا خدا جسے وہ یزدان کہتے تھے، دوسرا بدی اور تاریکی کا خدا جسے وہ اہرمن کہتے تھے۔ یہ لوگ اپنی الہامی کتابوں کا نام زند اور اوستا بتاتے تھے اور اہل عرب ان سے متعارف تھے۔ انھیں لوگوں کے عقیدہ کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دو الٰہ بنانا چھوڑ دو کیونکہ اس کائنات کا الٰہ صرف ایک ہی ہوسکتا ہے اور دو خدا آپس میں برابر کی چوٹ ہوتے تو یقیناً ان میں کائنات میں تصرف کے سلسلہ میں جھگڑا ہوجاتا۔ پھر ایک دوسرے پر غالب آنے کی کوشش کرتا۔ اس طرح یہ نظام کائنات کب کا درہم برہم ہوچکا ہوتا۔ جب تمہیں تجربہ سے معلوم ہے کہ ایک نیام میں دو تلواریں نہیں سما سکتیں۔ نہ ہی کسی مملکت کے دو حکمران ہوسکتے ہیں۔ پھر اس کائنات میں دو خداؤں کی خدائی کا تصور کیسے درست سمجھا جاسکتا ہے۔ النحل
52 النحل
53 [٥١] صرف اللہ تعالیٰ کے حاجت روا اور مشکل کشا ہونے کی یہ صریح شہادت تمہارے اپنے اندر موجود ہے۔ سخت مصیبت کے وقت جب ہر قسم کے سہارے ٹوٹتے نظر آتے ہیں اور تھوڑی دیر کے لیے تمہاری اصل فطرت ابھر آتی ہے تو تم خالصتاً اللہ ہی کو پکارتے اور اسی کے سامنے فریاد کرنے لگتے ہو۔ کیونکہ انسان کی اصل فطرت اللہ کے سوا کسی دوسری ہستی کو مالک ذی اختیار نہیں جانتی۔ النحل
54 النحل
55 [٥٢] یعنی مصیبت کے وقت مدد تو اللہ نے کی، تکلیف اسی نے دور کی۔ اب چاہیے تو یہ تھا کہ وہ اللہ کا شکر ادا کرتے۔ اسی کی عبادت کرتے۔ اسی کے سامنے اپنی فریادیں پیش کرتے۔ مگر ہوتا یہ ہے کہ مصیبت کا وقت دور ہوجانے کے بعد پھر انھیں اپنے دوسرے معبود یاد آنے لگتے ہیں اور اللہ کو یکسر بھول جاتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر نمک حرامی کیا ہوسکتی ہے۔ تاہم انھیں دنیا میں فوری سزا نہیں دی جاتی مگر مرتے ہی انھیں سب آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوجائے گا۔ النحل
56 [٥٣] یعنی یہ مشرک اپنے صدقات و خیرات میں اللہ کا شریک اور حصہ دار ان چیزوں کو بناتے ہیں جو بے جان بت ہیں یا قبروں میں پڑے ہوئے ہیں جو نہ سن سکتے ہیں، نہ بول سکتے ہیں، نہ جواب دے سکتے ہیں۔ انھیں یہ علم بھی نہیں ہوتا کہ کوئی انھیں پکار رہا ہے اور نہ ہی وہ اپنی جگہ سے حرکت کرسکتے ہیں اور اس جملہ کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ مشرکوں کو اپنے ان خود ساختہ معبودوں کے متعلق کسی مستند ذریعہ علم سے یہ تحقیق نہیں ہوا ہے کہ اللہ میاں نے واقعی ان معبودوں کو اپنا شریک بنا رکھا ہے اور نظام کائنات کے کچھ کام یا اپنی سلطنت کے کچھ علاقے انھیں سونپ رکھے ہیں۔ پھر بھی یہ لوگ انھیں معبود بنائے رکھنے پر مصر ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ کائنات میں تصرف کرسکتے اور دوسروں کو فائدہ یا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ پھر چونکہ اپنے ان عقائد کو مذہبی عقیدہ سمجھتے ہوئے ان خرافات کو اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں لہٰذا اللہ ان سے ٹھیک طرح نمٹ لے گا اور ان کے اس جرم کی قرار واقعی سزا دے گا۔ النحل
57 [٥٤] اہل عرب کی دیویاں ان کے مقام اور ان کے پرستار ہندی، یونانی اور مصری تہذیبوں کی طرح مشرکین عرب کے بھی دیوتا کم اور دیویاں زیادہ تھیں اور ان دیویوں کے متعلق ان کا عقیدہ یہ تھا کہ اللہ کی بیٹیاں ہیں، اسی طرح وہ فرشتوں کو بھی اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ ان کی تین مشہور دیویاں، لات، عزیٰ اور منات تھیں۔ لات الٰہ کی مونث ہے۔ عزیٰ عزیز کی اور منات، منان کی۔ لات کا استھان یا آستانہ طائف میں تھا اور بنو ثقیف اس کے پرستار تھے۔ عزیٰ قریش مکہ کی خاص دیوی تھی اور اس کا استھان یا آستانہ مکہ اور طائف کے درمیان وادی نخلہ میں مقام حراص پر واقع تھا۔ چنانچہ ابو سفیان سپہ سالار قریش نے احد کے میدان میں جنگ میں مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے اس دیوی کا نعرہ لگایا اور کہا تھا لَنَا عُزّٰی وَلَاعُزّٰی لَکُم اور منات کا استھان مکہ اور مدینہ کے درمیان بحراحمر کے کنارے قدید کے مقام پر واقع تھا۔ بنو خزاعہ، اوس اور خزرج اس دیوی کے پرستار تھے۔ نیز اس کا باقاعدہ حج اور طواف کیا جاتا تھا۔ زمانہ حج میں جب حجاج طواف بیت اللہ اور عرفات اور منیٰ سے فارغ ہوجاتے تو وہیں سے منات کی زیارت کے لیے لبیک لبیک کی صدائیں بلند ہونے لگتیں اور جو لوگ اس دوسرے حج کی نیت کرلیتے وہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہ کرتے تھے۔ گویا مشرکین عرب دوہرا ظلم ڈھاتے تھے۔ ایک تو ان کو اللہ کا شریک بنانے کا دوسرے شریک بھی ایسے جنہیں وہ اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ [ ٥٥] یعنی ان کے اللہ کے بارے میں یہ مشرکانہ عقائد اس قدر گھٹیا اور گستاخانہ قسم کے تھے کہ خود تو اپنے لیے بیٹیوں کا وجود بھی باعث ننگ و عار سمجھتے تھے۔ محض اس وجہ سے کہ کوئی ان کا داماد بنے گا اور یہ خود اس کے سسر ہوں گے لیکن اللہ کے معاملہ میں دوہرا ظلم ڈھاتے۔ ایک تو اللہ کی اولاد ٹھہراتے تھے اور دوسرے اولاد بھی بیٹیاں۔ گویا اچھی چیز تو اپنے لیے پسند کرتے تھے اور ناقص اللہ کے لیے۔ النحل
58 اس آیت کی تفسیر اگلی آیت کے ساتھ ملاحظہ کیجئے۔ النحل
59 [٥٦] لڑکیوں کو زندہ درگور کرنا :۔ اسی وجہ سے مشرکین عرب میں یہ رواج عام چل نکلا تھا کہ وہ لڑکیوں کے پیدا ہوتے ہی انھیں زندہ درگور کردیتے تھے۔ اَیُمْسِکُہُ عَلٰی ھُوْنٍ کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ خود لوگوں کی نظروں میں ذلیل بنا رہے اور لڑکی کو زندہ رہنے دے اور دوسرا یہ کہ اگر لڑکی کو زندہ رہنے دے تو اسے ایسا ذلیل اور مجبور بنا کر رکھے گویا وہ اس کی اولاد ہی نہیں بلکہ آدمی بھی نہیں۔ بالآخر اسلام نے اس قبیح رسم کا خاتمہ کیا اور زندہ درگور کرنے کو قتل ناحق قرار دیا اور معاشرہ میں عورت کو اس کا جائز مقام دلایا۔ النحل
60 [٥٧] یعنی ایسی گھٹیا صفات تو ان ظالموں کی ہی ہوسکتی ہیں جن کا روز آخرت پر ایمان ہی نہ ہو۔ نہ انھیں یہ معلوم ہے کہ ان کی ایسی ذلیل حرکتوں کی انھیں عبرتناک سزا ملنے والی ہے۔ رہی اللہ کی ذات تو وہ اولاد ہی سے بے نیاز ہے۔ اللہ کی ذات ان کے تصور سے بھی بلند تر اور ماورا ہے اور اس کے لیے ایسی مثالیں اور صفات ثابت کی جاسکتی ہیں جو اعلیٰ سے اعلیٰ اور ہر بلند چیز سے بلند تر ہوں۔ النحل
61 [٥٨] ظالموں اور مشرکوں کو نیست ونابود کرنا اللہ کی مشیئت کے خلاف ہے :۔ عذاب کی جو بھی صورت ہو وہ بالآخر تمام مخلوق کی تباہی کا سبب بن جاتی ہے۔ ایک معمولی سی مثال یہ لیجئے کہ اگر اللہ تعالیٰ بارش برسانا بند کردے۔ تو انسان کو پانی پینے کو ملے نہ حیوانات کو، نہ سبزی اور گھاس وغیرہ اگیں اور نہ پھلدار درخت اور چند ہی دنوں میں تمام مخلوق بھوک سے مر جائے اور دنیا ویران اور سنسان بن جائے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ جتنے مشرک اور ظالم قسم کے انسان ہیں صرف انہی پر اللہ کا قہر نازل ہو اور باقی صرف نیک لوگ رہ جائیں۔ زمین میں ایسی آبادی بھی اللہ کی مشیئت نہیں اور ایسی مخلوق جو نیک ہی ہوں وہ تو پہلے سے ہی فرشتوں کی صورت میں موجود تھی اللہ نے تو اس دنیا کو امتحان گاہ بنانا اور اسے آباد رکھنا ہے اور اس کی واحد صورت یہی ہے کہ اس دنیا میں نیک و بد دونوں قسم کے لوگ موجود رہیں۔ معرکہ حق و باطل ہوتا رہے اور ان کی آزمائش کا عمل جاری رہے۔ لہٰذا مجرموں کو فوری طور پر سزا دے کر ہلاک کردینا اللہ کے دستور اور حکمت کے خلاف ہے۔ النحل
62 [٥٩] مشرک مکروہ باتیں اللہ کے لئے تجویز کرتے ہیں :۔ یہ مشرک اپنے لیے بیٹیوں کے وجود کو باعث ننگ و عار سمجھتے ہیں مگر اللہ کے لیے وہی تجویز کرتے ہیں۔ خود یہ برداشت نہیں کرتے کہ ان کی جائیداد یا مال و دولت میں کوئی اجنبی آکر شریک ہوجائے لیکن اللہ کی کائنات میں اس کے شریک بنانا پسند کرتے ہیں۔ خود یہ پسند نہیں کرتے کہ ان کا مذاق اڑایا جائے مگر اللہ کی آیات کا مذاق اڑا کر خوش ہوتے ہیں۔ کرتوت تو ان کے یہ ہیں اور زبانی دعوے یہ ہیں کہ اللہ ان پر مہربان ہے تبھی تو اس نے ہمیں خوشحال بنایا ہے اور اگر قیامت قائم ہوئی بھی تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اس وقت ہم پر مہربان نہ ہو۔ لہٰذا ہمارے لیے یہاں دنیا میں بھلائی ہے اور آخرت میں بھی بھلائی ہی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ لوگ جھوٹ بکتے ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دوزخ کی آگ ایسے لوگوں کی انتظار میں ہے اور سب سے پہلے یہی لوگ اس کا لقمہ بنیں گے۔ اور کچھ مشرک جو آخرت کا بھی موہوم سا اعتقاد رکھتے تھے، دعویٰ سے کہتے تھے کہ ہم ان فرشتوں یا اللہ کی بیٹیوں کی اس لیے پوجا کرتے ہیں کہ یہ ہمارے وسیلے ہیں لہٰذا آخرت میں ہمارے لیے بھلائی ہی بھلائی ہے۔ جس کا اللہ نے یوں جواب دیا۔ النحل
63 [٦٠] پہلے رسولوں کی امتوں کو بھی یہی کچھ سوجھتا رہا۔ وہ بھی دنیا کی دل فریبیوں اور دلچسپیوں میں مگن اور مست ہوگئے اور شیطان انھیں بھی یہی پٹی پڑھاتا رہا کہ تمہارا پروردگار اس وقت تم پر بڑا مہربان ہے لیکن بالآخر وہ اللہ کی گرفت میں آگئے اور ان کا نام و نشان بھی صفحہ ئہستی سے مٹ گیا۔ اور آج شیطان ان مکہ کے کافروں کو یہی کچھ سجھا رہا ہے اور جو کچھ یہ ظلم اور زیادتیاں مسلمانوں سے کر رہے ہیں، انھیں نہایت اچھے کام بناکر ان کا جی خوش کر رہا ہے لیکن انجام ان کا بھی وہی ہونے والا ہے جو پہلے لوگوں کا ہوا تھا۔ اس آیت میں الیوم سے مراد قیامت کا دن بھی لیا جاسکتا ہے۔ یعنی قیامت کے دن بھی شیطان ہی ان کا لیڈر ہوگا جو انھیں جہنم کے دردناک عذاب میں جاپہنچائے گا۔ النحل
64 [٦١] اختلافات کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟ کفار مکہ سے اختلاف یہ تھے کہ آیا اللہ اکیلا ہی الٰہ ہے یا اس کے ساتھ دوسرے الٰہ بھی ہونا ضروری ہیں۔ قیامت قائم ہوگی یا یہ محض ایک وہم ہے فلاں حلال چیز کو اللہ نے حرام کیا ہے یا دوسروں نے یا فلاں حرام چیز کو کس نے حلال بنایا ہے؟ وغیرہ وغیرہ اور قرآن اس لیے اتارا گیا کہ ایسے سب مسائل کو وضاحت اور تحقیق کے ساتھ بیان کر دے تاکہ کچھ اشکال یا اشتباہ باقی نہ رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کام تھا کہ آپ ایسی تمام اختلافی باتوں کا دو ٹوک فیصلہ سنا کر بندوں پر اللہ کی حجت قائم کردیں یہ تو دور نبوی کے اختلاف تھے اور آج کے اختلافی مسائل ان مسائل سے کچھ ملتے جلتے بھی ہیں اور کچھ الگ نوعیت کے بھی ہیں۔ تاہم ان کا بھی علاج وہی ہے جو کفار مکہ کے لیے تجویز کیا گیا تھا یعنی کتاب و سنت کو اگر مستحکم بنیاد قرار دے دیا جائے تو آج بھی اختلافی مسائل کا خاتمہ ہوسکتا ہے اور فرقوں میں بٹی ہوئی امت متحد ہوسکتی ہے۔ لہٰذا یہ قرآن اور اللہ کا رسول یا اس کی سنت ہر دور کے لیے ہدایت اور رحمت کا باعث بن سکتے ہیں بشرطیکہ لوگ انھیں حکم تسلیم کرلیں اور ایسے ایمان لائیں جیسے ایمان لانے کا حق ہے۔ النحل
65 [٦٢] بارش سے روئیدگی اور بعث بعد الموت پر ثبوت :۔ زمین خشک اور بالکل بے آب و گیاہ پڑی ہوتی ہے مگر برسات کے موسم میں ہر طرف جڑی بوٹیاں گھاس، درخت اور پودے وغیرہ از خود پیدا ہونے لگتے ہیں۔ جن کے بیج وغیرہ مدتوں پہلے زمین میں دبے ہوئے تھے۔ پھر اس موسم میں مینڈک اور کئی قسم کے ایسے حشرات الارض بھی پیدا ہوجاتے ہیں جن کا پہلے نام و نشان تک مٹ چکا تھا اور موسم کی شدت نے اس نوع کا کلیتاً خاتمہ کردیا تھا۔ مگر برسات کے موسم میں وہ بھی از سر نو پیدا ہوجاتے ہیں اور یہ منظر تم اپنی زندگی میں بار بار دیکھتے رہتے ہو۔ بالکل ایسی ہی صورت حال انسان کی دوبارہ پیدائش کی ہوگی۔ جب دوسری بار صور میں پھونکا جائے گا تو اس کی حیثیت بالکل وہی ہوگی جیسے نباتات کے لیے اور حشرات الارض کے لیے بارش اور موسم برسات کی ہے۔ انسان کا جسم خواہ مٹی میں مل کر مٹی بن چکا ہو۔ اس نفخہ صور ثانی یا روحانی قسم کی بارش سے سب دوبارہ جی اٹھیں گے۔ النحل
66 [٦٣] دودھ کی پیدائش میں اللہ کی قدرتیں :۔ فرث کا اطلاق صرف اس قسم کی لید یا گوبر پر ہوتا ہے جو پیٹ یا معدہ میں موجود ہو اور جب مقعد کے راستہ گوبر وغیرہ کی صورت میں نکل آئے تو وہ فرث نہیں ہے بلکہ اسے روث کہتے ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پانی کے بعد دوسری بڑی مشروب نعمت دودھ کا ذکر فرمایا۔ دودھ کی پیدائش حیرت انگیز طریقے سے مادہ کے پیٹ میں ہوتی ہے۔ اسی طرف اس آیت میں توجہ دلائی گئی ہے۔ اس میں ایک تو اللہ کی قدرت یہ ہے کہ ایک ہی جنس کے نر ہوں یا مادہ۔ دونوں ایک جیسی خوراک کھاتے ہیں۔ اس خوراک میں سے کام کی چیز جس سے انسان کی زندگی قائم رہتی ہے خون بنتا ہے۔ باقی فضلہ مقعد وغیرہ کے راستہ خارج ہوجاتا ہے لیکن مادہ میں اسی ایک ہی خوراک سے ایک تیسری چیز دودھ بھی بنتا ہے اور وہ صرف مادہ میں ہی بنتا ہے نر میں نہیں بنتا۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ خون اور گوبر جیسی دو حرام اور گندی چیزوں سے تیسری چیز دودھ جو حاصل ہوتا ہے وہ حلال، نہایت سفید، خوش رنگ، پاکیزہ، خوشگوار اور مزیدار ہوتا ہے پھر یہ محض ایک مشروب ہی نہیں بلکہ انسانی جسم کی تربیت کے لیے مکمل غذا کا کام دیتا ہے۔ یہ صرف پیاس کو نہیں بجھاتا بلکہ بھوک بھی مٹا دیتا ہے۔ اور شیردار جانورکے بچوں کی ابتدائی تربیت اسی دودھ پر ہی ہوتی ہے۔ پھر مویشیوں کے پیٹ میں یہ دودھ اس قدر افراط سے پیدا ہوتا ہے کہ ان کے بچوں کی تربیت کے بعد مویشیوں کے مالکوں کو بھی خاصی مقدار میں دودھ حاصل ہوجاتا ہے۔ دودھ پلانے والی مادہ کے جسم میں دودھ تیار کرنے والے اعضاء تو اس کی بلوغت کے وقت نمودار ہوجاتے ہیں جنہیں عرف عام میں پستان کہا جاتا ہے۔ اور دودھ کے بننے کے بارے میں سب سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مادہ کے پستان یا دودھ بنانے والی یہ مشینری صرف اس وقت اپنا کام شروع کرتی ہے جب مادہ کو حمل قرار پا جاتا ہے۔ اس سے پہلے اگرچہ پستان موجود ہوتے ہیں مگر وہ کوئی کام نہیں کرتے اور جب حمل قرار پاتا ہے تو یہ مشینری اپنے فطری کام کا آغاز کردیتی ہے۔ حتیٰ کہ بچہ کی پیدائش تک مادہ کا خون دودھ میں تبدیل ہوجاتا ہے اور نوزائیدہ بچہ کو بروقت اللہ تعالیٰ اس کی خوراک مہیا کردیتا ہے اور بچہ کو دودھ پینے کا سلیقہ بھی سکھا دیتا ہے۔ اور یہ کام کچھ اس انداز سے سرانجام پاتے ہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کی بے پناہ قدرتوں، حکمتوں اور مصلحتوں کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ النحل
67 [٦٤] مکی دور میں شراب کی ناپسندیدگی پر اشارہ :۔ چار قسم کے مشروب ہیں جو اللہ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں اور یہ مشروب انسان کو اللہ نے اس دنیا میں عطا فرمائے ہیں اور اہل جنت کو جنت میں بھی بافراط عطا فرمائے گا۔ ایک پانی، دوسرے دودھ، تیسرے شراب چوتھے شہد (٤٧: ١٥) ان میں سے دو کا ذکر پہلی دو آیات میں گزر چکا ہے۔ اس آیت میں شراب کا ذکر اور اس سے بعد کی آیت میں شہد کا۔ اس آیت میں کھجور اور انگور کا ذکر اس لیے ہوا کہ یہی پھل عرب میں زیادہ تر پائے جاتے تھے ورنہ اور بھی کئی قسم کے پھلوں اور غلوں سے شراب کشید کی جاتی ہے اور جن چیزوں سے یہ شراب تیار کی جاتی ہے خواہ پھل ہوں یا غلے ہوں۔ سب پاکیزہ قسم کا رزق ہے اور عمدہ رزق سے مراد پھلوں کا رس یا جوس یا شکر یا شیرہ یا نبیذ یا ملک شیک و سرکہ، کشمش، منقہ، اور چھوہارے جن سے شراب بنتی ہے اور یہ سب چیزیں انسان کی تربیت اور صحت کے لیے انتہائی مفید ہیں علاوہ ازیں خوشگوار اور مزیدار بھی ہیں۔ مگر جب اسی رس میں سڑانڈ پیدا ہوجاتی ہے اور وہ الکوحل کی شکل اختیار کرلیتا ہے تو اس میں نشہ پیدا ہوجاتا ہے جس کے پینے سے انسان بدمست ہوجاتا ہے۔ لہٰذا یہ عمدہ رزق نہ رہا۔ یہ بات ملحوظ رکھنا چاہیے کہ یہ سورت مکی ہے اور شراب مدنی دور میں حرام ہوئی تھی۔ مکی دور میں اگرچہ شراب حرام نہیں ہوئی تھی۔ تاہم اسے عمدہ رزق سے خارج کردیا گیا۔ جس میں یہ اشارہ پایا جاتا تھا کہ یہ کسی وقت حرام قرار دے دی جائے گی۔ اور اہل جنت کو جو شراب مہیا کی جائے گی اس میں سے اس کے مضر پہلو کو ختم کردیا جائے گا یعنی جنتی لوگ شراب پئیں گے تو نہ ان کا سر چکرائے گا، نہ مستی پیدا ہوگی نہ کوئی لغو باتیں کریں گے اور نہ ان کی عقل مستور ہوگی اور یہی وہ نقصانات ہیں جن کی وجہ سے شراب کو اس دنیا میں حرام قرار دیا گیا ہے۔ اور ان چیزوں میں نشانی یہ ہے کہ ایک ہی چیز میں وہ مادہ بھی موجود ہے جو انسان کے لیے حیات بخش غذا بن سکتا ہے اور وہ مادہ بھی موجود ہے جو سڑ کر نشہ آور شراب یا الکوحل میں تبدیل ہوجاتا ہے اب یہ انسان کا اپنا انتخاب ہے کہ وہ ان سرچشموں سے پاک رزق حاصل کرتا ہے یا عقل کو زائل کردینے والی شراب کا۔ النحل
68 [٦٥] نحل شہد کی مکھی کو کہتے ہیں جو عام مکھی یعنی ذباب سے بڑی ہوتی ہے اور اس سورۃ کا نام ''النحل'' اسی نسبت سے ہے کہ صرف اسی سورت میں نحل کا ذکر آیا ہے اور اس مکھی کی طرف وحی کرنے سے مراد فطری اشارہ یا تعلیم ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کی جبلت میں ودیعت کر رکھی ہے جیسے کہ بچہ پیدا ہوتے ہی ماں کی چھاتیوں کی طرف لپکتا ہے تاکہ وہاں سے اپنے لیے غذا حاصل کرسکے حالانکہ اس وقت اسے کسی بات کی سمجھ نہیں ہوتی۔ [٦٦] یہ اسی فطری وحی کا اثر ہے کہ وہ اپنے لیے ایسا چھتا یا اپنا گھر بناتی ہے جسے انسان دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی ماہر انجینئر نے اس کی ڈیزائننگ کی ہے۔ اس چھتے کا ہر خانہ چھ پہلو والا یعنی مسدس ہوتا ہے جس کے تمام ضلعے مساوی لمبائی کے ہوتے ہیں اور اس طرح ایک دوسرے سے متصل یا جڑے ہوئے ہوتے ہیں کہ ان میں کہیں خالی جگہ کی گنجائش نہیں رہتی۔ انھیں خانوں میں مکھیاں شہد کا ذخیرہ کرتی ہیں اور بیرونی خانوں پر پہرہ دار مکھیاں ہوتی ہیں۔ جو اجنبی مکھیوں یا کیڑوں کو ان خانوں میں گھسنے نہیں دیتیں۔ النحل
69 [٦٧] شہد کے چھتے اور مکھیوں میں نظم وضبط :۔ ایک مکھی ان مکھیوں کی سردار یا ان کی ملکہ ہوتی ہے جسے عربی میں یعسوب کہتے ہیں۔ باقی سب مکھیاں اس کی تابع فرمان ہوتی ہیں مکھیاں اسی کے حکم سے رزق کی تلاش میں نکلتی ہیں اور اگر وہ ان کے ہمراہ چلے تو سب اس کی پوری حفاظت کرتی ہیں اور ان میں ایسا نظم و ضبط پایا جاتا ہے جسے دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے کہ اتنے چھوٹے سے جاندار میں اتنی عقل اور سمجھ کہاں سے آگئی۔ مکھیاں تلاش معاش میں اڑتی اڑتی دوردراز جگہوں پر جا پہنچتی ہیں اور مختلف رنگ کے پھلوں، پھولوں اور میٹھی چیزوں پر بیٹھ کر ان کا رس چوستی ہیں۔ پھر یہی رس اپنے چھتہ کے خانوں میں لاکر ذخیرہ کرتی رہتی ہیں اور اتنی سمجھدار ہوتی ہیں کہ واپسی پر اپنے گھر کا راستہ نہیں بھولتیں۔ راستے میں خواہ ایسے کئی چھتے موجود ہوں وہ اپنے ہی چھتہ یا گھر پہنچیں گی۔ گویا ان مکھیوں کا نظم و ضبط، پیہم آمدورفت، ایک خاص قسم کا گھر تیار کرنا، پھر باقاعدگی کے ساتھ اس میں شہد کو ذخیرہ کرتے جانا، یہ سب راہیں اللہ نے مکھی کے لیے اس طرح ہموار کردی ہیں کہ اسے کبھی سوچنے اور غور و فکر کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿فَاسْلُکِیْ سُبُلَ رَبِّکِ ذُلُلًا ﴾ اور ذلول کا معنی کسی چیز کا اپنی سرکشی کی خو کو چھوڑ کر خوشی سے اطاعت پر آمادہ ہوجانا، مطیع و منقاد ہوجانا یا رام اور مسخر ہوجانا ہے اور ذُلُلاً کو اگر راہوں کی صفت تسلیم کیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ مکھی کے لیے یہ راہیں خواہ کس قدر دور دراز ہوں یا پر پیچ ہوں وہ سب راہیں اللہ نے اس کے لیے نرم اور آسان بنا دی ہیں۔ اور اگر اس لفظ کو مکھی کی صفت قرار دیا جائے تو مطلب یہ ہوتا کہ جو طور طریقے تیرے لیے اللہ نے مقرر کر رکھے ہیں برضاء و رغبت ان پر عمل پیرا رہ۔ اور بعض اس کا یہ مطلب بتاتے ہیں کہ چھتہ کے خانوں تک پہنچنے کے لیے چھتہ پر پہنچ کر اپنے پروں کو سمیٹ لے۔ پھر شہد رکھنے کے بعد اسی طرح پر سمیٹے ہوئے چھتہ سے باہر نکل آ۔ [٦٨] شہد میں شفا اور دوسری خصوصیات :۔ شہد کے کئی رنگ ہوتے ہیں۔ زرد، سفیدی مائل یا سرخی مائل یا سیاہی مائل۔ اور ان رنگوں کے بھی مختلف اسباب ہوتے ہیں۔ تاہم ہر قسم کے شہد میں چند مشترکہ خواص ہیں۔ سب سے اہم خاصیت یہ ہے کہ بہت سی بیماریوں کے لیے شفا کا حکم رکھتا ہے الا یہ کہ مریض خود سوء مزاج کا شکار نہ ہو جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے۔ ١۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہنے لگا ’’میرے بھائی کا پیٹ خراب ہے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اس کو شہد پلاؤ‘‘ وہ دوبارہ آکر کہنے لگا ”یارسول اللہ ! شہد پلانے سے تو اس کا پیٹ اور خراب ہوگیا“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ کا قول سچا اور تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے۔ جاؤ اسے پھر شہد پلاؤ‘‘ اور تیسری بار آیا اور کہنے لگا ’’میں نے شہد پلایا لیکن اسے اور زیادہ پاخانے لگ گئے ہیں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا’’اللہ نے سچ کہا اور تیرے بھائی کے پیٹ نے جھوٹ کہا‘‘ اس نے پھر شہد پلایا تو وہ تندرست ہوگیا۔ (بخاری، کتاب الطب۔ باب الدواء بالعسل) ٢۔ نیز عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تین چیزوں میں شفاء ہے۔ شہد پینے میں، پچھنے لگانے میں اور آگ سے داغ دینے میں، مگر میں اپنی امت کو داغنے سے منع کرتا ہوں۔‘‘ (بخاری، کتاب الطب، باب الشفاء فی ثلاثۃ) اللہ تعالیٰ کے محیر العقول کارنامے :۔ شہد کی دوسری اہم خاصیت یہ ہے کہ جو اشیاء شہد میں رکھی جائیں وہ بڑی مدت تک اس میں برقرار و بحال رہتی ہیں اور اگر ادویہ ڈالی جائیں تو ان کا اثر حتیٰ کہ ان کی خوشبو بھی طویل عرصہ تک برقرار رہتی ہے یہی وجہ ہے کہ اطباء ادویہ کو کوٹ چھان کر ان میں چینی کے بجائے شہد ملا کر معجونیں وغیرہ تیار کرتے ہیں جس سے سہہ گنا فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ مٹھاس کی جگہ کام دیتی ہے۔ دوسرے ادویہ کے اثر کو تادیر محفوظ رکھتی ہے اور تیسرے شہد بذات خود بھی اکثر امراض کا علاج ہے اور اس لحاظ سے دواؤں کی تاثیر کو کئی گنا بڑھا دیتی ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ شہد کی مکھی بذات خود ایک زہریلا جانور ہے انسان کو ڈس جائے تو اس کی جلد متورم اور اس میں سخت سوزش پیدا ہوجاتی ہے اسی ذریعہ سے وہ اپنے چھتہ کی حفاظت کرنا خوب جانتی ہے جو لوگ چھتہ اتارنے کے فن میں ماہر ہوتے ہیں وہ جسم کو کپڑوں سے خوب لپیٹ کر اور جسم پر کئی طرح کی دوائیں مل کر چھتہ کو ہاتھ لگاتے ہیں اور جب چھتہ کو چھیڑنے کا (کاٹنے کا) وقت ہوتا ہے تو پہلے نیچے سے دھونی دیتے ہیں تاکہ مکھیاں اڑ کر دور چلی جائیں۔ بایں ہمہ مکھیاں مل کر اس شخص پر حملہ آور ہوتی ہیں لیکن اللہ نے چونکہ انسان کو اتنی عقل دی ہے کہ سب جانوروں کو رام کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ لہٰذا وہ چھتہ اتار کر شہد حاصل کرلیتا ہے گویا ایسے زیریلے جانور کے اندر سے نکلا ہوا شہد انسان کی اکثر بیماریوں کے لیے شفا کا حکم رکھتا ہے نیز اس کے لیے ایک شیریں اور لذیذ غذا کا کام بھی دیتا ہے۔ مندرجہ بالا مشروبات کا ذکر محض اس لیے نہیں کیا کہ انسان کو بتایا جائے کہ اللہ نے اس کے لیے کس قدر لذیذ اور مفید اشیاء پیدا کی ہیں۔ بلکہ ان کے بیان کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ انسان یہ سوچے کہ اللہ تعالیٰ نے جو پھل یا مویشی یا جاندار پیدا کیے ہیں۔ ان سب کے ماحصل سے انسان ہی فائدہ اٹھاتا ہے۔ پھر اللہ کی ان معجز نما قدرتوں میں بھی غور و فکر کرے کہ یہ مویشی یا مکھیاں وغیرہ جن محیر العقول طریقوں سے انسان کو یہ چیزیں فراہم کرتی ہیں ان میں انسان کے غور و فکر کے لیے بڑا وسیع میدان موجود ہے۔ پھر وہ یہ بھی سوچے کہ اللہ کے سوا ان چیزوں کو کوئی اور بنا سکتا ہے یا ان کی جبلت میں فطری تعلیم ودیعت کرسکتا ہے۔ اور اگر ان باتوں کا جواب نفی میں ہو تو پھر اس کا شریک بنانے یا انھیں شریک تسلیم کرنے کی ضرورت ہی کہاں پیش آتی ہے؟ النحل
70 [٦٩] کوئی مخلوق اپنی مقررہ حد سے آگے نہیں بڑھ سکتی :۔ ان خارجی مثالوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسان کی اپنی مثال پیش کی۔ کہ پہلے وہ بچہ ہوتا ہے اپنی تربیت کے لیے خوراک کھاتا ہے جس سے اس کا قد بھی بڑھتا ہے، ہمت بھی بڑھتی ہے، عقل اور علم میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے جو ایک مخصوص حد تک جاکر رک جاتا ہے اس کے بعد انسان وہی غذائیں کھاتا ہے جو پہلے کھاتا تھا مگر اس کے اثرات بالکل برعکس برآمد ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ اس کے جسم میں طاقت کے بجائے کمزوری واقع ہونا شروع ہوجاتی ہے عقل بہت کم ہونے لگتی ہے۔ یادداشت کمزور ہوتی جاتی ہے حتیٰ کہ پہلے کی سیکھی ہوئی باتیں بھی بھولنے لگتا ہے۔ اعضاء مضمحل ہونے لگتے ہیں اور قد بڑا ہونے کے باوجود بچوں کی سی باتیں، بچوں کی سی ضدیں اور بچوں کی سی حرکات کرنے لگ جاتا ہے حتیٰ کہ اسے تن بدن کا بھی ہوش نہیں رہتا۔ حالانکہ غذا وہی کھاتا ہے جو بچپن میں کھایا کرتا تھا یا اس سے بھی اچھی غذائیں کھاتا ہے پھر اسے موت کا کڑوا گھونٹ بھی پینا پڑتا ہے۔ اَرذل العمر سے پناہ :۔ انسان نے کبھی سوچا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یا اس سے کیا نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے ؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ایسی قادر اور حکیم ہستی موجود ہے جو اپنی منشا کے مطابق انسان پر ایسے تغیرات وارد کرتی اور کرسکتی ہے اور اللہ کے سوا کوئی ایسا الٰہ نہیں جو ان تغیرات کو روک سکتا ہو۔ ہاں اگر اللہ چاہے تو اس ارذل العمر میں بھی انسان کو ایسی ذلت سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی زندگی سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ (بخاری، کتاب التفسیر) اور ایسی عمر سے بچاؤ کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ ایسا وقت آنے سے پہلے ہی موت دے دے۔ دوسرے یہ کہ ایسا وقت آنے پر بھی تندرست اور حواس کو برقرار رکھے اور اللہ ان دونوں باتوں پر قادر ہے۔ النحل
71 [٧٠] شرک اللہ سے بے انصافی اور ناشکری ہے :۔ یہ خطاب مشرکوں سے ہے اور شرک کی تردید میں ایک عام فہم دلیل پیش کی گئی ہے یعنی تم میں سے ایک شخص صاحب مال و جائداد ہے اور اس کے کئی غلام بھی ہیں تو کیا وہ یہ گوارا کرے گا کہ اپنی ساری دولت اور جائداد اپنے غلاموں میں اس طرح تقسیم کردے کہ اس کا اپنا حصہ بھی ہر غلام کے برابر ہوجائے؟ ظاہر ہے کہ کوئی مالک ایسا کام گوارا نہیں کرسکتا پھر اس سے اگلا سوال یہ ہے کہ جب تم لوگ اپنے لیے ایسی برابری برداشت کرنے کو تیار نہیں تو کیا اللہ ایسی برابری برداشت کرسکتا ہے؟ جو ہر چیز کا مالک و مختار ہے اس نے تم کو یہ سب نعمتیں عطا فرمائیں۔ اب چاہئے تو یہ تھا کہ تم اسی کا شکریہ ادا کرتے اور اسی کی بندگی کرتے لیکن اس معاملہ میں تم لوگوں نے جو اللہ کے مملوک اور غلاموں کو اللہ کے ساتھ برابر کا شریک بنادیا ہے تو کیا اس سے بڑھ کر بھی اللہ کے ساتھ بے انصافی، اس کی احسان ناشناسی اور اس کی نعمتوں کا انکار ہوسکتا ہے؟ مخلوق اور مملوک کبھی شریک نہیں بن سکتے :۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر کوئی مالک اپنے غلام کو کسی چیز کا مالک یا اس میں تصرف کا اختیار دے بھی دے۔ تو یہ سب کچھ عارضی طور پر ہوگا۔ حقیقتاً ان چیزوں کا مالک بھی اصل مالک ہی ہوگا۔ اسی لحاظ سے ہم کہتے ہیں کہ حقیقتاً ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور ہمارا کسی چیز کا مالک ہونا یا اس میں تصرف کا اختیار ہونا محض چند روزہ یا عارضی ہے اس سے ایک اہم نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مملوک ہونا اور شراکت دو چیزیں جمع نہیں ہوسکتیں۔ یعنی جو غلام ہے وہ شریک نہیں بن سکتا۔ غلام کو مالک بنانے کی صرف یہ صورت ممکن ہے کہ اسے پہلے آزاد کردیا جائے۔ اب وہ مالک تو بن جائے گا لیکن غلام نہ رہا۔ لامحالہ اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ چونکہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی مخلوق ومملوک ہے لہٰذا وہ صفات الوہیت میں اس کی شریک نہیں بن سکتی۔ اشتراکیت کا رد :۔ بعض اشتراکیت پسند حضرات نے اس آیت کا غلط مطلب لے کر بڑا اوٹ پٹانگ سانتیجہ اخذ کیا ہے ان حضرات کے نزدیک اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ ’’جو لوگ تم میں سے امیر ہیں انھیں چاہیے کہ وہ اپنا مال و دولت اپنے غلاموں میں بانٹ کر سب برابر ہوجائیں اور اگر تم ایسا نہ کرو گے تو اللہ کی نعمت کے منکر قرار پاؤ گے‘‘ اور اس طرح اشتراکیت یا کمیونزم کے لیے راستہ ہموار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اب ظاہر ہے کہ سیاق و سباق قطع نظر کرتے ہوئے درمیان میں سے ایک آیت لے کر اس سے اپنے نظریہ کے مطابق مطلب کشید کرنا بدترین قسم کی تحریف معنوی ہے۔ اس آیت سے پہلے بھی توحید کے اثبات اور شرک کی تردید کا بیان چل رہا ہے۔ اس آیت میں بھی یہی مضمون بیان ہوا ہے اور بعد کی آیات میں بھی یہی مضمون آرہا ہے۔ لہٰذا درمیان میں اس آیت کو اس کے اصل مفہوم سے جدا کرکے دور حاضر کے ایک باطل فلسفہ معیشت پر چسپاں کرنا انتہائی غیر معقول بات ہے۔ پھر یہ معنی اس لحاظ سے بھی غلط ہیں کہ اس آیت میں غلاموں کا ذکر ہے غریب طبقہ کا ذکر نہیں۔ جسے اشتراکیت پسند اپنی مطلب برآری کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ النحل
72 [٧١] انسان اور اس کی نوع کی بقا کے اسباب :۔ تمہارے بقائے نوع کے اسباب بھی اللہ نے مہیا کیے اور تمہاری اپنی زندگی کی بقا کے اسباب بھی اسی نے پیدا کیے۔ پھر بھی مشرک اپنے معبودان باطل کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ فلاں کی کرم نوازی سے بیٹا پیدا ہوا اور فلاں آستانے پر جانے سے شفا نصیب ہوئی وغیر ذلک من الخرافات النحل
73 [٧٢] ان کے معبود نہ تو بارش برسانے پر قادر ہیں نہ زمین سے غلے اور پھلدار درخت پیدا کرنے پر، نہ ہی وہ یہ بتاسکتے ہیں کہ زمین میں کون کون سے خزانے موجود ہیں اور وہ کون کون سے مقامات پر موجود ہیں، نہ وہ ان باتوں پر آج قدرت رکھتے ہیں اور نہ آئندہ کبھی قادر ہوسکیں گے یعنی تمہاری زندگی اور تمہاری نوع کی بقا کے اسباب تو صرف اللہ مہیا کرے اور اس کی بندگی میں تم اوروں کو بھی شریک بنا لو۔ یہ کس قدر ناانصافی کی بات ہے۔ النحل
74 [٧٣] زیادہ خداؤں کی ضرورت کا نظریہ :۔ چونکہ مشرکوں کا اللہ کی ذات کے متعلق تصور ہی غلط ہے اس لیے وہ اللہ کے متعلق جو مثال بھی چسپاں کرتے ہیں حقیقت کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ وہ اللہ کو بھی دنیا کے بادشاہوں یا راجوں، مہاراجوں کی طرح سمجھتے ہیں حالانکہ اللہ مخلوقات کی مشابہت سے پاک ہے اس لیے وہ اللہ کے متعلق ٹھیک مثال بیان کر ہی نہیں سکتے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح بادشاہوں کو اپنے وزیروں اور امیروں کی بات سننا پڑتی ہے۔ کیونکہ انھیں یہ خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں میرے خلاف نہ ہوجائیں اور بغاوت یا کوئی دوسرا فتنہ نہ کھڑا کردیں۔ اسی طرح انبیاء، اولیاء، بزرگ، اوتار اور ٹھاکر اور ہمارے یہ معبود اللہ کی درگاہ میں ایسے دخیل ہیں کہ اللہ میاں کو ان کی سفارش ضرور سننا پڑتی ہے اور اگر قیامت ہوئی بھی تو یہ ہمیں اللہ سے بچا لیں گے۔ ان کا دوسرا تصور یا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ جس طرح بادشاہ اپنے سارے کام خود نہیں کرسکتے اور نہ سب لوگوں کی فریادیں سن سکتے ہیں۔ لہٰذا انھیں امیروں، وزیروں اور دوسرے بے شمار کارندوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح اللہ میاں کو اپنے مقربین کی ضرورت ہوتی ہے جو لوگوں کی فریادیں اس کے حضور پہنچا دیں اور پھر انہی کی وساطت سے فریادی کو کوئی جواب ملے۔ اسی طرح اگر اللہ سے مال و دولت یا اولاد یا کوئی دوسری بھلائی مانگنا ہو تو ان مقربین کا واسطہ ضروری ہے۔ یہی وہ گمراہ کن عقائد ہیں جو مشرکوں نے اپنی دنیوی اغراض کی بنا پر گھڑ رکھے ہیں۔ یہی عقائد شرک کی اکثر اقسام کی بنیاد ہیں۔ اور قرآن میں جابجا ان کی تردید مذکور ہے۔ اور انتباہ یہ کیا گیا ہے کہ جب تم اللہ کی حقیقت کو جان ہی نہیں سکتے تو اس کے متعلق غلط تصورات مت قائم کیا کرو اور نہ ہی اس کی مثالیں دیاکرو۔ النحل
75 [٧٤] اب مشرکوں کی غلط مثالوں کے بجائے اللہ ایک ٹھیک مثال بیان کرتا ہے جو معمولی عقل والے آدمی کی بھی سمجھ میں آسکتی ہے۔ اور اس مثال میں شرک کی ایک نئے انداز میں تردید بیان کی گئی ہے۔ مثلاً ایک شخص خود غلام ہے اس کی اپنی کوئی چیز ہے ہی نہیں اور مالک کی چیز میں وہ تصرف کا اختیار نہیں رکھتا۔ اگر وہ کچھ خرچ کرنا چاہے بھی تو کر نہیں سکتا کیونکہ وہ مجبور محض ہے۔ اب اس کے مقابلے ایک دوسرا شخص ہے جو آزاد ہے۔ خود مختار ہے، لمبے چوڑے مال و دولت اور جائداد کا مالک بھی ہے۔ اسے اس مال و دولت کو خرچ کرنے کا مکمل اختیار بھی ہے اور وہ ہر وقت پوشیدہ طور پر بھی اور علانیہ بھی خرچ کرتا ہی رہتا ہے۔ تو کیا یہ دونوں شخص برابر ہوسکتے ہیں؟ یعنی ایک طرف معبودان باطل ہیں جو خود مخلوق و مملوک اور غلام ہیں۔ جن کے اپنے پاس کچھ ہے ہی نہیں۔ اور اگر جاندار ہیں جو اپنی ایک ایک ضرورت کے لیے محتاج ہیں۔ دوسری طرف اللہ کی ذات ہے جو مختار کل بھی ہے، زمین و آسمان کے خزانے بھی اس کے پاس ہیں اور وہ انھیں ہر وقت خرچ بھی کرتا رہتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اور مشرکوں کے معبود دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ [٧٥] شرک کی تردید مملوک سے سوال کرنے کی مثال :۔ مشرکوں سے جو سوال کیا گیا ہے اس کے جواب میں وہ یہ تو کہہ ہی نہیں سکتے کہ ’’ہاں دونوں برابر ہوسکتے ہیں‘‘ اب اگر وہ کہیں کہ ”نہیں ہوسکتے“تو گویا مجرم نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا اور اگر خاموش رہیں یا کوئی جواب بن نہ پڑے تو یہ ان کے عجز اور دلیل نہ ہونے کا ثبوت ہے۔ گویا دونوں صورتوں میں ان کے شرک کا ابطال ہوگیا اور اللہ نے اپنے پیغمبر سے فرمایا کہ ہر دو صورت میں الحمدللہ کہئے۔ یعنی اللہ کا شکر ہے کہ کچھ تو ان کے بھی پلے پڑا اور اس عام فہم دلیل سے بات تمہاری سمجھ میں آگئی۔ [٧٦] مشرکوں کا اپنا دستور بھی اس کے خلاف ہے :۔ اس سیدھی اور عام فہم بات کو سمجھنے کے باوجود ان کا یہ حال ہے کہ اپنے ہمسایہ سے کوئی چیز مانگنا ہو تو مالک مکان سے مانگتے ہیں اس کے غلام سے نہیں مانگتے کیونکہ بااختیار مالک ہوتا ہے غلام نہیں ہوتا۔ لیکن یہی معاملہ جب خالق و مخلوق کے بارے میں پیش آئے تو باختیار خالق کو چھوڑ کر بے اختیار مخلوق کے سامنے دست سوال دراز کرنے لگتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر جہالت اور بے انصافی کیا ہوسکتی ہے۔؟ النحل
76 [٧٧] مشرکوں کی دوسری مثال :۔ پہلی مثال میں اختیار ہونے یا نہ ہونے کا تقابل تھا۔ اس مثال میں صفات کا تقابل پیش کیا گیا ہے۔ ایک طرف ایسا آدمی یا کوئی چیز ہے جو گونگا بہرا بھی ہے اور اپاہج بھی جو نہ چل پھر سکے نہ کوئی کام کرسکے۔ اگر اس کا مالک اسے کوئی کام کرنے کو کہے بھی تو وہ کبھی صحیح کام نہ کرسکے بلکہ الٹا اسے بگاڑ کے رکھ دے اور جہاں کہیں جائے مالک کو اس کے متعلق شکایات ہی سننا پڑیں اور وہ ہر لحاظ سے اپنے مالک پر بوجھ بنا ہوا ہو۔ دوسری طرف ایسا تندرست اور صحیح الدماغ انسان ہے جو خود بھی راہ راست پر ہے اور دوسروں کو بھی اس عدل و اعتدال کی راہ پر چلنے کا حکم دیتا ہے تو کیا ان کی حالت یکساں ہوسکتی ہے؟ بعض علماء نے اس مثال کا اطلاق بتوں اور ان کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ پر کیا ہے۔ اور بعض نے اس کا اطلاق مشرکوں اور ان کے مقابلہ میں مومنوں یا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا ہے۔ النحل
77 [٧٨] قیامت کا دفعتاً واقع ہونا :۔ یہاں درمیان میں مشرکوں کے ایک سوال کا ذکر کیے بغیر اس کا جواب دیا جارہا ہے۔ وہ اکثر یہ سوال کرتے رہتے ہیں کہ قیامت کب یعنی کتنے سال بعد اور کس مہینہ کی کون سی تاریخ کو آئے گی؟ اور اس کا جواب بھی کئی پہلوؤں سے مذکور ہوچکا ہے۔ یہاں جس پہلو کا ذکر ہے وہ یہ ہے کہ اس کائنات کی تمام تر اشیاء اور وہ واقعات اور حوادثات جو ماضی میں واقع ہوچکے ہیں یا اس وقت ہو رہے ہیں یا مستقبل میں پیش آنے والے ہیں۔ وہ غائب تو تمہاری نظروں اور علم سے ہیں۔ اللہ کے لیے یہ سب باتیں ایسے ہی ہیں جیسے وہ اس کے سامنے موجود اور حاضر ہیں۔ اسی طرح قیامت کا بھی اسے پورا علم ہے اور وہ جانتا ہے کہ اسے کب واقع کرنا ہے۔ تم بس ایک بات سمجھ لو کہ قیامت ایسے نہیں آئے گی کہ تم اسے دور سے آتا دیکھ لو تو سنبھل جاؤ اور تو بہ تائب کرلو۔ بلکہ قیامت جب آئی تو آنکھ جھپکنے جتنی بھی دیر نہ لگے گی کہ وہ واقع ہوجائے گی۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ’’دو آدمی کپڑا بچھائے سودا بازی کر رہے ہونگے اور ابھی وہ اس سودابازی اور کپڑا لپیٹنے سے فارغ نہ ہوں گے کہ قیامت آ جائے گی اور ایک اونٹنی کا دودھ لے کر جارہا ہوگا اور ابھی یہ اسے پینے نہ پائے گا کہ قیامت آجائے گی اور ایک آدمی اپنا حوض لیپ پوت رہا ہوگا لیکن ابھی نہ اس میں پانی بھرا جائے گا اور نہ پیا جائے گا کہ قیامت آجائے گی۔ اور ایک آدمی کھانے کا نوالہ اپنے منہ کی طرف اٹھائے گا اور ابھی اس نے وہ منہ میں نہ ڈالا ہوگا کہ قیامت آجائے گی۔‘‘ (بخاری، کتاب الرقاق۔ باب بلاعنوان۔ نیز کتاب الفتن۔ باب بلاعنوان) النحل
78 [٧٩] اللہ کی نعمتیں اور انسان کی ناشکری :۔ یہاں سے پھر گذشتہ مضمون یعنی دلائل توحید کا تسلسل قائم ہو رہا ہے۔ پیدائش کے وقت انسان کا بچہ جس قدر بے خبر اور کمزور ہوتا ہے اتنا اور کسی جاندار کا بچہ بے خبر اور کمزور نہیں ہوتا۔ دوسرے سب جانداروں کے بچے پیدا ہوتے ہی راہ دیکھنے اور چلنے پھرنے لگ جاتے ہیں۔ لیکن انسان کا بچہ چلنا تو درکنار بیٹھ بھی نہیں سکتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آنکھ، کان اور دل سب جانداروں کو عطا کیے ہیں۔ لیکن انسان کو اللہ نے جو کان، آنکھیں اور دل دیئے ہیں وہ اتنی اہلیت اور صلاحیت رکھتے ہیں کہ ان کے ذریعہ انسان باقی تمام جانداروں اور دوسری مخلوق کو اپنا تابع بنا رہا ہے اور ان پر حکمرانی کر رہا ہے۔ اب اس کا حق تو یہی ہے کہ جس ہستی نے اسے ایسے قابل کان، آنکھیں اور دل عطا کیے ہیں اس کا شکر بجا لائے۔ کانوں سے اللہ کا کلام سنے، آنکھوں سے کائنات میں ہر سو بکھری ہوئی اللہ کی نشانیوں اور قدرتوں کو دیکھے۔ پھر دل سے غور و فکر کرے اور صانع حقیقی کی معرفت اور توحید تک پہنچے مگر افسوس ہے کہ اکثر انسانوں نے اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کی کوئی قدر نہ کی اور استعداد رکھنے کے باوجود کانوں، آنکھوں اور دلوں سے وہ کام نہیں لیا جس غرض کے لیے اللہ نے یہ نعمتیں انسان کو عطا کی تھیں۔ اپنی دنیوی اغراض کی خاطر ان سے اتنا ہی کام لیا جتنا دوسرے حیوانات لیتے ہیں۔ النحل
79 [٨٠] ہوا میں تیرنے پھرنے والے پرندوں کی ساخت :۔ کوئی چیز فضا میں ٹھہر نہیں سکتی وہ ہوا کی لطافت اور زمین کی کشش ثقل کی وجہ سے زمین پر آگرتی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے پرندوں کے پروں اور ان کی دم کی ساخت میں کچھ ایسا توازن قائم کیا ہے کہ نہ زمین کی کشش ثقل انھیں اپنی طرف کھینچتی ہے اور نہ ہوا کی لطافت انھیں نیچے گراتی ہے اور فضا میں بے تکلف تیرتے پھرتے ہیں۔ پھر یہ فن انھیں سیکھنے کی بھی ضرورت نہیں۔ یہ سب باتیں ان کی فطرت میں رکھ دی گئی ہیں۔ پرندے جب اڑنے لگتے ہیں تو اپنے پروں کو پھڑ پھڑاتے اور پھیلاتے ہیں۔ پھر جب فضا میں پہنچ جاتے ہیں تو ضروری نہیں کہ وہ ہر وقت پروں کو پھیلائے رکھیں۔ وہ انھیں بند بھی کرلیتے ہیں لیکن پھر بھی گرتے نہیں۔ انسان نے پرندوں کی اڑان اور ان کی ساخت میں غور و فکر کرکے ہوائی جہاز تو ایجاد کرلیا۔ مگر جس ہستی نے ایسے طبعی قوانین بنادیئے ہیں جن کی بنا پر پرندے یا ہوائی جہاز فضا میں اڑتے پھرتے ہیں۔ اس ہستی کی معرفت حاصل کرنے کے لیے انسان نے کوئی کوشش نہ کی۔ [٨١] پرندوں کا توکل اور ان کا نکلنا :۔ آنکھیں، کان اور دل کا ذکر کرنے کے بعد پرندوں کا ذکر کرنے سے اس بات کی طرف بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ ان تینوں چیزوں سے کام لے کر ہر جاندار اپنی معاش کی فکر کرتا ہے۔ انسان بھی اور پرندے بھی۔ ماں کے پیٹ سے کوئی کچھ بھی نہیں لاتا۔ اب انسان کا تو یہ حال ہے کہ وہ کسب معاش اور دنیوی کاروبار کے دھندوں میں ایسا مشغول ہوجاتا ہے کہ یہی چیزیں اسے اللہ پر ایمان لانے اور اس کا فرمانبرداربن کر رہنے میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ حالانکہ اس کا رزق اللہ کے ذمہ ہے۔ اس لحاظ سے پرندے انسان سے بدرجہا بہتر ہیں۔ چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’اگر تم اللہ پر ایسا توکل کرتے جیسا کرنے کا حق ہے تو تم کو بھی اسی طرح رزق دیا جاتا ہے جس طرح پرندوں کو دیا جاتا ہے۔ وہ صبح کو خالی پیٹ جاتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں“(ترمذی، ابو اب الزہد۔ باب ماجاء فی الزہادۃ فی الدینا) النحل
80 [٨٢] خارجی اثرات سے انسان کو بچانے والی اشیاء :۔ ان آیات میں اللہ کی ان نعمتوں کا ذکر ہے جو انسان کو خارجی اثرات مثلاً دھوپ، گرمی، سردی، بارش وغیرہ سے محفوظ رکھتی ہیں۔ ان نعمتوں میں سب سے پہلے ان گھروں کا ذکر جنہیں لوگ آبادیوں میں اپنی رہائش کے لیے بناتے ہیں۔ جو مٹی، اینٹ، پتھر، گارا اور لکڑی وغیرہ سے تیار ہوتے ہیں اور یہ سب چیزیں زمین سے حاصل ہوتی ہیں جسے اللہ نے انسان کی پیدائش سے مدتوں پہلے پیدا کردیا تھا۔ پھر ان خانہ بدوشوں کے گھروں کا ذکر فرمایا جو پہلی قسم کے گھروں کی نسبت بہت ہلکے پھلکے اور قابل انتقال ہوتے تھے اور یہ وہ خیمے ہیں جو مویشیوں کے چمڑوں یا موٹے ریشوں سے بنتے ہیں اور یہ مویشی اور ہر قسم کے نباتاتی ریشے، جانوروں کے بال اور اون سب کچھ اللہ کی پیدا کردہ چیزیں ہیں۔ پھر چند قدرتی چیزوں مثلاً سایوں کا ذکر فرمایا جہاں انسان دھوپ سے پناہ لے سکتا ہے، پھر پہاڑوں کی کمین گاہوں کا، جو انسان کو ایک قدرتی گھر کا کام دیتی ہیں۔ ان کا مزید فائدہ یہ بھی ہے کہ ان میں انسان اپنے دشمنوں سے بھی پناہ لے سکتا ہے۔ النحل
81 [٨٣] گرمی سردی سے بچاؤ کے لئے کپڑے :۔ انسان کو سردی سے بچنے کے لیے بھی لباس کی ایسے ہی ضرورت ہوتی ہے جیسے گرمی سے بچنے کے لیے اور جو لباس گرمی سے بچاتا ہے وہ سردی سے بھی بچاتا ہے اور یہاں جو بالخصوص گرمی سے بچانے کا ذکر فرمایا تو اس لیے اہل عرب سردی کے موسم سے ناآشنا تھے وہاں عموماً موسم گرم ہی رہتا ہے۔ بالخصوص مکہ میں، جہاں یہ سورت نازل ہوئی، ٹھنڈا موسم ہوتا ہی نہیں۔ وہاں فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ کبھی کم گرمی کا موسم ہوتا ہے اور کبھی شدید گرمی کا۔ [٨٤] ﴿ لَعَلَّکُمْ تُسْلِمُوْنَ﴾ کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک تو وہی ہے جو ترجمہ سے ظاہر ہے اور دوسرا یہ ہے کہ لباس اس لیے بنائے کہ تم گرمی کی لو سے محفوظ رہو اور جنگی لباس یا زرہ بکتر وغیرہ اس لیے بنائے کہ تم دوران جنگ زخمی ہونے سے محفوظ رہ سکو۔ اور اتمام نعمت سے مراد یہاں انسان کی جملہ ضروریات کی تکمیل ہے۔ جن میں سے چند ایک کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ لہٰذا انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے منعم حقیقی کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کردے اور اس کا فرمانبردار بن کر رہے۔ النحل
82 النحل
83 [٨٥] یعنی بار بار اللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد دلاتے رہنے کے باوجود بھی اگر یہ لوگ اس طرف متوجہ نہیں ہوتے تو آپ اپنا کام کرتے جائیے۔ آپ کی صرف اتنی ہی ذمہ داری ہے کہ آپ انھیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا کریں۔ اور حقیقت حال یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے انعامات کو دیکھتے بھی ہیں اور سمجھتے بھی ہیں مگر جب شکرگزاری اور اظہار اطاعت کا وقت آتا ہے تو سب کچھ بھول جاتے ہیں گویا دل سے سمجھتے تو ہیں مگر عمل سے انکار کرتے ہیں۔ النحل
84 [٨٦] قیامت کا ایک منظر مشرکوں کی ایک دوسرے کے خلاف گفتگو :۔ اس سے آگے اب میدان محشر کا ایک منظر پیش کیا جارہا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی عدالت قائم ہوگی تو ہر امت اور ہر فرقہ سے ایک گواہ سامنے لایا جائے گا۔ ہر امت میں سے گواہ اس امت کا نبی ہوگا یا پھر وہ نیک بندہ جس نے اللہ کا پیغام پوری وضاحت کے ساتھ لوگوں کو پہنچا دیا ہو۔ گواہوں کی یہ گواہی کافروں پر اتمام حجت کے لیے ہوگی اور مفصل ہوگی۔ یعنی وہ گواہ یہ گواہی دے گا کہ فلاں فلاں لوگوں نے میری بات تسلیم کرلی تھی اور فلاں فلاں لوگ اکڑ گئے تھے۔ اور انہوں نے راہ حق کی مخالفت میں یہ اور یہ کام کیے تھے اور ہمیں ایسا اور ایسا جواب دیا کرتے تھے۔ اس گواہی کے دوران کافروں کو بولنے کی قطعاً اجازت نہ ہوگی۔ اور کافر جب میدان محشر کا یہ ہولناک منظر دیکھیں گے تو اپنے گناہوں کی معافی مانگنا چاہیں گے مگر اس وقت انھیں توبہ کا موقع نہیں دیا جائے گا کیونکہ توبہ کا موقع تو صرف اس دنیا میں ہے اور جب موت کی آخری ہچکی آجائے اور جان لبوں پر آئے تو اس لمحہ سے توبہ کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔ النحل
85 النحل
86 [٨٧] یعنی جنہیں حاجت روا اور مشکل کشا یا فریاد رس یا دستگیر وغیرہ سمجھ کر پکارا جاتا رہا۔ وہ مشرکوں یا اپنے پکارنے والوں کو اس لحاظ سے جھوٹا نہیں کہیں گے کہ وہ انھیں پکارا نہیں کرتے تھے بلکہ اس لحاظ سے کہیں گے کہ ہم تو خود اللہ کے فرمانبردار بندے بن کر زندگی گزارتے رہے۔ ہم نے کبھی ایسا دعویٰ بھی نہیں کیا تھا کہ ہم لوگوں کی حاجت روائیاں کرسکتے ہیں۔ اور اگر تم لوگ ایسا کرتے بھی رہے ہو تو ہمیں اس کی خبر تک نہ تھی۔ پھر آخر تم نے ایسی غلط اور جھوٹی من گھڑت باتیں ہماری طرف کیوں منسوب کر رکھی تھیں۔ تمہارے ایسے عقیدے سراسر جھوٹ اور باطل پر مبنی ہیں۔ النحل
87 [٨٨] یعنی مشرک لوگوں نے جن بزرگوں اور پیروں وغیرہ کے متعلق یہ سمجھ رکھا تھا کہ وہ اللہ کے سامنے سفارش کرکے ہمیں چھڑا لیں گے۔ جب وہ دیکھیں گے کہ ان کی وہ بزرگ ہستیاں بھی اللہ کے حضور عاجز و ناتواں بندوں کی طرح کھڑے ہیں۔ تو سستی نجات کے جو افسانے انہوں نے تراش رکھے تھے وہ سب کچھ بھول جائیں گے۔ النحل
88 [٨٩] کیونکہ وہ دوہرے تہرے مجرم ہیں۔ ایک یہ کہ خود اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کیا اور اس کی مخالفت کرتے رہے۔ دوسرے مختلف طرح کے حیلوں بہانوں سے دوسرے لوگوں کو حق قبول کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنے رہے۔ ایمان لانے والوں پر ظلم و تشدد کرتے رہے۔ النحل
89 [٩٠] آپ کا دوسرے صحابہ سے قرآن سننا :۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ ’’مجھے قرآن سناؤ‘‘ میں نے عرض کی۔ بھلا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا سناؤں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی پر تو قرآن نازل ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ٹھیک ہے، مگر دوسرے سے سننا مجھے اچھا لگتا ہے‘‘ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے سورۃ نساء پڑھنا شروع کی اور جب اس آیت پر پہنچا ﴿فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَھِیْدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰوُلاَءٍ شَھِیْدًا﴾(۴:۴۱) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بس کرو‘‘ میں نے دیکھا تو اس وقت آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ (بخاری، کتاب التفسیر) قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گواہی :۔ سورۃ نساء کی آیت نمبر ٤١ اور سورۃ نحل کی اس آیت کا مضمون ایک ہی ہے۔ البتہ الفاظ کا اختلاف اور تقدیم وتاخیر ضرور ہے ان دونوں آیات میں ھولاء کا مشار الیہ دوسرے انبیاء بھی ہو سکتے ہیں۔ اور گواہی یہ دینا ہوگی کہ آیا واقعی ان سابقہ انبیاء نے اپنی اپنی امتوں کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا ؟ اس مطلب کے لحاظ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام انبیاء پر فضیلت ثابت ہوئی اور اسی فرط مسرت و انبساط سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسو بہنے لگے کہ یہ آپ پر اللہ کا کتنا بڑا فضل ہے اور اگر ھولاء کا مشارٌ الیہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لوگوں کو سمجھا جائے جو اس وقت موجود تھے تو یہ ایک بڑی گرانبار ذمہ داری بن جاتی ہے کہ آپ ان کے اچھے اور برے سب اعمال پر گواہی دیں خصوصاً اس صورت میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے بے حد محبت تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان پر بڑے مہربان تھے۔ اسی خیال سے آپ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ نیز ھٰوُلاَءِ سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے وہ لوگ بھی مراد لیے جاسکتے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سے لے کر قیامت تک پیدا ہوں گے۔ اور ان لوگوں پر آپ گواہی دیں گے کہ جنہوں نے قرآن کو پس پشت ڈال رکھا تھا۔ انہوں نے قرآن کو محض ایک عملیات کی کتاب سمجھ رکھا تھا۔ جلسے جلوسوں کا افتتاح تو تلاوت قرآن سے ہوتا تھا اس کے بعد انھیں قرآن کے احکام سے کوئی غرض نہ ہوتی تھی۔ یا ان لوگوں کے خلاف جنہوں نے قرآنی آیات واحکام کو سمجھنے کے بعد محض دنیوی اغراض یا فرقہ وارانہ تعصب کے طور پر ان کی غلط تاویل کرتے تھے۔ ان سب لوگوں کے خلاف اللہ کے ہاں یہ گواہی دیں گے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔ جیسا کہ سورۃ فرقان کی آیت نمبر ٣٠ سے واضح ہے۔ [٩١] قرآن میں تفصیل کس قسم کی ہے :۔ چونکہ قرآن کریم کا موضوع بنی نوع انسان کی ہدایت ہے لہٰذا یہاں ہر چیز سے مراد ہر ایسی چیز ہے جو انسان کی ہدایت سے تعلق رکھتی ہو۔ یعنی اس میں تمام اچھے اور برے اعمال اور ان کی جزا و سزا کی خبر دی گئی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دنیا جہان کے علوم و فنون اس میں آگئے ہیں۔ حتیٰ کہ ان کی تفصیلات بھی موجود ہیں جیسا کہ اکثر حضرات اپنے اپنے علوم و فنون کو بہ تکلف قرآن کریم کی طرف منسوب کرنے کی کوشش فرماتے ہیں۔ قرآن کریم میں اگر کوئی بات طب، جغرافیہ یا تاریخ یا ہیئت کی آگئی ہے تو وہ ضمناً ہے ایسے علوم بیان کرنا قرآن کا اصل مقصد نہیں۔ نیز قرآن میں جو چیزیں مذکور ہوئی ہیں ان میں سے بعض کی تو تفصیل بھی قرآن میں آگئی ہے۔ بعض اجمالاً بیان ہوئی ہیں۔ ان کی تفصیل قرآن کے بیان یا آپ کی سنت سے ملتی ہے۔ حتیٰ کہ بیشتر ارکان اسلام تک قرآن میں اجمالاً بیان ہوئے ہیں۔ اور ان کی پوری تفصیل احادیث میں مذکور ہے اور ان قرآنی احکام پر عمل صرف اس صورت میں کیا جاسکتا ہے کہ احادیث سے رہنمائی حاصل کی جائے۔ اس سے ایک اہم نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ جو لوگ احادیث کے منکر ہیں یا حدیث کو حجت تسلیم نہیں کرتے وہ فی الحقیقت صرف حدیث کے نہیں بلکہ قرآن کے بھی منکر ہوتے ہیں۔ پھر جو مسائل نئے پیدا ہوں اور کتاب و سنت میں مذکور نہ ہو۔ علمائے امت کا فرض ہے کہ وہ کتاب و سنت کو پیش نظر رکھ کر اجتہاد و استنباط کے ذریعہ ایسے مسائل کا حل دریافت کریں اور اجتہاد کرنا بھی سنت نبوی ہے اور سنت نبوی سے ثابت ہے اور یہ دونوں چیزیں بھی قرآن کے تبیان میں شامل ہیں اس طرح قرآن سے ہر شرعی مسئلہ میں تاقیامت رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ [٩٢] قرآن کے تین فائدے :۔ قرآن کریم مسلمانوں کے لیے ہدایت اور رحمت اس لحاظ سے ہے کہ اس میں زندگی کے ہر شعبے کے متعلق تفصیلی احکام و ہدایات موجود ہیں حتی کہ مابعد الطبیعات کے متعلق بھی ہمیں بیش قیمت معلومات بہم پہنچاتا ہے اور ان ہدایات و احکام پر عمل پیرا ہونے سے انسان کی دنیوی زندگی بھی قلبی اطمینان و سکون سے بسر ہوتی ہے اور اخروی زندگی بھی سنور ہوجاتی ہے اور خوشخبری اس لحاظ سے ہے کہ فرمانبردار بندوں کو شاندار مستقبل اور جنت کی دائمی اور لازوال نعمتوں کی بشارت دیتا ہے۔ النحل
90 [٩٣] اس آیت میں تین باتوں کا حکم دیا گیا ہے اور تین باتوں سے منع کیا گیا ہے اور یہ چھ الفاظ اس قدر وسیع المعنی ہیں کہ ساری اسلامی تعلیمات کا خلاصہ ان میں آگیا ہے۔ اسی لیے بعض علماء کہتے ہیں کہ اگر قرآن میں کوئی آیت نہ ہوتی تو صرف یہی آیت انسان کی ہدایت کے لیے کافی تھی۔ اور سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اسی آیت کو سن کر میرے دل میں ایمان راسخ ہوا اور میرے دل میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت جاگزیں ہوئی۔ اس آیت کی اسی جامعیت کی وجہ سے خلیفہ راشد سیدنا عمر بن عبدالعزیز نے اسے خطبہ جمعہ میں داخل کرکے امت کے لیے اسوہ حسنہ قائم کردیا اور حقیقت یہ ہے کہ اگر ان اوامر و نواہی پر عمل کیا جائے تو معاشرہ کی اخلاقی، معاشرتی اور معاشی حالت بہترین بن سکتی ہے۔ اس تمہید کے بعد اب ہم ان الفاظ کی مختصر تشریح پیش کرتے ہیں : ١۔ عدل کے معنی :۔ عدل میں دو بنیادی معنی پائے جاتے ہیں (١) توازن و تناسب کو قائم رکھنا، (٢) دوسرے کو اس کا حق بے لاگ طریقہ سے دینا (الفروق اللغویہ از ابو ہلال عسکری) اور اس روایت بالعدل قامت السمٰوت والارض (یعنی زمین و آسمان عدل کے سہارے قائم ہیں) کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کے سیاروں میں اس قدر توازن و تناسب اور ہم آہنگی ہے کہ اگر ان کی کشش اور حرکت میں ذرا بھی کمی بیشی ہوجائے تو زمین اور آسمان ایک دوسرے سے ٹکرا کر کائنات کو فنا کردیں۔ اور عدل کا اطلاق ظاہری اور باطنی سب امور پر یکساں ہوتا ہے۔ (فقہ اللغۃ ١٩٤ از ثعالبی) قرآن کریم کی درج ذیل آیت پہلے معنی میں استعمال ہوئی ہے۔ ﴿الَّذِیْ خَلَقَکَ فَسَوّٰیکَ فَعَدَلَکَ ﴾ (۷:۸۲)جس نے تجھے پیدا کیا اور (تیرے اعضاء) کو ٹھیک کیا اور (تیرے قدو قامت اور مزاج) کو معتدل رکھا۔ پھر اسی پہلے معنی کے لحاظ سے دو مزید معنی بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ (١) برابری کے معنوں میں جیسے ارشاد باری ہے : ﴿أَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسَاكِينَ أَوْ عَدْلُ ذَٰلِكَ صِيَامًا ﴾(۹۵:۵) یا کفارہ دے جو مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے یا اس کے برابر روزے رکھے اور (٢) عوض، بدلہ یا معاوضہ کے معنی ہیں جیسے ارشاد باری ہے : ﴿وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ ﴾(۴۸۲)نہ اس سے سفارش قبول کی جائے گی اور نہ ہی اس سے کسی طرح کا بدلہ قبول کیا جائے گا۔ اور عدل کا دوسرا بنیادی معنی کسی کو اس کا جائز حق دینا ہے اور یہ کام کسی ملک کی عدلیہ کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں جو عدل کا معنی انصاف کیا جاتا ہے۔ یہ عدل کا مفہوم ادا نہیں کرتا۔ انصاف کا مفہوم یہ ہے کہ اگر ایک چیز کی ملکیت کے دو دعویدار ہیں تو اس چیز کو ان میں آدھا آدھا بانٹ دیا جائے جبکہ عدل کا مفہوم یہ ہے کہ فریقین کے بیان سن کر عدالت تحقیق کرے کہ اس میں فلاں فریق کا کچھ حق ہے بھی یا نہیں اور اگر ہے تو کتنا ہے؟ اگر ایک فریق کا حق صرف پانچواں حصہ ہے تو اسے اتنا ہی دلائے۔ اور اگر ایک فریق کا کچھ بھی حق نہیں بنتا تو اسے کچھ بھی نہ دلائے۔ درج ذیل آیت اسی معنی میں ہے : ﴿اِعْدِلُوْا ہُوَ اَقْرَبُ للتَّقْوٰی ﴾(۸:۵) عدل کیا کرو، یہی بات تقویٰ سے قریب تر ہے۔ ٢۔ احسان کے معنی : احسان کا معنی ہر نیک اور اچھا کام ہے خواہ اس کا تعلق اپنی ذات سے ہو یا کسی دوسرے سے (فقہ اللغہ ١٥٨ از ثعالبی) اور یہ لفظ چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے ہر بھلائی کے کام پر بولا جاتا ہے اور اس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ کسی کام کو بہتر سے بہتر طریقہ سے بجا لایا جائے۔ چنانچہ حدیث جبریل میں ہے کہ جبریل نے آپ سے پوچھا کہ احسان کیا چیز ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے جیسے تو اسے دیکھ رہا ہے اور یہ ممکن نہ ہو تو کم از کم یہ ضرور سمجھے کہ اللہ تجھے دیکھ رہا ہے اور عبادت کا مفہوم صرف فرضی یا نفلی نماز ادا کرنا نہیں۔ بلکہ جو کام بھی اللہ کا حکم سمجھ کر بجا لایا جائے وہ اس کی عبادت ہے اور کام کو خوشدلی کے ساتھ اور اچھے طریقہ سے بجا لانے کا نام احسان ہے۔ اس لحاظ سے کسی جانور کو ذبح کرتے وقت چھری کو خوب تیز کرلینا بھی احسان ہے تاکہ ذبیحہ کو کم سے کم تکلیف پہنچے۔ عدل اور احسان میں فرق :۔ عدل اگرچہ بذات خود ایک اعلیٰ قدر ہے مگر احسان کا درجہ عدل سے بھی بڑھ کر ہے۔ عدل اور احسان کے فرق کو ہم ایک معمولی سی مثال سے سمجھائیں گے۔ مثلاً ایک دکاندار سودا دیتے وقت ترازو کی ڈنڈی بالکل سیدھی رکھ کر چیز تولتا ہے اور کوئی ہیرا پھیری نہیں کرتا تو یہ عدل ہے اور اگر کچھ جھکتا تول کر دے یعنی زیادہ دے دے یا قیمت طے کرلینے کے بعد کچھ مزید رعایت کر دے تو یہ احسان ہے جسے دوسرے لفظوں میں ایثار بھی کہا جاسکتا ہے مگر اس مثال سے عدل اور احسان کے صرف ایک پہلو کا فرق نمایاں ہوتا ہے۔ احسان کے معاشرتی زندگی میں اثرات :۔ جس معاشرہ میں عدل قائم ہو گو اس میں ایک دوسرے کے حقوق غصب نہیں ہوتے تاہم کچھ کشمکش ضرور باقی رہتی ہے۔ لیکن جس معاشرہ میں احسان رواج پا جائے یا الفاظ دیگر ہر شخص اپنے حق سے کچھ کم پر قانع ہوجائے تو ایسے معاشرہ میں نزاع کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بلکہ اس میں محبت، الفت اور اخوت جیسی بلند اقدار فروغ پانے لگتی ہیں۔ نیز ان دونوں الفاظ کا اطلاق عقائد، اعمال، عبادات، اخلاق، معاملات اور جذبات سب باتوں پر ہوتا ہے۔ ٣۔ قریبی رشتہ داروں کو دینا :۔ عدل و احسان کا سلوک تو قریبی رشتہ داروں سے بھی ہوگا تاہم ان کے حقوق عام لوگوں سے زیادہ ہیں۔ اور یہ بڑا طویل باب ہے جس میں والدین اور دوسرے رشتہ داروں کے حقوق اور ان سے بہتر سلوک سب کچھ شامل ہے۔ اور اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ ہر خاندان کے خوشحال افراد کو اس بات کا ذمہ دار قرار دیتی ہے کہ وہ اپنے خاندان کے لوگوں کو بھوکا ننگا نہ چھوڑیں۔ اس کی نگاہ میں ایک معاشرے کی اس سے بدتر کوئی حالت نہیں ہے کہ اس کے اندر ایک شخص تو عیاشی کی زندگی بسر کر رہا ہو اور اسی خاندان میں اس کے اپنے بھائی بند روٹی کپڑے تک کو محتاج ہوں۔ اور جس معاشرہ کے خوشحال افراد اپنی اس ذمہ داری کو سنبھال لیں اس کے متعلق آپ خود اندازہ فرما لیجئے کہ اس میں معاشی حیثیت سے کتنی خوشحالی، معاشرتی حیثیت سے کتنی حلاوت اور اخلاقی حیثیت سے کتنی پاکیزگی و بلندی پیدا ہوجائے گی۔ اور جن باتوں سے منع کیا گیا ہے وہ یہ ہیں : ١۔ فحاشی کے کام : فحشاء فحش کے معنی ہر وہ قول یا فعل ہے جو قباحت اور برائی میں حد سے بڑھا ہوا ہو (مفردات) اور اس لفظ کا اطلاق عموماً ایسے اقوال و افعال پر ہوتا ہے جو زنا یا اس جیسی دوسری شہوانی حرکات کے قریب لے جاتے ہوں نیز سب بے حیائی کے کام اور اقوال اس میں شامل ہیں۔ مثلاً برہنگی، عریانی، لواطت، محرمات سے نکاح، تہمت تراشی، گالیاں بکنا، پوشیدہ جرائم کی تشہیر، بدکاریوں پر ابھارنے والے افسانے اور ڈرامے اور فلمیں، عریاں تصاویر، عورتوں کا بن سنور کا منظر عام پر آنا، مردوزن کا آزادانہ اختلاط، عورتوں کا سٹیج پر ناچنا اور تھرکنا اور ناز و ادا کی نمائش سب کچھ فحشاء کے زمرہ میں آتا ہے۔ ٢۔ منکرات کیا ہیں : منکر کچھ برے کام ایسے ہیں جن سے شریعت نے بالوضاحت منع کردیا ہے۔ وہ تو بہرحال منکرات میں شامل ہیں ہی مگر کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جن کے بارے میں شریعت خاموش ہوتی ہے لیکن کسی خاص ملک یا کسی خاص معاشرہ میں وہ معیوب اور برے سمجھے جاتے ہیں۔ ایسے کام اس خاص ملک یا معاشرہ میں تو منکر ہوتے ہیں مگر دوسرے ملک یا معاشرہ میں انھیں منکر نہیں کہا جاسکتا۔ (منکر کی ضد معروف ہے) اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ہمارے ہاں اپنے سے بڑے یا بزرگوں کو جی یا صاحب کہہ کر پکارا جاتا ہے لیکن عرب میں نہ ایسا دستور ہے اور نہ ہی اس بارے میں شریعت کا کوئی حکم ہے لہٰذا بڑوں کو ادب سے یا جی یا صاحب کے لقب سے یا واحد کے بجائے صیغہ جمع حاضر مخاطب میں بلانا معروف ہے اور اگر کوئی تو کہہ کر پکارے تو یہ منکر ہے۔ اسی طرح قبلہ کی طرف پاؤں پھیلا کر بیٹھنا یا لیٹنا ہمارے ہاں منکر ہے اور اسے برا اور معیوب سمجھا جاتا ہے جبکہ شریعت اس بارے میں خاموش ہے اور کئی ممالک کے لوگ اسے منکر نہیں سمجھتے نہ اسے معروف سمجھتے ہیں۔ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ تم لوگوں کو منکرات سے بھی منع کرتا ہے۔ ٣۔ بغی کے مختلف مفہوم :۔ ١۔ بغی کے معنی کسی چیز کی طلب اور خواہش کے حصول میں مناسب حد سے آگے نکل جانا۔ اپنے حق سے کچھ زیادہ وصول کرنے کی کوشش کرنا اور اسی نسبت سے دوسروں کا حق دبانا، اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کرنا، نافرمانی کرنا، دوسروں کے جان و مال یا آبرو پر ناحق دست درازی کرنا، قانون شکنی کرنا، سرکشی کرنا وغیرہ سب کچھ شامل ہے۔ معروف لفظ بغاوت بھی اسی سے مشتق ہے۔ الغرض اگر ان مندرجہ بالا تین قسم کی برائیوں سے اجتناب کیا جائے تو ایسا معاشرہ ہر قسم کی قباحتوں اور برائیوں سے مہذب اور پاک صاف ہوجاتا ہے۔ النحل
91 [٩٤] عہد یا معاہدوں کی تین قسمیں :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تین طرح کے عہد بتا کر انھیں پورا کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ ان میں سے ایک تو عہد الست ہے اور یہ سب سے اہم ہے اور اس کا ذکر پہلے کئی مقامات پر گزر چکا ہے۔ دوسرے وہ عہد جو ایک فرد دوسرے فرد سے اللہ کو گواہ بنا کر پختہ کرتا ہے۔ اسی طرح تیسرے وہ حلفیہ معاہدات ہیں جو ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ سے اور ایک قوم دوسری قوم سے یا ایک حکومت دوسری حکومت سے کرتی ہے۔ غرض معاہدہ کسی قسم کا ہو اسے بہر صورت نبھانے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس سے فرار کی راہیں تلاش نہیں کرنی چاہیں۔ موقع پرستی اور مفاد پرستی سے کام نہیں لینا چاہیے۔ اپنے لیے ساز گار حالات دیکھ کر عہد کو خراب کرنا اور اس کی ناجائز تاویلات کرکے اپنا الو سیدھا کرنا منافقوں کا کام ہوتا ہے۔ النحل
92 [٩٥] معاہدوں کو توڑنے کی ممانعت :۔ مکہ میں ایک دیوانی عورت رہتی تھی جس کا نام خرقاء (توڑ پھوڑ دینے والی) پڑگیا تھا۔ دن بھر سوت کا تتی رہتی پھر اسے توڑ پھوڑ کر پھینک دیتی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ نحل) اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ تم اپنے باہمی معاہدات کو کچے دھاگے کی طرح نہ سمجھو کہ جب چاہا اپنا معاہدہ توڑ دیا اور اس عورت کی طرح دیوانے نہ بنو۔ عرب کے کافر قبیلوں کا یہ حال تھا کہ ایک قبیلے سے دوستی کا عہد کرتے اور قسمیں کھاتے۔ پھر دوسرے قبیلے کو اس سے زبردست پا کر پہلا عہد توڑ ڈالتے اور اس قبیلے سے عہد کرلیتے اور بعض قبیلوں نے مسلمانوں سے بھی ایسا ہی معاملہ کیا۔ پہلے ان سے دوستی کا عہد باندھا پھر کسی وقت قریش مکہ کا پلہ بھاری دیکھا تو مسلمانوں سے عہد شکنی کرکے ان سے دوستی کرلی۔ مسلمانوں کو اس قسم کی مفاد پرستیوں سے سختی سے روک دیا گیا۔ اور آج کل صورت حال یہ ہے کہ موجودہ سیاست کا دارومدار ہی مفاد پرستی پر ہے جو کام اس دور کے کافر قبیلے کرتے تھے وہی کام آج کل کی مہذب حکومتیں کر رہی ہیں اور اس لحاظ سے ان کافر قبیلوں سے بھی آگے بڑھ گئی ہیں کہ ان کے علانیہ معاہدے تو اور قسم کے ہوتے ہیں اور خفیہ معاہدے بالکل جداگانہ اور علانیہ معاہدوں کے متضاد ہوتے ہیں۔ گویا موجودہ دور کی کامیاب سیاست میں عہد شکنی کے علاوہ منافقت کا عنصر بھی شامل ہے اور ایسی چالبازیوں کو آج کی زبان میں ''ڈپلومیسی'' کہا جاتا ہے اور ان کی ایسی عہد شکنی اور منافقت کو معیوب سمجھنے کے بجائے کامیاب سیاست سمجھا جاتا ہے اور قومیں اپنے ایسے بددیانت لیڈروں کی حوصلہ افزائی کرتی اور انھیں کامیاب لیڈرسمجھتی ہیں اور مسلمان ممالک سے تو بالخصوص آجکل یہی کچھ ہو رہا ہے۔ ظاہراً ان سے دوستی کی پینگیں بڑھائی جاتی ہیں جبکہ اندرون خانہ ان کے استیصال میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا جاتا۔ اور مسلمان ممالک اللہ پر عدم توکل اور اپنی نااہلی کی وجہ سے ان مہذب قوموں سے مدتوں سے دھوکے پر دھوکہ کھاتے چلے جا رہے ہیں۔ مگر انھیں یہ توفیق نصیب نہیں ہوتی کہ اپنے اختلاف چھوڑ کر اور متحد ہو کر ان کافر حکومتوں کے سامنے ڈٹ جائیں۔ جمہوریت اور لوٹا ازم :۔ یہ تو موجودہ حکومتوں کا حال ہے۔ افراد کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔ آج کل جمہوریت اور اسمبلیوں کا دور دورہ ہے۔ اسمبلیوں کے منتخب شدہ ممبر اپنے مفادات کی خاطر فوراً سابقہ سیاسی جماعت سے اپنی وفاداریاں توڑ کر حزب اقتدار میں چلے جاتے ہیں۔ آج کی سیاسی اصطلاح میں انھیں ''لوٹے'' کہا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس قسم کے بے اصول لوگ اور بےدین لوگ بے پیندے لوٹوں کی طرح ہوتے ہیں کہ جدھر اپنا مفاد دیکھا یا کچھ نقد رقم وصول کی فوراً ادھر لڑھک گئے۔ اپنے معاہدے کا انھیں کچھ پاس نہیں ہوتا۔ [٩٦] دنیوی اور دینی مفادات سے بے نیاز ہو کر عہد کو نبھانا چاہئے :۔ یہ آزمائش اس بات میں ہے کہ آیا تم اپنے مفادات سے بے نیاز ہو کر اپنے معاہدہ کے پابند رہتے ہو یا نہیں۔ یہ مفادات خواہ دنیوی ہوں یا دینی۔ کسی صورت میں بھی ایک مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ عہد شکنی کرے۔ اسلام اور مسلمانوں کے مفادات عہد کی پاسداری میں آڑے نہیں آسکتے۔ عہد کی پاسداری کی بہترین مثال وہ واقعہ ہے جو غزوہ بدر کے میدان میں پیش آیا۔ دو مسلمان حذیفہ بن یمان اور ابو حسیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جنگ میں شمولیت کے لیے آئے اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ ہم کافروں کے ہتھے چڑھ گئے اور ہمیں ان سے رہائی اس شرط پر ملی تھی کہ ہم جنگ میں حصہ نہ لیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو یہ کہہ کر واپس کردیا کہ جب تم ان سے عہد کرچکے ہو تو اپنا عہد پورا کرو۔ (مسلم۔ کتاب الجہادو السیر۔ باب الوفا بالعہد) حالانکہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو افرادی قوت کی شدید ضرورت بھی تھی۔ اور مذہبی مفادات کے نام پر عہد شکنی کرنے اور دوسرے کا ہر جائز و ناجائز طریقے سے مال ہضم کرنے والے یہود تھے جنہوں نے اپنا اصول ہی یہ بنا لیا کہ ﴿لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیّٖنَ سَبِیْلٌ ﴾ (یعنی غیر یہودی سے ہم جو کچھ بھی کرلیں ہمیں اس پر کچھ مؤاخذہ نہ ہوگا۔ النحل
93 [٩٧] دین کی حمایت کے لئے غلط ذرائع استعمال کرنے کے نقصانات اور ان کی ممانعت :۔ یہ کوئی پسندیدہ بات نہیں کہ تم اپنے دینی مفاد کے لیے عہد شکنی یا دوسرے ناجائز ذرائع استعمال کرنے لگو۔ ایک پاکیزہ اور صاف ستھرے دین میں لوگوں کو لانے اور دعوت دینے کے طریق بھی پاکیزہ ہونے چاہئیں۔ اور اگر محض لوگوں کو ہدایت دینا ہی مقصود ہوتا تو اللہ یہ کام خود بھی کرسکتا تھا۔ مگر اس نے لوگوں کو قوت ارادہ و اختیار دے رکھا ہے تاکہ اس کا آزادانہ استعمال کریں۔ پھر جو شخص اپنے ارادہ سے غلط راستہ اختیار کرتا ہے تو اللہ اس کے لیے اسباب بھی ویسے ہی بنا دیتا ہے اور سیدھی راہ پر چلنا چاہے تو اسے ویسی ہی توفیق عطا فرماتا ہے۔ النحل
94 [٩٨] یعنی جب تم کوئی معاملہ کرنے لگو تو تمہاری نیت صاف ہونی چاہیے۔ دل میں کسی قسم کی خیانت یا بددیانتی یا عہد شکنی کا ارادہ نہیں ہونا چاہیے اور اگر تم ایسا کرو گے تو اس کے دو نقصان ہوں گے ایک تو تمہاری اپنی ساکھ ختم ہوجائے گی اور اس کے بجائے ذلت و رسوائی ہوگی۔ دوسرے جو لوگ اسلام لانا چاہتے ہیں جب وہ دیکھیں گے کہ جو کام کافر کرتے ہیں وہی کچھ مسلمان بھی کرتے ہیں تو وہ کیوں اسلام کی طرف مائل ہوں گے، اس طرح تم خود ہی اسلام کے راستے میں رکاوٹ کا سبب بن جاؤ گے۔ لہٰذا دنیا میں ذلت و رسوائی اور ساکھ کی تباہی کے علاوہ آخرت میں بھی تمہیں بری طرح سزا ملے گی۔ النحل
95 [٩٩] مفادات خواہ کتنے ہو ایفائے عہد کے مقابلہ میں ہیچ ہیں :۔ اللہ سے کیے ہوئے عہد سے مراد عہد الست بھی ہے اور ہر وہ عہد بھی جس میں اللہ کو درمیان میں لاکر، اسے شاہد اور ضامن بنا کر یا اس کی قسم کھا کر کیا گیا ہو اور اس عہد کو توڑنے کے عوض اگر تمہیں دنیا بھر کے مفادات اور مال و دولت بھی مل جائیں وہ تھوڑا اور ایفائے عہد کی ارفع قدر کے مقابلے میں ہیچ ہے۔ لہٰذا تمہیں دنیوی مفادات پر نظر رکھنے کی بجائے آخرت کے اجر پر نظر رکھنی چاہیے جو ان مفادات کے مقابلہ میں بدرجہا بہتر ہے۔ النحل
96 [١٠٠] صبر کرنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو دنیوی مفادات کی خاطر اسلام کی اعلیٰ اقدار اور اصولوں کو قربان نہیں کردیتے بلکہ اصولوں کی خاطر دنیوی مفادات کو قربان کردیتے ہیں اور دنیا کا مال و دولت جتنا بھی ہو اور دنیوی مفادات جتنے بھی ہوں وہ کم ہی ہیں کیونکہ وہ سب ختم اور فنا ہوجانے والے ہیں۔ مگر اصولوں کی خاطر دنیوی مفادات کو ٹھکرا دینے سے جو آخرت میں اجر ملے گا وہ بہت بہتر، پائیدار اور ابدی ہوگا۔ النحل
97 [١٠١] پاکیزہ زندگی کیسے حاصل ہوتی ہے؟:۔ اس آیت سے تین باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ اگرچہ تقسیم کار کی بنا پر مرد کو اس دنیا میں عورت پر فوقیت حاصل ہے مگر اخروی اجر کے لحاظ سے دونوں کا مرتبہ یکساں ہے۔ وہاں معیار صرف ایمان اور نیک اعمال ہوں گے۔ اگر اس معیار کے مطابق عورت مرد سے فائق ہوگی تو اسے یقیناً مردوں سے بہتر درجہ بھی مل سکتا ہے۔ دوسری یہ کہ ایمان اور اعمال صالحہ اختیار کرنے سے مومن کی دنیا بھی سنورتی ہے اور آخرت بھی۔ اور یہ جو عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ایک ایماندار، دیانتدار اور را ستباز انسان کو آخرت میں تو ضرور اجر ملے گا مگر وہ دنیا میں نقصان میں ہی رہتا ہے۔ یہ خیال سراسر غلط ہے۔ بلکہ جو لوگ راستباز اپنے عہد پر قائم رہنے والے اپنی بات کے پکے اور صاف نیت ہوتے ہیں۔ انھیں بد عمل، عہد شکن، مفاد پرست لوگوں کے مقابلہ میں جو ساکھ سچی عزت اور قلبی سکون میسر ہوتا ہے وہ ان لوگوں کو کبھی میسر نہیں آسکتا جو نیت کے کھوٹے، فریب کار اور عہد شکن ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں دنیوی لحاظ سے بھی راست باز لوگ با لآخر فائدہ میں رہتے ہیں اور یہی حیوۃ طبیۃ کا واضح مفہوم ہے۔ اور تیسری یہ بات کہ ایسے ایماندار اور نیکو کار لوگوں کو آخرت میں جو مرتبہ ملے گا وہ ان کے بہتر اعمال کے لحاظ سے مقرر ہوگا۔ مثلاً ایک شخص نے اپنی زندگی میں چھوٹی چھوٹی اور بڑی بڑی ہر طرح کی نیکیاں کی ہیں تو اسے وہ اونچا مقام عطا کیا جائے گا جس کا وہ اپنی بڑی سے بڑی نیکی کے لحاظ سے مستحق ہوگا۔ النحل
98 [١٠٢] تلاوت سے پہلے تعوذ پڑھنا :۔ ایمان کی حقیقت اور اعمال صالحہ کے علم کا منبع قرآن ہی ہے لہٰذا قرآن کی تلاوت بذات خود بہت بڑا صالح عمل ہے جیسا کہ احادیث میں آیا ہے کہ ﴿ خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہُ﴾(تم میں سے بہتر شخص وہ ہے کہ جو خود قرآن سیکھے پھر اسے دوسروں کو سکھلائے) اور قرآن کی تلاوت کے آداب میں سے ایک یہ ہے کہ تلاوت شروع کرنے سے پہلے اَعُوْذُ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ پڑھ لیا جائے یعنی میں شیطان مردود سے اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں یا اللہ کی پناہ میں آتا ہوں۔ پناہ عموماً کسی نقصان دینے والی چیز یا دشمن سے درکار ہوتی ہے اور ایسی ہستی سے پناہ طلب کی جاتی ہے جو اس نقصان پہنچانے والی چیز یا دشمن سے زیادہ طاقتور ہو، شیطان چونکہ غیر محسوس طور پر تلاوت کرنے والے آدمی کی فکر پر اثر انداز ہوسکتا ہے اور تلاوت کے دوران اسے گمراہ کن وسوسوں اور کج فکری میں مبتلا کرسکتا ہے۔ لہٰذا شیطان کی اس وسوسہ اندازی سے اللہ کی پناہ طلب کرنے کا حکم دیا گیا ہے جس کے آگے شیطان بالکل بے بس ہے۔ گویا یہ دعا دراصل قرآن سے صحیح رہنمائی حاصل کرنے کی دعا ہے۔ جبکہ شیطان کی انتہائی کوشش ہی یہ ہوتی ہے کہ کوئی شخص قرآن سے ہدایت نہ حاصل کرنے پائے۔ النحل
99 اس آیت کی تفسیر اگلی آیت کے ساتھ ملاحظہ فرمائیے۔ النحل
100 [١٠٣] شیطان کا داؤ کیسے لوگوں پر چلتا ہے؟ شیطان کے پاس کوئی ایسی طاقت نہیں کہ وہ اپنی بات بزور کسی سے منوا سکے۔ نہ ہی اس کے پاس کوئی عقلی یا نقلی دلیل ہے جس کی بنا پر وہ کسی کو اپنی بات کا قائل کرسکے۔ وہ صرف وسوسے ڈال سکتا ہے۔ دل میں گمراہ کن خیالات پیدا کرسکتا ہے۔ اب جو لوگ پہلے ہی ضعیف الاعتقاد ہوتے ہیں وہ فوراً اس کے دام میں پھنس جاتے ہیں اور شیطان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہوتی ہے کہ وہ انسان کو شرک کی راہوں پر ڈال دے اور اس طرح ابن آدم سے انتقام لے سکے۔ رہے وہ لوگ جو صرف اللہ پر توکل کرنے والے اور اپنے عقیدہ میں مضبوط ہوتے ہیں تو ایسے لوگوں پر شیطان کا کوئی داؤ کارگر نہیں ہوتا اور ایسے لوگ قرآن سے یقینا ہدایت ہی حاصل کرتے ہیں۔ النحل
101 [١٠٤] قیامت کب؟ ایک سوال کے مختلف جوابات :۔ اس سے مراد کافروں کے کسی سوال یا اعتراض کے مختلف مواقع پر مختلف جواب بھی ہوسکتے ہیں مثلاً کافر اکثر یہ پوچھتے رہتے کہ جس قیامت کی تم بات کرتے رہتے ہو وہ آئے گی کب؟ اس سوال کا ایک مقام پر یہ جواب دیا گیا کہ وہ اس طرح دفعتاً آئے گی کہ تمہیں خبر تک نہ ہوسکے گی۔ دوسرے مقام پر یہ جواب دیا گیا کہ جب وہ آئے گی تو اس وقت تمہارا ایمان لانا بے سود ہوگا اور تیسرے مقام پر یہ جواب دیا گیا کہ جب وہ آجائے گی تو اس میں لمحہ بھر کے لیے بھی تقدیم و تاخیر نہ ہوسکے گی اور چوتھے مقام پر یہ جواب دیا گیا کہ انھیں کہہ دیجئے کہ اس کا علم صرف اللہ کو ہے اور میں تو فقط اس کا رسول ہوں۔ ناسخ اور منسوخ احکام کی کیفیت :۔ اور یہ مراد بھی ہوسکتی ہے کہ قرآن میں اقوام و انبیائے سابقہ کے حالات مختلف مقامات پر کہیں اجمالاً بیان ہوئے ہیں کہیں تفصیلاً کہیں ایک پہلو کو مدنظر رکھا گیا ہے کہیں کسی دوسرے پہلو کو۔ یہی صورت احکام کی بھی ہے جن میں تدریج کا لحاظ رکھا گیا ہے اور یہ تدریج لوگوں کے عقل و فہم یا ان کی ایک وقت عدم استعداد اور دوسرے وقت استعداد کی بنا پر ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ چونکہ ہر طرح کے حالات سے باخبر ہے لہٰذا اس کی حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ حالات کے تقاضوں کے مطابق احکام نازل کرے۔ اور اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے حکیم ایک مریض کے لیے پہلے کوئی اور دوا تجویز کرتا ہے پھر مریض کی کیفیت کے مطابق دوا تبدیل کردیتا ہے۔ [١٠٥] تبدیلی احکام کی بنا پر آپ پر قرآن گھڑنے کا الزام :۔ ایسی تبدیلی کی صورت میں کافر یہ کہنے لگتے ہیں کہ یہ کلام اللہ کا نہیں ہوسکتا۔ اللہ تو پہلے ہی ہر بات سے باخبر ہے۔ اس کے احکام میں تبدیلی یا ایک سوال کے مختلف جوابات کیوں ہوتے ہیں۔ ہو نہ ہو یہ کلام اس نبی نے خود گھڑ لیا ہے۔ کسی وقت کوئی جواب دے دیتا ہے اور کسی وقت کوئی دوسرا۔ اللہ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ کافروں کا یہ جواب محض جہالت پر مبنی ہے۔ تبدیلی احکام کی وجہ یہ نہیں کہ نعوذ باللہ اللہ پہلے نہیں جانتا تھا بلکہ اس کی اصل وجہ لوگوں کی استعداد اور عدم استعداد اور حالات کے تقاضے ہوتے ہیں۔ النحل
102 [١٠٦] روح القدس سے مراد؟ پاکیزہ روح یا پاکیزگی کی روح اور اس سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں جو ہر طرح کی بشری کمزوریوں سے پاک ہیں۔ وہ نہ خائن ہیں نہ کذاب ہیں اور نہ مفتری۔ نہ وہ اللہ کے نازل کردہ کلام میں سے کچھ حذف کرتے ہیں اور نہ اس میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ نہ ترمیم و تنسیخ کرسکتے ہیں بلکہ اللہ کا کلام جوں کا توں نبی کے دل پہ نازل کرتے ہیں۔ [١٠٧] نزول قرآن میں تدریج کے فائدے :۔ قرآن اتارنے میں جو حالات کے تقاضوں کے تحت تدریج کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ اس کے دو بڑے فائدے ہیں ایک یہ کہ تکرار احکام سے ایمان میں بتدریج پختگی واقع ہوتی رہتی ہے اور ان میں ثبات و استقلال پیدا ہوتا ہے۔ اور دوسرے یہ کہ جو کفار مکہ آئے دن مسلمانوں پر ناجائز مظالم اور سختیاں کرتے رہتے تھے۔ اس لیے مسلمانوں کو بھی بار بار تسلی دینے، مصائب میں ثابت قدم رہنے۔ اس دنیا میں بھی سیدھی راہ پر گامزن رکھنے پر اور مصائب کی برداشت پر اور جنت کی خوشخبری دینے کی ضرورت پیش آتی رہی۔ (احکام میں تدریج اور تبدیلی کے سلسلہ میں سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ١٠٦ کا حاشیہ بھی ملاحظہ فرمالیجئے) النحل
103 [١٠٨] کسی عجمی سے قرآن سیکھنے کا جواب :۔ اس سلسلے میں کفار مکہ متعدد عجمی غلاموں کے نام لیتے تھے جو تورات اور انجیل کی تعلیم سے واقف تھے۔ جب کبھی کافروں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعوت اسلام کے لیے ان کے پاس گئے یا وہ غلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو کافروں نے مشہور کردیا کہ یہ نبی تو فلاں آدمی سے سابقہ امتوں کے قصے اور کہانیاں سنتا ہے۔ پھر ہمیں سنا دیتا ہے۔ حالانکہ وہ عجمی غلام اپنی زبان میں توبات کرسکتے تھے۔ عربی ٹھیک طرح بول بھی نہ سکتے تھے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے اعتراض کا یہ جواب دیا کہ قرآن کی زبان تو اس قدر فصیح و بلیغ ہے کہ اس کی نظیر لانے سے تم عربی لوگ اپنی فصاحت و بلاغت پر فخر کرنے کے باوجود قاصر ہو تو بھلا ایک عجمی شخص یہ کلام کیسے سکھلا سکتا ہے جبکہ وہ خود عربی ٹھیک طرح بول بھی نہیں سکتا اور چند ٹوٹے پھوٹے جملے بول کر اپنا کام چلاتا ہے۔ اور اس اعتراض کا دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر وہ عجمی غلام اتنا ہی بڑا عالم تھا تو اس نے یہ کلام خود اپنی طرف سے کیوں نہ پیش کردیا۔ یا کم از کم اسے اس زمانہ میں نامور تو ضرور ہونا چاہیے جبکہ ان کی گمنامی کا یہ حال ہے کہ کافر ان تین چار غلاموں میں سے کسی ایک کا نام تک متعین نہ کرسکے کہ وہ کون تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن سکھلا جاتا تھا۔ النحل
104 [١٠٩] یعنی جن لوگوں نے تہیہ ہی یہ کرلیا ہو کہ وہ کسی قیمت پر بھی حق بات کو تسلیم نہ کریں گے۔ تو اللہ تعالیٰ کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ زبردستی انھیں راہ راست پر لائے۔ ان کی موت اسی حالت پر ہوگی اور انھیں اپنی کرتوتوں کی درد ناک سزا ملے گی۔ النحل
105 [١١٠] افترا کا الزام لگانے والے قریش خود مفتری تھے :۔ قریش یہ جانتے تھے کہ اس نبی نے زندگی بھر نہ کبھی جھوٹ بولا اور نہ ہی کوئی جھوٹی بات کسی کے ذمہ لگائی ہے۔ تو کیا اب وہی شخص اللہ کے ذمہ جھوٹی بات لگا سکتا ہے؟ اور انھیں یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ کلام مجھ پر اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے درآنحا لیکہ واقعتاً ایسی بات نہ ہو؟ بلکہ حقیقتاً جھوٹے اور افتراء پرداز تو یہ لوگ خود ہیں جو سب کچھ جانتے بوجھتے نبی کے متعلق ایسی غلط باتیں کرتے ہیں اور اللہ کی طرف سے نازل شدہ کلام کو دوسروں کی طرف منسوب کرنے لگتے ہیں۔ النحل
106 [١١١] اضطراری حالت میں کلمہ کفر کہنے کی رخصت :۔ اگر کوئی مسلمان مصیبتوں اور سختیوں سے گھبرا کر یا جان کے خطرہ کے وقت منہ سے کوئی کلمہ کفر کہہ دے بشرطیکہ اس کا دل ایمان پر بدستور قائم ہو تو اس بات کی رخصت ہے ورنہ اصل حکم یا عزیمت یہی ہے کہ اس وقت بھی اس کے پائے استقلال میں لغزش نہ آنے پائے اور وہ اس رخصت سے فائدہ نہ اٹھائے۔ چنانچہ دور مکی میں مسلمانوں پر قریش مکہ کی طرف سے جو مظالم و شدائد ڈھائے جاتے رہے ان میں اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عزیمت پر ہی عمل پیرا رہے۔ وہ مصائب جھیلتے رہے مگر ان کے پائے استقلال میں ذرہ بھر لغزش نہ آئی۔ حتیٰ کہ بعض صحابہ نے اپنی جانیں تک قربان کردیں۔ لے دے کے ایک مثال سیدنا عمار بن یاسررضی اللہ عنہ کی ہمیں ملتی ہے۔ عمار رضی اللہ عنہ خود ان کے باپ یاسر اور ان کی ماں سمیہ سب ابو جہل سردار قریش مکہ کے غلام تھے۔ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کے سامنے ان کے والد کو شہید کیا گیا اور ابو جہل لعین نے ان کی والدہ کی شرمگاہ میں نیزہ مار کر انھیں شہید کردیا۔ ان حالات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجبور ہو کر وہ سب کچھ کہہ دیا جو کافر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہلوانا چاہتے تھے پھر اسی وقت آپ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کی ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے ایسے اور ایسے حالات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہا اور ان کے معبودوں کا ذکر خیر کیا‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اپنے دل کی کیفیت بتاؤ‘‘ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کہنے لگے ’’میرا دل تو پوری طرح ایمان پر مطمئن ہے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اچھا اگر پھر تم سے وہ ایسا ہی سلوک کریں تو تم پھر اس رخصت سے فائدہ اٹھا لینا‘‘ اسی سلسلہ میں یہ آیات نازل ہوئیں۔ (بخاری۔ کتاب الاکراہ۔ باب قول اللہ الامن اکرہ وقلبہ مطمئن بالایمان) [١١٢] یعنی جو لوگ اسلام لانے کے بعد پیش آمدہ مصائب سے گھبرا کر اپنی سابقہ کفر کی آرام طلب زندگی کو ترجیح دینے لگیں اور کسی قسم کا دنیوی نقصان بھی برداشت کرنے پر آمادہ نہ ہوں اور انھیں وجوہ کی بنا پر برضاء و رغبت پھر کفر کی راہ اختیار کرلیں۔ تو ایسے لوگ فی الواقع عذاب عظیم کے مستحق ہیں۔ النحل
107 [١١٣] مہر کن لوگوں کے دلوں پہ لگتی ہے؟ یہ اس لیے کہ ایسے لوگوں نے اسلام کو حق سمجھ کر قبول تو کر لیا' مگر اس کی حقانیت اور مصائب کے عوض اخروی اجر کی قدر و قیمت ان کی نگاہوں میں اتنی بھی نہ تھی کہ اپنے دنیوی مفادات کا وقتی طور پر کچھ نقصان برداشت کرلیتے۔ یہ دنیا طلبی اور اہوا پرستی کے نشہ میں ایسے مست ہوچکے ہیں کہ ان کے ہوش میں آنے کی کوئی امید نہیں۔ اور عقل و فکر کی جو قوتیں عطا کی گئی تھیں ان سب کو انہوں نے بیکار بنا دیا۔ ایسے ہی لوگوں کے دلوں، کانوں اور آنکھوں پر اللہ تعالیٰ مہر لگا دیتے ہیں۔ النحل
108 النحل
109 النحل
110 [١١٤] ہجرت حبشہ :۔ اس آیت میں ان مظلوم مسلمانوں کا ذکر ہے جن پر قریش مکہ نے عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا۔ اور جو با لآخر حبشہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ یہ ہجرت ٤ یا ٥ نبوی میں ہوئی تھی۔ اور تقریباً اسی (٨٠) صحابہ اپنا گھر بار، رشتہ دار، اموال و جائداد اور اپنا وطن مالوف چھوڑ کر مکہ سے حبشہ کی طرف چلے گئے تھے۔ پھر انھیں لوگوں نے دوبارہ حبشہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ غزوات میں بھی شریک ہوتے رہے اور ہر طرح کے مصائب خوشدلی سے برداشت کرتے رہے۔ ایسے لوگوں کی چھوٹی موٹی لغزشیں اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا۔ النحل
111 [١١٥] قیامت کے دن صرف اپنی اپنی جان کی فکر ہوگی :۔ ان مہاجرین و مجاہدین کی لغزشیں اس دن معاف کردی جائیں گی جس دن ہر شخص کو صرف اپنی ہی فکر پڑی ہوگی۔ ماں، باپ، بھائی، بہن، بیوی، اولاد کوئی کسی کے کام نہ آسکے گا حتیٰ کہ اس سے بولنا بھی پسند نہ کرے گا بلکہ ان سے بچتا پھرے گا۔ ہر ایک کو یہ فکر ہوگی کہ وہ عذاب الٰہی سے کیسے نجات حاصل کرسکتا ہے اس غرض کے لیے وہ کچھ جھوٹے سچے عذر بھی تراشے گا اور سوال و جواب کرکے چاہے گا کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکے۔ النحل
112 [١١٦] مکہ میں بھوک کا عذاب :۔ اس آیت میں اگرچہ اس بستی کا نام نہیں لیا گیا تاہم انداز بیان سے صاف پتہ چل رہا ہے کہ روئے سخن مکہ ہی کی طرف ہے۔ مکہ کے لوگ اس وقت بھی امن و چین کی زندگی گزار رہے تھے جبکہ عرب بھر میں ہر طرف لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم رہتا تھا۔ بیت اللہ شریف کی تولیت کی وجہ سے لوگ قریش مکہ کا ادب و احترام کرتے تھے۔ ان کے تجارتی قافلے پر کسی کو حملہ آور ہونے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔ بلکہ جس تجارتی قافلے کو یہ قریش مکہ پروانہ راہداری دے دیتے۔ وہ بھی امن و عافیت کے ساتھ سفر کرسکتے تھے۔ پھر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا کی وجہ سے اطراف عالم سے اشیاء خوردنی اور پھل وغیرہ بھی مکہ پہنچ جاتے تھے اگرچہ وہاں نہ کوئی پھلدار درخت پیدا ہوتا تھا اور نہ کوئی غلہ وغیرہ حتیٰ کہ مویشیوں کے لیے گھاس پات تک بھی پیدا نہ ہوتا تھا۔ پھر جب ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں شرکیہ افعال ترک کرنے اور اکیلے اللہ کی پرستش کرنے کی دعوت دی تو وہ بگڑ بیٹھے۔ اور پیغمبر اسلام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں کو دکھ دینا شروع کردیئے اور ان کے جانی دشمن بن گئے۔ تب اللہ تعالیٰ نے ان سے اپنی نعمتیں چھین لیں اور ان پر قحط کا عذاب مسلط کردیا اور یہ قحط سات سال تک ان پر مسلط رہا باہر سے کوئی چیز کھانے کے لیے نہ آتی تھی۔ پھر ان لوگوں کا یہ حال ہوگیا کہ مردہ جانوروں کے چمڑے اور ہڈیاں تک کھانے پر مجبور ہوگئے اور جسمانی کمزوری اور بھوک کی شدت کا یہ حال تھا کہ اگر آسمان کی طرف نگاہ اٹھاتے تو انھیں دھواں ہی دھواں نظر آتا حالانکہ مطلع بالکل صاف ہوتا تھا۔ بھوک کی وجہ سے کچھ لوگ تو مرگئے اور جو باقی تھے انھیں بھی ہر وقت یہی دھڑکا لگا رہتا تھا کہ اگر کچھ عرصہ یہی حالت رہی تو ان کا زندہ رہنا مشکل نظر آتا ہے۔ گویا یہ عذاب صرف بھوک کا نہ تھا بلکہ بھوک کی وجہ سے مرجانے کا خوف بھی ان پر مسلط رہتا تھا۔ النحل
113 النحل
114 [١١٧] اس آیت میں خطاب مسلمانوں سے ہے اور انھیں سمجھایا یہ جارہا ہے کہ کفران نعمت اتنا بڑا جرم ہے کہ جس کے بدلے اللہ اپنی نعمتیں بھی چھین لیتا ہے اور ایسے مجرموں پر عذاب بھی مسلط کردیتا ہے۔ لہٰذا اگر تم ایمان کا دعویٰ رکھتے ہو تو اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہا کرو۔ اسی کی بندگی کرو۔ اس کی نافرمانی سے اجتناب کرو اور رزق حلال کی تلاش کرو۔ حرام اور گندی چیزوں سے پرہیز کرو۔ النحل
115 [١١٨] حرام اشیاء کون کون سی ہی؟ اس آیت کی تفسیر سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ١٧٣ سورۃ مائدہ کی آیت نمبر ٣ اور سورۃ انعام کی آیت نمبر ١٣٥ کے تحت گزر چکی ہے۔ وہ دیکھ لی جائے۔ النحل
116 [١١٩] حلت وحرمت کا اختیار سنبھالنا بھی شرک ہے :۔ ان آیات میں بتایا یہ گیا ہے کہ اشیاء کو حرام یا حلال قرار دینے کا اختیار کلیتاً اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ کسی دوسرے کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اللہ کی حرام کردہ چیز کو حلال یا جائز قرار دے لے یا اس کی حلال کردہ چیزوں کو حرام بنا دے۔ اور جو لوگ یہ کام کرتے ہیں وہ جھوٹ بکتے ہیں۔ پہلے وہ اس قسم کے جھوٹ اختراع کرتے ہیں پھر انھیں اللہ کے ذمہ لگا کر یا اس کی طرف منسوب کرکے اپنے ایسے عقیدوں کو مذہبی تقدس کا جامہ پہنا دیتے ہیں۔ وہ حقیقتاً خدائی اختیارات اپنے ہاتھ میں لے کر شرک کا ارتکاب کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کی اخروی نجات کی کوئی صورت نہیں۔ النحل
117 [١٢٠] حلال وحرام بنانے والے خود اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں :۔ یعنی مشرکوں کا بعض جانوروں کو بتوں کے نام پر آزاد چھوڑنا، اپنی کھیتی اور مویشیوں میں سے کچھ حصہ اللہ کے نام پر اور کچھ بتوں کے نام پر وقف کرنا پھر اللہ کے حصہ میں سے معبودوں کے حصہ کی کمی کو پورا کردینا وغیرہ ایسے سب افعال کا ذکر سورۃ انعام کی آیت نمبر ١٣٥ کے تحت گزر چکا ہے۔ اور ایسے سب افعال کا فائدہ بالواسطہ یا بلاواسطہ آستانوں کے مجاوروں یا مہنتوں کو پہنچتا تھا۔ وہی ایسی شرکیہ باتوں کو گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرتے تھے اور اس طرح دنیوی فائدے حاصل کرتے تھے اور اپنے چند روزہ دنیوی مفاد کی خاطر بہت سی خلقت کو شرک میں مبتلا کر رکھا تھا ایسے لوگوں کو سخت دکھ دینے والی مار پڑے گی کیونکہ انہوں نے اپنے چند روزہ دنیوی فائدہ کی خاطر بے شمار اللہ کے بندوں کو شرک جیسے گناہ عظیم میں مبتلا کیا۔ النحل
118 [١٢١] اصلا چار ہی چیزیں حرام ہیں :۔ یہاں سورۃ انعام کی آیت نمبر ١٤٦ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو سورۃ نحل سے بہت پہلے نازل ہوچکی تھی۔ ترتیب نزولی کے لحاظ سے سورۃ انعام کا نمبر ٥٥ ہے جبکہ اس سورۃ نحل کا نمبر ٧٠ ہے۔ کفار مکہ کا اعتراض یہ تھا کہ بنی اسرائیل کی شریعت میں تو ان چار چیزوں کے علاوہ اور بھی کئی چیزیں حرام ہیں جنہیں تم مسلمانوں نے حلال کر رکھا ہے۔ اگر موسوی شریعت بھی اللہ کی طرف سے ہے تو تم اس کی خلاف ورزی کیوں کر رہے ہو؟ اور اگر موسوی شریعت اور تمہاری شریعت دونوں ہی اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہیں تو ان میں تضاد کیوں ہے؟ اسی اعتراض کا یہاں جواب دیا جارہا ہے جو یہ ہے کہ بنیادی طور پر جو چیزیں اللہ نے حرام کی ہیں اور جن کا سب کتابوں میں ذکر موجود ہے وہ یہی چار چیزیں ہیں اور یہودیوں پر جو زائد اشیاء حرام کی گئیں تو وہ ان کی اپنی نافرمانیوں اور زیادتیوں کی بنا پر حرام کی گئی تھیں۔ النحل
119 [١٢٢] توبہ کے قبول ہونے کی شرائط :۔ توبہ کی قبولیت کی شرائط کا ذکر پہلے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ١٦٠ اور سورۃ انعام کی آیت نمبر ٥٤ کے تحت گزر چکا ہے۔ مختصراً یہ کہ انسان نے جو گناہ کیا ہو وہ بھول کر یا لاعلمی کی بنا پر کیا ہو۔ دوسرے یہ کہ جب اسے گناہ کا احساس ہو تو فوراً اللہ کے حضور توبہ کرے پھر اس گناہ کے آئندہ کبھی نہ کرنے کا عہد کرے پھر اگر اس جرم میں کسی کا حق غصب کیا ہو تو اس سے معاف کرائے یا اسے کسی نہ کسی طریقہ سے ادائیگی کرے تو امید ہے کہ اللہ اس کا گناہ معاف کر دے گا اور اگر گناہ ہی دیدہ دانستہ یا بددیانتی کی بنا پر کرے کہ بعد میں توبہ تائب کرلیں گے یا گناہ سے توبہ کے بعد پھر اسی گناہ کا اعادہ کرتا جائے یا اگر کسی کا حق اس کے ذمہ واجب الادا ہو اور نہ وہ اس سے معاف کرائے اور نہ ہی ادائیگی کی کوشش کرے تو ایسی صورت میں اس کی توبہ قبول ہونے کی کم ہی توقع ہوسکتی ہے۔ النحل
120 [١٢٣] سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی صفات اور مشرکین کے افعال :۔ مشرکین مکہ چونکہ اپنے آپ کو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا پیرو کار بتاتے تھے اسی نسبت سے اللہ تعالیٰ نے یہاں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ذکر اور ان کے اوصاف بیان فرمائے ان کی سب سے نمایاں اور پہلی صفت یہ ہے کہ وہ باطل کے مقابلہ میں اکیلے ہی ڈٹ گئے تھے۔ ایک طرف کفر و شرک کی علمبردار پوری کی پوری قوم تھی دوسری طرف توحید کا علمبردار صرف فرد واحد تھا۔ اور اس نے اتنا کام کر دکھایا جتنا ایک پوری امت یا ادارے کا ہوتا ہے یہ تو ان کے عزم و ثبات کا حال تھا اور عقائد و اعمال کا یہ حال تھا کہ انہوں نے ہر طرح کے سہارے چھوڑ کر ایک اللہ ہی کی طرف رجوع کرلیا تھا اور اللہ کی فرمانبرداری کا یہ حال تھا کہ وہ اسی کے ہی ہوکے رہ گئے تھے اور اس راہ میں انھیں اپنی جان تک کی پروا نہ رہی تھی اور شرک تو انہوں نے نبوت سے پہلے بھی کبھی نہ کیا تھا۔ بعد میں تو کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اب تم خود سوچ لو کہ تم ان کے پیروکار ہونے کے دعوے میں کس قدر حق بجانب ہو۔ النحل
121 [١٢٤] سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اللہ نے نبوت عطا فرمائی اور پاکیزہ رزق بھی تو انہوں نے فرمانبرداری کا حق ادا کرکے ان نعمتوں کا شکر ادا کیا اور تم پر اللہ نے جو ظاہری انعامات کیے وہ تمہیں معلوم ہیں اور باطنی یہ ہے کہ تم میں نبی آخرالزمان کو مبعوث کیا تو تم نے اللہ کی ان نعمتوں کی کیا قدر کی؟ پھر تمہاری سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے کیا نسبت یا مماثلت ہوسکتی ہے؟۔ النحل
122 النحل
123 [١٢٥] چار بنیادی اشیاء ہی سیدنا ابراہیم کی شریعت میں حرام تھیں :۔ یعنی اگر آج کوئی ملت ابراہیمی کا پیرو کار موجود ہے تو وہ صرف یہ نبی آخر الزمان ہے جسے ہم نے ملت ابراہیمی کی اتباع کا حکم دیا ہے۔ اس کے علاوہ نہ مشرکین مکہ سیدنا ابراہیم کے پیرو کار ہیں اور نہ یہود اور نہ نصاریٰ حالانکہ یہ سب اپنا سلسلہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے ملانا چاہتے ہیں اور اسے باعث فخر سمجھتے ہیں۔ کیونکہ یہ لوگ مشرک ہیں اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام مشرک نہ تھے۔ مشرکین مکہ کا شرک تو واضح ہے۔ یہود کا شرک یہ تھا کہ انہوں نے سیدنا عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا بنایا۔ نیز کئی حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام قرار دے لیا جس کی پاداش میں اللہ نے بھی وہ چیزیں ان پر حرام کردی تھیں۔ اور نصاریٰ بھی مشرک ہیں جنہوں نے ایک کے بجائے تین چار خدا بنا رکھے ہیں۔ النحل
124 [١٢٦] ہفتہ کی چھٹی یہود کے اصرار پر مقرر کی گئی :۔ ہفتہ کے دن کی تعظیم کا بھی ملت ابراہیمی میں کوئی حکم نہ تھا بلکہ جمعہ کا دن ہی مقرر کیا گیا تھا اور مسلمان بھی جمعہ ہی کی تعظیم کرتے ہیں۔ اور ہفتہ کا دن یہودیوں پر یوں مسلط کیا گیا کہ موسیٰ علیہ السلام نے انھیں جمعہ کی تعظیم کے لیے کہا تو کہنے لگے کہ اللہ نے زمین و آسمان کو چھ دن میں پیدا کیا۔ وہ جمعہ کے دن فارغ ہوا اور ساتویں (ہفتہ) کے دن آرام کیا تو ہم بھی ہفتہ کے دن چھٹی کیا کریں گے۔ اللہ کے آرام کے متعلق یہود کا یہ تصور انتہائی غلط تھا۔ تاہم ان کی اپنے نبی سے ضد کے نتیجہ میں ان پر ہفتہ کا دن مقرر کیا گیا اور سختی یہ کی گئی کہ وہ ہفتہ کے دن کاروبار سے مکمل طور پر چھٹی کریں۔ اور اللہ کی عبادت میں سارا دن گزاریں۔ پھر جس طرح انہوں نے اس حکم کی خلاف ورزی کی۔ اس کا تفصیلی بیان سورۃ بقرہ آیت نمبر ٦٥ اور سورۃ اعراف آیت نمبر ١٦٦ کے تحت گذر چکا ہے۔ سبت کے بارے یہود نے پہلا اختلاف تو یہ کیا کہ جمعہ کے دن کے بجائے ہفتہ کے دن پر اصرار کیا۔ پھر یہود کا ایک قبیلہ جو بستی ایلہ میں مقیم تھا، سبت کی تعظیم پر قائم نہ رہا اور حیلوں بہانوں سے اس دن مچھلیوں کے شکار کی راہ ہموار کرلی۔ اور جب انھیں دوسرا فریق منع کرتا تو زبانی وہ یہی کہتے تھے کہ ہم نے کب سبت کی حرمت کو توڑا ہے۔ ہم سبت کے دن کب شکار کرتے ہیں۔ شکار تو ہم اتوار کو کرتے ہیں پھر عیسیٰ علیہ السلام آئے تو وہ بھی موسوی شریعت کی پیروی کی تعلیم دیتے رہے۔ اور ہفتہ کے دن کی تعظیم کی تاکید کرتے رہے مگر بعد میں نصاریٰ نے اختلاف کیا اور ہفتہ کی بجائے اتوار کا دن چھٹی کا دن قرار دے دیا۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ہم پیچھے آئے ہیں مگر قیامت کے دن پہلے ہوں گے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اہل کتاب کو کتاب پہلے ملی اور ہمیں بعد میں ملی۔ پس وہ دن جو اللہ نے ان پر فرض کیا تھا اس میں انہوں نے اختلاف کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں وہ دن بتا دیا کہ وہ ہمارے پیچھے رہ گئے یہود تو ایک دن پیچھے رہے اور نصاریٰ اس کے بعد مزید ایک دن“ [١٢٧] ایک قسم کے اختلاف تو وہ ہیں جو اوپر مذکور ہوئے اور دوسرا یہ کہ یہود یہ کہتے تھے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام ہمارے دین پر تھے یعنی یہودی تھے۔ اور نصاریٰ یہ کہتے تھے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام ہمارے دین پر تھے یعنی نصاریٰ تھے۔ پھر مشرکین مکہ ہوں یا یہود، نصاریٰ ہوں یا مسلمان سب اپنا رشتہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے جوڑتے ہیں اور انھیں اپنا پیشوا تسلیم کرتے ہیں۔ ان سب باتوں کا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فیصلہ کر دے گا کہ سچا کون تھا۔ اور جھوٹا کون اور ان میں اختلافات کی حقیقت کیا تھی۔؟ النحل
125 [١٢٨] تبلیغ کے لئے داعی کو تین ہدایات :۔ یہاں سے خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے۔ اور اس آیت میں تبلیغ دین کے متعلق تین ہدایات دی گئی ہیں۔ پہلی ہدایت حکمت ہے ''حکمت'' کا مطلب یہ ہے کہ ایک تو موقع محل دیکھ کر دعوت دی جائے۔ یعنی اس وقت دعوت دی جائے جب مخاطب کے دل میں سننے کی خواہش ہو اور وہ سننے کو تیار ہو اور دوسرے جو بات کہی جائے وہ مخاطب کے عقل و فہم کو ملحوظ رکھ کر کی جائے۔ عمدہ نصیحت سے مراد یہ ہے کہ جو بات آپ کہیں میٹھے اور دلنشیں انداز میں کہیں جو مخاطب کے دل میں اتر جائے۔ عقلی دلیل کے ساتھ ترغیب و ترہیب اور جذبات کو اپیل کرنے والی باتوں کی طرف بھی توجہ دلائیں آپ کے دل میں اس کے لیے تڑپ ہونی چاہیے۔ حتیٰ کہ مخاطب یہ سمجھے کہ آپ فی الواقع اس کے ہمدرد ہیں۔ ایسا نہ ہونا چاہیے کہ آپ مخاطب پر اپنی علمی برتری جتلانے اور اسے مرعوب کرنے کی کوشش کرنے لگیں۔ اور تیسری بات یہ ہے کہ اگر آپس میں دلائل سے بات کرنے کی نوبت آئے تو اس کی بات غور سے سنیں اور اپنی دلیل بھی شائستہ زبان میں پیش کریں اور اس کا مقصد افہام وتفہیم ہو۔ ایک دوسرے کو مات کرنا مقصود نہ ہو۔ اور اگر کج بحثی تک نوبت پہنچ جائے تو پھر بحث کو بند کردیں۔ کیونکہ اس صورت میں عین ممکن ہے مخاطب ضد میں آکر پہلے سے بھی زیادہ گمراہی میں مبتلا ہوجائے۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو تین ہدایات، حکمت، موعظۃ الحسنہ اور جدال بالاحسن فرمائی ہیں۔ تو یہ سب الگ الگ تین قسم کے لوگوں کے لیے ہیں۔ یعنی مخالفین میں تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک تو اہل عقل و خرد ہوتے ہیں جو صرف معقول دلائل سے ہی قائل ہوسکتے ہیں۔ انھیں آپ حکیمانہ انداز میں دلائل سے قائل کرنے کی کوشش کیجئے۔ دوسرے وہ لوگ جو زیادہ ذہین تو نہیں ہوتے مگر عقل سلیم رکھتے ہیں ضدی اور ہٹ دھرم نہیں ہوتے۔ انھیں پند و نصیحت اور انذار اور تبشیرسے سمجھائیے۔ یہی چیزان کے لیے زیادہ موثر ثابت ہوگی۔ تیسرے وہ لوگ جو کج بحث، ضدی اور ہٹ دھرم ہوتے ہیں۔ ان سے آپ کو دلیل بازی سے کام لینا ہوگا۔ الزامی جوابات اور مناظرہ کی صورت بھی پیش آسکتی ہے لیکن ان سے بھی احسن طریقہ سے دلیل بازی کیجئے۔ انھیں صرف حقائق سے آگاہ کرنا آپ کے ذمہ ہے۔ منوا کے چھوڑنا آپ کے ذمہ نہیں۔ اور جب آپ دیکھیں کہ مخاطب کچھ سمجھنے کی بجائے ضد بازی پر اتر آیا ہے تو پھر اس سے اعراض کیجئے۔ اور ایسے لوگوں پر اپنا وقت اور محنت صرف نہ کیجئے۔ اس کے بجائے ان لوگوں کی طرف توجہ فرمائیے جو حق کے متلاشی ہوں۔ النحل
126 [١٢٩] بدلہ لینے میں انصاف ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے :۔ اس آیت کی تفسیر میں درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے : سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ احد کے دن انصار کے چونسٹھ اور مہاجرین کے چھ آدمی شہید ہوگئے ان میں سیدنا حمزہ بھی تھے جن کا کفار نے مثلہ کیا۔ چنانچہ انصار نے کہا۔ اگر ہمیں ان پر کبھی فتح ہوئی تو ہم بھی ان سے یہی سلوک کریں گے پھر جب مکہ فتح ہوا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ﴿وَاِنْ عَاقَبْتُمْ ۔۔۔۔ لِّلصّٰبِرِیْنَ ﴾ کسی شخص نے کہا۔ ’’آج کے بعد قریش نہ رہیں گے‘‘ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’چار شخصوں کے علاوہ باقی سب قریش سے ہاتھ روک لو“(ترمذی۔ کتاب التفسیر) واضح رہے کہ یہ سورت اگرچہ مکی ہے تاہم یہ چند آیات مدینہ میں اس وقت نازل ہوئیں جب احد کے میدان میں مسلمانوں کی لاشوں کا مثلہ کیا گیا۔ اور انصار نے بدلہ لینے کا عہد کیا تھا۔ جیسا کہ حدیث بالا سے ظاہر ہوتا ہے اور ربط مضمون کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دعوت وتبلیغ کی راہ میں اگر تمہیں سختیاں اور تکلیفیں پہنچائی جائیں۔ پھر تمہیں ان پر کسی وقت قدرت حاصل ہو تو تمہیں ان سے بدلہ لینے کی اجازت ہے مگر اس بدلہ میں زیادتی ہرگز نہ ہونی چاہیے۔ اور اگر تم برداشت کرکے درگزر کر دو تو یہ بات بدلہ لینے سے بہت زیادہ بہتر ہے اور تبلیغ دین کے سلسلہ میں درگزر کا نتیجہ تمہارے حق میں بہت بہتر ثابت ہوگا۔ بہرحال اس آیت میں حکم عام ہے جس کا اطلاق ہر ایسے موقع پر ہوسکتا ہے۔ النحل
127 [١٣٠] مخالفین حق کے مظالم و شدائد کو ٹھنڈے دل سے برداشت کیے جانا کوئی سہل کام نہیں۔ اللہ ہی اس کی توفیق عطا فرمائے تو ہوسکتا ہے تاہم آپ ان کی معاندانہ سرگرمیوں سے دل میں گھٹن محسوس نہ کیجئے۔ اللہ یقیناً آپ کو صبر کی توفیق دے گا۔ النحل
128 [١٣١] اس کا ایک مطلب تو وہی ہے جو ترجمہ سے ظاہر ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ جو بھی وہ نیکی کے کام کرتے ہیں۔ اسے بہتر سے بہتر طریقہ سے سرانجام دیتے ہیں۔ النحل
0 الإسراء
1 [١] واقعہ معراج کے جسمانی ہونے کے دلائل :۔ یہ واقعہ ہجرت نبوی سے تقریباً ایک سال پہلے پیش آیا تھا۔ اس واقعہ کے دو حصے ہیں۔ مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک کے سفر کو ''اسراء'' کہا جاتا ہے اور قرآن میں صرف واقعہ اسراء کا ہی ذکر ہے۔ دوسرا حصہ مسجد اقصیٰ سے آسمانوں کی سیاحت اور واپسی ہے اسے ''معراج'' کہا جاتا ہے اور واقعہ معراج بہت سی احادیث میں مذکور ہے حتیٰ کہ واقعہ کے راوی صحابہ کی تعداد پچیس سے زائد ہی ہے کم نہیں۔ جمہور امت کا قول یہ ہے کہ یہ سفر جسمانی تھا۔ محض روحانی (جیسے خواب میں ہوتا ہے) یا کشفی قسم کا نہ تھا۔ تاہم بعض لوگ اسے روحانی بھی سمجھتے ہیں اور منکرین حدیث تو واقعہ معراج کا انکار ہی کردیتے ہیں اور واقعہ اسراء چونکہ قرآن میں مذکور ہے۔ اس لیے اس کی غلط سلط تاویل کرلیتے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ واقعہ ایک جسمانی سفر تھا اور اس کی وجوہ درج ذیل ہیں : ١۔ واقعہ کا آغاز ﴿سُبْحَانَ الَّذِی﴾ جیسے پرزور الفاظ سے کیا جارہا ہے اور یہ لفظ عموماً حیرت و استعجاب کے مقام پر اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کے نمایاں اظہار کے لیے آتا ہے۔ اگر یہ واقعہ محض ایک خواب یا کشف ہی ہوتا تو ابتدا میں یہ الفاظ لانے کی قطعاً ضرورت نہ تھی۔ ٢۔ عبد کا لفظ جسم اور روح دونوں کے مجموعہ پر بولا جاتا ہے۔ اس لفظ کا اطلاق نہ صرف جسم پر ہوتا ہے اور نہ روح پر۔ ٣۔ اگر واقعہ کے بعد کافروں کا تکرار ثابت ہوجائے تو وہ خرق عادت واقعہ یا معجزہ ہوتا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے : ﴿ وَاِنْ یَّرَوْا اٰیَۃً یُّعْرِضُوْا وَیَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ ﴾ (۳:۵۴)”اور یہ (کافر) جب کوئی نشانی یا معجزہ دیکھتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو جادو ہے چلا آتا‘‘ اور یہ بات صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ جب صبح کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واقعہ سنایا تو کفار نے اس کا خوب مضحکہ اڑایا کہ مکہ سے بیت المقدس کا ٤٠ دن کا سفر ہے اور یہ آمدورفت کا ٨٠ دن کا سفر راتوں رات کیسے ممکن ہے۔ اور اس بات کو (نعوذ باللہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیوانگی پر محمول کیا گیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ جو لوگ بیت المقدس کا سفر کرتے رہتے تھے۔ انہوں نے کچھ سوالات پوچھنا شروع کردیئے۔ اس وقت آپ حطیم میں کھڑے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے درمیان سے سب پردے ہٹادیئے تو آپ مسجد اقصیٰ کو سامنے دیکھ کر کافروں کے سوالوں کے جواب دیتے گئے جیسا کہ جابررضی اللہ عنہ بن عبداللہ انصاری کی حدیث سے واضح ہے جو آگے مذکور ہے۔ اور جن لوگوں نے اسے خواب کا واقعہ سمجھا ان کی دلیل اسی سورۃ کی آیت نمبر ٦٠ کے درج ذیل الفاظ ہیں : ﴿وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْیَا الَّتِیْٓ اَرَیْنٰکَ اِلَّا فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ ﴾ (۴۰:۱۷)’’اور یہ (واقعہ) جو ہم نے تمہیں دکھایا تو یہ محض لوگوں کی آزمائش کے لیے تھا“ روحانی سفرسمجھنے والوں کی تردید :۔ اس آیت میں لفظ رء یا چونکہ خواب کے لیے بھی آتا ہے اس لیے ان لوگوں کو روحانی سفر کا اشتباہ ہوا اس مسلک کی کمزوری کی تین وجوہ ہیں۔ ١۔ لغوی لحاظ سے رء یا کا اطلاق ہر ایسے واقعہ پر ہوسکتا ہے جو آنکھ سے دیکھا گیا ہو خواہ یہ دیکھنا بیداری کی حالت میں ہو یا نیند کی حالت میں۔ ٢۔ اگر یہ واقعہ خواب ہی ہوتا تو اس میں لوگوں کے لیے کوئی آزمائش نہیں۔ ایسا خواب ہر شخص دیکھ سکتا ہے۔ ٣۔ یہ مسلک جمہور امت کے مقابلہ میں شاذ ہے۔ منکرین حدیث کی تاویلات اور ان کا رد :۔ اور منکرین حدیث آیت کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ اسراء سے مراد آپ کا واقعہ ہجرت ہے جس کا آغاز رات کو ہوا تھا اور مسجد اقصیٰ سے مراد دور کی مسجد یعنی ''مسجد نبوی'' ہے۔ یہ تاویل کئی لحاظ سے غلط ہے مثلاً ١۔ بخاری کی صحیح روایت کے مطابق ہجرت کے سفر کا آغاز سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر سے ہوا تھا جبکہ اس واقعہ کا آغاز مسجد حرام سے ہوا۔ ٢۔ واقعہ ہجرت بخاری کی اس روایت کے مطابق دوپہر کی کڑکڑاتی دھوپ کے وقت ہوا تھا جبکہ لوگ آرام کر رہے ہوتے ہیں مگر معراج کا آغاز رات کو ہوا۔ ٣۔ واقعہ ہجرت ایک رات یا راتوں رات نہیں ہوا تھا بلکہ اس سفر میں پندرہ دن اور پندرہ راتیں لگ گئے تھے جبکہ معراج کا واقعہ ایک ہی رات میں ہوا تھا۔ ٤۔ مسجد اقصیٰ کے عرفی مفہوم کو چھوڑ کر اس کے لغوی معنیٰ دور کی مسجد مراد لینا خلاف دستور فلہٰذا باطل ہے۔ ٥۔ مسجد نبوی کی تو تعمیر ہی بہت بعد ہوئی پھر یہ آپ کے سفر کی آخری منزل کیسے بن سکتی ہے۔ اور واقعہ ءمعراج سے اس بنا پر انکار کیا جاتا ہے کہ اس میں اللہ کے لیے سمت مقرر ہوتی ہے۔ حالانکہ اللہ ہر جگہ موجود ہے۔ یہ بحث دراصل استواء علی العرش کی بحث ہے اور طویل ہے جس کی یہاں گنجائش نہیں (تفصیل کے لیے دیکھئے میری تصنیف آئینہ پرویزیت) اب ہم اسراء اور معراج کے متعلق چند احادیث درج کرتے ہیں تاکہ اس واقعہ کی تفاصیل سامنے آجائیں۔ ١۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس رات مجھے بیت المقدس لے جایا گیا تو میرے سامنے دو پیالے لائے گئے ایک دودھ کا اور دوسرا شراب کا تھا۔ میں نے دونوں کو دیکھا پھر دودھ کا پیالہ لے لیا۔ اس وقت جبرئیل نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے جس نے آپ کو فطری راستہ (یعنی اسلام) کی رہنمائی کی آپ اگر شراب کا پیالہ لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہوجاتی۔‘‘ ٢۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ معراج کی رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس براق لایا گیا جسے لگام دیا گیا اور اس پر کاٹھی ڈالی گئی تھی۔ اس نے شوخی کی تو جبرئیل علیہ السلام نے کہا ’’محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شوخی کرتے ہو۔ حالانکہ اللہ کے ہاں ان سے زیادہ بزرگ کوئی نہیں جو تم پر سوار ہو‘‘ راوی کہتا ہے کہ پھر براق کا پسینہ ٹپکنے لگا۔ (ترمذی، کتاب التفسیر) ٣۔ سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’معراج کی رات جب ہم بیت المقدس پہنچے تو جبریل علیہ السلام نے اپنی انگلی سے اشارہ کرکے ایک پتھر چیر دیا۔ پھر اس سے براق کو باندھ دیا۔‘‘ (ترمذی۔ ایضاً) ٤۔ سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب قریش کے کافروں نے مجھے جھٹلایا تو میں حجر (حطیم) میں کھڑا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو میرے سامنے کردیا اور اس کی جو جو نشانیاں وہ مجھ سے پوچھتے۔ میں دیکھ کربتاتا جاتا۔ ‘‘(بخاری۔ کتاب التفسیر) ٥۔ سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے گھر کی چھت کھولی گئی اور میں مکہ میں تھا۔ جبریل علیہ السلام اترے۔ انہوں نے میرا سینہ چیرا۔ پھر اس کو زمزم کے پانی سے دھویا۔ پھر سونے کا ایک طشت لائے جو ایمان اور حکمت سے بھرا تھا، اسے میرے سینے میں ڈال دیا گیا۔ پھر سینہ جوڑ دیا۔ پھر جبریل علیہ السلام نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے لے کر آسمان کی طرف چڑھے۔ جب میں پہلے آسمان پر پہنچا تو جبریل علیہ السلام نے آسمان کے داروغہ سے کہا۔ ”دروازہ کھولو“اس نے پوچھا ”کون“ جبریل بولے ”میں ہوں جبریل‘‘ اس نے پوچھا ’’تمہارے ساتھ کوئی اور بھی ہے؟‘‘ جبریل علیہ السلام نے کہا ’’ہاں! محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے ساتھ ہیں“ اس نے پوچھا ”کیا وہ بلائے گئے ہیں؟‘‘ جبریل علیہ السلام نے کہا ”ہاں“ تب داروغہ نے دروازہ کھول دیا۔ تو ہم آسمان دنیا (پہلے آسمان) پر چڑھے۔ وہاں ایک شخص بیٹھا تھا جس کے دائیں طرف بھی ایک مجمع تھا اور بائیں طرف بھی۔ جب وہ دائیں طرف دیکھتا تو ہنس پڑتا اور بائیں طرف دیکھتا تو رو پڑتا۔ اس نے کہا ’’نیک پیغمبر اور نیک بیٹے مرحبا‘‘ میں نے جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا”: یہ کون لوگ ہیں؟“جبریل علیہ السلام نے کہا ”یہ آدم ہیں،ان کے دائیں طرف اہل جنت ہیں اور بائیں طرف اہل دوزخ ہیں۔ جب یہ دائیں طرف دیکھتے ہیں تو ہنس پڑتے ہیں اور بائیں طرف دیکھتے ہیں تو رو پڑتے ہیں۔‘‘ پھر جبریل علیہ السلام مجھے لے کر دوسرے آسمان پر چڑھے اور داروغہ سے کہا ”دروازہ کھولو“اس نے بھی وہی کچھ کہا جو پہلے آسمان والے نے کہا تھا۔ پھر آپ نے آسمانوں میں سیدنا آدم علیہ السلام ، ادریس علیہ السلام ، موسیٰ علیہ السلام ، عیسیٰ علیہ السلام اور ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا مگر ان کے مقام بیان نہیں کیے۔ البتہ یہ بتایا کہ پہلے آسمان پر سیدنا آدم علیہ السلام کو اور چھٹے پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو پایا۔ جب جبریل علیہ السلام کو لے کر ادریس پیغمبر کے پاس سے گزرے تو انہوں نے مجھے دیکھ کر کہا ”نیک پیغمبر اور نیک بھائی مرحبا“ میں نے جبریل سے پوچھا ’’یہ کون ہیں؟‘‘ جبریل نے کہا ’’یہ ادریس علیہ السلام ہیں“پھر میں موسیٰ علیہ السلام پر سے گزرا تو انہوں نے وہی کچھ کہا۔ میں نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا۔ ’’یہ کون ہیں؟“جبریل علیہ السلام نے بتایا۔ ’’یہ موسیٰ علیہ السلام ہیں“ پھر میں عیسیٰ علیہ السلام پر سے گزرا تو انہوں نے بھی وہی کچھ کہا۔ میں نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا تو انہوں نے بتادیا ”یہ عیسیٰ ہیں“پھر میں ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے وہی کچھ کہا۔ میں نے جبریل سے پوچھا تو انہوں نے بتایا ’’یہ ابراہیم ہیں۔‘‘ پھر جبریل علیہ السلام مجھے لے کر اوپر چڑھے۔ حتیٰ کہ میں ایک بلند ہموار مقام پر پہنچا۔ وہاں میں قلموں کے چلنے کی آواز سن رہا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں۔ میں یہ حکم لے کر لوٹا۔ جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا ’’اپنے پروردگار کے پاس واپس جاؤ۔ کیونکہ آپ علیہ السلام کی امت اتنی طاقت نہیں رکھتی۔‘‘ میں لوٹا تو اللہ نے اس کا کچھ حصہ معاف کردیا، پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انہوں نے کہا۔ ’’پھر اپنے رب کے پاس جاؤ۔ تمہاری امت اتنی طاقت نہیں رکھتی‘‘ میں پھر لوٹا (اور ایسا کئی بار ہوا) یہ پانچ نمازیں درحقیقت پچاس ہی ہیں۔ (دس گناہ اجر کے حساب سے) اور میرے ہاں بات بدلی نہیں جاتی۔ پھر میں موسیٰ کے پاس آیا تو انہوں نے پھر وہی بات کہی۔ تو میں نے کہا ’’اب مجھے اپنے مالک کے ہاں جاتے ہوئے شرم آتی ہے‘‘ پھر جبریل علیہ السلام مجھے لے کر چلے تو ہم سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے۔ اسے کئی طرح کے رنگوں نے ڈھانپا ہوا تھا۔ میں نہیں جانتا وہ کیا تھے۔ پھر مجھے جنت میں لے گئے۔ وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ گنبد تو موتیوں کے ہیں اور اس کی مٹی کستوری کی ہے۔ (بخاری۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب کیف فرضت الصلوۃ) (نیز کتاب بدأ الخلق۔ باب ادریس علیہ السلام) ٦۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے (شب معراج میں) نماز فرض کی تو (ہر نماز کی) دو رکعتیں فرض کیں خواہ سفر ہو یا حضر۔ پھر سفر کی نماز تو وہی دو رکعت رہی اور حضر کی نماز بڑھا دی گئی۔ (حوالہ ایضاً) ٧۔ مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ایک دفعہ میں کعبہ کے پاس نیند اور بیداری کی درمیانی کیفیت میں بیٹھا تھا اور تین مردوں میں سے درمیان والے نے میرا سینہ چیر کر اس میں ایمان و حکمت بھر دیا۔ پھر میرے پاس براق لایا گیا جو خچر سے ذرا چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا۔ پھر جبریل علیہ السلام کے ساتھ پہلے آسمان پر پہنچا (مکالمہ وہی ہے جو اوپر والی روایت میں ہے) تو وہاں سیدنا آدم سے ملاقات ہوئی۔ دوسرے پر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور یحییٰ علیہ السلام سے، تیسرے پر یوسف علیہ السلام سے چوتھے پر ادریس علیہ السلام سے پانچویں پر ہارون علیہ السلام سے چھٹے پر موسیٰ علیہ السلام اور ساتویں پر ابراہیم علیہ السلام سے۔ پھر مجھے بیت المعمور (فرشتوں کا کعبہ) دکھلایا گیا۔ میں نے جبریل علیہ السلام سے اس کا حال پوچھا تو اس نے بتایا کہ یہاں ہر روز ستر ہزار فرشتے نماز پڑھتے ہیں اور جب وہ چلے جاتے ہیں تو ان کی پھر باری نہیں آتی پھر مجھے سدرۃ المنتہیٰ دکھایا گیا جس کے بیر ہجر کے مٹکوں کے برابر ہیں اور پتے ایسے جیسے ہاتھی کے کان۔ اس کی جڑ سے چار نہریں نکلتی ہیں۔ دو پوشیدہ اور دو ظاہر۔ پوشیدہ تو جنت میں (سلسبیل اور کوثر) جاتی ہیں اور ظاہری نیل اور فرات ہیں۔ پھر مجھ پر پچاس نمازیں فرض ہوئیں۔ میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے کہا (میں لوگوں کا حال تم سے زیادہ جانتا ہوں اور بنی اسرائیل پر بہت بڑی کوشش کرچکا ہوں لہٰذا تم واپس جاؤ۔ چنانچہ دس نمازوں کی تخفیف ہوئی (حسب روایت سابق) پھر تیس ہوئیں، پھر بیس، پھر دس اور پھر پانچ۔ پھر جب موسیٰ علیہ السلام نے پھر جانے کو کہا تو میں نے کہا ’’میں انھیں اچھی طرح تسلیم کرچکا ہوں‘‘ پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا آئی’’میں نے اپنا فرض پورا کردیا۔ میں نے اپنے بندوں سے تخفیف کی۔ جبکہ ہر نیکی (نماز) کا دس گناہ بدلہ دوں گا‘‘ (بخاری۔ کتاب بدأ الخلق۔ باب ذکر الملائکہ) (بخاری۔ کتاب المناقب، باب المعراج) اس واقعہ کی بیشتر تفصیل تو ان احادیث میں آگئی ہے تاہم کچھ تفصیل بعض دوسری احادیث میں بھی مذکور ہے اور ان تفاصیل کے قابل ذکر عنوانات درج ذیل ہیں : ١۔ بیت المقدس میں تمام سابقہ انبیاء کا جمع ہونا اور جبریل علیہ السلام کا آپ کو امامت کے لیے آگے بڑھانا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا امامت کرانا جس سے آپ کی تمام انبیاء پر فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ ٢۔ مختلف آسمانوں پر بعض اولوالعزم رسولوں سے آپ کی ملاقات۔ جس سے ان رسولوں کے مدارج کا پتہ چلتا ہے۔ ٣۔ پانچ نمازوں کی فرضیت یا معراج کا تحفہ جس کے بعد پانچ اوقات میں نماز ادا کی جانے لگی۔ ٤۔ سات آسمانوں سے اوپر سدرۃ المنتہیٰ کی سیاحت اور اللہ تعالیٰ کے عجائب کا مشاہدہ، جنت اور دوزخ کا مشاہدہ اور بعض جرائم کی تمثیلی سزاؤں کا مشاہدہ وغیرہ۔ اس سفر کا آغاز کہاں سے ہوا تھا ؟ اس واقعہ سے متعلق ایک بحث یہ رہ جاتی ہے کہ سفر اسراء کا آغاز کہاں سے ہوا تھا ؟ سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کی حدیث کے مطابق یہ آغاز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے ہوا۔ مالک رضی اللہ عنہ بن صعصعہ کی روایت کے مطابق کعبہ سے ہوا۔ اور ایک تیسری روایت کے مطابق ام ہانی رضی اللہ عنہ کے گھر سے ہوا۔ اس سلسلہ میں قول فیصل یہی ہے کہ یہ آغاز مسجد الحرام سے ہوا اور قرآن اسی کی تائید کرتا ہے۔ رہیں دوسری روایات تو ان کی تطبیق کی دو صورتیں بیان کی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ مکہ پورے کا پورا مسجد الحرام ہے اور اس پر دلائل بھی مل جاتے ہیں۔ دوسری صورت تطبیق یہ ہے کہ آپ جس گھر میں بھی تھے۔ وہاں سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد حرام میں لایا گیا۔ پھر مسجد اقصیٰ کا سفر شروع ہوا۔ [ ٢] یعنی ظاہری لحاظ سے بھی یہ علاقہ زرخیز، سرسبز و شاداب ہے اور روحانی لحاظ سے وہ بہت سے انبیاء کا مرکز تبلیغ، مسکن اور مدفن ہے۔ اس لیے وہاں ہر وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکات کا نزول ہوتا رہتا ہے اور اس سے مراد شام و فلسطین کا علاقہ ہے۔ [ ٣] ان الفاظ سے بھی واقعہ معراج کی تائید ہوتی ہے اور اس سے غرض یہ تھی کہ آپ کو مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰاتِ وَالاَرْضِ کا مشاہدہ کرا دیا جائے۔ حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت اور دوزخ کے مناظر بھی دکھائے گئے۔ اور تمام اولوالعزم پیغمبروں کو ایسا مشاہدہ کرا دیا جاتا ہے تاکہ وہ لوگوں کو پورے وثوق سے ان غیب کی چیزوں کی طرف دعوت دے سکیں جنہیں وہ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرچکے ہوتے ہیں۔ الإسراء
2 [٤] جن دنوں اسراء کا واقعہ پیش آیا اس وقت بیت المقدس بنی اسرائیل کی تولیت میں تھا۔ اسلام کا عرب کی بستی بستی تک چرچا ہوچکا تھا۔ مدینہ کے اوس و خزرج کے بعض افراد اسلام لا چکے تھے۔ یہود اسلام کی دعوت پر پوری طرح آگاہ تھے۔ بیت المقدس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے جانے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت سے صاف اشارہ ملتا تھا کہ عنقریب بیت المقدس پر امت مسلمہ کا قبضہ ہوجانے والا ہے اور اس سورۃ بنی اسرائیل کا آغاز جو واقعہ اسراء سے ہوا ہے تو محض تمہید کے طور ہوا ہے ورنہ اصل روئے سخن یہود ہی کی طرف ہے اور انھیں ان کی سابقہ تاریخ سے خبردار کرنے کے بعد متنبہ کیا جارہا ہے کہ ان کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ پیغمبر اسلام پر ایمان لے آئیں اور سرکشی کی روش چھوڑ دیں۔ الإسراء
3 [٥] کیا نوح آدم ثانی ہیں؟ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ انسانی نسل صرف سیدنا نوح علیہ السلام کے تین بیٹوں حام، سام اور یافث ہی کی اولاد نہیں ہیں جیسا کہ مؤرخین کا بیان ہے بلکہ ان تمام لوگوں کی اولاد ہے جو سیدنا نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی میں سوار تھے۔ الإسراء
4 الإسراء
5 [٦] یہود کی پہلی بار فتنہ انگیزی اور اس کی سزا :۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مصر سے آنے والے بنی اسرائیل جب فلسطین میں داخل ہوگئے تو انھیں حکم یہ تھا کہ فلسطین کا سارا علاقہ فتح کریں اور وہاں کے رہنے والے لوگوں کی اخلاقی اور اعتقادی خرابیوں میں مبتلا ہونے سے اجتناب کریں۔ مگر ایک تو انہوں نے سارے علاقہ کو فتح نہ کیا اور جو کرچکے تھے اس پر ہی قناعت کرلی۔ دوسرے وہ قبائلی عصبیت میں مبتلا ہوگئے اور مفتوحہ علاقہ کو بارہ حصوں میں تقسیم کرکے ہر قبیلہ نے الگ الگ حکومت قائم کرلی۔ ان باتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی حکومت کو کبھی استحکام نصیب نہ ہوسکا۔ نیز سابقہ اقوام کی اخلاقی اور اعتقادی بیماریاں یعنی شرک، بے حیائی اور بدکاری وغیرہ ان میں بھی پھیلنے لگیں۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کی ہدایات کو یکسر بھول گئے۔ سیدنا داؤد علیہ السلام اور سیدنا سلیمان علیہ السلام نے بہت حد تک اصلاح احوال کی اور ایک دفعہ پھر سے حکومت بنی اسرائیل کو مستحکم بنا دیا۔ مگر جلد ہی بنی اسرائیل پھر سے انھیں بیماریوں اور خرابیوں میں مبتلا ہوگئے۔ بت پرستی اور بے حیائی عام ہوگئی اور حکومت بھی متزلزل ہوگئی۔ یہ صورت حال دیکھ کر بابل کے بادشاہ بخت نصر نے دولت یہودیہ کو مسخر کیا اور بادشاہ کو قید کرلیا۔ اس دوران سیدنا یرمیاہ ان کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ ان کے سمجھانے کے باوجود وہ اپنے اعمال درست کرنے کے بجائے بابل کے خلاف سازش اور بغاوت کرکے اپنی قسمت بدلنے کی کوشش کرنے لگے۔ آخر ٥٨٧ ق م میں بخت نصر نے ایک زور دار حملہ کرکے سلطنت یہودیہ کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ کشت و خون کا بازار گرم کیا۔ یروشلم اور ہیکل سلیمانی کو پیوند خاک کردیا۔ بہت سے قیدیوں کو اپنے ساتھ لے گیا اور جو لوگ بچ رہے وہ ہمسایہ قوموں کے ہاتھ بری طرح ذلیل ہو کر رہے۔ یہ تھا وہ پہلا فساد جس سے بنی اسرائیل کو متنبہ کیا گیا تھا۔ جو قیدی وہ اپنے ساتھ لے گیا تھا انھیں میں سے ایک عزیر علیہ السلام بھی تھے۔ ان قیدیوں کو سات سال بعد بخت نصر نے چھوڑ دیا۔ آپ جب واپس اپنے وطن آرہے تھے تو ایک اجڑی ہوئی اور برباد شدہ بستی دیکھی تو کہنے لگے ’’پروردگار! تو اس بستی کو کیسے دوبارہ زندہ یا آباد کرے گا ؟‘‘ یہ بستی بھی دراصل بخت نصر کے حملے میں ہی تباہ ہوئی تھی۔ تو اللہ تعالیٰ نے اسی مقام پر سیدنا عزیر علیہ السلام کو موت دے دی۔ اور یہ واقعہ سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٢٥٩ کے تحت پہلے تفصیل سے گزر چکا ہے۔ رہی یہ بات کہ وہ کون سی کتاب تھی جس میں بنی اسرائیل کے دو بار سرکشی کرنے اور سزا پانے کی انھیں اطلاع دی گئی تھی۔ بعض مفسرین نے اس سے مراد تورات ہی لی ہے مگر اس وقت تورات کے نام سے جو کتاب اہل کتاب کے پاس ہے اور جسے وہ عہد نامہ عتیق کہتے ہیں۔ ایسی صراحت کے ساتھ یہ مضمون مذکور نہیں جیسی صراحت سے قرآن میں مذکور ہے البتہ اس کے بعض فقروں سے ایسے اشارے ضرور مل جاتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصلی تورات میں یہ مضمون ضرور موجود ہوگا اور بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہاں کتاب سے مراد لوح محفوظ ہے جو جملہ کائنات کی قضا و قدر کی کتاب ہے اور یہ دونوں توجیہات ہی قرین قیاس ہیں۔ الإسراء
6 [٧] یعنی جب تم نے اچھے کام کیے تھے تو ہم نے تمہیں غلبہ بھی دیا اور مال و اولاد میں بھی برکت عطا کی اور تم بگڑے اور سرکشی کی راہ اختیار کی تو ہم نے تمہیں اس کی سزا دے دی اور یہی ہمارا دستور ہے۔ الإسراء
7 [٨] سیدنا عزیر علیہ السلام کی خدمات :۔ اس تباہی کے بعد سیدنا عزیر علیہ السلام نے دین موسوی کی تجدید کا بہت بڑا کام سرانجام دیا اور آپ نے قوانین شریعت کو نافذ کرکے ان اعتقادی اور اخلاقی برائیوں کو دور کرنا شروع کیا جو بنی اسرائیل کے اندر غیر قوموں کے اثر سے گھس آئی تھیں۔ اور بنی اسرائیل سے از سر نو اللہ کی بندگی اور اس کے احکام کی پابندی کا پختہ عہد لیا۔ تورات کو ازسر نو اپنی ذہنی یادداشت کے مطابق مرتب کرکے شائع کیا اور یہودیوں کی دینی تعلیم کا بھی انتظام کردیا۔ اس طرح ڈیڑھ سو سال بعد بیت المقدس پھر سے آباد اور یہودی مذہب و تہذیب کا پھر سے مرکز بن گیا۔ یہود کی دوسری بار فتنہ انگیزی اور اس کی سزا :۔ لیکن بعد میں پھر وہی پہلی قسم کی خرابیاں بنی اسرائیل میں از سر نو پیدا ہوگئیں۔ شرک، بے حیائی، بدکاری عام ہوگئی اور جب سلطنت پھر سے کئی ٹکڑوں میں بٹ گئی تو ان کے علاقہ پر رومیوں کا قبضہ ہوگیا مگر یہود نے اصلاح احوال کے بجائے پھر بغاوت کا راستہ اختیار کیا تو ٧٠ ء میں رومی بادشاہ ٹیٹس (قیطوس) نے یروشلم کو بزور شمشیر فتح کرکے پورے علاقہ کو تہس نہس کردیا۔ قتل عام میں ایک لاکھ ٣٣ ہزار آدمی مارے گئے اور ٦٧ ہزار کے قریب غلام بنا لیے گئے۔ خوبصورت لڑکیاں فاتحین کے لیے چن لی گئیں۔۔ یروشلم اور ہیکل سلیمانی کو پیوند خاک کردیا گیا، اور فلسطین سے یہودی اثر و اقتدار کا ایسا خاتمہ ہوا کہ انھیں پھر کبھی سر اٹھانے کی جرأت نہ ہوئی۔ اور یہ دوسری بڑی سزا تھی جو یہود کو ان کی فتنہ انگیزیوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملی تھی۔ الإسراء
8 [٩] دور نبوی میں یہود کی فتنہ انگیزی اور اس کی سزا :۔ دو بار کی انتہائی سرکشی اور اس کی سزا کا ذکر کرنے کے بعد دور نبوی کے یہود کو تنبیہ کی جارہی ہے کہ اگر تم نے اس نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم سے وہی سرکشی اور بغاوت جاری رکھی جو تم سابقہ انبیاء کے وقت کرتے رہے تو پھر تمہیں ایسی ہی سزا ملے گی جیسے پہلے مل چکی ہے لیکن اس تنبیہ کا بھی ان پر کچھ اثر نہ ہوا اور یہود مدینہ نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی بجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بدعہدیاں، شرارتیں اور فتنہ انگیزیاں ہی کرتے رہے جس کے نتیجہ میں انھیں یہ سزا ملی کہ کچھ قتل کیے گئے، کچھ غلام بنائے گئے اور کچھ جلا وطن کیے گئے۔ حتیٰ کہ دور فاروقی میں سب یہود وہاں سے نکال کو خطہ عرب کو ان سے خالی کرا لیا گیا۔ الإسراء
9 [٩۔ الف] اس سے پہلے تورات کا ذکر ہو رہا تھا جس پر عمل پیرا نہ ہونے کی وجہ سے بنی اسرائیل پر متعدد بار دینی اور دنیوی مصائب نازل ہوئے۔ درآں حا لیکہ انھیں پہلے سے ہی متنبہ کردیا گیا تھا کہ اگر تم اس پر عمل نہ کرو گے تو تمہارا ایسا انجام ہوگا اس کے بعد قرآن مجید کے متعلق دو باتیں ارشاد فرمائیں۔ ایک یہ کہ تمام دینی اور دنیاوی معاملات میں جو کچھ بھی اچھے سے اچھے دستور اور منزل مقصود کا جو راستہ سب سے سیدھا ہے اسی کی طرف یہ قرآن رہنمائی کرتا ہے۔ قرآن نے انسان کی ہدایت پھر اس کی سعادت اور شقاوت سے متعلق کوئی بات نہیں چھوڑی۔ دوسرے یہ کہ اچھے اور برے کاموں کے انجام سے بھی پوری تفصیل سے آگاہ کرتا ہے جس کا ظہور عالم آخرت میں ہوگا جبکہ تورات میں آخرت سے متعلق بہت کم تفصیلات دی گئی تھیں۔ قرآن میں کیا کچھ خوبیاں اور کمالات ہیں جو درج ذیل حدیث میں ملاحظہ فرمائیے۔ قرآن بہترین کلام کیسے ہیں؟ حارث اعور کہتے ہیں کہ میں مسجد میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ملا اور کہا دیکھئے یہ لوگ کیسی باتوں میں لگے ہوئے ہیں۔ سیدنا علی رضی اللہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سن لو! عنقریب ایک فتنہ بپا ہوگا‘‘ میں نے پوچھا۔ ”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس فتنہ سے بچاؤ کی کیا صورت ہے؟“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اس سے بچاؤ کی صورت اللہ کی کتاب ہے جس میں تم سے پہلے لوگوں کے بھی حالات ہیں اور بعد والوں کے بھی اور تمہارے باہمی معاملات کے متعلق حکم بھی ہے۔ وہ دو ٹوک بات کہتا ہے ہنسی مذاق کی بات نہیں کہتا۔ جس نے اسے حقیر سمجھ کر چھوڑ دیا اللہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے گا۔ اور جس نے قرآن کے علاوہ دوسری چیزوں سے راہ ڈھونڈھی اللہ اسے گمراہ کر دے گا۔ وہ اللہ کی مضبوط رسی ہے اور حکمتوں سے لبریز نصیحت ہے وہی صراط مستقیم ہے جس سے خواہشات کجرو نہیں ہوتیں اور لوگوں کی زبانیں اسے مشکوک نہیں بناتیں۔ اس سے عالم لوگ سیر نہیں ہوتے، اسے باربار پڑھنے سے جی نہیں اکتاتا نہ وہ پرانا معلوم ہوتا ہے۔ اس کے عجائبات ختم ہونے میں نہیں آتے۔ قرآن ایسی کتاب ہے کہ جب اسے جنوں نے سنا تو فوراً بول اٹھے کہ ہم نے عجیب قرآں سنا ہے سو ہم اس پر ایمان لاتے ہیں جس نے قرآن کے مطابق کلام کیا اس نے سچ کہا اور جس نے اس کے مطابق عمل کیا اسے اجر دیا جائے گا اور جس نے اس کے مطابق فیصلہ کیا اس نے عدل کیا اور جس نے لوگوں کو قرآن کی طرف بلایا اسے سیدھی راہ دکھلا دی گئی۔ اعور! یہ باتیں خوب یاد رکھ لو۔ (ترمذی۔ ابو اب فضائل القرآن۔ باب فی فضل القرآن) الإسراء
10 الإسراء
11 [٠ ١] انسان کی جلد باز طبیعت اور اس کا نقصان :۔ اس آیت میں انسان کی اس فطرت کو بیان کیا گیا ہے کہ جب اسے کوئی سانحہ پیش آتا ہے تو فوراً بد دعا دینا شروع کردیتا ہے خواہ وہ بددعا اس کے دشمنوں کے حق میں ہو یا اس کے اپنے حق میں ہو یا اپنی اولاد وغیرہ کے حق میں ہو۔ پھر وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کی یہ بددعا جلد قبول ہوجائے۔ حالانکہ بعد میں خود اسے احساس ہوجاتا ہے کہ اگر اس کی بددعا قبول ہوجاتی تو اس کا اسے کتنا زیادہ نقصان پہنچ سکتا تھا جیسا کہ ابو جہل نے اپنے حق میں بددعا کی تھی کہ اے اللہ! اگر یہ نبی اور یہ قرآن برحق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا۔ اسی طرح مسلمان بھی کفار مکہ سے سختیاں برداشت کرنے پر بعض دفعہ بددعا کیا کرتے تھے۔ حالانکہ انھیں لوگوں میں سے اکثر بعد میں ایمان لے آئے تھے۔ اسی طرح بعض دفعہ انسان تنگ آکر اپنی اولاد کے حق میں بددعا کر بیٹھتا ہے حالانکہ اگر اس کی دعا قبول ہوجاتی تو اسے اس وقت سے بہت زیادہ صدمہ پہنچتا جس وقت اس نے یہ بددعا مانگی تھی۔ گویا انسان کی جلد باز طبیعت اکثر اوقات نقصان دہ ہی ثابت ہوتی ہے۔ اس کے برعکس اللہ کے کاموں میں تدریج اور امہال کا قانون جاری و ساری ہے جس میں طرح طرح کی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ الإسراء
12 [١ ١] ہر رات کا ذکر سے پہلے۔ دن کا شمار شام سے اگلی شام تک تدریج وامھال کا قانون فطری ہے۔ دن اور رات کے فائدے :۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں کہیں دن اور رات کا ذکر فرمایا تو پہلے رات کا ہی ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ فطری تقویم یہی ہے کہ دن (٢٤ گھنٹے) کا شمار ایک شام یا غروب آفتاب سے لے کر دوسرے دن کے غروب آفتاب تک ہو۔ دن خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے، راتیں لمبی ہو رہی ہوں یا چھوٹی یہ مدت ہمیشہ اور ہر موسم میں برابر( ٢٤ گھنٹے) ہی رہے گی اور دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ دن، رات کے آنے جانے میں نہ رات کی تاریکی یکدم آتی ہے اور نہ ہی دن اپنی پوری روشنی اور پوری تمازت کے ساتھ یکدم نمودار ہوتا ہے بلکہ اللہ کے ہر کام میں امہال اور تدریج کا قانون کام کرتا ہے۔ رات کی تاریکی آتی ہے تو بتدریج چاند کی روشنی آتی اور بڑھتی ہے تو بتدریج اسی طرح سورج کی روشنی اور تمازت بھی بتدریج بڑھتی ہے۔ پھر موسموں میں جو تبدیلی آتی ہے وہ بھی بتدریج آتی ہے۔ اسی طرح جب کسی قوم پر عذاب آتا ہے تو وہاں بھی یہی تدریج اور امہال کا قانون کارفرما ہوتا ہے۔ انسان کے جلدی مچانے سے کچھ نہیں بنتا۔ پھر اس طرح رات اور دن کی آمدورفت میں انسانوں کے لیے کئی فائدے بھی ہیں۔ دن کو وہ کسب معاش کرسکتے ہیں اور رات کو آرام۔ علاوہ ازیں وہ اسی نظام لیل و نہار سے مدت کی تعیین اور اس کا شمار بھی کرسکتے ہیں۔ [٢ ١] اضداد کے وجود سے دنیا کی رنگینی قائم ہے اور یہی اللہ کی حکمت ہے :۔ یہاں ہر چیز سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کو ان کی ضد سے پہچانا جاتا ہے۔ یعنی رات کے مقابلہ میں دن، تاریکی کے مقابلہ میں روشنی، حرارت کے مقابلہ میں ٹھنڈک وغیرہ وغیرہ۔ اس اختلاف سے ہی یہ کارخانہ عالم قائم ہے یعنی اگر ہمیشہ دن ہی رہتا یا ہمیشہ رات ہی رہتی تو اس زمین پر نہ انسان کا وجود قائم رہتا اور نہ ہی کسی دوسرے جانور کا۔ نہ ہی کوئی نباتات اگ سکتی۔ اسی طرح اگر یہاں سارے انسان نیک ہی ہوتے یا بدکاریوں کو کلیتاً تباہ کردیا جاتا تو بھی انسان کی پیدائش کا کچھ مقصد باقی نہ رہتا لہٰذا روحانی طور پر اس دنیا کی آبادی میں یہ حکمت مضمر ہے کہ یہاں حق بھی موجود رہے اور باطل بھی اور ان میں معرکہ آرائی ہوتی رہے۔ ان کی آمدورفت ہوتی رہے اور انسان کی آزمائش کا سلسلہ جاری رہے۔ الإسراء
13 [٣ ١] انسان کا اعمال نامہ اس کے وجود کے اندر ہے :۔ طائر کا لغوی معنی پرندہ ہے اور دوسرا معنی شومئی قسمت ہے۔ مگر اس سے مراد انسان کا اعمال نامہ لیا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسان کی بدبختی یا نیک بختی کا ریکارڈ باہر کی دنیا میں نہیں بلکہ وہ خود انسان کے اندر موجود ہے۔ اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر یوں بیان فرمایا : ﴿بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ ﴾(۱۵،۱۴:۷۵) بلکہ انسان اپنے آپ پر خود ہی دلیل ہے۔ اگرچہ (اپنی بے قصوری کے لیے بہانے پیش کرے) اور اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ ہر انسان کے ساتھ دائیں اور بائیں دو فرشتے ہر وقت موجود رہتے ہیں جو اس کا ایک ایک چھوٹا بڑا عمل ساتھ ساتھ لکھتے جاتے ہیں اور اس کا یہ اعمال نامہ تیار ہوتا رہتا ہے اور یہی توجیہ کتاب و سنت سے ثابت ہے۔ اور موجودہ تحقیق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان جو کام بھی کرتا ہے یا زبان سے الفاظ نکالتا ہے تو اس کے اثرات اس کے بدن پر مترتب ہوتے ہیں اور فضا میں بھی محفوظ ہوتے جاتے ہیں۔ اور مدت مدید تک قائم رہتے ہیں۔ پھر جب قیامت کی صبح نمودار ہوگی تو انسان کی نگاہ اس قدر تیز ہوجائے گی کہ انسان یہ سب کچھ دیکھ اور پڑھ سکے گا۔ یہ خارجی شہادات اس کے اعمال نامہ کے علاوہ ہوں گی جس کا ذکر کتاب و سنت میں جابجا موجود ہے۔ الإسراء
14 الإسراء
15 [٤ ١] باز پرس فرداً فرداً ہوگی اجتماعی برائیوں میں ہر فرد کو اس کا حصہ ملے گا :۔ یہ قانون جزاء و سزا کا ایک نہایت اہم جزو ہے یعنی’’جو کرے گا وہی بھرے گا‘‘ ایک کے گناہ کا بار دوسرے کی طرف منتقل نہیں ہوسکتا۔ اور جتنا کسی کا گناہ ہوگا اتنی اسے سزا ضرور ملے گی اور اتنی ہی ملے گی نہ کم نہ زیادہ۔ اس آیت سے جو اہم بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ہر ایک سے فرداً فرداً باز پرس ہوگی۔ کوئی شخص اپنے گناہ کا بار معاشرہ پر ڈال کر خود بری الذمہ نہ ہوسکے گا بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ اس اجتماعی جرم میں اس خاص فرد کا کتنا حصہ ہے۔ اسی کے مطابق اسے سزا ملے گی۔ لہٰذا ہر شخص کو اپنے کردار پر نظر رکھنا چاہیے۔ اسے یہ نہ دیکھنا چاہیئے کہ دوسرے کیا کر رہے ہیں اور نہ ہی ایسا سہارا لینا چاہیئے۔ ایسا سہارا کسی کام نہ آسکے گا بلکہ اپنے اعمال و افعال پر نظر رکھنا چاہیے۔ [٥ ١] سزا سے پہلے اتمام حجت :۔ قانون جزاء و سزا کا دوسرا اہم جزو ہے جو یہ ہے کہ مجرم کو سزا دینے سے پیشتر اس پر اتمام حجت ضروری ہے دنیوی عذاب کے لیے یہ شرط بھی ضروری ہے اور اخروی عذاب کے لیے بھی اتمام حجت کی ایک صورت عہد الست یا فطری داعیہ ہے اور پیغمبروں اور کتابوں کا بھیجنا اسی داعیہ فطرت کو اجاگر کرنے والی چیزیں ہیں جو اسے اسی عہد کی یاددہانی کراتی ہیں۔ اور وہ عہد یہ ہے کہ ساری کائنات کا پروردگار صرف اللہ تعالیٰ اکیلا ہے جس کا کوئی شریک نہیں لہٰذا اسی کی عبادت کی جائے۔ الإسراء
16 [٦ ١] اللہ کی نافرمانی میں پہلے خوشحال لوگ مبتلا ہوتے ہیں :۔ اس آیت میں ﴿ اَمَرْنَا فِیْھَا﴾سے مراد امر تکوینی ہے یعنی جس بستی کے لیے ہلاکت مقدر ہوچکی ہو۔ اس میں ہوتا یہ ہے کہ خوشحال لوگ عیاشیوں اور ظلم و زیادتی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ان میں بے حیائی، فحاشی، زنا، کمزوروں کے حقوق غصب کرنا، اللہ تعالیٰ کی نافرمانی، نعمتوں کی ناقدر شناسی دنیا میں غیر معمولی انہماک وغیرہ وغیرہ امراض پیدا ہوجاتی ہیں اور یہ سب ایسی امراض ہیں جو عام طور پر امیروں اور خوشحال لوگوں کو لاحق ہوتی ہیں پھر ان کے زیر سایہ لوگ بھی انھیں کی چال چلنے لگتے ہیں اور آہستہ آہستہ انھیں کا سا رنگ ڈھنگ اختیار کرنے لگتے ہیں اس طرح سارا معاشرہ فسق و فجور کی لپیٹ میں آجاتا ہے اور عذاب الٰہی کا مستحق بن جاتا ہے اور با لآخر ان کی شامت آجاتی ہے۔ الإسراء
17 [٧ ١] سب سے پہلے قوم نوح صلی اللہ علیہ وسلم پر عذاب آیا کیونکہ اس سے پہلے شرک نہ تھا :۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر سیدنا نوح صلی اللہ علیہ وسلم تک سب لوگ توحید پرستی پر قائم اور شرک سے ناآشنا تھے اور صحیح احادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ شرک کا آغاز قوم نوح سے ہوا جب ان میں پانچ بزرگ مرگئے تو شیطان نے انھیں پٹی پڑھائی کہ ان کے مجسمے تیار کرلیں۔ اس طرح بنی نوع انسان میں بت پرستی کا آغاز ہوا۔ اور شرک ہی وہ برائی ہے جس کے آگے دوسری برائیاں جنم لیتی ہیں اور جب معاشرہ ان برائیوں کی لپیٹ میں آجاتا ہے تو عذاب کا مستحق بن جاتا ہے۔ اور اس طرح کے جو عذاب آئے ان میں پہلا عذاب طوفان نوح تھا پھر اس کے بعد دوسری قوموں پر عذاب آتے رہے جن کا ذکر متعدد بار پہلے گزر چکا ہے۔ الإسراء
18 [٨ ١] یعنی جو شخص دنیا ہی کا ہو رہے اور جو کام کرے صرف دنیا کا مال و دولت کمانے یا دوسرے مفادات کے لیے کرے تو ایسے شخص کو بھی دنیا اتنی ہی ملتی ہے جتنی اللہ کو منظور ہو۔ اس سے بڑھ کر نہیں۔ اور چونکہ ایسا شخص آخرت پر یقین ہی نہیں رکھتا لہٰذا وہ یقیناً دنیا کمانے میں جائز اور ناجائز طریقوں میں کوئی امتیاز روا نہ رکھے گا لہٰذا آخرت میں اسے دوزخ کی سزا بھگتنا ہوگی۔ الإسراء
19 [٩ ١] اس کے مقابلہ میں جو شخص اخروی اجر اور نجات کو ملحوظ رکھ کر اپنی زندگی بسر کرے اور اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان بھی رکھتا ہو۔ اسے یقیناً آخرت میں اس کے نیک اعمال کا اجر ملے گا، دوزخ کے عذاب سے بچ جائے گا اور دنیا بھی اتنی ضرور مل جائے گی جتنی اس کے مقدر میں ہے۔ الإسراء
20 [٢٠] کوئی دوسرے کا رزق روک نہیں سکتا کیونکہ دنیوی مال و دولت اللہ کی بخشش ہے۔ جو اس دنیادار کو بھی ملتی ہے جو صرف اسی کے لیے کوشاں رہتا ہے اور آخرت کے طلبگار کو بھی ملتی ہے جتنی اس کے مقدر میں ہوتی ہے۔ دنیا کے طلبگار کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ آخرت کے طلبگار کی روزی بند کردے اور نہ ہی آخرت کے طلبگار کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ دنیا کے طلب گار کی روزی بند کردے۔ یہ زمین اور دوسرے ذرائع پیداوار تو اللہ نے پہلے سے ہی پیدا کردیئے ہیں جن سے ہر شخص خواہ وہ دنیا کا طلبگار ہو یا آخرت کا اپنے ارادہ اور اپنی بساط کے مطابق یکساں فائدہ اٹھا سکتا ہے مگر اسے ملتا اتنا ہی ہے جتنا اس کے مقدر میں ہو۔ الإسراء
21 [٢١] سیرت وکردار کی فضیلت ہی اصل فضیلت ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی :۔ یہ فضیلت مال و دولت کے لحاظ سے بھی ہوسکتی ہے اور سیرت و کردار کے لحاظ سے بھی مال و دولت کے لحاظ سے جو فضیلت ملتی ہے اس کی قدر و قیمت اگر کچھ ہوسکتی ہے تو دنیا کے طلب گاروں کی نظروں میں ہی ہوسکتی ہے۔ بلکہ بسا اوقات ان کی نظروں میں بھی نہیں ہوتی۔ لیکن سیرت و کردار کے لحاظ سے جو فضیلت ملتی ہے وہی سچی اور لازوال فضیلت اور عزت ہوتی ہے اور یہ فضیلت صرف ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو آخرت کے طلبگار ہوں، اللہ سے ڈرنے والے ہوں اس کے فرمانبردار ہوں۔ کسی کو دھوکا فریب نہ دیتے ہوں، ہر ایک کے حقوق کا خیال رکھتے ہوں۔ ایسے لوگوں کی فضیلت کی قدر و قیمت آخرت کے طلب گاروں میں ہی نہیں دنیا کے طلب گاروں کی نگاہوں میں بھی ہوتی ہے۔ پھر آخرت میں جو ان آخرت کے طلب گاروں کو فضیلت اور درجات عطا ہوں گے وہ دنیا کے مقابلہ میں بدرجہا زیادہ اور بہتر ہوں گے اور صحیحین میں ہے کہ جنت کے ہر درجہ میں اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین اور آسمان میں، نچلے درجہ والے اوپر کے درجہ والوں کو یوں دیکھیں گے جیسے تم رات کو آسمان کے تاروں کو دیکھتے ہو۔ (بخاری، کتاب الرقاق۔ باب صفۃ الجنۃ والنار) الإسراء
22 [٢٢] شرک کی مذمت اور مشرکوں کی حسرت :۔ اس آیت میں شرک، مشرکوں اور ان کے معبودوں کی ایک نئے انداز میں مذمت بیان کی گئی ہے۔ جو یہ ہے کہ دنیا میں جتنے معبودوں سے حاجت روائی یا مشکل کشائی کی دعا یا آرزو کی جاتی ہے وہ یا تو بے جان ہیں یا جاندار۔ بے جان تو بالکل بےدست و پا اور انسان کے خود تراشیدہ ہیں۔ وہ تو خود انسانوں کے محتاج ہیں وہ ان کی کیا مدد کرسکتے ہیں اور جو جاندار ہیں وہ اللہ کے مطیع فرمان اور اس کے آگے مجبور محض ہیں۔ لہٰذا تمہاری مدد کرنا ان کے بس سے باہر ہے۔ اب جو شخص ان سے توقعات تو بڑی بڑی وابستہ کیے بیٹھا ہو۔ لیکن مصیبت کے وقت ان کے معبود ان کی کچھ بھی مدد نہ کرسکیں تو اس کی یاس و حسرت کا جو حال ہوگا وہ سب جانتے ہیں۔ الإسراء
23 [٢٣] اسلامی معاشرہ کے لئے چودہ بنیادی احکام تورات کی تعلیم کا خلاصہ :۔ اس آیت سے لے کر آگے پندرہ سولہ آیات میں ایسے بنیادی اصول و احکام بیان کیے جارہے ہیں جو ایک اسلامی معاشرہ کی تعمیر کے لیے بنیاد کا کام دیتے ہیں۔ اور جن پر مستقبل قریب میں ایک اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی جانے والی تھی۔ گویا یہ اسلامی ریاست کا دستور اساسی تھا جس کا مکہ کی آخری زندگی میں ہی اعلان کردیا گیا تھا کہ اس نئی ریاست کی بنیاد کن کن نظری، اخلاقی، معاشرتی، معاشی اور قانونی اصولوں پر رکھی جائے گی اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تورات کی ساری تعلیم کا خلاصہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں بیان فرما دیا ہے۔ [٢٤] توحید کا فیصلہ اللہ نے کب کیا تھا ؟ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کب کیا تھا ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ اس وقت ہی کردیا تھا جب سیدنا آدم علیہ السلام کو پیدا کرکے اس کی پشت سے پیدا ہونے والی تمام روحوں کو نکال کر اپنے سامنے حاضر کیا اور پوچھا تھا’’کیا میں تمہارا پروردگار نہیں؟‘‘ تو سب نے جواب دیا تھا ’’کیوں نہیں۔ ہم اس کا اقرار کرتے ہیں‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’میں یہ اقرار تم سے اس لیے لے رہا ہوں مبادا تم قیامت کو یوں کہنے لگو کہ شرک تو ہمارے آباء و اجداد کرتے رہے اور ہم تو اس سے بے خبر تھے‘‘ (٧: ١٧٢، ١٧٣) اسی عہد کا خلاصہ اس جملہ میں آگیا ہے یعنی اقرار ایک تو اللہ تعالیٰ کی ہستی کے موجود ہونے پر تھا اور دوسرے اس بات پر کہ اس کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک نہیں بنایا جائے گا۔ دنیا کے مذاہب توحید پرست ہمیشہ موجود رہے ہیں اگرچہ کم کیوں نہ ہوں :۔ اعتقادی لحاظ سے انسان دو قسموں میں بٹا ہوا ہے ایک وہ فریق ہے جو سرے سے ہی اللہ کے وجود کا قائل نہیں جیسے دہرئیے اور نیچری وغیرہ۔ دوسرے وہ جو کسی نہ کسی مذہب کے پیروکار اور اللہ کی ہستی کے قائل ہیں۔ اس لحاظ سے پہلی قسم کے لوگ تھوڑے ہیں اور اکثریت ایسی ہی رہی ہے جو اللہ کے وجود کی قائل رہی ہے۔ پھر یہ دوسرا گروہ یعنی اللہ کی ہستی کے قائل لوگ دو قسموں میں بٹ گئے۔ ایک وہ جو اللہ کو مانتے بھی ہیں مگر ساتھ ساتھ اس کے شریک بھی بنائے جاتے ہیں۔ اور دوسرے وہ جو توحید پر قائم رہے۔ ان میں اکثریت پہلی قسم کے لوگوں کی ہے اور توحید پرست کم ہی رہے ہیں اور اللہ کا فیصلہ یہ تھا کہ انسان اس کی ہستی کا قائل بھی ہو اور اس کے ساتھ شرک بھی نہ کرے۔ اب جن لوگوں نے اللہ کی ہستی کا انکار کیا انہوں نے بھی اللہ سے کیے ہوئے عہد کی خلاف ورزی کی اور جنہوں نے شرک کیا انہوں نے بھی خلاف ورزی کی۔ باقی تھوڑے ہی لوگ بچتے ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کیا۔ اور اللہ کے فیصلے کے مطابق زندگی بسر کی اور وہ صرف توحید پرستوں کا قلیل سا طبقہ دنیا میں ہمیشہ سے موجود رہا ہے اور تاقیامت موجود رہے گا تاکہ لوگوں پر ہر وقت اتمام حجت ہوسکے۔ چنانچہ سورۃ یوسف کی اس آیت ﴿ وَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُہُمْ باللّٰہِ اِلَّا وَہُمْ مُّشْرِکُوْنَ ﴾ میں اسی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔ [٢٥] والدین سے بہتر سلوک اور ادائیگی حقوق :۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اپنے ذکر کے ساتھ متصل والدین کا ذکر فرمایا۔ پھر یہ نہیں فرمایا کہ والدین کے حقوق ادا کرو بلکہ یوں فرمایا ان سے بہتر سلوک کرو اور یہ تو واضح ہے کہ بہتر سلوک میں حقوق کی ادائیگی کے علاوہ اور بھی بہت کچھ آجاتا ہے۔ اسی طرح احادیث صحیحہ میں شرک کے بعد دوسرے نمبر پر عقوق والدین کو گناہ کبیرہ شمار کیا گیا ہے اور عقوق کے معنی عموماً نافرمانی کرلیا جاتا ہے حالانکہ عقوق کا معنی ہر وہ فعل ہے جس سے والدین کو ذہنی اور روحانی اذیت پہنچے۔ مثلاً والدین کی طرف بے توجہی بالخصوص اس وقت جبکہ وہ بوڑھے اور توجہ کے محتاج ہوں۔ یہ بات نافرمانی کے ضمن میں نہیں آتی مگر عقوق کے معنی میں ضرور آجاتی ہے اسی لیے قرآن نے ہر مقام پر والدین سے احسان یا بہتر سلوک کا ذکر فرمایا۔ [٢٦] والدین سے حسن سلوک کی وجوہ :۔ جب والدین بوڑھے ہوں اور کما بھی نہ سکتے ہوں اور ان کی اولاد جوان اور برسر روزگار ہو۔ تو والدین کئی لحاظ سے اولاد سے بہتر سلوک کے محتاج ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ اولاد ان سے مالی تعاون کرے اور ان کے نان و نفقہ کا انتظام کرے۔ دوسرے یہ کہ والدین کی محبت تو اپنی اولاد سے بدستور قائم رہتی ہے مگر اولاد کی محبت آگے اپنی اولاد کی طرف منتقل ہوجاتی ہے اس لیے اولاد اپنی اولاد کی طرف متوجہ رہتی ہے اور والدین کی طرف سے اس کی توجہ ہٹ جاتی ہے۔ حالانکہ اس عمر میں والدین کو اولاد سے زیادہ خاصی توجہ، محبت اور الفت کی ضرورت ہوتی ہے۔ تیسرے یہ کہ والدین کا مزاج بڑھاپے کی وجہ سے طبعی طور پر چڑچڑا سا ہوجاتا ہے اور اولاد چونکہ اب ان کی طرف سے بے نیاز ہوچکی ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ والدین کی باتیں برداشت کرنے کے بجائے انھیں الٹی سیدھی باتیں سنانے لگتی ہے انھیں وجوہ کی بنا پر اولاد کو یہ تاکید کی گئی کہ ان سے بات کرو تو ادب کے ساتھ اور محبت و الفت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر بات کرو۔ جس سے انھیں کسی قسم کی ذہنی یا روحانی اذیت نہ پہنچے۔ الإسراء
24 [٢٧] والدین سے بہتر سلوک کیسا ہو؟ اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ متصل والدین کا کیوں ذکر فرمایا ؟:۔ یعنی والدین سے تمہارا سلوک ایسا ہونا چاہیے جیسے غلام کا اپنے آقا سے ہوتا ہے۔ ان سے ادب و انکساری سے پیش آؤ اور ساتھ ہی ساتھ ان کے حق میں اللہ تعالیٰ سے رحمت و مغفرت کی دعا بھی کرتے رہو۔ کیونکہ وہی تمہاری پرورش و تربیت کا سبب بنے تھے۔ یہیں سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر کے ساتھ ہی متصلاً والدین سے بہتر سلوک کا ذکر کیوں فرمایا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر چیز کا پروردگار تو رب کائنات ہے۔ جس نے زمین بنائی، ہوا، پانی، سورج، چاند وغیرہ پیدا کئے۔ پھر بارش برسائی اور پھر انسان کی ساری ضروریات زندگی زمین سے وابستہ کردیں۔ اس طرح انسان، تمام جانداروں اور باقی سب چیزوں کا پالنے والا اور پرورش و تربیت کرنے والا حقیقتاً اللہ رب العالمین ہی ہوا۔ پھر اس کے بعد انسان کی پرورش کا ظاہری سبب اس کے والدین کو بنایا اور یہ تو ظاہر ہے کہ جس قدر مشکل سے انسان کا بچہ پلتا ہے کسی جانور کا بچہ اتنی مشکل سے نہیں پلتا۔ دوسرے جانوروں کے بچے پیدا ہوتے ہی چلنے پھرنے لگتے ہیں۔ پھر ان پر گرمی یا سردی یا بارش کا اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا انسان کے بچے پر ہوتا ہے دوسرے جانوروں کے بچے اتنے بیمار بھی نہیں ہوتے جتنا انسان کا بچہ فوراً بیمار ہوجاتا ہے۔ پھر ماں راتوں کو جاگ جاگ کر اور بچے کے آرام پر اپنا آرام قربان کرتی ہے۔ باپ بچہ اور اس کی ماں دونوں کے اخراجات بھی برداشت کرتا ہے پھر اس کی تربیت میں پورا تعاون بھی کرتا ہے۔ تب جاکر انسان کا بچہ بڑا ہوتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے والدین کے دل میں اپنی اولاد کے لیے اتنی بے پناہ محبت اور ایثار کا جذبہ نہ رکھ دیا ہوتا تو انسان کے بچہ کی کبھی تربیت نہ ہوسکتی۔ اب اگر انسان اپنے والدین کو بڑھاپے کی حالت میں بےیارو و مددگار چھوڑ دے اور ان کی طرف توجہ نہ کرے یا ان سے گستاخی سے پیش آئے تو اس سے زیادہ بے انصافی اور ظلم اور کیا ہوسکتا ہے؟ معاشرتی زندگی کا یہ وہ نہایت اہم باب ہے جس کی طرف سے دنیادار انسان ہمیشہ غافل ہی رہے ہیں مگر اسلام نے اس طرف بھرپور توجہ دلائی ہے اور دعا سے مقصود یہ ہے کہ یا اللہ! میں تو ان کا حق الخدمت پوری طرح بجا لانے سے قاصر ہوں لہٰذا تو ہی ان پر بڑھاپے میں اور مرنے کے بعد نظر رحمت فرما۔ اب ہم اس سلسلہ میں چند ارشادات نبوی پیش کرتے ہیں : والدین سے بہتر سلوک کے متعلق چند احادیث :۔ ١۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کو سب سے زیادہ کون سا عمل پسند ہے؟‘‘ فرمایا : ’’نماز کی بروقت ادائیگی‘‘ میں نے پوچھا ’’پھر کون سا ؟“ فرمایا : ’’ماں باپ سے اچھا سلوک کرنا‘‘ میں نے پوچھا ’’پھر کون سا‘‘ فرمایا : ’’اللہ کی راہ میں جہاد کرنا“(بخاری۔ کتاب الادب) ٢۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ”میرے بہتر سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟‘‘فرمایا : ’’تیری ماں“ اس نے کہا ”پھر کون؟‘‘ فرمایا : ”تیری ماں“اس نے پوچھا ”پھر کون؟“ فرمایا : “تیری ماں“اس نے چوتھی بار پوچھا ’’پھر کون؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تیرا باپ‘‘ (بخاری۔ کتاب الادب من احق الناس بحسن الصحبۃ) ٣۔ سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنے ماں باپ کو گالی دے“ لوگوں نے کہا۔ ”یارسول اللہ ! بھلا کون ماں باپ کو گالی دیتا ہے؟“فرمایا، ’’ماں باپ کو گالی دینا یوں ہے کہ ایک آدمی دوسرے کے باپ یا ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ جواب میں اس کے باپ یا ماں کو گالی دیتا ہے“(بخاری۔ کتاب الادب باب لایسب الرجل والدیہ) ٤۔ ایک دفعہ آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا ”کیا میں تمہیں بڑے بڑے گناہوں سے خبردار نہ کروں؟“ہم نے کہا، ”ضرور بتائیے یارسول اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، عقوق والدین ‘جھوٹ بولنا، جھوٹی گواہی دینا، سن لو، جھوٹ بولنا، جھوٹی گواہی دینا۔‘‘ برابر آپ یہی فرماتے رہے۔ میں سمجھا کہ آپ چپ ہی نہ ہوں گے۔ (بخاری، کتاب الادب، باب عقوق الوالدین) ٥۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، ’’میں جہاد پر جانا چاہتا ہوں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا ’’تمہارے والدین زندہ ہیں؟‘‘کہنے لگا ”جی ہاں“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”انہی کی خدمت کر (یہی تیرا جہاد ہے)‘‘ (بخاری، کتاب الادب، باب لایجاہد الاباذن الابؤین) ٦۔ سیدہ اسماء بنت ابی بکر کہتی ہیں کہ میری ماں میرے پاس مدینہ آئی اور وہ کافرہ تھی۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں اس سے صلہ رحمی کروں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”ضرور“(بخاری، کتاب الادب، باب صلۃ الوالد المشرک) الإسراء
25 [٢٨] یعنی جو لوگ نیک نیتی سے اپنے والدین کی خدمت یا ان سے بہتر سلوک کرتے ہیں اللہ انھیں بھی خوب جانتا ہے اور جو لوگ محض لوگوں کی باتوں سے بچنے کی خاطر والدین کی خدمت کرتے ہیں انھیں بھی خوب جانتا ہے اور اللہ کی بخشش اور رحمت تو ان لوگوں کے لیے ہے جو اللہ کے فرمانبردار بن کر والدین سے حسن سلوک کرتے ہیں۔ الإسراء
26 [٢٩] رشتہ داروں کے حقوق کی تفصیل کے لیے سورۃ نساء کی پہلی آیت کا حاشیہ نمبر ٣ ملاحظہ فرمائیے۔ [٣٠] فقراء اور مساکین کا ہر صاحب مال کے مال میں حق ہوتا ہے اور اس کی اہمیت اس بات سے واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں زکوٰۃ کی تقسیم کے لئے آٹھ مدات بیان فرمائیں تو دوسرے نمبر پر فقراء و مساکین کا ذکر فرمایا۔ ہر صاحب مال پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے خاندان کے فقراء و مساکین پر زکوٰۃ کے علاوہ بھی خرچ کرے۔ [٣١] مسافروں کے حقوق کے لیے دیکھئے سورۃ نساء کی آیت نمبر ٣٦ (حاشیہ نمبر ٦٧) [٣٢] اسراف اور تبذیر میں فرق :۔ اسراف اور تبذیر میں فرق یہ ہے کہ اسراف ضرورت کے کاموں میں ضرورت سے زیادہ خرچ کرنے کو کہتے ہیں مثلاً اپنے کھانے پینے یا لباس وغیرہ میں زیادہ خرچ کرنا اور تبذیر ایسے کاموں میں خرچ کرنے کو کہتے ہیں جن کا ضرورت زندگی سے کوئی تعلق نہ ہو جیسے فخر، ریا نمود و نمائش اور فسق و فجور کے کاموں میں خرچ کرنا، یہ اسراف سے زیادہ برا کام ہے۔ اسی لیے ایسے لوگوں کو شیطان کے بھائی قرار دیا گیا۔ شیطان نے بھی اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تھی۔ ایسے شخص نے بھی اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت مال کو غلط راستوں میں خرچ کرکے اللہ کی ناشکری کی۔ ایک دفعہ ایک ہال میں کچھ علماء بیٹھے محو گفتگو تھے۔ ان میں سے ایک شخص نے میر مجلس سے سوال کیا کہ اسراف اور تبذیر میں کیا فرق ہے؟ میر مجلس نے اس سوال کو عام فہم اور حسب حال یوں جواب دیا کہ ’’اس وقت ہم جس ہال میں بیٹھے ہیں اس میں چھ پنکھے چل رہے ہیں۔ حالانکہ ہم صرف دو پنکھوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ اسراف ہے اور اگر ہم یہ سارے پنکھے چلتے چھوڑ کر باہر نکل جائیں تو یہ تبذیر ہے‘‘ میر مجلس کی اس سادہ اور عام فہم مثال سے اسراف اور تبذیر کا فرق پوری طرح واضح ہوجاتا ہے۔ الإسراء
27 الإسراء
28 [٣٣] یعنی اگر تمہارا کوئی رشتہ دار اور کوئی غریب و مسکین تمہارے پاس قرض حسنہ یا امداد کے لیے آتا ہے اور تمہارے پاس دینے کو کچھ بھی موجود نہ ہو۔ البتہ یہ توقع ہو کہ اتنے دنوں تک فلاں رقم ملنے والی ہے اور اس وقت میں اسے قرض دینے یا مدد کرنے کے قابل ہوسکوں گا تو اسے نرم زبان سے بات سمجھا دو۔ سختی اور بد اخلاقی سے جواب دینے میں یہ اندیشہ ہے کہ تم سے یہ نعمت کہیں چھن ہی نہ جائے۔ الإسراء
29 [٣٤] خرچ کرنے میں اعتدال :۔ اپنا ہاتھ گردن سے باندھنا محاورہ ہے جس کا معنی ہے بخل کرنا۔ یعنی خرچ کرتے وقت نہ تو بخل سے کام لینا چاہیے اور نہ اتنا زیادہ خرچ کردینا چاہیے کہ اپنی ضرورت کے لیے بھی کچھ نہ رہے اور خود انسان تکلیف میں پڑجائے۔ خواہ یہ خرچ اپنی ضرورت کے سلسلہ میں ہو یا انفاق فی سبیل اللہ کی صورت ہو۔ انفاق فی سبیل اللہ کی سب سے اونچی حد یہ ہے کہ ’’وہ سب کچھ خرچ کردیا جائے جو ضرورت سے زائد ہو‘‘ (٢: ٢١٩) یعنی اس فرمان الٰہی میں بھی ضرورت سے زائد مال کو خرچ کرنے کے لیے کہا گیا ہے سارا نہیں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ افضل صدقہ کون سا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”الصدقۃ عن ظھر غنی“ یعنی وہ صدقہ جس کے بعد آدمی خود محتاج یا صدقہ لینے کے قابل نہ ہوجائے۔ (بخاری) نیز حدیث میں ہے کہ جو میانہ روی اختیار کرے وہ محتاج نہیں ہوتا۔ الإسراء
30 [٣٥] دولتمندوں کے مال میں دوسروں کا حصہ :۔ تمہارے ہاتھ روکنے سے نہ تو تم غنی رہ سکتے ہو اور نہ ہی دینے سے فقیر ہوجاؤ گے اسی طرح جس سائل کو تم نے جواب دیا ہے اللہ اس کی ضرورت کسی اور جگہ سے پوری کرسکتا ہے اور اسے غنی بھی بنا سکتا ہے۔ رزق کی کمی بیشی سب اللہ کے ہاتھ میں ہے اس لیے خرچ کرنے میں تنگدل نہ ہونا چاہیے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ رزق کس محتاج کی دعاؤں سے تمہیں مل رہا ہے یا کس کس کا رزق تمہاری طرف منتقل ہو رہا ہے۔ لہٰذا تمہیں چاہیے کہ اپنے مال و دولت میں سے ضرورت مندوں پر خرچ کرتے اور ان کا حصہ انھیں ادا کرتے رہو۔ الإسراء
31 [٣٦] مفلسی کے ڈر سے قتل اولاد اور منصوبہ بندی :۔ مفلسی کے ڈر سے اولاد کو قتل کرنا دراصل اللہ تعالیٰ کی صفت رزاقیت پر عدم توکل یا براہ راست حملہ کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یہ دیا کہ تمہیں بھی تو ہم رزق دے ہی رہے ہیں اور جیسے تمہیں دے رہے ہیں ویسے تمہاری اولاد کو بھی ضرور دیں گے اور اگر تمہیں مفلسی کا اتنا ہی ڈر ہے تو پہلے تمہیں خود مر جانا چاہیے۔ اولاد کو کیوں مارتے ہو؟ تاکہ تمہاری یہ فکر ہی ختم ہوجائے اور آخر میں یہ فرما دیا کہ تمہارا یہ کام بہت بڑا گناہ کا کام ہے۔ عرب میں تو قتل اولاد کا سلسلہ انفرادی طور پر ہوتا تھا مگر آج کل ایسے ہی کام اجتماعی طور پر اور حکومتوں کی طرف سے ہو رہے ہیں اور حکومت کے ان محکموں کے لیے بڑے اچھے اچھے نام تجویز کیے جاتے ہیں جیسے محکمہ خاندانی منصوبہ بندی یا محکمہ بہبود آبادی۔ اور اس کام کا جذبہ محرکہ وہی ''مفلسی کا ڈر'' ہے۔ نیز اس سلسلہ میں سورۃ انعام آیت ١٣٧ اور ١٥١ کے حواشی بھی ملاحظہ فرما لیجئے۔ الإسراء
32 [٣٧] زنا کے راستے اور ان کے قریب جانے سے ممانعت :۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ زنا نہ کرو بلکہ یوں فرمایا کہ زنا کے قریب بھی نہ جاؤ یعنی وہ تمام راستے اور طور طریقے جو زنا کا سبب بن سکتے ہیں۔ ان سب سے اجتناب کرو۔ ایسے راستوں کا مفصل بیان تو سورۃ نور اور سورۃ احزاب میں آئے گا۔ مختصراً یہ کہ ہر وہ چیز جو انسان کی شہوت کی انگیخت کا سبب بن سکتی ہے۔ وہ زنا کا راستہ ہے مثلاً عورتوں سے آزادانہ اختلاط، عورتوں کا بے پردہ ہو کر بازاروں میں نکلنا، اجنبی مرد و عورت کی گفتگو بالخصوص اس صورت میں کہ وہ اکیلے ہوں۔ نظر بازی، عریاں تصویر، فلمیں، فحش لٹریچر، گندی گالیاں، ٹی وی اور ریڈیو پر فحش افسانے اور ڈرامے اور مردوں اور عورتوں کی بے حجابانہ گفتگو وغیرہ سب شہوت کو ابھارنے والی باتیں ہیں اور یہی زنا کے راستے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے زنا کو جو '' برا راستہ'' فرمایا تو اس کی قباحتیں درج ذیل ہیں : ١۔ زنا کی صورت میں پیدا ہونے والے بچے کا نسب مشکوک رہتا ہے۔ ٢۔ ایسے ولدالزنا بچے کے لیے میراث کے جھگڑے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ٣۔ زانیہ عورت اگر منکوحہ ہے تو بچے کے اخراجات بلاوجہ اس کے خاوند کے ذمہ پڑجاتے ہیں اسی طرح وہ میراث میں بھی بلاوجہ حصہ دار قرار پاتا ہے۔ ٤۔ غیر منکوحہ عورت جس کے پاس کئی مرد آتے ہوں ان مردوں میں باہمی رقابت اور دشمنی پیدا ہوجاتی ہے۔ حتیٰ کہ بسا اوقات نوبت قتل تک پہنچ جاتی ہے۔ ٥۔ نکاح کی صورت میں میاں بیوی دونوں ایک دوسرے کے ہمدرد اور غمگسار ہوتے ہیں۔ پھر ان کی یہی باہمی محبت بچوں کی تربیت میں ممدو معاون ثابت ہوتی ہے جس سے خاندانی نظام تشکیل پاتا ہے اور یہی نظام کسی معاشرہ کی سب سے ابتدائی اور اہم اکائی ہے۔ زنا کی صورت میں یہ نظام برقرار رہنا تو درکنار اس کے انجر پنجر ہل جاتے ہیں جیسا کہ آج کل یورپین ممالک میں صورت حال پیدا ہوچکی ہے۔ انھیں چند در چند خرابیوں کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ زنا کے قریب بھی نہ پھٹکو۔ اور زنا کی طرف لے جانے والے تمام راستوں پر پابندیاں لگا دیں۔ الإسراء
33 [٣٨] قتل بالحق اور بغیر الحق کی صورتیں :۔ قتل کے سلسلے میں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ انفرادی طور پر کسی شخص کو کبھی بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اٹھ کر کسی کو قتل کر دے۔ الا یہ کہ کوئی ڈاکو وغیرہ اس پر حملہ آور ہو اور وہ اپنی مدافعت کرے جس میں ڈاکو مارا جائے۔ حتیٰ کہ انسان خود کشی بھی نہیں کرسکتا۔ کیونکہ اس کی اپنی جان کا بھی وہ خود مالک نہیں ہے کہ جس طرح چاہے اس میں تصرف کرے بلکہ خود کشی بھی ایسا ہی جرم ہے جیسے کسی دوسرے شخص کو قتل کرنا۔ اسی طرح اپنی اولاد کو قتل کرنا بھی، خواہ اس کی وجہ کوئی بھی ہو، جرم عظیم ہے۔ قصاص لینا حکومت کے واسطہ ہی سے ہوتا ہے خواہ یہ قصاص جان کا ہو یا جوارح کا۔ بہر صورت یہ مقدمہ عدالت میں پیش کیا جائے گا اور قتل بالحق ہمیشہ بالواسطہ یا بلاواسطہ اسلامی حکومت سے متعلق ہوتا ہے اور اس کی پانچ صورتیں ہیں۔ (١) اسلام کی راہ میں مزاحمت کرنے والوں سے جہاد کی صورت میں ہوتا ہے، (٢) اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والوں کا قتل، (٣) قصاص کی صورت میں، (٤) شادی شدہ مرد یا عورت اگر زنا کریں تو رجم کی صورت میں ان کو مار دیا جائے گا، (٥) مرتد کا قتل، اور سب قسم کے قتل حکومت سے متعلق ہیں۔ انفرادی طور پر کوئی شخص دوسرے کو قتل کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ [٣٩] مقتول کے ورثاء کے اختیارات :۔ یہ اختیار بھی اسے ذاتی طور پر نہیں بلکہ حکومت کی وساطت سے ہوگا کہ چاہے تو قصاص لے لے، چاہے تو خون بہا قبول کرلے اور چاہے تو بالکل ہی معاف کر دے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مقدمہ قتل کا اصل مدعی مقتول کا ولی ہوتا ہے نہ کہ خود حکومت یا سرکار۔ ہمارے ہاں مروجہ قانون تعزیرات کے مطابق قتل کا مقدمہ قابل راضی نامہ یا مصالحت نہیں ہے جبکہ اسلامی نقطہ ئنظر سے اصل مدعی مقتول کا ولی ہوتا ہے اور اسے یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی وقت بھی مصالحت یا راضی نامہ کرسکے۔ [٤٠] قصاص میں زیادتی کی صورتیں :۔ زیادتی کی کئی شکلیں ممکن ہیں۔ جیسے اصل قاتل کے بجائے کسی دوسرے کو پھنسا دے یا اصل قاتل مل نہیں رہا تو اس کے کسی رشتہ دار سے قصاص کی کوشش کرے یا دیدہ دانستہ کسی دوسرے کو بھی قتل کا ذمہ دار قرار دے۔ یا اگر حکومت مجرم کو قصاص کے لیے اس کے حوالہ کردے تو قصاص میں بہت زیادہ اذیتیں دے یا اگر غصہ کم نہ ہو تو بعد میں مثلہ وغیرہ کرے۔ وغیرہ وغیرہ۔ [٤١] یعنی حکومت اور افراد معاشرہ سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مقتول کے ولی کی حمایت کریں۔ نہ یہ کہ الٹا قاتل کی حمایت یا اس کی ہمدردی کرنے لگیں اور اس پر ترس کھانے لگیں اس طرح ظلم کا کبھی خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ الإسراء
34 [٤٢] یتیم کے مال کی نگہداشت اور اس کے حقوق کے لیے سورۃ نساء آیت نمبر ١ تا ٦ اور سورۃ انعام کی آیت نمبر ١٥٢ کے حواشی ملاحظہ کرلیے جائیں۔ [٤٣] ایفائے عہد کے سلسلہ میں سورۃ اعراف آیت نمبر ١٠٢ اور نحل آیت نمبر ٩١، ٩٢ کے حواشی ملاحظہ فرمائیے۔ الإسراء
35 [٤٤] ماپ تول پورا کرنے سے انجام بہتر ہوگا :۔ ناپ اور تول میں کمی بیشی کرنا یعنی خود زیادہ لینا اور دوسرے کو کم دینا، ڈنڈی مار جانا اور کاروباری بددیانتی کرنا اتنا بڑا جرم ہے جس کی وجہ سے شعیب علیہ السلام کی قوم پر عذاب نازل ہوا تھا اور جو شخص ایسے کام کرتا ہے اس کے رزق سے برکت اٹھا لی جاتی ہے۔ [٤٥] ناپ اور تول پورا پورا دینے سے دنیا میں تو انجام اس لحاظ سے بہتر ہوتا ہے کہ ایسے شخص کی ساکھ قائم ہوجاتی ہے۔ اور اس کی تجارت کو فروغ حاصل ہوتا ہے اور اس کے رزق میں برکت ہوتی ہے۔ اور ایسے شخص کا اخروی انجام بہتر ہونے میں تو کوئی شک ہی نہیں۔ الإسراء
36 [٦ ٤] ہر قول اور فعل کی تحقیق ضروری ہے بدظنی سے پرہیز :۔ شریعت کی ایک بہت بڑی اصل یہ ہے کہ ہر شخص سے حسن ظن رکھنا چاہیے تاآنکہ اس کی کوئی بددیانتی یا غلط حرکت کھل کر سامنے نہ آجائے۔ اسی مضمون کو ایک دوسرے مقام پر فرمایا : ﴿اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ﴾ (۱۲:۴۹) (یعنی بسا اوقات محض گمان سے بات کہہ دینا گناہ ہوتا ہے) اور صحیح حدیث میں ہے کہ ”کفی بالمرء کذبا ان یحدث بماسمع“ (یعنی کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنی ہی بات کافی ہے کہ جو کچھ سنے اسے تحقیق کیے بغیر آگے بیان کردے) (مسلم) لہٰذا ہر شخص کو چاہیے کہ بلاتحقیق کوئی بات نہ کرے۔ نہ ہی بلاوجہ کسی سے بدظنی رکھے جب تک پوری تحقیق نہ کرلے۔ بلاسوچے سمجھے کسی پر نہ الزام لگائے اور نہ تہمت تراشی کرے۔ نہ کوئی افواہ پھیلائے نہ کسی سے بغض و عداوت رکھے۔ اسی طرح عدالت کے لیے بھی ضروری ہے کہ جب تک مجرم کا جرم ثابت نہ ہو اسے کسی قسم کی کوئی سزا نہ دی جائے۔ پھر یہ تحقیق کا سلسلہ انھیں باتوں میں منحصر نہیں بلکہ وہ رسم و رواج بھی اسی ذیل میں آتی ہیں جو آباء واجداد سے چلی آرہی ہیں ان کے متعلق یہ تحقیق کرنا ضروری ہے کہ ان کی اصل شریعت میں موجود بھی ہے یا نہیں۔ آنکھ اور کان کا ذکر اس لئے کیا گیا کہ ہمیں بیشتر معلومات انھیں ذرائع سے حاصل ہوتی ہیں اور دل کا کام ان میں غور و فکر کرکے کسی صحیح نتیجہ پر پہنچنا ہے۔ گویا ایسے بدظنی رکھنے والوں، بے بنیاد افواہیں پھیلانے والوں اور تحقیق کیے بغیر ہی کسی بات کو قبول کرلینے والوں کے اعضاء سے بھی باز پرس ہوگی۔ الإسراء
37 [٤٧] متکبرانہ چال سخت مذموم ہے اور اس اصل میں استثناء :۔ متکبرانہ چال اللہ تعالیٰ کو سخت ناگوار ہے اور جو انسان، اکڑ اکڑ کر، گال پھلا کر اور اور اپنے تہبند کو زمین پر گھسٹتے ہوئے چلتا ہے۔ اللہ ایسے انسان کو دنیا میں ضرور سزا دیتا ہے مثل مشہور ہے کہ ’’غرور کا سر نیچا‘‘ تو اس کا سر نیچا ہو ہی جاتا ہے۔ متکبر ہونا صرف اللہ کو سزاوار ہے اور کسی کو یہ صفت زیبا نہیں۔ انسان کی چال میں انکساری اور وقار ہونا چاہیے لیکن ایسی بھی نہ ہو کہ انسان حقیر اور ذلیل معلوم ہو بلکہ چال میں میانہ روی کی روش اختیار کرنا چاہیے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر فرمایا : ﴿وَاقْصِدْ فِیْ مَشْیِکَ ﴾(۱۹:۳۱) یعنی اپنی چال میں میانہ روی اختیار کر اور فرمایا : ﴿ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًا ﴾(۶۳:۲۵)(جو لوگ زمین پر انکساری کے ساتھ چلتے ہیں) یہاں ھَوْن کا لفظ فرمایا جس میں انکساری اور وقار دونوں شامل ہوتے ہیں۔ ھُوْن نہیں فرمایا جس کا معنی ذلت اور حقارت ہوتا ہے۔ اس کلیہ میں بھی ایک استثناء کا مقام ہے اگر کفار کے سامنے مظاہرہ مقصود ہو تو اس وقت اکڑ کر چلنا ہی اللہ کو پسند ہے۔ جنگ احد میں سب صحابہ کے مقابلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تلوار ابو دجانہ رضی اللہ عنہ کو عنایت فرمائی تو وہ کافروں کے سامنے اکڑ اکڑ کر چلنے لگے۔ یہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ چال اللہ کو پسند نہیں مگر اس وقت پسند ہے۔ عمرہ قضاء کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو رمل کا حکم دیا۔ اس سے بھی یہی مقصود تھا۔ فتح مکہ کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور سب صحابہ رضی اللہ عنہم نے کافروں کے سامنے ایسا ہی پر شکوہ مظاہرہ فرمایا۔ الإسراء
38 [٤٨] یعنی مندرجہ بالا چودہ احکام میں اکثر تو ایسے ہیں جن سے منع کیا گیا ہے۔ ان کا ارتکاب کرنا اللہ کو سخت ناپسند ہے اور جن باتوں کا حکم دیا گیا ہے ان کو بجا نہ لانا بھی اسی طرح ناپسند ہے۔ الإسراء
39 [٤٩] یہ سب باتیں بیش بہا نصیحتیں اور حکمت کے موتی ہیں۔ جن پر تمہارے تہذیب و تمدن اور عقائد و اخلاق کی عمارت استوار ہوگی۔ ان تمام باتوں میں سے پہلی بات توحید سے متعلق تھی اسی پر ان نصائح کا اختتام ہو رہا ہے۔ کیونکہ ان سب کا اصل الاصول توحید ہی ہے لہٰذا آخر میں اس کی پھر تاکید کی گئی۔ کیونکہ توحید کے بغیر تو کوئی نیکی بھی کام نہ آسکے گی۔ الإسراء
40 [٥٠] توحید کے بیان کے ساتھ ہی مشرکین مکہ کا ذکر ہو رہا ہے جو اللہ کے شریک بھی بناتے تھے تو اناث کو۔ جنہیں اپنے لیے قطعاً ناگوار سمجھتے تھے اور اسی طرح دوہرے جرم کے مرتکب ہوتے تھے۔ (تفصیل کے لیے سورۃ نحل آیت نمبر ٥٧ کا حاشیہ ملاحظہ فرمایئے) الإسراء
41 [٥١] کافروں کو قرآن کی نصیحتیں کیوں راس نہیں آتیں؟:۔ کیونکہ جب طبیعت میں بگاڑ پیدا ہوجائے تو صحت بخش اور عمدہ غذائیں بھی راس نہیں آتیں۔ بلکہ جب تک مرض کا پوری طرح علاج نہ کرلیا جائے۔ عمدہ سے عمدہ غذائیں بھی مزید بدہضمی کا سبب بن جاتی ہیں۔ یہی حال ان کافروں کا ہے کہ قرآن کریم کے اعلیٰ سے اعلیٰ دلائل سن کر نصیحت قبول کرنے کے بجائے یہ بدبخت اور زیادہ بدکتے اور وحشت کھا کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ الإسراء
42 [٥٢] زیادہ خداؤں کا لازمی نتیجہ :۔ اس آیت میں خطاب ان خاص قسم کے مشرکوں سے ہے جنہوں نے بے شمار دیوتا اور دیویاں تجویز کر رکھی ہیں اور انھیں کسی نہ کسی چیز کا مختار تسلیم کیا جاتا ہے مثلاً فلاں بارش کا دیوتا ہے، فلاں پھلوں کا دیوتا ہے۔ فلاں مال و دولت کی دیوی ہے اور فلاں محبت کی، فلاں موت کا دیوتا ہے اور فلاں زندگی کا۔ اس عقیدہ کی تردید کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ اگر یہ دیوتا اپنے اپنے اختیارات استعمال کریں تو کائنات کا سارا نظام ہی درہم برہم ہوجائے مثلاً قحط کا دیوتا بارش روکنا چاہے اور بارش کا برسانا چاہے تو ان کی ضد بازی سے کائنات کا نظام اور اس میں ہم آہنگی برقرار ہی نہیں رہ سکتی۔ لیکن یہاں جس پہلو کو اجاگر کیا جارہا ہے وہ دوسرا پہلو ہے جو یہ ہے کہ ہر صاحب اختیار کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ اس کے اختیارات میں مزید وسعت پیدا ہوجائے بلکہ ہر صاحب اختیار کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ پورا اختیار و اقتدار کسی طرح اسے ہی حاصل ہوجائے۔ اب ایسے چھوٹے صاحب اختیار بڑے اختیار والے کے خلاف متحدہ محاذ بنا لیتے ہیں تاکہ اسے اقتدار سے محروم کردیں۔ جیسا کہ آج کل کے جمہوری نظام میں یہ تماشا سرسری نگاہوں سے ہی دیکھا جاسکتا ہے۔ جو سیاسی پارٹی برسر اقتدار ہوتی ہے۔ حزب اختلاف کی سب پارٹیاں مل کر صاحب اقتدار پارٹی کی ٹانگ کھینچنا اور اسے اقتدار سے محروم کرنا چاہتی ہیں اور بسا اوقات وہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوجاتی ہیں یہی مثال اللہ تعالیٰ نے یہاں بیان فرمائی ہے کہ اگر فی الواقع اللہ کے علاوہ کوئی اور بھی دیوتا یا دیویاں با اختیار موجود ہوتے تو وہ یقیناً بڑے اختیار والے اللہ یا مہادیو کو اقتدار و اختیار سے محروم کرنے کی ضرور کوشش کرتے اور چونکہ فی الواقع ایسا کبھی نہیں ہوا تو اس کا واضح نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جن معبودوں کو تم نے صاحب اختیار سمجھ رکھا ہے وہ صاحب اختیار نہیں ہیں۔ اور ان کا وجود اس کائنات میں ہونا ناممکن ہے۔ الإسراء
43 [٥٣] یعنی ان مشرکوں کی یہ خرافات بس ان لوگوں تک ہی محدود اور ان کے خطہ زمین پر ہی ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ذات تو ان لوگوں کے ایسے بیہودہ خیالات سے بہت بلند و بالا ہے۔ الإسراء
44 [٥٤] سَبَحَ کا لغوی مفہوم :۔ سَبَحَ کے لغوی معنی کسی چیز کا ہوا یا پانی میں تیرنا اور تیزی سے گزر جانا ہے (مفردات القرآن) پھر اس لفظ کا استعمال کسی کام کو سرعت کے ساتھ انجام دینے پر بھی ہونے لگا جیسے ارشاد باری ہے ﴿اِنَّ لَکَ فِی النَّہَارِ سَبْحًا طَوِیْلًا ﴾ (۷:۷۲)(دن کے وقت تو آپ کو اور بہت سے شغل ہوتے ہیں) اور سبحان کا لفظ سبح کا مصدر ہے جیسے غفر سے غفران ہے اور اس میں مبالغہ پایا جاتا ہے۔ اس کائنات میں لاکھوں اور کروڑوں سیارے فضا میں نہایت تیزی سے گردش کر رہے ہیں جن میں نہ کبھی لغزش پیدا ہوتی ہے نہ جھول اور نہ ہی تصادم یا ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ ان پر کنٹرول کرنے والی ہستی اپنی تقدیر، تدبیر اور انتظام میں نہایت محکم اور ہر قسم کی بے تدبیری اور عیب یا نقص سے پاک ہستی ہی ہوسکتی ہے اور کائنات کی جملہ اشیاء کا یہ عمل، جس کے تحت وہ مدبر ہستی کے مجوزہ قوانین کے تحت سرگرم عمل ہیں، ان کی تسبیح، فرمانبرداری یا عبادت کہلاتا ہے گویا کائنات کی جملہ اشیاء زبان حال یا اپنے عمل سے اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ ان کا انتظام کرنے والی ہستی ہر طرح کے عیوب اور نقائص سے پاک ہے۔ اور وہ صرف ایک ہی ہستی ہوسکتی ہے۔ یہ تو ہے ہر چیز کی عملی تسبیح۔ کائنات کی ہر چیز کی تسبیح کا مفہوم :۔ اور قولی یا زبانی تسبیح کی صورت یہ ہے کہ انسانوں، جنوں یا فرشتوں کی تسبیح زندگی کے تناسب کے لحاظ سے سب سے بالا و برتر، موثر اور قابل فہم ہوتی ہے۔ حیوانات کی اس سے کم اور جمادات کی اس سے کم، جن و انس کی تسبیح کی صورت چونکہ اختیاری ہے لہٰذا گاہے گاہے ہوتی ہے جبکہ باقی تمام اشیاء ہر وقت تسبیح میں مشغول رہتی ہیں اور جب کوئی چیز اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے تو اس پر اللہ کی رحمت کا نزول بھی ہوتا ہے۔ جس مخلوق کی تسبیح جتنی واضح ہوگی، اتنا ہی زیادہ رحمت کا نزول ہوگا اور اس توجیہہ کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ ایک قبر پر ایک ٹہنی کی دوشاخیں بنا کر انھیں قبر میں گاڑ دیا اور فرمایا کہ جب تک یہ خشک نہ ہوجائیں امید ہے کہ ان پر عذاب کم رہے (بخاری، کتاب الوضوء ، باب من الکبائر، ان لایستتر من بولہ) یعنی ہری ٹہنی کی تسبیح سوکھی ٹہنی سے زیادہ موثر اور قابل فہم ہوتی ہے اسی لحاظ سے اس پر رحمت کا نزول سوکھی ٹہنی سے زیادہ ہوگا اور اس رحمت کے نزول کا مردہ کو یہ فائدہ ہوگا کہ عذاب قبر میں تخفیف ہوگی۔ الإسراء
45 الإسراء
46 [٥٥] یہ چھپا ہوا پردہ اور دلوں پر پڑا ہوا پردہ ہونا یا ان کا ایسا محفوظ ہونا کہ کوئی بیرونی چیز ان پراثر نہ کرسکے اور کانوں کی ثقل سماعت ہونا۔ یہ سب باتیں قریش مکہ نے خود ہی بڑے فخر سے اپنے متعلق کہی تھیں۔ جیسا کہ یہی باتیں سورۃ حم السجدہ کی پانچویں آیت میں مذکور ہیں۔ چونکہ وہ خود بھی یہی کچھ چاہتے تھے لہٰذا اللہ نے انھیں ویسا ہی بنا دیا۔ قریشی سرداروں نے مسلمانوں کے علاوہ اپنے آپ پر بھی پابندی لگا رکھی تھی کہ جب قرآن پڑھا جارہا ہو تو اسے کوئی بھی نہ سنے لیکن وہ خود بھی اپنی اس عائد کردہ پابندی کو نبھا نہ سکے۔ تاہم مخالفت میں پہلے سے بھی بڑھتے گئے۔ [٥٦] مشرکوں کی توحید سے نفرت کی ایک نشانی :۔ کیونکہ اکیلے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے سے ان کے معبودوں کی از خود نفی ہوجاتی تھی جسے وہ صرف اپنے معبودوں کی ہی توہین نہیں سمجھتے تھے بلکہ اپنی اور اپنے آباء و اجداد کی بھی توہین سمجھتے تھے۔ کیونکہ ان کے معبودوں کی نفی کرنے یا انھیں بالکل بے اختیار کہنے کا صاف مطلب یہ نکلتا تھا کہ یہ سرداران قریش اور ان کے آباء و اجداد سب کے سب بے وقوف ہی تھے جو ان کو بااختیار سمجھ کر ان کی پوجا پاٹ کرتے رہے۔ لہٰذا اکیلے اللہ کا ذکر سنتے تو غصہ اور نفرت کی بنا پر وہاں سے بھاگ اٹھتے۔ اور یہ بات کچھ دور نبوی کے مکہ سے مخصوص نہیں۔ آج کل کے مشرکوں کا بھی یہی حال ہے۔ آپ ان حضرات کے خطبات جمعہ اور تقریریں وغیرہ سنیں تو ان کا اکثر حصہ ان کے اولیاء اللہ اور بزرگان دین کی کرامات اور تصرفات کا ذکر آئے گا۔ ابتدا میں رسمی طور پر تبرکاً کوئی آیت ضرور پڑھ لی جاتی ہے۔ لیکن بعد کی تقریر بس ان بزرگوں کی مدح و ثناء اور کرامات وغیرہ بیان کی جاتی ہیں اور ان کے پیرو کار پسند بھی ایسی ہی تقریر کرتے ہیں اور خوش رہتے ہیں اور درمیان میں اللہ کا ذکر آجائے تو اسے بھی گوارا ہونے کی حد تک برداشت کرلیتے ہیں لیکن اگر صرف توحید باری تعالیٰ کا بیان ہو تو اس بیکیف اور کئی بار سنی ہوئی تقریر سے ان کی طبیعت بور ہوجاتی ہے۔ اور خطبہ جمعہ کے علاوہ کسی جلسہ وغیرہ میں تقریر ہو رہی ہو تو اٹھ کر چلے جاتے ہیں۔ الإسراء
47 [٥٧] کافروں کے قرآن کو غور سے سننے کی وجہ :۔ یعنی اگر وہ آپ کی باتیں غور سے سنتے ہیں تو اس لیے نہیں کہ انھیں ہدایت نصیب ہو بلکہ اس لیے سنتے ہیں کہ کوئی ایسا نکتہ یا پوائنٹ ہاتھ آجائے جس کی بنا پر یا تو اس نبی کی تکذیب کرسکیں یا اس کا مضحکہ اڑا سکیں۔ اور ظاہر ہے کہ ایسی باتوں کی تلاش ہو تو غور سے سننا ہی پڑتا ہے۔ [٥٨] قریش مکہ نے یہ پابندی لگا رکھی تھی کہ ان کا کوئی شخص قرآن نہیں سنے گا لیکن اس کلام میں کچھ حلاوت اور دل نشینی اس قسم کی تھی کہ وہ اپنی عائد کردہ پابندی خود بھی نبھا نہ سکتے تھے اور چوری چھپے رات کے اندھیروں میں قرآن سن لیا کرتے پھر جب کسی ایک کو دوسرے پر یہ شک پڑجاتا ہے کہ اس نے قرآن سنا ہے۔ تو وہ آپس میں یہ کہتے تھے کہ کس شخص کی بات کرتے ہو جو خود سحر زدہ ہے اور عجیب طرح کی باتیں کرتا ہے۔ الإسراء
48 [٥٩] یعنی کبھی آپ کو مسحور کہتے ہیں، کبھی ساحر، کبھی کاہن اور کبھی شاعر یعنی ان کی ایسی مت ماری گئی ہے کہ وہ خود بھی کسی ایک بات پر اتفاق نہیں کرسکتے۔ ایک بات کہتے ہیں پھر خود ہی اس کی تردید کرنے لگتے ہیں۔ انھیں ایسی کوئی بات نظر نہیں آتی جس پر وہ سب متفق ہو سکیں کہ آخر اسے کہیں تو کیا کہیں؟ الإسراء
49 [٦٠] یعنی آپ کے مسحور ہونے کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ جو شخص یہ کہتا ہو کہ ’’جب ہم مر کر مٹی میں مل جائیں گے، ہماری ہڈیاں بھی ختم ہوجائیں گی۔ تب بھی ہمیں زندہ کرکے از سر نو اٹھایا جائے گا‘‘ بھلا اس کے سحر زدہ ہونے میں کوئی شک باقی رہ جاتا ہے۔؟ الإسراء
50 اس آیت کی تفسیر اگلی آیت کے ساتھ ملاحظہ کیجئے۔ الإسراء
51 [٦١] یعنی تمہیں یہ خیال ہے کہ ہماری ہڈیاں گل سڑ کر اور ریزہ ریزہ ہو کر مٹی میں مل کر مٹی ہی بن جائیں گی تو پھر کیسے پیدا ہوں گے مگر مٹی تو پھر بھی ایک ایسی چیز ہے جو مسام دار ہے اور پانی اور ہوا اس کے اندر داخل ہوسکتے ہیں جو زندگی کے لیے ضروری عناصر ہیں اس سے ہر قسم کی نباتات بھی اگتی ہے لیکن اگر تم کوئی سخت چیز بن جاؤ جیسے پتھر کہ جس کے اندر پانی یا ہوا داخل نہیں ہوسکتے اور اس کے اجزاء اور ذرات مٹی کی نسبت آپس میں بہت زیادہ جڑے ہوئے اور پیوست ہوتے ہیں یا پتھر سے بھی سخت چیز مثلاً لوہا بن جاؤ یا اس سے بھی کوئی سخت چیز جو تمہارے دل میں آسکتی ہو، وہ بن جاؤ تب بھی اللہ تمہیں اس سخت چیز سے دوبارہ زندہ کرکے اٹھا کھڑا کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ [٦٢] بعث بعد الموت پر کفار کے اعتراضات :۔ پھر ان مشرکوں کا دوسرا سوال یہ ہوتا ہے کہ وہ کون سی ہستی ہے جو ہمیں دوبارہ پیدا کرے گی؟ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر اور کئی دوسرے مقامات پر بھی یہ دیا ہے کہ جس ہستی نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا وہ دوسری بار بھی پیدا کرسکتی ہے اور یہ تو واضح بات ہے کہ دوسری بار پیدا کرنا پہلی بار پیدا کرنے کی نسبت آسان ہوتا ہے۔ یہ جواب سن کر وہ از راہ مذاق سر ہلاتے اور کہتے ہیں کہ اچھا یہ بات تو سمجھ آگئی مگر بتاؤ یہ ایسا واقعہ ہوگا کب؟ یہ ان کا تیسرا سوال ہوتا ہے۔ اس سوال کا متعین وقت بتانا اللہ کی مشیئت کے خلاف ہے جیسا کہ کسی کو اس کی موت کا معین وقت بتانا یا کسی نافرمان قوم کو اس پر عذاب نازل ہونے کا متعین وقت بتانا اللہ کی مشیت کے خلاف ہے کہ اس سے انسان کی پیدائش اور ابتلاء کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے لہٰذا اس سوال کا جواب یہ دیا کہ جس چیز کا واقع ہونا ایک یقینی امر ہو وہ قریب ہی ہوتی ہے جیسے ہر انسان کی موت یقینی ہے مگر اس کا وقت معین نہیں اور کسی بھی وقت یا ابھی بھی آسکتی ہے لہٰذا اسے قریب ہی سمجھنا چاہیئے۔ الإسراء
52 [٦٣] یعنی جب قیامت آگئی اور اللہ نے تمہیں زندہ کرکے اٹھ کھڑا ہونے اور اپنے پاس حاضر ہونے کا حکم دے دیا تو تم بلا چون و چرا اس کے سامنے از خود حاضر ہوجاؤ گے اور یہ سب باتیں تمہیں بھول جائیں گی۔ پھر اس دن چونکہ سب حجابات اٹھ جائیں گے اور ہر انسان یہ دیکھ رہا ہوگا کہ قادر مطلق تو صرف ایک اللہ کی ذات ہے لہٰذا تم صرف اللہ کی پکار پر حاضر ہی نہ ہوگے بلکہ اس کی تعریف کے گن گاتے حاضر ہوگے اور اس دن یہ دنیا کی زندگی تمہیں بس ایک سہانا خواب ہی معلوم ہوگی۔ الإسراء
53 [٦٤] داعی کو تلخ کلامی سے پرہیز ضروری ہے :۔ ہر شخص کو چاہیے کہ خطاب کے وقت اس کے لہجہ میں نرمی اور الفاظ میں شیرینی ہونی چاہیے تند و تیز اور غصہ والے لہجہ یا تلخ الفاظ استعمال کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے خواہ یہ خطاب باہمی گفتگو کے سلسلہ میں ہو یا دعوت دین کے سلسلہ میں۔ کیونکہ لہجہ یا الفاظ میں درستی سے مخاطب کے دل میں ضد اور عداوت پیدا ہوتی ہے اور اس سے دعوت دین کا کام یا اصلاح احوال کا کام پیچھے جا پڑتا ہے۔ [٦٥] اور شیطان تو چاہتا ہی یہ ہے کہ تمہاری آپس میں منافرت، ضد اور دشمنی پیدا ہو اور دعوت و تبلیغ کا کام رک جائے۔ لہٰذا خطاب کے وقت خصوصی احتیاط کرو۔ اور تم غصہ میں آگئے یا تلخ لہجہ یا سخت الفاظ کہناشروع کردیئے تو سمجھ لو کہ تم شیطان کی چال میں آگئے۔ اسی لیے اللہ نے مسلمانوں کو کافروں کے بتوں یا معبودوں کو بھی برا بھلا کہنے سے منع فرما دیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کافر ضد میں آکر جوابی کارروائی کے طور پر اللہ کو برا بھلا کہنے لگیں۔ (٦: ١٠٨) الإسراء
54 [٦٦] کوئی شخص کسی کو نجات اخروی کی ضمانت نہیں دے سکتا :۔ ہم یوں تو کہہ سکتے ہیں جو اللہ کے فرمانبردار ہیں وہ جنت میں اور نافرمان دوزخ میں جائیں گے مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں (معین) شخص جنت میں یا دوزخ میں جائے گا۔ نہ ہی اپنے متعلق کوئی شخص ایسا دعویٰ کرسکتا ہے اور نہ کوئی فرقہ یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ وہ ضرور جنت میں جائے گا۔ اس لیے کہ ہر ایک کی حقیقت حال اور اس کا انجام صرف اللہ ہی کو معلوم ہے حتیٰ کہ نبی آخر الزمان بھی کسی کی ہدایت اور اخروی نجات کے ضامن نہیں ہیں۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ سیدنا خارجہ بن زید بن ثابت کہتے ہیں کہ ام العلاء ایک انصاری عورت تھی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ مہاجرین قرعہ سے ہم انصار کو بانٹ دیئے گئے۔ ہمارے حصہ میں عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ آئے۔ ہم نے انھیں اپنے گھروں میں اتارا۔ پھر وہ ایسی بیماری میں مبتلا ہوئے جن میں ان کی وفات ہوگئی۔ جب انھیں غسل دیا اور کفن پہنایا گیا اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ میں نے کہا ’’اے ابو السائب (یہ عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی کنیت تھی) اللہ تم پر رحم کرے۔ میں یہ گواہی دیتی ہوں کہ اللہ نے تم کو عزت دی۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا ’’ (ام العلاء ) تجھے کیسے معلوم ہوا کہ اللہ نے اسے عزت دی؟“ میں نے کہا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرا باپ آپ پر قربان ہو، پھر اللہ کس کو عزت دے گا ؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’عثمان فوت ہوگیا اور اللہ کی قسم! میں اس کے حق میں بھلائی کی امید رکھتا ہوں اور اللہ کی قسم! میں حتمی طور پر یہ نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا معاملہ ہوگا حالانکہ میں اللہ کا رسول ہوں“ام العلاء کہنے لگیں کہ اللہ کی قسم! اس کے بعد میں کبھی کسی کی بزرگی بیان نہیں کروں گی۔ (بخاری، کتاب الجنائز، باب الدخول علی المیت بعد الموت۔۔) الإسراء
55 [٦٧] انبیاء کی فضیلت کے پہلو :۔ اس فضیلت کے بھی کئی پہلو ہیں مثلاً کسی نبی کی دعوت کا کام زیادہ بار آور ثابت ہوا، کسی کا کم، کسی نے صرف تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیا، کسی نے جہاد بھی کیے کسی کو کوئی معجزہ دیا گیا تو دوسرے نبی کو کوئی دوسرا دیا گیا۔ کچھ نبیوں نے تنگدستی اور فقیری میں ہی زندگی گزار دی اور کچھ ساتھ ہی بادشاہ بھی تھے۔ وغیرہ وغیرہ۔ [٦٨] بادشاہ بھی نبی ہوسکتا ہے تو ایک عام آدمی کیوں نبی نہیں ہوسکتا ؟ اس مقام پر بالخصوص سیدنا داؤد علیہ السلام کا ذکر کرنے کی دو وجوہ معلوم ہوتی ہیں ایک یہ کہ داؤد علیہ السلام اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے، پست قد تھے اور حقیر سمجھے جاتے تھے۔ بکریاں چرایا کرتے تھے مگر جو قیمتی جوہر ان میں موجود تھے انھیں اللہ ہی جانتا تھا۔ لہٰذا اللہ نے انھیں صرف نبی ہی نہیں بنایا بلکہ صاحب کتاب نبی بنایا پھر بادشاہت بھی عطا فرمائی۔ یہ ہے اللہ کی دین اور اللہ کا فضل کہ جس پر اس کی نظر انتخاب پڑتی ہے اسے نوازتا ہے۔ اور جتنا چاہے نوازتا ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ مشرکین مکہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ یہ تو ہمارے ہی جیسا انسان ہے جو ہماری طرح کھاتا پیتا، چلتا پھرتا اور شادیاں کرتا ہے اور صاحب اولاد ہے۔ یہ تو طالب دنیا ہے لہٰذا یہ خدا رسیدہ یا اللہ کا پیغمبر کیسے ہوسکتا ہے۔؟ گویا ان کے نظریہ کے مطابق خدا رسیدہ یا پیغمبر ہونے کے طالب دنیا ہونے کے بجائے تارک دنیا ہونا ضروری تھا۔ جیسا کہ یہود و نصاریٰ میں رہبان تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس نظریہ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک عام انسان یا طالب دنیا کے متعلق تمہارا یہ خیال ہے کہ وہ نبی نہیں ہوسکتا تو ایک بادشاہ کے متعلق تم کیا سوچ سکتے ہو جو عام انسانوں سے بہت زیادہ دنیا میں پھنسا ہوا، طالب دنیا اور اللہ سے نسبتاً دور ہوتا ہے؟ پھر جب ہم نے داؤد بادشاہ کو بھی نبوت عطا کی اور صاحب کتاب نبی بنایا تھا تو پھر آخر یہ نبی آخرالزمان کیوں نبی نہیں ہوسکتا ؟ الإسراء
56 [٦٩] اس آیت میں عموم ہے یعنی خواہ وہ پتھر کے بت ہوں یا فرشتے یا جن ہوں یا فوت شدہ نبی اور اولیاء ہوں سب اس میں شامل ہیں۔ دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ شرک صرف بتوں کو سجدہ کرنے کا نام نہیں بلکہ انھیں مشکل کے وقت پکارنا بھی ویسا ہی شرک ہے اور اس بات کی کئی دوسری آیات اور احادیث صحیحہ سے بھی تائید ہوجاتی ہے اور تیسری یہ بات کہ معبود خواہ کسی بھی قسم سے تعلق رکھتے ہوں نہ وہ کسی کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ کسی کی بگڑی سنوار سکتے ہیں اور یہ سب مشرکانہ عقائد ہیں۔ الإسراء
57 [٧٠] اس آیت میں بالخصوص ایسے معبودوں کا ذکر ہے جو جاندار ہیں۔ پتھر کے بت اس آیت کے مضمون سے خارج ہیں۔ یعنی فرشتے یا جن یا فوت شدہ انبیاء و صالحین ہی اس سے مراد لیے جاسکتے ہیں۔ اور بتایا یہ جارہا ہے کہ تم ان ہستیوں کو اپنی حاجت روائی یا مشکل کشائی کے لیے وسیلہ بناتے ہو جو خود ساری زندگی اس جستجو میں رہے کہ اللہ کے زیادہ سے زیادہ فرمانبردار بندے بن کر اس کا قرب حاصل کریں اور وہ اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہی رہے لہٰذا تمہیں بھی یہی طریقہ اختیار کرنا چاہیے اور اللہ کے زیادہ سے زیادہ فرمانبردار بن کر اور اعمال صالحہ بجا لا کر ان اعمال کے ذریعہ یا وسیلہ سے اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہیے۔ اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے نیک اعمال کو وسیلہ بنا کر آپ اپنے حق میں دعا کرسکتا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے بھی واضح ہوتا ہے : نیک اعمال کو وسیلہ بنانا اور دعا مانگنا :۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلے لوگوں میں سے تین شخص کہیں جارہے تھے کہ انھیں بارش نے آلیا۔ انہوں نے ایک غار میں پناہ لی۔ اوپر سے ایک پتھر گرا اور غار کا منہ بند ہوگیا۔ وہ آپس میں کہنے لگے : اللہ کی قسم! اب تو (اس مصیبت سے) تمہیں سچائی ہی بچا سکتی ہے لہٰذا ہم میں سے ہر شخص اپنے عمل کا ذکر کرکے اللہ سے دعا کرے جو اس نے صدق نیت سے کیا ہو۔ ان میں سے ایک نے کہا : اے اللہ تو خوب جانتا ہے کہ میں نے ایک فرق (تین صاع) چاول پر ایک مزدور رکھا وہ (ناراض ہو کر) چلا گیا اور اپنی مزدوری چھوڑ گیا۔ میں نے ان چاولوں کا یہ کیا کہ ان سے کھیتی باڑی کی۔ پھر اس میں اتنا فائدہ ہوا کہ میں نے گائے بیل خرید لیے (مدت کے بعد) وہ مزدور اپنی مزدوری مانگنے آیا تو میں نے اسے کہا جاؤ ’’وہ سب بیل لے جاؤ‘‘ اس نے کہا ’’میرے تو تیرے پاس صرف ایک فرق چاول تھے‘‘ میں نے کہا ’’انہی چاولوں سے (کھیتی کرکے) میں نے یہ گائے بیل خریدے ہیں‘‘ چنانچہ وہ انھیں لے گیا۔ یا اللہ! تو خوب جانتا ہے اگر میں نے یہ عمل تیرے ڈر کی وجہ سے کیا تھا تو ہماری مصیبت دور کردے۔ چنانچہ وہ پتھر سرک گیا۔ دوسرے نے کہا ’’یا اللہ! تو جانتا ہے کہ میرے والدین بوڑھے تھے اور میں ہر رات ان کے لیے بکریوں کا دودھ لاتا۔ ایک رات مجھے کافی دیر ہوگئی اور وہ دونوں سوگئے۔ میرے بیوی بچے بھوک سے چلاتے رہے۔ میری عادت تھی کہ میں اپنے والدین کو دودھ پلاتا پھر اپنے بیوی بچوں کو، میں نے انھیں جگانا مناسب نہ سمجھا اور نہ اس بات کو گوارا کیا کہ انھیں چھوڑ کر چلا جاؤں اور وہ دودھ کے انتظار میں پڑے رہیں اور میں پو پھٹنے تک ان کا انتظار کرتا رہا۔ یا اللہ تو خوب جانتا ہے اگر میں نے یہ عمل تیرے ڈر کی وجہ سے کیا تھا تو ہماری مصیبت دور کردے۔‘‘ اس وقت وہ پتھر اور سرک گیا۔ یہاں کہ انھیں آسمان دکھائی دینے لگا۔ تیسرے نے کہا : یا اللہ تو خوب جانتا ہے کہ میری ایک چچا زاد بہن تھی جسے میں سب سے زیادہ چاہتا تھا۔ میں نے ایک دفعہ اس سے صحبت کرنا چاہی تو اس نے انکار کردیا۔ اِلا یہ کہ میں اسے سو دینار دوں۔ میں کوشش کرکے سو دینار لے آیا اور اس کو دے دیئے۔ اس نے اپنے تئیں میرے حوالے کردیا اور جب میں (صحبت کے لیے) اس کی دونوں رانوں کے درمیان بیٹھ گیا تو وہ کہنے لگی ’’اللہ سے ڈرو اور مہر کو ناحق طور سے نہ توڑو‘‘ میں کھڑا ہوگیا اور سو دینار بھی چھوڑ دیئے۔ یا اللہ اگر میں نے یہ عمل تیرے ڈر سے کیا تھا تو ہماری مشکل کو دور کردے۔ چنانچہ اللہ نے ان کی مصیبت کو دور کردیا اور وہ باہر نکل آئے۔ (بخاری، کتاب الانبیاء۔ باب حدیث الغار) [٧١] ایمان کا تقاضا اللہ سے امید بھی اور خوف بھی :۔ یعنی اعمال صالحہ بجا لانے اور ان کے اجر کی امید رکھنے کے باوجود اللہ سے ڈرتے بھی رہنا چاہیے کہ شاید ان اعمال میں کوئی تقصیر نہ ہوگئی ہو۔ اور بعض دفعہ انسان اس دنیا میں ناکردہ گناہوں کی پاداش میں بھی دھر لیا جاتا ہے جیسے کسی نے اس پر جھوٹا مقدمہ بنا دیا یا کوئی تہمت لگا دی۔ اور یہ بھی اللہ کے عذاب ہی کی قسم ہے اور اس کی مشیئت سے ہی واقع ہوتی ہے۔ لہٰذا اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہی رہنا چاہیے۔ الإسراء
58 [٧٢] قیامت سے پہلے سب بستیوں کی تباہی :۔ یعنی کچھ بستیاں تو ایسی ہیں جو عذاب میں ماخوذ ہو کر تباہ کی جاچکی ہیں اور قیامت سے پہلے باقی موجود سب بستیوں کا بھی یہی حشر ہونے والا ہے اور چونکہ قیامت آنے سے پہلے نیک لوگوں کو اٹھا لیا جائے گا اور قیامت شرار الناس پر قائم ہوگی لہٰذا قیامت کو یہ نظام کائنات درہم برہم کرنے سے پیشتر ایسی شریر بستیوں کو پہلے ہی عذاب سے ہلاک کردیا جائے گا۔ الإسراء
59 [٧٣] یعنی جب ضدی اور ہٹ دھرم لوگ کوئی حسی معجزہ یا اپنا فرمائشی معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے تو اس صورت میں ان پر عذاب الٰہی کا نزول لازم ہوجاتا ہے۔ مگر چونکہ ہم مکہ کے رہنے والوں کو ایسے عذاب سے ہلاک نہیں کرنا چاہتے۔ اور ان کے زندہ رہنے اور رکھنے میں بہت سی حکمتیں مضمر ہیں لہٰذا انھیں ان کا فرمائشی معجزہ نہ دینے میں ہی مصلحت اور ان کی عافیت ہے۔ [٧٤] معجزہ دکھانے کا مقصد محض خوف دلانا ہوتا ہے :۔ قوم ثمود کے حالات ان کے سامنے ہیں۔ انہوں نے فرمائشی اور حسی معجزہ طلب کیا تھا۔ یہ معجزہ دیکھنے کے باوجود وہ ایمان نہ لائے۔ تو اس کے نتیجہ میں انھیں تباہ کردیا گیا۔ حالانکہ فرمائشی معجزہ کو پورا کردینا اللہ تعالیٰ کی قدرت قاہرہ پر زبردست دلیل ہے۔ پھر ایسا معجزہ دیکھ کر بھی جو ایمان نہ لائے اور اس کے دل میں اللہ کا ڈر پیدا نہ ہو تو ایسے لوگوں کا علاج یہی ہے کہ انھیں کسی دردناک عذاب سے تباہ کر ڈالا جائے۔ الإسراء
60 [٧٥] اس سے مراد سورۃ بروج کی آیت نمبر ١٩ اور ٢٠ ہیں، یعنی کافر تو آپ کو اور اس دعوت قرآن کو جھٹلانے میں لگے ہوئے ہیں جبکہ اللہ انھیں ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے اور سورۃ بروج اس سورۃ بنی اسرائیل سے بہت پہلے نازل ہوچکی تھی۔ اور اس سے مراد یہ ہے کہ یہ کفار مکہ اپنی معاندانہ سرگرمیوں میں جتنی بھی کوشش چاہے کرلیں۔ یہ ایک حد سے آگے نہ جاسکیں گے اور ان کی ان کوششوں کے علی الرغم دعوت اسلام پھیل کر رہے گی۔ [٧٦] کافر حسی معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے :۔ واقعۂ معراج ایک خرق عادت واقعہ اور معجزہ تھا۔ کفار نے اس معجزہ کا اتنا مذاق اڑایا کہ بعض ضعیف الاعتقاد مسلمان بھی شک میں پڑگئے۔ پھر کافر جنہوں نے پہلے بیت المقدس دیکھا ہوا تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات پوچھنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے سامنے سے سب پردے ہٹادیئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کافروں کے تمام سوالوں کے جوابات دیتے گئے۔ اب چاہیے تو یہ تھا کہ کسی حسی معجزہ کے طالب کفار ایمان لے آتے۔ لیکن وہ ان کے لیے آزمائش بن گیا جس میں یہ ناکام ہوئے اور پہلے سے بھی زیادہ سرکشی کی راہ اختیار کرنے لگے۔ [٧٧] ملعون درخت اور معراج دونوں سے کفار مکہ کی آزمائش :۔ اسی طرح سورۃ صافات میں ایک اور خرق عادت بات کی اطلاع دی گئی تھی جو یہ تھی کہ ’’جہنم کی تہہ سے تھوہر کا درخت اگے گا۔ یہی اہل جہنم کا کھانا ہوگا جس کے علاوہ انھیں کوئی کھانے کی چیز نہ ملے گی‘‘ (٣٧: ٦٢ تا ٦٦) اس بات پر بھی کافروں نے بہت لے دے کی کہ آگ میں بھلا یہ درخت کیسے اگ سکتا ہے؟ یہ بھی دراصل اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا انکار ہے کہ اپنی عقل کے پیمانے سے اسے ناپنے کی کوشش کی جاتی ہے حالانکہ آگ میں درخت یا پودے تو درکنار جاندار بھی پیدا ہوتے اور زندہ رہتے ہیں۔ آگ کا کیڑا سمندری آگ ہی سے پیدا ہوتا اور اسی میں زندہ رہتا ہے۔ پھر کئی پودے ایسے بھی ہیں جن سے آگ نکلتی ہے۔ یہ تو اس دنیا کا حال ہے اور اخروی عالم اور دوزخ کی کیفیت جب ہم پوری طرح سمجھ بھی نہیں سکتے اور نہ کوئی چیز تجربہ میں آسکتی ہے تو انکار کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ انکار تو اس صورت میں معقول ہوسکتا ہے جب انسان اللہ تعالیٰ کی باقی سب قدرتوں کو پوری طرح سمجھ چکا ہو اور بس یہی ایک بات باقی رہ گئی ہو۔ انسان کا علم تو اتنا ناقص ہے کہ وہ اپنے جسم کے اندر کی چیزوں کی کیفیت بھی نہیں سمجھ سکتا تو پھر دوسرے عجائبات سے انکار کرنے یا ان کا مذاق اڑانے کا کیا حق ہے یہ دوسری بات تھی جو ان کفار کی سرکشی بڑھانے کا سبب بن گئی تھی۔ اور یہ درخت ملعون اس لحاظ سے ہے کہ اس میں غذائیت تو نام کو نہیں ہوتی۔ کانٹے بڑے سخت اور تیز ہوتے ہیں جو اہل دوزخ کی اذیت میں مزید اضافہ ہی کریں گے۔ واقعہ معراج کی طرح، تھوہر کے درخت کی آگ میں پیدائش بھی کافروں کے لیے فتنہ بن گئی تھی۔ اور واقعہ معراج کے فتنہ بننے سے بھی یہ بات از خود ثابت ہوجاتی ہے کہ یہ سفر جسمانی تھا، روحانی یا کشفی نہیں تھا کیونکہ خواب میں تو ہر انسان ایسے یا اس سے عجیب تر واقعات دیکھ سکتا ہے لیکن کبھی کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ الإسراء
61 الإسراء
62 [٧٨] قصۂ آدم و ابلیس پہلے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٣٠ تا ٣٩، سورۃ انعام آیت نمبر ١١ تا ٢٥، سورۃ الحجر آیت نمبر ٢٦ تا ٤٢ میں گذر چکا ہے۔ ان آیات کے حواشی بھی ملحوظ رکھے جائیں۔ [٧٩] ابلیس کا آدم پر قابو پانے کا دعوی :۔ احتنک الفرس بمعنی گھوڑے کے منہ میں رسی یا لگام دینا اور المحنک اس آدمی کو کہتے ہیں جسے زمانہ نے تجربہ کار بنا دیا ہو (منجد) گویا احتنک کے معنی کسی پر عقل اور تجربہ سے قابو پانا ہے اور شیطان کا دعویٰ یہ تھا کہ آدم اچھی طرح میرا دیکھا بھالا ہے اور میں اس پر اور اس کی اولاد پر پوری طرح قابو پاسکتا ہوں۔ الإسراء
63 الإسراء
64 [٨٠] شیطان کی آواز سے مراد :۔ شیطان کی آواز سے مراد ہر وہ پکار ہے جو اسے اللہ کی نافرمانی پر اکساتی ہو اور یہ آواز عموماً شیطانوں کے چیلوں چانٹوں ہی سے آتی ہے پھر اس شیطانی آواز میں ہر قسم کا گالی گلوچ، لڑائی جھگڑا، گانابجانا، موسیقی، راگ رنگ اور مزامیر طرب و نشاط کی محفلیں سب کچھ آتا ہے جو اللہ کی یاد سے انسان کو غافل بنائے رکھتی ہیں اور اس کی اصل فطرت پر پردہ ڈالے رکھتی ہیں۔ [٨١] یعنی تجھے اس بات کی بھی اجازت ہے کہ ڈاکوؤں کی طرح اپنی پوری جمعیت کے ساتھ۔ خواہ وہ انسانوں سے تعلق رکھتی ہو یا جنوں اور شیطانوں سے، اولاد آدم پر پوری شان و شوکت کے ساتھ حملہ آور ہو اور ان میں جس قدر تباہی اور گمراہی مچاسکتا ہے مچالے۔ [٨٢] شیطان کی مال واولاد میں شرکت کی صورتیں :۔ یعنی مال کمانے کے جتنے ناجائز ذرائع انسان اختیار کرتا ہے وہ سب شیطانی انگیخت اور اس کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے کرتا ہے۔ اور حرام خور انسان شیطان کے مشورے ایسے قبول کرتا ہے جیسے شیطان بھی اس کے کام کاج میں شریک ہے۔ پھر شیطان تو انسان کو یہ راہ دکھا کر الگ ہوجاتا ہے اور سارا گناہ کا بار بنی آدم پر پڑجاتا ہے۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جیسے مشرکین مکہ اپنے اموال کھیتی اور چوپایوں میں سے اللہ کا حصہ الگ نکالتے تھے اور اپنے بتوں کا الگ۔ اسی طرح جو مال بھی بتوں کے چڑھاوے، قربانی یا غیر اللہ کی نذر و نیاز کے طور پر دیا جاتا ہے وہ سب بنی آدم کے اموال میں شیطان کی شراکت ہے۔ اور اولاد میں شراکت یہ ہے کہ اولاد تو اللہ تعالیٰ عطا فرمائے اور اس کا نام پیراں دتہ، غوث بخش، عبدالنبی، میراں بخش، یا اسی قسم کے دوسرے شرکیہ نام رکھ کر اولاد کو غیر اللہ کی طرف منسوب کیا جائے یا اولاد کے لیے اللہ کے سوا دوسروں کے در پر جائے اور ان کے ہاں قربانیاں اور نذر و نیاز دے۔ [٨٣] شیطان کے وعدے :۔ شیطان کے وعدوں اور ان وعدوں کی حقیقت کے لیے سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر ٢٢ کے حواشی ملاحظہ فرمائیے۔ الإسراء
65 [٨٤] شیطان کا داؤکن پر چلتا ہے؟:۔ شیطان کا داؤ صرف ان لوگوں پر چلتا ہے جو ضعیف الاعتقاد اور پہلے ہی شیطانی عمل پر لیبک کہنے کے لیے تیار بیٹھے ہوتے ہیں اور جن کے لیے حاجت رواؤں اور مشکل کشاؤں کے کئی دروازے کھلے ہوتے ہیں۔ ایک دروازے سے مقصد حل نہ ہو تو دوسرے دروازے پر چلے جاتے ہیں اور ان میں سے بعض ایسے ہوتے ہیں جو محض ظاہری اسباب پر تکیہ کرلیتے ہیں۔ ایسے لوگ فوراً شیطان کی چالوں میں پھنس جاتے ہیں۔ مگر جو لوگ صرف ایک اللہ پر نظر رکھتے اور اسی پر بھروسہ کرتے ہیں ان پر شیطان کا داؤ کارگر نہیں ہوسکتا۔ [٨٥] یعنی جو لوگ اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں تو اللہ بھی ان کے کام ایسے حیرت انگیز طریقوں سے سنوارتا اور سیدھے کردیتا ہے جن کا انسان کو وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔ بلکہ انسان خود بھی اللہ کی ایسی غیبی امداد پر حیران رہ جاتا ہے اور از راہ تشکر اللہ سے اس کی محبت اور اس پر بھروسہ پہلے سے بڑھ جاتا ہے۔ الإسراء
66 الإسراء
67 [٨٦] گرداب میں صرف اللہ کو پکارنا :۔ شیطانی اغوا کی کیفیت بیان کرنے کے بعد پھر سے توحید کے اثبات اور شرک کی تردید پر دلائل ذکر کیے جارہے ہیں۔ مشرکین مکہ کی عادت تھی کہ جب ان کی کشتی گرداب میں پھنس جاتی یا سمندر کے طوفانی تھپیڑے کشتی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے اور کشتی والوں کو سب ظاہری اسباب ختم ہوتے نظر آنے لگتے تو اس وقت وہ صرف ایک اللہ کو پکارتے اور اپنے دوسرے سب معبودوں کو بھول جاتے تھے۔ اسی فطری داعیہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت اور مختار کل ہونے کے ثبوت پر پیش فرمایا ہے اور باقی معبودوں کی تردید کی ہے مگر آج کا مشرک اس دور کے مشرکوں سے اپنے شرک میں پختہ تر نظر آتا ہے وہ اس آڑے وقت میں بھی ’’یا بہاول الحق، بیڑا بنے دھک‘‘ (یعنی اے بہاول الحق! یہ کشتی پار لگا دو) کا نعرہ لگاتا ہے۔﴿قٰتَلَہُمُ اللّٰہُ اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ ﴾ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سورۃ یونس کے حاشیہ نمبر ٣٤ میں ملاحظہ فرمائیے۔ الإسراء
68 الإسراء
69 [٨٧] اللہ کی گرفت کی صورتیں :۔ پھر اللہ کی گرفت کا معاملہ سمندر سے ہی متعلق نہیں وہ سمندر سے باہر خشکی پر بھی تم پر عذاب نازل کرسکتا ہے وہ یہ بھی کرسکتا ہے کہ زمین شق ہوجائے اور وہ تمہیں اس میں ایسے غرق کردے کہ کسی کو پتہ تک نہ چل سکے اور یہ بھی کرسکتا ہے کہ تم پر کنکروں اور سنگریزوں والی تند و تیز آندھی کا طوفان بھیج کر تمہیں ہلاک کردے اور اس سے بچنے کے لیے تمہیں کوئی پناہ گاہ نہ مل سکے اور یہ بھی کرسکتا ہے کہ سمندری سفر کے لیے دوبارہ کوئی صورت پیدا کر دے اور تمہارے کفر و شرک کی پاداش میں تمہیں طوفانی تھپیڑوں کے حوالے کرکے تمہیں کشتی سمیت غرق کردے تو ایسی صورت میں تمہارا کوئی معبود تمہارا ایسا حمایتی ہے جو تمہاری طرف سے ہو کر ہم سے باز پرس کرسکے؟ الإسراء
70 [٨٨] انسان اشرف المخلوقات کیسے ہے؟ انسان کی دوسری تمام مخلوق پر فضیلت اور تکریم یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو احسن تقویم پر پیدا کیا جو سیدھا کھڑا ہو کر چلتا ہے پھر جس قدر توازن و اعتدال انسانی جسم میں ہے اور جس قدر اس کے اعضاء جسم کثیر المقاصد ہیں اتنے کسی دوسری کے نہیں۔ مخلوق میں سب سے برتر اللہ کے فرشتے تھے۔ اللہ نے ان سے بھی آدم کو سجدہ کروایا اور اس طرح سب مخلوق پر واضح کردیا کہ انسان ہی اشرف المخلوقات ہے۔ پھر انسان کا بچہ جو باقی تمام جانوروں کے بچوں سے کمزور پیدا ہوتا ہے اسے اتنی عقل عطا کی کہ وہ دنیا جہاں کی چیزوں کو اپنے کام میں لائے۔ بڑے بڑے جسیم اور طاقتور جانوروں کو رام کرکے ان پر سواری کرے۔ دریاؤں اور سمندروں میں کشتیاں اور جہاز چلا کر سمندر کی پیٹھ پر سوار ہو۔ تمام مخلوق کے مقابلہ میں کھانے کے لیے اعلیٰ سے اعلیٰ، لذیذ سے لذیذ اور صاف ستھرے کھانے اپنی خوراک کے لیے تیار کرے۔ اعلیٰ سے اعلیٰ لباس اور رہائش کے لیے مکان تعمیر کرے۔ یعنی جتنا اقتدار و اختیار اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کیا ہے اتنا دوسری کسی مخلوق کو عطا نہیں کیا گیا اور یہ سب کچھ یقیناً اللہ ہی کی بخشش اور اس کا کرم ہے پھر اس سے بڑھ کر حماقت اور ضلالت اور کیا ہوسکتی ہے کہ انسان دوسری مخلوقات کے مقابلہ میں ایسے بلند مرتبہ پر فائز ہو کر اللہ کے سوائے اس کی دوسری مخلوق کے سامنے سرجھکانے لگے؟ یا اپنے ہی جیسے کسی محتاج بندے کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنے لگے؟ الإسراء
71 [٨٩] امام سے مراد کسی امت کا نبی بھی ہوسکتا ہے اور وہ شخص بھی جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بعد پیشوا سمجھا گیا ہو۔ اور یہ بلانا اس طرح ہوگا : اے موسیٰ کی امت، اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت، اے عیسیٰ علیہ السلام کی امت یا اے قرآن والو! اے انجیل والو، اے تورات والو، اسی طرح ہر گروہ والوں کو اس گروہ کے بانی کے نام سے پکارا جائے گا۔ [٩٠] اللہ کے فرمانبرداروں کو ان کا اعمال نامہ سامنے سے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اور یہ ایک حسی مشاہدہ ہوگا جسے دیکھ کر ہر شخص اس کے جنتی ہونے کا اندازہ لگا سکے گا۔ ایسے شخص بہت خوش و خرم ہوں گے اور خوشی سے اپنا اعمال نامہ دوسروں کو بھی پڑھنے کو کہیں گے اور انھیں ان کے اعمال کا پورا پورا اجر مل جائے گا لیکن جس شخص کو اس کا اعمال نامہ پیچھے کی طرف سے دائیں ہاتھ میں تھما یا گیا اسے بھی فوراً اپنا انجام معلوم ہوجائے گا وہ اپنا اعمال نامہ چھپانا چاہے گا اور کہے گا کاش! مجھے یہ دیا ہی نہ جاتا۔ [٩١] فتیلا اس باریک سے دھاگے کو بھی کہتے ہیں جو کھجور کی گٹھلی کے شگاف میں ہوتا ہے اور اس لفظ سے بہت تھوڑی مقدار مراد لی جاتی ہے یعنی ہر ایک کو قیامت کے دن اس کی محنت کا پورا صلہ بلکہ اس سے زیادہ بھی ملے گا۔ لیکن مجرموں کو ان کے گناہوں سے ذرہ بھر بھی زیادہ سزا نہ دی جائے گی۔ الإسراء
72 [٩٢] یعنی دنیا میں ہدایت کے راستہ کو دیکھنے کی کوشش ہی نہ کی اور اندھا بنا رہا۔ وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا اور جنت کی راہ نظر ہی نہ آئے گی۔ دنیا میں اس کا اندھاپن اختیاری تھا اور اس کی اصلاح ممکن تھی۔ لیکن آخرت میں اس کا اندھا پن اضطراری ہوگا جو دنیا کے اندھا پن کے نتیجہ میں واقع ہوگا اور چونکہ اس کی اصلاح کی اب کوئی صورت ممکن نہ ہوگی نہ کسی دوسرے کا اسے راستہ دکھانا کام آسکے گا۔ لہٰذا ایسا شخص جنت سے دور ہی کہیں بھٹکتا رہے گا اور اسے صرف اپنے سامنے جہنم کے مختلف طرح کے عذاب ہی نظر آئیں گے۔ الإسراء
73 [٩٢۔ الف] یعنی کفار مکہ کے آپ سے بغض و عناد اور دشمنی کے خاتمہ کی ایک ہی صورت ہے وہ یہ کہ آپ ان کے بتوں کی حمایت میں کچھ کلمات کہہ دیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہیں یہ کلمات مجھ پر اللہ کی طرف سے وحی ہوئے ہیں۔ اس صورت میں یہ لوگ آپ سے دوستی گانٹھنے پر بھی آمادہ ہوجائیں گے۔ الإسراء
74 [٩٣] کفار مکہ کی آپ سے سمجھوتہ کی کوششیں :۔ کفار مکہ نے جب دیکھا کہ ان کی مقدور بھر کوششوں کے باوجود اسلام پھیلتا ہی جارہا ہے۔ تو انہوں نے کئی بار آپ سے باہمی سمجھوتہ کی کوششیں کیں۔ ایک دفعہ یہ پیش کش کی اگر آپ ہمارے بتوں سے متعلقہ آیات پڑھنا چھوڑ دیں تو ہم آپ کے مطیع بننے کو تیار ہیں۔ لیکن آپ ان کی یہ بات کیسے مان سکتے تھے؟ اور ایک دفعہ یہ پیشکش کی کہ اگر آپ حکومت چاہتے ہیں تو ہم آپ کو اپنا حاکم بنانے پر تیار ہیں۔ اگر مال و دولت چاہتے ہیں تو تمہارے قدموں میں مال و دولت کے ڈھیر لگا دیتے ہیں اور اگر آپ کو کسی عورت سے محبت ہے تو ہم اس سے آپ کی شادی کردیں گے بشرطیکہ آپ جو دعوت پیش کر رہے ہیں اس سے باز آجائیں۔ گویا ان کے خیال کے مطابق ایک عام انسان کا منتہائے مقصود یہی تین چیزیں ہوسکتی ہیں۔ جو انہوں نے پیش کردیں۔ اور یہ پیش کش آپ کے ہمدرد و غمخوار اور سرپرست چچا ابو طالب کی موجودگی میں کی گئی۔ چونکہ سب سرداران قریش مل کر آئے تھے اس لیے ابو طالب کے پائے استقلال میں بھی لغزش آگئی اور وہ بھی آپ کو سمجھانے لگے۔ یہ معاملہ دیکھ کر آپ روپڑے اور اپنے چچا سے کہنے لگے ’’چچا جان! اگر ان لوگوں میں اتنی طاقت ہو کہ وہ میرے ایک ہاتھ پر سورج لا کر رکھ دیں اور دوسرے پر چاند لاکر رکھ دیں تب بھی میں اس کام سے باز نہیں آسکتا۔ یا تو یہ کام پورا ہو کے رہے گا یا پھر میری جان بھی اسی راہ میں قربان ہوگی‘‘ بھتیجے کا یہ استقلال دیکھ کر چچا کی بھی ہمت بندھ گئی اور کہنے لگا’’بھتیجے جو کچھ کرنا چاہتے ہو کرتے جاؤ۔ جب تک میں زندہ ہوں تمہاری حمایت پر کمر بستہ رہوں گا‘‘ چنانچہ قریشیوں کا وفد ناکام اٹھ کر چلا گیا۔ ان آیات میں ایسے ہی واقعات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے تمہیں جو استقلال کی توفیق ہوئی تو یہ اللہ کی طرف سے ہی تھی اور اگر اللہ کی طرف سے ایسی توفیق نصیب نہ ہوتی تو آپ کچھ نہ کچھ تھوڑا بہت ان کی طرف جھک بھی سکتے تھے۔ اگر ایسی صورت پیش آجاتی تو کفار مکہ تو تم سے ضرور خوش ہوجاتے اور وہ تمہیں اپنا دوست بھی بنا لیتے مگر اللہ کی طرف سے آپ کو نبی ہونے کی بنا پر اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دوہرا عذاب پہنچ سکتا ہے۔ اپنے نبی کو تو اللہ تعالیٰ نے اپنی توفیق اور مہربانی سے حق و باطل کی اس آمیزش سے بچا لیا۔ اب یہ تمام تر عتاب ان مسلمانوں کے لیے ہے جو محض چند ٹکوں کی خاطر حق و باطل میں سمجھوتہ کرلیتے ہیں۔ اس طرح خود بھی گمراہ ہوتے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔ الإسراء
75 الإسراء
76 [٩٤] ہجرت کے ساتھ ہی کفار مکہ کے زوال کا آغاز :۔ جن ایام میں یہ آیت نازل ہوئی اس وقت مسلمانوں پر کفار مکہ کا تشدد اپنی انتہا کو پہنچ گیا تھا ان ایام میں ایسی آیت کا نزول کفار مکہ کے حق میں ایک صریح پیشینگوئی تھی جسے انہوں نے اپنی طاقت کے نشہ میں محض ایک دھمکی ہی سمجھا جیسا کہ دوسری عذاب کی آیات متعلقہ اقوام سابقہ میں بھی ایسے اشارات پائے جاتے تھے مگر آنے والے حالات اور واقعات نے اس پیشینگوئی کو حرف بحرف سچا ثابت کردیا۔ اس آیت کے نزول کے ایک سال بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کو چھوڑنے اور مدینہ کی طرف ہجرت کر جانے پر مجبور ہوگئے۔ اس کے بعد قریش کی طاقت میں دم بدم زوال آنا شروع ہوا اور صرف آٹھ سال بعد معاملہ بالکل الٹ ہوگیا۔ ظلم و تشدد کرنے والے خود محکوم بن گئے اور پیغمبر اسلام سے رحم کی التجا پر مجبور ہوگئے۔ بعد میں اکثر لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔ حتیٰ کہ مزید دو سال بعد سرزمین عرب کفر و شرک کی نجاست سے پاک ہوگئی۔ الإسراء
77 [٩٥] عذاب کے متعلق اللہ کی سنت :۔ اللہ کا دستور یہ ہے کہ جب تک کسی نافرمان قوم میں اللہ کا نبی موجود رہے اس وقت تک اس پر عذاب نہیں آتا۔ اور جب عذاب مقدر ہوجائے تو نبی کو وہاں سے نکال لیا جاتا ہے یا ہجرت کرنے کا حکم دے دیا جاتا ہے اور جب نبی نکل جاتا ہے تو پھر عذاب کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ براہ راست اس قوم پر عذاب نازل کرکے اس قوم کو تباہ کردے اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ انہی لوگوں کے ہاتھوں اس سرکش قوم کو پٹوا دے۔ جن کو ان مجرموں نے ہجرت پر مجبور کردیا تھا یا ان کے بجائے کسی دوسری قوم سے انھیں سزا دلوا دے۔ الإسراء
78 [٩٦] پانچ نمازوں کا ذکر :۔ معراج کی رات پانچ نمازیں فرض ہوئیں۔ اس آیت میں ان نمازوں کے اوقات کا ذکر ہے۔ چار نمازیں یعنی ظہر، عصر، مغرب اور عشاء تو زوال آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک ہوئیں اور پانچویں نماز پوپھٹنے یا طلوع آفتاب سے پیشتر ہے۔ اس سے پہلی آیت میں کفار کی ایذا رسانیوں اور ان سے متعلق اللہ کے دستور کا ذکر تھا۔ یہاں نمازوں کا ذکر اس وجہ سے لایا گیا ہے اور مشکلات اور مصائب کے وقت صبر اور نماز سے ہی مدد طلب کرنے کا حکم ہے۔ نماز سے تعلق باللہ پیدا ہوتا ہے قلبی سکون حاصل ہوتا ہے۔ اور مشکلات کے سامنے سینہ سپر ہوجانے کی قوت پیدا ہوتی ہے ان پانچ نمازوں کے اوقات کا اس آیت میں مجملاً ذکر آیا ہے تفصیل کے لیے سورۃ نساء کی آیت نمبر ١٠٣ کے حواشی ملاحظہ فرمائیے۔ نمازوں کے اوقات کی تعیین میں مصلحت :۔ مشرکوں اور بت پرستوں کی اکثریت ایسی رہی ہے کہ جو سورج کو ایک بڑا طاقتور دیوتا تسلیم کرتی اور اس کی پوجا پاٹ کرتی رہی ہے۔ یہ لوگ بالخصوص تین اوقات میں پرستش کرتے تھے۔ سورج چڑھنے کے وقت سر پر آنے کے وقت اور غروب ہونے کے وقت۔ لہٰذا ان اوقات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی ادائیگی سے منع فرما دیا خواہ یہ نماز نوافل ہوں یا کسی نماز کی قضا ہو۔ علاوہ ازیں سورج کی پرستش۔ اس کے عروج کے اوقات میں کی جاتی رہی ہے یعنی دھوپ میں گرمی آنے سے لے کر نصف النہار تک۔ لہٰذا ان اوقات میں کوئی نماز نہیں رکھی گئی تاکہ ان سورج پرستوں سے اوقات میں بھی مشابہت نہ ہونے پائے۔ بلکہ ان اوقات میں نماز کی ادائیگی سے سختی سے روک دیا گیا۔ [٩٧] فجر کی نماز کو قرآن الفجر کیوں کہا گیا :۔ قرآن الفجر سے مراد نماز فجر ہے۔ اہل عرب میں یہ دستور عام ہے کہ وہ کسی چیز کا جزو اشرف بول کر اس سے مراد کل لے لیتے ہیں۔ اسی دستور کے مطابق یہاں قرآن کا لفظ آیا ہے۔ کیونکہ کوئی نماز ایسی ہی نہیں جس کی ہر رکعت میں کم از کم سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جاتی ہو۔ اسی طرح قرآن میں نماز کے لیے کہیں صرف رکوع کا ذکر آیا ہے اور کہیں صرف سجود کا اور نماز فجر کے ساتھ بالخصوص قرآن کا ذکر اس لیے ہے کہ اس نماز میں قرآن کی قرأت دوسری نمازوں کی نسبت لمبی ہوتی ہے اور مشہود سے مراد یہ ہے کہ اس نماز کے دوران فرشتے بھی حاضر ہوتے اور قرآن سنتے ہیں جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ’’نماز باجماعت اکیلے نماز پڑھنے سے پچیس گنا زیادہ فضیلت رکھتی ہے اور صبح کی نماز کے وقت رات اور دن کے فرشتے اکٹھے ہوجاتے ہیں‘‘ یہ حدیث بیان کرنے کے بعد سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے کہ اگر چاہو تو یہ آیت پڑھ لو۔ ﴿وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْہُوْدًا ﴾ (بخاری، کتاب التفسیر نیز کتاب الاذان۔ باب فضل صلوۃ الفجر فی جماعۃ) الإسراء
79 [٩٨] نماز تہجد کی رکعات :۔ تہجد کے لغوی معنی تو صرف رات کو ایک دفعہ سونے کے بعد رات کے ہی کسی حصہ میں بیدار ہونا ہے اور اس سے شرعاً وہ نماز مراد ہے جو رات کو سونے کے بعد طلوع فجر سے پہلے پہلے رات کے کسی حصہ میں نصف شب کے بعد ادا کی جائے۔ اس نماز کی تعداد رکعات اور وقت کے لیے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :۔ ١۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک رات میں اپنی خالہ ام المومنین میمونہ (بنت حارث) کے ہاں سویا میں تو بچھونے کی چوڑان میں لیٹا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی لمبے رخ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ آرام فرمایا۔ اور کم و بیش آدھی رات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے۔ بیٹھ کر اپنی آنکھیں ملنے لگے۔ پھر اچھی طرح وضو کرکے نماز پڑھنے لگے۔ میں نے بھی اٹھ کر وضو کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں جانب ساتھ ہی کھڑا ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور دایاں کان پکڑ کر مجھے اپنے (پیچھے سے لاکر) دائیں طرف کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں پڑھیں پھر دو، پھر دو، پھر دو، پھر دو اور پھر دو (کل بارہ رکعات) پھر وتر پڑھا پھر لیٹ رہے تاآنکہ موذن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا : پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ہلکی پھلکی رکعتیں پڑھیں۔ پھر باہر نکلے اور صبح کی نماز پڑھائی۔ (بخاری، کتاب الوضوء باب قراءۃ القرآن نیز کتاب العلم۔ باب السمر بالعلم) ٢۔ سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رات (تہجد) کی نماز کے متعلق سوال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دو، دو رکعت کرکے پڑھو۔ پھر جب کسی کو صبح ہوجانے کا ڈر ہو تو ایک رکعت پڑھ لے وہ ساری نماز کو طاق بنا دے گی' عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہا کرتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا ہے کہ رات کی نماز کے اخیر میں وتر پڑھا کرو۔ (بخاری، کتاب الصلوٰۃ۔ باب الحلق والجلوس فی المسجد) [٩٩] یعنی نماز تہجد آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تازیست فرض رہی۔ واقعہ معراج اور پانچ نمازوں کی فرضیت سے پہلے نماز تہجد مسلمانوں پر فرض تھی جیسا کہ سورۃ مزمل کے پہلے رکوع میں اس کی وضاحت ہے۔ پھر جب پانچ نمازیں فرض ہوگئیں تو عام مسلمانوں پر نماز تہجد فرض نہ رہی جیسا کہ سورۃ مزمل کے دوسرے رکوع میں ﴿فَاقْرَءُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ ﴾ سے واضح ہوتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ نماز اسی آیت کی رو سے فرض ہوئی۔ جب صلح حدیبیہ کے نتیجہ میں سورۃ فتح نازل ہوئی اور اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے یہ خوشخبری دی کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب اگلی پچھلی لغزشیں معاف فرما دی ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس نماز میں پہلے سے بھی زیادہ قیام فرمانے لگے۔ چنانچہ بروایت بخاری نماز تہجد میں لمبے قیام کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں متورم ہوجاتے تھے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ نے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب اگلی پچھلی لغزشیں معاف فرما دیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں؟ اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( اَفَلاَ اَکُوْنَ عَبْدًاشَکُوْرًا) یعنی کیا پھر میں اللہ کے اس احسان اور فضل کے عوض اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں' (بخاری، کتاب التہجد۔ باب قیام النبی اللیل حتی ترم قدماہ۔۔) امت کے لیے اگرچہ یہ نماز نفل ہے اور امت پر مشقت کی وجہ سے اس کی فرضیت ساقط کردی گئی ہے۔ تاہم اس نماز کی بہت فضیلت آئی ہے اور اس کی بہت ترغیب دی گئی ہے۔ گویا ہماری مروجہ شرعی اصطلاح میں سنت مؤکدہ ہے۔ نماز تراویح یا قیام اللیل :۔ واضح رہے کہ نماز تہجد ہی کا دوسرا نام قیام اللیل ہے جیسا کہ بخاری کے عنوان باب سے بھی معلوم ہوتا ہے۔ اور ماہ رمضان میں قیام اللیل کو نماز تراویح کا نام دیا گیا ہے جو ماہ رمضان میں عموماً نماز عشاء کے بعد متصل ہی باجماعت نماز ادا کرلی جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ رمضان میں یہ نماز تہجد (یا قیام اللیل یا تراویح) صرف دو دن باجماعت پڑھائی تھی۔ پھر تیسرے یا چوتھے دن پھر لوگ نماز کے لیے جمع ہوئے تو آپ جماعت کے لیے نکلے ہی نہیں اور صبح کی نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے جماعت کے لیے نہ آنے کی یہ وجہ بیان فرمائی کہ میں اس بات سے ڈر گیا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کردی جائے اور یہ واقعہ رمضان میں ہوا۔ (بخاری، کتاب التہجد باب تحریض النبی علی قیام اللیل، نیز کتاب الصوم باب فضل من قام رمضان) اور یہ نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ گیارہ رکعت ہی ادا کی۔ آٹھ رکعت تراویح اور تین رکعت وتر جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : ابو سلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رمضان ہو یا غیر رمضان آپ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعت سے زیادہ کبھی نہیں پڑھتے تھے۔ پہلے چار رکعت پڑھتے اور ان کی خوبی اور لمبائی کا کیا کہنا۔ پھر چار رکعت پڑھتے ان کی خوبی اور لمبائی کا کیا کہنا۔ پھر تین رکعت پڑھتے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کہا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’عائشہ رضی اللہ عنہا ! آنکھیں (ظاہر میں) سوتی ہیں مگر دل نہیں سوتا“۔ (بخاری، کتاب التہجد، باب قیام النبی باللیل فی رمضان وغیرہ) اب باجماعت نماز تراویح کے متعلق درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے : عبدالرحمن بن عبد قاری کہتے ہیں کہ رمضان کی ایک رات میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ (ان کے دور خلافت میں) مسجد نبوی میں گیا۔ ہم نے دیکھا کہ لوگ مختلف ٹولیوں میں نماز تراویح ادا کر رہے ہیں۔ کوئی تو اکیلا ہی پڑھ رہا ہے۔ اور کچھ ٹولیاں ایک امام کے پیچھے نماز ادا کر رہی ہیں۔ سیدنا عمررضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ اگر میں ان سب کو ایک امام کے پیچھے اکٹھا کردوں تو یہ بہتر ہوگا۔ یہ ارادہ کرنے کے بعد آپ نے سیدنا ابی بن کعب کو سب لوگوں کا امام بنا دیا۔ پھر اس کے بعد کسی دوسری رات میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مسجد میں گیا تو دیکھا کہ سب لوگ اپنے قاری (ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ) کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا نعم البدعۃ ھذہ یعنی یہ بدعت تو اچھی ہے نیز لوگوں سے کہا کہ رات کا وہ حصہ جس میں تم سوتے رہتے ہو اس حصے سے افضل ہے جس میں تم نماز پڑھتے ہو اور لوگ شروع رات میں تراویح پڑھ لیتے۔ (قیام اللیل کرلیتے) بخاری، کتاب الصوم، باب فضل من قام رمضان) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور باجماعت نماز تراویح :۔ اس حدیث سے درج ذیل امور کا پتہ چلتا ہے : ١۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب تراویح کی نماز باجماعت کا حکم دیا تو نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس میں شامل ہوئے نہ آپ کے ساتھی عبدالرحمن بن عبد قاری۔ اسی طرح جب کسی دوسری رات معائنہ کیا تو جماعت دیکھ کر بھی نہ آپ خود اس میں شامل ہوئے اور نہ آپ کے ساتھی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس جماعت کو نہ ضروری سمجھتے تھے اور نہ بہتر ورنہ آپ خود اس میں شامل ہوجاتے۔ ٢۔ سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے یہ وضاحت بھی فرما دی کہ قیام اللیل یا نماز تراویح کے لیے رات کا پہلا حصہ افضل نہیں جس میں یہ لوگ باجماعت نماز پڑھ رہے تھے بلکہ رات کا آخری حصہ افضل ہے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خود رات کے آخری حصہ میں ہی اکیلے نماز ادا کرتے تھے۔ ٣۔ آپ رضی اللہ عنہ نے جو یہ فرمایا کہ ’’یہ اچھی بدعت ہے“تو اس سے آپ کی مراد صرف موجودہ شکل تھی۔ یعنی متفرق طور پر پڑھنے سے اکٹھے نماز پڑھنا بہتر ہے۔ ورنہ یہ شرعی اور اصطلاحی معنوں میں بدعت نہیں تھی۔ (جو بہرصورت گمراہی ہوتی ہے) کیونکہ قیام اللیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی کیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی۔ علاوہ ازیں کم از کم تین دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت بھی کرائی تھی گویا اس کی دو بنیادیں سنت نبوی سے ثابت تھیں۔ لہٰذا اسے معروف معنوں میں بدعت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اور موطا امام مالک کی روایت کے مطابق آپ نے جب نماز تراویح کی جماعت کا حکم دیا تو گیارہ رکعت (وتر سمیت) کا ہی حکم دیا تھا۔ ہمارے ہاں عشاء کے بعد نماز تراویح باجماعت رائج ہے۔ اس میں دو مصلحتیں ضرور ہیں ایک تو حفاظ کرام کو اس بہانے دہرائی کا موقع مل جاتا ہے۔ دوسرے لوگوں کی سہولت بھی اسی وقت میں ہے ورنہ افضل وقت وہی ہے جس کی سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے وضاحت کردی ہے۔ [١٠٠] مقام محمود کی مختلف توجیہات :۔ مقام محمود سے مراد ایسا مرتبہ ہے کہ سب لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حمد و ثنا کرنے لگیں۔ اور اس کی کئی توجیہات ہیں مثلاً ایک یہ کہ ایسا مقام قدر و منزلت اور حمد و ستائش آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری زندگی میں عطا فرما دیا تھا، دوسری یہ کہ جنت میں ایک بلند مقام ہے جس کا نام ہی مقام محمود ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا جائے گا اور تیسری یہ کہ قیامت کے دن کی ہولناکیوں کو دیکھ کر سب لوگ گھبراہٹ میں ہوں گے وہ چاہیں گے کہ اللہ کے حضور ان کی کوئی سفارش کرے وہ سیدنا آدم علیہ السلام اور پھر ان کے بعد باری باری سب انبیاء سے سفارش کی التجا کریں گے مگر ہر نبی اپنی کوئی نہ کوئی تقصیر یاد کرکے معذرت کر دے گا۔ بالآخر سب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں گے تو آپ لوگوں کی یہ التجا قبول کرکے اللہ کے حضور ان کی سفارش کریں گے۔۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٢٥٥ کے حواشی) اس توجیہ کے لحاظ سے مقام محمود سے مراد مقام شفاعت ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی یہی وضاحت فرمائی ہے۔ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مقام محمود کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اس سے مراد مقام شفاعت ہے‘‘ (ترمذی، ابو اب التفسیر) اس وقت سب لوگوں کی زبان پر آپ کی حمد وستائش جاری ہوجائے گی۔ نیز ہمیں اذان کے بعد جو دعا سکھائی گئی ہے اس میں ہر شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مقام محمود پر کھڑا ہونے کی دعا کرتا ہے جس میں ضمناً یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ کوئی بلند مرتبہ بزرگ اپنے سے چھوٹے یا کم تر درجہ کے آدمی کو اپنے حق میں دعا کے لیے کہہ سکتا ہے اور چھوٹے یا کم تر درجہ کے آدمی کی دعا اپنے سے بلند مرتبہ بزرگ کے حق میں قبول ہوسکتی ہے۔ الإسراء
80 [١٠١] اس آیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کی طرف واضح اشارہ ہے جو اس آیت کے نزول کے تقریباً ایک سال بعد واقع ہونے والی تھی اور جو دعا آپ کو سکھائی گئی وہ یہ تھی کہ یا اللہ ایسی صورت پیدا فرما کہ میں جہاں بھی جاؤں حق و صداقت کی خاطر جاؤں اور جہاں سے نکلوں (مثلاً مکہ سے) تو حق و صداقت ہی کی خاطر نکلوں یا یہ مطلب ہے کہ جہاں مجھے پہنچانا ہے نہایت آبرو اور خوش اسلوبی کے ساتھ مجھے وہاں لے جا کہ حق و صداقت کا بول بالا رہے اور جہاں سے مجھے نکالنا ہے تو اس وقت بھی آبرو اور خوش اسلوبی سے نکال کہ دشمن ذلیل و خوار اور دوست شاداں و فرحاں ہوں، سچائی کی فتح ہو اور باطل سرنگوں ہو۔ [١٠٢] دین کے نفاذ کے لئے اقتدار کی ضرورت :۔ اس جملہ کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ مجھے خود ایسا اقتدار اور حکومت عطا فرما جس میں تیری مدد اور نصرت شامل حال ہو۔ دوسرا یہ کہ کسی اقتدار یا حکومت کے دل میں یہ بات ڈال دے کہ وہ میرے اس کام یعنی دین حق کی سربلندی کے لیے میرا مددگار ثابت ہو۔ اس آیت سے دو باتیں ضمناً معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ دین حق کے نفاذ کے لیے اقتدار اور غلبہ ضروری ہے محض پندو نصائح سے لاتوں کے بھوت کبھی نہ راہ راست پر آسکتے ہیں اور نہ اپنی معاندانہ سرگرمیاں چھوڑنے پر تیار ہوتے ہیں۔ اور ایک مقام ایسا بھی آتا ہے کہ سمجھانے کے بعد ڈنڈے کی بھی ضرورت پیش آجاتی ہے۔ لہٰذا اقامت دین کے لیے دعوت دین کے علاوہ غلبہ و اقتدار کے لیے کوشش کرنا بھی ویسا ہی ضروری ہے۔ طلب امارت کن صورتوں میں ناجائز ہے؟ اور دوسری یہ کہ طلب امارت جسے شریعت نے مذموم قرار دیا ہے صرف اس صورت میں مذموم ہے جبکہ اس سے مقصود محض حصول مال و جاہ ہو۔ اور اگر اس سے مقصود اقامت دین ہو تو ایسے اقتدار کے حصول کی کوشش مذموم تو درکنار، فرض کفایہ ہے اور ہر مسلمان کا فرض ہے کہ کسی موزوں تر آدمی کو برسر اقتدار لانے کی کوشش کرے اور اگر وہ خود ہی موزوں تر ہو اور کوئی دوسرا آدمی اس غرض کے لیے مل نہ رہا ہو تو خود اپنے لیے بھی حصول اقتدار کی کوشش ضروری ہوتی ہے۔ (نیز دیکھئے سورۃ یوسف آیت نمبر ٥٥ کا حاشیہ) الإسراء
81 [١٠٣] فتح مکہ کی پیشگوئی :۔ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب کفار کے ظلم و ستم سے تنگ آکر بہت سے مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے اور باقی مسلمانوں پر ان کی سختیاں بہت بڑھ گئی تھیں۔ ان حالات میں ایسی پیشین گوئی اور اس قسم کا اعلان قریش مکہ کے لیے ایک اضحوکہ ' پھبتی اور مذاق کا سامان بن گیا تھا۔ مگر اللہ کی مہربانی سے حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ اس واقعہ کے نو سال بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم فاتحانہ انداز سے بیت اللہ شریف میں داخل ہوئے تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہی آیت تلاوت فرما رہے تھے مگر اس وقت یہ آیت ایک واضح حقیقت بن کر قریش مکہ کے سامنے آچکی تھی جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔ ١۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب مکہ فتح ہوا اور آپ مکہ میں داخل ہوئے تو اس وقت کعبہ کے گرد تین سو ساٹھ بت نصب تھے۔ آپ کے ہاتھ میں چھڑی تھی۔ آپ اس سے ان بتوں کو ٹھونکا دیتے جاتے اور فرماتے جاتے ﴿وَقُلْ جَاءَ الحَقُّ وَزَهَقَ البَاطِلُ، جَاءَ الحَقُّ وَمَا يُبْدِئُ البَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ﴾ (بخاری۔ کتاب التفسیر) ٢۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ میں تصویریں دیکھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں داخل نہیں ہوئے۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ساری تصویریں مٹا دی گئیں۔ آپ نے ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کی تصویریں دیکھیں جن کے ہاتھوں میں تیر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! انہوں نے کبھی تیروں سے فال نہیں لی تھی‘‘ (بخاری۔ کتاب الانبیاء ۔ باب واتخذ اللہ ابراہیم خلیلاً) ٣۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب آپ بیت اللہ میں داخل ہوئے تو دیکھا وہاں سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور بی بی مریم علیہا السلام کی تصویریں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”قریش کے کافروں کو کیا ہوگیا ہے وہ سن تو چکے ہیں کہ جس گھر میں مورتیں ہوں وہاں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ یہ ابراہیم علیہ السلام کی تصویر ہے۔ ان کو کیا ہوا بھلا وہ پانسوں سے فال لیا کرتے تھے۔‘‘ (بخاری۔ حوالہ ایضاً) الإسراء
82 [١٠٣۔ الف] یعنی یہ قرآن نسخہ کیمیا اور شفا بخش ضرور ہے مگر ان لوگوں کے لیے جو اس پر ایمان لاتے اور اسے منزل من اللہ سمجھتے ہیں۔ ان کے دلوں کے سب روگ مثلاً کفر، شرک، نفاق، حسد، کینہ، بخل، بدنیتی وغیرہ سب کچھ دور کردیتا ہے اور ان اخلاق رذیلہ کے علاج کے بعد معاشرہ میں ایک دوسرے سے رحمت، محبت، شفقت اور الفت کا سبب بنتا ہے لیکن جو لوگ بہرحال قرآن کی مخالفت اور استہزاء پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ قرآن کی ایک ایک آیت اور ایک ایک سورۃ سے اس کی بدبختی میں مزید اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ ان کا یہ رویہ انھیں دنیا میں بھی لے ڈوبے گا اور آخرت میں بھی۔ الإسراء
83 [١٠٤] ایک دنیا دار انسان کی حالت :۔ ایک عام انسان کی زندگی یہ ہوتی ہے کہ اس پر خوشحالی کا دور آئے تو اللہ کو یکسر بھول ہی جاتا ہے اور اگر بعد میں تنگی ترشی کا دور آئے تو مایوسی کی باتیں کرنے لگتا ہے یعنی کسی بھی حالت میں اسے اللہ سے تعلق قائم کرنے کا خیال نہیں آتا۔ اس کے برعکس ایک مومن کی زندگی یہ ہے کہ نعمت ملے تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور تکلیف پہنچے تو صبر کرتا اور نماز وغیرہ کے ذریعہ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے اور ہر حال میں اپنے پروردگار سے تعلق قائم رکھتا ہے۔ الإسراء
84 [١٠٥] شاکلہ کا مفہوم :۔ شاکلۃ کے معنی طور' طریقہ، ڈھب، ڈھنگ، یعنی ہر انسان اپنی افتاد طبع کے مطابق کام کرتا ہے۔ مثلاً ایک شخص صدقہ علانیہ دیتا ہے اور اس سے اس کا مقصود یہ ہے کہ دوسروں کو بھی ترغیب ہو اور دوسرا صدقہ پوشیدہ طور پر دیتا ہے اور اس کا مقصود یہ ہے کہ نمائش نہ ہو۔ اب دیکھئے نیت دونوں کی بخیر ہے لیکن طریقہ اور انداز فکر الگ الگ ہے۔ یا مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نکلے اور دیکھا کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نماز میں آہستہ آواز سے قرآن پڑھ رہے ہیں۔ پوچھا اتنا آہستہ کیوں پڑھتے ہو؟ عرض کیا، اس لیے کہ میرا رب بہرا نہیں ہے کہ چلا کر پڑھوں۔ آگے گئے تو دیکھا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بلند آواز سے قرآن پڑھ رہے ہیں۔ پوچھا اتنی بلند آواز سے کیوں پڑ رہے ہو؟ عرض کیا ’’سونے والوں کو جگاتا ہوں اور شیطان کو بھگاتا ہوں‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کی تحسین فرمائی۔ اس واقعہ میں عمل ایک ہی ہے نیت بھی دونوں کی بخیر ہے۔ لیکن سوچ کا انداز الگ الگ ہے۔ یہی شاکلۃ کا مفہوم ہے۔ اسی لحاظ سے بعض علماء نے اس لفظ سے مراد ہی ”نیت“ لی ہے۔ الإسراء
85 [١٠٦] روح سے مراد وحی الہی ہے :۔ اس آیت کے شان نزول کے متعلق درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمایئے : سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک کھیت میں جارہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کی ایک چھڑی پر ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ اتنے میں چند یہودی سامنے سے گزرے اور آپس میں کہنے لگے 'اس پیغمبر سے پوچھو کہ روح کیا چیز ہے' کسی نے کہا، کیوں ایسی کیا ضرورت ہے؟ اور کسی نے کہا، ممکن ہے وہ تمہیں کوئی ایسی بات کہہ دے جو تمہیں ناگوار گزرے۔ آخر یہ یہی طے ہوا کہ پوچھو تو سہی۔ چنانچہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، روح کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (تھوڑی دیر) خاموش رہے اور انھیں کچھ جواب نہ دیا۔ میں سمجھ گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آنے لگی ہے اور اپنی جگہ کھڑا رہا۔ جب وحی ختم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی۔ ﴿وَیَسْئَلُوْنَکَ۔۔ قلیلا تک (بخاری، کتاب التفسیر۔ نیز کتاب العلم۔ باب وما اوتیتم من العلم الاقلیلا) اور ترمذی کی روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں 'یہود یہ کہتے تھے کہ ہمیں بہت علم دیا گیا ہے۔ ہمیں تورات دی گئی اور جسے تورات مل گئی تو اسے بہت بھلائی مل گئی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی﴿قُلْ لَوْ کَانَ الْبَحْرُ﴾ تا آخر (سورہ کہف کی آیت نمبر ١٠٩) (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سورۃ تو مکی ہے اور یہود مدینہ میں رہتے تھے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بعض مکی سورتوں میں متعدد آیات مدنی بھی موجود ہیں جنہیں مضمون کی مناسبت کے لحاظ سے مکی سورتوں میں مناسب مقام پر رکھا گیا ہے اور ہر سورت کے درمیان آیات کی ترتیب بھی توقیفی ہے یعنی یہ ترتیب بھی وحی الٰہی کے مطابق ہے نیز بعض کتب سیر کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوال دراصل قریش مکہ نے یہود کے کہنے پر کیا تھا مگر بخاری کی روایت کے واضح الفاظ اس کی تائید نہیں کرتے۔ وہی توجیہ درست ہے جو اوپر ذکر کی گئی ہے۔ روح اور نفس کا فرق :۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ روح سے مراد کیا ہے؟ قرآن کریم نے متعدد مقامات پر روح کو 'وحی الٰہی' کے معنوں میں استعمال فرمایا ہے۔ بالخصوص اس صورت میں کہ روح کے ساتھ امر کا لفظ بھی موجود ہے جیسے یہاں موجود ہے۔ یا مثلاً فرمایا : ﴿ یُنَزِّلُ الْمَلٰئِکَۃَ بالرُوْحِ مِنْ اَمْرِہِ عَلٰی مَنْ یَّشَاءُ مِنْ عِبَادِہٖ﴾ (١٦: ٢) نیز فرمایا : ﴿یُلْقِیْ الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ﴾(٤٠: ١٥) نیز فرمایا : ﴿وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ رُوْحًا مِنْ اَمْرِنَا﴾ (٤٢ : ٥٢) لہٰذا یہاں بھی روح سے مراد وحی الٰہی ہی ہے یا وحی لانے والا فرشتہ اور اس فرشتہ یعنی جبریل کو روح الامین بھی کہا گیا ہے۔ اور سیاق و سباق سے بھی اسی معنی کی تائید ہوتی ہے اس آیت سے پہلے کی آیت میں بھی وحی الٰہی کا ذکر ہے اور بعد والی آیت میں بھی بالفاظ دیگر یہود کا دراصل سوال یہ تھا کہ وحی الٰہی کی کیفیت کیا ہے اور حصول قرآن کا اصل ماخذ کیا ہے اور وحی لانے والے کی ماہیت کیا ہے؟ اس سوال کا جواب انھیں یہ دیا گیا کہ تمہیں جو علم دیا گیا ہے وہ اتنا قلیل ہے کہ ان حقائق کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ بعض علماء نے یہاں روح سے مراد 'جان' لی ہے۔ جو ہر جاندار کے جسم میں موجود ہوتی ہے اور جب تک وہ جسم میں موجود رہے جاندار زندہ ہوتا ہے اور اس کے نکلنے سے مر جاتا ہے۔ اس مراد سے انکار بھی مشکل ہے۔ کیونکہ انسان خواہ کتنے فلسفے بکھیرے اس روح کی حقیقت کو بھی جاننے سے قاصر ہی رہا ہے۔ علاوہ ازیں جس طرح انسان کی اخلاقی اور روحانی زندگی کا دار و مدار وحی الٰہی پر ہے اسی طرح جسمانی زندگی کا دار و مدار روح پر ہے تاہم ربط مضمون کے لحاظ سے پہلی توجیہ ہی بہتر ہے کیونکہ اس کی تائید بہت سی دوسری آیات سے بھی ہوجاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت کے وقت فرشتے جو روح نکالنے آتے ہیں۔ اس کے لیے قرآن نے روح کی بجائے نفس کا لفظ استعمال کیا ہے جیسے فرمایا اخرجوا انفسکم (٦: ٩٣) اور بعض یہ کہتے ہیں کہ روح پر لفظ نفس کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے جب وہ بدن میں موجود ہو اور جب نکل جائے تو اسے روح کہتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔ الإسراء
86 [١٠٧] وحی کے بتدریج نزول میں آپ پر اللہ کا بڑا فضل ہے : اس آیت کا تعلق دراصل سابقہ مضمون سے ہے جو کفار مکہ نے سمجھوتہ کی ایک شکل یہ پیش کی تھی کہ اگر آپ ان آیات کی تلاوت چھوڑ دیں جن میں ہمارے معبودوں کی توہین ہوتی ہے تو ہم آپ کے مطیع بن جائیں گے۔ اس آیت میں دراصل وحی الٰہی کی اہمیت مذکور ہوئی ہے کہ اس وحی الٰہی کی ہی تو برکت ہے کہ دن بدن دعوت اسلام پھیلتی جارہی ہے اور اس وحی کے ذریعہ آپ کو اور صحابہ کو صبر اور ثابت قدمی میسر آرہی ہے۔ اگر ہم اس نازل کردہ وحی میں سے کچھ حصہ آپ کو بھلا دیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی مدد اور نصرت جو پہنچ رہی ہے وہ منقطع ہوسکتی ہے اور اندریں صورت تمہیں سنبھالا دینے والی کوئی طاقت نہ ہوگی۔ یہ تو آپ پر اللہ کی بہت مہربانی ہے کہ آپ پر وحی اس انداز اور اس تدریج کے ساتھ حالات کے مطابق نازل ہو رہی ہے جس سے اسلام کی سربلندی کے لیے اسباب از خود پیدا ہوتے چلے جارہے ہیں۔ (تفصیل کے لیے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٢٣ پر حاشیہ نمبر ٢٧ ملاحظہ فرمائیے) الإسراء
87 الإسراء
88 [١٠٨] یہ چیلنج پہلے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٢٣، ٢٤۔ سورۃ یونس کی آیت نمبر ٣٧، ٣٨، سورۃ ہود کی آیت نمبر ١٣، ١٤، میں بھی مذکور ہے۔ الإسراء
89 [١٠٩] قرآن میں کون کون سے موضوعات پر دلائل دیئے گئے ہیں؟ اس قرآن میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر، روز آخرت اور قیامت کے واقع ہونے پر، جزاء و سزا کی معقولیت پر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر، شرک کی تردید پر، من گھڑت معبودوں کی بے چارگی اور احتیاج پر، نافرمان اقوام سابقہ کے انجام پر مختلف پیراؤں میں دلائل پیش کیے گئے ہیں۔ اور دلائل ایسے ہیں جنہیں سب لوگ سمجھ سکتے ہیں۔ اور خارجی کائنات اور اپنی اندر کی دنیا میں دیکھ سکتے ہیں۔ اور ہر جگہ نئے اور اچھوتے طرز استدلال کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں اور وہ اتنی کثیر تعداد میں ہیں جو ایک طالب ہدایت کے لیے بہت کافی ہیں مگر ان لوگوں نے ایسی ضد اور ہٹ دھرمی کی راہ اختیار کرلی ہے کہ ہر دلیل سے یہ الٹا ہی اثر لیتے ہیں۔ اس طرح ان کے کفر میں اضافہ ہی ہوتا جاتا ہے۔ الإسراء
90 الإسراء
91 الإسراء
92 الإسراء
93 [١١٠] وہ حسی معجزے جن کا کفار مکہ مطالبہ کیا کرتے تھے :۔ ان آیات میں کفار مکہ کے ان مطالبات کو یک جابیان کیا جارہا ہے جو وہ وقتاً فوقتاً نبوت کی دلیل پر حسی معجزہ کی صورت میں مطالبہ کرتے رہے تھے۔ وہ اس قسم کے مطالبہ کرنے میں قطعاً حق بجانب نہیں تھے کیونکہ کئی معجزات وہ ایسے دیکھ چکے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر واضح دلائل تھے مثلاً بار بار کے چیلنج کے باوجود وہ قرآن جیسا کلام نہ پیش کرسکے تھے۔ چاند پھٹنے کا واقعہ ان کی آنکھوں کے سامنے ہوا تھا۔ واقعہ اسراء کے سلسلہ میں بیت المقدس کی ساخت پر وہ سوال و جواب کرچکے تھے۔ یہ سب باتیں ان کے قلبی اطمینان کے لیے کافی تھیں۔ مگر ''خوئے بدرا بہا نہ بسیار'' کے مصداق وہ نئے سے نئے مطالبے کرتے ہی رہتے تھے جن میں سے چند ایک یہ تھے کہ آپ یہاں پانی کے چشمے بہادیں تاکہ ہمارے لیے پانی کی قلت دور ہو نیز یہاں سے پہاڑوں کو دور ہٹادیں تاکہ ہمیں رہنے کو کچھ میدان میسر آئے اور اس میں کھیتی اور کھجوریں اور انگور کے باغ پیدا ہوں یا جیسے ہمیں دھمکی دیتے رہتے ہو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دو۔ جس سے نہ ہم رہیں اور نہ تم اور یہ روز روز کی تکرار ختم ہوجائے۔ یا جس فرشتے کے متعلق کہتے ہو کہ وہ مجھ پر نازل ہوتا ہے کم از کم ہم اسے ہی دیکھ لیں یا اگر تم ہمارا بھلا نہ کرسکو تو تمہارا اپنا ہی گھر سونے کا یا سنہرا بن جائے یا ہمارے سامنے تم آسمان کی طرف چڑھو اور جب اترو تو تمہارے ہاتھوں میں ہماری طرف ایک کتاب ہونا چاہیے۔ جس میں ہمیں خطاب کیا گیا ہو کہ ”یہ واقعی نبی ہے اور اس پر ایمان لے آؤ“تو تب ہی ہم تمہاری نبوت پر ایمان لاسکتے ہیں۔ [١١١] مطالبات کا جواب :۔ کفار مکہ کے ان سب اوٹ پٹانگ قسم کے سب مطالبات کا اللہ تعالیٰ نے ایک مختصر سے جملہ میں جواب دے دیا ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں سے کہہ دیں کہ میں نے تم سے یہ کب کہا تھا کہ میں خدائی اختیارات کا مالک اور قادر مطلق ہوں ایسے سب کام تو اللہ تعالیٰ کے اختیار اور قبضۂ قدرت میں ہیں۔ اگر میں نے تمہارے سامنے اپنی خدائی کا دعویٰ کیا ہوتا تو تم مجھ سے ایسے مطالبے پیش کرنے میں حق بجانب تھے مگر میں تو صرف یہ دعویٰ کر رہا ہوں کہ میں تمہارے ہی جیسا ایک انسان ہوں۔ البتہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا رسول اور پیغامبر ضرور بنایا ہے۔ اگر تم نے میرا امتحان لینا ہے تو اس پیغام کو جانچو، میری صداقت کو پرکھو، میری سابقہ زندگی تمہارے سامنے ہے، مجھ میں جو عیب نظر آتا ہے اس کی نشان دہی کرو۔ آخر تمہارے ان مطالبات کا میرے دعٰوئے رسالت سے کیا تعلق ہے؟ الإسراء
94 [١١٢] بشریت کی وجہ سے رسالت اور رسالت کی وجہ سے بشریت کا انکار :۔ انبیاء و رسل کے مخالفین کا ہمیشہ یہ اعتراض رہا ہے کہ چونکہ یہ رسول ہماری طرح کا ہی انسان ہے، ہماری طرح ہی کھاتا پیتا، چلتا پھرتا، شادی کرتا اور صاحب اولاد ہے جو احتیاجات ہمیں لاحق ہیں وہ اسے بھی لاحق ہیں۔ پھر یہ نبی کیسے ہوسکتا ہے؟ گویا کافر اس وجہ سے انبیاء کی نبوت کا انکار کرتے تھے کہ وہ بشر ہیں۔ پھر بعد میں انہی نبیوں کی امت میں سے ایسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے فرط عقیدت سے ان کی نبوت و رسالت کو تو ان کی حد سے متجاوز تسلیم کیا مگر ان کی بشریت سے انکار کردیا۔ پھر کسی نے اپنے نبی کو خدا کا درجہ دے دیا۔ کسی نے خدا کے بیٹے کا اور کسی نے یوں کہا کہ خدا اس میں حلول کر گیا ہے گویا ان دونوں انتہا پسندوں کی نظر میں بشریت اور رسالت کا ایک ذات میں جمع ہونا ناممکن ہی بنا رہا۔ کافروں نے بشریت کی وجہ سے رسالت کا انکار کیا اور فرط عقیدت رکھنے والوں نے رسالت کی وجہ سے بشریت کا انکار کردیا۔ الإسراء
95 [١١٣] رسول کا بشر ہونا کیوں ضروری ہے؟ چونکہ دنیا میں انسان آباد ہیں لہٰذا ان کے لیے رسول بھی انسان ہی ہونا چاہئے۔ وجہ یہ ہے کہ رسول کا کام اتنا ہی نہیں ہوتا کہ وہ اللہ کا پیغام پہنچا دے یا اس پیغام کی تشریح و توضیح کردے۔ بلکہ یہ کام بھی ہوتا ہے کہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ احکام پر عمل کرکے دکھائے اور امت کو ایک عملی نمونہ بھی پیش کرے۔ اب فرض کیجئے ایک فرشتہ رسول بن کر آتا اور آدمی کی شکل میں آتا، وہ اللہ کا پیغام پہنچاتا اور ان احکام پر عمل کرکے بھی دکھلا دیتا۔ تو لوگ یہ کہنے میں حق بجانب ہوتے کہ یہ عملی نمونہ دکھانے والا تو فرشتہ تھا۔ اس میں نہ بشری کمزوریاں پائی جاتی تھیں نہ اسے بشری ضروریات کی احتیاج تھی۔ لہٰذا ہم اس فرشتے جیسے کام کیسے کرسکتے ہیں اور وہ ہمارے لیے نمونہ کیسے بن سکتا ہے۔ مزہ تو جب تھا کہ وہ ہماری طرح کا انسان ہوتا پھر ان احکامات پر عمل کرکے دکھاتا۔ (نیز اس سلسلہ میں سورۃ انعام کی آیت نمبر ٧ تا ٩ کے حواشی بھی ملاحظہ فرما لیجئے) الإسراء
96 [١١٤] یعنی وہ خوب دیکھ رہا ہے کہ میں نے تم لوگوں تک اس کا پیغام پہنچا دیا ہے یا نہیں؟ یا منزل من اللہ احکام پر پوری طرح عمل پیرا ہوں یا نہیں اور تم جو اللہ کے پیغام کی مخالفت میں سر توڑ کوششیں کر رہے ہو وہ انھیں بھی خوب دیکھ رہا ہے۔ الإسراء
97 [١١٥] اعمال اور ان کے بدلہ میں مماثلت :۔ انسان کے اعمال اور ان اعمال کی جزاء و سزا میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے اور یہی مماثلت قیامت کے دن اپنا اصل روپ دھار لے گی۔ مثلاً جن لوگوں نے اس دنیا میں سیدھی راہ کے بجائے غلط راستے اختیار کیے اور راست روی کے بجائے الٹی چال چلتے رہے انھیں وہاں بھی الٹی چال چلایا جائے گا۔ اس دنیا میں وہ پاؤں کے بل چلتے تھے قیامت کے دن انھیں چہروں کے بل چلا کر پیش کیا جائے گا۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے پوچھا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ کیسے ہوگا ؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”اللہ اگر پاؤں کے بل چلا سکتا ہے تو وہ چہروں کے بل بھی چلانے پر قادر ہے‘‘ (بخاری، کتاب الرقاق باب، کیف الحشر) اسی طرح جن لوگوں نے اس دنیا میں حق بات کو سننا بھی گوارا نہ کیا ہوگا وہ وہاں فی الواقع بہرے بنا دیئے جائیں گے اور جن لوگوں نے زبان سے حق بات کہنے یا اس کی شہادت دینے سے انکار کیا تھا وہ اس کی سزا میں گونگے بنا دیئے جائیں گے اور جن لوگوں نے کائنات میں بکھری ہوئی اللہ کی نشانیوں کو دیکھنے اور ان میں غور کرنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی تھی وہاں انھیں اس جرم کی پاداش میں انھیں اندھا کردیا جائے گا۔ پھر اس حال میں انھیں جہنم میں پھینک دیا جائے گا اور انھیں ایسا مسلسل اور دائمی عذاب ہوگا جس میں نہ کمی واقع ہوگی اور نہ کوئی وقفہ پڑے گا۔ الإسراء
98 [١١٦] انسان محیر العقول عادی باتوں پر غور نہیں کرتا اور واقع ہوجانے والی باتوں کا انکار کردیتا ہے :۔ انسان کی عادت ہے کہ کوئی بات خواہ کتنی ہی محیرالعقول ہو جب وہ عادت بن جائے تو اس میں غور کرنا ہی چھوڑ دیتا ہے۔ مثلاً سب سے زیادہ محیر العقول اس کا اپنا جسم ہے جو ہمہ وقت ایک آٹو میٹک مشین کی طرح کام کر رہا ہے جب سے وہ پیدا ہوا اس وقت سے اس کا دل حرکت کر رہا ہے اور مرتے دم تک حرکت کرتا رہے گا۔ اس میں ایک لمحہ وقفہ نہیں ہوتا اور جب وقفہ پڑے گا تو موت واقع ہوجائے گی۔ اسی طرح اس کے پھیپھڑے، معدہ، جگر، گردے سب اپنا اپنا کام اس طرح کر رہے ہیں کہ اسے کسی بات کی خبر نہیں ہوتی کہ اس کے اندر کیا کچھ ہو رہا ہے۔ وہ غذا کھاتا ہے تو از خود اس سے خون بنانے والی مشین اس کے اندر نصب ہے اسے خون میں تبدیل کرنا شروع کردیتی ہے اور جو فضلہ بچتا ہے تو طبیعت خود اسے مجبور کردیتی ہے کہ رفع حاجت کرے اور یہی خون اس کی زندگی کا سہارا ہے پھر اسی غذا کے ملغوبہ سے مادہ کے اندر دودھ بھی بنتا ہے پھر انسان کی تربیت اس کے دیکھنے کا نظام، اس کے سننے، اس کی نیند، نیند میں انسان کے گھسے ہوئے ذرات کی جگہ نئے ذرات پیدا ہونے کا نظام اللہ تعالیٰ کے ایسے ہی محیرالعقول کارنامے ہیں۔ لیکن ان میں انسان نے کبھی غور کرنا گوارا نہیں کیا دوسری طرف اس کا یہ حال ہے کہ اگر کوئی محیر العقول بات اسے بتائی جائے کہ وہ مستقبل میں واقع ہوگی تو فوراً اس کا انکار کردیتا ہے اور ایسی بات کہنے والے کو دیوانہ کہنا شروع کردیتا ہے مثلاً دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اگر کوئی شخص یہ بات کہہ دیتا کہ ایک وقت آنے والا ہے جب ایک انسان دنیا کے ایک کنارے پر ہوگا اور دوسرا دوسرے کنارے پر اور وہ آپس میں بات چیت کریں گے تو یقیناً ایسے شخص کو دیوانہ کہہ دیا جاتا یا اسی طرح اگر کوئی یہ کہتا کہ ایک سواری پیدا ہوگی جو ہزاروں من بوجھ اٹھائے ہوا میں بڑی تیزی سے اڑا کرے گی تو ایسی بات کا سب لوگ انکار کردیتے۔ مگر آج جب ٹیلیفون اور ہوائی جہاز پیدا ہوگئے ہیں اور انسان کی عادت میں شامل ہوگئے ہیں تو اب ان کو تو تسلیم کرنے لگا ہے۔ مگر مستقبل کے متعلق اگر اب بھی کوئی محیرالعقول بات کہی جائے تو فوراً انکار کردے گا۔ بالکل ایسی ہی بات دوبارہ پیدا ہونے کی ہے۔ حالانکہ اگر وہ صرف اپنے جسم کی اندرونی ساخت پر ہی غور کرلیتا بلکہ کسی چھوٹے سے چھوٹے جانور کے جسم کی ساخت پر غور کرلیتا تو اسے معلوم ہوسکتا تھا کہ جو خالق ایسی محیرالعقول مشینری بنانے پر قادر ہے وہ اس کے ذرات کو اکٹھا بھی کرسکتی ہے اور اس میں روح پھونک کر دوبارہ اٹھا کر کھڑا بھی کرسکتی ہے۔ الإسراء
99 [١١٧] دوبارہ زندگی کا موسم :۔ مشرکین مکہ کا یہ اعتراض تھا کہ ہزاروں برس گزر چکے جو مر گیا ان میں سے کوئی دوبارہ زندہ ہو کر تو آیا نہیں۔ پھر دوبارہ زندگی کیسے ممکن ہے اس کا جواب یہ ہے کہ ہر کام کے لیے ایک مقررہ وقت ہوتا ہے وہ اسی وقت ہی ہوتا ہے۔ گندم کا بیج آپ زمین میں پھینک دیں۔ مگر وہ اگے گا اسی وقت جب اس کے اگنے کا موسم آئے گا۔ اسی طرح انسانوں کے اگنے کا وقت یا موسم نفخہ صورثانی ہے۔ جب صور پھونکا جائے گا تو تم سب ایک طبعی عمل کے تحت زمین سے اگ آؤ گے۔ الإسراء
100 [١١٨] کفار مکہ کی تنگ نظری اور انسان کی فطرت :۔ قریشی سردار جو آپ کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے تھے تو اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ وہ آپ کو جھوٹا سمجھتے تھے اور نہ یہ تھی کہ انھیں دعوت دین کے دلائل کی سمجھ نہیں آتی تھی بلکہ اس کی اصلی وجہ یہ تھی کہ اگر وہ اسلام قبول کرلیتے تو ان کی سرداریاں اور چودھراہٹیں انھیں چھنتی نظر آ رہی تھیں۔ اور انھیں پیغمبر اسلام کے تابع ہو کر رہنا پڑتا تھا۔ نیز اگر اسلام پھیل جاتا تو انھیں کعبہ کی تولیت کی وجہ سے عرب بھر میں جو عزت اور وقار حاصل تھا وہ بھی ان سے چھنتا نظر آرہا تھا۔ لہٰذا ان کی انتہائی کوشش یہ ہوتی تھی کہ اسلام کا خاتمہ ہی کردیا جائے اور حقیقتاً انسان ایسا ہی بخیل واقع ہوا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کوئی دوسرا اس کے مقابلے پر سر نہ نکالے۔ اسی بات کو واضح کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا کہ اگر ان کے پاس زمین بھر کے خزانے بھی ہوں تو ان کا یہ حال ہے کہ وہ کسی کو پھوٹی کوڑی نہ دیں۔ مبادا کہ وہ کسی وقت ان کے مقابلہ پر آجائے۔ یہ تو اللہ کی مہربانی ہے کہ ہر طرح کے خزانے اسی کے پاس ہیں اور جس کسی پر جس طرح کا چاہے فضل کرتا رہتا ہے۔ الإسراء
101 [١١٩] سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے نو معجزات :۔ یہ نو واضح آیات یا معجزے قرآن کریم میں سورۃ اعراف میں مذکور ہیں اور یہ ہیں عصائے ١ موسیٰ، ید ٢ بیضا، بھری مجلس ٣ میں برسرعام جادوگروں کی شکست، سارے ملک میں قحط واقع ہونا، یکے بعد دیگر طوفان، ٹڈی دل، جوؤں، مینڈکوں، اور خون کی بلاؤں کا نازل ہونا۔ یہ ایسے واضح معجزات تھے جو سیدنا موسیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر بھی واضح دلائل تھے اور ان کے قلبی اطمینان کے لیے بھی کافی تھے لیکن وہ پھر بھی ایمان نہ لائے اس کی وجہ بھی وہی ہے جو اوپر کے حاشیہ میں مذکور ہوئی ہے۔ قریش کا بھی یہی حال تھا۔ کچھ معجزات تو وہ دیکھ چکے تھے مگر ایمان نہ لائے تھے۔ یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ اگر ان کے مطلوبہ معجزات دکھلا بھی دیئے جائیں تو یہ بھی فرعونیوں کی طرح ایمان لانے کی طرف کبھی نہ آئیں گے۔ علاوہ ازیں ان نو واضح آیات سے متعلق ترمذی میں ایک حدیث ہے جو درج ذیل ہے : صفوان بن عسال مرادی سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے دوسرے سے کہا ’’آؤ اس نبی کے پاس چلیں اور اس سے کچھ پوچھیں‘‘ وہ کہنے لگا ’’اسے نبی نہ کہو، اگر اس نے یہ بات سن لی تو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں گی‘‘ چنانچہ وہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور پوچھا کہ ”موسیٰ علیہ السلام کو کون سی نو واضح آیات دی گئی تھیں؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، زنا نہ کرو، جس جان کو اللہ نے مارنا حرام قرار دیا ہے اسے ناحق نہ مارو، چوری نہ کرو، جادو نہ کرو، کسی بے قصور کو سلطان کے ہاں نہ لے جاؤ کہ وہ اسے مار ڈالے، کسی پاکدامنہ پر تہمت نہ لگاؤ، جنگ سے فرار نہ کرو۔ راوی شعبہ کو شک ہے کہ نویں بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہی کہ اے یہود! نویں بات خالصتاً تمہارے لیے ہے کہ ہفتہ کے دن میں زیادتی نہ کرو‘‘ وہ کہنے لگے ’’ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نبی ہیں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ’’پھر کون سی چیز تمہارے اسلام لانے میں مانع ہے؟‘‘ کہنے لگے’’داؤد علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ نبی انہی کی اولاد سے ہو۔ نیز ہم ڈرتے ہیں کہ اگر ہم مسلمان ہوگئے تو یہود ہمیں مار ڈالیں گے‘‘ (ترمذی ابو اب التفسیر) اس روایت کو حافظ ابن کثیر نے راوی عبداللہ بن مسلمہ کی وجہ سے مجروح قرار دیا ہے اور تطبیق کی یہ صورت پیش کی ہے کہ شاید یہود نے ان احکام عشرہ کے متعلق پوچھا ہو جو تورات کے شروع میں بطور وصایا لکھے جاتے تھے۔ [١٢٠] فرعون کی نظروں میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی سحر زدگی یا دیوانگی یہ تھی کہ آپ نے اس سے برملا بنی اسرائیل کی آزادی اور انھیں اپنے ہمراہ بھیجنے کا مطالبہ کردیا۔ کیونکہ وہ خود کو ایسا شہنشاہ سمجھتا تھا جو اپنی تمام رعایا کے سیاہ و سپید کا مالک بنا بیٹھا تھا اور از راہ تکبر سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے دعٰوئے نبوت اور اس مطالبہ کو دیوانگی پر محمول کرتا تھا اور بعض لوگوں نے یہاں مسحور سے مراد ساحر لیا ہے جیسا کہ فرعون اپنی رعایا کو یہی یقین دلانا چاہتا تھا۔ الإسراء
102 [١٢١] سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اسے دھڑلے سے جواب دیا۔ بات یوں نہیں جو تم مجھے کہہ رہے ہو بلکہ مجھے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ تمہاری تباہی کے دن قریب آگئے ہیں جو اتنے واضح معجزات دیکھ کر بھی ایمان نہیں لارہے۔ تمہارے جادوگر تو حقیقت کو سمجھ کر ایمان لاچکے ہیں پھر بھی تمہیں یہ سمجھ نہیں آرہی کہ جادو کی شعبدہ بازیوں سے نہ کسی ملک میں کبھی قحط پڑا ہے، نہ پڑ سکتا ہے، پوری قوم پر طرح طرح کے عذاب لانا جادوگروں کی بساط سے باہر ہے۔ ایسے کام صرف وہ ہستی کرسکتی ہے جو قادر مطلق اور مختار کل ہو اور اگر تم یہ سب کچھ دیکھ کر اس ہستی پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں تو تمہیں اپنے انجام کی فکر کرنا چاہیئے۔ الإسراء
103 [١٢٢] فرعون کی بنی اسرائیل کے استیصال کی کو شش اور تعاقب میں غرقابی :۔ فرعون نے بنی اسرائیل پر صرف اس جرم کی پاداش میں کہ وہ سیدنا موسیٰ پر ایمان لانے لگے تھے، طرح طرح کی سختیاں شروع کردی تھیں نیز اس سزا کو نئے سرے سے نافذ کردیا جو پہلے اس کے باپ نے نافذ کی تھی۔ یعنی بنی اسرائیل کے ہاں پیدا ہونے والے لڑکوں کو قتل کردیا جائے اور لڑکیوں کو زندہ رہنے دیا جائے۔ باپ فرعون رعمیس کا اس سزا سے یہ مقصد تھا کہ موسیٰ علیہ السلام اگر پیدا ہوں تو اسی وقت انھیں ختم کردیا جائے تاکہ اس کی حکومت پر آنچ نہ آنے پائے اور بیٹے فرعون منفتاح نے یہ سزا اس لیے جاری کی کہ بنی اسرائیل کی اس طرح نسل کشی کرکے اس ملک سے ان کا خاتمہ ہی کردیا جائے اور ان کی عورتوں کو اپنی لونڈیاں بنا لیا جائے۔ مگر ہم نے فرعون اور فرعونیوں کے لیے ایسے حالات پیدا کردیئے کہ وہ بنی اسرائیل کا تعاقب کریں۔ اور ان کا یہی تعاقب دراصل ان کی موت کا بلاوا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر اور حیرت انگیز طریقے سے ان سب کو دریا میں غرق کردیا اور بنی اسرائیل کو ان سے نجات دی۔ الإسراء
104 [١٢٣] کفار مکہ اور فرعون کی کرتوتوں اور انجام میں مماثلت :۔ اگرچہ موسیٰ علیہ السلام کو یہ حکم ہوا تھا کہ وہ بنی اسرائیل کو لے جاکر شام کا علاقہ فتح کریں اور اس میں آباد ہوں اور کچھ عرصہ بعد ایسا ہوا بھی تھا۔ تاہم اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فرعون اور فرعونیوں کی تباہی کے بعد بنی اسرائیل ہی کے کچھ لوگ مصر کے علاقے پر بھی قابض ہوگئے تھے اور اس مقام پر اس واقعہ کو مختصراً بیان کرنے کا مقصودیہ ہے کہ کفار مکہ بھی مسلمانوں پر ایسے ہی سختیاں کر رہے تھے جیسے آل فرعون بنی اسرائیل پر کرتے تھے لیکن انجام کار ہوا یہ کہ آل فرعون تو تباہ ہوگئے اور بنی اسرائیل ملک پر قابض ہوگئے تھے۔ اور اب چونکہ ان لوگوں نے بھی اپنے عزو جاہ کی خاطر اسلام کا نام و نشان مٹا دینے کا تہیہ کر رکھا ہے تو ان کا وہی حشر ہونے والا ہے جو آل فرعون کا ہوا تھا۔ یہ تو سزا دنیا میں ملے گی اور آخرت میں بھی ایسے لوگ ہمارے عذاب سے بچ کر نہیں جاسکتے۔ ہم ان سب کو اکٹھے کرکے اپنے حضور حاضر کرلیں گے پھر ان کے کرتوتوں کی انھیں پوری پوری سزا دیں گے۔ الإسراء
105 [١٢٤] یعنی جن مقاصد کی خاطر ہم نے یہ قرآن جس حق و صداقت کے ساتھ نازل کیا تھا بعینہ اسی حق و صداقت کے ساتھ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل تک پہنچ گیا۔ اس میں کسی طرح کی کمی بیشی نہیں ہوئی نہ اس راہ میں کہیں باطل کی آمیزش ہوئی، نہ ہی اس میں سے کچھ کلام نازل ہونے سے رہ گیا جو کچھ رسول پر نازل ہوا وہ بعینہ وہی کچھ تھا جو ہم نے نازل کیا تھا۔ اب رسول کا کام یہ ہے کہ جو کچھ نازل ہوا ہے اسے لوگوں تک پہنچا دے۔ اللہ کے فرمانبرداروں کے لیے اس کلام میں جو بشارتیں ہیں ان سے انھیں مطلع کر دے اور سرکشوں کے لیے جو جو عذاب مذکور ہیں ان کے ذریعہ نافرمانوں کو ڈرائے اور انھیں متنبہ کردے۔ الإسراء
106 [١٢٥] قرآن کو بتدریج نازل کرنے کے فوائد :۔ مشرکین مکہ کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ اگر قرآن اللہ کا کلام ہوتا تو یکبارگی نازل ہوجاتا۔ ہو نہ ہو یہ نبی ساتھ ساتھ اسے تصنیف کرتا جاتا ہے اور جیسے حالات ہوں اس کے مطابق لوگوں کو سناتا رہتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اس قرآن کو موقع بہ موقع اور بتدریج ہم ہی نے اتارا ہے اور اس طرح وقفہ وقفہ پر اتارنے میں کئی مصلحتیں اور فوائد ہیں۔ مثلاً یہ کہ لوگوں کو اس کے حفظ کرنے میں آسانی رہے نیز ہر ایک کو معلوم ہوجائے کہ فلاں آیت کس موقع پر نازل ہوئی تھی اور اس کا صحیح مفہوم کیا ہے نیز یہ کہ لوگوں کو اس کے اوامر پر عمل کرنے اور نواہی سے اجتناب کرنے میں آسانی رہے اور اگر یکدم ہی ان پر سب اوامر و نواہی نازل کردیتے تو سب انکار کردیتے اور کوئی ان کو اپنے آپ پر نافذ کرنے کی ہمت نہ پاتا۔ نیز یہ کہ اس طرح مختلف اوقات پر آیات نازل کرنے سے مومنوں کا ایمان زیادہ ہوتا رہتا ہے اور پختہ تر بنتا جاتا ہے ان میں مصائب کو برداشت کرنے کی قوت اور استقلال پیدا ہوتا ہے اور یہ سب فوائد اسی صورت میں حاصل ہوسکتے تھے کہ قرآن وقفہ وقفہ سے نازل ہوتا اور اوامر و نواہی میں تدریج کو ملحوظ رکھا جاتا۔ الإسراء
107 [١٢٦] منصف مزاج اہل کتاب کا قرآن اور نبی کی تصدیق کرنا :۔ اے قریش مکہ! تم قرآن کو منزل من اللہ تسلیم کرو یا نہ کرو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ سابقہ امتوں میں سے بھی جو لوگ اہل علم اور منصف مزاج ہیں وہ قرآن کے انداز بیان سے ہی یہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ واقعی کلام الٰہی ہے کیونکہ اس میں سابقہ آسمانی کتابوں کے طرز بیان سے بہت حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔ لہٰذا اس کی آیات سنتے ہیں تو ان پر رقت طاری ہوجاتی ہے اور وہ سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اور انھیں یہ یقین ہوجاتا ہے اور پکار اٹھتے ہیں کہ یہ تو وہی نبی ہے جس کے متعلق تورات و انجیل میں بشارتیں مذکور ہیں اور یہ نبی اللہ کا وہی وعدہ ہے جو اب پورا ہو کے رہا۔ الإسراء
108 الإسراء
109 [١٢٧] اہل کتاب میں بھی کچھ منصف مزاج اور اہل علم موجود تھے جن میں بعض ایمان بھی لے آئے قرآن نے ان کا ذکر خیر کئی مقامات پر کیا ہے مثلاً سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ١١٣ تا ١١٥ میں اور ١٩٩ میں نیز سورۃ مائدہ کی آیت نمبر ٨٢ تا ٨٥ میں۔ علاوہ ازیں مشرکین میں بھی معدودے چند ایسے افراد بعثت نبوی کے دور میں تھے جو شرک سے سخت بیزار تھے۔ علاوہ ازیں شراب اور دوسری معاشرتی برائیوں سے بھی متنفر رہتے تھے اور انبیاء سابقین کی خبروں کی وجہ سے نبی آخرالزمان کے منتظر تھے۔ مثلاً زید بن عمرو بن نفیل، ورقہ بن نوفل، سیدنا ابو بکر صدیق ، سلمان فارسی اور ابو ذرغفاری وغیرہ ایسے ہی لوگوں میں سے تھے۔ ایسے منصف مزاج لوگوں کی خواہ وہ دور جاہلیت کے مشرکانہ معاشرہ سے تعلق رکھتے ہوں یا اہل کتاب سے۔ جب ان کے سامنے قرآن کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو اس کی اثر پذیری کی وجہ سے روتے روتے سجدہ میں گر پڑتے ہیں۔ قرآن کی ایک ایک آیت ان کے ایمان میں اضافہ، پختگی اور اللہ کے حضور خشوع کا سبب بن جاتی ہے ایسے ہی لوگوں کی مطابقت میں علماء نے اس آیت پر سجدہ واجب قرار دیا ہے۔ الإسراء
110 [١٢٨] رحمان اللہ کا ذاتی نام ہے قریش کی رحمن سے چڑ 'اللہ کے دوسرے صفاتی نام :۔ اللہ کے بعد رحمان بھی اللہ تعالیٰ کا دوسرے نمبر پر ذاتی نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی مخلوق کا جس طرح اللہ نام یا اس کی صفت نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح رحمان بھی کسی مخلوق کا نام یا صفت نہیں ہوتی لیکن اللہ کا یہ نام عرب میں رائج نہ تھا اور اس نام سے انھیں چڑ بھی تھی اور وہ اللہ پر اس نام کا اطلاق کرنے سے بدکتے تھے اور جب آپ کی زبان سے یہ نام سنتے تو کہتے کہ ہمیں تو اللہ کا شریک بنانے سے منع کرتے ہو۔ جبکہ تم نے خود بھی اللہ کے ساتھ رحمان کو بھی الٰہ بنا رکھا ہے۔ ان کے اسی اعتراض کا اس آیت میں جواب دیا گیا ہے کہ اللہ اور رحمن دوالٰہ نہیں بلکہ ایک ہی ذات کے دو نام ہیں۔ تم جونسا چاہو پکار سکتے ہو.۔ بلکہ اللہ کے تو اور بھی بہت سے اچھے صفاتی نام ہیں۔ تم ان سے اللہ کو پکار سکتے ہو اور صحیح احادیث کی رو سے یہ نام ننانوے ہیں۔ اور جو ننانوے نام حدیث میں مذکور ہیں۔ استقصاء سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے علاوہ اور بھی کئی نام ہیں جو کتاب و سنت میں مذکور ہیں۔ (نیز دیکھئے سورۃ رعد آیت نمبر ٣٠ کا حاشیہ) [١٢٩] قرآن کی تلاوت آہستہ جہری آواز سے :۔ اس جملہ کی تفسیر کے لئے درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے : سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :یہ آیت اس وقت اتری جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں کافروں سے چھپے رہتے جب آپ صحابہ کو نماز پڑھاتے تو بلند آواز سے قرآن پڑھتے۔ جب مشرک قرآن سنتے تو قرآن، صاحب قرآن اور قرآن لانے والے (جبرئیل) سب کو برا بھلا کہتے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ نماز میں قرآن بلند آواز سے نہ پڑھئے کہ مشرک قرآن کو برا بھلا کہیں اور نہ اتنی آہستہ پڑھئے کہ آپ کے صحابہ بھی نہ سن سکیں بلکہ درمیانی راہ اختیار کیجئے۔ (بخاری، کتاب التفسیر، ترمذی، ابو اب التفسیر) اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ یہ آیت دعا کے باب میں اتری۔ (حوالہ ایضاً) الإسراء
111 [١٣٠] کیا اللہ کو کسی اور مددگار کی ضرورت ہے؟ اس آیت میں مشرکین کے اس بنیادی عقیدے کی تردید کی گئی ہے جس کی بنا پر کئی قسم کا شرک رائج ہوگیا ہے۔ اور پھر عقیدہ یہ ہے کہ جس طرح ایک بادشاہ کو اپنا انتظام سلطنت چلانے کے لئے امیروں وزیروں اور کئی طرح کے مددگاران کی احتیاج ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح اللہ کو اتنی بڑی سلطنت کا کاروبار چلانے کے لئے کارکنوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اور ہماری یہ دیویاں اور دیوتا' غوث' قطب' ابدال وغیرہ سب اس انتظام کے مختلف شعبے سنبھالے ہوئے ہیں۔ یہ ہے وہ بنیادی گمراہی جس نے بیشمار قسموں کے شرک کو جنم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بے ہودہ عقیدہ کا رد کرتے ہوئے فرمایا کہ نہ اسے اس وقت کسی شریک کی احتیاج ہے اور نہ آئندہ ہوگی کہ وہ کسی کو بیٹا بنالے جو ناتوانی میں اس کا معاون ثابت ہو۔ اسے تخلیق کائنات کے وقت بھی کسی کو مددگار بنانے کی ضرورت پیش نہیں آئی نہ ہی اس کائنات کا انتظام چلانے کے لئے ضرورت ہے اور نہ ہی ایسی ضرورت آئندہ کبھی پیش آسکتی ہے۔ وہ ہر ایک کی فریاد پکار براہ راست سنتا ہے' ان کا جواب دیتا اور شرف قبولیت بخشتا ہے۔ اسے درمیانی واسطوں کی قطعا ضرورت نہیں ہے۔ اس کے پاس ہر چیز کے لاتعداد اور غیر محدود خزانے ہیں۔ جن سے وہ ہر وقت اپنی مخلوق کو نوازتا ہے اور جو کچھ بھی اس سے مانگا جائے وہ عطا کرتا ہے۔ بشرطیکہ دعا کے آداب کو ملحوظ رکھا جائے۔ گویا اس آیت میں اہل کتاب' مشرکین مکہ موجودہ دور کے مشرکوں سب کارد موجود ہے اور جس معبود میں مندرجہ بالا صفات پائی جائیں وہ معبود حقیقی ہوسکتا ہے لہٰذا ہر طرح کی تعریف اسی ذات کو لائق ہے۔ آپ اس کی تعریف کیا کیجئے اور اسی کی بڑائی بیان کیا کیجئے۔ اس سورۃ بنی اسرائیل کی ابتدا سبحان الذی سے ہوئی اور تسبیح سے مراد اللہ کی تمام عیوب اور نقائص یعنی صفات سلبیہ سے تنزیہہ بیان کرنا ہے۔ پھر اس سورۃ کا خاتمہ بھی اس بیان پر ہوا کہ اللہ تعالیٰ اولاد' شرکاء اور حمائتیوں کی کسی طرح کی بھی مدد کا محتاج نہیں۔ اور یہ فصاحت وبلاغت کے انتہائی کمال کی دلیل ہوتی ہے کہ مضمون کو جس عنوان سے شروع کیا جائے۔ درمیان میں اس کی جملہ تفصیلات بیان کرنے کے بعد اس کا خاتمہ بھی اسی بیان پر کیا جائے جس سے اس کی ابتدا کی گئی تھی۔ الإسراء
0 [ ١] سورۃ کہف کی فضیلت میں مندرجہ ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ براء بن عازب کہتے ہیں کہ ایک شخص رات کو گھر میں یہ سورت پڑھ رہا تھا اور گھوڑا بھی وہیں بندھا ہوا تھا گھوڑا بدکنے لگا۔ اس نے اوپر جو سر اٹھا کر دیکھا تو ایک نور دکھائی دیا جو بادل کی طرح سایہ کیے ہوئے تھا صبح اس نے یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا یہ سکینہ (نور اطمینان) ہے جو اس کے پڑھنے سے نازل ہوئی تھی۔ (ترمذی، ابو اب فضائل القرآن۔ باب ماجاء فی سورۃ کہف) اس واقعہ کو بخاری اور مسلم نے بھی روایت کیا ہے۔ ٢۔ سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : جو شخص اس سورۃ کی ابتدائی تین آیات پڑھتا رہے وہ فتنہ دجال سے محفوظ رہے گا (ترمذی، ابو اب فضائل القرآن۔ باب ماجاء فی سورۃ الکہف) اور مسلم میں اس طرح ہے کہ جو شخص سورۃ کہف کی ابتدائی دس آیات یاد کرے وہ دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا۔ (مسلم بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب فضائل القرآن۔ پہلی فصل) ٣۔ ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص جمعہ کے دن سورۃ کہف پڑھے دو جمعوں کے درمیان اس کے لیے نور روشن ہوجاتا ہے۔ (بیہقی فی الدعوات الکبیر۔ بحوالہ مشکوۃ کتاب فضائل القرآن۔ تیسری فصل) الكهف
1 [ ١۔ الف] یعنی اللہ تعالیٰ کے مستحق حمد و ثنا ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے ایسی کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے مطالب صاف صاف بیان کرتی ہے نہ اس کے مطالب میں کوئی پیچ و خم ہے اور نہ اس کے انداز بیان میں کوئی پیچیدگی یا الجھاؤ ہے۔ الكهف
2 [ ٢] قرآن سابقہ کتابوں کے لئے معیار :۔ قیما بہت وسیع المعنی لفظ ہے اس کا ایک معنی تو ترجمہ میں بیان ہوا ہے دوسرا معنی یہ ہے کہ سابقہ آسمانی کتابوں کے لیے ایک معیار اور کسوٹی کا کام دیتی ہے ایک تو اس میں سابقہ تعلیمات کا خلاصہ موجود ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ کتاب سابقہ کتب کے صرف صحیح اور منزل من اللہ مضامین کی تصدیق کرتی ہے اور اگر کہیں تضاد ہوگا تو وہ اہل کتاب کی تحریف لفظی یا معنوی کی وجہ سے ہوگا یا پھر ان کا اپنی طرف سے اضافہ ہوگا۔ [٣] یعنی اس کتاب کا بھی اور اسی طرح جملہ آسمانی کتابوں کی تعلیم کا لب لباب یہی ہے کہ قیامت یقیناً آنے والی ہے اس دن تمام لوگوں کو ان کے اچھے یا برے اعمال کا بدلہ ضرور ملنے والاہے لہٰذا ہر شخص کے لیے لازم ہے کہ وہ اللہ کے حضور جواب دہی کی وجہ سے اس دنیا میں اللہ سے ڈرتے ہوئے اپنی زندگی بسر کریں اور جو اللہ کے فرماں بردار بن کر رہیں انھیں جنت اور دائمی خوشیوں کی بشارت بھی دیتی ہے۔ الكهف
3 الكهف
4 [ ٤] اللہ کی اولاد قرار دینے والے فرقے :۔ اس آیت کے مخاطب عیسائی بھی ہیں جنہوں نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے ابن اللہ ہونے کو اپنے عقیدہ کا لازمی جزو قرار دے لیا ہے مشرکین مکہ بھی جنہوں نے اللہ کے لیے بیٹوں کے بجائے کئی بیٹیاں تجویز کر رکھی تھیں جیسے لات، عزیٰ اور منات وغیرہ اور یہود بھی جو سیدنا عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہتے تھے گویا قرآن کے نزول کا مقصد عام لوگوں کو ڈرانا تو ہے ہی اور بالخصوص ان لوگوں کو ڈرانا ہے جو اللہ کے لیے اولاد تجویز کرتے ہیں۔ الكهف
5 [٥] کیونکہ اللہ کے لیے اولاد قرار دینا انتہائی گستاخی کی بات ہے اور یہ ایسی بات ہے جس کا الہامی کتابوں کی سچی تعلیم میں کہیں ڈھونڈے سے بھی سراغ نہیں مل سکتا اس کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ ان لوگوں کے بزرگوں اور آباؤ اجداد میں سے کسی نے ایسی بات کہہ دی اور بلا تحقیق کہہ دی۔ بعد میں آنے والی نسلوں میں یہی بلاتحقیق ' جھوٹی اور انہونی بات ان کے عقیدہ میں شامل ہوگئی۔ الكهف
6 [٦] آپ کو کفار مکہ کے ایمان نہ لانے کا افسوس جن حالات میں یہ سورت نازل ہوئی اس آیت میں انہی حالات کا اجمالی منظر پیش کیا گیا ہے مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے تھے اور کفار مکہ اپنی ساری قوتیں اسلام کے استیصال پر صرف کر رہے تھے ان حالات میں آپ کی انتہائی آرزو یہ تھی کہ ان سرداران قریش کو یا ان میں سے بعض کو اللہ تعالیٰ اسلام لانے کی توفیق عطا فرما دے جس سے آپ کے سامنے بالخصوص دو فوائد تھے ایک یہ کہ لوگ اللہ کی گرفت سے بچ جائیں جو پیہم نافرمانیوں کی صورت میں یقیناً واقع ہوجاتی ہے اور دوسرے یہ کہ اس طرح اسلام کو تقویت حاصل ہو اور مسلمانوں پر سختیوں میں کمی واقع ہوجائے۔ دن رات آپ کو یہی فکر لاحق رہتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ان لوگوں کی ہدایت کی فکر میں آپ اپنے آپ کو ہلکان کرنا چھوڑ دیں اللہ خود اپنے دین کا محافظ ہے اس کی ان حالات پر کڑی نظر ہے اور وہی کچھ ہو کر رہے گا جو وہ چاہے گا آپ بس اپنا تبلیغ رسالت کا کام کرتے جائیے کسی کو ہدایت دینا اللہ کا کام ہے آپ کا نہیں۔ الكهف
7 الكهف
8 [ ٧] کل من علیھا فان یہ لوگ اس وقت آسودہ حال ہیں اور دنیا کی لذتوں اور دلچسپیوں میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ ان کی یہ حالت بدستور قائم رہے اور اسلام کے غلبہ میں انھیں اپنی اس آسودہ حالی کی زندگی اور عزو جاہ کی موت نظر آتی ہے حالانکہ دنیا کی انہی دلچسپیوں کو ہم نے ایسے لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ بنا دیا ہے ہم تو یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ عیش و عشرت کی ان فراوانیوں میں پھنس کر کوئی اللہ کی طرف بھی رجوع کرتا ہے یا نہیں اور یہ دنیا اور اس کی بہار تو محض ایک وقتی، عارضی اور فانی چیز ہے اور ایک وقت ایسا آنے والا ہے جب اس زمین پر نہ لہلہاتے کھیت ہوں گے، نہ مہکتے ہوئے باغ، نہ مال و مویشی، بس یہ ایک چٹیل میدان ہوگی کسی کی ملکیت میں کوئی بھی چیز نہ ہوگی۔ یہ مال و اولاد، یہ غلام اور مویشی، یہ عزو جاہ کے سب وسائل ناپید ہوجائیں گے اس وقت اگر کوئی چیز کارآمد ہوگی تو انسان کے اچھے اعمال ہوں گے جو اس کے ساتھ جائیں گے لہٰذا انسان کو اپنی توجہ فانی چیزوں کی بجائے باقی رہنے والی چیزوں پر صرف کرنی چاہیے۔ الكهف
9 [٨] قریش مکہ کے تین تاریخی سوال :۔ اس تمہید کے بعد اب کفار مکہ کے ان سوالوں کے جوابات کا آغاز ہو رہا ہے جو انہوں نے اہل کتاب سے پوچھ کر اور ان کے مشورہ سے آپ سے پوچھے تھے کفار مکہ دراصل یہ چاہتے تھے کہ وہ آپ سے قرون گذشتہ کے متعلق کچھ ایسے تاریخی سوال کریں جن کا کم از کم مشرکین مکہ اور عام اہل عرب کو کچھ علم نہ تھا۔ چنانچہ انہوں نے اس معاملہ میں اہل کتاب کے عالموں سے مدد لی۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ آپ سے ایسے سوال کرنے سے پتہ چل جائے گا کہ آیا یہ شخص فی الواقع نبی ہے یا نہیں۔ اگر یہ جواب نہ دے سکے تو اس کا جھوٹا ہونا ثابت ہوجائے گا اور اگر درست جواب دے دے تو معلوم ہوجائے گا کہ اس کے پاس واقعی کوئی علم غیب کا ذریعہ موجود ہے۔ گویا ان سوالوں سے دراصل ان کا مقصود آپ کی نبوت کا امتحان تھا چنانچہ اہل کتاب نے جو سوالات قریش مکہ کو بتائے ان میں سرفہرست اصحاب کہف کا قصہ تھا پھر دوسرے نمبر پر قصہ موسیٰ علیہ السلام و خضر علیہ السلام اور تیسرے نمبر پر ذوالقرنین کا قصہ تھا۔ بعض روایات کے مطابق دوسرا سوال قصہ موسیٰ علیہ السلام و خضر علیہ السلام کے بجائے روح کے متعلق تھا جس کا ذکر پہلے سورۃ بنی اسرائیل میں گذر چکا ہے یہ بات اس لیے درست معلوم نہیں ہوتی کہ ان دونوں سورتوں کے نزول کے درمیان ایک طویل مدت ہے۔ ترتیب نزولی کے لحاظ سے سورۃ بنی اسرائیل کا نمبر ٥٠ جبکہ اس سورۃ کا نمبر ٦٩ ہے علاوہ ازیں اس سورۃ میں ان ہی تین قصوں کا ذکر آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان تین سوالوں کا جواب ہی نازل نہیں فرمایا بلکہ ایسے امور کی بھی ساتھ ساتھ وضاحت کردی ہے جو انسانی ہدایت کے لیے نہایت ضروری ہیں جیسا کہ قرآن کریم کے انداز بیان کا خاصہ ہے علاوہ ازیں ان قصوں کو اس انداز سے بیان کیا گیا ہے کہ جو بہت حد تک قریش مکہ کے حالات سے مطابقت رکھتے تھے۔ کہف اور رقیم کے معنی :۔ کہف کسی پہاڑ کی اس کھوہ کو کہتے ہیں جو کھلی اور کشادہ ہو اور اگر تنگ ہو تو اسے غار کہتے ہیں اور رقیم، مرقوم کے معنوں میں ہے یعنی یہ اصحاب کہف یک دم معاشرہ سے غائب ہوگئے اور تلاش بسیار کے باوجود ان کا پتہ نہ چل سکا تو ان سرکاری مفرور مجرموں کے نام اور پتے قلمبند کرلیے گئے جو مدتوں حکومت کے ریکارڈ میں رہے اور بعض لوگوں کے خیال کے مطابق یہ نام اس وقت ریکاڑد کیے گئے تھے جب لوگوں کو ان کا پتہ چل گیا ان کا چرچا عام ہوا اور یہ لوگ دوبارہ اس غار میں داخل ہوگئے تو لوگوں نے ان کے نام اور پتے وغیرہ لکھ کر غار سے باہر کتبہ لگا دیا اور ان کے مختصر حالات بھی درج کردیئے گئے۔ غار والوں کا قصہ چونکہ بعث بعد الموت پر ایک واضح دلیل اور خرق عادت امر تھا لہٰذا اس قصہ کا آغاز ہی اس جملہ سے کیا گیا کہ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ قصہ اللہ تعالیٰ کی حیران کن نشانیوں میں سے ایک بڑی اہم نشانی تھی؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دوسری نشانیاں اس واقعہ سے بہت زیادہ حیران کن ہیں جو کائنات میں ہر سو بکھری ہوئی ہیں اور خود ان کی اپنی جانوں کے اندر بھی موجود ہیں۔ بالفاظ دیگر اللہ تعالیٰ جو کچھ پہلے تخلیق کرچکا ہے اس کے مقابلے میں بعث بعدالموت اس کے لیے بہت آسان اور حقیر چیز ہے۔ الكهف
10 [ ٩] اصحاب کہف کا غار میں پناہ لینا۔ عام روایات، کتب سیر اور قرآن کریم کے اشارہ کے مطابق یہ نوجوان سات تھے توحید پرست تھے اور عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے تھے جبکہ ان کے معاشرہ میں ہر سو شرک اور بت پرستی کا دور دورہ تھا اس وقت کا رومی بادشاہ دقیانوس (Decius) (عہد حکومت ٢٤٩ ء تا ٢٥١ء ) خود بت پرست اور مشرک تھا عیسائیوں پر ظلم و ستم ڈھانے کے معاملہ میں اس کا عہد بہت بدنام ہے۔ ان ایام میں عیسائیوں کا عقیدہ تثلیث تاہنوز وضع نہیں ہوا تھا یہ عقیدہ مدتوں بعد چوتھی صدی عیسوی میں رائج ہوا لہٰذا ان ایام میں عیسائی توحیدپرست ہی ہوتے تھے ان نوجوانوں نے جب دیکھا کہ توحید پرستوں پر کس طرح سختیاں کرکے انھیں شرک و بت پرستی پر مجبور کیا جارہا ہے تو انہوں نے اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے مناسب یہی سمجھا کہ لوگوں کی نظروں سے روپوش ہوجائیں چنانچہ انہوں نے ایک پہاڑ کی ایک کھلی غار میں روپوش ہوجانے پر اتفاق کرلیا اور اپنے گھر بار چھوڑ کر منتخب کردہ غار میں جا پناہ لی اور یہ طے کیا کہ ہم میں سے باری باری ایک شخص اپنا بھیس بدل کر شہر جایا کرے وہاں سے کچھ کھانے کو بھی لے آئے اور اپنے متعلق لوگوں کی چہ میگوئیاں بھی سن آئے اور موجودہ صورت حال سے باقی ساتھیوں کو بھی مطلع کرتا رہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اللہ سے دعا بھی کرتے جاتے تھے کہ ہمیں اس معاملہ میں ثابت قدم رکھ اور ہم پر اپنی رحمت فرما اور ہماری صحیح رہنمائی کے سامان بھی مہیا فرما۔ الكهف
11 [١٠] دعا کی قبولیت اور طویل مدت کے لئے نیند یہ لوگ غار میں داخل تو اس نیت سے ہوئے تھے کہ گاہے گاہے ان میں سے ایک شخص بھیس بدل کر اشیائے خوردنی لایا کرے گا اور یہ معلوم کرے گا کہ اب ان کے متعلق لوگوں میں کیا چرچا ہو رہا ہے اور حالات کس رخ پر جارہے ہیں مگر ہوا یہ کہ جب یہ لوگ اللہ سے دعا کرتے ہوئے غار میں داخل ہوئے تو آرام کرنے کی خاطر وہاں لیٹ گئے تو اللہ نے ان پر ایک طویل مدت کے لیے نیند طاری کردی اور ان کے کانوں پر یوں تھپکی دی جیسے ماں بچے کو تھپک تھپک کر سلاتی ہے چنانچہ وہ سالہا سال تک اسی طرح پڑے سوئے رہے اور یہ ان کی دعا کی قبولیت کا نتیجہ تھا کہ اللہ نے انھیں طویل مدت تک سلا کر حکومت کے ظلم و تشدد سے انھیں نجات دلائی۔ الكهف
12 [١١] اسی حالت میں سوئے ہوئے انھیں صدیاں گزر گئیں پھر جب اللہ نے چاہا انھیں بیدار کردیا۔ بیدار کرنے کے بعد ان کا آپس میں پہلا سوال یہ تھا کہ ہم کو اس حالت میں سوئے ہوئے کتنا عرصہ ہوا ہوگا ؟ اس مدت کے تعین میں ان میں اختلاف واقع ہوگیا اس لیے کہ ان کے پاس یہ مدت معلوم کرنے یا اس کی تعین کرنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا سوا اس کے کہ وہ دھوپ سے وقت کے متعلق کچھ اندازہ کرسکیں۔ الكهف
13 [١٢] مزید رہنمائی سے مراد اپنے ایمان پر ڈٹ جانا ہے جیسا کہ اگلی آیت میں ان کے اعلان سے معلوم ہو رہا ہے انھیں زبان سے کفر و شرک کا کلمہ کہنا اس قدر دشوار تھا کہ انہوں نے ایسی بات کہنے پر اپنا گھر بار اور کاروبار چھوڑنے کو ترجیح دی اور سوسائٹی کی نظروں سے روپوش ہوگئے۔ الكهف
14 الكهف
15 الكهف
16 [١٣] ڈائنا دیوی کے مندر کی شہرت اور شرکیہ رسوم ورواج :۔ جس زمانے میں ان توحید پرست نوجوانوں نے غار میں پناہ لی تھی اس وقت شہر افسُسْ جس کے یہ لوگ باشندے تھے، ایشیائے کوچک میں بت پرستی اور جادوگری کا سب سے بڑا مرکز تھا وہاں ڈائنا دیوی کا ایک عظیم الشان مندر تھا جس کی شہرت تمام دنیا میں پھیلی ہوئی تھی اور دور دور سے لوگ اس کی پوجا پاٹ کے لیے آتے تھے۔ وہاں کے جادوگر، عامل، فال گیر اور تعویذ لکھنے والے دنیا بھر میں مشہور تھے۔ شام و فلسطین اور مصر تک ان کا کاروبار چلتا تھا اور اس کاروبار میں یہودیوں کا بھی خاصا حصہ تھا جو اپنے فن کو سیدنا سلیمان علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے تھے شرک اور اوہام پرستی کے اس ماحول میں توحید پرستوں کا جو حال ہو رہا تھا اس کا اندازہ اس فقرے سے کیا جاسکتا ہے جو اگلے رکوع میں آرہا ہے کہ اگر انھیں ہم پر اختیار مل گیا تو وہ لوگ یا تو ہمیں سنگسار کر ڈالیں گے یا پھر ہمیں اسی بت پرستی اور شرک والے مذہب میں واپس چلے جانے پر مجبور کردیں گے۔ [١٤] چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور انھیں اپنے دامن رحمت میں لے کر صدیوں تک ان پر نیند طاری کردی اور جب جاگے تو یہ توحید اور توحید پرستوں کا دشمن بادشاہ دقیانوس مرکھپ چکا تھا اور جو موجودہ بادشاہ تھا اس نے عیسائیت کا مذہب قبول کرلیا تھا اس بادشاہ کا نام قیصر تھیوڈوسیس (Theodosius) ثانی بتایا جاتا ہے۔ اس کے دور میں پوری رومی سلطنت نے عیسائیت کا مذہب قبول کرلیا تھا لہٰذا اب توحید پرستوں پر کوئی ایسی سختی نہ رہی تھی جو دقیانوس کے زمانہ میں تھی۔ الكهف
17 [١٥] غار کا محل وقوع اور ہوا کی آمد ورفت :۔ اس غار کا منہ شمال کی جانب تھا اور دوسری طرف کچھ چھوٹے موٹے سوراخ تھے لیکن وہ اتنے تنگ تھے کہ ان میں سے آدمی گزر نہیں سکتا تھا اس طرح غار میں ہوا کی آمدورفت بھی رہتی تھی اور گاہے گاہے سورج کی روشنی اور دھوپ بھی اندر پہنچ جاتی تھی لیکن چونکہ اس کا دہانہ شمال کی جانب تھا لہٰذا دھوپ کی شدت اور تمازت سے یہ لوگ بالکل محفوظ تھے۔ سانس لینے کے لیے جس قدر تازہ ہوا یا آکسیجن کی ضرورت تھی وہ بھی انھیں مہیا ہو رہی تھی اور صحت کے لیے جتنی دھوپ ضروری تھی وہ بھی چھوٹے موٹے سوراخ سے اندر پہنچ جاتی تھی۔ [١٦] یعنی اللہ تعالیٰ کا ان توحید پرستوں کو ایسی غار کی جانب رہنمائی کردینا پھر انھیں صدیوں تک سلائے رکھنا یہ باتیں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ سے تعلق رکھتی ہیں اس طرح اللہ تعالیٰ نے انھیں راہ ہدایت پر ثابت قدم رکھا بلا شبہ جو شخص راہ ہدایت پر ڈٹ جانے کا عزم کرلیتا ہے تو اللہ اس کے لیے کوئی راہ پیدا فرما دیتا ہے جس سے اس کی مشکل آسان ہوجاتی ہے۔ الكهف
18 [١٧] سونے والوں اور پہرہ دار کتے کی آنکھیں بھی کھلی رہتی تھیں :۔ اگرچہ ان لوگوں پر گہری نیند کا غلبہ تھا تاہم ان کی آنکھیں کھلی رہتی تھیں جس سے دیکھنے والے کو یہ شبہ پڑتا تھا کہ وہ جاگ رہے ہیں سوئے ہوئے نہیں ہیں پھر غار کے دہانے پر ان کا محافظ کتا بھی ایسے بیٹھا تھا جیسے جاگنے کی حالت میں کتے بیٹھتے ہیں۔ اس کی آنکھیں بھی کھلی تھیں اور ادھر سے کسی کا گزر ہوتا تو اسے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ غار کے اندر کوئی ڈاکو چھپے بیٹھے ہیں اور یہ کتا ان کی رکھوالی کر رہا ہے اگر کوئی ان کے نزدیک گیا تو یہ کتا پھاڑنے اور کاٹنے کو آئے گا اور اس کی آواز سے اس کا مالک خبردار ہو کر ممکن ہے حملہ کر دے گویا یہ ایسا وحشت ناک منظر اور تصور تھا کہ وہاں کوئی نزدیک جانے کی جرأت بھی نہ کرتا تھا اور نیند کے اس طویل عرصہ کے دوران ان کی کیفیت بالکل ویسی ہی تھی جیسے ایک عام حالت میں سونے والے کی ہوتی ہے اور وہ حسب ضرورت اور بہ تقاضائے جسم نیند کی حالت میں دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں اپنی کروٹ بدلتا رہتا ہے۔ الكهف
19 [١٨] طویل نیند کے بعد بیداری، کھانے کی فکر اور ایک آدمی کو شہر بھیجنا :۔ جس طرح ہم نے مشکل وقت میں ان پر ایک طویل عرصہ کے لیے نیند طاری کی تھی۔ اسی طرح جب حالات ان کے حق میں ساز گار ہوئے تو انھیں جگا بھی دیا جاگنے پر سب سے پہلا سوال جو ان کے ذہن میں آیا یہ تھا کہ ہم کتنا عرصہ سوئے رہے انہوں نے اس عرصہ کو عام حالات پر قیاس کیا کہ انسان خواہ کتنا ہی تھکا ماندہ ہو ایک دن سے زیادہ سو نہیں سکتا اور عام حالات میں یہی کوئی آٹھ نو گھنٹے سو لیتا ہے۔ لہٰذا کسی نے کہا کہ ہم دن بھر سوئے رہے ہیں اور کسی نے کہا اتنا کب سوئے ہیں بس کوئی چند گھنٹے ہی سوئے ہوں گے۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ آخر اس بحث کا کوئی فائدہ بھی ہے ہمارے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے کہ ہم اس مدت کی صحیح تعیین کرسکیں یہ بات اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور اب جو کرنے کا کام ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں بھوک ستا رہی ہے لہٰذا کھانا لانے کے لیے کسی کو شہربھیجو جو کسی صفائی اور پاکیزگی کا خیال رکھنے والے دکاندار سے کھانا لائے اور جو شخص بھی شہر جائے وہ بھیس بدل کر جائے اور اس سکہ کے بدلے جو کچھ بھی مل سکے وہ لے آئے۔ دکاندار سے کچھ جھگڑا نہ کرے نہ کسی دوسرے آدمی سے کوئی بات یا جھگڑا کرے اور اگر اس نے ایسا نرم رویہ اختیار نہ کیا تو ممکن ہے کہ لوگوں کو ہمارا پتہ چل جائے تو وہ ہمارے لیے کوئی نئی مصیبت کھڑی کردیں گے اور پہلے کی طرح ہمیں بت پرستی پر مجبور کردیں گے یا ہماری جان کے لاگو بن جائیں گے۔ الكهف
20 الكهف
21 [١٩] سلطنت کی تبدیلی اور حالات کی سازگاری :۔ جب کھانا لانے والا شہر پہنچا تو وہاں دنیا ہی بدل چکی تھی۔ لوگوں کے تہذیب و تمدن، لباس اور وضع قطع میں نمایاں فرق واقع ہوچکا تھا۔ زبان میں خاصا فرق پڑگیا تھا اور جب لوگوں نے اس نوجوان کو دیکھا تو سب اس کی طرف متوجہ ہوگئے لیکن وہ ان سے گریز کرتا رہا پھر جب اس نے کھانا خریدنے کے وقت کئی صدیاں پہلے کا سکہ پیش کیا تو دکاندار اور آس پاس والے سب آدمی اس نوجوان کو مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگے انھیں یہ شبہ ہوا کہ شاید اس شخص کو پرانے زمانے کا کوئی دفینہ مل گیا ہے چنانچہ اسی شک و شبہ کی بنا پر لوگوں نے اسے پکڑ کر حکام بالا کے سامنے پیش کردیا اور جب اس نوجوان نے بھی اپنا بیان دیا تو یہ معاملہ کھلا کہ یہ تو وہی پیروان مسیح ہیں جو کئی صدیاں پیشتر یکدم روپوش ہوگئے تھے اور جن کا ریکارڈ اب تک سرکاری دفتروں میں منتقل ہوتا چلا آرہا تھا۔ یہ خبر آناً فاناً ساری عیسائی آبادی میں پھیل گئی جس بات سے وہ لوگ بچنا چاہتے تھے اللہ نے سب لوگوں کو ان کے حال سے باخبر کردیا۔ فرق یہ تھا کہ جب وہ مفرور اور روپوش ہوئے تھے اس وقت وہ معاشرہ اور حکومت کے مجرم تھے لیکن اس وقت وہ سب کی نظروں میں اپنے ایمان پر ثابت قدم رہنے والے اور محترم تھے۔ [٢٠] بعث بعد الموت کے جھگڑے کی نوعیت روحانی ہوگا یا جسمانی ؟ ان دنوں اگرچہ سرکاری مذہب عیسائیت تھا اور عیسائی قیامت اور روز آخرت کے قائل ہوتے ہیں۔ تاہم روز قیامت کے متعلق عجیب عجیب قسم کی اور فلسفیانہ قسم کی بحثیں چھڑی ہوئی تھیں کچھ بےدین قسم کے لوگ تو سرے سے بعث بعد الموت کے منکر تھے جیسا کہ ہر مذہب میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں خواہ یہ انکار عملاً ہو یا قولاً بھی ہو۔ باقی بعث بعد الموت پر ایمان رکھنے والوں میں یہ اختلاف تھا کہ آیا یہ روحانی قسم کا ہوگا یا جسمانی قسم کا ؟ اور اس پر مناظرے بھی ہوتے تھے لیکن کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہونے پا رہا تھا۔ بادشاہ خود چاہتا تھا کہ اس اختلاف کا کوئی حتمی فیصلہ ہوجائے۔ انھیں ایام میں ان نوجوانوں کی دریافت والا مسئلہ سب کے سامنے آگیا جس نے جسمانی طور پر بعث بعد الموت کے عقدے کا ناقابل انکار ثبوت فراہم کردیا۔ [٢١] مسجد کی تعمیر بطور یادگار :۔ اب یہ اصحاب کہف سب لوگوں کی نظروں میں محترم تھے اور اولیاء اللہ سمجھے جانے لگے تھے لوگوں نے ان سے غار میں جاکر ملاقات کی یا نہیں کی یا ان لوگوں نے غار سے نکل کر لوگوں کو علیک سلیک کی یا نہیں کی، یہ تفصیل کہیں بھی مذکور نہیں البتہ راجح قول یہی معلوم ہوتا ہے کہ کھانا لانے والا بھی واپس غار میں چلا گیا وہ پھر پہلے کی طرح لیٹ گئے اور وہیں ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی لوگوں نے یہ خیال کیا کہ یہ سب مقدس ہستیاں تھیں لہٰذا اس غار پر کوئی یادگار عمارت تعمیر کردینا چاہیئے۔ اس بات پر پھر اختلاف ہوا کہ یہ یادگار تعمیر کس قسم کی ہو اور جو لوگ بااثر اور صاحب رسوخ تھے ان کی رائے ہی غالب آئی اور وہ رائے یہ تھی کہ اس غار کے پاس ایک مسجد یا عبادت خانہ یادگار کے طور پر بنادیا جائے جسے ان بااثر لوگوں نے خود بنانے کا ذمہ لیا۔ اس طرح اصحاب کہف کو اولیاء اللہ کی اور ان کی غار کو آستانے یا ان کے مقبرے کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ آستانوں یا خانقاہوں اور مزاروں وغیرہ کے قریب یا ان پر مسجد بنانا یا کسی مسجد میں کسی کو ولی اللہ سمجھ کر اس کی قبر بنادینا ایسے کام ہیں جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی سختی سے منع فرمایا ہے وجہ یہ ہے کہ ایسے کاموں سے شرک کی بہت سی راہیں کھلتی ہیں جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے۔ ١۔ قبروں پر مسجدیں تعمیر کرنا پرانی شرکیہ رسم ہے :۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ بعض ازواج مطہرات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا کہ انہوں نے حبشہ میں ''ماریہ'' نامی ایک کنیسہ (یہودیوں کی عبادت گاہ) دیکھا ہے جس میں مجسمے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جب ان لوگوں میں سے کوئی صالح مرد مرجاتا تو اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے ایسے لوگ اللہ کے نزدیک بدترین مخلوق ہیں‘‘ (مسلم، کتاب الصلوٰۃ) اور اسی حدیث کو امام بخاری نے یوں ذکر کیا ہے : سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک گرجے کا ذکر کیا جسے انہوں نے ملک حبش میں دیکھا تھا اور اس میں مورتیاں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان لوگوں کا قاعدہ یہ تھا کہ جب ان میں سے کوئی صالح آدمی مرجاتا تو اس کی قبر پر مسجد بنالیتے اور اس میں مورتیاں رکھ لیتے۔ قیامت کے دن اللہ کے ہاں یہ لوگ سب مخلوق سے بدتر ہوں گے۔ (بخاری، کتاب الصلوۃ، باب ھل ے نبش قبور مشرکی اھل الجاھلیہ۔ نیز باب الصلوۃ فی البیعۃ) ٢۔ قبور سے تعلق رکھنے والی احادیث :۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس مرض میں جس سے تندرست ہو کر نہیں اٹھے فرمایا : ’’یہود پر اللہ لعنت کرے انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجدیں یا سجدہ گاہیں بنا لیا‘‘ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اگر مجھے یہ خدشہ نہ ہوتا کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو سجدہ گاہ بنالیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مرجع خاص و عام بنا دی جاتی۔ (بخاری، کتاب المغازی۔ باب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کی وضاحت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں تھی۔ اس کی صورت یہ تھی کہ پیچھے قبر، اس سے آگے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی رہائش اور اس سے آگے بیرونی دروازہ تھا اور قبر تک سوائے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا یا رشتہ داروں کے علاوہ دوسرے لوگ جا ہی نہ سکتے تھے کیونکہ قبر کے پیچھے پھر دیوار تھی۔ اسی بنا پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرما رہی ہیں کہ اگر آپ کی قبر کے متعلق یہ خطرہ نہ ہوتا کہ کچھ عرصہ گزرنے پر لوگ آپ کی قبر کو سجدہ کرنے لگیں گے تو بغرض زیارت پچھلی دیوار کھول دی جاتی۔ ٣۔ درج ذیل حدیث میں قبر پرست یہود کے علاوہ عیسائیوں کا بھی ذکر ہے : سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما دونوں سے روایت ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بیماری آن پڑی اور وفات کی علامات ظاہر ہوئیں تو آپ اپنی چادر سے اپنا منہ ڈھانپ لیتے اور جب بیزاری بڑھتی تو اسے چہرے سے ہٹا دیتے اور یوں فرماتے : اللہ تعالیٰ یہود اور نصاریٰ پر لعنت کرے انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مساجد یا سجدہ گاہیں بنا لیا۔ اس قول سے آپ ہمیں اس برے کام سے ڈراتے تھے جو یہود و نصاریٰ نے کیا تھا۔ (بخاری۔ حوالہ ایضاً) ٤۔ اور صحیح مسلم، کتاب الصلوٰۃ میں سیدنا جندب کی جو روایت ہے اس میں نبیوں کے ساتھ ولیوں کی قبروں کا بھی ذکر ہے، الفاظ یہ ہیں : ’’سن لو! تم سے پہلے لوگوں نے اپنے نبیوں اور بزرگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا، خبردار! تم قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا۔ میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں‘‘ ٥۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تمام روئے زمین نماز کے قابل ہے سوائے قبرستان اور حمام کے“(ترمذی، ابو داؤد، دارمی، بحوالہ مشکوۃ، کتاب الصلٰوۃ باب المساجد و مواضع الصلوٰۃ فصل ثانی) ٦۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متعلق ارشاد فرمایا کہ ”میری قبر کو عید (عرس یا میلہ) نہ بنانا اور جہاں کہیں تم ہو وہیں سے درود پڑھ لیا کرو۔ تمہارا درود مجھے پہنچا دیا جاتا ہے‘‘ (نسائی بحوالہ مشکوٰۃ۔ باب الصلوٰۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم و فضلہا۔ فصل ثانی) ٧۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی فرمائی کہ : ’’یا اللہ! میری قبر کو وثن (آستانہ) نہ بنا دینا کہ لوگ آکر پوجا کرنے لگیں‘‘ (مالک، بحوالہ مشکوٰۃ، کتاب الصلوٰۃ، باب المساجد و مواضع الصلوٰۃ، تیسری فصل) ان سب احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر، مقبرہ، مزار، روضہ، آستانہ پر لوگوں کے اس کو مقدس سمجھ کر جمع ہونے، ان پر عرس یا میلہ لگانے حتیٰ کہ وہاں نماز ادا کرنے سے بھی منع فرما دیا ہے۔ کسی قبر یا مزار یا آستانہ پر مسجد بنانا حرام ہے کیونکہ یہ کام محض صاحب قبر کی تعظیم کی وجہ سے کیا جاتا ہے اور قبرستان میں نماز نہیں ہوتی جبکہ ہمارے ہاں دستور یہ ہے کہ ہر مزار پر مسجد ہوتی ہے یا مسجد میں ہی کسی بزرگ کو دفن کردیا جاتا ہے۔ ایسی سب صورتیں ممنوع ہیں، مزاروں پر جو لوگ اکٹھے ہوتے ہیں وہ ان بزرگوں کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر ہی وہاں جاتے ہیں۔ نیز ایسے آداب یا عبادات بجالاتے ہیں جو صرف اللہ کے لیے سزاوار ہیں یابیت اللہ کے لیے مثلاً وہاں نذریں، نیازیں یعنی مالی قربانی بھی دیتے ہیں۔ قبروں کی صفائی، انھیں مزیں کرنا، ان پر چراغاں کرنا سب شرعاً حرام ہیں جو وہاں بجا لاتے ہیں اور بعض بدبخت تو قبروں کا بیت اللہ کی طرح طواف کرتے، غلاف چڑھاتے حتیٰ کہ سجدہ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے اور غالباً یہی وجوہ ہیں جن کی بنا پر قبرستان میں نماز کو ممنوع اور مزارات اور آستانوں کی تعمیر کو حرام قرار دیا گیا ہے اور آج کل تو بعض مزارات پر عرس کے بجائے حج کے پورے مناسک بھی ادا کیے جاتے ہیں اور اسے حج ہی کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ الكهف
22 [٢٢] اصحاب کہف کی تعداد اور بیکار بحثوں سے اجتناب کا حکم :۔ اصحاب کہف سے متعلق ایک بحث یہ بھی چھڑی ہوئی تھی کہ ان کی تعداد کتنی تھی۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں ان قلیل لوگوں میں سے ہوں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ اصحاب کہف کی صحیح تعداد جانتے ہیں اور وہ سات تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تین یا پانچ کہنے والوں کا ذکر کرنے کے بعد رجماً بالغیب کا لفظ فرمایا ہے مگر سات کہنے والوں کو اس سے مستثنیٰ رکھا، بعض علماء نے اور بھی کئی وجوہ سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ فی الواقع سات ہی تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو اس بحث میں دلچسپی لینے سے منع فرما دیا اور یہ بھی فرما دیا کہ یہ بات کسی اور سے بھی پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ یہ بحث اس لحاظ سے بالکل بیکار ہے کہ اس پر کسی عمل کی بنیاد نہیں اٹھتی۔ اسی طرح کی بیکار بحثوں کی ایک مثال یہ ہے کہ جس درخت سے اللہ تعالیٰ نے سیدنا آدم کو منع کیا تھا وہ کون سا درخت تھا ؟ یا یہ کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی ماں کا نام کیا تھا ؟ یا یہ کہ نماز وسطی کون سی ہے؟ اور اس بات پر بعض مفسرین نے صفحوں کے صفحے سیاہ کردیئے ہیں جن کا ماحصل یہ نکلتا ہے کہ پانچوں نمازیں ہی مختلف ترتیب سے نماز وسطی بن سکتی ہیں حالانکہ احادیث میں یہ صراحت موجود ہے کہ نماز وسطی سے مراد نماز عصر ہے یا یہ بحث کہ آیا کوا حلال ہے یا حرام؟ حالانکہ اگر یہ حلال ثابت ہو بھی جائے تو کوئی اسے کھانا گوارا نہیں کرے گا۔ اسی طرح کی ایک بحث گوہ کے حلال یا حرام ہونے کی ہے جس پر بحث و تکرار اور مناظرے بھی ہوچکے ہیں حالانکہ عملی زندگی سے ان باتوں کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ معتزلہ اور مسئلہ خلق قرآن :۔ اور جب ایسی باتیں صفات الٰہی کے بارے میں چھڑ جاتی ہیں تو فرقہ بازی تک نوبت جاپہنچتی ہے اور اپنے ایمان تک کو سلامت رکھنا غیر محفوظ ہوجاتا ہے جیسے کچھ مدت پیشتر یہ بحث چھڑ گئی کہ اللہ تعالیٰ تو ہر بات پر قادر ہے تو کیا وہ جھوٹ بھی بول سکتا ہے اور اسی مسئلہ پر دو متحارب فریق بن گئے۔ ایسی ہی ایک بحث یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ جو ہر چیز کا علم رکھتا ہے تو کیا وہ جادو کا علم بھی جانتا ہے؟ اور اس کی سب سے واضح مثال مسئلہ خلق قرآن ہے جو معتزلہ نے پیدا کیا تھا اور وہ قرآن کو غیر مخلوق سمجھنے والوں کو مشرک قرار دیتے تھے۔ خلفائے بنو عباس بالخصوص مامون الرشید معتزلہ کے عقائد سے شدید متاثر تھا۔ اس نے بہت سے علماء کو محض اس بنا پر قتل کردیا تھا کہ وہ قرآن کو غیر مخلوق سمجھتے تھے اور امام احمدبن حنبل نے اسی مسئلہ کی خاطر مدتوں قید و بند اور مارپیٹ کی سختیاں جھیلی تھیں۔ بالآخر خلیفہ واثق باللہ کے عہد میں ایک سفید ریش بزرگ خلیفہ کے پاس آیا اور درباری معتزلی عالم ابن ابی دؤاد سے مناظرہ کی اجازت طلب کی۔ خلیفہ نے اجازت دے دی تو اس بزرگ نے ابن ابی دؤاد سے کہا : میں ایک سادہ سی بات کہتا ہوں جس بات کی طرف نہ اللہ کے رسول نے دعوت دی اور نہ خلفائے راشدین نے، تم اس کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے ہو اور اسے منوانے کے لیے زبردستی سے کام لیتے ہو تو اب دو ہی باتیں ہیں۔ ایک یہ کہ ان جلیل القدر ہستیوں کو اس مسئلہ کا علم تھا لیکن انہوں نے سکوت اختیار فرمایا تو تمہیں بھی سکوت اختیار کرنا چاہیے۔ اور اگر تم کہتے ہو کہ ان کو علم نہ تھا تو اے گستاخ ابن گستاخ ! ذرا سوچ جس بات کا علم نہ اللہ کے رسول کو تھا اور نہ خلفائے راشدین کو ہوا تو تمہیں کیسے اس کا علم ہوگیا ؟ ابن ابی دؤاد سے اس کا کچھ جواب نہ بن پڑا۔ واثق باللہ وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا اور دوسرے کمرہ میں چلا گیا وہ زبان سے باربار یہ فقرہ دہراتا تھا کہ جس بات کا علم نہ اللہ کے رسول کو ہوا نہ خلفائے راشدین کو ہوا اس کا علم تجھے کیسے ہوگیا ؟ مجلس برخاست کردی گئی خلیفہ نے اس بزرگ کو عزت و احترام سے رخصت کیا اور اس کے بعد امام احمد بن حنبل پر سختیاں بند کردیں اور حالات کا پانسا پلٹ گیا اور آہستہ آہستہ مسئلہ خلق قرآن کا فتنہ جس نے بے شمار مسلمانوں کی ناحق جان لی تھی، ختم ہوگیا۔ غور فرمائیے کہ اس مسئلہ کا انسان کی عملی زندگی سے کچھ تعلق ہے؟ بفرض محال اس کے مخلوق ثابت ہوجانے کے بعد اس کے احکام میں کوئی فرق پڑ سکتا ہے؟ بس ایسی بیکار بحثوں میں پڑنے سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے ایسی بحثوں میں پڑنے کا ہدایت سے کچھ تعلق نہیں ہوتا بلکہ شیطانی راہیں بے شمار کھل جاتی ہیں۔ الكهف
23 الكهف
24 [٢٣] وعدہ کے وقت انشاء اللہ کہنے کی ہدایت :۔ ہوا یہ تھا کہ جب کفار مکہ نے آپ سے اصحاب کہف وغیرہ کے متعلق سوال کیا تو آپ نے انھیں جواب دیا کہ میں کل ان کا جواب دوں گا۔ آپ کا خیال یہ تھا کہ دریں اثناء شاید جبرئیل آئے تو ان سے پوچھ کر بتا دوں گا یا اللہ تعالیٰ از خود کل تک بذریعہ وحی مطلع کر دے مگر کل تک ان دونوں میں کوئی بات بھی نہ ہوئی پھر چند دن بعد جبرئیل وحی لے کر اس سورۃ کی آیات لے کر آئے اور ساتھ ہی آپ کے لیے یہ ہدایت بھی نازل ہوئی کہ کسی سے ایسا حتمی وعدہ نہ کیا کریں کہ میں کل تک یہ کام کردوں گا اور اگر وعدہ کرنا ہی ہو تو ساتھ الا ماشاء اللہ ضرور کہا کریں (یعنی اگر اللہ کو منظور ہوا تو فلاں وقت تک فلاں کام کروں گا) اور اگر کبھی آپ یہ بات کہنا بھول جائیں تو جس وقت یاد آئے اسی وقت کہہ لیا کریں۔ مطلب یہ ہے کہ ہر کام اللہ کی مشیئت کے تحت ہی ہوتا ہے لہٰذا اس بات کو ہر وقت ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ یہ ہدایت اس لیے دی گئی تھی کہ کسی کو یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ وہ کل تک یا فلاں وقت تک فلاں کام کرسکے گا یا نہیں یا کسی کو غیب کا علم حاصل ہے اور نہ کوئی اپنے افعال میں خود مختار ہے کہ جو چاہے کرسکے لہٰذا کوئی شخص خواہ پورے صدق دل اور سچی نیت سے بھی کوئی وعدہ یا مستقبل کے متعلق بات کرے تو اسے انشاء اللہ ضرور کہہ لینا چاہیئے۔ ان شاء اللہ کو بطور ڈھال استعمال کرنا :۔ مگر افسوس ہے کہ بعض بدنیت قسم کے لوگوں نے اس کلمہ استثناء کو اپنی بدنیتی پر پردہ ڈالنے کے لیے ڈھال بنا رکھا ہے مثلاً ایک شخص اپنے سابقہ قرضہ کی ادائیگی یا نئے قرض کے لیے قرض خواہ سے ایک ماہ کا وعدہ کرتا ہے اور ساتھ ان شاء اللہ بھی کہہ دیتا ہے مگر اس کے دل میں یہ بات ہوتی ہے کہ اپنا کام تو چلائیں پھر جو ہوگا دیکھا جائے گا اور جب مدت مقررہ کے بعد قرض خواہ اپنے قرض کا مطالبہ کرتا ہے تو کہہ دیتا کہ اللہ کو منظور ہی نہ ہوا کہ میرے پاس اتنی رقم آئے کہ میں آپ کو ادا کرسکوں وغیرہ وغیرہ عذرپیش کردیتا ہے اور بدنیت لوگوں نے اس کلمہ استثناء کو اس قدر بدنام کردیا ہے کہ جب کوئی اپنے وعدہ کے ساتھ انشاء اللہ کہتا ہے تو سننے والا فوراً سمجھ جاتا ہے کہ اس کی نیت بخیر نہیں ہے یہ اللہ کی آیات سے بدترین قسم کا مذاق ہے جس کا ایک ایمان دار آدمی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ [٢٤] اس جملہ کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں مثلاً ایک یہ کہ آئندہ کوئی موقع ہی ایسا نہ آئے کہ میں ان شاء اللہ یا ماشاء اللہ کہنا بھول جاؤں دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ اصحاب کہف سے بھی زیادہ حیران کن طریقہ سے میری مدد فرمائے جیسا کہ غار ثور کے قصہ میں ہوا۔ تیسرا یہ کہ جس کام کے کرنے کو آپ کہہ رہے ہیں آپ کو یہ علم نہیں کہ یہی کام بہتر ہے یا کوئی دوسرا کام اس سے بہتر ہے لہٰذا اللہ پر توکل کرتے ہوئے یوں کہا کرو کہ میرا رب اس معاملہ میں صحیح بات یا صحیح طرز عمل کی طرف میری رہنمائی فرما دے گا۔ الكهف
25 [٢٥] اصحاب کہف کے غار میں سونے کی مدت :۔ یہ مدت شمسی تقویم کا حساب رکھنے والوں کے مطابق تین سو سال تھی اور قمری تقویم کا حساب رکھنے والوں کے مطابق تین سو نو سال تھی۔ اس آیت میں مذکور مدت اس لحاظ سے تو ٹھیک ہے کہ اگر مہینوں اور دنوں کی کسور کو چھوڑ دیا جائے تو تین سو شمسی سالوں کے قمری سال تین سو نو ہی بنتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ آیا یہ مدت کی تعیین اللہ کا کلام ہے یا لوگوں کے اقوال ہیں جو یہاں اللہ تعالیٰ نے حکایتاً نقل فرمائے ہیں تو اس کا واضح جواب یہ ہے کہ یہ لوگوں کے اقوال ہیں اگر یہ اللہ کا قول ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس سے اگلی آیت میں یوں نہ فرماتے کہ’’اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کتنی مدت وہ (غار میں) ٹھہرے رہے‘‘ الكهف
26 [٢٦] یعنی اللہ کو اصحاب کہف کی مدت قیام کا سب سے زیادہ صحیح علم اس لیے ہے کہ اس نے خود ہی تو انھیں سلایا تھا پھر خود ہی جگایا تھا ایسا تصرف و اختیار اللہ کے سوا کسی کے پاس نہیں کہ وہ کسی بات یا واقعہ کے متعلق صحیح صحیح خبریں بتاسکے۔ الكهف
27 [٢٧] کافروں کا سمجھوتہ کی بات کرنا :۔ اصحاب کہف کا قصہ ختم ہونے کے بعد اب خطاب اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے تاہم یہ ارشاد ان سرداران قریش کو سنایا جارہا ہے جو آپ سے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر سمجھوتہ کرنا چاہتے تھے وہ یہ کہتے تھے کہ ہم آپ کی بہت سی باتیں مان لیتے ہیں تم ہماری یہ بات مان لو کہ جن آیات میں ہمارے معبودوں کا ذکر ہے وہ نہ پڑھا کرو اس طرح ہم سب برادری میں پھوٹ پڑنے سے بچ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس مطالبہ پر جواب دیا کہ اس کے احکام اور ارشادات میں کسی قسم کے ردو بدل یا ترمیم و تنسیخ کا کسی کو کچھ بھی اختیار نہیں اور اگر کوئی ایسا کرے گا تو وہ اللہ کی گرفت سے بچ نہ سکے گا۔ اگرچہ یہ موقع خاص تھا تاہم الفاظ میں عمومیت ہے یعنی جس دور میں بھی اور جو شخص بھی ایسی حرکت کرے گا اس کے لیے یہی حکم ہے حق اور باطل میں سمجھوتہ کی کوئی گنجائش نہیں جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے کہ : باطل دوئی پرست ہے حق لا شریک ہے۔۔ شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول الكهف
28 [٢٨] غریب اور مخلص مومنوں سے آپ کو وابستہ رہنے کی ہدایت :۔ یہ صبح و شام اللہ کے ذکر میں مشغول رہنے والے اور اللہ کی رضا چاہنے والے لوگ بموجب روایات سیدنا بلال بن رباح رضی اللہ عنہ، سیدنا صہیب رومی رضی اللہ عنہ، سیدنا خباب بن الارت رضی اللہ عنہ ، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ تھے جو سب کے سب غریب طبقہ سے تعلق رکھتے تھے اور ان میں سے اکثر سرداران قریش کے غلام یا آزاد کردہ غلام تھے جو اکثر اوقات آپ کی صحبت میں رہا کرتے تھے اب اونچی ناک والے قریشی سرداروں مثلاً عیینہ بن بدر اور اقرع بن حابس وغیرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہا کرتے تھے کہ ہر وقت یہ رذیل قسم کے لوگ آپ کے پاس بیٹھے ہوتے ہیں تو ان کی موجودگی میں ہم کیسے ان کے ساتھ آپ کے پاس بیٹھیں۔ ممکن ہے آپ کے دل میں کچھ ایسا خیال آبھی گیا ہو کہ یہ لوگ تو بہرحال خالص مومن ہیں۔ سرداروں کے آنے پر کچھ دیر انھیں الگ کردینے سے اگر یہ قریشی سردار میری بات غور سے سن لینے اور ایمان لانے پر تیار ہوجائیں تو کیا حرج ہے؟ خصوصاً اس صورت میں کہ آپ ان قریشی سرداروں کے ایمان لانے پر حریص بھی تھے کہ اس طرح اسلام کو تقویت حاصل ہوگی لیکن اللہ تعالیٰ نے بروقت ہدایت فرما دی کہ ایسا خیال بھی دل میں نہ لائیے اپنا دل انہی غریب اور مخلص مومنوں کے ساتھ وابستہ رکھیے یہی لوگ قیمتی سرمایہ ہیں۔ قریشی سرداروں کے مطالبہ اور ان کی ٹھاٹھ باٹھ کی طرف مت دیکھئے کیونکہ ان کے اس مطالبہ سے ہی یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ ایمان لانے میں کس حد تک مخلص ہیں۔ [٢٩] یعنی جو شخص آخرت میں اللہ کے سامنے جوابدہی پر ایمان ہی نہیں رکھتا وہ تو جدھر اور جس طرح اپنا ذاتی مفاد دیکھے گا فوراً ادھر جھک جائے گا اور جو کچھ اس کا جی چاہے گا وہی کچھ وہ کرے گا اس کا کوئی کام اصول کے تحت یا حد اعتدال تک محدود نہ رہے گا لہٰذا ایسے لوگوں کی بات ہرگز نہ مانیے۔ الكهف
29 [٣٠] یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو حق (قرآن) آیا ہے جو اسے ماننا چاہتا ہے اسے پورے کا پورا ماننا ہوگا، ورنہ نہ مانے۔ البتہ جو نہیں مانتا اسے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ابھی سے اس کے لیے دوزخ کی آگ تیار ہے۔ [٣١] سرادق کے معنی کسی خیمہ کی دیواریں ہیں یہاں مراد دوزخ کی چاردیواری ہے اور جہنم کے گرد یہ چار دیواری یا احاطہ اس لیے کیا جائے گا کہ دوزخیوں کے لیے آگ کی حرارت میں مزید اضافہ ہو اور اس آگ کی حرارت باہر نہ جانے پائے نیز باہر والے اس حرارت سے محفوظ رہیں۔ [٣٢] مُہل کا معنی تانبا یا کوئی بھی دھات جو پگھلی ہوئی حالت میں ہو یا تیل کی تلچھٹ یا لاوا جو زمین کے اندر شدت حرارت سے پگھلی ہوئی دھاتوں کے ملغوبہ کی شکل میں ہو کیونکہ اس میں بنیادی طور پر دو باتیں پائی جاتی ہیں۔ ایک سرخی مائل ہونا دوسرے شدت حرارت اور دوزخیوں کو جو پانی پلایا جائے گا اس میں یہ دونوں خواص موجود ہوں گے۔ الكهف
30 الكهف
31 [٣٣] سونے کے کنگنوں کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ قدیم زمانہ میں یہ دستور رہا ہے کہ بادشاہ سونے کے کنگن پہنا کرتے تھے گویا اہل جنت وہاں شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ سے رہیں گے۔ پہننے کے لیے اعلیٰ سے اعلیٰ ریشمی کپڑے ہوں گے اور بیٹھنے کے لیے اونچی اونچی مسندیں۔ واضح رہے کہ اس دنیا میں سونے اور ریشمی کپڑوں کا استعمال مردوں کے لیے جائز نہیں لیکن جنت میں جائز ہوگا بلکہ ایسے ہی جیسے اس دنیا میں شراب سب مردوں عورتوں پر حرام ہے مگر جنت کی شراب خالص اہل جنت کے لیے بیش بہا نعمت ہوگی۔ الكهف
32 [٣٤] ایک مال دار کافر اور غریب مومن کے طرز عمل کا موازنہ :۔ یہ مثال دراصل ان قریشی سرداروں پر منطبق ہوتی ہے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ اگر آپ کسی وقت ان مسکینوں کو اپنی مجالس سے اٹھا دیں تو ہم اطمینان سے آپ کی باتیں سنیں۔ اس مثال میں جن دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک کافر و مشرک تھا۔ آخرت پر ایمان نہیں رکھتا تھا اور مالدار اور صاحب جائداد تھا جیسا کہ قریشی سردار تھے، دوسرا توحید پرست تھا، مومن تھا اللہ پر بھروسہ رکھنے والا تھا لیکن غریب اور مفلس تھا جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے جن کے متعلق قریشی سرداروں نے آپ سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ آپ انھیں اپنی مجلس سے ہٹا دیں۔ رہی یہ بات کہ اس مثال میں جو دو کردار بیان کیے گئے ہیں یہ محض سمجھانے کے لیے بطور تمثیل بیان کیے گئے ہیں یا فی الواقع ایسے شخص اس دنیا میں کسی وقت موجود تھے؟ اور یہ واقعہ اس دنیا میں پیش آیا تھا ؟ اس بات پر مفسرین کا اختلاف ہے اور جن لوگوں نے انھیں واقعہ تسلیم کیا ہے انہوں نے تو ان کے نام بھی لکھ دیئے ہیں کہ وہ دو حقیقی بھائی تھے۔ باپ کی طرف سے ورثہ ملا تھا۔ ایک جو دنیا دار تھا اس نے اس ورثہ سے جائداد خریدی پھر خوب محنت کی تو دو باغوں کا مالک بن گیا۔ دوسرا درویش منش انسان تھا اور اسے مال و دولت سے کچھ دلچسپی نہ تھی اسے جو ورثہ ملا وہ بھی اس نے اللہ کے راستہ میں خرچ کردیا تھا اور بعض کے نزدیک یہ دو آدمی ہمسائے تھے جن کی پوری طرز زندگی ایک دوسرے سے یکسر مختلف تھی۔ جو بھی صورت ہو اس تمثیل سے جو اصل فائدہ مقصود ہے وہ حاصل ہو ہی جاتا ہے۔ [٣٥] جو شخص کافر و مشرک اور دو باغوں کا مالک تھا اس آیت میں اس کے باغوں کی بہار کا منظر پیش کیا گیا ہے یعنی ان دونوں کے درمیانی حصہ میں کھیتی باڑی ہوتی تھی اور غلہ اگتا تھا۔ ارد گرد پھل دار درخت تھے پھر ان باغوں کی چار دیواری کھجوروں کے درختوں کی تھی جن پر انگور کی بیلیں چڑھائی گئی تھیں۔ ان دونوں باغوں کے درمیان ایک نہر جاری تھی جو انھیں سیراب کرتی اور آپس میں ملاتی تھی۔ زمین زرخیز و شاداب تھی لہٰذا پھل دار درخت بھی بھرپور پھل لاتے اور غلہ بھی وافر مقدار میں پیدا ہوتا تھا۔ گویا اس شخص کو بیٹھنے کے لیے ٹھنڈی چھاؤں، پینے کے لیے ٹھنڈا پانی، کھانے کو باافراط غلہ ' پھل اور دیکھنے کو خوش نما منظر سب کچھ موجود تھا جس پر وہ پھولا نہ سماتا تھا۔ الكهف
33 اس آیت کی تفسیر آیت 35 کے ساتھ ملاحظہ کیجئے۔ الكهف
34 اس آیت کی تفسیر اگلی آیت کے ساتھ ملاحظہ کیجئے۔ الكهف
35 [٣٦] ایک موحد اور ایک کافر و مشرک کی مثال :۔ ایک دن وہ اپنے باغ کے پاس کھڑا تھا کہ اس کے مفلس ہمسایہ کا ادھر سے گزر ہوا تو اس سے اپنی شیخی بگھارنے بیٹھ گیا اور اس سے کہنے لگا جیسی زندگی تم گزار رہے ہو میں بہرحال تم سے بہتر ہوں۔ مالدار بھی اور اولاد بھی کافی ہے یہی باتیں کہتے کہتے وہ اپنے ہمسایہ کو لیے ہوئے اپنے باغ میں داخل ہوا اور کہنے لگا کہ میں نے اس باغ پر اتنی محنت کی ہے اور ایسے انتظامات مکمل کردیئے ہیں کہ کم از کم میری زندگی میں یہ باغ اجڑ نہیں سکتا اور جس قیامت کی تم باتیں کرتے رہتے ہو، اول تو مجھے اس کا یقین ہی نہیں اور اگر قائم ہوئی بھی جیسا کہ تم کہتے ہو تو جس خدا نے مجھ پر اس دنیا میں اتنی مہربانی اور اپنا فضل کیا ہے آخر وہ اس زندگی میں مجھ پر کیوں فضل نہ کرے گا ؟ اور قریشی سرداروں کا بھی یہی نظریہ تھا۔ اس آیت میں دراصل دنیا دار لوگوں کے اس غلط نظریہ کی تردید کی گئی ہے کہ اگر انھیں اس دنیا میں آسودہ حالی مہیا ہے تو یہ اللہ کی ان پر خوشنودی کی دلیل ہے حالانکہ وہ اللہ کی طرف سے سخت آزمائش میں پڑے ہوتے ہیں کہ آیا وہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں یا اس کے نافرمان بن کر رہتے ہیں لیکن وہ یہی سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ جنت تو ہمیں مل ہی گئی ہے اب اور کون سی جنت ہے جسے حاصل کرنے کی فکر کریں۔ الكهف
36 الكهف
37 [٣٧] یہ مشرک مالدار اللہ کی ہستی کا منکر نہ تھا اور یہ سمجھتا تھا کہ اللہ نے جو کچھ مجھے دے رکھا ہے۔ یہ اسی کی مہربانی ہے البتہ وہ روز آخرت اور اللہ کے سامنے جواب دہی کا منکر تھا جسے اللہ کے انکار کے مترادف یا کفر قرار دیا گیا ہے کیونکہ آخرت میں سزا اور جزاء کا انکار دراصل اللہ کی صفت عدل کا انکار ہے علاوہ ازیں یہ سمجھ لینا کہ میرا مال و دولت اور شان و شوکت میری اپنی ہی قابلیت کا نتیجہ ہے کسی کا عطیہ نہیں اور کوئی مجھ سے چھیننے والا نہیں یہ بھی حقیقتاً اللہ کی کئی صفات کا انکار ہے اور ایسا شخص اللہ کو اپنا مالک آقا اور فرمانروا ہونے کی حیثیت سے نہیں مانتا۔ الكهف
38 [٣٨] یعنی میں تو اسی پروردگار کو اپنا مالک، آقا اور فرمانروا سمجھتا ہوں وہی میرے اور تمہارے سب کے نفع و نقصان کا مالک ہے اس کی مشیئت کے بغیر نہ میری اپنی تدبیریں کچھ کام آسکتی ہیں نہ ہی کوئی دوسرا میری مدد یا حمایت کرسکتا ہے۔ الكهف
39 [٣٩] نعمت کے حصول پر بطور شکرانہ ماشاء اللہ کہنا :۔ موحد ساتھی اپنے مشرک ساتھی کو سمجھانے لگا کہ تمہیں چاہیے تو یہ تھا کہ جب تم اپنے باغ میں داخل ہو رہے تھے تو شیخیاں بگھارنے اور اپنے آپ کو مجھ سے بہتر ثابت کرنے کی بجائے اللہ کا شکر ادا کرتے اور کہتے کہ یہ سب کچھ اللہ کی دین ہے مگر تم نے مجھ پر اپنی برتری ثابت کرنا شروع کردی کیا یہ ممکن نہیں کہ اگر میں تمہارے خیال کے مطابق تم سے مال و اولاد میں کم تر ہوں تو اللہ مجھے تیرے باغوں سے بہتر باغ عطا فرما دے اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ تمہارے اس تکبر کی سزا کے طور پر اللہ تیرے اس باغ پر کوئی آسمانی آفت بھیج کر اسے خاکستر کر دے یا اس نہر کا پانی ہی خشک کردے تو تمہارا یہ ہرا بھرا باغ تھوڑے ہی عرصہ میں مرجھا کر ویران ہوجائے۔ الكهف
40 الكهف
41 الكهف
42 [٤٠] تکبر کی سزا :۔ چنانچہ موحد کے منہ سے نکلے ہوئے کلمات اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند آئے کہ اس کے منہ سے نکلی ہوئی بات فوراً مستجاب ہوگئی اور مشرک کو اس کے تکبر اور غرور کی سزا مل کے رہی۔ جن درختوں کے پھلوں اور اپنی پیداوار کو دیکھ کر وہ اتنا خوش ہو رہا تھا اور کفر کے کلمے بک رہا تھا۔ اس سارے کے سارے باغ پر قہر الٰہی نازل ہوا جس نے اسے زمین بوس کردیا اور صرف موجودہ تیار فصل کا ہی نقصان نہ ہوا بلکہ جو کچھ اس باغ پر خرچ کرچکا تھا سب کچھ ضائع اور برباد ہوگیا اس وقت وہ کف افسوس ملتے ہوئے کہنے لگا۔ کاش میں نے اپنے پروردگار کو حقیقی معنوں میں پروردگار اور نفع و نقصان کا مالک سمجھا ہوتا۔ اس کے کھڑے کھڑے اور آنکھوں سے دیکھتے اس کے باغ پر آفت نازل ہوئی تو اس وقت وہ کچھ بھی اس کا بچاؤ نہ کرسکا اور جب سب کچھ تباہ ہوگیا تب جاکر اسے یہ سمجھ آئی کہ حقیقتاً تو ہر چیز پر اختیار صرف اللہ ہی کو ہے۔ یہ تھی وہ مثال جو قریش مکہ کو سمجھانے کے لیے پیش کی گئی اور انھیں اس مثال میں تنبیہ یہ ہے کہ اگر ان کے پاس آج مال و دولت ہے، عزت ہے چودھراہٹ ہے تو وہ دوسروں کو حقیر مت سمجھیں کسی وقت بھی ان کے فخر و استکبار کی وجہ سے ان سے یہ نعمتیں چھن بھی سکتی ہیں جیسا کہ اگلی آیت میں بیان کردہ مثال سے بھی یہی کچھ واضح ہوتا ہے۔ الكهف
43 الكهف
44 الكهف
45 [٤١] زندگی کے مراحل دنیا کی زندگی کی مثال نباتات سے :۔ دنیا کی زندگی کی مثال نباتات سے اس لیے دی گئی ہے کہ اس کی سب کو فوراً سمجھ آجاتی ہے ورنہ اس دنیا کی ہر جاندار اور بے جان چیز جس میں نباتات بھی شامل ہے انھیں مراحل سے گزرتی ہے۔ زمین پر بارش برسنے سے نباتات اگ آتی ہے پھر وہ بڑی ہوتی اور لہلہاتی ہے جو بن پر آتی ہے تو ہر ایک کو بہت بھلی معلوم ہوتی ہے پھر عروج کے بعد اس میں زوال آنا شروع ہوجاتا ہے اور وہ زرد ہونا شروع ہوجاتی ہے اب اگر اس زرد فصل کو پہلے کی طرح پانی سے سیراب کیا بھی جائے تو دوبارہ اس میں کبھی بہار یا ہریاول نہیں آئے گی اس لیے کہ اس کے انحطاط یا زوال کا دور شروع ہوچکا ہے پھر وہ فصل کاٹ دی جاتی ہے اور اس کا آخری انجام یہ ہوتا ہے کہ ہوا اس کے ریزوں اور ذروں کو اڑائے پھرتی ہے۔ انسان کا اپنا بھی یہی حال ہے پیدا ہوتا ہے پھر آہستہ آہستہ اس پر جوانی آتی ہے، قوت آتی ہے۔ اس وقت وہ سب کو خوبصورت لگتا ہے اور سب چیزیں اسے حسین لگتی ہیں ہیں لیکن ایک مقررہ حد پر جاکر اس کا قد و قامت اور اس کی قوت سب کچھ رک جاتا ہے پھر بڑھاپے کا یعنی زوال و انحطاط کا وقت آتا ہے تو اب عمدہ سے عمدہ غذائیں کھائے لیکن اس میں نہ افزائش ہوگی اور نہ وہ اپنے زوال کو روک سکے گا کیونکہ ہر چیز کے طے شدہ اندازے اللہ تعالیٰ نے مقرر کر رکھے ہیں ان سے کوئی چیز تجاوز نہیں کرسکتی۔ غرض یہ کہ اس دنیا کی ہر چیز زوال پذیر ہے جو چیز پیدا ہوئی ہے وہ فنا بھی ضرور ہوگی لہٰذا دنیا کے مال و دولت یا اس دنیا کی زندگی پر کبھی گھمنڈ نہ کرنا چاہیے۔ الكهف
46 [٤٢] باقیات صالحات :۔ یہ مال و دولت اور بیٹے وغیرہ انسان کے لیے دلچسپی کا سامان ضرور ہیں لیکن ان چیزوں پر ایسا فریفتہ نہ ہونا چاہیے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو اور اخروی زندگی کو بھول ہی جائے اور انہی چیزوں پر تکیہ کر بیٹھے بلکہ اسے ایسی چیزوں پر امید وابستہ رکھنی چاہیے جو فنا ہونے والی نہیں بلکہ باقی رہنے والی ہیں اور وہ اس کے نیک اعمال ہیں جن کا بدلہ بھی بہت اچھا ملے گا اور ان پر توقع بھی لگائی جاسکتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کلمات : (سبحان اللّٰہ والحمد للّٰہ ولا الّٰہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ) باقیات صالحات ہیں۔ بعض دفعہ انسان ایسے نیک اعمال کی داغ بیل ڈال جاتا ہے کہ بعد میں مدتوں لوگ اس سے مستفیض ہوتے رہتے ہیں ایسے اعمال کا اجر اسے اس کی موت کے بعد بھی ملتا رہتا ہے جیسے کوئی شخص نیک اولاد چھوڑ جائے جو اس کے حق میں دعا کرتی رہے یا کوئی دینی مدرسہ قائم کر جائے جب تک اس میں تعلیم و تعلم کا سلسلہ جاری رہے گا اس کو حصہ رسدی ثواب پہنچتا رہے گا یا کوئی رفاہ عامہ کا کام کر جائے جیسے کنواں یا سرائے، ہسپتال یا باغ یا کوئی اور چیز عام لوگوں کے فائدہ کے لیے وقف کر جائے (مسلم کتاب الوصیۃ باب مایلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ) یہی چیزیں اس لائق ہیں جن میں انسان کو اپنی کوششیں صرف کرنا چاہییں۔ دنیا کی فانی چیزوں میں مستغرق نہ ہونا چاہیے۔ الكهف
47 [٤٣] یعنی پہاڑوں جیسی سخت چیزوں پر اللہ کا قانون زوال جاری و ساری ہوگا وہ بھی اپنی جگہ سے اکھڑ کر فضا میں یوں اڑتے پھریں گے جیسے بادل اڑتے پھرتے ہیں (٢٧: ٨٨) زمین کے سب نشیب و فراز ہموار ہوجائیں گے زمین بالکل چٹیل میدان کی طرح بن جائے گی یہی یوم حشر ہوگا جس میں تمام لوگوں کو اکٹھا کیا جائے گا اور کوئی متنفس اس حشر سے بچ نہ سکے گا۔ الكهف
48 [٤٤] ننگے بدن حشر :۔ جس طرح پہلی بار اکیلے پیدا ہوئے تھے صحیح و سالم پیدا ہوئے تھے بالکل برہنہ پیدا ہوئے اسی طرح ان کو دوبارہ پیدا کیا جائے گا چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’قیامت کے دن لوگ ننگے پاؤں، ننگے بدن بن ختنہ اکٹھے کیے جائیں گے‘‘ میں نے عرض کیا : ’’یارسول اللہ ! اس طرح تو مرد اور عورتیں ایک دوسرے کو دیکھیں گے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’وہ وقت اتنا سخت ہوگا کہ ان باتوں کی کسی کو ہوش ہی نہ ہوگی‘‘ (بخاری، کتاب الرقاق، باب کیف الحشر) [٤٥] اس وقت آخرت کے منکروں سے یہ کہا جائے گا کہ جس بات کا تم انکار کرتے رہے تھے۔ کیا اب وہ بات حقیقت بن کر تمہارے سامنے نہیں آگئی؟ الكهف
49 الكهف
50 [٤٦] اعمال کا بلا کم وکاست اندراج :۔ نہ تو یہ ہوگا کہ ایک کے جرم کی سزا دوسرے کو دے دی جائے نہ یہ کہ کسی کا جرم کم ہو اور اسے سزا دے دی جائے نہ یہ کہ کسی کو بے گناہ ہی دھر لیا جائے یعنی ظلم کی کوئی قسم وہاں روا نہیں رکھی جائے گی اعمال نامہ میں جو کچھ فرشتوں نے درج کیا ہوگا بعینہ اسی کے مطابق اسے بدلہ دیا جائے گا۔ [٤٧] فرشتوں کو سجدہ کا حکم، ابلیس کا انکار حالانکہ وہ فرشتہ نہیں تھا :۔ وہ فرشتوں کی اصل سے نہیں تھا کیونکہ فرشتے فطری طور پر اللہ تعالیٰ کی فرمانبردار مخلوق ہے وہ اللہ کے حکم کی نہ نافرمانی کرتے ہیں نہ کرسکتے ہیں اللہ کی اطاعت کرنے یا نہ کرنے کا اختیار صرف جنوں اور انسانوں کو دیا گیا ہے اس لیے احکام ہدایت جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابوں میں نازل فرمائے ہیں خواہ ان کا تعلق اوامر سے ہو یا نواہی سے صرف جنوں اور انسانوں سے ہی متعلق ہیں۔ ابلیس چونکہ جنوں کی نسل سے تعلق رکھتا تھا اور اللہ کا حکم ماننے یا نہ ماننے کا اختیار رکھتا تھا لہٰذا اس نے اپنے اس اختیار کو غلط طور پر استعمال کرتے ہوئے اللہ کا حکم تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا اور اس کے انکار کی وجہ اس کا تکبر اور فخر و غرور تھا اور وہ آدم کو اپنے آپ سے حقیر سمجھتا تھا جبکہ اصل حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی۔ یہ قصہ پہلے کئی مقامات پر گزر چکا ہے اور یہاں اس لیے ذکر کیا جارہا ہے کہ سرداران قریش نے بھی تکبر اور استکبار کی روش اختیار کر رکھی تھی اور بیکس مسلمانوں کو اپنے سے حقیر تر سمجھتے تھے حالانکہ یہاں بھی حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سجدہ کا حکم تو فرشتوں کو دیا گیا تھا یہ ابلیس کی بات کہاں سے چل نکلی تو اس کا جواب دو طرح سے دیا جاتا ہے ایک یہ کہ ابلیس اپنی کثرت عبادت گزاری کی بنا پر فرشتوں کی صفوں میں داخل ہوگیا تھا۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ آدم کی پیدائش سے پہلے دو ہی عقل والی مخلوق پیدا کی گئی تھیں۔ ایک فرشتے دوسرے جن۔ اور فرشتے بہرحال جنوں سے افضل مخلوق تھے پھر جب افضل مخلوق کو سیدنا آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم ہوا تو یہی حکم از خود بالواسطہ مفضول مخلوق یا جنوں کے لیے بھی تھا۔ [٤٨] اعتقاداً یا زبانی طور پر تو کوئی بھی شیطان کو اپنا دوست یا مطاع یا سرپرست کہنے کو تیار نہیں ہوتا بلکہ سب اس پر لعنت ہی بھیجتے ہیں۔ مگر عملاً جب انسان اللہ کی بتائی ہوئی راہ کے علی الرغم دوسری راہیں اختیار کرتا اور اس کے حکم کی نافرمانی کرتا ہے تو یہ عملاً شیطان ہی کی پیروی ہوتی ہے کیونکہ نافرمانی اور سرکشی کی روش اسی نے اختیار کی تھی۔ [٤٩] یہاں ظالموں سے مراد شیطان یا ابلیس کے مطیع فرمان اور اس کے چیلے چانٹے ہیں اور اس جملہ کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ انسان کو چاہیے تو یہ تھا کہ اپنے پروردگار کی اطاعت کرتے مگر ان ظالموں نے ان کے عوض اپنے ازلی دشمن کی پیروی کی روش اختیار کی اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان ظالموں کو بہت برا بدلہ ملنے والا ہے۔ الكهف
51 [٥٠] یعنی جب میں نے زمین و آسمان پیدا کیے تھے تو اس وقت میں نے نہ تمہارے معبودوں سے کوئی مشورہ لیا تھا نہ اس وقت موجود تھے بلکہ ان کو پیداہی بڑی مدت بعد کیا گیا تھا۔ پھر جب انھیں پیدا کیا تو اس وقت بھی ان سے یہ مشورہ نہیں لیا تھا کہ تمہیں کس طرح کا بنایا جائے۔ پھر یہ میرے شریک کیسے بن گئے؟ اور اگر بالفرض محال میں نے کسی کو اپنا مددگار بنانا بھی ہوتا تو ان بدبختوں کو بناتا جو لوگوں کی گمراہی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔؟ الكهف
52 [٥١] یعنی مشرکوں اور ان کے معبودوں کے درمیان ایک گہری خندق بنا دیں گے جس میں آگ بھڑک رہی ہوگی۔ اس طرح نہ عابد اپنے معبودوں سے کوئی تعلق قائم کرسکیں گے اور نہ معبود اپنے پیروکاروں سے، اور اس کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم ان عابد و معبود کے درمیان سخت عداوت ڈال دیں گے۔ دنیا میں تو عابد ان کی بہت عزت و احترام کرتے تھے اور انھیں خدائی کا درجہ دے رکھا تھا مگر اس دن وہ ان کے بدترین دشمن بن جائیں گے اور سمجھیں گے کہ انہی کی وجہ سے ہم مبتلائے عذاب ہوئے ہیں۔ الكهف
53 الكهف
54 [٥٢] انسان فطرتا جھگڑالو واقع ہوا ہے۔ مشیئت الٰہی کو بہانہ بنانا :۔ انسان کی ہدایت کے لیے اس کی عقل اور اس کے دل کو اپیل کرنے والی بہت سے دلیلیں مختلف پیرا یوں میں اور دل نشین انداز میں بیان کردی ہیں مگر انسان کچھ اس طرح کا جھگڑالو اور ہٹ دھرم واقع ہوا ہے کہ جس بات کو نہ ماننے کا تہیہ کرلے اس پر کئی طرح کے اعتراض وارد کرسکتا ہے۔ جھوٹے دلائل اور حیلوں بہانوں سے جواب پیش کرسکتا ہے۔ بات کا موضوع ہی بدل کر گندم کا جواب چنے میں دے سکتا ہے مگر حقیقت کو قبول کرلینا گوارا نہیں کرتا اور انسان کی یہ سرشت صرف ضدی، ہٹ دھرم اور مجرم قسم کے لوگوں میں نہیں ہوتی بلکہ بعض دفعہ ایک نیکو کار مومن بھی اپنے آپ کو حق بجانب ثابت کرنے کے لیے کوئی عذر تلاش کرلیتا ہے۔ چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے اور ہم دونوں (میں اور فاطمہ) کو مخاطب کرکے کہا کہ ’’تم لوگ تہجد کی نماز کیوں نہیں پڑھتے‘‘ میں نے جواب دیا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے نفس اللہ کے ہاتھ میں ہیں وہ چاہے گا کہ ہم اٹھیں تو اٹھ جائیں گے‘‘ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوراً واپس ہوگئے اور اپنی ران پر ہاتھ رکھ کر فرمایا : ﴿ وَکَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شَیْءٍ جَدَلًا ﴾ (بخاری، کتاب التھجد۔ باب تحریض النبی علی قیام اللیل والنوافل) گویا سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے قصور کا اعتراف کرنے کی بجائے مشیئت الٰہی کا عذر پیش کردیا اور اس اختیار کی طرف توجہ نہ کی جو انھیں اور ہر انسان کو عطا کیا گیا ہے۔ الكهف
55 [٥٣] یعنی دلائل دینے کے لحاظ سے تو ہم نے کوئی کسر نہیں چھوڑی اور ایک طالب ہدایت کے لیے یہ دلائل بہت کافی ہیں۔ مگر یہ لوگ محض دلائل سے راہ راست پر آنے والے نہیں ہیں۔ اب بس انھیں عذاب کا انتظار ہے۔ یہ لاتوں کے بھوت جوتے کھا کر ہی سیدھے ہوں گے۔ اس وقت انھیں حقیقت تو معلوم ہوجائے گی مگر اس وقت اس کا کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ الكهف
56 [٥٤] کافروں کا بے ہودہ سوالوں سے رسولوں سے جھگڑا کرنا :۔ رسولوں کا اصل کام صرف اتنا ہوتا ہے کہ اللہ کی طرف سے ان پر جو پیغام نازل ہوا اس کے مطابق فرماں برداروں کو جنت کی خوش خبری سنائیں اور نافرمانوں کو ان کے برے انجام سے ڈرائیں۔ یا اللہ کے احکام پر عمل کرکے لوگوں کو دکھادیں ان کا یہ کام نہیں ہوتا کہ کافروں کے مطلوبہ معجزے پورے کرکے دکھائیں اور کافر اور منکرین حق جو پیغمبروں سے معجزات کا مطالبہ کرتے ہیں یا ان کا امتحان لینے کے لیے ان سے طرح طرح کے سوال کرتے ہیں تو اس سے ان کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہوتا کہ اگر وہ معجزہ دکھلا دیا جائے یا ان کے سوالوں کا جواب دے دیا جائے تو وہ ایمان لے آئیں گے بلکہ وہ تو اس جستجو میں ہوتے ہیں کہ کسی طرح پیغمبر اور اس کی دعوت کو جھٹلایا جاسکے یا اگر ایسا نہ ہوسکے تو آیات الٰہی کا مذاق اڑا کر اور مسلمانوں پر پھبتیاں کس کر اپنا جی ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ الكهف
57 [٥٥] یعنی جب کوئی انسان ہٹ دھرمی پر اتر آتا ہے اور حق کے مقابلہ میں جھوٹ اور مکر و فریب کے ہتھکنڈوں سے کام لینا چاہتا ہے مگر اسے حق بات کو قبول کرلینا کسی قیمت پر گوارا نہیں ہوتا تو ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جن کے متعلق متعدد مقامات پر مختلف الفاظ استعمال ہوئے ہیں یعنی اللہ ان کے دلوں پر پردے ڈال دیتا ہے یا مہر لگا دیتا ہے یا قفل چڑھا دیتا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب ان کے دل حق کو قبول کرنے پر قطعاً تیار نہ ہوں گے نہ ہی ان کے کان حق بات سننے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ الكهف
58 [٥٦] اللہ کا قانون امھال وتدریج ہر بات میں حتی کہ عذاب میں بھی جاری وساری ہے :۔ جس طرح اللہ کا قانون امہال و تدریج ہر کام میں جاری وساری ہے۔ رات آتی ہے تو یکدم مکمل تاریکی نہیں چھا جاتی۔ دن آتا ہے تو یکدم تیز دھوپ اور روشنی نہیں ہوتی۔ اسی طرح اس کے عذاب کا قانون ایسا نہیں کہ ادھر کسی نے کوئی جرم کیا تو ادھر فوراً اسے سزا دے دی جائے بلکہ اس معاملہ میں اللہ کا وہی قانون امہال و تدریج کام کرتا ہے اگر اس دوران بھی مجرم اپنے جرم سے باز آجائے تو پھر سزا ٹل جاتی ہے کیونکہ اللہ بخشنے والا بھی ہے اور مہربان بھی اور اگر باز نہ آئے تو عذاب اللہ کے مقرر کردہ قانون کے مطابق اپنے مقررہ وقت پر آئے گا خواہ لوگ اس کے لیے جلدی مچائیں یا نہ مچائیں اور جب وہ وقت آجائے گا تو پھر نہ وہ مؤخر ہوگا اور نہ ہی مجرم اس سے کہیں بچ کے جاسکیں گے۔ علاوہ ازیں سب مجرموں پر عذاب نہیں آیا کرتا۔ صرف ان پر آتا ہے جو حد سے بڑھ جاتے ہیں سب پر اس لیے نہیں آتا کہ یہ دنیا دارالجزاء نہیں ہے بلکہ دارالعمل ہے نیز اگر سب پر آتا تو دنیا کبھی آباد ہی نہ رہ سکتی۔ الكهف
59 [٥٧] ان تباہ شدہ بستیوں سے مراد وہ بستیاں ہیں جن پر اہل مکہ کا گذر ہوتا رہتا تھا اور وہ ان کی تباہی کے آثار بچشم خود دیکھ سکتے تھے اور یہ بستیاں قوم عاد، ثمود، قوم لوط اور قوم شعیب علیہم السلام کی تھیں، اور قریش کو بتایا یہ جارہا ہے کہ ان لوگوں کو بھی ہم نے ان کی نافرمانی پر یکدم ہی ہلاک نہیں کر ڈالا تھا بلکہ ان کی ہلاکت کے لیے بھی ایک معین وقت مقرر تھا اسی طرح اگر ابھی تک تمہیں عذاب سے دو چار نہیں ہونا پڑا تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اگر تمہارے یہی کرتوت رہے تو تم عذاب سے بچ سکو گے۔ الكهف
60 [٥٨] سیدنا موسیٰ کا اپنے آپ کو سب سے بڑا عالم قرار دینا :۔ یہاں سے اب قصہ موسیٰ علیہ السلام و خضر کا آغاز ہو رہا ہے جو قریش مکہ کا دوسرا سوال تھا۔ اس کی تشریح کے لیے بخاری شریف کی درجہ ذیل دو احادیث ملاحظہ فرمائیے۔ ١۔ اللہ کی طرف سے اس کے بندہ (خضر) سے کسب فیض کا حکم :۔ سیدنا سعید بن جبیررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہا کہ نوف بکالی (کعب احبار کا بیٹا) کہتا ہے کہ جو موسیٰ علیہ السلام خضر سے ملنے گئے تھے وہ بنی اسرائیل کے موسیٰ علیہ السلام نہ تھے۔ (بلکہ وہ موسیٰ بن افراثیم بن یوسف تھے) تو ابن عباس رضی اللہ عنہما کہنے لگے : وہ اللہ کا دشمن جھوٹ بکتا ہے میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک دفعہ موسیٰ علیہ السلام نے کھڑے ہو کر خطبہ سنایا (سامعین میں سے) کسی نے پوچھا ’’اس وقت لوگوں میں سب سے زیادہ عالم کون ہے؟‘‘ موسیٰ علیہ السلام نے کہا 'میں' اللہ تعالیٰ نے ان پر عتاب فرمایا کیونکہ انھیں یہ بات اللہ کے حوالہ کرنا چاہیے تھی چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان پر وحی کی کہ دو دریاؤں کے سنگھم پر میرا ایک بندہ (خضر) ہے جو تم سے زیادہ عالم ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی 'میں اسے کیسے مل سکتا ہوں؟' فرمایا : 'اپنے ساتھ ایک مچھلی اپنی زنبیل میں رکھ لو جہاں وہ مچھلی گم ہوجائے وہیں وہ بندہ ملے گا' چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے ایک مچھلی اپنی زنبیل میں رکھ لی اور وہ خود اور ان کا خادم یوشع بن نون سفر پر روانہ ہوئے تاآنکہ وہ (راستہ میں) ایک چٹان پر پہنچے، وہاں وہ اس چٹان پر اپنا سر رکھ کر سو گئے اس وقت وہ مچھلی زنبیل میں سے تڑپ کر نکلی اور دریا میں جاگری اور سرنگ کی طرح کا بنا ہوا رستہ چھوڑ گئی اور اللہ تعالیٰ نے اس رستہ سے پانی کی روانی کو روک دیا اور وہ راستہ ایک طاق کی طرح دریا میں بنا رہ گیا۔ جب موسیٰ علیہ السلام بیدار ہوئے تو ان کا خادم (جو یہ منظر دیکھ رہا تھا) انھیں اس واقعہ کی اطلاع دینا بھول گیا اور وہ پھر سفر پر چل کھڑے ہوئے وہ دن کا باقی حصہ اور رات بھی چلتے رہے۔ قصہ موسیٰ علیہ السلام وخضر علیہ السلام سے ملاقات اور ہمراہی شرط :۔ دوسرے دن صبح موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خادم سے کہا 'کھانا لاؤ ہم تو اس سفر سے بہت تھک گئے' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : 'موسیٰ علیہ السلام کو تھکن اس وقت سے شروع ہوئی جب وہ اس مقام سے آگے بڑھ گئے جہاں تک جانے کا اللہ نے انھیں حکم دیا تھا' یوشع نے موسیٰ علیہ السلام کو جواب دیا : 'دیکھئے کل جب ہم نے چٹان کے پاس دم لیا تھا تو اس وقت مچھلی عجیب طرح کا راستہ بناتی ہوئی دریا میں چلی گئی تھی اور شیطان نے مجھے ایسا بھلایا کہ اس واقعہ کو آپ سے ذکر کرنا مجھے یاد ہی نہ رہا' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : 'مچھلی نے جو یہ سرنگ جیسا راستہ بنایا تھا وہ ان دونوں کے لیے بڑا باعث تعجب تھا'۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خادم سے کہا': کہ وہی جگہ تو ہماری منزل مقصود تھی' چنانچہ وہ دونوں اپنے نقوش پا کو دیکھتے دیکھتے واپس اسی چٹان تک آگئے۔ وہاں انہوں نے ایک شخص کو کپڑا اوڑھے دیکھا تو موسیٰ علیہ السلام نے اسے سلام کہا تو سیدنا خضر نے کہا 'تمہارے ملک میں سلام کہاں سے آیا ؟' موسیٰ علیہ السلام نے کہا 'میں موسیٰ ہوں' سیدنا خضر نے کہا 'بنی اسرائیل کے موسیٰ؟' موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا 'ہاں، میں تمہارے پاس اس لیے آیا ہوں کہ اللہ نے آپ کو بھلائی کی باتیں سکھائی ہیں ان میں سے کچھ مجھے بھی سکھادیں'سیدنا خضر نے جواب دیا۔ 'موسیٰ دیکھو! اللہ تعالیٰ نے اپنے علوم میں سے ایک علم مجھے سکھایا ہے جسے آپ نہیں جانتے اور ایک علم آپ کو سکھایا ہے جسے میں نہیں جانتا لہٰذا تم میرے ساتھ رہ کر صبر نہ کرسکو گے' موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا 'میں ان شاء اللہ صبر کروں گا اور کسی معاملہ میں آپ سے اختلاف نہ کروں گا'سیدنا خضر نے کہا 'اگر میرے ساتھ چلنا ہے تو پھر مجھ سے کوئی بات نہ پوچھنا تاآنکہ میں خود ہی اس کی حقیقت آپ سے بیان نہ کردوں' سیدنا خضر کا کشی کا تختہ اکھیڑنا اور سیدنا موسیٰ کا اعتراض :۔ (یہ معاہدہ طے پانے کے بعد) وہ دریا کے کنارے کنارے چل کھڑے ہوئے کہ ان کا گزر ایک کشتی پر ہوا انہوں نے کشتی والوں سے کہا کہ ہمیں بھی سوار کرلو کشتی والوں نے سیدنا خضر کو پہچان کر بغیر کرایہ ہی سوار کرلیا ابھی کشتی میں سوار ہوئے ہی تھے کہ سیدنا خضر نے اپنا بسولا لے کر اس کشتی کا ایک پھٹہ توڑ دیا اور اسے عیب دار بنادیا۔ موسیٰ علیہ السلام کہنے لگے کہ 'ان لوگوں نے تو ہمیں بغیر کرایہ لیے کشتی پر بٹھا لیا اور آپ نے ان کی کشتی کو توڑ دیا کہ سب کشتی والوں کو ڈبو دو، یہ تم نے کیا عجیب حرکت کی؟' سیدنا خضر نے جواب دیا ’’میں نے آپ کو کہا نہ تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہ کرسکیں گے‘‘ موسیٰ علیہ السلام نے کہا : 'مجھ سے بھول ہوگئی آپ درگزر کیجئے اور میرا کام مجھ پر دشوار نہ بنائیے“ موسی علیہ السلام وخضر دونوں کے علم کے مقابلہ میں اللہ کے علم کی وسعت :۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بلاشبہ پہلا اعتراض موسیٰ علیہ السلام نے بھول کر کیا تھا۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اتنے میں ایک چڑیا آئی جس نے کشتی کے کنارے پر بیٹھ کر دریا میں سے اپنی چونچ میں پانی لیا جسے دیکھ کر سیدنا خضر نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا : 'اللہ کے علم کے مقابلہ میں میرا علم اور آپ کا علم دونوں مل کر اتنے ہی ہیں جیسے اس چڑیا نے اس دریا میں سے چونچ سے پانی لیا ہے' خضر کا ایک نوجوان کو مارنا ڈالنا اور موسیٰ علیہ السلام کا دوسرا اعتراض :۔ پھر وہ دونوں کشتی سے نکل آئے اور ساحل پر چلتے گئے راستہ میں سیدنا خضر نے ایک لڑکے کو دیکھا جو دوسرے لڑکوں کے ساتھ مل کر کھیل رہا تھا۔ سیدنا خضر نے اس لڑکے کے سر کو اپنے ہاتھ سے پکڑ کر مروڑا جو دیا تو اسے مار ہی ڈالا۔ موسیٰ علیہ السلام کہنے لگے، 'ارے بھائی آپ نے ایک پاکیزہ جان کو ناحق ہی مار ڈالا یہ تو آپ نے بہت برا کیا' سیدنا خضر کہنے لگے 'میں نے آپ کو کہا نہ تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہ کرسکیں گے؟' آپ نے فرمایا 'اور یہ کام تو پہلے کام سے بھی سخت تر تھا۔' موسیٰ علیہ السلام کہنے لگے اگر آئندہ بھی میں نے آپ پر کوئی اعتراض کیا تو بے شک مجھے اپنے ساتھ نہ رکھنا کیونکہ آپ کی طرف سے مجھ پر اتمام حجت ہوجائے گا۔ خضر کا دیوار مرمت کردینا اور موسیٰ علیہ السلام کا تیسرا اعتراض :۔ پھر وہ دونوں چل کھڑے ہوئے تاآنکہ وہ ایک بستی میں پہنچے اور بستی والوں سے کھانا طلب کیا لیکن انہوں نے انھیں کچھ بھی کھانے کو نہ دیا۔ اتفاق سے انہوں نے وہاں ایک دیوار دیکھی جو گرا ہی چاہتی تھی۔ سدنا خضر نے اس دیوار کو قائم کردیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا : 'ان لوگوں نے نہ تو ہمیں کھانا دیا اور نہ ضیافت کی اگر آپ چاہتے تو ان سے آپ دیوار قائم کرنے کی مزدوری بھی لے سکتے تھے (جس سے ہم کھانا کھا سکتے)'سیدنا خضر کہنے لگے 'بس اب جدائی کی گھڑی آن پہنچی اب میں آپ کو ان واقعات کی حقیقت بتاتاہوں جن پر آپ صبر نہ کرسکے' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ 'ہم تو چاہتے تھے کہ موسیٰ علیہ السلام صبر کیے جاتے تو اللہ تعالیٰ ان دونوں کے اور زیادہ حالات ہم سے بیان کرتا' (بخاری۔ کتاب التفسیرسورہ الکھف) مذکورہ تین واقعات کی تاویل :۔ اس سے اگلی حدیث میں ان واقعات کی تاویل کا یوں ذکر ہے کہ سیدنا خضر نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا : کشتی کو عیب دار کرنے سے میری غرض یہ تھی کہ جب یہ کشتی اس ظالم بادشاہ کے سامنے جائے تو وہ اسے عیب دار سمجھ کر چھوڑ دے اور کشتی والے پھر سے اسے درست کرلیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں۔ دوسرے واقعہ کی تاویل یہ ہے کہ اس لڑکے کے ماں باپ ایمان دار تھے اور لڑکے کی قسمت میں کفر لکھا تھا تو ہم ڈرے کہ کہیں یہ اپنے ماں باپ کو کفر اور سرکشی میں نہ پھنسا دے یعنی لڑکے کی محبت میں والدین بھی کفر میں مبتلا نہ ہوجائیں تو ہم نے چاہا کہ اللہ تعالیٰ ان کو اور زیادہ اچھا اور پاکیزہ لڑکا عطا کرے اور اس کے ماں باپ اس سے بھی زیادہ اس لڑکے پر مہربان ہوں۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ ترمذی، ابو اب التفسیر) [٥٩] سیدنا موسیٰ کونسے دو دریاؤں کے سنگم پر پہنچے؟:۔ یہ واقعہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے کس دور میں پیش آیا اور وہ دو دریا کون سے تھے؟ ان سوالات کے جوابات سے کتاب و سنت خاموش ہیں۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے بنی اسرائیل کو مصر سے نکال کرلے جانے کے بعد اس قصہ اور اس طرح کے سفر کا امکان کم ہی نظر آتا ہے۔ لہٰذا اغلب خیال یہ ہے کہ یہ واقعہ مصر ہی میں پیش آیا ہوگا اور مصر میں دریاؤں کا سنگھم ایک ہی ہے اور وہ ہے موجودہ شہر خرطوم جہاں دریائے نیل کی دو شاخیں بحرابیض اور بحر ازرق آپس میں ملتی ہیں چونکہ یہ سنگھم کا علاقہ بھی کوئی مخصوص مقام نہ تھا بلکہ میلوں میں پھیلا ہوا تھا۔ لہٰذا سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو بذریعہ وحی یہ ہدایت دی گئی تھی کہ ایک مچھلی تل کر اپنے توشہ دان میں رکھ لیں جس مقام پر جاکر یہ مچھلی زندہ ہو کر دریا کے پانی میں چھلانگ لگا دے بس وہی مقام ہے جہاں تمہاری ہمارے بندے سیدنا خضر سے ملاقات ہوگی۔ الكهف
61 [٦٠] مردہ مچھلی کا زندہ ہو کر دریا میں چھلانگ لگانا اور سمندر میں سوراخ بنانا :۔ جب وہ سنگھم پر پہنچ گئے تو موسیٰ علیہ السلام ایک چٹان کے سایہ میں سو گئے اور ان کے خادم سیدنا یوشع بن نون علیہ السلام جنہیں بعد میں نبوت بھی عطا ہوئی اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ بھی بنے۔ وہاں بیٹھے رہے۔ اسی دوران مچھلی میں حرکت پیدا ہوئی وہ تڑپی اور دریا میں چھلانگ لگادی پہلے تو سیدنا یوشع کو خیال آیا کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو جگا کر انھیں مچھلی کے دریا میں جانے کی اطلاع کردوں۔ مگر جب وہ جاگے اور آگے سفر کرنے کو کہا تو یوشع علیہ السلام مچھلی کی بات انھیں بتانا بھول گئے نہ ہی موسیٰ علیہ السلام کو خیال آیا کہ وہ اپنی علامتی مچھلی کو دیکھ لیں۔ الكهف
62 [٦١] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تھکاوٹ آپ کو اس وقت ہوئی جب آپ اپنی منزل مقصود سے آگے نکلے جارہے تھے اس سے پہلے نہیں ہوئی تھی۔ الكهف
63 الكهف
64 الكهف
65 الكهف
66 الكهف
67 الكهف
68 الكهف
69 الكهف
70 الكهف
71 [٦٢] سیدنا خضر سے جب ان دونوں کی ملاقات ہوگئی اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور سیدنا خضر میں ابتدائی مکالمہ ہوا اس کے بعد سیدنا یوشع بن نون کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ اگلا سفر صرف سیدنا موسیٰ اور سیدنا خضر نے کیا تھا۔ شاید سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے سیدنا یوشع کو واپس بھیج دیا ہو۔ [٦٣] خضر نے کشی کا تختہ کیوں توڑا ؟ کشی والوں نے سیدنا خضر کو پہچان کر ان دونوں سے کرایہ بھی نہ لیا اور کشتی میں سوار کرلیا۔ مگر جب یہ کشتی منزل مقصود کے قریب پہنچی تو سیدنا خضر نے کشتی کے پہلو سے ایک تختہ توڑ دیا۔ یہ شگاف نیچے پیندے میں نہ ڈالا گیا تھا۔ اس لیے کشتی جو پہلے ہی منزل مقصود پر پہنچنے والی تھی ڈوبنے سے تو بچ گئی مگر ڈوبنے کا خطرہ ضرور تھا اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا اعتراض صرف اس بنیاد پر نہ تھا کہ کشی والے ڈوب جائیں گے بلکہ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ کشتی والوں نے تو یہ احسان کیا کہ کرایہ بھی نہ لیا اور اس احسان کا بدلہ یوں دے رہے ہو کہ کشتی ہی کو عیب دار بنا دیا۔ الكهف
72 الكهف
73 الكهف
74 [٦٤] خضر نے نوجوان کو کیوں مارا ؟ :۔ یہ ایک خوبصورت نوجوان لڑکا تھا جو دوسرے لڑکوں کے ساتھ مل کر کھیل رہا تھا۔ سیدنا خضر نے اس لڑکے کو پکڑ کر اس کی گردن کو مروڑا۔ حتیٰ کہ اس کی جان نکل گئی۔ اب ظاہر ہے کہ ایک شریعت کا علمبردار اولوالعزم پیغمبر ایسی بات کیسے برداشت کرسکتا تھا۔؟ پہلے بھی ایک کام سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی طبیعت کے خلاف ہوچکا تھا اور یہ کام پہلے کام سے بھی سخت تر تھا لہٰذا سیدنا موسیٰ رہ نہ سکے اور یہ اعتراض کر ہی دیا بلکہ ہلکی سی ملامت بھی کردی۔ الكهف
75 الكهف
76 الكهف
77 [٦٥] بستی والوں کی بے مروتی اور ان پر احسان کیوں کیا ؟ :۔ یعنی بستی والوں کی بے مروتی کا تو یہ عالم ہے کہ ہم مسافروں کے کھانا طلب کرنے پر بھی انہوں نے ہمیں کھانا تک نہ کھلایا اور ایسے لوگوں پر آپ کے احسان کا یہ حال ہے کہ جس دیوار کے نیچے سے گزرنے سے بھی وہ لوگ ڈرتے تھے کہیں ہمارے اوپر ہی نہ گر پڑے اس دیوار کی مرمت کرکے آپ نے اسے قائم اور سیدھا کردیا حالانکہ اس کام پر اجرت لینا آپ کا حق تھا۔ بالخصوص ایسے بے مروت لوگوں سے تو یہ اجرت چھوڑنا ہی نہ چاہیئے تھی اور اس اجرت سے ہم اپنی بھوک بھی دور کرسکتے تھے۔ الكهف
78 [٦٦] دنیا کے حادثات کی ظاہری شکل اور ہے اور حقیقت اور ہے :۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے سیدنا خضر کی ہمراہی کے دوران جو واقعات پیش آئے۔ ان میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ کو اپنے کارخانہ مشیئت کا پردہ اٹھا کر ذرا اس کی ایک جھلک دکھائی تھی تاکہ انھیں معلوم ہوجائے کہ اس دنیا میں جو کچھ شب و روز ہو رہا ہے وہ کیسے اور کن مصلحتوں کے تحت ہو رہا ہے اور کس طرح واقعات کی ظاہری شکل و صورت اصل حقیقت سے مختلف ہوتی ہے کیونکہ ایک عام انسان جب یہ دیکھتا ہے کہ ظالموں اور نافرمانوں پر اللہ کے انعامات کی بارش ہو رہی ہے اور اللہ کے فرمانبرداروں پر سختیاں اور شدائد کا ہجوم ہے ظالم مسلسل ظلم کرتے جارہے ہیں اور ان کی سزا بے گناہوں کو ملتی ہے تو ایسے واقعات سے اکثر انسان یہ نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ یہ دنیا اندھیر نگری ہے اگر اللہ موجود ہوتا اور وہ عادل و منصف ہے تو ایسے جگر خراش واقعات دنیا میں کیوں وقوع پذیر ہوتے؟ ان واقعات میں ایسے ہی حالات سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ رہا اللہ کے عدل و انصاف کا معاملہ تو اگرچہ اس کا ظہور اس دنیا میں بھی وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا ہے تاہم عدل و انصاف کا صحیح اور مقررہ وقت روز آخرت ہے اور روز آخرت کا قیام اسی لیے ضروری ہے۔ الكهف
79 [٦٧] یعنی ہر اچھی کشتی کو وہ بے گار میں لے لیتا تھا اور میں نے سوچا کہ اگر یہ کشتی ان سے چھن گئی تو ان بے چاروں کا روزگار بند ہوجائے گا لہٰذا میں نے کشتی سے ایک تختہ توڑد یا اور وہ غصب ہونے سے بچ گئی میں نے دراصل یہ کشتی والوں سے بھلائی کی تھی۔ آخر میں نے اس میں کیا برا کیا تھا ؟ الكهف
80 [٦٨] یعنی وہ لڑکا بہت خوب صورت تھا اور مجھے اس بات کا (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) علم تھا کہ یہ گمراہی کا راستہ اختیار کرے گا اور والدین کو چونکہ اس سے بے حد محبت تھی لہٰذا یہ عین ممکن تھا کہ وہ اپنے ساتھ اپنے والدین کو بھی لے ڈوبے جو اللہ کے سچے فرمانبردار ہیں، لہٰذا اللہ تعالیٰ کی حکمت اس بات کی متقاضی ہوئی کہ اس لڑکے کا کام ہی تمام کر ڈالا جائے۔ الكهف
81 [٦٩] چنانچہ اس مقتول لڑکے کے نعم البدل کے طور پر اللہ نے انھیں جو اولاد دی وہ اللہ کی اور والدین کی بڑی فرمانبردار تھی والدین اس سے محبت کرتے تھے اور وہ والدین سے بہت محبت کرتا تھا۔ اس سلسلہ میں بھی میں نے کوئی برا کام نہیں کیا بلکہ نیک والدین کو گمراہ ہونے سے بچا لیا۔ پھر اللہ نے اس کا نعم البدل بھی انھیں عطا کرنا ان کے مقدر میں لکھ رکھا تھا۔ الكهف
82 [٧٠] یعنی اگر دیوار کسی وقت گر پڑتی تو خزانہ ظاہر ہوجاتا بدنیت لوگ اس پر قبضہ کرلیتے یا اٹھا لے جاتے اور ان یتیموں کے ہاتھ کچھ بھی نہ لگتا۔ اب یہ بڑے ہو کر خود اپنے باپ کی دفن شدہ دولت نکال کر اپنے استعمال میں لاسکیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی مصلحتیں اللہ ہی جانتا ہے :۔ مندرجہ بالا تینوں واقعات سے دراصل مشیئت الٰہی کے کاموں میں پوشیدہ حکمتوں پر روشنی پڑتی ہے پہلا کام یہ تھا کہ کشتی والوں نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام و سیدنا خضر دونوں کو پردیسی سمجھ کر ان سے کرایہ نہیں لیا اور کشتی میں سوار کرلیا۔ جس کے صلہ میں سیدنا خضر نے ایسا کام کیا جو بظاہر غلط معلوم ہوتا تھا لیکن حقیقت میں سیدنا خضر نے ان سے بہت بڑی خیر خواہی کی اور ان کے احسان کا اس طرح بدلہ چکایا کہ انھیں بہت بڑے نقصان سے بچا لیا اس سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ کسی نقصان پر بے صبر نہ ہونا چاہیے اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس نقصان میں بھی اللہ نے اس کے لیے کون سے اور کتنے بڑے فائدے کو پوشیدہ رکھا ہوا ہے۔ دوسرا واقعہ صدمہ کے لحاظ سے پہلے واقعہ سے شدید تر ہے لیکن اس میں جو اللہ کی مصلحت پوشیدہ تھی وہ بھی منفعت کے لحاظ سے پہلے واقعہ کی نسبت بہت زیادہ تھی اور دونوں واقعات سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ مصائب پر ایک مسلمان کو صبر کرنا چاہیے اور اللہ کی مشیئت پر راضی رہنا چاہیے اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جتنی مصیبت پر صبر کیا تھا اسی کے مطابق اللہ اس کا اجر اور نعم البدل عطا فرماتا ہے۔ تیسرے واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی نیک آدمی کی رفاقت کے بعد بھی اللہ تعالیٰ اس کا اچھا بدلہ اس کی اولاد کو دیا کرتا ہے۔ مرنے والا چونکہ نیک انسان تھا لہٰذا اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہوا کہ اس کا مدفون خزانہ یا ورثہ دوسرے لوگ نہ اڑا لے جائیں، بلکہ اس کی اولاد کے ہی حصہ میں آئے۔ [٧١] خضر کون تھے؟ یہ سوال مختلف فیہ رہا ہے کہ سیدنا خضر کون اور کیا تھے؟ بعض علماء انھیں نبی تسلیم کرتے ہیں بعض ولی اور بعض ولی بھی نہیں سمجھتے بلکہ ایک فرشتہ سمجھتے ہیں جن کا شمار مدبرات امر میں ہوتا ہے اب ہمیں یہ جائزہ لینا ہے کہ ان میں کون سی بات درست ہوسکتی ہے۔ ہمارے خیال میں سیدنا خضر نبی نہیں تھے اور اس کی دو وجہیں ہیں۔ ایک یہ کہ بخاری کی طویل روایت کے مطابق سیدنا خضر، سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے خود فرما رہے ہیں کہ ’’موسیٰ! دیکھو! اللہ تعالیٰ نے اپنے علوم میں سے ایک علم مجھے سکھایا ہے جسے آپ نہیں جانتے اور ایک علم آپ کو سکھایا ہے جسے میں نہیں جانتا لہٰذا تم میرے ساتھ صبر نہ کرسکو گے اور یہ تو ظاہر ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو نبوت اور شریعت کا علم سکھایا گیا تھا جسے سیدنا خضر نہیں جانتے تھے لہٰذا وہ نبی نہ ہوئے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآنی آیات کی رو سے یہ ثابت شدہ امرہے کہ انبیاء کا علم ابتدا سے ایک ہی رہا ہے اور چونکہ سیدنا خضر کا علم اس علم سے متصادم تھا لہٰذا وہ نبی نہیں تھے۔ اب اگر انھیں ولی تسلیم کرلیا جائے تو یہ باور کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں (بقول صوفیاء ) کشف والہام سے غیب کے حالات سے مطلع کردیا ہو لیکن ولی کو یہ کب اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے علم غیب سے اطلاع کی بنا پر کسی دوسرے کی مملوکہ چیز کو تباہ کر دے یا کسی انسان کو قتل بھی کر ڈالے۔ ولی بھی آخر انسان ہے جو احکام شریعت کا مکلف ہے اور اصول شریعت میں یہ گنجائش کہیں نہیں پائی جاتی کہ کسی انسان کے لیے محض اس بنا پر احکام شرعیہ میں سے کسی حکم کی خلاف ورزی جائز ہو کہ اسے بذریعہ الہام اس کی خلاف ورزی کا حکم ملا ہے یا بذریعہ علم غیب اس خلاف ورزی کی مصلحت بتائی گئی ہے۔ صوفیاء کے نزدیک بھی کسی ایسے الہام پر عمل کرنا خود صاحب الہام تک کے لیے بھی جائز نہیں ہے جو نص شرعی کے خلاف ہو۔ لہٰذا سیدنا خضر نہ نبی تھے نہ ولی بلکہ وہ انسان کی جنس سے بھی نہ تھے ایک ظالم اور فاسق انسان ہی ایسے کام کرسکتا ہے مگر وہ تو اللہ کی ایک برگزیدہ شخصیت تھے۔ اب لامحالہ ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ ان فرشتوں میں سے تھے جو تدبیر امور کائنات پر مامور ہیں اور اس پر کئی دلائل ہیں پہلی دلیل تو ان کا اپنا یہ قول کہ ( مافعلتہ عن امری) کہ یہ کام میں نے اپنی مرضی یا اختیار سے نہیں کیے بلکہ اللہ کے حکم سے کیے ہیں۔ گویا وہ خود اعتراف کررہے ہیں کہ وہ خود مختار نہیں اور یہ وہی بات ہے جسے اللہ نے فرشتوں کی صفات کے سلسلہ میں فرمایا کہ’’وہ اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ وہ کچھ کرتے ہیں جو انھیں حکم دیا جاتا ہے‘‘ (٦٦: ٦) اور وہ نافرمانی کر بھی نہیں سکتے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ ایسے فرشتے جب انسانی شکل میں آکر انسانوں سے ہمکلام ہوتے ہیں تو بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کی مخصوص صفات کو اپنی طرف منسوب کرتے ہیں۔ سیدنا جبرئیل انسانی شکل میں سیدہ مریم کے سامنے آئے تو کہا﴿لاِھَبِ لَکِ غُلاَمًا زِکِیًّا﴾(٩: ١٩) (تاکہ میں تجھے ایک پاکیزہ سیرت لڑکا عطا کروں) اور یہ تو ظاہر ہے کہ لڑکا عطا کرنا تو صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کسی مخلوق کا کام نہیں اور فرشتے اللہ کی مخلوق ہیں اور یہ جملہ جو سیدنا جبرئیل نے کہا اسی لحاظ سے کہا کہ آپ اللہ کی طرف سے تدبیر امور کائنات میں سے ایک امر پر مامور تھے۔ بالکل اسی طرح سیدنا خضر بھی جب ان واقعات کی تاویل بتاتے ہیں تو کبھی کسی کام کو براہ راست اپنی طرف منسوب کرتے ہیں کسی کو اللہ کی طرف اور کسی کو دونوں کی طرف۔ پہلے واقعہ کے متعلق فرمایا :﴿فَاَرْدَتُّ اَنْ اَعِیْبَھَا﴾ یعنی میں نے ارادہ کیا کہ اس کشتی کو عیب دار بنادوں حالانکہ آخر میں کہا کہ میں نے اپنے ارادہ و اختیار اور مرضی سے کچھ نہیں کیا اور دوسرے واقعہ کے متعلق فرمایا : ﴿ فَاَرْدْنَا اَنْ یُبْدِلَھُمَا رَبُّھُمَا﴾ یعنی ہم نے ارادہ کیا کہ ان والدین کا پروردگار انھیں اس لڑکے کا نعم البدل عطا فرمائے۔ یہاں ارادہ کی نسبت میں سیدنا خضر اور اللہ تعالیٰ دونوں مشترک ہیں اور تیسرے واقعہ کی نسبت صرف اللہ تعالیٰ کی طرف کرتے ہوئے فرمایا کہ :﴿ فَاَرَادَ رَبُّکَ﴾ یعنی آپ کے پروردگار نے چاہا۔ یہ بحث الگ ہے کہ پہلے واقعہ کی نسبت سیدنا خضر نے صرف اپنی طرف، دوسرے میں دونوں کی طرف اور تیسرے میں صرف اللہ کی طرف کیوں کی؟ یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ خدائی صفات کو اپنی طرف منسوب کرنا صرف ان فرشتوں کا کام ہوسکتا ہے جو تدابیر امور کائنات پر مامور ہیں کسی نبی یا ولی کے لیے ایسی نسبت کرنا قطعاً جائز نہیں ہے۔ مندرجہ بالا توجیہ میں چند اشکالات بھی پیش آتے ہیں جن کا ازالہ ضروری ہے مثلاً اللہ تعالیٰ نے سیدنا خضر کے لیے ﴿عَبْدًا مِنْ عِبَادِنَا﴾کے الفاظ استعمال کیے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ عبد کا لفظ فرشتوں کے متعلق بھی ایسے ہی استعمال ہوتا ہے جیسے انسانوں کے متعلق، جیسے فرمایا ﴿وَجَعَلُوا الْمَلٰئِکَۃَ الَّذِیْنَ ھُمْ عِبَاد الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا﴾(٤٣ : ١٩) دوسرا اشکال یہ ہے کہ حدیث بالا میں سیدنا خضر کے لیے رجل کا لفظ آیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ فرشتے جب بھی انسانی شکل میں آئے تو ہمیشہ مردوں ہی کی شکل میں آتے ہیں۔ اور تیسرا اشکال یہ ہے کہ کشتی والوں نے سیدنا خضر کو پہچان کر بغیر کرایہ ہی کشتی پر سوار کرلیا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کشتی کے مالکوں نے پہلے سیدنا خضر کو کہیں دیکھا تھا اور وہ ان کی نظروں میں قابل احترام بھی تھے اس بات کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ جس میں مذکور ہے کہ سیدنا خضرکا نام خضر اس لیے پڑگیا تھا کہ وہ جہاں بیٹھتے وہاں سبزہ اگ آتا تھا۔ شاید ان کشتی والوں نے کوئی ایسا منظر دیکھ لیا ہو۔ بہرحال یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ سیدنا خضر اس علاقے کے باشندے نہ تھے ورنہ صرف اس کشتی کے مالک تو درکنار سب لوگ ہی ایسی عجوبہ روزگار شخصیت کو پہچاننے کی بجائے ٹھیک طرح جانتے ہوتے۔ (واللہ اعلم بالصواب) سیدنا خضر اور متصوفین :۔ اس واقعہ سے صدیوں بعد سیدنا خضرکے متعلق عجیب عجیب قسم کے عقائد رائج ہوگئے۔ ہمارے صوفیاء نے ان کو ولی قرار دے کر سیدنا موسیٰ کا استاد اور ان سے افضل ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ کوششیں اس وقت شروع ہوئیں جب ان میں یہ عقیدہ رائج ہوا کہ ’’ولایت نبوت سے افضل ہے‘‘ پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ یہ لوگ سیدنا خضر کو ایک زندہ جاوید ہستی تسلیم کرکے ان سے ہر وقت رہبری کے خواہاں رہتے ہیں جب تک انھیں سیدنا خضر سے ملاقات اور رہبری حاصل نہ ہو ان کی ولایت مکمل ہی نہیں ہوتی پھر سیدنا خضر کی فرضی شخصیت کے متعلق طرح طرح کے افسانے تراشے گئے جو اتنے عام ہوئے کہ ہمارے شعر و ادب میں بھی داخل ہوگئے مثلاً ایک شاعر کہتا ہے۔ تہیدستان قسمت راچہ سود از رہبر کامل۔۔ کہ خضر از آب حیوان تشنہ می آرد سکندر را یہ شعر تو سیدنا خضر کے فیض سے متعلق تھا اب دوسرا شعر ان کی رہبری، رہنمائی اور ہدایت سے متعلق ملاحظہ فرمائیے۔ اقبال کہتا ہے : تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خودکشی۔۔ رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے سیدناخضر کے متعلق عجیب وغریب عقائد :۔ البتہ علمائے حق نے اس قسم کی اوہام پرستی کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کی ہے چنانچہ دائرہ المعارف الاسلامیہ مطبوعہ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں زیر عنوان طریقت جلد ١٢ صفحہ ٤٦٠ پر درج ہے۔ کہ ’’راسخ القیدہ فقہا نے اہل تصوف کے استاد الہامی (سیدنا خضر) کے خلاف بھی آواز بلند کی ہے جس کی بنا پر سلسلہ تصوف کو ایک ایسی مقدس ہستی (سیدنا خضر) کے مظاہر سے فیضان حاصل ہوتا ہے جو پراسرار اور غیر فانی ہے یعنی الخضر جن کی ہادی طریقت کی حیثیت سے سب فرقے توقیر و تعظیم کرتے ہیں کیونکہ وہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے رہنما اور صوفی کی روح کو حقیقت علیا سے آشنا کرانے کے اہل ہیں یہ عقیدہ غالباً تصوف کی کسی مستند کتاب میں نہیں پایا جاتا“ پھر اسی دائرۃ المعارف میں خواجہ خضر کے عنوان کے تحت لکھا ہے کہ ’’ہندوستان میں انھیں (سیدنا خضر کو) کنوؤں اور چشموں کی روح کاروپ سمجھا جاتا ہے۔ دریائے سندھ کے آرپار انھیں دریا کا اوتار سمجھا جاتا ہے سیدنا خضر کی خانقاہ سندھ کے ایک جزیرے میں بھکر کے پاس ہے جہاں ہر مذہب کے عقیدت مند زیارت کو جاتے ہیں۔‘‘ (ایضاً جلد ٥ ص ٢٢) اس طرح سیدنا خضر کے نام سے شرک کا ایک دروازہ کھل گیا اور اب تو سیدنا خضر کی نماز بھی پڑھی جانے لگی ہے جس کی برکت سے سیدنا خضر سے ملاقات بھی ہوجاتی ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے تلقین مرشد کامل از صادق فرغانی ص ٢٤٠) اور بعض لوگ خواجہ خضر خواج کی نیاز دریا میں پھینکتے ہیں تاکہ کشتی یا جہاز بخیر و عافیت کنارے پر لگ جائے گویا ایسے مشرکوں کے لیے خواجہ خضر ایک مستقل اوتار یا معبود بن گیا ہے۔ الكهف
83 الكهف
84 [٢ ٧] ذوالقرنین کون تھا ؟ قریش کا تیسرا سوال ذوالقرنین سے متعلق تھا جس کا ان آیات میں جواب دیا جارہا ہے۔ ذوالقرنین کی شخصیت کی تعیین کے لیے یہ بات تو بہرحال یقینی ہے کہ یہود کو اس کے متعلق علم تھا اور اس بادشاہ کا ذکر ان کی کتابوں میں موجود تھا تبھی تو انہوں نے قریش مکہ کو یہ سوال بتایا تھا اور جو کچھ قرآن سے معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ ایک مقتدر اور نامور بادشاہ تھا اللہ سے ڈرنے والا اور منصف مزاج تھا اس کی سلطنت خاصی وسیع تھی اور ذوالقرنین کے لغوی معنی تو ''دو سینگوں والا'' ہے مگر اس کے معنی یہ نہیں کہ فی الواقع اس کے سر پر دو سینگ تھے بلکہ اسے اس لحاظ سے ذوالقرنین کہا جاتا تھا کہ اس کی سلطنت کا علاقہ کچھ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ایک مینڈھا ہو اور اس کے سر پر دو سینگ ہوں۔ آیت نمبر ٨٦ میں الفاظ﴿قُلْنَا یٰذَا الْقَرْنَیْنِ﴾ سے بعض لوگوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ وہ نبی بھی تھا لیکن اکثریت اس کی نبوت کی قائل نہیں ہے کیونکہ صرف یہ الفاظ اثبات نبوت کے لیے کافی نہیں ہیں اور اس کی تائید میں قرآن سے کافی شواہد مل جاتے ہیں مثلاً سیدہ مریم نبیہ نہیں تھی تاہم فرشتہ یا فرشتے ان کے پاس آئے اور ہم کلام ہوئے۔ ام موسیٰ بھی نبیہ نہیں تھیں مگر ان کی طرف وحی ہونا قرآن سے ثابت ہے اسی طرح سیدنا لقمان کا معاملہ ہے۔ اس وحی سے وہ وحی مراد نہیں ہے جوانبیاء علیہ السلام پر بذریعہ فرشتہ نازل کی جاتی رہی ہے۔ یہاں لغوی معنی یعنی بذریعہ اشارہ ذہن میں ڈالنا۔ قرآن و حدیث میں یہ کہیں مذکور نہیں کہ ذوالقرنین کا اصل نام کیا تھا ؟ وہ کس علاقہ کا بادشاہ تھا ؟ کس قوم سے تعلق رکھتا تھا ؟ اور کس دور میں یہ بادشاہ گزرا ہے؟ مغربی جانب اس نے کہاں تک اور کون کون سے ممالک کو مسخر کیا تھا ؟ اور مشرقی سمت میں کہاں تک پہنچا تھا ؟ اس کا تیسرا سفر کون سی جانب تھا ؟ سدّ ذوالقرنین کس جگہ واقع ہے؟ لہٰذا ان سب امور کی تعیین میں مفسرین میں بہت اختلاف واقع ہوا اور ایسی مؤرخانہ تحقیق کا کتاب و سنت میں مذکور نہ ہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ قرآن کسی تاریخی واقعہ کو ذکر کرنے کے باوجود بھی ایسے امور کو زیر بحث نہیں لاتا جن کا انسانی ہدایت سے کچھ تعلق نہ ہو یا اس پر کسی شرعی حکم کی بنیاد نہ اٹھتی ہو یہ ذوالقرنین کا واقعہ یہود کی الہامی کتاب تورات میں مذکور نہیں بلکہ تورات کی شروح و تفاسیر، جنہیں وہ اپنی اصطلاح میں تالمود کہتے ہیں مذکور ہے۔ جیسے ہمارے مفسرین نے بھی اپنی تفسیروں میں کئی ایسے واقعات درج کردیئے ہیں جن کا قرآن اور حدیث میں ذکر تک نہیں ہوتا۔ بہرحال یہ بات تو مسلّم ہے کہ ذوالقرنین کوئی ایسا بادشاہ تھا جس کی تعیین علمائے یہود کے دماغوں میں موجود تھی۔ اسی کے متعلق انہوں نے سوال کیا تھا اور اسی شخصیت کے متعلق قرآن نے جواب دے دیا اور جتنا جواب انھیں درکار تھا اتنا جواب قرآن نے انھیں دیا جس سے وہ مطمئن ہوگئے اور ان کے اطمینان کی دلیل یہ ہے کہ قرآن کے اس جواب کے بعد یہود نے یا یہود کے کہنے پر کفار مکہ نے ذوالقرنین کے بارے میں کوئی مزید سوال نہیں کیا۔ تاہم ہمارے مفسرین نے مندرجہ بالا تاریخی سوالات کا حتی الامکان جواب دینے کی مقدور بھر کوشش کی ہے۔ چنانچہ مولانا مودودی رحمہ اللہ نے بائیبل کے مطالعہ کے بعد جو تحقیق پیش کی ہے وہ یہ ہے کہ ذوالقرنین کا اطلاق ایرانی فرمانروا خورس پر ہی ہوسکتا ہے جس کا عروج ٥٤٩ ق م کے قریب شروع ہوا اس نے چند سال کے عرصہ میں میڈیا (الجبال) اور لیڈیا (اشیائے کوچک) کی سلطنتوں کو مسخر کرنے کے بعد ٥٣٩ ق م میں بابل کو فتح کرلیا تھا جس کے بعد کوئی طاقت اس کی راہ میں مزاحم نہ رہی۔ اس کی فتوحات کا سلسلہ سندھ اور صغد (موجودہ ترکستان) سے لے کر ایک طرف مصر اور لیبیا تک اور دوسری طرف تھریس اور مقدونیہ تک وسیع ہوگیا تھا اور شمال میں اس کی سلطنت کا کیشیا ( قفقاز) اور خوارزم تک پھیل گئی تھی۔ عملاً اس وقت کی پوری مہذب دنیا اس کی تابع فرمان تھی۔ اور صاحب تفسیر حقانی کی تحقیق یہ ہے کہ ذوالقرنین ایران کا نہیں بلکہ عرب کے کسی علاقہ کا بادشاہ ہوسکتا ہے اور یمن کے حمیری خاندان کا بادشاہ تھا۔ دلیل یہ ہے کہ ذوالقرنین عربی لفظ ہے۔ فارسی یا ایرانی نہیں۔ علاوہ ازیں یمن کے بادشاہ زمانہ قدیم میں ذو کے ساتھ ملقب ہوا کرتے تھے جیسے ذونواس، ذوالنون، ذورعین، ذویزن وغیرہ وغیرہ۔ ایسے ہی ذوالقرنین بھی تھے۔ ابو ریحان البیرونی اس کا نام ابو کرب بن عیربن افریقس حمیری بتاتے ہیں۔ اس کا اصل نام صعب تھا اور یہ تبع اول کا بیٹا تھا اور یہی وہ ذوالقرنین ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے۔ اس کے بعد اس کا بیٹا ذوالمنار ابرہہ، اس کے بعد اس کا بیٹا افریقس، اس کے بعد اس کا بھائی ذوالاذعار، اس کے بعد اس کا بھائی شرجیل، اس کے بعد اس کا بیٹا الہدہاد اور اس کے بعد اس کی بیٹی بلقیس بادشاہ ہوئی جو سیدنا سلیمان علیہ السلام کے پاس حاضر ہوئی تھی اور ذوالقرنین کے مفہوم میں بھی اختلاف ہے قرن عربی زبان میں سینگ کو بھی کہتے ہیں اور زمانہ یا دور کو بھی۔ اس کا ایک مفہوم تو اوپر بیان ہوا کہ اس کے مفتوحہ علاقوں یا سلطنت کا اگر کاغذ پر نقشہ بنایا جائے تو اس کی شکل ایک مینڈھے کی سی بن جاتی ہے جس کے سر پر دو سینگ ہوں۔ اس کی دوسری توجیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ ذوالقرنین کے تاج میں دو کلغیاں ہوتی تھیں جبکہ عام بادشاہوں کے تاج میں ایک ہی کلغی ہوتی تھی اور یہ دو کلغیاں بھی اس کی سلطنت کی وسعت کے اظہار کے لیے بنائی گئی تھیں۔ اور تیسری توجیہ یہ ہے کہ ذوالقرنین کو دو دور نصیب ہوئے تھے ایک دور فتوحات کا اور دوسرا دور ان مفتوحہ علاقوں میں انتظام اور حکمرانی کرنے کا اور یہ بات بھی ہر بادشاہ کو نصیب نہیں ہوئی۔ سکندر رومی فیلقوس کے بیٹے نے فتوحات تو بہت کیں حتیٰ کہ ہندوستان میں بھی پہنچ کر بہت سے علاقے فتح کیے مگر اس کی فوج نے آگے بڑھنے سے یکسر انکار کردیا اور وطن واپس چلنے پر اصرار کیا اور سکندر اپنی فوج کے سامنے مجبور ہوگیا اور واپسی پر اپنے وطن پہنچنے سے پیشتر ہی ٣٣ سال کی عمر میں بابل کے مقام پر راہی ملک عدم ہوا۔ سد ذوالقرنین کہاں واقع ہے ؟ :۔ رہی یہ بات کہ سد ذوالقرنین کہاں واقع ہے؟ تو اس میں بھی اختلافات ہیں کیونکہ آج تک ایسی پانچ دیواریں معلوم ہوچکی ہیں جو مختلف بادشاہوں نے مختلف علاقوں میں مختلف ادوار میں جنگجو قوموں کے حملہ سے بچاؤ کی خاطر بنوائی تھیں۔ ان میں سے زیادہ مشہور دیوار چین ہے یہ دیوار سب سے زیادہ لمبی ہے اور اس کی لمبائی کا اندازہ بارہ سو میل سے لے کر پندرہ سو میل تک کیا گیا ہے یہ دیوار عجائب روزگار میں شمار ہوتی ہے اور اب تک موجود ہے اور اسے چی وانگئی فغفور چین نے اندازاً ٢٣٥ ق م میں تعمیر کروایا تھا اور سدذوالقرنین وہ دیوار ہے جو جبل الطائی کے کسی درہ کو بند کیے ہوئے ہے جس کا ابن خلدون نے بھی ذکر کیا ہے اور اکثر مورخین اسلام اس کو سد یاجوج بھی کہتے ہیں۔ جبل الطائی منچوریا اور منگولیا میں حائل ہے اور اسی پہاڑ کے بیچ میں ایک درہ کشادہ تھا جہاں یاجوج ماجوج کی قومیں حملہ آور ہوتی تھیں۔ اس درے کو ذوالقرنین حمیری بادشاہ نے بند کروایا تھا اور یہ دیوار اب تک موجود ہے۔ ذوالقرنین کے تین سفروں کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔ الكهف
85 الكهف
86 [٧٢۔ الف] ذوالقرنین کی پہلی مہم مغرب کو :۔ پہلا سفر اس نے اپنی سلطنت کی مغربی آخری حد یعنی ایشیائے کوچک کی آخری حد تک کیا جس سے آگے سمندر ہے جہاں بحر ایجین چھوٹی چھوٹی خلے جوں کی شکل اختیار کرلیتا ہے جہاں پہنچ کر ذوالقرنین کو یوں معلوم ہوا جیسے سورج سیاہی مائل گدلے پانی میں ڈوب رہا ہے وہاں جس قوم سے ذوالقرنین کو سابقہ پڑا وہ جاہل اور کافر قسم کے لوگ تھے اور اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کو یہ اختیار دیا کہ چاہے تو انھیں قتل کردے یا کوئی سخت رویہ اختیار کرے یا اللہ کے فرماں بردار بن جانے کی دعوت دے اور ان سے نرم برتاؤ کرے۔ الكهف
87 [٧٣] ذوالقرنین کا مغربی قوم سے سلوک :۔ چنانچہ ذوالقرنین نے دوسری راہ اختیار کی کہ اس قوم کو پوری طرح سمجھایا جائے اور انھیں اسلام کی دعوت دی جائے اور یہ فیصلہ کیا کہ اس کے نتیجہ میں جو لوگ اکڑ جائیں گے اور ظالموں کی روش اختیار کریں گے ہم صرف انھیں ہی سزا دیں گے اور انھیں سے سختی کا برتاؤ کریں گے پھر موت کے بعد جب ایسا آدمی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہوگا تو وہ اسے سخت عذاب بھی دے گا لیکن جو لوگ اس دعوت کو قبول کرلیں گے اور اپنا طرززندگی بدل کر نیک کام کرنے لگیں گے ان کو اللہ کے ہاں اچھا اجر ملے گا اور ہم بھی ان سے نرمی کا برتاؤ کریں گے جیسا کہ ہر عادل بادشاہ کی یہ صفت ہوتی ہے کہ وہ غلبہ پانے کے بعد بدکردار لوگوں سے سختی سے پیش آتے ہیں اور بھلے لوگوں سے مہربانی کرتے اور ان سے مہربانی سے پیش آتے ہیں۔ الكهف
88 الكهف
89 الكهف
90 [٧٤] دوسرا سفر مشرق کی طرف تھا وہ علاقے فتح کرتا ہوا بالآخر وہاں تک پہنچ گیا جہاں مہذب دنیا ختم ہوجاتی تھی اور اسے ایسی جانگلی غیرمہذب قوم سے واسطہ پڑا جو اپنا گھر بنانا بھی نہ جانتے تھے۔ سورج کی گرمی یا بارش سے بچنے کے لیے ان کے پاس نہ خیمے کے ہلکے پھلکے گھر تھے اور نہ مکان تھے اور وہ پہاڑوں کی غاروں اور کھوہوں میں اپنا گزر اوقات کیا کرتے تھے یا پھر وہ آفتاب کی تپش اور بارش وغیرہ کو برداشت کرنے کے عادی بن چکے تھے۔ الكهف
91 [٧٥] ذوالقرنین کی دوسری مہم مشرق کو :۔ لفظ کذٰلک کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ دوسرے لوگ یا مؤرخ خواہ ذوالقرنین کے کیسے حالات بتائیں اصل واقعہ یہی ہے جو ہم بیان کر رہے ہیں اور ہم خوب جانتے ہیں کہ ذوالقرنین کو کیا کیا حالات پیش آئے اور اس کے پاس کیا کچھ موجود تھا اور کذٰلک کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ذوالقرنین نے اس قوم سے بھی اسی طرح کا سلوک کیا جیسا مغربی قوم سے کیا تھا یعنی انھیں اسلام کی تعلیم اور دعوت دی جن لوگوں نے سرکشی کی ان کے ساتھ سختی کی گئی اور جنہوں نے فرماں برداری کی راہ اختیار کی ان سے نرمی کا سلوک کیا گیا۔ الكهف
92 الكهف
93 الكهف
94 [٧٦] ذوالقرنین کی تیسری مہم شمال کو۔ یاجوج ماجوج کون ہیں؟ ذوالقرنین کے تیسرے سفر کی سمت کا قرآن میں ذکر نہیں ہے تاہم قیاس یہی ہے کہ یہ شمالی جانب تھا اور شمالی جانب وہ قفقاز (کاکیشیا) کے پہاڑی علاقہ تک چلا گیا۔ ذوالقرنین اور اس کے ساتھی ان لوگوں کی زبان نہیں سمجھتے تھے اور وہ ان کی زبان نہیں سمجھتے تھے۔ ایسی صورتوں میں کسی ترجمان کی وساطت سے ہی بات چیت ہوئی ہوگی یا بسا اوقات اشاروں سے بھی مطلب سمجھایا جاسکتا ہے اور مسلم مؤرخین کے بیان کے مطابق یاجوج ماجوج سے مراد وہ انتہائی شمال مشرقی علاقہ کی وحشی اقوام ہیں جو انہی دروں کے راستوں سے یورپ اور ایشیا کی مہذب اقوام پر حملہ آور ہوتی رہی ہیں اور جنہیں مؤرخین سیدنا نوح علیہ السلام کے بیٹے یافث کی اولاد قرار دیتے ہیں۔ ان لوگوں نے ذوالقرنین کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر یہ التجا کی کہ ہمیں یاجوج ماجوج حملہ کرکے ہر وقت پریشان کرتے رہتے ہیں اگر ممکن ہو تو ان دو گھاٹیوں کے درمیان جو درے ہیں انھیں پاٹ دیجئے اور اس سلسلہ میں جو لاگت آئے وہ ہم دینے کو تیار ہیں یا اس کے عوض ہم پر کوئی ٹیکس لگا دیجئے وہ ہم ادا کرتے رہیں گے۔ الكهف
95 [٧٧] چنانچہ ذوالقرنین نے ان کی اس درخواست کو منظور کرلیا اور کہا تمہاری مالی امداد کی مجھے ضرورت نہیں اللہ کا دیا ہوا بہت کچھ موجود ہے البتہ لیبر یا مزدور تم مہیا کر دو تو میں ایسی دیوار بنوادوں گا۔ علاوہ ازیں مجھے کچھ لوہے کی چادریں اور دوسرا سامان تعمیر مہیا کرنا تمہاری ذمہ داری ہوگی۔ الكهف
96 [٧٨] سد ذوالقرنین :۔ پہلے لوہے کے بڑے بڑے تختوں کی اوپر نیچے تہیں جمائی گئیں جب ان کی بلندی دونوں طرف کی گھاٹیوں تک پہنچ گئی تو لوگوں کو حکم دیا کہ خوب آگ دھونکو اور اس کام کے لیے لکڑی اور کوئلہ کو استعمال میں لایا گیا جب لوہا آگ کی طرح سرخ ہوگیا تو پگھلا ہوا تانبہ اوپر سے ڈالا گیا جو لوہے کی چادروں کی درزوں میں جم کر پیوست ہوگیا اور یہ سب کچھ مل کر پہاڑ سا بن گیا بظاہر ایسی دیوار کی تعمیر ایک حیران کن اور بالخصوص اس دور میں ایک خرق عادت واقعہ معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اگر ہم اہرام مصر اور ان کے دور تعمیر کی طرف نظر کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں ایسے ایسے آلات تعمیر پائے جاتے تھے جن کا آج تصور بھی نہیں ہوسکتا۔ الكهف
97 [٧٩] بعض روایات کے مطابق یہ دیوار پچاس میل لمبی ٢٩ فٹ اونچی اور ١٠ فٹ چوڑی تھی اور اس دیوار کا فائدہ تو اسی صورت میں ہوسکتا تھا کہ اس کی بلندی بھی کم از کم دونوں اطراف کی بلندی کے برابر تو ہو۔ اتنی بلندی کی وجہ سے اس کے اوپر چڑھا بھی نہیں جاسکتا تھا اور لوہے کی موٹی تعمیر شدہ دیوار ہونے کی وجہ سے اس میں شگاف بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ الكهف
98 [٨٠] جب یہ دیوار تعمیر ہوگئی تو ذوالقرنین نے اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا۔ جس نے یہ دیوار بنانے اور لوگوں کو آئے دن کی پریشانیوں سے نجات دلانے کی توفیق بخشی مگر ساتھ ہی لوگوں کو یہ بھی بتا دیا کہ یہ دیوار اگرچہ بہت مضبوط اور مستحکم ہے مگر یہ لازوال نہیں جو چیز بھی بنی ہے بالآخر فنا ہونے والی ہے جب تک اللہ کو منظور ہے قائم رہے گی اور ’’وعدے کے وقت‘‘ سے مراد یا تو اس دیوار کی تباہی کا وقت ہے یا اس سے مراد قیامت ہے جب کہ ہر چیز ہی فنا ہوجائے گی جیسا کہ اس کے بعد والی آیت سے اسی دوسرے مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔ [٨١] ذوالقرنین کے خصائل :۔ اس آیت پر ذوالقرنین کا ان لوگوں سے خطاب بھی ختم ہوجاتا ہے اور قصہ ذوالقرنین بھی۔ اس میں محض کفار مکہ کے سوال کا جواب ہی نہیں دیا گیا بلکہ یہ بتایا گیا ہے کہ ذوالقرنین ایک بہت بڑا فاتح اور شان و شوکت والا بادشاہ ہونے کے باوجود توحید اور آخرت کا قائل تھا۔ عدل و انصاف کے علاوہ فیاضی سے کام لیتا تھا۔ نرمی کا برتاؤ کرتا تھا تمہاری طرح کم ظرف نہ تھا کہ معمولی قسم کی سرداریاں پاکر اکڑے بیٹھے ہو اور دوسروں کو حقیر سمجھتے ہو۔ الكهف
99 [٨٢] اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جب دیوار ذوالقرنین پیوند خاک ہوجائے گی تو یاجوج ماجوج سمندر کی موجوں کی طرح بے شمار تعداد میں ٹھاٹھیں مارتے ہوئے نکلیں گے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن نفخہ صور ثانی ہوگا تو لوگ اپنی قبروں سے اٹھ کر موجوں کی طرح ایک دوسرے میں گھس جائیں گے اس کے بعد سب اللہ کے سامنے میدان حشر میں اکٹھے کیے جائیں گے۔ الكهف
100 الكهف
101 [٨٣] یعنی جس مقصد حقیقی کے لیے اللہ تعالیٰ نے انھیں آنکھیں اور کان عطا کیے تھے۔ اس کے لیے ان لوگوں نے ان اعضاء سے کوئی کام نہ لیا اور وہ مقصد یہ تھا کہ آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کا مشاہدہ کریں اور حق بات سننے کے لیے ان کے کان ہر وقت آمادہ ہوں۔ الكهف
102 [٨٤] یہاں کچھ عبارت محذوف ہے جسے مخاطب کے فہم پر چھوڑ دیا گیا ہے یعنی کافروں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو کارساز بنا لیں تو وہ انھیں اللہ کی گرفت سے بچا سکیں گے بات یوں نہیں بلکہ ہم ایسے کافروں کی جہنم کی آگ سے مہمانی کریں گے جو ان کے وہاں پہنچتے ہی انھیں مل جائے گی۔ دوسری قابل غور بات یہ ہے اس آیت میں عبادی کے لفظ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس سے ایسے کارساز مراد ہیں جو ذوی العقول ہوں جیسے فرشتے، جن، نیک یا بد ارواح، فوت شدہ انسان، پیغمبر یا پیران طریقت اور اصطلاحی اولیاء اللہ وغیرہم۔ کیونکہ بے جان اشیاء مثلاً بتوں اور حجرو شجر وغیرہ پر لفظ عبد کا اطلاق نہیں ہوتا۔ الكهف
103 الكهف
104 الكهف
105 [٨٥] کافروں کے نیک اعمال کے لئے ترازو کیوں نہ رکھا جائے گا ؟ یعنی دنیا کے حصول میں ایسے منہمک رہے کہ اللہ کبھی بھولے سے بھی یاد نہ آیا اور نہ ہی آخرت کے لیے کوئی نیکی کا کام کیا ایسے لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے انہوں نے دنیا میں اگر کچھ نیک کام کیے بھی ہوں گے تو انھیں اس کا کچھ بدلہ نہیں ملے گا اس لیے کہ انہوں نے یہ نیک کام آخرت کے لیے نہیں کیے تھے بلکہ دنیا کے لیے کیے تھے تو دنیا میں انھیں ان کا بدلہ مل گیا۔ مثلاً کسی نے کوئی تعلیمی درس گاہ یا ہسپتال کھولا تو اس سے اس کا مفاد یا تو قومی مفاد تھا یا اپنی شہرت وغیرہ۔ تو یہ مفاد انھیں دنیا میں ہی مل گئے۔ ایسی عمارتوں پر ان کا نام کندہ ہوگیا مرنے کے بعد بھی ان کا نام زندہ رہا۔ لوگوں میں ان کی نیک نامی کی شہرت ہوچکی لہٰذا آخرت میں انھیں کچھ اجر نہیں ملے گا۔ رہ گیا ان کا کفر اور ان کے برے اعمال تو صرف ان کو تولنے کا کچھ فائدہ ہی نہیں، فائدہ تو تب ہوسکتا ہے جب دوسرے پلڑے میں بھی کچھ وزن ہو اگر ایک پلڑا یکسر خالی ہو تو تولا کیا جائے؟ پھر ان کے کفر اور برے اعمال کی وجہ سے انھیں جہنم رسید کیا جائے گا اور وہ سب سے زیادہ گھاٹے والے اس لحاظ سے رہے کہ دنیا میں وہ نیک اعمال بھی کرتے رہے اور سمجھتے رہے کہ ہم بہت اچھے کام کر رہے ہیں مگر آخرت پر ایمان نہ رکھنے کی بنا پر وہ انھیں لوگوں میں شامل ہوجائیں گے جنہوں نے اپنی ساری عمر بدکرداریوں میں گزاری تھی اور نیکی کے کام کیے ہی نہ تھے۔ الكهف
106 [٨٦] آخرت کا انکار حقیقتاً اللہ کا انکار ہے اس آیت سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص اللہ کی ہستی کا قائل بھی ہو مگر آخرت کا قائل نہ ہو تو اس کے مکمل کافر ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ کیونکہ اگر اللہ کے حضور جواب دہی کا تصور ہی نہ ہو تو انسان کبھی راہ راست پر نہ آسکتا ہے اور نہ ہی آنے کی کوشش کرتا ہے اور یہی چیز اس کا اللہ کی آیات اور اس کے رسولوں سے مذاق کا مصداق بن جاتا ہے اور نہ ہی وہ اللہ کے ان احکام کی کوئی پروا کرتا ہے جو انسان کو راہ مستقیم پر رکھنے والے ہیں۔ الكهف
107 [٨٧] جنت کے سب سے اعلیٰ اور بلند تر درجہ کا نام جنت الفردوس ہے جس کے باغات کے درخت گھنے، پربہار اور خوش منظر ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے فرمایا کہ جب کبھی اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تو جنت الفردوس کا سوال کیا کرو۔ (بخاری، کتاب الجہاد، باب درجات المجاہدین فی سبیل اللہ) الكهف
108 [٨٨] یعنی رہائش کے لحاظ سے جنت الفردوس اتنی پسند آئے گی کہ وہ اس کے علاوہ کسی اور جگہ منتقل ہونا قطعاً گوارا نہ کریں گے۔ الكهف
109 [٨٩] اللہ کے کلمات سے کیا مراد ہے؟ کلمات سے مراد اللہ تعالیٰ کے کارنامے، کمالات اور عجائبات قدرت ہیں اور یہ لامتناہی اور بے حدد حساب ہیں جن میں ہر آن مزید وسعت بھی ہوتی رہتی ہے اور سمندر یا سمندروں کا پانی خواہ کتنا ہی کثیر مقدار میں ہو بہرحال اس کی ایک حد ہے اور ایک محدود چیز کا لامحدود چیز سے کیا مقابلہ ہوسکتا ہے لہٰذا سمندروں کی سیاہی تو ختم ہوسکتی ہے لیکن اللہ کے کلمات ختم نہیں ہوسکتے۔ الكهف
110 [٩٠] کفار کا یہ اعتراض اور اس کا جواب متعدد بار پہلے بھی گزر چکا ہے یعنی میں بھی تمہاری ہی طرح ایک انسان ہوں، کھاتا ہوں، پیتا ہوں، چلتا ہوں، نکاح اور شادیاں کرتا ہوں البتہ یہ فرق ضرور ہے کہ میں اللہ کا رسول بھی ہوں، یہ جواب تو ان لوگوں کو تھا جو آپ کو رسول نہیں مانتے تھے اور جو جانتے تھے (یعنی صحابہ کرام) ان کے سامنے بھی آپ نے متعدد بار انسان ہونے کے ناطے سے بشری کمزوریوں کا اعتراف فرمایا تھا جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے۔ ١۔ آپ کا صحابہ کرام کے سامنے بشر ہونے کا کئی باراعتراف اقرار :۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی تو اس میں کچھ کمی بیشی کردی جب سلام پھیرا تو لوگوں نے عرض کیا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے متعلق کوئی نیا حکم آیا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ’’کیوں کیا بات ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا ’’آپ نے اتنی رکعت پڑھی ہیں“یہ سن کر آپ الٹے پاؤں پھرے قبلہ کی طرف منہ کیا (سہو کے) دو سجدے کیے پھر سلام پھیرا پھر ہماری طرف منہ کرکے فرمایا: ’’اگر نماز کے بارے میں کوئی نیا حکم آتا تو میں ضرور تمہیں بتا دیتا لیکن بات یہ ہے کہ میں بھی تمہاری طرح آدمی ہوں جیسے تم بھول جاتے ہو میں بھی بھول جاتا ہوں تو جب میں بھولوں مجھے یاد دلا دیا کرو اور جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک پڑجائے تو اپنے ظن غالب کے مطابق اپنی نماز پوری کرے پھر سلام پھیرے اور سہو کے دو سجدے کر لے‘‘ (بخاری، کتاب الصلوۃ۔ باب التوجہ نحو القبلۃ) ٢۔ ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ میں بھی ایک بشر ہی ہوں اور تم آپس میں جھگڑتے ہوئے میرے پاس آتے ہو اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ تم میں سے ایک فریق دلائل دینے میں دوسرے سے زیادہ چرب زبان ہوتا ہے اور میں اس کے دلائل سن کر اسی کے حق میں فیصلہ کردیتا ہوں۔ اب اگر میں کسی فریق کو اس کے بھائی کا کچھ حق دلا دوں تو یاد رکھو میں اسے آگ کا ایک ٹکڑا دلا رہا ہوں‘‘ (بخاری، کتاب الاحکام۔ باب موعظۃ الامام للخصوم) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ کو علم غیب نہیں تھا جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے۔ ٣۔ سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو اس وقت لوگ کھجور میں پیوند لگاتے تھے آپ نے پوچھا : ’’یہ کیا کرتے ہو؟‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جواب دیا: ’’ہم تو ایسا ہی کیا کرتے ہیں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اگر تم یہ کام نہ کرو تو شاید بہتر ہوگا‘‘ لوگوں نے پیوند لگانا چھوڑ دیا تو کھجور پھل کم لائی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میں بھی ایک بشر ہی ہوں جب میں تمہیں تمہارے دین کی کسی بات کا حکم دوں تو اس پر عمل کرو اور جب میں کوئی بات اپنی رائے سے کہوں تو میں بھی آخر آدمی ہی ہوں‘‘ (یعنی مجھ سے بھی غلطی ہوسکتی ہے) (مسلم۔ کتاب الفضائل باب وجوب امتثال ماقالہ، دون ما ذکرہ، من معائش الدنیا علی سبیل الرای) آپ کی شان میں افراط وتفریط کا شکار ہونے والے حضرات :۔ یہ احادیث ہمیں اس لیے درج کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت افراط و تفریط کا شکار ہوگئی کچھ لوگ تو اس بات پر مصر ہیں کہ آپ بشر تھے ہی نہیں بلکہ نور تھے یہ احادیث انھیں کو سمجھانے اور ان پر حجت کے طور پر درج کی گئی ہیں۔ دوسرا فریق جو تفریط کا شکار ہوا تو وہ آپ کو ایک عام انسان کی سطح پر لے آیا اور دلیل یہ دی کہ انما کلمہ حصر ہے حالانکہ انما محض الوہیت اور عبودیت میں امتیاز کا فائدہ دے رہا ہے یعنی رسول اللہ میں الوہیت کا کچھ بھی حصہ نہیں اس سے کمالات نبوت کی نفی مراد نہیں۔ بخاری میں علامات النبوۃ فی الاسلام کے عنوان کے تحت آپ کے سینکڑوں معجزات مذکور ہیں لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عام انسانوں جیسا ایک معمولی انسان سمجھنا انتہائی گستاخی اور سخت نادانی ہے۔ [٩١] یعنی جو شخص اللہ سے ملاقات کا شوق رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ ملاقات خوشگوار رہے اسے اللہ سے ڈرتے ہوئے نیک اعمال بجا لاتے رہنا چاہیے مگر اس شرط کے ساتھ کہ اللہ کی عبادت میں شرک کا شائبہ تک نہ ہو ایک تو خالصتاً اسی کی عبادت کرے دوسرے اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت، اس کی تعظیم اور اس سے دعا کے جو طریقے مشروع ہیں وہ کسی دوسرے کے لیے بجا نہ لائے۔ الكهف
0 [١] اس سورۃ کا نام مریم اس لئے ہے کہ اس میں سیدہ مریم کے حالات کا تفصیلی ذکر آیا ہے اور یہی ایک خاتون ہیں جن کا قرآن میں نام مذکور ہے اور کم از کم تیس مقامات پر ان کا نام آیا ہے۔ [٢] ہجرت حبشہ :۔ یہ سورت مکہ میں ہجرت حبشہ یعنی ٥ نبوی سے پیشتر نازل ہوئی تھی۔ قریش کے ناروا مظالم اور سختیوں میں مسلمان پس رہے تھے اور کوئی غلام تھا یا آزاد، کمزور تھا یا قوی سب مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا۔ بالآخر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ وہاں کا عیسائی بادشاہ جسے مسلمان نجاشی کہتے تھے۔ اپنے عدل کی وجہ سے مشہور تھا اور حبشہ کی طرف ہجرت کا ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ وہاں تبلیغ کے لئے میدان کھلا تھا۔ چنانچہ پہلی دفعہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی سر کردگی میں جو وفد حبشہ کو روانہ ہوا اس میں گیارہ مرد اور چار عورتیں شامل تھیں۔ ان عورتوں میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی بیوی یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی رقیہ بھی شامل تھیں۔ اسی موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بعد یہ پہلا جوڑا ہے جو اللہ کی راہ میں ہجرت کے لئے نکلا‘‘ رفتہ رفتہ ان مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا۔ چند ہی ماہ میں ٨٣ مرد اور ١١ عورتیں حبشہ کو منتقل ہوگئے جن میں سات غیر قریشی مسلمان بھی تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مکہ میں صرف ٤٠ آدمی رہ گئے۔ اس صورت حال نے کفار مکہ کو سخت بے چین کردیا۔ کیونکہ ہجرت کرنے والے تقریبا ً سب ہی کسی نہ کسی گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ کسی کا بیٹا، کسی کا داماد، کسی کی بیٹی، کسی کی بہن وغیرہ تھے۔ اس صدمہ سے متاثر ہو کر کچھ لوگ تو مسلمان ہوئے اور زیادہ تعداد ان لوگوں کی تھی جنہوں نے مسلمانوں پر سختیوں میں مزید اضافہ کردیا۔ ایک تجویز طے ہوئی کہ جیسے بھی بن پڑے مہاجرین حبشہ کو یہاں واپس مکہ لایا جائے۔ ہجرت حبشہ اور قریشی وفد کی ناکامی :۔ اس غرض کے لئے دو ماہرین سفارت عبداللہ بن ابی ربیعہ (ابوجہل کا ماں جایا بھائی) اور عمرو بن عاص (فاتح مصر، جو ابھی تک اسلام نہ لائے تھے) کا انتخاب کیا گیا۔ یہ دونوں بادشاہ اور پادریوں کے لئے تحفے تحائف لے کر حبشہ پہنچے۔ پہلے پادریوں سے ملے اور انھیں تحفے تحائف دے کر اس بات پر آمادہ کرلیا کہ جب ہم بادشاہ کے سامنے اپنی عرضداشت پیش کریں تو وہ ان کی ہاں میں ہاں ملا دیں۔ چنانچہ دوسرے دن اس وفد نے بادشاہ کے سامنے حاضر ہو کر نذرانے پیش کرنے کے بعد عرض کی کہ ہمارے چند مجرموں نے مکہ سے بھاگ کر آپ کے ہاں پناہ لی ہے۔ وہ ہمیں واپس کردیئے جائیں۔ ساتھ ہی رشوت خور درباریوں اور پادریوں نے ہاں میں ہاں ملا دی۔ مگر نجاشی انصاف پسند انسان تھا۔ ان کی باتوں میں نہ آیا اور کہہ دیا کہ جب تک میں ان لوگوں کی بات نہ سن لوں ان کی واپسی کا کیسے حکم دے سکتا ہوں۔ چنانچہ مسلمانوں کو بلایا گیا اور ان سے صورت حال دریافت کی گئی۔ مسلمانوں نے سیدنا جعفر طیار رضی اللہ عنہ کو اپنا نمائندہ یا ترجمان مقرر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ہم فلاں فلاں قسم کی گمراہیوں میں مبتلا تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے درمیان نبی مبعوث کیا جس پر ہم ایمان لے آئے تو یہ لوگ ہاتھ دھو کر ہمارے پیچھے پڑگئے۔ انہی لوگوں کے ظلم و ستم سے تنگ آکر ہم نے آپ کے ملک میں پناہ لی ہے۔ نجاشی کہنے لگا : تمہارے نبی پر جو کلام نازل ہوا ہے۔ اس کا کچھ حصہ تو سناؤ چنانچہ سیدنا جعفر طیاررضی اللہ عنہ نے اسی سورۃ مریم کی ابتدائی آیات تلاوت فرمائیں جن میں سیدنا زکریا اور سیدہ مریم کا ذکر ہے۔ یہ کلام سن کر نجاشی پر رقت طاری ہوگئی۔ سنتا جاتا تھا اور روتا جاتا تھا حتیٰ کہ اس کی داڑھی تر ہوگئی اور جب سیدنا جعفر طیار نے تلاوت ختم کی تو کہنے لگا : یہ کلام اور وہ کلام جو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا دونوں ایک ہی منبع سے پھوٹے ہیں۔ واللہ! میں ان لوگوں کو تمہارے حوالہ نہ کروں گا۔ نجاشی کے انکار پر قریشی وفد سخت مایوس ہوگیا اور موجودہ صورتحال پر غور کرنے کے لئے سر جوڑ بیٹھے۔ عمرو بن عاص یکدم پکار اٹھا کہ بادشاہ سے دوبارہ ملاقات کی جائے میں کل ایسی بات پیش کروں گا جس سے یقینا ً ہم کامیاب ہوں گے۔ چنانچہ دوسرے دن عمرو بن عاص نے رسائی حاصل کرکے بادشاہ سے کہا : حضور آپ کو یہ بھی علم ہے کہ یہ لوگ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق کیا اعتقاد رکھتے ہیں؟ بادشاہ نے اس سوال کے جواب کے لئے دوبارہ مسلمانوں کو بلا بھیجا۔ انھیں بھی اس بات کی خبر ہوگئی تھی۔ بہرحال انہوں نے یہ طے کرلیا کہ حالات جیسے بھی پیش آئیں ہمیں سچی بات ہی کہنا چاہئے اور جب نجاشی نے یہ سوال کیا تو سیدنا جعفر طیار کہنے لگے کہ ’’ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بندے، اس کے رسول، روح اللہ اور کلمۃ اللہ تھے‘‘ یہ جواب سن کر نجاشی نے ایک تنکا اٹھایا اور کہا : ’’واللہ! جو کچھ تم نے کہا : عیسیٰ علیہ السلام اس تنکے کے برابر بھی اس سے زیادہ نہیں ہیں‘‘ نجاشی کے اس تبصرہ پر درباری لوگ برہم ہوئے مگر نجاشی نے اس کی کچھ پروا نہ کی۔ قریشی سفارت مکمل طور پر ناکام ہوگئی۔ نجاشی نے ان کے تحائف انھیں واپس کردیئے اور مسلمانوں کو امن و اطمینان سے اس ملک میں رہنے کی اجازت دے دی۔ مريم
1 مريم
2 [٣] سیدنا زکریا اور یحییٰ علیہما السلام نیز سیدہ مریم اور عیسیٰ علیہما السلام کے واقعات پہلے سورۃ آل عمران کے رکوع نمبر ٣ اور ٤ میں گزر چکے ہیں۔ ان کے حواشی بھی مدنظر رکھے جائیں۔ سیدنا یحییٰ اور سیدنا عیسیٰ علیہما السلام دونوں کی پیدائش خرق عادت کے طور پر ہوئی تھی۔ مگر چونکہ سیدنا یحییٰ کی پیدائش نسبتا ً کم خرق عادت ہے۔ اس لئے اسے بطور تمہید پہلے ذکر کیا گیا ہے۔ مريم
3 [٤] اس کے کئی مفہوم ہوسکتے ہیں۔ مثلا ً رات کی نماز تہجد میں جب انسان کو کوئی دیکھ نہیں رہا ہوتا اور وہ بڑی دلجمعی اور سکون کے ساتھ اپنے پروردگار کو پکارتا ہے۔ دوسرا مطلب یہ کہ بڑھاپے اور مایوسی کی عمر میں ایسی بات کی درخواست کی کہ اگر دوسرے لوگ سن لیں تو مذاق اڑائیں۔ اس لئے آہستہ آواز سے دعا کی۔ تیسرے یہ کہ جب سیدہ مریم کے پاس بے موسم میوے دیکھے تو دل ہی دل میں اللہ کو پکارنے لگے۔ مريم
4 [٥] اشتعل الرأس کا لفظی معنی سر کا شعلہ مارنا ہے مگر یہ بطور محاورہ استعمال ہوا ہے اور یہ اس وقت استعمال ہوتا ہے جب بڑھاپے کی وجہ سے سر کے بال سفید اور چمکدار ہونے لگیں۔ [٦] اس کا ایک مطلب تو وہ ہے جو ترجمہ میں مذکور ہوا۔ یعنی جب بھی میں نے تجھ سے دعا کی وہ ہمیشہ قبول ہوتی رہی اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اے پروردگار جب بھی تو نے مجھے کسی کام کے کرنے کے لئے پکارا تو میں ہمیشہ بجا لاتا رہا اور کبھی شقی ثابت نہیں ہوا۔ مريم
5 [٧] سیدنا زکریا کی بیٹے کے لئے دعا کرنا :۔ یعنی لڑکا طلب کرنے سے میری اصل غرض یہ ہے کہ وہ میرا صحیح جانشین ثابت ہو۔ کیونکہ دوسرے میرے بھائی بند جو مجھے نظر آرہے ہیں ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو میرے بعد دعوت دین اور تبلیغ کے کام کو سنبھال سکے۔ مريم
6 [٨] علماء انبیاء کے وارث ہیں :۔ یہاں وراثت سے مراد علم دین کی وراثت ہے۔ کیونکہ انبیاء کی یہی وراثت ہوتی ہے۔ جیسا کہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ”ان العلماء ھم ورثۃ الانبیاء“ (بخاری، کتاب العلم، باب العلم قبل القول والعمل) ’’یعنی علماء حضرات ہی انبیاء کے وارث ہوتے ہیں‘‘ پھر میرے اس لڑکے کو اپنا پسندیدہ بھی بنایا اس کا یہ مطلب ہے کہ اس کے اخلاق و کردار اس قدر پاکیزہ ہوں کہ وہ سب لوگوں کی نظر میں مقبول و محبوب اور پسندیدہ ہو۔ مريم
7 [٩] یحییٰ اللہ کا اپنا تجویز کردہ نام :۔ اللہ تعالیٰ نے دعا قبول کرکے بیٹے کی بشارت دی تو ساتھ ہی نام بھی خود ہی تجویز فرما دیا اور نام بھی ایسا انوکھا کہ پہلے کسی آدمی کا یہ نام نہیں رکھا گیا تھا۔ یحییٰ: دعائیہ نام ہے یعنی اللہ کرے تادیر زندہ رہے۔ جیسے ہمارے ہاں جیونا یا جیونی نام رکھتے ہیں اور عرب میں عائش اور عائشہ، نیز اسم بمعنی صفت بھی ہوسکتا ہے جیسے وللّٰہ الاسماء الحسنیٰ کے معنی’’ اللہ کے بہترین نام‘‘ بھی ہوسکتے ہیں اور ”بہترین صفات“بھی، اس لحاظ سے اس کا معنی یہ ہوگا کہ ایسی اچھی سیرت والاآدمی پہلے کوئی نہیں ہوا۔ مريم
8 [١٠] سیدنا زکریا علیہ السلام کے تعجب کی وجہ :۔ یعنی جب دعا کی تھی اس وقت تو تعجب نہ ہوا اور جب قبول ہوگئی اور بشارت ملی تو تعجب کرنے لگے۔ اور یہ تعجب اس لئے نہ تھا کہ آپ کو اللہ کی قدرت میں شک تھا ورنہ ایسی دعا ہی نہ کرتے بلکہ یہ تعجب اس فطری داعیہ کی بنا پر تھا کہ انسان کی عادت ہے کہ جب وہ کوئی غیر معمولی خوشخبری سنے تو مزید اطمینان اور مزید خوشی کے حصول کے لئے اس بات کو کرید کرید کر بار بار پوچھتا ہے۔ مريم
9 [١١] یہاں خلقتک سے مراد سیدنا زکریا علیہ السلام بھی ہوسکتے ہیں اور سیدنا آدم علیہ السلام بھی۔ دونوں صورتوں میں اس واقعہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی حیران کن قدرت کاملہ کا اظہار ہوتا ہے نیز یہاں تو پھر وسائل (یعنی سیدنا زکریا اور ان کی بیوی) موجود ہیں۔ ان کی زائل شدہ قوتوں کو از سر نو زندہ یا بحال کردینا اللہ کے لئے کچھ مشکل نہیں۔ مريم
10 [١٢] سیدنا زکریا علیہ السلام کا حمل کی علامت پوچھنا :۔ یعنی ایسی نشانی جس سے معلوم ہوجائے کہ اب حمل قرار پا گیا ہے۔ چنانچہ علامت یہ بتائی گئی کہ تمہاری قوت گویائی بحال رہنے کے باوجود تم لوگوں سے بات چیت نہ کرسکو گے البتہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لئے زبان چلتی رہے گی۔ چنانچہ جب وہ وقت آگیا تو آپ ہر وقت ذکر الٰہی میں مشغول رہنے لگے۔ اور دوسروں کو اشارہ سے تاکید کردی کہ ہر وقت اللہ کی یاد میں مشغول رہیں اور اللہ کا شکر ادا کرنے میں ان کے ساتھ شریک ہوں۔ مريم
11 مريم
12 [١٣] سیدنا یحییٰ علیہ السلام کے اوصاف :۔ یعنی اللہ کی کتاب کو خود بھی سیکھو دوسروں کو بھی سکھاؤ۔ اس کے احکام پر خود بھی پوری طرح عمل کرو دوسروں کو بھی اس کی دعوت دو۔ یہی وہ مشن تھا جس کے لئے سیدنا زکریا علیہ السلام نے دعا کی تھی۔ چنانچہ اللہ نے سیدنا یحییٰ کو سن رشد پر پہنچتے ہی منصب نبوت پر سرفراز فرما کر یہ حکم دے دیا تھا۔ اور ساتھ ہی قوت فیصلہ، قوت اجتہاد، تفقہ فی الدین، معاملات میں صحیح رائے قائم کرنے کی صلاحیت اور معاملات میں فیصلہ کرنے کا اختیار بھی دے دیا گیا۔ مريم
13 [١٤] حنانا سے مراد مہربانی، شفقت اور محبت کی وہ قسم ہے جو ماں کو اپنے بچہ سے ہوتی ہے۔ یعنی سیدنا یحیی علیہ السلام لوگوں کے حق میں اس قدر ہمدرد، غمگسار اور نرم دل تھے جیسے ماں اپنی اولاد کے حق میں ہوتی ہے۔ پاکیزہ اخلاق کے مالک اور ہر وقت اللہ سے ڈرتے رہتے تھے۔ حدیث میں ہے کہ سیدنا یحییٰ علیہ السلام نے نہ کبھی کوئی گناہ کا کام کیا اور نہ گناہ کا ارادہ کیا اور اللہ کے ڈر سے روتے رہنے کی وجہ سے ان کے رخساروں پر نشان پڑگئے تھے۔ مريم
14 [١٥] بڑھاپے کی اولاد، اور بالخصوص ایسی اولاد جو اللہ سے دعائیں مانگ مانگ کر حاصل ہو، کے عادات و اطوار ماں باپ کے زیادہ لاڈ پیار کی وجہ سے اچھے نہیں ہوتے لیکن یحییٰ علیہ السلام میں ایسی کوئی بات نہ تھی۔ وہ ماں باپ کے انتہائی فرمانبردار، ان سے بہتر سے بہتر سلوک کرنے والے تھے۔ نافرمانی یا سرکشی کی ان میں بو تک نہ تھی۔ مريم
15 [١٦] انسان پر تین ہی مشکل گھڑیاں پیش آتی ہیں۔ جو بہرحال مشکل ہوتی ہیں۔ ایک پیدائش کا وقت اس کے اپنے آپ پر اور اس کی ماں پر۔ دوسرے موت کا وقت اور تیسرے بعث الموت کا وقت گویا اللہ تعالیٰ کی نظروں میں بھی وہ اس قدر پسندیدہ تھے کہ اس دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی کوئی وقت ایسا نہیں آیا یا نہیں آئے گا جبکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر سلامتی نازل نہ ہوتی ہو۔ مريم
16 مريم
17 [١٧] سیدہ مریم کی بیت المقدس کے حجرہ میں عبادت :۔ سیدنا یحییٰ علیہ السلام کی خرق عادت پیدائش کے بعد اب سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی معجزانہ بغیر باپ پیدائش کا آغاز ہو رہا ہے۔ سیدہ مریم علیہ السلام بیت المقدس کے مشرقی جانب کے ایک حجرہ میں گوشہ نشین ہو کر اللہ کی عبادت میں مشغول رہا کرتیں۔ پھر اس کمرہ میں بھی ایک پردہ ڈال لیا تاکہ دوسرے لوگوں سے بھی الگ تھلگ رہ کر پوری یکسوئی سے ذکر و فکر میں مشغول رہ سکیں اور اس کا دوسرا مطلب یہ لیا گیا ہے کہ جب جوان ہوئیں تو انھیں حیض آگیا اور بہت زیادہ شرم محسوس ہوئی تو اس وقت سب لوگوں سے پردہ کرلیا۔ پھر اسی علیحدگی میں غسل حیض بھی کیا۔ [١٨] یہاں روح سے مراد فرشتہ ہے۔ سیدنا جبریل علیہ السلام ایک نوجوان اور خوبصورت مرد کی شکل میں اسی پردہ کے مقام پر نمودار ہوگئے اور فرشتے جب انسانی شکل میں نبیوں یا برگزیدہ ہستیوں کے پاس آتے ہیں تو عموما خوش منظر صورتوں میں ہی آتے ہیں۔ مريم
18 [١٩] سیدہ مریم اور جبرئیل کا مکالمہ :۔ یہ صورت حال دیکھ کر سیدہ مریم سخت خوفزدہ ہوگئیں اور ان کے لئے یہ انتہائی نازک وقت تھا۔ خود بھی نوجوان تھیں، سامنے نوجوان اور خوش شکل مرد کھڑا تھا۔ تنہائی تھی، کوئی دوسرا پاس موجود بھی نہ تھا۔ نووارد کا نورانی چہرہ دیکھ کر اندازہ کیا کہ آدمی تو کوئی پرہیزگار ہی معلوم ہوتا ہے۔ لہٰذا اسے اللہ کا واسطہ دے کر کہا کہ میں تیری طرف سے رحمٰن کی پناہ میں آتی ہوں۔ یعنی اس بات سے کہ تو مجھ پر کسی قسم کی دست درازی کرے۔ مريم
19 [٢٠] فرشتے نے جواب دیا۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ اگر میرے متعلق کوئی برا خیال آیا ہے تو اسے نکال دو۔ میں آدمی نہیں بلکہ تمہارے پروردگار کا فرستادہ فرشتہ ہوں اور اس لئے آیا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تجھے ایک پاکیزہ لڑکا عطاکروں۔ یہاں جبریل علیہ السلام نے لڑکا عطا کرنے کی نسبت جو اپنی طرف کی ہے تو اس سے یہ شبہ نہ ہونا چاہئے کہ فرشتے اللہ کے شریک ہیں اور اللہ نے انھیں کچھ اختیارات تفویض کر رکھے ہیں جیسا کہ مشرکین سمجھتے ہیں یا مشرکین مکہ سمجھتے تھے۔ کیونکہ یہاں ساتھ ہی یہ وضاحت موجود ہے کہ’’میں تیرے پروردگار کا فرستادہ ہوں‘‘ یعنی اس کام پر مامور ہوا ہوں۔ مجھے اس کام کا حکم دیا گیا ہے۔ گویا مدبرات امرکام کی نسبت کبھی براہ راست اللہ کی طرف کرتے ہیں، کبھی اپنی طرف اور جب اپنی طرف کریں تو وہ بھی حقیقتا اللہ ہی کی طرف ہوتی ہے۔ جیسے اسی واقعہ کی نسبت ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف کرتے ہوئے فرمایا : ﴿فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رُّوْحِنَا ﴾(۱۲:۶۶) مريم
20 [٢١] یعنی سیدہ مریم کا پہلا خوف تو دور ہوگیا کہ یہ کوئی بدکار آدمی نہیں بلکہ اللہ کا فرستادہ فرشتہ ہے اب حیرت اس بات پر ہوئی کہ لڑکا ہو کیسے سکتا ہے؟ جب تک کسی مرد سے صحبت نہ ہو خواہ یہ بالجبر کی صورت میں ہو یا بالرضا کی صورت میں؟ اور یہ دونوں باتیں یہاں مفقود تھیں۔ مريم
21 [٢٢] سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش خود ایک معجزہ تھی :۔ یعنی ناممکن ہونے کے باوجود ممکن ہے اور ایسا ہوکے رہے گا کیونکہ اللہ کے لئے یہ کوئی مشکل کام نہیں۔ اور یہ اس لئے ہوگا کہ ہم اس لڑکے کو تمام لوگوں کے لئے ایک زندہ جاوید معجزہ بنا دیں۔ پھر یہ لڑکا ہماری طرف سے تمہارے لئے از راہ رحم و کرم عطیہ بھی ہے اور تمام لوگوں کے لئے بھی رحمت ثابت ہوگا۔ واضح رہے کہ تخلیق کے لئے چار ہی صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ ماں اور باپ دونوں سے پیدا ہو، یہ صورت عام ہے اور سب انسان یا جاندار ایسے ہی پیدا ہوئے ہیں۔ دوسری یہ کہ ماں اور باپ دونوں کے بغیر پیدا ہو۔ اس طرح سیدنا آدم کو پیدا کیا گیا۔ تیسری یہ کہ صرف مرد سے پیدا ہو۔ جیسے سیدہ حوا کو آدم سے پیدا کیا گیا۔ اور چوتھی یہ کہ صرف عورت سے پیدا ہو۔ یہ صورت ابھی تک وجود میں نہ آئی تھی جو سیدنا عیسیٰ کی پیدائش سے پوری ہوگئی۔ مريم
22 [٢٣] سیدہ مریم میں روح جبرئیل نے پھونکی تھی یا اللہ تعالیٰ نے ؟ روایات میں ہے کہ یہ کہہ کر سیدنا جبریل علیہ السلام نے سیدہ مریم کی قمیص کے گریبان میں روح پھونکی جسے سورۃ تحریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا : ﴿فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رُّوْحِنَا ﴾ یعنی یہ روح ہم نے پھونکی تھی۔ اسی سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ جبریل نے یہ کیوں کہا تھا ’’تاکہ میں تجھے ایک پاکیزہ لڑکا عطا کروں‘‘ اس نفخہ جبریل یا نفخہ الٰہی سے سیدہ مریم کو حمل قرار پا گیا۔ اسی وجہ سے آپ کو روح اللہ کہتے ہیں۔ حمل کی وجہ سے سیدہ مریم کا بیت المقدس سے چلے جانا :۔ جب آپ حاملہ ہوگئیں تو اب شرم کے مارے وہاں رہنا گوارا نہ کیا اور آپ بیت المقدس کا حجرہ چھوڑ کر دور کسی مقام پر چلی گئیں۔ کہتے ہیں کہ یہ مقام بیت اللحم تھا جو وہاں سے تقریبا آٹھ میل دور ہے۔ مريم
23 [٢٤] یعنی زچگی کے درد سے بے تاب ہو کر اٹھیں اور ایک کھجور کے تنے کا سہارا لیا۔ کیفیت یہ تھی ایک تو درد زہ کی شدت کی تکلیف، دوسرے تنہائی و بیکسی، تیسرے اشیائے خوردنی اور دیگر ضروریات کا فقدان۔ حتی ٰ کہ پانی تک موجود نہ تھا اور سب سے زیادہ پریشان کن بات آئندہ بدنامی اور رسوائی کا تصور تھا۔ اب سب باتوں سے آپ اس قدر پریشان ہوئیں کہ بے اختیار منہ سے یہ الفاظ نکل گئے۔ کاش میں آج سے پہلے ہی مرچکی ہوتی اور لوگوں کے حافظہ سے بھی اتر چکی ہوتی۔ جو حضرات معجزات کے منکر ہیں۔ وہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کو قرآنی تصریحات کے علی الرغم فطری پیدائش قرار دیتے ہیں اور اس سلسلہ میں انھیں اناجیل کی روایات قبول کرنے میں بھی کچھ باک نہیں ہوتا۔ پھر لطف کی بات یہ ہے کہ انجیل میں تو فقط سیدہ مریم کی یوسف نجار سے منگنی کا ذکر ہے مگر یہ حضرات باقاعدہ نکاح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور سیدہ مریم کے اس جملہ”کاش میں اس سے پہلے مرچکی ہوتی اور میرا نام و نشان بھی باقی نہ رہتا“ کی تعبیر یہ پیش کرتے ہیں کہ یہ جملہ انہوں نے درد زہ کی شدت کی وجہ سے کہا تھا۔ یہ تعبیر اس لحاظ سے غلط ہے کہ درد زہ ہر عورت کو ہوتی ہے اور ہر وضع حمل کے وقت ہوتی ہے۔ لیکن صرف اس درد کی بنا پر کسی عورت نے کبھی موت کی آرزو نہیں کی۔ بلکہ عورتیں ایسے موقعوں پر ہمیشہ یہ درد خوشی کے ساتھ برداشت کرتی ہیں بالخصوص اس صورت میں کہ بچہ بھی پہلونٹی کا ہو اور پھر اولاد بھی نرینہ ہو۔ لہٰذا منکرین معجزات یا نیچری حضرات کی یہ تاویل صرف اللہ کی آیات کا مذاق ہی نہیں بلکہ تجربہ کی کسوٹی پر بھی غلط ثابت ہوتی ہے۔ مريم
24 مريم
25 مريم
26 [٢٥] زچگی کے دوران خوردونوش کے لئے اللہ کی معجزانہ مدد :۔ جس کھجور کے درخت کے تنے سے سیدہ مریم نے سہارا لیا تھا وہ قدرے بلندی پر واقع تھا اس کے نیچے سے پھر اسی فرشتہ کی آواز سنائی دی جس نے لڑکے کی بشارت دی تھی اور جس کی بشارت شاید اس وقت سیدہ مریم بھول گئی تھیں۔ اور وہ آواز یہ تھی کہ ذرا نیچے تو دیکھو اللہ نے ٹھنڈے اور میٹھے پانی کا چشمہ جاری کردیا ہے یہ تمہارے پینے کے لئے ہے اور اسی کھجور کے تنے کو زور سے ہلاؤ تو تازہ پکی کھجوریں جھڑنے لگیں گی۔ یہ سیدہ مریم کے کھانے کا سامان کیا گیا اور یہ دونوں چیزیں معجزانہ طور پر پیدا کی گئی تھیں۔ جو اس حالت زچگی کے لئے ایک سادہ غذا بھی تھی اور مناسب و متوازن بھی۔ [٢٦] پیدائش کے وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے امداد کی صورتیں اور چپ کا روزہ :۔ اللہ کی مہربانی سے بچہ پیدا ہوگیا۔ فرشتہ کی آمد سے تنہائی میں کمی واقع ہوئی۔ کھانے پینے کا سامان بھی مہیا ہوگیا اور چوتھی اور سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ تھی کہ بدنامی سے بچاؤ کی کیا صورت ہو اور لوگ جو دیکھیں گے اور پوچھیں گے تو انھیں کیا جواب دیا جائے۔ اس کا علاج اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا اور فرشتے نے سیدہ مریم کو ہدایت کی کہ اگر کوئی آدمی دیکھے تو اس کو اشارہ سے یہ کہہ دینا کہ میں نے آج چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔ لہٰذا کسی آدمی سے بات کرنا مجھے منع ہے۔ واضح رہے کہ چپ کا روزہ پہلی امتوں میں مشروع تھا مگر شریعت محمدیہ میں مشروع نہیں۔ ایسے روزہ میں انسان ذکر اذکار اور اللہ سے دعا وغیرہ تو کرسکتا تھا، مگر لوگوں سے بات چیت نہیں کرسکتا تھا جیسا کہ سیدنا زکریا کو بھی سیدنا یحییٰ علیہ السلام کے حمل کی علامت ایسا ہی تین دن کا روزہ بتایا گیا تھا۔ ایسے روزہ میں فرشتوں سے بات چیت ممنوع نہیں تھی۔ مريم
27 [٢٧] یہود کی بہتان تراشیاں :۔ جس وجہ سے سیدہ مریم اس دور کے مکان میں جاگزیں ہوئی تھیں وہ تو پورا ہوچکا۔ اب وہ اسے اٹھائے ہوئے اور فرشتہ کی ہدایت کو پلے باندھے ہوئے اپنی قوم کے لوگوں کے ہاں آگئیں۔ اس امید پر کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے پہلے بروقت مدد فرمائی ہے اب بھی کوئی راہ نکال دے گا۔ جب وہ اپنے لوگوں کے پاس بچہ کو اٹھائے ہوئے پہنچیں تو انہوں نے بچہ کو دیکھ کر بغیر کچھ پوچھے ہی طعن و ملامت شروع کردی اور آسمان سر پر اٹھا لیا اور کہا کہ ہارون جیسے پاکیزہ خاندان کی اولاد ہوتے ہوئے یہ تو نے کیا گل کھلا دیا تم نے ہمارے پورے خاندان کی ناک کٹوا دی اور ہماری عزت خاک میں ملا دی۔ غرض بھانت بھانت کی بولیاں بولی جارہی تھیں۔ کسی نے کہا کہ تمہاری ماں (عمران کی بیوی) بھی ایک پاک باز اور عفیفہ عورت تھی اور باپ (عمران) بھی بڑا شریف آدمی تھا۔ پھر تجھ میں یہ بری خصلت کہاں سے آگئی؟ غرض جتنے منہ اتنی باتیں ہوتی رہیں اور سیدہ مریم خاموشی اور تحمل سے یہ باتیں سنتی رہیں اور یہ باتیں کچھ غیر متوقع بھی نہ تھیں۔ سیدہ مریم ہارون کی بہن کیسے تھیں؟ کہتے ہیں کہ سیدہ مریم کے ایک بھائی کا نام بھی ہارون تھا۔ اسی وجہ سے لوگوں نے سیدہ مریم کو اے ہارون کی بہن کہا تھا۔ ممکن ہے یہ بات بھی صحیح ہو مگر اس سے بہتر توجیہ وہی ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے اسی توجیہ کی تائید عام محاورہ عرب سے بھی ہوتی ہے۔ نیز درج ذیل حدیث بھی اسی توجیہ کی تائید کرتی ہے۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہ کہتے ہیں کہ آپ نے مجھے نجران کے عیسائیوں کی طرف (مناظرہ کے لئے) بھیجا تو انہوں نے کہا : تم جو یا اخت ھارون پڑھتے ہو تو موسیٰ اور عیسیٰ میں تو کافی مدت ہے؟ (پھر مریم ہارون یعنی موسیٰ کے بھائی، کی بہن کیسے ہوئی؟) اور میں نہیں سمجھتا تھا کہ انھیں کیا جواب دوں۔ پھر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور انھیں بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم نے انھیں یہ نہ بتایا کہ وہ لوگ اپنے سے پہلے کے نبیوں اور بزرگوں کے نام رکھا کرتے تھے‘‘ (یعنی موسیٰ کے بھائی ہارون اور تھے اور مریم کا بھائی ہارون اور تھا) (ترمذی، ابو اب التفسیر) مريم
28 مريم
29 [٢٨] سیدہ مریم نے فرشتہ کی ہدایت کے مطابق ان کی کڑوی کسیلی باتوں میں سے کسی کا جواب نہ دیا بلکہ اس نومولود بچے کی طرف اشارہ کردیا کہ یہ خود جواب دے گا۔ اس بات پر لوگ اور زیادہ برہم ہوئے اور کہنے لگے ایک تو خود مجرم ہو دوسرے ہمارا مذاق اڑاتی ہو۔ یہ بچہ جو ابھی پیدا ہوا ہے بھلا ان باتوں کا کیا جواب دے سکتا ہے؟ مريم
30 [٢٩] سیدنا عیسیٰ نے کلام فی المھد سے اپنی والدہ کی بہتان سے مکمل بریّت کردی :۔ تب اس نومولود بچے کو اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے قوت گویائی عطا فرمائی اور پہلی بات جو اس نے کی وہ یہ تھی کہ ’’میں اللہ کا بندہ ہوں‘‘ بالفاظ دیگر میں نہ اللہ ہوں اور نہ ابن اللہ ہوں اور یہ ایسی بنیادی بات تھی جو بعد میں اس کے پیروکاروں میں ہی متنازعہ فیہ بن گئی۔ کسی نے انھیں اللہ ہی کہہ دیا اور کسی نے اللہ کا بیٹا۔ آپ نے اپنے اس معجزانہ کلام کے آغاز میں ہی اس کی تردید فرما دی تھی۔ نیز یہ بھی بتایا کہ ’’اللہ نے مجھے کتاب دی ہے اور اپنا نبی بھی بنایا ہے‘‘ اس کے دو مفہوم ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ نے مجھے کتاب تورات کا علم عطا فرمایا اور دوسرا یہ کہ اللہ مجھے کتاب انجیل بھی عطا فرمانے والا ہے اور نبوت بھی۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا یہ کلام دراصل ان کی سب بہتان تراشیوں کا مکمل جواب تھا اور اس کلام میں ان کی والدہ سیدہ مریم کی مکمل بریّت کا اظہار مقصود تھا یعنی اگر ایک نومولود بول سکتا ہے اور ایسا مبنی برحقیقت کلام کرسکتا ہے تو یہ بھی عین ممکن ہے کہ وہ پیدا بھی معجزانہ طور پر بن باپ کے ہوا ہو۔ بالفاظ دیگر اسی عمر میں ایسے کلام کرنے کے معجزہ سے معجزانہ پیدائش کی توثیق مقصود تھی۔ مريم
31 مريم
32 مريم
33 [٣٠] سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے اس وقت کے کلام کے باقی نکات یہ تھے کہ میں جہاں کہیں بھی رہوں گا اللہ کی مہربانی سے اس کی برکات میرے شامل حال رہیں گی اور مجھے یہ بھی تاکیدی حکم دیا گیا ہے کہ جب تک زندہ رہوں باقاعدگی کے ساتھ نمازیں اور زکوٰۃ ادا کرتا رہوں۔ اور اپنی والدہ سے بہتر سلوک کرتا رہوں (صرف والدہ کا ذکر اس لئے کیا کہ آپ کا والد تھا ہی نہیں ورنہ اس کا بھی ضرور ذکر کرتے) اللہ نے میری سرشت میں نہ سرکشی رکھی ہے اور نہ بدبختی۔ جب میں پیدا ہوا تھا تو اس دن بھی اللہ نے مجھ پر سلامتی نازل فرمائی تھی اور مرتے وقت حتیٰ کہ مرنے کے بعد اٹھتے وقت یعنی اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی بہرحال اللہ مجھ پر سلامتی نازل فرمائے گا۔ یہ تھا وہ پورا کلام جو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے اس وقت کیا تھا جبکہ آپ کی والدہ پر الزام تراشیاں کی جارہی تھیں۔ گود میں کلام کرنے والے تین بچے :۔ واضح رہے کہ بخاری و مسلم دونوں میں ایک طویل حدیث موجود ہے جس میں یہ مذکور ہے کہ بنی اسرائیل کے تین بچوں نے مہد میں کلام کیا تھا۔ ان میں سے ایک تو یہی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ ان کے مخاطب یہود تھے اور آپ کے اس کلام کا مقصود پہلے بیان ہوچکا ہے۔ دوسرا ابن جریج راہب کا قصہ ہے جسے بالخصوص مسلم نے بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ ابن جریج راہب پر زنا کی تہمت لگائی گئی تو انہوں نے اللہ سے بریت کی دعا کی پھر حرامی نومولود بچہ کو کچوکا لگا کر پوچھا کہ بتاؤ کہ تمہارا باپ کون ہے؟ تو بچہ بول اٹھا کہ فلاں چرواہا ہے۔ اس طرح اللہ نے ابن جریج راہب کو زنا کی تہمت سے بری فرما دیا۔ اور تیسرے بچہ کی مخاطب اس کی ماں تھی جو سامان دنیا پر ریجھی ہوئی تھی تو بچہ نے بول کر اپنی ماں کی گمراہ کن غلط فہمی کو دور کردیا۔ اور مہد میں کلام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بچہ شیرخوارگی کے عالم میں کلام کرے جب کہ ابھی اس نے کلام کرنا نہ سیکھا ہو۔ اور یہ مہد کا کلام تینوں واقعات میں صرف ایک ہی بار وقوع پذیر ہوا۔ یہ نہیں کہ ان بچوں نے اس عالم میں متعدد بار کلام کیا ہو۔ مريم
34 [٣١] سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں افراط وتفریط میں مبتلا فرقے ، ان کے جھگڑے اور کلام فی المہد کے اہم نکات :۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی حقیقت بالکل یہی ہے جو یہاں بیان کردی گئی۔ لیکن اہل کتاب نے اس میں کئی اختلاف اور جھگڑے کھڑے کردیئے۔ یہود نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو اتنا گھٹایا کہ نعوذ باللہ انھیں ولدالزنا قرار دے کر اس پر دلائل پیش کرنے لگے اور نصاریٰ نے ان کا درجہ اس قدر چڑھایا کہ انھیں عین اللہ قرار دے لیا یا کچھ دوسرے انھیں ابن اللہ کہنے لگے اور اپنے ایسے عقائد کے دلائل پیش کرنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ دونوں گروہ افراط و تفریط اور غلو فی الدین میں مبتلا ہیں۔ جو کچھ اصل حقیقت تھی وہ یہاں بیان کردی گئی ہے۔ پھر اس اصل حقیقت کے بیان ہوجانے کے بعد اب مسلمانوں کے ایک فرقہ نے جو معجزات کے منکر ہیں اس حقیقت سے اختلاف کیا اور کہنے لگے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش بھی معجزانہ طور پر نہیں بلکہ عام فطری دستور کے مطابق ہوئی تھی اور قرآن کے بیان کے علی الرغم قرآن ہی کی معنوی تحریف کرکے ایسے دلائل ڈھونڈنے لگے۔ ایسے تمام لوگوں کا اور ان کے اختلاف کا اب قیامت کے دن فیصلہ ہوگا۔ (سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی معجزانہ پیدائش کے منکرین کے سلسلہ میں دیکھئے سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ٥٥ کا حاشیہ) اور عیسائی حضرات اللہ کو باپ سیدہ مریم کو ماں اور سیدنا عیسیٰ کو بیٹا کہتے ہیں۔ مگر سیدہ مریم کو اللہ کی بیوی نہیں کہتے۔ یعنی ماں باپ مان کر بھی ان کے ہاں سیدنا عیسیٰ کی پیدائش کا وہ طریقہ نہیں جو والدین کے واسطہ سے ہوتا ہے۔ پھر اگر کوئی بات خرق عادت ماننا ہی ہے تو بدوں باپ پیدائش مان لینے میں کیا اشکال ہے؟ مريم
35 [٣٢] اللہ کو بیٹے یا کسی مددگار کی قطعاً ضرورت نہیں :۔ اللہ تعالیٰ کو کسی کو بیٹا بنانے کی قطعا ً ضرورت نہیں ہے، کیونکہ جب سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے ہی یہ کارخانہ کائنات ٹھیک طرح چل رہا تھا تو پھر بیٹا بنانے کی ضرورت کہاں سے آگئی؟ علاوہ ازیں ایسی باتیں اللہ تعالیٰ کی شان کے شایان بھی نہیں ہیں وہ اس قسم کی کمزوریوں اور مجبوریوں سے بالاتر اور پاک ہے نیز جب اس کے سارے کام فقط کن کا حکم دینے سے ہوجاتے ہیں۔ فورا ً اسباب و وسائل مہیا ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور وہ چیز ہو کے رہتی ہے تو پھر اسے کسی کو بیٹا یا شریک بنانے کی ضرورت بھی کیا ہے؟ مريم
36 مريم
37 [٣٣] سیدھی راہ یہ ہے کہ میرا اور تمہارا یعنی سب لوگوں کا خالق اور پروردگار صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اب جو لوگ اس سیدھی راہ میں رخنے ڈالتے، اللہ کے لئے بیٹے، پوتے، بیٹیاں یا دوسرے شریک تجویز کرتے، پھر ان پر بحثیں کرکے جدا جدا فرقے بنا رہے ہیں انھیں قیامت کے دن کی ہولناک تباہیوں سے خبردار کیجئے اور اس ہلاکت سے ڈرائیے جو اس دن انھیں یقینا پیش آنے والی ہے۔ مريم
38 [٣٤] یعنی آج اس دنیا میں انھیں دیکھنے اور سننے کا فائدہ ہے مگر نہ دیکھتے ہیں اور نہ سنتے ہیں۔ مگر قیامت کے دن خوب دیکھ اور سن رہے ہوں گے مگر اس دن دیکھنے اور سننے کا کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ اس دن وہ ایسی ایسی باتیں سنیں گے جن سے ان کے جگر پھٹ جائیں گے اور ایسے منظر دیکھیں گے جن سے ان کے چہروں پر سیاہی اور مردنی چھا جائے گی۔ مريم
39 [٣٥] یوم حسرت۔ موت کو مینڈھے کی شکل میں ذبح کرنا ہے :۔ کافروں کے پچھتانے کے مواقع تو بہت ہوں گے۔ مگر آخری موقع غالبا ً وہ ہوگا جب اہل جنت کو جنت جانے کا اور اہل دوزخ کو دوزخ میں جانے کا فیصلہ سنا دیا جائے گا جیسا کہ درج ذیل حدیث میں آیا ہے : ”سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (قیامت کے دن) موت کو ایک چتکبرے مینڈھے کی شکل میں لے کر آئیں گے۔ پھر ایک پکارنے والا پکارے گا : ’’اے اہل جنت!‘‘ وہ ادھر دیکھیں گے تو فرشتہ کہے گا :’’تم اس مینڈھے کو پہچانتے ہو؟‘‘ وہ کہیں گے ’’ہاں ۔ یہ موت ہے اور ہم سب اس کا مزہ چکھ چکے ہیں‘‘ پھر وہ پکارے گا ’’دوزخ والو!‘‘ وہ لوگ بھی گردن اٹھا کر ادھر دیکھنے لگیں گے تو فرشتہ کہے گا :’’تم اس مینڈھے کو پہچانتے ہو؟‘‘ وہ کہیں گے : ’’ہاں! یہ موت ہے، ہم سب اس کو دیکھ چکے ہیں۔‘‘ اس وقت وہ مینڈھا ذبح کردیا جائے گا۔ اس کے بعد وہ فرشتہ کہے گا : ’’جنت والو! تمہیں ہمیشہ بہشت میں رہنا ہے اور دوزخ والو! تمہیں بھی ہمیشہ دوزخ میں رہنا ہے۔ اب کسی کو موت نہیں آئے گی۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت پڑھی ﴿ وَاَنْذِرْہُمْ یَوْمَ الْحَسْرَۃِ ۔۔۔۔۔ لَا یُؤْمِنُوْنَ ﴾ (بخاری۔ کتاب التفسیر، ترمذی، ابو اب التفسیر) اس دن کافر سب کچھ خوب دیکھ رہے ہوں گے اور سن بھی رہے ہوں گے مگر ہر طرف سے ناامید ہو کر حسرت سے اپنے ہاتھ کاٹیں گے۔ مگر اس وقت کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ مريم
40 [٣٦] یعنی اس دن نہ کسی کا ملک باقی رہے گا نہ ملک باقی رہے گی۔ ہر چیز براہ راست مالک حقیقی کی طرف لوٹ جائے گی۔ وہی علی الاطلاق ہر چیز کا مالک و مختار ہوگا۔ اور وہی ہر چیز کا وارث ہوگا۔ ملک ومِلک کے لمبے چوڑے دعویٰ رکھنے والے وہاں خالی ہاتھ اللہ کے سامنے پیش ہوں گے۔ مريم
41 [٣٧] سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے قصہ کا روئے سخن بالخصوص قریش مکہ کی طرف ہے۔ جو اپنے آپ کو دین ابراہیم کا پیروکار بتاتے تھے۔ انھیں بتایا یہ جارہا ہے کہ وہ مشرک نہیں بلکہ توحید پرست تھے۔ انہوں نے اپنے مشرک آباء واجداد کی تقلید کو چھوڑ دیا تھا۔ تمہیں بھی چھوڑ دینا چاہئے۔ مشرک قوم اور مشرک باپ نے طرح طرح کی دھمکیاں دیں مگر انہوں نے شرک کی باتیں تسلیم کرنے پر گھر بار چھوڑنے اور ترک وطن کو ترجیح دی۔ ایک تم ہو جو اپنے شرک پر اتنے مصر ہو کہ توحید پرستوں کو اذیتیں دے دے کر انھیں ہجرت پر مجبور کردیا ہے۔ پھر تمہارے اس اتباع دین ابراہیمی میں کون سی صداقت ہے؟ [٣٨] اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام تو قول کے سچے اور اپنی عملی زندگی میں بھی راست باز انسان تھے اور صدیق ہونے کے علاوہ وہ نبی بھی تھے۔ بعض لوگ اسی آیت سے استدلال کرکے بخاری کی درج ذیل حدیث کی صحت کا انکار کردیتے ہیں : سیدنا ابراہیم کے تین جھوٹ والی حدیث پر اعتراض اور اس کا جواب :۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ سیدنا ابراہیم نے کبھی جھوٹ نہ بولا سوائے تین مرتبہ کے۔ دو مرتبہ تو اللہ کے واسطے ان کا یہ کہنا کہ انی سقیم اور یہ کہنا کہ﴿ بَلْ فَعَلَہ ٗ کَبِیْرُہُمْ ﴾ (۲۱:۶۳) یہ دونوں اللہ کے لئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک دن وہ اور (ان کی بیوی) سارہ اس حال میں جارہے تھے کہ ایک ظالم بادشاہ پر ان کا گزر ہوا۔ کسی نے بادشاہ سے کہا کہ یہاں ایک شخص آیا ہے جس کے ساتھ اس کی خوبصورت بیوی بھی ہے۔ اس بادشاہ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو بلوا بھیجا اور سارہ کی بابت پوچھا کہ یہ کون ہے؟ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کہہ دیا : ’’یہ میری بہن ہے‘‘ پھر وہ سارہ کے پاس گئے اور کہا : ’’سارہ ! اس وقت روئے زمین پر میرے اور تمہارے سوا کوئی مومن نہیں ہے اور اس ظالم نے مجھ سے پوچھا تھا تو میں نے کہہ دیا کہ یہ میری (دینی) بہن ہے۔ پس تم مجھے جھوٹا نہ کرنا“(بخاری۔ کتاب الانبیائ۔ باب قول اللہ وَاتَّخَذَ اللّٰہُ اِبْرٰہِیْمَ خَلِیْلًا ) ١۔ ان تین جھوٹوں میں سے دو کا ذکر تو قرآن کریم میں موجود ہے۔ بتوں کو توڑا تو آپ نے تھا لیکن پوچھنے پر کہہ دیا کہ اس بڑے بت نے انھیں توڑا ہے اس طرح جب ان کی قوم جشن منانے نکلی اور آپ کو ساتھ لے جانے کو کہا تو آپ نے کہہ دیا کہ میں بیمار ہوں۔ پھر اسی وقت جاکر ان کے بت بھی توڑ ڈالے تو پھر بیمار کیسے تھے؟ کیا یہ باتیں خلاف واقعہ نہیں تھیں؟ لہٰذا معترضین کا اصل رخ قرآن کی طرف ہونا چاہئے نہ کہ حدیث کی تکذیب کی طرف۔ ٢۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ابتداء وضاحت سے یہ الفاظ فرما دیئے کہ ”سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کبھی جھوٹ نہیں بولا“ یہ ان کے فی الواقع صدیق ہونے کی بہت بڑی شہادت ہے کہ ان سے ١٧٥ سالہ زندگی میں تین سے زیادہ مرتبہ جھوٹ سرزد نہیں ہوا۔ اب آپ اپنی زندگی کے شب و روز پر نگاہ ڈالئے کہ آپ ساری زندگی میں نہیں بلکہ صرف ایک دن رات میں کتنی مرتبہ جھوٹ بولتے ہیں اور دانستہ بھی اور نادانستہ بھی اور پھر خود ہی فیصلہ کرلیجئے کہ اگر ایک شخص سے ١٧٥ سال کی زندگی میں تین سے زیادہ جھوٹ سرزد نہ ہوں تو اس کو صدیق کہا جاسکتا ہے یا نہیں؟ پھر ان تینوں واقعات کے لئے ٹھوس بنیادیں بھی موجود ہیں۔ یعنی ان میں دو جھوٹ تو آپ نے مشرکین پر حجت قائم کرنے اور کلمہ حق کو سربلند کرنے کے بولے جیسا کہ حدیث بالا سے ثابت ہے اور تیسرا جس کا ذکر حدیث میں ہے وہ آپ نے اپنی جان بچانے کے لئے بولا تھا۔ شاہ مصر کا دستور یہ تھا کہ وہ حسین عورت کو زبردستی چھین لیتا۔ اگر اس کے ساتھ اس کا خاوند ہوتا تو اسے مروا ڈالتا اور اگر اس کے ساتھ بھائی یا کوئی دوسرا رشتہ دار ہوتا تو اس سے عورت تو چھین لیتا مگر اس کی جان سے درگزر کرتا تھا۔ اب اگر سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنی جان بچانے کی خاطر جھوٹ بولا بھی تھا (حالانکہ وہ بھی ایک طرح سے جھوٹ نہیں بنتا جیسا کہ حدیث کے الفاظ بتا رہے ہیں) آخر اس میں قیامت کون سی آگئی؟ جان بچانے کی خاطر اگر مردار تک کھا لینا جائز ہے تو جھوٹ بولنا کیوں جائز نہیں ہوسکتا۔ وہ کون سی شریعت ہے جس میں اس قدر سختی روا رکھی گئی ہو۔ جان بچانے کے لئے تو اللہ نے کلمہ کفر تک کہہ دینے کی بھی اجازت دے دی ہے بشرطیکہ دل میں کوئی ایسی بات نہ ہو (٣٨: ١٤) تو پھر کیا جھوٹ بولنا اس سے بھی بڑا جرم ہے؟ جھوٹ گناہ اس صورت میں ہے جب اس کی زد کسی کے حقوق پر پڑتی ہو اور جتنی زیادہ زد پڑتی ہو اتنا ہی زیادہ کبیرہ گناہ بنتا جاتا ہے۔ ہمیشہ سچ بولنا اور جھوٹ سے بچنا شریعت کا ایک بڑا بھاری کلیہ ہے لیکن استثناء اس میں بھی موجود ہے جبکہ اصلاح اور خیر کا پہلو نمایاں ہو اور شریعت کی نگاہوں میں وہ فی الواقع اصلاح اور خیر ہو۔ مثلا میاں بیوی کے درمیان صلح کرانے کے لئے شریعت نے باتیں بنانے اور جھوٹ بول کر صلح کرا دینے کو گناہ نہیں بلکہ مستحسن قرار دیا ہے۔ اسی طرح جہاد میں دشمن کو ہراساں کرنے کے لئے بھی ایسی باتوں کی اجازت ہے۔ حالانکہ لغوی لحاظ سے ان باتوں پر بھی لفظ کذب کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ مريم
42 [٣٩] سیدنا ابراہیم کا اپنے باپ کو بت پرستی کی قباحتیں سمجھانا :۔ مروجہ شرک کی دو بڑی اقسام ہیں ایک بت پرستی دوسرے پیر پرستی۔ پیر خواہ زندہ ہو یا فوت شدہ۔ زندہ پیر کم از کم دیکھ تو سکتا ہے اور سن بھی سکتا ہے اور مادی وسائل کے ذریعہ مدد بھی کرسکتا ہے۔ مگر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قوم تو بت پرست تھی۔ جو نہ سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں۔ نہ حرکت کرسکتے ہیں بلکہ وہ اپنے وجود تک کے لئے انسانوں کے محتاج ہیں۔ پھر وہ دوسروں کی حاجت روائی اور مشکل کشائی کیا خاک کرسکتے ہیں؟ مريم
43 [٤٠] یعنی علم وحی الٰہی، جس میں انسان کی دنیوی زندگی کے لئے مکمل ہدایات موجود ہوتی ہیں اور آخرت میں محاسبے کا تفصیلی ذکر ہوتا ہے۔ مريم
44 [٤١] یعنی شیطان کی اطاعت کرنا دراصل اس کی عبادت کرنا ہے، ورنہ معروف معنوں میں تو شیطان کی کوئی بھی عبادت نہیں کرتا۔ شیطان نے تو تمہارے باپ آدم کو سجدہ کرنے کے بارے میں اللہ کی نافرمانی کرلی تھی۔ مگر آدم کو سجدہ نہیں کیا تھا۔ پھر بھی تم اسی کی فرمانبرداری کرتے ہو؟ مريم
45 [٤٢] اللہ کی طرف سے کوئی جسمانی سزا ملے یا نہ ملے یہ تو ضرور ملے گی کہ اگر تم شیطان ہی کی اطاعت کرتے رہے تو تمہیں کبھی ہدایت نصیب نہ ہوگی۔ پھر تم ہمیشہ کے لئے شیطان ہی کے ساتھی بن جاؤ گے۔ مريم
46 [٤٣] باپ کا سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو گھر سے نکال دینا :۔ باپ آذر جو درباری مہنت، بت تراش اور بت فروش تھا، بھلا بیٹے کے کہنے پر اپنی معاش اور اپنے منصب سے کیسے دستبردار ہوسکتا تھا۔ آپ کی اس پندونصیحت کے جواب میں کہنے لگا۔ معلوم ہوتا ہے تم اپنے آبائی دین سے برگشتہ اور بدعقیدہ ہوچکے ہو۔ ایسی بےدین اولاد کی مجھے کوئی ضرورت نہیں۔ اگر تم نے اپنا رویہ نہ بدلا تو میں تمہیں سنگسار کردوں گا اور بہتر یہ ہے کہ تم فورا ً میری آنکھوں سے دور ہوجاؤ اور میرے گھر سے نکل جاؤ۔ مريم
47 مريم
48 [٤٤] سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا اپنے باپ کے لئے دعائے مغفرت کا وعدہ :۔ چنانچہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے گھر سے نکل جانے میں ہی اپنی اور اپنے دین کی عافیت سمجھی۔ مگر اپنے باپ کے حق میں اتنے خیر خواہ اور نرم دل تھے کہ جاتی دفعہ کسی ناراضگی کا اظہار کرنے کے بجائے اس کے لئے امن و سلامتی کی دعا کی اور وعدہ کیا کہ میں تمہارے لئے اپنے پروردگار سے بخشش کی دعا کرتا رہوں گا اور کرتے بھی رہے پھر آپ کو بذریعہ وحی معلوم ہوگیا کہ مشرک کی کسی صورت بخشش نہیں ہوسکتی تو آپ ایسی دعا کرنے سے رک گئے جیسا کہ سورۃ توبہ میں گزر چکا ہے۔ مريم
49 [٤٥] ہجرت کے بعد اللہ کا ابراہیم کو اولاد عطا کرنا :۔ جب آپ نے اللہ کی راہ میں اپنے گھر کو اور گھر والوں کو خیر باد کہتے ہوئے ہجرت اختیار کی تو اللہ نے ان کا نعم البدل اولاد کی شکل میں انھیں عطا فرمایا۔ جو بہرحال چھوڑے ہوئے رشتہ داروں سے بہتر تھے تاکہ غریب الوطنی کی وحشت دور ہو اور انس و سکون حاصل کریں، اولاد بھی ایسی جو سب نبی تھے۔ سیدنا اسحاق بھی نبی پھر ان کے بیٹے یعقوب بھی نبی پھر انہی کی اولاد سے یعنی بنی اسرائیل میں سینکڑوں نبی پیدا ہوئے۔ مريم
50 [٤٦] سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی تمام مذاہب میں یکساں مقبولیت :۔ تمام مذاہب و ملل ان کی تعظیم و توصیف کرتے ہیں اور انھیں سے اپنے اپنے مذہب کا رشتہ جوڑتے ہیں اور انھیں ذکر خیر سے یاد کرتے ہیں۔ جیسا کہ امت محمدیہ بھی ہمیشہ اپنی نمازوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل پر درود پڑھتے ہیں تو ساتھ ہی سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر بھی درود پڑھتے ہیں۔ فی الحقیقت یہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا (۸۴:۲۶) کی مقبولیت کا ثمرہ ہے۔ مريم
51 [٤٧] نبی اور رسول کا فرق :۔ سیدنا اسحاق اور یعقوب علیہما السلام کی اولاد میں سے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا ذکر غالبا ً اس وجہ سے کیا جارہا ہے کہ آپ اولوالعزم پیغمبر، مشرع اعظم اور قدآور شخصیت ہیں اور آپ کو فرمایا جارہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں سے ان کا ذکر کیجئے۔ آپ اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری میں انتہائی مخلص تھے۔ آپ نبی بھی تھے اور صاحب شریعت رسول بھی۔ نبی اور رسول میں فرق یہ ہے کہ نبی عام ہے، اور رسول خاص۔ یعنی ہر رسول نبی تو ہوتا ہے مگر ہر نبی رسول نہیں ہوتا۔ روایات کے مطابق رسولوں کی تعداد صرف ٣١٣ یا ٣١٥ تھی جبکہ انبیاء کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے۔ ( نبی اور رسول کے فرق کے لئے دیکھئے سورۃ مائدہ کی آیت نمبر ٦٧ کا حاشیہ) مريم
52 [٤٨] سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا طور الایمن جا پہنچنا :۔ جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام سیدنا شعیب علیہ السلام کے ہاں سے فارغ ہو کر مدین سے مصر کی طرف جارہے تھے تو یہ آواز ان کی دائیں طرف سے ہوئی کیونکہ وہ طور جو بیت المقدس کے پاس ہے مدین سے مصر آنے والوں کی دائیں طرف پڑتا ہے اور وہی طور مراد ہے، سویس کا طور مراد نہیں کیونکہ وہ بائیں طرف پڑتا ہے۔ [٤٩] سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی :۔ قربنٰہ نجیّا۔ کے کئی مفہوم ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہم نے اسے راز کی بات کہنے کے لئے اپنے پاس بلا لیا، دوسرا یہ کہ ہم نے رازکی بات کہہ کر اسے اپنا مقرب بنا لیا اور تیسرا یہ کہ ہم نے سیدنا موسیٰ کو آسمانوں پر اٹھا لیا اور انہوں نے قلم چلنے کی آواز سنی جو لوح محفوظ پر چلتی ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور تابعین کی ایک جماعت سے یہی مطلب منقول ہے۔ مريم
53 [٥٠] سیدنا ہارون علیہ السلام کب نبی بنے ؟ سیدنا ہارون، سیدنا موسیٰ کے بھائی تھے، عمر میں تین سال بڑے تھے۔ بڑے پرہیزگار انسان تھے اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی نسبت فصیح اللسان بھی تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ کو فرعون جیسے جابر بادشاہ کے پاس جانے، اسے راہ راست کی طرف دعوت دینے اور بنی اسرائیل کی رہائی کے مطالبہ کے لئے بھیجا تو آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی کہ میرے بھائی ہارون کو بھی نبوت عطا فرما اور اس عظیم ذمہ داری کے کام میں اسے میرا مددگار بنا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ کی دعا قبول فرما کر اور نبوت عطا کرکے انھیں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے ہمراہ کردیا۔ مريم
54 [٥١] سیدنا اسماعیل کے اوصاف وخصائل :۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے اور بڑے بیٹے سیدنا اسماعیل ذبیح اللہ تھے۔ یہ نبی تھے اور رسول بھی جبکہ سیدنا اسحاق علیہ السلام نبی تھے جیسا کہ اوپر مذکور ہوا۔ سیدنا اسماعیل علیہ السلام عرب حجاز کے مورث اعلیٰ ہیں (تفصیل کے لئے سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر ٣٧ کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیے) آپ کو ابراہیمی شریعت دے کر بنی جرہم کی طرف مبعوث کیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہی کی اولاد سے ہیں آپ کا صادق الوعد ہونا مشہور تھا۔ اللہ سے یا بندوں سے جو وعدہ کیا اسے ضرور پورا کرتے تھے۔ خواہ اس وعدہ وفائی میں جان تک قربان کرنی پڑے۔ باپ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کی راہ میں جان کی قربانی کے لئے کہا تو فورا ً تیار ہوگئے اور وعدہ کیا کہ میں اس معاملہ میں بھی ان شاء اللہ صبر کروں گا۔ چنانچہ آپ نے کمال اطاعت کا مظاہرہ کرکے یہ وعدہ بھی پورا کیا۔ مريم
55 [٥٢] اصلاح کا آغاز گھر سے ہونا چاہئے :۔ اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ اصلاح اور دین کی دعوت کا آغاز اپنے بعد اپنے گھر سے کرنا چاہئے پھر بتدریج اس کا حلقہ وسیع کرتے جانا چاہئے۔ اور یہی سب پیغمبروں اور سلف صالحین کا دستور رہا ہے۔ دوسری یہ کہ نماز اور زکوٰۃ ایسے اہم ارکان اسلام ہیں۔ جن کا حکم تمام انبیاء کی شریعتوں میں موجود رہا ہے۔ مريم
56 [٥٣] سیدنا ادریس کا زمانہ اور مرکز تبلیغ :۔ سیدنا ادریس علیہ السلام سیدنا نوح علیہ السلام سے بہت پہلے مبعوث ہوئے تھے آپ کا مرکز تبلیغ بابل تھا۔ آپ کی قوم ستارہ پرست اور مظاہر پرست تھی۔ آپ علم ہندسہ، حساب اور نجوم میں ماہر تھے۔ نیز قلم سے لکھنا، کپڑاسینا، ناپ تول کے آلات اور اسلحہ کا بنانا انہی کے دور میں شروع ہوا۔ آپ بلند پایہ خطیب تھے اور ہرمس الہرامسہ کا خطاب پایا۔ آپ کی قوم نے آپ کی دعوت ماننے سے انکار کردیا اور مخالفت پر اتر آئے۔ آخر آپ ہجرت کرکے مصر چلے آئے۔ جہاں بہت سے لوگ آپ پر ایمان لے آئے۔ معراج کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آپ سے چوتھے آسمان پر ملاقات ہوئی تھی۔ مريم
57 مريم
58 [٥٤] سلسلہ نبوت کا اختصاص :۔ مذکورہ بالا انبیاء میں سے صرف سیدنا ادریس ہیں جو نوح علیہ السلام سے پہلے مبعوث ہوئے لہٰذا آپ صرف اولاد آدم سے ہوئے، باقی سب انبیاء یا تو نوح علیہ السلام کی اولاد سے تھے یا ان لوگوں کی اولاد سے جو نوح علیہ السلام کے ہمراہ کشتی میں سوار ہوئے تھے اور سلسلہ نبوت یوں چلتا ہے کہ آدم علیہ السلام کی پیدائش سے پیشتر یہ سلسلہ نبوت جنوں میں تھا پھر چونکہ آدم علیہ السلام اشرف المخلوقات تھے تو سلسلہ نبوت سیدنا آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کی طرف منتقل ہوگیا۔ پھر یہ سلسلہ نوح اور اولاد نوح سے مختص ہوا پھر سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد سے، پھر اس کے بعد یہ سلسلہ اسرائیل (یعقوب) کی اولاد سے مختص ہوا۔ صرف نبی آخر الزمان سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے تھے اور ان انبیاء پر یہ انعام اس لئے ہوا کہ یہی لوگ اپنے اپنے دور کی بہترین شخصیات تھے اور ان لوگوں کا یہ حال تھا کہ جب انھیں اللہ کی آیات سنائی جاتیں تو ان کے دلوں پر رقت طاری ہوجاتی، اللہ کے انعامات کو یاد کر کر کے ان کے سر جھکے جاتے تھے۔ پھر وہ اللہ سے ہر وقت ڈرتے بھی رہتے تھے اور اللہ کی آیات سنتے تو ان کے ڈر میں مزید اضافہ ہوجاتا اور وہ روتے ہوئے اللہ کے سامنے سربسجود ہوجاتے تھے۔ علماء کا اجماع ہے کہ اس آیت پر سجدہ کرنا چاہئے تاکہ ان مقربین کے طرز عمل کو یاد کرکے ان سے ایک طرح کی مشابہت حاصل ہوجائے اور حدیث میں ہے کہ قرآن کی تلاوت کرو تو رؤو اور اگر رونا نہ آئے تو (کم ازکم) رونے کی صورت بنا لو، (شرح السنۃ بحوالہ مشکوٰۃ، کتاب الفتن، باب صفۃ النار و اھلہا۔ الفصل الثانی) مريم
59 [٥٥] نماز کی اہمیت اور تعلق باللہ :۔ ارکان اسلام میں سے سب سے اہم رکن نماز ہے۔ جس سے ایک مسلمان کا اللہ کے ساتھ تعلق قائم رہتا ہے۔ اگر نماز چھوڑ دی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ سے انسان کا تعلق منقطع ہوگیا۔ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے نماز جان بوجھ کر چھوڑی وہ کافر ہوگیا اور اسی لئے نماز کو باقاعدگی کے ساتھ ادا کرنے کی کتاب و سنت میں بار بار تاکید آئی ہے۔ حتیٰ کہ نماز نہ مریض کو معاف ہوسکتی ہے نہ سفر میں اور نہ میدان جنگ کے مختلف حالات میں' حالات کے مطابق شریعت نے رخصتیں تو دی ہیں مگر نماز کو کسی بھی حالت میں ترک نہیں کیا جاسکتا۔ نمازوں کے ضائع کرنے سے مراد صرف یہ نہیں کہ انہوں نے نماز چھوڑ دی تھی، بلکہ نماز کو جماعت سے ادا نہ کرنا۔ بروقت ادا نہ کرنا، سستی اور بےدلی سے ادا کرنا، بغیر سوچے سمجھے جلد جلد ٹھونگیں مار لینا وغیرہ وغیرہ سب باتیں نماز کو ضائع کرنے کے ضمن میں آتی ہیں۔ [٥٥ـ۔ الف] غیّ کا مفہوم :۔ اللہ سے تعلق منقطع ہوجانے کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان اپنی خواہشات کا پیروکار اور غلام بن جاتا ہے اور یہی کچھ شیطان چاہتا ہے اور ایسے شخص کے لئے گمراہی کی راہیں کھلتی جاتی ہیں اور بعض لوگوں نے اس کا یوں ترجمہ کیا ہے کہ عنقریب یہ لوگ غیّ میں ڈالے جائیں گے۔ حدیث میں ہے کہ غیّ دوزخ میں ایک وادی یا نالہ ہے جس میں دوزخیوں کا لہو اور پیپ بہے گا اور اس میں زانی، شراب خور، سود خور اور ماں باپ کو ستانے والے ڈالے جائیں گے۔ گویا نمازیں ضائع کرنے والے بھی اسی وادی میں ڈالے جائیں گے۔ مريم
60 [٥٦] نماز کا تارک ایماندار نہیں رہتا جب تک توبہ نہ کرے :۔ ان الفاظ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ نمازوں کو ضائع کرنے اور اپنی خواہش کے پیچھے لگنے والا ایماندار نہیں رہتا۔ ایسے گنہگاروں میں سے بھی جو شخص اللہ کے حضور رجوع کر ے، توبہ کرے، آئندہ پھر وہ کام نہ کرے بلکہ اس کے بجائے اعمال صالحہ بجا لائے، تو ایسے لوگوں کے سابقہ گناہ تو بالکل معاف کردیئے جائیں گے۔ مگر ان کے سابقہ نیک اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور حدیث میں آیا ہے کہ جس نے توبہ کرلی وہ ایسا ہے کہ گویا اس نے وہ گناہ کیا ہی نہ تھا (ابن ماجہ، ابو اب الزہد، باب ذکر التوبۃ) مريم
61 مريم
62 [٥٧] لغو سے مراد :۔ بیہودہ بات سے مراد جھوٹی بات، غیبت، چغلی، تمسخر، فتنہ و فساد، یا شرارت کی بات، بے معنی بات یا گندی اور شہوانیت کی بات اور گالی گلوچ سب کچھ شامل ہے۔ گویا جنت کا معاشرہ ایسا پاکیزہ معاشرہ ہوگا کہ ان باتوں میں سے کوئی بات بھی وہاں نہ پائی جائے گی اور لفظ سلٰما کا ایک مطلب تو وہی ہے جو ترجمہ میں مذکور ہے۔ اور اس لفظ کا دوسرا مطلب لفظ لغو کی ضد کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ یعنی اہل جنت آپس میں ایسے پیار، محبت اور خلوص سے رہیں گے جو ہر طرح کے معاشرتی عیوب و نقائص سے پاک ہوگا۔ اور ایسے پاکیزہ معاشرہ کی قدروقیمت صرف وہ آدمی جان سکتا ہے جو خود تو پاکیزہ خصلت ہو لیکن اسے کسی گندے معاشرے میں رہنا پڑا ہو۔ [٥٨] یعنی روحانی غذائیں بھی جیسے تسبیح و تہلیل اور ذکر و اذکار اور جسمانی بھی اور ان دونوں طرح کی غذاؤں کا ذکر کتاب و سنت میں بکثرت موجود ہے۔ مريم
63 [٥٩] یعنی ہمارے باپ سیدنا آدم علیہ السلام کا اصل مسکن تو جنت ہی تھا۔ لیکن اس کی وارث آدم کی صرف وہ اولاد ہوگی جس نے یہ دنیا کی زندگی اللہ سے ڈر کر گزاری ہوگی اور کفر و شرک سے بچتے رہے ہوں گے۔ وراثت تو دور کی بات ہے۔ اللہ کے نافرمانوں اور مشرکوں کو جنت میں داخل بھی نہ ہونے دیا جائے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جنت کو ایسے لوگوں پر حرام کردیا ہے۔ مريم
64 [٦٠] فرشتوں کا نزول اللہ کے حکم کے تحت :۔ اس آیت کے شان نزول اور تفسیر کے لئے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمایئے : (١) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل ؑسے پوچھا : ’’تم ہمارے پاس جیسے آیا کرتے ہو اس سے زیادہ دفعہ کیوں نہیں آتے؟‘‘ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ ﴿وَمَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّکَ ﴾ (بخاری، کتاب التفسیر، ترمذی، ابو اب التفسیر) (٢) اللہ سے کوئی بات بھولی ہوئی نہیں :۔ سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو چیز اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کردی وہ حلال ہے اور جو حرام کی وہ حرام ہے اور جس سے سکوت اختیار کیا وہ معاف ہے۔ لہٰذا تم اللہ کی دی ہوئی معافی قبول کرو۔ کیونکہ اللہ بھولنے والا نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی : ﴿وَمَا کَانَ رَبُّکَ نَسِـیًّا ﴾المستدرک للحاکم، سندہ صحیح ج ٢ ص ٣٧٥) (٣) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”بے شک اللہ نے کچھ فرائض مقرر کئے ہیں انھیں ضائع نہ کرو اور کچھ چیزوں سے روکا ہے، ان کی اہانت نہ کرو اور کچھ چیزوں سے تم سے درگزر کیا ہے، بھول کی بنا پر نہیں لہٰذا تم ان میں چھان پھٹک نہ کرو۔‘‘ (دارقطنی، بحوالہ الموافقات للشاطبی مترجم ج ١ ص ٢١٩) ہوا یہ تھا کہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کو اللہ کی طرف سے حالات کے مطابق احکام و ہدایت کی شدید ضرورت تھی۔ پھر جب کافی دیر بعد جبریل علیہ السلام متعلقہ ہدایات و احکام لے کر آئے تو بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام سے ضمناً یہ بات بھی کہہ دی۔ جس کے جواب میں جبریل علیہ السلام نے یہ وضاحت فرما دی کہ ہم کوئی بااختیار شخصیت نہیں ہیں بلکہ اللہ کے حکم کے بندے ہیں جب ہمیں حکم ملے تب ہی آسکتے ہیں اور آپ کا پروردگار سب کچھ دیکھ رہا ہے وہ بھولنے والا نہیں، بلکہ اس دیر میں بھی اس کی مصلحتیں مضمر ہوتی ہیں۔ مريم
65 [٦١] اس کا ایک مطلب تو ترجمہ میں بیان ہوا ہے کہ پورے عزم و استقلال سے اس کی عبادت کرتے رہئے اور اس کے احکام بجا لاتے رہئے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی عبادت کرنے کی راہ میں جو مشکلات پیش آئیں انھیں صبرو استقلال اور ثابت قدمی سے برداشت کیجئے۔ [٦٢] کوئی چیز اللہ کی ہم نام نہیں :۔ یعنی اللہ کسی دوسری ہستی یا چیز کا نام نہیں۔ اللہ صرف اس ہستی کا نام ہے جو خالق و مالک ارض و سماوات ہے۔ کوئی دوسرا اس کا ہم نام نہیں اور اگر لفظ اسم کو صفت کے معنی میں لیا جائے جیسے کہ (وللہ الاسماء الحسنیٰ) میں لیا جاسکتا ہے اور اللہ کے جتنے اچھے اچھے نام ہیں وہ ایک دو کے سوا سب صفاتی ہی ہیں تو اس صورت میں اس کا معنی اس کا’’ہم پلہ‘‘ یا ’’ہم پایہ‘‘ یا ’’جوڑ کا‘‘ ہوگا۔ یعنی کوئی دوسری ایسی ہستی موجود نہیں جس میں اللہ کی سی صفات پائی جاتی ہوں۔ مريم
66 [٦٣] یعنی وہ شیطان جن کے یہ فرمانبردار اور چیلے بنے ہوئے ہیں۔ انھیں یہ پٹی پڑھاتے رہتے ہیں۔ کہ کھاؤ، پیو اور عیش کرلو۔ کیونکہ یہ زندگی تو سب کے سامنے ہے مگر دوسری زندگی ایک موہوم خیال اور غیر یقینی ہے۔ کیونکہ جو مرگیا وہ مٹی میں مل کر مٹی ہوگیا۔ ان میں سے آج تک کوئی بھی دوبارہ زندہ ہو کر واپس نہیں آیا۔ مريم
67 مريم
68 مريم
69 مريم
70 [٦٤] یعنی ان شیطانوں میں سے بھی ان کے سرغنوں اور لیڈروں کو الگ نکال لیں گے اور انھیں سب سے پہلے جہنم رسید کریں گے اور زیادہ سزا دیں گے۔ کیونکہ انہوں نے خود گمراہ ہونے کے علاوہ دوسروں کو بھی گمراہ کیا تھا۔ مريم
71 [٦٥] پل صراط سے ہر ایک کو گزرنا ہے :۔ یعنی ہر شخص کو خواہ وہ مسلم ہو، کافر، نیک ہو یا بد ایک دفعہ ضرور جہنم کے کنارے لا کھڑا کیا جائے گا اور یہ اللہ کی طرف سے ایسی طے شدہ بات ہے جس کا کبھی خلاف نہیں ہوسکتا۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے : (١) سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’سب لوگ دوزخ پر پہنچیں گے پھر اپنے اپنے اعمال کے لحاظ سے واپس ہوں گے۔ پہلا گروہ تو بجلی کی چمک کی طرح نکل جائے گا، دوسرا ہوا کی طرح، تیسرا گھڑ سوار کی طرح، چوتھا اونٹ کی طرح، پانچواں دوڑنے والے کی طرح اور چھٹا جیسے آدمی پیدل چلتا ہو‘‘ (ترمذی، ابو اب التفسیر) (٢) اور سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے پوچھا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ پل صراط کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ ایک پل ہے جسے جہنم کی پشت پر رکھیں گے۔ یہ پل پہلوان کے گرنے کا مقام ہے۔ اس پر سنسیاں ہیں۔ آنکڑے ہیں، چوڑے چوڑے کانٹے ہیں، ان کا سرخم دار سعدان کے کانٹوں کی طرح ہوگا جو نجد کے ملک میں ہوتے ہیں۔ مسلمان اس پر سے پلک جھپکنے کی طرح، بجلی کی طرح، آندھی کی طرح، تیز گھوڑوں کی طرح اور سانڈنیوں کی طرح گزر جائیں گے۔ بعض صحیح و سلامت وہاں سے بچ کر نکل جائیں گے اور کچھ زخمی ہو کر اور چھل چھلا کر اور بعض دوزخ میں گر پڑیں گے۔ آخری شخص جو پل صراط سے پار ہوگا اسے کھینچ کھینچ کر پار کریں گے۔ پھر جو لوگ خود نجات پاجائیں گے وہ ان دوزخ میں گرے ہوئے مسلمانوں کے لئے اللہ سے مطالبہ اور تقاضا کرنے لگیں گے حتیٰ کہ جس کے دل میں رائی بھر بھی ایمان ہوگا اللہ اسے دوزخ سے نکال لے گا۔ بشرطیکہ اس نے اللہ سے شرک نہ کیا ہو۔ (بخاری، کتاب التوحید، باب وُجُوْہٌ یَّوْمَیِٕذٍ نَّاضِرَۃٌ ۔۔۔ طویل حدیث سے اقتباس) ورود سے مراد دخول نہیں :۔ بعض روایات میں وارد کے معنی دخول لئے گئے ہیں یعنی ہر شخص کو کم از کم ایک دفعہ ضرور جہنم میں داخل ہونا ہوگا۔ یہ بات درست نہیں۔ ایک تو ایسی روایات سندا ً ناقابل اعتماد ہیں۔ دوسرے خود قرآن کریم اور بہت سی صحیح احادیث کے خلاف ہیں اور تیسرے لغوی لحاظ سے بھی یہ مفہوم غلط ہے۔ ورود کا معنی کسی جگہ پر جا پہنچنا ہے۔ اس میں داخل ہونا نہیں۔ (اسی سورۃ کا حاشیہ نمبر ٧٧ ملاحظہ فرمائیے) مريم
72 مريم
73 مريم
74 [٦٦] مال ودولت کے پیمانوں سے دوسروں کی قدرو قیمت متعین کرنا۔ مال ودولت کی فراوانی اللہ کی رضا کی دلیل نہیں :۔ یوم آخرت کا انکار کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے کسی مقام پر تو کافر قرار دیا ہے اور کسی پر مشرک، مشرکین مکہ بھی آخرت کے منکر تھے۔ اس قسم کے منکروں اور دنیا دار لوگوں کا عمومی نظریہ یہی رہا ہے کہ اس دنیا میں مال و دولت کا مہیا ہونا اللہ تعالیٰ کی مہربانی کی دلیل ہے اور اسی مال و دولت اور جاہ کے پیمانوں سے لوگوں کی قیمت کا اندازہ لگاتے ہیں۔ اپنا بھی اور دوسروں کا بھی۔ مشرکین مکہ کا بھی یہی انداز فکر تھا۔ انھیں جب ان کے انجام سے مطلع کیا جاتا تو ان کا یہ جواب ہوتا تھا کہ ہمارے مکانات، فرنیچر، طرز بودو باش اور ہماری مجالس تم لوگوں سے بہتر نہیں؟ اور اگر ہم باطل پر ہوتے جیسا کہ تم ہمیں کہتے ہو تو ہم تم سے ہر لحاظ سے بہتر کیسے ہوسکتے تھے؟ ان لوگوں کے اس نظریہ کو رد کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ معیار ہی غلط ہے۔ اس لئے کہ جو قومیں تم سے پہلے ہم نے تباہ کی ہیں وہ تم سے شان و شوکت اور سازوسامان غرض ہر لحاظ سے بہتر تھیں اور ان پر عذاب الٰہی کا نزول ہی اس بات کی دلیل ہے کہ سازو سامان کی بہتری کے باوجود اللہ تعالیٰ ان سے ناراض تھے۔ مريم
75 [٦٧] انعامات کی فراوانی سے آزمائش :۔ اسکے بجائے اصل صورت حال یہ ہوتی ہے کہ جو لوگ دنیا کے سازوسامان میں دل لگا کر اس کی دلفریبیوں پر ریجھ گئے ہوں اللہ تعالیٰ ان پر مزید انعامات کی بارش کئے جاتے ہیں اور اس انداز سے ان کی آزمائش کرتے ہیں۔ پھر اس کی بھی ایک حد مقرر ہوتی ہے۔ اگر اس عرصہ میں وہ اللہ کی طرف رجوع کرلیں اور دین حق کی طرف لوٹ آئیں تو فبہا ورنہ انھیں عذاب سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور ایسا عذاب دنیا میں بھی آسکتا ہے جیسا کہ سابقہ اقوام پر آچکا ہے اور اگر دنیا میں بچ جائیں تو قیامت کو تو ضرور انھیں اس سے سابقہ پڑنے والا ہے۔ اس وقت انھیں قدر عافیت معلوم ہوجائے گی اور یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ حقیقتا ً خوشحالی کس فریق کا مقدر ہے اور سوسائٹی کے لحاظ سے کون بہتر ہے۔؟ مريم
76 [٦٨] ہر واقعہ مومن کی ہدایت میں اضافہ کرتا ہے :۔ کافروں کی تو خوشحالی سے آزمائش ہوتی ہے اور ہر نعمت اور خوشحالی کے موقعہ پر ان کی گمراہی میں مزید اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس کے برعکس مومنوں کے لئے ہر آزمائش مزیدہدایت کا سبب بن جاتی ہے۔ کوئی بھلائی اور نعمت ملے تو اللہ کا شکر بجا لاتے ہیں اور دکھ پہنچے تو صبر و استقلال کے دامن کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ غرض ہر حال میں وہ صابر و شاکر رہتے ہیں اور ہر نیا واقعہ وہ جیسا بھی ہو، ان کی مزید ہدایت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ [٦٩] اس کی تشریح کے لئے سورۃ کہف کی آیت نمبر ٤٦ کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیے۔ مريم
77 [٧٠] خباب بن ارت کی مزدوری آخرت کو دینے والا :۔ اس آیت کا روئے سخن ایک قریشی سردار عاص بن وائل سہمی سے ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : سیدنا خباب بن ارت کہتے ہیں کہ میں مکہ میں لوہار کا پیشہ کیا کرتا تھا۔ میں نے عاص بن وائل سہمی کے لئے ایک تلوار بنائی۔ میں اس کی مزدوری مانگنے کے لئے عاص کے پاس گیا وہ کہنے لگا۔ میں اس وقت تک تجھے مزدوری نہیں دوں گا۔ جب تک تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پھر نہ جائے۔ میں نے کہا ’’جب اللہ تجھے موت دے گا پھر تجھے زندہ کرے گا، میں تو اس وقت تک بھی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار نہیں کروں گا‘‘وہ کہنے لگا : ’’اچھا اگر اللہ مجھے مرنے کے بعد زندہ کرے گا تو پھر مجھے مال اور اولاد بھی دے گا (اس وقت میں تمہارا حساب چکا دوں گا) اس وقت اللہ نے یہ آیات نازل فرمائیں‘‘ (بخاری، کتاب التفسیر، ترمذی، ابو اب التفسیر) اسی عاص بن وائل کے بیٹے سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ ہیں۔ جب یہ ابھی اسلام نہیں لائے تھے تو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے مسلمانوں کی واپسی کا مطالبہ کرنے والے قریشی وفد کے نمائندے تھے۔ پھر جب اسلام لائے تو اسلام کی بیش بہا خدمات سرانجام دی تھیں۔ مريم
78 [٧١] یعنی کیا اسے غیب کے حالات پر، جو دوسری زندگی میں پیش آنے والے ہیں۔ یہ اطلاع ہوگئی ہے کہ واقعی اسے اس دوسرے عالم میں بھی ایسے ہی مال و دولت ملے گا۔ جیسا اس دنیا میں اس کے پاس موجود ہے یا اس نے اللہ تعالیٰ سے کوئی وعدہ لے رکھا ہے کہ وہ اسے دوسرے عالم میں ضرور مال و دولت عطا کرے گا اور وہاں وہ اپنے قرض خواہ کا حساب بے باق کرسکے گا۔ مريم
79 [٧٢] یعنی اس کے نامہ اعمال میں اس کا یہ غرور کا کلمہ بھی ضرور درج کرلیا جائے گا اور اس کے گناہوں کی سزا پر اس کی اس جسارت کے گناہ کا مزید اضافہ کیا جائے گا۔ مريم
80 [٧٣] یعنی جس مال و دولت کی یہ اب بات کر رہا ہے۔ یہ سب کچھ یہیں دنیا میں ہی دھرا رہ جائے گا اور با لآخر یہ سب کچھ ہماری ہی ملکیت میں آجائے گا اور یہ شخص بالکل خالی ہاتھ ہمارے پاس حاضر ہوگا۔ البتہ اس کے گستاخانہ کلمات اور بدکرداریاں ضرور اس کے ساتھ آئیں گی۔ جن کی اسے قرار واقعی سزا ملے گی۔ مريم
81 [٧٤] عزکا لغوی مفہوم :۔ لفظ عز کا معنی یہ ہے کہ ان کے معبود ان کے لئے سبب عزت بن جائیں گے اور عزت سے مراد عربی زبان میں کسی شخص کا ایسا طاقتور اور بالا دست ہونا ہے جس پر کوئی ہاتھ نہ ڈال سکے۔ ( ضد ذلت) اور ان کے معبودوں کا ان کے لئے سبب عزت ہونا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ ان کی حمایت پر ہوں گے جس کی وجہ سے ان کا کوئی مخالف ان پر ہاتھ نہ ڈال سکے گا۔ مريم
82 [٧٥] یعنی وہ کہہ دیں گے کہ ہم نے ان سے کب کہا تھا کہ وہ ہماری عبادت کیا کریں۔ نیز ہمیں تو آج تک یہ معلوم نہ ہوسکا کہ وہ ہماری عبادت کرتے بھی رہے ہیں یا نہیں؟ مريم
83 مريم
84 [٧٦] جو لوگ شیطان کے فریب میں آجاتے ہیں تو پھر شیطان انھیں اپنی انگلیوں پرنچاتے رہتے ہیں۔ اس طرح ان کی گمراہی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے وہ جو کام کرتے ہیں سرکشی اور نافرمانی کا ہی کرتے ہیں اور ہم یہ سب کچھ ان کے نامہ اعمال میں محفوظ کرتے جارہے ہیں۔ لہٰذا آپ ان کے بارے میں جلدی نہ کریں اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے دن گنے جاچکے ہیں۔ لہٰذا آپ ان پر عذاب کے لئے جلدی نہ کریں جتنے ان کی مہلت کے دن باقی ہیں وہ پورے ہو لینے دیں۔ مريم
85 مريم
86 [٧٧] وَرَدَ کے معنی :۔ وَرَدَ کے معنی کسی شخص کا پانی پینے یا پانی لینے کے لئے پانی کی جگہ، گھاٹ، کنویں یا چشمے پر جانا ہے (اور اس کی ضد صَدَرَ ہے یعنی پانی لے کر یا پانی سے سیراب ہو کر واپس جانا) اور ورد کے معنی گھاٹ بھی ہے اور پیاسا بھی جسے پانی کی تلاش ہو اور یہ پیاسے مجرم چاہتے تو یہ ہوں گے کہ کسی طرح پانی کے گھاٹ پر پہنچیں اور پانی کی جستجو کرتے کرتے وہ جاپہنچیں گے جہنم پر۔ دوسری راہ انھیں کوئی نظر ہی نہ آئے گی۔ مريم
87 [٧٨] سفارش کی کڑی شرائط :۔ اس ذو معنی جملہ کے دو مطلب ہیں۔ ایک تو سفارش صرف اس شخص کے حق میں کی جاسکے گی جس نے اپنے آپ کو مستحق شفاعت بنائے رکھا ہو۔ ایسے لوگوں کے لئے اللہ کا عہد ہے کہ ان کے حق میں سفارش قبول کی جائے گی اور یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے کبھی شرک نہ کیا ہوگا۔ اللہ کے فرمانبردار ہوں گے مگر کبھی کبھی ان سے گناہ بھی سرزد ہوگئے ہوں گے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ سفارش صرف وہ لوگ کرسکیں گے جنہیں اللہ تعالیٰ سفارش کرنے کی اجازت دیں گے اور یہی اللہ کا عہد ہے۔ ان لوگوں کو سفارش کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہوگی جن سے مشرکوں نے اپنی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔ مريم
88 مريم
89 مريم
90 مريم
91 [٧٩] یہود کے نزدیک عزیر اللہ کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ عیسیٰ کو اللہ کا بیٹا کہتے ہیں۔ مشرکین مکہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے اور دوسرے مشرکین کے دیوتا اور دیویاں سب اللہ کے بیٹے اور بیٹیاں یا ان کی اولاد ہے۔ گویا ان لوگوں نے اللہ کی نسل ہی چلا دی۔ اللہ تعالیٰ کے حق میں یہ اس قدر گستاخانہ بات ہے کہ اگر آسمان زمین اور پہاڑ وغیرہ ہول کے مارے پھٹ پڑیں اور ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں تو کچھ عجب نہیں۔ اس گستاخی پراگر اللہ کا غضب بھڑک اٹھے اور زمین و آسمان کے پرخچے اڑ جائیں۔ نظام عالم تباہ و برباد ہوجائے تو سب کچھ ممکن ہے۔ یہ تو محض اس کا حلم ہے جوایسی بے ہودہ بات سن کر بھی دنیا کو یکدم تباہ نہیں کر رہا۔ چنانچہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : (گویا یہ حدیث قدسی ہے) کہ ابن آدم نے مجھے جھٹلایا اور اسے ایسا نہیں کرنا چاہئے اور ابن آدم نے مجھے گالی دی اور اسے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ اس کا جھٹلانا تو یہ ہے کہ وہ یہ کہتا ہے کہ میں اسے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ نہیں کرسکتا۔ گالی دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ میری اولاد ہے حالانکہ میں اس سے پاک ہوں کہ کسی کو بیوی یا بچہ بناؤں۔ (بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ مریم، زیر آیت متعلقہ، نیز سورۃ اخلاص) مريم
92 [٨٠] اللہ کی اولاد قرار دینا اللہ کو گالی دینے کے مترادف ہے :۔ شایاں اس لئے نہیں کہ اولاد باپ کی نہ مخلوق ہوتی ہے نہ مملوک بلکہ اس کی شریک اور ہم جنس ہوتی ہے۔ اور اللہ ایسے تمام نقائص سے مبرا ہے نہ اس کا کوئی ہم جنس ہے نہ شریک۔ سب اسی کی مخلوق، مملوک اور اس کے عاجز بندے اور غلام ہیں۔ علاوہ ازیں اسے اولاد کی ضرورت بھی نہیں۔ اولاد سے جو جو مفادات وابستہ ہوتے ہیں ان میں سے کسی ایک کی بھی اسے احتیاج نہیں۔ مريم
93 [٨١] یعنی جو غلام یا بندہ ہو وہ بیٹا نہیں ہوسکتا اور جو بیٹا ہو وہ اس کا بندہ اور غلام نہیں ہوسکتا۔ اب جس ہستی کے پہلے ہی سب غلام و محتاج ہوں اس کو اولاد کی ضرورت بھی کیا ہے؟ اور وہ اس کی اولاد بن کیسے سکتے ہیں؟ مريم
94 مريم
95 مريم
96 [٨٢] انبیاء اور صالحین سے لوگ محبت اور بدکرداروں سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟:۔ یہ آیت اس دور میں نازل ہوئی جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مجبور و مقہور تھے۔ قریشی سرداروں کے ہاتھوں ستم رسیدہ تھے اور ان کی نگاہوں میں حقیر تھے۔ اس آیت میں ان کے لئے ایک بہت بڑی خوشخبری بھی ہے اور پیشین گوئی بھی پھر ایک وقت آیا جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اللہ تعالیٰ نے وہ عزت عطا فرمائی کہ سارا جہان ان سے محبت رکھنے اور ان کے گن گانے لگا۔ آج تک یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ یہ بات صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ہی مخصوص نہیں بلکہ جو بھی ایماندار اعمال صالحہ بجا لائے گا۔ ابتداء ً خواہ لوگ اس کی طرف متوجہ نہ ہوں یا اسے اس راہ میں تکلیفیں بھی پہنچیں لیکن جلد ہی اللہ تعالیٰ انھیں عزت بخشیں گے اور لوگوں میں ان کی مقبولیت اور محبت پیدا ہوجائے گی۔ اس کے برعکس بے ایمان اور بدکردار لوگوں کی خواہ ابتدا میں کتنی ہی عزت ہو لیکن وہ با لآخر لوگوں کی نظروں سے گر جاتے ہیں۔ اور لوگ ان سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ یہ سب کچھ کیسے اور کیوں ہوتا ہے اس کی تفسیر درج ذیل حدیث میں ملاحظہ فرمائیے : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتے ہیں تو جبریل کو پکار کرکہتے ہیں کہ میں فلاں بندے سے محبت رکھتا ہوں تم بھی اس سے محبت رکھو۔ پھر جبریل آسمان میں پکارتے ہیں۔ پھر اہل زمین میں اس کی محبت نازل کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول کا یہی مطلب ہے اور جب اللہ کسی بندے سے ناراض ہوجاتے ہیں تو جبریل سے کہتے ہیں : میں فلاں بندے سے ناراض ہوں تم بھی اس سے ناراض ہوجاؤ۔ پھر یہی بغض اس کے لئے اہل زمین میں نازل کیا جاتا ہے۔ (ترمذی، ابو اب التفسیر) مريم
97 [٨٣] قوما لُدّا سے مراد ہٹ دھرم، جھگڑالو اور کج بحثی کرنے والے قریشی سردار ہیں۔ جو ہر بات میں میں میخ نکالنے کے عادی تھے۔ انھیں ہی یہ تنبیہ کی جارہی ہے کہ تمہارے جیسی بہت سی اقوام کو ہم نے یوں تہس نہس کردیا کہ ان کا نام و نشان تک صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہے۔ اور ان کی شیخیوں، گستاخیوں اور لن ترانیوں کی آج بھنک تک سنائی نہیں دیتی۔ مريم
98 مريم
0 [١] یہ سورت سورۃ مریم کے بعد بلکہ ہجرت حبشہ کے بعد نازل ہوئی تھی اور ہجرت حبشہ سن ٥ نبوی میں ہوئی تھی۔ نیز یہ سورۃ سیدنا عمر کے اسلام لانے سے پہلے نازل ہوئی تھی، عام روایت کے مطابق یہی سورت سن کر سیدنا عمر کے دل میں اسلام جاگزیں ہوا تھا اور سیدنا عمر سن ٦ نبوی میں اسلام لائے تھے۔ طه
1 طه
2 [٢] قرآن اتنا ہی پڑھنا چاہئے جتنا کہ دل کی خوشی سے پڑھا جائے :۔ یعنی یہ قرآن اس لئے نہیں اتارا گیا کہ آپ لوگوں کے ہدایت کے سلسلہ میں سارے جہان کا درد سر مول لے لیں۔ آپ کا کام صرف یہ ہے کہ اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچا دیں۔ پھر جس کسی کے دل میں کچھ بھی اللہ تعالیٰ کا خوف ہوگا۔ وہ ضرور اس قرآن کی ہدایت کو قبول کرے گا اور اس کے لئے یاددہانی کا کام دے گا اور جو لوگ اللہ سے بے خوف ہوچکے ہیں وہ اگر اس کی ہدایت کو قبول نہیں کرتے تو آپ کو اس بارے میں پریشان نہ ہونا چاہئے اور نہ ان کے غم میں اپنے آپ کو ہلکان کردینا چاہئے۔ قرآن کے نزول کا مقصد آپ کو مشقت میں ڈالنا ہرگز نہیں۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ ان دنوں رسول اللہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رات کو کھڑے ہو کر بہت زیادہ قرآن پڑھا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس محنت اور ریاضت کو دیکھ کر کافر کہتے تھے کہ قرآن کیا اترا ہے۔ بے چارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم مصیبت میں پڑگئے۔ اس وقت یہ آیت اتری۔ اور کافروں کی بات کا جواب بھی دیا گیا کہ اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے یہ مصیبت نہیں، بلکہ نصیحت اور یاددانی ہے۔ رحمت ہے نور ہے۔ اور جو شخص جس قدر قرآن شوق اور نشاط سے پڑھنا چاہے اتنا ہی پڑھ لے۔ اگر کوئی زیادہ پڑھتا ہے تو وہ اپنی رضا و رغبت سے پڑھتا ہے محنت اور مشقت سمجھ کر نہیں پڑھتا۔ طه
3 طه
4 طه
5 [٣] استوی علی العرش کا بیان سورۃ اعراف آیت نمبر ٥٤ کے حاشیہ میں گزر چکا ہے۔ عرش الٰہی کے متعلق جو کچھ نصوص سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ اس کے پائے ہیں۔ جنہیں خاص فرشتے اٹھائے ہوئے ہیں۔ اور بالخصوص قیامت کے دن آٹھ فرشتے اسے اٹھائے ہوئے ہوں گے اور یہ عرش سب آسمانوں کے اوپر ہے اور انھیں قبہ کی طرح گھیرے ہوئے ہے۔ طه
6 [٤] زمین اور آسمان کے درمیان کیا کچھ ہے :۔ زمین و آسمان کے درمیان بھی اللہ کی بے شمار مخلوق موجود ہے۔ مثلاً ہوا، بادل، اڑنے والے پرندے اور ہوائی جہاز، ایتھر، آسمان سے زمین کی طرف اترنے والے فرشتے اور زمین سے آسمان کی طرف پرواز کرنے والے فرشتے، بد روحیں، فضا میں بروقت گردش کرنے والے سیارے، ٹوٹنے والے ستارے یہ چیزیں تو وہ ہیں جن کا ہمیں کسی نہ کسی طرح علم ہے۔ اور جو انسان کے علم میں نہیں آئیں ان کی تعداد اور ان کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ [٥] اللہ کی مخلوق کہاں کہاں ہے؟ ثریٰ کے لغوی معنی صرف گیلی مٹی ہے جو زمین کی تہوں میں ہے۔ اور یہ لفظ عموما ً ثریا (کہکشاں) کے مقابلہ میں آتا ہے۔ ثریا سے مراد انتہائی بلندی اور ثریٰ سے مراد انتہائی پستی یا گہرائی لی جاتی ہے۔ گویا چار چیزیں یہاں مذکور ہوئی۔ ایک آسمان اور ان میں رہنے والی مخلوق، دوسرے زمین اور اس پر رہنے والی مخلوق تیسرے آسمانوں اور زمین کے درمیان کی مخلوق اور چوتھے زمین کا اندرونی حصہ اور وہاں کی موجود مخلوق۔ ہر طرح کی مخلوق کا خالق و مالک اللہ ہی ہے اور وہ سب اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہیں۔ طه
7 [٦] خفی اور سر کا لغوی فرق :۔ اخفٰی کا لفظ یسر سے زیادہ ابلغ ہے۔ یسر کا معنی پوشیدہ یا راز کی بات ہے۔ جو آپ کسی دوسرے سے کہہ دیں اور اسے تاکید کردیں کہ وہ اور کسی کو نہ بتلائے۔ اور اخفیٰ سے مراد وہ بات خیال ہے جو کسی کے دل میں آئے لیکن وہ کسی سے بھی اس کا ذکر تک نہ کرے۔ اس سے پہلی آیت میں اللہ کی وسعت قدرت و تصرف اور اختیار بیان کی گئی تھی۔ اس آیت میں لا محدود وسعت علم کا بیان ہوا ہے۔ یعنی قریش کو بتلایا جارہا ہے کہ اللہ تمہاری سب سازشوں، شرارتوں اور کارستانیوں سے پوری طرح واقف ہے۔ طه
8 [٧] اسماء الحسنیٰ :۔ اسماء سے مراد نام بھی ہیں۔ اور احادیث صحیحہ میں ننانوے نام مذکور ہیں۔ جبکہ کتاب و سنت کا استقصاء کرنے پر کئی نام بھی ملتے ہیں۔ اور اسماء سے مراد صفات بھی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے یہ سب نام اللہ تعالیٰ کی صفات ہی کا اظہار کرتے ہیں۔ بالفاظ دیگر یہ سب صفاتی نام ہیں۔ مگر ان میں سے دو نام ایسے ہیں جو صرف اللہ ہی کے ساتھ مخصوص ہیں، کسی دوسری مخلوق کے یہ نام نہیں ہوسکتے۔ ایک اللہ اور دوسرا رحمٰن۔ طه
9 [٨] قرآن کے انداز بیان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس قدر تفصیل کے ساتھ موسیٰ علیہ السلام کا قصہ پہلی بار اسی سورۃ میں بیان ہوا ہے اور قرآن کے مخصوص طرز بیان کی بنا پر اس میں قریش کے کئی اعتراضات کے جواب از خود آگئے ہیں جو وہ وقتا ً فوقتا ً کرتے رہتے تھے۔ طه
10 [٩] سیدنا موسیٰ کا آگ لینے کے لئے جانا :۔ اس قصہ کا آغاز اس وقت سے کیا جارہا ہے جب موسیٰ علیہ السلام کو نبوت عطا کی گئی تھی۔ آٹھ دس سال آپ مدین میں شعیب علیہ السلام کے پاس رہے وہاں آپ کا نکاح شعیب علیہ السلام کی بیٹی سے ہوا تھا۔ طے شدہ مدت گزارنے کے بعد آپ کو خیال آیا کہ آپ اپنے آبائی وطن مصر کی طرف چلنا چاہئے۔ دوران سفر آپ کو رات آگئی۔ شدید سردی کا موسم تھا۔ بیوی ساتھ تھی اور وہ حاملہ تھی۔ سخت اندھیرا تھا لہٰذا آپ راستہ بھی بھول گئے اور کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب کیا کریں۔ سخت پریشانی کا عالم تھا۔ اتنے میں آپ کو دور کہیں سے آگ دکھائی دی۔ جو اس بات کی علامت تھی کہ ضرور وہاں کوئی آدمی بھی موجود ہوگا۔ چنانچہ آپ نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ تم تو یہیں ٹھہرو، میں وہاں آگ والوں کے پاس جاتا ہوں۔ تاکہ ان لوگوں سے راہ کا اتا پتا پوچھ سکوں دوسرے کچھ آگ کے انگارے بھی لیتا آؤں گا۔ تاکہ تم آگ سینک سکو۔ طه
11 طه
12 طه
13 [١٠] موسیٰ علیہ السلام کا اتفاقا طوی وادی میں پہنچنا :۔ جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ایک درخت میں آگ بھڑک رہی ہے۔ پاس نہ کوئی آدم ہے نہ آدم زاد۔ آگ جوں جوں بھڑکتی ہے درخت مزید سرسبز ہوجاتا ہے۔ اس عجیب نظارہ کو دیکھ ہی رہے تھے کہ اس میں ایک آواز آئی کہ ’’اے موسیٰ ! میں تمہارا پروردگار تم سے ہم کلام ہو رہا ہوں۔ تم اس وقت طویٰ کے مقدس میدان میں پہنچ چکے ہو۔ لہٰذا اپنے جوتے اتار لو۔‘‘ اس آواز کی کیفیت یہ تھی کہ یہ معلوم ہی نہ ہوسکتا تھا کہ کس سمت سے آواز آرہی ہے۔ دائیں سے آرہی ہے یا بائیں سے آگے سے یا پیچھے سے، اوپر سے یا نیچے سے۔ لہٰذا موسیٰ علیہ السلام پس آواز کو سننے کے لئے ہمہ تن گوش بن گئے۔ اس آواز نے پہلے جملہ میں اپنا تعارف کرایا۔ دوسرے جملے میں یہ بتلایا کہ تم جو راہ بھول چکے تھے تو تمہیں معلوم ہونا چاہئے اس وقت تم طویٰ کے صاف ستھرے میدان میں کھڑے ہو اور یہاں پہنچنے کے لئے ہی تم راہ بھولے تھے۔ تیسرے جملہ میں یہ ہدایت دی کہ اپنے جوتے اتار لو۔ ممکن ہے کہ آپ کے جوتوں کو راستہ میں کچھ گندگی اور آلائش لگ گئی ہو۔ ورنہ جوتے اگر نئے یا صاف ستھرے ہوں تو جوتوں سمیت مسجد تک جانا تو درکنار نماز ادا کرنا بھی جائز ہے۔ تاہم ادب کا تقاضا یہی ہے کہ کسی مقدس مقام میں داخل ہوتے وقت اتار لئے جائیں۔ طه
14 طه
15 [١١] خفی لا لغوی مفہوم :۔ اخفہا۔ خفی کا معروف معنی چھپنا اور پوشیدہ ہونا ہے اور اخفی کا معنی چھپانا۔ اس لحاظ سے اس کا معنی یہ ہوگا۔ ’’میں اسے چھپائے ہوئے ہوں‘‘ پھر یہ لفظ لغت ذوی الاضداد سے بھی ہے۔ جس کا معنی ہے ظاہر کردینا، کہتے ہیں خفی المظر القارۃ، یعنی بارش نے چوہے کو بل سے نکال کر ظاہر کردیا یا بے نقاب گویا ہم نے دوسرے معنی کو اس لئے ترجیح دی ہے کہ اس سے مطلب زیادہ واضح ہوتا ہے۔ گویا جو آواز اس میدان میں آرہی تھی وہ اللہ کی طرف سے وحی ہو رہی تھی اور قرآن کی صراحت کے مطابق اللہ کا بندے سے ہم کلام ہونا بھی وحی ہی کی تین قسموں میں سے ایک قسم ہے۔ آپ گئے تو تھے آگ لینے کو اور اللہ کی مہربانی یہ ہوئی کہ آپ کو پیغمبری عطا ہوگئی اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی۔ حتیٰ کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو خود بھی پہلے علم نہ تھا کہ آپ کو نبوت عطا ہونے والی ہے اور اس وحی میں آپ کو سب سے پہلے دین کی نہایت اہم اور بنیادی باتیں بتلائی گئیں۔ اسلام کی بنیادی تعلیمات :۔ پہلی یہ کہ اللہ ہی اس کائنات کا خالق و مالک ہے۔ یہ کائنات از خود ہی وجود میں نہیں آگئی۔ دوسری یہ کہ اس کائنات کی تخلیق و تملیک میں کوئی دوسرا اس کا شریک نہیں۔ تیسری یہ کہ اس باتوں کے نتیجہ میں عبادت کا وہ اکیلا ہی مستحق ہے اور نماز اللہ سے تعلق قائم رکھنے کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔ لہٰذا اللہ کو یاد رکھنے کے لئے نماز قائم کرنا ضروری ہے۔ اس سے کبھی غفلت نہ کرنا چاہئے اور اگر بھول جائے تو جب یاد آئے نماز ادا کرنا ضروری ہے اور چوتھی یہ ہے کہ قیامت یقیناً آنے والی ہے اور جلد ہی آنے والی ہے۔ تاہم اس کا معین وقت بتلانا خلاف مصلحت ہے اور قیامت قائم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہر انسان کو اس کے اچھے یا برے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے۔ یہ وہ اصول دین ہیں جو سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر نبی آخر الزمان تک تمام انبیاء و رسل کو وحی کئے جاتے رہے اور ان میں کبھی تغیر و تبدل واقع نہیں ہوا۔ طه
16 [١٢] اور پانچویں یہ بات کہ جو شخص روز آخرت پر ایمان نہیں لاتا اور اس کا ذہن اللہ کے سامنے جوابدہی کے تصور سے خالی ہوتا ہے وہ اپنی خواہشات کا غلام بن کر رہ جاتا ہے۔ وہ دنیا کی دلچسپیوں اور دل فریبیوں میں ایسا مستغرق ہوتا ہے کہ اسے اللہ کبھی بھولے سے یاد نہیں آتا۔ لہٰذا تم ایسے لوگوں کی صحبت سے پرہیز کرو۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اپنے ساتھ تمہیں بھی لے ڈوبیں۔ یہ تھیں وہ بنیادی تعلیمات جو سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو نبوت کے آغاز میں ہی بتلا دی گئیں اور یہ پانچویں ہدایت بالخصوص اس لئے دی گئی کہ آپ ایک جابر، سرکش اور دنیا پرست حکمران کے پاس اللہ کا پیغام لے کر جانے والے تھے اور اس کام کے لئے ایسی استقامت اور ثابت قدمی کی ضرورت تھی جو اقامت دین کے لئے ضروری ہے۔ طه
17 [١٣] اللہ کی موسیٰ علیہ السلام سے ہم کلامی :۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے یہ سوال اس لئے نہیں کیا تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کو پتا نہ تھا کہ یہ میری لاٹھی ہے۔ بلکہ اس لئے کہا تھا کہ اسی لاٹھی کی ہیئت بدلنے والی تھی اور موسیٰ علیہ السلام کو پہلے خود یہ یقین دلانا مقصود تھا کہ وہی تمہاری لکڑی کی لاٹھی اژدھا بن سکتی ہے جسے تم ہر وقت اپنے پاس رکھتے ہو۔ طه
18 [١٤] وحی الہی کی لذت :۔ اللہ تعالیٰ کے سوال کا جواب اتنا ہی کافی اور مکمل تھا کہ ”یہ میری لاٹھی ہے“ مگر اس آواز میں کچھ ایسی لذت تھی کہ ان لذت کے لمحات کو موسیٰ علیہ السلام طول دینا چاہتے تھے۔ لہٰذا ساتھ ہی اور بھی کئی متعلقہ باتیں بتلا دیں تاکہ انھیں کچھ دیر مزید ہم کلامی کا شرف حاصل رہے۔ [١٥] مثلاً اپنی بھیڑوں کو ہانکتا ہوں، ریوڑ کی حفاظت کرتا ہوں، درندوں کے حملہ سے بچاتا اور ان کا تعاقب کرتا ہوں وغیرہ وغیرہ۔ طه
19 طه
20 طه
21 [١٦] سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے حکم کی تعمیل میں عصا کو زمین پر جو پھینکا تو وہ اسی وقت سانپ بن گیا اور سانپ بنتے ہی دوڑنے بھی لگا۔ جب وہ آپ کی طرف آیا تو آپ خود بھی اس سے خوف زدہ ہوگئے کہ کہیں گزند نہ پہنچائے۔ یہ صورت حال دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا۔ ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ اب اسے جرأت کرکے پکڑ لو تو تمہارے ہاتھ لگاتے ہی پھر یہ اپنی پہلی حالت پر آجائے گا یعنی تمہارا وہی پہلا عصا بن جائے گا۔ عصائے موسیٰ کے سانپ کے نام اور اوصاف :۔ لاٹھی کے اس طرح سانپ بن جانے کے لئے قرآن نے مختلف مقامات پر تین الفاظ استعمال کئے ہیں (١) اس مقام پر حیۃ کا لفظ ہے جو ہر قسم کے سانپ کے لئے بولا جاسکتا ہے۔ (٢) جان یعنی سفید پتلا اور لمبا سا سانپ، سانپ کی سٹک (٢٧: ١٠) اور (٣) بہت بڑا سانپ۔ اژدھا (٧: ١٠٧) یعنی لاٹھی جب پھینکی جاتی تو پہلے وہ پتلا سا سانپ بنتی تھی۔ پھر لحظہ بہ لحظہ اس کے جسم میں اضافہ اور تربیت بھی ہونے لگتی تھی۔ تاآنکہ وہ بہت بڑا سانپ بن جاتی تھی۔ طه
22 [١٧] دوسرا معجزہ یہ دیا گیا کہ آپ اپنی بغل میں اپنا دایاں ہاتھ رکھتے پھر نکالتے تو وہ اس قدر چمکتا ہوا نکلتا تھا کہ اس سے نگاہیں خیرہ ہوجاتی تھیں۔ اس سے نہ تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو کچھ تکلیف ہوتی تھی اور نہ ہی یہ کسی بیماری کی علامت تھی اور یہ اس وقت تک چمکتا رہتا تھا جب تک آپ دوبارہ اس اپنی بغل میں نہ لے جاتے تھے۔ طه
23 [١٨] یہ دو معجزات تو نبوت ملنے کے ساتھ ہی سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو دے دیئے گئے اور ساتھ ہی یہ وعدہ بھی کیا گیا کہ آئندہ بھی عندالضرورت ہم آپ کو اپنے معجزات دکھلاتے رہیں گے۔ اور یہ دونوں معجزے آپ کو نبوت کی صداقت کے طور پر دیئے گئے تھے۔ پہلے معجزے میں جبروت الٰہی کا اظہار مقصود تھا۔ جو فرعون جیسے سرکش بادشاہ کے لئے ضرورت بات تھی اور دوسرے معجزہ میں ہدایت کے روشن راستے کی طرف اشارہ تھا جو مقصود انبیاء علیہم السلام ہے۔ طه
24 [١٩] موسیٰ علیہ السلام پہلے مدین سے مصر کو جارہے تھے۔ راستہ میں یہ واقع پیش آگیا۔ آپ کو نبوت عطا کی گئی اور معجزات عطا کرکے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اب جاؤ اور جاکر مصر کے بادشاہ فرعون سے جاکر ٹکر لو۔ وہ اللہ کا نافرمان اور خدائی کا دعوے دار بنا بیٹھا ہے اس کو راہ راست کی دعوت دو۔ اور فرعون جیسے جابر اور قاہر بادشاہ سے مقابلہ کے لئے آپ کو جو سروسامان عطا کیا گیا وہ صرف یہ دو معجزات تھے۔ اسی بات سے معلوم ہوجاتا ہے کہ انبیاء و رسل پر جو ذمہ داری ڈالی جاتی ہے وہ کس قدر گرانبار ہوتی ہے۔ اس حکم کے بعد آپ نے اپنے اہل و عیال سے کیا سلوک؟ اس بارے میں کتاب و سنت خاموش ہیں۔ اغلاب خیال یہی ہے کہ وہ اپنے ساتھ مصر لے گئے ہوں گے۔ طه
25 طه
26 طه
27 طه
28 طه
29 طه
30 طه
31 طه
32 طه
33 طه
34 [٢٠] سیدنا موسیٰ کے چارمطالبات :۔ اللہ کا یہ حکم سن کر آپ نے اپنی حالت کا جائزہ لیا اور چند معروضات پیش کردیں۔ ایک یہ کہ مجھے اتنا حوصلہ عطا فرما کہ میں یہ کام سرانجام دے سکوں اور مجھے اس کام کے کرنے کی توفیق عطا فرما۔ دوسرے یہ کہ میری زبان سے لکنت دور کردے۔ کہتے ہیں کہ بچپن میں آپ نے اپنی زبان پر آگ کا کوئلہ رکھ لیا تھا جس سے آپ کی زبان میں گرہ پڑگئی تھی اور آپ ہکلا کر بات کرتے تھے۔ اس گرہ کو دور کردینے کی آپ نے درخواست کی تاکہ میں وضاحت سے بات کرسکوں اور لوگ میری بات آسانی سے سمجھ سکیں اور تیسرے یہ کہ اس گرانار ذمہ داری کے کام کے لئے مجھے ایک مددگار بھی عطا فرما اور چوتھے یہ کہ اس کام کے لئے مناسب ترین آدمی میرا بھائی ہارون ہے۔ اس کو بھی نبوت عطا فرما اور میرے ہمراہ کردے۔ وہ مجھ سے فصیح اللسان بھی ہے۔ پھر ایک ایک دو گیارہ والا معاملہ ہے۔ کم از کم ہم دونوں تو ایک دوسرے کے مونس و غمگسار ہوں گے۔ پھر ہم مل کر ہی تیری تسبیح و تقدیس اور ذکر بھی کرتے رہا کریں گے۔ طه
35 طه
36 طه
37 [٢١] مطالبات کی منظوری :۔ یعنی جو کچھ درخواستیں تم نے پیش کی ہیں وہ سب کی سب منظور کی جاتی ہیں۔ ان احسانات کے علاوہ پہلے بھی ہم تم پر احسان کرچکے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک ایک کرکے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو وہ احسانات یاد دلاتے ہیں جو ان کی پیدائش سے لے کر تاحال ان پر کئے گئے ہیں اور ان کی تفصیل سورۃ قصص میں بیان ہوئی ہے۔ یہاں صرف یہ بتلانا مقصود ہے کہ تم خاص اسی مہم کے لئے پیدا کئے گئے ہو اور اسی کام کے لئے ہماری زیرنگرانی تمہاری پرورش ہوتی رہی ہے۔ فرعون جیسے جابر بادشاہ سے ٹکر لینے کے لئے جن صفات کی ضرورت تھی۔ وہ تمہیں ودیعت کرکے اس کام کے لئے تمہارا انتخاب کرلیا ہے۔ طه
38 طه
39 [٢٢] سیدنا موسیٰ کی پیدائش اور صندوق میں ڈالنا :۔ ہوا یہ تھا کہ فرعون کو ایک ڈراؤنا سا خواب آیا جس کی تعبیر اسے درباری نجومیوں نے یہ بتلائی کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص پیدا ہونے والا ہے جو تمہاری سلطنت کو تہ و بالا کردے گا اور تمہاری ہلاکت کا موجب بنے گا اس کا توڑ فرعون نے یہ سوچا کہ آئندہ بنی اسرائیل کے ہاں جتنے لڑکے پیدا ہوں ان کو پیدا ہوتے ہی مار ڈالا جائے اور اس حکم کی تعمیل کے لئے اس نے اپنے تمام اہل کاروں کو ہدایات جاری کردیں اور دائیوں کی یہ ذمہ داری تھی کہ جس وقت کسی بنی اسرائیل کے فرد یا سبطی کے ہاں لڑکا پیدا ہو وہ فورا ً حکومت کو اس کی اطلاع کرے۔ تقدیرکےسامنے تدبیر کی ناکامی :۔ دراصل فرعون کی اپنی سلطنت کو بچانے کی یہ تدبیر، کہ بنی اسرائیل کے ہاں ہر نئے پیدا ہونے والے بچے کو پیدا ہوتے ہی مار ڈالا جائے، اس کی حماقت اور ناعاقبت اندیشی پر مبنی تھی۔ وجہ یہ ہے کہ جو تعبیر نجومیوں نے بتلائی تھی اس کے متعلق دو ہی صورتیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ وہ تعبیر غلط ہو۔ اس صورت میں اسے کسی تدبیر کی ضرورت ہی نہ تھی۔ دوسری یہ کہ وہ تعبیر درست ہو۔ اس صورت میں بھی فرعون کی کسی تدبیر کا کچھ فائدہ نہ تھا۔ اس لئے کہ تدبر سے اس تعبیر کو تبدیل کیا جاسکتا ہو تو وہ تعبیر درست کیسے قرار دی جاسکتی ہے۔ یہی دوسری صورت فرعون سے پیش آئی۔ اس کی اس ظالمانہ تدبیر کے باوجود تقدیر غالب آئی اور جو کچھ اللہ کی مشیت میں تھا وہ ہو کے رہا۔ فرعون کا یہ وحشیانہ حکم ایک طویل عرصہ سے بنی اسرائیل پر ڈھایا۔ بنی اسرائیل پر ڈھایا جارہا تھا۔ جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے۔ قرآن کی والدہ اس بچے کے فعل کے تصور سے سخت مغموم ہوگئیں۔ یکدم ان کے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ خیال ڈال دیا کہ اس بچے کی پیدائش کی خبر اہل کاروں کے پاس پہنچنے سے پیشتر ہی اسے ایک تابوت میں بند کردے۔ پھر اس تابوت کو دریائے نیل کی موجوں کی سپرد کردیا جائے۔ اس طرح ایک تو بچہ کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہونے کے منظر کی اذیت سے بچ جائیں گے دوسرے ممکن ہے اللہ تعالیٰ اس بچے کی زندگی کی کوئی اور صورت پیدا کردے۔ طه
40 [٢٣] تابوت کا فرعون کے سامنے پیش کیا جائے :۔ تابوت کو دریا کی موجوں کے حوالے کرنے تک کا کام تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی ماں نے سرانجام دیا۔ اس سے بعد کے سب کام اللہ تعالیٰ کے اپنے کارنامے اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر احسانات ہیں۔ دریا کی موجوں نے تابوت کو دریائے نیل کی اس شاخ کے رخ دھکیل دیا۔ جس پر فرعون کا محل واقع تھا۔ اس مقام پر ایک لہر اٹھی۔ جس نے اس تابوت کو ساحل پر فرعون کے محل کے پاس پھینک دیا۔ پھر اتفاق کی بات کہ یہ تابوت فرعون کے سامنے پیش کیا گیا جو اے موسیٰ ! میرا بھی دشمن تھا اور تمہاری بھی دشمن تھا۔ تو میرا اس لحاظ سے کہ وہ میرا نافرمان تھا اور میرے مقابلہ پر اپنی خدائی کا دعویدار بن بیٹھا تھا اور تمہارا اس لئے کہ وہ تمہیں جان سے ہی ختم کردینا چاہتا تھا۔ پھر میں نے تمہاری ایسی پیاری صورت بنا دی تھی کہ جو بھی تمہیں دیکھتا تمہیں پیار کرنے لگتا تھا اور اس کا دل تمہاری محبت سے بھر جاتا تھا۔ یہی بات تمہاری زندگی کا ذریعہ بن گئی اور یہ سب کچھ میری نگرانی میں اور میرے ارادہ سے ہو رہا تھا۔ [٢٤] فرعون کے ہاں موسیٰ کی تربیت :۔ پھر تمہاری تربیت کا یہ سامان کیا۔ کہ جب تمہاری والدہ نے تابوت کو دریا کے حوالے کیا تو اس نے اپنی بیٹی یعنی تمہاری بہن کو یہ تاکید کردی تھی کہ دریا کے بہاؤ کے ساتھ چلتی جائے۔ اور اس تابوت کی نگرانی کرتی رہے کہ اس تابوت کا کیا انجام ہوتا ہے۔ تاآنکہ اسے پتہ چل گیا کہ تم فرعون کے گھر میں پہنچ گئے ہو۔ ایسا پیارا بچہ دیکھ کر فرعون کی بیوی آسیہ نے اپنے خاوند سے کہا کہ ہمارے ہاں اولاد نہیں، کیوں نہ ہم اسے اپنا بیٹا ہی بنا لیں۔ بالأخر اس نے اپنے خاوند فرعون کو اس بات کا قائل کرلیا۔ اب سوال یہ تھا کہ کون سی اناپریا دائی سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو دودھ پلائے۔ جو بھی انا لائی جاتی سیدنا موسیٰ اس کا دودھ پینے سے ایا کراہتے تھے۔ بڑا ٹیڑھا مسئلہ بن گیا تھا۔ جب یہ بات عام ہوئی تو سیدنا موسیٰ کی بہن نے وہاں حاضر ہو کر کہا۔ میں تمہیں ایک ایا کی نشاندہی کرتی ہوں مجھے امید ہے کہ یہ بچہ اس کا دودھ ضرور پی لے گا۔ چنانچہ موسیٰ کی بہن نے اپنی ماں کا اتا پتا بتلایا۔ اسے بتلایا گیا۔ تو بچہ فی الواقع اس کا دودھ پینے لگا۔ پھر فرعون اور اس کی بیوی نے یہ بچہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی ماں کے ہی حوالہ کردیا اور اس کی سرکاری خزانہ سے تنخواہ بھی مقرر کردی گئی۔ اور اسے بچہ سمیت واپس اپنے گھر بھیج دیا گیا۔ اس طرح اے موسیٰ ! ہم نے حیرت انگیز طریقے سے تمہاری پرورش کا بندوبست کردیا۔ تم خود بھی اپنی ماں کے پاس پہنچ گئے۔ تربیت بھی ہونے لگی اور تمہاری ماں کی آنکھیں بھی ٹھنڈی رہیں۔ اس طرح ہم نے تمہیں موت کے منہ سے بچایا اور بچپن میں تمہاری تربیت کا انتظام اسی فرعون کے ہاتھوں کروایا جو تمہاری ہی جان کے درپے تھا۔ [٢٥] سیدنا موسیٰ کے ہاتھوں ایک قبطی کا مرجانا :۔ اس واقعہ کی تفصیل تو سورۃ قصص میں آئے گی۔ اجمال یہ ہے کہ سیدنا موسیٰ کے ہاتھوں ایک قبطی (فرعونی) نادانستہ طور پر مارا گیا تھا۔ آپ نے اسے صرف مکہ مارا تھا جس سے اس کی موت واقع ہوگئی۔ تو ہم نے تمہیں مدین کی راہ دکھائی اور اس کے نتیجہ میں جو تمہیں سزا کے طور پر اپنی موت کا خطرہ تھا اس سے نجات دی۔ اس کے بعد بھی تم پر کئی آزمائشوں کے دوار آئے۔ جن میں ہم تمہاری مدد کرتے رہے۔ [٢٦] تقدیر کے مطابق اسباب ضرور بنتے چلے جاتے ہیں :۔ تم مدین پہنچے تو بالکل ایک اجنبی مسافر تھے۔ پھر ہم نے تمہارے لئے ایسے سامان مہیا کردیئے کہ تم مدین میں شعیب علیہ السلام کے پاس باعزت طور پر رہنے لگے۔ سالہا سال ان کی بکریاں چرائیں۔ اس سے بھی تمہاری تربیت مقصود تھی۔ پھر شعیب علیہ السلام کی بیٹی سے تمہارا نکاح ہوا تو تمہاری یہ ضرورت بھی پوری ہوگئی۔ پھر مدین میں معینہ مدت گزارنے کے بعد تمہیں اپنے وطن واپس جانے کا خیال آیا۔ سردیوں کی طویل اور اندھیری رات میں تم بال بچوں سمیت سفر کر رہے تھے تو راستہ بھول گئے۔ اور اب تم آگ دیکھ کر ادھر آگئے ہو تو راستہ کا اتا پتا معلوم کرو۔ اور اپنے گھروالوں کے لئے کچھ آگ کے انگارے لے جاؤ تو یہ سب کچھ اتفاقا ً ہی نہیں ہوگیا۔ بلکہ تم ٹھیک ہماری مشیت اور اندازہ کے مطابق یہاں پہنچے ہو۔ ہمیں تم کو یہاں اسوقت اور اس حال میں لانا مقصود تھا تو تمہارے لئے حالات ہی ایسے پیدا کردیئے کہ تم از خود یہاں پہنچ گئے۔ طه
41 [٢٧] یہ تمہاری تربیت کا سارا اہتمام اسی غرض کے تحت کیا گیا ہے کہ تمہیں اس مہم کے لئے فرعون کے پاس بھیجا جائے اور میں نے اسی کام کے لئے تمہاری اسی انداز سے تربیت کی ہے۔ طه
42 [٢٨] اللہ کے ذکر کا فائدہ :۔ پہلے صرف سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو یہی بات کہی تھی کہ فرعون کے پاس جاؤ کیونکہ اس نے سر اٹھا ہے۔ اب جب سیدنا ہارون ؑکو بھی نبوت عطا کرکے ان کا مددگار بنا دیا گیا تو ان دونوں سے وہی بات کہی گئی اور اب ان دونوں کو تاکید کی کہ میرے ذکر میں کوتاہی نہ کرنا کیونکہ اللہ کا ذکر ہی وہ چیز ہے جو اللہ والوں کی کامیابی کا ذریعہ اور دشمن کے مقابلہ میں بہترین ہتھیار ہے۔ اس سے اللہ کی طرف لو لگائے رکھنے اور اللہ پر بھروسہ کرنے کی صفت پیدا ہوتی ہے۔ پھر اس راہ میں جو مصائب پیش آئیں ان کو صبر و استقلال سے برداشت کرنے کی قوت پیدا ہوتی ہے۔ طه
43 طه
44 [٢٩] دعوت کے لئے قوم کا لہجہ ضروری ہے :۔ کسی کے راہ راست پر آنے اور اسے قبول کرنے کی دو ہی صورتیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ وہ دعوت کو پوری سمجھ کر حق بات قبول کرلے اور دوسری یہ کہ اپنے برے انجام سے ڈر کر سیدھا ہوجائے۔ یہ دونوں باتیں بتلا دیں اور انھیں تاکید کردی کہ فرعون سے جو بات کہیں نرمی کے لہجہ میں کہیں۔ کیونکہ سختی سے بات کرنے سے بسا اوقات الٹا اثر ہوتا ہے۔ مخاطب اصل بات سمجھنے کی بجائے طرز تخاطب اور لہجہ کی بنا پر ضد اور مخالفت پر اتر آتا ہے۔ گویا تبلیغ اور دعوت دین کا کام کرنے والوں کے لئے یہ ایک نہایت اہم سبق ہے۔ طه
45 [٣٠] فرعون کے ہاں جانے کے خدشات :۔ مصر پہنچ جانے کے بعد جن دونوں بھائی فرعون کے ہاں جانے کو تیار ہوئے اور فرعون جابر اور خود سر بادشاہ کے پاس جاکر اسے دعوت دینے کا خیال کیا تو اپنے پروردگار سے عرض کیا کہ ہم تعمیل ارشاد کو حاضر ہیں مگر اس بات سے ڈرتے ہیں کہ وہ ہماری بات سننے پر آمادہ بھی ہوگا یا نہیں یا بات سن لینے پر غصہ سے بھڑک نہ اٹھے گا یا ہم پر بھی دست درازی کرے یا آپ کی شان میں مزید گستاخانہ باتیں کہنے لگے۔ جس سے اصل مقصد ہی فوت ہوجائے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اس سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ کیونکہ میں بھی تمہارے ساتھ ہوں سب کچھ سن اور دیکھ رہا ہوں۔ وہ تمہارا بال بھی بیکا نہ کرسکے گا۔ طه
46 طه
47 [٣١] فرعون کو دعوت دینے پانچ نکات :۔ گویا فرعون کے سامنے دعوت کا پانچ نکاتی پروگرام ان پیغمبروں کو دیا گیا۔ ان میں سے چار تو دعوت دین کے بنیادی نکات اور ایک مطالبہ ہے۔ پہلی بات یہ تھی کہ اسے کہنا کہ ہم تمہارے پروردگار کے رسول ہیں۔ اس میں دو نکات آگئے۔ ایک یہ کہ لوگوں کے پروردگار تم نہیں بلکہ وہ ذات ہے جو ہر چیز کا، ہمارا اور خصوصا ً تمہارا بھی پروردگار ہے، دوسرا نکتہ یہ تھا کہ ہم دونوں اسی پروردگار کے بھیجے ہوئے تیرے پاس آئے ہیں خود نہیں آئے۔ گویا اس ایک حملہ میں توحید و رسالت کا ذکر آگیا۔ تیسرا نکتہ یہ تھا کہ بنی اسرائیل پر ظلم کرنا چھوڑ دے اور انھیں اپنی غلامی سے آزاد کر اور انھیں ہمارے ہمراہ کر دے تاکہ وہ آزادانہ زندگی بسر کرسکیں اور یہ تیسرا نکتہ خاص اس قسم کے حالات کے مطابق تھا۔ چوتھا نکتہ یہ تھا کہ جو شخص اس راہ ہدایت یعنی اللہ کی توحید اور ہماری رسالت پر ایمان لے آئے گا اور اللہ ہی کی عبادت اور ہماری اطاعت کرے گا اس کے لئے اس دنیا میں امن اور سلامتی ہوگی اور آخر میں بھی۔ اور پانچویں یہ تھا کہ ہمیں بذریعہ وحی اس بات کی خبر دی گئی ہے کہ جو شخص ہماری دعوت سے منہ پھیرے گا آخر میں اس کے لئے عذاب ہوگا۔ گویا چوتھے اور پانچویں نکتہ میں ایمان کے نہایت اہم جزء ایمان بالأخرت کی دعوت پیش کی گئی تھی۔ اور ساتھ ہی یہ بات کہہ دینا کہ ہمارا یہ دعویٰ رسالت بےدلیل نہیں بلکہ ہم تیرے پاس تیرے رب کی نشانی لے کر آئے ہیں۔ طه
48 طه
49 طه
50 [٣٢] فرعون کا سیدنا موسیٰ سے پہلا سوال کہ تمہارا پروردگار کون ہے :۔ جب فرعون کے پاس پہنچ کر ان دونوں بھائیوں نے اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے طریقہ پر اس کی دعوت پیش کی تو فرعون نے جو پہلا سوال یا اعتراض کیا وہ اس کی اپنی دکھتی رگ تھی۔ وہ خود خدائی کا دعوے دار تھا اور لوگوں کو اس نے یہی یقین دلایا ہوا تھا کہ وہی ان کا پروردگار ہے۔ فرعون بلاشبہ اس بات کا قائل تھا کہ زمین و آسمان اور موجودات کو اللہ نے پیدا کیا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی سیاسی و قانونی حاکمیت کا وہ منکر تھا۔ وہ یہ سمجھتا تھا کہ میرے اوپر کوئی ایسی بالاتر ہستی نہیں جس کا حکم مجھ پر چلتا ہو اور مجھے اس کا حکم ماننا ضروری ہو۔ لہٰذا اس نے فورا ً یہ سوال کردیا کہ ’’ایسا تمہارا پروردگار ہے کون؟‘‘ چونکہ فرعون اللہ تعالیٰ کی توحید و ربوبیت کا قائل تھا، اس لئے سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اس کا جواب ہی ایسا دیا جو ربوبیت سے تعلق رکھتا تھا۔ اور وہ جواب یہ تھا کہ میرا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو احسن ایک خاص ساخت عطا کی۔ پھر اس کا وظیفہ بھی اسے سمجھا دیا اور اس کی جبلت میں رکھ دیا۔ اس نے مچھلی پیدا کی تو اسے پانی میں تیرنا بھی سکھلا دیا، پرندے پیدا کئے تو انھیں اڑنا بھی سکھلا دیا۔ بچہ پیدا کیا تو اسے فورا ً ماں کے پستان سے چمٹنا اور دودھ پینے کا طریقہ بھی سکھلا دیا۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ ان چیزوں کی ایسی رہنمائی نہ کرتا تو اس کے علاوہ کوئی بھی انھیں سکھلا نہیں سکتا تھا۔ واضح رہے یہاں اللہ تعالیٰ نے خلق کل شئی نہیں بلکہ اعطی کل شئی خلقه فرمایاہے۔ جویہ معنی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی پیدائش کے وقت اسے ایک خاص شکل وصورت عطا فرمائی او ر وہی اس کےلیے مناسب تھی،مثلاً اللہ تعالیٰ نے جس جس مقام پر انسان کی آنکھیں ناک اور کان یادوسرے اعضاء بنائے تو وہی مقامات ان اعضاء کے لیے مناسب تھے،اگرا ن کو ادھر اُدھر کردیاجاتاتو ہر چیز بدصورت ہوتی اور اس کا حلیہ بھی بگڑاہواہوتا۔ طه
51 [٣٣] فرعون کا دوسرا سوال کہ پہلی امتیں کس حال میں ہیں :۔ اس پہلو سے لاجواب ہو کر فرعون نے دوسرا سوال جو کیا وہ اس کی انتہائی شرارت پر مبنی تھا۔ جس سے وہ اپنی تمام رعیت کو ان رسولوں کے خلاف بھڑکانا اور ان میں مذہبی تعصب پیدا کرنا چاہتا تھا۔ اس کا سوال یہ تھا کہ اگر صورت حال یہی ہے کہ جو توحید و رسالت کی دعوت تم لے کر آئے ہو اس کو ماننے والوں کے لئے امن و سلامتی ہے اور جو اس دعوت پر ایمان نہیں رکھتے تو ان کو دردناک سزا ملے گی تو بتلاؤ جو ہمارے باپ دادا فوت ہوچکے ہیں وہ کس حال میں ہیں؟ طه
52 [٣٤] اگر فرعون کے اس سوال کا جواب موسیٰ علیہ السلام یوں دیتے کہ وہ سب کے سب گمراہ تھے اور انھیں دوزخ کا عذاب ہوگا۔ تو اگرچہ یہ جواب صحیح تھا مگر فرعون کے سارے درباری غصہ سے بھڑک اٹھتے اور فورا ً ان دونوں کے خلاف متحد ہوجاتے اور فرعون اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتا۔ مگر موسیٰ علیہ السلام نے جواب ایسا حکیمانہ دیا جو مبنی درحقیقت بھی تھا اور کسی کے تعصبانہ جذبات کو ٹھیس بھی نہ پہنچی تھی۔ آپ نے واضح الفاظ میں جواب دیا کہ جو لوگ گزر چکے ہیں ان کے حالات جاننے کی ہمیں ضرورت نہیں وہ جانیں اور ان کا پروردگار جانے۔ ہمیں صرف اپنی فکر کرنا چاہئے۔ کہ ہم کون سا طرز زندگی اختیار کرتے ہیں اور ہمارا انجام کیسا ہوگا۔ [٣٥] اللہ سے بھول چوک ناممکن ہے :۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو پیدا کرنے کے سلسلے میں ان کی ہدایت کا جو قانون بنایا ہے نہ اس میں وہ بھولتا یا چوکتا ہے اور نہ کسی کو اس کے اچھے یا برے اعمال کی جزا و سزا دینے میں۔ قرآن کے اس مقام پر سیدنا موسیٰ کا ذکر ختم کرنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہاں فرعون اور سیدنا موسیٰ کا پہلا مکالمہ ختم ہو رہا ہے اور آگے چند آیات میں جو دلائل توحید دیئے جارہے ہیں اور پندو نصائح پیش کئے جارہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور سب لوگوں کے لئے ہیں۔ طه
53 طه
54 [٣٦] تمام مخلوق کی روزی کا بندوبست :۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمام جاندار مخلوق کی روزی کا خواہ وہ انسان ہوں یا حیوانات ہوں ایسا مستقل اور مستحکم نظام پیدا کردیا ہے جس سے تمام مخلوق کو روزی مہیا ہوتی رہتی ہے۔ اگر بارش کا دیوتا کوئی اور ہوتا اور نباتات کا کوئی دوسرا تو ان میں ہمیشہ کی مطابقت محال تھی۔ اور کچھ عرصہ بعد تمام مخلوق بھوک سے ہی مر جاتی۔ اللہ کا یہ نظام پیداوار اور اس پیداوار کے عوامل، یعنی سورج کی حرارت، ہواؤں کا چلنا، سمندر سے بخارات کا اٹھنا، موزوں موسم میں بارش کا نزول پھر اس سے زمین کا لہلہا اٹھنا ان سب باتوں میں ایسی ہم آہنگی ہے جس سے ہر صاحب بصیرت اس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے کہ اس کائنات کی مدبر و منتظم صرف ایک ہی ہستی ہوسکتی ہے۔ طه
55 [٣٧] انسان کا زمین سے دائمی تعلق :۔ اس آیت میں انسان پر وارد ہونے والی تین کیفیات کا ذکر کیا گیا ہے اور ان تینوں کا تعلق زمین سے ہے۔ اللہ نے انسان کو زمین یا مٹی سے پیدا کیا اور اس کی تمام تر ضروریات اسی سے متعلق کردیں۔ پیدائش سے لے کر موت تک یہ ایک مرحلہ ہوا۔ دوسرا مرحلہ موت سے قیامت تک ہے۔ اس مرحلے میں انسان اسی زمین میں دفن ہوتا ہے اور اکثر لوگوں کی میت مٹی بن کر مٹی ہی میں رل مل جاتی ہے۔ اور حدیث میں ہے کہ انبیاء کے اجسام کو مٹی نہیں کھاتی اس کا یہ مطلب نہیں کہ باقی سب لوگوں کو مٹی کھاجاتی ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انبیاء کے جسم کو تو بہرحال نہیں کھاتی اور بعض دوسرے لوگ بھی ایسے ہوسکتے ہیں جن کے اجسام ان کی قبروں میں محفوظ ہوں۔ اور تیسرا مرحلہ بعث بعد الموت ہے۔ یعنی جب اللہ تعالیٰ اس مٹی میں ملے ہوئے ذرات کو جمع کرکے سب لوگوں کو زندہ کرکے اپنے حضور حاضر کرے گا۔ گویا پہلے دو مراحل تیسرے مرحلہ کے لئے دلیل کا کام دیتے ہیں۔ طه
56 [٣٨] فرعون سے موسیٰ علیہ السلام کی پہلی ملاقات کے بعدیہاں درمیان کے کئی مراحل کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ اسی دوران موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو اپنی رسالت کی دلیل میں کئی نشانیاں بھی دکھائیں۔ جن کا ذکر قرآن میں متعدد مقامات پر آیا ہے جب ملک پر کوئی آفت نازل ہوتی تو وہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے کہتا کہ اپنے پروردگار سے دعا کرو۔ اگر یہ آفت دور ہوگئی تو ہم تم پر ایمان لے آئیں گے۔ پھر جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے وہ آفت دور ہوجاتی۔ تو وہ وعدہ خلافی کرتا اور پھر سے اکڑ جاتا تھا اور ایسا معاملہ کئی بار پیش آتا رہا۔ اور حقیقت یہ تھی کہ فرعون کو سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی رسالت کا یقین تو ہوچکا تھا مگر وہ اپنے اقتدار سے کسی قیمت پر الگ ہونے کو تیار نہ تھا۔ لہٰذا ہر بار انکار کردیتا تھا۔ طه
57 [٣٩] فرعون کے اس قول سے اس کی بدحواسی پورے طور پر ظاہر ہوتی ہے۔ ورنہ اس کے ملک میں سینکڑوں جادوگر موجود تھے۔ جو لوگوں کو اور اسے بھی اپنی شعبدہ بازیاں دکھلاتے اور انعام و اکرام حاصل کرکے چلے جاتے تھے۔ ان میں سے کسی کے متعلق کبھی فرعون کو ایسا خیال نہ آیا تھا کہ یہ قحط بھی لاسکتے ہیں اور فرعون کو ملک بدر بھی کرسکتے ہیں۔ اور جو موسیٰ علیہ السلام کو جادوگر کہنے کا ڈھونگ رچا رکھا تھا تو اس کی وجہ محض یہ تھی کہ اس کی رعایا ان سے متاثر ہو کر ان پر ایمان نہ لے آئے۔ طه
58 [٤٠] موسیٰ علیہ السلام خود بھی ایسا مقابلہ چاہتے تھے تاکہ عام لوگوں کے ذہنوں پر جو فرعون کے جھوٹے پروپیگنڈا کے اثرات پڑ رہے ہیں تھے وہ زائل ہوسکیں۔ اور لوگ خود حق اور باطل میں امتیاز کرسکیں۔ طه
59 [٤١] جادوگرو کا مقابلہ اور موسیٰ علیہ السلام کی دو شرطیں:۔ فرعون کا یہ چیلنج دراصل موسیٰ علیہ السلام کے دل کی آواز تھی۔ مگر ایسا کھلے میدان میں مقابلہ کرانا ان کے وسائل سے خارج تھا۔ فرعون نے چیلنج کیا تو آپ نے اسے غنیمت سمجھتے ہوئے فورا ً قبول کر لیا۔ اور ساتھ دو باتیں یا شرائط اور بھی کہہ ڈالیں۔ ایک تو یہ مقابلہ صرف کھلے میدان میں ہی نہیں بلکہ جشن سالانہ کے دن ہونا چاہئے۔ جبکہ لوگ ہر طرف سے کھنچ کر دارالسلطنت میں میلہ دیکھنے آتے ہیں۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس مقابلہ کو دیکھ سکیں۔ اور دوسرے یہ کہ یہ مقابلہ دن کی صاف روشنی میں چاشت کے وقت ہونا چائیے تاکہ لوگوں کو اس منظر مقابلہ کے دیکھنے اور اس سے نتیجہ اخذ کرنے میں کسی قسم کا شک و شبہ نہ رہے۔ طه
60 [٤٢] یہ مقابلہ صرف جادوگروں کی ہار جیت کا مسئلہ نہ تھا بلکہ دراصل یہ مسئلہ فرعون کے برسراقتدار رہنے یا نہ رہنے کا تھا۔ لہٰذا ملک بھر کے ہر جادوگروں کو اکٹھا کرنے کے لئے اس نے اپنے مقدور بھر جتن کر لئے اور وعدہ کے دن فرعون ان جادوگروں اور اپنے لاؤ لشکر سمیت میدان مقابلہ میں بروقت پہنچ گیا۔ اسی طرح سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور ان کا بھائی بھی بروقت پہنچ گئے۔ طه
61 [٤٣] مقابلہ سے پہلے فرعون کو موسیٰ علیہ السلام کی تنبیہ :۔ موسیٰ علیہ السلام نے اکابرین قوم فرعون کو مخاطب کرتے ہوئے ایک بار پھر تنبیہ کی اور فرمایا: شامت کے مارو! اب بھی سمجھ جاؤ اور معجزہ کو جادو نہ بتلاؤ۔ جب تم حقیقت کو پوری طرح سمجھ چکے ہو تو دوسروں کی آنکھوں میں دھول نہ ڈالو۔ اور جو شخص حق کو سمجھ لینے کے بعد اس کا انکار کرے گا اللہ اسے اپنے عذاب سے دوچار کردے گا۔ تمہارا جھوٹا پروپیگنڈا جھوٹ ہی ثابت ہوگا اور جھوٹ کبھی تادیر چل نہیں سکتا۔ طه
62 [٤٤] اکابرین فرعون میں اختلاف :۔ اکابرین قوم فرعون پر آپ کی نصیحت کا خاصا اثر ہوا اور وہ آپس میں اختلاف کرنے لگے۔ ایک فریق کہتا تھا کہ ان پیغمبروں کا مقابلہ کرنا اپنی شکست کو دعوت دینا ہے۔ دوسرا کہتا تھا کہ ابھی اس مقابلہ کو ملتوی کردیا جائے جبکہ مقابلہ کے دیکھنے کے لئے لوگ جمع ہوچکے تھے۔ اس حال میں یہ اکابرین علیحدہ چلے گئے اور سر جوڑ بیٹھے تاکہ کسی ایک فیصلہ پر اتفاق رائے ہوجائے۔ اس مشورہ میں ماہر جادوگروں کو بھی شریک کیا گیا ان میں سے بعض کہنے لگے کہ ایسے نورانی چہرے جادوگر نہیں ہوسکتے۔ طه
63 طه
64 [٤٥] فرعونیوں کے خفیہ مشورے اور مقابلہ کے متحد دینے کی تلقین :۔ اس علیحدہ مجلس میں ان لوگوں نے، جو جادوگروں کو اکٹھا کرنے میں پیش پیش تھے، اس بات پر زور دیا کہ اب اختلاف کرنے کا موقع نہیں رہا۔ اب تو سب کو اس مقابلہ کے انعقاد پر متفق ہونا ہی بہتر ہے۔ مقابلہ نہ کرنا یا اسے ملتوی کرنا دونوں باتیں ہمارے لئے نقصان دہ اور ہماری شکست کے مترادف ہیں۔ کچھ دوسروں نے کہا کہ اگر تم نے مقابلہ نہ کیا یا تم ہار گئے تو سمجھ لو کہ تمہاری شامت آجائے گی۔ حکومت تم سے چھن جائے گی۔ بنی اسرائیل کے تم غلام بن جاؤ گے۔ پھر جو سلوک وہ چاہیں تم سے کریں تمہیں اس ملک میں رہنے بھی دیں یا نکال باہر کریں۔ تم انھیں کے رحم و کرم پر ہوگے۔ تمہاری یہ تہذیب اور تمدن، تمہاری یہ ثقافت اور عیش و طرب کی محفلیں ایسی سب چیزوں کا جنازہ نکل جائے گا۔ لہٰذا اب صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرو اور جادوگروں کی خوب حوصلہ افزائی کرو اور یہ سمجھ لو کہ آج کا دن شعبدہ بازی کے مقابلے کا دن نہیں بلکہ تمہاری ہار جیت کا دن ہے۔ جو ہار گیا سو مارا گیا اور جو جیت گیا بالآخر اسی کا بول بالا ہوگا۔ طه
65 [٤٦] مقابلہ میں جادوگروں کی پہل :۔ اس اتحاد کے بعد جادو گر میدان مقابلہ میں آگئے اور موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگے : ’’پہلے تو اپنا شعبدہ دکھاؤ گے یا ہم پہل کریں؟‘‘ انہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے یہ استفسار از راہ تکریم کیا تھا جیسا کہ مقابلہ میں اکثر یہ دستور چلتا ہے۔ اس کا جواب موسیٰ علیہ السلام نے یہ دیا کہ پہلے تم ہی اپنے شعبدے دکھلاؤ۔ ان کا یہ جواب از راہ تکریم نہیں تھا۔ کیونکہ جادوگر کوئی قابل عزت شے نہیں ہوتا۔ بلکہ اس لئے تھا کہ حق نتھر کر سامنے آجائے۔ باطل اپنا جتنا زور لگا سکتا ہے۔ لگا لے پھر اگر اس کے بعد حق اس پر غالب آگیا تو سب لوگ حقیقت کو جان لیں گے۔ طه
66 طه
67 [٤٧] بذریعہ وحی کامیابی کی بشارت :۔ قرآن کریم میں ایک دوسرے مقام پر ہے کہ جادوگروں نے بہت بڑا جادو پیش کیا تھا۔ ہزاروں کی تعداد میں ان جادوگروں کی لاٹھیاں اور رسیاں لوگوں کے سامنے سانپوں کی طرح حرکت کر رہی تھیں اور ایسے سانپوں سے میدان مقابلہ بھر گیا تھا۔ ان سانپوں نے لوگوں کو دہشت زدہ کردیا تھا اور فرعون اور اس کے خاص درباری ان جادوگروں کے کارنامے پر دل ہی دل میں خوش ہو رہے تھے اور ان کی داد دے رہے تھے۔ یہ صورت حال دیکھ کر موسیٰ علیہ السلام خود بھی دل میں ڈرنے لگے تھے کہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ اس مقابلہ کا انجام کیا ہوتا ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ اسلام کو وحی کی کہ ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں اور یہ بشارت بھی سنا دی کہ تم ہی کامیاب رہوگے۔ طه
68 طه
69 [٤٨] شعبدہ بازی کا اطلاق :۔ بس تم اتنا کام کرو کہ اس میدان میں اپنا عصا پھینک دو۔ یہ عصا ایک بہت بڑا اژدھا بن کر ان سب نقلی اور مصنوعی سانپوں کو ہڑپ کر جائے گا اور اس میدان میں اس اژدھا کے سوا کوئی چیز نہ رہ جائے گی۔ جادوگروں کی شعبدہ بازیاں، ان کی لاٹھیاں اور رسیاں کسی چیز کا وجود تک باقی نہ رہے گا۔ وجہ یہ ہے کہ بعض علماء نے تلقف ما صنعوا کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ عصا سے بنا ہوا اژدھا جس طرف رخ کرتا اور جہاں جہاں پہنچتا وہاں سے شعبدہ کا اثر ختم ہوتا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ آخر میں جادوگروں کی وہ لاٹھیاں اور رسیاں ہی میدان میں رہ گئیں۔ جو جادوگر اپنے ساتھ لائے تھے۔ ہمارے خیال میں یہ دوسری توجیہ درست نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ تلقف کا معنی نگل جانا یا نوالہ بنا لینا تو لغوی لحاظ سے درست ہے لیکن یہ لفظ باطل کرنے یا بنانے کے معنوں میں نہیں آتا۔ طه
70 [٤٩] جادوگروں کا ایمان لانا :۔ جادوگروں نے غالباً پہلے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے عصا کو اژدھا بنتے کبھی نہ دیکھا تھا۔ انھیں بس اتنا ہی بتلایا گیا تھا کہ ایک شخص جادو کے زور سے اپنی لاٹھی کو سانپ بنا دیتا ہے اور تمہیں اس کا مقابلہ کرنا ہے اور جادوگروں نے جب بچشم خود یہ دیکھ لیا کہ عصا سے بنا ہوا اژدھا ان کے بنے ہوئے سانپوں کو نگل بھی گیا ہے تو انھیں معلوم ہوگیا کہ یہ بات جادو کے علم کی بساط سے باہر ہے۔ اور موسیٰ و ہارون علیہما السلام جادوگر نہیں بلکہ فی الواقع اللہ کے رسول ہیں اور جب ان پیغمبروں نے فتح کی خوشی میں اللہ کے سامنے سجدہ شکر ادا کیا تو جادوگر بھی بے اختیار ان کے ساتھ سجدہ ریز ہوگئے اور بھری مجلس میں ان رسولوں پر اپنے ایمان لانے کا اعلان بھی کردیا ( معجزہ اور جادو کے فرق کے لئے دیکھئے سورۃ اعراف کی آیت نمبر ١١٣ کا حاشیہ) طه
71 [٥٠] فرعون نے ایمان لانے والے جاوگروں کو اتنی سخت دھمکی کیوں دی ؟ ایک تو فرعون اور اس کے حواری میدان میں مقابلہ میں مات کھاچکے تھے جسے لوگوں کی ایک کثیر تعداد نے بچشم خود دیکھ لیا تھا۔ دوسرے یہ ستم ہوا کہ جن جادوگروں کے بل بوتے یہ مقابلہ رچایا گیا تھا وہ کوئی عذر معذرت کرنے کے بجائے خود ایمان لے آئے۔ تو اس دوہری شکست نے فرعون کو سیخ پا کردیا۔ اور لوگوں کو مزید کچھ عرصہ کے لئے الو بنائے رکھنے اور موسیٰ علیہ السلام کی دعوت سے بچائے رکھنے کے لئے یہ تدبیر سوچی کہ ان جادوگروں کو ہی غدار اور جاسوس قرار دیا جائے اور اعلان کردیا کہ فی الواقع یہ جادوگر موسیٰ کے شاگرد معلوم ہوتے ہیں اور ان دونوں کا مشن ایک ہی تھا۔ تبھی تو جادوگروں نے فورا ً گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔ لہٰذا اے جادوگرو! میں تمہیں ایسی اور ایسی سزا دوں گا جسے تمہاری نسلیں بھی یاد رکھیں گی اور تمہیں موسیٰ پر ایمان لانے کا انجام خوب معلوم ہوجائے گا۔ تم ایمان لاکر یہ سمجھ رہے ہو کہ تم ہی نجات پانے والے ہو اور دوسرے لوگ جو موسیٰ پر ایمان نہیں لائے وہ ابدی عذاب میں مبتلا رہیں گے سو ابھی تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ کس کا عذاب سخت اور تادیر رہنے والا ہے۔ طه
72 [٥١] جادوگروں کی جرأت ایمانی :۔اس سزا کے اعلان پر جادو گر فرعون سے بڑی جرأت سے کہنے لگے : تم جو چاہے سمجھو ہم نے تو وہی بات کہی ہے جس کی ہمارے ضمیر نے شہادت دی ہے۔ ہم سب کچھ سمجھ سوچ کر ایمان لائے ہیں۔ لہٰذا اب تم جو سزا دینا چاہو دے لو۔ زیادہ سے زیادہ تم یہی کچھ کرسکتے ہو کہ ہمیں جان سے مار ڈالو گے، اور اس بات کی اب ہمیں پروا نہیں رہی۔ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری سابقہ خطائیں معاف فرما دے اور بالخصوص اس گناہ کو جس پر تو نے ہمیں مجبور کیا اور ہم ان پیغمبروں کے مقابلہ پر اتر آئے۔ کہتے ہیں کہ جب جادوگروں نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور سیدنا ہارون علیہ السلام کی شکل و صورت دیکھی تو سمجھ گئے کہ یہ جادوگر نہیں ہوسکتے یہ مقابلہ نہ کرنا چاہئے پھر فرعون کے ڈر سے ایسا کیا۔ یہ ہے ایمان اور کفر کا فرق۔ یہی جادوگر مقابلہ سے پہلے فرعون کے سامنے جی حضور، جی حضور کہتے تھکتے نہ تھے۔ کہ فتح ہونے کی صورت میں اس سے انعام و اکرام ملنے کی التجا بھی کر رہے تھے اور فرعون انھیں ایسے وعدے بھی دے رہا تھا مگر جب ایمان لے آئے تو اسی جابر بادشاہ کے سامنے اکڑ کر اس جرأت سے بات کرتے ہیں اور اگر وہ سولی چڑھا دینے کی دھمکیاں دیتا ہے تو اس کی پروا تک نہیں کرتے۔ طه
73 طه
74 [٥٢] ایمان لانے والے جادوگروں کا بیان ختم ہو کر اب یہ آیت اور اس سے اگلی دو آیات اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ جن میں ساتھ ہی ساتھ تذکیر و نصائح اور اشارات کا سلسلہ بھی حسب دستور چل رہا ہے۔ ] ـ٥٣] دنیا کی تکلیفیں خواہ کس قدر زیادہ اور سخت ہوں۔ موت ان سب کا خاتمہ کردیتی ہے اور دوزخ میں کافروں کو سب سے بڑی جو سزا ملے گی وہ یہ ہوگی کہ انھیں موت نہیں آئے گی۔ وہ موت کو ایسی مصیبت کی زندگی پر ترجیح دے گا اور اس کا مطالبہ یہی کرے گا مگر اسے موت نصیب نہ ہوگی۔ اور زندگی موت سے بھی بدتر ہوگی۔ طه
75 طه
76 [٥٤] یعنی فاسد عقائد سے، اخلاق رذیلہ سے، گندے خیالات سے اور برے اعمال سے اپنے آپ کو بچائے رکھا۔ ایمان لانے کے بعد اچھے عمل کرتے رہے، انھیں نعمتوں والی جنت بلند درجات عطا کئے جائیں گے۔ طه
77 طه
78 [٥٥]سیدناموسیٰ علیہ السلام اور بنواسرائیل کی بحر احمرکے ساحلی راستے سے شام وفلسطین کوہجرت :۔ اس مقام پر جادوگروں کے مقابلہ کے بعد پھر بہت سے واقعات چھوڑ دیئے گئے ہیں۔ دریں عرصہ آپ کی تبلیغ سے بہت سے اسرائیلی اور غیر اسرائیلی آپ پر ایمان لاچکے تھے۔ لیکن ان ایمان لانے والوں کی جان پر بنی ہوئی تھی۔ بالخصوص بنی اسرائیل کے لئے تو وہی سزاشروع ہوچکی تھی جو موجودہ دور کے فرعون کے باپ نے اپنے دور میں بنی اسرائیل کو دی تھی۔ یعنی بنی اسرائیل کے ہاں جو لڑکے پیدا ہوں فورا ً مار ڈالے جائیں اور لڑکیوں کو زندہ رکھا جائے۔ اگرچہ باپ اور بیٹے دونوں کے مقاصد میں فرق تھا۔ باپ یہ چاہتا تھا کہ بنی اسرائیل میں سے میری سلطنت کو زیر و زبر کرنے والا بچہ پیدا ہوتے ہی مار ڈالا جائے اور بیٹے کا مقصد یہ تھا کہ موسیٰ اور ہارون جو بنی اسرائیل کی آزادی کا اور ہمراہی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تو ان کی نسل ہی ختم کردو تاکہ اس مطالبہ کی نوبت ہی نہ آئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے ارادے پورے ہو کے رہتے ہیں اور وہ خود ہی ان کے لئے راہ بتلا دیتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو وحی کی کہ آج میرے بندوں کو لے کر راتوں رات نکل جاؤ۔ آپ نے دارالسطنت کے مختلف مقامات میں بکھرے ہوئے ایمان لانے والوں کو انتہائی خفیہ طریقہ سے اطلاع کردی۔ ان میں غیر اسرائیلی بھی شامل تھے۔ اگرچہ تھوڑے سے تھے اور ایک مخصوص مقام بتلا دیا گیا کہ رات کے فلاں وقت فلاں مقام پر سب لوگ اکٹھے ہوجائیں۔ وہاں سے ہجرت کرکے آپ شام و فلسطین کی طرف جانا چاہتے تھے۔ جو بنی اسرائیل کا آبائی وطن تھا وہ سیدنا یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں یہاں آکر آباد ہوئے تھے اور اس دور تک ان کی نسل کے افراد ایک سے بہت زیادہ ہوچکے تھے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اس قافلہ کو لے کر بحراحمر کا رخ اختیار کیا۔ ان دنوں نہر سویز موجود نہیں تھی اور آپ کا ارادہ یہ تھا کہ بحر احمر کے کنارے کنارے چل کر جزیرہ نمائے سینا میں داخل ہوجائیں گے۔ فرعونیوں کا تعاقب:۔ ابھی اس سمندر کے کنارے ہی جارہے تھے کہ فرعون اپنے لاؤ لشکر سمیت ان کے تعاقب میں سر پر آپہنچا۔ اب صورت حال یہ تھی کہ سامنے سمندر تھا اور پیچھے فرعون کا لشکر۔ ہر طرف موت نظر آرہی تھی۔ بنی اسرائیل یہ صورت حال دیکھ کر سخت گھبرا گئے اور کہنے لگے : ’’موسیٰ ! ہم تو مارے گئے‘‘ اس وقت اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل فرمائی کہ اپنا وہی سانپ بن جانے والا عصا سمندر کے پانی پر مارو۔ عصا کو پانی پر مارنا تھا کہ سمندر میں کشادہ سڑک بن گئی۔ پانی کی ایک دیوار ایک طرف کھڑی تھی اور دوسری طرف اللہ نے ہواؤں کو حکم دیا جس سے نچلی زمین خشک ہوگئی اور اس سڑک کے راستہ سے بنی اسرائیل اس سمندر کو عبور کرگئے۔ فرعونیوں کی غرقابی :۔ یہ لوگ ابھی دوسرے کنارے پر پہنچے ہی تھے کہ فرعون کا لشکر بھی کنارے پر پہنچ گیا۔ اس نے کھلا راستہ دیکھا تو فورا ً اپنے گھوڑے اس میں ڈال دیئے۔ بنی اسرائیل دوسرے کنارے کھڑے یہ سب صورت حال دیکھ رہے تھے۔ اور سخت دہشت زدہ تھے۔ جب فرعون کا لشکر عین وسط میں پہنچ گیا تو اللہ تعالیٰ نے پانی کو رواں ہونے کا حکم دیا۔ پانی بڑے زور سے غراتا ہوا بہہ نکلا۔ اب فرعون اور فرعونیوں کو اپنی موت نظر آنے لگی تو فرعون فورا ً پکار اٹھا کہ ’’میں بنی اسرائیل کے رب پر ایمان لاتا ہوں‘‘مگر اب ایمان لانے کا وقت گزر چکا تھا۔ اس طرح فرعون کا یہ سارا عظیم الشان لشکر اس سمندر کی تہہ میں ڈوب گیا اور اوپر سے سمندر اپنی پوری روانی سے بہنے لگا اس طرح اللہ تعالیٰ نے بنو اسرائیل پر بیک وقت تین احسان فرمائے (١) فرعونیوں سے نجات، (٢) سر پر کھڑی موت کے بعد زندگی، (٣) دشمن کی مکمل طور پر ہلاکت۔ اور یہ واقعہ ١٠ محرم کو پیش آیا تھا۔ طه
79 [٥٦] اپنی قوم کے سامنے فرعون کا دعویٰ توبہ تھا کہ میں تمہیں سیدھی راہ دکھاتا ہوں۔ مگر وہ سیدھی نہ تھی بلکہ گمراہی کی تھی اور ظاہری طور پر بھی وہ قوم کے آگے چلا تو انھیں سمندر میں لا ڈبویا اور قیامت کو بھی اپنی قوم کے آتے آگے چلے گا تو انھیں جہنم میں جا داخل کرے گا۔ طه
80 طه
81 [٥٧]میدان تیہہ میں بنی اسرائیل پر اللہ کے انعامات:۔ یہاں پھر کئی تفصیلات کا ذکر چھوڑ دیا گیا ہے، جو دوسرے مقامات پر موجود ہے۔ مثلا ً اسی سفر میں بنی اسرائیل نے ایک مندر میں بعض لوگوں کو بت پوجتے دیکھا تو کہنے لگے۔ موسیٰ ! ہمیں بھی اس طرح کا ایک الٰہ یعنی محسوس خدا کا مجسمہ بنا دو۔ جس پر موسیٰ علیہ السلام نے انھیں ڈانٹ پلائی۔ پھر جب موسیٰ علیہ السلام نے انھیں پھر ہجرت کا مقصد بتلایا کہ تمہیں اپنے آبائی وطن کو غیروں کے قبضہ سے آزاد کرانا اور خود وہاں آباد ہونا ہے تو کہنے لگے! موسیٰ ! وہاں تو بڑے طاقتور اور جنگجو قسم کے لوگ آباد ہیں۔ ہم ان سے جنگ نہیں کرسکتے۔ ہاں اگر وہ وہاں سے نکل جائیں تو پھر ہم داخل ہوسکتے ہیں یا پھر تم اور تمہارا رب جاکر ان سے جنگ کرو۔ ہم میں اتنی ہمت نہیں۔ ان کی اس بزدلانہ حرکت کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے انھیں سزا کے طور پر یہ حکم دیا کہ اب تم یہیں اسی میدان میں چالیس سال تک بھٹکتے پھرو۔ جس سے مقصد ان کی بزدلی کا علاج اور ان میں جرأت پیدا کرتا تھا۔ ایک تو جنگل کی زندگی ویسے ہی دلیر بنا دیتی ہے۔ دوسرے بڑے بوڑھے سب بزدل اتنے عرصہ میں مر کھپ جائیں گے اور جو نئی نسل پیدا ہوگی وہ غلامی کے بجائے آزادانہ فضا میں پرورش پائے گی وہ جرأت مند پیدا ہوگی۔ اس بیابان میں نہ رہنے کو مکان تھے اور نہ کوئی چیز کھانے کو ملتی یا پیدا ہوتی تھی نہ کہیں پانی کے چشمے یا گھاٹ تھے پھر یہ بنی اسرائیل بھی لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل تھے۔ اللہ نے بنی اسرائیل کے ان مسائل کا حل ایسے معجزانہ انداز میں فرمایا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ دھوپ کے وقت بادل سائبان کی طرح ان پر چھا جاتے مگر برستے نہیں تھے۔ اور رات کو غائب ہوجاتے۔ اسی میدان میں اللہ تعالیٰ نے ان کے کھانے کو من و سلویٰ نازل فرمایا اور پانی کے بارہ چشمے جاری کردیئے۔ ان واقعات کی تفصیل سورۃ بقرہ میں گزر چکی ہے۔ یہ سب نعمتیں عطا کرنے کے بعد اللہ نے انھیں حکم دیا کہ اب نہ زیادتی کرنا اور نہ سرکشی۔ زیادتی یہ تھی کہ ذخیرہ اندوزی کرکے دوسرے لوگوں کو ان کے حق سے محروم نہ بنا دینا اور سرکشی نہ کرنے کا مطلب یہ تھا۔ کہ اللہ کی ان نعمتوں کے ملنے پر اس کا شکر ادا کرتے رہنا اور اس کے عبادت گزار اور فرمانبردار بندے بن کر رہنا اور اگر اب بھی تم نے سرکشی کا راستہ اختیار کیا تو یاد رکھو کہ پھر تم پر اللہ کا عذاب نازل ہوگا جو تمہیں تباہ و برباد کردے گا۔ طه
82 طه
83 طه
84 [٥٨]سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا اپنے ہمراہیوں سے پہلے طور پرپہنچ جانا:۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے وعدہ فرمایا تھا کہ کوہ طور کے دامن میں پہنچ کر چالیس راتیں وہاں بسر کرنا تو تمہیں بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے کتاب تورات عطا کی جائے گی۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل میں سے ستر آدمی اپنے ہمراہ لئے اور طور کی جانب روانہ ہوگئے۔ لیکن آپ کو اللہ تعالیٰ سے ملاقات اور ہم کلامی کا کچھ اتنا زیادہ اشتیاق تھا کہ آپ اپنے ہمراہیوں کو پیچھے چھوڑ کر سب سے پہلے منزل مقصود جاپہنچے۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا کہ’’تمہیں اتنی کیا جلدی تھی کہ اپنے ہمراہیوں کو پیچھے چھوڑ کر پہلے ہی یہاں آپہنچے؟‘‘ عرض کیا وہ لوگ بھی میرے پیچھے پیچھے یہاں پہنچ ہی رہے ہیں اور مجھے تیری ملاقات کا اشتیاق ان سے پہلے یہاں کھینچ لایا ہے۔ پھر اسی موقع پر آپ نے اپنے پروردگار سے درخواست کی تھی کہ اے میرے پروردگار! مجھے اپنا آپ دکھلا دے اور یہ واقعہ بھی سورۃ بقرہ میں پوری تفصیل سے بیان ہوچکا ہے۔ طه
85 [٥٩] بنی اسرائیل کی گئوسالہ پرستی اور لفظ سامری کی تحقیق:۔ جب کوہ طور پر عبادت میں مصروف تھے اور اس انتظار میں تھے کہ چالیس دن پورے ہونے پر اللہ تعالیٰ کتاب ہدایت عطا فرمائیں تو اسی دوران آپ کی قوم نے آپ کے بعد پھر سے بچھڑے کی عبادت شروع کردی۔ سامری نے ان کے لئے ایک بچھڑا تیار کیا اور یہ لوگ اس کی پوجا پاٹ میں لگ گئے۔ اس واقعہ کی اطلاع اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو وہیں کوہ طور پر دے دی۔ آپ کو اس طلاع سے اپنی قوم پر غصہ تو بہت آیا مگر وہاں کا قیام بھی انتہائی ضروری تھا۔ لہٰذا آپ نے اپنے نفس پر جبر کرکے معینہ مدت تک وہیں رکے رہے۔ لفظ السامری سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ یہ اس شخص کا اصلی نام نہیں تھا۔ بلکہ کوئی خاص سامری شخص تھا۔ جیسا کہ پہلے تعریف کا ال موجود ہے۔ دوسرے آخر میں یائے نسبتی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ سامر یا تو اس کے وطن کا نام تھا یا پھر سامر یا سمر اس کے کسی جد امجد کا نام تھا۔ جیسا کہ عرب میں اس کا عام دستور ہے۔ طه
86 [٦٠] طور سےواپسی پرسیدناموسیٰ کےبنی اسرائیل سے تین سوال: ۔ موسیٰ علیہ السلام کتاب تورات لے کر جب واپس آئے تو سخت غضب ناک تھے۔ آپ نے آتے ہی اپنی قوم سے پے در پے تین سوال کئے۔ ایک یہ کہ اللہ نے جو تمہاری ہدایت کے لئے کتاب دینے کا وعدہ فرمایا تھا۔ تو یہ گمراہی کی راہ تم نے از خود کیوں اختیار کی؟ کیا تمہیں اللہ کی ہدایت پسند نہیں تھی؟ دوسرا سوال یہ تھا کہ اللہ نے جتنی مدت بعد کتاب دینے کا وعدہ کیا تھا، کیا اس میں کچھ تاخیر ہوگئی تھی، یا اس وعدہ کو طویل مدت گزر چکی تھی اور تم انتظار کرتے کرتے تھک گئے تھے اور پھر یہ تجھے کہ پتہ نہیں کہ اللہ سے کب ہدایت آتی ہے یا آتی بھی ہے یا نہیں اس بنا پر تم نے خود ہی اپنے لئے ایک راہ تجویز کرلی اور اگر یہ دونوں درست تھیں تو پھر کیا تم ایسے شر کام کرکے اللہ کے غضب کو دعوت دینا چاہتے ہو؟ یہ گؤسالہ پرستی کا مرض ابھی تک تمہارے دلوں سے نکلا نہیں؟ طه
87 طه
88 [٦١]قوم کاگئوسالہ پرستی پرعذر لنگ :۔ قوم نے موسیٰ علیہ السلام کو ان کے سوالوں کا یہ جواب دیا کہ ہم نے عمدا ً کچھ ایسا قصد نہیں کیا تھا بلکہ ہوا یہ تھا کہ اس طویل سفر میں زیورات کا بوجھ ہمارے لئے ناقابل برداشت بن گیا تھا لہٰذا ہم چاہتے تھے کہ اس کے کہ ہمارے سب افراد یہ بوجھ اٹھائے رکھیں انھیں کیوں نہ اکٹھا کرکے پگھلا کر اس کی اینٹیں بنا لی جائیں تاکہ اس کی نقل و حرکت میں آسانی ہوجائے اور دوسرے سامان کے ساتھ گدھوں اور بیلوں پر لادا جاسکے۔ اور اس میں ہر ایک کے زیور کی مقدار الگ الگ لکھ لی جائے اور جب کہیں مقیم ہوں گے تو اپنے اپنے حصہ کا سونا پھر سے بانٹ کر زیور بنوائے جاسکتے ہیں۔ اس خیال سے ہم لوگوں نے بھی اپنے اپنے زیور اتار پھینکے اور اسی طرح سامری نے اپنا زیور اس مجموعہ میں شامل کردیا۔ سونے کو پگھلانے کا کام سامری کے ذمہ تھا۔ اس نے یہ شرارت کی کہ بجائے اس کے کہ زیورات کو پگھلا کر سونے کی اینٹیں بناتا، اس کو بچھڑے کی شکل دے دی۔ پھر کچھ ایسا کرتب دکھایا کہ اس بچھڑے سے بچھڑے کی سی آواز بھی نکلتی تھی اور کہنے لگا کہ حقیقتاً تو یہی تمہارا الٰہ ہے۔ جو سونا پگھلانے پر آپ سے آپ اس شکل میں نمودار ہوگیا ہے۔ یہ لوگ مصر میں چونکہ بڑی مدت فرعونیوں کی دیکھا دیکھی بیل کی پرستش کرتے رہے تھے اور ابھی تک ان کے ذہن میں پوری طرح صاف نہیں ہوئے تھے لہٰذا جاہل عوام نے فورا ً سامری کی آواز پر لبیک کہی اور کہنے لگے کہ اصل میں ہمارا اور موسیٰ کا بھی الٰہ تو یہ تھا۔ موسیٰ پتا نہیں طور پر کیا لینے گیا ہے؟ چنانچہ یہ معاملہ ہمارے اختیار سے باہر ہوگیا اور اکثریت کی دیکھا دیکھی ہمیں بھی یہی راہ اختیار کرنا پڑی۔ طه
89 [٦٢] یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے یعنی ان بدبختوں کو اتنی بھی سمجھ نہ آئی کہ اگر اس بچھڑے کی سی آواز نکلتی بھی ہے تو وہ کیا ان کے سوال کا جواب دے سکتا ہے ؟ بلکہ وہ تو سنتا بھی نہیں پھر جواب کیا دے گا ؟ اور جو چیز نہ سن سکے نہ جواب دے سکے وہ کسی کا کیا بگاڑ سکتی ہے یا سنوار سکتی ہے؟ نیز وہ الٰہ کیسے ہوسکتی ہے؟ طه
90 طه
91 [٦٣]گئوسالہ پرستوں کی سیدناہارون کودھمکی :۔ جب یہ لوگ گؤسالہ پرستی میں مبتلا ہونے لگے تو ہارون علیہ السلام نے بروقت ان کو تنبیہ کی تھی۔ یہ بچھڑا قطعا ً تمہارا الٰہ نہیں ہے، تمہارا الٰہ صرف وہی ذات ہوسکتی ہے جو تمہارا خالق و مالک اور تمہارا پروردگار ہے۔ لہٰذا اس گؤسالہ پرستی سے باز آؤ اور میری بات مان لو اور سامری کے فریب میں نہ آؤ مگر یہ مدتوں سے بگڑی ہوئی قوم بھلا سیدنا ہارون علیہ السلام جیسے نرم مزاج آدمی کے حکم کو کیا سمجھتی تھی؟ کہنے لگے : تم آرام سے بیٹھو اور اپنی خیر مناؤ۔ موسیٰ آئے گا تو دیکھا جائے گا۔ سردست ہم اس کام کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ طه
92 طه
93 [٦٤] موسیٰ علیہ السلام قوم کی طرف سے یہ عذر لنگ سن کر اسی غصہ کی حالت میں اپنے بھائی ہارون کی طرف متوجہ ہوئے اور جوش غضب میں ان کی داڑھی اور سر کے بال پکڑ لئے اور کہنے لگے۔ میں تمہیں اپنا نائب بنا کر گیا تھا اور یہ تاکید کی تھی کہ ان لوگوں کے حالات پر کڑی نظر رکھنا تو پھر جب تم نے انھیں شرک میں مبتلا ہوتے دیکھا تو تم نے انھیں کیوں منع نہ کیا ؟ آخر وہ کون سی بات تھی جو تمہارے آڑے آگئی تھی کہ تم نے انھیں منع بھی کیا ؟ کیا تم میری اس تاکید کو یکسر بھول گئے تھے کہ اس بگڑی ہوئی قوم پر کڑی نظر رکھنا اور ان کی اصلاح کی پوری کوشش کرتے رہنا۔ طه
94 [٦٥]سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور سیدنا ہارون علیہ السلام کامکالمہ :۔ سیدنا ہارون علیہ السلام اگرچہ عمر میں بڑے تھے تاہم منصب کے لحاظ سے چھوٹے تھے۔ علاوہ ازیں سیدنا موسیٰ علیہ السلام جلالی طبیعت کے مالک اور سخت جوش غضب میں تھے۔ لہٰذا اسی کا غضب سے مغلوب ہو کر سیدنا ہارون علیہ السلام کی داڑھی اور سر کے بالوں کو پکڑا تھا۔ سیدنا ہارون علیہ السلام بڑے تحمل سے کہنے لگے کہ پہلے میری بات سن لو اور میری داڑھی پکڑ کر دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دو۔ بات یہ تھی کہ جب یہ لوگ شرک میں مبتلا ہوئے تو میں نے انھیں پوری سختی سے روکا تھا۔ لیکن چونکہ اکثریت اس شرک میں مبتلاتھی لہٰذاانہوں نے مجھے دبا لیا اور مجھے جان سے مار ڈالنے کے درپے ہوگئے تھے اور ان میں اکثر میرے دشمن بن گئے تھے۔ اب اگر میں اس معاملہ میں مزید سختی اختیار کرتا تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ ان میں خانہ جنگی چھڑ جاتی، پھر ان کی اصلاح کی کوئی بھی صورت باقی نہ رہ جاتی۔ لہٰذا مجھے بھی تمہاری ہی انتظار تھی کہ اب ان لوگوں کا کیا علاج کیا جانا چاہئے۔ طه
95 طه
96 [٦٦] سامری سے سوال وجواب:۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم سے پھر اپنے بھائی ہارون سے مخاطب ہونے کے بعد اب سامری سے مخاطب ہوئے اور پوچھا : بتلاؤ سامری! یہ کیا معاملہ ہے؟ واضح رہے کہ قرآن نے یہاں خطب کا لفظ استعمال کیا ہے جو کسی ناگوار صورت حال کو دریافت کرنے کے لئے آتا ہے۔ نیز یہ سامری اگرچہ بظاہر سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آیا تھا۔ مگر وہ ایک منافق اور فتنہ پرداز اور ہوشیار انسان تھا جو کفر و شرک کو اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھا۔ وہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی کھل کر مخالفت تو کر نہ سکتا تھا مگر اس تاک میں رہتا تھا کہ کوئی موقع ملے تو قوم کو پھر سے اپنے آبائی دین یعنی گؤسالہ پرستی کی طرف لے جائے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی عدم موجودگی میں اسے ایسا موقع میسر آگیا تھا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے سوال پر کہنے لگا : بات یہ ہے کہ میں نے ایک ایسی چیز دیکھ لی تھی جسے دوسرے نہیں دیکھ سکتے تھے اور وہ یہ تھی کہ فرعون کی موت کے وقت جب جبریل آئے تھے تو میں نے ان کی آمد کو محسوس کرلیا تھا اور ان کے پاؤں کے نیچے سے مٹھی بھر مٹی اٹھا لی تھی۔ جب میں نے بچھڑے کی شکل بنائی تو اس میں یہ مٹی بھر دی تھی۔ یہ اسی مٹی کی کرامت تھی کہ جب بچھڑا تیار کیا گیا تو اس میں سے بچھڑے کی سی آواز بھی آنے لگی اور یہ سب کچھ میں نے اس لئے کیا کہ میں اس مٹی کی کچھ کرامت دیکھنا چاہتا تھا۔ سامری کےبیان کی حقیقت :۔ یہ تو تھا سامری کا وہ بیان جو اس نے موسیٰ علیہ السلام کے سوال کے جواب میں دیا۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ اس کا یہ بیان بھی فریب کاری پر مشتمل تھا۔ وہ صرف یہی نہیں چاہتا تھا کہ پھر سے بت پرستی اور گؤسالہ پرستی کو فروغ دے بلکہ حقیقتاً وہ موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ میں خود لیڈر بننا چاہتا تھا۔ آدمی ہوشیار تھا۔ سیدنا ہارون علیہ السلام کو کمزور دیکھ کر اس نے اپنی ہشیاری سے اپنے لئے میدان ہموار کرلیا تھا۔ یعنی سامری کا اصل مقصد سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ میں اپنی لیڈری چمکانا تھا۔ اور اس کے لئے یہ ضروری تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کی راہ اور اغراض و مقاصد سے اس کی راہ جدا گانہ ہو لہٰذا اس نے قوم کو اسی پرانی گؤسالہ پرستی کی راہ پر ڈال دیا جس سے وہ پہلے ہی مانوس تھے اور اس کے دلدادہ تھے۔ اس طرح وہ فی الواقع سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی عدم موجودگی میں قوم کا لیڈر بن گیا تھا۔ اور یہی بات سیدنا ہارون علیہ السلام کے بیان سے ظاہر ہوتی ہے۔ اگر سیدنا ہارون علیہ السلام اس شرک کو روکنے میں سختی سے کام لیتے تو قوم دو دھڑوں میں بٹ جاتی اور ان میں خانہ جنگی بپا ہوجاتی پھر حالات قابو سے باہر ہوجاتے۔ بعض علماء نے یہاں رسول سے مراد خود موسیٰ علیہ السلام لئے ہیں۔ اس صورت میں یہ جواب سامری کی انتہائی مکاری پر دلالت کرتا ہے، کہ اس طرح اس نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی خوشامد کرکے انھیں بھی اپنے حق میں نرم کرلینے کی ایک کوشش کی تھی۔ قرآن کریم کے انداز سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ سامری کا یہ بیان سب اس کے اپنے مکروفریب پر مشتمل تھا۔ رہی یہ بات کہ بچھڑے میں آواز کیسے پیدا ہوگئی تھی۔ تو یہ بات بھی چنداں مشکل نہ تھی۔ جب اس بچھڑے کے کھلے ہوئے منہ سے ہوا آر پار ہوتی تو اس سے بچھڑے کی سی آواز آنے لگتی تھی۔ جیسے باجا میں منہ سے پھونک مارنے سے مختلف قسم کی آوازیں نکلنے لگتی ہیں یا جیسے برقی گھنٹی کا سوچ دبانے سے اس سے مختلف قسم کی گھنٹیوں سے مکتلف قسم کی اوازیں آتی ہیں۔ اور ان مختلف آوازوں کا تعلق باجے اور برقی گھنٹی کی اندرونی ساخت سے ہوتا ہے۔ اسی طرح سامری نے بچھڑے کے جسم کے اندر پترے اس ترتیب سے رکھ دیئے تھے کہ جب ہوا اس کے جسم سے آر پار گزرتی تو وہ آواز نکالنے لگتا تھا۔ طه
97 [٦٧] سامری کی دنیامیں سزا:۔ یعنی اس کو موسیٰ علیہ السلام نے اچھوت قرار دے دیا کہ کوئی شخص اس سے کسی قسم کا بھی تعلق نہ رکھے۔ پھر اس کے لئے مزید سزا یہ تھی کہ وہ خود دوسروں سے کہتا تھا کہ مجھ سے پرے رہنا، مجھ سے بچ کر رہنا، مجھے ہاتھ نہ لگانا، میں ناپاک ہوں لہٰذا مجھے نہ چھونا۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اگر کوئی سامری کو ہاتھ لگاتا یا اسے چھوتا تو سامری کو اور چھونے والے کو دونوں کو تپ چڑھ جاتی تھی۔ لہٰذا سامری اس بات پر مجبور تھا کہ دوسروں سے کہے کہ مجھے ہاتھ نہ لگانا، ساتھ ہی موسیٰ علیہ السلام نے اسے یہ بھی بتلا دیا کہ یہ نہ سمجھنا کہ تمہارے اس جرم کی سزا پوری ہو چکی بلکہ آخرت میں جو تجھے عذاب ہونے والا ہے وہ بھی کبھی ٹل نہ سکے گا۔ ] ـ٦٨] یہ تو رہا تیرا انجام اور اب ہم تیرے الٰہ کا جس کا تو دن رات مجاور بن بیٹھا رہتا تھا، یہ حشر کرنے والے ہیں کہ اس سونے اور مٹی کے بت کے ہم پہلے ٹکڑے ٹکڑے کریں گے پھر ان کو جلا کر راکھ بنا دیں گے۔ اور پھر اس راکھ کو دریا میں پھینک دیں گے تاکہ تجھے اور پیروکاروں سب کو یہ معلوم ہوجائے کہ جو خدا اپنی بھی حفاظت نہیں کرسکتا وہ دوسرے کا کیا سنوار سکتا ہے یا بگاڑ سکتا ہے؟ طه
98 طه
99 [٦٩] اس سورۃ کا آغاز بھی ذکر سے کیا گیا تھا۔ یعنی ہم نے یہ ذکر اس لئے نہیں نازل کیا کہ آپ مشقت میں پڑجائیں بلکہ یہ تو ڈرنے والوں کے لئے یاددہانی ہے۔ یہاں اسی اصل موضوع کی طرف عود کیا گیا ہے۔ جو کہ نوع انسان کی ہدایت ہے۔ درمیان میں جو سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا قصہ ذکر کیا گیا تو اس میں بھی یہی رنگ غالب نظر آتا ہے۔ طه
100 [٧٠] وزر بمعنی گناہ کا بوجھ یا پاپ کے گٹھری۔ اب جو شخص عمر بھر نہ قرآن کے نزدیک آئے، نہ اس کی کوئی ہدایت ماننے کو تیار ہو تو لامحالہ اس کی زندگی شتر بے مہار کی طرح ہوگی جو اللہ کی نافرمانیوں اور گناہوں پر مشتمل ہوگی۔ لہٰذا اسے اپنے اعمال کا ناقابل برداشت بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ اس دنیا میں تو ایسے بوجھ کا تصور ہی کیا جاسکتا ہے۔ لیکن وہاں اس بوجھ کو مادی شکل دے دی جائے گی اور وہ اس بوجھ تلے پس رہا ہوگا۔ طه
101 طه
102 [٧١] صورکےمعنیٰ اور اس کی ترقی یافتہ شکلیں :۔ صور کے معنی قرنا، نرسنگھا اور بوق ہے اور یہ چیزیں دور نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں رائج تھیں۔ ضروری نہیں کہ صور کی بھی یہی شکل و صورت ہو بلکہ قرآن ایسے لفظ استعمال کرتا ہے۔ جس سے انسانی ذہن اس اصل چیز سے قریب تر کسی چیز سے متعارف ہو۔ بعد میں اس غرض کے لئے فوج میں بگل استعمال ہوتا ہے جس سے لشکر کو اکٹھا یا منتشر کیا جاتا ہے۔ ہوائی حملہ کے خطرہ کے دوران سائرن بھی اسی سے ملتی جلتی چیز ہے۔ روزہ کو بند کرنے اور کھولنے کے وقت بھی سائرن کا استعمال ہوتا ہے۔ بس اسی سے ملتی جلتی یا اس سے بھی ترقی یافتہ شکل نفخہ صور کی ہوگی۔ [٧٢] اس کا ایک معنی تو یہ ہے کہ جب دہشت کے مارے آنکھیں پتھرا جاتی ہیں تو ان پر نیلگوں سفیدی غالب آجاتی ہے۔ اور دوسرا معنی یہ ہے کہ سارا بدن ہی نیلگوں ہوجائے گا۔ یعنی دہشت کے مارے خون تو خشک ہوجائے گا اور جسم پر نیلاہٹ غالب آنے لگے گی۔ طه
103 طه
104 [٧٣] یہاں ٹھہرنے سے مراد دنیا کی زندگی بھی ہوسکتی ہے اور برزخ کی زندگی بھی۔ انسان کی عادت ہے کہ اسے خوشی کے لمحات قلیل بھی نظر آتے ہیں اور قریب بھی۔ بیسیوں برس پہلے کے واقعات اسے یوں معلوم ہوتے ہیں جیسے کل کی بات ہے اور قیامت کے دہشت ناک احوال دیکھ کر یہ تصور اور بھی بڑھ جائے گا کوئی اس زندگی کو ہفتہ عشرہ قرار دے گا اور جو سب سے زیادہ سمجھدار ہوگا وہ پہلے کی تردید کرتے ہوئے اس زندگی کو صرف ایک دن کی زندگی بتلائے گا۔ طه
105 [٧٤] یعنی نفخہ صور اول سے اگر انسان اور دوسری جاندار چیزیں مر بھی جائیں گی تو پہاڑوں جیسی سخت چیز پر اس نفخہ کا کیا اثر ہوگا ؟ یہ سوال دراصل ایسے جاہلوں کی طرف سے ہی ہوسکتا ہے۔ جنہوں نے اللہ کی اس پیدا کردہ کائنات اور اس کے نظام میں کبھی غور ہی نہیں کیا، آج کے انسان کے لئے یہ ایک بالکل مہمل سوال ہے۔ اگر سیاروں کی گردش اور ان کی کشش ثقل میں معمولی سی بھی گڑ بڑ ہوجائے تو پہاڑوں کا کیا ذکر ہے۔ سارے ستارے ایک دوسرے سے ٹکڑا کر پاش پاش ہوسکتے ہیں۔ قیامت کو یہی کیفیت ہوگی اور اس وقت پہاڑوں کی دھول اڑ رہی ہوگی۔ طه
106 طه
107 [٧٥] نفخۂ صور اول کےا ثرات :۔ یعنی پہاڑوں کو پیوند خاک بنا دیا جائے، سمندروں کو پاٹ دیا جائے گا۔ زمین کے سب نشیب فراز ختم کردیئے جائیں گے اور وہ ایک بالکل ہموار اور وسیع میدان کی طرح بن جائے گا۔ اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا : ﴿ یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ ﴾(۱۴:۴۸) ”یعنی اس دن یہ زمین ایسی نہ رہے گی جیسی تم آج دیکھ رہے ہو، بلکہ اس میں تبدیل پیدا کردی جائے گی۔‘‘ طه
108 [٧٦] نفخہ صورثانی کے اثرات :۔یہ داعی اللہ کا مقرر کردہ فرشتہ اسرافیل ہوگا۔ اس دنیا میں تو ان لوگوں نے اللہ کے داعی کی بات کو سننا بھی گوارا نہ کیا بلکہ اس کی مخالفت ہی کرتے رہے مگر اس دن اللہ کے داعی کی آواز پر سراپا عمل بن جائیں گے اور جو کچھ وہ کہے گا ٹھیک اسی طرح کرتے جائیں گے۔ وہ کہے گا کہ چلو میدان حشر کی طرف تو سب ادھر دوڑ پڑیں گے۔ اور اس داعی کی آواز اور حکم کو پوری طرح سمجھ بھی رہے ہوں گے۔ [٧٧] اس دن سب لوگ اللہ تعالیٰ کی یا اس فرشتہ کی آواز اور حکم کو ہمہ تن گوش بن کر سن رہے ہوں گے، کسی کو اونچی آواز سے کسی دوسرے سے کوئی بات پوچھنے کی بھی ہمت نہ رہے گی۔ اس دن یا تو ان کے قدموں کی چاپ کی آواز سنائی دے سکے گی یا اس کھسر پسر اور کانا پھوسی کی آواز جو وہ اس دن کی ہولناکیوں سے بچنے کے لئے آپس میں کریں گے۔ طه
109 [٧٨] سفارش کی تین شرائط اور اس کی وجوہ:۔ یعنی اس دن سفارش ہوگی ضرور مگر اس کے لئے تین شرائط ہوں گی۔ ایک تو وہی شخص سفارش کرسکے گا جس کو اللہ کی طرف سے سفارش کرنے کی اجازت مل جائے۔ دوسرے اسی شخص کے حق میں کرسکے گا جس کے حق میں سفارش اللہ کو منظور ہوگی۔ تیسرے وہ صرف ایسی بات کے لئے ہی سفارش کرسکے گا جسے اللہ سننا پسند فرمائے گا۔ طه
110 [٧٩]سفارش کا عوامی عقیدہ لغو ہے :۔ اس آیت میں سفارش پر عائد کردہ پابندیوں کی وجہ بیان فرما دی گئی ہے کہ لوگوں کے اعمال اور ان کے حالات جن میں وہ اعمال سرزد ہوئے اور ان کی نیتوں کا علم تو صرف اللہ کو ہے۔ دوسرے کسی کو نہیں ہوسکتا۔ اس کی مثال یوں سمجھئے جیسے ایک شخص کسی افسر کو جاکر کہے کہ آپ کا فلاں ماتحت آدمی میرا دوست ہے لہٰذا اس کا فلاں قصور معاف کردیجئے تو وہ جواب میں کہے گا کہ آپ واقعی میرے دوست ہیں لیکن یہ شخص پہلے جتنے قصور کرچکا اس کا آپ کو علم ہے؟ اس کا ریکارڈ پہلے ہی بہت گندا ہے۔ لہٰذا اسے معاف کرنا بھی ظلم کے مترادف ہے۔ بالکل یہی اصول وہاں بھی کارفرما ہوگا یہ ممکن نہ ہوگا کہ کوئی بزرگ اللہ کے حضور یوں سفارش کرنے لگیں کہ حضور اسے معاف فرما دیں کیونکہ یہ میرا خاص آدمی ہے۔ اس طرح سفارش کے اس عقیدہ کی جڑ کٹ جاتی ہے جو عام لوگوں نے اپنی معبودوں یا پیروں سے وابستہ کر رکھا ہے کہ وہ چونکہ اللہ مقرب ہیں لہٰذا سفارش کرکے ہمیں بچا لیں گے۔ طه
111 طه
112 [٨٠]اعمال کا بدلہ ملنے کےلیے شرائط :۔ یعنی اعمال کی جزا کے لئے دو شرائط کا ہونا ضروری ہے۔ ایک ایمان بالغیب کے تمام اجزاء پر ایمان لانا، دوسرے ایسے اعمال صالحہ جو شریعت کی پابندیوں کو ملحوظ رکھ کر بجا لائے گئے ہوں۔ مثلا ً ان میں ریاکاری نہ ہو، سنت کے مطابق ہوں اور بعد میں احسان جتلا کر یا شرک کرکے ان اعمال کو برباد نہ کردیا گیا ہو۔ ایسے اعمال کا بدلہ ضرور ملے گا اور پورا پورا ملے گا، ان میں ہرگز کسی طرح کمی نہیں کی جائے گی۔ طه
113 [٨١] یعنی قرآن میں جو قیامت کے احوال اور برے اعمال کی سزائیں بتلائی گئی ہیں۔ تو ان سے مقصد یہ ہے کہ لوگ اپنے برے اعمال کے نتائج سے ڈر جائیں اور ان میں تقویٰ پیدا ہو اور اگر ایسا نہ ہوسکے تو کم از کم ان کے دلوں میں کچھ سوچ ہی پیدا ہوجائے۔ ممکن ہے یہ سوچ ان کی ہدایت کا سبب بن جائے اور ان کے ذریعہ پھر دوسروں کو ہدایت ہو۔ طه
114 [٨٢]وحی کو توجہ سے سننے کا حکم :۔ ابتداًء جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سیدنا جبرائیل وحی لے کر نازل ہوتے تو آپ ساتھ ہی ساتھ وحی کے الفاظ کو اس خیال سے دہرانے لگتے تھے کہ بعد میں بھول نہ جائیں۔ اس طرح وحی کے اگلے مضمون سے توجہ یا ہٹ جاتی تھی یا کٹ جاتی تھی۔ اسی بات کا ذکر سورۃ قیامۃ بھی آچکا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ آپ ساتھ ساتھ اس کو یاد رکھنے اور زبان چلانے کی کوشش نہ کیا کیجئے۔ تمہارے سینہ میں اسے محفوظ رکھنا اور پھر زبان سے انھیں الفاظ کی ادائیگی کروا دینا ہمارا ذمہ ہے۔ جب وحی نازل ہو رہی ہو آپ بس پوری توجہ سے اسے سنا کیجئے۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ ایسی عادت ابھی تک آپ میں پوری طرح راسخ نہ ہوئی تھی۔ لہٰذا اسی بات کا دوسرے انداز میں اعادہ کیا گیا اور یہ ہدایت بھی کی گئی کہ ساتھ ہی ساتھ آپ یہ دعا بھی کرتے رہئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے قرآن کریم میں اور زیادہ سمجھ اور بیش از بیش علوم و معارف عطا فرما۔ طه
115 [٨٣] بھول چوک انسان کی فطرت میں شامل ہے‘سیدنا آدمنےبھول کرغلطی کی تھی:۔ یہاں سیدنا آدم علیہ السلام کے بھولنے کا ذکر، ذکر کی مناسبت سے فرمایا۔ یعنی چونکہ بھول جانا انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بار بار ذکر یا یاددہانی نازل کی جاتی رہی ہے۔ اور اس فطرت انسان کا آغاز ان کے باوا آدم سے ہی ہوگیا تھا۔ ان کا عزم اتنا مضبوط نہ تھا کہ وہ ہر وقت اللہ سے کئے ہوئے عہد کو یاد رکھتے۔ چنانچہ ایک طویل مدت کے بعد جب کہ سیدنا آدم ؑ اس عہد کو بھول ہی چکے تھے۔ شیطان کا داؤ چل گیا اور آپ شیطان کے فریب میں آگئے۔ اس مطلب سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بھول چوک انسان کی فطرت میں داخل ہے اور اس کا دوسرا مطلب یہ یہی بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے بھول چوک کر اللہ کی نافرمانی کی تھی۔ ان کا ارادہ نافرمانی کا ہرگز نہیں تھا۔ اور اس مطلب کا نتیجہ آدم علیہ السلام کی سرکشی سے بریت ہے۔ ربط مضمون کے لحاظ سے پہلا مطلب ہی درست معلوم ہوتا ہے۔ طه
116 [٨٤] آدم و ابلیس کا قصہ سورۃ بقرہ، اعراف اور دیگر کئی مقامات پر پہلے ہی گزر چکا ہے۔ اور آئندہ بھی آئے گا، مگر ہر مقام پر اتنا ہی ذکر کیا گیا جتنا موقع کے لحاظ سے مناسب تھا۔ گویا اس قصہ کے مختلف اجزاء سے مختلف نتائج پیش کئے گئے ہیں۔ طه
117 طه
118 طه
119 [٨٥] جنت میں بلامشقت ہرطرح کا آرام تھا:۔ جنت میں انسان کی ضروریات کا سامان بھی موجود تھا اور ان کے علاوہ عیش و عشرت کے لئے وافر نعمتیں بھی موجود تھیں اور سیدنا آدم علیہ السلام کو بتلایا یہ گیا تھا کہ اگر تم شیطان کے فریب میں آگئے تو نہ صرف یہ کہ تم سے جنت کی نعمتیں چھین لی جائیں گی بلکہ تمہیں اپنی ضروریات زندگی مہیا کرنے کے لئے جدوجہد بھی کرنا پڑے گی اور ان کے لئے مشقت بھی اٹھانا ہوگی۔ مثلا ً دھوپ اور بارش سے بچاؤ کے لئے مکان بنانا ہوگا اور کھانے پینے کے لئے کوئی ذریعہ معاش اختیار کرنا ہوگا اور پہننے کے لئے لباس کی ضرورت بھی پیش آئے گی اور تمہاری زندگی کا بیشتر حصہ انھیں باتوں کے حصول میں صرف ہوجائے گا۔ جنت کی دوسری نعمتیں تو کم ہی کسی کو میسر آئیں گی۔ لہٰذا اللہ کے حکم کو دھیان کے ساتھ یاد رکھنا اور شیطان کے فریب میں نہ آجانا۔ طه
120 [٨٦] کیاشیطان نےپہلےحواکوبہکایاتھا؟ شیطان آدم علیہ السلام کا بڑا ہوشیار اور مکار دشمن تھا اس نے وسوسہ ہی ایسا دلفریب ڈالا جس نے آدم کے دل کو موہ لیا۔ علاوہ ازیں مدت مدید گزرنے کی وجہ سے سیدنا آدم علیہ السلام اپنے پروردگار سے کیا ہوا وعدہ بھول ہی چکے تھے۔ شیطان نے پٹی یہ پڑھائی کہ اگر تم اس درخت کا پھل چکھ لو گے۔ تو اس جنت میں ہمیشہ کے لئے مقیم ہوجاؤ گے اور تمہیں ابدی زندگی حاصل ہوجائے گی اور جنت کی نعمتوں پر تمہارا تصرف و اختیار قائم و دائم رہے گا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس مقام پر شیطانی وسوسہ کی نسبت صرف سیدنا آدم علیہ السلام کی طرف کی گئی ہے اور ایک دوسرے مقام پر دونوں کی طرف کی ہے۔ اس لئے کہ اس معاملہ میں حوا کی حیثیت صرف بالتبع تھی۔ لیکن بائبل کی روایت یوں ہے کہ شیطان نے پہلے سیدہ حوا کو بہکایا۔ پھر حوا نے سیدنا آدم علیہ السلام کو پھل کھانے پر آمادہ کرلیا۔ بائبل کی اس روایت کو بعض مفسرین نے بھی نقل کردیا۔ جب کہ یہ روایت قرآن کی اس آیت کے مطابق غلط قرار پاتی ہے۔ طه
121 [٨٧]پھل چکنے کا فوری ردعمل :۔ جنت کا پھل کھانے کا رد عمل فوری طور پر تو یہ ہوا کہ ان سے جنت کا لباس چھین لیا گیا اور آدم و حوا دونوں بے حجاب ہوگئے اور انھیں ایک دوسرے کے مقامات ستر نظر آنے لگے اور سخت شرم محسوس ہوئی تو جنت کے درختوں کے پتے ایک دورے پر چپکا کر مقامات ستر کو ڈھانپنے لگے۔ ابھی بھوک اور پیاس کا احساس تو کچھ دیر کے بعد ہی ہونا تھا۔ اور انھیں فورا ً پتا چل گیا کہ شیطان انھیں جل دے گیا اور وہ اس کے فریب میں آگئے ہیں۔ اس وقت انھیں اللہ سے کیا ہوا وعدہ یاد آگیا اور فورا ً اللہ کی طرف رجوع کیا اور توبہ استغفار کرنے لگے۔ طه
122 طه
123 [٨٨]کون کس کا دشمن ؟ فریق کون کون ہیں ؟ اس مقام پر تثنیہ استعمال ہوا ہے۔ جس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک مطلب ترجمہ میں واضح ہے کہ ایک فریق آدم و حوا تھے اور دوسرا فریق شیطان اور خطاب کے لحاظ سے ان فریقوں میں ان کی اولاد بھی شامل ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ایک فریق آدم، دوسرا حوا ہو، جمیعاً کا معنی سب کے بجائے ’’مل کر، اکٹھے یا ایک ساتھ‘‘ کیا جائے، اور خطاب آدم و حوا کی اولاد سے ہو۔ اور ان کی اولاد میں دشمنی اس طرح ہوگی کہ ان کی اولاد میں سے ایک فریق اللہ کا فرمانبردار بن کر رہے گا اور دوسرا شیطان کا تابع فرمان۔ ان دونوں فریقوں میں حق و باطل کی جنگ جاری اور دشمنی قائم رہے گی۔ ] ـ٨٩] یشقیٰ کے بھی دو مطلب ہیں ایک یہ کہ وہ جنت کی راہ سے بہکے گا نہیں اور نہ اس سے محروم ہو کر دوزح کی تکلیفیں اٹھائے گا۔ بلکہ سیدھا جنت میں پہنچ جائے گا جو اس کا اصل وطن تھا اور اس لفظ کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ بدبختی میں مبتلانہ ہوگا۔ دنیا میں بھی اس کا مقدر اسے ضرور ملے گا اور آخرت میں تو وہ بہرحال خوش نصیب ہوگا۔ طه
124 [٩٠]زندگی تنگ ہونے سے مراد؟ معیشۃ ضنکا کا یہ مطلب نہیں کہ ان پر ہمیشہ تنگ دستی غالب رہے گی۔ بلکہ یہ مطلب ہے کہ انھیں قناعت اور قلبی سکون کبھی میسر نہ آئے گا۔ اور اگر مالدار ہوں گے تو ہمیشہ ننانوے کے چکر میں پڑے رہیں گے۔ نہ رات کو سکون نصیب ہوگا اور نہ دن کو اور اگر تنگ دست ہیں تو اپنی تکلیفوں اور مصیبتوں پر واویلا کرتے رہیں گے اور جزع فزع میں ہی ان کی زندگی میں ہی ان کی زندگی بسر ہوجائے گی اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ کافر کے پاس خواہ کتنا ہی مال و دولت ہو خیر اس میں داخل نہیں ہوسکے گا۔ یہی مال و دولت چند روزہ عیش کے بعد اس کے لئے وبال جان بن جائے گا اور بعض مفسرین نے اس سے قبر کی برزخی زندگی مراد لی ہے۔ یعنی قیامت سے پہلے ہی ان پر تنگی کا ایسا دور آئے گا کہ قبر کی زمین بھی ان پر تنگ کردی جائے گی اور یہ تفسیر بعض صحابہ سے مروی ہے۔ بہرحال اس لفظ کے تحت یہ سب صورتیں داخل ہوسکتی ہیں۔ طه
125 [٩١] اعمال کا بدلہ ممثل شکل میں :۔ یعنی اس کا اعتراض یہ تھا کہ دنیا میں تو میں بینا تھا اور ہر چیز کو دیکھ سکتا تھا۔ آج مجھے اندھا بنا کر کیوں اٹھایا جارہا ہے۔ اس کو جواب یہ دیا جائے گا کہ تو دنیا میں میری آیات دیکھنے سے اندھا بنا رہا تھا۔ آنکھیں عطا کرنے کا مقصد صرف یہی نہیں تھا کہ تو اپنے مطلب کی چیزیں دیکھے۔ بلکہ اصل مطلب یہ تھا کہ تو اللہ کی آیات کو دیکھے۔ اس لحاظ سے تو دنیا میں اندھا ہی بنا رہا۔ تیرے اس فعل کا نتیجہ ہی مثل شکل میں تیرے سامنے آیا ہے۔ تو اب تعجب کیوں کرتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ ابتدائے حشر کا ذکر ہے۔ بعد میں اس کی آنکھیں کھول دی جائیں گی تو وہ دوزخ اور اموال محشر کا ٹھیک ٹھیک معائنہ کرسکے گا۔ طه
126 [٩٢] یعنی اللہ تعالیٰ یہ جواب دیں گے کہ ہم اسی طرح لوگوں کو اس سے ملتا جاتا ہی مثل صورت میں بدلہ دیا کرتے ہیں۔ تو نے ہماری آیات سن کر ان سنی کردی تھیں اور ہمیں بھول ہی گیا تھا۔ آج ہم بھی تمہیں بھلائے دیتے ہیں اور تو ہماری رحمت سے دور ہی رہے گا۔ یہ سزا تو وہ ہے جو تمہیں تمہارے اعمال کے مطابق اس میدان محشر میں دی جارہی ہے اور جو عذاب تمہیں ابھی مزید دیا جانے والا ہے۔ وہ اس سے سخت تر بھی ہوگا اور ہمیشہ باقی رہنے والا بھی، جو کبھی ختم نہ ہوگا۔ طه
127 طه
128 [٩٣۔] اس آیت کے مخاطب مشرکین مکہ ہیں۔ جن میں سابقہ اقوام کی ہلاکت کے چرچے زبان زد تھے اور وہ اپنے تجارتی سفروں کے دوران ان کے تباہ شدہ کھنڈرات بچشم خود ملاحظہ بھی کرسکتے تھے۔ اگر وہ ان کے حالات میں کچھ بھی غور وفکر کرتے تو انھیں معلوم ہوسکتا تھا کہ بالآخر ان کا اپنا بھی ویسا ہی انجام ہوسکتا ہے۔ لہٰذا وہ چاہتے تو انھیں واقعات سے کافی عبرت حاصل کرسکتے تھے۔ طه
129 [٩٣ـ۔الف ] قانون امہال وتدریج کی مصلحتیں :۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں تدریج و امہال کا قانون کام کرتا ہے۔ ان پر عذاب الٰہی کے نزول میں بھی وہی قانون کارفرما ہے۔ اور اس قاعدہ میں بہت سی مصلحتیں مضمر ہوتی ہیں۔ یعنی جس طرح جو کام کے سرانجام پانے کے لئے ایک مقررہ مدت درکار ہوتی ہے۔ اسی طرح عذاب الٰہی کا بھی وقت مقرر ہے۔ جس کی چند شرائط ہیں۔ اور اگر یہ قانون جاری و ساری نہ ہوتا تو ان کے اعمال واقعی اس قابل ہیں کہ انھیں فوری طور پر تباہ و برباد کردیا جاتا۔ اس قانونی تدریج و امہال میں کیا مصلحتیں ہیں اور اگر اس قانون کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس میں کیا نقصانات ہیں، ان کا ذکر پہلے حواشی میں کیا جاچکا ہے۔ لہٰذا اب تکرار کی ضرورت نہیں۔ طه
130 [٩٤]صبرا ورنماز کے فوائد :۔ مصائب و مشکلات کا ثابت قدمی سے مقابلہ کرنے کے لئے قرآن نے متعدد مقامات پر دو باتوں پر زور دیا ہے۔ ایک صبر اور دوسرے نماز۔ صبر سے مراد احکام الٰہی کو پورے استقلال کے ساتھ بجا لاتے رہنا بھی ہے۔ اور اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا بھی۔ اور نماز سے بندے کا اللہ سے تعلق پیدا ہوتا ہے اور وہ اللہ پر توکل کرنا سیکھتا ہے اور جوں جوں یہ تعلق بڑھتا جاتا ہے۔ اللہ پر توکل میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اور اسی توکل سے مشکلات کو برداشت کرنے کی ہمت و جرأت پیدا ہوتی ہے۔ [٩٥] پانچوں نمازوں کے اوقات :۔ حمد کے ساتھ تسبیح اور محض تسبیح دونوں سے یہاں مراد نماز ہے کہ یہ عرب میں عام دستور ہے کہ کسی چیز کا کوئی خاص جزء بول کر اس سے مراد کل لیا جاتا ہے اور اس کی مثالیں بہت ہیں۔ سورج کے طلوع سے پہلے سے مراد فجر کی نماز ہے اور غروب سے پہلے کی نماز عصر ہے۔ رات کے کچھ اوقات سے مراد نماز عشاء ہے اور نماز تہجد بھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تو فرض تھی لیکن دوسروں کے لئے سنت مؤکدہ ہے۔ اور ان کے کنارے تین ہی ہوسکتے ہیں، صبح، شام اور زوال آفتاب، صبح سے مراد فجر کی نماز ہے جس کا ذکر پہلے ہی آچکا، شام سے مراد نماز مغرب اور زوال آفتاب سے مراد ظہر کی نماز ہے۔ گویا اس ایک آیت سے ہی پانچوں فرض نمازیں اور ان کے اوقات ثابت ہوجاتے ہیں اور اس آیت کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کو کسی وقت بھی اللہ کی یاد اور تسبیح و تہلیل سے غافل نہ رہنا چاہئے۔ [ـ٩٦] یعنی صبر اور نمازوں کے قیام کے نتائج اتنے شاندار حاصل ہوں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان پر خوش ہوجائیں گے اور فی الواقع ان کے ایسے شاندار نتائج نکلے جو سب دنیا نے دیکھ لئے اور ایسے نتائج کا ذکر قرآن کی اور بھی بہت سی آیات میں مذکور ہے۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس دنیا کے بعد آخرت کو اتنا بلند مقام عطا ہوگا جس پر آپ خوش ہوجائیں گے۔ جیسے آپ کا قیامت کے دن انبیاء سمیت سب لوگوں کے لئے اللہ کے حضور سفارش کرنا اور آپ کو مقام محمود عطا ہونا وغیرہ۔ طه
131 [٩٧] زرق کا وسیع تر مفہوم :۔ یہاں رزق سے مراد صرف کھانے، پینے کی چیزیں ہی نہیں بلکہ رزق کا لفظ اپنے وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے اور اس لفظ کا اطلاق پر اس خداداد نعمت پر ہوتا ہے تو جسمانی یا روحانی اعتبار سے انسان کی تربیت کا باعث بن سکے۔ یعنی اللہ نے آپ کو جو قرآن کریم، منصب رسالت، فتوحات عظیمہ، اور آخرت کے اعلیٰ ترین مراتب عطاء فرمائے ہیں۔ ان کے مقابلہ میں اس چند روزہ زندگی کے ساز و سامان کی کیا حقیقت ہے۔ لہٰذا آپ کو اس ساز و سامان کی طرف اور دنیا میں مستغرق لوگوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھنا چاہئے۔ کیونکہ اللہ کا دیا ہوا ایسا رزق ہی ہر لحاظ سے بہتر اور پائیدار ہے۔ طه
132 [٩٨]گھروالوں کونماز کاحکم دیناضروری ہے :۔ یعنی خود نمازوں پر پابند رہنے کے علاوہ آپ کو اپنے گھر والوں کو بھی ان کی پابندی کا حکم دینا چاہئے۔ پھر اس بات پر سختی سے عمل درآمد کرانا چاہئے۔ اس سے آپ کے مشن کو مزید تقویت پہنچے گی۔ اگرچہ اس آیت میں خطاب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہے تاہم حکم عام ہے۔ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ بچہ جب سات برس کا ہوجائے تو اسے نماز ادا کرنے کو کہو اور اگر دس سال کا ہونے پر بھی اسے نماز کی عادت نہ پڑے تو اسے مار کر نماز پڑھاؤ۔ (ابوداؤد، بحوالہ مشکوۃ، کتاب الصلوٰۃ۔ الفصل الثانی) [ـ٩٩] عرب میں یہ دستور تھا کہ مالک اپنے غلاموں کو کمائی کے لئے بھیجتے۔ پھر ان سے یہ کمائی خود وصول کرتے یا پھر غلام پر اس کی قابلیت کے مطابق روزانہ یا ماہانہ ایک رقم مقرر تھی کہ اتنی رقم تو وہ بہرحال کما کر اپنے مالک کو دے گا اور اگر کچھ زائد کما لے تو وہ اس کا اپنا ہوگا جس طرح ہمارے ہاں کسی چیز کا روزانہ یا ماہانہ کرایہ یا ٹھیکہ مقرر کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور مسلمانوں سے یہ فرماتے ہیں کہ ہم تم سے کچھ رزق نہیں مانگتے، حالانکہ تم سب میرے بندے اور غلام ہو۔ بلکہ وہ تو ہم خود تمہیں دیتے ہیں اور یہ ہمارا ذمہ ہے۔ تمہارا کام بس یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی فرمانبرداری میں لگے رہو۔ جو رزق تمہارے مقدر میں ہے وہ تمہیں مل کے ہی رہے گا۔ [١٠٠] تقویٰ کا انجام ہمیشہ بہتر ہی ہے :۔ اور یاد رکھو کہ جو شخص تقویٰ اختیار کرے گا ؟ اس دنیا میں بھی اس کا انجام بہتر ہوگا اور آخرت میں بھی۔ دنیا میں اس کی انجام کی بہتری کا ذکر ایک دوسری آیت میں یوں بیان فرمایا کہ دنیا میں جب کوئی متقی شخص کسی مشکل میں پھنس جاتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ ضرور اس سے نکلنے کی راہ پیدا کردیتا ہے۔ نیز ایسی جگہ سے اسے رزق مہیا کرتا ہے جہاں سے اس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوگا ( ٦٥: ١، ٢) علاوہ ازیں اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مثلا ً اگر ایک متقی شخص کاروبار کرتا ہے تو اس کی ساکھ قائم ہوتی ہے اور کسی کی ساکھ قائم ہوجانا اللہ کا بہت بڑا فضل اور انعام ہے اور انجام کار وہی کامیاب رہتا ہے۔ غرض یہ جملہ ایک ایسی آفاتی صداقت (universal Truth) ہے کہ جس اعتبار سے بھی اس کا تجربہ کیا جائے درست ہی ثابت ہوگا۔ طه
133 [١٠١]آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے اہل مکہ پراتمام حجت :۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ پہلے صحیفوں اور آسمانی کتابوں میں آپ کی علامات اور آپ کی آمد کی بشارات موجود تھیں اور بعض انصاف پسند لوگوں نے برملا اس بات کا اعتراف بھی کیا تھا کہ یہ وہی نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کی سابقہ کتابوں میں بشارات دی گئی تھیں اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن جیسا واضح معجزہ مل جانے کے بعد اب یہ کون سی نشانی چاہتے ہیں اور قرآن ایسی کتاب ہے جو اگلی کتابوں کے ضروری مضامین کا محافظ اور ان کی صداقت پر حجت بھی ہے اور گواہ بھی۔ طه
134 [١٠٢] یعنی یہ قرآن بھی بطور حجت اور کافروں کا یہ اعتراض رفع کرنے کے لئے اتارا گیا ہے کہ اگر ہم پر بھی یہود و نصاریٰ کی طرف اللہ کی طرف سے ہدایت کی کوئی کتاب نازل ہوتی تو ہم یقیناً ان سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوتے۔ نیز ہم نے ان میں رسول اس لئے بھی بھیجا ہے کہ وہ ذلت و رسوائی کے بعد یہ نہ کہنے لگیں کہ اگر ہمارے پاس کوئی رسول آتا تو ہم یقینا اس کی فرمانبرداری کرتے۔ اللہ کے احکام بجا لاتے اور ہمیں یہ رسوائیاں نہ دیکھنا پڑتیں۔ طه
135 [١٠٣] یعنی اب تم بھی اور ہم بھی بلکہ سارے کا سارا عرب اس انتظام میں ہے کہ دیکھئے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ لہٰذا انتظار کرو۔ عنقریب سب کو معلوم ہوجائے گا کہ ہم میں سے کون سا فریق سیدھی راہ پر گامزن ہے؟ زمانہ کی گردش کس پر پڑتی ہے اور تباہ کون ہوتا ہے؟ طه
0 الأنبياء
1 [١] آپ کا آخری نبی ہونا قرب قیامت ہے:۔ یعنی قیامت کا وقت قریب آگیا ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یعنی آخرالزمان کی بعثت ہی اس بات کی علامت ہے کہ زمین میں بنی آدم کی آبادی کا آخری دور ہے۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی شہادت کی اور وسطی انگلی کی طرف اشارہ کرکے فرمایا : ’’میں اور قیامت ایسے ہی جیسے یہ دو انگلیاں‘‘ (بخاری : کتاب الرقاق، باب قول النبی بعثت انا والساعہ کھاتین۔۔) اس حدیث کے بھی دو مطلب ہیں : ایک یہ کہ جتنی لمبائی شہادت کی انگلی کی ہے۔ یہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک کا زمانہ ہے اور جتنی وسطی انگلی شہادت کی انگلی سے بڑی ہے یہ مجھ سے لے کر قیامت تک کا زمانہ ہے۔ اس لحاظ سے تقریباً پانچ حصے عرصہ گزر چکا ہے اور ایک حصہ باقی ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ان دو انگلیوں کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں۔ اسی طرح میرے بعد تاقیامت کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔ یہ بات بھی قریب قیامت کی علامت ہوئی۔ نیز اس جملہ کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان کی موت کا وقت قریب ہے اور موت کے ساتھ ہی ان کا حساب اور جزاء و سزا کام سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ اگرچہ یہ حساب اور جزاء و سزا کا سلسلہ قیامت کی نسبت بہت ہلکے پیمانہ پر ہوگا اور اس مطلب پر دلیل آپ کا یہ ارشاد مبارک ہے کہ جو شخص مرگیا، اس کی قیامت قائم ہوگئی۔ (مشکوٰۃ۔ کتاب الفتن۔ باب فی قرب الساعۃ) [۲] یعنی پیغمبر تو انہیں ان کے برے انجام کی خبردے رہاہے لیکن وہ کچھ ایسے بدمست ہوئے ہیں کہ ایسی بات سننا بھی نہیں چاہتے ۔ الأنبياء
2 [٣] نئی نصیحت سے مراد کوئی نئی سورت ہے۔ یعنی جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو اسے سن کر بھی ان سنی کردیتے ہیں۔ دنیا کے کاروبار اور مشاغل میں ایسے منہمک ہیں کہ ان آیات الٰہی میں غور کرنے کی نہ انھیں فرصت ملتی ہے اور نہ اس کی ضرورت یا اہمیت سمجھتے ہیں۔ پس اپنے دنیا کے دھندوں میں ہی مست رہتے ہیں۔ الأنبياء
3 [٤] سردارقریش نےقرآن کے جادوسے بچنےکےلیے کیاتدابیر اختیار کیں ؟ قریش مکہ قرآن کی دعوت کے شدید مخالف تھے لیکن اس کے انداز بیان، فصاحت و بلاغت اور جادو کی سی تاثیر کے وہ خود بھی معترف تھے اور قرآن کو اسی لحاظ سے جادو کہتے تھے اور اس جادو کو روکنے کا طریقہ ابتداً ء انہوں نے یہ اختیار کرلیا تھا کہ سب قریشی سرداروں نے مل کر یہ معاہدہ کیا کہ جہاں تک ہوسکے قرآن کے سننے اور پڑھنے پر پابندی لگا دی جائے۔ سننے پر پابندی تو انہوں نے اپنے آپ پر لگائی تھی مگر یہ قریشی سردار خود بھی اس پابندی کو نباہ نہ سکے اور خود بھی چوری چھپے قرآن سن لیتے تھے کیونکہ ان کے دل اور ان کے کام قرآن کی لذت سے محظوظ ہونا چاہتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ تین سردار رات کے وقت کعبہ کے گرد کھڑے ہو کر آپ کا قرآن سن رہے تھے۔ بعد میں یہ راز فاش ہوگیا تو ان میں سے ایک سردار نے ابو جہل سے پوچھا کہ ’’جو قرآن تم نے سنا ہے اس کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘ اس نے اس سوال کا صحیح جواب دینے کے بجائے رخ کو دوسرا طرف موڑ دیا اور کہا کہ ’’ہم اور بنی عبدمناف سب باتوں میں ایک دوسرے کے ہم پلہ تھے، اب ہم ان کے نبی کو تسلیم کرکے ان کی اس برتری کو کیسے تسلیم کرسکتے ہیں‘‘ (ابن ہشام : ص ١٠٨) ابو جہل کے اس جواب سے دو باتوں کا صاف طور پر پتا چلتا ہے۔ ایک یہ کہ سب قریشی سردار قرآن کی تاثیر سے متاثر تھے اور دوسری یہ بات کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو تسلیم کرنے میں صرف یہ بات آڑے نہیں آرہی تھی کہ آپ بشر تھے بلکہ اس کی اور بھی کئی وجوہ تھیں۔ اور قرآن کو اونچی آواز سے پڑھنے پر پابندی ان لوگوں نے مسلمان پر لگا رکھی تھی۔ کیونکہ انھیں یہ خطرہ تھا کہ قرآن سن کر ان کی عورتیں اور ان کے بچے متاثر ہوجاتے ہیں اور یہ پابندی مسلمانوں پر ہجرت نبوی تک قائم رہی۔ علاوہ ازیں ایک تدبیر انہوں نے یہ اختیار کی تھی کہ جب کہیں قرآن پڑھا جارہا ہو تو وہاں خوب شوروغل مچاؤ تاکہ قرآن کی آواز کسی کے کان میں پڑنے ہی نہ پائے۔ یہ تھے وہ طریقے جو انہوں نے اس جادو کے شر سے بچنے کے لئے اختیار کئے تھے۔ الأنبياء
4 [٥] ایسی تدابیر اختیار کرنے کے بارے میں ان کے درمیان جو خفیہ مجلس منعقد ہوتی اور سازشیں تیار ہوتی تھیں۔ وہ طشت از بام تو ہو ہی جاتی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب باتوں کے جواب میں صرف اتنا ہی کہا کہ کوئی بات خواہ کتنی ہی رازداری سے کی جائے، میرا پروردگار اس سے پوری طرف واقف ہے۔ بالفاظ دیگر اس کا مطلب یہ تھا کہ تمہاری ان ساری سرگرمیوں کے باوجود اللہ اپنے دین کی دعوت کے کام کو آتے بڑھاتا رہے گا اور تمہاری کوئی تجویز کارگر نہ ہونے پائے گی۔ الأنبياء
5 [٦]ولیدبن مغیرہ کے ہاں مجلس مشاورت :۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ کی مخالفت کی حد تک سارے قریشی سردار متفق تھے لیکن انھیں یہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ آپ کو کہیں تو کیا کہیں۔ جادوگر کہیں، آسیب شدہ کہیں، کاہن کہیں یا شاعر کہیں۔ لوگوں کو کیا کہہ کر اس ( محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے باز رکھیں۔ چنانچہ اسی غرض کے لئے قریشی سردار ولید بن مغیرہ کے پاس گئے جو ابو جہل کا چچا تھا اور حرب بن امیہ کی وفات کے بعد قریش کی سیادت اسی کے ہاتھ میں آئی تھی۔ سوال یہ سامنے آیا کہ اس نبی کی دعوت کو کیونکر غیر موثر بنایا جاسکتا ہے تاکہ باہر سے آنے والے حجاج اس شخص کے شر سے محفوظ رہ سکیں۔ ولید بن مغیرہ سمجھدار آدمی تھی۔ بولا ’’اس سلسلہ میں اپنی اپنی تجاویز پیش کرو“ ایک شخص نے کہا : ہم کہیں گے کہ ’’یہ شخص کاہن ہے‘‘ ولید کہنے لگا : واللہ ! یہ شخص کاہن نہیں۔ اس کے کلام میں نہ کاہنوں جیسی گنگناہٹ ہے، نہ قافیہ نہ کوئی اور تک بندی، وہ کاہن کیسے ہوسکتا ہے؟ دوسرے نے کہا : ہم کہیں گے ’’وہ دیوانہ ہے‘‘ ولید کہنے لگا، بخدا وہ پاگل بھی نہیں۔ ہم نے پاگلوں کو بھی دیکھا ہے۔ اس کے اندر نہ پاگلوں جیسی دم گھٹنے کی کیفیت ہے، نہ الٹی سیدھی حرکتیں ہیں اور نہ ان جیسی بہکی بہلی باتیں ہیں‘‘ تیسرے نے کہا : ہم کیں گے ’’وہ شاعر ہے‘‘ ولید کہنے لگا، ’’وہ شاعر بھی نہیں۔ ہمیں رجز، حجز، قریض، مقبوض، مبسوط سارے ہی اصناف سخن معلوم ہیں۔ اس کی بات بہرحال شعر نہیں ہے‘‘ چوتھے نے کہا : ہم کہیں گے کہ وہ جادوگر ہے۔ ولید نے کہا، وہ جادوگر بھی نہیں۔ یہ شخص نہ تو کی طرح جھاڑ پھونک کرتا ہے اور نہ گرہ لگاتا ہے'' دعوت قرآن کو روکنےکےلیے قریش مکہ کی معاندانہ سرگرمیاں :۔ تب لوگوں نے جھنجھلا کر کہا : ’’پھر تم ہی اپنی بےداغ رائے پیش کرو‘‘ وہ کہنے لگا۔ مجھے ذرا سوچ لینے دو۔ بڑی سوچ بچار کے بعد اس نے اپنی رائے پیش کی کہ تم لوگ یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ شخص ایسا کلام پیش کرتا ہے جو ایسا جادو ہے جس سے بھائی بھائی سے، باپ بیٹے سے، شوہر بیوی سے جدا ہوجاتا ہے۔ اور کنبے، قبیلے میں پھوٹ پڑجاتی ہے۔ چنانچہ اس تجویز پر متفق ہو کر سب لوگ رخصت ہوگئے۔ چنانچہ اس تجویز پر عمل درآمد کے لئے قریش نے ایک گیارہ رکنی کمیٹی تشکیل دی جس کا سربراہ ابو لہب تھا۔ جہاں کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تبلیغ کے لئے پہنچتے، وہاں ابو لہب بھی پیچھے پیچھے پہنچ جاتا اور کہتا : لوگو! اس شخص کی بات پر کان نہ دھرنا، یہ بےدین ہے اور ایسا کلام پیش کرتا ہے جس سے کنبے قبیلے میں دشمنی پڑجاتی ہے۔ ان لوگوں کی معاندانہ سرگرمیوں کا نتیجہ ان کے خواہش کے بالکل برعکس نکلا۔ اسلام اور پیغمبر اسلام کا نام ان کے ذریعہ عرب کے گوشے گوشے میں پہنچ گیا اور لوگوں میں جستجو پیدا ہوگئی کہ آخر ایسے شخص کی بات تو ضرور سننا چاہئے۔ اس طرح دشمنوں نے وہ کام تھوڑے ہی عرصہ میں کرکے دکھلا دیا جو مسلمان شاید مدت تک نہ کرسکتے۔ کافروں کی ایسی معاندانہ سرگرمیوں سے ہی اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لئے خیر کا پہلو پیدا کردیا۔ نضربن حارث کے کارنامے :۔ ابو لہب کے علاوہ ایک دوسرا شخص نضر بن حارث تھا جس کا طریق کار ابو لہب سے بالکل جداگانہ تھا۔ ایک دفعہ وہ سرداران قریش سے کہنے لگا : اے قریشیو! محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے سب سے زیادہ پسندیدہ، سچے اور امانت دار آدمی تھے، اب اگر وہ اللہ کا پیغام لے کر آئے ہیں تو تم کبھی انھیں شاعر کہتے ہو، کبھی کاہن، کبھی پاگل اور کبھی جادوگر کہتے ہو۔ حالانکہ وہ نہ شاعر ہے نہ کاہن ہے، نہ پاگل ہے اور نہ جادوگر ہے۔ کیونکہ ہم ایسے لوگوں کو خوب جانتے ہیں۔ اے اہل قریش! سوچو، تم پر یہ کیسی افتاد آپڑی ہے‘‘ پھر اس افتاد کا حل جو نضر بن حارث نے سوچا وہ یہ تھا کہ خود حیرہ گیا۔ وہاں سے بادشاہوں کے حالات اور ستم و اسفندیار کے قصے سیکھے۔ پھر یہ بھی ابو لہب کی طرح ہر اس مقام پر جا پہنچتا۔ جہاں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم تبلیغ کے لئے جاتے۔ وہاں پہنچ کر یہ اپنے قصے سنا کر لوگوں سے پوچھتا کہ آخر کس بنا پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام مجھ سے بہتر ہے؟‘‘ اس کی سرگرمیوں کا بھی وہی اثر ہوا جو ابو لہب کی سرگرمیوں کا ہوا تھا۔ [٧] یعنی وہ معجزہ کا مطالبہ تو اس طرح کرتے ہیں کہ جیسے وہ ایمان لانے کو بالکل تیار بیٹھے ہیں بس صرف ایک معجزہ دیکھنے کی ہی کسر باقی رہ گئی ہے۔ حالانکہ اقوام سابقہ کی ہلاکت کا سبب ہی یہ بنا تھا کہ انہوں نے معجزہ کا مطالبہ کیا۔ جو انھیں دیا گیا مگر وہ پھر بھی ایمان نہ لائے تھے۔ اب اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ یہ معجزہ دیکھ کر ایمان لے ہی آئیں گے؟ یہ بھی سابقہ اقوام کی طرح اپنی ہلاکت کے درپے ہوچکے ہیں؟ الأنبياء
6 الأنبياء
7 الأنبياء
8 [٨]سب انبیاء مرد تھے کھاناکھایاکرتے تھے اور سب اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں:۔ اب کفار مکہ کے ایک بنیادی اعتراض کا جواب دیا جارہا ہے۔ اعتراض یہ تھا کہ یہ نبی ہم ہی جیسا ایک بشر ہے۔ سب بشری کمزوریاں اور بشری تقاضے اس میں بھی موجود ہیں جو ہم میں ہیں۔ وہ ہماری طرح ہی کھانے پینے اور چلنے پھرنے کا محتاج ہے اور ہماری طرح نکاح شادیاں بھی کرتا ہے۔ مزید یہ کہ اسے نہ تو کوئی دینی جاہ چشم میسر ہے اور نہ ہی کوئی فرشتہ اس کے ساتھ رہتا ہے۔ ان سب باتوں کا انھیں جواب یہ دیا گیا کہ تم لوگ جو اہل کتاب سے پوچھ پوچھ کر اس نبی سے کئی طرح کے سوال اور کئی طرح کے اعتراض کرتے ہو تو ایک سوال یہ بھی پوچھ لو کہ آیا موسیٰ علیہ السلام بشر تھے یا نہیں؟ ان کے جواب سے تمہیں تسلی ہوجائے گی کہ موسیٰ علیہ السلام خود بھی اور ان کے علاوہ دوسرے تمام انبیاء بھی سب کے سب بشر ہی تھے۔ سب بشری تقاضے ان کے ساتھ بھی لگے ہوئے تھے۔ کھانے پینے کے علاوہ وہ سب کے سب موت سے بھی دوچار ہوئے اور آج ان میں سے کوئی بھی زندہ موجود نہیں ہے۔ (نیز دیکھئے سورۃ نحل کا حاشیہ ٤٤۔ الف) الأنبياء
9 [٩] البتہ یہ بات ہر نبی سے پیش آتی رہی کہ اس کی دعوت پر کچھ لوگوں نے لبیک کہی اور زیادہ قرآن کے مخالف بن گئے۔ پھر ہم نے اپنے انبیاء اور مومنوں سے فتح و نصرت کے جو وعدے کئے تھے وہ سب پورے کردیئے اور ایسے لوگوں کو ہم نے بروقت اپنے عذاب سے بچا بھی لیا تھا۔ لیکن جن لوگوں نے سرکشی کی راہ اختیار کی تھی۔ ان سب کو ہلاک کر ڈالا تھا۔ یہ بات بھی تم اے قریش مکہ! ان اہل کتاب سے پوچھ سکتے ہو۔ الأنبياء
10 [١٠]قرآن میں جو کچھ مذکور ہے تمہیں سےتعلق رکھتا ہے:۔ یعنی اس میں کوئی نرالی داستانیں اور عجیب و غریب ملک کے حالات نہیں ہیں بلکہ تم ہی جیسے لوگوں کے حالات مذکور ہیں۔ تمہارا اپنا ہی حال بیان کیا گیا ہے۔ تمہارے ہی نفسیات اور تمہارے ہی معاملات زندگی زیربحث ہیں۔ تمہاری ہی فطرت اور ساخت، آغاز اور انجام پر گفتگو ہے۔ تمہارے ہی اخلاقی اوصاف میں سے اچھے اور برے اخلاق کے فرق کو نمایاں کرکے دکھایا جارہا ہے اس کتاب میں کوئی ایسی چیز نہیں جسے سمجھنے سے تمہاری عقل عاجز ہو۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے کہ اگر تم کچھ بھی غور و فکر کرو تو اس میں تمہارے لئے نصیحت اور تمہارا بھلا ہی بھلا ہے۔ الأنبياء
11 [١١] یعنی یہ نہیں ہوا تھا کہ ظالم قوموں کو بلاک کرنے کے بعد یہ زمین بے آباد اور ویران رہ گئی تھی۔ جبکہ اس زمین کو ہم نے فوراً دوسرے لوگو لاکر آباد کردیا تھا اور اس کا اگر کچھ نقصان پہنچتا تھا تو صرف ظالموں ہی کو پہنچا تھا۔ الأنبياء
12 الأنبياء
13 [١٢] یعنی اب اپنی مجالس کی مسندوں پر کیوں براجمان نہیں ہوتے۔ تاکہ لوگ آپ کے سامنے اپنی درخواستیں پیش کریں۔ اپنے مسائل حل کروائیں۔ آپ سے مشورے کریں۔ آپ کی رائے پوچھیں۔ اب کہاں جاتے ہو یہیں بیٹھو اور کچھ نہیں تو کم از کم بعد میں آنے والوں کو یہی بتلا دینا کہ تم پر عذاب الٰہی کیسے آیا تھا؟ اور کس کس قسم کے حالات پیش آئے تھے۔ الأنبياء
14 الأنبياء
15 [١٣] عذاب الٰہی جب آجائےاس وقت ایمان لانے سے رک نہیں سکتا:۔ اللہ کے نافرمان اور سرکش لوگوں کی ہمیشہ سے یہ عادت رہی ہے کہ ڈنڈے کے بغیر سیدھے نہیں ہوتے۔ ان پر جب عذاب الٰہی آجاتا ہے اور موت اپنے سامنے کھڑی دیکھتے ہیں۔ تو اس وقت اپنے گناہوں کا بھی اعتراف کرنے لگتے ہیں اور ایمان بھی لانے پر فوراً تیار ہوجاتے ہیں۔ مگر جس طرح عذاب الٰہی یک دم نہیں آن پڑتا اور اس کے آنے کے لئے تدریج و امسال کا قانون مقرر ہے اس طرح اس کے لئے ایک قانون یہ ہے کہ جب آجائے تو پھر واقع ہوکے رہتا ہے پھر ٹل نہیں سکتا اور اس قوم کا صفحہ ہستی سے نام و نشان تک مٹا دیا جاتا ہے۔ الأنبياء
16 [١٤] دنیا کس لحاظ سے کھیل تماشاہے ؟ دنیا دار اور اللہ کی یاد سے غافل انسان ہمیشہ یہی سمجھتے رہے ہیں کہ یہ دنیا بس ایک کھیل تماشا ہے۔ ہم یہاں عیش و عشرت کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔ اس لیے یہاں ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ جتنی عیش و عشرت اپنے لئے مہیا کرسکتا ہے اور جس طرح کرسکتا ہے، کرلے۔ گویا دنیا دار لوگوں کا منتہائے مقصود ہی یہ ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے بھی دنیا کو متعدد مقامات پر کھیل تماشا قرار دیا ہے مگر یہ بات صرف اس پہلو سے کہ یہ چند روزہ دنیا آخرت کے مقابلہ میں ایک کھیل تماشا کی حیثیت رکھتی ہے۔ کیونکہ یہ تھوڑی مدت بعد فنا ہوجانے والی ہے اور آخرت کی زندگی دائمی اور پائیدار ہے لہٰذا تمہیں اپنی تمام تر توجہ دنیا پر مرکوز کرنے کے بجائے آخرت پر مرکوز کرنا چاہئے۔ یہاں اس مقام پر صرف دنیا کی زندگی پر نہیں بلکہ کائنات کے پورے نظام کے متعلق فرمایا جارہا ہے کہ یہ کچھ کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا۔ جس میں اس دنیا کی زندگی بھی شامل ہے جو زمین و آسمان ہی کے سہارے قائم ہے۔ اور انسان کی تمام ضروریات زمین، ہوا، سورج اور بادلوں وغیرہ سے وابستہ ہیں۔ زمین میں اشرف المخلوقات یعنی انسان کو پیدا کیا تو صرف اس لئے نہیں کہ وہ اسے کھیل تماشا سمجھتے ہوئے جیسے چاہے یہاں زندگی گزار کر یہیں سے رخصت ہوجائے اور اس سے کچھ مواخذہ نہ ہو۔ خالق کائنات بسی یہی تماشا دیکھتا رہے کہ اس دنیا میں لوگ کیسے ایک دوسرے پر ظلم کر رہے ہیں اور وہ بس دیکھ کر اسے محض تفریح طبع کا ہی سامان سمجھتا رہے۔ جیسا کہ رومی اکھاڑے میں ہوتا تھا کہ انسانوں کا درندوں سے مقابلہ کرایا جاتا تھا اور درندے جس انداز سے انسانوں کو پھاڑ کھاتے تھے۔ بادشاہ اور اس کے درباری یہ منظر دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔ اور یہ ان کی تفریح طبع کا سامان تھا۔ ایسی بات ہرگز نہیں۔ اگر اللہ کو محض تفریح طبع ہی منظور ہوتی تو اس کے کئی اور بھی طریقے ہوسکتے تھے جن میں ظلم و جور کا نام و نشان تک نہ ہوتا نہ ہی انسان جیسی کوئی ذی شعور اور صاحب ارادہ و اختیار کوئی مخلوق پیدا کرنے کی ضرورت تھی۔ الأنبياء
17 الأنبياء
18 [١٥]تخلیق کائنات کا مقصد:۔ بلکہ تخلیق کائنات کا اصل مقصد یہ ہے کہ یہاں میدان کار زار گرم ہو۔ حق و باطل کا معرکہ جاری رہے۔ حق باطل پر حملہ آور ہو اور اس کا کچومر نکال کر بھاگنے پر مجبور کردے۔ پھر جن لوگوں نے حق کا ساتھ دیا ہو۔ اللہ انھیں اپنے انعامات سے نوازے اور اہل باطل کو تباہ و برباد کردے۔ باطل کی شکست کیسے ؟جبکہ بسااوقات باطل ہی غالب نظرآتاہے :۔یہاں ایک اشتباہ پیدا ہوتا ہے کہ اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ باطل قوتیں ہی غالب نظر آتی ہیں اور حق دبا رہتا ہے۔ انبیاء یا بعض دوسرے مصلحین آتے ہیں حق و باطل کا معرکہ ہوتا ہے اور حق غالب آجاتا ہے لیکن تھوڑی دیر بعد پھر باطل سر نکال لیتا ہے اور حق دب جاتا ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ حق کی راہ صرف ایک ہے اور وہ ہے اللہ کی وحدانیت اور اس کائنات پر صرف اسی کا مکمل اقتدار و اختیار۔ جبکہ باطل کی راہیں لاتعداد ہیں۔ وہ اپنے روپ کو بدلتی رہتی ہیں اور اپنے الٰہ بھی۔ حق آتا ہے تو باطل کی راہوں کو مٹا دیتا ہے پھر باطل کسی نئے روپ میں ازسر نو جنم لیتا ہے۔ کبھی الٰہ بتوں کو ٹھہرایا جاتا ہے، کبھی شمس و قمر کو، کبھی ستاروں کو، کبھی فرشتوں کو، کبھی جنوں کو، کبھی انسانوں کو، کبھی ان کے آستانوں اور مزاروں کو اور کبھی شجر و حجر وغیرہ کو۔ تو یہ سب راہیں حق کے مقابلہ میں مغلوب ہی رہی ہیں اور اس کی پہلی دلیل یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک حق کی راہ ایک ہی رہی ہے اور موجود رہی ہے۔ آج بھی موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گی۔ توحید کے پرستار قیامت تک موجود رہیں گے۔ خواہ ان کی تعداد کتنی ہی تھوڑی ہو۔ جبکہ باطل کے تمام راستے ہمیشہ سے بگڑتے اور حق سے زک ہی اٹھاتے رہے ہیں۔ اور حق اکثر اوقات میں دبا رہنے کے باوجود بھی قائم اور برقرار رہتا ہے۔ گویا جن کو جو استقلال میسر ہے وہ باطل کو کبھی نصیب نہیں ہوتا۔ الأنبياء
19 [١٦]فرشتوں کے وظائف :۔ یعنی فرشتے اللہ کی ایسی مخلوق ہے۔ جو ہر آن اللہ کی تسبیح و تحمید میں مشغول رہتے ہیں اور وہ اللہ کی بندگی کو ناگوار سمجھ کر نہیں کرتے بلکہ نہایت خوشدلی سے بجا لاتے ہیں۔ قرآن نے یہاں یستحسرون کا لفظ استعمال فرمایا ہے اور استحسار ایسی تھکاوٹ یا اکتاہٹ کو کہتے ہیں جو کسی ناگوار کام کے کرنے سے لاحق ہوتی ہے۔ اور ان کی یہ تسبیح بالکل ایسے ہی بلاوقفہ ہوتی ہے جیسے انسان مسلسل سانس لیتا ہے اور اس میں کبھی وقفہ نہیں ہوتا۔ مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا انسان کی تخلیق سے مقصود محض اپنی عبادت ہی ہوتی تو فرشتے یہ کام بطریق احسن بجا لارہے تھے۔ لیکن اصل مقصد یہ تھا کہ یہاں حق و باطل کا معرکہ بپا ہو اور وہ انسان کو پیدا کرنے اور اسے عقل اور قوت ارادہ و اختیار رہنے سے ہی ہوسکتا تھا اور انسانوں کی آزمائش اسی طرح ہوسکتی تھی۔ الأنبياء
20 الأنبياء
21 [١٧]الٰہ وہی ہوسکتاہے جو زندگی بخشے:۔ یَنْشُرُوْنَ کا مطلب ہے کسی بے جان چیز میں روح پھونک کر اسے زندہ کرنا، جلا دینا، اس لحاظ سے اس جملہ کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک تو وہ ہے جو ترجمہ میں بیان کیا گیا ہے کہ آیا ان کے معبودوں میں یہ طاقت ہے کہ جب وہ عذاب الٰہی سے ہلاک ہوجائیں تو ان کے معبود انھیں دوبارہ زندہ کر دکھائیں۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ کیا ان میں یہ طاقت ہے کہ وہ کسی بھی مادہ اور بے جان چیز میں روح پھونک کر اسے زندہ بنا دیں۔ اور اگر وہ یہ کام نہیں کرسکتے تو پھر وہ الٰہ کیسے بن سکتے ہیں؟ الأنبياء
22 [١٨] اگر اللہ کے سوا اور بھی الٰہ ہوں توکائنات کا نظام درہم برہم ہوجائے :۔ بڑی موٹی سی بات ہے کہ ایک میان میں دو تلواریں نہیں سما سکتیں۔ ایک اقلیم کے دو فرمانروا نہیں ہوسکتے۔ حتیٰ کہ کوئی بھی ادارہ اس وقت تک چل ہی نہیں سکتا جب تک کہ اس کا کرتا دھرتا صرف ایک شخص نہ ہو۔ جبکہ ایک گھر تک کا بھی انتظام اس وقت تک چل نہیں سکتا جب تک کہ سربراہ ایک نہ ہو۔ اور اگر میاں بیوی میں بھی اقتدار کی جنگ ہو تو اس کا نظام بھی تباہ و برباد ہوجائے گا۔ پھر اس عظیم کارخانہ کائنات کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کے سربراہ ایک سے زیادہ ہوں؟ چونکہ یہ ایسی عام مثال ہے جس سے ہر شخص کو سابقہ پڑتا ہے۔ لہٰذا اس کے مختلف پہلوؤں پر ہر شخص خود بھی غور کرسکتا ہے یہاں تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں۔ البتہ ایک شبہ کا ازالہ ضروری ہے۔ جاہل لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح ایک بادشاہ نے اپنے تحت بے شمار امیر وزیر رکھے ہوتے ہیں۔ جو تدبیر مملکت میں اس کی مدد کرتے ہیں اور وہ اس کے محکوم ہی ہوتے ہیں۔ اس کے برابر کی چوٹ نہیں ہوتے یہی صورت ہمارے معبودوں کی ہے۔ اللہ نے کچھ برگزیدہ ہستیوں کو کچھ اختیارات تفویض کر رکھے ہیں۔ جو اس کے محکوم اور اس کے بندے ہی ہیں۔ تاہم اللہ نے انھیں بھی کچھ اختیارات تفویض کر رکھے ہیں۔ اس دلیل میں سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ان لوگوں نے اللہ کی معرفت کو سمجھا ہی نہیں۔ بادشاہ ایک عاجز مخلوق ہے۔ وہ خود نہ ہر ایک کی فریاد سن سکتا ہے اور نہ سالمیت کا انتظام چلا سکتا ہے۔ اسے مددگاروں کی احتیاج ہے، ان کے بغیر اس کا کام چل ہی نہیں سکتا۔ جبکہ اللہ تعالیٰ ایسی تمام کمزوریوں سے پاک ہے۔ اسے کسی طرح کے مددگاروں کی ضرورت نہیں۔ وہ ہر ایک کی فریاد خود سنتا ہے اور قبول کرتا ہے اور سارے نظام کائنات کو خود ہی چلا رہا ہے اور ان کاموں کے لئے اسے کسی کی۔۔ احتیاج نہیں ہے اور جو فرشتے مدبرات امر ہیں۔ انھیں بھی کچھ اختیارات تفویض نہیں کئے گئے بلکہ وہ اللہ ہی کے حکم کے پابند اور اس حکم کے سامنے مجبور و بے بس ہوتے ہیں۔ الأنبياء
23 [١٩] جومسئول ہے وہ الٰہ نہیں ہوسکتا:۔ یعنی اللہ تعالیٰ اس کائنات کا ایسا مطلق العنان اور مختار کل فرمانروا ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ بھی کرے کسی کے سامنے جواب دہ نہیں۔ جبکہ اس کے سوا جتنی بھی مخلوق ہے سب اس کے سامنے جوابدہ ہیں۔ اور الٰہ وہی ذات ہوسکتی ہے۔ جس میں یہ صفت بدرجہ اتم پائی جاتی ہو۔ یعنی وہ کسی کے سامنے جواب دہ نہ ہو۔ اور جس سے باز پرس ہوسکتی ہے وہ الٰہ نہیں ہوسکتا۔ الأنبياء
24 [٢٠] کسی الہامی کتاب سے شرک کی تائید نہیں ہوسکتی :۔ پہلے دو دلائل عقلی تھے جو اثبات توحید اور شرک کے ابطال پر پیش کئے گئے تھے۔ اب نقلی دلیل کا ذکر کیا کہ ان سے پوچھو کہ ان معبودوں کے جواز پر تمہارے پاس کوئی نقلی دلیل ہے؟ اگر ہے تو لاؤ دکھاؤ۔ یہ قرآن بھی موجود ہے۔ جو میرے دور کے لوگوں اور میرے بعد آنے والوں کے لئے الہامی کتاب ہے اور تورات و انجیل بھی موجود ہے جو مجھ سے پہلے کے لوگوں کے لئے راہ ہدایت تھے۔ ان میں سے کسی میں بھی یہ بات لکھی ہوئی دکھلا دو کہ اللہ نے فلاں فلاں کو فلاں فلاں اختیارات تفویض کر رکھے ہیں۔ کیونکہ قاعدہ ہے کہ کوئی فرمانروا اگر اپنے لئے کوئی نائب یا مددگار یا امیر وزیر مقرر کرتا ہے تو ان کا ریکارڈ بھی اس کے پاس موجود ہوتا ہے لیکن لوگوں کی اکثریت اتنی جاہل ہے کہ ان باتوں کی طرف غور ہی نہیں کرتی۔ بس تقلید اتباء کی گھسی پٹی راہ پر اندھا دھند بھاگے جارہے ہے۔ الأنبياء
25 [٢١] مشرکوں سے ایسی دلیل کے مطالبہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے خود ہی یہ وضاحت فرما دی کہ میں نے تو جو بھی رسول بھیجا اس کی طرف یہی وحی کرتا رہا کہ میرے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ پھر ان منزل من اللہ کتابوں میں کوئی ایسی بات نکل بھی کیسے سکتی ہے جس میں شرک کے لئے جواز کی سند موجود ہو؟ اور اتفاق کی بات ہے کہ سابقہ الہامی کتب میں اگرچہ بہت سی تحریف ہوچکی ہے پھر بھی وہ توحید ہی کے دلائل مہیا کرتی ہیں ان میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی جس سے شرک کی تائید ہوسکے۔ الأنبياء
26 [٢٢]فرشتے اللہ کی اولادنہیں بلکہ اللہ کے فرمانبردار بندے ہیں :۔ یہ خطاب صرف مشرکین مکہ کو ہے جو فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ کیونکہ آگے اسی بات کی وضاحت آرہی ہے۔ یہ فرشتے اللہ کے دست بستہ غلام ہیں اور معزز اس لحاظ سے ہیں کہ ہر وقت اللہ کی تسبیح و تقدیس میں مشغول رہتے ہیں۔ وہ باادب اتنے ہیں کہ اللہ کے حضور کوئی بات ہی نہیں کرتے بس صرف حکم کے منتظر رہتے ہیں۔ اور جب انھیں کوئی حکم دیا جاتا ہے تو فوراً اس کی تعمیل کرتے ہیں۔ الأنبياء
27 الأنبياء
28 [٢٣]فرشتوں کی سفارش اور شفیع پابندیاں :۔ مشرکین مکہ دو وجوہ سے فرشتوں کی عبادت کرتے تھے۔ ایک یہ کہ وہ اللہ کی اولاد ہیں۔ دوسرے اس لئے کہ وہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں اور اللہ کے حضور ہمارے قرب کا ذریعہ ہیں۔ اس کے جواب میں اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ سفارشی نہیں کریں گے کیونکہ کتاب و سنت کی رو سے انبیاو و صالحین فرشتوں اور خود قرآن کا سفارش کرنا ثابت ہے۔ بلکہ یوں فرمایا کہ وہ سفارش صرف اس کے حق میں کرسکیں گے جس کے حق میں سفارش اللہ کو منظور ہو اور اس کی وجہ یہ بتلائی کہ فرشتوں کو علم غیب نہیں ہے۔ انھیں یہ معلوم نہیں کہ جس کے حق میں وہ سفارش کر رہے ہیں اس کے اعمال کی کیا صورت اور کیفیت ہے اور یہ حالات صرف اللہ ہی کو معلوم ہیں۔ اس لئے سفارش صرف انہی کے حق میں کرسکیں گے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ اجازت دے گا اور وہ اللہ سے ڈرتے بھی رہتے ہیں پھر اللہ کی اجازت کے بغیر سفارش کیسے کرسکیں گے۔ اب اگر کسی کو یہ معلوم ہی نہ ہو کہ اسے سفارش کی اجازت ملے گی بھی یا نہیں۔ پھر بالخصوص فلاں شخص کے حق میں ملے گی یا نہیں تو پھر ایسے بے اختیار شفیع اس بات کے مستحق کیسے ہوسکتے ہیں کہ ان کے آگے سر نیاز خم کیا جائے اور اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لئے ان کے آگے دست سوال دراز کیا جائے یا انھیں پکارا جائے۔ الأنبياء
29 [٢٤] ان سب باتوں کے باوجود اگر کوئی شخص بالفرض اپنی خدائی کا دعویٰ کرتا ہے۔ جیسا کہ فرعون اور نمرود جیسے کئی سرکش انسانوں نے کیا تھا تو یہ ان کا اللہ تعالیٰ پر افتراء ہے اور وہ دوہرے تہرے مجرم ہیں۔ ان ظالموں کو ہم جہنم میں پھینک دیں گے اور ان کے جرائم کے مطابق انھیں قرار واقعی سزا دیں گے۔ الأنبياء
30 [٢٥] رتق اور فتق کا لغوی مفہوم :۔ اس آیت میں رتق اور فتق کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اور یہ دونوں الفاظ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ رتق کے معنی دو چیزوں یا کئی چیزوں کا مل کر جڑ جانا اور چیدہ ہونا ہے اور فتق کے معنی ایسی گڈ مڈ شدہ اور جڑی ہوئی چیزوں کو الگ الگ کردیتا ہے۔ اس آیت میں کائنات کا نقطہ آغاز بیان کیا گیا ہے کہ ابتداء صرف ایک گڈ مڈ اور کئی چیزوں سے مخلوط مادہ تھا۔ اسی کو کھول کر اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان اور دوسرے اجرام فلکی کو پیدا فرمایا۔ [٢٦] ہرچیز کی تخلیق پانی سے ہے :۔ ہر وہ چیز جس میں زندگی کے آثار پائے جاتے ہوں اس کی زندگی کا سبب پانی ہی ہوتی ہے اور اس میں نباتات، حیوانات سب شامل ہیں۔ اور ایسی تمام اشیاء پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتیں۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہم نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا ہے جیسے فرمایا : ﴿وَاللّٰہُ خَلَقَ کُلَّ دَابَّۃٍ مِّنْ مَّاءٍ ﴾(۲۴:۴۵) اس لحاظ سے اس کا یہ مطلب ہوگا کہ ہر چیز کی پیدائش میں پانی کی موجودگی ضروری ہے اگرچہ یہ غالب عنصر کے طور پر نہ ہو۔ جیسے انسان کی پیدائش میں غالب عنصر مٹی ہے اور جنوں کی پیدائش میں آگ۔ اور اس کا تیسرا مطلب یہ ہے کہ تمام موجودات میں پانی کا عنصر شامل ہوتا ہے۔ جیسا کہ کتاب و سنت میں یہ صراحت میں ہے کہ ایک وقت ایسا تھا جب صرف پانی ہی پانی تھا اور اس پر اللہ کا عرش تھا اور پانی کے علاوہ کوئی دوسری چیز موجود نہ تھی۔ پھر ہر طرح کی تخلیق کا آغاز پانی سے ہی ہوا۔ حتیٰ کہ جمادات میں بھی پانی کا کچھ نہ کچھ حصہ موجود ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ جڑی ہوئی ہے اگر اس سے پانی کو ختم کردیا جائے تو وہ چیز ریزہ ریزہ ہوجائے گی۔ الأنبياء
31 [٢٧] اس جملہ کی تشریح کے لئے دیکھئے سورۃ نحل کی آیت نمبر ١٥ کا حاشیہ۔ [٢٨]آغاز کائنات :۔ یعنی پہاڑ پیدا کئے۔ پھر ان میں وادیاں اور ندی نالے بن گئے۔ انھیں ندی نالوں سے نشیب و فراز کو معلوم کرکے انسان کو ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ تک پہنچنے کے لئے راستوں کی نشاندہی ہوتی گئی۔ پھر اس زمین میں اور کئی طرح کی علامات پیدا کردیں۔ کہیں گھاٹیاں ہیں، کہیں چھوٹے پہاڑ، کہیں درے، کہیں بڑے بڑے پہاڑ اور ندی نالے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین کی ساخت بھی ایسی بنا دی ہے کہ ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ تک پہنچنے کی راہ بن جاتی ہے یا بنائی جاسکتی ہے۔ [٢٩] اس جملہ کے بھی دو مطلب ہیں۔ ایک تو واضح ہے کہ زمین میں چلنے پھرنے کے لئے راہ پالیں۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی ان نشانیوں میں غور و فکر کرکے اللہ کی معرفت اور حقیقت حال معلوم کرسکیں۔ الأنبياء
32 [٣٠] یعنی کائنات میں اللہ تعالیٰ کی ایسی بے شمار نشانیاں موجود ہیں جن میں غور کرنے سے باسانی انسان اس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے کہ ان اشیاء کو پیدا کرنے والی اور ان میں نظم و ضبط برقرار رکھنے والی ضرور کوئی نہ کوئی ہستی موجود ہے جو اتنی بااختیار، علیم اور مقتدر ہے کہ ان تمام اشیاء پر کنٹرول کر رہی ہے اور وہ ایک ہی ہوسکتی ہے اور یہ لوگ جو کسی نئی نشانی یا کسی نئے معجزہ کا مطالبہ کرتے ہیں تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان نشانیوں کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے اگر وہ توجہ دیتے تو پھر انھیں کسی معجزہ کے مطالبہ کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ الأنبياء
33 [٣١] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نام تو دو سیاروں سورج اور چاند کا لیا اور بعد میں فرمایا: سب (اپنے اپنے) فلک میں تیر رہے ہیں۔ جس سے بہت سے حقائق کا پتہ چلتا ہے۔ (١) سبح کے معنی پانی یا فضا میں تیرنا یا تیز رفتاری سے گزر جانا ہے۔ گویا سیارے فضا یا خلا میں تیز رفتاری سے گردش کر رہے ہیں۔ (٢)شمس وقمر کی گردش :۔ سورج اور چاند کے علاوہ بھی جتنے سیارے ہیں وہ سب کے سب محو گردش ہیں۔ (٣) زمین کی گردش کےمتعلق مختلف نظریات:۔ چاند کی طرح سورج ہی یقیناً محو گردش ہے۔ یہاں ایک نہایت اہم سوال سامنے آتا ہے۔ جو یہ ہے کہ آیا ہماری زمین ساکن ہے اور سورج اس کے گرد گھوم رہا ہے یا سورج ساکن ہے اور زمین اس کے گرد گھوم رہی ہے؟ یہ ایسا سوال ہے جس کے جواب میں آج تک چار مختلف نظریات پیش آچکے ہیں۔ ابتدائی نظریہ یہی تھا کہ ہماری زمین ساکن ہے اور سورج اس کے گرد گھومتا ہے۔ جیسا کہ بظاہر سب کو نظر آتا ہے۔ تقریباً ساڑھے پانچ سو سال قبل مسیح میں یونان کے ایک فلاسفر اور ہیئت دان نے یہ نظریہ پیش کیا کہ سورج ساکن ہے اور ہماری زمین اس کے گرد گھوم رہی ہے۔ نیز ہماری زمین کے علاوہ اور بھی بہت سے سیارے ہیں۔ جو سورج کے گرد گھوم رہے ہیں۔ بعد ازاں چوتھی صدی قبل مسیح میں بطلیموس فلاسفر علم ہیئت کے متعلق وہی پہلا نظریہ پیش کیا کہ حقیقت میں ہماری زمین ساکن ہے اور سورج اس کے گرد گھوم رہا ہے۔ بطلیموس علم ہندسہ ہیئت اور نجوم میں استاد وقت اور یکتائے روزگار تھا۔ اس نے اجرام فلکی کی تحقیق کے لئے ایک رصد گاہ کی بھی تیار کی تھی۔ علم ہیئت پر اس کی کتاب مجسطی نہایت معتبر سمجھی جاتی ہے۔ یہ تیسرا بطلیموسی نظریہ اپنے تمام معتقدات سمیت تقریباً ١٨٠٠ سو سال تک دنیا بھر میں مشہور و مقبول رہا۔ بالآخر یورپ کے ایک ہیئت دان کوپرنیکس (١٤٧٣۔ ١٥٤٣ء) نے سولہویں صدی کے آغاز میں یہ نظریہ پیش کیا کہ سورج متحرک نہیں بلکہ ساکن ہے اور ہماری زمین اپنے محور کے گرد بھی گھومتی ہے اور سورج کے گرد بھی سال بھر میں ایک چکر لگاتی ہے۔ لیکن کوپرنیکس کے بعد ایک دوسرے ہیئت دان ٹیکوبراہی نے کوپرنیکس کے نظریے کو رد کردیا اور تھوڑی سی ترمیم کے بعد بطلیموسی نظریہ کو ہی صحیح قرار دیا۔ جس میں زمین کو ساکن قرار دیا گیا ہے اور سورج اور دوسرے تمام سیارے اس کے گرد حرکت کر رہے ہیں۔ بعد ازاں اٹلی کے ایک ہیئت دان گیلیلیو نے ایک دوسرے ہیئت دان (ہالینڈ) کی مدد سے کئی قسم کی دوربینیں تیار کرکے اجرام فلی کا مشاہدہ کیا تو کوہرنیکس کے نظریہ کو بہت درست پایا۔ جو اس بارے میں چوتھا نظریہ تھا۔ بعد ازاں کئی ہیئت دانوں نے اس نظریہ کی تائید کی اور آج کے دور میں یہی نظریہ رائج اور درست سمجھا جارہا ہے۔ یہ کہ سورج ساکن ہے اور نو ستارے اس کے گرد گھوم رہے ہیں اور یہ امکان بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ ممکن ہے کہ ہمارا سورج اپنے پورے خاندان (نظام شمسی) سمیت اپنے سے کسی بڑے سورج کے گرد گھوم رہا ہو۔ زمین کی گردش کے متعلق ہمیں کتاب و سنت میں کوئی صراحت نہیں ملتی کہ آیا وہ ساکن ہے یا متحرک؟ البتہ دلائل سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ زمین بھی ایک سیارہ ہے اور گول ہے لہٰذا وہ بھی کل کے حکم میں داخل ہو اور حرکت کر رہی ہو۔ البتہ سورج کے متعلق کتاب و سنت میں بالصراحت مذکور ہے کہ وہ حرکت کر رہا ہے اور اس حرکت سے مراد محض محوری گردش ہی نہیں۔ بلکہ جریان یا سبح کے الفاظ سے ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کرنا اور کرتے جانا مراد ہے۔ گویا موجودہ ہیئت دانوں کا احتمال محض احتمال نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ سورج بمعہ اپنے خاندان اپنے سے کسی بڑے سورج (یعنی شمس الشموس یا ثافت الثوایت) کے گرد گھوم رہا ہے۔ (٤)افلاک اور ان کی گردش :۔ اس آیت میں فلک کا استعمال ہوا ہے۔ جس کا ترجمہ گو اردو زبان میں آسمان ہی کرلیا جاتا ہے تاہم اس سے مراد وہ سات آسمان نہیں جن کی تعداد کتاب و سنت میں (سبع سماوات) بتلائی گئی ہے۔ بلکہ اس سے مراد سیاروں کے مدار (Orbits) یا وہ راستے ہیں جن پر وہ گھوم رہے ہیں۔ بطلیموسی نظریہ کے مطابق سیارے سات تھے اور افلاک بھی سات ہی تھے۔ پہلے فلک پر چاند دوسرے پر عطارد، تیسرے پر زہرہ، چوتھے پر سورج، پانچویں پر مریخ، چھٹے پر مشتری اور ساتویں پر زحل ہے۔ ان سات افلاک کو سات سیاروں سے منسوب کیا گیا ہے۔ پھر ان کے اوپر آٹھواں فلک ہے جو کس فلک ہشتم، فلک ثوابت اور فلک البروج بھی کہتے ہیں۔ اس آٹھویں فلک کے دائرہ کو ١٢ حصوں میں تقسیم کرکے ہر حصہ کو ایک برج قرار دیا ہے۔ ٥۔ بطلیموسی نظریہ کے مطابق صرف سیارے ہی محو گردش نہیں بلکہ یہ افلاک بھی گردش کرتے ہیں۔ اور ان سیاروں اور افلاک کی گردش کے انسانی زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جیسا کہ غالب کے درج ذیل شعر سے بھی معلوم ہوتا ہے۔ رات دن گردش میں ہیں سات آسمان۔۔ ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا اس آیت میں سیاروں کی گردش کا تو ذکر موجود ہے لیکن یہ بھی بتلا دیا گیا کہ یہ فلک (مدار) گردش نہیں کرتے۔ الأنبياء
34 [٣٢]ہجرت حبشہ اور کفار کی پریشانی :۔ جب کفار مکہ کے ظلم و ستم اور چیرہ دستیوں سے تنگ آکر ٨٠ کے قریب مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے۔ تو قریش مکہ کے سب گھروں میں کہرام مچ گیا۔ کیونکہ مشکل ہی سے کوئی گھرانا ایسا بچا رہ گیا ہوگا جس کے کسی لڑکے یا لڑکی نے ہجرت نہ کی ہو۔ ان لوگوں کو اپنی ایذا رسانیوں کا تو خیال تک نہ آتا تھا مگر یہ ضرور سمجھتے تھے کہ ہمارے گھروں کی بربادی کا باعث صرف یہ شخص (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے۔ لہٰذا وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ اگر یہ شخص مر جائے تو ہمارے گھر پھر سے آباد ہوسکتے ہیں۔ پھر وہ آپ کے لئے موت کی بددعا بھی کرتے تھے۔ اس آیت میں انہی لوگوں کو مخاطب کرکے بتلایا جارہا ہے کہ موت ہر ایک کو آنے والی ہے۔ پہلے بھی سب لوگ گزرچکے اور اس نبی کو بھی اپنے وقت پر موت آنے والی ہے۔ مگر تم بتاؤ کہ تم موت سے بچ سکتے ہو۔ وہ تو تمہیں بھی آکے رہے گی اور کیا معلوم کہ تم سے اکثر اس سے پہلے ہی مرجائیں۔ الأنبياء
35 [٣٣] فتنہ کامفہوم :۔ فتنہ سے مراد ایسی آزمائش ہے جس کا انسان کو پتہ بھی نہ چلے اور وہ اندر ہی اندر اپنا کام کئے جارہی ہو۔ جیسے مال اور اولاد اور دوسری مرغوبات کی محبت انسان کے لئے فتنہ ثابت ہوتی ہے۔ اس آیت میں خیر سے مراد مالی دولت کی فراوانی اور خوشحالی کا زمانہ ہے اور شر سے مراد تنگ دستی اور بدحالی کا دور۔ اور اللہ تعالیٰ ہر حال میں ہی انسان کی آزمائش کرتا رہتا ہے۔ ایک مومن تو خوشحالی کے اوقات میں اللہ کا شکر ادا کرکے اور تنگ دستی کے دور میں مصائب پر صبر کرکے اس آزمائش میں کامیاب ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے دنیوی اور اخروی انعامات کا مستحق بن جاتا ہے۔ لیکن ایک دنیا دار پر جب مال و دولت کی فراوانی اور خوشحالی کا دور آتا ہے تو اس کا دماغ ہی درست نہیں رہتا اور اس میں فرعونیت اور تکبر آجاتا ہے اور دوسروں کو حقیر سمجھنے لگتا ہے اور اگر برے دن آجائیں تو صبر کرنے کی بجائے کفر و شرک راہوں پر جا پڑتا ہے اور در در پر اپنی ناک رگڑنے لگتا ہے۔ اس طرح وہ دنیا و آخرت میں اللہ کے غضب کا مستحق بن جاتا ہے۔ الأنبياء
36 [٣٤]مشرکوں کا اپنے معبودوں کو آپ سے بالاتر سمجھنا اور آپ کامذاق اڑانا:۔ یعنی مشرکین مکہ کے نزدیک ان کے اپنے معبودوں کی شان نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابلہ میں بہت ارفع و اعلیٰ تھی۔ لہٰذا وہ آپ کو دیکھ کر از راہ مذاق و استہزا یوں کہتے کہ دیکھو یہ شخص ہے جو تمہارے معبودوں کی باتیں کرتا ہے (یعنی ان کے مقابلہ میں اس کی اوقات ہی کیا ہے؟) حالانکہ آپ ان کے معبودوں کو نہ گالی دیتے تھے اور نہ برا بھلا کہتے تھے۔ اور کہتے تھے تو صرف یہ کہتے تھے کہ تمہارے یہ معبود تمہارا نہ کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ سنوار سکتے ہیں۔ اور اسے ہی وہ اپنے لئے سب سے بڑی گالی سمجھتے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ ان کے نزدیک آپ کے اس نظریہ سے ان کے معبودوں کی، ان کی اپنی اور ان کے آباؤ و اجداد کی سب کی توہین ہوجاتی تھی۔ اب وہ سنجیدگی سے معاملہ کو سمجھنے کی کوشش تو کرتے نہیں تھے۔ مگر ضد اور تعصب میں آکر آپ کا مذاق اڑانے لگتے تھے۔ اور اس کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ جب اس ہستی کا ذکر ہوتا جو فی الواقع ہر ایک کے نفع و نقصان کی مالک ہے تو انھیں یہ تکلیف شروع ہوجاتی کہ اللہ اکیلے کا کیوں ذکر کرتا ہے اور ہمارے معبودوں کو کیوں ساتھ شامل نہیں کرتا، حالانکہ اللہ کو وہ خود بھی اپنے معبودوں سے بڑا معبود سمجھتے تھے اور جب موت سامنے کھڑی نظر آتی تو اسے ہی پکارتے تھے۔ لہٰذا اللہ اکیلے کو پکارنے میں بھی تکلیف ہوتی تھی۔ اور رحمٰن کے لفظ سے تو انھیں ویسے بھی چڑ تھی جیسا کہ پہلا سورۃ رعد کی آیت نمبر ٣٠ کے حاشیہ نمبر ٣٩ میں گزر چکا ہے۔ الأنبياء
37 [٣٥] انسان کی جلد بازی کی آرزواورا س کا جواب:۔ یعنی جلد بازی انسان کی سرشت میں داخل ہے۔ وہ چاہتا یہ ہے کہ جو خواہش اس کے دل میں پیدا ہوئی ہے وہ جلد از جلد وقوع پذیر ہوجائے۔ خواہ یہ خواہش اچھی ہو یا بری۔ اس آیت میں چونکہ انسان کی فطرت کا ذکر ہوا ہے۔ لہٰذا اس آیت کے مخاطب مسلمان بھی ہوسکتے ہیں اور کافر بھی۔ بات یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعوت اسلام کے سلسلہ میں قرآن میں مذکور وعید سنائی کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرو گے، ان کا مذاق اڑاؤ گے یا یہ راستہ روکو گے تو تم پر اللہ کا عذاب آئے گا۔ جیسا کہ سابقہ اقوام پر آچکا ہے۔ اب کافر یہ سوچتے تھے کہ اس دعوت کا علی الاعلان انکار بھی کر رہے ہیں اور صرف انکار ہی نہیں ان مسلمانوں پر سختیاں بھی کر رہے ہیں۔ اور اتنی مدت گزر چکی ہے تو ہمارا تو بال بھی بیکا نہیں ہوا۔ لہٰذا اب وہ بے باک ہو کر کہنے لگے کہ یہ روز روز کی تکرار چھوڑو اور جس عذاب کی دھمکی دے رہے ہو وہ لے کیوں نہیں آتے؟ اور ممکن ہے کہ بعض مسلمانوں کو بھی یہ خیال آتا ہو کہ ان ظالموں پر اگر فوراً عذاب آجائے تو کیا ہی اچھا ہو۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کہ ہر کام کا میرے ہاں ایک اندازہ مقرر ہے اور وقت معین ہے۔ لہٰذا اپنے وقت تمہیں ایسی سب نشانیاں دکھلا دی جائیں گی اور ان نشانیوں کے وقوع پذیر ہونے کی داغ بیل آپ کے واقعہ ہجرت سے ہی پڑگئی تھی۔ الأنبياء
38 الأنبياء
39 [٣٦] یعنی ان کے اس مطالبہ کی وجہ صرف یہ ہے کہ جس آگ کے عذاب سے انھیں ڈرایا جاتا ہے اس پر ان کا یقین ہی نہیں۔ اگر ان پر یہ حقیقت منکشف ہوجائے اور وہ اس ہولناک گھڑی کو ٹھیک ٹھیک سمجھ لیں تو کبھی ایسی درخواست نہ کریں۔ پھر جب وہ وقت سامنے آجائے گا اور انھیں آگے سے پیچھے سے، دائیں سے بائیں سے، اوپر سے، نیچے سے غرض ہر طرف سے آگ گھیرے ہوئے ہوگی تو اس سے بچاؤ کی انھیں کوئی صورت نظر نہ آئے گی۔ اور آج جو کچھ یہ باتیں بنارہے ہیں اس دن ایسے حواس باختہ ہوں گے کہ ان میں سے کوئی بات بھی انھیں یاد نہ رہے گی۔ الأنبياء
40 الأنبياء
41 [٣٧] یعنی اللہ کے جس عذاب کی وعید کا مذاق اڑاتے تھے۔ اسی عذاب میں پھنس گئے۔ ان کا مذاق انہی پر الٹ پڑا اور اس کے وبال میں ایسے گرفتار ہوئے کہ اب دوسرے لوگ ان کا مذاق اڑانے لگے۔ الأنبياء
42 [٣٨] یعنی ان کافروں کی کرتوتیں تو اس لائق ہیں کہ انھیں کسی وقت بھی رات کو یا دن کو اللہ کا عذاب آلے۔ یہ تو اللہ کی رحمت واسعہ اور اس کی خاص مہربانی ہے کہ لوگوں کی خطاؤں پر فوری گرفت نہیں کرتا۔ اور اگر اس کا عذاب آجائے تو ان کے پاس وہ کون سا ذریعہ ہے جس سے وہ اللہ کے عذاب سے بچ سکیں گے؟ یا وہ کون سی ہستی ہے جو اللہ کے علاوہ انھیں عذاب سے بچا سکتی ہے۔ دراصل یہ اللہ کے قانون تدریج و امہال کا، جو لوگوں کے لئے سراسر رحمت ہے، مذاق اڑا رہے ہیں۔ حالانکہ انھیں چاہئے یہ تھا کہ ایسے مالک کے احسان مند ہوتے جو ان کی خطاؤں کے باوجود مہلت دیئے جاتا ہے۔ لیکن ان کی یہ حالت ہے کہ اس کا ذکر تک سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔ الأنبياء
43 الأنبياء
44 [٣٩] خوشحالی انسان کو اللہ سےغافل کردیتی ہے :۔ یعنی ان قریش مکہ کی حالت یہ ہے کہ ایک طویل مدت سے ان پر سختی کا کوئی دور نہیں آیا۔ کعبہ کی تولیت کی بنا پر ان کی عرب بھر میں عزت ہے۔ ان کے تجارتی قافلوں پر کوئی بھی قبیلہ ڈاکہ ڈالنے کی جرأت نہیں کرتا۔ بلکہ جس قافلے کو یہ لوگ پروانہ راہداری دے دیں۔ وہ بھی لوٹ مار سے محفوظ و مامون ہوجاتا ہے۔ سردی اور گرمی کے تجارتی سفروں کی بنا پر بہت دولت کما رہے ہیں اور آسودہ حال ہیں۔ اسی آسودہ حالی نے انھیں اللہ اور اس کی یاد سے غافل بنا دیا ہے۔ اب ان کے دماغ اس وقت تک درست نہیں ہوسکتے جب تک یہ اللہ کے عذاب کا مزا نہ چکھ لیں۔ [٤٠] زمین کو گھٹانے کامطلب :۔یہ لوگ بچشم خود دیکھ رہے ہیں کہ اسلام کو روکنے کی ان کی ساری تدبیروں اور کوششوں کے باوجود اسلام دن بدن بڑھتا اور پھیلتا جارہا ہے اور جوں جوں اسلام پھیل رہا ہے ان پر از خود عرصہ حیات تنگ ہوتا جارہا ہے اور ان کی پریشانیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ جس علاقہ میں اسلام آگیا وہاں سے کفر رخصت ہوا اور کفر کی سرزمین گھٹ گئی۔ اور یہ سلسلہ بدستور جاری رہے گا کفر کا علاقہ یا سرزمین گھٹتی، سمٹتی اور سکڑتی جائے گی اور اسلام کی سرزمین برھتی جائے گی۔ جس کا آغاز ہوچکا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود کیا اب بھی وہ اس وہم میں مبتلا ہیں کہ وہ اسلام کو دبا لینے میں کامیاب ہوجائیں گے اور بالآخر انھیں کا بول بالا رہے گا ؟ الأنبياء
45 [٤١] اصل بات یہ ہے کہ یہ ابھی تک اندھے اور بہرے بنے ہوئے ہیں۔ نہ وقت کی آواز کو سنتے ہیں اور نہ ہی وقت کی رفتار دیکھنے کی زحمت گوارا کرتے ہیں اور اگر انھیں اللہ کا پیغام سنایا جائے اور اخروی انجام سے ڈرایا جائے تو سننے کی زحمت تک گوارا نہیں کرتے۔ یہ لوگ دراصل لاتوں کے بھوت ہیں۔ جب تک انہوں نے اللہ کے عذاب کا مزا نہ چکھا، اپنی خواب غفلت سے کبھی بیدار نہ ہوں گے۔ اس وقت وہ اپنی خطاؤں اور کوتاہیوں کا اعتراف تو کرنے لگیں گے۔ مگر اس وقت ان کے اعتراف کا کچھ فائد نہ ہوگا۔ الأنبياء
46 الأنبياء
47 [٤٢] اعمال کا وزن کیسے ہوگا، میزان الاعمال کی حقیقت:۔ اس آیت میں مَوَازِیْنُ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو میزان بمعنی ترازو کی جمع ہے۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہوسکتا ہے کہ ہر شخص کے لئے الگ الگ ترازو رکھا جائے اور دوسرا یہ کہ مختلف اعمال کی نوعیت کے لحاظ سے مختلف ترازو ہوں۔ یہ حقیقت تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اعمال کی حقیقت کا صحیح صحیح اندازہ کرنے کے لئے کس قسم کا ترازو استعمال ہوگا۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک شخص پورے خشوع و خضوع کے ساتھ وقت پر جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے۔ دوسرا بھی جماعت میں شامل ہوتا ہے مگر گرانبار طبیعت کے ساتھ اور اللہ کی یاد کی بجائے دوسرے ہی خیالات میں مستغرق رہتا ہے اور اس کی نماز ایسے ہوتی ہے جیسے کوئی خود کار آلہ ہو جس کا سوئچ دبا گیا ہو۔ اب ظاہر ہے کہ اجر کے لحاظ سے ان دونوں کی نمازوں میں نمایاں فرق ہے اگرچہ ظاہری شکل و صورت ایک ہی جیسی ہے۔ پھر یہ باطنی معاملات ایسے ہیں جن کا صحیح علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہوسکتا کہ فلاں شخص کے فلاں عمل میں حقیقت کتنی ہے اور وزن تو اعمال کے حقائق کا ہوگا جیسے ایک دوسرے مقام پر فرمایا : ﴿ وَالْوَزْنُ یَوْمَیِٕذِ الْحَقُّ ﴾(۸:۷) حدیث بطاقۃ :۔ اور اس بات کی تائید اس حدیث سے بھی ہوجاتی ہے جو حدیث بطاقہ کے نام سے مشہور ہے۔ یعنی قیامت کے دن ایک شخص کو پکارا جائے گا جس کے ننانوے گناہوں کے دفتر ہوں گے اور اس سے پوچھا جائے گا کہ دیکھو کہ ان دفتروں کے مندرجات درست ہیں اور میرے کراماً کاتبین نے تجھ پر کچھ زیادتی تو نہیں کی؟ وہ کہے گا اے پروردگار! یہ سب کچھ درست ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھے گا کیا تمہاری کچھ نیکیاں بھی ہیں؟ وہ کہے گا، کوئی نہیں۔ تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تمہاری نیکیاں بھی نہیں اور آج کے دن کسی پر ظلم نہیں ہوگا۔ پھر اس کے لئے ایک پرچی نکالی جائے گا جس پر اشہد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ درج ہوگا۔ وہ کہے گا اے پروردگار ان ننانوے گناہ کے دفتر کے مقابلہ میں اس پرچی کی کیا حقیقت ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : آج تجھ پر کچھ زیادتی نہیں ہوگی۔ چنانچہ میزان الاعمال کے ایک پلڑے میں گناہوں کے ننانوے دفتر رکھیں جائیں گے اور دوسرے میں یہ پرچی تو گناہوں کا پلڑا اوپر اٹھ جائے گا اور پرچی والا نیکیوں کا پلڑا بھاری نکلے گا۔ (ابن ماجہ، ابو اب الزھد، باب مایرحی من رحمہ اللہ یوم القیامہ) اور اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اعمال کے حقائق کو تولنے میں ہر ایک کے ساتھ پورا پورا عدل و انصاف ہوگا۔ پھر اس کے مطابق ہر شخص کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ یہاں یہ بات بھی ملحوظ رکھنی چاہئے لفظ عدل یا قسط کی ضد ظلم ہے اور ظلم اللہ تعالیٰ کی شان کے منافی ہے۔ لہٰذا نہ تو یہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کے چھوٹے سے چھوٹے عمل کا بھی بدلہ نہ دے اور نہ یہ ممکن ہے کہ عمل کے لحاظ سے اجر کم عطا فرمائے۔ اور یہ دونوں ظلم کی صورتیں ہیں۔ لیکن یہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کے عمل کا اجر عدل سے بڑھ کر عطا فرمائے اور اس صفت کا نام احسان ہے۔ جو عدل سے بھی برتر صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس معاملہ میں جو چاہے کرسکتا ہے۔ وہ کسی کو عمل سے زیادہ اجر دے۔ کسی کی خطائیں معاف ہی کردے۔ اور اگر حقوق العباد کا معاملہ ہو تو بندوں کو اپنی طرف سے ان کے حق عطا کرکے مجرم کو معاف کردے۔ یہ تو سب کچھ ممکن ہے لیکن اللہ سے ظلم ممکن نہیں۔ اور تیسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہمیں حساب لینا آتا ہے۔ ہم اعمال کے حقائق کی تعیین کو بھی خوب جانتے ہیں اور کسی کے رائی بھر عمل کو بھی اور اس سلسلہ میں ہمیں کسی مددگار کی بھی ضرورت نہیں اور کَفٰی بِنَا حَاسِیِنْ َکا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہمارا لیا ہوا حساب آخری اور فیصلہ کن ہوگا۔ جس کی نہ کوئی پڑتال کرنے کا حق رکھتا ہے اور نہ ہی کہیں اپیل ہوسکے گی۔ کوئی دوسرا اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کسی کی کچھ بھی مدد نہ کرسکے گا۔ الأنبياء
48 [٤٣]تورات کی صفات :۔ یعنی یہ ہدایت اور انذار کا سلسلہ قریش مکہ سے ہی مختص نہیں، پہلی قوموں کی طرف بھی ہم رسول اور اپنی کتابیں نازل کرتے رہے ہیں۔ انہی کتابوں میں سے سرفہرست تورات ہے جو ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو عطا کی تھی۔ یہ حق و باطل میں امتیاز کرنے والی کتاب تھی۔ ان کے آپس میں اختلافات کی حقیقت واضح کرکے صحیح راہ کی نشاندہی کرتی تھی۔ اور اس کی روشنی میں سیدھا راستہ صاف صاف نظر آنے لگتا تھا۔ نیز وہ اولاد آدم کو بھولا ہوا سبق یاد دلانے والی نصیحت تھی۔ اور اس میں پندونصیحت کے وافر اسباق موجود تھے۔ الأنبياء
49 [٤٤] اگرچہ یہ کتاب سب لوگوں کے لئے نازل کی گئی تھی۔ مگر اس سے فائدہ اور نصیحت تو صرف ان لوگوں کو حاصل ہوتا ہے جو اللہ پر بن دیکھے ایمان لاتے ہیں اور اس کی ہدایت کے طالب ہوتے ہیں اور آخرت کے دن اللہ کے حضور پیش ہونے اور اپنے اعمال کی باز پرس سے ڈرتے رہتے ہیں۔ اور انھیں بروقت یہی فکر دامن گیر رہتی ہے اور باز پرس کی فکر نہیں۔ اس دنیا میں انتہائی محتاط زندگی گزارنے پر آمادہ کرتی رہتی ہے۔ الأنبياء
50 [٤٥]قرآن کی صفات بمقابلہ تورات :۔ اور یہ قرآن جسے ہم نے اے قریشیو! تمہاری طرف نازل کیا ہے یہ تورات سے بھی زیادہ بابرکت ہے۔ جس میں سابقہ تمام آسمانی کتب کی خوبیاں بھی موجود ہیں اور ان سب کا خلاصہ بھی اس میں آگیا ہے۔ علاوہ ازیں اس میں انسان کی ہدایت سے متعلق ہر چیز کو پوری تفصیل سے بیان کردیا گیا ہے۔ گویا یہ قرآن فرقان بھی ہے، ضیاء اور نور بھی ہے، ذکر اور تذکرہ بھی ہے اور قیامت تک کے لوگوں کے لئے رحمت اور باعث رحمت بھی ہے۔ پھر بھی اگر تم ایسی بابرکت کتاب کا انکار کرتے ہو تو تمہاری بدبختی میں کیا شبہ ہوسکتا ہے۔ الأنبياء
51 [٤٦]رشد کا مفہوم :۔ رُشد سے مراد ایسی ہوش مندی ہے۔ جس سے انسان اپنے فائدہ و نقصان، نیک و بد اور خیر و شر میں امتیاز کرنے اور فائدہ کی بات کو قبول کرنے اور نقصان کی بات کو رد کرنے کے قابل ہوجائے۔ خواہ یہ نفع و نقصان دنیوی ہو یا اخروی ہو۔ یعنی اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام سے بہت مدت پہلے ہم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ہوش مندی اور عقل سلیم عطا کی تھی۔ وہ زمانے کے رسم و رواج کے پیروکار نہیں تھے۔ بلکہ ہر بات کے نفع و نقصان کو خود سوچنے کے عادی تھے۔ اور ہم ان کے حالات سے خوب واقف تھے اور جانتے تھے کہ وہ فی الواقع رسالت الٰہی کے مستحق ہیں۔ لہٰذا ہم نے انھیں نبوت عطا فرمائی۔ اگرچہ یہ ہوش مندی بھی ہم نے ہی انھیں عطا کی تھی۔ الأنبياء
52 [٤٧] یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہوش مندی کا تقاضا تھا کہ جب انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم کے لوگوں کو بے جان اور ساکت و صامت بتوں کے سامنے سجدہ ریز دیکھا تو فوراً دل میں سوچنے لگے کہ ان بے جان پتھروں کے سامنے، جو نہ حرکت کرسکتے ہیں، نہ سنتے ہیں، نہ بولتے ہیں۔ سجدہ کرنے کا فائدہ کیا ہے؟ ایسی چیزوں کو سجدہ کرنا تو سراسر انسانیت کی توہین اور تذلیل ہے۔ قوم کی اس انسانیت سوز حرکت پر وہ مدتوں دل ہی دل میں کڑہتے اور نفرت کرتے رہے۔ بالآخر انہوں نے اپنے طبیعت کے تقاضا سے مجبور ہو کر اپنے باپ اور اپنی قوم سے یہ سوال کر ہی دیا کہ مجھے بھی تو کچھ بتلاؤ کہ جن بے جان مورتیوں کے سامنے تم بیٹھ کر ان کی عبادت میں مشغول رہتے ہو اس کا فائدہ کیا ہے؟ الأنبياء
53 [٤٨] تقلیدآباء کی مذمت :۔ اب اگر بتوں کے سامنے عبادت کرنے کا کوئی عملی فائدہ ہوتا یا ان کے پاس کوئی معقول جواب ہوتا تو قوم کے لوگ یقیناً حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بتلا کر انھیں مطمئن کردیتے۔ لیکن انھیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس سوال کا اس بات کے سوا کوئی جواب میسر نہ آیا کہ چونکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو بھی ایسا ہی کرتے دیکھا ہے، لہٰذا ہم بھی ان کی اتباع میں یہی کچھ کر رہے ہیں؟ ظاہر ہے کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سوال کا معقول جواب نہیں تھا۔ اور اس مقام پر سوال کی اہمیت یہ ہے کہ قریش مکہ بھی بتوں کی پرستش کرتے تھے۔ اور جب ان سے یہی سوال کیا جاتا تو ان کا جواب بھی بعینہ یہی کچھ ہوتا تھا۔ مزید برآں وہ اپنے آپ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پیروکار بھی کہتے تھے۔ گویا یہ سوال ''گفتہ آید در حدیث دیگراں'' کے مصداق قریش مکہ سے بھی تھا۔ الأنبياء
54 الأنبياء
55 [٤٩] گویا قوم ابراہیم کو اپنے اس بت پرستی کے مذہب کی حقانیت پر اتنا پختہ یقین تھا کہ یہ بات ان کے وہم و گمان میں بھی نہ آ سکتی تھی کہ کوئی شخص اس مذہب کی مخالفت بھی کرسکتا ہے۔ لہٰذا وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پوچھنے لگے کہ تم نے جو ہم پر بتوں کی پرستش کی بنا پر صریح گمراہی کا فتویٰ لگایا ہے۔ یہ بات صدق دل اور سنجیدگی کے ساتھ کہہ رہے ہو یا ویسے ہی کچھ دل لگی کرنے کا خیال آگیا تھا ؟ الأنبياء
56 [٥٠] حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا کہ یہ دل لگی کی بات نہیں بلکہ میں فی الواقع یہی کچھ سمجھتا ہوں کہ یہ پتھر کے بت جو اپنے بھی نفع و نقصان کے مالک نہیں وہ تمہارے نفع و نقصان کے مالک کیسے بن سکتے ہیں۔ اور میں تو اپنے نفع و نقصان کا مالک صرف اپنے اس پروردگار کو سمجھتا ہوں جس نے ہم سب کو بھی اور زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے اور ان پر پورے اختیار کے ساتھ حکمرانی کر رہا ہے اور میں یہ بات محض وہم و گمان کی بنا پر نہیں بلکہ پورے وثوق کے ساتھ کہہ رہا ہوں۔ الأنبياء
57 [٥١] حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دل میں سوچا کہ یہ لوگ باتوں سے تو اپنی گمراہی کو سمجھتے نہیں۔ اب انھیں کسی عملی تجربہ سے سمجھائے بغیر چارہ نہیں۔ لہٰذا اللہ کی قسم کھالی۔ کہ جب یہ لوگ اپنے بتوں کے پاس سے غیر حاضر ہوئے تو پھر میں ان کے مشکل کشاؤں کی خبر لوں گا۔ اب اتفاق کی بات کہ ان کے جشن نوروز یعنی قومی میلہ کا دن قریب آگیا تو یہ سب لوگ اس میلہ پر چلے گئے۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایسا موقع میسر آگیا جس کی انھیں انتظار تھی۔ الأنبياء
58 [٥٢]سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام بتوں کوتوڑنا:۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم سیارہ پرست لوگ تھے۔ اور انسانی زندگی پر سیاروں کے اثرات کے انتہائی معتقد تھے۔ انھیں سیاروں مثلاً سورج، چاند، زہرہ، عطارد، مشتری، مریخ اور زحل وغیرہ کی ارواح کی ایک مخصوص شکل انہوں نے متعین کر رکھی تھی۔ اور اسی شکل کے مجسمے بنائے جاتے تھے۔ جن کی یہ لوگ پوجا کرتے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی ہوش مندی کی ابتداء میں پہلا تجربہ اپنی ذات پر کیا تھا اور دیکھا تھا کہ یہ سیارے یہ چاند اور یہ سورج کیا میری زندگی پر کچھ اثر انداز ہوتے ہیں یا نہیں۔ اور تجربہ نے انھیں یہی بتلایا تھا کہ ایسی باتیں سب انسانی توہمات ہیں۔ اسی بنا پر قلبی یقین کے ساتھ وہ اپنی قوم سے مجادلہ اور و قابلہ پر اتر آئے تھے۔ ان لوگوں کو جشن نوروز اس دن ہوتا تھا جب سورج برج حمل میں داخل ہوتا تھا اور آج کل کے حساب سے یہ دن یکم اپریل کا دن بنتا ہے اور یہ موسم بہار ہوتا ہے اور مبتدل موسم ہوتا ہے۔ جشن نوروز پر جب سب لوگ جانے لگے تو پہلے اپنے بتوں کے سامنے نذر و نیاز کی مٹھائیاں رکھیں۔ پھر بت خانہ کو جانے لگے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی اس میلہ میں شمولیت کی دعوت دی تو آپ علیہ السلام نے آسمان کی طرف نگاہ دوڑائی جیسے سیاروں کی چال دیکھ رہے ہوں اور کہہ دیا کہ میں تو بیمار ہونے والا ہوں لہٰذا مجھے ساتھ لے جاکر اپنے رنگ میں بھنگ نہ ڈالو۔ اور مجھے یہیں رہنے دو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سیاروں کی طرف نگاہ اس لئے نہیں کی تھی کہ آپ ان کے اثرات پر یقین رکھتے تھے جبکہ اس لئے دورائی تھی کہ آپ کی ستارہ پرست قوم آپ کے اس عذر کو معقول سمجھ لے۔ جب یہ سب لوگ میلہ پر چلے گئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے یہی سنہری موقع تھا۔ آپ نے ایک تبر یا کلہاڑا لیا بت خانہ کا دروازہ کھولا اور انکے بتوں کو مار مار کر ان کے ٹکرے ٹکڑے کردیئے۔ البتہ بڑے بت کو چھوڑ دیا۔ اور کلہاڑا اس کے کندھے پر رکھ دیا تاکہ یہ معلوم ہو کہ یہ سب کارستانی اس بڑے بت کی ہے۔ آیت کے الفاظ ہیں ﴿ لَعَلَّہُمْ اِلَیْہِ یَرْجِعُوْنَ ﴾(تاکہ وہ لوگ اس کی طرف رجوع کریں) الیہ کی ضمیر اس بڑے بت کی طرف بھی ہوسکتی ہے۔ جیسا کہ ترجمہ سے ظاہر ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بڑے بت کے کندھے پر کلہاڑا رکھنے سے بھی ان کا اپنا یہی مقصود تھا نیز یہ لوگ سخت مشکل کے وقت بڑے بت ہی کی طرف رجوع کرتے تھے اور الیہ کی ضمیر خود حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف بھی ہوسکتی ہے۔ جیسا کہ مابعد کی دو آیات سے معلوم ہوتا ہے۔ الأنبياء
59 الأنبياء
60 [٥٣] جب ان لوگوں نے میلہ سے واپس آکر اپنے مشکل کشاؤں کی یہ خستہ حالی دیکھی تو انھیں بہت دکھ ہوا۔ انھیں یہ خیال تک نہ آیا کہ بڑے بت کے کندھے پر جو کلہاڑا ہے تو شاید اسی بڑے خدا نے چھوٹے خداؤں کو تہس نہس کردیا ہو۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ بت تو اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں سکتے، توڑا پھوڑ کا کام کیسے کرسکتے ہیں؟ اور یہی کچھ حضرت ابراہیم علیہ السلام انھیں سمجھنا چاہتے تھے۔ انھیں خیال آیا تو صرف یہ کہ جس کسی نے یہ کام کیا ہے وہ بڑا ظالم ہے۔ اب ان مشکل کشاؤں کی ناراضگی سے ہم پر قہر نازل ہوکے رہے گا اور اس قہر سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم اس ظالم کا سراغ لگائیں اور اسے قرار واقعی سزا دیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام چونکہ کئی لوگوں کے سامنے یہ اظہار خیال کرچکے تھے کہ ’’یہ بے جان پتھر کی مورتیاں نہ تمہارا کچھ بگاڑ سکتی ہیں اور نہ سنوار سکتی ہیں لہٰذا ان کی عبادت کرنا صریح گمراہی اور انسانیت کی توہین ہے‘‘ لہٰذا بعض لوگوں کو فوراً یہ خیال آگیا کہ یہ کارستانی ابراہیم کی ہی ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی شخص ہماری نظر میں ایسا نہیں جو ہمارے ان معبودوں میں اس قدر گستاخ واقع ہوا ہو۔ الأنبياء
61 [٥٤] پھر جب اس ''ظالم'' کی نشان دہی ہوچکی تو کچھ لوگ کہنے لگے کہ اس کو جو کچھ سزا دینا چاہتے ہو۔ وہ سب لوگوں کے سامنے علی الاعلان دی جانی چاہئے۔ تاکہ لوگوں کے دل اپنے معبودوں کی طرف سے ٹھنڈے ہوں اور سزا بھی ایسی عبرت ناک ہونی چاہئے کہ آئندہ کسی کو ان مشکل کشاؤں کی شان میں گستاخی کرنے کی جرأت نہ ہو۔ الأنبياء
62 الأنبياء
63 [٥٥] چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سب لوگوں کے سامنے برسر میدان لایا گیا اور ان سے پہلا سوال جو ہوا تو وہ اعتراف جرم سے متعلق تھا۔ کیونکہ جب تک مجرم کا جرم ہی ثابت نہ ہو سزا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پوچھا یہ گیا کہ : آیا ہمارے مشکل کشاؤں کو تم ہی نے توڑا پھوڑا ہے؟ اس سوال کا جواب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دیا کہ قرینہ کی شہادت تو یہ ہے کہ یہ سب کارستانی بڑے بت کی ہے۔ جس نے کلہاڑا اپنے کندھے پر اٹھا رکھا ہے۔ ممکن ہے بڑے خدا کو تمہارے جانے کے بعد چھوٹے خداؤں پر غصہ آگیا ہو اور اس نے انھیں تہس نہس کردیا ہو۔ اور اس سوال کا اصل حل یہ ہے کہ ان مظلوم اور ٹوٹے پھوٹے مشکل کشاؤں سے ہی پوچھ لو کہ ان پر کس نے یہ ظلم روا رکھا ہے اور یقین جانو کہ اگر وہ بولتے ہیں تو یقیناً تم کو اس سوال کا جواب دے دیں گے۔ الأنبياء
64 الأنبياء
65 الأنبياء
66 [٥٦]مشکل کشاؤں کی بے بسی :۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس جواب پر مجمع میں جمع شدہ سب لوگوں کو اپنے مشکل کشاؤں کی بے بسی کا ٹھیک طور پر احساس ہوگیا اور لوگوں کے پاس ماسوائے شرمندگی اور خاموشی کے اس کا کوئی جواب نہ تھا۔ لگے اپنے گریبانوں میں جھانکنے کہ اب اس بات کا کیا جواب دیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام دراصل یہی کچھ چاہتے تھے اور یہ جو کچھ ہوا یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی توقعات اور منشاء کے عین مطابق تھا۔ تبلیغ اور رد شرک کا جو سنہری موقع اس وقت ہاتھ آیا تھا شاید اس لئے پہلے کبھی نہ آیا ہو۔ چنانچہ اس وقت آپ نے اس بھرے مجمع کو مخاطب کرکے فرمایا کہ یہ تو تم نے دیکھ ہی لیا ہے کہ تمہارے مشکل کشا اپنا بھی دفاع نہیں کرسکتے۔ تو پھر وہ تمہاری کیا مشکلیں دور کرسکتے ہیں یا تمہیں فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور افسوس تو تم لوگوں پر ہے جو یہ باتیں جانتے ہوئے بھی ایسے مشکل کشاؤں کی عبادت کئے جارہے ہو۔ جو اپنے ظالم سے بھی بدلہ لینے کی طاقت نہیں رکھتے۔ الأنبياء
67 الأنبياء
68 [٥٧]سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو آ گ میں پھینکنا :۔ عقلی میدان میں جب قوم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سامنے نادم اور لاجواب ہوگئی تو اب ’’ڈنڈے کے استعمال‘‘ کی باتیں ہونے لگیں۔ اور جہلاء کا ہمیشہ سے یہی دستور رہا ہے کہ جب دلیل و حجت کے میدان میں پٹ جائیں تو ضد بازی پر اتر آتے ہیں اور انہی اکثریت کے بل بوتے پر قوت کے استعمال پر اتر آتے ہیں۔ اب صورت حال یہ تھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا باپ آزر خود بت تراش، بت فروش اور عراق کے بادشاہ نمرود کا درباری مہنت تھا۔ اب اگر وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بات مانتا تو اس کا روزگار۔ اس کی آمدنی کے ذرائع اور دربار میں اس کا مرتبہ و مقام سب کچھ ختم ہوتا تھا۔ لہٰذا قوم کے لوگوں سے بڑھ کر آزر ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کے دین کا دشمن بن گیا تھا۔ اب ان لوگوں نے متفقہ طور پر یہ طے کیا کہ جیسے بھی ہوسکے اپنے مشکل کشاؤں کی عزت اور بھرم کو بچاؤ اور اس کا بہتر حل ہے کہ ابراہیم کو بھڑکتی آگ میں جلا کر اسے صفحہ ہستی سے ختم کردو۔ چنانچہ اس غرض کے لئے سرکاری سطح پر ایک بہت بڑا الاؤ تیار کیا گیا اور ایک فلاخن کے ذریعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس کے اندر پھینک دیا گیا۔ الأنبياء
69 [٥٨] مفسرین کہتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو الاؤ میں ڈالا جانے لگا تو جبرئیل علیہ السلام حاضر ہوئے اور کہا ’’ کہو تو آپ کی مدد کروں؟‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا : ’’مجھے تمہاری مدد کی ضرورت نہیں۔ مجھے میرا اللہ کافی ہے‘‘ پھر جبرئیل علیہ السلام نے کہا : ’’اچھا اپنے اللہ سے دعا ہی کرو‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا : ’’میرا اللہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور مجھے یہی کافی ہے‘‘ اب اللہ تعالیٰ نے اپنے اس مخلص بندے کی یوں مدد فرمائی کہ آگ کو حکم دے دیا کہ ابراہیم علیہ السلام کے لئے ٹھنڈی ہوجا مگر اتنی ٹھنڈی بھی نہیں کہ ٹھنڈک کی وجہ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تکلیف پہنچے بلکہ صرف اس حد تک ٹھنڈی ہو کہ حضرت ابراہیم آگے کے درمیان صحیح و سالم رہ سکیں۔ یہ آگ جو کئی دنوں میں بنائی گئی تھی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی کئی دن اس آگ میں رکھا گیا مگر آپ کا بال بھی بیکا نہ ہوا۔ جو رسیاں آپ کی مشکیں باندھنے کے لئے استعمال کی گئی وہ تو جل گئیں مگر آپ کے جسم کو کچھ گزند نہ پہنچا۔ مفسرین کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بعد میں فرمایا کرتے تھے کہ وہ دن کیا آرام و راحت کے دن تھے جب میں آگ میں رہا تھا۔ معجزہ کا انکار دراصل قدرت الٰہی کا انکار ہے:۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ یہ واقعہ خرق عادت یا عام معمول (Routine) کے خلاف ہے جس میں حاوی سبب اور مسبب کے درمیانی رشتہ کو منقطع کردیا گیا ہو۔ آگ کا خاصہ ہر چیز کو جلا دینا اور بھسم کردینا ہے اور یہ خاصہ آگ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سلب کرلیا تھا۔ اب جن لوگوں کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے لئے بھی کوئی خرق عادت کام کرنا یا معجزہ رونما کرنا یا مسبب اور مسبب کے درمیانی تعلق کو منقطع کردینا ممکن نہیں ہے۔ اور اسی بنا پر وہ ایسے واقعات کی دور اذکار تاویلیں کرنے لگتے ہیں تاآنکہ انھیں طبعی امور کے تابع بنا کے چھوڑیں تو ہم ان سے یہ پوچھتے ہیں کہ آخر وہ اللہ تعالیٰ کو ماننے کی بھی زحمت کیوں گوارا کرتے ہیں۔ طبعی امور پر تو نیچری، دہریے اور وجود باری تعالیٰ کے منکر سب ہی یقین رکھتے ہیں۔ اور اگر وہ ایسا کام تھا کہ ہر زمانہ کے نظریات کے مطابق ڈھال لیا جایا کرے۔ قرآن نے اللہ تعالیٰ کا جو تعارف کرایا ہے وہ یہ ہے کہ طبعی قوانین کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہے ان میں استثناء کا بھی اور بوقت ضرورت وہ اپنے ان بنائے ہوئے قوانین میں تبدیلی بھی کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ لہٰذا اللہ اور قرآن پر ایمان لانے والوں پر قطعاً یہ فرض نہیں کیا گیا کہ وہ ہر دور کے لوگوں سے قرآن کے مضامین کو منور کرکے چھوڑیں۔ خواہ اس کام کے لئے انھیں کسی غیرمعقول اور دور اذکار تاویلیں کرنی پڑیں۔ سرسید احمد خان نے اس واقعہ کے متعلق لکھا کہ یہ کفار کا فقط ابراہیم علیہ السلام کو جلانے یا مارنے کا ارادہ تھا لیکن اس پر عمل نہیں ہوا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اتنی ہی بات تھی تو اللہ تعالیٰ کو یہ فرمانے کی کیا ضرورت تھی۔ ﴿ قُلْنَا یٰنَارُکُـوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلٰٓی اِبْرٰہِیْمَ ﴾اب اس سے آگے چلئے حافظ عنایت اللہ اثری صاحب چونکہ حدیث کو بھی مانتے ہیں اور بخاری کی مرفوع حدیث حِیْنَ اُلْقِیَ فِیْ النَّارِ کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔ مگر پھر بھی ان کی طبیعت اس واقعہ کو ماننے پر آمادہ نہیں ہوتی اور سخت گرانبار نظر آتی ہے۔ چنانچہ وہ خود ہی ایک سوال اٹھا کر اس کا جواب دیتے ہیں۔ جسے ہم ناظرین کی دلچسپی کے لئے یہاں درج کر رہے ہیں : سوال : کیا ابراہیم علیہ السلام کو سچ مچ آگ میں ڈالا گیا تھا یا وہ صرف کفار کے فتنہ و فساد کی آگ تھی۔ جسے اللہ پاک نے ٹھنڈا کردیا۔ قرآن میں اگرچہ ارادہ القاء آیا ہے مگر بخاری میں مرفوعاً حِیْنَ اُلْقِیَ فِیْ النَّار آیا ہے؟ (بیان المختار ص ١١٥) جواب : ہوسکتا ہے وہ فتنہ و فساد کی آگ ہو جسے اللہ پاک نے ٹھنڈا کردیا ہو جیسا کہ وہ فرماتا ہے ﴿کُلَّمَآ اَوْقَدُوْا نَارًا لِّـلْحَرْبِ اَطْفَاَہَا اللّٰہُ﴾(۵:۶۴) ’’یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف فتنہ و فساد کی آگ بھڑکاتے اور سلگاتے رہتے ہیں۔ جسے ہم ہی بجھاتے اور ٹھنڈا کرتے رہتے ہیں‘‘ (حوالہ ایضاً) اس آیت اور اس کے ترجمہ میں اثری صاحب نے مندرجہ ذیل مغالطے دیئے ہیں : (١) اس آیت میں اوقدوا کا استعمال کیا ’’یہ محاورۃً‘‘ ہے ورنہ لڑائی کی آگ حقیقتاً ایسی نہیں ہوتی جس میں لکڑی وغیرہ جل جائیں یا وہ دوسری چیزوں کو جلا کر راکھ بنا ڈالے۔ (٢) قرآن کریم نے حرقوه کا لفظ استعمال فرمایا ہے یعنی ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال کر جلا دو۔ (٣) اطفأکے معنی بجھانا تو ٹھیک ہے مگر ٹھنڈا کرنا نہیں ہے۔ آپ نے اس کا اضافہ کرکے اشتباہ پیدا کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ (٤) قرآن کریم کے الفاظ ﴿ بَرْدًا وَّسَلاَمًا﴾(یعنی ٹھنڈی بھی ہوجا اور سلامتی والی بھی) اس میں بجھنے کا ذکر تک نہیں۔ کہ سرے سے آگ ہی بجھ جائے اور ابراہیم علیہ السلام جلنے سے بچ جائیں۔ اور یہی وہ الفاظ ہیں جو ان حضرات کے کئے کرائے پر پانی پھیر دیتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر ابراہیم علیہ السلام آگ میں ڈالے ہی نہیں گئے تھے تو پھر اللہ کا یہ حکم کیا معنی رکھتا ہے؟ اب اثری صاحب کے جواب کا دوسرا حصہ سنیئے جو حدیث سے متعلق ہے۔ فرماتے ہیں ’’اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سچ مچ انہوں نے آگ میں جلا دینے کا ارادہ کرلیا اور القی فی النار الحدیث سے بھی پیدا شدہ خطرناک حالات سے مصادقت مراد ہے کہ کام بالکل تیار تھا۔ مگر اللہ پاک نے آپ کو بال بال بچا لیا۔ (حوالہ ایضاً) معجزہ کی اثری تاویل اوراس کا جواب:۔ کچھ سمجھے آپ کہ عصا دقت سے کیا مراد ہے؟ یعنی ابراہیم علیہ السلام آگ سے بچے اور ہٹے رہے اور آگ ابراہیم علیہ السلام سے بچی اور ہٹی رہی یعنی آگ میں پڑنے کے باوجود دونوں نے ایک دوسرے کو چھوا نہیں اب سوال یہ ہے کہ یہ تو پھر معجزہ کی صورت بن گئی۔ کہ آگ کے الاؤ میں پڑنے کے باوجود نہ آگ نے آپ کو چھوا اور نہ آپ نے آگ کو چھوا اور یہی کچھ ہم کہتے ہیں۔ آپ کی مثال تو آسمان سے گرا اور کھجور میں اٹکا والی بن گئی اور ایک معجزہ کی تاویل کرتے کرتے ایک دوسرے معجزہ میں جا پھنسے۔ البتہ اثری صاحب کے خیال میں یہ ناممکن ہے کہ ابراہیم علیہ السلام آگ میں پڑے اور آگ اپنا جلانے کا کام نہ کرے اور یہی بات اللہ کی قدرت سے بھی انکار ہے اور قرآن و حدیث کو تسلیم کرنے سے بھی۔ الأنبياء
70 [٥٩] یعنی مشرک تو اپنے معبودوں کی گستاخی کا اس صورت میں بدلہ لینے چاہتے تھے کہ ابراہیم علیہ السلام کو اذیت دہ موت سے دوچار کرکے صفحہ ہستی سے نیست و نابود کردیں۔ لیکن آپ کا آگ کے درمیان رہ کر کئی دنوں کے بعد زندہ سلامت نکل آنا ساری قوم کے لئے ایک نیا چیلنج بن گیا اور انھیں معلوم ہوگیا کہ ابراہیم کو نقصان پہنچانا ان کے بس سے باہر ہے۔ اور یہ بات ان کے لئے اور بھی زیادہ دل شکنی کا باعث بن گئی۔ الأنبياء
71 [٦٠] سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ سیدنالوط علیہ السلام کی ہجرت :۔ یہ واقعہ دیکھ کر بھی حضرت لوط علیہ السلام کے سوا کوئی شخص بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایمان نہ لایا۔ حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھائی ہماران کے بیٹے یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے۔ جب قوم سے دشمنی ٹھن گئی تو اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو عراق سے شام کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ شام کا علاقہ بابرکت اس لئے ہے کہ دنیوی لحاظ سے یہ بہت زرخیز اور شاداب خطہ زمین ہے۔ اور روحانی لحاظ سے اس لئے کہ یہی خطہ دو ہزار سال تک انبیاء کا مسکن و مدفن رہا ہے۔ الأنبياء
72 الأنبياء
73 [٦١] حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بڑھاپے کی عمر اولاد کے لئے دعا کی تو اللہ نے حضرت اسحاق عطا فرمایا پھر حضرت ابراہیم نے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام کے ہاں حضرت یعقوب علیہ السلام پیدا ہوئے اور تینوں ہی تھے اور یہ تو واضح ہے کہ نبی اپنے دور کا صالح ترین فرد ہوتا ہے اور ان سب انبیاء کی شریعتوں میں نماز اور زکوٰۃ ایسے ہی فرض تھی جیسے شریعت محمدیہ میں فرض کی گئی ہے البتہ جزئیات کا اختلاف ہوتا ہی رہا ہے۔ الأنبياء
74 الأنبياء
75 [٦٢] حضرت لوط علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کی بدکردار قوم کا قصہ پہلے سورۃ اعراف آیت نمبر ٨٠ تا ٨٩، سورۃ ہود آیت نمبر ٧٧ تا ٩٢ اور سورۃ حجر آیت نمبر ٦٠ تا ٧٢ میں گزر چکا ہے۔ متعلقہ حواشی ملاحظہ فرما لئے جائیں۔ الأنبياء
76 [٦٣] حضرت نوح علیہ السلام کا قصہ بھی سورۃ اعراف اور سورۃ ہود میں گزر چکا ہے وہ حواشی بھی سامنے رکھے جائیں۔ الأنبياء
77 [٦٤] حضرت نوح علیہ السلام کا مرکز تبلیغ عراق کا دریائے دجلہ و فرات کا درمیانی علاقہ تھا۔ آپ پہلے نبی ہیں جنہوں نے شرک کے خلاف جہاد کیا۔ آپ کی بعثت سے پہلے آپ کی قوم بت پرستی میں مبتلا ہوچکی تھی اور تاریخ انسانیت میں یہ پہلی قوم تھی جس نے بت پوجنا شروع کئے تھے۔ آپ کی قوم انتہائی ضدی اور ہٹ دھرم واقع ہوئی تھی۔ آپ نے ان کے خلاف ساڑھے نو سو سال جہاد کیا۔ مگر معدودے چند آدمیوں کے سوا کوئی آپ پر ایمان نہ لایا۔ بلکہ آپ کی اور آپ کے گنتی کے چند پیروکاروں کی زندگی اجیران بنا رکھی تھی۔ آپ کے اتنے طویل عرصہ کے لئے صبر و برداشت کی داد دینا پڑتی ہے۔ ایک دفعہ آپ علیہ السلام نے نہایت مغموم لہجہ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی : ﴿فَدَعَا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانتَصِرْ ﴾ (٥٤: ١٠) یعنی اے میرے پروردگار میں ان لوگوں سے دب گیا ہوں سو اب تو ہی ان سے میرا بدلہ لے۔ اور ایک دفعہ ان کی ضد، ہٹ دھرمی سے نہایت مایوس ہو کر بڑی دعا کی : پروردگار! زمین پر کافروں کا کوئی بھی گھرانہ باقی نہ رہنے دے۔ کیونکہ جو اولاد یہ جنیں گے وہ بھی فاجر اور کافر ہی ہوگی۔ جس سے ایمان لانے کی کوئی توقع نہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کی دعا کو شرف قبولیت بخشا۔ اس وقت روئے زمین پر صرف یہی علاقہ انسانوں سے آباد تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسا طوفان بھیجا جس میں تمام کافر ڈوب کر مرگئے اور حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے متعبین کو اللہ تعالیٰ نے کشتی پر سوار کرکے بچا لیا۔ الأنبياء
78 [٦٥] نقش کا لغوی مفہوم:۔ اس آیت میں نفش کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا معنی رات کے وقت بکریوں کے بغیر چرواہے کے چرنے کے لئے منتشر ہونا ہے۔ (مفردات القرآن) ہوا یہ تھا کہ کچھ لوگوں کی بکریاں کسی کھیتی کو رات کے وقت چر کر اجاڑ گئی تھیں۔ کھیتی والے نے داؤد علیہ السلام کی عدالت میں دعویٰ دائر کردیا۔ آپ نے مدعا علیہ کو بلایا تو اس نے واقعہ کا اعتراف کرلیا۔ اب از روئے انصاف و قانون پورا ہر جانہ بکریوں کے مالک پڑتا تھا۔ اس سلسلہ میں شرعی قاعدہ یا قانون درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی اونٹنی ایک باغ میں گھس گئی اور اسے خراب کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ دن کو باغوں کی نگہبانی باغ والوں کے ذمہ ہے۔ اور رات کو جو مویشی خراب کریں تو ان کے مالک ان کا ہر جانہ دیں۔ (مالک، ابو داؤد، ابن ماجہ بحوالہ مشکوۃ۔ کتاب البیوع، باب الغصب والناریہ فصل ثانی) اجڑی کھیتی کےمتعلق سیدنا داؤد اور سلیمان کافیصلہ: ۔ اور یہی شرعی دعویٰ اس دور میں بھی تھا اب یہ اتفاق کی بات تھی کہ جتنا کھیتی کا نقصان ہوا تھا اس کی قیمت کے لگ بھگ بکریوں کی قیمت بنتی تھی۔ چنانچہ حضرت داؤد علیہ السلام نے یہ فیصلہ کیا کہ بکریوں والا اپنی بکریاں کھیتی والے کو دے دے۔ تاکہ اس کے نقصان کی تلافی ہوجائے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام بھی پاس موجود تھے انہوں نے اس فیصلہ سے اختلاف کیا اور کہا کہ میرے خیال میں یہ فیصلہ یوں ہونا چاہئے کہ بکریوں والا اپنی بکریاں کھیتی کو دے دے مگر یہ بکریاں کھیتی والے کے پاس بطور رہن ہوں گی۔ کھیتی والا ان کی پرورش بھی کرے اور ان سے دودھ اور اون وغیرہ کے فوائد بھی حاصل کرے۔ اور اس دوران بکریوں والا کھیتی کی نگہداشت کرکے اور اس کی آبپاشی کرے تاآنکہ وہ کھیتی اپنی پہلی سی حالت پر آجائے اور جب کھیتی پہلی حالت پر آجائے تو بکریوں والے کو اس کی بکریاں واپس کردی جائیں۔ اس فیصلہ سے کھیتی والے کے نقصان کی بھی تلافی ہوجاتی تھی اور بکریوں والے کا بھی کچھ زیادہ نقصان نہیں ہوتا تھا۔ لہٰذا سلیمان علیہ السلام کے اس فیصلہ کو حضرت داؤد علیہ السلام نے بھی درست تسلیم کیا اور اپنے فیصلہ سے رجوع کرلیا۔ یہی وہ فیصلہ ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ فیصلہ سلیمان علیہ السلام کو ہم نے سمجھایا تھا۔ الأنبياء
79 [٦٦] اب دیکھئے کہ حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام دونوں نبی ہیں۔ اور دونوں کو اللہ نے قوت فیصلہ بھی عطا کی تھی اور علم نبوت بھی۔ اس کے باوجود حضرت داؤد علیہ السلام سے فیصلہ میں اجتہادی غلطی ہوگئی۔ یعنی قاضی خواہ نہایت نیک نیتی سے فیصلہ کرے اس سے اجتہادی غلطی کا امکان ہے۔ اب اس سلسلہ میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام دونوں کو قوت فیصلہ اور علم دیا تھا۔ پھر اللہ نے سلیمان علیہ السلام کی تو تعریف کی اور داؤد علیہ السلام پر ملامت نہیں کی اگرچہ وہ فیصلہ درست نہ تھا اور قرآن میں اللہ تعالیٰ ان دونوں پیغمبروں کا ذکر نہ کرتا تو میں سمجھتا ہوں کہ قاضی لوگ تباہ ہوجاتے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کی تو درست فیصلہ کی تعریف کی اور داؤد علیہ السلام کو (ان کی اجتہادی غلطی پر) مسدود رکھا۔ (بخاری۔ کتاب الاحکام۔ باب متی۔ یستوجب الرحل القضاء ) (٢) اجتہاد اگر درست ہوتو مجتہد کےلیے دوہرا اجر ہےا ور غلطی ہوجائے تو بھی ایک اجر ہے:حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جب حاکم اجتہاد کرکے کوئی فیصلہ کرے اور وہ فیصلہ درست ہو تو اس کو دو اجر ملیں گے اور اگر (بہ تقاضائے بشریت) فیصلہ میں غلطی کر جائے تو بھی اس کو ایک اجر ملے گا‘‘ (بخاری، کتاب الاعتصام۔ باب اجرالحاکم اذا اجتہاد فاصاب او اخطا) (٣)تین قسم کے قاضی اور علم کے بغیر فیصلہ کرنے والاجہنمی ہے: حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قاضی تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک جنتی ہے اور دو جہنمی۔ جنتی وہ قاضی ہے جو حق کو پہچان جائے اور اس کے مطابق فیصلہ دے مگر جو شخص حق کو پہچاننے کے باوجود خلاف حق فیصلہ دے وہ جہنمی ہے۔ اسی طرح وہ بھی جہنمی ہے جو علم کے بغیر لوگوں کے فیصلے کرنے بیٹھ جائے۔ (ابوداؤد۔ کتاب القضاء ۔ باب فی القاضی یخطی) حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق ایک واقعہ احادیث میں بھی مذکور ہے جو بالکل اسی نوعیت کا ہے۔ جو درج ذیل ہے : شیرخوار بچےکےمتعلق دونوں کا فیصلہ:۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (بنی اسرائیل میں) دو عورتیں تھیں ان کا ایک ایک بچہ تھا۔ بھیڑیا آیا اور ایک بچہ اٹھا لے گیا اب دونوں آپس میں جھگڑنے لگیں۔ ایک نے کہا کہ تیرا بچہ لے گیا اور دوسری نے کہا نہیں، تیرا بچہ لے گیا۔ آخر دونوں فیصلے کے لئے حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس آئیں۔ انہوں نے بچہ بڑی عمر والی کو دلا دیا۔ پھر یہ دونوں عورتیں دوبارہ فیصلہ کے لئے حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس آئیں اور اپنا اپنا دعویٰ پیش کیا اس وقت حضرت سلیمان علیہ السلام صرف گیارہ برس کے تھے۔ انہوں نے حکم دیا : ایک کلہاڑی میں اس بچہ کو آدھا آدھا کرکے دونوں کو دے دیتا ہوں۔ یہ سن کر کم عمر والی عورت بولی ’’اللہ آپ پر رحم کرے ایسا نہ کیجئے۔ یہ بچہ اسی بڑی عمر والی کا ہے۔ پھر حضرت سلیمان علیہ السلام نے بچہ چھوٹی عمر والی کو دلا دیا۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الفرائض۔ اذا ادعت المراۃ ابنا) قرینہ کی شہادت :۔ یعنی حضرت داؤد علیہ السلام نے اس لحاظ سے بڑی عورت کے حق میں دے دیا کہ ایک تو وہ بڑی تھی اور دوسرے بچہ اس کے قبضہ میں تھا۔ لیکن جو فیصلہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے دیا وہ عین فطرت انسانی کے مطابق تھا۔ جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے بچے کو دو ٹکڑے کرکے ایک ایک ٹکڑا ایک کو دینے کا فیصلہ کیا تو حقیقی ماں جو چھوٹی عورت تھی فوراً اپنے بچے کے دو ٹکڑے ہونے پر تلملا اٹھی۔ اور اس نے یہ سوچ کر کہ میرا بچہ زندہ رہے خواہ میرے پاس نہ رہے فوراً کہنے لگی کہ بچہ اس بڑی عورت کا ہے۔ اسے دے دیا جائے۔ لیکن بڑی خاموشی سے یہ فیصلہ سنتی رہی۔ اس کا بچہ ہوتا تو اسے کچھ تکلیف ہوتی یہ صورت حال دیکھ کر حضرت سلیمان علیہ السلام نے چھوٹی عورت کے حق میں فیصلہ کرکے بچہ اسے دلا دیا۔ یہ فیصلہ کے وقت ایسی باتیں سوجھ جانا حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے خالص اللہ تعالیٰ کی دین تھی۔ [٦٧] سیدنا داؤد علیہ السلام کی خوش الحانی :۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی خوش الحانی زبان زدعام و خاص بن چکی ہے اور لحن داؤدی کا لفظ محاورتاً استعمال ہوتا ہے۔ آپ کی آواز اس قدر سریلی اور خوشگوار تھی کہ حب آپ اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کے گیت گاتے تو ساری کائنات مسحور ہوجاتی اور وجد میں گانے لگتی تھی۔ پہاڑوں میں گونج پیدا ہوتی اور یوں معلوم ہوتا کہ پہاڑ بھی آپ کے ساتھ ساتھ حمدوثنا کے گیت گارہے ہیں۔ یہی حال جانوروں کا تھا جہاں آپ حمدوثنا کے گیت گارے وہاں پرندے اکٹھے ہوجاتے اور آپ کے ہمنوا بن جاتے تھے اور ان معنوں کی تائید اس حدیث سے بھی ہوجاتی ہے۔ ابوموسیٰ اشعری کی کوش الحانی :۔ ایک دفعہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ جو نہایت خوش الحان تھے، اپنی سریلی آواز میں قرآن کی تلاوت کر رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہاں سے گزر ہوا تو ان کی آواز سن کر ٹھہر گئے اور دیر تک آپ کی تلاوت سنتے رہے، جب انہوں نے تلاوت ختم کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لقد أوتی مزما راً من مزامير آل داؤد۔۔۔ یعنی اس شخص کو حضرت داؤد علیہ السلام کی خوش الحانی کا ایک حصہ ملا ہے۔ (بخاری۔ کتاب فضائل القرآن۔ باب حسن الصوت بالقراۃ) آپ کی خوش الحانی اور آپ کی تسبیحات میں پہاڑوں اور پرندوں کے ساتھ رہنے کا ذکر سورۃ سبا کی آیت نمبر ١٠ اور سورۃ کی آیت نمبر ١٨ میں بھی آیا ہے۔ پہاڑوں اور پرندوں کی تسبیح کیسی تھی اور حضرت داؤد علیہ السلام کے وہ کس طرح ہمنوا بن جاتے تھے۔ یہ پوری کیفیت اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ چونکہ پہاڑوں اور پرندوں کا حضرت داؤد علیہ السلام کے ساتھ مل کر تسبیحات کا پڑھنا اور ہم آہنگ ہونا ایک خرق عادت امر ہے لہٰذا پرویز صاحب کو ان باتوں کی تاویل کی ضرورت پڑگئی اور اپنی تفسیر مفہوم القرآن میں یٰجِبَالُ (اے پہاڑو) کا مفہوم بیان فرمایا ’’اے سرکش سردارو!‘‘ گویا اللہ میاں کو سرکش سرداروں کے لئے جبال کے علاوہ کوئی لفظ نہیں ملتا تھا اور سورۃ کی آیت نمبر ١٩ میں یہی مضمون آیا تو بمصداق دروغ گو را حافظہ بنا سد وہاں جبال کا مفہوم ’’پہاڑی قبائل‘‘ بیان فرما دیا۔ اور الطیر کا مفہوم قبیلہ طیر بیان فرمایا اور ادبی کا مفہوم بیان فرمایا کہ ’’داؤد کے ساتھ تم بھی نہایت سرگرمی سے قانون خداوندی کی اطاعت کرو‘‘ (لغات القرآن ج ١ ص ٢٨٣) حالانکہ پرویز صاحب خود اسی لغات میں اوب کا معنی بالارادہ رجوع کرنا لکھ چکے ہیں۔ یعنی اے پہاڑو اور پرندو! داؤد کی طرف بالارادہ رجوع کرو اور اس مقام پر نہایت سرگرمی سے قانون خداوندی کی اطاعت کا مفہوم بیان فرمایا۔ ذرا سوچئے کہ اس مفہوم میں قانون خداوندی قرآن کے کس لفظ کا معنی یا مفہوم ہوسکتا ہے اور نہایت سرگرمی سے اطاعت کس لفظ کا ؟ سچ فرمایا تھا اقبال نے : احکام تیرے حق ہیں مگر اپنے مفسر تاویل سے قرآن کو بنا دیتے ہیں پاژند الأنبياء
80 [٦٨] سیدنا داؤد اور لوہے کی دھلائی اور زرہ سازی :۔ اس آیت سے معلوم ہوتا کہ زرہ سازی کے موجد حضرت داؤد علیہ السلام ہیں۔ اس کی مزید تفصیل سورۃ سبا میں یوں ہے :﴿وَأَلَنَّا لَهُ الْحَدِيدَأَنِ اعْمَلْ سَابِغَاتٍ وَقَدِّرْ فِي السَّرْدِ﴾ (۱۱،۱۰:۳۴)یعنی ہم نے داؤد علیہ السلام کے لئے لوہے کو نرم بنا دیا تھا اور انھیں ہدایت کی تھی کہ پورے ناپ کی زرہیں بنائیں اور اس کی کڑیوں میں اندازے کے ساتھ جوڑ لگائیں۔ آپ کے لئے لوہے کو نرم کرنے کے دو معنی لئے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ آپ کے ہاتھ لوہا موم کی طرح نرم ہوجاتا تھا اور جس طرح چاہتے اس کی زنجیریں بنا کر زرہیں تیار کرلیتے تھے اور دوسری توجیہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو لوہے کے پگھلانے کا اور ڈھلائی کا کام سکھلا دیا تھا۔ آپ کا زمانہ اندازاً ١٠٥ ق م سے ٩٤٥ ق م تک ہے۔ جبکہ یہی زمانہ لوہے کا زمانہ (Iron Age) کہلاتا ہے۔ اس سے پیشتر جو لوہے سے تلواریں اور نیزے یا دوسری اشیاء بنائی جاتی تھیں اس کا طریق کار یہی تھا کہ لوہے کو آگ میں تپایا جاتا اور جب وہ وہ آگ کی طرح سرخ ہوجاتا تو اسے کوٹ کاٹ کر ایسی اشیاء تیار کرلی جاتی تھیں۔ لوہے کی ڈھلائی کے فن سے بھی اگرچہ چند ایک اقوام واقف ہوچکی تھی تاہم یہ سب کچھ صیغہ راز میں بھی رکھا جاتا تھا اور جنگی اغراض کے لئے لوہے کی زرہیں بنانے کا کام داؤد علیہ السلام نے ہی شروع کیا تھا۔ لڑائی کے دوران اپنی حفاظت کے لئے زرہ چونکہ ایک نہایت اہم ہتھیار ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ کیا تم اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کرتے ہو کہ اس نے حضرت داؤد علیہ السلام کے ذریعہ بنی نوع انسانی کو زرہ سازی کا فن سکھلا دیا۔ واضح رہے کہ حضرت داؤد بیت المال سے کچھ بھی نہیں لیتے تھے بلکہ اپنی ہاتھ کی کمائی پر ہی گزر اوقات کرتے تھے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : داؤد علیہ السلام پر زبور کا پڑھنا اتنا آسان کردیا گیا تھا کہ وہ جانور پر زین کسنے کا حکم دیتے اور ابھی زین پوری طرح کسی بھی نہیں جاتی تھی کہ آپ زبور پڑھ چکتے اور آپ کی گزر اوقات صرف اپنے ہاتھ کی کمائی پر تھی۔ (بخاری، کتاب احادیث الانبیاء باب قول اللہ تعالیٰ وَاٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا ) الأنبياء
81 [٦٩] سیدنا سلیمان علیہ السلام کےلیے ہوا کی تسخیر:۔ پہلے حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے فیصلے کا ذکر ہوا۔ بعد میں ان پر انعامات کا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو ایک معجزہ تو یہ عطا ہوا کہ تند و تیز ہوا ان کے لئے مسخر کردی گوی تھی۔ وہ ہوا کو جس طرح کا حکم دیتے وہ آپ کے تابع فرمان رہتی اور اس طرح آپ ایک ماہ کا سفر صرف چند گھنٹوں یعنی ٣ سے ٦ گھنٹوں کے درمیان کرلیا کرتے تھے۔ قرآن کریم کی تصریحات سے یہی کچھ ثابت ہے اور اس کی ایک توجیہ، جو عام طور پر مشہور ہے، یہ کی گئی ہے کہ آپ نے ایک بہت بڑا تخت بنوایا تھا۔ جب آپ چاہتے اس پر خود بھی آپ کےاعیان سلطنت بھی بیٹھ جاتے اور بھی جسے چاہتے اس پر بٹھا لیتے، پھر ہوا کو حکم دیتے تو وہ اس تخت کو اٹھا لیتی اور جب یہ تخت زمین سے خاصا بلند ہوجاتا تو آپ اس شام کا سفر کیا کرتے تھے اور جہاں آپ کو اترنا ہوتا تو آپ ہوا کو حکم دیتے تو وہ نرمی سے چلنے لگتی اور جہاں آپ چاہتے وہاں اتر جاتے تھے۔ اس طرح جو کام آج کے ہوائی جہاز پٹرول کے ذریعہ کرتے ہیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام یہی کام ہوا سے لے لیا کرتے تھے۔ اور اس کی رفتار بھی تقریباً وہی ہوتی تھی جو آج کل ہوائی جہازوں کی ہے۔ اس دور میں یہ ایک معجزہ تھا مگر آج کے دور میں ایک عادی اور معمولی چیز بن چکا ہے اور اس سفر کی دوسری توجیہ یہ کی جاتی ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کو تو اللہ تعالیٰ نے لوہے کی ڈھلائی کا کام سکھلایا تھا۔ جبکہ سلیمان علیہ السلام کو لوہے کے علاوہ تانبے کی ڈھلائی کا فن بھی سکھلا دیا تھا اور آپ کے دور میں یہ کام آپ کی نگرانی میں وسیع پیمانہ پر ہوتا تھا۔ جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر فرمایا ﴿وَاَسَلْنَا لَہٗ عَیْنَ الْقِطْرِ﴾ (۱۲:۳۴) (یعنی ہم نے سلیمان علیہ السلام کے لئے پگھلے ہوئے تانبے کے چشمے بہا دیئے تھے) جس کا نتیجہ یہ تھا کہ آپ کے دور میں لوہے اور تانبے کی مصنوعات نے خاص ترقی کی تھی اور آپ ان کی وسیع پیمانہ پر تجارت کیا کرتے تھے۔ آپ کے بحری بیڑے یمن سے شام اور شام سے یمن آتے جاتے تھے۔ اور چونکہ ہوا آپ کے تابع فرمان تھی لہٰذا یہ بیڑے برق رفتاری سے سفر کرتے اور ایک ماہ کا سفر چند گھنٹوں میں طے کرلیتے تھے۔ [٧٠] یعنی ہم یہ بھی خوب جانتے ہیں کہ کون کس بات کا اہل ہے اور یہ بھی کسی چیز مثلاً ہوا سے ہی کیا کیا کام لیا جاسکتا ہے۔ الأنبياء
82 [٧١] جن سے مراددیہاتی لوگ۔جنوں پرحکومت:۔ جو حضرات معجزات کی تاویل کرنے کے عادی ہیں اور جب تک وہ انھیں طبعی امور کے تابع نہ بنا لیں انھیں چین نہیں آتا۔ وہ اس آیت میں شیطانوں سے مراد دیہاتی طاقتور انسان لیتے ہیں۔ حالانکہ دیہاتی طاقتور لوگ بھی انسان ہی ہوتے ہیں ان کے دیہاتی یا طاقتور ہونے سے ان کی نوع نہیں بدل جاتی۔ دنیا میں جتنی بھی فلک بوس عمارتیں ہیں یا بھاری کام ہوتے ہیں۔ یہ سب کام دیہاتی طاقتور ہی سرانجام دیتے ہیں۔ یہ شہری نازنینوں کا کام نہیں ہوتا۔ اور دیہاتی طاقتور ہر بادشاہ بلکہ ہر سرمایہ دار کو آسانی سے میسر آسکتے ہیں۔ پھر اس میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی کیا خصوصیت رہی جن کے خادمین میں اللہ نے بطور خاص جنوں کا نام لیا ہے۔ [٧٢] یعنی ہم نے ان شیطانوں کو سلیمان علیہ السلام کے تابع فرمان بنا رکھا تھا۔ وہ نہ ان کی حکم عدولی کرسکتے تھے اور نہ ان کے ہاں سے بھاگ سکتے تھے اور یہ سلیمان علیہ السلام کا کوئی ذاتی کمال نہ تھا۔ بلکہ شیطان ان کے تابع فرمان رہنے پر اس لئے مجبور تھے کہ ہم خود ان کے محافظ تھے۔ الأنبياء
83 [٧٣] سیدنا ایوب کس دور میں مبعوث ہوئے؟ یا کس علاقہ میں مبعوث ہوئے؟ آپ نے تبلیغ کا فریضہ کتنا عرصہ سرانجام دیا ؟ اور آپ کے ساتھ آپ کی قوم نے کیا سلوک کیا ؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کی تفصیل کتاب و سنت میں مذکور نہیں۔ قیاس سے آپ کے دور نبوت کی جو تعیین کی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت شعیب علیہ السلام کے درمیانی زمانہ میں یعنی تقریباً ڈیڑھ ہزار قبل مسیح مبعوث ہوئے تھے۔ سیدنا ایوب کی بیماری اور صبر:۔ کتاب و سنت نے حضرت ایوب علیہ السلام کی جس خصوصیت سے ہمیں متعارف کرایا ہے۔ وہ آپ کا صبر ہے۔ آپ کا ابتدائی زمانہ نہایت خوشحالی کا دور تھا۔ مال کی سب اقسام : اولاد، بیویاں، جائیداد غرضیکہ سب کچھ واثر مقدار میں عطا ہوا تھا اور آپ کثرت اموال و اراضی میں مشہور تھے۔ اس دور میں آپ ہمیشہ اللہ کا شکر بجا لاتے رہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو دوسری طرح آزمانا چاہا اور آپ پر ابتلا کا دور جو آیا کہ ہر چیز ہاتھ سے نکل گئی۔ اور اپنا یہ حال تھا کہ کسی طویل بیماری میں مبتلا ہوگئے اور ایسے بیمار پڑے کہ ایک بیوی کے سوا سب نے ساتھ چھوڑ دیا۔ بلکہ لوگوں نے اپنی بستی سے باہر نکال دیا۔ اس ابتلاء کے طویل دور میں آپ نے صبر استقامت کا ایسا بے مثال مظاہرہ کیا جو ضرب المثل بن چکا ہے۔ صحیح روایات کے مطابق آپ کے ابتلاء کا دور ١٢ سال ہے۔ پھر جب اللہ سے اپنی بیماری کے لئے دعا کی تو اس دعا میں شکوہ و شکایت نام کو نہیں۔ بلکہ عرض مدعا نہیں، کسی چیز کا مطالبہ نہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کوئی انتہائی صابر، قانع اور خوددار آدمی اپنے مالک کو کوئی بات یاد کرا رہا ہو۔ کہا تو صرف اتنا کہا کہ پروردگار! میں طویل مدت سے بیمار ہوں اور تو ارحم الراحمین ہے۔ الأنبياء
84 [٧٤] چشمہ کاظہور اور اس میں نہانے سے صحت کی بحالی :۔ جب حضرت ایوب علیہ السلام اس صبر کے امتحان میں بھی پوری طرح کامیاب ہوگئے تو رحمت باری جوش میں آگئی۔ آپ کی یہی بے مطالبہ دعا یوں مقبول ہوئی کہ اللہ نے اسی مقام پر ایک چشمہ رواں کردیا۔ آپ کو صرف یہی حکم ہوا کہ اپنا پاؤں زمین پر مارو۔ پاؤں مارنے کی دیر تھی کہ چشمہ پھوٹ پڑا۔ جس کا پانی میٹھا، ٹھنڈا، شفا بخش اور جلدی امراض کو دور کرنے والا تھا۔ آپ اس میں غسل فرمایا کرتے اور اسی کا پانی لیتے رہے۔ آپ کی بیماری، جلد کی بیماری تھی۔ جو اس طرح غسل کرنے اور پانی ملتے رہنے سے جلد ہی دور ہوگئی اور جتنا مال و دولت اور آل اولاد اللہ تعالیٰ نے آپ کو پہلے عطا فرمائی تھی۔ اس سے دگنی عطا فرما دی اور یہ اللہ کی رحمت اور آپ کے صبر کا پھل تھا۔ [٧٥] عبادت گزاری کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انسان خوشحالی کے دور میں اللہ کا شکر بجا لاتا رہے اور تنگی اور تنگدستی کے دور میں صبر و استقامت سے کام لے۔ جیسا کہ حضرت ایوب علیہ السلام نے نمونہ پیش کیا تھا اس جملہ میں سبق یہ ہے کہ جو شخص بھی اس طرح اللہ کا عبادت گزار بنتا ہے۔ ایوب علیہ السلام کی طرح اللہ تعالیٰ اسے بھی پہلے سے زیادہ انعامات سے نوازتا ہے۔ الأنبياء
85 [٧٦] ذوالکفل کون تھے ؟:۔ ذوالکفل کے حالات بھی کتاب و سنت میں کم ہی مذکور ہوئے ہیں۔ آپ کی نبوت میں اختلاف ہے۔ یعنی آپ نبی تھے یا نہیں۔ مگر چونکہ آپ کا ذکر انبیاء کے ہی درمیان آیا ہے۔ اس لیے گمان غالب یہی ہے کہ آپ نبی تھے۔ آپ الیسع کے خلیفہ تھے۔ آپ کا لقب ذوالکفل (بمعنی صاحب نصیب) اور نام بشیر بن ایوب ہے۔ شام کا علاقہ ہی آپ کی دعوت کا مرکز ہے۔ عمالقہ شاہ وقت بنی اسرائیل کا سخت دشمن تھا۔ آپ نے اس سے بنی اسرائیل کو آزاد کرایا۔ پھر وہ بادشاہ بھی مسلمان ہوگیا اور حکومت آپ کے سپرد کی۔ جس کے نتیجہ میں شام کے علاقہ میں ایک دفعہ پھر خوب اسلام پھیلا۔ الأنبياء
86 الأنبياء
87 [٧٧] نون کا لغوی مفہوم : ۔حضرت یونس علیہ السلام کو قرآن میں اس مقام پر ذالنون کہا گیا ہے اور سورۃ القلم صاحب الحوت۔ حوت اسم جنس ہے جس کا اطلاق ہر قسم کی چھوٹی بڑی مچھلی پر ہوسکتا ہے۔ جبکہ نون سب سے بڑی (وہیل مچھلی) کو کہتے ہیں۔ (مفردات القرآن) اور آپ کا یہ لقب اس لئے ہوا کہ آپ ایک مدت مچھلی کے پیٹ میں رہے۔ زندہ و سلامت رہے اور اس دوران اللہ کی تسبیحات پڑھتے رہے۔ سیدنا یونس مچھلی کے پیٹ میں اور آپ کی دعا:۔ آپ اہل نینوا کی طرف مبعوث ہوئے۔ آپ کا زمانہ بعثت نویں صدی ق م ہے۔ حسب معمول قوم نے آپ کی دعوت کا انکار کیا۔ آپ نے قوم کے مستقل انکار پر اللہ کے عذاب سے ڈرایا۔ اور جب قوم نے کہا کہ جس عذاب کی دھمکی دیتے ہو وہ لے کیوں نہیں آتے تو آپ نے از خود ہی انھیں چالیس دن بعد عذاب آنے کی وعید سنا دی۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے چالیس دن کا کوئی وعدہ نہیں فرمایا تھا۔ پھر جب یہ مدت گزرنے کو ہوئی اور عذاب کی کوئی علامت نہ دیکھی تو غم اور غدصہ کی وجہ سے وہاں سے فرار کی راہ اختیار کی تاکہ قوم انھیں جھوٹا نہ کہے۔ کشتی میں سوار ہوئے تو وہ ہچکولے کھانے لگی۔ کشتی والوں نے قرعہ ڈالا اور اس قرعہ کے نتیجہ میں حضرت یونس علیہ السلام کو سمندر میں پھینک دیا۔ ایک بہت بڑی مچھلی کے پیٹ میں رہے۔ اس دوران آپ ہر وقت اللہ کی تسبیح اور اپنے گناہوں کے اعتراف پر مشغول رہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس مشکل سے نجات دی۔ اور مچھلی نے آپ کو برلب ساحل اگل دیا۔ جب ذرا طاقت آئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دوبارہ اسی قوم یعنی اہل نینوا کی طرف بھیجا۔ اب دوسری طرف صورت حال یہ پیش آئی کہ جب حضرت یونس علیہ السلام مفرور ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کے قول کو پورا کردیا اور وقت معینہ پر اہل نینوا کو عذاب کے آثار نظر آنے لگے تو وہ سب لوگ بچے، بوڑھے، جوان عورتیں مرد مل کر کھلے میدان میں نکل آئے اور اللہ کے حضور گڑ گڑائے اور توبہ کی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ عذاب ٹال دیا۔ اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ میں یہ ایک ہی استثناء ہے کہ آیا ہوا عذاب ٹل گیا ہو۔ اب اس قوم کی طرف جب یونس علیہ السلام آئے تو وہ پہلے ہی نرم ہوچکی تھی۔ لہٰذا آپ کی تبلیغ کا خاطر خواہ فائدہ ہوا۔ الأنبياء
88 [٧٨] یعنی اللہ تعالیٰ کو عاجزی سے پکارنے پر اللہ تعالیٰ کا سابقہ خطاؤں کو معاف کرکے مزید انعامات سے نوازنا حضرت یونس علیہ السلام سے ہی مخصوص نہیں بلکہ جو بھی ایماندار لوگ ہمیں اسی طرح پکاریں گے ہم انھیں مصائب سے نجات دیں گے۔ حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں یہ دعا کرتے رہے ﴿لَّآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ﴾ احادیث میں اس دعا کی بہت فضیلت آئی ہے اور امت نے شدائد و مصائب میں اس دعاء کو بہت مجرب پایا ہے۔ الأنبياء
89 [٧٩] حضرت زکریا علیہ السلام اور ان کا اولاد کے لئے اپنے پروردگار کو پکارنے کا ذکر پہلے سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ٣٧ اور سورۃ مریم کی ابتداء میں تفصیل سے گزر چکا ہے۔ وہاں سے حواشی دیکھ لئے جائیں۔ الأنبياء
90 [٨٠] جنت کی امیدواراور متصوفین :۔ بعض صوفی حضرات کہا کرتے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت جنت کی توقع یا اس کے عذاب کے خوف سے کرتا ہے وہ اصلی محب نہیں ہے اور اپنے اس نظریہ کو اتنا پھیلایا کہ عوام الناس بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ چنانچہ ایک شاعر کہتا ہے : سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے او بے خبر جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے حالانکہ اللہ تعالیٰ انبیاء کی یہ صفت بیان فرما رہے ہیں کہ وہ ہمیں توقع اور خوف سے پکارا کرتے تھے۔ گویا اس آیت میں ایسے متصوفین کا مکمل رد موجود ہے۔ کیونکہ انبیاء سے بڑھ کر اللہ کا محب اور کون ہوسکتا ہے؟ الأنبياء
91 [٨١]سیدہ مریم اور سیدنا زکریا پر یہودکا الزام :۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کا پتلا بنا کر اسے سنوار لیا تو اس میں اپنی روح سے پھونکا جس سے انسان میں قوت ارادہ اختیار اور قوت تمیز و استنباط ودیعت کی گئی۔ پھر توالد و تناسل کے ذریعہ یہی اوصاف تمام اولاد آدم میں منتقل ہوئے اور یہ اوصاف ایسے ہیں جو کسی دوسری مخلوق میں نہیں پائے جاتے۔ بعد ازاں اللہ نے اپنی روح کو حضرت مریم کے ہاں بھیجا۔ یہی روح حضرت مریم کے سامنے متمثل ہو کر ایک تندرست انسان کی شکل بن گئی۔ اسی روح نے اپنے آپ کو حضرت مریم کے سامنے ’’تیرے پروردگار کا رسول‘‘ کہا اور اسی روح (جو مفسرین کے قول کے مطابق جبریل علیہ السلام) نے حضرت مریم سے کہا کہ میں اس لئے آیا ہوں کہ ’’تجھے ایک پاکیزہ لڑکا عطا کروں‘‘ چنانچہ اس روح نے حضرت مریم کے گریبان میں پھونک ماری جس سے حضرت مریم کو حمل قرار پا گیا۔ (سورہ مریم) اسی واقعہ کو اللہ تعالیٰ اس مقام پر بھی اور سورۃ تحریم کی آیت نمبر ١٢ میں ان الفاظ سے عبیر فرمایا کہ ’’ہم نے مریم میں اپنی روح سے پھونکا‘‘ اسی لئے آپ کو روح اللہ و کلمۃ اللہ کہا جاتا ہے۔ اور ساتھ ہی ہر مقام پر یہ وضاحت فرما دی کہ حضرت مریم نے فی الواقع اپنی عصمت کی پوری پوری حفاظت کی تھی۔ ایسی وضاحتوں کے باوجود یہود نے حضرت مریم پر تہمت زنا لگا دی اور اس کو حضرت زکریا علیہ السلام سے منسوب کردیا۔ صرف اس لیے کہ آپ حضرت مریم کے کفیل تھے۔ یہ تو یہود کی کارستانی تھی اور نصاریٰ دوسری انتہا کو جا پہنچے اور انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ یا اللہ کا بیٹا یا تین خداؤں میں تیسرا قرار دے دیا۔ گویا آپ کی اس معجزانہ پیدائش یہود و نصاریٰ غلو کا شکار ہو کر گمراہی میں مبتلا ہوگئے۔ [٨٢]سیدنا عیسیٰ کی بن باپ کے پیدائش کےمنکرین:۔ بدقسمتی سے مسلمانوں میں بھی کچھ لوگ ایسے پیدا ہوچکے ہیں جو حضرت عیسیٰ کی بن باپ پیدائش کے قائل نہیں۔ اور یہ وہی طبقہ جو جدید زمانے کی عقل پرستی سے ذہنی طور پر ہر وقت مرعوب رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ مریم میں فرمایا ’’تاکہ ہم اس (عیسیٰ کی پیدائش) کو لوگوں کے لئے ایک نشانی بنا دیں‘‘ (١٩: ٢١) اور اس مقام پر فرمایا کہ ’’ہم نے حضرت مریم اور اس کے بیٹے دونوں کو جہاں والوں کے لئے نشانی بنا دیا‘‘ نیز سورۃ مومنون کی آیت نمبر ٥٠ میں فرمایا : ’’اور ہم نے ابن مریم (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) کو اور ان کی ماں کو نشانی بنا دیا‘‘ اب ان حضرات سے سوال یہ ہے کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش معمول کے مطابق ماں اور باپ دونوں کے ملاپ سے ہوئی تھی تو حضرت مریم اور عیسیٰ ابن مریم دونوں کی لوگوں کے لئے یا جہان والوں کے لئے ایک نشانی کیسے بن سکتے تھے؟ الأنبياء
92 [٨٣]سب انبیاء کی مشترکہ تعلیم کیاتھی؟ اس مقام پر امت کا لفظ دین کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ نیز اس آیت میں تمام بنی نوع انسان یکساں مخاطب ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ انبیاء کے دین کے اصول ہمیشہ ایک ہی رہے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ ہر چیز کا پروردگار صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ لہٰذا وہی عبادت کا مستحق ہے۔ اور اسی کو توحید کہتے ہیں۔ پھر اسی توحید کا لازمی نتیجہ یہ بھی تھا کہ اس توحید کو ماننے والوں اور صرف اللہ کی عبادت کرنے والوں کو اچھا بدلہ دیا جائے اور اس کے خلاف کرنے والوں یعنی مشرکوں کو سخت سزا دی جائے۔ گویا روز آخرت اور جزا و سزا پر ایمان رکھنا بھی اسی عقیدہ توحید کے تسلیم کرنے کا تقاضا ہے۔ نماز اور زکوٰۃ اور روزہ وغیرہ عبادت ہی کی اہم شکلیں ہیں۔ اور اللہ کی عبادت توقع اور خوف کے ساتھ کرنا چاہئے۔ اولاد اور رزق وغیرہ اللہ ہی سے طلب کرنا چاہئے۔ اور مشکل کے وقت صرف اللہ ہی کو پکارنا چاہئے، اسی سے فریاد کرنا چاہئے۔ انبیاء خود بھی کوئی بااختیار ہستیاں نہیں ہوتیں۔ بلکہ وہ بھی ہر معاملہ میں اللہ ہی کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔ وغیرہ وغیرہ یہ اصول دین سب انبیاء میں مشترک رہے ہیں۔ رہیں جزئیات تو ان جزئیات میں اس دور کے تقاضا کے مطابق اختلاف بھی واقع ہوتا رہا ہے۔ الأنبياء
93 [٨٤] بزرگوں کی شان میں غلو اور شرکیہ عقائد کی اشاعت سے فرقہ بازی :۔ یہ دین کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے والے عموماً مذہبی پیشوا قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ خواہ یہ علمائے کرام ہوں یا مشائخ عظام اور اس سے ان کا مقصد عموماً حصول مال و جاہ ہوتا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیسیوں مقامات پر فرمایا کہ عالم الغیب اور حاضر و ناظر، حاجت روا اور مشکل کشا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اور یہی تمام انبیاء کا مشترکہ دین تھا۔ اب یہ حضرات یہ ثابت کرنا شروع کردیتے ہیں کہ انبیاء اور ہمارے بزرگان کرام سب ہی غیب کی خبریں جانتے ہیں اور اپنے اپنے مریدوں کے احوال پر حاضر و ناظر ہوتے ہیں۔ وہ بزرگ خواہ زندہ ہوں یا فوت ہوچکے ہوں۔ ان کو پکارا جائے یا ان سے فریاد کی جائے تو وہ بھی لوگوں کی فریادیں سنتے اور ان کی امداد کو پہنچ جاتے ہیں۔ ان باتوں پر وہ اپنا سارا زور صرف کرتے، ایسے واقعات اور قصے تراش کر انھیں عوام میں اتنا مشہور کردیتے ہیں کہ وہ الٹا توحید پرستوں کو شامت لے آتے ہیں اور اس سے ان کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ ان کی گدیاں بحال رہیں اور نذرانے وصول ہوتے رہیں۔ لوگ ان کے در دولت پر حاضری دیتے رہیں۔ اور یہ حضرات انھیں مشکل کشائی اور حاجت روائی کے سبز باغ دکھلاتے رہیں اور قیامت کے دن شفاعت کرکے انھیں بخشوا دینے کا یقین دلاتے ہیں۔ کتاب و سنت کی رو سے یہ سب راہیں شیطانی راہیں ہیں۔ انبیاء کے مشترکہ دین کے خلاف ہیں۔ بےکار بحثوں سے تفرقہ بازی اور علماء کا کردار:۔ پھر بعض دفعہ علماء کی طرف سے ایسی بحثیں چھیڑ دی جاتی ہیں۔ جن کا دین سے کچھ تعلق نہیں ہوتا نہ ان کا دین میں کچھ مقام ہوتا ہے اور نہ ہی پھر ان پر کوئی عملی فائدہ مرتب ہوتا ہے مثلاً یہ کہ قرآن مخلوق ہے یا غیر مخلوق؟ اللہ تعالیٰ جو ہر چیز پر قادر ہے وہ جھوٹ بھی بول سکتا ہے یا نہیں؟ یا یہ کہ کوا حلال ہے یا حرام؟ یا نصاریٰ میں یہ ایک مسئلہ مدتوں زیر بحث رہا کہ عیسیٰ علیہ السلام خمیری روٹی کھایا کرتے تھے یا فطیری؟ یا اصحاب کہف کی تعداد کتنی تھی؟ پھر ایسے مسائل پر بحث و جدال اور مناظرے ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ دونوں طرف سے کتابیں بھی لکھی جاتی ہیں۔ اور یہ سب کچھ پوری قوم کے وقت کا ضیاع ہے۔ اور ایسے مسائل عموماً اس وقت علماء کی طرف سے کھڑے کئے جاتے ہیں جب قوم عملی انحطاط کا شکار ہو رہی ہو اور علماء کا عوام کی توجہ اپنی طرف مبذول رکھنا مقصود ہو۔ یہ سلسلہ بھی بالآخر فرقہ بازی پر منتج ہوجاتا ہے۔ جو کتاب و سنت کی رو سے کفر و شرک اور اللہ کا عذاب ہے۔ الأنبياء
94 الأنبياء
95 [٨٥] اس آیت کے کئی مطلب بیان کئے جاتے ہیں اور وہ اپنی اپنی جگہ سب ہی درست معلوم ہوتے ہیں۔ ایک تو وہی ہے جو ترجمہ سے واضح ہے۔ بعض مجرم بستیوں کو ہم ہلاک کرتے ہیں۔ تو یہ ان کے جرائم کا پورا بدلہ نہیں ہوتا۔ انھیں قیامت کو یقیناً ہمارے پاس حاضر ہونا ہے۔ اس وقت ہم انھیں ان کے جرائم کی سزا دیں گے اور یہ ناممکن ہے کہ وہ ہمارے پاس نہ آئیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہم صرف اسی بستی کو ہلاک کرتے ہیں۔ جن کے متعلق ہمیں یقین ہوتا ہے کہ وہ اپنے برے اعمال سے کبھی باز نہیں آئیں گے۔ اور تیسرا مطلب یہ ہے کہ ہلاک شدہ بستیوں کے لئے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ ہم انھیں دوبارہ زندہ کرکے واپس دنیا میں بھیج دیں۔ تاکہ وہ اب اچھے اعمال بجا لاسکیں اور تلافی مافات کرسکیں۔ الأنبياء
96 [٨٦]یاجوج ماجوج کی پورش اور علا مات قیامت:۔ اس آیت کا سابقہ آیت سے ربط یہ ہے کہ جس دن یاجوج ماجوج کو کھول دیا جائے گا اور قیامت قائم ہوجائے گی۔ اس وقت لازماً ان تباہ شدہ بستی والوں کو ہمارے حضور پیش ہونا پڑے گا۔ یہ ناممکن ہے کہ وہ ہمارے حضور پیش نہ ہوں۔ اس لحاظ سے پہلا مطلب ہی زیادہ درست معلوم ہوتا ہے۔ یاجوج ماجوج کے کچھ حالات تو سورۃ کہف کی آیت نمبر ٩٤ کے تحت مذکور ہوئے ہیں۔ مزید یہ کہ سد ذوالقرنین کا زمین بوس ہونا اور یاجوج ماجوج کا حملہ آور ہونا قرب قیامت کی علامات میں سے ایک علامت ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : حضرت حذیفہ بن اسید غفاری کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم آپس میں قیامت کے متعلق باتیں کر رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ : قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تم یہ دس نشانیاں نہ دیکھ لو گے۔ پھر آپ نے بالترتیب ان سب کا ذکر فرمایا۔ دھواں، دجال کا خروج، دابۃالارض کا ظاہرہونا، آفتاب کا مغرب سے طلوع ہونا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول، یاجوج ماجوج کی یورش، تین مقامات پر زمین کا دھنس جانا، مشرق میں، مغرب میں اور جزیرہ عرب میں اور ان نو نشانیوں کے بعد ایک آگ پیدا ہوگی جو لوگوں کو یمن سے نکالے گی اور انھیں ان کے اجتماع کے مقان (شام) کی طرف لے جائے گی۔ (مسلم، کتاب الفتن و شرائط الساعۃ) اور جب یہ دیوار ٹوٹے گی تو یاجوج ماجوج یوں حملہ آور ہوں گے جیسے کوئی شکاری جانور قفس سے آزاد ہو کر اپنے شکار پر جھپٹتا ہے یہ لوگ اپنی کثرت اور اژدھام کی وجہ سے ہر بلندی و پستی پر چھا جائیں گے۔ جدھر دیکھو انہی کا ہجوم نظر آئے گا۔ ان کا بے پناہ سیلاب ایسی شدت اور تیز فتاری سے آئے گا کہ کوئی انسانی طاقت اسے روک نہ سکے گی۔ یوں معلوم ہوگا کہ ان کی افواج پہاڑ اور ٹیلوں سے پھسلتی اور لڑھکتی چلی آرہی ہیں۔ اور یہ بھی ضروری نہیں کہ یاجوج ماجوج دونوں قومیں آپس میں متحد ہو کر ایسی شورش بپا کریں۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ یہ دونوں قومیں آپس میں ہی بھڑ جائیں پھر ان کی لڑائی ایک عالمگیر فساد کا موجب بن جائے۔ الأنبياء
97 [٨٧]قیامت بدترین لوگوں پر قائم ہوگی:۔ یعنی یاجوج ماجوج کی یورش کے بعد جلد ہی قیامت بپا ہوجائے گی۔ قیامت کے واقع ہونے سے پہلے سب نیک لوگوں کو اٹھا لیا جائے گا۔ چنانچہ عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ قیامت ان لوگوں پر قائم ہوگی جو اللہ کی مخلوق سے بدترین ہوں گے۔ (مسلم، کتاب الامارت باب لاتزال طائفۃ من امتی۔۔) اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے جو روایت ہے اس میں شرار الخلق کے لئے بجائے شرار الناس کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی قیامت ان لوگوں پر آئے گی جو لوگوں میں سب سے بدتر ہونگے (مسلم کتاب الفتن وشرائط الساعۃ) تو یہ بدترین لوگ جب قیامت واقع ہونے کا منظر دیکھیں گے تو ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ اس وقت وہ حسرت و یاس سے کہیں گے کہ ہم تو بھولے ہی رہے۔ پھر خود ہی کہنے لگیں گے کہ یہ صرف بھول ہی نہیں بلکہ یہ ہماری خطا تھی کہ ہم نے پیغمبروں کی بات نہ مانی ورنہ انہوں نے تو سمجھانے میں کچھ کسر نہ چھوڑی تھی۔ الأنبياء
98 [٨٨] معبودا ن باطل جہنم میں :۔ یعنی مشرکوں کو ان کے معبودوں یعنی بتوں سمیت جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور یہ بت عموماً پتھر کے ہوتے تھے۔ اسی مضمون کو اللہ نے سورۃ بقرۃ میں فرمایا ﴿ وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ﴾ جہنم کا ایندھن آدمی بھی ہوں گے اور پتھر بھی اور ان معبودوں کو جہنم میں دیکھ کر ان کے پوجنے والوں کی تکلیف اور حسرت میں کئی گنا اضافہ ہوجائے گا۔ ایک اس لئے کہ جن معبودوں سے وہ کئی طرح توقعات وابستہ کئے ہوئے تھے وہ ایسے بے بس ثابت ہوئے کہ انہی کی طرح جہنم میں جل رہے ہیں اور دوسرے اس لئے وہ جہنم کا ایندھن بن کر ان پجاریوں کے آگ کے عذاب کو مزید بھڑکانے کا باعث بن رہے ہیں۔ الأنبياء
99 الأنبياء
100 الأنبياء
101 [٨٩] کون سے معبود جہنم سے بچائے جائیں گے:۔ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ مشرکین سب اپنے معبودوں سمیت جہنم کا ایندھن بنیں گے تو مشرک کہنے لگے کہ ہم تو ان بتوں کے علاوہ فرشتوں کو بھی پوجتے ہیں۔ اسی طرح عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اور یہود نے عزیر علیہ السلام کو معبود بنا رکھا ہے تو کیا یہ فرشتے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت عزیر علیہ السلام سب جہنم میں جائیں گے؟ اس سوال کا جواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دیا کہ جو شخص بھی خود یہ چاہتا ہو کہ اس کی عبادت کی جائے وہ یقیناً جہنم میں جائے گا۔ اور اسی حوالہ کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں نازل فرمایا اور ہر دو جواب کی رو سے فرشتے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت عزیر علیہ السلام اور ان کے علاوہ تمام ہستیاں بھی مستثنیٰ قرار دے دی گئیں۔ جو خود تو اللہ کے نیک بندے اور صرف اللہ ہی کے عبادت گزار تھے لیکن بعد میں لوگوں نے انھیں پوجنا شروع کردیا۔ جیسا کہ احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم جن پانچ بتوں، ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو پکارتے تھے وہ حقیقتاً اللہ کے عبادت گزار بندے تھے۔ اور اللہ دیکھ کر اللہ یاد آتا تھا۔ بعد میں شیطان نے لوگوں کو یہ پٹی پڑھائی کہ ان بزرگوں کے مجسمے بنا کر اپنے پاس رکھ لیا کرو۔ تاکہ تمہیں اللہ کی عبادت میں وہی مزا آئے جو ان بزرگوں کی موجودگی میں آتا تھا۔ چنانچہ ابتداً ء ان کے مجسمے اس غرض سے تراشے گئے تھے پھر بعد کے لوگوں نے انہی مجسموں کی عبادت شروع کردی۔ (بخاری، کتاب التفسیر) اور اس طرح شیطان اپنے شر میں کامیاب ہوگیا اور بنی نوع انسان میں شرک کا آغاز ہوا۔ پھر شرک صرف یہی نہیں ہوتا کہ انسان کسی کے سامنے سجدہ کرے یا ایسے آراء بجا لائے جو اللہ کے لئے مختص ہیں یا ان کے سامنے قربانی یا نذر و نیاز دے بلکہ کسی بھی چیز کو مشکل کشا اور حاحت روا سمجھ کر اسے پکارا جائے تو یہ بھی واضح شرک ہے۔ اور ایسے’’بزرگوں‘‘ کی بھی اس دنیا میں کمی نہیں جو اس قسم کی تعظیم و تکریم کے متمنی ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی فی الواقع جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ اور جن لوگوں کو بعد میں معبود بنا دیا گیا۔ حالانکہ وہ خود ان باتوں سے منع کرتے رہے۔ انھیں جہنم کی ہوا بھی نہ لگے گی۔ الأنبياء
102 [٩٠] ان آیات میں مشرکوں اور ان کے معبودوں کے انجام کے مقابلہ میں نیک لوگوں کے احوال کا ذکر کیا گیا ہے۔ خواہ انھیں کسی نے معبود بنا رکھا تھا یا نہیں۔ ایسے لوگ جہنم سے اتنے دور رکھے جائیں گے کہ وہ اہل دوزخ کی کسی قسم کی چیخ و پکار یا آہٹ تک نہ سننے پائیں گے اور ان سے بہت دور رہ کر اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں میں سے اپنی سب پسند نعمتوں کے مزے اڑائیں گے۔ الأنبياء
103 [٩١] قیامت کے دن گھبراہٹوں سے وہ قطعاً پریشان حال نہ ہوں گے بلکہ انھیں مکمل اطمینان میسر ہوگا۔ اس لئے یہ سب کچھ ان کے عقائد اور ان کی توقعات کے مطابق ہو رہا ہوگا۔ فرشتے آکر انھیں سلام کریں گے اور جنت میں داخل کرنے کے لئے خود ان کے استقبال کو آئیں گے اور کہیں گے کہ جس دائمی راحت و مسرت کا دنیا میں تم سے وعدہ کیا جاتا رہا۔ آج اس کے پورا ہونے کا وقت آگیا ہے۔ الأنبياء
104 [٩٢]کائنات کاانجام کیااور کیسے ہوگا؟ یعنی آسمانوں کی بساط لپیٹ دی جائے گی۔ اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر یوں ارشاد فرمایا: ﴿وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیّٰتٌِیَمِیْنِہٖ ﴾ یعنی تمام آسمانوں کو لپیٹ کر اللہ تعالیٰ اپنے دائیں ہاتھ میں لے گا اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق کا آغاز کیا تھا۔ اسی طرح موجودہ زمین و آسمان کی ایک ایک جز کو ختم کرکے نئی زمین، نئے آسمان اور نئی کائنات کو وجود میں لایا جائے گا۔ الأنبياء
105 [٩٣]صالحین کی نئی تعبیر ۔۔۔خلافت ارضی اورصالحین کی بحث:۔ اس آیت کے معنی کی بعض اہل مغرب کے شیدائیوں نے نہایت غلط تعبیر پیش کی ہے۔ وہ اس آیت میں صالحون سے مراد اللہ تعالیٰ کے فرمانروا اور نیک بخت بندے مراد نہیں لیتے بلکہ ان کے نزدیک صالحون سے مراد صلاحیت رکھنے والے لوگ ہیں۔ یعنی جو لوگ بھی اس وقت روئے زمین پر حکمرانی کر رہے ہیں یا حکمرانی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہی اللہ کے نزدیک صالح ہیں۔ خواہ وہ بدکردارہوں، کافر ہوں حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کے بھی منکر ہوں اور یہ نظریہ کتاب و سنت کی مجموعی تعلیم کے سراسر منافی ہے۔ حالانکہ اس آیت اور اس سے پہلی آیات میں اخروی زندگی اور جنت کا ذکر ہو رہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جنت اور جنت کی زمین کے وارث صرف وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو اللہ کے فرمانبردار اور صالح لوگ ہیں اور اس معنی کی تائید سورۃ زمر کی درج ذیل آیت سے بھی ہوجاتی ہے : ﴿ وَقَالُوا الْحـَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَہٗ وَاَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَـتَبَوَّاُ مِنَ الْجَــنَّۃِ حَیْثُ نَشَاءُ ﴾ (۷۴:۳۹) ’’اور اہل جنت کہیں گے کہ ہر طرح کی تعریف اللہ کو سزاوار ہے جس نے ہم سے اپنے وعدہ پورا کردیا اور ہمیں زمین کا وارث بنا دیا ہم جنت میں جہاں چاہتے ہیں وہیں رہتے ہیں‘‘ رہی اس دنیا کی وراثت تو اس کے متعلق فرمایا : ﴿اِنَّ الاَرْضَ نُوْرِِثُھَا مَنْ نَشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ﴾ (٧: ١٢٨) ’’زمین اللہ تعالیٰ ہی کی ہے وہ اپنے بندوں سے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے‘‘ گویا اس موجودہ دنیا میں زمین کی وراثت کے لئے ضروری نہیں کہ وہ نیک لوگوں کو ہی ملے۔ بلکہ بدکردار اور فاسق و فاجر بھی اس پر قابض ہوسکتے ہیں۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ضرور ہے کہ جو ایماندار اپنے دعویٰ ایمان میں اور صالح اعمال کرنے میں سچے اور مخلص ہیں۔ حق و باطل کے معرکہ میں اللہ انھیں ہی کامیاب کرتا ہے۔ خلافت ارضی کےلیے شرائط : جیساکہ فرمایا: ﴿وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ﴾(۳:۱۳۹) ’’اور اگر تم (اپنے اقوال و اعمال میں) مومن ہو تو تم ہی غالب رہو گے‘‘ اور ایسے ہی لوگوں کے حق میں اللہ نے فرمایا : ﴿وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ ﴾(۲۴:۵۵) ”تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور اچھے عمل کئے ان سے اللہ نے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ انھیں زمین میں ایسے ہی خلیفہ بنائے گا جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا“ یعنی اللہ تعالیٰ کا وعدہ نام نہاد مسلمانوں کے لئے حکمرانی کا نہیں بلکہ سچے ایمانداروں اور فرمانبرداروں سے خلافت ارضی کا وعدہ ہے جو اقتدار ملنے کے بعد دنیا دار قسم کے حکمران نہیں بلکہ اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام خلافت قائم کرنے والے ہوں۔ الأنبياء
106 [٩٤] یعنی عبادت گزاروں کے لئے ان آیات میں ایک بڑی خوشخبری ہے کہ اگر وہ ان آیات پر عمل پیرا ہوں گے تو یقیناً وہی منزل مقصود کو پالیں گے۔ الأنبياء
107 [٩٥]آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہل جہاں کےلیے رحمت کیسے ہیں ؟ اس آیت کا دوسرا معنی یہ ہے کہ یہ جہان والوں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ مطلب دونوں صورتوں میں ایک ہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات اور آپ کی بعثت دراصل پوری نوع انسانی کے لئے رحمت ہے۔ آپ ہی کے ذریعہ غفلت میں پڑی ہوئی اور راہ بھٹکی ہوئی انسانیت کو ایسا علم نصیب ہوا جو حق و باطل کی راہوں کو ممیز کرکے سیدھی راہ دکھلاتا اور اس پر چلاتا ہے۔ جس سے انسان نے دنیا کی زندگی اچھے طور پر گزارنے کے اصول اور ڈھنگ سیکھے۔ پھر اس راہ پر چلنے سے انسان کی اخروی زندگی بھی سنور جاتی ہے۔ آپ کی یہ مہربانی تو ان لوگوں پر تھی جو آپ پر ایمان لائے اور بدکرداروں اور کافروں کے لئے آپ کی ذات باعث رحمت تھی، چنانچہ ارشاد باری ہے﴿وَمَا کَان اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَاَنْتَ فِیْہِمْ ﴾ (۳۳:۸) یعنی جب تک آپ ان کافروں کے درمیان موجود ہیں اللہ ان پر عذاب نازل نہیں کرے گا۔ علاوہ ازیں آپ ہی کی دعا کی وجہ سے خسف اور مسخ اور بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے والے عذاب موقوف ہوئے اور مسلمانوں پر آپ کی رحمت کی داستان تو اتنی طویل ہے جس کا حصر یہاں ممکن نہیں۔ قرآن نے واضح الفاظ میں بتلا دیا کہ آپ مومنوں کے حق میں رحمت بھی تھے اور رحیم بھی۔ کفار مکہ آپ کی بعثت کو اپنے لئے ایک مصیبت سمجھتے اور کہتے تھے کہ اس شخص نے ہماری قوم میں پھوٹ ڈال دی ہے اور باپ سے بیٹے کو اور بھائی سے بھائی کو غرض سب قریبی رشتہ داروں کو ایک دوسرے سے جدا کر کے رکھ دیا ہے۔ ان کے اسی قول کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نادانو! جس ہستی کو تم مصیبت سمجھ رہے ہو۔ مسلمان تو درکنار وہ تمہارے لئے بھی اللہ کی رحمت ہے۔ کیونکہ علوم نبوت اور تہذیب و انسانیت کے جو اصول وہ پیش کر رہا ہے ان سے سب مسلم و کافر اپنے اپنے مذاق کے موافق مستفید ہو رہے ہیں۔ الأنبياء
108 [٩٦] جہاں والوں کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رحمت ہونے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپ لوگوں کو زندگی بھر تکلیفیں سہہ سہہ کر بحکم الٰہی خالص توحید کی دعوت دیتے رہے۔ اور موحد کے لئے اللہ کا وعدہ یہ ہے کہ اسے آخرت میں ایک نہ ایک دن ضرور دوزخ کے عذاب سے نجات مل جائے گی خواہ وہ کتنا ہی گہنگار ہو۔ درج ذیل حدیث اسی آیت کی وضاحت کرتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میری اور لوگوں کی مثال اس شخص جیسی ہے جس نے آگ روشن کی اور جب اس کی روشنی ارد گرد پھیل گئی تو کیڑے اور پتنگے اس آگ میں گرنے لگے۔ اب وہ شخص انھیں آگ سے دور ہٹانے لگا (تاکہ جلنے سے بچ جائیں) مگر وہ مانتے ہی نہیں اور اس آگ میں گھستے، گرتے اور مرتے جاتے ہیں۔ اسی طرح میں تمہیں تمہاری کمروں سے پکڑ کر تمہیں آگ سے دور کھینچتا ہوں اور کہتا ہوں کہ دوزخ سے بچ جاؤ لیکن لوگ ہیں کہ سنتے ہی نہیں اور اس میں گرے پڑتے ہیں‘‘ (بخاری۔ کتاب الرقاق۔ باب الانتھاء عن العاصی) الأنبياء
109 [٩٧] اِذْانْتُمْ عَلٰی سَوَاءٍ کا معنی یہ کہ میں نے تم کو برابری کی سطح پر خبردار کردیا ہے۔ یعنی تمہیں دو باتوں میں سے کسی بھی ایک کا اختیار ہے۔ چاہے میری دعوت کو قبول کرلو اور چاہے تو انکار کردو۔ انکار کی صورت میں تم پر عذاب آئے گا ضرور، لیکن میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ عذاب کب آئے گا ؟ جلد آئے گا یا دیر سے آئے گا کیونکہ عالم الغیب نہیں ہوں۔ الأنبياء
110 الأنبياء
111 [٩٨] البتہ یہ بات ضرور کہوں گا کہ اگر تم پر عذاب آنے میں تاخیر ہو رہی ہے تو اس سے یہ نہ سمجھ لینا کہ تم سچے ہو اور اللہ تم سے راضی ہے۔ بلکہ یہ تاخیر تمہارے گناہوں میں اضافہ کا سبب بن کر تمہارے حق میں وبال جان بن سکتی ہے۔ الا یہ کہ تم اس دوران سنبھل جاؤ اور ہوش کے ناخن لو۔ الأنبياء
112 [٩٩]انبیاء کی اپنی قوم سے مایوسی پر دعا:۔ اکثر انبیاء جب اپنی زندگی بھر اللہ کی طرف دعوت دینے کے بعد کافروں کی طرف سے مایوس ہوگئے تو انہوں نے ایسی ہی یا ان الفاظ سے ملے جلے الفاظ میں دعا کی کہ یا اللہ ! اب تو ہی ان کافروں کے اور ہمارے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ فرما دے۔ چنانچہ اس رسول (یعنی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی کافروں کو مخاطب کرکے فرمایا : کہ جس طرح تم اللہ کی آیات کا مذاق اڑاتے رہے ہو اور مسلمانوں کو اپنی تضحیک اور ظلم و ستم کا نشانہ بناتے رہے ہو تو اس کے ردعمل کے طور پر ہم اپنے پروردگار کی طرف ہی رجوع کرتے ہیں جو نہایت مہربان ہے اور ایسے مشکل اوقات میں اسی سے مدد طلب کرنا چاہئے۔ الأنبياء
0 الحج
1 الحج
2 [١] علم ہئیت کے موجودہ نظریہ کے مطابق ہماری زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے۔ سورج سے زمین کا فاصلہ ٩ کروڑ ٣٠ لاکھ میل ہے۔ اور زمین سورج کے گرد جتنے عرصہ میں ایک چکر ختم کرتی ہے اسے ہم سال کا عرصہ کہتے ہیں۔ اس حساب سے ہماری زمین سورج کے گرد چھیاسٹھ ہزار چھ سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہی ہے۔ پھر اس فضائے بسیط میں صرف ہماری زمین ہی محو گردش نہیں بلکہ تمام سیارے اسی طرح گردش میں مصروف ہیں۔ ان سب کے مدار الگ الگ ہیں اور ان سیاروں میں کشش، جذب و انجذاب رکھ دی گئی ہے۔ جن کی وجہ سے ان میں ٹکراؤ پیدا نہیں ہوتا۔ اور یہ سب کام اللہ تعالیٰ کے کنٹرول اور اس کی تدبیر کے تحت ہو رہے ہیں۔ ہر سیارہ اور ہر چیز اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ قوانین کی اس شدت سے پابند ہے کہ ان کی رفتار سرمو فرق آتا ہے اور نہ ہی ان میں ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے اور یہ سب ایسے امور ہیں جنہیں ہر انسان بجش خود دیکھ رہا اور ان کی شہادت دے رہا ہے۔ قریب قیامت کی علامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سورج مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہوگا۔ بالفاظ دیگر سورج الٹی چال چلنے لگے گا۔ جسے ہم موجودہ نظریہ کے مطابق یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ زمین الٹی چال چلنے لگے گی اور بعض سیاروں کے الٹی چال چلنے کا نظریہ ہیئت دانوں میں معروف ہے۔ بطلیموس نظریہ کے مطابق پانچ سیارے زحل، مشتری، مریخ، زہرہ، عطارد ایسے ہیں جو سیدھی چال چلتے چلتے الٹی چال چلنے لگتے ہیں۔ پھر کچھ مدت بعد سیدھی چال چلنے لگتے ہیں۔ اور ان سیاروں کو ''خمسہ متحیرہ'' کہتے ہیں۔ الٹی چال چلنے اور پھر سیدھی چال پر رواں ہونے کی تصدیق قرآن کریم کی درج ذیل آیت سے بھی ہوجاتی ہے۔ ﴿ فَلَا أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ الْجَوَارِ الْكُنَّسِ ﴾(۱۶:۱۵:۸۰) ’’سو میں ان ستاروں کی قسم کھاتا ہوں جو سیدھی چال چلتے چلتے یکدم پیچھے ہٹ جاتے ہیں (اور) ان کی جو سیدھی چال چلتے تھوڑا سے ہٹ جاتے ہیں (اور ان کی بھی) جو غائب ہوجاتے ہیں“ قیامت کیسےبپاہوگی اور سیاروں کاآپس میں ٹکراجانا اور ا س کی دہشت :۔ پھر جب اللہ تعالیٰ قیامت بپا کرنے کا ارادہ فرمائے گا تو صرف اتنا ہی ہوگا کہ کسی ایک سیارہ سے کشش جذب و انجذاب کو سلب کرلے اور ہماری زمین کسی دوسرے سیارے سے ٹکرا کر پاش پاش ہوجائے۔ اب آپ اندازہ فرمائیے کہ اگر دو ریل گاڑیاں یا دو تیز رفتار بسیں آپس میں ٹکرا جائیں تو کیا حشر بپا ہوتا ہے۔ اور جب ہماری زمین جو چھیاسٹھ ہزار چھ سو میل فی گھنٹہ کی سی برق رفتاری سے محو گردش ہے۔ کم و بیش اسی رفتار والے سیارے سے ٹکڑا جائے گی تو کیا حشر بپا ہوگا۔ یہی منظر ان دو آیات میں پیش کیا گیا ہے کہ اس دھماکہ کی دہشت سے ہر حاملہ کا حمل ساقط ہوجائے گا اور لوگ یوں مخبوط الحواس ہوجائیں گے جیسے کوئی نشہ آور چیز پی رکھی ہے۔ اس منظر کی ہولناکی کو بعض دوسری آیات میں یوں پیش کیا گیا ہے ’’اس وقت زمین کو ریزہ ریزہ اور پاش پاش کردیا جائے گا‘‘ (٨٩: ٢١) ’’زمین اپنے خزانے جیسے تیل، گیسیں اور معدنیات وغیرہ اپنے اندر سے نکال کر باہر پھینک دے گی اور خالی ہوجائے گی‘‘ (٨٤: ٤) پہاڑ دھنکی ہوئی روئی کی طرح اڑتے پھریں گے اور لوگ یوں بدحواس ایک دوسرے پر گرتے پڑتے ہوں گے جیسے روشنی کے گرد پتنگے گرے پڑتے ہیں (١٠١: ٤۔ ٥) غرض قیامت کے واقع ہونے پر دہشت اور ہولناکی کے منظر کو قرآن میں اور بھی بہت سے مقامات پر ذکر کیا گیا ہے۔ قیامت کا دن دراصل ایک طویل دور کا نام ہے اور از روئے قرآن اس دن کی مدت ہمارے موجودہ حساب کے مطابق پچاس ہزار سال ہے۔ اس طویل عرصہ میں کئی اوقات ایسے آئیں گے جن کی دہشت اور ہولناکی اور گھبراہٹ اسی طرح کی ہوگی۔ چنانچہ درج ذیل حدیث میں جس دہشت اور گھبراہٹ کا ذکر ہے وہ یقیناً قیامت کے بپا ہونے کا موقع نہیں بلکہ کوئی اور ہی وقت ہے۔ اور اس دہشت اور گھبراہٹ کا سبب بھی قیامت کا زلزلہ یا دھماکہ نہیں بلکہ اس کا سبب جہنم میں جانے کا خدشہ ہے۔ یاجوج ماجوج کا جہنم میں حصہ:۔حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آدم علیہ السلام سے فرمائے گا اے آدم! وہ کہیں گے: پروردگار! میں حاضر ہوں جو ارشاد ہو۔ پھر ایک فرشتہ آواز سے پکارے گا’’اللہ تعالیٰ انھیں حکم دیتا ہے کہ اپنی اولاد سے دوزخ جانے والوں کا حصہ نکالو‘‘ وہ عرض کریں گے : پروردگار! دوزخ کے لئے کتنا حصہ (نکالوں؟) راوی کہتا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ایک ہزار میں سے نو ننانوے‘‘ یہ ایسا سخت وقت ہوگا کہ حاملہ اپنا حمل گرا دے گی اور بچہ بوڑھا ہوجائے گا اور تم لوگوں کو مدہوش دیکھو گے حالانکہ وہ مدہوش نہیں ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب ہی بڑا سخت ہوگا۔ یہ بات صحابہ پر بہت دشوار گزری اور ان کے چہرے متغیر ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : نو سوننانوے تو یاجوج و ماجوج سے ہوں گے اور ایک تم سے ہوگا۔ اہل جنت کا نصف امت مسلمہ ہوگی:۔ پھر تم تو تمام خلقت میں ایسے ہوگے جیسے کسی سفید بیل کے پہلو میں ایک کالا بال ہو یا کسی کالے بیل کے پہلو میں ایک سفید بال ہو۔ اور میں امید کرتاہوں کہ تم سب لوگ اہل جنت کا چوتھا حصہ ہوگے۔ (یہ سن کر خوشی سے) ہم نے اللہ اکبر کہا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم جنت کا تیسرا حصہ ہوگے‘‘ ہم نے پھر اللہ اکبر پکارا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم اہل جنت کا آدھا حصہ ہوگے‘‘ ہم نے پھر اللہ اکبر کہا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) الحج
3 [٢] اللہ اور ا س کی صفات میں جھگڑا:۔ اس صورت کے آغاز میں جو قیامت کے بپا ہونے کے وقت کی دہشت کا ذکر کیا گیا ہے یہ بطور تمہید ہے اور اس سے اصل مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرا کر ان باتوں سے پرہیز کی تلقین کی جائے جو اللہ کے غضب کا موجب بنتی ہیں۔ جیسا کہ مشرکین نے اللہ تعالیٰ کے جملہ اختیارات و تصرفات کو اپنے بتوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ اس آیت میں فی اللہ سے مراد اللہ کی ہستی نہیں ہے۔ کیونکہ مشرکین اللہ کی ہستی کے قائل تھے۔ جھگڑا صرف اس بات میں تھا کہ مشرکین یہ کہتے تھے کہ ہمارے معبودوں کو بھی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے کچھ نہ کچھ اختیارات حاصل ہیں جب کہ وحی الٰہی ان کے اس عقیدے کی مکمل تردید کردیتی تھی۔ [٣] یعنی جو بھی شیطان یا شیطان سیرت انسان انھیں کسی شرکیہ فعل یا بدعی عقیدہ و عمل کی دعوت دیتا ہے تو اسے یوں تسلیم کرتے ہیں جیسے پہلے ہی اس کی اتباع کرنے کو تیار بیٹھے تھے۔ حالانکہ یہ بات طے شدہ ہے کہ جو شخص بھی شیطان کی رفاقت کا دم بھرے گا اور اس کی اتباع کرے گا تو وہ اسے ایسا گمراہ کرے گا کہ اسے جہنم میں پہنچا کے چھوڑے گا۔ الحج
4 الحج
5 [٤] توحید باری تعالیٰ پردلائل:۔ مشرکین مکہ سے اولین جھگڑا تو ان کے بتوں کے خدائی اختیارات سے تعلق رکھتا تھا اور دوسرا جھگڑا یہ تھا کہ دین ابراہیمی کے پیرکار ہونے کا دعوی رکھنے کے باوجود بعث بعدالموت کا یقین نہیں رکھتے تھے لہٰذا اب ایسے دلائل دیئے جارہے ہیں جو بعث بعدالموت پر پوری رہنمائی کرتے ہیں۔ سب سے پہلی دلیل تو انسان کا اپنا وجود ہے۔ آدم کے پتلے کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے بنایا۔ مٹی بے جان چیز ہے۔ جب اس میں اللہ نے اپنی روح پھونکی تو وہ جیتا جاگتا انسان بن گیا۔ پھر آگے توالد و تناسل سے آدم کی اولاد پھیلی۔ اب جو چیزیں یا غذائیں انسان کھاتا ہے۔ وہ سب زمین سے حاصل ہوتی ہیں۔ انھیں غذاؤں سے کہیں انسان کا گوشت بنتا ہے، کہیں ہڈیاں، کہیں عضلات بنتے ہیں پھر اسی غذا سے نطفہ بھی بنتا ہے اور اس نطفہ کے ایک قطرہ میں ہزاروں جاندار جرثومے ہوتے ہیں۔ اب دیکھئے زمین بھی بے جان چیز ہے اور یہ غذائیں انسان نے استعمال کیں وہ بھی بنے جاں تھیں۔ لیکن اللہ نے انہی بے جان چیزوں سے زندہ اور متحرک جراثیم پیدا کردیئے۔ پھر ان ہزاروں جرثوموں میں کوئی ایک آدھ جرثومہ عورت کے خلیہ بیضہ سے ملتا ہے تو انسان کی تخلیق کا عمل شروع ہوجاتا ہے وہ بھی اس صورت میں کہ اللہ کو منظور ہو۔ ورنہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ مرد اور عورت کے ملاپ کے بعد بھی حمل قرار نہیں پاتا۔ حالانکہ مرد اور عورت دونوں کے نطفہ میں پوری پوری صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ رحم مادرمیں انسان کی تخلیق :۔پھر رحم مادر کے تہ بہ تہ اندھیروں میں انسان کی جس طرح تخلیق ہوتی ہے اور جن جن مراحل سے وہ گزرتا ہے ان میں سے اللہ نے صرف ان مراحل کا ذکر فرمایا ہے جو بالعموم عام انسانوں کے مشاہدہ میں آتے رہتے ہیں اور اس مشاہدہ کی صورت اسقاط حمل ہے۔ نطفہ کے بعد جما ہوا خون، پھر اس کے بعد جما ہوا خون گوشت کے لوتھڑے میں تبدیل ہوتا ہے۔ مگر اس پر کسی قسم کا کوئی نقش نہیں ہوتا۔ پھر اس گوشت کے لوتھڑے میں آنکھ، ناک، کان، ہاتھ، پاؤں وغیرہ سب اعضاء کے نقوش بننے لگتے ہیں پھر اسی لوتھڑے میں ہڈیاں اور عضلات بنتے چلے جاتے ہیں تاآنکہ مقررہ وقت کے بعد انسان کا بچہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اللہ چاہے تو وہ لڑکا بن جاتا ہے اور چاہے تو لڑکی بن جاتا ہے اور سب امور اور مراحل اللہ کی زبردست نگرانی میں طے ہوتے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ نے عورت کے رحم پر ایک فرشتہ مقرر کر رکھا ہے، جو کہتا ہے، پروردگار! اب نطفہ پڑا۔ پروردگار اب یہ خون بن گیا۔ پروردگار اب یہ لوتھڑا بن گیا پھر جب اللہ انہی پیدائش کے متعلق فیصلہ کردیتا ہے تو فرشتہ پوچھتا ہے کہ یہ مرد ہے یا عورت؟ بدبخت ہے یا نیک بخت؟ اس کی روزی کیا ہے؟ اور اس کی عمر کیا ہے؟ پھر ماں کے پیٹ میں ہی یہ سب کچھ لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘ (بخاری کتاب الحیض۔ باب قول اللہ مخلقنہ غیر مخلقہ) بعثت بعدالموت پر سب سے بڑی دلیل انسان کی اپنی پیدائش ہے:۔ اب انسان کی غفلت شعاری کا یہ حال ہے کہ کوئی کارنامہ خواہ کتنا ہی محیرالعقول ہو۔ اگر وہ عادت بن چکا ہو تو اس میں غور کرنے کی زحمت تک گوارا نہیں کرتا۔ مگر اس جیسا یا اس سے کم محیرالعقول بات جو ابھی وقوع پذیر نہ ہوئی ہو اس کا فوراً انکار کردیتا ہے۔ بعث بعدالموت کا واقعہ انسان کی انہی پیدائش سے کچھ زیادہ محیرالعقول نہیں ہے۔ لیکن انسان کا انکار صرف اس بنا پر ہوتا ہے کہ وہ ابھی وقوع پذیر نہیں ہوا۔ پھر یہ بات کیا کم حیرت انگیز ہے کہ جب انسان کا بچہ پیدا ہوتا ہے تو جوانی تک اس کے جسم، اس کی عقل اور اس کی قوت ہر چیز میں اضافہ ہوتا جاتا ہے لیکن جوانی کے بعد انسان وہی پہلی سی غذائیں بلکہ پہلے سے اچھی غذائیں کھاتا ہے۔ لیکن اس کی عقل اور قوت میں کمی واقع ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ اس کاقد و قامت ایک مقررہ حد تک جاکر رک جاتا ہے پھر اس میں انحطاط رونما ہونے لگتا ہے۔ حتیٰ کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اعضاء کے اضمحلال کے علاوہ اس کی عقل بھی ماؤف ہوجاتی ہے، سیکھی ہوئی باتیں بھول جاتا ہے اور بہکی بہکی بچوں کی سی باتیں کرنے لگتا ہے کیا یہ شواہد ایسے نہیں ہیں کہ جو کچھ اللہ چاہتا ہے وہی کچھ ہوتا ہے نیز یہ کہ جو کچھ اللہ چاہتا ہے وہ اس کے کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہے؟ پھر آخر بعث بعدالموت سے انکار کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔ [٥] نباتات سے معاد پردوسری دلیل :۔ یہ معاد یا بعث بعد الموت پر دوسری دلیل ہے۔ مختلف قسم کی نباتات اور اجناس کے بیج زمین میں بکھرے پڑے ہوتے ہیں جنہیں ہواؤں نے یا پرندوں نے جگہ جگہ پھیلا دیا تھا۔ اسی طرح بے شمار چیزوں کی جڑیں بھی جگہ جگہ پیوند خاک ہوئی پڑی تھیں۔ جن میں نباتاتی زندگی کا کوئی ظہور موجود نہ تھا۔ مگر جونہی ان پر بارش کے چھینٹے پڑے تو ہر طرف زندگی لہلہانے لگی۔ ہر مردہ جڑ اپنی قبر سے جی اٹھی اور ہر بے کار پڑا ہوا بے جان بیج ایک زندہ پودے کی شکل اختیار کر گیا اور یہ احیائے اموات کا ایسا عمل ہے۔ جسے ہر انسان موسم بہار میں اور موسم برسات میں خود مشاہدہ کرتا رہتا ہے یہی صورت انسان کے جسم کی ہے۔ جس کا بدن گل سڑ جاتا ہے اور اس کے بھی اٹھنے کا موسم نفخۂ صور ثانی ہے۔ جب یہ موسم آجائے گا تو ہر انسان اپنے اپنے مدفن سے زندہ اٹھا کھڑا کردیا جائے گا۔ الحج
6 [٦] اللہ کے حق ہونے کےتین مطلب :۔ اس جملہ کے تین مطلب ہوسکتے ہیں اور تینوں ہی درست ہیں۔ ایک یہ کہ یہاں حق کا معنی سچا ہے۔ یعنی ان دونوں مثالوں سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بعث بعدالموت کو حتمی اور یقینی قرار دے رہا ہے تو اس کی بات بالکل سچی ہے۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی اپنی ذات ایک ٹھوس حقیقت ہے۔ اس کا وجود کوئی فرضی وجود نہیں جسے عقلی اشکالات کی وجہ سے تسلیم کرلیا گیا ہو جیسا کہ فلاسفروں کا خیال ہے جو علت و معلول کی کڑیاں جوڑتے جوڑتے جب عاجز آجاتے ہیں تو ایک ہستی کو واجب الوجود یا علت العلل (First Cause) تسلیم کرنے لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ ایک زندہ جاوید ہستی ہے جو ہر چیز میں اپنی مرضی سے تصرف کرتا ہے اور ہر چیز پر کنٹرول رکھے ہوئے ہے اور تیسرے یہ کہ اس کائنات میں جو کچھ ظہور پذیر ہو رہا ہے وہ ٹھوس حقائق پر مبنی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ ساری کائنات اور اس کائنات میں ظہور پذیر ہونے والے واقعات کو محض تفریح طبع کے لئے پیدا نہیں کیا۔ اور ان تینوں معانی پر قرآن کی دوسری بے شمار آیات شاہد ہیں۔ الحج
7 [٧] ان آیات میں چند در چند حقائق بیان ہوئے ہیں جو یہ ہیں : (١) اللہ تعالیٰ کی ہستی ایک ٹھوس حقیقت ہے۔ وہ علیم و خبیر ہستی ہے۔ کائنات میں جملہ تصرفات اسی کی حکمت اور قدرت کے تحت واقع ہو رہے ہیں۔ (٢) وہ مردہ اشیاء سے زندہ اشیا کو پیدا کرسکتا ہے۔ پھر زندہ اشیاء کو مردہ اشیاء میں تبدیل کرتا ہے اور پھر انھیں زندگی بخش سکتا ہے مثلاً انسان کو اس نے ایک مشت خاک سے پیدا کیا ہے۔ پھر انسان کا نطفہ بھی بے جان اشیاء سے بنتا ہے۔ جس میں زندگی پیدا ہوجاتی ہے۔ علاوہ ازیں انسان کا جسم اور اس کی غذائیں جن مادوں سے مرکب ہیں وہ سب بے جان مادے ہیں۔ مثلاً انسانی جسم اور اس کی غذائیں سب کچھ نمکیات لوہا، چونا، کوئلہ اور چند گیسوں سے مرکب ہے۔ انھیں ہی ترکیب دے کر اللہ نے جیتے جاگتے انسان پیدا کردیئے۔ پھر مرنے کے بعد یہی انسانی جسم مٹی میں تحلیل ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس بات پر پوری قدرت رکھتا ہے کہ انھیں بے جان مادوں سے انسان کو نئے سرے سے پیدا کر دے۔ (٣)صفات الٰہی سےا خروی زندگی پردلائل :۔ تیسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ اگر اسے اسی قدرت حاصل نہ ہوگی تو وہ ہرگز ایسے کام نہیں کرسکتا تھا۔ پھر ان کاموں میں اس کی حکمت کو بھی خاصا دخل ہے۔ مثلاً اس نے اگر نطفہ کے جراثیم میں انسان بننے کی استعداد رکھی ہے تو اس کے ساتھ ہی ساتھ پیدا ہونے والے بچہ میں اپنے والدین کی شکل، عقل اور قوت جسمانی کا بھی عکس موجود ہوتا ہے۔ اور ان باتوں میں نومولود کی اپنے والدین سے کافی حد تک مشابہت بھی پائی جاتی ہے۔ گویا مادہ کے علاوہ والدین کی پوشیدہ قوتیں بھی جنس میں منتقل ہوجاتی ہیں اور ان کا ظہور بچہ کے بالغ ہونے پر ہوتا ہے۔ (٤) اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کائنات میں بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو قوت ارادہ و اختیار اور قوت تمیز و عقل اس لئے عطا کی ہے کہ آیا وہ اس کائنات میں اللہ کا فرمانبردار بندہ بن کر رہتا ہے یا نافرمان اور باغی بن کر زندگی گزارتا ہے۔ انسان کی اپنی یہ حالت ہے کہ جب وہ کسی کو کوئی ذمہ داری سونپتا ہے یا اجرت پر کوئی مزدور یا غلام رکھتا ہے تو اس کا محاسبہ بھی کرتا ہے لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات کا بھی محاسبہ کرے کہ کون شخص اس کا حکم بجا لاتا ہے اور کون اس کی حکم عدولی کرتا ہے۔ اسی محاسبہ کے لئے اخروی زندگی کا قیام ضروری ہے اور یہی عقل و حکمت اور عدل کا تقاضا ہے اور دنیا کی مختصر سی زندگی چونکہ اعمال کی جزا و سزا کے لئے بالکل ناکافی ہے۔ لہٰذا اس لحاظ سے بھی قیامت اور روز جزا کا قیام ضروری ہے۔ الحج
8 [٨] بدیہی علم کیاچیزہے؟ اس آیت میں علم کے لفظ کا اطلاق شرعی زبان میں عموماً وحی الٰہی پر ہوتا ہے مگر یہاں علم سے مراد فطری یا پیدائشی یا بدیہی علم ہے جو ہر انسان کو حاصل ہوتا ہے۔ مثلاً یہ کہ ہر جاندار کو اپنی زندگی کے بقاء کے لئے کھانے پینے کی ضرورت ہوتی ہے یا یہ کہ دو اور دو چار ہوتے ہیں۔ یا یہ کہ کل ہمیشہ اپنے جزء سے جڑا ہوتا ہے یا یہ کہ آگ میں جو چیز ڈالی جائے، آگ اسے جلا دیتی ہے یہ ایسے امور ہیں جن کے لئے کسی عقلی یا نقلی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ نہ ہی کوئی شخص ایسے امور کے لئے دلیل کا مطالبہ کرتا ہے اور ھدی سے مراد عقلی دلیل ہے۔ مثلاً اسی کائنات کا مربوط نظام اس بات کا متقاضی ہے کہ اس کو پیدا کرنے والی اور اسے کنٹرول میں رکھنے والی کوئی مقتدر علیم اور خبیر ہستی ہو۔ یا یہ کہ ہر چیز کا کوئی بنانے والا ہونا ضروری ہے۔ یا یہ کہ اگر کہیں راستہ میں اونٹ کی مینگنی پڑی ہوئی ہے تو وہ اس بات پر عقلی دلیل ہوتی ہے کہ یہاں سے کوئی اونٹ گزرا ہے اور کتاب منیر سے مراد کوئی نقلی یا سمعی دلیل ہے۔ یعنی ایسی دلیل جو کسی الہامی کتاب میں مذکور ہو۔ مثلاً یہ کہ اس کائنات کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور اس کے تصرف و اختیار میں یا اس کی ذات و صفات میں کوئی دوسرا اس کا شریک نہیں اور قرآن کریم و احادیث ایسے سمعی یا نقلی دلائل سے بھرے پڑے ہیں۔ علم ہدایت اور کتاب کےبغیر اللہ کے بارے میں جھگڑا:۔ اب جو لوگ اللہ کی ذات یا اس کے اختیارات و تصرفات یا اس کی دوسری صفات کے بارے میں بحث یا کج بحثی یا جھگڑے کرتے ہیں۔ ان کے پاس نہ تو کوئی بدیہی یا تجرباتی دلیل (علم) ہوتا ہے۔ نہ کوئی عقلی دلیل (ھدی) ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی سمعی، نقلی (کتاب منیر) دلیل ہوتی ہے۔ ان کی بحث فقط برائے بحث یا کج بحثی ہوتی ہے۔ ان کے پاس یہ بات کہنے کے سوا کوئی جواب نہیں ہوتا کہ چونکہ ہمارے آباء و اجداد ایسا کرتے آئے ہیں۔ لہٰذا ہم بھی ایسا کرتے ہیں یا کرتے رہیں گے اور ظاہر ہے کہ یہ دلیل کوئی قسم نہیں اور اس جواب کا ماحصل یہی ہے کہ اگر بزرگوں نے گمراہی کی راہ اختیار کی تھی تو ان کی یہ گمراہی نسلاً بعد نسل ان کی اولاد در اولاد میں منتقل ہوتی چلی جائے۔ ان لوگوں کا اس جھگڑے سے اصل مقصد یہ ہوتا کہ دوسرے لوگوں کو بھی ایمان و یقین کی راہ سے دور رکھیں اور اپنی طرح ان کو بھی گمراہ کرکے چھوڑیں۔ ایسے بغض و عناد رکھنے والوں کو اللہ تعالیٰ اس دنیا میں ذلیل اور رسوا کرے گا اور اخروی عذاب تو بہرحال اس سے شدید تر ہوگا۔ الحج
9 الحج
10 [٩] ایسا شخص دراصل تین جرائم کا مرتکب ہوتا ہے ایک تو اس نے جہالت، تعصب اور ہٹ دھرمی کی بنا پر وحی الٰہی کا انکار کیا۔ جبکہ اس کے پاس نہ کوئی تجرباتی دلیل تھی، نہ عقلی اور نہ نقلی۔ دورے تکبر اور پندار نفس کا مظاہرہ کیا اور تیسرے اور لوگوں کو بھی راہ حق سے دور رکھنے کا سبب بنا۔ لہٰذا اس عذاب شدید سے بہتر واضح طور پر بتلا دیا جائے گا کہ یہ تمہارے اپنے ہی بھیجے ہوئے اعمال کا بدلہ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کسی کو خواہ مخواہ عذاب دینے کا شوق نہیں اور نہ ہی کسی پر ظلم کرنا اللہ کے شایان شان ہے۔ الحج
11 [١٠]منافق دنیااور آخرت دونوں جگہ بڑے خسارے میں رہتےہیں :۔ یعنی کفر اور اسلام کی سرحد پر ہی کھڑا رہتا ہے۔ اسلام میں داخل ہوتا ہی نہیں اور اس انتظار میں وہاں کھڑا ہے کہ اگر اسلام لانے سے کوئی مادی فائدہ پہنچنے کی توقع ہے تو پھر تو اسے اسلام گوارا ہے لیکن اگر اسلام میں داخل نہ ہونے میں کوئی مشکل یا مادی نقصان نظر آرہا ہو تو اس سرحد سے فوراً کفر کی طرف نکل بھاگے۔ جیسا کہ عموماً منافقوں کا حال ہوتا ہے۔ گویا ایسے لوگوں کا مطمح نظر صرف مادی فوائد ہوتے ہیں۔ وہ جس طرف نظر آئیں ادھر ہی لڑھک جاتے ہیں۔ ایسے لوگ دینی اور دنیوی دونوں لحاظ سے خسارہ میں رہتے ہیں۔ دینی نقصان تو واضح ہے کہ ایسے لوگ جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں داخل کئے جائیں گے اور دنیوی نقصان یہ ہوتا ہے کہ نہ کافر انھیں اپنا ہمدرد اور ساتھی سمجھتے ہیں اور نہ مسلمان، دونوں طرف سے ان کی ساکھ تباہ ہوجاتی ہے اور بمصداق ''دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا'' انھیں کبھی بھی پذیرائی اور عزت نصیب نہیں ہوتی۔ الحج
12 الحج
13 [١١] یعنی اس قسم کے منافقین کو جب اسلام میں داخل ہونے میں کوئی مشکل یا مصیبت نظر آتی ہے، کافروں اور مشرکوں کی طرف سے جانے میں کوئی مادی فائدہ نظر آتا ہے تو فوراً اس کنارے سے اتر کر مشرکوں کی صف میں جا شامل ہوتے ہیں اور ایسےبتوں یا آستانوں کی طرف رجوع کرتے ہیں جن کے اختیار میں دوسروں کا نفع و نقصان تو کیا ہوگا وہ اپنی بھی مدافعت نہیں کرسکتے۔ ایسے لوگوں کا نقصان تو یقینی ہے کہ انہوں نے دنیوی مفاد کی خاطر اپنا ایمان ضائع کردیا اور جس دنیوی فائدہ کی خاطر انہوں نے یہ گمراہی کی راہ اختیار کی۔ وہ فائدہ غیر یقینی ہے کبھی وہ توقع پوری ہو بھی جاتی ہے اگر اللہ کو منظور ہو تو بسا اوقات جس فائدہ کی خاطر اپنا ایمان بھی بھینٹ چڑھایا تھا وہ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ [١٢] اس جملہ کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ جس نے بھی اسے راستے پر ڈالا خواہ وہ کوئی انسان تھا یا شیطان وہ اس کا بدترین کارسا اور برا ساتھی ثابت ہوا اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے ان مشرک اور بت پرست اپنے معبودوں کو بھی جہنم میں پڑے دیکھ کر یہ جملہ کہیں گے کہ جن سے ہم نے کئی قسم کی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں یہ تو بہت برے کارساز اور برے ساتھی ثابت ہوئے جو جہنم کا ایندھن بن کر ہماری تکلیف میں مزید اضافہ کا باعث بن گئے ہیں۔ الحج
14 [١٣] یعنی اللہ تعالیٰ کے اختیارات لامحدود ہیں۔ وہ چاہے تو ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو ان کے اعمال کے مقابلہ میں سینکڑوں گناہ زیادہ معاوضہ اور بدلہ دے۔ چاہے تو ان کی سب چھوٹی موٹی خطائیں معاف کر دے۔ البتہ ایک بات اس سے مستبعد ہے وہ یہ ہے کہ وہ بندوں پر کسی بھی طرح کا ظلم نہیں کرتا۔ اس سلسلہ میں وہ اپنے اختیارات کو استعمال نہیں کرتا بلکہ عدل کے تقاضوں کو محفوظ رکھتا ہے۔ الحج
15 [١٤] اس آیت میں ایسا خیال کرنے والے سے مراد وہی منافق ہے جو کفر اور اسلام کی سرحد پر کھڑے ہو کر اللہ کی عبادت کرتا ہے مگر اللہ کی رضا پر راضی اور شاکر نہیں رہتا۔ اور جب اسے کفر و شرک کی صف میں شامل ہونے میں کوئی مفاد نظر آتا ہے تو فوراً ادھر لڑھک آتا ہے اور انھیں حقیر دنیوی مفادات کی خاطر اللہ کو چھوڑ کر دوسرے آستانوں پر جانا اور در در کی خاک چھانتا ہے۔ مگر پھر بھی اسے وہ مفادات حاصل نہیں ہوتے تو الٹا اللہ اور اس کی تقدید کو کو سنے لگتا ہے۔ اسے چاہئے کہ وہ اللہ کی تقدیر کو بدلنے کی خاطر اپنی مقدور بھر کوشش کرکے دیکھے اور جو کچھ وہ کرسکتا ہے کردیکھے اور بتلائے کہ کیا ایسے کرنے سے وہ اللہ کی تقدیر کو بدلنے میں کامیاب ہوسکا ہے؟ اس آیت میں جو آسمان کی طرف رسی تانے اور پھر اسے قطع کرنے کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ بطور محاورہ ہیں ان سے لفظی معنی مراد نہیں ہیں۔ اور ایسے الفاظ تقریباً ہر زبان میں استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً اردو میں اس محاورہ کے قریب المعنی الفاظ یہ ہیں ’’بے شک وہ الٹا سیدھا ہو کر دیکھ لے‘‘ اور پنجابی میں ایسا محاورہ بالکل صحیح مفہوم ادا کرتا ہے اور وہ محاورہ ہے ’’تتے توے تے گھیسنی پیا کرے‘‘ یعنی خواہ وہ گرم گرم توے پر اپنی مقعد رگڑے۔ ان سب محاوروں کا مفہوم ایک ہی جیسا ہے کہ وہ اپنی مقدور بھر کوشش کرکے دیکھ لے۔ تقدیرکےمقابلہ میں تدبیر کسی کام نہیں آسکتی:۔ اس آیت کی تفسیر میں بعض مفسرین نے﴿ لَنْ یَنْصُرَہُ اللّٰہُ ﴾سے ''ہ'' سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مراد لی ہے اور مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول سے دنیوی اور اخروی فتح و نصرت کے جو وعدے کرچکا ہے وہ ضرور پورے ہو کر رہیں گے خواہ کفار و مشرکین کو یہ بات کتنی ہی ناگوار اور غصہ دلانے والی ہو۔ اور وہ اس نصرت ربانی کو روکنے کے لئے اپنی انتہائی کوششیں صرف کرکے دیکھ لیں حتیٰ کہ آسمان پر ایک رسی تان کر اوپر چڑھیں اور وہاں سے وحی الٰہی اور آسمانی امداد کو منقطع کر آئیں۔ پھر دیکھیں کہ ان کی ان تدبیروں سے وہ وحی الٰہی اور نصرت ربانی آنا بند ہوجاتی ہے جس پر وہ اس قدر پیچ و تاب کھا رہے ہیں۔ یہ تفسیر کسی حد تک دل لگتی ہے مگر اس مقام پر سیاق و سباق اس تفسیر کا ساتھ نہیں دیتے۔ اس سے پہلے بھی منافقوں اور مشرکوں کا ذکر چل رہا ہے اور بعد میں بھی کافروں اور مشرکوں ہی کا ذکر ہے۔ اور درمیان میں جو مومنوں کی بشارت سے متعلق کوئی آیت آجاتی ہے تو وہ اللہ کی اس سنت کے مطابق ہے کہ جہاں کافروں اور مشرکوں کو ڈرایا جا رہا ہو وہاں مومنوں کی بشارت بھی ذکر آجائے اور اس کے برعکس بھی۔ الحج
16 [١٥] یعنی اگرچہ قرآن میں ایسے بے شمار واضح دلائل موجود ہیں پھر بھی ان دلائل سے ہر شخص کو ہدایت نصیب نہیں ہوتی بلکہ اسے ہی نصیب ہوتی ہے جس کے متعلق اللہ کی مشیت ہو۔ مشیت الٰہی صرف انھیں نصیب ہوتی ہے جو خود ہی اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں۔ ضدی، ہٹ دھرم، تکبر اور نافرمان قسم کے لوگوں کو نہ اللہ کی نسبت نصیب ہوتی ہے اور نہ ہی اللہ کا یہ قانون ہے کہ وہ جبراً کسی کو ہدایت دے۔ الحج
17 [١٦] یعنی کسی بھی اللہ کے رسول پر ایمان لائے۔ کیونکہ تمام انبیا و رسل کے اصول دین ایک ہی رہے ہیں۔ (تفصیل کے لئے اسی سورۃ کی آیت نمبر ٩٢، ٩٣ کے حواشی ملاحظہ فرما لیجئے) اس لحاظ سے ہر نبی پر ایمان لانے والے مسلمان ہوئے اور اسلام اور ایمان کا صرف یہ فرق ہے کہ اسلام کا تعلق ظاہری اعمال سے ہوتا ہے اور ایمان کا دل سے۔ اللہ اور اس کے رسول کی جس قدر اطاعت کی جائے، ایمان اتنا ہی پختہ ہوتا جاتا ہے اور جتنا ایمان پختہ ہوتا جاتا ہے اطاعت کی مزید توفیق نصیب ہوتی رہتی ہے۔ گویا اسلام اور ایمان دونوں ایک دوسرے سے مربوط اور ایک دوسرے کے ممدو معاون ہوتے ہیں۔ [١٧] بنی اسرائیل میں سے کون سافرقہ یہودی کہلایاہے:۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جو لوگ ایمان لائے تھے وہ بھی مسلمان ہی تھے اور بنی اسرائیل کی قوم سے تعلق رکھتے تھے۔ موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں انھیں یہود نہیں کہا جاتا تھا۔ یہود تو وہ اس وقت کہلائے جب ان کےمذہب میں بھی ان کے بدعی عقائد شامل ہوگئے اور انہوں نے کتاب اللہ میں تحریف تک کر ڈالی۔ بعض لوگوں کے خیال کے مطابق ان کی نسبت یعقوب علیہ السلام کے بڑے بیٹے یہودا کی طرف ہے۔ مگر یہ توجیہ دو لحاظ سے درست معلوم نہیں ہوتی ایک یہ کہ اس لحاظ سے یہودی ایک قبیلہ تو کہلا سکتے ہیں ایک مذہب نہیں کہلا سکتے ہیں۔ حالانکہ یہودی ایک مذہب کا نام ہے کسی قبیلہ کا نام نہیں اور دوسرے اس لحاظ سے یہودیوں میں تمام بنی اسرائیل شامل ہیں صرف یہودا کی اولاد کی اولاد نہیں۔ اور بعض علماء کے خیال کے مطابق بنی اسرائیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک بنی اسرائیل ہی کہلاتے تھے۔ بعد میں نصاریٰ کے مقابلہ میں ان کا نام یہودی پڑگیا۔ [١٨]صابی کون ہیں ؟ صابی دراصل وہ ستارہ پرست اور سورج پرست قوم ہے جس نے اپنے معبودوں کی حمایت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا تھا۔ یہ لوگ اپنے آپ کو حضرت نوح علیہ السلام کا پیروکار بتلاتے ہیں اور باقی بعد میں آنے والے سب انبیاء کے منکر ہیں۔ بعد میں صبأ کا لفظ دین میں تبدیل کرنے یا آبائی مذہب سے سے روگردانی کرنے کے معنوں میں استعمال ہونے لگا اور ایک گالی کی حیثیت اختیار کر گیا۔ چنانچہ مشرکین مکہ بھی اسلام لانے والوں کو اسی محبت سے نوازتے تھے اور کہتے تھے کہ فلاں شخص صابی ہوگیا ہے۔ یعنی بےدین اور لا مذہب ہوگیا ہے۔ جیسا کہ ہندوستان میں توحید کی طرح رجوع کرنے والوں کو وہانی کے لقب سے نوازا جانے لگا ہے۔ [١٩] عیسائیوں کےمختلف نام :۔سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور ان پر نازل شدہ کتاب انجیل کے پیروکار۔ ابتداً ان کا نام ناصری یا گلیلی تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ناصرہ ضلع گلیل میں پیدا ہوئے تھے۔ چنانچہ یہود انھیں ایک بدعتی فرقہ کی حیثیت سے ناصری یا گلیلی کہہ کر پکارتے تھے۔ قرآن میں ان کا نام نصاریٰ مذکور ہے۔ اور اسے بھی ناصرہ سے منسوب قرار دیا جاسکتا ہے اور اس کی دوسری توجیہ یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکار یا حواریوں نے ﴿نَحْنُ اَنْصَار اللّٰہِ ﴾ (۵۲:۳)کا اقرار کیا تھا۔ لہٰذا یہ لوگ نصاریٰ کہلائے۔ بعد میں انہوں نے اپنے لئے عیسائی کا لقب پسند کرلیا ان لوگوں نے بھی بعد میں بہت سے بدعی عقائد شامل کر لئے جیسے عقیدہ تثلیث، الوہیت مسیح اور کفار مسیح وغیرہ ۔ [٢٠] مجوس کا تعارف:۔ مجوسی بھی آتش پرست اور ستارہ پرست لوگ تھے اور صابی فرقہ کی طرح اپنے آپ کو حضرت نوح علیہ السلام کے پیروکار بتلاتے ہیں اور باقی پیغمبروں کے منکر ہیں۔ ان کے نزدیک نیکی اور بدی کے خدا الگ الگ ہیں۔ نیکی کا خدا یا خالق یزدان ہے اور بدی کا خدا یا خالق اہرمن ہے۔ یہ لوگ اپنی الہامی کتابوں کا نام ژند اور ستا بتاتے ہیں۔ مَزدَک نے ان کے مذہب اور اخلاق کو بری طرح مسخ کرکے رکھ دیا تھا حتیٰ کہ حقیقی بہن سے نکاح بھی ان کے ہاں جائز قرار دیا گیا۔ [٢١] مشرک سے مراد مشرکین مکہ اور دوسرے ممالک کے مشرکین ہیں۔ جو مندرجہ بالا گروہوں کے ناموں میں سے کسی نام سے منسوب نہیں۔ اگرچہ موحد مسلمانوں کے سوا مندرجہ بالا سب مذاہب میں شرک کی کوئی نہ کوئی قسم ضرور پائی جاتی ہے۔ [٢٢] اس کا یہ مطلب نہیں کہ قیامت سے پہلے ہمیں یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ اختلاف کہاں واقع ہوتا ہے اور کون سا فرقہ کس قدر حق پر ہے۔ کیونکہ اصول دین ہمیشہ ایک ہی رہے ہیں اور تمام الہامی کتابوں میں مذکور ہیں اگرچہ تورات اور انجیل یا بائیبل میں تحریف ہوچکی ہے۔ پھر بھی ان اصول دین کا سراغ لگایا جاسکتا ہے اور یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ فلاں فرقہ کا فلاں عقیدہ درست ہے اور فلاں باطل ہے۔ مگر یہاں اس دنیا میں کوئی بھی فرقہ مذہبی تعصب کی بنا پر حق کو تسلیم کرلینے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ لہٰذا قیامت کے دن خود اللہ تعالیٰ نہ صرف یہ کہ ان باتوں کا فیصلہ کر دے گا بلکہ اس فیصلہ کا نفاذ بھی کردے گا۔ الحج
18 [٢٣] کائنات کی ہرچیز کے سجدہ ریزہونے کامطلب:۔ ساری کائنات میں انسان اور جن ہی مکلف مخلوق ہیں اور انھیں کو قوت ارادہ و اختیار دیا گیا ہے باقی مخلوق تکوینی طور پر اللہ کے حضور ہر وقت سجدہ ریز رہتی ہے اور ان کے سجدہ کا مطلب یہ ہے کہ جس کام پر اللہ نے انھیں لگا دیا ہے یا جو خدمت ان کے ذمہ کردی ہے اور جو قوانین ان کے لئے مقرر کردیئے ہیں ان سے وہ سرمو تجاوز نہیں کرتے اور انسانوں میں سے بھی ایک کثیر طبقہ ایسا ہے جس نے اپنے ارادہ کو اللہ کی مرضی کے تابع بنا دیا ہے اور برضا و رغبت اللہ کی فرمانبرداری کرتے ہیں اور اس کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ تاہم انسانوں کا ایک کثیر طبقہ ایسا بھی ہے جس نے اس اختیار کا غلط استعمال کیا اور باقی تمام مخلوق کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی بجائے اللہ کے احکام کے مقابلہ میں سرکشی کی راہ اختیار کی۔ اور اس امتحان میں ناکام رہا جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا تھا۔ ایسے لوگوں کو یقیناً اس سرکشی کی سزا عذاب الیم کی صورت میں بھگتنا پڑے گی۔ [٢٤] یعنی اللہ کے سے احکام روگردانی اور اس کے حضور سجدہ سے سرکشی کا لازمی نتیجہ ذلت اور رسوائی ہے۔ اور اللہ کے نافرمانوں کو بسا اوقات دنیا میں ہی یہ برا نتیجہ دیکھنا پڑتا ہے اور اگر دنیا میں بچ بھی جائے تو آخرت میں اسے ضروری اس نتیجہ سے دورچار ہونا پڑے گا۔ اور کوئی طاقت اسے اس سزا سے بچا نہ سکے گی۔ [٢٥] اس سورۃ حج میں دو سجدہ ہائے تلاوت ہیں۔ اس آیت نمبر ١٨ پر پہلا سجدہ ہے اور یہی سجدہ متفق علیہ ہے جو ہر پڑھنے والے اور سننے والے کو ادا کرنا چاہئے تاکہ وہ بھی کائنات کی جملہ اشیاء کے سجدہ میں ان کے ہم آہنگ اور شریک ہوجائے۔ الحج
19 [٢٦] یعنی جھگڑنے اور لڑائی کرنے والے دو فریقوں میں سے ایک فریق تو اللہ کے فرمانبرداروں اور مسلمانوں کا ہے اور دوسرا کافروں کا۔ اور اس کافروں کے فریق میں وہ سب گروہ شامل ہیں جن کا اوپر ذکر ہوا یعنی یہودی، صابی، عیسائی، مجوس، مشرکین اور ان کے علاوہ وہ لوگ بھی جن کا اس آیت میں ذکر نہیں ہے جیسے ہندو، سکھ، بدھ مت والے، اللہ کی ہستی کے منکر یعنی نیچری اور دہریے وغیرہ سب اس دوسرے فریق شامل ہیں۔ ان دونوں فریقوں میں باعث نزاع مسئلہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات ہیں۔ فریق اول تو اللہ کی صفات بالکل اسی طرح تسلیم کرتا ہے جس طرح اللہ نے خود بتلائی ہیں۔ پھر وہ اللہ کا فرمانبردار اور اس کے حضور سجدہ ریز بھی رہتا ہے۔ دوسرے فریق میں ہر طرح کے لوگ شامل ہوجاتے ہیں۔ اور کبھی یہ فریق اول کے مقابلہ میں گٹھ جوڑ بھی کرلیتے ہیں۔ پھر یہ فریق صرف بحث و مناظرہ میں ہی ایک دوسرے کے مدمقابل نہیں بنتے بلکہ میدان جہاد و قتال میں بھی ان کی یہی صورت ہوتی ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ یہ آیت اتری ہی ان لوگوں کے حق میں تھی۔ جو غزوہ بدر میں مقابلہ کے فریق بنے تھے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ قیس بن عباد کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’قیامت کے دن میں سب سے پہلے پروردگار کے سامنے دو زانو بیٹھ کر اپنا مقدمہ پیش کروں گا‘‘قیس کہتے ہیں کہ یہ آیت ان لوگوں کے سلسلہ میں اتری۔ جو بدر کے دن مبارزت کے لئے نکلے تھے۔ یعنی (مسلمانوں کی طرف سے) علی رضی اللہ عنہ ، حمزہ رضی اللہ عنہ اور عبیدہ رضی اللہ عنہ بن حارث اور (کافروں کی طرف سے) شیبہ بن عتبہ، عتبہ بن ربیعہ، اور ولید بن عتبہ۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) بدر میں دعوت مبارزت :۔ اس حدیث میں میدان بدر مبارزت کا اجمالی سا ذکر ہوا ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ جب لشکر کفار کو اس بات کا علم ہوگیا کہ تجارتی قافلہ بخیریت مکہ پہنچ گیا ہے تو سرداران قریش میں سے ایک سنجیدہ طبقہ کی رائے یہ تھی کہ اب جنگ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ جس مقصد کے لئے ہم نکلے تھے وہ حاصل ہوچکا۔ عتبہ بن ربیعہ اور حکیم بن حزام ایسے لوگوں میں سے تھے۔ اس جنگ کا ایک سبب ایک حضرمی کا قتل بھی تھا۔ جو وادی نخلہ کے واقعہ میں مسلمانوں سے قتل ہوگیا تھا۔ حکیم بن حزام، عتبہ بن ربیعہ کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ میرے ذہن میں ایک تجویز آئی ہے۔ اگر تم چاہو تو لوگوں کو جنگ اور خونریزی سے بچا کر بہت بڑی نیکی کما سکتے ہو۔ عتبہ نے پوچھا وہ کیا تجویز ہے؟ حکیم بن حزام (جو بعد میں اسلام لے آئے تھے اور جلیل القدر صحابی ہیں) نے کہا کہ اس حضرمی کی دیت تم خود ادا کردو۔ تو قصاص کا اضطراب جو لوگوں میں پھیلا ہوا ہے۔ از خود ختم ہوجائے گا۔ عتبہ نے اس تجویز کو بخوشی قبول کرلیا۔ پھر یہ دونوں حضرات جنگ بندی کے سلسلہ میں ابو جہل کے پاس گئے جو ایک متکبر، سرکش اور مشتعل مزاج سردار تھا۔ اسے یہ رائے قطعاً پسند نہ آئی۔ اس نے عتبہ کو کہا کہ تم اس لئے جنگ سے فرار چاہتے ہو کہ تمہارا ایک بیٹا مسلمان ہوچکا ہے اور تم اب بزدلی دکھا رہے ہو؟ عتبہ یہ بزدلی کا طعنہ برداشت نہ کرسکا اور کہنے لگا کہ کل معلوم ہوجائے گا کہ بزدل کون ہے؟ دوسری طرف ابو جہل نے حضرمی کے قبیلہ کو مشتعل کردیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لشکر کفار میں جنگ کی عمومی فضا پیدا ہوگئی اور جنگ نہ ہونے کا امکان ختم ہوگیا۔ دوسرے دن جب دونوں لشکر مقابلہ پر آگئے تو یہی عتبہ بن ربیعہ اپنے بھائی شیبہ بن ربیعہ اور بیٹے ولید بن عتبہ کو لے کر نکلا اور ھل من مبارز (کوئی مقابلہ کے لئے سامنے آتا ہے؟) کا نعرہ لگایا۔ مسلمانوں کے لشکر سے تین انصاری صحابہ مقابلہ کے لئے نکلے تو عتبہ نے چیخ کو پوچھا من انتم؟ من القوم؟ (یعنی تم کون لوگ اور کس قوم سے ہو؟) انہوں نے اپنے نام بتلائے تو عتبہ نے کہا : تم ہمارے جوڑکے نہیں ہو ہم تم سے لڑنے نہیں آئے۔ پھر چیخ کر پکارا : محمد! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری توہین نہ کرو۔ ہم ان کاشت کاروں سے لڑنے نہیں آئے۔ ہمارے مقابلہ میں ان لوگوں کو بھیجو جو ہمارے ہمسر اور ہمارے جوڑ کے ہوں۔ اور ایک روایت میں آیا کہ اس موقع پر عتبہ کے مسلمان بیٹے اور ابو حذیفہ نے اپنے باپ کے مقابلہ پر نکلنا چاہا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں روک دیا۔ پھر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ مقابلہ کے لئے نکلے۔ حضرت حمزہ نے عتبہ کو جلد ہی ٹھکانے لگا دیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے شیبہ کو جہنم واصل کیا۔ لیکن حضرت ابو عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ کا ولید بن عتبہ سے شدید مقابلہ ہوا۔ دونوں کا بیک وقت ایک دوسرے پر کاری وار ہوا۔ حضرت ابو عبیدہ کی ٹانگیں کٹ گئیں اور وہ گرپڑے تو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور ولید کا کام تمام کرکے ابو عبیدہ کو، جو دم توڑ رہے تھے، اٹھا کرلے آئے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے چلو وہاں پہنچ کر انہوں نے آپ سے پوچھا کہ میرے متعلق کیا ارشاد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تمہیں یقیناً جنت ملے گی‘‘ اس اطلاع پر ان کے چہرے پر بشاشت آگئی اور کہا : کاش آج ابو طالب زندہ ہوتے تو وہ دیکھ لیتے کہ میں نے اپنی بات سچ کر دکھائی ہے اور اپنی جان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نچھاور کردی ہے۔ [٢٧] اہل دوزخ کا لباس، طعام اور دوسری سزائیں :۔ یعنی فریق دوم کے لئے جنہوں نے کفر اور سرکشی کی راہ اختیار کی ان کے لباس بھی کسی آتش گیر مادہ سے بنے ہوئے ہوں گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر فرمایا : ﴿سَرَابِیْلُہُمْ مِّنْ قَطِرَانٍ ﴾(۵۰:۱۴) یہ لباس بھڑک کر ان کے جسموں سے چمٹ جائے گا اور سر کے اوپر سے کھولتا ہوا جو پانی ڈالا جائے گا وہ اس آگ کو بجھائے گا نہیں بلکہ مزید آگ کو بھڑکانے کا باعث بن جائے گا۔ اس سے ان کے چمڑے گل کر گر پڑیں گے تو فوراً نئی جلد پیدا کردی جائے گی۔ تاکہ ان کے عذاب میں کمی واقع نہ ہو۔ پھر یہی کھولتا ہوا پانی ان کے دماغ کی راہ سے جسم کے اندر پہنچے گا جس سے سب انتڑیاں کٹ جائیں گی۔ مزید برآں انھیں لوہے کے ہنٹروں سے پیٹا بھی جائے گا جب وہ دوزخ سے نکل بھاگنے کی کوشش کریں گے تو فرشتے انھیں ہنٹر مار مار کر پھر دوزخ میں دھکیل دیں گے اور ساتھ ہی انھیں یہ بتلاتے جائیں گے کہ یہ تمہارے ہی اعمال کا بدلہ ہے۔ اب بھاگتے کیوں ہو اور یہ دائمی عذاب کا مزا تمہیں چکھنا ہی پڑے گا۔ الحج
20 الحج
21 الحج
22 الحج
23 [٢٨] اہل جنت کا لباس اور دوسری نعمتیں :۔ عہد نبوی میں یہ رواج عام تھا کہ شاہان وقت اور بڑے بڑے رئیس لوگ سونے اور جواہرات کے مرصع زیور پہنتے تھے۔ حتیٰ کہ ہمارے زمانہ میں بھی ہندوستان کے مہاراجے اور نواب ایسے زیور اور ریشمی لباس پہنتے ہیں۔ یہاں یہ تصور دلانا مقصود ہے کہ اہل جنت کو وہاں ہر وہ راحت آرام اور عیش و عشرت حاصل ہوگی جس کا کوئی انسان تصور کرسکتا ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ جنت کی نعمتوں کی حقیقت کو سمجھنا بھی اس وقت ناممکن ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت کی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ ’’ایسی ہوں گی جنہیں نہ کسی آنکھ نے آج تک دیکھا، نہ کانوں نے سنا۔ حتیٰ کہ کسی کے دل میں ان کا خیال تک بھی نہیں آسکتا‘‘ (مسلم۔ کتاب الجنہ و صفہ نعیمہاواھلھا) الحج
24 [٢٩] اس آیت کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک یہ ہے کہ اس آیت کو اس دنیا سے متعلق سمجھا جائے۔ اس صورت میں جو مطلب ہوگا وہ ترجمہ سے ہی واضح ہوجاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اسے آخرت سے متعلق سمجھا جائے جیسا کہ پہلے اہل جنت کا ذکر چل رہا ہے۔ اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ان کی ایسے مقام کی طرف راہنمائی کی جائے گی جہاں فرشتے انھیں سلام کہیں گے۔ مبارک باد پیش کریں گے۔ وہاں کسی قسم کی بک بک اور جھک جھک نہ ہوگی اور یہ ایسی راہ ہوگی جہاں پہنچ کر اہل جنت ستودہ صفات اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا میں ہی ہمیشہ مشغول رہا کریں گے۔ الحج
25 [٣٠]مسلمانوں پرکعبہ میں داخلہ کی پابندیاں فتح مکہ تک قائم رہیں: مراد کفار مکہ ہیں، جنہوں نے مسلمانوں پر یہ پابندیاں لگا رکھی تھیں کہ وہ نہ بیت اللہ میں نماز ادا کرسکتے ہیں۔ نہ طواف کرسکتے ہیں اور نہ حج و عمرہ کے ارکان بجا سکتے ہیں۔ ایک تو وہ خود مشرک اور کافر تھے۔ کعبہ کو بھی بتوں کی نجاستوں سے بھر رکھا تھا۔ پھر مزید یہ کہ توحید پرستوں پر سب راہیں مسدود کر رکھی تھیں۔ چودہ سو مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معیت میں عمرہ کرنے آئے۔ تو ان سے جنگ کی ٹھان لی۔ اور حدیبیہ کے مقام تک پہنچ کر ان سے عمرہ کرنے سے روک دیا گیا اور مسلمانوں پر یہ پابندیاں فتح مکہ تک بدستور بحال رہیں۔ فتح مکہ کے بعد جب کفر کا زور ٹوٹ گیا تو یہ پابندیاں از خود ہی ختم ہوگئیں۔ ایسے لوگوں کے متعلق ہی ارشاد ہوا ہے کہ آخرت میں انھیں دردناک عذاب کا مزا چکھنا ہوگا۔ [٣١] یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے حقوق ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ اور باہر سے آنے والے لوگوں کو برابر کے حصہ دار قرار دیا ہے۔ اور آیا ان حقوق کا اور ان کی برابری کا تعلق صرف بیت الحرام یا کعبہ سے ہے یا پورے حرم مکہ سے۔ جہاں تک صرف بیت اللہ کا تعلق ہے اور اس میں نماز، طواف اور ارکان حج بجا لانے کا تعلق ہے تو اس میں اہل مکہ اور بیرونی حضرات کے اس حق عبادت میں کسی کو بھی اختلاف نہیں۔ اہل مکہ کو قطعاً یہ حق نہیں دیا گیا کہ وہ بیرونی حضرات کو حرم میں داخل ہونے، نمازیں ادا کرنے، طواف کرنے یا ارکان حج و عمرہ بجا لانے سے روکیں۔ کیونکہ اس حق میں اہل مکہ اور بیرونی حضرات سب برابر کے حصہ دار ہیں۔ اختلاف اس بات میں ہے کہ آیا اس حق کا تعلق پورے حرم مکہ سے بھی ہے یا نہیں؟ یعنی کیا پورے حرم مکہ کے دروازے باہر سے آنے والے حضرات کے لئے کھلے رہنے چاہئیں کہ وہ جب چاہیں حرم مکہ کے اندر جس جگہ چاہیں آکر ڈیرے ڈال دیں اور رہیں سہیں اور ان سے کوئی کرایہ وغیرہ بھی وصول نہ کیا جائے؟ اور اس اختلاف کی وجہیں دو ہیں۔ ایک یہ ارکان حج میں سے بیشتر کا تعلق صرف بیت اللہ سے نہیں بلکہ حرم مکہ سے ہے۔ صفا، مروہ، منیٰ، مزدلفہ، عرفات، مشعرالحرام سب بیت اللہ کی حدود سے باہر ہیں جبکہ حرم مکہ میں داخل ہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود بعض مقامات پر مسجد الحرام کا ذکر کرکے اس سے حرم مکہ مراد لیا ہے۔ مثلاً ارشاد باری ہے : حرم مکہ میں بیرونی مسافروں کےحقوق﴿ذٰلِکَ لِمَنْ لَّمْ یَکُنْ اَھْلُہٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ﴾ (۱۹۶:۲) یعنی یہ رعایت اس شخص کے لئے ہے جس کے گھر والے مسجد حرام کے رہنے والے نہ ہوں۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ کوئی شخص مسجد الحرام کے اندر رہائش پذیر نہیں ہوتا۔ یہاں لازماً مسجد الحرام سے مراد حرم مکہ ہی ہوسکتی ہے۔ اسی طرح ایک دوسرے مقام پر فرمایا : ﴿ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِندَ اللَّـهِ ﴾(۲۱۷:۲) ’’مسجد حرام سے روکنا اور اس کے باشندوں کو وہاں سے نکالنا ماہ حرام میں جنگ کرنے سے بڑا گناہ ہے‘‘ پھر اس سے اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا حرم میں زمین اور مکان کی خرید و فروخت اور اس سے آگے ان کی ملکیت و وراثت بھی جائز ہے یا نہیں۔ اور یہ بات تو احادیث سے ثابت ہے کہ اسلام سے پہلے مکہ کے مکانات اور زمینوں پر لوگوں کے حقوق ملکیت و وراثت اور حقوق بیع و اجارہ قائم تھے جو اسلام کے بعد بھی قائم رہے اور اسلام نے انھیں منسوخ نہیں کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت کے بعد عقیل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان پر قبضہ کرلیا۔ پھر اسے بیچ بھی دیا۔ چنانچہ حجۃ الوادع کے دوران آپ سے پوچھا گیا کہ آپ کہاں قیام فرمائیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عقیل نے ہمارے لئے مکان چھوڑا کب ہے کہ اس میں رہیں۔ (بخاری۔ کتاب المناسک۔ باب توریث دور مکہ و بیہا شرائھا ) حرم مکہ میں جائیداد کی خرید وفروخت کا جواز:۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں نافع بن عبدالحارث نے مکہ میں صفوان بن امیہ سے ایک گھر جیل خانہ بنانے کے لئے اس شراط پر خریدا کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس خریداری کو منظور کریں گے تو بیع پوری ہوگی۔ بصورت دیگر صفوان کو چار سو دینار کرایہ کے مل جائیں گے۔ (بخاری۔ کتاب فی الخصویات۔ باب الربط والحبس فی الحرم) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حرم میں مکانوں کی خرید و فروخت بھی جائز ہے اور کرایہ لینا بھی۔ ان سب امور کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مکہ اور منیٰ میں مکانوں کا کرایہ نہ لینا مستحب ہے۔ تاہم اس کے جواز سے انکار مشکل ہے۔ اور امام بخاری کا اپنا موقف یہ ہے کہ حرم مکہ میں مکانوں کی خریدو فروخت اور وراثت وغیرہ سب کچھ جائز ہے جیساکہ عنوان باب توریث دور مکہ و بیعہا و سزانہارسے معلوم ہو رہا ہے۔ [٢٣] یعنی جو شخص جان بوجھ کر مکہ میں بےدینی یا شرارت کی کوئی بات کرے گا یا اس کے احترام کو ملحوظ نہیں رکھے گا جو اس کو کسی دوسرے مقام پر یہی جرائم کرنے کی نسبت سے دوگنی سزا ملے گی۔ مکہ کی حرمت کے پیش نظر وہاں جو کام کرنے ممنوع ہیں وہ ہیں۔ حرم مکہ میں کون کون سے کام کرنا ممنوع ہیں:۔ حرم مکہ کو اللہ نے امن کی جگہ قرار دیا ہے۔ لہٰذا وہاں : ١۔ نہ وہاں فوج کشی جائز ہے نہ بدال و قتال حتیٰ کہ بلاضرورت کوئی ہتھیار اٹھانا بھی ممنوع ہے۔ اگر کوئی مجرم بھی حرم میں پناہ لے لے تو جب تک حرم میں ہے۔ اس سے تعرض نہ کیا جائے گا۔ ٢۔ حرم مکہ کے جانور بھی محفوظ و مامون ہیں۔ نہ ان کا شکار کیا جاسکتا ہے اور نہ انھیں شکار کے لئے ہانکا جاسکتا ہے۔ البتہ موذی جانور کو حرم میں بھی مارنے کی اجازت ہے۔ ٣۔ حرم مکہ کے پودے درخت اور گھاس وغیرہ بھی محفوظ و مامون ہیں۔ البتہ بعض اقتصادی ضروریات کے پیش نظراذخر گھاس کاٹنے کی اجازت دی گئی۔ ٤۔ حرم مکہ سے کوئی گری پڑی چیز بھی اٹھانا روا نہیں۔ الایہ کہ اٹھانے والا مالک کو پہنچانتا ہو اور وہ اسے پہنچا دے۔ مندرجہ بالا امور میں پیشتر کام ایسے ہیں جو دوسرے مقامات پر کرنے جائز ہیں مگر حرم مکہ میں کعبہ کی حرمت کی وجہ سے کرنے جائز نہیں۔ پھر ایسے کام مثلاً الحاد، بےدینی اور شرارت کے کام جو دوسرے مقامات پر بھی ممنوع ہیں انھیں اگر حرم مکہ میں کیا جائے تو یہ جرم کتنا شدید ہوجائے گا ؟ پھر اس نسبت سے اس کی سزا میں بھی اضافہ ہوگا۔ الحج
26 [٣٣] سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے مکہ صرف توحید پرستوں کےلیےبنایاتھا:۔ حضرت آدم علیہ السلام نے سب سے پہلے کعبہ کو تعمیر کیا تھا۔ جس کے اب نشانات بھی زمین بوس ہوچکے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آندھی چلائی جس سے اوپر کی مٹی اور ریت اڑ کر دور چلی گئی اور کعبہ کی بنیادیں ننگی اور ظاہر ہوگئیں۔ انہی بنیادوں پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسمٰعیل کو ساتھ ملا کر کعبہ کی تعمیر شروع کی تھی۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ ہدایت کی گئی تھی کہ اس گھر کی بنیادیں خالص توحید پر رکھو۔ کوئی شخص یہاں آکر اللہ کی عبادت کے سوا کوئی مشرکانہ رسوم بجا نہ لائے۔ لیکن مشرکین مکہ نے جو دین ابراہیمی کی پیروی کے مدعی تھے۔ اس ہدیت کی ایسی نافرمانی کی کہ وہاں تین سو ساٹھ بت لا کھڑے کئے بالآخر فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کے اس گھر کو بتوں کی نجاست سے پاک فرمایا۔ [٣٤]مساجد کی صفائی سے مراد صرف ظاہری صفائی نہیں بلکہ شرک سے صفائی بھی ہے :۔ اللہ کے گھروں یعنی مساجد کو صاف ستھرا رکھنا اتنا افضل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اولعزم انبیاء کو خصوصاً اس کام کی ہدایت کی۔ صفائی سے مراد ظاہری صفائی بھی ہے اور احادیث میں اس کی بھی تاکید آئی ہے۔ لیکن اللہ کے گھروں کی اصل پاکیزگی اور صفائی یہی ہے کہ وہاں اللہ کے سوا کسی دوسرے کو نہ پکارا جائے اور نہ ہی وہاں اللہ کے بجائے اللہ کے پیاروں کا ذکر اذکار اور کرامات بیان کی جاتی رہیں۔ الحج
27 [٣٥] جب کعبہ کی تعمیر مکمل ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ لوگوں میں اعلان عام کردو کہ وہ حج کے لئے یہاں آئیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کہنے لگے یہاں میری آواز کون سنے گا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم اعلان کردو۔ آواز پہنچا دینا میرا کام ہے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک پہاڑ پر کھڑے ہو کر پکارا : لوگو! اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے۔ لہٰذا حج کو آؤ۔ اور اللہ نے یہ آواز ہر اس شخص اور اس روح تک پہنچا دی جس کے لئے حج مقدر تھا اور اس کی روح نے اس اعلان پر لبیک کہا۔ [٣٦]ضامر کا لغوی مفہوم:۔ یہاں ضامر کا لفظ استعمال ہوا ہے اور ضامر وہ جانور ہے جو خوراک کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ سدھارنے اور مشن کی کثرت اور کسرت کی وجہ سے دبلا پتلا اور چھریرے بدن والا ہوجائے اور سبک رو، یا سبک خرام ہو تاکہ مقابلہ میں آگے نکل سکے۔ اور جانور بھوک کی کمی کی وجہ سے دبلا ہو اسے عجف کہتے ہیں۔ عرب میں ضامر کا لفظ عموماً اونٹ کے لئے مختص ہوگیا خواہ وہ نر ہو یا مادہ اور اونٹ کا نام بطور خاص اس لیے لیا گیا کہ اس زمانہ میں اور اس علاقہ میں اونٹ ہی آمدورفت اور نقل و حرکت کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ الحج
28 [٣٧]حج کے فوائدوبرکات :۔ یہ فائدے صرف دینی ہی نہیں بلکہ اس احتیاع حج سے کئی قسم کے سیاسی، اقتصادی، معاشی اور تمدنی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔ اور تمام مسلمانوں کو ایک مرکز وحد میسر آتا ہے۔ یہ حج ہی کی برکت تھی کہ قریش مکہ کو جو بیت اللہ کے متولی تھے پورے عرب میں ایک امتیازی مقام حاصل تھا۔ اور یہ حج کی برکت تھی کہ لوٹ مار کے دور میں بھی کم از کم چار مہینے لوگ امن و امان سے سفر کرسکتے تھے۔ یہ حج ہی کی برکت تھی کہ مکہ ایک عالمی تجارتی منڈی بن گیا تھا۔ اس تجارت سے اگرچہ بیرونی حضرات بھی خاصا فائدہ اٹھاتے تھے۔ تاہم سب سے زیادہ فائدہ اہل مکہ ہی کو پہنچتا تھا اور یہ حج کی برکت ہے کہ یہاں سے اٹھائی ہوئی آواز دنیا کے کونے کونے میں پہنچ جاتی تھی۔ [٣٨] ایام معلومات سے بعض علماء نے یکم سے دس ذی الحجہ تک کے دن مراد لئے ہیں۔ مگر یہ اس صورت میں جبکہ اللہ کے ذکر کو عام سمجھا جائے اور اگر اللہ کا نام لینے کو قربانی کے جانوروں سے متعلق سمجھا جائے تو یہ بعض کے نزدیک ١٠ ذی الحجہ اور اس کے بعد دو دن ہیں۔ اور بعض کے نزدیک تین دن یعنی ١٣ ذی الحجہ کی عصر تک ان کے نزدیک قربانی کرنا جائز ہے۔ بھیمۃ الانعام سے مراد اونٹ، گائے، بھیڑ، بکری وغیرہ ہیں، جن کی قربانی دی جاتی ہیں اور یہ اسی صورت میں حلال ہوں گے جبکہ ذبح کرتے وقت ان پر اللہ کا نام لیا جائے۔ اگر اللہ کے سوا کسی اور کا نام بھی لیا جائے یا عمداً اللہ کا نام چھوڑ دیا جائے تو ایسے ذبح شدہ جانور کا کھانا حلال اور جائز نہ ہوگا۔ اور اگر ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینا بھول جائے تو قربانی جائز اور حلال ہی رہے گی جب یاد آئے اسی وقت ہی اللہ کا نام لے لیا جائے۔ اگرچہ ذبح کے وقت کی کئی دعائیں منقول ہیں۔ تاہم مختصر سے مختصر الفاظ جو قربانی کے وقت کہے جاسکتے ہیں، یہ ہیں بسم اللہ اللہ اکبر [٣٩] وہ امورجودورجاہلیت میں نیکی سمجھے جاتے تھے مگر اسلام نے ان کی اصلاح کی :۔ جاہلی دور میں کئی کام ایسے تھے۔ جنہیں نیکی کے کام اور معروف سمجھ کر بجا لایا جاتا تھا۔ مگر اسلام نے ان میں اصلاح کی۔ جیسے سفر حج میں حجارت نہ کرنا، پیدل روانہ ہونا، مشکل کے وقت بھی قربانی کے جانور پر سوار نہ ہونا، سفر سے واپسی پر گھر کے پچھواڑے سے داخل ہونا، ننگے ہو کر طواف کرنا، صفا و مردہ کے طواف کو اچھا نہ سمجھنا، عرفات کے قیام کو ضروری نہ سمجھنا، ایسے ہی امور میں سے ایک یہ بات تھی کہ وہ قربانی کے گوشت سے خود کچھ نہیں کھاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ الفاظ کہہ کر ان کی غلط فہمی کا ازالہ فرما دیا۔ [٤٠]قربانی کے گوشت کی تقسیم : اس کا یہ مطلب نہیں کہ قربانی کے گوشت سے غنی قسم کے لوگ کھا ہی نہیں سکتے۔ بلکہ یہ ہے کہ محتاجوں اور فقراء و مساکین کو ضرور شامل کیا جائے۔ اور خود کھانے کا بھی یہ مطلب نہیں کہ اس میں سے ضرور ضرور کھایا جائے بلکہ یہ ہے کہ قربانی کا گوشت خود کھانے میں کچھ حرج نہیں ہے۔ اور اس سلسلہ میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا قول یہ ہے کہ ایک حصہ خود رکھ لو۔ ایک حصہ اپنے ہمسایہ اور رشتہ داروں میں تقسیم کردو اور ایک حصہ فقراء مساکین میں۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ یہ تینوں حصے برابر برابر ہوں۔ بلکہ حسب ضرورت اس میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے اور بہتر یہ ہے کہ اپنے لئے حصہ تیسرے سے کم رکھا جائے اور فقراء کے لئے تیسرے حصہ سے زیادہ۔ الحج
29 [٤١] یعنی دس ذی الحجہ کو قربانی کرنے کے بعد حج کرنے والے حضرات حجامت بنوائیں، ناخن کٹوائیں، نہائیں دھوئیں، اور راستے کی گرد اور میل کچیل دور کریں۔ اور احرام کھول کر عام لباس پہن لیں۔ اس سلسلہ میں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ احرام کھولنے کے بعد احرام کی دوسری پابندیاں تو ختم ہوجاتی ہیں مگر اپنی بیوی کے پاس جانا اس وقت تک جائز نہیں ہوتا جب تک آدمی طواف افاضہ نہ کرلے۔ جس کا ذکر اسی آیت کے آخری جملہ میں ہے۔ [٤٢] یعنی جو بھی نذر کسی حاجی نے اس موقع کے لئے مانی ہو۔ اور بعض کے نزدیک نذر سے مراد وہی قربانی یا قربانیاں ہیں جن کا حاجی نے ارادہ کر رکھا ہو۔ [٤٣] بیت العتیق کےمعانی :۔عتیق کا ایک معنی ”آزاد“ہے۔ اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس گھر پر کسی ظالم اور جابر بادشاہ کا قبضہ نہیں ہوسکتا اور ایسے حملہ آوروں کا وہی حشر ہوگا جو اصحاب الفیل کا ہوا تھا۔ حتیٰ کہ یاجوج ماجوج کی یورش کے بعد بھی تاقیامت بیت اللہ کا طواف اور حج آزادانہ طور پر ہوتا رہے گا۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’بیت اللہ کا نام بیت العتیق اس لئے ہوا کہ اس پر کبھی کوئی ظالم غالب نہیں ہوا‘‘ (ترمذی، ابو اب التفسیر) قیامت کے نزدیک کعبہ کوگرانے والا:۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”کہ (قیامت کے قریب) ایک لشکر کعبہ پر چڑھ آئے گا۔ جب وہ بیداء کے کھلے میدان میں پہنچیں گے تو سب کے سب اول سے آخر تک زمین میں دھنسا دیئے جائیں گے‘‘ (بخاری۔ کتاب البیوع۔ باب ماذکر الاسواق) البتہ قیامت کے بالکل نزدیک ایک چھوٹی پنڈلیوں والا کالا حبشی کعبہ کو گرانے آئے گا اور وہ اسے گرا دے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’گویا میں کعبہ کے گرانے والے کو دیکھ رہا ہوں، ایک کالا پھڈا(قدم کے اگلے حصہ کو قریب اور ایڑیوں کو دور کر کے چلنے والا آدمی) اس کا ایک ایک پتھر اکھیڑ رہا ہے‘‘ (بخاری، کتاب المناسک، باب حرم الکعبہ) اور عتیق کا دوسرا معنی ہر وہ چیز ہے جس کے قدیم ہونے کے باوجود اس کی شرافت، نجابت اور احترام میں کوئی فرق نہ آئے۔ زندہ جاوید۔ اسی لحاظ سے کعبہ کو بیت العتیق کہتے ہیں۔ دس ذی الحجہ کو رمی الجمار، قربانی، غسل اور احرام کھولنے کے بعد بیت اللہ کا طواف کرنا ضروری ہے اور اس طواف کو طواف افاضہ یا طواف زیارت کہتے ہیں اور یہ طواف حج کا رکن ہے اور واجب ہے۔ احرام کی پوری پابندیاں اس طواف کے بعد ہی ختم ہوتی ہیں۔ اور اگر طواف کرنے والا بیمار یا لاغر ہو تو سوار ہو کر بھی طواف کیا جاسکتا ہے چنانچہ حج اور قربانی کے کچھ احکام تو سابقہ چار آیات میں مذکور ہوچکے اور کچھ آئندہ آیات میں بتلائے جارہے ہیں اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے۔ کہ یہاں کچھ متعلقہ مسائل اور احادیث بھی درج کردی جائیں اور وہ حسب ذیل ہیں : حج اور قربانی کےمتعلق احادیث اور مسائل :۔ ١۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحیٰ کے دن خطبہ کے دوران فرمایا ’’ آج کے دن ہمیں پہلے نماز ادا کرنا چاہئے۔ پھر واپس جاکر قربانی کرنا چاہئے۔ جس نے اس طرح کیا وہ ہماری سنت پر چلا اور جس نے قربانی (نماز سے پہلے) کرلی۔ اس کی قربانی ادا نہیں ہوئی بلکہ اس نے اپنے گھر والوں کے لئے گوشت کی خاطر بکری کاٹی‘‘ اس پر ابو بردہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : ’’یارسول اللہ! میں نے تو نماز سے پہلے ہی ذبح کرلیا اور اب میرے پاس کوئی بکری نہیں۔ صرف ایک جذعہ (پٹھیا) ہے جو مسنہ (دوندی یا دو سال کی) بہتر ہے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اچھا اب وہ قربانی کرلو اور تمہارے بعد کسی کو ایسا کرنا کافی اور درست نہ ہوگا‘‘ (بخاری۔ کتاب الاضاحی۔ باب الذبح بعدالصلوۃ) اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ قربانی نماز عید کے بعد ہی ہوسکتی ہے۔ دوسرے اگر بکری قربانی دینا ہو تو اس کا مسنہ ہونا ضروری ہے۔ ٢۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو چتکبرے مینڈھے قربانی کئے۔ میں نے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا پاؤں ان کے منہ کے ایک جانب رکھے ہوئے بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر اپنے ہاتھ سے ذبح کر رہے تھے۔ (بخاری۔ کتاب الاضاحی۔ باب من ذبح الاضاحی بیدہ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ (١) قربانی کا جانور خوبصورت اور موٹا تازہ ہونا چاہئے (٢) ایک شخص ایک سے زیادہ قربانیاں بھی دے سکتا ہے۔ (٣) جانور کو لٹا کر اور اسے خوب قابو کرکے ذبح کرنا چاہئے۔ (٤) ذبح کے وقت اللہ کا نام لینا ضروری ہے۔ (٥) اپنی قربانی اپنے ہاتھ سے کرنا افضل ہے۔ ٣۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ : ہم منیٰ میں تھے کہ گائے کا گوشت لایا گیا، میں نے پوچھا :’’یہ کہاں سے آیا ہے‘‘ صحابہ نے عرض کیا :’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیبیوں کی طرف سے ایک گائے قربانی کی ہے‘‘ (بخاری۔ کتاب الاضاحی۔ باب الاضحیة للمسافرو النساء ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ (١) صاحب استطاعت کو اپنے گھر والوں کی طرف سے الگ قربانی دینا سنت ہے۔ (٢) حج کرنے والوں کو قربانی منیٰ کے مقام پر کرنا چاہئے۔ ٤۔ حضرت نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اسی مذبح میں قربانی ذبح کیا کرتے تھے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا کرتے تھے (بخاری۔ کتاب الاضاحی۔ باب الاضحیٰ والنحر بالمصلی) یعنی منیٰ کا سارا علاقہ مذبح نہیں۔ بلکہ قربانی مذبح خانہ میں جاکر کرنا چاہئے۔ ٥۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حج (١٠ ھ) کی کیفیت بیان کرتے ہوئے بتلاتے ہیں کہ : ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نحر کی جگہ آئے تو تریسٹھ (٦٣) اونٹ اپنے دست مبارک سے ذبح کئے باقی سینتیس (٣٧) حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیئے جو انہوں نے نحر کئے۔ اور ان کو اپنی قربانی میں شریک کیا‘‘ (مسلم۔ کتاب الحج۔ باب حجۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ (١) دو آدمی مل کر بھی قربانی کرسکتے ہیں۔ (٢) قربانی جتنی زیادہ سے زیادہ کوئی دے سکتا ہو ١، دینا چاہئے۔ ٦۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’قربانی کے دن اللہ تعالیٰ کو انسان کے عملوں میں خون بہانے سے بڑھ کر کوئی عمل محبوب نہیں ہے‘‘ (ترمذی۔ مع تحفۃ الاحوذی ج ٢ ص ٣٥٢) ٧۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ میں دس سال رہے اور ہمیشہ قربانی کرتے رہے۔ (ترمذی حوالہ ایضاً) ٨۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جو شخص استطاعت رکھتا ہو۔ پھر قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے‘‘ (ابن ماجہ، کتاب الاضاحی۔ اردو ص ٣٨١ مطبوعہ مکتبہ سعودیہ، کراچی) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قربانی اگرچہ ہر مسلمان پر واجب نہیں تاہم صاحب استطاعت کے لئے سنت مؤکدہ ضرور ہے۔ ٩۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مسنۃ (بکری وغیرہ جو ایک سال کی ہو کر دوسرے میں لگی ہو) کی قربانی کرو۔ البتہ جب ایسا جانور نہ مل رہا ہو۔ تو جذعہ دنبہ (جو چھ ماہ کا ہو کر ساتویں میں لگا ہو) کر لو۔ (مسلم۔ کتاب الاضاحی۔ باب سن الاضحیہ) ١٠۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (حجۃ الواداع) میں سو اونٹ قربانی کئے اور مجھے حکم دیا کہ ان کا گوشت بانٹ دوں۔ میں نے سارا گوشت بانٹ دیا۔ پھر آپ نے فرمایا : ان کی جھولیں بھی بانٹ دو میں نے وہ بھی بانٹ دیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی کھالیں بانٹنے کا حکم فرمایا، میں نے وہ بھی بانٹ دیں۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان میں سے کوئی بھی چیز قصاب کو مزدوری میں نہ دو۔ (بخاری۔ کتاب المناسک۔ باب لایعطی الجزار من الہدی شیئاً) ١١۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عیدالاضحیٰ کے دن عید میں شریک ہونے کے لئے دیہات سے (محتاج) لوگ آگئے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قربانی کے گوشت سے تین دن تک کے لئے رکھ لو۔ باقی خیرات کر دو۔ (تاکہ محتاجوں کو بھی کھانے کو گوشت مل جائے) بعد میں لوگوں نے عرض کیا کہ : ہم اپنی قربانیوں کی کھالوں سے مشکیں بناتے تھے اور ان میں چربی پگھلاتے تھے'' آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ’’تو اب کیا ہوا ؟‘‘ صحابہ نے عرض کیا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میں نے تمہیں ان محتاجوں سے منع کیا تھا جو اس وقت موقع پر آگئے تھے۔ اب تم کھاؤ بھی، صدقہ بھی کرو اور رکھ بھی سکتے ہو‘‘ (مسلم۔ کتاب الاضاحی۔ باب النھی عن اکل لحوم الاضاحی بعد ثلاث و نسخہ) ١٢۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں قربانی کا گوشت توشہ کرکے مدینہ تک آئے۔ ابو سفیان نے کہا اس حدیث میں قربانی سے مراد ہدی (مکہ میں کی ہوئی قربانی) ہے۔ (بخاری، کتاب الاضاحی۔ باب مایؤکل من لحوم الاضاحی وما یتزود منہا) ١٣۔ زیاد بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا۔ وہ ایک شخص کے پاس آئے جس نے نحر کرنے کے لئے اپنا اونٹ بٹھایا تھا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا : ’’اس اونٹ کو کھڑا کر اور پاؤں باندھ دے (پھرنحر کر) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہی سنت ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب المناسک۔ نحرالابل مقیدۃ) ١٤۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حج کا احرام باندھ کر نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ’’اونٹ اور گائے (کی قربانی) میں سات سات آدمی شریک ہوجائیں‘‘ (مسلم۔ کتاب الحج باب جواز الاشتراک فی الھدی ) ١٥۔ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم تہامہ کے علاقہ میں ذوالحلیفہ کے مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے۔ وہاں ہمیں بکریاں اور اونٹ ملے ہم نے جلدی کرکے گوشت کاٹ کر ہنڈیاں چڑھا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں وہ ہنڈیاں اوندھا دینے کا حکم دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس بکریاں ایک اونٹ کے برابر رکھیں۔ (مسلم۔ کتاب الاضاحی۔ جواز الذبح بكل ما انهر الدم الا السن....) اس حدیث کو امام مسلم، کتاب الاضاحی میں درج کرکے یہ اجتہاد کیا ہے کہ اونٹ کی قربانی میں دس آدمی تک شریک ہوسکتے ہیں جبکہ گائے، بیل میں صرف سات آدمی ہی شریک ہوسکتے ہیں۔ ١٦۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص حالت احرام میں شكار کرے اور اسے اس کا بدلہ دينا ہو تو اس بدلہ کے جانور یا نذر کے جانور میں سے کچھ نہ کھائے۔ باقی سب میں سے کھا سکتا ہے۔ (بخاری۔ کتاب المناسک۔ باب ما یا کل من البدن ) ١٧۔قربانی کے جانور پر سوار ہونا تعظیم کےمنافی نہیں :۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو قربانی کا اونٹ ہانک رہا تھا (اور خود پیدل چل رہا تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ’’اس پر سوار ہو جا‘‘ وہ کہنے لگا : ’’یہ قربانی کا جانور ہے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ فرمایا : ’’ اس پر سوار ہوجا‘‘ وہ پھر کہنے لگا :’’ یہ قربانی کا جانور ہے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری بار اسے فرمایا : ’’ارے کم بخت اس پر سوار ہوجا‘‘ (بخاری۔ کتاب المناسک۔ باب رکوب البدن) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ضرورت کے وقت قربانی کے جانور پر سوار ہونا شعائر اللہ کی تعظیم کے منافی نہیں۔ ١٨۔پیدل حج کرنا کارثواب نہیں :۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بوڑھے کو دیکھا جو اپنے دونوں بیٹوں کا سہارا لئے چل رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ’’اسے کیا ہوا ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا : ’’اس نے پیدل کعبہ کو جانے کی منت مانی ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اللہ کو اس بات کی حاجت نہیں کہ وہ اپنے آپ کو تکلیف دے‘‘ اور اسے حکم دیا کہ وہ سوار ہوجائے۔ (بخاری۔ کتاب المناسک۔ باب من نذر المشیۃ الی الکبعة) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پیدل سفر حج کار ثواب نہیں بلکہ مکروہ کام ہے اور اگر کسی نے ایسی نیت کی بھی ہو تو اسے پورا نہ کرنا چاہئے۔ ١٩۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب مزدلفہ سے منیٰ میں آئے تو پہلے جمرہ عقبہ پر گئے اور کنکریاں ماریں۔ پھر اپنی قیام گاہ پر تشریف لائے۔ پھر قربانی کی۔ پھر حجام سے سر مونڈنے کو کہا پہلے داہنی طرف سے پھر بائیں سے پھر وہ بال آپ نے صحابہ کو دے دیئے۔ (مسلم۔ کتاب الحج۔ باب ان السنہ یوم النحر ان يرمي ثم ينحر) یوم النحر کے کاموں کی از روئے سنت ترتیب یہ ہے پہلے رمی (٢) بعد میں قربانی (٣) پھر حجامت اور احرام کھولنا اور (٤) طواف افاضہ یا طوائف الزیارۃ تاہم ان کاموں میں تقدیم و تاخیر ہوجائے تو کچھ حرج نہیں، جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : ٢٠۔ یوم النحر:۔ مناسک حج میں تقدیم وتاخیر:۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا : میں نے رمی سے پہلے طواف الزیارۃ کرلیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حرج نہیں اور ایک شخص نے کہا میں نے شام ہوجانے کے بعد رمی کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کچھ حرج نہیں۔ ایک نے کہا : میں نے قربانی سے پہلے سر منڈالیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : حرج نہیں۔ (بخاری۔ کتاب المناسک، باب الذبح قبل الحلق) ٢١۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ یا اللہ سر منڈانے والوں کو بخش دے‘‘ لوگوں نے عرض کیا : ’’اور بال کترانے والوں کو؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ فرمایا : ’’یا اللہ بال منڈانے والوں کو بخش دے‘‘ لوگوں نے پھر کہا، اور بال کترانے والوں کو؟ غرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار سر منڈانے والوں کے لئے بخشش طلب فرمائی اور چوتھی بار فرمایا ’’اور بال کترانے والوں کو بھی‘‘ (بخاری۔ کتاب المناسک۔ باب الحلق والتقصیر عندالاحلال) ٢٢۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھو اور تم میں سے کوئی قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اسے چاہئے کہ (قربانی کرنے تک) نہ حجامت بنائے اور نہ ناخن کاٹے‘‘ (مسلم۔ کتاب الاضاحی۔ باب النہی من دخل علیہم شر ذی الحجۃ) ٢٣۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حج کیا اور دسویں تاریخ کو ہی طواف الزیارۃ کرلیا۔ پھر ام المومنین حضرت صفیہ کو حیض آگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے صحبت کرنا چاہی۔ تو میں نے عرض کیا ’’یارسول اللہ ! وہ تو حائضہ ہیں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’گویا اس نے ہمیں یہاں روک دیا ؟‘‘ لوگوں نے کہا ’’وہ دسویں تاریخ کو طواف الزیارۃ کرچکی ہیں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ پھر کیا ہے چلو نکلو‘‘ (بخاری۔ کتاب المناسک۔ باب الزیارۃ یوم النحر) اس حدیث سے طواف الزیارۃ کی اہمیت معلوم ہوتی ہے کہ جب تک حاجی طواف الزیارۃ نہ کرلے اس کا حج مکمل نہیں ہوتا۔ نہ وہاں مکہ سے رخصت ہوسکتا ہے۔ ٢٤۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ کے دوران ارشاد فرمایا : ’’لوگو! تم پر حج فرض ہے۔ لہٰذا حج کرو‘‘ ایک شخص (اقرع بن حابس) کہنے لگا : کیا ہر سال یارسول اللہ !؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ اس شخص نے تین بار یہی سوال کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اگر میں ہاں کہہ دیتا تو تم پر ہر سال حج فرض ہوجاتا اور تم یہ حکم بجا نہ لاسکتے۔ لہٰذا مجھے وہاں چھوڑ دو جہاں میں تم کو چھوڑ دوں (بات کرنا بند کردوں) کیونکہ تم سے پہلے لوگ اسی وجہ سے ہلاک ہوئے کہ انہوں نے اپنے نبیوں سے بہت سوال کئے اور ان سے بہت اختلاف کرتے رہے۔ تو جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو جتنا ہوسکے اسے بجا لاؤ۔ اور جب میں کسی بات سے منع کروں تو اس سے رک جاؤ‘‘ (مسلم۔ کتاب الفضائل۔ باب توقیرہ صلی اللہ علیہ وسلم وترک اکثار سواله عما لا ضرورۃالیہ، الخ،ابن ماجہ باب اتباع السنہ آخری حدیث) قربانی کومالی ضیاع سمجھنے والے مسلمان :۔حج اور بالخصوص قربانی کے مسائل کی یہ تفصیل اس لیے دینا پڑی کہ مسلمانوں میں سے ہی کچھ لوگ ایسے پیدا ہوچکے ہیں۔ جو کہ قربانی کو غیر ضروری سمجھتے ہیں۔ کبھی وہ یہ کہتے ہیں کہ قربانی صرف مکہ میں ہے اور حاجیوں کے لئے ہے اور ہم لوگ جو ہر شہر اور ہر بستی میں قربانیاں کرتے ہیں ان کا کوئی حکم نہیں۔ کہیں وہ اسے گوشت اور مالی ضیاع سے تعبیر کرتے ہیں اور کبھی یہ درد اٹھنے لگتا ہے کہ جتنی رقم قربانیوں پر خرچ کی جاتی ہے اتنی رقم سے محتاجوں کے لئے کئی رہائشی منصوبے بنائے جاسکتے ہیں۔ اور کبھی کہتے ہیں کہ جتنی رسم کسی قربانی پر صرف ہوتی ہے اتنی رقم صدقہ میں صرف کردی جائے تو بہتر ہے۔ مندرجہ بالا احادیث میں ان کی ان سب باتوں کا جواب اور تردید موجود ہے۔ ایسے لوگ دراصل مغربیت اور مغربی تہذیب سے مرعوب، اس کے شیدائی اور کھاتے پیتے لوگ ہوتے ہیں۔ وہ اگر قربانی سے دگنی رقم سينما بینی اور اپنی عیاشیوں پر خرچ کردیں تو وہ ان کے نزدیک مالی ضیاع نہیں ہوتا۔ لیکن قربانی میں انھیں کئی طرح کے نقصانات نظر آنے لگتے ہیں۔ بہرحال ان کے سب اقوال ''خوئے بدرا بہانہ بسیار‘‘ کا مصداق ہوتے ہیں۔ انھیں محتاجوں اور فقیروں سے کوئی ہمدردی نہیں ہوتی اور اگر بالفرض حکومت کوئی ایسا منصوبہ بنا بھی لے تو وہ خود کبھی اس فنڈ میں کچھ دینا گوارا نہ کریں گے۔ ان کی اصل غرض صرف یہ ہوتی ہے کہ قربانی نہ کرنے کے باوجود بھی وہ مسلمانوں کی نظروں میں بخیل اور ''چور'' نہ سمجھے جائیں۔ (ایسے لوگوں کے دلائل کی تفصیل اور ان کی تردید کے لئے دیکھئے میری تصنیف آئینہ پرویزیت حصہ سوم) الحج
30 [٤٤] حرمت اللّٰہ سے مراد اللہ کی حرام کردہ اشیاء بھی ہیں اور قابل احترام اشیاء یعنی شعائر اللہ بھی۔ یعنی ان سب چیزوں کی حرمت و احترام کا پورا پورا خیال رکھنا چاہئے اور تعمیر کعبہ کا اولین مقصد یہ تھا کہ اسے شرکیہ اعمال و افعال اور بتوں کی نجاستوں سے پاک و صاف رکھا جائے۔ اور قریش مکہ نے ایسی نجاستوں کا بھی مطلق خیال نہ رکھا اور جو لوگ اللہ کی توحید کے قائل تھے ان کے بیت اللہ میں داخلہ پر بھی پابندیاں لگا دیں۔ گویا اللہ کے گھر اور اس کے شعائر کی ہر طرح سے توہین کی۔ نیز اس مقام پر حرمت سے مراد عموماً حج، عمرہ، کعبہ، قربانی اور احرام سے متعلق احکام ہیں۔ جیسے کسی سے لڑائی جھگڑا کرنے، احرام کی حالت میں شکار کرنے اور صحبت کرنے سے بچنا اور ایسے احکام کا پورا پورا پاس رکھنا ضروری ہے اور یہ چیز ان کے حق میں ہیں اور اللہ کے ہاں بڑی خوبی اور نیکی کی بات ہے۔ [٤٥]چار بنیادی حرام اشیاء :۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمام چرنے والے چوپائے انسان کے لئے حلال قرار دیئے ہیں ماسوائے ان چیزوں کے جن کا ذکر پہلے کئی مقامات پر آچکا ہے اور وہ ہیں مردار خواہ وہ جانور کسی بھی طریقہ سے مر گیا ہو (٢) ہر وہ جانور یا چیز جو غیر اللہ کے نام پر مشہور کی جائے اس جملہ میں یہ بتلانا مقصود ہے کہ مشرکین مکہ نے جو بحیرہ وصیلہ، سائیہ اور حام قسم کے مویشی حرام قرار دے رکھے ہیں۔ یہ قطعاً اللہ کی طرف سے حرام کردہ نہیں ہیں۔ [٤٦] یعنی آستانوں کی آلائشوں اور بتوں کی پرستش سے یوں بچو جیسے انسان گندگی کے ڈھیر سے بچتا ہے اور اسے اس گندگی کے نزدیک جانے سے بھی گھن آتی ہے۔ تمام جانور اللہ کی مخلوق و مملکوک ہیں۔ لہٰذا اسی کے نام پر اور اسی کے لئے کعبہ کی نیاز ہوسکتے ہیں۔ کسی بت یا دیوی یا آستانہ پر ذبح کیا ہوا جانور مردار کی طرح حرام اور نجس ہے۔ لہٰذا ایسے کاموں سے بچنا ضروری ہے۔ [٤٧] زُور کالغوی معنی :۔ قول الزور میں دونوں الفاظ بڑے وسیع معنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ زور کے معنی صرف جھوٹ نہیں بلکہ ہر وہ بات ہے جو حق سے ہٹی ہوئی ہو اور اس کی کئی قسمیں ہوسکتی ہیں۔ قول الزور کے مقابلہ میں قرآن میں قولاً سدیداً کے الفاظ آئے ہیں یعنی ایسی بات جس میں کوئی رخنہ، ابہام، ہیرا پھیری اورپیچیدگی نہ ہو اور قول الزور ایسی بات ہے جس میں یہ باتیں، ان میں سے کوئی ایک موجود ہو اور صاحب فقہ اللغۃ کے نزدیک زور ایسا جھوٹ ہے جسے بنا سنوار کر پیش کیا جائے کہ وہ بھلا اور درست معلوم ہو۔ اس لحاظ سے اللہ کے پیدا کئے ہوئے جانوروں کو غیر اللہ سے نامزد کرکے انھیں ذبح کرنا، بلادلیل شرعی حلال کو حرام بنانا اور حرام کو حلال بنالینا یہ سب قول الزور ہی کی اقسام ہیں اور افتراء علی اللہ بھی ہیں۔ شہادت زُورکبیرہ گناہ ہے:۔ ہر قول الزور کی ایک قسم شہادۃ الزور ہے۔ یعنی ایسی شہادت جس میں ہیرا پھیری سے کام لیا جائے۔ اہم واقعہ کو غیر اہم اور غیر اہم کو اس طرح اہم بنا کر پیش کیا جائے۔ جس سے کسی ایک فریق کی حق تلفی ہوجائے اور اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے۔ اور یہ اتنا بڑا گناہ ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شرک کے برابر قرار دیا ہے۔ جیسا کہ یہاں اس آیت میں شرک کے ساتھ ہی قول الزور کا ذکر کیا گیا ہے۔ نیز عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میں تمہیں بڑے بڑے گناہ بتلاؤں؟‘‘ ہم نے عرض کیا : ’’یارسول اللہ ! ضرور بتلائیے‘‘ فرمایا : ’’اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا‘‘ اس وقت آپ تکیہ لگائے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا :’’ھوٹ بولنا، جھوٹی گواہی دینا، سن لو! جھوٹ بولنا، جھوٹی گواہی دینا۔‘‘ آپ برابر یہی الفاط دہراتے رہے۔ یہاں تک کہ میں سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپ ہی نہ ہونگے۔ (بخاری۔ کتاب الادب باب حقوق الوالدین من الکبائر) الحج
31 [٤٨]حنیف کا لغوی معنی:۔ حنفاء حنیف کی جمع ہے۔ اور حنیف بھی تمام باطل راہوں کو چھوڑ کر استقامت کی طرف مائل ہونا (مفردات القرآن) اور حنیف وہ شخص ہے جو تمام باطل راہوں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی سیدھی راہ کی طرف آجائے۔ اور وہ سیدھی راہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات، عبادت و تصرفات میں کسی بھی چیز کو ذرہ برابر بھی شریک نہ سمجھا جائے۔ [٤٩]شرک انسانیت کی توہین ہے اور ا س کی مثال جیسے کوئی بلندی سے نیچے پٹخ دیاجائے:۔ انسان تمام مخلوقات سے اشرف و افضل پیدا کیا گیا ہے۔ لہٰذا اس کے لئے سزاوار یہی بات ہے کہ وہ صرف اور صرف اپنے خالق و مالک کے سامنے سر جھکائے اسی سے اپنی حاجات طلب کرے اور اسی کی عبادت کرے۔ اب اگر وہ اللہ کو چھوڑ کر کسی بھی چیز کی عبادت کرے، اس کے آگے سر جھکائے یا حاجات روا کرے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک اعلیٰ چیز اپنے سے کمتر درجہ کی چیز کے سامنے جھک گئی یا اگر وہ کسی انسان کے سامنے سرجھکائے تو بھی مطلب یہ ہوگا کہ وہ اپنے ہی جیسی محتاج مخلوق کے آگے جھک رہا ہے اور یہ بھی انسانیت کی تذلیل ہے۔ ایسے شخص کی مثال یہ ہے جیسے وہ توحید کی بلندیوں سے شرک کی پستیوں میں جاگرا۔ اور اب وہ اپنے جیسے دوسرے مشرکوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ جو اسے کبھی کسی در پر جانے کا مشورہ دیں گے کبھی کسی دوسرے کے آستانہ پر جانے کا۔ حتیٰ کہ یہ شکاری پرندے اسے مکمل طور پر گمراہ اور بے ایمان کرکے ہی چھوڑیں گے۔ اور اگر وہ ان سے کسی طرح بچ بھی گیا تو اللہ کے مقابلہ میں اس کی دینی خواہشات نفس ہی گمراہی کے گڑھے میں جا گرانے کو کافی ہیں۔ اور اپنی خواہشات نفس کی پیروی بذات خود بھی شرک ہی کی ایک قسم ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے: ﴿ اَفَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰــہَہٗ ہَوٰیہُ﴾(۴۳:۲۵) یعنی اگر وہ دوسرے مشرکوں کے ہتھے نہ بھی چڑھے تو اس کا اپنا نفس ہی اسے گمراہ کرنے کو کافی ہے۔ الحج
32 [٥٠] یعنی جس شخص کے دل میں اللہ کا تقویٰ اور اللہ کی محبت جاگزیں ہو وہ ان چیزوں کا ضرور ادب کرے گا جو اس کے نام سے منسوب ہیں یا جنہیں شعائر اللہ کہا جاتا ہے۔ ان چیزوں کی توہین یا بے حرمتی، بے ادبی وہی شخص کرسکتا ہے۔ جس کے دل میں نہ اللہ کا خوف ہو اور نہ اس کی محبت ہو۔ واضح رہے کہ اللہ کے نام منسوب کردہ اشیاء کی تعظیم یاادب کرنا شرک نہیں بلکہ عین توحید ہے۔ شرک یہ ہے کہ اللہ کے سوا دوسروں کے نام منسوب کردہ چیزوں کا ایسے ہی ادب و احترام کیا جائے جیسا کہ اللہ کی طرف منسوب اشیاء کا کیا جاتا ہے۔ الحج
33 [٥١]قربانی کے جانور سے فائدہ اٹھانا:۔ یہ مقررہ وقت وہ وقت ہے جب قربانی کا جانور حرم کی حدود میں یا مذبح میں پہنچ جائے۔ اس سے ان قربانی کے جانوروں سے یہی کئی طرح کے فائدے اٹھائے جاسکتے ہیں۔ مثلاً بوقت ضرورت ان پر سوار ہونا، ان کا دودھ دوہنا، ان کی اون حاصل کرنا ان سے نسل چلانا وغیرہ وغیرہ۔ جیسا کہ اسی سورۃ کی آیت نمبر ٢٩ کے تحت درج شدہ حدیث نمبر ١٧ سے واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قربانی کا جانور ہانکنے والے ایک شخص کو اس پر سوار ہوجانے کا تاکید سے حکم دیا تھا۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قربانی کے جانوروں سے فائدہ حاصل کرنا تعظیم کے منافی نہیں بلکہ تعظیم کا تعلق دل سے ہے۔ دل میں ان اشیاء کی محبت اور قدر ضرور ہونی چاہئے۔ نیز قربانی کے جانوروں سے کوئی فائدہ حاصل نہ کرنا مشرکوں کا کام تھا کہ جس جانور کو کسی بت کے نام منسوب کرتے تو اس سے کچھ فائدہ حاصل کرنے کو گناہ سمجھتے تھے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہ وضاحت فرما دی۔ بعض مفسرین نے مقررہ وقت سے مراد یہ لی ہے کہ جب تک جانور کو اللہ کے نام منسوب نہ کردیا جائے یا ہَدی نہ بنا دیا جائے۔ یہ مراد اس لئے درست نہیں کہ اللہ کے نام منسوب کرنے سے تو فوائد حاصل نہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا پھر اس آیت میں اجازت کس چیز کی دی جارہی ہے نیز محولہ بالا حدیث بھی اس اختلاف کا فیصلہ کرنے کے لئے کافی ہے۔ الحج
34 [٥٢]قربانی سب انبیاء کی شریعت کا جزورہی ہے:۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام انبیاء کی شریعتوں میں اللہ کے حضور قربانی پیش کرنا ایک لازمی جزو رہا ہے۔ اگرچہ اس قربانی کی تفصیلات اور جزئیات میں اختلاف رہا ہے۔ اب اگر کوئی شخص اللہ کے علاوہ کسی دوسری چیز کے سامنے یا دوسری چیز کے لئے قربانی پیش کرے گا۔ یہ تو شرک فی العبادت ہے کیونکہ قربانی اور نذر و نیاز سب مالی عبادتیں ہیں۔ لہٰذا یہ عبادات کسی دوسرے کے لئے بجا لانا یا ان میں کسی دوسرے کو شریک کرنا عین شرک ہے۔ اسی لئے ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ تمہارا الٰہ تو صرف ایک ہی الٰہ ہے۔ پھر دوسروں کو اس کی عبادت میں کیوں شریک بناتے ہو؟ [٥٣] خبت کا لغوی معنی :۔ یہاں لفظ مخبتین استعمال ہوا ہے۔ اور خبت النار بمعنی آگ کا شعلہ ختم ہوجانا اور کوئلہ یا انگارہ پر ساکھ کا پردہ چڑھ جانا ہے۔ (مفردات القرآن) اور مخبت سے مراد ایسا شخص ہے جس نے اللہ کے احکام کے سامنے اپنے پندار نفس اور خواہشات نفس کو ختم کردیا ہو۔ نیز اس کے معنوں میں عاجزی اور نرمی اور تواضع سب کچھ شامل ہوتا ہے۔ الحج
35 [٥٤] ان کے دل اس بات سے سہم جاتے ہیں کہ مبادا ان سے کوئی کام اللہ کی مرضی اور منشاء کے خلاف سرزد ہوجائے۔ عمداً شرکیہ افعال بجا لانا تو بڑی دور کی بات ہے اور اس آیت میں مصیبت پر صبر کرنا، نماز کے قیام اور خرچ کرنے کا ذکر اس لحاظ سے ہے کہ سفر حج میں عموماً تکلیفیں بھی پیش آتی رہتی ہیں۔ نمازوں کے قضا ہونے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے اور خرچ بھی خاصا اٹھتا ہے۔ لہٰذا یہ فرما دیا کہ اللہ کے حضور متواضع رہنے والوں میں یہ سب خوبیاں موجود ہوتی ہیں۔ یہ مطلب تو ربط مضمون کے لحاظ سے ہے تاہم ان کا حکم ہر حالت میں عام ہے۔ [٥٥] رزق حرام کی نسبت اللہ نے اپنی طرف نہیں کی :۔ یہاں رزق سے مراد حلال اور پاکیزہ کمائی ہے کیونکہ رزق حرام کی نسبت اللہ تعالیٰ نے کبھی اپنی طرف نہیں فرمائی۔ نہ رزق حرام سے صدقہ یا قربانی یا سفر حج کے اخراجات قابل قبول ہوتے ہیں۔ اور خرچ کرنے سے مراد اللہ کی راہ میں یا اللہ کے احکام کے تابع رہ کر خرچ کرنا ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص اسراف و تبذیر سے کام لیتا ہے یا سینما بینی اور فحاشی کے کاموں پر خرچ کرتا ہے تو یہ انفاق کی شرعی اصطلاح کی ذیل میں ہرگز نہیں آتے۔ بلکہ ایسے سب کام گناہوں کے کام ہیں۔ الحج
36 [٥٦] بُدن کالغوی مفہوم:۔ بُدن کے لفظ کا اطلاق لغوی طور پر ہر عظیم الجثہ جانور پر ہوسکتا ہے۔ تاہم عرب میں یہ لفظ اونٹنوں کے لئے ہی مختص ہوگیا ہے۔ پہلے شعائر اللہ کا عمومی ذکر ہو رہا تھا۔ اب یہ ذکر کیا گیا کہ قربانی کے اونٹ بھی اللہ کے شعائر سے ہیں اور ان میں تمہارے لئے بہت سے فائدے اور بھلائیاں ہیں۔ تم ان پر سواری کرتے ہو۔ بار برداری کا کام لیتے ہو۔ دودھ اور اون اور بچے حاصل کرتے ہو۔ حتیٰ کہ ان کی کھالوں اور ہڈیوں سے بھی کئی طرح کے فوائد حاصل کرتے ہو اور چونکہ قربانی کے اونٹ قابل تعظیم ہیں لہٰذا ذبح کے وقت انھیں ہر ممکن سہولت پہنچاؤ۔ [٥٧] لفظ صواف اور معنوں میں استعمال ہو رہا ہے ایک تو ترجمہ سے ہی واضح ہے یعنی اگر قربانی کے اونٹ زیادہ ہوں تو پہلے انھیں صف بستہ کھڑا کرلیا جائے۔ پھر باری باری نحر کیا جائے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ انھیں کھڑے کھڑے ہی نحر کیا جائے۔ انھیں بٹھا کر ذبح نہ کیا جائے۔ جیسا کہ اسی سورۃ کی آیت نمبر ٢٩ کے تحت درج شدہ حدیث نمبر ١٣ سے واضح ہے۔ اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے اونٹ کا اگلا دایاں یا بایاں پاؤں رسی سے باندھ دیا جائے۔ پھر کسی نیزے، برچھے یا تیز دھار آلہ کو اس کے گلے یا سامنے کے حصہ میں چبھو دیا جائے۔ تاکہ کھڑے کھڑے ہی ان کا خون نکل جائے۔ [٥٨] خون نکلنے کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اونٹ از خود اپنے کسی دائیں یا بائیں پہلو پر گر پڑے گا۔ اس کی کھال اس وقت نہ اتاری جائے۔ جب تک تڑپنا بند نہ کردے۔ یا زندگی کی کچھ بھی رمق اس میں باقی ہو۔ [٥٩] قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ عرصہ کےلیے بھی رکھاجاسکتاہے :۔ یعنی حاجت مند بھی دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ کہ جو کچھ اللہ نے انھیں دے رکھا ہے، اسی پر صابر و شاکر رہتے ہیں۔ اور ضرورت مند ہونے کے باوجود کسی کے سامنے دست سوال دراز نہیں کرتے اور بعض حالات میں عام لوگوں کو ان کی احتیاج کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ حقیقتاً ایسے ہی لوگ صدقات و خیرات کے صحیح مستحق ہوتے ہیں۔ اور دوسرے وہ احتیاج سے مجبور ہو کر لوگوں سے سوال کرنے لگتے ہیں۔ اس قربانی کے گوشت میں دو طرح کے لوگوں کو اللہ نے کھلانے کا حکم دیا ہے۔ ایک عیدالاضحیٰ کے موقعہ پر مدینہ کے آس پاس رہنے والے محتاج لوگ بکثرت مدینہ آگئے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دے دیا کہ کوئی شخص تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھ نہیں سکتا۔ جو کچھ زائد ہو سب خیرات کردیا جائے۔ لیکن یہ حکم صرف ان محتاجوں کی آمد کی وجہ سے تھا۔ جو بعد میں منسوخ ہوگیا۔ (مسلم۔ کتاب الاضاحی۔ باب النھی عن اکل لحوم الاضاحی بعد ثلاث و نسخہ) تاہم ایسے نسخ کا مطلب اتنا ہی ہوتا ہے کہ اگر آج بھی ویسے ہی حالات سامنے آجائیں۔ کہ محتاج بکثرت ہوں جو خود قربانی دینے کے قابل نہ ہوں یا اتفاقاً اکٹھے ہوجائیں تو آج بھی وہی پہلا حکم ہی لاگو ہوگا۔ [٦٠] انسان کےلیے جانوروں میں خوئے غلامی :۔ یعنی اپنے عظیم الجثہ جانوروں کو طاقت کے لحاظ سے ان سے کئی گنا بڑھ کر ہیں، تمہارے لئے ایسا مسخر بنا دیا ہے کہ وہ ان سے طرح طرح کے فائدے حاصل کرتا ہے اور بوقت ضرورت انھیں ذبح بھی کر ڈالتا ہے مگر وہ اس کے سامنے چون و چرا کرنے کی جرأت نہیں رکھتے اللہ کی ان نعمتوں کے لئے تمہیں اللہ کا شکر گزار اور اطاعت گزار بننا چاہئے۔ الحج
37 [٦١] مشرکین کی یہ عادت تھی کہ جب وہ کسی بت کے نام پر کوئی قربانی کا جانور ذبح کرتے تو اس کا گوشت اس کے سامنے رکھ دیتے اور اس کا خون بت کے جسم پر مل دیتے تھے۔ بتوں کے سامنے رکھا ہوا گوشت تو بتوں کے مجاوروں کے کام آتا تھا اور وہی ان بتوں کو بعد میں صاف بھی کر ڈالتے تھے۔ اور جب وہ اللہ کے نام کی قربانی کرتے تو بھی گوشت کعبہ کے سامنے لا رکھتے اور خون کعبہ کی دیواروں سے لتھیڑ دیتے یا اس پر اس خون کے چھینٹے ڈالتے۔ گویا ان کے خیال کے مطابق قربانی کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ اس کا گوشت اور خون پیش کردیا جائے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس جاہلی نظریہ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کو نہ تمہارے قربانی کے جانوروں کے گوشت کی ضرورت ہے اور نہ خون کی۔ خون تو ویسے ہی حرام اور ناپاک چیز ہے اور گوشت تم خود ہی کھا سکتے ہو اور دوسروں کو بھی کھلاؤ۔ اللہ تو صرف یہ دیکھتا ہے کہ تم نے کس نیت، خلوص اور محبت کے ساتھ اللہ کے حضور یہ قربانی پیش کی ہے۔ تمہاری نیت میں جس قدر خلوص اور تقویٰ ہوگا وہی اللہ کے حضور اس قربانی کی قدروقیمت ہوگی۔ قربانی کی قبولیت کی شرائط اورنیت کے فتور کی صورتیں :۔ بعض لوگ قربانی محض رسم کے طور پر بجا لاتے ہیں۔ بعض اس لئے کہ ہمارے بچے آخر دوسرے کی طرف سے گوشت آنے کا کیوں انتظار کرتے رہیں۔ اور بعض دولتمند اس لئے کرتے ہیں کہ دوسرے لوگ انھیں طعنہ نہ دیں۔ اور بعض اس لئے کوئی موٹا، عمدہ اور قیمتی جانور قربانی کرتے ہیں کہ لوگوں میں ان کی شہرت ہو۔ اور بعض بخل سے کام لے کر کوئی کمزور اور عیب دار قسم کا جانور قربان کردیتے ہیں۔ ایسے سب لوگوں کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے۔ کہ اللہ تعالیٰ صرف یہ دیکھتا ہے آیا اس بندہ نے جو قربانی کی ہے وہ اللہ کی احسان مندی اور شکر بجا لاتے ہوئے شوق و محبت سے کی ہے یا نہیں۔ اگر کسی کی نیت ہی لنگڑی لولی ہو تو اگر وہ کوئی موٹا تازہ جانور بھی قربان کرے گا تو اس کا اسے کتنا فائدہ پہنچ سکتا ہے؟۔ [٦٢] بڑائی بیان کرنے کا ایک مطلب یہ ہے کہ ذبح کے وقت بسم اللہ، اللہ اکبر یا بسم اللہ واللہ اکبر اور شکر کی ادائیگی کے لئے اللھم منک ولک (یعنی اے اللہ ! یہ قربانی کا جانور تو نے ہی عطا کیا تھا اور تیری رضا کے لئے میں اسے قربان کر رہا ہوں) پڑھنا چاہئے۔ [٦٣]حج نہ کرنے والوں کوحاجیوں سے مماثلت کےاحکام :۔ جب ستم رسیدہ مسلمان ہجرت کرکے مکہ سے مدینہ آئے تو انھیں کئی قسم کے غم اور تفکرات لاحق تھے۔ گھر بار اور اپنا وطن مالوف چھوڑنے کا غم یا مدینہ میں آب و ہوا کی ناسازگاری، ذریعہ معاش کی فکر، کفار مکہ کی ایذا رسانیوں کی یاد جو انھیں بے چین کردیتی تھی۔ مزید ستم یہ کہ مدینہ میں آنے کے بعد بھی کفار مکہ نے ان کا پیچھا نہ چھوڑا۔ علاوہ ازیں ایک بڑا غم مسلمانوں کو بیت اللہ شریف سے دور ہوجانے کا تھا۔ جسے اب وہ دیکھ بھی نہ سکتے تھے۔ مناسک حج و عمرہ بجا لانا تو دور کی بات تھی۔ انھیں حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ خود ان کی طرف سے کافروں کی مدافعت کر رہا ہے اور وہ بتدریج ایسے حالات پیدا کردے گا کہ مسلمانوں کے لئے سب راہیں کھل جائیں گی۔ اور ان کے دشمن ہی بالآخر خائب و خاسر ہوں گے۔ علاوہ ازیں مسلمانوں کو کئی ایسے احکام دیئے گئے ہیں جن سے ان کی مناسک حج و عمرہ کی بجا لانے کی حسرت کی کسی حد تک تلافی ہوسکتی تھی۔ اور ان احکام پر حج کرنے والوں سے مماثلت بھی پائی جاتی تھی۔ مثلاً مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ ان میں ہر صاحب استطاعت ١٠ ذی الحجہ کو قربانی کیا کرے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں دس سال قربانی دیتے رہے نیز مسلمانوں کو ہدایت کی گئی کہ جو شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہو وہ یکم ذی الحجہ کا یعنی چاند دیکھنے سے لے کر قربانی کرنے تک نہ حجامت بنوائے اور نہ ناخن کٹوائے۔ نیز یہ کہ مسلمان کسی دوسرے کے ہاتھ میں اپنا قربانی کا جانور بیت اللہ شریف بھیج سکتے ہیں۔ نیز ایام تشریق میں وہ بھی اسی طرح تکبیرات پڑھا کریں جس طرح حاجی حضرات ان دنوں میں اللہ کو یاد کرتے ہیں۔ الحج
38 [٦٤] اللہ تعالیٰ اہل حق کا فریق اس لئے بنتا ہے کہ فریق ثانی خائن اور بددیانت بھی ہے اور ناشکرا بھی۔ بددیانت اور خائن اس لحاظ سے کہ اللہ نے انھیں کعبہ کی تولیت کی امانت سپرد کی تو انہوں نے اہل حق کو کعبہ میں داخل ہونے پر پابندی عائد کردی اور ناشکرے اس لحاظ سے ہیں کہ ان کو سب نعمتیں تو اللہ نے دی ہیں مگر انہوں نے اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے اپنی ساری نیاز مندیاں اور عبادتیں بتوں کے لئے وقف کردیں۔ الحج
39 [٦٥]جہادکی اجازت کی پہلی آیت:َ مکہ میں جب مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جارہے تھے تو اس وقت بعض جرأت مند صحابہ نے ان کافروں سے جنگ کرنے کی اجازت طلب کی تھی مگر اس وقت اللہ نے انھیں ایسی اجازت نہیں دی۔ بلکہ صبر و استقامت سے ظلم کو برداشت کرنے کی ہی تلقین کی جاتی رہی۔ پھر جب مسلمان مدینہ میں منتقل ہوگئے اور ایک چھوٹی سی اسلام مملکت کی داغ بیل پڑگئی، جو صرف مدینہ کے ایک چھوٹے سے قصبے تک محدود تھی۔ مسجد نبوی تعمیر ہوگئی جو مسلمانوں کے ہر طرح کے معاملات میں ہیڈ کو ارٹر کا کام دیتی تھی۔ مہاجرین کے مسئلہ معاش کو مواخات کے ذریعہ کسی حد تک حل کرلیا گیا۔ یہودی قبائل اور مشرک قبائل سے امن و آشتی کے ساتھ آپس میں رہنے کے ماہدات طے پاگئے۔ اور مسلمان اس قابل ہوگئے کہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکیں۔ تو ان کو کافروں سے جہاد کرنے کی اجازت مل گئی۔ اور یہی وہ پہلی آیت ہے جس میں مسلمانوں کو مدافعانہ جنگ کی اجازت دی گئی اور اس اجازت کی وجہ صاف الفاظ میں بتلا دی گئی کہ یہ اجازت انھیں اس لئے دی جارہی ہے کہ ان پر مسلسل ظلم ڈھائے جاتے رہے ہیں۔ یہ اجازت سن 1 ہجری کے آخر میں ملی تھی۔ بعد میں بہت سی ایسی آیات نازل ہوئیں جن میں صرف مدافعانہ جنگ کی اجازت ہی نہیں بلکہ ہر اس قوت سے بھڑ جانے اور جہاد کرنے کا حکم دیا گیا جو اللہ کے دین کے راستہ میں مزاحم ہورہی ہو۔ [٦٦] اس جملہ کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ اللہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ وہ جہاد و قتال کے بغیر بھی مسلمانوں کی مدد کرکے انھیں غالب کر دے اور دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر بھی قادر ہے کہ وہ مسلمانوں کو بے سروسامان، تنگدست اور مٹھی بھر جماعت کو ان کفار مکہ پر غالب کردے جو اسلحہ، مال و دولت اور تعداد ہر لحاظ سے مسلمانوں سے بہت بڑھ کر ہیں۔ مزید برآں تمام مشرک قبائلی اور یہود بھی ان کے معاون و مددگار ہیں۔ الحج
40 [٦٧] مسلمانوں کو یہ سب مصائب اس لئے جھیلنا پڑے اور انھیں صرف اس جرم بے گناہی کی سزا دی جاتی رہی کہ وہ صرف ایک اللہ کے پرستار تھے۔ مکہ میں جس قدر مظالم ڈھائے گئے یہ داستان اتنی طویل اور خونچکاں ہے جس کا بیان یہاں ممکن نہیں اور اس کے لئے ایک الگ کتاب درکار ہے اس بات کا کچھ تھوڑا بہت اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مکی دور میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مقدس پر کئی بار قاتلانہ حملے ہوئے اور سازشیں تیار کی گئیں ان کا مختصر ذکر سورۃ مائدہ کی آیت نمبر ٦٧ کے حاشیہ میں گزر چکا ہے۔ [٦٨] معرکہ حق وباطل میں اللہ اہل حق کی مددکیوں کرتے ہیں ؟ اس آیت میں الناس سے مراد مشرکین اور اللہ کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والے لوگ ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ جب بدی زور پکڑنے لگتی ہے تو اللہ تعالیٰ اہل حق کا ساتھ دے کر، خواہ وہ اہل حق کتنے ہی تھوڑے اور کمزور ہوں، بدی کا زور توڑ دیتا ہے۔ وہ قوت جسے اپنے سرنگوں ہونے کا تصور تک بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اللہ انھیں حق و باطل کے معرکہ میں لاکر اور اہل حق کی امداد کرکے انھیں صفحہ ہستی سے ملیا میٹ کردیتا ہے۔ اللہ کا یہ قانون اگر جاری و ساری نہ ہوتا تو مشرکین اور باطل قوتیں اہل حق کو کبھی جینے نہ دیتیں نہ ہی ان کے عبادت خانے برقرار رہنے دیتیں جن میں اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے اور ان کے بجائے بس بت خانے۔۔ اور آستانے ہی دنیا میں نظر آتے۔ اس آیت میں صومعۃ کا لفظ راہب قسم کے لوگوں کے عبادت خانوں کے لئے بِيَع (واحد بيعة) عیسائیوں کی عبادت گاہ یا گرجا کے لئے صلوٰت یہودیوں کی عبادت گاہوں کے لئے اور مساجد مسلمانوں کی عبادت گاہوں کے لئے استعمال ہوا ہے اور اب مسلمانوں کو جو جہاد و قتال کی اجازت دی جارہی ہے۔ تو وہ اللہ کے اسی قانون کے مطابق ہے کہ اللہ اہل حق کی امداد کرکے باطل کا سر کچل دے۔ اس آیت میں دراصل مسلمانوں کے لئے ایک بہت بڑی بشارت دی گئی ہے اسی قانون کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ہر زمانہ میں مشرکوں کے غلبہ کو روکا اور اہل حق کو ان سے بچایا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے ہی اسرائیل کو مشرکوں کے شر سے محفوظ رکھا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں نصاریٰ کو۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ یقیناً مسلمانوں کو بھی مشرکین کے شر سے محفوظ رکھے گا اور انھیں غلبہ عطا کرے گا اور اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا کردینے اور اہل ایمان کے حق میں انھیں ساز گار بنانے کی پوری قدرت رکھتا ہے۔ الحج
41 [٦٩]اسلامی حکومت کی ذمہ داریاں :۔ اس آیت میں اسلامی طرز حکومت کے خدوخال اور حکومت چلانے والوں کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں۔ اسلام میں ریاست کا قیام اصل مقصود نہیں بلکہ یہ کسی دوسرے عظیم مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے۔ لہٰذا ایک اسلامی ریاست کی ذمہ داریاں بھی غیر اسلامی ریاستوں سے بہت زیادہ ہیں۔ مثلاً ایک غیر اسلامی ریاست کی ذمہ داریاں محض یہ ہیں کہ پولیس کے ذریعہ امن بحال رکھا جائے۔ انتظامیہ کے ذریعہ حکومتی کاروبار چلایا جائے اور فوج کے ذریعہ سرحدوں کی حفاظت کی جائے۔ جبکہ ایک اسلامی ریاست یہ ذمہ داریاں بھی پورا کرتی ہے اور یہ اس کا ثانوی فریضہ ہوتا ہے اس کے قیام کے اولین مقاصد یہ ہیں۔ ١۔ پوری ریاست میں نماز اور زکوٰۃ کا نظام قائم کیا جائے۔ ٢۔ مکروہ کاموں کی روک تھام کی جائے اور اچھے کاموں کو فروغ دیا جائے اور ان اغراض کے لئے محکمہ قائم کئے جائیں اور اس طرح۔ ٣۔ ملک سے ظلم وجور کو ختم کرکے عدل و انصاف قائم کیا جائے اور اس راہ میں جو باطل قوتیں مزاحم ہوں۔ ان کو دور کیا جائے اور اسی کا نام جہاد ہے۔ علاوہ ازیں چونکہ ایک اسلامی ریاست کی بنیاد اخلاقی اقدار پر اٹھتی ہے، اسی لئے اسلام نے حکومت کے انتظام و انصرام کو وہ اہمیت نہیں دی جو اخلاقی اقدار کو دی ہے اور یہی چیز ایک اسلامی طرز حکومت کو دوسرے تمام اقسام حکومت سے ممتاز کرتی ہے۔ اس آیت میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عموماً اور مہاجرین کی خصوصاً اور بالخصوص خلفائے راشدین کی حقانیت اور فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ جن کے ذریعہ وہ تمام امور بطریق احسن سرانجام پائے جو اس آیت میں مذکور ہیں۔ اور جن کی داغ بیل خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ڈالی تھی۔ [٧٠] یعنی ایک ایسے طرز حکومت کے قیام کا تصور خواہ موجودہ حالات میں ناممکن نظر آرہا ہو لیکن ہر کام کا انجام تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ جو ابابیلوں کے لشکر سے ہاتھیوں کے لشکر کو بھی پٹوا سکتا ہے۔ وہ آخر ایک اہل حق کی کمزور سی جماعت کے مقابلہ میں کفار کے کروفر والے لشکر کو مغلوب کیوں نہیں کرسکتا۔ الحج
42 الحج
43 الحج
44 [٧١] عذاب میں تاخیر پرکافروں کا استہزاء :۔ان آیات میں ایک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ کہہ کر تسلی دی جارہی ہے کہ کفار و مشرکین کے انکار، ضد، ہٹ دھرمی اور مخالفت کا واقعہ صرف آپ سے ہی پیش نہیں آیا بلکہ سب سابقہ انبیاء ایسے ہی حالات سے دو چار ہوتے رہے ہیں۔ انہوں نے ایسے مصائب پر صبر کیا تھا۔ لہٰذا آپ بھی صبر کیجئے۔ اور دوسرے یہاں ایک قانون بیان کیا جارہا ہے جو یہ ہے کہ انبیاء اس وقت مبعوث کئے جاتے ہیں۔ جب معاشرہ میں خاصا بگاڑ پیدا ہوچکا ہو۔ لوگ اللہ وحدہ کو بھول چکے ہوں۔ شرک کی وبا عام ہو۔ غریبوں اور کمزوروں کو ظلم و تشدد ہو رہا ہو۔ حکومت اور قیادت بڑے بڑوں کے ہاتھ میں ہو۔ ان حالات میں جب نبی آکر اللہ کی طرف دعوت دیتا ہے۔ تو جن بڑے بڑے لوگوں پر اس دعوت کی زد پڑتی ہے وہ سب اس نبی اور اس کی مختصر اور کمزور سی پیروکار جماعت کے مخالف ہوجاتے ہیں۔ جس پر نبی انھیں اللہ کے عذاب اور اس کی گرفت سے ڈراتا ہے اور جب عذاب میں تاخیر ہوتی ہے تو یہ بڑے بڑے فوراً یہ کہنے لگتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو ہم پر عذاب لے کیوں نہیں آتے؟ گویا نبی کی تکذیب کے لئے انھیں ایک اور دلیل ہاتھ آجاتی ہے۔ [٧٢] نکیر کا لغوی مفہوم: اللہ کے عذاب یا اس کی گرفت کے لئے بھی ایک قانون ہے۔ یہاں ایسی اندھیر نگری نہیں کہ ادھر کسی نے جرم کیا تو فوراً عذاب الٰہی سے وہ تباہ ہوگیا۔ ایسا ہوتا تو یہ دنیا کبھی آباد نہ رہ سکتی۔ اس کے بجائے اس کائنات میں اللہ کا قانون امہال و تدریج کام کرتا ہے اور عذاب کے سلسلہ میں یہی قانون ہے۔ اللہ مجرمین کو مہلت دیتا ہے۔ تاکہ انھیں انتباہ کے بعد سنبھلنے کا اور توبہ کرنے کا موقع میسر ہو۔ اس دوران اگر وہ سنبھل جائیں تو عذاب الٰہی رک جاتا ہے اور اگر نہ رکیں تو بھی عذاب اپنے معینہ مدت پر ہی آتا ہے اور جب اس کا معینہ وقت آجاتا ہے تو پھر وہ آکے رہتا ہے۔ اس آیت میں عذاب کے لئے نکیر کا لفظ استعمال ہوا ہے اس کے مادہ نکر میں ناگواری کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے اور اجنبیت کا بھی لہٰذا اس کی ضد عرف بھی آتی ہے اور عجب بھی اور نکیر کا لفظ کسی ناگوار بات کے معنوں میں بھی آتا ہے اور کسی ناگوار بات پر گرفت کے معنوں میں بھی۔ پھر نکر کے معنی کسی چیز کی شکل و صورت کو اس طرح بدلنا ہے کہ اس کا حلیہ بگڑ جائے۔ لہٰذا نکیر کے معنی ایسی گرفت یا عذاب ہوگا جو اس عذاب میں خود لوگوں کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دے۔ الحج
45 [٧٣] یعنی رسولوں کی تکذیب کرنے والوں کا انجام یہ ہوا کہ ان کی پررونق اور پربہار آبادیاں اور شہر کھنڈرات میں تبدیل ہوگئے۔ اس عذاب نے صرف آدمیوں کا ستیاناس نہیں کیا بکہ ان کے تعمیر شدہ مکانات بھی زمین بوس ہوگئے۔ کنوئیں ویران ہوگئے۔ جن سے آسانی سے یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ کبھی یہاں انسانوں کی کثیر تعداد آباد ہوگی۔ الحج
46 [٧٤] غور وفکر کا منبع دماغ ہے یا دل ؟ یعنی ان تباہ شدہ بستیوں سے جو ان کے راستہ میں پڑتی ہیں یہ لوگ کبھی بھی عبرت حاصل نہیں کرتے۔۔۔ نہ یہ سوچتے ہیں کہ ان بستیوں کا ایسا انجام کیوں ہوا؟ مگر یہ باتیں سوچنے کے لئے تو دیدہ بینا چاہئے اور وہ ان میں ہے نہیں۔ عبرت حاصل کرنے کے لئے آنکھ کی بینائی کی ضرورت نہیں دل کی بینائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسے کسی شاعر نے کہا ہے : دل بینا بھی کر خدا سے طلب آنکھ کا نور دل کا نور نہیں یہاں یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ہر مقام پر عقل، فہم، فکر، سوچ کو دل سے متعلق کیا ہے۔ علاوہ ازیں تمام قسم کے جذبات مثلاً محبت، ہمدردی، رحم، اخوت اور اس کے برعکس جذبات مثلاً نفرت، کینہ، بغض حسد سب کا منبع دل کو قرار دیا ہے۔ جبکہ جدید طب کی رو سے کم از کم عقلی، فہم، فکر اور سوچ وغیرہ دل سے نہیں بلکہ دماغ سے تعلق رکھتے ہیں۔ بایں ہمہ ہر زبان کے محاورہ میں دل ہی کو ان اشیاء کا مرجع قرار دیا جاتا ہے۔ جیسے مذکورہ بالا شعر میں بھی ''دل بینا'' استعمال ہوا ہے یا مثلاً: یہی جی میں آئی کہ گھر سے نکل ٹہلتا ٹہلتا ذرا باغ چل اس شعر سے بھی واضح ہوتا ہے کہ ارادہ سوچ کے بعد پیدا ہوتا ہے جیسے دماغ کے بجائے دل سے منسوب کیا گیا ہے اور قرآن لوگوں کے اور بالخصوص قریش کے محاورہ کے مطابق نازل ہوا ہے۔ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ بات ہے کہ موجودہ نظریہ قابل تغیر و تبدل ہے اور عین ممکن ہے کہ اس تحقیق کے بعد نئی تحقیق کے بعد ان تمام اشیاء کا اصل مرکز دماغ کے بجائے دل ہی کو قرار دیا جائے اور دماغ کی تمام تر فکر اور سوچ بھی دل کے خیالات اور جذبات کے تابع ہو۔ لہٰذا ہمیں ہر وقت یہ بات ملحوظ رکھنی چاہئے کہ بات اسی ہستی کی سب سے زیادہ صحیح ہوسکتی ہے جو خود ان اشیاء کی خالق اور ہر طرح کے قلبی واردات سے پوری طرح واقف ہے۔ الحج
47 [٧٥]قوموں کی طبعی عمر؟ اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ ہر ابھرنے والی قوم یا تہذیب کی طبعی عمر ہزار سال ہوتی ہے یا ہونی چاہئے۔ بلکہ یہ الفاظ انسان کے عذاب کو جلد طلب کرنے اور اس کے قانون تدریج و امہال کے مطابق تاخیر میں تقابل کے طور پر ذکر کئے گئے ہیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ کسی قوم کے ظلم و جور میں اس قدر زیادتی واقع ہوجائے تو تین چار صدیاں گزرنے پر بھی اسے تباہ کردیا جائے۔ اور یہ بھی عین ممکن ہے۔ کہ کوئی قوم یا تہذیب ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ زندہ رہے۔ یہ سب باتیں کسی قوم کے گناہوں کی رفتار پر منحصر ہوتی ہیں۔ الحج
48 [٧٦] یعنی اگر کسی ظالم قوم پر عذاب آنے میں تاخیر ہوئی یا سرے سے اس پر عذاب آیا ہی نہیں تو بھی وہ ہماری گرفت سے بچ کر کہیں جا نہیں سکتے اور اخروی زندگی میں انھیں ان کے اعمال کی پوری پوری سزا مل کے رہے گی۔ الحج
49 [٧٧] یعنی یہ بات میرے اختیار میں نہیں کہ اگر تم عذاب کے جلد آنے کا مطالبہ کرو تو میں فوراً وہ عذاب لے آؤں۔ میرا کام صرف تمہیں تمہارے انجام سے ڈرانا ہے اور یہ کام میں پوری ذمہ داری سے سرانجام دے رہا ہوں۔ الحج
50 [٧٨] رزق کریم یعنی عزت کی روزی کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اہل جنت کو جو کچھ بھی کھانے پینے کو ملے گا اعلیٰ قسم کا ہوگا خواہ پھل ہوں، مشروبات ہوں یا دوسری اشیاء جن پر لفظ رزق کا اطلاق ہوتا ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ انھیں کھانے پینے کو دیا جائے گا وہ اعلیٰ قسم کے برتنوں میں اور عزت سے تختوں پر بٹھا کر پیش کیا جائے گا۔ الحج
51 [٧٩] یعنی ہماری آیات کا انکار کرکے اور پھر اسلام کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرکے یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ اسی طرح اسلام اور اہل اسلام کو دبا لیں گے تو یہ ان کی بھول ہے البتہ ان کی ان کرتوتوں کے عوض انھیں جہنم کا عذاب ضرور ہوگا۔ الحج
52 [٨٠]رسول اورنبی کا فرق:۔ اس جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اور نبی دو الگ الگ شخصتیں ہوتی ہیں۔ نبی عام ہے اور رسول خاص بالفاظ دیگر ہر رسول نبی تو ہوتا ہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق فرمایا: ﴿ وَکَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا ﴾ (۵۱:۱۹) یعنی موسیٰ علیہ السلام رسول بھی تھے اور نبی بھی۔ لیکن ہر نبی رسول نہیں ہوتا۔ نبی اور رسول کا فرق پہلے سورۃ مائدہ کی آیت ٦٧ کے تحت واضح کیا جاچکا ہے۔ [٨١] تمنی کے معنی تمنا یا آرزو کرنا بھی لغوی لحاظ سے درست ہیں اور تلاوت کرنا بھی۔ ترجمہ میں پہلے معنی کو اختیار کیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نبی یا رسول جب کوئی آرزو کرتا ہے (اور نبی یا رسول کی بڑی سے بڑی خواہش یہی ہوتی ہے کہ لوگ اس کی دعوت کو قبول کرلیں اور اس دعوت کو فروغ اور قبول عام حاصل ہو) تو شیطان اس کی خواہش کی تکمیل میں کئی طرح سے رکاوٹیں کھڑی کردیتا ہے۔ اور ایسا وسوسہ بعض دفعہ تو شیطان نبی اور اس کے پیروکاروں کے دلوں میں ڈالتا ہے۔ جیسے کفار کے کسی حسی معجزہ کے مطالبہ پر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کے دل میں یہ خیال آنے لگا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ کوئی ایسا معجزہ دکھلا دے تو اس سے کئی فائدے حاصل ہوسکتے ہیں یا مثلاً رؤسائے قریش نے آپ سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ اگر آپ ان ناتواں اور حقیر لوگوں (یعنی کمزور مسلمانوں) کو اپنی مجلس سے کسی وقت اٹھا دیں تو ہم آپ کے پاس بیٹھ کر آپ کی دعوت غور سے سننے کو تیار ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی عدم مخالفت اور اسلام کے غلبہ کی خاطر کافروں کے اس مطالبہ پر غور کرنے کے لئے تیار بھی ہوگئے تھے تو ایسے موقع پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بروقت تنبیہ ہوجاتی تھی اور اللہ تعالیٰ ایسی آیات نازل فرما دیتا جو خود اسے منظور ہوتا تھا اور اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ شیطان نبی یا رسول کی خواہش کی تکمیل کی راہ میں دوسرے لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالنا شروع کردیتا ہے۔ جو اللہ کی آیات کی تکذیب کرتے، اسلام کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے اور اس کے خلاف سازشیں کرنے لگتے ہیں اور یہ لوگ دو ہی قسم کے ہوسکتے ہیں ایک منافقین اور دوسرے وہ لوگ جن کے دل قبول حق کے سلسلہ میں پتھر کی طرح سخت ہوچکے ہوں۔ لیکن اللہ تعالیٰ بالآخر ایسے لوگوں کی تمام تر سازشوں اور کوششوں کو ناکام بنا دیتا ہے۔ اور جس مقصد کی تکمیل کے لئے وہ کسی نبی یا رسول کو مبعوث فرماتا ہے اسے پختہ سے پختہ تر بنا دیتا ہے۔ کسی نبی یا رسول کی آرزو میں شیطانی وسوسہ ؟اور اگر تمنی کا معنی تلاوت کرنا سمجھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نبی یا رسول کوئی آیت تلاوت کرتا ہے۔ تو اس کا صحیح مفہوم سمجھنے کے سلسلہ میں شیطان لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈال کر انھیں شکوک و شبہات میں مبتلا کردیتا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے جب یہ آیت نازل فرمائی کہ﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ ﴾تو بعض لوگوں نے یہ اعتراض جڑ دیا کہ یہ کیا بات ہوئی کہ اللہ کا مارا ہوا جانور تو حرام ہو اور انسان کا مارا ہوا (ذبح کیا ہو) حلال؟ یہ خالصتاً شیطانی وسوسہ تھا۔ اسی طرح جب یہ آیت نازل ہوئی ﴿اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ ﴾(یعنی تم بھی اور اللہ کے سوا جنہیں تم پوجتے ہو سب جہنم کا ایندھن بنیں گے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھ کر سنائی تو کافروں نے فوراً یہ اعتراض جڑ دیا کہ پرستش تو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عزیر علیہ السلام اور فرشتوں کی بھی کی جاتی رہی ہے تو کیا یہ ہستیاں بھی جہنم کا ایندھن بنیں گی؟ یہ بھی خالصتاً شیطانی وسوسہ تھا۔ ایسے مواقع پر اللہ تعالیٰ دوسری صریح اور محکم آیات نازل فرما کر شکوک و شبہات اور شیطانی وساوس کو دور فرما کر اپنے حکم کی وضاحت فرما دیتا ہے۔ لات ومنات کی سفارش کا من گھڑت قصہ:۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ اس آیت کے شان نزول کے متعلق بعض تفاسیر میں ایک واقعہ مندرج ہے جو یوں ہے کہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورۃ النجم کی تلاوت فرما رہے تھے اور یہ تلاوت مشرکین مکہ بھی پاس موجود تھے۔ جب آپ نے آیات تلاوت فرمائیں۔ ﴿اَفَرَاَیْتُمُ اللاَّتَ وَالْعُزّٰی وَمَنَات الثَّالِثَۃَ الاُخْرٰی﴾ تو شیطان نے آپ کی آواز میں آواز ملا کر درج ذیل الفاظ یوں پڑھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ یہ الفاظ آپ ہی کی زبان سے ادا ہوئے ہیں۔ ﴿تِلْکَ الْغَرَانِیْقُ الْعُلٰی وَاِنْ شَفَاعَتُھُنَّ لَتُرْجٰی۔﴾ (یہ اونچی گردنوں والی دیویاں ہیں یعنی لات، عزی اور منات۔ اور اللہ کے ہاں ان کی شفاعت کی یقیناً توقع کی جاسکتی ہے) چنانچہ جب مشرکین مکہ نے یہ الفاظ سنے تو ان کے کلیجے ٹھنڈے ہوگئے کہ ان کے بتوں کا بھلائی سے ذکر کیا گیا ہے۔ چنانچہ وہ بڑے غور سے آپ کی تلاوت سننے لگے اور سورۃ والنجم کے اختتام پر آپ نے اور دیگر مسلمانوں نے سجدہ کیا تو ساتھ ہی مشرکوں نے بھی سجدہ کیا۔ پھر یہ قصہ یہیں ختم نہیں ہوجاتا بلکہ اس کا اگلا حصہ یہ ہے کہ پھر یہ خبر مشہور ہوگئی کہ مسلمانوں اور کفار مکہ میں صلح و سمجھوتہ ہوگیا ہے یہ خبر اڑتی اڑتی جب مہاجرین حبشہ کو ملی تو ان میں سے بعض مہاجر مکہ واپس آگئے۔ لیکن یہاں آکر معلوم ہوا کہ یہ خبر غلط تھی۔ یہ واقعہ کئی لحاظ سے غلط ہے مثلاً: ١۔ ان تمام روایات کی اسناد مرسل اور متقطع ہیں۔ لہٰذا یہ روایات ساقط الاعتبار ہیں۔ اسی وجہ سے صحاح ستہ میں اس قسم کی کوئی روایت مذکور نہیں۔ ٢۔ ان آیات میں ’’اس شیطانی وسوسہ‘‘ سے پہلے ہی بتوں اور دیویوں کی مذمت مذکور ہے اور بعد میں بھی۔ لہٰذا درمیان میں بتوں کا یہ ذکر خیر کسی لحاظ سے بھی فٹ نہیں بیٹھتا۔ ٣۔ تاریخی لحاظ سے یہ روایات اس لئے غلط ہیں کہ ہجرت کا واقعہ ٥ نبوی میں پیش آیا تھا اور جو مہاجر اس غلط افواہ کی بنا پر واپس مکہ آئے تھے وہ صرف تین ماہ بعد آئے تھے۔ جبکہ یہ سورت مدنی ہے اور ہجرت حبشہ سے واپسی اور اس سورۃ کے نزول کے درمیان کم از کم آٹھ نو سال کا وقفہ ہے۔ [٨٢] شیطانی وساوس کا مختلف لوگوں پرمختلف اثر:۔ ان روایات میں دراصل کافروں کے ایک اعتراض کا جواب دیا گیا ہے جو یہ ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ جو بعد میں محکم اور واضح آیات نازل کرکے شکوک و شبہات کو رد کرتا ہے وہ پہلے ہی ایسے واضح احکام کیوں نہیں بھیج دیتا جن سے شکوک و شبہات پیدا ہی نہ ہوں‘‘ یہ اعتراض بھی دراصل کج رو اور کج فطرت کافروں کی عیاری کا غماز ہے اور اس کا جواب سورۃ آل عمران کے ابتداء میں آیات متشابہات اور آیات محکمات (آیت نمبر ٧) میں بیان ہوچکا ہے اور یہاں بھی انھیں دوسرے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ مختصراً یہ کہ : ١۔ شکوک میں مبتلا صرف وہی لوگ ہوتے ہیں جو منافق ہوں یا ہٹ دھرم کے کافر۔ ٢۔ ایسی آیات سے ہی ایمانداروں کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے اور برحق ہے۔ ٣۔ ایسی آیات دراصل سب لوگوں کے لئے ایک آزمائش اور جانچ ہوتی ہیں۔ جن سے یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ کون کس مقام پر کھڑا ہے؟ آیا وہ منافقوں سے تعلق رکھتا ہے یا اللہ پر ایمان لانے والوں سے؟ الحج
53 الحج
54 [٨٣]مشرکین کیوں سجدہ ریز ہوئے تھے؟ یعنی ایمان والے فوراً یہ سمجھ جاتے ہیں کہ فلاں بات تو فی الواقع وحی الٰہی ہے یا ہوسکتی ہے اور فلاں بات شیطان کا وسوسہ یا دھوکا ہے۔ واضح رہے کہ مندرجہ بالا واقعہ میں سے اس کا صرف آخری حصہ ہی ایسا ہے۔ جو درست ہے اور صحیح احادیث میں مذکور ہے۔ یعنی کسی موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورۃ النجم تلاوت فرمائی۔ اس کے اختتام پر آپ نے اور مسلمانوں نے سجدہ کیا تو پاس بیٹھے ہوئے مشرکوں نے بھی سجدہ کیا۔ ماسوائے ایک شخص (امیہ بن خلف) کے کہ اس نے کنکریوں کی ایک مٹھی اٹھائی اور اسے اپنی پیشانی سے لگا کر کہنے لگا کہ بس مجھے اتنا ہی کافی ہے (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ والنجم) رہی یہ بات کہ قرآن شریف میں بتوں کی تعریف مذکور ہو یا یہ الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ادا ہوئے ہوں، ایمان والے فوراً سمجھ جاتے ہیں کہ یہ بات ناممکنات سے ہے۔ رہا مشرکوں کا مسلمانوں کے ساتھ سجدہ ریز ہوجانا تو اس کی وجہ قرآن کی اپنی تاثیر ہے۔ جس کی بنا پر وہ قرآن کو جادو اور آپ کو جادو گر کہا کرتے تھے اور مسلمانوں پر قرآن بلند آواز سے پڑھنے پر پابندی لگا رکھی تھی کہ اس سے ان کی عورتیں اور بچے متاثر ہوتے ہیں۔ حالانکہ وہ خود بھی قرآن کی تاثیر سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ الحج
55 [٨٤] یعنی ان ہٹ دھرم کافروں کا یہ حال ہے کہ یہ جوتے کھا کر ہی سیدھے رہ سکتے ہیں۔ اس سے پہلے یہ ماننے والے نہیں یا تو ان کا یہ شک قیامت کا دن دیکھ کر دور ہوگا۔ جب سب حقائق اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔ یا عذاب الٰہی کا منحوس دن دیکھ کر، جس سے ان کے بچنے کی کوئی صورت نہ ہوگی اور نہ ہی اس دن کے بعد انھیں اگلا دن دیکھنا نصیب ہوگا۔ الحج
56 [٨٥] یعنی آج تو ہر شخص خواہ وہ ایماندار ہے یا کافر ہے یا منافق ہے یا مشرک ہے وہ یہی سمجھ رہا ہے کہ وہ حق پر ہے اور جو کچھ وہ کر رہا ہے اچھا کر رہا ہے۔ لیکن قیامت کے دن سب کو روز روشن کی طرح علم ہوجائے گا کہ آج صرف اکیلے اللہ ہی کی حکمرانی ہے۔ اور ان کے معبودوں یا دیوتاؤں کے کارساز نہ ہونے کا سارا فریب کھل جائے گا اور اللہ تعالیٰ شہادات قائم کرکے یہ فیصلہ کردے گا کہ حق پر کون تھا اور جھوٹا کون؟ یا فلاں شخص کتنا حصہ حق پر تھا اور کتنا باطل پر؟ پھر اسی فیصلہ کے مطابق لوگوں کو بدلہ دیا جائے گا۔ اہل حق تو جنت کی نعمتوں سے محظوظ ہوں گے اور حق کو جھٹلانے کو رسوا کن عذاب کا مزا چکھنا ہوگا۔ الحج
57 الحج
58 [٨٦] اہل ایمان کا ذکر کرنے کے بعد خصوصی طور پر مہاجرین کا ذکر فرمایا۔ جنہوں نے اللہ اور اس کے دین کی خاطر اپنے گھر بار، جائیداد اور وطن مالوف کو خیرباد کہا اس کے بعد خواہ جہاد کرکے شہید ہوجائیں یا طبعی موت سے وفات پاجائیں۔ ان کی ہجرت کا عمل ہی اتنا گرانقدر ہے جس کے عوض اللہ انھیں ہزارہا گناہ بہترین کھانے پینے کا سامان اور بہترین رہائش عطا فرمائے گا۔ اتنا بہتر جس سے وہ خوش ہوجائیں گے۔ الحج
59 [٨٧] یعنی اللہ خوب جانتا ہے کہ کسی نے کس کس قدر خلوص نیت کے ساتھ ہجرت کی تھی۔ لہٰذا وہ اتنا ہی اسے زیادہ اجر دے گا اور یہاں حلیم کے لفظ کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اگر کسی مہاجر سے کچھ خطا ہو بھی گئی تو اللہ تعالیٰ اس سے مواخذہ نہیں کرے گا اور دوسرا یہ کہ جن لوگوں نے مہاجرین کو ہجرت پر مجبور کیا تھا انھیں اللہ خوب جانتا ہے۔ لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ حلیم ہے۔ لہٰذا ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ فوراً عذاب نازل نہیں کرتا۔ الحج
60 [٨٨] مظلوم کی آہ سے بچنے کاحکم خواہ کسی بھی قوم سے تعلق رکھتا ہو:۔ پچھلی دو آیات میں ان مہاجر مسلمانوں کا ذکر تھا۔ جو کفار کے ظلم و تشدد سے مجبور ہو کر گھر بار چھوڑنے پر آمادہ ہوگئے اور وہ ظلم کا بدلہ لے ہی نہ سکتے تھے۔ اب ان لوگوں کا ذکر ہے۔ جو بدلہ لینے کی طاقت رکھتے ہوں۔ انھیں یہ ہدایت کی جارہی ہے کہ اگر وہ بدلہ لینا چاہیں تو اتنا ہی بدلہ لیں جس قدر ان پر زیادتی ہوئی ہے۔ اور اگر بدلہ لینے میں زیادتی کریں گے تو یہ خود ظالم ٹھہریں گے اس صورت میں اللہ ان کی مدد کرے گا۔ جو مظلوم ہیں۔ کیونکہ اللہ ہمیشہ مظلوم کی مدد کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو جہاں اور بہت سی نصیحتیں ارشاد فرمائیں وہاں سب سے آخر میں اور بطور خاص جو نصیحت فرمائی وہ یہ تھی۔ ”وَاتَّقِ دَعْوَۃَ الْمَظْلُوْمِ فَاِنَّہُ لَیْسَ بَیْنَھَا وَبَیْنَ اللّٰہِ حِجَابٌ“(مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب الدعاء الی الشہادتین و شرائع الاسلام) یعنی مظلوم کی بددعا سے بچے رہنا کیونکہ مظلوم کی پکار اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔ اسی مضمون کو شیخ سعدی رحمہ اللہ نے بڑے خوبصورت انداز میں یوں بیان کیا ہے۔ بترس از آہ مظلوماں کہ ہنگام دعا کردن اجابت از در حق بہر استقبال می آید یعنی مظلوموں کی آہ سے ڈرتے رہنا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے اس آہ کی قبولیت خود اسے لینے کو آگے آتی ہے۔ [٨٩] زیادتی کےبرابر بدلہ لینے کاجواز یا رخصت:۔ اس آیت میں صرف زیادتی کے برابر بدلہ لینے کی اجازت دی گئی ہے اور اگر اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے تو اللہ اس بات کو قطعاً پسند نہیں کرتا اور اسے ظلم شمار کیا جائے گا۔ اس اجازت کے باوجود اگر بدلہ نہ لیا جائے تو یہی بات اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ کیونکہ وہ خود بھی معاف کرنے والا اور درگزر کرنے والا ہے۔ لہٰذا بندوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے ذاتی اور معاشرتی معاملات میں عفو و درگزر کی عادت کو اپنائیں اور ہر وقت بدلہ لینے کے درپے نہ ہوا کریں۔ الحج
61 [٩٠] کائنات میں اللہ تعالیٰ کے تصرف اور قدرت کا یہ عالم ہے کہ دن اور رات کو الٹتا پلٹتا رہتا ہے کبھی دن بڑے اور راتیں چھوٹی ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور کبھی راتیں گھٹنا اور دن بڑے ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ اب جو ہستی کائنات میں اس قدر تصرف کی قدرت رکھتی ہے کیا وہ ظالم سے بدلہ نہ لے سکے گی۔ لہٰذا جہاں تک ہوسکے ظلم اور زیادتی سے اجتناب کرو اور اس سے بہتر یہ روش ہے کہ اگر کوئی زیادتی کرے تو اسے معاف کردیا کرو۔ الحج
62 [٩١] پھر جو ہستی کائنات میں اتنا تصرف کرنے پر قدرت رکھتی ہے اور اس کے مقابلہ میں کسی دوسرے کو تصرف میں ذرہ بھر بھی دخل نہیں۔ تاہم ظاہری اور باطنی اسباب اور ان کے نتائج پر اللہ اکیلے کا کنٹرول ہے تو پھر حق بات یہی ہے کہ اپنی حاجات کے لئے اکیلے اللہ ہی کو پکارا جائے۔ کیونکہ وہی سب سے بڑی قوت ہے اور قوت والا ہے اور وہی سب سے بڑا ہے جس نے کائنات کی ایک ایک چیز کو اپنے قبضہ اختیار میں لے رکھا ہے اور جو لوگ ایسے قدرتوں والے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو پکارتے ہیں وہ غلط کار ہیں اور غلطی پر ہیں۔ کیونکہ دوسروں کے پاس کوئی قدرت و تصرف ہے ہی نہیں۔ الحج
63 [٩٢] لطیف کا لغوی مفہو م :۔ یہاں لطیف کا لفظ کا استعمال ہوا ہے اس کے مادہ ل ط ف میں بنیادی طور پر دو باتیں پائی جاتی ہیں (١) دقت نظر اور (٢) نرمی( المقائیس اللغۃ) اور لطیف کے معنوں میں کبھی تو ایک ہی معنی پایا جاتا ہے۔ جیسے اس آیت میں دقیقہ رس (یا ایک ہی معاملہ کی چھوٹی چھوٹی جزئیات پر تک نظر رکھنے والا) کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اور کبھی یہ بیک وقت دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے کہ تمام مخلوق کی چھوٹی سے چھوٹی ضروریات اور تکلیفات کا علم رکھنا پھر ان کا ازالہ بھی کرنا۔ اس صورت میں لطیف کا ترجمہ مہربان کرلیا جاتا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی قدرت تصرف کی ایک اور دلیل پیش کی گئی ہے۔ یعنی پانی اور خشک مٹی کے اجزاء باہم ملتے ہیں تو زمین کے اجزا پھول جاتے ہیں اور ان میں روئیدگی کی قوت پیدا ہوجاتی ہے۔ اب جتنے بیج اس خشک زمین میں دبے پڑے تھے یا گھاس پھوس کی جڑیں خشک ہو کر زمین میں مل گئی تھیں ان میں جان پڑجاتی ہے اور اس خشک اور مردہ بیج میں اتنی قوت پیدا ہوجاتی ہے کہ اس کی نرم و نازک کونپل زمین کی سخت سطح کو چیر پھاڑ کر زمین سے باہر نکل آتی ہے۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جب وہ سبزہ زار بن کر لہلانے لگتی ہے اور اس سارے عمل کے دوران اللہ تعالیٰ کا لطف یا دقت نظر ہی وہ چیز ہوتی ہے جس کی بنا پر ایسے مثبت نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ الحج
64 [٩٣] چونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا خالق و مالک ہے۔ لہٰذا ہر چیز اپنی ہستی اور اس کی بقاء تک کے لئے اللہ تعالیٰ کی محتاج ہوئی۔ جبکہ وہ خود کسی کا محتاج نہیں۔ تمام کائنات کے وجود سے پہلے بھی اس کی ہستی قائم و دوائم تھی اور وجود کے بعد بھی وہ اس سے بے نیاز ہے۔ لہٰذا کوئی اس کی حمد و ثنا بیان کرے یا نہ کرے اس سے اسے کچھ فرق نہیں پڑتا (البتہ حمد و ثنا بیان کرنے والے کی اپنی ذات کو ضرور فائدہ پہنچ جاتا ہے) کیونکہ وہ اپنی ذات میں خود ہی محمود ہے۔ الحج
65 [٩٤] انسان پر اللہ تعالیٰ کے چار بڑے احسانات :۔ اس آیت اور اس سے پہلی آیات میں دراصل ایسی باتوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کے بعیر انسان کا اس دنیا میں زندہ رہنا اور باقی رہنا مشکل تھا۔ اللہ کا سب سے پہلا احسان توبہ ہے کہ زمین سبزہ اگاتی ہے اور اسی سبزہ پر انسان کیا دوسرے جانوروں کی زندگی کا بھی اسی پر انحصار ہے۔ اگر زمین میں پانی کی آمیزش سے روئیدگی کی قوت پیدا نہ ہوتی تو کسی بھی جاندار کا اس زمین پر زندہ رہنا مشکل تھا اللہ کا دوسرا احسان انسان پر یہ ہے کہ اس نے زمین کی ہر چیز کو اس کے لئے مسخر کردیا ہے۔ ورنہ زمین پر بسنے والے درندے اسے چیر پھاڑ کر کھا جاتے اور اس کی ہستی کا خاتمہ کرسکتے تھے۔ پھر کئی ایسے عظیم الجثہ جانور بھی ہیں کہ انسان محض ان کا ایک نوالہ ہی بنتا ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اتنی عقل دی کہ وہ زمین کی ہر بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی چیز کو اپنے کام میں لا رہا ہے اور دوسری اشیاء کو اللہ تعالیٰ نے ایسے طبعی قوانین کا پابند بنا دیا ہے کہ انسان انھیں معلوم کرکے ہر چیز سے گونا گوں فائدے حاصل کر رہا ہے۔ انسان ان اشیاء میں جیسی بھی قطع و برید یا تصرف کرے، کوئی چیز اس کے آگے دم نہیں مار سکتی، اسی احسان کا ایک پہلو یہ ہے کہ انسان سمندری سفر کے قابل ہوگیا ہے۔ وہ سمندر جو زمین کے تین چوتھائی حصہ پر پھیلا ہوا ہے۔ جاں کوئی نشان راہ بھی نہیں ہوتا نہ ہی سمت معلوم ہوسکتی ہے اور اس کی تلاطم خیز موجیں انسان جیسی کمزور مخلوق کو آن کی آن میں فنا کرکے میلوں گہرائی تک پہنچا سکتی ہیں۔ جہاں سے کبھی اس کا سراغ تک نہ مل سکے۔ اللہ تعالیٰ نے سمندر کو طبعی قوانین کا پابند بناکر اسے بھی انسان کے تابع کردیا ہے۔ اور تیسرا احسان اللہ کا یہ ہے کہ فضائے بسیط میں لاکھوں ہمہ وقت گردش میں مصروف سیارے اپنے اپنے مدار پر چلنے کے لئے طبعی قوانین کے اس قدر پابند اور ان میں جکڑے ہوئے ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی زمین پر گر کر زمین کو پاش پاش اور انسان کو صفحہ ہستی سے مٹا نہیں سکتا۔ یہ سب اللہ کے اذن سے ہی جکڑے ہوئے ہیں۔ پھر یہ اللہ کا اذن ہی ہوگا کہ ایک وقت یہ اجرام فلکی آپس میں ٹکرا جائیں گے اور قیامت بپا ہوجائے گی۔ اور یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ ہر آفت سے محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔ الحج
66 [٩٥] انسان کو اللہ کا زندگی بخشنا ایسا احسان ہے جسے ہر شخص احسان سمجھتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا انسان کو موت دینا اس لحاظ سے احسان ہے کہ اگر آدم سے لے کر موجودہ دور تک تمام مخلوق زندہ رہتی۔ تو انسان کو زمین پر کھڑا ہونے کو بھی جگہ نہ ملتی۔ وسائل معاش اور ضروریات زندگی کا مہیا ہونا تو دور کی بات ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ ساتھ ہی ساتھ پہلوں کو موت کی نیند سلا کر آنے والوں کے لئے جگہ اور ضروریات زندگی مہیا کردیتا ہے۔ اسی طرح مرنے کے بعد زندہ کرنا پھر ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق جزا و سزا دینا بھی اللہ تعالیٰ کا انسان پر احسان عظیم ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ انسان کو اس اخروی زندگی اور اس کی تفصیلات سے بذریعہ وحی مطلع کرکے انجام سے خبردار نہ کرتا تو طاقتور اور درندہ صفت انسان کمزور انسانوں کو کچا چبا ڈالتے اور انھیں کبھی جینے کا حق نہ دیتے۔ جس کا بالآخر نتیجہ یہ ہوگا کہ دنیا میں مسلسل جنگ اور بدامنی کی وجہ سے انسان کا وجود ہی صفحہ ہستی سے ختم ہوجاتا۔ اللہ تعالیٰ کے اتنے احسانات کے باوجود انسان کی حالت یہ ہے کہ وہ نہ کسی ایسے حقائق پر غور کرتا ہے اور نہ اللہ کے ان احسانات کے لئے اس کا شکر گزار ہوتا ہے۔ الحج
67 [٩٦] منسک کا معنی اور منسک اور منھاج کا فرق:۔ منسک کا لفظ اگرچہ حج کے شعائر و احکام اور ادائیگی سے مختص ہوگیا ہے اور مناسک حج سے مراد اعمال اور ارکان حج ادا کرنے کے مقامات، قاعدے اور طریقے ہیں اور نسک اس قربانی کو کہتے ہیں جو حج کے دوران کی جاتی ہے۔ تاہم اس لفظ کے معانی میں یہ وسعت ہے کہ اس کا اطلاق تمام عبادات کے طریق کار پر ہوتا ہے اور یہ لفظ منہاج سے اخص ہے۔ منہاج کے معنی میں تمام شرعی احکام کی ادائیگی کا طریق کار شامل ہے اور یہ طریق کار بھی اللہ ہی کی طرف سے بتلایا جاتا ہے اور منسک کا اطلاق صرف عبادات کے طریقے کار پر ہوتا ہے۔ [٩٧] عبادات کا طریق کار ہر نبی اور اس کی امت کے لئے مختلف رہا ہے اور اس میں وقت کے تقاضوں کو بھی ملحوظ رکھا جاتا رہا ہے۔ اور چونکہ یہ طریق کار بھی اللہ ہی طرف سے ہوتا ہے لہٰذا کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس بارے میں آپ سے بحث یا جھگڑا کرے۔ کیونکہ اس زمانہ میں یہی طریق کار درست اور برحق ہے۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا جارہا ہے۔ الحج
68 الحج
69 الحج
70 [٩٨] یعنی مختلف انبیاء کی شریعت یا عبادات کے طریقوں میں تبدیلی اور اس کی وجوہ سب کچھ اللہ کے علم کے مطابق اور پہلے سے ہی طے شدہ ہیں اور اللہ کی کتاب میں پہلے ہی سے ثبت ہیں۔ پھر اللہ کو یہ بھی علم ہے کہ کون لوگ اس واضح سی بات پر بھی جھگڑے پیدا کرنے والے ہیں۔ اللہ کو ان سب باتوں کا پہلے سے علم ہونا، پھر ان جھگڑا کرنے والوں کے درمیان فیصلہ کرکے انھیں ان کی ہٹ دھرمی کی سزا دینا اللہ تعالیٰ کی وسعت علم اور عظیم قدرت کے مقابلہ میں بالکل ہیچ اور معمولی باتیں ہیں۔ الحج
71 [٩٩]اللہ کے دوسروں کواختیارات تفویض کرنے پر کوئی علمی دلیل نہیں :۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کسی کتاب میں کہیں بھی یہ ذکر موجود نہیں کہ اس نے فلاں فلاں ہستی کو فلاں فلاں اختیارات تفویض کر رکھے ہیں۔ لہٰذا ان کاموں میں تم ان سے رجوع کرکے ان سے اپنی حاجات طلب کرسکتے ہو۔ نہ ہی انھیں کسی علمی تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے کہ امور کائنات میں اللہ کے سوا کسی دوسرے کو بھی تصرف کا حق حاصل ہے۔ اور اس بنا پر ان کی بھی عبادت کرنا درست ہے۔ لہٰذا جو معبودان لوگوں نے بنا رکھے ہیں اور ان سے کئی صفات اور اختیارات منسوب کردیئے گئے ہیں ان کے آستانوں پر دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ نذریں، نیازیں چڑھائی جاتی ہیں بعض کے طواف اور اعتکاف تک بھی کئے جاتے ہیں ان کی حقیقت جاہلانہ توہمات کے سوا کچھ بھی نہیں۔ [١٠٠] یعنی اللہ تو اس لئے ان کی مدد نہیں کرے گا کہ ان ظالموں نے اللہ کے شریک بنا کر اور اللہ کو ناراض کرلیا اور ان کے معبود اس لیے مدد نہیں کرسکیں گے کہ ان میں اتنی قدرت ہی نہیں۔ پھر ایسے لوگوں کے ظلم اور حماقت میں کیا شک ہوسکتا ہے۔ الحج
72 [١٠١]مشرکوں اور کافروں کی توحید خالص سے چڑ اور بدکنا:۔ یعنی مشرکوں کے سامنے جب اللہ تعالیٰ کی ایسی آیات پڑھی جاتی ہیں جن میں خالص توحید کا ذکر ہوتا ہے اور یہ بتلایا جاتا ہے کہ تصرف امور کے جملہ اختیارات صرف اللہ کو ہیں اور کوئی دوسرا ان میں شریک نہیں تو ان مشرکوں کے تیور بگڑنے لگتے ہیں اور وہ یوں کبیدہ خاطر ہونے لگتے ہیں کہ کبھی ایسی آیات سنانے والے پر حملہ کردیں گے یا چپت رسید کردیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں کہئے کہ بیشک تمہیں یہ آیات ناگوار ہیں۔ لیکن اس ناگواری کا انجام اس سے بھی زیادہ ناگوار ہوگا اور وہ ہے آگ کا عذاب۔ اب تم خود ہی فیصلہ کرلو کہ ان دونوں ناگوار باتوں میں سے کون سی بات تمہیں قابل قبول ہے۔ الحج
73 [١٠٢] طالب اور مطلوب دونوں کی بے کسی اور بے بسی :۔ اللہ تعالیٰ نے اس مثال میں مکھی کا انتخاب اس لیے فرمایا کہ وہ بہت چھوٹی اور حقیر سے مخلوق ہے۔ جس سے سب لوگوں کو نفرت اور گھن آتی ہے۔ اب جو لوگ اللہ کے علاوہ کسی دوسرے سے اپنی حاجات طلب کرتے ہیں۔ انہوں نے خود اپنے آپ کو کمزور سمجھ کر ہی اپنے معبود سے حاجت طلب کی۔ لہٰذا اس کمزوری میں تو کوئی شبہ ہی نہ رہا۔ اور جس سے مراد طلب کی جارہی ہے اس کا اپنا یہ حال ہے کہ وہ ایک مکھی جیسی حقیر مخلوق بھی پیدا نہیں کرسکتا۔ بلکہ ان کے سامنے جو نذریں، نیازیں پیش کی جارہی ہیں ان پر مکھی بیٹھ کر اس کا حقیر سا حصہ اڑا لے جائے تو وہ اس سے واپس بھی نہیں لے سکتا۔ پھر یہ کسی ایک معبود کا مسئلہ نہیں سارے معبود مل کر بھی نہ ایک مکھی تک پیدا کرسکتے ہیں اور نہ ہی اس کی چھینی ہوئی چیز اس سے چھڑا سکتے ہیں۔ پھر اس سے بڑھ کر ان کی بے بسی اور کمزوری کیا ہوسکتی ہے؟ اب اگر یہ مشرک اس ایک بات پر ہی غور کرلیں تو انھیں اپنی حماقت کا پوری طرح علم ہوسکتا ہے کہ کمزوری اور بے بسی میں ان کے معبود ان سے بھی بڑھ کر ہیں۔ لہٰذا ان سے حاجات طلب کرنا نہایت احمقانہ بات ہے۔ الحج
74 [١٠٣] کائنات کی وسعت اور اس پر کنٹرول سے اللہ کی ہستی اور قدرت پردلیل :۔ یعنی انہوں نے اللہ تعالیٰ کی قدرت پر کبھی غور ہی نہیں کیا۔ جو اس پوری کائنات کو اور خود ان کو بھی عدم سے وجود میں لایا ہے۔ اور انھیں زندگی بخشی ہے اگر وہ اللہ تعالیٰ کے کسی بھی کارنامے پر غور کرتے تو کبھی اس کے اختیار و تصرف میں کمزور اور بے بس قسم کی مخلوق کو شریک بنانے کی حماقت نہ کرتے۔ مثلاً: کائنات کی وسعت کا یہ حال ہے کہ موجودہ تحقیقات کی رو سے سورج کے گرد نو سیارے گردش کر رہے ہیں جن میں تیسرے نمبر پر ہماری زمین ہے اور اس کا سورج سے فاصلہ ٩ کروڑ ٣٠ لاکھ میل ہے۔ آخری نواں سیارہ پلوٹو ہے جس کا سورج سے ٣ ارب ٦٨ کروڑ میل فاصلہ ہے جسامت کے لحاظ سے بھی ہماری زمین دوسرے سیاروں کی نسبت بالکل حقیر ہے۔ ہمارے اس نظام شمسی میں سورج ایک ستارہ یا ثابت ہے۔ کائنات میں ایسے ہزاروں ستارے یا ثابث مشاہدہ کئے جاچکے ہیں اور یہ ستارے یا سورج جسامت کے لحاظ سے ہمارے سورج سے بہت بڑے ہیں۔ ہمارے نظام شمسی سے بہت دور تقریباً ٤ کھرب کلومیٹر کے فاصلے پر ایک سورج موجود ہے جو ہمیں محض روشنی کا ایک چھوٹا سا نقطہ معلوم ہوتا ہے اس کا نام الف قنطورس (Alfa Centauris) ہے۔ ایسے ہی دوسرے سورج اس سے بھی دور ہیں اور خلا میں ہر طرف ایک دوسرے سے الگ الگ بکھرے پڑے ہیں۔ رات کے وقت وہ آسمان پر روشنی کے ننھے منے نقطوں کی شکل میں نظر آتے ہیں۔ یہ سب ستارے دراصل بہت بڑے اجسام ہیں اور ہمارے سورج کی طرح یہ بھی خود روشن ہیں۔ جسامت کے لحاظ سے سیاروں اور ستاروں کو چار قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلی قسم کو سفید بونے کہا جاتا ہے ان کی اوسط جسامت مشتری کے برابر سمجھی گئی ہے اور مشتری کی جسامت نظام شمسی کے باقی آٹھ سیاروں (جن میں ہماری زمین بھی شامل ہے) کے برابر ہے۔ ہمارا سورج دوسری قسم میں آتا ہے اور اس کی جسامت ہماری زمین سے ٣ لاکھ ٣٧ ہزار گنا زیادہ ہے گویا ہمارا اتنا بڑا سورج بھی بڑے ستاروں میں شامل نہیں ہے۔ تیسری قسم کے ستاروں کو دیو (Gaints) اور چوتھی قسم کے ستاروں کو شاہ دیو (Super giants) کہا جاتا ہے۔ ایسے ستاروں کے مقابلہ میں ہمارا سورج ایسے ہی ہے جیسے سورج کے مقابلہ میں ہماری زمین ہے۔ ایسے ہی ایک ستارے کا نام قلب عقرب (Antarres) ہے۔ اگر اسے اٹھا کر نظام شمسی میں رکھا جائے تو سورج سے لے کر مریخ تک تمام علاقہ اس میں پوری طرح سما جائے گا۔ جبکہ مریخ کا سورج سے فاصلہ ١٤ کروڑ ١٥ لاکھ میل ہے۔ گویا قلب عقرب کا قطر ٢٨ کروڑ ٣٠ لاکھ میل کے لگ بھگ ہے۔ مزید برآں کائنات میں لاتعداد مجمع النجوم اور کہکشائیں ہیئت دانوں کو ورطہ حیرت میں ڈال کر ان کے علم کو ہر آن چیلنج کر رہی ہیں پھر اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جوں جوں ہیئت دان مزید طاقتور اور جدید قسم کی دوربینیں استعمال کر رہے ہیں، توں توں اس بات کا بھی انکشاف ہو رہا ہے کہ کائنات میں مزید وسعت پیدا ہورہی ہے۔ سیاروں کے درمیانی فاصلے بھی بڑھ رہے ہیں اور نئے نئے اجرام بھی مشاہدہ میں آرہے ہیں۔ اب اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہماری زمین سورج کے گرد چھیاسٹھ ہزار چھ سو میل فی گھنٹہ کی برق رفتاری سے گردش کر رہی ہے۔ اسی طرح کائنات میں تمام سیارے کم و بیش اسی برق رفتاری سے محو گردش ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے انھیں اسی طرح جکڑا ہوا ہے۔ کہ نہ وہ آپس میں ٹکراتے ہیں نہ ان کی چال میں فرق آتا ہے اور نہ ہی اپنے مدار سے ایک انچ بھی ادھرادھر ہوسکتے ہیں۔ اور جوں جوں انسان اللہ تعالیٰ کی ان قدرتوں میں غور کرتا ہے تو اس کی عظمت و جلال کا سکہ اس کے دل پر نقش ہوتا جاتا ہے۔ اب ایک طرف تو اس قدر عظمت و جلال اور قوت و قدرت والی اللہ تعالیٰ کی ہستی ہے اور دوسری طرف اس کے ساتھ ایسے معبودوں اور حاجت رواؤں کو شریک کیا جارہا ہے۔ جو ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے بلکہ ایسے بے بس ہیں کہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو اسے مکھی سے چھڑانے کی قدرت بھی نہیں رکھتے۔ غور فرمائیے کیا ان دونوں کی قدرت میں کوئی نسبت قائم کی جاسکتی ہے؟ اور حقیقت یہ ہے کہ جو دوسروں کو اللہ کے شریک بناتے ہیں تو اس کی وجہ محض یہ ہے کہ انہوں نے کسی بھی معاملہ میں اللہ تعالیٰ کی قدرتوں پر کبھی غور نہیں کیا۔ نہ ہی اللہ تعالیٰ کی قدرت کو پہچاننے کی کبھی کوشش کی ہے ورنہ وہ کبھی ایسی حماقت نہ کرتے۔ الحج
75 [١٠٤] یعنی اللہ پیغام رسانی کے لئے فرشتوں میں سے اور آدمیوں سے بھی انتخاب خود اپنی حکمت اور صوابدید کے مطابق کرتا ہے۔ فرشتوں میں سے حضرت جبریل یا وہ فرشتے جو حضرت زکریا، حضرت مریم، حضرت ابراہیم اور حضرت لوط علیہم السلام کے پاس پیغام رساں بن کر آئے تھے اور لوگوں میں سے تمام انبیاء و رسل اللہ ہی کا پیغام لوگوں کو پہنچاتے رہے ہیں اور احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ جس طرح لوگوں میں سے پیغمبر سب سے افضل ہوتے ہیں۔ اسی طرح پیغام رساں فرشتے بھی دوسرے فرشتوں سے افضل ہیں۔ اس آیت میں دراصل کافروں کے ایک اعتراض کا جواب دیا گیا ہے وہ کہتے تھے کہ اگر اللہ کو کوئی رسول بھیجنا ہی تھا تو وہ مکہ اور طائف کی بڑی بستیوں میں سے کسی بڑے آدمی کا انتخاب کرتا۔ اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا کہ یہ بات بھی اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ لوگوں میں سے رسالت کا اہل کون ہے اور اس معاملہ میں کسی کو اعتراض کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ الحج
76 [١٠٥]سفارش پر پابندیاں :۔ ﴿ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ ﴾ یہ جملہ قرآن کریم میں چار مقامات سورۃ بقرۃ آیت ٢٥٥ (آیۃ الکرسی) سورۃ طہ، آیت نمبر ١١٠، سورۃ انبیاء، آیت نمبر ٢٨، اور یہاں سورۃ حج کی آیت نمبر ٧٦ میں استعمال ہوا ہے۔ اور ہر مقام پر اس جملہ سے پہلے یا آخر میں سفارش اور معبودان باطل کا ذکر ہے۔ اس جملہ میں سفارش پر پابندیوں کی وجہ بیان کی گئی ہے۔ سفارش پر پابندیاں یہ ہیں۔ (١) کوئی شخص اللہ کے اذن کے بغیر سفارش نہ کرسکے گا (٢) سفارش اسی کے حق میں کی جاسکے گی جس کے حق میں اللہ چاہے گا اور (٣) صرف اس جرم یا خطا کے لئے جاسکے گی جس اللہ کو معاف کرنا منظور ہوگا۔ اب سب پابندیوں کو ملانے سے منطقی نتیجہ یہی حاصل ہوتا ہے کہ سفارش پر ہرگز تکیہ نہ کر بیٹھنا چاہئے۔ اور اس جملہ میں سفارش پر تکیہ نہ کرنے کی وجہ یہ بیان کی جارہی ہے کہ مثلاً ایک بااثر شخص کسی افسر سے مل کر کہتا ہے کہ حضور! آپ کا فلاں ملازم جس جرم میں ماخوذ ہے اسے معاف کردیں۔ یہ میرا خاص آدمی ہے۔ اور افسر اسے یہ جواب دیتا ہے کہ تمہاری نظر تو صرف اس کے حالیہ جرم پر ہے۔ لیکن اس کا سابقہ ریکارڈ بھی بہت گندا ہے۔ لہٰذا اب مجھے اس کا موجودہ جرم بھی معاف کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ جس پر سفارش کرنے والا لاجواب اور بے بس ہوجاتا ہے۔ بالکل یہی صورت حال اللہ کے حضور سفارش کی ہے۔ اللہ تو ہر انسان کے پورے ریکارڈ سے واقف ہے اور یہی اس جملہ کا مطلب ہے لیکن سفارش کرنے والے کو اس کی پوری ہسٹری شیٹ کا علم ہو ہی نہیں سکتا جس کی وہ سفارش کرنا چاہتا ہے اسی لئے سفارش پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے ہی پابندیاں عائد کردی گئی ہیں۔ [١٠٦] اگرچہ یہ جملہ عام ہے اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے سپرد ہے۔ مگر یہاں ربط مضمون کے لحاظ سے اس کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ جن معبودوں یا بزرگوں کی سفارش پر تکیہ کیا جاتا ہے یا لوگوں کو جھوٹے دعوے دیئے جاتے ہیں یا لوگ خود ہی خود فریبی میں مبتلا ہوچکے ہیں ان کے یہ محض توہمات ہیں جو لغو اور باطل ہیں۔ ہر شخص کا انجام وہی کچھ ہوگا جو اللہ کو منظور ہوگا۔ الحج
77 [١٠٧] اس آیت کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ یہ خطاب انفرادی طور پر ہو۔ اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اخروی نجات اور کامیابی کے لئے تین کاموں کا سرانجام دینا نہایت ضروری ہے۔ نماز کی درست طور پر ادائیگی۔ خالصتاً اللہ تعالیٰ کی عبادت جس میں شرک کی آمیزش نہ ہو۔ اور نیک اعمال کی بجا آوری اور یہ خطاب مجموعی طور پر بحیثیت امت سمجھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جس قوم میں یہ صفات موجود ہوں ان کی اخروی کامیابی تو یقینی ہے ہی، ان کی دنیا میں بھی کامیابی کی توقع کی جاسکتی ہے۔ سورہ حج کی فضیلت:۔سورہ حج کے فضیلت یہ ہے کہ اس میں دو سجدے آئے ہیں ﴿لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ﴾ بھی مقام سجدہ تلاوت ہے۔ اس سورۃ کا پہلا سجدہ تو متفق علیہ ہے۔ لیکن یہ دوسرا سجدہ اختلافی ہے سجدہ کے قائلین کی دلیل یہ ہے۔ یہاں ایمان لانے والوں کو سجدہ کا حکم دیا گیا ہے۔ اور دوسرے گروہ کی دلیل یہ ہے کہ یہاں رکوع اور سجدہ کا اکٹھا حکم آیا ہے۔ اور جہاں یہ دونوں الفاظ اکٹھے آئیں تو اس سے مراد پوری نماز لی جاتی ہے کیونکہ یہ دونوں نماز کے ہی جزء اشرف ہیں اور جزء اشرف بول کر اسے کل مراد لینا اہل عرب کا عام دستور ہے۔ بلکہ بعض دفعہ قرآن میں صرف رکوع یا صرف سجود کے لفظ سے بھی پوری نماز مراد لی گئی ہے۔ اس سلسلہ میں قائلین کا موقف ہی راجح معلوم ہوتا ہے کیونکہ بعض روایات بھی ان کی تائید کرتی ہیں اگرچہ وہ روایات اتنی قوی نہیں ہیں۔ الحج
78 [١٠٨] جہاد کی اقسام :۔ جہاد کرنے کا حق یہ ہے کہ دامے، درمے، سخنے ہر طرح سے جہاد کیا جائے۔ جہاد دراصل ہر اس بھرپور کوشش کا نام ہے جو امت دین کے لئے اور اس کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے کی جائے۔ اس کا پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان اپنے نفس سے جہاد کرے اور اسے مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اس کے دین کے تابع بنا دے۔ اس کا دوسرا درجہ اپنے اہل و عیال اور گھر بار کو پوری کوشش کے ساتھ اس راہ پر ڈالنا ہے۔ پھر اس کے بعد رشتہ داروں کی باری آتی ہے پھر عام لوگوں کی۔ جہاد کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جہاں موقع اور ضرورت ہو انسان زبان سے لوگوں کو اس راہ کی طرف دعوت دے اسلام کی تبلیغ اشاعت کرے۔ اور جہاں موقع اور ضرورت ہو تو صاحب قلم، قلم سے جہاد کریں۔ اسلام کی تعلیم کی اشاعت کرکے لوگوں میں پھیلائیں۔ اور اسلام کے مخالفوں کے اعتراضات کے مدلل جواب دیں۔ اور اس کا آخری درجہ یہ ہے کہ بوقت ضرورت جہاد بالسیف سے بھی دریغ نہ کریں۔ خواہ اس میں جان اور مال کی قربانی دینی پڑے۔ اور اس کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کے کلمہ کو سربلند کرنا ہو۔ اور یہ ساری اور ہر قسم کی کوششیں جہاد ہی کے ضمن میں آتی ہیں۔ اور ایک مومن کے ایمان کا تقاضا ہیں جس قدر کسی کا ایمان مضبوط ہوگا اس قدر وہ جہاد میں سرگرم عمل رہے گا۔ اس کا ایمان خود اسے ایسی کوششوں کی ترغیب دیتا رہے گا۔ [١٠٩] دین میں تنگی نہیں کمزور اور مجبورلوگوں کا لحاظ:۔ یعنی اسلام نے مسلمانوں پر جو فرائض عائد کئے ہیں ان میں ہر قسم کے لوگوں کی مجبوریوں کو بھی ملحوظ رکھا ہے اور سختی نہیں کی۔ مثلاً بوڑھوں، بچوں، عورتوں، اندھوں اور معذوروں کو جہاد بالسیف سے سبکدوش کیا گیا ہے۔ مسافروں کی نماز میں تخفیف کردی گئی ہے۔ مریضوں کو نماز بیٹھ کر اور زیادہ بیماری میں لیٹ کر، حتیٰ کہ اشارہ سے پڑھنے کی رخصت دی گئی ہے۔ پانی نہ ملنے پر تیمم کی اجازت ہے۔ اور ایسی مثالیں بے شمار ہیں اور اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ سابقہ شریعتوں میں جو سخت احکام تھے انھیں دور کرکے آسان کردیا گیا ہے اور اس کی مثالیں کسی دوسرے مقام پر گزر چکی ہیں۔ اور اس کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ رسم و رواج کی پابندیوں اور بعض بزرگان دین کی خود ساختہ عائد کردہ پابندیوں کو ساقط الاعتبار قرار دیا گیا ہے اور اس کی کچھ تفصیل سورۃ اعراف کی آیت نمبر ١٥٧ کے تحت گزر چکی ہے اور اس سے متعلق احادیث سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ١٥٨ کے تحت درج کردی گئی ہیں۔ [١١٠]دین کے معاملہ میں سیدنا ابراہیم کا خصوصی ذکر کیوں ؟ تمام انبیاء و رسل کا دین ایک ہی رہا ہے اور یہاں بالخصوص جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین کا نام لیا، دین موسوی یا عیسوی وغیرہ کا نام نہیں لیا، تو اس کی چند وجوہ ہیں۔ جو یہ ہیں : ١۔ آپ کو یہودی، عیسائی، مسلمان حتیٰ کہ صابی بھی اپنا پیشوا تسلیم کرتے ہیں اور آپ سب کے ہاں یکساں محترم ہیں۔ ٢۔ اہل عرب میں سے اکثر قبائل آپ کی ہی اولاد تھے اور آپ ان کے جداعلیٰ ہیں۔ ٣۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام مسلمانوں کے روحانی باپ ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جدامجد تھے۔ لہٰذا حضرت ابراہیم علیہ السلام تمام مسلمانوں کے باپ ہوئے۔ واضح رہے کہ دین کے بجائے ملت کا لفظ آیا ہے۔ اور یہ دونوں مترادف الفاظ ہیں۔ اور دونوں میں فرق یہ ہے کہ دین صرف ان احکام و فرامین کا نام ہے جو کتاب و سنت یا کسی الہامی کتاب میں مذکور ہوتے ہیں۔ انہی احکام و فرامین کو جب عملی شکل دے کر رائج کردیا جائے تو ایسے نظام کا نام ملت ہے۔ یعنی دین کی عملی شکل جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پیش فرمائی تھی وہی اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے لہٰذا ہمیں انہی کی ملت کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔ [١١١] مسلم کے لغوی معنی ہیں اللہ کے احکام کے سامنے سرتسلیم ختم کردینے والا۔ اس لحاظ سے ہر نبی پر ایمان لانے والی قوم مسلم ہی تھی۔ ابراہیمی یا نوحی، یا موسوی، یا عیسوی، وغیرہ ناموں سے وہ لوگ نہیں پکارے جاتے تھے۔ اور نہ ہی اللہ تعالیٰ نے ان کے یہ نام رکھے تھے۔ ان کے یہ نام ان کے خود ساختہ تھے یا دوسروں کے تجویز کردہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا نام بھی مسلمان ہی رکھا تھا اور تمہارا نام بھی مسلمان ہی ہے۔ [١١٢] اس آیت کی تشریح کے لئے دیکھئے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ١٤ کا حاشیہ [١١٣] یعنی تمہیں ہر قسم کے احکام و قوانین خواہ یہ درون خانہ سے تعلق رکھتے ہوں یا تمہاری معیشت و معاش سے یا معاشرت و تمدن سے یا داخلی و خارجی پالیسی سے اللہ کے دین سے لینے چاہئیں اور انہی پر پوری طرح عمل پیرا ہونا چاہئے۔ لہٰذا تم اپنے نام کی لاج رکھو اور جس ہدایت عامہ کے لئے تمہیں پیدا کیا گیا ہے اس کی تکمیل کے لئے سب سے پہلے اپنے آپ کو نمونہ بناؤ۔ بدنی اور مالی عبادات میں بھی کوتاہی نہ ہونے پائے۔ ہر کام میں شریعت سے روشنی حاصل کرو اور جادہ حق سے ادھر ادھر نہ جاؤ۔ اس کے فضل اور رحمت پر اعتماد رکھو اور تمام کمزور سہارے چھوڑ دو۔ صرف اللہ کو ہی اپنا مالک اور مولیٰ سمجھو۔ اس سے بہتر مالک اور مددگار تمہیں اور کون مل سکتا ہے؟ الحج
0 المؤمنون
1 [١]افلح کامفہوم :۔ افلح (مادہ۔۔ ف ل ح) میں تین باتیں بنیادی طور پر پائی جاتی ہیں (١) پھاڑنا (٢) کامیابی اور (٣) بقا (مقائیس اللغۃ) اور فلاح بمعنی کسان جو بیج بونے کے لئے زمین کو پھاڑتا، فصل پکنے پر کامیابی سے ہمکنار ہوتا اور اس سے فائدہ اٹھانے پر اپنی مراد پاتا ہے۔ گویا افلح کے معنی ایسا کامیاب ہونا ہے جو کسی کے اپنے عمل اور محنت کے نتیجہ میں ہو۔ کامیابی کےلیے مومنوں کی چھ صفات :۔ یہ سورت بالاتفاق مکی ہے اور اس دور میں نازل ہوئی جب مسلمانوں کے کامیاب ہونے کا تصور بھی محال تھا اور ان پر عرصہ حیات ہی تنگ کردیا گیا تھا اور اگر اسلام لانے سے پہلے کسی مسلمان کا کوئی کاروبار یا شغل تھا بھی تو اسلام لانے کے بعد وہ ختم ہوچکا تھا۔ دوسری طرف قریش مکہ تھے جن کے ہاں مال و دولت کی ریل پیل تھی۔ تجارت ان کے ہاتھ میں تھی اور صاحب اختیار و اقتدار تھے۔ کعبہ کے متولی ہونے کی بناء پر تمام قبائل عرب ان کی عزت بھی کرتے تے اور ان سے ڈرتے بھی تھے۔ ان حالات میں ایمانداروں کی کامیابی کا اعلان جہاں مسلمانوں کے لئے ایک بشارت تھی وہاں اس سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ ایک دنیا دار انسان کے نزدیک کامیابی کا جو تصور اور معیار ہے وہ تصور ہی سرے سے غلط ہے۔ دنیوی اور اخروی کامیابی کے لئے جن صفات کا ہونا لازمی ہے۔ وہ وہی چھ صفات ہیں جن کا آئندہ آیات میں ذکر ہو رہا ہے۔ المؤمنون
2 [٢] نماز میں خشوع کا مقام اور اثرات:۔ خَشَعَ کے معنی ایسی عاجزی ہے جو دل میں ڈر اور ہیبت طاری ہونے کی وجہ سے ہو۔ پھر اس ڈر اور عاجزی کے اثرات اعضا و جوارح ہے پر بھی ظاہر ہونے لگیں۔ آنکھیں مرعوب ہو کر جھک جائیں اور آواز پست ہوجائے چنانچہ ایسے مقامات پر بھی قرآن نے یہی لفظ استعمال فرمایا ہے، پھر اسی خشوع کا یہ تقاضا ہوتا ہے کہ انسان نماز میں باادب کھڑا ہو۔ ادھر ادھر نہ دیکھے، نہ اپنے کپڑوں کو سنوارتا رہے نہ اپنی داڑھی وغیرہ سے کھیلتا رہے۔ اور نہ دل میں نماز پر توجہ کے علاوہ دوسرے خیالات آنے دے۔ اور خیالات آنے بھی لگیں تو فوراً ادھر سے توجہ ہٹا کر یہ سوچنے لگے کہ وہ نماز میں اپنے مالک کے سامنے دست بستہ کھڑا ہے اور اس بات پر توجہ دے کہ وہ زبان سے کیا کہہ رہا ہے۔ خشوع اگرچہ اجزائے صلوٰۃ کے لئے شرط نہیں تاہم حسن قبول کے لئے لازمی شرط ہے۔ المؤمنون
3 [٣]لغو کامفہوم:۔ لغو سے مراد فضول اور بیکار مشغلے اور کھیل بھی ہوسکتے ہیں۔ یعنی وہ لوگ اگر تفریح طبع کے لئے یا جسمانی کسرت کے طور پر کوئی کھیل کھیلتے ہیں تو ایسے کھیل نہیں کھیلتے جن میں محض وقت کا ضیاع ہو بلکہ ایسے کھیل کھیلتے ہیں جن سے کوئی دینی فائدہ بھی حاصل ہوتا ہو۔ جیسے جہاد کی غرض سے تیراکی، نیزہ بازی، تیراندازی، اور نشانہ بازی وغیرہ۔ اور لغو سے مراد بیہودہ اور فضول باتیں بھی ہوسکتی ہیں۔ جیسے فضل گپیں، غیبت، بکواس، تمسخر، فحش گفتگو اور فحش قسم کے گانے وغیرہ۔ ان باتوں سے وہ صرف خود ہی پرہیز نہیں کرتے بلکہ جہاں ایسی سوسائٹی ہو وہاں سے وہ اٹھ کر چلے جاتے ہیں اور ان کے ساتھ رہنا قطعاً گوارا نہیں کرتے۔ المؤمنون
4 [٤] زکوٰۃ کا لغوی مفہوم :۔ زکوٰۃ (زکی۔ زکو) کے معنی بالیدگی، نشوونما پانا، بڑھنا اور عمدہ ہونا ہے اور زکی کے معنی کسی چیز کو عمدہ بنانا، اس کی اصلاح کرنا اور آگے بڑھانا ہے۔ اور تزکیہ نفس کے معنی نفس کو روحانی آلائشوں، بیماریوں یا اخلاق رذیلہ سے پاک صاف کرکے اوصاف حمیدہ پیدا کرنا ہے جیسے ارشاد باری ہے۔ ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰہَا ﴾ یعنی جس نے اپنے نفس کو پاکیزہ بنا لیا وہ کامیاب ہوگیا۔ اور زکوٰۃ کے مفہوم میں یہ سب باتیں شامل ہیں اور زکوٰۃ سے جو دو فائدے زکوٰۃ ادا کرنے والے کو پہنچتے ہیں وہ ہیں تطہیر مال اور تزکیہ نفس (٩: ١٠٣) اور زکوٰۃ سے جو فائدہ معاشرہ کو پہنچتا ہے وہ یہ ہے کہ اس سے غریبوں اور محتاجوں کی امداد ہوتی ہے۔ طبقاتی تقسیم کم ہوجاتی ہے۔ کیونکہ زکوٰۃ کی ادائیگی سے دولت کا بہاؤ امیر سے غریب کی طرف ہوجاتا ہے۔ اور فاعِلُوْنَ سے مراد یہ ہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی ان کی مستقل اور پختہ عادت بن چکی ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ جب جی چاہے ادا کردیں اور جب نہ چاہے تو نہ کریں۔ زکوٰۃ اور اس کے فوائد:۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ زکوٰۃ تو مدینہ میں فرض ہوئی تھی۔ پھر اس مکی سورۃ میں فاعِلُوْنَ کیا معنی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ زکوٰۃ کا نصاب محل زکوٰۃ اشیاء اور شرح زکوٰۃ کا تعین یہ سب کچھ فی الواقع مدینہ میں ہوا تھا۔ مگر اس کی مشروعیت مکہ میں ہوچکی تھی۔ چنانچہ اکثر مکی سورتوں میں بھی زکوٰۃ و صدقات کا ذکر پایا جاتا ہے۔ المؤمنون
5 [٥] اس آیت کے بھی دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اپنے مقامات ستر کو ڈھانپ کر رکھتے ہیں اور کسی کے سامنے کھولتے نہیں نہ عریاں لباس پہنتے ہیں کہ بدن کے اعضا نظر آتے رہیں اور دوسرا یہ کہ وہ اپنی عفت و عصمت کی پوری پوری نگہداشت کرتے ہیں۔ المؤمنون
6 [٦]ترک نکاح اور رہبانیت کا رد:۔ یعنی مسلمانوں کے لئے اپنے شہوانی جذبات اور خواہشات کی تکمیل کی دو ہی صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اپنی خواہش اپنی بیویوں سے پوری کریں اور دوسری یہ کہ اپنی مملوک کنیزوں سے پوری کرسکتے ہیں۔ مملوک لونڈیوں کے لئے نکاح کی شرط نہیں اور اس سے تمتع کے جواز کی بنیاد نکاح نہیں بلکہ ملک ہے۔ اس آیت سے مزید دو امور کا پتہ چلتا ہے۔ ایک یہ کہ راہب سنیاسی یا بعض صوفی قسم کے لوگ شہوانی خواہش کی تکمیل کو برا سمجھتے ہیں۔ حتیٰ کہ نکاح کو ان کی خود ساختہ ولایت کے معیار کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے کہ نکاح کے بعد انسان خانہ داری اور اولاد کے جھنجھٹوں میں پڑجاتا ہے۔ اور یہ چیز رہبانیت کی ریاضت کے حصول میں آڑے آتی ہے۔ اس آیت میں ان لوگوں کے نظریہ کا پورا پورا رد موجود ہے۔ نیز دور نبوی میں صحابہ کرام میں بھی کچھ رہبانیت کا رحجان چل نکلا تھا۔ چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تین آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویوں کے گھر آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے متعلق پوچھنے لگے۔ جب انھیں بتلایا گیا تو اسے انہوں نے کم سمجھا اور کہنے لگے کہ کہاں ہم اور ہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جن کے پہلے اور پچھلے سب گناہ معاف کئے جاچکے ہیں۔ پھر ان میں سے ایک نے کہا: میں ہمیشہ ساری رات نماز میں گزارا کروں گا‘‘ دوسرے نے کہا : ’’میں ہمیشہ روزہ رکھا کروں گا اور تیسرے نے کہا میں ہمیشہ عورتوں سے کنارہ کش رہوں گا اور کبھی نکاح نہ کروں گا‘‘ اتنے میں آپ تشریف لے آئے اور ان لوگوں سے پوچھا : ’’کیا تم ہی وہ لوگ ہو جنہوں نے ایسی اور ایسی باتیں کی ہیں؟ اللہ کی قسم! میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور پرہیزگار ہوں۔ اس کے باوجود میں روزہ رکھتا بھی ہوں اور چھوڑتا بھی ہوں۔ رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتاہوں۔ تو جو کوئی میری سنت کو ناپسند کرے اس کا مجھ سے کوئی واسطہ نہیں‘‘ (بخاری۔ کتاب النکاح۔ باب الترغیب فی النکاح) عورت کا اپنےغلام سے تمتع کی ممانعت:۔ اور دوسری یہ بات کہ مرد کے لئے تو اس کی مملوکہ کنیز سے تمتع جائز ہے۔ لیکن عورت اپنے مملوک غلام سے تمتع نہیں کرسکتی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک عورت نے اپنے غلام سے تمتع کرلیا۔ پھر دلیل میں یہ آیت پیش کی۔ آپ نے صحابہ کی مجلس شوریٰ میں یہ معاملہ پیش کیا تو سب نے بالاتفاق کہا کہ تَاَوَّلْتُ کِتَاب اللّٰہِ تَعَالٰی خَیْرُ تَاوِیْلِہ (یعنی اس عورت نے اللہ کی کتاب کا غلط مفہوم اخذ کیا ہے) اور عورت کے لئے اس چیز کو حرام کرنے کی حکمت یہ ہے کہ غلام اپنی مالکہ کی خواہش شہوانی تو پوری کرسکتا ہے۔ لیکن اس کا قوام نہیں بن سکتا۔ لہٰذا ایسی عورت کے لئے بہتر یہی ہے کہ اگر وہ چاہے تو اسے آزاد کرکے اس سے نکاح کرلے۔ المؤمنون
7 [٧] شہوانی خواہش کی تین ممکنہ صورتیں اور راہ اعتدال:۔ شہوانی خواہشات کے سلسلہ میں تین ہی صورتیں ممکن تھیں۔ ایک یہ کہ انسان ایسی خواہشات کو کلیتاً ترک کردے۔ دوسری یہ کہ ان خواہشات کی تکمیل میں انسان کلیتاً آزاد ہو اور تیسری یہ کہ کوئی معتدل روش اختیار کی جائے۔ اسلام نے ان میں سے معتدل روش کو اختیار کیا ہے۔ جائز نکاح اور ملک یمین کےعلاوہ باقی سب صورتیں حرام ہیں :۔ یعنی ان خواہشات کی تکمیل کا راستہ کھول تو دیا۔ لیکن صرف جائز نکاح یا ملک یمین کی صورت میں۔ باقی دونوں انتہا پسندانہ عورتوں کو ناجائز اور حرام قرار دیا ہے۔ نہ رہبانیت کی ترک خواہش کو پسند فرمایا اور نہ اس سلسلہ میں شتر بے مہار قسم کی آزادی کو۔ اس آیت میں اسی بے لگام آزادی کو ممنوع قرار دیا گیا ہے اور اس میں زنا، لواطت یا لونڈے بازی، عورتوں کی ہم جنسی، جلق یا مشت زنی غرضیکہ شہوت رانی کی جتنی بھی صورت مندرجہ بالا دو صورتوں کے علاوہ ممکن ہیں سب ناجائز قرار پاتی ہیں۔ واضح ہے کہ جائز نکاح سے مراد ایسا نکاح ہے جو عورت کو بسانے کے لئے کیا جائے۔ عورت کی رضا کو مقدم سمجھا جائے۔ عورت کا نکاح اس کا ولی کرے، نکاح کا اعلان ہو اور کم از کم دو گواہ موجود ہوں اور حق مہر مقرر کیا جائے۔ ان شرائط کو پوری نہ کرنے والا نکاح مثلاً نکاح متعہ، نکاح حلالہ یا نکاح شعار جائز نہیں۔ دور نبوی میں اور بھی کئی قسم کے نکاح رائج تھے۔ جو یہ شرائط پوری نہیں کرتے تھے۔ لہٰذا وہ از خود باطل قرار پاگئے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جاہلیت کے زمانہ میں لوگ چار طرح پر نکاح کیا کرتے تھے۔ ایک تو وہی معروف نکاح ہے۔ جیسے آج کل بھی لوگ کرتے ہیں یعنی کوئی شخص کسی دوسرے کو نکاح کے لئے کہتا اور وہ اپنی کسی رشتہ دار عورت (مثلاً بہن، بھتیجی، بھانجی وغیرہ) یا بیٹی کا مہر ٹھہرا کر نکاح کردیتا۔ (اسی قسم کے نکاح کو اسلام نے بحال رکھا ہے) دوسری صورت یہ تھی کہ جب کسی کی بیوی حیض سے پاک ہوجاتی تو شوہر اپنی بیوی سے کہتا کہ تو فلاں شخص کو اپنےپاس بلا لے اور اس سے لپٹ جا۔ (یعنی اس سے ہمبستری کر) جب عورت اس مرد سے صحبت کر چکتی تو اس کا خاوند اس سے اس وقت تک علیحدہ رہتا جب تک کہ اس غیر مرد کا حمل نمایاں نہ ہوجاتا۔ اور جب حمل واضح ہوجاتا تو اس کے اس کے خاوند اگر چاہتا تو اس سے صحبت کرتا۔ اور شوہر اپنی بیوی سے یہ کام اس لئے کرتا تھا کہ بچہ شریف اور عمدہ پیدا ہو (تاکہ وہ شوہر کی ناموری کا باعث ہو) ایسے نکاح کو نکاح استبضاع کہا کرتے تھے۔ نکاح کی تیسری صورت یہ تھی کہ ایک عورت کے شوہر کئی مرد ہوتے تھے لیکن یہ دس سے کم ہی ہوتے تھے۔ اور وہ سب اس عورت سے صحبت کیا کرتے۔ پھر جب اسے حمل قرار پا جاتا تو وہ وضع حمل کے چند دن بعد ان سب شوہروں کو بلا بھیجتی اور اس کی دعوت پر ان سب کو آنا پڑتا تھا۔ جب وہ اس کے ہاں اکٹھے ہوجاتے تو وہ ان سے کہتی۔ جو کچھ تم کرتے رہے وہ تمہیں معلوم ہے۔ اب میرے ہاں جو بچہ پیدا ہوا ہے یہ تم سے فلاں کا بچہ ہے۔ اس معاملہ میں اس عورت کو پورا اختیار ہوتا کہ جس کا وہ چاہتی نام لے لیتی اور وہ بچہ اسی کا ہوجاتا اور کسی کو اس کے فیصلہ سے انکار کی مجال نہ ہوتی۔ (کیونکہ قومی رسم ہی یہی تھی) اور چوتھی صورت یہ تھی کہ کسی عورت کے پاس بہت سے آدمی آتے جاتے رہتے اور وہ ہر ایک سے صحبت کرا لیتی کسی سے بھی انکار نہ کرتی اور وہ کنجریاں تھیں جن کے دروازے پر پہچان کے لئے جھنڈا لگا دیتے۔ اب جس شخص کا جی چاہتا وہ اس سے صحبت کرسکتا تھا پھر جب اسے حمل ٹھہر جاتا اور بچہ جنتی تو اس کے ہاں جانے والے سب مرد اس عورت کے ہاں اکٹھے ہوجاتے اور کسی قیافہ شناس کو اپنے پاس بلاتے۔ قیافہ شناس علم قیافہ کی رو سے جس مرد کو اس بچہ کا باپ بتاتا وہ بچہ اسی کا بیٹا ہوجاتا وہاں کا باپ کہلاتا۔ اور قیافہ شناس کے فیصلہ سے کسی کو انکار کی مجال نہ ہوتی۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیغمبر بناکر بھیجا تو آپ نے جاہلیت کے سب نکاح موقوف کردیئے۔ بس ایک ہی قسم کا نکاح باقی رکھا جو آج کل لوگ کرتے ہیں۔ (بخاری۔ کتاب النکاح۔ باب من قال لانکاح الا بولی۔۔) المؤمنون
8 [٨] امانتوں سے مراد ہر وہ امانت ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یا معاشرہ کی طرف سے یا کسی فرد کی طرف سے کسی شخص کے سپرد کی گئی ہو۔ خواہ یہ امانت منصوبوں سے تعلق رکھتی ہو یا اقوال سے یا اموال سے ان سب کی پوری پوری نگہداشت ضروری ہے۔ یہی صورت مال، عہد اور معاہدات کی ہے۔ خواہ کوئی عہد اللہ تعالیٰ سے کیا گیا ہو اور اللہ تعالیٰ نے بندوں سے لیا ہو۔ خواہ یہ آپس کا قول و قرار ہو اور خواہ یہ معاہدہ بیع یا نکاح سے متفق ہو۔ ان کو وفا کرنا ضروری ہے۔ امانت میں خیانت اور وعدہ خلافی دونوں ایسے جرم ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منافق کی علامتیں قرار دیا ہے جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے : ١۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ جب بات کرے تو جھوٹ بولے اور وعدہ کرے تو اس کا خلاف کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھیں تو خیانت کرے۔ (بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب علامۃ المنافق) ٢۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس میں چار خصلتیں ہوں وہ پکا منافق ہے اور جس میں ان چاروں میں سے کوئی ایک خصلت ہوگی اس میں نفاق کی ایک خصلت ہوگی جب تک اسے چھوڑ نہ دے جب اس کے پاس امانت رکھیں تو خیانت کرے اور جب بات کرے تو جھوٹ بولے اور جب عہد کرے تو بے وفائی کرے۔ اور جب جھگڑا کرے تو بکواس یا ناحق کی طرف چلے‘‘ (بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب علامۃ المنافق) اب دیکھئے پہلی حدیث میں صرف تین علامتیں مذکور ہیں جن میں دو یہی ہیں جو اس آیت میں مذکور ہیں اور دوسری میں جو چار علامتیں مذکور ہیں ان میں سے دو یہی باتیں ہیں۔ المؤمنون
9 [٩] ایمان لاکر کامیاب ہونے کی صفات کی ابتداء بھی نماز سے کی گئی اور اختتام بھی نماز پر ہوا۔ اس سے نماز کی دوسرے خصائل پر اہمیت اور فضیلت معلوم ہوئی۔ پہلی آیت میں نماز میں خشوع کا ذکر تھا۔ اور اس آخری آیت میں سب نمازوں کی حفاظت کا ذکر ہے۔ حفاظت سے مراد نمازوں کو مقررہ اوقات پر بروقت ادا کرنا اور ہمیشہ ادا کرنا۔ تسلی سے نماز ادا کرنا اور اس کے پورے ارکان بجا لانا یعنی جسم کا، کپڑوں کا اور جگہ کا پاک ہونا پھر وضو اور طہارت پوری طرح کرنا وغیرہ وغیرہ سب کچھ شامل ہے۔ المؤمنون
10 المؤمنون
11 [١٠]جنت کا سب سے اعلیٰ مقام جنت الفردوس:۔ فردوس بمعنی سرسبز وادی (منجد) اور بمعنی رودبار میں واقع باغ جس میں ہر قسم کے پھل اور پھول موجود ہوں (منتہی الارب) گویا جنت الفردوس سے مراد جنت کا وہ حصہ ہے جس میں گھنی اور ٹھندی چھاؤں والے سرسبز درخت بکثرت ہوں۔ پھولوں کی خوشبو سے معطر ہو اور اس میں ہر قسم کے پھل باافراط ہوں۔ اور جنت الفردوس جنت کا سب سے بلند طبقہ اور عین وسط میں ہوگا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ربیع بنت نضر کا بیٹا حارثہ بن سراقہ بدر کے دن ایک غیبی تیر سے شہید ہوگیا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر کہنے لگیں: مجھے حارثہ کا حال بتلائیے اگر وہ خیر کو پہنچا تو میں ثواب کی امید رکھوں اور صبر کرںو اور اگر نہیں پہنچا تو میں اس کے لئے دعا کرتا رہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”ام حارثہ! جنت میں بہت سے باغ ہیں اور تیرا بیٹا تو فردوس بریں میں داخل ہوا ہے جو جنت کے وسط میں بلند زمین اور سبے بلند مقام ہے‘‘ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) اسی جنت کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو یہ دعا سکھلائی : اَللّٰھُمَّ اِنِیْ اَسْئَلُکَ الْجَنَّۃَ الْفِرْدُوْسَ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اللہ سے سوال کرو تو جنت الفردوس کا سوال کیا کرو۔ (نیز جنت کی وراثت کے سلسلہ میں سورۃ اعراف آیت نمبر ٤٣ کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیے) مندرجہ بالا آیات کے نزول کے وقت مسلمانوں کی جو حالت تھی اور ان آیات کے نزول پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے حق میں جو دعا فرمائی۔ مندرجہ ذیل حدیث سے اس حالت کا پورا نقشہ سامنے آجاتا ہے : حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کے آس پاس شہد کی مکھی کی گنگناہٹ جیسی آواز آنے لگتی تھی۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی تو تھوڑی ہی دیر بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کی طرف منہ کرکے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کی : ’’اے اللہ ! ہمیں زیادہ کر، تھوڑے نہ رہنے دے، ہمیں عزت عطا فرما، ذلیل نہ رہنے دے ہمیں عطا کر اور محروم نہ رکھ، ہمیں دوسروں پر مقدم کر، دوسروں کو ہم پر مقدم نہ رکھ، ہمیں خوش کردے اور ہم سے خوش ہوجا!‘‘ اس دعا کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : مجھ پر دس آیات نازل ہوئی ہیں جو ان پر عمل کرے گا، جنت میں داخل ہوگا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ﴿قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ سے لے کر دس آیات پڑھیں۔ (ترمذی۔ کتاب التفسیر) المؤمنون
12 [١١] انسان کی پیدائش اور مٹی کے جوہر کا مفہوم :۔ سلاَلَۃٌ بمعنی خلاصہ، نچوڑ، ست، جوہر، کسی بھی چیز سے نکالا ہوا کارآمد حصہ (مفردات القرآن) اور انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کرنے کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ حضرت آدم علیہ السلام کا پتلا مٹی سے بنایا گیا۔ پہلے یہ خشک مٹی تھی۔ پھر اس میں پانی ملایا گیا تو یہ گارا بن گیا۔ پھر اس کا خمیر اٹھایا گیا جس میں بدبو پیدا ہوگئی۔ پھر اسے گوندھ کر اس کا چپکدار اور لیس دار حصہ لیا گیا اور اسے خشک کرلیا گیا۔ پھر اسے حرارت پہنچائی گئی حتیٰ کہ وہ ٹن کی طرح بجنے لگا۔ جبکہ مٹی کے برتن اور ان کی مختلف شکلیں بنائیں اور آگ میں پکائی جاتی ہیں۔ اور ان میں مٹی کا صرف چپکدار اور کارآمد حصہ ہی استعمال ہوتا ہے۔ اسی مٹی سے آدم علیہ السلام کا پتلا تیار ہوا جس میں اللہ نے اپنی روح سے پھونکا تو جیتا جاگتا انسان وجود میں آگیا۔ پھر آئندہ آدم کی نسل توالد و تناسل اور نطفہ سے چلی۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے نطفہ بذات خود انسان کے جسم میں انھیں غذاؤں سے بنتا ہے جو زمین سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے نطفہ بھی بالآخر زمین ہی کا جوہر ہے۔ المؤمنون
13 [١٢] یعنی رحم مادر ایسا محفوظ مقام ہے جہاں نطفہ کو نشوونما کے لئے مناسب حرارت تو ملتی رہتی ہے لیکن شدید گرمی یا سردی وغیرہ کے اثرات سے بالکل محفوظ ہوتا ہے اور وہ وہاں سے ہل بھی نہیں سکتا۔ المؤمنون
14 [١٣] رحم مادر میں نطفہ کی نشوونما کے دوران جو مراحل پیش ہوتے ہیں۔ ان کی تشریح سورۃ حج کی آیت نمبر ٥ کے تحت کی جاچکی ہے۔ [١٤] انسان کی اندرونی کائنات:۔ یعنی نطفہ اور بے جان گوشت کے لوتھڑے سے ایک جیتا جاگتا عقل و شعور رکھنے والا انسان بنا کر پیدا کردیا۔ جس کا ایک ایک عضو اور رگ و ریشہ کئی مقاصد کی تکمیل کر رہا ہے اور اس کا کوئی بھی حصہ بیکار پیدا نہیں کیا گیا۔ اب انسان کی اندرونی ساخت پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کئی قسم کی آٹو میٹک کلوں اور مشینوں کا مجموعہ ہے کہیں چکی لگی ہے، کہیں چھلنی ہے، کہیں پیسنے کی کل، کہیں کوٹنے کی، کہیں توڑنے کی کہیں جذب کرنے والی کہیں فضلات کو باہر پھینکنے والی، کہیں اچھالنے والی اور کہیں اتارنے والی اور یہ خودکار مشینیں اس قدر مضبوط، مربوط اور منظم طریقے سے کام کر رہی ہیں جن کا مطالعہ کرکے انسان اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور حکمتوں پر عش عش بھی کر اٹھتا ہے اور ورطہ حیرت میں گم بھی ہوجاتا ہے۔ معدہ خالی ہوجائے تو از خود انسان کو بھوک اور پیاس لگتی ہے اور وہ کھانے پینے پر مجبور ہوتا ہے۔ اور جب غذا معدہ میں پہنچ جاتی ہے تو یہ سب خود کار مشینیں اپنا اپنا کام شروع کردیتی ہیں۔ اگر ان میں سے کسی کل میں خرابی واقع ہوجائے تو انسان بیمار پڑجاتا ہے اور اگر خرابی درست نہ ہو بلکہ بڑھ جائے تو انسان مرجاتا ہے۔ یہ تو تھا جسم کی اندرونی ساخت کا قصہ، اب اس کے قویٰ پر نظر دوڑائیے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس میں زندگی کی ابتدائی خصوصیات کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا نہ سماعت، نہ بصارت، نہ گویائی، نہ چلنے یا بیٹھنے کی طاقت، نہ عقل و خرد، نہ کوئی اور خوبی۔ مگر وہ رحم مادر سے باہر آکر کوئی اور ہی چیز بننا شروع ہوجاتا ہے۔ جس کو پیٹ والے جنین سے کوئی مناسبت نہیں ہوتی۔ تھوڑی ہی مدت میں وہ ایک سمیع و بصیر اور ناطق بچہ بن جاتا ہے۔ انسان کا اور ہی چیز بن جانےکامطلب:۔ اب وہ کچھ علم ماحول سے حاصل کرتا ہے اور کچھ اپنے ذاتی تجربہ اور مشاہدہ سے۔ ذرا اس میں عقل آتی ہے تو اس میں دوسروں سے مسابقت یا آگے نکل جانے کا فن پیدا ہوتا ہے۔ اس کی یہ بیداری اور خودی اسے ہر اس چیز پر اپنا تحکم جتانے اور اپنا زور منوانے کی کوشش کرتی ہے۔ جس پر اس کا بس چل سکتا ہو اور اس کی یہی بیداری اور خودی اس میں ''کوئی اور ہی چیز'' ہونے کی کیفیت کو نمایاں تر اور افزوں تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ پھر وہ جوان اور پختہ عمر کا ہوتا ہے تو اس کی تمام قوتیں، طاقت اور قابلیتیں بھی بڑھتی جاتی ہیں اور ایک وقت آتا ہے جب اس میں ''ہمچو ما دیگرے نیست'' کا تصور پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ بسا اوقات بعض انسان ایسے محیرالعقول کارنامے بھی سرانجام دیتے ہیں جو عام انسانوں کی بساط سے باہر ہوتے ہیں۔ [١٥] اب اگر انسان ذرا سا بھی غور کرے کہ کس طرح ایک حقیر پانی کی بوند سے اس کی زندگی کا آغاز ہوا۔ اور مختلف مراحل طے کرانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسے کیا سے کیا بنا دیا۔ تو بے اختیار اس کی زبان سے یہ الفاظ نکل آتے ہیں کہ ﴿فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات مقدس کس قدر خیرو خوبی والی اور حکمتوں اور قدرتوں والی ہے جس نے انسانی تخلیق کا آغاز مٹی سے یا نطفہ سے کیا پھر مختلف مراحل طے کراکر محیرالعقول طریقوں سے اسے ایک باشعور اور صاحب ادارہ و اختیار انسان بنا دیا۔ واضح رہے کہ تبارک کا لفظ عموماً اللہ تعالیٰ سے مخصوص ہے اور ان خیر کے کاموں کے سلسلہ میں آتا ہے جو صرف اللہ تعالیٰ سے مختص ہیں۔ المؤمنون
15 [١٦] یعنی تمہارا اس دنیا میں آنا بھی تمہارے اپنے اختیار سے نہ تھا بلکہ اللہ کے حکم کے مطابق تھا اور اب اگر تم دنیا میں رہنا چاہو اور مرنے سے بچنے کی کوشش کرو تو یہ بات بھی ناممکن ہے۔ کیونکہ اللہ کا قانون یہی ہے کہ تمہیں موت آکے رہے گی اور یہاں سے تمہاری اخروی زندگی کا آغاز ہوجائے گا۔ جیسا کہ نطفہ سے تمہاری دنیوی زندگی کا آغاز ہوا تھا۔ بالفاظ دیگر موت دنیوی زندگی اور اخروی زندگی کی سرحد پر واقع ہے۔ المؤمنون
16 [١٧]موت سے اخروی زندگی کا آغازکیسے؟ یعنی جس طرح نطفہ سے انسان بننے میں تمہارا اپنا کچھ بھی اختیار نہ تھا۔ اور اللہ نے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے تمہیں مختلف مراحل طے کرا کر تمہیں پیدا بھی کیا اور ایک محیرالعقول تخلیق بھی بنا دیا۔ اسی طرح موت کے بعد اسی جسم کے خلاصہ سے مختلف مراحل طے کرا کر تمہیں دوبارہ اسی طرح زندہ پیدا کر دے گا۔ جس طرح پہلی بار کیا تھا۔ چنانچہ سورۃ انشقاق میں اللہ تعالیٰ نے کئی قسمیں کھانے کے بعد فرمایا : ﴿لَتَرْکَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ ﴾ یعنی یہ مراحل تمہیں بہرحال طے کرنا ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلی تخلیق کے مراحل کا تو ذکر کئی مقامات پر فرما دیا لیکن اس لئے وہ انسان کے مشاہدہ میں آتے رہتے ہیں اور دوسری زندگی کے مراحل کا ذکر اس لئے نہیں فرمایا کہ نہ تو وہ انسان کے مشاہدہ میں آسکتے ہیں اور نہ ہی انسان کی عقل ان مراحل کو سمجھ سکتی ہے۔ المؤمنون
17 [١٨] سابقہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے وہ دلیل بیان فرمائی جو انفس سے تعلق رکھتی ہے اور جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ ﴿فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ ﴾ اب آفاق سے چند دلائل پیش کئے جارہے ہیں۔ کائنات کی تخلیق اور اس کی نگہداشت :۔ سبع طرائق سے بعض علماء نے سات آسمان یا سات طبقات مراد لئے ہیں۔ جیسے ارشاد باری ہے : ﴿اَلَمْ تَرَوْا کَیْفَ خَلَقَ اللّٰہُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا....﴾اور بعض نے ان سے مراد سات راستے ہی لئے ہیں۔ جو فرشتوں کی آسمانوں میں آمدورفت کے راستے ہیں۔ اور آسمان چونکہ سات ہیں۔ اس لئے یہ راستے بھی سات ہیں۔ اور بعض علماء نے ان سے سات سیاروں کے راستے یا مدار مراد لئے ہیں۔ چونکہ نزول قرآن کے زمانہ میں بطلیموسی نظریہ ہیئت بھی درست سمجھا جاتا تھا اور اس نظریہ کے مطابق سات سیارے ہی محو گردش ہیں اور وہ چاند، زہرہ، عطارد، سورج، مشتری، مریخ اور زحل۔ لہٰذا قرآن نے لوگوں کے علم اور سمجھ کے مطابق سات ہی راستوں کا ذکر فرمایا۔ اگرچہ اس سے زیادہ بھی ہوسکتے ہیں۔ اور فَوْقَکُمْ یعنی تمہارے اوپر کے ایک معنی تو وہی ہیں جو عام فہم ہیں اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ آسمانوں کی یا سیاروں اور ان کے مداروں کی تخلیق تمہاری تخلیق سے بہت بلند تر اور بڑی چیز ہے۔ اور اس مطلب کی بھی تائید قرآن کریم کی اس آیت سے ہوجاتی ہے۔ ﴿ لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ ﴾ [١٩] یعنی ہم اپنی مخلوق کو پیدا کرنے کے بعد اس کی مستقل نگہداشت بھی کرتے رہتے ہیں کیونکہ جس چیز سے بھی کام لیا جائے وہ کسی نہ کسی وقت بگڑ بھی جاتی ہے اس کی چال اور اس کے کام میں فرق آجاتا ہے اور اگر بروقت اس کی نگہداشت نہ کی جائے تو وہ خراب اور تباہ بھی ہوجاتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات کا نظام اتنا مربوط و منظم ہے کہ اس میں نہ ذرہ بھر فرق آتا ہے اور نہ کہیں ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے۔ جو اس کی بات کی قوی دلیل ہے کہ اس کائنات کا کوئی ایسا منتظم موجود ہے جو اپنی اس عظیم الجثہ مخلوق کی ہمہ وقت کڑی نگہداشت کر رہا ہے۔ المؤمنون
18 [٢٠] پانی کی کل مقدار جو اللہ نے آسمان سے اتاری :۔سوال یہ ہے کہ یہ ایک خاص مقدار میں پانی اللہ تعالیٰ نے کب اتارا تھا ؟ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے زمین پیدا کی تو اس وقت ہی ایک خاص اور کثیر مقدار میں پانی اتار دیا تھا۔ اتنا کثیر مقدار میں جو قیامت تک زمین پر پیدا ہونے والی مخلوق، خواہ وہ کسی نوع سے تعلق رکھتی ہو، کی ضروریات کے لئے کافی ہو۔ اس کثیر مقدار کے ایک کثیر حصہ نے زمین کی تین چوتھائی سطح کو سمندروں کی شکل میں تبدیل کر رکھا ہے۔ پھر اس کثیر مقدار کا کثیر حصہ زمین کی سطح کے نیچے چلا گیا جیسے زمین کے نیچے بھی پانی کے دریا بہہ رہے ہیں اور سطح زمین کا کثیر حصہ ایسا ہے کہ جہاں سے کھودیں نیچے سے پانی نکل آتا ہے۔ جو انسان نکال کر اپنے استعمال میں لاتا ہے اور کبھی زمین سے از خود چشمے ابل پڑتے ہیں۔ پھر اپنی مخلوق کی ضروریات کی تکمیل کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم فرمایا کہ سورج کی گرمی سے سمندر سے آبی بخارات اوپر اٹھتے ہیں۔ جو کسی سرد طبقہ میں پہنچ کر بادلوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور مزید سردی سے زمین پر برسنے لگتے ہیں۔ اس بارش کے پانی سے زمین کی تمام نباتات سیراب ہوتی ہے۔ جاندار بھی اپنی ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔ پھر اس بارش کا کچھ حصہ پانی میں جذب ہوجاتا ہے اور باقی حصہ ندی نالوں اور دریاؤں کی شکل میں پھر سمندروں میں جاگر تا ہے۔ اور جو پانی مخلوق استعمال کرتی ہے وہ بھی بالآخر یا تو پانی کی شکل میں زمین میں چلا جاتا ہے یا بخارات بن کر ہوا میں مل جاتا ہے۔ ان تصریحات سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پانی کی جتنی مقدار زمین پر نازل فرمائی تھی۔ اس مقدار میں نہ کچھ اضافہ ہوا ہے اور نہ ہی کمی واقع ہوئی ہے۔ البتہ اس طریقہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی ضروریات کی تکمیل کا ایک مستقل اور دائمی انتظام مہیا فرما دیا ہے۔ نیچریت اور دہریت کارد:اس سلسلہ میں حیران کن امر یہ ہے کہ پانی بذات خود ایک مرکب چیز ہے جو دو حصے ہائیڈروجن گیس اور ایک حصہ آکسیجن سے مل کر بنتا ہے (H2O) ہائیڈروجن گیس ایک آتش گیر اور فوراً بھڑک اٹھنے والی گیس ہے اور آکسیجن وہ گیس ہے۔ جو جلانے میں مدد دیتی ہے۔ گویا ان آتشیں خاصیت والے مادوں سے اللہ تعالیٰ نے وہ چیز پیدا کی جو آگ کو بجھا دیتی ہے اور پھر اسی کو کیمیاوی عمل کے ذریعہ پھاڑ کر انھیں گیسوں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اور دوسری حیران کن بات یہ ہے کہ ہائیڈروجن گیس اور آکسیجن گیس آج بھی وافر مقدار میں فضا میں موجود ہے اگر وہ از خود زمین کی پیدائش کے وقت مل کر پانی بن گئیں تھیں تو آج بھی مل کر پانی کی مقدار میں اضافہ کیوں نہیں کردیتیں؟ نیچری اور دہریہ حضرات کے لئے یہ ایک بہت اہم لمحہ فکریہ ہے۔ ہمارے پاس تو اس کا واضح جواب موجود ہے کہ جتنا پانی بنانا اللہ کو منظور اور اس کے اندازہ کے موافق تھا اتنا بن گیا۔ ان گیسوں میں از خود یہ قدرت نہیں ہے کہ مل کر پانی بن جائیں۔ اور اس جملہ کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اپنی مخلوق کی ضروریات کے مطابق آسمان سے بوقت ضرورت پانی برساتے ہیں۔ نہ اتنا زیادہ کہ مخلوق ڈوب کر مرجائے اور نہ اتنا کم کہ مخلوق قحط میں مبتلا ہو کر مر جائے۔ الا یہ کہ وہ عذاب الٰہی ہی کی شکل ہو۔ [٢١] یعنی پانی کے زمین دوز ذخیروں کو اتنی گہرائی تک لے جائیں کہ اسے نکالنا انسانوں کی بساط سے باہر ہوجائے۔ یا ان ذخیروں کو کڑوا کسیلا بنا دیں جو قابل استعمال ہی نہ رہیں۔ المؤمنون
19 [٢٢] صرف یہی نہیں کہ ان باتوں سے تمہیں بہت سے پھل وغیرہ کھانے کو ملتے ہیں۔ بلکہ یہ باغ تمہارے لئے ذریعہ آمدنی اور ذریعہ معاش بھی ہیں۔ المؤمنون
20 [٢٣] زیتون کادرخت اور اس کے فوائد :۔ اس درخت سے مراد زیتون کا درخت ہے۔ شام و فلسطین اس درخت کا اصلی وطن ہے۔ اور طور سینا کا ذکر اس لئے کیا گیا کہ یہ اس علاقہ کا مشہور مقام ہے۔ اس درخت کی عمر، اس کا قد و قامت اور پھیلاؤ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ جیسے ہمارے ہاں برگد کا درخت ہوتا ہے۔ جس کے زیادہ پھیلاؤ کی وجہ سے اس کی کئی شاخیں واپس زمین تک آکر اس کا سہارا بنتی ہیں۔ زیتون کے درخت سے تیل وافر مقدار میں حاصل ہوتا ہے۔ یہیں سے یہ تیل دنیا کے اکثر مقامات پر جاتا ہے۔ طبی لحاظ سے یہ تیل بہت مفید چیز ہے۔ اور بہت سے لوگ اس کے پھل کا اچار ڈالتے ہیں۔ اس کے تیل کو سالن کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں۔ اور سالن میں گھی کی جگہ بھی استعمال کرتے ہیں اس کی عام افادیت کے پیش نظر ہی اللہ تعالیٰ نے سورۃ”التین“ میں زیتون کی قسم بھی کھائی ہے۔ المؤمنون
21 [٢٤]دودھ کیسے اور کب بنتاہے ؟ چوپایوں میں عبرت یا حیران کن بات یہ ہے کہ گھاس پھوس کھانے والے اور چرنے والے مویشی (ماداؤں) کے جسم میں جب غذا جاتی ہے تو اس سے خون اور فضلہ یا گوبر کے علاوہ ایک تیسری چیز بھی بنتی ہے۔ جو اوصاف میں ان دونوں چیزوں سے یکسر مختلف ہوتی ہے۔ خون اور گوبر دونوں نجس اور حرام چیزیں ہیں۔ جبکہ دودھ نہایت پاکیزہ، حلال، طیب، انتہائی سفید رنگ، مزہ میں شیریں اور پینے میں خوشگوار ہوتا ہے اور مکمل غذا کا کام دیتا ہے۔ اس سے بھوک بھی دور ہوجاتی ہے اور پیاس بھی۔ اس میں اللہ تعالیٰ کا محیرالعقول کارنامہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ماداؤں کے جسم میں ایسی مشینری فٹ کردی ہے جو گھاس پھوس سی چیز کو ایک نہایت اعلیٰ اور قیمتی چیز میں تبدیل کردیتی ہے اور اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ مشینری صرف اس وقت حرکت میں آتی ہے۔ جب حمل قرار پا جائے اور اس کا نتیجہ فوری طور پر نہیں نکلتا۔ بلکہ بچہ کے وضع ہونے کے وقت تک یہ مشینری خود کو دودھ میں تبدیل کردینے کے قابل بن جاتی ہے ادھر بچہ پیدا ہوتا ہے تو ادھر ماں کے پستان دودھ سے بھر جاتے ہیں اور بچہ پیدا ہوتے ہی جب ماں کے پستانوں کی طرف لپکتا ہے تو اسے فوراً یہ قدرتی غذا مہیا ہوجاتی ہے جبکہ وہ کوئی اور غذا کھانے کے قابل ہی نہیں ہوتا۔ اور اگر ماں کو حمل قرار نہ پائے تو اس بات کے باوجود کہ دودھ بنانے والی یہی گوشت پوست اور رگ ریشہ پر مشتمل یہ مشینری اس کے اندر موجود ہے۔ کبھی اپنا کام نہ کرے گا اور نہ دودھ بنے گا نہ پستانوں میں اترے گا۔ [٢٥] مویشیوں کے فوائد:۔مویشیوں کی ایک ایک چیز انسان کے کام کی چیز ہے۔ ان کی کھال، ان کے بال، ان کی ہڈیاں، غرضیکہ ہر چیز سے انسان فائدہ اٹھاتا ہے۔ زندہ ہوں تو ان پر سواری بھی کرتا ہے اور یہ کھیتی باڑی اور باربرداری کے کام بھی آتے ہیں۔ پھر ان کا گوشت انسان بطور خوراک بھی استعمال کرتا ہے اور دودھ جو ان سے حاصل ہوتا ہے وہ ان سب فوائد سے بڑھ کر ہے۔ المؤمنون
22 المؤمنون
23 [٢٦] حضرت نوح علیہ السلام کے واقعات پہلے سورۃ اعراف حاشیہ نمبر ٦١ تا ٦٤، سورۃ یونس حاشیہ نمبر ٨٤، اور سورۃ ہود حاشیہ نمبر ٣٤ تا ٥٣ میں گزر چکے ہیں۔ وہ بھی پیش نظر رکھے جائیں۔ المؤمنون
24 [٢٧]رسول کابشر ہونا کیوں ضروری ہے:۔ تمام انبیاء اور رسل ہمیشہ بشر ہی ہوتے تھے۔ اور انسانوں کے لئے رسول ہونا بھی کوئی بشر ہی چاہئے جو انہی میں سے ہو تاکہ جب وہ انھیں اپنی زبان میں اللہ کا پیغام پہنچائیں تو وہ اسے سمجھ سکیں۔ نیز رسول کا کام صرف اللہ کا پیغام پہنچانا ہی نہیں ہوتا۔ ان احکام پر سب سے پہلے خود عمل پیرا ہو کر عملی نمونہ دکھلانا بھی ہوتا ہے۔ اب اگر رسول انسان کی بجائے فرشتہ ہو یا نوری مخلوق ہو یا کسی اور اعلیٰ جنس سے ہو۔ تو اس پر ایمان لانے والے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم لوگ انسان ہو کر ایک فرشتہ یا کسی بالاتر جنس والی ہستی کی اقتداء کیسے کرسکتے ہیں۔ یہی وہ مصلحتیں ہیں جن کی بنا پر رسول کا بشر ہونا ضروری ہے اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کسی بشر ہی کو نبی اور رسول بنا کر مبعوث فرمایا اور قرآن کریم میں ان باتوں کی بہت سے مقامات پر وضاحت موجود ہے۔ اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کئی بار اپنی بشریت کا اقرار کرایا ہے۔ حتیٰ کہ اس حقیقت کو اس کلمہ کا لازمی جز بنا دیا جس کے اقرار پر کوئی شخص اسلام میں داخل ہوتا ہے۔ نوروبشرکی بحث :۔ لیکن گمراہ لوگوں کی گمراہیوں میں سے ایک یہ گمراہی بھی بطور قدر مشترک رہی ہے۔ بشریت اور رسالت دونوں صفات اکٹھی نہیں ہوسکتیں انبیاء کی تکذیب کرنے والوں نے سب سے پہلے بطور طعنہ انبیاء سے یہی بات کہی کہ تم تو ہم جیسے بشر ہو تم رسول بن کیسے سکتے ہو؟ یہ ایک طرح کی گمراہی تھی اور دوسری طرح کی گمراہی انبیاء کے عقیدت مندوں میں پیدا ہوتی ہے۔ جو غلو کی راہ اختیار کرکے دوسری انتہاء کو پہنچتے ہیں۔ ان کا نظریہ بھی یہی ہوتا ہے کہ نبوت یا رسالت اور بشیریت ایک ہی شخص میں جمع نہیں ہوسکتیں۔ فرق یہ پڑجاتا ہے کہ وہ رسالت کا تو اقرار کرتے ہیں مگر بشریت سے انکار کردیتے ہیں۔ دور کیوں جائیے ہم مسلمانوں میں ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بشر کہنے والوں کو’’ گستاخانہ رسول‘‘ کا طعنہ دیتا ہے۔ چنانچہ ان کا یہ فرمان زد نعرہ ’’بشر عرش توں پار جا کوئی نہیں سکدا‘‘ ان کے اسی نظریہ کی ترجمانی کرتا ہے یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر کے بجائے نور ثابت کرتے ہیں اور بشریت سے انکار کرتے ہیں اور یہ بحث پہلے سورۃ مائدہ کی آیت نمبر ١٥ کے حاشیہ نمبر ٤٢ کے تحت گزر چکی ہے۔ [٢٨] دنیا داروں کا ہمیشہ سے یہ نظریہ رہا ہے کہ جو شخص بھی کوئی اصلاحی دعوت کے کام کا آغاز کرتا ہے تو انھیں فوراً یہ خیال آتا ہے کہ یہ شخص اپنی چودھراہٹ قائم کرنے اور اپنا جھنڈا بلند کرنے کے لئے یہ کام کر رہا ہے۔ اور وہ اپنے اس نظریہ میں اس حد تک حق بجانب بھی ہوتے ہیں کہ وہ خود چونکہ اسی غرض کے لئے اپنی زندگیاں اور اپنی تمام تر کوششیں کھپا دیتے ہیں۔ لہٰذا وہ ہر شخص کو اسی نظریہ سے دیکھتے ہیں قوم نوح نے نوح علیہ السلام کو یہ طعنہ دیا۔ فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہی بات کہی کہ ’’موسیٰ اس ملک پر قابض ہونا چاہتا ہے‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم نے آپ کے متعلق یہی نظریہ قائم کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اگر تم مال و دولت چاہتے تو جتنا چاہو حاضر ہے۔ اقتدار چاہتے ہو تو ہم تمہیں اپنا قائد تسلیم کرلیتے ہیں اور کسی حسین عورت سے شادی کرنا چاہتے ہو تو یہ کام بھی ہم کئے دیتے ہیں۔ بشرطیکہ ہماری مخالفت اور ہمارے معبودوں سے باز آجاؤ اور ہم سے سمجھوتہ کر لو۔ انبیاء اور دوسرے لوگوں کےحصول اقتدار میں فرق:۔ پھر یہ بات بھی واضح ہے کہ انبیاء کو بھی بالآخر اللہ کی مدد سے اقتدار حاصل ہوجاتا ہے۔ مگر ان دونوں کے اقتدار کے حصول میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ ایک دنیا دار کا مقصود ہی اقتدار کا حصول ہوتا ہے۔ جبکہ ایک نبی کا اصل مقصود احکام الٰہیہ کا نفاذ ہوتا ہے اور اس کے لئے وہ اقتدار کو محض ایک ذریعہ بناتا ہے۔ اس فرق کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک آدمی قتل ناحق کرتا ہے تو یہ سراسر فساد ہے اور ایک جج اس قاتل کو قصاص میں قتل کی سزا دیتا ہے تو یہ سراسر عدل اور رحمت اور فساد کی روک تھام ہے۔ جبکہ نفس قتل کے لحاظ دونوں واقعات ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ [٢٩] یعنی یہ بات کہ ’’رسول بشر ہی ہوتا ہے‘‘ یا یہ کہ ایک اکیلا اللہ ہی ساری کائنات کی فرمانروائی اور حاجت روائی کے لئے بہت کافی ہے اور دوسرے سب معبود لغو اور باطل ہیں۔ المؤمنون
25 [٣٠] قوم نوح کی نظروں میں حضرت نوح علیہ السلام کی دیوانگی یہ تھی کہ ساری قوم کے نظریہ کے خلاف خالص توحید کی طرف دعوت دے رہے تھے۔ اور وہ یہی سمجھ رہے تھے کہ یہ نوح علیہ السلام کا (نعوذ باللہ) ایک بیہودہ سا خیال ہے۔ بھلا ساری قوم کے مقابلہ میں اس اکیلے کی پکار کی کیا حقیقت ہے۔ لہٰذا اس کی طرف توجہ کی چنداں ضرورت نہیں۔ وہ خود ہی جب اپنی ناکامی دیکھے گا تو اپنی ایسی باتوں سے باز آجائے گا۔ المؤمنون
26 [٣١] حضرت نوح علیہ السلام کا زمانہ تبلیغ غالباً تمام انبیاء سے زیادہ ہے جو قرآن کی صراحت کے مطابق ساڑھے نو سو سال ہے۔ اس طویل عرصہ میں آپ اپنی قوم سے ناروا باتیں اور طعنے وغیرہ سنتے اور برداشت کرتے رہے۔ اتنی طویل مدت میں بہت ہی کم لوگ ایمان لائے۔ دوسروں کا کیا ذکر آپ کی بیوی اور ایک بیٹا بھی آپ کے مقابلہ میں کافروں کا ساتھ دے رہے تھے۔ حضرت نوح علیہ السلام کو یہ یقین ہوگیا کہ اب جو کافر موجود ہیں وہ اس قدر ضدی اور ہٹ دھرم واقع ہوئے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی دعوت حق کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہوگا۔ بس یہ لوگ صرف حضرت نوح علیہ السلام کی اذیت اور ذہنی کوفت کا باعث بن رہے تھے۔ جب ان کافروں نے آپ کو اذیت دینے میں انتہا کردی تو اس وقت آپ نے دعا کی کہ یا اللہ ! یہ قوم مجھ پر غالب آگئی ہے اب تو ہی میری مدد فرما اور ان سے اس ظلم کا بدلہ لے جو انہوں نے اتنی طویل مدت مجھ پر ڈھایا ہے۔ المؤمنون
27 المؤمنون
28 [٣٢] یہ واقعات اور ان کی تفصیل سورۃ ہود کے حواشی نمبر ٣٤ سے ٥٣ تک تفصیل سے گزر چکے ہیں۔ لہٰذا ان کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ [٣٣] یعنی یہ قوم اتنی بدبخت تھی جس کی غرقابی پر حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور بجائے افسوس کے خوشی کا اظہار کیا۔ یہ قوم فی الواقعہ ''خس کم جہاں پاک'' کا مصداق تھی۔ جبکہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی دعا میں واضح طور پر یہ الفاظ کہے تھے کہ : یا اللہ ! اس قوم میں سے ایک گھرانہ بھی زندہ نہ رہنے دے کیونکہ ان کے ہاں جو بچے پیدا ہوں گے وہ بھی فاسق و فاجر ہی پیدا ہوں گے اور کبھی حق کو قبول نہ کریں گے۔ (٧١: ٢٦، ٢٧) المؤمنون
29 [٣٤] یہ بھی اس دعا کا حصہ ہے جو خود اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو کشتی میں سوار ہوتے وقت سکھلائی تھی۔ اس دعاء میں ﴿اَنْتَ خَیْرُ الْمُنْزِلْیْنَ﴾کا ایک معنی تو ترجمہ سے واضح ہے اور اس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ ’’تو بہت اچھا مہمان نواز ہے یا بہت اچھا میزبان ہے‘‘ جیسا کہ یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے فرمایا تھا:’’کیا تم دیکھتے نہیں کہ میں ناپ میں بھی پورا دیتا ہوں اور مہمان نواز بھی بہت اچھا ہوں‘‘(١٢: ٥٩) مطلب یہ کہ مجھے بابرکت جگہ پر کشتی سے اتارنا اور اترنے کے بعد ہمیں وافر رزق بھی مہیا فرمانا۔ المؤمنون
30 [٣٥] یعنی حضرت نوح علیہ السلام کے قصہ میں کئی ایسی باتیں ہیں جن سے ایک غور کرنے والا انسان سبق حاصل کرسکتا ہے۔ اور جب ہم کوئی نبی بھیجتے ہیں تو اس وقت قوم کا امتحان شروع ہوجاتا ہے۔ نبی اور اس کے پیروکاروں کا بھی کہ وہ کس حد تک صبر و ثبات سے کام لیتے ہیں اور جھٹلانے والوں کا بھی کہ وہ کس حد تک سرکشی اختیار کرتے ہیں۔ پھر جو اس امتحان میں کامیاب ہوں انھیں انعامات سے نوازتے بھی ہیں اور ان کی مدد بھی کرتے ہیں اور معاندین کو قرار واقعی سزا بھی دیتے ہیں۔ پھر یہ بھی دیکھتے ہیں کہ بعد میں آنے والی قوم میں سے کون ان نشانیوں کو سن کر عبرت و نصیحت حاصل کرتا ہے اور کون نہیں کرتا ؟ المؤمنون
31 المؤمنون
32 [٣٦] یہ اور نسل یا اور قوم عاد یا عاد اولیٰ تھی۔ جیسا کہ قرآن کریم کے بعض دوسرے مقامات میں حضرت نوح علیہ السلام کے بعد اسی قوم کا ذکر ہوا ہے۔ اور ان کی طرف حضرت ہودعلیہ السلام کو بھیجا گیا تھا۔ [٣٧] یعنی اللہ کے ساتھ دوسرے شریک بنانے کے برے انجام سے تمہیں خطرہ پیدا نہیں ہوتا کہ کہیں ہم پر قہر الٰہی نازل نہ ہوجائے۔ المؤمنون
33 [٣٨] انبیاء کی دعوت کی زد چونکہ چودھری قسم کے لوگوں پر ہی پڑتی ہے اور انھیں اپنی سرداریاں خطرہ میں پڑتی نظر آتی ہیں۔ اس لئے انبیاء کے اولین مخالف یہی لوگ ہوتے ہیں۔ اور عام لوگوں میں چونکہ انھیں کا اثر و رسوخ ہوتا ہے۔ لہٰذا انبیاء کی دعوت کے مقابلہ میں انھیں عوام سے سرکھپانا پڑتا ہے۔ تاکہ وہ انبیاء کی دعوت قبول کرکے ان کے دائرہ اثر سے باہر نہ ہوجائیں۔ مشرکین مکہ کی طرح قوم عاد بھی اخروی زندگی کی منکر تھی۔ اور مال و دولت کی فراوانی اور آسودگی کی زندگی نے ان سرداروں کو بالکل خدا فراموش بنا رکھا تھا۔ اور ان کا منتہائے مقصود صرف دنیا کا مال و دولت اور اس کا حصول تھا۔ [٣٩] نبی کی دعوت کے مقابلہ میں جس بات کی دعوت وہ عوام الناس کو دے سکتے تھے وہ یہی تھی کہ آخر اس نبی میں کیا خوبی ہے کہ تم اس کی اطاعت کرو وہ بھی تمہارے ہی جیسا انسان اور کھانے پینے کا محتاج ہے۔ المؤمنون
34 [٤٠] دوسرے کی آنکھ کا تنکا بھی نظر آجاتاہے اور اپنی آنکھ کا شہیتر نظر نہیں آتا:۔ حالانکہ وہ خود بھی ایک عام انسان ہی تھے۔ اور عام لوگوں کی طرح کھاتے پیتے تھے۔ اس کے باوجود وہ عوام کے مطاع بنے ہوئے تھے اور چاہتے تھے کہ عوام ان کی اطاعت کریں۔ ان کا یہ پروپیگنڈا اس لئے نہ تھا کہ انسان مطاع نہیں بن سکتا۔ بلکہ صرف اس لئے تھا کہ کہیں لوگ نبی کی دعوت قبول کرکے ہماری اطاعت کو ترک کرکے اس کی اطاعت نہ کرنے لگ جائیں۔ گویا اصل خطرہ انھیں اپنی سرداریوں کا تھا اور ان کے لئے تو یہ واقعی خسارہ کی بات تھی۔ لیکن لوگوں کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ نبی کی اطاعت کرکے تم خسارہ میں رہو گے۔ گویا بشر ہونے کے باوجود ان کی اپنی اطاعت میں خسارے کی بات ان کے نزدیک خارج از بحث تھی۔ المؤمنون
35 المؤمنون
36 المؤمنون
37 [٤١] آخرت کا انکارجہالت اور ہٹ دھرمی پرمبنی ہے :۔ آخرت سے انکار کرنے والوں کے پاس سب سے بڑی دلیل یہ ہوتی ہے کہ چونکہ کوئی بھی مرا ہوا انسان آج تک دوبارہ زندہ ہو کر واپس نہیں آیا۔ لہٰذا ہم کیسے مان لیں کہ مرنے اور مر کر مٹی میں مل جانے کے بعد دوبارہ اٹھائے جائیں گے؟ گویا ان کے انکار کی اصل بنیاد ان کا اپنا تجربہ یا مشاہدہ ہوتا ہے۔ قوم عاد مشرکین مکہ کی طرح اللہ کی ہستی کے قائل تھے حالانکہ اللہ کی ہستی بھی کسی تجربہ اور مشاہدہ میں نہیں آتی۔ اور اللہ کی ہستی کے قائل ہونے کی وجہ بھی یہ نہیں ہوتی کہ وہ کسی پیغمبر کی تعلیم سے متاثر ہو کر اللہ پر ایمان بالغیب لاتے ہیں۔ بلکہ اس لئے کہ فلاسفروں اور حکماء نے اللہ کی ہستی کو علت العلل (First Cause) کے طور پر تسلیم کیا ہے یعنی جس طرح ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہر چیز کے لئے صانع یا اس کے بنانے والے کا ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح اس کارخانہ کائنات کا بنانے والا ہونا بھی ضروری ہے۔ بالفاظ دیگر اللہ کی ہستی کو عقلی دلیل کی بنا پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ عقلی دلیل کی بنا پر بھی ایسی اشیاء کو تسلیم کرنا ضروری ہے جو مشاہدہ اور تجربہ میں نہ آئی ہوں یا نہ آسکتی ہوں۔ اور دوبارہ زندگی کے قیام پر چونکہ بہت سے عقلی دلائل موجود ہیں۔ جن کا ذکر قرآن کریم میں بھی بے شمار مقامات پر ہوا ہے۔ لہٰذا جو لوگ آخرت اور دوبارہ زندگی کا انکار محض اس بنا پر کرتے ہیں کہ کوئی آدمی مر کر واپس نہیں آیا۔ یا انسان کا جسم مٹی میں مل کر مٹی ہوجاتا ہے تو پھر کیسے زندہ ہوسکتا ہے، تو یہ عقلی دلائل کا انکار اور محض جہالت ہے۔ المؤمنون
38 [٤٢] اسی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم عاد اللہ تعالیٰ کی ہستی کے قائل تھے۔ اور ان کے نزدیک حضرت ہود علیہ السلام کا اللہ پر جھوٹ باندھنا یہ تھا کہ میں اللہ کی طرف سے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں'' یا یہ کہ ''مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ ضرور تمہیں دوبارہ پیدا کرے گا اور تم سے تمہارے اعمال کا مواخذہ کرے گا۔ اور یہ دونوں باتیں ہم ہرگز تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ المؤمنون
39 المؤمنون
40 [٤٣] یعنی ان کے گناہوں کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ اور تھوڑی دیر بعد ہی ان پر عذاب آنے والا ہے۔ جب یہ اس کے آثار دیکھ لیں گے تو اس وقت اپنی اس ہٹ دھرمی پر پچھتائیں گے لیکن اس وقت نہ انھیں پچھتانا کچھ کام دے گا اور نہ ایمان لانا۔ المؤمنون
41 [٤٤] یعنی بالکل ٹھیک اسی وقت ان پر عذاب آیا جو وقت ان کے لئے مقرر کیا گیا تھا۔ یہاں ہیبت ناک چیخ کے عذاب سے بعض علماء نے یہ قیاس کیا ہے کہ یہ قصہ قوم عاد اولیٰ کا نہیں کیونکہ ان پر تند و تیز اور شدید سرد آندھی کا عذاب آیا تھا۔ بلکہ یہ قصہ عاد ثانی۔ یعنی ثمود کی قوم کا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب اس آیت میں بالحق کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم نے جو انھیں سزا دی تو وہ ٹھیک ان کے گناہوں کی پاداش کے مطابق تھی۔ عدل و انصاف کا یہی تقاضا تھا اور اس سلسلہ میں ان پر ذرہ بھر ظلم نہیں ہوا۔ [٤٥] غثاء بمعنی کوڑا، کرکٹ، کچرا، خس و خاشاک۔ یعنی وہ ہمارے عذاب کی رو میں یوں بہہ گئے جیسے سیلاب خس و خاشاک کو بہا لے جاتا ہے۔ المؤمنون
42 المؤمنون
43 المؤمنون
44 [٤٦] قوم عاد اولیٰ اور عاد ثانی کے بعد، موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ تک درج ذیل انبیاء مبعوث ہوئے۔ حضرت ابراہیم، حضرت اسماعیل، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب، حضرت یوسف، حضرت ایوب، اور حضرت شعیب علیہم السلام یہ تو وہ انبیاء ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں ملتا ہے اور جن کا ذکر قرآن میں نہیں آیا وہ ان سے بہت زیادہ ہیں۔ بعض روایات کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دنیا میں مبعوث ہونے والے رسولوں کی تعداد پوچھی گئی تو آپ نے ٣١٣ تا ٣١٥ بتلائی اور انبیاء کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار بتلائی جبکہ قرآن میں صرف ٢٧ انبیاء و رسل کا ذکر ہے۔ قوم عاد کےبعد انبیاء :۔ اب اگر تاریخی لحاظ سے دیکھا جائے تو جہاں تک انسانی علم کی رسائی ہوسکی ہے اس کے مطابق عاد اولیٰ اور موسیٰ علیہ السلام کے درمیانی مدت تقریباً چار ہزار سال پر محیط ہے۔ اس طویل عرصہ میں لاتعداد انبیاء و رسل مبعوث ہوتے رہے۔ حتیٰ کہ ان انبیاء کا ایسا تانتا بندھا ہوا تھا کہ کوئی وقت ایسا نہ تھا جب روئے زمین پر کوئی نبی موجود نہ ہو۔ بلکہ بیک وقت ایک ہی زمانے میں کئی کئی انبیاء مبعوث ہوتے رہے۔ ان سب سے یہی سلوک ہوتا رہا کہ انھیں جھٹلایا گیا۔ کیونکہ چودھری قسم کے لوگ قطعاً اس بات پر آمادہ نہیں ہوتے کہ وہ اپنی سرداریوں سے دستبردار ہو کر نبیوں کے مطیع فرمان بن جائیں۔ وہ دوسرے لوگوں کو بھی انبیاء کے خلاف بھڑکاتے رہے۔ ان کے اس جرم کی پاداش میں ان پر عذاب آتے رہے۔ ایک قوم مٹتی تو دوسری اس کی جگہ لیتی رہی۔ پھر اس کے مقررہ وقت کے مطابق اسے بھی صفحہ ہستی سے نیست و نابود کیا جاتا رہا۔ حتیٰ کہ ان کے آثار بھی باقی نہ رہے، ماسوائے ان داستانوں اور افسانوں کے جو بعد کے آنے والے لوگوں میں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے رہے۔ المؤمنون
45 [٤٧]سلطان کا لغوی مفہوم :۔ سلطان بمعنی غلبہ، قوت، اختیار (منجد، مقائیس اللغۃ) اور بمعنی فرمان شاہی (منجد) یعنی اتھارٹی یا اتھارٹی لیٹر (Authority Letter) وہ اختیار یا اختیار نامہ جو کسی حاکم اعلیٰ سے اس کے نائب کو ملا ہو۔ (اور سلطان بمعنی بادشاہ اس کا کنائی اور مجازی معنی ہے لغوی نہیں۔ نہ ہی قرآن نے اس لفظ کو کسی بھی جگہ ان معنوں میں استعمال کیا ہے) اور اس مقام پر سلطان مبین سے مراد یا ان دونوں نبیوں کی نبوت ہے یا وحی الٰہی۔ اور آیات سے مراد وہ معجزات ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیئے گئے صرف عصا اور یدبیضا ہی نہیں بلکہ دوسرے معجزات بھی کیونکہ یہاں جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے تثنیہ کا نہیں۔ نیز آیات سے مراد احکام الٰہی بھی ہوسکتے ہیں۔ جو فرعون کے پاس جاتے وقت انھیں دیئے گئے تھے۔ اور جن سے یہ معلوم ہوجاتا تھا کہ ان کی پشت پر کوئی مافوق الفطرت قوت موجود ہے۔ المؤمنون
46 [٤٨] یعنی وہ متکبر قسم کے لوگ تھے جو اپنے آپ کو عام انسانوں سے کوئی بالاتر مخلوق سمجھتے تھے۔ المؤمنون
47 [٤٩] یعنی دوسرے انبیاء کا تکذیب کرنے والے چودھری حضرات تو اپنے انکار کی صرف ایک وجہ بتلاتے تھے کہ یہ نبی بھی ہم جیسا ہی انسان ہے اور اس میں ایسی کون سی خوبی ہے کہ ہم اس پر ایمان لائیں۔فرعون اور اس کے سرداروں نے اس وجہ کے ساتھ ایک اور وجہ بھی بیان کردی کہ ان نبیوں کی برادری تو ہماری غلام ہے۔ لہٰذا ہم ان پر ایمان لاکر دوہری رسوائی کیسے قبول کریں۔ عبادت کا مفہوم: ۔یہاں عٰبِدُوْنَ کے لفظ سے عبادت کا مفہوم کھل کر سامنے آجاتا ہے کہ عبادت محض پوجا پاٹ کا نام نہیں۔ کیونکہ بنی اسرائیل فرعونیوں کی پوجا پاٹ نہیں کرتے تھے۔ بلکہ عبادت کا لفظ اپنے وسیع معنوں میں ہمہ وقت کی غلامی اور فرمانبرداری کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ المؤمنون
48 المؤمنون
49 [٥٠] منکرین سنت کا رد:۔ اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ موسیٰ علیہ السلام کو کتاب تورات فرعون اور اس کے سرداروں کی غرقابی کے بعد دی گئی تھی۔ دوسرے یہ کہ جو احکام موسیٰ علیہ السلام پر تورات کے نازل ہونے سے پہلے دیئے گئے تھے وہ بھی موسیٰ علیہ السلام اور آپ پر ایمان لانے والوں کے لئے اسی طرح قابل اتباع تھے جس طرح تورات کے احکام۔ اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نبی پر کتاب اللہ کے علاوہ اللہ کی طرف سے اور بھی بہت کچھ نازل ہوتا ہے۔ اور اس کی اتباع بھی اسی طرح واجب ہوتی ہے جیسے کتاب اللہ کی اور اس میں ان لوگوں کا پورا رد موجود ہے جو کہتے ہیں کہ ہمیں ہدایت کے لئے صرف قرآن ہی کافی ہے۔ المؤمنون
50 [٥١]عیسیٰ علیہ السلام کی بن باپ پیدائش کےمنکرین کا رد:۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ابن مریم بھی ایک نشانی تھے اور ان کی والدہ بھی ایک نشانی تھی۔ بلکہ یوں فرمایا ان دونوں کو ملا کر ایک نشانی بنایا۔ اور اس کی صورت صرف یہی رہ جاتی ہے کہ حضرت عیسیٰ کی ولادت کو بن باپ تسلیم کیا جائے نیز یہ بھی کہ حضرت مریم علیہا السلام کسی مرد کے چھوئے بغیر ہی نفحہ الٰہی سے حاملہ ہوئی تھیں۔ [٥٢]ربوۃ کا لغوی مفہوم اورا س سے مراد: رَبوۃ سے مراد ایسی زمین ہے جو عام سطح زمین سے قدرے بلند ہو اور اس کی مٹی بھربھری اور ریتلی قسم کی ہو۔ ایسی زمین پانی کو اپنے اندر جذب کرکے خوب پھول جاتی ہے۔ پنجابی میں ایسی زمین کو ’’میرا زمین‘‘ کہتے ہیں۔ اس زمین کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ عام زمین کی نسبت سرسبز و شاداب بھی زیادہ ہوتی ہے اور بلند بھی ہوتی ہے۔ اب اس ربوۃ کے تعین میں مفسرین کا اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہی بلند مقام ہے جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش واقع ہوئی تھی اور اللہ تعالیٰ نے وہاں ایک چشمہ بھی جاری کردیا تھا اور کھجور کے ٹنڈ درخت سے اللہ کے حکم سے تازہ کھجوریں گرنے لگی تھیں۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اس وقت کا ظالم یہودی بادشاہ ہیروڈس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دشمن بن گیا تھا۔ حضرت مریم ان کی حفاظت کی خاطر اللہ کے حکم سے مصر کی طرف ہجرت کر گئیں۔ اور ایک بلند چشمہ دار جگہ پر قصبہ میں مقیم ہوئیں جسے رملہ کہتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وہیں جوان ہوئے پھر جب ہیروڈس مرگیا تو حضرت مریم انھیں لے کر اپنے وطن واپس آگئیں۔ اسرائیل روایات اسی توجیہ کی تائید کرتی ہیں۔ اور ربوۃ کے ساتھ ذات قرار سے مراد ایسی جگہ ہے جہاں ضروریات زندگی مہیا ہوسکتی ہوں اور انسان کو وہاں قیام کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ اور معین کا لفظ تائید مزید کے لئے ہے۔ جس کا معنی جاری پانی، نتھرا پانی، بہتا ہوا چشمہ، ٹھنڈا اور میٹھا پانی سب کچھ آتا ہے۔ بیسویں صدی عیسوی کے آغاز میں ہندوستان کے ضلع گورداسپور میں واقع ایک قصبہ قادیان میں ایک شخص مرزا غلام احمد نے نبوت کا دعویٰ کردیا۔ وہ خود تو وہیں قادیان میں دفن ہوا اور ان کا مقبرہ بھی وہیں بنا۔ ١٩٤٧ ء میں پاکستان بنا تو مرزا صاحب کی امت وہاں سے پاکستان کے ضلع جھنگ میں منتقل ہوئی اسی طرح ایک بلند زمین اپنے ہیڈکوارٹر کے لئے منتخب کی اور اس کا نام ربوہ رکھ لیا۔ مرزا صاحب کے خلیفے اور اولاد وہیں اقامت پذیر ہیں۔ مرزاقادیانی کا مسیح موعود ہونے کا دعویٰ اور عیسیٰ علیہ السلام کی قبر کی نشاندہی :مرزا صاحب نے صرف نبوت کا ہی دعویٰ نہیں کیا بلکہ مسیح موعود ہونے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔ آپ عیسیٰ علیہ السلام کی معجزانہ پیدائش کے تو قائل تھے لیکن رفع عیسیٰ کے قائل نہیں تھے۔ کیونکہ اگر وہ اس کے قائل ہوتے تو آپ کو مسیح موعود بننے میں مشکل پیش آتی تھی۔ آپ کی امت نے تو جھنگ میں ایک ربوہ بنالیا لیکن آپ نے کشمیر کو ربوہ قرار دیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طبعی موت قرار دینے کے بعد فرمایا کہ ان کی قبر کشمیر میں ہے۔ کشمیر کے صدر مقام سری نگر کے محلہ خانیار میں ایک قبر ''یوسف آز'' کے نام سے مشہور ہے۔ عوام میں یہ بات مشہور ہے کہ یہ کسی نبی کی قبر ہے جو کوئی شہزادہ تھا اور کسی دوسرے ملک سے یہاں آیا تھا۔ مرزا صاحب کے مقصد کے لئے یہ بے سروپا افواہیں ہی کافی تھیں۔ چنانچہ آپ کو الہام ہوگیا کہ یہ قبر تو عیسیٰ علیہ السلام ہی کی ہے۔ اب اگر آپ کی امت کے بقول آپ کے الہام کو درست سمجھ بھی لیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس آیت میں صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر نہیں بلکہ ان کی والدہ کا بھی ذکر ہے لہٰذا آپ کو الہام تو دو قبروں کا ہونا چاہئے تھا۔ مگر افسوس ہے کہ وہاں قبر صرف ایک ہی ہے۔ اس سے آپ کی نبوت اور الہامات کی بھی قلعی کھل جاتی ہے۔ المؤمنون
51 [٥٣] خطاب کا یہ انداز اس لحاظ سے نہیں کہ سارے رسول کسی ایک جگہ اکٹھے کئے گئے تھے تو انھیں اس طرح مخاطب کیا گیا ہے۔ بلکہ اس لحاظ سے ہے کہ چونکہ سارے رسولوں کی اصولی تعلیم ایک ہی جیسی رہی ہے۔ لہٰذا بطور اختصار یہاں خطاب کا مشترکہ انداز اختیار کیا گیا ہے۔ نیز اس آیت میں اگرچہ خطاب رسولوں کو ہے تاہم اس کا حکم عام ہے۔ اور قرآن کریم نے بعض مقامات پر تو یٰاایُّھَا النَّاس کہہ کر حلال اور پاکیزہ چیزیں کھانے کا حکم دیا ہے اور بعض مقامات پر اس حکم کے مخاطب ایمان لانے والے ہیں۔ [٥٤]رسولوں کوپاکیزہ اشیاء کھانے کا حکم :۔ پاکیزہ چیزوں سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کا کھانا شریعت نے حلال قرار دیا ہو اور انھیں حلال ذرائع سے ہی حاصل کیا گیا ہو۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ مرغی بذات خود حلال چیز ہے مگر جب یہ چوری کی ہو تو حرام ہوجائے گی۔ اسی طرح سود یا دوسرے ناجائز ذرائع سے حاصل شدہ حرام مال تصور ہوگا۔ کسب حلال کی اہمیت: ۔ کسب حلال اور حرام سے اجتناب اس قدر اہم حکم ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے نیک اعمال سے پہلے ذکر فرمایا۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کسی کی کمائی حرام کی ہو تو اس کے نیک اعمال بھی قبول نہیں ہوتے۔ اس سلسلہ میں ہم سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ١٦٨ کے تحت آٹھ حدیثیں درج کرچکے ہیں جن کو دوبارہ دیکھ لینا مفید ہوگا۔ تاکہ اس اہم شرعی حکم کی اہمیت پوری طرح معلوم ہوجائے۔ [٥٥] یعنی اگر کسی نے کسب حلال میں حرام کی آمیزش کی ہو تو اسے میں خوب جانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ تمہارے اعمال میں اللہ کی رضا مندی اور خلوص کا حصہ کتنا تھا۔ یہ مطلب اس لحاظ سے ہوگا جب اس خطاب کا روئے سخن عام لوگوں یا ایمانداروں کی طرف سے سمجھا جائے کیونکہ انبیاء سے کسی قسم کی نافرمانی کا انکار نہیں اور اگر اس کا روئے سخن انبیاء کی طرف سمجھا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ میں خوب جانتا ہوں کہ تم نے حق تبلیغ کس حد تک ادا کیا ہے۔ المؤمنون
52 [٥٦] امة واحدۃ کا مفہوم:۔ امت سے مراد ایسا گروہ ہے جو ہم عقیدہ و ہم خیال ہو۔ اور یہاں تمہاری امت سے مراد انبیاء و رسل کی جماعت بھی ہوسکتی ہے اور ان کے ساتھ ان پر ایمان لانے والے بھی۔ اور یہ پوری کی پوری جماعت متحد العقیدہ تھی۔ یعنی ان سب کی اصولی تعلیم اور اصولی عقائد ایک ہی جیسے رہے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ (١) اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا خالق و مالک ہے لہٰذا وہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور اس کی ذات و صفات اور عبادات میں کسی دورے کو شریک نہ کیا جائے۔ (٢) یہ دنیا دار الامتحان ہے۔ مرنے کے بعد ہر انسان کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور اسے اللہ کے حضور پیش ہونا پڑے گا۔ دنیا میں جو اعمال وہ کرتا رہا اس کے متعلق اس سے باز پرس ہوگی۔ پھر ہر ایک کو اس کے اچھے یا برے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ لہٰذا تمہیں صرف مجھ سے ڈرنا چاہئے۔ (٣) کسب حرام سے مکمل طور پر اجتناب یعنی کسی صورت میں بھی دوسرے کے حقوق یا اموال پر ڈاکہ نہ ڈالا جائے اور (٤) نیک اعمال بجا لائے جائیں یہ چار باتیں ایسی ہیں جو اصولی نوعیت کی ہیں اور ان کا حکم ہر نبی کو دیا جاتا رہا ہے اور انہی باتوں کا نام دین ہے۔ رہے جزئی احکام جن کا تعلق بالخصوص شق نمبر ٣ سے ہے تو اس میں انبیاء کی شریعتوں میں اختلاف بھی رہا ہے۔ المؤمنون
53 [٥٧] دین کے اصول چار اور فرقے سینکڑوں:۔ یعنی اصل دین میں چند موٹی موٹی باتیں شامل تھیں۔ اور ہر نبی یہی اصول دین پیش کرتا رہا۔ مگر لوگوں نے انھیں اصول دین میں اختلاف کرکے سینکڑوں فرقے بناڈالے۔ مثلاً پہلی شق توحید ہی کو لیجئے۔ شیطان نے شرک کی بیسیوں نئی سے نئی قسمیں ایجاد کرکے لوگوں کو اس راہ پر ڈال دیا بعض لوگوں نے کسی شخص، نبی یا فرشتوں کو اللہ کی اولاد قرار دیا۔ حلول اور اوتار کا عقیدہ وضع کیا اور اللہ تعالیٰ کو بعض لوگوں کے اجسام میں اتار دیا۔ کسی نے کہا کہ فلاں ہستی اللہ کے نور میں سے (جدا شدہ) نور ہے۔ کئی ہستیوں کو اللہ کے علاوہ عالم الغیب اور حاضر و ناظر تسلیم کیا گیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حضرت انسان نے جسے تمام مخلوق سے افضل و اشرف پیدا کیا گیا تھا، اپنے نفع و نقصان کو پتھروں، درختوں، مویشیوں، ستاروں، جن بھوتوں اور آستانوں سے وابستہ کردیا۔ اور ان کے آگے سرتسلیم خم کرنے لگا۔ انھیں سے مرادیں مانگنے لگا۔ فرقے کیسے بنتےہیں اور ہرفرقہ کی خود پسندی:۔ دوسری شق آخرت پر ایمان ہے۔ بعض لوگوں نے تو روز آخرت اور دوبارہ جی اٹھنے کا انکار ہی کردیا۔ اور جنہوں نے اسے تسلیم کیا۔ انہوں نے بھی اس کے تقاضوں کو نہ سمجھا۔ بعض نے کہا کہ ہم چونکہ انبیاء کی اولاد یا سادات ہیں۔ لہٰذا ہمیں کیسے عذاب ہوسکتا ہے۔ بعض لوگوں نے سفارش کے عقیدے وضع کر لئے اور اگر فلاں حضرت کی بیعت کرلی جائے تو وہ شفاعت کرکے ہمیں چھڑا لیں گے۔ بعض نے یہی عقیدہ اپنے دیوتاؤں سے یا بتوں سے وابستہ کردیا۔ نصاریٰ نے کفارہ مسیح کا عقیدہ گھڑ لیا اور بعض پادری حضرات اس دنیا میں ہی لوگوں سے رقوم بٹور کرکے ان کے لئے معافی نامے جاری کرنے لگے۔ اور بعض لوگوں نے عقیدہ وضع کیا کہ اگر فلاں حضرت کے بہشتی دروازہ سے اس کے عرس کے دن نیچے سے گزرا جائے تو یقیناً نجات ہوجائے گی ایسے سستی نجات کے سب عقیدے لغو اور باطل ہیں۔ اور قرآن نے ایسے عقائد رکھنے والوں کو آخرت کے منکر یعنی کافر قرار دیا ہے۔ تیسری شق حلال اور پاکیزہ اشیاء کھانے سے متعلق تھی تو اس میں بھی لوگوں نے افراط و تفریط کی راہیں پیدا کرلیں۔ رہبان و مشائخ اور بعض صوفیاء نے اپنے اوپر حلال اشیاء کو حرام قرار دے لیا۔ اور بعض دوسروں نے حرام و حلال کی تمیز ہی ختم کردی اور سود جیسی حرام چیز کو جسے ساری شریعتوں میں حرام قرار دیا جاتا رہا ہے اسے حلال ثابت کرنے کی کوشش کی۔ بہت سے علماء و مشائخ اور بتوں کے مہنتوں اور مقبروں اور مزاروں کے مجاوروں نے حلت و حرمت کے اختیار خود سنبھال لئے اور ایسے لوگوں کا تذکرہ قرآن میں متعدد بار آیا ہے۔ چوتھی شق عمل صالح کی تھی۔ تو غالباً اس شق میں شرک سے بھی زیادہ فرقہ بازی ہوئی۔ دین کے بعض اصولی احکام کو مسخ کرکے بدعی عقائد و اعمال شامل کردیئے گئے اور ان باتوں کی اصل بنیاد حب جاہ و مال تھی اور بے شمار سیاسی اور بدعی قسم کے فرقے وجود میں آگئے۔ انہی میں سے ایک تقلید شخصی کا عقیدہ ہے جس کے ذریعہ اماموں کو نبیوں کا درجہ دے دیا گیا یا ان سے بھی بڑھ کر سمجھا گیا۔ گویا اس سادہ اور مختصر سی اصولی تعلیم سے اختلاف کرکے لوگ جو فی الحقیقت ایک ہی امت تھے سینکڑوں اور ہزاروں فرقوں میں بٹتے چلے گئے۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ ان میں ہر فرقہ اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ہے اور اپنے علاوہ دوسرے فرقوں کو دوزخ کا ایندھن سمجھتا ہے۔ حالانکہ یہ اصولی تعلیم آج بھی موجود ہے اور اگر کوئی شخص یا کوئی فرقہ تعصب سے بالاتر ہو کر راہ حق کو تلاش کرنا چاہے تو راہ حق آج بھی ایسی چھپی ہوئی چیز نہیں ہے جس کا سراغ نہ لگایا جاسکتا ہو۔ المؤمنون
54 [٥٨] یعنی ایسے متعصب اور ہٹ دھرم لوگ جو راہ راست کی طرف آنا بھی پسند نہیں کرتے اور اپنے حال میں مست اور مگن ہیں۔ انھیں ان کے حال پر ہی رہنے دیجئے ایک وقت آنے والا ہے جب انھیں سب حقیقت پوری طرح معلوم ہوجائے گی۔ المؤمنون
55 المؤمنون
56 [٥٩] کیاآسودہ حالی اللہ کی رضامندی کی علامت ہے؟ دنیا دار اور جاہل لوگ عموماً یہ سمجھتے ہیں کہ آسودہ حالی اللہ کی رضا مندی کی علامت ہوتی ہے۔ اور تنگدستی یا پریشان حالی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی۔ حالانکہ بسا اوقات معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ چودھری لوگوں کی سرکشی کا بڑا سبب یہی نظریہ ہوتا ہے وہ دیکھتے ہیں کہ پیغمبروں کی تکذیب کرنے اور ایمانداروں پر ظلم و زیادتی روا رکھنے کے باوجود ہی ان کا کچھ نہیں بگڑا تو وہ اس نظریہ پر مزید پختہ ہوجاتے ہیں۔ اب اللہ کی طرف سے ان پر ابتلاء کا دور یوں آتا ہے کہ ان پر مزید انعامات الٰہی کی بارش ہونے لگتی ہے۔ حالانکہ ان انعامات کی حیثیت ایسے ہی ہوتی ہے جیسے بجھنے والا چراغ بجھنے سے پیشتر ایک دفعہ خوب روشن ہوجاتا ہے۔ لیکن وہ اس حقیقت کو نہیں سمجھتے کہ مال و دولت اور نعمتوں کی فراوانی اللہ کی خوشنودی کے طور پر نہیں بلکہ امہال و استدراج کی بنا پر ہے۔ اور جتنی انھیں ڈھیل دی جارہی ہے اسی قدر ان کی شفادت کا پیمان لبریز ہو رہا ہے۔ المؤمنون
57 المؤمنون
58 المؤمنون
59 المؤمنون
60 المؤمنون
61 [٦٠] ان لوگوں کے مقابلہ میں اب اللہ تعالیٰ نے اپنے مخلص بندوں کی چند صفات بیان فرمائیں سب سے پہلی بات یہ کہ ان میں نیک کام کرتے رہنے کے باوجود ان میں نیکی کا غرور اور گھمنڈ پیدا نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ اس بات سے اللہ سے ڈرتے رہتے ہیں کہ ان کے یہ اعمال شاید اللہ کی بارگاہ میں قبول ہونے کے لائق تھے یا نہیں یا ان میں کچھ تقصیر تو نہیں ہوگئی۔ دوسری صفت یہ ہے کہ وہ منزل من اللہ آیات پر ہی ایمان لاتے ہیں اور کائنات میں ہر طرف اللہ کی بکھری ہوئی آیات میں غور کرکے ان سے معرفت حاصل کرتے ہیں جن سے ان دلوں میں اللہ کی عظمت اور جلال کا سکہ بیٹھتا ہے تیسری صفت یہ ہے کہ وہ شرک کی ہر چھوٹی بڑی قسم سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور چوتھی صفت یہ کہ اپنے اموال اور دوسری اللہ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے صدقہ و خیرات وغیرہ ادا کرنے کے باوجود اللہ کے حضور اعمال کی باز پرس سے ڈرتے بھی رہتے ہیں۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اس آیت کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں دیتے ہیں، انھیں کس بات کا ڈر لگا رہتا ہے؟ کیا وہ شراب پیتے ہیں یا چوری کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’او صدیق کی بیٹی! یہ بات نہیں بلکہ وہ لوگ روزہ رکھتے، نماز پڑھتے اور صدقہ دیتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ ڈرتے ہیں شاید ان کا قبول نہ ہو۔ یہی لوگ ہیں جو نیکیوں کی طرف لپکتے اور آگے نکل جانے والے ہیں‘‘ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) المؤمنون
62 [٦١] تکلیف کا مفہوم‘شرعی احکام کی حکمت اور ہر شخص کی استعداد کا لحاظ :۔یعنی ہم نے احکام شریعت ایسے نازل نہیں کئے جو انسان کی بساط سے باہر ہوں۔ شرعی احکام میں مصلحت کے جس پہلو کو ملحوظ رکھا گیا ہے وہ یہ ہے کہ شرعی احکام بالعموم مسلمانوں کی اکثریت کے لئے اور نارمل حالات میں قابل عمل ہوتے ہیں۔ جب حالات بدل جائیں جو احکام میں بھی تھوڑی بہت تبدیلی کردی جاتی ہے پھر چونکہ یہ احکام ایک عام انسان کی استعداد یا قوت کار کو ملحوظ رکھ کردیئے جاتے ہیں۔ لہٰذاعام استعداد سے کم استعداد رکھنے والوں مثلاً بیماروں یا معذوروں کے لئے رخصت یا رعایت دی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ نابالغ، مجنون وغیرہ سے شرعی احکام ویسے ہی ساقط کردیئے گئے ہیں۔ پھر معاشرہ میں کچھ ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو ایک عام انسان کی استعداد سے زیادہ استعداد رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے وسیع میدان عمل کو سامنے لاکر اس حکم کی زیادہ سے زیادہ بجاآوری کی ترغیب دی جاتی ہے۔ مثلاً ہر عاقل و بالغ مسلمان کو پانچ وقت نماز باجماعت ادا کرنے کا حکم ہے اور نماز سے پہلے وضو یا طہارت بھی ضروری ہے تو حالات کے مطابق مراعات تو یہ ہیں کہ جسے وقت پر وضو کے لئے پانی دستیاب نہ ہو وہ تیمم کرسکتا ہے۔ بیمار کو اگر وضو کرنے سے بیماری بڑھنے یا کسی اور تکلیف کا خطرہ ہو تو وہ بھی تیمم کرسکتا ہےسفر، خوف کی حالت میں نماز قصر بھی کرسکتا ہے اور دو نمازیں اکٹھی بھی پڑھ سکتا ہے، نیز سفر کی حالت میں سواری پر بھی نماز ادا کرسکتا ہے۔ نیز اگر قبلہ یا وقت صحیح کی تعیین میں دقت ہو تو اندازہ سے کام لے سکتا ہے۔ بارش یا کسی اور معقول عذر کی وجہ سے مسجد نہیں جاسکتا تو گھر پر نماز ادا کرسکتا ہے۔ اور کم استعداد والوں کی مثال یوں سمجھئے کہ بیمار بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے اگر زیادہ بیمار ہے تو لیٹے لیٹے ہی پڑھ سکتا ہے۔ اتنی بھی ہمت نہ رہی ہو تو اشارہ سے بھی ادا کرسکتا ہے۔ ایسا بیمار یا انتہائی بوڑھا جو مسجد تک جانے کی ہمت نہیں رکھتا۔ مستقل طور پر اپنے گھر میں نماز ادا کرسکتا ہے۔ یہی اس جملہ کا مطلب ہے کہ ’’ہم کسی شخص کو اس کے مقدور سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے‘‘ اتنی مراعات کے باوجود پھر بھی کوئی شخص عمداً نماز ادا نہیں کرتا تو وہ کافر ہوجائے گا اور اگر نماز کی بجا آوری میں کوتاہی کرتا ہے تو گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوگا۔ اور جو لوگ زیادہ استعداد رکھتے ہیں۔ ان کے لئے فرضی نماز کے علاوہ نوافل تجویز کئے گئے ہیں۔ مثلاً ظہر کی نماز کی فرض رکعات صرف چار ہیں۔ ان چار رکعات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تطوعاً جو اضافہ کیا وہ ہمارے لئے سنت ہیں اور وہ چار رکعات فرض نماز سے پہلے ہیں اور دو بعد میں۔ پھر ان فرض اور سنت رکعات پر تطوعاً آخر میں مزید رکعات کا اضافہ ہوا جسے نفل کہتے ہیں اور ان پر مزید نوافل کا اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ پھر کچھ نمازیں ایسی ہیں جو فرض کفایہ ہیں جیسے نماز جمعہ اور نماز جنازہ وغیرہ اور کچھ سنت ہیں جیسے تہجد کی نماز جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تو فرض تھی مگر امت کے لئے سنت موکدہ ہے یا نماز تراویح اور کچھ نمازیں ہی نفلی ہیں مثلاً نماز چاشت، اوابین اور شکرانہ کے نوافل اور کچھ نفل نمازیں حالات سے متعلق ہیں۔ جیسے نماز استسقاء نماز کسوف اور خسوف وغیرہ یہ ہے وہ وسیع میدان جو ترقی درجات کا سبب بنتا ہے۔ پھر ایک نماز ہی کی یہ صورت نہیں۔ صدقات و خیرات بلکہ ہر رکن اسلام اور عمل صالح کی یہی صورت ہے کہ اس میں تطوعات کا وسیع میدان موجود ہے یہی وہ میدان ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَــیْرٰتِ وَہُمْ لَہَا سٰبِقُوْنَ ﴾ اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بھلے کاموں میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرنا کوئی ایسی بات نہیں جو انسان کی بساط سے باہر ہو۔ کم از کم ہر انسان کو ایسا کرنے کی کوشش ضرور کرنا چاہئے۔ [٦٢] اعمال کے اندراج کا طریق کار:۔ یعنی ہر انسان کے اعمال، افعال، اقوال حتیٰ کہ مال کے خیالات اور دل میں پیدا ہونے والے وساوس اور ارادے بھی ساتھ کے ساتھ ریکارڈ ہو رہے ہیں۔ قرآن کی تصریح کے مطابق یہ قلم بندی کرنے والے دو معزز فرشتے ہوتے ہیں ایک انسان کے دائیں طرف، دوسرا بائیں طرف، پھر ان کی ڈیوٹیاں بھی فجر اور عصر کے وقت بدلتی رہتی ہیں موجودہ دور کی سائنسی ایجادات نے اس حقیقت کو بہت حد تک قریب الفہم بنا دیا ہے کہ یہ باتیں از خود کس طرح ریکارڈ میں آجاتی ہیں۔ گویا ہر شخص کی زندگی کی مکمل ہسٹری شیٹ اللہ کے ہاں موجود رہتی ہیں اور اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں نہ تو کوئی چھوٹی سے چھوٹی بات قلم بند ہونے سے رہ جاتی ہے اور نہ ہی اس میں کوئی غلط اندراج ہوسکتا ہے (نیز دیکھئے سورۃ کہف کی آیت نمبر ٤٩) [٦٣] یعنی یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ کسی کو اس کے کام سے کم اجر ملے، نہ یہ کہ اس کے گناہ سے زیادہ سزا ملے۔ یا کسی کا جرم کسی دوسرے کے کھاتے میں چلا جائے۔ غرضیکہ کسی طرح کی زیادتی اور حق تلفی ممکن نہ ہوگی۔ المؤمنون
63 [٦٤] یعنی یہ بات ان کے ذہن میں آتی ہی نہیں کہ ان کی پوری ہسٹری شیٹ ساتھ ہی ساتھ تیار ہو رہی ہے۔ لہٰذا وہ اپنے دنیا کے دوسرے کاموں میں ہی ایسے منہمک اور مگن ہیں کہ انھیں اس نامہ اعمال اور اس کی بنا پر آخرت کی بازپرس کا خیال تک نہیں آتا۔ المؤمنون
64 [٦٥] یعنی جب عذاب الٰہی آتا ہے تو واویلا اور چیخ پکار کرنے والے بھی وہی لوگ ہوتے ہیں جو آسودہ حال اور چودھری ٹائپ ہوتے ہیں۔ یہی لوگ نبیوں کی تکذیب، انھیں ایذائیں پہنچانے اور عوام کو اللہ کی راہ سے روکنے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ اور عذاب نازل ہونے پر چیخنے چلانے والے بھی یہی ہوتے ہیں۔ حالانکہ جب عذاب آجاتا ہے تو پھر چیخنے چلانے یا فریادیں کرنے کا کوئی موقع باقی نہیں رہتا۔ نہ ہی کوئی طاقت انھیں اللہ کے عذاب سے بچاسکتی ہے۔ المؤمنون
65 المؤمنون
66 [٦٦] یہ عذاب دراصل ان کے اپنے ہی اعمال کی شامت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ انھیں جب اللہ کی آیات سے نصیحت کی جاتی تھی اور برے انجام سے ڈرایا جاتا تھا تب تو وہ ایسی باتوں کو سننا بھی گوارا نہ کرتے تھے اور اب جب سر سے پانی چڑھ گیا تو پھر چیخنے چلانے کا کیا فائدہ ہوسکتا ہے؟ المؤمنون
67 [٦٧] سمرکالغوی مفہوم:۔ سمر کے معنی رات کے وقت سونے سے پیشتر ایک دوسرے سے قصے کہانیاں بیان کرنا۔ تاکہ ان قصے کہانیوں میں محو ہو کر نیند آجائے۔ یہ قصے یا افسانے یا کہانیاں محض دفع الوقتی یا خوش وقتی کے لئے سنے سنائے جاتے ہیں۔ ان کا اور کچھ مقصد نہیں ہوتا۔ دیہاتوں میں آج بھی یہ دستور ہے کہ بڑے لوگ چھوٹوں کو کوئی بھوت پریت یا ایسی ہی دوسری کہانیاں سناتے ہیں اور مکہ میں بھی یہی دستور تھا۔ اور ھجر کے معنی بیماری، نیم بے ہوشی یا نیم خفگی کی حالت میں مہمل سی باتیں کرنا یا بڑبڑانا۔ گویا مترفین یا ان عیاش لوگوں کا جرم یہ تھا کہ اللہ کی آیات کو سننا بھی گوارا نہ کرتے تھے اور ازراہ تکبر منہ موڑتے ہوئے واپس چلے جاتے تھے۔ مزید برآں ایک دوسرے سے اگر آیات الٰہی کا ذکر کرتے بھی تو انتہائی بے نیازی اور لاپروائی سے جیسے کوئی مہمل سی باتیں یا قصے کہانیاں سنا رہا ہو۔ ان کے ان جرائم کی سزا یہی ہے کہ اب ان کے چھٹکارا کی سب راہیں بند کردی جاتیں اور نہ ہی ان کی آہ و فغاں پر کچھ توجہ دی جائے۔ المؤمنون
68 [٦٨] یعنی اگر لوگ قرآن اور اس کی آیات میں غور کرتے تو انھیں بآسانی معلوم ہوسکتا تھا کہ اس میں وہی باتیں مذکور ہیں تو سابقہ تمام انبیاء کی تعلیم وہی ہے اور جنہیں ان کے آباء و اجداد بھی سنتے رہے ہیں۔ یہ کوئی نئی تعلیم تو ہے نہیں۔ پھر آخر ان کے اس طرح بدلنے کی کیا وجہ ہے؟ بلکہ اگر وہ سنجیدگی سے اس میں غور کرتے تو انھیں خوب معلوم ہوجاتا کہ یہ کلام طعن و تشنیع کے نہیں۔ تعریف کے قابل ہے۔ جس میں سراسر حکمت بھری ہوئی ہے اور کلام بھی نہایت فصیح و بلیغ ہے۔ المؤمنون
69 [٦٩] اللہ کی آیات سے بدلنے کی دوسری وجہ یہ ہوسکتی تھی کہ وہ اپنے اس رسول سے پوری طرح متعارف نہ ہوتے۔ اور جب وہ یہ باتیں اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس کی زندگی ابتداء ہی سے بےداغ رہی ہے۔ اس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ کسی انسان سے فریب نہیں کیا۔ کبھی کسی کی امانت میں خیانت نہیں کی۔ نہ کبھی وعدہ خلافی کی ہے نہ کبھی کسی سے الجھا ہے تو کیا وہ شخص کسی انسان سے کبھی جھوٹ نہیں بولتا وہ اللہ پر جھوٹ بول سکتا ہے کہ اس نے مجھے رسول بنایا ہے اور اللہ کے نام پر تمہیں فریب دے سکتا ہے؟ المؤمنون
70 [٧٠] انکار کی ایک تیسری وجہ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ لوگ اپنے رسول کو دیوانہ سمجھ کر اس کی باتوں کو درخور اعتناء نہ سمجھیں۔ اگر وہ اسے دیوانہ کہہ بھی دیں تو ان کے دل ہرگز اس بات کو تسلیم نہیں کرتے۔ چنانچہ جب دعوت توحید کا چرچا عام ہونے لگا تو قریش سرداروں کو بہت فکر لاحق ہوگئی۔ وہ اس دعوت کو روکنے کے لئے مشورہ کی خاطر ولید بن مغیرہ کے پاس جمع ہوئے۔ ولید بن مغیرہ ابو جہل کا چچا تھا اور حرب بن امیہ کی وفات کے بعد قریش کی سیادت اسی کے ہاتھ آئی تھی۔ ولید بن مغیرہ ایک سمجھدار آدمی تھا۔ کہنے لگا اس سلسلہ میں اپنی اپنی تجاویز پیش کرو انھیں پیش کردہ تجاویز میں سے ایک سردار نے یہ تجویز بھی پیش کی تھی کہ ہم لوگوں کو کہیں گے کہ ’’وہ تو ایک مجنون آدمی ہے‘‘ یہ سن کر ولید بن مغیرہ کہنے لگا : ’’اللہ کی قسم! وہ دیوانہ نہیں ہے۔ ہم نے دیوانوں کو بارہا دیکھا ہے۔ اس کے اندر نہ دیوانوں جیسی دم گھٹنے کی کیفیت ہے، نہ الٹی سیدھی حرکتیں ہیں اور نہ ہی ان جیسی بہکی بہکی باتیں ہیں‘‘ (الرحیق المختوم ص ١٢١) (نیز رسول اور مجنون میں فرق کے لئے دیکھئے سورۃ اعراف آیت نمبر ١٨٤) [٧١] پھر جب یہ سب باتیں ناممکن ہیں۔ تو اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ جو دعوت یہ رسول پیش کر رہا ہے وہ حق اور درست ہو، اور ان کے انکار اور بدکنے کی وجہ صرف یہ ہوسکتی ہے کہ انھیں سچی بات سے چڑ ہوگئی ہے اور وہ اپنی ضد، تعصب اور ہٹ دھرمی کی بنا پر یہ سچی بات قبول کرنے کو تیار نہیں۔ المؤمنون
71 [٧٢]حق لوگوں کی خواہشات کا تابع نہیں :۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ یا اللہ تعالیٰ کے احکام عام لوگوں کی خواہشات کے مطابق نازل ہوں اور اللہ تعالیٰ لوگوں کی خواہشات کے مطابق احکام کرے تو اللہ تعالیٰ مالک مختار رہ کہاں گیا ؟ اس صورت میں تو اللہ تعالیٰ (معاذ اللہ) بندوں کے ہاتھوں میں کٹ پتلی بن گیا۔ پھر خواہشات بھی ہر شخص کی الگ الگ ہیں۔ اور ایک دوسرے کی خواہشات سے ٹکراتی ہیں اس بات کو ایک سادہ سی کہانی سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ کہتے ہیں ایک آدمی کی دو بیٹیاں تھیں۔ اس نے اپنی ایک بیٹی کا نکاح ایک زمیندار لڑکے سے کردیا اور دوسری کا ایک کمہار سے۔ ایک دفعہ وہ اپنی بیٹیوں سے ملنے گیا۔ پہلے بڑی بیٹی کے ہاں گیا تو وہ کہنے لگی۔ ابا جان! کافی عرصہ سے بارش نہیں ہو رہی فصل کو پانی کی شدید ضرورت ہے۔ آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ رحمت کی بارش برسا دے۔ ورنہ اگر فصل نہ ہوئی تو ہم تو بھوکوں مر جائیں گے۔ اس نے بیٹی سے دعا کا وعدہ کیا۔ پھر دوسری بیٹی کے ہاں گیا۔ تو وہ کہنے لگی : ابا جان! ابھی ابھی ہم نے برتنوں والا آوا چڑھایا ہے۔ آپ اللہ سے دعا کریں کہ ابھی کچھ مدت بارش نہ ہو۔ اگر بارش ہوگئی تو ہمارا بہت نقصان ہوجائے گا۔ وہ اس کی بات سن کر کہنے لگا : ’’یا اللہ ! جیسے تیری مرضی ہے ویسے ہی کر۔ اپنے کاموں کو تو ہی بہتر جانتا ہے‘‘ اب اگر مشرکوں کی خواہش کا اتباع کیا جائے تو ان کی تو یہ خواہش ہے کہ ان کے معبودوں کو تصرف امور میں شریک سمجھا ہی نہ جائے بلکہ بنا بھی دیا جائے۔ اب بتلائیے کہ اس صورت میں یہ نظام کائنات ایک ساعت بھی قائم رہ سکتا ہے؟ ایک گھر میں دو منتظم یا ایک مملکت میں دو بادشاہ بھی سما نہیں سکتے تو کیا اس کائنات میں مشرکوں کے سینکڑوں خداؤں کی خدائی سے کائنات کا نظام ایک منٹ بھی چل سکتا ہے۔ حق صرف اس لئے حق ہے کہ لوگ اس کی اتباع کریں نہ یہ کہ حق لوگوں کی خواہشات کی اتباع کرنے لگے۔ اور اگر بفرض محال ایسی صورت ہو تو کوئی بات بھی حق نہ رہے گی۔ [٧٣]قرآن کی تاثیر :عتبہ بن ربیعہ پرقرآن کی آیات کا اثر:۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ ہم نے ان کی طرف قرآن اس لئے نازل کیا تھا کہ وہ ہدایت حاصل کرتے۔ جیسا کہ کفار مکہ کہا کرتے تھے کہ اگر ذکر ہماری طرف نازل کیا جائے تو ہم یقیناً دوسری سب قوموں سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوجائیں گے۔ (٦: ١٥٧) پھر جب ذکر ان کے پاس آگیا تو بجائے اس کے کہ اسے قبول کرلیتے اس سے اعراض کرنے لگے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہاں ذکر سے مراد عزو شرف ہے اور یہ معنی بھی اکثر مفسرین نے اختیار کیا ہے یعنی ہم نے یہ ذکر تمہاری ہی زبان میں نازل کیا تاکہ تم اسے خوب سمجھ سکو پھر رسول نے تمہیں واضح طور پر بتلا دیا کہ اگر تم اس کی تعلیم پر عمل کرو گے تو تم عرب و عجم کے حکمران بن جاؤ گے اور اس کی تائید اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے کہ ایک دفعہ عتبہ بن ربیعہ، جو ایک معزز قریش سردار، نہایت بہادر اور فطرتاً نیک دل انسان تھا۔ حرم میں بیٹھ کر اپنے دوسرے ساتھیوں سے کہنے لگا کہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کچھ باتیں کہنا چاہتا ہوں۔ امید ہے وہ ان میں سے ایک نہ ایک ضرور قبول کرے گا اور اگر اس نے قبول کرلی تو ہم اس مصیبت سے نجات حاصل کرسکیں گے۔ مشرکوں نے کہا : ابو الولید! ضرور یہ کام کرو۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اگر چند باتیں پیش کیں۔ جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ ان سب باتوں کے جواب میں آپ نے سورۃ حم السجدہ کی چند آیات پڑھیں جنہیں عتبہ چپ چاپ سنتا رہا۔ جب آپ اس آیت پر پہنچے ﴿فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُکُمْ صٰعِقَۃً مِّثْلَ صٰعِقَۃِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ ﴾ یعنی اگر یہ لوگ اعراض کریں تو آپ کہہ دیجئے کہ میں تمہیں عاد و ثمود کی کڑک جیسی ایک کڑک کے خطرہ سے آگاہ کر رہا ہوں۔ تو عتبہ کے آنسو بہنے لگے اور آپ کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ قرآن کی یہ آیات اس کے دل کو خوب متاثر کر رہی تھیں اور اسے یہ خطرہ محسوس ہونے لگا کہ کہیں ایسا عذاب اسی وقت نہ آن پڑے۔ وہ چپ چاپ وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا۔ مگر اب وہ پہلا عتبہ نہ رہا تھا۔ جاکر قریشیوں سے کہنے لگا : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کلام پیش کرتا ہے وہ شاعری نہیں کچھ اور ہی چیز ہے تم اسے اس کے حال پر چھوڑ دو۔ اگر وہ عرب پر غالب آگیا تو اس میں تمہاری ہی عزت ہے اور اگر وہ خود ہی ختم ہوگیا تو یہی کچھ تم چاہتے ہو۔ وہ کہنے لگے : ’’ابوالولید! معلوم ہوتا ہے تم پر بھی اس کا جادو چل گیا۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر، ج ٦ د ١٥٩ تا ١٦١) مگر جب یہ عزوشرف بخشنے والا ذکر آگیا تو انہوں نے اس سے اعراض اور نفرت کا اظہار شروع کردیا۔ المؤمنون
72 [٧٤] آپ کی دعوت سے ان لوگوں کے انکار کی ایک چوتھی وجہ یہ بھی ہوسکتی تھی کہ آپ ان سے اپنی اس محنت تبلیغ کا معاوضہ مانگتے ہوں اور وہ اسے تاوان سمجھ کر اس سے انکار کردیں۔ یہ بات بھی نہ تھی۔ نہ صرف یہ کہ آپ بے لوث ہو کر دعوت دین کا کام سرانجام دے رہے تھے بلکہ اس سے کئی مسائل پیدا ہوگئے۔ نبوت سے پہلے آپ تجارت کرتے تھے۔ نبوت کے بعد یہ شغل چھوٹ گیا۔ پہلے آپ مالدار تھے، بعد میں افلاس میں مبتلا ہوگئے۔ پہلے آپ اپنی قوم کی آنکھوں کا تارا تھے۔ بعد میں وہی قوم آپ کی دشمن بن گئی۔ قوم نے آپ سے سمجھوتہ کی خاطر بے شمار مال و دولت قدموں میں ڈھیر کرنے کا لالچ دیا مگر آپ نے اسے ٹھکرا دیا۔ اس سے ان لوگوں کو اتنا بھی پتہ نہیں چل سکتا کہ جو شخص کئی طرح مصیبتیں سہہ کر اور بغیر معاوضہ کے ایسی خدمت سرانجام دے رہا ہے اس کی کوئی غرض دنیا سے وابستہ نہیں ہوسکتی۔ اور جس ہستی کے لئے وہ اتنی مشقتیں برداشت کر رہا ہے اس کا معاوضہ بھی اسی کے ذمہ ہے اور وہ ایسے ذرائع سے رزق مہیا کرتا ہے جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتے۔ المؤمنون
73 [٧٥] سیدھی راہ سے مراد:۔یعنی وہ ایسی موٹی موٹی باتیں ہیں جو ہر پیغمبر پر وحی کی جاتی رہی ہیں۔ ان میں کوئی ایچ پیچ نہیں۔ کوئی پیچیدگی اور ابہام نہیں۔ ان کے دلائل نہایت سادہ اور عام فہم ہیں۔ جو ایک دیہاتی اور بدو کو بھی متاثر کردیتے ہیں۔ ان کے سمجھنے کے لئے کسی لمبی چوڑی تعلیم کی بھی ضرورت نہیں۔ مثلاً ایک بدو سے کسی نے پوچھا کہ کیا اللہ تعالیٰ کی ہستی موجود ہے؟ کہنے لگا’’ ہاں ہے!‘‘ پوچھنے والے نے دوبارہ وال کیا :’’بھلا کیسے؟‘‘ بدو کہنے لگا : ’’اگر ہم راہ میں کوئی اونٹ کی مینگنی پڑی دیکھیں تو ہم اندازہ لگا لیتے ہیں کہ یہاں سے یقیناً کوئی اونٹ گزرا ہے۔ اسی طرح جب ہم یہ کائنات کا اتنا وسیع کارخانہ دیکھتے ہیں لازماً اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اس کا کوئی بنانے والا ضرور ہونا چاہئے‘‘ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ایک گھر میں دو حاکم ہوں تو اس کا نظام کبھی درست نہیں رہتا پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کائنات میں اللہ کے سوا کچھ اور بھی مالک و مختار ہوں؟ اگر ایسی صورت ہو تو کائنات کا نظام تو ایک دن بھی نہ چل سکے۔ اسی طرح ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت اور ہر زمانہ میں مردہ سے زندہ اور زندہ سے مردہ پیدا کرتا رہتا ہے۔ انسان جو غذائیں کھاتا ہے سب بے جان ہیں۔ کئی مراحل کے بعد انھیں غذاؤں سے نطفہ بنتا ہے۔ پھر اسی نطفہ سے ایک جیتا جاگتا انسان پیدا ہوجاتا ہے۔ جس میں اس کے ماں باپ کے خصائل و عادات اور نقش وغیرہ تک کی جھلک موجود ہوتی ہے۔ اسی سے بآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جو کام اس دنیا میں ہر آن ہمارے سامنے ہو رہے ہیں وہ آخر انسان کی موت کے بعد کیوں ناممکن ہیں۔ غرض دین کی اصولی تعلیمات پر غور فرمائیے تو سب باتیں سیدھی، سادہ اور عام فہم نظر آئیں گی اور یہی اصولی باتیں ہی اللہ کی سیدھی راہ ہے۔ المؤمنون
74 المؤمنون
75 المؤمنون
76 [٧٦] کفار مکہ پرقحط:۔ جب ابتدائے اسلام میں ہی کفار مکہ نے مسلمانوں اور پیغمبر اسلام پر مصائب ڈھانا شروع کئے اور یہاں تک مخالفت کی کہ ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کے حضور ان کے حق میں بددعا کی اور فرمایا :’’یا اللہ ! ان پر حضرت یوسف علیہ السلام والے قحط کے سات سال مسلط کر۔‘‘ چنانچہ آپ کی دعا قبول ہوگئی تو ان پر قحط کا عذاب آگیا۔ بارشیں رک گئیں۔ باہر سے غلہ آنا بھی رک گیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ یہ لوگ مردار، ہڈیاں اور خون تک کھانے پر مجبور ہوگئے مگر بھوک پھر بھی نہ مٹتی تھی۔ لوگ بھوکوں مرنے لگے اور بھوک کی وجہ سے اتنے کمزور ہوگئے کہ آسمان کی طرف نظر اٹھاتے تو انھیں دھواں نظر آتا تھا۔ اس واقعہ کا ذکر قرآن میں متعدد مقامات پر آیا ہے اور سورۃ دخان میں صراحت سے مذکور ہے۔ بالآخر ابو سفیان آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا تم تو رشتہ جوڑنے کی تاکید کرتے رہتے ہو اور ہم تمہاری ہی برادری ہو کر بھوکوں مر رہے ہیں ہمارے لئے اللہ سے رحم کی دعا کر۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی اور اللہ نے رحم کردیا۔ بارشیں بھی شروع ہوگئیں اور باہر سے غلہ آنا بھی اور بھلے دن آگئے پھر کفار مکہ سب باتیں بھول گئے اور پھر پہلے کی طرح مسلمانوں کو دکھ دینا شروع کردیا۔ المؤمنون
77 [٧٧] سخت عذاب سے مراد وہ امر ہے جو کافروں کو مسلمانوں کے ہاتھوں پڑتی رہی اور جس کا آغاز غزوہ بدر سے ہوا تھا۔ [٧٨] بلس کےمعنی، مایوسی کی وجہ سےانتقام پرا تر آنا:۔ لفظ مُبْلِسُوْنَ آیا ہے اور بلس کے معنی غم کی وجہ سے سخت مایوس ہوجانا یا سخت مایوسی کی وجہ سے غمگین ہونا پھر اسی مایوسی کی بنا پر برافروختہ ہوجانا یا بھڑک اٹھنا۔ سعدی کا ایک شعر ہے۔ نہ بینی کہ چوں گر بہ عاجز شود۔۔۔۔ برآزر بچنگال چشم پلنگ ترجمہ : تم دیکھتے نہیں کہ چیتے کے مقابلہ میں جب بلی عاجز ہوجاتی ہے اور اسے اپنی موت کا یقین ہوجاتا ہے تو چیتے پر حملہ کرکے اپنے پنجہ سے اس کی آنکھ نکال دیتی ہے۔ یعنی ان کافروں کی یہ حالت ہے کہ جوں جوں انھیں مار پڑتی ہے اور انھیں اپنی کامیابی کے امکان ختم ہوتے نظر آتے ہیں تو بجائے اس کے کہ وہ سیدھی راہ اختیار کریں۔ مزید بروافروختہ ہوجاتے ہیں۔ اور دوسری اقوام اور دوسرے مشرک قبائلی کو اپنے ساتھ ملا کر اجتماعی طور پر مسلمانوں پر حملہ آور ہو کر انھیں صفحہ ہستی سے مٹا ڈالنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔ المؤمنون
78 [٧٩] یعنی اللہ نے تمہیں آنکھیں، کان اور دل اس لیے نہیں دیئے تھے کہ تم ان سے اتنا ہی کام لو جتنا جانور لیتے ہیں۔ دیکھو تو صرف وہ چیز دیکھو جس سے تمہیں دنیوی فائدہ نظر آتا ہو۔ اور سنو تو بھی ایسی ہی بات سنو اور سوچو تو صرف اپنے کاروبار اور روزگار کی بات سوچو یا یہ فکر کرو کہ کون کون سے وسائل سے تمہاری آمدنی کے ذرائع میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ آخر اللہ نے تمہیں جانوروں سے کچھ زائد قوتیں بھی عطا فرمائی ہیں ان سے تم نے کیا کام لیا ؟ اللہ نے تمہیں آنکھیں اس لئے دی تھیں کہ اپنی دنیوی ضرورتیں ہی پوری کرو مگر کائنات میں ہر سو بکھری ہوئی اللہ کی نشانیوں کو بھی دیکھو۔ منزل من اللہ آیات کو اپنے کانوں سے غور سے سنو۔ پھر ان تمام نشانیوں میں غور و فکر کرکے معرفت الٰہی حاصل کرو۔ اور اس کا شکر بجا لاؤ۔ جانوروں کی طرح ان قوتوں کو محض دنیوی مفادات میں کھپا دینا جہاں ایک طرف اللہ کی ناشکری پر دلالت کرتا ہے وہاں اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ تم اپنے آپ کو جانوروں سے بھی بدتر مخلوق ثابت کر رہے ہو۔ المؤمنون
79 [٨٠] یعنی تمہیں ایک نفس سے پیدا کر کے تمام روئے زمین پر پھیلا دیا اور یہ پھیلاؤ کا عمل تاقیامت جاری رہے گا۔ اب جو ذات تمہیں پھیلا سکتی ہے، وہ تمہیں سمیٹ کر اپنے ہاں اکٹھا بھی کرسکتی ہے اور جو کچھ تم اس دنیا میں کرتے رہے اس پر مواخذہ بھی کرسکتی ہے۔ المؤمنون
80 [٨١] گردش لیل ونہار:۔ یعنی وہ اس دنیا میں ہر آن مردہ سے زندہ اور مردہ سے زندہ پیدا کرتا رہتا ہے۔ اگر تم سوچو تو اپنی ذات اور اپنے گردوپیش میں بیسیوں ایسی مثالیں مل سکتی ہیں۔ نیز وہ اندھیرے میں سے اجالا نکالتا ہے اور اجالے کو پھر اندھیرے میں گم کردیتا ہے۔ دن رات کا باری باری آنا، دنوں کی مقدار میں کمی شروع ہونا اور راتوں کا بڑھنے لگنا اور اس کے برعکس راتوں کا گھٹنے لگنا اور دنوں کا بڑھنے لگنا پھر موسموں کا تغیر و تبدل یہ سب چیزیں اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ پھر تمہیں یہ سمجھ نہیں آسکتی کہ جو ہستی اس قدر قدرتوں کی مالک ہے تمہیں اپنے پاس اکٹھا کرکے حاضر کرلینے کی بھی قدرت رکھتی ہے۔ موجودہ نظریہ کے مطابق ہماری زمین کی دو قسم کی گردشیں ہیں ایک روزانہ یعنی ٢٤ گھنٹے میں اپنے محور کے گرد اور دوسری سالانہ سورج کے گرد ساڑھے چھیاسٹھ ڈگری کا زاویہ بناتے ہوئے۔ اسی سے دن رات وجود میں آتے ہیں اور موسموں میں تغیر و تبدل ہوتا ہے۔ یہ تو محض نظریہ کا فرق ہے جہاں تک اللہ کی قدرت کا تعلق ہے اس کا بہرحال ہر ایک کو اعتراف کرنا ہی پڑتا ہے۔ بلکہ موجودہ نظریہ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور بھی زیادہ نمایاں ہوجاتی ہے جس نے ہماری زمین اور اس سے بھی بہت بڑے اجرام فلکی کو اس طرح مصروف گردش بنا رکھا ہے جس سے وہ سر مو نہ تجاوز کرتے ہیں نہ کرسکتے ہیں۔ المؤمنون
81 المؤمنون
82 [٨٢] کفار مکہ سے جب بدوی لوگ پوچھتے کہ تم میں جو نبی پیدا ہوا ہے اس کی تعلیم کیا ہے؟ تو وہ کہہ دیتے کہ اس میں کوئی نئی بات تو ہے نہیں وہی پرانے لوگوں کی داستانیں اور قصے کہانیاں ہیں۔ جو ہم پہلے بھی سنتے آئے ہیں۔ اور یہ بات وہ اس لئے کہتے تھے کہ انبیاء کی بنیادی اور اصولی تعلیم ایک ہی جیسی رہی ہے۔ ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ خود بھی تو اپنے پیغمبر کو وہی بات کہہ رہے ہیں جو ان کے آباء و اجداد انبیاء کی مخالفت میں کہتے چلے آئے ہیں کہ ’’جب ہم مرجائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہوجائیں گے تو کیا پھر ہمیں زندہ کرکے اٹھایا جائے گا ؟‘‘ یہ خود بھی تو وہی پرانی گھسی پٹی بات دہرا رہے ہیں۔ دلیل کے ساتھ انھیں کوئی نیا جواب میسر نہیں آرہا۔ پھر کیا ان کا یہ قول ہی پرانے افسانے پر نہیں؟ جو محض تقلید آباؤ کے طور پر کہی جاتی ہے۔ المؤمنون
83 المؤمنون
84 المؤمنون
85 [٨٣] یعنی انھیں خود اس بات کا اعتراف ہے کہ زمین اور اس میں جو کچھ موجود ہے وہ اللہ ہی ملکیت ہے وہ خود بھی جو زندہ ہیں اور اس زمین پر چل پھر رہے ہیں اور وہ بھی جو مر کر زمین کے اندر چلے گئے ہیں خواہ وہ مٹی میں مل کر مٹی ہی بن چکے ہوں سب کچھ اللہ کے قبضہ قدرت اور اس کی ملکیت میں ہے۔ پھر وہ یہ بات کیوں تسلیم نہیں کرتے کہ اللہ اس مٹی سے جس میں ان کا وجود مل چکا ہے انھیں دوبارہ پیدا کردے۔ المؤمنون
86 المؤمنون
87 [٨٤] پہلی آیت میں صرف زمین اور اس میں موجودات کی ملکیت کے متعلق سوال تھا۔ اس آیت میں پوری کائنات کی ملکیت کا سوال ہے۔ کفار مکہ کو یہ بھی اعتراف تھا کہ اس پوری کائنات کا مالک و مختار صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کے معبودوں کے اس کائنات میں تصرف کے اختیار کہاں سے آگئے؟ انھیں اس بات سے ڈر نہیں لگتا کہ اللہ کے تصرف و اختیار میں ایسی چیزوں کو شریک بنا رہے ہیں۔ جو دوسروں کے تو کیا، اپنے بھی نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں۔ ایسے صریح ظلم اور اس کے انجام سے انھیں ڈر نہیں لگتا ؟ المؤمنون
88 [٨٥]ملکوت کالغوی معنی:۔ اس آیت میں ملکوت کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جس میں مُلک ، مِلک اور مَلک تینوں معنی پائے جاتے ہیں۔ نیز یہ مبالغہ کا صیغہ ہے جس کا مطلب ہے ہر چیز پر مکمل حاکمیت یا بادشاہی۔ ہر چیز کی پوری کی پوری ملکیت اور ہر چیز پر پورے کا پورا اختیار و تصرف۔ لہٰذا وہ جونسی بھی چیز کو چاہے اسے اپنی پناہ میں لے سکتا ہے اور کوئی دوسرا اس کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔ مگر جس چیز کو وہ پکڑے تو اسے نہ کوئی اس سے چھڑ سکتا ہے اور نہ ہی پکڑنے سے پیشتر پناہ دے سکتا ہے۔ اس آیت میں مشرکین مکہ کے اعتراف سے معلوم ہوا کہ ان کا عقیدہ تھا کہ جس کو اللہ پکڑ لے اس کو نہ کوئی پناہ دے سکتا ہے اور نہ چھڑا سکتا ہے۔ مگر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آج کے مشرکین، مکہ کے مشرکوں سے بھی آگے نکل گئے ہیں جو یہ کہتے ہیں : خدا جے پکڑے چھڑا ئے محمد محمد جے پکڑے چھڑا کوئی نہیں سکدا یعنی اگر اللہ کسی کو پکڑ لے تو اسے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چھڑا لیں گے اور اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکڑ لیں تو اسے کوئی چھڑا نہیں سکتا۔ اس شعر سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی پکڑنے اور لوگوں سے مواخذہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ دوسری یہ کہ ان کے یہ اختیارات اتنے وسیع ہیں کہ ان کے پکڑے ہوئے کو کوئی (یعنی اللہ تعالیٰ جیسا کہ شعر میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلہ پر خدا کا لفظ استعمال ہوا ہے) بھی چھڑا نہیں سکتا۔ پھر جب اس شعر پر اعتراض کیا جاتا ہے تو اس کی ایسی توجیہ بیان کرکے اسے درست ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو ''عذر گناہ، بدتر از گناہ'' کا مصداق ہوتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کا رد پیش کیا جارہا ہے۔ المؤمنون
89 [٨٦] زیادہ خداؤں کا نتیجہ نظام کائنات کادرہم برہم ہوناہے:۔ کفار مکہ یہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ ہر چیز کی ملکیت اور اس پر پورے کا پورا اختیار و اقتدار اللہ ہی کو ہے۔ پھر یہ لوگ دوسروں کو اللہ کے اختیار و تصرف میں شریک کرکے اپنی مسلمہ بات کی خود ہی تردید بھی کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان مشرکوں کو مخاطب کرکے پوچھ رہے ہیں کہ تم جو اپنے پیغمبر کو کبھی ساحر اور کبھی مسحور کہتے ہو، حقیقت یہ ہے کہ مسحور پیغمبر نہیں بلکہ مسحور تم خود ہو۔ جو ایسی حقیقت کا انکار کر رہے ہو جس کا تمہیں خود بھی اعتراف ہے۔ اور جسے تم حقیقت سمجھ رہے ہو تو محض تمہارے باطل نظریات ہیں۔ حقیقت کا اعتراف کرنے کے باوجود حقیقت تم سے اوجھل ہے۔ ایسا جادو آخر کہاں سے تم پر چل گیا ہے؟ المؤمنون
90 [٨٧] سابقہ آیات میں تین باتوں کا اعتراف کرنے سے مشرکین پر حجت قائم ہوجاتی ہے ایک طرف تو وہ یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور ہر طرح کا تصرف و اختیار اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے معبودوں کا بھی مالک اللہ تعالیٰ ہے اور وہ ایسے ہی مملوک ہیں جیسے کائنات کی دوسری اشیاء اور مخلوقات اور مملوک کبھی مالک کے اختیارات میں شریک نہیں ہوسکتا۔ یہی وہ حق بات ہے جو ہم نے انھیں بتلائی ہے اور جس کا اعتراف وہ خود کر رہے ہیں۔ رہے ان کے زبانی دعوے کہ ان کے معبود بھی کچھ اختیارات رکھتے ہیں تو اپنے اقرار و اعتراف کی بنا پر بھی وہ جھوٹے قرار پاتے ہیں۔ المؤمنون
91 [٨٨] جبکہ مشرکین اپنی دیویوں لات، منات اور عزیٰ کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے اور باقی ممالک کے مشرکین نے تو ایسی دیو مالا تیار کی کہ اللہ کی نسل ہی چلا دی۔ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دیا اور یہود نے حضرت عزیر علیہ السلام کو۔ اب ظاہر ہے کہ بیٹا مملوک نہیں ہوتا بلکہ شریک ہوتا ہے۔ اب ایک طرف تو مشرکین مکہ یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہر چیز کا مالک اللہ ہے اور ہر چیز اس کی مملوک ہے۔ لہٰذا اگر ہر چیز کو مملوک مان لیا جائے تو کوئی بھی چیز اس کی اولاد نہیں ہوسکتی۔ یا پھر اس کلیہ سے دستبردار ہونا پڑے گا کہ ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ [٨٩] اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کو الٰہ ماننے سے مشکل یہ پیش آتی ہے کہ الٰہ صرف وہی ہوسکتا ہے جس کے پاس کچھ اختیارات بھی ہوں۔ اس طرح اللہ کے علاوہ بہت سے اصحاب اختیار و اقتدار سامنے آجاتے ہیں اور ہر ایک کی یہ کوشش ہوگی کہ دوسرے کو بات کرکے خود غالب آجائے پھر جس مخلوق پر کسی الٰہ کا اختیار چلتا ہوگا یقیناً وہ اسے اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرے گا۔ اور اقتدار کی اس جنگ میں لامحالہ کائنات کا نظام بھی تباہ ہوکے رہے گا۔ لیکن چونکہ کائنات کے نظام میں ہم آہنگی اور استقلال پایا جاتا ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ دوسرے معبودوں اور ان کے اختیارات کا عقیدہ باطل اور لغو ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات ان بے ہودگیوں سے پاک ہے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں۔ المؤمنون
92 [٩٠] یعنی اللہ کے علاوہ اگر کسی اور ہستی کے پاس رتی بھر بھی اختیارات ہوتے تو اس کا سب سے پہلے علم اللہ کو ہی ہوسکتا تھا کیونکہ موجود اشیاء اور موجودہ علم کے علاوہ وہ غیر موجود اشیاء اور نامعلوم علم کا بھی جاننے والا ہے اور اس سے کوئی چیز بھی مخفی رہنا ناممکنات سے ہے۔ اور اپنی اس وسعت علم کی بنا پر ہی یہ فرما رہا ہے کہ اللہ کے علاوہ نہ کوئی الٰہ ہوسکتا ہے نہ کسی کے پاس کسی قسم کا کوئی اختیار ہے لہٰذا مشرکوں کے ان بیہودہ عقائد سے اللہ کی شان بہت بلند و بالا ہے۔ المؤمنون
93 المؤمنون
94 [٩١] اس آیت میں بھی اگرچہ خطاب بظاہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہے لیکن یہ ہدایت عام مومنوں کے لئے ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں اکثر یہ انداز اختیار کرلیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مشرکین جس طرح اللہ کے حق میں یہ گستاخیاں کر رہے ہیں، عین ممکن ہے کہ ان پر کوئی آفت آکر رہے۔ لہٰذا مومنوں کو یہ ہدایت کی گئی کہ ایسے حالات میں وہ اللہ سے دعا کرتے رہیں کہ اگر ظالموں پر عذاب آئے تو اللہ انھیں اس عذاب سے بچانے کی کوئی صورت پیدا فرما دے۔ المؤمنون
95 [٩٢] کفار مکہ پر اس قسم کے عذاب کا آغاز غزوہ بدر سے ہی ہوگیا تھا۔ اور اختتام حجۃ الوداع کے دن اعلان برأت پر ہوا۔ جس کی رو سے مشرکین مکہ ہی نہیں بلکہ عرب بھر کے مشرکوں کو چار ماہ کی مہلت دی گئی کہ اس عرصہ کے اندر خواہ وہ اسلام قبول کرلیں یا جزیرۃ العرب کو خالی کردیں اور یہاں سے نکل جائیں۔ یا پھر ان سے جہاد کرکے ان کا کلی استیصال کردیا جائے یہ تو وہ عذاب تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ہی ان پر نازل ہوا اور خلفائے راشدین کے زمانہ میں آس پاس کے ممالک سے مشرک اور مشرکین کا کلی طور پر خاتمہ ہوگیا اور اسلام کا بول بالا ہوا۔ المؤمنون
96 [٩٣] یعنی اگرچہ ہم اس بات پر قادر ہیں کہ آپ کے جیتے جی انھیں وہ عذاب چکھا دیں جس کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے۔ مگر ہنوز وہ وقت نہیں آیا ابھی آپ کے لئے بہتر حکمت عملی یہی ہے کہ آپ ان مشرکوں کے برے سلوک اور ناگوار اور تلخ باتوں کا جواب بھلائی سے دیں ابھی ان میں کئی لوگ ایسے موجود ہیں جن کے لئے ہدایت مقدور ہوچکی ہے۔ ربط مضمون کے لحاظ سے اس لکا مطلب یہی ہے جو اوپر بیان ہوا۔ تاہم داعی حق کے لئے یہ ایک نہایت قیمتی اصول ہے اور اس کا نتیجہ ہمیشہ خوشگوار نکلتا ہے اسی اصول کو قرآن نے ایک دوسرے مقام پر یوں بیان فرمایا ہے۔ آپ برائی کا جواب بھلائی سے دیا کیجئے اس طرح تمہارا دشمن بھی تمہارا دلی دوست بن جائے گا۔ (٤١: ٣٤) نیز یہ جملہ ایک ایسی آفاقی حقیقت Universal Truth ہے۔ جس کا ہر شخص، ہر حال میں اور ہر زمانہ میں تجربہ کرکے اس کے خوشگوار اثرات سے مستفید ہوتا رہا ہے اور ہوسکتا ہے۔ پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ اصول جتنا مفید ہے اتنا ہی اس پر عمل پیرا ہونا مشکل ہے۔ یہ ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ صاحب عزم انسان ہی اس پر عمل پیرا ہوسکتے ہیں۔ المؤمنون
97 المؤمنون
98 [٩٤] سابقہ آیات میں ان دشمنوں کا ذکر تھا جو انسانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ خود بھی اور ان کے معاندانہ اعمال و افعال بھی سب کچھ کم از کم نظر تو آتے ہیں اور انسان ان کا مداوا بھی سوچ سکتا ہے ان دو آیات میں ان دشمنوں کا ذکر ہے جو جنوں یا شیطانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور جو انسانوں کے جسم میں داخل ہو کر برے خیالات اور برے ارادوں کے ذریعہ یوں حملہ آور ہوتے ہیں کہ انسان نہ انھیں دیکھ سکتا ہے اور نہ ان کی کارکردگی کو۔ اور بعض دفعہ انسان ایسے دشمن کی اکساہٹ پر کوئی ایسی حرکت کر بیٹھتا ہے جو اس کے برسوں کے کئے کرائے پر پانی پھیر دیتی ہے۔ ایسے دشمن کے حملہ سے بچاؤ کا طریقہ یہ ہے کہ انسان اللہ کی پناہ میں آجائے۔ اور یہ دعا کرتا رہے جو ان دو آیات میں سکھلائی گئی ہے۔ المؤمنون
99 [٩٥] رَبِّ ارْجِعُوْنَ میں اپنے پروردگار سے ندا کے بعد جمع مذکر کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ رَبِّ ارْجِعِنِیْ نہیں استعمال کیا گیا۔ جس کا غالباً ترجمہ و مطلب یوں بنتا ہے کہ اے میرے پروردگار! میں تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ یہ فرشتے جو میری جان نکالنے آئے ہیں یہ مجھے دنیا میں واپس لوٹا دیں۔ اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بے شمار مقامات پر فرشتوں کے عمل کو اپنا ہی عمل قرار دیتے ہوئے اس کی نسبت اپنی طرف بھی کی ہے۔ اس لحاظ سے یہ ترجمہ بھی درست ہے کہ اے میرے پروردگار! مجھے دنیا میں واپس بھیج دے۔ المؤمنون
100 [٩٦] کلا یہاں دو معنی دے رہا ہے ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ چونکہ مرنے کے بعد دوبارہ کسی انسان کو اس دنیا میں واپس بھیجنا میرے قانون اور میری مشیت کے خلاف ہے۔ لہٰذا ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ اور دوسرا یہ کہ یہ جو مرنے والا کہہ رہا ہے کہ میں اب دنیا میں جاکر برے اعمال کے بجائے نیک اعمال بجا لاؤں گا تو یہ ایک بے کار سی بات ہے۔ کیونکہ موت کے وقت کے حالات کا مشاہدہ کرلینے اور فرشتوں کو دیکھ لینے کے بعد تو ایمان بالغیب رہتا ہی نہیں۔ اور مطلوب ایمان بالغیب ہے نہ کہ ایمان بالشہادۃ موجود اور دیکھی ہوئی چیز کا اقرار تو ہر شخص کرلیتا ہے اور اسے ایمان یا ایمان بالغیب نہیں کہہ سکتے نہ ہی اس عورت میں یہ دنیا دارالامتحان رہتی ہے۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ انسان کی عادت ہے کہ مصیبت کے وقت اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے پھر جب وہ مصیبت دور ہوجائے اور خوشحالی میسر ہو تو وہ مصیبت کے اوقات اور اس مصیبت میں اللہ کے کئے ہوئے وعدہ وغیرہ سب کچھ بھول جاتا ہے۔ اور اس صورت کی عام مشاہدہ سے بھی تائید ہوجاتی ہے۔ اور قرآن کریم کی کئی آیات سے بھی۔ اس لحاظ سے بھی کسی مرنے والے انسان کو دوبارہ دنیا میں بھیجنا بے کار ہے۔ لہٰذا موت کے وقت جو کچھ وہ مرنے والا کہہ رہا ہے محض ایک بکواس ہی ہوگی جس کا کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ [٩٧]برزخ زمانی ازموت تاقیام قیامت:۔ یہاں برزخ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا معنی پردہ، آڑ، روک وغیرہ ہے اور بعض کے نزدیک یہ لفظ فارسی لفظ پردہ ہی کا معرب ہے۔ لیکن، روک یا پردہ ایسا نہیں جیسے دو چیزوں کے درمیان کوئی کپڑا لٹکا کر یا دیوار بنا کر ہر چیز کو دوسری سے اوجھل کردیا جاتا ہے۔ جبکہ اس روک میں ایک طویل مدت زمانی بھی شامل ہے۔ اور یہ برزخ کسی انسان کی موت کے وقت سے لے کر اس کے دوبارہ جی اٹھنے تک کے زمانہ کو محیط ہے۔ اہل برزخ سے عالم دنیا بھی اوجھل ہوتا ہے اور عالم عقبیٰ بھی۔ اس عالم برزخ کو اللہ تعالیٰ نے موت کے زمانہ سے تعبیر کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس عرصہ کے دوران موت کے اثرات غالب ہوتے ہیں۔ تاہم روح چونکہ زندہ ہی رہتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہوتی ہے۔ لہٰذا اس عرصہ میں ہی زندگی کے تھوڑے بہت آثار پائے جاتے ہیں۔ اس عرصہ میں میت کو عذاب و ثواب بھی ہوتا ہے لیکن عذاب و ثواب قیامت کے عذاب و ثواب کی نسبت بہت ہلکا ہوتا ہے اسی عرصہ کے عذاب کو عذاب قبر کہتے ہیں خواہ میت کا جسم قبر میں موجود ہو یا گل سڑ گیا ہو یا درندوں نے کھالیا ہو یا پانی کی تہہ میں چلا گیا ہو۔ المؤمنون
101 [٩٨]قیامت کے دن سب رشتہ داریاں بھول جائیں گی:۔ جب دوسری بار صور پھونکا جائے گا تو یہی دن مردوں کا اپنی قبروں سے جی کر اٹھنے اور اللہ کے حضور حاضر کئے جانے کا دن ہوگا اسی دن کو قیامت کا دن کہا جاتا ہے یہ دن چونکہ ہمارے موجودہ حساب کے مطابق پچاس ہزار برس کا ہوگا۔ لہٰذا اس مدت میں انسان کو بہت سی قسم کے حالات اور واقعات سے دو چار ہونا پڑے گا۔ اس آیت میں جو کیفیت بیان کی گئی ہے۔ وہ زندہ ہونے کے بعد ابتدائی کیفیت ہے۔ اس وقت دہشت اور ہولناکی اس قدر زیادہ ہوگی کہ ہر ایک کو اپنی اپنی ہی پڑی ہوگی سب رشتہ داریاں بھول جائیں گے۔ پھر جبکہ ہر آدمی اپنے حقیقی رشتہ داروں سے بھی الگ رہنے اور دور بھاگنے کی کوشش کرے گا ایک دوسرے کا حال پوچھنا تو دور کی بات ہے۔ المؤمنون
102 المؤمنون
103 [٩٩]میزان الاعمال کےنتائج:۔ ان دو آیات میں قیامت کے دن کا ایک دوسرا منظر سامنے لایا گیا ہے۔ جبکہ ہر شخص کے اعمال کا ٹھیک ٹھیک وزن کیا جائے گا اور پلڑا بھاری ہونے سے یہاں مراد نیکیوں والا پلڑا ہے۔ اور اصل چیز جو اس پلڑے کو بھاری اور وزن دار بناسکتی ہے وہ کلمہ توحید اور اس پر استقامت ہے۔ پھر اسی کے مطابق اعمال صالح اس کی تائید مزید کریں گے۔ نیکیوں کا پلڑا جھکنے پر فوراً صاحب عمل کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ دنیا کے امتحان میں پاس ہوگیا ہے اور اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہے گی۔ اور جس کا نیکیوں کا پلڑا ہلکا ہونے کی وجہ سے اوپر اٹھ گیا اور برائیوں کا پلڑا بھاری ہوا تو ایسے لوگ اس امتحان میں فیل اور ناکام ہوجائیں گے پھر ایک تو اس ناکامی پر انھیں افسوس اور حسرت ہوگی، دوسرے اس کے نتیجہ میں جہنم کا عذاب ان کے لئے پہلے ہی تیار ہوگا اور ان کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہوگی کہ وہ اللہ کی توحید کے اقرار کے ساتھ شرک بھی کرتے رہے ہوں گے اور خسارہ کی صورت یہ ہوگی کہ وہ اچھے عمل بھی کرتے رہے، لعنت بھی کی مگر شرک کی آمیزش کی وجہ سے وہ اعمال ان کے کام بھی نہ آئے۔ الٹا جہنم کے عذاب سے دو چار ہونا پڑگیا۔ المؤمنون
104 [١٠٠] کَلَحَ کالغوی مفہوم:۔کلح کا لغوی معنی بدشکل ہونا یا حلیہ کا اس طرح بگڑ جانا ہے جس سے انسان بدصورت اور ڈراؤنا معلوم ہو۔ وہ یوں کہ اوپر کا ہونٹ اوپر کو اٹھ جائے اور نیچے کا نیچے کو اور بڑے بڑے دانت سامنے نظر آئیں جیسے ابھی کسی کو پھاڑ کھائے گا۔ یعنی جہنم کی آگ ان کے چہروں کا اس طرح حلیہ بگاڑ کے رکھ دے گی۔ المؤمنون
105 المؤمنون
106 المؤمنون
107 [١٠١] ظالم لوگ موت کے وقت بھی دوبارہ دنیا میں واپس جانے کی التجا کریں گے جیسا کہ اس سورۃ کی آیت نمبر ١٠٠ میں گزر چکا ہے اور دوزخ میں داخل ہونے کے وقت بھی۔ لیکن ان کی یہ التجا کن وجوہ کی بنا پر ناقابل قبول ہوگی، اس کی تشریح مذکورہ بالا آیت کے حاشیہ میں ملاحظہ فرما لیجئے۔ المؤمنون
108 [١٠٢] خسأکالغوی مفہوم:۔ خساء کا لفظ کتے اور سور کو دھتکارنے کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے ہم پنجابی زبان میں کتے کو دھتکارنے یا دفع کرنے کے لئے ''در در'' کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ پھر اس کا استعمال ہر اس شخص کے لئے بھی ہونے لگا جسے حقیر اور ذلیل سمجھ کر دفع ہونے یا نکل جانے کو کہا جائے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ان کی التجا کے جواب میں فرمائے گا کہ تم اس قدر ذلیل مخلوق ہو کہ تمہارا اس جہنم میں پڑے رہنا ہی مناسب ہے اور دیکھو! آئندہ مجھ سے کوئی ایسی التجا نہ کرنا۔ المؤمنون
109 المؤمنون
110 [١٠٣] کیونکہ دنیا میں تمہاری حالت یہ تھی کہ جب میرے مخلص بندے تیرے آگے دعا و استغفار کرتے تھے یا میری عبادت کرتے تھے تو تم ان پر ہنسا کرتے تھے۔ اس قدر ٹھٹھا کرتے اور ان کی نیک خصلتوں کا اتنا مذاق اڑاتے تھے کہ ان کے پیچھے پڑے رہنے کی وجہ سے تم نے میری یاد بھی بھلا دی۔ اور تمہیں اس بات کا احساس ہی نہ رہا تھا کہ تمہارے سر پر کوئی ایسی ہستی موجود ہے جو ہر وقت تمہاری ان کرتوتوں کو دیکھ رہی ہے۔ اور وہ تمہیں شرارتوں کی سزا دینے پر قادر بھی ہے۔ المؤمنون
111 [١٠٤] لیکن تمہارے اس تمسخر اور مذاق کے مقابلہ میں میرے مخلص بندے دنیا میں صبر ہی کرتے رہے۔ آج میں تمہیں تمہاری کرتوتوں کی پوری سزا دوں گا اور انھیں ان کے صبر کی پوری پوری جزاء دے رہا ہوں۔ میں انھیں ایسا مقام عطا کر رہا ہوں جہاں وہ ہر طرح کی لذتوں اور مسرتوں سے ہمکنار ہوں گے اور یہی صبر کرنے والے لوگ ہیں جو ہر طرح سے کامیاب رہے۔ المؤمنون
112 المؤمنون
113 [١٠٥] ان مذاق اڑانے والوں اور دوزخ میں داخل ہونے والوں سے اللہ تعالیٰ یا اس کے فرشتے سوال کریں گے : ’’بھلا بتلاؤ تو کہ تم زمین میں کتنے سال مقیم رہے؟‘‘ اس سوال میں زمین سے مراد صرف دنیا کی زندگی بھی ہوسکتی ہے اور قبر کی زندگی سمیت مجموعی زندگی بھی۔ جس کے جواب میں وہ کہیں گے کہ ہمیں تو ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ ہم زمین میں بھی کوئی ایک آدھ دن مقیم رہے ہیں اور ٹھیک ٹھیک مدت تو شمار کرنے والے ہی بتلا سکتے ہیں۔ ان سے پوچھ لیجئے۔ اس جملہ میں عادین یا شمار کرنے والوں سے مراد اعمال نامہ مرتب کرنے والے فرشتے بھی ہوسکتے ہیں۔ جو ایک ایک دن بلکہ ایک ایک گھڑی کے اعمال ساتھ ہی ساتھ ریکارڈ کرتے جارہے ہیں۔ المؤمنون
114 [١٠٦] یعنی یہی بات تو اللہ تعالیٰ نے فرمائی تھی کہ تمہاری یہ زندگی چند روزہ اور ناپائیدار ہے۔ لہٰذا دنیا اور اس کے ساز و سامان پر مست نہ ہوجاؤ بلکہ آخرت کی فکر کرو۔ لیکن اس وقت تو تم ہماری اس بات کا بھی مذاق اڑایا کرتے تھے اور یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ بس یہ دنیا ہی دنیا اصل حقیقت ہے۔ لہٰذا ہم جتنے مزے اڑاسکتے ہیں اڑا لیں۔ پھر کب ایسا موقع ملے گا ؟ اور آج تم خود اس بات کا اقرار کر رہے ہو۔ کاش یہی بات تمہیں دنیا کی زندگی میں معلوم ہوجاتی۔ المؤمنون
115 [١٠٧]اعمال کے نتائج بھگتنے کےلیےایک طویل مدت (آخرت) کی ضرورت :۔ یعنی تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم اس دنیا میں عیش و آرام کرنے اور مزے لوٹنے کے لئے ہی پیدا ہوئے ہیں۔ اسی دنیا میں نہ ظالم کو اس کے ظلم کا بدلہ ملتا ہے نہ اپنے خیال کے مطابق نیک اعمال کرنے والوں کو ان کی نیکی کا بدلہ ملتا ہے اور نہ ہی کوئی انسان دوبارہ زندہ ہو کر واپس آیا ہے۔ جو یہ خبر دے کہ ظالموں کو اس کے ظلم کی سزا ملی ہے۔ لہٰذا تم نے یقین کرلیا کہ یہی دنیا ہی دنیا ہے جیسے ہی بن پڑے یہاں عیش و عشرت کا سامان اکٹھا کرلو حالانکہ اگر تم اس کائنات کے نظام عدل میں ذرا بھی غور کرتے تو تمہیں معلوم ہوجاتا کہ یہ کائنات اور اس میں انسان کو محض ایک کھیل تماشہ کے طور پر نہیں بنایا گیا لیکن ہر سبب ایک نتیجہ پیدا کر رہا ہے پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ تمہارے اچھے اور برے اعمال کا کوئی نتیجہ مرتب نہ ہو۔ اور چونکہ دنیا کی زندگی اعمال کے نتیجہ بھگتنے کے لحاظ سے بہت قلیل ہے۔ لہٰذا مرنے کے بعد اب طویل زندگی کا قیام ضروری ہوا۔ تاکہ عدل و انصاف کے تقاضے پورے کیا جاسکیں۔ المؤمنون
116 [١٠٨] اللہ تعالیٰ نے کبھی کوئی چیز بےکار پیدا نہیں کی :۔ یعنی اللہ تعالیٰ ہی حقیقی خالق و مالک اور بادشاہ ہے۔ اس کی شان اس بات سے بہت بلند ہے کہ وہ کوئی چیز بے کار و بے فائدہ پیدا کرے۔ اس نے جس چیز کو بھی پیدا کیا ہے۔ متعدد اغراض و مصالح کے تحت پیدا کیا ہے۔ اور جو نتائج اس سے مطلوب ہیں وہ حاصل ہو رہے ہیں اور ہوکے رہیں گے اس کی ذات اس چیز سے بھی بلند ہے کہ ظالموں کو ان کے ظلم کی سزا نہ دے۔ یا مخلص بندوں کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ نہ دے۔ اس کے علاوہ کوئی ایسا حاکم نہیں جو اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہوسکے یا سفارش کرکے اس کے فیصلوں میں رد و بدل کروا سکے۔ وجہ یہ ہے کہ کائنات کی سب سے بڑی چیز یعنی عرش عظیم کا بھی وہی مالک ہے پھر کوئی دوسری چیز کس شمار میں ہوسکتی ہے۔ المؤمنون
117 [١٠٩] غیر اللہ کوپکارنےپرکوئی عقل یانقلی دلیل موجودنہیں :یعنی جو لوگ اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی پکار کر شرک کے مرتکب ہو رہے ہیں اور انہوں نے انھیں اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ رکھا ہے۔ تو ان کے پاس اس کے جواز میں نہ کوئی عقلی دلیل موجود ہے اور نہ نقلی۔ ایسے من گھڑت قصوں کی بنیاد محض وہم و گمان پر ہوتی ہے پھر تقلید آباء کی وجہ سے یہ نظریے لوگوں میں رواج پا جاتے ہیں۔ ایسے مشرکوں سے اللہ تعالیٰ پورا پورا حساب لے گا اور ہر ایک کو اس کے مقدار جرم کے مطابق سزا دی جائے گی۔ اور ایسے ہٹ دھرم اور منکر لوگ جو سمجھانے پر باز نہیں آتے۔ آخرت میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ المؤمنون
118 [١١٠] اوپر اسی سورۃ کی آیت نمبر ١٠٩ میں ذکر ہوا ہے کہ جب میرے بندے مجھ سے مغفرت اور رحم کی دعا کرتے تو کافر ان کا مذاق اڑاتے تھے۔ ان کا انجام بتلانے کے بعد پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کو یہ ہدایت دی جارہی ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ سے رحم اور مغفرت کی دعا مانگتے رہا کریں۔ اور اللہ چونکہ سب سے بڑھ کر اور سب سے رحم کرنے والا ہے لہٰذا تمہیں یقین رکھنا چاہئے کہ وہ تم پر رحم کرتے ہوئے تمہاری تقصیرات اور خطاؤں کو معاف فرما دے گا۔ المؤمنون
0 [١] سورہ نورکے نزول کا پس منظر :۔سورۃ نور غزوہ بنی مصطلق کے بعد ٦ ہجری میں نازل ہوئی۔ اور غزوہ بنی مصطلق، غزوہ احزاب یا غزوہ خندق کے بعد واقع ہوا تھا۔ غزوہ خندق کے موقع پر اتحاد کافروں کا لشکر دس ہزار کے لگ بھگ تھا اور یہ لشکر ایک ماہ کے بعد ناکام واپس لوٹا تھا۔ اس موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ’’آج کے بعد کافر ہم پر حملہ آور نہیں ہوں گے۔ بلکہ اب ہم ان پر حملہ آور ہوا کریں گے‘‘ جس کا واضح مطلب یہ تھا کہ اسلام اور اسلامی ریاست اتنی مضبوط اور اپنے پاؤں پر قائم ہوچکی تھی۔ اور کفر کی تمام قوتوں، جس میں مشرکین مکہ، دوسرے مشرک عرب قبائل، مدینہ کے یہود اور منافقین سب شامل تھے، میں اب اتنی سکت باقی نہ رہ گئی تھی کہ سب مل کر بھی مدینہ پر حملہ آور ہوسکیں۔ میدان جنگ میں مات کھانے کے بعد ان لوگوں نے یہ حربہ اختیار کیا کہ جس طرح بن پڑے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرکے اور ان میں پھوٹ ڈال کر اس طاقت کو کمزور بنا دیا جائے۔ منافق چونکہ مسلمانوں کے اندر گھسے ہوئے تھے اس لئے وہ اس سلسلہ میں سب سے اہم کردار ادا کرسکتے تھے۔ غزوہ بنی مصطلق سے واپسی سفر کے دوران عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین نے اسی سازش کے تحت دو کارنامے سرانجام دیئے۔ اتفاق سے انصار اور مہاجرین میں کچھ جھگڑا ہوگیا۔ تو عبداللہ بن ابی نے اس واقعہ کو اتنی ہوا دی کہ حمیت جاہلیت سے کام لے کر انصار اور بالخصوص منافقوں کو اتنا برافروختہ کردیا کہ قریب تھا کہ ان میں لڑائی چھڑ جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس بات کا اطلاع ہوئی تو آپ نے فوراً موقع پر پہنچ کر حالات پر کنٹرول کرلیا۔ اس دوران عبداللہ بن ابی نے بہت بکواس کی جس کا تفصیلی ذکر سورۃ منافقون میں آئے گا۔ دوسرا کارنامہ یہ تھا کہ اس نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگا دی اور یہ واقعہ ''افک'' کے نام سے مشہور ہے۔ اس واقعہ کا ان منافقوں نے اس قدر پروپیگنڈا کیا کہ بعض مخلص مسلمان بھی اس پروپیگنڈا سے متاثر ہوگئے۔ واقعہ افک کا تفصیلی ذکر تو آگے آرہا ہے سردست یہ بتلانا مطلوب ہے کہ پورا مہینہ یہ افواہیں پھیلتی رہیں۔ منافق اس تہمت کو پھیلانے میں ایڑی چوٹی کا زور صرف کررہے تھے۔ اور اتفاق کی بات کہ وحی بھی نازل نہیں ہو رہی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مسئلہ میں پورا ایک مہینہ پریشان رہے۔ ایک ماہ بعد اللہ تعالیٰ نے یہ سورۃ نور نازل فرمائی جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی واشگاف الفاظ میں بریت فرمائی۔ علاوہ ازیں مسلمانوں کے لئے نہایت مفید احکام اور پند و نصائح نازل فرمائے۔ النور
1 [٢] اس سورۃ کی پہلی آیت بطور تمہید ہے۔ جس میں صیغہ جمع متکلم کا تین بار تکرار کرکے اس سورۃ میں نازل کردہ احکام کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ نیز فرمایا کہ ان احکام کی حیثیت بعض سفارشات کی نہیں بلکہ ان پر عمل کرنا فرض قرار دیا گیا ہے۔ نیز یہ احکام ہیں بھی ایسے جس میں کسی قسم کا الجھاؤ یا ابہام نہیں تاکہ ہر کوئی حکم تم پر مشتبہ ہوجائے۔ اور ان احکام کو تمہیں ہر وقت یاد رکھنا چاہئے بھولنا نہیں چاہئے۔ النور
2 [٣] زنا کی سزا سے متعلق پہلا حکم سورۃ نور کی آیت نمبر ١٥ اور ١٦ میں نازل ہوا تھا۔ جن کا ترجمہ یہ ہے ’’تم میں سے جو عورتیں بدکاری کی مرتکب ہوں، ان پر چار مردوں کی گواہی لاؤ، پھر اگر وہ چاروں گواہی دے دیں تو تم ایسی عورتوں کو گھروں میں بند رکھو تاآنکہ وہ مرجائیں یا پھر اللہ تعالیٰ ان کے لئے دوسری راہ مقرر کردے۔ اور پھر جو دو مرد تم میں سے اسی جرم کا ارتکاب کریں تو ان دونوں کو ایذا دو۔ (٤: ١٥، ١٦) ان آیات سے درج ذیل نتائج سامنے آتے ہیں : ١۔ مرد اور عورت دونوں کے لئے ابتدائی سزا ان کو ایذا پہنچانا تھا جس میں لعنت ملامت اور مارپیٹ سب کچھ شامل ہے۔ البتہ عورتوں کے لئے یہ اضافی سزا تھی کہ تازیست انہیں گھر میں نظر بند رکھا جائے۔ ٢۔ ایسی سزا کا حکم عارضی اور تاحکم ثانی ہے۔ ٣۔ یہ سزا حکومت سے نہیں بلکہ معاشرہ سے تعلق رکھتی تھی۔ ٦ ہجری میں واقعہ افک پیش آیا جس کے نتیجہ میں ٦ ہجری کے آخر میں سورۃ نور میں یہ سزا مقرر کی گئی جو اس آیت میں مذکور ہے۔ اس آیت میں زنا کی جو سزا مقرر کی گئی ہے صرف کنوارے زانی کے لئے ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور اس کی دلیل اس سے اگلی آیت ہے جو یوں ہے : ’’زانی نکاح نہ کرے مگر زانیہ یا مشرکہ عورت کے ساتھ اور زانیہ نکاح نہ کرے مگر زانی یا مشرک مرد کے ساتھ اور مومنوں پر یہ چیز حرام کردی گئی ہے‘‘ (٢٤: ٣) اب دیکھئے کہ اس آیت میں (١) جن زانیوں کی سزا کا ذکر ہے ان کے ساتھ نکاح کی بھی ممانعت ہے اور یہ ایسی صورت میں ممکن ہے کہ وہ مرد اور عورت غیر شادی شدہ ہوں۔ (٢) کوڑوں کی سزاصرف کنوارے مردا ور عورت کےلیے کیوں ہے؟ زانی مرد سے نکاح کا حق صرف زانیہ عورت کو دیا گیا ہے۔ اب وہ عورت پہلے ہی شادی شدہ ہو تو زنا کے بعد اس کا مستحق کوئی زانی ہی ہوسکتا ہے، نہ کہ اس کا پہلا خاوند جس کا کوئی قصور بھی نہیں۔ اس طرح یہ سزا یا قید زانی کے حق میں تو مفید رہے گی۔ مگر پرہیزگار خاوند کے حق میں خانہ بربادی کا باعث بنے گی اور یہ چیز منشائے الٰہی کے خلاف ہے۔ (٣) ہمارے اس دعویٰ کی تائید سورۃ نساء کی آیت نمبر ٢٥ سے بھی ہوتی ہے جو یوں ہے ’’اور تم سے جو لوگ مومن آزاد عورتوں سے نکاح کرنے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں۔ تو وہ تمہاری مومن لونڈیوں سے نکاح کرلیں۔ پھر اگر وہ لونڈیاں نکاح کے بعد بھی بدچلنی کی مرتکب ہوں تو ان پر اس سزا سے آدھی سزا ہے جو آزاد عورتوں کو دی جائے‘‘ اس آیت میں پہلی بار جو لفظ محصنٰت آیا ہے۔ اس کا معنی تو 'آزاد غیر شادی شدہ عورت' کے سوا کوئی دوسرا ہو ہی نہیں سکتا۔ جس سے نکاح کی ہدایت کی جارہی ہے اور دوسری بار جو اس آیت میں محصنٰت کا لفظ آیا ہے تو اس کا معنی بھی لامحالہ ’آزاد غیر شدہ شادی عورت‘ ہی لینا پڑے گا اور آزاد غیر شادی شدہ زانیہ کی سزا سو درے ہے۔ لہٰذا منکوحہ زانیہ لونڈی کی سزا آزاد غیر شادی شدہ عورت کی سزا سے نصف یعنی پچاس کوڑے ہے۔ منکرین رجم کا اعتراض اور ا س کاجواب:۔ اس آیت میں جہاں اس بات کی دلیل ہے کہ سورۃ نور میں مذکور سزا صرف کنوارے مرد و عورت کی ہی ہوسکتی ہے وہاں منکرین حدیث کے ایک اعتراض کا جواب بھی مہیا کردیتی ہے۔ ان کا اعتراض یہ ہے کہ شادی شدہ آزاد عورت کی سزائے زنا حدیث کے مطابق رجم ہے اور شادی شدہ لونڈی کی سزائے زنا قرآن کے مطابق شادی شدہ آزاد عورت کی سزا کا نصف ہے۔ اور نصف رجم بنتی ہے اور نصف رجم چونکہ ممکن نہیں۔ اس لیے حدیث میں وارد شدہ سزائے رجم درست نہیں ہوسکتی۔ درست بات یہ ہے کہ عورت اور مرد چاہے کنوارے ہوں یا شادی شدہ بلا امتیاز سب کی سزا سو کوڑے ہے۔ اس اعتراض کے جواب سے پہلے یہ بات سمجھ لینا ضروری ہے کہ لونڈی کا آزاد ہونا بھی احصان (یا زنا سے بچاؤ) کا ذریعہ ہے اور نکاح دوسرا ذریعہ ہے۔ آزاد عورت ایک لحاظ سے تو پہلے ہی محصن ہوتی ہے۔ شادی کے بعد احصان کا دوسرا درجہ بھی حاصل کرلیتی ہے۔ لہٰذ لغوی لحاظ سے ہم محض آزاد کنواری عورت کو محصن کہہ سکتے ہیں اور بیاہی عورت کو بھی خواہ وہ لونڈی ہو یا آزاد ہو اب منکرین حدیث اس اعتراض میں لوگوں کو فریب یہ دیتے ہیں کہ محصنٰت کا ترجمہ تو بیاہی آزاد کرلیتے ہیں۔ حالانکہ جس آیت (٢: ٢٤) میں لونڈی کی سزا مذکور ہے اس میں محصنٰت کا ترجمہ آزاد بیاہی عورت ہو ہی نہیں سکتا۔ جب کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے۔ اور منکرین حدیث کا تو شیوہ ہی یہ ہے کہ پہلے کسی حدیث میں شکوک و شبہات پیدا کردیتے ہیں۔ پھر سارے ذخیرہ حدیث پر ہاتھ صاف کرنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ تو واضح بات ہے کہ شادی شدہ مرد و عورت کا زنا کرنا کنوارے جوڑے کے زنا کرنے سے شدید جرم ہے۔ زنا کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ ایک یہ کہ کنوارہ لڑکا اور لڑکی زنا کریں۔ اس قسم کے زنا کو سابقہ تہذیبوں میں معیوب ضرور سمجھا جاتا رہا ہے لیکن قابل دست اندازی سرکار جرم نہیں سمجھا جاتا تھا۔ سابقہ شریعتوں میں بھی ایسے زنا کی سزا نسبتاً کم تجویز کی گئی تھی۔ دوسری قسم یہ ہے کہ کوئی کنوارا کسی شادی شدہ عورت سے یا شادی شدہ مرد کسی کنواری عورت سے زنا کرے اسے) Adultery ( کہتے ہیں۔ تیسری قسم یہ ہے کہ فریقین شادی شدہ ہوں۔ یہ اقسام سابقہ تہذیبوں اور علی ھذالقیاس شریعتوں میں بھی ایسے جرائم سمجھے جاتے رہے ہیں جن میں حکومت بھی مداخلت کرسکتی ہے اور فریقین میں سے ہر کسی کو یہ حق بھی حاصل تھا کہ وہ ایسا دعویٰ عدالت میں لے جائے اور اس طرح کے دعووں کی اصل بنیاد کسی بھی فریق کے حقوق کی پامالی ہوتی تھی نہ کہ فعل زنا۔ مثلاً کوئی شخص کسی بیاہی عورت سے زنا کرکے پیدا ہونے والے بچے کی تربیت کا سارا بوجھ بھی بیاہی عورت کے خاوند پر ڈال دیتا ہے اور اس کی وراثت میں بھی اسے حصہ دار بنا دیتا ہے۔ اسی طرح اگر شادی شدہ مرد زنا کرتا ہے اور اس کی بیوی اس کا یہ فعل برداشت نہیں کرتی تو وہ عدالت میں نالش کرسکتی ہے۔ اور اگر فریقین شادی شدہ ہوں تو اور بھی زیادہ تمدنی اور خاندانی جھگڑے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اسلامی شریعت کا امتیازی کارنامہ یہ ہے کہ اس نے محض زنا کو ہی اصل جرم قرار دے کر اس کی سزا مقرر کردی جو قرآن میں مذکور ہے اور یہ کم سے کم سزا ہے۔ اور یہ تو واضح ہے کہ محض زنا صرف کنوارے جوڑے کی صورت میں ہی ہوسکتا ہے۔ ایسا زنا خواہ فریقین کی رضا مندی سے ہو تب بھی انھیں سو سو کوڑے کی سزا ضرور ملے گی۔ زنا کے سدباب کے ذرائع :۔ اسلام نے سب سے پہلے فحاشی کے ذرائع کا سد باب کیا۔ سورۃ احزاب جو اس سورۃ سے قریباً ایک سال پہلے نازل ہوئی تھی، میں مسلمان عورتوں کو حکم دیا گیا کہ وہ محرم رشتہ داروں کے علاوہ کسی کے سامنے اپنی زیب و زینت ظاہر نہیں کرسکتیں ان کا اصل مقام گھر ہے۔ لہٰذ وہ دور جاہلیت کی طرح گھر سے باہر اپنی زیب و زینت کا اظہار بھی نہیں کرسکتیں اور اگر ضرورتاً جانا پڑے تو بڑی چادر اوڑھ کر ہی جاسکتی ہیں۔ پھر اس سورۃ نور میں مزید ایسے بہت سے احکامات دیئے گئے جو فحاشی کے سدباب کا ذریعہ تھے۔ نیز یہ حکم دیا گیا کہ معاشرہ میں جو لوگ مجرد ہیں خواہ وہ عورتیں ہوں یا مرد، غلام ہوں یا لونڈیاں، اور وہ بیوہ یا مطلقہ عورتیں ہوں یا ایسے مرد ہوں جن کی بیویاں فوت ہوچکی ہوں سب کے نکاح کردیئے جائیں (٢٤: ٣١، ٣٢) نیز نکاح کے سلسلہ میں انھیں تمام ممکنہ سہولتیں دی گئیں۔ اس کے باوجود بھی جو لوگ مہر کی رقم یا بیوی کے نان نفقہ کی بھی طاقت نہیں رکھتے تھے انھیں پاکدامن رہنے اور روزہ رکھنے کی ہدایات دی گئیں۔ شادی شدہ مردوعورت کازنا شدید ترین جرم ہے:۔ اب یہ تو واضح ہے کہ ان احکامات اور حدود و قیود کے بعد زنا کا زیادہ خطرہ نوجوان اور بے زوج قسم کے لوگوں یعنی کنوارے مردوں اور کنواری عورتوں سے ہی ہوسکتا تھا کیونکہ ان کے پاس شہوت کی تکمیل کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا۔ لہٰذ قرآن نے ایسے لوگوں کے زنا کے جرم کو اصل بنیاد قرار دیا ہے۔ دوسرے ایک جائز ذریعہ تکمیل خواہش موجود ہونے کے باوجود اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ لہٰذ ایسے لوگوں کی سزا ہی شدید تر ہونی چاہئے۔ رحم ہماری شریعت کا حصہ کیوں ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی سزا وہی رہنے دی جو شریعت موسوی میں موجود تھی۔ اور یہ بات ہم پہلے بھی سورۃ انعام کی آیت نمبر ٩٠ کے الفاط فَبِھُدٰھُمُ اقْتَدِہْ کے ضمن میں بتلا چکے ہیں کہ سابقہ شریعتوں کے ایسے احکام جن کے متعلق کتاب و سنت میں کسی قسم کی نکیر نہ وارد ہو وہ بھی شریعت کا حصہ ہوتے ہیں۔ اس کی ایک مثال تو یہی رجم ہے اور دوسری مثال اعضاء و جوارح کا قصاص ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے سورۃ مائدہ کی آیت نمبر ٤٥ میں حکایتاً یوں بیان فرمایا کہ 'ہم نے اس (تورات) میں یہ لکھا دیا تھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت اور زخموں کا قصاص ہوگا' یہ حکم بنی اسرائیل کو دیا گیا تھا۔ مسلمانوں کو اعضا و جوارح کے قصاص کے متعلق الگ کوئی حکم نہیں دیا گیا۔ اس کے باوجود یہ احکام ہماری شریعت کا حصہ ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم کے مطابق فیصلے صادر فرمائے۔ شادی شدہ یہودی جوڑےکارجم :۔ اسی طرح ایک یہودی اور یہودن کے زنا کا مقدمہ آپ کے پاس آیا یہ دونوں شادی شدہ تھے۔ یہود یہ مقدمہ آپ کے پاس اس غرض سے لائے تھے کہ موسوی شریعت میں اس کی سزا رجم ہے شاید شریعت اسلامیہ میں اس کی سزا کچھ نرم ہو۔ چنانچہ انہوں نے مقدمہ پیش کرنے والے سے کہہ دیا تھا کہ اگر اس کا فیصلہ رجم کی صورت میں دیا جائے تو قبول نہ کرنا اور اگر اس کے علاوہ اور فیصلہ دیا جائے تو قبول کرلینا۔ جیسا کہ سورۃ مائدہ کی آیت نمبر ٤١ میں مذکور ہے۔ آپ نے یہود سے تورات منگوالی تو اس میں رجم کا حکم موجود تھا پھر ان کے ایک بہت بڑے عالم ابن صوریا کو بلا کر شہادت لی تو اس نے بھی اعتراف کیا کہ شادی شدہ مرد و عورت کے زنا کی سزا رجم ہے۔ چنانچہ آپ نے ان دونوں کے رجم کا فیصلہ دے دیا اور فرمایا : ’’یا اللہ ! میں نے تیرے ایک ایسے حکم کو زندہ کیا ہے۔ جسےان لوگوں نے مردہ یعنی متروک العمل بنا چھوڑا تھا۔‘‘ (مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیے : بخاری، کتاب المحاربین۔ باب الرجم فی البلاط، مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب حد الزنا۔ ابو داؤد۔ کتاب الحدود۔ باب رجم الیہودین) امام بخاری کا اجتہاد:۔ امام بخاری اس واقعہ کو کتاب الحدود کے بجائے کتاب المحاربین میں اس لئے لائے ہیں کہ ان کے نزدیک شادی شدہ جوڑے کا زنا محض زنا نہیں بلکہ اس سے شدید تر جرم، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محاربہ ہے اور محاربہ کی قرآن میں مذکور سزاؤں میں سے ایک سزا یقتلوا یعنی کسی کو ایذائیں دے دے کر بری طرح سے مار ڈالنا اور وہ رجم کو بھی اسی قسم کے سزا سمجھتے ہیں۔ حدرجم سے انکارکی وجوہ:۔حد رجم سے انکار سب سے پہلے اولین منکرین حدیث یعنی معتزلہ نے پھر بعض خوارج نے کیا تھا۔ ان کے انکار کی وجہ محض انکار حدیث کے سلسلہ میں ان کی عصبیت تھی مگر آج کے دور میں ایک اور وجہ بھی اس میں شامل ہوگئی ہے اور وہ یہ ہے کہ اہل مغرب اسلام کی ایسی سزاؤں کو وحشیانہ سزائیں سمجھتے ہیں۔ لہٰذ مغربیت سے مرعوب ذہن ایسی سزاؤں سے فرار اور انکار کی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔ اور یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ انکار حدیث یا قرآنی آیات کی تاویل کی وجوہ صرف دو ہی ہوسکتی ہیں ایک اتباع ہوائے نفس اور دوسری موجودہ دور کے نظریات سے مرعوبیت پہلے ادوار میں بھی یہی دو وجوہ انکار حدیث اور تاویل قرآن کا باعث بنتی رہی ہیں اور آج بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ آیت رجم اور سیدنا عمررضی اللہ عنہ کا خطبہ:۔احادیث میں رجم سے متعلق ایک آیت کا بھی ذکر آتا ہے جو بعد میں منسوخ ہوگئی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے آخری ایام میں مسجد نبوی میں جمعہ کے دن مسلمانوں کے ایک کثیر مجمع کے سامنے خطبہ ارشاد فرمایا تھا۔ جسے تقریباً سب محدثین نے اپنی اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔ اس خطبہ کے درج ذیل الفاط قابل غور ہیں۔ آپ نے خطبہ کے دوران فرمایا : ”اس کتاب اللہ میں رجم کی بھی آیت موجود تھی جسے ہم نے پڑھا، یاد کیا اور اس پر عمل بھی کیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی رجم ہوا اور ہم نے بھی آپ کے بعد رجم کیا۔ مجھے ڈر ہے کہ کچھ زمانہ گزرنے کے بعد کوئی یہ کہنے لگے کہ ہم رجم کے حکم کو کتاب اللہ میں نہیں پاتے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اللہ کے اس فریضہ کو جسے اللہ نے اپنی کتاب میں اتارا چھوڑ کر مر جائیں۔ کتاب اللہ ( حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کتاب اللہ سے مراد تمام منزل من اللہ احکام ہوتے تھے) میں رجم کا حکم برحق ہے۔ اس پر جو زنا کرے اور شادی شدہ خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ جبکہ اس کے زنا پر کوئی شرعی ثبوت یا حمل موجود ہو‘‘ (بخاری۔ کتاب المحاربین۔ باب رجم الحبلیٰ من الزنااذااحصنت ) منسوخ التلاوت آیت کا حکم باقی رہنے کی تین وجوہ :۔ اس حدیث پر اعتراض یہ ہے کہ اگر یہ آیت قرآن میں موجود تھی تو گئی کہاں؟ اور اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ وہ منسوخ ہوگئی۔ یہ ناسخ و منسوخ کی بحث چونکہ الگ تفصیل کی محتاج ہے۔ لہٰذ اسے ہم نے اس کے مناسب مقام سورۃ بقرۃ کی آیت نمبر ١٠٦ کے تحت درج کردیا ہے۔ مختصراً یہ کہ جب اللہ تعالیٰ خود فرما رہے ہیں۔ (سَنُقْرِئُکَ فَلاَ تَنْسٰی الاَّ مَاشَاء اللّٰہُ) (٨٧: ٦، ٧) یعنی ہم آپ کو پڑھائیں گے جو آپ کو فراموش نہ ہوگا مگر جو کچھ اللہ چاہے، تو پر آخر ان لوگوں کو کیوں اعتراض ہے؟ دوسرا یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اگر یہ آیت منسوخ التلاوت ہے تو اس کا حکم کیسے باقی رہ گیا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس حکم کو باقی رکھنے کا ذریعہ یہ منسوخ التلاوت آیت نہیں بلکہ اس حکم کے بقا کی دوسری تین وجوہ ہیں ایک یہ کہ تورات کا یہ حکم شریعت محمدیہ میں یہی بدستور باقی رکھا گیا ہے۔ جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے اور دوسری وجہ وہ متواتر احادیث ہیں جن میں یہ مذکور ہے کہ تین صورتوں کے علاوہ کسی کو جان سے مار ڈالنا حرام ہے۔ شادی شدہ زانی یا زانیہ کو سنگسار کرکے مار ڈالنا، بطور قصاص اور قتل مرتد اور ان تمام صورتوں میں قتل کرنا حکومت کا کام ہے، عوام کا نہیں۔ علاوہ ازیں اس حکم رجم کو باقی رکھنے کا ذریعہ وہ واقعات ہیں جن پر آپ نے رجم کی سزا دی۔ اس مقام پر اس بات کی وضاحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ کوئی حدیث یا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سےجب صحیح ثابت ہوجائے تو وہ بالکل اسی طرح واجب الاتباع ہوتی ہے جس طرح قرآنی احکام واجب الاتباع ہیں۔ اور اگر اس کلیہ سے انحراف کیا جائے گا تو قرآن کے احکام پر عمل ہو ہی نہیں سکتا۔ پھر کچھ حضرات ایسے بھی ہیں جو خود تو سنت کو حجت تسلیم کرتے ہیں مگر منکرین حدیث کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر یہ سوچنے لگتے ہیں کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رجم کی سزا سورہ نور کے نازل ہونے سے پہلے دی ہو۔ لیکن ان کا یہ خیال بھی غلط ہے سورۃ نور ٦٥ ہجری میں نازل ہوئی تھی اور ہمیں چند ایسے واقعات بھی ملتے ہیں جن میں یہ داخلی شہادت موجود ہے کہ رجم کے یہ واقعات بعد کے ہیں۔ مثلاً ١۔ رجم کے واقعات سورہ نور کے نزول کےبعدکےہیں:۔ غامدیہ عورت کا رجم ہوا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اسے پتھر مارا۔ جس سے خون کے چند چھینٹے حضرت خالد پر پڑگئے۔ تو آپ نے اس عورت کو گالی دی اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد کو سخت تنبیہ کی اور حضرت خالد صلح حدیبیہ اور فتح مکہ (٨ ھ) کے درمیانی عرصہ میں اسلام لائے تھے۔ صلح حدیبیہ سے واپسی پر سورۃ فتح نازل ہوئی جس کا ترتیب نزول کے لحاظ سے نمبر ١١١ ہے جبکہ سورۃ نور کا نمبر ١٠٢ ہے۔ لہٰذ غامدیہ عورت والا واقعہ سورۃ نور کے نزول سے بہت بعد کا ہے۔ ٢۔ عسیف یا مزدور لڑکے کے مقدمہ کی پیشی کے وقت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ خود وہاں موجود تھے اور وہ خود ہی اس روایت کے راوی بھی ہیں اور فرماتے ہیں کہ کنا عند النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (بخاری۔ کتاب المحاربين۔ باب اعتراف الزنا) اور اس واقعہ میں اس مزدور کی مالکہ کو رجم کیا گیا۔ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جنگ خیبر (٧ ہجری) کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر ایمان لائے جبکہ سورۃ نور اس سے بہت پہلے نازل ہوچکی تھی۔ ٣۔ یہودی اور یہودن کے رجم کے وقت حضرت عبداللہ بن ابی الحارث وہاں موجود تھے۔ وہ خود کہتے ہیں کہ آپ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے ان دونوں کو رجم کیا جبکہ آپ اپنے دادا کے ساتھ فتح مکہ کے بعد اسلام لائے۔ (فتح الباری۔ باب احکام اہل الذمہ ج ١٢ ص ١٤٤) پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کی ایک کثیر تعداد کے سامنے مسجد نبوی میں خطبہ ارشاد فرمایا تو مجمع میں سے کسی نے بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بیان پر اعتراض نہیں کیا پھر اس وقت سے لے کر آج تک یہ مسئلہ متفق علیہ چلاآرہا ہے۔ جس کا ماسوائے منکرین حدیث کے کسی نے انکار نہیں کیا۔ آج وحشیانہ سزا کے مغربی تخیل سے مرعوب ہو کر منکرین حدیث کا ماہوار رسالہ 'طلوع اسلام' ایک طرف تو اس مسئلہ کو پھیپھڑوں تک کا زور لگا کر اچھال رہا ہے اور دوسری طرف قرآن میں مذکور شرعی حدود کو زیادہ سے زیادہ شرعی سزائیں قرار دے رہا ہے اور ان میں رعایت کی کوئی بات خواہ وہ قرآن کے بجائے کسی کمزور سے کمزور روایت یا تاریخ سے مل جائے اسے تسلیم کرنے پر فوراً آمادہ ہوجاتا ہے۔ رجم سے متعلق ان تصریحات کے بعد اب ہم کچھ احادیث کا مکمل ترجمہ اور مکمل حوالہ درج کر رہے ہیں۔ جو حد اور اقامت حد سے متعلقہ احکام و ہدایت اور شرائط پر روشنی ڈالتی ہیں : ١۔ ماعز بن مالک اسلمی کے رجم کا واقعہ بخاری میں کئی ابو اب کے تحت مذکور ہے۔ ہم ان حدیثوں کا ملخص بیان پیش کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص (ماعز بن مالک اسلمی) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے۔ اس نے آپ کو آواز دی اور کہنے لگا۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے زنا کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا۔ یہاں تک کہ اس نے چار مرتبہ یہی الفاظ کہے۔ جب اس نے چار مرتبہ اپنے خلاف گواہی دی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے پاس بلا کر پوچھا : ’’کیا تو مجنون تو نہیں؟‘‘ وہ کہنے لگا۔ ’نہیں‘پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تیرا نکاح ہوچکا ہے؟“ اس نے کہا، ’جی ہاں‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : ”نکاح کے بعد صحبت کرچکا ہے؟‘‘ اس نے کہا، ”جی ہاں“پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : ’’شاید تو نے بوسہ لیا ہوگا یا مساس کیا ہوگا یا آنکھ سے دیکھا ہوگا؟‘‘ اس نے کہا، ’’نہیں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف صاف ننگے لفظوں میں پوچھا : ’’کیا تو نے دخول کیا تھا ؟‘‘ اس نے کہا 'جی ہاں' تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا ’’اس کو لے جاؤ اور رجم کرو۔‘‘ پھر ہم لوگوں نے اس کو عید گاہ میں لے جاکر رجم کیا۔ جب اسے پتھر پڑے تو بھاگ کھڑا ہوا۔ ہم نے اسے مدینہ کے پتھریلے میدان میں جاپکڑا اور اسے رجم کر ڈالا۔ بعد میں اس واقعہ کی اطلاع آپ کو صلی اللہ علیہ وسلم دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جب وہ بھاگ کھڑا ہوا تھا تو تم نے اسے چھوڑ دیا ہوتا‘‘ (بخاری۔ کتاب المحاربین۔ باب رجم المحصن) ٢۔حدا ور اقامت سےمتعلق شرائط‘ہدایات اور احکام سے متعلقہ احادیث:۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک یہودی اور یہودن لائے گئے۔ جنہوں نے بدکاری کی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں سے پوچھا : تم اپنی کتاب میں اس جرم کی کیا سزا پاتے ہو؟ وہ کہنے لگے : ہمارے عالموں نے منہ کا کالا کرنا اور دم کی طرف منہ کرکے سوار کرانا اس کی سزا بتلائی ہے۔ یہ سن کر عبداللہ بن سلام کہنے لگے۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے تورات منگوائیے۔ تورات لائی گئی تو ایک یہودی رجم کی آیت پر ہاتھ رکھ کر اس سے پہلے اور بعد کی آیتیں پڑھنے لگا۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: ذرا اپنا ہاتھ تو اٹھا جب اس نے ہاتھ اٹھایا تو نیچے رجم کی آیت تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو وہ دونوں رجم کئے گئے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں یہ دونوں بلاط کے پاس رحم کئے گئے اور میں نے دیکھا کہ یہودی یہودن پر جھک گیا تھا۔ (بخاری۔ کتاب المحاربین۔ باب الرجم فی البلاط) ٣۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور زید بن خالد دونوں کہتے ہیں کہ ہم ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے۔ اتنے میں ایک شخص کھڑا ہو کر کہنے لگا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ آپ کتاب اللہ کے مطابق ہمارا فیصلہ فرما دیجئے۔ یہ سن کر دوسرا فریق جو کچھ زیادہ سمجھ دار تھا کھڑا ہو کر کہنے لگا : ہاں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارا فیصلہ کتاب اللہ کے موافق فرمائیے۔ اور بات کرنے کی مجھے اجازت دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اچھا : بتلاؤ۔ وہ کہنے لگا : میرا بیٹا اس شخص کے پاس نوکر تھا۔ اس نے اس کی بیوی سے بدفعلی کی۔ میں نے سو بکریاں اور ایک غلام بطور فدیہ اسے دیا ہے۔ اس کے بعد میں نے کئی عالموں سے یہ مسئلہ پوچھا: وہ کہتے ہیں کہ تیرے بیٹے کو سو کوڑے پڑیں گے اور ایک سال کی جلاوطنی ہوگی۔ اور اس کی بیوی کا رجم ہوگا۔ آپ نے یہ سن کر فرمایا: اس پروردگار کی قسم! جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ میں کتاب اللہ کے مطابق تم دونوں کا فیصلہ کروں گا۔ سو بکریاں اور غلام جو تو نے دیا ہے تجھے واپس ہوگا۔ اور تیرے بیٹے کو سو کوڑے اور ایک سال جلا وطنی کی سزا ہے۔ اور اے انیس (بن ضحاک) تو کل صبح اس (دوسرے فریق) کی بیوی کے پاس جاکر پوچھ اگر وہ اقرار کرے تو اسے رجم کردینا۔ چنانچہ دوسرے دن انیس اس عورت کے پاس گئے، اس نے اقرار کرلیا تو انیس نے اسے رجم کیا۔ (بخاری۔ کتاب المحاربین۔ باب اعتراف الزنا) ٤۔ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قبیلہ غامدیہ کی ایک عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہنے لگی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے بدفعلی کی ہے۔ مجھے پاک کیجئے۔ آپ نے اس کو پھیر دیا۔ جب دوسرا دن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر کہنے لگی۔ شاید آپ مجھے ماعز کی طرح لوٹانا چاہتے ہیں۔ اللہ کی قسم! میں حاملہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابھی نہیں تاآنکہ تو بچہ جن لے۔ پھر جب اس نے بچہ جنا تو بچے کو ایک کپڑے میں لپیٹ کرلے آئی اور کہا : اب تو میں بچہ جن چکی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جا اسے دودھ پلا حتیٰ کہ اس کا دودھ چھڑائے۔ پھر جب اس نے دودھ چھڑایا تو بچے کو لے کر آئی جس کے ہاتھ میں روٹی کا ایک ٹکڑا تھا اور کہنے لگی یہ بچہ ہے میں نے اس کا دودھ چھڑا دیا ہے اور اب یہ کھانا کھاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ایک مسلمان کے حوالے کیا۔ پھر اس کے متعلق حکم دیا کہ اس کے سینے تک گڑھا کھودا جائے اور لوگوں کو اسے رجم کرنے کا حکم دیا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ایک پتھر لے کر آگے بڑھے اور اس کے سر پر مارا۔ خون کے چھینٹے حضرت خالد کے منہ پر پڑے تو آپ نے اس عورت کو گالی دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خالد کو گالی دیتے سن لیا تو حضرت خالد سے فرمایا : خالد! یہ کیا بات ہے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر ٹیکس لینے والا بھی ایسی توبہ کرے تو بخش دیا جائے۔ پھر آپ نے نماز جنازہ کا حکم دیا۔ نماز پڑھی گئی پھر دفن کی گئی۔ (مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب حدالزنا) ٥۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھ سے (شرع کی باتیں) سیکھ لو۔ اللہ نے (زانی) عورتوں کے لئے ایک راہ نکالی۔ جب کنوارا، کنواری سے زنا کرے۔ تو سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے اور اگر شوہر دیدہ عورت، زن دیدہ مرد سے زنا کرے تو سو کوڑے اور رجم ہے۔ (مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب حدالزنا) ٦۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مخزومی عورت (فاطمہ بنت اسود) نے چوری کی تو قریشیوں کو فکر لاحق ہوئی (کہ اب اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا) انہوں نے کہا : اس مقدمے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کی جرأت اسامہ بن زیدرضی اللہ عنہ کے سوا اور کون کرسکتا ہے۔ جو آپ کا محبوب ہے۔ خیر اسامہ رضی اللہ عنہ نے اس سلسلہ میں آپ سے بات کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اللہ کی مقرر کردہ سزاؤں میں سفارش کرتے ہو؟ پھر آپ نے خطبہ دیا اور فرمایا : ’’تم سے پہلے لوگ صرف اس وجہ سے تباہ ہوئے کہ جب ان میں کوئی طاقتور چوری کرتا تو اس کو چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے۔ اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ ڈالتا‘‘ (بخاری۔ کتاب بدء الخلق۔ باب ماذکر عن بنی اسرائیل) ٧۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عویمر عجلانی اور اس کی بیوی میں معافی کا فیصلہ دیا اور میں نے یہ حدیث بیان کی تو ایک شخص مجھ سے پوچھنے لگا : کیا یہ وہی عورت تھی جس کے حق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر میں کسی کو شہادتوں کے بغیر رجم کرسکتا تو اس عورت کو ضرور کرتا ؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا : نہیں، یہ ایک اور عورت تھی۔ اس کی بدکاری اسلام کے زمانہ میں کھل گئی تھی ۔ ( بخاری کتاب الطلاق، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لوکنت راجما بغیر بینة ) ٨۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تین شخص مرفوع القلم ہیں یعنی ان پر تکلیف شرعی نہیں۔ سویا ہوا یہاں تک کہ بیدا رہو دوسرے بچہ یہاں تک کہ بالغ ہو اور تیسرے مجنون، یہاں تک کہ اسے عقل آئے۔ (ترمذی۔ ابو اب الحدود۔ باب ماجاء فیمن لا یجب علیہ الحد) ٩۔اثبات جرم میں شک کا فائدہ ملزم کو پہنچتاہے :۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جہاں تک ہوسکے مسلمانوں سے حدود کو ٹالنے کی کوشش کرو۔ اور مجرم کی رہائی کی کوئی بھی شکل نظر آرہی ہو تو اسے چھوڑ دو۔ اس لئے کہ حاکم اگر مجرم کو معاف کردینے میں غلطی کرے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ سزا دینے میں غلطی کرے۔ (ترمذی۔ ابو اب الحدود۔ باب ماجاء فی درء الحدود) ١٠۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جس نے کسی مسلمان کی کوئی مصیبت دور کردی۔ اللہ آخرت کی مصیبتوں میں سے ایک مصیبت اس سے دور کردے گا۔ اور جس نے کسی مسلمان کا عیب چھپایا اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کا عیب چھپائے گا۔ اور جب تک کوئی شخص اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہے اللہ اس کی مدد میں ہوتا ہے‘‘ (ترمذی۔ ابو اب الحدود۔ باب ماجاء فی الستر علی المسلم) ١١۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوڑے بھی لگائے اور جلا وطن بھی کیا۔ (اسی طرح) حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کوڑے بھی لگائے اور جلاوطن بھی کیا۔ (ترمذی۔ ابو اب الحدود۔ باب ماجاء فی النفی) ١٢۔زنا بالجبرمیں عورت پرحد نہیں :۔ حضرت علقمہ بن وائل کندی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ دور نبوی میں ایک عورت (فجر کی) نماز کے ارادہ سے نکلی اسے ایک مرد ملا جس نے اسے چھپا لیا پھر اس سے اپنی حاجت پوری کی وہ چیخنے لگی تو مرد چلا گیا۔ اتفاق سے ایک اور آدمی اس کے پاس سے گزرا تو اس عورت نے کہا کہ اس شخص نے میرے ساتھ ایسا اور ایسا کیا ہے۔ پھر کچھ مہاجر وہاں سے گزرے تو عورت نے وہی بات دہرائی۔ لوگوں نے اس مرد کو پکڑ لیا جس کے متعلق عورت کا گمان تھا کہ اس نے بدفعلی کی ہے۔ مگر حقیقتاً وہ زانی نہ تھا۔ اور اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے رجم کا حکم دے دیا۔ اب وہ شخص کھڑا ہوا جس نے زنا کیا تھا کہنے لگا : یارسول اللہ ! اصل مجرم میں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت سے فرمایا : تم چلی جاؤ۔ اللہ نے تجھے (جبر کی وجہ سے) بخش دیا۔ اور ملزم سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھی بات کہی۔ پھر مجرم کے متعلق فرمایا کہ اسے رجم کردو۔ نیز فرمایا کہ اس شخص نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر تمام شہر والے ایسی توبہ کریں تو اس کی توبہ قبول ہوجائے۔ (ترمذی۔ ابو اب الحدود۔ باب ماجاء فی المرأۃ اذا استکرھت علی الزنا) ١٣۔ حضرت ابو بردہ بن نیار کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ کی حدود میں سے کسی حد کے علاوہ دس کوڑے سے زیادہ نہ مارے جائیں‘‘ (بخاری۔ کتاب المحاربین۔ باب کم التعزیر و الادب) ١٤۔ قیدکرنے کی مشروعیت :۔ حضرت بہزاد بن حکیم اپنے باپ سے، وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ لوگوں کو ایک الزام میں قید رکھا۔ (نسائی۔ کتاب قطع السارق۔ باب امتحان السارق بالضرب والحبس) ١٥۔ حضرت نعمان بن بشیر کے پاس قبیلہ کلاعی کے لوگ آئے اور کہا کہ جولاہوں نے ہمارا سامان چرا لیا ہے۔ نعمان نے ان جولاہوں کو کچھ دن قید رکھا پھر چھوڑ دیا۔ کلاعی لوگ پھر نعمان کے پاس آکر کہنے لگے : آپ نے جولاہوں کو چھوڑ دیا، نہ ان کا امتحان لیا نہ مارا۔ نعمان نے کہا : کیا تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ میں انھیں ماروں؟ مگر دیکھو! اگر تمہاری سامان ان کے پاس نکل آیا تو خیر ورنہ میں اسی قدر تمہاری پیٹھ پر ماروں گا‘‘ وہ کہنے لگے : کیا یہ تمہارا حکم ہے۔ نعمان نے کہا : یہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے۔ (نسائی۔ کتاب قطع السارق۔ باب امتحان السارق بالضرب و الحبس) ١٦۔ سامان کی برآمدگی چوری کا ثبوت نہیں: حضرت ابو امیہ مخزومی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چور آیا جو چوری کا اقرار کرتا تھا لیکن اس کے پاس مال نہ ملا۔ آپ نے اسے فرمایا : میں تو نہیں سمجھتا کہ تو نے چوری کی ہوگی۔ وہ کہنے لگا : ’’نہیں! میں نے چوری کی ہے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس کو لے جاؤ اس کا ہاتھ کاٹو پھر لاؤ۔ لوگ اسے لے گئے۔ پھر اس کا ہاتھ کاٹا پھر لے کر آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا : کہو اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ چنانچہ اس نے یہ دعا کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یا اللہ اس کی توبہ قبول کر‘‘ (نسائی۔ کتاب قطع السارق۔ باب تلقین السارق) ١٧۔ سامان کی برآمدگی چوری کا ثبوت نہیں حضرت صفوان بن امیہ سے روایت ہے کہ انہوں نے خانہ کعبہ کا طواف کیا پھر نماز پڑھی پھر اپنی چادر تہ کرکے سر کے نیچے رکھی اور سو گئے۔ چور آیا اور چادر ان کے سر کے نیچے سے کھینچی (ان کی آنکھ کھلی) تو دوڑ کر چوڑ کو پکڑ لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لائے اور بتلایا کہ اس نے میری چادر چرالی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چور سے پوچھا : کیا تو نے چادر چرائی تھی؟ وہ کہنے لگا 'ہاں' آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں سے کہا کہ اسے لے جاؤ اور اس کا ہاتھ کاٹ دو۔ تب صفوان کہنے لگے : یارسول اللہ ! میری نیت یہ نہ تھی کہ ایک چادر کے بدلے اس کا ہاتھ کاٹا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یہ کام پہلے کرنے کا تھا‘‘(نسائی۔ کتاب قطع السارق۔ باب مایکون حزرا ومالایکون) ١٨۔ حدقائم کرنے کی برکت:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کسی ملک میں اسلامی قانون کا جاری ہونا وہاں کے لوگوں کے لئے تیس دن (اور ایک دوسری روایت کے مطابق چالیس دن) بارش برسنے سے بہتر ہے۔ (نسائی۔ کتاب قطع السارق۔ باب الترغیب فی اقامة الحد) ١٩۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اتنے میں ایک شخص (ابوالبسر کعب بن عمرو) آپ کے پاس آکر کہنے لگا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !~ میں نے ایک حدی گناہ کیا ہے۔ مجھے حد لگائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کچھ نہیں پوچھا۔ اتنے میں نماز کا وقت آگیا۔ اس نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے تو پھر وہ شخص کھڑا ہو کر کہنے لگا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے ایک مستوجب حد گناہ کیا ہے کتاب اللہ کے مطابق مجھے سزا دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تو نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی؟ وہ کہنے لگا : پڑھی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تو بس اللہ نے تیرا گناہ یا تیری سزا کو معاف کردیا ہے۔ (بخاری۔ کتاب المحاربین۔ باب اذا اقربالحد و لم یبین ھل للامام أن یسترعلیه) حد اور اقامت کےمتعلق احادیث کا ما حصل:۔ اب ہم مندرجہ بالا احادیث کا ماحصل درج ذیل دفعات کی شکل میں پیش کرتے ہیں : ١۔ کنوارے مرد اور کنواری عورت کو سزا سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے۔ (حدیث نمبر ٣ اور نمبر ٥) جلاوطنی سے مراد ملک بدر کرنا نہیں بلکہ اتنے فاصلہ پر بھیجنا ہے جس کو شرعی اصطلاح میں سفر کہہ سکتے ہوں۔ اور اس جلاوطنی کا مقصد یہ ہے کہ آئندہ کم از کم زانی جوڑے کے ملاپ کی راہ کو ہی بند کردیا جائے اور اس کی امکانی صورتوں کو ختم کردیا جائے (حدیث نمبر ٣) اور یہ مقصد بعض علماء کے نزدیک قید میں ڈالنے سے بھی پورا ہوسکتا ہے اور اگر ایسا کوئی خطرہ موجود نہ ہو تو قاضی جلاوطنی کی سزا کو موقوف بھی کرسکتا ہے۔ لیکن سو کوڑے کی سزا بہرحال قائم رہے گی۔ گویا سو کوڑے تو اللہ کی مقرر کردہ حد ہے اور ایک سال کی جلاوطنی بطور تعزیر ہے۔ ٢۔ کوڑا ایسا ہونا چاہئے جونہ زیادہ سخت ہو کہ سو کوڑے پڑنے پر چمڑی ہی ادھیڑ ڈالے اور گوشت ننگا ہوجائے اور یہ مفہوم جلدۃ کے لغوی معنی میں شامل ہے اور نہ زیادہ نرم جس کو مجرم سزا بھی نہ سمجھے۔ بلکہ ایسا ہونا چاہئے جو نہ بالکل نیا اور سخت ہو اور زیادہ پرانا اور نرم ہو۔ ٣۔ اسی طرح کوڑے مارنے والے (جلاد) کو بھی کوڑے اتنے زور سے نہ مارنے چاہئیں کہ ایسا معلوم ہو جیسے وہ کوئی اپنا ذاتی انتقام لے رہا ہے۔ نہ وہ پیچھے سے دوڑ کر پورے زور سے کوڑے برسائے اور نہ بالکل آہستہ ہمارے جس کی مجرم کو تکلیف ہی نہ ہو۔۔ بلکہ درمیانی روش اختیار کرنا چاہئے۔ اور وہ درمیانی روش یہ ہے کہ سو کوڑے کھانے کے بعد نہ اس کا گوشت ننگا ہونا چاہئے۔ نہ ایسا ہونا چاہیے کہ وہ سو کوڑے کھانے کے بعد مرجائے یا بے ہوش ہو کر گر پڑے یا اس کے بدن کا قیمہ اڑنے لگے۔ ٤۔ کوڑے برساتے وقت چہرے اور شرم گاہ کو ضرور بچانا چاہیے۔ باقی کوڑے بھی کسی ایک ہی جگہ مثلاً سرین پر نہ مارے جائیں بلکہ بدن کے مختلف حصوں پر بانٹ کر مارے جائیں۔ مرد کو یہ سزا کھڑا کرکے اور عورت کو بٹھلا کردی جائے۔ مرد کا جسم ننگا ہو تو بھی ٹھیک ہے۔ مگر عورت کا جسم مستور ہونا چاہئے۔ البتہ بدن پر کوئی اتنا موٹا کپڑا بھی نہ ہو جو سزا کے اثر کو ہی کم یا زائل کردے۔ ٥۔سزامیں بامر مجبوری شرعی حیلہ:۔ اگر مجرم کمزور ہو تو سو کوڑوں کی تعداد بالاقساط بھی پوری کی جاسکتی ہے۔ یعنی روزانہ پچیس تیس کوڑے لگا دیئے جائیں۔ اور بہت زیادہ کمزور ہو تو جھاڑو وغیرہ جس میں سو تنکے ہوں اسے سزا دے کر حد پوری کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح اگر عورت حاملہ ہو، یا نفاس میں ہو یا بچہ کو دودھ پلاتی ہو تو سزا کو اس وقت تک موخر کیا جائے گا۔ (حدیث نمبر ٤) ٦۔ سو کوڑے کی سزا کی شرائط یہ ہیں کہ مجرم آزاد ہو۔ عاقل ہو، بالغ، مجنون اور دیانہ نہ ہو۔ (حدیث نمبر ٨) ٧۔ رجم کی سزا کے لئے چند شرائط اور بھی ضروری ہیں۔ یعنی شادی شدہ ہو اور اپنی بیوی سے ہمبستری بھی کرچکا ہو۔ (حدیث نمبر ١) اور بعض علماء کے نزدیک مسلمان ہونا بھی شرط ہے اور ذمیوں پر اس کا اطلاق نہ ہوگا اور جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی جوڑے کو رجم کرایا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی کتاب میں یہی سزا واجب تھی اور ان سے اعتراف بھی کروایا گیا تھا (حدیث نمبر ٢) ٨۔ اگرچہ حدیث نمبر ٥ میں شادی شدہ زانی یا زانیہ کی سزا سو کوڑے اور رجم دونوں ہیں۔ تاہم دور نبوی اور خلفائے راشدین میں صرف رجم پر ہی اکتفا کیا جاتا رہا ہے۔ جیسا کہ احادیث نمبر ١ تا نمبر ٤ سے ظاہر ہے۔ البتہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں ایک محصنہ زانیہ کو یہ دونوں سزائیں دیں۔ جمعرات کے دن اس کو سو کوڑے لگائے اور یہ فرمایا یہ سزا کتاب اللہ کے مطابق ہے اور جمعہ کے دن اسے رجم کیا اور فرمایا یہ سزا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہے۔ یہ واقعہ مسنداحمد میں تفصیلاً مذکور ہے اور بخاری میں مجملاً (بخاری۔ کتاب المحاربین۔ باب رجم المحصن) ٩۔ مرد کو کھڑے کھڑے رجم کیا جائے گا مگر عورت کے لئے سینہ تک گڑھا کھود کر اس میں اسے داخل ہونے کو کہا جائے گا۔ (حدیث نمبر ٤) ١٠۔ اگر انسان سے کوئی بے حیائی کا حدی جرم ہوجائے تو اسے چاہئے کہ عدالت میں جاکر اعتراف کرنے کی بجائے اللہ کے حضور توبہ استغفار پر اکتفا کرے۔ (حدیث نمبر ١، نمبر ٤) ١١۔ اسی طرح اگرکوئی شخص کسی دوسرے کو کسی گناہ میں مبتلا دیکھ لے تو اسے اپنے مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کرنا چاہئے۔ ایسا نہ کرے کہ عدالت میں یا حاکم کے پاس اس کی رپورٹ کر دے۔ یا دوسروں کو بتلاتا پھرے۔ (حدیث نمبر ١) بشرطیکہ اس جرم کا تعلق حقوق اللہ سے ہو۔ حقوق العباد سے نہ ہو۔ ١٢۔ اگر کوئی مجرم عدالت میں جاکر اپنے جرم کا اقرار کرے تو قاضی اسے یہ تلقین کرسکتا ہے۔ کہ واپس چلے جاؤ اور اللہ سے توبہ استغفار کرو اور اسے سزا دینے کااقدام نہ کرے۔ (حدیث نمبر، نمبر ٤) اسی طرح اگر کوئی مجرم عدالت میں مبہم بیان دے تو بھی قاضی اسے ایسی تلقین کرسکتا ہے۔ (حدیث نمبر ١٩) ١٣۔دورفاروقی میں حد قذف:۔ زنا کے ثبوت کے لئے چار معتبر عاقل، بالغ مسلمانوں کی شہادت ضروری ہے اور یہ گواہی صرف مردوں کی ہوگی جس میں ایک مرد کے بجائے دو عورتوں کی گواہی قابل قبول نہیں۔ عورتوں کی گواہی کا تعلق صرف مالی امور میں معتبر ہے۔ اور یہ شہادت صاف صاف اور واشگاف الفاظ میں ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ اگر کسی ایک گواہ کے بیان سے بھی معاملہ مشکوک ہوگیا تو مجرم سزا سے بچ سکتا ہے کیونکہ شبہ کا فائدہ مجرم کو پہنچتا ہے۔ (حدیث نمبر ٩) اس صورت میں گواہوں کی شامت آسکتی ہے۔ بعض علماء کے نزدیک تو ان گواہوں پر قذف کی حد لگائی جائے گی۔ چنانچہ دور فاروقی میں ایک ایسا واقعہ ہوا بھی تھا۔ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ گورنر بصرہ پر زنا کی تہمت لگائی اور تین گواہ بھی پیش کردیئے۔ ان میں سے ایک گواہ کا بیان مبہم ہونے کی بنا پر حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ تو سزا سے بچ گئے اور حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ اور ان کے دو ساتھیوں کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قذف کی حد لگائی تھی۔ اور تیسرا گواہ مبہم بیان کی وجہ سے بچ گیا تھا۔ اور دوسرا گروہ یہ کہتا ہے کہ ان پر قذف کی حد نہیں لگے گی اور ان کی وجوہ یہ ہیں (١) یہ گواہ قذف کے مدعی بن کر نہیں آتے بلکہ زنا کے گواہ ہوتے ہیں۔ (٢) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گواہوں کو جو سزا دی تو یہ خصوصی حالات میں تھی۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ اور ابو بکرہ رضی اللہ عنہ میں پہلے سے چپقلش موجود تھی اور گواہ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کے دوست تھے۔ (٣) اگر اس طرح زنا کے گواہوں کے ادنیٰ سے شبہ کی بنا پر مار پڑنے لگے تو کبھی کوئی شخص گواہی پر تیار نہ ہوگا۔ ہماری رائے میں دوسرے گروہ کا موقف راجح معلوم ہوتا ہے۔ تاہم ایسے بے حیائی کے مقدمات میں شہادت اور افواہوں میں دلچسپی لینے سے حتی الامکان گریز ہی کرنا چاہئے۔ اور جہاں کہیں ایسی گندگی نظر آئے بھی تو اسے نشر کرنے کی بجائے پردہ پوشی سے کام لینا ہی بہتر ہوتا ہے۔ ١٤۔ شہادات کا بعد ثبوت جرم کا دوسرا معتبر ذریعہ ملزم کا اپنا اقرار ہے۔ مجرم اگر چار گواہیوں کے عوض چار بار اقرار کرے تو یہ بہتر ہے۔ جیسا کہ حدیث نمبر ١ اور نمبر ٤ سے معلوم ہوتا ہے۔ تاہم ایک بار کا اقرار بھی ثبوت جرم کے لئے کافی ہے۔ (حدیث نمبر ٣) ١٥۔ ثبوت جرم کا تیسرا معتبر ذریعہ حمل ہے۔ اگر عورت کنواری یا بے شوہر ہے اور اسے حمل ہوجائے تو یہ قرینہ کی معتبر شہادت ہے اور اس بنا پر سزا دی جاسکتی ہے۔ (حدیث نمبر ٤) نیز حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وہ خطبہ جس کا ذکر رجم کے بیان میں گزر چکا ہے۔ (بخاری۔ کتاب المحاربین۔ باب رجم الحبلٰي) ١٦۔ملزم کو شبہ کا فائدہ:۔ قاضی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مجرم کے اقرار کے بعد بھی صورت حال کی پوری تحقیق کرے۔ اگر اسے کسی قسم کا شبہ پڑجائے تو وہ مجرم کو چھوڑ سکتا ہے کیونکہ مجرم کو سزا دینے میں غلطی کرنے سے اسے معاف کردینے میں غلطی کرنا بہتر ہے۔ (حدیث نمبر ٩) ١٧۔زناکاجرم قابل راضی نامہ نہیں :۔ زنا کا جرم کسی قیمت پر قابل راضی نامہ نہیں۔ نہ ہی مال و دولت یا تاوان سے کسی کی عصمت و آبرو کی سودا بازی ہوسکتی ہے۔ (حدیث نمبر ٣) ١٨۔ البتہ ایسے حدی جرائم جن کا مالی معاملات سے تعلق ہو۔ مقدمہ عدالت میں آنے سے پیشتر قابلی راضی نامہ ہوتے ہیں۔ مثلاً چور کو معاف بھی کیا جاسکتا ہے اور اس سے مسروقہ مال لے کر بھی معافی دی جاسکتی ہے۔ علاوہ ازیں کوئی بھی شرائط جو صاحب حق تسلیم کرلے اس پر راضی نامہ ہوسکتا ہے۔ (حدیث نمبر ١٧) ١٩۔اقبال جرم کےلیے سزاکی ممانعت:۔ مالی مقدمات میں اقبال جرم کرانے کے لئے ملزم کو قید تو کیا جا سکتا ہے مگر اسے بدنی سزا نہیں دی جاسکتی۔ (حدیث نمبر ١٤، ١٥) ٢٠۔ مقدمہ عدالت میں آجانے کے بعد مجرم کے حق میں سفارش کرنا گناہ کبیرہ ہے۔ (حدیث نمبر ٦) ٢١۔ جرم ثابت ہوجانے کے بعد قاضی حد کی سزا میں کوئی کمی و بیشی کرنے کا مجاز نہیں۔ (سورہ نور۔ آیت نمبر ٢) ٢٢۔قاضی اپنے علم کی بناپر فیصلہ نہیں دے سکتا:۔ فوجداری مقدمات میں قاضی اپنے علم کی بنا پر فیصلہ نہیں دے سکتا۔ ایسے فیصلے اسے شہادتوں کی بنیاد پر ہی کرنا ہوں گے۔ (حدیث نمبر ٧) ٢٣۔ حد جاری ہونے کے بعد مجرم اس گناہ سے بالکل پاک صاف ہوجاتا ہے۔ لہٰذ اسے برے لفظوں سے قطعاً یاد نہ کیا جائے۔ اس پر جنازہ بھی پڑھا جائے گا۔ اور اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔ (حدیث نمبر ٤ اور نمبر ١٢) ٢٤۔زناکےدوسرےفریق کی تفتیش نہ کی جائے :۔ زنا کا ایک فریق اگر اپنے گناہ کا اقرار کرلے تو قاضی اسے یہ نہیں پوچھے گا کہ دوسرا فریق کون ہے؟ اگر اس پر پردہ پڑا ہے تو یہی بات اسلام کے مطابق ہے۔ نیز اسلامی قانون لوگوں کو سزا دینے کے لئے بے چین نہیں ہے۔ (حدیث نمبر ٤، نمبر ١) ٢٥۔ اور اقرار کرنے والا فریق دوسرے فریق کا پتہ بتلاتا ہے تو دوسرے فریق سے معلوم کیا جائے گا اگر وہ بھی اقرار کرلے تو اس پر حد جاری ہوگی۔ (حدیث نمبر ٣) اور اگر انکار کردے تو وہ بچ جائے گا۔ البتہ بعض علماء کے نزدیک پتہ بتلانے والے پر قذف کی حد بھی جاری ہوگی۔ لیکن یہ بات قاضی کی تحقیق اور صوابدید پر منحصر ہے۔ ٢٦۔ حدود جاری کرنے والے معاشرہ پر اللہ تعالیٰ کی بے شمار خیرو برکات کا نزول ہوتا ہے۔ (حدیث نمبر ١٨) ٢٧۔ اگر رجم کا مجرم اقرار کے بعد اپنے اقرار سے پھرجائے یا بھاگ کھڑا ہو تو اسے مزید سزا نہیں دی جائے گی۔ (حدیث نمبر ١) ٢٨۔ عورت سے اگر بالجبر زنا کیا گیا ہو تو اس پر حد جاری نہیں کی جائے گی۔ (حدیث نمبر ١٢) ١٩۔ حدود کے علاوہ کسی جرم کی تعزیر میں قاضی بدنی سزا دس کوڑوں سے زیادہ دینے کا مجاز نہیں۔ (حدیث نمبر ١٣) [٤]تحقیق جرم میں انتہائی نرمی:۔ مندرجہ بالا احکام و ہدایت سے واضح طور پر یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اسلامی قانون اس تلاش میں نہیں رہتا کہ کوئی مجرم ملے تو اسے سزا دے ڈالی جائے۔ بلکہ اس کی ہر ممکن کوشش یہ ہوتی ہے کہ مجرم سزا سے بچ جائے۔ پہلے تو وہ مجرم کو خود ہدایت دیتا ہے کہ اپنا جرم کسی کو نہ بتلائے بلکہ اللہ سے توبہ و استغفار کرے۔ پھر معاشرہ کے افراد کو ہدایت دیتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو جرم میں مبتلا دیکھ لے تو اس پر پردہ ڈالے اور کسی کے آگے بیان نہ کرے۔ پھر قاضی کو ہدایت دیتا ہے کہ مجرم کو سمجھائے اور توبہ استغفار کی تلقین کرکے اسے واپس پہنچ دے۔ پھر اس کا قانون شہادت اتنا سخت ہے کہ شاید ہی کوئی جرم شہادتوں کی بنا پر پایہ ثبوت کو پہنچتا ہو۔ قاضی کو یہ ہدایت دیتا ہے کہ شہادت یا مجرم کے اقرار میں کسی طرح کاشبہ پڑ جائے یا مجرم اپنے اقرار سے منحرف ہوجائے تو اسے چھوڑ دیا جائے پھر وہ مجرم کی حالت دیکھتا ہے کہ آیا وہ سزا کے قابل بھی ہے یا نہیں۔ اثبات جرم کےبعدسرعام بدنی سزاکی وجہ :۔ ان سب مراحل سے گزرنے اور جرم کے پایہ ثبوت کو پہنچ جانے کے بعد پھر جو سزا دیتا ہے۔ وہ یقیناً سخت بھی ہے اور اس کا تعلق بھی بدنی سزا سے ہوتا ہے اس وقت حد' لگانے کی حد تک تو نرمی کا برتاؤ ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ مگر مجرم پر ترس کھانے کا مطلق رو دار نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ایسے مجرم پر ترس کھانا فی الحقیقت پورے معاشرے پر ظلم کے مترادف ہوتا ہے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر فرمایا ”اے صاحبان عقل و خرد! تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے“ (٢: ١٧٩) بالفاظ دیگر ایک شخص کو قصاص میں مار ڈالنے سے سارے معاشرہ کو جینے کا حق ملتا ہے۔ اور وہ امن و چین سے رہ سکتے ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اسلامی قانون حدود و قصاص اور تعزیرات کو بھی ” اللہ کا دین“ فرمایا ہے۔ کیونکہ یہ بھی اقامت دین کا ایک لازمی عنصر ہے۔ دین کا اطلاق صرف عبادات تک ہی محدود نہیں بلکہ اس لفظ کے معنی کی وسعت میں شریعت کے تمام تر احکام آجاتے ہیں۔ [٥] یعنی مجرموں کو یہ بدنی سزائیں برسر عام دی جائیں تاکہ انھیں اپنے کئے پر زیادہ سے زیادہ شرمندگی ہو۔ اور دوسروں کے لئے باعث عبرت ہو۔ وحشیانہ سزاکاطعنہ دینے والوں کا اپناکردار:۔ اب ایسے اسلامی معاشرہ کے مقابلہ میں ان لوگوں پر نظر ڈالنا بھی ضروری ہے جو اسلامی سزاؤں کو وحشیانہ سزائیں قرار دینے میں اور اس کا پروپیگنڈہ کرنے میں اپنے پھیپھڑوں تک کا زور لگا رہے ہیں۔ انھیں صرف ایسے مجرموں پر ترس آتا ہے جو حکومت کے حامی یا اس کے رکن ہوتے ہیں۔ اور ترس اس لئے آتا ہے کہ ان کے تعاون کے بغیر ان کی حکومت چل ہی نہیں سکتی۔ جسکا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے مجرموں نے لوٹ کھسوٹ، مار دھاڑ اور فساد کے ذریعہ لوگوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ اور جو مجرم حکومت کے مخالف ہوں ان کے لئے علیحدہ عقوبت خانے (Tarcher Cell) بنائے جاتے ہیں اور ان مجرموں کے ایسے ایسے جاں گداز روح فرسا عذاب دیئے جاتے ہیں کہ سن کر روح کانپ اٹھتی ہے۔ اور یہ سب ظلم تنگ و تار کوٹھڑیوں میں ڈھائے جاتے ہیں کہ کسی کا دیکھنا تو درکنار کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح بسا اوقات پولیس حوالات کے دوران ملزموں کو مار مار کر ہلکان کردیتی ہے۔ اور اس کی مثال بالکل وہی ہے جیسے موجودہ دور حکومت کے مہذب لوگ دوسرا نکاح کرنا تو جرم سمجھتے ہیں مگر حرام طریقے پر بیسیوں داشتائیں اور شناسائیں رکھی ہوتی ہیں اور اسلام جو حلال طریقے سے چار بیویوں کی اجازت دیتا ہے اس کا تمسخر اڑاتے ہیں۔ النور
3 [٦] اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ سو کوڑے کی سزا صرف کنوارے مرد اور عورت کے لیے ہے۔ جیسا کہ پہلے اس سورۃ کے حاشیہ نمبر ٣ کے ابتدا میں اس کی وضاحت کی جاچکی ہے اسی آیت کی تشریح میں درج ذیل حدیث بھی ملاحظہ فرمائیے۔ فحاشی میں مشہورمردیاعورت سے نکاح کرناحرام ہے:۔عمرو بن شعیب کے دادا نے کہا کہ مرثد بن ابی مرثد (غنوی) نامی ایک شخص قیدیوں کو مکہ سے مدینہ لے جایا کرتا تھا۔ مکہ میں ایک فاحشہ عورت تھی جس کا نام عناق تھا اور وہ مرثد کی (اسلام لانے سے پہلے) دوست تھی۔ مرثد نے مکہ کے قیدیوں میں سے ایک شخص سے وعدہ کر رکھا تھا کہ وہ اسے (مدینہ) لے جائے گا۔ مرثد کہتے ہیں کہ میں ایک چاندنی رات دیواروں کے سایہ میں چھپتے چھپاتے مکہ آیا۔ عناق آئی اور اس نے میرے سایہ کو دیوار کے ساتھ کی طرف سرکتے دیکھا۔ جب میرے قریب آگئی تو اس نے مجھے پہچان لیا اور پوچھا ” مرثد ہے؟“ میں نے کہا : ” ہاں! مرثد ہوں“ وہ کہنے لگی : ’’خوش آمدید! آؤ اور ہمارے ہاں یہ رات گزارو“ میں نے کہا : ’’عناق! اللہ نے زنا حرام قرار دیا ہے“ وہ بول اٹھی : اے خیمہ والو! یہ شخص ہے جو تمہارے قیدی اٹھا لے جاتا۔ چنانچہ آٹھ آدمی میرے پیچھے لگ گئے میں خندمہ کی راہ پر چلنے لگا اور ایک غار میں جا گھسا۔ وہ آئے اور میرے سر پر کھڑے تھے۔ انہوں نے پیشاب کیا جو میرے سر پر پڑا۔ تاہم اللہ نے انھیں مجھے دیکھنے سے اندھا کردیا۔ پھر وہ چلے گئے اور میں پھر (مکہ میں) اپنے رفیق کے پاس آیا اور اسے اٹھا لیا وہ ایک بھاری بھر کم آدمی تھا۔ میں اسے اٹھا کر ادخر (کے مقام) تک پہنچا۔ پھر میں نے اس کی مشکیں کھول دیں اور پھر اسے اپنی پشت پر لاد لیا وہ مجھے تھکا تھکا دیتا تھا حتیٰ کہ میں مدینہ پہنچ گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر کہا : ”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں عناق سے نکاح کرلوں؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپ رہے اور مجھے کوئی جواب نہ دیا۔ حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہوئی۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ ”اس عورت سے نکاح نہ کر“ (ترمذی۔ کتاب التفسیر) ہاں اگر کوئی زانیہ عورت یا زانی مرد اللہ کے حضور توبہ کرکے آئندہ کلیتاً اپنا طرز حیات بدل لے تو پھر ایسے لوگوں سے نکاح کی اجازت ہے۔ اس آیت میں عام مسلمانوں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ جو لوگ فحاشی میں مشہور ہوں ان سے رشتہ داری قائم نہ کی جائے۔ نہ انھیں لڑکی کا رشتہ دیا جائے نہ ان سے لیا جائے۔ ﴿حُرِّمَ ذٰلِکَ﴾ کے بھی دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ فعل زنا مومنوں پر حرام کردیا گیا ہے اور اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ زنا کرنے والا جب زنا کرتا ہے تو اس وقت وہ مومن نہیں ہوتا۔۔ الحدیث (بخاری۔ کتاب المحاربین۔ باب اثم الزناہ) اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ پاکباز اور عفیف مسلمانوں کے لئے بدکاروں سے رشتہ نکاح کرنا حرام قرار دیا گیا ہے۔ النور
4 [٧] کسی پرتہمت لگانا بہت بڑ اگناہ ہے:۔ یہاں محصن کا لفظ صرف پاکباز یا بے قصور کے معنوں میں آیا ہے۔ خواہ وہ عورت کنواری ہو یا شادی شدہ ہو۔ حتیٰ کہ بعض علماء کے نزدیک پاکباز لونڈی پر تہمت زنا لگانا بھی اس شامل ہے۔ اور یہ حکم صرف مردوں کے لئے نہیں بلکہ عورتوں کے لئے بھی ہے کہ وہ پاکباز مردوں پر ایسی تہمت نہ لگائیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس گناہ کو ان سات بڑے بڑے گناہوں میں شمار کیا ہے جو انسان کو ہلاک کردینے والے ہیں۔ (بخاری۔ کجتاب الوصایا۔ باب قول اللہ اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی۔۔۔الأیة ) تہمت کے اثبات کےلیے چار شہادتیں کیوں ؟ زنا کی شہادت سے مراد تو ایسی شہادت ہے جس میں وضاحت کے ساتھ فعل زنا کی شہادت ہو اور تہمت زنا کی شہادت سے مراد ایسے قرائن کی شہادت ہے جیسے کوئی یہ گواہی دے کہ میں نے فلاں اجنبی مرد اور عورت کو خلوت میں دیکھا ہے۔ یا بوس و کنار کرتے دیکھا ہے یا کوئی کسی کو ولدالزنا یا ولدالحرام کہے۔ ایسے مدعی کے لئے چار شہادتوں کا پیش کرنا ضروری ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ایسی چار شہادتیں میسر آنا نہایت مشکل ہے۔ لہٰذ شہادتوں کے اس سخت نصاب اور پھر سخت سزا سے اصل مقصود یہی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص کوئی برائی دیکھ بھی لے تو اس کے لئے دو ہی راستے ہیں۔ یا تو وہ پردہ پوشی کرے اور مطلقاً اس کی تشہیر نہ کرے۔ یا پھر چار شہادتیں مہیا کرکے صرف حکومت کو مطلع کرے تاکہ حکومت ملزموں کا جرم ثابت ہوجانے پر انھیں سزا دے کر اس گندگی کا سدباب کرے۔ تیسری راہ اختیار کرنا یعنی عام لوگوں میں ایسی باتیں پھیلانا معاشرہ کے حق میں اور خود اس کے حق میں انتہائی خطرناک ہے۔ دوسری بات محصنٰت کے لفظ سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ جو مرد یا عورت پہلے ہی بدنام مشہور ہوچکے ہوں یا پہلے ہی سزا یافتہ ہوں ان پر الزام لگانے سے نہ حد پڑے گی اور نہ ہی وہ غیر مقبول الشہادت قرار پائیں گے تاہم انھیں ایسے کام سے پرہیز کرنا چاہئے۔ [٨] پردہ پوشی کس لحاظ سے بہترہے؟ خواہ ایسے لوگ اپنی بات یا دعویٰ میں حقیقتاً سچ ہوں مگر مکمل ثبوت فراہم نہ ہونے کے باعث جھوٹے قرار پاگئے ہوں تب بھی ایسے لوگ بدکردار ہیں۔ اللہ کے ہاں بھی اور لوگوں کے ہاں بھی۔ اور ان کی بدکرداری یہ ہے کہ ایسی فحاشی کی بات کو معاشرے میں پھیلانا شروع کردیا۔ جسے وہ ثابت نہیں کرسکے۔ لہٰذ مسلمانوں کے لئے راہ نجات پردہ پوشی میں ہی ہے۔ النور
5 [٩] سابقہ آیت میں تہمت لگانے والوں کے لئے تین باتوں کا ذکر ہوا۔ جن میں سے دو تو حکم ہیں۔ یعنی انہیں اسی کوڑے لگاؤ اور آئندہ ان کی کبھی شہادت قبول نہ کرو اور تیسری خبر ہے کہ ایسے لوگ بدکردار ہیں۔ اس آیت میں یہ ذکر ہے کہ جو لوگ اللہ کے حضور توبہ کرلیں انھیں پوری طرح اپنے گناہ کا احساس اور ندامت ہو اور آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ کریں تو اب وہ عند اللہ اور عندالناس فاسق نہیں رہیں گے۔ البتہ پہلی دونوں دنیوی سزائیں انھیں بھگتنا ہی ہوں گی۔ تاہم بعض علماء کے نزدیک اپنی اصلاح اور توبہ کے بعد اسے مقبول الشہادت بھی قرار دیا جاسکتا ہے اور اس کی دلیل یہی ہے کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جھوٹی تہمت لگانے والا کم از کم دو افراد پر تو ضرور تہمت لگاتا ہے یعنی ایک مرد اور ایک عورت پر اور اس تہمت کی لپیٹ میں زیادہ افراد بھی آسکتے ہیں۔ اب جو اسے حد لگے گی وہ ہر ایک کے لئے اسی (٨٠) کوڑے نہیں لگے گی بلکہ ایک ہی حد لگے گی۔ النور
6 النور
7 النور
8 النور
9 [١٠] آیت نمبر ٦ سے آیت نمبر ٩ تک کی وضاحت کے لئے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ لعان کےمتعلق احادیث:۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہلال بن امیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اپنی بیوی (خولہ بنت عاصم) کو شریک بن سحماء سے متہم کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہلال سے فرمایا : ’’(چار) گواہ لاؤ ورنہ تمہاری پشت پر حد قذف پڑے گی“ ہلال رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : ”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر ہم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کو کسی سے بدکاری کرتے دیکھے تو کیا وہ گواہ ڈھونڈتا پھرے؟“ (یہ تو بہت مشکل ہے) لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہی فرماتے رہے کہ گواہ لاؤ ورنہ حد پڑے گی۔ ہلال رضی اللہ عنہ کہنے لگے : ”اس پروردگار کی قسم جس نے آپ کو سچائی کے ساتھ بھیجا ہے، میں سچا ہوں اور اللہ تعالیٰ ضرور میرے متعلق کوئی ایسا حکم نازل کریں گے جس سے میری پشت کو سزا سے بچا لیں گے“ اس کے بعد جبریل اترے اور﴿وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ۔۔۔۔۔﴾ سےلے کر﴿مِنَ الصّٰدِقِیْنَ ﴾ تک آیت نازل ہوئیں۔ بعد ازاں آپ نے ہلال کی بیوی کو بلا بھیجا۔ (پہلے) ہلال نے لعان کی گواہیاں دیں۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ ساتھ فرما رہے تھے : ”دیکھو تم میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے اور جو جھوٹا ہے وہ توبہ کرتا ہے یا نہیں؟“ ہلال کے بعد اس کی بیوی کھڑی ہوئی اس نے چار گواہیاں دے دیں جب پانچویں کا وقت آیا تو لوگوں نے اسے ٹھہرایا (اور سمجھایا) کہ یہ پانچویں گواہی تمہیں عذاب میں مبتلا کر دے گی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ یہ بات سن کر وہ عورت ذرا جھجکی اور رکی اور ہم سمجھے کہ وہ اقرار کرلے گی مگر وہ کہنے لگی کہ میں اپنی قوم کو تمام عمر کے لئے رسوا نہیں کرسکتی، پھر پانچویں گواہی بھی دے دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” دیکھتے رہو، اگر اس عورت کا بچہ کالی آنکھوں، موٹے سیرین اور موٹی پنڈلیوں والا پیدا ہوا تو وہ شریک بن سحماء کا نطفہ ہوگا۔‘‘ چنانچہ اس عورت کے ہاں اسی صورت کا بچہ پیدا ہوا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر اللہ کا حکم (لعان) نازل نہ ہوا ہوتا تو میں اس عورت کو ٹھیک سزا دیتا (بخاری۔ کتاب التفسیر) سہل بن سعد راوی ہیں کہ عویمر (بن حارث بن زید بن جد بن عجلان) عاصم بن عدی کے پاس آئے جو عویمر کے قبیلہ بنی عجلان کے سردار تھے۔ اور ان سے پوچھا کہ : اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو کسی غیر مرد کے ساتھ دیکھے تو تم اس بارے میں کیا کہتے ہو؟ اگر وہ اسے مار ڈالے تو تم لوگ بھی اس کو (قصاص میں) مار ڈالو گے۔ پھر وہ کیا کرے؟ عاصم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کے پاس آئے اور یہ مسئلہ پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے سوالات کو برا سمجھا (اور خاموش رہے) پھر جب عویمر نے عاصم سے اپنے مسئلہ کا جواب پوچھا تو کہنے لگے : میں تو ایسا مسئلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی نہ پوچھوں گا۔ آخر عویمر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا : ”اللہ کے رسول! اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو غیر مرد کے ساتھ دیکھے تو کیا کرے اس کو مار ڈالے تو آپ اس کو (قصاص میں) مار ڈالیں گے۔ پھر آخر کیا کرے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے تیرے اور تیری بیوی کے باب میں قرآن (میں حکم) نازل کیا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں میاں بیوی کو لعان کرنے کا حکم دیا جیسا کہ قرآن میں حکم نازل ہوا تھا۔ عویمر نے اپنی بیوی سے لعان کرنے کے بعد کہا۔ ”یارسول اللہ ! اگر اب میں اس عورت کو رکھوں تو میں ظالم ہوں“ چنانچہ عویمر نے بیوی کو طلاق دے دی اور بعد میں ایسے لعان کرنے والوں میں یہی طریقہ جاری ہوگیا۔ لعان کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دیکھتے رہو اس عورت کا جو بچہ پیدا ہو اگر وہ سانولا، کالی آنکھوں، اور بڑے سرین اور موٹی پنڈلیوں والا ہو تو میں سمجھوں گا کہ عویمر نے اپنی بیوی کے متعلق سچ کہا تھا۔ اور اگر بچہ گرگٹ کی طرح سرخ رنگ کا پیدا ہو تو میں سمجھوں گا کہ عویمر نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی۔ پھر جب بچہ پیدا ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتلائی ہوئی علامات کے مطابق عویمر سچا نکلا۔ چنانچہ اس بچہ کا نسب اسی کی مان سے ملایا گیا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) یہ لعان مسجد میں ہوا اور میں وہاں موجود تھا (کتاب الصلوۃ۔ باب القضاء واللعان فی المسجد ) ٣۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب عویمر اور اس کی بیوی میں لعان ہوچکا تو عویمر نے کہا کہ میں نے جو مہر کا روپیہ دیا تھا وہ کدھر جائے گا تو اسے یہ جواب دیا گیا کہ تمہارے لئے کوئی مال نہیں۔ اگر تم اپنے بیان میں سچے ہو تو بھی تم اپنی بیوی سے صحبت کرتے رہے اور اگر جھوٹے ہو تو پھر تو کسی صورت تم اس کے حقدار نہیں۔ (بخاری۔ کتاب الطلاق۔ باب صداق الملاعنة) احادیث سے ماخوذ لعان سےمتعلق احکام:۔ ان احادیث سے اور بعض دوسری احادیث سے مندرجہ ذیل امور معلوم ہوتے ہیں۔ ١۔ اگر کوئی شخص کسی غیر عورت پر تہمت لگائے تو اس کا فیصلہ شہاداتوں کی بنا پر ہوگا۔ اور اگر اپنی ہی بیوی پر الزام لگائے تو اس کا فیصلہ لعان کی صورت میں ہوگا جیسے ان آیات میں مذکور ہے۔ ٢۔ قسم کھانے کے دوران قاضی فریقین کو اللہ سے ڈر کر صحیح بات کہنے کی تلقین کرتا رہے۔ اور اگر فریق اپنے دعویٰ سے رک جائے تو اس پر حد قذف لگے گی اور مرد کے قسمیں کھانے کے بعد عورت رک جائے تو ظاہر ہے کہ اس نے اپنے زنا کے جرم کا اعتراف کرلیا (حدیث نمبر ١) اس صورت میں اسے رجم کیا جائے گا۔ اور آیت نمبر ٨ میں لفظ عذاب سے یہی سزا مراد ہے۔ ٣۔ لعان تفریق زوجین کی سب سے سخت قسم ہے۔ جس کے بعد فریقین میں کبھی دوبارہ نکاح نہیں ہوسکتا۔ ٤۔ لعان کے بعد مرد طلاق دے یا نہ دے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمیشہ کے لئے جدائی از خود واقع ہوجاتی ہے۔ ٥۔ لعان کے بعد مرد عورت سے حق مہر یا دیگر اخراجات کی واپسی کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔ (حدیث نمبر ٣) ٦۔ لعان کے بعد عدت کے دوران عورت کا نان و نفقہ یا سکنیٰ مرد کے ذمہ نہ ہوگا۔ ٧۔ پیدا ہونے والا بچہ ماں کی طرف منسوب ہوگا۔ اسے متہم زانی کی طرف منسوب نہیں کیا جائے گا۔ ٨۔ بچہ ماں کا وارث ہوگا۔ اور ماں بچہ کی۔ اور وضع حمل کے بعد اگر عورت مجرم ثابت ہوجائے تو بھی اسے سنگسار نہیں کیا جائے گا۔ النور
10 [١١]لعان بہت سے پیچیدہ مسائل کا حل ہے:۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ لعان کا حکم نازل نہ فرماتے تو تم پر کئی قسم کی مشکلات پڑ سکتی تھیں۔ مثلاً اگر کوئی شخص خود اپنی بیوی کو بدکاری میں مبتلا دیکھ لے تو کیا کرے؟ گواہ ڈھونڈنے جائے تو گواہوں کے آنے تک معاملہ ختم ہوجاتا ہے۔ اور اگر گواہوں کے بغیر بات کرے تو اس پر حد قذف پڑتی ہے۔ اگر خاموش ہو رہے تو خاموشی دوسروں کے حق میں تو اختیار کی جاسکتی ہے مگر اپنی بیوی کے حق میں یہ کڑوا گھونٹ کیسے پی سکتا ہے؟ اگر بیوی کو غصہ میں آکر قتل کردے تو خود قصاص میں مارا جاتا ہے۔ اور اگر طلاق دے دے تو اس میں اس کا اپنا نقصان بھی ہے اور بیوی کو یا اس کے آشنا کو کوئی بدنی یا اخلاقی سزا بھی نہیں ملتی۔ بلکہ یہ طلاق شائد ان دونوں زانی اور زانیہ کے حق میں خوشی کا باعث ثابت ہو۔ اور اگر بالفرض محال کڑوا گھونٹ پی کر صبر کر ہی جاتا ہے تو ایک ناجائز بچے کی پرورش کا بار اس کے گلے میں آپڑتا ہے۔ جو بعد اس کا وارث بھی ہوگا۔ یہ اور ایسی ہی اور کئی مشکلات تھیں جن کا تمہارے پاس کوئی حل نہ تھا۔ اللہ نے لعان کا حکم نازل فرما کر ان تمام پیچیدگیوں کو حل کردیا۔ پھر لعان کے اس قانون میں فریقین کو یکساں سطح پر رکھا گیا ہے۔ اس لئے یہ حقیقت ہے کہ قسمیں کھانے کے باوجود ان دونوں میں سے ایک نہ ایک ضرور سچا اور دوسرا جھوٹا ہوتا ہے۔ اور یہی باتیں اللہ تعالیٰ کے حکیم ہونے کی زبردست دلیل ہیں۔ النور
11 [١٢] یہاں آیت نمبر ١١ سے لے کر آیت نمبر ٢٠ تک افک کے واقعہ سے متعلق دس آیات مذکور ہیں۔ جو اس سورت کا شان نزول بنیں۔ ابتدا میں تہمت، قذف زنا کے احکام اور سزا بتانے کے بعد اس واقعہ کا آغاز اور اس پر تبصرہ ہے۔ اس کی ابتداء ہی ان الفاظ سے کی گئی ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ جَاءُوْ بالْاِفْکِ﴾ یعنی یہ جو کچھ افواہیں پھیلیں اور قصے گھڑے گئے۔ سراسر جھوٹ اور بہتان ہے جس میں حقیقت کا شائبہ تک نہیں۔ [١٣]واقعہ افک میں ملوث ہونے والے مسلمان اور ان پرحدقذف :۔ یہ کون لوگ تھے۔ یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاہی کی زبانی سنئے : ١۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس آیت میں ﴿وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہٗ ﴾سے مراد عبداللہ بن ابی ابن سلول ہے (رئیس المنافقین) ہے۔ (بخاری۔ کتاب ا لتفسیر) ٢۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس طوفان کا چرچا (مسلمانوں میں سے) دو مرد کرنے والے تھے۔ مسطح بن اثاثہ، اور حسان بن ثابت اور تیسرا عبداللہ بن ابی بن سلول منافق تھا جو کرید کرید کر پوچھتا ۔ پھر اس پر حاشیے چڑھاتا۔ وہا اس طوفان کا بانی مبانی تھا اور ﴿وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہٗ ﴾ سے وہ اور حمنہ بنت جحش مراد ہیں۔ (عبداللہ بن ابی منافق کے علاوہ تینوں پر حد قذف لگی تھی) (بخاری۔ کتاب التفسیر) ٣۔ مسروق سے روایت ہے کہ حسان بن ثابت (مشہور شاعر) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے ہاں گئے اور یہ شعر سنایا حصان رزان ماتزن بریبہ۔۔ و نصبح غرثی من لحوم الغوافل (حضرت عائشہ ) پاکدامن، عقلمند اور ہر شک و شبہ سے بالا ہیں۔ وہ بھولی بھالی معصوم عورتوں کا گوشت کھانے (ان پر تہمت لگانے یا ان کا گلہ کرنے) سے بھوکی ہی رہتی ہیں۔ یہ شعر سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : مگر (حسان) تم تو ایسے نہیں۔ میں (مسروق) نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے کہا۔ ” آپ ایسے شخص کو کیوں آنے دیتی ہیں جس کے حق میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ﴿وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہ﴾۔۔۔الآیہ“ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : اسے اندھے پن سے زیادہ اور کیا عذاب ہوگا (حضرت حسان آخری عمر میں اندھے ہوگئے تھے) پھر یہ بھی کہا : کہ حسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے (کافروں کو ان کی ہجو کا) جواب دیتے تھے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) نیز عبدالرحمن بن عوف فرماتے ہیں کہ سیدنا حسان بن ثابت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے گواہی چاہتے تھے۔ کہتے تھے : ابوہریرہ ! تمہیں اللہ کی قسم! کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے نہیں سنا : حسان! تو اللہ کے رسول کی طرف سے کافروں کو جواب دے۔ یا اللہ ! روح القدس سے حسان کی مدد کر۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا : ”ہاں“ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ باب الشعر فی المسجد) [١٤] مندرجہ بالا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول مندرجہ بالااحادیث سے بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ اس فتنہ کا بانی مبانی عبداللہ بن ابی منافق تھا۔ اتفاق کی بات کہ اس غزوہ بن مصطلق میں جتنے زیادہ منافق شامل ہوئے تھے دوسرے کسی غزوہ میں شامل نہ ہوئے تھے۔ انہی لوگوں نے ہی اس بہتان کا بھرپور پروپیگنڈہ کیا تھا۔ جس سے کئی سادہ لوح مخلص مسلمان بھی متاثر ہوگئے تھے۔ مثاتر ہونے والے مسلمانوں کے نام جو کتب احادیث و سیر میں ملتے ہیں اور وہ تھے سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ ، مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ اور ام المومنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی بہن حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا یعنی روایت کے مطابق ان تینوں کو قذف کی حد بھی لگی تھی۔ لیکن منافقوں میں سے عبداللہ بن ابی کے سوا کسی کا نام کتب تاریخ و سیر میں نہیں ملتا۔ نہ ہی منافقوں میں سے کسی کو حد لگی تھی۔ ان کا معاملہ بس اللہ کے سپرد تھا۔ واقعہ افک میں عبداللہ بن ابی کردار:۔ جب یہ فتنہ گھڑ گیا تو منافق خوش ہو کر اور خوب مزے لے کر ان واہیات باتوں کا تذکرہ کرتے تھے بعض اظہار افسوس کے طور پر، بعض بات چھیڑ دیتے اور خود چپکے سے سنا کرتے، اور مسلمان یہ باتیں سن کر بعض تردد میں پڑجاتے، بعض خاموش رہتے اور بہت سے یہ باتیں سن کر جھٹلا دیتے۔ اور اس قصہ کا بڑا بوجھ اٹھانے والے اور بانی عبداللہ کا یہ حال تھا کہ لوگوں کو جمع کرتا اور ابھارتا اور نہایت چالاکی سے اپنا دامن بچا کر دوسروں سے اس کی اشاعت کرایا کرتا تھا۔ اس آیت میں بتلایا یہ جارہا ہے کہ اس قصہ میں کسی نے جتنا حصہ لیا اسی کے مطابق اسے عذاب عظیم ہوگا۔ ان حالات میں عام انسانی سوچ کے مطابق چاہئے تو تھا کہ اللہ تعالیٰ منافقوں کو اس اخلاقی گراوٹ پر غضب ناک گرفت فرماتے یا مسلمانوں کو جوابی حملے سے اکساتے مگر اللہ تعالیٰ جو سب سے بڑھ کر علیم اور حکیم ہیں نے یہ انداز اختیار فرمایا کہ تمام تر توجہ مسلمانوں کو یہ تعلیم دینے پر صرف فرمائی کہ تمہارے اخلاقی محاذ میں جہاں رخنے موجود ہیں ان کو بھر کر اس اخلاقی محاذ کو اور بھی زیادہ مضبوط بنانا چاہئے۔ اسی لئے اس سورۃ میں بہت سے ستر و حجاب کے احکام نازل ہوئے جو آگے آرہے ہیں۔ النور
12 [١٥] اس واقعہ افک کی پوری روئیداد خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبانی سنئے۔ وقعہ افک سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبانی :۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے (خود اپنا واقعہ افک یوں) بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب آپ سفر پر جاتے تو اپنی بیویوں کے نام قرعہ ڈالتے۔ قرعہ میں جس بی بی کے نام قرعہ نکلتا اسے آپ ساتھ لے جاتے۔ چنانچہ آپ نے ایک غزوہ (بنی مصطلق) میں قرعہ ڈالا جو میرے نام نکلا۔ پس میں آپ کے ساتھ روانہ ہوگئی اور یہ واقعہ حجاب کا حکم نازل ہونے کے بعد کا ہے۔ میں ایک ہودے میں سوار رہتی اور جب اترتی تو ہودہ سمیت اتاری جاتی۔ ہم اس طرح سفر کرتے رہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس غزوہ سے فارع ہوئے اور سفر سے لوٹے تو ہم لوگ مدینہ کے نزدیک آن پہنچے۔ ایک رات کوچ کا حکم ہوا یہ حکم سن کر اٹھی اور پیدل چل کر لشکر سے پار نکل گئی۔ جب حاجت سے فارغ ہوئی تو لشکر کی طرف آنے لگی تو مجھے معلوم ہوا کہ ظفار کے نگینوں کا ہار (جو میرے گلے میں تھا) ٹوٹ کر گرگیا ۔ میں اسے ڈھونڈنے لگی اور اسے ڈھونڈنے میں دیر لگ گئی۔ اتنے میں وہ لوگ جو میرے ہودہ اٹھا کر اونٹ پر لادا کرتے تھے۔ انہوں نے ہودہ اٹھایا اور میرے اونٹ پر لاد دیا۔ وہ یہ سمجھے رہے کہ میں ہودہ میں موجود ہوں۔ کیونکہ اس زمانہ میں عورتیں ہلکی پھلکی ہوتی تھیں۔ پر گوشت اور بھاری بھر کم نہ ہوتی تھیں۔ اور تھوڑا سا کھانا کھایا کرتی تھیں۔ لہٰذ ان لوگوں نے جب ہودہ اٹھایا تو اس کے ہلکے پن کا کوئی خیال نہ آیا۔ علاوہ ازیں میں ان دنوں ایک کمسن لڑکی تھی۔ خیر وہ ہودہ اونٹ پر لاد کر چل دیئے۔ لشکر کے روانہ ہونے کے بعد میرا ہار (جو اونٹ کے نیچے آگیا تھا) مجھے مل گیا میں اسی ٹھکانے کی طرف چلی گئی۔ جہاں رات کو اترے تھے۔ دیکھا تو وہاں نہ کوئی پکارنے والا ہے اور نہ جواب دینے والا (سب جاچکے ہیں) میں نے ارادہ کیا کہ اپنے ٹھکانے پر چلی جاؤں۔ کیونکہ میرا خیال تھا کہ جب وہ لوگ مجھے نہ پائیں گے تو اسی جگہ تلاش کرنے آئیں گے۔ میں وہاں بیٹھی رہی۔ نیند نے غلبہ کیا اور میں سوگئی۔ لشکر کے پیچھے پیچھے (گرے پڑے کی خبر رکھنے کے لئے) ھفوان بن معطل سلمی مقرر تھے۔ وہ پچھلی رات چلے اور صبح میرے ٹھکانے کے قریب پہنچے اور دور سے کسی انسان کو سوتے ہوئے دیکھا پھر میرے قریب آئے تو مجھے پہچان لیا۔ کیونکہ حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے انہوں نے مجھے دیکھا تھا۔ جب انہوں نے مجھے پہچان کر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا تو میں بیدار ہوگئی اور اپنی چادر سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔ اللہ کی قسم انہوں نے نہ مجھ سے کوئی بات کی اور نہ ہی میں نے انا للہ وانا الیہ راجعون کے سوا کوئی بات سنی۔ انہوں نے اپنی سواری بٹھائی اور اس کا پاؤں اپنے ہاتھ سے دبائے رکھا تو میں اس پر سوار ہوگئی۔ وہ پیدل چلتے رہے اور اونٹنی کو چلاتے رہے تاآنکہ ہم لشکر سے سو اس وقت جاملے جب وہ عین دوپہر کو گرمی کی شدت کی وجہ سے اترے ہوئے تھے۔ اور جن لوگوں نے قسمت میں تباہی لکھی تھی وہ تباہ ہوئے اس تہمت کو سب زیادہ پھیلانے والا عبداللہ بن ابی سلول (رئیس المنافقین) تھا۔ خیر ہم لوگ مدینہ پہنچے وہاں پہنچ کر میں بیمار ہوگئی اور ایک مہینہ بھر بیمار رہی۔ لوگ تہمت لگانے والوں کی باتوں کا چرچا کرتے رہے اور مجھے خبر تک نہ ہوئی۔ البتہ ایک بات سے مجھے وہم سا پیدا ہوا۔ وہ یہ تھی کہ آپ کی وہ مہربانی جو بیماری کی حالت میں مجھ پر ہوا کرتی تھی وہ اس بیماری میں نہیں پائی تھی۔ آپ تشریف لاتے، سلام علیک کہتے پھر یہ پوچھ کر کہ (اب طبیعت) کیسی ہے چل دیتے۔ اس بات سے مجھے کچھ شک تو پڑتا مگر کسی بات کی خبر نہ تھی۔ گھروں سے باہر قضائے حاجت کی جگہیں :۔ بیماری سے کچھ افاقہ ہوا اور ابھی کمزور ہی تھی کہ مناصع کی طرف گئی۔ مسطح کی ماں (سلمیٰ) میرے ساتھ تھی۔ ہم لوگ ہر رات کو وہاں رفع حاجت کے لئے جایا کرتے تھے۔ یہ اس زمانہ کی بات ہے جب اپنے گھروں کے نزدیک ہم بیت الخلاء نہیں بناتے تھے بلکہ اگلے زمانہ کے عربوں کی طرح رفع حاجت کے لئے جنگل جایا کرتے۔ کیونکہ گھروں کے قریب بیت الخلاء بنانے سے ان کی بدبو ہمیں تکلیف دیتی۔ خیر میں اور مسطح کی ماں جو ابو رہم بن عبدمناف کی بیٹی اور اس کی ماں صخر بن عامر کی بیٹی، ابو بکر صدیق کی خالہ تھی۔ اسی کا بیٹا مسلح تھا۔ رفع حاجت سے فراغت کے بعد ہم دونوں گھر کو آرہی تھیں کہ مسطح کی ماں کا پاؤں چادر میں الجھ کر پھسلا تو کہنے لگی : ” مسطح ہلاک ہو‘‘ میں نے اسے کہا: ’’کیا بکتی ہو، کیا تم ایسے شخص کو کو ستی ہو جو بدر میں شریک تھا ؟“ وہ کہنے لگی : ’’اے بھولی لڑکی، کیا تم نے وہ کچھ بھی سنا جو وہ کہتا ہے؟“پوچھا ” کیا کہتا ہے؟‘‘ تب اس نے تہمت لگانے والوں کی باتیں مجھ سے بیان کیں تو میری بیماری میں مزید اضافہ ہوگیا۔ جب میں گھر پہنچی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور سلام کرکے پوچھا، اب کیسی ہے؟ میں نےکہا : آپ مجھے اجازت دیجئے میں اپنے والدین کے ہاں جانا چاہتی ہوں۔ میرا مطلب یہ تھا کہ ان سے اس خبر کی تحقیق کروں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دے دی تو میں اپنے والدین کے ہاں آگئی۔ میں نے اپنی ماں سے کہا۔ ’’امی! یہ لوگ (میری نسبت) کیا بک رہے ہیں؟“ اس نے کہا : ” بیٹی اتنا رنج نہ کرو۔ اللہ کی قسم! اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب کسی مرد کے پاس کوئی خوبصورت عورت ہوتی ہے اور وہ اس سے محبت کرتا ہے اور اس کی سوکنیں بھی ہوں تو سوکنیں بہت کچھ کرتی رہتی ہیں “ میں نے کہا”: سبحان اللہ ! لوگوں نے اس کا چرچا بھی کردیا۔‘‘ چنانچہ میں یہ ساری رات روتی رہی۔ صبح ہوگئی۔ مگر نہ میرے آنسو تھمتے تھے اور نہ مجھے نیند آتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور اسامہ بن زید کو بلایا کیونکہ وحی اترنے میں دیر ہو رہی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سلسلہ میں ان سے مشورہ چاہتے تھے۔ چنانچہ اسامہ بن زیدرضی اللہ عنہ نے آپ کو وہی مشورہ دیا جو وہ جانتے تھے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا ایسی ناپاک باتوں سے پاک ہے اور اسامہ رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے محبت تھی انہوں نے صاف کہہ دیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا پاکدامن اور بے قصور ہیں۔ اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کہا : ” یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ تعالیٰ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم پر تنگی نہیں کرے گا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ اور بھی بہت عورتیں ہیں اور اگر آپ بریرہ رضی اللہ عنہا سے پوچھیں تو وہ آپ ٹھیک ٹھیک بتلا دے گی“ چنانچہ آپ نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو بلایا اور اس سے پوچھا : کیا تم نے کوئی ایسی بات بھی دیکھی ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق تمہیں کچھ شک ہو؟ بریرہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں : ”اللہ کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا میں نے ایسی کوئی بات نہیں دیکھی۔ ہاں میں اس میں ایک بات دیکھتی ہوں اور اس سے چشم پوشی کر جاتی ہوں اور وہ یہ کہ وہ ابھی کم سن بچی ہے۔ آٹا گندھا پڑا چھوڑ کر سو جاتی ہے اور بکری آکر آٹا کھا جاتی ہے“ (ان شہادتوں کے بعد) نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (خطبہ کے لئے) کھڑے ہوئے۔ عبداللہ بن ابی سلول کے خلاف آپ نے مدد چاہی۔ فرمایا۔ مسلمانوں! اس شخص کے مقابل کوئی میری حمایت کرتا ہے۔ جس نے میرے اہل خانہ کے بارے میں مجھے دکھ پہنچایا ؟ میں نے تو اپنے اہل خانہ میں بھلائی ہی دیکھی ہے اور جس شخص سے یہ لوگ متہم کرتے ہیں اس میں بھی میں نے بھلائی ہی دیکھی ہے۔ وہ میرے گھر کبھی اکیلا نہیں آتا بلکہ میرے ساتھ ہی آتا ہے۔ یہ سن کر سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ (اوس قبیلہ کے سردار) کھڑے ہوئے اور کہنے لگے : ''میں اس کے مقابل آپ کی مدد کرتا ہوں۔ اگر یہ اوس قبیلے کا ہے تو ابھی اس کی گردن اڑا دیتا ہوں۔ اور اگر ہمارے بھائیوں خزرج قبیلے کا ہے تو آپ جو حکم دیں گے بجا لائیں گے“ یہ بات سن کر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ جو خزرج قبیلے کے سردار تھے کھڑے ہوئے۔ وہ ایک نیک بخت آدمی تھے مگر قومی حمیت نے آدبوچا تو کہنے لگے : سعد بن معاذرضی اللہ عنہ ! اللہ کی قسم تو جھوٹ کہتا ہے تو نہ اسے مارے گا نہ مارسکے گا۔ اتنے میں اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ جو سعد بن معاذرضی اللہ عنہ کے چچا زادبھائی تھے۔ کھڑے ہو کر سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے : اللہ کی قسم! تو جھوٹا ہے ہم ضرور اسے قتل کریں گے۔ کیا تو بھی منافق ہوگیا ہے جو منافقوں کی طرفداری کرتا ہے؟ اس پر دونوں قبیلوں کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور قریب تھا کہ آپس میں لڑ پڑیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی منبر پر ہی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں سمجھاتے اور تھماتے رہے جب وہ خاموش ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی خاموش ہوگئے۔ میرا وہ دن بھی رونے دھونے میں گزرا اور میں مسلسل دو دن سے رو رہی تھی۔ نہ میرے آنسو تھمتے تھے اور نہ نیند آتی۔ میرے والدین سمجھے کہ رو رو کر میرا کلیجہ پھٹ جائے گا۔ پھر ایسا ہوا کہ میرے والدین پاس بیٹھے تھے اور میں رو رہی تھی کہ ایک انصاری عورت نے اندر آنے کی اجازت مانگی میں نے اجازت دی تو وہ بھی میرے ساتھ بیٹھ کر رونے لگی۔ اسی حالات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے سلام کیا۔ پھر بیٹھ گئے۔ اس سے پہلے جب سے مجھ پر تہمت لگی تھی آپ میرے پاس نہیں بیٹھے تھے۔ ایک مہینہ بھر آپ انتظار کرتے رہے مگر وحی نہ آئی۔ آپ نے بیٹھ کر تشہد پڑھا۔ پھر فرمایا : ” عائشہ ! مجھے کو تیری نسبت ایسی ایسی خبر آئی ہے۔ اگر تو پاک ہے تو اللہ تیری بریت فرمائے گا اور اگر واقعی تجھ سے کوئی قصور ہوگیا ہے تو اللہ سے اپنے قصور کی معافی مانگ اور توبہ کر۔ جب بندہ گناہ کا اقرار کرتا ہے پھر اللہ کے حضور توبہ کرتا ہے تو اللہ ان کے گناہ بخش دیتا ہے“ جب آپ یہ گفتگو ختم کرچکے تو یکبارگی میرے آنسو تھم گئے یہاں تک کہ ایک قطرہ بھی میری آنکھوں میں نہ رہا۔ میں نے اپنے والد سے کہا کہ ’’آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیں“ وہ کہنے لگے!” اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا کہ کیا جواب دوں“ پھر میں نے اپنی والدہ (ام رومان) سے کہا کہ تم جواب دو اس نے کہہ دیا کہ ”میں نہیں جانتی کہ کیا جواب دوں“ آخر میں خود ہی جواب دینے لگے۔ میں ایک کمزور لڑکی تھی۔ قرآن مجھ کو زیادہ یاد نہ تھا۔ میں نے کہا : ”اللہ کی قسم! میں جانتی ہوں کہ یہ بات جو آپ لوگوں نے سنی ہے آپ کے دل میں جم گئی ہے اور آپ اسے سچ سمجھنے لگے ہیں۔ اب اگر میں یہ کہوں کہ میں پاک ہوں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں پاک ہوں تو بھی آپ لوگ مجھے سچا نہیں سمجھیں گے۔ اور اگر میں گناہ کا اقرار کرلوں اور اللہ جانتا ہے کہ میں اس سے پاک ہوں تو آپ لوگ مجھے سچا سمجھیں گے۔ اللہ کی قسم! میں اپنی اور تمہاری مثال ایسی ہی سمجھتی ہوں جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کے والد کی تھی۔ انہوں نے جو کچھ کہا تھا میں بھی وہی کچھ کہتی ہوں کہ ” اب صبر کرنا ہی بہتر ہے اور تمہاری باتوں پر اللہ میری مدد کرنے والا ہے“ یہ کہہ کر میں نے کروٹ بدلی۔ مجھے یہ یقین تھا کہ چونکہ میں پاک ہوں۔ لہٰذ اللہ تعالیٰ ضرور میری بریت کردے گا۔ مگر اللہ کی قسم مجھے یہ خیال تک نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں ایسی آیات نازل کرے گا جو ہمیشہ پڑھی جائیں گی میں اپنی شان اس سے بہت کمتر سمجھتی تھی۔ مجھے یہ امید ضرور تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی خواب دیکھیں گے جس سے آپ پر میری بریت واضح ہوجائے گی۔ پھر اللہ کی قسم! ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے ہلے بھی نہ تھے اور نہ ہی کوئی دوسرا آدمی وہاں سے باہر گیا کہ آپ پر وحی نازل ہونا شروع ہوگئی۔ معمول کے موافق آپ پر سختی ہونے لگی اور پسینہ موتیوں کی طرح آپ کے بدن سے ٹپکنے لگا حالانکہ وہ دن سردی کا دن تھا۔ مگر وحی اترنے میں ایسی ہی سختی ہوتی تھی۔ جب وحی ختم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش تھے اور ہنس رہے تھے۔ پھر پہلی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی کی : ” عائشہ رضی اللہ عنہا ! اللہ تعالیٰ نے تمہاری بریت فرما دی“ میری والدہ مجھے کہنے لگی : اٹھو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شکریہ ادا کرو۔ میں نے کہا۔” اللہ کی قسم میں نہیں اٹھوں گی میں تو صرف اللہ عزوجل کا شکریہ ادا کروں گی“اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں اتاریں۔ ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ جَاءُوْ بالْاِفْکِ ﴾پوری دس آیات۔ جب یہ آیات اتری تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے، جو محتاجی اور رشتہ کی وجہ سے مسطح کی مدد کیا کرتے تھے، کہا : ’’اللہ کی قسم! آئندہ میں مسطح کو کچھ نہیں دیا کروں گا جبکہ اس نے عائشہ کے متعلق ایسی باتیں کیں “ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ﴿ وَلَا یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ ۔۔۔ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ﴾ یہ آیت سن کر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کہنے لگے : اللہ کی قسم! مجھے یہ پسند ہے کہ اللہ مجھے بخش دے۔ پھر وہ مسطح سے پہلا سا سلوک کرنے لگے اور کہا :” اللہ کی قسم! جب تک مسطح زندہ رہا میں یہ معمول بند نہ کروں گا‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ : (اس تہمت کے زمانہ میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم زینب بن جحش (ام المومنین) سے میرا حال پوچھتے کہ ” تم عائشہ کو کیسی سمجھتی ہو اور تم نے کیا دیکھا ہے؟“ تو انہوں نے کہا : ” یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اپنے کان اور آنکھ کی خوب احتیاط رکھتی ہوں، میں تو عائشہ رضی اللہ عنہا کو اچھا ہی سمجھتی ہوں“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے زینب ہی میرے برابر کی تھیں۔ بڑھ چڑھ کر رہنا چاہتی تھیں۔ اللہ نے ان کی پرہیزگاری کی وجہ سے انھیں بچا لیا اور ان کی بہن حمنہ بنت جحش اپنی بہن سے اس بارے میں جھگڑنے لگی تو جیسے دوسرے تہمت لگانے والے تباہ ہوئے وہ بھی تباہ ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) اس مفصل حدیث کی رو سے مسلمانوں کی مضبوط اخلاقی حالت کا درج ذیل امور سے پتہ چلتا ہے : ١۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس واقعہ کو ایک بہتان ہی سمجھتے تھے۔ وہ صرف اپنی زوجہ محترمہ کو ہی نہیں، صفوان بن معطل کو بھی ایک پاکباز انسان سمجھتے تھے۔ ٢۔ اس قصہ کا براہ راست صدمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو پہنچتا تھا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ادنیٰ سے اشارے سے بہتان تراشوں کا صفایا بھی کیا جاسکتا تھا۔ مگر جب قومی اور قبائلی عصبت کی بناء پر اس میں جھگڑا شروع ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ صدمہ جانکاہ خود اپنی ذات پر برداشت کرلیا۔ مگر مسلمانوں میں جھگڑا نہ ہونے دیا۔ ٣۔ آپ اس سلسلہ میں پورا مہینہ بے تاب و بے قرار رہے اس لئے کہ یقینی علم یا علم غیب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل نہ تھا۔ ورنہ آپ دوسروں سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں کوئی استفسار نہ فرماتے۔ اور شاید اس تاخیر میں یہ مصلحت بھی پوشیدہ ہو کہ بعد میں آنے والے لوگوں میں کچھ لوگ آپ کو عالم الغیب نہ سمجھنے لگیں یا ثابت نہ کرنے لگیں۔ ٤۔ اپنے یقین کامل کے باوجود آپ نے اس واقعہ کو حتمی تردید اس لئے نہ فرمائی کہ ایک شوہر کی اپنی بیوی کے لئے تردید مخالفین کی نظروں میں کچھ حیثیت نہیں رکھتی۔ ٥۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکے والدین بھی ذاتی طور پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو پاکباز سمجھتے تھے۔ جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی والدہ ام رومان کے جواب سے واضح ہوتا ہے۔ تاہم وہ بھی حتمی تردید اس لئے نہ کرسکتے تھے یا پاکبازی کا بیان اس لئے نہ دے سکتے تھے کہ والدین کا اپنی بیٹی کے حق میں پاکیزگی کا بیان مخالفین کا منہ بند نہیں کرسکتا۔ ٦۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلہ میں سیدنا اسامہ بن زید، سیدہ بریرہ اور ام المومنین سیدہ زینب بنت حجش سے استفسار فرمایا اور یہ سب آپ کے گھر کے افراد تھے۔ سب نے پرزور الفاظ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی پاکبازی کا بیان دیا۔ سیدہ زینب جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی سوکن اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بیان کے مطابق ان کے مقابلہ کی چوٹ تھیں۔ انہوں نے بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ذکر خیر ہی فرمایا۔ چوتھے گھر کے فرد سیدنا علی رضی اللہ عنہ تھے جن سے آپ نے استفسار فرمایا۔ انہوں نے اس الزام کی تردید یا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی پاکبازی بیان کرنے کے بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کبیدگی اور خوشنودی کا لحاظ رکھ کر جواب دیا۔ تاہم ان کی زبان سے بھی ایسا کوئی لفظ نہیں نکلا جس سے اس الزام کی تائید ہوتی ہو یا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی ذات یا پاکبازی پر کوئی حرف آتا ہو۔ ٧۔ واقعہ کے دوران عامۃ المسلمین کابلند پایہ اخلاق:۔ عامۃ المسلمین کی بھی اخلاقی حالت اتنی مضبوط تھی کہ منافقوں کے پرزور پروپیگنڈہ کے باوجود تین افراد کے سوائے کوئی ان سے متاثر نہ ہوسکا ان میں سے بھی حمنہ بنت جحش اپنی بہن کی خاطر اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو نیچے دکھانے کی وجہ سے اس بہتان میں شامل ہوگئی تھیں۔ اور اس واقعہ میں مسلمانوں کے لئے خیر کے پہلو یہ تھے : ١۔ اس واقعہ سے مسلمانوں کے ایمان کا امتحان ہوگیا اور منافقین چھٹ کر سامنے آگئے۔ جو یہ چاہتے تھے کہ اس طرح مسلمانوں میں پھوٹ ڈال کر انھیں کمزور کردیا جائے۔ لیکن نتیجہ اس کے برعکس نکلا اور مسلمانوں کی اخلاقی توفق پہلے سے زیادہ نمایاں ہوگیا۔ ٢۔ جو افراد اس صدمہ سے جس قدر متاثر تھے اسی قدر وحی الٰہی ان کے لئے تسلی اور خوش کا باعث ہوئی۔ جب وحی ختم ہوئی تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوشی کی وجہ سے ہنس رہے تھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے والدین کی خوشی کا بھی یہ اثر تھا کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شکریہ ادا کرنے کو کہا۔اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکی خوشی کی تو کچھ انتہا ہی نہ تھی جن کو یہ وہم وگمان بھی نہ تھا کہ ان کی بریت میں دس آیات نازل ہوں گی جو تا قیامت پڑھی جاتی رہین گی اور آئندہ کے لئے ان کا لقب ہی صدیقہ پڑگیا۔ ٣۔ مسلمانوں کو ایسی ہدایات و احکام دیئے گئے جن پر عمل پیرا ہونے سے وہ ایسے فتنہ خیز اور فتنہ پرور طوفانوں کا بخیر و بخوبی مقابلہ کرسکیں۔ [١٦] جب اس بہتان کا عام چرچا ہونے لگا تو ایک دن حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی بیوی نے اپنے شوہر سے کہا : لوگ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں۔ حضرت ایوب رضی اللہ عنہ کہنے لگے :” لوگ بکواس کرتے ہیں۔ تم خود ہی بتلاؤ۔ کہ تم ایسا کام کرسکتی ہو؟ وہ کہنے لگی : ” ہرگز نہیں “ وہ کہنے لگے : پھر (صدیق کی بیٹی اور نبی کی بیوی) عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا تجھ سے بڑھ کر پاک صاف اور طاہر و مطہر ہیں۔ ان کی نسبت ایسا بے وجہ گمان کیوں کیا جائے۔ اور میں کہتا ہوں کہ اگر صفوان کی جگہ میں خود ہوتا تو ایسا خیال تک نہ کرسکتا تھا اور صفوان تو مجھ سے بہتر مسلمان ہے“ اور مسلمانوں کی اکثریت کی فکر کا اندازہ یہی تھا۔ النور
13 [١٧] واقعہ افک کا قانونی پہلو:۔ یہ اس واقعہ کا قانونی پہلو ہے کہ ایسی شہادتیں جو بدکاری پر دلالت کرتی ہوں وہ کبھی میسر آبھی نہ سکتیں تھی۔ کیونکہ قرائن سب کے سب خلاف تھے۔ واقعہ یہ تھا کہ پیچھے رہ جانے والی کوئی عام عورت نہ تھی بلکہ تمام مسلمانوں کی ماں ہے اور پیچھے سے آنے والا بھی پکا مسلمان ہے جو انھیں فی الواقع اپنی ماں ہی سمجھتا ہے۔ ماں اس سے پردہ بھی کرلیتی ہے اور وہ آپس میں نہ اس وقت ہمکلام ہوتے ہیں اور نہ پورے دوران سفر۔ اور یہ سفر صبح سے لے کر دوپہر تک دن دیہاڑے ہو رہا ہے۔ عورت اونٹ پرسوار ہے اور مرد خاموش آگے آگے چل رہا ہے۔ تاآنکہ وہ مسلمانوں کے لشکر سے جاملتا ہے۔ ایسے حالات میں بدگمانی کی محرک صرف دو ہی باتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ گمان کرنے والا خود بدباطن اور خبیث ہو۔ جو ایسے حالات میں خود یہی کچھ سوچتا یا کرتا ہو اور اس طرح دوسرے سب لوگوں کو بھی اپنی ہی طرح سمجھتا ہوں۔ اور دوسری یہ کہ وہ ایسے موقع کو غیمت مان کر از راہ دشمنی ایسی بکواس کرنے لگے اور منافقوں میں یہ دونوں باتیں پائی جاتی تھیں۔ النور
14 [١٨] اللہ کا فضل اور رحمت یہ تھی کہ اس نے مسلمانوں کو بالعموم اور اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو بالخصوص ان حالات میں صبر و استقامت کی توفیق بخشی۔ ورنہ منافقوں نے جس طرح مسلمانوں پر یہ زبردست وار کیا تھا۔ اگر مسلمان بھی جوابی کارروائی پر اٹھ کھڑے ہوتے تو حالات کوئی سنگین صورت اختیار کرسکتے تھے۔ النور
15 [١٩]انسان کے جھوٹاہونےکےلیے یہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات آگے بیان کردے:۔ محض سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے آگے بیان کردینا کبیرہ گناہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کہ کسی انسان کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی بات کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے اسے آگے منتقل کردے“(مقدمہ صحیح مسلم) النور
16 [٢٠]بدظنی سے اجتنا ب اور حسن ظن کی تاکید:۔ اس آیت میں ایک بڑا قیمتی اخلاقی ضابطہ بیان کیا گیا ہے کہ ہر ایک شخص کو دوسرے کے متعلق حسن ظن ہی رکھنا چاہئے۔ تاکہ اس کے خلاف بدظنی کی کوئی یقینی وجہ امین کے علم میں نہ آجائے۔ یہ اصول قطعاً غلط ہے کہ ہر ایک کو شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھا جائے تاآنکہ اس کی امانت و دیانت کا کوئی یقینی ثبوت ہاتھ نہ آجائے۔ اور یہاں تو معاملہ اور بھی زیادہ سخت تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ پر محض بدظنی کی بنا پر بہتان لگانا پھر اسے ہوا دینا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ بلکہ اتنا سنگین جرم تھا کہ اس کی بنا پر تم پر عذاب نازل ہوسکتا تھا۔ یہ اللہ کی رحمت اور مہربانی ہی تھی کہ اس نے تمہیں ایسے عذاب سے محفوظ رکھا۔ النور
17 [٢١] یعنی آئندہ منافقوں کی ایسی معاندانہ چالوں سے ہشیار اور چوکس رہنا چاہئے۔ نیز پیغمبر اسلام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کی عظمت شان کو بھی ملحوظ رکھنا چاہئے۔ النور
18 النور
19 [٢٢] فحاشی کی مختلف صورتیں اور ان کی اشاعت :۔ فاحشہ سے مراد ہر وہ کام جو انسان کی شہوانی خواہش میں تحریک پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہو۔ فحاشی کی اشاعت کی بہت سی صورتیں ہیں۔ پہلی اور سب سے اہم صورت وہی ہے جس کا اس صورت میں ذکر ہے۔ یعنی یہ کہ اگر کوئی شخص کسی پاک دامن عورت پر الزام لگا دے تو دوسرے لوگ بلاتحقیق اس بات کو آگے دوسرے سے بیان کرنا شروع کردیں۔ دوسری صورت یہ ہے زنا (جسے قرآن نے فاحشہ مبینہ کہا ہے) کے علاوہ شہوت رانی کی دوسری صورتیں اختیار کی جائیں۔ مثلاً مردوں کی مردوں سے خواہش پوری کرنا یا لواطت جس کی وجہ سے قوم لوط پر پتھروں کا عذاب نازل ہوا تھا اور ہماری شریعت میں لواطت کی سزا قتل ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مرد حیوانات سے یہ غرض پوری کریں۔ اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’اگر تم دیکھو کہ کوئی شخص حیوان پر جا پڑا ہے تو اس کو بھی اور اس حیوان کو بھی مار ڈالو‘‘ (ترمذی۔ ابو اب الحدود۔ باب فیمن وقع علی البھیمۃ) چوتھی صورت یہ ہے کہ عورتیں عورتوں سے ہمبستری کریں۔ شریعت نے عورتوں کے لئے بھی ستر کے حدود مقرر کردیئے ہیں۔ یعنی کوئی عورت کسی عورت کے سامنے بھی ناف سے لے کر گھنٹوں تک کا حصہ کسی صورت میں نہیں کھول سکتی اور ہمارے ہاں جو یہ رواج ہے کہ عورتیں ایک دوسرے کے سامنے ننگے بدن ایک سا تھ نہا لیتی ہیں یہ بلکل خلاف شرع ہے اور عورتوں کا ننگے بدن ایک دوسرے سے چمٹنا اور بھی بری بات ہے۔ اس بات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سختی سے منع کیا اور فرمایا ” کوئی عورت کسی دوسری عورت کے ساتھ نہ چمٹے“ (بخاری۔ کتاب النکاح۔ باب لاتبا شرا المراۃ المراۃ فتنفعتھا لزوجھا) اس حدیث کے الفاظ سے پیٹی لگانا بھی مراد لیا جاسکتا ہے (یعنی عورت کا عورت کے ساتھ لگ کر جنسی خواہش پوری کرنا) کیونکہ عربی زبان میں مجامعت کے لئے مباشرت کا لفظ بھی عام استعمال ہوتا ہے۔ پانچویں صورت یہ ہے کہ عورتیں بعض حیوانات سے اپنی جنسی خواہش پوری کریں جیسا کہ بنگلوں میں رہنے والی بعض مہذب خواتین اپنے پالتو کتوں سے بدفعلی کرواتی ہیں اس کا حکم بھی تیسری صورت پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔ چھٹی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے دوستوں سے اپنی بیوی سے ہمبستری کی باتیں دلچسپی لے لے کر بیان کرے یا کوئی عورت اپنی سہیلیوں سے ایسے ہی تذکرے کرے۔ یا کوئی عورت ننگے بدن دوسری ننگی عورت سے چمٹے پھر اس بات کا تذکرہ اپنے خاوند سے کرے اور اس عورت کے مقامات ستر سے اسے آگاہ کرے تاکہ اس کے شہوانی جذبات بیدارہوں اور اس کا خاوند اس کی طرف مائل ہو۔ ایسی تمام باتوں سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے۔ (بخاری۔ کتاب النکاح۔ باب لاتباشر المراۃ فتنفعھا لزوجھاالمراۃ) پھر آج کل فحاشی کی اشاعت کی اور بھی بہت سی صورتیں ایجاد ہوچکی ہیں۔ مثلاً ٹھیٹر، سینماگھر، کلب ہاؤس، اور ہوٹلوں کے پرائیوٹ کمرے۔ ریڈیو اور ٹی وی پر شہوت انگیز پروگرام اور زہد شکن گانے۔ فحاشی پھیلانے والا لٹریچر، ناول افسانے اور ڈرانے وغیرہ اور جنسی ادب۔ اخبارات اور اشتہارات وغیرہ میں عورتوں کی عریاں تصاویر۔ ناچ گانے کی محفلیں۔ غرض فحاشی کی اشاعت کا دائرہ آج کل بہت وسیع ہوچکا ہے اور اس موجودہ دور میں فحاشی کے اس سیلاب کی ذمہ دار یا تو خود حکومت ہے یا پھر سرمایہ دار لوگ جو سینما، ٹھیٹر اور کلب گھر وغیرہ بناتے ہیں یا اپنا میک اپ کا سامان بیچنے کی خاطر انہوں نے عورتوں کی عریاں تصاویر شائع کرنے کا محبوب مشغلہ اپنا رکھا ہے یا بعض اداروں اور مکانوں میں عورتوں کو سیل مین کے طور پر ملازم رکھا جاتا ہے تاکہ مردوں کے لئے وہ باعث کشش ہوں اور ان کے کاروبار کو فروغ حاصل ہو۔ ان سب باتوں کے لئے وہی وعید ہے جو اس آیت میں مذکور ہے۔ اور اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ فحاشی کی ان تمام اقسام کو قابل دست اندازی پولیس جرم قرار دے۔ تاکہ کم ازکم دنیا کے عذاب سے تو لوگ بچ سکیں۔ ورنہ انھیں دنیا میں عذاب چکھنا ہوگا اور آخرت کا عذاب تو بہرحال یقینی ہے۔ [٢٣] یعنی یہ اللہ ہی جانتا ہے کہ ان فحاشی کے کاموں کا دائرہ اثر کتنا وسیع اور ان کی زد کہاں کہاں تک پہنچتی ہے۔ کس طرح چند لوگوں کی فحاشی سے یا فحاشی کی افواہیں پھیلانے سے پوری قوم کا اخلاق تباہ و برباد ہوتا ہے بدکار لوگوں کو بدکاری کے نئے نئے مراکز کیسے مہیا ہوتے ہیں۔ نیز نئی نسل کے ذہنوں میں جب ابتداًء فحاشی بھر دی جائے تو پوری قوم کس طرح اللہ اور روز آخرت سے غافل ہو کر اللہ کی نافرمان بن جاتی ہے۔ یہ باتیں تم نہیں جان سکتے۔ النور
20 النور
21 [٢٤]شرک کےبعدشیطان کا دوسرا وار فحاشی پھیلانا:۔ یعنی شیطان کا تو کام ہی یہ ہے کہ تمہیں برائیوں اور بے حیائیوں کے کاموں میں مبتلا کرکے تمہارا ایمان تباہ اور تمہیں گمراہ کر دے۔ شیطان کا انسان پر سب سے پہلا وار تو یہ ہوتا ہے کہ وہ اسے شرک کی نئی راہیں سجھاتا اور انھیں بڑے خوبصورت انداز میں پیش کرتا ہے۔ جس سے کم ہی لوگ بچتے ہیں۔ اس طرح توحید سے گمراہ کرکے شرک میں مبتلا کردیتا ہے اور اس کا دوسرا وار یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو بے حیائی کے کاموں میں مبتلا کرے اور یہ کام بھی انھیں نہایت خوبصورت انداز میں پیش کرے۔ جنت میں شیطان نے یہی کارنامہ سرانجام دیا تھا۔ پہلے حضرت آدم علیہ السلام و حوا کو خوبصورت وعدے اور سبز باغ دکھا کر اللہ کی نافرمانی پر آمادہ کیا۔ جس کے نتیجہ میں ان دونوں کا لباس اتروا دیا تھا۔ آج بھی شیطان اور اس کے چیلے اسی کام میں لگے ہوئے ہیں جو کہتے ہیں کہ گھر کی چاردیواری عورت کے لئے قید خانہ اور اس کی آزادی پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے یا پردہ ایک دقیانوسی چیز ہے۔ کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتی جب تک عورت گھر کی چاردیواری سے باہر نکل کر اور بے حجاب ہو کر مرد کے شانہ بشانہ کام نہ کرے یا عورت کے گھر میں بند رہنے سے ملکی معیشت پر ناگوار اثر پڑتا ہے۔ ایسی سب باتیں بے حیائی کی باتیں ہیں جو خوبصورت کرکے پیش کی جاتی ہیں۔ ان کا اصل مقصد عورت و مرد کا بے حجابانہ اور آزادانہ اختلاط ہے اور بدکاری کی راہیں بڑی آسانی سے کھلنے لگتی ہیں۔ نیز جن فحاشی کے کاموں کا اوپر ذکر ہوا ہے ان میں سے اکثر کام ایسے ہیں جو تہذیب حاضر کا جزو لاینفک سمجھے جاتے ہیں۔ ایسے کاموں میں ہی الجھا کر شیطان انسانوں کو مزید بڑے بڑے فتنوں میں مبتلا کردیتا ہے اور یہی اس کا اصل مقصد ہوتا ہے۔ [٢٥] یعنی یہ اللہ کی خاص رحمت تھی کہ اس نے تمہیں اس فتنہ کی رو میں بہہ جانے سے بچا لیا۔ ورنہ شیطان کا یہ حملہ اتنا زور دار تھا کہ اگر اللہ کا فضل تمہارے شامل حال نہ ہوتا تو شاید تم میں سے کوئی بھی اس رو میں بہہ جانے سے بچ نہ سکتا۔ [٢٦] یعنی پاک سیرت بنانے کے لئے یا بنائے رکھنے کے لئے بھی اللہ کا ایک ضابطہ ہے۔ جو یہ ہے کہ جو شخص خود پاک سیرت رہنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسے ہی اللہ پاکیزہ رہنے کی توفیق بھی دیتا ہے۔ اور وہ خوب جانتا ہے کہ کون شخص اس پاکیزگی کا اہل ہے اور کون نہیں؟ النور
22 [٢٧]سیدنا ابوبکرکا وظیفہ بندکرنےپرقسم کھانا:۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مفصل بیان والی حدیث میں یہ مذکور ہے کہ مسطح بن اثاثہ ان سادہ لوح مسلمانوں میں سے تھے جو اس فتنہ کی رو میں بہہ گئے تھے۔ یہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے قریبی رشتہ دار تھے اور محتاج تھے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ انھیں گزر اوقات کے لئے کچھ ماہوار وظیفہ بھی دیا کرتے تھے۔ جب یہ بھی تہمت لگانے والوں میں شامل ہوگئے تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ان سے رنج پہنچ جانا ایک فطری امر تھا۔ جس نے بھلائی کا بدلہ برائی سے دیا تھا۔ چنانچہ آپ نے قسم کھالی کہ آئندہ ایسے احسان فراموش کی کبھی مدد نہ کریں گے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ جس سے ایسے لوگوں سے بھی عفو و درگزر کی تلقین کی گئی۔ چنانچہ آپ نے فوراً اس حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردیا اور فرمایا : ”پروردگار! ہم ضرور چاہتے ہیں کہ تو ہمیں معاف کر دے۔“ چنانچہ آپ نے دوبارہ مدد کا سلسلہ جاری رکھنے کا عہد کیا بلکہ پہلے سے زیادہ مدد کرنے لگے۔ [٢٧۔ ا]معاف اس لیے کرنا چاہیے کہ اللہ ہمیں معاف کرے:۔ گویا اس آیت میں مسلمانوں کو ایک بڑا بلند اصول مدنظر رکھنے کی تعلیم دی گئی ہے یعنی کسی کو معاف کرتے وقت انھیں یہ نہ سوچنا چاہئے کہ اس کا میرے ساتھ برتاؤ کیسا رہا ہے۔ بلکہ اس لئے معاف کرنا چاہئے کہ اللہ انھیں معاف فرمائے گا۔ اور یہ ایسی ضرورت ہے جس کی ہر شخص کو ہر حال میں ضرورت ہوتی ہے۔ دوری قابل ذکر بات یہ ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے امداد تو جاری کردی۔ مگر کیا قسم کا کفارہ بھی ادا کیا تھا ؟ اس بات کا یہاں ذکر تک نہیں آیا۔ لہٰذ بعض علماء کا خیال ہے کہ اچھے کام کو اختیار کرلینا ہی قسم کا کفارہ ہے۔ جبکہ دوسرے گروہ کا خیال ہے اور سورۃ مائدہ میں قسموں کے کفارہ کا حکم نازل ہونے کے بعد قسم کا کفارہ ادا کرنا بھی ضروری ہے اور دلیل مزید کے طور پر درج ذیل حدیث پیش کرتے ہیں : حضرت ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں کہ : آپ نے فرمایا : ”میں تو اللہ کی قسم! جو اللہ چاہے جب کسی بات پر قسم کھا لیتا ہوں۔ پھر اس کے خلاف کرنا بہتر سمجھتا ہوں تو اپنی قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں اور جو کام بہتر معلوم ہوتا ہے وہ کرلیتا ہوں۔“ (بخاری۔ کتاب الایمان والنذور۔ باب الاستثناء فی الایمان) لہٰذ بہتر صورت یہی ہے کہ ایسی قسم کا کفار بھی ادا کردیا جائے۔ [٢٨] یعنی جنہیں ایسی گندی باتوں کا خیال بھی نہ ہو۔ ان کا ذہن ہی ایسی باتوں کی طرف منتقل نہ ہوتا ہو کہ بدچلنی کیا چیز ہے اور یہ کیسے کی جاتی ہے یعنی وہ سیدھی سادی اور پاک فطرت عورت جو بدچلن عورتوں کے چلتروں اور ان کی باتوں تک سے ناواقف ہوتی ہے اور صحیحین کے مطابق ایسی بھولی بھالی مومن عورتوں پر تہمت لگانا ان سات تباہ کن گناہوں میں سے ہے جو سابقہ کئے کرائے پر پانی پھیر دیتے ہیں۔ اور یہاں تو معاملہ اور بھی سخت ہے کیونکہ جس پر بہتان باندھا گیا ہے وہ کوئی عام مومنہ نہیں۔ بلکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی اور مومنوں کی ماں ہے۔ لہٰذ ایسے تہمت لگانے والے منافقین پر دنیا میں بھی لعنت برستی رہے گی اور آخرت میں بھی۔ دنیا میں ان منافقوں پر جو لعنت برستی رہی اور ہر دم ذلیل و خوار ہوتے رہے وہ سب نے دیکھ لیا اور آخرت میں یہ لوگ جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں ہوں گے۔ النور
23 [٢٩]اعضاء وجوارح کی شہادت :۔ اس دنیا میں انسان جو کچھ زبان سے بولتا یا کلام کرتا ہے۔ وہ دل کے ارادہ کے مطابق بولتا ہے۔ دل میں جھوٹ بولنے یا ہیرا پھیری کرنے کی نیت ہو تو انسان کی زبان وہی الفاظ ادا کرے گی جو انسان کے دل میں ہوتا ہے۔ گویا زبان دل کے ارادہ کے تابع ہوتی ہے اور دوسرے اعضا و جوارح بھی وہی کام کرتے ہیں۔ جسے انسان کا دل چاہتا ہو۔ مگر آخرت میں یہ اعضاء انسان کے ارادہ کے تابع نہیں ہوں گے بلکہ اس حقیقت کے تابع ہوں گے کہ انسان اس دنیا میں اپنے اعضاء و جوارح سے جو کام لے رہا ہے۔ تو ساتھ کے ساتھ ان اعمال و افعال و اقوال کے اثرات ان اعضا و جوارح پر بھی مترتب ہوتے جا رہے ہیں۔ آج انسان اس حقیقت کو پوری طرح سمجھ نہیں سکتا۔ تاہم بعض موجودہ سائنسی ایجادات نے اس مسئلہ کو قرب الفہم ضرر بنا دیا ہے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان اعضا و جوارح کو زبان دے د یں گے۔ اور وہ وہی بات کہیں گے جو اثرات ان پر مترتب ہوئے تھے اور جو کچھ ان سے کام لیا گیا تھا۔ لہٰذ اگر کوئی شخص قیامت کے دن اپنے کسی جرم کا اعتراف کرنے کی بجائے غلط سلط باتیں بنانے کی کوشش کرے گا تو اللہ تعالیٰ فوراً اس کی زبان اس کے ہاتھوں اور پاؤں کو قوت گویائی دے کر صحیح باتیں بتلانے کا حکم دے گا۔ تو سب اعضاء و جوارح کی گواہی ایسے مجرموں کے خلاف قائم ہوجائے گی اور انھیں جو سزا ملے گی وہ علیٰ رؤس الشہادات ملے گی۔ النور
24 النور
25 [٣٠]دین کےلغوی معانی: ۔ دین کا لفظ چار معنوں میں استعمال ہوتا ہے (١) اللہ کی خالصتا اور مکمل حاکمیت (٢) بندے کی خالصتا اور مکمل عبودیت (٣) قانون سزا و جزاء اور (٤) قانون جزا و سزا کا عملاً نفاذ۔ اس آیت میں دین تیسرے اور چوتھے معنوں میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ اہل عرب کہتے ہیں کما تدین تدان (یعنی جیسا کرو گے ویسا بھرو گے) یعنی اس دن اللہ تعالیٰ جو ان مجرموں کو بدلہ دے گا وہ ٹھیک ٹھیک جزا و سزا کے اس قانون کے مطابق ہوگا۔ جس کا ذکر قرآن میں بے شمار مقامات مذکور ہے۔ اور ہر شخص کو واضح طور پر یہ معلوم ہوجائے گا کہ اسے جو سزا دی جارہی ہے فی الواقع وہ اللہ کے قانون عدل کے مطابق اسی سزا کا مستحق تھا۔ النور
26 [٣١] اس آیت کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جو ترجمہ سے واضح ہے اور ربط مضمون کے لحاظ سے مناسب بھی یہی ہے۔ یعنی پاکباز مردوں اور عورتوں کی تہذیب، ماحول اور عادات ان لوگوں سے بالکل الگ ہوتی ہیں۔ جو گندے اور فحاشی کے کاموں میں مبتلا ہوں۔ ان دونوں کا آپس میں مل بیٹھنا فطرتاً بھی محال ہوتا ہے۔ نہ ان کی تہذیب آپس میں مشترک ہوسکتی ہے، نہ بول چال اور نہ عادات۔ ایک پاکباز انسان کسی گندے ماحول میں چلا جائے تو اسے وہاں ایک دن گزارنا بھی مشکل ہوجاتا ہے اسی طرح ایک فاحش مرد اور ایک فاحشہ عورت کے لئے کسی پاکیزہ ماحول میں ایک دن گزارنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ لہٰذ ایسے دونوں طبقات کو آپس میں ملانے یا آپس میں رشتے استوار کرنے کی ہرگز کوشش نہ کرنا چاہئے۔ اور اگر کوئی ایسی کوشش کرے گا تو ناکامی اور خرابی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ طیبات کو اپنے وسیع مفہوم میں لیا جائے۔ اس لحاظ سے اس کے معنی میں پاکیزہ عورتیں ہی نہیں پاکیزہ باتیں بھی شامل ہیں۔ یعنی پاکباز لوگوں کی زبانوں سے پاکیزہ باتیں ہی نکلتی ہیں اور گندے خیال رکھنے والے لوگوں کو گندی باتیں سوجھتی ہیں۔ جس طرح یہ ناممکن ہے کہ پاکیزہ خیال لوگوں کو گندی باتیں سوجھیں اسی طرح گندی ذہنیت رکھنے والوں کو پاکیزہ باتیں کم ہی سوجھتی ہیں۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے یہ فحاشی پھیلائی اور پروپیگنڈہ کیا۔ حقیقتاً گندی ذہنیت کے لوگ تھے۔ پاکباز لوگوں کا یہ شیوہ نہیں کہ وہ ایسی باتوں میں حصہ لیں۔ وہ ایسی باتوں سے بچنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔ النور
27 [٣٢] اجازت کے بغیر گھروالوں میں داخلہ پرپابند ی :۔ اس سے پہلے سورۃ احزاب میں بھی گھروں میں اذن لے کر داخل ہونے کا حکم آچکا تھا۔ لیکن اس حکم کا دائرہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک محدود تھا۔ مگر اس حکم کے ذریعہ اسے تمام گھروں تک پھیلا دیا گیا۔ اس سے پہلے اس سورۃ میں ایسے احکام بیان ہوئے ہیں۔ جن کا تعلق ایسے حالات سے تھا جب فحاشی کی بنا پر کوئی فتنہ رونما ہوچکا ہو۔ اب ایسے احکام دیئے جارہے ہیں جن پر عمل کرنے سے کسی فتنہ کے سر اٹھانے کے امکانات کم سے کم رہ جاتے ہیں۔ گویا یہ احکام فحاشی کے پھیلاؤ کے سلسلہ میں سدذرائع کا حکم رکھتے ہیں۔ عرب معاشرہ میں یہ عام دستور تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں بلاجھجک داخل ہوجاتے تھے۔ اس آیت کے ذریعہ ایسی آزادانہ آمدورفت پر پابندی لگا دی گئی۔ [٣٣] استأنس کالغوی معنی اس آیت میں تستانسوا کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا مادہ انس ہے جس کا عربی میں بھی وہی مفہوم ہے جو ہمارے ہاں سمجھا جاتا ہے یعنی کسی سے مانوس ہونا یا اسے مانوس کرنا۔ اور اس کا مطلب کوئی بھی ایسا کام کرنا ہے جس سے صاحب خانہ کو علم ہوجائے کہ دروازے پر فلاں شخص کھڑا اندر آنے کی اجازت چاہ رہا ہے۔ بعض دفعہ گھنگارنے سے ہی یہ مطلب حاصل ہوجاتا ہے۔ اور بعض دفعہ بولنے یا السلام علیکم کہنے سے۔ اس طرح صاحب خانہ کو اس کی کھانسی یا آواز سے ہی یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ آواز فلاں شخص کی ہے۔ یعض دفعہ کوئی شخص برقی گھنٹی ہی اس انداز سے دباتا ہے جو اس میں اور صاحب خانہ میں متعارف ہوتی ہے۔ اور گھنٹی بجانے سے ہی صاحب خانہ کو علم ہوجاتا ہے۔ کہ فلاں شخص آکر آواز دے رہا ہے۔ ایسی تمام صورتیں تستانسوا کے مفہوم میں داخل ہیں۔ اسی لئے اس کے قریبی مفہو” رضا حاصل کرنا“ سے اس کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ اب اگر یہ استینا س میں السلام علیکم کہنے سے ہی کیا گیا ہے تو ٹھیک ہے۔ اور اگر کسی اور طریقہ سے کیا گیا ہے تو گھر میں داخل ہوتے وقت السلام علیکم کہنا بھی ضروری ہے۔ یہاں ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ”اپنے گھروں“ سے کیا مراد ہے؟ اور اس کے مفہوم میں کون کون سے گھر شامل ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اپنے گھر سے صرف وہ گھرمراد ہے جہاں اس کی بیوی رہتی ہو۔ یہی وہ گھر ہے جس میں شوہر ہر وقت بلاجھجک اور بلا اجازت داخل ہوسکتا ہے۔ اپنی ماں اور بیٹیوں تک کے گھروں میں داخل ہونے سے پہلے استیناس ضروری ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے : علاء بن سیار کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا۔ ” کیا میں گھر جاتے وقت اپنی ماں سے بھی اذن مانگوں؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”ہاں“وہ بولا : ” میں تو اس کے ساتھ گھر میں رہتا ہوں“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر بھی اجازت لے کر داخل ہو“ وہ کہنے لگا : ” میں ہی تو اس کی خدمت کرتا ہوں“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” پھر بھی اجازت لے کر داخل ہو۔“ کیا تو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ تو اپنی ماں کو ننگا دیکھے؟ وہ کہنے لگا : ”نہیں“آپ نے فرمایا: ”تو پھر اذن لے کر جاؤ ۔“ (موطا امام مالک۔ کتاب الجامع۔ باب الاستیذان) اور ”اپنے گھر“ میں بلا اجازت داخل ہونے کی اجازت ضرور ہے۔ مگر بہتر یہی ہے کہ اپنے گھر میں یکایک اور اچانک داخل نہ ہو۔ [٣٤]اذن کیوں ضروری ہے؟ یعنی یہ بات صاحب خانہ اور ملاقاتی دونوں کے حق میں بہتر ہے کہ ملاقاتی صاحب خانہ سے پہلے اذن حاصل کرے۔ پھر گھر میں داخل ہو۔ اس لئے کہ اگر ملاقاتی گھر میں بلا اذن داخل ہو تو ممکن ہے اس وقت اہل خانہ اپنی کسی پرائیوٹ گفتگو میں مصروف ہوں، یا عورت بے حجاب پھر رہی ہو۔ یا صاحب خانہ کسی اور مجبوری یا معذوری کی وجہ سے اس وقت ملاقات کرنا ہی نہ چاہتا ہو اور اس طرح ملاقاتی کو خواہ مخواہ خفت یا ندامت حاصل ہو۔ لہٰذ ا مہذبانہ طریقہ یہی ہے کہ کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت حاصل کی جائے۔ النور
28 [٣٥] یعنی جب گھر والوں میں سے کوئی شخص بھی گھر میں موجود نہ ہو اس وقت ہرگز کسی دوسرے کے گھر میں داخل نہ ہونا چاہئے۔ کیونکہ اس طرح ایک دوسرے کے متعلق کئی طرح کے شکوک و شبہات پیدا ہوسکتے ہیں اور وہ الزام تراشی سے بڑھ کر معاملہ تنازعہ کی شکل اختیار کرسکتا ہے اس سے استثناء کی صورت صرف یہ ہے کہ صاحب خانہ خود ہی کسی ملاقاتی کو اپنے کمرہ وغیرہ میں یہ کہہ کر بٹھا جائے کہ تھوڑی دیر انتظار کرو۔ میں ابھی واپس آتا ہوں۔ اور اس طرح کی اجازت کی بھی کئی صورتیں ممکن ہیں۔ [٣٦] ایسی اجازت لینے کی حد تین بار ہے۔ ممکن ہے پہلی بار اور دوسری بار اجازت کی بات کو صاحب خانہ سن ہی نہ پائے۔ یا وہ اپنے کسی کام میں سخت مشغول ہو اور اتنی جلدی دروازہ تک آ ہی نہ سکتا ہو۔ لہٰذ تین بار اجازت کا حکم دیا گیا ہے۔ اور یہ اجازت تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد طلب کرنا چاہئے اور اگر تین بار اجازت طلب کرنے پر بھی اندر سے کوئی جواب نہ ملے تو ملاقات یا داخلہ کے لئے مزید اصرار نہ کرنا چاہئے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : اگرتیسری بار بھی اذن نہ ملے توواپس چلے جانا چاہیے :۔ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں انصار کی ایک مجلس میں بیٹھا تھا کہ ابو موسیٰ اشعری آئے۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ دوڑے ہوئے اور گھبرائے ہوئے ہیں۔ وہ کہنے لگے : ”میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاں گیا تھا میں نے تین بار اذن مانگا مگر مجھے اذن نہیں ملا آخر میں لوٹ گیا۔“ پھر مجھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا : ” تم کھڑے کیوں نہ رہے؟“ (انتظار کیوں نہ کیا ؟) ابو موسیٰ اشعری کہنے لگے : ” میں نے تین بار اذن مانگا اور مجھے اذن نہ ملا تو میں لوٹ آیا۔ “ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص تین بار اذن مانگنے پر اسے اذن نہ دیا جائے۔ تو لوٹ آئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ : اللہ کی قسم! تجھے اس حدیث پر کوئی گواہ لانا ہوگا” اب بتلاؤ کیا تم سے کسی نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ حدیث سنی ہے“حضرت ابی بن کعب کہنے لگے :” اللہ کی قسم! تمہارے ساتھ وہ آدمی شہادت دے گا جو ہم سب میں جھوٹا ہو“ اور ان سب میں جھوٹا میں ہی تھا۔ چنانچہ میں ابو موسیٰ اشعری کے ساتھ گیا اور حضرت عمررضی اللہ عنہ کو بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واقعی ایسا فرمایا ہے۔ امام بخاری کہتے ہیں کہ اس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ارادہ محض حدیث کا توثیق تھا۔ یہ نہیں کہ وہ خبر راہ کو درست نہ سمجھتے تھے۔ (بخاری۔ کتاب الا ستیعان۔ باب التسلیم والاستیذان ثلثاً) اور اگر صاحب خانہ دروازہ وغیرہ کھٹکھٹانے پر پوچھے کہ کون ہے؟ تو ایسے واضح الفاظ میں اپنا تعارف کرانا یا نام بتلانا چاہئے جس سے صاحب خانہ کو علم ہوجائے کہ فلاں شخص داخلہ کی اجازت چاہتا ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث میں واضح ہے۔ ١۔ اذن لینے کا طریقہ :۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس قرضہ کے سلسلسہ میں بات کرنے کے لئے حاضر ہوا جو میرے والد پر تھا۔ میں نے دروازے کھٹکھٹایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اندر سے) پوچھا کون ہے؟میں نے کہا ” میں ہوں“ آپ نے فرمایا : ” میں تو میں بھی ہوں“ گویا آپ نے (نام بتانے کے بجائے) میں ہوں کہنے کو برا سمجھا۔ (بخاری۔ حوالہ ایضاً) ٢۔ اور اجازت حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ بیرونی دروازہ کے بالکل سامنے نہ کھڑا ہو۔ جبکہ دائیں یا بائیں جانب کھڑا ہو تاکہ جب صاحب خانہ یا اس کا ملازم یا کوئی اور گھر کا فرد دروازہ کھولے تو اجازت ملنے سے پہلے ہی ملاقاتی کی نظر اندر تک نہ چلی جائے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں آپ نے فرمایا کہ : ”جب نگاہ اندر چلی گئی تو پھر اذن کا مقصد ہی فوت ہوگیا۔“ (ابوداؤد۔ کتاب الادب۔ باب فی الاستیذان) ٣۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ” نظر بازی کی وجہ سے ہی تو اذن کا حکم دیا گیا ہے۔“ (مسلم۔ کتاب الآداب ۔ باب تحریم النظر فی بیت غیرہ) ٤۔ اور نظر بازی یا کسی کے گھر میں جھانکنا بہت بڑا گناہ ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” اگر کوئی شخص تمہارے مکان میں جھانکے اور تم کنکر مار کر اس کی آنکھ پھوڑ دو تو تم پر کوئی گناہ نہیں۔“ (بخاری۔ کتاب الایات باب من اطلع فی بیت قوم فتؤاعینه) یعنی اگر کوئی شخص ایسے بدنظر شخص کی آنکھ پھوڑ بھی دے تو اس کا قصاص وغیرہ کچھ نہ ہوگا۔ النور
29 [٣٧] یعنی ایسے گھر جس میں کوئی خاص آدمی نہ رہتے ہوں۔ جبکہ وہ ہر خاص و عام کے لئے کھلے ہوں۔ جیسے نمازوں کی ادائیگی کے لئے مساجد، کھانے پینے اور ہائش کے لئے ہوٹل اور سرائیں وغیرہ۔ ایسے مقامات میں داخل ہونے کے لئے کسی اذن لینے کی ضرورت نہیں۔ اور اس کا دوسرا مطلب ایسے گھر بھی ہوسکتے ہیں جو بے آباد، ویران اور گرے پڑے ہوں۔ ان کے مالک انھیں چھوڑ کر چلے گئے ہوں یا نہ معلوم ہوں۔ اور وہاں مثلاً گھاس وغیرہ اگ آئی ہو۔ اور کوئی شخص وہاں سے گھاس کاٹ لے۔ یا ایسا ہی دوسرا فائدہ وہاں سے ہر شخص اٹھا سکتا ہے۔ [٣٨] یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے لامحدود علم کی بنا پر اور تمام امور کی رعایت محفوظ رکھ کر یہ احکام دیئے ہیں جو تمارے تمام ظاہری اور باطنی اعمال و افعال سے خوب واقف ہے۔ اور ان سے مقصود فحاشی اور فتنہ و فساد کے راستوں کو بند کرنا ہے۔ لہٰذ ہر شخص کو چاہئے کہ اسی غرض کو مدنظر رکھ کر ان پر عمل پیرا ہو۔ النور
30 [٣٩] نگاہیں پست رکھنے کا حکم جیسے مومن مردوں کو ہے ویسے ہی مومن عورتوں کو بھی ہے۔ جیسا کہ اس سے اگلی آیت میں مذکور ہے نگاہیں نیچی رکھنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ چلتے وقت راستہ بھی پوری طرح نظر نہ آئے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مرد کی کسی غیر عورت پر اور عورت کی کسی غیر مرد پر نگاہ نہ پڑنی چاہئے اور اگر اتفاق سے نظر پڑجائے تو فوراً نظر ہٹا لینی چاہئے۔ جیسا کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ : ” پہلی بار کی نظر تجھے معاف ہے (یعنی اتفاقاً پڑجائے) لیکن بعد کی معاف نہیں۔“(ترمذی۔ ابو اب الادب۔ باب نظر الفجاءۃ ) یعنی اتفاقاً نظر پڑجانے کے بعد پھر دیکھتے نہیں رہنا چاہئے بلکہ فوراً نظر ہٹا لینی چاہئے اور ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوں فرمایا کہ ” نظر بازی آنکھوں کا زنا ہے یا آنکھوں کا زنا نظر بازی ہے ۔“ (بخاری۔ کتاب الاستیذان۔ باب زنا الجوارح دون الفرج) [٤٠] نظربازی زنا کا سب سے بڑا دروازہ ہے :۔نظر بازی سے اجتناب کے ساتھ ہی متصلاً اللہ تعالیٰ نے فروج کی حفاظت کا ذکر فرمایا جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ فروج (یعنی شرمگاہوں)کی حفاظت کے لئے نظربازی سے اجتناب انتہائی ضروری ہے۔ بالفاظ دیگر زنا کے عوامل میں سے نظربازی ایک بہت بڑا عامل یا اس کا مین گیٹ ہے۔ اسی نظر باز کے نتیجہ میں بعد میں انسان کے دوسرے اعضاء بھی اس فتنہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ مندرجہ بالا پوری حدیث اس طرح ہے ” آنکھ کا زنا نظر بازی ہے۔ زبان کا زنا فحش کلامی ہے اور آدمی کا نفس زنا کی خواہش کرتا ہے۔ پھر شرمگاہ تو ان سب قسموں کے زنا کی تصدیق کردیتی ہے یا تکذیب۔“ (بخاری۔ کتاب الاستیذان۔ باب زنا الجوارح دون الفرج) ٢۔ نیز سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے دروازہ کے سوراخ میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے میں جھانکا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک خارپشت یعنی ایک لوہے کی سلائی یا تیر کی انی تھی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر کھجلا رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”اگر مجھے معلوم ہوجاتا کہ تو جھانک رہا ہےتو میں تیری آنکھ پر مار کر اسے پھوڑ دیتا۔ استیعذان کا حک کو تو نظر بازی کے فتنہ کے وجہ سے ہی ہوا ہے۔“ (بخاری۔ کتاب الاستیذان) ٣۔ اور طبرانی میں ایک روایت یوں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ : نظر بازی، ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے (بحوالہ تفہیم القرآن ج ٣ ص ٣٨٠) منگیترکودیکھنے کی اجازت :۔البتہ اس میں استثناء کی صرف ایک صورت ہے اور وہ یہ ہے کہ آدمی کو اپنی ہونے والی بیوی یعنی مخطوبہ کو دیکھنے کی اجازت ہے۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک عورت سے منگنی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” اس عورت کی طرف دیکھ لو، کیونکہ تم دونوں میں موانست کا یہ بہتر طریقہ ہے۔“ (ترمذی۔ ابو اب النکاح۔ باب النظر الی المخطوبه) اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا جو کسی انصاری عورت سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا : ”کیا تو نے اس مخوطبہ کی طرف دیکھ لیا “ ؟ اس نے کہا ” نہیں“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جا اور اس کے طرف دیکھ لے کیونکہ انصار کی عورتوں کی آنکھوں میں کچھ عیب ہوتا ہے“ (مسلم۔ کتاب النکاح۔ باب ندب من ارادالنکاح امرأۃ الی ان ینظرالیٰ وجھھا) النور
31 [٤١] بعض علماء نے قرآن کریم کے الفاظ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا سے یہ مراد لی ہے کہ حجاب سے چہرہ اور ہاتھ مستثنیٰ ہیں۔ یعنی عورتوں کو غیر مردوں سے بھی چہرہ اور ہاتھ چھپانے کی ضرورت نہیں۔ یہ توجیہ درج ذیل وجوہ کی بنا پر غلط ہے : ١۔ہاتھوں اورچہرہ کوڈھانپنا:۔ اس آیت میں احکام حجاب کی رخصتوں کا ذکر ہے نہ کہ احکام حجاب کی پابندیوں کی۔ یعنی ذکر تو یہ چل رہا ہے کہ فلاں فلاں ابدی محرم رشتہ داروں سے بھی حجاب کی ضرورت نہیں، اپنی عورتوں سے بھی لونڈیوں سے بھی، خدام اور نابالغ بچوں سے بھی اظہار زینت اور حجاب پر کوئی پابندی نہیں۔ اب دیکھئے اس آیت میں کہیں عام لوگوں یا غیر مردوں کا ذکر آیا ہے کہ ان سے بھی اظہار زینت پر کوئی پابندی نہیں؟ لہٰذ اگر ان حضرات کے مصداق ماظہر مہنا سے مراد چہرہ اور ہاتھ ہی لے لئے جائیں تو بھی چنداں فرق نہیں پڑتا کیونکہ اس آیت میں مذکور اشخاص کے سامنے ہاتھ اور چہرہ کھلا رکھنے کی اجازت ہی کا تو ذکر ہے۔ ٢۔ اس بات کے باوجود بھی یہ توجیہ غلط ہے کیونکہ ماظَھَرَ مِنْھَا میں ھا کی ضمیر زِیْنَتَھُنَّ کی طرف راجع ہے جو کہ قریب ہی مذکور ہے، نہ کہ اعضائے بدن کی طرف جن کا یہاں ذکر ہی موجود نہیں۔ اور اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ ” عورتیں اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر جو اس زینت سے از خود ظاہر ہوجائے۔ “ گویا اللہ تعالیٰ عورتوں کو تکلیف مالا بطاق نہیں دینا چاہتے۔ یعنی اگر جلباب یا بڑی چادر یا برقع کسی وقت ہوا سے اٹھ جائے یا غفلت یا کسی دوسرے اتفاق کی بنا پر عورت کا زیور یا زینت یا اس کا کچھ حصہ ظاہر ہوجائے تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں۔ اکثر صحابہ اور تابعین نے ماظَھَرَ مِنْھَا سے یہی مفہوم مراد لیا ہے۔ ٣۔ پیچھے واقعہ افک میں ایک طویل حدیث، جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، گزر چکی ہے۔ اس میں وہ خود فرماتی ہیں کہ میں نے صفوان بن معطل سلمی کو جب بیدار ہو کر اپنے پاس کھڑا دیکھ تو میں نے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔ کیونکہ اس سے پہلے (سورہ احزاب میں) پردہ کا حکم نازل ہوچکا تھا۔ پھر بعد میں کیا یہ حکم منسوخ ہوگیا تھا ؟ کیا کچھ شواہد و آثار ایسے ملتے ہیں جن سے یہ ثابت ہوسکے کہ یہ حکم منسوخ ہوگیا تھا ؟ اگر اس سوال کا جواب نفی میں ہو اور یقیناً نفی میں ہے تو پھر اس جملہ کا یہ مطلب کیسے لیا جاسکتا ہے کہ چہرہ اور ہاتھ پردہ کے حکم سے مستثنیٰ ہیں۔ ٤۔ تمام بدن میں چہرہ ہی ایسا عضو ہے جس میں غیروں کے لئے دلکشی کا سب سے زیادہ سامان ہوتا ہے۔ پھر اگر اسے ہی پردہ سے مستثنیٰ قرار دے دیا جائے تو باقی احکام حجاب کی کیا اہمیت باقی رہ جاتی ہے؟ اب اس مسئلہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ تمام تر صحابہ کرام میں سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے، پھر ان کے شاگردوں نے، پھر بعض فقہائے حنفیہ نے ﴿اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا ﴾ سے یہ مراد لیا ہے کہ ہاتھ اور چہرہ حکم حجاب سے خارج ہیں اور یہی وہ اصل بنیاد ہے جس پر منکرین حجاب اپنی عمارت کھڑی کرتے ہیں۔ حالانکہ ان اصحاب کا یہ موقف بھی منکرین حجاب کے کام کی چیز نہیں وجہ یہ ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ﴿یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ ﴾کا مفہوم یوں بیان فرماتے ہیں۔ ابن عباس اور ابو عبیدہ نے فرمایا ”مومنوں کی عورتوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ چادروں سے اپنے سر اور چہروں کو ڈھانپ کر رکھیں مگر ایک آنکھ کھلی رکھ سکتی ہیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ وہ آزاد عورتیں ہیں۔“ (معالم التنزیل بحوالہ تفہیم القرآن ج ٣ ص ١٢٩) اسی طرح کی ایک دوسری روایت یہ ہے کہ علی بن ابی طلحہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ : ”اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ اپنے گھروں سے کسی ضرورت کے تحت نکلیں تو چادروں سے اپنے سروں کے اوپر سے چہروں کو ڈھانپ لیں اور (صرف) ایک آنکھ ظاہر کریں۔“ (تفسیر ابن کثیر ج ٣ ص ٣١٨، جامع البیان للطبری ص ٣٣ مطبوعہ مصر) اور یہ تو ظاہر ہے کہ جلباب کا تعلق گھر کے باہر کی دنیا سے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابن عباس گھر سے باہر مکمل پردہ (یعنی چہرہ سمیت کے قائل تھے) ان کے موقف میں اگر کچھ لچک ہے تو وہ گھر کے اندر کی دنیا سے ہے یعنی اگر گھر کے اندر ایسے رشتہ دار آجائیں جو محرم نہیں تو ان سے ہاتھ اور چہرہ چھپانے کی ضرورت نہیں لہٰذ آج کے مذہب اور پردہ کے مخالف طبقہ کے لئے ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ موقف بھی کچھ زیادہ سود مند نہیں۔ [٤٢] دوپٹہ اوڑھنے کا مقصد:۔ بدن کی قدرتی زیبائش میں سب سے زیادہ نمایاں چیز عورت کے سینہ کا ابھار یا اس کے پستان ہیں۔ جو مرد کے لئے خاصی کشش رکھتے ہیں۔ لہٰذا سینہ کو ڈھانپنے کی بطور خاص تاکید فرمائی۔ اور جاہلیت کی رسم کو ختم کرنے کی صورت بھی بتا دی۔ جاہلیت میں عورتیں اپنے خمار (دوپٹے) سر پر ڈال کر اس کے دونوں پلے پشت پر لٹا لیتی تھیں۔ اس طرح سینہ پر کوئی چیز نہ ہوتی تھی اور یہ بھی گویا حسن کا مظاہرہ یا نمائش تھی۔ اور آج کی مہذب سوسائٹی میں اول تو ہماری یہ مذہب عورتیں دوپٹہ لینا گوارا ہی نہیں کرتیں اور اگر لیں تو دوپٹہ کو گلے میں ڈال کر اس کے پہلو پیچھے پشت پر ڈال دیتی ہیں۔ اس طرح سر اور سینہ دونوں ننگے رہتے ہیں۔ التبہ دوپٹہ کا نام ضرور بدنام کیا جاتا ہے۔ اور مقصود اس سے بھی سینہ کے ابھار کی نمائش اور مردوں کے لئے پرکشش بنے رہنا ہوتا ہے۔ گویا آج اس نئی روشنی اور ترقی میں پرانے دور جاہلیت سے بھی زیادہ جاہلیت کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے یہ طریقہ بتایا کہ دوپٹہ کو سر پر سے لا کر گریبان پر ڈالنا چاہئے اس طرح سر، کان، گردن، سینہ سب اعضاء چھپے رہتے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ” جب یہ آیت نازل ہوئی تو مدینہ کی عورتوں نے اپنے تہبند (یعنی موٹا کپڑا) پھاڑ کر اس کی اوڑھنیاں بنا لیں۔“ (بخاری۔ کتاب التفسیر) گویا اس حکم پر انہوں نے فوراً سرتسلیم خم کردیا۔ [٤٣]ابدی محرم رشتہ دار:۔ قرآن کریم میں اس مقام اور بعض دوسرے مقامات پر بارہ قسم کے لوگوں یا رشتہ داروں کا ذکر آیا ہے۔ جن سے حجاب کی ضرورت نہیں۔ البتہ ستر کے احکام بدستور برقرار رہیں گے۔ بالفاظ دیگر ان مذکورہ بارہ قسم کے لوگوں یا رشتہ داروں کے سامنے عورتیں اپنی زیب و زینت کا اظہار کرسکتی ہیں۔ ان میں آٹھ یہاں مذکور ہیں۔ اور یہ رشتہ دار ایسے ہیں جو ابدی طور پر محرم ہیں ہیں یعنی خاوند، باپ، سسر، حقیقی بیٹے، سوتیلے بیٹے، بھائی، بھتیجے اور بھانجے۔ پھر ان میں وہ رشتہ دار بھی شامل ہوجاتے ہیں جو رضاعت کی بنا پر حرام ہوں مثلاً رضاعی باپ، رضاعی بھائی یا رضاعی بیٹے اور چچے وغیرہ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورۃ نساء کی آیت نمبر ٢٣ سے استشہاد کرکے نسب اور رضاعت کو ایک ہی سطح پر رکھ کر فرمایا کہ ” جو رشتے نسب کے لحاظ سے حرام ہیں وہی رضاعت کے لحاظ سے بھی حرام ہیں۔“ (بخاری۔ کتاب الشہادات۔ باب الشہادۃ علی الانساب والرضاع) [٤٤]غیرعورتوں اور ہیجڑوں سے بھی حجاب کا حکم :۔ قرآن کریم کے الفاظ میں اَوْنِسَا ئِھِنَّ (یا اپنی عورتوں سے بھی اظہار زیب و زینت میں بھی کوئی حرج نہیں) یہ نویں قسم ہوئی اور اپنی عورتوں سے مراد آپس میں میل ملاقات رکھنے والی مسلمان عورتیں ہیں جو ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتی پہچانتی اور ایک دوسرے پر اعتبار رکھتی ہوں۔ وہی دوسری غیر مسلم، مشتبہ اور ان جالی عورتیں تو ایسی عورتوں سے اپنی زیب و زینت چھپانے اور حجاب کا ایسا ہی حکم ہے۔ جیسے غیر مردوں سے ہے۔ وجہ یہ ہے کہ عورتیں ہی ہوتی ہیں جو قحبہ گری کی دلالی بھی کرتی ہیں۔ نوخیز اور نوجوان لڑکیوں کو اپنے دام تیز ویر میں پھنسا کر غلط راہوں پر ڈال کر شیطان کی پوری نمائندگی کرتی ہیں۔ اور ایک گھر کے بھید کی باتیں دوسرے گھر میں بیان کرکے فحاشی پھیلاتی اور اس کی راہیں ہموار کرتی ہیں۔ ایسی بدمعاش قسم کی عورتوں سے پرہیز کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذ تمام ان جانی اور غیر مسلم عورتوں یا غیر عورتوں سے بھی حجاب کا حکم دیا گیا۔ بلکہ ایسی عورتوں کو گھروں میں داخلہ پر بھی ایسے ہی پابندی لگانا ضروری ہے جیسے غیر مردوں کے لئے ضروری ہے۔ علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہیجڑوں، مخنث، یا زنانہ وضع قطع رکھنے والے مردوں سے بھی حجاب کا حکم دیا ہے۔ دور نبوی کا ایک واقعہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف فرما تھے۔ گھر میں ایک ہیجڑا تھا۔ وہ حضرت سلمہ کے بھائی عبداللہ بن ابی ربیعہ سے کہنے لگا : اگر اللہ نے کل طائف فتح کرا دیا تو میں تمہیں غیلان کی بیٹی کی نشاندہی کروں گا وہ اگر سامنے آتی ہے تو چار سلوٹ لے کر اور پیٹھ موڑتی ہے تو آٹھ سلوٹیں لے کر (یعنی اس کا بدن خوب گتھا ہوا ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بات سن لی تو فرمایا :” یہ ہیجڑا آئندہ کبھی تمہارے ہاں نہ آیا کرے۔“ (بخاری۔ کتاب النکاح۔ باب ماینھی من دخول المشتبھین بالنساء علی المرأۃ ) یہ مخنث (خسرا ہیجڑا یا زنانہ) چونکہ عورتوں کے امور سے دلچسپی رکھتا تھا۔ لہٰذ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے حجاب کا حکم دیا اور داخلہ پر پابندی لگا دی۔ [٤٥] دسویں قسم جن میں اپنی زیب و زینت چھپانے میں کوئی حرج نہیں وہ عورتوں کی اپنی کنیزیں ہیں۔ جن کی وہ خود یا ان کے خاوند مالک ہوں۔ [٤٦] اپنےخادموں سے بےحجاب ہونے کی مشروط اجازت :۔تابعین سے مراد مطیع و منقاد۔ نوکر چاکر اور شاگرد قسم کے لوگ ہیں۔ یہ گیارہویں قسم ہوئی۔ مگر ایسے لوگوں سے زیب و زینت کے اظہار کی رخصت صرف اس صورت میں ہے۔ کہ انھیں ہمبستری کی خواہش ہی نہ ہو۔ اور خواہش کا نہ ہونا یا شہوانی جذبات کا بیدار نہ ہونا بچپن کا وجہ سے بھی ہوسکتا ہے۔ زیادہ بڑھاپے کی وجہ سے بھی۔ بیماری یا نامردی کی وجہ سے بھی اور مالک کی عزت اور وقار کی وجہ سے بھی یعنی یہ خدام اپنی مالکہ سے ایسی بات کا تصور تک بھی نہ کرسکتے ہوں اور اپنے کام سے ہی غرض رکھیں اور اگر یہ خطرہ ہو کہ ایسے لوگوں کے شہوانی جذبات کسی وقت بھی بیدار ہوسکتے ہیں تو پھر ان سے یہ رخصت ختم ہوجاتی ہے۔ ان پر حجاب کے احکام لاگو ہوجاتے ہیں اور ان کے سامنے اظہار زیب و زینت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ لہٰذ ایسے جوان ڈرائیور، خانسامے، اور بیرے وغیرہ سے حجاب کی رخصت کی کوئی گنجائش نہیں، بالخصوص اس صورت میں کہ ان کی شادی بھی ابھی نہ ہوئی ہو۔ [٤٧]بچوں اور لڑکوں سے یہ رخصت اس وقت تک ہے جب تک وہ بالغ نہ ہوئے ہوں دس گیارہ سال تک کے بچوں کے سامنے توعورت بےحجاب رہ سکتی ہے بعدمیں نہیں ۔ پس یہ بارہویں قسم ہوئی ۔ [۴۸] چال پر پابندی :۔ یعنی عورتیں اس انداز سے اپنے پاؤں زمین پر نہ ماریں یا رکھ کر نہ چلیں کہ ان کے زیوروں کی جھنکار سنائی دینے لگے اور یہ معلوم ہوجائے کہ اس نے کیا کچھ زیور پہن رکھے ہیں۔ اگر وہ ایسے ہی چھن چھن کرتے ہوئے چلے گی تو کیا معلوم اس کا پاؤں زمین پر پڑنے کے ساتھ ساتھ کسی عاشق مزاج کے دل پر بھی جاپڑے۔ اس قسم کی آواز بسا اوقات صورت دیکھنے سے بھی زیادہ شہوانی جذبات کو بھڑکانے کا سبب بن جاتی ہے۔ [٤٩] یعنی دور جاہلیت میں اور بالخصوص ان کے مشہور میلوں کے موقع پر جس قدر فحش حرکات تم سے سرزد ہوچکی ہیں۔ ان سے اللہ کے حضور توبہ کرو۔ مرد ہوں یا عورتیں سب کے سب لوگوں کو سابقہ اطوار چھوڑ کر آئندہ ان باتوں اور ایسی حرکتوں سے کلی اجتناب کرنا چاہئے اسی طرح تمہارا معاشرہ فواحش سے پاک ہوسکتا ہے اور تمہاری دین و دنیا میں کامیابی کا انحصار ان باتوں پر پوری طرح عمل پیرا ہوجانے پر ہے۔ النور
32 [٥٠] ایامی کا لغوی مفہوم:۔معاشرہ کے فواحش سے طہارت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ تم میں سے کوئی فرد خواہ وہ مرد ہو یا عورت بے زوج نہ رہے۔ ایسے سب افراد کے نکاح کر دو۔ ایامٰی ایّم کی جمع ہے اور یہ بڑے وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس سے مراد وہ مرد بھی ہیں جن کی بیوی یا بیویاں فوت ہوچکی ہوں یا طلاق دے چکے ہوں اور مجرد رہتے ہوں اور وہ عورتیں بھی جو بیوہ ہوں یا مطلقہ ہوں اور مجرد رہتی ہوں۔ نیز ان میں وہ کنوارے مرد اور کنواری عورتیں بھی شامل ہیں جن کی بلوغت کے بعد تادیر شادی نہ ہوئی ہو۔ لہٰذ اس لفظ کا معنی مجرد رہنا ہی قریب الفہم ہے۔ ایسے ہی مجرد افراد کے اولیاء کو یہ حکم دیا جارہا ہے۔ چنانچہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : علی! ”تین کاموں میں دیر نہ کرنا، فرض نماز، جب اس کا وقت ہوجائے۔ جنازہ جب موجود تو اسے دفن کرنے میں اور بیوہ عورت کے نکاح میں جب کہ اس کا کفو (بر، ہمسر) مل جائے۔“ (ترمذی۔ ابو اب الصلوۃ۔ باب ماجاء فی الوقت الاول من الفصل) مجردافراد کےنکاح کا حکم :۔ ہمارے معاشرے میں عام طور مجرد مردوں یا مجرد عورتوں کے نکاح کو معیوب سمجھا جانے لگا ہے۔ اور کوئی فرد ہمت کرکے نکاح کر بھی کرلے تو اسے طعن و تشنیع کی جاتی ہے یا کم از کم اس کے اس کام پر ناک بھوں ضرور چڑھاتے ہیں کہ جب اس کے ہاں اولاد موجود ہے تو اسے نکاح کی کیا ضرورت تھی؟ انھیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ان کا یہ رویہ آیات اللہ کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ اس رواج کی کئی وجوہ ہیں۔ سب سے بڑی وجہ تو مغربی تہذیب سے مرعوبیت ہے۔ جہاں یک زوجگی کا قانون رائج ہے۔ فحاشی اور حرام کی سب راہیں کھلی ہیں اور یہ لوگ یہاں بھی یہی کچھ چاہتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ بعض دفعہ اولاد اپنے مجرد باپ یا بیوہ ماں کے نکاح میں آڑے آتی ہے۔ اور اس کا بڑا سبب عموماً یہ ہوتا ہے کہ اگر اولاد پیدا ہوئی تو وہ وراثت میں شریک بن جائے گی۔ یا پھر جھوٹی قسم کی غیرت ہوتی ہے اس کی تیسری وجہ خاندانی منصوبہ بندی والوں کا پروپیگنڈہ ہے۔ اور اسی وجہ سے بلوغت کے بعد تادیر مجرد رہنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ یہ سب وجوہ مل کر ایک ایسا ماحول بن گیا ہے۔ جس میں حرام کاموں کے لئے تو سب سہولتیں میسر ہیں۔ مگر حلال کاموں پر عمل پیرا ہونا بہت مشکل بنا دیا گیا ہے۔ ضمناً اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عورت خواہ کسی عمر کی ہو اس کا ولی کے بغیر نکاح درست نہیں ہوتا۔ اور یہ بات احادیث میں پوری وضاحت سے مذکور ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ کوئی بھی عورت جو ولی کے بغیر نکاح کرے تو اس کا نکاح باطل ہے۔ تو اس کا نکاح باطل ہے تو اس کا نکاح باطل ہے۔ (ترمذی۔ ابو اب النکاح۔ باب لا نکاح الا بولی) لہٰذ اولیاء کو یہی حکم دیا جارہا ہے کہ وہ مجرد لوگوں کے نکاح کریں۔ اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہاں امر کا صیغہ وجوب کے لئے نہیں ہے یعنی معاشرہ یا اسلامی حکومت یا اولیاء پر یہ واجب نہیں کہ معاشرہ کا جو فرد بھی مجرد ہو اس کو پکڑ کر اس کا نکاح کرادے۔ بلکہ یہ امر استحباب کے لئے ہے۔ کیونکہ نکاح میں کچھ رکاوٹیں بھی ہوسکتی ہیں مثلاً جوڑ کا رشتہ نہ ملنا یا تنگدستی وغیرہ۔ التبہ معاشرہ کے افراد کے لئے بہتر بات یہی ہے کہ وہ مجرد لوگوں کے نکاح کے سلسلہ میں حتی الامکان تعاون کریں۔ اور جن لوگوں کے حالات نکاح کے لئے سازگار نہ ہوں انھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے رکھنے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم کچھ جوان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں رہتے تھے اور (نکاح کے لئے) ہمارے پاس کچھ نہ تھا۔ تو آپ نے ہمیں ارشاد فرمایا کہ اے نوجوانو! تم میں سے جو کچھ خانہ آبادی کی استطاعت رکھتا ہے اس چاہئے کہ نکاح کرلے کیونکہ نکاح نگاہ نیچی رکھنے اور شرمگاہ کی حفاظت کے لئے خوب چیز ہے اور جو اس کی طاعت نہ رکھتا ہو وہ روزے رکھا کرے۔ روزے اس کی شہوت کوٹھنڈا کرنے کے لئے ڈھال کا کام دیں گے (بخاری۔ کتاب النکاح۔ باب من لم یستطع الباءۃ فلیصم) نیز سعد بن ابی وقاص فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو تبتل(مجرد یا عورت سے الگ تھلگ رہنے) کی اجازت نہ دی۔ اگر آپ اسے اجازت دے دیتے تو ہم خصی ہوجاتے۔ (بخاری۔ کتاب النکاح۔باب مایکرہ من التبتل والخصائ) [٥١] لونڈی اور غلاموں کے ذکر میں صالحین کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جو یہاں دو مطلب ادا کر رہا ہے۔ ایک یہ کہ ان میں ازدواجی زندگی کو نباہنے کی صلاحیت موجود ہو۔ ایسا نہ ہو کہ نکاح کے بعد وہ ڈھیلے پڑجائیں اور ان کا سارا بوجھ مالک پر پڑجائے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ نیک ہوں اور پاک سیرت رہنا چاہتے ہوں اور فحاشی اور بدکاری سے بچنا چاہتے ہوں۔ جو بھی صورت ہو ان کے مالکوں کو چاہئے کہ ان کے نکاح کے لئے ممکن حد تک کوشش کریں۔ [٥٢رزق کی تنگی ترشی کا انحصار نکاح پرنہیں :۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو بھی محتاج شادی کرے گا شادی کے بعد وہ مالدار اور غنی ہوجائے گا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی نظر ظاہری اسباب تک محدود رہتی ہے۔ اور وہ انھیں ظاہری اسباب کو سامنے رکھ کر حساب لگاتا ہے۔ جبکہ اس کائنات میں ظاہری اسباب کے علاوہ بے شمار باطنی اسباب بھی موجود ہیں۔ جن پر انسان مطلع نہیں ہوسکتا اور وہ اسباب خالصتا اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ لہٰذ جو لوگ اس وجہ سے نکاح میں پس و پیش کرتے ہیں کہ نکاح کے بعد بیوی بچوں کا بوجھ کیسے برداشت کریں گے۔ انھیں سمجھا دیا گیا کہ ایسے موہوم خطرات کی بنا پر نکاح سے مت رکو۔ تمہارا اور تمہارے بال بچوں کا رزق اللہ کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ تم مجرد رہ کر غنی بن جاؤ گے یا نکاح کے بعد مفلس و قلاش ہوجاؤ گے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان نکاح کے بعد احساس ذمہ داری کی وجہ سے پوری طرح محنت کرنے لگتا ہے جو پہلے نہیں کرتا۔ کبھی بیوی اس کے کسب معاش کے سلسلہ میں اس کی ممد و معاون بن جاتی ہے۔ کبھی بیوی کے کنبہ والے اس سلسلہ میں اس کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ کبھی مرد کے لئے کمائی اور آمدنی کی ایسی راہیں کھل جاتی ہیں۔ جس کا اسے پہلے وہم و گمان بھی نہیں ہوتا گویا پیدا ہونے والے بچے اپنا رزق اپنے ساتھ لاتے ہیں جس کا ذریعہ ان کا والد بنتا ہے۔ لہٰذا یہ یقین رکھو کہ رزق کی تنگی اور فراخی کا انحصار نہ نکاح کرنے پر ہے اور نہ مجرد رہنے پر۔ لہٰذ اس بنا پر نکاح سے گریز نہ کرنا چاہئے۔ النور
33 [٥٣] اس آیت سے پہلی آیت کے حاشیہ میں ذکر ہوچکا ہے کہ جو جوان مرد نکاح اور خانہ داری کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزے رکھنے کی تلقین فرمائی اور واضح فرما دیا کہ روزے رکھنا تمہارے عفیف اور پاکیزہ رہنے میں بہت مددگار ثابت ہوگا۔ کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ اسی ضبط نفس اور عفت کی برکت سے انہیں نکاح کا بہترین موقع مہیا فرما دے اور انھیں غنی بھی کردے۔ کہ معاشرہ میں بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو خود تو غنی ہوتے ہیں۔ لیکن وہ اپنی بیٹیوں کے رشتہ کے سلسلہ میں ایسا جوڑ چاہتے ہیں۔ جو شریف، نیک اور پاکیزہ سیرت انسان ہو۔ اور وہ اپنی بیٹی کی غربت کا خیال اس لئے نہیں کرتے کہ اس جوڑے کی غربت کا علاج ان کے پاس موجود ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اللہ کے فضل کی بے شمار راہیں ہیں۔ انسان کو بس اس کا فرمانبردار بن کر رہنا چاہئے۔ [٥٤] واضح رہے کہ عہد نبوی میں معاشرہ کا ایک کثیر حصہ غلاموں اور لونڈیوں پر مشتمل تھا۔ اور یہ معاشرہ کا جزولاینفک بن چکا تھا۔ کسی شخص کی دولت کا معیار ہی یہ سمجھا جاتا تھا کہ اس کے پاس کتنے غلام ہیں۔ گویا یہ غلام ان آزاد لوگوں کی آمدنی کا ذریعہ بنتے تھے۔ منڈیوں میں غلاموں کا آزادانہ خرید و فروخت ہوتی تھی۔ جیسے ہمارے ہاں بھیڑوں اور گائے بھینسوں کی ہوتی ہے۔ اسلام نے اس اس غلامی کے رواج کو سخت ناپسندیدہ سمجھا۔ غلاموں کی آزادی کے لئے ہر ممکن صورت اختیار کی لیکن شراب اور سود کی طرح اس کا کلی طور پر خاتمہ نہیں کیا۔ وجہ یہ ہے کہ تاقیامت جنگیں ہوتی رہیں گی اور قیدی بنتے رہیں گے۔ ایسے مواقع پر ایک غیر مسلم حکومت کے فوجی مفتوح قوم کی عورتوں پر جس طرح کی دست درازیاں کرتے اور ظلم و ستم ڈھاتے ہیں وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اسلام ایسی فحاشی اور ایسے مظالم کو حرام قرار دیتا ہے اور اس کے بجائے ملک یمین کی حلال راہیں کھولتا ہے۔ اسی اعلیٰ اخلاقی قدر کی بنا پر اسلام نے جنگی قیدیوں اور ملک یمین کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں کیا۔ اسلام نے غلامی کے رواج کی حوصلہ شکنی کے لئے بہت سے گناہوں کا کفارہ غلام کی آزادی قرار دیا۔ زکوٰۃ کے مصارف میں سے ایک مصرف یہ بھی فرمایا۔ مسلمانوں کو بہت بڑے اجر کا وعدہ فرما کر غلاموں کو آزاد کرنے اور کرانے کی ترغیب دی۔ غرض یہ باب بھی بڑا طویل ہے۔ ایسے ہی ذرائع میں سے مکاتبت بھی غلاموں کی آزادی کا ایک ذریعہ ہے۔ مکاتبت کا لغوی معنی تو باہمی تحریر یا لکھا پڑھی ہے۔ اور اصطلاحاً اس سے مراد وہ (تحریری یا زبانی) معاہدہ ہے جو غلاموں کی آزادی کے سلسلہ میں مالک اور غلاموں کے درمیان باہمی رضا مندی سے طے ہوجائے۔ مثلاً یہ کہ غلام یہ وعدہ کرے کہ میں اتنی رقم اتنی مدت کے بعد یا مدت کے اندر یکمشت یا بالاقساط ادا کروں گا اگر کوئی غلام اپنے مالک سے ایسی درخواست کرے تو مالک کو ایسی درخواست قبول کرلینا چاہئے۔ اس معاہدہ پر مزید کسی شرط کے اضافہ کی مالک کے لئے گنجائش نہیں ہوتی جیسا کہ درج ذیل حدیث سے ظاہر ہے : عمر ہ بنت عبدالرحمٰن کہتی ہیں کہ : بریرہ لونڈی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی وہ اپنی کتابت کے سلسلہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مدد چاہتی تھی۔ انہوں نے کہا : ” اگر تو چاہے تو میں تیرے مالکوں کو رقم ادا کردیتی ہوں مگر ولاء (تیرا ترکہ) میرا ہوگا“ اور اس کے مالکوں نے اسے کہا : اگر تو چاہے کتابت کی بقایا رقم دے دے پھر خواہ وہ مجھے آزاد کردیں۔ مگر اس کا ترکہ ہم ہی لیں گے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ سے اس بات کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم بریرہ کو خرید کر آزاد کردو۔ اور ترکہ تو اسی کا ہوتا ہے جو آزاد کرے“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے اور فرمایا ” لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جو ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہیں۔ اور ایسی شرطیں جو اللہ کی کتاب میں نہ ہوں۔ خواہ کوئی سو شرطیں لگائے اسے کچھ بھی نہ ملے گا“ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب ذکر البیع والشراء فی المسجد) اگرغلام مالک سے مکاتبت کرنا چاہے تواسے مان لیناچاہیے :۔ مالک کے لئے یہ امر وجوب کے لئے ہے۔ یعنی یہ نہیں ہوسکتا کہ مالک اگر چاہے تو غلام کی مکاتبت کی درخواست کو قبول کرے اور چاہے تو نہ کرے اور مالک مکاتبت پر رضا مند نہ ہو تو اسے اسلام حکومت کی طرف سے ایسے معاہدہ کے لئے مجبور کیا جائے۔ البتہ ایسی مکاتبت کے لئے ایک شرط اللہ تعالیٰ نے خود ہی بتا دی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر مالک اپنی دیانتداری کے ساتھ اپنے لالچ کے بغیر یہ سمجھے کہ یہ آزادی فی الواقع غلام یا لونڈی کے حق میں بہتر نہ ہوگی۔ قید غلامی سے رہا ہو کر وہ چوری، بدکاری یا اور طرح طرح کی بدمعاشیاں نہ کرتا پھرے گا۔ اگر یہ اطمینان ہو تو اسے ضرور آزاد کردینا چاہئے۔ کہ وہ آزاد ہو کر معاشرہ میں اپنا مقام پیدا کرسکے اور اگر نکاح کرنا چاہے تو اپنے اختیار سے کرسکے۔ نیز کسی بھی میدان میں غلامی کی وجہ سے اس کے لئے میدان تنگ نہ ہو۔ یا پھر خیر کا یہ مطلب ہوسکتا ہے کہ آیا وہ اپنے اس عہد کو نباہ بھی سکتا ہے یا نہیں یعنی اپنے معاوضہ کی رقم ادا کرنے کے قابل ہے یا نہیں۔ [٥٥] مکاتب کی مالی امداد: اس جملہ کے مخاطب عام افراد معاشرہ بھی ہوسکتے ہیں کہ وہ مکاتبت کرنے والے غلام کی رقم کی ادائیگی کے سلسلہ میں اس کی مالی امداد کریں۔ غلاموں کے مالک بھی ہوسکتے ہیں کہ وہ طے شدہ رقم کا کچھ حصہ چھوڑ دیں اور اسلامی حکومت بھی ہوسکتی ہے کہ وہ ایسے شخص سے زکوٰۃ فنڈ میں سے مالی تعاون کرے۔ [٥٦] غلام اور لونڈیوں کو اہل عرب اپنی آمدنی کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ جتنے کسی کے پاس زیادہ غلام ہوتے اتنا ہی وہ زیادہ مالدار ہوتا جاتا تھا۔ اس کی مثال یوں سمجھئے جیسے آج کل ایک کارخانہ میں دس مزدور کام کرتے ہیں اور دوسرے میں پچاس۔ تو پچاس مزدوروں والے کارخانہ کا مالک یقیناً پہلے سے بہت زیادہ مالدار ہوجائے گا۔ اس سلسلہ میں بعض بدباطن اپنی آمدنی بڑھانے کے لئے اپنی لونڈیوں سے پیشہ بھی کرواتے تھے۔ اور عبداللہ بن ابی منافق رئیس المنافقین اس سلسلہ میں بہت مشہور تھا۔ اس کی بعض لونڈیاں مسلمان ہوگئیں تو انہوں نے پیشہ کرنے سے انکار کردیا جس پر وہ ملعون انھیں زدوکوب کرتا تھا۔ یہ آیت اسی بارے میں نازل ہوئی۔ (مسلم۔ کتاب التفسیر عن جابر) زنا بذات خود ایک حرام اور مذموم فعل ہے۔ ان دو جملوں نے زنا کی قباحت میں مزید اضافہ کرکے ایسی حرکت کو شدید ترین جرم بنادیا ہے۔ یعنی اگر لونڈیاں پاک دامن نہ رہنا چاہیں تو بھی زنا حرام اور مذموم ہے اور اگر وہ پاک دامن بھی رہنا چاہتی ہوں پھرجبرا ان سے یہ کام کروایا جائے تو یہ شدید جرم بن جاتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی فرد کسی لالچ کے بغیر زنا کرتا ہے یا کرواتا ہے تو بھی اس کی حرمت اور مذمت بدستور قائم ہے۔ پھر یہ کام جب محض دنیا کے حقیر فائدے کے خاطر کرایا جائے تو اس جرم کی شدت اورشناعت مزید بڑھ جاتی ہے۔ [٥٧] یعنی جس کو بدکاری پر مجبور کردیا گیا ہو۔ اللہ اسے اس کا یہ گناہ معاف فرمائے گا۔ جبکہ اس کا یہ گناہ جبر کرانے والے کے گناہ میں شامل کردیا جائے گا۔ اور ترمذی کے حوالہ سے یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے کہ جس عورت سے بالجبر زنا کیا گیا تھا اس سے حد زنا ساقط کردی گئی تھی۔ النور
34 [٥٨] واضح احکام سے مراد وہ تمام احکام ہیں جو ابتدائے سورۃ نور سے بیان ہو رہے ہیں یعنی زنا اور قذف کی حد۔ لعان کا طریقہ۔ معاشرہ کو فحاشی سے پاک رکھنے کے لئے احکام و ہدایات وغیرہ۔ اور پہلے لوگوں کی مثالیں بیان کرنے سے مراد یہ ہے کہ تمہیں معلوم ہوجائے کہ تم سے پہلے جن جن لوگوں نے اللہ کے احکامات سے سرتابی کی تو ایسی قوموں کا کیا حشر ہوا۔ اور ان کا یہ حشر بھی پہلے متعدد مقامات پر مذکور ہوچکا ہے۔ لہٰذ اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے ان سابقہ نظائر میں بہت سے نصیحت آموز اسباب موجود ہیں۔ النور
35 [٥٩] قرآن میں عموماً جہاں کہیں بھی آسمانوں اور زمین کا اکٹھا ذکر آیا ہے وہاں اس سے مراد پوری کائنات ہوتی ہے یعنی اللہ تعالیٰ پوری کائنات کا نور ہے یا پوری کائنات کو روشن کرنے والا ہے۔ نور کی اقسام :۔ نور تین قسم کا ہوتا ہے (١) روشن چیزوں کا نور مثلاً سورج، چاند، ستاروں اور چراغ یا برقی قمقموں کا نور۔ جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ ہے۔ ایسے نور کے بغیر انسان ظاہری چیزوں کو دیکھ نہیں سکتا۔ (٢) آنکھ کا نور جس کی عدم موجودگی میں روشن چیزوں کا نور بے کار ہوتا ہے۔ سورج نکلا ہوا ہو تب بھی آنکھ کے اندھے کو کوئی چیز نہیں آتی۔ (٣) وحی یا علم دین کانور جس کی عدم موجودگی میں انسان ہدایت کے نور سے استفادہ نہیں کرسکتا جس طرح ایک اندھا سورج کی روشنی میں بھی ظاہری اشیاء کو نہیں دیکھ سکتا اسی طرح دل کے اندھے کے لئے تعلیمات الہٰیہ بے کار ثابت ہوتی ہیں۔ اب دیکھئے آنکھ کا نور بھی خالصتا اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہے۔ اس کی ماہیت کیا ہے؟ یہ بات سمجھنا غالباً انسان کی بساط سے باہر ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کسی کا نور بصارت چھین لے تو کوئی طاقت اسے واپس نہیں لاسکتی۔ اور اسی آنکھ کے نور سے ہم کائنات کی اشیاء کو دیکھ سکتے ہیں۔ لہٰذ اصل منبع نور خود اللہ تعالیٰ کی ذات ہوئی اور اسی کے نور سے کائنات کی ایک ایک چیز کی نمود ہے۔ اور دوسری طرف دل کا نور بھی خالصتا اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہے اور اسی نور سے انسان آیات انفس و آفاق میں فکر و تدبیر کرتا ہے اور وحی الہٰی سے فیض یاب ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جس شخص کو نور و ہدایت حاصل ہوا یا جس مقدار میں حاصل ہوا سب کچھ اسی منبع نور سے حاصل ہوا ہے۔ بعض علماء نے یہاں نور کے معنی منور کیا ہے۔ اس لحاظ سے پہلی توجیہ فٹ بیٹھتی ہے لیکن نور کا لفظ منور سے زیادہ ابلغ ہے۔ پھر نور کا لفظ ہر دو توجیہات کے مطابق ہے۔ لہٰذ ہمارے خیال میں نور کا معنی نور یا روشنی ہی سمجھا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ [٦٠]اللہ ہی کائنات کا نورہے: اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنے نور کی جو مثال بیان فرمائی ہے۔ اس کی مندرجہ بالا دو توجیہات کے مطابق دو صورتیں ہیں۔ پہلی توجیہ کے مطابق یہ پوری کائنات ایک طاق کی مانند ہے۔ اور اس میں جس چراغ کی روشنی کی مثال پیش کی گئی ہے وہ اللہ کا نور ہے۔ باقی جو باتیں مذکور ہیں وہ اس لحاظ سے ہیں کہ ایک انسان زیادہ سے زیادہ اور صاف شفاف روشنی کا جو تصور اس دور میں کرسکتا تھا وہ پیش کیا گیا ہے مثلاً ایک یہ ہے کہ وہ چراغ ایک طاق میں ہے جس کا مطلب یہ ہے روشنی کے پھیلاؤ کا دائرہ وسیع نہیں بلکہ بہت محدود حصہ میں ہے تاکہ طاق میں پڑی ہوئی ہر چیز بڑی واضح اور نمایاں نظر آسکے۔ دوسرے یہ کہ اس چراغ میں جلنے والا تیل زیتون کا تیل ہے۔ جو دوسرے تمام قسم کے تیلوں سے زیادہ اور صاف روشنی دیتا ہے۔ مزید یہ کہ وہ زیتون کا دخت ہر وقت دھوپ میں رہتا ہے۔ مشرقی اور مغربی رخ کے سائے اس درخت پر نہیں پڑتے اور ایسے ہمیشہ دھوپ میں رہنے والے درخت کا تیل عام درختوں کے تیل سے زیادہ لطیف ہوتا ہے نیز اس میں یہ خاصیت ہے کہ آگ لگانے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ آگ نزدیک ہونے سے ہی بھڑک اٹھتا ہے۔ جیسا کہ آج کل پٹرول میں یہ خاصیت پائی جاتی ہے۔ اور تیسرے یہ کہ اس چراغ کے گردا گرد نہایت صاف شفاف شیشہ یا فانوس ہے۔ اور ایسے فانوس سے جس قدر روشنی میں اضافہ ہوتا ہے اس کا اندازہ آپ کسی لالٹین سے اس کی شیشہ کی چمنی اتار کرسکتے ہیں۔ گویا چراغ کی روشنی کو سہ بالا یا نور علی نور کرنے والی تین چیزیں ہوئیں۔ ایک تیل کی اعلیٰ کو الٹی، دوسرے صاف شفاف فانوس اور تیسرے روشنی کا دائرہ بہت محدود ہونا اور مثال کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنی ایسی روشنی سے کائنات کی ایک ایک چیز کو منور کر رہا ہے۔ نورایمانی کی وحی الہٰی کےلیے بےتابی :۔ اور دوسری صورت میں چراغ اور اس کے تیل سے مراد نور بصیرت یا نور ایمان ہے۔ فانوس سے مراد انسان کا دل ہے۔ جس میں یہ نور بصیرت واقع ہوتا ہے اور طاق سے مراد اس کا جسم ہے۔ پھر جب ہدایت یا آیات الہٰی پہنچتی ہیں تو ایسے شخص کی بصیرت اس کو قبول کرنے کے لئے پہلے ہی بے تاب ہوتی ہے۔ اب اگر کسی کے دل میں نوربصیرت ہوگا۔ جس کا منبع خود اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ تو ایسے ہی شخص کو یہ آیات فوراً اپیل کرتی اور نظر آنے لگتی ہیں۔ بے بصیرت کو نظر نہیں آتیں۔ یہ دوسری توجیہ کتاب و سنت سے زیادہ قریب معلوم ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اکثر آسمانی کتب کے لئے بھی نور کا لفظ استعمال فرمایا ہے اور علم وحی اور ہدایت کے لئے بھی۔ اور اس مثال کا مطلب یہ ہے کہ جس کسی کے دل میں نور بصیرت کا عطیہ موجود ہوتا ہے وہ احکام الہٰی اور وحی الہٰی کو قبول کرنے کے لئے اس قدر بے تاب ہوتا ہے جیسے پٹرول آگ پکڑنے کے لئے بے تاب ہوتا ہے۔ [٦١] جس طرح آنکھ کا نور اللہ تعالیٰ ہر شخص کو فطری طور پر عطا کرتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ ہر شخص کو نور بصیرت بھی عطا کرتا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ کا ایک دوسرا قانون یہ ہے کہ جس عضو یا قوت سے انسان کام لینا چھوڑ دے وہ قوت اس سے چھین لی جاتی ہے۔ لہٰذ اللہ تعالیٰ کی ہدایت نصیب انہی لوگوں کو ہوتی ہے جو خود بھی اس سے کام لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور جو شخص نور ہدایت کا طالب ہی نہ ہو اور اللہ زبردستی سے کسی کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ النور
36 [٦٢] بعض علماء نے یہاں بیوت سے مراد مساجد لی ہیں اور ترفع سے مراد انھیں تعمیر کرنا لیا ہے اور مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ نے نور بصیرت عطا کیا ہوتا ہے اور وہ ہر وقت حق کے متلاشی رہتے ہیں۔ اور جب انہیں اللہ کی آیات سنائی جائیں تو وہ انھیں تسلیم کرنے کے لئے پہلے سے ہی تیار بیٹھے ہوتے ہیں ایسے لوگ مساجد میں پائے جاتے ہیں۔ انھیں دیکھنا ہو تو اللہ کی مساجد میں دیکھو جہاں ہر وقت اللہ کا ذکر بلند ہوتا رہتا ہے۔ اور صبح و شام وہاں ایسے لوگ نمازوں اور تسبیح و تہلیل میں مصروف رہتے ہیں۔ اگرچہ یہ توجیہ بھی درست ہے مگر یہاں ایسا کوئی قرینہ موجود نہیں جس کی بنا پر بیوت کے لفظ کو صرف مساجد تک محدود کردیا جائے لہٰذ اکثر علماء کے نزدیک بیوت سے مراد سب مومنوں کے گھرانے ہیں۔ اور ہر گھر میں اللہ کا ذکر بھی ہوتے رہنا چاہئے اور تسبیح و تہلیل بھی۔ حتیٰ کہ فرض نمازوں (یعنی جو نماز باجماعت ادا کرنا ضروری ہے جنہیں ہم اپنی زبان میں ہر نماز کی فرض رکعات کہتے ہیں) کے علاوہ نماز کا باقی حصہ سنت یا نفلی نمازیں بھی اپنے اپنے گھروں میں ادا کرنا بہتر ہے۔ حتیٰ کہ اگر کوئی شخص مساجد میں جانے سے معذور ہو تو وہ فرض نمازیں بھی گھر پر (اکیلے یا باجماعت) ادا کرسکتا ہے۔ جب کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے : ١۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب سے مجھے ہوش آیا میں نے اپنے والدین کو مسلمان ہی پایا۔ اور ہم پر کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں نہ آئے ہوں۔ صبح و شام آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو وقت تشریف لاتے پھر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے جی میں آیا تو انہوں نے اپنے صحن میں ایک مسجد بنائی وہ وہاں نماز ادا کرتے اور قرآن پڑھتے۔ مشرکوں کی عورتیں کھڑی ہو کر سنا کرتیں ان کے بچے بھی سنتے اور تعجب کرتے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو دیکھتے رہتے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ایک رونے والے آدمی تھے تو اپنی آنکھوں سے آنسو روک نہ سکتے۔ یہ صورت حال دیکھ کر مشرکین قریش سٹ پٹاگئے۔ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب الاستلقاء فی المسجدومدالرجل) ٢۔گھروں میں نوافل کی ادائیگی :۔ محمود بن ربیع الانصاری کہتے ہیں کہ عتبان بن مالک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب سے تھے اور بدر کی جنگ میں شریک تھے۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا: ”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے بینائی بگڑ گئی ہے اور میں اپنی قوم کے لوگوں کو نماز پڑھایا کرتا ہوں۔ جب مینہ برسے تو نالہ بہنے لگتا ہے جو میرے اور ان کے درمیان ہے۔ لہٰذ میں ان کی مسجد میں جا نہیں سکتا کہ ان کو نماز پڑھا سکوں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائیں اور میرے گھر میں نماز پڑھیں تو میں اس جگہ کو مسجد بنا لوں “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اچھا میں ان شاء اللہ یہ کام کروں گا“ چنانچہ (دوسرے دن) صبح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ دونوں دن چڑھے میرے ہاں آئے۔ آپ نے اندر آنے کی اجازت مانگی میں نے اجازت دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور بیٹھنے سے پہلے ہی پوچھا : ” اپنے گھر میں کون سی جگہ پسند کرتے ہو جہاں میں نماز پڑھوں؟“ عتبان نے آپ کو گھر کا ایک کونا بتایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں کھڑے ہوئے اور اللہ اکبر کہا ہم بھی کھڑے ہوئے اور صف باندھی آپ نے دو رکعت (نفل) پڑھ کر سلام پھیرا۔ پھر ہم نے حلیم تیار کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک لیا۔ محلہ کے اور آدمی بھی گھر میں جمع ہوگئے۔ ان میں ایک آدمی کہنے لگے : مالک بن دخیشن یا دخشن کہاں ہے؟ کسی نے (عتبان سے) کہا :” وہ تو منافق ہے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں رکھتا“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ایسا مت کہو۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ وہ خالصتاً اللہ کی رضا کے لئے لا الہ الا اللہ کہتا ہے“ عتبان کہنے لگے : ” اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں۔ بظاہر تو ہم اس کی توجہ اور ہمدردی منافقوں کی طرف ہی دیکھتے ہیں“ آپ نے فرمایا : ” اللہ عزوجل نے آگ کو اس شخص پر حرام کردیا ہے جو خالصتا اللہ کی رضا مندی کے لئے لا الہ الا اللہ کہتا ہے۔“ (بخاری۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب المساجد فی البیوت) النور
37 [٦٣] ان ہدایت یافتہ لوگوں کی صفت یہ ہوتی ہے کہ وہ گھروں کے اندر بھی اللہ کی یاد میں مشغول رہتے ہیں اور گھروں سے باہر بھی اللہ کی یاد سے غافل نہیں رہتے۔ اپنے کام کاج یا کاروبار کرتے وقت بھی اللہ کی یاد ان کے دلوں میں موجود رہتی ہے جو انھیں اللہ کی نافرمانی والے ہر کام سے باز رکھتی ہے۔ وہ صرف اس چند روزہ زندگی کے فائدوں کی ہی طلب گار نہیں ہوتے بلکہ ان کی نگاہ آخرت کی ابدی زندگی پر جمی رہتی ہے اور اللہ کے حضور وہ اپنے اعمال کی جواب دہی سے ڈرتے بھی رہتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ وہ دن ہی اتنا سخت اور ہولناک ہوگا۔ جس میں ہر شخص کا دل بھی بے قرار ہوگا اور آنکھیں بھی بے قرار ہوں گی۔ اور ان ہدایت یافتہ لوگوں کا بھی یہ حال ہوگا۔ کہ کبھی وہ اللہ کی رحمت کی امید لگائے ہوں گے اور اللہ کے عذاب سے اور اس کی گرفت سے ڈرنے لگیں گے۔ یہی حال آنکھوں کا ہوگا کبھی وہ دائیں طرف دیکھیں گی اور کبھی بائیں طرف تاکہ یہ دیکھیں کس جانب ان کا نامہ اعمال ان کے حوالہ کیا جاتا ہے۔ [٦٤] وہ لوگ اس توقع پر یہ سارے کام کرتے ہیں کہ اللہ کے ہاں اپنے ان عملوں کا بہتر بدلہ ملے۔ جو یقیناً انھیں مل جائے گا۔ اللہ صرف ان کے اعمال کا بہتر بدلہ ہی نہ دیں گا بلکہ اس کے علاوہ انھیں ایسی ایسی نعمتوں سے نوازیں گے جو اس وقت ان کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں آسکتیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ جس شخص پر راضی اور خوش ہوجائیں تو اللہ کے ہاں کس چیز کی کمی ہے جو اسے نہ دے گا۔ النور
38 [٦٥] سراب اورشراب کا لغوی فرق:عربی زبان میں ہر مشروب یعنی پینے کی چیز کو شراب کہتے ہیں اور جو چیز بظاہر تو شراب نظر آئے مگر حقیقت اس کے برعکس ہو اسے سراب کہتے ہیں۔ پھر اس لفظ کا استعمال اس تودہ ریت پر ہونے لگا جو دور سے ایک خاص زاویہ سے سورج کی روشنی میں ٹھاٹھیں مارتا پانی نطر آتا ہے مگر حقیقتاً وہاں پانی وانی کچھ نہیں ہوتا۔ عام کافروں اور منافقوں کی مثال:۔ یہ مثال ایسے کافروں اور منافقوں سے تعلق رکھتی ہے جو فی الجملہ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور کچھ نیک اعمال بھی بجا لاتے ہیں۔ خواہ وہ نمودو نمائش کے لئے ہوں پھر انھیں یہ توقع بھی ہوتی ہے کہ آخرت میں انھیں ان کا اجر ملے گا۔ اور چونکہ ان کے اکثر اعمال اللہ کی مرضی نہیں بلکہ ان کی اپنی مرضی کے مطابق ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی لوگوں کی مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا : کہ جس طرح کسی ریگستان میں ایک پیاسا دور سے چمکتی ہوئی ریت کو پانی سمجھ کر اس کی طرف جاتا ہے تاکہ اس سے اپنی پیاس بجھائے۔ وہ پیاس کا مارا جب گرم ریت کا میدان طے کرکے دوڑتا ہوا وہاں پہنچتا ہے تو اسے وہاں کچھ نہیں ملتا۔ اور سخت مایوس اور درماندہ ہوجاتا ہے۔ یہی حال ایسے کافروں کا ہے۔ موت کا وقت ان کے لئے سراب ہے۔ اور وہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ انھیں ان کے نیک اعمال کا بدلہ ملے گا۔ مگر کفر و نفاق اور شامت اعمال کی بنا پر انھیں وہاں کچھ بھی ان کے اعمال کا بدلہ نہ ملے گا۔ اور جس طرح پیاسے کو سراب تک پہنچنے میں تھکاوٹ اور گرمی کی شدت بھی جھیلنا پڑی تھی اس طرح ان لوگوں کو ان کے برے اعمال کا بدلہ جہنم کے عذاب کی صورت میں دیا جائے گا۔ النور
39 [٦٥] سراب اور شراب کا لغوی فرق : عربی زبان میں ہر مشروب یعنی پینے کی چیز کو شراب کہتے ہیں اور جو چیز بظاہر تو شراب نظر آئے مگر حقیقت اس کے برعکس ہو اسے سراب کہتے ہیں۔ پھر اس لفظ کا استعمال اس تودہ ریت پر ہونے لگا جو دور سے ایک خاص زاویہ سے سورج کی روشنی میں ٹھاٹھیں مارتا پانی نطر آتا ہے مگر حقیقتاً وہاں پانی وانی کچھ نہیں ہوتا۔ عام کافروں اور منافقوں کی مثال : یہ مثال ایسے کافروں اور منافقوں سے تعلق رکھتی ہے جو فی الجملہ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور کچھ نیک اعمال بھی بجا لاتے ہیں۔ خواہ وہ نمودو نمائش کے لئے ہوں پھر انھیں یہ توقع بھی ہوتی ہے کہ آخرت میں انھیں ان کا اجر ملے گا۔ اور چونکہ ان کے اکثر اعمال اللہ کی مرضی نہیں بلکہ ان کی اپنی مرضی کے مطابق ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی لوگوں کی مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا : کہ جس طرح کسی ریگستان میں ایک پیاسا دور سے چمکتی ہوئی ریت کو پانی سمجھ کر اس کی طرف جاتا ہے تاکہ اس سے اپنی پیاس بجھائے۔ وہ پیاس کا مارا جب گرم ریت کا میدان طے کرکے دوڑتا ہوا وہاں پہنچتا ہے تو اسے وہاں کچھ نہیں ملتا۔ اور سخت مایوس اور درماندہ ہوجاتا ہے۔ یہی حال ایسے کافروں کا ہے۔ موت کا وقت ان کے لئے سراب ہے۔ اور وہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ انھیں ان کے نیک اعمال کا بدلہ ملے گا۔ مگر کفر نفاق اور شامت اعمال کی بنا پر انھیں وہاں کچھ بھی ان کے اعمال کا بدلہ نہ ملے گا۔ اور جس طرح پیاسے کو سراب تک پہنچنے میں تھکاوٹ اور گرمی کی شدت بھی جھیلنا پڑی تھی اس طرح ان لوگوں کو ان کے برے اعمال کا بدلہ جہنم کے عذاب کی صورت میں دیا جائے گا۔ النور
40 [٦٦] یہ ان کافروں کی مثال ہے جو اپنے کفر میں پکے اور ہٹ دھرم ہیں۔ وہ صرف اللہ کی نافرمانی اور رسولوں کی تکذیب پر ہی اکتفا ہی نہیں کرتے۔ بلکہ رسول اور مومنوں کو ایذائیں اور دکھ بھی پہنچاتے ہیں اور اللہ کی راہ روکنے کے لئے ہر وقت سرگرم عمل رہتے ہیں۔ اس طرح ان کے کفر کا جرم شدید تر ہوتا جاتا ہے اور اس پر ان کے کفر کی کئی تہیں چڑھتی جاتی ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص گہرے سمندر میں رات کے وقت سفر کر رہا ہو۔ موجوں پر موجیں اٹھ رہی ہوں اور اوپر گہرے بادل بھی چھائے ہوں۔ اس طرح تین چار طرح کی تاریکیاں مل کر ایک ایسا گھٹا ٹوپ اندھیرا ہوجاتا ہے کہ اگر وہ شخص اپنا ہاتھ اپنی آنکھ کے سامنے لائے تو اپنے ہاتھ کو دیکھ بھی نہ سکے۔ کیا ایسے شخص سے توقع ہوسکتی ہے کہ سیدھی راہ پر اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔ اللہ تعالیٰ نے کفر کو ہمیشہ اندھیرے یا اندھیروں سے اور ہدایت کو روشنی سے تعبیر کیا ہے۔ اور اس معاند اور ہٹ دھرم کا تو یہ حال ہے کہ اس پر ایسے اندھیروں کے کئی ردے چڑھے ہوئے ہیں پھر اسے بھلا راہ ہدایت نصیب ہوسکتی ہے۔ [٦٧] یہ مضمون ﴿ اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ﴾ سے شروع ہوا تھا اور یہ اس مضمون کا اختتام ہے۔ منبع ہدایت اور نور تو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ پھر جو شخص اللہ کی طرف رجوع ہی نہ کرے۔ بلکہ اللہ سے باغیانہ اور معاندانہ روش اختیار کرے۔ اسے ہدایت کی روشنی کیسے نصیب ہوسکتی ہے۔ النور
41 [٦٨] کافروں کی دو مثالیں بیان کرنے کے بعد اب اللہ تعالیٰ نے کائنات سے کچھ اپنی ایسی نشانیاں بیان فرمائی ہیں۔ جن میں غور کرنے سے انسان اللہ تعالیٰ کی معرفت یا نور ہدایت حاصل کرسکتا ہے۔ ان نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پرندوں کو فطری طور پر ایسا طریقہ سکھا دیا کہ وہ زمین اور آسمان کے درمیان فضا میں اپنے پر کھولے ہوئے اور قافلہ کی صورت میں قطار در قطار اڑتے پھرتے ہیں۔ اور وہ زمین پر گر نہیں پڑتے۔ پھر بعض دفعہ وہ اڑتے اڑتے اپنے پروں کو سمیٹ بھی لیتے ہیں۔ مگر گرتے پھر بھی نہیں۔ آخر ان پرندوں کو یہ طریقہ کس نے سکھایا ؟ زمین کی کشش ثقل جو کاغذ کے ایک ہلکے سے پرزے کو اپنی طرح کھینچ لیتی ہے انھیں کیوں نہیں کھینچتی؟ [٦٩]کائنات کی ہرچیزکی نماز اورتسبیح :۔ کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کے قانون کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہے۔ جس کام پر اسے اللہ نے لگا دیا ہے بلاچون و چرا اس کو سرانجام دے رہی ہے۔ اور فطری قانون ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے بنائے ہیں۔ ان سے سرمو تجاوز نہیں کرتی۔ ایسی اطاعت کو بھی ان کی نماز اور تسبیح کہا جاسکتا ہے۔ تاہم ان اشیاء کی نماز اور تسبیح اس کے علاوہ کچھ اور ہی چیز ہے۔ جسے ہم انسان یا جن جو مکلف مخلوق ہیں، جان نہیں سکتے۔ اور تسبیح کرنے والی اشیاء اپنی نماز اور تسبیح اور اس کے طریق کار کو خوب جانتی ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی سورۃ بنی اسرائیل کی آیت نمبر ٤٤ میں بتا دیا کہ تم ان کی تسبیح کو سمجھ نہیں سکتے۔ النور
42 النور
43 [٧٠] مشکل یہ پیش آتی ہے کہ ہمارے علمائے ہیئت نے اللہ کی ہر نشانی میں کچھ ایسے طبعی قوانین دریافت فرما رکھے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا دست قدرت کہیں کام کرتا نظر نہ آئے اور یہی قوانین سکولوں اور کالجوں میں بچوں کو پڑھائے جاتے ہیں۔ مثلاً بارش کے لئے دریافت کردہ طبعی قوانین یہ ہیں کہ سمندر پر سورج کی گرمی سے بخارات بن کر اوپر اٹھتے ہیں۔ پھر ہواؤں کا رخ ان بخارات کو کسی مخصوص سمت کی طرف اڑا لے جاتا ہے۔ تاآنکہ یہ بخارات کسی سرد منطقہ فضائی میں پہنچ جاتے ہیں۔ وہاں پہنچ کر یہ بخارات پھر پانی کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اور بارش ہونے لگتی ہے اور اگر شدید سرد منطقہ میں پہنچ جائیں تو پھر اولے برسنے لگتے ہیں انہی اصولوں کے مطابق ہمارے ہاں پاکستان میں بارش یوں ہوتی ہے کہ جون جولائی کے گرم مہینوں میں بحیرہ عرب سے بخارات اٹھتے ہیں جو کوہ ہمایہ سے آکر ٹکراتے ہیں یہاں ہوائیں پھر ان کا رخ پاکستان کی طرف موڑ دیتی ہیں اور وہ اس پہاڑ کے سرد حصوں میں پہنچ کر پانی بن جاتے ہیں اور اس طرح موسم برسات یا جولائی یا اگست میں ہمارے ہاں بارشیں ہوتی ہیں۔ اس لحاظ سے کسی خاص مقام پر بارش ہونے کے عوامل یہ ہیں۔ سمندر سے اس مقام کا فاصلہ سطح سمندر سے بلندی، ہواؤں کا رخ، پہاڑوں کا رخ اور بلندی، ان اصولوں کے تحت ضروری ہے کہ ایک خاص مقام پر اور ایک خاص موسم میں ہر سال یکساں بارش ہو۔ کیونکہ نہ سمندر کے پھیلاؤ میں فرق آتا ہے نہ سورج کی گرمی میں، نہ پہاڑوں کی بلندی اور رخ میں سرد ہوائیں بھی طبعی قانون کے تحت ایک خاص رخ ہی اختیار کرتی ہیں۔ مگر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ہر سال یکساں بارش نہیں ہوتی۔ ایک سال تو بارشوں کی کثرت سے اس خاص مقام پر سیلاب آجاتا ہے اور کوئی سال بالکل خشک گزر جاتا ہے سرے سے بارش ہوتی ہی نہیں پھر ان طبعی قوانین کے نتائج میں یہ کمی بیشی اور تبدیلی کیوں واقع ہوتی ہے؟ آخر ان باتوں سے یہ نتیجہ کیوں نہیں نکالا جاسکتا کہ کوئی ایسی زبردست اور بالاتر ہستی بھی موجود ہے جو ان بے جان قوانین کے نتائج میں تبدیلی کا پورا پورا اختیار رکھتی ہے۔ کیابارش محض طبعی قوانین کا نتیجہ ہے؟ دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ بادل جو کروڑوں ٹن پانی کے بخارات سے لدے ہوتے ہیں وہ کسی سرد منطقہ میں پہنچ کر پانی بن جاتے ہیں۔ تو یہ پانی برستے وقت آخر قطروں کی شکل کیوں اختیار کرتا ہے۔ پانی کے بخارات کی مقدار قلیل ہو تو اس کے متعلق تو کہہ سکتے ہیں۔ لیکن کروڑوں ٹن پانی آخر کس مقام پر یک دم کیوں نہیں گر پڑتا۔ اس پانی کی کثیر مقدار کو اس انداز میں نازل کرنا وہ خلق خدا، درختوں اور نباتات ارضی کے لئے نقصان دہ ہونے کے بجائے فائدہ مند ثابت ہو یہ آخر کون سے بے جان طبعی قانون کا نتیجہ ہے؟ پھر یہی بخارات جب شدید سرد منطقہ میں پہنچتے ہیں تو پانی جم جاتا ہے اسی کیفیت کے متعلق قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ بلندی میں اولوں کے پہاڑ ہوتے ہیں جن کا فائدہ بہت کم اور نقصان بہت زیادہ ہوتا ہے۔ یعنی وہی چیز جو اللہ کی رحمت تھی۔ اللہ کا عذاب بن کر گرنے لگتی ہے۔ اور فصلوں کو فائدہ پہنچانے کی بجائے انہیں تباہ کردیتی ہے۔ اور یہ اولے بھی گرتے اسی مقام پر ہیں جہاں اللہ کو منظور ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی مرضی کے مطابق ہواؤں کے رخ کو فوراً پھیر دیتا ہے اور جن لوگوں کو چاہتا ہے اولوں کے اس عذاب سے بچا بھی لیتا ہے اور جس قوم پر چاہتا ہے یہ عذاب اسی پر نازل ہوتا ہے۔ [٧١]بادلوں اور بارش کے مضر پہلو:یعنی آبی بخارات یا منجمد بادلوں کے ٹکراؤ سے بجلی بھی پیدا ہوتی ہے جو گر کر ہر چیز کو جلا دیتی ہے اور اسے تباہ کرکے رکھ دیتی ہے اور اس کی روشنی اس قدر تیز اور نگاہوں کو خیرہ کرنے والی ہوتی ہے کہ اگر انسان کچھ دیر اس کی طرف دیکھے تو وہ اس کی بینائی کے نور کو بھی تباہ کرکے رکھ دے۔ یعنی بارش جو تمام اہل زمین کے لئے خیر کا پہلو رکھتی ہے اس میں اہل زمین کے لئے شر کے کئی پہلو موجود ہیں۔ یعنی اس بارش کے پانی میں بجلی اور آگ بھی موجود ہے۔ اس میں اتنی تیز روشنی بھی ہے جو آنکھوں کو بے نور کرسکتی ہے پھر یہی پانی اولے بن کر نقصان دہ چیز بھی بن جاتا ہے۔ لہٰذ انسان کو خوشی کے عالم میں کبھی اترانا نہ چاہئے بلکہ اللہ کی گرفت سے ڈرتے رہنا چاہئے۔ النور
44 [٧٢]گردش لیل ونہاراور موسموں کی تبدیلی:۔ رات اور دن کا باری باری آنا بھی اللہ کی معرفت کی نشانیوں میں سے ایک بہت بڑی نشانی ہے۔ جسے اللہ نے قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر ذکر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سیاروں کی گردش کا ایسا مربوط نظام بنا دیا ہے جس سے دن اور رات باری باری آتے رہتے ہیں۔ کسی مقام پر ایک ہی وقت راتیں بڑھ رہی ہیں تو دوسرے مقام پر اسی وقت چھوٹی ہو رہی ہیں۔ پھر اسی نظام سے ہر مقام پر موسموں میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ جو مختلف قسم کی اجناس اور نباتات کے پکنے میں ممد ثابت ہوتی ہے۔ فصلوں کے پکنے اور موسم میں ایک گہرا تعلق ہے غرضیکہ اللہ تعالیٰ کا یہ نظام اس قدر محیرالعقول اور کثیر الفوائد ہے کہ جتنا بھی اس میں غور کیا جائے اتنا ہی اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کا سکہ انسان کے دل میں بیٹھتا جاتا ہے۔ موجودہ نظریہ کے مطابق یہ سب نتائج زمین کی محوری گردش اور سورج کے گرد سالانہ گردش سے حاصل ہوتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ آخر زمین جیسے عظیم الجثہ کرے کو آخر کس ہستی نے مجبور کیا ہے کہ وہ سورج کے گرد اپنے محور پر ساڑھے چھ ڈگری کا زاویہ بناتے ہوئے چھیاسٹھ ہزار چھ سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھومتی رہے اور ہمیشہ گھومتی رہے اور اس گردش میں سرمو بھی فرق نہ آنے دے؟ پھرہروقت اس کڑی نگرانی بھی رکھے ہوئے ہے ﴿فَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُولِی الْاَبْصَارِ ﴾ النور
45 [٧٣] زمین پر سب جانداروں کی تخلیق پانی سے ہوئی ہے:۔سورۃ ہود کی آیت نمبر ٧ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” اور وہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ ایام میں پیدا کیا اور (اس وقت) اس کا عرش پانی تھا۔“ (١١: ٧) اسی آیت کے مطابق درج ذیل حدیث کا مضمون ہے : عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یمن کے کچھ لوگ آپ کے پاس عالم کی پیدائش کا حال پوچھنے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” (پہلے صرف) اللہ کی ذات تھی اور اس کے سوا کوئی چیز نہ تھی۔ اس کا عرش پانی پر تھا۔ اس نے ہر چیز کو لوح محفوظ میں لکھ لیا اور آسمان اور زمین پیدا کئے“ (بخاری۔ کتاب بدءالخلق۔ باب ماجاء فی قول اللہ ھوالذی یبدألخلق۔۔) اس آیت اور اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مخلوقات میں سے سب سے پہلے اللہ نے پانی کو پیدا کیا تھا۔ اور عرش کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں نہ ہم یہ جاننے کے مکلف ہیں۔ پھر سورۃ انبیاء کی آیت نمبر ٣٠ میں فرمایا :﴿وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ ﴾(٢١: ٣٠) یعنی جس چیز میں بھی زندگی کی رمق ہے اسے ہم نے پانی سے بنایا ہے۔ جس کا دوسرا مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ کوئی جاندار چیز پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ اور اس آیت میں جانداروں کا ذکر فرمایا کہ وہ پانی سے پیدا ہوئے ہیں۔ خواہ وہ کس نوعیت کے ہوں۔ کیڑے مکوڑے ہوں، پیٹ کے بل چلنے یا رینگنے والے ہوں، جیسے سانپ، گرگٹ اور مچھلی وغیرہ یا دو پاؤں پر چلنے والے ہوں۔ جیسے انسان اور پرندے یا چار پاؤں پر جیسے تمام مویشی اور درندے وغیرہ۔ پھر کچھ ایسی بھی مخلوق ہے جس کے پاؤں چار سے بہت زیادہ ہوتے ہیں جیسے کنکھجورا وغیرہ۔ تو ایسی سب مخلوق کی ابتداء پانی ہی سے ہوئی تھی اور پانی کے سہارے ہی یہ مخلوق زندہ رہ سکتی ہے۔ پانی سے روئے زمین کی تمام اشیاء کو اور بالخصوص جاندار اشیاء کو وجود میں لانا بھی اللہ تعالیٰ کا ایسا کارنامہ ہے جس سے اس کی ہر چیز پر قدرت ہونے کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ ڈارون کے نظریہ کے مطابق زندگی کا آغاز سمندر کے کنارے کائی سے ہوا تھا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ کائی بھی پانی ہی کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی اور حقیقتاً ہر شے کی زندگی کا آغاز کائی سے نہیں بلکہ پانی سے ہوا تھا۔ علاوہ ازیں اسلامی نظریہ حیات ڈارون کے پیش کردہ نظریہ حیات سے کئی باتوں میں متصادم ہے۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے میری تصنیف آئینہ پرویزیت حصہ دوم میں نظریہ ارتقاء) النور
46 [٧٤] یعنی یہ جتنی نشانیاں اوپر مذکور ہوئیں، غور و فکر کرنے والوں کو ان سے اللہ تعالیٰ کی بخوبی معرفت حاصل ہوسکتی ہے اور جو ان باتوں کی طرف توجہ ہی نہ کرے اسے ہدایت کیسے نصیب ہوسکتی ہے؟ النور
47 [٧٥] یعنی اپنے عمل سے اپنے قول کی خود ہی تردید کردیتے ہیں۔ ان کے دعوی ٰکے دو جز تھے ایک اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا، دوسرے اطاعت کرنا۔ اب چونکہ انہوں نے منہ پھیر کر اطاعت سے انکار کردیا ہے لہٰذ تو یہ اپنے دعویٰ کے پہلے جز یعنی ایمان لانے کے سلسلہ میں جھوٹے ہوئے۔ اگر سچے دل سے ایمان لائے ہوتے تو کبھی اطاعت سے منہ نہ پھیرتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس شخص کا بھی عمل اس کے قول یا زبانی دعویٰ کے خلاف ہو۔ حقیقتاً وہ اپنے دعوی ٰمیں جھوٹا ہوتا ہے۔ النور
48 [٧٦] اس آیت سے کئی باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ اللہ کے رسول کی طرف بلانا دراصل اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلانا ہے۔ رسول کی دعوت اور رسول کی طرف دعوت دراصل اللہ کی دعوت اور اللہ کی طرف دعوت ہے۔ دوسرے یہ کہ رسول کا فیصلہ حقیقتاً اللہ ہی کا فیصلہ ہوتا ہے۔ تیسرے یہ کہ جو شخص رسول کی طرف جانے یا اس کا فیصلہ کروانے یا اس کا فیصلہ تسلیم کرنے سے اعراض کرے وہ مومن نہیں بلکہ منافق ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ اس آیت کا حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تک ہی محدود نہیں۔ بلکہ آپ کے بعد کوئی بھی اسلامی حکومت جس میں عدالتیں کتاب اللہ اور سنت رسول کے مطابق فیصلے کرتی ہوں اور ایسی عدالت کی طرف سے اگر کسی شخص کو بلاوا یا سمن آئے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ہی بلاوا سمجھا جائے گا۔ اور اس سے اعراض کرنے والا مومن نہیں بلکہ منافق ہوگا۔ علاوہ ازیں ہمارے اختلافی مسائل میں بھی اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت حکم کی حیثیت رکھتی ہے۔ اور کتاب و سنت میں ہمارے اکثر اختلافی مسائل کا حل بھی موجود ہے۔ اگر کوئی شخص کتاب و سنت کی طرف جانے یا اس کا فیصلہ ماننے سے اعراض کرے تو وہ بھی حقیقتاً مومن نہیں بلکہ منافق ہیں۔ مقلد حضرات کے لئے بھی یہ آیت لمحہ فکریہ ہے جن میں سے بعض کا تو یہ حال ہے کہ جب ان سے کتاب و سنت کے مطابق فیصلہ کرنے کو کہا جائے تو چیں بہ جبیں ہوجاتے ہیں اور چل دیتے ہیں اور بعض یوں کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے امام صاحب کو بھی یہ آیت اور یہ حدیث معلوم تھی۔ آخر انہوں نے بھی کسی دلیل سے یوں کہا ہوگا اور وہ دلیل ہمیں جاننے یا سمجھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم مقلد ہیں۔ النور
49 [٧٧]اللہ اور رسول کی بات سے اعراض منافقت ہے:۔ ذعن کے معنی نہایت فرمانبردار بن کر ساتھ ہو لینا یا اشاروں پر چلنا ہے۔ اور اس آیت کا معنی یہ ہے کہ منافق لوگ اللہ اور اس کے بلانے یا اس کے ہاں جانے سے اعراض صرف اس وقت کرتے ہیں جب انھیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے کا حق دبا رہے ہیں اور اگر رسول کے پاس گئے تو وہ یقیناً حق کے مطابق فیصلہ کرے گا۔ لہٰذا ہمیں اس کے پاس جانے سے نقصان پہنچ جائے گا لیکن جب انھیں معلوم ہوکہ ہم حق پر ہیں یا دوسرے کی طرف سے ان کا حق نکلتا ہے تو بلا چون و چرا نہایت فرمانبردار بن کر ساتھ ہو لیتے ہیں اس کی وجہ بھی وہی ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ رسول حق کے مطابق ہی فیصلہ کرے گا۔ ایسے لوگ دراصل رسول کی نہیں اپنے فائدے کی اتباع کرتے ہیں۔ پہلے سورۃ مائدہ کی آیت نمبر ٤٣ کے حاشیہ میں گزر چکا ہے کہ ایک منافق اور ایک یہودی کے درمیان کچھ جھگڑا ہوگیا تھا۔ جس میں یہودی حق پر تھا۔ اور یہ چاہتا تھا کہ اپنا مقدمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے چلیں۔ جبکہ منافق یہ چاہتا تھا کہ یہ مقدمہ یہود کے سردار کعب بن اشرف کے پاس لے جائیں۔ اس مقدمہ کی تفصیل مذکورہ حاشیہ میں دیکھ لی جائے۔ کہتے ہیں کہ یہ آیت بھی اسی سلسلہ میں نازل ہوئی تھی۔ شریعت کی حسب پسند باتوں پرعمل کرنے والابھی منافق ہے: ۔اس آیت سے واضح طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص شریعت کی مفید مطلب باتیں تو بہ خوشی کرے مگر جو باتیں اس کی اغراض و خواہشات یا مفاد کے خلاف پڑتی ہوں ان سے اعراض کرے وہ مومن نہیں۔ بلکہ منافق ہوتا ہے اور اپنے ایمان کے دعوے میں جھوٹا ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ دراصل اپنی خواہشات کا پیروکار ہوتا ہے۔ شریعت کا نہیں ہوتا۔ النور
50 [٧٨]اللہ کے رسول کے فیصلہ سے اعراض کی وجوہ:۔ یعنی ان منافقوں کے رسول کے فیصلہ سے اعراض کی تین ہی وجہیں ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ سچے دل سے ایمان نہ لایا ہو بلکہ اپنے ذاتی مفادات کے حصول کی خاطر مسلمان ہوگیا ہو۔ دوسرے یہ کہ وہ ایمان کا دعوے کرنے کے باوجود اس شک و شبہ میں مبتلا ہو کہ یہ شخص واقعی اللہ کا رسول ہے بھی یا نہیں؟ یا یہ قرآن اللہ کا کلام ہے بھی یا نہیں؟ یا آخرت کے دن کے قیام اور اس دن جز و سزا کا عقیدہ کچھ حقیقت بھی رکھتا ہے یا نہیں یا یہ سب باتیں محض افسانے اور من گھڑت باتیں ہیں۔ تیسرے یہ کہ وہ اللہ اور رسول کو مان لینے کے بعد یہ اندیشہ رکھتا ہو کہ قرآن کے فلاں حکم نے تو ہمیں ذلیل کرکے رکھ دیا ہے اور مصیبت میں ڈال دیا ہے یارسول کا فلاں طریقہ یا حکم ہمارے لئے سخت نقصان دہ ہے ان تینوں صورتوں میں سے جو بھی صورت ہو ان کے ظالم ہونے میں کوئی شک نہیں۔ ایسا شخص خود بھی فریب میں مبتلا ہے اور فی الحقیقت بڑا دغاباز اور خائن ہے۔ جو ذاتی مفادات کی خاطر مسلمان بنا ہوا ہے۔ اور مسلمانوں کو بھی فریب دے رہا ہے۔ وہ اپنے آپ پر بھی ظلم کر رہا ہے اور دوسرے مسلمانوں پر بھی۔ جو اس کے زبانی دعوے پر اعتماد کرکے اسے اپنی ملت میں شامل کرلیتے ہیں۔ ان کے ظالم ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ اپنا حق تو پورا پورا وصول کریں۔ خواہ اس میں دوسروں کی کتنی زیادہ حق تلفی ہو رہی ہو۔ اور اسی غرض کے تحت وہ اپنا فیصلہ وہاں لے جانا چاہتے ہیں جہاں انھیں اپنی خواہش کے مطابق فیصلہ کی توقع ہو۔ اور یہ دونوں باتیں ان کے ظالم ہونے پر صریح دلیل ہیں۔ النور
51 [٧٩] یعنی مومنوں کی نظر منافقوں کی طرح اپنے ذاتی مفادات پر نہیں ہوتی۔ بلکہ اپنا تمام تر مفاد اس بات میں سمجھتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کی دل و جان سے اطاعت کی جائے وہ اس بات کے منتظر رہتے ہیں کہ اللہ کا رسول انھیں کوئی حکم دے جسے وہ بجا لائیں۔ ان کی خوشی بھی اسی بات میں ہوتی ہے اور اطمینان بھی اسی بات میں۔ اور جن لوگوں نے اپنی تمام تر اغراض، خواہشات اور مفادات کو اللہ اور اس کے رسول کی رضا مندی کے تابع بنا دیا۔ تو اللہ بھی ایسے لوگوں کی حمایت و نصرت فرماتے ہیں وہ دنیا میں بھی انھیں کامیاب بنائیں گے اور آخرت میں بھی ایسے ہی لوگ کامیاب ہوں گے۔ النور
52 النور
53 [٨٠] طاعہ معروفہ کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ جن لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا سچے دل سے عہد کیا ہو۔ وہ اطاعت کرکے دکھا دیتے ہیں اور انھیں قسمیں کھانے کی کبھی ضرورت پیش ہی نہیں آتی۔ قسمیں کھانے اور قسمیں کھا کر یقین دلانے اور اپنا اعتماد بحال کرنے کی تو ضرورت ہی تب پیش آتی ہے جب کسی کا اعتماد مجروح ہوچکا ہو۔ اور آئندہ بھی اس کی صحیح صورت یہ نہیں کہ بس پکی قسمیں کھا کر اعتماد بحال کرنے کی کوشش کریں۔ بلکہ یہ ہے کہ وہ عملی طور پر اطاعت کرکے دکھا دیں۔ اس طرح قسمیں کھانے کے بغیر ہی ان کا اعتماد بحال ہوجائے گا۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ جتنی اور جیسی وہ اطاعت کر رہے ہیں تو وہ پہلے ہی سب کو معلوم ہے۔ پہلے بھی لوگ ایسے بڑھ بڑھ کر باتیں بناتے تھے اور یقین دہانیاں کراتے تھے۔ قسمیں کھانے کے بعد ایسی اطاعت کی ان سے کیا توقع ہوسکتی ہے؟ [٨١] یعنی تم لوگ اگر قسمیں کھا کر لوگوں کو اپنی بات کا یقین دلا بھی دو تو اللہ کے سامنے تو تمہاری ایسی چالاکیاں اور فریب کاریاں کسی کام نہیں آسکتیں۔ جو تمہاری تمام ظاہری اور باطن خباثتوں سے پوری طرح باخبر ہے اور وہ کسی وقت بھی تمہاری عیاری اور نفاق کا پردہ چاک کرسکتا ہے۔ النور
54 [٨٢] یعنی رسول اپنی ذمہ داری پوری کرنے کا پابند ہے اور تم اپنی ذمہ داری کے۔ رسول کی ذمہ داری اتنی ہی ہے کہ وہ تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا دے اور وہ اس نے پوری کردی۔ اور تمہارے ذمہ یہ بات ہے کہ تم اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو جس میں تم پس و پیش کر رہے ہو۔ اور نری قسمیں کھا کھا کر ہی آئندہ کے لئے اطاعت کا یقین دلانا چاہ رہے ہو لیکن یاد رکھو کہ اگر اس کے احکام کی تعمیل کرو گے تو اسی میں تمہارا بھلا ہے۔ دنیا میں بھی عزت و آرام سے رہو گے اور آخرت میں کامیاب رہو گے۔ اور اگر ایسا نہ کرو گے تو اس میں رسول کا کچھ نقصان نہیں۔ تمہاری خباثتوں کا خمیازہ تمہیں ہی بھگتنا پڑے گا۔ النور
55 [٨٣]نظام خلافت کی استعدادہر انسان میں بالقوۃ موجود ہے:۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو دنیا میں خلیفہ بنا کر بھیجا تھا تاکہ آدم اور اس کی اولاد دنیا میں وہ نظام حیات قائم کرے جو اللہ کی مرضی کے مطابق ہو اور جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو بھی اور بعد میں وقتاً فوقتاً ان کی اولاد کو بذریعہ وحی بتا بھی دیا تھا۔ اور نظام خلافت کے قائم کرنے کے لئے جو اوصاف درکار تھے وہ سب آدم اور اس کی اولاد کی فطرت میں ودیعت کردیئے گئے تھے۔ ساتھ ہی انسان کو قوت ارادہ و اختیار بھی دیا گیا۔ اور اسی میں حضرت انسان کی آزمائش رکھ دی گئی کہ آیا وہ اپنے ارادہ و اختیار کے ساتھ اس مقصد خلافت کو پورا کرتا ہے یا نہیں؟ اور چونکہ ایسے اوصاف ہر انسان کی فطرت میں رکھ دیئے گئے ہیں۔ اس لحاظ سے آدم کی تمام تر اولاد خلافت کی مستحق قرار پاتی ہے۔ التبہ ان سے وہ لوگ از خود خارج ہوجاتے ہیں جو اپنی مرضی اور اپنی خواہشات کو اللہ کی مرضی کے تحت نہ بنائیں۔ اس آیت کی رو سے منافقین کو اس خلافت ارضی کے استحقاق سے خارج کردیا گیا اور ان لوگوں کو بھی جو سرے سے ایمان ہی نہ لائیں یا ان کے اعمال صالح نہ ہوں۔ گویا یہ استحقاق صرف ان لوگوں کے لئے باقی رہ گیا جو ایمان بھی لائیں اور اعمال بھی صالح بجا لائیں۔ ایسے ہی لوگوں سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ اگر انھیں زمین میں اقتدار حاصل ہو تو وہ ایسا نظام حیات قائم کریں گے جو اللہ کے ہاں پسندیدہ اور اس کی منشاء کے مطابق ہو اور یہی لوگ اپنے میں سے کسی بہترین آدمی کو اپنا امیر یا امام یا خلیفہ بنا لیں گے اور جب وہ ایسا دین یا نظام حیات قائم کرلیں گے تو اللہ ان کے دین کو اور زیادہ مضبوط بنا دیں گے اور ان کی نمایاں خصوصیت یہ ہوگی کہ شرک کو کسی قیمت پر بھی گوارا نہ کریں گے۔ صحابہ کرام سےخلافت ارضی اور دین کے استحکام کا وعدہ الہٰی :۔ اس آیت میں منکم سے اور اس سے پہلی آیات میں منافقین مدینے کے ذکر سے صاف طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ یہ وعدہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت سے کیا جارہا ہے اور جب یہ سورت نازل ہوئی اس وقت تک مسلمان تنگدستی کی زندگی بسر کر رہے تھے فتح خیبر کے بعد مسلمانوں کی معیشت میں صرف اس حد تک آسودگی آئی تھی کہ مہاجرین نے جو باع اور کھجوروں کے درخت معاہدہ مواخات کے تحت انصار سے مزارعت پر لئے تھے وہ انہوں نے واپس کردیئے تھے۔ اور جنگ احزاب سے پہلے تک مسلمانوں کی نوخیز ریاست مدینہ کی یہ حالت تھی کہ وہاں ہر وقت کفار کے حملہ سے خوف و ہراس کی فضا چھائی رہتی تھی۔ جنگ احزاب کے خاتمہ پر البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ضرور فرمایا تھا کہ آج کے بعد کفار ہم پر چڑھائی کرنے کے لئے نہیں آئیں گے بلکہ اب ہم ان پر چڑھائیں کریں گے۔ مگر مدینہ سے باہر عرب میں لوٹ مار کا بازار گرم رہتا تھا اور کوئی شخص یا کوئی قافلہ خیر خیریت سے سفر نہ کرسکتا تھا۔ اس آیت میں تو اللہ تعالیٰ نےصرف ایسے خوف وہراس کے خاتمہ کی خوشخبری دی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوف کے علاوہ تنگ دستی کے خاتمہ کی بھی خوشخبری دی۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ تنگدستی اور بدامنی کےخاتمہ کی شہادت:۔عدی بن حاتم کہتے ہیں کہ ایک دن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا کہ دو آدمی آئے۔ ایک تنگی معیشت کی شکایت کرتا تھا اور دوسرا رہزنی کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” عنقریب ایسا امن ہوگا کہ یہاں سے جانے والا قافلہ بغیرکسی محافظ کے جائے گا اور اے عدی بن حاتم! کیا تم نے حیرہ دیکھا ہے؟“ میں نے کہا ” نہیں البتہ اس کی خبر ملی ہے“ فرمایا : اگر تمہاری عمر زیادہ ہوئی تو تم دیکھو گے کہ ایک عورت حیرہ سے چل کر کعبہ کا طواف کرے گی لیکن اسے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہ ہوگ“میں نے دل میں سوچا : ” قبیلہ بنو طے کے لٹیرے جنہوں نے تہلکہ مچا رکھا ہے اس وقت کہاں جائیں گے۔ “ اور قیامت نہیں آئے گی کہ ایک شخص اپنا صدقہ لے کر چکر لگائے کہ اسے کوئی لینے والا مل جائے لیکن اسے کوئی صدقہ لینے والا نہیں ملے گا۔ اور تم لوگ کسریٰ کے خزانے فتح کرو گے۔ میں نے کہا :” کسریٰ بن ہرمز؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا اور اے عدی!” اگر تمہاری عمر لمبی ہوئی تو ضرور تم ایسے شخص کو دیکھو گے جو مٹھی بھر سونا یا چاندی لے کر ایسے آدمی کی تلاش میں نکلے گا جو اسے قبول کرے لیکن اسے ایسا کوئی آدمی نہ ملے گا۔“ (بخاری۔ کتاب الزکوۃ باب الصدقہ قبل الرد کتاب المناقب۔ باب علامات النبوۃ فی الاسلام) حضرت عدی کہتے ہیں پھر میں نے حیرہ سے چل کر کعبہ کا طواف کرنے والی عورت کو دیکھا جو اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتی تھی اور میں خود ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے کسریٰ بن ہرمز کے خزانے فتح کئے۔ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب علامات النبوۃ) ان حالات میں ایسی پیشین گوئی مسلمانوں کے لئے ایک عظیم خوشخبری تھی چنانچہ اس خوشخبری کا کچھ حصہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ہی پورا ہوگیا۔ فتح مکہ اور بالخصوص اعلان براءت کے بعد عرب بھر سے لوٹ مار کی وارداتیں ختم ہوگئیں۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو آسودگی بھی میسر آگئی مگر عرب سے باہر ابھی تک خوف و ہراس، لوٹ مار اور ڈاکہ زنی کی فضا قائم تھی۔ جو خلفائے راشدین کے زمانہ میں پوری ہوئی۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں فی الواقع اتنی آسودگی ہوگئی کہ ایک شخص اپنی زکوٰۃ ادا کرنے کے لئے نکلتا تو اسے کوئی مستحق زکوٰۃ شخص نہیں ملتا تھا۔ ضمناً اس آیت سے درج ذیل نتائج بھی سامنے آتے ہیں : ١۔ اعمال صالحہ کی نئی تاویل :۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جو نظام خلافت قائم کیا۔ وہی اللہ کے ہاں پسندیدہ دین ہے۔ اور اللہ نے اسی دین کو ان کے لئے پسند فرمایا تھا اور اس نظام خلافت کی خصوصیات سورۃ حج کی آیت نمبر ٤١ میں یہ بیان فرمائیں کہ ایسے مومنوں کو جب ہم اقتدار بخشتے ہیں تو نماز اور زکوٰۃ کا نظام قائم کرتے ہیں۔ بھلے کاموں کا حکم دیتے ہیں اور برے کاموں سے روکتے ہیں اس وضاحت سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اعمال صالح کس قسم کے اعمال ہوتے ہیں اور اس اصطلاح سے شرعاً کون سے اعمال مراد لئے جاسکتے ہیں۔ یہ وضاحت ہمیں اس لئے کرنا پڑی ہے کہ بعض کج فہم حضرات اعمال صالحہ سے مراد صلاحیت رکھنے والے کام لیتے ہیں جیسے وہ اعمال جن سے اقتدار حاصل کیا جاسکتا ہو۔ اس لحاظ سے ان کے نزدیک ہر وہ قوم جو اس وقت اقتدار حاصل کئے ہوئے ہے وہی ایماندار ہے اور اسی کے اعمال صالح ہیں۔ خواہ وہ قوم کافر، مشرک یا دہریہ ہی کیوں نہ ہو۔ ظاہر ہے یہ کج فکری کتاب و سنت کی تمام تر تعلیمات پر پانی پھیر دیتی ہے۔ ٢۔ صحابہ کرام کی فضیلت :۔ یہ نظام خلافت اس قدر مضبوط ہوگیا تھا جس کی تمام روئے زمین پر دھاک بیٹھ گئی تھی۔ اور یہ دور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت تک مسلسل ترقی پذیر رہا۔ اگرچہ بعد میں مسلمانوں کے باہمی تنازعات کی بنا پر ان میں انحطاط آنا شروع ہوگیا۔ تاہم یہ نظام بعد میں مدتوں چلتا رہا۔ ٣۔ اس نظام میں شرک کا شائبہ تک نہ تھا، لوگوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی ہر قسم کے شرک سے پاک و صاف تھی۔ ان تمام باتوں سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کمال فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ کون سے اعمال صالح ہیں:۔ اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ آیا اللہ کا یہ وعدہ صرف صحابہ کرام کے لئے ہی مخصوص تھا یا بعد کے مومنوں کے لئے بھی ہے؟ تو اس کا جواب اسی آیت میں مذکور ہے یعنی یہ وعدہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے پہلے کے مومنوں کے لئے بھی تھا تو بعد میں آنے والے مومنوں کے لئے کیوں نہ ہوگا ؟ بشرطیکہ ان میں مندرجہ اوصاف پائے جائیں یعنی وہ سچے مومن ہوں، اعمال صالح بجا لائیں۔ نظام، نماز اور زکوٰۃ قائم کریں۔ اچھے کاموں کا حکم دیں۔ برے کاموں سے روکیں ان کا مقصد محض اللہ کے دین یا نظام خلافت کا قیام ہو۔ اور اس کے لئے ہر ممکن کوشش کریں۔ ان کی زندگیاں شرک سے کلیتا پاک صاف ہوں۔ صرف اللہ سے ڈرنے والے اور اسی پر توکل کرنے والے ہوں اور باہم متحد ہو کر اور باہمی مشورہ سے کام کریں۔ اور تفرقہ بازی سے بچ رہیں۔ کیونکہ قرآن کریم تفرقہ بازی کو بھی اقسام شرک میں شمار کیا ہے۔ اگر مومن ان اوصاف کو اپنا لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اللہ ان سے کیا ہوا وعدہ پورا نہ کرے۔ [٨٤] یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ کے مومنوں یا صحابہ کرام سے ایسے وعدہ اور پکی خوشخبری کے بعد بھی ان کا ساتھ نہ دے اور کفر و نفاق کی راہ اختیار کرے تو ایسے لوگ یقیناً بدکردار ہیں اور بعض علماء نے اس فقرہ کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ خلفائے راشدین کی خلافت قائم ہونے اور دین کے مضبوط ہونے کے بعد بھی جو شخص اس بات کا انکار کرے کہ خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اختیار کردہ دین اللہ کا پسندیدہ دین نہیں تھا وہ ایسے لوگ فاسق ہیں۔ النور
56 [٨٥] یہ خطاب صرف منافقوں کو ہی نہیں بلکہ سب کے لئے عام ہے۔ یعنی اگر تم لوگ چاہتے ہو کہ اللہ تم پر رحم فرمائے اور اس کی رحمتیں تم پر نازل ہوں تو اس کی صورت صرف یہی ہے کہ سچے دل سے اللہ کے رسول کی اطاعت کرو اور نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا پورا اہتمام کرو۔ النور
57 [٨٦] کافر سے مراد یہاں سب غیر مسلم ہیں۔ یعنی کفار مکہ، عرب کے مشرک قبائل، مدینہ کے یہود و منافقین، یہ سب لوگ مل کر اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگا لیں تب بھی یہ لوگ اسلام کی راہ روک نہیں سکتے۔ اللہ کا دین تو یقیناً بلند ہو کے رہے گا۔ رہے یہ معاندین تو اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی انھیں رسوا کرے گا اور آخرت میں بھی انھیں جہنم کا عذاب بھگتنا ہوگا۔ النور
58 [٨٧] عورت کالغوی معنی ٰ:۔ اس آیت سے پھر وہی معاشرتی احکام شروع ہو رہے ہیں جو اس سورت کا اصل موضوع ہے۔ اس آیت میں عورات کا لفظ عورۃ کی جمع ہے۔ یہ لفظ ان الفاظ سے ہے جو کسی دوسری زبان میں منتقل ہو کر بالکل جداگانہ مفہوم اختیار کرلیتے ہیں۔ ہماری زبان میں تو عورت مرد کی تانیث یا مادہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جبکہ عربی زبان میں (جس زبان کا یہ لفظ ہے) عورت ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس کو کھلا رکھنا یا اس کا کھلا رہنا انسان کے لئے باعث ننگ و عار ہو۔ اور انسان اسے چھپانا ضروری سمجھتا ہو (مفرادت امام راغب) اور مردوں کی مادہ کے لئے نساء کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اسی سورۃ کی آیت نمبر ٣١ میں یہ دونوں الفاظ اکٹھے استعمال ہوئے ہیں۔ چنانچہ ارشاد باری ہے۔ ﴿اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْہَرُوْا عَلٰی عَوْرٰتِ النِّسَاءِ ﴾ (۳۱:۲۴)ترجمہ : یا پھر وہ (نابالغ) بچے جو ابھی عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے واقف نہ ہوئے ہوں ۔علاوہ ازیں قرآن یہ لفظ ایسے غیر محفوظ مکان کے لئے بھی استعمال ہوا ہے جس کو محفوظ رکھنا ضروری ہو (٣٣: ١٣) اور اس مقام پر پوشیدہ اوقات یا پردہ کے اوقات کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ خلوت خانہ کی اہمیت اور احکام :۔ اس آیت میں بالخصوص گھر کی خلوت( Privacy )کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے اور حکم یہ دیا جارہا ہے کہ دن اور رات یعنی ٢٤ گھنٹوں میں تین اوقات ایسے ہیں جن میں تمہارے غلاموں، تمہاری کنیزوں اور تمہارے نابالغ بچوں خواہ وہ لڑکے ہوں یا یا لڑکیاں، سب کا داخلہ بلا اجازت ممنوع ہے۔ اور وہ اوقات یہ ہیں۔ طلوع فجر سے پہلے یعنی سحری کا وقت، دوسرے ظہر کے وقت نماز ظہر سے پہلے یا بعد، جب تم آرام کرنے کے لئے اپنے کپڑے اتارتے ہو۔ اور تیسرے جب عشاء کی نماز کے بعد تمہارے سونے کا وقت ہوتا ہے اور یہ تینوں اوقات ایسے ہیں کہ جن میں اکثر میاں بیوی کی ہم بستری کا امکان ہوتا ہے۔ لہٰذا تمہارے کسی نابالغ بچے یا تمہارے غلام کو بلا اجازت گھر میں داخل نہ ہونا چاہئے۔ [٨٨] ان تین اوقات کے علاوہ کسی بھی وقت تمہارے نوکر چاکر اور تمہارے نابالغ بچے تمہاری عورتوں کے ہاں یا تمہارے پرائیوٹ کمروں میں بلا اجازت آجاسکتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ گھر کے کام کاج کے سلسلہ میں انھیں ہر وقت گھر سے باہر اور باہر سے گھر میں داخلہ کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے۔ اور ان پر ہر وقت اجازت کے ساتھ داخلہ کی پابندی ان کے لئے بھی اور تمہارے لئے بھی ایک مصیبت بن جائے گی۔ ہاں اگر یہ لوگ ان خلوت کے اوقات میں بلا اجازت اندر آئیں تو یہ ان کی غلطی ہے اور اگر ان اوقات کے علاوہ کسی دوسرے وقت تم کسی نامناسب حالت میں ہو اور وہ بلا اجازت اندر آجائیں تو تمہیں ان کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے کا کوئی حق نہیں۔ کیونکہ اس صورت میں غلطی تمہاری اپنی ہوگی کہ کام کاج کے اوقات میں تم نے اپنے آپ کو ایسی نامناسب حالت میں رکھا۔ النور
59 [٨٩]بلوغت اور اس کے عوامل: ان میں جنسی شعور،صنفی میلانات بیدار ہونے لگیں اور شرعاً اس کی حد یہ ہے کہ بچے کو احتلام آنے لگے۔ بلوغت کی عمر کی سالوں سے تعیین کرنا مشکل ہے یہ بھی ممکن ہے کہ ایک لڑکا گیارہ سال کا ہی بالغ ہوجائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اٹھارہ سال تک بالغ نہ ہو۔ اور اس سن بلوغت کے بھی کئی عوامل ہیں مثلاً جن ممالک کی آب و ہوا گرم مرطوب ہو وہاں بچے جلد بالغ ہوجاتے ہیں۔ اور جہاں آب و ہوا سرد ہو وہاں دیر سے بالغ ہوتے ہیں۔ اسی طرح خوشحال گھرانوں کے بچے جلد بالغ ہوجاتے ہیں۔ اور تنگدست گھرانوں کے بچے دیر سے بالغ ہوتے ہیں۔ اسی طرح مرد و عورت کے آزادانہ اور فحاشی کے ماحول میں بچے جلد بالغ ہوجاتے ہیں اور پاکیزہ ماحول والے بچے دیر سے بالغ ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں بچے کی بلوغت کا مدار کسی حد تک اس کی قد و قامت اور صحت پر بھی ہوتا ہے کمزور خلقت والے بچے نسبتاً دیر سے بالغ ہوتے ہیں۔ لہٰذا بلوغت کا اندازہ کسی بچے کی عمر سے نہیں بلکہ اس کی دوسری کیفیات سے لگانا چاہئے۔ اور جب ان کی بلوغت کا علم ہوجائے۔ تو ان پر گھروں میں داخلہ پر وہی پابندیاں عائد ہوجائیں گی جو بڑوں پر ہیں یعنی کسی وقت بھی ان کا گھروں میں بلا اجازت داخلہ ممنوع ہوگا۔ النور
60 [٩٠]قواعد کا لغوی مفہوم:۔ قواعد کا لفظ قاعدہ اور قعیدہ دونوں کی جمع ہے۔۔ قاعدہ بمعنی بنیاد اور قواعد بمعنی بنیادیں بھی قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے۔ (٢: ١٢٧) اور قعد کے معنی بیٹھنا بھی، بیٹھ رہنا اور کوئی کام نہ کرنا بھی اور کسی کام کے لئے تیار ہو بیٹھنا بھی ہے۔ اورقعیدہ کا دوسرے معنی سے تعلق رکھتا ہے۔ یعنی ایسی عورتیں جو ازدواجی زندگی کے کام کاج سے فارغ ہوچکی ہوں۔ یعنی سن یاس کو پہنچ چکی ہوں اور اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ رہی ہوں اور جن کی جنسی خواہشات مر چکی ہوں اور اگر کوئی مرد انھیں دیکھے تو اس کے صنفی جذبات میں تحریک پیدا نہ ہو یعنی بوڑھی کھوسٹ عورتیں۔ [٩١]ستروحجاب میں فرق۔مرد اور عورت کےمقامات ستر:۔ یہاں ثِیَابَھُنَّ کا لفظ استعمال ہوا ہے تو اس کا یہ مطلب یہ نہیں کہ اپنے بدن کے سب کپڑے اتار سکتی ہیں۔ بلکہ اس کا مطلب ہے کہ ان سے حجاب کی پابندیاں اٹھ جاتی ہیں۔ لیکن ستر کی پابندیاں بدستور بحال رہتی ہیں۔ ستر اور حجاب میں فرق یہ ہے کہ ستر ان اعضاء کو ڈھانپ رکھنے کا نام ہے جن کا ڈھانپنا ہر حال میں ضروری ہے کوئی دیکھ رہا ہو یا نہ دیکھ رہا ہو۔ مرد کا مقام ستر ناف سے لے گھٹنے تک ہے۔ اور عورت کے مقام ستر اس کا سارا جسم ہے ماسوائے ہاتھوں اور چہرہ کے۔ مرد اپنے مقامات ستر اپنی بیوی کے سوا کسی کے سامنے کھول نہیں سکتا اور نہ ہی عورت اپنے ستر کے مقامات اپنے خاوند کے سوا کسی دوسرے کے سامنے کھول سکتی ہے۔ ان احکام میں اگر گنجائش ہے تو صرف یہ ہے کہ عورت اپنے محرم رشتہ داروں کے سامنے کسی ضرورت کے تحت جسم کا اتنا حصہ کھول سکتی ہے جسے گھر کا کام کاج کرتے ہوئے کھولنے کی ضرورت پیش آتی ہے جیسے فرش دھوتے وقت پائنچے اوپر چڑھا لینا یا آٹا گھوندتے وقت کف اوپر چڑھا لینا وغیرہ اور مقام ناف سے لے کر گھٹنے تک کے مقامات ستر تو ایسے ہیں جنہیں کوئی عورت کسی عورت کے بھی سامنے کھول نہیں سکتی۔ مزید تفصیل کے لئے میری تصنیف ” احکام ستروحجاب“ملاحظہ ہو۔ بوڑھی عورتوں کوحجاب کے احکام سے رخصت کی مشروط اجازت: ۔ اور یہاں جو بڑھی بوڑھیوں کو کپڑے اتارنے کی اجازت ہے تو اس سے مراد کپڑے ہیں جو ستر سے متعلق نہیں بلکہ حجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور وہ دو ہیں ایک دوپٹہ جس سے عورتوں کے سر پر رکھنے اور اس سے اپنے گریبان ڈھانپے رکھنے کا حکم ہے اور اس کا تعلق گھر کے اندر کی دنیا سے ہے اور دوسرے بڑی چادریں جن سے انھیں اپنا سارا بدن اور زیب و زینت ڈھانپ کر گھر سے باہر نکلنے کا حکم ہے۔ اب بڑی بوڑھوں کی رخصت صرف یہ ہے کہ ان کے لئے یہ ضروری نہیں کہ گھر میں ہر وقت دوپٹہ یا اوڑھنی اوڑھے رکھیں یا جب کسی ضرورت سے گھر سے باہر نکلیں تو بڑی چادروں میں اپنے پورے جسم کو ڈھانپ کو نکلا کریں۔ اور یہ رخصت بھی صرف اس صورت میں ہے جب انہوں نے سنگھار اور میک اپ وغیرہ نہ کیا ہو۔ اور اگر ایسی صورت ہو اور انھیں بھی اپنی زیب و زینت کا اظہار مقصود ہو یا ان کا بھی بناؤ سنگھار کرنے یا اس کی نمود و نمائش کرنے کو جی چاہتا ہو تو انھیں یہ رخصت نہیں ملے گی۔ [٩٢] یعنی اگر بڑی بوڑھی عورتیں بھی اس رخصت سے فائدہ نہ اٹھائیں تو یہی بات ان کے حق میں بہتر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اسے دیکھنے والے سارے بوڑھے یا متقی لوگ تو نہیں ہوں گے۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی شہوت کا مارا اوباش اس سے بھی چھیڑ چھاڑ شروع کر دے اور اس پر بھی ہاتھ صاف کرنے سے نہ چوکے۔ لہٰذا بوڑھی عورتیں بھی اس رخصت کا استعمال موقع و محل کا لحاظ رکھ کر کریں۔ بصورت دیگر اس رخصت پر عمل نہ کریں۔ یہی چیز ان کے حق میں بھی بہتر ہے اور معاشرہ کے حق میں بھی۔ النور
61 [٩٣]کھاناکھانے‘کھلانے کے آداب:۔ اس آیت میں معاشرہ کے مختلف قسم کے لوگوں کے ایک دوسرے کے ہاں کھانا کھانے کے آداب اور احکام بیان ہوئے ہیں۔ آیات کا ابتدائی حصہ معذور لوگوں سے تعلق رکھتا ہے یعنی لنگڑے اور مریض قسم کے لوگ۔ ان کے متعلق ارشاد ہوا کہ وہ چونکہ خود کما نہیں سکتے اس لئے وہ ہر گھر سے کھانا کھا سکتے ہیں۔ انھیں اس میں عار محسوس نہ کرنا چاہئے اور معاشرہ کے لوگوں پر چونکہ ان کا حق ہے۔ لہٰذ انھیں بھی چاہئے کہ انھیں کھانا کھلانے کے سلسلہ میں فراخدلی سے کام لیں۔ اس کی دوسری توجیہ یہ ہے کہ دور جاہلیت میں اس قسم کے معذور لوگ خود آسودہ حال اور تندرست لوگوں کے ساتھ مل کر کھانا کھانے میں جھجک محسوس کرتے تھے انھیں یہ خیال آتا تھا کہ شاید دوسروں کو ہمارے ساتھ کھانا کھانے سے نفرت ہو اور وہ اسے ناگوار محسوس کریں۔ اور فی الواقع بعض لوگوں کو ایسی نفرت و وحشت ہوتی بھی تھی۔ لہٰذا عام لوگوں کو ہدایت دی گئی کہ ایسے لوگ تو تمہاری ہمدردی کے محتاج ہیں چہ جائے کہ ان سے نفرت کی جائے۔ تیسری توجیہ یہ ہے کہ بعض متقی قسم کے لوگوں کو یہ خیال آتا تھا کہ شاید ایسے لوگوں کے ساتھ مل کر کھانے سے کہیں ان معذور لوگوں کی حق تلفی نہ ہوتی ہو۔ مثلاً اندھے کو سب کھانے نظر نہیں آتے۔ لنگڑے ممکن ہے دیر سے پہنچیں اور مریض تو کھانا کھاتے وقت اپنی تکلیف اور پرہیز ہی کو ملحوظ رکھتے ہیں لہٰذا یہ لوگ علیحدہ ہی کھانا کھائیں تو بہتر ہے۔ اس جملہ سے ان سب لوگوں کے نظریات کا ازالہ کردیا گیا۔ [٩٤] جب یہ آیت نازل ہوئی ﴿ وَلَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بالْبَاطِلِ ﴾(۲۹:۴)تو بعض مسلمان اس سلسلہ میں ضرورت سے زیادہ محتاط ہوگئے تھے اور وہ صاحب خانہ کی دعوت یا اس کی اجازت کے بغیر اپنے کسی قریبی رشتہ دار کے ہاں سے بھی کھانا کھانا تقویٰ کے خلاف سمجھنے لگے تھے۔ اس فقرہ کی رو سے ان کی ضرورت سے زیادہ احتیاط کے نظریہ کا ازالہ کیا گیا اور سب سے پہلے اپنے ہی گھروں سے کھانا کھانے سے ابتدا کی گئی۔ حالانکہ اپنے گھر سے کھانا کھانے کے لئے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس آغاز سے ذہن نشین یہ کرایا گیا ہے کہ جس طرح تمہیں اپنے گھر سے کھانا کھانے کے لئے کسی اجازت اور تکلف کی ضرورت نہیں ہوتی اسی طرح تم اپنے باپ، اپنی ماں، اپنے بھائیوں، اپنی بہنوں، اپنے چچاؤں، اپنی پھوپھیوں، اپنے ماموں اور اپنی خالاؤں کے ہاں سے کھاسکتے ہو۔ اس مقام پر آٹھ بڑے قریبی رشتہ داروں کا ذکر کیا گیا ہے کہ ان گھروں سے تم بلا اجازت اور بے تکلف کھانا کھا سکتے ہو۔ خواہ صاحب خانہ موجود ہو یا نہ ہو۔ اس آیت میں اپنے بیٹوں، بیٹیوں کے گھروں کا ذکر اس لئے نہیں کیا گیا۔ یہ گھر بھی دراصل ہر شخص کے اپنے ہی گھر ہوتے ہیں۔ [٩٥] ﴿اَوْ مَا مَلَکْتُمْ مَّفَاتِحَہٗٓ ﴾ کے بھی دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ تمہارے کارندے اس چیز سے کھا سکتے ہیں جس پر تم نے انھیں نگران یا کارندہ بنایا ہے۔ اس لحاظ سے تمہارے باغ کا مالی باغ کے پھل تمہاری اجازت کے بغیر کھا سکتا ہے۔ تمہارا گڈریا تمہاری اجازت کے بغیر بکریوں کا دودھ پی سکتا ہے۔ تمہارا نان بائی تمہارے ہوٹل سے تمہاری اجازت کے بغیر کھانا کھا سکتا ہے اور اس کی بے شمار مثالیں ہوسکتی ہیں اور دوسرا یہ کہ اگر تم ایسے لوگوں کے ہاں سے کچھ کھالو تو اس میں بھی کچھ حرج نہیں۔ کیونکہ ان کے کفیل تو تم خود ہو۔ [٩٦] یہاں دوست سے مراد ایسا ولی اور ہمدرد دوست مراد ہے جو اگر تمہارے پاس آئے تو تمہیں حقیقی مسرت حاصل ہو اور اگر وہ تمہاری غیر حاضری میں تمہارے گھر سے کچھ کھا لے تو تمہیں یہ بات ناگوار گذرنے کے بجائے خوشی ہو۔ [٩٧] اکیلے اکیلے کھانابہترہےیااکھٹے مل کر: اہل عرب کے بعض قبیلوں کی یہ تہذیب تھی کہ وہ اکیلا اکیلا کھانا کھانے کو بہتر سمجھتے تھے اور اکٹھے مل کر کھانے کو معیوب سمجھتے تھے۔ ہندوؤں میں آج کل بھی یہی تہذیب ہے۔ اور مسلمانوں میں سے بھی کچھ لوگ اسی بات کو بہتر سمجھتے ہیں بالخصوص وہ لوگ جو جراثیم کے نظریہ کے ضرورت سے زیادہ قائل ہوتے ہیں۔ دوسری طرف کچھ ایسے لوگ تھے جو اکیلے یا اکیلے اکیلے کھانے کو معیوب سمجھتے تھے۔ بعض تو اس حد تک متشدد تھے کہ اس وقت تک کھانا نہ کھاتے تھے بلکہ فاقہ سے رہتے تھے جب تک کوئی دوسرا آدمی یا مہمان ان کے ساتھ کھانے میں شامل نہ ہو اور بعض کی تہذیب ہی یہ تھی کہ اکیلے اکیلے کھانا بری بات ہے اور مل کر کھانا ہی بہتر ہے۔ یہ آیت اس طرح کی پابندیوں کو ختم کرنے کے لئے نازل کی گئی اس آیت کی رو سے اگرچہ عام اجازت دی گئی کہ جس طرح کوئی چاہے کھا سکتا ہے۔ تاہم اسلام نے اکٹھے مل کر کھانے کو ہی ترجیح دی ہے اور اس کی دلیل درج ذیل احادیث ہیں : ١۔ عمرو بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ ، جو ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے (ابوسلمہ سے )بیٹے تھے، کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کھانا کھایا۔ میں رکابی کے سب اطراف میں ہاتھ بڑھانے لگا تو آپ نے مجھے فرمایا :” اپنے سامنے سے کھاؤ “ (بخاری۔ کتاب الاطعمہ۔ باب الاکل ممایلیہ) ٢۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اشعری لوگ جب لڑائی میں محتاج ہوجاتے ہیں یا مدینہ میں ان کے بال بچوں کا کھانا کم ہوجاتا ہے تو جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے اس کو ایک کپڑے میں اکٹھا کرتے ہیں۔ پھر آپس میں برابر برابر بانٹ لیتے ہیں۔ یہ لوگ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔“ (مسلم۔ کتاب الفضائل۔ باب من فضائل الاشعریین) [٩٨] اس جملہ کا تعلق صرف کھانے کی دعوت سے نہیں بلکہ عام ہے۔ یعنی جب بھی تم اپنے یا کسی دوسرے کے گھر میں یا مسجد وغیرہ میں داخل ہوا کرو تو وہاں موجود لوگوں پر سلام (سلامتی کی دعا السلام علیکم) ضرور کہا کرو۔ بلکہ اگر گھر میں بھی کوئی شخص نظر نہ آئے، تب بھی السلام علیکم ضرور کہنا چاہئے اور فرشتوں کی موجودگی کا خیال کرلینا چاہئے۔ اور یہ کلمہ پاکیزہ اور مبارک اس لحاظ سے ہے کہ جواب میں تمہیں بھی سلامتی کی دعا حاصل ہوگی۔ اس طرح پورے معاشرہ میں ایک دوسرے کے لئے ہمدردی اور سلامتی چاہنے کی فضا بن جائے گی۔ النور
62 [٩٩] مجلس سےصدر کی اجازت کےبغیر اٹھ کرچلےآناممنوع ہے:۔ یعنی ایسے امور جن کا تعلق سب مسلمانوں سے مشترک ہو۔ جیسے جہاد یا مجلس مشاور ت، یا کوئی مشترکہ مفادات کے لئے اجتماع ہو۔ خواہ ایسی میٹنگ جنگ یا حالات جنگ سے تعلق رکھتی ہو یا حالت امن سے، مومنوں کا یہ کام نہیں کہ آپ سے اجازت لئے بغیر وہاں سے چل دیں۔ ہاں اگر انھیں کسی ضروری کام کی بنا پر اس مجلس و اجتماع کے اختتام سے پہلے واپس آنا ضروری ہو تو وہ اس سے رخصت ہونے کی اجازت طلب کرتے ہیں۔ اجازت لئے بغیر وہاں سے چلے نہیں آتے۔ اگر وہ اپنی کوئی ضرورت آپ سے بیان کریں۔ تو انھیں اجازت دینا آپ کی صوابدید پر منحصر ہے اور اگر آپ یہ سمجھیں کہ اس کا ذاتی کام اس اجتماعی مفاد کے مقابلہ میں کچھ اہمیت نہیں رکھتا۔ تو بے شک آپ انہیں اجازت نہ دیں۔ اور اگر آپ انہیں اجازت دے دیں تو ان کے لئے دعائے مغفرت بھی کیجئے۔ کیونکہ اپنی کسی ذاتی غرض کی خاطر اجتماعی معاملات اور آپ کی صحبت سے محروم رہنا حقیقتاً دنیا کو دین پر ترجیح دینے کے مترادف ہے۔ لہٰذ اگر کسی مخلص مومن کو اس کی التجا کی بنا پر آپ اجازت دے بھی دیں تو اس کے حق میں آپ کے استغفار کی برکت سے اس تقصیر کا تدارک ہوسکے گا۔ ضمناً اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ کسی واقعی ضرورت کے بغیر ایسے اجتماعی مفاد کی مجلس سے اجازت طلب کرنا قطعاً ناجائز ہے۔ علاوہ ازیں یہ حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات یا آپ کی زندگی تک ہی محدود نہیں بلکہ آپ کے بعد آپ کے خلفائے راشدین یا کسی بھی اسلامی حکومت کے ایسے مشترکہ مفاد کی مجلس سے بلا اجازت چلے آنا آداب مجلس کے ہی خلاف ہے اور شرعاً ناجائز بھی ہے مجلس کو چھوڑ کرجانے کا جواز صرف اس صورت میں ہے کہ فی الحقیقت کوئی ضرورت لاحق ہو۔ جس کی بنا پر میر مجلس سے رخصت ہونے کی اجازت حاصل کی جائے۔ اور اگر میر مجلس اس کو اجازت دینے یا اس کے ذاتی کام کے مقابلہ میں اس کے شریک مجلس رہنے کو زیادہ اہم سمجھتا ہو اور وہ اجازت نہ دے تو کسی مومن کو اس سے کچھ شکایت نہیں ہونا چاہئے۔ النور
63 [١٠٠] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب واحترام :۔ اس جملہ کی تین مطلب ہوسکتے ہیں اور تینوں ہی دوست ہیں۔ ایک یہ کہ رسول کو ایسے نہ بلایا کرو جیسے تم ایک دوسرے کو بے تکلفی سے بلاتے رہتے ہو۔ بلکہ انہیں بلانا ہو تو اس کا پورا ادب و احترام ملحوظ رکھا کرو۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر رسول تمہیں بلائے تو ایسا نہ سمجھو جیسے کوئی عام آدمی بلا رہا ہے کہ جی چاہے تو جواب دے دو یا نہ دو یا اگر جی چاہے تو ان کے پاس حاضر ہوجاؤ اور چاہے تو نہ آؤ۔ بلکہ ان کے بلانے پر تم پر واجب ہوجاتا ہے کہ تم ان کے پاس حاضر ہوجاؤ اور ان کی بات سنو پھر اسے بجا لاؤ۔ اور یہ مطلب قرآن کریم کی ایک دوسری آیت ﴿ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ ﴾ (٨: ٢٤) سے ماخود ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : حضرت سعید بن معلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : میں نماز پڑھ رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے سامنے گزرے اور مجھے بلایا۔ میں نماز پڑھ کر حاضر ہوا تو مجھے فرمایا : تم میرے بلانے پر کیوں نہ آئے؟ کیا تم نے اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا ﴿ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ ﴾ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ زیر آیت مذکورہ) اس حدیث سے علماء نے یہ مسئلہ استباط کیا ہے کہ اگر کوئی شخص فریضہ نماز بھی ادا کر رہا ہو تو رسول کے بلانے پر اسے نماز تک چھوڑ کر فوراً حاضر ہوجانا چاہئے۔ اور تیسرا مطلب یہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو یوں نہ سمجھو جیسے کسی عام آدمی کی دعا ہے۔ بلکہ تمہارے حق میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا تمہاری دنیا اور تمہاری آخرت سنوارنے کا موجب بن سکتی ہے اسی طرح ان کی بددعا تمہیں تباہ و برباد بھی کرسکتی ہے۔ لہٰذ ان کی اطاعت کرکے انہیں خوش رکھنے اور ان کی دعا لینے کی کوشش کیا کرو۔ [١٠١] دن کے پچھلے حصہ (اصیل ) میں تو تین نمازیں آجاتی ہیں۔ مگر پہلے حصے میں ایک بھی فرض نماز نہیں۔ بسا اوقات ایسا ہوتا کہ دن کے پہلے حصہ میں کوئی ایسی وحی آجاتی جس سے مسلمانوں کو فوری طور پر آگاہ کرنا ضروری ہوتا تھا۔ اس غرض سے مسجد نبوی میں اذان کہہ کر مسلمانوں کو بلا لیا جاتا۔ آپ وحی سناتے۔ خطبہ ارشاد فرماتے اور حالات حاضرہ سے متعلق بعض دفعہ مشورے بھی مقصود ہوتے تھے اور بعض دفعہ اللہ کے احکام کی فوری نشرواشاعت ۔۔۔۔۔۔اسی سلسلہ میں منافق بھی ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ضرور ہوجاتے اور یہ بات نفاق کا شبہ دور کرنے کی خاطر ان کے لئے ضروری بھی ہوتی تھی۔ حاضری لگوالینے کے بعد وہ اس انتظار میں رہتے تھے کہ موقع ملے تو چپکے سے کھسک جائیں اور بمصداق جوئندہ یابندہ وہ کھسک بھی جایا کرتے تھے۔ اس آیت میں ایسے ہی لوگوں کو خطاب کیا جارہا ہے۔ [١٠٢]رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پرعذاب کی وعید :۔ ربط مضمون کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بلانے پر منافقوں کا آپ کی دعوت کو ناگوار محسوس کرنا، کھسک جانے کی کوشش کرنا۔ آپ کے نصائح پر توجہ نہ دینا یا آپ کی دعوت کو کچھ اہمیت نہ دینا۔ سب رسول کی مخالفت میں آتی ہیں۔ تاہم رسول کی مخالفت کا دائرہ اس سے وسیع تر ہے اور منافقوں کے لئے یہ فتنہ کیا کم ہے کہ ان کے دلوں میں کفر و نفاق جڑ پکڑ جائے اور انھیں اپنی ایسی کرتوتیں بھی اچھی نظر آنے لگیں۔ تاہم آیت کے اس حصہ کا حکم عام ہے جو منافقوں اور مسلمانوں سب کو شامل ہے اور ہمیشہ کے لئے ہے۔ رہا فتنہ کا مفہوم تو اس کی بے شمار صورتیں ہوسکتی ہیں۔ سب سے واضح صورت مسلمانوں کا داخلی انتشار اور ان کا اجتماعی قوت کا کمزور ہونا اور ان پر ظالم اور جابر حکمران کا مسلط ہوجانا ہے۔ اور یہ سب کچھ اس وقت ہوتا ہے جب احکام شرعیہ کو پس پشت ڈال دیا جائے۔ النور
64 [١٠٣] یعنی جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس سے کھسک جاتے ہیں یا اسلام اور مسلمانوں کا تمسخر اڑاتے ہیں۔ اور اس کی راہ روکنے کے لئے سازشیں تیار کرتے ہیں۔ ایسے لوگ رسول یا دوسرے مسلمانوں کی نظروں سے تو اوجھل رہ سکتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ تو ان کے اعمال و افعال تو درکنار ان کے دلوں کے خیالات تک سے واقف ہے اور انھیں سزا دینے پر قادر بھی ہے۔ لہٰذا قیامت کے دن وہ سب کو اپنے حضور اکٹھا کرکے انہیں ان کی کرتوتیں بتلا بھی دے گا اور ان کی سزا بھی دے گا۔ النور
0 الفرقان
1 [١] تبارک کالغوی مفہوم:۔ تبارک کا وہ مادہ ب ر ک ہے۔ اسی سے لفظ برکت ہے اور کسی چیز سے زیادہ سے زیادہ متوقع یا غیر متوقع فوائد حاصل ہوجانے کا نام برکت ہے۔ اور بابرکت وہ ذات ہے جو دوسروں کو زیادہ سے زیادہ متوقع اور غیر متوقع فوائد پہنچانے والی ہو۔ علاوہ ازیں تبارک کے لفظ میں بلندی اور تقدس کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے اور یہ لفظ اللہ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے۔ [ ٢] مسلمانوں کااپنے نبی کی شان میں غلو:۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر اپنے پیارے رسول کے لئے عبد کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلی امتوں نے بھی اپنے رسول کی شان میں عقیدت مندی کی بنا پر غلو کیا تھا اور انہیں ان کے حقیقی مقام سے اٹھا کر اللہ کے ساتھ جا ملایا تھا۔ یہود نے کہا کہ عزیر کے جسم میں اللہ تعالیٰ نے حلول کیا ہے اور وہ اللہ کے اوتار تھے، ہندوؤں میں بھی اوتار یا حلول کا عقیدہ بکثرت پایا جاتا ہے اور نصاریٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا بھی کہا بلکہ اس سے بڑھ کر اللہ ہی بنا دیا۔ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح الفاظ میں اپنی امت کو تنبیہ فرمائی کہ ” مجھے میری حد سے ایسے نہ بڑھانا چڑھانا جیسے نصاریٰ نے عیسیٰ ابن مریم کو چڑھا دیا میں تو اللہ کا بندہ ہوں لہٰذا تم یوں کہو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ۔“ (بخاری، کتاب بدءالخلق۔ باب واذکر فی الکتاب مریم) لیکن افسوس ہے کہ آپ کی اس تنبیہ کے باوجود مسلمانوں نے بھی وہی کچھ کیا جو پہلی امتیں کرتی رہیں۔ مسلمانوں کے طبقہ نے آپ کو نور من نور اللہ قرار دیا۔ اور کچھ لوگوں نے یوں کہا : وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہو کر اتر پڑا ہے مدینہ میں مصطفٰے ہو کر یہود و نصاریٰ نے تو اس حلول کے عقیدہ کو انبیاء تک محدود رکھا تھا مگر مسلمانوں نے یہ کمال دکھایا کہ انبیاء کے علاوہ دوسرے بزرگوں میں بھی اللہ کے حلول کا عقیدہ اپنا لیا۔ اسی طرح کا ایک دوسرا شعر : اپنا اللہ میاں نے ہند میں نام رکھ لیا خواجہ غریب نواز بھی اسی عقیدہ حلول کی وضاحت کر رہا ہے۔ عبداللہ بن سبا یہودی کا کردار:۔ اسلام میں اس عقیدہ کو داخل کرنے والا ایک یہودی عبداللہ بن سبا تھا۔ یہ یمن کے شہر صنعاء کا رہنے والا اور نہایت ذہین و فطین آدمی تھا۔ جب اس نے یہ معلوم کرلیا کہ عملی میدان میں مسلمانوں سے انتقام لینے کی یہودیوں میں سکت باقی نہیں رہ گئی تو اس نے فریب کاری کے طور پر اسلام قبول کیا اور درویشی کا لبادہ اوڑھ کر زہدوتقویٰ کے روپ میں سامنے آتا۔ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں مسلمان ہوا اور حالات کے دھارے کا انتظار کرتا رہا۔ اس کی یہ سازشی تحریک انتہائی خفیہ طور پر مکہ اور مدینہ سے اور دوسرے علاقوں مثلاً کوفہ، بصرہ اور مصر میں اپنا کام کر رہی تھی۔ بالآخر اسی یہود ی کے حامیوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر مختلف الزامات عائد کئے اور موقعہ پاکر غنڈہ گردی کرکے ٣٥ ھ میں انہیں شہید کردیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون اسلام کے جسم پر اس نے دو طرح کے وار کئے اور اپنی سازش کی کامیابی کے لئے حضرت علی کو بطور ہیرو منتخب کیا۔ اس کا پہلا وار یہ تھا کہ نو مسلم عجمی لوگوں کو یہ تاثر دیا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابتداری کی بنا پر خلافت کے اصل حقدار حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے اور پہلے تین خلیفوں نے ان کا حق غصب کیا ہے۔ نئے مسلمان ابھی اسلامی تعلیمات سے پوری طرح آگاہ نہیں تھے، دنیا کے عام دستور وراثت و نیابت کے مطابق اس کی چال میں آگئے۔ اور دوسرا وار دین طریقت کو اسلام میں داخل کرنا تھا۔ وہ خود درویشی کے روپ میں سامنے آیا تھا۔ لہٰذا ظاہر اور باطن کی تفریق کرکے اور شریعت و طریقت کے رموز بتا کر ان نو مسلموں میں دین طریقت کے ملحدانہ اور کافرانہ نظریات داخل کردیئے اور بتایا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ کی ذات کا مظہر ہیں اور اللہ ان کے بدن میں حلول کر گیا ہے۔ گویا اسلام میں حضرت علی وہ پہلے شخص ہیں جن کے متعلق حلول کا عقیدہ اپنایا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق حلول کا عقیدہ تو بہت زمانہ بعد کی پیداوار ہے۔ سیدناعلی رضی اللہ عنہ کا آپ کو اللہ کہنے والوں کوسزادینا:۔ عبداللہ بن سبا نے خود ایک دفعہ کوفہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے رمز و کنایہ کی زبان میں کہا انت ھو یعنی ” تو وہی ہے“ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کے نظریہ کو بھانپ گئے اور اسے سخت سرزنش کی اور بعد میں اسے سزا دینے کے لئے بلابھیجا تو معلوم ہوا کہ وہ کوفہ سے راہ فرار اختیار کرچکا ہے۔ بہرحال اس نے اپنے معتقدین کی ایک جماعت تیار کرلی تھی۔ ایک دفعہ یہ لوگ علی الاعلان بازار میں کھڑے ہو کر اپنے اسی عقیدہ کا پرچار کر رہے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے غلام قنبر نے یہ باتیں سنیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جاکر اطلاع دی کہ کچھ لوگ آپ کو اللہ کہہ رہے ہیں۔ اور آپ میں خدائی صفات مانتے ہیں۔ آپ نے ان کو بلایا اور قوم زط کے ستر اشخاص تھے آپ نے ان سے پوچھا ” تم کیا کہتے ہو؟“ انہوں نے کہا کہ” آپ ہمارے رب ہیں اور خالق اور رازق ہیں“ آپ نے فرمایا :” تم پر افسوس! میں تو تم ہی جیسا ایک بندہ ہوں اور تمہاری طرح کھانے پینے کا محتاج ہوں۔ اگر اللہ کی اطاعت کروں گا تو مجھے اجر دے گا اور نافرمانی کروں گا تو سزا دے گا۔ لہٰذا تم اللہ سے ڈر جاؤ اور اس عقیدہ کو چھوڑ دو“۔ دوسرے دن قنبر نے پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ وہ لوگ پھر وہی کچھ کہہ رہے ہیں۔ آپ نے دوبارہ انھیں بلایا اور تنبیہ کی۔ لیکن پھر بھی یہ لوگ باز نہ آئے۔ تیسرے دن آپ نے انھیں بلا کر یہ دھمکی بھی دی کہ اگر تم نے پھر یہی بات کہی تو میں تم کو نہایت بری سزا دوں گا۔ مگر اس جماعت کا سرغنہ عبداللہ بن سبا تو ایک خاص مشن کے تحت یہ تحریک چلارہا تھا۔ لہٰذ ا یہ لوگ اپنی بات پر اڑے رہے۔ آپ نے ایک گڑھا کھدوایا جس میں آگ جلائی گئی اور ان سے کہا۔ ” دیکھو اب بھی باز آجاؤ ورنہ اس گڑھے میں پھینک دوں گا مگر وہ اپنے عقیدہ پر قائم رہے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حکم سے آگ میں پھینک دیئے گئے۔“ (فتح الباری۔ ج ١٢، ص ٢۳٨) امام بخاری نے یہ حدیث مختصراً کتاب استتبابةالمرتدین میں درج فرمائی ہے اور ان حلولیوں کے لئے ” زنادقہ“کا لفظ استعمال کیا ہے اور یہ بھی صراحت کی ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ اگر میں حاکم ہوتا تو ان کو جلانے کے بجائے ان کے قتل پر اکتفا کرتا۔ حلول کا عقیدہ رکھنے والے وہ لوگ جو بچ رہے تھے اپنے عقیدہ میں اور بھی سخت ہوگئے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ آگ اور پانی سے عذاب دینا صرف اللہ کو سزاوار ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی چونکہ آگ سے جلایا ہے لہٰذا وہ عین اللہ ہیں۔ وہ زبان سے یہ کہتے تھے کہ لا لعذب بالنار الا رب النار ”یعنی آگ کا رب بھی آگ سے سزا دیتا ہے۔“ عبداللہ بن سبا کا یہ عقیدہ اس کے پیروکار نصیریہ، کیسانیہ، قرمطیہ اور باطنیہ سے ہوتا ہوا صوفیاء کے اندر داخل ہوگیا حسین بن منصور حلاج( م ٣٠٩ ھ ) اس عقیدہ کا علمبردار اعلیٰ تسلیم کیا جاتا ہے اور اسلام میں یہی وہ پہلا شخص ہے جس نے خود اپنی ذات کے متعلق کھل کر یہ دعویٰ کیا کہ اللہ اس کے اندر حلول کر گیا ہے۔ گویا اس سے پہلے بھی کچھ صوفیاء اس عقیدہ کے حامی اور اسے اپنے سینوں میں چھپائے رکھتے تھے، مگر عقیدہ کو شہرت دوام حلاج ہی کی ذات سے ہوئی۔ وہ خود اناالحق کا دعویٰ کرتا تھا سمجھانے کے باوجود جب وہ اپنے عقیدہ پر مصر رہا تو خلیفہ بغداد المقتدر باللہ نے علماء سے فتویٰ لینے کے بعد ٢٤ ذی قعدہ ٣٠٩ ھ (٩١٤ء) کو بغداد میں قتل کردیا اور اس ''خدا'' کی لاش کو جلا کر دریا میں پھینک دیا گیا اور اس کی خدائی اپنے آپ کو بھی موت اور لاش سے جلنے کے عذاب سے بچا نہ سکی۔ مگر حیرت تو اس بات پر ہے کہ حسین بن منصور کے اتنے شدید جرم کے صوفیاء کی اکثرت نے اس کے حق پر ہونے کی حمایت کی لہٰذا حلول کا عقیدہ آج تک مسلمانوں میں متوارت چلا آرہا ہے۔ چنانچہ امام اہل سنت رضا خان بریلوی فرماتے ہیں : سوال : حضرت منصور، تبریز اور سرمد نے ایسے الفاظ کہے جن سے خدائی ثابت ہے( یعنی یہ تینوں حضرات خدائی کے دعویدار تھے) لیکن وہ ولی اللہ گنے جاتے ہیں۔ جبکہ فرعون، شداد، ہامان، اور نمرود نے یہی دعویٰ کیا تھا تو وہ دائمی جہنمی ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ جواب : ان کافروں نے خود کہا اور ملعون ہوئے اور انہوں نے( یعنی منصور، تبریز اور سرمد نے )خود نہ کہا۔ اس نے کہا جسے کہنا شایاں ہے۔ اور آواز بھی انہی سے مسموع ہوئی۔ جیسے حضرت موسیٰ نے درخت سے سنا۔ انی انا اللہ میں ہوں اللہ رب سارے جہان کا، درخت نے کہا تھا؟۔۔۔ بلکہ اللہ نے۔ یونہی یہ حضرات اس وقت شجر موسیٰ ہوتے ہیں ( احکام شریعت ص ٩٣) اہل سنت اور عقیدہ حلول :۔ اس جواب میں نشان زدہ الفاظ پر اور اس کی دلیل پر غور فرمائے اور دیکھئے کہ امام اہل سنت عقیدہ حلول کی کس قسم کے اسرار و رموز سے وکالت فرما رہے ہیں۔ فرعون، شداد، نمرود اور ہامان وغیرہ کو اللہ نے جہنمی قرار دیا اور اس کی اطلاع قرآن میں دی ہے۔ حلاج و سرمد وغیرہ کو ولی تو آپ لوگ کہتے ہیں۔ عامۃ المسلمین اور علماء نے تو منصور کو زندیق اور کافر قرار دے کر اس کے قتل کا فتویٰ صادر کیا تھا اور باقی دو کا انجام اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔ ایک دوسرے مقام پر یہی امام اہل سنت فرماتے ہیں کہ حضور پرنور سیدنا غوث اعظم حضور اقدس و انور سید عالم کے وارث کامل و نائب تام آئینہ ذات ہیں کہ حضور پر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مع اپنی جمیع صفات جمال و جلال و کمال و افضال کے ان میں متجلی ہیں۔ جس طرح ذات عزت احدیت مع جملہ صفات و نعوت و جلالت آئینہ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تجلی فرما ہے۔( فتاویٰ افریقہ ص ١٠١) گویا امام صاحب کے اس ارشاد نے واضح طور پر بتلا دیا کہ اللہ کی ذات رسول اللہ کی ذات میں جلوہ گر ہے۔ اسی طرح غوث اعظم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات جلوہ گر ہے یہ ہے حلول کا وہ نظریہ جسے صوفیاء کے ہی ایک طبقہ نے گمراہ کن نظریہ قرار دیا ہے۔ کیونکہ یہ شرک فی الصفات کے علاوہ شرک فی الذات کی بھی واضح دلیل ہے۔ اسی باطل نظریہ کے رو میں اللہ نے سورۃ نساء میں فرمایا : ﴿ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّـهِ إِلَّا الْحَقَّ ﴾(۱۷۱:۴)”اے اہل کتاب اپنے دین میں علو نہ کرو اور وہی بات کہو جو حق ہو“ اور سورۃ مائدہ میں فرمایا : ﴿قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ غَیْرَ الْحَقِّ﴾(۷۷:۵)”اے اہل کتاب اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو“ ٣۔ فرقان کا مفہوم :۔فرقان مبالغہ کا صیغہ ہے۔ یعنی حق و باطل کو یا کفر اور ایمان کو بالکل الگ الگ کرکے دکھانے والا اور اس سے مراد قرآن ہے۔ جس نے ایمان اور اس کے مقابلہ میں کفر و شرک اور نفاق کی ایک ایک خصلت کو یوں واضح کرکے بتا دیا ہے کہ کچھ ابہام باقی نہیں رہتا۔ اور بعض علماء نے فرقان سے مراد حلت و حرمت کے احکام کو جدا جدا کرکے واضح طور پر بتا نے والا لیا ہے۔ اور یوم الفرقان سے مراد غزوہ بدر کا دن ہے جو حق و باطل کے درمیان ایک فیصلہ کن جنگ ثابت ہوئی۔ ٤۔ آپ کی رسالت اور قرآن کی ہدایت قیامت تک سب لوگوں کےلیے ہے:۔ لیکون کی ضمیر عبدہ کی طرف بھی راجع قرار دی جاسکتی ہے اور فرقان یعنی قرآن کی طرف بھی اور صاحب قرآن کی طرف بھی۔ کیونکہ قرآن اور صاحب قرآن دونوں کی دعوت ایک ہی ہے۔ قرآن مراد لینے کی صورت میں مفہوم یہ ہوگا کہ قرآن سب لوگوں کے لئے تاقیامت کتاب ہدایت ہے اور صاحب قرآن مراد لینے کی صورت میں مفہوم یہ ہوگا کہ آپ تاقیامت تمام تر لوگوں کے لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اور قرآن ہو یا صاحب قرآن دونوں کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو ان کے برے اعمال کے برے انجام سے خبردار کیا جائے۔ الفرقان
2 [٥] اللہ کی اولاد نہ ہونے پرا ستدلال :۔ یعنی پوری کائنات کا مکمل اقتدار و اختیار آج کی زبان میں اقتدار اعلیٰ (Sovereignty) اسی کے ہاتھ میں ہے اور جب یہ بات تسلیم کرلی جائے تو سب قسم کے شریکوں کی از خود نفی ہوجاتی ہے کیونکہ سب چیزیں اللہ کی مملوک اور وہ ان کا مالک ہے۔ اور بیٹا چونکہ مملوک نہیں ہوتا اور ہم یہ تسلیم کرچکے ہیں کہ ہر چیز اللہ کے مملوک ہے تو اس کا کسی سے نسبی تعلق ہونے کی بھی از خود نفی ہوگئی۔ [ ٦] ہرچیزکےمتعلق اللہ کا اندازہ کیاہے؟ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو، خواہ وہ جاندار ہے یا بے جان، پیدا بھی کیا پھر اس نے ہر ایک چیز کا وظیفہ اور اس کے لئے قوانین بھی بنا دیئے۔ جن سے وہ تجاوز نہیں کرسکتی۔ مثلاً کوئی جاندار ایسا نہیں جسے موت سے دوچار نہ ہونا پڑے۔ ہر چیز جو بنتی ہے وہ ضرور کسی نہ کسی وقت فنا بھی ہوجائے گی۔ پانی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ کسی وقت بلندی کی طرف بھی بہنا شروع کردے یا پستی کی طرف بہنا رک جائے۔ نہ آگ کے لئے ممکن ہے کہ وہ ٹھنڈک پہنچانا شروع کر دے۔ آپ کسی کتے کو عمدہ اور بکثرت عذائیں کھلا پلا کر گھوڑے کے قد کے برابر نہیں کرسکتے غرض ہر ایک چیز کے لئے کچھ حدود اور کچھ وظائف اللہ تعالیٰ نے مقرر کردیئے ہیں۔ اور یہی ہر چیز کے لئے اللہ تعالیٰ کا اندازہ ہے۔ الفرقان
3 [٧] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے الوہیت کے کئی معیار بیان فرمائے ہیں اور مشرکوں کو عام دعوت دی گئی ہے کہ وہ اپنے معبودوں کو ان معیاروں پر جانچ کر دیکھیں اور پھر بتائیں کہ آیا ان کے معبودوں میں الوہیت کا کوئی شائبہ تک بھی پایا جاتا ہے مثلاً (١) جو ہستی کوئی چیز پیدا نہ کرسکے یا کسی بھی چیز کی خالق نہ ہو۔ وہ معبود نہیں ہوسکتی۔ (٢) جو چیز خود پیدا شدہ ہو یا مخلوق ہو وہ الٰہ نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ جو چیز پیدا ہوئی ہے وہ فنا بھی ضرور ہوگی۔ اور فنا ہونے والی چیز الٰہ نہیں ہوسکتی۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ مشرکوں کے معبود خواہ وہ بت ہوں جنہیں انہوں نے خود ہی گھڑ رکھا ہے یا فرشتے ہوں یا کوئی اور چیز مثلاً: سورج، چاند، تارے، شجر، حجر ہوں۔ یہ سب چیزیں اللہ کی مخلوق ہیں۔ لہٰذا ان میں کوئی چیز بھی الوہیت کے معیار پر پوری نہیں اترتی۔ (٣) جو ہستی کسی دوسرے کو فائدہ یا نقصان نہ پہنچا سکتی ہو بالفاظ دیگر وہ حاجت روا یا مشکل کشا نہ ہو وہ الٰہ نہیں ہوسکتی۔ یہی وہ صفات ہیں جنہیں مشرکین اللہ کے سوا بعض دوسری ہستیوں میں( خواہ وہ جاندار ہو یا بے جان، زندہ ہوں یا مرچکی ہوں ) تسلیم کرتے ہیں اور شرک کی یہی قسم سب سے زیادہ عام ہے۔ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ : (٤) الوہیت کے سلبی معیار :۔جو چیز اپنے ہی نفع و نقصان کی بھی مالک نہ ہو، وہ دوسرے کسی کی حاجت روا یا مشکل کشا نہیں ہوسکتی۔ اور یہ معیار بھی ایسا معیار ہے جس کے مطابق اللہ کے سوا تمام تر معبود باطل قرار پاتے ہیں۔ پتھر کے معبودوں کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تور پھوڑ ڈالا۔ تو وہ ان کا بال بیکا نہ کرسکے۔ رہے بزرگان دین( خواہ وہ پیغمبر ہو یا ولی، زندہ ہو یا فوت ہوچکے ہوں) سب کو ان کی زندگی میں بے شمار تکلیفیں پہنچتی رہیں لیکن وہ اپنی بھی تکلیفیں اور بیماریاں خود رفع نہ کرسکے تو دوسروں کی کیا کرتے یا کیا کریں گے۔ اس لئے بس وہ اللہ سے دعا ہی کرتے رہے۔ رہے شمس و قمر، تارے اور فرشتے تو یہ سب ایسی مخلوق ہیں جنہیں اپنا اختیار کچھ بھی نہیں ہے۔ اللہ نے انہیں جس کام پر لگا دیا ہے اس کے سوا وہ کوئی دوسرا کام کر ہی نہیں سکتے۔ لہٰذا وہ بھی الوہیت کے معیار پر پورے نہیں اتر سکتے۔ (٥) الوہیت کا پانچواں معیار یہ ہے کہ وہ ہستی کسی زندہ چیز کو مار بھی سکتی ہو اور مردہ چیز کو زندہ بھی کرسکتی ہو۔ اللہ کی یہ شان ہے کہ وہ ہر وقت زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ چیزیں پیدا کر رہا ہے۔ اور دوسرے معبودوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے چیلنج کے طور پر فرمایا کہ وہ ایک حقیر سی مخلوق مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے جبکہ ان کی عاجزی کا یہ عالم ہے کہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو وہ سب مل کر اس سے اپنے سلب شدہ چیز چھڑا بھی نہیں سکتے اور مردوں کو زندہ کرکے اٹھا کھڑا کرنا تو اور بھی بڑی بات ہے۔ اس مقام پر الوہیت کے یہی معیار بیان کئے گئے ہیں جبکہ بعض دوسرے مقامات پر اور بھی کئی معیار مذکور ہیں : مثلاً جو خود محتاج ہو وہ الٰہ نہیں ہوسکتا۔ جو بے جان ہوں الٰہ نہیں ہوسکتا، جو کھانا کھاتا ہو وہ الٰہ نہیں ہوسکتا، جو نہ سن سکتا ہو نہ دیکھ سکتا ہو یا جواب نہ دے سکتا ہو وہ الٰہ نہیں ہوسکتا۔ وغیرہ وغیرہ الفرقان
4 [٨]مستشرقین کا یہ الزام ہے کہ آپ نےعلماء یہود ونصاریٰ سے کسب فیض کیاتھا اور ا س کے جوابات:۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر قرآن کو تصنیف کرنے کا الزام اس دور کے مشرکین مکہ کو ہی نہ تھا، آج کے مستشرقین بھی اپنی تحقیق و تنقید کی آڑ میں کچھ ایسا ہی الزام لگا رہے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ آج کے ان محققین کا یہ کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نبوت سے پیشتر کئی تجارتی سفر کئے یہود و نصاریٰ کے کئی علماء سے آپ کی ملاقات ہوئیں اور اس سلسلسہ میں بالخصوص بحیرا راہب کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ تو انھیں ملاقاتوں کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان علماء سے کسب فیض کیا۔ پھر اسے اپنے انداز میں اور اپنی زبان میں عربوں کے سامنے پیش کیا تھا۔ یہی وہ انبیاء یا سابقہ اقوام کی تاریخ تھی جسے آپ نے نبوت کے نام سے پیش کیا۔ مستشرقین کے اس اعتراض کے باطل ہونے کی بے شمار وجوہ ہیں جو درج ذیل ہیں : ١۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بھی کوئی تجارتی سفر کیا تو اکیلے نہیں کیا تھا بلکہ اپنی قوم کے لوگوں کے ہمراہ کیا تھا۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علمائے یہود و نصاریٰ سے کچھ ملاقاتیں کی تھیں یا ان سے کسب علم کیا تھا تو اس بات کا سب سے زیادہ علم آپ کے ہمراہیوں کو ہونا چاہئے تھا۔ حالانکہ نبوت سے پیشتر ان لوگوں نے آپ پر کوئی ایسا اعتراض نہیں کیا تھا۔ پھر جس بات کا علم آپ کے ہمراہیوں کو نہ ہوسکا تھا ان لوگوں کو کیسے ہوگیا ؟ ٢۔ نبوت سے پہلے اگر آپ نے علمائے یہود و نصاریٰ سے کچھ کسب علم کیا تھا تو ضروری تھا کہ اس کا اظہار دانستہ طور پر یا نادانستہ طور پر نبوت سے پہلے بھی ہوجاتا۔ خواہ آپ اسے چھپانے کی کتنی ہی کوشش کرتے۔ نبوت سے پیشتر کوئی ایسی بات آپ کی زبان سے نہ نکلنا ہی اس بات کی زبردست دلیل ہے کہ یہ اعتراض سراسر باطل اور لغو ہے۔ ٣۔ قرآن میں کئی ایسی پیشین گوئیاں مذکور ہیں جو آپ کی زندگی میں حرف بحرف پوری ہوگئیں اور ان کا علمائے یہود و نصاریٰ کو کسی طرح بھی علم نہ ہوسکتا تھا۔ جیسے روم کا شکست کھانے کے بعد ایران پر دوبارہ غلبہ یا کافروں کی مخالفانہ بھرپور کوششوں کے باوجود اسلام کا غلبہ اور کفار و مشرکین کی ذلت امیز شکست وغیرہ وغیرہ۔ ٤۔ قرآن میں بے شمار ایسی آیات نازل ہوئیں جن کا ان کے پس منظر سے گہرا تعلق ہے۔ مثلاً جنگ بدر کے بعد اموال غنیمت میں تنازعہ کے موقع پر سورۃ انفال کا نزول ، لعان اور ظہار کے احکام کا نزول، واقعہ افک کے بعد قذف اور زنا کی حدود کے احکام کا نزول۔ ایسی آیات کا بھلا علمائے یہود و نصاریٰ کا پہلے سے کیونکر علم ہوسکتا تھا اور وہ ایسے حکیمانہ احکام کیسے بتا سکتے تھے۔ ٥۔ قرآن میں بے شمار مقامات پر یہود و نصاریٰ کے عقائد اور ان کے اخلاق و کردار پر تنقید کی گئی ہے کیا یہ باتیں بھی علمائے یہود ونصاریٰ آپ کو بتا سکتے تھے؟ غرضیکہ اس اعتراض پر جتنا بھی غور کیا جائے اس کو باطل قرار دینے کی اور بھی کئی وجوہ سامنے آتی جائیں گی۔ مشرکین کا یہ الزام کہ آپ کوکوئی سکھاجاتاہے کے جوابات:۔ اور مشرکین مکہ کا آپ پر جو اعتراض تھا وہ نبوت کے بعد کی زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔ ان کا اعتراض یہ تھا کہ چند یہودی پڑھے لکھے غلام مسلمان ہوگئے تھے۔ مشرکوں کو اعتراض یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ باتیں ان سے سیکھی ہیں۔ ابتداًء صرف دو نمازیں فرض تھیں ایک صبح کی اور ایک شام کی۔ ان نمازوں کے اوقات میں مسلمان دار ارقم میں اکٹھے ہوتے۔ تو اگر کچھ وحی اس دوران نازل ہوتی تو آپ نماز کے لئے آنے والے مسلمانوں کو سنا دیتے۔ اس بات سے بتنگڑ یہ بنایا گیا کہ صبح و شام جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس مسلمان اکٹھے ہوتے ہیں تو یہی یہودی پڑھے لکھے غلام مسلمان اقوام سابقہ اور انبیائے سابقہ کے حالات بیان کرتے ہیں جو ساتھ ساتھ لکھ بھی لئے جاتے ہیں اور پڑھے اور سنے سنائے بھی جاتے ہیں۔ پھر انہی باتوں کو اللہ کی طرف سے منسوب کرکے قرآن کے نام سے دوسروں کے سامنے پیش کردیا جاتا ہے۔ یہ اعتراض درج ذیل وجوہ کی بنا پر باطل ہے : ١۔ اگر یہ یہودی غلام جو مسلمان ہوگئے تھے آپ کے استاد یا معلوم ہوتے تو وہ آپ کے فرمانبردار بن کر نہیں رہ سکتے تھے۔ پھر فرمانبرداری بھی ایسی جو جانثاری کی حد تک پہنچ چکی ہو۔ ٢۔ اگر بفرض محال یہ تسلیم کرلیا جائے کہ دنیوی مفادات کی خاطر ایسا سمجھوتہ کرلیا گیا تھا تو آپ کے نزدیک آپ کے مقرب وہ یہودی غلام ہونے چاہئیں تھے نہ کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ، یا حضرت عمر رضی اللہ عنہ یا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ و غیرہم ٣۔ علاوہ ازیں ان پر بھی وہ سب اعتراض وارد ہوتے ہیں جو اوپر مذکور ہیں۔ مثلاً قرآن کی پیشین گوئیاں، موقع اور ضرورت کے مطابق احکام الہٰی کا نزول اور یہود کے اخلاق و عقائد پر کڑی تنقید وغیرہ۔ لہٰذا یہ اعتراض قرآن کریم کی داخلی، خارجی شہادت اور عقلی دلائل کے لحاظ سے محض ایک افتراء اور جھوٹ کا پلندہ ہے۔ الفرقان
5 الفرقان
6 [٩]قرآن کو نازل کرنے والاصرف ایک اللہ ہی ہوسکتاہے:۔ اس کے بعد اب ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے کہ یہ قرآن کسی ایسی باخبر اور حکیم ہستی کی طرف نازل شدہ ہو جو ماضی کے حالات سے خوب واقف اور ان یہود و نصاریٰ کی کارستانیوں سے بھی باخبر ہو۔ زمانہ حال کے حالات سے بھی پوری طرح باخبر ہو اور موقع و محل اور احوال و ظروف کے مطابق ایسے احکام نازل کرتا ہو جو سراسر عدل اور حکمت پر مبنی ہوں اور مستقبل میں پیش آنے والے واقعات بھی اس کے سامنے ہوں۔ پھر اس کا انداز خطاب بڑا دل نشین اور اثر کے لحاظ سے دل کی گہرائیوں تک اتر جانے والا ہو۔ اور اس کے مقابلہ میں کلام پیش کرنا ناممکنات سے ہو اور وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہوسکتی ہے۔ الفرقان
7 [١٠] کفار کا یہ جاہلانہ اعتراض بھی قرآن میں متعدد مقامات پر دہرایا گیا ہے اور وہ اعتراض یہ ہے کہ رسول کم از کم کوئی مافوق البشر ہستی ہونا چاہئے۔ جو حوائج بشریہ سے بے نیاز ہو۔ یا کم از کم دنیوی دھندوں سے آزاد اور تارک دنیا قسم کے لوگوں سے ہو۔ اس اعتراض کا جواب بھی پہلے کئی مقامات پر دیا جاچکا ہے۔ [ ١١] یعنی وہ کافر جو اس پیغمبر کی بات کو درست تسلیم نہ کرتا، فرشتہ اسے ڈراتا، دھمکاتا یا مار مار کر کچومر نکال دیتا۔ تاکہ لوگ نبی کی دعوت کا انکار کرنے کی جرأت ہی نہ کرسکتے اور اس طرح اس کی اپنی ہی ایک جمعیت بن جاتی۔ الفرقان
8 [١٢] اس پیغمبر کو کم از کم فکر معاش سے تو آزاد ہونا چاہئے تھا۔ اگر کوئی رئیس اور خزانوں کا مالک ہوتا تو لوگ خود اس سے ملاقات کی آرزو کرتے پھر یہ جسے چاہتا اجازت دیتا ورنہ نہ دیتا اور ٹھاٹھ باٹھ کے ساتھ رہتا اور خزانوں کا مالک نہیں تو کم از کم کسی باغ کا ہی مالک ہوتا جس سے اس کی گزر بسر ہوتی رہتی۔ [ ١٣] اہل عرب کےنزدیک مسحورکی تین صورتیں :۔ جادو شدہ آدمی سے مراد دیوانہ آدمی ہے۔ عرب میں دیوانگی کی تین وجوہ سمجھی جاتی تھیں۔ ایک یہ کہ کسی شخص پر کسی جن بھوت کا سایہ پڑگیا ہو۔ دوسرے یہ کہ کسی معبود، کسی بت، کسی دیوی دیوتا یا ان کے کسی بزرگ کی شان میں گستاخی کی گئی ہو اور اس کی مار پڑگئی ہو اور تیسرے یہ کہ کسی جادوگر نے اس پر جادو کردیا ہو۔ کفار مکہ آپ پر وقتاً فوقتاً ایسے تینوں طرح کے الزام دیتے تھے، اس مقام پر تیسری قسم کا ذکر ہوا ہے۔ الفرقان
9 [١٤]کفارکویہ سمجھ ہی نہیں آتی تھی کہ آپ پرکیاالزام لگائیں ؟ یعنی کبھی کہتے ہیں کہ اس شخص نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے جو کہتا ہے کہ مجھ پر اللہ کی طرف سے وحی نازل ہوتی ہے کبھی کہتے ہیں کہ یہ قرآن اس نے خود ہی تصنیف کر ڈالا ہے۔ البتہ اس سلسلہ میں دوسروں سے بھی مدد لیتا ہے۔ کبھی آپ کو کاہن کہتے ہیں، کبھی شاعر، کبھی ساحر، جادوگر اور کبھی مسحور۔ پھر کہیں یہ کہتے ہیں کہ اسے فرشتہ ہونا چاہئے تھا۔ کبھی کہتے ہیں کہ اگر بشر ہی تھا تو کم از کم اس کے ساتھ کوئی فرشتہ ہی رہا کرتا۔ کبھی یہ کہ اس نبی کے پاس مال و دولت کی کثرت ہونا چاہئے تھی۔ یہ سب باتیں دراصل ان کے دعوت حق کو قبول نہ کرنے کے بہانے ہیں۔ ہٹ دھرمی اور تعصب نے ان کو اندھا کر رکھا ہے اور ایسی بے تکی باتیں بنانے پر مجبور کر رکھا ہے۔ ان کی ان باتوں کی حیثیت ” خوئے بدرابہانہ بسیار“ سے زیادہ کچھ نہیں۔ البتہ ان کی ایسی ہٹ دھرمی کی باتوں سے یہ ضرور معلوم ہوجاتا ہے کہ دعوت حق کو کسی قیمت پر قبول نہیں کریں گے۔ اور ان کے یہ مطالبات اور اعتراضات محض شرارت اور تنگ کرنے کی بنا پر ہیں۔ الفرقان
10 الفرقان
11 [١٥] یعنی اللہ اگر چاہے تو آپ کو ایک باغ کیا، ایسے بیسیوں باغ عطا کرسکتا ہے۔ اسی طرح رہائش کے لئے ایک محل کیا بیسیوں محل بھی عطا کرسکتا ہے۔ اور دوسری جن چیزوں کا یہ نام لیتے ہیں وہ بھی دینے پر قادر ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا پھر یہ لوگ ایمان لے آئیں گے؟ اور اس سوال کا یقینی جواب یہ ہے کہ یہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں لائیں گے۔ بلکہ پھر اور قسم کی باتیں بنانا شروع کردیں گے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ سرے سے قیامت کے دن پر، دوبارہ جی اٹھنے پر اور اللہ کے سامنے حاضر ہونے پر اور اپنے برے اعمال کی سزا بھگتنے پر یقین ہی نہیں رکھتے۔ پھر یہ لوگ ایسی کٹ جحتیاں نہ کریں تو اور کریں بھی کیا ؟ الفرقان
12 [١٦] ایسے معاند اور ہٹ دھرم لوگوں کے استیصال کے لئے ہم نے جہنم کی بھڑکتی آگ کو پہلے سے ہی تیار کر رکھا ہے جب وہ اپنا شکار دیکھے گی تو فوراً جوش میں آجائے گی اور آگ کی لپٹوں کی تیزی و تندی کی وجہ سے اس میں سے کئی طرح کی غضبناک آوازیں اور پھنکاریں پیدا ہونے لگیں گی اور اس کی یہ آواز سن کر ایسے معاند اور ہٹ دھرم لوگوں کے جہنم میں داخل ہونے سے پہلے ہی پتے پانی ہوجائیں گے۔ اس آیت میں جہنم کے لئے دیکھنے کا فعل یا تو مجازاً استعمال ہوا ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ ہمارا گھر تو ایک عرصہ سے آپ کی راہ تک رہا ہے یا حقیقی معنوں میں بھی ہوسکتا ہے جسکا مطلب یہ ہوتا کہ جہنم کی آگ میں شعور بھی ہوگا اور جو کوئی جتنا زیادہ مجرم ہوگا، اسی قدر وہ اس پر بپھرے گی اور اسی قدر تندی سے اسے جلائے گی۔ الفرقان
13 [١٧] جہنم میں ہر مجرم معاند کے لئے اتنی تنگ جگہ ہوگی جہاں سے وہ ہل بھی نہ سکے گا۔ علاوہ ازیں ایک ہی نوعیت کے کئی کئی مجرم ایک ساتھ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہوں گے۔ جہنم کے غیظ و غضب کی لپٹیں انہیں ہر طرف گھیرے ہوں گی۔ اس وقت وہ اس مصیبت سے گھبرا کر موت کو پکاریں گے کہ کاش موت آکر ہماری ان درد ناک مصیبتوں کا خاتمہ کردے۔ الفرقان
14 [١٨] آج ایک موت کے لئے کیا چیخ و پکار کرتے ہو۔ سینکڑوں موتیں مانگو، تب بھی تمہارا یہ پکارنا لاحاصل ہے۔ وہ آرزو تو کریں گے کہ ایک بار مریں تو چھٹکارا حاصل ہوجائے۔ دن میں ہزار بار مرنے سے جو بری حالت ہو رہی ہے اس سے نجات پاجائیں گے مگر یہ پکار بالکل بے سود ہوگی۔ الفرقان
15 [١٩]آخرت کےقائل اور کافر کے انجام کاتقابل: ۔ اس آیت میں ایک ایماندار اور ایک کافر کے انجام کا جو تقابل پیش کیا گیا ہے وہ بڑا معنی خیز ہے۔ یعنی روز آخرت اور اعمال کی جزا و سزا کے متعلق ایک یہ امکان ہے کہ فی الواقع ایک حقیت ہے اور وہ واقع ہو کے رہے گی اور دوسرا امکان یہ ہے کہ شاید یہ سب کچھ افسانہ ہی ہو۔ اور یہ دونوں باتیں ایسی ہیں جو مشاہدہ اور تجربہ میں نہیں آسکتیں۔ اب وہ شخص جو آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور اس دنیا میں نہایت محتاط اور اللہ سے ڈر کر زندگی گزار رہا ہے۔ اگر بالفرض روز آخرت نہ ہو تو اس کا کچھ بھی نہیں بگڑے گا۔ اور اگر قیامت قائم ہوئی تو اس کے وارے نیارے ہوجائیں گے۔ سب احوال قیامت اس کی توقع کے مطابق اس کے لئے خوشی کا باعث ہوں گے کیونکہ اس نے روز آخرت کے احوال کو ملحوظ رکھ کر ہی زندگی گزاری تھی۔ اب اس کے مقابل کافر کا انجام یہ ہے کہ اس کی توقع کے خلاف قیامت قائم ہوگئی۔ تو اسے ایسے مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا جو اس کے کبھی وہم وخیال میں نہ آیا ہوگا۔ دنیا تو ان دونوں کی ایک جیسی گزری۔ دونوں کو اس دنیا میں راحت بھی نصیب ہوئی اور غم بھی۔ برے دن بھی آئے اور بھلے بھی۔ دنیا میں نہ اس بات کی ضمانت ہے کہ آخرت پر ایمان نہ رکھنے والا بہرحال آسودہ اور خوشحال رہے گا اور نہ ہی ضروری ہے کہ ایماندار ساری زندگی مشکلات میں ہی گزارے۔ لیکن انجام بہرحال آخرت پر ایمان رکھنے والے کا بہتر ہوگا۔ روز آخرت پر ایمان رکھنے کی افادیت پر یہ ایک ایسی عقلی دلیل ہے جس کا کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ الفرقان
16 [٢٠] ایمانداروں اور پرہیزگاروں سے اللہ کا یہ حتمی وعدہ ہے کہ وہ انہیں جنت عطا فرمائے گا۔ اس جنت میں وہ جو کچھ بھی خواہش کریں گے انھیں مہیا کی جائے گی اور وہ ہمیشہ ہمیشہ اس جنت میں قیام پذیر رہیں گے۔ یہ ایک ہی وعدہ کے تین اجزاء ہوئے اور اس وعدہ کے سلسلہ میں مسلمانوں کو ہدایت کی جا رہی ہے کہ وہ اس کے لئے اللہ سے دعا مانگتے رہا کریں اور جنت کا مطالبہ کرتے رہا کریں۔ جیسا کہ مسلمانوں کو یہ دعا سکھلائی گئی۔﴿ رَبَّنَا وَآتِنَا مَا وَعَدتَّنَا عَلَىٰ رُسُلِكَ﴾ الفرقان
17 الفرقان
18 [٢١] من دون اللہ سے مرادصرف بت نہ ہونے کی وجوہ:۔ یعنی معبودوں کو بھی اور ان کی عبادت کرنے والوں کو بھی سب کو آمنے سامنے لا اکٹھا کرے گا۔ اور اللہ تعالیٰ پہلے معبودوں کو ہی مخاطب کرکے پوچھیں گے کہ ” کیا تم نے میرے ان بندوں کو کہا تھا کہ ہم تمہارے مشکل کشا اور حاجت روا ہیں۔ لہٰذ ا ہمارے ہاں نذرانے پیش کیا کرو۔ ہم قیامت کے دن تمہیں اللہ سے بخشوا لیں گے“ یا ان عبادت گزاروں اور تمہارے عقیدت مندوں نے خود ہی ایسے عقیدے گھڑ لئے تھے؟ اس سوال کے جواب میں معبود حضرات کہیں گے کہ یا اللہ!” ہم تو خود تجھے ہی اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے رہے تیرے ہی سامنے اپنی حاجتیں پیش کرتے رہے۔ تیرے حضور ہی جھکتے اور نذریں نیازیں گزارتے رہے۔ تجھے ہی اپنا کارساز سمجھتے رہے۔ پھر بھلا ہم انہیں یہ کیسے کہہ سکتے تھے کہ اللہ کو چھوڑ کر تم ہمیں یا کسی دوسرے کو اپنا کارساز بنالو“ اس سوال و جواب سے واضح طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں معبودوں سے مراد بت نہیں۔ کیونکہ بے جان کا اللہ کو کارساز بنانے کا کچھ مطلب ہی نہیں۔ ایسے سوال و جواب اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام سے بھی کریں گے۔ جنہیں نصاریٰ نے اپنا معبود بنا رکھا ہے۔ (سورہ مائدہ آیت نمبر ١١٦ تا ١١٨) اسی طرح آگے سورۃ سبا کی آیات نمبر ٤١، ٤٢ میں مذکور ہے کہ ایسا ہی سوال و جواب فرشتوں سے بھی ہوگا جن کی پوجا کی جاتی رہی ہے۔ رہی یہ بات کہ عموماً ” ما“ کا لفظ غیر ذوی العقول کے لئے آتا ہے اور ذوی العقول کے لئے ”من“کا لفظ آتا ہے تو یہ کوئی ایسا کلیہ نہیں جس پر استثناء نہ ہو یہ ذوی العقول کے لئے آسکتا ہے جیسے ﴿إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُم﴾ ( ٢٣: ٦) اور استفہامہ ہونے کی صورت میں بھی آسکتا ہے جیسے مازید بمعنی زید کیا ہے؟(منجد) [ ٢٢]قیامت کے دن مطیع ومطاع کامکالمہ اور ایک دوسرے پرا لزام :۔ معبود اپنی بریت کا اظہار کرنے کے بعد کہیں گے کہ ان کے گمراہ ہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ بدبخت خود ہی گمراہ اور تباہ ہونا چاہتے تھے جس کا ظاہری سبب یہ بن گیا کہ تو نے انھیں اور ان کے آباء واجداد کو عیش و آرام دیا تھا۔ یہ لوگ بس اسی عیش و آرام میں پڑ کر اور غفلت کے نشہ میں چور ہو کر تیری یاد سے بے نیاز ہوگئے۔ کسی نصیحت پر کان نہ دھرا۔ پیغمبروں کی ہدایت سے آنکھیں بند کرلیں۔ تو نے ان پر جس قدر زیادہ مہربانیاں کیں اتنے ہی یہ نمک حرام ثابت ہوئے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ وہ ان نعمتوں پر تیرا شکر ادا کرتے۔ مگر یہ الٹے متکبر بن کر کفر و عصیاں پر تل گئے۔ الفرقان
19 [٢٣] یعنی آج تم یہ کہتے ہو کہ اگر قیامت ہوئی بھی تو تمہارے یہ معبود وہاں بھی تمہارے کام آئیں گے اور اگر عذاب کی کوئی بات ہوئی تو یہ چھڑا لیں گے۔ مگر اس دن تمہارے یہی معبود جن کی اعانت پر تمہیں بھروسا تھا۔ تم سے علانیہ بیزاری کا اظہار کریں گے۔ اور یہ کہہ کر تمہیں جھٹلا دیں گے کہ ہم نے کب ان سے کہا تھا کہ تم ہماری عبادت کیا کرنا۔ اس طرح معبود تو بری الذمہ ہوجائیں گے اور سارا بوجھ ان کے عبادت کرنے والوں پر پڑجائے گا جن کی عذاب سے رہائی کی کوئی صورت نہ ہوگی۔ [ ٢٤]ظلم کالغوی مفہوم :۔ ظلم کا لفظ عدل کی ضد ہے۔ اور اس کا اطلاق تو ہر بے انصافی کی بات اور غیر معقول بات پر ہوسکتا ہے۔ نبی کی دعوت کو جھٹلانا، اسلام کی راہ سے روکنا، ایمان لانے والوں کو ایذائیں پہنچانا، انھیں پریشان کرنا یا ان کا تمسخر اڑانا، بتوں یا دوسرے معبودوں کی عبادت کرنا یا انھیں حاجت کے لئے پکارنا، آخرت کے عذاب و ثواب سے انکار کرنا سب ظلم کی ہی قسمیں ہیں اور ان کاموں کا ارتکاب کرنے والے سب ظالم ہیں۔ الفرقان
20 [٢٥] یہ کافروں کے اس اعتراض کا جواب ہے۔ جس کا ذکر اسی سورہ کی آیت نمبر ۷ میں ہوا ہے۔ کفار مکہ کا یہ اعتراض محض کٹ جحتی کے طور پر تھا۔ ورنہ وہ خوب جانتے تھے کہ حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام سب کے سب انسان ہی تھے۔ حوائج بشریہ ان کے ساتھ لگی ہوئی تھیں۔ اور وہ اپنی زندگی کی بقاء کے لئے کھاتے پیتے بھی تھے۔ اور کسب معاش یا خرید و فروخت کی خاطر وہ بازاروں میں چلتے پھرتے بھی تھے۔ ان سب باتوں کے باوجود لوگ انہیں رسول تسلیم کرتے تھے۔ کھاناکھانا یا بازاروں میں چلنا پھرنا بزرگی یا نبوت کے منافی نہیں ہے ،پھر آخر اس رسول پر ان کا یہ اعتراض کس لحاظ سے درست ہے۔ [ ٢٦] نبی کے ذریعہ سب افرادقوم کی آزمائش کیسے ہوتی ہے؟ یعنی اللہ تعالیٰ اپنا رسول بھیج کر سب لوگوں کو آزمائش میں ڈال کر ہر ایک کو خوب جانچتا ہے۔ ایمان لانے والوں کو بھی اور کافروں کو بھی۔ ایمان والوں میں سے سب سے زیادہ سخت آزمائش تو خود رسولوں کی ہوتی ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اشد البلاء علی الانبیاء ثم الامثل فالا مثل یعنی سب سے سخت آزمائش نبیوں کی ہوئی ہے پھر اس کے قریبی مومنوں کی پھر اگلے درجہ کے مومنوں کی۔ نبی کی دعوت پر مخالفت کا ایک طوفان اٹھ کھرا ہوتا ہے اور ابتداًء نبی کی دعوت پر ایمان لانے والے عموماً معاشرہ کے ظلم و ستم سے عاجز آئے ہوئے اور ستائے ہوئے کمزور قسم کے لوگ بھی ہوتے ہیں۔ ان کی اس معرکہ حق و باطل میں خوب آزمائش ہوتی ہے تاآنکہ ہر ایک کو معلوم ہوجاتا ہے کہ فلاں ایماندار اپنے دعویٰ میں کس قدر پختہ ہے۔ اور منافقوں کی بھی چھانٹی ہوتی رہتی ہے اور کافروں کا امتحان اس طرح ہوتا ہے کہ انہی میں سے دنیوی مال و دولت اور جاو و حشم کے لحاظ سے ایک کمتر درجہ کا شخص نبوت کا دعویٰ کرتا ہے اپنی دعوت پر عقلی اور نقلی دلائل پیش کرتا ہے۔ تو کیا وہ اپنی نخوت اور اپنا انا کو چھوڑ کر حق کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہوتا ہے یا نہیں؟ اگر کوئی رسول کی دعوت کا انکار کرتا ہے تو کس قدر سرکشی اور بغاوت کی راہ اختیار کرتا ہے۔ گویا ایک نبی کی دعوت پر حق و باطل کا معرکہ ایک ایسی بھٹی ہے جو اللہ تعالیٰ کی عین مشیت کے مطابق ہے اور اس میں کئی حکمتیں مضمر ہیں اور اس بھٹی سے قوم کے ایک ایک فرد کی آزمائش ہوجاتی ہے۔ [ ٢٧] یہ خطاب صرف مسلمانوں کو ہے یعنی تمہاری آزمائش یہ ہے کہ آیا تم لوگ ان کافروں کے ناجائز اعتراضات ، ان کے استہزء اور ان کی طرف سے پہنچنے والی ایذاؤں پر صبر کرتے ہو جبکہ اس میں تمہارے لئے کئی قسم کی مصلحتیں اور حکمتیں موجود ہیں؟ [ ٢٨] اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ تمہارے پروردگار نے سب کو جو آزمائش میں ڈالا ہے تو اس کی مصلحتوں کو دیکھ کر ہی ڈالا ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ معرکہ حق و باطل میں جو لوگ حق کا ساتھ دے رہے ہیں انہیں بھی دیکھ رہا ہے اور جو اس کی راہ میں روک بن کر کھڑے ہوگئے ہیں انھیں بھی اور ان کی کارستانیوں کو بھی اچھی طرح دیکھ رہا ہے۔ الفرقان
21 [٢٩] کفار کامطالبہ کہ فرشتے ہم پر نازل ہوں :۔ کفار مکہ کے لغو قسم کے مطالبات میں سے ایک یہ بھی تھا کہ جیسے تم پر فرشتہ نازل ہوتا ہے ایسے ہی ہم میں سے ہر ایک پر فرشتہ اترنا چاہئے۔ تاکہ ہمیں پورا یقین ہوجائے کہ جو کچھ تمہاری دعوت ہے وہ درست ہے اور اگر یہ نہیں ہوسکتا تو ہم کم از کم اپنے رب کو ہی دیکھ لیں۔ جو ہمیں ایک دفعہ یہ کہہ دے کہ میں فلاں شخص کو رسول بناکر بھیج رہا ہوں اور تمہیں اس پر ایمان لے آنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان کے یہ مطالبات اس لئے نہیں ہیں کہ اگر ان کی یہ بات پوری ہوجائے تو یہ ایمان لانے کو بالکل تیار بیٹھے ہیں بلکہ یہ لوگ ایسی بکواس اس لئے کر رہے ہیں کہ انہیں یہ یقین نہیں ہے کہ مرنے کے بعد انییں ہمارے حصور پیش ہونا ہے۔ اگر انہیں اس بات کا یقین ہوتا تو کبھی ایسی باتیں نہ بناتے۔ [ ٣٠] یعنی ہم نے جو ان کو مال و دولت کی فراوانی اور آسودگی عطا کی ہے تو یہ اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھنے لگے ہیں۔ وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اگر فرشتہ اس شخص پر جو ان کے خیال کے مطابق ان سے کم درجہ کا آدمی ہے، نازل ہوسکتا ہے تو آخر ہم لوگوں پر کیوں نازل نہیں ہوسکتا، یا پھر ہمیں خود اللہ تعالیٰ ان باتوں کی یقین دہانی کرائے۔ اس شخص کی باتوں پر آخر ہم لوگ کیسے یقین کرلیں؟ الفرقان
22 [٣١] ان کے فرشتوں کے دیکھنے کی تین ہی صورتیں ہوسکتی ہیں۔ دو دنیا میں اور ایک آخرت میں۔ دنیا میں ایسے لوگ اس وقت فرشتوں کو بچشم خود دیکھ لیتے ہیں جب وہ ان پر قہر الہٰی اور عذاب الہٰی لے کر نازل ہوتے ہیں۔ دوسرے اس وقت جب وہ ان کی جانیں نکالنے کے لئے ان کے پاس آئیں گے اور قیامت میں تو یہ ہر وقت ہی فرشتوں کو دیکھا کریں گے۔ جو بھی وقت اور جو بھی صورت ہو، ان کے لئے کوئی خوشی کی بات نہ ہوگی بلکہ جب بھی وہ ان کے پاس آئیں گے قہر الہٰی بن کر ہی آئیں گے۔ [ ٣٢]فرشتوں کودیکھنے کی تین صورتیں :۔ یہ محاورہ ہے۔ حجارۃبمعنی پتھر اور حجر ہر اس چیز کو کہتے ہیں کہ جو پتھر کی طرح سخت بھی ہو اور روک یا آڑ کا کام بھی دے۔ اہل عرب کی عادت تھی کہ جب اپنے کسی دشمن کو، جس سے انہیں تکلیف پہنچنے کا خطرہ ہوتا، دیکھ کر، یا کسی دوسری آفت کو دیکھ کر حجرا محجورا کہنے لگتے۔ جیسے ہم کہتے ہیں ”اس سے اللہ کی پناہ“ ” یا“اللہ اس سے ہمیں بچائے“ تو سننے والا عموماً یہ قول سن کر تکلیف نہیں پہنچاتا تھا۔ ایسے مجرمین بھی جس دن فرشتوں کو دیکھیں گے تو یہی الفاظ بول کر ان سے پناہ مانگیں گے لیکن اس دن انھیں کوئی پناہ نہ مل سکے گی۔ الفرقان
23 [٣٣] کافروں کوان کے اچھے اعمال کا بدلہ کیوں نہیں ملے گا؟ کفار مکہ مسلمانوں سے کہا کرتے تھے کہ گر تم کچھ اچھے کام کرتے ہو تو ہم بھی بہت سے اچھے کام کرتے ہیں۔ ہم حاجیوں کی خبرگیری کرتے ہیں۔ انھیں پانی پلانے کا انتظام کرتے ہیں۔ ان کی امداد کرتے ہیں۔ غریبوں مسکینوں اور بیواؤں کے لئے فنڈ اکٹھا کرتے ہیں اور انہیں وظیفے دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہاں کافروں کے ایسے ہی اچھے اعمال کا ذکر کرکے اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ ہم ان کے ایسے اعمال کی طرف بڑھیں گے تو انھیں اڑتا غبار بنا دیں گے۔ وجہ یہ ہے کہ انہوں نے یہ اعمال اس غرض سے تو کئے ہی نہیں تھے کہ ان کو آخرت میں ان کا بدلہ ملے۔ کیونکہ وہ آخرت پر تو یقین ہی نہیں رکھتے تھے۔ ان کے اعمال کی کچھ بنیاد ہی نہ تھی۔ جس پر وہ قائم رہ سکتے۔ دنیا میں اگر انہوں نے کچھ اچھے اعمال کئے تھے۔ تو صرف اس غرض سے کہ لوگ انہیں اچھا سمجھیں اور اچھا کہیں اور یہ کام دنیا میں ہوچکا۔ ان کے اچھے اعمال کا بدلہ انھیں دنیا میں مل چکا۔ آخرت میں ان کو اب کیا ملے گا ؟ اسی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے سورہ کہف میں یوں بیان فرمایا : ﴿فَلَا نُقِیْمُ لَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَزْنًا ﴾(۱۰۵:۱۸) یعنی ہم ایسے لوگوں کے لئے میزان الاعمال رکھیں گے ہی نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ان کے اچھے عمل تو اڑتا ہوا غبار بن گئے۔ اب نیکیوں کے پلڑے میں رکھنے کے لئے کیا چیز باقی رہ گئی کہ ان کے لئے میزان رکھی جائے۔ الفرقان
24 [٣٤] قیامت کا دن ہمارے موجودہ حساب سے پچاس ہزار سال کا دن ہے۔ اس دن کی بھی، دوپہر اور شام ہوگی۔ حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دوپہر سے پہلے پہلے لوگوں کے حساب کتاب سے فارغ ہوجائیں گے۔ اہل جنت، جنت میں اور اہل دوزخ، دوزخ میں چلے جائیں گے اور اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل جنت دوپہر کے بعد جنت میں ہی جاکر سوئیں گے۔ کیونکہ قیولہ دوپہر کے بعد سونے کو اور مقیلاً دوپہر کے بعد سونے کی جگہ کو کہتے ہیں۔ نیز حدیث میں آیا ہے کہ مومنوں یا اہل جنت کو یہ پچاس ہزار سال کا دن ایسا ہلکا محسوس ہوگا جیسے کسی فرض نماز کا وقت ہوتا ہے۔ ( بیہقی۔ بحوالہ مشکوۃ۔ کتاب الفتن۔ باب الحساب والقصاص والمیزان ۔فصل الثالث) الفرقان
25 [٣٥]آسمان وزمین جیسے پہلے دھواں اور گڈ مڈ تھے قیامت کو ویسےہی ہوجائیں گے :۔ اس آیت کا ایک مطلب تو وہی ہے جو ترجمہ سے ظاہر ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جس مادہ سے آسمانوں کی تخلیق ہوئی تھی وہ پھر اسی مادہ میں واپس لوٹا دیئے جائیں گے۔ سورہ فصلت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ ثُمَّ اسْتَوٰٓی اِلَی السَّمَاءِ وَہِیَ دُخَانٌ ﴾ (۱۱:۴۱)”پھر اللہ تعالیٰ سماء ( بلندی) کی طرف متوجہ ہوا اور اس وقت وہ صرف دھواں تھا۔ “اور دوسرے مقام پر فرمایا : آسمان اور زمین سب کچھ گڈ مڈجمے اور جڑے ہوئے تھے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں کھول کر الگ الگ کردیا۔ (٢١: ٣٠) پہلے ابتداً صرف دھواں ہی دھواں یا گیسوں کا مجموعہ تھا۔ اسی سے اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان بنائے۔ اور قیامت کو یہ آسمان اسی طرح دھوئیں میں تبدیل کردیئے جائیں گے جو بادلوں کی شکل اختیار کرلے گا۔ اسی بادل میں سے فرشتے میدان محشر کی طرف جوق در جوق اتارے جائیں گے۔ الفرقان
26 [٣٦]سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو حشر میں سب سےپہلے لباس پہنایاجائےگا:۔ قیامت کے دن اللہ اکیلے کی فرمانبرداری اور بادشاہی ہوگی اور سب انسان بالکل برہنہ قبروں سے اٹھا کھڑے کئے جائیں گے چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” لوگ ( قیامت کے دن) ننگے پاؤں، ننگے بدن حشر کئے جاؤ گے۔“ میں نے کہا: یارسول اللہ! اس طرح تو مرد اور عورت سب ایک دوسرے کے ستر کو دیکھیں گے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عائشہ رضی اللہ عنہا ! قیامت کا معاملہ ایسے خیالوں سے شدید تر ہوگا۔ (بخاری۔ کتاب الرقاق۔ باب کیف الحشر) اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم لوگوں کو خطبہ سنانے کھڑے ہوئے اور فرمایا : تم لوگ ننگے پاؤں، ننگے بدن حشر کئے جاؤ گے۔ جیسے ( اللہ تعالیٰ نے قرآن میں) فرمایا جس طرح تمہیں شروع میں پیدا کیا اسی طرح دوبارہ بھی پیدا کرے گا۔ اور تمام مخلوق میں جسے سب سے پہلے لباس پہنایا جائے گا وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہوں گے۔“ (بخاری۔ کتاب الرقاق۔ باب کیف الحشر ) اب دیکھئے جہاں یہ صورت حال ہو ہر کسی کو اپنی اپنی ہی پڑی ہو تو کسی کو بادشاہی کا خیال آسکتا ہے اور دنیا کے بادشاہ تو اور بھی سخت حالت میں ہوں گے۔ [ ٣٧] جس طرح مومن کے لئے قیامت کے دن کی مدت انتہائی مختصر اور آسان بنا دی جائے گی اتنی ہی کافر کے لئے یہ مدت طویل اور سخت تر ہوگی۔ کیونکہ دنیا میں بھی یہ چیز تجربہ شدہ ہے کہ مصیبت کے چند لمحات اتنے طویل تر اور شدید تر معلوم ہوتے ہیں جیسے کئی سالوں سے وہ یہ دکھ سہہ رہے ہیں۔ الفرقان
27 الفرقان
28 [٣٨] جب کافر مومنوں سے اللہ تعالیٰ کا حسن سلوک دیکھے گا وہی مومن جنہیں وہ حقیر مخلوق سمجھ کر ایذائیں پہنچایا کرتا تھا تو حسرت و ندامت سے اس کے منہ سے یہ الفاظ نکل جائیں کہ کاش میں نے بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا ہوتا تو یہ سخت وقت نہ دیکھنا پڑتا۔ کاش میں نے کچھ اپنی بصیرت سے کام لیا ہوتا اور محض دوسروں کا آلہ کار بن کر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت نہ کی ہوتی۔ الفرقان
29 [٣٩] خذول کا لغوی مفہوم :۔ خذول بمعنی کسی کی مدد نہ کرنا بلکہ مدد کے وقت ساتھ چھوڑ جانا اور خذول ایسے دوست کو کہتے ہیں جو زبانی تو دوستی کے بہت دعوے کرتا اور دم بھرتا ہو لیکن مصیبت کے وقت ساتھ چھوڑ کر چلا جائے۔ دغا دینے والا دوست۔ اور شیطان کے لئے یہ لفظ بالکل راس آتا ہے۔ کیونکہ وہ ہمیشہ انسان کو سبز باغ دکھا کر اور خوشنما وعدے دے کر اسے گمراہ کرتا ہے۔ پھر مشکل وقت پڑنے پر دنیا میں بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے اور آخرت میں بھی وہ یہی کام کرے گا اور یہی خصلت شیطان کے دوستوں یا شیطان سیرت انسان کی بھی ہوتی ہے۔ الفرقان
30 [ ٤٠]مسلمانوں کے قرآن کو پس پشت ڈالنےکےمختلف پہلو:۔ مھجورا کا مادہ ھ ج رہے اب اگر اس لفظ کو ھجر (ھجرا )سے مفعول تسلیم کیا جائے تو مھجورا کا معنی ایسی مہمل گفتگو ہے جو کوئی شخص بیماری یا خواب یا نیم خوابی یا بے ہوشی کی حالت میں کرتا ہے یعنی بڑبڑاہٹ یا ہذیان۔ پھر چونکہ ایسی باتیں ہنسی مذاق کا باعث ہوتی ہیں لہٰذ اس کا مطلب قرآن کی آیات کا ہنسی استہزاء اور مذاق اڑانا ہوگا اور قرآن کو نشانہ تضحیک بنانا جیسا کہ کفار مکہ کا معمول تھا۔ اور اگر اس لفظ کو ھجر (ھجرا ) سے مفعول تسلیم کیا جائے تو اس کا معنی قرآن کو متروک العمل سمجھنا اور اسے پس پشت ڈال دینا ہوگا۔ جیسا کہ آج کل کے مسلمان کیا عوام اور کیا علماء سب کے سب اس جرم کے مجرم ہیں۔ علماء کی قرآن سے غفلت کا یہ حال ہے کہ ہمارے دینی مدارس میں جو درس نظامی رائج ہے اس میں قرآن کریم کو ترجمہ و تفسیر کی باری آخری سال ہی آتی ہے اور کبھی وہ بھی نہیں آتی۔ کسی مدرسہ میں چھ سالہ کو رس ہے، کسی میں سات کسی میں آٹھ اور کسی میں نو سال تک نصاب ہے۔ اور اس طویل مدت کا بیشتر حصہ قرآن کو سمجھنے کے لئے امدادی علوم کی تعلیم و تدریس پر صرف کردیا جاتا ہے۔ ابتدائی تین چار سال صرف و نحو، منطق یا اخلاقیات و غیرہ ۔ بعد میں فقہ اور حدیث اور آخری سال میں قرآن، گویا ساری توجہ اور محنت بنیادی باتوں میں صرف کردی جاتی ہے اور طالب علموں کو قرآن پڑھنے کا اگر وقت مل جائے تو ان کی خوش قسمتی ہے ورنہ اکثر حالات میں نہیں ملتا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ علماء نے عوام کو یہ بات ذہین نشین کرا رکھی ہے کہ قرآن کریم ایک انتہائی مشکل کتاب ہے۔ اسی لئے اس کی تدریس سب سے آخری سال رکھی جاتی ہے۔ حالانکہ قرآن کا دعویٰ اس نظریہ کے بالکل برعکس ہے اور تجربہ و مشاہد ہ ہے کہ ایک معمولی لکھا پڑھا آدمی کسی ترجمہ والے قرآن کے مطالعہ سے جو سادہ اور سیدھی سادی سمجھ حاصل کرتا ہے۔ وہ اس سمجھ سے بدرجہا بہتر ہوتی ہے۔ جو فرقہ پرست اور مقلد حضرات کسی طالب علم کو پہلے اپنے مسلک کی فقہ پڑھا کر ذہین نشین کرانا چاہتے ہیں۔ یہ تو علماء کا قرآن پر ظلم ہوا اور عوام کا ظلم یہ ہے کہ انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ قرآن بس ایک عملیات کی کتاب ہے اور اس میں ہماری دینی اور دنیوی سب طرح کی تکلیفوں کا حل موجود ہے مگر ضرورت انہیں صرف دنیوی تکلیفوں کے دور کرنے کی ہوتی ہے۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے کچھ تجربے بھی کر رکھے ہیں مثلاً اس کی فلاں آیت کی تسبیحات نکالنے سے فلاں تکلیف دور ہوتی ہے اور فلاں سورت کی زکات نکالنے سے فلاں فلاں مقاصد حاصل ہوتے ہیں۔ پھر قرآن کو بطور تعظیم ریشمی غلافوں میں لپیٹ کر مکان کے کسی اوپر والے طاقچے میں رکھ دیا جاتا ہے۔ یا پھر مرنے والے انسان پریسٰں پڑھائی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں کبھی کبھی قسم اٹھانے کے کام آتا ہے۔ نزول قرآن کی اصل غرض و غایت تو یہ تھی کہ انسان اس سے ہدایت حاصل کرے تو اس بنیادی مقصد کے لحاظ سے فی الحقیقت قرآن آج متروک العمل ہوچکا ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے حضور یہی شکایت کریں گے۔ الفرقان
31 [٤١] یعنی نبی کی بعثت کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ رسول کی اطاعت کریں۔ اب جو لوگ پہلے سے مطاع بنے بیٹھے ہوتے ہیں۔ وہ بھلا یہ کیسے برداشت کرسکتے ہیں کہ جو لوگ پہلے ان کے فرمانبردار و اطاعت گزار تھے وہ انہیں چھوڑ کر یا ان کے ساتھ کسی دوسرے کی بھی اطاعت کرنے لگیں۔ بالفاظ دیگر معاشرہ کے آسودہ حال لوگ یا ایسے لوگ جن کا عوام پر کسی نہ کسی طرح کا اثر اور بالادستی ہوتی ہے اس نبی کو اپنا رقیب سمجھ کر اس کی مخالفت پر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ایسے ہی مجرموں کا ذکر قرآن نے بعض مقامات پر مترفین کے لفظ سے کیا ہے اور بعض مقامات پر ملأ کے لفظ سے اور چونکہ ایسے لوگوں کی تعداد کافی ہوتی ہے۔ لہٰذ انبی کی دعوت دراصل بھڑوں کے چھتے کو چھیڑنے کے مترادف ہوتی ہے۔ دعوت کے آغاز میں ہی معرکہ حق و باطل شروع ہوجاتا ہے اور دنیا کے یہ خونخوار کتے سینہ تان کر نبی کے مقابلہ میں آن کھڑے ہوتے ہیں۔ [ ٤٢] یعنی اس معرکہ حق و باطل میں حالات جونسا رخ اختیار کرتے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی اپنے نبی اور اس کے پیروکاروں کو ہدایات بھی دیتا جاتا ہے کہ اب انہیں یوں کرنا چاہئے اور اس سے اگلا قدم اس طرح اٹھنا چاہئے پھر وہ صرف ہدایات اور احکام پر ہی اکتفا نہیں کرتا۔ بلکہ ان کافروں کی طاقتور جماعت کے مقابلہ میں ایمانداروں کی مدد بھی فرماتا ہے اور ایسے طریقوں سے مدد فرماتا ہے جس کا پہلے سے مسلمانوں کو وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔ کیونکہ تمام ظاہری اور باطنی اسباب اللہ تعالیٰ کی قبضہ قدرت میں ہوتے ہیں۔ وہ حالات ہی ایسے پیدا کردیتا ہے جو مسلمانوں کے حق میں مفید ہوتے ہیں اور کافروں کا کچومر نکال دیتے ہیں۔ گویا اللہ تعالیٰ نے جہاں یہ اطلاع دی کہ نبی کے دشمن پیدا ہوتے رہے ہیں ساتھ ہی یہ خبر بھی دے دی کہ اللہ اپنے نبی اور اس پر ایمان لانے والے مسلمانوں کو دشمنوں کے حوالے نہیں کردیتا بلکہ انہیں بروقت ہدایات بھی دیتا اور پھر ان کی مدد بھی کرتا ہے۔ الفرقان
32 [٤٣]کفار کا اعتراض کہ قرآن یکبارگی کیوں نازل نہیں ہوا؟ کفار کے اعتراض کے الفاظ تو یہی ہوتے تھے لیکن وہ ان الفاظ سے مطلب کچھ اور ہی لیتے تھے جو یہ تھا کہ یہ نبی جیسے جیسے حالات رخ اختیار کرتے ہیں ساتھ کے ساتھ یہ قرآن کو تصنیف کرتا جاتا ہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ کو تو آنے والے حالات کا پہلے سے ہی علم ہے۔ اگر قرآن اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہوتا۔ تو اس میں ہر قسم کے حالات کے مطابق احکام یکبارگی بھی نازل ہوسکتے تھے۔ یہ اعتراض کرکے وہ گویا اللہ، اس کے رسول اور اس کے قرآن سب کی تکذیب اور ان پر افترا کرتے تھے۔ الفرقان
33 [٤٤] قرآن کےبتدریج ہونے کےفوائد :۔ کفار نے یہ اعتراض متعدد بار کیا اور مختلف مقامات پر قرآن نے اس اعتراض کا جواب دیا ہے۔ اس مقام پر قرآن کو بتدریج نازل کرنے کے تین فوائد بتائے گئے ہیں۔ ١۔ نبی کی دعوت پر جو معرکہ حق و باطل بپا ہوتا ہے اور جس طرح باطل ہجوم کرکے حق پر ایک دم ٹوٹ پڑتا ہے تو یہ معرکہ کوئی ایک دو دن کا قصہ نہیں ہوتا بلکہ نبی کی پوری زندگی کو محیط ہوتا ہے۔ اور جب بھی حالات مسلمانوں کے لئے حوصلہ شکن ہوتے ہیں تو انہیں تسلی دینے اور ان کی ڈھارس بندھانے کی ضرورت پیش آتی ہے اور ایک ہی دفعہ حوصلہ افزائی خواہ کتنی ہی کی جائے۔ وہ فائدہ نہیں دے سکتی۔ جو فائدہ ساتھ کے ساتھ اور بارہا حوصلہ افزائی کا ہوتا ہے۔ ٢۔ قرآن کو حفظ کرنا، اسے سمجھنا اور اس پر عمل پیرا ہو کر اپنی پوری طرز زندگی میں تبدیلی پیدا کرنا اسی صورت میں ممکن تھا کہ قرآن کریم بتدریج نازل ہوتا۔ قرآن کو بتدریج نازل کرنے سے یہ فائدہ حاصل ہوا کہ ہر ایمان لانے والے کو یہ معلوم ہے کہ فلاں آیت یا فلاں سورت کا شان نزول کیا تھا اور کس طرح کے پس منظر میں یہ نازل ہوئی تھی۔ نیز اگر کوئی شخص قرآن کی کسی آیت یا اس کے کسی مفہوم کو غلط معنی پہناتا تو قرآن ساتھ کے ساتھ نازل ہو کر اس مفہوم کی تردید کرکے صحیح تعبیر پیش کردیتا ہے۔ علاوہ ازیں معاشرہ سے برائیوں مثلاً شراب نوشی، لوٹ مار، قتل و غارت، بے حیائی، زنا اور سود کے استیصال کے لئے سب احکام ایک دفعہ نازل کئے جاتے تو ان پر عمل پیرا ہونا بہت مشکل ہوجاتا اور لوگ سرے سے نبی پر ایمان لانے اور اس کی اطاعت کرنے سے دستبردار ہوجاتے۔ ٣۔ تیسرا فائدہ جو اگلی آیت میں مذکور ہے یہ ہے کہ کافر جس قسم کے آپ پر اعتراضات کرتے ہیں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبات کرتے رہتے ہیں۔ ہم ساتھ کے ساتھ ان اعتراضات کے واضح اور مدلل جوابات دیتے جاتے ہیں۔ اب یہ کیا تک ہے کہ اعتراضات تو بعد میں ہوں اور ان کے جوابات پہلے ہی یکبارگی نازل کردیئے جائیں۔ اور اگر ہم ایسا کرتے ہیں بھی یہ لوگ ان جوابات پر کئی طرح کے اعتراضات کرنا شروع کردیتے۔ الفرقان
34 [٤٥] یعنی کافروں کے اس قسم کے اعتراضات کرنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان کی عقلیں اوندھی ہوچکی ہیں۔ جو سیدھی سادی باتوں پر غور کرنے کے لئے آمادہ ہی نہیں ہوتیں لہٰذ ا ہم قیامت کے دن اوندھے منہ جہنم کی طرف چلا کرلے جائیں گے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا :” یانبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن کافر اپنے منہ کے بل حشر کئے جائیں گے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جس پروردگار نے انسان کو دو پاؤں پر چلایا ہے کیا وہ اسے قیامت کے دن منہ کے بل نہیں چلا سکتا۔“( بخاری۔ کتاب التفسیر ) الفرقان
35 [٤٦] یہاں کتاب سے مراد تورات نہیں کیونکہ تورات تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کوہ طور پر بلا کر اس وقت دی گئی تھی۔ جب بنی اسرائیل میدان تیہ میں قیام پذیر تھے۔ بلکہ اس سے مراد وہ منزل من اللہ ہدایات و احکام ہیں۔ جو آپ کو مصر سے خروج سے پہلے دی جاتی رہیں۔ ایسی ہی منزل من اللہ وحی کو اصطلاحی زبان وحی خفی یا سنت بھی کہتے ہیں اور ایسے احکام پر کتاب اللہ کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے۔ ایسی وحی یا سنت پر عمل کرنا ایسے ہی واجب ہے جیسے وحی جلی یا وحی متلو یا اللہ کی کتاب پر۔ الفرقان
36 [٤٧] یہاں آیات سے مراد غالباً وہ وحی تھی جو حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب اور حضرت یوسف علیہم السلام پر نازل ہوئی تھی کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام نے تو ان فرعونیوں کو ابھی اپنی طرف نازل شدہ کوئی وحی سنائی ہی نہ تھی۔ یا پھر آیت اللہ سے مراد کائنات میں ہر سو اللہ کی بکھری ہوئی نشانیاں ہیں جن سے غور و فکر کرنے والے اللہ کی معرفت حاصل کرسکتے ہیں۔ اور فرعون ایسی نشانیوں سے عبرت حاصل کرنے کے بجائے خود ہی خدائی کا دعویدار بن بیٹھا تھا۔ الفرقان
37 [٤٨] اس سے معلوم ہوا ہے کہ قوم نوح کی طرف حضرت نوح علیہ السلام سے پہلے بھی کچھ رسول آچکے تھے۔ جن کے قرآن میں نام مذکور نہیں ہیں یا اس کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ چونکہ اصول ِدین میں تمام انبیاء کی تعلیم ایک ہی رہی ہے تو اس لحاظ سے ایک رسول کو جھٹلانے سے از خود باقی سب رسولوں کی تکذیب ہوجاتی ہے۔ [ ٤٩] نشانی اس لحاظ سے کہ ان ظالموں کی روئے زمین پر نسل ہی ختم ہوگئی۔ طوفان نوح کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کی نسل صرف ان لوگوں سے چلی جو حضرت نوح علیہ السلام کے ہمراہ کشتی میں سوار تھے اور بعض کے نزدیک آئندہ نسل حضرت نوح علیہ السلام کے تین بیٹوں حام، سام اور یافث سے چلی۔ الفرقان
38 [٥٠] اصحاب الرس کون ہیں ؟ قوم عاد و ثمود کا ذکر تو قرآن میں بہت سے مقامات پر مذکور ہے مگر اصحاب الرس یا کنویں والوں کا ذکر صرف دو مقامات پر آیا ہے۔ ایک اسی جگہ اور دوسری سورۃ ق کی آیت نمبر ١٢ میں۔ ان مقامات پر ان کا ذکر اس قدر مختصر ہے جس سے ان کے حالات پر کچھ روشنی نہیں پڑتی۔ نہ ہی یہ معلوم ہوسکا ہے کہ ان کی طرف کون سا نبی مبعوث ہوا تھا۔ لغوی لحاظ سے رس بڑے کنوئیں کو کہتے ہیں۔ جس میں پانی وافر مقدار میں موجود ہو اسی وجہ سے اصحاب الرس کے بارے میں مفسرین میں کئی قسم کے اختلافات ہیں۔ زیادہ مشہور یہی بات ہے اس سے مراد اہل انطاکیہ ہیں۔ ان کی طرف حبیب نجار نبی مبعوث ہوئے تو انہوں نے انھیں جھٹلایا لیکن آپ بدستور انہیں اللہ کا پیغام پہنچاتے رہے۔ بالآخر ان لوگوں نے آپ کو مار کر کنوئیں میں ڈال دیا۔ اسی وجہ سے یہ اصحاب الرس کے لقب سے مشہور ہوئے پھر اللہ نے اس کنوئیں سمیت اس بستی کو زمین میں دھنسا دیا۔ واللہ اعلم بالصواب الفرقان
39 [٥١] ہر قوم کے متعلق ہمارا طریقہ یہی رہا کہ ان کی طرف نبی بھیجا گیا جس نے اس قوم کو سابقہ اقوام کے انجام سے متنبہ کیا۔ پھر انہیں مختلف انداز سے مثالیں دے دے کر سمجھایا گیا۔ پھر انہیں غور و فکر کے لئے مہلت بھی دی گئی۔ ان سب باتوں کے بعد بھی جب وہ اپنی ہٹ دھرمی پر اڑے رہے اور ان پر حجت قائم ہوگئی تو پھر ہم نے انہیں اس طرح تباہ کیا کہ ان کا نام و نشان نہ رہنے دیا۔ الفرقان
40 [٥٢] آخرت کے قائل اور منکر کا فرق :۔ اس سے مراد لوط (علیہ السلام) کی بستی یا سدوم کا علاقہ ہے۔ ان کفار مکہ کے جو تجارتی قافلے شام کی طرف جاتے اور واپس آتے ہیں تو یہ علاقہ ان کے راستہ میں پڑتا ہے اس علاقہ کی ویرانی اور خستہ حالی یہ کئی بار بچشم خود دیکھ چکے ہیں مگر یہ لوگ اس علاقہ کو محض ایک تماشائی کی حیثیت سے دیکھ کر آگے چلے جاتے ہیں۔ اس سے کچھ بھی عبرت حاصل نہیں کرتے اور ان کی یہ کیفیت محض اس لئے کہ یہ لوگ اللہ کے حضور پیش ہونے اور اپنے اعمال کی سزا پانے کا یقین ہی نہیں رکھتے۔ اور یہی وہ فرق ہے جو ایک آخرت کے منکراور آخرت پر یقین رکھنے والے میں ہوتا ہے۔ آخرت کا منکر ایسے مقامات کو محض ایک تماشائی کی حیثیت سے دیکھتا ہے جبکہ آخرت پر یقین رکھنے والا ایسے مقامات سے عبرت اور کئی سبق حاصل کرتا ہے۔ الفرقان
41 [٥٣] یہ کفار مکہ کیسے ہدایت حاصل کرسکتے ہیں جبکہ ان کا محبوب مشغلہ ہی یہ ہے کہ وہ آپ کو دیکھتے ہیں تو ایک دوسرے کو کہتے ہیں۔ اجی یہ ہیں وہ صاحب جو اپنے آپ کو اللہ کا رسول ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ کیا یہی شخص اللہ تعالیٰ کو اپنی ساری مخلوق میں سے رسالت کے لئے پسند آیا تھا ؟ اس کی حیثیت کو دیکھو اور اس کے بلند بانگ دعویٰ کودیکھو۔ کیا ہم اتنے ہی عقل کے اندھے ہیں کہ اس کے اس دعویٰ کو درست تسلیم کرلیں؟ الفرقان
42 [٥٤]کفار کی بوکھلاہٹ اور خود اپنی تردید :۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ جو کلام یہ پیش کرتا ہے اس میں جادو کا اثر ہوتا ہے۔ جو بڑے بڑوں کے قدم پھسلا سکتا ہے اور سننے والوں کو اپنا گرویدہ بنا سکتا ہے۔ اور اگر ہم لوگ پوری مستقل مزاجی اور ثابت قدمی سے اپنے باپ دادا کے دین پر جمے نہ رہتے تو اس نے تو کب سے ہمیں اپنے معبودوں سے برگشتہ کردیا ہوتا۔ اب دیکھئے اس نبی کی دعوت سے کچھ اس طرح بوکھلائے ہوئے تھے کہ خود ہی اپنی باتوں کی تردید بھی کرتے جاتے تھے۔ ایک طرف تو وہ یہ استہزاء کرتے تھے کہ آخر اس نبی میں کیا خوبی ہے کہ اللہ نے اسے ہی اپنی رسالت اور نبوت کے لئے منتخب کیا ہے؟ پھر ساتھ ہی یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ البتہ اس نبی میں یہ خوبی ضرور ہے کہ اس کا پیش کردہ کلام اس قدر پر تاثیر اور زور دار ہے۔ جس کا اثر ہر ایک کے دل کی گہرائیوں تک جا پہنچتا ہے وہ تو ہم ہی تھے جو اپنے دین پر ایسے پکے اور ثابت قدمی سے جمے رہے اور اس کے کلام کا اثر قبول نہیں کیا۔ ورنہ یہ سب کو اپنے دام تزویر میں پھنسا چکا ہوتا۔ قریش کی ان دو متضاد باتوں سے ضمناً چند باتیں معلوم ہوتی ہیں : ایک یہ کہ رسالت کے لئے جو خوبیاں درکار ہوتی ہیں وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں موجود تھیں۔ آپ اللہ کا کلام جس انداز میں پیش کرتے تھے اور اس کا نمونہ اپنی ذات سے پیش کرتے تھے وہ عام لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لئے بہت کافی تھا۔ دوسرے یہ کہ کفار دلائل کے میدان میں مات کھاچکے تھے۔ اب ان کا انکار محض ضد، ہٹ دھرمی اور تقلید آباء کی بنا پر تھا۔ الفرقان
43 [٥٥] خواہشات کی اتباع شرک کی ہی ایک قسم ہے :۔ جو شخص اللہ کے بجائے اپنی خواہش نفس کا بندہ یا غلام بن جائے اور اللہ کے احکام کے بجائے اپنی خواہش نفس کی بات ماننے کو ترجیح دے تو ایسے شخص کے راہ راست پر آنے کے امکانات ختم ہوجاتے ہیں، نہ ہی آپ ایسے ہوا پرستوں کو راہ راست پر لانے کی ذمہ داری اٹھا سکتے ہیں۔ قرآن کے انداز بیان سے جو بات فوراً ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے خواہش نفس کی اتباع بھی شرک کی اقسام میں سے ایک قسم ہے۔ اور خواہش نفس کی اتباع ایک ایسا عام مرض ہے جس میں کافر و مشرک تو درکنار، مومن و مسلم اور عوام و خواص سب ہی تقریباً مبتلا ہوتے ہیں۔ مثلاً عام لوگوں کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ شریعت کے احکام میں سے جو آسان اور ان کے من پسند ہوں ان پر تو عمل کرلیتے ہیں اور جو مشکل ہوں تو طبیعت کو گراں معلوم ہوتے ہوں انہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسے لوگ حقیقتاً شریعت کے متبع نہیں ہوتے بلکہ اپنی خواہشات کے متبع ہوتے ہیں اور خواص یا علماء کی اتباع ہوائے نفس یہ ہے کہ وہ اللہ کی آیات کی تاویل کرلیتے جو ان کی افتاد طبع ہو اور انہیں پسند ہو، بعض غلط استنباط کرکے اور غلط فتوے دے کر دنیا کا مال بٹورتے ہیں۔ پھر جو اور زیادہ ذہین طبع ہوتے ہیں وہ عوام میں کوئی بدعی عقیدہ رائج کرکے عوام کی توجہ کا مرکز بننا چاہتے ہیں اور نئے فرقہ کی بنیاد رکھ دیتے ہیں جس کی تہہ میں حب مال و جاہ میں سے کوئی نہ کوئی جذبہ کار فرما ہوتا ہے اور کافر جو انبیاء کی مخالفت پر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔تو ان کا بھی مقصود یہ ہوتا ہے کہ انہیں جو مقام معاشرہ میں حاصل ہے وہ ان سے چھن نہ جائے۔ اور مشرکوں کی اتباع خواہش کا تو پوچھنا ہی کیا۔ آج ایک پتھر اچھا معلوم ہواتو اسے پوجنے لگے کل دوسرا اس سے خوبصورت پتھر مل گیا تو پہلے کو چھوڑ کر اس کے آگے سر جھکا دیا۔ یا کسی شخص نے کسی ولی کے مزار سے متعلق کوئی کرامت یا حاجت روائی کا قصہ بیان کردیا تو اس کے مزار پر نذریں نیازیں دینا شروع کردیں۔ پھر کسی اس سے بڑے بزرگ کے مزار کے حالات سے متاثر ہوئے تو اپنی ساری نیاز مندیاں ادھر منتقل کردیں۔ غرضیکہ جس طرح انسانوں کی بے شمار اقسام ہیں۔ اسی طرح ان کی خواہش نفس اور اتباع کی بھی بے شمار اقسام ہیں اور رسول بھلا ان ہر طرح کے لوگوں کو راہ راست پر لانے کی ذمہ داری کیسے اٹھا سکتے ہیں؟ الفرقان
44 [٥٦]کافرمویشیوں سےبدترکیوں ہیں؟ ایسے انسانوں کی مویشیوں سے بدتر ہونے کی دو وجوہ ہیں ایک یہ کہ ہر مویشی اپنے پالنے والے کو خوب پہچانتا ہے اور اس کا وفادار اور فرمانبردار ہوتا ہے۔ اور اپنے مالک کے سامنے گردن جھکا دیتا ہے۔ اور اگر انہیں کھلا چھوڑ دیا جائے تو اپنے مالک کے گھر واپس آتے ہیں۔ لیکن حضرت انسان کا یہ حال ہے کہ وہ بات تسلیم کرنے کے باوجود کہ اس کا پروردگار اللہ تعالیٰ ہے۔ اپنی نیاز مندیوں اور نذروں نیازوں میں اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک بنالیتا ہے۔ اور اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ انسان کو اپنی آنکھوں اور کانوں سے اتنا ہی کام نہ لینا چاہئے۔ جتنا جانور لیتے ہیں۔ مثلاً بھیڑ بکریوں کا ریوڑ اپنے ہانکنے والے کو دیکھتا ہے اور اس کی آواز سنتا ہے۔ بھیڑ بکریاں بس اس کے اشارے پر چلتی ہیں انہیں یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ ہانکنے والا انھیں چرانے کے لئے لے جارہا ہے یا ذبح کرنے کے لئے۔ کیونکہ اللہ نے انہیں اتنی عقل نہیں دی کہ وہ قرائن سے آنے والے حال کا کچھ اندازہ کرسکیں لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایسی عقل و تمیز عطا کی ہے کہ وہ چرواہے اور قصائی میں امتیاز کرسکے لیکن اس کے باوجود جو شخص اپنے بھلے اور برے میں تمیزنہ کرسکے یا اسے یہ بھی معلوم نہ ہوسکے کون سے سیدھی راہ کی طرف بلا رہا ہے اور کون گمراہی کی تاریکیوں میں دھکیل رہا ہے؟ اس کا دوست کون ہوسکتا ہے اور دشمن کون؟ تو ایسے انسان واقعی جانوروں سے بدتر ہوتے ہیں۔ الفرقان
45 [٥٧]سایوں کےبتدریج گھٹنے بڑھنےکےخوشگوار اثرات :۔ سایوں کا سورج سے گہرا تعلق ہے۔ طبعی اصول یہ ہے کہ روشنی کی شعاعیں یا کرنیں ہمیشہ صراط مستقیم میں سفر کرتی ہیں۔ اس لحاظ سے جہاں بھی روشنی ہوگی چیزوں کا سایہ ہوگا۔ اب اگر کسی چیز کا سایہ روشن چیز سے کم درجہ پر واقع ہوگا تو سایہ لمبا ہوگا اور زاویہ بڑھتا جائے گا تو سایہ چھوٹا ہوتا جائے گا۔ حتیٰ کہ اگر یہ سایہ ٩٠ درجہ پر پہنچ جائے تو ہر چیز کا سایہ اس کے قدموں پر پڑے گا اور بہت چھوٹا رہ جائے گا۔ حتیٰ کہ یہ غائب بھی ہوسکتا ہے۔ اب چونکہ روشنی کا مستقل ۔۔۔۔ بااعتماد اور منظم منبع یہی سورج ہی ہے۔ لہٰذ ا سایوں کے مستقبل منبع کا ذکر کیا اور یہ ذکر اس لحاظ سے بھی ضروری ہے کہ ہر قسم کی نباتات اور تمام جاندار اشیاء کی تربیت اور نشوونما پر اثر انداز ہونے کی چیز سورج کی روشنی یا دھوپ اور سایہ ہی ہوتا ہے اب اگر کسی چیز پر ہمیشہ دھوپ پڑتی رہے یا کوئی چیز ہمیشہ سایہ میں رہے تو اس کی تربیت اور نشوونما کبھی درست طور پر نہ ہوسکے گی۔ دھوپ اور سایہ دونوں ہی اللہ کی نعمتیں ہیں اور دونوں سے ہر چیز کی زندگی کا گہرا تعلق ہے۔ اگر ہمیشہ سایہ ہی رہتا تو زندگی کی یہ بہاریں کبھی قائم نہ رہ سکیں۔ الفرقان
46 [٥٨] اللہ تعالیٰ سایوں کو پھیلاؤ سے سمیٹتا ہے تو بھی آہستہ آہستہ بتدریج سمیٹتا ہے اور سایوں کا پورا سمٹ جانا عین نصف النہار کے وقت ہوتا ہے یا سر پر ہوتا ہے جبکہ زاویہ قائمہ بن جاتا ہے۔ پھر اس کے بعد سائے آہستہ آہستہ اور بتدریج بڑھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اس تدریج میں بہت سے فوائد مضمر ہیں اور دنیا میں جو بھی تغیر واقع ہوتا ہے اس میں تدریح کا قانون کام کرتا ہے۔ اگر یہ تدریج کا قانون نہ ہوتا تو ہر جاندار کے لئے زندگی دو بھر ہوجاتی مثلاً سورج طلوع ہوتے ہی اتنی شدید گرمی ہوتی جیسے دوپہر کو ہوتی ہے اور یہ گرمی سورج غروب ہونے تک بدستور اتنی ہی تیزی سے رہتی پھر غروب ہونے پر یک لخت سردی ہوجاتی تو یہ چیز بھی ہر جاندار کے لئے بہت نقصان دہ ثابت ہوسکتی تھی۔ الفرقان
47 [٥٩] نیندمیں اللہ تعالیٰ کی نشانیاں :۔ اللہ تعالیٰ کا ایک انعام یہ ہے کہ اس نے رات کو تاریک اور ہر چیز کو ڈھانپنے والا بنا دیا۔ تاکہ دن بھر کے تھکے ماندے لوگ رات کو آرام کرسکیں۔ اور آرام کے لئے رات کی تاریکی اور خاموش ماحول بہت ساز گار ہوتا ہے رات کی نیند بھی اللہ کی ایک خاص نعمت ہے اور اس نعمت کی قدر اس شخص سے پوچھئے جسے رات کو نیند نہ آتی ہو۔ پھر اس نیند میں بھی اللہ تعالیٰ کی کئی نشانیاں ہیں۔ دن بھر کام کرنے سے اورمحنت سے جسم کے کچھ خلیے حرارت سے جل جاتے ہیں۔ جب انسان سوتا ہے تو ان جلے ہوئے خلیوں کی جگہ نئے خلیے پیدا ہوجاتے ہیں اور جب یہ عمل پورا ہوچکتا ہے تو انسان کو جاگ آجاتی ہے اور وہ تازہ دم ہو کر دوسرے دن کام کرنے کے قابل ہوجاتا ہے انسان جس قدر زیادہ تھکا ہوا ہوگا۔ اتنی ہی اسے گہری نیند آئے گی اور تادیر آئے گی۔ تاکہ اس کے جلے ہوئے خلیوں کی تلافی ما فات ہوسکے۔ بعض دفعہ انسان گہری نیند کی علامت کے طور پر خراٹے بھی لیتا ہے یہ اللہ کی ایک اور نشانی ہے اور بعض دفعہ خواب بھی دیکھتا ہے۔ اب اگر خواب کی حقیقت پر غور کرنا شروع کیا جائے تو انسان اللہ تعالیٰ کے اس محیرالعقول کرشمے کی پہنائیوں میں گم ہو کر رہ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے وجود میں کیا کچھ عجائبات سمو دیئے ہیں۔ اس آیت سے سرسری طور پر جو بات ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے اللہ نے کام کاج کے لئے دن اور آرام کے لئے رات بنا لی ہے۔ اب اگر انسان اس کا الٹ کرے گا یعنی رات کو کام اور دن کو آرام کرے گا تو اس کے نتائج انسان کے حق میں بہتر نہیں ہوسکتے اور اس کی صحت تادیر قائم نہ رہ سکے گی۔ الفرقان
48 [٦٠] ہواؤں کی مختلف اقسام:۔ ریاح کا لفظ ریح کی جمع ہے۔ جس کا معنی محض ہوا ہے خواہ وہ چل رہی ہو یا ساکن ہو اور اگر وہ حرکت میں ہو یعنی چل رہی ہو تو عربی زبان میں ہر سمت سے چلنے والی ہوا کے لئے الگ الگ لغت ہے۔ جو ہوا شمال سے جنوب کی طرف چل رہی ہو اس ہوا کو بھی شمال ہی کہتے ہیں اور یہ عموماً بارش لاتی ہے اور جو جنوب سے شمال کو چلے اسے جنوب کہتے ہیں اور یہ عموماً بادلوں کو اڑا لے جانے والی ہوتی ہے جو مشرق سے مغرب کو عموماً صبح کے وقت چلتی ہے اسے صبا کہتے ہیں اور یہ دل کو فرحت بخشنے والی ہوتی ہے اور جو مغرب سے مشرق کو چلے اسے دبور کہتے ہیں۔ اسے منحوس خیال کیا جاتا ہے۔ عاد کی قوم اسی ہوا سے ہلاک ہوئی تھی۔ اگرچہ ریاح ریح کی جمع ہے لیکن قرآن نے ریح اور ریاح کی الگ الگ مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ ریح کا لفظ عموماً عذاب دینے والی ہوا کے لئے استعمال ہوا ہے ( مثالوں کے لئے دیکھئے ۳: ١١٧، ١٤: ١٨، ٣۳: ٩، ٥٤: ١٩ وغیرہ ) اور ارسال الریح کا لفظ عموماً رحمت کی ہواؤں کے لئے آتا ہے۔ جیسے اس مقام پر بھی ہوا ہے ( نیز دیکھئے ٧: ٥٧، ١٥: ٢٢، ٣٠: ٤٦، ۳۰: ٤٨ وغیرہ ) اور باران رحمت لانے والی ہواؤں کے لئے جمع کا صیغہ غالباً اس لئے استعمال ہوا ہے کہ اس میں آبی بخارات بھی شامل ہوتے ہیں۔ سورج کی یا آگ کی حرارت سے پانی کی سطح پر سے جو آبی بخارات اٹھتے ہیں ان کا خاصا صرف یہ ہے کہ وہ سیدھا اوپر کو اٹھتے ہیں اوپر اٹھ کر کوئی خاص سمت اختیار کرنا آبی بخارات کا خاصہ نہیں ہے۔ اب ان کو ہوائیں ہی کسی خاص سمت میں جس طرح اللہ کو منظور ہوتا ہے، اڑا لاتی ہیں۔ اور جس مقام پر اللہ تعالیٰ کو بارش برسانا منظور ہوتا ہے وہاں پہلے ہی ایسی پانی سے سے لدھی ہواؤں کے ٹھنڈے جھونکے آنا شروع ہوجاتے ہیں جو ایک طرف تو بارش کی آمد کی خوشخبری بتاتے ہیں دوسری طرف دلوں کو عجیب طرح کا سرور بخشتے ہیں۔ [ ٦١]بارش کے پانی کاخوشذائقہ ہونا اللہ کی ایک نشانی ہے :۔ آبی بخارات عموماً سمندر کی سطح پر سورج کی گرمی سے اوپر اٹھتے ہیں سابقہ آیات میں سایوں کا، پھر رات کے پرسکون ہونے اور دن کے وقت کام کاج کرنے کا ذکر تھا اور یہ سب باتیں سورج سے متعلق ہیں اور بارش کا سلسلہ بھی سورج ہی سے متعلق ہے۔ اسی نسبت سے ساتھ ہی اس کا بھی ذکر آگیا۔ اب یہ تو واضح بات ہے کہ سمندر کا پانی کڑوا اور سخت نمکین ہوتا ہے پھر اس میں کئی قسم کے کیمیائی اجزاء بھی ملے ہوتے ہیں۔ سمندر کا پانی جسم کے کسی حصے پر لگ جائے تو اسے چبھنے لگ جاتا ہے۔ اور جب تک سادہ اور صاف پانی سے وہ جگہ دھوئی نہ جائے چین نہیں آتا۔ لیکن حیران کن بات ہے کہ اس کے بخارات سے جو بارش برستی ہے اس میں نہ نمک کی آمیزش ہوتی ہے نہ کسی دوسرے کیمیکل کی۔ حالانکہ ہم خود آبی بخارات کے ذریعہ عرق کشید کرتے ہیں۔ مثلاً سونف کا عرق یا گلاب کا عرق تو اس عرق میں سونف یا گلاب کا ذائقہ، تاثیر حتیٰ کہ خوشبو تک سب کچھ منتقل ہوجاتا ہے۔ مگر سمندر کے آبی بخارات سے برسنے والی بارش ہر قسم کے اثرات سے پاک صاف اور محفوظ ہوتی ہے۔ اور یہ پانی خود ہی پاک صاف نہیں ہوتا بلکہ دوسری اشیاء کو بھی گندگی، غلاظت اور نجاست سے پاک صاف بنا دیتا ہے۔ الفرقان
49 [٦٢] بارش کو ستاروں کی گردش سےمنسوب کرنے والا کافرہے :۔ اگر سمندر کا پانی اپنی اصلی حالت میں کھیتی کو پلایا جائے تو کھیتی مرجھا کر تباہ ہوجائے۔ اور اگر کوئی جاندار پی لے تو اس کی آنتوں کو کاٹ کے رکھ دے یا کم از کم زخمی کرکے رکھ دے۔ لیکن اسی سمندر کے پانی کے بخارات جب بارش میں منتقل ہوتے ہیں تو کیا نباتات، کیا حیوان اور کیا انسان سب کے لئے یہ پانی حیات بخش ثابت ہوتا ہے۔ کھیتیاں لہلانے لگتی ہیں اور جاندار مخلوق بارش ہونے سے پہلے ہواؤں کی آمد پر ہی مسرور ہو کر جھومنے لگتی ہے۔ نباتات سے ہی جاندار مخلوق کو غذا حاصل ہوتی ہے اور اس کے پینے کے لئے اللہ تعالیٰ صاف ستھرا پانی دیتا ہے۔ جمادات کے علاوہ اس کائنات ارضی پر کوئی مخلوق ایسی نہیں جس کی زندگی کی بقا پانی کے بغیر ممکن ہو۔ الفرقان
50 [٦٣] جنتی بھی اللہ کی نشانیاں اوپر مذکور ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت اور ان سے سبق حاصل کرنے کے لئے تھوڑی نہیں بلکہ بہت کافی ہیں۔ مگر انسانوں کی اکثریت ایسی ہے جو نہ ان باتوں پر دھیان دیتی ہے اور نہ اللہ کی ان نعمتوں کا شکر بجا لاتی ہے۔ اور بعض انسان تو ایسے غلط عقائد میں مبتلا ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ بارش فلاں ستارہ کے فلاں نچھتر میں داخل ہونے سے ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ایسے عقائد عام تھے اور ہر اچھی اور بری بات کو سیاروں کی گردش سے منسوب کردیا جاتا تھا۔ حدیبیہ کے مقام پر جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم چودہ سو صحابہ سمیت عمرہ کی عرض سے تشریف لائے۔ ایک رات بارش ہوئی جو عرب جیسے بے آب و گیاہ ملک میں ایک عظیم نعمت متصور ہوتی تھی تو صبح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ” میرے بندوں میں میں سے کچھ لوگ مجھ پر ایمان لائے اور ستاروں کے منکر ہوئے۔ یعنی جس شخص نے یہ کہا کہ یہ بارش اللہ کے فضل اور رحمت سے ہوئی تو وہ مجھ پر ایمان لایا اور ستاروں کا منکر ہوا اور جس نے کہا کہ یہ بارش فلاں ستارے کے فلاں نچھتر میں داخل ہونے سے ہوئی تو وہ میرا منکر ہوا اور سیاروں پر ایمان لایا۔“ ( بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب یستقبل الامام الناس اذاسلم ) گویا ستاروں کے اثرات کو تسلیم کرنا اور اللہ پر ایمان لانا دو متضاد باتیں ہیں ان میں سے صرف ایک ہی چیز قبول کی جاسکتی ہے جو ستاروں کے اثرات کو تسلیم کرتا ہے وہ مسلمان نہیں اور جو مسلمان ہے وہ ان اثرات کو تسلیم نہیں کرسکتا۔ الفرقان
51 الفرقان
52 [٦٤] کافروں سے جہاد کبیرکیوں اورکیسے؟ یعنی ہم چاہتے تو ہر بستی میں الگ الگ نبی بھیج دیتے اور ہر جگہ ہی حق و باطل کے معرکے بپا ہوتے۔ لیکن ہماری مشئت یہی ہے کہ اب ایک ہی آفتاب نبوت بھیج دیا جائے جس کی رسالت سب لوگوں کے لئے یکساں ہو اور تاقیامت ہو۔ جیسا کہ ایک ہی آفتاب ساری دنیا کو منور کر رہا ہے اور تاقیامت کرتا رہے گا۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ نبی جتنا عظیم الشان ہوگا۔ معرکہ حق و باطل بھی اتنا ہی بڑا ہوگا۔ اسی لئے یہ تاکید فرمائی کہ کافروں سے کسی قسم کے سمجھوتہ کی کوئی ضرورت نہیں۔ بلکہ اپنی پوری قوت کے ساتھ ان کافروں کا ڈٹ کر مقابلہ کیجئے۔ یہ خطاب اگرچہ بظاہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہے۔ لیکن اس میں آپ کی پوری امت بھی شامل ہے۔ جہاد کا لغوی معنی کسی مقصد کے حصول کے لئے بھرپور کوشش ہے اور جہاد کبیر میں تاکید مزید بھی پائی جاتی ہے اور وسعت اور پھیلاؤ بھی۔ یعنی ایک تو اس امت کا ہر فرد اپنی اس کوشش میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھے اور اپنے تمام تر ذرائع استعمال کرے۔ اور دوسرے یہ کہ دشمن کا ہر اس محاذ پر مقابلہ کیا جائے۔ جس پر اسلام دشمن طاقتیں کام کر رہی ہوں۔ اور اس میں زبان و قلم کا جہاد بھی شامل ہے، مال کا بھی اور توپ و تفنگ کا بھی۔ غرضیکہ جس محاذ پر بھی دشمن آور ہو اسی محاذ پر اس کا پوری قوت سے مقابلہ کیا جائے۔ الفرقان
53 [٦٥] مرج کا لغوی معنی:۔ مرج کا لغوی معنی دو چیزوں کو اس طرح ملانا یا ان کا آپس میں اس طرح ملنا ہے کہ ان دونوں کی انفرادی حیثیت اور خواص برقرار رہیں۔ جیسے غصن مریج باہم گتھی ہوئی ٹہنی ( مفرادت امام راغب )اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی ایک نہایت محیرالعقول نشانی بتائی ہے اور وہ نشانی اتنی عام ہے جو بے شمار لوگوں کے مشاہدہ میں آچکی ہے۔ اور جغرافیہ دان حضرات اور جغرافیہ پڑھنے والے طالب علم اس حقیقت سے خوب واقف ہیں جو سمندروں کے اندر بھی ایسےدریا چل رہے ہیں جیسے سطح زمین پر بہہ رہے ہیں۔ گرم پانی میں ٹھنڈے اور ٹھنڈے پانی میں گرم روئیں چلانا بھی اللہ کی ایک بہت بڑی نشانی ہے :۔کہیں گرم پانی کی روئیں چل رہی ہیں کہیں ٹھنڈے پانی کی، کہیں کھاری پانی کی، کہیں میٹھے پانی کی، اور یہ روئیں اتنی لمبی ہوتی ہیں جو سمندر کے اندر ہی اندر ایک ملک سے دوسرے ملک تک چلی جاتی ہیں۔ پھر کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ اوپر کھاری پانی ہے، نیچے ٹھنڈے اور میٹھے پانی کا دریا بہہ رہا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک طرف کھاری پانی کا دریا بہہ رہا ہے تو اس کے ساتھ متصل میٹھے پانی کا دریا چل رہا ہے اور یہ پانی اپنی اپنی حدود کے اندر رہتے ہیں۔ باہم ملتے نہیں۔ اور ملاح حضرات اپنی واقفیت کی بنا پر سمندر میں سے ٹھنڈا اور میٹھا پانی بھی حاصل کرلیتے ہیں اور میں نے خود دو مقامات چترال اور کراچی میں دیکھا ہے کہ ایک طرف گرم پانی کا چشمہ ابل رہا اور ساتھ ہی متصل دوسری طرف ٹھنڈے اور میٹھے پانی کا چشمہ ابل رہا ہے حالانکہ زمین کے نیچے پانی کی سطح ایک ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی نشانی کی یہ مثال اسی لئے دی ہے کہ یہ بات عام لوگوں کے مشاہدہ میں آچکی ہے اب سوال یہ ہے کہ پانی یا ہر سیال چیز کی جہاں یہ خاصیت ہے کہ وہ بہتی ہے وہاں یہ بھی ہے کہ اگر ایک ہی نوع کی ہو تو آپس میں مل بھی جاتی ہے اگر ایسے مقامات پر اللہ تعالیٰ نے پانی کی اس خاصیت کو سلب کرلیا۔ تاکہ سمندر کے اندر یا سمندر کے کناروں پر بسنے والی مخلوق کو پینے کے لیے ٹھنڈا اور میٹھا پانی مہیا ہوسکے تاکہ وہ اپنی زندگی کو برقرار رکھ سکے۔ کیا اب بھی غافل انسان اپنی چشم بصیرت سے اللہ کی اس نشانی اور عظیم الشان نعمت اور قدرت کو نہ دیکھے گا ؟ [٦٦] یہاں حجرا محجورا کا لفظ محاور تاً نہیں بلکہ اپنے اصل اور لغوی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ الفرقان
54 [٦٧] نطفہ سے مرد اور عورت کی تخلیق ۔ نیزان کی جسمانی ساخت اور کارکردگی میں اللہ کی محیر العقول تقدیر:۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی قدرت کا یہ کرشمہ کیا کم ہے کہ اس نے پانی کی ایک بوند سے انسان جیسی محیرالعقول مشینری رکھنے والی مخلوق پیدا کردی۔ مزید یہ کہ اس پیدا ہونے والے بچہ کو جو مختلف نوعوں میں تقسیم کردیا۔ کبھی لڑکا پیدا ہوتا ہے اور کبھی لڑکی۔ اور یہ دونوں انسان ہونے کے اعتبار سے تو یکساں ہیں۔ مگر اپنی جسمانی ساخت اور خصوصیات میں بہت سے امور میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ تاہم اس اختلاف کے باوجود وہ دونوں مل کر ایک ہی مقصد پورا کرتے ہیں اور وہ ہے بقائے نسل انسانی۔ ان دونوں نوع کے ملاپ سے دنیا میں ہزاروں مرد اور عورتیں پیدا ہو رہے ہیں۔ پھر اس اختلاف کی بنا پر رشتہ داریاں بھی دو طرح کی بن جاتی ہیں۔ ایک وہ جن کے ہاں عورتیں بہو بن کر آتی ہیں اور یہ نسبی رشتہ داری ہے۔ جیسے بیٹا، پوتا، پڑوتا وغیرہ اور دوسرے وہ جن کے ہاں ہماری بیٹیاں، پوتایاں وغیرہ بہو بن کر جاتی ہیں یہ سسرالی رشتہ داریاں ہیں۔ پھر ان دونوں قسم کی رشتہ داریوں کے باہمی تعلقات سے پورا معاشرہ جڑ جاتا ہے اور ایک ہی جیسا تمدن وجود میں آجاتا ہے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو لڑکے اور لڑکی کی جسمانی ساخت میں صرف شرمگاہوں کا فرق ہوتا ہے جس سے ہم یہ تمیز کرتے ہیں کہ پیدا ہونے والا بچہ لڑکا ہے یا لڑکی۔ پھر کچھ اختلاف بلوغت پر نمایاں ہوتے ہیں۔ جیسے لڑکے کو احتلام ہونا اور داڑھی اور مونچھوں کے بالوں کا اگنا اور لڑکیوں کو حیض آنا اور اس کے پستانوں میں ابھار کا پیدا ہونا۔ پھر کچھ امور ایسے ہیں جن کا تعلق استقرار حمل سے ہوتا ہے جیسے عورت کے پستانوں میں دودھ کا اتر آنا۔ کیونکہ جب تک حمل قرار نہ پائے دودھ بنتا ہی نہیں۔ پھر جوانی ڈھلنے پر عورت کا حیض آنا از خود بند ہوجاتا ہے اور مرد میں مادہ منویہ کی پیدائش از خود رک جاتی ہے۔ اور دونوں کے شہوانی جذات افسردہ پڑنے لگ جاتے ہیں اور یہ ایسے لگے بندے قوانین فطرت ہیں جن میں کبھی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔ ان امور پر غور کرنے سے بے اختیار یہ بات زبان پر آجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز سے جس قسم کا کام لینا ہوتا ہے اس پر وہ پوری قدرت رکھتا ہے۔ الفرقان
55 [٦٨] کافر کا کام یہ ہوتا ہے کہ یہاں کہیں بھی اعلائے کلمۃ اللہ کا کام شروع ہو تو وہ اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہوجاتا ہے۔ اس کی اخلاقی زبانی، مالی اور جانی ہمدردیاں ہمیشہ ان لوگوں کے ساتھ ہوتی ہیں جو اقامت دین الہٰی کے راستہ میں مزاحم ہو رہے ہوں۔ انہیں کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ ان کی زندگی اور اس کی بقاء کے اسباب تو اللہ تعالیٰ حیرت انگیز طریقوں سے مہیا کر رہا ہے۔ لہٰذ انہیں اسی اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار بن کر رہنا چاہئے۔ الٹا وہ ہر اس عمل اور اس سازش میں شریک ہوجاتا ہے جو اللہ کی نافرمانی پر مشتمل ہو اور ایسی چیزوں کی عبادت گزاری اور فرمانبرداری کرنے لگتا ہے جن کے اختیار میں ان کا اپنا بھی نفع و نقصان نہیں ہوتا۔ الفرقان
56 [٦٩]کافروں اورمسلمانوں کےلیے آپ کی ذمہ داری کی نوعیت :۔یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کام نہیں کہ آپ لوگوں کو راہ راست پرلانے کے لئے مجبور کریں۔ نہ ہی یہ کام ہے کہ ایمان نہ لانے والوں کو کچھ سزا دیں اور ایمان لانے والوں کو مالی امداد بہم پہنچائیں۔ بلکہ آپ کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ سب لوگوں کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کردیں۔ منکرین حق کو ان کے برے انجام سے ڈرائیں اور ایمان لانے والوں کو ان کے اعمال صالحہ کے اجر کی خوشخبری دیں۔ بس آپ کا کام اتنا ہی ہے۔ واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ایسا خطاب دراصل کافروں کو دعوت دینے کی حد تک ہے۔ ورنہ جو لوگ ایمان لے آئیں تو ان کے لئے نبی کا کام اتنا ہی نہیں کہ آپ انہیں بھی بس ان کے اعمال صالحہ کی خوشخبری دے دیں۔ بلکہ ان کی تعلیم، ان کی تربیت، اور تزکیہ نفس سب کچھ آپ کی ذمہ داریوں میں شامل ہے اور قرآن کریم نے اس مضمون کو چار مختلف مقامات پر ذکر کیا ہے اور آپ کی مسلمانوں کے لئے چار ذمہ داریاں ہیں۔ مثلاً یہ کہ آپ ان کو قرآنی آیات پڑھ کر سنائیں، ان کا تزکیہ نفس کریں۔ انہیں کتاب کی بھی تعلیم دیں اور حکمت بھی۔ ( مزید تشریح کے لئے دیکھئے ٢: ١٢٩، ٢: ١۵١، ٣: ١٦٤) الفرقان
57 [٧٠] انبیاء کی محنت کا صلہ؟ انبیاء کی دعوت اور کفار کے انکار کے سلسلہ میں انبیاء کی طرف سے جواب کے طور پر یہ جملہ قرآن میں متعدد مقامات پر مذکور ہے۔ اور اس جواب کے بھی دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ اگر تمہیں میرا یہ دعوت الی اللہ کا کام پسند نہیں آتا تو میں تم سے کوئی معاوضہ یا تنخواہ تھوڑے لے رہا ہوں جو تم اسے بند کردو گے اور میں اپنا کام چھوڑ دوں گا اور نہ ہی تم سے میرا اس قسم کا مطالبہ ہے۔ لہٰذ اتمہیں یہ کام پسند ہو یا نہ ہو یا میں اپنا کام کئے ہی جاؤں گا اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ میں بالکل بے لوث اور بے غرض ہو کر تمہاری بھلائی کی خاطر تمہیں سیدھے راستے کی طرف دعوت دے رہا ہوں اور میں تم سے لیتا بھی کچھ نہیں بلکہ الٹا تم سے مذاق اور استہزاء سنتا اور تکلیفیں اٹھا رہا ہوں پھر بھی تمہیں اتنا خیال تک نہیں آتا کہ کم از کم اس کی بات پر بھی کچھ غور و فکر تو کرلیں۔ اس آیت کا اگلا حصہ اسی پہلو یا اسی مطلب کی تائید کر رہا ہے۔ یعنی اگر اللہ نے چاہا اور تم میں سے کوئی ایک شخص بھی ہدایت کی راہ پر آگیا تو میں سمجھوں گا کہ میری محنت کا صلہ یا معاوضہ مجھے مل گیا۔ الفرقان
58 [٧١] یعنی میں اس ہستی پر توکل کرتا ہوں جو ہمیشہ سے زندہ اور قائم و دائم ہے اور قائم دائم اور زندہ ہی رہے گی۔ تمہارے معبودوں کی طرح مخلوق نہیں، نہ وہ اس قدر محتاج ہے کہ اسے اپنی ذات کو قائم رکھنے کے لئے بھی اپنے عقیدت مندوں کی احتیاج ہو اور جو اپنے بھی نفع و نقصان کی مالک نہیں وہ تمہارا کیا بگاڑ یا سنوار سکتی ہے۔ مجھے ایسی ہستی کی عبادت کا حکم ہے اور وہ تمہارے جیسے منکروں کی کرتوتوں سے پوری طرح واقف ہے اور ان کرتوتوں پر تمہیں سزادینے پر قادر بھی ہے۔ الفرقان
59 [٧٢] استوی ٰعلی العرش کی تفسیر کے لئے سورۃ طٰہ کی آیت نمبر ٥ کا حاشیہ نمبر ٣، سورۃ اعراف کی آیت نمبر ٥٤ کا حاشیہ نمبر ٥٤۔ [٧٣] استویٰ علی العرش کے فعل کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر اپنی طرف منسوب فرمایا ہے اور بعض مقامات پر رحمٰن کی طرف جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رحمٰن بھی اللہ تعالیٰ کا ذاتی نام ہے اور اللہ کی باقی صفات بھی، جن کا سابقہ آیات میں ذکر ہوا ہے۔ رحمٰن کی طرف منسوب کی جاسکتی ہیں۔ [ ٧٤] یہاں خبیر سے مراد ایسا عالم ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی کائنات میں بکھری ہوئی آیات میں غور و فکر کرکے اللہ تعالیٰ کی معرفت کا علم حاصل کیا ہو۔ ایسے ہی خبیر کو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر لفظ عالم سے تعبیر فرمایا ہے جہاں ایسی بہت سی آیات کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا : ﴿اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰؤُا﴾ (۲۸:۳۵) یعنی اللہ کے بندوں میں سے اللہ سے صرف عالم لوگ ہی ڈرتے ہیں۔ تاہم اس سے نقلی علوم وحی کو جاننے والے حضرات بھی مراد لئے جاسکتے ہیں اور بعض انبیاء کو بھی تو اللہ تعالیٰ نے ملکوت السموات والارض کا مشاہدہ بھی کرایا تھا۔ اس لحاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑے عالم اور خبیر ہوئے اس کے بعد دوسرے انبیاء۔ پھر ان کے بعد اس صف میں وہ عالم دین بھی شامل ہوجاتے ہیں جو اپنے علم میں راسخ ہوں۔ خواہ وہ تورات کے عالم ہوں یا کسی اور الہامی کتاب کے۔ الفرقان
60 [٧٥] رحمٰن کے لفظ سے قریش کی چڑ:۔قریش مکہ کے سامنے جب رحمٰن کا ذکر کیا جاتا تو از راہ تحقیر کہا کرتے کہ ” رحمٰن کیا ہوتا ہے“یہاں ذوی العقول کے لئے ما کا لفظ اسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ قریش رحمٰن سے ناواقف محض تھے بلکہ یہ تھی رحمٰن کا لفظ ان کے ہاں مروج نہ تھا۔ اور انہیں اس لفظ سے چڑ سی ہوگئی تھی جیسا کہ پہلے سورۃ رعد کی آیت نمبر ٣٠ کے حاشیہ ٣٩ میں گزر چکا ہے اور جب انہیں رحمٰن کو سجدہ کرنے کو کہا جاتا تو یکدم بھڑک اٹھتے تھے اور ان کی حرکت محض ضد اور تعصب کی وجہ سے ہوتی تھی۔ ورنہ اگر انہیں فی الواقع رحمٰن کا علم نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ ان پر گرفت کرنے کے بجائے انہ یں نرمی سے سمجھا اور بتاسکتے تھے۔ [ ٧٦] اس آیت کی اختتام پر سجدہ تلاوت مشروع ہے۔ قاری کے لئے بھی اور سامع کے لئے بھی تاکہ اللہ کی اطاعت گزاروں اور قریش مکہ جیسے اسلام دشمنوں کے درمیان فرق معلوم ہوسکے۔ الفرقان
61 [٧٧] آسمان میں بارہ برجوں کی وضاحت کے لئے سورۃ حجر کی آیت نمبر ١٦ کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیے۔ [٧٨] چاند اور سورج کی روشنی میں فرق اور دوسرے فوائد :۔دن کے وقت سورج روشنی کا سب سے بڑا قدرتی منبع ہے اور رات کے وقت چاند۔ پھر ان دونوں کی روشنی میں بڑا فرق ہے۔ سورج کی روشنی میں تپش اور حرارت ہے اور وہ سرخی مائل ہوتی ہے اور اس کی شعاعیں انسان کی آنکھ کے سامنے والے پردہ پر پڑیں تو سخت کوفت ہوتی ہے۔ جبکہ چاند کی روشنی میں ایک سرور بخش ٹھنڈک ہوتی ہے اور انسان کا جی چاہتا ہے کہ اس کی طرف دیکھتا رہے۔ حتیٰ کہ چاند کی چاندنی کا تصور ہی ہر شخص کی خوشی کا باعث ہے پھر ان دونوں سیاروں سے ہمیں صرف روشنی ہی حاصل نہیں ہوتی بلکہ اور بھی بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں ۔فصلوں کے پکنے کا انحصاط سورج ہی سے تعلق ہے۔ دھوپ سے کئی قسم کے نقصان دہ جراثیم اور کیڑے مکوڑے مر جاتے ہیں۔ ہر جاندار کی زندگی اور صحت کے لئے بھی دھوپ کی ایک معین مقدار نہایت ضروری ہے چاند جب زائد النور ہوتا ہے تو اس دوران پھلوں میں تیزی سے رس پیدا ہوتا ہے۔ غرضیکہ ان سیاروں سے انسان کو گونا گوں فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ الفرقان
62 [٧٩]خلفة کا لغوی مفہوم :۔ خلفہ کے معنی ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے۔ رات کے پیچھے دن آتا ہے اور دن کے پیچھے رات۔ اور یہ بار بار ایک دوسرے کے پیچھے آتے رہتے ہیں۔ موجودہ نظریہ ہیئت کے مطابق دن رات سورج کے سامنے زمین کی محوری یک روزہ گردش کی بنا پر پیدا ہوتے ہیں۔ زمین کا محیط پچیس ہزار میل ہے اور زمین اپنی محوری گردش پورے چوبیس گھنٹہ میں پوری کرتی ہے۔ بالفاظ دیگر ہم نے زمین کی محوری گردش کی مدت کو چوبیس گھنٹہ میں تقسیم کر رکھا ہے۔ اور دن اور رات کے اوقات میں کمی بیشی زمین کی سورج کے گرد سالانہ گردش کی وجہ سے ہوتی ہے اس نظریہ کی رو سے اللہ کی قدرت کے یہ کرشمے اور بھی محیرالعقول بن جاتے ہیں۔ جس نے اتنے بڑے بڑے عظیم الجثہ کروں کو بجلی کی تیز رفتاری سے اس طرح محو گردش بنا رکھا ہے کہ ان کے نتائج میں کبھی ایک سیکنڈ کی بھی تقدیم و تاخیر نہیں ہوسکتی۔ نہ ہی ان کروں کا آپس میں کہیں تصادم ہوتا ہے۔ الفرقان
63 [٨٠] اللہ کے بندوں کی صفات :۔سابقہ آیات میں رحمٰن اور رحمٰن کی نشاندہی کا ذکر چل رہا تھا تو یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی نسبت اپنی طرف کرنے کے بجائے رحمٰن کی طرف منسوب کرکے واضح کردیا کہ رحمٰن بھی اللہ تعالیٰ ہی کا ذاتی نام ہے۔ ویسے تو جتنی بھی اللہ کی مخلوق ہے سب ہی رحمٰن کے بندے ہیں۔ لیکن یہاں اس سے مراد اللہ کے وہ بندے ہیں جو اللہ کو محبوب ہیں۔ اگلی آیات میں ایسے ہی اللہ کے بندوں کی کچھ صفات مذکور ہیں۔ ان آیات میں دراصل رحمٰن کے بندوں اور شیطان کے بندوں کی طرز زندگی اور ان کے اعمال و افعال کا تقابل پیش کیا جارہا ہے۔ پہلے شیطان کے بندوں کا ذکر چل رہا تھا۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی صفات بیان کرکے بہت سی باتوں کو انسان کے فہم پر چھوڑ دیا ہے۔ تکبرانہ چال کی ممانعت ‘چال انسان کےخیالات کی عکاس ہوتی ہے :۔ اللہ کے بندوں کی پہلی صفت یہ بیان فرمائی کہ ان کی چال میں انکساری ہوتی ہے تکبر کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ انسان کی چال ایسی چیز ہے جو اس کے ذھن کی پوری پوری عکاسی کردیتی ہے۔ ایک شریف النفس اور سلیم الطبع انسان کی چال اور قسم کی ہوتی ہے۔ کسی ظالم و جابر کی اور قسم کی، اوباش اور غنڈوں کی اور قسم، اور متکبر اور شیخی باز لوگوں کی اور قسم کی۔ گویا ہر انسان کے چال ڈھال سے پہلی نظر میں ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ انسان کون سے طبقہ سے تعلق رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں چال کی صفت میں ھَونا کا لفظ استعمال فرمایا ھونا نہیں فرمایا۔ ھونا کا مطلب ایسی چال ہے جس میں تواضع، سبکساری اور وقار پایا جائے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چال ایسی ہی ہوتی تھی۔ قدم چھوٹے مگر تیز گام اور چال میں وقار ہوتا تھا اور ھونا کا مطلب ایسی چال ہے جس میں کمزوری، کم ہمتی اور ذلت کا پہلو محسوس ہوتا ہے جیسے کسی بیمار اور بڑے بوڑھے کی چال یا کسی ایسے ریا کار کی چال جو لوگوں میں اپنی انکساری کا سکہ بٹھانا چاہتا ہو۔ جیسے متکربانہ چال ممنوع ہے ویسے ہی اس طرح کی چال بھی ممنوع ہے۔ ( نیز دیکھئے سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر ٣٧ کا حاشیہ ) [٨١] بیہودہ مجالس سے اجتناب :۔ جاہل سے مراد بے علم یا کم علم یا نادان نہیں بلکہ کج بحث قسم کے لوگ ہیں۔ جن کا بحث میں مقصود کچھ سبق حاصل کرنا نہیں ہوتا بلکہ مخاطب کو نیچا دکھانا یا اس کا مذاق اڑانا ہوتا ہے۔ اللہ کے بندوں کا شیوہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایسی فضول اور بے ہودہ باتوں میں پڑ کر اپنا وقت ضائع نہیں کرتے۔ نہ ہی وہ ایسے لوگوں کی بدتمیزی یا بیہودگی کو برداشت کرتے ہیں۔بلکہ اگر کسی ایسے شخص سے سابقہ پڑ بھی جائے تو سلام کہہ کر اس سے کنی کترا جاتے ہیں۔ وہ گالی کا جواب گالی سے یا اینٹ کا جواب پتھر سے دینے والوں سے کنارہ کش رہتے ہیں اور ایسے لوگ کے نزدیک بھی نہیں پھٹکتے! الفرقان
64 [٨٢]رات کی تنہائی میں اللہ کی یاد اور نماز تہجد:۔ اللہ کے بندوں کی تیسری صفت یہ بیان فرمائی کہ راتوں کو بھی اللہ کی یاد سے غافل نہیں رہتے۔ بلکہ انہیں رات کو عبادت میں زیادہ مزا آتا ہے۔ اس لئے کہ ایک تو رات کی عبادت میں ریا کا شائبہ نہیں ہوتا۔ دوسرے رات کی تنہائیوں میں بندہ جس طرح اللہ کی طرف متوجہ ہوسکتا ہے اور مناجات کرسکتا ہے دن کو نہیں کرسکتا۔ اسی لئے احادیث میں رات کی عبادت اور بالخصوص نماز تہجد کی بہت فضیلت مذکور ہے۔ نیز حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ” قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سات قسم کے آدمیوں کو اپنے سایہ میں رکھے گا جس دن اس کے سایہ کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہوگا۔ ان سات آدمیوں میں سے ایک وہ شخص ہوگا جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور اس کی آنکھیں بہہ نکلیں۔“ ( بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب الصدقۃ بالیمین ) الفرقان
65 الفرقان
66 [٨٣] ایمان کا تقاضا اللہ سے امید بھی اور ڈر بھی :۔ یعنی راتوں کی عبادت یا ان کے دوسرے نیک اعمال انہیں اس غلط فلمی میں مبتلا نہیں کردیتے کہ اب وہ یقینی طور پر جنت کے مستحق ہوگئے ہیں۔ نہ ہی ان میں ان اعمال کی بجا آوری پر پندار نفس یا غرور پیدا ہوتا ہے۔ جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے : غرور زہد نے سیکھلا دیا ہے واعظ کو کہ بندگانِ خدا پر زبان دراز کرے بلکہ وہ اللہ سے یہ دعا بھی کرتے رہتے ہیں کہ اگر ان اعمال کی بجاآوری میں کچھ تقصیر ہوگئی ہے تو معاف فرما دے۔ ان اعمال کو جیسے بھی وہ ہیں قبول فرما لے اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچائے رکھنا گویا اللہ کے بندوں کی چوتھی صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ اپنے اعمال پر بھروسہ نہیں کر بیٹھتے بلکہ ان کا اصل اعتماد اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ الفرقان
67 [٨٤]اسراف وتبذیرمیں فرق :۔ اسراف کا اطلاق ضرورت کے کاموں سے زیادہ خرچ کرنے پر ہوتا ہے۔ مثلاً اپنے سامان خوردو نوش یا کپڑوں پر یا مکان پر یا شادی بیاہ پر بھی بےدریغ خرچ کردینا یا اپنی ہمت اور مقدور سے زیادہ خرچ کردینا۔ ایسی فضول خرچیوں سے اسلام نے سختی سے روک دیا ہے۔ پھر اسراف کی ایک قسم ایسی ہے جسے تبذیر کہتے ہیں۔ جس کا معنی یہ ہے کہ ناجائز کاموں یا ناجائز ضرورتوں پر خرچ کرنا۔ جیسے شراب نوشی، قمار بازی، بیاہ شادی کے موقعہ پر آتش بازی اور راگ رنگ وغیرہ ایسے کاموں میں ایک پیسہ بھی خرچ کرنا حرام ہے۔ چہ جائیکہ ایسے کاموں پر بھی بےدریغ اور بے تحاشا خرچ کردیا جائے۔ اسراف کی ضد بخل ہے۔ جس کا معنی یہ ہے کہ مقدور ہوتے ہوئے بھی ضرورت کے کاموں میں پیسہ ضرورت سے کم خرچ کرنا اور پیسہ کو جوڑ کر رکھنا۔ جیسے اپنی ذات پر اور اپنے بال بچوں کی گزاران کے سلسلہ میں بھی بخل کر جانا۔ خوراک میں پوشاک میں، طرز بودوباش میں، اعز و اقرباء کو تحفے تحائف دینے لینے ہر جگہ بخل سے کام لینا اور بالخصوص جب اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کرنا پڑے تو اسے یوں محسوس ہو کہ پیسہ کے ساتھ اس کی اپنی جان بھی نکلی جارہی ہے۔ اقتصاد کیاہے؟ اسراف اور بخل کے درمیان کی صفت کا نام اقتصاء یا قصد ہے اور اسی صفت کو اسلام نے پسند کیا ہے۔ اقتصاد یہ ہے کہ انسان اپنی جائز ضرورتوں پر خرچ اور اتنا ہی خرچ کرے جتنا ضرور ہو نہ کم نہ زیادہ۔ حتیٰ کہ اگر اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہو تو بھی یہی بات مدنظر رکھنی چاہئے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ صدقہ وہی بہتر ہے جس کے بعد انسان خود محتاج نہ ہوجائے۔ ( بخاری۔ کتاب النفقات۔ باب وجوب النفقۃعلی الأہل و العیال ) اور اعتدال کی روش اختیار کرنے کے بعد اگر کسی کے پاس مال بچ رہتا ہے تو اسے اپنے اقرباء اور دوسرے حاجت مندوں کی ضرورتوں پر خرچ کرنا چاہئے۔ الفرقان
68 [٨٥]عرب معاشرہ میں شرک‘قتل ناحق اور زنا کی کثرت اور ان کاموں سے اجتناب:۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان تین بڑے بڑے گناہوں کا ذکر فرمایا۔ جن میں اس دور کا عرب معاشرہ بری طرح مبتلا تھا۔ ہر قبیلے کا الگ الگ بت ہوتا تھا۔ پھر ایک بڑا بت کئی قبائل کا مشترکہ بھی ہوتا تھا۔ بیت اللہ شریف کے متولیوں نے اللہ کے اس گھر کو جس کی بنیادی ہی توحید پر رکھی گئی تھی تین سو ساٹھ بتوں سے بھر دیا تھا۔ پورے عرب میں لوٹ مار اور قتل و غارت ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ پھر اگر کسی قبیلہ کا کوئی دشمن قتل ہوجاتا تو سمجھ لو کہ سالہا سال تک کے لئے ان دونوں قبائل میں جنگ ٹھن گئی۔ ایسی لڑائیوں نے گھرانوں کے گھرانے اجاڑ دیئے تھے۔ شراب نوشی اور زنا ان لوگوں کی گھٹی میں پڑا ہوا تھا۔ زنا کو وہ کوئی معیوب فعل نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کے ادبا و شعراء میلوں میں اپنے زنا کے واقعات اور اپنی محبوبہ کا ذکر بڑے فخر سے کرتے تھے۔ حد یہ ہے کہ صفا اور مروہ پہاڑیوں پردو بت رکھے گئے تھے جن کا نام اساف اور نائلہ تھا یہ دونوں دراصل ایک زانی مرد اور زانی عورت تھے جنہوں نے حرم کعبہ میں زنا کیا تھا۔ ان کے متعلق مشہور یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس جرم میں پتھر بنا دیا تھا۔ بعد کے لوگوں نے انہی پتھروں کو صفا اور مروہ پر رکھ کر ان کی پوجا شروع کردی۔ اسی بات سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ زنا ان کے ہاں گناہوں میں شمار بھی ہوتا تھا یا نہیں۔ پھر قتل ناحق کی ایک صورت ان کے ہاں رائج تھی اور وہ تھی لڑکیوں کو زندہ درگور کرنا۔ ( جس پر پہلے تفصیل سے لکھا جاچکا ہے) اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ ان شدید جرائم سے بچے رہتے ہیں جن میں عرب کا معاشرہ بری طرح پھنسا ہوا ہے۔ الفرقان
69 [٨٦] یعنی جو لوگ ایسے جرائم میں مبتلا ہیں۔ ایک تو انہیں ان کی سزا مل کے رہے گی۔ دوسرے ان کے عذاب میں کبھی وقفہ نہیں آئے گا۔ اور تیسرے یہ کہ ان کے عذاب میں دم بدم اضافہ ہی کیا جاتا رہے گا۔ پھر اس جہنم سے نکلنے کی بھی کوئی صورت اس کے لئے ممکن نہ ہوگی۔ الفرقان
70 [٨٧] اسلام لانےکے فائدے :۔ یعنی ایسے شدید جرم کرنے والے کافروں میں سے بھی جو شخص ایمان لائے گا۔ اللہ اس کے سابقہ گناہوں کو کلیتاً معاف فرما دے گا۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔ ١۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا : یارسول اللہ ! ہم نے جو گناہ جاہلیت کے زمانہ میں کئے ہیں کیا ہم سے ان کا مواخذہ ہوگا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو شخص اسلام لایا پھر نیک عمل کرتا رہا اس سے جاہلیت کے گناہوں کا مواخذہ نہیں ہوگا۔“ ( بخاری۔ کتاب استتابۃ المرتدین ) ٢۔ حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ ایک شخص ( دوران جہاد ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا۔ وہ اپنا چہرہ لوہے کے ہتھیاروں سے چھپائے ہوئے تھا۔ کہنے لگا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں پہلے کافروں سے لڑائی کرو یا اسلام لاؤں؟ آپ نے فرمایا : ” پہلے اسلام لاؤ، پھر لڑائی کرو“ تو وہ مسلمان ہوگیا پھر لڑنے لگا حتیٰ کہ شہید ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” دیکھو اس نے عمل تو تھوڑا کیا مگر ثواب بہت زیادہ پایا۔“ ( بخاری۔ کتاب الجہاد ۔ باب عمل صالح قبل القتال ) ٣۔ حضرت حکیم بن حزام کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ” میں نے جاہلیت کے زمانہ میں جو اچھے کام کئے تھے مثلاً قرابت داروں سے حسن سلوک، غلام کو آزاد کرنا یا صدقہ و خیرات دینا۔ کیا مجھے ان کا اجر ملے گا ؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کیوں نہیں۔ تم جو اسلام لائے ہو تو سابقہ نیکیوں کو برقرار رکھتے ہوئے اسلام لائے ہو۔“ ( بخاری۔ کتاب البیوع۔ باب شراء المملوک من الحربی) برائیاں نیکیوں میں کیسےبدلتی ہیں ؟:۔ ان احادیث سے نتیجہ نکلا کہ اسلام لانے کے دو بڑے فائدے ہیں۔ ایک یہ کہ سابقہ سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور اسلام لانے والا گناہوں سے اس طرح پاک صاف ہوجاتا ہے جیسے آج ہی پیدا ہوا اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس کے سابقہ نیک اعمال کا اسے اجر بھی ملے گا جبکہ بحالت کفر مرنے پر اسے نیک اعمال کا اسے اجر نہیں مل سکتا تھا۔ ایک تو یہ صورت ہوئی دوسری صورت یہ ہے کہ اسلام لانے والے کے اعمال نامہ میں فی الواقع اس کی برائیوں کی جگہ نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں۔ تیسری صورت یہ ہے کہ جو شخص اعمال صالحہ کا خوگر ہوجائے اس سے برائیوں کی عادت چھوٹ جاتی ہے اور سابقہ برائیاں معاف کردی جاتی ہے۔ اسی طرح جس معاشرہ میں نیکیاں رواج پا جائیں۔ برائیاں از خود مٹتی چلی جاتی ہیں۔ الفرقان
71 [٨٨]توبہ کا فائدہ اور شرائط :۔ سابقہ آیت میں ان لوگوں کا ذکر تھا جو کفر سے توبہ کرتے اور دائرہ اسلام میں داخل ہوتے ہیں۔ اس آیت میں ان مسلمانوں کا ذکر ہے جن سے گناہ سرزد ہوجائیں اور وہ توبہ کرتے ہیں۔ توبہ کی قبولیت کی شرائط یہ ہیں کہ وہ فی الواقع اپنے کئے پر نادم ہو۔ پھر اللہ سے استغفار کرے۔ توبہ استغفار کے بعد اپنی اصلاح کرے اور کم از کم اس سے وہ گناہ سرزد نہ ہو جس سے اس نے توبہ کی تھی۔ اب وہ توبہ استغفار کے بعد جس قدر اپنی اصلاح کرتا اور اعمال صالحہ بجا لاتا رہے گا اسی قدر وہ اللہ کے حضور مقرب بنتا جائے گا۔ الفرقان
72 [٨٩]شھادۃ الزور کا مطلب :۔ اس کا ایک ترجمہ تو وہی ہے جو ترجمہ سے واضح ہے البتہ یہ وضاحت باقی رہ جاتی ہے کہ زور کا معنی محض جھوٹ نہیں بلکہ ہر باطل اور لغو کام بھی زور میں شامل ہے۔ اسی طرح شہادۃ الزور سے مراد محض جھوٹی شہادت نہیں۔ جبکہ گول مول سی شہادت دینا، شہادت کا کچھ حصہ چھپا جانا اور بیان نہ کرنا یا ایسی ہیراپھیری کرنا کہ غیر اہم بات نہایت اہم اور اہم بات نہایت معمولی معلوم ہونے لگے یہ ایسی سب باتیں شہادۃ الزور میں داخل ہیں۔ اور ایسی شہادت کا مقصد کسی نہ کسی فریق کی ناجائز حمایت اور طرفداری ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں فریق ثانی کی از خود حق تلفی ہوجاتی ہے۔ ایسی شہادت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بڑے بڑے گناہوں میں شمار کیا ہے۔ ( بخاری۔ کتاب الشہادت۔ باب ماقیل فی شہادۃ الزور ) اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ جہاں کوئی لغو اور بے ہودہ قسم کا کام ہو رہا ہو۔ اللہ کے بندے وہاں حاضر ہو کر تماشائی نہیں بنتے اور ان کی طبیعت قطعاً یہ گوارا نہیں کرتی کہ وہ ایسی مجالس میں شریک ہوں جیسا کہ اس آیت کے اگلے حصہ سے یہی مفہوم متبادر ہوتا ہے۔ جہاں ایسے بے ہودہ قسم کے کھیل تماشے یا مجالس منعقد ہوں گے وہاں وہ نہ رکنا گوارا کرتے ہیں نہ انہیں دیکھناپسند کرتے ہیں بلکہ شریفانہ طور پر وہاں سے آگے گزر جاتے ہیں۔ الفرقان
73 [٩٠]وحی کو عقل کے تابع رکھنے والے حضرات کا قرآن کی اس آیت سے استدلال :۔ یعنی جب اللہ کے بندوں کو آیات الہٰی سے نصیحت اور یاددہانی کرائی جاتی ہے تو اس نصیحت سے ان کے دل پوری طرح اثر قبول کرتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں وہ اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔ بعض عقل پرست حضرات اس آیت کا مفہوم یہ لیتے ہیں کہ اللہ کے بندوں کو جب آیات سنائی جاتی ہیں تو وہ بلا سوچے سمجھے ان پر نہیں گرے پڑتے بلکہ اگر وہ آیات عقل کے مطابق ہوں تو تب انہیں قبول کرتے ہیں اور اس سے مزید نتیجہ یہ نکالتے ہیں کہ قرآن کا کوئی حکم ایسا نہیں جو عقل انسانی کے مطابق نہ ہو۔ اس طرح وہ وحی الہٰی کو عقل کے تابع بنادیتے ہیں۔ یہ سلوک تو ان کا قرآن سے ہے اور جو سلوک ان کا احادیث نبویہ سے ہوسکتا ہے اس کا آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ حالانکہ دین میں جتنے بھی تعبدی امور ہیں وہ سب ایسے ہیں جن تک عقل کی رسائی ممکن نہیں۔ مثلاً یہ کہ حدث یا ہوا نکلنے سے وضو کیوں ٹوٹ جاتا ہے اور صاف ستھرے اجزائے بدن کو از سر نو کیوں دھونا پڑتا ہے۔ یا مثلاً یہ کہ اگر ذبح کرتے وقت جانور پر اللہ کا نام نہ لیا جائے تو وہ حرام کیوں ہوجاتا ہے اور اس کے گوشت میں کیا تبدیلی واقع ہوتی ہے کہ اس کا کھانا حرام قرار دیا گیا ہے۔ اور ایسی مثالیں بے شمار ہیں۔ گویا اصل مفہوم کے لحاظ سے اس آیت کا مقصد اللہ کی آیات میں غور و فکر اور اثر پذیری ہے لیکن عقل پرستوں کے نزدیک اس آیت کا مقصد اللہ کے احکام کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنا ہے۔ اگر وہ پوری اترے تو اسے قبول کرلیا جائے ورنہ اس کی تاویل کر ڈالی جائے۔ [٩١] اہل خانہ کو دینداربنانےکی کوشش کے ساتھ ساتھ دعابھی ضروری ہے :۔ مکی دور میں مسلمانوں کی زندگی کچھ اس طرح گزر رہی تھی کہ اگر باپ مسلمان ہے تو اولاد کافر ہے اور اولاد مسلمان ہے تو والدین کافر ہیں۔ شوہر مسلمان ہے تو بیوی کافر ہے اور بیوی مسلمان ہے تو شوہر کافر ہے۔ یہ صورت حال بھی مسلمانوں کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کا باعث بنی ہوئی تھی۔ لہٰذا اللہ کے بندوں کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی بیان کی گئی کہ وہ یہ بھی دعا کرتے رہتے ہیں کہ ہمارے ازواج اور ہماری اولاد کو بھی ایمان کی دولت نصیب فرما تاکہ ہمارے اس قلق و الم کا تدارک ہوسکے۔ واضح رہے کہ جس طرح ہر عورت کے لئے اس کا خاوند زوج ہے اسی طرح ہر مرد کے لئے اس کی بیوی اس کا زوج ہے اور اولاد دونوں کی ہوتی ہے اس لحاظ سے یہ دعا ہر مسلمان مرد اور عورت سب کے لئے یکساں ہے۔ پھر یہ دعا صرف اس دور کے مسلمانوں سے ہی مخصوص نہیں ہر دور میں اس کی ضرورت برقرار ہے۔ بیوی اور اولاد ایسے چیزیں ہیں جن سے انسان کو فطرتا محبت ہوتی ہے اور اس کے لئے آزمائش کا سبب بن جاتی ہے لہٰذا ہر مسلمان کو جس طرح اپنے حق میں دعائے خیر کرنا ضروری ہے۔ ویسے ہی ان کے حق میں بھی ضروری ہے کہ وہ اللہ کے نافرمان اور دین سے بیگانہ رہ کر اس کے لئے پریشانیوں کا سبب نہ بن جائیں۔ بلکہ اللہ کے فرمانبردار اور دین کے خادم بن کر اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک ثابت ہوں۔ الفرقان
74 [٩٢]امارت کی مشروط آرزواور سیاسی لیڈرو ں کی تاویل :۔ یہ بھی دعا کا اگلا حصہ ہے۔ یعنی ہماری بیویوں اور اولاد کو نیک اور پرہیز گار بنا اور پھر ہمیں ان سے بڑھ کر پرہیزگار بنا کہ ہم خود ان کے امام اور پیش رو ثابت ہوں۔ پھر یہ دعا صرف ازواج و اولاد تک ہی محدود نہیں۔ بلکہ ہمیں اتنا نیک اور پرہیزگار بنادے کہ ہم دوسرے متقین کے لئے رہبر اور نمونہ بن جائیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے بندوں کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ نیکی اور پرہیزگاری کے میدان میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی آرزو اور اس کے لئے دعا کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ اس مقصد کے لئے اور اس میدان میں امامت یا حکومت تک کے لئے آرزو کرنا یا دعا کرنا صرف جائز ہی نہیں تھا بلکہ ضروری ہے۔ جبکہ حب مال یا حب جاء کی غرض سے طلب امارت بے شمار صحیح احادیث کی رو سے ممنوع ہے لیکن موجودہ جمہوری دور کے بعض سیاسی لیڈر اسی آیت سے طلب امارت کے جواز پر استدلال کرتے ہیں۔ وہ چاہتے یہ ہیں کہ متقی حضرات تو ان کی رعیت بنیں اور یہ سیاسی لیڈر، جیسے بھی کردار کے وہ مالک ہوں، ان کے حاکم بن جائیں۔ ایسی کج فکری خالصتاً کسی پکے دنیا دار کے ذہن کا نتیجہ ہی ہوسکتی ہے۔ الفرقان
75 [٩٣] بالاخانہ سے مراد یہ نہیں کہ وہ کسی دو منزلہ عمارت کی اوپر کی منزل میں واقع ہوگا۔ بلکہ اس سے مراد بلند درجوں میں واقع رہائش گاہ ہے اور جنت کے اوپر نیچے سو درجے ہیں۔ یعنی اللہ کے بندوں میں مذکورہ بالا صفات جس حد تک پائی جائیں گی اسی کے مطابق ان کو بلندی درجات اور ان میں سکونت نصیب ہوگی۔ پھر ایسے اللہ کے بندوں کے استقبال کے لئے فرشتے مو جود ہوں گے جو انہیں سلام بھی کہیں گے اور سلامتی کی دعائیں بھی دیں گے۔ جنت میں رہائش پذیر ہوجانے کے بعد ان کی باہمی ملاقاتوں میں یہ ہی کلمات سلام و دعا ان کی تکریم اور عزت افزائی کے لئے استعمال ہوں گے۔ الفرقان
76 [٩٤] جنت کے بہترین رہائش گاہ ہونے کا اندازہ سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث سے ہوتا ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جب میں ایک کوڑا رکھنے کے برابر جگہ ساری دنیا اور مافیہا سے بہتر ہے۔“ ( بخاری۔ کتاب بدءالخلق۔ باب فی صفةالجنة) الفرقان
77 [٩٥] اللہ کی بے نیازی :۔ یعنی اگر تم اللہ کو پکارو گے اس کی عبادت کرو گے اس کے حضور توبہ استغفار کرو گے اس سے اپنی حاجتیں طلب کرو گے تو اس میں تمہارا اپنا ہی بھلا ہے۔ اور اگر تم ان باتوں میں بے نیازی کا مظاہرہ کرو گے تو اللہ کی کوئی ضرورت تمہاری پکار اور دعا یا عبادت نہ کرنے کی وجہ سے اٹکی ہوئی نہیں ہے۔ اس آیت کی تفسیر کے لئے درج ذیل حدیث قدسی ملاحظہ فرمائیے۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :” اے میرے بندو! تم نہ میرا کچھ نقصان کرسکتے ہوں اور نہ مجھے کچھ فائدہ پہنچا سکتے ہو۔ اگر تمہارے اگلے اور پچھلے اور آدمی اور جن سب ایسے ہوجائیں جیسے تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار شخص ہے تو اس سے میری سلطنت میں کچھ افزائش نہ ہوگی۔ اور اگر تمہارے اگلے پچھلے اور آدمی اور جن سب ایسے ہوجائیں جیسے تم میں کوئی سب سے زیادہ بدکردار ہے تو بھی میری سلطنت میں کچھ کمی واقع نہ ہوگی۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے اور پچھلے اور آدمی اور جن سب ایک میدان میں جمع ہو کر مجھ سے مانگنا شروع کردیں اور میں ہر ایک کو وہی کچھ دیتا جاؤں جو کچھ اس نے مانگا ہے تو جو کچھ میرے پاس ہے اس میں سے کچھ بھی کم نہ ہوگا۔ مگر اتنا جیسے سمندر میں سوئی کو ڈبو کر نکال لیا جاتا ہے۔ اے میرے بندو! یہ تمہارے ہی اعمال ہیں جنہیں میں تمہارے لئے شمار کرتا رہتا ہوں۔ پھر تمہیں ان کا پورا پورا بدلہ دوں گا۔ سو جس کو اچھا بدلہ ملا اسے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے اور اس کی حمد و ثنا بیان کرنا چاہئے اور جسے برا بدلہ ملے تو اسے اپنے آپ ہی کو ملامت کرنا چاہئے۔“ ( مسلم۔ کتاب البرو الصلۃ۔ باب تحریم الظلم) [ ٩٦]کیااچھے اور برے اعمال کےنتائج لابدی ہیں :۔ اس آیت کے مخاطب قریش مکہ ہیں۔ جنہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی جھٹلایا اور اس کی آیات کو بھی۔ اس تکذیب کا انجام ان کے گلے کا ہار بن گیا۔ ان پر اللہ کی گرفت کا آغاز غزوہ بدر سے ہوا۔ اور اس گرفت میں دم بدم اضافہ ہی ہوتا گیا حتیٰ کہ جب مکہ فتح ہوا تو انہیں اپنی جان کے لالے پڑگئے۔ اور جزیرہ عرب سے کفر و شرک یا کافروں اور مشرکوں کا نام و نشان تک مٹ گیا اور ان میں سے وہی زندہ رہے جنہوں نے اسلام کی آغوش میں پناہ لے لی۔ اس آیت سے ایک گمراہ فرقہ نے یہ استدلال کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نیکی اور بدی کے لئے جزا و سزا کے جو قانون مقرر کر رکھے ہیں۔ وہ لابدی ہیں اور ان میں کسی طرح کا تخلف نہیں ہوسکتا۔ اس سلسلہ میں ان کی گمراہی یہ نہیں کہ انہوں نے اس آیت سے غلط نتیجہ نکالا ہے بلکہ گمراہی یہ ہے کہ انہوں نے صرف اس آیت یا اس جیسی ہی دوسری آیات کو مدنظر رکھا ہے۔ اور وہ آیات جن میں اللہ کی مغفرت اور رحمت کا ذکر ہے۔ ان کو پس انداز کردیا ہے۔ اللہ کے عدل کا تقاضا صرف یہ ہے کہ کسی ظالم کو اس کے جرم سے زیادہ سزا نہ دے اور کسی محسن کو اس کی نیکی کے برابر جزا ضرور دے۔ اس سے کم نہ دے۔ اور اللہ کا غفور اور رحیم ہونا عدل کے منافی نہیں بلکہ اس سے بلند تر صفت ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ محسن کو اس کی نیکی کے تناسب سے بہت زیادہ بدلہ دے دے یا کسی ظالم کو کسی مصلحت کی بنا پر معاف کردے اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر منحصر ہے۔ الفرقان
0 الشعراء
1 الشعراء
2 [١] کتاب سے مراد یہی خاص سورہ شعراء بھی ہوسکتی ہے اور پورا قرآن بھی۔ کیونکہ قرآن کی ہر سورہ اپنی ذات میں جامع ہے، مکمل ہے اور مستقل کتاب ہے۔ جیسا کہ پہلے اس کی وضاحت کی جاچکی ہے اور مبین سے مراد یہ ہے کہ یہ کتاب اپنا مدعا صاف صاف بیان کر رہی ہے اس میں کچھ ابہام نہیں جس کی کسی کو سمجھ نہ آسکے۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان آیات سے واضح طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ کتاب کی آیات ہیں۔ کسی انسان سے یہ ممکن نہیں کہ وہ ایسی آیات پیش کرسکے۔ الشعراء
3 [٢]کفار کے ایمان نہ لانے پر آپ کی پریشانی کی وجوہ :۔ آپ کی یہ انتہائی آرزو تھی کہ کفار مکہ ایمان لے آئیں اور جب وہ ایمان لانے کے بجائے معاندانہ روش اختیار کرتے تو آپ کو اتنا ہی شدید صدمہ ہوتا تھا۔ اس کی وجوہ کئی تھیں۔ ایک یہ کہ آپ خلق خدا کے لئے نہایت ہمدردانہ اور مشفقانہ جذبات رکھتے تھے۔ آپ جانتے تھے کہ یہ لوگ میری مخالفت کرکے جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں۔ لہٰذا آپ کو ان کی اس مخالفت سے شدید دکھ ہوتا تھا۔ دوسری وجہ فطری تھی۔ انسان جس کام میں اپنی تمام تر کوششیں صرف کر رہا ہو اگر اس کا کوئی مثبت نتیجہ نظر نہ آرہا ہو تو وہ مایوس ہوجاتا ہے اور اسے سخت صدمہ پہنچتا ہے۔ تیسری وجہ یہ تھی جس میں دوسرے مسلمان بھی شامل تھے۔ کہ اگر یہ لوگ اسلام قبول کرلیتے تو اسلام کو خاصی تقویت پہنچ سکتی تھی۔ بصورت دیگر مسلمانوں کی ایذاؤں اور مشکلات میں مزید اضافہ ہورہا تھا۔ ان وجوہ کی بنا پر آپ کفار کے انکار پر شدید افسردہ اور غمگین رہتے تھے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دیتےہوئے فرمایا کہ آپ ان لوگوں کے ایمان نہ لانے پر اپنے آپ کو ہلکان نہ کریں۔ انہیں راہ راست پر لانا آپ کے ذمہ نہیں اور جو کام آپ کے ذمہ ہے وہ آپ کر ہی رہے ہیں۔ آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑیئے اس سے نپٹنا میرا کام ہے۔ آپ بس اپنا کام کرتے جائیے۔ الشعراء
4 [٣] جبری ایمان اللہ کو مطلوب نہیں :۔ اگر ان کا ایمان لانا ہی مطلوب ومقصود ہوتا تو یہ کام یوں بھی ہوسکتا تھا کہ ہم کوئی ایسا معجزہ نازل کردیتے۔ جس کی بنا پر یہ ایمان لانے پر مجبور ہوجاتے۔ مگر یہ بات ہماری مشیت کے خلاف ہے۔ ایسا جبری ایمان لانے کا نہ کوئی فائدہ ہے اور نہ ہمیں مطلوب ہے۔ مطلوب تو یہ ہے کہ انہیں راہ ہدایت سمجھا دینے کے بعد کون شخص اپنی عقل و تمیز کو کام میں لاکر اور اپنے ارادہ و اختیار سے ایمان لاتا ہے۔ اور یہی چیز انسان کی پیدائش کا مقصود اصلی ہے ورنہ اللہ انسان کو بھی دوسری مخلوق کی طرح پیدا کرسکتا تھا۔ جو اللہ کے سامنے ہر حال میں سرتسلیم خم کرنے پر مجبور ہے۔ الشعراء
5 [٤] ان لوگوں کو راہ راست سمجھانے کا طریقہ یہی ہے کہ ان کی توجہ اللہ تعالیٰ کی آیات تکوینیہ ( وہ نشانیاں جو کائنات میں ہر سو بکھری ہوئی ہیں) اور آیات تنزیلیہ(وحی کی صورت میں نازل ہونے والی آیات یا وہ آیات جن میں معاندین حق پر عذاب نازل ہونے کا ذکر ہے) کی طرف دلائی جائے۔ مگر یہ کچھ ایسے بدبخت واقع ہوئے ہیں کہ اللہ کی طرف سے جو بھی آیات یا معجزہ وغیرہ نازل ہوتا ہے تو بجائے اس کے یہ اس میں کچھ غور و فکر کریں اور توجہ دیں یہ الٹا اس سے منہ موڑ جاتے ہیں اور اللہ کی آیات کا مذاق اڑانا شروع کردیتے ہیں۔ الشعراء
6 [٥] یہ لوگ تو بار بار سمجھانے کے باوجود اپنی ضد، ہٹ دھرمی اور مخالفت پر اڑے بیٹھے ہیں۔ ان لوگوں کا علاج یہ نہیں کہ کوئی معجزہ ان پر نازل کیا جائے کہ وہ ایمان لانے پر مجبور ہوجائیں۔ بلکہ اب ان کا علاج صرف یہ باقی رہ گیا ہے کہ انہیں جوتوں سے سیدھا کیا جائے۔ اور عنقریب انہیں ایسی بھی خبریں ملتی رہیں گی جن سے ان کو واضح طور پر معلوم ہوجائے گا کہ جن باتوں کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے وہی باتیں برحق اور درست تھیں۔ اس کی ایک شکل تو یہ تھی کہ ان کی تمام تر معاندانہ کوششوں کے باوجود اسلام کو غلبہ نصیب ہوتا چلا گیا اور یہ ہر ہر میدان میں مات کھاتے رہے اور ان کے لواحقین ایسی خبریں سنتے اور غم کے گھونٹ پیتے رہے اور پیتے رہیں گے اور دوسری صورت کی آخری منزل ان کی موت ہے۔ دنیا میں ہی جب یہ لوگ موت کی سرحد پر آن کھڑے ہوں گے تو ان پر ساری حقیقتیں منکشف ہوتی چلی جائیں گی۔ لہٰذا آپ ان کے غم میں ہلکان ہونا چھوڑ دیجئے۔ الشعراء
7 الشعراء
8 [٦] نباتات میں اللہ کی نشانیاں :۔ اگر کسی معجزہ کی بات ہے تو یہ کیا کم معجزہ ہے کہ ایک ہی زمین میں، ایک ہی جیسا آسمان سے پانی برستا ہے۔ ایک ہی سورج سے نباتات کی نشوونما ہوتی ہے۔ لیکن نباتات ساری ایک جیسی نہیں ہوتی۔ ہزارہا قسم کی نباتات ہوتی ہے۔ کہیں رنگ برنگ کے پھول کھل رہے ہیں، کہیں لہلہاتی کھیتیاں ہیں۔ ان کی خوشبوؤں سے زمین مہک اٹھتی ہے۔ پھر اس نباتات اور وہاں کے باشندوں کی ضروریات میں ایک خاص مناسبت ہے۔ نباتات کی بے شمار انواع و اقسام کے باوجود یہ بھی اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ قوانین کے تحت ہی اگتی، بڑھتی اور پھلتی پھولتی ہیں اور اس میں ایک خاص نظم و ضبط پایا جاتا ہے۔ غرضیکہ نباتات میں غور و فکر کا اتنا وسیع میدان موجود ہے کہ یہ علم کی ایک شاخ بن چکا ہے۔ اور غور و فکر کرنے والوں کے لئے قدرت کے نئے سے نئے عجائبات پیش کرتا رہتا ہے۔ اب اگر کوئی شخص ان عجائبات کی طرف توجہ ہی نہ کرے تو اسے اللہ کی کوئی نشانی نظر بھی کیسے آسکتی ہے؟ الشعراء
9 [٧] یعنی اللہ اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ ایسے ضدی اور معاند لوگوں کو فوراً صفحہ ہستی سے مٹا دے۔ مگر چونکہ وہ رحیم بھی ہے۔ لہٰذ ا وہ انہیں فوراً تباہ نہیں کردیتا بلکہ سمجھنے، سوچنے اور سنبھلنے کے لئے مہلت دیئے جاتا ہے۔ الشعراء
10 [٨] آپ کی اور موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کے پس منظر کا تقابل:۔ آیات تکوینیہ کی طرف توجہ دلانے کے بعد آگے آیات تنزیلیہ کا آغاز ہو رہا ہے۔ اور اس سلسلہ میں اس سورت میں سات اقوام کا ذکر کیا گیا ہے۔ جنہوں نے اپنے رسول کی دعوت قبول کرنے کے بجائے سرکشی کی راہ اختیار کی تو ان پر عذاب الہٰی نازل ہوا اور صفحہ ہستی سے ان اقوام کا نام و نشان مٹا دیا گیا۔ اور ان آیات کا آغاز حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذکر سے کیا۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آغاز رسالت میں جن حالات سے سابقہ پیش آیا تھا وہ ان حالات سے سنگین تر تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیش آئے تھے۔ مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس خاندان کے فرد تھے جو کعبہ کی تولیت کی وجہ سے عرب بھر میں مع و محترم شمار ہوتا تھا جبکہ موسیٰ علیہ السلام اس قوم کے فرد تھے جو فرعون کی غلام تھی۔ دوسرے یہ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی طرف مبعوث کیا گیا۔ جس کے ہاں آپ نے پرورش پائی تھی۔ پھر آپ نے نادانستہ طور پر آل فرعون کے ایک آدمی کو بھی مار ڈالا تھا اور فرعونی حکومت کی طرف سے اس قتل کی سزا کے ڈر سے آپ وہاں سے ترک وطن پر مجبور ہوئے تھے گویا آپ فرعون کے ممنون احسان بھی تھے پھر اس کے مفرور مجرم بھی تھے۔ تیسرے یہ کہ فرعون ایک عظیم الشان سلطنت کا فرمانروا، ظالم و جابر اور اپنی خدائی کا دعویٰ رکھنے والا حکمران تھا۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن لوگوں کی طرف مبعوث ہوئے وہ یا آپ کے ہمسر تھے یا معاشرتی لحاظ سے کم تر درجہ رکھتے تھے۔ گویا موسیٰ علیہ السلام کے حالات سے آغاز میں دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ تسلی دی جارہی ہے کہ بعض سابقہ انبیاء کو آپ سے بھی زیادہ سنگین حالات میں دعوت دین کا فریضہ سرانجام دینا پڑا تھا۔ لہٰذا آپ کو ان کفار مکہ کی معاندانہ روش سے اتنا زیادہ افسردہ اور غمگین نہیں رہنا چاہئے۔ الشعراء
11 [٩] بنی اسرائیل پر فرعون اور اس کی حکومت نے جو مظالم ڈھا رکھے تھے ان کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اس قوم کا تعارف ہی ظالم قوم سے کرایا اور جب وہ ایسے مظالم ڈھاتے تھے تو انہیں کسی بھولے سے بھی یہ خیال نہیں آتا تھا کہ ان کے اوپر بھی کوئی ایسی ہستی موجود ہے جو ان سے ان کے مظالم کا بدلہ لینے کی قدرت رکھتی ہے۔ وہ اپنی طاقت اور حکومت کے نشہ میں اللہ کی گرفت سے بالکل بے خوف ہوچکے تھے۔ الشعراء
12 الشعراء
13 الشعراء
14 [١٠] اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو مدین سے واپسی پر نبوت عطا فرمائی تو ساتھ ہی حکم دیا کہ تمہیں فرعون اور قوم فرعون کے پاس جو اپنے ظلم کی وجہ سے مشہور ہوچکی ہے۔ جاکر دعوت کا فریضہ سرانجام دینا ہے۔ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو سابقہ زندگی کے کئی واقعات آپ کی آنکھوں کے سامنے پھر گئے۔ اور کئی قسم کے خطرات سامنے آنے لگے۔ جن میں سرفہرست یہ تھا کہ وہ میری دعوت الی الحق کو کیا اہمیت دے گا۔ جبکہ میں اس قوم کا ایک فرد ہوں۔ جسے اس نے اپنا غلام بنا رکھا ہے۔ اور خوب دبا کر رکھتا ہے۔ پھر میں اس کا پروردہ بھی ہوں۔ علاوہ ازیں میں ان کا مجرم بھی ہوں۔ ان سب باتوں کو ذہن میں رکھ کر جب اسے اللہ کا پیغام سنانے کا تصور کیا تو سینہ میں گھٹن سی محسوس ہوئی۔ چنانچہ اللہ کے حضور یہ خطرات بیان بھی کردیئے۔ مگر انکار کی مجال نہ تھی۔ اور یہی اولوالعزم انبیاء کی شان ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے ایسے فرمانبردار بندے ہوتے ہیں کہ اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر بھی اللہ کا پیغام پہنچانے سے دریغ نہیں کرتے۔ التبہ اتنی گزارش ضرور کی کہ میرے بھائی ہارون کو بھی نبوت عطا فرما کر میرے ہمراہ کردیجئے۔ جو اس کام میں میرا معاون و مددگار ہو اور ہم کم از کم ایک کے بجائے دو تو ہوجائیں گے جو ایک دوسرے کے غمگسار اور ہمدرد ہوں۔ علاوہ ازیں میری زبان بھی روانی سے نہیں چلتی۔ جبکہ میرا بھائی ہارون فصیح اللسان ہے۔ الشعراء
15 [١١] سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی اللہ سے گزارشات اور ان کی قبولیت:۔ موسیٰ علیہ السلام کی اس التجا اور ان خطرات کے جواب میں فرمایا : کہ (1) تمہاری التجا منظور ہے، میں ہارون کو نبوت عطا کردیتا ہوں اور وہ تمہارے ساتھ رہے گا اور اس کام میں تمہارا مددگار ہوگا، (2) تمہیں جو اس بات کا خطرہ ہے کہ وہ مجھے مار ہی نہ ڈالیں تو اس بات کو دل سے نکال دو۔ وہ لوگ تمہارا بال بھی بیکا نہ کرسکیں گے۔ اور اس کی دو وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ تمہیں دو ایسے معجزات دے کر بھیجا جا رہا ہےجو اس بات کا یقینی ثبوت پیش کرتے ہیں کہ تم فی الواقع اللہ کے رسول ہو اور دوسری وجہ یہ ہے کہ تم دونوں کے سات تیسرا میں بھی ہوں۔ میں تمہاری سب باتیں سنتا ہوں اور تمہاری پوری پوری نگہداشت بھی کروں گا۔ اللہ کی معیت کی مثال اور معتزلہ اور جہمیہ کا رد:۔ اس آیت اور اس جیسی بعض دوسری آیات سے جہمیہ نے استدلال کیا کہ اللہ کی ذات ہر جگہ موجود ہے اور جن آیات میں اللہ کے مستوی علی العرش ہونے کا ذکر تھا ان آیات کی تاویل کر ڈالی۔ حالانکہ جن آیات میں اللہ کی معیت یا اس کے قریب ہونے کا ذکر ہے تو ایسی معیت یا قربت ذات کے لحاظ سے نہیں بلکہ صفات کے لحاظ سے ہے۔ اس کی ایک معمولی سی مثالی یوں سمجھئے کہ سورج اور چاند اللہ کی بے جان اور ادنیٰٰ سے مخلوق ہے۔ جو مسافر کے ساتھ ہی رہتی ہے۔ چلنے والا جہاں تک چلے وہ ساتھ ساتھ ہی رہتے ہیں۔ حالانکہ وہ آسمان پر ہیں اور انسان لاکھوں اور کروڑوں میل دور ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ مستوی علی العرش ہونے کے باوجود اپنے علم، اپنی قدرت اور مدد کے لحاظ سے ہر انسان سے بالکل نزدیک ہے اور اس کی صحیح کیفیت تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ الشعراء
16 الشعراء
17 [١٢] اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کا مطالبہ منظور کرلینے کے بعد اور فرعون کی دست درازیوں سے حفاظت کی یقین دہانی کے بعد ان دونوں کو حکم دیا کہ فرعون کے پاس جائیں اور اسے بتائیں کہ ہم رب العالمین کے رسول یا فرستادہ ہیں اگر وہ جھٹلائے تو پھر دو معجزات نشانی کے طور پر اسے دکھائیں اور ساتھ ہی اس سے یہ مطالبہ کردیں کہ ہماری قوم بنی اسرائیل کو اپنی غلامی سے آزاد کرکے ہمارے ہمراہ روانہ کردے۔ چنانچہ ان دونوں پیغمبروں نے اللہ کے اس حکم کے سامنے سرتسلیم خم کیا۔ فرعون کے دربار تک پہنچے اور اسے جوں کا توں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دیا۔ الشعراء
18 الشعراء
19 [١٣] موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا مکالمہ :۔ فرعون نے اللہ کا پیغام سننے کے بعد اس پیغام کا کچھ جواب دینے کے بجائے وہی کچھ کہنا شروع کردیا جس کا موسیٰ علیہ السلام کو پہلے سے خطرہ تھا۔ اس نے کہا کہ بچپن میں تمہاری پرورش ہم نے ہی کی تھی۔ تمہاری جوانی ہمارے درمیان گزری ہے۔ ہم تو تمہاری رگ رگ سے واقف ہیں۔ پھر تم ہمارے مجرم بھی ہو۔ اب تم نے یہ پیغمبری کا ڈھونگ رچا ڈالا ہے اور ہم پر دباؤ ڈالنے آگئے ہو۔ تمہیں تو ہمارا ممنون احسان ہونا چاہئے تھا تم اٹھ کر رسالت کا دعویٰ کرکے اب ہمیں آنکھیں دکھانے لگے ہو تم جیسا بھی کوئی احسان فراموش شخص ہوسکتا ہے؟ ﴿أَنتَ مِنَ الْكَافِرِينَ﴾  کا ترجمہ بعضوں نے یوں کیا ہے کہ آج جن لوگوں کو تم کافر کہہ رہے ہو اس پیغمبری کے دعویٰ سے پہلے تو تم خود بھی انہیں جیسے کافر تھے۔( نعوذ باللہ ) فرعون کی اس گفتگو سے ضمناً یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ یہ فرعون وہ فرعون نہیں تھا جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تربیت کی تھی۔ بلکہ یہ اس کا بیٹا تھا ورنہ ہم نے پرورش کرنے کی بجائے ”میں نے پرورش کی تھی“ کہتا۔ اور یہ تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ الشعراء
20 الشعراء
21 [١٤]سیدناموسیٰ علیہ السلام کا قتل خطأ کا اعتراف:۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کی دونوں باتوں میں سے دوسری کو زیادہ اہم سمجھ کر اس کا جواب دیا اور کہا کہ میں قبطی کے قتل کا مجرم ضرور ہوں۔ لیکن میں نے یہ قتل عمداً نہیں کیا تھا۔ بلکہ نادانستہ طور پر قتل خطا واقعہ ہوگیا تھا۔ میرا قتل کا ارادہ ہرگز نہ تھا۔ نہ میں نے کوئی ایسا آلہ استعمال کیا تھا۔ جو قتل کے لئے استعمال ہوسکتا ہے میری خطا صرف اتنی ہے۔ کہ میری سبطی قوم کے ایک آدمی پر تیری قبطی قوم کا ایک آدمی زیادتی کر رہا تھا اس نے میرے سامنے فریاد کی میں نے جب دیکھا کہ زیادتی قبطی کی ہے اور سبطی مظلوم ہے تو میں نے اس مظلوم کی حمایت کرتے ہوئے قبطی کو مکہ مارا۔ اب یہ اتفاق کی بات ہے کہ وہ مر گیا۔ میں نے کسی برے ارادے سے ہرگز یہ کام نہیں کیا تھا۔ ہاں جب معلوم ہوگیا کہ مجھے سزا دینے کی تجویزیں ہو رہی ہیں تو میں نے راہ فرار میں ہی اپنی عافیت سمجھی تھی۔ گویا اس واقعہ میں جتنا موسیٰ علیہ السلام کا قصور تھا اس کا انہوں نے فرعون کے سامنے برملا اعتراف کرلیا۔ رہی یہ بات کہ اب میں پیغمبری کا دعویٰ کر رہا ہوں۔ جب کہ پہلے کبھی میں نے ایسی بات نہیں کہی تھی کہ اس کا جواب یہ ہے۔کہ جب میں یہاں سے بھاگ کر گیا تھا تو اس کے مدتوں بعد مجھے اللہ تعالیٰ نے نبوت بھی عطا فرمائی اور حکمت بھی۔ اور ساتھ ہی مجھے تمہارے پاس پہنچ کر اپنا پیغام تجھے پہنچانے کا حکم دیا ہے۔ الشعراء
22 [١٥] اور تمہاری پہلی بات کا جواب یہ ہے کہ میری تمہارے ہاں پرورش پانے کا سبب تو یہی چیز بنی تھی کہ تم لوگ بنی اسرائیل کے لڑکوں کو زندہ نہیں رہنے دیتے تھے۔ اور انہیں ذبح کر ڈالتے تھے اگر ایسی بات نہ ہوتی تو میری ماں کیوں مجھے تابوت میں بند کرکے سمندر میں ڈالتی ۔ پھر وہی تابوت اللہ کی قدرت سے تمہارے پاس پہنچ گیا۔ اگر تم نے بنی اسرائیل پر ایسے مظالم نہ ڈھائے ہوتے تو کیا میرے والدین میری پرورش نہ کرسکتے تھے؟ میری پرورش کے احسان کی آڑ میں اپنے سال ہا سال کے مظالم کو چھپانا چاہتے ہو؟ بنی اسرائیل کو انہیں مظالم اور تمہاری غلامی سے نجات دلانے کے لئے تو اللہ رب العالمین نے مجھے پیغمبر بنا کر تمہارے ہاں بھیجا ہے۔ الشعراء
23 [١٦] فرعون نے پوری مملکت کے وسائل معاش اپنے قبضہ میں کر رکھے تھے۔ اسی لحاظ سے وہ اپنے آپ کو اپنی رعیت کا پروردگار یا رب سمجھے بیٹھا تھا اور اپنےاعلیٰ رب ہونے کا دعویٰ بھی کرتا تھا۔ اس نے ملک بھر میں اپنے مجسمے نصب کروا رکھے تھے۔ جن کی پوجا کی جاتی تھی اس نے اپنی رعیت کے ذہنوں میں یہ بات راسخ کردی تھی کہ ان کا پرورش کنندہ میں ہی ہوں۔ لہٰذ ا موسیٰ علیہ السلام نے یوں فرمایا کہ ہم ” رب العالمین“ کے رسول ہیں تو وہ فوراً چونک اٹھا اور ازراہ حقارت کہنے لگا کہ یہ رب العالمین کیا ہوتا ہے۔ اپنی رعیت کا رب تو میں خود ہوں۔ یہ کون سے رب العالمین کی بات کرتے ہو؟ الشعراء
24 [١٧] موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا کہ رب العالمین وہ ہے جو اس پوری کائنات کا خالق و مالک ہے۔ اگر تمہیں اس بات کا یقین ہے کہ اس کائنات کو وجود میں لانے والی کوئی ہستی موجود ہے تو سمجھ لو کہ میں اس ہستی کی طرف سے تیرے پاس رسول بن کر آیا ہوں اور تمہیں اسی کا پیغام پہنچا رہا ہوں۔ الشعراء
25 [١٨] فرعون اب اپنے درباریوں اور امیروں، وزیروں سے متوجہ ہو کر کہنے لگا : سن رہے ہو جو یہ شخص کہہ رہا ہے۔ یہ کہہ رہا ہے کہ تمام بنی اسرائیل کو اپنی غلامی سے رہا کرکے میرے ہمراہ کردو۔ تاکہ یہ ہمارے مقابلہ پر اتر آئے۔ پھر ساتھ ہی یہ بھی کہے جاتا ہے کہ” میں رب العالمین کا فرستادہ ہوں۔“ فرعون کے اس جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی خدائی اور فرعونیت کے باوجود موسیٰ علیہ السلام سے کچھ خطرہ محسوس کرنے لگا تھا اور اپنے درباریوں کو ان کے خلاف بھڑکانا چاہتا تھا۔ الشعراء
26 [١٩] درباریوں کے کوئی جواب دینے سے پہلے ہی موسیٰ علیہ السلام نے بھرے دربار میں پھر فرعون کو مخاطب ہو کر کہا : تم یہ سمجھے بیٹھے ہو کہ ملک بھر کے وسائل معاش کو اپنے قبضہ میں کرلینے کے بعد تم ہی اپنی رعایا کے پروردگار بن گئے ہو۔ میں اس پروردگار کی بات کر رہا ہوں جس کا تمام تر وسائل پر براہ راست کنٹرول ہے۔ اگر وہ ایک سال یا چند سال بارش ہی نہ برسائے تو تم رعیت تو درکنار اپنی خوراک تک کے لئے ترس جاؤ گے۔ رب العالمین وہ ہے جو خود تمہیں اور تمہارے سب آباء و اجداد کو رزق دیتا رہا ہے اور وہی تمہارا حقیقی پروردگار ہے۔ میں اس رب العالمین کا رسول ہوں۔ الشعراء
27 [٢٠] فرعون پھر موسیٰ علیہ السلام کے بجائے درباریوں کی طرف ہی متوجہ ہو کر کہنے لگا۔ اس شخص کی حقیقت دیکھو اور اس کا مطالبہ دیکھو۔ اگر یہ رسول ہے بھی تب بھی اس کے ہوش و حواس ٹھکانے نہیں رہے۔ اسے یہ بھی معلوم نہیں ہو رہا کہ وہ کس ہستی سے مخاطب ہے اور کیا مطالبہ کر رہا ہے؟ الشعراء
28 [٢١] موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو جب یوں بوکھلایا ہوا دیکھا تو پھر سے اپنے دعویٰ پر زور دیتے ہوئے اور رب العالمین کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا کہ روئے زمین پر جتنی بھی مخلوق آباد ہے۔ خواہ اس کا تعلق اس ملک مصر سے ہو یا مشرق سے ہو یا مغرب سے ہو یا کہیں سے بھی ہو ساری مخلوق کا پروردگار وہی رب العالمین ہے اب امید ہے تم لوگوں کو سمجھ آگئی ہوگی کہ رب العالمین کون ہے؟ اور میں کون ہوں؟ تم تو صرف زمین کے ایک چپہ بھر ملک کے فرمانروا ہو اور میں اس رب العالمین کا رسول ہوں جس کی فرمانروائی اس پوری زمین پر ہی نہیں پوری کائنات پر ہے۔ لہٰذا تمہارے حق میں بہتری اسی بات میں ہے کہ تم فرمانروائے کائنات کے رسول کی بات مان لو۔ الشعراء
29 [٢٢]فرعون کےخدائی کے دعویٰ کی نوعیت کیاتھی؟ دنیا میں جتنے بھی مشرکین یا خدائی کے دعوے دار گزار ہیں۔ وہ سب یہ بات تسلیم کرتے تھے کہ اس کائنات کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ فرعون کا بھی یہی حال تھا وہ خدائی کا دعویدار صرف ان معنوں میں تھا کہ وہ اپنے سیاسی اقتدار میں کسی بالاتر ہستی کی مداخلت کا قائل نہ تھا۔ بالفاظ دیگر وہ اللہ تعالیٰ کے اس پوری کائنات کے خالق و مالک ہونے کا تو قائل تھا مگر اس کی قانونی یا سیاسی حاکمیت کا قائل نہ تھا۔ اور اپنی مملکت میں اپنے قانون کو ہی بالاتر قانون سمجھتا تھا۔ اور اپنی رعیت کو بھی اسی راستے پر لگائے ہوئے تھا۔ اور موسیٰ علیہ السلام نے اس سے جو مطالبہ کیا تھا وہ براہ راست اس کے قانونی اور سیاسی اختیارات پر حملہ تھا۔ لہٰذا اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بھائی کو حکومت کے باغی قرار دیتے ہوئے یہ دھمکی دی کہ اگر تم اپنے مطالبہ سے باز نہ آئے تو میں تمہیں ملکی قانون بغاوت کے جرم میں قید میں ڈال دوں گا۔ الشعراء
30 [٢٣] اس کے جواب میں موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا : ” اگر میں اللہ کی عطا کردہ نشانیاں تمہیں دکھا کر یہ ثابت کردوں کہ میں فی الواقع اللہ رب العالمین کی طرف سے رسول ہوں تو کیا پھر بھی تمہارا یہی فیصلہ ہوگا ؟ الشعراء
31 [٢٤] فرعون کی پہلی بحث تو اس امر میں تھی کہ رب تو میں خود ہوں یہ رب العالمین کیا ہوتا ہے۔ جب موسیٰ علیہ السلام نے بار بار کے تکرار سے اسے یہ بات ذہین نشین کرا دی کہ رب العالمین ہی وہ بالاتر ہستی ہے جو پوری کائنات کی خالق، مالک اور پرورش کنندہ ہے۔ حتیٰ کہ خود تمہارا بھی وہی پروردگار ہے۔ لہٰذا اسے ہی یہ حق سزاوار ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور اس کے ہر حکم کو بجا لایا جائے۔ اب بحث اس بات میں رہ گئی تھی کہ آیا موسیٰ علیہ السلام اس بالاتر ہستی کے رسول ہیں بھی یا نہیں؟ اس بحث کا آغاز بھی خود موسیٰ علیہ السلام نے کہا اور کہا کہ اس ہستی نے مجھے اپنے دعویٰ رسالت کی تائید میں کچھ نشانیاں بھی دی ہیں اور میں وہ نشانیاں پیش کرسکتا ہوں۔ جس کے جواب میں فرعون نے کہا ہاں اگر تم اپنے دعویٰ کی صداقت میں کوئی نشانی پیش کرسکتے ہو تو کرو۔ الشعراء
32 [٢٥] معجزات سے فرعون اور درباریوں کی اثرپذیری :۔ فرعون نے جب موسیٰ علیہ السلام سے اپنی رسالت کے ثبوت میں نشانی کا مطالبہ کیا تو آپ نے دربار میں ہی اپنا عصا زمین پر پھینک دیا وہ دیکھتے دیکھتے بہت بڑا سانپ یا اژدہا بن کر فرعون کی طرف بڑھا۔ جس سے فرعون سخت دہشت زدہ ہوگیا اور موسیٰ علیہ السلام سے التجا کی کہ اسے سنبھالو۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اسے ہاتھ میں لینا ہی تھا کہ وہ پھر سے عصا بن گیا۔ عصا سے بننے والے سانپ کے لئے قرآن کریم میں تین لفظ استعمال ہوئے ہیں۔ ایک مقام پر اسے حیہ فرمایا اور حیةکا لفظ سانپ کے لئے اسم جنس ہے جو ہر قسم کے سانپ کے لئے نیز نر و مادہ کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے۔ دوسرے مقام پر جان ّکا لفظ آیا ہے جس کا معنی پتلا، سبک رفتار اور پھرتیلا سانپ ہے اور یہاں ثعبان کا لفظ آیا ہے۔ یہ لفظ بڑے سانپ یا اژدہا کے لئے آتا ہے۔ اب ان کی تطبیق یا تو اس صورت میں ہوسکتی ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام نے عصا پھینکا تو وہ پہلے پتلا اور پھرتیلا سا سانپ بنا ہو۔ بعد میں دیکھتے ہی دیکھتے اژدہا بن گیا ہو اور یا اس طرح کہ عصا نے شکل تو اژدہا کی اختیار کرلی ہو مگر اس میں پھرتی پتلے سانپ جیسی ہو۔ الشعراء
33 [٢٦] یہ پہلا معجزہ ہی فرعون کی یقین دہانی کے لئے کافی تھا۔ ابھی فرعونیوں پر اس معجزہ کے اثرات باقی تھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دوسری نشانی کا آغاز کیا اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں بغل میں دبایا۔ پھر جب اسے نکالا تو اس سے روشنی کی شعاعیں نکل کر فرعون اور اس کے درباریوں کی نگاہوں کو خیرہ کرنے لگیں۔ فرعون اور سب درباری محو حیرت بنے ہوئے ان نشانیوں کا اثر قبول کر رہے تھے۔ الشعراء
34 الشعراء
35 [٢٧]فرعون کی عیاری:۔ فرعون اگرچہ خود بھی ان نشانیوں سے متاثر ہوچکا تھا تاہم اس نے درباریوں کے ذہن سے یہ اثر زائل کرنے کے لئے یوں کہہ دیا کہ یہ تو بہت بڑا جادوگر معلوم ہوتا ہے۔ اور چاہتا یہ ہے کہ تمہیں اس طرح مرعوب اور دہشت زدہ کرکے تمہیں تمہارے ملک سے نکال دے اور خود اس ملک پر قبضہ جما لے۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ فرعون کی ان دونوں باتوں میں کھلا تضاد ہے پہلی بات تو اس نے درباریوں اور عام لوگوں کو الو بنانے کے لئے کہی تھی کیونکہ جادوگر تو ہر جگہ پائے جاتے ہیں اور ملک مصر میں بڑی تعداد میں موجود تھے۔ مگر کسی جادوگر میں یہ ہمت نہیں ہوئی کہ وہ جادو کے زور سے کوئی ملک تو بڑی چیز ہے کوئی چھوٹی سی بستی ہی فتح کرکے دکھا دے۔ وہ خود ایک مانگت اور سوالی قسم کا انسان ہوتا ہے۔ جو شعبدے دکھانے کے بعد لوگوں سے اس محنت کی اجرت کا مطالبہ کرتا ہے۔ بھلا کسی جادوگر کی یہ ہمت ہوسکتی ہے کہ وہ فرعون جیسے جابر حکمران کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس سے بات چیت کرے۔ اور دوسری بات فی الواقع حقیقت کے قریب تھی۔ جو فرعون کے منہ سے بے ساختہ نکل گئی تھی۔ اسے فی الواقع یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ یہ شخص واقعی اللہ رب العالمین کا رسول ہے۔ اور اگر میں نے اس کی دعوت کو جھٹلا دیا تو اس کا لازمی نتیجہ یہی ہوگا کہ موسیٰ غالب آئے گا اور میں مغلوب ہوجاؤں گا مگر یہ بات وہ اپنے درباریوں پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ [٢٨]﴿ تامرون﴾ کا ترجمہ یہاں عموماً ” کیا حکم دیتے ہو یا کیا حکم کرتے ہو؟“ کیا جاتا ہے جو میرے خیال میں درست نہیں۔ بھلا فرعون جیسا خود سر اور اپنے آپ کو رب کہلانے والا فرمانروا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے اپنے درباریوں سے ایسا کہہ سکتا تھا امر کا لفظ مشورہ دینے کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ امرته عن امری کا معنی ہوگا۔ میں نے اپنے کام کے متعلق اس سے مشورہ کیا( منتہی الادب نیز مفردات امام راغب ) چنانچہ اسی بدحواسی کے عالم میں فرعون نے اپنے درباریوں سے پوچھا ” کہ اس صورت حال میں اب ہمیں کیا کرنا چاہئے؟“ الشعراء
36 [٢٩] ماہرجادوگروں کی طلبی:۔درباری حضرات عموماً جی حضور کہنے اور بڑی سرکار کی ہاں میں ہاں ملانے کے عادی ہوتے ہیں ۔ اور اسی میں ان کی عافیت ہوتی ہے۔ فوراً کہنے لگے۔ واقعی یہ بہت بڑا جادوگر ہے اور ہمیں جادو کا مقابلہ جادو ہی سے کرنا چاہئے۔ آپ یوں کیجئے کہ جلدی میں کچھ فیصلہ نہ کیجئے۔ بلکہ ملک بھر کے چوٹی کے جادوگروں کو اپنے ہاں بلا لیجئے۔ جو اس کا مقابلہ کرسکیں۔ فرعون اپنے درباریوں سے ایسا ہی جواب سننا چاہتا تھا۔ کیونکہ وہ خود اپنے درباریوں اور اپنی رعایا کو اسی چکر میں ڈالنا اور یہی کچھ ذہین نشین کرانا چاہتا تھا کہ موسیٰ اور اس کا بھائی اللہ کے رسول نہیں بلکہ محض جادوگر ہیں۔ چنانچہ فرعون نے اپنے درباریوں سے مشورہ کے بعد تمام شہروں کے نامور جادوگروں کو اپنے ہاں طلب کرلیا۔ الشعراء
37 الشعراء
38 الشعراء
39 [٣٠]مقابلہ کےلیے جگہ اور وقت کی تعیین :۔ جادوگری کے اس مقابلہ کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام فوراً تیار ہو گئے۔ وقت کا تعین ابھی باقی تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے خود ہی یہ تجویز کی کہ یہ مقابلہ بھرے مجمع میں ہونا چاہئے۔ اور اس کے لئے ان کے قومی میلہ یا جشن نو روز کا دن سب سے مناسب تھا۔ جبکہ اردگرد کے لوگ بھی اس قومی میلہ میں شرکت کے لئے دارالخلافہ جیسے بڑے شہر میں از خود پہنچ جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس مقابلہ کے لئے چاشت کا وقت تجویز ہوا تاکہ اس وقت تک ارد گرد کے سب لوگ بھی دارالخلافہ میں پہنچ سکیں۔ اور وقت بھی ایسا مناسب تجویز ہوا جس میں سورج کی روشنی پوری طرح کھل جاتی ہے اور دھوپ میں ابھی گرمی کی شدت بھی نہیں ہوتی۔ جب مقابلہ کے وقت کی تعیین ہوگئی تو فرعون نے اپنے درباریوں سے اس انداز میں سوال کیا جیسے اس کی خوشی اسی بات میں تھی کہ لوگ زیادہ سے زیادہ اس اجتماع میں شریک ہوں۔ الشعراء
40 [٣١] فرعون کاغالب فریق کا ساتھ دینے کا اعلان :۔فرعون نے لوگوں کو اس اجتماع میں شمولیت کی عام دعوت اس امید پر دی تھی کہ چوٹی کے جادوگروں کی اتنی بڑی تعداد جمع ہوگی پھر اعیان سلطنت بھی وہاں موجود ہوں گے تو ان کے دبدبہ اور رعب سے بھی موسیٰ مرعوب ہو کر رہ جائے گا۔ اپنی اس توقع کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ کہنے لگا کہ امید قوی یہی ہے کہ ہمارے جادوگر غالب آئیں گے۔ اس صورت میں ہمیں اپنے جادوگروں ہی کا ساتھ دینا ہوگا تاکہ موسیٰ کی شکست اور مغلوبیت پوری طرح سب لوگوں پر کھل کر واضح ہوجائے۔ گویا وہ لوگوں کو تاثر یہ دینا چاہتا تھا کہ جب مقابلہ میں ہمارا پلہ بھاری رہے گا تو اس کا ایک نتیجہ یہ بھی سامنے آجائے گا کہ ہمارا ہی دین درست ہے اور اس سے منحرف ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی۔ اور اس فیصلہ میں ہماری خود غرضی کو کچھ دخل نہ ہوگا۔ بلکہ انصاف کا تقاضا ہی یہ ہے کہ جو غالب ہو اس کا ساتھ دیا جائے۔ اور بعضوں نے کہا ﴿السحرة﴾ سے مراد حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام لئے ہیں۔ یعنی فرعون نے بھرے دربار میں اعلان یہ کیا ہے کہ ممکن ہے کہ اس مقابلہ میں حضرت موسیٰ اور ان کا بھائی کامیاب ہوجائیں۔ اس صورت میں ہم ان کی راہ پر چلیں گے۔ اس صورت میں بھی فرعون کی مراد یہی تھی کہ مقابلہ کے بعد ہم انصاف کی راہ اختیار کریں گے جس میں ہماری خود غرضی کو کچھ دخل نہ ہوگا۔ جو فریق بھی غالب آیا ہمیں اس کا ساتھ دینا ہوگا۔ الشعراء
41 الشعراء
42 [٣٢]نبی اور جادوگرکے کردارکا تقابل:۔ مقررہ وقت سے پہلے جب تمام جادوگر اطراف و اکناف سے دارالخلافہ پہنچ گئے تو انہوں نے مل کر فرعون سے سوال کیا کہ اگر ہم کامیاب ہوگئے تو ہمیں کچھ معاوضہ یا انعام و اکرام بھی ملے گا ؟جادوگروں کے اس سوال سے ان کی ذہنیت سامنے آجاتی ہے کہ وہ جو کچھ کرتے ہیں۔ پیٹ کے دھندے کے طور پر کرتے ہیں۔ اس سے بلند ان کا کوئی مطمع نظر ہوتا ہی نہیں۔ جبکہ نبی لوگوں کے معاوضہ سے مطلقاً بے نیاز ہوتا ہے وہ بے لوث ہو کر محض اللہ کی رضا مندی کی خاطر اپنا فریضہ سرانجام دیتا ہے۔ فرعون کی اس وقت جان پر بنی ہوئی تھی۔ جادوگروں کے اس سوال پر فوراً کہنے لگا۔ محض انعام و کرام کی کیا بات کرتے ہو اگر تم کامیاب ہوگئے میں انعام و اکرام کے بدلہ تمہیں بلند مناصب بھی دوں گا اور تم میرے مقربین میں سے ہو گے۔ الشعراء
43 [٣٣] فرعون کے اس جواب پر جادوگر بہت خوش ہوگئے۔ میدان مقابلہ میں آئے تو موسیٰ علیہ السلام سے مقابلہ کے عام دستور کے مطابق پوچھا : پہلے آپ اپنا شعبدہ دکھائیں گے، یا ہم پہل کریں؟ موسیٰ علیہ السلام نے فوراً جواب دیا : نہیں پہلے تم ہی اپنا شعبدہ دکھاؤ گے۔ موسیٰ علیہ السلام نے یہ جواب محض رسماً یا رواجاً یا ان کی عزت افزائی کے طور پر نہیں دیا بلکہ آپ چاہتے ہی یہ تھے کہ باطل پوری طرح پہلے اپنا مظاہرہ کرلے۔ اس کے بعد ہی حق کی فتح پوری طرح واضح ہوسکے گی۔ الشعراء
44 [٣٤] جادوگروں کو فرعون کے اہل کاروں کی طرف سے صرف یہ بتایا گیا کہ دارالخلافہ میں بادشاہ سلامت کے ہاں دو جادوگر آئے ہیں۔ ان میں سے ایک اپنی لاٹھی پھینکتا ہے تو وہ سانپ بن جاتا ہے اور یہی ان کے پاس سب سے بڑا شعبدہ ہے اور تم لوگوں کو بادشاہ سلامت نے ان کے مقابلہ کے لئے بلایا ہے۔ لہٰذا ان لوگوں نے اسی خاص پہلو میں اپنی تیاریاں کی تھیں۔ انہوں نے کچھ اپنی لاٹھیاں پھینکیں اور کچھ رسیاں پھینکیں جو لوگوں کو جیتے جاگتے متحرک سانپ نظر آنے لگے۔ اور ان کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ سارا میدان مقابلہ ایسے سانپوں سے بھر گیا تھا سارا مجمع اس منظر سے دہشت زدہ ہونے لگا۔ حتیٰ کہ حضرت موسیٰ بھی دل ہی دل میں ڈرنے لگے۔ یہ منظر جادوگروں کے لئے بڑا خوش کن تھا۔ اور انہیں یقین تھا کہ ان کے اس کرشمہ کا کوئی مقابلہ نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ اسی خوشی میں انہوں نے زور سے نعرہ مارا” فرعون کی جے، یقیناً ہم ہی جیتیں گے“ ۔ الشعراء
45 [٣٥]عصائے موسیٰ کا جادوگروں کےسانپوں کو ہڑپ کرنا:۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فوراً وحی کی کہ ڈرو نہیں بس اپنا عصا ڈال دو۔ چنانچہ آپ نے عصا ڈالا تو وہ صرف حرکت ہی نہیں کر رہا تھا بلکہ جادوگروں کے بنائے ہوئے تمام سانپوں کو اپنا لقمہ بھی بنائے جارہا تھا۔ حتیٰ کہ اس نےایسے تمام بناوٹی سانپوں کو اپنی لقمہ بنایا کہ میدان سانپوں سے صاف ہو گیا ۔بھرے مجمع میں اس مقابلہ میں فرعون کو شکست ہوئی۔۔ پھر موسیٰ علیہ السلام نے عصا کو ہاتھ میں لیا تو پھر وہ عصا بن گیا۔ الشعراء
46 [٣٦] جادوگرکیوں ایمان لائے ؟ فرعون کے جے پکارنے والے جادوگروں نے جب دیکھا کہ موسیٰ علیہ السلام کے عصا سے بنا ہوا سانپ ان کے سانپ کو ہڑپ کر رہا ہے تو انہیں یقین ہوگیا تھا کہ یہ جادو کے فن سے ماورا کوئی اور چیز ہے۔ وہ کوئی معمولی قسم کے جادوگر نہ تھے۔ بلکہ ملک بھر کے چوٹی کے ماہر اور نامور جادوگر تھے۔ لہٰذا جب ان کے بنائے ہوئے سب سانپ میدان مقابلہ سے ختم ہوگئے تو انہوں نے اپنی شکست کا برملا اعتراف کرلیا پھر اسی پر اکتفا نہ کیا۔ بلکہ اسی بھرے مجمع میں رب العالمین پر ایمان لانے کا اقرار کیا اور یہ بھی ساتھ ہی وضاحت کردی کہ رب سے مراد ہماری مراد فرعون نہیں بلکہ رب العالمین سے ہماری مراد وہ پروردگار ہے جو ہر چیز کا پرورش کنندہ ہے اور جس کی طرف موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام دعوت دے رہے ہیں۔ الشعراء
47 الشعراء
48 الشعراء
49 [٣٧]فرعون کی شکست اور جادوگروں کوسزادینے کا اعلان :۔ فرعون ایک تو بھرے مجمع میں اپنی واضح شکست دیکھ چکا تھا۔ یہ رنج ابھی تازہ ہی تھا کہ اوپر سے اس کے جادوگروں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کی رسالت کا اور اپنے ایمان لانے کا اقرار کرلیا تو وہ اس دوہرے صدمہ سے سیخ پا ہوگیا۔ اسے خطرہ یہ تھا کہ اب یہ سارا مجمع اور اس کے بعد اس کی قوم بھی اس کا ساتھ چھوڑ کر ایمان لے آئیں گے۔ لہٰذا اب وہ تشدد پر اتر آیا۔ وہ مقابلہ سے پہلے اپنے اس اقرار کو بھی بھول گیا جو وہ کہہ رہا تھا کہ ہمیں جادوگروں کا ہی ساتھ دینا پڑے گا۔ فوراً ایک تجویز اس کے ذہن میں آئی اور اس نے جادوگروں پر یہ الزام لگا دیا کہ یہ جادوگر تو پہلے ہی موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ وہ ان کا استاد تھا اور یہ اس کے چیلے تھے۔ ان دونوں نے مل کر مجھے اس انجام تک پہنچایا ہے اور اس کی دلیل یہ پیش کی کہ شکست کے بعد جادوگروں نے مجھے پوچھا تک نہیں نہ مجھ سے مشورہ کیا۔ جادوگر میرے تھے اور مل گئے (موسیٰ علیہ السلام ) سے اب ان کی اس فریب کاری کی میں انہیں پوری پوری سزا دوں گا اور ایسی سزا دوں گا جس سے باقی لوگوں کو ایسی حرکت کرنے کی جرأت تک نہ ہوسکے۔ فرعون دراصل اس اعلان سے دوہرا فائدہ حاصل کرنا چاہتا تھا وہ پہلے بھی اپنے طور پر یہ سمجھ چکا کہ موسیٰ علیہ السلام واقعی اللہ کا رسول ہے۔ لیکن دوسروں کو الو بنانے کی خاطر انہیں یہ یقین دلا رہا تھا کہ موسیٰ اور اس کا بھائی ہارون اللہ کے رسول نہیں بلکہ یہ جادوگر ہیں۔ ہر مقابلہ میں شکست کے بعد عوام الناس میں پھر اسی تاثر کو مزید تقویت دینے کی کوشش کی اور دوسرے جادوگروں کو سولی چڑھانے کا اعلان کرکے لوگوں کو خوف زدہ کردیا تاکہ آئندہ کوئی شخص ان پر ایمان لانے کی جرأت نہ کرسکے۔ الشعراء
50 الشعراء
51 [٣٨]ایمان لانےکےبعدجادوگروں کے کردارمیں تبدیلی :۔ مقابلہ سے پہلے جادوگروں کی یہ حالت تھی کہ وہ فرعون سے انعام و اکرام حاصل کرنے کے لئے التجا کر رہے تھے لیکن جب وہ علی وجہ البصیرت صدق دل سے ایمان لے آئے تو ان کے ذہن میں یک لخت انقلاب آگیا۔ جیسے یکدم کسی کی آنکھیں کھل جائیں۔ ان کے ایمان نے ان میں اتنی جرات پیدا کردی تھی کہ اب وہ اسی جابر اور ظالم فرعون کی سولی کی دھمکی کو بھی خاطر میں نہیں لا رہے تھے وہ یک زبان ہو کو بول اٹھے تم جتنا برا سلوک ہم سے کرسکتے ہو اس میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھو۔ زیادہ سے زیادہ تم ہمیں مار ہی سکتے ہو۔ اس سے زیادہ تو ہمارا کچھ بگاڑ سکو گے مگر ہمیں جو دولت ایمان میسرآئی ہے وہ ان تکلیفوں کے مقابلہ میں ہزار درجہ بہتر ہے۔ اور ہم توقع رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری سابقہ زندگی کی خطاؤں اور لغزشوں کو معاف فرمائے۔انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ اس معرکہ حق و باطل میں جادوگروں کی شکست کے بعد جس طرح جادوگر ایمان لائے تھے اسی طرح فرعون بھی ایمان لے آتا۔ مگر وہ پہلے سے زیادہ اکڑ بیٹھا جس کی وجہ محض یہ تھی کہ اگر وہ ایمان لاتا تو اس کی ساری حکومت اور اقتدار ہاتھ سے جاتا تھا اور اسے موسیٰ علیہ السلام کا مطیع فرمان بنا کر رہنا پڑتا تھا۔ لیکن جادوگروں کو ایسی کوئی فکر لاحق نہ تھی۔ جس سے ایک واضح نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایمان لانے میں سب سے بڑی رکاوٹ اپنے جاہ، اپنی سرداریوں اور اپنے اقتدار سے دستبرداری ہوتی ہے اور ایسے ہی لوگ انبیاء کے سب سے پہلے اور سب سے بڑے مخالف اور دشمن ہوتے ہیں۔ الشعراء
52 الشعراء
53 الشعراء
54 الشعراء
55 الشعراء
56 [٣٩]بنی اسرائیل کے ایمان لانے پر لڑکوں کوقتل کرنے کی سزا:۔ اس مقام پر بہت سے واقعات چھوڑ دیئے گئے ہیں۔ یہ بات بھی پوری طرح معلوم نہیں ہوسکی کہ آیا فرعون نے ان جادوگروں کو بعض مصلحتوں کی بنا پر سولی چڑھانے کی دھمکی دی تھی یا فی الواقع چڑھایا بھی تھا۔ غالب گمان یہی ہے کہ اس نے یہ کام ضرور کیا ہوگا۔ وجہ یہ ہے کہ باطل پرست جب دلائل کے میدان میں شکست کھا جاتے ہیں تو تشدد اور اوچھے ہتھیاروں پر اتر آتے ہیں۔ پھر بھی ان کا غصہ رفع نہیں ہوتا۔ کیونکہ ایسے مظالم کے نتائج بسا اوقات توقع کے خلاف نکلتے ہیں اور جس کو جتنی قوت سے دبانے کی کوشش کی جائے اتنی ہی قوت سے ابھرتی اور اپنی جڑیں مضبوط بنا لیتی ہے۔ مصر میں بھی یہی کچھ ہوا۔ بے شمار اسرائیلی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے تو موجودہ فرعون نے اس اسرائیلیوں کے لئے وہی سزا تجویز کی جو اس کے باپ نے کی تھی۔ یعنی بنی اسرائیل کے نومولود سب لڑکوں کو مار ڈالا جائے اور لڑکیوں کو زندہ رہنے دیا جائے اور اس طرح بتدریج ان کی نسل کو ختم کردیا جائے۔ یہ تو فرعون کا منصوبہ تھا لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ علاوہ ازیں فرعون کی قوم کے چند لوگ چوری چھپے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے تھے۔ بنی ا سرائیل کی شام کی طرف ہجرت:۔ جب فرعون کے مظالم کی حد ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وحی کے ذریعہ ملک مصر سے ہجرت کرکے ملک شام کی طرف جانے کا حکم دیا کہ وہ بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر راتوں رات نہایت خفیہ طریقہ سے یہاں سے نکل جائیں۔ اور پوری احتیاط ملحوظ رکھیں اور جب سفر شروع کریں تو جلد از جلد مصر کے ملک سے پار نکل جانے کی کوشش کریں فرعون یقیناً ان کا تعاقب کرے گا۔ ایسا نہ ہو کہ وہ مصر کے اندر ہی تم لوگوں کے سر آن پہنچے۔ فرعون کو جب موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کی روانگی کا علم ہوا تو بہت سٹ پٹایا۔ اس کے سارے منصوبے خاک میں مل رہے تھے اس نے ایک لشکر جرار تیار کرنے کا حکم دیا اور درباریوں سے کہنے لگا۔ یہ مٹھی بھر کمزور سی جماعت ہے اور ان لوگوں نے فرار کی راہ اختیار کرکے ہمیں خواہ مخواہ غصہ چڑھا دیا ہے لہٰذ ا ہمیں چاہئے کہ فوراً ان کا تعاقب کرکے انہیں کیفر کردار تک پہنچائیں۔ ہمارے مسلح اور جرار لشکر کے مقابلہ میں ان بے چاروں کی حقیقت ہی کیا ہے۔ الشعراء
57 الشعراء
58 [٤٠] فرعون کا تعاقب:۔ چند دنوں میں فرعون نے بنی اسرائیل کے تعاقب اور ان سے نپٹنے کے لئے ایک لشکر جرار اکٹھا کرلیا اور ان کی سرکوبی کے لئے روانہ ہوگئے۔ ان کا تو یہی خیال تھا کہ چند دنوں میں ہم انہیں گرفتار کرکے واپس لے آئیں گے اور جو مقابلہ پر آئیں گے انہیں قتل کر ڈالیں گے۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ جن محلوں اور باغوں سے نکل کر وہ ان کے تعاقب میں جارہے ہیں ان محلوں اور باغوں کو دوبارہ دیکھنا بھی ان کے نصیب میں نہ ہوگا۔ اور بنی اسرائیل کا شکار کرنے والا یہ لشکر خود موت کے ہاتھوں شکار بن جائے گا۔ الشعراء
59 [٤١] اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کے کچھ لوگ مصر میں بھی رہ گئے تھے سارے کے سارے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہمراہ روانہ نہیں ہوئے تھے۔ جب فرعون اور اس کے جملہ اعیان سلطنت غرق ہو کر ہلاک ہوگئے تھے۔ تو ساتھ ہی آل فرعون کا اقتدار بھی ختم ہوگیا تھا اور یہی پیچھے رہنے والے بنی اسرائیل ان کے محلوں اور باغات پر قابض ہوگئے تھے۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ بنی اسرائیل مصر کے کچھ حصہ پر قابض ہوئے ہوں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس آیت میں اس عہد کی طرف اشارہ ہو۔ جب حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت مصر تک پھیل گئی اور بنی اسرائیل ہی فرعونیوں کے محلات اور باغات پر قابض ہوگئے تھے۔ واللہ اعلم بالصواب الشعراء
60 الشعراء
61 [٤٢] فرعون کی بدحواسی :۔ فرعون کی بدحواسی کا یہ عالم تھا کہ ایک طرف تو وہ بنی اسرائیل کو ایک مٹھی بھر اور کمزور سی جماعت قرار دے رہا تھا دوسری طرف وہ ایک عظیم الشان مسلح لشکر کی تیاری کا حکم دے رہا تھا۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ فرعون کو یقین تھا کہ بنی اسرائیل محض ایک کمزور سی اور مٹھی بھر جماعت ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی مدد بھی ان کے شامل حال ہے۔ لہٰذا اس نے ہر ممکن احتیاط کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایسا لشکر جرار تیار کرنے کا حکم دیا تھا جس کے تیار ہونے میں خواہ مخواہ کچھ عرصہ لگ گیا۔ فرعون کے اس لشکر نے بالآخر بنی اسرائیل کو بحیرہ قلزم کے کنارے پر جا پکڑا۔ اب صورت حال یہ تھی کہ دونوں لشکروں میں صرف اتنا فاصلہ رہ گیا تھا کہ دونوں لشکر ایک دوسرے کو دیکھ سکتے تھے۔ بنی اسرائیل سمندر کے کنارے پر کھڑے تھے۔ پیچھے سے فرعون کا لشکر تیز رفتار گھوڑوں پر سوار ان کی طرف بڑھا چلا آرہا تھا۔ بنی اسرائیل جو فرعون سے پہلے ہی سخت خوف زدہ تھے یہ صورت حال دیکھ کر سخت گھبرا گئے۔ آگے سمندر تھا پیچھے فرعون کا لشکر، دونوں طرف موت ہی موت کھڑی نظر آرہی تھی۔ لہٰذا ان کی زبان سے بے ساختہ یہ الفاظ نکل گئے، موسیٰ اب تو ہم مارے گئے۔ الشعراء
62 [٤٣] لیکن موسیٰ علیہ السلام پر اس صورت حال کا کچھ بھی اثر نہ ہوا۔ انھیں اس بات کا یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے جو فتح و نصرت کے وعدے کر رکھے ہیں وہ یقیناً پورے ہوں گے۔ اور اس مصیبت سے نجات کے لئے بھی اللہ ضرور کوئی راہ نکال دے گا۔ لہٰذا انہوں نے گھبرائے ہوئے بنی اسرائیل کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ فرعون تمہارا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مدد ہمارے شامل حال ہے وہ ان حالات میں بھی ضرور ہماری رہنمائی فرمائے گا۔ الشعراء
63 [٤٤]عصا مارنےسے سمندرمیں بارہ راستے بن جانا:۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بموجب وحی الٰہی جب اپنا عصا سمندر پر مارا تو وہ دو حصوں میں بٹ گیا اور درمیان میں کافی کشادہ راستہ بن گیا۔ اور راستہ خشک بھی فوراً ہوگیا۔ نیچے دلدلی زمین نہیں تھی۔ ایک طرف کا پانی بھی ساکن جامد پہاڑ کی طرح کھڑا کا کھڑا رہ گیا اور دوسری طرف کا بھی۔ لیکن مفسرین کی نقل کردہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خشک راستہ نہیں بلکہ بارہ راستے بنے تھے اور ﴿كُلُّ فِرْقٍ ﴾کے الفاظ بھی ان روایات کی تائید کرتے ہیں کیونکہ کل کا لفظ دو کے لئے نہیں آتا۔ روایات کے مطابق سمندر میں بارہ راستے بنے تھے اور بنی اسرائیل کے بارہ ہی قبیلے تھے اور ہر قبیلے کے تقریباً بارہ ہزار افراد تھے جو ہجرت کرکے آئے تھے اس لحاظ سے ان مہاجرین کی تعداد ایک لاکھ چوالیس ہزار بنتی ہے اور بعض روایات کے مطابق یہ تعداد ایک لاکھ بیس ہزار تھی۔ جبکہ فرعون کے لشکر کی تعداد اس سے بہت زیادہ تھی۔ الشعراء
64 [٤٥] اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر بنی اسرائیل کے لئے نجات کی راہ پیدا کردی۔ اور بنی اسرائیل اس میں سے گزر کر بخیر وعافیت اس بحیرہ کے دوسرے کنارے پر پہنچ گئے اس وقت فرعون کا لشکر انہی راستوں سے گزر کر سمندر پاکر کرنے کی تیاریاں کر رہا تھا۔ شاید اس وقت موسیٰ علیہ السلام کو یہ خیال آیا ہو تو اب دوبارہ سمندر پر اپنا عصا ماریں۔ تاکہ پانی پھر سے آپس میں مل جائے اور فرعون کا لشکر ان تک نہ پہنچنے پائے لیکن اسی وقت اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو وحی کی کہ﴿ وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْوًا ﴾(٤٤: ٢٤) یعنی سمندر کو اسی حال میں پہاڑوں کی طرح کھڑا چھوڑ دو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مرضی صرف یہی نہیں تھی کہ بنی اسرائیل ان فرعونیوں سے نجات پاجائیں بلکہ یہ بھی تھی کہ اس ظالم قوم کو سمندر میں غرق کرکے صفحہ ہستی سے نیست و نابود کردیا جائے۔ فرعون اور اس کےلشکر کی غرقابی :۔ فرعون اور آل فرعون اگر بنی اسرائیل کا تعاقب نہ کرتے یا سمندر سے ہی واپس چلے جاتے تو ان کا صرف اتنا ہی نقصان ہوتا کہ ایک غلام قوم ہاتھ سے نکل گئی۔ مگر اللہ کی مشیت پوری ہو کے رہتی ہے۔ ان کی ہلاکت ہی انھیں مقام ہلاکت پر کھینچ لائی تھی۔ پھر جب انہوں نے سمندر میں کھلے راستے دیکھے۔ پھر بھی فرعون کو یہ خیال نہ آیا کہ ممکن ہے کہ سمندر میں اس طرح راستہ بن جانا ایک خرق عادات امر اور موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ ہو۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ فوراً اپنے گھوڑے انہی راستوں پر ڈال دیئے۔ اور جب فرعون کا پورا لشکر سمندر کی زد میں آگیا تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے پانی کو حکم دیا کہ وہ اپنی طبعی حالت پر واپس آجائے اور آپس میں مل جائے۔ چنانچہ خدائی کے بلند و بانگ دعویٰ کرنے والا فرعون اپنے تمام اہلیان سلطنت اور لاؤ لشکر سمیت اس سمندر میں غرق ہوگیا۔ الشعراء
65 الشعراء
66 الشعراء
67 [٤٦]فرعون کے قصہ میں سامان عبرت:۔ یعنی اس واقعہ میں ہر طرح کے لوگوں کے لئے نشانی ہے۔ ظالموں کے لئے یہ نشانی ہے کہ وہ اپنے کرتوتوں کی سزا اور اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچ نہیں سکتے۔ اللہ تعالیٰ کا دست قدرت انھیں ایسے راستوں سے مقام ہلاکت کی طرف کھینچ لاتا ہے جن کا انھیں وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔ لہٰذا اے معاندین قریش تم بھی اس واقعہ سے عبرت حاصل کرو کہ کہیں تمہیں بھی ایسے انجام بد سے دوچار نہ ہونا پڑے اور اس واقعہ میں ایمان لانے والوں کے لئے بھی نشانی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایمانداروں کو آزماتا ضرور ہے۔ انھیں تکلیفیں بھی پہنچتی ہیں۔ بالاخر اللہ تعالیٰ مظلوموں کی ہی مدد کرتا ہے اور ظالموں کو تباہ و برباد کردیتا ہے۔ الشعراء
68 [٤٧] یعنی ایسی واضح نشانیاں دیکھ کر بھی منکرین حق کم ہی ایمان لاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو سزا دینے کی اللہ پوری قدرت رکھتا ہے لیکن فوراً سزا اس لئے نہیں دیتا کہ وہ رحیم بھی ہے۔ الشعراء
69 [٤٨] حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قصہ قریش مکہ سے گہری مناسب رکھتا ہے۔ یہ لوگ اپنے آپ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا پیروکار ہونے کا دعویٰ رکھتے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام وہ ہستی ہیں جنہوں نے اپنی ساری زندگی شرک کے خلاف جہاد میں گزاری اور اس راہ میں آنے والی ہر مصیبت کو بڑی خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ جبکہ قریش مکہ اپنے اس اتباع ابراہیمی کے دعویٰ کے باوجود سر سے پاؤں تک شرک میں ڈوبے ہوئے تھے۔ انھیں یہ اعتراف بھی تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام خالصتاً توحید پرست اور شرک سے سخت بیزار تھے اور یہ بھی اعتراف تھا کہ عرب میں شرکیہ رسوم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وفات کے صدیوں بعد رائج ہوئیں۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کاخانگی ماحول اور باپ کونصیحت:۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم بھی سر تا پا شرک میں مبتلا تھی۔ دوسروں کا کیا ذکر آپ کا باپ آزر نمرود کے دربار میں شاہی مہنت تھا۔ وہ خو بت تراش بھی تھا اور بت فروش بھی۔ اس کا ذریعہ معاشی بھی بت گری اور بت فروشی تھا۔ اور جاہ و منصب بھی اسے اسی وجہ سے حاصل ہوا۔ ایسے باپ کے گھر اور ایسے ماحول میں حضرت ابراہیم پیدا ہوئے۔ نبوت عطا ہوئی تو سب سے پہلے اپنے باپ کو ہی سمجھانا شروع کیا اور پھر اس کے بعد دوسرے لوگوں کو اپنے آپ اور اپنی قوم سے ان کا پہلا سوال ہی یہ تھا کہ ان پتھر کے بتوں اور مورتیوں میں کیا خصوصیت ہے تو جو تم ان کی پوجا کرتے ہو۔ آخر تم ان کو کیا سمجھ کر ان کی پوجا کرتے ہو اور ان کی نذریں نیازیں دیتے ہو؟ الشعراء
70 الشعراء
71 [٤٩] لوگوں نے جواب میں کہا کہ تم نے ان سے متعلق نہایت حقارت کے لہجہ میں یہ سوال کیا ہے۔ حالانکہ ہمارے نزدیک یہ انتہائی قابل احترام چیزیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم عجز و نیاز سے سر جھکائے ان کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں۔ انسانی زندگی پر سیاروں کے اثرات کا عقیدہ:۔ پہلے یہ بتلایا جاچکا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم حقیقتاً ستارہ پرست تھی۔ اور وہ سیاروں کے انسانی زندگی پر اثرات کے شدت سے قائل تھے۔ انہوں نے ہر سیارہ کی روح کی ایک تصویر اپنے ذہن میں طے کر رکھی تھی پھر اسی تصویر کے مطابق ان کے مجسمے یا بت بنائے جاتے تھے۔ مثلاً کوئی سورج دیوتا کا مجسمہ تھا تو کوئی چاند دیوی کا۔ اور ان کا عقیدہ یہ تھا کہ جس سیارہ کا وہ مجسمہ ہو اس سیارہ کی روح کا اس سے خاص تعلق ہوتا ہے۔ اور اگر ان بتوں کی پوجا پاٹ کریں گے تو سیاروں کے غضب اور ان کے مضر اثرات سے محفوظ رہیں گے۔ اور یہ سب کچھ ان کا وہم و قیاس ہی تھا۔ جس کے لئے کوئی دلیل ان کے پاس نہیں تھی۔ الشعراء
72 الشعراء
73 [٥٠] حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اگلا سوال یہ تھا کہ جب تم انھیں پکارتے ہو تو یہ کوئی جواب دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب نفی میں ہی ہوسکتا تھا۔ بھلا پتھر کے خود ساختہ بتوں کا سننے یا سن کر جواب دینے سے کیا کام؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اگلا سوال یہ کیا کہ یہ بت تمہارا کچھ سنوار یا بگاڑ سکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب بھی نفی میں ہی ہوسکتا تھا بھلا جو بت اپنے وجود، اپنی حفاظت اور اپنے وجود کی بقا تک کے لئے اپنے عقیدت مندوں کے محتاج ہوں۔ یہ سنتے ہوں نہ بولتے ہوں۔ وہ اپنے عقیدت مندوں کو کون سی حاجت پوری کرسکتے ہیں یا ان کی کوئی تکلیف رفع کرسکتے ہیں؟ الشعراء
74 [٥١] بتوں کےمتعلق سیدنا ابراہیم کے اپنی قوم سے سوال:۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کے مشرکوں سے جو سوال کئے وہ ایسی صفات ہیں جن کا ایک معبود حقیقی میں پایا جانا لازمی ہے۔ یعنی وہ پکارنے والے کی پکار یا فریاد کو سنتا ہو پھر اس کا جواب بھی دیتا ہو۔ اس کی حاجت براری کی طاقت بھی رکھتا ہو اور اسے نقصان اور تکلیف سے بچا بھی سکتا ہو۔ اگر کسی معبود میں یہ صفات نہ پائی جائیں تو وہ معبود باطل ہی ہوسکتا ہے حقیقی نہیں ہوسکتا۔ اور یہ سوالات دراصل ''گفتہ آید از حدیث دیگراں'' کے مصداق قریش مکہ سے ہی ان کے معبودوں کے متعلق سوال ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم آپ کے سوالوں کا تو کوئی جواب دے نہیں سکتی تھی۔ لے دے کے ان کے پاس جو جواب ہوسکتا تھا یہ تھا کہ چونکہ ہمارے آباء و اجداد ایسا کرتے آئے ہیں اور مدتوں سے ایسا ہوتا چلا آیا ہے لہٰذا ہم بھی یہ کام چھوڑ نہیں سکتے۔ ہمارے آباء و اجداد ہم سے زیادہ سمجھدار زیادہ بزرگ اور زیادہ نیک تھے۔ آخر انہوں نے ان بتوں کی پرستش میں کچھ فائدہ دیکھا ہوگا۔ تبھی تو انہوں نے یہ کام شروع کیا تھا آخر ان کے پاس بھی کوئی دلیل تو ہوگی؟ الشعراء
75 الشعراء
76 الشعراء
77 [٥٢] سیدنا ابراہیم کی بتوں سے دشمنی :۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ بت تمہارے دشمن ہیں بلکہ یوں فرمایا کہ یہ میرے دشمن ہیں۔ تاکہ قوم کے لوگ چڑ نہ جائیں اور ضد بازی پر نہ اتر آئیں۔ اور ان کے دشمن ہونے کا ذکر سورۃ مریم کی آیت نمبر ٨٢ میں موجود ہے کہ جب قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مشرکوں کو اور ان کے معبودوں کو آمنے سامنے لا حاضر کرے گا تو یہی معبود خواہ وہ جاندار ہوں یا بے جان، اپنے عبادت کرنے والوں کے دشمن بن جائیں گے اور کہیں گے کہ احمقو! تمہیں ہم نے کب کہا تھا کہ اللہ کو چھوڑ کر ہماری عبادت کیا کرو۔ یہ تو آخرت میں دشمنی ہوئی اور آج یہ میرے دشمن ہیں۔ لہٰذا یہ میرا جو کچھ بگاڑ سکتے ہیں میں حاضر ہوں، میں دیکھوں گا کہ میرا یہ کیا نقصان کرسکتے ہیں اور ان کے دشمن ہونے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ میں بھی ان کا دشمن ہوں۔ یعنی جہاں تک مجھ سے بن پڑا میں بھی ان سے دو دو ہاتھ کروں گا۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان معبودوں کے ساتھ دو دو ہاتھ کئے بھی تھے۔ جس کا ذکر سورۃ انبیاء کی آیت نمبر ٥٧، ٥٨ میں گزر چلا ہے۔ [٥٣] میں اللہ رب العالمین کے سوا کسی کو بھی معبود تسلیم نہیں کرتا۔ کیونکہ وہی ساری کائنات کا خالق ہے، مالک ہے، ان کی تربیت کرنے والا اور ان پر کنٹرول اور ان کی نگہداشت کرنے والا ہے اور مخلوق اور مملوک کے لئے یہی سزاوار ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک کے علاوہ کسی دوسرے کی غلامی نہ کرے۔ الشعراء
78 [٥٤] ان چار آیات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا ذکر کیا۔ جن کا تعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذات سے ہی نہیں بلکہ ہر انسان سے تعلق ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی یہی وہ صفات ہیں جن کی بنا پر ہر انسان کو صرف ایک اللہ ہی کی عبادت کرنا چاہئے۔ پہلی صفت یہ ہے کہ اسی نے مجھے پیدا کیا اور وجود بخشا۔ اللہ تعالیٰ کی یہ صفت ایسی ہے جس کا کسی بھی دور کے مشرکوں نے کبھی انکار نہیں کیا۔ یعنی جب میری تخلیق میں کسی دوسری ہستی کا کچھ حصہ نہیں۔ تو میری عبادت میں کوئی دوسرا کیسے حصہ دار بن سکتا ہے؟ دوسری صفت یہ ہے کہ اللہ نے مجھے پیدا کرکے تنہا نہیں چھوڑ دیا۔ بلکہ ہر ہر مقام پر میری رہنمائی بھی کرتا ہے۔ اس سے مراد فطری رہنمائی بھی ہے جو ہر جاندار کو مہیا ہوتی ہے۔ مثلاً جب پیدا ہوتا ہے تو اپنی خوراک حاصل کرنے کے لئے ماں کی چھاتیوں کی طرف لپکتا ہے۔ پھر اللہ نے ہی اسے دودھ پینے کا طریقہ بھی بتلا دیا۔ غرض موقع و محل کے لحاظ سے اللہ ہر ہر مقام پر ہر جاندار کی رہنمائی اور دست گیری کرتا ہے اور انسانوں کی اخروی فلاح کے لئے وحی کے ذریعے رہنمائی فرماتا ہے اور اس ہمہ گیر قسم کی رہنمائی میں کسی دوسری ہستی کا کچھ بھی تعلق نہیں ہے۔ لہٰذا میری عبادت میں اللہ کے علاوہ دوسرا کوئی کیسے شریک بن سکتا ہے۔ الشعراء
79 [٥٥] یعنی اللہ تعالیٰ نے جاندرا مخلوق کو پیدا کرنے سے پیشتر ہی ایسا انتظام فرمایا جس سے ہر جاندار کو روزی اور خوراک میسر آسکے۔ وافر مقدار میں پانی پیدا کردیا۔ زمین میں قوت روئیدگی بخشی۔ ہوائیں چلائیں۔ بارش کا نظام قائم کیا اور ہر جاندار کی تمام ضروریات اسی زمین کے ساتھ وابستہ کردیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ کارنامہ بھی ایسا ہے جس میں دوسری ہستی شریک نہیں ہوسکتی تو پر عبادت میں کیسے شریک ہوسکتی ہے۔ الشعراء
80 [٥٦] حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیماری کی نسبت اللہ تعالیٰ کی بجائے اپنی طرف فرمائی تو یہ محض اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور اپنی کسر نفسی کی بنا پر ایسا کہا۔ ورنہ بیماری اور شفا سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہوتا ہے۔ اب بیماری اور شفا کے متعلق اللہ تعالیٰ کا مطالبہ یہ ہے کہ ہر جاندار کی طبیعت ہی اس کی سب سے بڑی معالج ہوتی ہے۔ بدن میں کسی مقام پر بھی کوئی نقص واقع ہوجائے تو طبیعت فوراً ادھر متوجہ ہوجاتی ہے۔ باہر سے کوئی آفت پڑنے کا خطرہ ہو تو ہر جاندار سے بلا ارادہ ایسی حرکات سرزد ہونے لگتی ہیں۔ جو اس کی اس آفت سے حفاظت کرسکیں اور دوائی کی ضرورت صرف اس وقت پیش آتی ہے جب طبیعت کی مدافعت سے معاملہ بڑھ جائے اور دوائی کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ طبیعت کا مدد کرتی ہے ورنہ اصل معالج طبیعت ہی ہوتی ہے۔ جو اللہ تعالیٰ نے ہی بنائی ہے علاوہ ازیں دواؤں میں تاثیر اور خاصیت بھی اللہ کی پیدا کردہ ہے پھر کبھی دوا اپنا اثر دکھاتی ہے کبھی بے اثر ثابت ہوتی ہے اور کبھی الٹا اثر دکھاتی ہے اسی لئے کوئی حکیم یا ڈاکٹر یہ بات دعویٰ سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ فلاں مرض کا علاج کرکے شفا دے سکتا ہے۔ بلکہ ہر شخص اس معاملہ میں اپنے عجز کا اعتراف ان الفاظ میں کرتا ہے کہ شفا من جانب اللہ ہوتی ہے۔ پھر جب شفا بخشنے میں اللہ کے علاوہ کسی دوسری ہستی کا دخل نہیں تو عبادت میں اللہ تعالیٰ کی سوا کوئی دوسرا کیسے شریک بنایا جاسکتا ہے۔ الشعراء
81 [٥٧]زندگی اورموت صرف اللہ کے ہاتھوں میں ہے:۔ موت ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جس سے نہ کسی کو مفر ہے اور نہ اس میں کسی کا کچھ اختیار ہے۔ انسان نہ اپنی مرضی سے پیدا ہوا تھا اور نہ اپنی مرضی سے موت کو ٹال سکتا ہے۔ اسی طرح وہ اپنی دوبارہ زندگی کو روکنے میں بھی مجبور محض ہے۔ اللہ کی شان یہ ہے کہ وہ ہر آن زندہ سے مردہ کو اور مردہ سے زندہ کرنے کے کرشمے دکھاتا رہتا ہے۔ لہٰذا دوبارہ پیدائش سے انکار کی معقول وجہ نہیں ہوسکتی۔ اور یہ ایسے کام ہیں۔ جن میں اللہ کے سوا کسی دوسری ہستی کا کوئی عمل دخل نہیں۔ پھر اللہ کی عبادت میں آخر دوسروں کو کیوں شریک بنایا جاسکتا ہے۔ یا دوسروں کو عبادت کے لائق کیسے قرار دیا جاسکتا ہے۔ الشعراء
82 [٥٨] قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جب عدالت قائم فرمائے گا تو اس وقت بھی اس کی عدالت، حاکمیت اور فیصلوں میں کسی دوسری ہستی کا کوئی عمل دخل نہ ہوگا۔ جس طرح مذکورہ بالا امور میں کسی دوسرے کا کچھ عمل دخل نہیں ہے۔ اور چونکہ میں نے اللہ کی عبادت میں دوسرے کسی کو اس کا شریک نہیں سمجھا لہٰذا مجھے توقع ہے کہ اللہ تعالیٰ اس دن میری چھوٹی موٹی خطاؤں اور لغزشوں کو معاف فرما دے گا۔ اس سے یہ نتیجہ بھی سامنے آتا ہے کہ جس کسی نے اللہ کی عبادت میں کسی دوسرے کو شریک بنایا ہوگا اس کی مغفرت کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ الشعراء
83 [٥٩] اللہ تعالیٰ کی مندرجہ بالا صفات بیان کرنے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حضور دست بدعا ہوجاتے ہیں۔ پہلی دعا یہ ہے کہ یا اللہ مجھے صحیح قوت فیصلہ اور دینی بصیرت عطا فرما اور میرے علم میں اضافہ کر اور مجھے نیک لوگوں کی سوسائٹی عطا فرما۔ اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ دنیا میں ایک نیک بخت اور نیک سیرت انسان اگر کسی بری سوسائٹی میں پھنس جائے تو اسے جتنی تکلیف اور ذہنی کوفت ہوتی ہے، اسے سب جانتے ہیں۔ لہٰذا ہر شخص کو کوشش کرنی چاہئے اور اس کے لئے دعا بھی کرتے رہنا چاہئے کہ اسے نیک لوگوں کی صحبت حاصل ہو۔ اور آخرت میں اللہ تعالیٰ یقیناً نیک لوگوں کو نیک لوگوں سے ہی ملا دے گا۔ تاہم اس نعمت کے لئے دست بدعا رہنا چاہئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی ایسی دعا کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اپنی وفات کے ساتھ یہ دعا فرمائی تھی۔ اللہم الرفیق الاعلی الشعراء
84 [٦٠] یعنی اس دنیا میں، میں ایسے اچھے کام کرسکوں کہ بعد میں آنے والے لوگ میرا ذکر اچھے الفاظ میں کیا کریں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا حرف بحرف قبول ہوگئی۔ دنیا کے اکثر اہل مذاہب آپ کو اپنا دینی پیشوا ضرور تسلیم کرتے ہیں۔ اگرچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعلیم سے بہت سی باتوں میں منحرف ہوچکے ہیں۔ اسلام نے از سر نو دین ابراہیمی کو زندہ کیا۔ اور ہر نماز میں دورد کو واجب قرار دے کر آپ کا ذکر خیر بھی جاری کیا۔ مگر افسوس ہے کہ دوسرے مذاہب کی طرح مسلمان بھی خالص دین ابراہیمی سے ہٹ چکے ہیں۔ اور اپنے دین میں شرکت کی آمیزش کرلی ہے۔ الشعراء
85 [٦١] وارث تو وہ اس لحاظ سے ہوں گے کہ ان کے جد امجد کا اصل مسکن جنت ہی تھا۔ اور جنت کے وارث صالحین ہی ہوں گے۔ جن کے ساتھ ملانے کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام دعا فرما رہے ہیں۔ الشعراء
86 [٦٢] جب باپ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو شرک کے خلاف جہاد کی سزا کے طور پر گھر سے نکلا تھا۔ اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ سے دعائے مغفرت کا وعدہ کیا تھا۔ (١٩: ٤٧ ) اس کے بعد آپ نے دعائے مغفرت بھی فرمائی جیسا کہ یہاں مذکور ہے۔ اور ایک دفعہ اپنے والد اور والدہ دونوں کے حق میں دعائے مغفرت فرمائی تھی۔ (١٤: ٤١) پھر جب آپ پر یہ بات واضح ہوگئی کہ مشرک کی کسی حال میں مغفرت نہیں ہوگی تو آپ نے ایسی دعا کرنا چھوڑ دی تھی۔ الشعراء
87 [٦٣]سیدنا ابراہیم علیہ السلام کےباپ کا حشر:۔ یعنی قیامت کے دن مجھے تمام اولین و آخرین کے سامنے یوں رسوا نہ کرنا کہ باپ سزا پا رہا ہو اور ابراہیم کھڑا دیکھ رہا ہو۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کہ حضرت ابراہم قیامت کے دن اپنے والد کو اس حال میں دیکھیں گے کہ منہ پر سیاہی اور گردو غبار چڑھ رہا ہوگا۔ آپ والد سے کہیں گے۔ میں نے تمہیں کہا نہ تھا میری نافرمانی نہ کرو۔ باپ کہے گا : آج میں تمہاری نافرمانی نہیں کروں۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے پروردگار سے کہیں گے کہ آپ نے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا کہ قیامت کے دن تجھے ذلیل نہیں کروں گا اس سے بڑھ کر میری کیا ذلت ہوگی کہ میرا باپ ذلیل ہو رہا ہے اور تیری رحمت سے محروم ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ میں نے کافروں پر جنت حرام کردی ہے پھر حضرت ابراہیم سے کہا جائے گا۔ ذرا اپنے پاؤں تلے تو دیکھو وہ دیکھیں گے تو انھیں نجاست سے لتھڑا ہوا بجو نظر آئے گا(اور والد کا کوئی پتہ نہیں لگے گا ) پھر اس کے پاؤں سے پکڑ کر اس بجو کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا‘‘ (بخاری۔ کتاب بدء الخلق۔ باب قول اللہ وَاتَّخَذَ اللَّـهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا ) گویا قیامت کے دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی رسوائی کا علاج کیا جائے گا کہ آپ کے باپ کی شکل و صورت ہی مسخ کردی جائے گی۔ الشعراء
88 الشعراء
89 [٦٤] آیت نمبر ٨٨، ٨٩ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا حصہ بھی ہوسکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد بھی۔ پہلی صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اس دن مجھے رسوا نہ کرنا جس دن نہ مال کام آئے گا اور نہ اولاد۔ یعنی میرے باپ کی دولت اس دن اس کے کسی کام نہ آئے گی اور نہ ہی میں کام آسکوں گا۔ کام آنے والی چیز تو صرف اللہ کی اطاعت ہوگی۔ جو شخص فرمانبردار دل لے کر حاضر ہوا وہی کامیاب ہوگا اور دوسری صورت میں قیامت کی یہ صفات اللہ تعالیٰ سے ارشاد ہوئی ہیں۔ الشعراء
90 الشعراء
91 [٦٥] یعنی قیامت کے دن اہل جنت کے جنت میں داخل ہونے سے پہلے ہی جنت اپنی تمام دلکشیوں اور رعنائیوں سمیت پرہیزگاروں کے قریب کردی جائے گی۔ جسے دیکھ کر وہ بہت مسرور ہوں گے اور اس میں داخلہ کے لئے بیتاب ہوں گے۔ اسی طرح دوزخ اپنی تمام ہولناکیوں اور چنگھاڑوں سمیت گمراہ لوگوں کے سامنے لائی جائے گی۔ اور اہل دوزخ کو دیکھ کر وہ اور بھی جوش دکھانے اور چنگھاڑنے لگے گی۔ یہ منظر دیکھ کر اہل دوزخ کے دوزخ میں داخل ہونے سے پہلے پتے پانی ہوجائیں گے۔ الشعراء
92 الشعراء
93 [٦٦] اہل دوزخ سے پوچھا جائے گا۔ بتلاؤ آج تمہارے وہ معبود کدھر ہیں جنہیں تم نے اللہ کے ہاں اپنے سفارشی سمجھ رکھا تھا اور اللہ کے بجائے انہی کی نذر و نیازوں اور نیاز مندیوں میں لگے رہتے تھے آج تو وہ اپنے آپ کو بھی دوزخ سے بچا نہیں سکتے تمہاری کیا خاک مدد کریں گے۔ الشعراء
94 الشعراء
95 [٦٧] اہل دوزخ کو دوزخ میں پھنکنے کا طریقہ یہ ہوگا پہلے ایک دوزخی کو اوندھے منہ دوزخ میں پھینکا جائے گا، اوپر سے دوسرے کو، پھر اوپر سے تیسرے کو، گویا ان کو دوزخ میں اس بیدردی سے پھینکا جائے گا جیسے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر کو پھینکا جاتا ہے۔ اور دوزخ میں یوں پھینکے جانے والے لوگ تین طرح کے ہوں گے ایک مشرک لوگ اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کرنے والے، دوسرے ان کے معبود، خواہ وہ جاندار ہوں یا بے جان تاکہ مشرکوں کی حسرت میں مزید اضافہ ہو۔ اورتیسرے ابلیس کے لشکر جو ان کی گمراہیوں کا اصل سبب بنے تھے۔ الشعراء
96 الشعراء
97 الشعراء
98 [٦٨] کون سےمعبود جہنم میں ڈالے جائیں گے ؟ معبود صرف وہ دوزخ میں پھینکے جائیں گے جو بے جان ہیں مثلاً شجر و حجر اور پتھر یا لکڑی کے بت وغیرہ۔ ان کو پھینکنے کی دو وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ مشرکوں کی ندامت اور حسرت میں اضافہ ہو اور دوسرے یہ کہ وہ جہنم کی آگ کو مزید بھڑکائیں۔ اور جاندار اشیاء میں سے صرف وہ بزرگ اور اولیاء حضرات دوزخ میں ڈالے جائیں گے جنہوں نے اپنے مریدوں سے شفاعت کے اور ان کو بخشوانے کے وعدے کر رکھے ہوں گے یا وہ ایسی آرزو رکھتے ہوں کہ جو صفات اللہ تعالیٰ کے لئے مخصوص ہیں۔ وہ ان میں بھی تسلیم کی جائیں۔ یا اگر کوئی شخص ایسی بات کرے تو اسے ناگوار سمجھنے کے بجائے انھیں خوشی محسوس ہو۔ رہے فرشتے یا انبیاء یا توحید پرست بزرگ جنہیں اس بات کی خبر تک نہیں کہ ان کی عبادت کی جاتی رہی ہے تو ایسے معبود ہرگز جہنم میں داخل نہ ہوں گے۔ عابدا ورمعبود کامکالمہ :۔جہنم میں پھینکے جانے کے بعد مشرک اپنے معبودوں سے الجھ پڑیں گے اور انھیں مخاطب کرکے کہیں گے کہ ہم نے دنیا میں تمہیں اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ رکھا تھا۔ اسی خیال سے ہم تمہیں پکارتے رہے، تمہاری نذریں نیازیں دیتے رہے، تمہارے آگے جھکتے رہے اور سر تسلیم کرتے رہے اور ہر وہ کام کیا جو صرف اللہ رب العالمین کے لئے سزا وار تھا۔ تو یہ ہماری سخت بھول تھی، گمراہی تھی اور اس گمراہی میں ہمیں ابلیس کے ان ساتھیوں نے مبتلا کر رکھا تھا۔ اور آج جب حقیقت حال سامنے آئی ہے تو معلوم ہوا کہ تم بھی ایسے ہی بے بس ہو۔ جیسے ہم ہیں۔ تم خود عذاب میں پڑے ہو۔ تو تم سے سفارش کی کیا توقع کی جاسکتی ہے اور تمہیں ہی ہم نے اپنا سفارشی سمجھ رکھا تھا۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ آج ہمیں کوئی ایسا دوست بھی نظر نہیں آتا جسے کم از کم ہمارے دکھ درد کا احساس تو ہو۔ دکھ بانٹنا یا سفارش کرناتو دور کی بات ہے۔ کم از کم ہمیں تسلی دینے کے لئے کوئی دو جملے ہی کہہ دے۔ الشعراء
99 الشعراء
100 الشعراء
101 الشعراء
102 [٦٩] مجرموں اور جہنمیوں کے اس قول اور اس آرزو کا ذکر بھی قرآن میں متعدد بار آیا ہے اور ساتھ ہی اس کا جواب بھی مذکور ہے۔ یعنی ان کو اگر دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے تو پھر بھی وہ وہی کام کریں گے جیسے پہلے کرتے رہے ہیں (١٦: ٢٨ ) کیونکہ انسان کی تو عادت ہی یہ ہے کہ مشکل کے وقت جب جان پر بن جاتی ہے تو اس وقت وہ صرف ایک اللہ ہی کو یاد کرتا ہے اور دوسرے معبودوں کو بھول جاتا ہے۔ لیکن جب اللہ اسے مصیبت سے نجات دے دیتا ہے تو بعد میں وہ پھر اللہ کو بھول جاتا ہے اور اپنے معبودوں کو ہی پکارنے لگ جاتا ہے۔ الشعراء
103 [٧٠] حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعات زندگی میں نشانی یہ ہے کہ شرک کے خلاف جہاد میں ان کے باپ اور ان کی قوم نے ان کو جس قدر تکلیفیں پہنچائیں۔ اللہ نے انھیں اتنا ہی اعزاز بخشا۔ اسے تمام لوگوں کا امام اور پشیوا بنادیا۔ سب مذاہب کے لوگ ان کا انتہائی عزت و احترام کرتے ہیں اور انھیں اپنا روحانی پیشوا تسلیم کرتے ہیں۔ رہتی دنیا تک لوگ ان کا ذکر خیر کرتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں ہر اس مصیبت سے نجات بخشی جس میں ان کی قوم نے انھیں ڈالا۔ اور ان کے مقابلہ میں ان مشرکوں کو ہر ہر مقام پر ذلیل و رسوا کیا۔ یہ سب دیکھنے اور جاننے کے بعد بھی کم ہی لوگ ہیں جو ایمان لا کر شرک سے کلیتاً دستبردار ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام شرک کی ہر قسم سے بیزار رہے۔ الشعراء
104 الشعراء
105 [٧١] قوم نوح کی طرف مبعوث تو نوح علیہ السلام ہوئے تھے لیکن یہاں جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ تمام انبیاء کی بنیادی تعلیم ایک ہی جیسی رہی ہے۔ لہٰذا ایک نبی کو جھٹلانا سب نبیوں کو جھٹلانے کے مترادف ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس قوم کے پاس نوح علیہ السلام سے پہلے کچھ نبی آئے ہوں۔ جن کا ذکر قرآن اور حدیث میں موجود نہ ہو۔ الشعراء
106 الشعراء
107 [٧٢] اس آیت کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ کے ہاں سے جو وحی مجھ پر نازل ہوتی ہے بلاکم و کاست تمہیں پہنچا رہا ہوں۔ اس میں نہ کچھ اضافہ کرتا ہوں نہ اس میں کمی کرتا ہوں جوں کی توں تم لوگوں کو پہنچا دیتا ہوں۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہ تو تم خود جانتے ہو کہ میں ایک راست باز اور امین انسان ہوں۔ کبھی کسی سے مکروفریب یا ہیرا پھیری کی بات نہیں کہی۔ تو کیا اب میں اللہ کے ذمہ جھوٹی باتیں منسوب کروں گا ؟ الشعراء
108 [٧٣] لہٰذا تمہیں میرے متعلق ہرگز کچھ بدگمانی نہ رکھنا چاہئے اور ایسی بدگمانی کرنے کے سلسلہ میں اللہ سے ڈرتے رہنا چاہئے اور مجھے اللہ تعالیٰ کا امانت دار پیغمبر سمجھ کر میری اطاعت کرنا چاہئے۔ الشعراء
109 [٧٤] دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ میں بالکل مخلص اور بے غرض ہو کر تمہیں اللہ کی طرف بلاتا ہوں۔ نہ اس میں میرا کوئی ذاتی مفاد ہے اور نہ ہی تم سے کسی معاوضہ کا، اجرت کا مطالبہ کرتا ہوں۔ میں جو بات کہتا ہوں بالکل بے لوث ہو کر اور تمہاری بھلائی کی خاطر کہتا ہوں۔ پھر بھی تم میرے درپے آزار بنے ہوئے ہو۔ اس معاملہ میں بھی تمہیں اللہ سے ڈرنا چاہئے۔ کیونکہ ظلم و زیادتی کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوا کرتا۔ اور ایسے بے غرض اور بے لوث آدمی کی بات مان لینا چاہئے۔ الشعراء
110 الشعراء
111 [٧٥] انبیاء کے اولین مخالف مترفین ہوتے ہیں:۔اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ ہر نبی کی دعوت کی مخالفت کرنے والے ہمیشہ وہی لوگ ہوتے ہیں جن کا معاشرہ میں کچھ اثر و رسوخ ہوتا ہے۔ جنہیں عموماً چودھری، اشراف یا شیوخ کہا جاتا ہے اور قرآن ان کا ذکر ملأ اور مترفین کے الفاظ سے کرتا ہے۔ اور یہ لوگ انبیاء کی مخالفت محض اس لئے کرتے ہیں کہ انھیں نبی پر ایمان لانے کی صورت میں مطاع کے بجائے مطیع بننا پڑتا ہے۔ لہٰذا ابتداء میں نبیوں پر ایمان وہی لوگ لاتے ہیں جن کا معاشرہ میں کچھ اثر و رسوخ نہیں ہوتا اور جنہیں یہ اشراف عموماً حقیر اور کمینہ مخلوق تصور کرتے ہیں۔ مترفین کاقول کہ تمہارے ساتھی رذیل لوگ ہیں:۔ دوسری یہ بات کہ یہ اشراف اس بات میں اپنی ہتک اور توہین سمجھتے ہیں کہ ہم ایمان لا کر خود بھی اس حقیر اور کمینہ قسم کے لوگوں میں شامل ہو کر ان میں برابر کی سطح پر آجائیں۔ یعنی دوسری یہ چیز بھی ان کے ایمان لانے میں رکاوٹ کا سبب بن جاتی ہے اور اس طرح ان کی انا مجروح ہوتی ہے۔ چونکہ قریش مکہ بھی یہی کچھ کیا کرتے تھے لہٰذا اس سوال و جواب میں بھی گویا انہی کا ذکر ہے۔ بلکہ ان کا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مطالبہ بھی ہوتا تھا کہ اس قسم کے لوگوں کو اگر آپ اپنی مجلس سے کسی وقت اٹھا دیں تو ہم آپ کی باتیں سننے کو تیار ہیں۔( تفصیل کے لئے سورۃ انعام کی آیت نمبر ٥٢ کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیے ) الشعراء
112 الشعراء
113 [٧٦] ان دو آیات کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ مجھے اس بات سے کچھ غرض نہیں کہ جو لوگ تمہاری نظروں میں كمينہ ہیں وہ کیا پیشہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ موچی ہیں یا جولاہے ہیں یا لوہار ہیں یا کمہار ہیں مجھے یہ معلوم کرنے سے کوئی مطلب نہیں۔ مجھے مطلب ہے تو صرف اس بات سے کہ وہ ایمان لے آئے ہیں اور میرے ساتھی ہیں۔ باقی ان کا پیشہ کیا ہے یہ اللہ بہتر جانتا ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ میرے پاس یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں کہ جو شخص میرے پاس آکر ایمان لاتا ہے اور میرے کہنے کے مطابق اس پر عمل کرنے لگتا ہے تو اس کی تہ میں کیا محرکات کام کر رہے ہیں۔ یہ اندازہ لگانا نہ میرا کام ہے نہ تمہارا بلکہ یہ اللہ کا کام ہے۔ الشعراء
114 [٧٧] اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم نوح کے چودھریوں نے حضرت نوح علیہ السلام سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ اگر تم ان رذیل اور کمینہ لوگوں کو اپنے ہاں سے اٹھا دو تو ہم آپ کے پاس بیٹھنے اور آپ کی باتیں غور سے سننے کو تیار ہیں۔ لیکن ان کی موجودگی میں ہمیں آپ کے پاس بیٹھنا گوارا نہیں اس کے جواب میں نوح علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ تو بڑی بے انصافی اور کم عقلی کی بات ہے کہ جو لوگ مجھ پر یمان لائے ہیں، انھیں اپنے ہاں سے تمہاری خاطر دھکیل دوں جن کا بعد میں بھی ایمان لانے کا کچھ اعتبار نہیں۔ تم لوگ مجھ پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ تمہیں اختیار ہے۔ اور میں نے تمہیں تمہارے انجام سے پوری طرح آگاہ کردیا ہے۔ بہرحال میں کسی قیمت پر بھی پہلے سے ایمان والوں کو اپنے ہاں سے اٹھانے کو تیار نہیں۔ الشعراء
115 الشعراء
116 [٧٨] رَجَمَ کا لغوی معنی:۔ لفظ من المرجومین کے بھی دو مطلب ہیں۔ رجم کے معنی دور سے پتھر، کنکر وغیرہ پھینکنا اور جان سے مار ڈالنا یا سنگسار کرنا ہے اور یہ معنی ترجمہ میں مذکور ہیں۔ پھر یہ لفظ مادی اور معنوی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ اور رجیم اور مرجوم وہ شخص یا چیز ہے۔ جس پر لعنت اور پھٹکار پڑتی رہے۔ یعنی قوم نوح کے چودھریوں نے حضرت نوح علیہ السلام سے کہا کہ اگر تم اپنی دعوت و تبلیغ سے باز نہ آئے تو ہر طرف سے تم پر لعنت اور پھٹکار پڑتی رہا کرے گی۔ الشعراء
117 الشعراء
118 [٧٩] بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کے سرداروں میں کوئی دو چار دفعہ ایسے مکالمے اور بحثیں ہوئی ہوں گی۔ لیکن واقعہ ایسا نہیں۔ پورے ساڑھے نو سو سال نوح علیہ السلام اور ان کی قوم میں ایسے مکالمے اور بحث و تکرار ہوتی رہی۔ اور جب حضرت نوح اس قوم میں سے کسی نئے فرد کے ایمان لانے سے قطعاً مایوس ہوگئے تو اس وقت آپ نے یہ دعا کی تھی۔ اس دعا کا تفصیلی ذکر سورۃ نوح میں آئے گا۔ الشعراء
119 الشعراء
120 [٨٠] کشتی نوح اور طوفان نوح کا ذکر پہلے سورۃ اعراف آیت ٦٤، سورۃ یونس آیت نمبر ٧١، ٧٣، سورۃ ہود آیت نمبر ٣٨، ٤٣ میں گزر چکا ہے۔ متعلقہ حواشی ملاحظہ فرما لئے جائیں۔ الشعراء
121 [٨١] یعنی حضرت نوح کی قوم کے انجام سے بھی عبرت حاصل کرنے والے عبرت حاصل کرسکتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ حق کو ٹھکرانے والوں کو نیست و نانود کردیتا ہے اور اپنے انبیاء اور مومنوں کو ظالموں کے پنجہ سے نجات دلا کر انھیں باقی رکھتا ہے۔ الشعراء
122 الشعراء
123 [٨٢] قوم نوح کے بعد جس قوم نے دنیا میں نامور اور سربلندی حاصل کی وہ یہی قوم عاد تھی جسے عاد اولیٰ بھی کہتے ہیں۔ یہ قوم اللہ تعالیٰ کی ہستی کی تو قائل تھی مگر شرک میں بری طرح مبتلا تھی۔ ان کا اصل وطن احقاف تھا۔ یہ قوم بڑی قد آور، مضبوط اور سرکش تھی۔ ان کی طرف اللہ تعالیٰ نے ہود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا۔ اس قوم کا زمانہ عروج اڑھائی ہزارسال قبل مسیح کے لگ بھگ ہے۔ الشعراء
124 الشعراء
125 الشعراء
126 الشعراء
127 الشعراء
128 الشعراء
129 الشعراء
130 [٨٣]یادگاریں تعمیر کرنا قوم عاد کا طریقہ اور عبث کاکام ہے:۔ اس قوم کے تین افعال کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا جن میں سے پہلے دو فن تعمیر سے تعلق رکھتے ہیں۔ پہلی یہ کہ یہ لوگ یادگاریں بہت زیادہ تعمیر کرتے جن کا عملی طور پر کوئی فائدہ نہ ہوتا تھا۔ کسی نے اپنی یادگار میں شاندار مقبرہ تعمیر کرالیا۔ کسی نے کوئی اونچا مینار بنایا۔ تو کسی نے کوئی بارہ دری تعمیر کرا دی۔ جیسے اہرام مصر ہیں یا روضہ تاج محل اور اسی طرح کی دوسری یادگاریں آج کل بھی پائی جاتی ہیں اور ان سے مقصودصرف ناموری یا نمودو نمائش ہوتا تھا۔ تعبثون سے بعض لوگوں نے مراد کھیل تماشا ہی لیا ہے۔ یعنی وہ ایسی بلند عمارتوں کو اوپر چڑھ کر کبوتر بازی اور پرندوں وغیرہ کا شکار بھی کیا کرتے تھے۔ دوسری قابل ذکر چیز یہ ہے کہ وہ اپنے رہائشی گھر بھی بہت اونچے، شاندار اور مضبوط بناتے تھے فلک بوس عمارتیں کھڑی کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ ان کی ضرورت بھی تھی۔ ان کے قد بھی بہت لمبے ہوتے تھے اور عمریں بھی بہت دراز ہوتی تھیں اور اگر وہ معمولی قسم کا میٹریل عمارتوں میں استعمال کرتے وہ میٹریل ان کی زندگی میں ساتھ نہیں دیتا تھا اس صورت میں ہر شخص کو اپنی زندگی میں کئی بار مکان بنانے کی ضرورت پیش آسکتی تھی۔ قرآن نے ان کی اس عادت پر سخت نكير فرمائی۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مکانوں کی تعمیر میں مضبوطی اور بلندی میں بہت مبالغہ سے کام لیتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ شاندار تا ابد انھیں ان مکانات میں رہنا ہے۔ جب یہ قوم اللہ کے عذاب سے تباہ ہوئی تو بعد میں ان کی یہ مضبوط عمارتیں بھی کھنڈرات میں تبدیل ہوگئیں اور آج وہ کھنڈرات بھی معدوم ہوچکے ہیں۔ ان لوگوں کی آسودہ حالی، عالیشان عمارات اور جسمانی مضبوطی اور توانائی نے انھیں انتہائی متکبر بنا دیا تھا۔ انصاف اور نرمی کا برتاؤ ان کی سرشت سے معدوم ہوچکا تھا۔ وہ دوسروں کے حقوق غصب کرنے میں بہت دلیر اور جری تھے۔ اپنے معاشرہ کے بھی کمزور اور ضعیف طبقہ پر بھی ظلم و ستم ڈھاتے تھے اور آس پاس کے علاقوں میں بھی ان کا رویہ جابرانہ اور قاہرانہ ہوتا تھا۔ الشعراء
131 [٨٤] ہود علیہ السلام نے انھیں شرک کے انجام سے ڈرایا اور ان تینوں قسم کے کاموں کی قباحت بیان کرتے ہوئے کہا کہ اللہ سے ڈرتے ہوئے زندگی گزارنے کا طرز عمل سیکھو اور خوب سمجھ لو کہ تمہیں یہاں ہمیشہ رہنا کبھی میسر نہ آئے گا۔ مرنے کے بعد تمہیں دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور تمہارے ان تمام افعال و اعمال کی تم سے باز پرس بھی ہوگی۔ لہٰذا تمہارے لئے بہترین راستہ یہ ہے کہ میری بات مان لو اور جس طرح میں کہہ رہا ہوں اسی طرح کرتے جاؤ۔ الشعراء
132 [٨٤۔ الف] بعض حضرات نے اس جملہ میں ما کو نافیہ قرار دیا ہے اور ترجمہ یوں کیا ہے کہ اس ذات سے ڈرو جس نے تمہاری ان چیزوں سے مدد کی جن کا تمہیں علم نہیں۔ یعنی تم ان چیزوں کو اللہ کی امداد سمجھتے ہی نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اگلی دو آیات میں ان نعمتوں کا ذکر خود ہی کردیا ہے۔ الشعراء
133 الشعراء
134 الشعراء
135 [٨٥] پھر ہود علیہ السلام نے ان پر اللہ تعالیٰ کے ایک ایک انعام کا ذکر کیا اور فرمایا کہ تمہیں چاہئے تو یہ تھا کہ اللہ کے انعامات کا شکریہ بجا لاتے اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک نہ بناتے اور اس کے فرمانبردار بندے بن جاتے۔ لیکن تم نے اس کے بجائے فساد پھیلا رکھا ہے۔ لہٰذا اللہ کی گرفت اور اس کے عذاب سے ڈر جاؤ جو روش تم نے اختیار کر رکھی ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ تم پر اللہ کا عذاب آکے رہے گا۔ ﴿عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ ﴾سے مراد وہ دن بھی ہوسکتا ہے جس دن اس قوم پر عذاب نازل ہوا تھا اور قیامت کے دن کا عذاب بھی اور دونوں قسم کے عذاب بھی۔ الشعراء
136 الشعراء
137 [٨٦] اس نصیحت کے جواب میں یہ سرکش قوم کہنے لگی کہ ایسی باتیں تو ہم بھی سنتے چلے آئے ہیں۔ کچھ لوگ نبی بن کر ایسی باتیں کیا کرتے ہیں کہ تم پر اللہ کا عذاب آئے گا اور مرنے جینے کا سلسلہ ان سے پہلے بھی چلتا تھا۔ بعد میں بھی چلتا رہا ہے اور آئندہ بھی چلتارہے گا۔ لہٰذا تمہاری ایسی نصیحتیں ہمارے لئے بے کار ہیں۔ نہ ہم ان باتوں پر یقین رکھتے ہیں۔ بنیادپرستی کیاہے؟ امام بخاری نے ﴿خُلُقُ الْأَوَّلِينَ ﴾ میں خلق سے دین مراد لیا ہے (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ زیر تفسیر روم ) اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ تو پرانے لوگوں کا مذہب ہے۔ پرانے لوگ ایسی باتیں کیا کرتے تھے۔ مگر اب ایسے اولڈ فیشن لوگوں کا زمانہ لد چکا۔ موجودہ دور میں ایسے لوگوں کے لئے بنیاد پرست (Fundamental) کی اصطلاح وضع کی گئی ہے۔ یعنی وہ لوگ جو اپنے عقیدہ و عمل میں اپنے نبی کی تعلیم پر سختی سے عمل پیرا ہوں اور نئی روشنی یا نئی تہذیب کو پرانی جہالت سمجھتے ہوں۔ الشعراء
138 الشعراء
139 [٨٧]قوم عاد پرعذاب کی کیفیت:۔ جب ان لوگوں نے حضرت ہود علیہ السلام کو اور وعدہ عذاب کو جھٹلانے میں حد کردی اور ان پر حجت تمام ہوگئی تو ان پر اللہ کا عذاب آگیا۔ یہ عذاب قہر الٰہی بن کر نازل ہوا۔ تند و تیز آندھی چلی جو آٹھ دن اور سات راتیں مسلسل چلتی رہی۔ آندھی اتنی تیز تھی کہ کھڑے آدمیوں کو ان کے پاؤں سے اکھاڑ اکھاڑ کر ایک دوسرے پر پھینک رہی تھی۔ یہ آندھی ان کے مضبوط اور عالی شان گھروں میں گھس گھس کر ان کے ایک ایک فرد کو تباہ کر رہی تھی۔ اس عذاب کے وقت ان کے یہ مضبوط اور عالی شان مکان کسی بھی کام نہ آسکے۔ اور یہ سرکش اور متکبر قوم پوری کی پوری تباہ و برباد کردی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس عذاب سے پہلے ہی ہود علیہ السلام کو وحی کردی تھی۔ چنانچہ وہ عذاب سے پہلے اپنے پیروکاروں کو ساتھ لے کر وہاں سے ہجرت کرکے نکل گئے۔ [٨٨] اس قوم کے انجام سے بھی یہی نتیجہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ معاندین حق کو اتمام حجت کے بعد نیست و نابود کردیتا ہے اور اپنے فرمانبرداروں کی نجات کی صورت خود ہی پیدا کردیتا ہے۔ کاش! کوئی اس عبرت ناک انجام سے سبق حاصل کرسکے۔ مگر ایسے لوگ کم ہی ہوا کرتے ہیں۔ الشعراء
140 الشعراء
141 [٨٩]قوم ثمود کا مسکن اورخصائل :۔ قوم عاد اولیٰ کے بعد یہی قوم ثمود، جسے عاد ثانیہ بھی کہتے ہیں، نامور ہوئی۔ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قوم موسیٰ کا ذکر فرمایا، پھر قوم ابراہیم کا، پھر قوم نوح کا، پھر قوم عاد اولیٰ کا اور پانچویں نمبر پر قوم عاد ثانیہ کا ذکر ہے۔ اس قوم کے مسکن کو الحجر بھی کہا جاتا ہے۔ یہ تین چار سو کلومیٹر لمبا اور تقریباً سو کلومیٹر چوڑا علاقہ حجاز اور شام کے درمیان واقع ہے اور اس راستہ پر واقع ہے جو مدینہ سے تبوک جاتا ہے۔ اس قوم کے رنگ ڈھنگ تقریباً وہی تھے جو عاد اولیٰ کے تھے۔ اسی طرح کے تنومند اور قد آور اور مضبوط جسموں کے مالک تھے۔ اللہ تعالیٰ کی ہستی کے قائل ضرور تھے مگر شرک کی امراض میں بری طرح مبتلا تھے۔ بڑی متکبر اور سرکش قوم تھی۔ ان کی نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ اعلیٰ درجہ کے انجینئر اور بہترین قسم کے سنگ تراش تھے۔ وہ اپنے فن کا مظاہرہ یوں کرتے کہ پہاڑوں میں پتھر تراش تراش کر اپنے عالیٰ شان مکان بنالیتے تھے۔ اسی طرح پہاڑوں کے اندر ہی اندر انہوں نے بستیوں کی بستیاں آباد کر رکھی تھیں۔ الشعراء
142 الشعراء
143 الشعراء
144 [٩٠]سیدنا صالح علیہ السلام کا شجرہ نسب :۔ قوم ثمود کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ نے اسی قوم کے ایک فرد حضرت صالح علیہ السلام کو مبعوث فرمایا۔ ثمود اس قوم کے جداعلیٰ کا نام تھا اور صالح علیہ السلام کا شجرہ نسب یوں چلتا ہے۔ صالح بن عبید بن آصف بن ماشح بن عبید بن یاور بن ثمود۔ اس لحاظ سے یہ اپنی قوم کے بھائی ہوئے۔ انبیاء کی دعوت کا آغاز ہمیشہ توحید سے ہوتا ہے۔ وہ اپنی قوم کو اللہ کے احسانات یاد دلاتا ہے۔ ایسے احسانات جسے سب لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اللہ ہی کے احسانات ہیں۔ پھر قوم کو دعوت فکر دی جاتی ہے کہ جب انعامات و احسانات کی بارش کرنے والا صرف اللہ ہے تو تم اس کی بندگی میں دوسروں کو کیوں اس کا شریک بناتے ہو۔ اور اگر قوم پیغمبر کی بات پر توجہ نہ دے یا اس کی دعوت کی مخالفت پر اتر آئے تو وہ انھیں اللہ کی گرفت اور عذاب سے ڈراتا ہے۔ یہی کام صالح علیہ السلام نے بھی اسی انداز پر سرانجام دیا۔ الشعراء
145 الشعراء
146 [٩١] سیدنا صالح علیہ السلام کی اپنی قوم کو تبلیغ :۔ قوم ثمود کا یہ علاقہ پہاڑیوں کے دامن میں واقع تھا۔ وادیاں زرخیز تھیں۔ جا بجا میٹھے پانی کے چشمے موجود تھے۔ کھیتیاں اور باغات بکثرت تھے۔ جن میں طرح طرح کے پھل اور اعلیٰ قسم کی کھجور پیدا ہوتی تھی۔ اور پہاڑوں کو تراش کر جو وہ مکان بناتے تھے تو وہ محض ضرورت رہائش پوری کرنے کے لئے نہیں بناتے تھے بلکہ خوبصورت سے خوبصورت اور اعلیٰ سے اعلیٰ مکان بنانے میں ہر کوئی ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتا تھا اور اس سے ان کا مقصد اپنے ٹھاٹھ باٹھ اور شان و شوکت کا مظاہرہ کرنا ہوتا تھا۔ حضرت صالح علیہ السلام نے ان سے پوچھا، تمہارا کیا خیال ہے کہ تمہیں کبھی موت نہیں آئے گی جو اس قدر دنیا پر ریجھ گئے ہو اور اپنے پروردگار کو بالکل فراموش کردیا ہے؟ اللہ نے اگر تمہیں یہ نعمتیں دی ہیں تو اس کی ناشکری کی بنا پر وہ تم سے چھین بھی سکتا ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ اور اس کی گرفت سے ڈرتے رہو اور اگر انجام بخیر چاہتے ہو تو میرے بتلائے ہوئے راستہ پر عمل کرو۔ الشعراء
147 الشعراء
148 الشعراء
149 الشعراء
150 الشعراء
151 [٩٢] حضرت صالح علیہ السلام کا یہ خطاب نچلے طبقہ کے لوگوں سے تھا جو تعداد میں زیادہ مگر چودھری ٹائپ لوگوں کے زیر نگیں ہوتے ہیں اور عموماً یہی لوگ انبیاء کی دعوت پر توجہ دیتے ہیں۔ کیونکہ یہ چودھریوں کے مظالم سے تنگ آئے ہوتے ہیں۔ آپ نے انھیں سمجھایا کہ اپنے ان چودھریوں اور رئیسوں کی اطاعت چھوڑ دو۔ کیونکہ یہ مُسرف لوگ ہیں جو اخلاق کی ساری حدیں پھلانگ کر شتر بے مہار بن چکے ہین۔ ان کے ہاتھوں خیر اور بھلائی یا معاشرتی بگاڑ کی اصلاح کبھی نہیں ہوسکتی۔ تمہارے لئے ان لوگوں سے نجات حاصل کرنے کا صرف یہی طریقہ ہے کہ اپنے اندر اللہ کا خوف اور تقویٰ پیدا کرو اور ان کی اطاعت کے بجائے میری اطاعت کرو۔ کیونکہ میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ کے بتلائے ہوئے طریقے سے ہی تمہاری اخلاقی، تمدنی اور سیاسی اصلاح ممکن ہے۔ الشعراء
152 الشعراء
153 [٩٣] حضرت صالح علیہ السلام کی دعوت پر جب چند کمزور قسم کے لوگ ایمان لے آئے۔ تو چودھری لوگ حضرت صالح علیہ السلام کا مذاق اڑانے لگے کہ ان لوگوں کے سہارے تم انقلاب لانا چاہتے ہو؟ کیا تمہاری عقل تو جواب نہیں دے گئی۔ معلوم ہوتا ہے کہ تم پر کسی نے جادو کردیا ہے جو ایسی بہکی بہکی باتیں کرنے لگے ہو۔ پھر جب صالح علیہ السلام کے پیروکاروں میں کچھ مزید اضافہ ہوگیا۔ تو چودھریوں کو کچھ فکر لاحق ہونے لگی اور ان کا انداز کلام بھی بدل گیا۔ کہنے لگے : تم بھی ہمارے ہی جیسے آدمی ہو آخر تم میں وہ کون سی زائد خوبی ہے کہ ہم تجھے اللہ کا رسول تسلیم کرلیں۔ ہاں اگر تم واقعی اپنے دعویٰ میں سچے ہو تو کوئی نشانی پیش کرو۔ الشعراء
154 الشعراء
155 [٩٤] قوم ثمودکا سیدناصالح علیہ السلام سےحسی کا معجزہ کا مطالبہ: ۔صالح علیہ السلام نے ان سے پوچھا : کونسی نشانی چاہتے ہو؟ وہ کہنے لگے ہم یہ چاہتے ہیں کہ یہ سامنے والا پہاڑ پھٹے اور اس میں سے ایک حاملہ اونٹنی برآمد ہو۔ پھر وہ حاملہ اونٹنی ہمارے سامنے بچہ جنے تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ صالح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی۔ جسے اللہ تعالیٰ نے شرف قبولیت بخشا۔ پہاڑ پھٹا جس سے ایک عظیم الجثہ اور دیو ہیکل اونٹنی پیدا ہوئی۔ جس نے ان لوگوں کے سامنے بچہ جنا۔ جب قوم کا مطلوبہ معجزہ ظہور میں آگیا۔ تو یہ ان لوگوں کے لئے ایک مصیبت بن گیا۔ کیونکہ اونٹنی اگر کسی کنوئیں یا چشمے پر پانی پینے جاتی تو قوم کے دوسرے جانور اس اونٹنی کے قد و قامت اور ڈیل ڈول سے ڈر کر بھاگ جاتے تھے۔ الشعراء
156 [٩٥]اونٹنی کے پانی پینے کی باری قوم نے کیوں تسلیم کی ؟ عرب جیسے بے آب و گیا ملک میں پانی کی ہمیشہ کمی ہی رہی ہے اور پانی کا مسئلہ نہایت اہم مسئلہ تھا۔ لہٰذا صالح علیہ السلام نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک دن صرف یہ اللہ کی اونٹنی فلاں کنوئیں سے پانی پیا کرے گی۔ اس دن قوم کے جانور پانی پینے کے لئے ادھر نہ جائیں اور دوسرے دن قوم کے جانور پانی پیا کریں گے اور اونٹنی ادھر نہیں جائے گی۔ صالح علیہ السلام کا یہ فیصلہ اللہ کے حکم کے مطابق تھا۔ جسے قوم نے تسلیم کرلیا۔ مگر اس تسلیم کے پیچھے ان کی اپنی رضا کو کچھ دخل نہ تھا۔ بلکہ وہ یہ فیصلہ تسلیم کرنے پر مجبور تھے۔ اور اس کی دو وجوہ تھیں ایک یہ کہ فیصلہ کے ساتھ ہی صالح علیہ السلام نے یہ وارننگ بھی دے دی تھی کہ اگر تم لوگوں نے اس اونٹنی کو کوئی دکھ پہنچایا یا اس کے آزادی سے چرنے چگنے اور پانی پینے میں حائل ہوئے تو تم پر اللہ کا عذاب آجائے گا اور دوسرے یہ کہ یہ اونٹنی کا معجزہ دیکھنے کے بعد انھیں یہ یقین ہوچکا تھا کہ صالح علیہ السلام واقعی اللہ کے رسول ہیں۔ لہٰذا وہ ان پر ایمان لانے کے باوجود ان کی تنبیہ سے خائف تھے۔ الشعراء
157 [٩٦] لیکن یہ لوگ زیادہ مدت تک اس پابندی کو برداشت نہ کرسکے۔ چوری چھپے باتیں کرتے اور دل ہی دل میں اس پابندی سے کڑھتے رہتے تھے۔ پھر جب ان کے ایمان نہ لانے پر بھی اللہ کا عذاب نہ آیا تو وہ کچھ دلیر ہوگئے۔ ان میں ایک بدکار عورت تھی جس کے بہت سے مویشی تھے اور خاصی مالدار تھی۔ اس نے اپنے آشنا کو اس بات پر آمادہ کرلیا کہ وہ اس اونٹنی کا قصہ پاک کردے۔ چنانچہ اب اونٹنی کو مار ڈالنے کے سلسلہ میں خفیہ مشورہ ہونے لگے۔ مویشیوں کے لئے پانی اور چارے کے آدھا رہ جانے کی وجہ سے سب لوگ ہی اس اونٹنی سے تنگ آئے ہوئے تھے۔ لہٰذا سب نے ہاں میں ہاں ملا دی۔ چنانچہ وہی بدبخت زانی اس کام کے لئے تیار ہوگیا۔ چنانچہ عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خطبہ میں حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کا اور اس شخص کا ذکر کیا جس نے اونٹنی کو زخمی کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ وہ شخص اپنی قوم میں سب سے زیادہ بدبخت تھا۔ وہ ایک زور آور، شریر اور مضبوط شخص تھا جو اپنی قوم میں ابو زمعہ( زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے چچا ) کی طرح تھا اور اس کا نام قعار تھا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ الشمس) الشعراء
158 [٩٧]سیدنا صالح علیہ السلام پر قاتلانہ حملہ کی سازش :۔ اس بدبخت نے اونٹنی کی کونچیں( پاؤں کی رگیں ) تلوار وغیرہ سے حملہ کرکے کاٹ ڈالیں۔ اونٹنی نے ایک زور کی چیخ ماری اور اسی پہاڑ میں جاکر غائب ہوگئی۔ اسی طرح اس کا بچہ بھی اسی پہاڑ میں جاکر غائب ہوگیا۔ اب ان لوگوں کو عذاب کا خطرہ محسوس ہونے لگا۔ جب حالات تشویشناک ہوجائیں تو عموماً انسان کی عقل ماری جاتی ہے۔ اور وہ الٹا سوچنے لگتی ہے۔ چنانچہ ان بدبختوں نے حضرت صالح علیہ السلام کو بھی ٹھکانے لگانے کے لئے خفیہ مشورے شروع کردیئے۔ ان کی عقل نے یہی کام کیا کہ اگر صالح بھی نہ رہے تو شاید عذاب نہیں آئے گا۔ ان حالات کا صالح علیہ السلام کو علم ہوگیا تو آپ نے انھیں بحکم الٰہی تین دن کا الٹی میٹم دے دیا کہ تین دن مزے اڑا لو۔ بعد میں تم پر عذاب آجائے گا۔ (١١: ٦٥) حضرت صالح علیہ السلام پر ایمان لانے والوں کی کل تعداد ایک سو بیس تھی۔ آپ انھیں ساتھ لے کرالمدائن کی طرف ہجرت کر گئے اور رملہ کے قریب جاکر آباد ہوگئے۔ اسی مقام پر حضرت صالح علیہ السلام نے وفات پائی۔ [٩٨] قوم ثمود پرز لزلہ اور صاعقہ کاعذاب :۔اس قوم پر زبردست زلزلے کا عذاب آیا۔ جس نے پہاڑوں تک جڑیں ہلا دیں۔ ان میں شگاف پڑگئے اور پتھر پر پتھر گرنے لگے جس سے ان کے بیشتر مکانات کھنڈرات میں تبدیل ہوگئے اس دوران بڑی خوفناک اور کانوں کو پھاڑنے والی آوازیں بھی نکلتی تھیں۔ چنانچہ اس دوہرے عذاب سے یہ بدبخت قوم صفحہ ہستی سے نیست و نابود کردی گئی۔ قوم ثمود کی تباہی بھی اللہ کی سنت کے عین مطابق واقع ہوئی۔ اور اس میں بھی عبرت کے کئی اسباب پوشیدہ ہیں۔ کاش! یہ لوگ اس واقعہ سے ہی سبق حاصل کریں۔ مگر ان لوگوں کی اکثریت ایسی ہی ہے جو ایمان لانے کی طرف نہیں آتی۔ الشعراء
159 الشعراء
160 [٩٩] لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چچا زاد بھائی تھے۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے وطن کو خیرباد کہا تو اس وقت صرف یہی ایک فرد آپ پر ایمان لایا تھا اور آپ کے ہمراہ فلسطین کی طرف ہجرت کی تھی۔ یہیں آپ کو نبوت عطا ہوئی۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آپ کو شرق اردن کی طرف روانہ کردیا۔ آپ کی تبلیغ کا مرکز سدوم اور اس کے ارد گرد کا علاقہ اور عمورہ کی بستیاں تھیں۔ آپ کی قوم شرک اور دوسری بداخلاقیوں کے علاوہ لواطت میں گرفتار بلکہ اس بدفعلی کی موجد تھی۔ ان لوگوں پر بھی خاندانی منصوبہ بندی کا بھوت سوار تھا۔ اسی لئے شہوت رانی کے فطری طریق کو چھوڑ کر لونڈے بازی کا فعل شروع کیا پھر یہ لوگ اپنی غیر فطری روش پر نادم نہیں تھے۔ نہ ہی اسے گناہ سمجھتے تھے۔ بلکہ عقلی لحاظ سے اس کے بہت فوائد بتلاتے تھے۔ الشعراء
161 الشعراء
162 الشعراء
163 الشعراء
164 الشعراء
165 الشعراء
166 الشعراء
167 [١٠٠]قوم سیدنا لوط علیہ السلام پر پابندی اور جلاوطنی کی دھمکی :۔لوط علیہ السلام نے انھیں اللہ تعالیٰ کا پیغام سنایا اور ان کی بدفعلیوں کے برے انجام سے ڈرایا تو انہوں نے حضرت لوط علیہ السلام کی بات ماننے کے بجائے الٹا ان پر کئی طرح کی پابندیاں لگا دیں۔ مثلاً اگر تم اس بستی میں رہنا چاہتے ہو تو ہمارے معاملات میں دخل دینا چھوڑ دو۔ دوسرے یہ کہ اپنے ہاں مہمانوں کو یا مسافروں کو پناہ نہ دیا کرو۔ ورنہ ہم تمہارا کچھ لحاظ نہیں کریں گے اور تمہارے مہمانوں یا مسافروں سے وہی سلوک کریں گے جو ہم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بدبخت قوم مسافروں یا مہمانوں تک کو بھی نہیں چھوڑتی تھی، پہلے ان سے لواطت کرتی۔ پھر ان سے مال اسباب اور نقدی وغیرہ چھین کر انھیں دھکے دے کر اپنی بستی سے باہر نکال دیتی تھی اور اگر تمہیں ہماری یہ شرائط منظور نہ ہوں تو ہم تمہیں اپنے علاقہ سے نکال دیں گے۔ تمہارے جیسے پاکبازوں کی ہماری بستی میں رہنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ الشعراء
168 الشعراء
169 [١٠١] حضرت لوط علیہ السلام اور آپ کےمعدودے چندپیروکار اس اوباش اور گندے قسم کے معاشرے سے سخت بیزار تھے۔ جب لوط علیہ السلام ان لوگوں کے راہ راست پر آنے سے مایوس ہوگئے اور ان کی سرکشی بڑھتی ہی گئی تو اس وقت آپ نے سخت اضطراب کے عالم میں اللہ سے دعا کی کہ ہم اب زیادہ دیر اس اوباش سوسائٹی میں نہیں رہ سکتے لہٰذا ان لوگوں سے ہماری نجات کی کوئی صورت پیدا فرما دے۔ الشعراء
170 الشعراء
171 [١٠٢]سیدنا لوط علیہ السلام کی بیوی کا کردار:۔ حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی بھی درپردہ ان اوباشوں سے ملی ہوئی تھی۔ جب کوئی مہمان آپ کے گھر آتا تو یہ ان اوباشوں کو اشاروں کنایوں سے خفیہ طور پر رپورٹیں دیا کرتی تھی۔ چنانچہ جب اس قوم پر عذاب لانے والے فرشتے حضرت لوط علیہ السلام کے ہاں خوبصورت لڑکوں کی شکل میں تشریف لائے تو اسی بڑھیا کی رپورٹ پر آس پاس کے اوباش ہمسائے بری نیت سے آپ کے گھر میں گھس آئے تھے۔ لہٰذا یہ عورت کسی لحاظ سے بھی نجات کی مستحق نہ تھی۔ الشعراء
172 الشعراء
173 [١٠٣] اس بدبخت قوم پر جس طرح عذاب آیا اس کی تفصیلات پہلے سورۃ اعراف آیت نمبر ١٨٤ سورۃ توبہ آیت نمبر ٧٠، سورۃ ہود آیت نمبر ٨٣، سورۃ حجر آیت نمبر ٧٣ میں گزر چکی ہیں۔ ان کے حواشی ملاحظہ کر لئے جائیں۔ الشعراء
174 الشعراء
175 الشعراء
176 [١٠٤]اصحاب الایکہ کون لوگ تھے:۔ اصحاب الایکہ کون لوگ تھے؟ اس میں مفسرین کا خاصا اختلاف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اصحاب الایکہ اور اصحاب مدین دونوں ایک ہی قوم کے نام ہیں۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ایکہ ایک درخت کا نام تھا جس کی یہ لوگ پوجا کرتے تھے۔ اسی نسبت سے انھیں اصحاب الایکہ کہا گیا ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ ان لوگوں کی بستی اور علاقہ اصحاب مدین سے الگ ہے۔ اصحاب الایکہ کا معنی بن والے یعنی یہ بستی ایک لمبی سی بلند جگہ پر آباد تھی۔ جہاں باغات کے جھنڈ بکثرت تھے اور شعیب علیہ السلام نے ان دونوں علاقوں کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ الشعراء
177 [١٠٥] یہ وہی شعیب علیہ السلام ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سسر تھے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کے ہاں آٹھ دس سال تربیت حاصل کی تھی۔ پانچویں نسبت پر حضرت یعقوب علیہ السلام سے جا ملتے ہیں۔ شجرہ نسب یہ ہے شعیب بن میکیل بن یثجر بن لاوی بن یعقوب علیہ السلام الشعراء
178 الشعراء
179 الشعراء
180 الشعراء
181 [١٠٦]سیدنا شعیب علیہ السلام کی قوم لین دین میں ہیرا پھیری کی مرتکب تھی حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم دو تجارتی شاہراہوں کے تقاطع یا چوک پر آباد تھی۔ لہٰذا یہ پورے کا پورا علاقہ بڑا بھاری تجارتی مرکز بن گیا تھا۔ شرک اور دوسری اخلاقی برائیوں کے علاوہ ان میں جو سب سے بڑا مرض تھا وہ تجارتی ہیرا پھیری کرنا تھا۔ ناپ تول میں ایسے استاد تھے کہ بھلے بھلوں کے کان کتر دیتے تھے۔ تولتے اس طرح تھے کہ گاہک خواہ سو دفعہ ترازو دیکھتا رہے۔ یہ اس کے دیکھتے دیکھتے ہی تیسرا یا چوتھا حصہ اس کا حق مار جاتے اور جب تول کر یا ناپ کردینا پڑتا تو ایسی ہی ہاتھ کی صفائی دکھاتے تھے۔ الشعراء
182 الشعراء
183 [١٠٧] یہ لوگ صرف ناپ اور تول میں ہی کمی بیشی نہ کرتے تھے۔ بلکہ تجارتی بد دیانتوں کے سارے سر اور رموز سے اور فریب کاریوں سے واقف تھے۔ عیب دار مال کا عیب چھپا کر فروخت کرنا، جھوٹ بول کر اور جھوٹی قسمیں کھا کر مال بیچنا، ایسا ماحول پیدا کردینا کہ چیز کا مالک کم سے کم قیمت پر اپنی چیز فروخت کرنے پر مجبور ہوجائے۔ اسی طرح اپنی چیز فروخت کرنے کے لئے ایسا ماحول بنا دینا کہ وہ زیادہ سے زیادہ رقم دینے پر مجبور ہوجائے۔ غرض ہر طریقہ جس سے دوسروں کے حقوق غصب کئے جاسکتے ہوں وہ جانتے تھے۔ اور یہی وہ فساد فی الارض یا شریفانہ قسم کے ڈاکہ زنی ہے۔ جس سے شعیب علیہ السلام نے انھیں منع کیا تھا۔ اور انھیں یہ نصیحت فرمائی تھی کہ میرے خیال کے مطابق تو تم سب اچھے بھلے کھاتے پیتے لوگ ہو۔ لہٰذا اگر ایسی بددیانتیاں چھوڑ دو اور حلال طریقے سے روزی کماؤ تو تمہارے گزارے کے لئے حلال کا رزق بھی بہت کافی ہوسکتا ہے۔ لہٰذا اللہ سے ڈر جاؤ اور لوگوں کے حقوق غصب کرنا چھوڑ دو۔ الشعراء
184 الشعراء
185 [١٠٨]قوم کا سیدنا شعیب علیہ السلام کومجنون اور بشر کہہ کر جھٹلادینا:۔ اس کے جواب میں قوم نے کہا۔ تمہاری عقل ٹھیک کام نہیں کرتی۔ تم تجارت کے گر اور راز کیا جانو۔ اگر ہم تمہاری باتوں پر لگ جائیں تو چند ہی دنوں میں اس میدان میں مات کھا جائیں اور سرمایہ بھی ہاتھ سے گنوا بیٹھیں کیونکہ مقابلہ بڑا سخت ہے۔ اور ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ تمہارا یہ نبوت کا دعویٰ بھی بس ایک فریب ہی ہے۔ تم ہی ہمارے جیسے ایک محتاج انسان ہی ہو۔ تم میں ہم سے زائد کونسی خصوصیت ہے کہ ہم تمہیں ہی سمجھ لیں۔ اور تم اپنے آپ کو اپنے اس دعویٰ نبوت میں سچا سمجھتے ہو کہ جس عذاب سے ہمیں ڈراتے دھمکاتے رہتے ہو وہ عذاب ہم پر لے آؤ۔ اور آسمان کا کوئی ٹکڑا ہی ہم پر گرا دو۔ واضح رہے کہ قریش مکہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسی قسم کے عذاب کا مطالبہ کیا تھا جیسا کہ سورۃ بنی اسرائیل کی آیت نمبر ٩٢ میں گزر چکا ہے۔ اور کفار مکہ کو بتلایا جارہا ہے کہ تم سے پہلے بھی ایک قوم ایسے عذاب کا مطالبہ کرچکی ہے۔ پھر جو حشر اس قوم کا ہوا تھا وہی یا اس سے ملتا جلتا تمہارا بھی ہونے والا ہے۔ الشعراء
186 الشعراء
187 الشعراء
188 [١٠٩] سیدنا شعیب علیہ السلام کا انتباہ:۔ یعنی عذاب نازل کرنا یا آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دینا میرا کام نہیں۔ میرا پروردگار تمہاری کرتوتوں کو دیکھ رہا ہے۔ جب تمہارے گناہوں کا ڈول بھر جائے گا یا جب وہ مناسب موقع سمجھے گا تم پر عذاب نازل کردے گا تو تمہیں صرف یہ بتلا سکتا ہوں کہ جو لوگ اللہ کی نافرمانی میں حد سے تجاوز کر جاتے ہیں۔ اللہ کا طریقہ یہی ہے کہ ان پر عذاب بھیج کر انھیں تباہ کر دے۔ الشعراء
189 [١١٠] اس آیت سے چند باتوں کا پتہ چلتا ہے ایک یہ کہ اصحاب مدین اور اصحاب الایکہ دو الگ الگ قومیں تھیں۔ اصحاب مدین پر زلزلہ اور اسی سے پیدا ہونے والی ہولناک آواز کا عذاب آیا تھا (٧: ٩١، ١١: ٩٤) جبکہ اصحاب الایکہ پر سائے کے دن کا عذاب آیا تھا اگرچہ اس عذاب کی تفصیل کتاب و سنت میں کہیں مذکور نہیں تاہم اتنا ضرور معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ عذاب کی الگ نوع ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سخت گہرے اور گاڑھے بادل ان پر چھتری کی صورت میں محیط ہوگئے تھے۔ اور اس کے تادیر ان پر سایہ کئے رکھنے اور اس کی دہشت سے ان کی تباہی ہوئی تھی۔ اور ایسے ہی عذاب کا ان لوگوں نے مطالبہ کیا تھا۔ اور دوسرے یہ کہ ان قوموں کی طرف شعیب علیہ السلام ہی مبعوث ہوئے تھے اور یہ دونوں اقوام ایک دوسرے سے تھوڑے سے فاصلہ پر آباد تھیں اور یہ دونوں ہی تجارتی بددیانتیاں کرتے تھے۔ الشعراء
190 [١١١]سات مستند تاریخی واقعات کا ماحصل ۔ اللہ کی نافرمانی اور رسول کی تکذیب کے نتیجہ میں اللہ کا عذاب :۔ سابقہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے سات اقوام کا ذکر کیا ہے۔ قوم موسیٰ، قوم ابراہیم، قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط اور قوم شعیب ان سب قوموں نے اپنے اپنے نبیوں کی تکذیب کی۔ اگرچہ ان اقوام کے تمدنی حالات ایک دوسرے سے مختلف تھے اور انبیاء سے ان کی بحث و جدال اور سوال و جواب کا انداز بھی کچھ حد مختلف اور کچھ حد تک یکساں رہا۔ لیکن چونکہ ان کے بنیادی جرم کی نوعیت ایک جیسی تھی یعنی تکذیب رسالت لہٰذا ان کا انجام بھی ایک ہی جیسا رہا یعنی وہ بالاخر اللہ کے عذاب سے تباہ و برباد ہوگئے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں اور ان پر ایمان والوں کو ان ظالموں کے ہاتھوں سے بھی اور اپنے عذاب سے بھی بچا لیا۔ ان سات مستند تاریخی واقعات کے بعد بھی اگر کوئی شخص رسول کی تکذیب اور اللہ کی نافرمانی کے انجام یعنی عذاب الٰہی میں باہمی ربط کو توڑنا چاہئے۔ اور عذاب الٰہی کے طبعی اسباب ڈھونڈنا شروع کردے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے سات مرتبہ فرمایا ﴿ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّؤْمِنِينَ ﴾اور یہ خطاب صرف کفار مکہ کے لئے ہی نہیں بلکہ ہر اس شخص کے لئے جو اس سبب اور اس کے انجام کے ربط کو توڑنا چاہتا ہے۔ اور قیامت تک کے لئے ہے۔ اور ایسے شخص وہی لوگ ہوسکتے ہیں۔ جو اللہ کو بھول کر دنیا کے بندے ہی بن کر رہ گئے ہوں۔ خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔ ان مسلمہ تاریخی واقعات اور ان کے مسلمہ نتائج بیان کرنے کے بعد سلسلہ کلام اسی مضمون کی طرف پھرتا ہے جو اس سورۃ کے ابتداء میں بیان ہوا تھا۔ الشعراء
191 الشعراء
192 الشعراء
193 [١١٢] یعنی یہ قرآن اور اس میں بیان کردہ یہ تاریخی واقعات اس اللہ رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہیں جو عالم الغیب والشہادۃ ہے۔ پھر ان قرآنی آیات کو لے کر امین روح یعنی جبریل علیہ السلام نازل ہوئے۔ جو اپنی طرف سے کچھ کمی بیشی نہیں کرسکتے۔ پھر جب بھیجنے والا غیب اور شہادت کو پوری طرح جانتا ہو اور اس کو لانے والا بھی امین ہو تو ان آیات کے منبی بر حقائق ہونے میں شک کی کوئی گنجائش رہ جاتی ہے۔ الشعراء
194 [١١٣] پھر یہی مبنی برحقائق آیات جبریل امین لے کر براہ راست آپ کے دل پر اس کلام کو نازل کرتے ہیں تاکہ آپ ایسے واقعات تمام لوگوں کو سنا کر نافرمانوں کو ان کے برے انجام سے بروقت متنبہ کردیں۔ وحی کےنزول کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیفیت:۔ واضح رہے وحی الٰہی تین صورتیں قرآن میں مذکور ہیں سب سے معروف شکل یہ ہے کہ جبریل پیغمبر کے دل پر نازل ہو کر وحی کے الفاظ پیغمبر میں ڈال دے اس صورت میں پیغمبر رشتہ عالم دنیا سے کٹ کر عالم بالا جڑ جاتا ہے۔ وحی کے دوران پیغمبر کے حواس ظاہری کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اور قلبی حواس کام کرنے لگ جاتے ہیں۔ پیغمبر دل کی آنکھ سے فرشتہ کو دیکھتا ہے۔ دل کے کانوں سے وحی سنتا ہے۔ بالفاظ دیگر وحی کے دوران پیغمبر کو بشریت سے کٹ کر ملکیت کی طرف کرتا ہے۔ لہٰذا وحی کی یہ شکل جسمانی لحاظ سے آپ کے لئے نہایت تکلیف دہ ہوتی تھی۔ شدید قسم کا بوجھ آپ پر پڑجاتا تھا اور حالت غیر ہوجاتی تھی اور اس بوجھ کو وہ جاندار بھی محسوس کرتے تھے جن کا جسم آپ کے جسم سے لگا ہوتا تھا۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : یارسول اللہ! آپ پر وحی کیسے آتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ کبھی تو ایسے آتی ہے جیسے گھنٹے کی جھنکار اور یہ وحی مجھ پر بہت سخت گزرتی ہے۔ پھر جب فرشتے کا کہا مجھ کو یاد ہوجاتا ہے تو یہ موقوف ہوجاتی ہے۔ اور کبھی فرشتہ مرد کی صورت میں میرے پاس آتا ہے، مجھ سے بات کرتا ہے میں اس کا کہا یاد کرلیتا ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں دیکھا کہ سخت سردی کے دن پر آپ پر وحی اترتی پھر موقوف ہوجاتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی سے پسینہ نکلتا‘‘ (بخاری۔ کتاب الوحی۔ باب کیف کان بدء الوحی الیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) نیز حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جب یہ آیت لکھنے کو کہا : ﴿لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ وَالْمُجٰہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ﴾ اس وقت عبداللہ بن ام مکتوم( جو نابینا تھے ) نے آپ کے پاس آکر کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر مجھے جہاد کی طاقت ہوتی تو میں ضرور جہاد کرتا۔ اسی وقت اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل فرمائی۔ اس وقت آپ کی ران میری ران پر تھی آپ کی ران اتنی بوجھل ہوگئی کہ مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ نیچے سے میری ران ٹوٹ جائے گی پھر جب وحی کی کیفیت موقوف ہوئی تو اللہ نے ﴿غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ﴾ بھی نازل فرمایا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ سورۃ نساء ) (وحی کی دوسری صورتوں کے لئے دیکھئے سورۃ شوریٰ کی آیت نمبر ٥١ کا حاشیہ ) وحی کی اس قسم کو وحی جلی کہتے ہیں۔ قرآن کریم سارے کا سارا وحی جلی کی صورت میں نازل ہوا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وحی جلی ساری کی ساری قرآن میں محصور ہے۔ ایسی ہی وحی کا تھوڑا بہت حصہ احادیث میں بھی مذکور ہے۔ مثلاً زنا کی سزا سے متعلق عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت کہ (خذوا عنی خذوا عنی قد جعل لھن سبیلا )عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ’’اس وحی کے نزول کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وہی کیفیت طاری ہوئی جو قرآن کی وحی کے نزول کے وقت طاری ہوتی تھی‘‘ (مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب حد الزنا ) الشعراء
195 [١١٤] یعنی یہ وحی جو جبریل امین لے کر آپ کے دل پر اترا ہے بڑی فصیح، واضح اور شگفتہ زبان میں ہے۔ یہ اس لئے کہ آپ کی قوم عربی زبان بھی بولتی ہے اور سمجھتی ہے۔ اور اس کا مقصد یہ ہے کہ آپ جب انھیں ان کے انجام سے خبردار کریں تو بات پوری طرح ان کی سمجھ میں آسکے۔ یہ واضح رہے کہ وحی جلی کے الفاظ بھی من جانب اللہ القا ہوتے ہیں۔ الشعراء
196 [١١٥] اس آیت کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ آپ کے عرب قوم کی طرف مبعوث ہونے کی خبر سابقہ آسمانی کتابوں میں موجود ہے۔ ان کتابوں میں بہت سی تحریف و تبدل کے باوجود اب تک بھی اس قسم کی پیشین گوئیوں کا ایک ذخیرہ پایا جاتا ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اسی قرآن کے مضامین اجمالاً یا تفصیلاً سابقہ آسمانی کتابوں میں پائے جاتے ہیں بالخصوص توحید، رسالت، قصص اور تذکیر بایام اللہ اور آخرت سے متعلق دلائل اور تفصیل وغیرہ مضامین جن پر تمام کتب سماویہ اور انبیاء و مرسلین کا اتفاق رہا ہے۔ الشعراء
197 [١١٦]علماء بنی اسرائیل خوب جانتےتھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم موعود رسول ہیں:۔ یعنی آپ کی رسالت کی صداقت کے لئے یہ ثبوت بھی کافی ہے کہ بنی اسرائیل کے علماء یہ بات خوب جانتے ہیں کہ آپ وہی رسول ہیں اور یہ کتاب قرآن وہی آسمانی کتاب ہے جس کی سابقہ آسمانی کتابوں میں خبر دی گئی ہے۔ پھر ان میں سے بعض منصف مزاج عالموں نے اسی خبر کی بنا پر اسلام قبول کرلیا جیسے عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھیوں نے کہا تھا اور بعض اپنی خصوصی مجلسوں میں اس بات کا اعتراف تو کرتے ہیں لیکن بعض مصلحتوں کی بنا پر اس کا اعلان و اقرار کرنے کی جرات نہیں رکھتے۔ الشعراء
198 الشعراء
199 [١١٧] موجودہ صورت حال یہ ہے کہ نبی بھی عربی ہے اور قرآن بھی عربی زبان میں ہے تو ان کافروں کو یہ شبہ پڑگیا ہے کہ کہیں قرآن اس نے خود ہی نہ تصنیف کر ڈالا ہو۔ اب فرض کیجئے کہ ہم یہی فصیح عربی زبان والا قرآن کسی عجمی پر نازل کرتے تو ان پر شک و شبہ کرنے کے لئے دوسری کئی راہیں کھل جاتیں۔ مثلاً یہ کہہ دیتے کہ یہ آیات اللہ نے جبریل کے ذریعہ اس پر نازل نہیں کیں بلک اسے تو کوئی جن یا شیطان پڑھا جاتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ ’’خوے بد را بہانہ بسیار‘‘ والا معاملہ ہے۔ نیت میں فتور ہو تو شک و شبہ کے بہانے ہزاروں مل سکتے ہیں۔ الشعراء
200 [١١٨] اس کا ایک مطلب تو وہی ہے جو ترجمہ اور اوپر کے حاشیہ سے واضح ہے اور ربط مضمون کے لحاظ سے یہی راجح معلوم ہوتا ہے۔ تاہم بعض مفسرین نے سلکناہ میں ه کی ضمیر کو قرآن کی طرف لوٹایا ہے۔ اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم نے قرآن کو ان مجرموں کے دلوں میں گھسا دیا ہے اور وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ کسی بشر کا کلام نہیں ہوسکتا۔ مگر اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر اس کو بہرحال جھٹلانے پر کمر بستہ ہیں۔ الشعراء
201 [١١٩] یہ لوگ دراصل لاتوں کے بھوت ہیں۔ ان کا علاج دلائل نہیں بلکہ ڈنڈا ہے۔ جب انھیں جوتے پڑیں گے اور اللہ کا عذاب دیکھ لیں گے، خواہ یہ دنیا میں آئے یا موت کے وقت دیکھیں یا قیامت کو دیکھیں اس وقت یہ سب باتیں مانتے چلے جائیں گے۔ لیکن اس وقت ان کے ماننے کی کچھ قدر و قیمت نہ ہوگی۔ الشعراء
202 الشعراء
203 الشعراء
204 [١٢٠] یعنی آج انھیں مہلت ملی ہوئی ہے تو عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں۔ پھر جب عذاب دیکھ لیں گے تو اس وقت مہلت کا مطالبہ کریں گے۔ حالانکہ نہ ان کا پہلا مطالبہ درست تھا اور نہ دوسرا درست ہوگا اس لئے کہ عذاب الٰہی کے لئے بھی ایک ضابطہ مقرر ہے اس کا دارو مدار کسی کے مطالبہ کرنے یا نہ کرنے پر نہیں ہے۔ پھر جب معین وقت پر عذاب آجاتا ہے تو پھر اس میں تاخیر نہیں ہوسکتی۔ نہ کسی کے مطالبہ پر مزید مہلت مل سکتی ہے۔ الشعراء
205 الشعراء
206 الشعراء
207 [١٢١]اتمام حجت کےبعدہی عذاب آتاہے :۔ یہ کافروں کے مہلت کے مطالبہ کا دوسرا جواب ہے یعنی ہم نے انھیں دنیا میں سال ہا سال تک مہلت دی تو کیا اس مہلت سے انہوں نے کچھ فائدہ اٹھایا ؟ اور اگر ہم انھیں دوبارہ مہلت دے بھی دیں۔ پھر بھی یہ لوگ اس مہلت سے کچھ فائدہ نہیں اٹھائیں گے جب بڑی ہوئی مہلت میں ان کا سامان عیش و عشرت ان کے کسی کام نہ آئے گا تو اس سالہا سال تک دی ہوئی مہلت کو وہ بالکل تھوڑی مدت سمجھیں گے اور یہ خیال کریں گے کہ ہم بہت جلد پکڑے لئے گئے۔ الشعراء
208 الشعراء
209 [١٢٢] اور ہمارا ظلم یا زیادتی تو صرف اس صورت میں شمار ہوسکتا ہے جب ہم کسی قوم پر بغیر خبردار کئے یکدم عذاب نازل کردیتے جبکہ اصلی صورت حال یہ ہے کہ ہم نے ہر ہر بستی میں انبیاء بھیجے جو لوگوں کو ان کے برے انجام سے خبردار کرتے تھے اور لوگ انھیں جھٹلاتے رہے۔ اور نبیوں کو یہ کہہ کہہ کر پریشان کرتے رہے کہ جس عذاب سے تم ہمیں ڈراتے ہو وہ جلد از جلد لے کیوں نہیں آتے۔ جس سے ان کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ یہ عذاب کا وعدہ بھی سراسر جھوٹ اور فریب ہے ان باتوں کے باوجود ہم انھیں سنبھلنے کا موقع دیتے رہے۔ اور ہر ممکن طریقے سے حجت پوری کرنے کے بعد اور انھیں نصیحت کرنے کے بعد ان پر عذاب بھیجا اور اس لئے بھیجا کہ وہ ہر لحاظ سے عذاب کے مستحق ہوچکے تھے اس میں ہماری کچھ زیادتی نہیں تھی۔ الشعراء
210 [١٢٣] کفار کا آپ پر الزام کہانت:۔ اس آیت کا تعلق سابقہ آیت وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ سے ہے درمیان میں قرآن کو جھٹلانے والوں کے کچھ احوال بیان کرنے کے بعد اصل مضمون کی طرف رجوع کیا گیا ہے کفار مکہ کے الزامات میں سے ایک الزام یہ بھی تھا کہ وہ آپ کو کاہن کہتے بھی تھے اور سمجھتے بھی تھے۔ چنانچہ جندب بن سفیان فرماتے ہیں۔ کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مزاج ناساز ہوا اور آپ دو تین رات نماز تہجد کے لئے اٹھ نہ سکے۔ ایک عورت (عوراء بنت حرب، ابو سفیان کی بہن، ابو لہب کی بیوی) آپ کے پاس آئی اور کہنے لگی’’ محمد! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں سمجھتی ہوں۔ تیرے شیطان نے تجھ کو چھوڑ دیا۔ دو تین راتوں سے تیرے پاس نہیں آیا‘‘ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔﴿ وَالضُّحَىٰ وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَىٰ مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىٰ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ والضحیٰ) الشعراء
211 [١٢٤] ایسا قرآن نازل کرنا شیطانوں کے بس کا روگ نہیں۔ جو سراسر لوگوں کی ہدایت و فلاح کا ضامن ہو۔ جس میں خالصتاً توحید باری کی تعلیم دی گئی ہے۔ اور شرک اور بت پرستی سے روکا گیا ہے۔ آخرت کی باز پرس کا خوف دلایا گیا ہے۔ ظالم اور بداخلاقی سے منع کیا گیا ہے۔ نیکوکاری اور راست بازی اور خلق خدا کے ساتھ احسان کی تعلیم دی گئی ہے اور اس پر ایمان لانے والوں کو ایک مکمل ضابطہ حیات عطا کیا گیا ہے کیا کسی شیطان کے کلام میں ایسی باتوں کا پایا جانا ممکن ہے؟ شیطان تو قرآن کے نام تک سے بدکتے ہیں وہ ایسا کلام لاکیسے سکتے ہیں؟ الشعراء
212 [١٢٥] یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنا کلام جبریل روح الامین کو دے کر بھیجا جو سیدھے یہ کلام لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل پر نازل ہوئے۔ اب اس راستہ میں کوئی ایسا مقام آتا ہے جہاں سے شیطان اس کلام کا کچھ حصہ سن سکتے ہوں؟ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اس مضمون کی وضاحت کردی گئی ہے کہ جب یہ کلام نازل کیا جاتا ہے تو اس کے ارد گرد کڑا پہرہ بھی مقرر کیا جاتا ہے جس کے دو فائدے ہیں۔ ایک یہ کہ اس میں کہیں سے بھی باطل کی آمیزش نہیں ہوسکتی (٤١: ٤٢) اور دوسرا یہ کہ شیاطین اگر اس کلام کو چوری چھپے سننے کی کوشش کریں تو سن نہیں سکتے بلکہ شہاب ثاقب کے ذریعہ ان کی تواضع کی جاتی ہے۔ (٧٢: ٩ ) الشعراء
213 [١٢٦] اس میں مخاطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ جو توحید کی طرف دعوت دینے والے اور شرک کے دشمن ہیں۔ اور آپ سے شرک کا صدور ناممکن ہے۔ اور انداز خطاب دراصل اس حکم میں تاکید مزید کے لئے اختیار کیا گیا ہے۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو سب سے افضل و اشرف ہیں اگر آپ بھی شرک کریں تو اللہ کے عذاب سے بچ نہیں سکتے تو دوسروں کا کیا حال ہوگا۔ دراصل مشرکین مکہ پر شرک کی شدید قباحت کی وضاحت کے لئے یہ انداز اختیار کیا گیا ہے فی الحقیقت اس آیت کے مخاطب وہی لوگ ہیں جو اپنی حاجت براری اور مشکل کشائی کے لئے دوسروں کو پکارتے ہیں۔ الشعراء
214 [١٢٧]قریش کو آپ کی پہلی دعوت:۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد تین سال تک آپ انتہائی خفیہ طریقہ پر دارارقم میں فریضہ تبلیغ سرانجام دیتے رہے۔ بعد میں یہ حکم نازل ہوا کہ آپ اب اپنے قریبی رشتہ داروں کو بھی کھل کر شرک سے بچنے کی دعوت دیجئے اور اس شرک کے انجام سے انھیں ڈرائیے۔ اس آیت پر آپ نے جس طرح عمل فرمایا وہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے اور صفا پہاڑ پر چڑھ گئے اور آواز دینے لگے : اے فہر کی اولاد، اے عدی کی اولاد، فرض قریش کے سب خاندان کو پکارا۔ وہ جمع ہوگئے جو کوئی خود نہ آسکا اس نے اپنی طرف سے ایک آدمی بھیج دیا تاکہ یہ دیکھے کہ کیا معاملہ ہے۔ ابو لہب خود آیا اور قریش کے دوسرے لوگ بھی آگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا : ’’اگر میں تم سے کہوں کہ اس وادی کے اس طرح کچھ سوار تم پر حملہ کرنے کے لئے جمع ہیں تو کیا تم میری بات سچ مانو گے؟‘‘ انہوں نے کہا۔ ’’بے شک! کیونکہ ہم نے آپ کو ہمیشہ سچ ہی بولتے دیکھا ہے‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میں تمہیں اس سخت عذاب سے ڈراتا ہوں۔ جو( قیامت کو ) تمہیں پیش آنے والا ہے‘‘ اس پر ابو لہب کہنے لگا : ’’تم پر بقیہ سارا دن ہلاکت ہو کیا تم نے اسی بات کے لئے ہمیں اکٹھا کیا تھا ؟‘‘ اس وقت یہ سورت نازل ہوئی: ( تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَہَبٍ وَّتَبَّ۔۔۔۔(بخاری ۔کتاب تفسیر ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر فرمانے لگے : ’’اے قریش کے لوگو!(یا کچھ ایسا ہی کلمہ کہا) تم اپنی اپنی جانیں بچا لو۔ میں اللہ کے سامنے تمہارے کسی کام نہ آسکوں گا۔ اے بنو عبدمناف! میں اللہ کے سامنے تمہارے کسی کام نہ آسکوں گا۔ اے میری پھوپھی صفیہ! میں اللہ کے سامنے تمہارے کسی کام نہ آسکوں گا۔ اے محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی فاطمہ! میرے مال سے جو چاہتی ہے مانگ لے لیکن اللہ کے سامنے میں تیرے کسی کام نہ آسکوں گا‘‘( حوالہ ایضاً ) الشعراء
215 الشعراء
216 [١٢٨] ربط مضمون کے لحاظ سے تو اس کا یہی مطلب ہے کہ ان قریبی رشتہ داروں سے جو آپ پر ایمان لے آئیں اور آپ کی دعوت کو تسلیم کرلیں آپ ان سے تواضع سے پیش آئیے۔ اور جو نہ مانیں انھیں صاف سنا دیجئے کہ قیامت کے دن میں تمہارے کسی کام نہ آسکوں گا۔ تمہیں اپنے ان شرکیہ اعمال و افعال کا نتیجہ خود ہی بھگتنا پڑے گا۔ تاہم یہ حکم عام ہے۔ جس میں آپ کے رشتہ دار اور غیر رشتہ دار سب قسم کے لوگ شامل ہیں۔ الشعراء
217 [١٢٩] یعنی اس اللہ پر بھروسہ کیجئے جو نہ ماننے والوں اور اس راہ میں روڑے اٹکانے والوں پر غالب ہے اور انھیں سزا دینے کی پوری قدرت رکھتا ہے اور مومنوں کے حق میں جو کافروں کے ہاتھوں نشانہ ستم بنے ہوئے ہیں۔ رحیم بھی ہے وہ ان مظلوموں کی ضرور مدد کرے گا۔ اور ان کی محنتوں اور قربانیوں کا انھیں پورا بدلہ عطا کرنے کے علاوہ انھیں اپنے انعامات سے بھی نوازے گا۔ الشعراء
218 [١٣٠] یعنی جب آپ نماز کے لئے رات کو اٹھتے ہیں یا کسی بھی نماز میں قیام کی حالت میں ہوتے ہیں یا تبلیغ رسالت کے فریضہ کی انجام دہی کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ الشعراء
219 [١٣١] اس آیت کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ جب آپ نماز باجماعت میں اپنے مقتدیوں کے ساتھ رکوع و سجود کرتے ہیں، اس وقت اللہ تعالیٰ آپ کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ جب آپ رات کو اٹھ کر گشت کرتے ہیں کہ کون کون سے عبادت گزار اس وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہیں اور کون کون سے غافل ہیں۔ اس وقت بھی اللہ آپ کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ تیسرا یہ کہ سجدہ گزار لوگوں کے ساتھ مل کر آپ جو بھی اعلائے کلمۃ الحق کے لئے تگ و دو کرتے ہیں۔ اللہ آپ لوگوں کی ایک ایک نقل و حرکت سے واقف ہوتا ہے۔ الشعراء
220 الشعراء
221 الشعراء
222 [١٣٢] شیطان صرف بدکردارلوگوں پر اترتےہیں:۔ پہلے یہ بیان ہو رہا تھا کہ قرآن جیسی عظیم الشان کتاب کی تنزیل شیطانوں کے بس کا روگ نہیں اور یہ بات ناممکنات سے کہ وہ اس جیسی ایک آیت بھی لاسکیں۔ اس آیت میں یہ بتلایا جارہا ہے۔ شیطان کیسی چیز اتارتے ہیں اور کیسے لوگوں پر اترتے ہیں۔ شیطان صرف جھوٹوں، بدمعاشوں اور بدکاروں پر اترتے ہیں۔ و دیانتدار، راست باز اور نیک لوگوں سے بیزار ہوتے ہیں اور انھیں برا جانتے ہیں۔ وہ جھوٹے اور دغا باز قسم کے لوگوں پر خوش ہوتے ہیں اور یہی لوگ ان کی مرضی کے موافق ہوتے ہیں اور ایسے ہی لوگ شیطانوں کے القاء کے مطابق کہانت کا کاروبار چلاتے ہیں اور ان سے مراد کاہن، جوتشی، فال نکالنے والے، رمال، جنار اور عامل قسم کے لوگ ہیں جو اپنی غیب دانی کا ڈھونگ رچاتے، لچھے دار باتیں بناتے اور لوگوں کو ان کی قسمتیں بتاتے پھرتے ہیں۔ پھر کچھ لوگ جنوں کی تسخیر اور مؤکلوں کے ذریعہ لوگوں کی بگڑی بناتے ہیں۔ اور اس سے ان کا مقصد محض پیسہ بٹورنا ہوتا ہے۔ کہانت اور ابن صیاد :۔دور نبوی میں مدینہ میں بھی ایک ایسا کاہن رہتا تھا جس کا نام ابن صیاد تھا جو غیب کی خبریں بتلایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے کہا : کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ وہ کہنے لگا : میں گواہی دیتا ہوں کہ ان پڑھوں کا رسول ہے پھر اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ٹھونکا مارا اور فرمایا : اللہ تجھے تیری حد سے آگے نہ بڑھنے دے گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : اچھا بتلاؤ اس وقت میرے دل میں کیا ہے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں سورۃ دخان کا خیال آرہا تھا۔ اس نے کہا ''دخ'' اس سے آگے وہ کچھ نہ کہہ سکا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور بعض دوسرے صحابہ اسے دجال خیال کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کو قتل کرنے کی اجازت بھی طلب کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس کام سے روک دیا اور فرمایا : اگر فی الواقع دجال ہے تو اس کی موت تیرے ہاتھوں واقع نہیں ہوگی۔ اور اگر یہ دجال نہیں تو اسے قتل کرنا درست نہیں۔ (بخاری۔ کتاب القدر۔ باب قولہ تعالی۔ یحول بین المرء و قلبه ) اب اس کے مقابلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے پیروکاروں کی زندگی کو دیکھا جائے تو زمین و آسمان کا فرق نظر آتا ہے ان لوگوں کی راست بازی، صدق، امانت و دیانت، پرہیزگاری اور خوش اخلاقی وغیرہ ایسے اوصاف ہیں جن کی ان بدکرداروں کو ہوا بھی نہیں لگی ہوتی۔ الشعراء
223 [١٣٣] کہانت کی بنیاد سراسرجھوٹ پرہے:۔ یعنی ان کاہن قسم کے لوگوں کے ذرائع معلومات انتہائی ناقص قسم کے ہوتے ہیں۔ اور اس آیت کے بھی دو مطلب ہیں ایک یہ کہ شیطان ملاء اعلیٰ کی طرف کان لگاتے ہیں اور کوئی ایک آدھ بات سن پائیں تو اس میں سو جھوٹ ملا کر کاہنوں کو بتلاتے ہیں اور دوسرا یہ کہ کاہن شیطانوں کی طرف کان لگائے رکھتے ہیں۔ پھر جب شیطان کسی کاہن کو کچھ القاء کرتا ہے تو یہ کاہن اس میں سو جھوٹ ملا کر لوگوں کو بتلاتے ہیں۔ گویا ان کے کاروبار کی بنیاد سراسر جھوٹ پر مبنی ہوتی ہے۔ الشعراء
224 [١٣٤] کفار مکہ کا ایک الزام یہ بھی تھی کہ آپ( معاذ اللہ) شاعر ہیں۔ اسی نسبت سے یہاں شاعروں اور شاعروں کو داد دینے والوں کے کچھ اوصاف بیان فرما دیئے۔ تاکہ ہر شخص از خود یہ فیصلہ کرلے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شاعر ہوسکتے ہیں یا نہیں؟ پھر آپ کے پیرو کاروں کے اوصاف کیسے ہیں۔ اور شاعروں کے پیروکاروں کے کیسے ہوتے ہیں؟ شاعروں کا کام محض گرمی محفل اور وقتی جوش پیدا کرنا ہوتا ہے جس کا مستقل ہدایت سے کچھ تعلق نہیں ہوتا۔ اور ان کی داد دینے والے بھی ہدایت کی راہ سے بے بہرہ اور بہکے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔ الشعراء
225 [١٣٥]شاعروں کی خصوصیات ۔تخیل ہی تخیل۔تضاد بیانی اور عملی فقدان : ۔ ان دو آیات میں شاعروں کی دو خصلتیں بیان فرمائیں ایک یہ کہ ان کے کلام میں تخیل ہی تخیل اور غلو کی حد تک پہنچا ہوا مبالغہ ہوتا ہے جس کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہوتی۔ مثلاً کسی کی تعریف کرنے بیٹھے تو اسے آسمان پر چڑھا دیا کسی کی ہجو پر آئے تو اسے دنیا کی بدترین مخلوق بنا کر پیش کردیا۔ پھر اگر کسی سے کچھ انعام و اکرام مل گیا تو اس کی مدح سرائی شروع کردی۔ کسی کی پگڑی اچھالی۔ کہیں فتنہ و فساد کی آگ بھڑکائی اور عشق لگائے بغیر تو کسی شاعر کی شاعری مکمل ہی نہیں ہوتی۔ کہیں محبوبہ سے شکایتیں ہیں، تو کہیں رقبیوں پر برس رہے ہیں، دور ازکار استعاروں اور تشبیہات کا استعمال اور اپنی ثناخوانیاں جن میں حقیقت کچھ بھی نہیں ہوتی۔ غرضیکہ زندگی کا کوئی میدان ایسا نہیں جن میں یہ اپنے تخیل کے گھوڑے نہ دوڑاتے ہوں اور سر نہ پھٹکتے پھرتے ہوں۔ ان کی زندگی کا نہ کوئی متعین مقصد ہوتا ہے اور نہ ہی یہ کسی اصول کے پابند ہوتے ہیں۔ الشعراء
226 [١٣٦] شاعر حضرات کی دوسری خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ ان کے قول اور فعل میں نمایاں تضاد ہوتا ہے وہ کہتے کچھ اور کرتے کچھ ہیں۔ اور یہ چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طرز عمل کے عین ضد تھی۔ آپ جو تعلیم پیش کرتے تھے سب سے پہلے خود اس پر عمل پیرا ہوتے تھے پھر ایمان لانے والوں کو اسی تعلیم کا نمونہ بناتے تھے۔ لہٰذا اے مشرکین مکہ! خود ہی اندازہ کرلو کہ اس پیغمبر کے شاعر ہونے کا جو الزام تم لگا رہے ہو وہ کہاں تک درست ہے۔ الشعراء
227 [١٣٧]کون سے شعراء اس کلیہ سےمستثنیٰ ہیں ؟ یعنی جن شعراء کی عام مذمت بیان کی گئی۔ ان میں سے مندرجہ ذیل چار خصائل والے شعراء مستثنیٰ ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ایمان لائے ہوں۔ دوسرے انہوں نے نیک اعمال کو اپنا طرز زندگی بنا لیا ہو۔ تیسرے اللہ کو بکثرت یاد کرتے رہتے ہوں۔ کسی وقت بھی ان کے دل اللہ کی یاد سے غافل نہ ہوں۔ چوتھے یہ کہ جو کچھ کہیں ظالموں کے مقابلہ میں حق کی حمایت کے شعر کہیں۔ کسی کی ہجو اپنی ذاتی اغراض کے ماتحت نہ کریں۔ مثلاً اشعار کے ذریعہ اللہ کی حمد و ثنا بیان کریں۔ نیکی کی ترغیب دیں۔ کفر کی اور گناہوں کی مذمت بیان کریں یا اگر کافر مسلمانوں یا اسلام یا پیغمبر اسلام کی ہجو بیان کریں۔ تو ہجو کا اسی طرح جواب دے کر اس ظالم کا بدلہ لے لیں۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ قریش نے مسلمانوں کی ہجو کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے کہا کہ ان کی ہجو کا جواب دو۔ کیونکہ ہجو قریش کو تیروں کی بوچھاڑ سے زیادہ ناگوار ہے۔ پھر عبداللہ بن رواحہ سے ہجو کرنے کو کہا۔ لیکن ان کی ہجو آپ کو پسند نہ آئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب بن مالک سے کہا پھر حسان بن ثابت سے ہجو کرنے کا کہا اور ساتھ ہی یہ بتلا دیا کہ ذرا دھیان رکھنا میں بھی قریش سے ہوں۔ حضرت حسان کہنے لگے اس ذات کی قسم جس نے آپ کو سچا پیغمبر بنا کے بھیجا۔ میں آپ کو قریش میں سے ایسے نکال لوں گا جیسے آٹے سے بال نکال لیا جاتا ہے۔۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان کے حق میں دعا کی یا اللہ اس کی روح القدس سے مدد کر۔ نیز فرمایا حسان! جب تک تو اللہ اور اس کے رسول کے طرف سے جواب دیتا رہے گا روح القدس تیری مدد کرتا رہے گا۔ نیز فرمایا : حسان نے قریش کی ہجو کرکے مومنوں کے دلوں کو تسکین دی اور کافروں کی عزتوں کو تباہ کردیا( مسلم۔ کتاب الفضائل۔ باب فضائل حسان بن ثابت ) اس کے بعد حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا طویل قصیدہ مسلم شریف میں مذکور ہے۔ [ ١٣٨] یعنی وہ لوگ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کاہن اور شاعر یا ساحر اور مجنون قرار دیتے تھے تاکہ دعوت دین اسلام میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کرکے حق کو نیچا دکھلا سکیں۔ الشعراء
0 النمل
1 [١] یعنی اس کتاب کے پڑھنے سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس میں جو کچھ بیان کیا جاتا ہے۔ وہ بالکل واضح ہے اس میں کوئی ابہام یا پیچیدگی نہیں جو کسی کی سمجھ میں نہ آسکے۔ اور تیسرا مطلب یہ ہے کہ حق اور باطل سب کچھ بڑی وضاحت سے بتلا رہی ہے۔ النمل
2 [٢] اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کی صفات بیان کرتے ہوئے ہدایت دینے والی یا بشارت دینے والی کے بجائے صرف ہدایت اور بشارت فرمایا۔ گویا یہ کتاب مجسم ہدایت اور مجسم بشارت ہے۔ اور ان الفاظ کے استعمال میں بلاغت بھی ہے اور فضاحت بھی۔ البتہ یہ کتاب ہدایت اور بشارت صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ سمجھتے ہیں اور اللہ پر ایمان بالغیب رکھتے ہیں۔ اور جو سرے سے اسے اللہ کی طرف سے نازل شدہ نہ سمجھیں۔ ان کے لئے نہ یہ ہدایت بن سکتی ہے اور نہ بشارت۔ النمل
3 [٣]آخرت پرایمان نہ رکھنےوالے اورجزاء وسزاکاتصورصحیح نہ رکھنے والے کافرہیں :۔ ایمان کا دعویٰ رکھنے والوں کی ظاہری علامات یہ ہیں کہ کم از کم وہ نماز کو پوری درستی کے ساتھ قائم کریں۔ نیز زکوٰۃ ادا کریں اور روز آخرت پر ایمان بھی رکھتے ہوں۔ روز آخرت پر ایمان اگرچہ ایمان کے چھ اجزاء میں ایک جزء ہے اور ایمان لانے میں آخرت پر ایمان لانا از خود شامل ہوجاتا ہے۔ تاہم ایمان کے اس جزء کی اہمیت کے پیش نظر اس کو دوبارہ اور بڑی تاکید سے بیان فرمایا۔ اسی لئے قرآن کریم نے آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کو مکمل کافر قرار دیا ہے۔ بلکہ ان لوگوں کو بھی کافر قرار دیا ہے جو آخرت کے دن پر ایمان تو رکھتے ہیں مگر جزا و سزا کے متعلق وہ تصور نہیں رکھتے جو قرآن پیش کرتا ہے۔ النمل
4 [٤] یعنی جو اللہ پر تو ایمان رکھتے ہوں مگر روز آخرت پر ایمان نہ رکھتے ہوں وہ اپنا معیار خیر و شر صرف انہی نتائج سے متعین کرتے ہیں جو اس دنیا میں ظاہر ہوتے یا ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا ان کی زندگی کسی اصول کی پابند نہیں ہوتی وہ جس کام میں اپنا ذاتی فائدہ دیکھتے ہیں۔ وہی کام ان کے نزدیک خیر ہے۔ دوسروں کے نفع و نقصان سے انھیں کچھ غرض نہیں ہوتی۔ دنیا میں تمام فسادات روز آخرت اور باز پرس سے انکار یا بھول کی بنا پر واقع ہوتے ہیں۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ ایسے دنیا پر ریجھنے والے لوگوں کو اپنے ایسے ہی خود غرضی پر مبنی اعمال اچھے نظر آنے لگتے ہیں۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ جو طرز عمل انہوں نے اختیار کر رکھا ہے وہی سب سے اچھا اور بہتر ہے۔ النمل
5 [٥] ایسے لوگوں کی زندگی شتر بے مہار کی طرح ہوتی ہے۔ ہر ایک کی غرض دوسرے کی غرض سے ٹکراتی ہے۔ تو دنیا میں بھی ایسے لوگ خسارہ میں ہی رہتے ہیں اور آخرت میں ایسے لوگوں کا خسارہ میں رہنا ایک یقینی بات ہے۔ ان کو ایسے برے انجام سے سابقہ پیش آئے گا جس کا انھیں وہم و گمان بھی نہ تھا۔ النمل
6 [٦] یعنی یہ قرآن ایسی ہستی کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ جو تمام لوگوں کے احوال سے پوری طرح باخبر ہے۔ اس کی نظروں میں سب انسان بحیثیت انسان ایک جیسے ہیں۔ جو ہر ایک کے حقوق و فرائض اپنے اسی وسیع علم کی بنا پر مقرر کرتی ہے۔ پھر وہ حکیم بھی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے ہر حکم میں کچھ نہ کچھ حکمتیں مضمر ہوتی ہیں اور اس کے احکام بندوں ہی کی مصلحت پر مبنی ہوتے ہیں۔ النمل
7 [٧] سیدنا موسیٰ علیہ السلام کےآغازنبوت کا پس منظر:۔ یہ موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے اس دور کا واقعہ ہے جب آپ حضرت شعیب علیہ السلام سے رخصت ہو کر واپس مصر اپنے وطن جارہے تھے۔ بیوی ساتھ تھی اور وہ حاملہ تھی ایک بچہ اور ایک خادم بھی ساتھ تھے۔ جب طور سینا کے قریب پہنچے تو راستہ بھول گئے۔ سردیوں کا موسم۔ رات کا گہرا اندھیرا اور کڑاکے کی سردی پڑ رہی تھی۔ اس حال میں راستہ بھی بھول گئے تو سخت پریشان ہوئے۔ دور کہیں آگ نظر آئی تو خیال کیا کہ وہاں ضرور کچھ لوگ ہوں گے۔ ان کے ہاں جاتا ہوں ان سے راستہ پوچھوں گا۔ اپنے بیوں بچوں سے کہنے لگے: تم یہیں ٹھہرو۔ میں وہاں جاکر راستہ پوچھ آتا ہوں اور اگر کسی نے راستہ نہ بھی بتلایا تو کم از کم کچھ آگ کے انگارے ہی لیتا آؤں گا۔ تاکہ تم لوگ آگ سینک کر کچھ گرمی حاصل کرسکو۔ النمل
8 [٨] وہاں پہنچ کر عجیب سا منظر دیکھا۔ آگ نے ایک درخت کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے مگر درخت ویسے کا ویسا سرسبز ہے اور لہلہا رہا ہے۔ آس پاس کوئی آدمی بھی نہیں ہے۔ آگ سے دھواں بھی نہیں اٹھ رہا۔ اور پورا خطہ زمین روشنی سے جگمگا رہا ہے۔ اس حیرانی کے عالم میں کھڑے تھے کہ اس روشنی سے یا درخت میں سے ندا آئی، موسیٰ اپنے جوتے اتار لو۔ اس وقت تم طویٰ کی مقدس وادی میں پہنچ گئے ہو اور تم یہاں بھولے سے نہیں آگئے بلکہ ٹھیک ہمارے اندازے کے مطابق یہاں پہنچے ہو۔ اس آگ میں اور اس کے ارد گرد جو کوئی بھی ہے سب مبارک ہے۔ یہ آگ، یہ درخت، تم، خود اور آس پاس فرشتے سب مبارک اور بابرکت ہے۔ اور اللہ کی ذات، جو تمام جہانوں کی پروردگار ہے۔ ہر قسم کے جہات اور تشبیہات سے منزہ اور پاک ہے۔ النمل
9 [٩] اس منظر نے پھر اس آواز نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تو پھر آواز آئی : ’’موسیٰ!میں اللہ ہوں، زبردست ہوں اور حکمت والا ہوں‘‘ اور یہاں سبحان اللہ کہنے سے مقصود یہ تھا کہ اللہ رب العالمین ایسا نہیں جو اس درخت میں یا آگ میں موجود ہو یا ان میں حلول کر آیا ہو۔ بس اس مقام پر اللہ نے اپنی تجلی ڈالی تھی۔ جیسے سورج کے سامنے شیشہ رکھنے سے شیشے میں سے بھی روشنی اور اس کی شعاعیں اور سورج سب کچھ نظر آنے لگتے ہیں۔ لیکن یہ کہا جاسکتا ہے اتنا بڑا سورج چھوٹے سے آئینہ میں سما گیا ہے یا اس جگہ موجود ہے۔ معتزلہ جہمیہ اور متصوفین کا رد:۔ جہمیہ اور معتزلہ جو اللہ تعالیٰ کی صفات کی بزعم خود تنزیہہ بیان کرتے اور اپنے آپ کو اہل التوحید کہتے تھے نیز بعض متصوفین اس بات کے قائل ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کی آواز نہیں سنی بلکہ اس درخت میں اللہ تعالیٰ نے بات کرنے کی قوت پیدا کردی تھی اور یہ آواز اسی درخت کی آواز تھی اور اسی درخت سے نکل رہی تھی۔ سوچنے کی بات ہے کہ کیا درخت بیچارے کی کیا مجال ہے کہ وہ کہے ’’میں اللہ ہوں، زبردست اور حکمتوں والا‘‘ اور درخت یہ دعویٰ کرسکتا ہے تو پھر حسین بن منصور بن حلاج کا کیا قصور تھا جس نے اناالحق کا دعویٰ کیا تھا ؟ نیز جنید بغدادی اور دیگر علمائے حق نے اس کے قتل کا کیوں فتویٰ دیا تھا ؟ دراصل یہ اللہ تعالیٰ کے اپنے بندے سے ہمکلام ہونے کی ایک مسلمہ خاص شکل ہے مجھے سورۃ شوریٰ کی آیت نمبر ٥١ میں أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور وراء کا لفظ آگے، پیچھے، اوپر، نیچے غرضیکہ سب سمتوں کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے حجاب میں رہ کر درخت کی طرف سے کلام کی تھی اور اللہ کا حجاب نور ہے جیسا کہ احادیث میں وارد ہے کہ (حجابه النور) تو یا اس روشنی کے پار سے اللہ تعالیٰ نے خود موسیٰ علیہ السلام سے باتیں کی تھیں اسی لئے موسیٰ علیہ السلام کو کلیم اللہ کہا جاتا ہے۔ کیونکہ قرآن میں اللہ نے واضح طور پر فرمایا ہے ﴿وَكَلَّمَ اللَّـهُ مُوسَىٰ تَكْلِيمًا﴾ جب کہ معتزلہ اللہ کے کلام کرنے کے منکر ہیں اور متصوفین عقیدہ حلول کو درست سمجھتے ہیں۔ النمل
10 [١٠]نبی کو مبعوث سےپہلےاپنےنبی کا علم نہیں ہوتا:۔ اس آیت سے کئی امور پر روشنی پڑتی ہے۔ مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لاٹھی کے سانپ بن جانے کا معجزہ، آپ کو سب سے پہلے اور اسی مقام پر عطا ہوا تھا۔ یہ لاٹھی زمین پر پڑتے ہی اژدہا کی شکل کا بڑا سانپ بن گیا جس میں پھرتی پتلے سانپ کی تھی۔ دوسرے یہ کہ چونکہ یہ پہلا موقع تھا اس لئے موسیٰ علیہ السلام خود بھی اس سانپ سے ڈر گئے تھے۔ تیسرے یہ کہ اس وقت ہی آپ کو معلوم ہوا کہ منصب رسالت آپ کے سپرد کیا جارہا ہے اس سے پہلے آپ کو قطعی طور پر علم نہ تھا کہ آپ کو نبوت عطا ہوگی اور نبوت یا رسالت عطا ہونے کے وقت بھی طبیعت گرانبار ہوجاتی ہے اور کچھ نامعلوم سا خطرہ محسوس ہونے لگتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی غار حرا میں ایسا خوف لاحق ہوا تھا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’رسول میرے حضور ڈرا نہیں کرتے‘‘ النمل
11 [١١]عصائے موسیٰ علیہ السلام اور یدبیضاء اور دوسرے معجزات :۔ ہاں میرے حضور ڈرنے کی صرف ایک ہی وجہ ہوسکتی ہے کہ کسی شخص نے فی الواقع ظلم کیا ہو۔ اور ظالموں کو واقعی ڈرناہی چاہئے لیکن جو شخص ظلم کے بعد توبہ کرلے برے کاموں کے بعد نیکی کی راہ اختیار کرلے اور اپنا طرز عمل ہی بدل لے تو میں اسے معاف کردیتا ہوں۔ غالباً اس آیت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس دور کے ایک واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ جب آپ سے ایک قبطی نادانستہ طور پر مارا گیا تھا۔ پھر آپ وہاں سے مفرور ہو کر مدین میں حضرت شعیب کے پاس آگئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ﴿ فَإِنِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾کہہ کر اس قصور کی معافی کی بھی بشارت سنا دی۔ النمل
12 [١٢] پھر اسی مقام پر موسیٰ علیہ السلام کو یدبیضا کا دوسرا معجزہ عطا کیا گیا۔ جس کی تفصیل پہلے مقامات پر گزر چکی ہے اور آئندہ بھی آئے گی۔ یہ دو بڑے بڑے واضح معجزے منجملہ ان نو معجزات کے تھے جن کا ذکر پہلے سورۃ بنی اسرائیل کی آیت نمبر ١٠١ کے حاشیہ میں گزر چکا ہے گویا ابتداً یہی دو بڑے معجزے عطا کرکے حصرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون اور اس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا کیونکہ فرعونیوں نے اپنے ملک میں فساد عظیم برپا کر رکھا تھا۔ النمل
13 النمل
14 [١٣] موسیٰ علیہ السلام اپنے بھائی ہارون کے ہمراہ فرعون کے دربار میں پہنچے اسے اللہ کا پیغام بھی پہنچایا اور اپنی رسالت کی صداقت کے طور پر یہ دونوں معجزات بھی دکھلائے لیکن ان لوگوں نے ان معجزات کو جادو کے کرشمے یا شعبدہ بازیاں کہہ دیا۔ حالانکہ ان کے دلوں میں یہ یقین آگیا تھا۔ کہ یہ معجزات فی الواقع اللہ کی عطا کردہ نشانیاں ہیں۔ جادو کے کرشمے نہیں ہیں۔ اور موسیٰ علیہ السلام فی الواقع اللہ کے رسول ہیں اور دل میں یقین کے برعکس ان کا زبان سے انکار کردینا محض تکبر کی بنا پر تھا اور یہ بہت بڑی بے انصافی کی بات تھی۔ ایمان اورکفر کی چار اقسام اور جحود کا مفہوم:۔ واضح رہے کہ تصدیق و تکذیب کے لحاظ سے ایمان اور کفر کی چار قسمیں ہیں۔ ایک یہ کہ دل بھی رسالت کی تصدیق کرے اور زبان سے بھی اقرار کرے یہ صحیح اور خالص ایمان ہے۔ دوسرے یہ کہ دل بھی تکذیب کرے اور زبان بھی انکار کرے۔ یہ خالص کفر ہے۔ تیسرے یہ کہ دل تکذیب کرے یعنی دل کفر ہو اور زبان سے ایمان کا اقرار کرے۔ یہ نفاق ہے۔ چوتھے یہ کہ دل تصدیق کرے لیکن زبان سے انکار کرے یہ جحود ہے۔ ان میں صرف پہلی قسم اللہ کے ہاں مقبول اور پسندیدہ ہے۔ اور تیسری اور چوتھی قسم بھی اگرچہ کفر میں شامل ہیں لیکن یہ بدترین قسم کا کفر ہیں۔ اور ایسے لوگ عام کافروں سے زیادہ سزا یا عذاب کے مستحق ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ دونوں اپنی دلی کیفیت کے خلاف گواہی دیتے ہیں۔ النمل
15 [١٤]سیدناداؤدعلیہ السلام کوبادشاہی کیسےملی؟ حضرت داؤد علیہ السلام کے چھ اور بھائی تھے آپ سب سے چھوٹے تھے۔ ریوڑ چڑایا کرتے تھے۔ پست قامت اور مضبوط جسم کے مالک تھے۔ تیر اندازی اور نشانہ بازی میں خوب ماہر تھے اور یہ آپ کی پیشہ ورانہ ضرورت تھی۔ جالوت سے لڑائی کے وقت یہ طالوت کے لشکر میں محض ایک سپاہی تھے۔ نشانہ بازی میں مہارت کی بنا پر آپ نے فلاخن میں ایک پتھر کا نشانہ بنا کر جالوت کو موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ بعد میں طالوت نے اپنی بیٹی کا ان سے نکاح کردیا۔ اسی طرح طالوت کے بعد بادشاہی بھی ان کی طرف منتقل ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے نبوت سے بھی سرفراز فرمایا اور یہ تفصیل سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٢٥١ کے تحت پہلے گزر چکی ہے۔ پھر ان کی اولاد انیس بیٹے تھے۔ ان میں سے حضرت سلیمان علیہ السلام ہی سب سے چھوٹے تھے اللہ تعالیٰ نے نبوت اور بادشاہی کے لئے انھیں ہی منتخب فرمایا تھا۔ [١٥] علم سے مراد علم شریعت بھی ہوسکتا ہے۔ حکمرانی اور جہاں بانی کا علم بھی۔ لوگوں کے مقدمات کا فیصلہ کرنے کا علم بھی اور یہ علم بھی اگر اللہ تعالیٰ اس شخص کو اپنے مزید انعامات سے نوازے۔ مندرجہ بالا مفاہیم میں سے اس مقام پر چوتھا مفہوم ہی زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ النمل
16 [١٦] یہاں وراثت سے مراد حضرت داؤد علیہ السلام کے ذاتی مال و دولت کی وراثت نہیں بلکہ نبوت اور جہاں بانی کی وراثت مراد ہے۔ [١٧] سیدنا سلیمان علیہ السلام کاجانوروں کی بولی سمجھنا اور اللہ کاشکراداکرنا:۔ اللہ تعالیٰ کی حیران کن قدرتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ تمام انسان ایک ہی جیسی شکل رکھتے ہیں۔ ہر شخص کی ایک ناک، دو کان، دو آنکھیں، دوبازو اور دو پاؤں ہوتے ہیں لیکن اس قدر یکسانیت کے باوجود ہر ایک کی شکل دوسرے سے مختلف ہوتی ہے پھر ایک شخص کے اگر چھ لڑکے ہیں تو دوسرے لوگ یہ توبتلا سکتے ہیں ان سب میں یک گونہ مشابہت پائی جاتی ہے مگر ان میں تمیز صرف والدین اور قریبی رشتہ دار ہی یا دوست احباب ہی کرسکتے ہیں۔ پھر یہ اختلاف صرف شکل و صورت تک محدود نہیں۔ ہر انسان کی بولنے کی آواز کھانسنے کی آواز حتیٰ کہ پاؤں کی چاپ اورچلنے کی چال میں بھی اختلاف ہوتا ہے۔ قریبی لوگ کسی کے بولنے، کھانسنے یا چال ڈھال سے ہی یہ معلوم کرلیتے ہیں کہ یہ فلاں شخص ہے۔ بالکل ایسا ہی سلسلہ جانوروں اور پرندوں میں بھی ملتا ہے۔ جانوروں اور پرندوں کی بھی ایک بولی ہے۔ جسے انسان سمجھ نہیں سکتے مگر وہ آپس میں خوب سمجھتے ہیں۔ مثلاً ایک پرندہ جب اپنے جوڑا کو بلاتا یا دانہ دینے کے لئے اپنے بچوں کو بلاتا یا انھیں کسی خطرہ سے آگاہ کرتا ہے تو ان تمام صورتوں میں اس کی بولی اور لب و لہجہ ایک جیسا نہیں ہوتا۔ اور اس فرق کو اس کے مخاطب پوری طرح سمجھتے اور اس کے مطابق عمل کرتے ہیں اور جب یہ پرندے مل کر عموماً صبح کے وقت چہچہاتے ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کر رہے ہوتے ہیں۔ اگرچہ ہم ان مختلف حالات میں ان کی بولی میں تمیز نہیں کرسکتے، لیکن وہ آپس میں خوب سمجھتے ہیں۔ اس کی مثال یوں سمجھئے جیسے ایک ٹیلیگراف ماسٹر جب تار کے ذریعہ کوئی پیغام بھیجتا ہے تو آپ خواہ گھنٹوں اس کے پاس بیٹھے رہیں۔ کھٹ کھٹ اور ٹک ٹک کی بے معنی آوازوں کے سوائے آپ کے کچھ پلے نہیں پڑے گا۔ لیکن اس فن کو جاننے والا شخص فوراً بتلادے گا کہ یہ پیغام فلاں جگہ پر فلاں آدمی کے نام ہے اور اس پیغام کا مضمون یہ ہے۔ ہرچیزتسبیح کرتی ہے :۔ پھر یہ بات صرف انسانوں، جانوروں اور پرندوں تک ہی محدود نہیں بلکہ حشرات الارض، نباتات اور جمادات تک میں احساسات کا یہ سلسلہ چلتا ہے اور یہ سب اشیاء اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہیں مگر اسے ہم سمجھ نہیں سکتے (١٧: ٤٤) اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ پرندوں کی بولی بول سکتے تھے بلکہ یہ ہے کہ پرندے وغیرہ آپس میں ایک دوسرے سے جو باتیں کرتے ہیں انھیں آپ سمجھ جاتے تھے۔ پھر آپ جو کچھ کہنا چاہتے پرندے بھی اسے سمجھ جاتے تھے۔ اور دوسری نعمت یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری ضرورت کی تمام چیزیں ہمیں مہیا فرما دی ہیں۔ النمل
17 [١٨]سیدنا سلیمان علیہ السلام کا لشکر انسانوں جنوں اور پرندوں پر مشتمل تھا:۔ یہ دراصل سابقہ آیت میں كُلِّ شَيْءٍ کی تفصیل ہے۔ یعنی آپ کا لشکر تین انواع پر مشتمل ہوتا تھا۔ اس میں انسان بھی شامل تھے، جن بھی اور پرندے بھی اور ان سے آپ مختلف قسم کے کام لیتے تھے اور یہ لشکر ملا جلا نہیں ہوتا تھا۔ بلکہ جب آپ کسی مہم پر جاتے تو انسانوں کا لشکر الگ، جنوں کا الگ اور پرندوں کا لشکر الگ الگ ساتھ چلتا تھا۔ بھاری اور زیادہ مشقت طلب کام آپ جنوں سے لیتے تھے اور پیغام رسانی، سراغ رسانی اور پانی وغیرہ کی تاش کا کام آپ پرندوں سے لیتے تھے۔ نیز بعض دفعہ پرندوں کے جھنڈ سے لشکر پر سایہ کرنے کا کام بھی لیا جاتا تھا۔ جو لوگ معجزات اور خرق عادت امور سے گھٹن محسوس کرتے ہیں اور ایسے واقعات کی تاویلات کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ان کی تاویلات کے مطابق یہاں جن سے مراد جفاکش دیہاتی لوگ ہیں۔ اور الطیر سے وہ طیارے مراد لیتے ہیں۔ یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس ہوائی فوج بھی موجود تھی ایسی تاویلات دراصل تاویلات نہیں بلکہ تحریفات ہیں جن کا قرآن کریم کا سیاق و سباق ساتھ نہیں دیتا ایسی تاویلات کا تجزیہ کرنا یہاں مشکل ہے۔ البتہ ایسی تمام تر تاویلات کا تفصیلاً تجزیہ میں نے اپنی تصنیف ''عقل پرستی اور انکار معجزات'' میں پیش کردیا ہے۔ النمل
18 [١٩] چیونٹیوں کا معاشرتی اور سیاسی نظام :۔ علمائے حیوانات کی جدید تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ جس طرح انسان اپنے اجتماعی اور سیاسی نظام کے لئے چند مخصوص ضوابط کی پابندی کرتا ہے۔ چیونٹی جیسے حقیر ترین جانور کی بستیوں میں بھی اسی سے ملتا جلتا نظام پایا جاتا ہے۔ آدمیوں کی طرح چیونٹیوں کے بھی خاندان اور قبائل ہوتے ہیں ان میں باہمی تعاون اور تقسیم کار کا اصول اور نظام حکومت کے ادارے پائے جاتے ہیں ان کی بھی زبان ہے جس کو سب چیونٹیاں سمجھتی ہیں۔ [٢٠] حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے لاؤ لشکر سمیت کسی مہم پر جارہے تھے کہ چیونٹیوں کی ایک بستی پر ان کا گزر ہوا تو آپ نے ایک چیونٹی کو دوسری چیونٹی سے یوں خطاب کرتے ہو سنا۔ وہ شاید ان چیونٹیوں کی سردار چیونٹی تھی جو دوسری چیونٹیوں کو خبر اور یہ ہدایت دے رہی تھی کہ دیکھو سلیمان علیہ السلام اور اس کا لاؤ لشکر تمہارے سروں پر پہنچ رہا ہے۔ لہٰذا جلد از جلد اپنے اپنے بلوں میں گھس جاؤ ایسا نہ ہو کہ تم ان کے پاؤں کے نیچے پس جاؤ۔ اور انھیں یہ خبر بھی نہ ہو کہ تمہاری جانوں پر کیسا حادثہ گزر گیا۔ النمل
19 [٢١] چیونٹی کی فریاد اور سیدناسلیمان علیہ السلام کی دعائے استسقاء :۔ آپ چیونٹی کی یہ بات سمجھ کر، فرط سرور و انبساط سے، ہنس دیئے اور اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کیا۔ پھر دست بدعا ہو کر فرمایا : پروردگار! مجھے ان نعمتوں کے شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرما تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیں۔ اور ایک روایت میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت سلیمان علیہ السلام لوگوں کے ہمراہ نماز استسقاء کے لئے ایک میدان کی طرف نکلے۔ وہاں ایک چیونٹی کو دیکھا جو چت لیٹ کر اور اپنے پاؤں اوپر اٹھائے ہوئے اللہ سے دعا کر رہا تھی کہ یا اللہ! میں بھی تیری مخلوق ہوں اگر تو کھانے پینے کو نہ دے گا تو میں کیسے زندہ رہ سکتی ہوں یا ہمیں کھانے کو دے یا مار ڈال۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے چیونٹی کی یہ دعا سن کر لوگوں سے فرمایا : اب اپنے اپنے گھروں میں لوٹ جاؤ۔ ایک چیونٹی نے تمہارا کام پورا کردیا۔ اب ان شاء اللہ بارش ہوگی۔( دارقطنی بحوالہ مشکوۃ۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب الاستسقاء فصل ثالث ) [٢٢] وَزَعَ کالغوی مفہوم :۔ یہاں ﴿أَوْزِعْنِي﴾ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اور وَزَعَ کا لغوی معنی روکتا یا روکے رکھتا ہے۔ اور وزع الجیش یعنی فوج کو ترتیب وار صفوں میں رکھنا ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام دعا یہ فرما رہے ہیں کہ جس قدر تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر انعامات کی بارش کی ہے۔ اس پر کہیں میرا نفس بے قابو اور بے لگام ہو کر سرکشی کی راہ نہ اختیار کرلے۔ جیسا کہ عموماً اللہ کی طرف سے انعامات کی فراوانی اکثر لوگوں کے ذہنوں کو بگاڑ دیتی ہے۔ مجھے ایسے لوگوں اور ایسی ذہنیت سے روکے رکھنا اور اس بات کی توفیق عطا فرما کہ میں ان نعمتوں پر تیرا شکر گزار بندہ بنوں اور وہی کام کروں جو تجھے پسند ہیں۔ چیونٹی کی بات کرنے کی تاویل ؟عقل پرستوں نے اس وادی نمل کے قصہ میں بھی اپنی عقل کی جولانیاں دکھاوئی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وادی نمل فلاں مقام پر ایک بستی کا نام ہے اور نمل ایک قبیلہ کا نام تھا۔ اس کے افراد بھی نمل کہلاتے تھے۔ سلیمان علیہ السلام کا لاؤ لشکر دیکھ کر ایک نملہ نے دوسرے نملہ سے یہ بات کہی تھی کہ اس تاویل یا تحریف میں جتنا وزن ہوسکتا ہے۔ وہ ان آیات کے سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھ لیجئے کہ آیا اس تاویل میں کچھ معقولیت نظر آتی ہے۔ النمل
20 النمل
21 [٢٣] حضرت سلیمان علیہ السلام کو کسی موقع پر ہدہد کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ہدہد کے متعلق مشہور ہے کہ جس مقام پر پانی سطح زمین سے نزدیک تر ہو اسے معلوم ہوجاتا ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ انھیں یہی ضرورت تھی یا کچھ اور تھی، انہوں نے پرندوں کے لشکر میں ہدہد کو تلاش کیا لیکن وہ وہاں نہ ملا۔ آپ کو اس بات کا سخت رنج ہوا اور فرمایا کہ یا تو وہ اپنی غیر حاضری کا کوئی معقول وجہ پیش کرے۔ ورنہ میں اسے سخت سزا دوں گا یا ذبح ہی کر ڈالوں گا۔ النمل
22 [٢٤]سیدناسلیمان علیہ السلام کی حدودسلطنت :۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی سلطنت فلسطین، شرق اردن اور شام کے کچھ علاقہ میں تھی۔ افریقہ میں بھی حبشہ اور مصر کا کچھ حصہ آپ کے زیر نگیں آگیا تھا۔ لیکن جنوبی یمن کا علاقہ آپ کی سلطنت سے بہت دور تھا۔ ہدہد حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکر سے غائب ہو کر یمن کے علاقہ سبا میں پہنچا تھا۔ یہاں کے لوگ تجارت پیشہ اور آسودہ حال تھے۔ کچھ دیر بعد ہدہد حضرت سلیمان کے پاس حاضر ہوگیا اور کہنے لگا کہ میں اہل سبا کے کچھ ایسے یقینی حالات معلوم کرکے آرہا ہوں جن کی تاحال آپ کو کچھ خبر نہیں ہے۔ اور وہ یقینی خبر یہ کہ سبا کا ملک ایک زرخیز و شاداب علاقہ ہے ان لوگوں کو وہاں سب ضروریات زندگی وافر مقدار میں میسر ہیں۔ ان لوگوں پر حکمران ایک عورت ہے۔( ملکہ بلقیس) جو بڑے عالی شان تخت پر بیٹھ کر حکمرانی کر رہی ہے۔ اس کا تخت سونے کا ہے۔ جس میں ہیرے اور جواہرات جڑے ہوئے ہیں اور اس وقت ایسا تخت کسی بادشاہ کے پاس نہیں ہے۔ مذہبی لحاظ سے یہ لوگ مشرک اور آفتاب پرست ہیں۔ اور اپنے اس مذہب پر خوش اور نازاں ہیں۔ سورج پرستی کو نیکی اور ثواب کا کام سمجھتے ہیں۔ ہدہد نے یہ الفاظ کہہ کر گویا سلیمان علیہ السلام کو اس قوم پر جہاد کرنے کی ترغیب دی۔ النمل
23 النمل
24 [٢٥] اہل سباکی سورج پرستی:۔یعنی یہ لوگ سورج پرست بھی ہیں اور آخرت کے منکر بھی۔ لہٰذا وہ اپنی ساری کوششیں زیادہ سے زیادہ دولت کمانے اور اپنا معیار زندگی بلند کرنے میں صرف کر رہے ہیں۔ اور اسی کام کو اپنی زندگی کا منتہائے مقصد سمجھے بیٹھے ہیں اور شیطان نے انھیں یہی بات سمجھائی ہے کہ ان کی عقلی اور فکری قوتوں کا یہی بہترین مصرف ہے کہ وہ اپنی اس دنیا کی زندگی کو زیادہ سے زیادہ شاندار بنائیں۔ النمل
25 [٢٦] آیت نمبر ٢٥ اور ٢٦ کو بعض مفسرین نے ہدہد کے جواب کا ہی تتمہ قرار دیا ہے اور بعض نے اسے ہدہد کے کلام پر اللہ تعالیٰ کی طرف مناسب اضافہ قرار دیا ہے۔ اس آیت میں يَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ سے دوسرا قول ہی راحج معلوم ہوتا ہے۔ لفظ خَب کالغوی مفہوم:َ خب معنی پوشیدہ اور مخفی خزانہ ( مفردات القرآن) اور اس سے مراد ایسا پوشیدہ اور مخفی خزانہ ہے جس کا پہلے سے کسی کو علم نہ ہو اور خبأ بمعنی کسی چیز کو چھپا رکھنا اور خابا بمعنی کسی سے چیستان، پہیلی یا معمہ پوچھنا اور خب الارض بمعنی زمین کی نباتات جو ابھی ظہور میں نہ آئی ہو۔ قوت، روئیدگی اور خب السماء بمعنی بارش اور اخرج حب السماء خب الارض بمعنی آسمان کی بارش نےزمین پر روئیدگی پیدا کی اور پودوں کو اگایا۔ اسی طرح زمین میں سے اگر کہیں سے تیل یا جلنے والی گیسیں یا معدنیات وغیرہ نکل آئیں تو یہ سب چیزیں خب الارض میں شمار ہوں گی۔ اور اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ سجدہ کرنے کے لائق تو وہ ذات ہے جو زمین و آسمان سے ان کی پوشیدہ چیزوں اور مخفی قوتوں کو بروئے کار لاکر ان کی روزی کا سامان مہیا کرتا ہے۔ نہ کہ سورج اور اس جیسی دوسری بے جان یا مخلوق و محتاج اشیاء نیز سجدہ کے لائق وہ ذات ہے جس کا علم اتنا وسیع ہوجو صرف زمین و آسمان ہی کی پوشیدہ قوتوں اور اشیاء کو جانتا ہے بلکہ وہ تمہارے بھی سب ظاہری اور پوشیدہ اعمال سے پوری طرح واقف ہے۔ النمل
26 [٢٧] ہدہد نے ملکہ سبا کے متعلق یہ یقینی خبر دی تھی کہ اس کا عرش عظیم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا عرش عظیم تو صرف اللہ کا ہے۔ اس کے عرش کے مقابلہ میں کسی کا تخت عظیم نہیں ہوسکتا۔ نہ ہی اللہ کے مقابلہ میں آفتاب یا دوسری اشیاء کو الٰہ کہا جاسکتا ہے۔ یا کسی ایسی چیز کو سجدہ کیا جاسکتا ہے۔ اس مقام پر سجدہ کرنا واجب ہے۔ جس سے مقصود یہ ہے کہ ایک مومن اپنے آپ کو ان آفتاب پرستوں سے جدا کرے جو سورج کو سجدہ کرتے ہیں اور اپنے عمل سے یہ ظاہر کرے کہ وہ آفتاب کو نہیں بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کو ہی اپنا معبودو مسجود تسلیم کرتا ہے۔ النمل
27 النمل
28 [٢٨]سیدناسلیمان علیہ السلام کا ہدہدکےذریعہ ملکہ سباکوخط بھیجنا:۔ سلیمان علیہ السلام نے ہدہد کا جواب یا اس کی معذرت سن کر فرمایا : میں تمہیں ایک خط لکھ کردیتا ہوں۔ یہ خط لے جاکر دربار میں ملکہ اور اس کے درباریوں کے سامنے پھینک دو۔ پھر انتظار کی خاطر ایک طرف ہٹ جاؤ۔ پھر دیکھنا کہ اس خط کا ان پر ردعمل کیا ہوتا ہے۔ اور واپس آکر مجھے اس رد عمل کے مطابق اطلاع بھی دو۔ اس سے جہاں یہ بات معلوم ہوجائے گی کہ اس یقینی خبر کو ہم تک پہنچانے میں کہاں تک سچے ہو۔ وہاں ان لوگوں کے ردعمل سے یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ وہ لوگ کس ذہنیت کے مالک ہیں۔ ہدہدکی عقلی تاویل اور اس کاجواب:۔بعض عقل پرست نے اس ہدہد کی پیغام رسانی کے قصہ کو بھی عقل کے مطابق بنانے کی کوشش فرمائی ہے۔ جن لوگوں نے طیر سے طیارے مراد لیا، ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ ہدہد اس طیارے کا پائلٹ تھا۔ اور جن لوگوں نے طیر کے معنی طیارہ لینا حماقت سمجھا وہ کہتے ہیں کہ ہدہد کسی فوجی افسر کا نام تھا۔ اور یہ دستور ہر جگہ پایا جاتا ہے کہ لوگ بعض انسانوں کے نام درختوں یاپرندوں کے نام رکھ لیتے ہیں۔ اس توجیہ میں یہاں تک تو بات کسی حد تک قابل تسلیم ہے۔ اب مشکل یہ پیش آتی ہے کہ سلیمان علیہ السلام ہدہد سے کہتے ہیں کہ میرا یہ خط لے جا اور ان کے آگے پھینک دے یا ڈال دے۔ ﴿فَاَلْقِهْ اِلَيْهِمْ﴾ یہ کام پرندہ تو کرسکتا ہے۔ لیکن کوئی انسان سفیر کی حیثیت سے جاکر اگر ایسا کام کرے تو یہ انتہائی بدتمیزی کی بات ہوگی اور کچھ عجب نہیں کہ وہ اس بدتمیزی کی پاداش میں قید میں ڈال دیا جائے یا قتل ہی کر ڈالا جائے۔ دوسری مشکل یہ پیش آتی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام ہدہد کو یہ ہدایت کرتے ہیں کہ یہ خط ان کے آگے پھینک دے۔ پھر ان سے پرے ہٹ کر دیکھ کہ اس خط کا ان پر رد عمل کیا ہوتا ہے؟ اب تو یہ ظاہر ہے کہ کوئی بھی حکومت کسی غیر ملکی سفیر کے سامنے اپنے اندرونی معاملات کے مشورے نہیں کرسکتی۔ البتہ کسی پرندہ کی صورت میں یہ بات ممکن ہے۔ ہمارے خیال میں ان لوگوں کی یہ تاویلات خود ان کی اپنی ذات کو بھی مطمئن نہیں کرسکتیں۔ چہ جائیکہ دوسرے ان سے مطمئن ہوں۔ کیونکہ قرآن کے الفاظ پکار پکار کر ایسے لوگوں کی تاویلات کی تردید کر رہے ہیں۔ النمل
29 النمل
30 النمل
31 [٢٩]سیدناسلیمان علیہ السلام کےمختصر سےخط کی امتیازی خصوصیات:۔ جس وقت نامہ بر ہدہد نے یہ خط دربار میں ملکہ سبا کے سامنے پھینکا اس وقت وہ سورج کی عبادت کے لئے تیار کر رہی تھی۔ اس خط نے اسے عجیب قسم کی کشمکش میں مبتلا کردیا۔ کیونکہ یہ خط کئی پہلوؤں سے بہت اہم تھا۔ مثلاً ایک یہ کہ یہ خط اسے غیر معمولی طریقہ سے ملا۔ یعنی یہ خط کسی ملک کے سفارت خانہ کی معرفت نہیں بلکہ ایک نامہ بر پرندہ کے ذریعہ ملا تھا۔ دوسرے یہ کہ یہ خط کسی معمولی درجہ کے حاکم سے نہیں بلکہ شام و فلسطین کے عظیم فرمانروا کی طرف سے موصول ہوا تھا۔ تیسرا یہ کہ یہ خط رحمٰن اور رحیم کے نام سے شروع کیا گیا تھا کہ ان ناموں سے یہ لوگ قطعاً متعارف نہ تھے۔ اور چوتھے یہ کہ اس انتہائی مختصر سے خط میں ملکہ سے مکمل اطاعت کا اور پھر اس کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس حاضر ہونے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اور یہ بھی بتلا دیا گیا تھا کہ میرے مقابلہ میں سرکشی کی راہ اختیار نہ کرنا ورنہ نقصان اٹھاؤ گے۔ پانچویں یہ کہ انداز خطاب ایسا تھا جس میں کسی قسم کی کوئی لچک نہ پائی جاتی تھی۔ اس آیت میں ﴿وَأْتُونِي مُسْلِمِينَ ﴾ کے الفاظ آئے ہیں۔ مسلمین کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ میرے فرمانبردار بن کرمیرے ہاں آؤ۔ اور یہ حکم آپ کی فرمانروائی سے مطابقت رکھتا ہے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اسلام لاکر یا مسلمان ہو کر میرے ہاں آؤ اور سورج پرستی چھوڑ دو۔ اور یہ حکم آپ کی نبوت سے تعلق رکھتا ہے اور آپ چونکہ بادشاہ بھی تھے اور نبی بھی۔ لہٰذا اس سلسلہ میں اپنے سرکاری امیروں، وزیروں سے مشورہ کرنا ہی مناسب سمجھا۔ چنانچہ اس نے سب کو اکٹھا کرکے اس خط کے وصول ہونے اور اس کی مختلف پہلوؤں سے اہمیت سے آگاہ کیا پھر اسے پوچھا کہ : تم لوگ مجھے اس خط کے جواب کے بارے میں کیا مشورہ دیتے ہو؟ اور یہ تو جانتے ہی ہو کہ میں سلطنت کے ایسے اہم کاموں میں پہلے بھی تم سے مشورہ کرتی رہی ہوں۔ اور از خود میں نے کبھی مشورہ کے بغیر کسی کام کا فیصلہ نہیں کیا۔ النمل
32 النمل
33 [٣٠] ملکہ کے مشیروں اور درباری لوگوں نے وہی جواب دیا جو عام طور پر درباری لوگ دیا کرتے ہیں۔ نہ وہ اپنے ذہن پر بار ڈال کر کوئی دانشمندانہ جواب دینے کے عادی ہوتے ہیں اور نہ وہ اپنے سر کوئی ذمہ داری لینا چاہتے ہیں۔ وہ صرف جی حضور کہنا اور اپنے آپ کو حکم کے بندے ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ اور یہی کچھ ان لوگوں نے بھی کیا۔ کہ ہماری خدمات حاضر ہیں۔ ہم زور آور بھی اور لڑائی کا فن بھی خوب جانتے ہیں۔ تاہم یہ فیصلہ کرنا کہ سلیمان سے جنگ کرنی چاہئے یا مطیع فرمان بن جانا چاہئے۔ آپ ہی کی صوابدید پر منحصر ہے۔ گویا ملکہ کو اپنے مشیروں سے مشورہ کرنے کا کوئی خاص فائدہ نہ ہوا ماسوائے اس کے کہ اگر ملکہ مقابلہ کا ارادہ رکھتی ہو تو انہوں نے اپنی وفاداریوں کا اسے یقین دلا دیا۔ البتہ اس سے یہ بات ضمناً معلوم ہوجاتی ہے کہ سبا میں اگرچہ شاہی نظام رائج تھا تاہم یہ استبدادی نظام نہ تھا۔ بلکہ فرمانروا اہم معاملات میں اپنے مشیروں سے مشورہ کرنا ضروری سمجھتے تھے۔ النمل
34 [٣١]ملکہ کا اپنےخدشات سےدرباریوں کومطلع کرنا:۔ خط کے انداز خطاب سے ملکہ کو یہ معلوم ہوگیا تھا کہ سلیمان علیہ السلام عام فرمانرواؤں کی طرح نہیں بلکہ ان کی پشت پر کوئی غیر معمول طاقت ہے اور یہ بھی معلوم ہو رہا تھا کہ اگر ملکہ اور اس کے کار پرداز مطیع فرمان بن کر سلیمان علیہ السلام کے پاس حاضر نہ ہوئے تو حضرت سلیمان ان کی سرکوبی کے لئے ضرور ان پر چڑھائی کریں گے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام یہ تو گوارا کرسکتے تھے کہ یہ لوگ سورج پرستی چھوڑ کر راہ راست پر آجائیں تو ان سے کچھ تعرض نہ کیا جائے۔ مگر یہ گوارا نہ کرسکتے تھے کہ ان کے پاس اسباب و وسائل موجود ہونے کے باوجود ان کے قرب و جوار میں اس طرح علانیہ ملکی سطح پر شرک اور سورج پرستی ہوتی رہے۔ لہٰذا ملکہ کے خطرات کچھ موہوم خطرات نہ تھے۔ اس نے ٹھیک اندازہ کرلیا تھا کہ ایک تو حضرت سلیمان علیہ السلام ان کی سرتابی کی صورت میں ضرور ان پر چڑھائی کریں گے اور دوسرے اس نے یہ بھی اندازہ کرلیا تھا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکروں کے مقابلہ میں ان میں مقابلہ کی تاب نہیں ہے۔ لہٰذا اس نے سرتابی یا خاموشی کے انجام سے اپنے مشیروں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں اکثر یوں ہی ہوتا آیا ہے کہ جب کوئی بادشاہ کسی ملک کو فتح کرتا ہے تو سب سے پہلے اس ملک کے وسائل معاش پر قبضہ کرکے اس ملک کو مفلس و قلاش بنا دیتا ہے۔ پھر وہاں کے سر کردہ لوگوں کو کچل کر ان کا زور ختم کردیتا ہے تاکہ وہ دوبارہ کبھی اس کے مقابلہ کی بات بھی نہ سوچ سکے۔ اس طرح وہ اس مفتوحہ ملک کے تمام سیاسی، تمدنی اور معاشی وسائل پر قبضہ کرکے اس ملک کی طاقت کو عملاً ختم کرکے اپنی طاقت میں اضافہ کرلیتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اکابرین مملکت یا تو موت کے گھاٹ اتار دیئے جاتے ہیں یا پھر انھیں ذلیل و رسوا ہو کر رہنا پڑتا ہے۔ لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت عام ہوتا ہے اور بسا اوقات شہروں کو آگ لگا دی جاتی ہے اور عام حالات میں ایسے ہی نتائج متوقع ہیں۔ النمل
35 [٣٢] سیدنا سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں وفد کی روانگی:۔ ملکہ کی اس تقریر سے یہ تو صاف واضح تھا کہ وہ مقابلہ کے لئے تیار نہیں۔ مگر وہ فوری طور پر مطیع فرمان ہونے پر بھی آمادہ نہ تھی۔ لہٰذا اس نے ایک دانشمندانہ قوم اٹھاتے ہوئے درمیانی راستہ اختیار کیا۔ جو یہ تھا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس ایک وفد بھیجا جائے اور ساتھ کچھ تحفے تحائف بھی بھیجے جائیں ان لوگوں کے ردعمل سے ان کی ذہنیت پوری طرح واضح ہوجائے گی۔ چنانچہ اس نے ہدہد کی صورت میں بہت سامان و دولت کچھ سونے کی اینٹیں اور کچھ نوادرات بھیجے اور وفد کے لئے ایسے آدمی انتخاب کئے جو بہت خوبصورت تھے اور اس سے دراصل وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا امتحان لینا چاہتی تھی وہ کس قسم کی اشیاء کا شوق رکھتے ہیں۔ نیز یہ کہ اگر وہ دنیا دار بادشاہ ہے تو تحائف قبول کرلے گا۔ اندریں صورت اس سے جنگ بھی لڑی جاسکتی ہے اور نبی ہے تو تحفے قبول نہیں کرے گا نہ اس سے مقابلہ ممکن ہوگا۔ النمل
36 [٣٣] وفدکوسلیمان علیہ السلام کا جواب:۔ جب یہ وفد تحائف لے کر حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس حاضر ہوا تو آپ نے یہ تحفے قبول کرنے سے انکار کردیا اور انھیں واضح طور پر بتلا دیا کہ مال و دولت سے مجھے کچھ غرض نہیں۔ نہ ہی میں مال و دولت کی رشوت لے کر اپنے ارادہ سے باز رہ سکتا ہوں۔ میں یہ دولت لے کر کیا کروں گا وہ تو میرے پاس پہلے ہی تم سے بہت زیادہ موجود ہے۔ یہ تمہارے تحفے تمہیں ہی مبارک ہوں۔ تمہارے لئے صرف دو صورتیں ہیں کہ تم مسلمان ہو کر میرے پاس آجاؤ۔ اس صورت میں تمہارا ملک تمہارے ہی پاس رہے گا۔ مجھے کوئی اپنی سلطنت بڑھانے کا شوق نہیں ہے بلکہ میں شرک کا استیصال کرکے تمہیں اللہ کا فرمانبردار بنانا چاہتا ہوں۔ ورنہ پھر دوسری یہ صورت ہے کہ ہم تم لوگوں پر ایک پرزور حملہ کریں گے جس کی تم تاب نہ لاسکو گے۔ اس صورت میں تمہارا جو حشر ہوسکتا ہے وہ تم خود ہی سمجھ سکتے ہو۔ یہاں درمیان میں ایک خلا ہے جسے مخاطب کے فہم پر چھوڑ دیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب یہ وفد واپس آیا اور تحائف کی واپسی اور حضرت سلیمان علیہ السلام سے گفتگو کی تفصیلات ملکہ سبا نے سنیں تو انھیں اچھی طرح معلوم ہوگیا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کوئی دنیا دار بادشاہ نہیں۔ وہ آپ کی شان و شوکت اور اس کے ساتھ ساتھ خدا ترسی کے قصے پہلے بھی سن چکی تھی۔ تحائف کی واپسی اور وفد کے تاثرات نے تائید مزید کردی۔ لہٰذا ملکہ سبا نے یہی مناسب سمجھا کہ ایسے پاکیزہ سیرت بادشاہ کے حضور خود حاضر ہونا چاہئے۔ چنانچہ اس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو یروشلم میں عنقریب اپنے حاضر ہونے کی اطلاع بھیج دی۔ سیدناسلیمان علیہ السلام کا ملکہ کےتخت کو طلب کرنا:۔ جب حضرت سلیمان علیہ السلام کو ملکہ سبا کے آپ کے ہاں آنے کی اطلاع مل گئی۔ تو آپ نے چاہا کہ ملکہ سبا کا وہی تخت، جس کے متعلق ہدہد نے کہا تھا کہ وہ بڑا عظیم الشان ہے اس کے آنے سے پہلے پہلے یہاں اپنے پاس منگوا لیا جائے۔ جن آپ کے تابع فرمان تھے اور وہ یہ کام کر بھی سکتے تھے اس سے حضرت سلیمان علیہ السلام کا مقصد یہ تھا کہ تبلیغ کے ساتھ ساتھ ملکہ کو کوئی ایسی نشانی بھی دکھلا دی جائے جس سے ملکہ پر پوری طرح واضح ہوجائے کہ وہ محض ایک دنیا دار فرمانروا نہیں۔ بلکہ اللہ نے انھیں بہت بڑی بڑی نعمتوں اور فضیلتوں سے نوازا ہے اور اسے یقین ہوجائے کہ آپ صرف ایک سلطنت کے فرمانروا ہی نہیں بلکہ اللہ کے نبی بھی ہیں۔ آپ کے دربار میں انسان، جن اور پرند سب حاضر ہوتے تھے۔ آپ نے سب درباریوں کو مخاطب کرکے پوچھا : تم میں سے کون ہے جو ملکہ سبا کے یہاں پہنچنے سے پہلے پہلے اس کا تخت یہاں اٹھا لائے؟ ایک بھاری قد و قامت والا جن بول اٹھا : آپ تو ملکہ کے آنے سے پہلے کی بات کرتے ہیں۔ میں اس تخت کو آپ کے یہ دربار برخواست کرنے سے پہلے پہلے یہاں اپ کے پاس لاسکتا ہوں۔ مجھ میں ایسی طاقت بھی ہے۔ علاوہ ازیں میں اس تخت کے قیمتی جواہر ہیرے وغیرہ چراؤں بھی نہیں۔ پوری ایمانداری کے ساتھ وہ تخت آپ کے پاس لا حاضر کروں گا۔ النمل
37 النمل
38 النمل
39 النمل
40 [٣٤] ملکہ سباکاتخت کتنے عرصہ میں اور کیسے سلیمان علیہ السلام کے پاس آپہنچا:۔ ابھی اس دیو ہیکل کی بات ختم نہ ہونے پائی تھی کہ دربار میں ایک اور شخص بول اٹھا کہ میں اس تخت کو کم سے کم وقت میں آپ کے پاس لاسکتا ہوں۔ آپ اگر آسمان کی طرف نگاہ دوڑائیں پھر نگاہ نیچے لوٹائیں تو صرف اتنی مدت میں وہ تخت آپ کے قدموں میں پڑا ہوگا۔ تخت لانے والاکون تھا؟ وہ شخص کون تھا ؟ جن یا انسان؟ وہ کتاب کونسی تھی؟ ام الکتاب یعنی لوح محفوظ تھی یا قرآن تھا یا کوئی اور کتاب تھی؟ وہ علم تقدیر الٰہی کا علم تھا یا کسی اور قسم کا علم تھا ؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب قرآن و حدیث میں نہیں ملتا۔ اور غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ باتیں سمجھنا انسان کی محدود عقل سے ماوراء ہیں۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ وہ شخص آپ کا وزیر آصف بن برخیا تھا۔ کتاب سے مراد کتب سماویٰ ہے۔ اور اسم اعظم کا عامل اور اللہ کے اسماء اور کلام اللہ کی تاثیر سے واقف تھا لیکن یہ سب قیاس آرائیاں ہیں۔ البتہ نتیجہ قرآن نے واضح طور پر بتلا دیا کہ وہ شخص اپنے دعویٰ میں بالکل سچا تھا۔ اور فی الواقع اس نے چشم زدن میں ملکہ بلقیس کا تخت حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس لاحاضر کیا تھا۔ ایسے واقعات اگرچہ خرق عادت ہیں تاہم موجودہ علوم نے ایسی باتوں کو بہت حد تک قریب الفہم بنادیا ہے۔ مثلاً یہی زمین جس پر ہم آباد ہیں سورج کے گرد سال بھر چکر کاٹتی ہے اور اس کی رفتار چھیاسٹھ ہزار چھ سو میل فی گھنٹہ بنتی ہے۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ اس قدر عظیم الجثہ کرہ زمین برق رفتاری کے ساتھ چکر کاٹ رہا ہے اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا اور یہ ایسی بات ہے کہ ہم ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں۔ اب اس زمین کی جسامت اور وزن کے مقابلہ میں ملکہ بلقیس کے تخت کی جسامت اور وزن دیکھئے اور مآرب سے یروشلم کا صرف ڈیڑھ ہزار میل فاصلہ ذہن میں لاکر غور فرمائیے کہ اگر یہی بات ممکن ہے تو دوسری کیوں ممکن نہیں ہوسکتی۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ جو شخص چشم زدن میں تخت لایا تھا تو وہاں بھی اللہ ہی کی قدرت کام کر رہی تھی۔ یہ اس شخص کا کوئی ذاتی کمال نہ تھا۔ اور نہ ہی وہ تخت ظاہری اسباب کے ذریعہ وہاں لایا گیا تھا۔ بعض عقل پرستوں نے اس تخت لانے کے واقعہ سے متعلق بھی عقل کے گھوڑے دوڑائے ہیں اور ایسی بے ہودہ تاویلات پیش فرمائیں ہیں کہ عقل ہی سر پیٹ کر رہ جائے۔ مثلاً یہ کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو ملکہ بلقیس کا تخت مطلوب نہ تھا بلکہ اس سے ملتا جلتا تخت مطلوب تھا اور اس غرض کے لئے انہوں نے ٹھیکیداروں سے ٹنڈر طلب کئے تھے۔ وغیر ذلک من الخرافات یہاں طویل بحثوں کا اندراج ممکن نہیں۔ البتہ میں نے اپنی تصنیف ''عقل پرستی اور انکارمعجزات'' میں ایسی سب تاویلات اور ان کا تجزیہ و تردید تفصیل سے پیش کردی ہے۔ [٣٥] جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے چشم زدن میں ملکہ کا تخت اپنے قدموں میں پڑا دیکھا تو فوراً اس بات کا اعتراف کیا کہ یہ مجھ پر اللہ کا فضل ہے۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ تخت معجزانہ طریق پر وہاں لایا گیا تھا اور اس کی عقلی توجیہات ناممکن ہیں۔ ورنہ اگر یہ کوئی عادی امر ہوتا تو نہ یہ اللہ کے فضل کی کوئی بات تھی اور نہ ہی اس وقت اللہ کا شکر ادا کرنے کا خیال آسکتا تھا۔ [٣٦] قرآن میں متعدد مقامات پر یہ مضمون دہرایا گیا ہے کہ انسان کی دنیا میں آزمائش صرف اس بات پر ہوتی ہے کہ وہ اللہ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرتا ہے یا ناشکرا بن کر رہتا ہے۔ نیز ایمان کی ضد بھی کفر ہے۔ اور شکر کی ضد بھی کفر ہے۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح ایمان اور شکر کا آپس میں گہرا تعلق ہے ویسا ہی کفر اور ناشکری میں گہرا تعلق ہے۔ جو شخص جس قدر زیادہ مضبوط ایمان والا ہوگا اس قدر وہ اللہ کا شکرگزار بندہ ہوگا اور جو شخص جس درجے کا کافر ہوگا۔ اتنا ہی وہ ناشکرا ہوگا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام چونکہ اللہ کے نبی تھے اس لئے وہ جب کوئی اللہ کا انعام یا اس کا فضل دیکھتے تو فوراً اللہ کا شکر ادا کرنے میں مشغول ہوجاتے۔ اور یہ انبیاء اور ایمانداروں کا دستور ہوتا ہے۔ اس کے برعکس کافر پر جب اللہ تعالیٰ کوئی انعام فرماتا ہے تو شکر ادا کرنے کی بجائے اس کی طبیعت مزید سرکشی اور تکبر کی طرف مائل ہونے لگتی ہے اور وہ اترانے اور شیخیاں بگھارنے لگتا ہے۔ [٣٧] شکرکی تاثیر:۔ شکر اپنے اندر ایک خاص تاثیر رکھتا ہے اور وہ ہے نعمت کی افزونی یعنی شکر کی خاصیت ہے کہ وہ مزید نعمتوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے اس کے برعکس ناشکری کی خاصیت یہ ہے کہ ناشکرا آدمی موجودہ نعمت سے بھی محروم کردیا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ ایسی حقیقت ہے جس کا ہر شخص ذاتی طور پر بھی تجربہ رکھتا ہے اور تجربہ کرسکتا ہے۔ تاہم ثبوت کے طور پر اس پر قرآن کریم کی صریح آیت بھی موجود ہے ارشاد باری ہے : ’’اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور بھی زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو یاد رکھو میرا عذاب بڑا سخت ہے‘‘ (١٤: ٧) شکر سے متعلق مزید تفصیلات اسی آیت کے تحت حاشیہ میں ملاحظہ فرمائیے۔ اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ شکر ادا کرنے کا فائدہ شکر ادا کرنے والے کو ہی پہنچتا ہے۔ [٣٨]ناشکری کا نقصان:۔ اور اگر کوئی شخص ناشکری کرتا ہے تو اس کا نقصان اسی کو پہنچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا نہ کسی کے شکر ادا کرنے سے کچھ سنور جاتا ہے اور نہ کسی کی ناشکری کرنے سے اس کا کچھ بگڑ جاتا ہے۔ وجہ وہ یہ ہے کہ وہ بندوں کے شکر یا ناشکری سے بے نیاز ہے۔ کیونکہ اس کی ذات اور اس کے سب کارنامے اپنی ذات میں محمود ہیں۔ وہ کسی کے تعریف بیان کرنے کے محتاج نہیں ہیں۔ اس مضمون کو درج ذیل قدسی حدیث میں پوری طرح واضح کردیا گیا ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے میرے بندو! اگر اول سے آخر تک تم سب انسان اور جن اپنے سب سے زیادہ متقی شخص کے دل جیسے ہوجاؤ تو اس سے میری بادشاہی میں کچھ اضافہ نہ ہوجائے گا اور اے میرے بندو اگر اول سے آخر تک تم سب انسان اور جن اپنے سے زیادہ بدکار شخص کے دل کی طرح ہوجاؤ تو اس سے میری بادشاہت میں کوئی کمی واقع نہ ہوگی۔ اور اے میرے بندو! یہ تمہارے اپنے اعمال ہی ہیں جن کا میں تمہارے حساب میں شمار کرتا ہوں پھر تمہیں ان اعمال کی پوری جزا دیتا ہوں لہٰذا جسے کوئی بھلائی نصیب ہو اسے چاہئے کہ اللہ کا شکر ادا کرے۔ اور جسے کچھ اور نصیب ہو تو وہ اپنے آپ ہی کو ملامت کرے‘‘ ( مسلم۔ کتاب البرواصلہ۔ باب تحریم الظلم ) النمل
41 [٣٩]سیدنا سلیمان علیہ السلام کا ملکہ کے تخت کی صورت بدل دینا:۔ یہاں ﴿نَكِّرُوا ﴾کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ نکر میں جو باتیں بنیادی طور پر پائی جاتی ہیں (١) اجنبیت اور (٢) ناگواری، اور تنکیر کی ضد تعریف ہے۔ تعریف کے معنی کسی کو پہچان لینا اور تنکیر کے معنی کسی کو نہ پہچاننا اور اجنبیت محسوس کرنا۔ گویا﴿نَكِّرُوا ﴾کا معنی اس تخت میں ایسی تبدیلی لانا ہے جس سے وہ پوری طرح پہچانا نہ جاسکے اور اس سے حضرت سلیمان علیہ السلام بلقیس کی عقل کا امتحان لینا چاہتے تھے کہ اس کی عقل کہاں تک کام کرتی ہے پھر اس سے وہ یہ نتیجہ بھی اخذ کرنا چاہتے تھے کہ آیا وہ اتنی عقلمند ہے کہ شرک اور توحید میں تمیز کرسکے؟ چنانچہ آپ کے کاریگروں نے اس کے تخت میں اتنی تبدیلی کی ایک جگہ کے جواہر وہاں سے اکھاڑ کر کسی دوسرے جگہ فٹ کردیئے۔ النمل
42 [٤٠]ملکہ سباکی عقل کا امتحان :۔ بلقیس جب حضرت سلیمان کے دربار میں پہنچی تو اسے تخت دکھا کر پہلا سوال ہی یہ کیا گیا کہ کیا تمہارے پاس بھی ایسا تخت ہے؟ وہ بڑی عقلمند عورت تھی اس نے فوراً پہچان لیا کہ یہ تخت اسی کا ہے۔ البتہ اس میں کچھ تبدیلیاں کر لی گئی ہیں۔ لہٰذا اس نے جواب بھی سوال کے مطابق دیتے ہوئے کہا کہ یہ تو بالکل ویسا ہی لگتا ہے۔ اگر اس سے یہ سوال کیا جاتا کہ کیا یہ تیرا تخت ہے؟ تب وہ یہ جواب دیتی کہ ہاں یہ میرا ہی تخت ہے۔ اس امتحان سے حضرت سلیمان نے اس کے عقلمند ہونے کا اندازہ کرلیا۔ اس سوال کے بعد جو بات سلیمان علیہ السلام اسے سمجھانا چاہتے تھے اس کا اس نے خود ہی اظہار کردیا اور کہنے لگی۔ یہ عرش کے یہاں لانے کا کام واقعی معجزانہ ہے جو آپ کی نبوت پر دلیل ہے۔ لیکن ہمیں تو اس سے پہلے ہی آپ کے متعلق بہت کچھ معلومات حاصل ہوچکی ہیں۔ اور آپ کے تابع فرمان بن کر ہی یہاں آئے ہیں۔ النمل
43 [٤١] اس آیت کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ اسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد سمجھایا جائے۔ جیسا کہ ترجمہ میں بیان ہوا ہے اس لحاظ سے اس کا معنی یہ ہوگا کہ چونکہ اسے ماحول کافرانہ اور مشرکانہ ملا تھا۔ لہٰذا وہ بھی قوم کی دیکھا دیکھی سورج کی پرستش کرنے لگی تھی۔ ورنہ اگر وہ کچھ بھی عقل سے کام لیتی تو ایسے شرک میں مبتلا نہ ہوتی۔ اور دوسرا مطلب ہے کہ اس جملہ کو حضرت سلیمان علیہ السلام کا فعل تسلیم کیا جائے۔ اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سلیمان علیہ السلام نے بلقیس کو ان تمام چیزوں کی پرستش سے روک دیا جن کی وہ اپنے زمانہ کفر میں پرستش کیا کرتی تھی۔ النمل
44 [٤٢] دوسراامتحان کےحوض سے:۔ یہ بلقیس کی عقل کا دوسرا امتحان تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے محل کا صحن کچھ اس انداز سے بنوایا تھا جس کے اوپر شیشہ جڑا ہوا تھا۔ لیکن جب کوئی شخص محل میں داخل ہوتا تو اس کا زاویہ نگاہ ایسا ہوتا تھا کہ اسے وہ صحن ایک گہرا پانی کا حوض معلوم ہوتا تھا۔ جس میں پانی لہریں مار رہا ہو۔ اور اس کی کیفیت کچھ ایسی تھی جیسے کسی دور سے دیکھنے والے کو ریت کا تودہ یا سراب ٹھاٹھیں مارتا ہوا پانی نظر آتا ہے۔ آپ نے بلقیس سے فرمایا کہ چلو اب محل میں چلیں۔ بلقیس نے جب صحن کا یہ نظارا دیکھا۔ تو اسے پانی کا گہرا حوض سمجھ کر اپنی پنڈلیوں سے اپنے پائنچے اٹھا لئے۔ تب سلیمان علیہ السلام نے اسے بتلایا کہ پائنچے اوپر چڑھانے کی ضرورت نہیں۔ یہ پانی کا حوض نہیں بلکہ شیشے کا چکنا فرش ہے۔ گویا وہ اس امتحان میں دھوکا کھا گئی۔ [٤٣] یعنی جس طرح میں نے شیشہ کے صحن کو پانی کا لہریں مارنے والا گہرا حوض سمجھ کر غلطی کھائی ہے۔ اسی طرح میں اور میری قوم سورج کی چمک اور دمک دیکھ کر اسے معبود سمجھنے لگے تو یہ بھی ہماری فاش غلطی اور اپنے آپ پر ظلم تھا۔ [٤٤] ملکہ سباکا ایمان لاناعلیٰ وجہ البصیرت تھا:۔ بلقیس جو اللہ رب العالمین پر ایمان لائی تو یہ علی وجہ البصیرت تھا۔ کئی واقعات پہلے ایسے گزر چکے تھے۔ جن سے اسے یہ یقین ہوتا جارہا تھا کہ سلیمان علیہ السلام واقعی حق پر ہیں اور اللہ کے نبی ہیں اور اس کے مذہب کی بنیاد باطل پر ہے۔ سب سے پہلے تو اس نے خط کے مضمون سے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ اس قسم کا خط بھیجنے والا کوئی عام فرمانروا نہیں ہوسکتا۔ پھر جس نامہ بر کے ذریعہ اسے یہ خط پہنچا تھا وہ بھی ایک غیر معمولی بات تھی۔ اور تحائف کی واپسی سے بھی اس نے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ کوئی دنیا دار فرمانروا نہیں نیز یہ کہ وہ کبھی اس کے مقابلہ کی تاب نہ لاسکے گی۔ پھر تحائف لانے والے وفد نے جو عظیم فرمانروا کے منکسرانہ مزاج اور پاکیزہ سیرت کے حالات بیان کئے تھے تو ان باتوں سے بھی وہ شدید متاثر ہوچکی تھی۔ پھر جب وہ حضرت سلیمان کے پاس پہنچی تو جس تخت کو وہ اپنے پیچھے چھوڑ کر آئی تھی اسے اپنے سامنے پڑا دیکھ کر وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی نبوت کی دل سے قائل ہوچکی تھی۔ اب محل میں داخلہ کے وقت جس چیز نے اسے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یہ چیز تھی کہ اتنا بڑا فرمانروا جس کے پاس اس سے کئی گناہ زیادہ مال و دولت اور عیش و عشرت کے سامان موجود ہیں وہ اس قدر اللہ کا شکر گزار اور منکسرالمزاج اور متواضع بھی ہوسکتا ہے۔ ان سب باتوں نے مل کر اسے مجبور کردیا کہ وہ حضرت سلیمان کے سامنے اب برملا اپنے ایمان لانے کا اعلان کردے۔ ﴿وَكَشَفَتْ عَن سَاقَيْهَا ﴾سےمتعلق عقل پرستوں کی‘تاویل اور ا س کاجواب :۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے محل میں بلقیس کے داخل ہونے اور اپنی پنڈلیوں سے کپڑا اٹھانے کے بارے میں بھی عقل پرستوں نے بہت سے نامعقول تاویلات پیش فرمائی ہیں۔ مثلاً یہ کہ بلقیس نے اپنی پنڈلیوں سے کپڑا نہیں اٹھایا بلکہ اس شیش محل کی دیواروں پر جو کپڑے پڑے ہوئے تھے اس نے وہ اٹھائے تھے اور ﴿لُجَّةٌ﴾ کے معنی گہرا پانی ہی نہیں بلکہ پانی جیسی چمک دمک اور آب و تاب بھی ہے جو اس شیش محل میں پائی جاتی تھی۔ ان نامعقول تاویلات کے تفصیلی تجزیہ کا یہ موقعہ نہیں مختصراً ایک دو باتیں عرض کروں گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿ فَلَمَّا رَأَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَكَشَفَتْ عَن سَاقَيْهَا ﴾( بلقیس نے اس محل کو دیکھا تو اسے گہرا پانی خیال کیا اور اپنی پنڈلیوں سے کپڑا اٹھا لیا )گویا محل کے لئے ضمیر مذکر استعمال ہوئی ہے۔ اور دیوار کا لفظ اگرچہ یہاں موجود نہیں تاہم اگر وہ بالفرض تسلیم کر بھی لیا جائے تو وہ بھی مذکر استعمال ہوتا ہے (١٨: ٨٢) لیکن جس کی پنڈلیوں سے کپڑا اٹھایا گیا اس کے لئے مونث کی ضمیر استعمال ہوئی ہے۔ علاوہ ازیں محل کی یا کسی بھی کمرے کی چار دیواریں ہوتی ہیں دو نہیں ہوتی جبکہ یہاں تثنیہ کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ تیسرے یہ کہ ساق کا لفظ پنڈلی یا درخت کے تنہ کے لئے تو آتا ہے دیوار یا ہراس چیز کے نچلے حصہ کے لئے نہیں آتا جو ساری کی ساری ایک جیسی ہو۔ اور یہ معلوم ہی نہ ہوسکے کہ ساق کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ النمل
45 [٤٥] اور یہ معاملہ صرف صالح علیہ السلام سے ہی مختص نہیں بلکہ ہر نبی کی دعوت پر یہی کچھ ہوتا ہے کہ کچھ انصاف پسند، معاشرتی ناہمواریوں سے بیزار اور مظلوم قسم کے انسان نبی کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں۔ اور چودھری قسم کے کھاتے پیتے اور اثرو رسوخ رکھنے والے لوگ نبی کے دشمن بن جاتے ہیں۔ پھر ان کی آپس میں ٹھن جاتی ہے اور حق و باطل کے معرکہ کا آغاز ہوجاتا ہے یہی صورت حال قوم ثمود میں بھی رونما ہوگئی تھی۔ النمل
46 [٤٦] مخالفین یا چودھری حضرات چونکہ نبی کی نبوت کے ہی منکر ہوتے ہیں لہٰذا وہ اس کی ہر بات کو جھوٹا سمجھتے ہیں۔ نبی انھیں بھلے کاموں کی دعوت دیتا ہے اور پہلے سے کئے ہوئے برے کاموں سے توبہ و استغفار کی تلقین کرتا ہے۔ نیز برے کاموں کے انجام بد اور عذاب الٰہی سے ڈراتا ہے۔ تو متکبر لوگ نبی سے یوں کہنے لگتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو اب تک ہم پر وہ عذاب آیا کیوں نہیں۔ جس کی تم رٹ لگا رہے ہو۔ اور جو کرنے کے کام ہوتے ہیں یعنی اللہ سے مغفرت اور رحمت طلبی، ان باتوں کی طرف وہ توجہ ہی نہیں کرتے۔ صالح علیہ السلام نے ان کے اسی طرز عمل پر تنقید فرمائی ہے۔ النمل
47 [٤٧] اس آیت کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ جب سے تم نے اپنی نبوت کا ڈھونگ رچایا ہے۔ اس وقت سے ہم پر کوئی نہ کوئی افتاد پڑی ہی رہتی ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ پہلے ہم سب ایک ہی قوم تھے۔ تم نے آکر ہم میں پھوٹ ڈال دی۔ اور ہماری زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔ یہ سب تمہاری ہی نحوست ہے اور یہی اعتراض کفار مکہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تھا۔ [٤٨] اس آیت کے بھی دو مطلب ہیں ایک یہ کہ تم پر جو وقتاً فوقتاً کوئی مصیبت آن پڑتی ہے تو یہ تمہاری تنبیہ کے لئے آتی ہے اور تمہیں سنبھلنے کے لئے کچھ مزید مہلت دی جاتی ہے اور دوسرا یہ کہ قوم کے جو دو فریق بن چکے ہیں تو اسی بات میں تمہاری آزمائش ہو رہی ہے تم حق کا ساتھ دیتے ہو یا باطل کا اور اگر باطل کا ساتھ دیتے ہو تو اس میں کس حد تک سرگرمیاں دکھاتے ہو۔ النمل
48 [٤٩]قوم ثمود کے نوغنڈہ سرغنے:۔ رھط بمعنی ایک ہی خاندان کے لوگوں کی مختصر سی جماعت جن کی تعداد دس سے کم ہو اور ان میں کوئی عورت نہ ہو۔ نیز اس کے جماعت کے سردار یا سرغنہ کو بھی رھط کہتے ہیں۔ (مفردات ) اور یہ لفظ عموماً بڑے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ اور رھط کی اضافت کسی عدد کی طرف ہو تو اس سے اشخاص مراد لئے جاتے ہیں۔( منجد ) اسی لئے ہم نے رھط کا ترجمہ سرغنہ کیا ہے یعنی کسی اوباش اور بدکردار چھوٹی سی جماعت کا لیڈر۔ قوم ثمود کی معروف بستی کا نام حجر ہے۔ اور اسے ام القریٰ بھی کہتے ہیں یہ مکہ سے شام جاتے ہوئے راستہ میں پڑتی ہے اسی شہر میں ایسے نو سرغنہ تھے یابدمعاش ٹائپ چوہدری تھے اور ان سب میں سر کردہ قدار تھا یعنی سب سے بڑا بدبخت اور حرامی یہی قدار ہی تھا جس نے اللہ کی اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالی تھیں۔ اور باقی آٹھ سرغنے اسی قدار کے ممدو معاون ساتھی تھے۔ النمل
49 [٥٠]قوم ثمود کے ان غنڈوں کی سازش:۔ جب ان لوگوں نے ملی بھگت سے قدار کو آگے لگا کر ناقۃ اللہ کو زخمی کردیا۔ تو حضرت صالح نے ان لوگوں کو تین دن بعد عذاب آنے کا الٹی میٹم دے دیا۔ اس الٹی میٹم کے بعد بھی ان لوگوں نے یہی سمجھا کہ یہ عذاب تو آتا ہے یا نہیں۔ اس سے پہلے ہی ہم کیوں نہ صالح اور اس کے گھر والوں کا قصہ بھی تمام کردیں۔ چنانچہ نو بدمعاشوں نے حضرت صالح علیہ السلام کو بھی ٹھکانے لگا دینے کی ویسی ہی سکیم بنائی جیسی قریش مکہ نے ہجرت سے پیشتر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قصہ پاک کردینے کے لئے بنائی تھی۔ البتہ یہ فرق ضرور تھا کہ قریش نے یہ سمجھا کہ اس طرح بلوا کی صورت میں قتل کرنے پر ہم سے دیت کا مطالبہ کیا جائے گا تو وہ ہم آپس میں بانٹ لیں گے۔ لیکن یہ بدمعاش ان سے بھی چار ہاتھ آگے کی بات سوچ رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جب حضرت صالح علیہ السلام کے ولی( جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ولی حضرت ابو طالب تھے) ہم سے کوئی بات پوچھیں گے تو ہم کہہ دیں گے کہ ہم تو موقع پر موجود ہی نہ تھے۔ ہمیں کیا خبر کہ کون ان کو قتل کر گیا ہے۔ اور دوسرا فرق یہ تھا کہ قریش مکہ نے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنے کا منصوبہ تیار کیا تھا جبکہ ان بدمعاشوں نے حضرت صالح اور ان کے پورے خاندان کو مار ڈالنے کا منصوبہ بنایا تھا اور اپنے اس منصوبہ کے معاہدہ پر سب نے ایک دوسرے کے سامنے قسمیں کھائیں کہ ایک تو اس خاندان کو قتل کرکے دم لیں گے اور دوسرے اپنے جرم کا کبھی اعتراف نہ کریں گے۔ النمل
50 [٥١] جب یہ لوگ اس منصوبہ پر قسمیں کھا رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح علیہ السلام کو وحی کردی کہ وہ اپنے خاندان اور ایمان والوں کو لے کر فوراً اس بستی سے ہجرت کر جائیں۔ چنانچہ آپ ١٢٠ افراد کو اپنے ہمراہ لے کر فلسطین کی طرف چلے گئے اور رملہ کے قریب آگئے۔ آپ کے اس بستی سے نکلنے کی دیر تھی کہ اس شہر بلکہ قوم ثمود کے پورے علاقہ میں شدید زلزلہ کا عذاب آیا اور اس سے دل دہلانے والی آوازیں اور چیخیں بھی پیدا ہوتی تھیں۔ زلزلہ اتنا شدید تھا جس نے ان کے پہاڑوں میں بنے ہوئے مکانوں کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا اور خود بھی یہ قوم اسی عذاب سے ہلاک ہوگئی۔ النمل
51 النمل
52 [٥٢] اس جملہ کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ وہی لوگ عبرت حاصل کرتے ہیں جو ان کھنڈرات کو دیدہ بینا سے دیکھتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ جو اقوام عالم کے عروج و زوال کے قانون سے واقف ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ قوم نے رسولوں کی تکذیب کی اور انھیں دکھ پہنچایا۔ وہ تباہ و برباد ہو کے رہی۔ تیسرے یہ کہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کو طبیعی اسباب کا پابند نہیں سمجھتے بلکہ یہ جانتے ہیں کہ طبیعی اسباب کا خالق وہ خود ہے اور ان میں جب چاہے رد و بدل بھی کرسکتا ہے اور سبب اور مسبب کا تعلق توڑ بھی سکتا ہے۔ ظاہری اور باطنی سب اسباب اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہ یوں نہیں کہہ دیتے کہ فلاں عذاب مثلاً زلزلہ تو محض طبیعی اسباب کی بنا پر آیا تھا اس کا لوگوں کے گناہوں سے کیا تعلق؟ النمل
53 النمل
54 [٥٣]ذکرقوم لوط:۔ یہاں لفظ ﴿ تُبْصِرُونَ﴾ استعمال ہوا ہے جو دیکھنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور سمجھنے کے معنوں میں بھی۔ اس لحاظ سے ان دو آیات کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ تم خود بھی یہ سمجھتے ہو کہ یہ گندا اور بے حیائی کا کام ہے۔ اور خلاف فطرت ہے۔ حقیر سے حقیر جانور بھی ایسا کام نہیں کرتے تم اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود ایسا کام کرتے ہو۔ دوسرا یہ کہ تم خوب سمجھتے ہو کہ اس کام کے لئے اللہ نے بیویاں پیدا کی ہیں۔ لیکن تم ان سے بے تعلق ہو کر مردوں سے ہی یہ کام کرتے ہو۔ تیسرے یہ کہ تم اس قدر بے حیا ہوچکے ہو کہ ایک دوسرے کی آنکھوں کے سامنے یہ کام کرتے ہو۔ النمل
55 [٥٤]لواطت کےنتائج :۔ یعنی تم اس لواطت کے انجام سے آگاہ نہیں اس کا انجام یہ ہوگا کہ چند ہی سالوں بعد تمہاری نسل ختم ہوجائے گی نیز تمہاری عورتوں میں فحاشی پھیل جائے گی۔ یا تم اس فعل کے اس انجام سے بے خبر ہو کہ اس کے نتیجہ میں اللہ کا عذاب تم پر نازل ہو۔ النمل
56 [٥٥] بستی سے نکالنےکی دھمکی :بجائے اس کے کہ وہ حضرت لوط علیہ السلام کی نصیحت پر کچھ اپنی اصلاح کرتے وہ اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے۔ لوط علیہ السلام اور ان کے متبعین کو از راہ تمسخر پاکبازی کا طعنہ دیں۔ پھر انھیں اپنے شہر سے نکال دینے کی دھمکی بھی دینے لگے کہ تم جیسے پاکباز ہم گندے لوگوں میں کیونکر رہ سکتے ہیں۔ لہٰذا تمہاری عافیت اسی میں ہے کہ یہاں سے چلے جاؤ۔ النمل
57 النمل
58 [٥٦] لوط علیہ السلام کا قصہ اور اس قوم پر عذاب کی تفصیل پہلے کئی مقامات پر گزر چکی ہے مثلاً سورۃ اعراف کی آیت نمبر ٨٣، ٨٤، سورۃ توبہ کی آیت نمبر ٧٠، سورۃ ہود کی آیت نمبر ٨٣، سورۃ حجر کی آیت نمبر ٧٣۔ وہاں سے حواشی ملاحظہ کر لئے جائیں۔ اس سورۃ میں تین انبیاء حضرت سلیمان، حضرت صالح اور حضرت لوط علیہم السلام کے حالات کا ذکر ہوا ہے۔ اور ان کے حالات میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات میں کوئی نہ کوئی مشابہت کا پہلو ضرور پایا جاتا ہے۔ مثلاً حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ سبا کو یہ چیلنج کیا تھا کہ اگر تم مطیع فرمان بن کر حاضر ہوجاؤ تو بہتر ورنہ ہم ایسے لشکر سے تم پر حملہ کریں گے جس کے مقابلہ کی تم تاب نہ لاسکو گے۔ چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشرکین مکہ پر ایسا ہی لشکر لائے تھے۔ جس کے مقابلہ کی ان میں تاب نہ تھی۔ حضرت صالح کو ان کی قوم نے بلوا کی صورت میں شبخون مار کر قتل کرنا چاہا تھا۔ لیکن اللہ نے انھیں نجات دی۔ قریش مکہ نے بھی آپ سے یہی سلوک کرنا چاہا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کی اس سازش سے بال بال بچالیا۔ حضرت لوط علیہ السلام کو ان کی قوم نے شہر سے نکال دینے کی دھمکیاں دیں۔ جبکہ قریش مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عملاً شہر مکہ سے نکل جانے پر مجبور کردیا تھا۔ النمل
59 [٥٧]الحمدللہ کے استعمال کاخاص موقع:۔ ویسے تو ہر حال میں اللہ کی تعریف بیان کرنا چاہئے اور اس کا شکر بجا لانا چاہئے۔ لیکن اہل عرب اس جملہ کا استعمال عموماً اس وقت کرتے ہیں۔ جب فریق مخالف یا مخاطب پر دلائل کے ساتھ اتمام حجت کردی جائے۔ اور اس کے پاس ان دلائل کا کوئی معقول جواب نہ ہو یا اسے کوئی معقول جواب میسر نہ آئے۔ یہاں بھی تین انبیاء کا ذکر کرنے اور منکرین حق کا ایک ہی جیسا انجام بتلانے کے بعد یہ جملہ اسی مفہوم کو ادا کرنے کے لئے استعمال ہوا ہے۔ [٥٨] برگزیدہ لوگوں سے مراد انبیاء علیہم السلام ہیں جن کے ساتھ ان کے متبعین کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ جن کی اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی، انھیں کافروں کے مظالم سے نجات دلائی اور ان پر نازل کردہ عذاب سے انھیں بچا کر ان پر رحمت فرمائی۔ یہ مطلب تو ربط مضمون کے لحاظ سے ہے جملہ کا حکم عام ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ بندوں پر ہر وقت اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی نازل ہوتی رہتی ہے۔ [٥٩] یعنی اللہ تو وہ ہے جو مجرموں کو سزا دے کر اپنے بندوں کو ان کے مظالم سے بچا لیتا ہے اور ان کی مدد بھی کرتا ہے۔ سوائے مشرکین مکہ یا اب تم خود ہی فیصلہ کرلو کہ ایسی قوتوں والا اللہ بہتر ہے یا تمہارے وہ معبود جو دوسروں کو کوئی فائدہ یا نقصان تو کیا پہنچائیں گے۔ اپنی حفاظت تک کے لئے وہ تمہارے محتاج ہیں۔ النمل
60 [٦٠] اللہ کی ربوبیت عامہ:۔ اس آیت اور اس سے آگے تین چار آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدت کاملہ اور رحمت اور ربوبیت عامہ اور توحید پر چند ایسے دلائل کا انبار لگا دیا ہے جن میں سے اکثر دلائل کے مشرکین مکہ بھی معترف تھے۔ مثلاً سب سے پہلی دلیل تو یہی ہے کہ آسمانوں کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہے اور زمین کا بھی۔ آسمان سے مینہ برستا ہے جسے زمین جذب کرتی ہے۔ تو اس کی قوت روئیدگی اپنا کام کرنا شروع کردیتی ہے۔ اس سے فصلیں، غلے، پھل دار درخت، پھول اور مویشیوں کے گھاس اور چارہ اگتا ہے۔ اس طرح روئے زمین پر جتنی بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق بس رہی ہے سب کی غذا کا سامان فراہم ہوجاتا ہے۔ کروڑوں اور اربوں کی تعداد میں صرف انسان ہیں جو صرف ایک نوع ہے۔ جبکہ جاندار اشیاء کی انواع کی تعداد لاکھوں تک جاپہنچتی ہے کچھ پانی کی مخلوق ہے۔ کچھ خشکی کی اور کچھ ہوائی مخلوق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کی روزی کا ایسا جامع اور مکمل انتطام فرما دیا ہے کہ سب جانداروں کو روزی مہیا ہو رہی ہے۔ اب بتلائیے کہ اس پورے نظام ربوبیت عامہ میں کوئی فرشتہ، کوئی نبی، کوئی ولی، کوئی بزرگ یا کوئی دوسرا معبود شریک ہے کہ اللہ کے علاوہ اس کی بھی عبادت کی جائے۔ عبادت تو انتہائی عاجزی اور تذلل کا نام ہے اور اسی کو سزاوار ہے۔ جو انتہائی درجہ میں کامل اور بااختیار ہو، کسی ناقض، عاجز یا محتاج مخلوق کی یہ مقام کیسے دیا جاسکتا ہے۔ [٦١]عدل کا لغوی مفہوم:۔ عدل کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کا معنی برابر ہونا بھی اور برابر کا بدلہ بھی۔ پھر یہ لفظ لغت ذوی الاضداد سے ہے۔ یعنی اس کا معنی انصاف کرنا بھی ہے اور بے انصافی کرنا بھی۔ اس لحاظ سے اس جملہ کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں۔ مثلاً ایک تو ترجمہ سے ہی واضح ہے کہ جب ربوبیت عامہ کا پورے کا پورا نظام صرف اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہو تو عبادت میں دوسروں کو اس میں شامل کرلینا کس قدر بے انصافی اور ظلم کی بات ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس اعتراف حقیقت کے باوجود یہ لوگ اپنے معبودوں کو اللہ کے برابر کا درجہ دیتے ہیں۔ اور تیسرا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ راہ راست سے بڑھ جاتے ہیں یعنی اعتراف حقیقت کے باوجود اس کا نتیجہ غلط نکال رہے ہیں۔ النمل
61 [٦٢] زمین کےجائے قرار ہونے کی چھ توجیہات:۔ اس ایک جملہ کے اندر اللہ تعالیٰ کی کئی قدرتیں سمٹ کر آگئی ہیں ہیں۔ یہ بات تو ہزار ہا ہزار سال پہلے انسان کے علم میں آچکی تھی کہ ہمارا یہ عظیم الجثہ کرہ زمین گول ہے اور فضائے بسیط میں معلق ہے۔ زمین کا اکثر حصہ سمندر ہے۔ اور زمین کے گول ہونے کے باوجوود پانی اس سے گر نہیں جاتا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر کرہ سماوی کی طرح ہماری زمین میں بھی کشش ثقل موجود ہے۔ جس کی وجہ سے اشیاء زمین پر از خود گر تو سکتی ہیں مگر خود بخود کسی طاقت کے استعمال کے بغیر اوپر نہیں اٹھ سکتیں ماسوائے گیسوں اور بخارات آبی کے کہ ان کا کرہ ہی زمین سے اوپر ہے۔ اگر کوئی گیس جو عام ہوا سے ہلکی ہوگی زمین سے بھی نکلے گا تو از خود اوپر اٹھ جائے گی۔ یہ عجائبات ہی کیا کم تھے اب مزید علم ہیئت کی تحقیقات نے ان عجائبات میں بے پناہ اضافہ کردیا ہے۔ مثلاً ایک یہ کہ ہماری زمین سورج کے سامنے رہتے ہوئے اپنے محور کے گرد تقریباً ایک ہزارمیل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہی ہے۔ اور اس کا چکر ایک دن رات یا ٢٤ گھنٹوں میں پورا ہوتا ہے۔ اور دوسرے یہ کہ ہماری زمین سورج سے ٩ کروڑ ٣٠ لاکھ میل دور ہے اور اس کے گرد بھی ایک سال میں ایک گردش پوری کرتی ہے تو یا سورج کے گرد اس کی گردش کی رفتار چھیاسٹھ ہزار چھ سو میل فی گھنٹہ ہے۔ ان دو قسم کی گردشوں کے باوجود اللہ تعالیٰ نے زمین کو اس قدر جکڑ رکھا ہے کہ ہم محسوس تک نہیں کرسکتے اور آرام سے اس پر چلتے پھرتے اور زندگی بسر کرتے ہیں۔ زمین کے جائے قرار ہونے کا ایک مفہوم یہ ہوا کہ صحیح احادیث میں وارد ہے کہ ہماری زمین پہلے، ان گردشوں کی وجہ سے، ہچکولے کھاتی تھی۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس کی مختلف اطراف میں پہاڑ ایسی مناسبت سے رکھ دیئے کہ ہچکولے کھانا بند ہوگئی اور انسان اور دوسری تمام اشیاء کے لئے قرار بن گئی۔ اس کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ اگر زمین ہمیشہ سورج کے سامنے رہتی تو زمین کے نصف حصہ پر تو ہمیشہ دن ہی چڑھا رہتا اور باقی نصف پر ہمیشہ رات ہی رہتی۔ اس طرح پوری کی پوری زمین نباتات اور سب جانداروں کے لئے بالکل ناکارہ ثابت ہوتی۔ اس لئے کہ نباتات اور جانداروں کی زندگی اور نشوونما کے لئے جیسے دن کی ضرورت ہے ویسے ہی رات کی بھی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین پر رات اور دن کا نظام قائم فرما کر اسے تمام مخلوق کے لئے جائے قرار بنا دیا اور اس کا چوتھا پہلو یہ ہے کہ زمین سے سورج کا فاصلہ اگر موجودہ فاصلہ سے کم ہوتا تو تمام مخلوق گرمی کی شدت اور تپش سے مرجھا جاتی اور بالاخر ختم یا تباہ ہوجاتی اور اگر یہ فاصلہ زیادہ ہوتا تو اتنی زیادہ سردی ہوتی کہ تمام تر مخلوق سردی سے ٹھٹھر جاتی اور بالآخر تباہ یا ہلاک ہوجاتی۔ اس طرح بھی یہ زمین مخلوق کے لئے جائے قرار نہ بن سکتی تھی۔ اس کا پانچواں پہلو یہ ہے کہ ہماری زمین سورج کے گرد ٦٦ ڈگری درجے کا زاویہ بنتے ہوئے گھوم رہی ہے۔ جس سے ایک تو دن اور رات کے اوقات میں بتدریج تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ کبھی دن بڑے ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور راتیں بتدریج چھوٹی ہوتی جاتی ہیں۔ اور کبھی اس کے برعکس معاملہ شروع ہوجاتا ہے پھر اس بنا پر موسموں میں تبدیلی آتی ہے کبھی موسم گرما ہوتا ہے، کبھی سرما، کبھی بہار، کبھی خزاں اور کبھی برسات اور ان موسموں کا مختلف قسم کی اجناس، غلے اور پھل دار درختوں کے پیدا ہونے، ان کی نشوونما اور فصلوں اور پھلوں کے پکنے سے گہرا تعلق ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ یہ نظام قائم نہ فرماتے تو پھر اس زمین پر بسنے والوں کے لئے خوراک کا مسئلہ نہایت پریشان کن صورت اختیار کرسکتا تھا۔ اس صورت میں یہ زمین ہمارے لئے جائے قرار نہیں بن سکتی تھی اور اس کا چھٹا پہلو یہ ہے کہ ہماری زمین سے اوپر پانچ چھ سو میل کی بلندی تک کثیف ہوا کا کرہ بنا کر زمین کو آفات سماوی یا فضائی سے محفوظ بنادیا گیا ہے۔ موجودہ تحقیق کے مطابق تقریباً دو کروڑ شہاب ثاقب روزانہ ٣٠ میل فی سیکنڈ کی برق رفتاری سے ہماری زمین کا رخ کرتے ہوئے گرتے ہیں۔ جب وہ اس کرہ ہوائی میں پہنچتے ہیں تو انھیں آگ لگ جاتی ہے اور وہیں ختم ہوجاتے ہیں۔ پھر بعض اوقات کوئی بڑی زیادہ جسامت والا شہاب زمین پر گر بھی پڑتا ہے اور زمین کے گرد گہرا گڑھا ڈال دیتا ہے لیکن ایسا کبھی کبھار ہوتا ہے جیسا اللہ کو منظور ہوتا ہے۔ عام حالات میں ہم ان سے محفوظ رہتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ زمین کے گرد کرہ ہوائی کا یہ نظام نہ فرماتے تو زمین کبھی محفوظ جائے قرار نہیں بن سکتی تھی۔ غرض اس مسئلہ کے اتنے زیادہ پہلو ہیں کہ جتنا بھی ان میں غور کیا جائے مزید پہلو سامنے آتے جاتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا اس نظام کائنات میں اللہ کے علاوہ کسی اور معبود کا بھی کچھ دخل ہے خواہ یہ دخل کتنا ہی معمولی ہو؟ اور اگر اس سوال کا جواب نفی میں ہے تو پھر دوسروں کو اللہ کی عبادت میں کیسے شریک بنایا جاسکتا ہے؟۔ [٦٣] نہروں سے مراد تمام ندی، نالے اور دریا وغیرہ ہیں انھیں ایک تو بارش سے پانی مہیا ہوتا ہے بارش کا کچھ پانی زمین اپنے اندر جذب کرلیتی ہے باقی زائد پانی ندی نالوں کی طرف رخ کرلیتا ہے۔ اور ان کا سب سے بڑا منبع پہاڑ اور پہاڑوں کے درمیان چشمے ہیں سردیوں میں پہاڑوں پر برف جم جاتی ہے جو گرمیوں میں پگھل کر پہلے ندی نالوں کی اور پھر دریاؤں کی صورت اختیار کرلیتی ہے یا یہ پانی پہلے سے بنے ہوئے ندی نالوں کا رخ اختیار کرلیتا ہے۔ انھیں کے ذریعہ ان علاقوں میں سیرابی ہوتی ہے۔ جہاں بارش کم ہوتی ہے یا وقت پر نہیں ہوتی۔ اور نہروں کا بالخصوص ذکر اس لئے فرمایا کہ تمام نباتات اور جانداروں کی زندگی اور نشوونما کا دارومدار پانی پر ہے۔ ہوا کے بعد پانی میں ایسی اہم چیز ہے جس کے بغیر کوئی چیز اپنی زندگی باقی نہیں رکھ سکتی۔ [٦٤] اس کی تشریح کے لئے سورۃ فرقان کی آیت نمبر ٥٣ کی حاشیہ نمبر ٦٦ ملاحظہ فرمائیے۔ النمل
62 [٦٥] مشکل اوقات میں اکیلے اللہ کوپکارنا:یہ سوال اس لئے کیا گیا کہ مشر کیا مکہ کو خوب معلوم تھا کہ جب کسی کی جان پر بن جاتی ہے تو اس وقت ان کے معبود کسی کام نہیں آسکتے۔ لہٰذا وہ ایسے آڑے وقتوں میں صرف اکیلے اللہ کو مدد اور نجات کے لئے پکارتے تھے۔(تشریح کے لئے دیکھئے سورۃ انعام کی آیت نمبر ٤١ کا حاشیہ ) اور ان سے سوال یہ کیا جارہا ہے کہ جب تمہیں اپنے بچاؤ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی اور اس وقت نجات کے لئے اللہ ہی کو پکارتے ہو پھر وہ تمہاری اس مصیبت کو دور بھی کردیتا ہے اس وقت نہ کوئی پتھر کا بت اس کو رفع کرسکتا ہے نہ کوئی دوسرا معبود۔ تو پھر اللہ کی عبادت میں تم انھیں اس کا شریک یا ہمسر کیوں بناتے ہو؟ [٦٦] اس جملہ کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ ایک پشت یا نسل کے بعد۔ دوسری پشت یا نسل پہلی کی جانشین بن جاتی ہے تم اپنے اباؤو اجداد کے جانشین بنے اور تمہاری اولادیں تمہاری جانشین بنیں گی۔ اور یہ سلسلہ یوں ہی چلتا آیا ہے اور چلتا جائے گا اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ تمہیں زمین میں تصرف و اقتدار بخشتا ہے۔ اور تمہارے بعد یہ اقتدار کسی دوسرے کی طرف منتقل ہوجائے گا اور یہ سلسلہ ایسے ہی چل رہا ہے اور چلتا رہے گا۔ النمل
63 [٦٧] ستاروں کے فائدے:۔ رات کی تاریکیوں میں راہ معلوم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے چاند اور ستارے بنا دیئے۔ جن کی گردش کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایسے ضا بطے مقرر فرما دیئے ہیں کہ وہ سیارے ان کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے۔ اور اس قدرتی نظام کا انسان کو یہ فائدہ پہنچتا ہے کہ وہ ان سے یہ بھی معلوم کرسکتا ہے کہ رات کا کتنا حصہ گزر چکا ہے اور یہ بھی کہ اس وقت وہ کون سی سمت میں سفر کر رہا ہے۔ علاوہ ازیں اسے ان سیاروں کی روشنی سے راستے نظر بھی آنے لگتے ہیں۔ اور آج کل جو قطب نما کا آلہ ایجاد ہوا تو یہ بھی سیاروں ہی کا مرہون منت ہے۔ اگر یہ ستارے اللہ تعالیٰ پیدا نہ کرتا، یا ان کے نظام گردش میں باقاعدگی نہ ہوتی یا یہ بے نور ہوتے تو انسان رات کی تاریکیوں میں سفر کر ہی نہ سکتا تھا۔ خواہ یہ سفر خشکی کا ہوتا یا سمندر کا اور سمندر کا سفر تو اس کے لئے موت کا باعث بن سکتا تھا۔ یہ سارا نظام تو اللہ نے بنایا جس میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ لیکن اللہ کی عبادت کے وقت تو تم اسے بھول جاتے ہو۔ یا دوسروں کو بھی اس کا ہمسر قرار دے کر انھیں بھی مستحق عبادت سمجھنے لگتے ہو۔ [٦٨] اس کی تشریح کے لئے دیکھئے سورۃ الفرقان کی آیت نمبر ٤٨ کا حاشیہ نمبر ٦٠ النمل
64 [٦٩]نباتات اور جانداراشیاء کی انواع جوانسان کےعلم میں آچکی ہیں:۔ آغاز خلق اور اعادہ خلق کا مسئلہ بھی اپنے اندر اللہ کی ہزارہا قدرتوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ اور انسان جتنا اس معاملہ میں غور کرتا ہے اس کی حیرانگی میں اضافہ ہی ہوتا جاتا ہے۔ اس مسئلہ میں سب سے پہلا سوال یہ پیش آتا ہے کہ روح کیا چیز ہے جس پر زندگی کا مدار ہے۔ اور یہ سوال آج بھی ایسا پیچیدہ اور لاینحل ہے جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام کے وقت تھا۔ انسان نے یہ تو دریافت کرلیا کہ مثلاً انسان فلاں فلاں عناصر کا مرکب ہے اور انسان کے جسم میں ان عناصر کی مقدار اتنی اور اتنی ہوتی ہے۔ مگر انہی عناصر کو اسی مقدار کے مطابق ترکیب دے کر ایک زندہ انسان بن کھڑا کرنا انسان کی بساط سے باہر ہے۔ اور یہ مسئلہ غالباً تاقیامت لاینحل ہی رہے گا۔ پھر یہ صرف ایک انسان کا مسئلہ نہیں بلکہ تمام جاندار اشیاء کا مسئلہ ہے۔ جس میں نباتات بھی شامل ہیں۔ نباتات بھی جانداروں کی طرح بڑھتی ہے۔ پھلتی پھولتی ہے حتیٰ کہ احساس و شعور بھی رکھتی ہے۔ اس وقت تک روئے زمین پر نباتات کی تقریباً دو لاکھ انواع اور جاندار اشیاء کی تقریباً دس لاکھ انواع انسان کے علم میں آچکی ہیں۔ جو اپنی ساخت، عناصر اور ترکیب کے لحاظ سے بالکل ایک دوسرے سے الگ ہیں اور جب سے انسان نے ان انواع کو جاننا شروع کیا اس وقت سے لے کر آج تک انسان کے علم میں یہ بات نہیں آسکی کہ نباتات یا حیوانات کی کوئی نوع ارتقاء کی منزل طے کرکے اپنے سے کسی اعلیٰ جنس میں تبدیل ہوگئی ہو۔ بلکہ جس حال میں انسان نے اسے پہلے دن دیکھا تھا اسی حال میں بھی یہ آج بھی پائی جاتی ہے۔ جس سے ڈارون کے نظریہ کا از خود ابطال ہوجاتا ہے اگرچہ ڈارون کے نظریہ کے باطل ہونے کے اور بھی بے شمار دلائل موجود ہیں۔ گویا اللہ تعالیٰ نے نباتات کی اور حیوانات کی جس نوع کو جس طرح پہلے دن پیدا کیا تھا آج بھی وہ اسی صورت میں پائی جاتی ہے اور انسان کی تخلیق تو ایک بالکل خصوصی نوعیت رکھتی ہے۔ جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے اسے اپنے ہاتھ سے بنایا ہے۔ (٣٨: ٧٥) آغازخلق اور اعادہ خلق کا سلسلہ ہرآن جاری ہے:۔ اور اعادہ خلق سے صرف یہ مراد نہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام انسانوں کو ان کی قبروں سے زندہ کرکے اٹھا کھڑا کرے گا۔ بلکہ اعادہ خلق سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر آن مردہ سے زندہ اور زندہ سے مردہ پیدا کر رہا ہے۔ اور یہ نظام نباتات اور حیوانات کی تمام تر اقسام میں جاری و ساری ہے۔ مثلاً ایک ننھے سے بیج کو لیجئے اس میں اس درخت کی وہ تمام تر خصوصیات سمو دی گئی ہیں جس کا وہ بیج ہے۔ جب اس بیج کو نشوونما کا موقع ملے گا تو اس میں وہ تمام تر خصوصیات مثلاً اس کا رنگ، اس کا مزا، اس کی بو، اس کا قد و قامت، اس کا پھل اسی درخت جیسا ہوگا جس کا وہ بیج تھا۔ اسی طرح کسی جاندار یا انسان کے نطفہ میں اس انسان کی شکل و صورت ہی منتقل نہیں ہوتی بلکہ اس کی عادات و خصائل تک منتقل ہوجاتی ہیں۔ رہا انسان کا جسم اور اس کے اندر پیچیدہ مشینری، اس کا عصبی، عضلاتی، لحمی اور ہڈیوں کی پیدائش کا نظام یہ سب چیزیں اس انسان کے نطفہ میں ایک خوردبینی جرثومہ کی شکل میں منتقل ہوجاتی ہیں۔ اور جب اسے نشوونما کا موقع میسر آتا ہے تو یہ سب چیزیں عملی طور پر وجود میں آجاتی ہیں کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ ایک جاندار کے جرثومہ میں کسی دوسرے جرثومہ کے خواص منتقل ہوجائیں۔ یا مثلاً کسی عورت کے رحم میں اونٹ کا جرثومہ چلا جائے تو اس کے ہاں اونٹ کا بچہ پیدا ہوجائے اللہ کا اعادہ خلق کا نظام آغاز خلق سے بھی زیادہ پیچیدہ اور حیران کن ہے۔ اب غور فرمائیے کہ اس آغاز خلق اور اعادہ خلق کے نظام میں اللہ کے علاوہ کسی فرشتے، کسی نبی، کسی ولی، کسی جن، کسی پیروفقیر، یا کسی سیارے یا بت کا عمل دخل ہے؟ اگر نہیں تو پھر وہ عبادت کے مستحق کیسے ہوسکتے ہیں؟ [٧٠] خوراک کی پیدائش کےعوامل:۔ تمام نباتات اور حیوانات کی ضروریات زندگی اگرچہ زمین ہی سے وابستہ ہیں۔ تاہم ان کی خوراک، پیدائش میں بہت سے دوسرے عوامل بھی کام کرتے ہیں۔ سب سے بڑا عامل تو زمین کی قوت روئیدگی ہے۔ مٹی کی تاریکی میں ہی بیج کی نشوونما شروع ہونے لگتی ہے۔ دوسرا عامل سورج ہے۔ جس کی گرمی سے سطح سمندر سے آبی بخارات اٹھتے ہیں۔ تیسری عامل ہوائیں ہیں جو ان آبی بخارات کی سمت موڑتی ہیں۔ چوتھا عامل پہاڑوں کی بلندی یا کسی بلند طبقہ کی ٹھنڈک ہے جو پھر سے ان آبی بخارات کو پانی کے قطروں کی شکل میں تبدیل کردیتا ہے۔ پھر اسی پانی کے ساتھ زمین کی قوت روئیدگی ملتی ہے۔ تب جاکر نباتات اگتی ہے اور انسان اور حیوانات کو رزق میسر آتا ہے۔ غور فرمائیے کہ ان سمندروں، اس سورج، ان ہواؤں، ان پہاڑوں اور اس زمین کی پیدائش میں اللہ کے سوا کسی دوسری ہستی کا کچھ عمل دخل ہے؟ اب اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ بارش فلاں سیارے کے فلاں نچھتر میں داخل ہونے پر یا اس سیارے کی روح کے مجسمے یا بت کی قربانی یا نذرانہ دینے سے ہوتی ہے تو اسے کوئی تجرباتی مشاہداتی یا نقلی دلیل پیش کرنا چاہئے۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کرسکتے تو اللہ کی رزاقیت میں دوسرے کیسے شامل ہوسکتے ہیں۔ اور لوگوں کے داتا کیسے بن سکتے ہیں؟ النمل
65 [٧١]غیب اور شہادت کےمختلف پہلو:۔ غیب سے مراد ایک تو ایسی چیزیں ہیں جو کسی خاص انسان کے علم یا مشاہدہ میں نہ آئی ہوں۔ پھر جب وہ اس کے علم میں آجائیں گی تو اس کے لئے غیب نہ رہیں گی۔ مثلاً سڑک پر ایک بس اور کار کا حادثہ ہوگیا جس میں چار آدمی مرگئے۔ پھر جب اسے اس کا علم ہوجائے گا یا وہ خود مشاہدہ کرلے گا تو یہ واقعہ اس کے لئے غیب نہ رہا۔ ایسی خبریں ماضی کی بھی ہوسکتی ہیں۔ حال کی بھی جو کسی کو معلوم ہوتی ہیں اور کسی کے لئے غیب کا درجہ رکھتی ہیں۔ البتہ مستقبل کی خبریں سب کے لئے غیب ہوتی ہیں۔ دوسری قسم یہ ہے کہ جتنے علوم انسان دریافت کرچکا ہے یا جس حد تک دریافت کرچکا ہے۔ وہ سب انسان کے لئے علم الشہادۃ ہیں اور جن علوم تک انسان کی رسائی ہو ہی نہیں ہوسکتی یا نہیں ہوسکی۔ وہ اس کے لئے علم غیب ہیں۔ تیسری قسم ان اشیاء کا علم ہے جن تک انسان کی رسائی نہ پہلے کبھی ہوئی اور نہ آئندہ کبھی ہوسکے گی اور کتاب و سنت کی تصریح کے مطابق یہ پانچ چیزیں ہیں۔ (١) کل کیا کچھ ہونے والا ہے اور فلاں شخص کل کیا کچھ کرے گا، (٢) موت کب آئے اور کہاں آئے گی۔ (٣) رحم مادر میں تغیرات کیونکر واقع ہوتے ہیں۔ (٤) نفع رساں بارش کب ہوگی اور (٥) قیامت کب آئے گی۔ (٣١: ٣٤) ان چیزوں کا علم صرف اللہ کو ہوتا ہے۔ علم غیب صرف اللہ کو ہے:۔ ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ غیب کا علم صرف اللہ کو ہے۔ البتہ اس علم میں سے جتنا وہ انسانی ہدایت کے لئے ضروری سمجھتا ہے اس سے اپنے انبیاء کو مطلع کردیتا ہے۔ جیسے قیامت، بعث بعد الموت، جنت و دوزخ اور روز قیامت کے احوال اور یسے ہی ماضی کے حالات جیسے شرعی اصطلاح میں تذکیربایام اللہ کہتے ہیں۔ انبیاء و اقوام کے حالات اور بعض مستقبل کے متعلق پیشین گوئیاں اور بشارات۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی زبان سے بار بار یہ اعلان کروایا کہ اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔ ایک مقام پر فرمایا :’’ اے نبی کہہ دو کہ اگر میں غیب جانتا ہوتا تو میں بہت بھلائیاں اکٹھی کرلیتا اور مجھے کبھی کوئی تکلیف نہ پہنچتی‘‘ (٧: ١٨٨ ) اور انبیا پر چونکہ بموجب تصریح احادیث صحیحہ ابتلا کا دور آتا ہے تو جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء بھی اتنا ہی غیب کا علم جانتے ہیں۔ جتنا اللہ انھیں بتلا دیتا ہے۔ علم غیب اور الوہیت کا باہمی تعلق:۔ علم غیب کو اللہ تعالیٰ سے مخصوص رکھنا اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے اور اس کی وجہ ہے کہ الوہیت اور علم غیب ماننے میں ایک گہرا تعلق ہے۔ قدیم زمانے سے لے کر آج تک انسان نے جس ہستی میں الوہیت کے کسی شائبہ کا گمان کیا ہے اس کے متعلق یہ ضرور خیال کیا ہے کہ اس پر سب کچھ روشن ہے اور کوئی چیز اس پر پوشیدہ نہیں رہتی۔ آپ نے اکثر اولیاء اللہ کے تذکروں میں پڑھا یا سنا ہوگا کہ پیر اپنے مریدوں کے حالات سے آگاہ ہوتا ہے۔ پھر ایسے بے شمار واقعات بھی ان تذکروں میں پائے جاتے ہیں۔ ایسے سب قصے اس لئے گھڑے جاتے ہیں کہ ان پیروں میں الوہیت کی صفات کو تسلیم کیا جائے اگرچہ زبان سے ان کا اقرار نہ کیا جائے۔ گویا کسی کے متعلق ایسا عقیدہ رکھنا ہی شرک کی سب سے بڑی بنیاد ہے۔ کوئی بزرگ یا پیر خواہ زندہ ہو یا فوت ہوچکا ہو کسی کی فریاد تو اسی صورت میں سن سکتا ہے اور اس کی حاجت روائی اور مشکل کشائی اسی صورت میں کرسکتا ہے کہ سب سے پہلے وہ اپنے مریدوں کے احوال سے آگاہ ہو پھر اس کے بعد امور کائنات میں کچھ تصرف بھی رکھتا ہو۔ علم غیب ناقابل تقسیم صفت ہے:۔ پھر جس طرح اللہ تعالیٰ کی بعض دوسری صفات مثلاً خلاقیت اور رزاقیت ناقابل تقسیم و تجزیہ ہیں۔ اس طرح علم غیب بھی ناقابل تقسیم و تجزیہ ہیں۔ یعنی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ فلاں بزرگ اپنے تمام مریدوں کے حالات سے یا اپنے علاقہ یا شہر کے حالات سے پوری طرح باخبر ہے اور ان کے غیب کے حالات بھی جانتا ہے۔ یا فلاں ہستی اس علاقہ کی زمین کے مدفون خزانوں کو جانتی ہے، ایسی تمام باتیں شرک میں داخل ہیں۔ [٧٢] آیت کے اس جملہ سے یہ معلوم ہوا کہ اس آیت میں صرف ان ہستیوں کے علم غیب جاننے کی تردید مقصود ہے۔ جن پر بعث بعدالموت کا مرحلہ پیش آنے والا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اس سے مراد نہ بت ہوسکتے ہیں نہ حجر و شجر نہ شمس و قمر اور نہ فرشتے۔ ان سے مراد صرف وہی بزرگ ہوسکتے ہیں جن میں کسی نہ کسی رنگ میں الوہیت کی کوئی صفت اور بالخصوص علم الغیب تسلیم کیا جاتا ہے۔ النمل
66 [٧٣] یعنی کوئی انسان خواہ کتنے ہی عقل کے گھوڑے دوڑائے یہ معلوم نہیں کرسکتا کہ قیامت کب قائم ہوگی۔ نہ ہی روز آخرت کی حقیقت معلوم کرسکتا ہے۔ سوائے اس کے کہ وہ وحی الٰہی پر ایمان لے آئے۔ اس صورت میں اسے آخرت اور اس کے احوال کے متعلق تو یقین حاصل ہوجاتا ہے۔ مگر قیامت کے وقت کا علم پھر بھی حاصل نہیں ہوسکتا۔ اور ان لوگوں کی حالت یہ ہے کہ پیغمبر کی دعوت نے انھیں اس شک میں مبتلا ضرور کردیا ہے اور وہ روز آخرت سے انکار کے باوجود یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ممکن ہے کہ پیغمبر سچ ہی کہہ رہا ہو۔ اس کے باوجود ان لوگوں نے اسی بات کو ترجیح دی کہ اس معاملہ پر غورو فکر کرنا چھوڑ دیا جائے اور ان دلائل وشواہد سے بالکل آنکھیں بند کرلیں۔ جن میں غور و تامل کرنے سے ان کا شک رفع ہوسکتا ہے۔ النمل
67 النمل
68 النمل
69 [٧٤]سوال کیا ہم اٹھائے جائیں گے اور جواب مجرموں کا انجام دیکھ لو میں ربط:۔ ان دو آیات میں کافروں کا قول یہ نقل کیا گیا ہے کہ مر کر مٹی ہوجانے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کا وعدہ تو ہمارے آباء و اجداد کو بھی دیا گیا تھا پہلے لوگ بھی ایسی باتیں کرتے رہے اور آج بھی ایسی ہی باتیں ہو رہی ہیں حالانکہ جو مر گیا ان میں کوئی شخص بھی آج تک زندہ ہو کر نہیں آیا۔ یہ تو بس ایک افسانوی سی بات ہے جس میں حقیقت کچھ نہیں۔ اور کافروں کے اس قول کا جواب یہ دیا جارہا ہے کہ زمین میں ذرا چل پھر کر تو دیکھو کہ مجرموں کا انجام کیا ہوا تھا ؟ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کافروں کے اس قول اور اس کے جواب میں کوئی ربط نہیں۔ حالانکہ اس قول اور اس کے جواب میں گہرا ربط ہے اور ایک بہت بڑی حقیقت سے پردہ اٹھایا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ جو قومیں بھی اللہ کے عذاب سے تباہ ہوئیں سب کی سب قیامت اور بعث بعد الموت کی منکر تھیں۔ اور جو شخص یا جو قوم بھی آخرت کے دن اور اللہ کے حضور اپنے اعمال کی باز پرس کی منکر ہوتی ہے۔ اس کی زندگی کبھی راہ راست پر نہیں رہ سکتی۔ اور وہ دنیا میں شتر بے مہار کی طرح زندگی گزارتا ہے کہ جس کام میں اس نے اپنا فائدہ دیکھا اسی کو اپنا لیا۔ خواہ اس سے دوسروں کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو رہا ہو۔ ایسے ہی لوگ فساد فی الارض کے مرتکب ہو کر مجرمانہ زندگی بسر کرنے کے عادی ہوجاتے ہیں اور ایسے مجرموں کو تباہ کردینا ہی اللہ کی سنت جاریہ ہے تاکہ باقی لوگ ایسے لوگ کے شر سے محفوظ رہ سکیں۔ دوسرا سبق ان واقعات سے یہ ملتا ہے کہ تاریخ انسانی میں یہ کوئی ایک ہی واقعہ نہیں۔ بلکہ بے شمار تاریخی شواہد سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ رسولوں کا انکار اور آخرت کا انکار کرنے والے مجرموں کا انجام ان کی تباہی اور ہلاکت کی صورت میں ہوا۔ جس سے از خود ایک اور حقیقت سامنے آتی ہے جو یہ ہے کہ کوئی ایسی مقتدر ہستی موجود ہے جو مجرموں کو ایک مقررہ حد سے آگے نکلنے سے روک دیتی ہے اور انھیں تباہ کردیتی ہے۔ یہ دنیا کوئی اندھیر نگری نہیں کہ جس شخص کا جو جی چاہے کرتا پھرے اور اس پر گرفت کرنے والا کوئی نہ ہو۔ پھر جب یہ تجربہ حاصل ہوگیا کہ مجرمین کو ان کے کئے کی سزا مل کے رہتی ہے۔ تو اسی قانون مکافات کا تقاضا یہ ہے کہ جن مجرموں کو اس دنیا میں سزا نہیں ملی یا ان کے جرم سے بہت کم سزا ملی ہے ان سے باز پرس اور ان کی سزا کے لئے ایک دوسرا عالم قائم ہو۔ جس میں تمام مجرموں کو ان کے جرائم کی پوری پوری سزا دی جائے۔ مجرموں کو عذاب سے تباہ کردینا عدل کے سب تقاضے پورے نہیں کرتا۔ اس سے تو صرف یہ ہوتا ہے کہ مجرموں کو زائد جرائم کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔ ان کے جرائم کی سزا کے لئے تو یہ دنیا کی زندگی بہت ناکافی ہے۔ اسی طرح جن مظلوموں نے ان مجرموں کے مظالم برداشت کئے تھے۔ ان کی ہلاکت سے ان کو کیا ملا ؟ آخر ان لوگوں نے راہ حق میں جو مظالم و مصائب برداشت کئے ہیں۔ اس کا اجر بھی تو انھیں ملنا چاہئے۔ ان باتوں پر غور کرنے سے واضح طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے آخرت کا قیام انتہائی ضروری ہے۔ النمل
70 [٧٥] یعنی جو کافر آپ پر ایمان لانے کے بجائے آپ کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے ہیں اور اسلام کے خلاف سازشوں کا جال بچھانے میں مصروف ہیں ان کی ایسی سرگرمیوں سے آپ پریشان اور غمزدہ نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کی کسی چال کو کامیاب نہ ہونے دے گا۔ النمل
71 النمل
72 [٧٦] کافروں کا جلد عذاب لانے کا مطالبہ اس بنا پر نہیں تھا کہ وہ فی الواقع یہ چاہتے تھے کہ ان پر عذاب نازل ہو۔ بلکہ اس سے ان کا مطلب یہ ہے کہ وہ آپ کے ان وعدوں کو جھوٹا سمجھتے ہیں۔ تو آپ انھیں کہہ دیجئے کہ یہ عین ممکن ہے کہ ایسے عذاب کا کچھ حصہ عنقریب تمہیں اپنی گرفت میں لے لے۔ عذاب کے اس کچھ حصے کا آغاز تو جنگ بدر سے ہی ہوگیا تھا۔ پھر آپ کی زندگی میں ہی اس کچھ حصے کی کئی اقساط سے ان کافروں کو سابقہ پیش آتا رہا۔ اور اس عذاب کا زیادہ حصہ بلکہ اصل عذاب تو انھیں آخرت میں بھگتنا پڑے گا۔ واضح رہے کہ اس آیت میں عسی کا لفظ ان معنوں میں نہیں کہ شاید تم پر عذاب آجائے نہ آئے بلکہ یہ شاہانہ انداز کلام ہے اور بڑے لوگ جب اس انداز سے خطاب کریں۔ تو وہ بات یقینی ہی سمجھی جاتی ہے اور اگر ایسا کلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو تو پھر اس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ارادہ اور فعل میں کچھ فرق نہیں۔ ارادہ تو دور کی بات ہے اللہ تعالیٰ تو جو کچھ چاہے وہ بھی ہوکے رہتا ہے۔ النمل
73 [٧٧] یعنی اگر عذاب آنے میں کچھ تاخیر ہو رہی ہے تو وہ اس لئے نہیں کہ یہ لوگ عذاب کے مستحق نہیں بلکہ اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کا تقاضا یہ ہے کہ ابھی انھیں سوچنے سمجھنے کے لئے کچھ اور مہلت دی جائے۔ اب چاہئے تو یہ تھا کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اس مہلت دینے پر اس کا شکر ادا کرتے یہ الٹا عذاب کے واقع ہونے کا ہی مذاق اڑانے اور اسے جھٹلانے پر لگے ہیں۔ النمل
74 [٧٨] ان کا زبانی مطالبہ تو یہ ہے کہ عذاب جلد کیوں نہیں آجاتا۔ لیکن اس مطالبہ کے جو محرکات ہیں اور جو کچھ یہ اپنے آپ کو اپنے دلوں میں سمجھے بیٹھے ہیں۔ ان کا یہ تمہارے سامنے اظہار نہیں کرتے۔ ان کے دلوں کے پوشیدہ کینوں اور ناپاک ارادوں کو اللہ خوب جانتا ہے۔ النمل
75 [٧٩] یعنی ان لوگوں کے ظاہری اعمال سے بھی اللہ واقف ہے اور باطنی خیالات سے بھی، ان کی حالیہ کرتوتوں سے بھی اور جو کچھ یہ آئندہ کے لئے سازشیں تیار کر رہے ہیں ان سب باتوں سے صرف واقف نہیں بلکہ یہ سب کچھ پہلے سے ہی اس کے ریکارڈ میں درج ہے۔ نیز یہ بھی کہ ان لوگوں کو کتنی مہلت دی جائے گی اور کب ان پر عذاب آئے گا۔ جو چیز علم الٰہی میں طے شدہ ہے وہ اپنے وقت پر آکے رہے گی۔ النمل
76 [٨٠]بنی اسرائیل کےباہمی اختلافات کےمتعلق قرآن کی نشاندہی :۔ یہ اختلاف صرف عقائد میں ہی نہیں تھے بلکہ احکام اور قصص میں بھی تھے۔ عقائد کے اختلاف یہ تھے کہ مثلاً یہود ہی کا ایک فرقہ آخرت کا منکر بن گیا تھا۔ پھر ان میں کچھ فرقوں کا آخرت کے متعلق تصور ہی غلط تھا جس کا قرآن نے کئی مواقع پر ذکر فرمایا ہے۔ عیسائیوں میں عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اختلاف تھے کچھ انھیں اللہ کا بیٹا قرار دیتے تھے کچھ انھیں اللہ ہی سمجھتے تھے۔ کچھ بیٹے کو باپ کی طرح قدیم سمجھتے تھے اور کچھ اسے مخلوق اور حادث قرار دیتے تھے۔ کچھ یہ کہتے تھے کہ اللہ نے اپنے سارے اختیارات اپنے بیٹے کو سونپ دیئے ہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ وہ تین کا تیسرا ہیں۔ اور احکام میں اختلاف ان کی تحریفات لفظی اور معنی کی بنا پر تھا۔ بہت سی آیتوں کو وہ چھپا جاتے تھے اور بہت سی آیات کی تحریف کرلیتے تھے اور ان کی ایسی حرکات بھی قرآن میں متعدد مقامات پر بالوضاحت مذکور ہیں۔ ان سب اختلافات کا نتیجہ یہ تھا کہ وہ بہتر فرقوں میں بٹ گئے تھے۔ قرآن نے آکر ان اختلافات کو بیان بھی کیا اور ان میں صحیح راہ بھی متعین فرما دی کہ فلاں مسئلہ میں اصل حقیقت یہ ہے اور فلاں میں حقیقت اتنی ہے۔ یہاں اس آیت کے ذکر کرنے سے مطلب یہ ہے کہ اس وقت جو اختلافات کفار مکہ اور مسلمانوں کے درمیان ہیں ان میں بھی قرآن صحیح راستے کی نشان دہی کر رہا ہے۔ النمل
77 [٨١] یعنی یہ قرآن بنی اسرائیل کے اختلافات میں سیدھے راستہ کی نشاندہی کرتا ہے اور جو اس پر ایمان لے آئیں تو ان کو ان گمراہیوں سے بچا لیتا ہے۔ جن میں یہ لوگ اس وقت مبتلا ہیں۔ نیز جب انھیں قرآن کی بدولت زندگی کا سیدھا راستہ مل جائے گا اور وہ اس پر عمل پیرا ہوں گے تو اللہ کی ان پر اس قدر رحمتیں نازل ہوں گی جن کا یہ قریش آج تصور بھی نہیں کرسکتے۔ چنانچہ اسی قرآن کی بدولت چند ہی سالوں میں ان ایمانداروں کی ایسی کایا پلٹی کہ وہی بدو جو لوٹ مار اور قتل و غارت میں مشہور تھے۔ وہ دنیا کے پیشوا، تہذیب انسانی کے استاد اور زمین کے ایک بڑے حصے کے فرمانروا بن گئے۔ النمل
78 [٨٢] یعنی جو کفار اس وقت آپ سے بروقت الجھتے رہتے ہیں۔ اور مسلمانوں کو تنگ اور پریشان کرتے اور ان کا مذاق اڑاتے رہتے ہیں۔ ان کے درمیان اور مومنوں کے درمیان جلد ہی اپنا فیصلہ نافذ کرنے والا ہے۔ اور اس کے فیصلے کے نفاذ کو کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔ کیونکہ وہ سب سے زبردست ہے۔ نیز اس کے فیصلے میں غلطی کا بھی امکان نہیں۔ النمل
79 [٨٣] یعنی قریش کی تکذیب، استہز اور ایذ رسانیاں اور سازشیں فی الواقع پریشان کرنے والی باتیں ہیں۔ آپ ان سے زیادہ تاثر نہ لیں۔ بلکہ ہر وقت اللہ پر بھروسہ کریں۔ آپ یقیناً صحیح راستہ پر جارہے ہیں اور اللہ ہمیشہ حق کا ساتھ دیتا ہے۔ لہٰذا وہ ضرور اور بروقت آپ کی مدد کرے گا۔ النمل
80 [٨٤] اس آیت میں موتیٰ سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے دل مردہ ہوچکے ہیں۔ یعنی آپ کی نصیحت اور ہدایت نہ تو ان لوگوں کو کچھ فائدہ دے سکتی ہے جن کے دل مرچکے ہیں اور نہ ان کو جن کے دلوں کے کان بہرہ ہوچکے ہیں۔ بالخصوص اس صورت میں وہ بہرے الٹے پاؤں بھاگے جارہے ہوں۔ بہرے کا بھی چہرہ اگر بات کرنے والے کی طرف ہو تو وہ متکلم کے اشاروں سے یا بات کرنے کے انداز سے ہی اس کا کچھ نہ کچھ مفہوم سمجھ سکتا ہے۔ لیکن اگر اس کا رخ ہی بات کرنے والے سے الٹی طرف ہو، مزید براں وہ بھاگے جارہا ہو۔ تو اس سے کیا توقع ہوسکتی ہے کہ وہ متکلم کی بات کو کچھ نہ کچھ سمجھ سکے گا۔ النمل
81 [٨٥] ہدایت پانے کی چار ممکنہ صورتیں :۔ یعنی ان کافروں کے ہدایت پانے کی چار ہی صورتیں ممکن ہیں۔ جن میں سے دو سننے سے تعلق رکھتی ہیں اور دو دیکھنے سے۔ سننے کی پھر دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ صرف زندہ سن سکتا ہے۔ مردہ نہیں سن سکتا۔ اب چونکہ ان کے دل مر چکے ہیں۔ لہٰذا اس طریقہ سے ان کی ہدایت ناممکن ہوتی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ سماعت رکھنے والا تو بات سن سکتا ہے۔ لیکن بہرا نہیں سن سکتا۔ یہ لوگ چونکہ دل کے بہرے ہیں۔ لہٰذا یہ صورت بھی ناممکن ہوئی۔ تیسری صورت یہ تھی کہ ہو تو بہرا مگر کم از کم وہ توبہ تو کرتا ہو۔ اور بات سننے کی کچھ خواہش تو رکھتا ہو۔ اس صورت میں بھی کچھ اشاروں اور انداز خطاب سے اس کے کچھ نہ کچھ پلے پڑ سکتا تھا۔ مگر یہ لوگ تو پیٹھ پھیرے بھاگے جارہے ہیں لہٰذا یہ تیسری صورت بھی ناممکن ہوئی۔ اور چوتھی صورت یہ ہے کہ ہدایت کا طالب اگر کچھ سن سکتا تو دیکھ کر بات سمجھ لے۔ اگر اسے کوئی اشارہ سے راہ بتلائے تو سیدھی کی راہ کی طرف آئے۔ یا کم از کم جو لوگ سیدھی راہ پر چل رہے ہیں انھیں دیکھ کر ہی ان کے پیچھے ہولے۔ اب یہ کفار چونکہ دلوں کے اندھے بھی ہیں۔ لہٰذا ان کے ہدایت پانے کی چوتھی صورت بھی ناممکن ہوگئی۔ لہٰذا ایسے مردہ دل، دل کے بہرے اور اندھے لوگوں سے ہدایت پانے اور اسلام لانے کی توقع رکھنا بے کار ہے۔ [٨٦] یعنی آپ کی نصیحت اور ہدایت صرف ان لوگوں کے حق میں مفید ہوسکتی ہے۔ جو خود بھی ہدایت کے طالب ہوں۔ آپ کی باتوں کو غور سے سنتے ہوں ان کے دل زندہ ہوں۔ دل کے کانوں سے سنتے ہوں۔ اور دل کی آنکھوں سے اللہ کی آیات میں غور و فکر کرتے ہوں۔ اور ایسے ہی لوگ ایمان لاتے ہیں۔ اور ایسے ہی لوگوں سے ایمان لانے اور ہدایت پانے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ النمل
82 [٨٧] اس آیت میں﴿ دَابَّةً﴾ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جس کا مادہ د ب ب ہے اور دبّ بمعنی عام رفتار ( مشی) ہلکی یا سست رفتار سے چلنا ہے۔ اور دابہ ہر اس جاندار کو کہتے ہیں جو ہلکی چال چلتا ہو۔ خواہ وہ پیٹ کے بل چلے جیسے سانپ اور چھپکلی وغیرہ یا خواہ دو پاؤں پر چلے جیسے انسان اور بندروں کی بعض اقسام یا چار پاؤں پر چلے جیسے وحشی جانور اور چوپائے وغیرہ۔ نیز مذکر و مؤنث کے لئے اس کا یکساں استعمال ہوتا ہے۔ اور قرآن میں یہ لفظ دیمک کے لئے بھی آیا ہے۔ جس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد ان کی لاٹھی کو چاٹ کھایا تھا اور وہ ٹوٹ گئی تھی۔ (٣٨: ١٤) اس آیت میں جس دابة کا ذکر ہے۔ معلوم تو یہی ہوتا ہے کہ وہ انسان کی شکل کا یا اس سے ملتا جلتا ہوگا۔ تکلہم کا لفظ اس قیاس کی تائید کرتا ہے۔ تاہم یہ ضروری بھی نہیں۔ جس طرح اس دابة کا خروج خرق عادت ہوگا اسی طرح اس کا لوگوں سے کلام کرنا بھی خرق عادت ہوسکتا ہے۔ بہرحال یہ یقینی بات ہے کہ اس کا خروج علامات قرب قیامت میں سے ایک علامت ہے جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے : ١۔ دابۃ الارض کی حقیقت:۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ تین باتیں جب ظاہر ہوجائیں تو اس وقت کسی کو ایمان لانے کا کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ الا یہ کہ وہ پہلے ایمان لاچکا ہو اور نیک اعمال کرتا رہا ہو۔ ایک سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، دوسرے دجال کا نکلنا اور تیسرے دابۃ الارض کا خروج‘‘ ( مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب بیان الزمن الذی لایقبل فیه الایمان ) ٢۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دابة الارض نکلے گا تو اس کے پاس سلیمان کی مہر اور موسیٰ کا عصا ہوگا۔ پھر وہ ( عصائے موسیٰ سے) مومن کے منہ پر لکیر کھینچ دے گا جس سے وہ چمک اٹھے گا اور کافر کی ناک پر( سلیمان کی انگوٹھی سے) مہر لگا دے گا۔ یہاں تک کہ سب لوگ ایک خوان پر جمع ہوں گے تو وہ یہ کہے گا کہ یہ مومن ہے اور یہ کافر ہے۔(یعنی مومن اور کافر ممتاز ہوجائیں گے) ( ترمذی۔ ابو اب التفسیر) ٣۔ حضرت حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم پر برآمد ہوئے جبکہ ہم گفتگو میں مشغول تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ’’کیا باتیں کر رہے تھے؟‘‘ ہم نے عرض کیا : قیامت کا ذکر کرتے تھے : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی۔ جب تک تم اس سے پہلے دس نشانیاں نہ دیکھ لو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نشانیاں بتلائیں۔ دھواں، دجال، دابۃ الارض، سورج کا مغرب سے نکلنا، نزول عیسیٰ ابن مریم، یاجوج ماجوج کا خروج۔ تین مقامات پر زمین کاخسف مشرق میں، مغرب میں، جزیرہ عرب میں۔ اور ان نشانیوں کے بعد ایک آگ پیدا ہوگی جو لوگوں کو یمن سے نکال کر ہانکتی ہوئی ان کے محشر ( سرزمین شام) کی طرف لے جائے گی‘‘ ( مسلم۔ کتاب الفتن واشراط الساعة ) بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت سے پہلے صفا پہاڑی پھٹے گی اس میں سے ایک جانور نکلے گا جو لوگوں سے باتیں کرے گا کہ اب قیامت نزدیک نزدیک ہے اور سچے ایمان والوں اور چھپے منکروں کو نشان دے کر جدا کردے گا۔ دابۃ الارض سے متعلق بہت سے رطب و یابس اقوال و روایات بعض تفاسیر میں درج ہیں۔ مگر معتبر روایات سے تقریباً اتنا ہی ثابت ہے جو اوپر درج ہے۔ النمل
83 [٨٨]ا نسان کو جس بات کی سمجھ نہ آئے انکار کردیتاہے: اس آیت میں میدان محشر کا ایک منظر پیش کیا گیا ہے۔ مجرموں کی ان کے جرائم کے لحاظ سے الگ الگ جماعتیں بنا دی جائیں گی۔ جیسے مثلاً مشرکوں کی الگ جماعت ہوگی۔ کافروں کی الگ، منافقوں کی الگ، اور بعض مفسرین نے اس سے یہ مراد لی ہے کہ مکذبین کو محشر کی طرف لے چلیں گے اور وہ اتنی کثرت سے ہوں گے کہ پیچھے چلنے والوں کو آگے بڑھنے سے روک دیا جائے گا۔ جیسا کہ انبوہ کثیر میں انتظام قائم رکھنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ وزع کا بنیادی معنی صرف روک دینا یا روکے رکھنا ہے۔ لہٰذا اس کے معنی میں دونوں طرح مطالب کی گنجائش موجود ہے۔ النمل
84 [٨٩] یعنی میری آیات کے انکار کے سلسلہ میں تمہارے پاس کوئی معقول وجہ یا دلیل موجود نہیں تھی۔ الا یہ کہ وہ باتیں تمہارے علم کی گرفت یا سمجھ میں نہیں آتی تھیں۔ پھر بجائے اس کے کہ تم غور و فکر کرکے ان کو سمجھنے کی کوشش کرتے تم نے سرے سے انکار ہی کردیا تھا۔ تمہارا معمول ہی یہ بن گیا تھا کہ بلا سوچے سمجھے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا جائے۔ اگر یہ بات نہیں تو بتلاؤ اور تم کیا کام کرتے رہے ہو؟ کیا تم یہ ثابت کرسکتے ہو کہ تم نے تحقیق کے بعد ان آیات کو جھوٹا ہی پایا تھا۔ اور تم میں یہ قطعی علم حاصل ہوگیا تھا کہ جو کچھ ان آیات میں مذکور ہے وہ درست نہیں ہے۔ النمل
85 [٩٠] یعنی ان پر الٹ پڑے گی، ان کا قصور ثابت ہوجائے گا کہ وہ واقعی اللہ کی آیات کے ساتھ بے انصافی کا معاملہ کرتے رہے۔ لہٰذا انھیں اس سوال کا کوئی جواب میسر نہ آئے گا۔ النمل
86 [٩١] یعنی دن اور رات کے ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے اور آتے جاتے رہنے میں ایک نہیں غور و فکر کرنے والوں کے لئے بے شمار نشانیاں ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کی توحید پر دلالت کرتی ہیں۔ اور یہ نشانیاں ایسی ہیں جنہیں ہر شخص ہر وقت مشاہدہ کرسکتا ہے کیا تم نے کبھی سوچا کہ یہ دن رات کیسے پیدا ہوتے ہیں۔ کبھی راتیں لمبی ہوجاتی ہیں اور کبھی دن اور کبھی اس کے برعکس۔ پھر موسموں کے تغیر و تبدل پر بھی غور کیا تھا کہ سورج اور تمہاری زمین کا باہمی کیا تعلق ہے؟ یہ عظیم الشان تعلق قائم کرنا پھر ہر وقت اس نظام پر کنٹرول رکھنا کیا یہ سب کچھ اتفاقی امور تھے یا کوئی مقتدر ہستی یہ نظام چلا رہی تھی۔ اور اس نظام سے تمہارے کس قدر مفادات وابستہ ہیں۔ دن بھر کام کرنے سے جس قدر بدن کے اجزاء تحصیل ہوتے ہیں اور تھکن ہوجاتی ہے۔ رات کو وہ سب پھر سے پیدا ہوجاتے ہیں اور صبح انسان کی تھکن دور اور وہ تازہ دم ہو کر اٹھتا ہے۔ نیز ایسا مربوط اور حکیمانہ نظام اسی صورت میں ہی قائم رہ سکتا ہے کہ اس کو بنانے، چلانے اور کنٹرول کرنے والی صرف ایک ہی ہستی ہو یا کئی ہستیاں مل کر کیا ایسا حکیمانہ اور مربوط نظام چلاسکتی ہیں۔ اسی ایک رات اور دن کے مسئلہ میں تم غور و فکر کرتے تو تمہیں ہدایت نصیب ہوسکتی تھی۔ النمل
87 [٩٢] معتبر روایات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ نفخہ صور دوبارہ ہوگا۔ پہلی بار جب حضرت اسرافیل صور میں پھونکیں گے تو قیامت برپا ہوجائے گی اور تمام دنیا تباہ و برباد ہوجائے گی۔ یہ نظام کائنات بھی درہم برہم ہوجائے گا اور دوسری بار جب صور پھونکا جائے گا تو تمام مردے اپنی اپنی قبروں سے زندہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوں گے۔ مزید تفصیل سورۃ انعام کی آیت نمبر ٧٣ کے تحت ملاحظہ فرمائیے۔ [٩٣] یہ ایماندار لوگ ہوں گے یا فرشتے مثلاً اسرائیل، میکائیل، جبرئیل وغیرہم۔ کیونکہ یہ نفخہ صور ان کی توقع کے مطابق ہوگا۔ اس لئے ان پر وہ دہشت طاری نہیں ہوگی جو منکرین حق پر ہوگی۔ یہ غالباً نفخہ ثانی کی بات ہے۔ کیونکہ نفخہ اول کے وقت ایماندار لوگ نہایت قلیل بلکہ نہ ہونے کے برابر ہوں گے۔ کیونکہ احادیث صحیحہ میں یہ وضاحت آچکی ہے کہ قیامت بدترین لوگوں پر قائم ہوگی۔ اور نیک لوگ قیام قیامت سے پیشتر اٹھا لئے جائیں گے۔ [٩٤] دَخَرَ کالغوی مفہوم :۔ دَخَرَ کے معنی میں عاجزی، ذلت اور حقارت تین باتیں پائی جاتی ہیں اور داخر بمعنی عقل و ہوش کی کم مائیگی کی بنا پر نکو بن کر ذلت کی اطاعت قبول کرلینے والا ہے۔ یعنی ساری کی ساری مخلوق عاجز اور حقیر بن کر اللہ کے حضور پیش ہوجائے گی۔ اپنے آپ کو قصووار سمجھتے ہوئے یوں پیش ہوں گے۔ جیسے کوئی قصور وار غلام اپنے آقا کے سامنے پیش ہوتا ہے۔ النمل
88 [٩٥] قیامت کوپہاڑوں کا انجام:۔ یعنی جب قیامت قائم ہوگی تو اس کا آغاز اس طرح ہوگا کہ نظام کائنات میں زبردست خلل واقع ہوجائے گا۔ زمین مسلسل ہچکولے کھانے لگے لگی۔ اور پہاڑوں جیسی ٹھوس، سخت اور جامد چیز اپنی جڑیں چھوڑ کر ریزہ ریزہ ہوجائے گی اور ان ریزوں کی دھول فضا میں اس طرح اڑتی پھرے گی جیسے دھنکی ہوئی روئی( القارعہ : ٥) اور اس مقام پر یہ تشبیہ دی گئی ہے کہ جیسے بادل فضا میں اڑتے پھرتے ہیں ویسے ہی پہاڑ بھی اڑتے پھریں گے۔ [٩٦] اَتْقَنَ کا لغوی مفہوم:۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی جس چیز کو بھی بنایا وہ اس کی کاریگری کا بے مثال نمونہ ہے اوراثقل الامر کے معنی کسی چیز کو فنی مہارت کے ساتھ مضبوط بنانا ہے۔ جو مدت بعد تک کام کرنے پر بھی خراب نہ ہوں۔ مثلاً یہ سورج، یہ چاند، یہ ستارے، یہ زمین اور یہ آسمان، یہ سب اللہ نے جس دن سے پیدا کیے ہیں اور جس مقصد کے لئے پیدا کیے ہیں۔ وہ مقصد نہایت عمدگی سے پورا کر رہی ہیں۔ کبھی نہ ان کی چال میں فرق آتا ہے۔ نہ لمحہ بھر کی تقدیم و تاخیر ہوتی ہے اور نہ وہ خراب ہوتے ہیں اور نہ اپنا کام چھوڑ دیتے ہیں۔ اور یہ چیزیں تاقیام قیامت اسی حال پر برقرار رہیں گے اور ان میں خلل یا بگاڑ صرف اس وقت پیدا ہوگا جب اللہ کو منظور ہوگا اور قیامت قائم ہوگی۔ [٩٧] تمہارے افعال و اعمال سے پوری طرح باخبر ہے اور تمہاری نیتوں سے بھی واقف ہے۔ پھر تمہارے ان اعمال و افعال اور اقوال کا پورا پورا ریکارڈ بھی اس کے پاس محفوظ ہے اور یہی وہ دن ہوگا جب تمہیں تمہارے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ النمل
89 [٩٨] یہاں بھلائی سے مراد ایمان اور اعمال صالحہ ہیں۔ جزا یعنی نیک اعمال کے اچھے بدلہ کے متعلق اللہ کا عام ضابطہ یا قانون یہ ہے کہ ہر نیکی کے عوض دس گنا زیادہ اجر عطا فرمائے اور یہ اس کا اپنے نیک بندوں پر فضل اور احسان ہوگا۔ (٦: ١٦) پھر اگر کوئی عمل انتہائی خلوص اور محض اللہ کی خوشنودی کی خاطر بجا لایا گیا ہوگا اور بعد میں اس کی نگہداشت بھی کی گئی ہوگی تو اس کا اجر اللہ تعالیٰ سات سو گناہ یا اس سے زیادہ بھی دے سکتا ہے۔ (٢: ٢٦١) [٩٩] ایمانداروں پر گھبراہٹ طاری نہ ہونے کی دو وجہیں ہوں گی ایک یہ کہ جو کچھ اس دن ہوگا ان کی توقع اور ان کے ایمان کے مطابق ہوگا اور جس حادثہ کی انسان کو پہلے سے خبر ہو وہ اس سے بچاؤ تو کرلیتا ہے مگر اس سے گھبراتا نہیں۔ دوسرے یہ کہ ان کو ان کے اچھے اعمال کا بدلہ ان کی توقع سے بڑھ کر مل رہا ہوگا۔ اس لحاظ سے یہ ان کے گھبرانے کا نہیں بلکہ خوشی کا موقع ہوگا۔ النمل
90 [١٠٠] سزا یا برے اعمال کے برے بدلہ کے مطابق اللہ کا ضابطہ یا قانون یہ ہے۔ کہ جتنا کسی نے جرم کیا ہے اسے اتنی ہی سزا دی جائے اس سے زیادہ نہ دی جائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی حال میں بھی اپنے بندوں پر ظلم یا زیادتی نہیں کرتا۔ یہ الگ بات ہے کہ کئی جرائم ایسے ہیں جن کی سزا ہی خلود فی النار ہے۔ النمل
91 [١٠١]حرم مکہ کی وجہ سے قریش کوحاصل ہونے والے فوائد:۔ مکہ کے مالک ہونے کا اللہ تعالیٰ نے اس لئے ذکر فرمایا کہ اس سورۃ کے نزول کے وقت تک دعوت اسلام کا مرکز تبلیغ صرف مکہ ہی تھا۔ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت اس لحاظ سے بھی تمہارے لئے ضروری ہے کہ جس نے اس شہر کو قابل احترام قرار دیا ہے۔ جس کے بے شمار فوائد اے قریش مکہ! تم ہی اٹھا رہے ہو۔ ساری دنیا بالخصوص اس گھر کے متولی ہونے کے باعث تمہاری عزت اور تمہارا وقار قائم ہے اللہ کے اس عطا کردہ احترام ہی کی وجہ سے عرب کے ڈاکوؤں اور لیٹروں سے تمہاری جانیں اور تمہارے اموال محفوظ رہتے ہیں اور بالخصوص تمہارے تجارتی قافلوں کو کوئی لوٹنے کی جرات نہیں کرتا۔ پھر جسے تم پروانہ راہداری عطا کردو۔ لوگ اس پر بھی ہاتھ نہیں ڈالتے۔ آخر عرب کے ڈاکوؤں اور لٹیروں کے دلوں میں تمہارا یہ احترام اور اس گھر کی عزت اور ہیبت کس نے ڈالی ہے؟ یہ کوئی تمہارے معبودوں کا کارنامہ تو نہیں ہے۔ لہٰذا مجھے تو یہی حکم ہے کہ میں اسی پروردگار کی اطاعت کروں اور اس کا فرمانروا بن کر رہوں اور اللہ کا یہ پیغام تم لوگوں تک بھی پہنچا دوں۔ النمل
92 [١٠٢] اور یہ حکم ہوا ہے کہ جس قدر قرآن نازل ہوتا جائے۔ ساتھ کے ساتھ تم لوگوں کو سناتا جاؤں۔ رہی یہ بات کہ تم ان قرآنی آیات کی طرف توجہ دیتے ہو یا نہیں۔ یا سیدھی راہ کی طرف آتے ہو یا نہیں۔ یہ میری ذمہ داری نہیں، میری ذمہ داری صرف قرآن سنا دینا ہے۔ پھر اگر ہدایت قبول کرلو گے تو اس میں تمہارا ہی بھلا ہے۔ دنیا میں اللہ عزت اور اقتدار بخشے گا اور آخرت میں جہنم کے عذاب سے بچ جاؤ گے اور گمراہ ہی رہنا چاہتے ہو تو تمہاری مرضی میں اپنا کام سرانجام دے چکا۔ النمل
93 [١٠٣] یعنی ایسی نشانیاں جن سے تمہیں بخوبی معلوم ہوجائے گا کہ جو باتیں میں کہتا تھا وہی حق اور درست تھیں۔ یعنی تمہیں اللہ تعالیٰ اس دنیا میں ذلیل و خوار کرے گا اور مسلمانوں کا ہر آڑے وقت میں ساتھ دے گا اور ان کی مدد فرمائے گا۔ اور تمہاری سر توڑ معاندانہ کوششوں کے باوجود اسلام سربلند ہوکے رہے گا۔ اس وقت تم ٹھیک طرح پہچان لو گے کہ تم سے کئے گئے وعدے بھی درست تھے، یہ قرآن بھی درست اور حق تھا اور میں بھی فی الواقع اللہ کا پیغمبر ہوں۔ اور یہ سب کچھ مانے بغیر تمہارے لئے دوسرا کوئی چارہ کار نہ رہے گا۔ چنانچہ فتح مکہ اور پھر اس کے بعد اعلان براءت پر سب کفار اور مشرکین پر یہ حقائق منکشف ہوگئے اور ایمان لانے کے لئے ان کے لئے کوئی دوسرا راستہ نہ رہا۔ النمل
0 القصص
1 القصص
2 القصص
3 [١]قرآن میں اکثرمقامات پرقصص الانبیاء کےضمن میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا ذکرپہلے کیوں آیاہے ؟ قرآن کریم میں اکثر مقامات پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا گیا ہے اور انبیاء کے ذکر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر پہلے کیا گیا ہے۔ اس کی وجوہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں۔ مختصراً یہ کہ موسیٰ علیہ السلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ شدید حالات میں فریضہ رسالت سرانجام دینے کا حکم ہوا تھا۔ مثلاً یہ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جس قوم بنی اسرائیل کے فرد تھے، فرعون نے انھیں اچھوتوں کی طرح کم تر درجہ کی مخلوق اور عملاً غلام بنا کر رکھا ہوا تھا۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم قریش ہی کے ایک فرد تھے۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون جیسے مغرور، متمرد اور سرکش، فوراً بھڑک اٹھنے والے فرمانروا کے ہاں دعوت رسالت کے لئے بھیجا گیا تھا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین اول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی ہی قوم کے افراد تھے۔ تیسرے یہ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ بھی حکم تھا کہ دعوت توحید کے ساتھ اپنی قوم بنی اسرائیل کی رہائی کا بھی مطالبہ کریں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کوئی حکم نہ تھا۔ چوتھے یہ کہ آپ فرعون کے اشتہاری مجرم تھے۔ اور اس قصہ کا انجام یہ ہوتا ہے کہ بالآخر اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی مدد کرکے انھیں فرعونیوں سے نجات دلاتے ہیں اور فرعون اور آل فرعون کو دریا میں غرق کرکے ایسے ظالموں کا صفحہ ہستی سے نام و نشان تک مٹا دیتے ہیں۔ گویا اس قصہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اور مسلمانوں کے لئے سبق یہ ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام نے ایسے شدید حالات اور اللہ پر بھروسہ رکھتے ہوئے سب مصائب برداشت کئے تو آپ کو بھی کرنا چاہئیں اور بشارت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس معرکہ حق و باطل میں بالآخر اپنے پیغمبر اور ایمان لانے والوں کو ہی کامیاب کرتا ہے اور ان کے دشمن تباہ ہوجاتے ہیں۔ [٢]فرعون کا لقب اور زمانہ :۔ شاہان مصر کا لقب، جیسے قدیم زمانہ میں ترکوں کے بادشاہ خاقان، یمن کے بادشاہ تبع، حبشہ کے بادشاہ نجاشی، روم کے بادشاہ قیصر اور ایران کے بادشاہ کسریٰ کہلاتے تھے ایسے ہی مصر کے بادشاہ فرعون کہلاتے تھے۔ موسیٰ علیہ السلام کو دو فرعونوں یا دو بادشاہوں سے سابقہ پڑا تھا۔ جس فرعون نے آپ کی پرورش کی تھی اس کا نام رعمسیس تھا اور نبوت ملنے کے بعد جس کے ہاں آپ کو بھیجا گیا تھا وہ رعمسیس کا بیٹا منفتاح تھا ۔ ان کا عہد حکومت تقریباً چودہ سو سال قبل مسیح ہے۔ [٣] یعنی قرآن کا یہ قصہ بیان کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو بتلایا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں اور متکبروں کا آخر کیا انجام ہوتا ہے اور اللہ کے فرمانبرداروں کا کیا ؟ لیکن اس قصہ سے نصیحت، ہدایت اور سبق وہی لوگ حاصل کرسکتے ہیں جو ان واقعات کو درست تسلیم کرکے اور ان میں غور و فکر کرکے ایمان لانے والے ہوں اور جو لوگ اسے محض تاریخی داستان یا افسانہ سمجھتے ہوں، انھیں اس سے کیا عبرت حاصل ہوسکتی ہے؟ القصص
4 [٤] یعنی فرعون نے سر اٹھا رکھا تھا۔ اپنے آپ کو بہت بڑی چیز سمجھنے لگا تھا، لوگوں پر ظلم و زیادتی میں حد سے بڑھنے لگا تھا۔ اپنے آپ کو بندگی کے مقام سے اٹھا کر مکمل خود مختاری کے مقام تک لے گیا تھا اور سخت باغیانہ روش اختیار کر رکھی تھی۔ بعد میں فرعون کا لفظ لغوی لحاظ سے متکبر، سرکش اور متمرد کے معنوی میں استعمال ہونے لگا ہے۔ [٥]فرعون کی سیاسی پالیسی ۔۔۔قبطی اورسبطی کون لوگ تھے :۔ اپنی حکومت کو مستحکم کرنے اور مستحکم بنائے رکھنے کے سلسلہ میں اس کی سیاسی پالیسی یہ تھی کہ اس نے اپنی رعایا میں طبقاتی تقسیم پیدا کردی تھی۔ ایک تو اس کی اپنی قوم یا مصر کے قدیم باشندے تھے جنہیں قبطی کہتے ہیں اور یہ معزز طبقہ تھا۔ سرکاری مناصب بھی انھیں ہی مل سکتے تھے اور حکمران قوم ہونے کے ناطے سے ان کے حقوق کی ضرورت سے بھی زیادہ نگہداشت کی جاتی تھی۔ دوسرے بنی اسرائیل تھے۔ جو حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ یعنی تقریباً چار سو سال سے یہاں آکر آباد ہوئے تھے۔ اس وقت وہ حکمران قوم کی حیثیت سے آئے تھے لیکن ایک صدی بعد ہی ان میں جب بےدینی اور اخلاقی انحطاط شروع ہوگیا اور فرقوں میں بٹ گئے۔ تو اللہ نے ان سے حکومت چھین لی اور مصری لوگ پھر سے قابض ہوگئے۔ انہوں نے ان بنی اسرائیل سے انتقاماً اچھوتوں اور شودروں کا سا سلوک روارکھا ہوا تھا۔ معاشرہ میں ان کی کچھ عزت نہ تھی۔ کوئی سرکاری عہدہ انھیں نہیں مل سکتا تھا۔ یہ لوگ عموماً حکمران قوم کے افراد کے غلام، ملازم اور ان کی عورتیں بھی ان کے گھروں کا کام کاج کرتی تھیں۔ اس طرح فرعون نے عملاً ان لوگوں کو اپنا غلام بنا کر رکھا ہوا تھا۔ [٦] سبطیوں کی نسل کشی کےلیے فرعون کا اقدام:۔ مصر کی قومیت پرستی کی تحریک تو مدتوں پہلے شروع ہوچکی تھی اور اسی کے نتیجہ میں بنی اسرائیل (یعنی قبطیوں) سے ایسا ناروا سلوک کیا جاتا تھا۔ تاہم فرعون رعمسیس نے اس کے لئے انتہائی قدم یہ اٹھایا کہ آئندہ سے بنی اسرائیل کے ہاں پیدا ہونے والے لڑکے کو قتل کردیا جائے اور لڑکیوں کو زندہ رہنے دیا جائے۔ لڑکیاں یا عورتیں تو از خود قبطیوں یا آل فرعون کے قبضہ میں آجائیں گی اور اس طرح کچھ مدت بعد بنی اسرائیل کی نسل ہی ختم ہو کر مصریوں میں مدغم ہوجائے گی۔ چنانچہ فرعون کے اس حکم کی تعمیل کے لئے جاسوس قسم کی عورتیں مقرر کی گئی تھیں۔ جو بنی اسرائیل کے ہاں نوازائیدہ بچوں کی رپورٹ حکومت کو پیش کیا کرتی تھیں۔ اور یہ محض احتیاطی تدبیر تھی ورنہ بنی اسرائیل کے لئے آرڈر یہی تھا کہ وہ نوزائیدہ لڑکے کی اطلاع حکومت کو فراہم کریں اور وہ اس بات پر مجبور بھی تھے۔ فرعون کا خواب کہ ایک اسرائیلی اس کی حکومت کاخاتمہ کرے گا:۔ بعض تفاسیر میں منقول ہے کہ فرعون کو ایک پریشان کن خواب آیا تھا جس کی نجومیوں نے اسے تعبیر یہ بتلائی تھی کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہونے والا ہے جس کے ہاتھوں فرعون اور اس کی حکومت تباہ ہوجائے گی اور فرعون نے اسی خطرہ کے سد باب کے لئے بنی اسرائیل کے لڑکوں کے قتل کا حکم دیا تھا۔ اس پہلو سے اگر غور کیا جائے تو فرعون کا یہ اقدام سراسر حماقت اور استبداد تھا۔ کیونکہ اگر نجومیوں کی یہ تعبیر درست تھی تو یہ کام ہو کے رہنا چاہئے تھا اور وہ ہو کے رہا۔ خواب یا اس کی تعبیر میں یہ اشارہ تک نہیں پایا جاتا کہ اگر فرعون اس خطرہ کا کوئی سدباب سوچ لے تو بچ سکے گا۔ اور اگر یہ تعبیر غلط تھی تو پھر ویسے ہی یہ ایک سفاکانہ حرکت تھی۔ بہرحال دونوں صورتوں میں اس کا یہ اقدام ظالمانہ اور وحشیانہ قسم کا تھا۔ اور جہاں اس واقعہ خواب یا اس کی تعبیر کا تعلق ہے، اس کی صحت اور عدم صحت کے متعلق اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اور یہ صورت نہ بھی ہوتی تو قومیت پرستی کی بنیاد پر حالات ایسے پیدا ہوچکے تھ کہ فرعون نے بنی اسرائیل کو مکمل طور پر کچل دینے کے لئے یہی اقدام مناسب سمجھا۔ اور ابن کثیر اس خواب اور اس کی تعبیر کے واقعہ کی صورت حال یہ بتلاتے ہیں کہ بنی اسرائیل آپس میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی ایک پیشین گوئی کا تذکرہ کیا کرتے تھے کہ ایک اسرائیلی نوجوان کے ہاتھوں سلطنت مصر کی تباہی مقدر ہوگی۔ رفتہ رفتہ یہ بات فرعون کے کانوں تک بھی پہنچ گئی۔ اس احمق نے قضا و قدر کی روک تھام کے لئے یہ سفاکانہ اسکیم جاری کی تھی۔ القصص
5 [٧] مظلوم بنی اسرائیل پر اللہ کی نظر کرم:۔ یعنی فرعون تو اس مظلوم گروہ کا کلی طور پر استیصال کرنا چاہتا تھا۔ مگر اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اللہ یہ چاہتا تھا کہ ایسی سفاک اور ظالم قوم کا استیصال ہونا چاہئے۔ اور جن بے چاروں پر یہ ظلم و ستم ڈھائے جارہے ہیں۔ انھیں نہ صرف ان سے نجات دلائی جائے۔ بلکہ انھیں ان ظالموں کی جائیدادوں اور ملک کا وارث بھی بنا دیا جائے۔ دین کی امامت بھی ان کے سپرد کی جائے اور دنیا کی سرداری کا تاج بھی ان کے سر پر رکھ دیا جائے۔ اور اللہ کی سنت جاریہ یہی ہے کہ وہ ظالموں اور متکبروں سے زمین کو خالی کرا کر ان کی جگہ ان مظلوموں کو آباد کرتا ہے۔ جن پر ظلم ڈھائے گئے تھے۔ القصص
6 [٨] فرعون کا وزیر جو اس ظلم و ستم کا شریک اور آلہ کار بنا ہوا تھا۔ اس کی تفصیل اسی سورۃ میں آگے مذکور ہے۔ [٩] یعنی فرعون، ہامان اور ان کے ساتھیوں کی کوشش یہ تھی کہ بنی اسرائیل کو اتنا کمزور بنا دیا جائے کہ وہ آئندہ سر اٹھانے کے قابل نہ رہیں۔ اسی غرض سے ان کی نسل ختم کردینے کی سکیم تیار کی گئی تھی۔ مگر ہم یہ چاہتے تھے کہ جس خطرہ کی روک تھام کے لئے وہ سارے پاپڑ بیل رہے تھے وہی خطرہ ہم ان کی آنکھوں سے انھیں دکھادیں۔ اور وہ اپنے جیتے جی یہ دیکھ لیں کہ اللہ کی تقدیر کبھی ٹل نہیں سکتی، نہ اسے کوئی طاقت روک سکتی یا اس میں تاخیر پیدا کرسکتی ہے۔ القصص
7 [١٠] یہاں لفظ اَوْحَیْنَا استعمال ہوا ہے اور وحی کا لغوی معنی صرف خفی اور تیز اشارہ ہے اور اَوْحٰی کے معنی کسی پوشیدہ اور نامعلوم بات کے متعلق سرعت سے اشارہ کرنا (مفردات، مقاییس اللغۃ) یعنی کسی تشویشناک معاملہ کے حل کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یکدم دل میں کوئی خیال آجانا اور ایسی وحی غیر نبی کی طرف بھی ہوسکتی ہے۔ ایسی ہی وحی امّ موسیٰ کو بھیجی گئی تھی۔ اور ممکن ہے یہ وحی فرشتوں کے خطاب کی صورت میں ہو۔ ایسی وحی بھی غیر نبی کو ہوسکتی ہے۔ جیسے حضرت مریم سے فرشتوں نے خطاب کیا تھا۔ [١١]سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش اور آپ کی والدہ کووحی کےذریعے ہدایات:۔ یہ وحی موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے بعد ہوئی اور یہ وحی چار امور پر مشتمل تھی : (١) جب تک اس بچے کی سراغ رسانی نہیں ہوتی، اسے اپنے پاس ہی رکھو اور اسے دودھ پلاتی رہو۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ ام موسیٰ نے آپ کو تین ماہ تک چھپائے رکھا تھا۔ (٢) جب یہ راز فاش ہونے لگے اور تمہیں یہ خطرہ محسوس ہو کہ اب عمال حکومت اس بچے کو پکڑ کرلے جائیں گے۔ تو اس کو کسی تابوت یا ٹوکرے میں رکھ کر دریا کی موجوں کے سپرد کردینا (٣) اور دریا میں ڈالتے وقت اس بات کا ہرگز اندیشہ نہ کرنا کہ یہ بچہ ضائع ہوجائے گا۔ بلکہ ہم بہت جلد یہ بچہ تیری ہی طرف لوٹا دیں گے۔ تو ہی اسے دودھ پلائے گی اور اس کی پرورش کرے گی۔ یہی وہ بچہ ہے جو بنی اسرائیل میں رسول بننے والا ہے۔ القصص
8 [١٢]سیدنا موسیٰ علیہ السلام فرعون کی بیوی کے پاس :۔ چنانچہ ام موسیٰ نے وحی کے مطابق اس بچہ کو کسی تابوت یا ٹوکرے میں رکھ کر دریائے نیل کی موجوں کے سپرد کردیا۔ یہ تابوت موجوں پر سفر کرتے کرتے جب اس مقام پر پہنچا جہاں فرعون کے محلات تھے تو فرعون کے اہل کاروں نے اسے دیکھ لیا اور اسے پکڑ کر فرعون اور اس کی بیوی کے سامنے پیش کردیا۔ یا ممکن ہے کہ فرعون اور اس کی بیوی سیر و تفریح کی غرض سے محل سے نکل کردیا کے کنارے آئے ہوئے ہوں اور انہوں نے خود یہ تابوت دیکھ کر اسے نکال لانے کا حکم دیا ہو۔ چنانچہ فرعون اور اس کی بیوی اس بچہ کو اپنے ہاں لے آئے۔ جو ان کا دشمن اور ان کی تباہی کا باعث بننے والا تھا۔ [١٣] اس جملہ کے دو مطلب ہوسکتے ہیں : ایک یہ کہ ایک بچہ کے خطرہ کی بنا پر ہزار ہا بچوں کا قتل کردینا ان کی بہت بڑی غلطی اور حماقت تھی۔ اور ان کی یہ حماقت اس لحاظ سے اور بھی زیادہ واضح ہوگئی تھی کہ جس بچہ سے خطرہ کے سد باب کے لئے وہ یہ سفاکی کر رہے تھے وہ تو ان کے پاس پہنچ چکا تھا۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ خطاکار اس لحاظ سے تھے کہ وہ اپنی اس ظالمانہ تدبیر سے اللہ کی تقدیر کو روکنا چاہتے تھے۔ القصص
9 [١٤]اپنی بیوی کی درخواست پر فرعون کاسیدناموسیٰ کو جہنمی بنانااور پرورش کرنا:۔ اب ظاہری قیاس سے تو یہی معلوم ہو رہا تھا کہ یہ بچہ کسی بنی اسرائیل کے فرد کا ہی ہوسکتا ہے جس نے بچہ کے قتل کے خطرہ کی وجہ سے اس کے قتل ہونے سے بہتر یہی سمجھا کہ اسے دریا کے سپرد کردیا جائے۔ اس لحاظ سے فرعون کو یہ بچہ فوراً مار ڈالنا چاہئے تھا۔ مگر بچے کی صورت ایسی پیاری اور پرکشش تھی کہ فرعون کی بیوی آسیہ، جس کے متعلق قرآن نے ایک دوسرے مقام پر تصریح کردی ہے کہ وہ فرعون کے ایسے ظالمانہ کاموں سے سخت بیزار تھی، نے جب یہ بچہ دیکھا تو فوراً اس کا دل محبت سے بھر آیا۔ مفسرین کہتے ہیں کہ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس کے ہاں اولاد نہ تھی۔ چنانچہ وہ فوراً کہنے لگی کہ یہ بچہ تو بہت پیارا ہے کہ جسے دیکھ کر ہی دل خوش ہوجاتا ہے اور ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ لہٰذا ہم خود اس کی تربیت کریں گے۔ اسے قتل کرنا کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ پھر یہ بچہ ہمارے لئے مفید بھی ہوسکتا ہے۔ جب اس کی پرورش کریں گے تو یہ ہمارا ہی بچہ ہے۔ اسے کیا خبر ہوسکتی ہے کہ اس کا بنی اسرائیل کے کسی فرد سے بھی کچھ تعلق ہے۔ اگر ہم اسے اپنا بیٹا بنا لیں گے تو اس کی ساری اہلیتیں بنی اسرائیل کے بجائے ہمارے کام آسکتی ہیں۔ لہٰذا اسے متبنّیٰ بنا لینے میں ہمیں بہت سے فائدے حاصل ہوسکتے ہیں۔ [١٥]تدبیر کندبندہ تقدیرکندخندہ:۔ یعنی ان دونوں کو یہ معلوم نہ تھا کہ جو باتیں وہ کر رہے ہیں وہ خود نہیں کر رہے بلکہ مشیت الٰہی ان کے منہ سے یہ الفاظ نکلوا رہی ہے۔ یا انھیں کیا خبر تھی کہ جس بچہ کو مارنے کی خاطر انہوں نے ہزارہا بچے قتل کردیئے ہیں یا کر رہے ہیں وہ بچہ ان کے اپنے ہاتھ میں جسے یہ اپنا متبنّیٰ بنانے کے مشورے کر رہے ہیں یا یہ کہ جس بچہ پر اس وقت ان کا اتنا دل بھر آیا ہے۔ وہی ان کا دشمن بن جائے گا۔ اور اسی کے ہاتھوں ان کی اور ان کی حکومت کی تباہی واقع ہوگی۔ القصص
10 [١٦]ام موسیٰ کی بےقراری:۔ ام موسیٰ نے وحی کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دریا کی موجوں کے سپرد کر تو دیا مگر بعد میں سخت بے تاب ہوگئیں۔ ماں کی مامتا چین نہ لینے دیتی تھی۔ کئی بار دل میں خیال آیا تو لوگوں سے کہہ دیں کہ میں نے بچہ دریا میں ڈال دیا ہے۔ کوئی مجھ پر مہربانی کرے اور اسے وہاں سے نکال کر مجھے واپس لادے۔ اس صورت میں کئی طرح کے خطرات نظر آرہے تھے۔ پھر وحی میں یہ وعدہ بھی کیا گیا تھا۔ کہ عنقریب وہ بچہ تمہاری طرف لوٹا دیا جائے گا۔ اس خیال سے پھر دل کو کسی قدر قرار آجاتا تھا۔ یہ اللہ ہی کی مہربانی تھی کہ اس نے ام موسیٰ کے دل کو قرار بخش دیا اور یہ راز فاش نہ ہوا۔ جبکہ اسے اب یہ یقین ہوگیا کہ بس چند دن تک میرا بچہ مجھے واپس مل جانے والا ہے۔ اگرچہ اس کی کوئی صورت اس کے ذہن میں نہیں آرہی تھی۔ القصص
11 [١٧]سیدناموسیٰ علیہ السلام کے دوسرے بہن بھائی اور بہن کاحالات کی خبر رکھنا:۔ ام موسیٰ کے تین بچے تھے۔ سب سے بڑی لڑکی تھی۔ اس کے بعد ہارون علیہ السلام پیدا ہوئے پھر ان کے ایک سال بعد موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔ حضرت ہارون کی پیدائش تک بنی اسرائیل کے بچوں کے قتل کا حکم نافذ نہیں ہوا تھا۔ لہٰذا وہ بھی زندہ تھے اور بہن تو ان سے آٹھ دس سال بڑی تھی۔ جب ام ّموسیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دریا برد کرچکی اور دل بے قرار ہونے لگا تو ایک احتیاطی تدبیر اس کے ذہن میں آئی کہ شاید اس تدبیر کا کسی وقت فائدہ پہنچ جائے۔ اس نے موسیٰ علیہ السلام کی بہن سے کہا کہ اس دریا کے کنارے کنارے چلی جاؤ۔ اور بچہ کو دیکھتی رہو کہ کہاں جاتا ہے۔ لیکن یہ احتیاط ملحوظ رکھنا کہ اس طریقہ سے چھپتی چھپاتی جانا کہ کسی کو یہ گمان نہ ہوسکے کہ یہ لڑکی اس ٹوکرے کی نگہداشت کر رہی ہے۔ اور اس کی ٹوہ میں لگی ہوئی ہے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب آل فرعون نے یہ تابوت دریا سے نکالا اور اس سے بچہ برآمد ہوا تو اس واقعہ کی خبر سارے شہر میں آناً فاناً پھیل گئی۔ اس وقت ام موسیٰ نے حضرت موسیٰ کی بہن سے کہا کہ جاؤ اور اس بچہ کا پتہ لگاؤ اور علیحدہ رہ کر دیکھنا کہ کیا ماجرا ہوتا ہے۔ لڑکی ہوشیار تھی وہ اس مقام پر پہنچ گئی جہاں بچہ کے گرد بھیڑ لگی تھی کہ وہاں وہ ایک طرف کھڑے ہو کر اور بے تعلق سی بن کر دور سے دیکھتی رہی اور لوگوں کی باتیں سنتی رہی مگر کسی کو یہ معلوم نہ ہوسکا کہ یہ لڑکی اس بچہ کی بہن ہے۔ القصص
12 [١٨]سیدناموسیٰ علیہ السلام کےلیے اَناکی تلاش:۔ جب فرعون اور اس کی بیوی نے یہ طے کرلیا کہ وہ خود اس بچہ کی پرورش کریں گے۔ تو اس کے لئے دودھ پلانے والی انا کی تلاش ہونے لگی۔ مگر جو بھی انا یا دایہ لائی جاتی۔ حضرت موسیٰ کو اس کا دودھ پینے کی کچھ رغبت نہ ہوتی۔ بہن کی اَناکےلیے نشاندہی :۔ یہ بھی دراصل مشیت الٰہی کا ایک کرشمہ تھا کہ کئی دنوں سے بھوکا بچہ کسی بھی دایہ کا دودھ پینے سے انکار کردیتا تھا۔ فرعون کے گھر والوں کو سخت تشویش لاحق ہوئی کہ اس کی تربیت کا معاملہ ایک بڑا مسئلہ بن گیا تھا۔ وہ لوگ اس تلاش و تجسّس میں تھے کہ موسیٰ کی بہن نے مشورہ کے طور پر ان سے کہا کہ میں تم کو ایک گھرانے کا پتا بتلائے دیتی ہوں۔ مجھے امید ہے کہ وہ اس بچہ کو پال دیں گے۔ شریف گھرانہ ہے۔ غور و فکر سے اس بچے کی تربیت بھی کریں گے۔ چنانچہ لڑکی کے مشورہ کے مطابق ام موسیٰ کو طلب کیا گیا جونہی ام موسیٰ نے بچہ اپنی چھاتی سے لگایا تو بچہ نے دودھ پینا شروع کردیا۔ اس طرح آل فرعون کی ایک بہت بڑی پریشانی دور ہوگئی۔ القصص
13 [١٩] سیدناموسیٰ علیہ السلام کی اپنی ماں کے پاس واپسی:۔ ام موسیٰ کو وہاں محل میں رہ کر بچہ کی پرورش کے لئے کہا گیا تو اس نے یہ عذر پیش کردیا کہ گھر کی دیکھ بھال بھی اس کے ذمہ ہے۔ لہٰذا یہ یہاں رہ کر یہ خدمت سرانجام نہیں دے سکتی۔ البتہ یہ کرسکتی ہوں کہ اس بچے کو اپنے ہمراہ لے جاؤں اور اس کی پرورش کروں۔ چنانچہ آل فرعون نے ام موسیٰ کا یہ عذر قبول کرلیا وہ بچہ کو اپنے گھر لے آئی۔ اس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام صرف آغوش مادری میں ہی نہ پہنچے بلکہ اپنے گھر میں ہی واپس آگئے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ام موسیٰ سے جو وعدہ کیا تھا۔ وہ بھی پورا ہوا اور شاہی خزانہ سے جو ماں کو معاوضہ ملتا رہا وہ اللہ تعالیٰ کا زائد انعام تھا۔ [٢٠]آپ کی ذات پردیندارانہ ماحول کا اثر:۔ یعنی اللہ کے کئے ہوئے وعدے بہرحال پورے ہوکے رہتے ہیں۔ خواہ ان کے امکانات بالکل معدوم نظر آرہے ہوں۔ یا یہ کہ اگر لوگ یہ بات نہیں جانتے کہ ظاہری اسباب کے علاوہ کچھ باطنی اسباب بھی ہوتے ہیں جو مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہوتے ہیں اور اکثر لوگ یہ نہیں جان سکتے کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے کون کون سے راستے اور کون کون سے مراحل طے کرتے ہوئے پورے ہوتے ہیں۔ القصص
14 [٢١]فرعون کے ہاں جدیدعلوم اور اصول جہانبانی کی تعلیم :۔ بچپن میں آپ کو خالص دیندارانہ ماحول میسر آگیا۔ لہٰذا آپ حضرت یعقوب علیہ السلام اور یوسف علیہ السلام کی تعلیم سے واقف ہوگئے۔ آپ کے والدین کا گھرانہ ایک شریف اور دیندار گھرانہ تھا اور بچہ جو عادات و خصائل اس عمر میں سیکھتا ہے وہی تمام زندگی اس میں نمایاں رہتی ہیں۔ اس کے بعد آپ شاہی خاندان کے فرد بنے تو مصر میں متداول جدید علوم سے بہرہ ور ہوئے اور اصول جہاں بانی اور حکمرانی بھی از خود اخذ کرتے رہے کیونکہ آپ میں خداداد ذہانت موجود تھی۔ اس مقام پر صحت اور علم سے مراد نبوت نہیں کیونکہ نبوت تو آپ کو بہت مدت بعد عطا ہوئی تھی۔ القصص
15 [٢٢] اس آیت یہ معلوم ہوتا ہے کہ شاہی محلات شہر یا عام لوگوں کی رہائشی آبادی سے کچھ دور تھے۔ جیسا کہ عام دستور ہے کہ بڑے بڑے لوگ عام آدمیوں میں گھل مل کر رہنا پسند نہیں کرتے بلکہ شہر سے باہر کھلی فضا میں اپنی رہائش گاہیں، بنگلے، کوٹھیاں اور محل بنواتے ہیں۔ [٢٣] یعنی جب لوگ سو رہے تھے اور راستے اور سڑکیں سنسان اور بے آباد معلوم ہوتی تھیں۔ ایسا وقت عموماً علی الصبح ہوا کرتا ہے سورج کے طلوع ہونے سے بہت پہلے یا گرمیوں میں دوپہر کے بعد جب اکثر لوگ آرام کررہے ہوتے ہیں۔ [٢٤] ایک قبطی اور سبطی کی لڑائی اور موسیٰ علیہ السلام کا قبطی کو مکامارنا اور اس کا کام تمام ہونا:۔ موسیٰ علیہ السلام جب ایسے شہر میں داخل ہوئے تو دیکھا دو آدمی آپس میں لڑ رہے ہیں۔ ان میں ایک قبطی ہے یعنی مصر کا قدیمی باشندہ یا حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والا ہے اور دوسرا سبطی یا بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام بچپن ہی میں دیکھ رہے تھے کہ بنی اسرائیل پر حکومت وقت کیا کیا مظالم ڈھا رہی ہے۔ اور انھیں کیسے معاشرہ میں ذلیل و رسوا بنا کر رکھا جارہا ہے۔ ان لڑنے والوں میں سے سبطی نے آپ کو مدد کے لئے پکارا کہ میں اسے قبطی کے ظلم سے چھڑاؤں۔ یہ قبطی شاہی باورچی خانے کا نوکر تھا۔ جو سبطی سے بیگار یہ لینا چاہ رہا تھا کہ ایندھن کا گٹھا بلامعاوضہ باورچی خانہ تک چھوڑ کر آؤ۔ حضرت موسیٰ کے دل میں قبطیوں کے خلاف نفرت تو پہلے سے موجود تھی۔ سبطی کی فریاد پر وہاں پہنچے اور جب انھیں معلوم ہوا کہ زیادتی قبطی ہی کر رہا ہے تو تو رگ حمیت جوش میں آگئی اور اسے ایک گھونسا رسید کیا۔ آپ ماشاء اللہ بڑے طاقتور جوان تھے۔ گھونسے کا لگنا تھا کہ قبطی کا کام تمام ہوگیا۔ [٢٥] حضرت موسیٰ سے اس طرح ایک قبطی کا قتل ہوجانا دراصل ایک بڑے فتنہ کا سبب بن سکتا تھا۔ اب یہ اتفاق کی بات ہے کہ آس پاس کوئی گواہ موجود نہ تھا۔ اور یہ بات صیغہ راز میں ہی رہ گئی کہ اس قبطی کا قاتل کون ہے اور اگر پتا چل بھی جاتا تو بنی اسرائیل پر ان کی زندگی اور بھی اجیرن بنا دی جاتی۔ موسیٰ علیہ السلام کو جب قتل کے اس انجام کا خیال آیا تو فوراً پکار اٹھے کہ یہ کام مجھ سے شیطان نے کروایا ہے۔ وہ تو چاہتا ہی یہ ہے کہ ایسے فتنے کھڑے ہوتے رہیں۔ القصص
16 [٢٦]قتل خطاپرسیدنا موسیٰ علیہ السلام کی دعائے مغفرت:۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ مقتول کوئی بڈھا اور کمزور سا انسان ہوگا اور پہلے ہی مرنے کے قریب ہوگا۔ اوپر سے موسیٰ جیسے طاقتور انسان کے ایک ہی مکا سے اس کی موت واقع ہوگئی۔ ورنہ عام حالات میں کسی طاقتور کے مکے سے بھی کم از کم موت واقع نہیں ہوتی۔ اور سبطی سے تو وہ اس شہ پر لڑ رہا تھا کہ وہ حکمران قوم کا فرد تھا۔ اب موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں جو اس کی موت واقع ہوگئی تو یہ بہرحال قتل کا جرم تو تھا مگرنادانستہ طور پر ایسا ہوا تھا اس قتل خطا کے جرم کی موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ جرم معاف فرما دیا۔ اس آیت میں غَفَرَ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اور غَفَرَ کا معنی معاف کرنا بھی ہے اور ڈھانپنا، چھپانا اور پردہ پوشی کرنا بھی اور مَغْفَرٌ اس خول کو کہتے ہیں جو سپاہی دوران جنگ سر پر رکھ لیتے ہیں۔ اور ان معنوں میں بھی اس لفظ کا استعمال عام ہے۔ اس لحاظ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کا مطلب یہ ہوگا کہ یاللہ! میرے اس جرم یا میری خطا پر پردہ ڈال دے تاکہ کسی کو اس کی خبر نہ ہو۔ ایسا نہ ہو کہ یہ یہی بات فرقہ وارانہ اشتعال کا باعث بن کر بنی اسرائیل پر کسی عظیم فتنہ کا پیش خیمہ بن جائے۔ اور بہتر یہی ہے کہ موسیٰ کی اس دعا کو دونوں معنوں پر محمول کیا جائے۔ چنانچہ واقعتاً اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی اس خطا پر پردہ ڈال دیا اور سوائے اس اسرائیلی کے جس کی آپ نے مدد کی تھی کسی کو بھی اس واقعہ کی خبر نہ ہوسکی۔ القصص
17 [٢٧] موسیٰ علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کا انعام یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی خطا پر پردہ ڈال دیا۔ کہ حکومتی اہلکاروں میں سے کسی کو بھی یہ پتا نہ چل سکا۔ کہ اس مقتول قبطی کا قاتل کون ہے؟ اللہ تعالیٰ کے اس انعام کے شکریہ کے طور پر موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا کہ آئندہ وہ کسی مجرم کی حمایت یا مدد نہیں کریں گے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے پہلے کون سے مجرم کی حمایت کی تھی جو اب اللہ سے ایسا عہد کررہے ہیں۔ اس کا جواب بعض لوگوں نے یہ دیا ہے کہ موسیٰ کی اس سے مراد وہ سبطی تھا جو آپ سے یہ جرم کروانے کا باعث بنا تھا۔ ممکن ہے اس کا بھی کچھ قصور ہو۔ لیکن آپ نے بلاتحقیق اس سبطی کی حمایت میں قبطی کو گھونسا رسید کرکے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ لیکن ہمارے خیال میں اس کی وہی توجیہ درست ہے جسے اکثر مفسرین نے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے یہ عہد کیا تھا کہ آئندہ وہ اس مجرم اور کافرانہ حکومت کی امداد و اعانت سے مکمل طور پر دستبردار ہوجائیں گے۔ اور یہی وہ عہد تھا جسے انہوں نے بعد میں ساری عمر نباہا تھا۔ یعنی اس واقعہ کے بعد انہوں نے شاہی خاندان کا فرد رہنے سے بیزاری کا اعلان کردیا تھا۔ القصص
18 [٢٨] موسیٰ علیہ السلام دوسرے دن ڈرتے ڈرتے پھر شہر میں داخل ہوئے۔ آپ دراصل اس ٹوہ میں تھے کہ کسی کو کل کے واقعہ کی خبر تو نہیں ہوگئی۔ اسی خطرہ کے تحت آپ پوری طرح چوکنے ہو کر شہر کی طرف آئے تھے کہ اگر کسی کو خبر ہوگئی تو میں گرفتار ہی نہ کرلیا جاؤں۔ شہر میں داخل ہو کر آپ نے یہ منظر دیکھا کہ جس سبطی کی حمایت میں آپ نے پہلے دن ایک قبطی کا خون کر ڈالا تھا۔ وہی سبطی آج پھر ایک قبطی سے الجھ رہا ہے۔ اس نے آج پھر موسیٰ کو اپنی مدد کے لئے پکارا۔ موسیٰ کو کل کے واقعہ پر بہت رنج تھا۔ فوراً سبطی سے مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ تم تو کوئی بدمعاش آدمی معلوم ہوتے ہو۔ جو ہر روز کسی نہ کسی سے الجھتے رہتے ہو۔ القصص
19 [٢٩] قبطی کے قاتل کا راز فاش ہونا:۔ سبطی کو اس طرح ملامت کرنے کے بعد موسیٰ علیہ السلام نے ارادہ کیا کہ قبطی کو پکڑ کر اس سبطی کو اس سے نجات دلائیں۔ مگر سبطی یہ سمجھا کہ موسیٰ علیہ السلام نے چونکہ آج مجھے ہی ملامت کی ہے۔ لہٰذا مجھی پر ہاتھ ڈالنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا وہ فوراً بک اٹھا اور کہنے لگا کہ موسیٰ کیا تم مجھے اسی طرح موت کے گھاٹ اتارنا چاہتے ہو جس طرح کل تم نے ایک آدمی کو مار ڈالا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان جھگڑے کی صورت میں کسی نہ کسی کو مار ڈالنا ہی جانتے ہو۔ ان کا مقدمہ سن کر ان میں صلح یا سمجھوتہ کرانا نہیں جانتے۔ قبطی نے جب سبطی کے منہ سے یہ بات سنی تو اس نے لڑائی جھگڑا تو وہیں چھوڑا اور ایک دم بھاگ کر فرعون اور اس کے اہلکاروں کو یہ اطلاع دے دی کہ کل جو قبطی قتل ہوا ہے اس کا قاتل موسیٰ ہے۔ گویا جس راز پر اللہ نے پردہ ڈال رکھا ہے۔ اسے اسی احمق سبطی نے فاش کر ڈالا جس کی حمایت میں آپ نے قبطی کو مارا تھا۔ جب فرعون کے اہلکاروں کو قتل کے مجرم کا پتا چل گیا تو موسیٰ علیہ السلام کی گرفتار کا حکم صادر ہوگیا۔ القصص
20 [٣٠]سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو قتل کےمشورہ کی اطلاع ملنااور مدین کی طرف روانگی :۔ فرعون کے درباریوں کو اب اس امر میں کچھ شبہ نہ رہا تھا کہ موسیٰ شاہی خاندان کا فرد ہونے کے باوجود بنی اسرائیل کا ساتھ دیتے ہیں۔ لہٰذا انہوں نے باہمی مشورے کے بعد یہی طے کیا کہ موسیٰ کو قتل کردیا جائے۔ درباریوں میں سے ہی ایک آدمی حضرت موسیٰ کا دل سے خیر خواہ تھا۔ وہ فوراً وہاں سے اٹھا اور دوڑتا ہوا موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچا اور کہا : جتنی جلدی ہو سکے اس شہر سے نکل جاؤ کیونکہ تمہارے قتل کے مشورے ہو رہے ہیں اور میں صرف اس خیال سے بھاگ کر یہاں پہنچا ہوں کہ تمہیں بروقت صحیح صورت حال سے مطلع کردوں۔ لہٰذا دیر نہ کرو اور فوراً یہاں سے کہیں دور چلے جاؤ۔ القصص
21 القصص
22 [٣١] مدین یہاں سے آٹھ دن کی مسافت پر تھا اور فرعون کی حدود سلطنت سے باہر تھا۔ آپ نے اس مخلص ساتھی سے یہ اطلاع پاتے ہی مدین کا رخ کیا اور بچتے بچاتے خوب چوکنے ہو کر وہاں سے نکل کھڑے ہوئے اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا اللہ! مجھے ان ظالموں کی دستبردار سے بچا لے اور ایسی راہ پر ڈال دے جو سیدھا مدین کو جاتا ہو اور میں ان ظالموں سے بچ کر وہاں پہنچ سکوں۔ القصص
23 [٣٢] مدین کے کنوئیں پر لوگوں کا ہجوم :۔آٹھ دن کی مسافت طے کرنے کے بعد آپ علیہ السلام مدین کے کنوئیں پر پہنچ گئے۔ وہاں دیکھا کہ جانوروں کو پانی پلانے کے لئے کافی لوگ وہاں جمع ہیں۔ ایک بھاری سے ڈول سے دو مضبوط طاقتور آدمی بمشکل پانی نکالتے ہیں اور اپنے جانوروں کو پانی پلانے کے بعد وہ چلے جاتے ہیں تو دوسرے آدمی آکر کنوئیں سے پانی نکالنے لگتے ہیں اور ایک بھیڑ سی لگی ہوئی ہے اور ایک دو لڑکیاں کھڑی ہیں جو اپنی بکریوں کو روک رہی ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کے پاس گئے اور پوچھا تم اس حال میں کیوں کھڑی ہو؟ انہوں نے کہا : ہم اس انتظار میں ہیں کہ یہ چرواہے اپنے جانوروں کو پانی پلا کر چلے جائیں تو بعد میں ہم پلا لیں گے۔ ہم ہی ان بکریوں کو چرانے کے لئے لے جاتی ہیں۔ کیونکہ ہمارا باپ بہت بوڑھا اور کمزور ہے۔ وہاں آنے کے قابل نہیں۔ نہ وہ پانی نکال سکتا ہے نہ ہم اتنا بھاری ڈول نکال سکتی ہیں۔ چرواہے چلے جائیں تو ان کا بچا کھچا پانی ہم پلا لیں گی۔ یا بعد میں ڈول میں تھوڑا تھوڑا پانی نکال کر انھیں پلا لیں گی۔ القصص
24 [٣٣]سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا شعیب علیہ السلام کی بکریوں کو پانی پلانا:۔ موسیٰ علیہ السلام ان لڑکیوں کی بات سن کر آگے بڑھے۔ طاقتور نوجوان تھے۔ اکیلے ہی پانی کا بھاری بھر کم ڈول نکالا اور ان کی بکریوں کو پانی پلا دیا۔ لڑکیاں اپنے جانور لے کر چلی گئیں تو آپ ایک درخت کے سایہ تلے جاکر بیٹھ گئے۔ آٹھ دن کے تھکے ماندے اور بھوک سے بے تاب ہو رہے تھے۔ اللہ سے کھانا مانگا تو ایسا ادب و احترام کا انداز اختیار کیا۔ جس سے پیغمبرانہ شان خوب نمایاں ہوجاتی ہے۔ فرمایا اس وقت تیری طرف سے جو بھی مجھے بھلائی پہنچے میں اس کا محتاج ہوں۔ القصص
25 [٣٤]سیدنا شعیب علیہ السلام کا موسیٰ کو اپنے پاس بلانا:۔ یہ عورتیں دل ہی دل میں ان کی احسان مند تھیں کہ ایک اجنبی شخص نے ان سے کیسی بھلائی کی ہے۔ واپس جاتے ہوئے مڑ کر جو دیکھا تو موسیٰ علیہ السلام ایک درخت کے سایہ میں آبیٹھے تھے۔ اس سے انہوں نے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ کوئی مسافر ہے۔ جس کے رہنے کے لئے یہاں کوئی ٹھکانا نہیں ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کو ابھی سایہ میں بیٹھے اور اللہ سے دعا کئے تھوڑی ہی دیر گزری تھی، کہ ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک لڑکی لجائی شرمائی منہ چھپائے اور گھونگٹ لٹکائے آپ کے پاس آکر کہنے لگی کہ میرا والد آپ کو بلا رہا ہے۔ آپ نے ہماری بکریوں کو پانی پلا کر ہم پر جو احسان فرمایا ہے وہ آپ کو اس کا کچھ بدلہ دینا چاہتا ہے۔ گویا اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کو بہت بلند شرف قبولیت بخشا اور جس خیر کو طلب کر رہے تھے اللہ نے غیر متوقع طور پر اس خبر کا فوراً سامان کردیا۔ موسیٰ علیہ السلام فوراً اس لڑکی کے ساتھ ہو لئے۔ اسی بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ بھوک سے کس قدر بے تاب تھے۔ پھر وہ اس جگہ ٹھکانا بھی چاہتے تھے اور اپنا کوئی مونس غم خوار بھی انھیں درکار تھا۔ ورنہ ایک شریف آدمی نے اگر عورت ذات کو پریشانی میں مبتلا دیکھ کر اس کی کوئی مدد کردی ہو تو حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے عالی ظرف انسان کے لئے یہ کیسے ممکن تھا کہ اس کام کا بدلہ دینے کے لئے کہا جائے تو وہ فوراً اٹھ کھڑے ہوں۔ آپ نے بھی اس لڑکی سے کہا کہ میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں مگر میں آگے آگے چلوں گا تم میرے پیچھے پیچھے آؤ۔ البتہ مجھے راستہ کی رہنمائی کرتے جانا اور یہ آپ نے اس لئے کہا کہ اجنبی عورت پر عمداً نظر پڑنے کی نوبت نہ آئے۔ چنانچہ وہ پیچھے پیچھے راستہ بتلاتی انھیں لے کر اپنے گھر پہنچ گئی۔ [٣٥]مدین میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کےقیام کا بندوبست:۔ گھر پہنچ کر موسیٰ علیہ السلام نے لڑکیوں کے باپ کو اپنی زندگی کے مختصراً اور واقعہ قتل اور وہاں سے فرار ہونے کا واقعہ پوری تفصیل کے ساتھ سنا دیا۔ اگرچہ لڑکیوں کے باپ کے متعلق یہ اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا وہ شعیب علیہ السلام تھے یا کوئی اور بزرگ تھے۔ لیکن اکثر مفسرین نے اسی قول کو ترجیح دی ہے کہ وہ شعیب علیہ السلام تھے۔ بہرحال جو بزرگ بھی وہ تھے، نیک اور دیندار تھے وہ دین ابراہیمی کے پیرو تھے۔ ان میں اور موسیٰ علیہ السلام کے عقائد و خیالات اور کردار میں پوری ہم آہنگی پائی جاتی تھی۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام کے حالات سن کر انہوں نے تسلی دی کہ اب گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ آپ اس ظالم قوم کی حکومت کی حدود سے باہر آچکے ہیں اور اب آپ میرے ہاں قیام فرمائیے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے وقتی طور پر موسیٰ کے قیام و طعام کا مسئلہ حل فرما دیا۔ القصص
26 [٣٦]سیدناموسیٰ علیہ السلام کو ملازم رکھنے کی سفارش:۔ حضرت شعیب علیہ السلام کا کوئی لڑکا نہ تھا۔ بس دو لڑکیاں ہی لڑکیاں تھیں جنہیں اندر اور باہر دونوں طرف کے کام کرنا پڑتے تھے۔ لہٰذا شعیب علیہ السلام پہلے اس جستجو میں تھے کہ کوئی شریف آدمی مل جائے تو اسے ملازم رکھ لیا جائے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے چند روزہ قیام میں ہی گھر کے سب افراد نے حضرت موسیٰ کے متعلق یہ رائے قائم کرکے اس پر اتفاق کرلیا کہ اگر یہی پردیسی نوجوان ہمارے ہاں رہنا قبول کرلیں تو یہ بہت مناسب رہے گا۔ چنانچہ ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک لڑکی نے اپنے باپ سے کہا کہ اگر آپ کوئی آدمی ملازم رکھنا ہی چاہتے ہیں تو شاید اس سے بہتر آپ کو کوئی آدمی نہ مل سکے۔ کیونکہ یہ شخص نوجوان ہے اور طاقتور ہے۔ ہلکے اور بھاری سب کام کرسکتا ہے۔ دوسرے یہ امین بھی ہے۔ اور یہ باتیں اس لڑکی نے اپنے مشاہدہ کی بنا پر کہی تھیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اکیلے وہ ڈول کنوئیں سے کھینچ لیا تھا۔ جسے دو آدمی بمشکل کھینچتے تھے۔ پھر وہ لڑکی جب انھیں گھر لانے کے لئے گئی تھی۔ تو اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ کس قدر باحیا، دیانت دار، خدا ترس اور امین آدمی ہے۔ ملازمت کی ضروری شرائط:۔ ضمناً اس آیت یہ بھی معلوم ہوا کہ ملازمت کے لئے دو باتوں کو دیکھنا ضروری ہے ایک یہ کہ جس کام کے لئے کوئی شخص ملازم رکھا جارہا ہے۔ وہ اس کی اہلیت بھی رکھتا ہے یا نہیں۔ بالفاظ دیگر اس کام کا اسے پہلے سے کچھ علم اور تجربہ ہے؟ اور اگر کوئی محنت والا کام ہے تو کیا اس کی جسمانی حالت اور قوت اتنی ہے کہ وہ اس کام کو بجا لاسکے۔ اور دوسرے یہ کہ وہ دیانتدار اور امین ہو۔ اور یہ دیانت و امانت دین سے بیزار اور خدا فراموش آدمیوں میں کبھی پیدا نہیں ہوسکتی۔ ان شرائط کو نظر انداز کرنےکےمفاسد:۔ اب تعجب کی بات یہ ہے کہ جب کسی شخص نے کوئی نجی یا گھریلو ملازم رکھنا ہو تو وہ ان دونوں باتوں کو ملحوظ رکھتا ہے تو سرکاری ملازمتوں کے وقت صرف شرط اول یعنی اہلیت کو تو ملحوظ رکھا جاتا ہے لیکن دوسری شرط کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ اور غالباً اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ملازم رکھنے والے افسروں میں بھی یہ دوسری شرط مفقود ہوتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ رشوت عام ہوجاتی ہے۔ جس کا تعلق ملازمین سے ہی ہوتا ہے۔ لوگوں کے حقوق غصب اور تلف ہوتے ہیں۔ ظالمانہ قسم کی حکومت قائم ہوجاتی ہے اور عوام کے لئے اتنی شکایات اور مسائل اٹھ کھڑے ہوتے ہیں جن کا حل ناممکن ہوجاتا ہے۔ اور اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہوتی ہے کہ شرائط ملازمت میں سے دوری شرط دیانت و امانت کو درخور اعتناء سمجھا ہی نہیں جاتا۔ القصص
27 [٣٧]لڑکی سے نکاح کی شرط: باپ نے بھی لڑکیوں کی اس رائے سے اتفاق کرلیا۔ مگر اب مشکل یہ تھی کہ گھر میں اتنی آسودگی تو تھی نہیں کہ موسیٰ علیہ السلام کو کچھ ماہوار تنخواہ پر ملازم رکھا جاسکتا۔ اور اس سے بھی بڑی مشکل یہ تھی کہ گھر میں ایک نوجوان کو کیسے ملازم رکھا جاسکتا ہے جبکہ گھر میں دو نوجوان لڑکیاں بھی موجود ہوں۔ لڑکیوں سے باہمی مشورہ کے بعد ایک دن موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ میں ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک کا نکاح آپ سے کردوں اور آپ نکاح کے بعد میرے ہی پاس رہ کر گھر کا سارا کام کاج سنبھال لیں۔ اور نکاح کے بعد کم از کم آٹھ سال تو ضرور میرے پاس رہیں۔ اور اگر یہ مدت آٹھ سال سے بڑھا کر دس سال کردیں تو آپ کی مہربانی ہوگی۔ میری طرف سے اس زائد مدت کے لئے پابندی نہ ہوگی۔ اور میں ان شاء اللہ اس معاملہ کو نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام دینے کی کوشش کروں گا اور کوئی سخت خدمت تم سے نہ لوں گا۔ اور نہ کسی طرح کی سختی تم مجھ میں دیکھو گے۔ آیاآٹھ سال کی خدمت بطور حق مہرتھی ؟ اس مقام پر بعض لوگوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ آیا ایک باپ اپنی لڑکی کے حق مہر کے عوض خود معاوضہ لے سکتا ہے یا نہیں؟ ہمارے خیال میں یہ سوال خلط مبحث ہے۔ یہاں معاملہ ایک نہیں بلکہ دو ہیں۔ ایک نکاح کا معاملہ۔ دوسرے نکاح کے بعد گھر کا کام سنبھالنے کا معاملہ۔ یعنی شعیب علیہ السلام نے شرط صرف یہ لگائی تھی کہ نکاح کے بعد تم اپنی بیوی کو لے کر چلے نہیں بنو گے۔ بلکہ تم کم از کم آٹھ سال میرے ہاں ہی قیام پذیر رہو گے۔ اس وقت یہ گھر جیسے میرا ہے ویسے ہی تمہارا بھی ہوگا۔ یہ سوال صرف اس صورت میں اٹھایا جاسکتا تھا جب آٹھ یا دس سال کی مدت گزرنے کے بعد شعیب علیہ السلام اپنی لڑکی کا نکاح موسیٰ علیہ السلام سے کرتے۔ آپ کی مجبوری ہی یہ تھی کہ لڑکیوں والے گھر میں ایک اجنبی آدمی کیسے رہ سکتا ہے۔ لہٰذا جلد از جلد اس کا نکاح کرکے اسے گھر میں رکھا جاسکے۔ رہا نکاح کے مہر کا مسئلہ تو وہ تھوڑے سے تھوڑا بھی ہوسکتا ہے۔ حتیٰ کہ لوہے کی ایک انگوٹھی بھی اور اتنا حق مہر ایک پردیسی بھی ادا کرسکتا ہے۔ القصص
28 [٣٨] موسیٰ کی دعا کی قبولیت اور جملہ مسائل:۔ یہ تھی وہ بھلائی جو موسیٰ علیہ السلام کی دعا پر اللہ تعالیٰ نے فوراً انھیں مہیا فرما دی۔ آپ مفرور مجرم کی حیثیت سے آئے تھے اور ایک طویل عرصہ کے لئے کسی جگہ قیام چاہتے تھے۔ وہ اللہ نے مہیا فرما دیا۔ آپ جوان تھے آپ کو نکاح کی ضرورت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے وہ مسئلہ بھی حل فرما دیا۔ پھر آپ کو ذریعہ معاش کی بھی ضرورت تھی۔ یہ مسئلہ بھی از خود حل ہوگیا۔ گویا چند ہی دن میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے جملہ مسائل اس طرح حل فرما دیئے جس کا آپ کو وہم و گمان بھی نہ ہوسکتا تھا۔ چنانچہ جب شعیب علیہ السلام نے آپ کے سامنے یہ مسئلہ پیش کیا تو بمصداق ’’اندھے کو کیا چاہئے دو آنکھیں‘‘ موسیٰ علیہ السلام نے شعیب علیہ السلام کی اس پیش کش کو فوراً قبول کرلیا۔ اور ساتھ ہی یہ وضاحت بھی فرما دی کہ میں یہاں آپ کے پاس آٹھ سال رہوں یا دس سال یہ بات میری مرضی پر ہوگی۔ آپ مجھے اس زائد مدت کے لئے مجبور نہیں کریں گے۔ اور ہمارے اس زبانی قول و قرار پر اللہ کی گواہی ہی کافی ہے۔ القصص
29 [٣٩]دس سال بعد اپنے وطن کوروانگی:۔ اس معاہدہ کے بعد حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی بیٹی کا حضرت موسیٰ علیہ السلام سے نکاح کردیا۔ اور آپ وہاں متاہل زندگی گزارنے لگے۔ کہتے ہیں کہ جس لڑکی سے آپ کا نکاح ہوا اس کا نام صفورہ تھا۔ آپ نکاح کے بعد یہاں آٹھ کے بجائے دس سال ہی قیام پذیر رہے۔ پھر اپنے آبائی وطن مصر کی طرف جانے کے ارادہ سے اپنے اہل و عیال سمیت مدین سے نکل کھڑے ہوئے۔ ایک تو آپ کو اپنے والدین اور بہن بھائی سے ملنے کا اشتیاق تھا۔ دوسرے آپ یہ بھی سوچ رہے تھے کہ ممکن ہے لوگ اب تک واقعہ قتل کو بھول چکے ہوں، اس لئے اپنے ہی وطن جانا مناسب سمجھا۔ سیدنا موسیٰ کا راہ بھولنا:۔ راستہ میں جب آپ طور سینا کے دامن میں پہنچے تو اندھیری رات کی وجہ سے راستہ بھول گئے۔ سردی کا موسم اور شدید ٹھنڈی رات اور بال بچے ساتھ تھے۔ سخت پریشان ہوگئے۔ ایسے حال میں کوئی راہ بتلانے والا بھی نہیں مل رہا تھا۔ آخر دور سے انھیں ایک آگ نظر آئی جسے آپ نے غنیمت سمجھا اور خیال کیا کہ وہاں کوئی آگ جلانے والا تو ضرور ہوگا۔ لہٰذا اپنے اہل و عیال سے کہا تم یہیں ٹھہرو۔ میں اس آگ کے قریب جاتا ہوں۔ اگر کسی نے راستہ بتلا دیا تو فبھا ورنہ کچھ آگ کے انگارے ہی لے آؤں گا۔ تاکہ آپ لوگ اسے سینک سکیں۔ (یہ پورا واقعہ تفصیل کے ساتھ سورۃ طٰہ میں گزر چکا ہے) القصص
30 [٤٠] طوی ٰ میں پہنچنا اور اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہونا اورنبوت ملنا:۔ یہ آگ نہیں تھی، نہ اس میں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ بلکہ یہ اللہ کا نور تھا۔ جس نے ایک درخت کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا اور اس آگ یا نور کے درمیان یہ سرسبز درخت لہلہا رہا تھا۔ اس درخت میں سے آواز آنے لگی کہ موسیٰ ! تم یہاں اتفاقاً نہیں پہنچ گئے بلکہ ٹھیک میرے اندازہ کے مطابق اس مبارک وادی میں پہنچے ہو اور میں اللہ تم سے ہمکلام ہو رہا ہوں۔ جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے (اس مقام پر اللہ تعالیٰ اور حضرت موسیٰ کی گفتگو کی تفصیل چھوڑ دی گئی ہے جو سورۃ طٰہ اور دوسرے مقامات پر مذکور ہے) القصص
31 القصص
32 [٤١] دومعجزات عطا ہونااورفرعون کے ہاں جانے کا حکم :۔ اسی مقام پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دو معجزے عطا کئے گئے۔ ان معجزات کی تفصیل بھی پہلے متعدد مقامات پر گزر چکی ہے۔ یہ دونوں معجزات آپ کی نبوت کی سند کے طور پر تھے اور ان سے مقصود یہ تھا کہ سب سے پہلے تو خود موسیٰ علیہ السلام کو یہ یقین کامل ہوجائے کہ جو ذات اس وقت ان سے ہمکلام ہو رہی ہے وہ فی الواقع اللہ ہی ہے جو ساری کائنات کا پروردگار اور مالک ہے۔ بالفاظ دیگر ایسے نمایاں معجزات اللہ رب العالمین کے علاوہ نہ کوئی عطا کرسکتا ہے اور نہ دکھلا سکتا ہے۔ اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کو تن تنہا ایک ظالم اور جابر حکمران کے دربار میں تبلیغ رسالت اور دعوت توحید کے لئے بھیجا جارہا تھا۔ ان کے ساتھ کوئی لاؤ لشکر تو تھا نہیں۔ لہٰذا ایسی نشانیاں تو موجود ہونا چاہئیں جن سے کم از کم یہ معلوم ہوجائے کہ موسیٰ اکیلے نہیں ہیں بلکہ ان کی پشت پر کوئی مقتدر ہستی موجود ہے۔ تو یا یہ چیز حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے تو باعث تسکین و اطمینان تھی۔ جبکہ یہی چیز دعوت سے انکار کرنے والوں کے لئے ایک ڈراوا اور دھمکی بھی تھی۔ [٤٢] جس مشن پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھیجا جارہا تھا اس میں کئی مقام ایسے آسکتے تھے جبکہ آپ خود اپنی جان تک کا خطرہ محسوس کرنے لگیں تو ایسے خطرہ کے اوقات کے لئے آپ کو تدبیر یہ بتلائی گئی کہ اپنا بازو اپنے پہلو سے لگالو۔ اور صرف بازو کا لفظ بولا جائے تو اس سے عموماً دایاں بازو ہی مراد لیا جاتا ہے۔ یعنی اپنا دایاں بازو اپنی دائیں ران اور گھٹنے کے ساتھ چمٹالو۔ ایسا کرنے سے اس خطرہ کا خیال دل سے جاتا رہے گا اور تمہارے دل کو قرار آجائے گا۔ [٤٣] نبوت اور اس کے ساتھ دو معجزات تھے جو آپ کو اس مقام پر عطا ہوئے۔ اور ساتھ ہی یہ حکم ہوا کہ اب تمہیں فرعون اور اس کے درباریوں کے پاس جانا ہے۔ یعنی ان لوگوں کے پاس جن سے بچتے بچاتے آپ اس ملک سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔ آپ جارہے تھے تو اس خیال سے کہ اب تک لوگ وہ واقعہ قتل بھول بھلا چکے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے براہ راست ان لوگوں کے ہاں جانے کا حکم دیا کہ دوسروں کو خواہ وہ واقعہ بھول چکا ہو مگر یہ تو خصوصاً وہ لوگ تھے کہ موسیٰ علیہ السلام کو دیکھتے ہی ہی انھیں سب کچھ یاد آجائے۔ بہت بڑی ابتلا تھی یہ مہم جس کا آپ کو حکم دیا جارہا تھا اور جس طرح کے وہ لوگ نافرمان تھے یا بدکردار تھے۔ وہ موسیٰ علیہ السلام پہلے ہی خوب جانتے تھے۔ القصص
33 القصص
34 [٤٤] سیدناموسیٰ علیہ السلام کےخدشات اور التجا، اللہ کی طرف سے امن کی یقین دہانی اور ہارون کونبوت ملنا:۔ موسیٰ علیہ السلام اس زبردست آزمائش سے انکار نہ کرسکے البتہ جو خطرات اس مہم میں انھیں نظر آرہے تھے وہ ضرور عرض کردیئے ایک یہ کہ کہیں وہ سابقہ جرم میں دھر کر قتل ہی نہ کر ڈالیں اور دوسرا یہ کہ جو لوگ خود خدا بنے بیٹھے ہیں وہ میری یہ دعوت کیسے قبول کریں گے؟ لہٰذا مجھے کم از کم ایک ساتھی ضرور درکار ہے۔ اگر میرے بھائی ہارون کو بھی نبوت عطا کردیں تو ایک تو اس کی زبان فصیح ہے۔ جو بات میں پیش کروں اسے وضاحت سے پیش کر دے گا۔ دوسرے وہ ایک آدمی تو میرا مددگار ہو۔ جب سب لوگ مجھے جھٹلا دیں تو ایک تو میری تصدیق کرنے والا ہو۔ جس سے مجھے کچھ سہارا مل جائے اور وہ بھی حوصلہ افزائی کا باعث بن سکے۔ القصص
35 [٤٥] اس مطالبہ کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے تین امور بیان فرمائے۔ سب سے پہلے یہ کہ وہ لوگ تم پر ہرگز درست درازی نہ کرسکیں گے۔ اور تمہارا بال بھی بیکا نہیں ہوگا۔ تمہیں قتل کرنے کی بجائے انھیں اپنے معاملات حکومت کی فکر پڑجائے گی۔ دوسرے تمہارے بھائی ہارون کو نبی بناکر تمہارے ہمراہ بھیجنے کا مطالبہ منظور کیا جاتا ہے۔ وہ تمہارے ہمراہ فرعون کے دربار میں جائے گا اور تیسرے یہ کہ تم اس بات کا یقین رکھو کہ بالآخر فتح تمہاری ہی ہوگی۔ القصص
36 [٤٦] سیدنا موسیٰ علیہ السلام کافرعون کو اللہ کا پیغام پہنچانا:۔ موسیٰ علیہ السلام یہ عظیم ذمہ اٹھائے طویٰ کے میدان سے واپس لوٹے۔ درمیان میں ایک خلا ہے جس کو قرآن نے غیر اہم سمجھ کر بتلانا چھوڑ دیا ہے۔ جو یہ کہ وہاں سے موسیٰ علیہ السلام اپنے بال بچوں کو لے کر سیدھے اپنے گھر ہی پہنچے ہوں گے۔ وہاں والدین اور بہن بھائی سے ملاقات۔ اپنے بھائی ہارون علیہ السلام سے تمام حالات کا تفصیلی تذکرہ وغیرہ چھوڑ دیئے گئے ہیں۔ انہی ایام میں ہارون علیہ السلام کو نبوت عطا ہوئی ہو گی۔ قرآن آگے یہاں سے ان کا قصہ ذکر کرتا ہے کہ وہ دونوں بھائی فرعون کے دربار میں پہنچ گئے۔ ان کی رسائی دربار میں کس انداز سے ہوئی؟ یہ بات معلوم نہیں۔ بہرحال دربار میں پہنچ کر موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا پیغام تفصیل سے فرعون اور اس کے درباریوں تک پہنچ دیا۔ اور اس کی تفصیل دوسرے مقامات پر مذکور ہے۔ یہاں صرف اسی قدر ذکر کیا گیا ہے کہ جب فرعون اور اس کے درباریوں کے مطالبہ پر موسیٰ علیہ السلام نے اپنی نبوت کی صداقت کے طور پر یہ دونوں معجزات دکھلائے تو اگرچہ فرعون کو آپ کی نبوت کا دل میں یقین ہوچکا تھا اور اسی وجہ سے اسے قتل کے جرم میں آپ کو قتل کردینے کی کسی وقت بھی ہمت نہ پڑی۔ تاہم عام لوگوں پر نبوت کے اثر کو دور رکھنے کے لئے انہوں نے فوراً یہ کہہ دیا کہ یہ بھلا کون سی نبوت کی علامت ہے۔ ایسی شعبدہ بازیاں تو دوسرے جادوگر بھی دکھلا سکتے ہیں۔ ان کو بھلا کبھی کسی نے نبی تسلیم کیا ہے؟ [٤٧]فرعون کی خدائی کی نوعیت:۔ ان باتوں کی تفصیل پہلے متعدد مقامات پر گزر چکی ہیں اور وہ باتیں یہ تھیں کہ مقتدر اعلیٰ اور مختار مطلق ہستی تم نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہے۔ جو ساری کائنات کا خالق و مالک ہے۔ اسی نے مجھے رسول بنایا اور یہ معجزات بطور علامت دے کر تمہارے پاس بھیجا ہے اور یہ پیغام دیا ہے کہ تم سرکشی چھوڑ دو اپنی خدائی کے دعویٰ سے باز آجاؤ۔ اسی اللہ کے قانونی اور سیاسی اقتدار اعلیٰ تسلیم کرلو۔ اسی کی عبادت کرو۔ فرعون نے کہا یہ تھا کہ میرے اوپر بھی کسی مختار مطلق ہستی ہونے کی بات ایسی بات ہے۔ جو ہم نے اپنے آباء سے کبھی نہیں سنی۔ جس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ یہ فراعنہ مصر کئی پشتوں سے خود مختار و مطلق فرمانروا بنے بیٹھے تھے۔ اور قانونی اور سیاسی اختیارات میں اپنے اوپر کسی بالاتر ہستی کے قائل نہ تھے۔ اسی بات کو ان کے خدائی کے دعویٰ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ القصص
37 [٤٨] سیدنا موسیٰ اور فرعون کا مکالمہ :۔ یعنی تم نے مجھے ایک جادوگر سمجھا ہے حالانکہ میرا پروردگار میرے حال سے خوب واقف ہے کہ ہر شخص کے کاموں کے انجام کا فیصلہ بھی اسی کے ہاتھ میں ہے بہرحال ایک بات تو یقینی ہے اور وہ یہ ہے کہ ظالم اور بے انصاف لوگ کبھی فلاح نہیں پاسکتے۔ اگر میں نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرکے اللہ تعالیٰ پر جھوٹا الزام لگا دیا ہے تو میرا انجام کبھی بخیر نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح اگر میں اللہ کی طرف سچا رسول ہوں اور تم مجھے جادوگر کہہ کر دوسرے حیلے بہانوں سے مجھے جھٹلاؤ گے تو تمہارا بھی کبھی انجام بخیر نہ ہوگا۔ القصص
38 [٤٩] فرعون کی خدائی کا دعویٰ اس حد تک تھا کہ اس نے ملک کے تمام وسائل معاش پر قبضہ کر رکھا تھا۔ دوسرے وہ اپنے قانونی اور سیاسی اختیارات میں کسی بالاتر ہستی کا قائل نہ تھا۔ ورنہ وہ دوسرے مشرکوں کی طرح کائنات کا خالق اللہ ہی کو سمجھتا تھا اور اللہ کے علاوہ دوسرے معبودوں کا بھی قائل تھا۔ چنانچہ خود اس کے درباریوں نے فرعون سے کہا تھا کہ ’’تو موسیٰ کو کھلی چھٹی دے دے گا کہ وہ اور اس کے پیرو کار تجھے اور تیرے معبودوں کو چھوڑ دیں گے‘‘ (٧: ١٢٧) فراعنہ مصر دراصل اپنے آپ کو سورج دیوتا کا اوتار سمجھتے تھے۔ اس لئے وہ اپنی رعایا سے اپنے مجسموں کی پوجا بھی کرواتے تھے۔ علاوہ ازیں ان لوگوں میں گائے بیل کی پرستش کا عام رواج تھا۔ [٥٠] اللہ تعالیٰ کی ہستی کےمتعلق انکشافات اور اس کا جواب:۔ یہ بات دراصل اس نے اپنی رعایا کو الو بنانے اور ان سے دعوت حق کے اثر کو زائل کرنے کے لئے کہی تھی۔ اور یہ بالکل ایسی ہی بات تھی جیسے چند برس پیشتر روس نے، جو ایک کمیونسٹ اور دہریت پسند ملک ہے، نے کہی تھی۔ اس نے اپنا ایک سپوتنک طیارہ چھوڑا جو چند لاکھ میل بلندی تک پہنچا تو واپسی پر ان لوگوں نے یہ دعویٰ کردیا کہ ہم اتنے لاکھ میل کی بلندی تک ہو آئے ہیں۔ مگر ہمیں مسلمانوں کا خدا کہیں نہیں ملا۔ یعنی ان احمقوں کا یہ خیال تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ کی ہستی موجود ہے تو یہی چند لاکھ میلوں کی بلندی پر ہی ہوسکتی ہے۔ اور اسی دلیل کو بھی انہوں نے لوگوں کو الو بنانے کے لئے ہی سائنٹفک دلیل کے طور پر پیش کیا۔ کیونکہ یہی لوگ جب کائنات کی وسعت کا حال بتلاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ سورج ہماری زمین سے ٩ کروڑ ٣٠ لاکھ میل دور ہے اور زمین اس کے گرد گردش کر رہی ہے۔ یہ اس سورج کا تیسرا سیارہ ہے اور سورج کے گرد نواں سیارہ پلوٹو گردش کرتا ہے جو سورج سے ٣ ارب ٦٨ کروڑ میل کے فاصلہ پر ہے۔ نیز یہ کہ اس کائنات میں ہمارے نظام شمسی میں سورج ایک ستارہ یا ثابت ہے اور کائنات میں ایسے ہزاروں ستارے ثوابت مشاہدہ کئے جاچکے ہیں۔ اور یہ ستارے یا سورج جسامت کے لحاظ سے ہمارے سورج سے بہت بڑے ہیں۔ ہمارے سورج سے بہت دور تقریباً ٤٠٠ کھرب کلومیٹر کے فاصلہ پر ایک سورج موجود ہے جو ہمیں محض روشنی کا ایک چھوٹا سا نقطہ معلوم ہوتا ہے۔ اس کا نام الفاقنطورس (Alfa Centoaris) ہے۔ ایسے ہی دوسرے سورج اس سے دور ہیں۔ اسی طرح ایک ستارے کا نام قلب عقرب ہے (Antares) ہے۔ اگر اسے اٹھا کر ہمارے نظام شمسی میں رکھا جائے تو سورج سے مریخ تک کا تمام علاقہ اس میں پوری طرح سما جائے گا۔ جبکہ مریخ کا سورج سے فاصلہ ١٤ کروڑ ١٥ لاکھ میل دور ہے۔ گویا قلب عقرب کا قطر ٢٨ کروڑ ٣٠ لاکھ میل کے لگ بھگ ہے۔ پھر جب کائنات میں ہر سو بکھرے سیاروں کے فاصلے کھربوں میل کے عدد سے بھی تجاوز کر گئے تو ہیئت دانوں نے نوری سال کی اصطلاح ایجاد کی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ روشنی ایک لاکھ ٨٦ ہزارمیل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔ اس لحاظ سے ہماری زمین سے سورج کا فاصلہ جو حقیقتاً ٩ کروڑ ٣٠ میل ہے۔ روشنی کا یہ سفر ٨ منٹ کا سفر ہے۔ گویا سورج ہم سے ٨ نوری منٹ کے فاصلہ پر ہے۔ اب کائنات میں ایسے سیارے بھی موجود ہیں جو ایک دوسرے سے ہزارہا بلکہ لاکھوں نوری سالوں کے فاصلہ پر ہیں۔ فرعون کا ہامان کو ایک اونچامحل تعمیر کرنے کی ہدایت کرنا:۔ یہ تو ہے کائنات کی وسعت کا وہ مطالعہ جو انسان کرچکا ہے اور جو ابھی انسان کے علم میں نہیں آسکا وہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اب کیا وہ ہستی جو ان ساری چیزوں کی خالق اور سب سے اوپر ہے کیا یہ احمق اسے چند لاکھ میلوں کی بلندی پر پالیں گے؟ نیز وہ سمجھ رہے ہیں جیسے وہ کوئی مادی جسم ہے۔ جو ان کی گرفت میں آسکتا ہے۔ ﴿قٰاتَلَہُمُ اللّٰہُ اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ ﴾ اس سے بڑی حماقت ان روسی داناؤں نے یہ کی کہ اس سائنٹفک تحقیق کو اپنے سکولوں میں پڑھانا شروع کردیا۔ تو ایک لڑکی کے منہ سے بے ساختہ یہ جملہ نکل گیا کہ جہاں تک یہ سپوتنک میزائل پہنچا تھا۔ اللہ تعالیٰ اس سے بہت اوپر تھا۔ فرعون نے بھی ہامان سے ایسی ہی بات کہی تھی جس سے لوگوں کو اللہ کی ہستی سے شک میں مبتلا کردے۔ ورنہ عملاً نہ ہامان نے کوئی ایسا اونچا محل یا مینارہ بنایا تھا اور نہ ہی فرعون کا یہ مقصد تھا۔ القصص
39 [٥١] انھیں اللہ نے زمین کے تھوڑے سے حصہ میں چند دن کے لئے اقتدار بخشا تو وہ یہ سمجھنے لگے کہ ان سے اوپر کوئی ہستی ہے نہیں جو ان سے یہ اقتدار چھین بھی سکتی ہے۔ نہ ہی انھیں کبھی یہ خیال آیا تھا کہ مرنے کے بعد ہمیں اللہ کے حضور پیش ہونا ہے اور ہمارے ایک ایک کام سے متعلق ہم سے باز پرس ہونے والی ہے۔ القصص
40 [٥٢] فرعون کا انجام :۔ اس مقام پر درمیان سے بہت سے واقعات چھوڑ دیئے گئے ہیں۔ جو دیگر متعدد مقامات پر مذکور ہیں۔ یہاں صرف ان کے انجام کی خبر دی گئی ہے کہ ان ظالموں اور زمین میں بڑا بننے والوں کا انجام کیا ہوا۔ کس بے بسی کی حالت میں مرے۔ اور کیسی کیسی دل میں حسرتیں لے کر مرے۔ اور مرتے وقت کسی سے کوئی بات تک نہ کرسکے۔ القصص
41 [٥٣]فرعون منکرین حق کا رہنماتھا :۔ یعنی تمام منکرین ِحق اور باطل پرستوں کے لئے وہ مثال قائم کرگیا کہ حق کو کن کن حیلوں بہانوں سے ٹھکرایا جاسکتا ہے۔ انکار حق پر ڈٹ جانے اور آخر دم تک ڈٹے رہنے کے لئے کیا کیا ہتھکنڈے استعمال کئے جاسکتے ہیں۔ حق پرستوں پر کیسے کیسے مظالم ڈھائے جاسکتے ہیں اور حق کو کیونکر دبایا جاسکتا ہے۔ یہ سب طریقے اپنے بعد میں آنے والوں کو دکھلا کر وہ جہنم کو سدھار چکا اور آج کے مشرکین مکہ انھیں کے طور طریقے اختیار کرکے اسی منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ پھر جس طرح فرعون نے اس دنیا میں حق کے دشمنوں کو جہنم کی راہ دکھلائی اسی طرح قیامت کے دن بھی وہ اہل دوزخ کی پیشوائی کرے گا۔ اور انھیں جہنم میں جا پہنچائے گا اور خود ان کی قیادت کر رہا ہوگا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ ہود کی آیت نمبر ٩٨ میں اس بات کی صراحت فرما دی ہے۔ [٥٤] یعنی اس دنیا میں تو فرعون اور اس کے درباریوں کو اپنے لاؤ لشکر پر بڑا ناز تھا۔ اور انہی فوجوں اور لاؤ لشکر نے ان کا دماغ خراب کر رکھا تھا۔ حالانکہ ان کا لاؤ لشکر ان کی غرقابی کے وقت کسی کام نہ آسکا بلکہ ان کے ساتھ ہی غرق ہوگیا۔ تو قیامت کو بھی یہ لاؤ لشکر ان کے کسی کام نہ آسکے گا۔ نہ ہی کسی دوسرے ذریعہ سے یہ جہنم کے عذاب سے بچ سکیں گے۔ القصص
42 [٥٥] یعنی فرعون اور آل فرعون پر بعد میں آنے والی دنیا لعنت ہی بھیجتی رہے گی اور انھیں برے لفظوں میں یاد کیا جاتا رہے گا۔ اور قیامت کے دن تو ان کی بڑی درگت بنائی جائے گی اور ان کے چہرے بگاڑ دیئے جائیں گے۔ القصص
43 [٥٦] پہلی نسلوں سے مراد اقوام سابقہ ہیں۔ مثلاً قوم نوح علیہ السلام ، قوم عاد علیہ السلام ، قوم ثمود علیہ السلام ، قوم لوط علیہ السلام ، قوم شعیب علیہ السلام اور قوم فرعون وغیرہ۔ یہ سب لوگ اللہ کے نافرمان اور سرکش لوگ تھے ان سب اقوام نے دنیا کی تکذیب کا نتیجہ بھگت لیا اور فرعون اور ان کے ساتھیوں کا جو انجام ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ اس کے بعد ہم نے موسیٰ کو تورات عطا کی جس میں انہی تباہ شدہ اقوام سے متعلق بصیرت افروز دلائل بھی تھے اور آئندہ کے لئے بھی انسانیت کی ہدایت کے لیے واضح ہدایات دی گئیں۔ اور یہ لوگوں پر اللہ کی خاص مہربانی تھی اور ان سب باتوں کا مقصد یہ تھا کہ انسانیت آئندہ صحیح راہ پر گامزن ہوجائے اور اس کا نیا دور شروع ہو۔ اس صحیح حدیث میں آیا ہے کہ اللہ نے تورات نازل کرنے کے بعد پھر کسی قوم کو آسمان کے عذاب سے تباہ نہیں کیا البتہ ایک بستی کے لوگ (اصحاب السبت) بندر بنائے گئے تھے۔ القصص
44 [٥٧]انبائےغیب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی دلیل :۔ یعنی آپ کا وہاں موجود نہ ہونا پھر ان حالات کو یوں بیان کرنا جسے کوئی عینی شاہد بیان کرتا ہے۔ اس بات کی قوی دلیل ہے کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ ورنہ آپ کے پاس وحی الٰہی کے سوا ان واقعات کو جاننے کا اور کوئی ذریعہ نہیں۔ [٥٨] ربط مضمون کے لحاظ سے تو اس کا وہی مطلب ہے جو اوپر بیان ہوا۔ اور اگر اس جملہ کو الگ واقعہ سمجھا جائے تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ آپ ان ستر (٧٠) آدمیوں سے بھی نہیں تھے جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے دیدار الٰہی کا مطالبہ کیا تھا۔ اور وہ واقعہ بھی آپ نے لوگوں کو ایسے بتلا دیا جیسے آپ ان میں موجود تھے۔ القصص
45 [٥٩] موسیٰ علیہ السلام کے عہد سے لے کر دور نبوی تک تقریباً دو ہزار سال کی مدت ہے اور اس عرصہ میں تقریباً چالیس نسلیں یکے بعد دیگرے پیدا ہوتی رہیں۔ مگر اس دوران ملک حجاز میں کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا تھا۔ دو ہزار سال کے بعد سب سے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم البتہ ان لوگوں (اہل حجاز) کی طرف مبعوث ہوئے۔ [٦٠] یعنی مدین کا باشندہ نہ ہونے کے باوجود آپ ان لوگوں کو حضرت شعیب علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حالات یوں بتلا رہے ہیں گویا اس وقت آپ وہاں مقیم تھے اور ان لوگوں کو ہماری آیات پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ اور ان واقعات کے صرف عینی شاہد ہی نہ تھے۔ بلکہ عملی طور پر بھی ان واقعات میں آپ کا عمل دخل تھا۔ اور یہ بات چونکہ ناممکن ہے تو اس سے صاف واضح ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے یہ حالات بذریعہ وحی بتلائے ہوں۔ اور یہی چیز آپ کی نبوت کی دلیل ہے۔ القصص
46 [٦١] یہ تینوں واقعات آپ کی نبوت پردلیل ہیں اور سابقہ کتب کی تحریف کی تصحیح بھی:۔ گویا ان تین واقعات کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لئے آپ کی نبوت کی صداقت کے طور پر پیش فرمایا۔ ایک وہ وقت جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو معجزات عطا کرکے انھیں فرعون اور اس کی قوم کے پاس بھیجا اور امر رسالت تفویض کیا تھا۔ دوسرے مدین کے حالات کے تفصیل اور تیسرے وہ وقت جب موسیٰ علیہ السلام راستہ بھول کر آگ لینے کی غرض سے آئے تھے۔ تو ہم نے خود انھیں پکار کر رسالت بھی عطا کی تھی اور ہم کلامی کا شرف بھی بخشا تھا۔ اور یہ واقعات آپ کی نبوت پر دلیل اس طرح ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود لکھنا پڑھنا نہ جانتے تھے۔ کہ آپ نے کسی کتاب سے پڑھ کر یہ حالات معلوم کر لئے ہوں اور لوگوں کو سنا دیا ہو۔ دوسرے یہ کہ آپ کا کوئی استاد ہی نہ تھا جس کے آگے آپ نے زانوے تلمذ تہ کیا ہو اور اس نے آپ کو ان واقعات سے مطلع کردیا ہو۔ اب تیسری صورت یہی باقی رہ جاتی ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہوں اور اللہ نے بذریعہ وحی آپ کو ان حالات سے مطلع کردیا ہو۔ پھر ان سابقہ کتب میں یا موجودہ میں انہی واقعات سے متعلق بے شمار جزوی اختلاف موجود تھے۔ اللہ نے جو حالات آپ کو وحی کے ذریعہ بتلائے یہ حالات اصل حقائق کے ٹھیک مطابق ہیں۔ [٦٢] یعنی اہل حجاز کے لئے اس دو ہزار سال میں کوئی نبی مبعوث نہ ہوا تھا ان لوگوں کا ان واقعات سے متعلق ذریعہ معلومات بسی وہی خبریں تھیں جو ادھر ادھر سے وہ سن لیتے تھے اور ان خبروں میں بھی کافی اختلافات تھے۔ اب ہم نے ان لوگوں میں آپ کو نبی بنا کر بھیجا ہے۔ تاکہ انھیں صحیح حالات کا علم ہوجائے۔ اور وہ امم سابقہ کے انجام سے متنبہ ہو کر سبق حاصل کریں۔ اور اللہ سے شرک اور سرکشی کی راہ چھوڑ کر راہ راست پر آجائیں تاکہ ان کا انجام بھی ویسا ہی نہ ہو جیسا کہ مذکور امتوں کا ہوا تھا۔ القصص
47 [٦٣]آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے دومقصد أتمام حجت اور رفع عذر:۔ ان لوگوں میں آپ کو رسول بنا کر بھیجنے کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اگر آپ کی بعثت سے پہلے ان پر ان کے اپنے شامت اعمال کی وجہ سے کوئی عذاب یا مصیبت آن پڑتی تو یہ کہہ سکتے تھے کہ ہم تو عرصہ دو ہزار سال سے صحیح حالات سے واقف ہی نہ تھے۔ یہ ممکن تھا کہ سزا دہی کے وقت یہ لوگ کہنے لگتے کہ ہمارے پاس کوئی پیغمبر تو بھیجا نہیں جو ہمیں ہماری غلطیوں پر کم از کم تنبیہ کردیتا اس طرح یکدم پکڑ کر عذاب میں دھر گھسیٹا۔ اور اگر اللہ ہماری طرف کوئی رسول بھیجتا جو ہمیں ہدایت کی راہ دکھلاتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ ہم اس رسول کی پیروی نہ کرتے اور دوسری موجود قوموں سے زیادہ ہدایت یافتہ نہ بن جاتے۔ گویا ان لوگوں کی طرف آپ کی بعثت کے دو مقصد تھے ایک اتمام حجت اور دوسرے ان لوگوں کے عذر یا اعتراض کو رفع کرنا یہی مضمون قرآن میں دیگر متعدد مقامات پر بھی مذکور ہے۔ القصص
48 [٦٤] موسیٰ علیہ السلام جیسے معجزے کا مطالبہ کرنے والے کفار کوکئی مسکت جوابات:۔ اور اب جو کفار مکہ کے پاس ہمارا رسول آیا ہے اور اپنے ساتھ ہدایت کی کتاب بھی لایا ہے۔ تو انہوں نے اب یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی طرح اسے عصا کیوں نہیں دیا گیا۔ جو سانپ بن جاتا ہو یا سورج کی طرح چمکنے والا ہاتھ اسے کیوں نہیں دیا گیا۔ یا یہ کتاب تختیوں کی صورت میں کیوں نازل نہیں ہوئی؟ مشرکین مکہ کے اس اعتراض کا جو جواب اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے سامنے یہ معجزات پیش کیے تھے۔ تو کیا وہ ایمان لے آئے تھے؟ تمہارے خیال کے مطابق تو انھیں ضرور ایمان لانا چاہئے تھا۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر تم ان معجزات کو درست اور نبوت کی دلیل سمجھتے ہو تو کیا تم تورات پر ایمان لے آئے ہو؟ اور تم تورات پر اور حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان نہیں لائے تو اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ فی الحقیقت تمہیں ان معجزات کا بھی انکار ہے۔ اور یہ دعویٰ تمہارا زبانی جمع خرچ ہے۔ [٦٥] اس جملہ کے کئی مطلب ہیں ایک یہ کہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم کہنے لگی کہ موسیٰ اور ہارون دونوں جادوگر ہیں اور ایک دوسرے کے مددگار ہیں اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ کفار مکہ جب دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں اور یہودیوں کے عقائد میں کئی امور میں مماثلت پائی جاتی ہے مثلاً یہ دونوں فرقے بتوں کی عبادت سے بیزار اور اسے شرک اور کفر سمجھتے ہیں۔ آخرت پر دونوں ہی ایمان رکھتے ہیں۔ غیر اللہ کے نام پر ذبیحہ کو دونوں ہی حرام سمجھتے ہیں۔ مسلمان اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تصدیق کرتے ہیں تو کئی منصف مزاج یہود اس نبی کو برحق سمجھتے ہیں تو یہ کافر کہنے لگتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں ہی جادوگر ہیں اور ایک دوسرے کی تائید و تصدیق کرتے ہیں۔ اور تیسرا مطلب یہ ہے کہ کفار مکہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ تورات اور قرآن دونوں کھلا ہوا جادو ہیں۔ کیونکہ یہ دونوں کتابیں ایک دوسری کی تائید و تصدیق کرتی ہیں۔ [٦٦] لہٰذا ہم نہ تورات پر ایمان لاتے ہیں، نہ انجیل پر اور نہ قرآن پر۔ یہ سب کتابیں ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی کتاب ہمارے مطلب کی ترجمانی نہیں کرتی۔ لہٰذا ان میں سے کوئی کتاب ہی قابل قبول نہیں۔ القصص
49 [٦٧] آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کفار مکہ کو یہ جواب دیجئے کہ میں تو اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہدایت کی کتاب کی پیروی کرنے کو تیار ہوں۔ اگر تمہارے پاس تورات اور قرآن سے بہتر کوئی ہدایت کی کتاب موجود ہے تو اسے چھپا کیوں رکھا ہے؟ وہ لاؤ سب سے پہلے میں اس کی پیروی کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ جواب اس لئے بتلایا کہ وہ تورات اور قرآن دونوں کو جادو کہتے ہیں اور جادو ایسی چیز ہے جس کا مقابلہ بھی کیا جاسکتا ہے اور اس سے بہتر قسم کا جادو لایا جاسکتا ہے۔ لہٰذا اگر یہ کتابیں جادو ہیں تو تم اس سے بہتر چیز کیوں پیش نہیں کرتے۔ القصص
50 [٦٨] ان کی باتوں اور ان کے اعتراضات سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ یہ لوگ قطعاً ہدایت کے طالب نہیں ہیں بلکہ یہ صرف ایسی کتاب کی پیروی کرسکتے ہیں جو ان کے مشرکانہ مذہب اور ان کی خواہشات کے مطابق ہو۔ گویا یہ لوگ اپنی ہی خواہشات کے پیرو اور پرستار ہیں۔ لہٰذا ایسے لوگوں کو ہدایت کیسے نصیب ہوسکتی ہے۔ القصص
51 [٦٩] اس آیت کے بھی دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ جتنے بھی نبی ان کے آس پاس مبعوث رہے ہیں۔ اب سب کی تعلیمات ان تک بھی پہنچتی رہی ہیں اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب سے قرآن کا نزول شروع ہوا ہے۔ لگاتار انھیں ہدایت کی آیات پہنچ رہی ہیں۔ جس کا مقصد یہی تھا کہ وہ کچھ نصیحت قبول کرلیتے۔ اور اگر یہ فی الواقع ہدایت کے طالب ہوتے تو کب کے ہدایت قبول کرچکے ہوتے۔ القصص
52 [٧٠] سابقہ آیات میں مشرکوں کا حال یہ بتلایا گیا کہ موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کی بات کرنے کے باوجود نہ تورات پر ایمان لاتے ہیں اور نہ قرآن پر اور اس کی وجہ محض ان کا تعصب اور خواہش نفس کی پیروی ہے۔ اب ان لوگوں کا ذکر کیا جارہا ہے جن کی عادات و خضائل ان کے بالکل برعکس ہیں۔ یعنی وہ خواہش نفس کی کسی وقت بھی پیروی نہیں کرتے۔ بلکہ ہر وقت اللہ کے فرمانبردار بن کر رہتے ہیں۔ تورات نازل ہوئی تو وہ اس پر ایمان لائے۔ اور جب قرآن نازل ہوا تو اس پر ایمان لائے۔ القصص
53 [٧١] اس لئے کہ تورات اور قرآن کی بنیادی تعلیمات آپس میں ملتی جلتی ہیں۔ اور جن لوگوں کے دلوں میں تعصب نہ ہو نہ ہی ان کے ذاتی مفادات قبولِ حق کی راہ میں ان کے آڑے آئیں وہ فوراً سمجھ جاتے ہیں کہ یہ قرآن بھی اللہ کی طرف ہی نازل شدہ کتاب ہے۔ پھر اس پر ایمان لے آتے ہیں۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ وہ پہلے ہی مسلمان تھے۔ اور اب بھی مسلمان ہی رہے۔ کیونکہ اسلام تو دل و جان سے اللہ کی فرمانبرداری کا نام ہے اور وہ ان میں پہلے ہی موجود تھی قرآن میں اس حقیقت کی متعدد مقامات پر صراحت کردی گئی ہے کہ اللہ کے نزدیک قابل قبول دین اسلام یعنی دل و جان سے اللہ کی فرمانبرداری ہی ہے۔ رہا مسئلہ کسی دین کو اس کے پیغمبر کے نام سے منسوب کرنے کا۔ جیسے یہودیت، نصرانیت اور محمدیت وغیرہ تو یہ زمانہ مابعد کی ایجادات ہیں۔ جو لوگوں نے خود ہی رکھ لئے۔ اللہ نے نہیں رکھے تھے۔ ہر نبی پر ایمان لانے والوں کا نام اللہ نے مسلمان ہی رکھا ہے۔ القصص
54 [٧٢]اہل کتاب میں سے ایمان لانے والوں کو دوہرا اجر:۔ ثابت قدمی سے مراد ایک تو وہ استقلال ہے جو قبولِ حق کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ ان کے دلوں میں اللہ کی فرمانبرداری کا جو مستقل جذبہ موجود تھا۔ اسی نے اسے اس نبی پر ایمان لانے کی ترغیب دی اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ مذہب تبدیل کرنے میں اور پھر کسی دین کو ابتداًء قبول کرتے وقت ان مسلمانوں کو طرح طرح کی مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے مصائب کو بھی انہوں نے صبر و استقلال کے ساتھ برداشت کیا۔ ایسے لوگوں کے لئے دوہرا اجر ہے ایک پہلے نبی کی کتاب پر ایمان لانے کا اور ایک دوسرے نبی اور اس کی کتاب پر ایمان لانے کا۔ چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین طرح کے آدمیوں کا ذکر کیا ہے جن کو دوہرا اجر ملے گا ان میں سے ایک وہ یہودی یا نصرانی ہے۔ جو پہلے اپنے پیغمبروں پر ایمان رکھتا تھا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاکر مسلمان ہوگیا۔ (بخاری۔ کتاب الجہاد والسیر۔ باب فضل من اسلم من اہل الکتابین) [٧٣] یہاں یَدْرَءُ وْنَ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اور وَرَءَ کے معنی دفع کرنا، دور کرنا یا پرے ہٹانا ہے۔ اس لحاظ سے اس آیت کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ اگر کوئی شخص ان سے برا سلوک کرے یا نقصان پہنچائے تو اس کا جواب برائی یا نقصان سے نہیں دیتے۔ بلکہ اس سے بھی اچھا سلوک کرتے ہیں اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر ان سے کوئی برائی ہوجائے تو بعد میں نیک اعمال کرکے اس برائی کے اثر کو دور کردیتے ہیں۔ [٧٤] جب رزق کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس سے مراد ہمیشہ طیب اور پاکیزہ رزق ہوتا ہے کیونکہ حرام کی کمائی سے تو صدقہ بھی قبول نہیں ہوتا۔ اور خرچ کرنے سے مراد اللہ کی راہ میں بھی خرچ کرنا ہے اور جائز کاموں میں بھی یعنی اپنی ذات پر اپنے اہل و عیال کی ضروریات زندگی وغیرہ پر اور اس معاملہ سے بخل سے کام نہیں لیتے۔ القصص
55 [٧٥]لغوسے کنارہ کرنے والے نومسلم عیسائی اور ابوجہل :۔ ایسے مسلمانوں کی تیسری صفت یہ ہوتی ہے کہ وہ لغو کاموں یا بے ہودہ باتوں میں نہ صرف یہ کہ ان میں شامل نہیں ہوتے بلکہ ایسے کاموں سے کنارہ کش رہتے ہیں۔ اور اگر ایسے لوگوں سے سابقہ پڑجائے تو ان سے تعرض نہیں کرتے بلکہ سلام کہہ کر گزر جاتے ہیں جس سے ان کی مراد ایسے کاموں سے بیزاری کا اظہار ہوتا ہے۔ سیرت کی کئی کتابوں میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ ہجرت حبشہ کے بعد جب حبشہ کے لوگ اسلام اور اس کی دعوت سے متعارف ہوئے تو وہاں سے بیس آدمی، جو عیسائی تھے اس غرض کے لئے مکہ آئے کہ یہ تحقیق کریں کہ پیغمبر اسلام کیسے شخص آئے ہیں۔ جب وہ لوگ آپ سے ملے اور گفتگو شروع ہوئی تو آپ نے انھیں قرآن پڑھ کر سنایا جس سے وہ اس قدر متاثر ہوئے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور بڑے پرزور طریقہ پر آپ کی تصدیق و تائید کی۔ جب مشرف بہ اسلام ہو کر حبشہ واپس جانے لگے تو ابو جہل اور اس کے ساتھیوں نے ان پر آوازے کسے کہ ایسے احمقوں کا قافلہ آج تک کسی نے نہ دیکھا ہوگا۔ جو ایک شخص کی تحقیق کرنے کے لئے آئے تھے۔ اور اب اس کے غلام بن کر اور اپنا دین چھوڑ کر جارہے ہیں۔ انہوں نے جواب میں کہا : ہماری طرف سے تم پر سلام ہے ہم تمہاری جہالت کا جواب جہالت سے نہیں دینا چاہتے۔ ہم میں اور تم میں جو جس حال پر ہے وہی کچھ اس کا حصہ ہے۔ ہم نے اپنے آپ کا بھلا چاہنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ اسی کے متعلق یہ آیات نازل ہوئیں۔ (البدایہ والنہایہ ج ٣ ص ٨٢) ضمناً اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص سے یہ توقع نہ ہو کہ ہدایت کی بات قبول کرلے گا بلکہ یہ خطرہ ہو کہ یہ الٹا چڑ جائے گا ایسے شخص کو سمجھانے کے بجائے اس سے کنارہ کرنا ہی بہتر ہے۔ القصص
56 [٧٦]ہدایت کےدومختلف مفہوم اورابوطالب کی وفات کا قصہ:۔ ہدایت کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک صورت یہ ہے کہ کسی کافر کے قلب و دماغ میں ایسی تبدیلی آجائے کہ وہ ہدایت یا اسلام قبول کرنے کے لئے تیار ہوجائے یہ کام خالصتاً اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے۔ جیسا کہ اس آیت میں اس کی صراحت موجود ہے۔ نیز درج ذیل حدیث بھی اسی معنی کی تائید کرتی ہے۔ سعید بن مسیب کے والد مسیب بن حزن کہتے ہیں کہ جب ابو طالب کی وفات کا وقت آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف لے گئے۔ وہاں دیکھا کہ ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ پہلے ہی وہاں بیٹھے ہیں۔ آپ نے ابو طالب سے فرمایا: ’’چچا جان! اگر آپ لا الٰہ الا اللہ کہہ لیں تو میں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں دلیل پیش کرسکوں گا‘‘ اور ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ کہنے لگے : ابو طالب! کیا تم عبدالمطلب کا دین چھوڑ دو گے؟ آخر ابو طالب نے آخری بات جو کہ وہ یہ تھی کہ میں عبدالمطلب کے دین پر مرتا ہوں اور لا الٰہ الا اللہ کہنا قبول نہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ کی قسم! میں اس وقت تک تمہارے لئے دعا کرتا رہوں گا جب تک اس سے منع نہ کیا جاؤں‘‘ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری : ﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ ﴾اور ابو طالب کے بارے میں یہ آیت ﴿إنَّکَ لاَ تَھْدِیْ۔۔ ﴾(بخاری۔ کتاب التفسیر) ٢۔ ترمذی کی روایت کے مطابق ابو طالب نے آپ کو یہ جواب دیا اگر قریش مجھے یہ عار نہ دلائیں کہ موت کی گھبراہٹ نے اسے یہ کلمہ کہلوا دیا ہے تو بھتیجے! میں یہ کلمہ کہہ کر تیری آنکھیں ٹھنڈی کردیتا۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) اب رہا ابو طالب کا اخروی انجام، جس نے مکی دور میں اپنے آخری دم تک آپ کی حمایت اور سرپرستی کی اور ہر مشکل سے مشکل وقت میں آپ کا ساتھ دیا، تو اس کے متعلق درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا : یارسول اللہ! کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ابو طالب کو کچھ فائدہ پہنچے گا۔ وہ آپ کی حفاظت کیا کرتے تھے اور آپ کی خاطر سب کی ناراضگی مول لے لی تھی؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں ہوتے‘‘ (مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب شفاعۃ النبی لابی طالب) ٢۔ ابو سعیدخدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن شاید ان کو میری سفارش سے فائدہ پہنچے اور وہ ہلکی آگ میں رکھے جائیں جو ان کے ٹخنوں تک ہو اور ان کا بھیجا پکتا رہے‘‘ (مسلم۔ حوالہ ایضاً) ٣۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ علیہ وسلم کو جہنم کا سب سے ہلکا عذاب ابو طالب کو ہوگا وہ (آگ کی) دو جوتیاں پہنے ہوں گے جس سے ان کا بھیجا کھول رہا ہوگا۔ (مسلم۔ حوالہ ایضاً) اور ہدایت کا دوسرا معنی یا دوسری صورت یہ ہے کہ جو لوگ ایمان لاچکے ہیں۔ ان کی منزل مقصود تک رہنمائی کی جائے۔ ان معنوں میں آپ اور دیگر انبیاء بلکہ علمائے کرام بھی ہدایت کی راہ نہ بتلا سکتے ہیں اور پیغمبروں کی تو ذمہ داری ہی یہی ہوتی ہے جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر فرمایا : ﴿وَاِنَّکَ لَـــتَہْدِیْٓ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ﴾(۵۲:۴۲) یعنی آپ یقینا لوگوں کو سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ [٧٧] یعنی اللہ صرف ان لوگوں کو ایمان لانے کی توفیق دیتا ہے جو خود بھی ہدایت کے طلبگار ہوں۔ ایسے لوگوں کو وہ خوب جانتا ہے اور ان کی ہدایت کے اسباب بھی انھیں مہیا فرما دیتا ہے۔ القصص
57 [٧٨] یعنی عرب کے مشرک قبائل ہمارے دشمن بن جائیں گے اور ان میں جو سیاسی اقتدار ہمیں حاصل ہے وہ بھی چھن جائے گا۔ اور اسی سیاسی اقتدار کی وجہ سے جو ہمارے تجارتی قافلے پرامن سفر کرسکتے ہیں۔ وہ بھی نہ کرسکیں گے۔ گویا اگر ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مان کر آپ پر ایمان لے لائیں تو ہماری سیاسی ساکھ بھی تباہ ہوجائے گی اور معاشی آسودگی بھی ختم ہوجائے گی اور یہ قبائل ہم پر ہمارا جینا بھی حرام کردیں گے۔ [٧٩] مشرکین مکہ کا یہ قول کہ اگر ہم ایمان لےآئیں توہمیں کوئی ٹھکانہ نہ ملے اوراس کاجواب:۔کفار کی یہ تراشیدہ بات بھی ''خوئے بدرا بہانہ بسیار'' والی بات تھی، اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ سیاسی اور معاشی فوائد تمہیں صرف اس بنا پر حاصل ہو رہے ہیں کہ ہم نے اس سرزمین کو حرم بنا دیا ہے۔ یہاں عرب بھر کے تمام قبائل حج کرنے آتے ہیں۔ کعبہ پر تمہاری تولیت کی وجہ سے تمہارا بھی عزت و احترام کرتے ہیں۔ عرب بھر میں یہی ایک پرامن خطہ ہے۔ اور اسے اللہ نے ہی پرامن بنایا ہے ورنہ عرب کے لٹیرے اور ڈاکو تمہیں کیسے جینے دیتے تھے۔ پھر تمہارے تجارتی قافلے بھی اسی حرم کی تولیت کی وجہ سے محفوظ سفر کرلیتے ہیں اور تم لوگ تجارت سے آسودہ حال بنے ہوئے ہو وہ بھی اسی حرم کی بدولت ہے۔ تو کیا جس اللہ نے تمہارے مشرک ہونے کے باوجود حرم کی وجہ سے تمہیں فائدے بخشے ہوئے ہیں۔ کیا تمہارے ایمان لانے کے بعد وہ تمہارے یہ فائدے روک دے گا یا ان میں مزید اضافہ کردے گا ؟ نیز یہ بھی حرم ہی برکت ہے کہ اس بے آب و گیاہ علاقہ میں دنیا جہاں کے میوے اور پھل اور غلے اور دوسری ضرورت کی اشیاء پہنچ جاتے ہیں۔ اور اس کثرت سے پہنچتے ہیں کہ جہاں یہ اشیاء پیدا ہوتی ہیں وہاں بھی اس وافر مقدار میں دستیاب نہیں ہوتیں۔ گویا مکہ اس لحاظ سے عالم تجارتی مرکز کی بھی حیثیت رکھتا ہے اگر تمہیں کفر کی حالت میں بھی یہ فوائد حاصل ہو رہے ہیں تو اللہ کے فرمانبردار بن جانے کے بعد آخر تمہیں کیوں نہ ہوں گے۔ القصص
58 [٨٠] یہ کفار مکہ کے اعتراض کا دوسرا جواب ہے یعنی تمہیں خطرہ یہ ہے کہ اگر تم مسلمان ہوگئے تو تمہاری سیاسی برتری اور تمہاری معیشت تباہ ہوجائے گی اور جس معیشت پر اس وقت تم اترا رہے ہو تو جن لوگوں نے تم سے پہلے اپنی معیشت پر گھمنڈ کیا تھا ان کا انجام بھی تمہارے ساتھ ہے۔ ان لوگوں نے اسی گھمنڈ میں آکر تکبر اور سرکشی کی راہ اختیار کی تھی۔ تو اللہ تعالیٰ نے انھیں اس طرح تباہ و برباد کر ڈالا کہ ان کا نام و نشان بھی باقی نہ رہ گیا۔ ان کی بستیوں کے کھنڈرات تم دیکھتے رہتے ہو۔ پھر اگر تم نے بھی انہی لوگوں کی روش اختیار کی تو کیا وجہ ہے کہ تمہارا وہی انجام نہ ہو جو ان کا ہوا تھا۔ [٨١]کفارکے اعتراض کا دوسراجواب ‘معیشت عذاب سے نہیں بچاسکتی :۔ یعنی اپنی معیشت پر اترانے اور اپنا معیار زندگی بلند رکھنے والے لوگ مرکھپ گئے اور ان کی جائیدادیں جن پر وہ گھمنڈ کیا کرتے تھے سب وہیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ ان کا کوئی وارث بھی باقی نہ رہا۔ بالآخر ہم ہی ان کے وارث ہوئے کہ جنہیں ہم چاہیں وہاں آباد کرکے وہ جائیدادیں ان کے حوالے کردیں۔ القصص
59 [٨٢]اعتراض کاتیسراجواب ‘عذاب یاہلاکت کےلیےضابطہ :۔ یہ بھی دراصل کفار مکہ کے اعتراض کا تیسرا جواب ہے ان کا اعتراض یہ تھا کہ اگر ہم ایمان لے آئے تو ہم تو سیاسی اور معاشی طور پر تباہ ہوجائیں گے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کسی قوم کی تباہی کے متعلق اپنا ضابطہ بیان فرما دیا ہے کہ وہ کیوں آتی ہے اور کب آتی ہے۔ اور وہ ضابطہ یہ ہے کہ پہلے ہم کسی مرکزی شہر یا صدر مقام میں اپنا رسول بھیجتے ہیں۔ مرکزی مقام کا انتخاب اس لئے کیا جاتا ہے کہ ایک تو ارد گرد کی آبادیوں کا اس سے رابطہ ہوتا ہے دوسرے مرکزی شہر کے لوگ نسبتاًپڑھے لکھے ہوتے ہیں۔ بات کو جلد سمجھ سکتے ہیں اور دیہاتیوں کی نسبت مہذب بھی ہوتے ہیں۔ پھر یہ رسول اس مرکزی بستی کے لوگوں کو اللہ کے پیغام پہنچاتا ہے اور اللہ کی آیات پڑھ پڑھ کر سناتا ہے۔ اب اگر لوگ اس رسول کی دعوت کو قبول نہ کریں اور نافرمانی، تکذیب اور سرکشی کی راہ اختیار کریں تو اس اتمام حجت کے بعد اس بستی کو ہلاک کیا جاتا ہے۔ لہٰذا اہل مکہ! تمہارا یہ خیال ہے کہ اسلام لانے سے تم تباہ ہوجاؤ گے، بالکل غلط ہے۔ بلکہ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ اس رسول کی بعثت کے بعد اگر تم نے سرکشی اختیار کرلی تو اس صورت میں تمہاری تباہی واقع ہوگی اور اس تباہی کے ذمہ دار تم خود ہوگے۔ القصص
60 [٨٣]چوتھاجواب‘معیشت محض فانی زندگی کاسامان ہے:۔ یہ بھی دراصل ان کے اعتراض کا جواب ہے۔ یعنی سامان معیشت پر تم اس وقت اترا رہے ہو اور اس کے ضائع ہوجانے کے خوف کی بنا پر اسلام لانا گوارا نہیں کرتے اس کی زیادہ سے زیادہ مدت تمہاری موت ہے۔ جبکہ یہ تمہاری موت سے پہلے بھی تم سے چھینا جاسکتا ہے۔ موت کے تمہیں اپنی سرکشی کے نتیجہ میں تمہیں دائمی عذاب بھگتنا ہوگا۔ اس کے برعکس اگر تم ایمان لے آتے ہو۔ تو کوئی وجہ نہیں کہ تم سے یہ نعمتیں چھن جائیں البتہ کچھ مشکلات اور مصائب ضرور پیش آسکتے ہیں۔ لیکن ان کے عوض تمہیں اجر ملے گا۔ وہ دائمی اور لازوال ہوگا اب یہ دونوں پہلو سامنے رکھ کر اور خوب سوچ سمجھ کر اپنے متعلق خود ہی فیصلہ کرلو۔ القصص
61 [٨٤]دنیاوی متاع کاحصول مذموم نہیں!الا یہ کہ اس میں اخروی نقصان ہو: ۔ اس آیت میں دو آدمیوں کا تقابل پیش کیا گیا ہے۔ ایک وہ جو آخرت کے بہتر انجام پر نظر رکھتا ہو اور اس بہتر انجام کے لئے ہی اپنی کوششیں صرف کر رہا ہو۔ دوسرا وہ شخص جس کا مطمح نظر صرف دنیوی مفادات اور ساز و سامان تک محدود ہو اور آخرت میں اس سے سختی سے باز پرس کی جانے والی ہو۔ اور سوال یہ اٹھایا گیا کہ خود ہی فیصلہ کرلو۔ ان دونوں میں سے کون بہتر ہے؟ اس آیت اور اس جیسی بعض دوسری آیات سے بعض لوگوں نے یہ غلط نتیجہ نکالا کہ شریعت کی نگاہ میں دنیا اور دنیا کے مفادات کا حصول مذموم چیز ہے اور اس سے حتی الوسع اجتناب کرنا چاہئے اور اپنی نظر صرف اخروی مفادات پر رکھنی چاہئے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو دعا سکھلائی اور جسے رسول اللہ اکثر اوقات پڑھا کرتے تھے وہ یہ ہے : ﴿رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَـنَۃً وَّقِنَا عَذَاب النَّارِ ﴾(۲:۲۰۱) اس آیت میں دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی کا اللہ سے مطالبہ کیا گیا ہے۔ بلکہ دنیا کی بھلائی کا مطالبہ آخرت سے پہلے ہے۔ ان سب آیات کو ملانے سے جو نتیجہ سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ شریعت کی نگاہ میں دنیا اور اس کا ساز و سامان صرف اس صورت میں مذموم ہوگا جب کہ اس سے اخروی مفادات کا نقصان ہو رہا ہو۔ مذموم چیز صرف یہ ہے کہ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کو ترجیح دی جائے۔ جب آخرت کا نقصان ہو رہا ہو تو اس وقت ایک مسلمان کا طرز عمل یہی ہوگا کہ دنیوی مفادات کو لات مار دے۔ بھلائی میسر آنے کےلحاظ سے انسانوں کی چار قسمیں :۔پھر یہ بھی عین ممکن ہے کہ ایک شخص نے اخروی انجام سے آنکھیں بند رکھی ہوں تاکہ وہ دنیوی مفادات تو حسب خواہش حاصل کرلے مگر اسے زندگی بھر سوائے غربت اور مصائب و مشکلات کے کچھ حاصل نہ ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ انسان کا مطمح نظر تو صرف اخروی مفادات ہو لیکن اللہ تعالیٰ اسے اس دنیا میں بھی ہر طرح کی بے بہا نعمتوں اور ساز و سامان سے نواز دے۔ جیسا کہ بعض انبیاء بادشاہ وقت بھی تھے۔ اس لحاظ سے انسانوں کی چار قسمیں بن جاتی ہیں۔ ایک وہ جنہیں دنیا اور آخرت دونوں میں بھلائی نصیب ہو اور یہ سب سے بہتر ہیں۔ دوسرے وہ جنہیں آخرت کی بھلائی تو نصیب ہو لیکن دنیا میں مشکل سے گزر بسر کریں۔ ان کا شمار بھی بہتر لوگوں میں ہے۔ تیسرے وہ جن کی آخرت تو خراب ہو مگر دنیا میں عیش و آرام مسیر ہو۔ یہ حقیقت میں برے لوگ ہیں اور چوتھے وہ جن کی دنیا بھی خراب اور آخرت بھی خراب ہو۔ ایسے لوگ ہر لحاظ سے بدترین ہوئے۔ واضح رہے کہ اس آیت میں دوسری اور تیسری قسم کے لوگوں کا تقابل پیش کیا گیا ہے۔ القصص
62 [٨٥]اعتراض کا پانچواں جواب:۔ یہ آیت بھی مشرکین مکہ ہی سے متعلق ہے جو دنیوی مفادات کی خاطر شرک اور بت سے چمٹے رہنا چاہتے تھے۔ انھیں ان کی کرتوت کے نتیجہ سے آگاہ کیا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ایسے مشرکوں سے پوچھے گا کہ تم یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ یہ دنیوی مفادات تمہیں میرے شریکوں کی وجہ سے مل رہے ہیں۔ اب بتلاؤ آج وہ کہاں ہیں تاکہ آج بھی تمہیں کچھ فائدہ پہنچاسکیں۔ اگر آج وہ تمہیں کچھ فائدہ پہنچا سکے تو سمجھ لینا کہ دنیا میں بھی وہی فائدہ پہنچا رہے تھے اور اگر کچھ فائدہ نہ دے سکیں تو حقیقت تم پر خود واضح ہوجائے گی۔ القصص
63 [٨٦] اس سے مراد وہ شیاطین جن و انس ہیں جن کی کسی نہ کسی رنگ میں دنیا میں عبادت کی جاتی رہی ہے۔ یہاں عبادت سے مراد محض پوجا پاٹ نہیں بلکہ بندگی اور غلامی ہے۔ یعنی وہ لوگ جو چاہتے تھے کہ اللہ کے احکام کے مقابلہ میں ان کے احکام کی اطاعت کی جائے۔ خواہ یہ دنیوی حکام ہوں یا پیرو مشائخ کی قسم کے لوگ ہوں۔ [٨٧] عابدومعبوددونوں اپنی خواہش کے پیروکار تھے اور معبودوں کا جواب:یعنی سوال تو اللہ مشرکوں سے کرے گا کہ تم نے جو میرے مقابل شریک بنا رکھے تھے وہ کہاں ہیں۔ لیکن وہ مشرک تو ابھی کچھ جواب نہ دینے پائیں گے کہ اس سے پیشتر یہ معبود حضرات خود ہی بول اٹھیں گے اور کہیں گے کہ پروردگار! واقعی ہم ان لوگوں کی گمراہی کا سبب ضرور بنے تھے۔ مگر ہم نے انھیں زبردستی اس بات پر مجبور نہیں کیا تھا۔ بلکہ یہ لوگ بھی ایسے ہی گمراہ ہوئے جیسے ہم خود ہوئے تھے۔ ہمیں بھی ہماری خواہشات نفس کی پیروی نے گمراہ کیا تھا۔ اور انھیں بھی اسی بات میں اپنے مفاد نظر آئے کہ وہ ہمارا ساتھ دیں۔ اگر یہ ہدایت کی راہ اختیار کرنے والے ہوتے تو ہماری ان پر کچھ زبردستی نہیں تھی۔ لہٰذا یہ لوگ ہرگز ہماری بندگی نہیں کر رہے تھے بلکہ اپنے نفس کی خواہشات کی بندگی کر رہے تھے ہم بھی یہی کچھ کرتے رہے اور یہ بھی وہی کچھ کرتے رہے۔ اس میں ہمارا کیا قصور تھا ؟ القصص
64 [٨٨]مشرکوں سے پہلا سوال شرک سےمتعلق اور دوسرا رسالت کےمتعلق ہوگا:۔ ان معبود حضرات کی اس معذرت کے بعد اللہ تعالیٰ پھر مشرکوں سے کہیں گے کہ آج بھی اپنے معبودوں کو اپنی مدد کے لئے پکارو تو سہی۔ لیکن وہ معبود جو پہلے ہی ان سے بیزاری کا اعلان کرچکے تھے۔ وہ انھیں کچھ جواب نہ دے سکیں گے اور اس کی اصل وجہ یہ ہوگی کہ کیا عابد اور کیا معبود سب کو ہی اپنا انجام نظر آرہا ہوگا۔ اس وقت یہ سب حضرات نہایت حسرت کے ساتھ بول اٹھیں گے۔ کاش! ہم نے دنیا میں ہدایت کا راستہ اختیار کیا ہوتا۔ القصص
65 [٨٩] مشرکوں سے پہلا سوال تو توحید سے متعلق تھا۔ اب یہ سوال پیغام رسالت سے متعلق ہوگا۔ یعنی بات اتنی ہی نہیں تھی کہ عابد و معبود دونوں اپنی خواہشات کے پیچھے لگ کر گمراہ ہو رہے تھے۔ بلکہ رسولوں نے بروقت انھیں ہدایت اور ضلالت کا فرق واضح طور پر بتلا دیا تھا۔ تو پھر تم لوگوں نے ان رسولوں کی بات مان لی تھی؟ القصص
66 [٩٠] انھیں اس بات کی سمجھ ہی نہ آسکے گی کہ اللہ تعالیٰ کے اس سوال کا کیا جواب دیں۔ نہ ہی ان سے یہ بن آئے گا کہ کسی دوسرے سے پوچھ کر ہی اس سوال کا جواب دے سکیں۔ اس دن کی دہشت اتنی زیادہ ہوگی کہ وہ ایک دوسرے سے کوئی بات پوچھ ہی نہ سکیں گے۔ القصص
67 [٩١] یہ شاہانہ انداز کلام ہے۔ یعنی اس دن وہ شخص ضرور فلاح پا لے گا جس نے خواہش نفس کی پیروی اور اللہ کی نافرمانی سے توبہ کرلی اور ایمان لے آیا۔ پھر اس کے بعد اعمال بھی صالح بجا لاتا رہا۔ گویا دوزخ کے لئے صرف توبہ اور ایمان لانے کا اقرار ہی کافی نہیں بلکہ اس ایمان کا عملی اظہار بھی ضروری ہے جو صرف نیک اعمال بجا لانے کی صورت میں ہی ہوسکتا ہے۔ القصص
68 [٩٢] یعنی چونکہ اللہ تعالیٰ ہی سب لوگوں کا خالق ہے اس لئے وہی یہ بات جان سکتا ہے کہ اس نے کس شخص کو کس طرح کی خصوصیات اور استعداد عطا کی ہے۔ پھر وہ اپنے اسی علم کی بنا پر اپنی مخلوق میں سے جسے چاہے اور جس کام کے لئے چن لیتا ہے اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ چونکہ اللہ نے یہ سب لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ لہٰذا اوامر و نواہی یا لوگوں کو کسی کام کا حکم دینے اور کسی کام سے باز رہنے کا حکم دینے کا اختیار بھی صرف اللہ ہی کو ہے نیز اگر اللہ کسی کو اپنا رسول بنادے تو دوسرے کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس پر اعتراض کرے اور اگر اللہ تعالیٰ کہے کہ رسول کی اطاعت تم پر فرض ہے۔ جو کچھ وہ کہے تمہیں کرنا ہوگا اور جس کام سے روکے اسے رک جانا ہوگا۔ اور اس کے مقابلہ میں کسی دوسرے کی بات قبول نہیں کی جاسکتی تو کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ رسول کے افعال و اقوال پر اعتراض کرے۔ [٩٣]پیروں کواختیار بخشنے والے مریدان باصفا:۔ یعنی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اختیارات کو دوسروں میں تقسیم کرنا شروع کردیں۔ کسی کو بارش کا دیوتا سمجھنے لگیں کسی کو داتا اور گنج بخش بنا دیں۔ کسی کو بیماری و صحت کا مالک سمجھنے لگیں اور کسی کو فریاد رس اور دستگیر قرار دے لیں۔ غرضیکہ میرے اختیارات میں ان میں سے جو اختیار جسے چاہے سونپ دے۔ کوئی فرشتہ ہو یا جن ہو یا نبی ہو یا ولی ہو سب ہمارے ہی پیدا کئے ہوئے ہیں اور انھیں اگر کچھ کمالات حاصل ہیں تو وہ بھی ہمارے ہی عطا کردہ ہیں پھر اس برگزیدگی کے آخر یہ معنی کیسے بن گئے کہ کسی مخلوق کو بندگی کے مقام سے اٹھا کر اسے اللہ تعالیٰ کے اختیارات میں شریک بنا دیا جائے۔ یہ انہوں نے کیسے سمجھ لیا کہ ان کو بھی اللہ کے اختیارات تقسیم کرنے کا کچھ حق ہے؟ القصص
69 [٩٤] بات مشرکین مکہ کے ان حیلوں بہانوں کی ہو رہی تھی۔ جو وہ اسلام نہ لانے کے سلسلہ میں دلیل کے طور پر پیش کر رہے تھے۔ اس ضمن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مشرکین مکہ خود بھی خوب سمجھتے ہیں کہ ان کے ایسے حیلوں اور اعتراضات کی کیا حقیقت ہے۔ اور اللہ ان کے دلوں کے خیالات تک سے خوب واقف ہے وہ جانتا ہے کہ ان کے ایسے لغو اعتراضات میں وہ کون سے محرکات ہیں۔ جو انھیں ایسی باتیں بنانے پر اکساتے ہیں اور ان کے ایمان نہ لانے کے اصل اسباب کیا ہیں؟ پھر اسی کے مطابق ان سے معاملہ بھی کرے گا۔ القصص
70 [٩٥] یعنی کائنات کی ایک ایک چیز اور مخلوق کے ایک ایک فرد کو پیدا کرنے والا تو اللہ تعالیٰ ہے۔ اور اس کام میں کسی دوسری ہستی کا کوئی عمل دخل نہیں۔ پھر ان دوسرے معبودوں کی خدائی اور ان کے خدائی اختیارات کہاں سے آگئے۔ کائنات کی ایک ایک چیز پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قابل تعریف صرف اللہ کی ذات ہے اور اگر کوئی اور ہستی سے کوئی قابل تعریف کام صادر ہو تو وہ بھی حقیقتاً اللہ ہی تعریف ہے کیونکہ قابل تعریف کام کرنے کی استعداد بھی اسی نے عطا کی ہے۔ پھر جس طرح اللہ تعالیٰ نے موجودہ زمین و آسمان اور کائنات پیدا کی ہے اسی طرح آخرت میں اس موجودہ زمین و آسمان کے بجائے اور ہی زمین و آسمان پیدا کرے گا۔ جو موجودہ کائنات سے زیادہ پائیدار ہوں گے۔ یہاں بھی اسی کا حکم چلتا ہے اور آخرت میں بھی اسی کا حکم چلے گا۔ کیونکہ اس عالم کا خالق بھی وہی ہوگا اور جس طرح وہ دوسرے زمین و آسمان پیدا فرمائے گا اسی طرح تمہیں دوبارہ پیدا کرکے اپنے پاس حاضر کرلے گا۔ اور اس دنیا میں کئے ہوئے تمہارے اعمال کا تم سے محاسبہ کرے گا۔ القصص
71 القصص
72 [٩٦] دن رات کےنظام سے اللہ کی قدرت کاملہ پردلیل:۔ رات اور دن کے نظام کو اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر اپنے بہت بڑے بڑے قدرت کے کارناموں اور عجائبات میں شمار کیا ہے۔ ایک ظاہربینانسان ان نشانیوں کو روزمرہ کے معمولات سمجھ کر ان کی طرف توجہ ہی نہیں دیتا۔ لیکن جن لوگوں نے اس نظام کا تحقیقی مطالعہ کیا ہے وہ اس نظام کی پیچیدگیوں کو خوب جانتے ہیں۔ یہ تو واضح سی بات ہے کہ دن اور رات کا تعلق سورج سے ہے۔ اختلاف اگر ہے تو اس بات میں رہا ہے کہ آیا ہماری زمین ساکن ہے اور سورج اس کے گرد گردش کرتا ہے یا سورج ساکن ہے اور زمین اس کے گرد گھومتی ہے یا یہ دونوں سیارے ہی محو گردش ہیں۔ اس سلسلہ میں آج تک چار نظریات بدل چکے ہیں۔ دور نبوی میں فلکیات کے ماہرین اورہیئت دانوں کا نظریہ یہ تھا کہ ہماری زمین ساکن ہے اور سورج اس کے گرد گھومتا ہے جبکہ آج کا نظریہ (جو چوتھا اور آخری نظریہ) یہ ہے کہ ہماری زمین ایک تو اپنے محور کے گرد گھوم رہی ہے۔ دوسرے یہ اپنے محور پر ٦٦ ڈگری درجے کا زاویہ بنائے ہوئے گھوم رہی ہے تیسرے یہ سورج کے گرد بھی گھوم رہی ہے۔ پھر ہمارا یہ پورا نظام شمسی اپنے سیاروں سمیت اپنے سے کسی بڑے سورج کے گرد چکر لگارہا ہے اور اپنے محور کے گرد بھی چکر لگاتا ہے۔ اور یہ سب سیارے فضائے بسیط میں اس طرح محو گردش ہیں کہ کوئی دوسرے سے ٹکراتا نہیں۔ اپنے فاصلے برقرار رکھتے ہیں اور ان کی رفتار میں نہ کمی آتی ہے یا زیادتی ہوتی ہے۔ اور وہ اپنے اپنے مقام پر پوری طرح جکڑے ہوئے محو گردش ہیں۔ یہ ہے وہ انتہائی پیچیدہ نظام ہے جس سے ہمارا نظام لیل و نہار پیدا ہوتا ہے۔ موسموں میں تبدیلی آتی ہے۔ کبھی دن بڑے ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور کبھی راتیں پھر ان تغیرات کے تمام زمینی مخلوق ہر طرح طرح کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اب موجودہ نظریہ کی رو سے یہ سوال یوں بنتا ہے کہ بتلاؤ اگر اللہ تعالیٰ زمین کی اس محوری گردش کو روک دے جس کا نتیجہ یہ ہو کہ زمین کے آدھے حصہ میں ہمیشہ رات ہی طاری رہے اور آدھا حصہ جو سورج کے سامنے ہو اس میں ہمیشہ سورج ہی چڑھا رہے تو بتلاؤ کہ اللہ کے بغیر تمہارا کوئی الٰہ ایسا ہے جو اس زمین کی گردش کو پھر سے چالو کردے اور تمہیں ان تمام مصائب سے بچاسکے جو اس صورت میں تمہیں پہنچ سکتی ہیں؟ رات کو اللہ نے تاریک اور ٹھنڈا بنایا ہے۔ تو جس حصہ میں ہمیشہ رات رہے گی۔ وہاں کے لوگ تو سردی سے ہی مرجائیں گے کام کرنا تو دور کی بات ہے۔ اور جس حصہ میں سورج چمکے گا وہاں کے لوگ سورج کی تپش سے مر جائیں گے۔ آرام کرنا تو دور کی بات ہے اللہ نے ایسا حکیمانہ نظام بنا دیا ہے جو تمام مخلوق کے مصالح پر مبنی ہے۔ [٩٧] اللہ نے رات کے ہمیشہ رہنے کا ذکر کیا تو فرمایا :﴿ أفَلاَ تَسْمَعُوْنَ﴾ اور ہمیشہ دن کے رہنے کا ذکر فرمایا تو فرمایا : ﴿أفَلاَ تُبْصِرُوْنَ﴾ یہ اس لئے دیکھنے کا کام روشنی سے تعلق رکھتا ہے۔ اور تاریکی میں انسان دیکھ تو نہیں سکتا البتہ سن ضرور سکتا ہے۔ القصص
73 [٩٨] یہ اللہ کی خاص رحمت ہے کہ اس نے دن رات کا نظام ایسا بنا دیا جس میں تمام مخلوق کے لئے فائدے ہی فائدے ہیں۔ کوئی جاندار مسلسل کام نہیں کرسکتا۔ لہٰذا اللہ نے رات بنا دی جو تاریک بھی ہوتی ہے اور ٹھنڈی بھی اور آرام یا نیند کے لئے یہی دو باتیں ضروری ہیں۔ ان دونوں کی موجودگی میں انسان گہری نیند سو کر دن بھر کی تھکاوٹ دور کرسکتا ہے۔ اور کام کاج کے لئے روشنی ضروری تھی لہٰذا دن اس غرض کے لئے دن بنا دیا۔ اب چاہئے تو یہ تھا کہ انسان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرتا مگر اس اوندھی عقل کے انسان نے اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے الٹا اس کے شریک بنانا شروع کردیئے۔ اور کئی ہستیوں میں اللہ کے اختیارات کو بانٹنا شروع کردیا جس کا اسے کوئی حق نہ تھا۔ القصص
74 القصص
75 [٩٩] یہ گواہ وہ شخص ہوگا جس کے ذریعہ اللہ کا پیغام اس قوم یا گروہ کو پہنچا ہو۔ خواہ وہ کوئی پیغمبر ہو یا کوئی دوسرا بزرگ ہو۔ اور وہ گواہ اس بات کی گواہی دے گا کہ میں نے اللہ کا پیغام ان لوگوں تک پہنچا دیا تھا۔ [١٠٠]بزرگوں کے اقوال اورمکاشفات وغیرہ شرعی دلیل نہیں بن سکتے:۔ اس گواہی کے بعد مجرموں کو موقع دیا جائے گا کہ وہ اس گواہی کے خلاف کوئی عذر پیش کرسکتے ہیں تو کریں اور جب وہ کوئی عذر پیش نہ کرسکیں گے تو ان سے کہا جائے گا کہ تم اللہ کا پیغام پہنچنے کے بعد بھی جو شرک میں ہی مبتلا رہے تو اس بات کے لئے تمہارے پاس کوئی دلیل ہے؟ اور اگر ہے تو اسے پیش کیوں نہیں کرتے؟ دلیل سے یہاں مراد کسی الٰہامی کتاب یا کتاب و سنت کی دلیل ہے۔ جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ اللہ تعالیٰ نے واقعی فلاں فلاں قسم کے اختیارات اپنے فلاں بندوں یا فلاں قسم کے بندوں کو تفویض کر رکھے ہیں۔ اس وقت انھیں اپنے سب اجتہادات، استنبا طات اور کج بحثیاں بھول جائیں گی۔ اس لئے کہ شریعت کے واضح احکام کے مقابلہ میں بزرگوں کے اقوال اور مکاشفات کی کچھ حقیقت نہیں ہوتی۔ نہ ہی ایسی باتیں شرعی دلیل کہلا سکتی ہیں۔ القصص
76 [١٠١]قریشی مالداروں کےلیےقارون کی مثال:۔ قریش مکہ کا عذر یہ تھا کہ اگر وہ اسلام قبول کرلیں تو عرب مشرک قبائل ان کے دشمن بن جائیں گے۔ نیز ان کا سیاسی اقتدار ہی ختم نہیں ہوگا بلکہ وہ معاشی طور پر تباہ ہوجائیں گے۔ اگرچہ یہ بات ان کے اسلام نہ لانے کا محض ایک بہانہ تھی۔ تاہم اس میں اتنی حقیقت ضرور تھی کہ قریش سرداروں میں سے اکثر بہت دولتمند اور رئیس تھے۔ ان میں کچھ سود خور بھی تھے اور بہت سے لوگ اپنا سرمایہ شراکت کی بنیاد پر تجارت کرنے والے قافلوں کے افراد کو بھی دیتے تھے۔ ان کے تجارتی قافلے لوٹ مار سے بھی محفوظ رہتے تھے۔ علاوہ ازیں مکہ تجارتی منڈی بھی بنا ہوا تھا۔ لہٰذا ان میں کئی کروڑ پتی سیٹھ موجود تھے۔ اور جہاں ماحول ہی سارا مادہ پرستانہ ہو اور کسی شخص کی بزرگی اور عزت کو محض دولت کے پیمانوں سے ماپا جاتا ہو۔ وہاں ایسے سیٹھ لوگوں کو جس قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے وہ سب کو معلوم ہے۔ بالکل ایسی ہی صورت حال قارون کی تھی جو ان سے بڑا سیٹھ تھا۔ اسی مناسبت سے اللہ تعالیٰ نے یہاں قارون کی مثال بیان فرمائی ہے۔ قارون اور اس کےخصائل:۔ قارون صرف یہی نہیں کہ بنی اسرائیل سے تعلق رکھتا تھا بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا چچازاد بھائی تھا۔ اللہ نے اسے بے پناہ دولت عطا کر رکھی تھی اور وہ پورے علاقے کا رئیس اعظم تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس سے زکوٰ ۃ کی ادائیگی کا مطالبہ کیا۔ اس کی زکوٰ ۃ بھی کروڑوں کے حساب سے بنتی تھی۔ لہٰذا اس نے زکوٰ ۃ کی ادائیگی سے انکار کردیا۔ انسان کی فطرت ہی کچھ ایسی ہے کہ وہ جتنا زیادہ دولت مند بنتا جاتا ہے۔ اتنا ہی وہ ننانوے کے پھیر میں پڑجاتا ہے۔ اپنی تجوریوں سے کچھ نکالنے کے بجائے اس کا یہی جی چاہتا ہے کہ ان میں مزید کچھ ڈالا جائے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زکوٰ ۃ کی ادائیگی کے مطالبہ پر نہ صرف یہ کہ اس نے زکوٰ ۃ دینے سے انکار کیا بلکہ بنی اسرائیل سے نکل کر وہ مخالف پارٹی یعنی فرعون اور اس کے درباریوں سے مل گیا۔ آدمی مالدار بھی تھا اور ہوشیار بھی۔ لہٰذا فرعون کے دربار میں اس نے ممتاز مقام حاصل کرلیا اور فرعون اور ہامان کے بعد تیسرے نمبر پر اسی کا شمار ہونے لگا۔ جیسا کہ سورۃ مومن کی آیت نمبر ٢٣ اور ٢٤ میں مذکور ہے کہ : ’’ہم نے موسیٰ (علیہ السلام)کو اپنی نشانیوں اور کھلی دلیل کے ساتھ فرعون، ہامان اور قارون کی طرف بھیجا تو وہ کہنے لگے کہ یہ تو ایک جادوگر ہے سخت جھوٹا‘‘ (٤٠: ٢٣، ٢٤) [١٠٢] یہ بھی انسان کی فطرت ہے کہ اگر اللہ اسے اپنے انعامات سے نوازے تو وہ اپنے آپ کو عام انسانوں سے کوئی بالاتر مخلوق سمجھنے لگتا ہے۔ اس کی گفتگو، اس کے لباس، اس کی چال ڈھال، اس کے رنگ ڈھنگ غرضیکہ اس کی ایک ایک ادا سے نخوت اور بڑائی ٹپکنے لگتی ہے۔ اور وہ دوسروں کو کسی خاطر میں نہیں لاتا یہی صورت حال قارون کی تھی۔ بنی اسرائیل کے کچھ بزرگوں نے اسے از راہ نصیحت کہا کہ اگر اللہ نے تمہیں مال و دولت سے نوازا ہے تو اپنے آپ کو ضبط اور کنٹرول میں رکھو، بات بات پر اترانا کوئی اچھی بات نہیں ہوتی اور نہ ہی اللہ ایسے لوگوں کو پسند کرتا ہے۔ القصص
77 [١٠٣]قارون کوحقوق کی ادائیگی کی نصیحت:۔ یعنی تمہاری دولت کا بہترین مصرف یہ ہے کہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرکے اپنی عاقبت سنوارنے کی کوشش کرو۔ نہ یہ کہ مال کے نشہ میں چور ہو کر دوسروں کو حقیر سمجھنے لگو۔ اس سے خود کھاؤ پیؤپہنو اور جو بچ جائے اس سے خویش و اقارب اور دوسرے لوگوں کی مالی اعانت کرو۔ اللہ کی مخلوق پر تم بھی ایسے ہی احسان کرو جیسے اللہ نے تم پر احسان کیا ہے اور مخلوق خدا کی دعائیں لو۔ اور اللہ کے فرمانبردار بن کر رہو۔ اپنے مال و دولت کا دوسروں پر رعب جمانا کوئی اچھا طریقہ نہیں۔ تمہاری اس دولت میں جو دوسروں کا حق ہے اسے ادا کرو اور معاشی اور معاشرتی ناہمواریوں کا باعث نہ بنو۔ القصص
78 [١٠٤] قارون اس نصیحت کے جواب میں کہنے لگا: میری دولت میں دوسروں کا حق کیسے آگیا۔ یہ ساری دولت میں نے خود کمائی ہے۔ محنت کرکے کمائی ہے۔ اپنے ہنر، تجربہ اور قابلیت کی بنا پر کمائی ہے۔ پھر اس میں دوسروں کا حق کیوں کر شامل ہوگیا ؟ جو تم مجھے دوسروں کا حق ادا کرنے کی تلقین کرنے لگے ہو۔ [١٠٥] قارون کاجواب اور ناعاقبت اندیشی:۔ قارون کو یہ جواب دیتے وقت اتنا بھی خیال نہ آیا کہ جس ہنر، تجربہ اور قابلیت کا وہ ذکر کر رہا ہے وہ اسے اللہ نے ہی بخشی ہے۔ لہٰذا وہ اپنے حقیقی محسن کو بھول کر اپنی ہی دولت اور لیاقت پر ناز کرنے لگا۔ پھر اسے یہ بھی خیال نہ آیا کہ دولت ڈھلتی چھاؤں ہے اس کے پاس اگر جمع ہوگئی ہے تو اس سے چھن بھی سکتی ہے۔ پھر یہ دولت کیا امن و سلامتی کی بھی ضامن بن سکتی ہے؟ کتنے ہی لوگ تھے جو اس سے طاقت اور دولت میں بڑھ کر تھے لیکن جب انہوں نے سرکشی دکھلائی تو اللہ نے تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ اور اپنی ساری دولت اور خزانے اپنے پیچھے چھوڑ کر انتہائی بے بسی اور حسرت و یاس کی موت مرگئے۔ [١٠٦] یعنی مجرموں کے تمام اعمال و اقوال کا ریکارڈ اللہ کے ہاں پہلے سے ہی موجود ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ مجرموں سے ان کے گناہوں کے سوال کیا جائے اور اگر وہ ان کا اعتراف کرلیں تو تب ہی ان کے جرم ثابت ہوں گے۔ اور قیامت کے دن ان سے پوچھا بھی جائے گا تو ان کو خلق خدا کے سامنے ذلیل و رسوا کرنے اور زجر و توبیخ کے طور پر پوچھا جائے گا۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے مجرموں کے اعمال کے اچھا یا برا ہونے کا معیار مجرموں کے اپنے خیال پر منحصر نہیں۔ مجرم تو ہمیشہ یہی دعویٰ کریں گے کہ وہ بڑے اچھے لوگ ہیں اور ان میں کوئی برائی نہیں۔ جیسے کہ قارون بھی اپنے آپ کو درست ہی سمجھتا تھا۔ لہٰذا مجرموں کو جو سزا ملے گی اسی کا انحصار اس بات پر نہیں ہوگا کہ آیا مجرم خود بھی اس کام کو جرم سمجھتا ہے یا نہیں۔ القصص
79 [١٠٧] قارون کا شاہانہ ٹھاٹھ کا مظاہرہ کرنااوردنیاداروں کی آرزو:۔یعنی اس کے کچھ گھڑ سوار خادم اس لئے آگے چل رہے تھے اور خود لباس فاخرہ پہنے ایک عمدہ گھوڑے پر سوار تھا۔ پھر اس کے پیچھے بھی اس کے خادم گھڑ سواروں کا دستہ تھا۔ اس سے دراصل وہ اپنی شان و شوکت اور ٹھاٹھ باٹھ کا لوگوں کے سامنے مظاہرہ کرنا چاہتا تھا۔ اور یہی وہ متکبرانہ مظاہرہ ہے جو اللہ کو سخت ناپسند ہے اور اللہ ایسے لوگوں کو کبھی معاف نہیں کرتا۔ مگر جو لوگ دنیا پر ریجھے ہوئے ہوں، انھیں ایسی ہی مظاہرہ ترقی کی انتہائی منزل نظر آتا ہے۔ چنانچہ دنیا دار مادہ پرستوں نے جب قارون کو اس ٹھاٹھ باٹھ سے نکلتے دیکھا تو خود بھی اس منزل تک پہنچنے کی آرزو کرتے ہوئے کہنے لگے کہ یہ شخص تو بڑا ہی خوش نصیب ہے۔ کاش ہمیں بھی ایسا سازوسامان میسر آجاتا۔ القصص
80 [١٠٨] علم سے مراد علم شریعت ہے۔ یعنی جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ آخرت کی کامیابی کے مقابلہ میں دنیا کا سازوسامان جتنا بھی ہو وہ کچھ حقیقت رکھا۔ ایسے عالم لوگوں نے قارون اور اس کے ٹھاٹھ باٹھ پر رہنے والوں سے کہا، تمہاری دنیا سے یہ محبت تمہاری خطرناک بھول غلطی ہے۔ اصل کامیابی دنیا کی نہیں بلکہ آخرت کی کامیابی اور وہ اجر ہے جو ایماندار نیک لوگوں کو ملے گا۔ [١٠٩]صبر کے مفہوم کی وسعت :۔ یہاں صبر بڑے وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اپنے آپ کو صرف حلال کمائی کی پابند بنائے رکھنا بھی صبر ہے۔ اللہ کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرلینا بھی صبر ہے۔ دنیوی جاہ و حشمت کو دیکھ کر اس پر فریفتہ نہ ہونا بھی صبر ہے۔ اور اخروی نجات اور کامیابی کو مطمح نظر بنا کر اپنے آپ کو احکام الٰہی کا پابند بنانا بھی صبر ہے۔ یعنی آخرت کا ثواب اور کامیابی انھیں لوگوں کا نصیب ہوگا جنہوں نے اس دنیا میں صبر، استقلال اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ہوگا۔ القصص
81 [١١٠] قارون کاانجام:۔کہتے ہیں کہ قارون جب موسیٰ علیہ السلام کا مخالف بن کر فرعون سے جاملا تو اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بدنام کرنے کے لئے ایک سازش تیار کی اور ایک فاحشہ عورت کو کچھ دے دلا کر اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ آپ پر زنا کی تہمت لگا دے۔ چنانچہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسے قسم دے کر سچ سچ بات بتلانے کو کہا تو اس نے بتلا دیا کہ اس نے قارون کے بہکانے سے یہ حرکت کی تھی اور اصل مجرم قارون تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس کی اس حرکت پر سخت غصہ آیا۔ آپ نے اس کے لئے بددعا کی۔ یہ اسی بددعا کا اثر تھا کہ قارون اپنے محل، اپنے خزانوں اور خادموں سمیت زمین میں دھنسا دیا۔ زمین کا اتنا ٹکڑا ہی سارے کا سارا عام سطح زمین سے بہت نیچے چلا گیا اور حب اس پر یہ قہر الٰہی نازل ہوا تو اس وقت نہ اس کے خزانے کچھ کام آسکے نہ اس کے خدام اور نہ ہی فرعون اور اس کی درباری اس کی مدد کو پہنچ سکے کہ وہ اسے زمین دھنس جانے سے بچا لیں۔ القصص
82 [١١١] قارون کا یہ انجام دیکھ کر ان دنیا پر فریفتہ ہونے والوں کی آنکھیں کھل گئیں جو کل یہ سمجھ رہے تھے کہ قارون کس قدر خوش نصیب آدمی ہے۔ اور ان پر حقیقت واضح ہوگئی کہ جس شخص کے پاس مال ودولت کی فراوانی ہو۔ ضروری نہیں کہ اللہ بھی اس پر خوش ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو قارون کبھی اس عذاب الٰہی کا شکار نہ ہوتا۔ اور دوسری بات انھیں معلوم ہوئی کہ جب اللہ کا عذاب آتا ہے تو مال و دولت کس قدر بھی زیادہ ہو کسی کام نہیں آسکتا ہے۔ بلکہ بسا اوقات یہی مال و دولت عذاب الٰہی کو کھینچ لانے کا سبب بن جاتا ہے۔ لہٰذا انسان کی خوش نصیبی کا معیار مال و دولت ہرگز نہیں ہوسکتا۔ رزق کی کمی بیشی اور چیز ہے اور انسان کی فلاح اور خوش نصیبی اور چیز ہے۔ اور یہ اچھا ہوا کہ ہماری آرزو کرنے کے باوجود اللہ نے ہمیں مال و دولت کی فراوانی عطا نہیں کی ورنہ ہمارا بھی وہی حشر ہوتا جو قارون کا ہوا ہے۔ القصص
83 [١١٢] عَلَوْا بمعنی سربلند، متکبر، مغرور یعنی وہ بڑا بن کر نہیں رہتے نہ دوسروں کو دبا کر رکھتے ہیں بلکہ متواضع اور منکسر المزاج بن کر اور اللہ کے فرمانبردار بن کر رہتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے آخرت کا گھر مختص ہے۔ سربلندی اور ناموری چاہنے والوں اور متکبر بن کر رہنے والوں کے لئے ہرگز نہیں ہے۔ [١١٣] فساد کا مفہوم۔۔فساد فی الارض کیاہے؟فساد کے لفظ کا اطلاق عموماً چوری، ڈاکہ، غصب، غبن، لوٹ مار اور قتل و غارت کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے جبکہ شرعی اصطلاح فساد فی الارض کے معنوں میں اس سے بہت زیادہ وسعت ہے یعنی وہ کام جس میں انسان اپنے حق سے تجاوز کر رہا ہو یا دوسرے کے حق پامال کررہا ہو وہ فساد فی الارض کے ضمن میں آئے گا۔ قارون کے قصہ میں اللہ نے قارون کو فساد فی الارض کا مجرم قرار دیا ہے۔ حالانکہ وہ نہ چوری کرتا تھا نہ لوٹ مار، نہ قتل و غارت ان میں سے کوئی کام بھی نہیں کرتا تھا۔ اس کا فساد فی الارض یہ تھا کہ اس کے مال میں دوسروں کا حق شامل تھا وہ اسے ادا نہیں کر رہا تھا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص دھوکے سے یا جھوٹی قسم کھا کر اپنا مال بیچ رہا ہے۔ تو اگرچہ معاشرہ اسے فسادی نہیں سمجھتا لیکن شرعی لحاظ سے وہ فسادی ہے۔ کیونکہ اس نے فریب یا جھوٹی قسم کے ذریعہ چیز کی اصل قیمت سے زیادہ وصول کرکے خریدار کو نقصان پہنچایا یا اس کا حق غصب کیا ہے گویا فساد سے مراد انسانی زندگی کے نظام کا وہ بگاڑ ہے جو حق سے تجاوز کرنے کے نتیجہ میں لازماً رونما ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر احکام الٰہی سے تجاوز کرتے ہوئے انسان جو کچھ بھی کرتا ہے وہ فساد ہی فساد ہے اور سب سے بڑا فساد اللہ کی حق تلفی یا شرک ہے۔ القصص
84 [١١٤] اس آیت میں جزا و سزا سے متعلق ضابطہ الٰہی بتلایا گیا ہے جو یہ ہے کہ نیکی کا بدلہ اللہ تعالیٰ اس کے اصل اجر سے بہت زیادہ دے گا جو دس گناہ سے سات سو گناہ تک بھی ہوسکتا ہے بلکہ اس سے زیادہ بھی اور یہ اس کے فضل و رحمت اور احسان کی بنا پر ہوگا۔ اور برائی کا بدلہ اتنا ہی ملے گا جتنی برائی تھی۔ یعنی اس بدلہ میں زیادتی نہ ہوگی اور یہ اس کی صفات عدل کا تقاضا ہے۔ دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ نیکی پر اللہ نے وعدہ فرمایا کہ اس کا بدلہ ضرور ملے گا اور برائی پر یہ وعدہ نہیں فرمایا کہ اس کا بدلہ ضرور مل کر رہے گا۔ کیونکہ یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ معاف فرما دے۔ البتہ یہ بیان فرمادیا کہ اپنے کئے سے زیادہ سزا نہیں ملے گی۔ القصص
85 [١١٥] یعنی قرآن لوگوں پر پڑھ کر سنانے، قرآن کی تعلیم دینے، اس پر عمل پیرا ہو کر دوسروں کو دکھانے اور اس کی اشاعت و تبلیغ کی ذمہ داری آپ پر ڈالی ہے۔ [١١٦]معاد کےمختلف مفہوم:۔ معاد کے معنی ہیں عود کرنے یا لوٹنے کی جگہ بھی اور وقت بھی۔ چونکہ اس لفظ کے معنی میں کافی وسعت ہے۔ لہٰذا اس کی تعبیر میں اختلاف ہے۔ اکثر مفسرین سے معاد سے مراد فتح مکہ ہی لیا ہے ان کے قول کے مطابق یہ آیت مکہ سے مدینہ کو ہجرت کے دوران نازل ہوئی تھی۔ اس وقت ہی آپ کو یہ خوشخبری سنادی گئی تھی کہ آپ پھر اس شہر مکہ کو آنے والے ہیں اور یہی مفہوم ﴿وَاَنْتَ حِـۢلٌّ بِہٰذَا الْبَلَدِ ﴾ سے بھی متبادر ہوتا ہے اور بعض لوگوں نے معاد سے جنت اور اس سلسلہ میں اللہ نے آپ سے جو وعدہ کئے ہیں، یہ سب کچھ مراد لیا ہے اور بعض حضرات نے معاد سے مراد آپ کی زندگی کا آخری وقت لیا ہے۔ جبکہ پورے کا پورا جزیرۃ العرب اسلام کے زیرنگین آگیا تھا۔ اور یہ برتری آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی شخص کو بھی حاصل نہ ہوئی تھی کہ کم از کم سیاسی طور پر ہی سارا عرب اس کے زیر نگین ہو اور پورے جزیرۃ العرب کے محض سیاسی حکمران ہی نہیں تھے بلکہ اسلام کے بغیر کوئی بھی دین جزیرۃ العرب میں باقی نہیں رہ گیا تھا۔ [١١٧] کفار مکہ جن جن القابات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نوازا کرتے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ تم آبائی دین کو چھوڑ کر ایک ہوگئے ہو اور یہ بات ایک دفعہ نہیں کئی بار وہ دہرا چکے تھے لہٰذا یہ اور ایسی ہی دیگر آیات آپ کی تسلی کے لئے مختلف اوقات میں اور مختلف سورتوں میں نازل ہوتی رہیں۔ القصص
86 [١١٨]نبی کو نبوت ملنے تک یہ علم نہیں ہوتاکہ اسے نبوت ملنے والی ہے:۔ اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ کسی نبی کو بھی نبوت ملنے سے پہلے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اسے نبوت عطا ہوگی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نبوت عطا ہونے کا واقعہ قرآن میں متعدد بار آیا ہے۔ کہ کس طرح وہ ایک اندھیری اور ٹھنڈی رات کو راہ بھولے ہوئے آگ کی تلاش میں نکل گئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بلا کر نبوت سے سرفراز کردیا۔ بالکل یہ صورت حال آپ سے بھی غار حرا میں پیش آئی تھی۔ پہلی وحی کے بعد آپ گھبرائے ہوئے گھر پہنچے اور کہا : ’’مجھے کپڑا اوڑھا دو، کپڑا اوڑھا دو‘‘ پھر جب ذرا گھبراہٹ دور ہوئی تو آپ نے حضرت خدیجہ سے غار حرا کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ﴿إنِّیْ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِی﴾ یعنی ’’مجھے تو اپنی جان کا بھی خطرہ پڑگیا تھا‘‘ پھر حضرت خدیجہ آپ کو ساتھ لے کر اپنے خالہ زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو ایک نصرانی عالم اور نیک سیرت انسان تھے۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا کہ یہ تو وہی فرشتہ ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوتا تھا۔ (بخاری۔ کتاب الوحی۔ باب کیف بدا الوحی الیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) آپ افضل الانبیاء کیسےہیں؟ دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہر دور کا نبی اپنے دور کا بہترین انسان ہوتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ اسے نبوت کے لئے منتخب فرماتا ہے۔ نبوت عطا ہونے کے بعد اس کے فضل و شرف میں مزید اضافہ ہوجاتا اور ہوتا رہتا ہے۔ شریعت کا ایک اصول یہ ہے۔ (الدال علی الخیر کفاعلہ) یعنی ’’بھلائی کی طرف رہنمائی کرنے والا اس کے کرنے والے کی طرح ہی ہوتا ہے۔‘‘ یعنی اسے بھی اتنا ہی اجر ملتا ہے جتنا کرنے والے کو ملتا ہے۔ اس لحاظ سے ہر نبی اپنی امت کے نیک اعمال بجا لانے والوں کے برابر کے اجر کا مستحق ہوتا ہے اور یہ اس کا اضافہ اجر ہوتا ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت چونکہ تمام انبیاء سے زیادہ ہے لہٰذا تمام انبیاء پر آپ کی افضلیت بھی ثابت ہوگئی۔ یہی وہ فضل و شرف ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَکَانَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا﴾(۴:۱۱۳) اور اللہ تعالیٰ کا آپ پر یہ فضل کہ آپ کو نبوت بھی عطا کی گئی اور کتاب بھی دی گئی ایسا فضل تھا جس کی آپ کو بالکل توقع نہیں تھی۔ [١١٩] یعنی اگر آپ کی قوم قریش اور آپ کے بھائی بند اور رشتہ دار دین کے معاملہ میں آپ کا ساتھ نہیں دے رہے بلکہ مخالفت پر اتر آئے ہیں تو اب نہ انھیں اپنا رشتہ دار سمجھو اور نہ کسی بھی معاملہ میں ان کا ساتھ دو یا ان کی حمایت کرو۔ آپ کی مدد اور حمایت کے اب وہی لوگ مستحق ہیں۔ جو آپ پر ایمان لا کر آپ کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اور اللہ نے آپ پر جو اتنی بڑی مہربانی فرمائی ہے تو اس کے شکریہ کے طور پر آپ دین کے معاملہ میں اپنی قوم کی رعایت اور خاطر ہرگز نہ کیجئے۔ اور نہ ہی اپنے آپ کو ان کا ایک فرد شمار کیجئے۔ ہاں ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت ضرور دیتے رہئے مگر احکام الٰہی میں قرابت داری کی بنا پر کوئی لچک نہ رہنے دیجئے۔ القصص
87 [١٢٠] یہ خطاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف محض تاکید مزید کے لئے ہے۔ ورنہ آپ سب سے زیادہ شرک کے خلاف ہی جہاد فرمارہے تھے اور آپ سے شرک کا صدور ناممکن تھا۔ گویا آپ کو خطاب اس لئے کیا گیا کہ دوسروں کو ٹھیک طرح تنبیہ ہوجائے۔ القصص
88 [١٢١] یہ وہ جملہ ہے کہ دعوت اسلام کا خلاصہ ہے۔ قرآن کریم کی اکثر سورتوں کا آغاز بھی شرک کی تردید اور توحید کی دعوت سے ہوتا ہے اور اختتام بھی ایسی ہی آیات پر ہوتا ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کا سب سے اہم موضوع یہی ہے۔ [١٢٢]ہرچیزہلاک ہونےوالی ہے۔ جو چیز بھی مخلوق ہے وہ ضرور فنا ہونے والی ہے یہ فنا کب ہوگی۔ قیامت کو یا اس سے بھی مدتوں بعد؟ یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے جس طرح اللہ خود مخلوق نہیں بلکہ ہر چیز کا خالق ہے اسی طرح اللہ کی صفات بھی مخلوق نہیں جیسے لوح محفوظ اور قلم جو کہ اللہ کی صفت علم سے تعلق رکھتی ہیں۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ اللہ کے سوا آٹھ چیزیں ایسی ہیں جو قیامت کو بھی فنا نہ ہوں گی۔ اللہ کا عرش اور کرسی، بہشت اور دوزخ، روح اور ریڑھ کی ہڈی کا نقطہ عجب الذنب لوح محفوظ اور قلم۔ واللہ اعلم بالصواب [١٢٣] چونکہ اللہ ہی ہر چیز کا خالق اور مالک ہے لہٰذا کائنات کی ہر چیز پر حکم بھی اس کا چلتا ہے۔ اور جنوں اور انسانوں میں بھی طبیعی امور میں اسی کا حکم چلتا ہے البتہ اختیاری امور میں بھی انھیں اللہ کے حکم کا پابند رہنے کا حکم دیا گیا ہے اور اسی میں ان کا بھلا ہے۔ رہا آخرت کو اللہ کی طرف لوٹنے کا حکم تو یہ اختیاری امر نہیں بلکہ اللہ کا ایسا حکم ہے جو ہو کر رہے گا۔ پھر اس دن حکم بھی صرف اسی کا چلے گا۔ اسی کی عدالت ہوگی اور اسی کے فیصلے نافذ ہوں گے۔ القصص
0 العنكبوت
1 العنكبوت
2 [١] یہ سورت اس زمانہ میں نازل ہوئی جب مکہ میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جارہے تھے۔ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو دل سے تو اسلام کی حقانیت پر یقین رکھتے تھے مگر مصائب و مشکلات سے گھبرا کر اپنے ایمان کا اعلان نہیں کرتے تھے۔ کچھ ایسے بھی مسلمان تھے جو اسلام لانے کی حد تک تو بہت مخلص تھے مگر مشکلات کے وقت گھبرا جاتے تھے اور مسلمانوں کا ایک کثیر طبقہ ایسا راسخ الایمان لوگوں کا بھی تھا جو ان مصائب کو اللہ کی رضا کی خاطر بڑی فراخدلی اور خندہ پیشانی سے برداشت کر رہا تھا۔ اس آیت میں ہر طرح کے لوگوں کو متنبہ کیا جارہا ہے کہ یہی مصائب و مشکلات ہی ان کے ایمان کی کسوٹی ہیں اور انہی سے یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ فلاں شخص کس حد تک اپنے ایمان کے دعویٰ میں پختہ ہے۔ العنكبوت
3 [٢]ایمانداروں کی مصائب کی کسوٹی پر جانچ:۔حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اس وقت آپ کعبہ کے سایہ میں ایک چادر پر تکیہ لگائے بیٹے تھے۔ اس زمانہ میں ہم مشرک لوگوں سے سخت تکلیفیں اٹھا رہے تھے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : ’’آپ اللہ سے دعا کیوں نہیں کرتے؟‘‘ یہ سنتے ہی آپ (تکیہ چھوڑ کر سیدھے) بیٹھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ (غصہ سے) سرخ ہوگیا اور آپ نے فرمایا : ’’تم سے پہلے ایسے لوگ گزر چکے ہیں جن کے گوشت اور پٹھوں میں ہڈیوں تک لوہے کی کنگھیاں چلائی جاتی تھیں مگر وہ اپنے سچے دین سے نہیں پھرتے تھے اور آرا ان کے سر کے درمیان پر رکھ کر چلایا جاتا اور دو ٹکڑے کردیئے جاتے مگر وہ اپنے دین سے نہ پھرتے۔ اور اللہ اپنے اس کام (غلبہ حق) کو ضرور پورا کرکے رہے گا۔‘‘ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب مالقی النبی و اصحابہ من المشرکین بمکۃ) [٣]عقیدہ بدااوراس کا جواب:۔ فلیعلمن سے ایک گمراہ فرقہ نے یہ عقیدہ اخذ کیا کہ جوں جوں واقعات ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ اللہ کو ان کا علم ہوتا جاتا ہے۔ اور اس عقیدہ کو وہ لوگ اپنی اصطلاح میں بدا کہتے ہیں۔ حالانکہ بے شمار آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات اور اس میں ظہور پذیر ہونے والے تمام واقعات کا پہلے سے ہی علم ہے۔ اور اس کا یہ علم بھی اس کی ذات کی طرح ازلی ابدی ہے۔ اور اس آیت یا اس جیسی بعض دوسری آیات سے جو اللہ تعالیٰ کے حدوث علم کا وہم پیدا ہوتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ماضی، حال اور مستقبل کی تقسیم صرف صرف ہم انسانوں کے لئے ہے اللہ تعالیٰ کے لئے زمانہ کی یہ تقسیم کوئی چیز نہیں ہے۔ کیونکہ ہر واقعہ خواہ وہ ہمارے خیال کے مطابق زمانہ سے تعلق رکھتا ہو یا حال سے یا استقبال سے اس کے لئے غیب نہیں بلکہ شہادت ہی شہادت ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے مستقبل کی خبروں کو بے شمار مقامات پر زمانہ ماضی کے صیغہ میں ذکر فرمایا ہے۔ جیسے ﴿ وَنَادٰٓی اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ اَصْحٰبَ النَّارِ ﴾(۷: ۴۴) جیسے ﴿ اِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ﴾(۱:۸۱) لیکن یہ ایسے واقعات کے متعلق ہوتا ہے جو انسانوں کے تجربہ و مشاہدہ میں نہ آسکتے ہوں۔ اور جو انسانوں کے تجربہ اور مشاہدہ میں آسکتے ہوں تو ان کا تعلق یقیناً حال اور استقبال سے ہوگا۔ لہٰذا ایسے مقامات پر اللہ تعالیٰ نے مضارع کا صیغہ استعمال فرمایا ہے اور اس کا مطلب صرف یہ ہی نہیں ہوتا تاکہ ہم جان لیں یا معلوم کرلیں بلکہ یہ بھی ہوتا ہے تاکہ تم لوگ جان لو۔ جیسا کہ اس مقام پر ہے یا اور بھی کئی مقامات پر ایسا انداز اختیار کیا گیا ہے۔ اور اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو فی الواقع ہر شخص کے متعلق پہلے سے علم ہے کہ فلاں شخص کیسے خصائل کا مالک ہے۔ لیکن محض اللہ اپنے علم کی بنا پر کسی کو جزا یا سزا نہیں دیتا جب تک فی الواقع وہ بات عملی صورت نہ اختیار کرلے۔ مثلاً یہ بات اللہ کے علم میں ہے کہ فلاں شخص فلاں وقت چوری کرے گا۔ لیکن اس علم پر سزا مترتب نہ ہوگی۔ جب تک فی الواقع وہ شخص چوری نہ کرلے۔ گویا اللہ تعالیٰ یہ انداز بیان اس وقت اختیار کرتے ہیں جب اس کا تعلق دوسرے لوگوں کے علم سے ہو۔ ایسی آیات میں علم کا ترجمہ مشاہدہ یا دیکھنے سے کیا جاسکتا ہے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اس کا معنی لِیُرِیَنَّ ہی کرتے ہیں۔ (ابن کثیر) اور اگر علم کا ترجمہ جاننے سے ہی کیا جائے تو اس ''جاننے'' میں اللہ کے علاوہ دوسرے لوگ بھی شریک ہوں گے۔ اور بعض علماء نے ایسے مقامات پر لفظ علم کا ترجمہ جاننے کے بجائے جتلانے سے کیا ہے۔ العنكبوت
4 [٤] اس جملہ کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ اگر ہم ان پر گرفت کرنا چاہیں تو یہ لوگ ہماری گرفت سے بچ کر کہیں جا نہیں سکتے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی سرتوڑ مخالفانہ کوششوں اور سازشوں کے باوجود خود ہی ناکام رہیں گے اور غلبہ اسلام کی راہ روکنے میں کبھی کامیاب نہ ہوسکیں گے، اور اگر وہ ایسا گمان کرتے ہیں کہ وہ یقیناً کامیاب ہوجائیں گے تو یہ ان کی زبردست بھول اور غلط قسم کا فیصلہ ہے۔ واضح رہے کہ اس آیت میں روئے سخن صرف کافروں کی طرف ہے۔ العنكبوت
5 [ ٥] اور جو لوگ دین اسلام کی سربلندی کے لئے ہر طرح کے مصائب و مشکلات بڑی خندہ پیشانی سے برداشت کر رہے ہیں اس توقع پر کہ موت کے بعد یقیناً انھیں ان باتوں کا اجر ملنے والا ہے تو انھیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ان کی موت کا وقت آنے ہی والا ہے۔ دنیا کی زندگی بس چند روزہ زندگی ہے۔ اس کے بعد یقیناً ان کی اللہ سے ملاقات ہوگی اور انھیں ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا۔ کیونکہ ان کے تمام اعمال و اقوال اللہ سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ العنكبوت
6 [٦]جہادکےمختلف محاذاوراقسام:۔ جہاد بمعنی کسی انسان کی مقدور بھر کوشش جو اسلام کے نفاذ اور اس کی سربلندی کے لئے کی جائے۔ پھر اس جہاد کی اقسام بھی متعدد ہیں اور محاذ بھی متعدد ہیں۔ اقسام سے مراد مثلاً زبان سے جہاد ایک دوسرے کو سمجھانا اور تلقین کرنا یا تقریروں کے ذریعہ تبلیغ کرنا اور قلم سے جہاد یعنی اسلامی تعلیمات کی اشاعت اور اسلام پر وارد ہونے والے اعتراضات اور حملوں کا جواب لکھنا اور پھر اس کے بعد اجتماعی جہاد یا جہاد بالسیف یا قتال فی سبیل اللہ ہے۔ اور جہاد کا سب سے پہلا محاذ انسان کا اپنا نفس ہے۔ پھر اس کے بعد عزیزواقارب پھر اس کے بعد پورا معاشرہ ہے۔ اور آخری محاذ قتال فی سبیل اللہ یعنی ان کافروں سے جنگ کرنا ہے جو اسلام کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہوگئے ہوں یا اسلام کو نیست و نابود کرنے پر تلے بیٹھے ہوں۔ جہاد اگر نفس سے کیا جائے گا تو جہاد کرنے والے کی اپنی اخلاقی اور روحانی اصلاح ہوگی اگر اجتماعی جہاد اپنے معاشرہ سے کیا جائے گا تو پورا معاشرہ بے حیائیوں سے اور ظلم و جور سے پاک ہوگا اور اگر جہاد بالسیف کیا جائے گا تو اس سے مسلمانوں کو سیاسی فائدے حاصل ہوں گے۔ جس قسم کا بھی جہاد کیا جائے گا، بالآخر اس کا فائدہ جہاد کرنے والے کی ذات کو ہی پہنچے گا۔ [ ٧] جہادکی توفیق دینابھی اللہ کی مہربانی ہے:۔ یعنی جہاد کرنے والا اگر جہاد نہ کرے تو اللہ کو کچھ نقصان نہیں پہنچے گا اور اگر جہاد کرتا ہے تو بھی اللہ کو اس کا کچھ فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ اور اللہ کی بے نیازی کا تو یہ عالم ہے کہ اللہ فرماتے ہیں ’’اے میرے بندو! اگر تم تمام جن و انس سارے کے سارے اس شخص کی طرح بن جاؤ جو تم میں سے سب سے زیادہ پرہیزگار ہے تو اس سے میری بادشاہی میں ذرہ بھر بھی اضافہ نہیں ہوگا اور اے میرے بندو! اگر تم تمام جن و انس سارے کے سارے اس شخص کی طرح ہوجاؤ جو تم میں سے سب سے زیادہ میرا نافرمان اور بدکار ہے تو اس سے میری بادشاہی میں ذرہ بھر بھی کمی واقع نہ ہوگا‘‘ (مسلم۔ کتاب البروالصلہ۔ باب تحریم الظلم) پھر یہ بات بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اگر کوئی شخص اسلام کی سربلندی کے لئے کوئی کام کرتا ہے تو اسے ہرگز یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ وہ اللہ پر کچھ احسان کر رہا ہے بلکہ اسے اللہ کا ممنون احسان ہونا چاہئے اور اس کا شکر ادا کرنا چاہئے جس نے اسے جہاد کی توفیق بخشی جس میں ہر پہلو سے اس کا اپنا ہی بھلا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھئے جیسے کوئی سرکاری افسر ایک شخص کو اپنے ماتحت ملازم رکھ لیتا ہے تو ملازم کو اس افسر کا ممنون احسان ہونا چاہئے۔ چہ جائیکہ ملازم یہ کہنا شروع کردے کہ میں نے ملازم ہو کر افسر پر احسان کیا ہے۔ العنكبوت
7 [ ٨] نیکیوں سے برائیاں مٹنے کی مختلف صورتیں:۔اس کی تین صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ جو شخص اسلام لائے اس کے سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح نیک اعمال بجا لانے سے چھوٹی موٹی برائیاں معاف کردی جاتی ہیں۔ دوسرے یہ کہ جو شخص نیک کام بجا لانا شروع کردے۔ اس کو از خود برائیوں سے نفرت ہوجاتی ہے۔ تیسرے یہ کہ جس معاشرہ میں نیکیاں رواج پانے لگیں۔ برائیاں از خود مٹتی چلی جاتی ہیں۔ کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ایک چیز آئے گی تو لامحالہ دوسری کو رخصت ہونا پڑے گا۔ بالکل ایسا ہی معاملہ سنت اور بدعت کا ہے۔ جس کے متعلق واضح الفاظ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا کہ :’’جہاں ایک بدعت رواج پاتی ہے تو وہاں سے ایک سنت اٹھا لی جاتی ہے۔‘‘ گویا بدعت کے رواج پانے کا ہی دوسرا پہلو سنت کا اٹھ جانا ہے۔ [ ٩] اس جملہ کے بھی دو مطلب ہیں ایک تو ترجمہ سے واضح ہے۔ یعنی جتنا اس نیک عمل کا اجر تھا اس سے زیادہ یا بہتر عطا کرے گا اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ انسان کا جو بہتر عمل ہوگا اللہ اس کے باقی عملوں کا بھی اس بہتر عمل کے معاوضہ کے حساب سے معاوضہ عطا فرما دے گا۔ العنكبوت
8 [ ١٠] اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر اپنے حقوق کے بعد متصلاً والدین کے حقوق اور ان سے بہتر سلوک کا ذکر فرمایا ہے۔ جس سے اس مسئلہ کی اہمیت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ تفصیل کے لئے سورۃ بنی اسرائیل کی آیت نمبر ٢٣ کا حاشیہ ٢٥ [ ١١] یعنی تمام کائنات میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اللہ کی شریک ہوسکے۔ اور اللہ کی اپنی شہادت بھی یہی ہے کہ وہ اللہ جو کائنات کا ایک ایک چیز کا ذرہ ذرہ بھر تک علم رکھتا ہے۔ اس کے علم میں بھی کوئی چیز نہیں جو اس کی شریک ہو۔ تو پھر تجھے یا کسی دوسرے کو کیا علم ہوسکتا ہے اور اس آیت میں لَکَ کا لفظ محض تاکید مزید کے طور پر ہے اور جو لوگ بعض اشیاء یا ہستیوں کو اللہ کا شریک قرار دیتے ہیں تو یہ محض ان کے جاہلانہ اوہام اور بے سند خیالات ہیں۔ حقیقت کی انھیں بھی کچھ خبر نہیں۔ [ ١٢]حقوق والدین اورسعدبن ابی وقاص کی والدہ کا کردار:۔ یعنی والدین بھی تجھے شرک پر مجبور کریں تو ان کی یہ بات تسلیم نہیں کی جائے گی۔ چنانچہ سعد بن ابی وقاص کے بیٹے معصب رضی اللہ عنہ بن سعد کہتے ہیں کہ اس کی ماں نے قسم کھائی تھی کہ وہ سعد سے کبھی بات نہ کرے گی جب تک وہ اپنا دین (اسلام) نہ چھوڑے گا، نہ ہی وہ کچھ کھائے گی اور نہ پئے گی۔ وہ سعد سے کہنے لگی کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے والدین کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور میں تیری ماں ہوں اور تجھے اس بات کا حکم دے رہی ہوں۔ پھر تین دن اس نے نہ کچھ کھایا نہ پیا اور نہ ہی سعد سے بات کی۔ تین دن کے بعد اسے غش آگیا تو اس کے ایک دوسرے بیٹے عمار نے اسے پانی پلایا۔ جب اسے ہوش آیا تو وہ سعد کے حق میں بددعا کرنے لگی۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (مسلم، کتاب الفضائل، باب فی فضل سعد بن ابی وقاص) اللہ کے مقابلہ میں کسی کی اطاعت نہیں:۔ اور دوسری احادیث و روایات سے جو تفصیل ملتی ہے وہ یہ ہے کہ جب اسلام لائے اس وقت آپ انیس بیس برس کے نوجوان تھے اور بالکل آغاز اسلام ایمان لائے تھے وہ خود روایت کرتے ہیں کہ اسلام لانے کے بعد مجھ پر سات دن ایسے گزرے ہیں کہ میں کل مسلمانوں کا تیسرا حصہ تھا (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب اسلام سعد) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانہ کے علاوہ اس وقت تک صرف تین آزاد مرد مسلمان تھے۔ جن میں سے ایک یہی حضرت سعد بن ابی وقاص تھے اور وہ اپنے ایمان میں اس قدر پختہ تھے کہ جب ان کی ماں نے بھوک ہڑتال کی دھمکی دی۔ تو آپ نے اپنی ماں سے کہا : ماں! اگر تیری سو جانیں ہوں اور ایک ایک کرکے سب نکل جائیں تو بھی میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین سے نہیں پھروں گا۔ تو کھا یا نہ کھایا تجھے اختیار ہے۔ شرک تو خیر سب گناہوں سے بڑا گناہ ہے۔ شریعت نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ اگر اللہ کی نافرمانی کی کوئی بھی بات ہو تو اللہ کے مقابلہ میں کسی کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ اطاعت صرف معروف کاموں میں ہوسکتی ہے۔ (متفق علیہ) خواہ حکم دینے والے والدین ہوں یا بادشاہ ہو یا امیر ہو، کسی کی بھی اللہ کے مقابلہ میں اطاعت نہیں کی جاسکتی۔ اس آیت سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ شرک یا اللہ کی نافرمانی کے علاوہ باقی ہر طرح کے معاملات میں والدین کی اطاعت فرض ہے۔ جیسا کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی والدہ نے بھی جو کافر تھی یہی کچھ سمجھا تھا۔ مگر دور حاضر کے مفسر قرآن جناب پرویز صاحب فرماتے ہیں کہ قرآن میں اطاعت والدین کے متعلق کوئی حکم نازل نہیں ہوا۔ ان کے اپنے الفاظ ہیں : کیااطاعت والدین قرآن کی روسے غیرضروری ہے؟”دنیا کے تمام مذاہب اور اخلاق کے دبستانوں میں یہ چیز (اطاعت والدین) ایک مسلمہ کی حیثیت اختیار کئے ہوئے ہے کہ ’’ماں باپ کی اطاعت فرض ہے‘‘ ایسے مسلمہ کی حیثیت جو کسی بھی غور و فکر، تنقید کی محتاج ہی نہیں۔ ان کے ہاں کبھی کسی نے اتنا خیال کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی کہ یہ بھی کوئی ایسی بات ہے جس میں دو رائیں ہوسکتی ہیں۔ لیکن قرآن کو دیکھئے۔ اس نے دنیا میں پہلی بار یہ آواز بلند کی ہے کہ جو لوگ عقل کے انحطاط کے دور میں پہنچ گئے ہوں ان کے فیصلے واجب الاتباع نہیں ہوا کرتے۔ ماں باپ حسن سلوک اور نرم برتاؤ کے مستحق ہیں اور بس۔ جب تک بچہ بچہ ہے وہ اس کے نگران اور کفیل ہیں۔ جب وہ عقل کی پختگی کو پہنچ جاتا ہے تو اپنے لئے آپ فیصلے کرنے کا مجاز ہوجاتا ہے۔ وہ دوسروں کے تجربوں سے مشورہ سے فائدہ تو اٹھا سکتا ہے لیکن اسے ان کے فیصلوں کا پابند نہیں بنایا جاسکتا۔‘‘ (قرآنی فیصلے ص ١٣٨) اس اقتباس سے درج ذیل امور پر روشنی پڑتی ہے : ١۔ اخلاق کے تمام دبستان اور دنیا کے تمام مذاہب اطاعت والدین کی فرضیت پر متفق ہیں۔ ان مذاہب میں سب اہل کتاب بھی شامل ہیں۔ جن کے انبیاء پر وحی الٰہی نازل ہوئی۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ والدین کی اطاعت سب انبیاء کی تعلیم کا حصہ رہا ہے۔ ٢۔ پھر ان مذاہب میں یا اہل کتاب میں مسلمان بھی شامل ہیں جنہیں قرآن جیسی کتاب دی گئی۔ اس قرآن میں پہلی بار یہ صدا بلند کی گئی کہ اطاعت والدین ایک بے معنی اور لغو چیز ہے۔ لیکن قرآن کی اس صدا پر مسلمانوں نے بھی کان تک نہ دھرا یا انھیں اس صدا کی سمجھ ہی نہ آسکی۔ اور وہ بھی اطاعت والدین دوسرے مذاہب کی طرح واجب ہی سمجھتے رہے تاآنکہ پرویز صاحب نے قرآن کی اس پہلی بار کی صدا کا صحیح مفہوم سمجھا اور وہ مفہوم یہ ہے کہ ’’والدین کے فیصلے واجب الاتباع نہیں ہوا کرتے‘‘ ٣۔ ماں باپ اپنی اولاد سے صرف حسن سلوک اور نرم برتاؤ کے مستحق ہیں اور بس۔ گویا پرویز صاحب کے خیال کے مطابق والدین کی اطاعت کے بغیر بھی ان سے حسن سلوک اور نرم برتاؤ ممکن ہے۔ والدین کی اطاعت کےنقصانات:۔ پھر اس کے بعد پرویز صاحب اپنے موقف کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’جب تک ماں باپ زندہ ہیں ان کا لڑکا خواہ ساٹھ ستر برس کا ہی کیوں نہ ہوجائے اسے کوئی حق حاصل نہیں کہ اپنے فیصلے اپنی صوابدید کے مطابق کرے۔ اسے ان کے فیصلوں کی تعمیل کرنی ہوگی جن کی عقل کے متعلق اس کے خدا کا فیصلہ ہے کہ اس عمر میں اوندھی ہوجاتی ہے۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ ماں باپ کی اطاعت کو فرض سمجھنے والی اولاد ساری عمر عقلی طور پر اپاہج اور ذہنی طور پر بچے کے بچے رہ جاتے ہیں‘‘ (ایضاص ١٢٩) اب دیکھئے اس اقتباس میں پرویز صاحب نے جو مثال پیش فرمائی ہے وہ عقل اور نقل دونوں لحاظ سے غلط ہے۔ عقلی لحاظ سے اس طرح کہ جو اولاد خود ساٹھ ستر برس کی عمر کو پہنچ چکی ہے اس کے والدین سو سال کی لگ بھگ ہی ہوسکتے ہیں۔ اس عمر میں وہ نان شبینہ حتی کہ نقل و حرکت تک کے لئے دوسروں کے محتاج ہوتے ہیں۔ اس حالت میں وہ کیا فیصلے دے سکتے ہیں اور اولاد کو کیسے حکم دے سکتے ہیں۔ وہ تو اس عمر میں اپنی رائے بتلانے کے بھی قابل نہیں رہتے۔ اور اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جو اولاد ساٹھ ستر برس کی عمر کو پہنچ چکی ہے وہ تو خود ارذل العمر کی حدود میں داخل ہوچکی ہے۔ اسے کیا حق ہے کہ اب وہ اپنے فیصلے آپ کرے۔ اب فیصلے کرنے کے لئے اس کی اولاد موجود ہے۔ جو کم از کم چالیس سال کی عمر کو پہنچ کر عقل کی پختگی حاصل کرچکی ہے۔ لہٰذا ساٹھ ستر برس کی اولاد کے لئے اس واقعاتی دنیا میں اطاعت والدین کا سوال بھی کم ہی پیدا ہوتا ہے۔ اور نقلی لحاظ سے یہ دلیل اس لئے غلط ہے کہ قرآن نے یہ کہیں نہیں کہا کہ اس عمر میں لوگوں کی عقل اوندھی ہوجاتی ہے۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں : ﴿ وَمَنْ نُّعَمِّرْہُ نُنَکِّسْہُ فِی الْخَلْقِ ﴾ اور جس کو ہم بڑی عمر دیتے ہیں اسے خلقت میں اوندھا کردیتے ہیں۔ یعنی بچے سے جوان، پھر جوان سے بوڑھا کردیتے ہیں۔ جوانی میں وہ طاقتور تھا، بڑھاپے میں کمزور ہوجاتا ہے اس کا جسم بھرا ہوا اور سڈول تھا، بڑھاپے میں وہ نحیف و نزار ہو جاتا ہے اور اس کے بند ڈھیلے پڑجاتے ہیں۔ اس آیت میں اس کی خلقت کے اوندھا ہونے کا ذکر ہے۔ عقل کا نہیں، اس مضمون سے ملتی جلتی دوسری آیت یہ ہے : ﴿وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰٓی اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِکَیْلَا یَعْلَمَ مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ شَیًْٔا ﴾ (۷۰:۱۶)’’اور تم میں سے کچھ ایسے ہیں جو خراب عمر کو پہنچ جاتے ہیں اور جاننے کے بعد بے علم ہوجاتے ہیں۔‘‘ یعنی ان کی یادداشت کمزور ہوجاتی ہے۔ وہ اپنا سابقہ حاصل کیا ہوا علم بھی بھول جاتے ہیں۔ اس آیت میں بھی عقل کے اوندھا ہونے کا کوئی ذکر نہیں۔ پروفیسر صاحب فرماتے ہیں کہ ’’جب بچہ بچہ ہے، والدین اس کے نگران اور کفیل ہیں، جب وہ عقل کی پختگی کو پہنچ جاتا ہے تو اپنے لئے آپ فیصلے کرنے کا مجاز ہوجاتا ہے‘‘ اب سوال یہ ہے کہ بچپن میں تو بچہ والدین کے زیر تربیت و کفالت ہونے کی وجہ سے ان کی نافرمانی کر ہی نہیں سکتا، ورنہ اس کی تعلیم و تربیت رک جاتی ہے۔ پھر وہ نابالغ ہونے کی بنا پر شرعی احکام کا مکلف بھی نہیں ہوتا۔ اطاعت والدین کا تو سوال ہی اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ عاقل و بالغ ہوجائے اور یہی وہ عمر ہوتی ہے جس میں جوانی کا جوش، جذبات کی فراوانی اور عقل کی ناپختگی ہوتی ہے اور درحقیقت یہی وہ دور ہوتا ہے جس میں اسے والدین کی اطاعت کرنا ضروری ہوتی ہے تاآنکہ وہ عقل کی پختگی کی عمر یعنی چالیس سال کی عمر کو پہنچ جائے جب وہ عقل کی پختگی کو پہنچ جاتا ہے تو وہ اپنے فیصلے آپ کرنے کا مجاز ہوجاتا ہے۔ اس صورت میں اولاد نے والدین کی خدمات کا کیا صلہ دیا ؟ معلوم ہوتا ہے کہ پرویز صاحب کو بھی اپنے اس گھپلے کا احساس ہوگیا۔ چنانچہ بعد میں لکھتے ہیں کہ : ’’اس میں شبہ نہیں کہ ہماری موجودہ معاشرت (جس میں خاندانوں میں مشترکہ زندگی بسر ہوتی ہے) کی عائلی زندگی کا تقاضا ہے کہ افراد خاندان کے متفقہ فیصلوں کے ماتحت زندگی بسر کریں اور خود سر اور سرکش نہ ہوجائیں لیکن خودسری اور سرکشی اور شے ہے اور اصابت رائے اور شے‘‘ پھر اس عبارت پر حاشیہ دے کر فٹ نوٹ میں لکھتے ہیں کہ یاد رکھئے خود فیصلے کرنے کے لئے عقل کی پختگی اور رائے کی اصابت لاینفک شرط ہے۔ اس لئے بچہ جب تک اس منزل تک نہ پہنچ جائے اسے لامحالٰہ بڑوں کے فیصلہ کے مطابق چلنا ہوگا۔‘‘ (ایضا ص ١٢٩) اس اقتباس میں جواب طلب امور یہ ہیں : ١۔ کیا بڑوں میں والدین بھی شامل ہیں یا نہیں؟ یا صرف اطاعت والدین کی مخالفت میں ان بڑوں میں والدین کا نام تک لینا گوارا نہیں کیا گیا ؟ ٢۔ قرآن نے جو پہلی بار صدا بلند کی تھی کہ بڑوں کے فیصلے واجب الاتباع نہیں ہوتے اس صدا کے خلاف اب آپ خود ہی کیوں نوجوانوں کو ایسے مشورے دینے لگے؟ ٣۔ اگر چھوٹے بڑوں کے فیصلوں کے پابند ہوں گے تو اس طرح وہ عقلی لحاظ سے اپاہج بن جائیں گے اس بات کا آپ کے پاس کیا علاج ہے؟ اب ہم قرآن ہی سے ایسے دلائل پیش کرتے ہیں جن سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی اطاعت فرض ہے : ١۔ سورۃ عنکبوت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْـنًا وَاِنْ جَاہَدٰکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا ﴾(۸:۲۹) ”اور ہم نے انسان کو اپنے والدین سے حسن سلوک کا حکم دیا، پھر اگر وہ اس بات کے درپے ہوں کہ تو میرے ساتھ شریک کرے جس کی حقیقت کا تجھے علم نہیں تو پھر ان کی اطاعت نہ کر“ اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ اطاعت والدین حسن سلوک میں شامل ہے اور دوسری یہ کہ شرک کے معاملہ میں والدین کی اطاعت نہیں کی جاسکتی۔ باقی سب معاملات میں ان کی اطاعت لازم ہے۔ ٢۔ اور سورۃ لقمان میں بالکل ایسے ہی الفاظ آئے ہیں البتہ یہ وضاحت زیادہ ہے : ﴿ وَصَاحِبْہُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا ﴾ (۱۵:۳۱) ”اور دنیوی معاملات میں والدین کا اچھی طرح ساتھ دے خواہ وہ مشرک ہوں“ ﴿ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ﴾(۵۹:۴) ’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور ان کی بھی جو تم میں سے اولی الامر ہیں‘‘ یہاں اولی الامر جمع کا صیغہ ہے اور اس سے مراد صرف حکام سلطنت ہی نہیں بلکہ ہر وہ فرد بھی شامل ہے جس کی اطاعت کی جاتی ہے۔ مثلاً والدین، استاد، محلہ کے چوہدری، خاندان کے سربراہ وغیرہ وغیرہ یعنی اور وہ مسلمان ہیں اور اللہ کی معصیت کا حکم نہیں دیتے تو ان سب کی اطاعت لازم ہے۔ آخر ان اولی الامر کے زمرہ سے والدین کو کس لحاظ سے خارج کیا جاسکتا ہے۔ کیااطاعت کےبغیرحسن سلوک ممکن ہے:۔ ٤۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ : ﴿ وَّځ ابِوَالِدَیْہِ وَلَمْ یَکُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا ﴾ (۱۴:۱۹) ’’یحییٰ علیہ السلام اپنے والدین سے نیک سلوک کرنے والے تھے۔ ان پر دباؤ ڈالنے والے اور نافرمان نہیں تھے“ اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو شخص اپنے والدین کا، خواہ وہ کسی عمر میں ہوں، سرکش اور نافرمان ہو وہ اپنے والدین سے نیک سلوک کرنے والا ہو ہی نہیں سکتا۔ گویا حسن سلوک میں دو باتیں ضرورہیں، (١) سختی کے بجائے نرمی کا سلوک اور (٢) ان کی فرمانبرداری۔ بالفاظ دیگر والدین کی اطاعت کے بغیر ان سے حسن سلوک کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ٥۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بڑھاپے میں اولاد عطا فرمائی تھی۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام جب عاقل ہوگئے تو ان سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ : ﴿ یٰبُنَیَّ اِنِّیْٓ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْٓ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰی قَالَ یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُــؤْمَرُ ﴾(۱۰۲:۳۷) ”میرے پیارے بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر کر رہا ہوں، تم دیکھو کہ اس بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ حضرت اسماعیل نے کہا : ابا جان آپ کو جو حکم ہوا ہے، وہی کچھ کیجئے“ سیدنااسماعیل کی اطاعت کا بے نظیر نمونہ:۔اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام اس وقت عاقل و بالغ اور رائے دینے کے لئے قابل ہوچکے تھے۔ دوسرے یہ کہ یہ اللہ کا حکم خواب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ہوا تھا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو نہیں ہوا تھا۔ بایں ہمہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنے بوڑھے والد کی اطاعت کی وہ مثال قائم کی جس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔ نہ اس واقعہ سے پہلے اور نہ اس کے بعد۔ حضرت اسماعیل نے اپنے والد کی اطاعت میں جان کی قربانی پیش کرنے سے بھی انکار نہیں کیا۔ یہ نہیں سوچا کہ یہ تو خواب کی بات ہے یا یہ کہ نعوذ باللہ اب باپ بوڑھا ہوگیا ہے جو اس طرح کی بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہے یا یہ کہ باپ تو محض میری رائے پوچھ رہا ہے کوئی حکم تو نہیں دے رہا۔ یا یہ کہ اگر خواب میں حکم ہوا ہے تو میرے باپ کو ہوا ہے، مجھے تو نہیں ہوا۔ بلکہ اپنے باپ کی منشاء کے آگے (حکم کے آگے نہیں) سرتسلیم خم کردیا اور اللہ تعالیٰ نے ﴿فَلَمَّا أسْلَمَا﴾ کہہ کر اس بات پر مہر تصدیق ثبت کردی کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اپنے باپ کی منشاء کی اطاعت بھی عین اللہ کی اطاعت تھی، کیا اس سے بڑھ کر بھی بوڑھے والدین کی اطاعت کے سلسلہ میں قرآن سے کوئی ثبوت و دلیل درکار ہے۔ یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی مندرجہ بالا تصریحات سے مندرجہ ذیل نتائج سامنے آئے ہیں : ١۔ بلوغت سے پہلے بچہ والدین کے زیر تربیت و کفالت ہونے کی وجہ سے والدین کی اطاعت پر مجبور ہوتا ہے۔ اور اس بچہ کی اطاعت اس لحاظ سے بھی خارج از بحث ہے کہ اس عمر میں بچہ شرعی احکام کا مکلف نہیں ہوتا۔ ٢۔ بلوغت سے لے کر چالیس سال کی عمر تک (یعنی پختگی عقل اور اصابت رائے کی عمر تک) کے عرصہ میں اولاد کو والدین کی اور بزرگوں کی اطاعت کرنا لازم ہے کیونکہ اس عمر میں جوانی کا جوش اور جذبات کی شدت انسان کی عقل پر غالب ہوتے ہیں۔ لہٰذا وہ اپنا نفع و نقصان بھی درست طور پر سوچنے کے قابل نہیں ہوتا اور اس کی اپنی عافیت بھی اسی بات میں ہوتی ہے کہ وہ اپنے والدین اور بڑوں کی اطاعت کرے۔ ٣۔ اندازاً چالیس سال کی عمر کے بعد جب اس کی عقل پختہ ہوجاتی ہے اس وقت تک اس کے والدین کہولت کی عمر کو پہنچ چکے ہوتے ہیں۔ وہ خود اولاد کے محتاج ہونے کی وجہ سے اپنا کوئی حکم اپنی اولاد کے سرتھوپ نہیں سکتے۔ تاہم اس عمر میں بھی اگر اولاد اپنے والدین کی مرضی کو مقدم رکھے تو یہ بہت بڑی سعادت ہے۔ اگر کہیں اختلاف واقع ہوجائے تو پھر بھی اولاد کو یہ حق نہیں کہ وہ ان سے بحث و جدال کرے یا ان کو دبائے۔ بلکہ حکم یہ ہے کہ ایسی حالت میں بھی ان کو اف تک نہ کہے۔ انھیں دبانا یا ڈانٹنا تو بہت دور کی بات ہے۔ ایسی صورت میں وہ اپنی بات نرمی سے پیش کرکے دلائل سے قائل کرنے کی کوشش کرے اور دنیوی امور میں یعنی ان کے قیام و طعام کے سلسلہ میں دل و جان سے ان کی خدمت کرے۔ ٤۔اطاعت والدین کی حدود:۔ اگر والدین اللہ سے شرک یا دوسرے کسی معصیت کے کام پر اولاد کو مجبور کریں یعنی اللہ کے مقابلے میں کوئی حکم دیں تو ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ بس یہی ایک صورت ہے جس میں ان کی نافرمانی کی جاسکتی ہے۔ خواہ یہ ان کی عمر کا کوئی دور ہو۔ [ ١٣] یعنی والدین ہو یا اولاد، فرمانروا ہو یا رعایا کا کوئی فرد سب کو اللہ کی عدالت میں پیش ہونا ہے۔ وہ ہر ایک معاملہ میں تمہیں بتلا دے گا کہ زیادتی کس کی تھی اور حق پر کون تھا۔ العنكبوت
9 [ ١٤] یعنی ایسے نامساعد اور پریشان کن حالات میں جو شخص ایمان لائے اور نیکی کی راہ پر قائم رہے۔ جبکہ ان کے والدین یہی کافر تھے تو اللہ ایسے لوگوں کو صالحین کے زمرہ میں شامل فرما دے گا۔ نیز اللہ کا دستور یہ ہے کہ اگر والدین بھی مسلمان ہوں اور اولاد بھی تو اللہ تعالیٰ اولاد کو اپنے والدین کے ساتھ ملا دے گا۔ اگرچہ اولاد کے نیک اعمال اپنے والد کے اعمال کے پایہ کے نہ ہوں۔ اگر والدین کافر تھے تو اللہ ان کی اولاد کو صالحین کے زمرہ میں شامل فرما دے گا۔ العنكبوت
10 [ ١٥] یعنی وہ ہوتا تو کمزور ایمان والا ہے مگر اپنے آپ کو راسخ العقیدہ مسلمانوں میں شامل سمجھتا ہے۔ اور انہی کی طرح اپنے ایمان کا اقرار اور دعویٰ کرتا ہے۔ [١٦] اسلام لانے والوں کا بھی اسلام لانے کے ساتھ ہی امتحان شروع ہوجاتا ہے اور مسلمانوں کو کفار کی جانب سے طرح طرح کے دکھ اور مصائب برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ یہ دراصل حق و باطل کی سرد جنگ ہوتی ہے۔ اور ابتداءً چونکہ حق کمزور اور باطل اپنے جوبن پر ہوتا ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو کئی طرح کی مشکلات اور پریشانیاں لاحق ہوجاتی ہیں۔ کمزور ایمان والے اس صورت حال کو برداشت نہیں کرسکتے اور اسب سے اپنی جان چھڑانا چاہتے ہیں اور اپنے دعویٰ ایمان سے دستبردار ہونے لگتے ہیں یا کم از کم عملی طور پر اپنے دعویٰ کی تردید کردیتے ہیں۔ [ ١٧] اور اگر سردھڑ کی بازی لگانے کے بعد راسخ الایمان مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ فتح و نصرت سے بہرہ ور کر دے تو ایسے لوگ فتح کے ثمرات سے حصہ بٹانے کے لئے فوراً آموجود ہوں گے اور کہیں گے کہ ہم بھی تو تمہارے ساتھ اور تمہارے اسلام بھائی ہیں۔ [١٨] یعنی اللہ تعالیٰ ان کے زبانی دعوؤں کی حقیقت کو خوب جانتا ہے کہ وہ کون کون سے مفادات کی خاطر یہ ایمان لانے کے دعوے کرتے ہیں۔ اور تکلیفوں سے بچاؤ کے کون کون سے طریقے سوچتے رہتے ہیں۔ العنكبوت
11 [ ١٩] راہ حق میں تکالیف ومصائب پیغمبروں کی میراث ہے:۔یعنی اللہ تعالیٰ بار بار ایسے مواقع پیدا کرتا رہتا ہے جس سے سب کو معلوم ہوجاتا ہے۔ کہ فلاں شخص ایمان کے کس درجہ میں ہے۔ پختہ ایمان والا کون کون ہے، کمزور ایمان والا کون اور منافق کون ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ معرکہ حق و باطل کوئی وقتی اور عارضی سی چیز نہیں۔ اور نہ ہی یہ معرکہ ایسی چیز ہے جس کے نتائج صرف کسی معرکہ کارزار میں سامنے آئیں۔ یہاں یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ انبیاء چونکہ سب سے زیادہ پختہ ایمان والے ہوتے ہیں۔ اس لئے سب سے زیادہ ایذائیں اور مشکلات خود انہی کے حصہ میں آتی ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ''اَشدُّ الْبَلَاءِ عَلَی الأَنْبِیَاءِ ثُمَّ الأَمْثَلْ فَالْأَمْثَل'' یعنی سب سے سخت مشکلات و مصائب انبیاء پر آتی ہیں پھر ان سے کم درجہ کے ایمان والوں پر پھر ان سے کم درجہ کے ایمان والوں پر۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان پر مشکلات کا دور آتا ضرور ہے۔ البتہ اس کا معیار یہ ہوگا کہ جتنا زیادہ پختہ ایمان والا ہوگا اتنی ہی سخت اس کی آزمائش ہوگی۔ ضمناً اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شریعت کی پیروی میں تکلیف پہنچنا پیغمبروں کی میراث ہے اور ضروری نہیں کہ یہ تکلیف کافروں کے ہاتھوں ہی پہنچے، یہ مشرکوں کی طرف سے بھی پہنچ سکتی ہے۔ اہل بدعت اور دوسرے گمراہ فرقوں سے بھی اور مناقوں سے بھی۔ لہٰذا مبارک ہیں وہ لوگ جو اللہ کی راہ میں ستائے جائیں۔ ان کی عزت پر حملہ ہو یا ان کا کوئی جانی یا مالی نقصان ہو، ان کے لئے سب کچھ باعث فخر ہوتا ہے۔ العنكبوت
12 [ ٢٠] کافروں کامسلمانوں کوکہناکہ اگرتم واپس آجاؤ توہم قیامت کوتمہارا باراٹھالیں گے:۔ یہ بات مشرکین مکہ مسلمانوں سے اس لئے کہتے تھے کہ وہ خود آخرت کے قیام کے قائل ہی نہ تھے۔ نہ انھیں اس بات کا احساس تھا کہ آخرت میں ان سے باز پرس بھی ہونے والی ہے پھر انھیں اپنے اپنے گناہوں کا بار بھی اٹھانا پڑے گا۔ دوسری طرف انھیں اپنا دین مرغوب بھی تھا اور وہ اس مشرکانہ دین کو برحق بھی سمجھتے تھے۔ اسی لئے وہ مسلمانوں سے کہتے تھے کہ اگر تم واپس ہمارے دین میں آجاؤ۔ تو تمہارے خیال کے مطابق تمہارے اس ارتداد کا گناہ قیامت کو ہم اٹھائیں گے۔ گویا اس طرح کے سمجھوتہ میں انھیں فائدہ ہی فائدہ نظر آتا تھا۔ یعنی ان کا مطالبہ ارتداد تو ابھی پورا ہوجائے۔ اور اس کے معاوضہ کا جو وعدہ کرتے تھے اس پر وہ ایمان نہیں رکھتے تھے۔ [ ٢١] اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ کوئی شخص دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہ اٹھاتا ہے نہ اٹھا سکتا ہے۔ لہٰذا یہ لوگ جھوٹ بکتے ہیں۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب یہ جہنم کا عذاب دیکھیں گے۔ اور انھیں اپنا انجام معلوم ہوجائے گا۔ تو اس وقت کبھی نہ بکیں گے کہ فلاں شخص ہمارے کہنے پر اسلام سے پھر گیا تھا لہٰذا اسے تو جنت میں بھیج دو اور اس کا عذاب بھی میرے عذاب میں اضافہ کردو۔ اس لحاظ سے بھی یہ جھوٹ بک رہے ہیں۔ العنكبوت
13 [ ٢٢]دوسرے کا عذاب وثواب کس صورت میں ؟ البتہ یوں ہوسکتا ہے کہ اگر ان لوگوں کے بہکانے سے کوئی شخص گمراہ ہوگیا تو گمراہ ہونے والے کو اپنی گمراہی کا عذاب دیا جائے گا۔ اور گمراہ کرنے والے کو دوہرا عذاب اس شکل میں ہوگا کہ ایک تو اسے اپنی گمراہی کی سزا بھگتنا ہوگی اور دوسرے اس گمراہ ہونے والے شخص کا حصہ رسدی عذاب اسے بھی دیا جائے گا جسے اس نے گمراہ کردیا تھا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث اس مضمون کو پوری طرح واضح کر رہی ہے : منذر بن جریر اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ جاری کیا اس کے لئے اس کے اپنے عمل کا بھی ثواب ہے اور جو لوگ اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کریں ان کا بھی ثواب ہے اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی نہ ہوگی۔ اور جس نے اسلام میں کوئی بری طرح ڈالی اس پر اس کے اپنے عمل کا بھی بار ہے اور ان لوگوں کا بھی جو اس کے بعد اس برے طریقہ پر عمل کریں۔ لیکن عمل کرنے والوں کے بوجھ میں کچھ کمی نہ ہوگی۔‘‘ (مسلم۔ کتاب الزکوٰ ۃ۔ باب الحث علی الصدقة۔۔) [ ٢٣] مشرکوں کا یہ قول اللہ پر افتراء اس لحاظ سے ہے کہ انہوں نے دراصل اللہ کے بتلائے ہوئے عقیدہ آخرت، باز پرس اور گناہوں کی سزا ان سب باتوں کا مذاق اڑایا تھا۔ جس سے اللہ کی آیات کی بھی تکذیب ہوتی تھی اور اس کے رسول کی بھی۔ یعنی ان مشرکوں کے اپنے شرکیہ کارناموں کے علاوہ یہ اللہ پر افتراء کا جرم مزید اضافہ ہے اور اس جرم کی ان سے باز پرس بھی ہوگی اور عذاب بھی ہوگا۔ العنكبوت
14 [ ٢٤]ذکرنوح علیہ السلام :۔ پچھلی آیات میں ان کفار کا ذکر ہو رہا تھا جو دور نبوی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطب اور مخالف تھے۔ آگے بعض دوسرے انبیاء اور ان کے مخالفین کا ذکر آرہا ہے اور ایسے واقعات کا آغاز حضرت نوح علیہ السلام سے کیا جارہا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کو چالیس سال کی عمر میں نبوت عطا ہوئی۔ نو سو پچاس برس آپ نے اپنی قوم کو تبلیغ کی پھر طوفان نوح کے بعد آپ ساٹھ برس زندہ رہے۔ اس لحاظ سے آپ کی کل عمر ایک ہزار پچاس برس بنتی ہے اور اپنی عمر کا بیشتر حصہ آپ نے اپنی قوم کو سمجھانے اور ان سے بحث و جدال میں گزارا۔ وہ لوگ گویا ان کفار مکہ سے بھی زیادہ بدبخت تھے۔ انہوں نے حضرت نوح علیہ السلام کو اس قدر پریشان کیا اور ناک میں دم کردیا تھا کہ نوح علیہ السلام نے ان سے تنگ آکر اور ان سے سخت مایوس ہو کر اللہ سے بددعا کی تھی کہ یا اللہ ان پر ایسی تباہی نازل فرما کہ ان میں سے ایک گھرانہ بھی زندہ نہ بچے۔ چنانچہ اللہ نے طوفان کے ذریعہ اس قوم کو تباہ کر ڈالا۔ اور یہ واقعہ پہلے کئی مقامات پر تفصیل کے ساتھ گزر چکا ہے۔ العنكبوت
15 [ ٢٥] اصحاب السفینہ اور کشتی نوح: لفظ وَجَعَلْنٰھَا میں ''ھا'' کی ضمیر کشتی کی طرف بھی راجع ہوسکتی ہے۔ جیسا کہ ترجمہ سے ظاہر ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ کشتی اس طوفان کے بعد طویل مدت جودی پہاڑ پر ہی ٹکی رہی۔ لوگ اسے دیکھتے رہے اور اس سے طوفان نوح اور مجرم قوم کے انجام کی یاد تازہ ہوتی رہی۔ اور ''ھا'' کی ضمیر اس پورے قصہ میں قوم نوح کی طرف بھی راجع ہوسکتی ہے۔ اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس قوم کی سرکشی پھر ان کی سرکشی کے اس دردناک انجام کو ہم نے بعد میں آنے والے سب لوگوں کے کے لیے ایک مثال بنا دیا کہ لوگ اس واقعہ سے عبرت حاصل کریں۔ العنكبوت
16 العنكبوت
17 [ ٢٦] بتوں کےلیے قرآن میں مستعمل الفاظ:۔ قرآن میں بتوں کے لئے تین الفاظ استعمال ہوئے ہیں (١) صنم (ج الاصنام) کے معنی وہ بت ہیں جو قابل انتقال اور قابل فروخت ہوں خواہ یہ پیتل یا لوہے یا چاندی کے ہوں یا لکڑی کے یا پتھر کے اور صناعة الاصنام بمعنی بت تراشی کا فن جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا باپ آذر بت تراش بھی تھا اور بت فروش بھی۔ (٢) نصب ایسے بتوں یا مجسموں کو کہتے ہیں جنہیں کسی جگہ پوجا پاٹ کے لئے نصب کردیا گیا ہو۔ جیسے مشرکین مکہ کے بت لات و منات، عزی اور ھبل وغیرہ تھے (٣) اوثان (وثن کی جمع) وثن کا تعلق زیادہ تر مقامات سے ہوتا ہے۔ یعنی آستانے وغیرہ خواہ وہاں بت نصب ہوں یا نہ ہوں۔ بعض دفعہ بعض مخصوص مقامات پر پتھروں، درختوں، ستاروں یا دریاؤں وغیرہ سے الٰہی صفات کا عقیدہ رکھ کر ان کی پرستش شروع کردی جاتی ہے۔ اور ایسے مقامات بسا اوقات کسی بزرگ یا ولی سے یا کسی بت سے منسوب ہوتے ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو اوثانا کا ذکر کیا تو اس سے مراد قوم ابراہیم کے بت خانے ہیں جن میں بت از خود شامل ہوں۔ [ ٢٧]آستانوں کےلیے جھوٹےقصے کہانیاں گھڑنا کیوں ضروری ہے؟ یعنی تم لوگ بت نہیں گھڑتے بلکہ جھوٹ کا پلندہ گھڑتے ہو۔ اور ان بتوں اور بت خانوں سے تم کئی قصے اور کہانیاں خود گھڑ کر ان سے منسوب کردیتے ہو۔ مثلاً اگر فلاں آستانے پر مہینہ میں ایک دفعہ دودھ کا چڑھاوا نہ چڑھایا جائے تو جانور بیمار پڑجاتے ہیں یا مر جائے ہیں۔ یا فلاں آستانے کی گستاخی یا توہین کا انجام اس قدر خطرناک ہوتا ہے یا فلاں بت خانے یا مزار پر حاضری دینے سے رزاق میں فراوانی ہوجاتی ہے۔ لہٰذا تم جو ان بتوں کو گھڑتے ہو تو ساتھ ہی جھوٹ کے پلندے بھی گھڑتے ہو۔ ورنہ صرف بت گھڑنے کا تمہیں کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ [ ٢٨] اس آیت اور اس سے پہلی آیت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے شرک کے ابطال پر تین دلائل قوم کے سامنے رکھے۔ ایک یہ کہ یہ بت تمہارے اپنے گھڑے ہوئے ہیں۔ گویا تم اللہ کی مخلوق ہو اور یہ تمہاری مخلوق ہیں۔ اور الٰہ کی سب سے اہم صفت یہ ہے کہ وہ خالق ہے۔ باقی سب اس کی مخلوق ہے اور جو مخلوق ہے وہ الٰہ نہیں ہوسکتی اور یہ بت تو مخلوق در مخلوق ہیں یہ الٰہ کیسے بن گئے؟ دوسری دلیل یہ ہے کہ ان بتوں کے نفع یا نقصان سے متعلق تمہیں ہی داستانیں اور قصے کہانیاں تراشنا پڑتی ہیں۔ اگر تمہارے ان قصے کہانیوں کو ان سے علیحدہ کردیا جائے تو باقی یہ پتھر کے پتھر یا بے جان مادے ہی رہ جاتے ہیں اور ایسے مادے الٰہ کیسے ہوسکتے ہیں۔؟ تیسری دلیل یہ کہ یہ تمہیں رزق کیا دیں گے۔ رزق تو تم خود ان کے آگے چڑھاووں اور نذروں نیازیوں کی صورت میں رکھتے ہو۔ چاہو تو تم ان کے آگے رزق رکھ دو ۔ چاہے اٹھا لو۔ چاہے ان کے اوپر مَل دو۔ لہٰذا ایسے غلط عقائد ان سے منسوب نہ کرو۔ اور رزق مانگنا ہے تو اللہ سے مانگو اور جس کا کھاؤ اسی کے گنا گاؤ۔ اسی کی عبادت کرو اور اسی کا شکر بجا لاؤ۔ [ ٢٩] یعنی بالآخر تم نے اللہ کی طرف پلٹنا ہے اور تمہارا انجام اسی کے ہاتھ میں ہے۔ ان بتوں کی طرف نہ تم نے پلٹنا ہے نہ تمہارا انجام ان کے ہاتھ میں ہے لہٰذا تمہیں عبادت تو اس کی کرنا چاہئے جو تمہاری عاقبت کو سنوار سکتا ہے۔ اور رزق بھی اس سے مانگنا چاہئے۔ العنكبوت
18 [ ٣٠] یعنی قوم نوح علیہ السلام ، قوم عاد اور قوم ثمود نے اپنے اپنے پیغمبروں کی دعوت کو جھٹلایا تھا پھر دیکھ لو ان کا کیا حشر ہوا تھا۔ وہی تمہارا بھی ہونے والا ہے۔ اگر تم نے نبی کی دعوت کو جھٹلایا ہے تو اس کا تمہیں ہی نقصان پہنچے گا اور نبی کے ذمہ جو کام تھا وہ اپنی ذمہ داری پوری کرچکا ہے۔ العنكبوت
19 [ ٣١]رحم مادر میں انسان کی تخلیق :۔ اللہ تعالیٰ کے تخلیقی کارنامے لاتعداد ہیں۔ زمین پر بسنے والے جانداروں کی دس لاکھ انواع کا تاحال پتہ چل چکا ہے۔ آئندہ کا حال اللہ کو معلوم ہے۔ ان میں سے ہر نوع کی تخلیق جداگانہ ہے۔ اب مثلاً ہم ایک نوع انسان ہی کو لیتے ہیں اس لئے کہ اس کے متعلق زیادہ معلومات حاصل ہیں۔ اس کی ابتدا یوں ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے مٹی سے اس کا پتلا اپنے ہاتھ سے بنایا۔ اس وقت وہ مردہ تھا۔ اس میں روح پھونکی تو زندہ ہوگیا۔ پھر اس کی نسل توالد و تناسل سے چلی۔ انسان نے زمین سے حاصل ہونے والی غذائیں کھائیں یہ غذائیں مردہ اور بے جان تھیں۔ انھیں سے مرد میں منی بن گئی جس میں لاتعداد جرثومے ہوتے ہیں۔ یہی منی مادہ کے رحم میں پہنچی تو اس کے مادہ سے مل کر نطفہ بنی، نطفہ سے علقہ، علقہ سے مضغہ یعنی گوشت کا لوتھڑا بنی۔ اب تک یہ سب کچھ مردہ اور بے حرکت تھا۔ بعد میں اللہ نے اس لوتھڑے کو روح عطا کی تو یہ لوتھڑا جاندار اور متحرک بن گیا۔ اب انسان کی شکل و صورت کی باری آئی۔ رحم مادر میں اتنے خلیے (Cell) ہوتے ہیں جن کی تعداد صرف اللہ کو معلوم ہے۔ ان میں سے ہر ایک خلیہ اپنے ہی کام لگا ہوتا ہے نہ یہ اپنے راستے سے ہٹتا ہے کہ راستہ بھولتا ہے نہ کسی دوسرے خلیے کے کام میں دخل دیتا ہے۔ ناک کا خلیہ اسی جگہ پہنچے گا جہاں ناک کی جگہ ہے، آنکھ کا آنکھ کی جگہ، کان کا کان کی جگہ اور ایڑی کا ایڑی کی جگہ پر پہنچے گا۔ اور یہ خلیے براہ راست اپنے اپنے مقام پر پہنچ کر اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ تاآنکہ انسان کی ایک خاص شکل و صورت بن جاتی ہے اور رحم مادر میں یہ ایسا منضبط اور مضبوط نظام ہے جس میں تخلف نہیں ہوتا۔ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ کسی انسان کی ناک کا ایک نتھنا چھوٹا ہو، دوسرا بڑا ہو، یا ایک نتھنا لمبوترا ہو تو دوسرا چپٹا ہو۔ یہی حال دوسرے اعضا کا ہے۔ پھر ایک مقررہ مدت کے بعد انسان زندہ اور شکل و صورت والا بن کر رحم مادر سے باہر آجاتا ہے۔ گویا مردہ غذاؤں سے اللہ نے زندہ چیز بنا دیں۔ اور یہ عمل حیوانات اور نباتات اور انسان غرضیکہ تمام انواع میں ہمہ وقت جاری و ساری ہے۔ اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ توالد و تناسل کے ذریعہ پیدائش ہر نوع کے ابتدائی جاندار کی نسبت اللہ کے لئے زیادہ آسان ہے۔ نقش ثانی اول سےآسان :۔اب اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ انسان زندہ تھا وہ مر گیا۔ اور مٹی میں مل گیا۔ اور قیامت کو وہی انسان دوبارہ اٹھا کھڑا کیا جائے گا۔ مٹی کے اندر جو تغیرات ہوں گے اور جس طرح انسان دوبارہ پیدا ہوگا یہ باتیں انسان کی تحقیق سے باہر ہیں۔ تاہم یہ ایک بدیہی حقیقت ہے جس کے لئے ضرورت نہیں کہ نقش ثانی کا بنانا نقش اول کی نسبت زیادہ آسان ہوتا ہے۔ اور دوسری عقلی دلیل یہ ہے کہ جو ہستی رحم مادر میں اس قدر منضبط اور مربوط نظام قائم کرکے مردہ اشیاء سے زندہ انسان نما کھڑا سکتی ہے وہ یقیناً مٹی میں بھی ملے ہوئے اجزا سے بھی ہر انسان کو دوبارہ پیدا کرسکتی ہے۔ اور یہ دوسری بار کی پیدائش اس کے لئے نسبتاً آسان چیز ہے۔ العنكبوت
20 [ ٣٢]ہرایک ذرے کے اندرکائناتی نظام:۔ اب اگر انسان کائنات کی دوسری اشیاء اور جمادات میں غور کرے تو اور بھی زیادہ ورطہ حیرت میں گم ہوجاتا ہے۔ ہر مادی چیز ان گنت چھوٹے چھوٹے ذرات سے مل کر بنی ہے۔ سب سے چھوٹا ذرہ جو انسان کے علم میں آیا ہے وہ ایٹم (Atom) ہے۔ جو انیسویں صدی تک جزو لا یتجزّٰی سمجھا جاتا رہا۔ یعنی اتنا حقیر ذرہ جس کی مزید تقسیم ناممکن تھی۔ اور اسے صرف کسی طاقتور خوردبین کی مدد سے ہی دیکھا جاسکتا ہے۔ مگر موجودہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اس حقیر سے ذرے میں بھی ایک بڑا ہی مضبوط نظام قائم ہے۔ اس میں الیکٹران (electron) بھی ہے اور پروٹون Pruton)) بھی۔ اور دونوں بڑے منضبط طریقے سے اس حقیر سے ذرہ کے اندر اس طرح محو گردش ہیں جس طرح ہمارا نظام شمسی اور سورج کے گرد سیارے محو گردش ہیں۔ ان کو اپنا مفوضہ کام کرنے سے کوئی چیز بھی روک نہیں سکتی۔ نہ ہی یہ ایک دوسرے کے کام میں خلل اندازی کرتے ہیں۔ ہر مادہ جسم ایسے ہی لاتعداد ذرات سے مل کر بنتا ہے۔ اور اگر اس ذرہ میں موجود نظام کو توڑا جائے تو اس حقیر سے ذرے سے بے پناہ توانائی حاصل ہوتی ہے۔ جن سے موجودہ دور میں ایٹم بم تیار کیا جاتا ہے۔ اب یہ انسان کا کام ہے کہ اس توانائی کو اپنی تعمیری ضرورتوں کے لئے استعمال کرے یا اس سے نوع انسانی کو تباہ و برباد کردینے اور تخریبی کاموں کے لئے استعمال کرے۔ اب سوال یہ ہے کہ جس ہستی نے ہر مادہ چیز کو اس محیر العقول طریق سے پہلی بار پیدا کرلیا کیا وہ دوبارہ ایسی ہی مخلوق پیدا نہ کرسکے گا ؟ موجودہ کیفیات نے ثابت کردیا ہے کہ مادہ صرف اپنی شکل بدلتا رہتا ہے۔ اس میں سے کچھ بھی اس کا حصہ بالکل فنا نہیں ہوجاتا۔ اس تحقیق نے بعث بعد الموت کے عقیدے کو بہت حد تک قریب الفہم بنا دیا ہے کیونکہ مادہ کے ایک ایک ذرہ پر اللہ تعالیٰ کا براہ راست کنٹرول ہے۔ العنكبوت
21 [ ٣٣] روز آخرت اور انسان کے دوبارہ پیدا ہونے پر دلائل دینے کے بعد فرمایا کہ تم بہرحال اللہ کے سامنے پیش کئے جاؤ گے۔ ایسی کوئی صورت ممکن نہیں کہ تم اس حاضری سے بچ سکو۔ پھر وہ تمہارے اعمال کے مطابق تمہیں سزا دے گا۔ اور کسی کے حق میں اس کی حکمت کا یہ تقاضا ہو کہ اس پر رحم کیا جائے تو وہ اسے اپنی رحمت کی بنا پر معاف بھی کرسکتا ہے۔ العنكبوت
22 [ ٣٤] یعنی نہ تم میں اتنا زور ہے کہ زمین کی حدود سے باہر نکل جاؤ اور نہ اتنی طاقت ہے کہ آسمانوں تک پہنچ جاؤ۔ یہ غالباً اس لئے فرمایا کہ انسان اس زمین کے علاوہ کسی دوسری جگہ زندہ رہ ہی نہیں سکتا کیونکہ اس کی تمام غذائی اور جسمانی ضروریات اس زمین سے وابستہ ہیں الا یہ کہ چند دنوں کے لئے کوئی عارضی سا بندوبست کرلے اور جب اللہ کی گرفت آجائے تو نہ تم میں اتنا زور ہے کہ اس کی گرفت سے بچ سکو اور نہ کوئی دوسری ہستی اتنی طاقتور ہے کہ وہ اس کے عذاب سے تمہیں پناہ دے سکے یا اس کے عذاب کو روک سکے۔ العنكبوت
23 [ ٣٥] اللہ کی آیات سے انکاری درحقیقت اللہ کی رحمت سے دوری کا سب سے بڑا سبب ہے۔ یعنی جو لوگ عقیدہ آخرت، اللہ سے ملاقات اور بعث بعدالموت کے منکر ہیں انھیں رحمت الٰہی کی امید کیونکر ہوسکتی ہے جبکہ وہ اس بات کے قائل ہی نہیں۔ لہٰذا وہ آخرت میں اللہ کی رحمت سے محروم اور مایوس ہی رہیں گے پہلے یہ بتلایا جاچکا ہے کہ جو شخص اللہ سے ملاقات کی امید رکھتے ہیں تو انھیں یقین رکھنا چاہئے کہ ان کی موت جلد ہی آنے والی ہے (٢٩: ٥) یعنی موت کے فوراً بعد اللہ کی رحمت اسے اپنی آغوش میں لے لے گی۔ یہ دونوں طرح کی آیات ایک دوسری کا عکس ہیں۔ العنكبوت
24 [ ٣٦]قوم کا سیدنا ابراہیم علیہ السلام کوآگ کے الاؤمیں پھینک دینا:۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حالات کے درمیان آیت نمبر ١٩ سے لے کر آیت نمبر ٢٣ تک اللہ تعالیٰ کا اپنا کلام ہے۔ جس میں ربط مضمون کی نسبت سے توحید اور آخرت پر کچھ دلائل پیش کرنے کے بعد اب پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حالات کی طرف غور کیا جارہا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دلائل توحید کا جب قوم ابراہیم سے کوئی جواب بن نہ پڑا تو وہ اوچھے ہتھیاروں پر اتر آئے اور یہی باطل پرستوں کی عادت ہوتی ہے۔ یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ان کے بتوں کو توڑنے پھوڑنے کا واقعہ حذف کردیا گیا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ کام اس لئے کیا تھا کہ قوم پر عملی طور پر واضح کرسکیں کہ ان کے معبود بالکل ناکارہ چیزیں ہیں جو اپنی حفاظت اور اپنے آپ سے نقصان کو دور نہیں کرسکتے وہ دوسروں کی مشکل کشائی کیسے کرسکتے ہیں۔ اسی مشاہداتی دلیل نے ان لوگوں کو اور بھی زیادہ مشتعل اور سیخ پا بنا دیا۔ آخر انہوں نے یہ مشورہ کیا کہ ابراہیم کو مار ہی ڈالو اور اگر ایسا نہ کرو تو اسے آگ میں جلا ڈالو۔ آگ میں جلانے کے مشورہ میں بھی دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ یہ اسے دکھ دینے والا آگ کا عذاب دے کر مارنا چاہئے۔ دوسرے یہ کہ شاید آگ کا عذاب دیکھ کر اپنی باتوں سے باز رہنے کا عہد کرلے۔ بہرحال ان لوگوں نے لمبا چوڑا آگ کا الاؤ تیار کیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس آگ میں پھینک دیا۔ [ ٣٧] لیکن اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حق میں ٹھنڈی اور غیر مضر بن جائے۔ چنانچہ ابراہیم علیہ السلام اس آگ میں اس طرح رہے جیسے کوئی شخص باغ اور گلزار میں رہتا ہے۔ اور اس میں نشانیاں یہ ہیں : (١) ہر چیز کے کچھ طبیعی خواص ہیں اور یہ خواص اللہ تعالیٰ نے ہی ہر چیز میں ودیعت کر رکھے ہیں۔ (٢) ان خواص میں اللہ تعالیٰ جب چاہے تبدیلی لاسکتا ہے۔ اگرچہ ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے تاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کہ اگر اللہ چاہے تو بعض اشیاء کے طبیعی خواص سلب بھی کرسکتا ہے اور ان میں تبدیلی بھی لاسکتا ہے۔ (٣) اللہ کے بندوں کو اللہ کی مدد پہنچتی ضرور ہے۔ مگر پہلے انھیں ابتلا کے دور سے گزارا جاتا ہے اور ایسی خرق عادت مدد صرف اس وقت آتی ہے جب اس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو۔ اس واقعہ پر منکرین معجزات کی تاویل اور اس کا جواب سورۃ انبیاء کے حاشیہ نمبر ٥٨ کے تحت ملاحظہ فرمائیے۔ العنكبوت
25 [ ٣٨]قوم کے باہمی اتحادکی بنیاد شرکیہ رسوم:۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ جملہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آگ سے صحیح سلامت نکل آنے کے بعد کہا تھا۔ یعنی تم لوگوں نے آپس میں باہمی محبت، بھائی چارہ اور قومی شیرازہ بندی کی بنیاد ان مشرکانہ رسوم کو بنا لیا ہے تاکہ ایسے مذہب کے نام پر ساری قوم متحد اور متفق رہے۔ قومی یگانگت کے لئے کوئی بھی بنیاد بنائی جاسکتی ہے خواہ یہ بنیاد بجائے خود کتنی ہی غلط کیوں نہ ہو جیسے کہ آج کل وطن پرستی، قوم پرستی، نسل پرستی، ایسی ہی غلط بنیادوں پر لوگ متحد و متفق ہوجاتے ہیں اور یہ بنیادیں فساد کا باعث بن رہی ہیں۔ تاہم ان غلط قسم کی بنیادوں پر بھی لوگوں کو اکٹھا کیا جاسکتا ہے، اکٹھا رکھا جاسکتا ہے اور ان میں باہمی محبت ہوسکتی ہے۔ بالکل اسی طرح محبت پرستی اور شرکیہ عقائد پر بھی ایسا اتحاد و اتفاق ممکن ہے۔ اور بت پرستوں کی یہی آپس کی باہمی محبت ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال کر ان سے انتقام لینے کا باعث بنی تھی۔ مفسرین نے اس کی دوسری توجیہ یہ بیان کی ہے جو قوم نوح کے بتوں سے متعلق صحیح احادیث میں مذکور ہے کہ اس قوم میں پانچ ایسے بزرگ تھے جو بڑے نیک بڑے عبادت گزار تھے اور انھیں دیکھ کر اللہ یاد آتا تھا۔ جب یہ بزرگ فوت ہوگئے تو پچھلوں کو اپنی عبادت میں وہ مزا نہ آتا تھا جو ان کی موجودگی میں آتا تھا۔ اب شیطان نے انھیں یہ پٹی پڑھائی کہ اگر وہ موجود نہیں رہے تو کوئی بات نہیں ان کے مجسمے بنا کر اپنے سامنے رکھ لو گے تو تمہیں عبادت میں وہی لطف آیا کرے گا۔ جو ان کی موجودگی میں آتا تھا۔ چنانچہ انہوں نے ان پانچ بزرگوں کے مجسمے اپنی عبادت گاہ میں رکھ لئے مگر وہ عبادت اللہ ہی کی کرتے تھے۔ پھر بعد کی نسلوں نے ان مجسموں کو ہی پوجنا شروع کردیا۔ اس طرح اس قوم میں بت پرستی کا رواج ہوگیا۔ اور اس کی بنیاد ہی بزرگوں سے ان کی باہمی محبت تھی۔ اور اس کی تیسری توجیہ یہ ہے کہ سب مشرکوں کو بتوں یا اپنے معبودوں سے محبت پیدا ہوجاتی ہے۔ کیونکہ وہ ان کے عقیدہ کے مطابق ان کے حاجت روا اور مشکل کشا ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَہُمْ کَحُبِّ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ﴾(۱۶۵:۲)پھر اسی بنیاد پر ان مشرکوں کی آپس میں بھی محبت ہوجاتی ہے جیسے اللہ کے پرستاروں کی اصل محبت تو اللہ سے ہوتی ہے۔ لیکن اللہ والوں کی آپس میں باہمی محبت بھی ان کے ایمان کا جز بن جاتا ہے۔ [ ٣٩] معبودوں کا عبادت سےا نکار اور عابدومعبود کی دشمنی:۔ یعنی قیامت کے دن معبود حضرات خود اپے پرستاروں کی عبادت کا انکار کرتے ہوئے کہیں گے کہ کم بختو! ہم نے تمہیں کب کہا تھا کہ ہمارے بعد ہماری پوجا شروع کردینا اور اس بات کا بھی اقرار کریں گے کہ ہمیں کچھ خبر نہیں کہ ان لوگوں نے ہمیں اپنا معبود بنا لیا تھا۔ جب معبودوں کا یہ حال ہوگا تو عبادت گزاروں پر، جنہوں نے ان سے کئی طرح کی توقعات وابستہ کر رکھیں ہوں گی، جو گزرے گی اس کا بآسانی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوگا عابد، معبود دونوں ایک دوسرے پر لعنتیں بھیجنے لگیں گے اور آپس میں ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے۔ جتنی آج یہ اپنے معبودوں اور اپنے ساتھیوں سے دوستی جتلا رہے ہیں۔ اتنے ہی زیادہ اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔ العنكبوت
26 [ ٤٠]سیدنالوط کاایمان لانا اورہجرت کرنا:۔ حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چچازادہ بھائی تھے۔ دونوں ہی عراق کے شہر بابل کے رہنے والے تھے۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام آگ کے امتحان سے صحیح سلامت باہر نکل آئے۔ اس وقت حضرت لوط علیہ السلام نے ان پر ایمان لانے کا اعلان کیا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حضرت لوط علیہ السلام پہلے مشرک تھے۔ کیونکہ نبیوں کی نبوت سے پہلی زندگی بھی اللہ کی مہربانی سے ایسی نجاستوں سے پاک و صاف ہوتی ہے۔ انبیاء کے علاوہ اور بھی کئی ایسے آدمی ہوتے ہیں جو شرک سے بیزار قلب سلیم رکھتے ہیں مگر انھیں صحیح رہنمائی نہیں ملتی۔ دور نبوی میں بھی آپ کی نبوت سے پہلے ایسے چھ آدمی موجود تھے۔ [ ٤١] مفسرین کہتے ہیں کہ یہ ہجرت حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام دونوں نے مل کر کی تھی۔ اور یہ سفر ہجرت بابل سے فلسطین کی طرف تھا۔ اللہ کی حکمت اسی میں تھی کہ آپ وہاں چلے جائیں، اسی مقام پر حضرت لوط علیہ السلام کو بھی نبوت ملی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت لوط علیہ السلام کو سدوم کے علاقے کی طرف بھیج دیا۔ العنكبوت
27 [ ٤٢]سیدناابراہیم علیہ السلام پر اللہ کی مہربانیاں:۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر جتنے بھی ابتلاء کے دور آئے ان سب میں آپ کامیاب رہے جب ہجرت کی تو اس وقت تک آپ کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ گھر بار اور وطن اور عزیز و اقارب چھوڑنے پر اللہ نے آپ کو اولاد عطا فرما دی کہ دل بہلا رہے۔ مزید یہ انعام فرمایا کہ نبوت آپ ہی کے خاندان سے مختص فرما دی۔ آپ کے بعد جتنے بھی نبی آئے آپ ہی کی نسل سے آئے۔ اسی لئے آپ کو ابو الانبیاء بھی کہا جاتا ہے۔ ان میں سے صرف آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے مبعوث ہوئے باقی سب حضرت اسحاق علیہ السلام بلکہ ان کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد سے تھے۔ جنہیں اسرائیل بھی کہا جاتا ہے۔ [ ٤٣] دنیا میں ایک تو یہ اجر دیا کہ نبوت کو ان کے خاندان سے مختص کردیا اور دوسرا اجر یہ دیا کہ آپ کو تمام لوگوں کا امام اور پیشوا بنا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ یہودیوں، عیسائیوں، مسلمانوں بلکہ اور بھی کئی مذاہب کے ہاں یکساں محترم ہیں حتیٰ کہ مکہ کے مشرکین بھی اپنے آپ کو انہی سے منسوب کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی آپ پر مزید مہربانی یہ تھی کہ رہتی دنیا تک آپ کا ذکر خیر ان میں چھوڑ دیا۔ امت محمدیہ میں اس ذکر خیر کی صورت یہ ہے کہ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اپنی ہر نماز میں آپ پر دورد پڑھے۔ اور آخرت میں آپ کو اعلیٰ درجہ کے صالحین (جو انبیائے اولوالعزم کی جماعت ہے) میں شامل کیا۔ العنكبوت
28 العنكبوت
29 [ ٤٤] ﴿تَقْطَعُوْنَ السَّبِیْلَ ﴾کے دو مطلب ہیں ایک تو ترجمہ سے واضح ہے۔ ان لوگوں کی صرف یہی بدعادت نہیں تھی کہ وہ لونڈے بازی کرتے تھے بلکہ مسافروں کی راہ تکتے رہتے، پھر انھیں اپنے ساتھ بستی میں لے آتے اس سے لواطت بھی کرتے پھر اس کا مال اسباب نقدی وغیرہ چھین کر اسے اپنی بستی سے باہر نکال دیتے تھے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرکے بقائے نقل انسانی کے فطری طریق کو قطع کرتے تھے۔ [ ٤٥] قوم لوط کی کارستانیاں :۔یعنی یہ لوگ اجتماعی قسم کی لواطت کرتے تھے۔ مثلاً جب کوئی مسافر یا کوئی خوبصورت لڑکا ان کے ہتھے چڑھ جاتا تو اسے اپنے ڈیرے پر لے جاتے پھر باری باری ایک دوسرے کے سامنے اس سے لواطت کرتے تھے۔ اور اس میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے تھے۔ اور اپنی مجالس میں ایک دوسرے سے انتہائی لچر اور بے حیائی کی زبان استعمال کرتے تھے۔ [ ٤٦] یہ اس قوم کا پہلا جواب تھا۔ اور منکرین حق یہ جواب عموماً اس لئے دیتے ہیں کہ وہ انبیاء کو اور ان کی دعوت کو جھوٹا سمجھتے تھے اور ان کے وعدہ عذاب کا انھیں قطعاً یقین نہیں ہوتا۔ اس مقام پر ان لوگوں کے اسی جواب کا ذکر ہے اور دوسرے مقام پر ان کا دوسرا جواب مذکور ہے جو یہ تھا۔ کہ تم لوگ اپنے آپ کو پاکباز اور ہمیں گندے لوگ سمجھتے ہو تو پاکباز لوگوں کا ہم جیسے گندے لوگوں میں کیا کام؟ لہٰذا تم لوگ یہاں سے نکل کر کسی دوسری جگہ چلے جاؤ۔ اور اگر تم نے اپنا وعظ نصیحت نہ چھوڑی تو پھر ہم تم لوگوں کو اپنی بستی سے نکال کر باہر کریں گے۔ العنكبوت
30 [ ٤٧] جب ان لوگوں کی سرکشی اور مخالفت اس حد تک پہنچ گئی اور حضرت لوط علیہ السلام ان کے راہ راست پر آنے سے مایوس ہوگئے تو اس وقت آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ جس طریقے سے تو مناسب سمجھے میری مدد فرما اور مجھے ان لوگوں سے نجات دے۔ العنكبوت
31 [ ٤٨] حضرت لوط علیہ السلام کی دعا کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا۔ اور اس بدکار قوم کی بستی کو ہلاک کرنے اور حضرت لوط علیہ السلام کو نجات دینے کے لئے اپنے فرشتے بھیج دیئے۔ پہلے یہ فرشتے انسانوں کی شکل میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کی مہمانی کے لئے بچھڑا بھون کرلے آئے۔ مگر جب ان نووارد مسافروں نے کھانے کی طرف ہاتھ تک نہ بڑھایا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام دل میں ڈر گئے۔ پھر جب فرشتوں نے بتلایا کہ ہم فرشتے ہیں اور آپ کو ایک بیٹے کی بشارت دینے آئے ہیں۔ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ڈر جاتا رہا۔ اور یہ واقعہ کئی مقامات پر تفصیل سے گزر چکا ہے۔ العنكبوت
32 [ ٤٩] قوم لوط پرعذاب لانے والے فرشتوں سے ابراہیم علیہ السلام کی بحث:۔ اس خوشخبری کے بعد فرشتوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بتلایا کہ دراصل ایک اور مہم پر بھیجے گئے ہیں۔ وہ جو سامنے بستی نظر آرہی ہے۔ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اسے تباہ و برباد کردیں۔ کیونکہ اس بستی کے باشندے اللہ کے نافرمان سرکش لوگ ہیں۔ فرشتوں نے جس طرف اشارہ کیا وہ وہی سدوم کا علاقہ تھا۔ جہاں خود حضرت ابراہیم نے حضرت لوط کو تبلیغ کے لئے بھیجا تھا۔ لہٰذا وہ فوراً بول اٹھے۔ وہاں تو لوط بھی موجود ہیں۔ کیا تم اس کے وہاں ہوتے ہوئے اس بستی کو تباہ و برباد کردو گے۔ اس آیت میں تو اتنی ہی بات مذکور ہے۔ لیکن ایک دوسرے مقام پر ﴿یُجَادِلُنَا فِیْ قَوْمِ لُوْطٍ﴾ (۱۱:۷۴)کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرشتوں سے پوری طرح بحث کی تھی کہ لوط علیہ السلام کے علاوہ فلاں ایمان دار بھی وہاں موجود ہے اور فلاں بھی۔ تو ان لوگوں کے ہوتے ہوئے تم کیونکر اس بستی کو ہلاک کردو گے؟ فرشتوں نے اس کا جواب یہ دیا کہ ہمیں پوری طرح معلوم ہے کہ وہاں کون کون ایماندار موجود ہے۔ ہم پہلے ان کو بچانے کی صورت بنائیں گے۔ تب ہی اس بستی کو غارت کریں گے۔ البتہ لوط کے گھر والوں میں سے حضرت لوط کی بیوی بھی اس عذاب سے تباہ ہوگی۔ کیونکہ وہ اپنے خاوند کی وفادار نہیں بلکہ خائن ہے۔ فرشتوں کے اس جواب سے حضرت ابراہیم علیہ السلام سمجھ گئے کہ اب اس بستی کی شامت آکے ہی رہے گی۔ دراصل وہ اپنی طبیعت کی نرمی کی وجہ سے چاہتے یہ تھے کہ اس ظالم قوم کو سنبھلنے کے لیے کچھ مزید مہلت مل جائے۔ مگر ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ کیونکہ عذاب الٰہی کا نزول طے ہوچکا تھا۔ العنكبوت
33 [ ٥٠]فرشتوں کو دیکھ کر لوط علیہ السلام کی بےچینی:۔ فرشتے وہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے رخصت ہو کر سیدھے حضرت لوط علیہ السلام کے گھر آپہنچے۔ اب صرف انسانی شکل میں نہیں بلکہ بے ریش خوبصورت لڑکوں کی شکل میں آئے تھے۔ جو قوم لوط کے اوباش لوگوں کے لئے اپنے اندر کشش رکھتے تھے۔ ان کو دیکھ کر حضرت لوط علیہ السلام کے دل میں سخت اضطراب پیدا ہوا۔ کہ اب یہ اوباش ان سے بھی وہی سلوک کرے گی جو مسافروں، مہمانوں اور راہ گیروں سے کیا کرتی ہے۔ فرشتوں نے حضرت لوط علیہ السلام کے اس خوف اور خطرہ کو فوراً بھانپ لیا اور کہنے لگے۔ تمہارے ڈرنے اور غمگین ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ ہم انسان نہیں بلکہ فرشتے ہیں۔ ہم خود ان سے نپٹ لیں گے۔ اس مقام پر کچھ تفصیلات حذف کردی گئی ہیں۔ جو دوسرے مقامات پر ذکر کی گئی ہیں۔ [ ٥١] قوم لوط پرعذاب آنا:۔حضرت لوط علیہ السلام اس علاقہ کے قدیمی باشندے نہیں تھے۔ بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہمراہ بابل سے ہجرت کرکے پہلے فلسطین آئے تھے پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حکم سے یہاں بھیجے گئے تھے۔ لیکن آپ کی بیوی اسی بدمعاش قوم کی بیٹی تھی۔ نبی کی صحبت بھی اسے اپنی قوم اور بھائی بندوں کی عصبیت سے پاک نہ کرسکی۔ وہ نبی کے بجائے اپنے بھائی بندوں کا ساتھ دیتی تھی اور اگر حضرت لوط علیہ السلام کے ہاں کوئی مہمان آتا تو یہ فوراً ان کو مخبری کردیتی تھی۔ وہ اپنے خاوند کے بجائے اپنے بھائی بندوں کی وفادار اور انہی کی ہمراز تھی۔ فرشتوں نے حضرت لوط علیہ السلام سے کہا : آپ کی دعا قبول ہوگئی، ہم آپ کو اس ظالم قوم سے نجات دلانے کے لئے آئے ہیں۔ تم یوں کرو کہ اپنے اہل خانہ اور ایماندار ساتھیوں کو ساتھ لے کر راتوں رات یہاں سے نکل جاؤ۔ اور دیکھو تمہاری بیوی تمہارے ہمراہ نہیں جائے گی۔ اور جب تم لوگ اس بستی سے نکلو تو اس طرح کہ تمہارے سب ہمراہی آگے ہوں اور تم ان کے پیچھے رہو۔ جیسے تم ہی انھیں چلا کر اس بستی سے دور لے جارہے ہو اور یہ بھی خیال رکھنا کہ تم میں سے کوئی شخص بھی پلٹ کر پیچھے کی طرف نہ دیکھے۔ مبادا کہ عذاب کا کچھ حصہ اسے بھی پہنچ جائے۔ العنكبوت
34 [ ٥٢] اللہ کا عذاب صبح دم ان پر نازل ہونے والا ہے۔ لہٰذا تم دیر نہ کرو۔ اور اپنے ہمراہیوں کو لے کر صبح ہونے سے پہلے پہلے ہی اس بستی سے کافی فاصلہ تک پہنچ جانا چاہئے ہم اس بدکار قوم پر شدید ترین عذاب نازل کرنے کے لئے آئے ہیں۔ العنكبوت
35 [ ٥٣]عذاب کی نوعیت:۔ اس بدبخت قوم پر سب قوموں سے سخت عذاب آیا تھا۔ پہلے فرشتوں نے اس پورے خطہ زمین کو اپنے پروں پر اٹھایا۔ پھر بلند پر لے جاکر اسے الٹا کر زمین پر پٹخ دیا۔ اور اس زور سے زمین پر دے مارا کہ سارا خطہ زمین کی سطح سے کافی نیچے دھنس گیا۔ پھر اس بدبخت قوم پر پتھر برسائے گئے۔ اور اب یہ سارا علاقہ زیر آب آچکا ہے۔ اور اس سمندر کا نام بحرموت یا بحیرہ مردار ہے۔ جس کی گہرائیوں میں یہ بدمعاش قوم دفن کردی گئی تھی۔ اور یہ واقعہ نشانی اس لحاظ سے ہے کہ یہ علاقہ اس تجارتی شاہراہ پر واقع ہے جو مکہ سے شام کو جاتی ہے اور کفار مکہ اسے اپنے تجارتی سفروں میں آتے ہوئے بھی اور جاتے ہوئے بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے تھے کہ اس نافرمان اور بدمعاش اور سرکش قوم کا کیا حشر ہوا تھا۔ العنكبوت
36 [٥٤] ذکرشعیب علیہ السلام :۔حضرت شعیب علیہ السلام اہل مدین کی طرف بھی مبعوث ہوئے تھے اور اصحاب ایکہ کی طرف بھی۔ اور یہ دونوں علاقے آس پاس تھے۔ شعیب علیہ السلام نے پہلی بات یہی کی کہ صرف اللہ کی عبادت کرو اور شرک ایسا مرض ہے جو تمام انبیاء کی قوموں میں پایا جاتا ہے۔ شیطان ہر دور میں انسان کو شرک کی نئی سے نئی شکلیں سمجھاتا رہتا ہے۔ اور اس کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو خالص اللہ کی عبادت سے برگشتہ کرکے کسی نہ کسی طرح کے شرک میں مبتلا کردے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کی دعوت کا پہلا قدم یہی ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو شرک کی نجاستوں سے مطلع کریں اور انھیں ایک اللہ کی عبادت کی طرف بلائیں۔ [٥٥] اس جملہ کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ آخرت کے دن پر ایمان لاؤ وہ یقیناً آنے والاہے۔ جس میں تم سے تمہارے اعمال کی باز پرس ہوگی۔ دوسرا یہ کہ اگر تم خالصتاً اللہ کی عبادت کرو گے۔ تو تمہیں آخرت کے دن اس کے اچھے اجر کی توقع رکھنا چاہئے۔ [٥٦] اہل مدین کا فساد فی الارض یہ تھا کہ وہ اپنے لین دین کے معاملات میں دغا بازیاں کرتے تھے۔ ناپ تول میں کمی بیشی کرنے کے فن میں خوب ماہر تھے اور اس طرح دوسرے لوگوں کے حقوق پر مہذبانہ ڈاکے ڈالتے تھے۔ العنكبوت
37 [٥٧] یعنی شعیب علیہ السلام کی نبوت کو، آپ کی دعوت کو اور اس وعدے کو بھی جھٹلا دیا کہ اگر تم اپنی ان بداعمالیوں سے باز نہ آئے تو تم پر اللہ کا عذاب آئے گا۔ العنكبوت
38 [٥٨] قوم عاد (اولیٰ) کا وطن پورا جنوبی عرب تھا یعنی یمن، حضرموت اور احقاف کا علاقہ اور ثمود کا علاقہ شمالی عرب تھا۔ ان دونوں علاقوں کی تاریخ سے عرب کا بچہ بچہ واقف تھا۔ پھر وہ ان کی تباہ شدہ بستیاں دیکھتے بھی رہتے تھے۔ [٥٩]عاد وثمود، دیوانہ بکارخویش ہشیار:۔ یعنی وہ دنیا کے کاموں میں بڑے ہوشیار اور فنکار تھے۔ اپنے اپنے دور کی ترقی یافتہ اور مہذب قومیں تھیں۔ سمجھدار تھے۔ طاقتور تھے اور بالخصوص سنگ تراش کے فن یدطولی رکھتے تھے۔ لیکن اللہ کے معاملہ میں شیطان نے ان کی مت مار دی تھی۔ جیسا کہ آج کل عیسائی اقوام کے محققین جب تحقیق و تنقید کے میدان میں اترتے ہیں تو بال کی کھال اتار کے رکھ دیتے ہیں۔ مگر عقیدہ تثلیث کو عقلی دلائل سے ثابت کرنے کا وقت آتا ہے تو بات گول کر جاتے ہیں اور ان کی عقلیں جواب دے جاتی ہیں۔ پھر بھی اسی پر اصرار کرتے جاتے ہیں یا جیسے آج کل کے ماہرین فلکیات اس جو بڑی سے بڑی طاقتور دوربینوں سے اجرام فلکی کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ان میں بعض علمائے ہیئت کی تو ایسے مت ماری جاتی ہے کہ ایک طرف تو کائنات کے اس مربوط و منظم نظم پر حیرت و استعجاب کا اظہار کرتے ہیں مگر دوسری طرف یہ سب کچھ اتفاقات کا نتیجہ قرار دینے لگتے ہیں۔ اور لطف یہ کہ اپنے انہی موہوم قیاسات کو علمی تحقیق کے خوبصورت نام سے دوسروں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ عاد اور ثمود کے محققین بھی کچھ ایسے ہی لوگ تھے۔ العنكبوت
39 [٦٠] یعنی نہ تو یہ لوگ اپنی تدبیروں سے اللہ کی تدبیر کو ناکام بناسکتے تھے اور نہ ہی اللہ کی گرفت سے بچ کر کہیں جاسکتے تھے۔ العنكبوت
40 [٦١] یعنی ہر قوم کو اس کے جرم کے مطابق سزا دے کر صفحہ ہستی سے چلتا کیا اور زمین کو ان لوگوں سے پاک کردیا۔ ان میں پتھروں کی بارش کا عذاب صرف قوم لوط پر آیا تھا۔ اور قوم عاد پر جو عذاب آیا تھا وہ تیز آندھی کی شکل میں تھا جس میں چھوٹے چھوٹے پتھر کنکر بھی ملے ہوئے تھے۔ [٦٢] قوم ثمود (حضرت صالح علیہ السلام کی قوم) اور اہل مدین (حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم ) پر یہی عذاب آیا تھا۔ [٦٣] یعنی قارون اور اس کے خدام کو پورے خزانوں سمیت، جس کا قصہ سورۃ قصص میں پوری تفصیل سے گزر چکا ہے۔ [٦٤] یعنی قوم نوح کو اور فرعون اور آل فرعون کو۔ [٦٥] ان سب قوموں کی طرف ہم نے نبی بھیجے تاکہ وہ انھیں ان کی گمراہیوں سے مطلع کریں۔ لیکن ان لوگوں نے نبیوں کو جھوٹا سمجھا۔ اور انھیں گمراہیوں پر اور بھی زیادہ ڈٹ گئے۔ اللہ کی فرمانبرداری کے بجائے انبیاء کے دشمن بن گئے اور انھیں طرح طرح کی تکلیفیں دینا شروع کردیں۔ پھر جب ہماری طرف سے پوری طرح حجت قائم ہوگئی تو اس وقت ہم نے انھیں تباہ کیا اور اس تباہی کے ذمہ دار وہ خود تھے، ہم نہیں تھے۔ العنكبوت
41 [٦٦] مشرکوں کےمعبودوں کی مثال جیسے مکڑی کا گھرہو:۔ یعنی اوپر جن جن اقوام کا ذکر آیا ہے یہ سب ہی شرک اور بت پرستی میں مبتلا تھیں۔ انھیں چیزوں کو انہوں نے اپنا مشکل کشا سمجھ رکھا تھا اور ان کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر ان کے سامنے قربانیاں بھی پیش کی جائیں اور نذروں و نیازوں کے چڑھاوے بھی چڑھائے جاتے تھے، اس امید پر کہ ہمارے یہ سرپرست حضرات ہم سے خوش رہیں۔ اور مصیبت کے وقت ہمارے کام آئیں مگر ان مشرکوں کے معبودوں یا سرپرستوں کی مثال تو لکڑی کے گھر جیسی ہے جو اس قدر کمزور ہوتا ہے کہ انگلی کی ایک ہلکی سی جنبش سے تار تار ہوجاتا ہے اور گر پڑتا ہے۔ اسی طرح ان مشرکوں پر جب اللہ کا عذاب آیا تو اس عذاب کی پہلی اور ہلکی سی ضرب سے ہی ان کی تمام تر توقعات کا قصر تار تار ہوگیا اور ان کے معبود جہاں تھے وہیں پڑے کے پڑے رہ گئے۔ العنكبوت
42 [٦٧] اس آیت کے دو مطلب ہیں۔ ایک تو ترجمہ سے ہی واضح ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ جن جن چیزوں کو یہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں ان کی حقیقت کچھ بھی نہیں اور محض لاشیئ ہیں۔ [٦٨] یعنی اللہ کو نہ تو ان معبودان باطل کی رفاقت مطلوب ہے۔ کیونکہ خود ہی سب سے زبردست اور سب پر غالب ہے۔ اور نہ ہی ان سے کسی قسم کے مشورہ کی ضرورت ہے کیونکہ وہ حکیم مطلق ہے۔ اپنے ہر کام کی حکمت اور مصلحت سے خوب واقف ہے۔ العنكبوت
43 [٦٩]کس قسم کی مثال درست ہوتی ہے؟ اس آیت کے بھی دو مطلب ہیں ایک یہ کہ اقوام عالم کے یہ واقعات اس لئے بیان کرتے ہیں کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ انبیاء کی تکذیب اور اللہ کی نافرمانی کرنے والوں کا کیا انجام ہوتا ہے۔ اور اللہ اپنے فرمانبرداروں کو ظالموں سے نجات دینے کی کیسی کیسی صورتیں پیدا کردیتا ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ کفار مکہ کو ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ اللہ کی شان اس بات سے بہت بلند تر ہے کہ مکھی، مچھر اور مکڑی جیسی حقیر مخلوق کی مثالیں بیان کرے۔ ایسا اعتراض جاہل قسم کے لوگ ہی کرسکتے ہیں اہل علم نہیں کرسکتے۔ اہل علم تو صرف یہ دیکھتے ہیں کہ آیا ممثل اور ممثل لہ میں جو شبیہ بیان کی جارہی ہے وہ درست ہے؟ اگر وہ درست ہے تو پھر مثال بھی درست ہے وہ یہ نہیں دیکھتے کہ مثال بیان کرنے والی ہستی کوئی بڑی ہستی ہے یا چھوٹی۔ العنكبوت
44 [٧٠] یعنی زمین و آسمان یا نظام کائنات کو بے فائدہ ہی نہیں بنا دیا بلکہ اس نظام سے بے شمار مصالح اور فوائد حاصل ہو رہے ہیں۔ زمین پر بسنے والی ہر طرح کی مخلوق کی زندگی اور زندگی کی بقا کا انحصار اسی نظام کائنات پر ہے۔ اگر اس نظام میں سے ایک بھی کل پرزہ اٹھا لیا جائے تو صرف یہی نہیں کہ جاندار اشیاء کی زندگی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ بلکہ زمین پر نباتات، پودے اور درخت تک بھی نہ اگ سکیں گے۔ [٧١]اللہ نے کسی کو اپنےا ختیارات تفویض نہیں کیے:۔ یعنی ہر صاحب علم و دانش کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ کائنات کو پیدا تو اللہ کرے، زمین کی روئیدگی کی قوتیں اللہ عطا کرے، بارش برسائے تو اللہ، تمام مخلوق کی ضروریات زندگی مہیا کرے تو اللہ۔ مگر جب اس کے رزق، اس کے فضل اور اس کی رحمت کی لوگوں میں تقسیم کی باری آئے تو دوسرے معبودان باطل ہزارہا کی تعداد میں میدان میں آموجود ہوں۔ اور انسان یہ سوچنے لگے کہ واقعی سب کچھ کیا کرایا تو اللہ نے ہی ہے مگر اس نے رحمت کی تقسیم کے اختیارات دوسرے حضرات کو سونپ دیئے ہیں اور خود فارغ ہو بیٹھا ہے؟ کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی بے انصافی اور ظلم کی بات ہوسکتی ہے؟ العنكبوت
45 [٧٢] تلاوت قرآن کے فائدے:۔اس آیت میں یہ بظاہر خطاب صرف رسول اللہ علیہ السلام کو ہے لیکن مخاطب سارے ہی مومن ہیں۔ جو مکہ میں کافروں کے ہاتھوں تکلیفیں اٹھا رہے تھے۔ ان مصائب کے مداوا کے طور پر انھیں تین باتوں کی تلقین کی گئی ایک قرآن کی تلاوت، دوسرے نماز پر ہمیشگی اور تیسرے ہر وقت اللہ کو یاد رکھنا۔ تلاوت قرآن کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے دل میں صبر اور برداشت کی قوت پیدا ہوتی ہے۔ جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر فرمایا : ﴿لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ ﴾(۳۳:۲۵) بشرطیکہ قرآن کریم کو سوچ سمجھ کر پڑھا جائے اور اس کی اقتضآت کو اپنی ذات پر نافذ کیا جائے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ قرآن کی تلاوت بذات خود باعث اجر و ثواب ہے۔ اور اس کے ایک ایک حرف کے عوض دس نیکیاں ملتی ہیں۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اللہ کی کتاب سے ایک حرف پڑھا، اس کے لئے ایک نیکی ہے اور ہر نیکی کا ثواب دس گنا ہے۔ اور میں نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے۔ بلکہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے۔ (ترمذی۔ ابو اب فضائل القرآن۔ باب ماجاء فی من قرء حرفا من القرآن۔۔) تیسرا فائدہ یہ ہے کہ تلاوت قرآن سوچ سمجھ کر پڑھنے سے اس کے معارف و حقائق پڑھنے والے پر منکشف ہوتے چلے جاتے ہیں۔ چوتھا فائدہ یہ ہے کہ تلاوت قرآن سے دوسرے لوگ بھی اس کے مواعظ اور علوم و برکات سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ پانچواں فائدہ یہ ہے کہ دعوت و اصطلاح کے فریضہ کی اصل بنیاد تلاوت قرآن کریم بھی ہے۔ پھر جو لوگ قرآن کی ہدایت کو تسلیم نہ کریں ان پر اللہ کی حجت قائم اور پوری ہوجاتی ہے۔ کیابلاسوچےسمجھےقرآن کی تلاوت بےسودہے؟لیکن ہمارے دور کے مفسر قرآن جناب پرویز صاحب بلا سوچے سمجھے تلاوت قرآن کو ایک بے ہودہ فعل قرار دیتے ہیں، فرماتے ہیں کہ : ’’قرآن ایک کتاب ہے جس میں لکھا ہے کہ اس کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہئے۔ کہئے اس کے الفاظ دہرا دینے سے یہ مقصد حاصل ہوجائے گا ؟ نیز قرآن اپنے مضامین پر بار بار غور و فکر کی دعوت دیتا ہے کیا یہ مقصود بلاسوچے سمجھے پڑھنے سے حاصل ہوسکتا ہے؟ آپ کسی مصنف سے یہ کہئے کہ میں تمہاری کتاب کے ایک لفظ کو بھی نہیں سمجھتا لیکن اس کے باوجود ہر روز اسے پڑھتا ہوں۔ حتیٰ کہ مجھے وہ زبان بھی نہیں آتی جس میں تم نے یہ کتاب لکھی ہے۔ اس کے باوجود اس کتاب کو دہراتا رہتا ہوں۔ آپ خود ہی سوچئے کہ وہ مصنف آپ کو کیا جواب دے گا ؟ یہ عقیدہ دراصل مسلمانوں کو قرآن سے الگ رکھنے کے لئے تراشا گیا تھا جو عجمی سازش کا نتیجہ ہے اور یہ عقیدہ یکسر غیر قرآنی ہے جو درحقیقت عہد سحر کی یادگار ہے۔ جب یہ سمجھا جاتا تھا کہ الفاظ (معانی نہیں) اپنے اندر تاثیر رکھتے ہیں۔ یہ قرآنی اعمال، تعویذ، نقوش، وظائف اور اد، سب اسی عقیدہ کی مستعار شکلیں ہیں‘‘ (قرآنی فیصلے ص ١٠٣) پھر یہی خیالات مقام حدیث کے ص ٢٢١ پر دہرائے گئے ہیں اور اس کے بعد قرآن سورتوں یا آیات کی تلاوت کی فضیلت کے متعلق چند احادیث درج کرکے ایسی احادیث کے موضوع ہونے کا تاثر دیا گیا ہے نیز یہی افکار اسباب زوال امت کے ص ٥٩ پر بھی دیئے گئے ہیں اور دلیل میں یہ آیت بھی پیش کی گئی ہے : ﴿یَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاہِھِمْ مَّا لَیْسَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ ﴾(۱۶۷:۳)وہ زبان سے وہ کچھ کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہوتا (اسباب زوال امت، ص ٥٩) جواب دینے سے پیشتر ہم جناب پرویز کی ہشیاری کی داد ضرور دینا چاہتے ہیں کہ جو آیت منافقوں سے تعلق رکھتی تھی اسے آپ نے اس مقام پر فٹ کر دکھایا ہے۔ یہ آیت ﴿ وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ نَافَقُوا﴾ سے شروع ہوتی ہے اور اس آیت کے مندرجہ ٹکڑے کا مطلب یہ ہے کہ منافقوں کی زبان پر کوئی اور بات ہوتی ہے جبکہ دل میں کچھ اور ہوتا ہے یعنی جس بات کا وہ زبان سے اقرار کرتے ہیں ان کے دل اس سے منکر ہوتے ہیں لیکن بلاسوچے سمجھے یا معنی نہ سمجھنے کے باوجود قرآن پاک کی تلاوت کا معاملہ اس سے یکسر مختلف ہے۔ اس لئے کہ ایسے شخص کے دل میں کچھ ہوتا ہی نہیں یا اگر کچھ ہوتا ہے تو صرف یہ کہ وہ اپنے پروردگار کے کلام کی تلاوت کر رہا ہے۔ اور یہ ایک اچھا باعث برکت و ثواب عمل ہے۔ قرآن میں تلاوت قرآن پر بہت زور دیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے پہلی ذمہ داری تھی کہ آپ امت پر اللہ کی آیات تلاوت کرتے تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہی حکم تھا اور مسلمان مردوں اور عورتوں کو یہ بھی حکم تھا کہ وہ ان تلاوت شدہ آیات کو زبانی یاد کرلیا کریں۔ اللہ تعالیٰ ازواج النبی سے فرماتے ہیں : ﴿ وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ وَالْحِکْمَۃِ ﴾(۳۳۔۳۴) ’’اور تمہارے گھروں میں جو اللہ کی آیات و حکمت پڑھی جاتی ہیں، ان کو یاد رکھو‘‘ تلاوتِ قرآن اورحفظ قرآن:۔اور یہ تو واضح ہے کہ آیات کو یاد رکھنے اور حفظ کرنے کے لئے ان آیات کو بار بار پڑھنا اور دور کرنا پڑتا ہے اور بار بار تلاوت کرنے کا مقصد غور و تدبر ہی نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو قرآنی آیات سکھلاتے بھی تھے، پڑھاتے بھی تھے، یاد بھی کرواتے تھے، پھر ان سے سنتے بھی تھے، انھیں سناتے بھی تھے، تب جاکر صحابہ کو حفظ اور ضبط ہوتا تھا۔ حفظ کرتے وقت جو تکرار، اعادہ یا دور کیا جاتا ہے اس کا مقصد غور و تدبر کرنا نہیں ہوتا بلکہ حفظ ہی ہوتا ہے اب حفظ کرنے کے لئے آیات کی جو بار بار تلاوت کی جاتی ہے، وہ اگرچہ بلاسوچے سمجھے ہوتی ہے تاہم یہ ایک بہت بڑی دینی ضرورت کو پورا کرتی ہے۔ یعنی قرآن سینوں میں محفوظ ہوجاتا ہے۔ لہٰذا یہ ایک مستحسن فعل ہوا۔ خواہ یہ حفظ کرتے وقت طوطے کی طرح رٹنا ہی پڑے۔ قانون کی کتاب کےلیے ترتیل کی کیاضروت ہے؟نبوت کے ابتدائی ایام میں ہی سورۃ مزمل نازل ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا : ﴿ اَوْ زِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا ﴾(۷۳:۴)’’اور قرآن کو خوب حسن تناسب سے پڑھا کرو‘‘ رَتِّل کا معنی کسی چیز کا حسنِ تناسب کے ساتھ مرتب اور منظم ہونا ہے۔ (مفردات) پھر اس میں کسی عبارت کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا، حسن ادائیگی الفاظ اور خوش آوازی یا خوش الحانی سب شامل ہوتے ہیں۔ اگر ہم قرآن کو محض ایک قانون اور ضابطہ حیات کی کتاب ہی تصور کریں تو پھر قانون کی کتاب پڑھنے کے لئے ایسی ہدایات کی کیا ضرورت ہے؟ قانون کی کتاب میں غور و فکر کرنے کے لئے الفاظ کو بلند آواز سے پڑھنے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی چہ جائیکہ اسے ترتیل سے پڑھا جائے۔ متشابہات کی تلاوت کا فائدہ:۔ علاوہ ازیں قرآن میں کچھ ایسی متشابہ آیات بھی ہیں جن کی تاویل اللہ ہی جانتا ہے یا پھر کچھ راسخون فی العلم جان سکتے ہیں۔ عام لوگ جن کی ہر دور میں اکثریت ہوتی ہے، اس کے مفہوم و معانی اور صحیح تاویل و تعبیر تک پہنچ ہی نہیں سکتے۔ اور ایسی آیات کے مفہوم و معانی کے پیچھے پڑنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے فتنہ پرور قرار دیا ہے۔ اور صفات الٰہی سے تعلق رکھنے والی تقریباً سب آیات اسی قبیل سے ہیں۔ پھر قرآن میں حروف مقطعات بھی اسی قبیل سے ہیں جن کا انسان کی عملی زندگی سے کچھ بھی تعلق نہیں، نہ ہی ان کا صحیح مفہوم معلوم ہوسکا ہے۔ اب اگر قرآن کو صرف قانون اور ضابطہ حیات کی کتاب ہی سمجھا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن میں ایسی آیات کی کیا ضرورت تھی؟ یا کیا تلاوت قرآن کرتے وقت ایسی آیات کو چھوڑ دینا چاہئے؟ یہ باتیں اس چیز پر واضح دلیل ہیں کہ قرآن پاک کو سمجھنے اور عمل کرنے کے علاوہ صرف تلاوت بھی انتہائی ضروری ہے۔ اب رہی یہ بات کہ آیا قرآن کے الفاظ میں کوئی تاثیر ہے یا نہیں؟ جسے پرویز صاحب عہد سحر سے منسلک فرما رہے ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم قرآن کے الفاظ کی تاثیر کے بھی قائل ہیں اور اس کی وجوہ درج ذیل ہیں : ١۔ قرآن کسی انسان کا کلام نہیں، بلکہ اس کے الفاظ کی بندش اور فصاحت و بلاغت کا یہ عالم ہے کہ فصحاء اور بلغاء عرب بار بار کے چیلنج کے باوجود اس جیسا کلام لانے سے قاصر رہے لہٰذا اسے عام انسانی تصانیت کے مثل قرار دینا بہت بڑی جسارت ہے۔ جیسا کہ پرویز صاحب نے کسی مصنف کی کتاب کی بلاسوچے سمجھے پڑھنے کی مثال دی ہے۔ ٢۔ کفار مکہ میں سے اکثر فصحائے عرب تھے۔ ان میں شاعر بھی موجود تھے۔ وہ قرآن کی آیات کو سنتے اور خوب سمجھتے تھے کیونکہ ان کی زبان عربی تھے۔ وہ دل سے قرآن کے مخالف بھی تھے۔ پھر بھی قرآن کے الفاظ کی اعجازی حیثیت ان کو مسحور کردیتی تھی۔ آخر یہ کیا بات تھی کہ وہ اپنی لگائی ہوئی پابندیوں کے علی الرغم رات کو پہروں چوری چھپے قرآن سنتے تھے؟ کیا یہ الفاظ ہی کی تاثیر نہ تھی؟ ٣۔ الفاظ کی اس اعجازی حیثیت کا پرویز صاحب خود بھی ایک دوسرے مقام پر زیر عنوان ''مشاعرے'' بدیں الفاظ اقرار کرتے ہیں : ’’آپ کسی شاعر سے کہئے کہ جو کچھ آپ نے نظم میں لکھا ہے اسے ذرا نثر میں پڑھ کر سنائیے، پھر دیکھئے اس کے جذبات کا کیا عالم ہوتا ہے۔ غور کیجئے، کتنا بڑا ہے یہ سحر جس کی رو سے محض الفاظ کے ادھر ادھر رکھ دینے سے آپ کے تاثرات بدل جاتے ہیں۔‘‘ (قرآنی فیصلے، ص ٣٠٥) اب اگر کسی عام شاعر کی نظم میں الفاظ کی بندش میں یہ تاثیر ممکن ہے تو کیا قرآن کے الفاظ کی بندش میں اتنی بھی تاثیر نہیں اور ایسی تاثیر شعر ہی میں نہیں نثر میں بھی ممکن ہے۔ قرآن مجید شاعرانہ بیہودگی سے یکسر پاک ہے تاہم اس کی اعجازی حیثیت مسلمہ ہے اور اس کی تاثیر کی بھی۔ ٤۔ رجز (جنگی گیت) اور حدی کا اثر اونٹ وغیرہ پر بھی ہونا مشاہدات سے ثابت ہے۔ حالانکہ اونٹ نہ وہ زبان جانتا ہے نہ اس کا مطلب سمجھتا ہے تاہم متاثر ضرور ہوجاتا ہے تو کیا اونٹ میں بھی کوئی عجمی سازش کام کررہی ہوتی ہے؟ اسی مضمون سے متعلق ایک لطیفہ یاد آگیا۔ کوئی صاحب قرآن کے الفاظ کی تاثیر کے قائل نہ تھے اور اسی موضوع پر اپنے ایک دوست سے بحث فرما رہے تھے۔ اس دوست نے جواب میں صرف اتنا ہی کہہ دیا کہ تم تو نرے گدھے ہو۔ اس بات پر وہ صاحب سیخ پا ہوگئے اور غصہ کی وجہ سے چہرہ تمتا اٹھا اور اپنے دوست کو بدتمیزی کے القابات سے نوازنے لگے۔ دوست نے بڑے آرام سے کہا کہ اگر الفاظ میں کچھ تاثیر نہیں ہوتی تو آپ اس قدر برہم کیوں ہوگئے؟ آپ فی الواقع کوئی گدھا بن تو نہیں گئے۔ یہ جواب سن کر وہ صاحب کچھ کھسیانے سے ہوگئے اور غصہ بھی فرو ہوگیا۔ بلا سوچے سمجھے تلاوت کرنا اگرچہ کوئی بامقصد عمل نہیں کہلاسکتا تاہم اس سے بھی تین فائدے حاصل ہوتے ہیں : ١۔ تلاوت کرنے والا جب تک تلاوت میں مشغول رہے گا دوسری خرافات سے محفوظ رہے گا۔ ٢۔ جو شخص اس بلاسوچے سمجھے تلاوت کو اپنا معمول بنا لے گا کسی نہ کسی دن ضرور وہ اس کا مفہوم سمجھنے کی بھی کوشش کرے گا۔ ٣۔ کلام الٰہی اگر ترتیل سے کی جائے تو کائنات کی کئی دوسری اشیاء بھی اس سے اثر قبول کرتی اور ساتھ ہم آہنگ ہوجاتی ہیں۔ داؤد علیہ السلام جب زبور کی آیات تلاوت فرماتے تو پہاڑ اور پرندے بھی آپ کی ان تسبیحات سے مسحور ہو کر ان میں شامل ہوجاتے تھے جیسا کہ ارشاد باری ہے : ﴿وَلَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًا یٰجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہٗ وَالطَّیْرَ ﴾ ’’اور ہم نے اپنی طرف سے داؤد کو برتری بخشی تھی کہ اے پہاڑو اور پرندو! (جب داؤد زبور کی تلاوت کریں تو) تم بھی اس کے ساتھ ہم آہنگ ہوجاؤ‘‘ بالکل ایسا ہی مضمون سورۃ انبیاء کی آیت نمبر ٧٩ اور سورہ ص کی آیت نمبر ١٩ میں بھی مذکور ہے۔ ان آیات میں جبال یا پہاڑ جمادات سے اور پرندے حیوانات سے تعلق رکھتے ہیں گویا یہ سب چیزیں آیات الٰہی کی تلاوت سے اثر پذیر ہوتی ہیں۔ حالانکہ وہ نہ ان کے معنی سمجھ سکتی ہیں اور نہ غور و فکر کرسکتی ہیں۔ ان تمام تصریحات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگرچہ قرآن کریم کی تلاوت کا اصل مقصد اسے سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہے تاہم قرآن کے الفاظ کی بندش میں بلاکی تاثیر ہے۔ جس سے انکار ناممکن ہے۔ لہٰذا اگر تلاوت کرنے والا اس کے مفہوم کو نہ جانتا ہو تب بھی اسے اس کی تلاوت سے کئی طرح سے فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ رہا مسئلہ قرآنی عملیات، نقوش، تعویذات اور اوراد وغیرہ کا تو ان باتوں کا ثبوت کتاب و سنت میں کہیں بھی نہیں ملتا۔ لہٰذا یہ افعال بدعیہ اور شرکیہ ہیں اور ایسی باتوں کا اگر پرویز صاحب عہد سحر سے تعلق قائم کرنا چاہیں تو بصد شوق ایسا کرسکتے ہیں۔ [٧٣]اگرنمازبرائی اور فاحشات سے نہیں روکتی تویہ نماز میں غافل رہنے کاثبوت ہے:۔ اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے نماز میں تاثیر ہی یہ رکھ دی ہے کہ اس سے بے حیائی اور برے کاموں کا ارادہ ختم ہوجاتا ہے۔ جیسے پانی میں اللہ نے یہ تاثیر رکھ دی ہے کہ وہ پیاس کو بجھا دیتا ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ نماز سے مطلوب یہ ہے کہ نمازی بے حیائی اور برے کاموں سے باز آجائے۔ اور یہ دونوں مطلب درست ہیں بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ دونوں مطالب کا مفہوم بالآخر ایک ہی بن جاتا ہے تو بھی درست ہے۔ اب آپ نماز کے ارکان پر اور جو کچھ نماز میں پڑھا جاتا ہے اس پر غور کریں تو خود بخود یہ واضح ہوجاتا ہے کہ جو شخص نماز بھی پڑھتا رہے اور اس سے بے حیائی اور برائیاں بھی دور نہ ہوں تو وہ محض بے سوچے سمجھے اور عادتاً نماز ادا کرتا ہے۔ بھلا جس کی نماز کی ہر رکعت میں دل کی توبہ سے اللہ کے سامنے شرک سے برأت کا اور دوسروں سے استمداد سے برأت کا اقرار کیا جائے ایسا شخص بھی شرک میں مبتلا رہ سکتا ہے؟ اور جس نماز کی رکعت میں اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی جائے وہ نماز سے برے اور بے حیائی کے کاموں سے بچنے کی کوشش نہ کرے گا؟ اور جو انسان اپنی نماز کی ہر رکعت میں اللہ سے سیدھے راستے پر گامزن رہنے کی دعا کرتا ہے۔ وہ برے کام اور بے حیائی کے کام کرسکتا ہے؟ غرض نماز میں اللہ کے سامنے اقرار اور اس کے حضور دعاؤں پر جتنا بھی غور کیا جائے تو یہی نتیجہ سامنے آتا ہے کہ صحیح طریقہ سے نماز کو ادا کرنے والا لازماً برے کاموں سے رک جائے گا اور اگر نہیں رکتا تو اس کا منطقی نتیجہ یہی ہے کہ وہ نماز ٹھیک طرح ادا نہیں کرتا۔ وہ نماز میں اللہ کی یاد سے غافل اور دوسرے دنیوی خیالات میں منہمک رہتا ہے۔ اور ایسی نماز منافق کی نماز ہوتی ہے۔ مومن کی نہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ایسے نمازیوں کو بھی برے انجام کی تنبیہ فرمائی ہے۔ جو اپنی نماز میں اللہ کی یاد سے غافل رہتے ہیں۔ (١٠٨: ٤، ٥) [٧٤]اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز کیسے؟ اس جملہ کے بھی کئی مطلب ہیں ایک یہ کہ تمام تر عبادتوں کی روح رواں اللہ کی یاد ہی ہے۔ اللہ سے ہی انسان غافل ہو تو انسان عبادت کر کیسے سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ تمام عبادت اسی صورت میں بطریق احسن سرانجام دی جاسکتی ہیں کہ اس عبادت کے دوران اللہ کی یاد سے غافل نہ ہو۔ تیسرا مطلب یہ ہے، اللہ کو یاد کرنا، زبان سے اللہ اللہ کہنا اور دل میں ہر وقت اللہ کو یاد رکھنا بذات خود بہت بڑا نیکی کا کام ہے۔ اور اس مطلب کا تائید درج ذیل حدیث سے ہوتی ہے : حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو چکی سے آٹا پیسنے سے بہت تکلیف ہوگئی۔ انھیں خبر ملی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے ہیں۔ (غنیمت سے جس کا پانچواں حصہ آپ کے لئے مختص اور اس کی تقسیم آپ کی صوابدید پر منحصر تھی) وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائیں تاکہ آپ سے ایک لونڈی یا غلام کا مطالبہ کریں۔ اتفاق سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر پر نہ ملے تو انہوں نے یہ بات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہہ دی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انھیں بتلایا کہ آپ اسی وقت (رات کو ہی) ہمارے ہاں تشریف لائے جبکہ ہم بستروں پر لیٹ چکے تھے۔ ہم نے اٹھنا چاہا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لیٹے رہو (آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے درمیان بیٹھ گئے) میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں کے ٹھنڈک اپنے سینے پر محسوس کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں جو اس سے بہتر ہے جو تم نے مانگی تھی؟ (اور وہ یہ ہے کہ) جب تم اپنے بستروں پر جاؤ تو اللہ اکبر ٣٤ بار، الحمدللہ ٣٣ بار اور سبحان اللہ ٣٣ بار کہہ لیا کرو۔ یہ تمہارے لئے اس چیز سے بہتر ہے جس کا تم نے سوال کیا تھا‘‘ (بخاری۔ کتاب الجہاد والسیر۔ باب الدلیل علی الخمس لنوائب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) اور چوتھا مطلب یہ ہے کہ اگر بندہ اللہ کو یاد کرے تو اللہ بھی بندے کو یاد کرتا ہے (٢: ١٥٢) اور ظاہر ہے کہ اللہ کا بندے کو یاد کرنا بہت بڑی چیز ہے۔ [٧٥] یعنی اللہ اسے بھی جانتا ہے جو اس کے ذکر سے رطب اللسان رہتا ہے اور اسے بھی جو اس کی یاد سے غافل رہتا ہے۔ پھر ہر ایک سے اس کے عمل کے مطابق سلوک کرے گا۔ العنكبوت
46 [٧٦] اہل کتاب کے ہاں جتنی سچائی ہے اس کا اعتراف کرنا چاہیے :۔ یعنی مشرکوں کا دین تو سراسر باطل ہے۔ مگر اہل کتاب کا دین اپنی اصل کے لحاظ سے سچا تھا۔ لہٰذا ان سے تمہاری بحث کا انداز مشرکوں سے جداگانہ ہوجانا چاہئے۔ اور ان کے مذاہب میں جتنی سچائی موجود ہے اس کا اعتراف کرنا چاہئے۔ پھر جس مقام سے اختلاف واقع ہوتا ہے وہ نرمی، متانت سے اور خیر خواہی کے جذبے سے انھیں سمجھانا چاہئے۔ بحث کا انداز یہ نہ ہونا چاہئے کہ دوسرے کو سراسر غلط اور نیچا دکھانے کی کوشش کی جائے۔ بلکہ ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہئے جس سے اسے اپنی غلطی کا اعتراف کرلینا آسان ہوجائے۔ [٧٧] بے انصاف یا ظالم سے مراد وہ لوگ ہیں جو مذہبی تعصب کو ہی سب سے بڑی قدر سمجھتے ہوں۔ اور ضد اور ہٹ دھرمی پر اتر آئے ہوں جیسا کہ یہود مدینہ میں کعب بن اشرف اور ابو رافع سلام بن ابی الحقیق اور مشرکین مکہ میں ابو جہل اور اس کے ساتھی تھے۔ [٧٨] دوسروں سے بحث کیسے؟اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بحث کا انداز بھی خود ہی سمجھا دیا۔ یعنی جن جن باتوں میں فریقین میں موافقت اور مطابقت پائی جاتی ہے۔ پہلے ان کا ذکر کرکے انھیں اپنی طرف مائل کیا جائے۔ یہ نہ ہونا چاہئے کہ ابتداء میں اختلافی امور کو زیر بحث لا کر فریق مخالف کو اپنا مزید مخالف بنالیا جائے۔ یعنی زبان شیریں اور انداز گفتگو ایسے ناصحانہ ہونا چاہئے جس سے وہ چڑ جانے کی بجائے بات کو تسلیم کرلینے پر آمادہ ہوجائے۔ العنكبوت
47 [٧٩] یعنی جس طرح ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو کتاب دی تھی بالکل ویسے بھی آپ پر یہ کتاب نازل کی ہے۔ اور اہل کتاب میں سے جو منصف مزاج ہیں وہ یہ سمجھ کر کہ ان دونوں کتابوں کا سرچشمہ ایک ہی ہے، قرآن پر ایمان لے آئے تھے اور اہل مکہ میں بھی کچھ منصف مزاج موجود ہیں جو قرآن کے دلائل سن کر فوراً اس سے متاثر ہوجاتے ہیں اور ایمان لے آتے ہیں۔ گویا ایک انسان کی ہدایت کے لئے اس کتاب میں نہ نقلی دلائل کی کمی ہے اور نہ عقلی دلائل کی۔ اس سے انکار صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو اپنے مذہبی تعصبات کو چھوڑ کر حق بات ماننے کو تیار نہیں۔ نہ وہ اپنی خواہش نفس اور بے لگام آزادی پر کسی قسم کی پابندی قبول کرنے کو تیار ہیں۔ العنكبوت
48 [٨٠] آپ کے امتی ہونے کی مصلحت:۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو جھٹلانے یا اسے کم از کم مشکوک بنانے کے لئے قریش نے جو باتیں اختراع کی تھیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہاس شخص نے سابقہ آسمانی کتابوں سے فیض حاصل کیا ہے اور اس کی بنیاد یہ تھی کہ آپ کی پیش کردہ کتاب یعنی قرآن کے بہت سے مضامین تورات سے ملتے جلتے تھے اور بعض منصف اہل کتاب اسی بات کی تصدیق بھی کردیتے ہیں۔ اس آیت میں ان کے اسی اعتراض کا جواب دیا گیا ہے کہ آپ نبوت سے پیشتر نہ تو کوئی کتاب پڑھ سکتے تھے کہ اس کے مطالعہ سے آپ کو ایسی معلومات حاصل ہوں اور نہ ہی لکھ سکتے تھے کہ علمائے اہل کتاب سے سن کر اسے نوٹ کرتے جائیں اور بعد میں اپنی طرف سے پیش کردیں۔ ہاں ان میں سے کوئی بھی صورت ہوتی تو ان کافروں کے شک و شبہ کی کچھ نہ کچھ بنیاد بن سکتی تھیں۔ لیکن جب یہ دونوں صورتیں موجود نہیں تو پھر ان لوگوں کا آپ کی رسالت سے انکار، تعصب، ضد اور ہٹ دھرمی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ مِنْ قَبْلِہِ سے بعض مسلمانوں نے اس بات پر استشہاد کیا ہے کہ نبوت سے پیشتر تو آپ فی الواقع لکھ پڑھ نہیں سکتے تھے، لیکن نبوت کے بعد آپ نے لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ اس اختراع کی بنیاد ان مسلمانوں کی آپ سے فرط عقیدت ہے۔ وہ یہ سوچتے ہیں کہ جو رسول سارے جہاں کے لئے رسول اور معلم بنا کر بھیجا گیا تھا کیسے ممکن ہے کہ وہ لکھا پڑھا نہ ہو۔ بالفاظ دیگر وہ نبی کی ذات سے لکھا پڑھا نہ ہونے کے نقص کو دور کرنا چاہتے ہیں۔ پھر ان لوگوں کے اس دعویٰ میں موجودہ دور کے مخالفین اسلام اور مستشرق محققین بھی شامل ہوگئے۔ کیونکہ یہ دعویٰ ان کے حق میں مفید تھا۔ کیاآپ نے بعد میں لکھنا پڑھنا سیکھ لیاتھا؟عقیدت مند مسلمانوں کے اس دعویٰ کے جذبہ کی ہم قدر کرتے ہیں لیکن ہمیں افسوس ہے کہ ان نادان دوستوں کا یہ دعویٰ دانا دشمنوں کے کام آرہا ہے۔ اب ہم اس دعویٰ کی تردید دو طرح سے کریں گے ایک عقلی لحاظ سے اور دوسرے تاریخی لحاظ سے۔ عقلی لحاظ سے ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ اگر ایک شخص ان پڑھ ہو کر سارے جہان کا معلم بنے تو یہ زیادہ حیران کن بات اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ہے یا ایک شخص بہت عالم فاضل اور پڑھا لکھا ہو کر معلم بنے؟ ظاہر ہے کہ پہلی صورت کو ہی معجزہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ پھر اس سے وہ تمام شکوک و شبہات بھی دور ہوجاتے ہیں جو اس دور کے مخالفین اسلام نے پیغمبر اسلام پر وارد کئے تھے یا اس دور کے مخالفین اسلام کر رہے تھے۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ قرآن نے دو آیات میں آپ کو مدح کے طور پر امی کے لقب سے نوازا ہے (٧: ١٥٧، ١٥٨) اور سورۃ جمعہ میں فرمایا : وہی تو ہے جس نے امی لوگوں میں سے ہی ایک فرد کو رسول بنا کر بھیجا (٦٢: ٢) قرآن کے انداز بیان سے بھی واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ امی کا لقب آپ کے لئے مایہ صد افتخار ہے۔ اور تاریخی لحاظ سے یہ دعویٰ اس لئے غلط ہے کہ حدیبیہ کا صلح نامہ ٦ ھ میں لکھا گیا تھا۔ لکھنے والے حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے اور لکھانے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھوایا تو قریشیوں کے سفیر سہیل بن عمرو نے یہ اعتراض کیا کہ اس کے بجائے باسمک اللھم لکھو۔ اس کے بعد آپ نے لکھوایا من محمد رسول اللہ اس پر اس نے یہ اعتراض کیا کہ من محمد بن عبداللہ لکھو۔ کیونکہ اگر ہم آپ کو اللہ کا رسول مان لیں تو پھر جھگڑا ہی کا ہے کا ہے؟ پھر جب سفیر سہیل بن عمرو نے اپنی بات پر اصرار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ یہ الفاظ مٹا کر قریشی سفیر کی مرضی کے مطابق لکھ دو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ میرا تو ضمیر یہ گوارا نہیں کرتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لفظ اپنے ہاتھوں سے مٹا دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا اچھا بتلاؤ وہ لفظ کون سا ہے؟ اور جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بتلایا تو آپ نے خود اسے مٹا دیا۔ (بخاری۔ کتاب الشروط۔ باب الشروط فی الجہاد والمصالحة) یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب آپ کو نبوت عطا ہوئے ١٩ سال گزر چکے تھے اور اس وقت آپ کی عمر ٥٩ سال ہوچکی تھی۔ اور اس واقعہ کے چار پانچ سال بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوجاتی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھنا پڑھنا کب سیکھا تھا ؟ اور دوسرا ثبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی زبانی یہ اعتراف ہے کہ : ’’ہم امی لوگ ہیں، لکھنا اور حساب کرنا نہیں جانتے (قمری) مہینہ اتنا بھی ہوتا ہے اور اتنا بھی، پھر آپ نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں بلند کرکے بتلایا کہ کبھی تیس دن کا ہوتا ہے اور کبھی انتیس دن کا‘‘ (بخاری۔ کتاب الصوم۔ باب قول النبی لا نکتب و لا نحسب) العنكبوت
49 [٨١]قرآن کےعلاوہ آپ کی ذات بھی کئی واضح معجزات کا مجموعہ تھی:۔ اس آیت کے دو مطلب ہیں اگر ھُوَ کی ضمیر کو قرآن کی طرف راجع قرار دیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ قرآن کی آیات بڑے واضح دلائل پر مشتمل ہیں۔ اور یہ آیات اہل علم کے سینوں میں محفوظ ہیں۔ یعنی اہل علم نے ان آیات کو حفظ یا ازبر کرلیا ہے۔ اور یہ قرآن اسی طرح سینہ بہ سینہ اہل علم میں منتقل ہوتا جائے گا۔ اور یہ قرآن کی ایسی ناقابل تردید صفت ہے جو ابتدائے اسلام سے آج تک اور آئندہ بھی تاقیامت ہر شخص مشاہدہ کرسکتا ہے اور کرتا رہے گا۔ ہر دور میں مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد حافظ قرآن رہی ہے۔ اور یہی قرآن کی اعجازی حیثیت اور اس کی حفاظت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ قرآن کی حفاظت کا دوسرا ذریعہ کتابت قرآن ہے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حفاظت قرآن کے پہلے ذریعہ حفظ پر ہی نسبتاً زیادہ توجہ مبذول فرمائی تھی۔ (اکثر مفسرین نے اسی تفسیر کو ترجیح دی ہے) اب قرآن کے مقابلہ میں دوسری الہامی کتابوں کو دیکھئے ان کا شاذ و نادر ہی آپ کو کوئی حافظ نظر آئے گا جیسے حضرت عزیر علیہ السلام کے متعلق منقول ہے کہ وہ تورات کے حافظ تھے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ھو کی ضمیر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف راجع قرار دیا جائے اور یہ تفسیر اس لحاظ سے راجح ہے کہ ربط مضمون اسی بات کا تقاضا کرتا ہے۔ اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اہل علم اور اہل دانش و بینش کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے ثبوت میں ایک نہیں بلکہ بہت سی نشانیاں موجود ہیں۔ وہ اس طرح کہ دنیا میں جتنے بھی نامور شخص گزرے ہیں۔ ان کی شخصیت بنانے والے عوامل کا تاریخ سے پتہ لگایا جاسکتا ہے مگر یہاں یہ بات یکسر مفقود نظر آتی ہے۔ مثلاً تمام مخالفین اسلام یعنی قریش مکہ جانتے تھے کہ آپ لکھنا پڑھنا تک نہیں جانتے تھے۔ علم ادب عربی سے یا تاریخ امم سے واقف ہونا تو دور کی بات ہے۔ لیکن آپ نے جو کلام پیش کیا۔ باربار کے چیلنج کے باوجود عرب بھر کے فصحاء اور بلغاء اس جیسا کلام پیش کرنے سے عاجز رہ گئے تھے۔ اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ آپ فن حرب و ضرب سے قطعاً نابلد تھے۔ نہ ہی آپ کسی جرنیل کے یا فوجی کے حتیٰ کہ سپاہی کے گھر بھی پیدا نہ ہوئے تھے لیکن جب میدان جہاد میں فوجی لشکر کی قیادت آپ نے سنبھالی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی جنگی تدابیر اختیار کیں کہ تمام جہانوں کے جرنیلوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ غرضیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ہر پہلو ایسے ہی حیران کن کمالات کا مجموعہ ہے۔ جن کے اسباب و عوامل تلاش کرنے پر دور تک کہیں نظر نہیں آتے۔ یہی وہ واضح نشانیاں ہیں جو آپ کی رسالت کا بین ثبوت ہیں۔ اور ان کا انکار کوئی کٹر متعصب ہی کرسکتا ہے۔ جبکہ اہل علم آپ کی ان خوبیوں کے دل و جان سے معترف ہوتے ہیں۔ العنكبوت
50 [٨٢] معجزات کا اتارنا اللہ کا کام ہے اور میرا الوہیت کا کوئی دعویٰ نہیں کہ تمہارے معجزہ کے مطالبہ پر تمہیں تمہارے حسب پسند معجزہ دکھلا سکوں۔ میرا کام صرف تمہیں اللہ کا پیغام پہنچانا اور تمہیں برے انجام سے بچانا ہے۔ اس میں اگر میں کوئی کوتاہی کر رہا ہوں تو وہ مجھے بتلا دو۔ العنكبوت
51 [٨٣]قرآن زندہ جاوید معجزہ ہے: یعنی پہلے انبیاء کو جتنے معجزات عطا کئے جاتے رہے وہ سب وقتی اور عارضی تھے جو کسی نے دیکھے کسی نے نہ دیکھے اور آج وہ سب ختم ہوچکے ہیں۔ لیکن یہ قرآن ایسا زندہ جاوید معجزہ ہے جس کی اعجازی حیثیت کو تم خود بھی تسلیم کرتے ہو۔ پھر اور کون سا معجزہ چاہتے ہو؟ پھر یہ کتاب اس لحاظ سے سب کے لئے اللہ کی خاص مہربانی ہے کہ وہ تمہاری زندگی کے ہر پہلو میں تمہاری ٹھیک ٹھیک راہنمائی بھی کرتی ہے۔ آپ کی نبوت کےبعدصرف قرآن ہی کتاب ہدایت ہے:۔ ربط مضمون کے لحاظ سے اس آیت کے مخاطب کفار ہیں اور اس کا وہی مطلب ہے جو اوپر بیان ہوا تاہم اس کے مخاطب مسلمان بھی ہیں۔ انھیں بھی اس کتاب کی موجودگی میں کسی اور کتاب ہدایت کی ضرورت نہیں ہے۔ خواہ وہ کوئی سابقہ آسمانی کتاب ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ کے پاس تورات کے کچھ اوراق لائے اور انھیں پڑھنا شروع کیا۔ آپ کا چہرہ متغیر ہو رہا تھا۔ یہ صورت حال دیکھ کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ کی طرف نہیں دیکھتے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو کہنے لگے کہ میں اللہ اور اس کے رسول کے غضب سے پناہ مانگتا ہوں، ہم اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہوگئے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ فرو ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے کہ اگر آج موسیٰ ظاہر ہوجائیں اور تم مجھے چھوڑ کر اس کی پیروی کرو تو تم گمراہ ہوجاؤ گے۔ اور آج اگر موسیٰ زندہ ہوتے اور میری نبوت کا زمانہ پاتے تو میری اتباع کے سوا انھیں کوئی چارہ نہ ہوتا۔ (مشکوۃ۔ کتاب الایمان۔ باب الاعتصام بالکتاب والسنة۔ الفصل الثالث) العنكبوت
52 [٨٤] کفار مکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے خالق ومالک ہونے کی صفات کے قائل تھے۔ لہٰذا ان سے یہ کہا گیا کہ آپ ان سے کہیئے اگر میں رسالت کا دعویٰ کرکے اس پر جھوٹ باندھنے کا ارتکاب کر رہا ہوں تو چاہئے تو یہ تھا کہ وہ مجھے ہلاک کردیتا مگر عملاً یہ ہو رہا ہے کہ وہ روز بروز مجھے اور میرے ساتھیوں کو بڑھا رہا ہے۔ پھر مجھے معجزہ بھی دیا ہے۔ جس کا جواب پیش کرنے سے تم عاجز ہو تو کیا میری رسالت پر اللہ کی یہ گواہی کافی نہیں؟ ہاں کوئی شخص اگر یہ تہیہ کرلے کہ وہ حق بات کبھی نہ مانے گا تو وہ اور بات ہے اور یہی انسان کی سب سے بڑی بدبختی اور اس کے حق میں نقصان دہ بات ہے۔ العنكبوت
53 [٨٥] اس آیت میں جس عذاب کی جلدی کا مطالبہ کیا جارہا ہے وہ دنیا کا عذاب ہے۔ اور وہ اللہ کے ضابطہ کے مطابق فتح مکہ کے دن آیا تھا۔ جب کفار مکہ کو یک دم مسلمانوں کی یلغار کی خبر ہوئی اور ان میں مقابلہ کی سکت ہی نہ رہی۔ العنكبوت
54 [٨٦] اس آیت میں عذاب سے مراد اخروی عذاب ہے۔ جس میں یہ ابھی سے پڑ چکے اور جہنم انھیں اپنے گھیرے میں لے چکی ہے۔ یہ لوگ خواہ مخواہ جلدی مچا رہے ہیں ان کے مرنے کی دیر ہے۔ یہ اپنے مطلوبہ عذاب کی آغوش میں جاپہنچیں گے۔ العنكبوت
55 [٨٧] یَقُوْلُ کا ایک معنی تو وہی ہے جو ترجمہ میں مذکور ہے اور دوسرا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جہنم کا عذاب خود انھیں یہ بات کہے گا۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کو اللہ مال دے اور وہ اس کی زکوٰۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے دن اس کا مال ایک گنجے سانپ کی شکل بن کر، جن کی آنکھوں پر دو کالے داغ ہوں گے۔ اس کے گلے کا طوق بن جائے گا پھر اس کی دونوں باچھیں پکڑ کر کہے گا : ’’میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الزکوۃ باب اثم مانع الزکوٰ ۃ) العنكبوت
56 [٨٨]وطن پرستی اورقوم پرستی کفرہے۔ا ہم چیزدین کی آزادی کےلیےہجرت:۔ آیت کے الفاظ سے ہی معلوم ہو رہا ہے کہ یہ اس وقت نازل ہوئی تھی جب کفار مکہ نے مسلمانوں پر اس قدر سختیاں روا رکھی تھیں کہ انھیں جینا بھی دو بھر ہوگیا تھا۔ اس مشکل کا حل اللہ تعالیٰ نے یہ بتلایا کہ اس علاقہ سے ہجرت کر جاؤ اور وہاں جاکر رہو جہاں تم آزادی سے میری عبادت کرسکو۔ واضح رہے کہ اپنے وطن اور اپنے اقرباء سے محبت انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ لیکن یہ حب الوطنی، وطن پرستی کی حد تک، اور اقرباء سے محبت قوم پرستی کی حد تک نہیں ہونی چاہئے۔ اصل چیز اللہ کی عبادت اور اپنے دین کی حفاظت ہے اس کے مقابلہ وطن اور قبیلہ کچھ چیز نہیں۔ اور اگر دین کا فقدان کرکے وطن اور قوم کو ترجیح دی جائے تو یہی چیز وطن پرستی اور قوم پرستی بن جائے گی اور یہ کفر ہے۔ العنكبوت
57 [٨٩] اس حکم کے مطابق مختلف اوقات میں تراسی افراد مکہ سے ہجرت کرکے حبشہ کی طرف چلے گئے تھے۔ انھیں مہاجرین کی تسلی کے لئے فرمایا کہ اپنی جانوں کی فکر نہ کرو۔ یہ چند روزہ زندگی ہے۔ موت تو بہرحال آکے رہے گی یہ چند دن کی زندگی جہاں میسر آئے کاٹ لو۔ پھر ہمارے پاس اکٹھے ہوجاؤ گے۔ تمہارا مقصد یہ نہیں ہونا چاہئے کہ اپنا جان و مال اور گھر بار کیسے بچایا جائے بلکہ یہ ہونا چاہئے کہ اپنا ایمان کیسے بچایا جائے۔ العنكبوت
58 [٩٠] یعنی ہجرت کی صورت میں تمہارے دنیوی مفادات بھی مجروح ہوں گے اور کئی طرح کی مشکلات بھی پیش آسکتی ہیں۔ ان کے بدلہ میں اللہ نے تمہارے لئے جو اجر تیار کر رکھا ہے۔ وہ ان سب چیزوں سے بدرجہا بہتر ہے۔ جن کا تمہیں فکر ہے۔ العنكبوت
59 [٩١]صبرکےمفہوم کا دائرہ، اخلاقی اقدار میں سرفہرست صبرہےاور دوسرے نمبرپرتوکل:۔ نیک اعمال میں سرفہرست صبر ہے۔ اور صبر کا لفظ بڑے وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یعنی اللہ کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کو اللہ کی رضا کے لئے خندہ پیشانی سے برداشت کرنا بھی صبر ہے۔ اور احکام شریعت سے استقلال کے ساتھ کاربند رہنا بھی صبر ہے۔ اور مالی مفادات کے ضیاع کو درخور اعتناء نہ سمجھنا بھی صبر ہے۔ اور نیک اعمال میں سے دوسرے نمبر پر اللہ پر توکل کا ذکر فرمایا۔ اللہ پر توکل کا معنی یہ ہے کہ اللہ کے ان وعدوں پر یقین کیا جائے جو اس نے اپنے فرمانبردار بندوں سے کر رکھے ہیں۔ بالخصوص اس صورت میں جبکہ ان وعدوں کے پورا ہونے کے ظاہری اسباب بھی مفقود نظر آرہے ہوں۔ العنكبوت
60 [٩٢]توکل کامفہوم:۔ ہجرت کرنے میں ایک بڑی رکاوٹ اپنے ذریعہ معاش کی فکر ہوتی ہے۔ مہاجر ایک تو اپنے وطن سے اپنا ذریعہ معاش چھوڑ کرجاتا ہے دوسرے اسے یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ جہاں وہ ہجرت کرکے جارہا ہے وہاں اس کے ذریعہ معاش کی کیا صورت ہوگی؟ ایسے خطرات کو اللہ کے وعدہ پر یقین کرتے ہوئے یقین کرلینے کا نام ہی توکل ہے۔ اور بتلایا یہ جارہا ہے کہ بے شمار جاندار ایسے ہیں۔ ہر روز نئی روزی ملتی ہے اور جو اللہ جانوروں تک کو روزی پہنچاتا ہے وہ اپنے فرمانبرداروں کو کیوں نہ پہنچائے گا۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اگر تم اللہ پر ایسا توکل کرتے جیسا کرنے کا حق ہے تو تم کو بھی اسی طرح رزق دیا جاتا ہے جس طرح پرندوں کو دیا جاتا ہے۔ وہ صبح بھوکے جاتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں‘‘ (ترمذی۔ ابو اب الزہد۔ باب ماجاء فی قلة الطعام) العنكبوت
61 [٩٣] یہ خطاب صرف مہاجرین کو ہی نہیں بلکہ اس خطاب میں سب مشترک ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ زمین و آسمان اور سورج اور چاند، سب کو پیدا کرنے والا اور انھیں اپنے اپنے کام پر لگانے والا اللہ ہے۔ اور انسان کی تمام ضروریات زندگی اسی نظام سے وابستہ ہیں۔ انھیں ضروریات میں سے ایک ضرورت کھانے پینے کی اور ذریعہ معاش کی ضرورت ہے۔ تو مسلمان جہاں بھی ہجرت کرکے جائیں گے۔ یہ سارا نظام وہاں بھی موجود ہوگا اور اللہ تمہیں وہاں بھی ایسے ہی روزی مہیا کرے گا جیسے یہاں کر رہا ہے لہٰذا اس پر توکل کرو۔ اور اس خطاب کا روئے سخن مشرکین مکہ کی طرف سمجھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تمہاری زندگی اور زندگی کا بقا کا سارا سامان تو اللہ نے مہیا کیا ہے۔ پھر تم اپنے معبودوں کو اللہ کے شریک اور مدمقابل کیسے ٹھہراتے ہو؟ یہ کہاں سے تمہیں عقل کا پھیر لگ جاتا ہے؟ العنكبوت
62 [٩٤] مال کی محبت انسان کی فطرت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اور ہر انسان چاہتا ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ مال و دولت ملے۔ لیکن اللہ اتنا ہی دیتا ہے جتنا وہ خود چاہتا ہے۔ کسی کو زیادہ، کسی کو کم۔ لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی کو کچھ بھی نہ دے، دیتا ضرور ہے۔ اور اس میں بھی اس کی کئی حکمتیں اور بندوں کی مصلحتیں مضمر ہیں۔ [٩٥] کسی کو کم یازیادہ رزق دینے میں اللہ کی حکمتیں اور بندوں کےمصالح:۔ وہ یہ بات خوب جانتا ہے کہ فلاں بندے کو اگر رزق زیادہ دیا گیا تو وہ اس سے خیر اور بھلائی ہی کمائے گا اور فلاں کو زیادہ دیا گیا تو وہ میری یاد سے غافل اور سرکش اور متکبر بن جائے گا اور کہیں کسی کو مال کو زیادہ دے کر اسے ابتلاء میں ڈال دیتا ہے۔ غرض یہ کہ مال سے جتنی انسان کو محبت ہے اتنا ہی وہ مال اس کے حق میں فتنہ بھی بن سکتا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ایک شخص جنگل میں کھڑا تھا۔اس نے بادل سے آوازسنی ۔(کسی نے آوازدی) کہ فلاں آدمی کے باغ کو پانی پلاؤ۔ چنانچہ بادل ایک طرف چلا۔ا ور اپنا پانی ایک سنگلاخ زمین پر انڈیل دیا۔ اچانک نالیوں میں سے ایک نالے نے سارا پانی جمع کرلیا۔ وہ آدمی پانی کے پیچھے چلا دیکھاکہ ایک شخص اپنے باغ میں کھڑا ہے۔اوراپنے بیلچے سے پانی ادھر ادھر کررہاہے ۔اس آدمی نےکہا:”اللہ کے بندے تمہارا نام کیاہے؟“ اس نے کہا فلاں ‘ وہی نام ہے جواس نے بادل سے سنا تھا۔پھراس نے دریافت کیاکہ اے اللہ کے بندے تو نام کیوں پوچھتاہے ؟ اس نے کہا ’’میں نے اس بادل سےجس کا یہ پانی ہے آوازسنی تھی کہ فلاں کے باغ کوپانی پلا اور تیرانام لیا‘‘پس تو اپنے باغ میں کیاکرتاہے؟ اس نے کہا جب تونے پوچھا ہے تو میں بتادیتاہوں کہ جو کچھ میرے باغ میں پیدا ہوتاہے ۔اس کا تہائی حصہ صدقہ کردیتاہوں اورا یک تہائی میں اور میرا عیال کھاتاہے ۔اور ایک تہائی اس باغ میں لگادیتاہوں ۔ (صحیح مسلم ۔ کتاب الزھد ۔ باب فضل انفاق علی المساکین وابن السبیل ) ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ کا کچھ مال تقسیم فرما رہے تھے۔ آپ نے سب کو نہیں دیا، کسی کو دیا اور کسی کو چھوڑ دیا۔ پھر آپ نے اس تقسیم کی وضاحت فرماتے ہوئے کہا میں اس شخص کو مال دیتا ہوں جس کے دل میں بے چینی اور بوکھلا پن پاتا ہوں۔ حالانکہ جن لوگوں کو نہیں دیتا وہ مجھے ان سے زیادہ محبوب ہوتے ہیں جنہیں میں یہ مال دیتا ہوں اور جن محبوب لوگوں کو نہیں دیتا تو اس وجہ سے کہ اللہ نے ان کے دلوں میں سیرچشمی اور بھلائی رکھی ہوتی ہے۔ ایسے ہی لوگوں میں سے ایک عمرو بن تغلب ہے۔ عمرو بن تغلب کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! کہ جو خوشی مجھے آپ کی اس بات سے ہوئی اگر مجھے سرخ اونٹ بھی ملتے تو اتنی خوشی نہ ہوتی۔ (بخاری۔ کتاب الجمعه۔ باب من قال فی الخطبة بعد الثناء اما بعد) ان واقعات سے معلوم ہوجاتا ہے کہ کسی کو کم یا زیادہ دینے میں اللہ کی کیا کچھ حکمتیں پوشیدہ ہوتی ہیں۔ العنكبوت
63 [٩٦] زمین پر آسمان سے بارش برسنے، پھر زمین سے نباتات برآمد ہونے میں اللہ نے اپنی جس قدر مخلوق کو لگا رکھا ہے۔ پھر اس بارش سے جو فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ ان پر غور کرنے سے بے اختیار انسان کی زبان سے اللہ کی تعریف جاری ہوجاتی ہے۔ اور الحمد للہ کا عربی زبان میں دوسرا استعمال یہ ہے کہ جب فریق مخالف پر کوئی ایسی دلیل پیش کی جائے جو اس کے ہاں مسلم ہو اور وہ اس کے برعکس کام کر رہا ہو تو اس وقت اتمام حجت کے طور پر الحمدللہ کہا جاتا ہے۔ اس آیت میں الحمدللہ کا لفظ اپنے دونوں مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ العنكبوت
64 [٩٧]دنیاکن لوگوں کےلیے کھیل تماشاہے؟ اس کا مطلب یہ نہیں کہ دنیا میں سرے سے کوئی سنجیدگی اور حقیقت ہے ہی نہیں۔ اللہ کے فرمانبرداروں اور اسے آخرت کے مقابلہ میں حقیر سمجھنے والوں کے لئے اس دنیا کی زندگی کا ایک ایک لمحہ نہایت قیمتی ہوتا ہے اور وہ اس زندگی سے فائدہ اٹھا کر آخرت کماتے ہیں۔ دنیا کی زندگی محض کھیل تماشا آخرت کے مقابلہ میں ہے۔ اور ان لوگوں کے لئے ہے جو دنیا کی محبت میں مستغرق رہتے اور اللہ اور آخرت کی یاد سے غافل رہتے ہیں۔ انھیں واقعی یہ دنیا ایک کھیل تماشا ہی معلوم ہوگی۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کوئی بازی گر کٹھ پتلیوں کا تماشا دکھاتا ہے۔ ایک بادشاہ ہوتا ہے کچھ وزیر اور کچھ دوسرے کردار ہوتے ہیں۔ اور ڈرامہ مکمل ہونے کے بعد سب لوگوں کے سامنے تماشا دکھا کر غائب ہوجاتے ہیں۔ بالکل یہی صورت حال دنیا کے بادشاہوں اور دوسرے لوگوں کی ہوتی ہے۔ لہٰذا کسی شخص کو بھی دنیا کی دلفریبیوں اور رعنائیوں میں پھنس کر اللہ کی یاد سے غافل نہیں رہنا چاہئے۔ العنكبوت
65 العنكبوت
66 [٩٨]غیروں سے استمداد:۔ یعنی اس سے زیادہ ناشکری کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ ان کی ضروریات زندگی تو سب اللہ تعالیٰ مہیا کرے اور جب جان پر بن جائے تو اس مصیبت سے نجات بھی اللہ ہی دے۔ لیکن جب آسودہ حالی کا وقت آئے تو انسان نہ صرف یہ کہ اللہ کو بھول جائے۔ بلکہ اس کے اختیارات میں دوسروں کو بھی شریک بنانے لگے۔ اس آیت میں دور نبوی کے مشرکوں کا ذکر ہے جو کم از کم آڑے وقتوں میں تو اکیلے اللہ کو پکارتے تھے۔ مگر آج کا مشرک ان مشرکوں سے بازی لے گیا ہے۔ جو عقیدہ ہی یہ رکھتا ہے کہ اس کا پیر اس کے ہر کام اور اس کے سارے احوال سے واقف ہوتا ہے اور مشکل وقت میں اس سے فریاد کرنے پر فوراً وہ مدد کو پہنچ جاتا ہے۔ اور موت سامنے کھڑی دیکھ کر بھی ''یا بہاء الحق بیڑا بنے دھک'' جیسے نعرے لگاتا اور اپنے پیر کو فریاد رسی کے لئے پکارتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی وجہ کے لئے سورۃ یونس کا حاشیہ نمبر ٣٤ ملاحظہ فرمائیے۔ العنكبوت
67 [٩٩]قریش مکہ کو حرم مکہ کی وجہ سے حاصل ہونے والے فوائد:۔ مکہ اور اس کے مضافات کو اللہ تعالیٰ نے ہی حرم بنایا کہ عرصہ اڑھائی ہزار سال سے یہ لوگ اس پرامن حرم کے فوائد سے فائدے اٹھا رہے ہیں اور عربی قبائل کی لوٹ مار سے محفوظ اور پرامن زندگی گزار رہے ہیں۔ پھر اسی وجہ سے انھیں عرب بھر میں سیاسی اقتدار حاصل ہے۔ انھیں دور دراز مقامات سے رزق بھی پہنچ جاتا ہے۔ اور بہت سے تجارتی فوائد بھی حاصل کر رہے ہیں۔ اس کے کسی بت، لات، منات، ہبل یا کسی دوسرے بت میں یہ طاقت نہ تھی کہ وہ اس خطہ ارضی کو پرامن حرم بنا سکتا۔ اللہ کی اس نعمت کا تقاضا تو یہ تھا کہ یہ لوگ اللہ کا شکر ادا کرتے اور اس کے فرمانبردار بن کر رہتے۔ مگر یہ لوگ اللہ کا شکر ادا کرنے کی بجائے الٹا دوسرے معبودوں کو اللہ کا شریک بنا رہے تھے۔ العنكبوت
68 [١٠٠] اللہ کے رسول نے اپنی رسالت کا دعویٰ کیا تو ان لوگوں نے اس کو جھٹلا دیا۔ اب اس کی دو ہی صورتیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ رسول نے یہ جھوٹا دعویٰ کیا ہو اور اللہ پر جھوٹ باندھا ہو۔ تو وہ سب سے زیادہ ظالم ہوا۔ اور اگر وہ سچا ہو اور فی الواقع اللہ نے اسے رسول بنایا ہو لیکن یہ لوگ اسے جھٹلا دیں۔ تو یہ سب سے زیادہ ظالم ہوئے۔ اب جو بھی ظالم ہوگا اسے بہرحال دوزخ کا عذاب بھگتنا ہوگا۔ آگے یہ لوگ اپنا انجام خوب سوچ سمجھ لیں۔ العنكبوت
69 [١٠١]اللہ کن لوگوں کواپنی راہیں سجھاتاہے؟خلوص نیت سے جہاد پر اللہ کی راہیں کھلنا:۔ یعنی انسان کا کام یہ ہے کہ وہ نہایت نیک نیتی سے اللہ کی راہ پر گامزن ہوجائے۔ اس راستہ میں کون کون سی مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ اور ان کا کیا حل ہوسکتا ہے یہ سوچنا انسان کے بس سے باہر ہے کیونکہ نہ اسے پیش آنے والی مشکلات کا پہلے سے صحیح اندازہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی اللہ کی تقدیر کے مقابلہ میں انسان کی تدبیر کسی کام آسکتی ہے۔ انسان کا کام اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے اس کی مقدور بھر کوشش ہے اور اس کی لازمی شرط محض اللہ کی رضا اور خلوص نیت ہے۔ اس شرط کے ساتھ اگر کوئی فرد یا کوئی جماعت جہاد کی کسی بھی قسم کے لئے گامزن ہوجائے گا تو اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات کا حل اللہ تعالیٰ خود ہی سجھاتا جائے گا خلوص اور نیک نیتی ہوگی تو راہیں خود بخود کھلتی جائیں گی اور اللہ تعالیٰ دستگیری اور مدد فرماتا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود بھلے کام کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ راہیں سجھاتا بھی ہے، کھولتا بھی ہے اور بروقت مدد کو بھی پہنچتا ہے۔ انسان کا کام صبر و استقلال اور نیک نیتی کے ساتھ آگے بڑھتے جانا ہے۔ واضح رہے کہ یہاں جہاد سے مراد صرف قتال فی سبیل اللہ ہی نہیں بلکہ جہاد کی جملہ اقسام ہیں۔ جن کی تفصیل کسی دوسرے مقام پر دی جاچکی ہے۔ العنكبوت
0 الروم
1 الروم
2 الروم
3 الروم
4 [١] سوره روم میں دوبہت بڑی پیشن گوئیاں :۔سورۃ روم کی ان ابتدائی آیات میں دو ایسی پیشین گوئیاں کی گئی ہیں جو اسلام اور پیغمبر اسلام کی رسالت کی حقانیت پر زبردست دلیل ہیں۔ ان میں پہلی پیشین گوئی یہ ہے کہ اگر آج روم شکست کھا گیا ہے تو چند ہی سالوں میں روم پھر ایران پر غالب آجائے گا۔ اور دوسری پیشین گوئی یہ تھی کہ اگر آج مسلمان مشرکین مکہ کے ہاتھوں مظلوم و مقہور ہیں۔ تو ان کو بھی اسی دن مشرکین مکہ پر غلبہ حاصل ہوگا جس دن روم ایران پر غالب آئے گا اور قرآن نے یہ دونوں پیشین گوئیاں ایسے وقت میں بیان کیں جبکہ ان پیشین گوئیوں کے پورا ہونے کے دور دور تک کہیں آثار نظر نہیں آرہے تھے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ جس زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت عطا ہوئی (٦١٠ ء میں) اس وقت عرب کے اطراف میں دو بڑی طاقتیں Super Power موجود تھیں۔ ایک روم کی عیسائی حکومت جو دوباتوں میں مسلمانوں سے قریب تھے۔ ایک یہ کہ دونوں اہل کتاب تھے، دوسرے دونوں آخرت پر ایمان رکھتے تھے۔ لہٰذا مسلمانوں کی ہمدردیاں انھیں کے ساتھ تھیں۔ مسلمانوں کی عیسائی حکومت سے ہمدردی کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی اسی زمانہ میں مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی اور قریشیوں نے مسلمانوں کو واپس لانے کی کوشش کے باوجود حبشہ کے عیسائی بادشاہ نجاشی نے مسلمانوں کو اپنے ہاں پناہ دی اور قریش کی سفارت کو بری طرح ناکام ہو کر وہاں سے واپس آنا پڑا تھا۔ اور دوسری ایران کی حکومت جو دو وجوہ سے مشرکین مکہ سے قریب تھے۔ ایک یہ کہ دونوں مشرک تھے۔ ایرانی دو خداؤں کے قائل اور آتش پرست تھے اور مشرکین بت پرست تھے اور دوسرے یہ کہ دونوں آخرت کے منکر تھے۔ انہی وجوہ کی بنا پر مشرکین مکہ کی ہمدردیاں ایران کے ساتھ تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش ٥٧٠ ء میں ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت ٦١٠ ء میں عطا ہوئی تھی۔ روم اور ایران میں جنگ ٦٠٢ ء سے شروع ہو کر ٦١٤ ء تک جاری رہی اور یہ جنگی خبریں مکہ بھی پہنچتی رہتی تھیں۔ جب ایران کی فتح کی کوئی خبر آتی تو مشرکین مکہ بغلیں بجاتے اور اس خبر کو اپنے حق میں نیک فال قرار دیتے تھے اور کہتے کہ جس طرح ایران نے روم کا سر کچلا ہے ایسے ہی ہم بھی کسی وقت مسلمانوں کا سر کچل دیں گے۔ اور واقعہ بھی یہ تھا کہ ٦١٠ ء کے بعد یہ جنگ دو ملکوں کی جنگ نہ رہی تھی بلکہ اب یہ مجوسیت اور عیسائیت کی جنگ بن چکی تھی۔ ٦١٤ ء میں خسرو پرویز نے روم کو ایک مہلک اور فیصلہ کن شکست دی۔ شام ، مصر اور ایشائے کوچک کے سب علاقے رومیوں کے ہاتھ سے نکل گئے۔ سیدنا ابوبکر اورمشرکوں میں شرط:۔ ہرقل قیصر روم کو ایرانی فوجوں نے قسطنطنیہ میں پناہ گزیں ہونے پر مجبور کردیا اور رومیوں کا دارالسلطنت بھی خطرہ میں پڑگیا۔ بڑے بڑے پادری قتل یاقید ہوگئے۔ بیت المقدس عیسائیوں کی سب سے زیادہ مقدس صلیب بھی ایرانی فاتحین اٹھا لے گئے اور قیصر روم کا اقتدار بالکل فنا ہوگیا۔ یہ خبر مشرکین مکہ کے لئے بڑی خوش کن تھی انہوں نے مسلمانوں کو چھیڑنا شروع کردیا اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے کہ جس طرح ایران نے روم کو ختم کر ڈالا ہے ایسے ہی ہم بھی تمہیں مٹا ڈالیں گے۔ یہ آپ کی نبوت کا پانچواں سال تھا۔ مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کرچکے تھے۔ ایسے ہی حالات میں سورۃ روم کی یہ آیات نازل ہوئیں۔ اگرچہ بظاہر اہل روم کی فتح کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے اور مشرکین مکہ ان آیات کا بھی تمسخر اڑا رہے تھے، تاہم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسی پیشین گوئی کی بنا پر مشرکین سے شرط باندھ لی کہ اگر بضع کی زیادہ سے زیادہ مدت (بضع تین سے نو تک کے لئے آتا ہے) یعنی ٩ سال تک رومی غالب نہ آئے تو میں سو اونٹ تم کو دوں گا ورنہ اتنے ہی اونٹ تم مجھے دو گے۔ اس وقت تک شرط حرام نہیں ہوئی تھی۔ اب حالات نے یوں پلٹا کھایا کہ قیصر روم نے اندر ہی اندر یہ تہیہ کرلیا کہ وہ اپنے کھوئے ہوئے اقتدار کو ضرور واپس لے گا۔ ایک طرف تو اس نے اللہ کے حضور منت مانی کہ اگر اللہ نے اسے ایران پر فتح دی تو حمص سے پیدل چل کر ایلیا (بیت المقدس) پہنچوں گا۔ دوسری طرف نہایت خاموشی کے ساتھ ایک زبردست حملہ کی تیاریاں شروع کردیں۔ ٦٢٣ ء میں اس نے اپنی مہم کا آغاز آرمینیا سے کیا اور آذربائیجان میں گھس کر زرتشت کے مقام پیدائش ارمیاہ کو تباہ کردیا اور ایرانیوں کے سب سے بڑے آتش کدے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ٦٢٢ ء میں ہجرت کرکے مدینہ آئے اور ٦٢٣ ء میں مسلمانوں نے مشرکین مکہ کو بدر کے مقام پر شکست فاش دی۔ اسی دن مسلمانوں کو یہ خبر مل گئی کہ روم نے ایران کو شکست فاش دے کر اپنا علاقہ آزاد کر الیا ہے۔ اس طرح مسلمانوں کو تو دوہری خوشیاں نصیب ہوگئیں ان مشرکین مکہ کو دوہری ذلت سے دوچار ہونا پڑا۔ قرآن کی اس عظیم الشان اور محیرالعقول پیشین گوئی کی صداقت کا مشاہدہ کرکے بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مشرکین مکہ سے سو اونٹ وصول کئے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق صدقہ کردیئے گئے۔ الروم
5 الروم
6 [٢] یعنی اللہ کا وعدہ پورا ہو کے رہتا ہے اور نظر آنے والی سب رکاوٹیں خود بخود مٹتی چلی جاتی ہیں۔ الروم
7 [٣] اس کے دو مطلب ہیں۔ ربط مضمون کے لحاظ سے تو اس آیت کا یہی مطلب ہے کہ ظاہر میں لوگوں کی نظر صرف ظاہری اسباب پر ہوتی ہے۔ اور انھیں اسباب کو دیکھ کر وہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں مگر اس کائنات میں ظاہری اسباب کے علاوہ بے شمار باطنی اسباب بھی موجود ہیں۔ جنہیں صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ اور ہر کام کا انجام تو صرف اللہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ بسا اوقات ظاہری اسباب کے بالکل الٹ نتیجہ برآمد ہوتا ہے اور یہ ایسی بات ہے جو عام لوگوں کے علم میں نہیں آسکتی۔ اور اگر اس آیت کو عام معنوں پر محمول کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ عام لوگوں کی نظر بس دنیا کے مال و اسباب پر ہی ہوتی ہے اور اسی پر وہ فریفتہ و مفتون ہوتے ہیں۔ وہ اس انجام سے قطعاً غافل ہوتے ہیں کہ انھیں مر کر اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے جہاں ان کے اعمال کا محاسبہ بھی ہوگا پھر اس کے مطابق انھیں سزا بھی ملنے والی ہے۔ الروم
8 [٤]انسان کن کن باتوں میں دوسرے جانداروں سےممتازہے: انسان کے اندر بھی ایک پوری کائنات آباد ہے۔ اسی لئے انسان کے اندر کی دنیا عالم اصغر کہا جاتا ہے۔ اور بیرونی دنیا یا کائنات کو عالم اکبر۔ پھر اس اندرونی دنیا کے بھی بے شمار پہلو ہیں۔ ہم سردست انسان کے اس پہلو پر غور کریں گے جس میں وہ دوسرے جانوروں سے ممتاز ہے۔ مفاد خویش، تحفظ خویش اور بقائے نسل وغیرہ ایسے طبعی تقاضے ہیں جو ہر جاندار اور اسی طرح انسان میں بھی پائے جاتے ہیں۔ اور جن باتوں میں وہ ممتاز ہے وہ یہ ہیں (١) زمین اور اس کے ماحول میں بے شمار چیزیں ایسی ہیں جو انسان کے لئے مسخر کردی گئی ہیں۔ اور وہ ان سے جیسے چاہے کام لے سکتا ہے اور یہ صفت انسان کے علاوہ دوسرے کسی جاندار میں نہیں (٢) اسے خیر اور شر کی تمیز بخشی گئی ہے۔ وہ اپنے ہی کئے ہوئے کاموں پر حکم لگا سکتا ہے کہ میں نے فلاں اچھا کام کیا ہے اور فلاں کام برا تھا۔ یہ بات کافی حد تک اس کی فطرت میں رکھ دی گئی ہے۔ پھر اسے وحی کے ذریعہ متنبہ بھی کیا جاتا رہا ہے (٣) اسے قوت ارادہ و اختیار بھی بخشا ہے اور وہ اپنے لئے اچھا یا برا، کوئی بھی طرز زندگی اپنانے کا پورا اختیار رکھتا ہے۔ حتیٰ کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ وہ اپنے تحفظ کے فطری داعیہ کے علی الرغم کسی جذبہ کے تحت اپنی جان تک دینے سے بھی دریغ نہیں کرتا اور (٤) اسے عقل و شعور کا وافر حصہ عطا کیا گیا ہے جس کے ذریعے وہ چند معلوم اور دیکھی ہوئی اشیاء سے مزید کچھ حقائق اور نتائج کا سراغ لگانے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اصطلاحی زبان میں علت (Cause) اور معلول (effect) سے تعبیر کیا جاتا ہے وہ مشاہدات کو دیکھ کر اس کی علت بھی معلوم کرنا چاہتا ہے اور اس سے آگے معلول بھی۔ انسان کےامتحان کا پوراوقت اس کی موت ہے۔یہ وہ اللہ کے عطیات ہیں جو انسان کے علاوہ کسی جاندار کو عطا نہیں کئے گئے اور ان کے عطا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس دنیا میں انسان کا امتحان لیا جائے کہ آیا وہ ان امور میں بھی اللہ کا فرمانبردار بن کر رہتا ہے جس میں اسے اختیار دیا گیا ہے یا نہیں؟ جیسا کہ وہ طبعی امور میں اللہ کے قوانین و احکام کا پابند ہے۔ گویا یہ دنیا صرف انسان کے لئے دارالامتحان ہے اور کسی جاندار کے لئے نہیں۔ اور اس امتحان کا وقت اس کی موت تک ہے۔ موت دراصل اس کے امتحان کے نتیجہ کے امکان کا دن ہے۔ رزلٹ کااعلان موت کا دن ہےا ور اسی وقت سے جزا وسزا شروع ہوجاتی ہے :۔ اور موت کے فوراً بعد پاس ہونے والوں کو انعام و اکرام دیئے جائیں گے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جائے گی اور فیل ہونے کو اپنے اپنے رزلٹ کے حساب سے سخت اور سخت تر سزائیں دی جائیں گی۔ اسی حقیقت سے عالم آخرت کے یقینی طور پر واقع ہونے کی عقلی دلیل پیش کی گئی ہے۔ کیونکہ یہ تو ناممکن ہے کہ کسی شخص کا امتحان تو لیا جائے لیکن اس کے نتیجہ کا اعلان ہی نہ کیا جائے یا اعلان کے بعد ان پاس ہونے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے اور نہ فیل ہونے والوں کو کچھ سزا دی جائے اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ امتحان کا وقت ختم ہونے سے پہلے ہی کسی کو سزا دے ڈالی جائے۔ لہٰذا جزا و سزا کا اصل مقام دارالآخرت ہے نہ کہ یہ دنیا۔ اور اس دنیا میں جو بعض افراد یا اقوام پر عذاب الٰہی نازل ہوتا ہے تو وہ محض مجرموں کی گرفتاری ہوتی ہے پوری سزائے جرم نہیں ہوتی۔ تاکہ دوسرے لوگ ایسے مجرموں کے مظالم سے محفوظ رہ سکیں اور آئندہ کے لئے ان کے مظالم کا سلسلہ بند ہوجائے۔ اخروی زندگی کیوں ضروری ہے:۔ گویا انسان کے اندر کی دنیا کے اس پہلو پر بھی غور کرنے سے یہی نتیجہ سامنے آیا ہے۔ کہ انسان کو اس کے اچھے اور برے اعمال کی سزا ملنا ضروری ہے۔ اور نیز یہ کہ یہ سزا موت کے بعد ہی ہوسکتی ہے لہٰذا روز آخرت کا قیام ضروری ہوا۔ اب جو لوگ انسان کے اعمال کی جزا و سزا اور روز آخرت پر یقین ہی نہیں رکھتے ان سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ آخر تمہیں یہ زائد عطیات کیوں عطا کئے گئے تھے؟ اگر دنیا میں رہنے کا مقصد کھانا پینا، بقائے نسل اور اس کے بعد مر کر مٹی ہوجانا ہی تھا تو یہ کام تو دوسرے جاندار بھی کر رہے ہیں۔ پھر تم میں اور ان میں کیا امتیاز باقی رہ گیا ؟ بلکہ ایک لحاظ سے ایسا انسان جانوروں سے بدتر ہوا۔ کہ اللہ نے اسے جو دوسرے جانوروں سے زائد صلاحیتیں عطا کی تھیں ان سے اس نے کچھ بھی فائدہ نہ اٹھایا۔ [ ٥]کائنات میں نظم وضبط سے ہی ایجادات ہوتی ہے اور تمدن کوفروغ ملتاہے:۔ بالحق سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی جملہ اشیاء کے ذمہ جو کام لگا دیا ہے اور اس کے لئے جو قوانین مقرر کردیئے ہیں کہ وہ ان پر سختی سے پابند ہیں کہ نہ وہ ایک لمحہ آگے پیچھے ہوسکتی ہیں اور نہ ایک آدھ انچ بھی ہٹ سکتی ہیں۔ مثلاً سورج کے ایک دن طلوع ہونے سے دوسرے دن طلوع ہونے تک ٢٤ گھنٹے لگتے ہیں۔ سورج کے لئے ممکن نہیں کہ وہ اس وقت میں ایک لمحہ کی بھی تقدیم و تاخیر کرے۔ پانی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ کسی وقت نشیب کے بجائے فراز کی طرف بہنا شروع کرے یا سطح ہموار نہ رکھے یا ١٠٠ درجہ سنٹی گریڈ سے پہلے ہی کھولنا شروع ہوجائے ، نہ آگ کے لئے ممکن ہے کہ وہ اشیاء کو جلانا چھوڑ دے۔ یا گرمی سے اشیاء پھیلنا اور سردی سے سکڑنا چھوڑ دیں۔ یہی وہ قوانین ہیں جن میں نظم و ضبط کی بنا پر انسان نت نئی ایجادات کو ظہور میں لانے کے قابل ہوسکتا ہے بلکہ تھوڑا سا آگے غور و فکر کیا جائے کہ اگر اشیائے کائنات میں یہ نظم و ضبط نہ ہوتا تو انسان اس دنیا پر زندہ بھی نہ رہ سکتا تھا۔ توحید، انسانی زندگی کےمقصداورروزآخرت پردلائل:۔ جس سے صاف واضح ہے کہ کائنات کی ایک ایک چیز بے شمار فوائد اور مصالح کی بنا پر بنائی گئی ہے یہ محض کس بچے کا کھیل نہیں کہ جس نے اپنا دل بہلانے کے لئے ایک گھروندا بنا لیا ہو اور جب اس کا جی اکتا جائے تو اس پر ہاتھ پھیر کر اسے مٹا ڈالے۔ بلکہ یہ کسی حکیم مطلق کی ایک سوچی سمجھی تدبیر اور کارنامہ ہے۔ جس سے ایک نتیجہ تو یہ نکلتا ہے کہ ایسے منظم و مربوط کارخانہ کا خالق و مالک ایک ہی ہستی ہوسکتی ہے اور دوسرا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان کی ایجادات اور تسخیر کائنات کا راز اسی بات میں ہے۔ کائنات کی جملہ اشیاء طبعی قوانین کی پابند ہیں۔ اگر یہ بات نہ ہوتی نہ علوم سائنس کا تصور کیا جاسکتا تھا اور نہ انسانی تہذیب و تمدن کا۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک طرف کائنات کی بنیاد ٹھوس حقائق پر مبنی ہے، دوسری طرف انسان کو وہ صلاحیتیں دی گئی ہیں جو کسی اور جاندار کو نہیں دی گئیں۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ہے۔ ان باتوں کے باوجود یہ کیسے باور کیا جاسکتا ہے کہ انسان کی زندگی کا کوئی مقصد نہ ہو۔ اور وہ جیسے چاہے اس دنیا میں زندگی گزار کر، عیش و عشرت کے مزے اڑا کر اور دوسروں پر ظلم کرکے اور ان کے حقوق پامال کرکے دنیا سے رخصت ہوجائے اور پھر مٹی میں مل کر مٹی بن جائے اور اس سے کوئی باز پرس تک کرنے والا نہ ہو۔ گویا اس آیت میں توحید باری پر، انسان کی زندگی کے مقصد پر اور روز آخرت پر قوی دلائل اور شہادتیں پیش کی گئی ہیں۔ [ ٦] آخرت پرتیسری دلیل:۔قیامت اور عالم آخرت پر یہ تیسری دلیل ہے۔ ہر چیز جو پیدا ہوئی ہے یا اصطلاحی زبان میں حادِث ہے وہ فنا ضرور ہوگی۔ کائنات کا یہ مربوط پائیدار نظام دیکھ کر انسان یہی سوچتا ہے کہ تا ابد یہ نظام یونہی چلتا جائے گا۔ اصل چیز مادہ ہے جو ازلی ابدی ہے۔ مادہ صرف اپنی شکلیں بدلتا ہے، فنا نہیں ہوتا یہی دہریہ حضرات کے عقیدہ کی اصل بنیاد ہے۔ لیکن موجودہ دور کی تحقیقات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ مادہ کبھی بھی فنا ہوسکتا ہے اور اسے توانائی میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ ایٹم کے اجزاء الیکٹرون اور پروٹون کا نظام درہم برہم کرکے اسے توانائی میں تبدیل کرلیا جاتا ہے پھر توانائی بھی مادہ میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ اللہ کی ذات اور اس کی صفات کے سوا نہ کوئی چیز ازلی ہے اور نہ ابدی۔ اور ہر چیز فنا ہوسکتی ہے۔ جب یہ بات سائنس کے ذریعہ پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے تو اب اس کائنات کے نظام کے درہم برہم ہونے اور قیامت قائم ہونے میں کیا استحالہ باقی رہ جاتا ہے؟ رہی یہ بات کہ اس کائنات کا یہ موجودہ نظام کب درہم برہم ہوگا اور کب قیامت قائم ہوگی اور یہ بات صرف خالق کائنات ہی جان سکتا ہے اور یہ بات معلوم کرلینا انسان کی دسترس سے باہر ہے۔ الروم
9 [٧] یعنی ظلم کی عمارت ہمیشہ عقیدہ آخرت سے انکار کی بنیاد پر اٹھتی ہے۔ اور جن ظالم اقوام کو اللہ تعالیٰ نے تباہ کیا ان سب میں قدر مشترک یہی تھی کہ آخرت کے منکر تھے۔ کیونکہ جو شخص یا جو قوم آخرت میں اللہ کے حضور اپنے اعمال کی جوابدہی کی قائل ہوگی وہ ظلم کر ہی نہیں سکتی۔ ان تباہ ہونے والی قوموں میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جو تم سے بہت زیادہ طاقتور تھے۔ فنون دنیا کے ماہر تھے۔ انہوں نے زرعی میدان میں بھی خوب ترقی کی تھی اور زمین کو چیر کر اس میں سے خزانے بھی نکالے تھے۔ اور تہذیب و تمدن کے لحاظ سے تم سے بہت زیادہ ترقی یافتہ تھے۔ لیکن جب انہوں نے ظلم اور زیادتی پر کمر باندھی تو اللہ نے انھیں تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا اب اگر اے کفار مکہ! تم بھی وہی سرکشی اور ظلم کی راہ اختیار کرو گے تو آخر کیا وجہ ہے کہ تمہارا بھی انجام ایسا ہی نہ ہو۔ [ ٨] یعنی ایک تو تمہارے اندر آخرت کے لازمی ہونے کے دلائل موجود تھے، دوسرے کائنات میں موجود تھے، تیسرے تم پر اللہ کی رحمت ہوئی کہ اس نے رسول بھیج کر تمہیں مابعدالموت پیش آنے والے حقائق سے خبردار کرتے رہے۔ پھر بھی اگر تم لوگ عقیدہ آخرت کے منکر بن کر اپنی عاقبت تباہ کرلو تو اس میں تمہارا اپنا ہی قصور ہے۔ اللہ تعالیٰ کبھی کسی پر زیادتی اور ظلم نہیں کرتا۔ الروم
10 [٩] یہ ان کے ظلم اور زیادتی کی آخری حد تھی۔ نہ انہوں نے اپنے اندر کی شہادت پر غور کیا، نہ نظام کائنات میں غور کیا اور رسولوں نے انھیں جب اصل حقائق سے آگاہ کیا تو انھیں صرف جھٹلایا ہی نہیں بلکہ ان کا اور اللہ کی آیات کا مذاق بھی اڑانے لگے۔ جب ان کی سرکشی اس حد تک پہنچ گئی اور عملی طور پر اس ظلم اور زیادتی میں آگے ہی بڑھتے چلے گئے تو انھیں ان کی بداعمالیوں کی سزا بھی اتنی ہی بری ملی جس حد تک ان کے اعمال برے تھے۔ الروم
11 [١٠] اس کی تشریح کے لئے دیکھئے سورۃ النمل کی آیت نمبر ٦٤ کا حاشیہ نمبر ٦٩ اور سورۃ العنکبوت کی آیت نبر ١٩ کا حاشیہ نمبر ٣١۔ الروم
12 [١١] یعنی وہ اپنی نجات سے مایوس ہوجائیں گے اور کسی کی سفارش یا امداد سے بھی۔ اور ان کی حالت ایسی ہوگی۔ جیسے کوئی مجرم رنگے ہاتھوں لوگوں کے سامنے جرم کرتا ہوا پکڑا جائے۔ اور ایسے شخص پر سخت افسردگی اور مایوسی کی حالت طاری ہوجاتی ہے کیونکہ اسے اس جرم کی سزا سے بچنے کی کوئی امکانی صورت نظر نہیں آتی۔ الروم
13 [١٢]معبودان باطل کی تین اقسام :۔ دنیا میں جن چیزوں کو اللہ کا شریک سمجھا جاتا رہا ہے یا اس کی صفات و اختیارات میں شریک بنایا جاتارہا ہے ان کی تین ہی قسمیں ہوسکتی ہیں۔ ایک بے جان اشیاء جیسے پتھر کے بت یا شمس و قمر اور ستارے یا دوسرے شجر و حجر۔ دوسرے ایسے جاندار جنہوں نے کبھی اپنی خدائی کا دعویٰ نہ کیا ہو۔ جیسے ملائکہ، انبیاء، اولیاء اور صالحین۔ نیز بعض جاندار حیوانات، جیسے سانپ اور گائے وغیرہ۔ ان میں انبیاء اور صالحین تو ایسے لوگ ہیں جو دوسروں کو شرک سے سختی سے منع بھی کرتے رہے چہ جائیکہ وہ خود خدائی اختیارات کے طالب ہوں اور تیسرے وہ جاندار جو اپنی خدائی لوگوں سے منوانا چاہتے ہیں جیسے شیاطین، اللہ کے نافرمان بادشاہ، ادارے یا حکومتیں اور وہ اولیاء حضرات جنہوں نے اپنے مریدوں کی سفارش کی ذمہ داری اٹھا رکھی ہے یا یہ کہتے ہیں کہ پیر اپنے مریدوں کے اعمال و احوال سے ہر وقت باخبر رہتا ہے اور مشکل کے وقت انھیں پکارنے پر وہ فریاد کو بھی پہنچ جاتا ہے۔ ان میں سےکوئی بھی سفارش نہ کرسکے گا:۔اب دیکھئے پہلی قسم کے یعنی بے جان معبودوں سے تو سفارش کی توقع ہی عبث ہے۔ البتہ ان پتھروں اور شجر و حجر کو بھی مشرکوں کے ساتھ جہنم میں ڈال دیا جائے گا تاکہ ایسے احمقوں کی حسرت میں اضافہ ہو نیز یہ اشیاء جہنم کی آگ کو مزید بھڑکا کر ان کے لئے مزید عذاب کا باعث بن جائے۔ دوسری قسم کے معبود اللہ کے حضور صاف کہہ دیں گے کہ ہم تو ان کمبختوں کو شرک سے منع ہی کرتے رہے ہمیں کیا خبر تھی کہ یہ بدبخت ہماری ہی عبادت شروع کردیں گے۔ لہٰذا یہ لوگ بھی اپنے عابدوں سے سخت بیزار ہوں گے۔ وہ ان کی سفارش کیا کریں گے۔ تیسری قسم کے لوگ جو فی الواقع مجرم ہوں گے۔ وہ تو خود گرفتار بلا اور عذاب میں ماخوذ ہوں گے۔ وہ اس بات کو غنیمت سمجھیں گے کہ اپنے عابدوں کے گناہوں کا کچھ حصہ ان پر نہ ڈالا جائے گا لہٰذا وہ ایسے دلائل دینا شروع کردیں گے جن سے یہ ثابت کرسکیں کہ یہ عابد حضرات اپنے جرائم کے خود ہی ذمہ دار تھے۔ اور اس طرح ان کے دشمن بن جائیں گے اور اپنے آپ کو ان سے چھڑانا چاہیں گے۔ اس حال میں بھلا وہ کیا سفارش کرسکیں گے۔ غرض کہ مشرکوں کے شریکوں میں سے کوئی بھی اللہ کے ہاں ان کی سفارش نہ کرے گا یا کرنے کے قابل ہی نہ ہوگا۔ الروم
14 الروم
15 الروم
16 [١٣] اس دنیا میں گروہوں اور جماعتوں کی بنیاد یا قوم ہوتی ہے یا وطن یا رنگ یا زبان یا برادری یا مخصوص سیاسی عقائد وغیرہ لیکن قیامت میں ان کی گروہ بندی ان اصولوں کے مطابق ہوگی جو دین کے تقاضے ہیں۔ مثلاً اللہ کے نیک اور فرمانبردار بندوں کی ایک ہی جماعت ہوگی خواہ وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں بستے ہوں البتہ یہ ممکن ہے کہ ہر پیغمبر کی امت کا الگ الگ گروہ ہو۔ قیامت کے منکروں کی الگ جماعت ہوگی، مشرکوں کی الگ، منافقوں کی الگ۔ نیز یہ گروہ بندی بعض جرائم کے لحاظ سے بھی ہوگی۔ جیسے زانیوں کی الگ، ڈاکوؤں کی الگ، متکبروں کی الگ وغیرذلک۔ ان میں سے صرف پہلا گروہ جنت میں داخل ہوگا۔ اور وہاں ان کی عزت و تکریم اور تواضع بھی خوب ہوگی۔ باقی سب گروہ جہنم میں داخل ہوں گے گویا لوگوں کی اکثریت تو جہنم کا لقمہ بنے گی اور تھوڑے ہی لوگ ہوں گے جو جنت میں داخل ہوں گے۔ الروم
17 [١٤]نمازوں کےا وقات میں آفتاب پرستوں کی مخالفت:۔ یعنی مشرکین کے عقائد باطلہ سے اللہ کی تنزیہہ بیان کرو۔ مشرکین اپنے عقائد باطلہ کی ایک دلیل یہ بھی دیتے ہیں کہ اللہ اکیلا اس ساری کائنات کا انتظام کیسے سنبھال سکتا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ وہ کچھ اختیارات دوسری ہستیوں کو تفویض کر دے۔ لہٰذا مسلمانوں کو حکم ہوا کہ وہ ایسے بیہودہ اور لچر عقائد سے اللہ کی پاکیزگی بیان کریں۔ اکثر مفسرین نے یہاں تسبیح سے مراد نماز لی ہے اور اس کا قرینہ یہ ہے کہ یہاں نمازوں کے اوقات بیان ہوئے ہیں۔ مشرکوں کی اکثریت ایسی رہی ہے جو انسانی زندگی پر سیاروں کے اثرات اور تاثیر کے قائل تھے۔ اور سورج کی تاثیر سے چونکہ تمام زمینی مخلوق متاثر ہوتی ہے۔ لہٰذا اسے معبود اکبر سمجھ کر مختلف رنگوں میں سورج کی اور آگ کی پوجا کی جاتی رہی ہے۔ سورج پرست عموماً طلوع آفتاب اور غروب کے وقت اس کی پرستش کرتے تھے۔ لہٰذا مسلمانوں کو حکم ہوا کہ ان اوقات میں کوئی فرضی نماز تو کجا نفلی نماز بھی ادا نہ کی جائے۔ نیز سورج پرست سورج کی پوجا ان اوقات میں کیا کرتے تھے جب سورج مائل بہ عروج ہو۔ یعنی طلوع آفتاب سے نصف النہار تک۔ لہٰذا اس دوران کسی فریضہ نماز کا وقت مقرر نہیں کیا گیا۔ دو نمازیں تو اس وقت آتی ہیں جب سورج زوال پذیر ہو اور تین نمازیں اس وقت مقرر کی گئیں جبکہ سورج غائب ہوتا ہے۔ آیت نمبر ١٧ میں صبح اور شام کی نماز کا ذکر آگیا اور بعض کے نزدیک تُمْسُوْنَ میں شام اور عشاء دونوں شامل ہیں اور آیت نمبر ١٨ میں تیسرے پہر یعنی عصر کی نماز اور ظہر کی نماز کا ذکر آگیا۔ اور نماز بجائے خود اللہ کی تسبیح و تمہید کی بہترین شکل ہے۔ اور اگر ان دو آیات سے چار نمازوں کا ہی وقت سمجھا جائے تو سورۃ ہود کی آیت نمبر ١٤، بنی اسرائیل کی آیت نمبر ٧٨ اور سورۃ طٰہٰ کی آیت نمبر ١٣٠ کو سامنے رکھا جائے تو قرآن سے ہی پانچ نمازوں کے اوقات کی صراحت ثابت ہوجاتی ہے۔ الروم
18 الروم
19 [١٥] اور یہ عمل ہر وقت جاری و ساری ہے۔ اللہ تعالیٰ حیوانات کی بے جان غذاؤں سے نطفہ کو، پھر نطفہ سے حیوانات کو پیدا کرتا رہتا ہے اور اس عمل میں انسان بھی شامل ہے۔ اور پرندوں سے انڈے کو، پھر انڈے سے زندہ پرندہ کو پیدا کرتا رہتا ہے اور اللہ کا یہ کارنامہ سب لوگ ہر وقت دیکھتے رہتے ہیں۔ [ ١٦] نباتات اور انسان کی پیدائش سےبعثت بعدالموت پردلائل:۔یعنی جب مردہ زمین پر بارش پڑتی ہے تو اس سے نباتات، پودے اور درخت ہی نہیں اگ آتے بلکہ حیوانات بھی آگ آتے ہیں موسم برسات آتا ہے تو ہزارہا مینڈک ٹرانے لگتے ہیں۔ جھینگر اور پپیہے درختوں پر بولنے لگتے ہیں اور بے شمار قسم کے حشرات الارض اگ آتے ہیں جن کا پہلے نام و نشان تک نہ تھا۔ سوچنے کی بات ہے کہ جاندار مخلوق آخر کیسے اور کہاں سے وجود میں آگئی؟ تو جیسے یہ وجود میں آسکتی ہے خواہ تمہیں اس کی سمجھ آئے نہ آئے ویسے ہی جب صور میں پھونکا جائے گا جو مردہ انسانوں کے لئے موسم برسات کا حکم رکھتا ہے تو تم بھی زمین سے ایسے ہی پیدا ہوجاؤ گے جیسے ان جانوروں کو پیدا ہوتے دیکھتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بے شمار مقامات پر بعث بعد الموت پر بارش کے پانی سے نباتات کے اگ آنے کو دلیل کے طور پر پیش فرمایا ہے چنانچہ سورۃ ق میں تقریباً ایسے الفاظ سے ارشاد فرمایا۔ ﴿وَاَحْیَیْنَا بِہٖ بَلْدَۃً مَّیْتًا کَذٰلِکَ الْخُرُوْجُ ﴾ (۱۱:۵۰) نباتات کا اگنا بعث بعد الموت پر کیسے دلیل بن سکتا ہے اس مقام پر قارئین کے غور و فکر کے لئے ایک وسیع میدان چھوڑ دیا گیا ہے۔ پھر بعض مقامات پر بعث بعد الموت یعنی انسان کی دوسری بار کی پیدائش کو پہلی بار کی پیدائش سے تشبیہ دے کر اسے آسان تر قرار دیا گیا ہے جیسے فرمایا : ﴿کَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُہٗ ﴾ (۱۰۴:۲۱)گویا اب تین باتیں سامنے آگئیں۔ ایک انسان کی پہلی بار کی پیدائش، دوسرے نباتات کی پیدائش اور ان دونوں کی تشبیہ اور دلیل کے طور پر تیسری چیز انسان کی دوسری بار کی پیدائش کو بطور دلیل لایا گیا ہے۔ ان میں سے تیسری چیز کے متعلق ہم مشاہدہ اور تجربہ سے کچھ بھی جان نہیں سکتے۔ البتہ پہلی چیز کو دوسری سے نسبتاً زیادہ جان سکتے ہیں۔ اور پہلی چیز سے متعلق بھی ہمارا علم جو تجربہ اور مشاہدہ سے حاصل ہوا ہے صرف اتنا ہی ہے کہ جب رحم مادر میں ماں باپ کے نطفہ کا ملاپ ہوجاتا ہے تو عورت کا ماہواری خون آنا بند ہوجاتا ہے اور جو خون ماہواری ایام کی صورت میں عورت کے جسم سے خارج یا ضائع ہوجاتا تھا۔ وہی خون اب اس مخلوط نطفہ کی تربیت میں صرف ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اور عورت کے خون سے ماہواری خون یا حیض کا خون بننا اور اسی طرح عورت کے اصل خون سے نطفہ بننا کوئی مستقل عادی امر نہیں تھا بلکہ یہ دونوں چیزیں اس وقت بننا شروع ہوئیں جب عورت جوان اور اولاد پیدا کرنے کے لئے قابل بن گئی۔ اس سے پیشتر اس کے اصل خون سے یہ دونوں چیزیں پیدا نہیں ہوئی تھیں حالانکہ اس کے جسم کی ساخت میں یہ صلاحیت اس کی پیدائش کے پہلے دن سے ہی اس میں ودیعت کردی گئی تھی۔ یہی حال مرد کے نطفہ کا ہوتا ہے اس کے خون سے نطفہ یا منی صرف اس وقت بنتی ہے جب وہ جوان اور اولاد پیدا کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ حالانکہ اس کے جسم کی ساخت میں منی بنانے والے آلات یعنی خصیے وغیرہ اس پیدائش کے پہلے دن سے ہی بنائے گئے تھے گویا عورت اور مرد کے نطفہ بنانے والے اعضا نے اپنا اپنا کام ہی اس وقت شروع کیا جب وہ دونوں اولاد بنانے کے قابل ہوگئے۔ اور جب بڑھاپے کا دور آتا ہے تو دونوں کے جسم سے منی بنانے والے آلات موجود ہونے کے باوجود بھی اپنا اپنا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور اس معاملہ میں عورت اور مرد دونوں بے بس ہوتے ہیں اگر وہ چاہیں بھی کہ عورت اور مرد کے جسم میں نصب شدہ آلات بڑھاپے میں بھی منی بنانے کا کام کرتے رہیں تو وہ ایسا کر نہیں سکتے۔ مرد کے جسم میں صرف منی بنانے والے اعضا ہوتے ہیں جو جوانی کے وقت اپنا کام شروع کرتے اور بڑھاپا آنے پر چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن عورت کے جسم میں ایسے اعضا تین طرح کے ہوتے ہیں ایک حیض کا خون بنانے والے، دوسرے منی بنانے والے اور یہ دونوں جوانی کے وقت اپنا کام شروع کرتے اور بڑھاپا آنے پر کام چھوڑ دیتے ہیں۔ اور تیسری قسم کے اعضاء وہ ہیں جو خون کے کچھ حصے کو دودھ میں منتقل کرتے ہیں۔ اور یہ اعضا اس کے پستان ہیں۔ پستانوں کے نشانات عورت اور مرد دونوں کے سینے پر پہلے دن سے ہی موجود ہوتے ہیں۔ جوان ہونے پر عورت کے ان نشانات میں ابھار شروع ہوجاتا ہے تاآنکہ وہ اپنی مکمل صورت اختیار کرلیتے ہیں اور یہ تبدیلی صرف عورت کے جسم میں ہوتی ہے۔ مرد کے جسم میں نہیں ہوتی۔ یہی مشینری خود کو دودھ میں منتقل کرنے کا کارخانہ ہوتا ہے اور یہ مشینری صرف اس وقت اپنا کام شروع کرتی ہے۔ جب حمل قرار پا جاتا ہے۔ اس سے پہلے کام نہیں کرتی۔ خواہ عورت بالکل جوان اور اولاد پیدا کرنے کے قابل ہو۔ حمل قرار پانے کے بعد یہ مشینری حرکت میں تو آجاتی ہے۔ مگر خون سے دودھ بننے کا عمل اس وقت مکمل ہوتا ہے جب بچہ ماں کے پیٹ سے باہر آجاتا ہے تاکہ بچہ کے پیدا ہوتے ہی اسے غذا میسر آسکے اور اس کی تربیت کا سلسلہ جو پہلے حیض کے خون سے ہوتا تھا۔ وہ جاری رہ سکے پھر کیا ان اعضاء کا صرف اپنے اپنے مقررہ وقت ہی کام کرنا اور بعد میں اپنا کام چھوڑ دینا ہی اللہ تعالیٰ کے (خَلاَّقُ الْعَلِیْمِ) ہونے پر زبردست دلیل نہیں؟ رحم مادر میں استقرار حمل کے بعد اس مخلوط نطفہ کی تربیت حیض کے گندے اور سیاہ رنگ کے خون سے ہوتی ہے جو اس مخلوط مادہ منویہ پر حاوی ہو کر اسے منجمد اور لمبوترے سے منجمد خون کی شکل میں تبدیل کردیتا ہے اور مخلوط مادہ منویہ کا وجود اس میں باقی نہیں رہتا بلکہ وہ اس میں مدغم ہوجاتا ہے۔ پھر یہی جما ہوا خون گوشت کے لوتھڑے کی شکل اختیار کرتا ہے۔ یعنی اس جمے ہوئے خون میں سختی آنا شروع ہوجاتی ہے۔ پھر اسی گوشت کے لوتھڑے سے بچہ کی صورت کے نقش و نگار بننا شروع ہوجاتے ہیں۔ رحم مادر میں ایسے سات قسم کے تغیرات ہوتے ہیں۔ جنہیں انسان خود بھی آلات کے ذریعہ مشاہدہ اور تجربہ کے ذریعہ ان کا علم حاصل کرسکتا ہے۔ وہ ان چیزوں کا مشاہدہ اور علم تو حاصل کرسکتا ہے جو وقوع پذیر ہو رہی ہوتی ہیں لیکن وہ یہ نہیں جان سکتا کہ ایسا کیوں اور کیسے ہوتا ہے؟ بالکل یہی صورت کسی غلے یا درخت یا پودے کے بیج کی ہوتی ہے جو دراصل مرد یا کسی بھی نر کے نطفہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ زمین اس کے لئے رحم مادر کا درجہ رکھتی ہے۔ تو جس طرح مرد کے نطفہ کا کسی عورت کے رحم میں جا پڑنے سے استقرار حمل ضروری نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہر بیج میں جو زمین پر گر پڑے اس سے درخت بننا ضروری نہیں ہوتا۔ پھر جب ایسی زمین جس میں بیج پڑا ہو۔ بارش کے پانی سے سیراب ہوجاتی ہے۔ اور موسم ساز گار ہوتا ہے تو یہ گویا اس بیج کے استقرار حمل کا وقت ہوتا ہے۔ پانی سے زمین کے ذرات میں حرکت پیدا ہونے لگتی ہے، وہ پھول جاتے ہیں اور زمین میں دفن شدہ بیج سے مل جاتے ہیں اور اسے اپنے اندر ڈھانپ لیتے ہیں۔ اس طرح بیج اپنا وجود ختم کرکے ایک ملغوبہ کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ پھر اسی ملغوبہ سے نرم و نازک کونپل نکلتی ہے۔ زمین کے اندر بیج پر بعینہٖ اس قسم کے تطورات آتے ہیں جس طرح انسان کے نطفہ پر رحم مادر میں آتے ہیں۔ تاآنکہ یہی نرم و نازک کونپل چند دن بعد زمین کا سینہ چیر کر زمین سے باہر نکل آتی ہے پھر زمین ہی سے اپنی خوراک حاصل کرنا شروع کردیتی ہے۔ یہ باتیں ہم مشاہدہ تو کرسکتے ہیں لیکن یہ نہیں جان سکتے کہ کیوں اور کیسے ہوتا ہے۔ پھر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ مرے ہوئے انسان کے جسم کے ذرات بالآخر زمین میں پہنچ جاتے ہیں۔ خواہ کسی کی میت زمین میں دفن کی گئی ہو۔ یا جلا دی گئی ہو یا دریا برد ہوئی ہو یا اسے درندوں نے پھاڑ کر کھایا ہو۔ بالآخر اس کے ذرات بلاواسطہ یا بالواسطہ زمین میں پہنچ جاتے ہیں اور یہی زمین انسان کی دوسری پیدائش کے لئے رحم مادر کا کام دیتی ہے۔ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ انسان کی ریڑھ کی ہڈی کی دم جس کا نام عجب الذنب ہے۔ اس کے ذرات کبھی فنا نہیں ہوتے، انھیں ذرات میں سے ایک ذرہ انسان کے بیج یا نطفہ کا کام دیتا ہے، لیکن یہ زمین میں اس وقت تک بیکار پڑا رہے گا جب تک اسے مناسب موسم میسر نہ آئے۔ اور اس کا مناسب موسم وہ بارش ہے جو قیام قیامت کے بعد نفخہ صور یا حشر کے دن سے پہلے اسی زمین پر برسے گی اور یہ چیز بھی صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ پھر اس بارش کے پانی سے زمین کے ذرات پھول کر انسان کے بیج کو ڈھانپ لیں گے پھر اس ملغویہ پر وہی تطورات شروع ہوجائیں گے جو حیض کی صورت میں ماں کے پیٹ میں اور بیج کی صورت میں زمین کے پیٹ میں واقع ہوتے ہیں پھر معینہ مدت کے بعد تمام کے تمام انسان زمین میں سے اس طرح اگ آئیں گے جس طرح زمین کو پھاڑ کر نباتات اگ آتی ہیں اور جس طرح یہ تطورات ماں کے یا زمین کے پیٹ میں طبعی طور پر واقع ہوتے ہیں جس میں انسان کا یا بیج کا اپنا عمل دخل کچھ نہیں ہوتا۔ اسی طرح یہی تطورات دوسری پیدائش کی صورت میں انسان پر طبعی طور پر واقع ہوں گے۔ جس میں اس کے اپنے ارادہ و اختیار کو کچھ دخل نہ ہوگا اور معینہ مدت کے بعد وہ زمین سے باہر نکل آنے پر مجبور ہوگا۔﴿کَذٰلِکَ تُخْرَجُوْنَ﴾ اور ﴿کَذٰلِکَ الْخُرُوْجُ﴾ سے صاف معلوم ہوتا ہے۔ کہ یہ تطورات بالکل ویسے ہی طبیعی طور پر واقع ہونے والے امور ہوں گے جیسا کہ ماں کے یا زمین کے پیٹ میں واقع ہوتے ہیں اور یہ تو واضح بات ہے کہ یہ دوسری بار کی پیدائش اللہ تعالیٰ کے لئے پہلی بار کی پیدائش سے آسان تر ہوگی۔ اس آیت میں تُخْرَجُوْنَ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یعنی تم زمین سے نکال لئے جاؤ گے۔ اور تمہارا یہ نکالا جانا ایک اضطراری عمل ہوگا جس میں تمہاری مرضی کو کچھ عمل دخل نہ ہوگا جیسے تم جب اس دنیا میں آئے یا اس دنیا سے رخصت ہوئے تو اس میں تمہاری اپنی مرضی کا کچھ عمل دخل نہ تھا۔ اسی طرح تمہارا دوبارہ جی اٹھنا بھی ایک قہری اور اضطراری امر ہوگا۔ اس سلسلہ میں تمہاری رائے نہیں لی جائے گی۔ نہ تمہارا کچھ عمل دخل ہوگا۔ الروم
20 [١٧]انسان کی تخلیق میں اختلاف او ریکسانیت کا حسین امتزاج :انسان کی خودکارمشینری:۔ انسان کیا ہے؟ چند عناصر کا مجموعہ جو سطح ارضی پر ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ مثلاً سوڈیم، کیلشم، کاربن، اور چند دوسرے نمکیات اور یہ انسان میں کتنی کتنی مقدار میں موجود ہوتے ہیں۔ یہ بھی حضرت انسان نے پتہ لگا لیا ہے مگر انھیں عناصر کو اسی مقدار میں لے کر ایک زندہ انسان پیدا کردینا اس کی بساط اور اس کی سمجھ سے باہر ہے۔ روح کیا چیز ہے، کہاں سے آتی ہے اور کب آتی ہے۔ یہ سمجھنا بھی ناممکنات سے ہے۔ پھر اس مٹی کے پتلے کے اندر اللہ تعالیٰ جذبات، احساسات، عقل، شعور، ارادہ، اختیار اور بے شمار قوتیں پیدا کردیتے ہیں جو از خود کام کر رہی ہیں اور اسی میں انسان کے ارادہ کو ذرہ بھر دخل نہ ہوگا۔ سامنے سے کسی خطرناک چیز کے منہ پر گرنے کا خطرہ ہو تو انسان کے سوچنے سے پہلے ہی اس کی آنکھ کے پپوٹے بند ہو کر اس کی آنکھوں کو محفوظ کرتے ہیں۔ خوراک ہضم ہو کر معدہ خالی ہوجائے تو از خود بھوک لگ جاتی ہے۔ اور انسان مجبور ہوتا ہے کہ کچھ کھائے۔ بدن کو پانی کی ضرورت ہو تو انسان پانی پینے پر مجبور ہوتا ہے۔ اسی طرح ہضم شدہ خوراک کے فضلات کے دفع کرنے کے لئے طبیعت اس کو مجبور کردیتی ہے کہ اٹھ کر سب سے پہلے یہ کام کرے۔ پھر اس آدم کے مٹی کے پتلے سے ہی اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے اربوں کی تعداد میں انسان پیدا کردیئے۔ جن میں سے ہر ایک کی شکل و صورت، آواز، لب و لہجہ، حتیٰ کہ کھانسنے کی آواز دوسرے سے الگ ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ اللہ نے ایک مشین لگا دی ہو جس سے ایک ہی ماڈل کے انسان بن کر نکل رہے ہوں۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہر انسان کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ کی انفرادی توجہ ہوتی ہے۔ کیا اس تخلیق کے عظیم کارنامہ کو اتفاقات کا نتیجہ کہا جاسکتا ہے؟ جیسا کہ مادہ پرستوں کا خیال ہے۔ اور یہ اتفاقات کا ہی نتیجہ ہو تو ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ ایک شخص کی ایک ٹانگ لمبی ہو اور دوسری چھوٹی ہو۔ یا ایک آنکھ کی پتلی کالی ہو اور دوسری کی نیلی ہو۔ اختلاف اور یکسانیت کا یہ حسین امتزاج اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ انسان کو بنانے والی ذات قادر مطلق بھی ہے اور حکیم مطلق بھی اور وہ صرف ایک ہی ہوسکتی ہے؟ الروم
21 [١٨] مرداورعورت دونوں ایک دوسرے کے طالب بھی ہیں اورمطلوب بھی:۔یعنی مٹی کے پتلے سے ہی اس کا جوڑا پیدا کرتا ہے جو انسانیت کے لحاظ سے ایک ہی جنس ہے۔ لیکن جسمانی ساخت کے لحاظ سے یہ دو قسمیں ہیں۔ جو دونوں ایک دوسرے کے طالب بھی ہیں اور مطلوب بھی۔ مرد کو عورت سے اور عورت کو مرد سے سکون حاصل ہوتا ہے۔ اور دونوں میں ایک دوسرے کے لئے اس قدر کشش رکھ دی کہ وہ ایک دوسرے سے الگ رہ کرسکون حاصل کر ہی نہیں سکتے۔ پھر اللہ تعالیٰ کسی جوڑے کو لڑکے ہی عطا کرتا جاتا ہے اور کسی کو لڑکیاں ہی لڑکیاں اور کسی کو ملی جلی اولاد دیتا ہے مگر نوع انسانی پر کبھی کوئی ایسا دور نہیں آیا کہ دنیا میں مرد اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ انھیں بیویاں نہ مل سکیں اور یا عورتیں اس کثیر تعداد میں پیدا ہوجائیں اور مردوں کی تعداد ان کے مقابلہ میں اتنی کم ہو کہ عورتوں کو کوئی خاوند ہی میسر نہ آئے۔ مردوں اورعورتوں کی پیدائش میں ایساتناسب جوبقائے نوع کےلیےضروری ہے:۔ گویا مرد و عورت کی تخلیق میں بھی اللہ تعالیٰ اس تناسب کو بھی ملحوظ رکھتا ہے۔ جو بقائے نوع کے لئے ضروری ہے۔ پھر مرد اور عورت کے اسی جذبہ کے نتیجہ میں ہی بقائے نسل انسانی کا راز مضمر ہے۔ اسی سے خاندان اور قبیلے بنتے ہیں اور تمدن اور معاشرت کی داغ بیل پڑتی ہے۔ پھر ان زوجین (میاں، بیوی) میں اس قدر محبت رکھ دی کہ وہ ایک دوسرے پر فنا ہونے کو تیار ہوتے ہیں اور پیدا ہونے والی اولاد کے حق میں دونوں شفیق اور رحیم ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ یہی احساسات و جذبات ان دونوں میں اس حد تک پیدا ہوجاتے ہیں کہ وہ اپنے مقدس رشتہ ازدواج کو تازیست نباہنے میں کوشاں رہتے ہیں۔ اب ذرا غور کیجئے کہ اگر اللہ تعالیٰ زوجین میں یہ جذبات و احساسات پیدا نہ کرتا تو کیا زمین کی آبادی یا نسل انسانی کی بقا ممکن تھی۔ اور کیا یہ کام اللہ کے سوا کوئی دوسرا الٰہ کرسکتا ہے؟ یا بے جان، بے شعور اور اندھے مادے کے اتفاقات سے یہ ممکن ہے کہ وہ ان حکمتوں اور مصلحتوں کا لحاظ رکھ سکے؟ الروم
22 [١٩] اختلاف اوریکسانیت کا امتزاج اللہ کی انفرادی توجہ پردلالت کرتاہے؟ سب سے پہلے تو انسان ایک ہی جیسے عناصر کا مرکب ہے پھر ایک کا منہ، زبان، گلا اور لب سب کچھ ایک جیسے ہیں لیکن آواز اور لب ولہجہ ہر شخص کا دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ کسی کی آواز سریلی اور شریں ہوتی ہے کسی دوسرے کی بھاری اور ناگوار۔ حالانکہ قوائے نطقیہ سب انسانوں کے ایک جیسے ہیں۔ پھر ہر ایک علاقہ اور ملک کی زبان ایک دوسرے سے مختلف ہے کہیں عرب زبان بولی جاتی ہے، کہیں فارسی، کہیں انگریزی، کہیں پشتو، کہیں اردو غرض کہ سینکڑوں قسم کی زبانیں ہیں اور یہ انواع ہیں۔ پھر ایک ہی علاقہ میں چند میلوں کے فاصلہ پر ہی زبان میں ذیلی قسم کی تبدیلیاں اور محاورات میں اختلاف ہوتے ہیں جن میں فرق صرف اس علاقہ کے لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں۔ پھر ہر علاقہ کی زبان کے ساتھ اس کے حروف تہجی میں ان کے مخارج میں اور لب و لہجہ میں اختلاف واقعہ ہوتا ہے یہی حال رنگوں کا ہے۔ کسی علاقہ کے لوگ سفید رنگ کے ہوتے ہیں کسی کے کالے، کسی کے سرخ، اور کسی کے گندمی رنگ کے، کہا جاتا کہ انسان کی جلد کے رنگ پر اس علاقہ کی مخصوص آب و ہوا کا اثر ہوتا ہے جس سے رنگت میں تبدیلی آ جاتی ہے۔ یہ بات بھی صرف جزوی طور پر ہی تسلیم کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک ہی ماں باپ اور ایک علاقہ ہوتا ہے۔ مگر اولاد کی رنگت میں فرق ہوتا ہے۔ اگرچہ اس آیت میں صرف دو چیزوں لسان اور رنگ کا ذکر کیا گیا ہے۔ مگر اور بھی بہت سے پہلو ہیں جن کے اختلافات واقع ہوتے ہیں مثلاً کسی علاقے کے لوگ بلند قدو قامت رکھتے ہیں، کہیں پست قامت ہوتے ہیں اور کہیں درمیانہ قد والے۔ اسی طرح کہیں لوگ چپٹی ناک والے ہوتے ہیں اور کہیں لمبوتری اور اونچی ناک والے مثلاً ایک ہی والدین کے اولاد کی شکلوں میں جو فرق ہوتا ہے اسے والدین اور قریبی رشتہ دار تو محسوس کرسکتے ہیں لیکن اجنبی لوگ ان میں یکسانیت ہی محسوس کرتے ہیں اور بعض دفعہ امتیاز بھی نہیں کرسکتے۔ ان سب باتوں سے یہی نتیجہ سامنے آتا ہے کہ رحم مادر میں پرورش پانے والا ہر جاندار اللہ تعالیٰ کی انفرادی توجہ کا محتاج ہوتا ہے۔ بے شمار ایسی باتیں ہیں جو رحم مادر میں ہی انسان کے حصہ میں آتی ہیں۔ الروم
23 [٢٠] نینداور نیند میں خواب دیکھنادونوں سربستہ رازہیں:۔ کام کاج کرنے کے بعد انسان کو آرام کی ضرورت ہوتی ہے اگر آرام نہ کرے تو جینا ہی محال ہوجائے۔ لیکن آرام سے مراد یہ نہیں کہ انسان کچھ وقت کام نہ کرے یا بستر پر لیٹ جائے بلکہ جب تک اسے گہری نیند نہ آئے نہ اس کی تھکن دور ہوتی ہے اور نہ وہ مزید کام کاج کرنے کے قابل ہوتا ہے اور محض کام چھوڑنے یا لیٹے رہنے سے مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔ نیند کیا چیز ہے اس کی کیفیت اور ماہیت کیا ہے؟ یہ ایسا سربستہ راز ہے جسے انسان ابھی تک نہیں پاسکا۔ اس نے خواب آور دوائیں بھی دریافت کرلیں اور گولیاں بھی بنا لیں مگر وہ اس کی ماہیت کو نہیں پا سکا کہ خواب کے دوران انسان سے کیا چیز کم ہوجاتی ہے کہ اس کے حواس کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ پھر نیند کی حالت میں خواب دیکھنا دوسرا حیران کن مسئلہ ہے کہ یہ خواب انسان کن حواس سے دیکھتا ہے۔ انسان کو بس اتنا معلوم ہے کہ جب وہ زیادہ تھک جائے تو اس کی مرضی ہو یا نہ ہو نیند اسے آدبوچتی ہے۔ کام کاج کے دوران جو Cell انسان کے جسم سے جاتے ہیں۔ ان کی موت شروع ہوجاتی ہے اور ان کے بجائے نئے سیل بن جاتے ہیں اور جب یہ سارا کام سرانجام پا جاتا ہے تو انسان کو خود بخود جاگ آجاتی ہے یعنی نیند کا آنا، نیند سے تھکن دور ہونا پھر تھکن دور ہونے پر تازہ دم ہو کر از خود ہی بیدار ہوجانا، یہ سب قوتیں اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہیں جو سراسر حکمت اور مصلحت پر مبنی ہیں اور ان میں کسی دوسرے الٰہ کا کوئی عمل دخل نہیں۔ رات کوکام اور دن کو سونادینی اور دنیوی لحاظ سے مضرہیں:۔ انسان کے وسائل معاش اور ضروریات زندگی زمین میں چار سو بکھرے ہوئے ہیں۔ نیند کے بعد آدمی اس قابل ہوجاتا ہے کہ تازہ دم ہو کر اپنا رزق تلاش کرے۔ رزق تلاش کرنے کے لئے روشنی کی ضرورت تھی لہٰذا اس کام کے لئے دن کا وقت مختص کیا اور نیند کے لئے تاریکی اور خنکی کی ضرورت تھی ایک تاریکی تو انسان کو آنکھیں بند کرنے سے ہی حاصل ہوجاتی ہے، دوسری تاریکی رات کی ہوئی۔ اس طرح آرام کے لئے اللہ نے رات کا وقت مقرر کیا۔ گو آج کل انسان نے ایسے مصنوعی طریقے ایجاد کر لئے ہیں جس سے انسان رات کو کام کرنے کے قابل ہوگیا ہے۔ اور دن کو بھی آرام کرتا ہے اور مادہ پرستانہ دور کا ہی یہ تقاضا ہے۔ اس سے اتنا ہی انسان اللہ کی یاد سے غافل ہوگیا ہے اور دنیا کا نقصان یہ ہے کہ اس سے انسان کی صحت پر ناخوشگوار اثرات مترتب ہوتے ہیں۔ اور قوائے انسانی وقت سے پہلے کمزور ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ الروم
24 [٢١] بجلی اور بارش دونوں میں خوف اور امید یا فائدہ کے پہلو موجود ہیں۔ بجلی کی کڑک اور چمک سے جہاں یہ خطرہ ہوتا ہے کہیں گر کر تباہی نہ مچائے۔ وہاں اس سے اندھیرے میں نظر بھی آنے لگتا ہے نیز بجلی کی کڑک اور چمک عموماً زیادہ بارش ہونے کی علامت بھی ہوتی ہے۔ اور بارش کے باعث رحمت میں تو کسی کو شک نہیں تاہم اگر بارش ضرورت سے زیادہ ہوجائے تو یا سیلاب کی صورت اختیار کرلے تو اس سے کئی طرح کے نقصان بھی پہنچ سکتے ہیں۔ [ ٢٢]بارش کےعوامل میں اللہ کی نشانیاں :۔ زمین پر بسنے والی تمام مخلوق کا انحصار زمین کی پیداوار پر ہے۔ اللہ نے زمین پر بارش برسا کر زمین کو زندہ کیا تو گویا اس نے تمام مخلوق کو زندہ کیا۔ اب اس بارش کے برسنے میں جو عوامل کام کرتے ہیں۔ سورج کی حرارت سے سطح سمندر سے بخارات کا اٹھنا، ہواؤں کا رخ، پہاڑوں کا رخ اور ٹھنڈے علاقوں کی موجودگی، اور بارش کے بعد زمین کی قوت روئیدگی گویا سورج، ہوائیں، پانی، حرارت، برودت اور زمین کے اندر قوت روئیدگی۔ یہ سب چیزیں ایک مربوط نظام کے تحت کام کریں تو تب جا کر انسان کو اور دوسری مخلوق کو روزی میسر ہوتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان چیزوں کو اور ان چیزوں کے درمیان نظم و ضبط کو اللہ کے سوا کسی اور الٰہ نے قائم کیا ہے؟ یا مادہ پرستوں کے خیالات کے مطابق یہ مادہ اور طبعی قوانین کا ہی کھیل ہے؟ اگر یہی بات ہے تو ایک مخصوص مقام پر ایک مخصوص موسم میں ایک سال تو خوب بارشیں ہوجاتی ہیں اور اگلا سال بالکل خشک کیوں گزر جاتا ہے؟ اس آیت سے صرف یہی معلوم نہیں ہوتا کہ روزی کا یہ نظام قائم کرنے والی ذات صرف ایک ہی ہستی ہوسکتی ہے بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ حکیم مطلق بھی ہے اور مختار مطلق بھی۔ الروم
25 [٢٣]ستاروں کی گردش پرکنٹرول کرنے والی ہستی کاوجوب:۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں آسمان اور زمین کا ذکر کیا تو اس سے مراد کائنات کا نظام ہوتا ہے۔ جس میں لاتعداد اجرام فلکی محو گردش ہیں۔ اور موجودہ نظریہ کے مطابق ہماری زمین اور چاند اور کئی دیگر سیارے سورج کے گرد گردش کر رہے ہیں۔ عموماً سمجھا یہ جاتا ہے کہ ہر سیارے کی کشش ثقل اسے ایک مخصوص مقام پر جکڑے ہوئے ہے۔ مگر بات صرف اتنی نہیں۔ ہمارے نظام شمسی میں سورج ہی سب سے بڑا ستارہ اور سیارہ ہے۔ لہٰذا اس کی کشش ثقل یا قوت جاذبہ اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ ہر سیارہ کو اپنی طرف کھینچ لے۔ مگر ایسا نہیں ہوتا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ کوئی ایسی مقتدر اور قادر مطلق ایسی ہستی موجود ہو جو باوجود قوت جاذبہ کی کشش کے ان سیاروں کو اپنے اپنے مدارات پر قائم رکھ سکے کوئی سبب طبیعی ایسا نہیں بتلایا جاسکتا جس نے تمام کواکب کو کھلی فضا میں جکڑ بند کردیا ہے کہ وہ سب سورج کے گرد چکر لگانے میں ہمیشہ معین مدارات پر ایک خاص حیثیت میں بھی حرکت کریں جس میں کبھی تخلف نہ ہو۔ پھر کواکب کی حرکات اور درجات سرعت میں ان کی اور سورج کی درمیانی مسافت کو ملحوظ رکھتے ہوئے جو دقیق تناسب اور عمیق توازن قائم رکھا گیا ہے کوئی سبب طبیعی نہیں جن سے ان منظم و مربوط سیاروں کو وابستہ کرسکیں۔ ناچار اقرار کرنا پڑتا ہے کہ یہ سارا نظام کسی ایسے زبردست حکیم و علیم کے تحت ہے جو ان تمام اجرام سماویہ کے مواد اور ان کی ماہیت سے پورا واقف ہے وہ جانتا ہے کہ کسی مادہ کی کس قدر مقدار سے کتنی قوت جاذبہ صادر ہوگی اس نے اپنے زبردست اندازہ سے کواکب اور سورج کے درمیان مختلف مسافتیں اور حرکت کے مختلف مدارج مقرر کئے ہیں تاکہ ایک دوسرے سے تصادم اور تزاحم نہ ہو اور سارا عالم ٹکرا کر تباہ نہ ہوجائے۔ [ ٢٤] اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے اسرافیل کے صور پھونکنے کو اپنی پکار سے تعبیر فرمایا ہے۔ یعنی جتنے انسان مرچکے یا قیام قیامت تک مریں گے۔ سب اللہ کی ایک پکار پر اپنی اپنی قبروں سے زندہ ہو کر میدان محشر کی طرف چل کھڑے ہوں گے۔ الروم
26 [٢٥] یعنی کائنات کی ایک ایک چیز اللہ کی مملوک اور وہ ان کا خالق اور مالک ہے اور کوئی بھی چیز اس کے حکم تکوینی سے سرتابی کی مجال نہیں رکھتی ہر چیز اللہ کے مقرر کردہ قوانین کے مطابق سرگرم عمل ہے اور یہی ہر چیز کا سجدہ ہے اور یہی ہر چیز کی تسبیح ہے۔ حتیٰ کہ انسان بھی طبیعی امور میں اللہ کے مقررہ قوانین کا پابند ہے۔ وہ چاہے بھی تو جوانی کو واپس نہیں لاسکتا۔ نہ موت کو ٹال سکتا ہے۔ نہ کھانے پینے کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے۔ اس کی اگر سرکشی ہے تو محض اختیاری امور میں ہے۔ الروم
27 [٢٦] اس کی تشریح کے لئے دیکھئے سورۃ النمل کی آیت نمبر ٧٤ اور سورۃ العنکبوت کی آیت نمبر ١٧ کے حواشی۔ [ ٢٧] یعنی اعلیٰ سے اعلیٰ صفات اور اونچی سے اونچی شان اسی کی ہے۔ زمین و آسمان کی کوئی بھی چیز حسن اور خوبی میں اللہ کی شان اور صفات سے کچھ بھی مناسبت نہیں رکھتی۔ بلکہ اگر کسی چیز میں کوئی خوبی موجود بھی ہے تو وہ اسی کے کمالات کا ادنیٰ پرتو ہے۔ الروم
28 [٢٨] شرک کیسے بہت بڑی بے انصافی ہے؟ ایک مثال سے وضاحت:۔ یعنی یہ مثال تمہارے حسب حال ہے جس سے بات بآسانی تمہاری سمجھ میں آسکتی ہے۔ مثال یہ ہے کہ فرض کرو تمہارے کچھ غلام ہیں۔ کیا تم ان غلاموں میں اپنا مال و دولت تقسیم کرسکتے ہو کہ وہ تمہارے ہمسر بن جائیں۔ تم تو اس بات سے اس طرح خائف ہوجاؤ گے جیسے تم اپنے ان بھائی بندوں سے ڈرتے ہو جو تمہاری جائیداد میں پہلے سے شریک ہیں۔ اگر تم اس مشترکہ جائیداد میں کچھ تصرف کرنے لگو تو وہ تمہیں روک بھی سکتے ہیں۔ تمہارا محاسبہ بھی کرسکتے ہیں اور مشترکہ جائیداد کو تقسیم کرنے کا مطالبہ بھی کرسکتے ہیں۔ اب اگر تم اپنے غلاموں کو اپنی جائیداد میں برابر کا شریک بنالو۔ تو ان کے تمہارا غلام ہونے کے باوجود تمہیں ضرور ان سے ایسے ہی خطرات لاحق ہوجائیں گے اور تم یہ کام کبھی گوارا نہ کرو گے۔ حالانکہ تمہارے یہ غلام انسانیت کے لحاظ سے تمہارے بھائی بند اور برابر درجہ کے لوگ ہیں۔ اب جو بات تم اپنے لئے گوارا نہیں کرسکتے وہ اللہ کے لئے کیسے گوارا کرلیتے ہو کہ اللہ کی مخلوق کو جو نوع کے لحاظ سے بھی اس کے مساوی نہیں بلکہ اس کی مخلوق اور مملوک ہے، اللہ کے اختیارات میں شریک قرار دے دیا جائے؟ یہ کیسی دھاندلی کی تقسیم ہے۔ الروم
29 [٢٩] شرک کے کاروبار کی بنیاد مفاد پرستی ہے:۔ بات یہ نہیں کہ ان مشرکوں کو حقیقت کی سمجھ نہیں آتی۔ بلکہ شرک کے اس دھندے میں ان کے بہت سے دنیوی مفادات وابستہ ہیں۔ مہنتوں اور پروہتوں اور مجاوروں کو ایسے ہی عقائد کی وجہ سے نذرانے وصول ہوتے ہیں اور یہ ایک انتہائی منافع بخش کاروبار ہے۔ جس میں کچھ سرمایہ بھی نہیں لگانا پڑتا۔ وہ اپنے مریدوں یا عبادت گزاروں کو کئی قصے کہانیاں گھڑ کر سناتے، ان کی بزرگی اور اولیائی کی شان سے ڈراتے دھمکاتے اور انھیں نذرانے دینے پر مجبور بنا دیتے ہیں۔ نیز یہ لوگ اپنے مریدوں کو شفاعت کی خوشخبریاں سناتے رہتے ہیں کہ فلاں پیر صاحب سے اپنا دامن وابستہ کرلینا ہی ان کی شفاعت اور اخروی نجات کی ضمانت ہے۔ اس طرح عابد و معبود دونوں مذہب کے نام پر حقیقتاً اپنی ہی خواہش نفس کے پیچھے لگے ہوتے ہیں۔ اور اللہ کا قانون ہی یہ ہے کہ انسان جس طرح کا طرز زندگی اختیار کرنا چاہے۔ اللہ اسے ویسی ہی توفیق دے دیتا ہے اور جو لوگ نہ خود غور و فکر کریں نہ انبیاء کی بات مانیں، محض اپنی ضد، ہٹ دھرمی اور وہم و گمان پر جمے رہنا چاہیں اللہ ایسے لوگوں کو انھیں کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ زبردستی ہدایت دینا اللہ کا دستور نہیں۔ الروم
30 [٣٠] یعنی جب یہ بات واضح ہوچکی کہ مشرک اپنے حق میں ایسی تقسیم بات گوارا نہیں کرتے، پھر بھی اگر اللہ کی مخلوق کو اس کا شریک بنا ڈالیں تو اس سے بڑی دھاندلی کوئی نہیں ہوسکتی۔ تو آپ کو چاہئے کہ ان مشرکوں کی لغویات پر ہرگز توجہ نہ دو اور دوسرے تمام مذاہب سے اپنی توجہ ہٹا کر صرف دین اسلام یا خالص اللہ ہی کی عبادت کی طرف متوجہ ہوجاؤ۔ [ ٣١] ہربچہ اصل فطرت(اسلام)پرپیداہوتاہے:۔ یعنی یہ بات ہر انسان کی فطرت میں رکھ دی گئی ہے کہ اس کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ اور وہ اس کا بندہ اور غلام ہے۔ لہٰذا اسے صرف ایک اللہ ہی کی عبادت کرنا چاہئے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے والدین خواہ اسے یہودی بنا لیں یا عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) اور ایک روایت میں ہے کہ کسی غزوہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مشرکوں کے بچوں کو بھی مار ڈالا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا۔ تم نے بچوں کو کیوں مار ڈالا۔ انہوں نے جواب دیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! یہ مشرکوں کی اولاد تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اب جو تم میں عمدہ مسلمان ہیں کیا وہ مشرکوں کی اولاد نہیں ہیں؟‘‘ ہرانسان میں قبول حق کی استعدادموجودہےاور یہی اللہ کی فطرت ہے:۔ان احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی فطرت اصلی پر اس کے والدین یا ماحول کا گہرا اثر ہوتا ہے اور غلط ماحول میں وہ فطرت اصلیہ دب جاتی ہے۔ اسی دبی ہوئی فطرت سے ماحول کے دباؤ کو زائل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ انبیاء کو بھیجتا اور کتابیں نازل فرماتا ہے۔ بالفاظ دیگر ہر انسان کی فطرت میں قبول حق کی استعداد رکھ دی گئی ہے اور اسی لئے اسے قبول حق کا مکلف بھی بنایا گیا ہے۔ مثلاً اگر فرعون یا ابو جہل کی فطرت میں یہ استعداد اور صلاحیت ہی موجود نہ ہوتی تو انھیں حق کی طرف دعوت دینا ہی بے معنی ہوتا۔ [ ٣٢] اس جملہ کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ نے انسان کو جس فطرت پر پیدا کیا ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ معبود صرف اللہ تعالیٰ ہے اس کے ساتھ دوسروں کو بھی معبود نہیں بنایا جاسکتا۔ اور انسان عبد اور غلام ہے۔ اسے کسی طرح یہ سزاوار نہیں وہ اللہ کا نافرمان اور سرکش ہوجائے یا خود ہی معبود بن بیٹھے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے جس جاندار کو جس حال میں پیدا کیا ہے اسے اسی حال میں رہنے دینا چاہئے۔ یعنی جانوروں کے بچے تندرست اور صحیح شکل و صورت پر پیدا ہوتے تھے تو مشرکین جن جانوروں کو بتوں کے نام پر وقف کرتے ان کے کان چیر دیتے تھے۔ علاوہ ازیں بچوں کے سر پر کسی کے نام کی چوٹی رکھنا، داڑھی منڈانا، خوبصورتی کی خاطر جسم کو گودنا یا گدوانا اور اس میں نیلا داغ دینا یا دانتوں میں مصنوعی طریقوں سے خلا پیدا کرنا سب اسی ضمن میں آتا ہے۔ [ ٣٣] یہ سیدھا دین کیا ہے؟ چند موٹی موٹی اور سیدھی سادی باتیں جنہیں سب مذاہب والے یکساں تسلیم کرتے ہیں اور وہ باتیں یہ ہیں۔ اللہ ہی سب کا خالق ہے مالک ہے اور حاکم ہے۔ وہ اپنی ذات میں یکتا ہے اس کا کوئی ہمسر نہیں۔ اس کا سب پر زور رہتا ہے۔ اس پر کسی کا زور نہیں چلتا۔ لہٰذا اسی کی تسبیح کرنا یا نام جپنا بچاہئے۔ اسی طرح کسی کے جان ومال کو نقصان پہنچانا، کسی کی عزت پر حملہ کرنا یا تہمت لگانا، دوسروں سے دغا فریب کرنا سب برا سمجھتے ہیں۔ اور سچ بولنا، غریب پر ترس کھانا، حقدار کو اس کا حق پورا ادا کرنا سب ہی اسے بہتر سمجھتے ہیں اور اس کی تلقین کرتے ہیں۔ یہی سچا دین ہے جسے ہر انسان کی فطرت میں ودیعت کردیا گیا ہے۔ اور انہی فطرت امور کو پیغمبر یاد دلاتے رہے ہیں۔ الروم
31 [٣٤] لہٰذا جس کسی نے بھی اس فطری دین کے خلاف کوئی غلط طرز عمل اختیار کر رکھا ہے اسے چاہئے کہ وہ اسی فطری دین کی طرف لوٹ آئے۔ اور اللہ کی نافرمانی اور سرکشی سے ڈر جائے اور سب سے بڑی سرکشی اللہ کے حقوق اور بندوں کے حقوق کو پامال کرنا ہے۔ اور چونکہ اللہ سے ڈرنا ایک قلبی عمل ہے لہٰذا اس صفت کے اظہار کے لئے نماز کو ہمیشگی سے ادا کرتے رہو۔ اس سے تم میں مزید تقویٰ پیدا ہوگا۔ الروم
32 [٣٥]توحیدکےعقیدہ میں ترمیم یااضافہ کرنےوالےسب مشرک ہیں:۔ یعنی فطری دین تو خالص توحید پر مبنی ہے۔ اب جو کوئی اس فطری دین میں کچھ بگاڑ پیدا کرے گا یا اس میں کچھ اضافے کرے گا پھر ان بگڑے ہوئے یا زائد عقائد پر لوگوں کی جتھہ بندی کرکے کوئی ایک فرقہ کھڑا کردے گا جس کا امتیاز وہی بگڑا ہوا یا زائد عقیدہ ہوسکتا ہے تو ایسے سب کام شرک میں داخل ہیں اس طرح اس فطری دین میں بگاڑ پیدا کرنے والے، ان میں اضافے کرنے والے اور ان کی اتباع کرنے والے سب کے سب مشرک ہوئے۔ انسان کی ابتداتوحید سے ہوئی تھی نہ کہ شرک سے:۔ اس آیت کی رو سے یہ معلوم ہوا کہ انسان ابتداًء توحید پرست تھا۔ توحید ہی اس کا فطری مذہب ہے۔ نیز ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام خود نبی تھے اور نبی فطری دین یعنی توحید کا داعی ہوتا ہے لیکن جب موجودہ دور کے محققین مذہب کی تاریخ لکھنے بیٹھتے ہیں تو یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ انسان ابتداًء مظاہر پرست تھا پھر آہستہ آہستہ توحید کی طرف پلٹا ہے۔ یہ فلسفہ مذاہب سراسر وہم و قیاس پر مبنی ہے۔ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ انسانوں نے فطری حقائق کو مسخ کرکے اور ان میں اضافے کرکے نئے نئے مذاہب اور فرقے ایجاد کر ڈالے ہیں (تفصیل کے لئے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٢١٣ کا حاشیہ نمبر ٢٨١ ملاحظہ فرمائیے) [ ٣٦]ہرفرقہ اپنےہی عقائدکا گرویدہ ہے:۔ مزید بگاڑ یہ پیدا ہوگیا کہ جو فطری حقائق تھے انھیں تو لوگوں نے درخور اعتنا ہی نہ سمجھا اور اپنی اپنی اضافہ کردہ چیزوں کا ہی گرویدہ اور مفتوں ہوگیا۔ جس کی بدولت وہ دوسروں سے جدا ہو کر ایک الگ فرقہ بنا تھا۔ پھر ہر فرقہ کے لوگوں میں اپنے ٹھہرائے ہوئے اصول و عقائد پر کچھ ایسا تعصب پیدا ہوگیا کہ اسے اپنے ان غیر فطری اور مہمل عقائد میں غلطی کا امکان تک تصور میں نہیں آتا تھا۔ اور ہر کوئی دوسرے فرقوں کو گمراہ قرار دینے لگا اور صرف اپنے آپ کو حق پر سمجھ کر اسی میں مگن ہوگیا۔ الروم
33 [٣٧] جب انسان کو موت سامنے کھڑی نظر آتی ہے یا کوئی اور سخت مشکل پیش آتی ہے تو اس وقت وہ صرف اکیلے اللہ کو پکارتا ہے بلکہ بعض دفعہ وہ بلا ارادہ اور بے اختیار اللہ کو پکارنے لگتا ہے۔ یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ توحید کی پکار انسان کا فطری داعیہ ہے۔ اور اس کے دل کی گہرائیوں میں توحید کی شہادت موجود ہے۔ [ ٣٨] یعنی جب خوشحالی کے دن آتے ہیں تو اللہ کو تو بھول جاتا ہے اور دوسرے معبودوں یا پیروں، فقیروں کی نذریں نیازیں چڑھنا شروع ہوجاتی ہیں کہ فلاں مصیبت ہم سے فلاں حضرت یا فلاں آستانے کے طفیل دور ہوئی تھی۔ یا یہ خوشحالی ہمیں فلاں حضرت کی نظر کرم کی وجہ سے ملی ہے۔ الروم
34 الروم
35 [٣٩] کیا ان لوگوں کے پاس کوئی ایسی دلیل ہے جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ فلاں مصیبت سے اللہ نے نہیں بلکہ فلاں حضرت نے نجات دی تھی۔ یا یہ خوشحالی کے دن اللہ کی مہربانی سے نہیں بلکہ فلاں حضرت کی نظر کرم کی وجہ سے میسر آئے ہیں۔ کیا کسی آسمانی کتاب میں یہ لکھا ہوا ہے کہ اللہ نے اپنے فلاں فلاں کے اختیارات و تصرفات فلاں فلاں حضرت کو یا فلاں دیوتا کو یابت کو تفویض کردیئے ہیں اور ان کاموں کے لئے تم ان کی طرف رجوع کرسکتے ہو۔ الروم
36 [٤٠] انسان کی تنگ ظرفی اور چھچھوراپن :۔ اس آیت میں انسان کی ناشکری، تنگ ظرفی اور چھچھورے پن کا ذکر ہے۔ انسان کی عادت ہے کہ جب اس پر خوشحالی کے دن آتے ہیں تو پھولا نہیں سماتا۔ اس کی وضع قطع چال ڈھال اور گفتگو سے ہی اس کی نخوت کا پتہ چل جاتا ہے۔ اس وقت وہ نہ اپنے خالق کو خاطر میں لاتا ہے اور نہ خلق خدا کو اور یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اسے ہی سرخاب کے پر لگے ہوئے تھے جو اسے یہ عیش و آرام میسر ہے۔ پھر جب کسی وقت اس پر برے دن آجاتے ہیں۔ تو بھی اللہ کی ناشکری ہی کرنے لگتا ہے اور اللہ کی رحمت سے مایوسی کی باتیں کرنے لگتا ہے۔ اس کے برعکس مومن کی حالت اس کے بالکل الٹ ہوتی ہے۔ اس پر خوشحالی کے دن آئیں تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور اس کے آگے پہلے سے زیادہ جھک جاتا ہے۔ اور جب سختی کے دن آئیں تو نہایت صبر و تحمل سے یہ زمانہ گزارتا ہے اور اللہ کا شکر ہر حال میں ادا کرتا ہے۔ الروم
37 [٤١]رزق کی کمی بیشی میں اللہ کی مصلحتیں:۔ یعنی رزق کی فراخی اور تنگی تو خالصتاً اللہ کے ہاتھ میں ہے جسے چاہے وہ زیادہ دے اور جسے چاہے کم دے اور اس رزق کی کمی و بیشی میں بھی اس کی کئی مصلحتیں ہوتی ہیں (تفصیل کے لئے دیکھئے سورۃ عنکبوت کی آیت نمبر ٦٢ کا حاشیہ) لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ رزق کی کمی بیشی کی بنا پر انسان اپنے اخلاق ہی بگاڑ لے۔ خوشحالی کا دور آئے تو پھولا نہ سمائے اور کسی کو حتیٰ کہ اللہ کو بھی خاطر میں نہ لائے اور تنگی کا دور آئے تو اللہ کو ہی اپنے شکووں کا ہدف بنالے اور اس کی رحمت سے مایوس ہوجائے۔ بلکہ صحیح طرز عمل یہ ہے کہ رزق کی کمی بیشی سے اللہ اپنے بندوں کا امتحان لیتا ہے اور کامیاب وہ انسان ہے جو ہر حال میں اخلاق فاضلہ کا مظاہرہ کرے۔ خوشحالی آئے تو اللہ کا شکر ادا کرے اور مزید سرنگوں ہوجائے اور تنگی کا وقت آئے تو صبر و تحمل سے کام رکھے اور اللہ کی رحمت کا امیدوار ہے۔ یہ اخلاق فاضلہ بذات خود اللہ کی ایسی نعمت ہے جو نہ کسی کافر و مشرک کو میسر آسکتی ہے اور نہ کسی دہریئے کو، یہ صرف اسے میسر آتی جو صرف اللہ پر ہی توکل رکھتا ہو۔ الروم
38 [٤٢]مال ودولت میں دوسروں کا حق:۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ قرابتداروں کو، محتاجوں کو اور مسافروں کو بطور صدقہ خیرات کچھ دے دیا کرو۔ بلکہ یوں فرمایا کہ ان کا حق انھیں ادا کرو۔ اور اس لفظ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر دہرایا ہے۔ جس کا واضح مطلب ہے کہ تمہارے اموال میں ان قرابتداروں اور محتاجوں کا رزق بھی آگیا ہے۔ لہٰذا ان کا حق انھیں ادا کردو۔ اور اس کی ادائیگی میں تمہارا ان پر کچھ احسان نہیں ہوگا۔ بلکہ تمہارے سر سے تمہارا اپنا بوجھ اترے گا۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ قرابت داروں سے مراد وہ رشتہ دار ہیں جن سے نکاح حرام ہے۔ لیکن اس صراحت کا کوئی خاص فائدہ معلوم نہیں ہوتا۔ کیونکہ ہر شخص اپنے ناطے والوں کو خوب جانتا ہے اور سب رشتہ دار تو حقدار نہیں ہوتے بلکہ وہ حقدار ہیں جو محتاج ہوں۔ گویا سب سے پہلے وہ محتاج حقدار ہیں جو رشتہ دار ہوں، اس کے بعد عام محتاجوں کی باری آلے گی۔ اور مسافر جب راستہ میں محتاج ہوجائے تو وہ بھی حقدار ہے خواہ وہ اپنے گھر سے کتنا ہی امیر کیوں نہ ہو۔ اب دیکھئے جس معاشرہ میں ہر انسان ان مذکورہ حقداروں کے حق ادا کرتا رہے اس معاشرہ میں کوئی شخص مفلس اور قلاش رہ سکتا ہے؟ [ ٤٣] مطلب یہ ہے کہ جو لوگ مذکورہ حقوق ادا نہیں کرتے وہ فلاح نہیں پا سکتے۔ فلاح صرف وہ پا سکتے ہیں جو مذکورہ حقداروں کو ان کے حقوق ادا کریں۔ اور اللہ کی رضا مندی کے لئے ادا کریں۔ ان پر احسان رکھ کر نہ کریں، نہ ہی ان سے کسی قسم کے شکریہ یا بدلہ کے طلبگار ہوں۔ الروم
39 [٤٤] سود سے قومی معیشت تباہ ہوتی اور زکوٰۃ سےپھللتی پھولتی ہے:۔ یہ پہلی آیت ہے جو سود کی مذمت کے سلسلہ میں نازل ہوئی، پھر سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ١٣٠ کی رو سے مسلمانوں کو سود در سود سے روک دیا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات سے چار ماہ پیشتر سورۃ بقرہ کی آیات نمبر ٢٧٥ تا ٢٨١ کی رو سے مکمل طور پر حرام قرار دے دیا گیا۔ چونکہ شراب کی طرح سود بھی اہل عرب کی گھٹی میں پڑا ہوا تھا۔ لہٰذا ایسی برائیوں کلی استیصال بتدریج ہی ممکن تھا۔ اب اصل مسئلہ کی طرف آئیے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ سود سے مال بڑھتا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ کسی بھی معاشرہ میں دولت مندوں کی تعداد غریبوں کی تعداد کی نسبت بہت قلیل ہوتی ہے اور سود لینے والے دولت مند ہوتے ہیں اور دینے والے غریب اور محتاج۔ اب سود سے فائدہ تو ایک شخص اٹھاتا ہے اور نقصان سینکڑوں غریبوں کا ہوجاتا ہے۔ اور اللہ کی نظروں میں اس کی سب مخلوق یکساں ہے بلکہ اسے دولتمندوں کے مفاد سے غریبوں کے مفادات زیادہ عزیز ہیں۔ اور سود خور سود کے ذریعہ بے شمار غریبوں کا مال کھینچ کر انھیں مزید مفلس اور کنگال بنانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ تو اسی حقیقت کو اللہ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ سود کے ذریعہ مال بڑھتا نہیں بلکہ گھٹتا ہے۔ یہ اس مسئلہ کا ایک پہلو ہوا اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ علم معیشت کا یہ ایک مسلمہ اصول ہے۔ کہ جس معاشرہ میں دولت کی گردش جتنی زیادہ ہوگی اتنا ہی وہ معاشرہ خوشحال ہوگا اور اس کی قومی دولت میں اضافہ ہوگا۔ اور اگر دولت کا بھاؤ غریب سے امیر کی طرف ہوگا تو یہ گردش بہت کم ہوجائے گی۔ کیونکہ امیر طبقہ کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے بھی سود قومی معیشت پر تباہ کن اثر ڈالتا ہے۔ اور اگر دولت کا بہاؤ امیر سے غریب کی طرف ہو اور یہ بات صرف زکوٰ ۃ و صدقات کی صورت میں ہی ممکن ہوتی ہے، تو دولت کی گردش تیز ہوجائے گی۔ کیونکہ ایک تو غریبوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے دوسرے ان کی ضروریات محض پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے اٹکی ہوتی ہیں۔ لہٰذا دولت کی گردش میں تیزی آنے کی وجہ سے ایک تو سارا معاشرہ خوشحال ہوتا جائے گا دوسرا قومی معیشت پر بھی خوشگوار اثر پڑے گا۔ یہی وہ حقیقت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا : ﴿ یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقٰتِ ﴾(۲۷۶:۲) یعنی جس معاشرہ میں سود کا رواج ہوگا اس میں برکت نہیں رہے گی وہ بالآخر قلاش ہوجائے گا۔ غریب طبقہ کی تعداد دن بدن بڑھتی جائے گی اور وہ اپنا پیٹ پالنے کی خاطر امیر طبقہ پر جائز اور ناجائز طریقوں سے حملہ آور ہو کر ان کا مال ان سے چھین لے اور اس غرض کے لئے اگر اس کا کام چوری اور ڈاکہ، لوٹ مار سے چلتا ہے تو ٹھیک ورنہ وہ قتل و غارت سے بھی کبھی دریغ نہ کرے گا۔ اسلامی نظام معیشت کی بنیاددوچیزیں :۔ اسلامی اقتصادیات یا اسلامی نظام معیشت پر بڑی لمبی چوڑی تصانیف بازار میں دستیاب ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اسلامی نظام معیشت کے بنیادی اصول صرف دو ہی ہیں۔ ایک ملک سے سود کا خاتمہ اور دوسرے اس کے بجائے نظام زکوٰ ۃ و خیرات کی ترویج۔ سود ہی وہ لعنت ہے جو نظام سرمایہ داری کی جان ہے۔ اس کے خاتمہ سے نظام سرمایہ داری کی جان از خود نکل جاتی ہے۔ رہی سہی کسر اسلام کا قانون میراث نکال دیتا ہے۔ سود کے خاتمہ کے بعد جب نظام زکوٰۃ و صدقات اس کی جگہ لے لیتا ہے تو طبقاتی تقسیم از خود ختم ہوجاتی ہے۔ اور معاشرہ خوشحال بن جاتا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے معاشیات کی کتابیں پڑھنے اور اس کے اصول سمجھنے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ صرف تجربہ کی ضرورت ہے اور تجربہ ہر انسان کم از کم اپنے خاندان میں کرکے اس کے ثمرات و برکات کو بچشم خود ملاحظہ کرسکتا ہے۔ اگرچہ اتنے چھوٹے پیمانے پر سود کے خاتمہ اور زکوٰ ۃ و خیرات کی ترویج سے پورے ثمرات تو حاصل نہیں ہوسکتے۔ تاہم ایسے خاندان کی حالت پہلے سے بدرجہا بہتر ہوسکتی ہے۔ غریب کی امیر سے نفرت۔ حسد اور کینہ وغیرہ جیسے قبیح جذبات ماند پڑجاتے ہیں۔ اور ان کی جگہ مروت، ہمدردی اور اخوت جیسی اعلیٰ قدریں پیدا ہونے لگتی ہیں۔ جس سے ایک طرف تو معاشرہ میں کشیدگی کے بجائے محبت کی فضا پیدا ہوجاتی ہے۔ دوسرے دولت کی ناہموار تقسیم میں خصوصی کمی واقع ہوجاتی ہے۔ جس سے معاشرہ کے ہر فرد کو کم از کم بنیادی ضروریات ضرور مہیا ہوتی رہتی ہیں۔ [ ٤٥]زکوٰ ۃ سے مال کیسے بڑھتاہے؟ اس کا ایک مطلب تو اوپر بیان ہوچکا ہے کہ جو لوگ اللہ کی رضا کی خاطر زکوٰ ۃ و خیرات دیتے ہیں۔ تو وہ معاشرہ خوشحال ہوجاتا ہے۔ غریبوں کی قوت خرید بڑھ جاتی ہے جس کا فائدہ بالآخر پھر دولت مند تاجروں اور صنعت کاروں کو ہی پہنچتا ہے اور اس طرح انھیں جو فائدہ حاصل ہوتا ہے وہ سود پر روپیہ دینے کی نسبت بہت زیادہ ہوجاتا ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر جو لوگ صدقات و زکوٰ ۃ ادا کرتے ہیں انھیں قیامت کو اس سے بہت زیادہ اجر ملے گا۔ یہ اجر دس گناہ بھی ہوسکتا ہے۔ ستر گناہ بھی سات سو گنا بھی بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ اور اس اجر کی کمی بیشی کے لئے بھی اللہ کے ہاں چند اصول ہیں۔ مثلاً جس محتاج کی ضرورت پوری کی گئی وہ کس حد تک ضرورت مند تھا۔ خرچ کرنے والے کی نیت میں خلوص کتنا تھا۔ اور پھر اس نے یہ نیکی کرنے کے بعد کوئی ایسا کام تو نہیں کیا جس سے وہ اپنا اجر ضائع کر دے۔ یا خرچ کرتے وقت کچھ ریا کا عنصر تو شامل نہیں تھا اور خرچ کرنے کے وقت شریعت کی ہدایات کو ملحوظ رکھا گیا تھا یا نہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ الروم
40 [٤٦] یعنی جب تمہارے بنائے ہوئے معبودوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس نے تمہیں پیدا کیا ہو یا تمہارے رزق کا ذمہ دار ہو یا تمہیں مار سکتا ہو یا تمہیں دوبارہ زندگی بخش سکتا ہو تو پھر آخر یہ ہیں کس کام کے؟ اور کس لحاظ سے تم انھیں اللہ کے شریک بناتے ہو؟ واضح رہے کہ مشرکین مکہ ان چار باتوں میں سے پہلی تین باتوں کے قائل تھے کہ جو امور اس آیت میں مذکور ہوئے ہیں۔ یہ صرف اللہ ہی کے کارنامے ہیں اور ان میں ان کے معبودوں کا کوئی حصہ نہیں۔ الروم
41 [٤٧]فساد فی الارض کا اصل سبب:۔ یہاں بر و بحر سے مراد پورا مشرق وسطی بھی ہوسکتا ہے جو ان دنوں روم اور فارس کی جنگوں کی وجہ سے ظلم اور فساد کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ اور عرب کا علاقہ بھی۔ کیونکہ اکثر عربی قبائل کا پیشہ ہی مار دھاڑ، لوٹ کھسوٹ اور قتل غارت تھا۔ اور اس فساد سے محفوظ اگر کوئی جگہ تھی تو وہ صرف حرم مکہ کی حدود تھیں۔ اور اس ظلم و فساد اور طغیانی کی اصل وجہ یہی تھی کہ وہ لوگ نہ بعث بعدالموت کے قائل تھے اور نہ اللہ کے حضور پیش ہو کر اپنے اعمال کی جواب دہی اور جزاء و سزا کے۔ لہٰذا ہر شخص اپنے ذاتی اور دنیوی مفادات کی خاطر دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے لئے ہر وقت مستعد رہتا تھا اور نتیجتاً یہ سرزمین ظلم و جور سے بھر گئی تھی۔ [ ٤٨] یعنی یہ فساد ان کی اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے ظہور پذیر ہوا تھا۔ اور یہ ان کے اعمال کا بدلہ تھا۔ بلکہ اللہ کی طرف سے تھوڑا سا بدلہ تھا۔ اور اس تھوڑے سے بدلہ سے عام لوگ سخت پریشان حال تھے اور ان کے لئے زندگی اجیرن بن گئی تھی۔ اور یہ تھوڑی سی سزا اللہ نے انھیں اس لئے دی کہ شاید اب بھی وہ غور کرکے اس ظلم و فساد کی اصل وجہ تلاش کرلیں۔ اور اصل دین فطرت کی طرف لوٹ آئیں۔ آخرت کی جوابدہی سے ڈر جائیں اور اللہ کے فرمانبردار بن جائیں۔ الروم
42 [٤٩]ہرقسم کےفسادکی اصل وجہ شرک اور یوم آخرت سے انکار ہے:۔ یعنی سابقہ اقوام کی تباہی کا اصل سبب شرک تھا۔ اب مشرکین میں سے اکثر تو ایسے ہوتے ہیں جو روز آخرت کے منکر ہوتے ہیں۔ جیسا کہ مشرکین مکہ کا حال تھا اور اگر ان کا آخرت پر عقیدہ ہو بھی تو پھر وہ اس عقیدہ میں کچھ ایسے اضافے کرلیتے ہیں جو عقیدہ آخرت کے اصل مقصد کو بے کار کرکے رکھ دیتے ہیں۔ مثلاً اگر کسی کا یہ عقیدہ ہو کہ ہم قیامت کے دن فلاں حضرت کا دامن پکڑ لیں گے اور ان کے ساتھ ہی جنت میں جا داخل ہوں گے۔ یا مثلاً فلاں پیر حضرت کی بیعت کرلی جائے تو ان کی شفاعت سے ہم نجات پا جائیں گے یا یہ کہ فلاں بزرگ کے مزار پر جو بہشتی دروازہ بنا ہوا ہے اس کے عرس کے دن اگر گزرا جائے تو بہشت واجب ہوجائے گی۔ اب دیکھئے کہ اگر سستی نجات کے اس قسم کے عقیدے اپنا لئے جائیں تو اللہ کے سامنے اپنے اعمال کی جوابدہی کا کچھ خوف باقی رہ جاتا ہے۔ پھر ایسے مشرکوں میں اور عقیدہ آخرت کے منکر مشرکوں میں کتنا فرق باقی رہ جاتا ہے؟ عقیدہ آخرت کا صحیح تصور ہی انسان کو گناہوں سے باز رکھ سکتا ہے ورنہ انسان گناہوں پر دلیر ہوجاتا ہے۔ پھر یہی گناہ افراد اور اقوام کی تباہی کا باعث بن جاتے ہیں۔ الروم
43 [٥٠] لہٰذا اے نبی! اور اے مسلمانو! مشرکوں کے ان تمام لغویات سے منہ موڑ کر دین فطرت کی طرف متوجہ ہوجاؤ۔ کیونکہ ہر طرح کی خرابیوں اور فسادات کی جڑ یہ شرک ہی ہے۔ اور ان کا علاج صرف یہی ہے کہ اپنی تمام تر توجہ اللہ کی طرف مبذول کرلو اور اسی پر توکل رکھو۔ [ ٥١] یعنی جیسے موت ایک اٹل حقیقت ہے اور اسے کوئی بھی اپنے سے ٹال نہیں سکتا اور نہ اس کے وقت وہ تقدیم و تاخیر ہوسکتی ہے۔ اسی طرح قیامت بھی ایک اٹل حقیقت ہے جو نہ کسی کے ٹالے ٹل سکتی ہے نہ کوئی اسے اپنے آپ سے ٹال سکتا ہے اور نہ ہی اس میں تقدیم و تاخیر ممکن ہے اور ان دونوں حقیقتوں میں مناسبت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو کوئی مر گیا تو اسی دن اس کی قیامت قائم ہوگئی۔ (مشکوۃ کتاب الفتن۔ باب فی قرب الساعۃ وان من مات فقد قامت قیامتہ) بالفاظ دیگر اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اپنے مرنے سے پہلے پہلے شرکیہ عقائد سے کلیتاً دستبردار ہو کر دین فطرت کی طرف آجاؤ۔ [ ٥٢] یعنی کسی کافر کو یہ مجال نہ ہوگی کہ وہ مسلمانوں کی جماعت میں جاملے۔ یا اگر پہلے ملا ہے تو وہیں رہ جائے بلکہ سب لوگ مجبور ہوں گے کہ اپنے سے تعلق رکھنے والی جماعت میں فوراً جا شامل ہوں۔ اور یہ کام اتنی سرعت سے ہوگا جیسے کوئی اکٹھا مجمع فوراً پھٹ کر کئی حصوں میں بٹ جائے۔ الروم
44 الروم
45 [٥٣] جنت میں داخلہ استحقاق کی بناپرنہیں بلکہ محض اللہ کے فضل سے ہوگا:ایمان والوں اور نیک لوگوں کو بھی جنت میں داخلہ کسی استحقاق کی بنا پر نہیں ملے گا بلکہ محض اللہ کے فضل یعنی اصل بدلہ سے زائد اجر کے طور پر ملے گا۔ کیونکہ دنیا میں انسان نے اگر اللہ کا شکر ادا کیا یا اس کا فرمانبردار بن کر رہا تو اس سے تو اللہ کے سابقہ احسانات کا بدلہ پورا نہیں ہوتا اب مزید کیسا ؟ یہ اجر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دیں گے تو محض اس لئے کہ انہوں نے جو بھی کام کئے تھے اللہ کی رضا کی خاطر کئے تھے اور اللہ ان سے راضی ہو کر زائد بدلہ خاص اپنی مہربانی سے جنت کی صورت میں عطا کرے گا۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’کسی شخص کو اس کا عمل بہشت میں نہیں لے جائے گا‘‘ صحابہ نے عرض کیا : یارسول اللہ! کیا آپ کے اعمال بھی؟( آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جنت میں نہیں لے جائیں گے؟) فرمایا : ’’ہاں میرے اعمال بھی مجھے جنت میں نہیں لے جائیں گے، الا یہ کہ اللہ اپنے فضل اور اپنی رحمت سے مجھے ڈھانپ لے‘‘ (بخاری۔ کتاب المرضی۔ باب تمنی المریض الموت) الروم
46 [٥٤]ہواؤں کےفائدے:۔ قرآن میں جہاں بھی ارسال الریاح کے الفاظ مذکور ہوں (یعنی میح کا لفظ جمع کے صیغہ میں ہو) تو اس سے مراد خوشگوار ہوائیں ہوتی ہیں اس آیت میں دو قسم کی خوشگوار ہواؤں اور ان کے فوائد کا ذکر کیا۔ ایک باران رحمت سے پہلے دلوں کو فرحت بخشنے والی اور بارش کی بشارت دینے والی ہوائیں، جس سے زمین سیراب ہوتی ہے اور اس بارش میں طرح طرح کے فائدے ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ موافق ہوائیں جو کشتیوں اور جہازوں کے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ پہلے زمانہ میں تو رواج ہی بادبانی کشتیوں کا تھا جن کے چلنے کا زیادہ تر انحصار باد موافق پر ہی ہوتا ہے۔ آج دخانی کشتیوں اور جہازوں کا دور ہے۔ پھر بھی بادموافق اور باد مخالف کا دخانی کشتیوں اور جہازوں پر خاصا اثر پڑتا ہے یہ کشتیاں جو باد موافق کے سہارے چلتی ہیں ان میں تم سفر ہی نہیں کرتے بلکہ اپنا تجارتی سامان بھی ایک ملک سے دوسرے ملک میں لے جاکر خوب نفع کماتے ہو۔ یہ ہوائیں تو اللہ ہی بھیجتا ہے۔ پھر کیا تم اس کی اس نعمت کا شکر بھی ادا کرتے ہو؟اللہ کی ان مہربانیوں کا تقاضا تو یہی ہے کہ اس کا شکر ادا کیا جائے۔ الروم
47 [٥٥] وہ روشن دلیلیں کیا تھیں؟ وہ اللہ کی کتاب تھی، رسولوں کی اپنی پاکیزہ سیرت تھی جسے اللہ تعالیٰ نے ان کی نبوت کے طور پر پیش کیا۔ پھر ان نبیوں نے ایک ایسا معاشرہ قائم کیا جو احکام الٰہی کا چلتا پھرتا عملی نمونہ تھا۔ اللہ کی کتاب میں اللہ کی ہر سو بکھری ہوئی نشانیوں میں غور و فکر کی دعوت دی گئی تھی۔ کتاب کی آیات کائناتی آیات کی تائید کرتی تھیں اور کائناتی آیات کتاب کی آیات کی تائید کرتی تھیں۔ یہ دونوں قسم کی نشانیاں ایک دوسری تائید و تصدیق کرتی تھیں۔ پھر بھی لوگ اس نبی پر ایمان نہ لائے اور اکڑ گئے۔ الٹا ایمان لانے والوں پر ستم ڈھانا شروع کردیئے۔ پھر جب ان کی سرکشی بڑھتی ہی گئی تو ہم نے ایمانداروں کو تو بچا لیا اور انھیں بچا لینا ہی ہماری ذمہ داری بھی تھی۔ اور مجرم لوگوں کو تباہ کر ڈالا۔ الروم
48 [٥٦] بارش برسنےکےعمل میں اللہ کی قدرتیں اور حکمتیں :۔اس ایک آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کئی نشانیاں فرما دیں مثلاً ہوا جو ایک کنکر کا بوجھ بھی برداشت نہیں کرسکتی اور کنکر زمین پر آپڑتا ہے مگر یہ ہوا آبی بخارات کو ایک کاغذ کے پرزے کی طرح اپنے دوش پر اٹھائے پھرتی ہیں۔ وہ آبی بخارات جن میں کروڑوں ٹن پانی موجود ہوتا ہے۔ اور اس وزن کا اندازہ زمین کے اس رقبہ سے لگایا جاسکتا ہے جس میں یہ بارش ہوئی اور جتنے انچ بارش ہوئی۔ دوسری یہ کہ ان باربردار ہواؤں کا رخ طبیعی طور پر متعین نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ جس طرح خود چاہے اسی طرح ہی موڑ دیتا ہے اس لئے جہاں چاہتا ہے وہیں بارش ہوتی ہے دوسرے علاقہ میں نہیں ہوتی۔ تیسری یہ کہ جب یہ بادل کسی ایسے ٹھنڈے فضائی علاقے میں پہنچتے ہیں جو آبی بخارات کو پھر سے پانی میں منتقل کرسکیں تو وہاں بھی بادلوں کا سارا پانی یک لخت پانی بن کر زمین پر نہیں گر پڑتا، بلکہ قطرہ قطرہ بن کر گرتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر برودت زیادہ ہو تو بھی وہ قطرے ہی اولے بن کر گرتے ہیں۔ یہ نہیں ہوتا کہ زیادہ سردی کی وجہ سے یک لخت سارا پانی بن کر یک ہی دفعہ کسی جگہ پر گر پڑے۔ اور اس میں اللہ کی بہت سی حکمتیں ہیں۔ بارش کےخوشگوار نتائج :۔ بارش سے پہلے زمین کا یہ حال تھا کہ دھول اڑتی پھرتی تھی۔ درختوں کے پتوں پر گردوغبار پڑا تھا۔ بارش ہوتی ہے۔ تو درخت دھل جاتے ہیں۔ زمین لہلہانے لگتی ہے۔ گویا اسے نئی زندگی مل گئی۔ پھر کئی قسم کے جاندار بھی بارش میں پیدا ہو کر بولنے اور چلنے پھرنے لگتے ہیں۔ ایک بہار آجاتی ہے جس سے دل مسرور ہوجاتے ہیں اور ساتھ ہی تمام مخلوق کی روزی کا سامان بھی میسر آنے لگتا ہے۔ اور انسان جو برسات سے پیشتر مایوسی کا شکار ہو رہا تھا۔ پھر سے خوش ہو کر پھولنے اور اترانے لگتا ہے۔ الروم
49 الروم
50 الروم
51 [٥٧] نعمت اور زوال نعمت پر ایک دنیادار کا کردار:۔ پھر اس کے بعد جب خزاں کا موسم آتا ہے۔ اور نباتات سرد پڑنے لگتی ہے تو انسان پھر سے مایوس ہوجاتا ہے اور اللہ کے حق میں کفریہ کلمات بکنے اور شکوے شکایات کرنے لگ جاتا ہے۔ ان آیات میں دراصل ایک دنیادار اور خدا فراموش انسان کی فطرت بیان کی گئی ہے کہ جب کسی دنیا دار پر اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے تو اس وقت خوش تو ہوتا ہے مگر اللہ کا شکر پھر بھی ادا نہیں کرتا اور جب نعمت کے زوال کا وقت آتا ہے تو اس وقت اسے اللہ یاد تو آتا ہے مگر شکرگزاری کے لئے نہیں بلکہ اسے کفریہ اور ناشکری کے کلمات کا ہدف بنانے کے لئے۔ نعمت ملنے پر اللہ کا احسان ماننے کے لئے تو قطعاً تیار نہ تھا۔ زوال نعمت پر اور بھی برگشتہ ہوگیا اور اللہ کو کو سنے لگ گیا کہ اس نے ہم پر کیسی یہ مصیبت ڈال دی ہے۔ ان آیات میں ایک لطیف اشارہ بھی پایا جاتا ہے۔ یعنی جب اللہ کے رسول اس کی طرف سے پیام رحمت لاتے ہیں تو لوگ اس کی بات نہیں مانتے اور اس نعمت کو ٹھکرا دیتے ہیں پھر جب ان کے کفر کی پاداش میں اللہ تعالیٰ ان پر ظالموں اور جباروں کو مسلط کردیتا ہے اور وہ جو ظلم و ستم ڈھاتے ہیں تو وہی لوگ اللہ کو گالیاں دینا شروع کردیتے ہیں اور اس پر الزام یہ دیتے ہیں کہ اس نے کسی ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا بنا ڈالی ہے۔ الروم
52 الروم
53 [٥٨] اس سورۃ کی آیات نمبر ٥٢، ٥٣ اور سورۃ نمل کی آیات نمبر ٨٠، ٨١ کے الفاظ تک آپس میں ملتے جلتے ہیں۔ لہٰذا انہی آیات کے حواشی ملاحظہ فرما لئے جائیں۔ الروم
54 [٥٩]زندگی کے سب مراحل اضطراری ہیں:۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی وہ تدریجی حالتیں بیان فرمائی ہیں جن میں مجبور محض ہوتا ہے اور اپنے اختیار سے ان حالتوں میں خود کوئی تبدیلی لانا ممکن نہیں ہے، پیدا ہوتا ہے تو اس قدر کمزور کہ کسی بھی جاندرا کا بچہ اتنا کمزور پیدا نہیں ہوگا۔ ہر جاندار کا بچہ پیدا ہوتے ہیں چلنے پھرنے لگتا ہے مگر انسان کا بچہ چلنا تو درکنار بیٹھ بھی نہیں سکتا اور چلنے کی نوبت تو ڈیڑھ دو سال بعد آتی ہے۔ پھر اس کے بعد اس پر بلوغت اور جوانی کا دور آتا ہے تو وہ جسمانی طور پر طاقتور اور مضبوط ہوتا ہے۔ اس کے قوائے عقلیہ، اس کا فہم و شعور سب جوبن پر ہوتے ہیں۔ اس کے بعد اس پر انحطاط کا دور آتا ہے۔ قوتیں جواب دینے لگتی ہیں۔ اعضا مضمحل ہونے لگتے ہیں۔ کئی طرح کے عوارض اور بیماریاں اسے آگھیرتی ہیں حتیٰ کہ اس کی عقل بھی زائل ہونا شروع ہوجاتی ہے اور یہ سب ایسے مدارج زندگی ہیں۔ جن سے انسان کو نہ کوئی مضر ہے اور نہ ان میں تبدیلی لاسکتا ہے وہ لاکھ چاہے کہ بڑھاپے کے بعد پھر اس پر جوانی کا دور آئے وہ ایسا نہیں کرسکتا۔ جس تدریج کے ساتھ اللہ اسے ان مراحل سے گزارتا ہے۔ اسے بہرحال گزرنا پڑتا ہے۔ [ ٦٠]طبعی امور کےعلاوہ اللہ کی مشیت سےا ختلافی حالات:۔ مندرجہ بالا مراحل ایسے تھے جو طبیعی تقاضے تھے جو سب کے لئے یکساں ہیں پھر کچھ ایسے امور ہیں جن میں اللہ تعالیٰ خاص انسانوں کو خاص صفات سے نوازتا ہے وہ چاہے تو کسی کو کمزور الخلقت پیدا کردے اور اس کے اعضا کو نشوونما کی رفتار بہت کم رہ جائے۔ چاہے تو کسی کو بونا بنادے۔ کسی کو مادر زادہ اندھا پیدا کر دے کسی کو بلا کا عقل و فہم عطا کردے۔ اور اسے ذہین و فطین بنا دے اور چاہے تو کسی کو بلیدالذہن پیدا کردے پھر چاہے تو کسی پر جوانی اور بڑھاپے کے مراحل آنے ہی نہ دے اور بچپن میں ہی اسے موت سے دوچار کر دے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک بوڑھا کو سٹ بستر مرگ پر سال ہا سال ایڑیاں رگڑتا رہے مگر اسے موت نہ آئے۔ اور چاہے تو کسی کو لمبی عمر بھی عطا کرے اور تندرست و صحت یاب بھی رکھے۔ یہ سب امور اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت میں ہے اور انسان کا ان میں کچھ بھی اختیار نہیں ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کس شخص کو کس حال میں رکھنا ہے۔ الروم
55 [٦١]کافروں کےاندازے دنیا میں بھی غلط اورآخرت میں بھی غلط ہوں گے:۔ یہ مدت دنیا کی بھی ہوسکتی ہے اور عالم برزخ کی بھی اور دونوں کی بھی۔ اگرچہ مجرموں کو قبر میں بھی عذاب ہوتا ہے مگر یہ عذاب اخروی عذاب کے مقابلہ میں اتنا ہلکا ہوتا ہے کہ مجرم لوگ اس عذاب قبر کو بھی راحت کی گھڑیاں ہی تصور کریں گے۔ قیامت میں اپنا انجام اور اپنے لئے عذاب دیکھ کر قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ہم محض ایک گھڑی دنیا میں رہے تھے کیا اچھا ہوتا کہ اتنا تھوڑا سا وقت ہم اللہ کی فرمانبرداری میں گزار لیتے اور یہ برا دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔ وہاں تو ان کا یہ اندازہ ہوگا اور دنیا میں وہ ایسے اندازے لگاتے ہیں اور ایسے کام کرتے ہیں جیسے انھیں اس دنیا میں ہمیشہ کے لئے رہنا ہے۔ اللہ سے بھی غافل ہیں اور اپنی موت سے بھی۔ دنیا میں بھی ان کے اندازے غلط اور سراسر باطل تھے۔ آخرت میں بھی غلط ہی اندازے لگائیں گے۔ الروم
56 [٦٢] ان کی ایسی قسمیں سن کر ایمان دار انھیں کہیں گے کہ یہ گھڑی دو گھڑی کا معاملہ نہیں تم دھوکہ میں پڑے ہوئے ہو۔ اللہ کے علم یا لوح محفوظ میں نوشتہ کے مطابق تم قیامت کے دن تک ٹھہرے رہے اور دیکھو یہ آج قیامت کا دن ہے اور یہ وہی دن ہے جسے تم ماننے کو قطعاً تیار نہ تھے۔ اور تم اسے جاننا چاہتے بھی نہ تھے۔ الروم
57 [٦٣] قیامت کا دن دنیا میں کئے ہوئے اعمال کے بدلہ کا دن ہوگا، عذر معذرت کا دن نہیں ہوگا۔ دنیا میں تو انھیں کہا جاتا تھا کہ اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ لو۔ توبہ استغفار کرلو اور اپنے پروردگار کو راضی اور خوش کرلو۔ لیکن اس دن ان ظالموں کو یہ بات بھی کوئی نہ کہے گا۔ کیونکہ عذر معذرت اور توبہ تائب کا وقت صرف دنیا میں ہے اور موت تک ہے۔ الروم
58 [٦٤] یعنی موت کے بعد دوسری زندگی میں پیش آنے والے ہر طرح کے حالات سے قرآن کے ذریعہ لوگوں کو خبردار کردیا ہے۔ اب بھی اگر کوئی بدبخت اپنے انجام سے بے خبر رہنا چاہتا ہے تو اس کی مرضی ہے۔ اللہ نے تو ہر طرح سے لوگوں پر حجت تمام کردی ہے اور ان بدبختوں کی تو یہ حالت ہوچکی ہے کہ اگر آپ انھیں کوئی حسی معجزہ بھی دکھا دیں تو یہ کہنے لگیں گے کہ یہ بھی کوئی شعبدہ اور فریب کاری ہی معلوم ہوتی ہے جسے پیغمبر اور اس کے پیروکاروں نے ملی بھگت سے لوگوں کے سامنے پیش کردیا ہے اور وہ آپس میں ہی ایک دوسرے کی تائید و توثیق کرکے دوسروں کو الو بنا رہے ہیں۔ الروم
59 [٦٥] یعنی جب لوگوں کا بغض و عناد اور ضد اور ہٹ دھرمی اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ کوئی سچی بات قبول کرنے کو تیار نہ ہوں۔ تو عین یہی وقت ہوتا ہے جب اللہ ایسے لوگوں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب ان لوگوں میں حق کو قبول کرنے کی استعداد ختم ہوچکی ہے۔ الروم
60 [٦٦] اللہ کا یہ وعدہ اس سورۃ کی آیت نمبر ٤٧ میں گزر چکا ہے اور وہ یہ ہے ﴿حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ یعنی اللہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مومنوں کی مدد کرے۔ آپ کفار کی ایذاؤں پر صبر کیجئے خود بھی اور مسلمانوں کو بھی صبر و برداشت کی تلقین کیجئے۔ اللہ کا وعدہ اپنے وقت پر پورا ہو کے رہے گا۔ [ ٦٧] یعنی ان کافروں کی مکاریوں اور سازشوں سے، ان کے مذاق و تمسخر سے، ان کی اسلام دشمن کارروائیوں سے، ان کی ایذاؤں اور مظالم سے، ان کے منافقانہ سمجھوتوں کی کوششوں سے اور ان کی دھمکیوں سے آپ کے پایۂ ثبات میں ہرگز لغزش نہ آنی چاہئے اور ان کو اسی بات کا یقین آجانا چاہئے کہ آپ اپنے مشن میں صبر و ثبات کا ایسا عظیم پیکر ہیں جسے کسی قیمت پر اپنی جگہ سے ہلایا نہیں جاسکتا۔ الروم
0 لقمان
1 لقمان
2 لقمان
3 [١] قرآن کی اور اس کی آیات کی بعض مقامات پر یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ سب لوگوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے۔ سورۃ بقرہ کی ابتداء میں فرمایا کہ یہ متقین کے لئے ہدایت ہے اور اس مقام پر فرمایا کہ یہ محسنین کے لئے ہدایت ہے۔ تو ان آیات میں کچھ تضاد نہیں۔ اور ان کی تطبیق کی سورت یہ ہے کہ قرآن فی الواقع ایسے لوگوں کے لئے یعنی تمام بنی نوع انسان اور جنوں کے لئے ہدایت کی کتاب ہے، مگر اس کی ہدایت سے مستفید وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو خود بھی ہدایت کے طالب ہوں اللہ سے ڈرنے والے ہوں۔ اس کتاب کے منکر اور بدکار لوگ اس سے مستفید نہیں ہوسکتے۔ ہاں اگر وہ اپنی ضد سے باز آجائیں تو وہ بھی ہدایت پاسکتے ہیں۔ [ ٢] قرآن رحمت کس لحاظ سےہے؟ اور قرآن کی آیات رحمت اس لحاظ سے ہیں کہ قرآن ایک طرز حیات سکھلاتا ہے جو ایک طرف تو اخروی فلاح کا ضامن ہے اور دوسری طرف دنیوی زندگی کے ہر پہلو کی ایسی متوازن اور متناسب راہیں دکھلاتا ہے جس سے نہ فرد کے حقوق مجروح ہوتے ہیں نہ معاشرہ کے اور وہ ان میں حسین امتزاج پیدا کردیتا ہے۔ وہ تدبیر منزل یعنی عائلی زندگی سے لے کر حکمرانی تک بین المملکتی تعلقات اور خارجہ پالیسی کی ایسی معتدل راہ پیش کرتا ہے کہ اگر انسانی عقل ہزاروں سال بھی بھٹکتی پھرتی تو ایسی متوازن راہیں تلاش نہیں کرسکتی تھی۔ اللہ کی یہ انتہائی رحمت اور مہربانی ہے کہ اللہ نے وحی کے ذریعہ انسانوں کو مفت میں ہی ایسی راہیں اور ایسے طریقے بتلا دیئے ہیں۔ لقمان
4 لقمان
5 [٣] اس مقام پر محسنین کی اور سورۃ بقرہ میں متقین کی ان ہی تین صفات کا ذکر فرمایا جو یہاں مذکور ہیں یعنی اقامت صلوٰۃ، ایتائے زکوٰ ۃ اور ایمان بالآخرت یعنی جس شخص میں کم از کم یہ تین صفات پائی جائیں۔ نہ ان کے راہ راست پر ہونے میں کوئی شک ہوسکتا ہے اور نہ فلاح پانے میں۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے سورۃ بقرہ کی ابتدائی پانچ آیات) لقمان
6 [٤]لھوالحدیث سے کیامرادہے؟گانےبجانے اور سازومضراب سے کراہیت:۔ لھوالحدیث سے مراد ہر وہ بات، شغل یا کھیل یا تفریح ہے۔ جو انسان کو اللہ کی یاد سے غافل کر دے یا غافل رکھے۔ خواہ یہ شغل، گانا بجانا ہو یا دلچسپ ناول اور ڈرامے ہوں یا کلب گھروں کی تفریحات ہوں یا ٹی وی کا شغل ہو یا ڈرامے اور سینما بینی ہو۔ غرض لھوالحدیث کا اطلاق عموماً مذموم اشغال پر ہوتا ہے۔ اب اس لفظ کی تشریح مندرجہ ذیل احادیث و آثار کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیے : (١) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ قسم کھا کر کہا کرتے تھے کہ قرآن میں لھوالحدیث کا لفظ گانا اور موسیقی کے لئے آیا ہے۔ نیز آپ فرمایا کرتے کہ گانا بجانا دل میں یوں نفاق پیدا کرتا ہے جیسے پانی سے گھاس اور سبزہ اگ آتا ہے (فتاویٰ ابن باز۔ اردو ترجمہ ج ١ ص ٣١٣) (٢) حضرت ابو امامہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے اور میرے پروردگار عزوجل نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں باجوں گاجوں، ساز و مضراب، بتوں، صلیبوں اور امر جاہلیت کو ختم کروں‘‘ (احمد بحوالہ مشکوۃ۔ کتاب الحدود۔ باب بیان الخمرو وعید شاربہا فصل ثالث) (٣) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’گانا بجانا کرنے والی عورتوں کو نہ بیچو، نہ خریدو اور نہ انھیں یہ کلام سکھلاؤ اور ان کی اجرت حرام ہے‘‘ (ترمذی۔ ابو اب البیوع۔ باب کراہیۃ المغنیات) (٤) ابو مالک اشعری کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ میری امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو زنا کو، ریشم کو، شراب کو اور معازف یعنی آلات ساز و مضراب اور گانے بجانے کو حلال کرلیں گے۔ (بخاری۔ کتاب الاشربہ باب ما جاء فیمن یستحل الخمرو يسمیہ بغيراسمہ) یعنی ان چیزوں کے دوسرے نام رکھ کر انھیں جائز بنالیں گے۔ نضربن حارث کا اسلام روکنے میں کردار:۔ اور اس آیات کا شان نزول یہ بیان کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو غیر موثر بنانے کے لئے جو لوگ ادھار کھائے بیٹھے تھے ان میں سے ایک نضر بن حارث بھی تھا۔ اس کا طریق کار ابو لہب سے بالکل جداگانہ تھا۔ ایک دفعہ وہ سرداران قریش سے کہنے لگا : قریشیو! محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے سب سے زیادہ پسندیدہ آدمی تھے۔ سب سے زیادہ سچے اور سب سے زیادہ امین تھے اب اگر وہ اللہ کا پیغام لے کر آئے ہیں تو تم کبھی انھیں شاعر کہتے ہو، کبھی کاہن، کبھی پاگل اور کبھی جادوگر کہتے ہو۔ حالانکہ وہ نہ شاعر ہیں، نہ کاہن، نہ پاگل اور نہ جادوگر ہیں۔ کیونکہ ہم ایسے لوگوں کو خوب جانتے ہیں۔ اے اہل قریش! سوچو! تم پر یہ کیسی افتاد آپڑی ہے۔ پھر اس افتاد کا جو حل نضر بن حارث نے سوچا وہ یہ تھا کہ وہ خود حیرہ گیا۔ وہاں سے بادشاہوں کے حالات اور رستم و اسفند یار کے قصے سیکھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاں کہیں بھی جاکر اپنا پیغام سناتے، ابو لہب کی طرح نضر بن حارث بھی وہاں پہنچ کر یہ قصے سناتا پھر لوگوں سے پوچھتا کہ آخر کس بنا پر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلام مجھ سے بہتر ہے؟ علاوہ ازیں اس نے چند لونڈیاں بھی خرید رکھی تھیں۔ جب کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف مائل ہونے لگتا تو وہ کسی لونڈی کو اس پر مسلط کردیتا کہ وہ لونڈی اسے کھلائے پلائے اور اس کی فکر کا رخ موڑ دے۔ اسی سلسلہ میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن ہشام۔ ٢١: ٢٧١) [ ٥] بغیر علم کی نسبت اللہ کی راہ کی طرف بھی ہوسکتی ہے اور لھوالحدیث کی طرف بھی۔ پہلی صورت تو ترجمہ سے واضح ہے۔ یعنی اس کا اللہ کی راہ سے بہِکانا محض بغض و عناد اور ضد پر مبنی ہے۔ اس کے لئے اس کے پاس کوئی عملی دلیل نہیں ہے۔ اور دوسری صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ وہ اس قدر جاہل ہے جو اللہ کی سیدھی راہ اور ہدایت جیسی قیمتی چیز کے عوض تباہ کن چیز خرید رہا ہے۔ [ ٦]ثقافتِ جاہلیہ :۔ یعنی وہ شخص گانا، بجانا، قصے کہانیاں اور رقص و سرور جیسی ثقافتی سرگرمیوں کے ذریعہ لوگوں کو اللہ کی آیات سے دور رکھنا اور ان آیات کا مذاق اڑانا چاہتا ہے۔ [ ٧] اس کے جرم اور اس کی سزا میں مناسبت یہ ہے کہ وہ اللہ کی آیات اور اس کے رسول کی تذلیل کرنا چاہتا ہے تو اس کو عذاب بھی ذلیل کرنے والا دیا جائے گا۔ لقمان
7 [٨] یہ ہے اللہ کی آیات سے اس کی شان بے نیازی گویا وہ اللہ کی آیات سننے کی ضرورت ہی نہیں سمجھتا اور اگر کانوں میں آواز پڑ بھی جائے تو ایسے سنی ان سنی کردیتا ہے جیسے وہ ثقل سماعت کی وجہ سے بات سن ہی نہ پایا ہو۔ اور یہ سب کچھ وہ ازراہ تکبر و نخوت کی بنا پر کرتا ہے لہٰذا اسے اس تکبر کی سزا دردناک عذاب کی صورت میں ملے گی۔ لقمان
8 لقمان
9 [٩] یعنی اللہ نے مومنوں سے جن جن نعمتوں اور باغات دینے کا وعدہ فرمایا ہے وہ انھیں دینے پر قادر بھی ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ وہ نعمتیں مومنوں کو مل نہ سکیں۔ اور وہ حکیم بھی ہے نہ تو وہ کسی مستحق کو محروم رکھے گا اور نہ ہی غلط بخشیوں کا ہی وہاں کچھ امکان ہے۔ لقمان
10 [١٠]سماء اورفلک میں فرق:۔ اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ ستون ہیں تو سہی مگر تمہیں نظر نہیں آتے اور دوسرا یہ کہ تم دیکھ تو رہے ہو کہ ستون وغیرہ کچھ نہیں اور ستونوں کے سہاروں کے بغیر ہی قائم ہیں۔ اس مقام پر دو تین امور کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ جس جس مقام پر اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کا اکٹھا ذکر کیا ہے اس سے مراد پوری کائنات اور نظام کائنات لیا جائے گا۔ دوسرا یہ کہ لفظ آسمان کے لئے عربی میں دو لغت ہیں ایک فلک (ج افلاک) دوسرا سماء (ج سماوات) فلک سے مراد سیاروں کے مدارات ہیں جن پر وہ گھوم رہے ہیں۔ اور سماء سے مراد بلندی بھی ہے اور آسمان کا وجود بھی جسے اللہ تعالیٰ نے ایک ٹھوس حقیقت اور جسم رکھنے والی چیز کے طور پر پیش فرمایا ہے۔ اور یہ وضاحت اس لئے ضروری ہے کہ موجودہ نظریہ ہیئت کے مطابق آسمان کوئی چیز نہیں بلکہ فقط حد گناہ کا نام ہے۔ جبکہ آسمانوں کا ذکر قرآن میں متعدد بار اور اس کے علاوہ احادیث میں بھی ہے۔ اور اس سورت میں آیا ہے کہ آسمانوں میں دروازے بھی ہیں۔ لہٰذا لفظ سماء کی تحقیق ضروری ہے۔ لفظ سماء کےمختلف معانی :سات زمینوں کی تخلیق:۔سماء کا لفظ بلندی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے یعنی ہر چیز جو ہمارے سر پر سیاہ فگن ہو وہ سماء ہے۔ سماء کی ضد ارض ہے جس کے معنی زمین بھی ہے اور پستی بھی۔ اور یہ دونوں الفاظ اسمائے نسبیہ میں سے ہیں۔ یعنی ایک ہی چیز اپنے سے پست چیز کے مقابلہ میں سماء بھی ہے اور وہی چیز اپنے سے بلند چیز کے مقابلہ ارض بھی۔ یعنی ہماری زمین ارض ہے تو پہلا آسمان اس کے مقابلہ میں سماء ہے۔ اور یہی پہلا آسمان دوسرے آسمان کے مقابلہ میں ارض ہے اور تیسرے آسمان کے مقابلہ میں دوسرا آسمان ارض (نمبر ٣) ہوئی۔ گویا اس لحاظ سے سات آسمانوں کے مقابلہ سات زمینیں بھی آگئیں جیسا کہ ارشاد باری ہے۔ ﴿اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرضی اللہ عنہ مِثْلَہُنَّ ﴾(۱۲:۶۵) یعنی اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان اور ویسی ہی زمینیں پیدا کیں۔ کائنات کی وسعت:۔ پھر یہ بلندی تھوڑی سی ہو تب بھی اس پر سماء کے لفظ کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ جیسے ارشاد باری ہے۔ ﴿وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً ﴾ (۲۲:۲)(اور اس نے آسمان سے مینہ برسایا) یہاں سماء سے مراد بادل ہیں جو میل ڈیڑھ میل کی بلندی پر اڑتے پھرتے ہیں اور اس معمولی سی بلندی کے لئے بھی سماء (آسمان) کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جبکہ درج ذیل آیت :﴿اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْیَا بِزِیْنَۃِ الْکَـوَاکِبِ﴾ (۶:۳۷)(بیشک ہم نے ہی آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے مزین کیا) میں اتنی زیادہ بلندی مراد ہے جتنی دوری پر ستارے چمکتے ہیں۔ خواہ وہ دوری لاکھوں میل پر مشتمل ہو یا کروڑہا اور ارب ہا میلوں پر اور درج ذیل آیت میں سماء (آسمان) کا لفظ یعنی بہت ہی زیادہ بلندی، اتنی بلندی جو سات آسمانوں سے بھی زیادہ ہو یعنی لامحدود بلندی کے لئے استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری ہے۔ ﴿ثُمَّ اسْتَوٰٓی اِلَی السَّمَاءِ فَسَوّٰیھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ ﴾(۲۹:۲) (پھر اللہ تعالیٰ آسمان کی طرف متوجہ ہوا تو انھیں ٹھیک سات آسمان بنا دیا) موجودہ ہیئت دان کسی آسمان کے قائل نہیں ہیں ہم ان سے گزارش کریں گے کہ ان کی تمام تر تحقیقات کی رسائی ابھی پہلے آسمانی یعنی آسمان دنیا تک بھی نہیں ہوسکی تو پھر وہ اس کی تردید کیونکر کرسکتے ہیں؟ ان کی تحقیق خواہ کتنی طاقتور اور جدید قسم کی دوربینوں سے ہو خواہ وہ پلوٹو کی دوری ہو یا الفا قنطورس کی یا قلب عقرب کی یہ سب کچھ آسمان دنیا کی زینت بنے گا۔ اور جو کچھ ابھی مزید تحقیق کے دائرہ میں آئے گا وہ بھی آسمان دنیا تک ہی محدود ہوگا۔ باقی چھ آسمان اس آسمان دنیا سے ماوراء اور ان تک دسترس انسان کی طاقت سے باہر ہے۔ ان تک رسائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کی قدرت کاملہ کی وجہ سے ہوئی۔ اور وحی کے ذریعہ ہی ہمیں سات آسمانوں، ان کی جسامت اور ان میں بلندی کا علم ہوا ہے۔ آج کا ہیئت دان بھی جب کائنات کی وسعت کا خیال کرے ورطہ حیرت میں پھنس جاتا ہے تو دبی زبان سے اس کے منہ سے ایسے الفاظ نکل جاتے ہیں جن سے اس علم وحی کی تائید ہوتی ہے اور وہ برملا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ اس لامحدود کائنات کا احاطہ کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ جتنی طاقتور دوربینیں وہ ایجاد کرتے ہیں۔ کائنات اس کے سامنے اور بھی زیادہ وسیع ہوتی جاتی ہے۔ [ ١١] تشریح کے لئے دیکھئے سورۃ نحل کی آیت نمبر ١٥ کا حاشیہ نمبر ١٥ اور سورۃ انبیاء کا آیت نمبر ٣١ کا حاشیہ نمبر ٢٧ [ ١٢] جدید تحقیق کے مطابق جانداروں کی دس لاکھ انواع کا علم انسان کو حاصل ہوچکا ہے۔ اور اسی طرح دو لاکھ کے لگ بھگ نباتات کی انواع کا۔ جانداروں کی طرح نباتات، پودوں اور درختوں میں نر اور مادہ موجود ہوتے ہیں۔ اور ان معاملات میں جتنی بھی تحقیق ہورہی ہے۔ زیادہ سے زیادہ عجائبات قدرت یا اللہ کی نشانیاں انسان کے علم میں آرہی ہیں۔ لقمان
11 [١٣] یعنی جو کچھ اوپر بیان ہوا ہے وہ سب کچھ تو اللہ نے پیدا کیا ہے۔ اب جن چیزوں کو تم نے معبود بنا رکھا ہے۔ بتلاؤ انہوں نے کیا پیدا کیا ہے؟ پھر ایک غیر خالق کو معبود بنا لینا سراسر گمراہی نہیں تو اور کیا ہے؟ لقمان
12 [١٤]سیدنا لقمان کون تھے۔۔۔۔شکرکی تلقین اور اللہ کی بےنیازی:۔ حضرت لقمان حبشہ یا مصر کے رہنے والے تھے۔ بعد میں شام میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ حضرت داؤد علیہ السلام کا زمانہ پایا۔ آپ کی نبوت میں اختلاف ہے اور راجح یہی بات ہے کہ آپ نبی نہیں تھے۔ البتہ حکیم اور دانا ضرور تھے۔ عرب بھر میں وہ اپنی حکمت و دانائی کی وجہ سے مشہور تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں جو حکمت اور دانائی کی باتیں سکھلائی تھیں ان میں سرفہرست یہ بات تھی کہ اگر اللہ کی نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کیا جائے تو اس کا فائدہ شکر ادا کرنے والے کو پہنچتا ہے۔ شکر میں اللہ تعالیٰ نے یہ تاثیر رکھ دی کہ وہ مزید توجہ اور مہربانی کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اللہ کا اس لئے بھی شکر ادا کرنا چاہئے تاکہ وہ مزید انعامات فرمائے اور بندوں کا بھی ضرور احسان مند ہونا چاہئے جو کوئی احسان کرے۔ اور یہ ایسی باتیں ہیں جو تقریباً ہر انسان کے تجربہ میں آتی رہتی ہیں۔ اور ناشکری اور نمک حرامی یا احسان فراموشی کے نتائح اس کے بالکل برعکس نکلتے ہیں۔ پہلی نعمتیں بھی چھین لی جاتی ہیں۔ بہرحال شکر کرنے کا فائدہ بھی شکر کرنے والے کو ہی پہنچتا ہے اور ناشکری کا نقصان بھی اسے ہی پہنچتا ہے۔ رہا اللہ کا معاملہ تو اللہ لوگوں کے شکر یا ناشکری سے بے نیاز ہے۔ کیونکہ اس کے سب کارنامے ہی ایسے ہیں جو قابل ستائش ہیں اور وہ اپنی ذات میں ہی محمود ہے۔ یہ تھی وہ پہلی دانائی کی بات جو اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان علیہ السلام کو سکھلائی تھی۔ لقمان
13 [١٥]بیٹے کوپہلی نصیحت، اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا:۔ ایک دفعہ حضرت لقمان نے چند نصیحتیں اپنے بیٹے کو فرمائیں کہ وہ اتنی اہم تھیں کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ذکر فرمایا۔ دنیا میں اولاد ہی ایک ایسا رشتہ ہے جس کے متعلق انسان انتہائی خلوص برتتا ہے اور نفاق نہیں کرسکتا۔ اور اولاد ہی کے متعلق اس کی آرزو ہوسکتی ہے کہ وہ ہر بھلائی کی بات میں اس سے آگے نکل جائے۔ حتیٰ کہ ایسی آرزو انسان اپنے حقیقی بہن بھائیوں اور دوستوں تک سے بھی نہیں کرسکتا۔ چنانچہ پہلی نصیحت جو حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو وہ یہ تھی کہ اللہ کے ساتھ کبھی کسی کو شریک نہ بنانا۔ کیونکہ دنیا میں سب سے بڑی ناانصافی اور اندھیر کی بات یہی شرک ہی ہے۔ شرک مجسم ظلم اور سب سے بڑا ظلم ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے بھی واضح ہوتا ہے : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب (سورہ انعام کی) یہ آیت اتری۔ ﴿اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ ﴾ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر بہت شاق گزری۔ وہ کہنے لگے ’’ہم میں سے کون ایسا ہے جس نے ایمان کے ساتھ ظلم (یعنی کوئی گناہ) نہ کیا ہو۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں بتلایا کہ اس آیت میں ظلم سے ہر گناہ مراد نہیں ہے (بلکہ شرک مراد ہے) کیا ہم نے لقمان کا قول نہیں سنا۔ جو انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا تھا۔ ﴿إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ﴾ (بخاری۔ کتاب التفسیر) اللہ کا اپنے بندوں پرا ور بندوں کا اپنے اللہ پرحق:۔ یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ اہل مکہ ایک طرف تو لقمان حکیم کے حکیم اور دانا ہونے کے قائل تھے، دوسری طرف شرک میں بھی بری طرح مبتلا تھے۔ انھیں بتلایا جارہا ہے۔ کہ لقمان نے اپنے بیٹے کو جو نصحیتیں کی تھیں ان میں سرفہرست شرک سے ان کی نفرت اور بیزاری تھی۔ کیونکہ اللہ کا بندے پر سب سے بڑا حق یہ ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ’’تجھے معلوم ہے کہ اللہ کا اس کے بندوں پر کیا حق ہے اور بندوں کا اللہ پر کیا حق ہے؟‘‘ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ : ’’اللہ اور اس کا پیغمبر ہی خوب جانتے ہیں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کا بندوں پر حق یہ ہے کہ وہ اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں۔ اور بندوں کا اللہ پر یہ حق ہے کہ جو بندہ شرک نہ کرتا ہو اللہ اسے عذاب نہ کرے‘‘ (ہمیشہ دوزخ میں نہ رکھے) میں نے عرض کیا : ’’یارسول اللہ! کیا میں لوگوں کو یہ خوشخبری نہ سنا دوں؟‘‘ فرمایا : ’’ایسا نہ کرو ورنہ وہ اسی پر بھروسہ کر بیٹھیں گے‘‘ (بخاری۔ کتاب الجہاد والسیر۔ باب اسم الفرس والحمار) لقمان
14 [١٦] آیت نمبر ١٤ اور ١٥ لقمان کی نصائح کے درمیان اللہ تعالیٰ کی طرف سے جملہ معترضہ کے طور پر بیان ہوئی ہیں۔ کیونکہ ان آیات کا بھی بالواسطہ شرک کی مذمت ہی سے تعلق ہے۔ [ ١٧] اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر اپنے حق کے ساتھ والدین سے بہتر سلوک کا ذکر فرمایا ہے اس کی وجہ اور تشریح کے لئے دیکھئے سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر ٢٣ اور ٢٤ کے حواشی نیز درج ذیل حدیث بھی والدین کی اطاعت کی اہمیت پر پوری روشنی ڈالتی ہے : حدیث جریج:۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تین بچوں کے سوا کسی نے مہد میں کلام نہیں کیا۔ عیسیٰ بن مریم اور صاحب جریج۔ جریج ایک عابد تھا۔ جس نے ایک عبادت خانہ بنا رکھا تھا ایک دن اس کی ماں آئی اور وہ نماز پڑھ رہا تھا۔ ماں نے کہا : اے جریج! اس نے دل میں کہا یا اللہ! ایک طرف ماں ہے اور ایک طرف نماز۔ وہ نماز میں لگا رہا۔ حتیٰ کہ اس کی ماں واپس چلی گئی۔ دوسرے دن پھر اس کی ماں آئی اور پکارا اے جریج! اس نے دل میں کہا : یا اللہ! ایک طرف ماں ہے اور ایک طرف نماز، آخر وہ نماز میں ہی لگا رہا۔ (اب اس کی ماں کے منہ سے بددعا نکل گئی) کہنے لگی ’’یا اللہ اسے موت نہ دینا جب تک یہ کسی بدکار عورت کا منہ نہ دیکھ لے‘‘ بنی اسرائیل میں جریج اور اس کی عبادت کا چرچا ہونے لگا۔ ان میں ایک بدکار عورت تھی جس کی خوبصورتی کی مثال دی جاتی تھی۔ وہ کہنے لگی : ’’اگر تم چاہتے ہو تو میں اسے پھنساؤں؟‘‘ چنانچہ اس نے اپنے آپ کو جریج پر پیش کیا لیکن وہ اس کی طرف متوجہ نہ ہوا۔ پھر وہ ایک چرواہے کے پاس گئی جو اس کے عبادت خانہ کے پاس ٹھہرا کرتا تھا اور اس نے اپنے آپ کو اس کے حوالہ کردیا۔ چنانچہ چرواہے نے اس سے صحبت کی تو وہ حاملہ ہوگئی۔ پھر جب بچہ پیدا ہوا تو کہنے لگی ’’یہ جریج کا بچہ ہے‘‘ لوگ آئے۔ اسے عبادت خانہ سے نکالا اور اسے گرا دیا اور اس کی پٹائی کرنے لگے۔ جریج نے پوچھا : ’’کوئی بات تو بتلاؤ؟‘‘ وہ کہنے لگے : تو نے اس فاحشہ سے زنا کیا اور اب تو اس کے بچہ بھی پیدا ہوچکا ہے جریج نے کہا : ’’وہ بچہ کہاں ہے؟‘‘ لوگ بچہ لے آئے تو جریج نے کہا : ذرا ٹھہر! میں نماز پڑھ لوں۔ پھر وہ نماز سے فارغ ہو کر بچہ کے پاس آیا۔ اس کے پیٹ میں کچو کا دیا اور کہا : بچے! بتلاؤ! تمہارا باپ کون ہے؟ بچہ بول اٹھا : فلاں چرواہا ہے۔ پھر تو لوگ جریج کے پاس آکر اسے بوسے دینے لگے اور کہنے لگے کہ ہم تمہارے لئے سونے کا عبادت خانہ بنا دیتے ہیں۔ جریج نے کہا : نہیں بس ایسا ہی مٹی کا بنا دو۔ چنانچہ انہوں نے عبادت خانہ بنایا۔ تیسرے بنی اسرائیل میں ایک عورت جو اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھی ادھر سے ایک نہایت خوش وضع سوار گزرا وہ عورت اس سوار کو دیکھ کر کہنے لگی : ’’یا اللہ! میرے بچے کو اس سوار جیسا بنا دے‘‘ بچے نے ماں کی چھاتی چھوڑ کر کہا : ’’یا اللہ! مجھے ایسا نہ بنانا‘‘ پھر وہ دودھ پینے لگا۔ پھر وہاں سے ایک لونڈی گزری (جسے لوگ مارتے جاتے تھے) وہ عورت کہنے لگی ’’یا اللہ میرے بیٹے کو ایسا نہ بنانا‘‘ بچے نے چھاتی چھوڑ دی اور بول اٹھا! یا اللہ مجھے ایسا ہی بنانا۔ میں نے اپنے بچے سے کہا کہ تو ایسا کیوں کہتا ہے؟ بچے نے کہا : وہ سوار تو ظالم لوگوں سے تعلق رکھتا ہے اور ظالم ہے اور اس لونڈی کے متعلق لوگ کہتے ہیں کہ اس نے چوری کی اور زنا کیا۔ حالانکہ اس نے کچھ بھی نہیں کیا۔ (مسلم۔ کتاب البروالصلۃ باب تقدیم برا الوالدین علی التطوع بالصلوٰۃ وغیرھا بخاری۔ بخاری۔ کتاب الانبياء۔ باب واذکر فی الکتب مریم) یہ حدیث، حدیث جریج کے نام سے مشہور ہے اور اس سے علماء نے یہ مسئلہ استنباط کیا ہے کہ اگر اولاد نفلی نماز میں مشغول ہو اور والدین میں سے کوئی اسے پکارے تو اسے نماز توڑ کر بھی اس آواز پر لبیک کہنا چاہئے۔ اور ان کا حکم بجا لانا چاہئے۔ [ ١٨] رضاعت کی مدت:۔اس آیت سے نیز سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٢٣٣ سے صرا حتاً یہ معلوم ہوتا ہے کہ رضاعت کی زیادہ سے زیادہ مدت دو سال ہے۔ اس مدت میں کمی تو ہوسکتی ہے اگر والدین کسی ضرورت کے تحت دو سال سے پہلے دودھ چھڑانا چاہیں تو چھڑا سکتے ہیں۔ لیکن اس مدت میں بیشی نہیں ہوسکتی۔ نیز سورۃ احقاف کی آیت نمبر ١٥ میں فرمایا کہ حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت تیس ماہ ہے اس میں بھی علماء نے رضاعت کی مدت دو سال شمار کرکے حمل کی مدت میں کمی کے امکان یعنی چھ ماہ کو بھی ممکن قرار دیا ہے۔ لیکن ان سب تصریحات کے باوجود امام ابو حنیفہ رضاعت کی زیادہ سے زیادہ مدت اڑھائی سال قرار دیتے ہیں۔ اور وہ اپنی اس رائے میں منفرد ہیں اور کسی فقہ کے امام نے بھی ان کی تائید نہیں کی۔ اور اس مسئلہ کی اہمیت یہ ہے کہ حرمت نکاح کا فیصلہ اسی مدت کی صحیح تعیین کی بناء پر ہی کیا جاسکتا ہے۔ لقمان
15 [١٩] السماء کی تشریح کے لئے دیکھئے سورۃ عنکبوت کی آیت نمبر ٨ کا حاشیہ نمبر ١٢ [ ٢٠] یعنی والدین بھی اگر شرک پر یا دین کے خلاف کسی بات کے لئے مجبور کریں تو ان کی بات اللہ کے حکم کے مقابلہ میں تسلیم نہیں کی جاسکتی۔ البتہ دنیوی معاملات میں ان سے اچھا سلوک کیا جائے خواہ والدین کافر ہی کیوں نہ ہو۔ مثلاً محتاج ہوں، تو ان کی مالی اعانت کی جائے۔ اور دین کے علاوہ دوسری باتوں میں ان کی اطاعت کی جائے۔ ان کا ادب و احترام ملحوظ رکھا جائے۔ ان سے محبت اور شفقت سے سلوک کیا جائے۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ اللہ کے مخلص بندوں کی راہ ہے۔ لہٰذا انہی کی راہ اختیار کرنی چاہئے۔ [ ٢١] یعنی والدین کو بھی اور اولاد کو بھی سب کو میرے حضور ہی پیش ہونا ہے۔ میں سب کو بتلا دوں گا کہ زیادتی اور تقصیر کسی کی تھی۔ لقمان
16 [٢٢]اللہ تعالیٰ کاعلم اور قدرت:۔ اس آیت میں حضرت لقمان نے اللہ تعالیٰ کے علم غیب کی وسعت بھی بیان فرمائی اور اس کی قدرت بھی۔ علم غیب کی اس طرح کہ تم کوئی چھوٹے سے چھوٹا کام کرو۔ علانیہ کرو یا کئی پردوں میں چھپ کر کرو۔ وہ تمہارے اعمال سے خوب واقف ہے۔ تمہارے دلوں کے خیالات تک جانتا ہے۔ اس کے پاس تمہارا پورا پورا ریکارڈ بھی موجود ہے۔ لہٰذا جو کام بھی کرو سوچ سمجھ کر اور اللہ سے ڈر کر کرو۔ اور اس کی قدرت کا یہ عالم ہے کہ موت کے بعد تمہیں دوبارہ اپنے پاس حاضر کرنا تو بہت بڑی بات ہے۔ وہ تو رائی کے ایک دانہ تک کو جو کسی کھوہ کی تاریکیوں میں پڑا ہو، اپنے پاس لاحاضر کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ حضرت لقمان یہ بات اپنے بیٹے کو سمجھا کر اس کے اخلاق کو درست کرنا اور اس میں تقویٰ کی صفت پیدا کرنے چاہتے تھے۔ لقمان
17 سیدنالقمان کی اپنے بیٹے کو دوسری نصیحتیں:۔ [٢٣] مصائب برداشت کرنا پیغمبروں کی میراث ہے:۔ یعنی نماز کی ہمیشگی کے ساتھ باجماعت ادا کرتے رہنا یہ کوئی معمولی کام نہیں بلکہ یہ باہمت لوگوں کا کام ہے۔ اسی طرح اچھے کاموں کا حکم دینا اور لوگوں کو برے کاموں سے روکتے رہنا بھی عام لوگوں کے بس کی بات نہیں بلکہ یہ بھی صاحب عزم لوگ ہی کرسکتے ہیں۔ اس سے یہ بھی از خود معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ دوسروں کو اچھے کاموں کا حکم دیں اور برے کاموں سے رکنے کا فریضہ سرانجام دیں انھیں لامحالہ لوگوں کی طرف سے ایذائیں پہنچیں گی۔ کیونکہ یہ پیغمبروں کا اسوہ ہے اور اسی لئے پیغمبروں کو لوگ ستاتے اور دکھ پہنچاتے تھے۔ اسی لئے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ اس راہ میں اگر مجھے دکھ اور ایذا پہنچے تو اسے خندہ پیشانی سے برداشت کر اور یہ کہ مصائب پر صبر کرنا بھی کوئی معمولی کام نہیں۔ صاحب عزم و ہمت ہی یہ تینوں کام بجا لاسکتے ہیں۔ لقمان
18 [٢٤] متکبرانہ حرکات:۔گال پھلا پھلا کر باتیں کرنا اور اکڑ اکڑ چلنا یہ سب خود پسندوں اور متکبروں کی ادائیں ہیں۔ متکبر لوگوں کی گفتگو سے، وضع قطع سے، چال ڈھال سے غرضیکہ ان کی ایک ایک ادا سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ شخص اپنے آپ کو دوسروں کے مقابلہ میں بہت کچھ سمجھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو ایسے لوگوں کی ایک ایک حرکت سخت ناگوار ہے (مزید تشریح کے لئے دیکھئے سورۃ بنی اسرائیل کی آیت نمبر ٣٧ کا حاشیہ نمبر ٤٧ اور سورۃ الفرقان کی آیت نمبر ٦٣ کا حاشیہ نمبر ٨٠) لقمان
19 [٢٥] ضرورت کےلیےبلندآوازمذموم نہیں بلکہ جودھونس جمانےکےلیےہو:۔ بعض دفعہ ضرورت کی وجہ سے انسان کو بلند آواز سے پکارنا پڑتا ہے۔ مثلاً دو چار آدمی آس پاس بیٹھے ہوں تو پست آواز سے کام چل جاتا ہے۔ مگر زیادہ آدمیوں کو بات سنانا مقصود ہو یا کوئی شخص خطاب کر رہا ہو اذان دیتے وقت انسان کو بلند آواز نکالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور پست آواز سے کام ہی نہیں چلتا۔ ایسے مواقع پر بلند آواز سے بات کرنا یا خطاب کرنا ہرگز مذموم نہیں ہے۔ اسی طرح بعض دفعہ استاد کو اپنے شاگرد کو سرزنش کرنے یا ڈانٹنے کی ضرورت ہوتی ہے اس وقت بھی اگر وہ آواز پست اور نرم لہجہ رکھے گا تو شاگرد پر خاک بھی اثر نہ ہوگا۔ مذموم چیز یہ ہے کہ کوئی شخص از راہ تکبر دوسروں پر دھونس جمانے اور انھیں ذلیل یا مرعوب کرنے کے لئے بتکلف گلا پھاڑے یا چلا کر بات کرے۔ اس غرض سے جب کوئی چلا چلا کر بولتا ہے تو بسا اوقات آواز بے ڈھنگی اور بے سری ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ کہ اگر یہ بھی کوئی خوبی کی بات ہوتی تو یہ کام تو گدھے تم سے اچھا کرسکتے ہیں۔ حالانکہ ان کی آواز سے سب نفرت کرتے ہیں۔ لقمان
20 [٢٦] تسخیرکائنات کا مفہوم:۔ تسخیر کائنات کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ کائنات کی ہر چیز انسان کی خادم ہے اور انسان مخدوم ہے۔ زمین، سمندر، پانی، ہوائیں، پہاڑ، چاند، سورج، ستارے یہی موٹی موٹی اشیائے کائنات گنی جاتی ہیں۔ ان کے انسان کا خادم ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ اگر ان میں سے ایک چیز بھی نہ ہو تو انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔ مگر انسان کے بغیر ان چیزوں میں سے کسی کا کچھ بھی نہیں بگڑتا۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ زمین میں جتنی بھی اشیاء موجود ہیں۔ خواہ وہ جمادات ہو یا نباتات ہوں یا حیوانات ہوں اللہ نے انسان کو اتنی عقل عطا فرما دی ہے کہ وہ ان میں سے جس کو چاہے اپنے قابو میں لاسکتا ہے اور اس سے حسب ضرورت فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ وہیں وہ چیزیں جن کا تعلق زمین سے نہیں مثلاً سورج، چاند، ستارے اور ہوائیں وغیرہ تو ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایسے قوانین بنا دیئے ہیں اور انھیں ایسے نظم و ضبط سے جکڑ رکھا ہے کہ انسان ان سے فائدے اٹھا سکتا ہے۔ اور اپنے معمولات زندگی اور کاروبار وغیرہ ٹھیک طرح سے سرانجام دے سکتا ہے۔ وہ مدتوں پہلے یہ معلوم کرسکتا ہے کہ سورج گرہن یا چاند گرہن کب لگے گا۔ بحر و بر کی تاریکیوں میں وقت اور راستے اور سمتیں معلوم کرسکتا ہے یعنی کہ ہزارہا سال بعد تک کے لئے تقویم بھی تیار کرسکتا ہے۔ اور نت نئی سے نئی ایجادات بھی وجود میں لاسکتا ہے اور یہی تسخیر کائنات کا مطلب ہے۔ تسخیر کائنات کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان پہلے اپنے قریبی سیارہ چاند پر پہنچنے کی کوشش کرے پھر دوسرے سیاروں پر پہنچنے میں اپنی قیمتی عمر برباد کرے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ : تو کار جہاں رانکو ساختی کہ باآسمان نیز پرداختی؟ یعنی اس دنیا میں جو تیرے کرنے کے کام تھے کیا تو انھیں بخوبی سرانجام دے چکا ہے کہ اب تجھے آسمان پر اڑنے کی فکر پڑگئی ہے۔ [ ٢٧]ظاہری اور باطنی نعمتوں سے مراد؟ ظاہری نعمتیں وہ ہیں جن کو ہم حواس خمسہ کے ذریعہ معلوم کرسکتے ہیں۔ اور ان کا تعلق ہماری مادی زندگی اور معاشیات وغیرہ سے ہے۔ اور یہ بھی لاتعداد ہیں۔ اور باطنی سے مراد وہ نعمتیں ہیں جن سے ہماری اخلاقی تربیت ہوتی ہے اور روح کا تزکیہ ہوتا ہے۔ اور یہ بھی لاتعداد اور ان کا ذریعہ معلومات وحی الٰہی ہے۔ پھر کچھ ایسی نعمتیں ہیں جن کا تعلق دونوں سے ہے۔ مثلاً آنکھ سے ہم دیکھتے ہیں یہ آنکھ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ لیکن قوت باصرہ کا علم اس سے علیحدہ چیز ہے اسی طرح انسان کی قوت سامعہ، قوت ہاضمہ، قوت متخیلہ، قوت دافعہ وغیرہ بے شمار قوتیں انسان کے جسم کے اندر کام کر رہی ہیں۔ اگر یہ ٹھیک کام کرتی رہیں تو انسان تندرست رہتا ہے اگر ان میں سے کسی ایک میں بھی گڑ بڑ ہوجائے تو انسان بیمار پڑجاتا ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ تندرستی ہزار نعمت ہے۔ یہی وہ قسما قسم کی نعمتیں ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے خود ہی فرما دیا کہ ’’اگر تم اللہ کی نعمتیں گننا چاہو بھی تو کبھی ان کو شمار نہ کرسکو گے‘‘ (١٤: ٢٤، ١٦: ١٨) [ ٢٨] یعنی اللہ کی ان گنت نعمتوں کے باوجود کچھ لوگ ایسے نمک حرام ہیں کہ اللہ کے بارے میں بحث کرنے لگتے ہیں کہ اللہ کی ذات موجود بھی ہے یا نہیں یا اس کی صفات اور قدرتوں میں جھگڑا کرنے لگتے ہیں۔ اس آیت کی تشریح کے لئے دیکھئے سورۃ حج کی آیت نمبر ٨ کا حاشیہ نمبر ٨) لقمان
21 [٢٩] تقلیدآباء شیطان کی پیروی ہے:۔ تقلید آباء کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ بزرگوں میں سے کسی ایک نے کوئی غلطی کی۔ کوئی غلط عقیدہ اپنایا یا کوئی بدعی کام شروع کردیا۔ پھر بعد کی نسلوں نے بزرگوں سے عقیدت کی بنا پر اس غلطی کو درست تسلیم کرتے ہوئے رائج کرلیا۔ اور اس کی تحقیق کی کسی نے ضرورت ہی نہ سمجھی۔ اس آیت میں دو باتوں کی صراحت کی گئی ہے۔ ایک یہ کہ تقلید آباء بلاتحقیق اور شیطان کی پیروی کی ایک ہی چیز ہے۔ اور دوسرے یہ کہ شیطان کی پیروی کا لازمی نتیجہ جہنم کا عذاب ہے۔ گویا ان سے سوال یہ کیا جارہا ہے کہ اگر شیطان تمہارے آباء و اجداد کو جہنم کی طرف لے جارہا ہو تو بھی تم اپنے آباء واجداد کی پیروی کرو گے؟ لقمان
22 [٣٠]شریعت مضبوط حلقہ کیسےہے؟ مضبوط حلقہ کی تعریف اللہ تعالیٰ نے خود ہی بیان کردی۔ یعنی جو شخص اللہ کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کر دے اور پھر اس کے احکام کے مطابق نیک اعمال بھی بجا لائے گویا اس میں ساری شریعت آگئی۔ اس شریعت پر عمل پیرا ہونا ہی ایسے مضبوط حلقے یا کڑے کو تھامنا ہے۔ جو اپنی مضبوطی کی وجہ سے ٹوٹنے والا نہیں۔ لہٰذا جو شخص اسے مضبوطی سے پکڑے رکھے گا اس کو نہ گر پڑنے کا خطرہ ہے اور نہ کہیں چوٹ لگ جانے کا۔ پھر اسی حلقہ کو تھامے ہوئے وہ بالآخر اللہ تک پہنچ جائے گا۔ جب تک وہ یہ حلقہ تھامے رہے گا، شیطان نہ اسے دھوکا دے سکے گا نہ گمراہ کرسکے گا یا دوسری راہ پر ڈال سکے گا۔ لقمان
23 [٣١] یعنی جو شخص آپ کی دعوت کی انکار کرتا ہے وہ سمجھتا کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کا انکار کرکے تمہیں اور اسلام کو زک پہنچائی ہے حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ وہ دراصل اپنا ہی نقصان کر رہا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس معاملہ میں افسردہ خاطر نہ ہونا چاہئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ پر توکل کرکے اپنا دعوت کا کام کرتے جائیں۔ ان منکروں سے ہم نبٹ لیں گے۔ چند دن یہ اپنی سرکشی دکھا لیں اور مزے اڑا لیں۔ آخر انھیں ہمارے ہاں ہی آنا ہے۔ یہ ہماری گرفت سے بچ نہیں سکتے۔ لقمان
24 لقمان
25 [٣٢]الحمدللہ جب فریق مخالف اپنے ہی اعتراف میں پھنس جائے:۔ یعنی اللہ کی تعریف اس بات پر ہے کہ انہوں نے یہ تو خود ہی تسلیم کرلیا کہ آسمانوں اور زمین یعنی کل کائنات کا خالق اللہ تعالیٰ ہے۔ اب ان کے اس اعتراف کا جو لازمی نتیجہ نکلتا ہے اس سے یہ لوگ بے خبر ہیں یا بے خبر رہنا چاہتے ہیں۔ اور ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو ان کے اس اعتراف کی عین ضد ہیں۔ مثلاً ایک شخص جب یہ اعتراف کرتا ہے کہ زمین و آسمان کا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے تو پھر اسے لازماً یہ بھی تسلیم کرلینا چاہئے کہ الٰہ اور رب بھی صرف اللہ ہی ہوسکتا ہے۔ بندگی اور عبادت کا مستحق بھی وہی ہوسکتا ہے۔ اپنی مخلوق کا حاکم وہی اور شارع بھی وہی ہوسکتا ہے۔ دعا اور فریاد بھی صرف اسی سے کرنا چاہئے۔ عقلی لحاظ سے یہ کیسے قابل تسلیم ہوسکتا ہے کہ خالق تو کوئی اور ہو اور معبود اس کی مخلوق بن بیٹھے۔ اور جو شخص اللہ کو خالق تسلیم کرلینے کے بعد دوسروں کو معبود سمجھتا ہے۔ اور اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لئے دوسروں کو پکارتا ہے۔ اسے اپنی عقل کا ماتم کرنا چاہئے۔ لقمان
26 [٣٣] پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کی صفت خالقیت کا ذکر تھا اور اس پہلو سے شرک کے بطلان پر دلیل پیش کی گئی تھی۔ اس آیت میں اللہ کے ہر چیز کا مالک ہونے کا ذکر ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کائنات کو پیدا کرکے کہیں علیحدہ نہیں جا بیٹھا۔ بلکہ وہ اس کے سر پر آن موجود ہے۔ وہ ان چیزوں پر کنٹرول رکھے ہوئے ہے۔ ان پر قابض ہے۔ اور جس طرح ان چیزوں میں چاہے تصرف بھی کرسکتا ہے اور کر رہا ہے اور اس کی ساری مخلوق اس کی مملوک بھی ہے۔ کسی مخلوق کو اللہ تعالیٰ کی اس ملکیت میں سے کسی چیز پر بھی شاہانہ اختیارات حاصل نہیں ہیں۔ بلکہ اگر اللہ نے کوئی چیز کسی کی ملک میں کردی ہے تو وہ اس میں اسی حد تک تصرف کرسکتا ہے یا اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جس حد تک شریعت نے اجازت دے رکھی ہے۔ [ ٣٤] اس جملہ کی تشریح کے لئے اسی سورۃ کی آیت نمبر ١٢ کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیے۔ لقمان
27 [٣٥]اللہ کےکلمات سے مراد اوراللہ کےکلمات لاتعدادہیں:۔ اللہ کے کلمات سے مراد اس کے تخلیقی کارنامے، اس کے عجائبات، کرشمے اور اس کی خوبیاں ہیں۔ اور ان کے بے شمار پہلو ہیں۔ مثلاً انسان کے اندر کی دنیا کے عجائبات اور بیرونی دنیا کے عجائبات۔ انسان کی عقل اور علم ان دونوں میں کسی کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔ اور جو کچھ وہ جان سکا ہے اسے بھی ضبط تحریر میں لانا ناممکن ہے اور نہ بیان کیا جاسکتا ہے۔ جہاں انسان کی عقل اور اس کا علم خود ہی ورطہ حیرت میں پڑجاتے ہیں اسے وہ لکھے گا کیا اور بیان کیا کرسکتا ہے۔ پھر یہ ایک نوع انسان ہی کی بات نہیں جو اربوں کی تعداد میں دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ حیوانات کی تقریباً دس لاکھ انواع ایسی ہیں جو انسان کے علم میں آچکی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کی جسمانی ساخت اور نظام زیست دوسری تمام انواع سے الگ ہے۔ یہی حال نباتات اور جمادات اور سمندری مخلوق کا ہے پھر بہت سی ایسی مخلوق ہے جو انسان کے علم میں آہی نہیں سکی اور نہ آسکتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے یہ تخلیقی کارنامے ختم نہیں ہوگئے بلکہ ہر آن جاری ہیں۔ اور اس کی مخلوق میں ہر آن ترقی اور اضافہ ہو رہے۔ جیسا کہ بعض دوسری آیات مثلاً ٥١: ٤٧ اور ٥٥: ٢٩ میں یہ صراحت موجود ہے۔ لہٰذا اس آیت میں جو یہ بیان ہوا ہے کہ تمام درختوں کی قلمیں بنا لی جائیں اور سارے سمندر بلکہ اتنے اور بھی سیاہی بن جائیں تو یہ چیزیں تو ختم ہوسکتی ہیں مگر اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں گے۔ اس میں کچھ مبالغہ معلوم نہیں ہوتا۔ وجہ یہ ہے کہ ان چیزوں کی خواہ کتنی ہی زیادہ تعداد ہو بہرحال وہ محدود ہے اور ان کا شمار کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ اللہ کے کلمات لامحدود ہیں۔ جن کا کچھ حد و حساب ممکن نہیں۔ اور یہ تو مسلمہ امر ہے کہ محدود چیز لامحدود کا کبھی احاطہ نہیں کرسکتی۔ لقمان
28 [٣٦]اللہ کےتخلیقی اور توصیفی کارنامے:۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ اللہ تعالیٰ اربوں انسانوں کی پکار بیک وقت سن لیتا ہے۔ ایک انسان کی دعا سننا اسے دوسروں کی دعا سننے سے غافل یا قاصر نہیں بنا سکتا۔ اس کے لئے ایک انسان کی ایک وقت میں دعا سننا اور اربوں انسانوں کی اسی وقت میں دعا سننا برابر ہے۔ پھر اس کی مخلوق صرف انسان ہی نہیں۔ لاکھوں انواع میں اور اربوں کھربوں کی تعداد میں ہیں۔ وہ ان سب کی دعا و فریاد سنتا ہے۔ اور ایک چیونٹی کی بھی فریاد اسی طرح سنتا ہے جیسے ایک انسان کی۔ پھر معاملہ صرف سننے تک محدود نہیں۔ بلکہ انہی کمالات کے ساتھ وہ اپنی ساری مخلوق کو دیکھ بھی رہا ہے۔ ان کے ظاہری اور باطنی حالات سے واقف بھی ہے۔ انھیں رزق بھی پہنچا رہا ہے اور ان کی جملہ ضروریات بھی پوری کر رہا ہے۔ یہی حال اس کی تخلیق کا بھی ہے۔ اس کا ایک انسان کو پیدا کرنا بھی ایسے ہی ہے جیسے سب انسانوں کا پیدا کرنا۔ وہ ایک ہی وقت میں لاکھوں انسانوں اور اربوں دوسری مخلوق کو اس وقت بھی پیدا کر رہا ہے اور قیامت کو مرنے کے بعد دوبارہ بھی انسانوں کو ایسے ہی بیک وقت اٹھا کھڑا کرے گا اور اس کے لئے ایک انسان کے دوبارہ پیدا کرنے اور سب انسانوں کے دوبارہ پیدا کرنے میں کوئی فرق نہیں۔ لقمان
29 [٣٧]چانداور سورج کی الوہیت کی تردید:۔ اللہ تعالیٰ نے رات اور دن کا ذکر فرمایا تو ساتھ ہی سورج اور چاند کا بھی ذکر فرما دیا۔ سورج کا تعلق دن کے اوقات سے ہے اور چاند کا رات کے اوقات سے اور یہی دو سیارے ہیں جو اہل زمین کو سب سے زیادہ نمایاں نظر آتے ہیں۔ اور اکثر ادوار میں ان دونوں کی ہی پوجا اور عبادت کی جاتی رہی ہے۔ اور ان دونوں کو اللہ تعالیٰ نے ایسے کام پر لگا دیا ہے جس سے وہ سرمو سرتابی نہیں کرسکتے۔ قابل غور و فکر بات یہ ہے کہ اللہ کی جو مخلوق اپنے کام میں اس طرح جکڑی ہوئی ہو۔ کیا وہ معبود ہونے کی اہلیت رکھتی ہے؟ جو چیز اپنے اختیار سے نہ ایک لمحہ آگے پیچھے رہ سکتی ہے اور نہ ایک انچ ادھر ادھر سرک سکتی ہے، ایسی بے اختیار مخلوق کو معبود سمجھ لینا حماقت نہیں تو کیا ہے؟ [ ٣٨]مشرکین اور کا دہریہ کارد:۔ یعنی اس مقررہ وقت کے بعد ان کی حرکت یا ان کی گردش ختم ہوجائے گی۔ بالفاظ دیگر یہ نظام لیل و نہار ختم کردیا جائے گا۔ اور اس سورج اور چاند کا وجود فنا ہوجائے گا۔ کیونکہ یہ چیزیں ایک مقررہ وقت تک ہیں ابدی نہیں ہیں۔ اور اگر ابدی نہیں تو ازلی بھی نہیں ہوسکتیں۔ گویا یہ چیزیں حادث ہیں اور فنا ہونے والی ہیں۔ گویا اس آیت میں دہریوں کا رد بھی موجود ہے جو اس کائنات کو ازلی ابدی سمجھتے ہیں اور مشرکوں کا بھی رد ہے جو ان فانی چیزوں کو معبود سمجھے بیٹھے ہیں۔ [ ٣٩] دہریہ حضرات تو سرے سے روز آخرت کے منکر ہوتے ہیں اور مشرکین میں سے اکثر تو آخرت کے منکر ہوتے ہیں۔ جیسا کہ دور نبوی میں مشرکین مکہ اور ایران کے آتش پرست دونوں آخرت کے منکر تھے اور بعض مشرک عقیدہ آخرت کے منکر تو نہیں ہوتے مگر اس عقیدہ میں کچھ مزید ایسے عقیدے شامل کرلیتے ہیں۔ جو عقیدہ آخرت کے اصل مقصد کو فنا کردیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے سب لوگوں کی طرز زندگی اس دنیا میں شتر بے مہار کی طرح گزرتی ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ساتھ ہی یہ وعید سنا دی کہ اللہ تمہارے اعمال سے پوری طرح باخبر ہے اور ان کی تمہیں سزا دینے پر بھی قادر ہے۔ لقمان
30 [٤٠] یعنی اللہ تعالیٰ کے معبود برحق ہونے کی دلیل تو یہ ہے کہ اس نے رات اور دن کا نظام قائم کیا اور یہ نظام اس قدر پیچیدہ ہے جس کے مطالعہ سے از خود یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ایسا نظام کوئی کمال درجے کی مقتدر اور حکیم ہستی ہی قائم کرسکتی ہے اور سورج اور چاند بھی اسی نظام کا ایک حصہ ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اللہ کے سوا جن چیزوں کو لوگوں نے معبود بنا رکھا ہے اور انھیں پکارتے ہیں۔ انہوں نے کیا بنایا ہے کہ انھیں بھی الوہیت کا مستحق اور حصہ دار بنایا جائے؟ اور اس کا جواب نفی میں ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ معبود سراسر باطل ہیں۔ [ ٤١] یعنی کائنات کی ہر چیز سے اس کی شان بھی بلند اور بڑائی میں بھی کائنات کی ہر چیز سے بڑا ہے اور ان دونوں صفات کا مجموعہ﴿ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ﴾ میں پایا جاتا ہے۔ اس میں ایک لطیف اشارہ یہ بھی پایا جاتا ہے اللہ کی ان صفات کے مقابلہ میں بندہ میں انتہائی پستی اور تذلل (یہی دراصل عبادت کا معنی ہے) اللہ ہی کے لئے ہونا چاہئے۔ لقمان
31 [٤٢] پانی کی خاصیت اور کشتی سازی:۔ کشتیوں اور جہازوں کے سطح آب پر چلنے میں اللہ کی کئی نشانیاں اور مہربانیاں ہیں۔ پانی کی یہ خاصیت ہے کہ وہ ہر چیز کو اوپر کی طرف اٹھاتا ہے۔ بالفاظ دیگر پانی میں ہر چیز کا وزن ہوا میں وزن کی نسبت کم ہوتا ہے اور یہ کمی کسی چیز کے حجم کے برابر پانی کے حجم کے مطابق ہوتی ہے۔ یہی وہ طبیعی قانون ہے جس کے باعث انسان سمندر پر کشتیاں اور جہاز چلانے پر قادر ہوسکا ہے۔ پھر سمندر میں تلاطم خیز موجیں اور آندھی کے طوفان انسان کو ہلاکت سے فوراً دوچار کرسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں سمندر میں اتنی عظیم الجثہ مخلوق موجود ہے جو ایک ٹکر ہی سے کشتیوں اور جہازوں کو ڈبو سکتی ہے۔ یہ بس اللہ کی خاص مہربانی ہی ہوتی ہے کہ انسان اکثر اوقات سمندری سفر خیر و عافیت سے طے کرلیتا ہے۔ لقمان
32 [٤٣] تلاطم خیز موجوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس لئے فرمایا کہ ایسے طوفان سمندر میں اکثر اٹھتے رہتے ہیں۔ اس وقت تو سب لوگ کیا مشرک اور کیا دہریئے سب ہی اللہ کو پکارنے لگتے ہیں۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وجود اور توحید باری تعالیٰ دونوں باتیں ہی انسان کی فطرت میں موجود ہیں۔ [ ٤٤]مقتصدکےدومفہوم ہیں:۔ مقتصد ذومعنی لفظ ہے۔ اس کا اصل معنی تو اعتدال پر قائم رہنے والا ہے۔ پھر اس کے مفہوم میں راہ راست پر آجانے والا بھی شامل ہے۔ یعنی وہ شخص جو اس مصیبت میں اللہ سے کئے ہوئے وعدہ کو یاد رکھے اور اسے پورا کرے جیسا کہ عکرمہ بن ابو جہل کے متعلق پہلے لکھا جاچکا ہے۔ (دیکھئے سورۃ الانعام کی آیت نمبر ٤١ کا حاشیہ) دوسرا مطلب یہ ہے کہ دہریے لوگ بھی اللہ سے انکار اور اللہ کے اقرار کے درمیان کی سطح پر آجاتے ہیں۔ کٹر منکر نہیں رہتے۔ یہی حال مشرکوں کا ہوتا ہے وہ اپنے معبودوں کی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے بارے میں شک میں پڑجاتے ہیں۔ مشرکوں کا اپنے معبودوں پر پورا اعتقاد نہیں رہتا۔ [ ٤٥] اور جن لوگوں کی عادت ہی یہ ہو کہ خواہ ان پر انعامات کی کس قدر بارش کردی جائے۔ انہوں نے شکر ادا کرنا یا احسان مان لینا سیکھا ہی نہ ہو، ایسے لوگ خطرہ ٹل جانے کے بعد اپنے سابقہ طرز زندگی یعنی کفر، شرک یا دہریت کی طرف پلٹ جاتے ہیں۔ لقمان
33 [٤٦] دنیا میں باپ بیٹے کا ہی رشتہ ایسا ہے جو مصیبت کے وقت ایک دوسرے کے کام آتے ہیں۔ مگر قیامت کے دن دہشت اتنی زیادہ ہوگی کہ باپ بیٹے سے چھپتا پھرے گا اور بیٹا باپ سے۔ ہر ایک اپنی مصیبت میں ہی ایسا گرفتار ہوگا کہ دوسرے کی طرف توجہ کرنے کی ہوش نہ ہوگی۔ اور نہ ہی کوئی شخص دوسرے کی مصیبت اپنے سر لینے کے لئے تیار ہوگا۔ نہ بیٹے میں اتنی ہمت ہوگی کہ وہ یہ کہہ سکے کہ باپ کے بدلے مجھے جہنم میں بھیج دیا جائے اور نہ باپ ہی ایسا کہہ سکے گا جب ایسے قریبی رشتہ داروں تک کا یہ حال ہوگا تو اور کوئی شخص کیسے کسی دوسرے کے کام آسکتا ہے؟ لہٰذا ہر انسان کو اس دن کی ہولناکی سے اپنے بچاؤ کی فکر خود کرنا چاہئے۔ چنانچہ جب آیت ﴿ وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ ﴾ نازل ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوہ صفا پر چڑھ کر اپنے قریبی رشتہ داروں کو بلایا اور ہر ایک کا نام لے لے کر فرمایا تھا کہ اپنی فکر خود کرلو۔ اس دن میں تمہارے کسی کام نہ آسکوں گا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ زیر آیت متعلقہ) [ ٤٧]دنیاکی زندگی میں دھوکے کےمختلف پہلو:۔ یعنی اسی دھوکہ میں نہ پڑے رہو کہ تمہارا مقصد حیات ہی یہ بن جائے کہ ہمارا معیار زندگی بلند سے بلند تر ہونا چاہئے یا تم دنیا کی زندگی پر اس قدر فریفتہ اور مفتوں ہو جاؤ کہ یہ سمجھ بیٹھو کہ بس جو کچھ ہے یہی دنیا کی زندگی ہے اور عملاً اخروی زندگی کے منکر بن جاؤ یا یہ سمجھنے لگ جاؤ کہ اس دنیا میں خوشحالی کی زندگی ہی حق و باطل کا معیار ہے یا یہ سمجھو کہ دنیا میں خوشحالی اللہ کی رضامندی کی دلیل ہے۔ یا یہ سمجھ بیٹھو کہ ابھی تو مزے کرلیں۔ بڑی عمر پڑی ہے بعد میں توبہ کرلیں گے۔ دنیوی زندگی کے متعلق یہ سارے نظریہ ہائے فکر سراسر دھوکا اور فریب ہیں۔ [ ٤٨]اللہ کے نام پر دھوکادینےوالےشیطان:۔ غرور (غ پر فتحہ) مبالغہ کا صیغہ ہے۔ یعنی بڑا دھوکہ باز۔ ہر وقت دھوکہ دینے والا۔ اگرچہ اکثر لوگ اس سے مراد شیطان ہی لیتے ہیں۔ تاہم اس سے مراد انسان بھی ہوسکتے ہیں۔ افراد بھی، ادارے بھی اور حکومتیں بھی۔ جو شخص یا ادارہ کسی انسان کو فریب میں مبتلا کرکے اس کے لئے گمراہی کا سبب بن جائے وہ اس کے لئے دھوکا باز یا غرور ہے۔ اور وہ دھوکا بھی اللہ کے معاملہ میں دیتا ہے۔ مثلاً یہ کہ اللہ نے اپنے سارے اختیارات اپنے پیارے بندوں اور ولیوں کو دے رکھے ہیں۔ لہٰذا اب جو کچھ مانگنا ہو انھیں سے مانگنا چاہئے۔ یا یہ کہ اللہ بڑا غفور و رحیم ہے۔ وہ ہمیں دوزخ میں کیوں ڈالے گا ؟ یا ڈال کر کیا کرے گا ؟ پھر یہ خیال کرکے گناہوں پر دلیر ہوجاتے ہیں یا اگر فلاں بدعی کام کیا جائے تو اللہ یقیناً اس سے خوش ہوگا اور ہمیں اس اجر و ثواب ملے گا۔ غرضیکہ شیطان اور اس کے ایجنٹ اس کی نت نئی نئی شکلیں سجھاتے رہتے ہیں۔ لقمان
34 [٤٩] حدیث جبریل :۔ کفار مکہ اکثر آپ سے پوچھتے رہتے ہیں کہ قیامت کب آئے گی؟ کتاب و سنت میں اس کے کئی الگ الگ جواب مذکور ہیں۔ مثلاً ایک جواب یہ ہے کہ قیامت جب بھی آئی یک لخت ہی آجائے گی۔ کبھی قرب قیامت کی علامات بتلا دی گئیں۔ ایک صحابی نے یہی سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے پوچھا : کیا تم نے اس کے لئے کچھ تیاری کر رکھی ہے؟ ایک سائل کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ جواب دیا کہ جو شخص مرگیا بس اس کی قیامت قائم ہوگئی۔ لیکن اس سوال کا بالکل ٹھیک جواب یہی ہے کہ قیامت کا علم صرف اللہ کو ہے۔ کسی نبی کو بھی نہیں حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی نہ تھا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے درمیان بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی پیدل چلتا ہوا آیا (یہ جبریل علیہ السلام تھے) اور کہنے لگا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایمان یہ ہے کہ تو اللہ، اس کے فرشتوں اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لائے، اور (قیامت کے دن) ان سے ملنے کا یقین رکھے اور مر کر جی اٹھنے پر ایمان لائے، پھر وہ کہنے لگا : ’’اسلام کیا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کہ تو صرف اللہ ہی کی پرستش کرے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائے نماز اور زکوٰ ۃ ادا کرتا رہے اور رمضان کے روزے رکھے۔ پھر اس نے پوچھا: ’’احسان کیا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی یوں عبادت کرے جیسے اسے دیکھ رہا ہے اور اگر ایسا نہ کرسکے تو کم از کم یہ سمجھ کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ پھر اس نے پوچھا : ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! قیامت کب آئے گی؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس سے یہ سوال کر رہے ہو وہ بھی سائل سے زیادہ نہیں جانتا (یعنی دونوں ایک جیسے ناواقف ہیں) البتہ میں تجھے قیامت کی وہ نشانیاں بتلاتا ہوں ایک یہ ہے کہ عورت اپنا مالک جنے گی۔ دوسرے یہ کہ ننگے پاؤں پھرنے والے اور ننگے بدن (گنوار قسم کے لوگ) لوگوں کے رئیس ہوں گے۔ دیکھو ان پانچ باتوں میں سے ایک قیامت بھی ہے جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، وہی جانتا ہے کہ قیامت کب آئے گی، اور بارش کب برسے گی، اور ماؤں کے پیٹ میں کیا کچھ (تغیر و تبدل ہوتا رہتا ہے) پھر وہ شخص لوٹ کر چل دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ذرا اسے بلا لاؤ۔ لوگ بلانے لگے تو دیکھا وہاں کوئی نہ ملا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’یہ جبرئیل تھے جو آپ لوگوں کو دین کی باتیں سکھلانے آئے تھے‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) یہ حدیث، حدیث جبرئیل علیہ السلام کے نام سے مشہور ہے۔ اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ قیامت کا معین وقت نہ جبرئیل علیہ السلام کو معلوم تھا اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو۔ اس کا معین وقت نہ بتلانے میں حکمت یہ ہے کہ قیامت کا معین وقت اور اسی طرح کسی کو اس کی موت کا متعین وقت بتلا دینے سے اس دنیا کے دارالامتحان ہونے کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ اسی لئے نہ موت کے وقت کا ایمان مقبول ہے اور نہ قیامت کو مقبول ہوگا جبکہ جب قیامت کی صریح علامات مثلاً سورج کا مغرب سے طلوع ہونا وغیرہ ظاہر ہو گئیں تو اس وقت بھی ایمان لانا مقبول نہ ہوگا۔ [ ٥٠] غیب کے جن امورکا انسان کو علم نہیں ہوسکتا:۔ قیامت کے علاوہ چار باتیں اور بھی ہیں۔ جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ان چار میں سے پہلی بات یہ ہے کہ نفع رساں بارش کب ہوگی۔ دوسری یہ کہ مادر رحم میں کیا کچھ ہوتا ہے۔ اور اس میں یہ بھی شامل ہے کہ جب جنین میں روح ڈالی جاتی ہے تو ساتھ ہی فرشتہ اس کی عمر، اس کی روزی، (یعنی اسے کتنا رزق ملے گا) خوشحال ہوگا یا تنگ دست، نیز یہ کہ نیک بخت ہوگا یا بدبخت یہ باتیں بھی مادر رحم کے مراحل میں شامل ہیں۔ تیسری یہ بات کہ وہ کل کیا کرے گا یعنی اسے توبہ کی توفیق نصیب ہوگی یا نہیں۔ بلکہ اسے کل تک جینا بھی نصیب ہوگا یا نہیں۔ اور چوتھی یہ بات کہ وہ کب اور کہاں مرے گا۔ یہ چار باتیں ایسی ہیں جن سے ہر انسان کو دلچسپی ہوتی ہے۔ اس لئے بالخصوص ان باتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ورنہ اور بھی کئی امور ایسے ہیں۔ جو غیب سے تعلق رکھتے ہیں اور ان تک انسان کی رسائی نہیں ہوسکتی۔ لقمان
0 السجدة
1 السجدة
2 [ ١] اس آیت کے دو مطلب ہوسکتے ہیں اور دونوں ہی درست ہیں۔ ایک تو ترجمہ سے ہی واضح ہے یعنی اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ کتاب فرمانروائے کائنات کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہ کتاب جو فرمانروائے کائنات کی طرف سے نازل شدہ ہے اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس آیت میں دراصل مشرکین مکہ کے کئی اعتراضات کا جواب آگیا ہے۔ کبھی وہ کہتے تھے کہ اسے کوئی عجمی سکھلا جاتا ہے۔ کبھی کہتے ہیں کہ اس نے خود ہی تصنیف کر ڈالی ہے۔ اس اعتراض کے پہلو بے شمار تھے مگر سب کا ماحصل یہی تھا کہ یہ کتاب نہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے، نہ ہی یہ اللہ کا رسول ہے۔ بلکہ اس نے خود بعض دوسرے لوگوں کی مدد سے اسے گھڑ کر یہ بات اللہ کے ذمہ لگا دی ہے جیسا کہ اگلی آیت سے ظاہر ہے۔ السجدة
3 [الف] تصنیف کےلیے مہارت لازمی ہے:۔ سوچنے کی بات ہے کہ کوئی انسان صرف اسی موضوع پر کتاب لکھ سکتا ہے جس میں اسے مہارت حاصل ہو اور لوگوں میں وہ اس فن کے عالم کی حیثیت سے کسی حد تک معروف ہو۔ اور تصنیف اس لئے کرتا ہے کہ وہ لوگوں پر اپنی علمیت اور مہارت کا سکہ بٹھائے اور لوگوں میں اور اس کی کتاب کو عام مقبولیت حاصل ہو۔ لیکن یہاں معاملہ سارے کا سارا اس سے بالکل برعکس تھا۔ نبوت کے بعد آپ نے جو کلام پیش کیا۔ نبوت سے پیشتر آپ نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کہی تھی جس سے نبوت کے بعد والے کلام کے لئے کوئی اشارہ تک بھی پایا جاتا ہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کلام پیش کیا وہ ان لوگوں کی عادات، رسوم، مزاج اور طبائع کے یکسر مخالف تھا اس سے آپ کا لوگوں میں مقبول ہونا تو دور کی بات ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گویا یہ کلام پیش کرکے کسی بھڑوں کے چھتے کو چھیڑ دیا۔ جس سے پوری قوم آپ کی دشمن بن گئی۔ اب کفار سے سوال یہ ہے کہ کیا کوئی شخص ایسا کام اپنی مرضی سے کرسکتا ہے جس سے سب لوگ اس کے دشمن بن جائیں؟ اور اگر یہ بات عقلاً محال ہے تو پھر یہی صورت باقی رہ جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس کام پر مامور کیا ہے کہ وہ اللہ کا کلام لوگوں کے سامنے پیش کردے۔ اس سے لوگ اس کے مخالف ہوتے ہیں۔ تو ہوجائیں، اسے دکھ پہنچاتے ہیں تو پہنچا لیں اور اس کے دشمن بنتے ہیں تو بن جائیں مگر وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت قاہرہ کے سامنے اس بات کا پابند ہے کہ حالات خواہ کتنے ہی ناخوشگوار پیش آئیں وہ اللہ کا کلام لوگوں تک پہنچا دے۔ [ ٢]عرب میں کون کون سے انبیاء مبعوث ہوئے؟ عرب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے مدتوں پہلے حضرت ہود علیہ السلام ، قوم عاد کی طرف مبعوث ہوئے تھے اور صالح علیہ السلام قوم ثمود کی طرف ان کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام مبعوث ہوئے۔ پھر ان کے بعد حضرت شعیب علیہ السلام پیدا ہوئے۔ باقی زیادہ تر انبیاء شام اور فلسطین کے علاقہ میں بھی مبعوث ہوتے رہے۔ حضرت شعیب علیہ السلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا درمیانی وقفہ دو ہزار سال کے لگ بھگ ہے۔ اور چونکہ یہ دو ہزارسال کی مدت بھی ایک طویل مدت ہے جس میں بہت سے انبیاء عرب کی حدود سے باہر مبعوث ہوتے رہے۔ اسی لئے فرمایا کہ اہل عرب کے پاس پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا۔ [ ٣]آپ کی نبوت سے پہلےاس کےاسلام پسندحضرات:۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب دو ہزار سال تک اہل عرب کے ہاں کوئی رسول ہی نہ آیا ہو نہ ہی اللہ کی طرف سے حجت پوری ہوئی ہو تو پھر ان لوگوں کو ان کے کفر و شرک کی بنا پر عذاب کیوں کر ہوگا جبکہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ وہ عذاب سے پہلے لوگوں پر حجت پوری کرلیتا ہے اور کسی پر ذرہ بھی ظلم و زیادتی نہیں کرتا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ انبیاء کی تعلیم ان لوگوں تک بھی برابر پہنچتی رہی تھی۔ کیونکہ ان لوگوں کا شام و فلسطین کے لوگوں سے گہرا میل جول بھی تھا اور تجارتی قافلے بھی آتے جاتے رہتے تھے لہٰذا ان مشرکین مکہ میں بھی ایسے لوگ ہر دور میں موجود رہے جو شرک سے بیزار اور توحید کے قائل تھے بعثت نبوی کے وقت بھی ایسے لوگ موجود تھے جو شرک سے بیزاری کے علاوہ شراب نوشی، جاہلی حمیت اور جدال و قتال سے بھی متنفر تھے۔ لیکن انھیں کوئی واضح راہ نہیں مل رہی تھی۔ نہ ہی ایسے لوگوں کے باہمی اتحاد کی کوئی صورت ممکن تھی۔ ایسے لوگوں کو جب ایک پیغمبر کے مبعوث ہونے کی خبر ملی تو گویا ان لوگوں کے دل کی مراد بر آئی اور وہ فوراً اسلام لے آئے۔ ان میں سرفہرت تو ورقہ بن نوفل ہیں جو بعثت کے وقت صاحب فراش تھے۔ جلد ہی فوت ہوگئے اور انھیں باقاعدہ اسلام لانے کا اعزاز حاصل نہ ہوسکا۔ باقی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ، حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ، حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ غفاری، حضرت سعید بن زید بن عمرو بن نفیل وغیرہ سب کے سب شرک سے بیزار اور موحد تھے۔ جو فوراً اسلام لے آئے تھے۔ پھر بے شمار ایسے موحد بھی ہمیں تاریخ میں ملتے ہیں جو آپ کی بعثت سے پیشتر فوت ہوچکے تھے اور یہ سب انبیائے بنی اسرائیل کی تعلیمات کا اثر تھا۔ السجدة
4 [ ٤] ﴿اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ﴾ کی تفسیر کے لئے سورۃ اعراف آیت نمبر ٥٤ کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیے۔ [ ٥] یعنی جو ہستی اتنی زبردست ہے کہ پوری کائنات کو عدم سے وجود میں لاسکتی ہے اس کے مقابلہ میں تمہارے یہ معبود جنہیں تم اپنا سرپرست اور سفارشی سمجھے بیٹھے ہو تمہارے کس کام آسکتے ہیں۔ کیا تمہیں ایسی موٹی سے بات کی بھی سمجھ نہیں آتی؟ السجدة
5 [ ٦] اللہ تعالیٰ ہزار سالہ پروگرام مدبرات امرکےحوالہ کردیتاہے جس میں کسی قوم پرعذاب بھی شامل ہے:۔ اس کے تخلیقی کارناموں کی صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ ایک کام کا ارادہ کرتا ہے یا اس کی اسکیم بناتا ہے تو تدبیر امور پر مامور فرشتوں کو اس کی خبر دیتا ہے۔ جو اللہ کے حکم کے مطابق نیچے اترتے ہیں۔ تمام اسباب ظاہری و باطنی خواہ زمین سے متعلق ہوں یا آسمان سے سب کے سب خود بخود جمع ہو کر اس کام کی تکمیل کے احترام میں لگ جاتے ہیں۔ اور ایک دن میں جب یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا ہے تو فرشتے اللہ کے حضور حاضر ہو کر اس کی روداد پیش کردیتے ہیں۔ اور یہ ایک دن اہل دنیا کے حساب کے مطابق ایک ہزار سال کی مدت ہوتی ہے۔ گویا فرشتوں کو ایک ہزار سالہ پروگرام اللہ تعالیٰ دے دیتے ہیں۔ جب سب کام سرانجام پاچکتا ہے تو پھر اگلا ایک ہزارسالہ پروگرام مدبرات امر فرشتوں کے حوالہ کردیا جاتا ہے۔ اسی آیت میں دراصل ان مشرکوں کے اس اعتراض کا جواب دیا جارہا ہے جو اس بات پر مصر تھے اور نبیوں سے کہتے رہتے تھے کہ جس عذاب کی تم دھمکی دیتے ہو وہ آکیوں نہیں جاتا ؟ یا تم اسے ابھی ہم پر لے کیوں نہیں آتے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس ہزار سالہ پروگرام میں کسی قوم پر عذاب آنے کا پروگرام بھی شامل ہوتا ہے۔ اور وہ پروگرام کے مطابق اپنے وقت مقررہ پر ہی آتا ہے اس میں تقدیم و تاخیر نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ جو عذاب کسی قوم کے مقدر ہوچکا ہے وہ اس پر نہ آئے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے سارے کام سوچے سمجھے پروگرام کے مطابق بروئے کار لاتا ہے۔ تمہارے جلدی مچانے یا نہ مچانے کیا کچھ فائدہ یا اثر نہیں ہوگا۔ السجدة
6 [ ٧] یعنی وہ ہستی جو اتنے بڑے بڑے کارنامے سرانجام دے سکے ضروری ہے کہ اس کا علم لامحدود ہو۔ ہر چیز کی ماہیت اور کیفیت اس کے علم میں ہو اور کوئی بھی چیز اس سے چھپی ہوئی نہ ہو نہ چھپ سکتی ہو۔ پھر یہ بھی ضروری ہے کہ اس میں اتنی قدرت ہو کہ وہ ہر چیز کو اپنی مرضی کے مطابق کام میں لاسکتا ہو۔ نیز اتنی زبردست اور قاہرانہ قدرت رکھنے کے باوجود وہ اپنی مخلوق پر رحیم اور شفیق بھی ہو۔ السجدة
7 [ ٨]مقصدکےلحاظ سے ہرچیزکی اعلیٰ شکل وصورت:۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو چیز بھی بنائی اور جس مقصد یا مقاصد کے لئے بنائی تو اسے ایسی شکل و صورت عطا فرمائی جس سے بہتر شکل و صورت کا تصور میں آنا محال ہے۔ اس شکل و صورت پر کوئی بھی حرف گیری نہیں کرسکتا۔ مثلاً پانی اور ہوا میں اس نے جو جو خواص رکھے ہیں اور جن مقاصد کے لئے یہ چیزیں پیدا کی گئی ہیں۔ ان کے لئے یہی شکل و صورت سب سے بہتر تھی۔ یہی صورت ہر جاندار چیز اور نباتات کی ہے۔ کسی بھی چیز کی شکل و صورت بےڈھنگی اور بے تکی نہیں ہے۔ انسان کے پورے جسم اور اس کے ایک ایک عضو کا یہی حال ہے۔ مثلاً اللہ نے آنکھ دیکھنے کے لئے اور کان سننے کے لئے بنائے ہیں۔ تو اس مقصد کے لئے جو شکل اللہ نے آنکھ اور کان کی بنا دی ہے۔ یہی اس کے لئے بہتر بھی ہے اور خوبصورت بھی۔ السجدة
8 [ ٩]نطفہ کےہرجرثومہ میں صاحب نطفہ کی شکل اورعادات وخصائل کا عکس:۔ ان دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے دو اہم تخلیقی کارناموں کی طرف توجہ دلائی ہے پہلا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے مٹی کو مختلف مراحل سے گزار کر انسان کا پتلا اپنے ہاتھ سے تیار کیا پھر اس میں اپنے ہاں سے روح پھونکی تو ایک محیرالعقول اور عظیم الشان چیز وجود میں آگئی۔ جس میں عقل و شعور، قوت ارادہ و اختیار اور قوت تمیز و استنباط سب کچھ موجود تھا اور وہ اس قابل بنا دیا گیا کہ وہ خلافت ارضی کا بار اٹھا سکے۔ اور اللہ کا دوسرا محیرالعقول تخلیقی کارنامہ یہ ہے کہ پھر انسان کی نسل کو نطفہ اور توالد و تناسل سے چلا دیا۔ جس سے کروڑوں انسان پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہ نطفہ کیا ہے؟ حکما کہتے ہیں کہ یہ چوتھے ہضم کے نتیجہ میں ظہور میں آتا ہے جبکہ خون تیسرے ہضم کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس نطفہ کے ہر قطرہ میں ہزاروں جرثومے ہوتے ہیں اور ایک ایک جرثومہ میں اصل انسان کی شکل و صورت، اس کی عادات اور اس کے خصائل موجود ہوتے ہیں۔ گویا نطفہ کا ایک ایک جرثومہ اس چیز کا چھوٹے سے چھوٹا اور مکمل ترین عکس ہوتا ہے جو صرف طاقتور خوردبین کے ذریعہ سے ہی نظر آسکتا ہے۔ السجدة
9 [ ١٠] تخلیق میں اللہ تعالیٰ کی انفرادی توجہ :۔ پھر اسی انتہائی چھوٹے سے جرثومہ کو رحم مادر میں پیوست کیا تو اس کے بالکل ویسے ہی اعضاء بننے لگے اور ان پر گوشت پوست چڑھنے لگا جس چیز کا وہ جرثومہ تھا اللہ تعالیٰ نے پھر اپنی انفرادی توجہ سے اس میں چند نمایاں اختلاف بھی رکھ دیئے۔ لیکن اعضاء کے توازن و تناسب میں کچھ فرق نہ آنے دیا۔ پھر یہ سب کچھ درست کرنے اور آنکھ، ناک، کان، دل وغیرہ سب اعضاء کو درست اور ٹھیک ٹھاک کردینے کے بعد اس میں اپنے ہاں سے روح پھونک دی اور مقررہ وقت کے بعد وہ ایک تندرست اور جیتا جاگتا انسان بن کر رحم مادر سے باہر نکل آیا۔ یہ سب باتیں ایسے بدیہی امور ہیں جو سب انسانوں کے مشاہدہ میں آتی رہتی ہیں۔ پھر بھی انسانوں کی اکثریت ایسی ہے جو نہ ان قدرتوں کا اعتراف کرتی ہے اور نہ ان نعمتوں پر اللہ کا شکر بجا لاتی ہے۔ (نیز دیکھئے سورۃ حجر کا حاشیہ ١٩) السجدة
10 [ ١١]انسان کی روزآخرت سے انکار کی اصل وجہ :۔ یعنی انسان غور کرے تو اسے یہ بات بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے کہ جس اللہ تعالیٰ نے پہلے مٹی کے اجزا سے ہی انسان کو بنایا تھا وہ دوبارہ اسی مٹی کے اجزاء سے انھیں کیوں نہیں بنا سکتا۔ موجودہ تحقیق کے مطابق انسان جن عناصر کا مرکب ہے وہ سب زمین میں ہی پائے جاتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے انہی عناصر کو ترکیب دے کر پہلے انسان کو پیدا کیا تھا تو وہ عناصر تو اب بھی زمین میں موجود ہیں۔ پھر ان لوگوں کا یہ اعتراض کہ ’’جب ہم مٹی میں مل کر مٹی بن جائیں گے تو کیا از سر نو پیدا کئے جائیں گے‘‘ کیا معنی رکھتا ہے۔ اصل بات یہ نہیں کہ انسان کو اس موٹی سی بات کی سمجھ نہیں آسکتی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ کے حضور پیش ہونے اور آخرت میں اپنے اعمال کی جوابدہی سے گھبراتے اور جی چراتے ہیں۔ اور یہ تصور چونکہ ان کی آزادانہ زندگی اور خواہشات نفس پر پابندیاں لگاتا ہے۔ لہٰذا وہ ایسے غیر معقول قسم کے اعتراضات گھڑنے لگتے ہیں۔ السجدة
11 [ ١٢]دوبارہ زندگی پرعقلی دلیل ۔انایاروح فنا نہیں ہوگی:۔ یہ کفار کے اعتراض کا مکمل جواب ہے یعنی کفار جو یہ کہتے ہیں کہ جب ''ہم'' مٹی میں مل جائیں گے تو یہ ''ہم'' کا تصور کہاں سے آیا ؟ واضح سی بات ہے کہ گوشت پوست کے مجموعہ پر لفظ ''ہم'' یا ''تم'' کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ اور مرنے کے بعد گوشت پوست تو واقعی مٹی میں مل جائے گا۔ مگر یہ ''ہم'' یا ''تم'' تو مٹی میں نہیں مل سکتا۔ یہی وہ چیز ہے جو تم میں ہم نے پھونکی تھی۔ جس کی وجہ سے تم لوگ اپنے آپ کو ''ہم'' یا ''تم'' کہتے ہو۔ اور یہی چیز یا روح ہماری طرف سے تمہاری موت پر مقرر کردہ فرشتہ اپنے قبضہ میں کرلیتا ہے۔ اب تمہاری روح پھر ہمارے پاس آگئی۔ زمین کے جن عناصر سے تم پہلے بنے تھے۔ انھیں عناصر سے تم پھر بھی بنائے جاسکتے ہو۔ بلکہ زیادہ آسانی سے بنائے جاسکتے ہو۔ اور تمہاری روح جو ہمارے قبضہ میں ہے وہ پھر ہم تمہارے اجسام مٹی سے ہی بنا کر ان میں ڈال دیں گے اور اپنے پاس تمہیں لا حاضر کریں گے۔ اس وقت بھی وہی ''ہم'' تم میں موجود ہوگا۔ جو آج موجود ہے۔ اور اسی ''ہم'' سے تمہارے اعمال کی باز پرس ہوگی۔ واضح رہے کہ یہاں روح سے مراد روح حیوانی نہیں ہے جو ہر ذی حیات کو متحرک کرنے کا سبب ہوتا ہے۔ بلکہ یہاں روح سے مراد روح انسانی ہے۔ جس کی بنا پر انسان دوسرے تمام حیوانات سے ممتاز ہوا۔ اسے عقل و شعور بخشا گیا اور ارادہ و اختیار دے کر خلافت ارضی کا حامل بنایا گیا۔ السجدة
12 [ ١٣] ان کا یہ مطالبہ بھی بالکل عبث ہوگا کیونکہ انسان کو عقل و شعور تو اس لئے دیا گیا تھا کہ ان سے کام لیتے ہوئے اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لائے اور یہی ایمان بالغیب کا مطلب ہے۔ اور اسی چیز کا انسان سے مطالبہ ہے۔ پھر جب انسان نے اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ لیا تو اس کا ایمان اضطراری ہوا، اختیاری نہ رہا۔ نہ ہی اسے ایمان بالغیب کہہ سکتے ہیں۔ اس مقام پر ان کے اس مطالبہ پر جواب نہیں دیا گیا۔ جبکہ ایک دوسری جگہ پر یہ جواب دیا گیا ہے کہ دوبارہ دنیا میں بھیجنا اللہ کا دستور نہیں تاہم بفرض محال اگر ہم انھیں دوبارہ دنیا میں بھیج بھی دیں تو پھر یہ لوگ ویسے ہی کام کریں گے جیسے پہلے کرکے آئے ہیں۔ یہ لوگ پھر دنیا اور اس کی دلفریبیوں پر ویسے ہی مفتوں ہوجائیں گے جیسا کہ پہلے تھے۔ اور پہلی سی شرارتیں پھر شروع کردیں گے۔ السجدة
13 [ ١٤]انسان اورجن جبری اطاعت کےلیے پیدانہیں ہوئے:۔ یعنی ہمیں انسان کے اضطراری ایمان کی ضرورت نہیں۔ اس صورت میں انسان کو اختیار دینا بالکل عبث تھا۔ اب چونکہ اچھے یا برے راستہ کی تمیز بھی اسے بخش دی گئی ہے اور ان میں سے کسی ایک راہ کے انتخاب کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ لہٰذا اب اللہ کا کام یہ نہیں کہ ہر ایک کو ہدایت کی راہ پر لانے پر مجبور کردے۔ بلکہ یہ ہے کہ جس راہ پر کوئی چلتا ہے۔ اسی راستہ کے لئے اسے توفیق دے دے۔ [ ١٥] آدم کس کاخلیفہ ہے؟ اللہ تعالیٰ کی تمام جاندار مخلوق میں سے جن اور انسان دو نوع ایسی ہیں جن کو اللہ نے قوت تمیز اور قوت ارادہ و اختیار بخشی ہے۔ اور یہی دو انواع شریعت الٰہی کی مکلف ہیں۔ انھیں کے لئے یہ دنیا دارالامتحان ہے۔ انسانوں سے پہلے جنات ہی اس زمین پر آباد تھے۔ جب ان میں سرکشی بڑھی تو اللہ نے ایک دوسری مخلوق انسان کو ان کا جانشین بنا دیا۔ پہلے نبوت کا سلسلہ جنوں میں تھا۔ پھر یہ سلسلہ نبوت انسان کی طرف منتقل ہوگیا۔ جو نبی انسانوں کی طرف مبعوث ہوتا وہی جنوں کے لئے بھی ہوتا تھا۔ اور جن بھی بالتبع اسی نبی کی اطاعت کے پابند بنا دیئے گئے۔ لیکن حضرت انسان بھی سرکشی اور انکار حق میں جنوں سے پیچھے نہ رہا۔ دونوں نے اللہ کے عطا کردہ اختیار کا ناجائز اور غلط استعمال کیا۔ دونوں انواع کی اکثریت دنیا پر فریفتہ ہو کر اس امتحان میں فیل ہوگئی۔ جنوں اور انسانوں کے شیاطین نے خلقت کو اللہ کی راہ سے روکنے اور انھیں گمراہ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور یہ سب باتیں اللہ کے علم میں پہلے سے موجود تھیں کہ جنوں اور انسانوں کی اکثریت اس امتحان میں ناکام ہو کر جہنم کا ایندھن بنے گی۔ اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مختلف مقامات پر مختلف پیرایوں میں بیان کیا ہے کبھی اس ناکامی کی نسبت اپنی طرف کی ہے کبھی شیاطین جن و انس کی طرف اور کبھی ان گمراہوں کی طرف۔ السجدة
14 [ ١٦]اعمال اور ان کےنتائج میں مماثلت:۔ یعنی تم دنیا کی دلفریبیوں میں اس قدر منہمک ہوئے کہ ہمیں کبھی بھولے سے بھی یاد نہ کیا۔ اور ساری عمر اللہ کی نافرمانیوں اور سرکشی میں گزار دی۔ اب جہنم میں پڑے رہو اور اپنے اعمال کی سزا بھگتو۔ ہماری طرف سے کسی طرح کے رحم اور مہربانی کی توقع نہ رکھو۔ ہم بھی تمہیں ابدالآباد تک یہیں جہنم میں پڑا رہنے دیں گے اور اسی طرح تمہیں بھلا دیں گے جیسے دنیا میں تم نے ہمیں بھلا رکھا تھا۔ السجدة
15 [ ١٧] ایمان لانے والوں کی صفات انکار کرنے والوں سے بالکل جداگانہ ہوتی ہیں۔ ان کے دلوں میں ضد، ہٹ دھرمی اور عناد نہیں ہوتا، ان کی طبیعتیں اتنی سلیم ہوتی ہیں کہ حق بات کو قبول کرنے پر فوراً آمادہ ہوجاتی ہیں۔ ان میں تکبر اور غرور نام کو نہیں ہوتا۔ بلکہ انھیں جب اللہ تعالیٰ کے عجائبات اور کارنامے بتلائے جاتے ہیں تو اللہ کی عظمت سے ان کے دل فوراً دہل جاتے ہیں وہ قبول حق پر فوراً آمادہ ہوجاتے ہیں پھر اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اور ان کی زبانوں پر اللہ تعالیٰ کی حمد اور تسبیح و تقدیس جاری ہوجاتی ہے۔ اس آیت پر سجدہ ہے۔ اس کو پڑھنے اور سننے والوں کو یہاں سجدہ کرنا چاہئے تاکہ وہ بھی ان صفات میں شامل ہوجائیں جو اللہ تعالیٰ نے ایمانداروں کی بیان فرمائی ہیں۔ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن فجر کی نماز میں (الم تنزِیل السجدۃ) اور ﴿ ہَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ ﴾ پڑھا کرتے تھے۔ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ ابواب ماجاء فی سجود القرآن و سنتہا) السجدة
16 [ ١٨]اللہ سے ڈرنےکےباوجودحسن ظن رکھنےکاحکم:۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ساری رات سوتے ہی نہیں۔ بلکہ یہ ہے کہ جس طرح دنیا دار لوگ دن بھر محنت کرکے رات کو دادعیش دیتے ہیں۔ رقص و سرود کی محفلیں قائم کرتے ہیں۔ شراب نوشی کے دور چلتے ہیں۔ سینما اور کلب گھروں کا رخ کرتے ہیں۔ اور کچھ نہیں تو ٹی وی پر ہی اپنا دل بہلا لیتے ہیں۔ اللہ کے بندے ان کے برعکس اپنا وقت اللہ کی یاد میں گزارتے ہیں۔ یہی ان کی تفریح طبع ہوتی ہے۔ وہ راتوں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اور جتنا وقت دنیا دار اللہ کی نافرمانیوں میں گزارتے ہیں اللہ کے بندے اس کی فرمانبرداری اور عبادت میں گزارتے ہیں۔ وہ عذاب جہنم سے ڈر کر اور جنت کی امید رکھ کر اللہ کو پکارتے ہیں یا عبادت تو اللہ کی رحمت اور مہربانی کی امید رکھ کر کرتے ہیں۔ مگر ساتھ ہی ساتھ اللہ سے ڈرتے بھی رہتے ہیں کہ کہیں ان کے اس عمل میں کچھ تقصیر نہ رہ جائے۔ اور وہ اللہ کے ہاں مقبول ہی نہ ہو۔ تاہم ان میں اللہ سے حسن ظن یا اس کی رحمت اور مہربانی کا پہلا ہی غالب رہتا ہے۔ اور یہ پہلو زندگی بھر غالب رہتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’تم میں سے کوئی شخص اس حال میں نہ مرے کہ وہ اللہ عزوجل سے حسن ظن نہ رکھتا ہو‘‘ (مسلم۔ کتاب الجنۃ۔ باب الامر بحسن الظن باللہ تعالیٰ عند الموت) اگرچہ اس آیت سے معلوم یہی ہوتا ہے کہ اس آیت میں بستروں سے الگ رہنے اور اللہ کو پکارنے سے مراد نماز تہجد ہے۔ جس کی احادیث میں بہت فضیلت مذکور ہے۔ تاہم بعض علماء نے اس سے صبح کی نماز مراد لی ہے۔ بعض نے عشاء کی اور بعض نے نماز مغرب اور عشاء کے درمیان نوافل کی۔ تاہم راجح بات وہی معلوم ہوتی ہے جو اولاً مذکور ہوئی۔ [ ١٩] غریب اور مفلس لوگوں کوبھی صدقہ کرناضروری ہے:۔اس سے مراد صرف مال حلال ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حرام مال کی نسبت کبھی اپنی طرف نہیں کی۔ نہ ہی ایسے مال سے صدقہ قبول کرتا ہے۔ اور خرچ کرنے سے بھی مراد عیاشیوں پر خرچ کرنا نہیں بلکہ جائز طریقوں سے خرچ کرنا ہے خواہ وہ اپنی ذات پر ہو، اہل و عیال پر ہو، قرابتداروں اور دوسرے محتاجوں کی ضروریات اور حاجات پوری کرنے پر ہو۔ اور اگر حلال مال سے دوسروں پر خرچ کرنے کی توفیق میسر نہیں ہوتی تو بھی حرام کمائی سے بہرحال بچنا چاہئے اس پر قناعت اور اللہ کا شکر کرنا چاہئے۔ اور اس میں سے خواہ بہت تھوڑا ہی سہی، کچھ نہ کچھ ضرور خرچ کرنا چاہئے۔ کیونکہ غریبوں کو بھی تزکیہ نفس کی ضرورت ہوتی ہے۔ بخل کے مرض سے ان کا بھی دل پاک ہونا چاہئے اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’آگ سے اپنا بچاؤ کرو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے سے ہی کرو‘‘ (بخاری۔ کتاب الزکوٰ ۃ۔ باب اتقوالنارولوبشق تمرۃ) السجدة
17 [ ٢٠]جنت کی نعمتوں کی صفات:۔ ایسے لوگ جو رات کی تاریکیوں میں، لوگوں سے چھپ کر، ریا کاری سے بچتے ہوئے اللہ کو یاد کرتے اور اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ تو ان کا بدلہ بھی ایسی چیزیں ہوں گی جو اللہ نے ان کے لئے چھپا رکھی ہیں۔ وہ نعمتیں کیا ہوں گی وہ ایسے لوگوں کے دلوں اور ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوں گی۔ ان کی صفات بیان کرنے سے انسان کو اس دنیا میں سمجھ بھی نہیں آسکے گی۔ جس طرح اگر کسی شخص نے آم کبھی نہ کھایا ہو تو خواہ اس کے مزے کی تفصیل کتنی ہی بیان کی جائے۔ ایسے کبھی نہیں ہوسکتی جیسے کوئی شخص آم کھا کر محسوس یا معلوم کرسکتا ہے۔ اور جنت کی نعمتوں کا تو یہ حال ہے کہ نہ کبھی کسی نے دیکھیں، نہ سنیں، نہ چکھیں حتیٰ کہ کسی کے دل میں ان کا خیال تک بھی نہ آیا جب کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے پنے (نیک) بندوں کے لئے وہ نعمتیں تیار کر رکھی ہیں جنہیں نہ کبھی کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی کے دل میں ان کا خیال تک آیا ہو‘‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تم چاہو تو (دلیل کے طور پر) یہ آیت پڑھ لو۔ ﴿ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ ۔۔۔الآیة﴾(بخاری۔ کتاب التفسیر) السجدة
18 [ ٢١] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فاسق کو مومن کی عین ضد کے طور پر بیان فرمایا، یعنی مومن اور فاسق برابر کیا ہوں گے یہ تو ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ جیسے دن کے مقابلہ میں رات ہوتی ہے، یعنی مومن اگر ایماندار ہے تو فاسق بے ایمان ہوگا۔ مومن اگر اللہ کا مطیع فرمان ہے تو فاسق اللہ کا باغی ہوگا۔ تو جس طرح یہ اپنے اعمال کے لحاظ سے ایک دوسرے کی عین ضد ہیں۔ اس طرح اخروی اجر کے لحاظ سے بھی ان کا معاملہ ایسا ہی ہوگا۔ چنانچہ اگلی دو آیات میں انہی دونوں قسم کے لوگوں کا انجام اور ان کو ملنے والی جزاء و سزا کا ذکر کیا گیا ہے۔ السجدة
19 السجدة
20 [ ٢٢] برے عذاب سے مراد قیامت کے دن جہنم کا عذاب ہے اور عذاب الادنیٰ سے مراد دنیا میں پہنچنے والے مصائب ہیں۔ جو انفرادی طور پر بھی ہر انسان کو دیکھنا پڑتے ہیں۔ مثلاً بیماریاں، مالی نقصان، عزیز و اقرباء کی موت یا کئی دوسرے حادثے اور اجتماعی زندگی کے مصائب الگ نوعیت کے ہوتے ہیں۔ مثلاً قحط، زلزلے، وبا، فسادات اور لڑائیاں جن سے بیک وقت ہزاروں انسان لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ اللہ کی طرف سے ہلکے ہلکے عذاب ہی نہیں بلکہ تنبیہات بھی ہیں کہ وہ بروقت سنبھل جائیں اور انھیں معلوم ہوجائے کہ ان سے بالاتر کوئی ہستی موجود ہے جو ان کی بداعمالیوں پر ان کی گرفت کرسکتی ہے۔ اور اس سے انھیں اپنا عقیدہ اور عمل درست کرنے میں مدد ملے۔ اس طرح شاید وہ بداعمالیوں سے اور آخرت میں ان کے برے انجام سے بچ جائیں۔ السجدة
21 السجدة
22 [ ٢٣] یعنی قیامت کا دن دراصل مجرمین سے بدلہ لینے کا دن ہے۔ اس دن کوئی بھی مجرم اپنے جرم کی سزا سے بچ نہیں سکے گا۔ اور جو شخص اپنے کبرونخوت کی بنا پر اللہ کی آیات سننا تک گوارا نہیں کرتا بلکہ پہلے سے ہی منہ جوڑ کر چل دیتا ہے وہ تو سب سے بڑھ کر ظالم ہے۔ وہ بھلا اس دن انتقام سے کیسے بچ سکے گا ؟ واضح رہے کہ اللہ کی آیات کی بہت سی اقسام ہیں۔ مثلاً ایک تو وہ آیات ہیں جو کائنات میں ہر سو بکھری ہوئی ہیں۔ جنہیں ہم آفاقی نشانیاں کہہ سکتے ہیں۔ اور ان میں سورج، چاند، ستارے، گردش لیل و نہار۔ زمین کی قوت روئیدگی۔ ہواؤں اور بارشوں کا نظام وغیرہ وغیرہ امور شامل ہیں۔ دوسری قسم وہ آیات ہیں جو انسان کے اندر کی دنیا سے تعلق رکھتی ہیں۔ انسان کی تخلیق، جسم کی ساخت، اعضاء کا خود کار نظام، اور محیرالعقول قوتیں جو اللہ نے انسان کے اندر رکھ دی ہیں۔ اسی جسم میں بعض ایسے داعیے بھی موجود ہیں جو انسان کے تحت الشعور میں ہوتے ہیں۔ لیکن وقت پڑنے پر فوراً جاگ اٹھتے ہیں۔ جیسے جب موت سامنے کھڑی نظر آئے تو مشرکین کیا دہریے تک اللہ کو پکارنے لگتے ہیں۔ اس قسم کو قرآن آیات انفس کا نام دیتا ہے تیسری قسم وہ تاریخی واقعات ہیں جن سے ہمیشہ ایک ہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جس قوم نے بھی اللہ کے مقابلہ میں سرکشی کی راہ اختیار کی اور اس کے رسول اور آیات کو جھٹلا دیا ہو اللہ نے اسے تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ اس قسم کو شرعی اصطلاح میں تذکیر بایام اللہ کہا جاتا ہے۔ اور یہ اصطلاح قرآن ہی کے الفاظ ﴿وَذَكِّرْهُم بِأَيَّامِ اللَّـهِ ﴾سے ماخوذ ہے اور چوتھی قسم وہ نشانیاں ہیں جو مصائب کی شکل میں تنبیہ کے طور پر انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر انسانوں پر بصورت عذاب ادنیٰ نازل کی جاتی ہیں۔ اور جن کا ذکر سابقہ آیت میں ہوا ہے۔ اور پانچویں قسم اللہ تعالیٰ کی وہ آیات ہیں جو اس نے انسانوں کی ہدایت کے لئے اپنے انبیاء پر وقتاً فوقتاً نازل کیں۔ ان آیات میں دراصل انسان سابقہ چاروں قسم کی آیات کو غور و فکر کے لئے انسان کے سامنے پیش کیا جاتا رہا ہے۔ اللہ کی تمام ترآیات کا ماحصل:۔ اور یہی وہ دلائل یا آیات ہیں جن کے متعلق قرآن میں بار بار یہ مذکور ہوا ہے کہ یہ آیات بالکل واضح ہیں، روشن ہیں ان میں کوئی پیچیدگی نہیں، کوئی ابہام نہیں، کوئی ٹیڑھ نہیں بلکہ سیدھی سادی اور عام فہم دلیلیں ہیں۔ قرآن کی آیات باقی چاروں قسم کی آیات کی طرف توجہ دلاتی ہیں اور اسی کا نام ذکر اور تذکرہ ہے اور پہلی چاروں قسم کی آیات قرآن کی آیات کی تائید و تصدیق کرتی ہیں۔ اور ان سب آیات کا ماحصل ایک ہی سامنے آتا ہے اور وہی دراصل انبیاء کی تعلیم کا نچوڑ ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ اس کائنات کی تدبیر و تخلیق کرنے والی ہستی بڑی مقتدر اور حکیم ہستی ہے اور وہ صرف ایک ہی ہوسکتی ہے اس میں دوئی یا کسی دوسرے کی شراکت کی کوئی گنجائش نہیں۔ دوسرے یہ کہ کائنات اور اس کی کوئی بھی چیز بے مقصد پیدا نہیں کی گئی۔ لہٰذا انسان جو اشرف المخلوقات ہے کی زندگی کا بے مقصد ہونا ناممکنات سے ہے۔ تیسرے یہ کہ انسان کی زندگی کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح وہ طبعی اور اضطراری امور میں اللہ کے قوانین کے سامنے مجبور محض اور ان قوانین کا پابند ہے۔ اسی طرح وہ اپنے اختیاری امور میں بھی اللہ کے احکام کے سامنے سرتسلیم خم کردے اور کائنات کی باقی تمام اشیاء کے ساتھ ہم آہنگ ہوجائے صرف ایک ہی اللہ کی عبادت اور تسبیح و تقدیس بیان کرے اور اسی کا ہو کر رہے۔ اور چوتھے یہ کہ جو شخص اللہ کا فرمانبردار بن کر رہے اسے ضرور اس کا اچھا بدلہ ملنا چاہئے اور جو نافرمان ہو اسے ضرور سزا مل کر رہے اور چونکہ یہ دنیا کی زندگی اور ہر انسان کی پوری مدت عمر امتحان کا عرصہ ہے لہٰذا اس عرصہ امتحان کے بعد کامیاب اور ناکام انسانوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے۔ اس لحاظ سے روز آخرت کا قیام نہایت ضروری ہوا۔ ورنہ یہ دنیا ایک اندھیر نگری قرار پاتی ہے۔ نیز انسان جیسی اشرف المخلوقات مخلوق کا مقصد حیات ہی فوت ہوجاتا ہے۔ السجدة
23 [ ٢٤] اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کی آیات سے منہ موڑنے کا ذکر تھا۔ اسی نسبت سے یہاں تورات کا ذکر ہوا جو قرآن کے بعد سب الہامی کتابوں سے زیادہ مشہور ہے۔ تورات صرف بنی اسرائیل کے لئے ہدایت کی کتاب تھی جبکہ یہ قرآن پوری بنی نوع انسان کے لئے کتاب ہدایت ہے۔ [ ٢٥] اس جملہ میں خطاب اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے مگر مخاطب سارے مومنین ہیں۔ کیونکہ نبی سب سے پہلے خود اپنی نبوت پر ایمان لاتا ہے۔ پھر دوسروں کو ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے۔ لہٰذا منزل من اللہ کلام پر رسول کا شک کرنا محالات سے ہے۔ اور ایسا انداز خطاب عموماً تاکید مزید کے لئے آتا ہے۔ یعنی مسلمانوں کو کسی قیمت پر بھی اس میں شک نہ کرنا چاہئے۔ بعض علماء نے اس آیت لقائه میں ہ کی ضمیر کو موسیٰ کی طرف راجع سمجھا ہے اور اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ آپ کی موسیٰ سے اسی دنیا کی زندگی میں ضرور ملاقات ہوگی اور آپ کو اس ملاقات کے بارے میں شک میں نہ رہنا چاہئے کہ آپ کی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے یہ ملاقات معراج کے موقع پر چھٹے آسمان پر ہوئی تھی۔ السجدة
24 [ ٢٦]امام کی لازمی خصوصیات:۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پیشوائی کے لئے لازمی صفات کا ذکر فرمایا : پہلی صفت یہ ہے کہ ان کا تازیست یہ طرز عمل ہونا چاہئے کہ وہ اللہ کے احکام کی دعوت دیتے رہیں اور لوگوں کی رہنمائی کرتے رہیں دوسرے یہ کہ یہ کام پورے صبر و استقلال سے سرانجام دیں۔ اور اس راہ میں پیش آنے والے مصائب پر صبر کریں اور تیسرے یہ کہ وہ اللہ کی آیات اور اس کے وعدوں پر پختہ یقین رکھتے ہوں۔ جتنا زیادہ یقین پختہ ہوگا اسی قدر وہ صبر کرسکیں گے اور اسی قدر زیادہ وہ امامت یا پیشوائی کے حقدار ہوں گے۔ اور بنی اسرائیل میں سے جو شخص ان صفات کے حامل تھے انھیں اللہ تعالیٰ نے امامت کے منصب پر سرفراز فرما دیا۔ السجدة
25 [ ٢٧]تفرقہ بازی کا انجام :تعصب اور ذلت :۔ اصول دین سے اختلاف کرنے کا وجود دنیوی مفادات اور قائد بن کر اپنا جھنڈا الگ بلند کرنے کی خواہش ہوتی ہے اور اس روش کا لازمی نتیجہ امت میں انتشار اور دنیا میں ذلت و خواری ہوتی ہے۔ یہی کچھ یہود کو اختلافات کے نتیجہ میں حاصل ہوا۔ اور یہی کچھ آج کل مسلمانوں کو حاصل ہو رہا ہے۔ پھر جو فرقہ بن جاتا ہے اس میں کچھ ایسا فرقہ وارانہ تعصب پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی روش بدلنا قطعاً گوارا نہیں کرتا۔ وہ دوسرے سب فرقوں کو گمراہ سمجھتا ہے لیکن اپنے متعلق اسے خیال تک نہیں آتا کہ وہ بھی گمراہ ہوسکتا ہے۔ گویا دنیا میں تو کوئی فرقہ اپنی غلطی تسلیم کرنے کو آمادہ نہیں ہوتا۔ ہاں اللہ تعالیٰ ہی ان کے درمیان یہ فیصلہ کرے گا کہ کس فرقہ کے پاس کس قدر حق کا حصہ تھا اور کس قدر باطل کا۔ ان سب میں سے فلاں فرقہ حق پر تھا اور باقی سب گمراہ تھے۔ لوگوں کے تعصب کی وجہ سے دنیا میں یہ مسئلہ لاینحل ہی رہتا ہے خواہ امت کتنی ہی ذلت اور خواری سے دو چار رہے۔ السجدة
26 [ ٢٨] قوم عاد، قوم ثمود اور قوم شعیب عرب سے ہی تعلق رکھنے والی قومیں تھیں۔ یہ سب تباہ ہوئیں اور اہل عرب ان کے کھنڈرات اپنی آنکھوں سے دیکھتے بھی تھے اور ان اقوام کے حالات زندگی اپنے بزرگوں سے سنتے بھی تھے۔ پھر بھی ان سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتے تھے۔ السجدة
27 [ ٢٩]وحی الٰہی کی مردہ زمین پر بارش :۔ یعنی بارش کا ریلا یا نہروں کا پانی جب بنجر زمین کو سیراب کرتا ہے تو بے آب و گیاہ اور بنجر زمین بھی لہلہانے لگتی ہے۔ اس پربہار آجاتی ہے۔ جس سے ہرقسم کے جانداروں کو رزق مہیا ہوتا ہے۔ بعینہٖ یہی صورت وحی الٰہی کی بارش کی بھی ہوتی ہے۔ یہی خطہ عرب جس میں توحید کی آواز نکالنا بھی اپنے لئے مصائب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اور لوگوں کے دل حق کی دعوت کو قبول کرنے کے سلسلہ میں بالکل مردہ ہوچکے ہیں۔ اگر بارش کا ریلا بنجر زمین کو لہلہاتے کھیت میں تبدیل کرسکتا ہے تو یہ بھی ممکن ہے کہ یہ خطہ وحی کی بارش سے توحید کی آواز سے لہلہانے لگے مردہ لوگوں میں زندگی عود کر آئے۔ لوگ سمجھنے سوچنے لگ جائیں۔ اور اللہ تعالیٰ اسلام کو اتنا فروغ بخشے کہ دیکھنے والے دنگ رہ جائیں۔ پھر اسلام کی برکات سے صرف انسان ہی نہیں اللہ کی ساری مخلوق مستفید اور سرشار ہوجائے۔ السجدة
28 اس آیت کی تفسیر اگلی آیت کے ساتھ آ رہی ہے۔ السجدة
29 [ ٣٠] یعنی کافروں کا ہمیشہ یہ سوال ہوتا ہے کہ یہ جو ہم پر عذاب کا وعدہ دیا جاتا ہے یا ایمان لانے والوں کے لئے مدد اور فتح و نصرت کی نوید سنائی جاتی ہے تو ایسے وعدے کا کوئی معین وقت بتلا دیا جائے۔ اور یہ معین وقت بتلا دینا ہی حکمت الٰہی کے خلاف ہوتا ہے۔ لہٰذا ایسے سوال کے جواب میں کفار کی توجہ اس کے دوسرے پہلوؤں کی طرف مبذول کرائی جاتی ہے جن پر عمل کی بنیاد اٹھتی ہو۔ اور یہی قرآن کا حقیقی مقصد ہوتا ہے۔ یہاں بھی اس سوال کا جواب اسی انداز میں دیا گیا ہے کہ تم اسی مہلت کو غنیمت سمجھو جو اس وقت تمہیں حاصل ہے۔ کیونکہ وہ فیصلہ کا دن آگیا تو اس وقت نہ تمہارا اسلام لانا کچھ فائدہ دے سکتا ہے اور نہ مزید مہلت ملے گی۔ نہ تمہیں سنبھلنے کا موقع ملے گا لہٰذا اس کے لئے بے چین ہونا چھوڑ دو۔ البتہ اگر اپنے فائدہ کی بات سوچ سکتے ہو تو سوچو۔ السجدة
30 [ ٣١] آپ ان سے الجھنا اور بحث کرنا چھوڑ دیجئے۔ انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیجئے۔ آپ اس بات کے منتظر رہئے کہ کب اللہ کا وعدہ پورا ہوتا ہے اور وہ ان شاء اللہ ضرور پورا ہوگا اور وہ لوگ اس بات کے انتظار میں ہیں کہ تم اور تمہاری یہ چھوٹی اور کمزور سی جماعت کب گردش ایام کا شکار ہوتی ہے۔ السجدة
0 الأحزاب
1 [١] جنگ احدکےبعدمدینہ پرخوف وہراس کی فضا:۔ اگرچہ اس سورۃ کا اکثر حصہ جنگ (احزاب ٥ ھ) کے بعد نازل ہوا تاہم ابتدائی آیات جنگ احزاب سے بہت پہلے کی ہیں۔ مکہ میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور مسلمانوں کے دشمن صرف قریش مکہ تھے۔ مگر مدینہ جانے کے بعد مدینہ کے یہود، مشرکین اور منافقین سب آپ کے دشمن بن گئے تھے۔ جو اسلام اور پیغمبر اسلام کو بدنام کرنے اور صفحہ ہستی سے مٹا دینے پر تلے بیٹھے تھے۔ غزوہ احد میں مسلمانوں کو جو عارضی طور پر شکست ہوئی تھی اس نے دشمنوں کے حوصلے بہت بڑھا دیئے تھے۔ مشرک قبائل نے دو دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دھوکا دے کر تبلیغ کے لئے قاریوں کا مطالبہ کیا اور پھر انھیں قتل کردیا۔ مدینہ پر ہر وقت خوف و ہراس کی فضا طاری رہتی تھی۔ اور اعدائے اسلام نے اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کی مہم بڑی تیز کر رکھی تھی۔ معاشرتی اصلاحات اور غلامی کا مسئلہ :۔ اور یہی وہ دور تھا جس میں بذریعہ وحی مسلمانوں کی اخلاقی تربیت اور معاشرتی اصلاحات کا سلسلہ بھی جاری تھا اور معاشرتی اصلاحات کے سلسلہ میں ایک نہایت اہم مسئلہ غلامی کا تھا۔ عرب معاشرہ میں غلامی کا اتنا زیادہ رواج تھا کہ اگر یوں کہا جائے کہ اس دور میں عرب آبادی کا آدھے سے زیادہ حصہ غلاموں پر مشتمل تھا تو غلط نہ ہوگا۔ پھر ان غلاموں کو آزاد انسانوں سے بہت حقیر اور کم تر درجہ کی مخلوق سمجھا جاتا تھا اور اسلام اس سلسلہ میں کئی اصلاحات کرنا چاہتا تھا۔ غلام اور آزادکی طبقاتی تقسیم :۔ اسی سلسلہ کی ایک کڑی یہ تھی کہ زید بن حارثہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام تھا۔ جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کرکے اپنا متبنیٰ بنا لیا تھا۔ چنانچہ لوگ سیدنا زید کو زید بن محمد کہا کرتے تھے۔ یہ آزاد کردہ غلام بھی معاشرہ میں وہ مقام نہیں رکھتے تھے جو آزاد لوگوں کا ہوتا تھا۔ گویا یہ معاشرتی عزت و وقار کے لحاظ سے ایک درمیانہ قسم کا تیسرا طبقہ بن جاتا تھا جو غلاموں سے تو اوپر ہوتا تھا لیکن آزاد لوگ انھیں بھی اپنا ہم پلہ قرار نہیں دیتے تھے۔ اس سلسلہ میں اسلام نے کئی اقدامات کئے اور کئی اصلاحات کیں۔ مثلاً اسلام نے اگرچہ کلی طور پر غلامی کا استیصال نہیں کیا کیونکہ اس میں بھی کچھ مصلحتیں تھیں تاہم ایسی تدابیر اختیار کیں جن سے زیادہ سے زیادہ غلاموں کو آزادی کی نعمت میسر ہو اور یہ ایک جداگانہ موضوع ہے۔ جو خاصا تفصیل طلب ہے۔ آپ کے آزاد کردہ غلام زید کا سیدہ زینب سے نکاح :۔ آزاد شدہ غلاموں کے سلسلہ میں اسلام کا منشا یہ تھا کہ کم از کم ایسے لوگوں کو آزاد لوگوں کے برابر درجہ دیا جائے۔ چنانچہ اسی منشائے الٰہی کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آزاد کردہ غلام اور متبنیٰ زید کے لئے اپنی پھوپھی زاد بہن سیدہ زینب سے رشتہ کا مطالبہ کردیا۔ سیدہ زینب کا خاندان آپ ہی کا خاندان تھا۔ جو آزاد معاشرہ میں بڑے اونچے درجہ کے لوگ شمار ہوتے تھے وہ بھلا کیسے اس رشتہ کو قبول کرسکتے تھے؟ چنانچہ انہوں نے اسی بنا پر رشتہ سے صاف انکار کردیا اور رشتہ کا یہ مطالبہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرضی سے نہیں بلکہ اللہ کے حکم سے کیا تھا۔ لہٰذا ان لوگوں کے انکار پر اسی سورۃ کی آیت نمبر ٣٦ نازل ہوئی۔ جس میں سیدہ زینب کے رشتہ داروں کو مطلع کردیا گیا کہ ’’جب اللہ اور اس کا رسول کسی کام کا فیصلہ کرلیں تو مومنوں کا کچھ اختیار باقی نہیں رہ جاتا‘‘ چنانچہ انہوں نے اللہ کے اس حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردیا اور سیدنا زید اور سیدہ زینب کی شادی ہوگئی۔ مگر شادی کے بعد بھی زوجین کے تعلقات میں خوشگواری نہ آسکی۔ اور اس کی وجہ وہی طبقاتی امتیاز تھا جو معاشرہ میں جڑ پکڑ چکا تھا۔ آپ کا زید کو سمجھانا اور طلاق کی نوبت :۔ سیدہ زینب نے اللہ کے حکم کے سامنے تو سر تسلیم خم کردیا مگر طبیعت کا یکدم بدل جانا ان کے بس کی بات نہ تھی۔ اور وہ اپنے خاوند کا وہ احترام نہ کرسکیں جو ایک بیوی کو اپنے خاوند کا کرنا چاہئے۔ سیدنا زید چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے بھی تھے اور متبّنی بھی۔ لہٰذا انہوں نے کئی بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی اس تکلیف اور ذہنی کوفت کی شکایت کی۔ اور یہ بھی کہا کہ میں زینب کو طلاق دے دوں گا۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا زید کو طلاق سے منع ہی فرماتے رہے۔ ہر مشکل کام کا آغاز نبی کی ذات سے : سیدہ زینب سے نکاح کا حکم :۔ عرب معاشرہ میں ایک اور بگاڑ بھی موجود تھا جو یہ تھا کہ یہ لوگ متبنیٰ کو ہر لحاظ سے اپنے حقیقی بیٹوں کی مانند قرار دیتے تھے اور اس مسئلہ میں بھی اسلام اصلاحی قدم اٹھانا چاہتا تھا۔ لیکن یہ قدم چونکہ انتہائی مشکل قدم تھا۔ اور جو شخص بھی اس بند دروازے کو کھولنے کا ارادہ کرتا اسے سارے عرب معاشرہ کے طعن وتشنیع کا ہدف بننا پڑتا تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس مشکل کام کے لئے نبی کی ذات کو منتخب کیا۔ جن دنوں سیدنا زید سیدہ زینب کو طلاق دینے کا سوچ رہے تھے۔ اسی دور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اشارہ مل چکا تھا کہ اب سیدہ زینب کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کیا جائے گا۔ اس اشارہ حکم الٰہی سے دو مصلحتیں مقصود تھیں ایک یہ کہ سیدہ زینب جس نے اپنی طبیعت کی ناگواری کے باوجود اللہ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردیا تھا آئندہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کرکے اس کی دلجوئی کی جائے اور دوسری مصلحت یہ تھی کہ معاشرہ میں اس غلط نظریہ کا قلع قمع کیا جائے کہ متبنّیٰ بھی ہر لحاظ سے حقیقی بیٹے کی طرح ہوتا ہے۔ نکاح پر کافروں اور منافقوں کا طعن وتشنیع :۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی سے سیدہ زینب سے نکاح کا اشارہ ملا۔ تو آپ کے سامنے وہ سارے خطرات آنے لگے۔ جب سارے کے سارے دشمن آپ کو یہ طعنہ دیں گے کہ دیکھو! اس نبی نے تو اپنی بہو سے نکاح کرلیا ہے حالانکہ یہ خود ہی بہو سے نکاح کرنا حرام بتاتا ہے۔ غالباً طعن و تشنیع کے انھیں خطرات کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم زید کو بار بار طلاق دینے سے روکتے رہے۔ اسی پس منظر میں اس سورۃ کی یہ ابتدائی آیات نازل ہوئیں اور اللہ تعالیٰ نے براہ راست اپنے نبی کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہیں ان کافروں اور منافقوں سے نہ ڈرنے کی ضرورت ہے نہ ان کی باتوں پر کان دھرنے کی۔ ڈرنے کے لائق تو صرف اللہ کی ذات ہے۔ تم صرف اسی سے ڈرو اور اسی کی وحی کی اطاعت کرو۔ اللہ اپنے احکام کی حکمت خوب جانتا ہے کہ وہ کیوں ایسا حکم دے رہا ہے اور جو لوگ اس نکاح کے رد عمل میں شور و غوغا بپا کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ان سے بھی پوری طرح باخبر ہے۔ الأحزاب
2 الأحزاب
3 [١۔ الف] یعنی تمہارے دشمن جیسی بھی باتیں بناتے ہیں اور جو الزام بھی آپ پر دھرتے ہیں دھرنے دو۔ تمہارا کام فقط یہ ہے کہ وحی کا حکم بجا لاؤ اور اللہ پر پورا بھروسہ رکھو۔ ان دشمنوں سے نمٹنا یا ان کی سازشوں اور چالوں کو ناکام بنانا میرا کام ہے۔ الأحزاب
4 [٢] اللہ کا دو دل نہ بنانے کا مفہوم :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تین حقائق بیان فرمائے ہیں۔ ایک یہ کہ سب انسانوں کا اللہ نے ایک ہی دل بنایا ہے دو نہیں بنائے۔ لہٰذا ایک دل ایک وقت میں ایک ہی حقیقت کو تسلیم کرسکتا ہے۔ دو متضاد حقیقتوں کو تسلیم نہیں کرسکتا۔ یہ ناممکن ہے کہ ایک ہی شخص بیک وقت مومن بھی ہو اور منافق بھی۔ یا وہ کافر بھی ہو اور مسلم بھی۔ ان میں سے ایک وقت میں ایک ہی حقیقت کو تسلیم کیا جاسکتا ہے کیونکہ دو متضاد باتوں میں سے حقیقت ایک ہی ہوسکتی ہے۔ اور اگر کوئی منافق دل میں نفاق چھپا کر ایمان کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ حقیقت بیان نہیں کرتا۔ بلکہ جھوٹ بولتا اور دھوکا دیتا ہے اور اس نکاح کے ردعمل سے مسلمانوں کو یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ ان میں مخلص مسلمان کتنے اور کون کون ہیں اور منافق کون ہیں جو اللہ کے حکم کے علی الرغم دوسرے دشمنوں کی دیکھا دیکھی زبان دراز کرتے ہیں۔ ظہار کا دستور بھی لغو ہے اور متبّنیٰ بنانے کا بھی کیونکہ ماں اور باپ ایک ہی ہوسکتے ہیں :۔ عرب میں طلاق کے علاوہ یہ بھی دستور تھا کہ جس عورت پر غصہ آتا اور اس سے ان بن ہوجاتی تو کہہ دیتے تو مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے۔ اس کام کو وہ ظہار کہتے تھے۔ یہ کہنے پر وہ عورت خاوند پر حرام ہوجاتی تھی۔ یہ دستور بھی اصلاح طلب تھا۔ اس کی اصلاح کا طریقہ اور کفارہ تو سورۃ مجادلہ میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ یہاں صرف یہ بتایا جارہا ہے کہ تمہارے کہنے سے بیوی ماں نہیں بن جاتی۔ ماں تو وہ ہوتی ہے جس نے جنا ہو۔ تو جس طرح کسی آدمی کے اندر دو دل نہیں ہوسکتے اسی طرح کسی کی دو مائیں بھی نہیں ہوسکتیں۔ اب اگر تم بیوی کو ماں کہہ کر اسے فی الواقع ماں سمجھ بیٹھو تو یہ تو تمہارے منہ کی بات ہے جس کا حقیقت سے کچھ تعلق نہیں۔ متبنّیٰ اور وراثت کے دستور کی اصلاح :۔ اور تیسری حقیقت یہ ہے کہ متبنّیٰ حقیقی بیٹے کا مقام نہیں لے سکتا۔ یہ بھی ناممکن ہے کہ کسی کے دو باپ ہوں۔ باپ وہی ہے جس کے نطفہ سے وہ پیدا ہوا ہے۔ دوسرا کوئی شخص نہ اس کا حقیقی باپ ہوسکتا ہے اور نہ وہ اس کا حقیقی بیٹا ہوسکتا ہے۔ متبنّیٰ اپنے نقلی باپ کا وارث نہیں بن سکتا۔ نہ باپ متبنّیٰ کا وارث ہوسکتا ہے۔ ہر شخص اپنے متبنّیٰ کی مطلقہ بیوہ سے نکاح کرسکتا ہے۔ اسی طرح متبنّیٰ بھی اپنے نقلی باپ کی مطلقہ یا بیوہ سے نکاح کرسکتا ہے۔ اور یہی غلط دستور معاشرہ میں رائج تھا۔ جس کی اصلاح اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سیدہ زینب کے ساتھ نکاح سے فرمانا چاہتا تھا۔ [٣] اس آیت میں اسی اصلاحی اقدام کی چند جزئیات بیان فرمائی جارہی ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ ہر شخص کو اس کے حقیقی باپ کی نسبت سے پکارا جائے۔ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا زید کو اپنا متبنّیٰ بنا لیاتو ہم لوگ انھیں زید بن محمد کہہ کر پکارتے تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو پھر زید بن حارثہ کہنا شروع کردیا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی انھیں زید بن حارثہ ہی کہنے لگے۔ ضمناً اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا عیسیٰ کا باپ نہیں تھا۔ ورنہ اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام، بن مریم کبھی نہ فرماتے۔ سیدنا عیسیٰ ابن مریم کی معجزانہ پیدائش کے منکرین کے لئے یہ لمحہ فکریہ اس لحاظ سے ہے کہ قرآن نے اور کسی مرد یا عورت کا نام ابنیت سمیت ذکر نہیں کیا۔ الأحزاب
5 [٤] سلیمان فارسی رضی اللہ عنہ اور صہیب رومی رضی اللہ عنہ :۔ جیسے سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے باپ کا علم خود انھیں بھی نہیں تھا۔ بچپن میں ہی انھیں غلام بنا لیا گیا۔ وہ خود فرماتے ہیں کہ مجھے دس سے زیادہ مرتبہ بیچا اور خریدا گیا۔ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب اسلام سلمان الفارسی) اور جیسے سیدنا صہیب رومی رضی اللہ عنہ جو اصل میں ایرانی تھے۔ مگر اہل روم نے جب فارس پر حملہ کیا تو انھیں بچپن ہی میں قیدی بنا کر روم لے گئے تھے اور دونوں صحابہ کرام کو اپنے اپنے والد کے نام تک معلوم نہ تھے۔ [٥] یعنی اگر کوئی کسی کو پیار سے بیٹا یا بیٹی کہہ دے یا کسی کا احترام ملحوظ رکھ کر کسی بزرگ کو باپ یا بزرگ عورت کو ماں کہہ دے یا محض اخلاقاً یہ الفاظ استعمال کئے جائیں تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ حرج اس وقت واقع ہوتا ہے کہ اگر کسی کو بیٹا یا بیٹی کہے تو حقیقی بیٹے یا بیٹی جیسے فرائض، حقوق بھی اپنے اوپر لازم کرلے۔ [٦] اپنے آپ کو کسی دوسرے فرد یا قوم کی طرف منسوب کرنا کبیرہ گناہ ہے :۔ جس طرح عام مومنوں کو حکم ہے کہ وہ کسی شخص کو اس کے حقیقی باپ ہی کی طرف منسوب کریں کسی دوسرے کی طرف نہ کریں۔ اسی طرح یہ بھی حکم ہے کہ کوئی شخص خود بھی اپنے آپ کو اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے شخص یا کسی قوم کی طرف منسوب نہ کرے۔ چنانچہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جس نے دوسرے شخص کو جان بوجھ کر اپنا باپ بنایا وہ کافر ہوگیا اور جو شخص اپنے تئیں دوسری قوم کا بتائے وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنا لے“(بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب نسبۃ الیمن الی اسمٰعیل) ہمارے ملک میں سید بننے کا یا کسی اونچی ذات سے نسبت قائم کرنے کا عام رواج ہے۔ ایسے حضرات اس حدیث کے آئینے میں اپنا انجام دیکھ سکتے ہیں۔ [٧] اس کا ایک مطلب تو ہے کہ اس سلسلہ میں تم سے جو پہلے لغزشیں اور غلطیاں ہوچکی ہیں اللہ انھیں معاف کرنے والا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ اگر تم نادانستہ کوئی ایسی بات کہہ دو یا بھول چوک کہہ دو تو ایسی خطائیں بھی اللہ معاف کرنے والا ہے۔ الأحزاب
6 [٨] آپ مومنوں کے ان کی ذات سے بھی زیادہ خیر خواہ ہیں :۔ اس آیت کے بھی دو مطلب ہیں۔ ایک مطلب یہ ہے کہ تم خود بھی اپنے اتنے خیر خواہ نہیں ہوسکتے جتنا کہ نبی تمہارا خیر خواہ ہے۔ پھر اس کے بھی دو پہلو ہیں ایک دینی دوسرا دنیوی۔ دینی لحاظ سے آپ کی تمام امت کو آپ ہی کی وساطت سے ہدایت کا راستہ ملا جس میں ہماری دنیوی اور اخروی فلاح ہے۔ آپ ہمارے معلم بھی ہیں اور مربی بھی، اس لحاظ سے آپ تمام امت کے روحانی باپ بھی ہوئے اور روحانی استاد بھی۔ اور دنیوی پہلو میں آپ کی سب سے زیادہ خیرخواہی درج ذیل حدیث سے واضح ہوتی ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جتنے بھی مومن ہیں میں ان سب کا دنیا اور آخرت کے کاموں میں سب لوگوں سے زیادہ حقدار (اور خیر خواہ) ہوں۔ جو مومن مرتے وقت مال و دولت چھوڑ جائے اس کے وارث اس کے عزیز و اقارب ہوں گے جو بھی ہوں اور اگر وہ کچھ قرض یا چھوٹے چھوٹے بال بچے چھوڑ جائے تو وہ میرے پاس آئیں میں ان کا کام چلانے والا ہوں‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) تمام لوگوں سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا :۔ اور آپ کی اس حد درجہ کی خیرخواہی کا منطقی تقاضا یہ ہے کہ تمام مسلمان بھی آپ کا دوسرے سب لوگوں سے بڑھ کر احترام کریں اور ان کی اطاعت کریں تاکہ آپ کی تعلیم و تربیت سے پوری طرح فیض یاب ہوسکیں اور اس پہلو پر درج ذیل احادیث روشنی ڈالتی ہیں : ١۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کو میری محبت، اولاد، والدین اور سب لوگوں سے زیادہ نہ ہو‘‘ (مسلم، کتاب الایمان۔ باب وجوب محبۃ رسول اللہ ) ٢۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنی خواہش نفس کو اس چیز کے تابع نہ کر دے جو میں لایا ہوں‘‘ (شرح السنۃ۔ بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب الاعتصام بالکتاب والسنہ۔ فصل ثانی) ٣۔ سیدنا عبداللہ بن ہشام فرماتے ہیں کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ میرے نزدیک اپنی جان کے علاوہ ہر چیز سے محبوب ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ جب تک میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں، تم مومن نہیں ہوسکتے‘‘ سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے عرض کیا : ’’اللہ کی قسم! اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے نزدیک میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اب اے عمر!‘‘ (یعنی اب تم صحیح مسلم ہو) (بخاری۔ کتاب الایمان والنذور۔ باب کیف کان یمین النبی ) [٩] جب نبی روحانی باپ ہوا تو اس کی بیویاں روحانی مائیں ہوئیں۔ یا جب نبی کی بیویاں امت کی مائیں ہیں تو نبی ان کا باپ ہوا۔ لیکن ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف احترام کے پہلو میں امت کی مائیں ہیں اور ان سے کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد نکاح بھی نہیں کرسکتا اور باقی احکام بدستور رہیں گے۔ مثلاً وہ مومنوں سے باقاعدہ پردہ کریں گی اور وہ انھیں اجنبی ہی سمجھیں گی نہ ہی وہ کسی امتی کی وراثت میں دعویدار بن سکتی ہیں۔ وغیرہ۔ [١٠] مؤاخات اور وراثت :۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے مسلمان ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو ایک نہایت اہم مسئلہ مہاجرین کی آبادکاری اور ان کے ذریعہ معاش کا بھی تھا۔ جو اس نوزائیدہ مسلم ریاست کے لئے فوری طور پر حل طلب تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نازک مسئلہ کے حل میں نہایت دانشمندی سے کام لیا۔ اور ایک مہاجر کو ایک انصاری کے ساتھ ملا کر اس کی آبادی اور اس کے معاش کی ذمہ داری اس پر ڈال دی۔ اس ذمہ داری کو انصار نے بڑی فراخدلی سے قبول کیا۔ اس سلسلہ کو مؤاخات کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے گھر میں مختلف اوقات کی تین مجالس میں تقریباً تنتالیس مہاجرین کو اتنے ہی انصار کا بھائی بنا دیا۔ اس طرح عارضی طور پر مہاجرین کی آباد کاری اور معاش کا مسئلہ حل ہوگیا۔ پھر یہ بھائی چارہ اس حد تک بڑھا کہ وہ ایک دوسرے کے وارث اور ولی قرار پاگئے۔ مہاجر کی وراثت اس کے انصاری بھائی کو ملتی تھی اور انصاری کی اس کے مہاجر بھائی کو۔ پھر جب مسلمانوں کی معاشی حالت نسبتاً بہتر ہوگئی تو اس عارض قانون کو ختم کردیا گیا اور اصل وارث قریبی رشتہ دار ہی قرار پائے۔ ہاں ان بھائیوں سے حق وراثت کے علاوہ دوسرے ذرائع سے بہتر سلوک کی اجازت دی گئی۔ مثلاً کوئی شخص ان کے حق میں وصیت کرسکتا ہے۔ اپنی زندگی میں مالی امداد اور ہبہ کرسکتا ہے۔ تحفے تحائف دے سکتا ہے۔ [١١] یعنی مؤاخات کے بھائیوں کو ایک دوسرے کا وارث بنا دینا ایک عارضی قانون تھا۔ مستقل قانون شریعت یہی ہے کہ وراثت کے حقدار قرابتدار ہی ہوتے ہیں۔ الأحزاب
7 [١٢] انبیاء کا عہد کیا ہے؟ انبیاء کا عہد، عہد الست سے الگ ہے۔ اور اس عہد کا بھی قرآن میں متعدد بار ذکر آیا ہے (٢: ٨٣، ٣: ١٨٧، ٥: ٦٧، ٧: ١٦٩ تا ١٧١، ٤٢: ١٣ میں) اور وہ عہد یہ تھا کہ ہر پیغمبر اپنے سے پہلے پیغمبروں کی اور ان کی کتابوں کی تصدیق کرے گا، اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کی سب سے پہلے خود اطاعت کرے گا پھر دوسروں سے کرائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو بلاکم و کاست دوسروں تک پہنچائے گا اور ان احکام کو عملاً نافذ کرنے میں اپنی مقدور بھر کوشش سے دریغ نہ کرے گا۔ اور اس مقام پر اس عہد کو یاد دلاتے اور بالخصوص منک کہنے سے مراد یہ ہے کہ آپ جو منہ بولے رشتوں کے معاملہ میں جاہلیت کی رسم توڑنے سے جھجک رہے ہیں اور دشمنوں کے طعن و تشنیع سے ڈر رہے ہیں تو ان لوگوں کی قطعاً پروا نہ کیجئے۔ دوسرے پیغمبروں کی طرح آپ سے بھی ہمارا پختہ معاہدہ ہے کہ جو کچھ بھی ہم تمہیں حکم دیں گے اسے بجا لاؤ گے اور دوسروں کو اس کی پیروی کا حکم دو گے۔ لہٰذا جو خدمت ہم آپ سے لینا چاہتے ہیں اسے بلاتامل سرانجام دو اور شماتت اعداء کا خوف نہ کرو۔ الأحزاب
8 [١٣] انبیاء کے عہد کی ان سے باز پرس بھی ہوگی :۔ یہ محض عہد لینے تک ہی معاملہ نہیں ہوجاتا بلکہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس عہد سے متعلق پیغمبروں سے بھی سوال کرے گا۔ ان کی بھی بازپرس ہوگی۔ انھیں بھی پوچھا جائے گا کہ آیا تم نے اپنی قوم کو میرا پیغام پہنچا دیا تھا ؟ پھر اس قوم نے تمہیں کیا جواب دیا تھا ؟ یا تمہاری دعوت کا ردعمل کیا ہوا تھا ؟ یہ مطلب تو ربط مضمون کے لحاظ سے ہے۔ تاہم یہاں رسولوں کے بجائے صادقین کا لفظ آیا ہے۔ گویا ہر ایماندار سے اس کے عہد کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ پھر جن لوگوں نے اللہ کے ساتھ کئے ہوئے عہد کو پورا کیا ہوگا وہی لوگ صادق العہد قرار پائیں گے۔ الأحزاب
9 [ ١٤] جنگ احزاب کے اصل محرک خیبر میں پناہ گزین یہودی تھے :۔ آیت نمبر ٩ سے لے کر آیت نمبر ٢٧ تک جنگ احزاب کا یا جنگ خندق کا بیان ہے۔ مگر اس میں تسلسل کا وہ انداز نہیں جو ایک انسان یا مورخ کے بیان یا اس کی تصنیف میں پایا جاتا ہے۔ وہ سب سے پہلے جنگ کے اسباب بیان کرے گا۔ پھر واقعات کی تفصیل بتائے گا پھر اس کے بعد اس کے نتائج پر تبصرہ کرے گا۔ لیکن قرآن کا انداز بیان اس سے بالکل جداگانہ ہوتا ہے۔ قرآن کا اصل موضوع انسان کی ہدایت اور مسلمانوں کی اخلاقی اور عملی تربیت ہے۔ لہٰذا اس مخصوص انداز بیان سے اس جنگ کے بیان کا آغاز کیا گیا ہے اور انھیں بتایا ہے کہ جب اللہ کے فرمانبردار صرف اللہ پر توکل کرتے ہیں تو وہ کن کن غیر مرئی اسباب سے اپنے بندوں کی مدد فرماتا ہے لہٰذا مسلمانوں کو مشکل سے مشکل آزمائش کے وقت بھی صرف اللہ کی ذات پر بھروسہ رکھنا چاہئے اور جو کام وہ کرسکتے ہیں وہ بہرحال انھیں پوری محنت سے سرانجام دینا چاہئیں۔ پھر بعد میں قرآن کے بیان میں ان تمام فرقوں کے کردار پر بھی تبصرہ آگیا ہے جو اس جنگ میں شریک تھے۔ اب ہم پہلے اس جنگ کے مختصر حالات ترتیب وار بیان کرتے ہیں تاکہ اس جنگ کا پس منظر اور واقعات بھی سامنے رہیں اور آیات قرآنی کا مفہوم سمجھنے میں آسانی ہو۔ کفار کے متحدہ گروپ میں کون کون سے گروپ اور قبائل شامل تھے؟ اس جنگ میں قریش مکہ، یہود مدینہ اور مشرک بدوی قبائل سب نے حصہ لیا تھا اسی لئے اسے ’’جنگ احزاب‘‘ کہا جاتا ہے۔ رہے منافقین تو وہ کھل کر سامنے آنے کی بجائے مسلمانوں میں بددلی پھیلانے اور ان کی حوصلہ شکنی کرنے، ان کا مذاق اڑانے اور دشمنوں سے سازباز کا کردار ادا کر رہے تھے۔ کافر اتحادیوں کے اس مشترکہ لشکر کا سردار چونکہ ابو سفیان ہی تھا لہٰذا اس جنگ میں زیادہ تر حصہ قریش مکہ کا ہی سمجھا جاسکتا ہے۔ اس جنگ کا آغاز یوں ہوا کہ جنگ احد کے بعد غزوہ بنو نضیر پیش آیا۔ جس کے نتیجہ میں یہودیوں کو مدینہ سے نکال دیا گیا اور انہوں نے خیبر میں جاکر پناہ لی تھی۔ انھیں جلا وطن شدہ یہودیوں میں سے بیس افراد پر مشتمل ایک وفد قریش مکہ کے پاس آیا اور انھیں مسلمانوں پر ایک اجتماعی اور کاری ضرب لگانے کی ترغیب دی۔ ایسی ضرب جس سے مسلمانوں کی جڑ کٹ جائے اور یہ روزمرہ کی بک بک ختم ہو۔ قریش مکہ نے یہودی وفد کی اس آواز پر لبیک کہا اور انہوں نے اس موقع کو اس لحاظ سے بھی غنیمت جانا کہ جنگ احد کے اختتام پر ابو سفیان نے ایک سال بعد بدر کے میدان میں جنگ لڑنے کا چیلنج دیا تھا۔ مسلمانوں کے وقت مقررہ پر میدان بدر میں پہنچنے کے باوجود ابو سفیان وہاں نہ پہنچ سکا تھا۔ یہود کی اس پیش کش نے اس کے حوصلے بڑھا دیئے اور فوراً ان کا ہم نوا بن گیا۔ قریش مکہ کی طرف سے حوصلہ افزا جواب پانے کے بعد یہ وفد بنوغطفان کے پاس گیا۔ یہ قبیلہ چونکہ پہلے ہی یہود کا حلیف تھا لہٰذا وہ بھی فوراً تیار ہوگیا۔ بعد ازاں یہ وفد دوسرے اسلام دشمن قبائل میں گھوما پھرا حتیٰ کہ تمام اسلام دشمن عناصر کو مسلمانوں کے خلاف آمادہ جنگ کرلیا۔ چنانچہ ذی قعدہ ٥ ھ میں ابو سفیان کی سر کردگی میں جنوبی اطراف سے قریش، کنانہ اور تہامہ میں آباد دوسرے حلیف قبائل کا چار ہزار افراد پر مشتمل لشکر مدینہ کی جانب روانہ ہوا۔ مرالظہران کے مقام پر بنوسلیم کے ذیلی قبائل جنہوں نے بئرمعونہ کے قریب چوٹی کے ستر (٧٠) قاریوں کو دھوکے سے شہید کردیا تھا، ابو سفیان کے لشکر سے آکر مل گئے۔ مشرقی اطراف سے غطفانی قبائل فزارہ، حرہ اور اشجع بھی اس لشکر سے آملے۔ غرضیکہ مدینہ تک پہنچتے پہنچتے اس لشکر کی تعداد دس ہزار تک پہنچ گئی۔ جبکہ مدینہ کی کل آبادی بھی دس ہزار سے کم تھی اس میں سے جنگجو افراد صرف تین ہزار تھے اور ان تین ہزار میں منافقین بھی شامل تھے۔ اگر مسلمانوں نے خندق کھود کر بروقت اپنا دفاع نہ کرلیا ہوتا تو فی الواقع یہ عظیم لشکر مسلمانوں کو ایک ہی حملہ میں نیست و نابود کرنے کے لئے کافی تھا۔ مجلس مشاورت اور خندق کی کھدائی :۔ دوسری طرف مسلمانوں کا محکمہ خبررسانی (Intelligence) کفار کی نسبت بہت زیادہ فعال اور متحرک تھا۔ جب یہود بنو نضیر کا وفد قریش اور دوسرے قبائل کو آمادہ جنگ کر رہا تھا تو جلد ہی یہ خبریں مدینہ پہنچ گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مشورہ کیا کہ دفاع کے لئے کیا صورت اختیار کی جائے؟ چنانچہ سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مشورہ کے مطابق مدینہ کے سامنے والی سمت میں خندق کھود کر دفاع کرنے کی تجویز پاس ہوئی۔ چنانچہ خندق کی کھدائی کا کام شروع ہوگیا۔ خندق ١٥ فٹ گہری کھودی۔ ہر دس آدمیوں کو چالیس ہاتھ لمبی خندق کھودنے پر مامور کیا گیا اور تیس افراد نے مل کر یہ خندق بیس دن میں مکمل کی۔ معاشی لحاظ سے بھی مسلمانوں پر یہ وقت انتہائی تنگی کا دور تھا۔ مسلمان پیٹ پر پتھر باندھ کر خندق کھود رہے تھے۔ اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مہاجرین اور انصار نے مدینہ کے گرد خندق کھودنا شروع کی تو مٹی اپنی پیٹھ پر ڈھو رہے تھے اور یہ شعر پڑھتے جاتے تھے۔ ’’ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس بات پر بیعت کی کہ جب تک زندہ رہیں گے۔ اسلام کی خاطر زندہ رہیں گے‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں یہ جواب دے رہے تھے۔ ’’یا اللہ! بھلائی تو وہی ہے جو آخرت کی ہے۔ لہٰذا مہاجرین و انصار میں برکت عطا فرما“ خوراک کی قلت :۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس وقت خوراک کی قلت کا یہ حال تھا کہ تھوڑے سے جو بدبودار چربی میں ملا کر پکاتے۔ لوگ بھوکے ہوتے وہ اسے بھی کھا جاتے۔ حالانکہ وہ بدمزا چربی حلق پکڑ لیتی اور اس سے خراب بو آتی تھی۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوۃ الخندق) آپ کا اکیلے چٹان توڑنا اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ہم خندق کھود رہے تھے تو زمین میں ایک بڑا سخت قطعہ آگیا جو کدال سے کھد نہ سکا۔ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس صورت حال سے مطلع کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں خود اترتا ہوں۔ آپ کھڑے ہوئے بھوک کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیٹ پر پتھر بندھا تھا اور ہم لوگ نے بھی تین دن سے کوئی کھانے کی چیز نہ چکھی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کدال اس قطعہ پر اس زور سے ماری کہ وہ ریزہ ریزہ ہوگیا۔ میں نے جب بھوک سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال دیکھا تو مجھ سے برداشت نہ ہوسکا۔ سیدھا گھر اپنی بیوی (سہیلہ) کے پاس آیا اور کہا میں نے رسول اللہ کی یہ حالت دیکھی ہے۔ تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے۔ وہ کہنے لگی ایک صاع جو اور ایک بکری کا بچہ ہے۔ میری بیوی نے جو پیسے اور میں نے بکری ذبح کرکے اس کا گوشت ہانڈی میں ڈالا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلانے کے لئے روانہ ہوا تو بیوی کہنے لگی: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھوڑے ہی آدمی بلانا اور مجھے سب کے سامنے شرمندہ نہ کرنا‘‘ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے ہاں دعوت اور آپ کا معجزہ :۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر چپکے سے کہا کہ ہم نے ایک صاع جو کا آٹا پیسا ہے اور ایک بکری کا بچہ ذبح کیا ہے۔ لہٰذا آپ چند آدمیوں کو ہمراہ لے کر ہمارے ہاں چلئے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے پکارا، ’’خندق والو! جابر کے ہاں تمہاری دعوت ہے۔ چلو، جلدی کرو‘‘ اور جابر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ’’جب تک میں نہ آؤں۔ ہانڈی چولھے پر سے مت اتارنا اور نہ آٹے کی روٹیاں بنانا‘‘ میں گھر واپس لوٹا ہی تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بہت سے لوگ موجود تھے۔ میری بیوی مجھے کہنے لگی ’’اللہ تجھ سے سمجھے‘‘ میاں نے کہا جیسا تو نے کہا تھا میں نے ویسا ہی آپ سے کہا تھا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹے میں اپنا لب ڈال دیا اور برکت کی دعا کی۔ اس کے بعد آپ ہانڈی کی طرف گئے۔ اس میں بھی لب ڈالا۔ اور میری بیوی سے فرمایا : ’’روٹی پکانے والی ایک اور بلا لے اور کفگیر سے ہانڈی میں سے گوشت نکالتی جا اور اس کو چولہے سے نہ اتارنا۔‘‘ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کھانے والے ایک ہزار آدمی تھے اور میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ سب نے کھانا خوب سیر ہو کھایا مگر ہانڈی کا وہی حال تھا۔ وہ گوشت سے بھری جوش مار رہی تھی اور آٹے میں سے بھی روٹیاں بن رہی تھیں۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوۃ الخندق) بنو قریظہ کی عہد شکنی :۔ خندق تیار ہونے کے بعد ایک افتاد یہ پیش آئی کہ مدینہ کے اندر جو یہود کا قبیلہ بنو قریظہ، جو مسلمانوں کا معاہد اور اب تک اپنے عہد پر قائم تھا، حیی بن اخطب کی انگیخت اور جنگ کے بعد بھی تعاون کی یقین دہانی کی بنا پر عہد شکنی پر آمادہ ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خبر کی تحقیق کے لئے حذیفہ بن یمان کو بھیجا اور اسے یہ تاکید کردی کہ جو بھی صورت حال ہو کسی سے ذکر نہ کرنا اور صرف مجھے ہی آکر علیحدگی میں بتانا۔ قاصد نے صورتحال کی تحقیق کے بعد آپ کو بتایا کہ بنو قریظہ کی عہد شکنی والی بات درست ہے۔ اس خبر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انتہائی صدمہ ہوا۔ مسلمانوں کے لئے یہ وقت کڑی آزمائش کا وقت تھا۔ خندق پار دشمن کا سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مارتا ہوا لشکر اور مدینہ کے اندر منافقین مار آستین بن گئے۔ خوراک کی شدید قلت الگ تھی۔ کفار کا یہ محاصرہ تقریباً ایک ماہ تک جاری رہا۔ ہر روز خندق کے آر پار دونوں طرف سے نیزہ باری اور تیراندازی ہوتی رہی مگر جنگ کسی فیصلہ کن مرحلہ پر نہ پہنچتی تھی۔ یہ اس قدر کڑی آزمائش تھی کہ بھلے بھلے صحابہ کرام کے قدم ڈگمگا گئے۔ اس حال میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی دو طرح سے مدد فرمائی۔ نعیم بن مسعودرضی اللہ عنہ کی سیاسی چال اور اتحادی گروپ میں پھوٹ :۔ ایک صورت تو یہ بنی کہ بنوغطفان کا ایک رئیس نعیم بن مسعود، رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام لے آیا۔ اور اس بات کا علم نہ قریش کو ہوسکا اور نہ یہود کو۔ دونوں اسے اپنا اتحادی دوست سمجھتے تھے۔ نعیم بن مسعود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں ان حالات میں آپ کی اور اسلام کی کیا خدمت کرسکتا ہوں؟ چنانچہ آپ نے اس کے ذمہ قریش اور یہود میں پھوٹ ڈالنے کی ڈیوٹی لگائی۔ آدمی بڑا عقلمند تھا۔ اسے فورا ایک ترکیب سوجھ گئی وہ پہلے بنو قریظہ کے ہاں گیا اور کہنے لگا : دیکھو اگر جنگ میں اتحادیوں کو ناکامی ہوئی تو قریش تو اپنے گھروں کو چلے جائیں گے لیکن تم مسلمانوں کے اندر بیٹھے ہو۔ وہ تمہارا بھرکس نکال دیں گے۔ لہٰذا میرا مشورہ یہ ہے کہ تم قریش سے بطور یرغمال دس آدمیوں کا مطالبہ کرو تاکہ ایسی صورت میں وہ تمہارے ساتھ تعاون کرنے پر مجبور ہوں۔ یہود کو یہ بات بہت پسند آئی۔ پھر وہ ابو سفیان کے پاس جاکر کہنے لگا : یہود تم سے بدظن ہوچکے ہیں۔ اور وہ تم سے بطور یرغمال دس آدمیوں کا مطالبہ کرنا چاہتے ہیں۔ جنہیں وہ کسی وقت بھی مسلمانوں کے حوالہ کرکے جنگ کا نقشہ بدل سکتے ہیں اور اپنے آپ کو مسلمانوں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ لہٰذا تم ان کا مطالبہ ہرگز تسلیم نہ کرنا۔ ابو سفیان کے دل میں یہ بات کھب گئی۔ ابو سفیان نے دوسرے دن بنو قریظہ کو مشترکہ حملہ کے لئے پیغام بھیجا تو انہوں نے بطور یرغمال دس آدمیوں کا مطالبہ کردیا۔ اس طرح یہ دونوں فریق پھوٹ کا شکار ہوگئے۔ سخت ٹھنڈی ہوا کی آندھی :۔ مسلمانوں کی مدد کی دوسری صورت جو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی اور جس کا آیت میں ذکر ہے، یہ تھی کہ ٹھنڈی یخ ہوا اتنی تیز چلی جس نے خیمے اکھاڑ دیئے۔ گھوڑوں کے رسے ٹوٹ گئے اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ ہنڈیاں ٹوٹ پھوٹ گئیں۔ آگ بجھ گئی، ہوا اتنی سخت ٹھنڈی تھی کہ بدن کو چھید کرتی اور آر پار ہوتی معلوم ہوتی تھی۔ غرض لشکر کفار میں سخت بدحواسی پھیل گئی اور بھگڈر مچ گئی۔ زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کا دشمن کی خبر لانے کو تیار ہونا :۔ ان حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو مخاطب کرکے پوچھا کہ کون ہے جو جاکر دشمن کی خبر لائے؟ مگر اتنی ٹھنڈی آندھی میں کسی کی ہمت نہ پڑتی تھی۔ آخر سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو اس خدمت کے لئے پیش کیا۔ آپ نے دوبارہ یہی سوال کیا تو بھی سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ ہی نے کہا، میں جاتا ہوں۔ آپ نے سہ بار یہی سوال کیا تو پھر سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو پیش کیا۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ لشکر کفار کی طرف روانہ ہوگئے۔ آپ رضی اللہ عنہ خود کہتے ہیں کہ اس وقت مجھے قطعاً کچھ سردی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے واپس آکر وہی حالات بیان کئے جو لوگ سن رہے تھے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ہر پیغمبر کا ایک حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر ہے‘‘ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوۃ خندق وھی الاحزاب) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ آئندہ کفار ہم پر حملہ نہ کرسکیں گے :۔ چنانچہ ان حالات نے دشمن کو واپسی پر مجبور کردیا اور وہ افراتفری کے عالم میں بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’آج کے دن کے بعد کفار ہم پر چڑھ کر نہیں آئیں گے بلکہ ہم ان پر چڑھائی کریں گے‘‘ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوہ خندق) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد حرف بحرف پورا ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے غیر مرئی لشکر :۔ اس آیت میں ایک تو ہوا سے مدد کا ذکر ہے اور دوسرے ایسے لشکروں سے مدد کا ذکر ہے جو تمہیں نظر نہیں آرہے تھے۔ اس سے مراد وہ باطنی اسباب ہیں جن کی بنا پر کفار بھاگ کھڑا ہونے پر مجبور ہوتے تھے۔ ممکن ہے اس سے مراد فرشتے ہوں جو ہواؤں پر مامور تھے۔ واللہ اعلم۔ بہرحال اس جنگ میں فرشتوں کا نزول احادیث صحیحہ سے صراحت سے ثابت نہیں۔ الأحزاب
10 الأحزاب
11 الأحزاب
12 [ ١٥] منافقوں کے مسلمانوں کو طعنے :۔ جب بنو قریظہ بھی مسلمانوں سے بدعہدی پر آمادہ ہوگئے تو اب مسلمانوں کے لئے اندر اور باہر ہر طرف دشمن ہی دشمن تھے۔ اس تشویشناک صورت حال میں منافقوں نے مسلمانوں ہی کو یہ طعنے دینا شروع کردیئے کہ تم تو ہمیں یہ بتاتے تھے کہ ہمیں قیصر و کسریٰ کے خزانے ملیں گے اور یہاں یہ صورت حال ہے کہ رفع حاجت کو جانے میں بھی جان کی سلامتی نظر نہیں آتی۔ دراصل منافقوں کا خیال کچھ ایسا تھا کہ بس ان کے ایمان کا دعویٰ کرنے کی دیر ہے کہ آسمان سے فرشتے اتر پڑیں گے۔ اور ان کی تاج پوشی کی رسم ادا کریں گے۔ انھیں انگلی تک بھی ہلانے کی نوبت نہ آئے گی۔ انھیں یہ معلوم نہیں کہ ایمان لانے کے بعد انھیں سخت آزمائشوں کے دور سے گزرنا ہوگا۔ مصائب کے پہاڑ ان پر ٹوٹیں گے اور انھیں سردھڑ کی بازی لگانا پڑے گی۔ تب کہیں جاکر اللہ کی مدد آتی ہے۔ البتہ اس کے وعدہ کے مطابق آتی ضرور ہے۔ الأحزاب
13 [ ١٦] یہ مدینہ کا پہلا نام ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہ مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کے بعد المدینہ کے نام سے دنیا بھر میں مشہور و معروف ہوگیا۔ [ ١٧] اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ یہ پریشان کن صورت حال دیکھ کر منافقین اپنے ساتھیوں کو یہ دعوت دینے لگے کہ محاذ جنگ چھوڑ کر اپنے گھروں کو واپس لوٹ آؤ اور دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی دعوت یہ تھی کہ اسلام کو چھوڑ کر پھر سے اپنے پہلے دین کی طرف واپس آجاؤ۔ اسی میں تمہاری عافیت اور خیریت ہے کہ اسلام کو چھوڑ کر اتحادیوں سے مل جاؤ۔ [ ١٨] منافقوں کا گھروں کی حفاظت کا بہانہ :۔ اکثر منافق جنگ میں شمولیت سے فرار کے لئے مختلف بہانے سوچ رہے تھے۔ عام بہانہ یہ تھا کہ ان کے گھر دشمن کے سامنے کھلے پڑے ہیں۔ لہٰذا ان کی حفاظت کے لئے انھیں واپس چلے جانے کی اجازت دی جائے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نرمی طبع کی بنا پر ایسے لوگوں کو اجازت دیتے رہے۔ یا شاید آپ اسی میں بہتری سمجھتے ہوں کہ ایسے لوگ مسلمانوں کے لشکر میں رہ کر بگاڑ ہی پیدا کریں گے۔ یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ ان کا یہ عذر بھی محض ایک جھوٹا بہانہ تھا۔ کیونکہ مسلمان مدینہ کی اور مدینہ کے گھروں کی پوری حفاظت کا انتظام کرکے محاذ جنگ پر نکلتے تھے۔ الأحزاب
14 [ ١٩] یعنی اگر اتحادی کافر انھیں مسلمانوں سے لڑنے کی دعوت دیتے تو یہ فوراً ان کی بات مان کر مسلمانوں سے لڑنے کو تیار ہوجاتے اور ایک منٹ کی بھی تاخیر نہ کرتے۔ اس وقت انھیں قطعاً یہ خیال نہ آتا کہ ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں اور اگر ہم اپنے گھروں کی حفاظت نہ کریں گے تو دشمن لوٹ لے گا۔ یہی بات ان کے جھوٹ اور نفاق کی ایک بڑی دلیل ہے۔ الأحزاب
15 [ ٢٠] منافقوں کا اپنے عہد سے انحراف :۔ یہ عہد ان منافقوں نے جنگ احد کے بعد کیا تھا کہ اگر آئندہ کوئی آزمائش کا موقع آیا تو ہم اپنے سابقہ قصور کی تلافی کردیں گے۔ پھر جب دو ہی سال بعد آزمائش کا موقعہ آگیا تو ان لوگوں نے پہلے سے بھی زیادہ بزدلی دکھائی اور جنگ سے فرار کی راہیں سوچنے لگے بلکہ دوسروں کی بھی حوصلہ شکنی کرنے لگے۔ حتیٰ کہ سب کو معلوم ہوگیا کہ یہ اپنے عہد میں کس قدر مخلص تھے۔ اب ان کے اصل جرم کے علاوہ اس بدعہدی کی بھی بازپرس ہوگی۔ الأحزاب
16 [ ٢١] عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہت بہتر ہے :۔ موت کے متعلق چند اٹل حقائق ہیں۔ ایک یہ کہ موت اپنے وقت سے پہلے نہیں آتی۔ کیا یہ ضروری ہے کہ جو لوگ جنگ میں شریک ہوں اور نہایت خلوص سے جنگ کریں وہ سب کے سب شہید ہوجاتے ہیں؟ دوسری حقیقت یہ ہے کہ موت آکے رہے گی اس سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ اگر تم جنگ سے فرار کی راہ اختیار کرو گے تو زیادہ سے زیادہ یہی ہوسکتا ہے کہ چند سال مزید جی لوگے۔ آخر تمہیں مرنا ہی ہے اور مر کر ہمارے ہی پاس آنا ہے۔ یہ تو بہرحال ناممکن ہے کہ موت کی گرفت سے بچ سکو۔ مگر ایسی زندگی پر لعنت ہے جو بدنامی اور ذلت سے گزرے۔ کیونکہ عزت کے ساتھ مرنا ذلت کے ساتھ جینے سے بہرحال بہتر ہوتا ہے۔ الأحزاب
17 [ ٢٢] یعنی موت و حیات بھی سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور دنیا میں عیش و آرام کرنا یا تکلیفیں اٹھانا بھی۔ اگر تمہارے مقدر میں موت آچکی ہے تو جنگ سے فرار کے بعد آہی جائے گی۔ اسی طرح اگر چند دن عیش و آرام تمہاری قسمت میں ہے تو تبھی تمہیں نصیب ہوسکتا ہے۔ یہی وہ عقیدہ ہے جو ایک مخلص مومن کو بے پناہ جرأت عطا کرتا ہے۔ مگر منافق صرف ظاہری اسباب پر نظر رکھتے اور انھیں پر بھروسا کرتے ہیں۔ انھیں صرف دنیوی مفادات ہی عزیز ہوتے ہیں مگر اس حقیقت سے غافل ہیں انھیں وہی کچھ مل سکتا ہے جو اللہ انھیں دینا چاہتا ہے۔ الأحزاب
18 [ ٢٣] یعنی نہ صرف یہ کہ خود جہاد سے فرار کے بہانے سوچتے رہتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس پیغمبر کا اور مسلمانوں کا ساتھ چھوڑو۔ یہ ایمان اور صداقت کے کس چکر میں پڑے ہو۔ اور خواہ مخواہ اپنی زندگی کو تلخ بنا رکھا ہے۔ مصائب اور خطرات میں پڑنے کی بجائے وہی امن و عافیت کی راہ اختیار کرو جو ہم نے اختیار کر رکھی ہے۔ اور ان کا اپنا حال یہ ہے کہ کبھی کبھار محض ظاہری وضع داری اور دکھاوے کے لئے میدان عمل میں آکھڑے ہوتے ہیں۔ الأحزاب
19 [ ٢٤] منافقوں کی بزدلی کا منظر :۔ ان کی بزدلی کا یہ عالم ہے کہ کوئی خطرے یا دشمن کے حملے کی بات بھی سن لیں تو ان پر پہلے سے موت کی غشی طاری ہونے لگتی ہے۔ یہ حال ہو تو وہ مسلمانوں کا ساتھ دے بھی کیسے سکتے ہیں؟ [ ٢٥] أشحّۃ (مادہ ش ح ح) شحیح ایسے شخص کو کہتے ہیں جو مال سمیٹنے میں تو انتہا درجہ کا حریص ہو مگر خرچ کرنے میں سخت بخیل ہو۔ یعنی جب جنگ میں تمہارا ساتھ دینے کا معاملہ ہو تو اس معاملہ میں وہ انتہائی بخل سے کام لیتے ہیں۔ مگر جب جنگ ختم ہوجائے میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہے، اموال غنیمت کی تقسیم کا موقعہ ہو تو پھر یہ لوگ مال پر مرے جاتے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ یہ سارا مال ہمارے ہی ہاتھ آجائے پھر وہ طرح طرح کی اپنی وفاداریاں اور ہمدردیاں جتلانے لگتے ہیں تاکہ اموال غنیمت میں اپنا استحقاق ثابت کرسکیں۔ [ ٢٦] یعنی ان کے دلوں میں کفر ہی کفر چھپا ہے اور اعمال کی اخروی جزا کے لئے ایمان شرط اول ہے جو ان میں سرے سے ہے ہی نہیں۔ لہٰذا ان کے سب اعمال رائیگاں جائیں گے اور جو بداعمالیاں ہیں ان پر ضرور گرفت ہوگی اور ان کی سب سے بڑی بدعملی نفاق ہے۔ [ ٢٧] یعنی اپنے اعمال کی جزا ثابت کرنے کے لئے ان لوگوں کے پاس کوئی دلیل نہیں کہ ان کے پاس کچھ زور اور قوت ہے کہ اللہ کے لئے ان کے اعمال کو برباد کرنا کچھ قابل التفات یا مشکل ہو۔ الأحزاب
20 [ ٢٨] منافقوں کی بزدلی کی انتہا :۔ بزدل اور ڈرپوک اتنے ہیں کہ اتحادی فوجیں کب کی واپس جا بھی چکی ہیں لیکن انھیں اب تک یقین نہیں آرہا کہ دشمن جاچکا ہے اور ممکن ہے منافق یہ سمجھ رہے ہوں کہ مسلمانوں نے پروپیگنڈا کے طور پر ایسی خبر مشہور کردی ہے۔ انھیں یہ بھی فکر لاحق ہے کہ موسم کی خرابی سے اگر دشمن چلا گیا ہے تو موسم درست ہونے پر پھر دوبارہ نہ چڑھائی کردے۔ اندریں صورت وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ کیا اچھا ہوتا کہ وہ مدینہ کے باشندے نہ ہوتے بلکہ کسی گاؤں کے رہنے والے ہوتے۔ جہاں دشمن کی چڑھائی کا خطرہ ہی نہ ہوتا تو انھیں ایسی پریشانیاں لاحق نہ ہوتیں۔ بس ادھر ادھر سے ہی مسلمانوں کے حالات پوچھ پاچھ لیتے یا ان تک ان کی کچھ خبریں پہنچ جاتیں۔ اور اگر انھیں حالات امید افزا نظر آتے اور مسلمانوں کی کامیابی یقینی دکھائی دینے لگتی تو وہ بھی اموال غنیمت میں حصہ بٹانے کی خاطر لڑائی میں آ شامل ہوتے۔ الأحزاب
21 [ ٢٩] جنگ کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار۔ آپ سب مسلمانوں کے لئے واجب الاتباع نمونہ ہیں :۔ جنگ کی سب سے زیادہ ذمہ داری سپہ سالار پر ہوتی ہے۔ مسلمانوں کے سپہ سالار خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ دشمن کی کثرت تعداد، خوراک کی شدید قلت، حالات کی سنگینی اس نبی کے پائے ثبات پر ذرہ بھر بھی لغزش پیدا نہیں کرسکی۔ وہ ہر حال میں اللہ پر بھروسہ رکھنے اور اللہ کی طرف سے پرامید اور اس کی مدد کے منتظر ہیں۔ مگر ساتھ ساتھ پوری جانفشانی سے تمہارے دوش بدوش جنگ کے ایک ایک کام تمہارے ساتھ مل کر کر رہے ہیں۔ مسلمانو! تمہارا کردار بھی ایسا ہی ہونا چاہئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو بطور نمونہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ ربط مضمون کے لحاظ سے تو اس جملہ کا یہی مطلب ہے مگر یہ حکم عام ہے صرف جنگ میں ہی نہیں بلکہ ہر حالت میں اور صرف جنگی احکام و تدابیر میں ہی نہیں بلکہ زندگی کے ہر پہلو میں رسول کی ذات کو بطور نمونہ اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے۔ گویا اس ایک مختصر سے جملہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور اتباع دونوں کو تمام مسلمانوں پر لازم اور واجب قرار دیا گیا ہے۔ [ ٣٠] کس طرح کے لوگ آپ کی اتباع نہیں کرتے؟:۔ ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتا دیا کہ رسول کی اتباع صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جن میں تین شرائط پائی جاتی ہوں ایک یہ کہ وہ اللہ پر صدق دل سے ایمان رکھتے ہوں، دوسرے یوم آخرت پر ایمان بھی رکھتے ہوں اور اپنے اعمال کے اچھے بدلہ کی اللہ سے امید بھی رکھتے ہوں اور ہر وقت اللہ کو یاد رکھتے ہوں۔ بالفاظ دیگر جو لوگ رسول کی ذات کو اپنے لئے نمونہ نہیں بناتے یا اس کے کسی قول یا عمل سے انحراف کرتے ہیں یا اس کی اطاعت و اتباع کو لازم و واجب نہیں سمجھتے فی الحقیقت نہ ان کا اللہ پر ایمان ہے اور نہ یوم آخرت پر۔ یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر مشروط اطاعت اور اتباع کے وجوب پر صریح اور قوی دلیل ہے۔ الأحزاب
22 [ ٣١] آپ کا بنو غطفان کو اتحادیوں سے توڑنے کا خیال اور انصار کا جواب :۔ منافقوں کے کردار پر تبصرہ کرنے کے بعد اللہ نے مسلمانوں کا کردار بیان فرمایا۔ کہ جوں جوں ان پر مشکلات پڑتی ہیں اور حالات سنگین ہوتے جاتے ہیں توں توں ان کا حوصلہ بڑھتا جاتا ہے۔ ان کے اللہ پر توکل اور ان کے ایمان میں بھی مزید اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ انھیں خوب معلوم ہوتا ہے کہ ان مشکلات کا مقابلہ ہم نے ہی کرنا ہے۔ پھر جو کام ہماری بساط سے باہر ہو تو اس وقت ضرور اللہ کی مدد ہمارا ساتھ دے گی۔ پھر جب اللہ کی مدد فی الواقع ان کو پہنچ جاتی ہے تو ان کے ایمان میں اور بھی زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ چنانچہ جب بنو قریظہ بھی عہد شکنی کرکے اتحادی لشکروں سے مل گئے اور مسلمانوں کے لئے اندر بھی اور باہر بھی خطرہ پیدا ہوگیا تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہن میں ایک تجویز آئی جو محض انصار کی دلجمعی کی خاطر تھی۔ وہ تجویز یہ تھی کہ بنو غطفان۔۔۔ جو ایک انتہائی لالچی اور حریص قبیلہ تھا اور ان کی سیاست کا سنہری اصول محض پیسہ کا حصول تھا ان کو مدینہ کی تہائی پیداوار کا لالچ دے کر انھیں اتحادیوں سے کاٹ دیا جائے اور وہ اپنا قبیلہ لے کر واپس چلے جائیں۔ چونکہ یہ قبیلہ سخت جنگجو تھا لہٰذا اس کی واپسی سے باقی سارے لشکر میں عام بددلی پھیل جانے کا امکان تھا۔ چنانچہ اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ اوس کے سردار سعدرضی اللہ عنہ بن معاذ اور قبیلہ خزرج کے سردار سعد بن عبادہ کو بلا کر ان سے مشورہ کیا۔ دونوں نے یک زبان ہو کر پوچھا : ’’یہ اللہ کا حکم ہے یا آپ ہماری رائے لینا چاہتے ہیں؟ اگر اللہ کا حکم ہے تو سر آنکھوں پر اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کچھ ہماری خاطر کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ بات قطعاً منظور نہیں۔ واللہ ہم نے شرک کی حالت میں بھی ان لوگوں کو ایک دانہ تک نہ دیا۔ اب مسلمان ہو کر کیوں دیں گے۔ ان کے لئے ہمارے پاس صرف تلوار ہے‘‘ انصاری سرداروں کے اس جواب سے آپ خوش ہوگئے اور فرمایا : ’’یہ اللہ کا حکم نہیں یہ تو میں نے صرف تمہاری دلجمعی کی خاطر سوچا تھا‘‘ (الرحیق المختوم اردو ص ٤٨٧) الأحزاب
23 [ ٣٢] اس عہد سے مراد وہ عہد ہے جو لیلۃ العقبہ ثانیہ میں انصار کے بہتر (٧٢) افراد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا اور وہ عہد یہ تھا کہ ہم مرتے دم تک آپ کا ساتھ دیں گے۔ [ ٣٣] اللہ سے کئے ہوئے عہد کو نباہنے والے :۔ اس سلسلہ میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : (١) سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ یہ آیت (میرے چچا) انس بن نضر کے حق میں نازل ہوئی ہے‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) (٢) سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرا نام میرے چچا انس بن نضر کے نام پر رکھا گیا تھا۔ وہ جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر نہ ہوسکے اور یہ بات ان پر بہت شاق گزری اور کہا کہ : ’’ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر رہنے کا پہلا موقع تھا جس سے میں غائب رہا۔ اللہ کی قسم! اب اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر ہونے کا کوئی موقع آیا تو اللہ تعالیٰ خود دیکھ لے گا کہ میں کیا کچھ کرتا ہوں‘‘ راوی کہتا ہے کہ : پھر وہ ڈر گئے کہ ان الفاظ کے علاوہ کچھ اور لفظ کہنا مناسب تھا۔ پھر جب اگلے سال احد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر ہوئے تو انھیں (راہ میں) سعد بن معاذ ملے۔ انہوں نے پوچھا : ’’ابوعمرو! کہاں جاتے ہو؟‘‘ انس کہنے لگے : واہ میں تو احد (پہاڑ) کے پار جنت کی خوشبو پا رہا ہوں۔ چنانچہ وہ (بڑی جرأت سے) لڑے۔ حتیٰ کہ شہید ہوگئے اور ان کے جسم پر ضربوں، نیزوں اور تیروں کے اسی (٨٠) سے زیادہ زخم پائے گئے۔ میری پھوپھی ربیع بنت نضر کہنے لگی: میں اپنے بھائی کی نعش کو صرف اس کے پوروں سے پہچان سکی۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) (٣) موسیٰ بن طلحہ کہتے ہیں کہ : جب میں معاویہ کے ہاں گیا تو انہوں نے کہا : میں تمہیں ایک خوشخبری نہ سناؤں؟ میں نے کہا : ضرور سناؤ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا ہے کہ طلحہ ان لوگوں میں سے تھے جو اپنی ذمہ داریاں پوری کرچکے۔ (ترمذی۔ حوالہ ایضاً) یہ وہ بزرگ ہیں جو جنگ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لئے اپنے ہاتھ پر تیر روکتے رہے حتیٰ کہ ایک ہاتھ شل ہوگیا تو دوسرا ہاتھ آگے کردیا تھا۔ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب ذکر طلحہ بن عبید اللہ) الأحزاب
24 الأحزاب
25 [ ٣٤] عبد ودّ کی لاش کا عوضانہ :۔ یعنی اتحادیوں کا لشکر نہایت ذلت، ناکامی اور غصہ سے پیچ و تاب کھاتا ہوا بے نیل و مرام میدان چھوڑ کر واپسی پر مجبور ہوگیا اور مسلمانوں کے لئے اپنا بہت سامان چھوڑ گیا۔ اسی جنگ میں عمرو بن عبدودّ نے، جو ایک ہزار سواروں پر بھاری سمجھا جاتا تھا، مسلمانوں کو دعوت مبارزت دی اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس کے مقابلے میں اترے اور اس کا کام تمام کردیا۔ مشرکوں نے درخواست کی کہ دس ہزار درہم کے عوض اس کی لاش انھیں دے دی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں فرمایا : لاش تم مفت ہی لے جاو ہم مردوں کی قیمت نہیں کھایا کرتے۔ [ ٣٥] حیی بن اخطب نے بنو قریظہ کو کیسے بد عہدی پر آمادہ کیا ؟ اللہ تعالیٰ نے عام لڑائی کی نوبت ہی نہ آنے دی اور ان کے محاصرہ کو اٹھانے کے لئے یخ بستہ ہوا اور فرشتے بھیج دیئے۔ یہود میں اور اتحادیوں میں پھوٹ ڈال دی۔ ان سب باتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن سخت بدحواس ہو کر بھاگ کھڑا ہوا۔ بھلا اللہ کی زبردست قوت کے سامنے کون ٹھہر سکتا ہے؟ الأحزاب
26 [ ٣٦] یہ یہود بنو قریظہ تھے جو مسلمانوں کے معاہد تھے۔ بنو قینقاع اور بنی نضیر کی جلاوطنی کے بعد مدینہ میں یہود کا یہی قبیلہ باقی رہ گیا تھا۔ کیونکہ یہ قبیلہ دوسروں کی نسبت قدرے شریف اور اپنے عہد کا پاس رکھنے والا تھا۔ جب بنو نضیر کو خیبر کی طرف جلا وطن کردیا گیا اور جنگ احزاب کی تیاریاں شروع ہوگئیں تو بنونضیر کا رئیس حیی بن اخطب رات کی تاریکیوں میں بنو قریظہ کے سردار کعب بن اسد کے پاس گیا۔ کعب کو اندازہ ہوگیا تھا کہ حیی مجھے مسلمانوں سے عہد شکنی پر آمادہ کرنے کے لئے آیا ہے۔ لہٰذا اس نے دروازہ ہی نہ کھولا۔ حیی نے اس سے کچھ چکنی چپڑی باتیں کیں تو آخر اس نے دروازہ کھول دیا۔ حیی کہنے لگا :’’کعب! میں تمہارے پاس زمانے کی عزت اور چڑھتا ہوا سمندر لے کر آیا ہوں۔ ان لوگوں نے مجھ سے عہدو پیمان کیا ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس کے ساتھیوں کا صفایا کئے بغیر یہاں سے نہ ٹلیں گے‘‘ اس کے جواب میں جو کچھ کعب نے کہا : وہ سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے۔ اس نے کہا : ’’حیی! واللہ تم میرے پاس زمانے کی ذلت اور برسا ہوا بادل لے کر آئے ہو جو صرف گرج چمک رہا ہے۔ تم پر افسوس۔ تم مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں صدق و صفا کے سوا کچھ نہیں دیکھا‘‘ (ابن ہشام ٢: ٢٢٠' ٢٢١) مگر حیی نے کعب کو سبز باغ دکھا دکھا کر با لآخر بدعہدی پر مجبور کر ہی لیا وہ کہنے لگا : اگر قریش محمد کا خاتمہ کئے بغیر ہی واپس چلے گئے تو میں بھی تمہارے ساتھ قلعہ بند ہوجاؤں گا اور واپس نہیں جاؤں گا پھر جو انجام تمہارا ہوگا وہی میرا ہوگا۔ اس شرط پر کعب بھی اتحادیوں میں شامل ہوگیا۔ مدینہ میں اندرونی خطرات :۔ اس صورت حال کی تحقیق کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے سرداروں (سعد بن عبادہ، سعد بن معاذ، عبداللہ بن رواحہ اور خوّات بن جبیررضی اللہ عنہم کو تحقیق حال کے لئے بھیجا اور ساتھ ہی یہ تاکید بھی کردی کہ اگر بنوقریظہ کی بدعہدی کی خبر درست ہو تو دوسروں کی موجودگی میں مجھے نہ بتائیں بلکہ صرف اشارہ سے کام چلا لیں۔ جب انہوں نے واپس آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اشارہ سے بتایا کہ یہ خبر درست ہے تو اس سے آپ کو سخت صدمہ ہوا۔ اس خبر کے اخفاء کا مقصد صرف یہ تھا کہ مسلمانوں کی حوصلہ شکنی نہ ہو۔ مسلمان کم از کم مدینہ کی اندرونی حفاظت کی طرف سے مطمئن تھے مگر اس صورت حال سے مدینہ کے اندر بھی خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوہ خندق) [ ٣٧] بنو قریظہ کا محاصرہ :۔ تقریباً ایک ماہ کے محاصرہ کے بعد جب اتحادی لشکر بھاگ نکلا تو اب بنوقریظہ کو ان کی عہد شکنی کی سزا دینے کا وقت بھی آن پہنچا۔ جنگ خندق سے فراغت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں غسل فرما رہے تھے کہ جبرئیل آئے اور کہا کہ ’’آپ نے ہتھیار اتار دیئے ہیں حالانکہ فرشتوں نے ابھی تک نہیں اتارے‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت منادی کرا دی کہ مجاہدین عصر کی نماز بنوقریظہ کے ہاں جاکر ادا کریں۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب مرجع النبی من الاحزاب الٰی بنی قریظة ومحاصرتہ ایاھم) چنانچہ چند گھنٹوں کے اندر اندر تین ہزار مسلح مجاہدین نے بنوقریظہ کے ہاں پہنچ کر ان کا محاصرہ کرلیا۔ بنو قریظہ قلعہ بند ہوگئے (حیی بن اخطب بھی حسب وعدہ ان کے ساتھ قلعہ بند ہوا تھا) ان کے سردار کعب بن اسد نے قوم کے سامنے تین تجاویز رکھیں : یہود کی سپر اندازی :۔ ١۔ اسلام قبول کرلو۔ اس صورت میں تمہارا مال و جان سب کچھ محفوظ رہے گا اور تم پر یہ بات بھی واضح ہوچکی ہے کہ یہ وہی نبی برحق ہے جس کی بشارت تم اپنی کتاب میں پاتے ہو۔ ٢۔ اپنے بیوی بچوں کو خود اپنے ہاتھوں سے قتل کر دو۔ پھر خود مردانہ وار لڑائی لڑو۔ پھر مرجاؤ یا فتح پاؤ۔ ٣۔ یا پھر مکروفریب کی راہ اختیار کرو۔ مسلمانوں پر ہفتہ کے دن حملہ کر دو۔ کیونکہ انھیں اطمینان ہوگا کہ آج لڑائی نہیں ہوگی۔ مگر بنو قریظہ نے اپنے سردار کی ایک تجویز بھی نہ مانی تو وہ جھنجھلا کر کہنے لگا : تم میں سے کسی نے آج تک ایک رات بھی ہوشمندی کے ساتھ نہیں گزاری۔ (الرحیق المختوم۔ اردو ص ٤٩٤) اب ان کے سامنے بس ایک ہی راستہ باقی رہ گیا تھا اور وہ یہ تھا کہ مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈال دیں۔ [ ٣٨] یہود کا سیدنا سعد بن معاذ کو حکم تسلیم کرنا :۔ بدعہدی اور عہد شکنی قوم کو انتہا درجہ کا بزدل بنا دیتی ہے۔ ان کے پاس وافر مقدار میں راشن موجود تھا اور انہوں نے مسلمانوں کے استیصال کے لئے ڈیڑھ ہزار تلواریں، دو ہزار نیزے تین سو زرہیں اور پانچ سو ڈھالیں بھی تیار کر رکھی تھیں۔ مگر وقت پر کوئی چیز بھی ان کے کام نہ آئی۔ انہوں نے صرف ٢٥ دن کے محاصرہ کے بعد اس شرط پر ہتھیار ڈال دیئے کہ ان کے حق میں جو بھی فیصلہ ان کے حلیف سیدنا سعد بن معاذ کریں گے وہ انھیں منظور ہوگا۔ ان کے پاس قلعہ میں جس قدر راشن موجود تھا اگر وہ چاہتے تو سال بھر قلعہ بند رہ کر آسانی سے گزر بسر کرسکتے تھے مگر ان کے مجرم ضمیر نے انھیں جلد ہی بے چین کردیا اور اللہ نے ان کے دلوں میں مسلمانوں کی دھاک بٹھا دی۔ [ ٣٩] بنو قریظہ کا انجام :۔ سیدنا سعد بن معاذ کو جنگ احزاب میں ایک کاری زخم لگا تھا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے ظاہر ہے : سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جنگ خندق میں سعد بن معاذ کو ہفت اندام کی رگ میں تیر لگ گیا تو آپ نے مسجد میں ہی ان کے لئے خیمہ لگا دیا۔ تاکہ قریب سے عیادت کرسکیں۔ مسجد میں بنو غفار کا خیمہ بھی تھا۔ جب (سیدنا معاذ کا) خون بہہ بہہ کر ان کے خیمہ کی طرف آنے لگا تو وہ ڈر گئے، کہنے لگے : اے خیمہ والو! یہ کیا ہے جو تمہاری طرف سے بہہ کر ہمارے پاس آرہا ہے۔ دیکھا تو سعد کے زخم سے خون بہہ رہا تھا۔ آخر اسی زخم سے وہ چل بسے۔ (بخاری۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب الخیمۃ فی المسجد للمرضی وغیرھم) لہٰذا وہ غزوہ بنوقریظہ میں شامل نہ ہوسکے۔ فیصلہ کے لئے انھیں گدھے پر سوار کرکے موقعہ پر لایا گیا تو آپ نے اپنے عہد شکن حلیف کی کوئی رو رعایت نہیں کی۔ اور یہ فیصلہ دیا کہ : ’’(ا) سب مردوں کو قتل کردیا جائے (٢) عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے، (٣) ان کے اموال مجاہدین میں تقسیم کردیئے جائیں‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ سن کر فرمایا : ’’تم نے وہی فیصلہ کیا جو سات آسمانوں کے اوپر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے‘‘ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب مرجع النبی من الاحزاب الیٰ بنی قریظۃ ومحاصرتہ ایاھم) چنانچہ اس فیصلہ کے مطابق چھ سو سے کچھ زائد مردان جنگی کو قتل کردیا گیا اور ان مقتولین میں حیی بن اخطب بھی تھا۔ جس نے بنوقریظہ کو عہد شکنی پر مجبور کرکے ان پر یہ مصیبت ڈھائی تھی۔ یہ مقتولین صرف اس بنا پر قتل نہیں کئے گئے کہ وہ جنگی قیدی تھے بلکہ ان کے جرائم اور بھی تھے مثلاً : (١) تجدید معاہدہ کے باوجود انہوں نے نہایت نازک موقعہ پر عہد شکنی کرکے مسلمانوں کو اندرونی خطرات سے دوچار کردیا تھا۔ (٢) انہوں نے مردانہ وار سامنے آنے کی بجائے عورتوں اور بچوں کے قلعوں پر حملہ کی کوشش کی تھی۔ (٣) جنگ احزاب کے بعد بھی حیی بن اخطب کو ساتھ ملا کر مدینہ میں اشتعال انگیزی شروع کردی تھی اور بجائے اس کے کہ اپنی عہد شکنی پر پشیمان ہوتے، انہوں نے مقابلہ کی تیاریاں شروع کردی تھیں۔ الأحزاب
27 الأحزاب
28 [ ٤٠] بیویوں کا آپ سے خرچ کا مطالبہ :۔ یہاں سے ایک بالکل نیا موضوع شروع ہوتا ہے۔ اموال غنیمت سے جب مسلمانوں میں کچھ آسودگی آگئی۔ تو ازواج مطہرات نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ زائد اخراجات کا مطالبہ کردیا۔ حالات کے مطابق ان کا یہ مطالبہ کچھ ایسا ناجائز بھی نہ تھا۔ کیونکہ دوسرے سب مسلمان آسودہ ہو رہے تھے۔ مگر آپ کی فقرپسند طبیعت پر بیویوں کا یہ مطالبہ سخت شاق گزرا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کبیدگی طبع کی بنا پر ایک ماہ کے لئے اپنی بیویوں سے کنارہ کش رہنے کا ارادہ کرلیا جیسا کہ درج ذیل احادیث سے معلوم ہوتا ہے : ١۔ سیدنا جابر کہتے ہیں کہ : سیدنا عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں آئے اور اجازت چاہی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اندر آنے کی اجازت دے دی۔ سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کی بیویاں غمگین اور خاموش بیٹھی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یہ میرے گرد بیٹھی خرچ کا مطالبہ کر رہی ہیں جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ایک مہینہ کے لئے علیحدگی اختیار کرلی۔ (بخاری۔ کتاب النکاح باب موعظۃ الرجل ابنتہ) واقعہ ایلاء کی تفصیل :۔ ٢۔ سیدنا عمر کہتے ہیں میں اور میرا ایک انصاری پڑوسی بنی امیہ بن زید کے گاؤں میں جو مدینہ کے بالائی دیہات میں سے ایک گاؤں ہے، رہا کرتے۔ اور باری باری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا کرتے۔ ایک دن وہ آتا اور ایک دن میں۔ جب میں آتا تو اس دن کی ساری خبر وحی جو آپ پر نازل ہوتی اسے بتاتا اور جس دن وہ آتا تو وہ بھی ایسا ہی کرتا ایک دن میرا انصاری ساتھی اپنی باری کے دن آیا تو واپس آکر زور سے میرا دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا : ’’عمررضی اللہ عنہ ہیں؟‘‘ میں گھبرا کر باہر آیا تو کہنے لگا : ’’آج ایک بڑا حادثہ ہوگیا، (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی) میں حفصہ کے پاس گیا تو وہ رو رہی تھی۔۔‘‘ (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب التناؤب فی العلم) ٣۔ سیدنا عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’مجھے میرے ایک انصاری ہمسایہ نے ایک دن خبر دی کہ رسول اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔‘‘ میں حفصہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا تو وہ رو رہی تھی۔ میں نے اسے پوچھا : ’’کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں طلاق دے دی؟‘‘ وہ کہنے لگیں : ’’میں نہیں جانتی اور وہ اس جھروکے میں الگ ہو بیٹھے ہیں‘‘ میں وہاں سے (مسجد میں) چلا گیا اور اسود (دربان) سے کہا کہ عمر رضی اللہ عنہ کے لئے اندر آنے کی اجازت حاصل کرو۔ لڑکا اندر گیا پھر باہر آکر کہنے لگا : ’’میں نے آپ کا ذکر کیا تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا‘‘ میں پھر مسجد کی طرف چلا گیا۔ لوگ وہاں منبر کے اردگرد بیٹھے رو رہے تھے۔ میں ان کے پاس بیٹھ گیا، مگر مجھ پر پھر وہی فکر غالب آئی۔ میں لڑکے کے پاس آیا اور کہا: ’’ عمر کے لئے اجازت حاصل کرو‘‘ لڑکا اندر گیا۔ پھر اس نے باہر آکر مجھے کہا : ’’میں نے آپ کا ذکر کیا تھا۔ مگر آپ نے کوئی جواب نہیں دیا‘‘ میں پھر مسجد میں آیا اور بیٹھ گیا۔ پھر مجھ پر وہی فکر غالب ہوئی۔ میں لڑکے پاس آیا اور کہا : ’’عمر کے لئے اجازت مانگ‘‘ لڑکا اندر گیا، پھر باہر آکر کہنے لگا : ’’میں نے آپ کا ذکر کیا تھا۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا‘‘ جب میں وہاں سے لوٹ آیا تو اس وقت لڑکے نے مجھے پکارا کہ آجاؤ۔ تمہارے لئے اجازت مل گئی میں اندر گیا تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بوریے پر تکیہ لگائے ہوئے تھے۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلوؤں میں بوریے کے نشان پڑگئے ہیں۔ میں نے پوچھا : ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ''نہیں'' میں نے اللہ اکبر پکارا۔ پھر کہا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ دیکھئے۔ ہم قریشی لوگ اپنی عورتوں کو دبا کر رکھتے تھے پھر جب ہم مدینہ آئے تو ایسے لوگ دیکھے جنہیں ان کی بیویاں دبا کر رکھتی ہیں۔ ہماری عورتیں بھی ان کی عادات سیکھنے لگیں۔ میں ایک دن اپنی بیوی پر ناراض ہوا تو وہ مجھے جواب دینے لگی جو مجھے برا لگا تو وہ کہنے لگی : برا کیوں مناتے ہو۔ اللہ کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیتی ہیں۔ اور کئی تو رات تک خفا رہتی ہیں۔ میں نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا : ’’کیا تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیتی ہے؟‘‘ وہ کہنے لگیں ’’ہاں! اور ہم میں سے کوئی تو رات بھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خفا رہتی ہے‘‘ میں نے کہا : ’’تم میں سے جس نے یہ کام کیا وہ نامراد ہوئی اور نقصان اٹھایا۔ کیا تم اس بات سے ڈرتی نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کی وجہ سے اللہ بھی ان سے ناراض ہوجائے گا اور وہ تباہ ہوجائے گی‘‘ اس بات پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے۔ پھر اپنی بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا’’حفصہ! تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی جواب نہ دینا اور نہ ہی ان سے کچھ مطالبہ کرو۔ بلکہ جو تم چاہو مجھ سے مانگ لیا کرو اور کسی دھوکہ میں نہ رہنا کیونکہ تمہاری ساتھی عائشہ تم سے خوبصورت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چہیتی ہے‘‘ اس بات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ مسکرائے۔ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں آپ کا جی بہلاؤں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ٹھیک ہے، میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو مجھے اس گھر میں کچھ نظر نہ آیا۔ بجز تین چمڑوں کے، میں نے کہا : ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ آپ کی امت کو کشادگی بخشے۔ اللہ نے روم اور فارس کو کشادگی دی ہے۔ حالانکہ وہ اس کی عبادت بھی نہیں کرتے۔‘‘ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا : خطاب کے بیٹے! کیا تم ابھی تک شک میں پڑے ہو۔ ’’ان لوگوں کو تو ان کی نیکیوں کا بدلہ دنیا میں ہی مل گیا ہے‘‘ سیدنا عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مہینہ بھر اپنی بیویوں کے پاس نہ گئے۔ تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر عتاب اور قسم کے کفارہ کا حکم دیا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب انتیس دن گزر گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے۔ (ترمذی۔ باب التفسیر۔ سورۃ تحریم) الأحزاب
29 [ ٤١] آیت تخییر :۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکمل اختیار دیا تھا کہ آپ چاہیں تو ایسی اجتماعی طور پر خرچ کے اضافہ کا مطالبہ کرنے اور اس طرح دباؤ ڈالنے والی بیویوں کو طلاق دے کر فارغ کردیں اور چاہیں تو اپنے پاس رکھیں۔ بشرطیکہ آئندہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سلسلہ میں پریشان نہ کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ کے ایلاء (بیویوں سے الگ رہنے) کا فیصلہ کیا تھا۔ انتیس دن گزرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے بالا خانہ سے واپس اپنے گھر تشریف لائے سب سے پہلے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کے گھر آئے۔ پھر جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اختیار کو استعمال کیا وہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے : بیویوں کا جواب :۔ ١۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آپ کو حکم ہوا کہ وہ اپنی بیویوں کو اختیار دیجئے (خواہ وہ آپ کے ساتھ رہنا چاہیں یا طلاق لے لیں) تو آپ نے سب سے پہلے مجھ سے پوچھا اور فرمایا : عائشہ! میں تمہیں ایک بات کہتا ہوں مگر تم اس میں جلدی نہ کرنا بلکہ اپنے والدین سے مشورہ کرکے جواب دینا۔ اور آپ یہ بات خوب جانتے تھے کہ میرے والدین آپ سے جدا ہونے کا کبھی مشورہ نہ دیں گے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ : ﴿یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ ۔۔۔۔۔۔عَظِيمًا ﴾ (تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا) میں نے کہا : ’’میں اس معاملہ میں اپنے والدین سے کیا مشورہ کروں گی میں تو خود (بہرحال) اللہ، اس کے رسول اور آخرت کی بھلائی چاہتی ہوں‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی بات دوسری بیویوں سے پوچھی تو سب نے وہی جواب دیا جو میں نے دیا تھا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ : میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ایک ماہ کا کہا تھا اور آج انتیس دن ہوئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں کے اشارے سے بتایا کہ مہینہ تیس دن کا بھی ہوتا ہے اور انتیس دن کا بھی۔ (گویا وہ مہینہ انتیس دن کا تھا) (بخاری۔ کتاب الصوم۔ باب قول النبی اذا رأیتم الہلال فصوموا، مسلم کتاب الصیام۔ باب وجوب صوم رمضان لرؤیۃ الھلال۔۔) الأحزاب
30 [ ٤٢] نبی کی بیویوں کا مقام :۔ نبی کی بیویوں کا مقام عام عورتوں سے بہت بلند ہے کیونکہ وہ امہات المومنین ہیں۔ جس طرح نبی کی ذات مومنوں کے لئے نمونہ ہے۔ اسی طرح نبی کا گھر اور اس کی بیویاں بھی سب کے لئے نمونہ ہیں۔ اگر نبی کی بیوی کوئی غلطی کرے گی تو اس کو اپنی ہی غلطی کی سزا نہیں ملے گی بلکہ اس کی اقتداء میں جو لوگ بھی وہ غلطی کریں گے ان سب کی سزا سے حصہ رسدی اسے بھی ملے گا۔ لہٰذا اس کی سزا عام لوگوں کی سزا سے دوگنی بلکہ بہت زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔ اس آیت میں ﴿بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ ﴾ سے مراد زنا ہے اور یہ بفرض تسلیم ہے جس طرح اللہ نے اپنے پیارے نبی کو فرمایا کہ اگر تم بھی شرک کرو تو تمہارے اعمال ضائع ہوجائیں گے تو جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شرک کا صدور ممکن نہیں اسی طرح نبی کی بیویوں سے زنا کا ارتکاب ممکن نہیں۔ اور یہ انداز خطاب تاکید مزید کے طور پر اختیار کیا گیا ہے۔ [ ٤٣] یعنی اللہ تعالیٰ یہ نہیں دیکھے گا کہ اگر تم کوئی برا کام کرو تو تمہیں نبی کی بیویاں سمجھ کر چھوڑ دیا جائے بلکہ عدل و انصاف کا تقاضا یہ ہوگا کہ تمہیں دوسروں سے دگنی سزا دی جائے اور اللہ اس پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ الأحزاب
31 [ ٤٤] اسی طرح اگر تم میں سے کوئی اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبردار بن جائے تو اسے اجر بھی دگنا ملے گا۔ یہاں تک تو ایک اصولی معاملہ تھا کہ بروں کے گناہوں کا بدلہ بھی دگنا اور اچھے اعمال کا ثواب بھی دگنا ہو۔ اور رزق کریم میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ ازواج النبی کا اصل مطالبہ خرچ میں اضافہ کا تھا کہ انھیں بھی اب کھانے اور پہننے کو پہلے سے بہتر ملنا چاہئے تو اس کے جواب میں فرمایا کہ آج دنیا میں اگر تم اس معاملہ میں نبی کو پریشان نہ کرو گی اور جو مل گیا اس پر قانع اور صابر و شاکر ر ہوگی تو اس کے عوض ہم نے تمہارے لئے بہت شاندار رزق تیار کر رکھا ہے۔ الأحزاب
32 [ ٤٥] معاشرہ سے فحاشی کے خاتمہ کے لئے احکام :۔ سابقہ دو آیات سے دراصل معاشرہ سے فواحش کی تطہیر کا پروگرام دیا جا رہا ہے۔ اس کے آغاز میں دو باتوں کو خاص طور پر ملحوظ رکھا گیا ایک تو اس کا آغاز نبی کے گھرانہ سے کیا گیا۔ دوسرے سب سے پہلے فاحشہ مبینہ (یعنی زنا) کا ذکر کردیاض2ص2 گیا۔ اس کے بعد اب زنا کے سدباب کے احکام کا سلسلہ شروع ہو رہا ہے اور اس میں پہلے یہ خاص طور پر وضاحت کردی گئی کہ تمہارا معاملہ عام عورتوں کا سا نہیں ہے۔ بلکہ تمہارے کردار کے نتائج بڑے دور رس ہیں۔ لہٰذا تمہیں پوری طرح ان احکام پر عمل کرنا ہوگا۔ تمہارے ہر عمل کو لوگ حجت سمجھیں گے اور بطور حجت ہی پیش کریں گے۔ [ ٤٦] آواز پر پابندی :۔ جنگ احزاب سے پہلے تک عرب معاشرہ کا یہ حال تھا کہ مسلمان عورتیں بھی اپنی پوری زینت اور میک اپ کے ساتھ بے حجاب پھرتی تھیں۔ مسلم گھرانوں میں بھی غیر مردوں کے داخلہ پر کوئی پابندی نہ تھی۔ ازواج مطہرات بھی اسی طرح گھروں سے باہر جایا آیا کرتی تھیں۔ جیسے دوسری عورتیں، اس بے حجابانہ معاشرہ کی اصلاح کے لئے سب سے پہلے غیر مرد اور غیر عورت کی باہمی گفتگو اور آواز پر پابندی لگائی گئی اور اس حکم میں مخاطب نبی کی بیویوں کو بالخصوص اس لئے کیا گیا کہ ان سے بھی لوگوں کو مسئلے مسائل پوچھنے کی ضرورت پیش آتی رہتی تھی۔ چنانچہ انھیں حکم دیا گیا کہ ان کی آواز شیریں اور لوچدار ہونے کی بجائے روکھی اور معقول حد تک بلند ہونا چاہئے۔ دبی زبان میں ہرگز بات نہ کی جائے۔ جو نرم گوشہ لئے ہوئے ہو۔ لوچدار اور شیریں آواز بذات خود دل کا ایک مرضی اللہ عنہ ہے۔ پھر اگر مخاطب کے دل میں پہلے سے ہی اس قسم کا روگ موجود ہو تو وہ صرف اسی لذیذ گفتگو سے کئی غلط قسم کے خیالات اور تصورات دل میں جمانا شروع کردے گا اگرچہ ربط مضمون کے لحاظ سے اس کا مطلب وہی ہے جو اوپر بیان ہوا۔ تاہم یہ حکم عام ہے۔ اور عورت کی آواز پر اصل پابندی یہ ہے کہ غیر مرد اس کی آواز نہ سننے پائیں۔ نیز اس کی آواز میں نرمی، لوچ، بانکپن اور شیرینی نہ ہونی چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ عورت اذان نہیں کہہ سکتی یا نماز باجماعت میں اگر امام غلطی کر جائے تو وہ نہ سبحان اللہ کہہ سکتی ہے اور نہ لقمہ دے سکتی ہے۔ بلکہ اس کے لئے تصفیق کا حکم ہے یعنی اپنے ایک ہاتھ پر دوسرا ہاتھ مار کر آواز پیدا کرنے سے متنبہ کرے۔ الأحزاب
33 [ ٤٧] بن سنور کر آزادانہ پھرنا :۔ قرن کو اگر مادہ ق رر سے مشتق قرار دیا جائے تو اس کا معنی وہی ہے جو ترجمہ سے ظاہر ہے اور اگر اس کا مادہ و ق ر سمجھا جائے تو اس کا مطلب ہو کہ گھروں میں وقار کے ساتھ رہا کرو۔ مطلب دونوں صورتوں میں ایک ہی ہے یعنی عورت کا دائرہ عمل اس کا گھر ہے۔ گویا اس آیت کی رو سے گھروں سے باہر آزادانہ آنے جانے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو عورتوں کا اور بالخصوص ازواج النبی کا گھر سے باہر بے حجاب پھرنا سخت شاق گزرتا تھا۔ چنانچہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کرتے تھے کہ آپ اپنی بیویوں کو پردہ میں رکھئے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر کی بات پر کچھ توجہ نہ دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اکثر رات کو باہر نکلا کرتیں اور (رفع حاجت کے لئے) مناصع کی طرف جاتیں۔ ایک رات سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا بنت زمعہ جو قد کی لمبی تھیں نکلیں تو سیدنا عمر لوگوں میں بیٹھے بیٹھے ہی کہنے لگے : ’’سودہ! ہم نے تجھے پہچان لیا‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس توقع پر یہ بات کی کہ کسی طرح جلد پردہ کا حکم نازل ہو۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ پھر اللہ تعالیٰ نے آیہ حجاب نازل فرمائی۔ آیۃ حجاب کا نزول اور ضرورت سے نکلنے کی اجازت :۔ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے جب یہ بات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے منہ سے سنی تو گھر آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : میں ضرورت سے باہر نکلی تھی، لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے ایسی ایسی گفتگو کی۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں تھے اور بیٹھے رات کا کھانا کھا رہے تھے۔ ایک ہڈی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں تھی، اسی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آنا شروع ہوئی۔ پھر وحی کی حالت موقوف ہوگئی اور ہڈی اسی طرح آپ کے ہاتھ میں تھی جسے آپ نے ہاتھ سے رکھا نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم عورتوں کو ضرورت سے باہر نکلنے کی اجازت دی گئی‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ باب قولہ تعالیٰ لاتدخلوا بیوت النبی ) عورتوں کی حقیقی ضروریات :۔ گویا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ یہ چاہتے تھے کہ عورتوں کے باہر نکلنے پر مکمل پابندی لگ جائے۔ وحی الٰہی نے عورتوں کے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی تو لگا دی جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ چاہتے تھے مگر مکمل پابندی نہیں لگائی بلکہ ضرورت کے تحت عورتوں کو گھر سے باہر جانے کی اجازت مل گئی۔ اب سوال یہ ہے کہ عورتوں کی وہ ضروریات کیا ہوسکتی ہیں جن کی بنا پر وہ گھر سے نکل سکتی ہیں؟ وہ یہ ہیں : فریضہ حج کی ادائیگی، نماز کے لئے مسجد یا عید گاہ میں جانا، اپنے اقارب سے ملاقات اور ان کی تقاریب مثلاً نکاح اور شادی میں شمولیت یا مثلاً عیادت مریض اور تعزیت موتی کے لئے جانا۔ ان میں کچھ حاجات تو سفر کی نوعیت رکھتی ہیں اور بعض پر سفر کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ اب ان کے متعلق ارشادات نبوی ملاحظہ فرمائیے : ١۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ : ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا : ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میری بیوی حج کے لئے نکلی ہے اور میرا نام فلاں غزوہ میں لکھا گیا ہے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’لوٹ جا اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کر‘‘ (بخاری۔ کتاب النکاح۔ باب لایخلون رجل۔۔) عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے :۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد جیسے اہم دینی فریضہ سے اس آدمی کو رخصت دے دی۔ مگر یہ گوارا نہیں فرمایا کہ اس کی عورت اکیلی حج پر چلی جائے۔ ٢۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : کوئی عورت ایک دن رات کی مسافت کا سفر نہ کرے الا یہ کہ اس کے ساتھ کوئی محرم ہو۔ (ترمذی۔ ابو اب الرضاع ۔ باب کراہیۃ ان تسافر المرأۃ وحدھا۔) اس حدیث سے سفر کی تعریف بھی معلوم ہوگئی کہ سفر کا اطلاق اتنی مسافت پر ہوتا ہے جہاں سے کوئی شخص پیدل رات تک گھر واپس نہ پہنچ سکے۔ اس سے زیادہ مسافت ہو تو عورت محرم کے بغیر سفر نہیں کرسکتی۔ ٣۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جب عورت اکیلی گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اس کو تاکتا ہے (یعنی اپنا آلہ کار بناتا ہے) (ترمذی۔ ابو اب الرضاع۔ باب کراھیۃ دخول علی المغیبات) ٤۔ عورتوں کو نماز کے لئے مسجد میں جانے کا حکم نہیں بلکہ صرف اجازت ہے اور اجازت بھی عدم ممانعت کی صورت میں ہے۔ یعنی عورت اپنے خاوند کی اجازت سے ہی مسجد میں جاسکتی ہے۔ جیسا کہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ : ’’اگر تمہاری بیویاں تم سے مسجد جانے کی اجازت طلب کریں تو انھیں مت روکو‘‘ (مسلم۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب خروج النساء الی المساجد اذ لم یترتب علیہ فتنۃ) مسجد میں جانے کی مشروط اجازت :۔ امام مسلم نے باب کے عنوان میں یہ وضاحت بھی کردی کہ یہ اجازت بھی اس صورت میں ہوگی جب کسی فتنہ کا خدشہ نہ ہو۔ ٥۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے (اپنی زندگی کے آخری ایام میں) فرمایا : اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجودہ صورت حال دیکھتے تو عورتوں کو مساجد میں جانے سے روک دیتے جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔ (بخاری۔ کتاب الاذان۔ باب خروج النساء الی المساجد باللیل) عورت کی بہترین جائے نماز گھر کی اندرونی جگہ ہے :۔ غور فرمائیے مسجد نبوی میں ایک نماز باجماعت کا ثواب ہزار نماز کے ثواب کے برابر ہے اور امام خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو امام الانبیاء ہیں۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود ام حمید ساعدیہ نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میری پسند خاطر یہ ہے کہ میں آپ کے ساتھ نماز ادا کروں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تیرے گھر کی کوٹھری میں نماز تیرے گھر کے دالان سے افضل ہے اور دالان میں نماز صحن کی نماز سے افضل ہے۔ اور صحن کی نماز محلہ کی مسجد کی نماز سے افضل ہے اور محلہ کی مسجد میں نماز جامع مسجد کی نماز سے افضل ہے‘‘ اور سیدہ ام سلمہ کی روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ یہ ہیں :’’ عورتوں کے لئے بہترین مساجد ان کے گھروں کے اندرونی حصے ہیں‘‘ (احمد۔ طبرانی) عورتوں کے مسجد میں جانے پر پابندیاں :۔ پھر اس طرح مسجد میں جانے پر بھی سنت نبوی نے کئی طرح کی پابندیاں لگائی ہیں مثلاً: (١) وہ صرف اندھیرے کی نمازوں (عشاء اور فجر) میں شامل ہوسکتی ہیں ماسوائے جمعہ اور عیدین کے (بخاری۔ کتاب الاذان۔ باب خروج النساء الی المساجد باللیل و الغلس) (٢) جس رات عورت مسجد میں جانا چاہے خوشبو نہیں لگا سکتی۔ (بخاری۔ حوالہ ایضاً) (٣) مردوں کے لئے بہتر صف پہلی ہے اور بری سب سے آخری صف ہے اور عورتوں کے لئے پہلی صف سب سے بری ہے اور آخری سب سے بہتر (مسلم۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب امر النساء المصلیات وراء الرجال۔۔) (٤) اسے چاہئے کہ رکوع و سجود سے سر مردوں کے بعد اٹھائے۔ (مسلم۔ حوالہ ایضاً) (٥) نماز باجماعت سے فراغت کے بعد فوراً مردوں سے پہلے مسجد سے نکل جائے۔ (مسلم و بخاری۔ حوالہ ایضاً) (٦) اگر واپسی پر ہجوم ہو اور مرد اور عورتوں کے مخلوط ہونے کا خطرہ ہو تو عورتیں راستہ کے کناروں پر چلیں۔ (ابوداؤد۔ کتاب الادب) (٧) عیدین کی نمازیں چونکہ کھلے میدان میں پڑھی جاتی ہیں لہٰذا وہاں عورتیں بالکل الگ مقام پر جمع ہوتی تھیں۔ (مسلم۔ کتاب الصلوۃ ، باب صلوۃ العیدین) آزادانہ اختلاط کی ممانعت :۔ اب دیکھئے مندرجہ بالا احادیث کی صراحت کے بعد مسلمان عورتوں کے لئے ان باتوں کی کوئی گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ وہ کونسلوں اور پارلیمنٹوں کی ممبر بنیں۔ بیرون خانہ کی سوشل سرگرمیوں میں دوڑتی پھریں۔ سرکاری دفتروں میں مردوں کے ساتھ مل کر کام کریں۔ کالجوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کی مخلوط تعلیم ہو۔ ہسپتالوں میں نرسنگ کی خدمات انجام دیں اور ہوائی جہازوں اور ریل کاروں میں مسافر نوازی کے لئے استعمال کی جائیں۔ یا گاہکوں میں کشش پیدا کرنے کی خاطر انھیں سیلزمین کے طور پر استعمال کیا جائے؟ [ ٤٨] جاہلیت کا لفظ دراصل قرآن نے اسلام کے مقابلہ پر استعمال فرمایا ہے۔ یعنی زندگی کا وہ طرز عمل جو اسلامی تہذیب و ثقافت، اخلاق و آداب اور اسلامی ذہنیت کے خلاف ہو وہ جاہلیت ہے۔ اور جاہلیت اولیٰ سے مراد اسلام سے پہلے کا تاریک دور ہے۔ اور اگر آج بھی معاشرہ میں وہی پرانی رسوم رائج ہوجائیں تو یہ دور بھی دور جاہلیت ہی کہلائے گا۔ [ ٤٩] تبرّج میں کیا کچھ شامل ہے؟ تبرّج بمعنی اپنی زینت، جسمانی محاسن اور میک اپ دوسروں کو اور بالخصوص مردوں کو دکھانے کی کوشش کرنا اور اس میں پانچ چیزیں شامل ہیں۔ (١) اپنے جسم کے محاسن کی نمائش (٢) زیورات کی نمائش اور جھنکار، (٣) پہنے ہوئے کپڑوں کی نمائش، (٤) رفتار میں بانکپن اور نازو ادا، (٥) خوشبویات کا استعمال جو غیروں کو اپنی طرف متوجہ کرے۔ [ ٥٠] اہل بیت سے مراد کون لوگ ہیں؟ اہل بیت اور اہل خانہ یا گھر والے یہ سب ہم معنی الفاظ ہیں۔ اور اس سے مراد کسی مرد کی بیوی یا بیویاں تو ضرور شامل ہوتی ہیں جیسے یہاں سیاق و سباق میں ازواج النبی کو ہی خطاب کیا جارہا ہے۔ اور اگر اولاد ہو تو وہ بھی اہل بیت میں شامل سمجھی جاتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے مسلمانوں کے ایک فرقہ نے اہل بیت سے ازواج النبی کو تو خارج کردیا اور اس کے بجائے اہل بیت سے مراد سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ، سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ لے لیا اور اس کی بنیاد امام احمد کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چاروں حضرات کو ایک چادر میں لے کر کہا : ( اللّٰھُمَّ ھٰوُلاَءِ اَھْلَ بَیْتِیْ۔۔) (یاللہ! یہ میرے گھر والے ہیں) حالانکہ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد صرف یہ تھی کہ اے اللہ تطہیر کے اس پاکیزہ عمل میں میری اولاد کو شامل کرلے اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے کیا کہ سیاق و سباق میں خطاب صرف ازواج النبی سے تھا۔ آپ کی اولاد سے نہیں تھا۔ [ ٥١] پاکیزگی کے مختلف پہلو :۔ یہاں ربط مضمون کے لحاظ سے رِجْسٌ (ناپاکی۔ گندگی) سے مراد صرف وہ حرکات اور افعال ہیں جو بے حیائی سے تعلق رکھتے ہیں اور شہوانی جذبات میں تحریک پیدا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں اور سیاق و سباق میں یہی مضمون مذکور ہے۔ تاہم رجس کے معنی میں بہت وسعت ہے اور اس سے مراد شرک، کفر اور نفاق کی گندگی، اخلاق رذیلہ کی گندگی حتیٰ کہ ظاہری نجاست بھی شامل ہے اور مطلب یہ ہے کہ ایسی ناپاکی کو دور کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اے ازواج النبی تم جاہلیت کے دور والی نمود و نمائش کے بجائے نمازیں قائم کرو، زکوٰ ۃ ادا کیا کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ اللہ کے رسول کو خرچ وغیرہ کے مطالبات کرکے پریشان نہ کرو۔ اس طرح اللہ تمہارے دلوں سے ہر طرح کی نجاست دور کرکے پاک و صاف بنا دے گا۔ الأحزاب
34 [ ٥٢] حکمت کیا چیز ہے :۔ حکمت کا معنی صرف دانائی یا دانائی کی باتیں ہیں۔ پھر اس کی دو قسمیں ہیں ایک حکمت علمی یعنی آیات قرآنی سے استنباطات اور اجتہادات دوسرے حکمت عملی۔ یعنی احکام الٰہی کو عملی طور پر نافذ کرنے کا طریقہ کار۔ قرآن میں بے شمار مقامات پر کتاب و حکمت کا لفظ اکٹھا آیا ہے۔ اور امام شافعی نے بے شمار دلائل سے یہ ثابت کیا ہے کہ حکمت سے مراد سنت نبوی ہے۔ یعنی خواہ آپ زبانی کسی آیت کی تشریح و تفسیر امت کو سمجھا دیں یا کسی حکم پر عمل کرکے امت کو دکھا دیں۔ یہ سب کچھ حکمت کے مفہوم میں شامل ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ساری حکمت صرف سنت نبوی میں ہی محصور ہے بلکہ قرآن میں بھی موجود ہے اسی لئے اسے القرآن الحکیم کہا گیا ہے۔ اب چونکہ منکرین حدیث، حدیث کی حجیت کے قائل نہیں تو ان کے ایک نمائندہ حافظ اسلم صاحب جیراجپوری نے اس آیت پر اعتراض جڑ دیا کہ کیا ازواج مطہرات کے گھروں میں اللہ کی آیات کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بھی پڑھی جاتی تھیں؟ (مقام حدیث ص ١٢ مطبوعہ ادارہ طلوع اسلام، لاہور) منکرین حدیث کا ایک اعتراض اور اس کا جواب :۔ حافظ صاحب نے اس اعتراض میں دھوکا دینے کی کوشش فرمائی ہے۔ امام شافعی نے حکمت سے مراد سنت نبوی بتایا ہے۔ حدیث نہیں بتایا۔ اور حدیث اور سنت میں کئی لحاظ سے فرق ہے۔ جس کی تفصیل کا یہ موقعہ نہیں۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے آئینہ پرویزیت) لہٰذا صرف ایک آدھ اشارہ پر ہی اکتفا کروں گا۔ مثلاً قرآن میں تقریباً سات سو مقامات پر نماز کی ادائیگی کا حکم ہے۔ مگر اس کی مکمل ترکیب کسی ایک جگہ بھی مذکور نہیں۔ یہ ہمیں صرف آپ کے نماز ادا کرنے سے معلوم ہوئی۔ یہ حکمت ہے اور حکمت عملی لیکن یہ حکمت قرآن میں مذکور نہیں۔ اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق آپ صحابہ کو التشہد اسی طرح پڑھاتے اور یاد کراتے اور پھر سنتے تھے جیسے قرآنی آیات پڑھاتے تھے اور حکمت علمی اور عملی دونوں قرآن میں مذکور نہیں۔ یہی حال باقی سب احکام کا ہے۔ گویا قرآن کے حکیم ہونے کے باوجود حکمت کا کثیر حصہ سنت نبوی سے ہمیں معلوم ہوا ہے۔ [ ٥٣] تبلیغ دین میں ازواج کا کردار :۔ لفظ واذْ کُرْنَ کے دو معنی ہیں ایک معنی ’’یاد رکھو‘‘ اور دوسرا معنی ’’بیان کرو‘‘ پہلے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ اے نبی کی بیویو! تمہارا گھر وہ گھر ہے جہاں سے دنیا بھر کو آیات الٰہی اور حکمت و دانائی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ لہٰذا تم اس بات کو خوب یاد رکھو اور اچھی طرح ذہن نشین کرلو کہ اس معاملہ میں تمہاری ذمہ داری بڑی سخت ہے۔ تمہیں اپنا ہر عمل اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی منشا کے مطابق کرنا ہوگا اور دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ جو کچھ تم آیات الٰہی اور حکمت کی باتیں سنو اور دیکھو۔ اسے لوگوں کے سامنے بیان کرو۔ کیونکہ زندگی کا ایک اہم پہلو یا گھریلو زندگی سے متعلق بہت سے امور ایسے ہیں جو تمہارے علاوہ کسی اور ذریعہ سے معلوم نہیں ہوسکتے۔ الأحزاب
35 [ ٥٤] اسلام کی دس بنیادی اقدار :۔ اس آیت میں مسلمانوں کی دس ایسی صفات کا ذکر آیا ہے جنہیں اسلام کی بنیادی اقدار کا نام دیا جاسکتا ہے۔ پہلی صفت اسلام لانا ہے۔ اور اس کا انحصار دو شہادتوں پر ہے کہ جو شخص یہ اقرار کرے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتا ہے۔ اسلام کے بعد دوسری صفت ایمان ہے۔ ایمان کا مطلب یہ ہے کہ دو شہادتیں اس کے دل میں جانشین ہوجائیں اور دل بھی ان کی تصدیق کرے اور انسان اسلام کے تقاضے اور بنیادی ارکان کے لئے مستعد ہوجائے۔ جب تک انسان دعویٰ اسلام کے ساتھ دل کی تصدیق اور ساتھ ہی ساتھ اعمال صالح بجا نہ لائے اس کے ایمان کے دعویٰ کو غلط اور جھوٹ سمجھا جائے گا۔ تیسری صفت یہ ہے کہ وہ لوگ صرف زبانی حد تک ہی اللہ کے اور اس کے رسول کے احکام کے قائل نہیں ہوتے۔ بلکہ عملی لحاظ سے بھی ہر وقت انھیں ماننے پر اور مطیع فرمان بن کر رہنے پر تیار رہتے ہیں۔ چوتھی صفت یہ ہے کہ وہ سچے اور راست باز ہوتے ہیں۔ اپنے معاملات میں جھوٹ، مکر، ریا کاری اور دغا بازی سے حتی الوسع اجتناب کرتے ہیں۔ پانچویں صفت یہ ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں۔ نیز احکام الٰہی پر پورے صبر و ثبات کے ساتھ عمل پیرا ہوتے ہیں۔ چھٹی صفت یہ ہے کہ ان میں تکبر نام کو نہیں ہوتا۔ ان کی وضع قطع، چال ڈھال، اور گفتگو کبر و نخوت سے پاک ہوتی ہے۔ اس کے بجائے ان میں دوسروں کے لئے تواضع اور انکسار موجود ہوتا ہے۔ وہ ہر ایک سے عزت و احترام سے پیش آتے ہیں۔ اس مقام پر لفظ خاشعین استعمال ہوا ہے اور خشوع کے معنی ایسا خوف یا جذبہ ہے جس کے اثرات جوارح پر ظاہر ہونے لگیں۔ پھر یہی لفظ بول کر اس سے نماز بھی مراد لی جاسکتی ہے کیونکہ خشوع ہی نماز کی روح ہے اور یہاں نماز مراد لینا اس لحاظ سے بھی مناسب ہے کہ آگے صدقہ اور روزہ کا ذکر آرہا ہے۔ ساتویں صفت یہ ہے کہ وہ متصدق ہوتے ہیں اور اس لفظ میں تین مفہوم شامل ہیں۔ ایک یہ کہ وہ زکوٰ ۃ (فرضی صدقہ) ادا کرتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ نفلی صدقات سے محتاجوں کی احتیاج کو دور کرتے اور ان کاموں میں خرچ کرتے ہیں جن کا شریعت نے حکم دیا ہے اور تیسرا یہ کہ اگر کسی سے قرض وغیرہ لینا ہو تو وہ معاف کردیتے ہیں۔ یعنی اپنے حق سے دستبردار ہوجاتے ہیں۔ آٹھویں صفت یہ ہے کہ وہ فرضی روزے تو ضرور رکھتے ہیں ان کے علاوہ نفلی روزے بھی حسب توفیق رکھتے ہیں۔ نویں صفت یہ ہے کہ وہ زنا سے بھی بچتے ہیں اور عریانی اور برہنگی سے بھی اجتناب کرتے ہیں اور دسویں صفت یہ ہے کہ وہ اپنے اکثر اوقات میں اللہ کو یاد کرتے ہیں اور یاد رکھتے ہیں۔ یاد کرنے سے مراد تسبیح و تہلیل اور اللہ کے ذکر سے زبان کو تر رکھنا ہے اور یاد رکھنے سے مراد یہ ہے کہ وہ کوئی کام کریں انھیں ہر وقت دل میں اللہ کا خوف رہتا ہے۔ جو انھیں اللہ کی نافرمانی سے بچاتا ہے۔ اور حقیقت ہے کہ تمام عبادتوں کی روح یہی اللہ کا ذکر یا اللہ کی یاد ہے۔ باقی سب عبادتوں کا کوئی نہ کوئی وقت ہوتا ہے مگر اس عبادت کا کوئی وقت مقرر نہیں۔ اور یہ ہر وقت کی جاسکتی ہے اور اسی اللہ کی یاد سے ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ بندے کا اپنے اللہ سے تعلق کس حد تک مضبوط ہے یا کمزور ہے۔ عام طور پر مردوں کو ہی کیوں مخاطب کیا جاتا ہے اعمال کے اجر میں مرد اور عورت برابر ہیں :۔ اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ بعض ازواج مطہرات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کہ قرآن میں عام طور پر مردوں کو ہی خطاب کیا گیا ہے۔ عورتوں کا ذکر کم ہی ہوتا ہے۔ چنانچہ اس آیت میں ایک ایک صفت میں مردوں کے ساتھ عورتوں کا بھی ذکر کیا گیا۔ اور یہ بعض ازواج (سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا) کا محض جذبہ اشتیاق ہی تھا کہ عورتوں کا الگ سے نام لیا جانا چاہئے۔ ورنہ ہر زبان کا اور اسی طرح عربی زبان کا یہ ہی دستور ہے کہ جب کسی مردوں اور عورتوں کے مشترکہ اجتماع کو خطاب کرنا ہو تو جمع مذکر کا صیغہ ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ اور عورتیں بالتبع اس خطاب میں شامل ہوتی ہیں۔ چنانچہ اس آیت میں یہ وضاحت کردی گئی کہ عمل کرنے والا مرد ہو یا عورت کسی کی محنت اور کمائی اللہ کے ہاں ضائع نہیں جاتی۔ دوسرے یہ کہ ان دونوں کی کمائی کے اجر میں کچھ فرق نہ ہوگا۔ اخلاقی ترقی اور روحانی کمال دونوں کے سامنے ایک جیسا وسیع ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مردوں کا دائرہ عمل عورتوں کے دائرہ عمل سے الگ ہے۔ مرد کے لئے اگر جہاد میں بڑا درجہ ہے تو عورتوں کے لئے اولاد کی صحیح تربیت میں بڑا درجہ ہے۔ البتہ جن مسائل کا تعلق ہی عورتوں سے ہے ان میں عورتوں کو ہی خطاب کیا گیا ہے۔ الأحزاب
36 [ ٥٥] آزاد شدہ غلاموں کا معاشرہ میں مقام :۔ اس سورۃ کے آغاز میں پہلے بتایا جاچکا ہے کہ عرب معاشرہ میں کثیر تعداد غلاموں کی تھی۔ اور غلاموں کو ایک حقیر اور دوسرے درجہ کی مخلوق سمجھا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ اگر کوئی غلام آزاد کردیا جاتا، جسے مولیٰ کہا جاتا تھا، تو بھی آزاد لوگوں کا معاشرہ اسے اپنے آپ میں جذب کرنے کے لئے تیار نہ ہوتا تھا۔ اسلام اس معاشرتی بگاڑ کی اصلاح کرنا چاہتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہوا کہ اس اصلاح کا آغاز نبی کی ذات اور اس کے گھرانہ سے کیا جائے۔ سیدہ زینب کا اللہ اور اس کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنا :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک غلام زید بن حارثہ تھا جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کرنے کے بعد اسے اپنا متبنّیٰ بھی بنا لیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود آزاد لوگ اسے معاشرتی لحاظ سے اپنے برابر کا درجہ دینے کو تیار نہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید کے لئے اپنی پھوپھی زاد بہن زینب کا رشتہ طلب کیا۔ تو ان لوگوں کو یہ بات توہین آمیز معلوم ہوئی اور سخت ناگوار گزری۔ اسی وجہ سے ان لوگوں نے رشتہ دینے سے انکار کردیا۔ مگر اللہ کو منظور تھا کہ یہ کام ضرور ہونا چاہئے۔ اسی ضمن میں یہ آیت نازل ہوئی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت سیدہ زینب بنت جحش کو سنائی تو انہوں نے اللہ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردیا اور یہ رشتہ قبول کرلیا۔ اور سیدنا زید کا زینب بنت جحش سے نکاح ہوگیا۔ الأحزاب
37 [ ٥٦] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سیدنا زید بن حارثہ پر احسانات :۔ اس شخص سے مراد زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ ان پر اللہ اور اللہ کے رسول کا احسان یہ تھا کہ آپ قبیلہ کلب کے ایک شخص حارثہ بن شرحبیل کے بیٹے تھے۔ آٹھ سال کے ہی تھے کہ ایک قبائلی جنگ میں گرفتار ہوئے ان حملہ آوروں نے انھیں عکاظ کے میلہ میں جاکر بیچ ڈالا۔ خریدنے والے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے حکیم بن حزام تھے۔ انہوں نے مکہ آکر اس غلام کو اپنی پھوپھی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں تحفتاً پیش کردیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح ہوا اس وقت زید بن حارثہ ١٥ سال کے تھے۔ ان کی عادات و اطوار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر پسند آئیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے اپنے لئے مانگ لیا اور انہوں نے آپ کو دے دیا۔ کچھ عرصہ بعد سیدنا زید کے لواحقین کو آپ کا سراغ مل گیا تو سیدنا زید کے والد، چچا اور بھائی تین افراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کی کہ آپ جتنا زر فدیہ چاہیں لے لیں اور بچے کو ہمارے ساتھ بھیج دیں۔ آپ نے انھیں کہا میں زرفدیہ کچھ نہیں لیتا۔ البتہ تم زید سے پوچھ لو۔ اگر وہ تمہارے ساتھ جانا چاہتا ہے تو مجھے کچھ عذر نہ ہوگا۔ انہوں نے سیدنا زید سے جانے کو کہا تو سیدنا زید نے ہمراہ جانے سے انکار کردیا اور کہا کہ مجھے یہاں والدین سے بڑھ کر پیار اور شفقت میسر ہے۔ چنانچہ سیدنا زید کے لواحقین واپس چلے گئے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا زید کو کعبہ میں لے جاکر سب کے سامنے اعلان کردیا کہ میں نے زید کو آزاد کردیا ہے اور اسے اپنا متبنّیٰ بنا لیا ہے۔ لہٰذا یہ میرا وارث ہوگا۔ آپ کے اس اعلان کے بعد لوگ آپ کو زید بن حارثہ کے بجائے زید بن محمد کہنے لگے۔ [ ٥٧] اللہ اور اس کے رسول کے سیدنا زید پر احسانات :۔ سیدنا زید پر اللہ اور اس کے رسول کا دوسرا احسان یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہی قبیلہ سے جو معاشرتی لحاظ سے بہت اونچے درجے کا شریف قبیلہ شمار ہوتا تھا، سیدنا زید کے لئے رشتہ طلب کرلیا۔ لیکن چونکہ سیدنا زید پر سابقہ غلامی کا داغ موجود تھا۔ لہٰذا سیدہ زینب خود اور اس کے اولیاء نے اس رشتہ کے مطالبہ میں ہی اپنی توہین سمجھی تو اللہ نے ان لوگوں کو بذریعہ وحی بتا دیا کہ یہ نبی کی خواہش نہیں بلکہ میرا حکم ہے۔ اس حکم الٰہی کے سامنے ان لوگوں نے سر تسلیم خم کردیا۔ ورنہ یہ رشتہ یا نکاح ہوجانا ناممکن نظر آرہا تھا۔ اللہ کے حکم کے تحت سیدہ زینب سے نکاح تو ہوگیا لیکن معاشرتی تفاوت ذہنوں سے اتنی جلد دور نہ ہوسکا اور نہ ہوسکتا ہے اور سیدہ زینب اپنے شوہر کا وہ احترام نہ کرسکیں جو انھیں کرنا چاہیے تھا۔ اسی لئے سیدنا زید اس بات کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے شکوہ کرتے رہے دریں اثناء آپ کو بذریعہ وحی یہ اشارہ مل چکا تھا کہ زینب کا آپ سے نکاح ہوگا اس اشارہ سے کئی باتیں معلوم ہو رہی تھیں۔ ایک یہ کہ سیدنا زید طلاق دیئے بغیر نہ رہیں گے۔ دوسرے یہ کہ سیدہ زینب نے اور ان کے اولیاء نے اللہ کے حکم کے سامنے اپنی خواہش کی جو قربانی کی ہے اس کا صلہ انھیں اس صورت میں ملے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود اس سے نکاح کرلیں اور تیسرے یہ کہ معاشرہ میں جو متبنّیٰ سے متعلق غلط باتیں رواج پا گئی ہیں ان کا استیصال کیا جائے۔ [ ٥٨] آپ کونسی بات دل میں چھپاتے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا زید کی شکایت پر ہر بار اسے ہی سمجھاتے رہے کہ جب اس عورت نے اپنی خواہش کی قربانی دے کر تم سے نکاح کرلیا ہے تو آخر تمہیں بھی کچھ برداشت سے کام لینا چاہئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زید کو طلاق سے منع کرنے اور اس طلاق کے معاملہ کو التوا میں ڈالے رکھنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ بھی تھا کہ جب بھی طلاق واقع ہوگئی تو سیدہ زینب کو مجھے اپنے نکاح میں لانا ہوگا۔ اس وقت مجھے تمام دشمنان اسلام کے طعن وتشنیع کا نشانہ بننا پڑے گا۔ یہ تھی وہ بات جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دل میں چھپانا چاہتے تھے۔ جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن سے کوئی آیت چھپانے والے ہوتے تو اس آیت کو ضرور چھپاتے۔ اگرچہ دلوں کے خیالات پر اللہ تعالیٰ مؤاخذہ نہیں فرماتا مگر چونکہ آپ کی عظمت شان کے لحاظ سے دل میں ایسا خیال آنا بھی فروتر تھا۔ اس لئے ایسے خیال پر بھی اللہ کی طرف سے عتاب نازل ہوا۔ [ ٥٩] اس جملہ کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ جب اپنی بیوی سے اپنی نفسانی خواہش پوری کرچکا تو طلاق دے دی اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ سیدنا زید کی خواہش ہی یہ تھی کہ اسے طلاق دے دیں۔ چنانچہ انہوں نے طلاق دے دی اور عدت گزر گئی۔ [ ٦٠] اللہ کا حکم ہی زینب کے لئے نکاح کے قائم مقام تھا :۔ اس کے بھی دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ یہ نکاح تم نے اپنی مرضی اور اپنی خواہش کے مطابق نہیں کیا تھا بلکہ ہمارے حکم کے مطابق کیا تھا اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہ نکاح اس دنیا میں ہوا ہی نہیں تھا، بلکہ اللہ کا یہ حکم ہی نکاح کا درجہ رکھتا تھا اور یہی مطلب درج ذیل احادیث کی رو سے راجح معلوم ہوتا ہے : ١۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ زید بن حارثہ اپنی بیوی (زینب بنت جحش) کا شکوہ کرنے آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فرماتے تھے: اللہ سے ڈر اور اپنی بیوی کو اپنے پاس ہی رہنے دے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن سے کچھ چھپانے والے ہوتے تو اس آیت کو چھپاتے اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بی بی زینب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بیویوں پر فخر کیا کرتیں کہ تم کو تو تمہارے اولیاء نے بیاہا اور مجھے اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کے اوپر سے بیاہ دیا۔ (بخاری۔ کتاب التوحید۔ باب قولہ وکان عرشہ علی الماء ) ٢۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب سیدہ زینب کی عدت پوری ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا زید سے کہا کہ زینب سے میرا ذکر کرو۔ زید کہتے ہیں کہ جب میں ان کے پاس آیا تو وہ اپنے آٹے کا خمیر اٹھا رہی تھیں۔ میں ان کی عظمت کی وجہ سے انھیں نظر بھر کر نہ دیکھ سکا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں یاد کیا تھا۔ پھر میں نے ان سے کہا : زینب مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا ہے۔ وہ آپ کو یاد کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا : میں اس وقت تک کوئی بات نہیں کرتی جب تک اپنے پروردگار سے مشورہ نہ کرلوں (استخارہ نہ کرلوں) پھر وہ اپنی جائے نماز پر کھڑی ہوئیں تو قرآن اترا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بغیر اذن کے ان کے پاس چلے گئے۔ (مسلم۔ کتاب النکاح۔ باب زواج زینب بنت جحش) [ ٦١] وہ اللہ کا حکم یہ تھا کہ متبنّیٰ اصل بیٹے کا مقام نہیں رکھتا کہ اس کی مطلقہ بیوی حرام ہوجائے اور اللہ اس غلط رسم کو بہرحال ختم کرنا چاہتا تھا۔ الأحزاب
38 [ ٦٢] یعنی اللہ کا یہ حکم ایسا تھا۔ جس کا اللہ پہلے ہی فیصلہ کرچکا تھا اور یہ نکاح کرنا نبی پر فرض کیا گیا تھا۔ کیونکہ اللہ اپنے نبی کے ذریعہ ہی اس رسم کو مٹانا چاہتا تھا۔ اور یہ کام بہرحال ہو کر ہی رہنا تھا۔ سابقہ انبیاء میں بھی اللہ کی سنت یہی رہی ہے کہ اللہ کا حکم بہرحال انھیں سرانجام دینا ہوتا تھا خواہ اس سلسلہ میں کتنی ہی مشکلات پیش آئیں اور پریشانیاں لا حق ہوں۔ الأحزاب
39 [ ٦٣] باز پرس سے ڈرنے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہر طرح کے خطرے اور پریشانیوں کے مقابلہ میں اللہ کافی ہے۔ الأحزاب
40 [ ٦٤] معترفین کے اس نکاح کے بارے میں اعتراضات :۔ اس جملے میں دشمنان اسلام کے اس طعن کی تردید ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے بیٹے کی مطلقہ بیوی یعنی اپنی بہو سے نکاح کرلیا ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ زید کے باپ ہیں ہی نہیں اور ایک زید ہی کیا کسی بھی مرد کے باپ نہیں۔ یعنی ان کی کوئی اولاد ایسی نہیں جو جوان ہو اور مرد کہلائے جانے کے قابل ہو۔ واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بیٹے قاسم اور طیب (جنہیں طاہر بھی کہا جاتا ہے) فوت ہوچکے تھے اور ابراہیم ابھی پیدا ہی نہ ہوئے تھے۔ ان کے علاوہ حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ آپ کے نواسے تھے۔ جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بیٹا بھی فرمایا مگر ایک تو وہ حقیقی بیٹے نہ تھے۔ دوسرے وہ بھی کمسن تھے جنہیں مرد نہیں کہا جاسکتا۔ [ ٦٥] ہنگامہ بپا کرنے والوں کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ اگر زید کی مطلقہ بیوی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح جائز بھی تھا تو کیا یہ ضروری تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے نکاح کرتے۔ یہ بات ویسے بھی کہی جاسکتی تھی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ انھیں تو وہ کام بہرحال کرنا ہوتا ہے جو اللہ کا حکم ہو اور اللہ کا حکم یہی ہے کہ اس بری رسم کی اصلاح کا آغاز نبی کی ذات سے کیا جائے۔ [ ٦٦] ربط مضمون کے لحاظ سے تو اس کا یہی مطلب ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی رسول تو کیا کوئی نبی بھی آنے والا نہیں۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس برے دستور کی اصلاح ممکن ہی نہ تھی۔ لہٰذا ضروری تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرتے تاکہ دوسرے مسلمانوں کے لئے یہ راستہ ہموار ہوجائے اور انھیں ایسا کرنے میں کوئی پریشانی لاحق نہ ہو۔ تاہم یہ جملہ ایک ٹھوس حقیقت پر مبنی ہے جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے : (١) عامر الشعبی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی بیٹا زندہ نہ رہا تاکہ اس آیت کا مضمون صادق آجائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے باپ نہیں۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) (٢) آپ خاتم النبییّن ہیں :۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری اور اگلے پیغمبروں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک گھر بنایا۔ اس کو خوب آراستہ پیراستہ کیا۔ مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ اس میں آتے جاتے اور تعجب کرتے ہیں کہ اس اینٹ کی جگہ کیوں چھوڑ دی۔ وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبیّین ہوں‘‘ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب خاتم النبیّین صلی اللہ علیہ وسلم ) (٣) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’بنی اسرائیل پر نبی حکومت کیا کرتے جب ایک نبی فوت ہوجاتا تو اس کی جگہ دوسرا نبی ہوتا۔ مگر میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔ البتہ میرے بعد کثرت سے خلفاء پیدا ہوں گے‘‘ (بخاری۔ کتاب الانبیاء۔ باب ما ذکر عن بنی اسرائیل) (مسلم۔ کتاب الامارۃ۔ باب الامر بالوفاء ببیعۃ الخلفاء ) (٤) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک دو گروہ آپس میں نہ لڑیں۔ دونوں میں بڑی جنگ ہوگی اور دونوں کا دعویٰ ایک ہوگا اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تیس کے قریب چھوٹے دجال ظاہر نہ ہوں یعنی ان میں سے ہر ایک یہی کہے گا کہ میں اللہ کا رسول ہوں‘‘ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب علامات النبوت فی الاسلام) (٥) اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب :۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسیلمہ کذاب مدینہ آیا اور کہنے لگا : ’’اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد مجھے اپنا جانشین بنائیں تو میں ان کی تابعداری کرتا ہوں‘‘ اور مسیلمہ کذاب اپنے ساتھ بہت سے لوگوں کو بھی لایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس چلے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثابت بن قیس (بن شماس۔ خطیب انصار) بھی تھے۔ اس وقت آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیلمہ سے مخاطب ہو کر فرمایا : اگر تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ چھڑی بھی مانگو تو میں نہیں دوں گا۔ (جانشینی تو دور کی بات ہے) اور اللہ نے جو کچھ تیری تقدیر میں لکھ دیا ہے تو اس سے بچ نہیں سکتا۔ اور تو اسلام نہ لائے گا اور اللہ تجھے تباہ کردے گا۔ اور میں تو سمجھتا ہوں کہ تو وہی دشمن ہے جس کا حال مجھے اللہ تعالیٰ (خواب میں) دکھا چکا ہے۔ اور یہ ثابت بن قیس میری طرف سے تمہیں جواب دے گا۔ یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس چلے گئے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے آپ کے ارشاد کا مطلب پوچھا تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مجھے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ایک دفعہ میں سویا ہوا تھا میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن ہیں۔ تو میں بہت پریشان ہوگیا۔ خواب ہی میں مجھے حکم دیا گیا کہ ان پر پھونک مارو میں نے پھونک ماری تو وہ دونوں اڑ گئے۔ میں نے اس کی یہ تعبیر سمجھی کہ میرے بعد دو جھوٹے شخص پیغمبری کا دعویٰ کریں گے ان میں سے ایک اسود عنسی ہے اور دوسرا مسیلمہ کذاب۔‘‘ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب وفد بنی حنیفۃ۔۔) (٦) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم سے پہلے اگلی امتوں میں ایسے لوگ گزرے ہیں جن کو اللہ کی طرف سے الہام ہوتا تھا۔ اگر میری امت سے کوئی ایسا ہو تو وہ عمر بن خطاب ہوتے‘‘ (حوالہ ایضاً) اور قیامت کے قریب سیدنا عیسیٰ کا نزول ہوگا تو وہ یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی بن کر رہیں گے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی شریعت کی اتباع کریں گے علاوہ ازیں نبی ہونے کی حیثیت سے بھی ان کا شمار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے انبیاء میں ہے۔ وہ کوئی نیا دعویٰ نہیں کریں گے۔ ختم نبوت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وحی کے انقطاع کا مسئلہ ایسا مسئلہ ہے جس پر تمام امت کا اجماع ہوچکا ہے۔ اس آیت، ان صریح احادیث صحیحہ اور اجماع کے علی الرغم قادیان ضلع گورداسپور میں ایک شخص مرزا غلام احمد نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ ہم یہاں مختصراً اس کے اس دعویٰ کا جائزہ لینا چاہتے ہیں : (١) مرزا صاحب پہلے خود بھی ختم نبوت کے قائل اور نبوت کا دعویٰ کرنے والے کو کافر سمجھتے تھے۔ چنانچہ حمامۃ البشریٰ میں لکھتے ہیں کہ ’’بھلا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی آئے تو کیسے آئے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد وحی بند ہوچکی ہے اور اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نبیوں کو ختم کردیا ہے‘‘ (حمامۃ البشرٰی ٢٠) پھر اسی کتاب کے صفحہ ٧٩ پر لکھتے ہیں کہ ’’مجھے یہ بات زیبا نہیں کہ میں نبوت کا دعویٰ کرکے اسلام سے خارج ہوجاؤں اور کافروں میں جاملوں‘‘ اس وقت تک آپ کا صرف مجدد ہونے کا دعویٰ تھا۔ (٢) مرزا قادیانی کی نبوت کے تدریجی مراحل :۔ پھر اس کے بعد آپ مثیل مسیح بنے۔ پھر مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کردیا۔ اسی بنا پر آپ نے رفع عیسیٰ کا انکار کردیا بلکہ بذریعہ کشف و الہام کشمیر میں آپ کی قبر کی نشاندہی بھی فرما دی اور اعلان فرمایا کہ : ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو اس سے بہتر غلام احمد ہے پھر اس کے بعد آپ نے کھل کر اپنی نبوت کا دعویٰ کردیا اور یہ بھی کہ مجھ پر وحی آتی ہے اور میں اللہ سے ہم کلام ہوتا ہوں۔ پھر جب آپ ہی کی تحریروں کے مطابق علماء نے آپ پر گرفت کی تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ میں کوئی مستقل نبی نہیں نہ ہی کوئی صاحب شریعت رسول ہوں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہی کی وجہ سے نبی ہوا ہوں اور آپ ہی کا ظل اور بروز (یعنی سایہ یا عکس) ہوں آپ کی اسی ظلی اور بروزی کی اصطلاح پر مولانا ظفر علی خان ایڈیٹر روزنامہ ''زمیندار'' نے ایک بار یوں تبصرہ کیا تھا : بروزی ہے نبوت قادیان کی برازی ہے خلافت قادیان کی گویا آپ بتدریج نبی بنے تھے، پہلے مجددیت کے مدعی تھے پھر مثیل مسیح کے، پھر مسیح موعود کے پھر جب کچھ کام چلتا دیکھا تو نبوت کا دعویٰ کردیا اور قادیان کی سرزمین کو حرام قرار دیتے ہوئے فرمایا : زمین قادیان ارض حرم ہے ہجوم خلق سے اب محترم ہے اگر غور کیا جائے تو آپ کی تدریجی نبوت ہی آپ کے نبوت کے دعویٰ کے ابطال کے لئے بہت کافی ہے کیونکہ تمام تر سلسلہ انبیاء میں سے کوئی نبی اس طرح بتدریج نبی نہیں بنایا گیا تاہم آپ کی پیش کردہ توجیہات کا بھی ہم جائزہ لینا چاہتے ہیں۔ (٣) ظلی اور بروزی نبی کی اصطلاح : آپ کی پہلی توجیہ یہ ہے کہ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے کرتے یہ درجہ ظلی نبوت حاصل ہوا۔ گویا آپ کے نظریہ کے مطابق نبوت وہبی نہیں بلکہ کسبی چیز ہے اس نظریہ کی قرآن نے ﴿وَاللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہ﴾ کہہ کر بھرپور تردید کی ہے۔ علاوہ ازیں اگر نبوت کسبی چیز ہوتی اور آپ کی اتباع کامل کی وجہ سے حاصل ہوسکتی ہے تو اس کے سب سے زیادہ حقدار صحابہ کرام تھے۔ بالخصوص سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جن کے متعلق صراحت سے احادیث مبارکہ میں آیا ہے ہے کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمررضی اللہ عنہ ہوتے۔ اور ظل اور بروز کا نظریہ تو کئی لحاظ سے آپ کی نبوت کا ابطال کرتا ہے۔ مثلاً (٤) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شاعر نہیں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ شاعری آپ کے شایان شان بھی نہیں۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے سورۃ یسین کی آیت نمبر ٦٩ اور اس کا حاشیہ) جبکہ مرزا صاحب شاعر تھے۔ آپ نے اردو، عربی، فارسی میں بہت سے اشعار اور قصیدے لکھے حتیٰ کہ ایک بہت بڑی کتاب بطور کلیات مرزا صاحب مسمی بہ ''درثمین'' تصنیف اور شائع کی ہے۔ اگر آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کا ظل اور بروز ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو شاعر نہیں تھے۔ یہ عکس میں شاعری کہاں سے آگئی؟ مطلب واضح ہے کہ مرزا صاحب رسول اللہ کا عکس نہیں۔ (٥) آپ کی تضاد بیانی کا یہ حال ہے کہ ایک وقت آپ دعویٰ نبوت کو کفر سمجھتے تھے پھر مثیل مسیح بنے، پھر مسیح موعود بنے، پھر نبوت کا دعویٰ کیا پھر یہ بھی دعویٰ کردیا کہ تمام انبیاء کی خوبیاں مجھ میں جمع اور موجود ہیں۔ چنانچہ اس درثمین میں اردو زبان میں کہا کہ : میں کبھی عیسیٰ کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں۔۔ نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار فارسی میں کہا : انبیاء کرچہ بودہ اند بسے من بعرفان نہ کمترم زکسے۔۔ آنچہ داد ست ہر نبی را جام داد آں جام را مرابہ تمام ترجمہ : اگرچہ انبیاء بہت گزرے ہیں تاہم میں معرفت میں کسی سے کم نہیں ہوں۔ ان میں جس کسی کو کوئی جام معرفت دیا گیا وہ سب کے سب جام مجھے دیئے گئے ہیں۔ اپنی ذات سے متعلق ایسی تضاد بیانی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عکس کہا جاسکتا ہے؟ یا سابقہ انبیاء میں سے کسی کو تدریجاً کبھی نبی بنایا گیا ہے؟ (٦) چھٹی بات آپ کے مخالفوں کے حق میں آپ کی بدزبانی ہے جنہیں آپ ولدالزنا اور ولد الحرام کہہ کر پکارا کرتے ہیں اور آئینہ کمالات اسلام میں فرمایا کہ ذُرِّیَّۃُ الْبَغَایَا (یعنی کنجریوں کی اولاد) کے علاوہ ہر مسلمان نے مجھے قبول کیا اور میری دعوت کی تصدیق کی بالفاظ دیگر جن مسلمانوں نے میری نبوت کی تصدیق نہیں کی وہ سب کنجریوں کی اولاد ہیں اور ایک بار اپنے مخالف پرلعنت بھیجنے کو جی چاہا تو ہزار بار لعنت کہنے یا لکھنے پر اکتفا نہ کیا بلکہ فی الواقع ہزار بار لعنت کا لفظ لکھ کر کتاب کے تین چار صفحے سیاہ کر ڈالے۔ کیا یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا نمونہ اور ان کا عکس ہے؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے مخالفوں کے حق میں ایسی غلیظ گالیاں ثابت کی جاسکتی ہیں؟ (٧) آپ کی نبوت کی تردید پر دلائل :۔ اور جب اپنی کسر نفسی پر آتے ہیں تو بھی غلیظ زبان استعمال کرتے اور حقائق کا منہ چڑاتے ہیں۔ درثمین ہی میں فرماتے ہیں : کرم خاکی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں۔۔ ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار یعنی اے میرے پیارے میں نہ تو مٹی کا کیڑا ہوں اور نہ آدم کی نسل سے ہوں۔ بلکہ میں بشر کی ''جائے نفرت'' ہوں جس سے سب لوگوں کو شرم آئے۔ اب آپ خود ہی فیصلہ فرما لیجئے کہ وہ بشر کی جائے نفرت کیا چیز ہوسکتی ہے۔ بس وہی چیز مرزا صاحب تھے۔ بایں ہمہ آپ کا دعویٰ یہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عکس ہیں۔ نیز آپ نہ مٹی سے پیدا ہوئے تھے نہ آدم کی نسل سے تھے۔ تو پھر کیا تھے؟ سابقہ انبیاء تو سب آدم زاد ہی تھے۔ (٨) قرآن اور احادیث میں جہاد فی سبیل اللہ اور بالخصوص قتال فی سبیل اللہ پر جس قدر زور دیا گیا ہے اور جتنے فضائل کتاب و سنت میں مذکور ہیں وہ سب کو معلوم ہیں۔ حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود سترہ غزوات میں حصہ لیا۔ اور ساتھ ہی یہ فرما دیا کہ یہ جہاد تاقیامت جاری رہے گا۔ لیکن مرزا صاحب نے اس جہاد کی ممانعت کا یوں فتوی دیا کہ : اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال۔۔ دین کے لئے حرام ہے اب جنگ و قتال دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد۔۔ منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد (درثمین ص ٥٣) آخری مصرع میں نبی سے مراد غالباً مرزا صاحب خود ہیں۔ غور فرمائیے کہ ایسا شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عکس ہوسکتا ہے؟ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا کہ: ’’میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں شہید ہوجاؤں، پھر زندہ ہوں پھر مارا جاؤں، پھر زندہ ہوں پھر مارا جاؤں‘‘ (بخاری۔ کتاب التمنی۔ باب من تمنی الشہادۃ) پھر یہ بھی غور فرمایئے مرزا صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عکس ہیں یا ان کی آرزو اور تعلیم کو ملیا میٹ کرنے پر تلے بیٹھے ہیں اور ان کی ضد ہیں۔ (٩) جہاد بالسیف کی بھرپور مخالفت :۔ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے حکومت وقت کا ساتھ دیا ہو بلکہ نبی کا تو کام ہی یہ ہوتا ہے کہ بگڑے ہوئے معاشرہ کی اصلاح کرے اور سرکاری درباری حضرات، آسودہ حال طبقہ اور چودھری لوگ ہمیشہ انبیاء کے مخالف رہے ہیں۔ مگر یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ مرزا صاحب اور ان کی نبوت انگریز بہادر کے سایہ عاطفت میں پروان چڑھتی ہے۔ اور آپ بھی ہر وقت گورنمنٹ عالیہ کی تعریف میں رطب اللسان رہتے ہیں نیز وہ اپنی زبان سے اپنے آپ کو گورنمنٹ کا ''خود کا شتہ پودا'' ہونے کا اقرار فرماتے ہیں۔ اب دو ہی باتیں ممکن ہیں ایک یہ کہ انگریز کی حکومت کو صحیح اسلامی حکومت تسلیم کرلیا جائے۔ اس صورت میں مرزاصاحب کی نبوت کی ضرورت ہی ختم ہوجاتی ہے کیونکہ نبی ہمیشہ بگاڑ کی اصلاح کے لئے آتا ہے اور دوسری صورت یہی باقی رہ جاتی ہے کہ نبی اپنے دعویٰ نبوت میں جھوٹا ہو۔ اور یہی صورت حال مرزا صاحب کی نبوت پر صادق آتی ہے۔ آپ کا اپنے بارے میں انگریز کا خود کاشتہ پودا ہونے کا اعتراف :۔ ہوا یہ تھا کہ جب ہندوستان میں انگریز بہادر کی حکومت قائم ہوگئی تو ساتھ ہی زیر زمین جہاد کی تحریک شروع ہوگئی جس سے انگریز کو ہر وقت خطرہ لاحق رہتا تھا۔ اس نے اس کا حل یہ سوچا کہ مسلمانوں کی آپس میں پھوٹ ڈال دی جائے اور دوسرے جہاد کی روح کو حتی الامکان مسلمانوں کے اذہان سے خارج کردیا جائے۔ ان کاموں کے لئے اس کی نظر انتخاب مرزا غلام احمد قادیانی پر پڑی۔ مرزا صاحب نے انگریز بہادر کے دونوں کام سرانجام دیئے۔ جہاد بالسیف کی جی بھر کر مخالفت کی اور اپنے پیروکاروں کے علاوہ باقی سب مسلمانوں پر کفر کا فتویٰ بھی لگا دیا۔ جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ مرزائی مسلمانوں کا جنازہ تک نہیں پڑھتے۔ قائداعظم کی نماز جنازہ کے وقت سرظفر اللہ خاں پرے ہی کھڑے رہے مگر نماز جنازہ میں شریک نہ ہوئے۔ اور انگریز نے مرزا صاحب کے ان ''احسانات'' کا بدلہ یہ دیا کہ ان کی نبوت اور ان کی امت کو پورا پورا تحفظ دیا اور انھیں زیادہ سے زیادہ ملازمتیں دے کر انھیں حکومت میں آگے لے آیا۔ یہی وجہ ہے کہ مرزائی اقلیت میں ہونے کے باوجود حکومت کے بڑے بڑے عہدوں پر براجمان ہیں۔ علاوہ ازیں ان حضرات کو ہر طرح مراعات بھی دی جاتی ہیں۔ (١٠) محمدی بیگم سے نکاح کی پیشگوئی کا حشر :۔ آپ کی نبوت کے ابطال پر دسویں دلیل آپ کی جھوٹی پیشین گوئیاں ہیں۔ آپ محمدی بیگم سے نکاح کرنا چاہتے تھے۔ تو آپ نے مشہور کردیا کہ مجھے بذریعہ وحی معلوم ہوا ہے کہ میرا محمدی بیگم سے آسمانوں پر نکاح ہوا ہے۔ محمدی بیگم کے اولیاء سے جو مرزا صاحب کی اپنی برادری کے لوگ تھے، مرزا صاحب نے درخواست کی تو انہوں نے رشتہ دینے سے انکار کردیا۔ جس پر آپ اپنی وحی کی بنا پر کئی طرح کی دھمکیاں اور وعیدیں محمدی بیگم کے اولیاء کو سناتے رہے۔ لیکن ان لوگوں پر مرزا صاحب کی دھمکیوں کا خاک بھی اثر نہ ہوا۔ اور نہ ہی ان دھمکیوں کے مطابق انھیں کچھ نقصان پہنچا۔ انہوں نے محمدی بیگم کو کسی دوسری جگہ بیاہ دیا۔ جہاں اس کے ہاں اولاد بھی ہوئی اور سکھ چین سے زندگی بسر کرتی رہی اور مرزا صاحب اس سے شادی کی حسرت دل میں لئے اگلے جہاں کو سدھار گئے۔ اور آسمانوں کا نکاح آسمانوں پر ہی رہ گیا زمین پر نہ ہوسکا۔ بعد میں آپ کے متبعین نے مرزا صاحب کے الہامات اور وحیوں کی یہ تاویل فرمائی کہ کسی دور میں مرزا صاحب کی اولاد در اولاد میں سے کسی لڑکے کا محمدی بیگم کی اولاد در اولاد میں سے کسی لڑکی سے نکاح ضرور ہوگا۔ ایسی اندھی عقیدت بھی قابل ملاحظہ ہے۔ (١١) مولانا ثناء اللہ امرتسری سے مباہلہ اور مرزا صاحب کی وفات :۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری کے مرزا صاحب سخت دشمن تھے۔ کیونکہ وہ بھی ہاتھ دھو کر مرزا صاحب کے پیچھے پڑے ہوئے تھے۔ آخر مرزا صاحب نے مولوی ثناء اللہ کو ١٥۔ اپریل ١٩٠٧ ء کو ایک طویل خط لکھا جس کا ماحصل یہ تھا کہ ’’اے اللہ! اگر میں جھوٹا اور مفتری ہوں تو میں ثناء اللہ کی زندگی میں ہلاک ہوجاؤں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ کذاب اور مفتری کی لمبی عمر نہیں ہوتی۔ اور اگر ثناء اللہ جھوٹا ہے تو اسے میری زندگی میں نابود کر مگر نہ انسانی ہاتھوں سے بلکہ طاعون اور ہیضہ وغیرہ امراض مہلکہ سے‘‘ اور ساتھ ہی مرزا صاحب نے یہ استدعا بھی کی کہ میرے اس خط کو من و عن اپنے اخبار میں شائع کردیا جائے۔ چنانچہ مولوی ثناء اللہ امرتسری نے مرزا صاحب کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اس طویل خط کو اپنے ہفت روزہ ''اہلحدیث'' کی ٢٥ مئی ١٩٠٧ ء کی اشاعت میں شائع کردیا۔ اس خط کا انداز بیان اگرچہ دعائیہ تھا تاہم مرزا صاحب نے بذریعہ الہام اس بات کی توثیق فرما دی کہ ان کی دعا قبول ہوگئی اور یہ الہام البدر قادیان ٢٥ اپریل ١٩٠٧ ء میں شائع ہوا۔ اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مرزا صاحب اس سے تیرہ ماہ بعد ٢٦ مئی ١٩٠٨ ء کو بعارضہ ہیضہ بمقام لاہور انتقال کر گئے اور مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب اللہ کے فضل سے مارچ ١٩٤٨ ء تک یعنی مرزا صاحب کی وفات سے چالیس سال بعد تک زندہ رہے۔ مرزا صاحب کے انتقال کے بعد جب یہ شور اٹھا کہ مرزا صاحب اپنے دعوائے نبوت میں جھوٹے ثابت ہوئے تو اتباع مرزا نے اس شرط کو بدل دینا چاہا کہ شرط دراصل یہ تھی کہ جو جھوٹا ہوگا وہ زندہ رہے گا اور مباحثہ کرنا چاہا اور خود ہی یہ صورت پیش کی کہ فیصلہ کے لئے ایک غیر مسلم ثالث ہوگا اور ہم اگر ہار جائیں تو مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب کو تین سو روپے (یعنی آج کے لحاظ سے کم از کم تیس ہزار روپے) دیں گے۔ ورنہ مولوی ثناء اللہ ہمیں اتنی ہی رقم دے۔ اس اعلان کے مطابق اپریل ١٩١٢ ء میں بمقام لودھیانہ مباحثہ ہوا جس میں ثالت سردار بچن سنگھ جی پلیڈر لودھیانہ مقرر ہوئے۔ اس مباحثہ میں ثالث نے مولانا ثناء اللہ کے حق میں فیصلہ دیا اور انعام یا شرط کی مجوزہ رقم آپ کو مل گئی۔ یہ تھی مرزا صاحب کی ذات گرامی جو اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظل اور بروز ہونے کی مدعی تھی۔ اور جو حکومت پاکستان نے ١٩٧٤ ء میں قومی اسمبلی میں کثرت رائے کی بنا پر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا تھا تو اس کی وجہ ان صریح احادیث کا انکار ہے جو ہم ابتدا میں درج کر آئے ہیں بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان بھی لائے پھر ان کی بات بھی نہ مانے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے علی الرغم نہ صرف ان احادیث کا انکار کرے بلکہ اپنی نبوت و رسالت کا بھی دعویٰ کرے۔ حکومت پاکستان کا مرزائیوں کو کافر قرار دینا :۔ مرزائی حضرات مرزا صاحب کی نبوت کی صداقت پر عموما سورۃ الحاقہ کی آیات نمبر ٤٤ تا ٤٦ پیش کیا کرتے ہیں کہ ’’اگر یہ رسول (یعنی محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے پاس سے کوئی بات گھڑ کر ہمارے ذمہ لگا دے تو ہم اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کی رگ جان کاٹ دیں‘‘ اور وجہ استدلال یہ بیان کی جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ نبوت ٢٣ سال ہے اور مرزا صاحب تو اس مدت سے زیادہ زندہ رہے اگر انہوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا تھا تو اللہ کی طرف سے ایسی کوئی سزا ضرور ملنا چاہئے تھی اور جب ایسی سزا نہیں ملی تو معلوم ہوا کہ آپ اپنے دعویٰ نبوت میں سچے تھے۔ اس کا تفصیلی جواب تو ہم سورۃ الحاقہ میں ہی دیں گے۔ مختصراً یہ کہ اگر ایسا افترا کوئی نبی لگائے تو اسے تو یقیناً ایسی سزا بھی ملے گی۔ لیکن کوئی عام شخص اللہ پر جھوٹ باندھے تو یہ سزا نہیں ملتی جیسے ایک گورنر اپنی طرف سے کوئی فرمان جاری کرکے اسے صدر مملکت کے ذمہ لگائے تو اس سے ضرور مواخذہ ہوگا۔ لیکن ایک خاکروب یا کوئی عام آدمی صدر کے خلاف جو جی چاہے بکتا رہے۔ اسے کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ مرزا صاحب کو ایسی سزا نہ ملنے سے تو الٹا آپ کی نبوت کی تردید ہوجاتی ہے۔ قادیانیوں کی طرف سے آپ کی نبوت پر دلائل اور ان کا جواب :۔ مرزائی حضرات نبوت کے اجراء کے لئے ایک عقلی دلیل بھی دیا کرتے ہیں کہ نبوت اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ جس کے لوگ ہر وقت محتاج ہیں۔ بالخصوص آج کے دور انحطاط میں تو ایسی رحمت کی اشد ضرورت ہے۔ لہٰذا خاتم کے معنی مہر تصدیق ہونا چاہئیں۔ یعنی اس نبی کی نبوت درست ہوگی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرتا ہو اور آپ کی شریعت کا متبع ہو۔ اس دلیل کے جوابات درج ذیل ہیں : ١۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿لٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّـبِیّٖنَ ﴾ اور ساتھ ہی فرما دیا کہ : ﴿وَکَان اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِــیْمًا ﴾یعنی اللہ تعالیٰ اس بات کو بھی خوب جانتا ہے کہ آئندہ تاقیامت کسی نبی کو بھیجنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ ٢۔ یہ دلیل جو کچھ بھی ہے بہرحال ایک عقلی دلیل ہے۔ اور نص کے مقابلہ میں قیاس یا عقل کے گھوڑے دوڑانا حرام ہے۔ ٣۔ ان حضرات کا دعوائے ضرورت اس لحاظ سے بھی غلط ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واشگاف الفاظ میں بتادیا کہ ’’میری امت میں سے ایک فرقہ تاقیامت حق پر قائم رہے گا‘‘ صحابہ نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ کون سا گروہ ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں‘‘ (ترمذی۔ کتاب الایمان۔ باب الافتراق ھذہ الامۃ) گویا آج صرف دیکھنے کا کام یہ ہے کہ وہ کون سا فرقہ یا گروہ ہے جو صرف کتاب و سنت سے رہنمائی لیتا ہے۔ اس میں کچھ کمی بیشی نہیں کرتا نہ کتاب و سنت کے مقابلہ میں کسی دوسری شخصیت کا قول یا فتویٰ قبول کرتا ہے اور نہ ہی دین میں کوئی نئی بات، خواہ عقیدہ سے تعلق رکھتی ہو یا عمل سے، شامل کرتا ہے۔ اور ایسے گروہ کی موجودگی کسی نئے نبی کی آمد کی ضرورت کو ختم کردیتی ہے۔ اور ایسا فرقہ چونکہ تاقیامت باقی رہے گا لہٰذا تاقیامت کسی نبی کی ضرورت باقی نہ رہی۔ نئے نبی کی ضرورت کس صورت میں ہوتی ہے :۔ علاوہ ازیں انبیاء کی بعثت کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ سابقہ قومیں یا امتیں کتاب اللہ میں تحریف کر ڈالتی ہیں یا ان میں علمائے امت کے اقوال اور الحاقی مضامین شامل کرکے کتاب اللہ کو گڈ مڈ کردیتی ہیں نبی کا کام یہ ہوتا ہے کہ جو سچی الہامی تعلیم ہوتی ہے اس کی نشاندہی کرتا اور اس کے متعلق دو ٹوک فیصلہ دیتا ہے۔ لیکن امت مسلمہ میں یہ صورت بھی نہیں ان کے پاس کتاب اللہ اسی صورت میں موجود اور محفوظ ہے جس صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھی۔ پھر کتاب اللہ کے علاوہ اس کی تشریح و تفسیر بھی، جسے حدیث یا سنت کہا جاتا ہے، امت کے پاس موجود اور محفوظ ہے۔ تو پھر آخر کسی نئے نبی کی ضرورت بھی کیا تھی؟ کیا یہی کہ وہ کتاب اللہ پر ایمان رکھنے والوں میں انتشار ڈال دے اور باقی سب مسلمانوں پر کفر کے فتوے صادر کرنے لگے؟ [ ٦٧] یعنی وہ ان لوگوں کے اعمال سے خوب واقف ہے جنہوں نے اودھم مچا رکھا ہے۔ اور وہ اپنے احکام کی مصلحتوں کو بھی خوب جانتا ہے۔ الأحزاب
41 اس آیت کی تفسیر اگلی آیت کے ساتھ ملاحظہ کیجئے۔ الأحزاب
42 [ ٦٨] یعنی جب تمہیں پریشانیوں کا اور اعدائے اسلام کے طعن و تشنیع کا سامنا کرنا پڑے تو ایسے اوقات میں اللہ کو بکثرت یاد کیا کرو اور صبح و شام کی نمازوں کے علاوہ بالخصوص ان اوقات میں اللہ کی تسبیح و تہلیل بھی کیا کرو۔ اس طرح تمہارے اندر ایسی پریشانیوں سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت پیدا ہوگی۔ اور دلوں کو اطمینان نصیب ہوگا۔ الأحزاب
43 [ ٦٩] صحابہ کرام پر صلوٰۃ وسلام :۔ یصلی کا صلہ علیٰ اور اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس کا معنی اللہ کا بندے پر اپنی مہربانی اور رحمت نازل کرنا ہوتا ہے اور اگر یہ نسبت فرشتوں کی طرف ہو تو دعائے رحمت کرنا اور اگر بندے کی طرف ہو تو اس کے معنی دعائے رحمت بھی، دعائے جنازہ بھی اور نماز جنازہ بھی اور درود پڑھنا اور بھیجنا بھی ہوتا ہے۔ اسی سورۃ کی آیت نمبر ٥٦ میں مذکور ہے کہ اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت اور دعائے رحمت بھیجتے ہیں اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام اور پیروکاروں کو بھی اس فضل و رحمت میں شریک فرمایا۔ [ ٧٠] یعنی اللہ تعالیٰ کو بکثرت یاد کرنے کے نتیجہ میں اللہ تم پر اپنی رحمت فرماتا ہے اور یہ رحمت فرشتوں کے توسط سے نازل ہوتی ہے اور یہ اللہ کی رحمت ہی کا نتیجہ ہے کہ تمہیں کفر کی جہالتوں سے چھٹکارا حاصل ہوا اور علم اور ایمان کی روشنی اور دولت نصیب ہوئی اور اس میں ہر آن اضافہ بھی ہوتا رہتا ہے۔ الأحزاب
44 [ ٧١] اس سلام کی بھی تین صورتیں ہیں اور تینوں ہی قرآن کی بعض دوسری آیات سے ثابت ہیں ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ خود انھیں سلام کہے گا، دوسرے یہ کہ فرشتے انھیں سلام کہیں گے اور تیسرے یہ کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو سلام کہیں گے۔ الأحزاب
45 [ ٧٢] نبی کی شہادت کی تین صورتیں :۔ وہ گواہی یہ ہے کہ اس کائنات کا خالق و مالک اور معبود برحق صرف ایک اللہ ہے دوسرا کوئی اس الوہیت اور حاکمیت میں شریک نہیں۔ اور نبی کی یہ گواہی تین طرح سے ہوتی ہے ایک یہ کہ نظام کائنات کے مطالعہ سے وہ خود اس نتیجہ پر پہنچتا ہے اور بعض انبیاء کو ملکوت السمٰوات والارض دکھائی اور اس کی سیر بھی کرائی جاتی ہے تاکہ جس شہادت کے وہ داعی بننے والے ہیں اس کا انھیں عین الیقین حاصل ہو۔ دوسری گواہی ان کی دعوت پر سب سے پہلے ان کا اپنا عمل ہوتا ہے۔ یعنی ان کی عملی زندگی اس بات پر گواہ ہوتی ہے کہ نبی جو شہادت دے رہا ہے وہ درست اور برحق ہے۔ اور تیسری شہادت وہ قیامت کے دن اپنی امت کے حق میں اور منکروں کے خلاف دیں گے۔ [ ٧٣] یعنی ایمان لانے والوں کو یہ بشارت دیتا ہے کہ ان سے مصائب کے بادل چھٹ جانے والے ہیں اور عنقریب اللہ تعالیٰ مومنوں کو اپنی فتح و نصرت سے سرفراز فرمائے گا اور مرنے کے بعد انھیں جنت اور اس کی نعمتیں میسر آنے والی ہیں۔ اسی طرح وہ دعوت حق کے مخالفین کو دنیا میں بھی ان کے برے انجام اور ذلت و خواری سے ڈراتا ہے اور آخرت میں جہنم کے عذاب سے بھی۔ اور یہ بشارت اور وعید وہ اپنی طرف سے نہیں دے رہا بلکہ وہ ہماری طرف سے اس بات پر مامور ہے۔ الأحزاب
46 [ ٧٤] اس مادی دنیا یا کائنات میں اللہ تعالیٰ نے سورج کو سراج (چراغ) کا نام دیا ( سورۃ نوح : ١٦) جس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ چاند اور ستارے بالواسطہ اسی سورج سے روشنی حاصل کرتے ہیں اور روحانی دنیا میں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سراج منیر (چمکتا ہوا چراغ) کا لقب عطا فرمایا۔ گویا نبوت کے آفتاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں آپ کے طلوع ہونے کے بعد اب کسی دوسری روشنی کی ضرورت نہیں رہی۔ اب ہر انسان کو اپنے ہر شعبہ زندگی کے لئے ہدایت اسی آفتاب نبوت و ہدایت سے حاصل کرنا ہوگی۔ الأحزاب
47 [ ٧٥] مومنوں پر اللہ کا بہت بڑا فضل کیا ہے؟ اور امت مسلمہ کی فضیلت :۔ مومنوں پر اللہ کا فضل کبیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آفتاب نبوت کو ان لوگوں میں مبعوث فرمایا اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب انبیاء سے افضل بنایا اسی طرح آپ کی امت کو دوسری امتوں پر فضیلت اور بزرگی عطا فرمائی۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے : ١۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : گذشتہ قوموں (یہود و نصاری) کے مقابلہ میں تمہارا رہنا ایسا ہے جیسے عصر سے سورج غروب ہونے کا وقت۔ اہل تورات کو تورات دی گئی انہوں نے (صبح سے) دوپہر تک مزدوری کی پھر تھک گئے تو انھیں ایک ایک قیراط ملا۔ اہل انجیل کو انجیل دی گئی انہوں نے (دوپہر سے) عصر کی نماز تک مزدوری کی پھر تھک گئے۔ انھیں بھی ایک قیراط ملا۔ پھر ہم مسلمانوں کو قرآن دیا گیا ہم نے سورج غروب ہونے تک مزدوری کی (اور کام پورا کردیا) تو ہمیں دو قیراط دیئے گئے۔ اب اہل کتاب کہنے لگے : پروردگار! تو نے انھیں دو قیراط دیئے اور ہمیں ایک ایک حالانکہ ہم نے ان سے زیادہ کام کیا ہے؟ اللہ عزوجل نے انھیں جواب دیا : ’’میں نے تمہاری مزدوری سے (جو تم سے طے کی تھی) کچھ دبایا تو نہیں؟‘‘ وہ کہنے لگے : ''نہیں'' اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’پھر یہ میرا فضل ہے جسے جو کچھ چاہوں دوں‘‘ (بخاری۔ کتاب مواقیت الصلوٰۃ۔ باب من ادرک رکعۃ من العصر) ٢۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ہمیں دوسری امتوں پر تین باتوں میں فضیلت ملی۔ ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں کی طرح کی گئیں اور ہمارے لئے ساری زمین نماز کی جگہ ہے اور زمین کی خاک ہمیں پاک کرنے والی ہے جب پانی نہ ملے۔ ایک بات اور بیان کی‘‘ (مسلم۔ کتاب المساجدو مواضع الصلوۃ ) الأحزاب
48 [ ٧٦] یعنی جن لوگوں نے طعن و تشنیع سے یہ طوفان بدتمیزی اٹھا رکھا ہے ان کی نہ پروا کیجئے اور نہ ان سے بدلہ لینے کی فکر کیجئے۔ ورنہ یہ لوگ آپ کی منزل کھوٹی کردیں گے۔ آپ پوری توجہ سے اپنا کام کرتے جائیے اور انھیں خائب و خاسر بنانے کے لئے آپ کی طرف سے اللہ ہی کافی ہے۔ الأحزاب
49 [ ٧٧] طلاق دینے والے کو ہدایات :۔ اس آیت میں چند امور قابل ذکر ہیں۔ پہلا یہ کہ اگرچہ آیت میں مومن عورتوں سے نکاح کا ذکر ہے۔ تاہم اگر نکاح کتابیہ عورت سے ہو تو وہ بھی اسی حکم میں داخل ہوگا۔ دوسرا یہ کہ صحبت سے پیشتر طلاق دینے سے بھی نصف حق مہر ادا کرنا واجب ہے۔ بشرطیکہ حق مہر طے ہوچکا ہو۔ (٢: ٢٣٧) تیسرا یہ کہ اگر حق مہر مقرر ہی نہ کیا گیا ہو تو پھر کچھ نہیں دینا ہوگا۔ البتہ دونوں صورتوں میں عورت کو کچھ نہ کچھ دے دلا کر رخصت کرنا چاہئے۔ اور اس کچھ نہ کچھ کی مقدار طلاق دینے والے کی مالی حیثیت کے لحاظ سے ہوگی۔ چوتھا یہ کہ اگر عورت کو طلاق ہی دینا ہے تو پھر اس پر کوئی الزام نہ لگانا چاہئے۔ نہ ہی اسے بدنام کرکے گھر سے نکالنا چاہئے جو اس کی آئندہ زندگی پر ناخوشگوار اثر ڈالے۔ بھلے طریقہ سے رخصت کرنے کا یہی مطلب ہے اور پانچواں اور سب سے اہم امر یہ ہے کہ عدت کے دوران بھی مطلقہ عورت اپنے خاوند کی بیوی ہی رہتی ہے۔ اور یہ مرد کا عورت پر حق ہے۔ اس دوران مرد رجوع کا حق بھی رکھتا ہے اور اس میں زبردستی بھی کرسکتا ہے۔ علاوہ ازیں اگر اس دوران حمل معلوم ہوجائے۔ تو بچہ بھی طلاق دینے والے مرد کا ہوگا۔ اور وہ اس کا وارث بھی ہوگا۔ صحبت سے پہلے طلاق دینے میں چونکہ حمل وغیرہ کا احتمال ہی نہیں ہوتا لہٰذا غیر مدخولہ عورت پر کوئی عدت نہیں۔ وہ اگر چاہے تو طلاق کے فوراً بعد نکاح کرسکتی ہے۔ ہمارے ہاں عموماً یہ رواج ہے کہ نکاح کے ساتھ ہی رخصتی ہوجاتی ہے اور اسے شادی کہتے ہیں۔ تاہم یہ رواج پایا جاتا ہے کہ پہلے نکاح ہوجاتا ہے مثلاً بچپن میں والدین نے نکاح کردیا اور رخصتی یا شادی کچھ مدت کے بعد یا زوجین کے جوان ہونے کے بعد ہوتی ہے۔ اس آیت میں مذکورہ صورت کا احتمال دوسری شکل میں ہی پایا جاتا ہے اور عرب میں یہ عام رواج تھا کہ نکاح پہلے ہوجاتا تھا اور رخصتی بعد میں ہوتی تھی۔ احناف نے خلوت صحیحہ کو بھی صحبت ہی کے مترادف قرار دیا ہے اور یہ ایسی بات ہے جس کی دلیل یا مثال کتاب و سنت میں نہیں ملتی۔ الأحزاب
50 [ ٧٨] آپ کو چار سے زائد بیویوں کی خصوصی اجازت اور اس کی وجہ :۔ یہ دراصل ایک اعتراض کا جواب ہے۔ سیدنا زینب بنت جحش جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم سے نکاح کیا تھا یا جن کا نکاح سات آسمانوں پر ہوا تھا آپ کی پانچویں بیوی تھیں۔ اس سے پہلے چار بیویاں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بنت ابی بکر، سیدہ سودہ بنت زمعۃ رضی اللہ عنہا، سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا بنت عمر اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا موجود تھیں۔ اور عام مومنوں کے لئے چار بیویوں سے زائد کا جواز نہیں تھا۔ اس آیت کی رو سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس عام قاعدہ سے مستثنیٰ کردیا۔ یہ اعتراض کافروں کی طرف سے تو یقیناً تھا تاہم مسلمانوں کو بھی اس کا خیال آسکتا تھا۔ لہٰذا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ وضاحت فرما دی کہ عام مومنوں کے لئے چار تک بیویوں کے جواز کا قانون بھی ہمارا ہی قانون ہے۔ اور نبی سے ہم جو کچھ کام لینا چاہتے ہیں اور جو ذمہ داریاں اس پر عائد ہوتی ہیں اس کی بنا پر ہم ہی نبی کے لئے اس عام قانون میں استثناء کرنے والے ہیں۔ نیز اس آیت کی رو سے اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مزید بھی تین قسم کی عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت فرما دی۔ پہلی قسم وہ عورتیں جو مال غنیمت کے طور پر آپ کی ملکیت میں آئیں۔ دوسری آپ کے چچاؤں، پھوپھیوں، ماموؤں اور خالاؤں کی بیٹیاں جو ہجرت کرکے مدینہ آچکی ہوں۔ اور سیدہ زینب بنت جحش ایسی ہی تھیں۔ تیسری قسم وہ عورتیں جو از خود اپنے آپ کو آپ سے نکاح کے لئے پیش کریں اور اگر اپنانفس ہبہ کرنے والی کوئی عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند آجائے تو اس کا حق مہر کچھ نہیں ہوگا۔ نہ گواہوں کی ضرورت ہوگی اور نہ اس عورت کے ولی کی رضا کی۔ بس عورت کا اپنا نفس ہبہ کردینا ہی نکاح سمجھا جائے گا۔ اس سلسلہ میں درج ذیل دو احادیث ملاحظہ فرما لیجئے۔ کون کون سی عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی بن سکتی ہے؟ ١۔ ام ہانی رضی اللہ عنہا (ابوطالب کی بیٹی اور آپ کی چچا زاد بہن) کہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نکاح کا پیغام دیا مگر میں نے معذرت کردی (کہ میرے چھوٹے چھوٹے رونے پیٹنے والے بچے ہیں) آپ نے میرا عذر قبول فرما لیا۔ پھر جب یہ آیت نازل ہوئی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میں تو آپ پر حلال بھی نہیں کیونکہ میں نے ہجرت نہیں کی تھی اور فتح مکہ کے بعد اسلام لانے والوں سے تھی۔ (ترمذی کتاب التفسیر) سیدہ عائشہ کا تبصرہ :۔ ٢۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مجھے ان عورتوں پر غیرت آئی تھی جو اپنے تئیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بخش دیتی تھیں میں کہتی، بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ کوئی عورت اپنے تئیں بخش دے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی تو میں نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے) کہا : ’’میں تو یہ دیکھ رہی ہوں کہ جیسی آپ کی خواہش ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پروردگار فوراً ویسا ہی حکم دیتا ہے‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) [ ٧٩] خصائص انبیاء :۔ اس رعایت کا تعلق قریبی مضمون سے بھی ہوسکتا ہے اور سارے مضمون سے بھی۔ قریبی مضمون سے ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ اگر کوئی عورت آپ کے لئے اپنا نفس ہبہ کرے تو آپ کو حق مہر نہیں دینا ہوگا۔ نہ گواہوں کی ضرورت ہے اور نہ ولی کی اجازت کی۔ اور سارے مضمون سے جوڑا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ چار سے زائد بیویوں کی اجازت صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے دوسرے مسلمانوں کو نہیں ہے۔ نبی کی چونکہ ذمہ داریاں عام مسلمانوں سے زیادہ ہوتی ہیں پھر ان کا عزوشرف بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اس لئے شریعت کے کئی احکام و ارشادات ایسے ہیں جو عام مسلمانوں سے الگ ہیں۔ پھر ان کی بھی دو قسمیں ہیں۔ ایک تو ایسے امور ہیں جو تمام انبیاء سے مختص ہیں اور انھیں ہم خصائص انبیاء کہہ سکتے ہیں اور وہ درج ذیل ہیں : ١۔ نبی کا خواب بھی وحی ہوتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں صلح حدیبیہ سے پیشتر عمرہ کرنے کا خواب آیا تھا۔ (٤٨: ٢٧) یا سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کا خواب آیا تھا۔ (٣٧: ١٠٢) ٢۔ انبیاء کا ترکہ وارثوں میں تقسیم نہیں ہوتا بلکہ وہ صدقہ ہوتا ہے جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ہمارا (پیغمبروں کا) کوئی وارث نہیں ہوتا۔ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے‘‘ (مسلم۔ کتاب الجہاد و السیر۔ باب حکم الفئی) اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میرے وارث ایک دینار بھی بانٹ نہیں سکتے۔ میری بیویوں کے خرچ اور میرے عامل کی اجرت کے بعد جو کچھ میں چھوڑ جاؤں وہ صدقہ ہے۔ (مسلم۔ حوالہ ایضاً) ٣۔ انبیاء کے اجسام کو مٹی نہیں کھاتی۔ اوس بن اوس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے دنوں میں سب سے افضل جمعہ کا دن ہے۔ اسی دن آدم پیدا کئے گئے، اسی دن فوت ہوئے۔ اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی میں نفخہ ہے۔ اس دن مجھ پر زیادہ درود بھیجو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہمارا درود آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیسے پیش کیا جاتا ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہڈیاں پرانی ہوچکی ہوں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کے جسموں کو کھانا حرام کردیا ہے‘‘ (ابوداؤد۔ نسائی۔ ابن ماجہ۔ دارمی۔ بیہقی فی دعوات الکبیر۔ بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب الجمعۃ۔ فصل ثانی) اس کا یہ مطلب نہیں کہ انبیاء کے علاوہ سب لوگوں کے مردہ اجسام کو مٹی کھا جاتی ہے۔ بلکہ یہ ہے کہ انبیاء کے اجسام کو تو بہرحال نہیں کھاتی اور امت میں سے بھی ایسے لوگ ہوسکتے ہیں جنہیں مدت دراز تک مٹی نہ کھائے۔ البتہ عام قاعدہ یہی ہے کہ مردہ اجسام کو زمین کھا جاتی ہے۔ ٤۔ موت سے پہلے اختیار۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں سنا کرتی تھی کہ کوئی پیغمبر اس وقت تک نہیں مرتا جب تک اس کو یہ اختیار نہیں دیا جاتا کہ دنیا اختیار کرے یا آخرت۔ پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرض الموت میں سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک اچھو ہوا اور فرمانے لگے۔ یا اللہ! ان لوگوں کے ساتھ جن پر تو نے انعام کیا آخر آیت تک۔ اس وقت میں سمجھ گئی کہ آپ کو وہ اختیار مل گیا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم ووفاتہ) ٥۔ ہر نبی کو مرنے سے پہلے جنت میں ٹھکانا دکھا دیا جاتا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تندرست تھے تو فرماتے تھے کہ کوئی پیغمبر اس وقت تک نہیں مرا جب تک اس کو بہشت میں اس کا مقام دکھا نہیں دیا جاتا۔ پھر اسے اختیار دیا جاتا ہے زندہ رہے چاہے آخرت اختیار کرے۔ (بخاری۔ حوالہ ایضاً) ٦۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ معراج کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں اس کے بعد آپ نے ان فرشتوں کو دوسری رات دیکھا۔ جیسے آپ دل سے دیکھا کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں سوتی تھیں اور دل نہیں سوتا تھا اور سب پیغمبروں کا یہی حال ہے کہ ان کی آنکھیں سوتی ہیں مگر دل نہیں سوتا۔ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم تنام عینہ ولا ینام قلبہ۔۔) ٧۔ نبی جس مقام پر فوت ہو اسی مقام اور جگہ پر دفن ہوتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ معاملہ زیر بحث آیا کہ آپ کو کہاں دفن کیا جائے؟ اور اس تکرار کا اسی حکم کے مطابق ہی فیصلہ ہوا اور آپ کو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں دفن کیا گیا۔ اور استقصاء کرنے سے ان امور میں مزید اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔ خصائص النبی صلی اللہ علیہ وسلم:۔ اور دوسری قسم وہ ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے احکام الگ ہیں اور آپ کی امت کے الگ۔ ایسے امور کو ہم خصائص النبی صلی اللہ علیہ وسلم کہہ سکتے ہیں اور وہ درج ذیل ہیں۔ ١۔ امتی کے لئے زیادہ سے زیادہ چار بیویاں جائز ہیں۔ جبکہ آپ کو چار سے زائد بیویوں کی خصوصی اجازت دی گئی جیسا کہ اسی حاشیہ کی ابتدا میں ذکر ہوچکا ہے۔ ٢۔ آپ پر بیویوں کا حق مہر اور نان و نفقہ واجب نہیں تھا۔ تفصیل اسی سورۃ کے حاشیہ نمبر ٨٠ میں دیکھئے۔ ٣۔ بیویوں کی باری کے سلسلہ میں بھی آپ سے یہ پابندی اٹھا لی گئی۔ تفصیل اسی سورۃ کے حاشیہ نمبر ٨١ میں دیکھئے۔ ٤۔ آپ پر نماز تہجد فرض تھی جبکہ امت کے لئے اس کی حیثیت سنت موکدہ کی ہے۔ تفصیل سورۃ بنی اسرائیل کے حاشیہ ٩٨ئ، ٩٩ ء میں دیکھئے۔ وصلی روزوں کی ممانعت :۔ ٥۔ آپ خود وصلی روزے رکھتے ہیں لیکن امت کو وصلی روزے سے منع فرمایا۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو وصلی روزے رکھنے سے، ان پر رحم کی بنا پر منع فرمایا (یعنی روزہ پر روزہ رکھنے سے جن کے درمیان افطار نہ کیا جائے) صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ تو وصل کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ میری صورت حال تمہارے جیسی نہیں ہے۔ مجھے تو میرا پروردگار کھلا اور پلا دیتا ہے۔ (مسلم۔ کتاب الصیام۔ باب النہی عن الوصال) (بخاری۔ کتاب التمنی۔ باب مایجوز من اللَّو۔۔۔) بُودار اشیاء کے استعمال سے متعلق حکم :۔ ٦۔ لہسن یا بووالی چیزوں کا حکم۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ جو شخص لہسن یا پیاز (کچی) کھائے وہ ہم سے الگ رہے یا یوں فرمایا کہ ہماری مسجد سے الگ رہے اور اپنے گھر میں بیٹھا رہے (جب تک اس کے منہ میں بو رہے) نیز جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بدر کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے طباق لایا گیا جس میں کچھ سبزی ترکاری تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں بو محسوس ہوئی۔ آپ نے اس کے متعلق پوچھا تو لوگوں نے بتایا کہ اس میں فلاں فلاں ترکاری ہے۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہیں کھایا اور) فرمایا کہ اسے فلاں صحابی (ابوایوب انصاری) کے پاس لے جاؤ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے۔ ابو ایوب انصاری نے جب یہ معاملہ دیکھا تو انہوں نے بھی اسے کھانے میں کراہت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں فرمایا : تم کھالو۔ کیونکہ میں تو ان (فرشتوں) سے سرگوشی کرتا ہوں جن سے تم نہیں کرتے۔ (بخاری۔ کتاب الاعتصام۔ باب الاحکام التی تعرف بالدلائل۔۔) ٧۔ آپ نے صدقہ کے متعلق امت کو حکم دیا کہ افضل الصدقۃ ما کان عن ظھر غنی یعنی بہتر صدقہ وہ ہے کہ صدقہ کرنے کے بعد انسان خود محتاج نہ ہوجائے۔ (بخاری۔ کتاب النفقات۔ باب وجوب النفقۃ علی الاہل والعیال) لیکن آپ خود قرض اٹھا کر بھی صدقہ کردیا کرتے تھے۔ حتیٰ کہ زکوٰ ۃ جو آپ پر بھی فرض تھی، اس کے ادا کرنے کا کبھی موقعہ ہی نہ آیا۔ ٨۔ آپ اور آپ کے اہل خانہ کوئی نیکی کا کام کریں تو دگنا اجر اور نافرمانی پر دگنی سزا قرآن سے ثابت ہے۔ حتیٰ کہ آپ کو بخار بھی دوگنی شدت سے چڑھتا تھا۔ چنانچہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں آپ کے ہاں گیا۔ آپ کا جسم بخار سے جل رہا تھا۔ میں نے کہا : یارسول اللہ ! آپ کو بخار بہت سخت آیا ہے۔ فرمایا : مجھ پر اتنی سخت تپ آتی ہے جیسے تم میں دو آدمیوں کی تپ ملائی جائے۔ میں نے عرض کیا آپ کو اجر بھی دوگنا ملے گا۔ فرمایا : ہاں! پھر فرمایا : جس شخص کو کوئی تکلیف بیماری وغیرہ ہو اللہ اس کے گناہ ایسے جھاڑ دیتا ہے جیسے درخت (موسم خزاں میں) اپنے پتے جھاڑ دیتا ہے۔ (بخاری۔ کتاب المرضیٰ۔ باب وضع الید علی المریض) ٩۔ آپ کی وفات کے بعد کوئی شخص آپ کی بیویوں سے نکاح نہیں کرسکتا۔ کیونکہ وہ مسلمانوں کی مائیں ہیں اور یہ اعزاز صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج سے مخصوص ہے کوئی امتی اس اعزاز میں شریک نہیں ہوسکتا۔ کیا نکاح کا مقصد صرف جنسی خواہش کی تکمیل یا حصول اولاد ہی ہے؟ یہاں ایک شبہ کا ازالہ ضروری ہے۔ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ نکاح کا مقصد شہوت رانی یا زیادہ سے زیادہ اولاد کا حصول ہے۔ یہ نظریہ کسی حد تک درست ہے مگر انتہائی تنگ نظری پر مبنی ہے۔ کسی حد تک ہم نے اس لئے کہا ہے کہ نکاح سے شریعت کا اصل مقصد معاشرہ کو فحاشی اور بے حیائی سے پاک و صاف رکھنا ہے۔ اسی لئے شریعت نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بلوغت کے بعد کوئی مرد یا عورت بے زوج نہ رہے۔ اگر زوج فوت ہوجائے یا شوہر طلاق دے دے تو ہر ایک کے لئے مستحب یہی ہے کہ وہ نکاح کرلے۔ (ملاحظہ ہو سورۃ نور کی آیت نمبر ٣٢ کا حاشیہ) حالانکہ جو انی کے انحطاط کے بعد انسان کی شہوت میں معتدبہ حد تک کمی واقع ہوجاتی ہے اور اگر اولاد ہو تو اسے اللہ کی قدرت ہی سمجھا جاتا ہے۔ بڑھاپے میں اولاد کا ہونا کوئی عادی امر نہیں ہے۔ البتہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اصل مقصد یعنی معاشرہ کی پاکیزگی کا ایک ثمرہ اولاد کا حصول بھی ہے۔ جو کبھی حاصل ہوتا ہے کبھی نہیں ہوتا۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ زوجین کے بالغ اور بظاہر صحت مند ہونے کے باوجود ان کے ہاں ساری عمر اولاد نہیں ہوتی۔ اور صرف اولاد کے حصول کو تنگ نظری پر محمول ہم نے اس لئے کہا ہے کہ نکاح سے اور کئی مقاصد اور فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں مثلاً نکاح کا دوسرا مقصد قریبی رشتہ داروں میں قرابت کے تعلق کو برقرار رکھنا اور مودت بڑھانا ہے۔ تیسرا مقصد دینی اخوت کا قیام اور اس میں اضافہ ہے چوتھا مقصد کئی طرح کے دینی، سیاسی، معاشی فوائد کا حصول ہے اور بعض دفعہ ایسے مقاصد حصول اولاد سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کر جاتے ہیں آپ ذرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر نظر ڈالئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے نکاح کئے؟ کس عمر میں کئے؟ کس قسم کی عورتوں سے کئے اور کن کن مقاصد کے تحت کئے تو یہ حقیقت از خود منکشف ہوجائے گی کہ نکاح کا مقصد صرف جنسی خواہشات کی تکمیل یا حصول اولاد ہی نہیں ہوتا بلکہ اس سے بلند تر مقاصد بھی حاصل ہوسکتے ہیں۔ آپ نے کتنی شادیاں کی اور کن کن اغراض کے تحت کیں؟ :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا نکاح ٢٥ سال کی عمر میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ہوا جو اس وقت چالیس سال کی تھیں اور ان کو پہلے دو مرتبہ طلاق ہوچکی تھی۔ ان کی وفات ١٠ نبوی میں ہوئی جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر پچاس سال تھی۔ ماسوائے سیدنا ابراہیم کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری اولاد سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ہی کے بطن سے پیدا ہوئی۔ یعنی جوانی کا پورا زمانہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ایک ہی بیوی کے ساتھ گزارا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا جو ایک بوڑھی، بھاری بھر کم اور مطلقہ عورت تھیں اور اس نکاح سے آپ کا مقصد اولاد کی تربیت تھی۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کی ذمہ داریوں کی وجہ سے اولاد کی تربیت پر توجہ نہیں دے سکتے تھے۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی بیٹیوں سے آپ نے نکاح اس غرض سے کیا کہ یہ شیخین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا و آخرت میں رفیق اور وزیر ہیں۔ اور تعلقات میں مزید محبت اور خوشگواری پیدا کرنے کے لئے آپ نے یہ نکاح کئے تھے۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری بیویوں میں سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کنواری تھیں جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کیا باقی سب بیویاں مطلقہ تھیں یا بیوہ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ذمہ داری یہ بھی تھی کہ قبائلی جاہلی نظام اور اس کی عصبیت کو ختم کرکے اسلامی نظام قائم کریں۔ اور سابقہ عداوتوں کو ختم کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ ام سلمہ سے نکاح کیا جو اس خاندان کی بیٹی تھی جس سے ابو جہل اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا تعلق تھا۔ سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا ابو سفیان کی بیٹی تھیں۔ ان شادیوں نے بڑی حد تک ان خاندانوں کی دشمنی کا زور توڑ دیا۔ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا، سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا اور ریحانہ رضی اللہ عنہا یہودی خاندانوں سے تعلق رکھتی تھیں۔ انھیں آزاد کرکے جب آپ نے ان سے نکاح کئے تو یہود کی معاندانہ سرگرمیاں ٹھنڈی پڑگئیں۔ کیونکہ عرب روایات کے مطابق کسی شخص کا داماد اس شخص کے پورے قبیلے کا داماد سمجھا جاتا تھا۔ اور اس سے لڑنا یا عداوت رکھنا بڑے عار کی بات تھی۔ پھر آپ کی نبوت کا ایک مقصد جاہلانہ رسوم کا قلع قمع بھی تھا۔ سیدہ زینب بنت جحش سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی مقصد کے تحت نکاح کیا تھا۔ پھر ہر خاندان اور ہر عمر کی عورتوں سے نکاح کا ایک اہم مقصد دینی تعلیم بھی تھا۔ شریعت کے احکام کے کئی گوشے ایسے بھی ہیں جو صرف عورتیں ہی عورتوں کو سمجھا سکتی ہیں یا صرف بیویاں ہی اپنے شوہر کے اوصاف و خصائل اور ان کی پرائیویٹ زندگی امت کو بتا سکتی ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے چند ایک فقیہ بھی تھیں حتیٰ کہ بڑے بڑے صحابہ رضی اللہ عنہم آپ سے مسائل پوچھنے آتے تھے یہ تھے وہ مقاصد جن کی تکمیل کے لئے اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تعدد ازواج پر پابندی نہیں لگائی اور فرما دیا کہ ایسے مقاصد کی تکمیل میں آپ پر تعدد ازواج کی پابندی کہیں تنگی اور رکاوٹ کا سبب نہ بن جائے۔ [ ٨٠] آپ پر حق مہر یا نان ونفقہ واجب نہیں تھا :۔ عام مسلمانوں پر اپنی بیویوں کو حق مہر ادا کرنا بھی واجب ہے اور نان و نفقہ کی ادائیگی بھی۔ اگر کوئی عورت اپنا نفس ہبہ کرے تب بھی اس سے حق مہر ساقط نہیں ہوگا۔ اور نبی پر اپنی بیویوں کا نان و نفقہ اس طرح واجب نہیں جس طرح عام مسلمانوں پر ہے۔ بلکہ نبی جو کچھ اور جتنا کچھ اپنی بیویوں کو دے یا دے سکے اس پر انھیں صابر و شاکر رہنا ہوگا جیسا کہ پہلے واقعہ ایلاء میں وضاحت سے گزر چکا ہے۔ الأحزاب
51 [٨١] بیویوں کی باری کے سلسلے میں آپ کو خصوصی ہدایت :۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک اور رعایت یہ مل گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سے اپنی بیویوں کے پاس باری باری رہنے کی پابندی اٹھا لی گئی۔ بالفاظ دیگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کا آپ پر یہ حق ساقط کردیا گیا کہ فلاں رات آپ باری کے حساب سے فلاں بیوی کے پاس رہیں گے۔ اور اس سقوط حق سے اللہ تعالیٰ کا مقصد نبی اور اس کی بیویوں دونوں پر سے تنگی کو رفع کرنا مقصود تھا۔ نبی کی تنگی کا دور ہونا تو واضح ہے اور بیویوں سے تنگی کا دور ہونا اس لحاظ سے ہے کہ جب انھیں یہ معلوم ہوجائے گا کہ فلاں باری کے دن نبی کا اس کے ہاں شب بسری کرنا اس کا حق نہیں ہے تو ان کے باہمی تنازعات اور چپقلش از خود ختم ہوجائیں گے کیونکہ تنازعات کی بنیاد ہی حقوق سے تعلق رکھتی ہے۔ پھر جب حق ہی نہ رہا تو تنازعات کیسے؟ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دی گئی اس رعایت سے کبھی فائدہ نہیں اٹھایا اور اپنی بیویوں کی باری کو ملحوظ خاطر رکھا جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث سے واضح ہے۔ رعایت کے باوجود آپ نے ہمیشہ باری کو ملحوظ رکھا :۔ (١) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک بیوی کی باری کے دن دوسری بیوی کے ہاں جانا منظور ہوتا تو آپ باری والی بیوی سے اجازت لیا کرتے تھے۔ معاذہ (راوی) کہتے ہیں کہ اس آیت کے اترنے کے بعد میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا : ’’اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے اجازت لیتے تو آپ کیا کہتیں؟‘‘ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’’میں تو کہتی کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے پوچھتے ہیں تو میں تو یہ چاہتی ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس ہی رہیں۔‘‘ (حوالہ ایضاً) (٢) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر پر جانا چاہتے تو اپنی عورتوں پر قرعہ ڈالتے جس عورت کا نام قرعہ میں نکلتا اس کو ساتھ لے جاتے اور ہر عورت کے پاس باری باری ایک ایک دن رات رہتے۔ صرف سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا نے (جو بہت بوڑھی ہوگئی تھیں) اپنا دن رات سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بخش دیا تھا۔ ان کی غرض یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوں۔ (بخاری۔ کتاب الھبة۔ باب ھبۃ المرأۃ لغیر زوجھا) (٣) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور آپ کی بیماری سخت ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری بیویوں سے بیماری میں میرے گھر رہنے کی اجازت چاہی تو انہوں نے اجازت دے دی۔ (بخاری۔ کتاب الھبۃ۔ باب ھبۃ الرجل لامرأتہ والمرأۃ لزوجھا) [٨٢] یعنی وہ اللہ کے احکام سے خوش ہوجائیں اور باہمی جذبہ رقابت اور مسابقت کی الجھنوں میں پڑنے کی بجائے یکسو ہو کر نبی کے مشن میں اس کا ہاتھ بٹائیں اور جس طرح نبی اپنے کام میں پوری جدوجہد کر رہا ہے مصائب برداشت کررہا ہے اور تنگی ترشی سے بے نیاز رہ کر کررہا ہے۔ اسی طرح وہ بھی قناعت اور ایثار سے کام لیں۔ بلکہ اسلام کی تبلیغ و اشاعت کو اپنا مقصد حیات قرار دے کر خوشدلی سے سب کام انجام دیں اور یہ سمجھ لیں کہ باری کے حق کا سقوط آپ کی مرضی اللہ عنہی سے نہیں بلکہ اللہ کے حکم سے ہوا ہے۔ [٨٣] ’’تمہارے دلوں‘‘ کا خطاب ازواج کی طرف بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی اگر تم نے اللہ کے ان احکام کو خوشدلی کے بجائے دل کی گھٹن سے یا کبیدہ خاطر ہو کر کیا ہے تو اللہ اسے بھی جانتا ہے اور اس پر گرفت ہوگی اور اگر اس لفظ کا خطاب عام لوگوں کی طرف ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ اگر ان حقائق کے بجائے نبی کی ازدواجی زندگی سے متعلق تمہارے دلوں میں کوئی اور بدگمانی پیدا ہو تو وہ بھی اللہ سے چھپی نہ رہے گی۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں ساتھ ہی اپنی صفت حلیم کا ذکر فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کے دل میں کوئی وسوسہ پیدا ہو جسے وہ دل سے نکال دے تو اللہ اس پر گرفت نہیں فرمائے گا۔ الأحزاب
52 [٨٤] اس آیت کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ آپ کو جن چار قسم کی بیویوں سے نکاح کرلینے کی اجازت دی جاچکی ہے ان کے علاوہ دوسری عورتیں آپ پر حلال نہیں بس یہی کافی ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ آپ کی بیویاں اس بات پر آمادہ ہوگئی ہیں کہ جو آپ کی طرف سے روکھا سوکھا ملے اس بات پر وہ صابر و شاکر رہیں۔ اور باری کا مطالبہ کرکے بھی آپ کو پریشان نہ کریں نہ اسے وجہ نزاع بنائیں تو اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی یہ جائز نہیں کہ ان صابر و شاکر بیویوں سے کسی کو طلاق دے دیں اور اس کی جگہ کوئی اور لے آئیں۔ خواہ وہ خوبصورت ہی کیوں نہ ہو۔ آپ کو بھی اب انھیں بیویوں پر صابر و شاکر رہنا چاہئے۔ ضمناً اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مرد جس عورت سے شادی کرنا چاہے، اسے دیکھنا درست ہے۔ اور احادیث صحیحہ میں اس کی صراحت مذکور ہے۔ [٨٥] کنیزوں کی رخصت کا غلط استعمال :۔ یعنی کنیزوں کی تعداد پر شریعت نے کوئی پابندی عائد نہیں کی۔ کیونکہ ان کا انحصار کسی جنگ میں قیدی عورتوں پر ہوتا ہے۔ اور یہ مستقبل کے حالات ہیں جو کبھی ایک جیسے نہیں ہوتے۔ لیکن اس اجازت کا یہ مطلب بھی نہیں کہ نواب اور امیر کبیر حضرات عیش و عشرت کے لئے جتنی کنیزیں چاہیں خرید خرید کر اپنے گھروں اور محلات کے اندر ڈالتے جائیں یہ اس اجازت کا غلط استعمال ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیزیں صرف دو تھیں ایک ماریہ قبطیہ جن کے بطن سے سیدنا ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے تھے اور دوسری ریحانہ (رضی اللہ عنہما) الأحزاب
53 [٨٦] گھروں میں داخلہ پر پابندی (استیذان):۔ اس آیت میں کئی ایک معاشرتی آداب بیان فرمائے جارہے ہیں۔ اسی سورۃ میں پہلے ازواج النبی کو مخاطب کرکے کہا گیا تھا کہ عورتوں کا اصل مقام گھر ہے۔ انھیں نہ تو بلاضرورت گھر سے باہر نکلنا چاہئے اور نہ پہلی جاہلیت کی طرح عورتوں کو بن ٹھن کر باہر نکلنا اور اپنی زیب و زینت کی نمائش کرنا چاہئے اور یہ حکم بس باہر نکلنے تک یا آواز پر پابندی تک موقوف تھا۔ اب بھی لوگ سب گھروں میں حتیٰ کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں بلا روک ٹوک آتے جاتے تھے اور سیدنا عمر کو بالخصوص یہ بات ناگوار تھی کہ نبی کے گھر میں ہر طرح کے لوگ بلاروک ٹوک داخل ہوا کریں۔ چنانچہ انھیں کی اس خواہش کے مطابق وحی الٰہی نازل ہوئی جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کے ہاں اچھے اور برے ہر طرح کے لوگ آتے رہتے ہیں۔ کیا اچھا ہو، اگر آپ امہات المؤمنین (اپنی بیویوں) کو پردے کا حکم دیں۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے پردے کا حکم نازل فرمایا‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) اس کے بعد سورۃ نور کی آیات نازل ہوئیں اور آیت نمبر ٢٧ کی رو سے یہ حکم تمام مسلم گھرانوں پر نافذ کردیا گیا کہ کوئی شخص بھی کسی دوسرے کے گھر میں بلا اجازت داخل نہ ہوا کرے۔ [٨٧] آداب دعوت طعام :۔ اس جملہ میں مزید دو ہدایات دی گئیں۔ ایک یہ کہ اگر صاحب خانہ خود تمہیں بلائے اور بالخصوص کھانے پر مدعو کرے تو تمہیں اس کے ہاں جانا چاہئے اور اس کا یہ بلانا ہی اس کی اجازت ہے۔ دوسری ہدایت یہ تھی کہ جس وقت بلایا جائے اسی وقت آؤ پہلے نہ آؤ۔ ایسا نہ ہونا چاہئے کہ پہلے آکر دعوت پکنے والے اور کھانے والے برتنوں کی طرف دیکھتے رہو کہ کب کھانا پکتا ہے اور ہمیں کھانے کو ملتا ہے یہ بات بھی صاحب خانہ کے لئے پریشانی کا باعث بن جاتی ہے۔ [٨٨] اس ضمن میں چوتھی ہدایت یہ ہے کہ جب کھانا کھا چکو تو وہیں دھرنا مار کر بیٹھ نہ جاؤ اود ادھر ادھر کے حالات اور قصے کہانیاں شروع کردو۔ بلکہ کھانا کھا چکو تو چلتے بنو۔ اور صاحب خانہ کے لئے انتظار اور پریشانی کا باعث نہ بنو۔ کیونکہ دعوت کے بعد انھیں بھی کئی طرح کے کام ہوتے ہیں۔ [٨٩] آیہ حجاب :۔ یہی وہ آیت ہے جسے آیہ حجاب کہتے ہیں۔ حجاب کے معنی کسی کپڑا یا کسی دوسری چیز سے دو چیزوں کے درمیان ایسی روک بنا دینا ہے جس سے دونوں چیزیں ایک دوسرے سے اوجھل ہوجائیں۔ اس آیت کی رو سے تمام ازواج النبی کے گھروں کے باہر پردہ لٹکا دیا گیا۔ پھر دوسرے مسلمانوں نے بھی اپنے گھروں کے سامنے پردے لٹکالیے اور یہ دستور اسلامی طرز معاشرت کا ایک حصہ بن گیا۔ اب اگر کسی شخص کو ازواج مطہرات سے کوئی بات پوچھنا یا کوئی ضرورت کی چیز مانگنے کی ضرورت ہوتی تو اسے حکم ہوا کہ پردہ سے باہر رہ کرسوال کرے۔ اب اس آیت کا شان نزول سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی زبانی ملاحظہ فرمائیے : ولیمہ کی دعوت کھانے کے بعدبیٹھ رہنے والے تین شخص :۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب بنت جحش سے نکاح کیا اور صحبت کی تو (ولیمہ میں) گوشت روٹی تیار کیا گیا مجھے لوگوں کو بلانے کے لئے بھیجا گیا۔ لوگ آتے جاتے، کھانا کھاتے اور چلے جاتے، پھر اور لوگ آتے وہ بھی کھانا کھا کر چلے جاتے۔ میں نے سب کو بلایا حتیٰ کہ کوئی شخص ایسا نہ رہ گیا جسے میں نے بلایا نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا : اچھا اب کھانا اٹھاؤ (لوگ چلے گئے مگر) تین شخص بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ آپ گھر سے اٹھ کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے کمرہ کی طرف گئے اور فرمایا : السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا : ’’وعلیک السلام ورحمۃ اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوی کو کیسا پایا، اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برکت دے‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب بیویوں کے کمروں کا دورہ کیا اور سب کو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرح سلام کیا اور انہوں نے بھی ویسا ہی جواب دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹ کر گھر آئے تو وہ تین آدمی ابھی تک بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج میں بڑی شرم تھی (لہٰذا انھیں کچھ نہ کہا) اس لئے پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے کمرہ کی طرف چلے گئے۔ پھر کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ اب وہ تینوں آدمی چلے گئے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے اور دروازے کی چوکھٹ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک پاؤں اندر تھا اور دوسرا باہر کہ آپ نے میرے اور اپنے درمیان پردہ لٹکا لیا اس وقت اللہ تعالیٰ نے پردے کی آیت اتاری۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) [٩٠] مرد اور عورت کے آزادانہ اختلاط کی روک تھام اور پردہ کا حکم :۔ مردوں اور عورتوں کے آزادانہ اختلاط اور فحاشی کی روک تھام کے لئے یہ ایک موثر اقدام ہے کہ کوئی غیر مرد کسی اجنبی عورت کو نہ دیکھے اور نہ ہی کسی کے دل میں کوئی وسوسہ یا برا خیال پیدا ہو۔ گویا معاشرہ سے بے حیائی اور فحاشی کے خاتمہ کے لئے پردہ نہایت ضروری چیز ہے۔ اب جو لوگ مسلمان ہونے کے باوجود یہ کہتے ہیں کہ اصل پردہ دل کا پردہ ہے کیونکہ شرم و حیا کا اور برے خیالات کا تعلق دل سے ہے یہ ظاہری پردہ کچھ ضروری نہیں۔ ایسے لوگ دراصل اللہ کے احکام کا مذاق اڑاتے ہیں۔ [٩١] جس بات سے اللہ کے رسول کو تکلیف پہنچے وہ ناجائز ہے :۔ ربط مضمون کے لحاظ سے تو اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو کھانا کھانے کے بعد وہاں سے ہلنے کا نام تک نہ لیتے تھے۔ ان کی اس حرکت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ناگوار اور تکلیف دہ محسوس کیا مگر شرم اور نرمی طبع کی بنا پر انھیں اٹھ کر چلے جانے کو نہ کہہ سکے۔ تاہم یہ حکم عام ہے اور اس کا میدان بڑا وسیع ہے۔ اس میں وہ الزام تراشیاں بھی شامل ہیں جو اس زمانے میں کافروں کے ساتھ منافق بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کر رہے تھے نیز ہر وہ بات بھی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناگوار محسوس کریں اس سے مسلمانوں کو اجتناب ضروری ہے مثلاً کوئی شخص اللہ کے رسول کے مقابلہ میں دوسرے کی بات مانے یا سنت رسول کے مقابلہ میں کسی دوسرے کے قول کو ترجیح دے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت چھوڑ کر بدعات کو رائج کرے یا فروغ دے تو ان باتوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہوتی ہے اور ایسے تمام امور میں مسلمانوں کو محتاط رہنا چاہئے۔ [٩٢] یہ گناہ عظیم اس لحاظ سے ہے کہ ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی مائیں ہیں۔ اور اگر کوئی آدمی ان سے نکاح کرے تو گویا اس نے اپنی ماں سے نکاح کیا۔ پھر جو احترام انھیں اللہ نے بخشا ہے وہ کبھی ملحوظ نہ رکھ سکے گا۔ اور اپنی عاقبت تباہ کرے گا۔ الأحزاب
54 [٩٣] یعنی زبان سے تو کجا، کسی مومن کے دل میں ایسا خیال تک بھی نہ آنا چاہئے۔ کیونکہ اللہ کے سامنے تو ظاہر و باطن اور دل کے خیالات سب کچھ یکساں ہے۔ کوئی بات اس سے چھپی نہیں رہ سکتی۔ الأحزاب
55 [٩٤] کون کون سے رشتہ دار محرم ہیں؟۔ اس آیت میں ان محرم رشتہ داروں کا ذکر ہے۔ جو نبی کے گھر میں آجاسکتے ہیں اور ان سے پردہ کی ضرورت نہیں۔ یا لونڈی غلام وغیرہ اور ان کی تفصیل پہلے سورۃ نور کی آیت ٣١ کے حواشی کے تحت گزر چکی ہے۔ پھر ان میں رضاعی رشتے بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ پردہ کا حکم اترنے کے بعد ابو القُعَیْس کے بھائی افلح نے (جو میرے رضاعی چچا تھے) مجھ سے اندر آنے کی اجازت مانگی۔ میں نے جواب دیا کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھے بغیر اجازت نہیں دے سکتی۔ کیونکہ افلح کے بھائی ابو القعیس نے تو مجھے دودھ نہیں پلایا تھا بلکہ اس کی بیوی نے پلایا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ابو القعیس کے بھائی افلح نے مجھ سے اندر آنے کی اجازت مانگی تھی تو میں نے اسے کہا کہ جب تک آپ سے پوچھ نہ لوں اجازت نہیں دے سکتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم نے اپنے چچا کو اجازت کیوں نہ دی؟‘‘ میں نے عرض کیا :’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے دودھ مرد نے تو نہیں پلایا وہ تو ابو القعیس کی بیوی نے پلایا تھا‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں۔ اسے اندر آنے کی اجازت دو، وہ تمہارا چچا ہے‘‘ عروہ بن زبیر (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے) کہتے ہیں کہ اسی لئے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں کہ ’’جتنے رشتے خون کی وجہ سے حرام سمجھتے ہو دودھ کی وجہ سے بھی وہ حرام ہیں‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) [٩٥] یعنی اللہ یہ چیز دیکھ رہا ہے کہ جو احکام تمہیں پردہ سے متعلق دیئے جارہے ہیں۔ اللہ سے ڈر کر ان پر کس قدر عمل پیرا ہوتی ہو۔ الأحزاب
56 [٩٦] اس زمانہ میں کفار اور منافقین آپ پر طرح طرح کی الزام تراشیاں کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنام کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ خود اپنے نبی پر رحمتوں کی بارش کر رہا ہے۔ فرشتے بھی اس کے حق میں دعائے رحمت و برکت کرتے ہیں۔ تو پھر ان لوگوں کے بے ہودہ بکواس سے کیا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ساتھ ہی مومنوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اس نبی پر بکثرت درود یا دعائے رحمت و مغفرت اور سلامتی کی دعا کیا کرو۔ وہ الزام تراشیاں تو وقتی اور عارضی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایسا طریقہ بتا دیا کہ تاقیامت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلامتی اور رحمت و مغفرت کی دعائیں مانگی جایا کریں۔ اور ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر بلند رہا کرے۔ اس سلسلہ میں درج ذیل دو احادیث بھی ملاحظہ فرما لیجئے : آپ پر درود و سلام کیوں ضروری ہے؟ ١۔ ابو العالیہ نے کہا کہ اللہ کی صلوٰۃ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں میں آپ کی تعریف کرتا ہے اور فرشتوں کی صلوٰۃ سے دعا مراد ہے۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ یصلون کا معنی یہ ہے کہ برکت کی دعا کرتے ہیں۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ عنوان باب) ٢۔ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ بن عجرہ کہتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ پر سلام کرنا تو ہم کو معلوم ہوگیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کیسے بھیجیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یوں کہو : (اللھم صل علیٰ محمد وعلیٰ آل محمد کما صلیت علیٰ ابراہیم انک حمید مجید۔ اللھم بارک علیٰ محمد وعلیٰ آل محمد کما بارکت علیٰ ابراہیم انک حمید مجید) اور یزید بن ھاد کی روایت میں علی ابراہیم کے بعد دونوں جگہ علیٰ آل ابراہیم کے الفاظ بھی ہیں۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) درود و سلام کی اصل بنیاد یہ ہے کہ ہر مومن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہی ایمان کی نعمت نصیب ہوئی۔ اور ایمان اتنی بڑی نعمت ہے کہ دین و دنیا کی کوئی نعمت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی اور اس نعمت کا احسان مومن کبھی اتار نہیں سکتے۔ تاہم ایمانداروں کو اتنا ضرور کرنا چاہئے کہ وہ اپنے اس محسن اعظم کی محبت سے سرشار ہوں اور اس کے حق میں دعائے رحمت و برکت اور مغفرت کیا کریں۔ اس سے ان کے اپنے بھی درجات بلند ہوں گے اور ہر دفعہ درود پڑھنے کے عوض اللہ ان پر دس گناہ درود یا اپنی رحمتیں نازل فرمائے گا۔ (مسلم۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب الصلوٰۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعد التشہد) سلموا تسلیما کے دو مطلبسلّموا تسلیما کے بھی دو معنے ہیں۔ ایک تو درج بالا حدیث سے واضح ہے کہ اس کے لئے سلامتی کی دعا کیا کریں۔ اور اس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ دل و جان سے اس کے آگے سرتسلیم خم کردیں۔ جیسا کہ سورۃ نساء کی آیت نمبر ٦٥ میں ان الفاظ کے یہی معنی مراد ہیں۔ صلوٰۃ وسلام کے فضائل :۔ درود و سلام پڑھنے کے فضائل میں اب چند مزید احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص ایک بار مجھ پر درود بھیجے گا تو اللہ اس پر دس رحمتیں بھیجے گا۔ اس کے دس گناہ معاف کئے جائیں گے اور دس درجے بلند کئے جائیں گے۔ (حوالہ ایضاً) ٢۔ سیدنا ابی رضی اللہ عنہ بن کعب فرماتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ پر بکثرت درود بھیجتا ہوں۔ میں اپنی دعا کا کتنا حصہ درود کے لئے مقرر کروں؟ فرمایا : جتنا تو چاہے۔ میں نے کہا : ایک چوتھائی؟ فرمایا ’’جتنا تو چاہے اور اگر زیادہ کرے تو تیرے حق میں بہتر ہے‘‘ میں نے کہا : آدھا حصہ؟ فرمایا : ’’جتنا تو چاہے اور اگر زیادہ کرلے تو تیرے حق میں بہتر ہے‘‘ پھر میں نے پوچھا : ’’دو تہائی؟‘‘ فرمایا : ’’جتنا تو چاہے اور اگر زیادہ کرے تو تیرے لئے بہتر ہے‘‘ پھر میں نے کہا : میں اپنی دعا کا سارا وقت آپ پر درود کے لئے مقرر کرلیتا ہوں۔ فرمایا : ’’اب تو اپنے غم سے کفایت کیا جائے گا اور تیرے گناہ تجھ سے دور کردیئے جائیں گے‘‘ (ترمذی۔ بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب الصلوٰۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم فصل ثانی) ٣۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جب تک تو اپنے نبی پر درود نہ بھیجے دعا زمین و آسمان کے درمیان موقوف رہتی ہے اور اوپر نہیں چڑھتی۔ (ترمذی۔ بحوالہ مشکوٰۃ۔ باب الصلوٰۃ علی النبی۔ فصل ثانی) ٤۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’وہ شخص بڑا بخیل ہے جس کے پاس میرا ذکر ہوا پھر اس نے مجھ پر درود نہ بھیجا‘‘ (ترمذی۔ بحوالہ مشکوٰۃ ایضاً) الأحزاب
57 [٩٧] اللہ اور اس کے رسول کو ایذا کی صورتیں :۔ اللہ کو دکھ پہنچانے کی کئی صورتیں ہیں۔ پہلی صورت شرک ہے کہ اس کی ذات اور صفات میں دوسروں کو شریک بنا لیا جائے چنانچہ ایک حدیث قدسی کے مطابق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ آدم کا بیٹا مجھے سخت دکھ پہنچاتا ہے۔ جب کہتا کہ اللہ کی اولاد ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ دین اسلام کے خلاف معاندانہ سرگرمیوں میں حصہ لینے والے سب لوگ فی الحقیقت اللہ اور اس کے رسول دونوں کو دکھ پہنچاتے ہیں۔ اور تیسری صورت یہ ہے کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو الزام تراشیوں اور طعن و تشنیع سے دکھ پہنچاتے ہیں۔ اور ایسے مواقع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بکثرت آتے رہے۔ وہ لوگ حقیقتاً اللہ ہی کو دکھ پہنچاتے ہیں۔ کیونکہ رسول اللہ کی ذات اللہ کی طرف سے مامور ہے اسی لحاظ سے رسول کی اطاعت ہی فی الحقیقت اللہ کی اطاعت ہے (٤: ٨٠) اسی طرح اللہ کے رسول کی نافرمانی فی الحقیقت اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے۔ اسی طرح اللہ کے رسول کو ستانا اور تکلیف پہنچانا فی الحقیقت اللہ کو دکھ پہنچانا ہے۔ پھر آخر اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ذلت و رسوائی کا عذاب کیوں نہ دے گا۔ الأحزاب
58 [٩٨] جب مسلمان عورتیں رات کو رفع حاجت کے لئے باہر نکلتیں تو کچھ اوباش لونڈے اور منافق ان سے بے ہودہ قسم کی گفتگو اور چھیڑ چھاڑ کرتے اور جب ان سے باز پرس کی جاتی تو کہہ دیتے کہ ہم سمجھے یہ لونڈیاں ہیں۔ پھر کچھ منافق ایسے بھی تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ پیچھے بدگوئی کرتے اور ازواج مطہرات پر بے ہودہ قسم کے الزام تراشتے یہ سب قسم کے لوگ تہمت تراش اور بدترین قسم کے مجرم ہیں۔ الأحزاب
59 [٩٩] اس حکم کے ذریعہ اوباش منافقوں کی چھیڑ چھاڑ کا سدباب کردیا گیا۔ نبی کی بیویوں، بیٹیوں اور سب مسلمان عورتوں کو حکم دیا گیا کہ بڑی چادریں اپنے سر کے اوپر سے نیچے لٹکا لیا کریں۔ اس سے بآسانی معلوم ہوسکے گا کہ یہ لونڈیاں نہیں بلکہ شریف زادیاں ہیں۔ لہٰذا منافق انھیں چھیڑ چھاڑ کی جرأت نہ کرسکیں گے۔ بنات النبی صلی اللہ علیہ وسلم:۔ ضمناً اس سے اس بات کا پتہ لگتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں تین یا تین سے زیادہ تھیں اور حقیقتاً یہ چار تھیں۔ سیدہ زینب، سیدہ رقیہ، سیدہ ام کلثوم اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہن۔ جبکہ شیعہ حضرات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف ایک بیٹی (سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا) تو تسلیم کرتے ہیں۔ باقی کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔ بڑی چادر اوڑھ کر عورتیں باہر نکلیں :۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ بعض حضرات چہرہ کو پردہ کے حکم سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ﴿ یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ ﴾ کا مطلب چادر لٹکا کر گھونگھٹ نکالنا نہیں بلکہ اس سے مراد چادر کو اپنے جسم کے ارد گرد اچھی طرح لپیٹ لینا ہے جسے پنجابی میں ''بکل مارنا'' کہتے ہیں۔ اس توجیہ کی تہ میں جو کچھ ہے وہ سب کو معلوم ہے ہم صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ یہ توجیہ لغت، عقل اور نقل تینوں لحاظ سے غلط ہے۔ وہ یوں کہ : ١۔ لغوی لحاظ سے دنٰی یدنی کا مطلب قریب ہونا، جھکنا اور لٹکنا سب کچھ آتا ہے۔ قرآن میں ہے ﴿وَجَنَا الْجَنَّـتَیْنِ دَانٍ ﴾(۵۴:۵۵) یعنی ان دونوں باغوں کے پھل جھک رہے ہیں یا لٹک رہے ہیں اور اَدْنٰی یَدْنِی یعنی قریب کرنا، جھکانا اور لٹکانا اور ادنی الستر بمعنی پردہ لٹکانا ہے (منجد) اب اگر ادنٰی الیھن من جلابیبھن کے الفاظ ہوتے تو پھر ان معانی کی بھی گنجائش نکل سکتی تھی جو یہ حضرات چاہتے ہیں لیکن قرآن میں ادنیٰ کا صلہ علیٰ سے ہے جو اس کے معنی کو اِرْخَاء یعنی اوپر سے لٹکانے کے معنوں سے مختص کردیتا ہے۔ اور جب لٹکانا معنی ہو تو اس کا مطلب سر سے نیچے کو لٹکانا ہوگا جس میں چہرہ کا پردہ خود بخود آجاتا ہے۔ ہاتھوں اور چہرے کا پردہ :۔ ٢۔ اور عقلی لحاظ سے یہ توجیہ اس لئے غلط ہے کہ عورت کا چہرہ ہی وہ چیز ہے جو مرد کے لئے عورت کے تمام بدن سے زیادہ پرکشش ہوتا ہے۔ اگر اسے ہی حجاب سے مستثنیٰ قرار دیا جائے تو حجاب کے باقی احکام بے سود ہیں۔ فرض کیجئے آپ اپنی شادی سے پہلے اپنی ہونے والی بیوی کی شکل و صورت دیکھنا چاہتے ہیں۔ اب اگر آپ کو اس لڑکی کا چہرہ نہ دکھایا جائے باقی تمام بدن ہاتھ، پاؤں وغیرہ دکھا دیئے جائیں تو کیا آپ مطمئن ہوجائیں گے؟ اس سوال کا جواب یقیناً نفی میں ہے۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ آپ کو اس لڑکی کا صرف چہرہ دکھادیا جائے اور باقی بدن نہ دکھایا جائے اس صورت میں آپ پھر بھی بہت حد تک مطمئن نظر آئیں گے۔ پھر جب یہ سب چیزیں روزمرہ کے تجربہ اور مشاہدہ میں آرہی ہیں تو پھر آخر چہرہ کو احکام حجاب سے کیونکر خارج کیا جاسکتا ہے؟ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا۔ ایک شخص آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ اس نے ایک انصاری عورت سے عقد کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا : ’’کیا تم نے اسے دیکھا بھی ہے؟'' وہ کہنے لگا ''نہیں'' آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جا اس کو دیکھ لے اس لئے کہ انصار کی آنکھوں میں کچھ عیب ہوتا ہے‘‘ (مسلم۔ کتاب النکاح۔ باب ندب من اراد نکاح امرأۃ الیٰ ان ینظر الیٰ وجھھا وکفیھا قبل خطبتھا) اس حدیث میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرہ دیکھنے کی ہی ہدایت فرمائی۔ آیت کے غلط معنی اور اس کا جواب :۔ ٣۔ نقلی لحاظ سے بھی یہ توجیہ غلط ہے۔ یہ سورۃ احزاب ذیقعد ٥ ھ میں نازل ہوئی اور واقعہ افک شوال ٦ ھ میں پیش آیا۔ اور واقعہ افک بیان کرتے ہوئے خود سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ’’میں اسی جگہ بیٹھی رہی۔ اتنے میں میری آنکھ لگ گئی۔ ایک شخص صفوان بن معطل سلمی اس مقام پر آئے اور دیکھا کوئی سو رہا ہے۔ اس نے مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا کیونکہ حجاب کا حکم اترنے سے پہلے اس نے مجھے دیکھا تھا۔ اس نے مجھے دیکھ کر﴿إنَّا لِلّٰہِ وَإنَّا إلَیْہِ رَاجِعُوْنَ﴾ پڑھا تو میری آنکھ کھل گئی تو میں نے اپنا چہرہ اپنی چادر سے ڈھانپ لیا‘‘ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب حدیث الافک۔۔) اب سوال یہ ہے کہ اگر ﴿یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ ﴾ کا معنی وہ ہو جو یہ حضرات ہمیں سمجھانا چاہتے ہیں تو کیا (معاذ اللہ) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس کا معنی غلط سمجھا تھا ؟ الأحزاب
60 [١٠٠] منافقوں اور یہودیوں کا گٹھ جوڑ واقعات کی روشنی میں :۔ یعنی ایک تو انھیں بدنظری اور شہوت پرستی کا روگ لگا ہوا ہے۔ دوسرے نفاق کا کہ وہ اپنے آپ کو شمار تو مسلمانوں میں کرتے ہیں۔ لیکن ہر معاملہ میں اس کے بدخواہ تنگ کرنے والے انھیں بدنام کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ ان کے ساتھی مدینہ کے یہود ہیں۔ اور یہ دونوں ایک دوسرے کے ہمراز اور دونوں مسلمانوں کے ایک جیسے دشمن ہیں۔ جو مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے کے لئے مختلف قسم کی سنسنی خیز افواہیں گھڑتے اور پھیلاتے رہتے ہیں۔ مثلاً فلاں مقام پر مسلمانوں نے بڑی مار کھائی اور زک اٹھائی، فلاں مقام پر مسلمانوں کے لئے ایک بڑا بھاری لشکر جمع ہورہا ہے اور عنقریب مدینہ سے مسلمانوں کو ختم کردیا جائے گا۔ وغیرہ وغیرہ۔ منافقوں اور یہود مدینہ کی مسلمانوں کے خلاف مشترکہ ساز باز اور گٹھ جوڑ کی داستان بڑی طویل ہے۔ میں یہاں چند اشارات پر اکتفا کروں گا۔ جب بدر میں اللہ نے مسلمانوں کو فتح عظیم عطا فرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو صحابہ زید بن حارثہ اور عبداللہ بن رواحہ کو خوشخبری دینے کے لئے پہلے مدینہ بھیج دیا تھا۔ دریں اثنا، منافق یہ خبر مشہور کرچکے تھے کہ مسلمانوں کو عبرتناک شکست ہوئی ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قتل کردیئے گئے۔ اس افواہ سے مدینہ کے مسلمان بہت سہمے ہوئے تھے کہ زید بن حارثہ دور سے اونٹنی پر سوار آتے دکھائی دیئے۔ ایک منافق کہنے لگا دیکھو زید بن حارثہ کا اترا ہوا چہرہ صاف بتا رہا ہے کہ مسلمان شکست کھاچکے ہیں پھر جب اصل حالات کا علم ہوا تو مدینہ تکبیر و تہلیل کے نعروں سے گونج اٹھا اور یہی نعرے یہود و منافقین کے قلب و جگر کو چھلنی چھلنی کررہے تھے۔ قبیلہ بنو قینقاع یہود مدینہ میں سب سے زیادہ امیر اور شرارتی قبیلہ تھا۔ اس نے جنگ بدر کے فوراً بعد شرارتیں شروع کردیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا محاصرہ کرلیا اور یہ بد عہد قوم جلد ہی ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں قتل کردینے کا ارادہ رکھتے تھے۔ مگر عبداللہ بن ابی کی پرزور سفارش کی بنا پر اپنی نرمی طبع کی بنا پر یہود کی جان بخشی کردی اور صرف جلاوطنی پر اکتفا کرلیا۔ جنگ احد کے موقعہ پر عبداللہ بن ابی منافق نے عین موقعہ پرجس طرح مسلمانوں کا ساتھ چھوڑا تھا وہ واقعہ پہلے تفصیل سے گزر چکا ہے۔ اس وقت بھی منافقوں نے مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے اور مسلمانوں کو شکست سے دوچار کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا۔ یہود کے دوسرے قبیلہ بنونضیر نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر چکی کا پاٹ گرا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہلاک کرنے کی سازش کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے بچا لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنونضیر کو الٹی میٹم دے دیا کہ دس دن کے اندر اندر وہ مدینہ کو خالی کردیں اور جو کچھ لے جاسکتے ہیں لے جائیں دس دن بعد جو شخص بھی مدینہ میں نظر آیا اسے قتل کردیا جائے گا۔ (یہ واقعہ سورۃ حشر میں تفصیل سے آئے گا) جب یہود نکلنے کی تیاری کرنے لگے تو عبداللہ بن ابی نے انھیں کہلا بھیجا کہ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں میرے پاس دو ہزار مسلح آدمی ہیں جو تمہاری حفاظت میں جان دے دیں گے۔ لہٰذا اپنی جگہ پر برقرار رہو اور ڈٹ جاؤ۔ اس پیغام پر اس قبیلہ کے سردار حیی بن اخطب کی آنکھیں چمک اٹھیں اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام بھجوا دیا کہ ہم یہاں سے نہیں نکلیں گے تم سے جو بن پڑتا ہے کرلو۔ اس چیلنج پر جب مسلمانوں نے یہود کا محاصرہ کرلیا تو نہ رئیس المنافقین خود ان کی مدد کو پہنچا نہ اس کے مردان جنگی۔ وہ بھی ویسا ہی بزدل نکلا جیسا کہ یہود تھے۔ بالآخر بنونضیر کو جلا وطن کردیا۔ غزوہ احزاب میں یہود کی عہد شکنی اور منافقوں کے کردار پر تبصرہ اسی سورۃ میں گزر چکا ہے۔ اسی عہد شکنی کی سزا دینے کے لئے جنگ احزاب کے فوراً بعد بنو قریظہ کا محاصرہ کرکے ان کا خاتمہ کردیا گیا۔ اب بچے کھچے سب یہودی خیبر کی طرف اکٹھے ہو رہے تھے۔ غزوہ بنی مصطلق میں منافقوں نے مسلمانوں کو دو طرح سے شدید نقصان پہنچایا۔ ایک تو عبداللہ بن ابی نے قبائلی عصبیت کو ابھار کر مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی اور دوسرے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگا کر مسلمانوں کے اخلاقی محاذ پر کاری ضرب لگائی اور انھیں کئی طرح کی پریشانیوں سے دوچار کردیا۔ (ان میں سے پہلا واقعہ تو سورۃ منافقون میں آئے گا اور دوسرا سورۃ نور میں گذر چکا ہے) [١٠١] اس سے مراد جنگ بنو قریظہ ہے جس کے بعد مدینہ یہودیوں سے مکمل طور پر پاک ہوگیا اور جو یہودی غزوہ بنو قینقاع اور بنونضیر کے موقعوں پر جلا وطن کئے تھے وہ سب خیبر کی طرف چلے گئے تھے۔ الأحزاب
61 [١٠٢] اس سے مراد بنو قریظہ کا انجام ہے۔ بنونضیر کا سردار حیی بن اخطب بھی ان کے ساتھ ہی قتل ہوا تھا جس نے بنوقریظہ کو عہد شکنی پر مجبور کیا تھا۔ الأحزاب
62 [١٠٣] یعنی اللہ کی سنت جاریہ یہی ہے کہ جن لوگوں نے اللہ کے رسولوں کے خلاف شرارتیں کیں اور فتنے فساد پھیلائے انھیں اسی طرح ذلیل و خوار اور ہلاک کردیا گیا۔ الأحزاب
63 [١٠٤] چونکہ قیامت کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں اور اس کا متعین وقت بتانا بھی مصلحت الٰہی کے خلاف ہے۔ لہٰذا اس کا وقت معین کسی کو نہیں بتایا گیا اور کافر اور منافق یہ سوال بار بار اس لئے کرتے رہتے تھے کہ انہوں نے مسلمانوں کو زچ کرنے کے لئے ایک شغل بنایا ہوا تھا۔ جس سے ان کی مراد محض پیغمبر اسلام اور دعوت اسلام کا مذاق اڑانا اور اضحوکہ بنانا ہوتا تھا اسے وہ محض ایک خالی خولی دھمکی سمجھتے تھے۔ الأحزاب
64 [١٠٥] یہ اسی لعنت کا اثر ہے کہ بس فضول سے سوالات کئے جاتے ہیں جس سے ان کا مقصد محض شغل اور استہزاء ہوتا ہے اور اس دوزخ کی آگ سے نہیں ڈرتے جو ان کے لئے تیار کی جاچکی ہے۔ الأحزاب
65 اس آیت کی تفسیر اگلی آیات میں آ رہی ہے۔ الأحزاب
66 اس آیت کی تفسیر اگلی آیت کے ساتھ آ رہی ہے۔ الأحزاب
67 [١٠٦] سادات اور کبراء سے کون لوگ مراد ہی؟ ان دو آیات سے چند باتیں مستفاد ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ کی راہ سے مراد اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہے۔ دوسری یہ کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے برگشتہ کرنے والے حضرات دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک دنیوی سردار، حاکم، رئیس، چودھری وغیرہ جن کا عوام پر اثر ہوتا ہے۔ اور وہ یہ چاہتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے بجائے لوگوں سے اپنی اطاعت کروائیں۔ دوسری قسم کے لوگ علماء اور مشائخ یعنی مذہبی پیشوا ہوتے ہیں۔ ان کے گمراہ کرنے کا انداز دنیوی سرداروں سے بالکل جداگانہ ہوتا ہے۔ وہ لوگوں میں شرکیہ رسوم اور بدعات رائج کرتے، غلط فتوے دیتے، اولیاء اللہ کے تصرف کی دھاک بٹھاتے اور اس طرح کئی طرح کے مفادات حاصل کرتے ہیں۔ مقصد دونوں کا حب مال اور جاہ ہوتا ہے۔ تیسری یہ بات کہ مطیع اور مطاع یعنی گمراہ ہونے والے اور گمراہ کرنے والے سب کے سب جہنمی ہوتے ہیں۔ جب وہ جہنم کا عذاب دیکھ لیں گے تو اپنے جرم میں اور اسی طرح عذاب میں تخفیف کی خاطر اطاعت کرنے والے اپنے بڑوں اور پیشواؤں پر یہ الزام لگائیں گے کہ ہمیں گمراہ کرنے والے تو یہ لوگ تھے۔ لہٰذا اے پروردگار! انھیں دوگنا عذاب کر۔ بالفاظ دیگر ان کی التجا یہ ہوگی کہ ہمارے عذاب میں ان کے مقابلہ میں آدھی تخفیف ہونی چاہئے اور ان دونوں فریقوں کے درمیان مکالمہ پہلے قرآن میں کئی مقامات پر گزر چکا ہے۔ الأحزاب
68 الأحزاب
69 [١٠٧] اس آیت کی تائید و توثیق درج ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے : سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حنین کی جنگ کا) مال غنیمت تقسیم کیا تو ایک شخص کہنے لگا : اس تقسیم سے اللہ کی رضامندی مقصود نہیں ہے۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور انھیں یہ بات بتائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر غصہ کے اثرات نمودار ہوئے اور فرمایا : اللہ موسیٰ علیہ السلام پر رحم کرے انھیں اس سے بھی زیادہ تکلیف دی گئی لیکن انہوں نے صبر کیا۔ (بخاری۔ کتاب الجہاد باب ماکان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یعطی المؤلفۃ قلوبھم وغیرھم من الخمس ونحوہ) اور درج ذیل حدیث اس آیت کی تفسیر پیش کرتی ہے : بنی اسرائیل کی موسیٰ علیہ السلام کو ایذا رسانی :۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بنی اسرائیل برہنہ غسل کیا کرتے تھے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھتا رہتا تھا۔ مگر موسیٰ علیہ السلام تنہا غسل فرمایا کرتے۔ بنی اسرائیل کہنے لگے۔ واللہ موسیٰ کو ہمارے ساتھ غسل کرنے سے بجز اس کے اور کوئی بات مانع نہیں کہ وہ فتق (جلدی بیماری) میں مبتلا ہیں۔ اتفاق سے ایک دن موسیٰ علیہ السلام غسل کرنے لگے تو اپنا لباس ایک پتھر پر رکھ دیا وہ پتھر ان کا لباس لے بھاگا اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام اس کے تعاقب میں یہ کہتے ہوئے دوڑے کہ ثوبی یا حجر۔ ثوبی یا حجر (اے پتھر! میرے کپڑے۔ اے پتھر! میرے کپڑے) یہاں تک بنی اسرائیل نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو (ننگے) دیکھ لیا اور کہنے لگے : واللہ! موسیٰ علیہ السلام کو کوئی بیماری نہیں ہے۔ (پتھر ٹھہر گیا) موسیٰ علیہ السلام نے اپنا لباس لے لیا اور پتھر کو مارنے لگے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : خدا کی قسم اس پتھر پر چھ یا سات نشان ہیں۔ (بخاری۔ کتاب الغسل۔ باب من اغتسل عریاناً) اب ظاہر ہے کہ جو لوگ خرق عادت واقعات یا معجزات کے منکر ہیں۔ انھیں یہ تفسیر راس نہیں آسکتی۔ تاہم اس حدیث کے الفاظ میں اتنی گنجائش موجود ہے کہ وہ بھی اسے تسلیم کرلیں وہ یوں کہ حجر کے معنی پتھر بھی ہیں اور گھوڑی بھی۔ (منجد) اس لحاظ سے یہ واقعہ یوں ہوگا کہ موسیٰ گھوڑی پر سوار تھے۔ کسی تنہائی کے مقام پر نہانے لگے تو گھوڑی کو کھڑا کیا اور اسی پر اپنے کپڑے رکھ دیئے۔ جب نہانے کے بعد کپڑے لینے کے لئے آگے بڑھے تو گھوڑی دوڑ پڑی اور موسیٰ علیہ السلام ثوبی یا حجر کہتے اس کے پیچھے دوڑے تاآنکہ کچھ لوگوں نے آپ کو ننگے بدن دیکھ لیا کہ آپ بالکل بےداغ اور ان کی مزعومہ بیماری سے پاک ہیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کو ان لوگوں کے الزام سے بری کردیا۔ رہی یہ بات کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ قسم اٹھاکر کہتے ہیں کہ پتھر پر مار کے چھ یا سات نشان ہیں تو یہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا اپنا قول ہے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نہیں جس کا ماننا حجت ہو۔ علاوہ ازیں قارون نے بھی ایک فاحشہ عورت کو کچھ دے دلا کر اس بات پر آمادہ کرلیا تھا کہ وہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر اپنے ساتھ زناکی تہمت لگا دے۔ پھر جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اسے اللہ کی قسم دے کر پوچھا تو اس پر کچھ ایسا رعب طاری ہوا کہ اس نے صاف انکار کرلیا کہ میں نے قارون کی انگیخت پر یہ تہمت لگائی تھی۔ اور بنی اسرائیل کا موسیٰ علیہ السلام کو اس طرح دکھ پہنچانا اس لحاظ سے اور بھی شدید جرم بن جاتا ہے کہ آپ ہی کے ذریعہ بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات ملی تھی۔ اور ان کی مصر میں وہی حالت تھی جو ہندوستان میں شودروں کی ہے۔ بلکہ اس سے بھی بدتر حالت میں وہاں زندگی گزار رہے تھے۔ [١٠٨] وَجِیْھًا کا دوسرا معنی ایسا آبرو اور رعب والا شخص ہے جس کے متعلق لوگوں کو کچھ اعتراض ہو بھی تو وہ اس کے منہ پر کچھ نہ کہہ سکیں اور ادھر ادھر باتیں کرتے پھریں۔ یہی لفظ اللہ تعالیٰ نے سیدنا عیسیٰ کے لئے استعمال فرمایا اور کہا ﴿وَجِیْھًا فِیْ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ﴾ (٣: ٤٥) یعنی عیسیٰ دنیا میں بھی وجیہ تھے اور آخرت میں بھی وجیہ ہوں گے۔ چنانچہ دنیا میں یہود ان کی پیدائش سے متعلق الزام لگاتے تھے لیکن منہ پر بات کہنے کی کوئی جرات نہ کرتا تھا۔ اس آیت میں روئے سخن غالباً منافقوں کی طرف ہے جو مسلمانوں میں ملے جلے رہتے تھے۔ ورنہ مخلص مومنوں سے یہ بات ناممکن ہے کہ وہ اپنے مجبوب اور محسن اعظم کو دکھ پہنچائیں۔ الأحزاب
70 الأحزاب
71 [١٠٩] راست بازی کے فوائد :۔ ان دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے دین و دنیا میں کامیاب زندگی کا ایک زریں اصول بیان فرما دیا جو کسی انسان کی پوری زندگی کو محیط ہے اور وہ اصول یہ ہے کہ بات سیدھی اور صاف کہا کرو جس میں جھوٹ نہ ہو۔ کوئی ایچ پیچ اور ہیرا پھیرا بھی نہ ہو۔ کسی کی جانبداری بھی نہ ہو۔ بات جتنی ہی ہو اتنی ہی کرو اس پر حاشیے نہ چڑھاؤ۔ اور اپنی طرف سے کمی بیشی بھی نہ کرو۔ اسی کا دوسرا نام راست بازی ہے۔ راست بازی سے بعض دفعہ اپنی ذات کو، اپنے اقرباء کو اور اپنے دوست احباب کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یہ سب کچھ برداشت کرو لیکن راست بازی کا دامن نہ چھوڑو۔ اس لئے کہ اس کے نتائج بڑے مفید اور دوررس ہوتے ہیں۔ اس سے انسان کا وقار قائم ہوتا ہے۔ عزت ہوتی ہے، ساکھ بنتی ہے پھر اس ساکھ سے انسان کو بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ یہ تو دنیوی فوائد ہوئے اور روحانی فوائد یہ ہیں کہ اس سے انسان کے اعمال خود بخود درست ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ایک دفعہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ میں شہادتین کا اقرار کرتا ہوں مگر اسلام لانے کی اپنے آپ میں جرأت نہیں پاتا کیونکہ مجھ میں فلاں عیب بھی ہے اور فلاں عیب بھی اور فلاں بھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا : ’’کیا تم مجھ سے جھوٹ چھوڑنے کا اقرار کرتے ہو؟‘‘ وہ کہنے لگا ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا اسلام منظور ہے۔ چنانچہ جب بھی وہ کوئی قصور کرنے لگتا تو اسے خیال آتا کہ فلاں آدمی یا اللہ کا رسول مجھ سے پوچھے گا یا قیامت کو اللہ پوچھے گا تو اب میں جھوٹ تو بول نہیں سکتا پھر کیا ہوگا۔ اس خیال سے وہ اس عیب سے باز رہتا۔ آہستہ آہستہ اس کے تمام اعمال درست ہوگئے۔ یہ تو صرف جھوٹ چھوڑنے کی بات تھی جبکہ قول سدید جھوٹ ترک کرنے سے بہت اعلیٰ اخلاقی قدر ہے۔ پھر اس سے انسان کے اعمال کیوں درست نہ ہوں گے۔ اور جب اس کے اعمال درست ہوگئے تو سابقہ گناہ اللہ تعالیٰ خود ہی حسب وعدہ معاف فرما دیں گے اور یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہے جبکہ وہ اللہ سے ڈرتا ہو اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مطیع فرمان ہو۔ اور ایسے شخص کی اخروی زندگی بھی بہرحال بہت کامیاب زندگی ہوگی۔ الأحزاب
72 [١١٠] امانت کا بار جو انسان نے اٹھا لیا :۔ امانت سے مراد بار خلافت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا تھا کہ ’’میں دنیا میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں‘‘ اللہ تعالیٰ نے آسمان، زمین اور پہاڑوں جیسی عظیم الجثہ مخلوق کو پیدا کرکے ان سے پوچھا : بتاؤ اگر میں تمہیں قوت ارادہ و اختیار عطا کردوں اور تمہیں عقل و تمیز کی قوت بھی بخش دوں تو بتاؤ تم میرا خلیفہ بننے کو تیار ہو؟ تمہیں وہی کام کرنا ہوگا جو میں کہوں تمہیں نافرمانی کے اختیار کے باوجود میرے احکام پر کاربند رہنا اور اسے نافذ کرنا ہوگا تو یہ تینوں قسم کی عظیم الجثہ مخلوق اس بار عظیم کو اٹھانے سے ڈرگئی اور اسے تسلیم نہ کیا۔ لیکن ان کے مقابلہ میں ضعیف البنیان مخلوق جو ایک منٹ سانس نہ چلنے سے مر بھی سکتی ہے۔ اس بار عظیم کو اٹھانے کے لئے تیار ہوگئی۔ حضرت انسان نے بڑی جرأت سے کہہ دیا کہ مجھے اگر قوت تمیز، عقل و فہم اور ارادہ و اختیار دے دیا جائے تو میں اس بار کو اٹھانے کے لئے تیار ہوں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انسان سے اس بات پر عہد بھی لیا۔ جو عہد الست بربکم کے نام سے مشہور ہے۔ یہ مکالمہ زبان حال سے ہوا تھا یا قال سے؟ یا یہ محض تمثیلی انداز ہے؟ یہ باتیں تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ البتہ اتنا معلوم ہے کہ عہد الست تاقیامت پیدا ہونے والے انسان کی ارواح سے لیا گیا تھا اور اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ انسان میں خلیفہ بننے اور نظام خلافت کو رائج کرنے کی صلاحیت بالقوہ موجود ہے۔ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مکلف مخلوق ایک نہیں بلکہ دو ہیں۔ ایک انسان دوسرے جن لیکن یہاں صرف انسان کا ذکر کیا گیا ہے۔ وہ اس لئے کہ جتنی استعداد اللہ تعالیٰ نے انسان میں رکھی ہے جنوں میں نہیں رکھی۔ اشرف المخلوقات انسان ہے، جن نہیں۔ لہٰذا جن اس مکالمہ میں بالتبع شامل ہیں۔ بالاصل نہیں۔ [١١١] ظَلُوْم اور جھول دونوں ہی مبالغہ کے صیغے ہیں۔ یعنی انسان بڑا ہی ظالم اور بڑا ہی جاہل ہے جو اس نے یہ بار امانت اٹھا لیا۔ وہ ظالم تو اس لحاظ سے ہے کہ تمام مخلوق میں سب سے بلند منصب پر فائز ہونے کی خواہش کی وجہ سے اس نے اس ذمہ داری کو قبول تو کرلیا مگر اس دارالامتحان دنیا میں آکر وہ کچھ دنیا کی رنگینیوں اور دلفریبیوں میں اس قدر محو و مستغرق ہوگیا کہ اسے یہ خیال بھی نہیں آتا کہ وہ کتنی بڑی عظیم ذمہ داری اپنے سر پر لادے ہوئے ہے۔ اس طرح جو امانت اس کے سپرد کی گئی تھی اس میں وہ خیانت کا مرتکب ہوا۔ اور جاہل اس لحاظ سے ہے کہ اس کی ساری توجہ اسی بات کی طرف رہی کہ اسے تمام مخلوق میں سے سب سے اونچا اعزاز ملنے والا ہے۔ مگر اس اعزاز کی ذمہ داریوں کا اندازہ کرنے سے قاصر رہا۔ اکثر انسانوں نے یہ جاننے کی کبھی کوشش ہی نہیں کہ اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے سے اس پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ الأحزاب
73 [١١٢] انسان کو قوت ارادہ و اختیار دینے کا لازمی نتیجہ یہ نکل سکتا تھا کہ کچھ لوگ اس اختیار کا غلط استعمال کریں اور کچھ صحیح۔ پھر چونکہ انسان ظالم اور جاہل بھی ثابت ہوا۔ لہٰذا اس ارادہ و اختیار کا غلط استعمال کرنے والے بہت زیادہ نکلے اور صحیح استعمال کرنے والے ان کے مقابلہ میں بہت کم۔ اور دوسرا نتیجہ یہ نکلا کہ غلط استعمال کرنے والے مشرکوں، کافروں اور منافقوں کو ان کے اعمال کی سزا دی جائے۔ اور جن لوگوں نے اس ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے اپنا طرز زندگی اللہ کی مرضی کے مطابق بنا لیا انھیں اس کا اچھا بدلہ بھی دیا جائے۔ الأحزاب
0 سبأ
1 [ ١] فی الآخرۃ کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ اس دنیا میں اگر کسی انسان کے کارناموں کی تعریف کی جائے۔ تو وہ بالآخر اللہ کی ہی تعریف ہوگی۔ کیونکہ انسان کو ہر طرح کی قوت، صلاحیت اور استعداد عطا کرنے والا اللہ ہی ہے۔ یعنی فی الاخرۃ کا لفظ یہاں بالآخر کا معنی دے رہا ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں تو کچھ اسباب ظاہر ہیں جو سب کو دکھائی دینے یا محسوس ہوتے ہیں لیکن اچھ اسباب ایسے بھی ہیں جن پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ آخرت میں ایسے سب پردے اور جماعت اٹھ جائیں گے اور ہر ایک کو یہ نظر آئے گا کہ قابل تعریف ذات تو صرف اللہ ہی کی ہے۔ [٢] اور حکم اس لحاظ سے ہے کہ اس نے کائنات میں جو چیز بھی بنائی ہے وہ ایک نہیں متعدد مقاصد پورے کر رہی ہے پھر کائنات کے نظام کا مربوط اور منظم ہونا بھی اس کی حکمت کی بہت بڑا دلیل ہے اور باخبر اس لحاظ سے ہے وہ کائنات کے ایک ایک کل پرزے کی براہ راست نگرانی کر رہا ہے اور مدت ہائے دراز گزرنے پر بھی کائنات کے کسی کل پرزے کی کبھی کوئی کمی، کوتاہی یا گڑ بڑا واقع نہیں ہوتی۔ سبأ
2 [ ٣]زمین میں داخل ہونے والی، زمین سےنکلنےوالی، زمنین پراترنے والی اورزمین سے چڑھنے والی اشیاء :۔ زمین میں داخل ہونے والی چیزیں یہ ہیں: ہر قسم کی نباتات کے بیج، بارش کا پانی، تمام جانوروں کے مردہ اجسام۔ اور حشرات الارض وغیرہ اور زمین سے نکلنے والی چیزیں مثلاً کھیتی، پودے، درخت، معدنیات۔ کئی قسم کے تیل اور گیسیں وغیرہ اور آسمان سے اترنے والی چیزیں مثلاً بارش اللہ کی رحمت و برکت، وحی الٰہی، فرشتے وغیرہ اور جو آسمان کی طرف چڑھنے والی چیزیں مثلاً دعا، فرشتے، انسانوں کے اعمال وغیرہ ان سب انواع اور ان کی جزئیات سب کچھ اللہ کے علم میں ہے۔ [ ٤] یعنی انسانوں کی بداعمالیوں پرانھیں فوراً سزا نہیں دے ڈالتا۔ یہ اس کی رحمت کا تقاضا ہے کہ انسانوں کو سنبھلنے کی مہلت دیتا ہے اور جو سنبھل جائے تو اس کی ساتھ لغزشیں معاف بھی کردیتا ہے۔ سبأ
3 [ ٥] جس دعویٰ پر کوئی ظاہری دلیل موجود نہ ہو یا مخاطب اسے تسلیم کرنے سے منکر ہو تو اللہ کی قسم سے اپنے دعویٰ کو موکد کیا جاتا ہے۔ یہاں قسم کھانے والی وہ ہستی ہے جسے کفار مکہ صادق اور امین سمجھتے تھے اولاً تو انھیں اس بات یا دعویٰ پر یقین کرلینا چاہئے تھا کیونکہ وہ صادق اور امین ہے ثانیاً وہ اللہ کی قسم اٹھا کر اپنے دعویٰ کو موکد بنا رہا ہے۔ اور ضمناً اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قیامت کا علم صرف اسے ہوسکتا ہے جو عالم الغیب ہو اور وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ [ ٦] یعنی کائنات کی ہر چھوٹی بڑی، خفیہ اور علانیہ غرض ہر چیز سے اللہ تعالیٰ واقف ہی نہیں بلکہ کائنات میں کوئی بھی چھوٹا یا بڑا پیش آنے والا واقعہ یا حادثہ اس کے پاس پہلے سے لکھا ہوا ہے۔ پھر جب ایسی ذات قیامت کے واقع ہونے کی خبر دے رہی ہے۔ تو پھر اس میں کیا شک و شبہ ہوسکتا ہے۔ سبأ
4 [ ٧] یہ قیامت یا اخروی زندگی پر عقلی دلیل ہے۔ اس دنیا میں بے شمار ایسے افراد موجود ہیں جنہوں نے ایمان لاکر راہ حق میں بے شمار جانی اور مالی قربانیاں دیں اور تمام عمر فقر و فاقہ پریشانیوں اور کفار کے ہاتھوں ظلم وستم سہنے میں گزارا۔ کیا یہ انصاف کا تقاضا نہیں کہ انھیں ان کے اعمال کی جزا دی جائے؟ اور دکھوں کے بدلے انھیں انعامات سے نوازا جائے؟ لہٰذا ضروری ہے کہ اللہ انسانوں کو ایک دوسری زندگی عطا فرمائے۔ جس میں ہر شخص کو اس کے اعمال کے مطابق بدلہ دیا جائے۔ سبأ
5 [ ٨] یعنی ایسی سازشوں اور کوششوں میں اپنی ساری عمر گزار دی کہ کہیں اسلام کو غلبہ اور سربلندی حاصل نہ ہوجائے۔ یا اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے عقیدہ آخرت کا مذاق اڑاتے ہیں۔ وہ اللہ کی گرفت سے بچ نہیں سکتے اور انھیں ان کے ناپاک ارادوں کے عوض عذاب بھی اسی قسم کا دیا جائے گا۔ سابقہ آیات میں ایمانداروں کے لئے رزق کریم اور مغفرت دونوں کا ذکر فرمایا جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مصائب و مشکلات اور فقر و فاقہ میں زندگی گزارنے والے مومنوں کو عزت کی روزی بھی ملے گی اور مغفرت بھی ہوگی اور جن ایمانداروں کو ابتلاء کا دور دیکھنا ہی نہیں پڑا ان کی بھی مغفرت ضرور ہوجائے گی۔ اسی طرح جن کافروں کا جرم صرف کفر تک ہی محدود رہا اور انہوں نے مخالفانہ اور معاندانہ سرگرمیوں اور سازشوں میں حصہ نہیں لیا انھیں صرف جہنم کا عذاب ہوگا۔ جو ناپاک قسم کا اور ذلیل و خوار کرنے والا نہ ہوگا۔ سبأ
6 سبأ
7 [ ٩] یعنی اہل علم و دانش لوگ اللہ کی آیات، عقیدہ آخرت، انسانوں کی دوبارہ زندگی۔ اللہ کے حضور جواب دہی کا تصور اور اچھے اور برے اعمال کا بدلہ ملنے پر اس طرح یقین رکھتے ہیں جیسے وہ یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ کفار اللہ کی آیات کا مذاق اڑانے سے ضدی، ہٹ دھرم اور جاہل قسم کے لوگوں کو گمراہی میں مبتلا کرسکتے ہیں مگر اہل علم ان کے فریب میں نہیں آسکتے۔ سبأ
8 [ ١٠] کفار مکہ کامسلمانوں سےتین باتوں میں عقائدکااختلاف :۔ کفار مکہ آپ کو جھوٹا نہیں کہہ سکتے تھے۔ کیونکہ یہ بات ان کے زندگی بھر کے تجربہ کے خلاف تھی۔ لیکن وہ آپ کی دعوت کو بھی تسلیم کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت میں تین باتیں تھیں جو انھیں ناگوار تھیں یا جن پر وہ ایمان نہیں رکھتے تھے۔ (١) وہ اس زمین و آسمان یا کائنات کے فنا ہونے کا یقین نہیں رکھتے تھے۔ بالفاظ دیگر وہ قیامت کے قائم ہونے کے قائل نہیں تھے۔ (٢) وہ بعث بعدالموت کے بھی قائل نہیں تھے۔ یعنی جب انسان مر کر مٹی میں مل کر مٹی بنا جائے تو اس کا دوبارہ جی اٹھنا ان کے خیال کے مطابق ناممکنات سے تھا۔ اور (٣) اسی کے نتیجہ میں وہ آخرت کے ثواب و عذاب کے بھی قائل تھے۔ لہٰذا وہ اپنی دنیوی زندگی میں احکام الٰہی کا پابند بن جانے کے بجائے آزاد رہنا ہی پسند کرتے تھے۔ جب بھی ان لوگوں نے مذاق اڑایا تو انھیں باتوں کا اور ان میں سے بھی پہلی دو باتیں تو وہ اکثر مختلف پرایوں میں دہراتے رہتے تھے۔ اس آیت میں ان کے سوال کا انداز تمسخر کا ہے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اس نبی کی یہ دعوت دو ہاتھوں سے خالی نہیں ہوسکتی۔ یا تو وہ اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے یا پھر اس کی عقل جواب دے گئی ہے۔ [ ١١]ولیدبن مغیرہ کےہاں مجلس مشاورت:۔ وہ خود بھی بھی اپنے ان دونوں احتمالات کو درست نہیں سمجھتے تھے اور سرداران قریش اپنی نجی گفتگو میں خود بھی ان احتمالات پر مطمئن نہ ہوسکے۔ نہ ایک دوسرے کو مطمئن کرسکے تھے۔ آپ کے صادق ہونے کا تقاضا یہ تھا کہ جو شخص لوگوں سے جھوٹ نہیں بولتا وہ اللہ کے بارے میں کیسے جھوٹ بول سکتا ہے؟ اور دیوانگی کی بات تو اور بھی زیادہ مہم تھی۔ یہی سرداران قریش جب ولید بن مغیرہ کے ہاں اکٹھے ہوئے تو زیربحث یہی موضوع تھا کہ ہم اس نبی کی دعوت کو کیسے روک سکتے ہیں اور لوگوں کو اس کے متعلق کیا کہہ سکتے ہیں تو ایک سردار نے یہ کہا تھا کہ ہم دوسروں سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ دیوانہ ہے۔ تو ولید بن مغیرہ رئیس قریش نے کہا تھا: ’’اللہ کی قسم! وہ دیوانہ بھی نہیں، ہم نے دیوانوں کو دیکھا ہے اس کے اندر دیوانوں جیسی دم گھٹنے کی کیفیت ہے، نہ الٹی سیدھی حرکتیں ہیں اور نہ ان جیسی بہکی بہکی باتیں ہیں‘‘ ولید بن مغیرہ کا یہ جواب بھی صرف سلبی انداز سے دیوانگی کی تردید تھا کیونکہ وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن تھی۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ آپ کے دوسرے لوگوں سے معاملات اور آپ کی بلندی کردار اور معقول دلائل گفتگو سے کوئی ناواقف آدمی ایک آپ کے عظیم انسان ہونے کا با اسانی اندازہ لگا سکتا تھا۔ دیوانگی کا تصور تو بڑی دور کی بات تھی۔ اللہ تعالیٰ نے کافروں کی تینوں باتوں میں سے بالخصوص تیسری بات کو انکار کی اصل وجہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ لوگ روز آخرت کا انکار اس بنا پر نہیں کرتے کہ انھیں آخرت کے دلائل کی سمجھ نہیں آرہی یا نہیں آسکتی۔ بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ آخرت کی باز پرس سے ڈرتے ہیں اور یہ سمجھ رہے ہیں کہ بس کبوتر کے آنکھیں بند کرنے سے بلی از خود غائب ہوجائے گی۔ انہوں نے خود ہی اپنی آنکھیں حقائق کو دیکھتے اور ان کا مردانہ وار مقابلہ کرنے سے بند کر رکھی ہیں۔ اور اسی طریق کار سے مسلسل آگے بڑھتے جارہے ہیں۔ سبأ
9 [ ١٢] وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اس زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا اور اس کائنات کا انتظام چلانے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ اور یہی زمین و آسمان انھیں ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔ اس کی حدود سے وہ باہر نہیں جاسکتے۔ زمین کا مالک اللہ ہے وہ زمین کو حکم دے کر انھیں پکڑلے یا اندر جذب کرلے تو زمین کی مجال نہیں کہ وہ اللہ کے حکم سے سرتابی کرے۔ آسمان سے بھی وہ ان پر عذاب نازل کرسکتا ہے اور زمین کے نیچے سے بھی۔ پھر آخر یہ کس برتے پر اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت پر تلے بیٹھے ہیں۔ [ ١٣] نظام کائنات میں صرف ایک نشانی نہیں بے شمار نشانیاں ہیں۔ مگر یہ نشانیاں ہر ایک کے لئے نہیں بلکہ صرف اس شخص کے لئے ہیں جو عقل و انصاف اور سوچ سمجھ سے کام لے کر اس کائنات کے خالق کی طرف جھکتے اور رجوع ہوتے ہیں۔ وہ اس مربوط اور منظم نظام کائنات کو دیکھ کر فوراً اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ یہ کسی حکیم و خبیر ہستی کا قائم کردہ نظام ہے۔ اور چونکہ اللہ نے کوئی بھی چیز بے مقصد پیدا نہیں کی لہٰذا یہ نظام ضرور ایک دن کسی اعلیٰ و اکمل نتیجہ پر پہنچنے والاہے۔ یہ انداز فکر انھیں اپنے خالق و مالک کی طرف سے مزید دیتا ہے۔ آگے اللہ اپنے ایک رجوع کرنے والے بندے حضرت داؤدعلیہ السلام اور ان پر اپنے انعامات کا ذکر فرما رہے ہیں۔ سبأ
10 [ ١٤] وہ بزرگی یہ تھی کہ آپ بچپن میں محض ایک گڈریے تھے۔ اور بکریاں چرایا کرتے تھے۔ پھر اللہ نے آپ کو حکومت بھی عطا فرمائی اور نبوت بھی۔ اور یہ تفصیل پہلے سورۃ بقرہ کی آیات نمبر ٢٥١ کے تحت گزر چکی ہے۔ [ ١٥] آپ کی خوش الحانی، پہاڑوں اور پرندوں کی آپ سے ہم آہنگی کے لئے (دیکھو سورۃ انبیاء کی آیت نمبر ٧٩ کا حاشیہ نمبر ٦٧) [ ١٦] آپ کے ہاتھ میں لوہے کا نرم ہونا اور آپ کے لوہے کی زرہیں بنانے کے لئے (دیکھئے سورۃ انبیاء کی آیت نمبر ٨٠ کا حاشیہ نمبر ٦٨) سبأ
11 [ ١٧] آپ کے نیک اعمال میں سے ایک قابل ذکر نیک عمل یہ بھی تھا کہ آپ بادشاہ اور نبی ہونے کے باوجود اپنے ذاتی اخراجات کا بار بھی بیت المال پر ڈالنا گوارا نہ کرتے تھے۔ بلکہ زرہیں بنا کر ان کی آمدنی سے بسر اوقات کرتے تھے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ مقدام بن معدیکرب کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’کسی آدمی کے لئے اس سے بہتر کوئی کھانا نہیں جسے وہ اپنے ہاتھ سے محنت کرکے کھائے اور اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ سے (زرہ بنا کر) کھایا کرتے تھے‘‘ (بخاری۔ کتاب البیوع۔ باب کسب الرجل و بعمله بیدہ ۔۔) سبأ
12 [ ١٨] تشریح کے لئے دیکھئے (سورہ انبیاء کی آیت نمبر ٨١ کا حاشیہ نمبر ٦٩) [ ١٩] سیدنا سلیمان علیہ السلام اور تانباپگھلانے کافن:۔ اس کی دو توجیہات بیان کی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ آپ کے عہد حکومت میں یمن میں تانبے کا ایک پگھلا ہوا چشمہ نکل آیا تھا اور دوسری یہ کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کے والد داؤد علیہ السلام کو لوہا پگھلانے کا فن عطا فرمایا تھا۔ اور آپ سے اس سے زرہیں بنایا کرتے تھے، اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کو تانبا پگھلانے کا فن عطا فرمایا تھا۔ آپ وسیع پیمانے پر تانبا پگھلاتے۔ پھر اس کو سانچوں میں ڈال کر خبات بڑے بڑے برتن، دیگیں اور لگن وغیرہ تیار کرتے تھے۔ جن میں ایک لشکر کا کھانا پکتا اور کھلایا جاتا، یہ تو سرکاری ضروریات تھیں۔ علاوہ ازیں آپ تانبے کی اشیاء عام لوگوں کی ضروریات کے لئے بھی بناتے تھے۔ [ ٢٠]جنوں کا آپ کےلیے مزدوروں کی طرح کام کرنا:۔ اس مقام پر جن کا لفظ آیا ہے۔ جبکہ سورۃ انبیاء کی آیت نمبر ٨٢ میں انہی معنوں میں شیاطین کا لفظ آیا ہے۔ بات ایک ہی ہے جن کا لفظ اسم جنس ہے۔ جبکہ شیاطین کا اطلاق صرف سرکش اور متکبر قسم کے جنوں پر ہوتا ہے۔ (اور شیاطین انسانوں میں سے بھی ہوسکتے ہیں) یہ جن معمولی قلیوں، خدمتگاروں اور مزدوروں کی طرح آپ کے کام کرتے اور آپ کے حکم پر چلتے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے جنوں کو حضرت سلیمان کا تابع بنا رکھا تھا اور وہ آپ کی اطاعت پر مجبور تھے۔ اگر وہ ذرا بھی سرکش کرتے تو آگ میں پھونک دیئے جاتے تھے۔ کہتے ہیں کہ ان جنوں پر اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ مقرر کردیا تھا۔ جس کے ہاتھ میں آگ کا کوڑا ہوتا۔ جو کوئی جن حضرت سلیمان علیہ السلام کی نافرمانی کرتا یہ فرشتہ اس کو کوڑا مار کر جلا دیتا تھا۔ سبأ
13 [ ٢١] یہ جنات حضرت سلیمان علیہ السلام کے آرڈر کے مطابق بڑے بڑے محل، مساجد، قلعے، مختلف مسجدوں کے ماڈل یا سینیریوں کے ماڈل، بڑے بڑے لگن اور اتنی بڑی دیگیں بناتے تھے جو بڑی بوجھل اور ناقابل حمل و نقل ہونے کی وجہ کسی خاص مقام پر نصب کردی جاتی تھیں اور ان میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکروں کے لئے کھانا تیار کیا جاتا تھا۔ بعض لوگوں نے جنوں یا شیاطین سے دیہاتی مضبوط قسم کے انسان مراد لئے ہیں یہ توجیہ غلط اور قرآن کے سیاق و سباق کے خلاف ہے۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے سورۃ انبیاء کی آیت ٨٢ کا حاشیہ) [ ٢٢] یعنی ایسے عمل کرو جو شکرگزار بندے کیا کرتے ہیں۔ شکر گزار بندے ایک تو وہ ہر وقت اللہ کا شکر ادا کرتے رہتے ہیں اور اس کی نعمتوں کا ہر ایک سامنے برملا اعتراف کرتے ہیں۔ پھر وہ جو کام بھی کرتے ہیں اللہ کی مرضی کے مطابق کرتے ہیں اور اس کی رضا کے لئے کرتے ہیں۔ اور شکر گزار بندے تھوڑے ہی ہوتے ہیں اور جو چیز تھوڑی ہو اس کی قدرو منزلت بڑھ جاتی ہے۔ یعنی اگر تم شکرگزار بن جاؤ گے تو میرے ہاں تمہاری قدرومنزل اور بڑھ جائے گی۔ کہتے ہیں کہ اس حکم کے بعد داؤدعلیہ السلام نے دن اور رات کے پورے اوقات اپنے گھر والوں پر تقسیم کر رکھے تھے اور کوئی وقت ایسا نہ ہوتا تھا جبکہ آپ کے گھر کا کوئی نہ کوئی اللہ کی عبادت میں مصروف نہ رہتا ہو۔ سبأ
14 [ ٢٣] جن اورہیکل سلیمانی کی تعمیر:۔ جس وقت حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب آگیا اور آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اشارہ ہوگیا کہ اب دنیا سے رخصت ہونے والے ہیں۔ اس وقت آپ نے جنوں کو بیت المقدس کی تعمیر پر لگایا ہوا تھا جسے ہیکل سلیمانی کہتے ہیں۔ اس وقت تعمیر کا ابھی خاصا کام باقی تھا۔ آپ نے باقی کام کا پورا نقشہ جنوں کے سربراہ کے حوالہ کردیا اور پوری طرح مکمل کام سمجھا دیا تھا۔ پھر اپنے عبادت خانے میں آکر عبادت میں کھڑے ہوگئے۔ اور اپنی لاٹھی سے ٹیک لگا لی۔ سیدناسلیمان کی وفات اورجنوں کاکام کرتے رہنا :۔آپ کا یہ عبادت خانہ ایسا تھا جس میں شیشے کی کھڑکیاں تھیں اور باہر سے دیکھنے والا حضرت سلیمان کو عبادت میں مصروف دیکھ سکتا تھا۔ آپ عبادت میں کھڑے ہوئے تو اسی حالت میں فرشتے نے روح قبض کرلی اور آپ لاٹھی کے سہارے کھڑے کے کھڑے ہی رہے۔ جن اور بعض دوسرے لوگ آپ کو کبھی کبھار عبادت میں مصروف دیکھ جاتے تھے۔ اسی حالت میں تقریباً چار ماہ گزر گئے۔ چار ماہ بعد ادھر بیت المقدس کی تعمیر مکمل ہوئی اور ادھر وہ لاٹھی ٹوٹ گئی جس کے سہارے آپ کی میت کھڑی تھی۔ لاٹھی کو اندر ہی اندر دیمک نے چاٹ کر ختم کردیا تھا۔ لاٹھی ٹوٹی تو آپ کی میت گر پڑی۔ تب لوگوں کو اور تعمیر پر متعین جنوں کو معلوم ہوا کہ حضرت سلیمان تو بہت عرصہ پہلے کے فوت ہوچکے ہیں۔ اس وقت جنوں کو سخت افسوس ہوا کہ وہ اتنا عرصہ مفت میں محنت مشقت جھیلتے رہے۔ اس وقت جنوں کی یہ غلط فہمی دور ہوگئی کہ وہ غیب جانتے ہیں اور ان لوگوں کی بھی جو یہ سمجھتے تھے کہ جن غیب جانتے ہیں اور اپنے اسی اعتقاد کی بنا پر جنوں کی تسخیر کے لئے طرح طرح چلے کاٹتے اور پاپڑ بیلتے تھے۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ جس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہے اس کے لئے کیسے کیسے اسباب مہیا کردیتا ہے۔ سبأ
15 [ ٢٤جن بھی غیب نہیں جانتے:۔ یہاں نشانی سے مراد تاریخی شہادت ہے اور وہ یہ ہے کہ جب تک کوئی قوم اللہ کی فرمانبردار اور شکر گزار بن کر رہتی ہے وہ پھلتی پھولتی اور ترقی کی منازل طے کرتی جاتی ہے اور جب وہ اللہ کی نافرمانی اور ناشکری کرنے لگے تو بتدریج زوال آنا شروع ہوجاتا ہے اور اگر وہ اپنا رویہ نہ بدلے تو اسے صفحہ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے یہی حال قوم سبا کا ہوا تھا۔ [ ٢٥] قوم سباکےحالات:۔ قوم سبا کا علاقہ عرب کا جنوب مغربی علاقہ تھا۔ اور یہی علاقہ آج کل یمن کا علاقہ کہلاتا ہے۔ سبا دراصل ایک شخص کا نام تھا جس کے دس بیٹے تھے۔ بعد میں یہی دس قبیلے بن گئے انہی میں سے چار بیٹے اپنے خاندان سمیت شام کی طرف منتقل ہوگئے تھے۔ اس قوم کے عروج و زوال کا زمانہ تیرہ صدیوں پر محیط ہے (٧٠٠ ق م تا ٤٥٠ء) ایک زمانہ تھا جب تہذیب و تمدن کے لحاظ سے اسی قوم کا طوطی بولتا تھا اور روم اور یونان کی تہذیبیں ان کے سامنے ہیچ تھیں۔ زراعت اور تجارت کے میدان میں ان لوگوں نے خوب ترقی کی۔ ان لوگوں کا آب پاشی کا نظام نہایت عمدہ تھا۔ اس علاقہ کے دو طرف پہاڑی سلسلے تھے۔ جگہ جگہ ان لوگوں نے بارش کا پانی روکنے اور ذخیرہ رکھنے کے لئے بند بنا رکھے تھے۔ ان کا دارالخلافہ مآرب تھا اور سب سے اعلیٰ اور بڑا عظیم الشان بند بھی اسی جگہ تعمیر کیا گیا تھا جو سد مآرب کے نام سے معروف تھا۔ ان کے علاقہ کے دونوں طرف پہاڑوں کے دامن میں باغات کا سینکڑوں میلوں میں پھیلا ہوا سلسلہ موجود تھا اور انسان کو یوں معلوم ہوتا تھا کہ جس جگہ وہ کھڑا ہے اس کے دونوں طرف باغات ہی باغات ہیں۔ [ ٢٦] قوم سباپراللہ تعالیٰ کےاحسانات اور زرعی نظام:۔ بارشوں کے لحاظ سے یہ علاقہ کچھ اتنا زرخیز نہیں تھا۔ مگر ان لوگوں کے نظام آبپاشی کی عمدگی کی وجہ سے ملک کے اندر تین سو مربع میل کا علاقہ جنت نظیر بن گیا تھا۔ جس میں انواع و اقسام کے پھلوں کے درخت بھی تھے جن کی خوشبو سے یہ پوری سرزمین معطر بن گئی تھی اور کھیتی بھی خوب پیدا ہوتی تھی۔ اندرون ملک بخورات، دارچینی اور کھجور کے نہایت بلند و بالا درختوں کے جنگل تھے اور ان سے میٹھی میٹھی خوشبو تمام فضا کو خوشبودار بنا دیتی تھی۔ اور جب ہوا چلتی تو اس خوشبو سے سب لوگ لطف اندوز ہوتے تھے۔ اسی علاقہ کو اللہ تعالیٰ نے بَلَدَۃٌ طَیِّبَۃٌکے الفاظ سے تعبیر فرمایا۔ یعنی سرسبزی، زرخیزی، فضا کا خوشبو سے ہر وقت معمور رہنا، موسم اور آب و ہوا میں اعتدال، رزق کی فراوانی اور سامان عیش و شرت کی بہتات یہ وہ نعمتیں تھیں جو اللہ تعالیٰ نے عطا کر رکھی تھیں۔ مآرب کے ایک پہاڑی علاقہ میں گنجان درختوں کے درمیان حکمرانوں کے محلات واقع تھے۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی نعمتوں کی بارش کر رکھی تھی۔ سبأ
16 [ ٢٧] بیراج اورڈیموں کا نظام:۔پھر جب یہ قوم اپنی خوشحالی میں ہی مست ہو کر رہ گئی اور دنیا کے مال و دولت اور اس کی دلفریبیوں میں مستغرق ہو کر اپنے منعم حقیقی کو یکسر بھلا دیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف انبیاء مبعوث فرمائے۔ کہتے ہیں وقتاً فوقتاً ان کی طرف تیرہ انبیاء مبعوث ہوئے تھے۔ لیکن ہر بدمست قوم کی طرف انہوں نے بھی یہی سمجھا کہ ان کی اس معاشی ترقی اور زرعی ترقی کا اصل سبب تو ہمارا اپنا نظام آب پاشی یا ہماری اپنی ذہانت اور محنت ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے انعامات کا کیا دخل ہے۔ تو انہوں نے انبیاء کی دعوت کو رد کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں سنبھلنے کی کافی مہلت دی لیکن انہوں نے اس سے کچھ بھی فائدہ نہ اٹھایا۔ تو آخر ان پر اللہ کی گرفت کا وقت آگیا۔ ان کا سب سے بڑا اور عالیشان بند (ڈیم) مآرب میں تھا جس میں بہت سے لوہے کے دروازے لگے ہوئے تھے۔ جنہیں بوقت ضرورت اٹھا لیا جاتا اور پانی چھوڑ دیا جاتا۔ ان دروازوں کا دوسرا بڑا فائدہ یہ تھا کہ وہ جس طرح چاہتے پانی کا رخ موڑ لیتے اور نہروں کے ذریعہ قابل کاشت زمین کو سیراب کرلیتے تھے۔ سباپرسیلاب کا عذاب:۔ اسی بند میں نیچے رخنے پڑنے شروع ہوگئے اوپر سے اللہ تعالیٰ نے زور دار بارش برسا دی اور پانی اس قدر وافر مقدار میں آجمع ہوا جس نے اس بند کو توڑ پھوڑ دیا۔ اس کے پانی میں اتنی فراوانی اور بہاؤ میں اتنی شدت تھی جس سے باقی بند بھی از خود ٹوٹتے چلے گئے اور یہ سارا قابل کاشت علاقہ زیر آب آگیا۔ جس سے فصلیں اور کھیتیاں سب کچھ گل سڑ کر تباہ و برباد ہوگئیں۔ جب کچھ مدت بعد زمین خشک ہوئی تو پورے آب پاشی کے نظام کی تباہی کے باعث اس سرزمین میں کوئی چیز بھی بار آور نہ ہوسکتی تھی۔ اب وہی سرزمین جو سونا اگلا کرتی تھی اس سرزمین پر جھاڑ جھنکار، خار دار پودے، تھوہر کے درخت اور اسی قبیل کی دوسری چیزیں از خود پیدا ہوگئیں۔ جنہیں اکھاڑے بغیر نئی فصل کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اور یہ خاصا محنت طلب کام تھا آجا کے اگر کوئی کھانے کی چیز وہاں اگی تو وہ چند بیریوں کے درخت تھے جن سے وہ کسی حد تک اپنا پیٹ بھرسکتے تھے۔ یہ تھا ان کی زرعی ترقی کا حشر جس پر وہ اس قدر پھولے ہوئے تھے۔ سبأ
17 [ ٢٨] یعنی یہ سزا کچھ قوم سبا سے ہی مختص نہ تھی بلکہ جو قوم بھی اللہ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کے بعد اپنے محسن حقیقی کو بھول جاتی ہے اور اس کا شکر ادا کرنے کے بجائے سرتابی کی راہ اختیار کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ وہ اس قوم کو ایسے ہی انجام سے دوچار کردیتا ہے۔ سبأ
18 [ ٢٩]تجارتی نظام:۔ ان کی ترقی اور خوشحالی کی دوسری وجہ ان کا تجارتی نظام تھا۔ ان کے تجارتی قافلے اپنے علاقہ (موجودہ یمن) سے لے کر شام تک جاتے تھے اور یہ شام ہی کی سرزمین ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر ’’ایسی سرزمین جسے ہم نے برکت دے رکھی ہے‘‘ کے الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ ان دنوں یہ چار ماہ کا سفر تھا اور اس تجارتی شاہراہ کو اللہ تعالیٰ نے ''امام مبین'' کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے اسی تجارتی شاہراہ پر قریش کے تجارتی قافلے مکہ سے شام تک سفر کرتے تھے۔ یہ تجارتی شاہراہ اس لحاظ سے تھی کہ برلب سڑک اور نزدیک نزدیک آبادیاں موجود تھیں۔ جہاں مسافروں کو کھانا پانی مل سکتا تھا ایک بستی پر انسان پہنچ جائے تو اگلی بستی سامنے نظر آنے لگتی تھی (اور یہ قریً ظَاھِرَۃً کا مطلب ہے) اس شاہراہ کی بڑی خوبی یہ تھی کہ کوئی شخص جس وقت بھی آرام کرنا چاہتا تو وہ کرسکتا تھا اور آرام کرنے کے لئے اگلی منزل اس کے قریب ہی ہوتی تھی۔ پھر چونکہ اس شاہراہ پر بکثرت آمدروفت رہتی تھی اس لئے لوٹ مار کا بھی اس پر اتنا خطرہ نہیں ہوتا تھا۔ جتنا کہ عرب کے دوسرے علاقوں میں تھا۔ اس لحاظ سے ان کا یہ تجارتی سفر دوسرے علاقوں کی نسبت بہت آسان بھی تھا اور پرامن بھی۔ سبأ
19 [ ٣٠] جب انسان مال و دولت کے نشہ میں مست ہوجاتا ہے اور اسے ہر طرف سے فرسودگی اور آسانیاں ہی میسر ہونے لگتی ہیں تو بعض دفعہ وہ اسی مستی میں بعض انہونی باتیں بھی بکنے لگتا ہے کہ لوگ جو سفر سے متعلق ایسی اور ایسی مشکلات بیان کرتے ہیں کہ اتنے دن کچھ کھانے کو ملا نہ پینے کو، یا ہم فلاں مقام پر جاکر راستہ بھول گئے تو ہمیں کوئی آدم زاد نظر نہ آتا تھا جس سے راستہ ہی پوچھ سکیں وغیرہ وغیرہ چنانچہ وہ آرزو کرنے لگے کہ ہمارا بھی کوئی سفر تو ایسا بھی ہونا چاہئے ممکن ہے ان لوگوں نے یہ بات زبان قال سے نہ کہی ہو زبان حال سے کہی ہو۔ یعنی دل میں ایسے خیالات آنے لگے ہوں۔ [ ٣١] زراعت کےعلاوہ تجارت کی بھی تباہی:۔ جب ان لوگوں کی زرعی معیشت تباہ ہوگئی تو یہی چیز ان کی تجارتی ترقی کی تباہی کا باعث بن گئی۔ جب اپنے مال کی پیداوار ہی ختم ہوجائے تو پھر تجارت کیسی؟ اگر بیرون ملک کی چیزیں ہی خریدی جائیں اور بیرون ملک ہی بیچی جائیں تو ان سے آخر کتنا منافع ہوسکتا ہے۔ اور اس کا دوسرا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ کثیر آبادیاں جو اس شاہراہ کے کنارے آباد تھیں۔ وہاں سے اٹھ کر دوسرے مقامات کی طرف چلی گئیں کیونکہ ان کی معیشت کا انحصار بھی زیادہ تر انہی تجارتی قافلوں کی اشیائے خوردنی کی خرید و فروخت پر تھا۔ اس طرح سبا کی تمام نو آبادیاں تباہ و برباد ہو کر رہ گئیں۔ [ ٣٢] صَبَّار اور شَکُوْرٌ دونوں مبالغے کے صیغے ہیں اور یہ ایک مومن کی پوری طرز زندگی پر محیط ہیں۔ اور یہ دونوں لازم و ملزوم ہوتی ہیں۔ مومن کی شان یہ ہوتی ہے کہ جب اسے اللہ کی طرف سے نعمتیں عطا ہوتی ہیں تو وہ شکر بجا لاتا ہے اور زندگی بھر اس کا یہی معمول ہوتا ہے اور جب اسے کوئی مصیبت پیش آتی ہے وہ اسے صبر و استقامت سے برداشت کرتا ہے اور آئندہ کے لئے اللہ کی رحمت کا امیدوار رہتا ہے۔ اس آیت کا یہی مفہوم ہے اور ہر مومن خوب سمجھ سکتا ہے کہ قوم سبا کے عروج کے اصل اسباب کیا تھے اور ان کی بربادی اور ہلاکت کا اصل سبب کیا چیز تھی۔ سبأ
20 [ ٣٣] جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کرکے فرشتوں کو سجدہ کا حکم دیا تو ابلیس نے سجدہ سے انکار کردیا تھا اور جب آدم و ابلیس کی آپس میں ٹھن گئی تو ابلیس آدم کو چکمہ دینے پر اور اللہ کی نافرمانی پر اکسانے میں کامیاب ہوگیا تو اس وقت ہی اس نے یہ خیال ظاہر کردیا تھا اور اللہ تعالیٰ کو برملا کہہ دیا تھا کہ میں اولاد آدم کے اکثر حصہ کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہوجاؤں گا۔ تھوڑے ہی تیرے ایسے بندے ہوں گے جو تیرے شکرگزار بن کر رہیں گے۔ قوم سبا کے حالات سے بھی یہی نتیجہ سامنے آتا ہے اور دوسری اقوام کے حالات سے بھی کہ ابلیس فی الواقعہ ایسا گمان کرنے میں سچا تھا۔ سبأ
21 [ ٣٤] شیطان کن راہوں سے انسان کو گمراہ کرتاہے؟ابلیس کے پاس کوئی ایسی طاقت نہیں کہ وہ زبردستی لوگوں کو اللہ کی راہ سے اپنی راہ پر ڈال دے۔ وہ صرف یہی اختیار رکھتا ہے کہ انسان کے دل میں وسوسہ ڈال سکے۔ اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں کرسکتا اور شیطان کے انسان کو گمراہ کرنے کے سب سے زیادہ موثر تین طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ انسان کو شرک کی نئی سے نئی راہیں بڑے خوبصورت انداز میں پیش کردیتا ہے۔ اور دوسرے اسے عقیدہ آخرت کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا کردیتا ہے۔ یا عقیدہ آخرت میں ایسے جزوی عقائد شامل کردیتا ہے کہ عقیدہ آخرت کا اصل مقصد ہی فوت ہوجائے اور عقیدہ آخرت کا صحیح مفہوم ہی وہ چیز ہے جو انسان کو اللہ تعالیٰ کی سیدھی راہ پر قائم رکھ سکتا ہے اور اس کا تیسرا وار اس کے لباس پر ہوتا ہے اور وہ لوگوں کو عریانی، بے حیائی اور فحاشی کی راہیں خوبصورت انداز میں سجھاتا رہتا ہے۔ [ ٣٥] یعنی اللہ یہ بات بھی خوب جانتا ہے کہ اس نے ابلیس کو کس حد تک لوگوں کو گمراہ کرنے کا اختیار دے رکھا ہے اور وہ یہ خوب جانتا ہے کہ ابلیس صرف ان لوگوں کو ہی گمراہ کرسکتا ہے جو پہلے سے شیطان کے اشارے کے منتظر بیٹھے ہوتے ہیں۔ اور جو لوگ اللہ اور روز آخرت پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ وہ اس کے چکمے میں نہیں آتے اور کبھی آبھی جائیں تو انھیں جلد ہی اس بات کا احساس ہوجاتا ہے اور فوراً پھر اللہ کی طرف پلٹ آتے ہیں۔ سبأ
22 [ ٣٦] یعنی ان کفار مکہ سے کہئے کہ میرا پروردگار وہ ہے جو کائنات کی ہر چیز کا خالق ہے جو اس کا شکر ادا کرتا ہے اسے وہ نعمتوں سے نوازتا ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ کے شاکر بندے تھے تو اللہ نے انھیں بے شمار نعمتوں سے نوازا تھا۔ اور قوم ”سبا “نے اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے انھیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا تھا۔ اب تم بتلاؤ کہ جن معبودوں کو تم پکارتے ہو ان میں سے کوئی ایسا کام کرسکتا ہے؟ اگر تمہیں کچھ شک ہے تو انھیں پکار کے دیکھ لو کہ کیا وہ آڑے وقت کسی کے کام آسکتے ہیں؟ اس بات کو اس پہلو سے بھی سمجھو کہ کائنات میں کسی بھی چیز پر ان کا کچھ اختیار ہے؟ نہ انہوں نے کسی چیز کو بنایا ہے، نہ ہی کسی چیز کی تخلیق میں ان کی شرکت ہے۔ نہ ہی ان کا ظاہری اور باطنی اسباب پر کچھ کنٹرول ہے پھر وہ تمہاری بگڑی کو سنوار کیسے سکتے ہیں اور فائدہ کیا پہنچا سکتے ہیں؟ فائدہ یا نقصان تو وہی ہستی پہنچا سکتی ہے جس کے پاس کچھ ایسے اختیارات بھی ہوں۔ اور جو چیز خود بے اختیار اور مجبور محض ہے اس سے نفع یا نقصان کی کیسے توقع کی جاسکتی ہے؟ سبأ
23 [ ٣٧]اللہ کے ہاں سفارش کا ضابطہ:۔ اکثر مشرکوں کا اپنے معبودوں کے متعلق یہ عقیدہ بھی پایا جاتا ہے کہ وہ بڑے خدا یعنی اللہ کے ہاں ان کی سفارش کرتے ہیں اگرچہ کام بنانے والا اللہ ہی ہوتا ہے۔ ہمارے یہ معبود یا بزرگ اللہ کے ہاں ہماری سفارش کرکے ہمارے کام اللہ سے کروانے کا سبب ہوتے ہیں لہٰذا اللہ تعالیٰ نے سفارش کے متعلق بھی اپنا ضابطہ بیان فرما دیا۔ اور یہ ضابطہ پہلے قرآن میں متعدد بار گزر چکا ہے۔ مختصراً یہ کہ (١) اللہ کے ہاں سفارش وہی شخص کرسکے گا، جس کو اللہ کی طرف سے اجازت ملے گی۔ یہ کیا معلوم کہ جسے تم نے سفارشی سمجھ رکھا ہے۔ اسے اجازت بھی ملتی ہے یا نہیں، (٢) اس شخص کے حق میں سفارش کی جاسکے گی، جس کے متعلق اللہ چاہے اور تمہیں یہ کیسے معلوم ہوسکتا ہے کہ تمہارے حق میں اللہ کی طرف سے سفارش کی اجازت کسی کو ملتی ہے یا نہیں؟ (٣) اور صرف اس گناہ کی مغفرت کی سفارش کی جاسکتی ہے جس کے متعلق اللہ چاہے۔ یہ قید سفارش کے تصور کو اور بھی محدود بنا دیتی ہے۔ پھر تم کس خیال میں ان معبودوں یا بزرگوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہو۔ بروقت اپنی فکر خود کرلو اور کسی کی سفارش پر تکیہ مت رکھو۔ [ ٣٨]اللہ تعالیٰ کاجلال اور دہشت:۔ تم اللہ کے ہاں سفارش کی بات کرتے ہو جس کی جلالت اور عظمت شان کا یہ حال ہے کہ جب اس کی طرف سے کوئی حکم نازل ہوتا ہے تو اس کے پاس رہنے والے مقرب فرشتے تھر تھر کانپنے لگتے ہیں اور گھبرا جاتے ہیں۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے لئے از راہ عاجزی اپنے پر مارتے ہیں اور ایسی آواز آتی ہے جیسے کسی زنجیر کو صاف پتھر پر کھینچنے سے آتی ہے۔ پھر جب انھیں ہوش آتا ہے تو ایک دوسرے سے پوچھتا ہے تمہارے پروردگار نے کیا کہا۔ دوسرا کہتا ہے کہ جو کہا درست کہا اور وہ بزرگ و برتر ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اور شیطان زمین اور آسمان کے درمیان ایک دوسرے کے اوپر جمع ہوجاتے ہیں (تاکہ آسمانی خبریں چرا سکیں) (ترمذی۔ کتاب التفسیر) ایسے جاہ و جلال والے اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی کو یہ جرات ہوسکتی ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش کرسکے۔ اور تم لوگ کس قسم کی خوش فہمیوں میں مبتلا ہو؟ محدثین اس حدیث کو اس آیت کی تفسیر میں اس لئے لائے ہیں کہ اہل عرب میں سے ایک گروہ فرشتوں کو کارگاہ عالم میں متصرف سمجھ کر ان کی پوجا کرتا تھا اور جو لوگ ان میں سے آخرت کے کسی حد تک قائل تھے وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر قیامت کو باز پرس ہوئی بھی تو یہ فرشتے اللہ کے ہاں ہماری سفارش کرکے ہمیں چھڑا لیں گے۔ اور بعض مفسرین نے اس آیت کو ان مشائخ اور پیروں سے متعلق کیا ہے جو اپنے مریدوں کو شفاعت کرکے چھڑا لینے کے وعدے کرتے اور کسی نہ کسی پیر کے دامن سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ یعنی کیا شافع اور کیا مشفوع دونوں قیامت کے دن کی گھبراہٹ سے سخت گھبرائے ہوئے ہوں گے اور دونوں اس انتظار میں ہوں گے کہ شفاعت کرنے کی اجازت ملتی بھی ہے یا نہیں۔ پھر اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے شافع کو شفاعت کی اجازت مل جائے تو اس کی گھبراہٹ کسی حد تک دور ہوجاتی ہے جس کو مشفوع بھانپ کر اس سے پوچھتا ہے کہ کیا جواب ملا تو شافع کہتا ہے کہ معاملہ ٹھیک ہے اجازت مل گئی ہے تو اس وقت مشفوع کی جان میں جان آتی ہے۔ اس میں شافع اور مشفوع دونوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ تم نے شفاعت سے متعلق جس قسم کا تصور باندھ رکھا ہے وہ قطعاً غلط ہے۔ اللہ کی بارگاہ اتنی عالی مرتبت اور بڑی ہے کہ وہاں اللہ کی اجازت کے بغیر نہ مقرب فرشتوں کو دم مارنے کی ہمت ہوتی ہے اور نہ کسی اور بڑی شخصیت کو۔ کسی کو یوں کہنے کی ہمت نہ ہوگی کہ وہ اللہ تعالیٰ سے یوں کہہ سکے کہ یہ تو میرے دامن سے وابستہ ہے۔ لہٰذا اسے بخشنا ہی پڑے گا۔ کیونکہ شافع کو تو اپنی بھی خبر نہیں کہ اس کا کیا حال ہوگا وہ بھلا دوسروں کی ذمہ داری کیسے لے سکتا ہے۔ سبأ
24 [ ٣٩] یعنی یہ بات تو فریقین (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش مکہ) میں مسلم تھی کہ رزق دینے والا ''اللّٰہ'' ہی ہے اب انسانوں کے لئے لازم تو یہی ہے کہ عبادت اسی کی کی جانی چاہئے جو کھانے کو دیتا ہے اور دیتا رہتا ہے۔ پھر آخر دوسرے معبودوں کو، جن کا رزق کی پیدا ئش یا تقسیم میں کوئی حصہ نہیں ہے، کس خوش میں پوجا جائے، بنیاد تو دونوں کی ایک ہے کہ رازق اللہ ہے اور آگے اس کی دو راہیں بن گئیں۔ ایک ہم ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ گن اسی کا گانا چاہئے جو کھانے کو دیتا ہے اور ایک تم ہو کہ رزق دینے والے کو چھوڑ کر دوسروں کے گن گا رہے ہو۔ یا اللہ کی عبادت میں بلا وجہ شرک کر رہے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ ہم دونوں فریقوں میں سے ایک ہی حق پر ہوسکتا ہے اور تم خود ہی سوچ لو کہ حق پر کون ہوسکتا ہے اور گمراہی پر کون؟ سبأ
25 [ ٤٠] اس سے اگلا سوال یہ ہے کہ عقل و فلم ہم سب کو یکساں دیا گیا ہے۔ تم اگر ایک مسلمہ کلیہ سے غلط نتیجہ اخذ کرکے اس پر اپنی زندگی کی راہ استوار کرتے ہو تو اس کے جواب دہ ہم تو نہیں ہوسکتے اور اگر بالفرض ہم غلط نتیجہ نکال کر اس پر عمل پیرا ہوگئے ہیں تو ہمارے متعلق تم سے سوال نہیں ہوگا۔ ہر ایک اپنے اپنے اعمال کا خود جواب دہ اور ذمہ دار ہے۔ سبأ
26 [ ٤١] اور اگر تم لوگ یہ سمجھتے ہو کہ آخرت کا اور جواب دہی کا تصور ہی غلط ہے تو یقین جانو کہ جو اللہ ہم سب کو عدم سے وجود میں لایا ہے۔ پھر بھی ہم سب کو دوبارہ مرنے کے بعد زندہ کرکے اکٹھا کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ آج تم اپنے آپ کو درست سمجھتے ہو اور ہم اپنے آپ کو درست سمجھتے ہیں۔ لیکن اس دن اللہ تعالیٰ ہمارے درمیان اس طرح انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دے گا جس کی تمہیں بھی ٹھیک سمجھ آجائے گی۔ اور اس کا فیصلہ اس لحاظ سے درست ہوگا کہ وہ ہم سب کا خالق ہے۔ اور خالق کو اپنی بنائی ہوئی چیز کی جس قدر سمجھ ہوسکتی ہے دوسروں کو نہیں ہوسکتی۔ وہ تو ہمارے اور تمہارے ارادوں اور نیتوں تک سے واقف ہے۔ لہٰذا اس کے فیصلہ پر کسی غلط یا زیادتی کا امکان نہیں ہوسکتا۔ سبأ
27 [ ٤٢] یہ کفار مکہ سے دوسرا سوال ہے۔ پہلا سوال اللہ کی رزاقیت سے متعلق تھا۔ دوسرا اس کی خالقیت سے متعلق ہے کہ اللہ نے تو اس تمام کائنات کو اور ہمیں بھی اور تمہیں بھی پیدا کیا ہے۔ لہٰذا مخلوق کا یہی حق ہے کہ اپنے خالق کی عبادت کرے اور حمد و ثنا بیان کرے۔ اب یا تو یہ نشان دہی کرو کہ تمہارے ان معبودوں نے بھی اس کائنات کی فلاں یا فلاں چیز بنائی ہے اور ہمیں عدم سے وجود میں لانے والے تمہارے یہ معبود ہیں۔ آخر کچھ تو ان کا تخلیقی کارنامہ دکھلاؤ۔ اور اگر تم ان کا کوئی تخلیقی کارنامہ نہیں دکھلا سکتے تو پھر آخر تم نے کس دلیل کی بنا پر کس خوشی میں ان معبودوں کو اللہ کا شریک بنا دیا ہے۔ علاوہ ازیں جب یہ واضح ہوگیا کہ ہر چیز کا خالق اللہ تعالیٰ ہے تو ہر چیز کا مالک اور ہر چیز پر غالب بھی ہوا جس نے حکمتوں سے لبریز یہ نظام کائنات تخلیق کیا ہے۔ لہٰذا تمہارے معبود مخلوق بھی ہیں، مملوک بھی ہیں اور مقہور بھی۔ پھر یہ عبادت کے لائق کیسے بن گئے؟ سبأ
28 [ ٤٣] آپ افضل الانبیاء بھی ہیں اور خاتم النبیین بھی:۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف عرب کے لئے نہیں بلکہ ساری دنیا کے لئے اور صرف اپنے دور کے لئے نہیں بلکہ قیامت تک کے لئے اللہ کے رسول، ایمانداروں کو جنت کو بشارت دینے والے اور منکرین حق کو اخروی انجام بد سے ڈرانے والے ہیں۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے سب انبیاء کسی خاص قوم کے لئے، کسی خاص علاقہ کے لئے اور کس خاص دور کے لئے مبعوث کئے جاتے رہے ہیں۔ یہ مضمون قرآن کریم میں بھی متعدد مقامات پر وارد ہوا ہے اور احادیث صحیحہ میں بھی کثرت سے وارد ہے اس مضمون سے دو باتیں کھل کر سامنے آتی ہیں۔ ایک یہ کہ آپ سب انبیاء سے افضل و اشرف ہیں۔ اور دوسری یہ کہ آپ کے بعد تاقیامت کوئی رسول یا نبی آنے والا نہیں۔ لہٰذا صرف اہل عرب کو نہیں بلکہ بیرون عرب تبلیغ کی بھی ذمہ داری آپ پر عائد تھی۔ صلح حدیبیہ تک تبلیغ اسلام کا جتنا کام ہوا تھا وہ سب اندرون عرب ہی ہوا تھا۔ صلح حدیبیہ کا ایک اہم مقصد یہ بھی تھا کہ آپ ابھی تک بیرون عرب تبلیغ پر توجہ ہی نہ دے سکے تھے اور چاہتے تھے کہ چاروں طرف سے بیرونی خطرات سے کچھ سکون ملے تو ادھر توجہ کی جائے۔ صلح حدیبیہ کے بعد فوراً یہود خیبر کی سرکوبی کی گئی۔ پھر آپ نے ہمسایہ ممالک کے سربراہوں کو تبلیغی خطوط لکھنے کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا تو صحابہ کرام نے یہ عرض کیا کہ ملوک عجم صرف اس خط کو پڑھتے ہیں جس پر مہر لگی ہو چنانچہ آپ نے چاندی کی ایک مہر بنوائی جس پر محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے الفاظ کندہ تھے۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں گویا اب بھی اس مہر کی چمک اور نقوش دیکھ رہا ہوں (بخاری۔ کتاب الاحکام۔ باب الشھادۃ علی الخط المختوم۔۔) اور ایک روایت میں ہے کہ ان الفاظ کی ترتیب یہ تھی کہ سب سے اوپر اللہ کا لفظ تھا اس کے نیچے رسول کا اور اس کے نیچے محمد کا۔ اس زمانہ میں دو بڑی سلطنتیں تھیں ایک روم کی، دوسرے ایران کی۔ اس لئے پہلے ہم انہی کا ذکر کرتے ہیں۔ قیصرروم کوآپ کانامہ مبارک:۔روم کا شہنشاہ ہرقل خود تورات اور انجیل کا عالم تھا۔ اسے خوب معلوم تھا کہ نبی آخر الزمان کے ظہور کا وقت آچکا ہے۔ اور نبی آخر الزماں کی خبریں اسے پہنچ بھی چکی تھیں اور وہ دل سے جان چکا تھا کہ نبی آخر الزمان آچکا ہے جس کی بشارات تورات اور انجیل میں موجود ہیں۔ پھر اس موقع سے چودہ سال پیشتر جب شہنشاہ روم کو ایران کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی تو قرآن نے سورۃ روم کے دوبارہ فتح پانے کی خوشخبری دی تھی۔ جبکہ ایسی معجزانہ فتح کے دور دور تک کہیں آثار نظر نہیں آرہے تھے۔ اور یہ پیشین گوئی فتح بدر کے دن پوری ہوچکی تھی۔ اس سے بھی نبی آخر الزمان کی صداقت کا یقین ہوچکا تھا۔ اور اس فتح سے وہ اتنا خوش ہوا تھا کہ پیدل بیت المقدس پہنچ کر اللہ تعالیٰ کا شکرانہ ادا کیا تھا۔ اس کی طرف آپ نے دحیہ کلبی کو خط دے کر بھیجادحیہ کلبی ایک خوش شکل صحابی تھے، جن کی شکل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتی جلتی تھی اور جبرئیل علیہ السلا م جب بھی انسانی شکل میں آپ کے پاس آتے تو دحیہ کلبی ہی کی شکل میں آتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرقل کی طرف جو خط لکھا اس کا مضمون یہ تھا : بسم اللہ الرحمن الرحیم۔۔ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول کی طرف سے ہرقل رئیس روم کے نام، اما بعد! میں تمہیں اسلام کے کلمہ کی طرف بلاتا ہوں اگر مسلمان ہوجاؤ تو سلامتی سے رہو گے اور اللہ تمہیں دوہرا اجر دے گا اور اگر اعراض کیا تو رعایا کا بار گناہ بھی تجھ پر ہوگا۔ پھر آپ نے سورۃ آل عمران کی یہ آیت لکھوائی۔ اے اہل کتاب! اس بات کی طرف آؤ جو ہم اور تم میں یکساں ہے۔ کہ ہم اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور نہ ہی ہم میں سے کوئی اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا رب بنائے۔ پھر اگر وہ اعراض کریں تو اے پیغمبر! تم ان سے کہہ دو کہ گواہ رہنا کہ ہم اللہ کے فرمانبردار ہیں۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الوحی۔ باب کیف کان بدء الوحی) دحیہ کلبی یہ خط لے کر حارث غسانی حاکم بصریٰ کے پاس پہنچے تاکہ وہ باضابطہ طور پر اسے شہنشاہ روم تک پہنچا دے۔ اس نے دحیہ کلبی کو شہنشاہ روم کے ہاں جانے کی اجازت دے دی وہاں جاکر حضرت دحیہ کلبی کو معلوم ہوا کہ ہرقل بیت المقدس آیا ہوا ہے۔ چنانچہ انہوں نے بیت المقدس پہنچ کر یہ گرامی نامہ بادشاہ کے حوالہ کردیا۔ وہ خود تو دل سے ایمان لا چکا تھا اور چاہتا یہ تھا کہ اس کی رعایا بھی اس کے ساتھ مسلمان ہوجائے تاکہ اس کی سلطنت اسی کے پاس بحال رہ جائے۔ اس کے لئے وہ تدبیریں سوچنے لگا۔ آخر ایک تدبیر اس کے ذہن میں آئی۔ اس نے لوگوں سے پوچھا کیا ان دنوں قریش کا تجارتی قافلہ یہاں آیا ہوا ہے؟ لوگوں نے بتلایا کہ ہاں ابو سفیان کا قافلہ آیا ہوا ہے۔ اور غزہ میں مقیم ہے۔ بادشاہ نے ابو سفیان کو اپنے ہاں بلوایا۔ اور دریں اثنا اس نے گیارہ سوالات پر مشتمل ایک ایسا سوالنامہ تیار کیا جس سے حقیقت کھل کر سامنے آجائے۔ یہ سوال بالکل ایسا ہی تھا جیسے کوئی وکیل اپنے موقف کی وضاحت کے لئے جرح کے دوران کیا کرتا ہے۔ اور اس سے اپنا مقصد یہ تھا کہ اس کے امیر و وزیر، فوجی افسر اور رعایا اسلام کی طرف مائل ہوجائیں اور اسلام لانا اس کے لئے سہل ہوجائے اب وہ سوالنامہ ابو سفیان کے جواب اور بعد میں اس پر اس کا اپنا تبصرہ صحیح بخاری سے درج کرتے ہیں۔ ابو سفیان کے ساتھ دو اور ساتھی بادشاہ کے سامنے پیش کئے گئے۔ بادشاہ نے اپنے سامنے ابو سفیان کو کھڑا کیا اور اس کے ساتھیوں کو اس کے پیچھے اور ساتھیوں سے یہ کہہ دیا کہ اگر ابو سفیان کسی سوال کے جواب میں جھوٹ بولے تو فوراً اس ٹوک دینا۔ ایک ترجمان درمیان میں ترجمانی کے فرائض سرانجام دے رہا تھا۔ ابو سفیان خود اپنے اسلام لانے کے بعد کہتے ہیں کہ اس دن ان سوالات نے میرا گھیرا اس قدر تنگ کردیا تھا کہ میں جھوٹ بولنا چاہتا تھا لیکن بول نہیں سکتا تھا۔ بادشاہ نے ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں کو دربار میں حاضر ہونے پر پوچھا تم میں سے کون اس پیغمبر کا نزدیکی رشتہ دار ہے؟ ابو سفیان نے کہا کہ میں ہوں۔ چنانچہ سوال و جواب شروع ہوگئے۔ جس کے راوی بھی ابو سفیان ہی ہیں : ہرقل اورابوسفیان کا مکالمہ:۔ قیصر نے پوچھا : تم میں اس پیغمبر کا خاندان کیسا ہے؟۔ میں نے کہا : اس کا نسب اچھا ہے۔ قیصر : تم میں سے پہلے بھی کسی نے پیغمبری کا دعویٰ کیا تھا ؟ میں نے کہا : نہیں۔ قیصر : اس كی پیروی امیر لوگ کر رہے ہیں یا غریب؟ میں نے کہا : غریب لوگ۔ قیصر : اس کے پیروکار بڑھ رہے ہیں یا گھٹتے جاتے ہیں؟ میں نے کہا : بڑھتے جاتے ہیں۔ قیصر : کوئی شخص اس پر ایمان لاکر پھر اسے برا سمجھ کر پھر بھی جاتا ہے؟ میں نے کہا۔ نہیں قیصر : نبوت کے دعویٰ سے پہلے تم نے اسے کبھی جھوٹ سے متہم کیا ہے؟ میں نے کہا، نہیں ۔ قیصر : اس نے کبھی عہد شکنی کی ہے؟ میں نے کہا نہیں، اب ہم نے صلح کا معاہدہ کیا ہے۔ دیکھیں اب وہ کیا کرتا ہے؟ ابو سفیان کہتے ہیں مجھے اس بات کے علاوہ کوئی اور بات شامل کرنے کی گنجائش نہ مل سکی۔ قیصر : کیا تم نے اس سے کبھی جنگ کی؟ میں نے کہا ہاں ۔ قیصر : پھر اس لڑائی کا نتیجہ کیا رہا ؟ میں نے کہا : لڑائی تو ڈول کی طرح ہے۔ کبھی ہمارا نقصان کبھی اس کا۔ قیصر : اچھا تمھیں وہ کیا حکم دیتا ہے؟ میں نے کہا : وہ کہتا ہے بس ایک اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ اپنے باپ دادا کی باتیں چھوڑ دو۔ وہ نماز پڑھنے، سچ بولنے، حرام کاری سے بچنے اور ناتا جوڑنے کا حکم دیتا ہے۔ یہ گیارہ سوال کرنے کے بعد ہرقل نے ابو سفیان کے جوابات پر جو اپنی طرف سے تبصرہ کیا وہ درج ذیل ہے : میں نے تم سے اس کا خاندان پوچھا تو تم نے کہا وہ صاحب نسب ہے اور پیغمبر اپنی قوم میں صاحب نسب اور اعلیٰ خاندان ہی سے بھیجے جاتے ہیں۔ میں نے تم سے پوچھا کہ کیا کسی نے اس کے خاندان سے پیغمبری کا دعویٰ کیا تو تم نے کہا نہیں۔ اگر کسی نے دعویٰ کیا ہوتا تو میں سمجھتا کہ یہ شخص اس کی پیروی میں دعویٰ نبوت کر رہا ہے۔ میں نے پوچھا کہ اس کے بزرگوں میں کوئی بادشاہ ہوا ہے تو تم نے کہا نہیں۔ اگر کوئی بادشاہ ہوتا تو میں سمجھتا کہ یہ اپنے باپ کی بادشاہت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ میں نے تم سے پوچھا، اس نے کبھی جھوٹ بولا ؟ تو تم نے کہا نہیں۔ اور ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ جو شخص لوگوں پر جھوٹ باندھنے سے پرہیز کرے وہ اللہ پر جھوٹ باندھے۔ میں نے تم سے پوچھا، کہ اس کی اطاعت امیروں نے کی ہے یا غریبوں نے؟ تو تم نے کہا غریبوں نے۔ اور پیغمبروں کے تابعدار غریب ہی ہوتے ہیں۔ میں نے تم سے پوچھا کہ اس کے پیروکار بڑھ رہے ہیں یا گھٹ رہے ہیں تو تم نے کہا بڑھ رہے ہیں۔ اور ایمان کا یہی حال ہوتا ہے تاآنکہ وہ پورا ہوجائے۔ میں نے تم سے پوچھا کہ کوئی شخص اسلام لانے کے بعد اس سے بیزار ہو کر نکلا بھی ہے؟ تو تم نے کہا نہیں۔ اور ایمان کا یہی حال ہے جب اس کی بشاشت دل میں سما جاتی ہے۔ میں نے پوچھا، وہ عہد شکنی کرتا ہے تو تم نے کہا نہیں۔ اور پیغمبر کبھی اپنا عہد نہیں توڑا کرتے۔ میں نے پوچھا : وہ تمہیں کیا حکم دیتا ہے تو تم نے کہا کہ اللہ کی عبادت کرو۔ کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ۔ وہ تمہیں بت پرستی سے منع کرتا ہے۔ نماز اور سچائی کا اور حرام کاری سے بچ رہنے کا حکم دیتا ہے اگر تمہاری یہ سب باتیں سچ ہیں تو وہ عنقریب اس جگہ کا مالک ہوجائے گا جہاں میرے یہ پاؤں ہیں۔ اور میں یہ جانتا تھا کہ یہ پیغمبر آنے والا ہے لیکن یہ نہیں سمجھتا تھا کہ وہ تم میں سے ہوگا اور اگر میں جانوں کہ میں اس تک پہنچ جاؤں گا تو اسے ضرور ملنے کی کوشش کروں گا اور اگر میں اس کے پاس ہوتا تو اس کے پاؤں دھوتا۔ یہ کہہ کر بادشاہ نے آپ کا نامہ مبارک سب کے سامنے پڑھ کر سنایا۔ جب درباریوں اور امیروں، وزیروں نے بادشاہ کو اس حد تک اسلام کی طرف مائل دیکھا تو غصہ سے ان کے نتھنے پھولنے اور آنکھیں سرخ ہونے لگیں۔ شور مچا اور آوازیں بلند ہونے لگیں۔ ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں کو وہاں سے نکال دیا گیا۔ ابو سفیان کہتے ہیں کہ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابو کبشہ کے بیٹے (یہ آپ کے رضاعی باپ کی کنیت تھی اور ابو سفیان نے ازراہ حقارت یہ نام لیا تھا) کا تو بڑا درجہ ہوگیا۔ اس سے تو رومیوں کا بادشاہ ڈرتا ہے۔ اس دن سے مجھے یقین ہوگیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غالب ہوں گے۔ تاآنکہ اللہ نے مجھے مسلمان کردیا۔ (بخاری۔ کتاب الوحی۔ باب کیف کان بدء الوحی) اعیان سلطنت کی اسلام سےنفرت اورقیصرروم کی بےبسی :۔رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لئے ہرقل نے دوسرا کام یہ کیا کہ آپ کا نامہ مبارک ایک ممتاز عالم دین اور اپنے دوست ضغاطر کے پاس بھیج دیا۔ بعد میں خود بھی اس کے پاس پہنچ گیا۔ نبی آخرالزمان کے ظہور کے متعلق ضغاطر کی رائے بھی ہرقل کے موافق ثابت ہوئی۔ جسے ہرقل نے اپنی بھرپور تائید سمجھ کر رومی سرداروں کو اپنے حمص والے محل میں بلایا۔ اس کے دروازے بند کروادیئے اور خود بالاخانے سے برآمد ہوا اور کہنے لگا۔ رومی سردارو! کیا تم اپنی کامیابی، بھلائی اور اپنے اپنے مناصب پر بحال رہنا چاہتے ہو؟ اگر چاہتے ہو تو اس نبی کی بیعت کرلو یہ سنتے ہی وہ لوگ مشتعل ہو کر جنگلی گدھوں کی طرح دروازوں کی طرف لپکے۔ دیکھا تو وہ بند ہیں۔ جب ہرقل کو معلوم ہوا کہ انھیں ایمان لانے سے اس قدر نفرت ہے اور ان کے ایمان لانے سے ناامید ہوگیا تو کہنے لگا، ان سرداروں کو میرے پاس لاؤ۔ جب وہ آئے تو انھیں کہنے لگا کہ میں نے یہ بات صرف تمہیں آزمانے کو کہی تھی کہ تم اپنے دین میں کتنے مضبوط ہو اور وہ مجھے معلوم ہوگیا اس پر سرداروں نے اسے سجدہ کیا اور اس سے خوش ہوگئے یہ تھی ہرقل کی آخری صورت حال۔ (بخاری۔ کتاب الوحی۔ باب کیف کان بدء الوحی) اس طویل حدیث سے، جسے امام مسلم نے پورے کا پورا درج کیا ہے۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہرقل کو پورا یقین ہوچکا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے پیغمبر ہیں اور وہ دل سے ایمان لا بھی چکا تھا مگر اعیان سلطنت کے ڈر سے اپنے اس ایمان کا برملا اظہار نہ کرسکا۔ وہ نہ تو اپنی رعایا کی رائے عامہ کو اپنے حق میں سازگار کرنے میں کامیاب ہوسکا اور نہ ہی ایسی جرات کا مظاہرہ کرسکا کہ ایمان کی خاطر خود سلطنت سے دستبردار ہوجائے وہ اپنے اعیان سلطنت سمیت ایمان لانا چاہتا تھا تاکہ اسلام لانے کے بعد سلطنت بھی اسی کے پاس رہے۔ لیکن اس کے متعصب اعیان سلطنت نے اس کی یہ آرزو پوری نہ ہونے دی۔ ٢۔ دوسری بڑی سلطنت شہنشاہ ایران یا کسریٰ فارس کی تھی۔ اس کا نام پرویز تھا۔ نوشیروان عادل کا پوتا اور ہرمز کا بیٹا تھا۔ انتہائی متکبر انسان اور کبر و نخوت کا پتلا تھا۔ زرتشتی مذہب کا قائل تھا، نہ آخرت کا قائل تھا نہ انبیاء کا۔ مشرک اور آتش پرست تھا۔ مسلمانوں کے مقابلہ میں قریش مکہ کی ہمدردیاں اس کے ساتھ تھیں اور اسے ہی بدر کے دن قیصر روم کے ہاتھوں شکست بھی ہوئی تھی۔ اس کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن حذافہ کو اپنا نامہ مبارک دے کر بھیجا اور فرمایا کہ یہ خط بحرین کے حاکم منذر بن ساری کو پہنچائے وہ اسے شاہ ایران تک پہنچا دے گا۔ خط کا مضمون یہ تھا : ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم۔۔ محمد رسول اللہ کی طرف سے عظیم فارس کے نام۔ سلامتی اس شخص کے لئے جو ہدایت کی اتباع کرے۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور یہ کہ اللہ نے مجھے تمام دنیا کے لئے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے تاکہ وہ ہر زندہ شخص کو اللہ کا خوف دلائے۔ اسلام قبول کرلو تو سلامت رہو گے اور اگر تم نے یہ بات تسلیم نہ کی تو تمام مجوس کا بار گناہ بھی تم پر ہوگا‘‘ پرویز کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےنامہ مبارک کو پھاڑنا اور اس کا قتل ہونا: عجم کا طریقہ یہ تھا کہ جو خط سلاطین کو لکھے جاتے ان میں بادشاہ کا نام سب سے پہلے ہوتا تھا اور مکتوب نگار کا بعد میں مگر یہاں ترتیب بالکل برعکس تھی سب سے پہلے اللہ کا نام تھا پھر رسول اللہ کا اور پھر کسریٰ کا۔ اسی بات پر ہی وہ سیخ پا ہوگیا۔ حضرت عبداللہ سے کہا : اگر تم قاصد نہ ہوتے تو میں تمہیں قتل کرا دیتا۔ پھر کہنے لگا کہ میں ایسے گستاخ شخص کے لئے ابھی گرفتاری کا فرمان جاری کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر آپ کا نامہ مبارک پھاڑ ڈالا۔ اور کچھ عرصہ بعد جب حضرت عبداللہ نے واپس آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے خط پھاڑنے کا قصہ سنایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ ایسے ہی اس کی سلطنت کو پھاڑ ڈالے گا۔ (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب ماذکر فی المناء في المناولة و كتاب اهل العلم) چنانچہ آپ کی یہ پیشین گوئی خلفائے راشدین کے دور میں حرف بہ حرف پوری ہوگئی۔ چنانچہ پرویز شاه ایران نے یمن کے حاکم باذان کو، جو شاہ ایران کا باجگذار تھا، خط لکھا کہ عرب میں جس شخص نے پیغمبری کا دعویٰ کیا ہے اسے گرفتار کرکے میرے پاس بھیج دو۔ ان دنوں عرب قبائل کی بالکل وہی نوعیت تھی جیسے پاکستان اور آزاد قبائل کی ہے۔ آزاد قبائل کئی باتوں میں آزاد ہیں اور بعض امور میں پاکستان سے ملحق ہیں۔ ایسے ہی کسریٰ عرب قبائل کو اپنی ہی سلطنت کا حصہ تصور کرتا تھا۔ جس کی بنا پر اس نے حاکم یمن کو ایسا خط بھیجا تھا۔ چنانچہ باذان نے دو آدمی مدینہ بھیجے۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں پہنچ کر عرض کی شہنشاہ عالم کسریٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا ہے اگر اس کے حکم کی تعمیل نہ کرو گے تو وہ تمہیں اور تمہارے ملک کو تباہ و برباد کردے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قاصدوں سے کہا کہ اب رات ہوگئی ہے۔ تم اب کل آنا۔ دوسرے دن جب وہ حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : کہ تمہارے شہنشاہ عالم کو تو آج رات اس کے بیٹے شیرویہ نے قتل کر ڈالا ہے۔ تم واپس چلے جاؤ اور اسے کہہ دینا کہ اسلام کی حکومت ایران کے پایہ تخت تک پہنچے گی۔ باذاان حاکم یمن کاقبول اسلام:۔جب یہ قاصد واپس یمن پہنچے تو اس وقت تک یمن میں پرویز شاہ ایران کے قتل ہونے کی خبر پہنچ چکی تھی۔ یہ صورت حال دیکھ کر باذان خود بھی مسلمان ہوگیا۔ یہ قاصد بھی اور رعایا کے اور بھی بھی بہت سے لوگ حلقہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ ٣۔ شرحبیل کا قاصد کو قتل کرنا اور غزوہ مُوتہ:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرا خط بصریٰ کو لکھا جس کا نام شرحبیل بن عمرو غسانی تھا۔ اس کا علاقہ مدینہ کے شمال یمن شام کی سرحد پر واقع تھا۔ غسانی اگرچہ عرب تھے لیکن ایک مدت سے عیسائی ہوچکے تھے۔ ان کا دارالحکومت بصریٰ تھا اور شرحبیل قیصر روم کے ماتحت اور اس کا باجگذار تھا۔ اس کے پاس آپ کے قاصد حارث بن عمیر خط لے کر گئے تو اس بدبخت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کو شہید کردیا۔ یہ چونکہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی اور اعلان جنگ کے مترادف تھا۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خلاف لشکر کشی کی تیاری شروع کردی اور جمادی الاول ٨ ھ میں تین ہزار کا لشکر روانہ فرمایا اور اس کا سپہ سالار زید بن حارثہ کو مقرر فرمایا۔ جو آپ کے آزاد کردہ غلام تھے اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ اگر زید شہید ہوجائیں تو پھر جعفر بن طیار جھنڈا سنبھالیں اور اگر وہ بھی شہید ہوجائیں تو عبداللہ بن رواحہ سپہ سالار ہوں گے۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوہ موتہ من ارض الشام) اس لشکر کو رخصت کرنے کے لئے آپ بنفس نفیس مدینہ سے باہر کچھ دور تک تشریف لے گئے۔ شرحبیل کو بھی اسلامی لشکر کشی کی خبر ہوچکی تھی۔ اس نے اس مقابلہ کے لیے ایک لاکھ فوج تیار کی۔ جب مسلمانوں کو اس صورت حال کا علم ہوا وہ تردد میں پڑگئے کہ تین ہزار ایک لاکھ کی کیا نسبت ہے؟ چنانچہ حضرت زید کی رائے یہ تھی کہ ابھی توقف کیا جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلع کرکے مدینہ سے مزید کمک منگوائی جائے۔ لیکن عبداللہ بن رواحہ کہنے لگے کہ ہم تو شہادت کی متمنی ہیں۔ فتح و شکست اللہ کے ہاتھ میں ہے پھر ہم تاخیر کیوں کریں۔ چنانچہ فوری طور پر مقابلہ کرنے پر سب کا اتفاق ہوگیا۔ اسلامی لشکر کی بے مثال جرأت: موتہ کے مقام پر دونوں فوجوں کا آمناسامنا ہوا۔ اگرچہ مسلمان شوق شہادت میں انتہائی بے جگری سے لڑے مگر تین ہزار کا مقابلہ دو لاکھ سے تھا۔ صحابہ کرام نے بہادری و شجاعت کے بے مثال کارنامے انجام دئیے۔ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے تو جھنڈا جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے، جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حقیقی بھائی تھے، سنبھالا۔ آپ کا دایاں ہاتھ کٹ گیا تو جھنڈا بائیں ہاتھ میں سنبھالے رکھا۔ وہ بھی کٹ گیا تو ٹانگوں سے دبائے اور اٹھائے رکھا۔ آپ جس بے جگری اور بہادری سے لڑے۔ اس کے متعلق عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب جعفر شہید ہوگئے تو میں ان کی لاش پر کھڑا ہوا۔ میں نے ان کے جسم پر تیروں اور تلواروں کے پچاس زخم دیکھے اور ان میں سے کوئی زخم بھی ان کی پشت پر نہیں تھا۔ (بخاری۔ حوالہ ایضاً) لیکن لڑائی کے بعد جب سب لوگوں نے یہ نشان شمار کئے تو یہ نوے نشان تھے۔ (حوالہ ایضاً) ان کے دونوں بازو کٹ گئے تھے ان کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ انھیں جنت میں دو پر عطا کئے گئے اسی نسبت سے ان کا لقب طیار بھی مشہور ہوگیا تھا اور ذوالجناحین بھی۔ چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے سلام کرتے تو کہتے : دو پروں والے کے بیٹے! تم پر سلام۔ (بخاری۔ حوالہ ایضاً) حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے بعد عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے جھنڈا سنبھالا اور بالآخر وہ بھی شہید ہوگئے۔ اب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جھنڈا سنبھالا۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ آزمودہ کار جرنیل تھے۔ جنگ احد میں انہوں نے درہ خالی دیکھ کر حملہ کرکے مسلمانوں کو شکست سے دوچار کردیا تھا۔ آپ نے باقی فوج کو اس انداز سے از سر نو ترتیب دیا کہ وہ اپنی اصل تعداد میں بہت زیادہ معلوم ہوتی تھی۔ یہ صورت حال دیکھ کر دشمن نے جو ان سے بیسیوں گنا زیادہ تھے اسلامی لشکر کو ہر طرف سے گھیرے میں لے لیا۔ حضرت خالد نے پورے جوش سے حملہ کرکے ایک مقام سے اس گھیرے کو توڑ دیا اور اسلامی فوج کو دشمن کے محاصرہ سے نکالنے میں کامیاب ہوگئے۔ ادھر یہ کارروائی ہو رہی تھی ادھر مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں نے ان الفاظ میں اطلاع دے دی۔ پہلے زید نے جھنڈا سنبھالا وہ شہید ہوئے، پھر جعفر نے جھنڈا سنبھالا وہ شہید ہوئے، پھر عبداللہ بن رواحہ نے سنبھالا وہ شہید ہوئے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ پھر فرمایا اس کے بعد اللہ کی تلواروں میں ایک تلوار نے جھنڈا سنبھالا یہاں تک کہ اللہ نے اس کے ہاتھ پر فتح دی۔ (بخاری۔ حوالہ ایضاً) خالد بن ولید سیف اللہ کا نمایاں کارنامہ:چنانچہ اسی دن سے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا لقب ’’سیف اللہ‘‘ یعنی اللہ کی تلوار مشہور ہوگیا۔ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ غزوہ موتہ کے دن میرے ہاتھ پر نو تلواریں ٹوٹیں صرف ایک یمنی تیغہ میرے ہاتھ میں رہ گیا تھا۔ (بخاری۔ حوالہ ایضاً) آپ کا نمایاں کارنامہ یہ تھا کہ آپ نے اسلامی لشکر کو دشمن کے نرغہ سے نکال لیا۔ اور خیر و عافیت سے بچا لائے اور اسی بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح قرار دیا تھا۔ جب یہ لشکر واپس مدینہ آیا تو بعض صحابہ کو یہ شبہ ہوا کہ یہ لوگ جنگ سے بھاگ آئے ہیں اور انھیں ایسا طعنہ بھی دیا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پرزور تردید فرمائی اور فرمایا یہ جنگ بھگوڑے نہیں بلکہ پینترا بدل کر لڑنے والوں کے ضمن میں آتے ہیں۔ جس میں ایک بات کی طرف اشارہ تھا کہ ابھی ہمارا کام باقی ہے۔ اور وہ باقی کام غزوہ تبوک تھا۔ جس کا ذکر سورۃ توبہ میں تفصیل سے بیان ہوچکا ہے۔ نجاشی کے نام خط: اس کا جواب اور قبول اسلام:٤۔ چوتھا خط آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی شاہ حبشہ کے نام لکھا۔ حبشہ میں مسلمان مہاجرین مقیم تھے اور نجاشی نے ان سے نہایت اچھا سلوک کیا یہ خود عیسائی تھا اور قیصر روم کا باجگزار تھا۔ مگر اسلام کی دعوت کو دل سے تسلیم کرچکا تھا۔ اور بعض روایات کے مطابق اس نے حضرت جعفر طیار کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا تھا۔ اس کی طرف آپ نے عمرو بن امیہ ضمری کو نامہ مبارک دے کر بھیجا جس کا مضمون یہ تھا : ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم۔۔ محمد رسول اللہ کی طرف سے نجاشی اصمحہ شاہ حبش کے نام۔ تجھ پر سلام ہو میں اللہ کی حمد و ستائش کرتا ہوں جو پاک ہے۔ اور ایمان اور سلامتی دینے والا ہے اور میں شہادت دیتا ہوں کہ عیسیٰ بن مریم اللہ کی مخلوق اور اس کا کلمہ ہیں۔ جسے اللہ نے پاکباز مریم کی طرف القاء کیا اور وہ عیسیٰ سے حاملہ ہوئیں تو اللہ نے انھیں پیدا فرمایا۔ اپنے نفخہ اور اپنے روح سے۔ میں تمہیں اللہ وحدہ لاشریک پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہوں۔ ایمان لے آؤ تو سلامتی سے رہو گے اور میری پیروی کرو کیونکہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ میں نے اس سے پہلے اپنے چچیرے بھائی جعفر کو مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ تمہارے پاس بھیجا ہوا ہے۔ انھیں آرام سے رکھنا۔ نجاشی تکبر چھوڑو۔ میں تمہیں اور تمہارے درباریوں کو اللہ کی طرف بلاتا ہوں دیکھو! میں نے تمہیں اللہ کا حکم پہنچا دیا اور خوب سمجھا دیا۔ اب مناسب ہے کہ میری نصیحت قبول کرو اور سلامتی اس شخص کے لئے ہے جو ہدایت قبول کرے۔ ‘‘ جب یہ خط نجاشی کو ملا تو اس نے جعفر کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا اور جواباً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تحریر کیا : ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم۔۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نجاشی اصحم بن ابجر کی طرف سے۔ اے اللہ کے نبی! آپ پر اللہ کی سلامتی، رحمت اور برکتیں ہوں اس اللہ کی جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور جس نے ہمیں اسلام کی طرف ہدایت فرمائی۔ امابعد۔ آپ کا فرمان میرے پاس پہنچا حضرت عیسیٰ کے متعلق آپ نے تحریر فرمایا ہے، اللہ کی قسم وہ اس سے ذرہ بھر بھی بڑھ کر نہیں ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سیکھ لی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا زاد بھائی اور مسلمان میرے پاس آرام سے ہیں۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچیرے بھائی کے ہاتھ پر بیعت اور اللہ کی فرمانبرداری کا اقرار کرلیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے بیٹے ارہا کو روانہ کرتا ہوں۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ منشا ہو کہ میں خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوں تو میں ضرور حاضر ہوجاؤں گا۔ کیونکہ میں یقین رکھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو فرماتے ہیں، وہی حق ہے۔ والسلام علیک یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ ابن اسحٰق کا بیان ہے کہ نجاشی نے اپنے بیٹے ارہا کو ساٹھ آدمیوں کے ہمراہ روانہ کیا مگر راستہ میں یہ جہاز مسافروں سمیت غرق ہوگیا۔ ٥۔ ان دنوں مصر کے حکمران مقوقس کہلاتے تھے۔ مصر کا مقوقس عیسائی اور اہل علم آدمی تھا اور قیصر روم کے زیر اثر تھا۔ اس کا دارالحکومت موجودہ اسکندریہ تھا۔ اس کے ہاں آپ نے حاطب بن ابی بلتعہ کو درج ذیل خط دے کر روانہ فرمایا : ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم۔۔ محمد رسول اللہ کی طرف سے مقوقس مصر قبط کے نام۔ اس پر سلامتی ہے جس نے ہدایت کا اتباع کیا۔ بعد ازاں میں تمہیں اسلام کی طرف دعوت دیتا ہوں۔ مسلمان ہوجاؤ، سلامتی پاؤ گے اور اللہ تمہیں دگنا اجر عطا فرمائے گا۔ اور اگر تم نے نہ مانا تو تمام قبطیوں کا بار گناہ تم پر ہوگا۔ اے اہل کتاب اس کلمہ کی طرف آؤ۔ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں۔ پھر اگر وہ اعراض کریں تو آپ کہہ دیجئے کہ گواہ رہو کہ ہم اللہ کے فرمانبردار ہیں۔ مقوقس بھی حقیقت سمجھ چکا تھا مگر اسے بھی قیصر روم کی طرح اسلام لانے کی جرات نہ ہوئی تاہم اس نے قاصد کو جواب میں ایک خط اور کچھ تحائف دے کر عزت و احترام کے ساتھ رخصت کیا۔ خط کا مضمون یہ تھا : محمد بن عبداللہ کی طرف مقوقس رئیس قبط کی طرف سے سلام علیک کے بعد۔ مجھے معلوم تھا کہ ایک پیغمبر آنے والا ہے لیکن میں سمجھتا تھا کہ وہ شام میں ظہور کرے گا۔ میں نے آپ کے قاصد کی عزت کی۔ دو لڑکیاں بھیج رہا ہوں جن کی قبطیوں میں بہت عزت کی جاتی ہے۔ اور میں آپ کے لئے کپڑا اور آپ کی سواری لئے ایک خچر بطور ہدیہ بھیجتا ہوں۔ والسلام یہ دو لڑکیاں جن کا نام ماریہ اور سیرین تھا۔ راہ میں ہی حاطب بن ابی بلتعہ کی تبلیغ سے مسلمان ہوگئی تھیں یہ شاہی گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان میں سے ماریہ سے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نکاح کرکے حرم میں شامل کرلیا اور اسی کے بطن سے حضرت ابراہیم پیدا ہوئے اور سیرین حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے حبالہ عقد میں آئیں۔ اور یہ دونوں حقیقی بہنیں تھیں۔ اور خچر سفید رنگ کی قدآور اور خوبصورت تھی اس کا نام دُلدُل تھا۔ جنگ حنین میں آپ اسی خچر پر سوار تھے۔ ٦۔ والی بحرین کا قبول اسلام: چھٹا خط آپ نے منذر بن ساویٰ والی بحرین کے نام حضرت علاء بن حضرمی کے ہاتھ روانہ فرمایا۔ یہ حکمران ساسانی یا ایرانی بادشاہوں کے زیرِاثر اور باجگزار تھے اور رعایا میں سے کچھ لوگ یہودی تھے اور کچھ مجوسی۔ جب اس کے پاس آپ کا گرامی نامہ پہنچا تو اس نے اسلام قبول کرلیا لیکن اس کی رعایا میں کچھ لوگ تو مسلمان ہوگئے اور کچھ اپنے سابقہ مذہب پر قائم رہے۔ ان کے متعلق منذر سے بارگاہ رسالت سے حکم دریافت فرمایا۔ آپ نے منذر کی سعادت اور صلاحیت کو بنظر عزت دیکھا اور یہود اور مجوس سے جزیہ وصول کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ یہ جزیہ تو مدینہ کے بیت المال میں جاتا تھا اور بحرین کی حکومت ان ہی کے پاس رہی۔ ٧۔ اہل عمان کا قبول اسلام: عمان میں جیفر بن جلندی اور عبداللہ بن جلندی دو بھائیوں کی حکومت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو اپنا خط دے کر بھیجا۔ ان دونوں بھائیوں نے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے ساتھ طویل مکالمہ اور گہرے غوروخوض کے بعد اسلام قبول کرلیا اور ان کے اثر سے رعایا کا اکثر حصہ بھی اسلام لے آیا۔ ٨۔ والی یمامہ ہوذہ کی شرط قبولِ اسلام اور آپ کا جواب: آٹھواں خط آپ نے ہوذہ بن علی والی یمامہ کے نام لکھا جو قبیلہ بنو حنیفہ کا رئیس تھا۔ حضرت سلیط بن عمر بن عبدشمس اس کے ہاں آپ کا نامہ مبارک لے کر گئے۔ ہوذہ نے قاصد رسول صلی اللہ علیہ ولم کی خوب عزت و تکریم کی اور تحائف بھی دیئے اور جواب میں آپ کو لکھا کہ جن باتوں کی طرف آپ بلاتے ہیں ان کے مستحسن ہونے میں کوئی شک نہیں۔ مگر آپ کو معلوم ہے کہ اہل عرب مجھے عزت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کے دلوں میں میری ہیبت بیٹھی ہوئی ہے۔ اس لئے اگر حکومت کا نصف حصہ اور مخصوص اختیارات مجھے دیئے جائیں تو اسلام لانے کے لئے تیار ہوں۔ آپ نے یہ خط دیکھ کر فرمایا کہ ایک بالشت بھر زمین بھی مانگے تو نہیں مل سکتی۔ وہ خود اور اس کا مال و متاع عنقریب فنا ہونے والا ہے۔ پھر جب آپ فتح مکہ کے بعد عازم مدینہ ہوئے تو بذریعہ وحی آپ کو خبر مل گئی کہ ہوذہ حاکم یمامہ اس دنیا کو چھوڑ گیا ہے نیز آپ نے صحابہ کو یہ اطلاع بھی دی کہ یمامہ میں ایک جھوٹا مدعی نبوت پیدا ہوگا جو میرے بعد قتل کیا جائے گا۔ چنانچہ مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کیا اور اس کا قصہ سورۃ مائدہ کے حاشیہ نمبر ٩٤ اور سورۃ احزاب کے حاشیہ نمبر ٦٦ میں مذکور ہے۔ یہ جھوٹا نبی آپ کی پیشین گوئی کے مطابق خلافت صدیقی میں حضرت حبشی کے ہاتھوں مارا گیا۔ ٩۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نواں خط حارث غسانی حاکم حدود شام کی طرف حضرت شجاع بن وہب کو دے کر بھیجا۔ یہ دمشق اور آس پاس کے علاقوں کا حاکم اور قیصر روم کا باجگزار تھا۔ جب اسے نامہ مبارک ملا تو پہلے تو بہت بگڑا اور مدینہ پر حملہ کی دھمکی بھی دی مگر بعد میں آپ کے قاصد کو عزت و احترام کے ساتھ رخصت کیا۔ لیکن اسلام قبول نہیں کیا۔ ہمسایہ ممالک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطوط بھیجنے اور اس کے ردعمل سے اسلام اور مسلمانوں کو چند در چند فوائد حاصل ہوگئے۔ مثلاً۔ (١) اس ذریعہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ رسالت کا فریضہ انجام دیا جو اللہ کی طرف سے آپ پر گرانبار ذمہ داری تھی اور پہلے اس کا موقعہ نہیں مل رہا تھا۔ (٢) ان تبلیغی خطوط سے بعض حکمران اور ان کی رعایا اسلام لے آئے جیسے حبشہ، یمن، عمان اور بحرین کے حکمرانوں نے اسلام قبول کرلیا۔ رعایا میں سے بھی بہت سے مسلمان ہوگئے۔ اور کچھ حکمران اسلام کے قریب ہوگئے۔ تاہم اسلام کی آواز عرب سے باہر دور دور تک پہنچ گئی۔ (٣) غزوہ موتہ اور اس کے نتائج نے یہ ثابت کردیا کہ اب اسلامی حکومت کسی بڑی سے بڑی سلطنت سے ٹکر لینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ قیصر روم کے داعیان سلطنت جو دعوت اسلام پر نتھنے پھلانے لگے تھے ان کے دماغ میں فرعونیت کا بت ٹوٹ گیا۔ یہی وجہ ہے کہ غزوہ تبوک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں بیس دن مقیم رہے لیکن غسانیوں اور رومیوں کو مقابلے پر آنے کی جرات نہ ہوئی۔ (٤) اندرون عرب بھی مشرک قبائل اور بالخصوص قریش مکہ پر مسلمانوں کا ایسا رعب طاری ہوا کہ فتح مکہ کے موقع پر کسی بھی قریش اتحاد کو مقابلے پر آنے کی سکت نہ رہی۔ پھر یہ سب کچھ ان تبلیغی خطوط اور ان کے رد عمل کا نتیجہ تھا۔ [ ٤٤] وہ یہ نہیں جانتے کہ پیغمبری کیا چیز ہے؟ اور کس قدر ارفع و اعلیٰ مقام ہے۔ وہ یہ بھی نہیں سمجھتے کہ اللہ نے آپ کو کس قدر بلند مقام پر فائز کیا ہے۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ وہ آپ کا انکار کرکے اللہ تعالیٰ کی کس عظیم نعمت کا انکار کر رہے ہیں اور وہ یہ بھی نہیں سمجھتے کہ آپ کا انکار کرکے انھیں کس قدر برے انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔ سبأ
29 سبأ
30 [ ٤٥] یعنی یہ تو اللہ ہی کو معلوم ہے کہ ابھی اس نے کتنے انسان اور پیدا کرنے ہیں۔ جن کا اسی دنیا اور اس نظام کائنات کے تحت امتحان لیا جانے والا ہے۔ اور یہ سب کچھ اس کے پہلے سے طے شدہ سکیم کے مطابق ہو رہا ہے۔ وہ ہو کے رہے گا۔ تمہارے طلب کرنے یا جلدی مچانے سے یا پوچھتے رہنے سے وہ وقت سے پہلے نہیں آسکتا ہاں جب اس کا وقت آگیا تو پھر اس میں تاخیر ناممکن ہے۔ لہٰذا کرنے کا کام یہ ہے کہ اس دن کے آنے سے پہلے پہلے جو بہتر سے بہتر کام تم اپنے لئے کرسکتے ہو کرلو۔ سبأ
31 [ ٤٦] یعنی مشرکین مکہ صرف قرآن کے ہی منکر نہ تھے۔ بلکہ پہلی آسمانی کتابوں مثلاً تورات، انجیل وغیرہ کے بھی منکرتھے اور ان کے انکار کی وجہ یہ تھی کہ ان سب کتابوں کے مرکزی اور بنیادی مضامین ملتے جلتے تھے۔ سب کتابوں میں توحید کی دعوت دی گئی تھی اور شرک کو ناقابل معافی جرم قرار دیا گیا تھا۔ اسی طرح عقیدہ آخرت کے بارے میں بھی سب الہامی کتابیں ایک دوسری کی تائید و توثیق کرتی تھیں۔ اور یہی دو باتیں تھیں جن پر محاذ آرائی شروع ہوچکی تھی۔ اور مشرکین مکہ انھیں کسی قیمت پر بھی ماننے کو تیار نہ تھے۔ لہٰذاسب الہامی کتابوں کا انکار کردیتے تھے۔ [ ٤٧] قرآن کریم میں ان دو فریقوں کا مکالمہ بہت سے مقامات پر مذکور ہے۔ ایک فریق مطیع ہے یعنی کمزور قسم کے لوگ جو اپنے بڑوں کی اطاعت کرتے رہے۔ اور دوسرا فریق مطاع ہے یعنی بڑے لوگ جن کی اطاعت کی جاتی رہی۔ پھر ان بڑے لوگوں میں حکمران بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ سیاسی لیڈر، چودھری بھی، مولوی بھی، پروفیسر بھی یعنی ہر وہ شخص جو دینی یا دنیوی لحاظ سے عام لوگوں پر فوقیت رکھتا ہو۔ اور اس کی بات تسلیم کی جاتی رہی ہو اور یہ مکالمہ جہنم میں داخلہ سے پیشتر ہوگا۔ تاہم اس وقت تک سب لوگوں کو اپنا انجام معلوم ہوچکا ہوگا۔ [ ٤٨]مطیع اورمطاع لوگوں کامکالمہ :۔ کمزور لوگ یا اطاعت کرنے والے اپنے بڑے بزرگوں سے کہیں گے کہ ہماری گمراہی کا باعث تو تم ہی لوگ تھے۔ اگر تم لوگ ہمیں انبیاء کے خلاف استعمال نہ کرتے تو ہم یقیناً ان پر ایمان لے آتے اور اس برے انجام سے ہمیں دو چار نہ ہونا پڑتا۔ سبأ
32 [ ٤٩] یعنی انبیاء نے جیسی دعوت ہمیں دی تھی ویسی ہی تمہیں بھی دی تھی۔ ہم نے زبردستی کسی کو بھی ان کی دعوت قبول کرنے سے نہیں روکا تھا۔ اگر تم ایمان لانا چاہتے تو ہم تمہیں کیسے روک سکتے تھے۔ اس کے بجائے حقیقت یہ ہے کہ تم خود بھی انبیاء کی پیش کردہ دعوت اور اس کی پابندیوں کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھے نہ ہی تم ان سختیوں کو برداشت کرنے پر آمادہ تھے جو انبیاء کو ماننے والوں کو پیش آتی تھیں۔ اس لحاظ سے ہم اور تم دونوں ایک جیسے مجرم ہیں۔ اگر کچھ فرق ہے تو یہ صرف یہ کہ ہم نے تمہیں اپنی طرف بلایا۔ اور ہمارا یہ بلانا چونکہ تمہارے اپنے ہی ضمیر کی آواز اور اپنی ہی خواہش نفس کی تکمیل تھی۔ لہٰذاتم نے فوراً ہماری دعوت کو قبول کرلیا۔ اس وقت حقیقت میں تم ہماری پیروی نہیں بلکہ اپنے نفس اور اپنے مفادات کی پیروی کر رہے تھے۔ ورنہ تم لوگ ہم سے تعداد میں بہت زیادہ تھے۔ اگر تم ایمان لانا چاہتے اور اس کام میں مخلص ہوتے تو تم ہمارا بھی ناطقہ بند کرسکتے تھے کیونکہ اکثریت میں تم تھے ہم نہیں تھے۔ سبأ
33 [ ٥٠] اب عوام اپنے لیڈروں اور پیشواؤں سے یوں مخاطب ہوں گے کہ تمہارے دن رات کے پروپیگنڈے سے ہی ہم متاثر ہوجاتے تھے تم ہمیں پھانسنے کے لئے ہر روز کوئی نئے سے نیا جال لاتے رہے۔ تم لوگ نام تو اسلام کا لیتے رہے مگر حقیقتاً تم اپنی ہی حکومت اور اپنی ہی چودھراہٹ چاہتے تھے۔ تمہارے جھوٹے پروپیگنڈہ نے ہماری مت مار دی تھی۔ اور ہم تمہیں مخلص سمجھ کر تمہارا ساتھ دیتے رہے۔ لہٰذا ہماری گمراہی کا باعث تم ہی لوگ ہو۔ [ ٥١] ان دونوں فریقوں کے مکالمہ سے ہر فریق کو معلوم ہوجائے گا کہ دونوں فریق قصور وار ہیں۔ اور یہ مکالمہ محض بحث برائے بحث ہی ہے۔ لہٰذا ہم ان دونوں کو ایک جیسی سزا دیں گے ان کے گلوں میں طوق اور پاؤں میں زنجیریں ڈال کر انھیں جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ سبأ
34 [ ٥٢]انبیاء کی مخالفت میں سب سےپیش پیش آسودہ حال لوگ ہوتےہیں:۔ یعنی یہ صرف قریش مکہ کی بات نہیں بلکہ ہر نبی کے ساتھ (اور اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ) یہی معاملہ پیش آیا کہ جب نبی نے انھیں اللہ کا پیغام پہنچایا تو اس کی مخالفت کرنے میں سب سے پیش پیش وہی لوگ تھے جو خوشحال اور آسودہ تھے۔ جن کے پاس کوٹھیاں اور بنگلے تھے۔ نوکر چاکر تھے۔ بنک بیلنس بھی موجود تھا اور سواریاں بھی خاصی تعداد میں تھیں۔ ایسے لوگ بھلا پیغمبروں کی بات کا ہے کو مانتے۔ جبکہ پیغمبر انھیں ہر جائز و ناجائز طریقے سے مال جمع کرنے سے روکتے تھے۔ پھر وہ یہ بھی کہتے تھے کہ سارا مال و دولت اپنے پاس ہی سمیٹ کر نہ رکھو بلکہ اس سے اقرباء اور محتاجوں کا حق ادا کرو۔ پھر اگر وہ لوگ پیغمبروں کی دعوت قبول کرتے تو انھیں مندرجہ بالا پابندیوں کے علاوہ پیغمبر کا مطیع فرمان بن کر بھی رہنا پڑتا تھا۔ لہٰذا یہ خوشحال طبقہ صرف اسی پر اکتفا نہیں کرتا کہ نبی کی دعوت کو خود ہی رد کرے بلکہ جن لوگوں پر اس طبقہ کا اثر و رسوخ ہوتا ہے ان سب کو نبی کی مخالفت پر آمادہ کردیتے ہیں اور اس کام پر وہ پیسہ بھی بےدریغ خرچ کرتے ہیں۔ سبأ
35 [ ٥٣] خوش حال لوگوں کا آخرت کے بارے میں نظریہ :۔یہ خوشحال طبقہ اپنے انکار کی اصل وجوہ تو بیان نہیں کرتا اور اس کے بجائے ایک ایسی بات کو خوبصورت بنا کر اپنے انکار کی وجہ کے طور پر پیش کردیتا ہے۔ جو عام دنیا دار لوگوں کو بھی معقول معلوم ہوتی ہے۔ ان کی دلیل یہ ہوتی ہے جیسے وہ پیغمبر اور اس پر ایمان لانے والوں کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ اللہ تو ہم پر مہربان ہے تم پر نہیں۔ اللہ نے ہمیں کوٹھیاں دی ہیں۔ کاریں دی ہیں، مال و دولت ڈھیروں دیا ہے۔ اولاد عطا کی ہے۔ وہ ہم سے خوش تھا تبھی تو اس نے ہمیں ان نعمتوں سے نوازا ہے۔ اور جس آخرت سے تم ہمیں ڈرا رہے ہو۔ اور وہ ہوئی بھی تو آخر کیا وجہ ہے کہ جو اللہ آج ہم پر مہربان ہے کل ہم پر مہربان نہ ہو۔ اور ہمیں خواہ مخواہ عذاب دے دے۔ سبأ
36 [ ٥٤] مال ودولت کی فراوانی اللہ کی رضا کی دلیل نہیں:۔وہ یہ بات نہیں سمجھتے کہ رزق کی کمی بیشی کا معاملہ تو اللہ کی مشیت سے تعلق رکھتا ہے، اس کی رضا سے تعلق نہیں رکھتا۔ اللہ کی مشیت یہ ہے کہ وہ اس دنیا میں اپنے نافرمانوں اور فرمانبرداروں سب کو رزق دے۔ اسی صورت میں اس دنیا میں انسان کی آزمائش ہوسکتی ہے۔ اگر وہ اس دنیا میں نافرمانوں کو رزق نہ دے یا ان پر رزق تنگ کردے اور اپنے فرمانبرداروں کو ہی رزق دے یا انھیں وافر رزق عطا کرنے لگے۔ تو پھر تو ہر ایک ایمان لے آئے گا اس میں انسانوں کی آزمائش کی کیا گنجائش رہ گئی؟ اور اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بسا اوقات ظالموں، چوروں، ڈاکوؤں، خائنوں، مکاروں اور فریب کاروں کو وافر رزق عطا کیا جاتا ہے۔ حالانکہ ان صفات کو اور ایسی صفات رکھنے والے لوگوں کو کوئی بھی اچھا نہیں سمجھتا۔ پھر بسا اوقات یوں بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ شریف لوگ سچ بولنے والے، عہد کے پابند، کسی کو ہاتھ یا زبان سے تکلیف نہ پہنچانے والے اور اللہ کے فرمانبردار اور عبادت گزار لوگ فقر و فاقہ میں مبتلا ہوتے ہیں۔ حالانکہ ان صفات کو اور ایسی صفات رکھنے والے انسانوں کو سب ہی اچھا سمجھتے ہیں۔ پھر قسم اول کے لوگوں کی آسودگی کو اور قسم دوم کے لوگوں کی تنگی کو اللہ کی رضا کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟ جبکہ زبان خلق بھی اس بات کی تردید کر رہی ہے۔ سبأ
37 [ ٥٥] اس جملہ کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ مال اور اولاد ایسی چیزیں نہیں ہیں جو اللہ کے ہاں تقرب کا ذریعہ بن سکیں۔ بلکہ یہی چیزیں اکثر انسانوں کے لئے اللہ کے تقرب کے بجائے الٹا اس کے غضب اور غصہ کا سبب بن جاتی ہیں اور اسے لے ڈوبتی ہیں۔ اس کے بجائے اللہ کے ہاں تقرّب کا معیار ایمان اور اعمال صالحہ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایمان لائے اور اعمال صالحہ بھی لائے تو یہی مال اور اولاد اس کے لئے اللہ کے ہاں تقرب کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ وہ یوں کہ اپنے مال و دولت کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتا رہے اور اولاد کی صحیح تعلیم و تربیت کرکے اسے اللہ کا فرمانبردار بنادے۔ [ ٥٦] ضِعُفَ (ضد نصف یعنی آدھا) یعنی کسی چیز کی مثل اتنا ہی اور (مفردات القرآن) پھر یہی لفظ کئی گنا کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اور کتاب و سنت کی صراحت کے مطابق یہ دس گنا بھی ہوسکتا ہے۔ سات سو گنا بھی بلکہ اس سے زیادہ بھی۔ [ ٥٧] اس میں ایک لطیف اشارہ یہ بھی ہے کہ ایماندار جنت کے ان بالاخانوں میں دائمی اور ابدی طور پر قیام پذیر رہیں گے۔ کیونکہ اگر ٹھکانہ عارضی ہو تو انسان کو امن و چین اور اطمینان نصیب نہیں ہوسکتا۔ سبأ
38 [ ٥٨] نیچا دکھانے سے مراد ان کا مذاق اڑانا، انہیں تسلیم نہ کرنا، اللہ کے راستے میں روڑے اٹکانا، ایمانداروں کو ایذائیں دینا، اور ایسی تدبیریں اور سازشیں تیار کرنا جن سے وہ اسلام کو کمزور یا نیست و نابود کرسکیں۔ سب باتیں شامل ہیں۔ سبأ
39 [ ٥٩] یعنی رزق کی فراخی نہ اللہ کی رضا کا معیار ہے نہ انسان کی اپنی فلاح کا۔ بلکہ رزق کا تعلق صرف مشیت الٰہی سے ہے۔ جس میں اس کی اپنی کئی حکمتیں مضمر ہیں۔ بسا اوقات وہ ظالموں کو زیادہ رزق دے کر انہیں عذاب شدید کا مستحق بنا دیتا ہے۔ اور بعض دفعہ اپنے فرمانبرداروں کو فقر و فاقہ میں مبتلا کرکے ان کے درجات کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ دولت بذات خود ایک ڈھلتی چھاؤں ہے۔ ایک ہی آدمی کے پاس کبھی زیادہ آجاتی ہے پھر اسی سے چھن بھی جاتی ہے۔ پھر جب مال و دولت میں ہی استقرارو استقلال نہیں تو پھر اسے خیر و شر کا معیار کیسے قرار دیا جاسکتا ہے۔؟ [ ٦٠] اللہ کی راہ میں خرچ کرنےسے رزق زیادہ ہوتاہے :۔ اس جملہ میں صدقہ و خیرات کرنے والے لوگوں کے لئے ایک عظیم خوشخبری ہے اور ایک ایسی حقیقت بیان کی گئی ہے۔ جو بارہا لوگوں کے تجربہ میں آچکی ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں اور اللہ کی رضا کے لئے خلوص نیت کے ساتھ انسان جو کچھ بھی خرچ کرتا ہے۔ اللہ اس کی جگہ اس خرچ کئے ہوئے مال جتنا یا اس سے زیادہ دے دیتا ہے وہ کس ذریعہ سے دیتا ہے اس کی کوئی مادی توجیہ پیش کی جاسکتی ہے۔ تاہم ہمارا تجربہ اور ہمارا وجدان دونوں اس بات کی تصدیق کرتے ہیں اور درج ذیل احادیث بھی اسی مضمون کی تائید و توثیق کرتی ہیں : ١۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’اے آدم کے بیٹے! تو (دوسروں پر) خرچ کر۔ میں تجھ پر خرچ کروں گا‘‘ (بخاری۔ کتاب الزکوۃ۔ باب الصدقۃ فیھا۔۔) ٢۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہاایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ہدایت فرمائی کہ روپیہ پیسہ ہتھیلی میں بند کرکے مت رکھو ورنہ اللہ بھی تمہارا رزق بند کرکے رکھے گا۔ بلکہ جہاں تک ہوسکے خیرات کرتی رہو۔ (بخاری۔ کتاب الزکوۃ۔ باب الصدقہ فیما استطاع) ٣۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بندوں پر کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس دن صبح دو فرشتے نازل نہ ہوں۔ ان میں ایک یوں دعا کرتا ہے ’’یا اللہ! خرچ کرنے والے کو اس کا بدل دے‘‘ اور دوسرا یوں دعا کرتا ہے ’’یا اللہ بخیل کا مال تباہ کردے‘‘ (بخاری۔ کتاب الزکوۃ۔ باب قولہ فاما من اعطی ٰ واتقی۔۔) ٤۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جس شخص کو یہ بات اچھی لگے کہ اس کا رزق کشادہ اور اس کی عمر دراز ہو وہ رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرے‘‘(بخاری۔ کتاب البیوع۔ باب من احب السبط فی الرزق) [ ٦١] اللہ تعالیٰ کی کئی صفات ایسی ہیں جو انسانوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ مثلاً حقیقی رازق تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ مگر ہر انسان اپنے بال بچوں کو رزق مہیا کرتا ہے۔ مالک اپنے ملازموں کو رزق عطا کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ جب ایسی صورت ہو تو اللہ کے لئے کوئی مزید امتیازی صفت بھی استعمال ہوگی۔ گویا اگر انسان کسی کا رزاق ہوسکتا ہے تو اللہ خیر الرازقین ہے یعنی سب کو رزق دینے والا بھی ہے اور بہتر رزق دینے والا بھی ہے۔ اسی طرح اللہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے تو انسان بھی تخلیق و ایجاد کرتا ہے۔ اس نسبت سے انسان کو موجد اور خالق تو کہہ سکتے ہیں مگر احسن الخالقین اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ سبأ
40 [ ٦٢]بت پرستی اور قبر پرستی میں قدرمشترک :۔ مشرکین خواہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوں یا اس سے پہلے ادوار کے یا مابعد کے دور کے، وہ یہ نہیں کہتے تھے کہ ہم ان بتوں کو پوجتے ہیں یا ان قبروں کو پوجتے ہیں۔ بلکہ ان کے اعتقاد کے پیچھے ان کا ایک پورا گھڑا ہوا فلسفہ ہوتا ہے۔ مثلاً سورج کی پوجا کرنے والا پہلے سورج کی روح کا ایک خیالی نقشہ یا تصویر قائم کرتے ہیں پھر اس خیالی تصویر کے مطابق اس کا مجسمہ بناتے ہیں۔ پھر یہ سمجھتے ہیں کہ اس مجسمہ کے ساتھ سورج کی روح کا بروقت تعلق قائم رہتا ہے اور ہم جو سورج کے مجسمہ کو پوجتے ہیں تو یہ دراصل اس بت کی نہیں بلکہ ہم سورج دیوتا کی عبادت کرتے ہیں۔ مشرکین نے اس طرح کے کئی دیویاں اور دیوتا بنا رکھے تھے۔ پھر یہ مجسمے مظاہر قدرت کے ہی نہیں بلکہ بعض صفات کے بھی ہوتے تھے۔ اور ان صفات کو بھی سیاروں سے منسوب کردیا جاتا تھا۔ مثلاً فلاں علم کی دیوی، فلاں دولت کی دیوی ہے وغیرہ وغیرہ۔ پھر کچھ مشرک فرشتوں کے خیالی مجسمے بنا کر ان کی پوجا کرتے تھے۔ مشرکین عرب کی ایک کثیر تعداد ایسی ہی تھی جو فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ اور لات و منات اور عزیٰ کے مجسمے بنا کر ان کی عبادت کرتے تو سمجھتے یہی تھے کہ ہم ان بتوں کی نہیں بلکہ ان فرشتوں کی عبادت کرتے ہیں جن کی ارواح ان مجسموں یا بتوں سے وابستہ رہتی ہیں۔ اسی طرح قبر پرست بھی یہ سمجھتے تھے کہ ہم اس قبر کے پرستار نہیں بلکہ ہماری سب نیاز مندیاں اور نذریں نیازیں تو صاحب قبر کے لئے ہیں۔ جس کی روح اس کی قبر کے ساتھ وابستہ رہتی ہے۔ فرشتوں سےا لوہیت کےمتعلق سوال:۔ ان تمام معبودوں سے چونکہ فرشتے ہی برتر مخلوق ہیں۔ لہٰذا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مشرکوں کو شرمندہ کرنے اور انہیں حسرت دلانے کے لئے انہی سے سوال کرے گا کہ یہ لوگ تمہاری ہی عبادت کرتے تھے؟ کیا تم نے انہیں ایسا کہا تھا کہ تمہاری عبادت کیا کریں؟ یا کچھ اس قسم کی آرزو تم نے کی تھی؟ واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرشتوں کے علاوہ دوسرے معبودوں سے بھی ایسا سوال کرے گا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق ایسا سوال تو بالتفصیل اور بالصراحت قرآن میں مذکور ہے۔ سبأ
41 [ ٦٣]اللہ کےسواجس کی بھی عبادت کی جائے وہ دراصل شیطان کی عبادت ہوتی ہے:۔ یہاں جن سے مراد شیاطین ہیں اور قرآن میں یہ دونوں الفاظ ایک دوسرے کے مترادف کے طور پر استعمال ہوئے ہیں۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کے سوال کے جواب میں کہیں گے ہمیں ان بدبخت مشرکوں سے کیا سروکار جنہوں نے تجھے چھوڑ کر ہمیں اپنا سرپرست سمجھ رکھا تھا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا بھی سرپرست تو ہی ہے اور ان کا بھی تو ہی ہے اور تھا۔ مگر انہوں نے جو ہمیں اپنا سرپرست سمجھ رکھا تھا۔ تو ہم نے انہیں ایسی بات قطعاً نہیں کہی تھی۔ یہ پٹی ان کو شیطان نے پڑھائی تھی۔ اسی کی ترغیب پر یہ ہماری پوجا کرتے رہے تو دراصل یہ ہماری نہیں بلکہ ان شیطانوں کی پوجا کر رہے تھے جن کے یہ فرمانبردار بن کر ان کے کہنے پر لگ گئے تھے۔ [ ٦٤] یعنی کبھی کبھار ایسا بھی ہوجاتا کہ جس غرض کے لئے انہوں نے کسی بت کے آگے نذریں نیازیں چڑھائیں تو ان کی غرض پوری ہوگئی یا بت کے اندر سے شیطان بول پڑا تو ایسی اتفاقی باتوں سے ان کا اعتقاد اور بھی پختہ ہوجاتا تھا۔ حالانکہ ان کی غرض بھی صرف وہی پوری ہوتی تھی جن کا پورا ہونا اللہ کی طرف سے پہلے ہی مقدر ہوچکا ہوتا تھا۔ سبأ
42 [ ٦٥] اس وقت اللہ کے حضور فرشتے بھی موجود ہوں گے، مشرکین بھی اور شیاطین بھی۔ اور یہ سب کے اللہ کے سامنے محکوم اور بے بس ہوں گے۔ فرشتے بھی مشرکوں سے بیزار اور شیاطین بھی اور مشرک فرشتوں کے جواب کی وجہ سے ان سے بھی بیزار اور شیطانوں سے بھی جنہوں نے انہیں شرک کی راہ پر ڈالا تھا۔ گویا ہر ایک کو دوسرے سے بیزاری بھی ہوگی اور ہر ایک بے بس بھی ہوگا تو اس صورت میں دوسرے کو کیا فائدہ پہنچا سکے گا اور کیوں فائدہ پہنچائے گا ؟ سبأ
43 [ ٦٦]کفارمکہ قرآن کوجادوکیوں کہتےتھے؟ یعنی ہمیں ہمارے طرز زندگی سے ہٹا کر ایک نئی راہ پر ڈالنا چاہتا ہے۔ ہمارا طرز زندگی وہ ہے جو ہمارے آباؤ اجداد سے بڑی مدت سے رائج چلا آرہا ہے اور یہ شخص جس راہ پر ڈالنا چاہتا ہے اس کی بنیاد محض اس کی اپنی اختراع کردہ باتیں ہیں۔ اور چاہتا یہ ہے کہ یہ خود ہمارا متبوع بن جائے اور ہم اس کے تابع بن کر رہیں۔ ہم بھلا یہ بات کیسے گوارا کرسکتے ہیں؟ گویا قریش مکہ کے نزدیک پیغمبر اسلام کی دعوت محض ایک اقتدار کا مسئلہ تھا۔ اس کے علاوہ وہ کوئی بات یا دلیل ماننے کو تیار نہ تھے۔ [ ٦٧] اللہ کے کلام یا قرآن کریم کو کفار مکہ کا جادو کہنا اس لحاظ سے تھا کہ قرآن کی جادو اثر تاثیر سے وہ خود خائف رہتے تھے۔ انہوں نے مسلمانوں پر یہ پابندی بھی لگا رکھی تھی کہ وہ قرآن بلند آواز سے نہ پڑھا کریں کیونکہ اس طرح ان کے بیوی بچے قرآن سے متاثر ہوجاتے ہیں حالانکہ وہ کم بخت خود اس کی تاثیر سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتے تھے۔ مگر محض ضد، ہٹ دھرمی، اور چند دنیوی مفادات کی خاطر قرآن اور دعوت قرآن کا انکار کرتے اور مذاق اڑاتے تھے۔ پھر وہ جادو سے یہ مطلب بھی لیتے تھے کہ جو شخص بھی ایمان لے آتا تھا۔ اسے پھر یہ پروا نہ رہتی تھی کہ فلاں شخص میرا باپ ہے یا بھائی ہے یا بیٹا ہے یا فلاں میری ماں ہے یا بیٹی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور مشرکین مکہ چونکہ ایسی جدائی ڈالنے کے لئے جادوگروں کی خدمات حاصل کیا کرتے تھے اور اس کلام سے بھی ایسی جدائی پڑجاتی تھی۔ تو اس لحاظ سے بھی وہ قرآن کو جادو کہہ دیتے تھے۔ بالفاظ دیگر وہ قرآن کے منکر ہونے کے باوجود اس بات کے قائل تھے کہ قرآن اپنے اندر جادو سے بھی زیادہ تاثیر رکھتا ہے۔ سبأ
44 [ ٦٨] یعنی ان کے پاس نہ کوئی نبی آیا اور نہ ہی اللہ کی کتاب نازل ہوئی جو اس بات کی تعلیم دیتی ہو یا کم از کم تائید ہی کرتی ہو کہ جس آبائی اور مشرکانہ دین پر یہ لوگ چل رہے ہیں وہی دین برحق ہے یعنی ان کے پاس اپنے دین کی صداقت کے لئے کوئی سند نہیں ہے۔ یہ لوگ بس اسی بات پر مطمئن ہو بیٹھے ہیں کہ یہ ان کا آبائی دین ہے۔ ان کے پاس نہ آپ کو جھٹلانے کے لئے کوئی دلیل ہے اور نہ اپنے مشرکانہ عقائد کو درست ثابت کرنے کے لئے کوئی دلیل ہے۔ سبأ
45 [ ٦٩] یعنی اقوام سابقہ جو تباہ کی جاچکیں وہ ان قریش مکہ سے قدو قامت، ڈیل ڈول، قوت، مال و دولت اور عیش و فراوانی غرض ہر لحاظ سے بہت زیادہ تھیں۔ یہ قریش مکہ تو ان کے مقابلہ میں دسواں حصہ بھی نہیں۔ پھر جب ان اقوام نے ہمارے رسولوں کی تکذیب کی تو انہیں اس قوت اور سطوت کے باوجود تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا گیا۔ تو آخر یہ لوگ کس کھیت کی مولی ہیں جو ہماری گرفت سے بچ سکیں گے۔ سبأ
46 [ ٧٠] حجراسودکونصب کرنےکاجھگڑاختم کرنا آپ کی دانشمندی پردلیل ہے:۔یعنی میری صرف ایک بات مان لو۔ ضد اور تعصب کو چھوڑ کر پوری نیک نیتی سے یہ بات سوچو، اکیلے اکیلے بھی سوچو، دو دو اور اس سے زیادہ بھی مل بیٹھ کر اور سر جوڑ کر اس بات پر غور کرو کہ جو جو الزام تم مجھ پر لگا رہے ہو کیا وہ درست ہیں؟ اور تم جو کچھ کہہ رہے ہو نیک نیتی سے کہہ رہے ہو؟ میری بچپن سے لے کر آج تک کی زندگی سے تم خوب واقف ہو۔ میری صداقت اور میری دیانت کے تم آج تک قائل رہے ہو۔ کیا یہ امر واقعہ نہیں کہ آج سے چند ہی برس پیشتر تعمیر کعبہ کے دوران جب تم میں حجر اسود کو رکھنے کے مسئلہ پر تم میں تنازعہ پیدا ہوگیا تھا تو تم نے کہا تھا کہ صبح جو شخص سب سے پہلے کعبہ میں داخل ہوگا تم اسے حکم تسلیم کرلو گے۔ پھر جب میں صبح کعبہ میں آیا تو تم سب نے برضا و رغبت مجھے حکم تسلیم کرنے پر اتفاق کرلیا تھا۔ پھر جب میں نے ایک چادر بچھا کر اس پر حجر اسود رکھ دیا اور تم سب کو کو نوں سے چادر اٹھانے کو کہا تھا پھر مطلوبہ بلندی پر پہنچنے پر میں نے حجر اسود خود اٹھا کر اس مقام پر رکھ دیا تھا۔ تو تم سب نے نہ صرف یہ کہ میرے فیصلہ کو برضا و رغبت تسلیم کرلیا تھا بلکہ میری دانشمندی کی داد بھی دی تھی اور آج تم ہی لوگ ہو جو مجھے دیوانہ کہتے ہو، کبھی یہ کہتے ہو کہ میں نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے اور کبھی یہ کہتے ہو کہ میں قرآن خود بنا کر تمہیں دھوکا دے رہا ہوں۔ خدارا کچھ تو انصاف کی بات کرو۔ [ ٧١] کیا تمہارے خیال میں میں اس لئے دیوانہ ہوں کہ تمہیں یہ بتلا رہا ہوں جو طریق زندگی تم نے اپنا رکھا ہے وہ غلط ہے۔ اور اس کے برے انجام سے ڈرا رہا ہوں۔ اور اگر میں یہ کہہ دیتا کہ شاباش! تم لوگ بہت ٹھیک جارہے ہو تب تو سب معاملہ ٹھیک ٹھاک تھا۔ اور اگر میں تمہیں چند ٹھوس حقائق کی اطلاع دیتا ہوں تو تم مجھے دیوانہ کہنے لگے ہو۔ سبأ
47 [ ٧٢] دوسری یہ بات بھی سوچو کہ جب سے میں نے دعوت الی اللہ کا کام شروع کیا ہے۔ دن رات اسی کام میں لگا ہوا ہوں۔ تم سب لوگوں کی دشمنی بھی مول لے لی ہے۔ اپنا روزگار بھی ختم کردیا ہے۔ تم سے بھی نہ کوئی معاوضہ طلب کرتا ہوں نہ کوئی دوسری غرض رکھتا ہوں۔ تو کیا ایک دنیادار یا فریب کار اور اقتدار کا بھوکا یہ کام کرسکتا ہے یا ایسی بے لوث خدمت سرانجام دے سکتا ہے؟ میں تم سے پیسہ نہیں مانگتا البتہ یہ ضرور چاہتا ہوں کہ تم غلط راستہ کو چھوڑ کر سیدھے راستہ کی طرف آجاؤ۔ یہی میرا تم سے معاوضہ ہے اور یہی مطالبہ ہے اور اس میں تمہاری ہی بھلائی ہے۔ سبأ
48 [ ٧٣] یعنی آسمان سے جو وحی نازل ہو رہی ہے وہ حق ہے اور جو تمہارا طرز عمل ہے وہ باطل ہے۔ یہ حق باطل کا سر توڑ دے گا اور اس کا کچومر نکال دے گا۔ باطل کو بالآخر راہ فرار اختیار کرنا ہی پڑے گی۔ اور حق اس پر غالب آکے رہے گا۔ اللہ علام الغیوب ہے۔ اس نے عین موقع پر مجھے اپنی وحی کے ساتھ بھیجا ہے۔ اور وہ خوب جانتا ہے کہ باطل کا سر توڑنے کے لئے یہی مناسب موقع ہے۔ سبأ
49 [ ٧٤] جھوٹ کےپاؤں نہیں ہوتے:۔یہاں باطل سے بعض لوگوں نے مراد معبودان باطل لیا ہے۔ یعنی ان باطل معبودوں نے کائنات میں پہلے بھلا کون سی چیز پیدا کی تھی کہ اب وہ دوبارہ وہ کچھ کرسکیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ معبود قطعی بے اختیار اور مجبور محض ہیں۔ تم لوگ ان سے خواہ مخواہ ہی کئی طرح کی توقعات وابستہ کئے بیٹھے ہو۔ اور اگر باطل کو اپنے ہی معنوں میں لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ باطل کو کبھی استقلال نصیب نہیں ہوتا۔ جسے ہم اپنی زبان میں کہتے ہیں کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ کسی بھی بات کی تحقیق شروع کرو۔ باطل کو فوراً وہاں سے رخصت ہونا پڑے گا۔ باطل کی ضد حق ہے۔ یعنی جوں جوں حق آ جاتا ہے، باطل از خود رخصت ہوتا چلا جاتا ہے۔ فتح مکہ کے دن جب آپ اپنی چھڑی سے بتوں کو گرا رہے تھے تو اس وقت ساتھ ساتھ یہ آیت بھی پڑھتے جاتے تھے۔ ﴿ وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَہُوْقًا ﴾ سبأ
50 [ ٧٥] یعنی اگر میں نے یہ محض ایک ڈھونگ ہی رچایا ہوا ہے تو آخر یہ کتنے دل چل سکتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ اس صورت میں تمہیں میری فکر چھوڑ دینا چاہئے میں اس باطل کے انجام سے جلد از جلد خود ہی دوچار ہوجاؤں گا اور اس کا وبال تم پر کچھ نہ ہوگا۔ لیکن اگر میں راہ راست پر ہوں تو اس راست روی کا ذریعہ سوائے وحی الٰہی کے اور کیا ہوسکتا ہے؟ تمہارے پاس تو تقلید آباء ذریعہ معلومات ہے۔ میرے پاس تو وہ بھی نہیں اس صورت میں تم خود ہی سوچ لو کہ تمہارا انجام کیا ہوسکتا ہے۔ میرا پروردگار جو اس پیغام کو بھیجنے والا ہے ہماری سب باتیں سن رہا ہے اور وہ جلد ہی حق کی مدد فرمائے گا۔ سبأ
51 [ ٧٦] یعنی ایسے مجرموں کو کہیں دور سے تلاش نہیں کرنا پڑے گا۔ بلکہ وہ جہاں بھی ہوں گے وہیں گرفتار کر لئے جائیں گے کہیں بھاگ کھڑا ہونے کی ان میں ہمت ہی نہ ہوگی۔ سبأ
52 [ ٧٧]ایمان لانےکامقام دنیاہے آخرت نہیں:۔ یعنی ایمان لانے کا مقام تو دنیا ہے اور اس وقت وہ عالم آخرت میں پہنچ چکے۔ اور ان دونوں کے درمیان طویل فاصلہ ہے اور طویل مدت ہے۔ پھر وہ ایمان کیسے حاصل کرسکتے ہیں۔ بالفاظ دیگر ایمان تو ایمان بالغیب کا نام ہے۔ اور اس کا مقام دنیا ہے جہاں کئی غیب کے پردے پڑے ہوئے ہیں۔ اور آخرت میں غیب کا کوئی پردہ باقی نہ رہے گا۔ ہر شخص حقیقت حال کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ لے گا۔ وہاں ایمان لانے یا ایسی بات کہنے کا کچھ مطلب ہی نہ ہوگا۔ سبأ
53 [ ٧٨] یعنی جب دنیا میں ان سے عالم آخرت کی بات کی جاتی تھی تو اس پر غور کرنے کے بجائے اسے دیوانگی پر محمول کرتے تھے۔ کبھی داعی حق کو مفتری علی اللہ کے لقب سے نوازتے تھے۔ کبھی کہتے تھے کہ اسے کوئی عجمی سکھلا جاتا ہے۔ کبھی اسے ساحر، کاہن اور شاعر کے طعنے دیتے تھے۔ ان دل کے اندھوں کو جہالت کے اندھیروں میں بہت دور کی سوجھتی تھی۔ لیکن نیک نیتی کے ساتھ غور و فکر کرنے کا نام تک نہ لیتے تھے۔ سبأ
54 [ ٧٩] اس وقت ان کی خواہشات کیا ہوں گی۔ یہی کہ ہم ایمان لے آئیں یا ہمیں دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے یا کوئی ایسی صورت بن جائے کہ ہم عذاب سے بچ سکیں یا ہمارے لئے کوئی سفارش کرنے والا یا ہمارا کوئی مددگار ہی اٹھ کھڑا ہو۔ اس دن ان کی اس قسم کی تمام خواہشات کو یوں ختم کرکے انہیں مایوس کردیا جائے گا جیسے ان کی خواہشات کے آگے بند باندھ کر انہیں ان سے یکسر اوجھل کردیا گیا ہے۔ پھر انہیں سوائے عذاب بھگتنے کے کوئی دوسرا خیال بھی نہ آسکے گا۔ [ ٨٠]اشیاع کا لغوی مفہوم :۔ أشیاع شیعہ کی جمع ہے اور شیعہ کے معنی پارٹی یا سیاسی فرقہ ہے۔ جس کی بنیاد عقیدہ کا اختلاف ہو اور شیعہ کی جمع شیعا بھی آتی ہے۔ اور جب اس کی جمع اشیاع آئے تو اس کے معنی ایک ہی جیسی عادات و اطوار رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں خواہ وہ پہلے گزر چکے ہوں یا موجود ہوں۔ اور قریش مکہ کی بنیادی گمراہیاں دو تھیں ایک بت پرستی اور اللہ سے شرک۔ اور اپنے بتوں کو اختیار و تصرف میں اللہ کا شریک سمجھنا دوسرے انکار آخرت۔ اب جو لوگ بھی ان دو قسم کی گمراہیوں میں قریش کے ہمنوا ہوں گے وہ سب قریش کے اشیاع ہیں۔ خواہ وہ قریش سے پہلے گزر چکے ہوں یا بعد میں آئیں۔ اللہ تعالیٰ یہ فرما رہے ہیں کہ اس قسم کے لوگوں کے ان عقائد کی بنیاد علم پر نہیں ہوتی۔ بلکہ محض شکوک و ظنون پر ہوتی ہے۔ وہ یہ کبھی بدلائل ثابت نہیں کرسکتے کہ ان کے معبود فی الواقع اللہ کے اختیارات میں شریک ہیں نہ ہی وہ یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ وہ دوبارہ پیدا نہیں کئے جاسکتے یا قیامت نہیں آسکتی۔ وہ خود بھی اس بارے میں ہمیشہ مشکوک ہی رہتے ہیں۔ اور شک بھی ایسا جو انہیں بے چین کئے رکھتا ہے۔ مگر وہ محض اپنے بعض مفادات کی خاطر اپنے ان شکوک کا برملا اظہار نہیں کرتے۔ سبأ
0 فاطر
1 [ ١] فَطَرَ کا مفہوم :۔ پیدا کرنے کے معنوں میں قرآن کریم میں چھ مترادف الفاظ آئے ہیں۔ اور ہر لفظ کے مفہوم میں کچھ نہ کچھ فرق ہوتا ہے۔ فطر کا معنی کسی چیز کو پیدا کرنا، پھر اس کو تراش خراش کرکے اسے خوبصورت شکل دینا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے آسمانوں یا زمین یعنی کائنات کو صرف پیدا ہی نہیں کیا بلکہ اسے تراش خراش کر کے بہترین شکل و صورت پر بنایا ہے۔ [ ٢] پیغام رساں فرشتے :۔ فرشتوں کے ذمہ کئی قسم کے کام ہیں۔ جن میں سے ایک کام پیغام رسانی بھی ہے۔ پیغام رسانی کی ایک قسم تو معروف ہے کہ جبرئیل فرشتہ اللہ کا پیغام لے کر نبی کے دل پر نازل ہوتا ہے۔ باقی صورتیں یہ ہیں کہ جو فرشتے تدبیر امور کائنات پر مامور ہیں ان کے ہاں بھی بعض فرشتے اللہ کا حکم لے کر پہنچتے ہیں اور پیغام رسانی کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔ [ ٣] فرشتوں کے پر اور سرعت رفتار :۔ فرشتوں کے پر کیسے ہوتے ہیں؟ یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ہمارے ذہن میں تو پرندوں کے پر ہی آسکتے ہیں۔ جو فضا میں اڑنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے پرندوں کو عطا کیے ہیں اس سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے۔ جس فرشتے کو جتنی زیادہ سرعت رفتار سے اپنی ڈیوٹی پر پہنچنا ہوتا ہے اسی قدر اسے زیادہ پر عطا کیے جاتے ہیں، کم سے کم دو پر ہوتے ہیں پھر کسی فرشتے کے تین پر بھی ہوتے ہیں اور کسی کے چار بھی۔ اس آیت سے اس حقیقت کا بھی پتا چلتا ہے کہ فرشتے دراصل اللہ تعالیٰ کے خادم اور فرمانبردار بندے ہیں۔ وہ وہی کام کرتے ہیں جس کا اللہ انہیں حکم دیتا ہے اور اتنا ہی کرتے ہیں جتنا انہیں حکم ہوتا ہے۔ وہ اپنے ارادہ و اختیار سے نہ اللہ کے حکم میں سرمو کمی بیشی کرسکتے ہیں اور نہ ہی اس سے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ گویا اس آیت سے تمام مشرکوں کے اس نظریہ کی تردید ہوگئی جو انہیں ایک بااختیار بلکہ اللہ کے اختیار و تصرف میں شریک سمجھ کر ان کی پرستش کرتے ہیں۔ [ ٤] ربط مضمون کے لحاظ سے اس جملہ کا معنی یہ ہوگا کہ بعض فرشتوں کے پر چار سے زیادہ بھی ہوسکتے ہیں۔ جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے ایک دفعہ جبرئیل ؑکو اس کی اصلی حالت میں دیکھا۔ اس کے چھ سو پر تھے۔ اور مشرق و مغرب کی پوری فضا اس سے بھری ہوئی دکھائی دیتی تھی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ نجم) اگر اس جملہ کو عام سمجھا جائے تو یہ بہت وسیع معنوں میں استعمال ہوگا۔ مثلاً وہ انسان کی نسل جتنی چاہے بڑھاتا رہتا ہے۔ حیوانات اور نباتات کی نئی سے نئی انواع وجود میں لاتا رہتا ہے۔ نئے سے نئے سیارے کائنات میں پیدا کرتا رہتا ہے اور کائنات کو ہر آن وسیع کر رہا ہے۔ فاطر
2 [ ٥] رحمت کی مادی شکل بارش اور روحانی شکل وحی الٰہی ہے۔ باقی ہر طرح کی رحمتیں ان کے بعد ہیں۔ اور یہ دونوں باتیں خالصتاً اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں۔ جن میں مشرکوں کے معبودوں کا ذرہ بھر بھی دخل نہیں۔ وہ چاہیں بھی کہ وحی الٰہی کو روک دیں تو کبھی نہیں کرسکتے۔ اور نہ ہی وہ یہ کرسکتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ قریش پر قحط مسلط کر دے تو وہ بارش برسا کر اپنے عبادت گزاروں کی تکلیف کو رفع کردیں اور جو کچھ خود چاہتا ہے اپنی حکمت بالغہ کے مطابق کرتا ہے اور جو کچھ کرنا چاہتا ہے وہ کر گزرتا ہے۔ اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ کیونکہ وہ سب پر غالب ہے۔ فاطر
3 [ ٦] بارش سب جانداروں کے رزق کا ذریعہ ہے :۔ آسمانوں سے جو بارش نازل ہوتی ہے۔ وہ زمین میں جذب ہو کر سب جانوروں کی روزی اور ان کی زندگی کی بقا کا ذریعہ بنتی ہے۔ اب اگر اس بارش برسنے کے نظام پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے عوامل و عناصر ہیں جنہیں اللہ نے اس خدمت پر مامور کر رکھا ہے۔ تب جاکر بارش برستی ہے اور یہ سب عناصر و عوامل خالصتاً اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ اور ان میں مشرکوں کے معبودوں کا کوئی عمل دخل نہیں۔ جس سے واضح طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی بھی ہستی عبادت کا استحقاق نہیں رکھتی۔ پھر یہ کس قدر ناقدر شناسی اور نمک حرامی کی بات ہے کہ روزی تو اللہ کی دی ہوئی کھائیں اور عبادت کریں اللہ کے سوا دوسروں کی۔ یا دوسروں کو بھی اس عبادت میں شریک بنا لیں؟ لہٰذا اے مشرکین مکہ! کچھ بتاؤ تو سہی کہ تمہاری عقلوں کو یہ پھیر کہاں سے لگ جاتا ہے؟ فاطر
4 [ ٧] یہ مضمون قرآن میں متعدد بار آیا ہے۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ اکثر مکی سورتوں میں آیا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ تیرا سالہ مکی دور میں کفار مکہ ڈٹ کر آپ کی مخالفت کرتے رہے اور اس سلسلہ میں انہوں نے اوچھے سے اوچھے ہتھکنڈے بھی استعمال کئے۔ ایذائیں بھی پہنچائیں، تکذیب بھی کرتے رہے۔ تمسخر بھی اڑاتے رہے۔ جبکہ مسلمانوں کو صرف یہ حکم تھا کہ یہ سب باتیں صبر و تحمل کے ساتھ برداشت کرتے جائیں۔ البتہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بار بار پیغمبراسلام اور مسلمانوں کی تسلی اور حوصلہ افزائی کے لئے ایسے جملے نازل کرتا رہا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ حق و باطل کی کشمکش میں پہلے بھی رسولوں سے ایسا ہی سلوک ہوتا رہا ہے اور کسی بھی بات کا فیصلہ اور انجام ان لوگوں کے ہاتھ میں نہیں بلکہ سب کاموں کا انجام اور فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ لہٰذا اطمینان رکھئے اور اللہ پر توکل کیجئے۔ فاطر
5 [ ٨] یعنی دنیا کے مال و دولت، اس کے عیش و آرام، اس کی دلکشیوں اور دلفریبیوں میں محو اور مستغرق ہو کر اپنے انجام کو بھول نہ جانا۔ اللہ کے ہاں ہر نعمت سے متعلق باز پرس ہونے والی ہے کہ اس کا شکریہ ادا کیا تھا یا ناشکری کی تھی۔ نیز اس دنیا میں کوئی بھی چیز بے کار پیدا نہیں کی گئی۔ ہر عمل اپنا ایک نتیجہ رکھتا ہے۔ اور اس کے محاسبہ سے تم بچ نہیں سکتے۔ لہٰذا اس دھوکہ میں نہ رہنا کہ زندگی بس یہی دنیا کی زندگی ہے۔ تمہارے تمام تر اعمال ریکارڈ ہو رہے ہیں اور ان کے نتائج تمہیں دوسری زندگی میں بھگتنا ہوں گے۔ اللہ کا یہ وعدہ ہے اور یہی اس کا قانون مکافات ہے جس کا خلاف کبھی نہیں ہوسکتا۔ [ ٩] شیطان کا اللہ کے نام پر لوگوں کو دھوکا دینا :۔ غرور بمعنی بہت بڑا دھوکا باز اور یہ شیطان ہے۔ جو اللہ ہی کے بارے میں انسان کو دھوکا میں ڈالے رکھتا ہے۔ سب سے پہلے تو وہ اللہ کی ہستی کے بارے میں لوگوں کو دھوکا دیتا ہے اور وہ اس کے دھوکہ میں آکر اللہ کی ہستی کے ہی منکر بن جاتے ہیں اور جو لوگ شیطان کے اس فریب سے بچ نکلتے ہیں تو وہ اللہ کی صفات میں بہت سی دوسری ہستیوں کو شریک بنانے کی راہیں سجھاتا ہے اور ہر دور میں نئی نئی راہیں سجھاتا ہے کچھ لوگ مظاہر کائنات کے پجاری ہیں کچھ فرشتوں، کچھ جنوں، کچھ اولیاء اللہ اور ان کی قبروں سے امید لگائے بیٹھے ہیں۔ ہر دور میں شیطان انہیں شرک کے جواز پر نئی سے نئی دلیلیں سجھاتا رہتا ہے۔ پھر جو لوگ اس فریب سے بھی بچ نکلتے ہیں انہیں یہ پٹی پڑھاتا رہتا ہے کہ اگر تم سے یہ گناہ سرزد ہو بھی گیا تو اللہ بڑا غفور رحیم ہے یا ابھی بہت زندگی پڑی ہے۔ بعد میں توبہ تائب کرلیں گے۔ اس طرح شیطان لوگوں کو اللہ اور اس کے عذاب سے نڈر اور گناہوں پر جری بنا دیتا ہے۔ فاطر
6 [ ١٠] لہٰذا اے لوگو! تم شیطان کے فریب میں نہ آجانا۔ اس کی ایک بھی بات نہ ماننا۔ وہ پہلے دن سے تمہارا دشمن ہے۔ لہٰذا تم اسے دشمن ہی سمجھو گے تو اسی میں تمہاری عافیت ہے وہ کبھی تمہارا دوست نہیں بن سکتا۔ وہ شرکیہ عقائد و بدعات خواہ کس خوبصورت انداز میں پیش کرے اور تم اسے کار ثواب اور اس میں فلاح دارین ہی سمجھنے لگو حقیقت میں وہ تمہارے ساتھ دشمنی کر رہا ہوتا ہے۔ اس کا تو اولین مقصد ہی یہ ہے کہ وہ اکیلا دوزخ میں نہ جائے بلکہ جنوں اور انسانوں کی ایک کثیر تعداد کو اپنا ساتھی بناکر اپنے ہمراہ دوزخ میں لے جائے۔ فاطر
7 [ ١١] یعنی ایماندار نیک اعمال کرنے والوں کے گناہ تو سارے کے سارے معاف کردیئے جائیں گے۔ رہے نیک اعمال تو ان کا بدلہ بھی اعمال کے مطابق نہیں بلکہ ان سے بہت زیادہ دیا جائے گا۔ فاطر
8 [ ١٢] کافروں کے ایمان نہ لانے پر آپ کا پریشان رہنا :۔ اس آیت میں ایک جملہ مخدوف ہے جسے قاری کے فہم و بصیرت پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اور یہ فصاحت و بلاغت کی دلیل ہوتی ہے۔ اور قرآن میں ایسے محذوفات بکثرت پائے جاتے ہیں۔ یہاں سوال یہ کیا گیا ہے کہ بھلا ایسا شخص جس کے ذہن میں اتنا بگاڑ پیدا ہوچکا ہو کہ اس کے نزدیک نیکی اور بدی کی تمیز ہی ختم ہوجائے اور اسے اپنی بداعمالیاں ہی اچھے اعمال نظر آنے لگیں، اس سوالیہ جملے کا اگلا حصہ چھوڑ دیا گیا ہے۔ جو ایک تو یہ ہوسکتا ہے کہ اس کی گمراہی کا کوئی ٹھکانا ہے؟ جیسا کہ ترجمہ میں (بریکٹوں میں لکھ دیا گیا ہے) اور دوسرا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کیا ایسے بگڑے ہوئے ذہن والا آدمی اس آدمی کی طرح ہوسکتا ہے جس کا ذہن بالکل درست ہو جو برے کام کو برا ہی سمجھتا ہو اور اچھا صرف اسے سمجھتا ہو جو فی الواقع اچھا ہو؟ اور اس کا واضح جواب یہ ہے کہ یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ مقصود یہ ہے کہ جس شخص کا ذہن اس قدر بگڑ چکا ہو کہ اس میں بدی کو بدی سمجھنے کی اہلیت ہی باقی نہ رہ گئی ہو ایسے شخص کو اللہ کبھی ہدایت کی راہ نہیں دکھاتا۔ اللہ تو صرف اسے ہدایت کی راہ دکھاتا ہے جو کم از کم بدی کو بدی سمجھتا تو ہو۔ اور ان مشرکین مکہ کی حالت یہ ہوچکی ہے کہ وہ مسلمانوں پر جس قدر بھی ظلم ڈھائیں۔ وہ اپنے اس ظلم و تشدد کو خوبی اور اچھا کام ہی سمجھتے ہیں۔ پھر انہیں ہدایت کیسے مل سکتی ہے لہٰذا ایسے ذہنی بگاڑ میں مبتلا مریضوں کی ہدایت کی فکر میں اپنے آپ کو ہلکان نہ کریں۔ ایسے لوگوں پر افسوس کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ جو کچھ وہ کر رہے ہیں اللہ اسے خوب جانتا ہے وہ خود ان سے نمٹ لے گا اور مسلمانوں کے لئے ان ظالموں کے ظلم سے نجات کی راہ خود پیدا کردے گا۔ فاطر
9 [ ١٣] نباتات کی پیدائش سے معاد پر دلیل :۔ یہ ایک عام انسانی مشاہدہ سے معاد پر دلیل ہے۔ انسانی مشاہدہ یہ ہے کہ بارش ہوتی ہے تو خشک، بنجر اور مردہ زمین یک دم زندہ ہو کر نباتات سے لہلہا اٹھتی ہے پھر اس سے صرف نباتات ہی پیدا نہیں ہوتی ہزاروں جانور، مینڈک، حشرات الارض اور جھینگر وغیرہ بھی پیدا ہو کر اپنی اپنی بولیاں بولنے لگتے ہیں۔ یہ آخر کہاں سے پیدا ہوگئے؟ بالکل یہی کیفیت انسانوں کے زمین سے جی اٹھنے کی بھی ہوگی۔ اور روایات میں آیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا کہ تمام انسان زندہ ہو کر اپنی اپنی قبروں سے اگ آئیں یا اٹھ کھڑے ہوں تو عرش کے نیچے سے ایک خاص قسم کی بارش ہوگی جس سے سب انسان زندہ ہو کر زمین سے اس طرح نکل آئیں گے جس طرح برسات سے کھیتی اور حشرات الارض نکل آتے ہیں۔ ان میں فرق صرف یہ ہے کہ جو چیز انسان کے مشاہدہ میں آچکی ہے۔ اسے من و عن تسلیم تو کرلیتا ہے لیکن اس میں غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا اور جو چیز اس کے مثل ہے مگر ابھی اس کے مشاہدہ میں نہیں آئی اس سے انکار کردیتا ہے۔ فاطر
10 [ ١٤] مشرکین مکہ کی حرم کعبہ کی وجہ سے عرب بھر میں عزت کی جاتی تھی وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر وہ اسلام لے آئے تو یہ سارا بنا بنایا کھیل بگڑ جائے گا۔ انہیں یہ سمجھایا جارہا ہے کہ یہ عزت بھی تمہیں کعبہ کے متولی اور پاسبان ہونے کی وجہ سے حاصل ہے۔ اور کعبہ کو حرم بنانے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ تم اور تمہارے معبودوں میں یہ طاقت نہیں تھی کہ تم مکہ کو حرم بناسکتے۔ اب اگر تم کعبہ کے مالک ہی کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے ہو تو سوچ لو تمہاری یہ عزت کیسے برقرار رہ سکتی ہے؟ عزت تو صرف اسے ملے گی جو اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار ہو کیونکہ تمام تر عزت کا سرچشمہ تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے تم لوگ اس کے دشمن بن کر کبھی عزت نہ پا سکو گے۔ [ ١٥] پاکیزہ کلمہ اور اعمال صالحہ کا باہمی تعلق :۔ پاکیزہ کلمات اور پاکیزہ اعمال دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ اور دونوں ایک دوسرے کے مؤید اور مددگار ہیں۔ پاکیزہ کلمات یا اقوال اللہ کی طرف اس وقت چڑھتے ہیں جب کہ ان کی تائید اعمال صالحہ سے بھی ہو رہی ہو۔ اور اگر عمل پاکیزہ اقوال کے خلاف ہو تو یہ پاکیزہ اقوال بھی نہ اوپر چڑھ سکتے ہیں نہ اللہ کے ہاں مقبول ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح اعمال صالحہ بھی اسی صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف چڑھتے ہیں جبکہ ان کی بنیاد پاکیزہ اقوال یا درست عقیدہ پر ہو۔ اگر عقیدہ درست نہ ہوگا تو ایسے اعمال بھی نہ اوپر چڑھیں گے اور نہ ہی مقبولیت کا درجہ حاصل کرسکتے ہیں۔ پاکیزہ کلمات میں سب سے پہلے نمبر پر تو کلمہ طیبہ ہے جس میں شرک کا پورا رد موجود ہے اور توحید خالص کا اقرار ہے۔ پھر اللہ کا ذکر، دعا، قرآن کی تلاوت وغیرہ آخرت وغیرہ سے متعلق ٹھوس حقائق پر مبنی ہیں۔ یہ کلمات اللہ کی طرف بلند ضرور ہوتے ہیں مگر اس شرط پر کہ انہیں اعمال صالحہ یا ان اقوال پاکیزہ کے مطابق افعال کی تائید بھی حاصل ہو۔ یہی صورت اعمال صالحہ کی ہے ان کی مقبولیت کی شرط یہ ہے کہ ان کی بنیاد اقوال پاکیزہ پر اٹھی ہو۔ [ ١٦] کفار مکہ کی چال کیسے ان پر الٹ پڑی ؟ برُی چالوں سے مراد کفار کی ہر وہ تدبیر ہے جس سے اسلام کی راہ روکی جاسکتی ہو۔ اور کفار مکہ کی تو ساری زندگی ہی بری چالوں میں گزری تھی۔ تاآنکہ مکہ فتح ہوگیا اور کفر کی کمر ہی ٹوٹ گئی۔ ویسے تو کفار مکہ پیغمبر اسلام کی زندگی کا خاتمہ کرنے کی بھی کئی کوششیں کرچکے تھے تاہم ان سب سے زیادہ خطرناک چال وہ تھی جو دارالندوہ میں ابو جہل نے پیش کی تھی اور جس پر شیطان بھی خوش ہوگیا تھا۔ کہ واقعی یہ چال بڑے بلند درجہ کی چال ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے سورۃ انفال کی آیت نمبر ٣٠ کا حاشیہ) اور یہی تدبیر ان کافروں کی ہلاکت کا باعث یوں بنی کہ ان کی اس سازش کے فوراً بعد اللہ نے اپنے پیغمبر کو صحیح و سالم نکال کر مدینہ میں آباد کیا۔ کفار نے بدلہ لینے کی ٹھانی تو جنگ بدر کے مقام پر اللہ نے انہیں شکست فاش سے دوچار کردیا۔ ان کے ستر بڑے بڑے سرغنے قتل ہوگئے۔ جنہیں نہایت ذلت کے ساتھ قلیب بدر میں پھینک دیا گیا۔ اور اتنے ہی آدمی قید ہوگئے تو ان کے سب کس بل نکل گئے۔ فاطر
11 [ ١٧] جنین پر وارد ہونے والے تغیرات اور اللہ تعالیٰ کی انفرادی توجہ :۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے مٹی کے چند اجزاء سے آدم کا پتلا بنایا۔ پھر اس میں اپنے ہاں سے روح پھونکی، تو یہی مٹی کے اجزا، گوشت پوست، ہڈیوں اور عضلات میں تبدیل ہوگئے پھر صرف اتنا ہی نہیں ہوا بلکہ اس میں اللہ کی اپنی کئی صفات بھی منعکس ہوگئیں وہ بولنے لگا۔ دیکھنے اور سننے لگا، سمجھنے لگا اس میں عقل پیدا ہوگئی۔ فہم و تدبر پیدا ہوگیا اور استنباط کا ملکہ پیدا ہوگیا۔ پھر آگے جو اس کی نسل چلی تو اس کے نطفہ سے چلی۔ یہ نطفہ کیا تھا، مٹی کے بے جان عناصر سے ہی حاصل شدہ چیز تھی۔ اور اس حقیر سے قطرہ میں اس انسان کے کثیر خواص منتقل ہوگئے جس کا یہ نطفہ تھا پھر اسی نطفہ سے اللہ نے جنس انسان کو مرد اور عورت کی دو نوعوں میں تبدیل کردیا۔ غرضیکہ اللہ کے عجائبات کا کہاں تک ذکر کیا جائے۔ مزید حیران کن بات یہ ہے کہ رحم مادر میں اللہ تعالیٰ ہر پیدا ہونے والے بچے کی طرف انفرادی توجہ مبذول فرماتے ہیں۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ رحم مادر میں کیا کیا تغیرات واقع ہوتے ہیں جن کا اس کی ماں کو بھی علم نہیں ہوتا۔ جس کے پیٹ میں یہ جنین ہوتا ہے پھر اس دوران ہر نومولود کی عمر بھی طے کردی جاتی ہے کہ وہ کس عمر میں مرے گا، اسے رزق کتنا ملے گا اور اس کا انجام کیسا ہوگا۔ گویا یہ آیت اللہ تعالیٰ کی خالقیت، اس کے لامحدود اور ہر چیز پر مکمل تصرف پر روشنی ڈالتی ہے۔ فاطر
12 [ ١٨] میٹھا پانی اور کھاری پانی اور ان کے مشترکہ فوائد :۔ دریاؤں، چشموں اور جھیلوں کا پانی عموماً میٹھا ہوتا ہے اور سمندروں کا پانی کھاری اور کڑوا۔ پہلی قسم کا پانی زندگی بخش ہے۔ اور دوسری قسم کا پانی پینا تو درکنار اس سے انسان نہا بھی نہیں سکتا۔ گویا پانی ہی دو قسموں میں بٹ گیا۔ اور کبھی کبھی ان دونوں قسم کے پانیوں کے دریا ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ مگر ان کے درمیان کچھ ایسا پردہ حائل ہوتا ہے کہ یہ آپس میں ملنے نہیں دیتا یہ تو ایک الگ اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہے یہاں یہ بتایا جارہا ہے کہ زندگی بخش اور حیات افزا پانی کا ذخیرہ اور کڑوے کسیلے پانی کا ذخیرہ دونوں ایک جیسے نہیں ہوسکتے۔ تاہم کچھ فوائد ایسے ہیں جو تمہیں ان دونوں قسم کے پانیوں سے حاصل ہوتے ہیں۔ دونوں طرح کے سمندروں میں آبی جانور اور بالخصوص مچھلی پائے جاتے ہیں اور وہ تمہارے لئے حلال ہیں۔ دونوں میں تم کشتی اور جہاز رانی کرکے تجارتی فوائد حاصل کرتے ہو اور دونوں میں سے موتی، مونگے، ہیرے جواہرات اور مرجان وغیرہ نکلتے ہیں۔ جو تمہارے زیورات میں کام آتے ہیں۔ گویا جو پانی تمہارے پینے کے لحاظ سے ناکارہ تھا اس میں اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے اتنے کثیر فوائد رکھے ہوئے ہیں اور یہ نعمتیں تمہیں مفت حاصل ہو رہی ہیں جن پر تمہیں اللہ کا شکر بجا لانا چاہئے۔ فاطر
13 [ ١٩] دن اور رات کے نظام میں تدریج :۔ یعنی جب سورج نکلنے کے قریب ہوتا ہے تو سب سے پہلے روشنی کی ایک لکیر آسمان پر نمودار ہوتی ہے یہ دن کا آغاز ہے۔ پھر یہ روشنی پھیلنا شروع ہوجاتی ہے۔ اور ہر چیز نظر آنے لگتی ہے پھر سورج نکلتا ہے تو روشنی میں اور اضافہ ہوجاتا ہے حتیٰ کہ دوپہر ہونے تک اس کی روشنی بڑھتی ہی جاتی ہے اور اس میں حرارت اور شدت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے پھر زوال کا وقت شروع ہوتا ہے تو اسی طرح بتدریج گرمی میں اور روشنی میں کمی واقع ہونے لگتی ہے۔ حتیٰ کہ غروب آفتاب کے کچھ عرصہ بعد روشنی ختم ہوجاتی ہے تو اس کی جگہ تاریکی بڑھنے لگتی ہے اور یہ سب کچھ اس طرح آہستہ آہستہ اور تدریج کے ساتھ واقع ہوتا ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ رات کو دن پر اور دن کو رات پر لپیٹا جارہا ہے۔ رات اور دن دونوں ایک دوسرے کے اندر آہستہ آہستہ داخل ہوتے چلے جاتے ہیں اور اس رات اور دن کی آمدورفت میں سورج کو بڑا دخل ہے۔ رات کو سورج کی جگہ چاند اہل زمین کو روشنی مہیا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ رات اور دن کا یہ نظام نہ بناتا تو بھی کوئی چیز زندہ نہ رہ سکتی تھی اور نہ ہی کوئی نباتات وغیرہ اگ سکتی تھی۔ اور یہ نظام کائنات تاقیامت مسلسل اسی طرح برقرار رہے گا۔ اور جب اس کی بساط لپیٹ دی جائے گی تو اسی کا نام قیامت ہے۔ یہ سب کارنامے تو پروردگار حقیقی کے ہیں اس لئے وہ تو بندگی کا صحیح مستحق ہے۔ اب تم بتاؤ کہ تمہارے معبودوں نے تمہارے لئے کون کون سی فائدہ بخش چیزیں پیدا کی ہیں؟ اور اگر اس سوال کا جواب نفی میں ہے تو پھر ان کا اس کائنات میں تصرف اور اختیار کہاں سے آگیا ؟ فاطر
14 [ ٢٠] مشرکوں کی فریاد کیسے رائیگاں جاتی ہے؟ إسْتَجَابُوْا کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک کسی پکار یا سوال کا جواب دینے میں مثلاً ایک شخص مجھ سے پوچھتا ہے کہ کراچی شہر کہاں واقع ہے؟ تو میں اسے جواب دیتا ہوں کہ وہ پاکستان کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ اور دوسرا استعمال یہ ہے کہ کوئی شخص مثلاً مجھ سے ایک سو روپیہ مانگتا ہے تو اس کی استجابت کا تعلق فعل سے ہوگا خواہ میں اسے سو روپیہ دے دوں یا نہ دوں اور جواب دے دوں۔ ان بتوں کی کیفیت یہ ہے کہ یہ کچھ سنتے ہی نہیں اور بالفرض سنتے بھی ہوں تو پھر نہ وہ کوئی جواب دے سکتے ہیں اور نہ ہی اس پر کچھ عمل درآمد کرسکتے ہیں گویا ان کے آگے درخواست پیش کرنا بالکل بے محل ہوگی مثلاً ایک شخص درخواست یہ لکھتا ہے کہ میرے گھر میں سوئی گیس کا کنکشن لگایا جائے لیکن وہ یہ درخواست سوئی گیس کے ہیڈ آفس میں بھیجنے کی بجائے محکمہ پولیس کے ہیڈ آفس میں بھیج دیتا ہے۔ تو ظاہر ہے کہ اس درخواست پر کچھ عمل درآمد نہ ہوسکے گا خواہ کتنی ہی مدت گزر جائے۔ اس لئے کہ سوئی گیس کا کنکشن دینا محکمہ پولیس کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔ حالانکہ وہ لوگ سنتے سمجھتے ضرور ہیں۔ یہی حال ان مشرکوں کا ہے وہ اپنی درخواستیں وہاں پیش کرتے ہیں جن کے دائرہ اختیار میں کچھ ہے ہی نہیں۔ لہٰذا قیامت تک بھی مشرکوں کی اس درخواست پر کبھی عمل درآمد نہ ہوسکے گا۔ اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر یوں بیان فرمایا : ﴿وَمَا دُعَاءُ الْکٰفِرِیْنَ الاَّ فِیْ ضَلاَلٍٍ [ ٢١] اس جملہ سے معلوم ہوا کہ ہر قسم کے معبودوں کو قیامت کے دن حاضر کرلیا جائے گا۔ خواہ وہ پیغمبر تھے یا فرشتے تھے یا بزرگ اور مشائخ تھے۔ خواہ سیاسی قائدین تھے یا بت وغیرہ بے جان قسم کے معبود تھے۔ اور اس مقام پر تو بالخصوص بے جان معبودوں یا بتوں کا ذکر چل رہا ہے۔ یعنی بتوں میں بھی جان ڈال کر میدان محشر میں لاکھڑا کیا جائے گا۔ اور ان معبودوں اور ان کے عبادت گزاروں یعنی مشرکوں کے درمیان مکالمہ ہوگا۔ تو یہ بے جان بت بھی ڈٹ کر مشرکوں کے خلاف شہادت دینگے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان بتوں کے بجائے وہ مخصوص ارواح ہوں جو مشرکوں نے ان بتوں کے ساتھ تجویز کر رکھی ہیں۔ وہ معبود مشرکوں کو یہی جواب دیں گے کہ بدبختو! ہم نے تمہیں کب کہا تھا کہ تم ہماری عبادت کرنا اور اگر تم ہماری عبادت کرتے بھی رہے ہو تو ہمیں اس کی کچھ خبر نہیں ہے۔ [ ٢٢] قیامت کو معبود اپنے عابدوں کے دشمن بن جائیں گے :۔ خبیر سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو موجود اور غیر موجود، گذشتہ اور آنے والے حالات سے پوری طرح خبردار ہے۔ اور اس کے سامنے کوئی چیز غیب ہے ہی نہیں بلکہ سب کچھ شہادت ہی شہادت ہے۔ اب اگر دوسرا کوئی شخص مستقبل کے متعلق کوئی خبر دے گا تو ظاہر ہے کہ وہ یقینی نہیں ہوسکتی کیونکہ اس کی بنیاد ظن و تخمین پر ہوگی اس کے مقابلہ میں اللہ کی خبر یقینی ہے کیونکہ وہ آئندہ کے واقعات سے خبردار بھی ہے اور انہیں دیکھ بھی رہا ہے۔ اور اللہ کی بتائی ہوئی خبر یہ ہے کہ قیامت کے دن ہر قسم کے معبود اپنے عبادت گزار مشرکوں کے خلاف گواہی دیں گے ان کی عبادت سے انکار کردیں گے اور ان کے دشمن بن جائیں گے۔ فاطر
15 [ ٢٣] یہ خطاب تمام جہان کے انسانوں سے ہے کہ تم اپنی صحت کے لئے، اپنے رزق کے لئے، اپنی زندگی کی بقاء غرض ایک ایک چیز کے لئے اللہ کے محتاج ہو تمہارے رزق اور بقائے حیات کے لئے اللہ تعالیٰ نے جن جن اشیائے کائنات کو کام پر لگا رکھا ہے۔ ان میں سے کسی ایک کو ہٹالے تو تم زندہ بھی نہیں رہ سکتے۔ دوسری ضرورتوں کی احتیاج بعد کی چیز ہے اور اللہ کی شان یہ ہے کہ اسے کسی انسان بلکہ کائنات کی کسی بھی چیز کی احتیاج نہیں۔ وہ بذات خود ازل سے لے کر ابد تک قائم و دائم ہے۔ اور کوئی اس کی حمد و ثنا نہ بھی کرے تو بھی وہ اپنی ذات میں آپ محمود ہے۔ فاطر
16 [ ٢٤] یعنی اگر تم اللہ کی نافرمانی کی راہ اختیار کرو گے تو تمہیں پرے ہٹا دے گا۔ صفحہ ہستی سے نیست و نابود کر دے گا اور تمہاری جگہ ایسے لوگوں کو لاآباد کرے گا جو اس کے فرمانبردار ہوں۔ پھر ان کی آزمائش کرے گا۔ ابتدائے نوع انسان سے اللہ کا یہی دستور رہا ہے۔ کہ وہ نافرمان اور سرکش قوموں کا سر کچل کر ان کی جگہ دوسری قومیں لاآباد کرتا ہے اور یہ بات اللہ کے لیے کچھ مشکل بھی نہیں۔ فاطر
17 فاطر
18 [ ٢٥] وزر کا لغوی مفہوم اور قانون جزاء و سزا :۔ وزر کا لفظ، بالخصوص گناہوں کے بوجھ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اور اس کا ضابطہ یہ ہے کہ جو کرے گا، وہی بھرے گا۔ یہ ناممکن ہے کہ کرے کوئی اور بھرے کوئی دوسرا یہ کہ اسے اتنی ہی سزا ملے گی جتنا اس نے گناہ کیا ہوگا اس سے زیادہ نہیں۔ البتہ اگر کوئی شخص ایسا گناہ کا کام رائج کر جائے جس پر بعد میں آنے والے لوگ عمل پیراہوں مثلاً کوئی شرکیہ عقیدہ یا کام یا کوئی بدعت رائج کرجائے تو حصہ رسدی کے طور پر اس کے اپنے گناہوں کے بوجھ میں اضافہ بھی ہوتا رہے گا۔ اور دوسری حقیقت یہ ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ اپنے ذمہ لینے کو تیار بھی نہ ہوگا۔ نہ باپ بیٹے کا گناہ اپنے سر مول لے گا اور نہ بیٹا باپ کا۔ ہر ایک کو اپنی اپنی ہی فکر لاحق ہوگی۔ کفار مکہ بعض مسلمانوں کو یہ بات کہا کرتے تھے کہ تم اپنے آبائی دین میں واپس آجاؤ۔ اگر کوئی عذاب و ثواب کی بات ہوئی بھی تو تمہارا بوجھ ہم اپنے ذمہ لے لیں گے۔ اور یہ بات وہ اس لحاظ سے کہتے تھے کہ وہ آخرت اور آخرت کی باز پرس کے قائل ہی نہ تھے۔ اس آیت میں ان لوگوں کے اس قول کا بھی جواب آگیا کہ یہ محض ان کے منہ کی باتیں ہیں۔ جب انہیں محاسبہ سے دوچار ہونا پڑا تو اس کے حواس ٹھکانے آجائیں گے۔ [ ٢٦] یعنی ضدی اور ہٹ دھرم قسم کے لوگ آپ کے سمجھانے اور ڈرانے سے کبھی اپنا رویہ نہ بدلیں گے۔ نصیحت صرف اس شخص کے حق میں کارگر ہوسکتی ہے؟ جو بن دیکھے آخرت پر یقین رکھتا ہو اور اللہ کے حضور اپنے اعمال کی جواب دہی سے ڈرتا ہو۔ ایسے ہی لوگ نمازیں بھی قائم کرتے ہیں۔ اور اپنا طرز عمل پاکیزہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اس میں ان کا اپنا ہی بھلا ہے وہ اللہ پر کچھ احسان نہیں کرتے۔ اور یہ فائدہ اس وقت پوری طرح ظاہر ہوگا جب سب لوگ اللہ کے حضور پیش ہوں گے۔ فاطر
19 فاطر
20 فاطر
21 [ ٢٧] بینا اور نابینا کون لوگ ہیں؟ یعنی ایک شخص اس طرح دل کا اندھا بنا ہوا ہے کہ کائنات میں ہر سو اللہ تعالیٰ کی بکھری ہوئی نشانیوں میں غور کرنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ دوسرا شخص انہی نشانیوں کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی توحید کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے اور عجائبات قدرت میں غور کرنے کے بعد اس کا دل اللہ تعالیٰ کی محبت سے سرشار ہوجاتا ہے اور بے اختیار اللہ کی حمد و ثنا اس کی زبان پر آجاتی ہے۔ تو کیا یہ دونوں ایک جیسے ہوسکتے ہیں؟ یا ایک شخص جہالت کی تاریکیوں میں مسلسل آگے بڑھتا جارہا ہے اور دوسرا علم کی روشنی میں محتاط رہ کر اپنا سفر زندگی جاری رکھتا ہے کیا یہ دونوں ایک جیسے ہیں؟ ظاہر ہے کہ یہ دونوں اپنے اپنے طرز زندگی کے لحاظ سے ایک دوسرے کی ضد ہیں تو ان کا انجام بھی ایک دوسرے کے برعکس ہی ہونا چاہئے یعنی جس طرح ٹھنڈی چھاؤں اور چلچلاتی دھوپ ایک دوسرے کی ضد ہیں اسی طرح علم کی روشنی میں سفر کرنے والے کو ٹھنڈی چھاؤں والی اور دوسری نعمتوں والی جنت نصیب ہوگی۔ اور جہالت کے اندھیروں میں آگے بڑھنے والا یک لخت جہنم کے کنارے جا پہنچے گا۔ فاطر
22 [ ٢٨] یہاں زندہ سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے دل اور ضمیر زندہ ہیں۔ جو بدی کو بدی ہی سمجھتے ہیں اور نیکی کی راہ کی تلاش میں رہتے ہیں۔ پھر اس پر عمل پیرا بھی ہوتے ہیں۔ اور مردہ سے مردہ دل لوگ یا کافر ہیں۔ ان کے ضمیر اور ان کے دل اس قدر مرچکے ہیں کہ ہدایت کی بات ان کے دل تک پہنچتی ہی نہیں۔ نہ وہ اسے سننا گوارا کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ آپ کا ایسے لوگوں کو نصیحت کرنا بے سود ہے۔ [ ٢٩] سماع موتی کا رد :۔ ربط مضمون کے لحاظ سے یہ مطلب بھی لیا جاسکتا ہے کہ قبروں میں پڑے لوگوں سے مراد یہی مردہ دل کافر لوگ ہیں مگر الفاظ کے ظاہری معنوں کا اعتبار کرنا زیادہ صحیح ہوگا۔ یعنی جو لوگ قبروں میں جاچکے ہیں انہیں اللہ تو سنا سکتا ہے آپ نہیں سنا سکتے۔ کیونکہ قبروں میں پڑے ہوئے لوگ عالم برزخ میں جا پہنچے ہیں۔ عالم دنیا میں نہیں ہیں۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک سویا ہوا شخص اپنے پاس بیٹھے ہوئے لوگوں کی گفتگو نہیں سن سکتا۔ اس لیے عالم خواب الگ عالم ہے۔ اور عالم بیداری الگ عالم ہے۔ حالانکہ یہ دونوں عالم، عالم دنیا سے ہی متعلق ہیں مگر عالم برزخ دنیا سے متعلق نہیں بالکل الگ عالم ہے۔ لہٰذا قبروں میں پڑے ہوئے لوگ بدرجہ اولیٰ دنیا والوں کی بات سن نہیں سکتے۔ یہ آیت سماع موتی کا کلیتاً رد ثابت کرتی ہے۔ رہا قلیب بدر کا واقعہ جو احادیث صحیحہ میں مذکور ہے۔ کہ جنگ بدر میں ستر مقتول کافروں کی لاشیں بدر کے کنوئیں میں پھینک دی گئیں۔ تو تیسرے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کنوئیں کے کنارے کھڑے ہو کر فرمایا : ’’تمہارے مالک نے جو سچا وعدہ تم سے کیا تھا وہ تم نے پالیا ؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا : ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ مردوں کو سناتے ہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم کچھ ان سے زیادہ نہیں سنتے، البتہ وہ جواب نہیں دے سکتے‘‘ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب قتل ابی جھل۔۔ بخاری کتاب الجنائز۔ باب ماجاء فی عذاب القبر) اور سیدناقتادہ نے اس حدیث کی تفسیر میں کہا کہ اللہ نے اس وقت ان مردوں کو جلا دیا تھا ان کی زجز و توبیخ، ذلیل کرنے، بدلہ لینے اور شرمندہ کرنے کے لیے۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب قتل ابی جھل) گویا یہ ایک معجزہ تھا اور فی الحقیقت سنانے والا اللہ تعالیٰ ہی تھا۔ اور یہ اس آیت کا مفہوم ہے۔ فاطر
23 فاطر
24 [ ٣٠] اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر امت اور بستی میں اللہ نے کوئی نہ کوئی نبی یا رسول ضرور بھیجا ہے۔ بلکہ اس سے مراد صرف وہ امت یا وہ لوگ ہیں جن تک کسی نبی کی تعلیم نہ پہنچ سکی ہو۔ خواہ اس کی وجہ فاصلہ کی دوری ہو یا مدت کی دوری ہو۔ بالفاظ دیگر تمام انسانوں تک اللہ کی دعوت کی آواز یقینی طور پر پہنچ چکی ہے خواہ ان کے پاس کوئی رسول آیا ہو یا نہ آیا ہو۔ فاطر
25 [ ٣١] بینات کا لفظ معجزات کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اور ایسے دلائل کے لیے بھی جن سے نبی اپنی نبوت کو ثابت کرسکے۔ صحیفے بمعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل احکام جو عام طور پر پندونصائح اور اخلاقی ہدایات پر مشتمل ہوتے تھے۔ تورات کے نزول سے پہلے سب انبیاء پر صحائف ہی نازل ہوتے رہے۔ حتیٰ کہ موسیٰ پر بھی تورات کے نزول سے پیشتر صحیفے ہی نازل ہوتے رہے اور کتاب منیر سے مراد وہ مفصل کتب الٰہیہ ہیں جو زندگی کے ہر پہلو میں انسان کو روشنی مہیا کرتی ہیں۔ اور یہ چار ہیں۔ تورات، زبور، انجیل اور قرآن۔ فاطر
26 فاطر
27 [ ٣٢] ہر قسم کی مخلوق میں تنوع بھی ہے فوائد بھی اور خوبصورتی بھی :۔ یہ دو آیات اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی طرف ہر انسان کی توجہ مبذول کراتی ہیں۔ یعنی زمین ایک ہے پانی ایک ہے، ہوا ایک ہے۔ لیکن نباتات جو اگتی ہے ان کی شکلیں مختلف رنگ مختلف اور پھول ہیں تو خوشبوئیں مختلف ہوتی ہیں۔ گلاب کے پھول کی رنگت، ساخت اور خوشبو، لالہ کے پھول سے مختلف ہے اسی طرح چنبیلی کے پھول، نیلوفر اور سورج مکھی کے پھول بھی آپس میں مختلف ہیں۔ پھر ایک ہی پھول میں کئی رنگوں کی آمیزش کچھ ایسی خوبصورتی سے ترکیب دی گئی ہے جو فوراً دل کو موہ لیتی ہے اور اگر پھل پیدا ہوتے ہیں تو انگور کی شکل، رنگ، ذائقہ، اور خواص اور ہوں گے۔ سیب کے اور کھجور کے اور آم کے اور۔ پھر مثلاً آم ہی کو یا کھجور کو لیجئے۔ اس جنس کی آگے بے شمار انواع ہیں۔ اور ہر نوع میں ایسی امتیازی خصوصیات موجود ہیں کہ انسان یہ معلوم کرلیتا ہے کہ یہ کھجور یا آم فلاں قسم سے تعلق رکھتا ہے۔ پھر یہ تنوع صرف پھولوں، پھلوں اور سبزیوں میں نہیں بلکہ جمادات کی طرف دیکھو تو وہاں بھی اللہ کی یہ قدرت کار فرما نظر آئے گی کہیں خشک کالے مٹیالے اور سیاہ پہاڑ ہیں۔ کہیں پہاڑوں پر بلند و بالا درخت اور سبزہ اگ کر نہایت خوشما منظر پیش کر رہا ہے۔ کہیں نمک کا پہاڑ ہے کہیں سنگ مرمر کا پہاڑ ہے۔ پھر ایک ہی پہاڑ میں کہیں سیاہ دھاریاں دور تک چلی گئی ہیں۔ کہیں سپید ہیں اور کہیں سرخ۔ اب جانداروں کی طرف آئیے تو یہاں بھی ہم یہی منظر دیکھتے ہیں۔ مویشیوں میں سے ایک جنس کے کئی کئی رنگ ہیں انسانوں کا بھی یہی حال ہے کچھ گورے ہیں کچھ سفید ہیں کچھ سرخ ہیں کچھ کالے اور کچھ سانولے ہیں۔ حالانکہ ان کی پیدائش اور ترکیب کے اجزاء و عناصر پر غور کیا جائے تو وہ سب یکساں ہی ہوتے ہیں اس کے باوجود ہر جنس میں اللہ تعالیٰ نے اتنے لاتعداد نئے سے نئے ڈیزائن تیار کردیئے ہیں جنہیں دیکھ کر ہی عقل دنگ رہ جاتی ہے یہ یکسانیت میں اختلافات اور اختلافات میں یکسانیت، یہ مختلف رنگ اور ان رنگوں کا حسین امتزاج ان میں توازن و تناسب اور ان سب باتوں کے باوجود ان سب چیزوں میں انسان کے لئے خوشنمائی اور دلفریبی پھر ان میں سے ہر چیز کا انسان کے لئے مفید اور کارآمد ہونا کیا یہ سب چیزیں کسی عظیم مدبر اور حکیم صناع کی طرف رہنمائی نہیں کرتیں؟ کیا یہ سب باتیں اتفاقات کا نتیجہ قرار دی جاسکتی ہیں؟ علم صرف وہ مفید ہے جس سے اللہ کا خوف پیدا ہو اور حقیقی عالم وہ ہے جو اللہ سے ڈرتا بھی ہو :۔ ایک باشعور انسان جب ان باتوں میں غور کرتا ہے تو اس صانع حقیقی کی عظمت اس کے دل میں جاگزیں ہوتی جاتی ہے۔ اسے اس ہستی سے محبت ہوجاتی ہے۔ جو اتنی قدرتوں کی مالک ہے پھر اس کے سامنے سجدہ ریز ہونے میں اسے مزا آنے لگتا ہے اور یہی وہ نتیجہ ہے جسے قرآن ان الفاط میں پیش کرتا ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف عالم لوگ ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔ اور اس جملہ سے کئی باتیں مستفاد ہوتی ہیں مثلاً۔ ١۔ جتنا بھی ان مظاہر قدرت میں غور و فکر کیا جائے گا اتنی اس سے اللہ کی معرفت پیدا ہوگی اور اتنی ہی اللہ کی خشیت پیدا ہوگی۔ ٢۔ علوم کی بھی تین قسمیں ہیں ایک وہ علم جس سے اللہ کی خشیت پیدا ہوتی ہے یہ علم کا اعلیٰ درجہ ہے۔ خواہ ایسا شخص اصطلاحی معنوں میں پڑھا لکھا ہو یا نہ ہو۔ دوسرے وہ علوم ہیں جو خشیت تو پیدا نہیں کرتے تاہم انسانیت کے لئے مفید ہیں جیسے حساب اور مختلف زبانوں کا علم ان پر بھی علم کا اطلاق ہوسکتا ہے اور جو علم اللہ سے دور کردے وہ علم نہیں بلکہ ضلالت ہے۔ ٣۔ کیا علماء سے مراد سائنٹسٹ ہیں؟ ہر شخص اللہ کی آیات میں غور کرنے کے بعد ایک ہی نتیجہ پر نہیں پہنچتا مثلاً پرویز صاحب انہی آیات کا نتیجہ یہ پیش کرتے ہیں کہ ’’ان آیات میں نباتات، جمادات اور حیوانات کا ذکر ہے اور یہی چیزیں علم سائنس کی بڑی بڑی شاخیں ہیں لہٰذا ان علوم کے ماہر ہی حقیقتاً ''عالم'' ہیں۔ جنہیں آج کی اصطلاح میں سائنٹسٹ کہا جاتا ہے۔''(اسباب زوال امت ص ٩٥) اب ان حضرات سے سوال یہ ہے کہ کیا یہ عالم یا سائنٹسٹ حضرات اللہ سے ڈرتے بھی ہیں؟ اصل شرط تو خشیۃ اللّٰہ ہے نہ کہ ان علوم میں مہارت۔ اگر وہ ڈرتے بھی ہیں تو پھر وہ فی الواقع عالم ہیں۔ ورنہ نہیں۔ ٤۔ اس آیت میں لفظ علماء سے مراد وہ اصطلاحی علماء بھی مراد نہیں ہیں جو قرآن و حدیث اور فقہ و کلام کا علم رکھنے کی بنا پر علمائے دین کہلاتے ہیں وہ اس آیت کے مصداق صرف اس صورت میں ہوں گے جبکہ ان کے اندر اللہ کی خشیت موجود ہو۔ فاطر
28 [ ٣٣] یعنی وہ چاہے تو اپنے باغیوں، کج فہموں اور نافرمانوں کو فوراً پکڑ سکتا ہے۔ مگر یہ اس کی صفت عفو کا ہی تقاضا ہے کہ وہ لوگوں کو مہلت دیئے جاتا ہے۔ فاطر
29 [ ٣٤] دنیا میں انسان جس چیز کی بھی تجارت کرتا ہے۔ اس پر فوری توجہ بھی صرف کرتا ہے اور اس کام کے لئے مخلص بھی ہوتا ہے اس کے باوجود اسے نقصان کا خطرہ بھی رہتا ہے لیکن اللہ کا مخلص بندہ جو اپنے اللہ کے ساتھ تجارت کرتا ہے اس میں کبھی خسارے اور نقصان کا اندیشہ نہیں۔ فاطر
30 [ ٣٥] اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں کے اعمال کی قدردانی، پیاسے کو پانی پلانے اور راہ سے کانٹے ہٹانے پر بخشش :۔ یعنی اللہ کا اپنے بندوں سے معاملہ ایسا نہیں ہے جیسا ایک تنگ ظرف آقا کا معاملہ اپنے ملازم سے ہوتا ہے۔ جو بات بات پر اپنے ملازم پر گرفت تو کرتا ہے مگر اس کی خدمات کو خاطر میں نہیں لاتا۔ اللہ کا اپنے بندوں سے معاملہ اس سے بالکل برعکس ہے۔ وہ اپنے بندوں کی چھوٹی موٹی غلطیاں معاف کردیتا ہے اور ان سے ان کی باز پرس بھی نہیں کرتا اور انسان جو نیک اعمال بجا لاتا ہے ان کا ان کے اجر سے بہت زیادہ بدلہ عطا فرماتا ہے۔ اسے اپنے بندے کی کوئی بھی ادا پسند آجائے تو اسے اجر عظیم عطا فرماتا ہے۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ’’ایک شخص نے ایک کتا دیکھا جو پیاس کے مارے گیلی مٹی چاٹ رہا تھا۔ اس نے اپنا موزا اتارا اور اس میں پانی بھر بھر کر اس کو پلانا شروع کیا یہاں تک کہ وہ سیر ہوگیا۔ اللہ نے اس کے اس کام کی قدر کی اور اس کو جنت عطا فرمائی‘‘ (بخاری۔ کتاب الوضوء ۔ باب اذاشرب الکلب فی الاناء ) نیز سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ’’ایک مرتبہ ایک شخص کہیں جارہا تھا اس نے راستہ میں کانٹوں والی ایک ٹہنی دیکھی جسے اس نے راہ سے ہٹادیا۔ اللہ تعالیٰ کو اس کا یہ کام بہت پسند آیا اور اسے بخش دیا‘‘ (بخاری۔ کتاب الاذان۔ باب فضل التھجیر الی الظھر) فاطر
31 [ ٣٦] قرآن کے حق ہونے کا مطلب زندگی کے حقائق کا لحاظ رکھنا ہے :۔ وہ حق اس لئے ہے کہ وہ اس ہستی کی طرف سے نازل ہوئی ہے جس نے انسان کو بنایا ہے۔ جتنا وہ انسان کی فطرت سے واقف ہوسکتا ہے دوسرا کوئی نہیں ہوسکتا۔ اس کتاب کے جملہ احکام و ارشادات انسان کی فطرت کے مطابق بھی ہیں اور پوری انسانیت کے مصالح پر مبنی ہیں۔ اور بنی نوع انسان کی فلاح کے ضامن بھی ہیں۔ وہ ذات اپنے بندوں کی فطرت اور ان کے حالات سے پوری طرح باخبر ہے۔ اسی لئے اس کے بعض احکام تو غیر متبدل اور دائمی ہیں جو سابقہ آسمانی کتابوں میں بھی موجود ہیں۔ اسی لحاظ سے یہ قرآن ان کی تصدیق کرتا ہے۔ اور بعض نئے احکام بھی ہیں۔ بعض میں تبدیلی بھی کی گئی ہے اور یہ سب کچھ بندوں کے حالات کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ پھر وہ اپنے کمزور اور معذور بندوں کو رخصتیں بھی عطا فرماتا ہے۔ اور حالات کے مطابق احکام میں رعایتیں بھی ملحوظ رکھتا ہے اس لئے کہ وہ اپنے سب بندوں کے حالات سے پوری طرح باخبر ہے۔ فاطر
32 [ ٣٧] اعمال کے لحاظ سے تین قسم کے مسلمان اور ان کا انجام :۔ اس آیت میں کتاب سے مراد قرآن کریم ہے۔ اس کے اولین وارث صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت ہے۔ اس آیت سے ان کی بہت فضیلت ثابت ہوئی۔ پھر ان کے بعد درجہ بدرجہ اور نسل بعد نسل آپ کی ساری امت بھی اس کتاب کی وارث ہے۔ پھر ان وارثوں کے تین طبقات ہیں یا تین قسم کے گروہ ہیں۔ ایک وہ جو اپنے نفس پر ظلم کر رہے ہیں۔ یعنی وہ اللہ کے باغی نہیں ہیں مشرک بھی نہیں ہیں۔ کتاب وسنت کی اتباع کے داعی بھی ہیں۔ مگر ان کے اعمال ان کے دعوے کی پوری طرح تصدیق نہیں کرتے۔ وہ خطا کار ضرور ہیں مگر اپنے جرائم پر نادم ضرور ہوتے ہیں۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو نیک اعمال بجا لارہا ہے تاہم کبھی کبھار ان سے گناہ کے کام بھی ہوتے ہیں۔ یہ درمیانہ درجہ کے لوگ ہیں۔ اور ایک وہ لوگ ہیں جو ہر نیکی کے کام کی طرف آگے بڑھ کر لپکتے ہیں۔ ان کی آرزو یہ رہتی ہے کہ جتنی زیادہ بھلائیاں سمیٹ سکتے ہیں سمیٹ لیں۔ وہ گناہوں سے اجتناب میں بھی ممکن حد تک احتیاط کرتے ہیں۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تینوں قسم کے لوگ جنت میں داخل ہوں گے۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) اور ان میں فرق یہ ہوگا کہ افضل قسم کے لوگ بلاحساب جنت میں داخل ہوں گے۔ درمیانہ طبقہ سے حساب تو لیا جائے گا مگر یہ آسان سا اور سرسری قسم کا حساب ہوگا اور زیادہ پوچھ گچھ نہیں کی جائے گی۔ اور تیسرے درجہ کے لوگوں کو روک لیا جائے گا اور قیامت کا سارا دن جو پچاس ہزار سال کا ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوسکیں گے۔ پھر اس مدت کے اختتام پر اللہ تعالیٰ ان پر مہربانی فرمائے گا اور انہیں بھی داخلہ کی اجازت مل جائے گی۔ تاہم یہ قیامت کے دن کی سختیاں ضرور برداشت کریں گے اور اللہ کا فضل تو ان سب پر ہوگا۔ فاطر
33 [ ٣٨] نوابوں اور راجوں اور مہاراجوں میں یہ دستور تھا کہ وہ سونے کے کنگن پہنتے جن میں ہیرے اور جواہرات وغیرہ جڑے ہوتے تھے۔ نیز وہ ریشم کا نرم و نازک لباس پہنتے تھے یہی عیش و عشرت کی وہ انتہا تھی جو اس دنیا میں سمجھی جاسکتی تھی۔ اس لئے ان چیزوں کا نام لیا گیا۔ مقصد یہ ہے کہ جنت والوں کا لباس اور عیش و عشرت اس دنیا کے بادشاہوں اور راجوں مہاراجوں سے کم نہ ہوگا۔ سونا اور ریشم اس دنیا میں امت مسلمہ کے مردوں پر حرام کیا گیا ہے۔ جس میں بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں سب سے بڑی اور عام فہم بات ہے کہ جو لوگ ایسی عیاشیوں میں پڑ کر اپنی ذات پر ہی اس طرح خرچ کرنا شروع کردیں تو وہ غریبوں کا کیا خیال رکھ سکیں گے۔ یہی باتیں طبقاتی تقسیم اور اس سے آگے بہت بڑے فتنہ و فساد کا پیش خیمہ بنتی ہیں۔ مگر جنت میں چونکہ ایسی خرابیوں کا احتمال ہی نہ ہوگا۔ لہٰذا وہاں یہ چیزیں جائز ہوں گی۔ فاطر
34 [ ٣٩] یہ جملہ بالخصوص تیسرے طبقہ کے لوگوں کا وظیفہ ہوگا۔ جنہوں نے قیامت کے دن کی ساری مدت اس فکر میں گزاری ہوگی کہ دیکھیں کہ ان کے حق میں کیا فیصلہ صادر ہوتا ہے پھر جب انہیں جنت میں داخلہ کی اجازت مل جائے گی تو خوشی سے اللہ کی حمد بیان کریں گے۔ جس نے ان کے سارے غم و فکر دور کردیئے۔ ہمارا پروردگار تو واقعی بڑا بخشنے والا اور بڑا قدر دان ہے۔ جس نے ہماری خطائیں تو معاف فرما دیں اور ہمارے اعمال سے بہت زیادہ ہمیں بدلہ عطا فرما دیا۔ ہمیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ ہمارا کون سا ٹھکانا ہوگا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں جائے رہائش دی جو لازوال ہے۔ ہر طرح کی نعمتیں اور رزق پہلے سے ہی موجود ہے جس کے لئے ہمیں چنداں محنت و مشقت نہیں کرنی پڑے گی۔ فاطر
35 فاطر
36 [ ٤٠] مینڈھے کی شکل میں موت کا ذبح ہونا :۔ صحیح احادیث میں آیا ہے کہ میدان محشر میں جب ایمانداروں اور نافرمانوں کا فیصلہ ہوچکے گا تو سب کے سامنے ایک مینڈھا لا کر اسے ذبح کردیا جائے گا اور لوگوں سے پوچھا جائے گا کہ جانتے ہو یہ مینڈھا کیا چیز ہے؟ سب کہیں گے۔ ہاں ہم جانتے ہیں یہ موت ہے۔ پھر ایک فرشتہ اہل جنت کو مخاطب کرکے کہے گا۔ اب تم ہمیشہ جنت میں رہو گے اور تمہیں کبھی موت نہیں آئے گی۔ پھر وہی فرشتہ اہل دوزخ کو مخاطب کرکے کہے گا کہ اب تم ہمیشہ دوزخ میں رہو گے اور تمہیں کبھی موت نہیں آئے گی۔ (مسلم کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا واھلھا۔ باب جہنم) یہ تو کافروں اور اللہ کی نمک حرامی کرنے والوں کی ایک سزا ہوگی۔ دوسری سزا یہ ہوگی کہ ان کے عذاب میں نہ کبھی وقفہ آئے گا اور نہ عذاب کی شدت میں کمی کی جائے گی۔ بلکہ اس کے بجائے ان کے عذاب میں دم بدم اضافہ ہی کیا جاتا رہے گا۔ فاطر
37 [ ٤١] جہنمیوں کی فریاد کے مختلف جوابات :۔ اہل دوزخ کی اس فریاد کا ذکر بھی قرآن کریم میں متعدد مقامات پر مذکور ہے اور اس کے مختلف جواب بھی۔ مثلاً ایک مقام پر یہ جواب دیا گیا کہ اگر ہم انہیں دوبارہ دنیا میں بھیج بھی دیں تو وہ پھر دل کی دلفریبیوں پر مفتون ہوجائیں گے اور پھر ویسے ہی کام کریں گے جیسے پہلے کرکے آئے ہیں۔ دوسرے مقام پر یہ جواب دیا گیا کہ ان کی یہ آرزو بالکل لغو ہوگی۔ کیونکہ ایمان لانے سے مراد غیب پر ایمان لانا ہے اور اعمال صالحہ کا نمبر اس کے بعد آتا ہے اور یہاں روز آخرت میں جب سب کچھ انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تو پھر یہ تو ایمان بالشہادت ہوگیا۔ اور شہادت یا دیکھی ہوئی چیز پر تو ہر کوئی یقین کرلیتا ہے۔ پھر ان کی آزمائش کیا رہی جبکہ ہر انسان کو قوت ارادہ و اختیار اور عقل و فہم اس لئے دیا گیا تھا کہ اس کی آزمائش ہوگی اور تیسرا جواب یہاں دیا گیا ہے کہ کیا تمہیں اتنی عمر دنیا میں نہیں دی گئی تھی کہ اگر غور و فکر کرکے تم ایمان لانا چاہتے تو اس میں کوئی بات مانع نہ تھی اس کے علاوہ تمہارے پاس نبی بھی آئے تھے جنہوں نے تمہیں تمہارے اس برے انجام سے پوری طرح آگاہ کردیا تھا۔ اس بات کا ان مجرموں کے پاس کوئی جواب نہ ہوگا۔ ''اتنی عمر'' سے مراد سن شعور ہے۔ بلوغت کے بعد انسان میں عقل و شعور آجاتا ہے وہ اپنا نفع و نقصان سوچنے کے قابل ہوجاتا ہے اسی لئے اس عمر میں وہ شرعاً مکلف سمجھا جاتا ہے۔ اس عمر سے پہلے اگر کوئی شخص مر جائے تو اس کا عذر قابل قبول ہوسکتا ہے۔ اور جس شخص کو چالیس یا پچاس یا ساٹھ برس عمر مل جائے تو اس پر تو مکمل طور پر حجت تمام ہوجاتی ہے۔ فاطر
38 [ ٤٢] یعنی وہ ان فریاد کرنے والے اہل دوزخ کے متعلق خوب جانتا ہے کہ وہ اب بھی جھوٹ بک رہے ہیں۔ ان کی افتاد طبع ہی ایسی ہے کہ اگر انہیں دنیا میں بھیج بھی دیا جائے تو اپنی خباثتوں اور شرارتوں سے کبھی باز نہ آئیں گے جیسا کہ سورۃ انعام میں فرمایا : ﴿ وَلَوْرُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُھُوْا عَنْہُ وَإنَّھُمْ لَکَاذِبُوْنَ﴾ (٦: ٢٨) فاطر
39 [ ٤٣] انسان زمین میں خلیفہ کس کا ہے ؟ اس جملہ کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ تم سے پہلی قوم کو ان کے جرم کی پاداش میں ہلاک کرکے تمہیں ان کا جانشین بنایا۔ دوسرا یہ کہ تم سے پہلی نسل مرگئی تو ان کی جگہ تم ان کے جانشین ہوئے۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ اس کائنات کا اور اسی طرح اس زمین کا اصل مالک اور حاکم تو اللہ تعالیٰ ہے اور تمہیں اس کے نائب کی حیثیت سے یہاں بھیجا گیا ہے۔ اور اس لئے بھیجا گیا ہے کہ تم اس کی عطا کردہ چیزوں کو اسی کے حکم اور اسی کی مرضی کے مطابق استعمال کرتے ہو۔ یا اس کے باغی بن کر اپنی خواہشات کی پیروی کرنے لگ جاتے ہو۔ اور اگر تم اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے اختیارات کا اس کی مرضی کے خلاف غلط استعمال کرو گے تو یہ بددیانتی ہوگی اور اس کا تمہیں بہت بڑا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ تمہارا اصل مالک یقیناً تم سے ناراض ہوجائے گا پھر اس کی ناراضگی اور غصہ تمہارے لئے مزید نقصان کا باعث بن جائے گا۔ فاطر
40 [ ٤٤] شریکوں کے جواز کی ممکنہ بنیادیں؟ یعنی تم لوگوں نے اپنے جن معبودوں کو اللہ تعالیٰ کے اختیارات و تصرفات میں اللہ کا شریک بنا رکھا ہے اس کی بنیاد کیا ہے؟ ایک بنیاد تو یہ ہوسکتی ہے کہ کائنات کا کوئی دسواں بیسواں حصہ انہوں نے بھی بنایا ہو۔ دوسری بنیاد یہ ہوسکتی ہے کہ انہوں نے کائنات کا الگ تو کوئی حصہ نہیں بنایا، البتہ جب اللہ تعالیٰ کائنات پیدا کر رہا تھا تو اس وقت تمہارے ان معبودوں نے اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بٹایا ہو اس طرح اختیارات و تصرفات میں ان کا بھی کچھ حق بن سکتا ہے۔ تیسری بنیاد یہ بھی بن سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی انہیں کوئی مختار نامہ لکھ دیا ہو کہ فلاں علاقہ کے لوگ، فلاں آستانے یا فلاں بزرگ کے پاس اپنی درخواستیں پیش کیا کریں اور انہیں پکارا کریں اور انہی کے حضور نذریں نیازیں چڑھایا کریں۔ یا فلاں فلاں ہستیوں کو ہم نے فلاں فلاں بیماری سے تندرست کرنے کے اختیار دے رکھے ہیں اور انگر بیروز گاروں کو روزگار دلوانا ہو تو فلاں بزرگ کے پاس جانا چاہئے۔ وہ آپ کی حاجات کو پورا کرسکتے ہیں۔ اور بگڑی بنا بھی سکتے ہیں اور اگر چاہیں تو بگاڑ بھی سکتے ہیں۔ اگر ہم نے کوئی ایسی سند کسی آسمانی کتاب میں لکھی ہے تو وہ دکھا دو۔ اور اگر ان تینوں باتوں میں سے کوئی بات بھی نہیں ہے تو پھر کیا تم خود اللہ تعالیٰ کے اختیار و تصرف کے اجارہ دار بن بیٹھے ہو۔ اور اپنی طرف سے ہی ان اختیارات میں اپنے اپنے معبودوں اور پیروں فقیروں کے حصے کر لئے ہیں۔ [ ٤٥] شرک کی اصل بنیاد بت پرستی ہے :۔ بات یوں نہیں بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ پروہت اور گورو اور ان کے چیلے یا یہ بزرگ پیر فقیر اور ان کے مرید ان باصفا اور قبروں کے مجاور سب مل کر اپنے مفادات دنیوی کی خاطر عوام الناس کو بیوقوف بنا کر اپنا الو سیدھا کر رہے ہیں۔ یہ اپنی اپنی دکانیں چمکانے کے لئے طرح طرح کے افسانے اور قصے گھڑتے ہیں پھر ان کا خوب پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ فلاں صاحب بڑے پہنچے ہوئے ہیں۔ ان کا دامن پکڑ لیا جائے تو وہ اپنے مریدوں کی سفارش کرکے اللہ سے بخشوا کے چھوڑیں گے۔ فلاں صاحب کی تقدیر میں کوئی اولاد نہ تھی مگر فلاں بزرگ نے اللہ سے اصرار کرکے اسے سات بیٹے دلوا دیئے۔ اور فلاں صاحب نے فلاں قبر پر جاکر فلاں حرکت کی تھی تو چند ہی دنوں میں وہ تباہ و برباد ہوگیا۔ ان کی دکانیں محض جھوٹ اور پروپیگنڈے کی بنیاد پر چل رہی ہیں۔ اور اس سے ان کے دنیوی مفادات وابستہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اختیارات و تصرفات کسی بندے کو ہرگز تفویض نہیں کئے۔ فاطر
41 [ ٤٦] آسمانوں اور زمین کے الفاظ بول کر قرآن کریم بالعموم اس سے پورا نظام کائنات مراد لیتا ہے اور یہ اس قدر پیچیدہ نظام ہے جو سائنس کے آئے دن کے انکشافات اور ایجادات کے باوجود انسان کے لئے محیر العقول بنا پڑا ہے۔ کہ آیا یہ سب سیارے فضا میں پوری تیزی کے ساتھ گھومنے کے باوجود کس طرح اس قدر جکڑے ہوئے ہیں کہ کوئی سیارہ ایک دوسرے پر گر نہیں پڑتا کہیں ٹکراتا بھی نہیں۔ اس کی رفتار میں بھی فرق نہیں آتا۔ وہ اپنے رخ اور سمت میں تبدیلی نہیں کرسکتا۔ یہ ایسی باتیں ہیں جو انسان کو اس اعتراف پر مجبور کردیتی ہے کہ اس نظام کو بنانے والی، جاری رکھنے والی اور کنٹرول کرنے والی ہستی انتہا درجہ کی دانشور، مدبر اور صاحب اقتدار اور اختیار ہو۔ جس کی حکمت بالغہ کے تحت اس قدر گرانڈیل اور عظیم الجثہ کرے فضائے کائنات میں تیرتے پھرتے ہیں۔ [ ٤٧] وہ ہستی اس قدر صاحب قوت، اقتدار اور اختیار رکھنے کے باوجود بردبار ہے۔ جو اس کے اختیارات کو دوسروں میں بانٹنے والوں کو فوراً تباہ نہیں کردیتا۔ اور اپنے باغیوں، منکروں اور نافرمانوں سے درگزر کئے جاتا ہے۔ فاطر
42 [ ٤٨] مشرکین مکہ کا یہ قول کہ اگر نبی ہم میں آتا تو ہم تم سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوتے :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے کفار مکہ جب یہود و نصاریٰ کی بگڑی ہوئی اخلاقی حالت کو دیکھتے تھے تو ان سے بڑھ چڑھ کر باتیں بناتے اور قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ اگر ہمارے پاس بھی کوئی پیغمبر آیا ہوتا جو ہماری رہنمائی کرتا تو ہم یقینا ً ہر لحاظ سے تم سے بہتر ہوتے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے ان میں اپنا نبی مبعوث فرما دیا اور انہیں یہ معلوم ہوا کہ اب انہیں اپنی اپنی سرداریوں اور چودھراہٹوں سے دستبردار ہو کر اس نبی کا مطیع فرمان بن کر رہنا پڑے گا تو اکڑ بیٹھے۔ انہیں یہود و نصاریٰ کے سامنے کئے ہوئے قول و قرار بھول بھلا گئے۔ اور اپنی سرداریوں اور چودھراہٹوں کو تحفظ دینے کی خاطر الٹا نبی کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے اور برابر ایسی کوششوں میں لگ گئے کہ اس ڈرانے والے نبی اور اس کے متبعین پر عرصہ حیات تنگ کردیا۔ پھر اس سلسلہ میں انہوں نے ظاہری مخالفت کے علاوہ خفیہ سازشوں کے بھی کئی جال پھیلائے۔ مگر اللہ تعالیٰ اپنے نبی اور اپنے ایمانداروں کی مدد پر تھا۔ لہٰذا جو چال بھی وہ چلتے انہی پر الٹی پڑتی تھی۔ جس کے نتیجہ میں وہ خود ہی ذلیل و رسوا ہوتے رہے اور ان کی ہزار مخالفتوں کے باوجود اسلام کو غلبہ اور سربلندی حاصل ہوتی گئی۔ اور جوں جوں اسلام کو سربلندی ہوتی تو وہ اپنے بغض، نفرت اور عناد کی وجہ سے اور زیادہ چڑ جاتے تھے۔ فاطر
43 [ ٤٩] یعنی ان چودھریوں اور سرداروں کا اپنے نبی کی مخالفت کرنا کوئی نئی بات نہیں تھی۔ پہلے بھی سرکش اور نافرمان قومیں یہی کچھ کرتی رہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ بھی ہمیشہ یہی رہی کہ وہ ایسے باغیوں کو سر کچلتا رہا۔ اور اپنے انبیاء کی اور اس پر ایمان لانے والوں کی سرپرستی کرتا اور ان کی مدد کرکے ان ظالموں سے نجات دلاتا رہا ہے۔ اور اللہ کا یہ ایسا طریقہ ہے جس میں تخلف یا تغیر و تبدل نہیں ہوسکتا۔ گویا اس آیت میں معاندین حق کے لئے یہ دھمکی اور پیشین گوئی تھی کہ اگر تم نے اپنا یہ معاندانہ رویہ نہ بدلا تو تمہیں بھی ایسے برے انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔ جس سے سابقہ اقوام دوچار ہوچکی ہیں۔ [ ٥٠] اللہ کا دستور یہ ہے کہ وہ اپنے انبیاء کے مخالفوں کی کمر توڑ دے۔ اس دستور میں ایسا تغیر کبھی نہیں آسکتا کہ اللہ تعالیٰ ایسے مجرموں کو سزا دینے کی بجائے ان پر انعام و اکرام کرنے لگے یا ان مجرموں کی سزا دوسرے لوگوں کو دینے لگے۔ فاطر
44 [ ٥١] اگر قریش مکہ نے پہلی قوموں کے کھنڈرات کو پہلے اس نظر سے نہیں دیکھا تو اب جاکر دیکھ لیں۔ ان کے کھنڈرات سے بھی یہ معلوم ہوجائے گا کہ یہ لوگ اپنے اپنے وقتوں میں شان و شوکت، قوت و دبدبہ اور عیش و عشرت میں ان قریش مکہ سے کہیں بڑھ کر تھے۔ پھر جب انہوں نے یہ سرکشی کی روش اختیار کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں کچل کے رکھ دیا۔ اس وقت اللہ کے مقابلہ میں نہ ان کی شان و شوکت کسی کام آئی اور نہ قوت و دبدبہ۔ پھر کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ اپنی اس معاندانہ روش اور خفیہ سازشوں سے اللہ کے دین کی راہ روک سکو گے؟ تم اس کی گرفت سے کیسے بچ سکو گے جب کہ وہ تمہاری ایک ایک حرکت کو جانتا بھی ہے اور تمہیں سزا دینے کی قدرت بھی رکھتا ہے۔ فاطر
45 [ ٥٢] دنیا دارالعمل ہے دارالجزاء نہیں۔ ورنہ زمین پر کوئی جاندار زندہ نہ رہ سکتا :۔ انسان اور جن کے علاوہ دوسرا کوئی جاندار نہ شریعت کا مکلف ہے اور نہ اللہ کا نافرمان ہوتا ہے، نہ ہوسکتا ہے۔ اصل مجرم تو انسان ہے۔ مگر اس کی سزا سے دوسرے جاندار بیچارے مفت میں مار کھاتے ہیں جیسے گندم کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔ مثلاً انسانوں کے جرم کی پاداش میں اگر اللہ تعالیٰ بارش روک دے تو دوسرے جاندار بھی بے چارے پانی کی نایابی کی وجہ سے تڑپ تڑپ کر مر جائیں گے۔ اسی طرح اگر سیلاب آجائے یا زلزلہ آجائے تو متاثرہ علاقہ کے جاندار بھی متاثر ہوں گے اور مرجائیں گے۔ مجرم انسانوں کو فوری طور پر گرفت نہ کرنے اور انہیں ڈھیل دینے میں اللہ ہی جانتا ہے کہ اس کی کیا مصلحتیں پوشیدہ ہیں۔ ممکن ہے کہ وہ بے زبان جانوروں کی فریاد کی وجہ سے ہی مجرموں پر عذاب نہ بھیج رہا ہو۔ بہرحال یہ مہلت بھی ایک مقررہ وقت تک ہی ہے۔ انفرادی لحاظ سے یہ مہلت ہر انسان کی موت کا وقت ہے۔ اور اجتماعی لحاظ سے کسی قوم پر اللہ کے عذاب کا یا قیامت کا وقت ہے۔ اس مقررہ وقت کے بعد محاسبہ کا وقت ہے۔ کوئی مجرم نہ اس سے چھپ سکے گا نہ بھاگ سکے گا۔ اور اس کا یہ محاسبہ حق و انصاف پر مبنی ہوگا کیونکہ وہ اپنے بندوں کے ایک ایک عمل اور ان کی ایک ایک حرکت کو خود دیکھ رہا ہے۔ فاطر
0 [١] فضائل سورۃ یس :۔ سورہ یٰسین میں قرآن مجیدکی دعوت کو بڑے پرزول دلائل کے ساتھ اور نہایت موثر پیرائے میں پیش کیاگیاہے۔ بندہ مومن کا ایمان تازہ ہوجاتاہے اور عالم آخرت کانقشہ سامنےآجاتاہے ۔ بہتر ہے کہ اس کی تلاوت کے ساتھ ساتھ ترجمہ بھی ذہن میں رکھاجائےاور جولوگ ترجمہ نہیں جانتے وہ ساتھ ساتھ اردوترجمہ پڑھتے جائیں تاکہ اس سورت کی برکات سے مستفید ہواجائے۔ یہ جوعام طورپر جامع ترمذی نہیں جانتے وہ ساتھ ساتھ اردوترجمہ پڑھتے جائیں تاکہ ا س سورت کی برکات سےمستفید ہواجائے۔یہ جوعام طورپرترمذی کی روایت مشہور ہے کہ سورہ یٰسین قرآن کا دل ہے جس نے سورۃ یٰسین پڑھی اس کے عوض دس بار قرآن پڑھنےکاثواب ملےگا۔بیہقی کی روایت کےمطابق اپنےمرنے والوں پر سورۃ یٰسین پڑھاکروجس نے جمعہ کےروزسورہ یٰسین پڑھی اس کےگناہ معاف کردئیے جائیں گے۔یہ روایات ضعیف ہیں۔ یادرہے کہ سورۃ یٰسین کی فضیلت میں جتنی احادیث ملتی ہیں ان میں سے کوئی بھی حدیث صحیح نہیں ہے وہ سب کی سب ضعیف یا موضوع ہیں۔ يس
1 [ ٢] اگرچہ یہ لفظ بھی دو حروف مقطعات کا مجموعہ ہے۔ تاہم اس کے پہلے لفظ یا سے جو حرف ندا ہے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ صرف ندا اور منادیٰ سے مل کر ایک جملہ بن رہا ہے۔ اسی لئے اکثر مفسرین نے اس کا ترجمہ اے شخص، اے مرد یا اے انسان سے کیا ہے۔ اور اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ يس
2 [ ٣] قرآن کا نزول ہی آپ کی رسالت کی سب سے بڑی دلیل ہے :۔ واؤ قسمیہ ہے اور قسم شہادت کے قائم مقام ہوا کرتی ہے۔ لعان کی صورت میں جو قسمیں اٹھائی جاتی ہیں تو وہ شہادتوں ہی کے قائم مقام ہوتی ہیں۔ ان تین مختصر سی آیات کا مطلب یہ ہے کہ یہ حکمتوں سے لبریز قرآن حکیم اس بات پر قوی شہادت ہے کہ (١) آپ فی الواقع اللہ کے رسول ہیں اور (٢) یہ کہ آپ سیدھی راہ پر گامزن ہیں اور وہ شہادت یہ ہے کہ آپ امی تھے۔ کسی استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہ نہیں کیا تھا۔ لکھ پڑھ بھی نہیں سکتے تھے۔ نبوت سے پہلے آپ نے کبھی کوئی ایسا کلام یا اس سے ملتا جلتا کلام بھی پیش نہیں کیا تھا جس سے یہ شبہ ہوسکے کہ شاید یہ ملکہ اس کی فطرت میں موجود تھا۔ اور وہی ملکہ ترقی کرتا رہا حتیٰ کہ آپ ایسا کلام پیش کرنے پر قادر ہوگئے اور یہ سب باتیں کفار مکہ ذاتی طور پر جانتے تھے پھر چالیس سال کی عمر میں آپ کی زبان سے یک لخت ایسے کام کا جاری ہونا جس نے تمام فصحاء و بلغائے عرب کو اپنے مقابلہ میں گنگ بنا دیا تھا اور بار بار کے چیلنج کے باوجود ایسا کلام پیش کرنے سے عاجز آگئے تھے تو اس سے صاف واضح تھا کہ یہ کلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام نہیں ہوسکتا بلکہ کسی ایسی ہستی کا ہی ہوسکتا ہے جو مافوق الفطرت ہو۔ حکیم ہو اور خبیر ہو۔ گویا ایسے کلام کی تنزیل ہی بیک وقت کئی ایک امور پر قوی شہادت مہیا کرتی تھا۔ مثلاً یہ کہ (١) اللہ تعالیٰ کی ہستی موجود ہے اور یہ کلام اسی کا ہی ہوسکتا ہے۔ (٢) یہ کہ آپ بلاشبہ اس اللہ کے رسول ہیں اور (٣) ان دونوں باتوں سے لازمی نتیجہ یہ بھی نکلتا تھا کہ جو طرز زندگی آپ پیش فرما رہے ہیں۔ وہی انسانیت کے لئے سیدھی راہ ہوسکتی ہے۔ اس میں نہ افراط ہے اور نہ تفریط۔ (٤) یہ کہ قریش مکہ کے ہر قسم کے شکوک و شبہات لغو اور باطل ہیں۔ جیسے کبھی وہ کہتے تھے کہ اس نے یہ خود ہی گھڑ لیا ہے۔ کبھی کہتے تھے کہ اللہ پر جھوٹ باندھ رہا ہے۔ کبھی کہتے تھے کہ اسے کوئی دوسرا آدمی سکھا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ يس
3 يس
4 يس
5 [ ٤] یعنی اس قرآن حکیم کو نازل کرنے والا کوئی کمزور قسم کا ناصح نہیں ہے جس نے کچھ احکام اور نصائح بھیج دیئے ہوں۔ جسے اگر تم قبول کرلو تو اچھا ہے اور اگر نظر انداز کردو تو بھی تمہارا کچھ نہیں بگڑے گا۔ بلکہ اس کا نازل کرنے والا فرمانروائے کائنات ہے جو سب پر غالب ہے۔ اور اپنے فیصلوں کو نافذ کرنے کی طاقت رکھتا ہے اور وہ رحیم اس لحاظ سے ہے کہ اس نے تمہاری رہنمائی کے لئے یہ قرآن اور یہ نبی بھیج کر تم پر بہت مہربانی فرمائی ہے۔ تاکہ تم لوگ گمراہیوں سے بچ کر دنیا و آخرت کی فلاح سے ہمکنار ہوسکو۔ يس
6 [ ٥] مکہ میں شعیب علیہ السلام کے دو ہزار سال بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے :۔ اس آیت کے دو مطلب ہوسکتے ہیں اور دونوں ہی درست ہیں۔ مَااُنْذِرَمیں اگر ما کو نافیہ سمجھا جائے جیسا کہ اس کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ چونکہ ان کی طرف کوئی نبی نہیں آیا لہٰذا یہ لوگ گہری غفلت اور جہالت میں پڑے ہوئے ہیں اور اگر ما کو موصولہ سمجھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ان کے قدیمی آباء و اجداد مدتوں پہلے جس چیز سے ڈرائے گئے تھے اسی چیز سے آپ ان کو ڈرائیں۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام ، سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام اور سیدنا شعیب علیہ السلام انہی کے آباء و اجداد کی طرف مبعوث ہوئے تھے اور آخری نبی شعیب علیہ السلام تھے انہیں بھی دو ہزار سال کا عرصہ گزر چکا تھا اور اتنی مدت بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے عرب کی حالت :۔ اور یہ اس طویل مدت کا ہی اثر تھا کہ یہ لوگ انتہائی جہالت اور غفلت میں پڑے ہوئے تھے۔ ان کے عادات و خصائل سخت بگڑ چکے تھے۔ شرک اس قدر عام تھا کہ کعبہ کے اندر تین سو ساٹھ بت موجود تھے اور ہر قبیلہ کا الگ الگ بت بھی موجود تھا۔ ان میں اکثر لوگوں کا پیشہ لوٹ مار اور رہزنی تھا۔ شراب کے سخت رسیا تھے۔ فحاشی اور بے حیائی عام تھی۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑے کھڑے کردینا ان کا معمول تھا۔ پھر ان کے قبائلی نظام کی وجہ سے قبیلوں میں ایسی جنگوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا جو ختم ہونے میں آتا ہی نہ تھا۔ غرض ہر لحاظ سے یہ قوم ایک اجڈ، تہذیب سے ناآشنا اور ایک ناتراشیدہ اور اکھڑ قوم تھی جس کی اصلاح و ہدایت کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا گیا تھا۔ اسی صورت حال سے اس بات کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ذمہ داری کس قدر سخت اور عظیم تھی۔ يس
7 [ ٦] قرآن کریم نے جہاں بھی حق القول کا لفظ استعمال فرمایا تو اس کے مخاطب عموماً وہ لوگ ہوتے ہیں جو یا تو آخرت پر ایمان ہی نہ رکھتے ہوں۔ جیسے کفار مکہ یا ان جیسی دوسری قومیں جو پہلے گزر چکیں یا بعد میں آنے والی ہیں۔ یا پھر وہ لوگ ہوتے ہیں جو آخرت کو مانتے تو ہیں مگر ساتھ ہی انہوں نے کچھ ایسے سستی نجات کے عقیدے گھڑ رکھے ہوتے ہیں کہ آخرت پر ایمان لانے کے اصل مقصد کو فوت کردیتے ہیں۔ جیسے یہود کا یہ عقیدہ کہ انہیں چند دنوں کے سوا جہنم کی آگ چھوئے گی ہی نہیں۔ یا جیسے یہود و نصاریٰ کا یہ عقیدہ کہ وہ اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں۔ اللہ انہیں کیوں عذاب کرے گا ؟ یا مسلمانوں کا یہ عقیدہ کہ سید قوم کی پشت ہی پاک ہوتی ہے۔ وہ جو کام بھی کرتے رہیں وہ پاک ہی رہتی ہے۔ یا یہ عقیدہ کہ فلاں حضرت صاحب کی بیعت کرلی جائے یا دامن پکڑ لیا جائے تو وہ اپنے ساتھ ہی انہیں جنت میں لے جائیں گے۔ پیچھے نہیں رہنے دیں گے یا یہ کہ وہ اللہ سے سفارش کرکے انہیں بخشوا کے چھوڑیں گے وغیرذلک ایسے تمام تر عقیدے فی الحقیقت آخرت کے عقیدہ کی نفی کردیتے ہیں۔ [ ٧] اس جملہ کی تکمیل یوں ہوتی ہے کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ اور جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ یہاں ایمان سے مراد ایمان بالآخرت ہے۔ ورنہ اللہ کی ہستی کو تو کفار مکہ بھی تسلیم کرتے تھے۔ البتہ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے تھے اور اسی وجہ سے آپ کی رسالت کا بھی انکار کردیتے تھے۔ يس
8 [ ٨] تقلید آباء اور رسم و رواج کے طوق :۔ یہ طوق ان کی تقلید آباء کے طوق تھے، ان کی جاہلانہ اور مشرکانہ رسوم کے طوق تھے، ان کے کبرونخوت کے طوق تھے جنہوں نے ان کے گلوں کو اس حد تک دبا رکھا تھا اور ان کے سر اس قدر جکڑے ہوئے تھے کہ وہ کسی دوسری طرف دیکھ ہی نہ سکتے تھے۔ نہ ہی ان کی نگاہیں نیچے اپنی طرف دیکھ سکتی تھیں کہ وہ کم از کم اپنے اندر ہی موجود اللہ کی نشانیوں اور قدرتوں کو دیکھ کر کچھ سبق حاصل کرسکیں۔ يس
9 [ ٩] آگے بھی دیوار ہو، پیچھے بھی دیوار ہو اور جس جس طرف دیوار نہ ہو، وہاں کوئی پردہ ڈال کر ڈھانپ دیا جائے تو کوئی شخص دیکھ بھی کیسے سکتا ہے۔ ان کی یہ حالت اس لئے ہوگئی ہے کہ وہ اپنی ان جاہلانہ اور مشرکانہ رسوم ہی سے چمٹا رہنا پسند کرتے ہیں۔ اور ان باتوں کے باطل ہونے پر جو دلیل بھی پیش کی جائے اس پر غور کرنا تو درکنار اسے سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔ اس مقام پر مختصراً یہ اشارہ کردینا ضروری ہے کہ اسباب کو اختیار کرنا انسان کے اپنے بس میں ہوتا ہے بالفاظ دیگر حق کو قبول نہ کرنے یا سرکشی کی راہ اختیار کرنے کی ابتدا ہمیشہ انسان کی طرف سے ہوتی ہے۔ پھر جو راہ انسان اختیار کرتا ہے اسے اللہ کی طرف سے اسی راہ کی توفیق و تائید ملتی جاتی ہے۔ پھر ان اسباب کے اختیار کرنے کی بنا پر جو نتیجہ مترتب ہوتا ہے اس کی نسبت کبھی تو اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے، جیسے اس مقام پر ہے، کیونکہ نتائج مترتب کرنا اللہ کا کام ہے بندے کا نہیں اور کبھی اس کی نسبت بندے کی طرف ہوتی ہے کیونکہ اسباب بندے نے ہی اختیار کئے تھے۔ يس
10 [ ١٠] یہ حالت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی شخص اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ وہ کوئی معقول سے معقول دلیل سننے کے لئے تیار نہیں ہوتا اور ''میں نہ مانوں'' کی خصلت اس میں پختہ ہوجاتی ہے لیکن وہ دل میں حقیقت کو تسلیم کرلینے کے باوجود زبان سے انکار کردیتا ہے۔ یہی کیفیت ہوتی ہے جب اس پر کوئی نصیحت اور ہدایت کی بات کارگر ثابت نہیں ہوتی۔ اور اسی کیفیت کو اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پردلوں پر مہر لگا دینے سے تعبیر فرمایا ہے۔ يس
11 [ ١١] بن دیکھے رحمان سے صرف وہی لوگ ڈرتے ہیں جو آخرت کے دن پر اور اللہ کے حضور اپنے اعمال کی باز پرس پر ٹھیک طرح سے ایمان رکھتے ہیں اور اپنے اس ایمان با لآخرت کے عقیدے کو سستی نجات کے عقیدے سے خراب نہیں کرلیتے اور ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ دنیا میں اللہ سے ڈر کر انتہائی محتاط زندگی گزارتے ہیں۔ اور ایسے ہی لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے گناہوں اور خطاؤں کی بخشش کے مستحق ہوتے ہیں۔ گناہ تو ان کے معاف کردیئے جاتے ہیں اور نیک اعمال کا اجر بہت بڑھ چڑھ کر ملتا ہے۔ يس
12 [ ١٢] اس کا ایک مفہوم تو واضح ہے اور یہی مفہوم دنیا میں بھی ہر آن مشاہدہ میں آرہا ہے۔ اور یہی مفہوم عقیدہ آخرت کی بنیاد ہے اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ قرآن نے بعض مقامات پر موتٰی سے مراد مردہ دل کافر بھی لئے ہیں۔ اس لحاظ سے اس جملہ کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ عرب قوم جس کی اخلاقی اور روحانی قوتیں بالکل مرچکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو یہ قدرت حاصل ہے کہ پھر ان میں زندگی کی روح پھونک دے کہ وہ دنیا میں بڑے بڑے کارہائے نمایاں سرانجام دے اور بعد میں آنے والی نسلوں کے لئے اپنے عظیم آثار چھوڑ جائے۔ اثر کا لغوی مفہوم :۔ اثر کا معنی دراصل قدموں کے نشان ہیں۔ جو کسی انسان کے چلنے کے بعد زمین پر پڑجاتے ہیں۔ پھر اس لفظ کا اطلاق زمین پر پڑے ہوئے قدموں پر بھی ہوتا ہے جیسا کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قبیلہ بنی سلمہ کے لوگوں نے (جن کے مکان مسجد نبوی سے دور تھے) ارادہ کیا کہ وہ اپنے مکان چھوڑ دیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آکر رہائش پذیر ہوں۔ (تاکہ آسانی سے نماز باجماعت میں شامل ہوسکیں۔) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ کی سرحدوں کا اجڑنا برا معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا : کیا تم اپنے قدموں کا ثواب نہیں چاہتے۔ مجاہد کہتے ہیں کہ اٰثَارَھُم سے مراد زمین پر چلنے سے پاؤں کے نشانات مراد ہیں۔ (بخاری۔ کتاب الاذان۔ باب احتساب الآثار) [ ١٣] زندگی کے بعد اعمال نامہ میں درج ہونے والے اعمال :۔ ہر انسان کے اعمال نامہ میں تین طرح کے اندراجات ہوتے ہیں۔ ایک وہ اعمال و اقوال جو اس نے اپنی زندگی کے دوران سرانجام دیئے تھے۔ دوسرے اعمال کے اثرات جو عمل کرنے سے انسان کے اپنے جسم، اس کے اعضاء و جوارح، زمین یا فضا میں مرتسم ہوتے رہتے ہیں۔ اور تیسرے وہ اعمال جن کے اچھے یا برے اثرات اس کی زندگی کے بعد بھی باقی رہ گئے۔ مثلاً کسی شخص نے کوئی مفید کتاب تصنیف کی یا لوگوں کو علم دین سکھایا اور یہ سلسلہ آگے چلتا رہا یا کوئی چیز اللہ کی راہ میں وقف کر گیا۔ یہ سب کچھ اس کے عمل کے اثرات ہیں اور ان کا ثواب اس کے اعمال نامہ میں اس زندگی کے بعد بھی درج ہوتا رہے گا۔ اسی طرح اگر کسی نے کوئی شرکیہ عقیدہ یا بدعت یا کوئی بدرسم نکالی تو جو شخص ان باتوں کو اپنائیں گے حصہ رسدی ان کا گناہ اس کے ایجاد کرنے والے کے اعمال نامہ میں بھی درج ہوتا رہتا ہے۔ [ ١٤] لوح محفوظ کے نام اور صفات :۔ کتاب مبین سے مراد لوح محفوظ ہے۔ جس کے مزید نام ام الکتاب اور کتاب مکنون بھی قرآن کریم میں مذکور ہیں۔ اس امام مبین کا مکمل ادراک تو انسان کے احاطہ سے باہر ہے تاہم روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک ایسی تختی یا کتاب ہے جس میں کائنات کی تقدیر کے متعلق تمام امور پہلے سے لکھ دیئے گئے ہیں۔ اور ان میں رد و بدل نہیں ہوتا اور یہ تمام احکام وفرامین اور کلمات الٰہی کا مصدر ہے اور مکنون اس لحاظ سے ہے کہ اس کے مندرجات کی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو خبر نہیں۔ گویا لوگوں کے جو اعمال نامے تیار ہو رہے ہیں جو اعمال و آثار کے وقوع کے بعد لکھے جاتے ہیں۔ عین اللہ کے اس علم کے مطابق ہوتے ہیں جس کے مطابق اس نے ہر چیز پہلے سے ہی امام مبین میں درج کر رکھی ہے۔ يس
13 [ ١٥] اصحاب القریہ اور مرد حق گو :۔ یہ بستی کون سی تھی؟ اس کے متعلق قرآن و حدیث میں کوئی صراحت نہیں۔ مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے مراد روم میں واقع انطاکیہ شہر ہے۔ پھر اس بات میں بھی اختلاف ہے کہ یہ رسول بلاواسطہ رسول تھے یا بالواسطہ رسول یا مبلغ تھے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ مبلغ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے ہی بھیجے تھے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ یہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں میں سے تھے۔ قرآن کے بیان سے سرسری طور پر یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ بلاواسطہ اللہ کے رسول تھے۔ اور اگر یہی بات ہو تو ان کا زمانہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے کا زمانہ ہونا چاہئے کیونکہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تک کوئی نبی یا رسول مبعوث نہیں ہوا۔ اور بستی کے نام کی تعیین یارسول کے بلاواسطہ یا بالواسطہ ہونے کی تعیین کوئی مقصود بالذات چیز بھی نہیں کہ اس کی تحقیق ضروری ہو۔ مقصود بالذات چیز تو کفار مکہ کو سمجھانا ہے کیونکہ کفار مکہ اور ان بستی والوں کے حالات میں بہت سی باتوں میں مماثلت پائی جاتی تھی۔ يس
14 [ ١٦] قریش بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی کچھ کہتے تھے کہ تم بھی ہمارے ہی جیسے بشر ہو آخر تم میں ہم سے بڑھ کر وہ کون سی خوبی ہے جو اللہ نے تمہیں ہی نبوت کے لئے منتخب کیا اور یہ ایسا اعتراض ہے جو ہر نبی کے منکر اپنے اپنے نبی کے متعلق کرتے آئے تھے۔ گویا نبوت کے متعلق جاہلی تصور یہ ہے کہ جو بشر ہو وہ رسول نہیں ہوسکتا اور اس کے عین برعکس دوسرا جاہلی تصور یہ ہے کہ جو رسول ہو وہ بشر نہیں ہوسکتا۔ حالانکہ قرآن سب انبیاء کو بشر بھی ثابت کرتا ہے اور رسول بھی۔ يس
15 [ ١٧] قریش مکہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ الزام دیتے تھے کہ جو کلام یہ پیش کرتا ہے خود ہی تصنیف کرکے اللہ کے نام سے منسوب کردیتا ہے۔ يس
16 يس
17 يس
18 [ ١٨] انبیاء کی دعوت پر کافروں کو کیا مصیبت پڑتی ہے؟ منکرین حق کو جھنجھوڑنے کے لئے ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ چھوٹے موٹے عذاب یا سختیاں بطور تنبیہ نازل ہوا کرتی ہیں۔ اور اگر ایسا کوئی عذاب نہ بھی آئے تو بھی ایک بات کا وقوع پذیر ہونا یقینی ہے۔ نبی جب دعوت دیتا ہے تو کچھ اس کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں اور کچھ اس کی مخالفت پر اتر آتے ہیں۔ اس طرح دو فریق بن جاتے ہیں جن کی آپس میں ٹھن جاتی ہے۔ ایک آدمی اگر ایماندار ہے تو اس کے رشتہ دار کافر ہوتے ہیں۔ منکرین حق کے لئے یہ ایک الگ مصیبت بن جاتی ہے۔ بہرحال عذاب کی صورت ہو یا ایسی تفریق کی، منکرین حق اس کا الزام رسولوں پر دھرتے اور کہتے تھے کہ جب سے تم آئے ہو ہمیں یہ مصیبت پڑگئی ہے اور یہ تمہاری ہی نحوست کا نتیجہ ہے۔ ورنہ پہلے سب مل جل کر اچھے خاصے آرام کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ [ ١٩] کافر قوم کی دھمکی :۔ ان لوگوں نے اپنے رسولوں کو محض ایسی دھمکی ہی دی تھی جب کہ کفار مکہ نے کئی بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی جان سے مار ڈالنے کی کوششیں اور سازشیں کی تھیں۔ يس
19 [ ٢٠] یعنی تمہاری نحوست کی اصل وجہ وہ نہیں جو تم سمجھے بیٹھے ہو۔ بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ پہلے تمہارے پاس کوئی تنبیہ کرنے والا نہیں آیا تھا۔ لہٰذا تم اللہ کی طرف سے معذور تھے۔ اب ہم نے اگر تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا تو تم نے اس سے سرتابی کی اور اکڑ بیٹھے۔ اس کی پاداش میں تمہیں اللہ کی طرف سے یہ سزا مل رہی ہے اور یہ تمہارے اپنے ہی اعمال کی نحوست ہے کہیں باہر سے نہیں آئی۔ [ ٢١] یعنی تمہارا انداز فکر اس قدر بگڑ چکا ہے کہ جو لوگ تمہارے خیر خواہ ہیں اور سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کرتے ہیں ان کو تم جان سے مار ڈالنے یا تکلیفیں پہنچانے کی دھمکیاں دیتے ہو۔ اور اللہ کی نافرمانی پر اگر تمہیں کوئی دکھ پہنچے تو اس کا ذمہ دار بھی ہمیں ٹھہراتے ہو۔ کچھ انصاف کی بات کرو۔ تم تو عقل اور آدمیت کی سب حدیں پھاند گئے ہو۔ يس
20 [ ٢٢] اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان رسولوں اور ان کی قوم میں جو مکالمہ اوپر مذکور ہوا ہے وہ کوئی چند دنوں پر مشتمل نہیں بلکہ کئی سالوں کی مدت پر محیط تھا اور رسولوں کی دعوت اور ان کے انکار اور دھمکیوں کا چرچا اس شہر کے علاوہ ارد گرد کے مضافات میں بھی پھیل چکا تھا۔ چنانچہ انہیں مضافات میں سے ایک صالح مرد جس کا نام حبیب بتایا جاتا ہے نے جب یہ سنا کہ شہر والے اپنے رسولوں کو قتل کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور مبادا وہ کوئی ایسی حرکت کر نہ بیٹھیں، تو اس سے برداشت نہ ہوسکا۔ وہ خود ایک عبادت گزار انسان تھا۔ اور اپنے ہاتھوں کی حلال کمائی کھاتا تھا۔ اور اچھی شہرت رکھتا تھا، یہ باتیں سنتے ہی دوڑتا ہوا اس کی طرف آیا تاکہ وہ اپنی قوم کے لوگوں کو سمجھائے کہ وہ ان رسولوں کی مخالفت سے باز آجائیں۔ يس
21 [ ٢٣] اس مرد حق گو نے اصحاب قریہ کو کیا کیا باتیں سمجھائیں؟ اس صالح مرد نے قوم کے پاس آکر انہیں دو باتیں سمجھائیں ایک یہ کہ یہ رسول جو تعلیم پیش کرتے ہیں پہلے خود اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور ان کی اخلاقی حالت بھی تم سے بہت بلند ہے۔ دوسرے جو کچھ وہ تمہیں تعلیم دیتے ہیں اس پر نہ تو تم سے کچھ معاوضہ طلب کرتے ہیں اور نہ اس کام سے ان کا اپنا کوئی ذاتی مفاد وابستہ ہے۔ اور جو بات وہ کہتے ہیں تمہاری ہی بھلائی کے لئے کہتے ہیں۔ لہٰذا ایسے بے لوث مخلصوں کی بات تمہیں ضرور مان لینا چاہئے۔ بلکہ ان کی قدر کرنا چاہئے۔ يس
22 [ ٢٤] تیسری بات جو مرد صالح نے سمجھائی۔ اس میں قوم کو مخاطب نہیں کیا تاکہ وہ چڑ نہ جائیں بلکہ اسے اپنی ذات سے منسوب کرتے ہوئے کہا کہ میں تو اس بات کا قائل ہوں کہ عبادت کی مستحق وہی ہستی ہوسکتی ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور اسی لئے میں صرف اسی کی عبادت کرتاہوں۔ اور اللہ کے سوا جن ہستیوں کو تم نے اپنا حاجت روا قرار دے رکھا ہے ان کا میرے پیدا کرنے اور رزق دینے میں کچھ حصہ ہی نہیں تو آخر میں انہیں کیوں پکاروں اور کیوں ان کی عبادت کروں۔ [ ٢٥] چوتھی بات ان کے انجام سے متعلق انہیں سمجھائی کہ آخر تم سب نے مرنا ہے۔ اور تم سب کی روحیں اللہ کے قبضہ میں ہیں۔ اور تمہیں اس ہستی کی طرف لوٹ کر جانا ہے جس کی بندگی کی دعوت پر آج تمہیں اعتراض ہے اور جو تمہیں یہ بات سمجھائے اس کے درپے آزار ہوجاتے ہو۔ پھر تم خود ہی سوچ لو کہ تمہارا انجام کیا ہوسکتا ہے؟ يس
23 [ ٢٦] پانچویں بات اس نے یہ سمجھائی کہ میں ایسے مشکل کشاؤں کی مشکل کشائی کا ہرگز قائل نہیں کہ اگر میرا پروردگار مجھے کسی تکلیف میں مبتلا کر دے تو ان میں نہ تو اتنی طاقت ہے کہ وہ اللہ کے مقابلہ میں مجھے اس تکلیف سے بچا سکیں اور نہ یہ کرسکتے ہوں کہ اللہ سے سفارش کرکے مجھے اس مشکل سے نجات دلا سکیں۔ یہ باتیں وہ کہہ تو اپنے آپ رہا تھا مگر ''بمصداق گفتہ آید درحدیث دیگراں'' سنا سب کچھ قوم کو رہا تھا کہ تمہیں اس طرح کی بے بس اور بے اختیار چیزوں کو ہرگز معبود نہ بنانا چاہئے۔ اور یہی عیوب کفار مکہ میں پائے جاتے تھے۔ يس
24 يس
25 [ ٢٧] اپنے ایمان کا برملا اعلان :۔ یہ باتیں سمجھانے کے بعد اس نے کافروں کے بھرے مجمع میں پوری جرأت کے ساتھ اپنے ایمان کا اعلان کردیا اور اعلان بھی اس انداز میں کیا کہ ’’میں تمہارے پروردگار پر ایمان لاچکا‘‘ یہ نہیں کہا کہ میں اپنے پروردگار پر ایمان لاچکا۔ یعنی جیسے وہ میرا پروردگار ہے ویسے ہی تمہارا بھی ہے۔ اور میں اس پر ایمان لاکر غلطی نہیں کر رہا بلکہ تم ایمان نہ لاکر غلطی کر رہے ہو۔ يس
26 [ ٢٨] مرد حق گو کی شہادت :۔ رسولوں کی دعوت پر تو یہ لوگ محض دھمکیاں ہی دے رہے تھے اور شاید ڈرتے بھی ہوں کہ اگر فی الواقع رسول ہوں تو ہم پر کوئی آفت نہ آئے۔ مگر جب اس مرد حق گو نے ناصحانہ انداز میں ان کے معبودوں کی سب خامیاں ان پر واضح کردیں تو اسے انہوں نے اپنی اور اپنے معبودوں کی توہین اور ان کی شان میں گستاخی سمجھ کر اسے فوراً قتل کردیا اور اس کے قتل ہونے کے ساتھ اسے فرشتوں نے یہ خوشخبری دے دی کہ جنت تمہاری منتظر ہے۔ اس میں داخل ہوجاؤ۔ کیونکہ وہ صحیح معنوں میں شہید تھا اور اس نے اللہ کے دین کی خاطر اپنی جان دی تھی۔ اور شہداء کے متعلق قرآن اور صحیح احادیث میں صراحت کے ساتھ مذکور ہے کہ شہید براہ راست جنت میں چلے جاتے ہیں اور وہاں انہیں رزق دیا جاتا ہے۔ ان کی روحیں سبز پرندوں کی شکل میں جنت کے باغوں میں چہچہاتی پھرتی ہیں۔ يس
27 [ ٢٩] قوم اس کی اس قدر دشمن بن گئی تھی کہ اسے جان سے ہی مار ڈالا۔ مگر اس کا اخلاق اس قدر بلند تھا کہ اپنے جانی دشمنوں کے لئے بددعا کے بجائے ان کے حق میں خیر خواہی کی بات ہی اس کے ذہن میں آئی۔ اگر اسے کچھ تمنا تھی تو صرف یہ کہ کاش میری قوم کو یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ نے مجھ پر کس قدر انعام و کرام کئے ہیں۔ تو شاید وہ بھی ایمان لے آئیں۔ اس قصہ کو بیان کرکے اللہ تعالیٰ نے دراصل کفار مکہ کو اس بات پر آمادہ کیا ہے کہ جس طرح وہ مرد صالح اپنی قوم کا سچا ہمدرد اور خیر خواہ تھا، اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی تمہارے سچے خیر خواہ ہیں۔ يس
28 يس
29 [ ٣٠] اصحاب القریہ پر چیخ کا عذاب :۔ یہ مرد صالح تو شہید ہوگیا، رہے پیغمبر تو ان کے متعلق کوئی صراحت نہیں کہ ان کا کیا انجام ہوا ؟ تاہم قرآن کی صراحت سے ایک ضابطہ الٰہی معلوم ہوتا ہے کہ جس بستی پر اللہ اپنا عذاب نازل کرتا ہے تو اپنے رسولوں اور ایمانداروں کو اس عذاب سے بچانے کا پہلے انتظام کردیتا ہے۔ اور یہ تو اس آیت سے واضح ہے کہ ان رسولوں کی تکذیب اور اس مرد مومن کی شہادت کے بعد اس قوم پر عذاب آیا تھا اور یہ عذاب کچھ ایسا نہ تھا جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی فوجیں نازل کی ہوں نہ ہی اتنے معمولی سے کام کے لئے اللہ تعالیٰ کو فوجیں بھیجنے کی ضرورت تھی۔ اس قوم سے بس اتنا ہی معاملہ ہوا کہ زور کا ایک دھماکہ ہوا جس کی پہلی ضرب بھی وہ سہار نہ سکے اور جہاں جہاں تھے۔ اسی مقام پر ہی ڈھیر ہو کر رہ گئے۔ يس
30 يس
31 [ ٣١] یعنی سابقہ اقوام کے انجام کی طرف نہ دیکھتے ہیں نہ اس میں غور و فکر کرتے ہیں وہ قومیں بھی اپنے رسولوں کا مذاق اڑاتی رہیں۔ اور اس کی پاداش میں انہیں ہلاک کردیا جاتا تھا اور ان کا ایسا نام و نشان تک مٹ گیا کہ ان میں سے کوئی بھی بچ کر ان کے پاس واپس نہیں لوٹا پھر بھی ان کافروں کا یہی دستور رہا کہ جب کوئی نیا رسول آتا تو اس سے اسی طرح تمسخر اور استہزاء شروع کردیتے جو پہلے کفار کی عادت تھی اور کچھ سبق حاصل نہیں کرتے تھے۔ اور آج کفار مکہ کا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ يس
32 يس
33 [ ٣٢] دلائل توحید۔۔ ہر قسم کی نباتات کا بہترین حصہ انسان کے لئے ہوتا ہے :۔ زمین سے جو اناج بھی پیدا ہوتا ہے اس کا بہتر حصہ تو انسانوں کی خوراک بنتا ہے اور ناقص حصہ مویشیوں اور دوسرے جانوروں کی۔ مثلاً گندم کے اناج میں سے گندم کے دانے بہتر حصہ ہے اور یہ انسانوں کی خوراک ہے۔ اور باقی کا حصہ جسے بھوسہ یا توڑی کہتے ہیں مویشیوں کی خوراک بنتا ہے۔ یہی حال سب غلوں کا ہے اور پھل دار درختوں میں سے پھل انسان کی خوراک بنتے ہیں اور پتے وغیرہ بھیڑ بکریوں اور اونٹوں کی خوراک بنتے ہیں۔ پھر کچھ چیزیں انسانوں کے لباس کے کام آتی ہیں اور کچھ دواؤں کے اور کچھ جھاڑ جھنکار ایندھن کے کام آتے ہیں اور کچھ سے انسان کئی قسم کی مصنوعات تیار کرتا ہے۔ غرضیکہ زمین کی نباتات میں کوئی چیز ایسی نہیں جو بلاواسطہ یا بالواسطہ آخر انسان ہی کے کام نہ آتی ہو۔ يس
34 يس
35 [ ٣٣] وما عملتہ ایدیھم کے مختلف مفہوم۔۔ زرعی پیداوار میں انسان کا حصہ :۔ ﴿وَمَا عَمِلَتْہُ أیْدِیْھِمْ﴾ میں اگر ما کو نافیہ قرار دیا جائے تو اس کا یہ مطلب ہوگا۔ نباتات کو پیدا کرنا انسان کا کام نہیں۔ نباتات اور پھلوں کی پیدائش میں جس قدر عناصر سرگرم عمل ہیں وہ سب کے سب اللہ کے حکم کے تحت اپنے اپنے کام میں لگے رہتے ہیں تب جاکر نباتات وجود میں آتی، بڑھتی، پھلتی پھولتی اور انسانوں اور دوسرے جانداروں کا رزق بنتی ہے۔ اور مَا کو موصولہ قرار دیا جائے تو پھر اس کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ اگرچہ نباتات کو وجود میں لانے والے سارے عناصر اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ ہیں۔ تاہم اس میں کچھ نہ کچھ کام انسانوں کا بھی ہوتا ہے۔ مثلاً انسان بیج ڈالتا ہے، ہل چلاتا ہے، زمین کی سیرابی اور فصل کی نگہداشت کرتا ہے، لیکن اگر وہ غور کرے تو انسان کی یہ استعداد بھی اللہ ہی کا عطیہ ہے۔ اور انسان کے اتنا کام کرنے کے بعد بھی نباتات تب ہی اگ سکتی ہے جب پیداوار کے بڑے بڑے وسائل انسان کی اس حقیر سی کوشش کا ساتھ دیتے ہیں۔ لہٰذا اللہ کا شکر بہرحال واجب ہوا۔ تمام خوردنی اشیاء کی اصل زرعی پیداوار ہے :۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ پیدا کیا ہے وہی اصل اشیاء ہیں پھر انسان ان پر محنت کرکے بعض دوسری اشیائے ضرورت تیار کرلیتا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے گندم، گنا، چنے اور دودھ پیدا کیا ہے۔ اب انسان ان سے کچھ چیزیں انفرادی طور پر حاصل کرتا ہے۔ مثلاً گندم سے روٹی، اور اس کی قسمیں اور گنے سے گڑ، شکر اور چینی اور دودھ سے دہی، مکھن، لسی، بالائی اور گھی وغیرہ پھر انہیں چیزوں کے امتزاج سے ہزاروں چیزیں بناتا چلا جاتا ہے۔ اور کئی طرح کے سالن، اچار، چٹنیاں، مربے، مٹھائیاں وغیرہ تیار کرلیتا ہے۔ کئی چیزوں سے اپنی پوشاک کی ضروریات بناتا ہے یہ استعداد بھی انسان کو اللہ ہی نے بخشی ہے۔ لہٰذا ہر حال میں اللہ کا شکر واجب ہوا۔ يس
36 [ ٣٤] زوج کے مختلف معانی اور ان کی وسعت :۔ ازواج کے کئی معنی ہیں مثلاً اس کا اطلاق نر و مادہ پر بھی ہوتا ہے۔ مرد، عورت کے لئے زوج ہے اور عورت مرد کے لئے۔ اور ان دونوں میں اللہ تعالیٰ نے فطرتی طور پر ایک دوسرے کے لئے کشش رکھ دی ہے۔ پھر اس زوج کے ایک دوسرے سے ملنے سے آگے مزید تخلیق کا سلسلہ چلتا ہے۔ اور یہ سلسلہ صرف حیوانات میں ہی نہیں نباتات میں بھی پایا جاتا ہے۔ کچھ درخت تو ایسے ہیں جن کا عام انسانوں کو بھی علم ہوتا ہے۔ مثلاً کھجور اور انار کے درخت نر بھی ہوتے ہیں اور ما دہ بھی، جب پھل لگنے کا موسم ہوتا ہے تو ہوائیں نر درختوں کا بیج اٹھا کر مادہ درختوں پر پھینک دیتی ہیں۔ تو مزید پیدائش عمل میں آتی ہے۔ اور نباتات کی ہرقسم میں یہ نر و مادہ کا سلسلہ موجود ہے خواہ اس کا ابھی تک انسان کو علم ہوا ہو یا نہ ہو۔ پھر یہ سلسلہ جمادات حتیٰ کہ مادہ کے ایک ذرہ کے اندر بھی پایا جاتا ہے۔ اس میں بھی مثبت اور منفی قوتیں موجود ہوتی ہیں۔ جو آپس میں ایک دوسرے کے لئے کشش رکھتی ہیں۔ دوسرے زوج کا لفظ آپس میں مماثلت رکھنے والی چیزوں کے لئے بھی آتا ہے۔ مثلاً ایک جوتا دوسرے جوتے کا زوج ہوتا ہے۔ اور اس معنی میں بھی یہ لفظ قرآن میں موجود ہے جیسے فرمایا : وَاٰخَرُ مِنْ شَکْلِہٖ أزْوَاج (٣٨: ٥٨) (یعنی اس سے ملتی جلتی دوسری چیزیں) اور ازوج کا تیسرا معنی ایک دوسرے کے مخالف اشیاء جیسے دن رات کا زوج ہے اور رات دن کا یا سایہ دھوپ کا اور دھوپ سایہ کا یا روشنی تاریکی کی زوج اور تاریکی روشنی کی گویا یہ زوج کا سلسلہ اتنا وسیع ہے جو نباتات اور حیوانات کے علاوہ بھی تمام اشیاء میں پایا جاتا ہے۔ خواہ تمہیں اس کا علم ہو یا نہ ہوسکے۔ اس آیت کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے سبحان الذی کا لفظ استعمال فرمایا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کی ہی ایک ایسی ذات ہے جو ہر قسم کے زوج سے پاک ہے۔ نہ اس کا کوئی مقابل ہے اور نہ مماثل۔ کیونکہ مقابلہ یا مماثلت ان چیزوں میں ہوسکتی ہے جو کسی درجہ میں فی الجملہ اشتراک رکھتی ہوں مگر خالق اور مخلوق کا کسی حقیقت میں اشتراک نہیں ہوتا اور اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ دنیا میں شرک کی جتنی بھی اقسام پائی جاتی ہیں ان میں سے ہر قسم میں اللہ تعالیٰ اس کی ذات میں کسی نہ کسی کمی، کمزوری، عیب یا نقص کا الزام ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سبحان کا لفظ کہہ کر مشرکوں کے ہر قسم کے شرکیہ عقیدہ کی تردید فرما دی۔ يس
37 [ ٣٥] رات کا ذکر دن سے پہلے اور فطری تقویم :۔ قرآن کریم نے جب دن اور رات کا ذکر فرمایا تو پہلے رات کا ذکر فرمایا۔ اس سے دو باتوں کا پتہ چلتا ہے کہ ایک یہ کہ فطری تقویم یہ ہے کہ دن رات کی (یعنی ایک دن یا ٢٤ گھنٹے) کی مدت کا شمار ایک دن سورج غروب ہونے سے لے کر دوسرے دن سورج غروب ہونے تک ہے۔ اور یہ مدت ہمیشہ ٢٤ گھنٹے ہی رہتی ہے خواہ گرمیوں کا موسم ہو یا سردیوں کا اور اس میں ایک سیکنڈ کا بھی فرق نہیں پڑتا اور دوسرے یہ کہ اصل چیز رات اور تاریکی ہی تھی یہ اللہ کی رحمت ہے کہ اس نے تمہارے لئے سورج پیدا فرما کر روشنی کا بھی انتظام فرما دیا۔ اور اس میں تمہارے لئے اور بھی بے شمار فائدے رکھ دیئے۔ حتیٰ کہ اگر اللہ تعالیٰ رات اور دن کا یہ انتظام نہ فرماتے تو اس زمین پر نہ کوئی نباتات اگ سکتی تھی اور نہ ہی کوئی جاندار زندہ رہ سکتا تھا۔ يس
38 [ ٣٦] اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جس طرح فضا میں دوسرے تمام سیارے اپنے اپنے مدار پر گردش کررہے ہیں اسی طرح سورج بھی اپنے مدار یا اپنی مقررہ گزر گاہ پر چل رہا ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ جو ہر چیز پر غالب اور اپنی مخلوقات کے تمام تر حالات سے واقف ہے، چاہے گا یہ سورج اسی طرح اپنی مقررہ گزر گار پر چلتا رہے گا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : سورج کا عرش الٰہی کے نیچے سجدہ ریز ہونا :۔ ایک دفعہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا : ’’جانتے ہو کہ سورج غروب ہونے کے بعد کہاں جاتا ہے؟‘‘ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہنے لگے : ’’ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سورج غروب ہونے پر اللہ تعالیٰ کے عرش کے نیچے سجدہ ریز ہوتا ہے اور دوسرے دن طلوع ہونے کا اذن مانگتا ہے تو اسے اذن دے دیا جاتا ہے پھر ایک دن ایسا آئے گا کہ اس سے کہا جائے گا کہ جدھر سے آیا ہے ادھر ہی لوٹ جا۔ پھر وہ مغرب سے طلوع ہوگا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت پڑھی‘‘ (بخاری۔ کتاب التوحید۔ باب وکان عرشہ علی الماء) اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ سورج اور اسی طرح دوسرے سیاروں کی گردش محض کشش ثقل اور مرکز گریز قوت کا نتیجہ نہیں بلکہ اجرام فلکی اور ان کے نظام پر اللہ حکیم و خبیر کا زبردست کنٹرول ہے کہ ان میں نہ تو تصادم و تزاحم ہوتا ہے اور نہ ہی ان کی مقررہ گردش میں کمی بیشی ہوتی ہے اور یہ سب اجرام اللہ کے حکم کے تحت گردش کر رہے ہیں دوسرے یہ کہ قیامت سے پہلے ایک ایسا وقت آنے والا ہے جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا اس کے بعد نظام کائنات بگڑ جائے گا۔ آج کا مغرب زدہ طالب علم سورج کے طلوع و غروب ہونے اور عرش کے نیچے جاکر دوبارہ طلوع ہونے کی اجازت مانگنے کا مذاق اڑاتا ہے اور کہتا ہے کہ سورج تو اپنی جگہ پر قائم ہے اور ہمیں جو طلوع و غروب ہوتا نظر آتا ہے تو یہ محض زمین کی محوری گردش کی وجہ سے ہے حالانکہ اللہ کا عرش اتنا بڑا ہے کہ ایک سورج کی کیا بات ہے کائنات کی ایک ایک چیز اس کے عرش کے تلے ہے اور جن و انس کے سوا ہر چیز اس کے ہاں سجدہ ریز یا اللہ کی طرف سے سپرد کردہ خدمت سرانجام دینے پر لگی ہوئی ہے۔ يس
39 [ ٣٧] اشکال قمر اور منازل قمر :۔ سورج ہمیشہ مشرق سے طلوع ہو کر شام کو مغرب میں غروب ہوجاتا ہے۔ اور اس کی شکل بھی ایک ہی جیسی رہتی ہے لہٰذا اس کے معمول میں کبھی فرق نہیں آتا۔ جبکہ چاند کا مسئلہ اس سے یکسر مختلف ہے۔ وہ کسی بھی قمری مہینے کی ابتدا میں مغرب کی سمت نمودار ہوتا ہے اور بالکل ایک پھانک سی نظر آتا ہے جسے قرآن نے کھجور کی پرانی اور خشک ٹہنی سے تشبیہ دی ہے اور اسے ہلال کہتے ہیں۔ دوسرے دن یہ ذرا موٹا بھی ہوجاتا ہے اور مشرق کی طرف ہٹ کر نمودار ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ روز موٹا ہوتا جاتا ہے اور شکلیں بدلتا رہتا ہے۔ اور چاند بنتا جاتا ہے حتیٰ کہ سات دن بعد عین سر پر طلوع ہوتا ہے اور نصف دائرہ کی شکل اختیار کرلیتا ہے پھر چودھویں دن مشرق سے طلوع ہوتا ہے اور پورا گول ہوتا ہے۔ گویا ہر روز وہ نئی شکل بدلتا ہے اور ہر روز اس کی منزل جداگانہ ہوتی ہے پھر یہ گھٹنا شروع ہوجاتا ہے پھر پہلے کی طرح پھانک کی شکل اختیار کرلیتا ہے یہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے چاند کے لئے مقرر کردہ منزلیں ہیں۔ يس
40 [ ٣٨] اس جملے کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ سورج چاند کی نسبت بڑا سیارہ ہے۔ اس کی کشش ثقل بھی چاند کی نسبت بہت زیادہ ہے تاہم یہ ممکن نہیں کہ سورج چاند کو اپنی طرف کھینچ لے نہ ہی یہ ممکن ہے کہ اس کے مدار میں جا داخل ہو۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہ بھی ممکن نہیں کہ رات کو چاند چمک رہا ہو اور اسی وقت سورج طلوع ہوجائے۔ اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ دن کی مقررہ مدت ختم ہونے سے پہلے ہی رات آجائے۔ اور جتنا وقت دن کی روشنی کے لئے مقرر ہے ان میں رات یکایک اپنی تاریکیوں سمیت آ موجود ہو۔ [ ٣٩] سورج اور چاند کی گردش اور فلک کا مفہوم :۔ سَبَّحَ کے معنی پانی یا ہوا میں نہایت تیز رفتاری سے گزر جانا یا تیرنا۔ اور فلک کے معنی سیاروں کے مدارات یا ان کی گزر گاہیں (Orbits) ہیں۔ اس آیت میں پہلے صرف سورج اور چاند کا ذکر فرمایا پھر کل کا لفظ استعمال فرمایا جو جمع کے لئے آتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورج اور چاند کے علاوہ باقی تمام سیارے بھی فضا میں تیزی سے گردش کر رہے ہیں۔ اور چونکہ ہماری زمین بھی ایک سیارہ ہے لہٰذا یہ بھی محو گردش ہے۔ البتہ زمین کی گردش کے متعلق چند مخصوص وجوہ کی بنا پر استثناء ممکن ہے اور زمین کی گردش کے متعلق آج تک چار نظریے بدل چکے ہیں (تفصیل کے لئے دیکھئے میری تصنیف الشمس والقمر بحسبان) يس
41 [ ٤٠] بھری ہوئی کشتی سے مراد وہ کشتی ہے جو سیدنا نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے مطابق طوفان سے پہلے بنائی تھی۔ جس میں سیدنا نوح علیہ السلام کے علاوہ تمام ایماندار، ان کا سامان خوردونوش، ہر قسم کے جاندار کا ایک ایک جوڑا لدا ہوا تھا۔ جس سے یہ کشتی بھر گئی تھی اور اس میں گویا پوری بنی نوع انسان لدی ہوئی تھی وہ یوں کہ جتنے بھی انسان موجود ہیں سب کے سب ان کشتی میں سوار لوگوں کی اولاد ہیں۔ يس
42 [ ٤١] من مثلہ سے مراد یہ بھی لی جاسکتی ہے کہ سیدنا نوح علیہ السلام کی کشتی جیسی کشتی بنانا انسان نے سیکھ لیا جس کی تعلیم اللہ نے دی تھی۔ اس لحاظ سے سیدنا نوح علیہ السلام ہی کشتی یا جہاز کے موجد ہیں اور یہ مراد بھی لی جاسکتی ہے کہ کشتی جیسی کوئی اور چیز یا چیزیں بھی پیدا کیں اور اس سے مراد وہ تمام سواریاں لی جاسکتی ہیں جو سمندر یا خشکی یا فضا میں چلتی ہیں اور انسان ان پر سوار ہوتا ہے۔ يس
43 [ ٤٢] سمندر میں غرقابی کا حسرتناک منظر :۔ سمندر میں انسان کے کشتی پر سوار ہو کر سفر کرنے کے منظر کو قرآن نے متعدد مقامات پر اپنی نشانی کے طور پر پیش کیا ہے اگر کسی نے سمندری سفر کیا ہو تو وہی اس منظر کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ سمندر کے عین درمیان جہاز چل رہا ہے اوپر دیکھیں تو صرف نیلا آسمان نظر آتا ہے کوئی پرندہ تک نظر نہیں آتا، نیچے دیکھیں تو حد نگاہ تک سیاہ پانی نظر آتا ہے۔ پھر جب سمندر کی موجیں اور تیز ہوائیں جہاز کو ڈگمگا دیتی ہیں تو ہر مسافر سہما سہما نظر آنے لگتا ہے۔ نزدیک کوئی خشکی نہیں، کوئی بستی نہیں جہاز میں سوار تمام مسافروں کی زندگی کا انجام بس اتنا ہی ہوتا ہے کہ ایک شدید جھٹکا لگے جو جہاز کو الٹ دے تو تمام مسافروں کی لاشیں سمندر کی اتھاہ گہرائیوں تک پہنچ کر دم لیں یا کسی آبی جانور کا لقمہ بن جائیں اور اس حال میں جان دیں کہ ان کے لواحقین کو خبر تک بھی نہ ہوسکے۔ يس
44 [ ٤٣] یہ بس اللہ کی رحمت ہی کا نتیجہ ہوتا ہے کہ وہ سمندر اور ہواؤں کی سرکش اور بے پناہ قوت کو کنٹرول میں رکھتا ہے اور مسافر اور تاجر اکثر اوقات صحیح و سلامت دوسرے کنارے پر جا اترتے ہیں۔ اگر اللہ کی رحمت شامل حال نہ ہو تو بنی نوع انسان کی ایک کثیر تعداد سمندر کا لقمہ اجل بن جائے۔ يس
45 [ ٤٤] اس آیت کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ سابقہ قوموں کا یہ انجام بھی تمہارے سامنے ہے اور تم خود بھی ایسے ہی انجام کی طرف جارہے ہو کیونکہ جس قوم نے اللہ کی نافرمانی اور سرکشی کی راہ اختیار کی تو اللہ تعالیٰ نے اس کا زور توڑ کے رکھ دیا اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ آئندہ تم سے تمہارے اعمال کا محاسبہ کیا جانے والا ہے اس کو بھی مدنظر رکھو اور ان اعمال کو بھی جو تم کرچکے ہو۔ اگر تم اپنے برے انجام سے ڈر گئے اور کچھ سبق حاصل کرلیا تو پھر یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ اللہ تم پر مہربانی فرمائے گا۔ يس
46 [ ٤٥] نشانی سے مراد خرق عادت یا معجزہ بھی ہوسکتا ہے اور قرآن کی آیات بھی کہ قرآن کی ہر آیت بذات خود ایک معجزہ ہے۔ اور آفاق و انفس کی آیات بھی یعنی جب بھی کوئی نشانی ان کے سامنے آتی یا لائی جاتی ہے تو اس میں غور و فکر کرنا بلکہ اسے توجہ سے سننا یا دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ يس
47 [ ٤٦] مشیت کا سہارا اس وقت لیا جاتا ہے جب جرم اپنا ہو :۔ یہ ہے ان کج بحث اور ہٹ دھرم لوگوں کی ''خوے بدرا بہانہ بسیار''والی بات یعنی وہ خوب جانتے ہیں کہ غریبوں کی مدد کرنا بڑا اچھا اور نیک کام ہے۔ امیری ہو یا غریبی اللہ ہر حال میں سب کی آزمائش کرتا ہے۔ امیروں کی اس طرح کہ وہ غریبوں کو کچھ دیتے ہیں یا نہیں اور غریبوں کی اس طرح کہ وہ اس حال میں صبر اور اللہ کا شکر کرتے ہیں یا نہیں۔ اصل مشیت تو اللہ کی یہ ہے کہ کسی کو امیر اور کسی کو غریب بنا کر دونوں کی آزمائش کرے جبکہ ان لوگوں کا استدلال یہ ہے کہ اگر اللہ چاہتا تو انہیں خود ہی اپنے پاس سے دے دیتا۔ اور ان کی واضح گمراہی یا ان کا یہ استدلال باطل اسی لحاظ سے ہے کہ مشیئت الٰہی کا سہارا اس وقت لیتے ہیں جب یہ خود مجرم ہوں اور جب کوئی دوسرا مجرم ہو اور ان کی حق تلفی ہو رہی ہو تو کبھی مشیئت الٰہی کا سہارا نہ لیں گے۔ مثلاً اگر کوئی ڈاکو ان سے مال چھین لے جائے تو اس وقت اس کے خلاف پوری چارہ جوئی کریں گے اور اس وقت کبھی نہ کہیں گے کہ ڈاکو کا کوئی قصور نہیں یا ہمیں سب کچھ برداشت کرلینا چاہئے کیونکہ اللہ کی مشیئت یہی تھی۔ واضح رہے کہ یہ مطلب اس لحاظ سے ہوگا جب﴿ إنْ أنْتُمْ الاَّ فِیْ ضَلاَلٍ مُّبِیْنٍ﴾ کو اللہ کا فرمان سمجھا جائے۔ اور اگر اس جملہ کو صدقہ نہ دینے والے کافروں کا کلام سمجھا جائے اور اس کے مخاطب مسلمان ہوں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ مسلمانو! تمہاری گمراہی بڑی واضح ہے کہ جن لوگوں کا اللہ پیٹ بھرنا نہیں چاہتا تم ایسے لوگوں کا پیٹ بھرنا چاہتے ہو۔ يس
48 يس
49 [ ٤٧] قیامت دفعتاً آجائے گی :۔ قیامت جب آئے گی تو وہ آہستہ آہستہ نہیں آئے گی جسے تم دیکھ کر سمجھ لو کہ آرہی ہے اور کچھ سنبھل جاؤ۔ بلکہ اس وقت تم اپنے اپنے کام کاج میں پوری طرح منہمک ہوگے، کوئی کاروبار کررہا ہوگا، کوئی سودا بازی کرتے ہوئے جھگڑ رہا ہوگا، اس وقت اچانک ایک زور کا دھماکہ ہوگا اور جو شخص جس حال میں بھی ہوگا وہیں دھر لیا جائے گا۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ قیامت اس حال میں آئے گی کہ دو آدمی اپنا کپڑا بچھائے بیٹھے ہوں گے وہ اس کی سودا بازی اور کپڑا لپیٹنے سے ابھی فارغ نہ ہوں گے کہ قیامت آجائے گی اور آدمی اپنی اونٹنی کا دودھ لے کر چلے گا۔ ابھی اس کو پئے گا نہیں کہ قیامت آجائے گی اور کوئی آدمی اپنا حوض لیپ پوت رہا ہوگا پھر ابھی اس کا پانی پیا نہیں جائے گا کہ قیامت آجائے گی اور ایک آدمی کھانے کانوالہ منہ کی طرف اٹھا رہا ہوگا اور ابھی کھایا نہ ہوگا کہ قیامت آجائے گی۔ (بخاری۔ کتاب الرقاق۔ باب بلاعنوان) يس
50 [ ٤٨] قیامت آگئی تو پھر انہیں اتنی مہلت نہیں ملے گی کہ وہ کچھ وصیت ہی کرسکیں یا جو باہر ہیں وہ اپنے گھر واپس جا سکیں بلکہ جہاں کہیں بھی کوئی موجود ہوگا وہیں اس کا کام تمام کردیا جائے گا۔ يس
51 يس
52 [ ٤٩] دوسری مرتبہ صور پھونکنے کا اثر :۔ نفخہ صور اول سے تمام لوگ بے ہوش ہوجائیں گے اور اسی بے ہوشی کے عالم میں ہی ان کی موت واقع ہوگی۔ پھر جب دوسری مرتبہ صور پھونکا جائے گا تو وہ قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ اس وقت انہیں یہ معلوم نہ ہوسکے گا کہ کیا حادثہ پیش آیا تھا اور وہ اس وقت کہاں کھڑے ہیں۔ جیسے کسی شخص کا بس سے ایکسیڈنٹ ہوجائے تو وہ بے ہوش ہوجائے۔ اور اسے ہسپتال پہنچا دیا جاتا ہے۔ پھر جب وہ کچھ مدت بعد ہوش میں آتا اور آنکھیں کھولتا ہے تو اس وقت وہ یہ دیکھتا ہے کہ میں اس وقت کہاں ہوں اور کیسے یہاں پہنچ گیا ہوں؟ اسے اپنی بے ہوشی کی بھی کچھ خبر نہیں ہوتی یہی حال ان لوگوں کا ہوگا۔ وہ بالکل اجنبی اور دہشت ناک ماحول دیکھ کر پہلی بات جو کریں گے وہ یہ ہوگی کہ ہم تو آرام سے پڑے سو رہے تھے ہمیں کس نے جگا دیا ہے؟ انہیں کچھ اپنی موت سے پہلے کی کوئی خبر ذہن میں آئے گی نہ عذاب قبر کی۔ وہ قیامت کی ہولناکیوں کے مقابلہ میں اسے بھی بس ایک خواب ہی سمجھیں گے۔ [ ٥٠] اس جملہ کا ایک پہلو یہ ہے کہ جب وہ اس ماحول کو سمجھنے کے لئے اپنے ذہن پر زور ڈالیں گے تو انہیں از خود یہ معلوم ہوجائے گا کہ یہ تو وہی چیز ہے جو رسول ہمیں کہا کرتے تھے اور ہم اس کا انکار کردیا کرتے تھے۔ اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ ان کی اس سراسیمگی کی حالت میں اہل ایمان یا فرشتے انہیں مطلع کریں گے کہ یہی وہ دن ہے جس کا اللہ نے تم لوگوں سے وعدہ کیا تھا اور جب بھی رسول تمہیں اللہ کے اس وعدہ اور اس قیامت کے دن سے ڈراتے تھے تو ہر بار تم یہی کہہ دیتے تھے کہ وہ کب ہوگا سو آج اپنی آنکھوں سے وہ دن دیکھ لو۔ يس
53 [ ٥١] جب انہیں صحیح صورت حال کا علم ہوجائے گا تو فرشتے انہیں دھکیل کر میدان محشر کی طرف لے جائیں گے اور وہ مجرموں کی طرح اللہ کے حضور جواب دہی کے لئے پیش کردیئے جائیں گے۔ اور ساتھ ہی انہیں یہ بتا دیا جائے گا کہ تم دنیا میں جیسے اعمال کرکے آئے ہو ویسا ہی تمہیں بدلہ دیا جائے گا تاہم یہ یقین رکھو کہ تمہیں تمہارے جرائم سے زیادہ سزا نہیں دی جائے گی۔ يس
54 يس
55 يس
56 يس
57 [ ٥٢] یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت کے مطابق مجرموں کے ساتھ اپنے فرمانبرداروں کا اور ان کے حسن اجر کا ذکر فرمایا اور ساتھ ہی یہ فرما دیا کہ مجرموں سے ابھی جواب طلبی اور حساب لینے کا کام باقی ہوگا مگر اس وقت اہل جنت، جنت میں داخل ہوچکے ہوں گے۔ ان میں سے کچھ ایسے ہوں گے جو بلاحساب کتاب جنت میں داخل ہوں گے اور بعض دوسروں سے آسان اور سرسری سا حساب لے کر انہیں جنت میں داخل کیا جاچکا ہوگا۔ وہاں وہ خوشحال زندگی گزار رہے ہوں گے۔ ٹھنڈی چھاؤں میں ان کے تخت بچھائے گئے ہوں گے وہ اور ان کی بیویاں آمنے سامنے تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے۔ ہر قسم کے میوے اور پھل ان کے پاس حاضر ہوں گے۔ علاوہ ازیں جس چیز کی بھی وہ آرزو کریں گے فوراً حاضر کردی جائے گی۔ يس
58 [ ٥٣] ان اہل جنت کے مہربان پروردگار کی طرف سے انہیں سلام کہا جائے گا۔ خواہ یہ اللہ کی طرف سے سلام فرشتوں کی وساطت سے ہو۔ یا بلاواسطہ اللہ تعالیٰ ان سے خطاب فرمائیں۔ کیونکہ عالم آخرت کے احوال عالم دنیا جیسے نہیں ہوں گے۔ اس دنیا میں کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو اپنی ظاہری آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتا۔ مگر جنت میں اہل جنت اللہ تعالیٰ کو یوں دیکھ سکیں گے جیسے یہاں ہم چاند کی طرف دیکھ سکتے ہیں اور ہمیں راحت محسوس ہوتی ہے۔ اس دنیا میں اللہ کو کسی نے نہیں دیکھا البتہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے براہ راست بلاواسطہ کلام ضرور کیا ہے۔ لہٰذا عالم آخرت میں اللہ تعالیٰ کا اہل جنت سے اور اہل جنت کا اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونا بدرجہ اولیٰ ممکن ہوگا۔ يس
59 [ ٥٤] اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ دنیا میں مجرم اور فرمانبردار سب ملے جلے رہتے ہیں اور ایسا ہی ممکن ہے کہ باپ مجرم اور بیٹا اللہ کا فرمانبردار ہو اور وہ ایک ہی جگہ رہتے ہوں۔ وہاں یہ صورت نہیں ہوگی۔ نہ وہاں نسب کا لحاظ ہوگا۔ بلکہ مجرموں کو حکم دیا جائے گا کہ وہ اللہ کے فرمانبرداروں سے الگ ہوجائیں اور جن لوگوں کا وہ دنیا میں مذاق اڑایا کرتے تھے بچشم خود دیکھ لیں کہ آج ان کو کیسی کیسی نعمتیں اور آرام مہیا ہیں۔ اور دوسرا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اے گروہ مجرمین! تم باہم مل کر نہ رہو۔ بلکہ الگ الگ کھڑے ہوجاؤ۔ کیونکہ تم سے انفرادی طور پر ٹھیک ٹھاک باز پرس ہونے والی ہے۔ يس
60 [ ٥٥] شیطان کی عبادت کیسے ہوتی ہے ؟ اس آیت میں عبادت کا لفظ دو معنی ادا کر رہا ہے۔ ایک یہ کہ عبادت بمعنی اطاعت لیا جائے۔ کیونکہ شیطان کی عبادت تو کوئی کیا کرے گا اس پر تو سب لعنت ہی بھیجتے ہیں اور دوسرا معنیٰ یہ ہے کہ آج تک اللہ کے سوا جتنے بھی معبودوں کی عبادت کی جاتی رہی ہے شیطان کے بہکانے کی وجہ سے ہی کی جاتی رہی ہے۔ لہٰذا فی الحقیقت یہ شیطان ہی کی عبادت ہوئی۔ يس
61 [ ٥٦] عبادت کا مفہوم :۔ سیدھے راستہ کی تفصیل میں جائیں تو اس سے مراد تمام تر شریعت ہے اور انتہائی مختصر الفاظ میں سیدھے راستہ کی تعریف کی جائے تو وہ یہ ہے کہ ’’صرف ایک اللہ کی عبادت کی جائے‘‘ اس جملہ میں شرک کی تمام تر اقسام کی تردید ہوگئی۔ پھر عبادت کا مفہوم بھی بہت وسیع ہے۔ عبادت سے عموماً ارکان اسلام کی بجاآوری مراد لی جاتی ہے تو یہ عبادت کی صرف ایک معروف قسم ہے۔ کسی کو اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لئے پکارنا بھی عبادت ہے۔ پھر عبادت کا لغوی معنی بندگی اور غلام ہے وہ بھی تذلل کے ساتھ اور غلام ہر وقت غلام ہوتا ہے۔ لہٰذا اس میں کتاب و سنت کے تمام اوامر و نواہی کی بجا آوری بھی آجاتی ہے۔ يس
62 [ ٥٧] باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام بنی آدم سے عہد لیا تھا، اور یہ عہد ألَسْتُ بِرَبِّکُمْ تھا، پھر اللہ نے سمجھنے سوچنے کے لئے تمہیں عقل بھی دی تھی، پھر اللہ تعالیٰ اس عہد کی یاددہانی کے لئے اپنے رسول اور کتابیں بھی بھیجتا رہا پھر یہی شیطان بنی آدم کی ایک کثیر تعداد کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ لہٰذا اے عہد فراموش مجرمو! تم نے اپنی عقل سے کچھ بھی کام نہ لیا تو اب اس کا نتیجہ تمہارے سامنے ہے۔ جہنم تمہاری منتظر ہے۔ رسولوں کی دعوت سے انکار اور ضد کی سزا یہی ہے کہ اب اس جہنم میں داخل ہوجاؤ۔ يس
63 يس
64 يس
65 [ ٥٨] کٹر قسم کے مجرم جب اللہ کے حضور پیش ہوں گے تو اپنے جرائم کا اعتراف کرنے کی بجائے وہاں بھی حسب عادت جھوٹ بولنا شروع کردیں گے اور اپنے گناہوں سے مکر جائیں گے۔ پھر ان پر شہادتیں قائم کی جائیں گی تو ان شہادتوں اور گواہوں کو بھی جھٹلا دیں گے اور یہی کچھ انہوں نے اس دنیا میں سیکھا تھا۔ اب اللہ تعالیٰ ان کا یہ علاج کریں گے کہ ان کی زبانوں سے قوت گویائی سلب کرلیں گے۔ اور ان کے ہاتھوں اور پاؤں کو قوت گویائی عطا کردی جائے گی تو ان کے یہ اعضا جن سے انہوں نے گناہ کے کام سرزد کئے ہوں گے ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ اور سورۃ حم السجدہ کی آیت نمبر ٢٠ کے مطابق ان کے کان، ان کی آنکھیں اور ان کے چمڑے بھی ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ جب ان کے اپنے اعضاء کی گواہیوں کے مطابق ان کے جرم ثابت ہوجائیں گے تو وہ اپنے ان گواہی دینے والے اعضاء کو مخاطب کرکے کہیں گے کہ ظالمو! ہم نے تمہیں بچانے کے لئے ہی تو جھوٹ بولا تھا۔ پھر تم نے یہ کیا ظلم ڈھا دیا ؟ تو اعضاء انہیں جواب دیں گے کہ ’’ہمیں اس اللہ نے قوت گویائی بخشی تھی جس نے ہر چیز کو بخشی ہے‘‘ (٤١: ٢١) پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ ہم صحیح صحیح گواہی نہ دیتے؟ اعضاء وجوارح کی گواہی کیسے ہوگی؟ واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ مجرموں کے اعضاء سے ان کے خلاف زبردستی گواہی نہیں لیں گے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ اس بات پر بھی قادر ہے مگر یہ بات اس کی صفت عدل کے خلاف ہے کہ اگر وہ زبردستی ان کے خلاف شہادت چاہتا تو خود ان سے اور ان کی زبانوں سے بھی لے سکتا تھا۔ بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ انسان سے جو اقوال، اعمال اور افعال سرزد ہوتے ہیں تو اس کے اثرات (جسے سورۃ یٰسین میں اٰثَارَھُم کہا گیا ہے) فضا میں مرتسم ہوتے جاتے ہیں اور خود انسان کے اعضا پر بھی مرتسم ہوتے ہیں جدید تحقیق کے مطابق بنی آدم سے لے کر آج تک پیدا ہونے والے تمام انسانوں کے اقوال اور آوازیں بدستور فضا میں موجود ہیں۔ مگر وہ آپس میں ملی جلی اور گڈ مڈ ہیں اور انسان تاحال اس بات پر قادر نہیں ہوسکا کہ کسی خاص شخص کے مثلاً کسی نبی کے تمام تر اقوال الگ کرکے سن سکے۔ البتہ انسان اس بات پر بھی قادر ہوچکا ہے کہ تین چار گھنٹے کے اندر اندر کسی مجرم کے اعضاء کا خوردبینی مطالعہ کرکے یہ معلوم کرسکے کہ اس شخص نے واقعی یہ جرم کیا ہے یا نہیں؟ اور اللہ تعالیٰ تو خود ہر چیز کا خالق اور ہر چیز کی فطرت اور حقیقت کو سب سے بڑھ کر جاننے والا ہے۔ لہٰذا جب مجرم لوگوں کے ان اعضاء کو قوت گویائی دی جائے گی تو وہی حقیقت وہ بیان کریں گے جو ان پر گناہ کے دوران ثبت ہوئی تھی وہ برملا بول اٹھیں گے کہ اس شخص نے ہم سے فلاں اور فلاں گناہ کا کام کیا تھا اور فلاں فلاں وقت کیا تھا۔ يس
66 [ ٥٩] فوراً سزا دینا اللہ کی مشیئت کے خلاف ہے :۔ ایسے کٹر مجرموں کو اگر ہم چاہیں تو اس دنیا میں بھی سزا دے سکتے ہیں۔ ان کی بینائی سلب کرسکتے ہیں کہ وہ چاہیں بھی تو گناہوں کے کاموں کی طرف آگے بڑھ ہی نہ سکیں اور انہیں کچھ بھی سجھائی نہ دے۔ اسی طرح اگر چاہیں تو ان پر فالج گرا کر ان کو اپاہج بنا سکتے ہیں کہ اپنی جگہ سے حرکت کر ہی نہ سکیں، نہ آگے بڑھ سکیں نہ پیچھے جا سکیں۔ بس اپنے بستر پر ہی ہاتھ پاؤں رگڑتے رہیں۔ یا ان کا حلیہ ہی بگاڑ سکتے ہیں کہ ان کی دوسری بھی کئی قوتیں ختم ہوجائیں۔ مگر مجرموں کو فوری طور پر پکڑنا ہماری مشیئت کے خلاف ہے اور یہ لوگ اس مہلت کا بڑا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ يس
67 يس
68 [ ٦٠] بڑھاپے میں بچپنے کی حالت :۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اس کی تمام تر قوتیں ترقی پذیر ہوتی ہیں۔ لیکن جب جوانی سے ڈھل جاتا ہے تو ان تمام قوتوں میں انحطاط آنا شروع ہوجاتا ہے۔ بچپن میں وہ چلنے میں سہارے کا محتاج تھا تو بڑھاپے میں بھی محتاج ہوجاتا ہے۔ اس کی طاقت، اس کی ہمت، اس کا عزم، اس کی عقل غرضیکہ ہر چیز میں اس قدرزوال آجاتا ہے کہ وہ بچوں جیسا ہوجاتا ہے۔ اور اس سارے عمل میں انسان خود مجبور محض ہوتا ہے۔ کیا پھر بھی اسے سمجھ نہیں آتی کہ اگر ہم چاہیں تو اسے اندھا بھی کرسکتے ہیں۔ اسے اپاہج بھی بنا سکتے ہیں اس کا حلیہ بھی بگاڑ سکتے ہیں اور وہ چاہے یا نہ چاہے ہم اسے دوبارہ زندہ کرکے اس کے گناہوں کی اسے سزا بھی دے سکتے ہیں۔ يس
69 [ ٦١] آپ کے لئے شاعری اس لئے مناسب نہیں کہ شاعروں کے کلام میں جب تک جھوٹ اور مبالغہ کی آمیزش نہ ہو اس کے کلام میں نہ حسن پیدا ہوتا ہے اور نہ دلکشی اور نہ ہی کوئی ان کے اشعار کو پسند کرتا ہے۔ مزید برآں ان کے تخیلات خواہ کتنے ہی بلند ہوں ان کا عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ شاعروں کی عملی زندگی عموماً ان کے اقوال کے برعکس ہوتی ہے اور تیسری وجہ یہ ہے کہ ان کے انداز فکر کے لئے کوئی متعین راہ نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک بے لگام گھوڑے کی طرح ہر میدان میں ہرزہ سرائی کرتے نظر آتے ہیں۔ شعر میں اگر کوئی چیز پسندیدہ ہوسکتی ہے تو وہ اس کی تاثیر اور دل نشینی ہے اور یہ چیز قرآن میں نثر ہونے کے باوجود بدرجہ اتم پائی جاتی ہے گویا شعر میں جو چیز کام کی تھی یا اس کی روح تھی وہ پوری طرح قرآن میں موجود ہے اور غالباً یہی وجہ ہے کہ عرب جنہیں اپنی فصاحت و بلاغت پر ناز تھا۔ اور اسی وجہ سے وہ غیر عرب کو عجمی کہتے تھے۔ قرآن کو شعر یا سحر کہنے لگتے تھے اور حامل قرآن کو شاعر اور ساحر۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ شعر اور سحر کو قرآن سے کوئی نسبت نہیں کیا کبھی شاعری یا جادو کی بنیاد پر دنیا میں قومیت و روحانیت کی ایسی عظیم الشان اور لازوال عمارت کھڑی ہوسکتی ہے جو قرآنی تعلیم کی اساس پر قائم ہوئی اور آج تک قائم ہے۔ آپ کا وزن توڑ کر شعر پڑھنا :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اللہ تعالیٰ نے طبیعت ہی ایسی بنائی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعر کو موزوں نہیں کرسکتے تھے اور اگر کبھی کسی دوسرے شاعر کا کوئی شعر پڑھتے تو اس کا وزن توڑ دیتے تھے۔ چنانچہ سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ ہوازن کے اموال غنیمت میں سے ابو سفیان بن حرب اور صفوان بن امیہ، عیینہ بن حصین اور اقرع بن حابس کو سو سو اونٹ دیئے اور عباس بن مرداس (انصاری) کو کچھ کم دیئے تو اس نے چند شعر کہے جن کا پہلا شعر یہ تھا۔ اتجعل نھبی و نھب العبید بین العیینہ والاقرع (یعنی کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرا اور میرے گھوڑے عبید کا حصہ عیینہ اور اقرع کو دے رہے ہیں) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس شکوہ کی خبر ملی تو آپ نے صرف انصار کو ایک خیمہ کے نیچے اکٹھا کیا پھر ان سے پوچھا کہ تم میں سے کس نے یہ شعر کہا ہے اور جب آپ نے مندرجہ بالا شعر پڑھا تو اسے یوں پڑھا۔ اتجعل نھبی ونھب العبید بین الاقرع والعیینۃ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے مصرعہ کا وزن توڑ دیا تو یہ سن کر ایک صحابی کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے کہ ﴿وَمَا عَلَّمْنٰہُ الشِّعْرَ وَمَا یَنْبَغِیْ لَہ﴾(مسلم۔ کتاب الجہاد وا لسیر۔ باب فتح مکۃ عن ابی ہریرہ) آپ نے زندگی بھر میں دو تین شعر کہے جنہیں اگر شعر کے بجائے منظوم کلام کہا جائے تو مناسب ہوگا۔ وہ دراصل نثر کے ٹکڑے ہوتے جو بے ساختہ منظوم بن جاتے تھے اور وہ یہ ہیں۔ ١۔ آپ کے اشعار :۔ سیدنا جندب بن عبداللہ بجلی فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ جہاد کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ٹھوکر لگی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں کی انگلی خون آلود ہوگئی اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انگلی کو مخاطب کرکے یہ شعر پڑھا : ھَلْ أنْتِ اِلَّا اِصْبَعٌ دَمِیْتِ۔۔ وَ فِی سَبِیْلِ اللّٰہ مَا لَقِیْتِ ’’تو ایک انگلی ہی تو ہے جو خون آلود ہوگئی۔ اگر تو اللہ کی راہ میں زخمی ہوگئی تو کیا ہوا‘‘ (بخاری کتاب الادب۔ باب مایجوز من الشعر) ٢۔ جنگ حنین میں ایک موقعہ ایسا آیا جب بہت سے صحابہ میدان سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔ اس وقت آپ ایک سفید خچر پر سوار بڑے جوش سے دشمن کی طرف بڑھ رہے تھے اور ساتھ ہی یہ شعر پڑھ رہے تھے۔ اَنَا النَّبِیُّ لَاکَذِبْ۔۔ اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ ’’اس میں کوئی جھوٹ نہیں کہ میں نبی ہوں۔ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں‘‘ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب قولہ تعالیٰ یوم حنین اذ أعجبتکم کثرتکم) [ ٦٢] آپ کو شعر کیوں نہیں سکھایا گیا ؟ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت شاعرانہ اس لئے نہیں بنائی کہ یہ قرآن کتاب ہدایت ہے۔ جس میں دنیا و آخرت کی زندگی کے ٹھوس حقائق مذکور ہیں۔ جبکہ شاعری نری طبع آزمائی اور خیالی تک بندیاں ہوتی ہیں تو جب قرآن کی شاعری سے کوئی نسبت نہیں تو حامل قرآن کی طبیعت قرآن کے مزاج کے موافق ہونی چاہئے۔ نہ کہ شاعر کے موافق۔ يس
70 [ ٦٣] یعنی جس شخص کا ضمیر ابھی مردہ نہیں ہوا اور وہ ہدایت کا طالب ہے آپ اسے اس کے انجام سے آگاہ کریں۔ تاکہ ضدی اور ہٹ دھرم لوگوں پر حجت پوری ہوسکے اور یہ کام تب ہی ممکن ہے کہ قرآن اور حامل قرآن کا مزاج شاعرانہ نہیں بلکہ حکیمانہ اور ناصحانہ ہو۔ يس
71 [ ٦٤] مثلاً گائے، بیل، بھیڑ، بکری، اونٹ، گھوڑے، گدھے یہ سب قسم کے جانور الگ الگ انواع ہیں۔ اور سب انسان کے فائدے کے لئے اللہ نے بنائی ہیں ان کی نسل بھی ایسے ہی نطفہ سے چلتی ہے جیسے انسان کی چلتی ہے۔ اور نطفہ بے جان مادوں سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ چیزیں انسان کی مملوک نہیں تھیں۔ اللہ نے انسان کو عقل دی۔ عقل کے ذریعہ اس نے چوپایوں کو اپنے قابو میں کیا۔ پھر ان میں اپنے لئے فوائد دیکھے تو انہیں اپنے گھروں میں پالنا شروع کردیا اور آپس میں ان کی خرید و فروخت شروع کردی اور ان کے مالک بن بیٹھے۔ يس
72 [ ٦٥] مویشیوں سے حاصل ہونے والے فوائد :۔ انسان کی سرشت اللہ تعالیٰ نے یہ بنائی کہ اپنی عقل سے کام لے کر ہر قسم کے جانوروں کو اپنے قابو میں لائے اور چوپایوں کی سرشت یہ بنا دی کہ انسان کے مطیع فرمان بن جائیں ورنہ ان چوپایوں میں اکثر ایسے ہیں جو انسان سے بہت زیادہ طاقتور ہیں۔ ایک گھوڑا انسان کو دولتی مار کر اسے موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے۔ ایک اونٹ انسان کی کھوپڑی میں اپنے دانت گاڑ کر اور ایک ہاتھی اسے اپنے پاؤں تلے مسل کر انسان کو فنا کرکے اس سے نجات حاصل کرسکتا ہے۔ مگر انسان پر اللہ تعالیٰ کی یہ خاص مہربانی ہے کہ اونٹوں کی ایک لمبی قطار کو ایک کم عمر بچہ نکیل پکڑ کر جدھر چاہے لے جاسکتا ہے۔ پھر وہ بے جان چیزوں کی طرح اپنے سے بہت عظیم الجثہ اور طاقتور جانداروں کو بھی مطیع بنا کر ان سے کئی طرح کے فوائد حاصل کرتا ہے۔ یہ چوپائے انسان کی سواری کے کام بھی آتے ہیں اور اس کی خوراک بھی بنتے ہیں۔ ان کے بالوں سے وہ لباس بھی تیار کرتا ہے۔ ان سے دودھ بھی حاصل کرتا ہے۔ جس سے دہی، مکھن، بالائی، گھی وغیرہ بنتے ہیں۔ حتیٰ کہ ان چوپایوں کے مرنے یا ذبح ہونے کے بعد بھی ان کی کھالوں، ہڈیوں اور دانتوں کو اپنے کام میں لاتا ہے۔ يس
73 [ ٦٦] یہ سب قسم کے احسانات تو انسان پر اللہ تعالیٰ نے کئے۔ اب بجائے اس کے کہ وہ اللہ کا شکر ادا کرتا اس نے انہیں جانوروں کی قربانیاں بتوں کے نام پر کیں اور استھانوں میں کیں۔ بتوں کے نام پر جانور آزاد چھوڑے۔ جن کا ان جانوروں کی پیدائش میں اور ان کو انسان کے مطیع فرمان بنانے میں کچھ بھی عمل دخل نہ تھا۔ کیا اس سے بڑھ کر بھی کفران نعمت اور نمک حرامی ہوسکتی ہے؟ يس
74 يس
75 [ ٦٧] معبودان باطل کی دنیا اور آخرت میں بے بسی :۔ انسان نے جس چیز کی بھی عبادت کی ہے۔ یا فریاد کی ہے یا اس کے آگے نذریں نیازیں پیش کی ہیں تو اس لئے کہ وہ معبود ان کی مشکل دور کریں گے یا کوئی حاجت پوری کردیں گے۔ یا اگر وہ روز آخرت پر بھی ایمان رکھتا ہے تو اس لئے کرتا ہے کہ وہ قیامت کو سفارش کردیں گے یا عذاب سے بچا لیں گے اور ان سب باتوں میں مدد کا پہلو شامل ہے۔ اور مدد کے لفظ میں یہ سب باتیں آجاتی ہیں۔ اب اس مدد کے دو پہلو ہیں ایک دنیا میں، دوسرے آخرت میں۔ دنیا میں ان کی مدد کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے عابدوں کی مدد تو کیا کریں گے وہ تو اپنی بقاء اپنی حفاظت اور اپنی ضروریات کے لئے ان کے محتاج ہیں کہ وہ ان کے آستانوں میں اور قبروں پر جھاڑو دیں۔ ان کو چمکا کر رکھیں، روشنی کا انتظام کریں۔ اگر ان عابدوں کے یہ لشکر نہ ہوں تو ان کی خدائی ایک دن بھی نہیں چل سکتی۔ یہ خود ان کے حاضر باش غلام بنے ہوئے ہیں۔ ان کے آستانے اور بارگاہیں تعمیر کرتے اور سجاتے ہیں۔ ان کے لئے پروپیگنڈا کرتے ہیں تاکہ خلق خدا کو ان کا گرویدہ بنائیں۔ یہ خود تو ان کی حمایت میں لڑتے اور جھگڑے ہیں۔ تب کہیں جاکر ان کی خدائی چلتی ہے۔ ان معبودوں کے عابدوں کا لشکر اگر ان کی یہ خدمات سرانجام نہ دیں تو ان کی خدائی ایک دن بھی نہ چلے۔ اور آخرت میں ان کی مدد کا یہ حال ہوگا کہ جب اللہ تعالیٰ ان عابدوں کو ان معبودوں کے ساتھ اپنے سامنے لاکھڑا کریں گے تو یہی معبود ان کے دشمن بن جائیں گے اور ایسے دلائل دیں گے کہ خود تو بچ جائیں مگر انہیں گرفتار کرا کے چھوڑیں گے۔ اس وقت ان عابدوں کو پتہ چل جائے گا کہ جن معبودوں کی حمایت میں وہ زندگی بھر لڑتے بھڑتے رہے وہ آج کس طرح انہیں آنکھیں دکھا رہے ہیں اور ڈٹ کر ان کے خلاف گواہی دے رہے ہیں۔ يس
76 [ ٦٨] اگر یہ لوگ اپنے پروردگار اور منعم حقیقی کے معاملہ میں اس قدر ناانصاف اور ظالم واقع ہوئے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ان کے اس معاندانہ رویہ پر غمزدہ نہ ہونا چاہئے۔ یہ لوگ ظاہر تو یہ کرتے ہیں کہ آپ کاہن ہیں، دیوانہ ہیں، جادوگر ہیں، اللہ پر افترا باندھتے ہیں۔ اور دوسرے لوگوں کو یہ باتیں اس لئے کہتے ہیں کہ جیسے بھی بن پڑے اسلام کو اور آپ کو دبا سکیں۔ لیکن یہی لوگ اپنی نجی محفلوں میں اس بات کا اعتراف کرتے تھے اور پوری طرح سمجھتے تھے کہ جو الزامات یہ رسول اللہ صلی اللہ پر لگا رہے ہیں وہ سراسر غلط اور بے بنیاد ہیں۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پریشان اور غمزدہ نہ ہونا چاہئے۔ حق کے مقابلہ میں ان کا یہ جھوٹا پروپیگنڈہ زیادہ دیر نہ چل سکے گا۔ يس
77 [ ٦٩] انسان کی حقیقت یہ ہے کہ وہ اس نطفہ سے پیدا کیا گیا ہے جو بے جان چیزوں سے بنا تھا۔ پھر اللہ نے اس میں روح پھونکی تو نہ صرف یہ کہ وہ دوسرے جانداروں کی طرح چلنے پھرنے، کھانے پینے اور پرورش پانے لگا بلکہ اس میں عقل و فہم، قوت استنباط، بحث و استدلال اور تقریر و خطابت کی وہ قابلتیں پیدا ہوگئیں جو دوسرے کسی جاندار کو حاصل نہ تھیں۔ اور جب وہ اس منزل پر پہنچ گیا تو اپنے خالق کے بارے میں کئی طرح کی بحثیں اور جھگڑے اٹھا کھڑے کئے۔ يس
78 [ ٧٠] یعنی وہ اپنے پروردگار کو عام مخلوق کی طرح عاجز سمجھتا ہے کہ جب انسان کسی مردے کو زندہ نہیں کرسکتا تو ہم بھی نہیں کرسکتے۔ وہ ایک بوسیدہ ہڈی کو دکھا کر اور اپنے ہاتھوں سے اسے مسل کر اور چورا چورا کرکے کہتا ہے کہ بتاؤ یہ زندہ ہوسکتی ہے؟ اس وقت اسے یہ بات یاد نہیں رہتی کہ جس نطفہ سے وہ خود پیدا ہوا ہے وہ بھی بے جان غذاؤں سے بنا تھا۔ اگر وہ اس بات پر غور کرتا تو کبھی ایسا اعتراض نہ کرتا۔ يس
79 [ ٧١] اللہ کی تخلیق کے مختلف طریقے :۔ یعنی ایک بیج سے تناور درخت بنا کھڑا کرنے کی صورت اور ہے۔ بے جان غذاؤں سے نطفہ اور نطفہ سے حیوانات اور انسان کو پیدا کر دکھانے کی صورت اور ہے۔ اور کسی مردہ انسان کے گلے سڑے اجزاء کو ملا کر اکٹھا کرکے ان کو زندہ کھڑا کردینے کی صورت اور ہے۔ غرضیکہ کائنات میں تخلیق کئی صورتوں سے ہو رہی ہے اور اللہ چونکہ خود ہر چیز کا خالق ہے۔ لہٰذا وہ ان سب طریقوں اور صورتوں کو پوری طرح جانتا ہے اور انسان جو ان صورتوں میں کوئی ایک صورت بھی نہیں جانتا نہ جان سکتا ہے وہ اپنے خیال اور اپنی محدود عقل کے مطابق ہم پر مثالیں چسپاں کرتا ہے۔ يس
80 [ ٧٢] اللہ نے ہر مردہ میں زندہ اور زندہ میں مردے کی خاصیت رکھ دی ہے یعنی درخت کو پانی سے پیدا کیا۔ پھر آخر میں اسے ایندھن بنا کر اس سے آگ نکالی۔ درخت کا آغاز پانی سے ہوا اور انتہا آگ پر ہوئی اور یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کی ضد بلکہ ایک لحاظ سے ایک دوسرے کی دشمن ہیں۔ آگ تھوڑی مقدار میں ہو تو پانی اس کا وجود ختم کردیتا ہے۔ اور پانی کم مقدار میں ہو تو آگ اسے آبی بخارات میں تبدیل کرکے اسے ختم کردیتی ہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ ایک ہی چیز کے آغاز اور انجام میں متضادصفات پیدا کرسکتے ہیں تو پھر ایک ہی چیز کو زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ کیوں نہیں بناسکتے۔ یہ تو عام درختوں اور پودوں کا حال ہے۔ پھر کچھ درخت ایسے بھی ہیں جن کی ٹہنیاں رگڑنے سے اس طرح آگ پیدا ہوجاتی ہے جس طرح چقماق پتھر سے پیدا ہوتی ہے۔ اور کچھ ایسے بھی ہیں جن کی ٹہنیاں موم بتی کی طرح جلتی ہیں۔ کیونکہ ان میں روغن خاصی مقدار میں موجود ہوتا ہے۔ غرضیکہ ہر درخت اور پودا جو پانی سے پیدا ہوا ہے اس کے اندر بھی آتش گیری کی صفات رکھ دی گئی ہیں۔ بالکل اسی طرح ہر مردہ میں زندہ ہونے اور زندہ میں مرنے کی صفت بھی فطری طور پر رکھ دی گئی ہے۔ يس
81 [ ٧٣] درختوں کے فائدے اور آگ کا حصول :۔ آسمانوں اور زمین جیسی عظیم مخلوق کو بھی دیکھ لو اور اپنے آپ پر بھی نظر ڈال کر دیکھ لو کہ ان کے مقابلہ میں تمہاری یا تم جیسوں کی کیا حیثیت اور حقیقت ہے؟ پھر جب اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے تو کیا تمہیں ہی وہ دوبارہ پیدا نہ کرسکے گا حالانکہ وہ تخلیق کے تمام طریقوں کو خوب جانتا ہے۔ يس
82 [ ٧٤] اللہ کے کلمہ کن کہنے کا مفہوم :۔ کن یا ''ہو جا'' کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ کوئی چیز عدم سے وجود میں آجائے۔ ایسے امور میں بالعموم اللہ کا قانون تدریج کام کرتا ہے جیسا کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو چھ ایام (یا چھ ادوار) میں بنایا۔ اگرچہ اس کی قدرت سے یہ بھی مستبعد نہیں کہ فوراً کسی چیز کو عدم سے وجود میں لے آئے۔ اور اس کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جس چیز کو اللہ نے کسی کام اور جس مقصد کے لئے بنایا ہے وہ چیز فوراً وہ کام شروع کردے۔ اس کے لئے صرف اللہ کے امر کی ضرورت ہے اور وہ کام اسی وقت ہونا شروع ہوجاتا ہے اور اللہ کے اس امر کو ہم روح بھی کہہ سکتے ہیں۔ اور اس کی مثال یوں سمجھو کہ جیسے کسی کارخانے میں بڑی بڑی دیوہیکل برقی مشینیں نصب ہوتی ہیں۔ مگر وہ اس وقت تک بے حس و حرکت کھڑی رہتی ہیں جب تک ان میں برقی رو نہ گزاری جائے یا سوئچ آن نہ کیا جائے۔ سوئچ آن کرنے کی دیر ہوتی ہے کہ وہ فوراً متحرک ہو کر اپنا وہ کام کرنا شروع کردیتی ہیں جس کام کے لئے بنائی گئی تھیں۔ بالکل یہی صورت اللہ تعالیٰ کے امر ''کن'' کی ہے ادھر اللہ نے ارادہ کیا ادھر وہ چیز بن گئی جو مطلوب تھی۔ مقصد یہ ہے کہ تمام انسانوں کی دوبارہ پیدائش بھی فقط اللہ کے ایک اشارے یا ارادے یا امر کن کی محتاج ہے۔ ادھر اللہ تعالیٰ ارادہ کرے گا تو فوراً تمام انسان زندہ ہو کر اللہ کے سامنے حاضر ہوجائیں گے اور انسانوں کے لئے یہ اضطراری امر ہوگا جس کے بغیر انہیں کوئی چارہ نہ ہوگا۔ يس
83 [ ٧٥] ہر چیز پر حکومت و تسلط، ہر چیز پر تصرف و اختیار تو اللہ کے ہاتھ میں ہے مگر یہ مشرکین اللہ کے اختیارات دوسروں میں بانٹ کر اللہ پر جو کئی طرح کے عیوب، کمی، نقص وغیرہ کا الزام لگاتے ہیں اللہ تعالیٰ کی ذات مشرکوں کی ایسی تمام بے ہودگیوں سے پاک ہے۔ يس
0 الصافات
1 الصافات
2 الصافات
3 [١] صفیں باندھے ہوئے فرشتے :۔ تمام مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس سورۃ کی ابتدائی تین آیات میں جن کی قسم اٹھائی گئی ہے ان سے مراد فرشتے ہیں اور اس بات کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم لوگ اس طرح صف باندھا کرو جس طرح فرشتے بارگاہ الٰہی میں صف بستہ رہتے ہیں۔ تم لوگ سب سے پہلے اگلی صف پوری کیا کرو اور صف میں خوب مل کر کھڑے ہوا کرو‘‘ (مسلم۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب الامر بالسکون فی الصلوٰۃ) پہلی آیت میں ان فرشتوں کا ذکر ہے جو اللہ کے احکام کے منتظر اور اس کے دربار میں ہر وقت صف بستہ کھڑے رہتے ہیں اور یہی ان کی عبادت ہے کہ ادھر اللہ کا حکم ہو تو ادھر فوراً اسے بجا لائیں۔ دوسری آیت میں ان فرشتوں کا ذکر ہے جو تدبیر امور کائنات پر مامور ہیں اور ڈانٹ ڈپٹ اس لئے کرتے ہیں کہ جلد سے جلد اللہ کا حکم بجا لائیں۔ ڈانٹنے ڈپٹنے سے مراد یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اسی دوسری قسم کے فرشتوں میں وہ گروہ بھی شامل ہے جو مجرموں اور نافرمانوں پر لعنت اور پھٹکار کرتے ہیں۔ اور انسانوں پر جو حوادث یا عذاب آتے ہیں انہی کے واسطہ سے آتے ہیں۔ اور تیسرے گروہ سے مراد وہ فرشتے ہیں جو خود بھی اللہ کے ذکر میں مشغول رہتے ہیں اور انسان کی روحانی غذا یا ہدایت کا واسطہ بھی بنتے ہیں۔ پیغمبروں پر اللہ کا حکم لاتے ہیں اور نیک لوگوں کے دلوں میں القاء و الہام کرتے ہیں۔ الصافات
4 [٢] قرآن اللہ کا کلام اور کائنات اس کا فعل ہے ان دونوں میں تضاد ناممکن ہے :۔ ان تینوں قسم کے فرشتوں کی قسم اٹھا کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’کہ تمہارا معبود حقیقی ایک ہی ہے‘‘ یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ یہ کائنات اللہ تعالیٰ کا فعل ہے اور ذکر یا قرآن اللہ تعالیٰ کا قول یا کلام ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے قول اور فعل میں نہ اختلاف ہوسکتا ہے اور نہ تضاد۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کا کلام پڑھ کر اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ معبود حقیقی صرف ایک ہی ہوسکتا ہے تو لامحالہ اس کائنات کے مربوط اور منظم نظام پر غور کرنے کے بعد بھی ہم اسی نتیجہ پر پہنچتے ہیں اور یہ دونوں چیزیں ایک دوسری کی تائید و توثیق کرتی ہیں اور ان میں پوری ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ نظام کائنات میں وہ کیا کیا قابل غور باتیں ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ معبود حقیقی یا پروردگار صرف ایک ہی ہوسکتا ہے، قرآن میں بے شمار مقامات پر مذکور ہیں جن میں سے چند باتوں کا ذکر آگے بھی آرہا ہے۔ الصافات
5 [٣] مشارق ومغارب کتنے ہیں؟ مشارق سے مراد بے شمار مشرق ہیں۔ سورج ہمیشہ عین مشرقی سمت سے ہی طلوع نہیں ہوتا بلکہ گرمیوں میں اس کا مشرق شمال کی طرف سرکتا جاتا ہے اور سردیوں میں جنوب کی طرف۔ سورج کے مشرق کا زاویہ ہر روز جداگانہ ہوتا ہے اس لحاظ سے سورج کے سال بھر میں ٣٦٥ مشرق ہوئے۔ پھر اس کائنات میں صرف سورج ہی گردش نہیں کر رہا اور بھی ہزاروں سیارے محو گردش ہیں۔ اور ان کے اپنے اپنے مشرق یا طلوع ہونے کے مقامات ہیں۔ علاوہ ازیں ان کے مشرقوں میں بھی سورج کے مشرقوں کی طرح تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ اس لحاظ سے مشرقوں کی تعداد ہمارے حساب سے باہر ہوجاتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے رب المشارق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان تمام سیاروں کی نقل و حرکت کا وہی مالک ہے اور ان پر اسی کا کنٹرول ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ مشارق کا مالک ہے مغارب کا بھی ہے۔ مغارب کا یہاں تو ذکر نہیں تاہم سورۃ معارج کی آیت نمبر ٤٠ میں مغارب کا بھی ذکر آگیا ہے۔ الصافات
6 [٤] آسمانوں کا وجود ایک ٹھوس حقیقت ہے :۔ نیلے آسمان پر چمکتے ہوئے ستارے یوں دکھائی دیتے ہیں جیسے اس میں ہیرے اور زمرد جڑے ہوئے ہیں۔ اور اس خوشنما منظر کو دیکھنے سے ہی انسان راحت محسوس کرتا ہے۔ موجودہ دور کے ہیئت دان کسی آسمان کے قائل نہیں۔ ان کے خیال کے مطابق آسمان صرف حد نگاہ کا نام ہے۔ جبکہ کتاب و سنت میں صراحت سے مذکور ہے کہ آسمان ایک ٹھوس حقیقت ہے اور ان کی تعداد سات ہے۔ آج کے ماہرین فلکیات کئی ستاروں کا زمین سے لاکھوں اور کروڑوں میل کا فاصلہ بتاتے ہیں اور یہ بھی بتاتے ہیں کہ ان ستاروں کی روشنی ذاتی نہیں ہوتی بلکہ انعکاس روشنی کے اصول کے تحت سورج کی روشنی سے ہی یہ منور اور روشن اور چمکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بلکہ ہمارے چاند کی روشنی بھی سورج کی روشنی ہی کی مرہون منت ہے۔ اب قرآن یہ کہتا ہے کہ ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے مزین کیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ ان ماہرین کی تمام تر تحقیقات تاحال آسمان دنیا کے بھی نیچے ہیں۔ اور باقی آسمانوں کی تو اس کے بعد ہی باری آسکتی ہے۔ جو شاید انسان کی بساط سے باہر ہے۔ الصافات
7 الصافات
8 [٥] دور نبوی میں کہانت کا چرچا :۔ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں عرب میں کہانت کا بڑا چرچا تھا اور کاہنوں کو معاشرہ میں ایک معزز مقام حاصل تھا۔ ان کے متعلق مشہور یہ تھا کہ جن اور شیطان کاہنوں کے قبضہ میں ہوتے ہیں جو انہیں غیب کی خبریں مہیا کرتے ہیں۔ اچھے بھلے لوگ ان کے ہاں آتے اور ان کی خدمات حاصل کرتے تھے حتیٰ کہ بعض دفعہ اپنے مقدمات کے فیصلے کے لئے ان کے ہاں آتے تھے۔ ایسے ہی ایک کاہن کا واقعہ احادیث میں بھی مذکور ہے۔ قرآن جب نازل ہوا تو اس میں کچھ سابقہ انبیاء و اقوام کے حالات تھے اور کچھ آئندہ کی خبریں بھی تھیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو یہ بھی بتایا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فرشتہ آتا ہے جو آپ پر یہ کلام نازل کرتا ہے۔ ان ساری باتوں سے ان لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ شاید وہ دوسرے کاہنوں کی طرح آپ کے پاس بھی کوئی جن یا شیطان آتا ہے۔ چنانچہ ایک دفعہ آپ بیمار ہوئے تو دو تین راتیں تہجد کی نماز کے لیے اٹھ نہ سکے تو ابو لہب کی بیوی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہنے لگی۔ میں سمجھتی ہوں کہ تیرے شیطان نے تجھے چھوڑ دیا ہے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ والضحیٰ) اور اسی وجہ سے وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کاہن ہی سمجھتے تھے۔ اگلی دو آیات میں ان کے اسی غلط نظریہ کی تردید کی گئی ہے۔ الصافات
9 اس آیت کی تفسیر اگلی آیت کے ساتھ ملاحظہ کیجئے۔ الصافات
10 [٦] شہاب ثاقب :۔ اس آیت کی تفسیر کے لئے درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے : سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ : ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضوان اللہ اجمعین کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ دفعتاً ایک ستارہ ٹوٹا اور روشنی ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے پوچھا : ’’دور جاہلیت میں جب ایسا واقعہ ہوتا تو تم کیا کہتے تھے؟‘‘صحابہ کہنے لگے : ’’ہم تو یہی کہتے تھے کہ کوئی بڑا آدمی مر گیا یا پیدا ہوا ہے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یہ کسی کی زندگی یا موت کے سبب سے نہیں ٹوٹتا بلکہ ہمارا پروردگار کسی کام کا فیصلہ کرلیتا ہے تو حاملان عرش تسبیح کرتے ہیں پھر آسمان والے فرشتے جو ان سے قریب ہوتے ہیں پھر ان سے قریب والے تسبیح کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ سبحان اللہ کی آواز ساتویں آسمان تک پہنچتی ہے پھر چھٹے آسمان والے ساتویں آسمان والوں سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا۔ وہ انہیں خبر دیتے ہیں۔ اسی طرح نیچے آسمان والے اوپر کے آسمان والوں سے پوچھتے جاتے ہیں یہاں تک کہ یہ خبر دنیا کے آسمان تک پہنچتی ہے اور شیطان اچک کر سننا چاہتے ہیں تو ان کو مار پڑتی ہے اور وہ کچھ بات لاکر اپنے یاروں (کاہنوں وغیرہ) پر ڈال دیتے ہیں۔ وہ خبر تو سچ ہوتی ہے مگر وہ اسے بدلتے اور گھٹا بڑھا دیتے ہیں۔‘‘ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) نیز اس سلسلہ میں سورۃ حجر کی آیت نمبر ١٨ کا حاشیہ نمبر ٩ بھی ملاحظہ فرمائیے۔ الصافات
11 [٧] مٹی کی مختلف حالتیں جن سے آدم کا پتلا بنایا گیا، ڈارون کے نظریہ کا ابطال :۔ مٹی کو جن سات مختلف حالتوں سے گزار کر انسان کو پیدا کیا گیا ان کی تفصیل یہ ہے (١) تراب بمعنی خشک مٹی (٤٠: ٦٧) (٢) ارض بمعنی عام مٹی یا زمین (٧١: ١٧) (٣) طین بمعنی گیلی مٹی یا گارا (٦: ٢) (٤) طین لازب معنی لیسدار یا چپکدار مٹی (٣٧: ١١) (٥) حماٍ مسنون بمعنی بدبودار کیچڑ (١٥: ٢٦) (٦) صلصال بمعنی ٹھیکرا یعنی حرارت سے پکائی ہوئی مٹی (١٥: ٢٦) (٧) صلصال کا لفخار بمعنی ٹن سے بجنے والی ٹھیکری (٥٥: ١٤) یہ مٹی یا زمین کی مختلف شکلیں ہیں۔ کسی وقت مٹی میں پانی کی آمیزش کی گئی تو بعد میں حرارت کے ذریعہ پانی کو خشک کردیا گیا۔ قرآن نے مختلف مقامات پر ان مختلف حالتوں میں سے کسی بھی ایک یا دو حالتوں کا ذکر کردیا ہے۔ اور جس حالت کا بھی نام لیا جائے وہ سب درست ہے۔ اس بیان سے ڈارون کا نظریہ ارتقاء کا رد ہوجاتا ہے جس کی رو سے انسان نباتات اور حیوانات کی منزلوں سے گزر کر وجود میں آیا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے جو سات مختلف حالتیں بیان کی ہیں وہ سب کی سب جمادات یا مٹی میں ہی پوری ہوجاتی ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دو مزید باتیں ارشاد فرمائیں ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ جو عظیم الجثہ اور محیرالعقول مخلوقات پیدا کرچکا ہے اس کے مقابلہ میں انسان کی حیثیت ہی کیا ہے کہ اس کی تخلیق اس کے لئے کچھ مشکل ہو اور دوسری یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مٹی ہی کی سات مختلف حالتوں سے گزار کر پیدا کیا ہے۔ پھر وہ مر کر مٹی میں مل کر مٹی ہی بن جائے گا۔ تو کیا جس نے مٹی کی اتنی حالتوں سے گزار کر انسان کو پہلے پیدا کیا تھا اب دوبارہ مختلف حالتوں سے گزار کر پیدا نہ کرسکے گا ؟ (ڈارون کے نظریہ ارتقاء کی تفصیل کے لئے دیکھئے ١٥: ٢٩، حاشیہ ١٩) الصافات
12 [٨] یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کے ایسے عظیم تخلیقی کارنامے سن کر تعجب ہوتا ہے مگر یہ لوگ نہایت بے فکری اور لاپروائی سے ایسی محیرا لعقول نشانیوں کا مذاق اڑا دیتے ہیں یا آپ کو اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ یہ کس قدر بے حس اور ناانصاف لوگ ہیں کہ اللہ کی ایسی واضح قدرتیں بھی ان پر کچھ اثر نہیں کرتیں۔ الصافات
13 الصافات
14 الصافات
15 [٩] بلکہ عجیب باتیں تو یہ لوگ بناتے ہیں جو اللہ کی ان آیات کو کسی طلسماتی دنیا کی باتیں سمجھتے ہیں کہ جب ہم مرجائیں گے تو پھر دوبارہ جی اٹھیں گے۔ پھر ہم سب کے سب اللہ کی عدالت میں پیش ہوں گے پھر لوگوں کے اعمال کے فیصلے ہوں گے۔ پھر ایک طرف جہنم ہوگی جس کے یہ اور یہ اوصاف ہونگے۔ اور ایک طرف جنت ہوگی جس کے یہ اور یہ اوصاف ہوں گے۔ ایسی باتیں کسی خیالی دنیا کے متعلق تو کی جاسکتی ہیں۔ بھلا ایک بھلا چنگا اور درست عقل والا آدمی ایسی باتیں کیسے کہہ سکتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس پر کسی نے جادو کردیا ہے جو یہ یک لخت ایسی تصوراتی اور بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہے۔ الصافات
16 الصافات
17 الصافات
18 [١٠] انسان کی دوبارہ زندگی کیسے؟ کفار مکہ کے اس اعتراض اور انکار کو قرآن میں بہت سے مقامات پر ذکر کیا گیا ہے اور اس کا جواب بھی کئی طرح سے دیا گیا ہے اس مقام پر بھی مذکور ہے کہ انسان کی پیدائش مٹی سے ہوئی ہے۔ پھر وہ زندہ ہو کر مٹی یا زمین سے جدا نہیں ہوا بلکہ اس کی تمام تر ضروریات مٹی یا زمین ہی سے وابستہ ہیں۔ مر کر بھی وہ اس مٹی میں دفن ہوگا تو جب گل سڑ کر مٹی بن کر مٹی میں مل جائے گا تو زمین اس کے تحلیل شدہ اجزاء نکال کر باہر نہیں پھینک دے گی۔ بلکہ سنبھال کر اپنے اندر محفوظ رکھے گی پھر انہیں تحلیل شدہ اجزاء کو اللہ تعالیٰ پھر سے اکٹھا کرکے ان اجزاء کو اپنی پہلی حالت میں لے آئے گا۔ اس کی روح پہلے ہی مرتے وقت قبض کرلی تھی۔ اور یہی روح اس کا اصل تشخص ہے جو پہلے ہی اللہ کے قبضہ میں ہے۔ یہی روح اس کے جسم میں ڈال کر اسے پھر سے اٹھا کھڑا کیا جائے گا۔ رہی یہ بات کہ ان کے آباء و اجداد جو مدتوں پہلے مرچکے ان میں سے کوئی بھی زندہ ہوا نہ ان کے پاس واپس آیا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ زمین میں پڑا ہوا بیج پڑا ہی رہتا ہے۔ جب اس کے اگنے کا موقع آتا ہے۔ اگتا وہ اسی وقت ہے پہلے نہیں اگتا۔ اسی طرح جب تمہارے دوبارہ جی اٹھنے کا وقت یا موسم آئے گا اسی وقت تم بھی اور تمہارے آباء و اجداد بھی جی کر زمین سے نکل آؤ گے پہلے نہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ دوبارہ زندہ ہو کر تمہارے پاس نہیں آئیں گے بلکہ تم بھی اور وہ بھی اللہ کے حضور حاضر ہوجاؤ گے۔ الصافات
19 [١١] یعنی تمہارے دوبارہ جی اٹھنے کا موسم یا وقت وہ ہوگا جب دوسری بار صور پھونکا جائے گا۔ صور کی آواز بالکل ایک ڈانٹ کی طرح ہوگی۔ جیسے کوئی شخص سوئے ہوئے آدمی کو ڈانٹ کر کہتا ہے اب اٹھتے کیوں نہیں ہو اتنا دن چڑھ آیا ہے۔ تو وہ خواہ کیسی گہری نیند لے رہا ہو، بیدار ہوجاتا ہے۔ یہی تمہاری کیفیت ہوگی۔ اور تمہاری یہ کیفیت اختیاری نہیں بلکہ اضطراری ہوگی۔ یعنی جس طرح تمہاری پیدائش اور تمہاری موت میں تمہاری اپنی مرضی کا کوئی عمل دخل نہ تھا اسی طرح تم دوبارہ جی اٹھنے پر بھی مجبور اور بے بس ہوگے۔ الصافات
20 [١٢] یہ کہنے والے مجرم خود بھی ہوسکتے ہیں جو ایک دوسرے سے یوں ہم کلام ہوں گے۔ فرشتے بھی ہوسکتے ہیں اور اہل ایمان بھی۔ بلکہ اس دن ہر کوئی یہ پکار اٹھے گا کہ ’’یہی وہ انصاف کا دن ہے جسے اے مجرمو! تم جھٹلاتے ہی رہے‘‘ الصافات
21 الصافات
22 [١٣] زوج کے تینوں معانی اکٹھے مراد ہیں :۔ ازواج کا لفظ تین معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور اس مقام پر تینوں معنی دے رہا ہے۔ ایک معنی یہ ہے کہ مرد بیوی کا اور بیوی مرد کی زوج ہے۔ اس لحاظ سے معنی یہ ہوگا کہ فرشتوں کو حکم ہوگا کہ ظالموں اور ان کی بیویوں کو جو بغاوت میں ان کی شریک تھیں سب کو گھیر لاؤ۔ زوج کا دوسرا معنی اس کے مماثل ہوتا ہے۔ جیسے ایک جوتا دوسرے کا زوج ہے۔ اس لحاظ سے معنی یہ ہوگا ظالموں کی جتنی اقسام ہیں ان سب کو گھیر کرلے آؤ۔ اور زوج کا تیسرا معنی اس کی ضد ہے جیسے رات دن کا زوج ہے اور دن رات کا، یا تاریکی روشنی کا زوج ہے۔ اور روشنی تاریکی کا۔ اس لحاظ سے معنی یہ ہوگا۔ معبودوں اور ان کے عبادت گزاروں سب کو گھیر گھار کر ہمارے سامنے لا حاضر کرو۔ [١٤] معبودان باطل کی تین اقسام :۔ اللہ کے سوا معبودوں کی بڑی قسمیں دو ہیں۔ ایک غیر ذوی العقول، ان میں بت، ستارے، شجر و حجر اور حیوانات وغیرہ مثلاً گائے، بیل اور سانپ وغیرہ سب کچھ آجاتا ہے۔ دوسرے ذوی العقول جسے انبیاء، فرشتے، اولیاء اور بزرگ۔ پھر انسانوں اور جنوں میں سے کچھ ایسے معبود ہیں جو خود بھی چاہتے تھے کہ اللہ کے مقابلہ میں ان کی اطاعت کی جائے یا ان کی خدائی اور خدائی اختیارات تسلیم کئے جائیں۔ ان سب میں سے صرف فرشتے، انبیاء اور وہ بزرگ جہنم میں نہیں جائیں گے جو خود شرک سے منع کرتے رہے۔ باقی سب معبودوں کو اکٹھا کرکے جہنم میں پھینک دیا جائے گا اور اس کی وجہ پہلے کئی جگہ درج کی جاچکی ہیں۔ الصافات
23 الصافات
24 الصافات
25 [١٥] مطیع اور مطاع کا قیامت کے دن مکالمہ :۔ ایسے عابد اور معبود جنہیں جہنم میں داخل کردینے کا حکم دیا جائے گا۔ فرشتوں کو حکم ہوگا کہ انہیں ذرا روک لو پہلے ان سے ایک بات تو پوچھ لیں۔ ان مجرموں میں ہر قسم کے عابد اور ہر قسم کے معبود ہوں گے۔ مشرکین اور ان کے معبودوں کا تو پہلے ذکر ہوچکا۔ ان میں چودھری اور رئیس بھی ہوں گے اور ان کے پیروکار بھی، سیاسی لیڈر بھی اور ان کی پارٹی کے لوگ بھی۔ خدائی کا دعویٰ کرنے والے اور خدائی کو منوانے والے بھی اور ماننے والے بھی۔ گورو جی اور ان کے چیلے چانٹے بھی، اعلیٰ حضرت بھی اور ان کی شفاعت پر بھروسہ کرنے والے مریدان باصفا بھی۔ اور یہ سب جوڑے اس دن ایک دوسرے سے بیزاری کا اظہار کر رہے ہوں گے۔ ان سے پوچھا جائے گا کہ آج تمہیں کیا ہوگیا ہے۔ آج تم ایک دوسرے سے بے تعلق کیوں ہوگئے ہو۔ اور وہ تمہاری شیخیاں اور تمہارے بلند بانگ دعوے کہاں گئے، دنیا میں جو تم نے آپس میں مل کر جتھے بنا رکھے تھے یا ایک دوسرے کی مدد کے دعوے کیا کرتے تھے۔ آج وہ تمہارے وعدے کہاں گئے انہیں پورا کیوں نہیں کرتے؟ الصافات
26 الصافات
27 الصافات
28 [١٦] لفظ یمین کے مختلف معنی اور ان سب کا اطلاق :۔ یمین کا لفظ بہت وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً (١) یمین بمعنی دایاں ہاتھ بھی اور دائیں طرف بھی اور (٢) اصحاب الیمین کے معنی دائیں ہاتھ یا دائیں جانب والے بھی اور اصحاب خیرو برکت بھی (مفردات القرآن) (٣) پھر جس طرح ید کا لفظ قوت اور قبضہ کے معنوں میں آتا ہے یمین اس سے بھی زیادہ وسیع معنوں میں آتا ہے۔ کیونکہ قوت اور کارکردگی کے لحاظ سے دایاں ہاتھ بائیں سے افضل اور بہتر ہے۔ اور ملک یمین اس چیز کو کہتے ہیں جس پر پورا قبضہ اور اختیار ہو اور محاورۃ یہ لفظ لونڈی اور غلام کے معنوں میں آتا ہے۔ (٤) علاوہ ازیں اہل عرب کی عادت تھی کہ اپنے عہد و پیمان اور قسم کو مضبوط تر بنانے کے لئے اپنا ہاتھ مخاطب کے ہاتھ میں دیتے تھے یا مارتے تھے۔ لہٰذا یہ لفظ قسم کے معنوں میں بھی استعمال ہونے لگا یعنی ایسی قسم جو عہد و پیمان کو پختہ کرنے کے لیے اٹھائی جائے۔ اس آیت میں یمین کا لفظ تقریباً اپنے سب معانی کے لحاظ سے درست ہے۔ مثلاً کمزور یا پیروی کرنے والے لوگ اپنے بڑے بزرگوں سے کہیں گے کہ (١) تم لوگوں نے ہم پر کچھ ایسا دباؤ ڈال رکھا تھا کہ ہم تمہاری باتیں ماننے پر مجبور ہوگئے تھے۔ یا (٢) تم لوگوں نے یہ پروپیگنڈا کر رکھا تھا کہ جو راہ ہم نے اختیار کر رکھی ہے وہی خیر و برکت کا راستہ ہے لہٰذا ہم تمہارے بھرّے میں آگئے یا (٣) تم لوگوں نے قسمیں کھا کھا کر ہمیں یقین دلایا تھا کہ ہم فی الواقع تمہارے خیر خواہ ہیں۔ اس طرح تم نے ہمیں بھٹکا کر اپنے ساتھ لگا لیا تھا اور ہم تمہاری اطاعت کرنے لگے تھے۔ اور ان سب مطالب کا خلاصہ یہی ہے کہ ہمیں اس انجام بد سے دو چار کرنے والے اور گمراہ کرنے والے تم ہی لوگ ہو۔ الصافات
29 الصافات
30 [١٧] اس کے جواب میں ان کے قائد، لیڈر اور پیشوا حضرات یہ جواب دیں گے کہ تم خود مجرم ضمیر تھے تم نے اپنا فائدہ اسی میں دیکھا تھا کہ ہمارے ساتھ لگ جاؤ۔ ہم نے زبردستی تمہیں اپنی اطاعت پر مجبور نہیں کیا تھا نہ ہم میں کوئی ایسا زور اور طاقت تھی۔ آج تم خواہ مخواہ ہمیں مورد الزام ٹھہرا رہے ہو۔ لہٰذا جیسے مجرم ہم ہیں ویسے ہی تم بھی مجرم ہو۔ اگر ہم گمراہ تھے تو ایک گمراہ سے بجز گمراہی کی طرف بلانے کے اور کیا توقع ہوسکتی ہے ہم نے وہی کچھ کیا جو ہمارے حال کے مناسب تھا۔ مگر تمہیں اپنی عقل اور عاقبت اندیشی سے کام لینا چاہئے تھا۔ آج تو ہم سب کو اپنی غلط کاریوں کا مزہ چکھنا ہوگا۔ الصافات
31 الصافات
32 الصافات
33 الصافات
34 الصافات
35 [١٨] خوشحال لوگوں کے اکڑنے کی تین وجوہ :۔ ان کے تکبر کی کئی وجوہ تھیں، ایک یہ کہ جب انہیں یہ بتایا جاتا کہ اللہ کے سوا کوئی حاجت روا اور مشکل کشا نہیں تو تم اس میں اپنے بتوں اور معبودوں کی بھی توہین سمجھتے تھے، اپنی بھی اور اپنے آباء واجداد کی بھی لہٰذا وہ اکڑ بیٹھتے تھے دوسری یہ کہ مشرکانہ رسوم کے رواج سے جو کچھ دنیوی مفادات حاصل کر رہے تھے اس سے انہیں دستبردار ہونا پڑتا تھا لہٰذا وہ اکڑ بیٹھتے تھے، تیسری یہ کہ اگر وہ لا الہ الا اللہ کا دل سے اقرار کرتے تو انہیں اپنی چودھراہٹوں اور سرداریوں سے دستبردار ہو کر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنا پڑتا تھی۔ لہٰذا وہ اکڑ بیٹھتے تھے۔ الصافات
36 [١٩] شاعر اور نبی کا فرق :۔ تمام پیغمبروں کو اور اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی شاعر اور مجنون کے القابات سے نوازا جاتا رہا ہے۔ شاعر کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ فصیح اور منظوم زبان میں اپنے تخیل کی بلندی اور نکتہ آفرینی یوں پیش کرتا ہے کہ اس سے سننے والے پر عارضی اور وقتی طور پر ایک وجدانی سی کیفیت آجاتی ہے۔ قرآن کریم گو بحر اور اوزان سے مبرا ہے لیکن دل میں اتر جانے کے لحاظ سے اس میں شعر سے بھی زیادہ تاثیر پائی جاتی ہے۔ اسی وجہ مماثلت کی بنا پر آپ کو شاعر بھی کہا جاتا رہا ہے۔ حالانکہ شاعر اور نبی میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ شاعر کے کلام میں جب تک جھوٹ، مبالغہ اور غلو شامل نہ ہو اس میں کچھ دلکشی پیدا نہیں ہوتی۔ جبکہ اللہ کا کلام ایسی تمام بے ہودگیوں سے پاک ہوتا ہے۔ شاعر کے تخیل کی پرواز کا میدان زندگی کا ہر اچھا یا برا پہلو ہوتا ہے۔ ماحول کا تاثر اس کی طبیعت پر غالب رہتا ہے اور معاشرہ کی اکثریت چونکہ گمراہ ہوتی ہے لہٰذا اس کا تخیل بھی انہی راستوں پر پرواز کرتا ہے۔ جبکہ اللہ کے کلام کا بنیادی موضوع صرف ایک ہے اور وہ ہے انسان کو حکیمانہ اور ناصحانہ انداز میں ہدایت کی راہ دکھانا۔ مزید برآں شاعر کے قول اور فعل میں نمایاں تضاد ہوتا ہے جبکہ ایک پیغمبر جو کچھ کہتا ہے سب سے پہلے اس پر خود عمل کرکے دکھاتا ہے۔ پھر دوسروں کو دعوت دیتا ہے۔ مجنون اور نبی کا فرق :۔ پیغمبروں کو کفار اور بالخصوص وہ لوگ جو آخرت اور جزا و سزا کے منکر ہوتے ہیں دیوانہ اس لحاظ سے کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں مرنے کے بعد جی اٹھنا، اللہ کی عدالت میں پیش ہونا اور روز قیامت کے ہولناک مناظر اور جنت و دوزخ سب طلسماتی اور افسانوی قسم کی باتیں ہیں۔ لہٰذا وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے حواس ٹھکانے نہیں رہے۔ حالانکہ نبی ہر ایک کا ہمدرد، عہد کا پابند، پاکیزہ سیرت و کردار کا مالک ہوتا ہے۔ جبکہ دیوانوں کا نہ کوئی اخلاق ہوتا ہے نہ سیرت و کردار حتیٰ کہ وہ ساری ہی باتیں بہکی بہکی کرتے ہیں۔ اور لوگ ان کی دیوانہ وار حرکتوں سے خائف رہتے ہیں اور ان سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور کافروں کی ناانصافی یہ ہوتی ہے کہ ان کے زعم کے مطابق محض ایک وجہ مماثلت کی بنا پر پیغمبروں کو شاعر اور مجنوں کہہ دیتے ہیں جبکہ بے شمار پہلوؤں میں وہ شاعروں اور دیوانوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ اور ان کے دل ان سب باتوں کی گواہی بھی دیتے ہیں۔ مگر صرف پیغمبروں سے مخالفت کی بنا پر انہیں ایسے ناموزوں القابات سے نوازتے ہیں اور ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ بھلا ہم ایسے شاعروں اور دیوانوں کے کہنے پر اپنے معبودوں کو چھوڑ سکتے ہیں۔ الصافات
37 [٢٠] بعُد زمانی کے باوجود مماثلت نبی کی تعلیم کے برحق ہونے کا ثبوت ہے :۔ رسول جو کچھ کلام پیش کرتا ہے وہ نہ طلسماتی باتیں ہیں اور نہ افسانے اور تمثیلی داستانیں ہیں بلکہ اس کی تعلیم ٹھوس حقائق پر مبنی ہے۔ نبی اپنے سے پہلے رسولوں کی بھی تصدیق کرتا ہے اور ان کی تعلیم کی بھی حالانکہ ان کے زمانہ میں سینکڑوں سال کی مدت حائل ہوتی ہے۔ اس بعد زمانی کے باوجود رسولوں کی تعلیم میں مماثلت ہی ان کی اور ان کی تعلیم کے حق ہونے کا بڑا قوی ثبوت ہے۔ الصافات
38 الصافات
39 الصافات
40 الصافات
41 [٢١] جنت کے رزق کی خصوصیات :۔ یعنی وہ رزق جو کتاب و سنت میں جابجا مذکور ہے۔ مثلاً یہ کہ وہ ہر قسم کے اور آپس میں ملتے جلتے پھلوں پر مشتمل ہوگا۔ جبکہ ان کا مزا بالکل ایک دوسرے سے جداگانہ ہوگا۔ نیز انہیں ہر وہ چیز مہیا کی جائے گی جس کی وہ خواہش کریں گے۔ اس رزق کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ باعزت طور پر دیا جائے گا۔ ایک یہ ہے کہ وہ کبھی ختم نہ ہوگا نہ اس کا سلسلہ منقطع ہوگا۔ ایک یہ کہ جو زرق انہیں دیا جائے گا اسے اس دنیا میں پوری طرح سمجھا بھی نہیں جاسکتا کیونکہ ویسی چیزیں نہ کسی نے دیکھی ہیں، نہ سنی ہیں اور نہ کسی کے حاشیہ خیال میں آسکتی ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ رزق صرف لذت حاصل کرنے کے لئے کھایا جائے گا۔ بھوک لگنے کی بنا پر نہیں کھایا جائے گا۔ یعنی اس لئے نہیں کہ محنت مشقت کی وجہ سے بدن کے کچھ اجزاء تحلیل ہوچکے ہیں تو ان کی تلافی کے لئے یا اپنی زندگی کی بقا کے لئے وہ رزق کھایا جائے۔ الصافات
42 [٢٢] فواکہ کیسے پھل ہیں؟ یہاں فواکہ کا لفظ آیا ہے اور فواکہ ایسے پھلوں کو کہتے ہیں جن سے لذت و سرور حاصل ہو۔ (مقاییس اللغۃ) اور اس لفظ کا اطلاق عموماً خشک پھلوں پر ہوتا ہے۔ اس سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہل جنت کو جو رزق دیا جائے گا وہ بطور غذا نہیں بلکہ لذت کے حصول کے لئے دیا جائے گا۔ الصافات
43 الصافات
44 [٢٣] آیت نمبر ٤٢، ٤٣، ٤٤ میں ﴿رزق کریم﴾ یعنی باعزت طور پر روزی ملنے کی ہی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ الصافات
45 [٢٤] کأس کا لغوی مفہوم :۔ کَأسٌ کا لفظ صرف شراب سے بھرے ہوئے پیالہ یا گلاس کے لئے مستعمل ہے، جسے ہماری زبان میں جام یا ساغر کہتے ہیں۔ دودھ یا پانی سے بھرے ہوئے پیالہ کو کَأسٌ نہیں کہہ سکتے اور اگر یہ پیالہ خالی ہو اور شیشے کا ہو تو اسے قَدْحٌ کہتے ہیں، چمڑے کا ہو توعَلْبۃٌ اور مٹی کا ہو تو مُوْکِنْ اور مَعِیْنٌ دراصل صاف شفاف نتھرے، خوش ذائقہ، میٹھے اور ٹھنڈے پانی کو کہتے ہیں۔ مگر جب معین کے ساتھ کأس کا لفظ آئے تو معین سے مراد یہی صفات رکھنے والی شراب ہوگی۔ کیونکہ کأس کا لفظ شراب کے بھرے ہوئے پیالہ کے لئے ہی مخصوص ہے۔ الصافات
46 الصافات
47 [٢٥] شراب کے تین نقصان اور ایک فائدہ :۔ دنیا میں جو شراب تیار کی جاتی ہے۔ وہ کچھ مخصوص پھلوں یا غلوں کو گلا سڑا کر اور ان میں خمیر اٹھا کر بنائی جاتی ہے۔ اور ایسی شراب میں تین نقص ہوتے ہیں اور ایک فائدہ ہوتا ہے۔ نقص یہ ہیں کہ وہ پینے کے بعد کڑوی محسوس ہوتی ہے، دوسرا یہ کہ وہ سر کو چڑھ جاتا ہے جس سے بعض دفعہ سر چکرانے لگتا ہے اور تیسرا یہ کہ اسی وجہ سے انسان بہکی بہکی باتیں کرنے لگتا ہے۔ اور نشہ زیادہ چڑھ جائے تو کئی طرح کے غلط کام بھی کر بیٹھتا ہے۔ شراب کے ساتھ اول فول بکنا اور فحاشی کے کام عموماً لازم و ملزوم بن جاتے ہیں اور اس کا فائدہ یہ ہے کہ پینے والے کو وقتی طور پر کچھ سرور حاصل ہوتا ہے۔ جنت میں اہل جنت کو جو شراب دی جائے گی وہ مندرجہ بالا تمام نقائص سے تو پاک ہوگی۔ مگر اپنی لطافت، پاکیزگی اور لذت کے لحاظ سے دنیا کی شرابوں سے بہت افضل ہوگی۔ الصافات
48 [٢٦] قصر کا لغوی مفہوم : قَصَرَ کے معنی کسی چیز کی لمبائی یا اس کی انتہا کو نہ پہنچنا۔ نیز کم کرنا، چھوٹا کرنا، یا کوئی کام جتنا کرنا تھا اتنا نہ کرنا اور قصر الطرف یعنی جتنی دور نگاہ جاسکتی ہے اتنی دور تک نہ دیکھنا، یا نظر بھر کر نہ دیکھنا بلکہ صرف نیچے نظر رکھنا۔ اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کی اشیاء خوردونوش کے بعد ان کی عائلی زندگی کا ذکر فرمایا کہ انہیں عورتیں ایسی دی جائیں گی جو اپنے خاوندوں کے سوا کسی کو دیکھنے کی بھی روادار نہ ہوں گی۔ [٢٧] عین بمعنی آنکھ اور عیناء اس عورت کو کہتے ہیں جس کی آنکھیں بڑی اور موٹی موٹی ہوں اور عیناء کی جمع عین آتی ہے۔ موٹی آنکھیں چہرے کی خوبصورت کو دوبالا کردیتی ہیں۔ گویا اہل جنت کی عورتوں میں دوسری صفت یہ ہوگی کہ ان کی آنکھیں موٹی اور خوبصورت ہوں گی۔ الصافات
49 [٢٨] بیض کی مختلف تعبیریں :۔ اس آیت کی کئی تعبیریں کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ ان کی رنگت سفید ہوگی یعنی گورے رنگ کی ہوں گی اور جلد بالکل بےداغ ہوگی۔ دوسری یہ کہ یہاں انڈوں سے مراد شتر مرغ کے انڈے ہیں جو نہایت خوش رنگ ہوتے ہیں۔ اور اس تعبیر کی تائید اس آیت سے بھی ہوجاتی ہے ﴿کَأنَّھُنَّ الْیَاقُوْتُ وَالْمَرْجَانُ﴾(٥٥: ٥٨) (یعنی اہل جنت کی عورتیں یاقوت اور مرجان کی طرح ہوں گی) اور تیسری تعبیر وہ ہے جو ماثور ہے۔ چنانچہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے جب اسی آیت کی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ ان کی نرمی و نزاکت اس جھلیّ جیسی ہوگی جو انڈے کے چھلکے اور اس کے گودے کے درمیان ہوتی ہے (ابن جریر) اسی تعبیر کو معتبر سمجھ کر ترجمہ اس کے مطابق درج کیا گیا ہے۔ یہ اہل جنت کی عورتوں کی تیسری صفت ہوئی۔ الصافات
50 الصافات
51 [٢٩] قرین ایسے ساتھی یا دوست کو کہتے ہیں جو اپنا ہم عمر ہو یا بہادری، قوت اور اسی طرح کے دیگر اوصاف میں ہمسر ہو اور اس لفظ کا استعمال عموماً برے معنوں میں ہوتا ہے۔ الصافات
52 الصافات
53 [٣٠] یعنی کیا تمہاری بھی ایسی مت ماری گئی ہے کہ تم اس قسم کے بعید از عقل باتوں کو تسلیم کرنے لگے ہو۔ الصافات
54 [٣١] یہ جملہ اللہ تعالیٰ کا کلام بھی ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہوگا۔ کہ جب اہل جنت آپس میں محو گفتگو ہوں گے اور ان میں سے ایک اپنے دنیادار ساتھی کی سرگزشت سنائے گا تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھے گا : کیا تم اس کے حالات معلوم کرنا چاہتے ہو؟ اور سرگزشت بیان کرنے والے کا اپنا کلام بھی ہوسکتا ہے اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آؤ ذرا اس کا حال تو معلوم کریں۔ الصافات
55 [٣٢] عالم آخرت میں سمعی اور بصری قوتوں میں بے پناہ اضافہ :۔ اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عالم آخرت میں جو سمعی و بصری قوتیں عطا کی جائیں گی وہ اس دنیا کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہوں گی۔ ہم اس دنیا میں بھی ہزاروں میل دور بیٹھے آدمیوں کی آوازیں سنتے اور انہیں دیکھتے ہیں۔ مگر صرف ان لوگوں کی جو ٹیلیویژن سنٹر میں ہوتے ہیں اور براڈ کا سٹ کرتے ہیں۔ عالم آخرت میں ہر شخص دوسرے سے گفتگو کرسکے گا اور اسے دیکھ بھی سکے گا۔ خواہ یہ فاصلہ ہزاروں بلکہ لاکھوں میل کا ہو۔ اور کسی آلہ کے واسطہ کے بغیر سن اور دیکھ سکے گا۔ الصافات
56 الصافات
57 [٣٣] سرگزشت بیان کرنے والا جب دوزخ کی طرف جھانکے گا تو اسے اس کا ساتھی دوزخ کے عین وسط میں پڑا دکھائی دے گا۔ اس وقت وہ اس سے کہے گا : ارے کم بخت! اگر میں تیری باتوں میں آجاتا تو تو مجھے بھی اپنے ساتھ لے ڈوبتا اور میرا بھی وہی حشر ہوتا جو تمہارا ہو رہا ہے۔ یہ تو مجھ پر اللہ کی خاص مہربانی ہوئی جو میں تیرے بہکاوے میں نہ آیا اور اس عذاب سے بچ گیا ورنہ تو نے تو مجھے گمراہ کرنے میں کسر نہ چھوڑی تھی۔ الصافات
58 الصافات
59 الصافات
60 [٣٤] یہ باتیں وہ اللہ تعالیٰ کے احسان کے شکر کے طور پر اپنے آپ سے کہے گا اور سنا دراصل اپنے دنیا دار ساتھی کو رہا ہوگا۔ تاکہ اس کی کوفت اور جلن میں مزید اضافہ ہو۔ یعنی عالم آخرت میں موت نہیں آئے گی۔ اہل جنت کے لئے یہی خبر انتہائی خوش کن ہوگی۔ جبکہ اہل دوزخ کے لئے یہی خبر انتہائی تکلیف دہ ہوگی۔ الصافات
61 [٣٥] افضل اعمال کونسے ہیں؟ درج ذیل دو احادیث میں ان اعمال کا ذکر ہے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے افضل الا عمال بتایا ہے : ١۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : ’’کون سا عمل افضل ہے؟‘‘ فرمایا : ’’اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا‘‘ صحابہ نے پوچھا : ’’پھر کونسا ؟‘‘ فرمایا : ’’اللہ کی راہ میں جہاد کرنا‘‘ پھر پوچھا : ’’اس کے بعد کون سا ؟‘‘ فرمایا : ’’حج مبرور‘‘ (بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب من قال ان الایمان ھوالعمل) ٢۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : ’’اللہ تعالیٰ کو کون سا کام سب سے زیادہ پسند ہے؟‘‘ فرمایا : ’’نماز کو اپنے وقت پر ادا کرنا‘‘ میں نے پوچھا’’پھر کون سا کام؟‘‘ فرمایا :’’ماں باپ سے اچھا سلوک کرنا‘‘ میں نے پوچھا : ’’پھر کون سا ؟‘‘ فرمایا : ’’اللہ کی راہ میں جہاد کرنا‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تین باتیں بیان کیں اگر میں اور پوچھتا تو آپ اور زیادہ بیان فرماتے۔ (بخاری۔ کتاب مواقیت الصلوٰۃ۔ باب فضل الصلٰوۃ لوقتھا) الصافات
62 [٣٦] ایسی مہمانی سے مراد اہل جنت کی مہمانی ہے۔ جیسا کہ سابقہ آیات میں ان کی لذیذ خوراک، صاف اور پاکیزہ مشروب اور نہایت خوبصورت عورتوں کا ذکر کیا گیا ہے اور کفار مکہ سے پوچھا یہ جارہا ہے کہ آیا اہل جنت کی ایسی مہمانی بہتر ہے یا اہل دوزخ کی جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔ [٣٧] اہل جنت کی خوراک لذیذ پھل تھے اور اہل دوزخ کی خوراک تھوہر کا درخت ہوگا، جس کے پتے چوڑے اور خاردار ہوتے ہیں۔ بوناگوار اور ذائقہ کڑوا ہوتا ہے۔ اور اس میں سے جو سفید قسم کا سیال مادہ یا دودھ نکلتا ہے وہ اگر انسان کے جسم پر لگ جائے تو ورم ہوجاتا ہے۔ الصافات
63 الصافات
64 [٣٨] اللہ کی محیر العقول مخلوق :۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو کافروں نے خوب مذاق اڑایا کہ بھلا آگ میں درخت کیسے پیدا ہوسکتا یا برقرار رہ سکتا ہے۔ اور یہ اعتراض محض ان کی کم عقلی اور کم عملی کی بنا پر تھا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کی صورتیں بعض دفعہ بڑی نرالی اور حیران کن ہوتی ہیں۔ مثلاً جس فصل کے اوپر سے پانی گزر جائے۔ خواہ وہ پانی سیلاب کا ہو اور زیادہ بارش کا وہ فصل برباد ہوجاتی ہے۔ پودوں اور درختوں کا بھی یہی حال ہے مگر سمندر کی تہہ میں درخت اگتے ہیں۔ پھر ایسی جمادات بھی ہیں جو درختوں کی طرح پھلتی پھولتی ہیں۔ اور ان کی نشوونما پانی میں ہوتی ہے۔ جیسے مرجان۔ اور یہاں تو آگ میں صرف تھوہر کا درخت یعنی نباتات اگنے کا ذکر ہے۔ جبکہ آگ میں جاندار بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ جیسے آگ کا کیڑا سمندر جو آگ میں ہی زندہ رہ سکتا ہے۔ الصافات
65 [٣٩] شیطان کے مختلف مفہوم :۔ شیطان دراصل ہر بد روح کو کہتے ہیں جو اپنی سرکشی اور نافرمانی کی بنا پر حق سے دور ہوچکا ہو۔ اور جنوں میں سے جو خبیث، موذی اور بدکردار قسم کے جن ہوں انہیں ہی شیطان کہا جاتا ہے۔ پھر اس کا اطلاق ہر ایسی صفات رکھنے والی چیز پر ہونے لگا۔ خواہ وہ جن ہو یا انسان ہو یا کوئی جانور ہو۔ اور سانپ کو اس کی ایذا ہی کی وجہ سے شیطان کہتے ہیں۔ (منجد) اور اس معنی کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ جب تم گھر میں کوئی سانپ دیکھو تو اسے مارنے سے پہلے یہ کہہ دو کہ اگر وہ کوئی جن یا شیطان ہے تو چلا جائے۔ اگر پھر بھی نہ جائے تو اسے مار ڈالو۔ (مسلم۔ باب قتل الحیات، بخاری۔ کتاب بدء الخلق۔ باب قول اللّٰہ تعالیٰ و بث فیھا من کل دابۃ) گویا اس آیت میں شیطان کے سر سے مراد سانپوں کے سر یا ناگ پھن ہیں۔ اور اس پودے کے شگوفے ایسے ہی ہوں گے اور یہ بھی ممکن ہے یہ تشبیہ محض بدصورتی کی بنا پر ہو جیسے ہم اپنی زبان میں بعض ان دیکھی چیزوں سے تشبیہ دے دیتے ہیں۔ جیسے وہ عورت ایسی خوبصورت ہے جیسے پری یا وہ ایسی بدصورت ہے جیسے چڑیل یا بھتنی یا ڈائن۔ حالانکہ پری، چڑیل، بھتنی یا ڈائن کو کسی نے بھی دیکھا نہیں ہوتا۔ الصافات
66 الصافات
67 [٤٠] یہ تو تھی دوزخیوں کی خوراک اور مشروبات کا یہ حال ہوگا کہ زخموں کا دھوون جس میں پیپ اور لہو سب کچھ شامل ہوتا ہے وہ پینے کو ملے گا اور اس میں گرم کھولتا ہوا پانی بھی شامل کرلیا جائے گا۔ الصافات
68 [٤١] اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ دوزخی جب بھوک سے بے تاب ہوجائیں گے تو انہیں جہنم کے اس علاقہ کی طرف لے جایا جائے گا جہاں بہت سے تھوہر کے درخت اگے ہوئے ہوں گے۔ وہ بھوک کے مارے اسے کھانے کی کوشش کریں گے تو وہ حلق میں پھنس جائے گا۔ جس پر انہیں پانی کی طلب ہوگی تو پیپ ملا کھولتا پانی پینے کو دیا جائے گا اس طرح ان کی بھوک کا علاج کیا جاوے گا اس مہمانی کے بعد انہیں پھر ان کے اصل ٹھکانوں تک لے جایا جائے گا۔ الصافات
69 اس آیت کی تفسیر اگلی آیت کے ساتھ ملاحظہ کیجئے۔ الصافات
70 [٤٢] تقلید آباد کی مذمت :۔ انہوں نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا ہی نہ کی کہ جو کچھ ان کے آباء و اجداد کرتے آرہے ہیں۔ وہ درست ہے یا غلط ہے۔ جس راہ پر انہیں چلتے دیکھا اسی پر دوڑنے لگے، کنواں کھائی کچھ نہ دیکھا اور اگر ان کے پاس رسول آئے تو انہیں بھی جھٹلا دیا۔ اور اپنی آبائی رسوم کی حمایت میں رسولوں کی مخالفت پر اتر آئے حالانکہ اگر وہ سابقہ اقوام کی روش سے اور ان کے انجام سے کچھ سبق حاصل کرنا چاہتے تو کرسکتے تھے۔ الصافات
71 الصافات
72 الصافات
73 الصافات
74 الصافات
75 [٤٣] نوح علیہ السلام کی بددعا اور اس کی قبولیت :۔ سیدنا نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال اپنی قوم سے سر کھپایا۔ ان کو دلائل سے سمجھایا اور مختلف پیرایوں میں سمجھانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ مگر ان لوگوں نے ان کی ایک نہ مانی۔ الٹا ان کا مذاق اڑاتے اور ایذائیں پہنچاتے رہے۔ اس طویل عرصہ میں معدودے چند آدمی آپ پر ایمان لائے۔ پھر جب آپ اپنی قوم سے قطعی طور پر مایوس ہوگئے کہ اب باقی لوگوں میں سے کوئی بھی ایمان لانے والا نظر نہیں آتا اور سب میرے اور میرے ساتھیوں کے درپے آزار ہیں تو اس وقت آپ علیہ السلام نے اللہ کے حضور فریاد کی کہ یا اللہ ! مجھے ان لوگوں نے دبا لیا ہے اب تو ہی ان سے بدلہ لے اور مجھے ان ظالموں سے نجات دے۔ [٤٤] یعنی ہم نے سیدنا نوح علیہ السلام کی فریاد سنی تو ان کی فریاد رسی کردی۔ ان کی مصیبت کا ازالہ کردیا، انہیں ظالموں سے نجات دے دی۔ کیونکہ یہ بات ہمارے ذمہ ہے کہ حق و باطل کے معرکہ میں ہم ایمانداروں کی فریاد رسی کیا کرتے ہیں۔ اور انہیں ظالموں سے بچا لیتے ہیں۔ الصافات
76 الصافات
77 [٤٥] کیا نوح آدم ثانی ہیں؟ یہاں صرف اتنا ہی مذکور ہے کہ طوفان نوح کے بعد نسل انسانی صرف نوح کے تین بیٹوں (حام۔ سام اور یا فث) سے چلی (اور چوتھا بیٹا یام کافر تھا جو طوفان میں غرق ہوگیا تھا) اور اس کی تائید ترمذی کی درج ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ سیدنا سمرہ سے روایت ہے کہ آپ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ نوح علیہ السلام کے تین بیٹے تھے۔ حام، سام یافث، حام حبش کا باپ، سام عرب کا اور یافث روم کا (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) مگر بعض دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ طوفان نوح کے بعد نسل سیدنا نوح کی اولاد اور ان لوگوں کی اولاد سے چلی تھی جو کشتی میں آپ کے ساتھ سوار تھے۔ (سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر ٣) اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ پہلی آیت میں اجمال اور دوسری میں تفصیل ہے۔ الصافات
78 [٤٦] یعنی رہتی دنیا تک سیدنا نوح علیہ السلام کا نام بھلائی سے لیا جاتا رہے گا۔ چنانچہ اس وقت دنیا میں جتنی بھی قومیں آباد ہیں۔ سب اپنا سلسلہ نسب سیدنا نوح علیہ السلام سے ملاتی اور اس میں فخر محسوس کرتی ہیں۔ نیز اکثر اقوام انہیں اپنا مذہبی قائد تسلیم کرتی ہیں۔ حتیٰ کہ ایران کے مجوسی اور صابی بھی انہیں اپنا نبی تسلیم کرتے ہیں۔ الصافات
79 الصافات
80 الصافات
81 الصافات
82 الصافات
83 [٤٧] شیعہ کا لغوی مفہوم :۔ یہاں لفظ شیعہ استعمال ہوا ہے۔ شیعہ ایسے فرقہ یا پارٹی کو کہتے ہیں جن کے عقائد آپس میں ملتے جلتے ہوں مگر دوسروں سے مختلف ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ توحید اور معاد کے بارے میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بھی وہی عقائد تھے جو سیدنا نوح علیہ السلام کے تھے۔ اور یہ تو واضح سی بات ہے کہ تمام انبیاء کی اصولی تعلیم ایک ہی جیسی رہی ہے۔ اور اسی اصولی تعلیم کا نام دین ہے۔ الصافات
84 [٤٨] یعنی اپنے معاشرہ، اپنے ماحول، اپنے گھر والوں سب قسم کے لوگوں کے عقائد و رسومات سے بالکل خالی الذہن ہو کر اپنے آپ کو اپنے پروردگار کے حوالے کردیا کہ جو کچھ تیری طرف سے ہدایت یا حکم ملے میں اسے بلاچوں و چرا تسلیم کروں گا اور سر تسلیم خم کر دوں گا۔ الصافات
85 الصافات
86 الصافات
87 [٤٩] سیدنا ابراہیم کی ستارہ پرست قوم :۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا اصل وطن عراق کا شہر بابل تھا۔ یہ لوگ ستارہ پرست تھے۔ اور بالخصوص سات مشہور سیاروں سورج، چاند، زہرہ، عطارد، مشتری، مریخ اور زحل کی چال سے خوب واقف تھے۔ علاوہ ازیں یہ لوگ ان سیاروں کے انسانی زندگی پر اثرات کے بھی سختی سے قائل تھے۔ انہیں سیاروں کے الگ الگ مندر تعمیر کر رکھے تھے۔، جن میں ان سیاروں کے خیالی مجسمے یا بت رکھے جاتے تھے۔ وہ خود ہی زائچے تیار کرتے اور اس کے مطابق ان سیاروں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ان کے مجسموں کے سامنے نذریں نیازیں پیش کی جاتی تھیں۔ انہیں زائچوں کے ذریعہ وہ آئندہ سے متعلق اپنی اپنی قسمت کا حال معلوم کرتے تھے۔۔ ان کے ستاروں کے اثرات پر اعتقاد کا یہ حال تھا کہ ان میں ہر شخص زائچہ تیار کرنے کے بغیر بھی سیاروں کی چال پر غور کرکے اپنا پروگرام بناتا تھا۔ اس قدر مشرک تھی یہ قوم جس میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے۔ انہوں نے جب بالکل خالی الذہن ہو کر اور یکسو ہو کر اپنے آپ کو اپنے پروردگار کے حوالہ کردیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت عطا فرمائی۔ اور سیدنا ابراہیم کو اپنی مکمل فرمانروائی اور ان سیاروں اور ان کے مجسموں کے بالکل بے اختیار اور مجبور محض ہونے کی حقیقت واضح کردی۔ دعوت توحید کا آغاز اپنے باپ سے :۔ چنانچہ آپ علیہ السلام نے توحید کی دعوت کا آغاز اپنے گھر سے کیا۔ سب سے پہلے باپ کو اس حقیقت سے روشناس کرایا وہ خود شاہی مندر کا پروہت، بت تراش اور بت فروش تھا وہ آپ کی اس نصیحت پر بگڑ بیٹھا تو آپ اپنی قوم کی طرف متوجہ ہوئے۔ آپ کا اپنے باپ اور اپنی قوم سے سوال یہ تھا کہ تم یہ بت اپنے ہاتھوں سے بناتے ہو پھر خود ہی انہیں خدائی اختیارات بانٹ دیتے ہو کہ فلاں سیارہ کی روح یا مجسمہ اگر ہم سے خوش رہے تو ہمیں مال و دولت زیادہ ملے گا۔ فلاں کی عبادت کی جائے تو علم نصیب ہوگا۔ اور فلاں کو خوش کیا جائے تو فصل بہت اچھی ہوگی۔ یہ سب اختیارات تو تم نے ان میں تقسیم کردیئے۔ اب بتاؤ کہ جس ہستی نے اس کائنات اور ان سیاروں کو پیدا کیا ہے اور اس کا ان پر کنٹرول ہے اس کے پاس بھی کوئی اختیار تم نے چھوڑا ہے یا نہیں؟ کیا اب وہ بالکل بے بس ہوچکا ہے؟ آخر اس کے متعلق تم کیا سمجھتے ہو؟ الصافات
88 الصافات
89 الصافات
90 [٥٠] قوم ابراہیم اور جشن نوروز :۔ جب سورج برج حمل میں داخل ہوتا تو اس دن یہ قوم جشن نوروز مناتی تھی۔ اس پکنک کے لئے زور شور سے تیاریاں شروع ہوگئیں۔ علی الصبح لوگوں نے اچھے اچھے کھانے پکائے کچھ کھائے کچھ مندروں میں بتوں کے سامنے نیاز کے طور پر رکھ دیئے۔ اور نور کے تڑکے میلہ میں شمولیت کے لئے روانہ ہونے لگے تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اس میں شمولیت کی دعوت دی بلکہ ساتھ لے جانے پر اصرار کیا۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام ان کی بے ہودگیوں میں قطعاً شامل نہ ہونا چاہتے تھے۔ آپ کو فوراً ایک ترکیب سوجھی جو قوم کے مزاج کے موافق تھی۔ آپ نے ستاروں میں نظر ڈالی پھر کہنے لگے کہ میں تو آج بیمار ہونے والا ہوں۔ قوم نے اپنے اعتقاد کے مطابق اس عذر کو معقول سمجھا اور انہیں چھوڑنے پر رضا مند ہوگئے۔ الصافات
91 الصافات
92 الصافات
93 [٥١] سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا بتوں کو توڑ پھوڑ دینا :۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کتنی مدت سے ایسے موقعہ کے منتظر تھے۔ ادھر قوم کے لوگ میلہ منانے چلے گئے ادھر آپ سب سے بڑے مندر کا دروازہ کھول کر اس میں داخل ہوگئے۔ بتوں کی طرف غصہ سے متوجہ ہو کر کہنے لگے۔ بدبختو! تمہارے سامنے مٹھائیاں اور کھانے پڑے ہیں انہیں کھاتے کیوں نہیں؟ کچھ بولو تو سہی، کچھ جواب تو دو؟ ان بے جان پتھروں نے کیا جواب دینا تھا۔ اس پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اور بھی زیادہ غصہ آیا۔ ایک کلہاڑا لیا۔ اور سب بتوں کو خوب جی بھر کے ضربیں لگانا شروع کیں۔ سب کو توڑ پھوڑ دیا۔ البتہ سب سے بڑے بت کو چھوڑ دیا۔ اس کے کندھے پر کلہاڑا رکھ دیا تاکہ یہ معلوم ہو کہ یہ سب اس بڑے بت کی کارستانی ہے پھر مندر کا دروازہ بند کرکے باہر نکل آئے۔ الصافات
94 الصافات
95 الصافات
96 [٥٢] سیدنا ابراہیم سے قوم کا سوال و جواب :۔ میلہ سے واپسی پر قوم نے جب اپنے معبودوں کا یہ حشر دیکھا تو ان کا پارا بہت چڑھ گیا وہ پہلے ہی جانتے تھے کہ ہمارے بتوں کی مخالفت صرف ابراہیم ہی کرتا رہتا تھا اور وہ پیچھے بھی رہ گیا تھا۔ لہٰذا یہ اسی کا کارنامہ ہوسکتا ہے۔ چنانچہ ان کے پاس دوڑتے آئے اور معبودوں سے اس طرح کی بدسلوکی کی وجہ پوچھی تو آپ علیہ السلام نے کہا کہ بڑے بت سے کیوں نہیں پوچھتے۔ جس کے کندھے پر کلہاڑا ہے۔ شاید اس نے ہی اپنے چھوٹوں سے ناراض ہو کر ان کا یہ حشر کردیا ہو۔ پھر ساتھ ہی کہہ دیا کہ یہ پتھر کے بے جان بت جو اپنی حفاظت نہیں کرسکتے تمہارا کیا سنوار سکتے ہیں اور تم لوگ جو ان کی عبادت کرتے ہو اس کا فائدہ کیا ہے۔ پھر یہ بت تم نے خود ہی تراش رکھے ہیں علاوہ ازیں تم کو اور اس پتھر کو بھی اللہ نے پیدا کیا ہے اور یہ بت تو مخلوق در مخلوق کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور عبادت کی مستحق تو وہ ہستی ہوسکتی ہے جو خالق ہو۔ یہ مخلوق در مخلوق کیسے مستحق ہوسکتی ہے؟ الصافات
97 الصافات
98 [٥٣] سیدنا ابراہیم کو آگ کے الاؤ میں پھینکنا :۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے دلائل کا جواب تو کسی کے پاس تھا نہیں۔ لہٰذا وہ اوچھے ہتھیاروں پر اتر آئے اور کہنے لگے، اپنے معبودوں کے گستاخ کو ایسی قرار واقعی سزا دو جس سے دوسروں کو عبرت حاصل ہو۔ چنانچہ بالاتفاق طے ہوا کہ ایک بہت بڑا الاؤ تیار کیا جائے اور اس میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو پھینک کر زندہ جلا دیا جائے۔ چنانچہ ان لوگوں نے حسب تجویز بہت بڑا الاؤ تیار کیا اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اس میں پھینک دیا۔ اللہ نے آگ کو حکم دیا کہ ابراہیم علیہ السلام کو کسی قسم کا گزند نہ پہنچنے پائے۔ چنانچہ آپ صحیح سلامت اس آگ سے باہر نکل آئے۔ اس طرح آپ تو اس بھاری آزمائش میں پوری طرح کامیاب ہوگئے اور قوم کو پہلے سے بھی زیادہ رسوا ہونا پڑا۔ الصافات
99 [٥٤] شام کی طرف ہجرت :۔ جب آپ کا باپ اور آپ کی ساری قوم آپ کی جانی دشمن بن گئی تو آپ نے ترک وطن کا فیصلہ کرلیا کہ اب یہاں سے نکل جانا ہی بہتر ہے۔ نکلتے وقت یہ بھی معلوم نہ تھا کہ کہاں جانا ہے۔ فقط اتنا کہا کہ میں اللہ کی خاطر ہجرت پر روانہ ہوا ہوں۔ مجھے کہاں جانا چاہئے یہ بات میرا پروردگار مجھے خود ہی بتائے گا اور میری رہنمائی فرمائے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو شام کی طرف جانے کا حکم ہوا اور آپ اپنی بیوی اور بھتیجا یا چچا زاد بھائی سیدنا لوط سمیت شام کی طرف چلے گئے اس وقت تک صرف سیدنا لوط ہی آپ پر ایمان لائے تھے۔ اور آپ کی اس وقت تک کوئی اولاد بھی نہ تھی۔ الصافات
100 الصافات
101 [٥٥] سیدنا اسماعیل کی بشارت :۔ آپ گھر بار اور عزیز و اقارب چھوڑ کر شام کے علاقہ میں آئے۔ کافی عمر ہونے کے باوجود ابھی تک اولاد نہ تھی لہٰذا اللہ سے دعا کی کہ مجھے ایک صالح بیٹا عطا فرما جو میرے گھر کی رونق بنے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جس بیٹے کی بشارت دی اس کی نمایاں صفت حلیم تھی اور اس صفت میں سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کے قربانی کے واقعہ اور اس موقع پر ان کے بردبار ہونے کی طرف لطیف اشارہ پایا جاتا ہے۔ الصافات
102 [٥٦] بیٹے کو ذبح کرنے کے متعلق خواب :۔ سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام جب اس عمر کو پہنچے جب وہ اپنے باپ کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاسکتے تھے تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو ایک اور بہت بڑی آزمائش میں ڈالا گیا۔ آپ علیہ السلام کو تین راتیں مسلسل خواب آتا رہا جس میں آپ دیکھتے تھے کہ آپ اسی بیٹے کو جسے آپ نے اللہ سے دعا کرکے لیا تھا اور جو آپ کے بڑھاپے میں آپ کا سہارا بن رہا تھا، ذبح کررہے ہیں چنانچہ آپ نے سمجھ لیا کہ یہ اللہ کی طرف سے حکم ہے۔ [٥٧] بیٹے سے سوال :۔ چنانچہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے نوجوان بیٹے کو یہ خواب بتا کر ان کی رائے دریافت کی۔ آپ علیہ السلام نے یہ رائے اس لئے دریافت نہیں کی تھی کہ اگر بیٹا اس بات پر آمادہ نہ ہو یا وہ انکار کردے تو آپ علیہ السلام اللہ کے اس کے حکم کی تعمیل سے باز رہیں گے بلکہ اس لئے پوچھا تھا کہ آیا یہ فی الواقع صالح بیٹا ثابت ہوتا ہے یا نہیں؟ کیونکہ آپ علیہ السلام نے جو دعا کی تھی وہ صالح بیٹے کے لئے کی تھی۔ [٥٨] نبی کا خواب وحی ہوتا ہے :۔ اس سے معلوم ہوا کہ خواب سن کر سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام بھی اسی نتیجہ پر پہنچے تھے کہ اللہ کا حکم ہے جس سے یہ نتیجہ مستنبط ہوتا ہے کہ نبی کا خواب بھی وحی ہوتا ہے اور اس کی تائید بعض دوسری آیات اور احادیث سے بھی ہوجاتی ہے۔ [٥٩] بیٹے کی بے مثال فرمانبرداری :۔ سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام اس قدر خندہ پیشانی اور فراخ دلی سے قربان ہونے کو تیار ہوگئے جس کی دوسری کوئی مثال دنیا میں مل نہیں سکتی وہ ایک نہایت صالح اور انتہائی فرمانبردار بیٹے ثابت ہوئے۔ کیونکہ بیٹے کی قربانی دینے کا حکم تو باپ کو ہوا تھا۔ بیٹے کو قربان ہوجانے کا حکم نہیں ہوا تھا۔ بیٹے نے اپنے والد کا فرمان بلاچون وچرا تسلیم کرکے اپنے والد کی بھی انتہائی خوشنودی حاصل کرلی اور اپنے پروردگار کی بھی۔ الصافات
103 [٦٠] قربانی کا منظر :۔ سیدنا ابراہیم نے اپنے بیٹے کو پیشانی کے بل اس لئے لٹایا کہ کہیں پدرانہ شفقت تعمیل حکم الٰہی میں آڑے نہ آجائے۔ اور چھری چلاتے وقت ہاتھ میں لغزش نہ واقع ہو۔ منہ کے بل لٹانے سے نہ بیٹے کا چہرہ نظر آئے گا نہ پدرانہ جذبات برانگیختہ ہوں گے۔ کہتے ہیں کہ سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام نے اسی مصلحت کے پیش نظر خود اپنے والد محترم کو ایسا مشورہ دیا۔ الصافات
104 الصافات
105 [٦١] باپ بیٹے کا امتحان میں سرفراز ہونا :۔ جب باپ اور بیٹا دونوں نے اللہ کی فرمانبرداری کی بے نظیر مثال قائم کردی تو اس وقت رحمت الٰہی جوش میں آگئی۔ اور فوراً سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر وحی ہوئی کہ بس بس اس سے زیادہ کچھ نہ کرو۔ ہمیں تو صرف تمہارا امتحان لینا مقصود تھا۔ اور وہ ہوچکا جس میں تم پوری طرح کامیاب اترے ہو۔ ہمارا یہ مقصود ہرگز نہ تھا کہ تم فی الواقع بیٹے کو ذبح کر ڈالو۔ واضح رہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے جو خواب دیکھا تھا وہ یہ تھا کہ ’’میں ذبح کر رہا ہوں‘‘ یہ نہیں دیکھا تھا کہ ’’میں نے ذبح کردیا ہے‘‘ اور جتنا خواب آپ نے دیکھا تھا اتنا کام ہوچکا تو آگے ذبح کردینے سے اللہ تعالیٰ نے روک دیا۔ [٦٢] یعنی ہمارا دستور ہے کہ ہم نیکو کار لوگوں کو آزمائش میں ڈالتے ہیں پھر جب وہ اس آزمائش میں پورے اترتے ہیں، تو ان کے درجات بلند کرتے ہیں۔ ان کو فضیلت عطا کردیتے ہیں۔ پھر جس آزمائش میں ہم انہیں ڈالتے ہیں اس سے نکلوا بھی دیتے ہیں۔ جیسے سیدنا ابراہیم کو آگ کی آزمائش میں ڈالا وہ وہاں سے سلامت نکال بھی لائے اور ان کا مرتبہ بھی بلند کیا اسی طرح بیٹے کی قربانی کی آزمائش میں ان کے بیٹے کو بھی بچا لیا اور درجات بھی بلند کئے۔ الصافات
106 [٦٣] بھلا جس آزمائش کے متعلق اللہ تعالیٰ خود فرمائیں کہ وہ ایک بہت بڑی آزمائش تھی اس کے بڑی آزمائش ہونے میں کیا شک کیا جاسکتا ہے۔ اور اس کا تصور یوں کیا جاسکتا ہے ایک بوڑھا باپ ہو جس کا ایک ہی نوجوان بچہ ہو۔ وہی اس کا سہارا ہو اور اسے بھی اس نے اللہ سے دعائیں کر کر کے لیا ہو۔ پھر اسے اضطراری موت نہ آئے بلکہ اس باپ سے کہا جائے کہ میری راہ میں قربان کردو تو اس کے دل پر کیا گزرتی ہے۔ الصافات
107 [٦٤] بیٹے کی قربانی کا فدیہ :۔ یہ ذبح عظیم ایک سینگ دار مینڈھا تھا جسے فرشتوں نے عین موقع پر لاکر حاضر کردیا اور کہا تھا کہ بیٹے کی جگہ اسے قربان کردو۔ یہی جانثار بیٹے کا فدیہ تھا جسے اللہ نے بھیجا تھا۔ اس لحاظ سے یہ عظیم قربانی تھی اور اس کے عظیم ہونے کی دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ قیامت تک کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ سنت جاری کردی کہ اسی تاریخ کو دنیا بھر کے اہل ایمان جانور قربان کریں۔ اور وفاداری اور جان نثاری کے اس عظیم واقعہ کی یاد تازہ کرتے رہیں۔ ذبیح اللہ سیدنا اسماعیل تھے یا سیدنا اسحاق علیہما السلام :۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ذبیح اللہ سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام نہیں بلکہ سیدنا اسحق علیہ السلام تھے۔ ان کا نظریہ درج ذیل وجوہ کی رو سے درست معلوم نہیں ہوتا۔ ١۔ اسی سورۃ میں پہلے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے اس بیٹے کا ذکر آیا جو فی الواقع ذبیح اللہ تھے اور اس کے بعد سیدنا اسحق ؑکا ذکر اسی سورۃ کی آیت نمبر ١١٢ میں آرہا ہے۔ ٢۔ جب سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کی بشارت دی گئی تو اس کے ساتھ حلیم کی صفت مذکور ہے۔ اور اس کا تعلق قربانی سے ہے۔ اور جب سیدنا اسحق علیہ السلام کی بشارت دی گئی تو اس کے ساتھ صفت علیم ذکر کی گئی (١٥: ٥٣، ٥١: ٢٨) اور اس صفت کا قربانی سے کچھ تعلق نہیں۔ نیز جب سیدنا اسحق علیہ السلام کی بشارت دی گئی تو ساتھ ہی یہ بتا دیا گیا کہ اسحق کے بعد ان کا بیٹا یعقوب بھی پیدا ہوگا۔ (١١: ٧١) اور ظاہر ہے جس بیٹے کے پوتے کی بھی بذریعہ وحی بشارت دی جاچکی ہو اس کے متعلق نوجوانی میں ہی قربانی کی وحی آنا محال ہے۔ کیونکہ پوتے کی بشارت پہلے دی جاچکی تھی۔ ٣۔ تورات میں یہ تصریح موجود ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اپنے اکلوتے اور محبوب بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور یہ بھی مسلم ہے کہ سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام ، سیدنا اسحق علیہ السلام سے عمر میں بڑے تھے پھر سیدنا اسحق علیہ السلام سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کی موجودگی میں اکلوتے کیسے ہوسکتے ہیں؟ ٤۔ قربانی کی یادگار اور اس سے متعلقہ رسوم بنی اسرائیل میں بطور وراثت مسلسل منتقل ہوتی چلی آئی ہیں حتیٰ کہ دور نبوی میں بھی موجود تھیں۔ یہ بات بھی اس بات کی قوی دلیل ہے کہ ذبیح اللہ سیدنا اسمٰعیل تھے نہ کہ سیدنا اسحق علیہ السلام۔ ٥۔ احسان کا وسیع مفہوم :۔ قربانی اور اس سے متعلقہ رسوم مثلاً سعی صفا و مروہ وغیرہ کا تعلق مکہ سے ہے۔ اور یہ سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کا وطن تھا۔ سیدنا اسحق علیہ السلام کا اصل وطن ملک شام تھا۔ الصافات
108 الصافات
109 الصافات
110 [٦٥] مُحْسِنِیْنَ کا ترجمہ اردو میں ایک دو لفظوں میں ادا کرنا بہت مشکل ہے۔ لہٰذا عموماً اس کا ترجمہ نیکی کرنے والے یا نیکو کار کردیا جاتا ہے۔ إحْسَانٌ کا مطلب دراصل کسی کام کو بہتر سے بہتر طریق پر سرانجام دینا ہے۔ جیسا کہ حدیث جبریل علیہ السلام سے واضح ہوتا ہے کہ جب سیدنا جبریل نے آپ سے یہ سوال کیا کہ إحْسَانٌ کیا چیز ہے۔ تو اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تو اللہ کی عبادت ایسے کرے جیسے تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر یہ نہ ہوسکے تو کم از کم اتنا تو سمجھے کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے‘‘ (متفق علیہ) اور احسان میں کم از کم تین باتوں کا ہونا ضروری ہے (١) جو کام کیا جائے پوری خلوص نیت سے اور رضائے الٰہی کے لئے کیا جائے۔ (٢) حکم کی تعمیل محض اطاعت کے جذبہ سے نہ ہو بلکہ اس میں مطاع کی محبت کا جذبہ بھی شامل ہو۔ اور (٣) کام کے آداب و ارکان کو اس طریقہ پر سرانجام دیا جائے جو بہتر سے بہتر ہوسکتے ہیں۔ اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے چونکہ ہر کام احسان کے ساتھ کیا تھا۔ لہٰذا اللہ نے دنیا میں انہیں دو طرح سے بدلہ دیا ایک یہ کہ رہتی دنیا تک ان پر سلامتی کی دعائیں کی جایا کریں۔ جیسا کہ ہم ہر نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر بھی درود و سلام کی دعا کرتے ہیں اور دوسرے یہ کہ اکثر مذاہب والے انہیں اپنا روحانی پیشوا تسلیم کرتے ہیں۔ ان سے نسبت جوڑنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور ان کا ذکر اچھے الفاظ میں ہی کرتے ہیں۔ الصافات
111 الصافات
112 [٦٦] معلوم ہوا کہ پہلی خوشخبری کا تعلق سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام سے ہی ہے۔ اور قصہ ذبح کا تعلق انہی سے ہے۔ اس کے بعد دوسری بار سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو سیدنا اسحق علیہ السلام کی خوشخبری دی گئی۔ الصافات
113 [٦٧] ذُرِّیَّتِھِمَا میں تثنیہ کی ضمیر سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کی طرف بھی راجع ہوسکتی ہے اور سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام اور سیدنا اسحق علیہ السلام کی طرف بھی۔ جن سے دو بڑی قومیں پیدا ہوئیں۔ ایک بنی اسمٰعیل اور دوسرے بنی اسرائیل۔ بنو اسمٰعیل میں صرف نبی آخر الزمان مبعوث ہوئے جبکہ بنی اسرائیل میں بے شمار انبیاء پیدا ہوئے۔ اور اچھے اور برے لوگ ان دونوں قوموں میں موجود رہے۔ الصافات
114 [٦٨] یعنی انہیں نبوت عطا فرمائی۔ معجزات بھی دیئے اور اپنی مدد کا وعدہ دے کر انہیں فرعون کے پاس بھیجا تاکہ وہ اپنی قوم کو فرعون کی غلامی اور طرح طرح کی تکلیفوں سے نجات دلائیں۔ الصافات
115 الصافات
116 [٦٩] مصر میں بنی اسرائیل کی حالت زار :۔ مصر میں بنی اسرائیل کی حالت ہندوستان کے شودروں سے بھی بدتر تھی۔ وہ صرف ایک محکوم قوم ہی نہ تھے۔ بلکہ ذلیل اور رسوا بھی سمجھے جاتے تھے۔ آل فرعون ان سے طرح طرح کی بیگار بھی لیتے تھے۔ پھر ان کی نسل کو ختم ہی کردینے کے درپے ہوگئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کی مدد صرف یہی نہیں کی کہ ان کے پنجے سے انہیں نجات دلائی بلکہ ان کے سامنے اس ظالم کو سمندر میں غرق کرکے نیست و نابود بھی کردیا۔ الصافات
117 الصافات
118 [٧٠] فرعون اور آل فرعون کی غرقابی کے بعد ہی طور سینا کے مقام پر سیدنا موسیٰ پر تورات نازل ہوئی۔ اس سے پیشتر سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر بھی صحیفے ہی نازل ہوتے رہے۔ تورات پہلی آسمانی کتاب ہے جس میں بنی اسرائیل کو زندگی سے متعلق واضح احکام دیئے گئے تھے۔ پھر اسی کتاب کی روشنی میں ان دونوں نبیوں نے بنی اسرائیل کی رہنمائی کی۔ الصافات
119 الصافات
120 الصافات
121 [٧١] یعنی ان دونوں نبیوں نے بھی راہ حق میں بے شمار قربانیاں دی تھیں۔ وہ اللہ کے حکم کے تحت اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر فرعون جیسے جابر اور ظالم فرمانروا کے پاس پہنچ گئے تھے۔ جبکہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام خود ان کے مجرم بھی تھے۔ پھر انہوں نے فرعون سے دعوت توحید کے بعد جو مطالبہ کیا تھا وہ بھی اسے سیخ پا کردینے والا تھا۔ اور وہ یہ تھا کہ بنی اسرائیل کو اپنی غلامی سے آزاد کرکے انہیں ہمارے ہمراہ روانہ کردو۔ اور بنی اسرائیل کی نجات کے بعد انہوں نے اس بگڑی قوم کو سنوارنے کے لئے مقدور بھر کوششیں کی تھیں۔ ان کے ایسے ہی کارناموں کا صلہ ہم نے انہیں یہ دیا کہ رہتی دنیا تک انہیں بھلائی سے یاد کیا جائے۔ چنانچہ یہود و نصاریٰ اور مسلمان ہی سب سے بڑی قومیں ہیں اور یہ سب سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو سچا نبی و روحانی پیشوا سمجھتے ہیں۔ الصافات
122 الصافات
123 الصافات
124 الصافات
125 [٧٢] سیدنا الیاس کا مرکز تبلیغ اور بعل کی پرستش :۔ سیدنا الیاس علیہ السلام ، سیدنا ہارون علیہ السلام کی اولاد سے ہیں۔ ان کا زمانہ نبوت نویں صدی قبل مسیح ہے۔ ان کا مرکز تبلیغ بعلبک نامی شہر تھا جو شام میں واقع تھا۔ آپ کی قوم بعل نامی بت کی پرستار تھی اور یہی بعل ہی ان کا دیوتا تھا۔ بعل کا لغوی معنی مالک، آقا، سردار اور خاوند ہے اور قرآن میں بعل کا لفظ متعدد مقامات پر خاوند کے معنوں میں استعمال ہوا ہے مگر قدیم زمانے میں سامی اقوام اس لفظ کو الٰہ یا خداوند کے معنوں میں استعمال کرتی تھیں۔ ان لوگوں نے ایک خاص دیوتا کو بعل (یعنی دوسرے دیوتاؤں یا معبودوں کا سردار) کے نام سے موسوم کر رکھا تھا۔ بابل سے لے کر مصر تک پورے شرق اوسط میں بعل پرستی پھیلی ہوئی تھی بنی اسرائیل جب فرعون سے نجات پاکر مصر سے فلسطین آکر آباد ہوئے اور ان لوگوں سے شادی بیاہ ہوئے تو یہ مرض ان میں بھی پھیل گیا۔ بعل کے نام کا ایک مذبح بھی بنا ہوا تھا جس پر قربانیاں کی جاتی تھیں۔ عوام تو درکنار فلسطین کی اسرائیل ریاست بھی بعل پرستی میں مبتلا ہوگئی تھی۔ [٧٣] یعنی اللہ کے علاوہ خالق اور بھی ہوسکتے ہیں۔ مثلاً انسان میدہ، گھی اور چینی کی آمیزش اور ترکیب سے کئی قسم کی مٹھائیاں وجود میں لاتا ہے اور مادے کے خواص معلوم کرکے نت نئی قسم کی ایجادات کو وجود میں لاتا ہے۔ اسی طرح ایک مصنف چند کتابیں یا تحریریں سامنے رکھ کر ایک نئی کتاب کو وجود میں لاتا ہے۔ یہ سب تخلیقی کارنامے ہیں۔ مگر یہ سب کارنامے ایسے ہیں جن کا مواد پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تخلیق نہ مادہ کی محتاج ہے نہ اس کے اوصاف کی کیونکہ مادہ میں وصف پیدا کرنے والا وہ خود ہے پھر اس کے تخلیقی کارنامے اس لحاظ سے انسان کی بساط سے باہر ہیں کہ وہ روح پھونک کر جیتی جاگتی اور نشوونما پانے والی اشیاء تیار کرتا ہے۔ پھر اس کے تخلیقی کارنامے ایسے ہیں جنہیں انسان کا بنانا تو درکنار انسان سمجھ بھی نہیں سکتا۔ مثلاً انسان کی اندرونی ساخت اور اس کے اعضاء و جوارح کے وظائف اور وہ قوتیں جو انسان میں رکھ دی گئی ہیں ایک آنکھ کے نور ہی کو لیجئے کہ وہ کیا چیز ہے اور کیسے پیدا ہوتا ہے اور اگر ضائع ہوجائے تو کیا کوئی بڑے سے بڑا ڈاکٹر اسے بحال کرسکتا ہے؟ اب سب باتوں کا جواب نفی میں ہے۔ لہٰذا احسن الخالقین صرف اللہ کی ذات ہی ہوسکتی ہے۔ الصافات
126 [٧٤] یعنی سیدنا الیاس علیہ السلام نے ان کی توجہ اس طرف مبذول کرائی کہ یہ بعل دیوتا کا بت تو تم نے خود گھڑا ہے۔ یہ پتھر کا بے جان بت ہے جس کے خالق تم خود ہو۔ اس کی حفاظت بھی تم ہی کرتے ہو۔ پھر اسی کی عبادت بھی کرنے لگتے ہو۔ تمہیں چاہئے تو یہ تھا کہ اس کی عبادت کرتے جس نے تم کو بنایا ہے۔ پھر تمہیں صرف بنا ہی نہیں دیا بلکہ تمہاری پرورش بھی کرتا ہے۔ تمہارے آباء و اجداد کا بھی وہی خالق اور رازق ہے۔ ایسے بہترین خالق کو چھوڑ کر اپنے گھڑے ہوئے پتھر کے سامنے سربسجود ہوتے ہوئے تمہیں شرم نہیں آتی۔ الصافات
127 الصافات
128 [٧٥] مگر بعل کے ان پرستاروں کو الیاس علیہ السلام کی دعوت راس نہ آئی۔ انہوں نے اپنے نبی کی دعوت کو جھٹلا دیا اور اس کے در پے آزار ہوگئے۔ ایسے سب لوگوں کو ان کے گناہوں کی سزا مل کے رہے گی۔ اور اس سزا سے وہ لوگ بچے جو سیدنا الیاس علیہ السلام پر ایمان لے آئے اور اللہ کے فرمانبردار بن کر رہے۔ الصافات
129 الصافات
130 [٧٦] الیاسین اور الیاس ایک ہی بات ہے :۔ الیاس اور الیاسین ایک ہی بات ہے۔ الیاسین بھی سیدنا الیاس علیہ السلام ہی کا دوسرا نام ہے اور تلفظ کی ایسی کمی بیشی تقریباً سب زبانوں میں پائی جاتی ہے۔ قرآن میں اس کی دوسری مثال طور سینا ہے جسے سورۃ والتین میں سینین کہا گیا ہے۔ الصافات
131 الصافات
132 الصافات
133 الصافات
134 الصافات
135 [٧٧] سیدنا لوط اور ان کی قوم :۔ سیدنا لوط علیہ السلام کی بیوی جو اپنے شوہر کی خائن تھی۔ اس کی تمام وفاداریاں مجرم قوم کے ساتھ تھیں۔ گھر میں کوئی مہمان آجاتا تو وہی ان مجرموں کو خفیہ اشارے کرتی تھی۔ ہجرت کے وقت سیدنا لوط علیہ السلام کو خصوصی ہدایت تھی کہ وہ تمہارے ساتھ نہیں جائے گی۔ بلکہ مجرموں جیسا ہی اس کا بھی حشر ہوگا۔ الصافات
136 [٧٨] یعنی سدوم اور اس کے مضافات کا پورا علاقہ ہی بلندی پر لے جا کر اور الٹا کر زمین پر پٹخ دیا گیا اوپر سے پتھروں کی بارش برسائی گئی۔ الصافات
137 [٧٩] یہ علاقہ اس شاہراہ پر واقع تھا جہاں سے کفار مکہ کے تجارتی قافلے مکہ سے شام اور شام سے واپسی پر گزرتے تھے اور اس اجڑے ہوئے علاقہ کے تاریخی حالات بھی معلوم تھے۔ بسا اوقات دیکھتے بھی رہتے تھے۔ لیکن یہ سوچنے کی کبھی زحمت ہی گوارا نہ کرتے تھے کہ یہ علاقہ کیوں ہلاک کیا گیا تھا ؟ اور اگر ہم بھی اللہ کے نافرمان اور سرکش بن کر رہیں تو ہم پر بھی عذاب الٰہی نازل ہوسکتا ہے۔ الصافات
138 الصافات
139 الصافات
140 [٨٠] سیدنا یونس کی بلا اذن الہٰی ہجرت :۔ اَبَقَ کا لفظ بالخصوص ایک غلام کا اپنے آقا کے ہاں سے بھاگ کھڑا ہونے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ سیدنا یونس علیہ السلام بھی چونکہ اللہ کے حکم ہجرت کے بغیر اپنی قوم کے لوگوں سے بھاگ آئے تھے اس لئے یہ لفظ استعمال کیا گیا اس میں لطیف اشارہ یہ ہے کہ ہر شخص حتیٰ کہ ہر نبی بھی اپنے پروردگار کا ہمہ وقتی غلام اور بندہ ہوتا ہے۔ الصافات
141 [٨١] کشتی میں قرعہ اندازی :۔ سیدنا یونس علیہ السلام اہل نینوا کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ بھاگ کر ساحل سمندر پر پہنچے تو دیکھا کہ کشتی کھچا کھچ بھری ہوئی ہے۔ آپ علیہ السلام کے کہنے پر کشتی والوں نے آپ کو بھی سوار کرلیا، روانہ ہوئے ہی تھے کہ کشتی آگے بڑھنے کے بجائے چکر کھانے لگی۔ کشتی والوں نے اپنے تجربہ کی بنا پر کشتی پر سوار لوگوں سے کہا کہ ایسا معاملہ ہمیں اس وقت پیش آتا ہے جب کوئی بھاگا ہوا غلام کشتی پر سوار ہو۔ انہوں نے قرعہ ڈالا تو سیدنا یونس علیہ السلام کے نام قرعہ نکلا۔ دوبارہ سہ بارہ قرعہ ڈالنے سے بھی سیدنا یونس ہی کا نام نکلا اور یہ سب کچھ اللہ کی مشیئت کے مطابق ہو رہا تھا۔ [٨٢] سیدنا یونس مچھلی کے پیٹ میں :۔ چنانچہ کشتی والوں نے سیدنا یونس علیہ السلام کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا۔ ایک بہت بڑی وہیل مچھلی پہلے ہی منہ کھولے کھڑی تھی۔ اس نے فوراً سیدنا یونس علیہ السلام کو ایک ہی لقمہ بنا کر نگل لیا۔ اس طرح سیدنا یونس علیہ السلام جیتے جاگتے مچھلی کے پیٹ میں چلے گئے۔ الصافات
142 [٨٣] مُلِیْمٌ کا معنی وہ شخص ہے جس کا ضمیر خود ہی ملامت کر رہا ہو کہ وہ واقعی مجرم ہے اور کوئی ملامت کرے یا نہ کرے۔ اور سیدنا یونس علیہ السلام کو اپنی اجتہادی غلطی کا احساس بھاگنے کے فوراً بعد ہی ہوگیا تھا۔ اور قرعہ میں ہر بار آپ کا نام نکلنے پر اس کا یقین ہوگیا۔ [٨٤] چنانچہ آپ علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں چلے جانے کے بعد اپنے پروردگار کے حضور توبہ استغفار میں مشغول رہنے لگے۔ مچھلی کے پیٹ کی تاریکیوں میں آپ کا وظیفہ یہ ہوتا تھا۔ ﴿لاَاِلٰہَ الاَّ أنْتَ سُبْحَانَکَ إنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمیْن﴾جیسا کہ سورۃ انبیاء کی آیت نمبر ٨٧ میں مذکور ہے۔ اگر آپ علیہ السلام یہ کلمات تسبیحات نہ پڑھتے رہتے تو ہمیشہ مچھلی کے پیٹ میں ہی رہتے یعنی اس کی غذا بن کر اس کے جسم میں تحلیل ہوجاتے۔ الصافات
143 الصافات
144 [٨٥] مچھلی کے پیٹ سے باہر آنا :۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی توبہ و استغفار کو قبول فرمایا اور مچھلی کو حکم دیا کہ وہ انہیں ساحل کے کنارے پر پھینک دے۔ چنانچہ مچھلی نے جیسے آپ کو نگلا تھا ویسے ہی صحیح و سالم ایک چٹیل میدان کے قریب اگل دیا۔ آپ اس وقت سخت نحیف و ناتواں تھے۔ جلد بھی بہت نرم و نازک بن گئی تھی۔ اس وقت آپ کی وہی حالت تھی جیسے ایک بچہ کی ماں کے پیٹ سے نکلنے کے بعد ہوتی ہے۔ الصافات
145 الصافات
146 [٨٦] آپ کی رہائش اور خوراک کا بندوبست :۔ یَقْطِیْنٌ کا اطلاق ہر اس پودے پر ہوتا ہے جس کا تنا نہ ہو مثلاً کدو، ککڑی، تربوز وغیرہ اور بالخصوص اس کا اطلاق پیٹھا کدو کی بیل پر ہوتا ہے۔ اور مفسرین کی اکثر رائے کے مطابق یہی پودا وہاں اگ آیا تھا۔ اس کے پتے چوڑے چوڑے ہوتے ہیں جو دھوپ وغیرہ سے سایہ کا کام دیتے ہیں۔ نیز کہتے ہیں کہ مکھی اس پودے کے نزدیک نہیں آتی۔ آپ کی خوراک کا اللہ تعالیٰ نے کیا انتطام فرمایا ؟ کتاب و سنت میں اس کی کوئی صراحت نہیں۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ روزانہ ایک ہر نی آتی جس کا آپ علیہ السلام دودھ پی لیتے تھے۔ تاآنکہ چند دنوں میں آپ علیہ السلام چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے۔ الصافات
147 [٨٧] اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو اسی قوم کے ہاں جانے کا حکم دیا۔ جس سے آپ علیہ السلام بھاگ آئے تھے۔ ان کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔ انہوں نے جس آہ و زاری سے توبہ کی تھی اللہ نے ان کی توبہ قبول کرکے ان سے عذاب کو ٹال دیا تھا اور وہ کسی رہنمائی کرنے والے کے منتظر تھے۔ سیدنا یونس علیہ السلام کو تلاش کرتے رہے۔ مگر وہ کہیں نہ ملے۔ الصافات
148 [٨٨] سیدنا یونس کا اپنی قوم میں واپس آنا :۔ جب سیدنا یونس علیہ السلام اپنی قوم کے پاس پہنچے تو وہ پہلے ہی آپ کے منتظر بیٹھے تھے۔ وہ فوراً آپ پر ایمان لے آئے۔ اور پھر سے ان پر اللہ تعالیٰ کے انعامات و اکرامات ہونے لگے۔ چونکہ اس واقعہ میں سیدنا یونس علیہ السلام کے ایک کمزور پہلو کی نشاندہی ہوتی ہے۔ غالباً اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتاکید فرما دیا کہ تمام انبیاء نبی ہونے کے لحاظ سے برابر ہیں اور کسی نبی کو دوسرے پر فضیلت نہیں۔ ایک حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’مجھے یونس بن متیٰ پر فضیلت نہ دو‘‘ اور دوسری حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’جس نے مجھے یونس بن متیٰ پر فضیلت دی اس نے جھوٹ بولا‘‘ (مسلم۔ کتاب الفضائل۔ باب من فضائل موسیٰ علیہ السلام ) دراصل یہ یونس علیہ السلام کی ایک اجتہادی غلطی تھی۔ اور یہ ہر انسان حتیٰ کہ انبیاء سے بھی ممکن ہے۔ لیکن مقربین کی چھوٹی سی غلطی اور لغزش بھی اللہ کے ہاں بڑی اور قابل مواخذہ ہوتی ہے۔ اسی بنا پر انبیاء پر بھی اللہ کی طرف سے عتاب نازل ہوتا ہے۔ الصافات
149 الصافات
150 [٨٩] قریش کا فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دینا :۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کی انکار آخرت کے علاوہ دوسری بڑی گمراہی کا ذکر فرمایا ہے۔ جو شرک فی الذات یا شرک کی سب سے بڑی اور بدترین قسم سے تعلق رکھتی ہے۔ یعنی وہ یہ سمجھتے تھے کہ اللہ بھی صاحب اولاد ہے۔ اور یہ اتنا بڑا گناہ ہے جس کے بارے میں بہت سخت الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ پھر اس عقیدہ میں بھی وہ کئی طرح کی بے انصافیاں کرتے تھے۔ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ پھر ان کے خیالی مجسمے اور بت بنا کر ان کی پوجا بھی کرتے تھے۔ ان میں تین مجسموں کا ذکر قرآن میں مذکور ہے۔ (١) لات یہ الٰہ کا مؤنث ہے یعنی لات کا استھان یا آستانہ طائف میں تھا اور بنی ثقیف اس کے معتقد تھے، (٢) عزیٰ۔ عزیز سے مونث ہے بمعنی عزت والی۔ یہ قریش کی خاص دیوی تھی اور اس کا آستانہ مکہ اور طائف کے درمیان وادی نخلہ میں حراص کے مقام پر واقع تھا، (٣) منات کا آستانہ مکہ اور مدینہ کے درمیان بحراحمر کے کنارے قدید کے مقام پر واقع تھا۔ بنوخزاعہ، اوس اور خزرج اس کے معتقد تھے۔ گویا مشرکین عرب وہ بڑا ظلم ڈھاتے تھے ایک اللہ کی اولاد قرار دینے کا، دوسرے شریک بھی ایسے جنہیں وہ اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ جبکہ وہ اپنے لئے بیٹیوں کو کبھی پسند نہیں کرتے تھے۔ بلکہ انہیں زندہ درگور کردیتے تھے۔ الصافات
151 الصافات
152 الصافات
153 الصافات
154 الصافات
155 الصافات
156 الصافات
157 [٩٠] دعویٰ کے اثبات کے لئے دو طرح کے دلائل، عینی شہادت اور نقلی دلیل :۔ کسی دعویٰ کو ثابت کرنے کے لئے دو طرح کے دلائل ہی کام دے سکتے ہیں۔ ایک عینی شہادت جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے مشرکین عرب سے پوچھا کہ جب ہم نے فرشتوں کو پیدا کیا تھا تو اس وقت تم موجود تھے اور یہ دیکھا تھا کہ انہیں عورتیں بنا کر پیدا کیا گیا ہے؟ ظاہر ہے کہ مشرکین عرب کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا اور حقیقت یہ ہے کہ فرشتوں میں نرو مادہ کی تمیز ہے ہی نہیں اور دوسری دلیل کوئی نقلی دلیل بھی ہوسکتی ہے۔ یعنی کسی آسمانی کتاب میں یہ لکھا ہو کہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے عورتیں بنا کر پیدا کیا ہے اور وہ اس کی بیٹیاں ہیں۔ اگر مشرکین عرب کوئی ایسی تحریر بھی نہ دکھا سکیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ان کے عقائد من گھڑت، لغو اور باطل ہیں۔ الصافات
158 [٩١] جنوں اور اللہ تعالیٰ میں سسرالی رشتہ :۔ مشرکین عرب سے جب پوچھا جاتا کہ اگر فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں تو ان کی مائیں کون ہیں؟ تو وہ کہہ دیتے کہ ’’جنوں کی عورتیں‘‘ اس طرح گویا وہ ایک اور ظلم ڈھاتے تھے اور جنوں اور اللہ تعالیٰ میں دامادی اور سسرال کا رشتہ قائم کردیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یوں دیا کہ جن ایک مکلف مخلوق ہے۔ جو اپنے اعمال کی جوابدہی کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کئے جائیں گے۔ پھر ان کی اکثریت جہنم میں جائے گی اور تم نے انہیں اللہ کا سسر بنا ڈالا ہے۔ تمہاری بے ہودگی کی کوئی انتہا ہے؟ کیا تم یہ گوارا کرتے ہو کہ اپنے داماد کو آگ میں جھونک دو یا جس کو تم آگ میں جھونکتے ہو اسے اپنا داماد بنانا گوارا کرسکتے ہو؟ آخر اللہ کے بارے میں تمہاری عقلوں میں اتنا فتور کیوں آجاتا ہے؟ الصافات
159 الصافات
160 [٩٢] یعنی اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے نہ اللہ کے حضور گرفتار کرکے پیش کئے جائیں گے اور نہ انہیں عذاب ہوگا۔ الصافات
161 الصافات
162 الصافات
163 [٩٣] یعنی اے مشرکین عرب! تم اور تمہارے معبود مل کر بھی شرک اور شرکیہ عقائد کی مدافعت میں اور اسلام کا راستہ روکنے میں جتنے ہتھکنڈے استعمال کرسکتے ہو۔ اور جتنی سازشیں تیار کرسکتے ہو کرلو۔ اللہ کے مخلص بندوں کو تم اپنے دام فریب میں پھنسا نہیں سکتے۔ تم صرف ایسے شخص کو ہی پھنسا سکتے ہو جو تمہارا ہی ہم جنس ہو اور اس نے جہنم میں جانے کا تہیہ کر رکھا ہو۔ الصافات
164 الصافات
165 الصافات
166 [٩٤] اللہ اور جبرئیل علیہ السلام کے درمیان نور کے ستر (٧٠) حجاب :۔ مشرکین عرب فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں اور اپنا معبود قرار دیتے تھے۔ ان تین آیات میں فرشتوں کی زبان سے اصل حقیقت بیان کی گئی ہے۔ یعنی تمہارے اس شرکیہ عقیدہ کے مقابلہ میں فرشتوں کا اپنا بیان یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک فرشتہ کا ایک مقررہ درجہ اور مقام ہے جس سے آگے ہم بڑھ نہیں سکتے۔ چنانچہ ترمذی کی ایک روایت کے مطابق ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا کہ کیا تم نے کبھی اپنے پروردگار کو دیکھا ہے؟ تو جبرئیل علیہ السلام نے جواب دیا کہ میرے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان نور کے ستر (٧٠) حجاب ہیں اگر میں اپنے مقام سے ذرا بھی آگے بڑھنے کی کوشش کروں تو جل جاؤں۔ (ترمذی۔ بحوالہ مشکوٰۃ۔ باب بدء الخلق و ذکر الانبیاء) اور ہمارا تو یہ حال ہے کہ ہم ہر وقت اللہ کی بارگاہ میں صف بستہ کھڑے تسبیح و تہلیل کرتے رہتے ہیں اور ہمہ وقت اس کے حکم کے منتظر رہتے ہیں۔ الصافات
167 الصافات
168 الصافات
169 الصافات
170 [٩٥] قریش کا دعویٰ کہ اگر ہمارے پاس نبی آیا ہوتا تو ہم اللہ کے مخلص بندے ہوتے :۔ سیدنا شعیب علیہ السلام کے بعد حجاز میں کوئی نبی نہیں آیا تھا۔ یہ لوگ جب سنتے کہ فلاں علاقہ میں فلاں نبی مبعوث ہوا ہے تو بسا اوقات یہ آرزو کیا کرتے کہ اگر ہمارے پاس بھی کوئی نبی آتا اور اللہ کی کتاب نازل ہوتی تو ہم اللہ کے ایسے فرمانبردار بندے بنتے جو دوسرے لوگوں کے لئے ایک مثال ہوتی۔ پھر جب ان کے پاس نبی آخر الزمان آگیا تو اپنے ایسے سب قول و قرار بھول گئے۔ نبی کی تکذیب کی اور اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے۔ الصافات
171 الصافات
172 الصافات
173 [٩٦] اللہ کے غلبہ سے مراد روحانی اور اصول دین کا غلبہ ہے :۔ ہمارا لشکر سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے جانثار مومنین بھی ہوسکتے ہیں۔ فرشتے بھی جو اللہ تعالیٰ نے چند غزوات میں مومنوں کی مدد کے لئے بھیجے اور وہ غیبی قوتیں بھی جو مومنوں کی مددگار ثابت ہوئیں۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ پہلے طے کرچکا ہے کہ اللہ حق و باطل کے معرکہ میں اپنے انبیاء اور ایمانداروں کی مدد کرکے حق کو ہی غالب کرے گا۔ لیکن اس غلبہ سے مراد صرف سیاسی غلبہ ہی نہیں کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ بسا اوقات انبیاء اور ان کے متبعین کو وہاں سے نکل جانے کا حکم دیا گیا۔ اللہ نے ان کو عذاب اور مجرم قوم کے ظلم و ستم سے بچا لیا لیکن انہیں سیاسی غلبہ حاصل نہ ہوا۔ بلکہ بعض دفعہ انبیاء کو قتل بھی کردیا گیا۔ جبکہ اس سے مراد اخلاقی اقدار اور دین کی اصولی باتوں کا غلبہ ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جن قوموں نے حق کی مخالفت کی وہ بالآخر تباہ و برباد ہوکے رہیں۔ جہالت و ضلالت کے جو فلسفے بھی لوگوں نے گھڑے اور زندگی کے جو بگڑے ہوئے اطوار بھی زبردستی رائج کئے گئے وہ سب کچھ مدت تک زور دکھانے کے بعد آخر کار اپنی موت آپ مرگئے مگر جن حقیقتوں کو ہزارہا برس سے اللہ کے نبی حقیقت و صداقت کی حیثیت سے پیش کرتے رہے ہیں وہ پہلے بھی اٹل تھیں اور آج بھی اٹل ہیں۔ انہیں اپنی جگہ سے کوئی نہیں ہلا سکا۔ الصافات
174 الصافات
175 الصافات
176 الصافات
177 [٩٧] کفار مکہ پر جو عذاب آتے رہے :۔ جس عذاب کے لئے کفار مکہ جلدی مچا رہے ہیں وہ آئے گا ضرور مگر اپنے مقرر وقت پر آئے گا۔ اور اس طرح آئے گا کہ ان کو یہ بھی معلوم نہ ہوسکے گا کہ کس طرف سے ان کی جڑ کٹ رہی ہے۔ چنانچہ جنگ بدر کے موقع پر ابو جہل کے سوا اکثر سرداروں کا یہ خیال تھا کہ ہمارا تجارتی قافلہ محفوظ نکل گیا ہے تو اب ہمیں جنگ نہ کرنا چاہئے مگر ابو جہل اکیلا اس بات پر مصر تھا کہ ہم میدان میں نکل آئے ہیں تو ہمیں اب اسلام کا سر کچل کے دم لینا چاہئے۔ مگر اس کا یہی اصرار اس کی اپنی موت اور کفر کی کمر توڑنے کا سبب بن گیا بالکل ایسی ہی صورت حال جنگ احزاب کے موقع پر پیش آئی اور فتح مکہ تو حقیقتاً کفر کی موت تھی۔ اس کے بعد اعلان براءت نے رہی سہی کسر بھی نکال دی۔ اتنی دفعہ تو ان لوگوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں عذاب آیا اور جوں جوں یہ لوگ عذاب سے دوچار ہوتے گئے۔ عذاب کے لئے جلدی مچانے کی باتیں از خود ہی ان کے دماغوں سے محو ہوتی گئیں۔ پہلا عذاب ہی دیکھنے کے بعد انہوں نے پھر کبھی عذاب مانگنے کا نام نہ لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے دین حق کو اور بھی زیادہ فتح و نصرت عطا فرمائی۔ اور یہ فتح سیاسی بھی تھی اور اسلامی اقدار کی بھی۔ الصافات
178 الصافات
179 الصافات
180 [٩٨] یہ اس سورۃ کا تتمہ ہے۔ مشرکوں کے شرکیہ عقائد کی مدلل تردید کے بعد نتیجہ یہ پیش کیا گیا ہے کہ اللہ کی ذات و صفات کے متعلق ان لوگوں نے جو باتیں گھڑ رکھی ہیں اور جن سے اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات میں کچھ عیوب اور نقص لازم آتے ہیں اللہ تعالیٰ کی ذات ایسے تمام عیوب اور نقائص سے پاک ہے۔ رسولوں پر سلامتی ہو کہ وہ اپنی اپنی قوموں سے دکھ سہہ سہہ کر بھی خالص توحید کی دعوت مسلسل پیش کرتے رہے۔ انہوں نے صرف اللہ کی عیوب سے پاکیزگی کا سبق ہی نہیں دیا بلکہ یہ تعلیم بھی دی کہ ہر طرح اچھی صفات، خوبیاں اور تعریف کی مستحق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ کیونکہ وہی تمام کائنات کا پروردگار ہے۔ الصافات
181 الصافات
182 الصافات
0 ص
1 ص
2 [١] نصیحت والے قرآن کی قسم اٹھانے کے بعد بل کے لفظ سے معلوم ہو رہا ہے کہ یہاں کچھ عبارت محذوف ہے جسے پڑھنے اور سننے والے کی فہم و بصیرت پر چھوڑ دیا گیا ہے اور یہ عبارت یوں بنتی ہے کہ اس سراسر نصیحت والے قرآن کی قسم کہ اس کی عبارت میں کوئی پیچیدگی نہیں، اس کے دلائل بھی عام فہم ہیں اور اس کے مطالب سمجھنے میں بھی کسی کو کوئی دشواری نہیں مگر کافر پھر بھی اس پر طرح طرح کے اعتراض کر رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ انہیں سمجھ نہیں آرہی بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ اس کی تعلیمات کو تسلیم کرنے میں اپنی، اپنے آباء واجداد کی اور اپنے معبودوں کی ہتک محسوس کرتے ہیں۔ لہٰذا چڑ کر اس کی مخالفت پر اتر آئے ہیں۔ ص
3 [٢] سابقہ اقوام نے بھی یہی کچھ کیا تھا۔ پھر جب ان پر اللہ کا عذاب آگیا اس وقت وہ اللہ سے فریاد کرنے لگے اور ایمان کا اقرار کرنے لگے۔ حالانکہ توبہ و استغفار اور ایمان لانے کا وقت گزر چکا تھا۔ وہ تو عذاب کے نزول یا موت سے پہلے پہلے ہی ہوتا ہے۔ بعد میں کوئی بات کچھ فائدہ نہیں دے سکتی۔ ص
4 [٣] تعجب کی بات تو تب تھی کہ نبی کوئی اجنبی یا فرشتہ ہوتا : ان کی عقل پر کچھ اس طرح پتھر پڑگئے ہیں کہ انہی میں سے ایک ڈرانے والا آیا ہے جو ان کی زبان جانتا ہے، انہی کی زبان میں انہیں سمجھاتا ہے، تو انہیں اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ ہم جیسا ہی ایک آدمی رسول بن بیٹھا ہے۔ حالانکہ تعجب کی بات تو تب تھی کہ کوئی اجنبی ان میں نبی بنا کر بھیج دیا جاتا جس کی زبان نہ یہ سمجھتے نہ وہ ان کی زبان سمجھتا۔ یا کوئی فرشتہ نبی بنا کر ان پر مسلط کردیا جاتا جو ان کے انکار پر ان کی گردنیں توڑ کر رکھ دیتا۔ [٤] کافر آپ کو جادوگر ان معنوں میں کہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا جو کلام پیش کرتے تھے۔ اس میں اس قدر شیرینی اور تاثیر تھی کہ جو کوئی سنتا وہ آپ کا گرویدہ ہوجاتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا ہو کر رہ جاتا تھا۔ خواہ اسے اس راستہ میں کتنی ہی مشکلات پیش آتیں اور جھوٹا اس لحاظ سے کہتے تھے کہ آپ جو تعلیم پیش کر رہے تھے وہ ان کے معتقدات کے خلاف تھی۔ وہ تو یہ سوچنے کے لئے قطعاً تیار نہ تھے کہ ہمارے معتقدات بھی غلط ہوسکتے ہیں اس کے بجائے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا کہہ دیتے تھے۔ ص
5 ص
6 [٥] سمجھوتہ کے لئے ایک ٢٥ رکنی وفد کا ابو طالب کے پاس آنا :۔ ان آیات کے نزول کا پس منظر یہ ہے کہ ١٠ نبوی میں ابو طالب بیمار پڑگئے (اسی مرض سے ان کی وفات ہوئی اور اس سال ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تھا لہٰذا اس سال کو عام الحزن کہا جاتا تھا۔ کیونکہ اس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دونوں بھاری صدمے پہنچے تھے) اس وقت ابو طالب کی عمر ٨٠ برس کی ہوچکی تھی نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت میں انہوں نے جو مصائب، اور شعب ابی طالب میں جو فاقے جھیلے تھے انہوں نے ابو طالب کو بہت کمزور کردیا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اب ان کی زندگی کے دن گنے جاچکے ہیں۔ سرداران قریش کو خیال آیا کہ اگر ابو طالب کے مرنے کے بعد ہم نے اس کے بھتیجے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر زیادتی کی تو سارا عرب یہ طعنہ دے گا کہ چچا کے جیتے جی تو ان سے کچھ بن نہ پڑا اب اس کے مرنے کے بعد اسے دبانے لگے ہیں۔ لہٰذا ابو طالب کی زندگی میں ہی سمجھوتہ کی غرض سے سرداران قریش کا ایک ٢٥ رکنی وفد ابو طالب کے پاس آیا اور کہا کہ ’’ذرا اپنے بھتیجے کو بلاؤ۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم اس کے مذہب میں مداخلت نہیں کرتے وہ اپنے مذہب کے مطابق جیسے چاہے عبادت کرے۔ لیکن یہ لوگ ہمارے مذہب میں مداخلت نہ کریں۔ نہ ہمارے معبودوں اور بزرگوں کو برا بھلا کہیں۔ وہ ہمیں ہمارے دین پر چھوڑ دیں اور ہم انہیں ان کے دین پر چھوڑ دیں‘‘ چنانچہ ابو طالب نے آپ کو بلایا۔ اس وقت ابو طالب کے قریب ایک آدمی کی جگہ خالی تھی۔ ابو جہل فوراً اٹھ کر وہاں جا بیٹھا تاکہ آپ اس کے قریب نہ بیٹھ سکیں۔ خیر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرے ہٹ کر بیٹھ گئے تو ابو طالب نے کہا : ’’یہ تمہاری قوم کے معزز لوگ ہیں اور اس قسم کی بات پر سمجھوتہ اور عہد و پیمان کرنے آئے ہیں۔ تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘ آپ کا جواب ایک اللہ کی عبادت کرو عرب وعجم کے مالک بن جاؤ گے : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا :’’کیا میں انہیں ایسی بات نہ بتاؤں کہ اگر وہ اسے مان لیں تو سارا عرب ان کے تابع فرمان ہوجائے اور عجم پر ان کی بادشاہت قائم ہوجائے اور وہ انہیں جزیہ ادا کریں؟‘‘ یہ سن کر ابو جہل کہنے لگا : ’’تمہارے باپ کی قسم! ایسی ایک بات کیا، دس باتیں بھی پیش کرو تو ہم ماننے کو تیار ہیں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : ’’تم لوگ لا الٰہ الا اللّٰہ کہو اور اللہ کے سوا جن جن کو پوجتے ہو انہیں چھوڑ دو‘‘ اس بات پر ان سب نے ہاتھ پیٹ پیٹ کر کہا : ’’محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ! سارے خداؤں کی جگہ بس ایک ہی خدا! یہ تو بڑی عجیب بات ہے‘‘ پھر آپس میں کہنے لگے : اٹھو یہاں سے اور اپنے آباء کے دین پر ڈٹ جاؤ۔ یہ شخص تمہاری کوئی بات ماننے کو تیار نہ ہوگا۔ اسی موقع پر اس سورۃ کی ابتدائی سات آیات نازل ہوئیں (ابن ہشام) ١: ٤١٧ تا ٤١٩) اسی واقعہ کو امام ترمذی نے مختصراً یوں روایت کیا ہے : ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ابو طالب بیمار ہوئے تو قریش اس کے پاس آئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے پاس آئے اور ابو طالب کے پاس ایک ہی آدمی کے بیٹھنے کی جگہ تھی۔ ابو جہل اٹھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں بیٹھنے سے روک دے۔ پھر ان لوگوں نے ابو طالب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق شکایت کی۔ ابو طالب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگے : ’’بھتیجے! تم اپنی قوم سے کیا چاہتے ہو؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’صرف ایک کلمہ : اگر وہ اسے قبول کرلیں تو عرب کے حاکم بن جائیں اور عجم سے جزیہ لیں‘‘ ابو طالب نے کہا : ’’صرف ایک کلمہ؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ہاں صرف ایک کلمہ‘‘ پھر فرمایا : ’’چچا جان! آپ لوگ یہ تسلیم کرلیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں‘‘ قریشی کہنے لگے : ’’کیا ہم صرف ایک ہی خدا کی عبادت کریں (باقی سب چھوڑ دیں) یہ تو بڑی عجیب بات ہے ہم نے زمانہ قریب کے دین میں تو یہ بات کبھی سنی ہی نہیں۔ یہ تو محض من گھڑت بات ہے‘‘ انہیں لوگوں کے حق میں یہ آیات نازل ہوئیں۔ (ترمذی۔ کتاب التفسیر) عرب میں قبیلے قبیلے کا جدا جدا بت تھا۔ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ ہر قبیلے کا بت اس قبیلے کے لوگوں کی مشکلات کو دور کرتا اور ان کی حاجات پوری کرتا ہے۔ اور بڑا خدا یا رب العالمین صرف ان کی نگرانی کر رہا ہے۔ لہٰذا انہیں یہ بات دور از قیاس بلکہ محال معلوم ہوتی تھی کہ ایک ہی پروردگار تمام جہان کے لوگوں کی ضروریات کو پورا کرے۔ [٦] قریش کا خیال کہ یہ نبی اقتدار چاہتا ہے :۔ یعنی اس دعوت میں ضرور کچھ کالا ہے اس نبی کی اصل غرض یہ معلوم ہوتی ہے کہ اکیلے خدا کا نام لے کر ہم سب کو اپنا تابع اور محکوم بنا لے اور اپنی حکومت قائم کرے۔ ہم بھلا اس کی یہ بات چلنے دیں گے؟ ہم تو یہ بات کسی قیمت پر قبول نہیں کرسکتے۔ بعض مفسرین نے اس کا یہ مطلب بھی لیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جس عزم و استقلال کے ساتھ اپنی دعوت پیش کر رہے ہیں معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یہ کسی طرح اس سے ہٹنے والے نہیں اور ایسا انقلاب آبھی سکتا ہے لہٰذا جہاں تک ہوسکے اپنے آبائی دین کی حفاظت پر ڈٹ جاؤ۔ ص
7 [٧] یعنی قریب کے زمانہ میں ہمارے اپنے بزرگ بھی گزرے ہیں یہودی اور عیسائی بھی ہمارے ملک اور آس پاس کے ملکوں میں موجود ہیں۔ ایران، عراق اور مشرقی عرب مجوسیوں سے بھرا پڑا ہے۔ کسی نے بھی ہم سے یہ نہیں کہا کہ انسان بس ایک اللہ کو مانے اور کسی کو نہ مانے۔ اللہ کے پیاروں کے تصرفات کو تو ایک دنیا مان رہی ہے اور ان سے فیض پانے والے بتا رہے ہیں کہ ان درباروں سے فی الواقع لوگوں کی مشکل کشائی اور حاجت روائی ہوجاتی ہے۔ پھر آخر اللہ اکیلے پر کون اکتفا کرتا ہے؟ لہٰذا معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض ایک من گھڑت بات ہے اور اس کا اصل مقصد یہ ہے کہ ہم ان کی تابعداری کریں اور یہ ہمارا حاکم بن جائے۔ ص
8 [٨] قریش کا قول کہ کیا نبوت کے لئے یہی شخص رہ گیا تھا ؟: دنیا دار لوگوں کے نزدیک کسی شخص کی عظمت کو ماپنے کا پیمانہ مال و دولت ہوتا ہے یا جاہ و منصب۔ اسی خیال سے کفار مکہ کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ اگر اللہ نے ہم میں سے کسی بشر کو ہی رسول بنانا تھا تو کیا اللہ تعالیٰ کو یہی شخص رسالت کے لئے ملا تھا کیا سرداران قریش مرگئے تھے؟ اگر بنانا ہی تھا تو مکہ اور طائف کے لوگوں میں سے کسی رئیس کو اپنا رسول بناتا۔ بالفاظ دیگر ان کا اصل اعتراض یہ تھا کہ اللہ میاں نے رسالت کا منصب سونپتے وقت ہم سے مشورہ کیوں نہیں لیا ؟۔ [٩] بات یوں نہیں بلکہ اصل معاملہ یہ ہے کہ یہ لوگ سرے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت ہی کے منکر ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ میرا کلام بھی ان کے نزدیک مشکوک ہوگیا ہے اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ رسالت سے پیشتر کفار مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی را ستبازی کے قائل تھے۔ اب جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے دعویٰ میں ان کی جانب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی راستبازی پر بھی شک کیا جانے لگا ہے اور اس ہستی کو کذاب کہنے لگے ہیں جسے وہ ہمیشہ سے را ستباز سمجھتے آئے ہیں تو اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ انہیں میرے ذکر، میرے کلام اور میرے پیغام میں شک ہے۔ [١٠] ان کے ایسے بیہودہ اعتراض کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ابھی تک انہوں نے میری مار کا مزا نہیں چکھا۔ ایک دفعہ انہیں میری مار پڑگئی تو ان کے سب کس بل نکل جائیں گے اور آئندہ ایسی باتیں بنانے کا انہیں ہوش ہی نہ رہے گا۔ ص
9 [١١] جواب : کیا یہ اپنے آپ کو اللہ کی رحمت کا ٹھیکیدار سمجھتے ہیں : اللہ کی رحمت کے خزانوں کے یہ تو مالک نہیں کہ جس کو چاہیں اسے رسالت کے منصب پر فائز کردیں۔ اور جس سے چاہیں چھین لیں۔ یہ کام صرف اللہ تعالیٰ کا ہے جو ہر ایک کو دے رہا ہے اور جونسی نعمت جسے چاہتا ہے اسے ہی دیتا ہے۔ اس کے کاموں میں کسی کو مداخلت کی ہمت نہیں۔ ص
10 [١٢] اور دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ زمین و آسمان کی چیزوں کے مالک ہوگئے ہیں جو یہ خدائی اختیارات اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں؟ اگر ایسی بات ہے تو انہیں چاہئے کہ تمام اسباب کو بروئے کار لا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا سلسلہ بند کردیں۔ اور جسے یہ رسالت کے لئے منتخب کرنا چاہتے ہیں وحی کا رخ ادھر موڑ دیں۔ ص
11 [١٣] اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے والے گروہوں میں سے یہ کوئی اتنا بڑا جتھا نہیں ان سے بڑے بڑے جتھے پہلے گزر چکے اور مات کھاچکے ہیں۔ یہ کفار مکہ کی تو ایک معمولی سی جمعیت ہے جو اسی مقام پر یعنی مکہ میں ہی جہاں یہ بیٹھے باتیں بنا رہے ہیں، اپنی مکمل شکست دیکھ لیں گے۔ یہ گویا کفار مکہ کے حق میں ایک پیشین گوئی تھی جو چند ہی سال بعد حرف بحرف پوری ہو کے رہی۔ ص
12 [١٤] میخوں والا فرعون :۔ اگر محاورۃً اس کے معنی لئے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ ایک بڑی مضبوط سلطنت کا مالک تھا۔ تاہم اس کے لفظی معنی بھی لئے جاسکتے ہیں۔ فرعون کا دستور یہ تھا کہ جس شخص کو سولی پر چڑھانا ہوتا تو اسے تختے کے ساتھ کھڑا کرکے اس کے ہاتھوں اور پاؤں میں چار میخیں ٹھونک دیا کرتا تھا اسی وجہ سے وہ ذِیْ الاَوْتَاد یعنی میخوں والا مشہور ہوگیا تھا۔ مزید تشریح سورۃ فجر کی آیت نمبر ١٠ کے حاشیہ میں دیکھئے۔ ص
13 [١٥] اصحاب الایکہ :۔ لفظی معنی ’’ بن والے‘‘ ان کا علاقہ ایک سطح مرتفع پر واقع تھا۔ ان کی طرف شعیب علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے۔ ان کا حال پہلے گزر چکا ہے۔ [١٦] بڑی طاقتیں اور قومیں جو تباہ ہوچکیں ہیں :۔ ان دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے سابقہ اقوام میں سے چھ قوموں کے نام گنوا کر کفار مکہ کو خبردار کیا ہے کہ وہ فی الواقع بڑے مضبوط جتھے تھے۔ قد و قامت میں، زور و قوت میں، مال و دولت کی فراوانی اور خوشحالی میں ان سے بہت آگے تھے ان کی تعداد بھی کفار مکہ سے بہت زیادہ تھی۔ مگر جب انہوں نے اپنے رسولوں کو جھٹلایا تو میرا عذاب ان پر نازل ہوا تو انہیں ملیا میٹ کرکے رکھ دیا۔ اب تم کس کھیت کی مولی ہو کہ میرے رسول کی تکذیب کرنے کے بعد صحیح و سلامت بچے رہو گے۔ ص
14 ص
15 [١٧] فواق کا لغوی معنی :۔ فواق دراصل دودھ دوہتے وقت گائے کا ایک دفعہ تھن نچوڑنے اور دوسری دفعہ وہی تھن نچوڑنے کے درمیان کے وقفہ کو کہتے ہیں۔ اور اس سے مراد انتہائی قلیل مدت لی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے اس آیت کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ جب یہ دھماکہ یا کڑکا ہوگا تو یہ اس وقت تک مسلسل ہوتا رہے گا جب تک سارے مجرم ڈھیر نہ ہوجائیں اور اس میں معمولی سا وقفہ بھی نہ ہوگا۔ اور دوسرا مطلب یہ کہ انہیں ہلاک کرنے کے لئے ایک کڑکا ہی کافی ہوگا دوسرے کی نوبت یا حاجت ہی پیش نہ آئے گی۔ ص
16 [١٨] کفار کا مطالبہ ہمارا اعمال نامہ ابھی دیا جائے :۔ چونکہ کفار مکہ بعث بعد الموت، روز آخرت، اعمال نامہ اور حساب کتاب سب باتوں کے منکر تھے۔ اس لئے از راہ مذاق جس طرح یہ کہتے تھے کہ جس عذاب کی تم دھمکی دیتے ہو وہ لے کیوں نہیں آتے؟ اسی طرح یہ بھی کہتے تھے کہ ہمارا اعمال نامہ جو ہمیں قیامت کے دن ملنا ہے ابھی ہمارے حوالے کردیں اور ہمارے حصے جو شامت لکھی ہوئی ہے وہ اس دنیا میں ہی ہم سے حساب لے لے۔ ص
17 [١٩] وَاذْکُرْکا دوسرا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کا قصہ دوسروں سے بیان کیجئے۔ [٢٠] ید اور ذوالاید کا لغوی مفہوم :۔ ذَالاَیْدِ کا لفظی معنی ہاتھوں والا ہے اور تقریباً ہر زبان میں ایسے لفظ بول کر قوت اور طاقت مراد لی جاتی ہے۔ صاحب قوت سے مراد جسمانی قوت بھی ہوسکتی ہے۔ چنانچہ آپ سے متعلق منقول ہے کہ بچپن میں جب آپ بکریوں کا ریوڑ چرایا کرتے تھے تو جب کوئی درندہ ان پر حملہ آور ہوتا آپ اس کے ایک جبڑے کو پکڑ کر دوسرے کو اس زور سے کھینچتے تھے کہ اسے چیر دیتے تھے پھر یہ بھی آپ کی جسمانی قوت ہی تھی کہ آپ نے میدان کارزار میں جالوت کو مار ڈالا تھا۔ اور فوجی اور سیاسی قوت بھی مراد ہوسکتی ہے کہ آپ نے گردوپیش کی مشرک قوموں کو شکست دے کر ایک مضبوط اسلامی سلطنت قائم کردی تھی۔ [٢١] آپ کے اعلیٰ درجہ کے اوصاف :۔ ان کے رجوع الی اللہ اور عبادت گزاری کا یہ حال تھا کہ آپ نے بادشاہی پر ہمیشہ فقیری کو ترجیح دی۔ آپ کی تعریف میں بہت سی صحیح احادیث وارد ہیں۔ آپ نے اپنے ذاتی اخراجات کا بار بیت المال پر نہیں ڈالا تھا بلکہ اپنے ہاتھ کی کمائی سے اپنا خرچ چلاتے تھے۔ آپ ایک دن روزہ رکھتے، دوسرے دن روزہ نہ رکھتے، زندگی بھر یہی دستور رہا۔ رات کا تہائی حصہ عبادت میں گزارتے تھے۔ آپ نے دن رات کے چوبیس گھنٹوں کو اپنے اور اپنے بال بچوں میں کچھ اس طرح تقسیم کر رکھا تھا کہ کوئی وقت ایسا نہ گزرے جبکہ آل داود میں سے کوئی شخص اللہ کی عبادت میں مصروف و مشغول نہ ہو۔ آپ نے یہ التزام بھی کر رکھا تھا کہ ہر تین دنوں میں ایک دن اللہ کی عبادت کے لئے تھا۔ ایک دن لوگوں کے مقدمات کے فیصلہ کے لئے اور ایک دن امور سلطنت کے انتظام و انصرام میں صرف کرتے تھے۔ ص
18 ص
19 [٢٢] سیدنا داؤد کی خوش الحانی :۔ اللہ نے آپ کو ایسی سریلی آواز بخشی تھی کہ اس میں ایسی شرینی اور تاثیر تھی کہ جب آپ ہر روز پہلے پہر اور پچھلے پہر اللہ کی حمد کے ترانے گاتے تو پوری فضا مسحور ہوجاتی تھی۔ پہاڑوں کی وادیوں میں ایسی گونج پیدا ہوجاتی تھی اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ پہاڑ بھی آپ کے ساتھ اللہ کی حمد و ثنا میں شریک ہوگئے ہیں۔ اور پرندوں تک آپ کے گردو پیش میں جمع ہو کر آپ کے نغمات نہایت توجہ سے سنتے اور چہچہا کر آپ کے ہم آہنگ ہوجاتے تھے۔ آپ کی اس خوش الحانی کا ذکر پہلے سورۃ المومنون کی آیت ٧٩ میں بھی گزر چکا ہے۔ اور سورۃ سبا کی آیت نمبر ١٠ میں بھی۔ ص
20 [٢٣] اس کا مطلب تو ترجمہ سے واضح ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ خطاب یا تقریر یا باہمی گفتگو کے درمیان آپ کا انداز گفتگو ایسا مدلل، سادہ اور عام فہم ہوتا تھا کہ مخاطب آسانی سے آپ کا ما فی الضمیر سمجھ جاتا تھا۔ ص
21 [٢٤] خصم کا لغوی مفہوم :۔ خصم بمعنی دعویدار، مدعی اور مدعا علیہ، دونوں یا ان دونوں میں سے کوئی ایک۔ فریق مخالف۔ خواہ ایک فرد ہو یا زیادہ ہوں۔ نیز ایسا جھگڑا یا مقدمہ بھی جس میں فریقین کے حقوق زیر بحث ہوں۔ ص
22 [٢٥] ایک دن آپ علیہ السلام عبادت میں مصروف تھے اور یہ دن آپ کی عبادت کا دن تھا۔ اس دن آپ خلوت میں رہتے اور دربان کسی کو آپ کے پاس نہ آتے دیتے تھے۔ ناگہانی طور دو شخص دیوار پھاند کر آپ کے پاس آن کھڑے ہوئے۔ سیدنا داؤد علیہ السلام یہ ماجرا دیکھ کر گھبرا گئے کہ یہ آدمی ہیں یا کوئی اور مخلوق ہے؟ آدمی ہیں تو انہیں اس وقت آنے کی کیسے ہمت ہوئی۔ دربانوں نے انہیں کیوں نہیں روکا۔ اتنی اونچی دیواروں کو پھاند کر کس نیت اور کس غرض سے آئے ہیں۔ اچانک یہ عجیب اور مہیب واقعہ دیکھ کر گھبرا گئے۔ [٢٦] دیوار پھاند کر اندر آنے والے دو شخص اور مقدمہ کی نوعیت :۔ اکثر مفسرین کا یہ خیال ہے کہ یہ آدمی نہیں بلکہ فرشتے تھے جو انسانی شکل میں آئے اور انہیں اللہ تعالیٰ نے سیدنا داؤد علیہ السلام کے پاس تنبیہ کے طور پر بھیجا تھا۔ جیسا کہ اگلے بیان سے واضح ہوتا ہے۔ انہوں نے آپ علیہ السلام کی گھبراہٹ کو محسوس کرلیا تو کہنے لگے کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ ہم دونوں میں ایک جھگڑا ہے۔ وہ سن کر آپ ہمارے درمیان انصاف سے فیصلہ کر دیجئے تاکہ کسی فریق پر زیادتی نہ ہونے پائے۔ ص
23 [٢٧] اس تمہیدی مشترکہ بیان کے بعد مدعی نے اپنا مقدمہ پیش کیا کہ یہ (مدعا علیہ) میرا بھائی ہے (بھائی سے مراد یہ نہیں کہ وہ رشتے سے بھائی ہو، بلکہ دینی بھائی بھی مراد ہوسکتا ہے اور کسی کاروباری اشتراک کی بنا پر بھی) اس کے پاس ننانوے دنبیاں تو پہلے ہی موجود ہیں اور میرے پاس صرف ایک ہے۔ اب یہ کہتا ہے کہ وہ بھی مجھے دے دے اور مجھے اس سے اپنے حق کی حفاظت کے لئے بات کرنے کی بھی ہمت نہیں۔ مجھے ایسی بات کرنے ہی نہیں دیتا اور دبا جاتا ہے۔ ص
24 [٢٨] خُلَطَاء خَلِیْط کی جمع ہے اور خلیط کا معنی جزوی شریک کار ہے۔ یعنی ایسی کاروباری شراکت جس میں شریک کام کاج کے کچھ پہلوؤں میں تو آپس میں شریک ہوں اور کچھ پہلوؤں میں آزاد ہوں۔ مثلاً زید اور بکر دونوں کے پاس الگ الگ ریوڑ ہے جو ان کی اپنی اپنی ملکیت ہے لیکن ان کی حفاظت کے لئے جگہ مشترکہ طور پر کرایہ پر لے رکھی ہے۔ چرواہے کو مل کر معاوضہ ادا کرتے ہیں۔ تو ایسے شریک ایک دوسرے کے خلیط کہلاتے ہیں۔ [٢٩] مدعی کا بیان سننے کے بعد جب مدعا علیہ خاموش رہا اور اس نے مدعی کے بیان پر کوئی تنقید یا اس کی کوئی تردید نہ کی تو سیدنا داؤد علیہ السلام نے سمجھا کہ مقدمہ کی نوعیت وہی ہے جو مدعی نے بیان کی ہے۔ لہٰذا آپ نے مدعی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : کہ واقعی مدعا علیہ نے اس قسم کا سوال کرکے تم پر ظلم اور زیادتی کی ہے۔ اسے ہرگز ایسا نہ کرنا چاہئے تھا۔ مگر اکثر دنیا دار شرکائے کار ایک دوسرے پر ایسی زیادتیاں کرتے ہی رہتے ہیں الا یہ کہ وہ ایماندار ہوں اور اللہ سے ڈرنے والے ہوں۔ مگر ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں۔ [٣٠] سیدنا داؤد اور اسرائیلیات :۔ جب فریقین مقدمہ آپ کا یہ فیصلہ سنتے ہی رخصت ہوگئے اور انہوں نے اس فیصلہ کے نفاذ کا بھی مطالبہ نہ کیا تو سیدنا داؤد علیہ السلام شش و پنج میں پڑگئے۔ سوچنے پر انہیں خیال آیا کہ یہ مقدمہ ان فریقین مقدمہ کا نہ تھا۔ بلکہ یہ ان کا اپنا مقدمہ تھا۔ اور یہ شخص آپ کے پاس تنبیہ کے طور پر آئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے خود سیدنا داؤد کو ایک آزمائش میں ڈال دیا تھا۔ اس خیال کے آتے ہی انہوں نے اپنے پروردگار سے معافی مانگنی شروع کردی۔ یہ آزمائش کیا تھی؟ اس کے متعلق اسرائیلیات میں بہت لغو اور شرمناک باتیں مذکور ہیں جنہیں ہمارے بعض مفسرین نے بھی نقل کردیا ہے کہ سیدنا داؤد علیہ السلام کی اپنی ننانوے بیویاں تھیں۔ اس کے باوجود آپ اپنے ایک فوجی افسر'' اور یاحتی'' کی بیوی پر عاشق ہوگئے اور بعض روایات کے مطابق آپ نے نعوذ باللہ اس سے زنا بھی کیا پھر اس فوجی افسر کو کسی مہم پر بھیج دیا جہاں وہ مارا گیا۔ یا آپ نے خود اسے قتل کروا دیا۔ اس کے بعد اس کی بیوی سے نکاح کرلیا۔ اسرائیلیات میں جس طرح انبیاء کی عصمت کو داغدار کیا گیا ہے یہ اس کی ایک بدترین مثال ہے اسی لئے اکثر مفسرین نے اس واقعہ کی پرزور تردید کی ہے۔ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ تو یہ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص ایسی ہرزہ سرائی کرے گا میں اس کو ایک سو ساٹھ کوڑے لگاؤں گا۔ کیونکہ قذف کی حد اسی کوڑے ہے اور کسی نبی پر تہمت کی حد دگنی ہونی چاہئے۔ سیدنا داؤد کی آزمائش کیا تھی :۔ اب سوال یہ ہے معاملہ کی اصل نوعیت کیا تھی تو قرآن کے انداز بیان سے ہی اس کی حقیقت معلوم ہوجاتی ہے۔ مثلاً یہ کہ یہ مقدمہ سیدنا داؤد علیہ السلام کی خواہش نفس سے تعلق رکھتا تھا۔ اور اس مقدمہ کا حاکمانہ اقتدار کے نامناسب استعمال سے بھی تعلق تھا جیسا کہ مدعی نے کہا تھا کہ وہ مجھے بات میں دبا لیتا ہے اور میں اس کے سامنے بات بھی نہیں کرسکتا۔ اور یہ بھی مسلّم ہے کہ سیدنا داؤد علیہ السلام کی ننانوے بیویاں تھیں۔ اور یہ بھی مدعی نے یوں کہا تھا کہ یہ میرا بھائی مجھ سے میری ایک دنبی بھی لے لینا چاہتا ہے۔ اس نے یہ نہیں کہا تھا کہ میری دنبی اس نے مجھ سے چھین لی ہے۔ پھر فوراً ہی سیدنا داؤد علیہ السلام کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا۔ ان باتوں کی روشنی میں جو صورت حال سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ داؤد علیہ السلام نے اور یاحتی کی بیوی کے اچھے عادات و خصائل کا کہیں سے ذکر سن لیا تو انہیں دل میں خیال آگیا ہوگا کہ اگر یہ عورت میرے نکاح میں ہوتی تو کیا اچھا تھا۔ بس اس خیال کا آنا تھا کہ ادھر اللہ کی طرف سے گرفت ہوگئی۔ اگرچہ ایسے خیالات کا آنا عام لوگوں کے لئے کوئی قابلِ مؤاخذہ بات نہیں مگر انبیاء کا مقام اور ہے۔ لہٰذا ان کی چھوٹی چھوٹی لغزشوں پر بھی اللہ تعالیٰ انہیں فوراً اور بروقت تنبیہ فرما دیتے ہیں۔ [٣١] اس آیت پر سجدہ ہے۔ یعنی جس طرح سیدنا داؤد علیہ السلام اللہ کے حضور رجوع ہوگئے تھے۔ عام مسلمانوں کو بھی اس کام میں ان کا ساتھ دینا چاہئے۔ البتہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ سورۃ کا سجدہ کچھ تاکیدی سجدوں میں سے نہیں اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں سجدہ کرتے دیکھا ہے۔ (بخاری، کتاب الصلوٰۃ۔ باب ماجاء فی سجود القرآن) ص
25 [٣٢] یعنی اس غلطی سے ان کے تقرب اور مرتبہ میں کچھ فرق نہیں آیا۔ صرف تھوڑی سی تنبیہ کردی گئی۔ کیونکہ مقربین کی چھوٹی سی غلطی بھی بڑی سمجھی جاتی ہے۔ ص
26 [٣٣] یعنی تمہارا مقام عام لوگوں سے بہت بلند ہے کیونکہ تم ہمارا نائب ہونے کی حیثیت سے لوگوں میں فیصلے کرتے ہو۔ لہٰذا تمہارے کسی بھی معاملہ میں یا فیصلہ میں اپنی خواہش نفس کا شائبہ تک نہ ہونا چاہئے کیونکہ یہی چیز اللہ کی راہ سے بہکانے والی ہوتی ہے۔ [٣٤] یعنی انسان بہکتا اس وقت ہے جب اپنی خواہش نفس کے پیچھے لگ جائے اور اپنی خواہش نفس کے پیچھے اس وقت لگتا ہے جب اللہ کے حساب کا دن یاد نہ رہے۔ اگر اللہ کے سامنے جواب دہی کا تصور آنکھوں کے سامنے رہے تو انسان خواہش نفس کی قطعاً پروا نہیں کرتا۔ اور جو شخص یوم الحساب کو بھول گیا تو لازماً اپنی زندگی شتربے مہار کی طرح گزار دے گا جس کا لازمی نتیجہ اسے عذاب شدید کی صورت میں بھگتنا پڑے گا۔ ص
27 [٣٥] روز جزا پر عقلی دلیل : دنیا کھیل تماشا نہیں : یعنی ہم نے اس کائنات کو محض کھیل کے طور پر پیدا نہیں کردیا جس کا کوئی مقصد، کوئی غرض اور کوئی حکمت نہ ہو اور کسی کے اچھے یا برے فعل کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو اور اس کائنات میں انسان کو اس لئے نہیں پیدا کیا کہ بے لگام ہو کر جو کچھ جی چاہے کرتا پھرے اور اس سے کوئی باز پرس نہ ہو۔ یہ دنیا کوئی اندھیر نگری نہیں ہے اور جو شخص روز آخرت اور جزاوسزا کا قائل نہیں وہ دراصل اس دنیا کو ایک کھلونا اور اس کے بنانے والے کو کھلنڈرا سمجھتا ہے اس کا خیال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا بنا کر اور انسان کو پیدا کرکے نعوذ باللہ ایک عبث فعل کا ارتکاب کیا ہے۔ سو ایسے آخرت کے منکروں کے لئے آگ کا عذاب تیار ہے مرنے کے بعد جب وہ دوزخ میں پڑیں گے اس وقت انہیں معلوم ہوگا کہ ان کے پیدا کرنے کی کیا غرض تھی؟ ص
28 [٣٦] دوسری دلیل عدل کا تقاضا :۔ یعنی یہ آیت ہر انسان کو اس کے اچھے اور برے اعمال کا بدلہ دیئے جانے کی ضرورت یا آخرت کے قیام پر ایک عقلی دلیل ہے۔ سوال یہ ہے کہ اے روز آخرت سے انکار کرنے والو! کیا تمہارے خیال کے مطابق یہ درست ہے کہ ایک نیک انسان کو اس کی نیکی کا کوئی معاوضہ یا بدلہ نہ ملے، نہ بدکار کو اس کی بدکاری کی سزا ملے؟ اس دنیا میں اگر کوئی شخص ساری زندگی دوسروں کے حقوق غصب کرتا رہے اور ان پر ظلم و زیادتی کرتا رہے پھر مرجائے تو اسے کوئی سزا نہ دی جائے یا ایک انسان خود تکلیف اٹھا کر بھی دوسروں سے بھلائی اور ہمدردی کرتا رہا ہے اور ساری زندگی دکھوں میں گزار کر مر گیا ہے تو اسے اس کے نیک اعمال کا کچھ بدلہ نہ دیا جائے اور انجام کے لحاظ سے دونوں برابر ہوجائیں؟ ظاہر بات ہے کہ اگر آخرت کا قیام اور انسان کے اعمال کا محاسبہ نہ ہو تو اس سے ایک تو اللہ کی حکمت اور عدل کی نفی ہوجاتی ہے دوسرے یہ کائنات کا پورا نظام ایک بے کار اور اندھا نظام بن کر رہ جاتا ہے۔ ص
29 [٣٧] برکت والی اس لحاظ سے ہے کہ وہ انسان کو اس کے انجام سے پوری طرح خبردار کرتی ہے اور دلائل سے ہر بات سمجھاتی ہے پھر اخروی فلاح کے طریقے بھی بتاتی ہے۔ اور انسانی زندگی کے ہر پہلو میں اس کی رہنمائی کرتی ہے۔ اور اس کی پیروی میں انسان کا فائدہ ہی فائدہ ہے اور نقصان کا کوئی احتمال نہیں۔ اور اگر صاحب عقل و دانش اس میں کچھ غور و فکر کریں تو صحیح نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں اور اس کتاب کی خیر و برکت سے مستفید ہوسکتے ہیں۔ ص
30 [٣٨] بات یہاں سے چلی تھی کہ خواہش نفس کی پیروی وہی لوگ کرتے ہیں جو روز آخرت کے محاسبہ کا خیال نہیں رکھتے۔ پھر روز آخرت پر دو دلائل دینے کے بعد اسی قصہ کی طرف رجوع کیا جارہا ہے۔ کہ ہم نے داؤد علیہ السلام کو سلیمان علیہ السلام (جیسا بیٹا) عطا فرمایا جو انہی کی طرح نبی بھی تھے اور بادشاہ بھی۔ اور انہی کی طرح اللہ کے عبادت گزار بھی تھے۔ ص
31 [٣٩] صافنات کا لغوی معنی :۔ صافنات، صافن کی جمع ہے اور صَفَنَ (الفرس) بمعنی گھوڑے کا تین ٹانگوں پر اس طرح کھڑا ہونا کہ چوتھے کھر کا صرف سرا زمین پر ٹکا رہے اور اس سے چاک و چوبند گھوڑا مراد لیا جاتا ہے۔ اور جیاد، جَیِّد کی جمع ہے۔ اور جاد الفرس یعنی گھوڑے کا سبک اور تیز رفتار ہونا ہے۔ یہ ان گھوڑوں کی صفات ہیں جو سیدنا سلیمان علیہ السلام نے جہاد کی خاطر رکھے ہوئے تھے۔ ص
32 [٤٠] سیدنا سلیمان کے ہاں پیش کئے جانے والے گھوڑے :۔ تو ارت میں واحد مونث کی ضمیر کس طرف راجع ہے؟ اس میں اختلاف کی وجہ سے اس آیت کی تفسیر میں بھی خاصا اختلاف واقع ہوا ہے۔ ﴿تَوَارَتْ بالْحِجَابِ﴾ سے بعض مفسرین نے یہ مراد لی ہے کہ جب گھوڑوں کا رسالہ نظروں سے چھپ گیا۔ اور بعض نے یہ مراد لی ہے کہ جب سورج غروب ہوگیا۔ پہلے معنی کے لحاظ سے تفسیر یہ کی جاتی ہے کہ ایک دن پچھلے پہر سیدنا سلیمان علیہ السلام اپنے گھوڑوں کا معائنہ کر رہے تھے پھر ان کی دوڑ کرائی تاآنکہ وہ نظروں سے اوجھل ہوگئے چونکہ یہ سارا سلسلہ جہاد کی خاطر تھا اس لئے آپ اس شغل سے بہت محظوظ ہوئے اور کہنے لگے کہ میں نے اپنے پروردگار کی یا دکی وجہ سے ہی یہ شغل پسند کیا ہے۔ پھر گھوڑے اپنے پاس طلب کئے اور شفقت سے ان کی گردنوں اور ان کی پنڈلیوں پر ہاتھ پھیرنے لگے۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے تفسیر یہ ہے کہ آپ علیہ السلام گھوڑوں کے شغل میں اتنے محو ہوئے کہ سورج ڈوب گیا اور اس شغل نے آپ کو اللہ کی یاد یعنی نماز سے غافل کردیا۔ اس واقعہ سے آپ علیہ السلام کو بہت دکھ ہوا۔ آپ علیہ السلام نے گھوڑوں کو طلب کیا اور ان کی گردنیں اور پنڈلیاں کاٹنا شروع کردیں اور چند گھوڑے کاٹ کر ان کا گوشت محتاجوں میں تقسیم کردیا۔ چونکہ آپ علیہ السلام نے یہ کام اللہ کی محبت کی خاطر کیا تھا اس لئے اللہ نے آپ علیہ السلام کو یہ صلہ دیا کہ ہواؤں کو آپ کے تابع کردیا اور آپ علیہ السلام کو گھوڑوں کے رسالے کی اتنی احتیاج ہی نہ رہی جتنی پہلے تھی۔ ص
33 ص
34 [٤١] اس آیت کے تحت بعض مفسرین نے درج ذیل حدیث درج کی ہے : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ سیدنا سلیمان علیہ السلام نے کہا کہ میں آج رات اپنی نوے بیویوں کے پاس جاؤں گا اور ان سے ہر ایک، ایک سوار جنے گی جو اللہ کی راہ میں جہاد کرے گا آپ کے کسی ساتھی نے کہا ان شاء اللہ کہو! مگر انہوں نے یہ بات نہ کہی تو ان میں سے کوئی بھی حاملہ نہ ہوئی ماسوائے ایک کے اور وہ بھی ادھورا بچہ جنی۔ اس پروردگار کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے اگر وہ ان شاء اللہ کہہ لیتے تو سب کے ہاں بچے پیدا ہوتے اور سوار ہو کر اللہ کی راہ میں جہاد کرتے۔(بخاری۔ کتاب الایمان والنذور۔ باب کیف کانت یمین النبی) لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث کا اس آیت کی تفسیر سے کچھ تعلق نہیں اور اس کی وجوہ درج ذیل ہیں : ١۔ یہ حدیث بخاری کے علاوہ دوسری کتب حدیث میں موجود ہے لیکن کسی محدث نے اپنی کتاب التفسیر میں اس حدیث کو اس آیت کی تفسیر میں درج نہیں کیا۔ ٢۔ امام بخاری نے اس حدیث کو چار مختلف مقامات پر درج کیا ہے جو یہ ہیں (کتاب بدء الخلق۔ کتاب الانبیاء، کتاب الاَیمان والنذور۔ باب کیف کانت یمین النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، اور باب الکفارۃ قبل الحنث اور کتاب التوحید، باب فی المشیئۃ والارادۃ) مگر کتاب التفسیر میں درج نہیں کیا۔ ٣۔ اگرچہ اس حدیث میں لفظی اختلاف موجود ہے۔ مگر کسی متن میں بھی یہ الفاظ موجود نہیں ہیں کہ یہ ادھورا بچہ دایہ نے یا لوگوں نے سیدنا سلیمان علیہ السلام کے تخت یا کرسی پر ڈال دیا تھا۔ یہ مفسرین کا اپنی طرف سے اضافہ ہے۔ حالانکہ سیدنا سلیمان علیہ السلام کی آزمائش کا تعلق اسی بات سے ہے۔ سیدنا سلیمان کو اللہ نے کس آزمائش میں ڈالا تھا :۔ اس کے علاوہ بھی بعض مفسرین نے کچھ باتیں نقل کی ہیں لیکن وہ بالکل ہی بے سروپا، غیر معقول اور لایعنی ہیں قرآن سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا سلیمان علیہ السلام کی آزمائش کا تعلق ایک بے جان دھڑ سے تھا جو آپ کی کرسی پر ڈال دیا گیا تھا۔ اس پر آپ کو معلوم ہوا کہ آپ تو آزمائش میں پڑچکے ہیں پھر اسی وقت اللہ کی طرف رجوع ہوئے اپنے قصور کی معافی مانگی اور ساتھ ہی یہ دعا کی مجھے ایسی بادشاہی عطا فرما جو میرے بعد کسی کے شایان نہ ہو۔ چنانچہ آپ علیہ السلام کا یہ قصور بھی معاف کردیا گیا اور دعا بھی قبول ہوگئی کہ ہواؤں اور جنوں کو آپ کے لئے مسخر کردیا گیا جیسا کہ آگے مذکور ہے اور درج ذیل حدیث اسی کی وضاحت کرتی ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھڑنے والا جن :۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : گزشتہ رات ایک دیو ہیکل جن مجھ سے بھڑ پڑا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ یا کوئی ایسا ہی کلمہ کہا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر غالب کردیا۔ میں نے چاہا کہ مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ اسے باندھ دوں تاکہ صبح تم اسے دیکھ سکو پھر مجھ کو اپنے بھائی سلیمان علیہ السلام کی دعا یاد آگئی کہ : اے میرے پروردگار! مجھے ایسی حکومت عطا فرما جو میرے بعد اور کسی کے شایان نہ ہو۔ روح راوی نے کہا کہ آپ نے اس جن کو ذلت کے بعد بھگا دیا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) نیز کتاب الصلوۃ باب الاسیر اوالغریم یربطہ فی المسجد) اور یہ ایسی فضیلت ہے کہ جو آپ کے بعد (یا پہلے) نہ کسی نبی کو حاصل ہوئی اور نہ بادشاہ کو۔ رہی یہ بات کہ اصل آزمائش تھی کیا ؟ اور بے جان دھڑ سے کون سے واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ اس کی کوئی معقول توجیہ نہ مجھے کہیں سے ملی ہے اور نہ ہی میرے ذہن میں آسکی ہے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔ ص
35 ص
36 [٤٢] اس کی تفسیر کے لئے دیکھئے سورۃ انبیاء کی آیت ٨١ کا حاشیہ نمبر ٦٩ ص
37 [٤٣] جن آپ علیہ السلام کے حکم کے تحت بلند و بالا عمارتیں تعمیر کرتے تھے۔ دریاؤں میں غوطہ لگا کر ان سے ہیرے جواہرات موتی وغیرہ نکالتے تھے۔ دوسرے کام جو عام انسانوں کی طاقت سے زیادہ ہوتے تھے وہ آپ جنوں سے لیا کرتے تھے۔ مزید تفصیل کے لئے سورۃ انبیاء آیت نمبر ٨٢ اور سورۃ سبا آیت نمبر ١٢ کے حواشی۔ ص
38 [٤٤] اور جو جن آپ علیہ السلام کے حکم سے سرتابی کرتے یا شرارتیں کرکے کام میں رکاوٹ ڈالتے یا دوسروں کو تنگ کرتے تھے، انہیں آپ زنجیروں میں جکڑ کر قید خانہ میں ڈال دیتے تھے۔ ص
39 [٤٥] جنوں پر سیدنا سلیمان کی حکمرانی :۔ یعنی جنوں کے معاملہ میں آپ کو مکمل اختیارات حاصل تھے کسی سے کام لیں یا نہ لیں۔ کسی کو معاوضہ دیں یا نہ دیں۔ یہ معاوضہ تھوڑا دیں یا زیادہ دیں۔ یہ سب کچھ آپ کی صوابدید پر منحصر تھا۔ اور اگر اس آیت کو عام سمجھا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے آپ کو بے پناہ مال و دولت عطا کی تھی۔ اور کہہ دیا تھا کہ اسے جیسے چاہو خرچ کرو آپ سے اس کا کچھ مؤاخذہ نہ ہوگا۔ اب ایک طرف اللہ تعالیٰ کے انعامات کا یہ حال ہے کہ بے حساب مال و دولت دے کر فرمایا کہ جیسے چاہو خرچ کرو آپ سے کوئی حساب نہیں لیا جائے گا۔ دوسری طرف سیدنا سلیمان علیہ السلام کا یہ حال تھا کہ اپنی ذاتی ضروریات کے لئے بیت المال سے ایک پیسہ بھی نہیں لیتے تھے بلکہ اپنے والد بزرگوار کی طرح اپنی کمائی سے کھاتے تھے۔ سیدنا داؤد علیہ السلام تو زرہیں بنایا کرتے تھے اور آپ تانبے کی مصنوعات تیار کرتے تھے۔ ص
40 [٤٦] یعنی ان کی سلطنت اور فرمانروائی ہماری عبادت گزاری کے آڑے نہ آسکی۔ شاہی میں فقیرانہ زندگی بسر کرنا بھی ایک بڑی آزمائش ہے جس میں وہ پورے اترے لہٰذا اللہ نے انہیں مقربین میں شامل کرلیا اور بلند درجات عطا فرمائے۔ ص
41 [٤٧] برے ایمان کی نسبت شیطان کی طرف :۔ ہر مسلمان کے عقیدہ میں یہ بات شامل اور اس کے ایمان بالغیب کا ایک جزء ہے کہ رنج ہو یا راحت، برائی ہو یا بھلائی سب کچھ اللہ کی مشیئت کے تحت ہوتا ہے۔ لیکن اس مشیئت کا انحصار بھی بعض دفعہ انسان کے اپنے قصور یا شیطانی وساوس سے کسی نہ کسی درجہ میں ضرور ہوتا ہے۔ اور قرآن کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جن امور میں کوئی پہلو شر کا، یا ایذا یا کسی صحیح مقصد کے فوت ہوجانے کا ہو ان کو اللہ کے مقرب بندے ادب کے نقطہ نظر اور تواضع کی خاطر کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کرتے بلکہ اسے اپنے نفس یا شیطان کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ جیسے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے مرض کو اپنی طرف منسوب کیا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ یوشع بن نون نے مچھلی کے سمندر میں چلے جانے کی بات کو شیطان کی طرف منسوب کیا، اسی طرح ایوب نے بھی اپنی بیماری اور تکلیف کو شیطان کی طرف منسوب کیا ہے اور اس کا مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ سیدنا ایوب علیہ السلام طویل بیماری اور تکلیف کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی صحیح طور پر عبادت گزاری سے قاصر رہے تھے تو اس قصور کا باعث شیطانی وساوس کو قرار دیا ہو۔ ص
42 [٤٨] سیدنا ایوب علیہ السلام کا واقعہ پہلے سورۃ انبیاء کی آیت نمبر ٨٣، ٨٤ کے حواشی میں تفصیل سے گزر چکا ہے۔ وہ ملاحظہ کرلیے جائیں۔ ص
43 [٤٩] اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کی جو بیویاں اور بچے بیماری کی حالت میں آپ کا ساتھ چھوڑ گئے وہ واپس آگئے۔ پھر اللہ نے مزید اولاد بھی عطا فرما دی۔ اور یہ بھی سب کچھ اللہ تعالیٰ نے نئے سرے سے عطا فرمایا ہو، اولاد بھی اور مال و دولت بھی اور جس معجزانہ طریقے سے اللہ نے آپ کو مال و دولت عطا فرمایا اس کا اندازہ کچھ درج ذیل حدیث سے بھی ہوتا ہے۔ سیدنا ایوب پر اللہ کے انعامات :۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب ایوب علیہ السلام ننگے نہا رہے تھے تو آپ پر سونے کی ٹڈیوں کی بارش ہوئی جنہیں آپ اپنے کپڑے میں اکٹھا کرنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں پکارا کہ ’’اے ایوب! کیا میں نے تمہیں ان ٹڈیوں سے بے نیاز نہیں کردیا ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا، ٹھیک ہے لیکن اے پروردگار! میں تیری برکت سے کیسے بے نیاز ہوسکتا ہوں۔ (بخاری۔ کتاب التوحید۔ باب یریدون ان یبدلوا کلام اللہ) نیز کتاب الغسل۔ باب من اغتسل عریانا) [٥٠] صبر ایوب :۔ وہ نصیحت یہ ہے کہ ہر ایماندار اور صاحب عقل کو چاہئے کہ وہ خوشحالی کے دور میں اللہ کا شکر ادا کرے اور اگر ابتلا میں پڑجائے اور اس پر تنگی ترشی کا دور آئے تو سیدنا ایوب علیہ السلام کی طرح صبر کا مظاہرہ کرے۔ اس طرح عین ممکن ہے کہ جس طرح سیدنا ایوب علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ نے انعامات کی بارش فرمائی تھی۔ اللہ تعالیٰ اسے بھی اپنے ایسے ہی انعامات سے نواز دے۔ ص
44 [٥١] سیدنا ایوب کا اپنی بیوی کو سزا دینا :۔ آپ کی طویل بیماری (جو صحیح روایات کے مطابق ١٣ سال پر محیط ہے) کے دوران آپ کی سب بیویاں اور اولاد آپ کا ساتھ چھوڑ گئے تھے۔ کیونکہ تنگدستی بھی تھی اور بیماری بھی۔ آپ کی صرف ایک بیوی نے اس طویل عرصہ میں آپ کا ساتھ دیا۔ اس بیوی نے بھی ایک دن کوئی ایسی بات کہہ دی جس سے اللہ کی ناشکری ظاہر ہوتی تھی۔ سیدنا ایوب علیہ السلام کو بیوی کی اس بات پر طیش آگیا اور کہنے لگے کہ جب میں تندرست ہوگیا تو تمہاری اس ناشکری کی بات کی پاداش میں تمہیں سو لکڑیاں ماروں گا۔ اب یہ تو ظاہر بات ہے کہ ہر دکھ درد میں آپ کی شریک بیوی سے اگر کوئی ایسی بات نکل بھی گئی ہو تو وہ اتنی قصور وار نہ تھی کہ اسے سو لکڑیاں ماری جائیں۔ یہ تو صرف سیدنا ایوب علیہ السلام کی غیرت ایمانی کا تقاضا تھا اور اللہ تعالیٰ تو ہر ایک کو اس کی وسعت کے مطابق ہی تکلیف دیتا ہے۔ چنانچہ سیدنا ایوب علیہ السلام تندرست ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے خود انہیں تدبیر بتائی کہ ایک جھاڑو لو جس میں سو تنکے ہوں۔ اس سے بس ایک ہی معمولی سی ضرب لگاؤ۔ اور اس طرح اپنی قسم پوری کرلو۔ اس طرح سیدنا ایوب علیہ السلام کی قسم بھی پوری ہوگئی اور اس وفادار بیوی پر اللہ کی مہربانی کا تقاضا بھی پورا ہوگیا۔ شرعی حیلہ کس صورت میں جائز ہے :۔ یہاں ایک بحث یہ چل نکلی ہے کہ آیا شرعاً حیلہ کرنا جائز ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اپنی ذات سے یا کسی دوسرے سے ظلم کو دفع کرنا مقصود ہو تو اس وقت شرعاً حیلہ کرنا جائز ہے اور اس کی دلیل ایک تو یہی آیت ہے۔ دوسرے اللہ تعالیٰ نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو خود ایسی تدبیر بتائی تھی کہ جس سے ان کا چھوٹا بھائی بنیامین اپنے سوتیلے بھائیوں کے ظلم و ستم سے محفوظ رہے اور تیسرے درج ذیل حدیث بھی یہ وضاحت کرتی ہے : سعید بن سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سعد بن عبادہ (یعنی سعید راوی کے باپ) ایک ناقص الخلقت بیمار شخص کو پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے کہ وہ محلہ کی لونڈیوں میں سے کسی کے ساتھ زنا کر رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کھجور کی ایک بڑی ٹہنی پکڑ کر جس میں سو چھوٹی ٹہنیاں ہوں اور ایک مرتبہ اس کو مارو۔ (شرح السنہ بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب الحدود الفصل الثانی) اور یہ حیلہ آپ نے اس لئے اختیار کیا کہ وہ سو درے کھانے کی تاب نہ رکھتا تھا۔ اور اس صورت میں اس کا مرجانا یقینی امر تھا۔ رہے ایسے حیلے جن سے کوئی شرعی حکمت یا مقصد فوت ہو رہا ہو تو ایسے حیلے قطعاً ناجائز بلکہ حرام ہیں جیسے زکوٰۃ کو ساقط کرنے کے لئے یہ حیلہ کرنا کہ سال پورا ہونے سے پہلے مال کا کچھ حصہ کسی دوسرے کو ہبہ کردیا جائے پھر سال گزرنے پر اس سے وہی چیز اپنے حق میں ہبہ کرالی جائے۔ یا کسی عورت کو جبراً اپنے نکاح میں لانے کے لئے عدالت میں جھوٹی شہادتیں بھگتا کر اپنے حق میں فیصلہ لے لیا جائے اور ایسے بہت سے حیلے ہدایہ کی کتاب الحیل میں مذکور ہیں۔ امام بخاری نے ان کا تعاقب بھی کیا ہے کہ ان میں اکثر حیلے ناجائز بلکہ حرام ہیں۔ ص
45 [٥٢] یعنی یہ تینوں پیغمبر اپنی پوری قوت سے دین کی سربلندی کے لئے جدوجہد کرتے رہے اور معصیت کے کاموں سے بچتے رہے۔ نیز وہ اللہ تعالیٰ کی ہر سو بکھری ہوئی آیات میں اور اللہ تعالیٰ کے احکام میں غور و فکر کرتے اور بصیرت حاصل کرتے تھے وہ حقیقت شناس تھے۔ اندھوں کی طرح نہیں چلتے تھے۔ بلکہ آنکھیں کھول کر علم و معرفت کی روشنی میں ہدایت کا سیدھا راستہ دیکھتے ہوئے چلتے تھے۔ ص
46 [٥٣] یعنی آخرت کی یاد رکھنا ہی وہ نسخہ کیمیا ہے جو انسان کو اللہ کا برگزیدہ بنا دیتا ہے۔ ان برگزیدہ ہستیوں نے اس دنیا کو بس ایک مسافر خانہ کی طرح سمجھا اور آخرت کا گھر ہی ہمیشہ ان کا مطمح نظر رہا۔ ص
47 ص
48 [٥٤] الیسع اور ذوالکفل کا ذکر :۔ سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام تو معروف ہیں اور ان کا ذکر قرآن میں بہت جگہ آیا ہے۔ الیسع سیدنا الیاس علیہ السلام کے نائب اور خلیفہ تھے ان کا سلسلہ نسب چوتھی پشت پر جاکر سیدنا یوسف سے جا ملتا ہے۔ بعد میں آپ کو نبوت بھی عطا ہوئی تھی۔ آپ کا حلقہ تبلیغ شام کا علاقہ تھا۔ اور ذوالکفل ان کے خلیفہ کا لقب ہے نام نہیں۔ اور ذوالکفل کا معنی صاحب نصیب ہے۔ آپ کا نام بشیر ہے اور سیدنا ایوب علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ آپ الیسع کے خلیفہ تھے بعد میں نبی ہوئے شام کا علاقہ ہی آپ کی تبلیغ کا مرکز رہا۔ عمالقہ شاہ وقت بنی اسرائیل کا سخت دشمن تھا۔ آپ نے اس سے بنی اسرائیل کو آزاد کرایا پھر وہ بادشاہ بھی مسلمان ہوگیا اور حکومت آپ کے سپرد کی جس کے نتیجہ میں شام کے علاقہ میں پھر ایک دفعہ اسلام خوب پھیلا۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے بہت سے انبیاء کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ سب ہی بہترین لوگ تھے۔ قرآن نے ان انبیاء کا اور بھی بہت سے مقامات پر ذکر فرمایا ہے اور ہر مقام پر قرآن انبیاء کی تعریف میں رطب اللسان نظر آتا ہے۔ جبکہ بائیبل نے بہت سے اولوالعزم انبیاء پر اتہام لگائے اور ان کی کردار کشی کی ہے۔ جن انبیاء پر بائیبل میں اتہام لگائے گئے ہیں وہ یہ ہیں : سیدنا نوح، سیدنا لوط، سیدنا یعقوب، سیدنا ہارون، سیدنا داؤد، سیدنا سلیمان اور سیدنا عیسیٰ علیہم السلام تفصیل کے لئے دیکھئے سورۃ انعام کی آیت نمبر ٨٦ پر حاشیہ نمبر ٨٧۔ الف) ص
49 [٥٥] یعنی اللہ کے انعامات صرف نبیوں اور پیغمبروں تک محدود نہیں بلکہ اللہ سے ڈر کر زندگی گزارنے والے کو اچھا ٹھکانا ملے گا۔ اگرچہ ان کے اعمال کے مطابق ان کے درجات میں فرق ہوگا۔ ص
50 [٥٦] جنت کے کھلے ہوئے دروازے :۔ یعنی اہل جنت بلاروک ٹوک اپنے اپنے گھروں میں آجاسکیں گے اور دروازوں کے کھلے ہونے یا رہنے کی تین صورتیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ دروازے ہر وقت کھلے رہیں دوسری یہ کہ دروازے بند ہوں مگر جب اہل جنت گزرنا چاہیں تو وہ از خود کھل جائیں۔ اور تیسری یہ کہ جب اہل جنت گزرنا چاہیں تو فرشتے فوراً دروازے کھول دیں۔ سورۃ الزمر کی آیت نمبر ٧٣ سے اسی تیسری صورت کی تائید ہوتی ہے۔ ص
51 ص
52 [٥٧] اتراب کا لغوی : مفہوم۔ اتراب بمعنی ایسی ہم عمر عورتیں جن کے مزاج میں ہم آہنگی بھی پائی جاتی ہو۔ اس کی پھر دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ وہ عورتیں باہم ہم عمر ہوں، دوسرے یہ کہ وہ اپنے خاوندوں کی ہم عمر ہوں اور یہ دونوں صورتیں ممکن ہیں۔ ص
53 ص
54 ص
55 ص
56 ص
57 [٥٨] غساق کا لغوی مفہوم :۔ غساق کا معنی عموماً پیپ یا بہتی پیپ کرلیا جاتا ہے جس میں خون کی بھی آمیزش ہو جبکہ صاحب منجد، فقہ اللغہ اور منتہی الارب سب نے اس کے معنی انتہائی ٹھنڈا اور بدبودار پانی بتائے ہیں۔ قرآن میں دو مقامات پر غساق کا لفظ حمیم کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے ایک اس مقام پر اور دوسرے سورۃ نبا کی آیت نمبر ٢٥ میں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے معنی شدید ٹھنڈا اور بدبودار پانی ہی کرنا زیادہ مناسب ہے۔ ص
58 ص
59 [٥٩] یہاں ازواج کا لفظ ہم مثل چیزوں کے معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی اسی طرح کی اور بھی کئی گندی اور ناگوار چیزیں انہیں کھانا یا پینا پڑیں گی یا ایسی چیزوں سے انہیں عذاب دیا جائے گا۔ [٦٠] اہل جہنم کا باہمی مکالمہ اور ایک دوسرے پر الزام :۔ یہ اہل دوزخ کے دوزخ میں داخل ہونے کے وقت کا ایک مکالمہ پیش کیا گیا ہے پہلا گروہ تو بڑے لوگوں اور سرداروں اور پیشواؤں کا ہوگا۔ انہیں فرشتے جہنم کے کنارے لا کھڑا کریں گے۔ پھر ان کے بعد ان کے پیروکاروں کی عظیم جماعت کو لایا جائے گا۔ سردار حضرات اس عظیم جماعت کو دیکھتے ہی کہنے لگیں گے۔ یہ ایک اور جماعت جہنم میں داخل ہونے کے لئے بیتابی سے آگے بڑھتی چلی آرہی ہے۔ ان پر اللہ کی مار اور پھٹکار یہ کہاں سے آگئے؟ جب پچھلی جماعت پہلوں کی یہ بات سنے گی تو وہ کہیں گے کہ اللہ کی مار اور پھٹکار تم پر ہو۔ تمہیں تو ہمارے پیشوا تھے اور یہاں جہنم میں لانے کا سبب بنے ہو۔ اور اب تم ہی ہم پر لعنت اور پھٹکار بھی کہہ رہے ہو۔ ص
60 ص
61 [٦١] پھر یہ پیروی کرنے والا گروہ اپنے پیشواؤں سے توجہ ہٹا کر اپنے پروردگار سے درخواست کرے گا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو ہماری گمراہی اور ہمیں یہاں جہنم میں لانے کا باعث بنے تھے۔ لہٰذا اے پروردگار! انہیں ہم سے دگنا عذاب دے۔ لیکن ان کی یہ التجا محض ایک طفل تسلی اور دل کی حسرت مٹانے کے طور پر ہوگی۔ جس کا کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ ص
62 [٦٢] یہاں برے لوگوں سے مراد وہ کمزور مسلمان ہیں جنہیں سرداران قریش حقیر اور کمتر درجہ کے لوگ سمجھتے تھے اور ان کے ساتھ بیٹھنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے کہ اگر لوگوں کو اپنے ہاں سے اٹھا دو۔ تو ہم آپ کی بات توجہ سے سنیں گے۔ اور وہ تھے سیدنا بلال حبشی رضی اللہ عنہ ، صہیب رومی رضی اللہ عنہ ، سلمان فارسی رضی اللہ عنہ، خباب بن ارتّ رضی اللہ عنہ ، عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ اور اسی طرح کے دوسرے مخلص مسلمان۔ ص
63 [٦٣] یعنی چودھری اور سردار قسم کے لوگ آپس میں کہیں گے کہ جن لوگوں کو ہم حقیر اور کمتر درجہ کے لوگ سمجھا کرتے تھے کیا بات ہے وہ ہمیں آج کہیں دکھائی نہیں دے رہے۔ اب اس کی دو ہی صورتیں ممکن ہیں ایک یہ کہ شاید وہ یہیں کہیں ہوں اور ہماری نظروں سے اوجھل ہوں اور دوسری یہ کہ ممکن ہے کہ ہم غلطی پر ہوں جو انہیں حقیر سمجھ کر ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے، اور وہ حقیقتاً اچھے لوگ ہوں اور وہ اس عذاب سے بچ گئے ہوں۔ ص
64 [٦٤] اگرچہ روز محشر کی ہولناکیاں اتنی شدید ہوں گی کہ کسی کو دوسرے کی طرف توجہ کرنے کا ہوش تک نہ ہوگا۔ تاہم یہ ایک یقینی بات ہے اور اہل دوزخ ایک دوسرے کے سر الزام دیں گے اور آپس میں جھگڑ رہے ہوں گے یہ دو قسم کے لوگ ہوں گے۔ ایک بڑے لوگ جن میں حکمران، سیاسی لیڈر، چودھری، رئیس جھوٹے پیشوایان دین اور ہر ایسا شخص شامل ہوگا جس کی دنیا میں کسی نہ کسی رنگ میں اللہ کے مقابلہ میں اطاعت کی جاتی رہی اور دوسرا فریق کمزور یا مرید قسم کے لوگ ہوں گے جو اپنے بڑوں کی اطاعت حتیٰ کہ عبادت کرتے رہے۔ ص
65 [٦٥] یعنی میرا کام صرف تمہیں تمہارے برے انجام سے آگاہ کردینا اور سمجھا دینا ہے۔ تمہیں زبردستی پکڑ کر راہ راست پر لے آنا میرا کام نہیں۔ اگر میری بات مان لوگے تو اس میں تمہارا فائدہ ہے اور نہ مانو گے تو اپنا انجام خود دیکھ لو گے اور یاد رکھو کہ حقیقی الٰہ صرف اللہ اکیلا ہے جو تمہیں سزا دینے کی پوری قدرت رکھتا ہے۔ ص
66 [٦٦] اس سے پہلی آیت میں اپنی صفت قہاری کا ذکر فرمایا۔ جبکہ مخاطب کافر تھے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ہر چیز کو دبا کر رکھنے والا ہے۔ کافر اس کی گرفت سے کسی وقت بھی بچ نہیں سکتے۔ اور اس آیت میں اپنی صفت غفاری کا ذکر فرمایا یعنی جو بندے ایمان لے آئیں اور اس کے بندے بن کر رہیں ان کے گناہوں کو معاف کردینے والا ہے۔ ص
67 ص
68 [٦٧] یعنی قیامت کی خبر کوئی معمولی خبر نہیں جس کا تم مذاق اڑاتے اور بار بار پوچھتے رہتے ہو کہ کب آئے گی، آ کیوں نہیں جاتی؟ ہمارا حساب کتاب ابھی ہمیں کیوں نہیں دے دیا جاتا ؟ اگر تم اس کی حقیقت کو سمجھ لو۔ اور اس دن کے ہولناک مناظر کو اپنے سامنے لاؤ تو یہ اتنی بڑی چیز ہے کہ تمہارے طرز زندگی کا رخ موڑ سکتی ہے۔ ص
69 [٦٨] عالم بالا میں فرشتوں کی بحثیں :۔ عالم بالا سے مراد فرشتوں کا مستقر ہے۔ ان میں بھی کبھی کبھار کوئی بحث چھڑ جاتی ہے۔ انہیں میں سے ایک بحث وہ ہے جو سیدنا آدم علیہ السلام کی پیدائش کے وقت ہوئی تھی اور جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ خطاب ہے۔ کہ آپ ان کافروں سے کہہ دیجئے کہ عالم بالا میں جو کچھ بحثیں وغیرہ ہوتی ہیں۔ مجھے ان کا قطعاً کچھ علم نہیں ہوتا صرف اسی بات کا علم ہوتا ہے۔ جو مجھ پر وحی کی جاتی ہے اور میں چونکہ لوگوں کو ان کے انجام سے خبردار کرنے والا ہوں لہٰذا مجھے صرف انہی بحثوں کے متعلق وحی کی جاتی ہے جن کا تعلق انسانوں کی ہدایت سے ہوتا ہے۔ ص
70 ص
71 ص
72 ص
73 ص
74 [٦٩] فرشتوں کو سیدنا آدم کو سجدہ کا حکم :۔ اللہ تعالیٰ کے آدم کو مٹی سے بنانے، اس میں اپنی روح پھونکنے، فرشتوں کو آدم کو سجدہ کا حکم دینے ابلیس کی حقیقت اور اس کے آدم کو سجدہ سے انکار کرنے کی تفصیل پہلے کئی مقامات پر گزر چکی ہے۔ مثلاً سورۃ بقرہ کا چوتھا رکوع، سورۃ حجر کی آیات ٢٥ تا ٤٣، سورۃ اعراف آیات ١١ تا ١٥، سورۃ بنی اسرائیل آیات ٦١ تا ٦٥، سورۃ کہف آیت نمبر ٥٠، سورۃ طہٰ آیات نمبر ١١٦ تا ١٢٣ میں گزر چکی ہے۔ اور نظریہ ارتقاء کی تردید کے لئے سورۃ حجر کا حاشیہ نمبر ١٩ ملاحظہ فرمائیے۔ ص
75 [٧٠] اللہ تعالیٰ کے ہاتھ پاؤں : اللہ تعالیٰ نے بڑی صراحت سے فرمایا کہ آدم کے پتلے کو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا۔ اس سے کائنات کی تمام اشیاء پر آدم علیہ السلام اور بنی آدم کا شرف اور فضیلت ثابت ہوئی۔ دوسرے اس سے ڈارون کے نظریہ ارتقاء کا رد ہوا۔ تیسرے ان لوگوں کا جو اللہ کے ہاتھ، آنکھیں اور پاؤں وغیرہ ہونے کے یکسر منکر ہیں۔ ان کی بنائے استدلال یہ ہے کہ اللہ کی ذات ہر جگہ موجود ہے تو اس کے ہاتھ پاؤں کیسے ہوسکتے ہیں لامحالہ ایسی آیات اور ایسے الفاظ کی تاویل کرنا ضروری ہے۔ جس کا جواب یہ ہے کہ اللہ اپنی صفات علم اور قدرت وغیرہ کے لحاظ سے ہر جگہ موجود ہے لیکن اس کی ذات عرش پر ہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ خود اپنے ہاتھ، پاؤں اور آنکھوں کا صراحت سے ذکر کرتا ہے تو دوسرا کون اس سے بڑھ کر اس کی تنزیہہ کرسکتا ہے۔ خواہ اس نے اپنے ہاتھ، پاؤں وغیرہ کا ذکر ہمارے سمجھانے کے لئے کیا ہو تاہم کیا تو ہے۔ رہی یہ بات کہ اس کے ہاتھ، آنکھیں اور پاؤں کیسے ہیں۔ تو یہ بات ہم سمجھنے کے نہ مکلف ہیں اور نہ سمجھ سکتے ہیں ہماری عافیت بس اس میں ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ فرمائے اسے جوں کا توں تسلیم کرلیں۔ [٧١] کیا تو اب بڑا بننا چاہتا ہے یا پہلے سے ہی یہ سمجھتا ہے کہ میں دوسروں سے کوئی برتر مخلوق ہوں۔ ص
76 ص
77 ص
78 [٧٢] یعنی قیامت تک تو اللہ، اس کے فرشتے، تمام انسان حتیٰ کہ ابلیس کی پیروی کرنے والے بھی اس پر لعنت پھٹکار کرتے رہیں گے پھر اس کے بعد ابدا لآباد ابلیس اور اس کی آل اولاد کو عذاب میں مبتلا رکھا جائے گا۔ ص
79 ص
80 ص
81 [٧٣] ابلیس اور اللہ تعالیٰ کے درمیان اس پورے مکالمہ کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے حوالہ کے لئے دیکھئے اسی سورۃ کی آیت نمبر ٧٨ کا حاشیہ۔ ص
82 ص
83 [٧٤] یہ مطلب نہیں کہ ابلیس اللہ کے مخلص بندوں کو بہکانے کی کوشش ہی نہیں کرے گا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کے دام فریب میں نہ آسکیں گے۔ ص
84 ص
85 [٧٥] ’’تجھ‘‘ سے مراد ابلیس، اس کی اولاد اور اس کا پورا لاؤ لشکر ہے جو بنی آدم کو مختلف طرح کی گمراہیوں میں مبتلا کرنے میں مصروف ہے۔ انہیں صرف اپنے گناہوں کا ہی عذاب نہیں دیا جائے گا بلکہ بنی آدم سے جن لوگوں نے ان کی پیروی کی اور گناہ کرتے رہے ان کے گناہوں کا حصہ رسدی بھی انہیں بھگتنا ہوگا۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے یہ قصہ آدم و ابلیس اس لئے سنایا کہ وہ سوچ لیں کہ اللہ کی نافرمانی کرنے پر ابلیس کا کیا حشر ہوا اور اب جو وہ اللہ کے رسول کی نافرمانی کر رہے ہیں تو وہ بھی اپنے لئے ایسے ہی انجام کی امید رکھیں۔ ص
86 [٧٦] یعنی میں بالکل بے لوث ہو کر تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا رہا ہوں۔ اس کا نہ تم سے کوئی صلہ مانگتا ہوں اور نہ ہی میری کوئی ذاتی غرض اس سے وابستہ ہے اور نہ میں ان لوگوں میں سے ہوں کہ اپنی بڑائی قائم کرنے کے لئے جھوٹے دعوے لے کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اور اس بات پر شہادت میری سابقہ تمام زندگی ہے جسے تم خوب جانتے ہو۔ لاعلمی کا اعتراف کرلینا بھی عالم ہونے کی دلیل ہے :۔ لفظ متکلّفین کے معنی درج ذیل حدیث سے بھی واضح ہوتے ہیں : مسروق کہتے ہیں کہ ہم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ہاں گئے۔ انہوں نے کہا : لوگو! جو شخص کوئی بات جانتا ہو تو اسے بیان کرے اور اگر نہ جانتا ہو تو کہہ دے کہ ’’اللہ ہی بہتر جانتا ہے‘‘ کیونکہ ایسا کہنا بھی کمال علم کی دلیل ہے۔ اللہ عزوجل نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا : کہ ’’میں اس (تبلیغ) پر تم سے کوئی مزدوری نہیں مانگتا اور نہ ہی میں دل سے باتیں بنانے والوں سے ہوں‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) ص
87 ص
88 [٧٧] یعنی قرآن کریم جس بات کی خبر دے رہا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اسلام سر بلند ہو کے رہے گا اور اس کی دعوت کے مخالفوں کو مغلوب اور ذلیل وخوار ہونا پڑے گا۔ کافروں میں سے جو لوگ زندہ رہے وہ تو اپنی آنکھوں سے یہ انجام دیکھ لیں گے اور جو مرگئے ان کو موت کے دروازے سے گزرتے ہی اس حقیقت کا پتہ چل جائے گا کہ قرآن نے جو خبر دی تھی وہ ٹھوس حقیقت پر مبنی تھی۔ ص
0 الزمر
1 [١] مکی سورۃ کا آغاز عموماً ایسی ہی آیات سے ہوا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ کفار مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت اور کلام کو منزل من اللہ نہیں سمجھتے تھے۔ اس آیت میں ایک تو یہ بتایا گیا ہے کہ یہ کتاب نبی کی اپنی تصنیف نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ اللہ سب سے زبردست ہے اور اپنے فرامین و احکام کو نافذ کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ تیسرے یہ کہ اللہ چونکہ حکیم ہے لہٰذا اس کا یہ کلام بھی حکمتوں سے لبریز ہے۔ الزمر
2 [٢] یعنی یہ کتاب اس لئے نازل نہیں کی گئی کہ اس کی آیات کا مذاق اڑایا جائے بلکہ اس لئے اتاری ہے کہ اس سے مثبت اور تعمیری نتائج حاصل ہوں جنہیں سب لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ اس میں مذکور ہے وہ ٹھوس حقائق پر مبنی ہے۔ الزمر
3 [٣] دین کا لفظ چار معنوں میں آتا ہے۔ (١) اللہ تعالیٰ کی مکمل سیاسی اور قانونی حاکمیت کو تسلیم کیا جائے۔ (٢) دوسرا معنی اس کے بالکل برعکس ہے یعنی اپنے آپ کو ہمہ وقتی اللہ کا غلام سمجھا جائے اور صرف اسی کی عبادت کی جائے، (٣) قانون جزا و سزا (٤) اور اس قانون جزا و سزا کے مطابق اچھے اور برے لوگوں کو بدلہ دینا۔ آیت نمبر ٢ اور ٣ میں دین کا لفظ اپنے پہلے دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ [٤] توسل اور اللہ کا قرب ڈھونڈنا :۔ غیر اللہ کو پکارنے اور ان کے حضور نذر و نیاز پیش کرنے کے سلسلہ میں مشرکوں کی دلیل ہمیشہ یہ ہوا کرتی ہے کہ ہم یہ کام اس لئے کرتے ہیں کہ یہ چھوٹے خدا ہماری معروضات بڑے خدا تک پہنچا دیں۔ ہماری اللہ کے حضور سفارش کریں۔ ہم ان کی عبادت نہیں کرتے بلکہ ہم نے انہیں صرف اللہ کا تقرب حاصل کرنے کا وسیلہ یا ذریعہ بنایا ہے۔ یہ جواب تو دور نبوی کے مشرکوں کا تھا۔ مگر افسوس ہے کہ آج امت مسلمہ کا بھی بالکل یہی حال ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ جو مقام مشرکوں کے نزدیک اپنے بتوں کا تھا وہی مقام مسلمانوں کے نزدیک ان کے پیروں یا مشائخ کا ہے اور دوسرا فرق یہ ہے کہ مشرکوں کو تو بتوں کی نیاز مندی کے آداب و اطوار شیطان نے سجھائے تھے۔ مگر مسلمانوں کے مشائخ خود اپنے مریدوں کو یہ آداب و اطوار بتاتے ہیں۔ ان پیروں اور بزرگوں نے شرک کی منزلیں طے کرانے کے لئے تین درجے مقرر کر رکھے ہیں۔ (١) فنا فی الشیخ، (٢) فنا فی الرسول اور (٣) فنا فی اللہ۔ تصور شیخ اور سلوک کی منزلیں :۔ فنا فی الشیخ کے درجہ کی ابتدا تصور شیخ سے کرائی جاتی ہے۔ تصور شیخ سے مراد صرف پیر کی ’’غیر مشروط اطاعت‘‘ ہی نہیں ہوتی بلکہ اسے یہ بات باور کرائی جاتی ہے کہ اس کا پیر ہر وقت اس کے حالات سے باخبر رہتا ہے۔ اور بوقت ضرورت ان کی مدد کو پہنچتا ہے۔ اس عقیدہ کو مرید کے ذہن میں راسخ کرنے کے لئے اسے یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ ہر وقت پیر کی شکل کو اپنے ذہن میں رکھے۔ یہی واہمہ اور مشق بسا اوقات ایک حقیقت بن کر سامنے آنے لگتا ہے اور صورت یہ بن جاتی ہے کہ : دل کے آئینہ میں ہے تصویر یار۔۔ جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی ان حضرات نے پیری کے فن کو خاص تکنیک دے کر عوام پر اس طرح مسلط کردیا ہے کہ کوئی آدمی اس وقت تک اللہ کے ہاں رسائی نہیں پاسکتا۔ جب تک باقاعدہ کسی سلسلہ طریقت میں داخل نہ ہو۔ پہلے تصور شیخ کی مشق کرے۔ حتیٰ کہ فنا فی الشیخ ہوجائے۔ یعنی اسے اپنی ذات کے لئے حاضر ناظر، افعال و کردار اور گفتار کو سننے والا اور دیکھنے والا سمجھنے لگے تب جاکر یہ منزل ختم ہوتی ہے اور عملاً ہوتا یہ ہے کہ مرید بیچارے تمام عمر فنا فی الشیخ کی منزل میں ہی غوطے کھاتے کھاتے ختم ہوجاتے ہیں۔ یہ گویا اللہ اور اس کے رسول سے بیگانہ کرکے اپنا غلام بنانے کا کارگر اور کامیاب حربہ ہے۔ یہ حضرات کس طرح اللہ سے بھی زیادہ اپنی پرستش کی تاکید کرتے ہیں یہ بات درج ذیل اقتباس میں ملاحظہ فرمائیے جو تصور شیخ، غیر اللہ کو پکارنا، توسل اور استمداد جیسے سب مسائل حل کردیتا ہے۔ اللہ کی بجائے مصیبت میں یا جنید پکارنے کی تلقین :۔ اس کے راوی جناب اعلیٰ حضرت رضا خان بریلوی ہیں۔ فرماتے ہیں ’’غالباً حدیقہ ندیہ میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سیدی جنید بغدادی دجلہ پر تشریف لائے اور یا اللہ کہتے ہوئے اس پرزمین کی طرح چلنا شروع کردیا۔ بعد میں ایک شخص آیا۔ اسے بھی پار جانے کی ضرورت تھی کوئی کشتی اس وقت موجود نہ تھی۔ جب اس نے حضرت کو جاتے دیکھا ؟ عرض کیا : میں کس طرح آؤں؟ فرمایا یا جنید! یا جنید کہتا چلا آ۔ اس نے یہی کہا اور دریا پر زمین کی طرح چلنے لگا جب بیچ دریا میں پہنچا۔ شیطان لعین نے دل میں وسوسہ ڈالا کہ حضرت خود یا اللہ کہیں اور مجھ سے یاجنید کہلواتے ہیں۔ میں بھی کیوں نہ یا اللہ کہوں؟ اللہ کے قرب کی بجائے دور رکھنے کا طریقہ :۔ اس نے یا اللہ کہا اور ساتھ ہی غوطہ کھایا۔ پکارا یا حضرت میں چلا۔ فرمایا : وہی کہہ یا جنید! یا جنید! جب کہا دریا سے پار ہوا۔ عرض کیا حضرت! یہ کیا بات تھی۔ آپ یا اللہ کہیں تو پار ہوں اور میں کہوں تو غوطہ کھاؤں؟ فرمایا : اے نادان! ابھی تو جنید تک تو پہنچا نہیں، اللہ تک رسائی کی ہوس ہے۔ اللہ اکبر‘‘ (ملفوظات مجدد مائۃ حاضر حضرت احمد رضا خان بریلوی ص ١١٧) پیر کس طرح اپنی پرستش کرواتے ہیں :۔ دیکھا آپ نے پیر کو وسیلہ پکڑنے کی کتنی زبردست دلیل ہے جو امام اہل سنت، موجودہ صدی کے مجدد صاحب ''غالباً حدیقہ ندیہ'' کے حوالہ سے پیش فرما رہے ہیں۔ اور واقعہ بھی ایسا لاجواب گھڑا ہے کہ اس بیچارے کو تسلیم کرنا پڑا کہ میرا اللہ کو پکارنا واقعی شیطانی وسوسہ تھا۔ یہ ہیں تصور شیخ جیسی بدعت کے کرشمے۔ یہ لوگ ایسے افسانے تراش تراش کر لوگوں کو شرک میں مبتلا کرتے اور اللہ سے دور رکھتے اور فی الحقیقت اپنی پرستش کراتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے خود جو اپنے قرب کا وسیلہ بتایا وہ درج ذیل قدسی حدیث سے واضح ہوتا ہے : قرب الہٰی کا حقیقی وسیلہ اس کے نیک اعمال ہیں :۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ : قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: ’’اے آدم کے بیٹے میں بیمار ہوا تو نے میری بیمار پرس نہ کی، وہ کہے گا : اے میرے پروردگا! میں کیسے تیری عبادت کرتا جبکہ تو تو رب العالمین ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا، تو نے اس کی عیادت نہ کی۔ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے وہاں پالیتا۔ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا تو تو نے کھانا نہ دیا۔ وہ کہے گا : اے میرے پروردگار! میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا۔ تو تو رب العالمین ہے؟ پروردگار فرمائے گا۔ کیا تو نہیں جانتا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تو تو نے اسے کھانا نہ کھلایا۔ اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو اس کا اجر میرے ہاں پالیتا۔ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا تو تو نے مجھے پانی نہ پلایا۔ بندہ کہے گا کہ میں تجھے کیونکر پانی پلاتا، تو تو رب العالمین ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ میرے فلاں بندہ نے تجھ سے پانی مانگا تو تو نے اسے پانی نہ پلایا۔ اگر تو اسے پانی پلاتا تو اس کا اجر میرے ہاں پالتا‘‘ (مسلم۔ کتاب البروالصلۃ والادب۔ باب فضل عیادۃ المریض) [٥] پھر صرف یہی نہیں کہ وہ اپنے عقائد پر جمے ہوئے ہیں بلکہ اگر انہیں سمجھایا جائے تو مخالفت پر اتر آتے ہیں اور اسے ولیوں کے منکر یا گستاخ کا طعنہ دیتے ہیں۔ ایسے اختلافات دنیا میں مٹ نہیں سکتے۔ کیونکہ یہ معاملہ غور و فکر اور افہام کا نہیں بلکہ ضد اور چڑ کا بن جاتا ہے پھر کچھ دنیوی مفادات کا بھی دھندا چلتا ہے۔ لہٰذا ان اختلافات کا فیصلہ قیامت کے دن اللہ ہی کرے گا۔ اور وہاں ہر ایک کو ٹھیک سمجھ آجائے گی۔ [٦] یہ مشرک جھوٹے تو اس لحاظ سے ہیں کہ ان کے سب عقیدے من گھڑت ہوتے ہیں۔ اور حق کے منکر اس لحاظ سے کہ بات سمجھنے کی بجائے ضد اور ہٹ دھرمی پر اتر آتے ہیں۔ اور اگر کفار کا معنی ناشکرگزار کیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ کھاتے تو اللہ کا دیا ہوا رزق ہیں اور ان کی ہر طرح کی نیاز مندیاں اللہ کے بجائے دوسروں کے لئے وقف ہوتی ہیں۔ الزمر
4 [٧] یہ دراصل مشرکوں کے اس عقیدہ کا جواب ہے جو کہتے تھے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ حالانکہ اپنے لئے بیٹیاں انہیں ناگوار ہیں۔ انہیں جواب یہ دیا گیا کہ اللہ کے لئے تو اولاد ہونا ہی محالات سے ہے۔ اس لئے کہ باپ اور بیٹے میں جنسی اور نوعی اشتراک ہوتا ہے۔ نیز بیٹا نہ باپ کا مملوک ہوتا ہے نہ مخلوق۔ جبکہ سب چیزیں اللہ کی مملوک و مخلوق ہیں۔ لہٰذا ان میں کسی قسم کا اشتراک ناممکن ہے۔ اور اگر بفرض محال اللہ اولاد بناتا تو پھر کیا بیٹیاں ہی اپنے لئے انتخاب کرتا ؟ جیسا کہ تم کہتے ہو جبکہ تم انہیں اپنی ذات کے لئے قطعاً پسند نہیں کرتے۔ الزمر
5 [٨] یعنی زمین و آسمان یا کائنات کو بے فائدہ پیدا نہیں کیا بلکہ اس میں بے شمار حکمتیں ہیں اور ان کی تخلیق سے کثیر مقاصد حاصل ہو رہے ہیں۔ [٩] گردش لیل ونہار میں دلائل توحید :۔ یعنی شام کے وقت اگر مغرب کی طرف نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ادھر سے اندھیرا اوپر کو اٹھ رہا ہے۔ جو بتدریج بڑھتا جاتا ہے۔ تاآنکہ سیاہ رات چھا جاتی ہے۔ اسی طرح صبح کے وقت اجالا مشرق سے نمودار ہوتا ہے۔ جو بتدریج بڑھ کر پورے آسمان پر چھا جاتا ہے۔ اور سورج نکل آتا ہے تو کائنات جگمگا اٹھتی ہے۔ ایسا نظر آتا ہے رات کو دن پر اور دن کو رات پر لپیٹا جارہا ہے۔ دن کو روشن کرنے اور رکھنے والی چیز سورج ہے۔ اور چاند رات کو روشنی دیتا ہے۔ یہ سورج اور یہ چاند جب سے پیدا کئے گئے ہیں۔ انسان کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں اور انسانوں کو ان سیاروں سے بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ لیکن یہ نظام شمس و قمر بھی ابدی نہیں ہے۔ ایک وقت آئے گا جب ان کی بساط لپیٹ دی جائے گی۔ [١٠] اللہ تعالیٰ کائنات کی ہر چیز سے زبردست اور ان سب پر غالب ہے جو ایسے عظیم الجثہ کروں سے اپنی حسب پسند کام لے رہا ہے اور وہ بخش دینے والا یہاں اس نسبت سے مذکور ہے کہ حضرت انسان نے اس دنیا میں جو فتنہ و فساد بپا کر رکھا ہے اس کا تو یہی تقاضا ہے کہ یہ نظام درہم برہم کرکے انسانوں کو تباہ کردیا جائے۔ مگر وہ عفو و درگزر سے کام لے رہا ہے۔ الزمر
6 [١١] یہ توحید باری پر دوسری دلیل ہے کہ وہ تم سب کا خالق ہے۔ بظاہر الفاظ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نفس واحدہ یعنی سیدنا آدم علیہ السلام سے تمہیں پیدا کیا پھر اس کے بعد اس کی بیوی بنائی مگر یہاں ترتیب زمانی کے بجائے ترتیب بیان کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور ایسی مثالیں ہر زبان میں پائی جاتی ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے پہلے آدم کو پیدا کیا، پھر اس سے اس کی بیوی کو، پھر ان دونوں سے نسل چلا کر تمہیں پیدا کیا۔ [١٢] مویشیوں کے آٹھ جوڑے جن میں اہل عرب شرک کرتے تھے :۔ یعنی اونٹ، گائے، بھیڑ، بکری، یہ چار نوع ہیں ان کے نر و مادہ ملا کر کل آٹھ جوڑے ہوئے۔ اور ان کا ذکر پہلے سورۃ انعام کی آیت نمبر ١٤٣ کے تحت گزر چکا ہے یہی چار نوع یا آٹھ جوڑے تھے جو اہل عرب پالتے تھے۔ اور انہیں میں ان کی شرکیہ رسوم جاری تھیں۔ اسی لئے ان کا ہی ذکر کیا گیا جبکہ ہمارے ہاں اونٹ بہت کم ہوتا ہے اور دودھ وغیرہ کی اغراض کے لئے گائے کے بجائے بھینسیں زیادہ پالی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں بھی ان جانوروں کا دودھ مزاروں پر چڑھایا جاتا ہے۔ [١٣] تین تاریکیوں میں جنین کی پیدائش :۔ اللہ تعالیٰ کے حیرت انگیز کارناموں میں سے ایک یہ ہے کہ ہر جنین کی، خواہ وہ انسان کا بچہ ہو یا حیوان کا تین تہ بہ تہ تاریکیوں کے اندر پرورش ہوتی ہے اور تینوں پردے اس جنین کو بیرونی آفتوں سے محفوظ رکھتے ہیں تب جاکر جنین پیدا ہونے کے قابل بچہ بنتا ہے۔ ان میں پہلا پردہ ماں کا پیٹ ہے دوسرا پیٹ کے اندر رحم اور تیسرا رحم کے اندر جھلی جس میں جنین ملفوف اور محفوظ ہوتا ہے۔ پھر اس عرصہ میں اس جنین پر کئی مراحل اور اطوار گزرتے ہیں۔ پہلے وہ نطفہ ہوتا ہے۔ پھر منجمد خون ہے پھر گوشت کا لوتھڑا، پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے بعد ازاں اس کی شکل و صورت بنتی ہے اور یہ سب کچھ تین تاریکیوں کے اندر ہی ہوتا رہتا ہے۔ تاآنکہ وہ جنین مقررہ وقت کے بعد انسان کی شکل و صورت لے کر ماں کے پیٹ سے باہر آجاتا ہے۔ [١٤] جاہل عوام کو شرک کی گمراہیوں میں پھنسانے والے حضرات :۔ تمہارے پروردگار کی یہ صفات ہیں کہ وہ ہی تمہارا خالق ہے وہی تمہاری پرورش کرنے والاہے اور وہی تمہارا اور ساری کائنات کا مالک ہے۔ لہٰذا وہی تمہاری نیاز مندیوں، نذروں نیازوں، قربانیوں اور عبادات کا مستحق ہوسکتا ہے۔ اب تم جو اللہ کے علاوہ دوسروں کے لئے یہ افعال بجا لاتے ہو تو بتاؤ کیا یہ سیدھی سی بات بھی تمہاری سمجھ میں نہیں آسکتی اور وہ کون لوگ ہیں جو تمہیں اس سیدھی سی بات سے پھیر کر غلط راہوں پر ڈال دیتے ہیں۔ اور یہ تو واضح بات ہے کہ اس سیدھی سی بات سے بہکانے والے وہی لوگ ہوسکتے ہیں جن کے کچھ اپنے دنیوی مفادات ایسے غلط راستوں سے وابستہ ہوں اور یہ لوگ ہوتے ہیں مندروں کے گرو اور مہنت بت خانوں کے پنڈت اور پروہت اور مزاروں کے سجادہ نشین اور مجاور حضرات جنہوں نے عوام کو طرح طرح کی داستانیں سنا کر اس جال میں پھنسا رکھا ہے۔ اور اس طرح اپنا تو الو سیدھا کرلیا ہے۔ لیکن جاہل عوام کو شرک کی گمراہیوں میں دھکیل رکھا ہے۔ الزمر
7 [١٥] شکر کے فائدے :۔ اللہ تعالیٰ کے تم پر بے بہا انعامات کے باوجود بھی اگر تم کفران نعمت کرو گے اور اس کا حق عبادت دوسروں کو دیتے رہو گے تو اس سے اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ تمہارا اپنا ہی نقصان ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ اللہ تمہارے کفران نعمت یا ایسی نمک حرامی کو پسند نہیں کرتا۔ اس کے ہاں پسندیدہ بات یہی ہے کہ تم اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو اور اسے بھی وہ تمہارے ہی فائدے کے لیے پسند کرتا ہے۔ شکر کا تمہیں فائدہ یہ پہنچے گا کہ ایک تو تمہارا پروردگار خوش ہوگا دوسرے تمہیں اور بھی زیادہ نعمتیں عطا فرمائے گا۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر ٧ کا حاشیہ۔ [١٦] یعنی اگر آج تم کسی کو راضی رکھنے کے لئے یا اس کی ناراضگی سے بچنے کے لئے کفر یا گمراہی کی راہ اختیار کرو گے تو قیامت کے دن وہ تمہارا بوجھ اٹھا نہیں لے گا۔ اس کے تو اپنے گناہوں کا بوجھ اس کے لئے وبال جان بنا ہوگا وہ تمہارا بوجھ کیسے اٹھائے گا۔؟ لہٰذا اللہ سے شرک اور کفران نعمت کے بارے میں انتہائی محتاط روش اختیار کرو۔ دوسروں کے بہکاوے میں نہ آؤ۔ اور خود سیدھی سی بات اور سیدھی راہ کو پہچاننے اور سمجھنے کی کوشش کرو۔ جن لوگوں کو آج تم نے اپنا پیشوا سمجھ رکھا ہے وہ کل تمہارے کسی کام نہیں آئیں گے۔ الزمر
8 [١٧] جمعرات کو مزاروں پر حاضری دینے والے :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک دنیادار اور جاہل قسم کے انسان کی فطرت بیان فرمائی ہے جو مزاروں پر جمعرات کو حاضری دینے میں اپنی سب سعادت سمجھتا ہے۔ اس سے زیادہ اسے نہ دین کے سمجھنے کی ضرورت پیش آتی ہے اور نہ وہ اس کے لئے کوئی کوشش کرتا ہے۔ اور یہ سمجھتا ہے کہ یہ دنیا بس اللہ کے ان پیاروں کے سہارے ہی قائم ہے۔ جو ان مقبروں اور مزاروں میں موجود زندہ ہیں اور لوگوں کی داد رسی کر رہے ہیں۔ اور کچھ ایسے ہی عقیدے مشرکین مکہ کے اپنے بتوں سے وابستہ تھے۔ ایسے لوگوں کو جب کوئی ایسی مصیبت بن جاتی ہے کہ موت سامنے کھڑی نظر آنے لگتی ہے تو صرف اللہ کو پکارتے ہیں اور اللہ کے پیاروں کو بھول جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ سارے مشرکوں کا کبھی اس بات پر اتفاق نہیں ہوسکا کہ فی الواقع اللہ کے بعد وہ کون سی ہستی ہے۔ جو دافع البلاء ہوسکتی ہے۔ کسی کے نزدیک ایک بزرگ ہوتا ہے تو کسی کے نزدیک کوئی دوسرا بزرگ۔ البتہ اللہ کی ذات پر سب متفق ہوجاتے ہیں اور اسے پکارنے لگتے ہیں۔ پھر جب اللہ اس مصیبت سے نجات دے دیتا ہے اور انہیں سکھ چین نصیب ہوجاتا ہے تو پھر اللہ کو بھول جاتے ہیں اور اب ان کی ساری نیاز مندیاں بس اللہ کے پیاروں کے لئے رہ جاتی ہیں۔ [١٨] پھر وہ اسی پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ دوسروں سے یوں کہنے لگتا ہے کہ ہمیں تو فلاں آستانے سے شفا نصیب ہوئی تھی۔ اور فلاں بزرگ کی نظر کرم کی وجہ سے ہم اس مصیبت سے بچ نکلے تھے اور فلاں بزرگ کی بارگاہ سے ہماری فلاں حاجت پوری ہوئی تھی اور ہمارے دن پھرے تھے اسی طرح دوسرے بہت سے لوگ بھی ان حضرتوں کے معتقد بن جاتے ہیں اور ہر جاہل اپنے اسی طرح کے تجربے بیان کر کرکے عوام میں گمراہی پھیلاتا جاتا ہے۔ الزمر
9 [١٩] اللہ کے ہاں عالم کون اور جاہل کون؟ اب ایک یہ شخص ہے جو صرف مصیبت کے وقت غیر اللہ کو پکارتا ہے۔ اور اسے قرآن ''جاہل یا نہ جاننے والے'' کے نام سے پکارتا ہے۔ خواہ وہ علامہ ئدہر ہو اور دوسرا وہ شخص ہے جو تنگی ترشی اور خوشحالی غرض ہر طرح کے حالات میں صرف اللہ پر ہی تکیہ کرتا ہے اور اسے ہی پکارتا ہے۔ رات کے اندھیروں میں اس کے حضور سجدہ ریز ہوتا ہے۔ اسی سے ڈرتا ہے اور اسی سے اس کی رحمت کی توقع بھی رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو ''عالم یا جاننے والے'' کے نام سے پکارتا ہے۔ خواہ وہ پرائمری پاس بھی نہ ہو یا ابتدائی دینی کتابیں بھی نہ پڑھا ہو۔ اور اس مفہوم کی تائید قرآن کریم کے ایک اور جملہ ﴿إنَّمَا یَخْشَی اللّہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰۤؤُا﴾ (٣٥: ٣٨) سے بھی ہوجاتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اہل عقل و خرد کے سامنے یہ سوال رکھتا ہے کہ بتاؤ ان دونوں کی طرز زندگی ایک جیسی ہے یا ان دونوں کا انجام ایک جیسا ہوسکتا ہے؟ الزمر
10 [٢٠] یہاں بھلائی سے مراد صرف مال و دولت ہی نہیں اگرچہ مال و دولت بھی اس بھلائی میں شامل ہے۔ یعنی یہ ممکن ہے کہ اس دنیا میں پرہیزگاروں کو مال و دولت عطا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہیں مال و دولت عطا نہ کیا جائے۔ البتہ بھلائی کی اور بھی بہت سی اقسام ہیں۔ جو انہیں یقیناً حاصل ہوتی ہیں۔ مثلاً ایسے لوگوں کی سب ہی عزت کرتے ہیں خواہ عزت کرنے والے دیندار ہوں یا دنیا دار۔ ایسے لوگوں کی بات قابل اعتماد سمجھی جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کی ساکھ قائم ہوتی ہے اور آخرت کی بھلائی جو بہرحال ایسے لوگوں کے لئے یقینی ہے۔ [٢١] حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے :۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورۃ ہجرت حبشہ سے پہلے یا اس عرصہ کے لگ بھگ نازل ہوئی تھی۔ جبکہ مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا تھا۔ اور انہیں احکام اسلام کی بجاآوری میں کفار مکہ کی طرف سے سخت دشواریاں پیش آرہی تھیں۔ یعنی اگر مکہ کی سرزمین یا آس پاس کا علاقہ تمہارے لئے تنگ ہوگیا ہے تو اللہ کی زمین بڑی وسیع ہے کسی دوسرے ملک میں چلے جاؤ۔ جہاں آزادی سے اسلام کے احکام بجا لاسکو۔ ترک وطن کے سلسلہ میں بھی تمہیں کئی طرح کی مشکلات پیش آئیں گی اور جہاں جاؤ گے وہاں بھی ابتدائیً مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ ان مشکلات کو اگر صبر و ثبات سے برداشت کرو گے تو اس کا ثواب بھی بے حساب ملے گا۔ واضح رہے کہ صبر کا تعلق ان مسلمانوں سے بھی ہے جو ہجرت کرکے چلے گئے تھے اور ان سے بھی جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت یا کسی دوسری وجہ سے ہجرت نہ کی بلکہ مکہ میں ہی کفار کی سختیاں سہنے کے باوجود اپنے دین پر ڈٹے رہے۔ الزمر
11 [٢٢] ہر نبی سب سے پہلے اپنی نبوت پر ایمان لاتا ہے اور احکام الہٰی کا عملی نمونہ پیش کرتا ہے :۔ ہر نبی پر یہ واجب ہوتا ہے کہ سب سے پہلے خود اپنی نبوت پر ایمان لائے۔ پھر دوسروں کو دعوت دے۔ اسی طرح اس پر یہ بھی واجب ہوتا ہے کہ اللہ کی طرف سے جو بھی حکم نازل ہو سب سے پہلے خود اس پر عمل کرے اور اپنی ذات کو بطور نمونہ دوسروں کے سامنے پیش کرے پھر دوسروں کو دعوت دے۔ یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ بات کہلوائی کہ مجھے یہ حکم ہوا ہے کہ خالصتا ً اللہ اکیلے کی عبادت کروں اور اس حکم پر سب سے پہلے میں خود سرتسلیم خم کرتا ہوں۔ الزمر
12 الزمر
13 الزمر
14 [٢٣] شرک سے سمجھوتہ ناممکن ہے :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم یہ ہوتا تھا کہ خالصتاً اللہ اکیلے کی عبادت کریں۔ جبکہ کفار مکہ پر ایک وقت ایسا بھی آیا جب وہ آپ سے سمجھوتہ کرنے پر آمادہ ہوگئے تھے۔ اور وہ سمجھوتہ اس بات پر چاہتے تھے کہ ہم آپ کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتے بشرطیکہ آپ ہمارے معبودوں کو برا بھلا نہ کہیں۔ بالفاظ دیگر آپ لا الہ الا اللہ نہ کہیں کیونکہ یہی کلمہ ان کے بتوں کو ناکارہ ثابت کرتا تھا جسے وہ اپنی، اپنے آباء واجداد کی اور اپنے بتوں کی توہین سمجھتے تھے۔ اور اس کلمہ سے انکار ہی اللہ کی سب سے بڑی نافرمانی تھی۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے اس کا جواب یہ دلوایا گیا کہ مجھے تو حکم ہی یہی ہے کہ اکیلے اللہ کے سوا کسی بھی معبود کو تسلیم نہ کروں۔ اور اگر میں اس حکم کی نافرمانی کروں تو میں بھی اللہ کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ لہٰذا میں ایسا کام کسی قیمت پر نہیں کرسکتا۔ الزمر
15 [٢٤] شرک سے خسارہ کے مختلف پہلو :۔ یہ صریح خسارہ اس لحاظ سے ہے کہ مشرکوں کے اگر کچھ نیک اعمال ہوئے بھی تو وہ شرک کی وجہ سے برباد ہوجائیں گے۔ اب ان کے صرف گناہ ہی گناہ باقی رہ جائیں گے۔ دوسرے ان کے بال بچوں کے گناہوں سے حصہ رسدی کے طور پر انہیں بھی گناہ ہوگا۔ تیسرے یہ کہ دنیا میں تو خسارہ کی اس طرح تلافی ہوسکتی ہے کہ بعد میں کسی وقت نفع ہوجائے۔ قیامت میں یہ صورت بھی ممکن نہ ہوگی گویا ہر طرف سے خسارہ ہی خسارہ انہیں گھیرے ہوئے ہوگا۔ الزمر
16 [٢٥] ظلل ظلۃ کی جمع ہے جس کے معنی سایہ بھی ہے، بادل بھی اور ایسا خیمہ یا سائبان بھی جس کی صرف چھت ہی چھت ہو، دیواریں نہ ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ ایسے صریح خسارہ پانے والوں کی سزا یہ ہوگی جیسے ان کے اوپر آگ کی گھٹا چھا رہی ہو اور ان کے نیچے سے بھی ایسی آگ کی گھٹا اٹھ رہی ہو اور انہیں دونوں طرف سے اپنی لپیٹ میں لے لے۔ الزمر
17 [٢٦] طاغوت کا مفہوم :۔ طاغوت کا معنی عموماً بت یا شیطان کرلیا جاتا ہے۔ ان الفاظ سے اس لفظ کا پورا مفہوم ادا نہیں ہوتا۔ طاغوت سے مراد ہر وہ چیز ہے جس کی اللہ کے مقابلہ میں اطاعت یا عبادت کی جاتی ہو یا وہ خود اللہ کے مقابلہ میں اپنی اطاعت یا عبادت لوگوں سے کروانا پسند کرتا ہو، گویا طاغوت سے مراد دنیادار چودھری اور حکمران بھی ہوسکتے ہیں کوئی ادارہ یا پارلیمنٹ بھی ہوسکتی ہے۔ بت، شیطان اور جن بھی ہوسکتے ہیں اور ایسے پیر فقیر بھی ہوسکتے ہیں جو اللہ کے مقابلہ میں اپنی اطاعت کروانا پسند فرماتے ہیں اور شریعت پر طریقت کو ترجیح دیتے ہیں۔ [٢٧] یہ بشارت صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو ہر قسم کے طاغوت کی اطاعت یا عبادت سے بچتے رہے اور تنگی ترشی میں بھی اللہ کی ہی اطاعت و عبادت کرتے رہے، اسی کی طرف رجوع کیا اور اسی پر توکل کیا۔ الزمر
18 [٢٨] اتباع احسن سے کیا مراد ہے؟ ان لوگوں کی ایک صفت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام و فرامین کی اس صورت میں پیروی کرتے ہیں جو بہتر سے بہتر ہو۔ مثلاً نماز کی ادائیگی کی جائے تو خلوص نیت اور اللہ کی رضا اور اس کی محبت کے جذبے سے ادا کرے۔ بروقت اور باجماعت ادا کرے۔ طہارت اچھی طرح کرے۔ نماز میں خشوع و خضوع ہو اور ظاہری ارکان و آداب بھی درست ہوں۔ تو یہ نماز کی اچھی سے اچھی صورت ہے۔ اب اگر کوئی شخص نماز تو باجماعت ادا کرتا ہے لیکن نماز میں خیال بس دنیوی باتوں کے ہی آتے رہیں۔ نماز میں بے توجہی ہو۔ فضول حرکتیں بھی کرتا رہے اور سست اور ڈھیلا ڈھالا کھڑا رہے۔ تو نماز تو اس نے بھی ادا کرلی۔ اور اللہ کے حکم کی اطاعت بھی ہوگئی مگر یہ احسن صورت نہیں۔ اور پہلے اور اس شخص کی نماز میں بہت فرق ہے۔ یہی حال تمام اعمال کا ہے۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ باتیں تو سب کی سنتے ہیں مگر قبول صرف وہ بات کرتے ہیں جو ان سے بہتر ہو پھر اسی پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ الزمر
19 [٢٩] یعنی جن لوگوں پر ان کے عناد، ضد اور ہٹ دھرمی اور ان کی بداعمالیوں کے سبب سے عذاب کا حکم ثابت ہوچکا ہو کیا وہ ہدایت کی راہ اختیار کرسکتے ہیں۔ بھلا ایسے بدبختوں کو جو انہی بدعنوانیوں کے باعث آگ میں پڑچکے ہیں۔ انہیں آپ یا کوئی دوسرا راہ راست پر لاسکتا ہے اور انہیں آگ سے نکال سکتا ہے؟ الزمر
20 [٣٠] کیا جنت اور دوزخ تیار کی جا چکی ہیں :۔ بعض دفعہ امت میں ایسی بے کار بحثیں شروع ہوجاتی ہیں جن کا انسان کی عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ لیکن جب شروع ہوجائیں تواہل حق کو جواباً کچھ کہنا ہی پڑتا ہے۔ ایسے ہی مسائل میں سے ایک یہ ہے کہ آیا جنت اور جہنم تیار کی جاچکی ہیں یا قیامت کے بعد لوگوں کے جزاو سزا کے فیصلوں کے بعد تیار ہوں گی۔ کتاب و سنت کے الفاظ میں یہ صراحت موجود ہے کہ یہ تیار ہوچکی ہیں۔ مگر ایک فرقہ نے اس کا انکار کیا اور کہا کہ قیامت کے بعد تیار ہوں گی۔ اس آیت میں لفظ مبنیۃ سے بھی واضح ہوتا ہے کہ یہ بالا خانے بنائے جاچکے ہیں۔ یہاں بالا خانوں سے مراد یہ نہیں ایک مکان پر کوئی چوبارہ ہوتا ہے جیسے دوسری منزل ہو۔ بلکہ اس سے درجات کی بلندی مراد ہے۔ یعنی ایک مکان سے دوسرا مکان بلندی پر واقع ہوگا اور تیسرا اس سے بلندی پر۔ الزمر
21 [٣١] بارش کا کچھ پانی زمین میں جذب ہو کر زمین کو سیراب کرتا ہے۔ زائد پانی اور نیچے چلا جاتا ہے۔ جو کبھی چشموں کی صورت میں پھوٹ نکلتا ہے اور کبھی کنوئیں وغیرہ کھود کر نکالا جاتا ہے۔ اور زائد پانی ندی نالوں میں بہتا ہوا دریاؤں کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ یہ سب پانی کے منابع ہیں۔ اور جو بھی صورت ہو بارش کے پانی سے انسانوں، حیوانوں اور نباتات کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ [٣٢] دنیا کے کمال کو بھی زوال آکے رہے گا :۔ سبق یہ ہے کہ جو چیز بھی عروج کو پہنچے اسے زوال بھی ضرورآتا ہے۔ جب وہ جوبن پر ہو تو بڑی بہار دکھاتی اور اچھی لگتی ہے مگر اس کا انجام عبرت آموز ہوتا ہے۔ نباتات کی بھی یہی کیفیت ہے۔ پھر انسان کی اپنی زندگی کی بھی یہی کیفیت ہے۔ یہ چیزیں تو ہر انسان کے مشاہدے میں آسکتی ہیں۔ مگر قوموں کے عروج و زوال کی بھی اگرچہ یہی کیفیت ہوتی ہے مگر وہ انسان کے مشاہدہ میں نہیں آتی۔ کیونکہ وہ صدیوں پر محیط ہوتی ہے۔ اور اس کا ہمیں تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ فلاں قوم پر فلاں وقت عروج کا دور تھا اور فلاں وقت انحطاط کا۔ پھر اس سے آگے اس دنیا کا بھی یہی حال ہے جو اس وقت اپنی بہاریں دکھا رہی ہے اور اکثر لوگ اسی پر ریجھ بیٹھے اور اسی میں مست اور مگن ہوگئے ہیں۔ حالانکہ اس کا انجام بھی اللہ کی سنت کے مطابق وہی کچھ ہونے والا ہے جو دوسری چیزوں کا ہو رہا ہے۔ لہٰذا انسان کو ان مثالوں سے سبق حاصل کرنا چاہئے اور اس پر ریجھنے کے بجائے اس گھر کی فکر کرنا چاہئے جسے کبھی زوال نہیں آئے گا۔ الزمر
22 [٣٣] شرح صدر کا مفہوم :۔ اسلام کے لئے سینہ کھول دینے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کی حقانیت کا دل میں اس طرح یقین پیدا ہوجائے جس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہے۔ اور انسان اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لئے اس طرح آمادہ ہوجائے کہ اس سے پیچھے ہٹنا اسے کسی قیمت پر گوارا نہ ہو۔ گو ایسا شرح صدر اللہ ہی کی توفیق سے نصیب ہوتا ہے۔ تاہم یہ توفیق بھی اللہ اسی شخص کو دیتا ہے۔ جو خود بھی حق بات کو قبول کرنے پر آمادہ ہو۔ [٣٤] اس روشنی سے مراد اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ کتاب ہے جو زندگی کے ہر میدان میں اور اس کے ہر موڑ پر اس کی رہنمائی کرتی ہے۔ پھر اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ جنہوں نے اللہ کے احکام کو عملی جامہ پہنا کر اپنے آپ کو امت کے سامنے نمونہ کے طور پر پیش فرمایا۔ [٣٥] یعنی ایک طرف تو ایسا شخص ہے جس کا اللہ نے سینہ بھی اسلام کے لئے کھول دیا ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ روشنی میں نہایت سکون و اطمینان کے ساتھ اللہ کے راستہ پر گامزن ہے۔ دوسری طرف وہ شخص ہے جس کے دل میں حق بات سنتے ہی گھٹن پیدا ہوجاتی ہے اور ناگواری کے اثرات اس کے چہرہ پر نمودار ہونے لگتے ہیں۔ پھر اس کی ضد، عناد اور ہٹ دھرمی نے اس کے دل کو پتھر کی طرح سخت بنا دیا ہو جس کے دل میں خیر کا ایک قطرہ بھی نہ گھس سکتا ہو۔ نہ کوئی نصیحت اس پر اثر کرے۔ نہ کبھی اللہ کی یاد کی توفیق نصیب ہو۔ وہ یا تو اپنے ہی نفس کی پیروی کرے یا اپنے آباء کی رسوم اور تقلید کی تاریکیوں میں بھٹکتا پھرے۔ کیا یہ دونوں انجام کے لحاظ سے ایک جیسے ہوسکتے ہیں؟ الزمر
23 [٣٦] قرآن بہترین کلام کیسے ہے؟:۔ قرآن بہترین کلام اس لحاظ سے ہے کہ اس کی آیات ٹھوس حقائق پر مبنی ہیں۔ اس کا انداز بیان دلنشین ہے۔ اس کے دلائل عام فہم ہیں۔ جن سے ایک دیہاتی بھی ایسے ہی مستفید ہوسکتا ہے جیسے ایک جید عالم، اور اس کے احکام وفرامین دنیا میں بہترین زندگی گزارنے کا راستہ بتاتے ہیں۔ نیز اس کے احکام محض نظریاتی نہیں بلکہ سب قابل عمل ہیں اور اگر ان پر عمل کیا جائے تو اخروی فلاح کے ضامن ہیں۔ اور یہ سب خوبیاں اللہ کے کلام کے علاوہ دوسرے کسی کے کلام میں نہیں ہوسکتیں۔ [٣٧] ملتی جلتی آیات سے مراد؟ یعنی قرآن میں ایک مضمون اگر بیس مقامات پر آیا ہے تو بھی اس میں اختلاف اور تضاد واقع نہیں ہوتا۔ اندازِبیان اور اختلاف الفاظ کے باوجود ایک جگہ کا مضمون دوسری جگہ کے مضمون کی تائید و توثیق ہی کرتا ہے۔ جس سے بات پوری طرح ذہن نشین ہوجاتی ہے اسی لئے کہتے ہیں کہ ﴿إنَّ الْقُرْآنَ یُفَسِّرُ بَعَضَہ بَعْضًا﴾ یہ تو ممکن ہے کہ ایک جگہ اجمال ہو اور دوسری جگہ تفصیل۔ مگر اختلاف اور تضاد واقع نہیں ہوتا۔ مثلاً قرآن نے ایک حکم دیا ہے کہ کسی غیرمسلم کو اپنا دلی دوست اور راز دار نہ بناؤ، تو کسی جگہ آپ کو یہ بات نہیں ملے گی کہ سیاست میں کوئی بات یا کوئی اصول حرف آخر نہیں ہوتا۔ [٣٨] مثانی سے مراد کیسی آیات ہیں :۔ مثانی سے مراد ایک تو ایسی آیات ہیں جو بار بار پڑھی اور دہرائی جاتی ہیں۔ اسی لحاظ سے سورۃ فاتحہ کو سبع من المثانی کہا گیا ہے کہ یہ سورت کم از کم نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے۔ پھر نماز کے علاوہ بھی پڑھی جاتی ہے۔ دوسری مراد وہ آیات ہیں جو قرآن میں بہ تکرار وارد ہیں۔ مثلاً ﴿وَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِلْمُکَذِّبِیْنَ﴾ یا ﴿وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآن للذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُدَّکِرٍ﴾ یا ﴿فَبِایِّ اٰلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ﴾ اور ایسی آیات جو دو دو یا تین بار وارد ہیں وہ بہت ہیں۔ تیسری مراد اقوام سابقہ کے انجام سے خبردار کرنے والی آیات یا انبیاء کے قصص ہیں جو قرآن میں بار بار مختلف پیرایوں میں مذکور ہوئے ہیں۔ ایسے ہی شرک کے ابطال اور توحید کے دلائل ہر سورۃ کی بے شمار آیات میں مذکور ہیں۔ جو سب ایک دوسری کی تائید کرتی ہیں اور چوتھی مراد ایسی آیات ہیں جن میں نوعی تقابل پایا جاتا ہے۔ مثلاً جہاں اہل جنت کا ذکر ہے وہاں اہل دوزخ کا ذکر بھی آجاتا ہے اور اس کے برعکس بھی۔ جہاں رات کا ذکر ہے وہاں دن کا بھی ذکر ہے۔ جہاں اللہ تعالیٰ کی صفت قہار کا ذکر ہے تو اگلی آیت میں صفت غفار یا غفور کا بھی ذکر آگیا ہے۔ [٣٩] قرآن سننے پر حال پڑنا محض ریاکاری ہے :۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنی والدہ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ جب قرآن پڑھا جاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا کیا حال ہوتا تھا۔ وہ کہنے لگیں کہ ’’ان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے اور بدن پر رونگٹے کھڑے ہوجاتے‘‘ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ ’’ہمارے زمانہ میں تو بعض لوگ ایسے ہیں کہ قرآن سننے سے ان کو غش آجاتا ہے‘‘ سیدہ اسماء نے کہا ’’اللہ کی پناہ شیطان مردود سے‘‘ اور جلدوں اور دلوں کے نرم پڑنے کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ بڑی خوش دلی اور رغبت کے ساتھ اللہ کی عبادت بجا لاتے ہیں۔ یہ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان لوگوں کی صفات ہیں جو فی الواقع قرآن کی تاثیر قبول کرتے ہیں۔ پھر کچھ لوگوں نے تصنع سے ایسے طریقے ایجاد کر لئے کہ قرآن سننے سے غش آجائے اور وہ گر پڑیں جسے ہماری زبان میں حال پڑنا یا حال کھیلنا کہتے ہیں۔ ریا کار اور مصنوعی پیر قسم کے لوگ عام لوگوں پر اپنی بزرگی کی دھاک بٹھانے کے لئے ایسے کام کرتے ہیں۔ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عراق کے ایک ایسے شخص پر سے گزرے جو مدہوش گرا ہوا تھا۔ انہوں نے پوچھا : ’’اسے کیا ہوا ؟‘‘ لوگوں نے کہا :’’جب یہ قرآن سنتا ہے تو اس کا یہی حال ہوجاتا ہے‘‘ سیدنا عبداللہ کہنے لگے : ہم بھی اللہ سے ڈرتے ہیں مگر گرتے نہیں اور ایسے لوگوں کے پیٹ میں شیطان ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کا یہ طریقہ نہ تھا اور ابن سیرین سے کسی نے پوچھا : ’’کچھ لوگ قرآن سن کر گر جاتے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا : ایسے لوگوں کو ایک چھت پر اس طرح بٹھاؤ کہ وہ نیچے کی طرف دیوار کے ساتھ پاؤں لٹکائے ہوئے ہوں پھر انہیں قرآن سناؤ۔ اگر وہ نیچے گر پڑیں تب وہ سچے ہیں ورنہ وہ جھوٹے اور ریاکار ہیں۔ الزمر
24 [٤٠] انسان کی عادت ہے کہ جب اس کے بدن پر کوئی ضرب پڑنے والی ہو تو سب سے پہلے وہ اپنے ہاتھوں سے اس کی روک تھام کرتا ہے یعنی پڑنے والے وار کی ہاتھوں سے مدافعت کرتا ہے۔ اور اگر حملہ شدید ہو اور ہاتھوں سے اسے روکا نہ جاسکتا ہو تو باقی بدن کے ہر حصے پر ضرب پڑنا گوار کرلیتا ہے لیکن جیسے بھی بن پڑے چہرے کو اس ضرب سے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ قیامت کے دن ان کے ہاتھ تو بندھے ہوں گے اور بے بسی کا بھی یہ عالم ہوگا کہ اس عذاب کو مجبوراً انہیں اپنے چہروں پر برداشت کرنا پڑے گا۔ پھر ساتھ ہی انہیں یہ بھی کہا جائے گا کہ یہ تمہارے ہی اعمال کا بدلہ ہے۔ یہاں پھر سوال کا اگلا حصہ مخدوف ہے اور یہ جملہ یوں مکمل ہوتا ہے کہ کیا ایسا شخص اس مومن کی طرح ہوسکتا ہے جسے آخرت میں کوئی تکلیف اور نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہی نہ ہو بلکہ اسے اس دن ہر طرح سے راحت اور اطمینان میسر ہو؟ الزمر
25 الزمر
26 [٤١] دنیا میں سزامحض ظالم کا ہاتھ روکنے کے لئے دی جاتی ہے :۔ وہ اللہ کی آیات یا اس کی وعید کا مذاق اڑانے میں لگے رہے اور پیغمبروں سے یہی کہتے رہے کہ وہ عذاب کب آئے گا جس کی دھمکی دے رہے ہو۔ اسے لے کیوں نہیں آتے۔ وہ اپنے اس شغل میں ہی مگن تھے کہ انہیں اللہ کے عذاب نے آلیا اور یہ عذاب کوئی ان کے جرائم کی سزا نہیں تھی بلکہ اس طرح انہیں مزید ظلم اور زیادتیوں سے روک دیا گیا اور اصل سزا تو انہیں اس وقت دی جائے گی جب وہ میدان محشر میں پیش کئے جائیں گے۔ الزمر
27 [٤٢] اس سے مراد یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ہم نے شرک کی تردید میں ہر طرح کی مثالیں دلائل کے ساتھ پیش کردی ہیں تاکہ لوگوں کو اصل حقیقت سمجھنے میں کوئی دشواری نہ رہے اور اس سے مراد دین کی سب ضروری باتیں بھی ہوسکتی ہیں جن میں اوامر و نواہی بھی شامل ہیں۔ ایسی بنیادی باتیں سب قرآن میں موجود ہیں اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا مطلب اور مفہوم پوری طرح واضح ہوجاتا ہے۔ یعنی ہر شخص کو دین سے متعلق جملہ ہدایات کتاب و سنت سے مل سکتی ہیں۔ اور اسے اپنے دین کی حفاظت کے لئے قرآن کریم اور حدیث کافی ہے۔ الزمر
28 [٤٣] قرآن ٹھیٹھ عربی زبان میں کیوں ہے :۔ قرآن اگر کسی دوسری زبان میں ہوتا تو اسے سمجھنے کے لئے ترجمانوں کے علاوہ اور بھی کئی قسم کی دشواریاں پیش آسکتی تھیں۔ یہ ان کی اپنی مادری اور ٹھیٹھ زبان میں ہے جسے سب لوگ بآسانی سمجھ سکتے ہیں پھر اس میں جو باتیں مذکور ہیں وہ صاف اور سیدھی ہیں جنہیں ہر عقل سلیم قبول کرتی ہے۔ اس کے انداز بیان اور دلائل میں کوئی الجھاؤ یا پیچیدگی نہیں۔ علاوہ ازیں جو احکام اس میں بیان کئے گئے ہیں ان پر عمل کرنا محال نہیں اور لوگ بسہولت ان پر عمل پیرا ہوسکتے ہیں اور جو لوگ کسی بھی درجہ میں معذور ہیں ان کے لئے رخصتوں یا مراعات کا پورا پورا خیال رکھا گیا ہے۔ الزمر
29 [٤٤] ایک انسان کے مختلف اور متشاکس آ قا کون کون سے ہیں؟ تشاکس کے معنی بخل، تند خوئی اور بدمزاجی کی وجہ سے ایک دوسرے سے اپنے اپنے حق کے لئے کھینچا تانی کرنا ہے۔ مثال یہ ہے کہ ایک غلام کے ایک نہیں بلکہ متعدد آقا ہیں۔ اور ہر ایک کا جی یہ چاہتا ہے کہ وہ غلام کو اپنے ہی کام میں لگائے رکھے اور جتنا اس کا حق بنتا ہے اس سے زیادہ اس سے محنت لے۔ دوسروں کی خدمت خواہ وہ کرسکے یا نہ کرے۔ پھر وہ تند خو اور بدسرشت بھی ہیں ان میں سے ہر شخص اس غلام سے ڈانٹ ڈپٹ بھی کرتا ہے اور بدسلوکی سے بھی پیش آتا ہے۔ تو بتاؤ اس غلام کا کیا حال ہوگا اور وہ کس مشکل اور مصیبت میں پڑا ہوگا اور دوسرے غلام کا مالک صرف ایک ہی ہے تو بتاؤ ان دونوں غلاموں کی حالت ایک جیسی ہوسکتی ہے؟ اور اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ایسے بدسرشت لوگ جو اپنے مشترکہ غلام سے اپنا زیادہ سے زیادہ حق وصول کرنے کے لئے جھگڑتے ہیں۔ غلام کو اس کا حق دینے میں سخت بخیل ہوتے ہیں۔ ایسے غلام کو نہ کوئی صرف اپنا غلام سمجھتا ہے نہ اس کی خبر لیتا ہے نہ اس کے حقوق کا خیال رکھتا ہے۔ اور دوسرا غلام جو صرف ایک شخص کا ہو وہ اسے اپنا ہی غلام سمجھتا ہے اور اس کے حقوق کا بھی خیال رکھتا ہے۔ اس لحاظ سے بھی وہ غلام جس کا ایک ہی آقا ہو وہ بہتر ہوا۔ یہ مثال دراصل ایک مشرک اور ایک موحد کی مثال ہے۔ مشرک کئی معبودوں کا غلام ہوتا ہے۔ اسے یہ فکر بھی دامنگیر رہتی ہے کہ اگر ایک کی حاضری اور نذر و نیاز دے کر اس کو خوش کرنے کی کوشش کرے تو دوسرے کہیں بگڑ نہ بیٹھیں اور اسے کوئی گزند نہ پہنچا دیں۔ اسی کھینچا تانی میں وہ پریشان اور پراگندہ دل رہتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں ایک موحد کو صرف ایک اکیلے اللہ کی رضا مندی مطلوب ہوتی ہے پھر چونکہ موحد اللہ کا ہی بن کر رہتا ہے اللہ بھی ہر آڑے وقت میں اس کی دستگیری فرماتا، مصائب سے نجات دیتا اور انعامات سے نوازتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں کی حالت ایک جیسی نہیں ہوسکتی۔ اور اسے سمجھنے کے لئے کسی لمبے چوڑے غور و فکر کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ اس مثال میں معبودوں سے مراد پتھر کے بت نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ ان کا بخیلی، تند خوئی اور بدمزاجی سے کوئی تعلق نہیں۔ نہ ہی وہ اپنے حقوق کے لئے جھگڑا کرسکتے ہیں۔ لامحالہ ان سے مراد ایسے جیتے جاگتے آقا ہی ہوسکتے ہیں جو عملاً آدمی کو متضادا حکام دیتے ہیں اور فی الواقع اس کو اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں۔ ان میں سب سے پہلا آقا تو انسان کا اپنا نفس ہے جو طرح طرح کی خواہشات اس کے سامنے پیش کرتا ہے اور اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ انہیں پورا کرے۔ دوسرے بے شمار آقا گھر میں، خاندان میں، برادری میں، قوم میں اور ملک کے معاشرے میں، مذہبی پیشواؤں میں، حکمرانوں اور قانون سازوں میں، کاروبار اور معیشت کے دائروں میں اور دنیا کے تمدن پر غلبہ رکھنے والی طاقتوں میں ہر طرف موجود ہیں جن کے متضاد تقاضے اور مختلف مطالبے ہر وقت آدمی کو اپنی اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں اور ان میں سے جس کا تقاضا پورا کرنے میں بھی وہ کوتاہی کرتا ہے وہ اپنے دائرہ کار میں اس کو سزا دیئے بغیر نہیں چھوڑتا۔ البتہ ہر ایک کی سزا کے ہتھیار الگ الگ ہیں۔ کوئی دل مسوستا ہے، کوئی روٹھ جاتا ہے، کوئی مقاطعہ کرتا ہے، کوئی دیوالیہ نکالتا ہے، کوئی مذہب کا وار کرتا ہے اور کوئی قانون کی چوٹ لگاتا ہے۔ اس پریشانی اور تنگی سے نکلنے کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ انسان صرف ایک اللہ کا بندہ بن جائے اور اللہ کے احکام میں کسی دوسرے کی قطعاً پروانہ کرے۔ یہی اس کے لئے سلامتی، اطمینان اور نجات کا راستہ ہے۔ [٤٥] الحمد للہ کے استعمال کا خاص موقع :۔ یہاں الحمدللہ کا استعمال ان معنوں میں ہوا ہے کہ بہت سے آقاؤں کے پرستار اس سوال کا جواب دیں تو بھی مرتے ہیں اور اگر نہ دیں تو بھی مرتے ہیں پھر اگر جواب نہ دیں تو گویا یہ ان کے خلاف مسکت دلیل ہوئی۔ اور اگر جواب دیں تو وہ یہ تو کہہ نہیں سکتے کہ ان دونوں غلاموں کی حالت برابر ہے اور نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ زیادہ آقا رکھنے والا غلام بہتر ہے۔ لہٰذا اللہ کا شکرہے کہ اتنی بات تو وہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ایک آقا رکھنے والا غلام ہی بہتر ہوسکتا ہے۔ پھر جب عملی زندگی کا وقت آتا ہے تو یہ سب باتیں بھول کر نادان بن جاتے ہیں۔ الزمر
30 [٤٦] کفار مکہ بسا اوقات یہ آرزو کرتے تھے کہ اگر یہ نبی مرجائے تو سارے جھگڑے ختم ہوجائیں۔ اس آیت میں ان کی اسی بری آرزو کا نہایت سنجیدہ انداز میں جواب دیا گیا ہے اور اس نبی کو ہی مخاطب کرکے کہا گیا ہے کہ اگر آپ کو موت آتی ہے تو یہ کیا موت سے بچ سکتے ہیں؟ پھر یہ کیا معلوم پہلے موت کس کو آئے گی؟ موت آنے کی حد تک تو سب یکساں ہیں مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ موت کے بعد کس کا انجام بخیر ہوگا۔ اور کون اپنی سرکشی کی پاداش میں ماخوذ ہوگا۔ الزمر
31 [٤٧] اللہ کے ہاں کس کس قسم کے لوگ آپس میں جھگڑا کریں گے؟:۔ یہ جھگڑے بھی کئی قسم کے ہوں گے۔ مظلوم ظالم کو دامن سے پکڑے اللہ کے حضور پیش کرے گا اور اپنے ظلم کے بارے میں اللہ کے حضور دلائل پیش کرے گا۔ دوسری قسم یہ کہ کافر اور مشرک اپنے جرم کا انکار کردیں گے۔ پھر ان کے خلاف رسولوں کی اور ایمانداروں کی شہادتیں ہوں گی۔ پھر ان کے اپنے اعضاء بھی ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ تیسری قسم اہل حق اور اہل باطل یا موحدوں اور مشرکوں میں جھگڑوں کا فیصلہ اللہ تعالیٰ خود کریں گے۔ چوتھی قسم مشرکین اور ان کے معبودوں یا بڑے لوگوں اور ان کے تابعداروں میں جھگڑا ہوگا۔ دونوں ایک دوسرے پر الزام دھریں گے۔ غرض کئی قسم کے جھگڑے ہوں گے۔ جن کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں نہایت انصاف کے ساتھ کیا جائے گا۔ الزمر
32 [٤٨] سب سے بڑھ کر ظالم کون کون ہیں؟ یعنی قیامت کے دن سب سے زیادہ ظالم اور سزا کا مستحق وہ شخص ہوگا جس نے ایسے عقیدے گھڑے کہ اللہ نے اپنے بہت سے اختیارات اور تصرفات اپنے پیاروں کو سونپ دیئے ہیں۔ اور ان کے پاس جو ایسے اختیارات ہیں وہ اللہ ہی کے عطا کئے ہوئے تھے۔ ان کے ذاتی نہیں ہیں۔ پھر جب انہیں حقیقت حال سے خبردار کیا جائے تو سمجھانے والے کو ہی جھوٹا سمجھیں اور اس کی مخالفت پر اتر آئیں۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر کوئی شخص جھوٹ موٹ کہہ دے کہ وہ اللہ کا نبی ہے۔ اور اس پر اللہ کا کلام نازل ہوتا ہے تو ایسا شخص سب سے بڑا ظالم ہے۔ اور وہ اپنی بات میں سچا اور فی الواقع اللہ کا نبی اور اللہ ہی کا کلام پیش کر رہا ہو۔ لیکن سننے والا اسے جھٹلا دے تو پھر یہ شخص سب سے بڑھ کر ظالم ہوگا۔ پہلے مطلب کے لحاظ سے اس آیت کا مصداق ایک ہی شخص ہے اور دوسرے مطلب کے لحاظ سے اس کا مصداق دو الگ الگ اشخاص ہیں۔ اور یہ سب ہی بڑے بڑے ظالموں کی قسمیں ہیں۔ الزمر
33 [٤٩] یہ آیت سابقہ آیت کا عکس ہے۔ اور اس کا مصداق ایک بھی ہوسکتا ہے اور دو الگ الگ بھی۔ یعنی جو شخص خود بھی سچ بات پیش کرتا ہے۔ سچ ہی بولتا ہے اور اگر کوئی سچی بات اس کے سامنے پیش کی جائے تو اس کی تصدیق بھی کردیتا ہے تو ایسا شخص فی الواقع متقی ہے اور دوسری صورت میں سچ بولنے والا تو رسول ہے۔ اور اس کی تصدیق کرنے والے مومنین ہیں۔ اور ایسے لوگ اللہ سے ڈرنے والے ہیں۔ الزمر
34 [٥٠] ہر انسان موت کے دروازے پر پہنچتے ہی اپنے پروردگار کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ لہٰذا اللہ کے انعامات کا سلسلہ یہیں سے شروع ہوجاتا ہے اور دخول جنت سے پہلے کافی مراحل ہیں جہاں ایسے متقین پر اللہ کی عنایات ہوں گی۔ اور اللہ تعالیٰ ان کی خواہشات پوری فرمائے گا۔ مثلاً وہ چاہیں گے کہ عذاب قبر سے بھی محفوظ رہیں اور روز قیامت کی ہولناکیوں اور حساب و کتاب میں سختی سے بھی تو ان کی ایسی خواہشات پوری کی جائیں گی۔ الزمر
35 [٥١] یعنی ایسے متقین نے اگر اپنے دور جاہلیت میں کچھ گناہ کے کام کئے بھی تھے تو اللہ ان کو محو کر دے گا۔ پھر اسلام لانے کے بعد انہوں نے جو اچھے کام کئے تھے ان میں سے جو کام سب سے بہتر ہوگا اسی کی جزا کے مطابق دوسرے عملوں کی بھی جزا دی جائے گی خواہ وہ اس پایہ کے نہ ہوں۔ الزمر
36 [٥٢] مشرکوں کا اپنے معبودوں کے انتقام سے ڈرنا :۔ اس جملہ کے مخاطب مشرکین مکہ ہیں۔ جو اکثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کرتے تھے کہ ہمارے معبودوں کی توہین کرنا چھوڑ دو۔ ان کی شان میں جس کسی نے گستاخی کی وہ تباہ و برباد ہوکے رہ گیا۔ لہٰذا اگر تم ایسی باتوں سے باز نہ آئے تو تمہارا بھی یہی حشر ہوگا۔ اسی کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ : کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو کافی نہیں؟ واضح رہے کہ یہ خطاب صرف مشرکین مکہ کے لئے مختص نہیں بلکہ ہر دور کے اور ہر جگہ کے مشرکوں کے لئے ہے۔ دور کیوں جائیں۔ اپنے ہاں کے ہی اولیاء اللہ کے متداول تذکرے ملاحظہ فرما لیجئے۔ ان میں آپ کو ایسا خاصا مواد مل جائے گا کہ فلاں شخص نے فلاں آستانے کی توہین کی تو چند ہی دنوں میں اس کا کاروبار تباہ ہوگیا۔ اور فلاں شخص نے فلاں بزرگ کے حق میں گستاخانہ کلمے کہے تو ایسا بیمار پڑا کہ پھر اٹھ نہ سکا۔ پھر یہ انتقام کا سلسلہ صرف زندہ بزرگوں اور پیروں سے مخصوص نہیں کہ فوت شدہ بزرگوں کے حق میں گستاخی کی جائے تو وہ بھی اپنا انتقام لے کر چھوڑتے ہیں۔ گویا انبیاء کا کام تو یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے بندوں کو صرف اللہ سے ڈرائیں اور ماسوا اللہ سے بے نیاز کردیں جبکہ ان مشرکوں کا مشن انبیاء کے مشن کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ وہ بس اپنے معبودوں اور بزرگوں کے انتقام سے ہی ڈرا ڈرا کر ان کے جال میں پھنسائے رکھتے ہیں۔ پھر ان اللہ کے پیاروں کے ذکر میں اللہ تعالیٰ خود ہی پس منظر میں چلا جاتا ہے۔ الزمر
37 [٥٣] اللہ کی توہین کیسے ؟۔ ان مشرکوں کو اپنے اپنے معبودوں اور بزرگوں کی عزت کا تو بڑا خیال رہتا ہے اور اس غرض کے لئے وہ بہت سے قصے اور افسانے بھی گھڑ گھڑ کر لوگوں میں مشہور کرتے رہتے ہیں۔ مگر اس بات کا انہیں کبھی خیال نہیں آتا کہ ان سب کے اوپر ایک ایسی زبردست ہستی ہے جس کی یہ لوگ، اپنے معبودوں کی عزت بڑھانے کی آڑ میں زبردست توہین کر رہے ہیں۔ اور وہ ان سے پوری طرح انتقام بھی لے سکتی ہے اور انہیں یہ موٹی سی بات بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ اللہ زبردست کے مقابلہ میں ان کے معبودوں کی حقیقت ہی کیا ہے۔ جو اللہ اکیلے کے پرستار کو اسطرح کی گیڈر بھبکیوں سے ہراساں کرنا چاہتے ہیں۔ الزمر
38 [٥٤] یہ بات تو مشرکین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ زمین و آسمان یعنی اس کائنات کا خالق اللہ تعالیٰ ہے۔ اور خالق اپنی پیدا کی ہوئی یا بنائی ہوئی چیز میں ہر طرح کے تصرف کا اختیار بھی رکھتا ہے۔ اور ایسے تصرف کا اختیار خالق کے علاوہ دوسری کسی ہستی کو نہیں ہوسکتا۔ بالخصوص جب کہ وہ خود بھی اللہ کی مخلوق اور اسی کے زیر تصرف ہے۔ اب ایک طرف تو اللہ تعالیٰ ہے جو اپنی مخلوق میں تصرف کے وسیع اختیارات رکھتا ہے اور دوسری طرف جو بھی معبود ہوگا بہرحال وہ اللہ کی مخلوق ہی ہوگا اور اللہ کے مقابلہ میں اس کا کچھ اختیار بھی نہیں چل سکتا اب بتاؤ کہ ان دونوں میں سے کس پر بھروسا کرنا چاہئے اور کس کو اپنی مدد کے لئے کافی سمجھنا چاہئے۔ اور ان معبودوں کا تو یہ حال ہے کہ وہ سب مل کر بھی میری اس تکلیف کو دور نہیں کرسکتے جو اللہ نے میرے مقدر میں لکھ دی ہے اور اگر اللہ مجھے اپنی رحمت سے نوازنا چاہے تو یہ سب مل کر بھی اسے روک نہیں سکتے۔ کیونکہ اللہ کے مقابلہ میں ان کے کچھ بھی اختیارات نہیں ہیں۔ پھر جو چیزیں میرے نفع و نقصان سے متعلق مجبور محض ہیں۔ ان پر بھروسہ کرنا تو سخت نادانی کی بات ہوگی۔ واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اور بھی کئی رسولوں کو مشرکوں کی طرف سے اس قسم کی دھمکیاں دی جاتی رہیں کہ اگر تم ہمارے معبودوں کی گستاخی سے باز نہ آئے تو وہ تمہیں مخبوط الحواس بنا دیں گے اور تمہیں تباہ کرکے رکھ دیں گے اور یہ کردیں گے اور وہ کردیں گے تو اس کے جواب میں رسول یہی کہتے رہے۔ مشرکوں کی دھمکی کا جواب :۔ ان معبودوں سے کہو کہ میرا جو کچھ بگاڑنا چاہتے ہیں بگاڑ لیں اور فوری طور پر سب مل کر میرے خلاف کارروائی کر دیکھیں اور مجھے مہلت بھی نہ دیں۔ تاکہ مجھے بھی علم ہوجائے کہ وہ کچھ کرسکتے ہیں یا نہیں اور تمہیں بھی الزمر
39 [٥٥] تمہارے کام یہ ہیں کہ اللہ کی آیات کا مذاق اڑاؤ۔ ایمانداروں کو اذیتیں پہنچاؤ۔ اسلام کی راہ روکنے کے لئے سازشیں اور منصوبے تیار کرو اور اپنے آبائی دین اور شرکیہ رسوم پر ڈٹے رہو سو یہ کام تم کرتے جاؤ۔ اس کے مقابلہ میں میں اور میرے پیروکار تمہاری طرف سے ہر طرح کے دکھ سہہ کر بھی اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے انشاء اللہ کام کرتے رہیں گے۔ الزمر
40 [٥٦] رسوا کرنے والے عذاب سے مراد دنیا کا عذاب ہے۔ گویا تھوڑی ہی مدت بعد تم اس رسوائی کے عذاب سے دوچار ہوجاؤ گے اور دائمی عذاب سے مراد آخرت کا عذاب ہے جس کا علم تمہیں مرنے کے ساتھ ہی ہوجائے گا۔ الزمر
41 [٥٧] یعنی ہمارا کام یہ تھا کہ ہم لوگوں کی ہدایت کے لئے ایک ایسی کتاب نازل کریں جو ٹھوس حقائق پر مبنی ہو تاکہ لوگوں پر اتمام حجت ہوجائے سو ایسی کتاب ہم نے آپ پر نازل کردی ہے اور آپ کا کام صرف یہ ہے کہ لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچا دیں اور وہ پیغام آپ نے پہنچادیا۔ لوگوں کو زبردستی ان حقائق کا قائل بنانا آپ کی ذمہ داری نہیں۔ آگے ہر شخص خود اپنا نفع سوچ لے۔ اگر نصیحت قبول کرے گا تو اس میں اس کا اپنا ہی بھلا ہے اور اگر اکڑ جائے گا اور مخالفت پر اتر آئے گا تو اس کی سزا خود بھگتے گا۔ الزمر
42 [٥٨] اس آیت سے درج ذیل امور کا پتہ چلتا ہے بالفاظ دیگر اس میں مندرجہ ذیل نشانیاں موجود ہیں۔ ١۔ روح حیوانی اور روح نفسانی :۔ روح کی دو قسمیں ہیں۔ ایک روح حیوانی جس کا تعلق دوران خون سے ہوتا ہے۔ اور یہ نیند کی حالت میں بھی جسم کے اندر موجود رہتی ہے۔ دوسری روح نفسانی یا نفس ناطقہ ہے جو نیند یا خواب کی حالت میں بدن کو چھوڑ کر سیر کرتی پھرتی ہے اور ہر طرح کے واقعات سے خواب میں ہی دوچار ہوتی رہتی ہے۔ اسی روح کو اللہ تعالیٰ مخاطب فرماتے ہیں۔ دوام روح نفسانی کو ہے :۔ اور اسی روح کو دوام ہے یہ روح جب بدن کو چھوڑ دیتی ہے تو انسان کے حواس خمسہ میں نمایاں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ نیند کے دوران انسان کی قوت باصرہ، لامسہ اور ذائقہ کی کارکردگی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ قوت سامعہ بھی ماند پڑجاتی ہے۔ ہاں اگر غل غپاڑا ہو یا کوئی دوسرا آدمی سوئے ہوئے کو بلند آواز سے پکار کر جگا دے تو روح نفسانی دوبارہ اپنے جسم میں لوٹ آتی ہے۔ اس روح کو اپنے جسم سے عشق کی حد تک محبت ہوتی ہے۔ کیونکہ یہی جسم اس روح کی آرزؤں کی تکمیل کا ذریعہ بنتا ہے۔ ٢۔ عذاب قبر کی ماہیت :۔ ان دونوں قسم کی روحوں کا آپس میں نہایت گہرا اور قریبی تعلق ہوتا ہے کیونکہ یہ ایک ہی اکائی کے دو جزو ہوتے ہیں۔ روح نفسانی اگر خواب میں کسی بات پر یا کسی چیز سے لطف اندوز ہوتی ہے تو انسان جاگنے پر ہشاش بشاش نظر آتا ہے۔ اور اگر اس روح نفسانی کو خواب میں کوئی ناگوار حادثہ پیش آجائے تو بعض دفعہ انسان سوتے میں ہی چیخنے چلانے لگتا ہے اور جاگتا ہے تو سخت اندوہناک ہوتا ہے اور کہیں مار پٹے تو حیرت کی بات ہے کہ اس مار پٹائی کے اثرات اور نشانات بعض دفعہ انسان کے جسم پر نمودار ہوجاتے ہیں۔ جنہیں جاگنے کے بعد انسان خود بھی مشاہدہ کرسکتا ہے۔ اس حقیقت سے عذاب قبرر یا عالم برزخ کے عذاب کی ماہیت کو کسی حد تک سمجھا جاسکتا ہے۔ ٣۔ روح حیوانی موت کے ساتھ ہی فنا ہوجاتی ہے :۔ روح حیوانی کا تعلق محض بدن سے ہے۔ بدن نہ ہو تو اس روح کا کوئی وجود ہی نہیں رہتا۔ بلکہ یہ روح تو بدن کے بوسیدہ ہونے یا فنا ہونے کا بھی انتظار نہیں کرتی بلکہ موت کے ساتھ ہی ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے ختم ہونے سے بدن بدن نہیں کہلاتا ہے بلکہ جسد، میت، لاش اور نعش کہلاتا ہے۔ ٤۔ ان دونوں قسم کی روحوں میں سے کسی بھی ایک قسم کی روح کے خاتمہ سے دوسری قسم کی روح کا از خود جسم سے تعلق ختم ہوجاتا ہے اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک شخص سوتے میں کوئی خواب دیکھ رہا ہے کہ کسی دوسرے شخص نے اسے سوتے میں قتل کردیا۔ تو اب روح نفسانی خواہ کہیں بھی سیر کرتی ہوگی، دوبارہ اس جسم میں داخل نہیں ہوگی بلکہ اللہ تعالیٰ اسے وہیں قبض کرلے گا۔ اس کے برعکس صورت یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی انسان کی روح نفسانی کو خواب میں قبض کرلیں تو بستر پر سونے والا آدمی بغیر کسی حادثہ یا بیماری کے مر جائے گا۔ ٥۔ نیند آدھی موت ہوتی ہے :۔ اللہ تعالیٰ موت کی حالت میں بھی روح نفسانی کو قبض کرتا ہے۔ اور نیند کی حالت میں بھی۔ اور یہی وہ روح ہے جسے انا یا (EGO) کہا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے نیند بھی بہت حد تک موت کے مشابہ ہوتی ہے۔ اسی لئے سوتے وقت ہمیں جو دعا سکھائی گئی ہے۔ وہ یہ ہے۔ (اللّٰھُمَّ باسْمِکَ أمُوْتُ وَأحْیٰی) یعنی اے اللہ! میں تیرے ہی نام سے مرتا ہوں اور تیرے ہی نام سے زندہ ہوجاؤں گا۔ اور بیدار ہوتے وقت یہ دعا سکھائی گئی ہے۔ (ألْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ أحْیَانَا بَعْدَمَا أمَاتَنَا وَإلَیْہِ النُّشُوْرُ) ’’سب طرح کی تعریف اس اللہ کو سزاوار ہے جس نے ہمیں مارنے کے بعد دوبارہ زندہ اٹھا دیا اور اسی کے حضور حاضر ہونا ہے‘‘ ٦۔ نیند سے اٹھنے اور دوبارہ اٹھنے میں مماثلت :۔ وہ اللہ جو ہمیں ہر روز سلا کر موت کا نمونہ دکھاتا اور پھر اس کے بعد زندہ کرتا رہتا ہے وہ اس بات پر بھی پوری قدرت رکھتا ہے کہ حقیقی موت کے بعد دوبارہ زندہ کردے۔ الزمر
43 [٥٩] مشرکین مکہ اپنے بتوں کی پرستش کے لئے یہ دلیل دیتے تھے کہ یہ اللہ کی بارگاہ میں ہمارے سفارشی ہیں۔ ان ہی کی سفارش سے کام بنتے ہیں۔ سو پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی کے شفیع ہونے سے یہ کب لازم آتا ہے کہ اسے معبود بنا لیا جائے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ ان بتوں کو نہ عقل ہے، نہ سمجھ ہے، نہ سنتے ہیں، نہ بولتے ہیں۔ اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں سکتے کسی بھی بات کا یہ اختیار نہیں رکھتے تو پھر تمہاری سفارش کیسے کریں گے؟ الزمر
44 [٦٠] سفارش سے متعلق جملہ اختیارات اللہ کو ہیں :۔ اس آیت میں سفارش کا ضابطہ واضح فرما دیا کہ سفارش کے جملہ اختیارات تو اللہ کو ہیں اور سفارش تو وہ کرسکے گا جسے اللہ اجازت دے گا۔ اب کیا تمہیں معلوم ہے کہ جن بتوں کو یا ان کی روحوں کو یا بزرگوں کو تم نے شفیع بنا رکھا ہے یا سمجھ رکھا ہے انہیں سفارش کی اجازت بھی دے گا یا نہیں؟ سفارش کے لئے دوسری شرط یہ ہے کہ سفارش اسی کے حق میں قبول ہوگی جن کے لئے اللہ تعالیٰ کی مرضی ہو۔ کیا تم بتا سکتے ہو کہ اللہ تمہارے حق میں سفارش کی کسی کو اجازت دے دے گا ؟ گویا جس سفارش پر تم بھروسہ کئے بیٹھے ہو اس کا خیال دل سے نکال دو۔ یعنی اگر سفارش کرنے والا اپنی مرضی سے سفارش کر ہی نہ سکے جب تک اللہ کی طرف سے اجازت نہ ہو تو پھر یہ اللہ کے حکم کی تعمیل ہوئی اس کا اختیار کہاں سے آگیا ؟ قیامت کے دن کچھ لوگ دوسروں کی سفارش کریں گے ضرور۔ لیکن اس پر پابندیاں ایسی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ کی مرضی کے تحت ہوگا۔ اس میں سفارش کرنے والے بھی اللہ کے حکم کے پابند اور جن کے حق میں سفارش ہوگی وہ بھی اللہ کی رضا کے تحت۔ تو جملہ اختیارات تو اللہ کے ہوئے اور کسی دوسرے کے اختیار یا پسند کو اس میں کچھ دخل نہ ہوگا۔ الزمر
45 [٦١] مشرکوں کی ایک پکی علامت توحید خالص سے چڑ :۔ اس آیت میں مشرکوں کی ایک پکی خصلت کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ مشرک بتوں کے پجاری ہوں یا قبروں کے یا پیروں فقیروں کے نیز کسی بھی دور کے مشرک ہوں سب میں یہ خصلت پائی جاتی ہے کہ اگر اللہ اکیلے کی ہی صفات بیان کی جائیں، اس کے محیرالعقول کارنامے بیان کیے جائیں، اس کی حکمت سے لبریز آیات کی تشریح بیان کی جائے تو اس سے مشرکوں کے سینے ٹھنڈے نہیں ہوتے بلکہ ان میں انقباض اور گھٹن پیدا ہونے لگتی ہے۔ اور بسا اوقات وہ بیان کرنے والے کو بتوں کا یا اولیاء اللہ کا منکر ہونے کا طعنہ دینے لگتے ہیں۔ اس کے بجائے اگر ولیوں کی کرامات بیان کی جائیں۔ اور یہ بتایا جائے کہ فلاں بزرگ نے اپنی گستاخی کا یوں انتقام لیا تھا۔ فلاں شخص کی قسمت میں ایک لڑکا بھی نہیں لکھا تھا لیکن فلاں بزرگ نے اللہ تعالیٰ سے اصرار اور تکرار کرکے اس شخص کے حق میں سات بیٹے اللہ تعالیٰ سے منوا لیے۔ چنانچہ اس کے ہاں سات بیٹے پیدا ہوئے۔ جب کوئی ایسے من گھڑت قصے بیان کرتا ہے تو سامعین سبحان اللہ! کے نعرے لگانے لگتے ہیں اور بڑے خوش رہتے ہیں البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ ان کے بزرگوں کے بیان میں اگر کہیں اللہ کا نام آجائے تو اسے گوارا کرلیتے ہیں۔ لیکن اصل محبت انہیں اپنے اولیاء سے ہی ہوتی ہے۔ الزمر
46 [٦٢] مشرکوں کو سمجھانے کے بعد دعا : یعنی جب اتنی موٹی موٹی باتوں میں بھی اختلاف اور جھگڑے ہونے لگیں۔ اللہ کے وقار اور اس کی عظمت کا احساس تک نہ رہے۔ اور ساری وفاداریاں اور نیاز مندیاں اللہ کے بجائے اللہ کے پیاروں کے لئے ہی وقف ہو کر رہ جائیں۔ تو اے اللہ! اب تجھ سے فریاد ہے اور تیرا ہی حوصلہ ہے جو یہ سب کچھ برداشت کئے جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو مہلت دیئے جاتا ہے۔ اور ان کا فیصلہ قیامت کے دن پر ٹال رکھا ہے۔ جب کوئی شخص حق بات سننے کو تیار نہ ہو اور ناحق جھگڑا کرتا ہو تو ہر شخص کو یہ دعا پڑھنی چاہئے۔ جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو سکھائی ہے۔ الزمر
47 [٦٣] شرک کا فدیہ : اس آیت میں ظالموں سے مرادیہی مشرک ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کی صفات دوسروں میں بانٹتے پھرتے ہیں۔ پھر ایسی من گھڑت باتوں کا خوب پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ اللہ اکیلے کی توحید بیان کی جائے تو سمجھتے ہیں کہ یہ درپردہ ہمارے اولیاء کی توہین کی جارہی ہے ایسے لوگوں کا قیامت کے دن یہ حشر ہوگا کہ اگر زمین و آسمان کے سب خزانے ان کے قبضہ میں ہوں تو وہ بھی چاہیں گے کر یہ سب کچھ دے دلا کر اس عذاب سے چھٹکارا حاصل کرلیں جو ان کے ان گناہوں کے سلسلہ میں ان کو لاحق ہوگا۔ لیکن یہ صورت بھی ناممکن ہوگی اور انہیں اپنے گناہوں کی سزا بھگتنا ہی پڑے گی۔ الزمر
48 [٦٤] اللہ کی گستاخی کیسے ہوتی ہے؟ یعنی مشرکین اپنے معبودوں کی شان بڑھا چڑھا کر بیان کرتے تھے جس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کے معبودوں کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں۔ قیامت کے دن ان کو ٹھیک طرح سے یہ علم ہوجائے گا کہ ہر طرح کا اختیار اور قدرت صرف اللہ کے پاس ہے اور ان کے معبود بالکل بے بس ہیں۔ اس دن وہ اللہ کی شان میں گستاخیوں کے نتائج اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔ اور اللہ کے جس عذاب کا صرف اس لیے مذاق اڑایا کرتے تھے کہ روز آخرت کے ہی منکر تھے، وہی عذاب انہیں ہر طرف سے گھیرے میں لے لے گا۔ الزمر
49 [٦٥] یعنی خوشحالی کے دور میں اپنے معبودوں کی شان بڑھاتے اور اللہ کی گھٹاتے ہیں۔ لیکن مصیبت پڑنے پر پھر اللہ ہی کو پکارتے ہیں اور جن معبودوں کی شان بڑھا چڑھا کر بیان کرتے تھے، مصیبت کے وقت وہ کام نہیں آتے۔ [٦٦] اس جملہ کے تین مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ یہ جو مال و دولت کی فراوانی مجھے نصیب ہوئی ہے۔ پہلے ہی اللہ کے علم میں تھی اور میرے مقدر میں لکھی ہوئی تھی۔ دوسرا یہ کہ اللہ کو میری استعداد معلوم تھی اور قیاس چاہتا تھا کہ مجھے یہ مال و دولت ملنی چاہئے۔ تیسرا یہ کہ جو کہ مجھے ملا ہے۔ میرے علم، میرے تجربہ اور میری استعداد کے مطابق ہی مجھے ملا ہے۔ [٦٧] مال کی آزمائش بڑی سخت ہے۔ بحرین کے جزیہ کی رقم کی تقسیم :۔ یہ دنیا دارالامتحان ہے اور اس دنیا میں ہر انسان کی ہر حال میں آزمائش ہو رہی ہے اور ہر وقت ہو رہی ہے۔ اور جن چیزوں سے انسان کا امتحان ہو رہا ہے ان میں سے ایک نہایت اہم چیز مال و دولت کی فراوانی ہے۔ یہ انسان کے لئے کتنی بڑی آزمائش ہے؟ درج ذیل احادیث سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے : ١۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو بحرین سے جزیہ لانے کے لئے بھیجا۔ جب ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ جزیہ کا مال لے کر واپس آئے تو اگلے دن صبح کی نماز میں معمول سے زیادہ لوگ شریک ہوئے اور سلام پھیرتے ہی (حسن طلب کے طور پر) آپ کے سامنے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بات سمجھ کر مسکرا دیئے اور فرمایا : تم خوش ہوجاؤ اور خوشی کی امید رکھو۔ (یعنی تم کو روپیہ ضرور ملے گا) پھر فرمایا :’’اللہ کی قسم! مجھ کو تمہاری محتاجی کا ڈر نہیں ہے بلکہ مجھ کو تو یہ ڈر ہے کہ تم پر سامان زیست کی یوں فراوانی ہوجائے جیسے اگلے لوگوں پر ہوئی اور تم بھی اسی طرح دنیا کے پیچھے پڑجاؤ جس طرح وہ پڑگئے اور یہ مال کی کشادگی تمہیں آخرت سے اسی طرح غافل نہ کردے جس طرح ان لوگوں کو کیا تھا‘‘ (بخاری۔ کتاب الرقاق۔ باب مایحذر من زھرۃ الدنیا والتنافس فیھا) ٢۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ کی قسم! مجھے یہ ڈر نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگ جاؤ گے بلکہ میں تو اس بات سے ڈرتا ہوں کہ تم دنیا پر ریجھ نہ جاؤ‘‘ ٣۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ہر امت کی ایک آزمائش ہے اور میری امت کی آزمائش مال ہے‘‘ (ترمذی۔ بحوالہ مشکوۃ۔ کتاب الرقاق۔ دوسری فصل) الزمر
50 [٦٨] انہیں لوگوں میں سے ایک قارون تھا۔ جس نے یہی بات کہی تھی کہ مجھے جو مال و دولت ملا ہے تو اس کی وجہ میرا ذاتی علم، تجربہ اور قابلیت ہے۔ پھر جب اسے اسی کے خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا تو اس وقت نہ اس کا مال و دولت کسی کام آسکا اور نہ جاہ و حشم۔ الزمر
51 [٦٩] مال کی کشادگی اللہ کی رضا کی دلیل نہیں :۔ پہلی قومیں بھی اس غلط فہمی میں مبتلا رہیں کہ ہماری آسودہ حالی اس بات کی دلیل ہے کہ ہمارا پروردگار ہم سے راضی اور خوش ہے۔ پھر اس بات کو وہ اپنے آبائی شرکیہ دین کی صداقت پر دلیل لاتے تھے۔ سو انہیں ان باتوں کا جو انجام دیکھنا پڑا وہ سب کو معلوم ہے اور اب جو مشرکین انہی کی ڈگر پر چل رہے ہیں تو یہ بھی ایسے ہی انجام سے دوچار ہونے والے ہیں۔ یہ کہیں بھاگ کر اللہ کی گرفت سے بچ نہیں سکتے۔ الزمر
52 [٧٠] رزق کا انحصار مشیئت الٰہی پر ہے :۔ نشانیوں سے مرادیہ ہے کہ رزق کی اس کمی بیشی کی حکمتوں پر غور صرف اہل ایمان ہی کرتے ہیں۔ کیونکہ رزق کے حصول کا مسئلہ ایسا مسئلہ ہے جس کا انحصار محض اللہ کی مرضی اور حکمت پر ہے۔ رزق کا انحصار نہ عقل پر ہے نہ علم پر، نہ قابلیت اور تجربہ پر، نہ جسمانی قوت اور استعداد پر۔ سب انسان ہی یہ چاہتے ہیں اور اس کام کے لئے بھرپور کوشش بھی کرتے ہیں کہ انہیں زیادہ سے زیادہ مال و دولت حاصل ہو۔ الا ماشاء اللہ مگر تھوڑے ہی لوگ ہوتے ہیں جو آسودہ حال ہوتے ہیں زیادہ ایسے ہی ہوتے ہیں جو رزق کی تنگی کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں۔ اگر رزق کا انحصار عقل پر ہوتا تو بے وقوف بھوکے مر جاتے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر عقلمند تو پریشان حال ہوتے ہیں جبکہ عقل سے کورے لوگ مال و دولت میں کھیلتے ہیں۔ اسی طرح بسا اوقات راست باز اور نیک لوگ پریشان حال ہوتے ہیں۔ جبکہ ظالم اور اللہ کے نافرمانوں کو وافر مقدار میں رزق دیا جاتا ہے۔ تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ جس کو مال ودولت ملا ہے اللہ اس سے خوش ہے۔ قطعاً غلط ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ رزق کی تقسیم کے لئے ضابطہ الٰہی دوسرا ہے اور اس کی حکمتیں قرآن کریم میں جا بجا مذکور ہیں۔ الزمر
53 [٧١] اسلام لانے سے، پہلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں :۔ اس آیت کے انداز سے معلوم ہو رہا ہے کہ یہ کسی سوال کے جواب میں نازل ہوئی ہے اور ان لوگوں کے لئے پیغام امید لے کر آئی ہے جو دور جاہلیت میں قتل، زنا، چوری، ڈاکے اور ایسے ہی سخت گناہوں میں غرق رہ چکے تھے اور اس بات سے مایوس تھے کہ یہ قصور کبھی معاف نہ ہوسکیں گے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے : ١۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ کچھ مشرکوں نے بہت خون کئے تھے اور بکثرت زنا کرتے رہے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہنے لگے :’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ کہتے ہیں اور جس دین کی طرف دعوت دیتے ہیں وہ اچھا ہے۔ کیا اچھا ہو اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ بتا دیں کہ ہمارا اسلام لانا ہمارے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا ؟‘‘ اس وقت (سورہ فرقان کی) یہ آیت ﴿ وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰــہًا اٰخَرَ ﴾ یہ آیت﴿قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ ﴾تاآخر نازل ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) ٢۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : میرے بندو! تم رات دن گناہ کرتے ہو اور میں تمام گناہ معاف کردیتا ہوں تم مجھ ہی سے معافی مانگو۔ میں معاف کردوں گا۔ (مسلم۔ کتاب البر والصلۃ۔ باب تحریم الظلم) تحریف معنوی کی ایک مثال :۔ اس آیت کی بعض لوگوں نے بہت عجیب سی تاویل کی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے کہہ رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے کہہ دیجئے کہ اے میرے بندو! یعنی بندے اللہ کے نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں۔ یہ تاویل دراصل تاویل نہیں بلکہ بدترین قسم کی تحریف ہے۔ کیونکہ یہ تاویل قرآن کی ساری تعلیم کے برخلاف ہے۔ نیز اس سے رسول اللہ کی شان بڑھتی نہیں بلکہ ان پر سخت الزام آتا ہے۔ آپ اس لئے مبعوث ہوئے تھے کہ سب لوگوں کو دوسرے معبودوں کی بندگی سے ہٹاکر خالص اللہ کے بندے بنائیں۔ نہ یہ کہ اپنے ہی بندے بنانا شروع کردیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اللہ کے بندے تھے اور اس بندگی کا اقرار کرنے سے ہی ایک شخص اسلام میں داخل ہوسکتا ہے اور اس بندگی کا اقرار ہم سب نمازوں میں کئی بار کرتے ہیں۔ اس تاویل کو دیکھ کر بے اختیار ڈاکٹر اقبال (رح) کے یہ شعر یاد آجاتے ہیں : زمن برصوفی و ملا سلامے۔۔ کہ پیغام خدا گفتند مار ا ولے تاویل شان در حیرت انداخت۔۔۔ خدا و جبرئیل ومصطفی را (ترجمہ : میری طرف سے صوفی و ملا کو سلام ہو جنہوں نے ہمیں اللہ کا پیغام پہنچایا۔ لیکن ان کی تاویل نے اللہ، جبرئیل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب کو حیرت میں ڈال دیا (کہ ہم نے کیا کہا تھا اور ان لوگوں نے اس کا کیا مطلب لے لیا ہے) الزمر
54 [٧٢] یعنی اللہ کی معافی کی دو شرطیں ہیں۔ ایک تو اس کی طرف رجوع کرو یعنی اسلام لے آؤ اور دوسری اس کے احکام بجا لاؤ۔ یعنی آئندہ ایسے گناہوں سے پرہیز کرو گے تو پھر تمہارے سابقہ گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے معافی کا اعلان عام ہے۔ لہٰذا جلد از جلد اللہ تعالیٰ کے اس اعلان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرو۔ اور یہ خطاب صرف مشرکین مکہ سے ہی نہیں بلکہ اس کا حکم عام ہے اور ہر غیر مسلم کے لئے ہے۔ الزمر
55 [٧٣] اتباع احسن سے کیا مراد ہے ؟ اس آیت کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ قرآن کریم سارے کا سارا ہی احسن الحدیث ہے۔ لہٰذا اس میں جو اوامر ہیں ان کی تعمیل کرے، نواہی سے اجتناب کرے ، امثال اور قصوں میں جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے اس سے عبرت اور نصیحت حاصل کرے۔ اس کے برعکس جو شخص جو نہ اوامر کی تعمیل کرے نہ نواہی سے اجتناب کرے اور نہ وعظ و نصیحت سے کوئی اثر قبول کرے۔ ایسا شخص وہ پہلواختیار کرتا ہے جسے کتاب اللہ بدترین پہلو قرار دیتی ہے۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس کے اوامر کو اچھی سے اچھی شکل میں بجا لائے۔ نواہی سے پوری طرح اجتناب کرے بلکہ جس بات میں شک ہو اسے بھی چھوڑ دے اور پندو نصیحت سے بھی وہ مطلب لے اور اثر قبول کرے جو ایک قلب سلیم کا تقاضا ہوتا ہے۔ اپنے نظریات اور خواہشات کو قرآن سے کشید کرنے کی کوشش نہ کرے۔ الزمر
56 [٧٤] یعنی میں نے اللہ کے احکام کے مقابلہ میں اپنے آباء کی تقلید کو ترجیح دی۔ اللہ کے حقوق دوسروں کو دیتا رہا۔ اللہ کے بجائے دوسروں کو پکارتا اور ان کی عبادت کرتا رہا۔ اللہ کے دین کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتا رہا اور اللہ کی آیات اور اس کی وعید کا مذاق اڑاتا رہا۔ اور ان چیزوں کی کوئی حقیقت ہی نہ سمجھی۔ کاش! میں ایسے ایسے کام نہ کرتا جس کے نتیجہ میں مجھے آج یہ برا وقت دیکھنا پڑا۔ الزمر
57 الزمر
58 [٧٥] مگر اس حسرت کا کچھ فائدہ نہ ہوگا کیونکہ عمل کا وقت گزر چکا ہوگا۔ اس طرف سے مایوس ہونے کے بعد اب وہ یہ آرزو کرے گا کہ کاش اسے ایک بار پھر دنیا میں بھیج کر موقعہ دیا جائے۔ تو میں یقیناً اچھے عمل کروں گا تاکہ میں بھی نیک لوگوں میں شامل ہوسکوں۔ الزمر
59 [٧٦] یعنی تو جھوٹ بکتا ہے جو یہ کہتا ہے کہ اگر مجھے ایک بار پھر موقعہ دیا جائے تو میں نیکوکار بن جاؤں گا۔ جب تو دنیا میں تھا تو اس وقت تجھے میری آیات پہنچی تھیں۔ لیکن تیری فطرت ہی ایسی ہے جس میں اکڑ اور تکبر ہے جس کی وجہ سے تو میری آیات کو جھٹلاتا رہا۔ اور اب بھی تیری طبیعت ویسی کی ویسی ہے۔ وہ دوبارہ دنیا میں جاکر بدل نہیں جائے گی۔ آج جو کچھ تو کہہ رہا ہے وہ صرف عذاب کو دیکھ کر کہہ رہا ہے۔ جب تو نے اس سے نجات پالی تو تیری اصل فطرت پھر عود کر آئے گی۔ الزمر
60 [٧٧] اللہ پر افترا کی صورتیں :۔ اللہ پر جھوٹ بولنے کی ایک صورت یہ ہے کہ اللہ نے اپنے فلاں فلاں معبودوں یا بتوں یا پیاروں کو فلاں فلاں اختیارات سونپ رکھے ہیں۔ لہٰذا رزق کے لئے فلاں کے پاس اور اولاد کے لئے فلاں درگاہ پر اور شفا کے لئے فلاں آستانے پر حاضری دینے سے مراد حاصل ہوجاتی ہے اور دوسری صورت یہ ہے کہ اللہ کی آیات اور اس کے رسول کو جھٹلایا جائے اور کہا جائے کہ اللہ نے تو کوئی چیز نازل نہیں کی۔ حالانکہ وہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ تھی۔ [٧٨] ان کے جھٹلانے کی سزا یہ ہے کہ ان کے منہ کالے کردیئے جائیں گے جیسا کہ مثل مشہور ہے کہ ''جھوٹے کا منہ کالا'' اور تکبر کی سزا جہنم کے سوا اور کوئی ہو نہیں سکتی تاکہ اس کے سب کس بل نکل جائیں اور دماغ ٹھکانے پر آجائے۔ الزمر
61 [٧٩] یعنی اللہ تعالیٰ نیکوکار لوگوں کو اتنے بلند مقام پر پہنچا دے گا۔ جہاں انہیں روز محشر کی لو اور تپش نہ پہنچ سکے گی۔ وہاں وہ ہر طرح کی تکلیف سے محفوظ ہوں گے۔ جو اعمال انہوں نے دنیا میں کئے ہوں گے ان پر وہ مطمئن ہوں گے اور انہیں کسی قسم کا غم لاحق نہ ہوگا۔ الزمر
62 [٨٠] یعنی اللہ تعالیٰ ہر چیز کا صرف خالق ہی نہیں بلکہ ہر آن ہر چیز کی نگرانی بھی کررہا ہے۔ جس سے یہ نظام کائنات باقاعدگی سے چل رہا ہے۔ اس نظام کائنات کی باقاعدگی سے تمام جانداروں کا رزق وابستہ ہے۔ بارش سے زمین نباتات اگاتی ہے۔ نیز ہر طرح کی معدنیات اور دوسرے خزانے جو زمین میں مدفون ہیں سب اللہ ہی کے علم اور تصرف میں ہیں۔ آج بھی اس کے تصرف میں ہیں اور کل بھی اسی کے تصرف میں ہوں گے۔ نیز جنت اور دوزخ بھی اسی کے تصرف میں ہے۔ لہٰذا جو شخص اللہ کی آیات کا منکر اور اس کا باغی ہے وہ کیسے فلاح کی امید رکھ سکتا ہے ایسے لوگ یقیناً خسارہ میں ہی رہیں گے۔ الزمر
63 الزمر
64 [٨١] کفار کے سمجھوتہ کی شکلیں :۔ کفار مکہ نے اسلام کی راہ روکنے کے لئے کئی قسم کے حربے استعمال کئے تھے۔ ان میں سب سے زیادہ عام طریقہ یہ تھا کہ اسلام لانے والوں پر اس قدر ظلم و ستم ڈھائے جائیں کہ اگر وہ اپنے دین پر واپس نہ آئیں تو دوسروں کو ضرور عبرت حاصل ہو اور وہ اسلام قبول کرنے کا نام تک نہ لیں۔ ان سختیوں کے باوجود بھی جب اسلام پھیلتا گیا تو پھر اس کے سیاسی حل سوچے جانے لگے اور مذاکرات کے سلسلے شروع ہوئے۔ کبھی ابو طالب کی وساطت سے آپ کو دھمکی دی گئی۔ کبھی لالچ کی راہیں دکھائی گئیں اور کبھی باہمی سمجھوتہ کی۔ پھر باہمی سمجھوتہ کی بھی کئی شکلیں تھیں۔ ایک یہ کہ تم بھی لچک اختیار کرو کچھ ہم کرتے ہیں اور اس شکل کا ذکر سورۃ القلم کی آیات نمبر ٩ میں مذکور ہے۔ انہیں میں سے ایک شکل یہ تھی کہ زیادہ نہیں تو صرف ایک دفعہ ہی آپ ہمارے بتوں کو سجدہ کردیں تو پھر ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باقی باتیں تسلیم کرنے پر آمادہ ہیں۔ انہیں مذاکرات کی ایک قسم ایسی بھی تھی جس پر غور کرنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم آمادہ ہوچلے تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ایسے خیال سے بھی آپ کو سختی سے روک دیا اور اس کا ذکر سورۃ بنی اسرائیل کی آیت نمبر ٧٤ میں آیا ہے۔ یہاں بھی آپ کو حکم دیا گیا ہے کہ ان مشرکوں کو نہایت سختی سے دو ٹوک جواب دے دیں اور کہہ دیں کہ اے نادانو! ہم سب کا خالق بھی اللہ ہو، مالک بھی اللہ ہو، رازق بھی اللہ ہو، کائنات میں ہر قسم کے تصرفات پر قبضہ بھی اللہ کا ہو، تو آخر میں کس خوشی میں ان بتوں کی عبادت کروں۔ اس سے بڑھ کر بھی کوئی نادانی کی بات ہوسکتی ہے؟ یہ تم مجھے کیسا غلط مشورہ دے رہے ہو؟ علاوہ ازیں مجھ پر بھی یہ وحی آچکی ہے اور سابقہ تمام انبیاء پر بھی اسی قسم کی وحی آئی تھی کہ جو شخص بھی اور اسی طرح اگر میں خود بھی شرک کروں تو میرے تمام تر اعمال برباد ہوجائیں گے۔ پھر بھلا میں تمہارا یہ مشورہ کیسے قبول کرسکتا ہوں؟ الزمر
65 [٨٢] واضح رہے کہ انبیاء سے شرک کا صدور محال ہے۔ کیونکہ وہ جن مقاصد کے لئے مبعوث کئے جاتے ہیں ان میں اولین مقصد شرک کی بیخ کنی اور توحید کی ترویج ہوتا ہے۔ اسی بات پر وہ خود قائم رہتے اور دوسروں کو دعوت دیتے ہیں۔ یہاں جو آپ کو مخاطب کرکے یہ بات کہی گئی ہے۔ تو اس سے شرک کی انتہائی مذمت مقصود ہے۔ الزمر
66 الزمر
67 [٨٣] یعنی جن مشرکوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتوں کو سجدہ کرنے کا مشورہ دیا تھا، ان کم بختوں نے یہ سمجھا ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا مقام کس قدر ارفع و اعلیٰ ہے ان کو اللہ کی عظمت و کبریائی کا کچھ بھی اندازہ نہیں۔ بھلا اللہ کے مقابلہ میں یہ بتوں جیسی حقیر ہستیاں کیا شے ہیں۔ اگر انہیں اللہ کی عظمت اور اس کے مقام کا کچھ اندازہ ہوتا تو ایسی نادانی کی بات کبھی نہ کہتے۔ [٨٤] قیامت کے دن اللہ کا دنیا کے بادشاہوں سے خطاب :۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور کبریائی اور پوری کائنات پر کلی تصرف کا یہ حال ہے کہ اس کائنات کی ہر چیز اس کے ہاتھ میں بالکل بے بس ہے اور اسی مضمون کی تفسیر درج ذیل احادیث بھی پیش کرتی ہیں : ١۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) زمین کو ایک مٹھی میں لے لے گا اور آسمانوں کو اپنے داہنے ہاتھ میں لپیٹ لے گا۔ پھر فرمائے گا :’’میں بادشاہ ہوں (آج) زمین کے بادشاہ کہاں ہیں؟‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) ٢۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہودیوں کا ایک عالم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا : محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم (اپنی کتابوں میں یہ لکھا ہوا) پاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) آسمانوں کو ایک انگلی پر، زمینوں کو ایک انگلی پر، درختوں کو ایک انگلی پر، پانی اور گیلی مٹی کو ایک انگلی پر اور باقی تمام مخلوق کو ایک انگلی پر اٹھالے گا پھر فرمائے گا :’’میں بادشاہ ہوں‘‘ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنا ہنسے کہ آپ کی کچلیاں ظاہر ہوگئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عالم کے قول کی تصدیق کی۔ پھر یہی آیت پڑھی ﴿ وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ ﴾ تاآخر (بخاری۔ کتاب التفسیر) گویا مشرکوں کے سب معبود بھی اللہ تعالیٰ کی مٹھی میں ہوں گے۔ جنہیں آج یہ اللہ کا ہمسر قرار دے رہے ہیں۔ الزمر
68 [٨٥] نفخۂ صور کی بے ہوشی سے کون مستثنیٰ ہوگا ؟:۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ ایسی مخلوق بھی ہوگی جو بے ہوش نہیں ہوگی۔ بعض نے اس استثناء سے چاروں بزرگ فرشتے یعنی جبرائیل، میکائیکل، اسرافیل اور عزرائیل مرادلیے ہیں۔ بعض نے ان میں حاملین عرش کو بھی شامل کیا ہے اور بعض نے انبیاء صلحاء اور شہداء کو بھی۔ لیکن اگلے حاشیہ میں مندرج حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں میں سے کوئی بھی اس بے ہوشی سے نہ بچے گا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بے ہوش ہوں گے تو دوسرے کیسے بچے رہ سکتے ہیں۔ البتہ موسیٰ علیہ السلام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مستثنیٰ کیا۔ وہ بھی اس صورت میں کہ شاید وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے ہوں یا بے ہوش ہوئے ہی نہ ہوں۔ اس لئے کہ وہ دنیا میں ایک بار بے ہوش ہوچکے۔ [٨٦] اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ صور دو بار پھونکا جائے گا۔ درج ذیل احادیث اسی آیت کی تفسیر پیش کرتی ہیں : نفخہ صور دو بار یا تین بار :۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ دونوں نفخۂ صور میں چالیس کا فاصلہ ہوگا۔ لوگوں نے پوچھا :’’ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کیا چالیس دن کا ؟‘‘ انہوں نے کہا : ’’یہ میں نہیں کہہ سکتا‘‘ پھر لوگوں نے کہا : ’’کیا چالیس برس کا ؟‘‘ کہنے لگے ’’یہ میں نہیں کہہ سکتا‘‘ پھر لوگوں نے کہا : ’’کیا چالیس ماہ کا ؟‘‘ کہنے لگے : ’’یہ میں نہیں کہہ سکتا‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ انسان کا سارا جسم (مٹی میں) گھل جاتا ہے ماسوائے ریڑھ کی ہڈی کے سرے کے۔ (جورائی کے دانہ برابر ہوتی ہے) اسی سے تمام خلقت کو ترکیب دے کر اٹھا کھڑا کیا جائے گا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) ٢۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’دوسری دفعہ صور پھونکنے پر سب سے پہلے میں سر اٹھاؤں گا تو دیکھوں گا کہ موسیٰ علیہ السلام عرش تھامے لٹک رہے ہیں۔ اب میں نہیں جانتا کہ وہ پہلے صور پر بے ہوش ہی نہ ہوں گے یا دوسرے صور پر مجھ سے پہلے ہوش میں آجائینگے۔ (کیونکہ دنیا میں وہ ایک دفعہ بے ہوش ہوچکے)‘‘ لیکن سورۃ نمل کی آیت ٨٧ میں ایک اور نفخہ کا بھی ذکر آیا ہے۔ جسے سن کر زمین و آسمان کی ساری مخلوق دہشت زدہ ہوجائے گی۔ پھر اس کی بعض احادیث سے بھی تائید ہوجاتی ہے اسی لئے بعض علماء کہتے ہیں کہ نفخہ صور تین بار ہوگا۔ پہلے نفخہ پر صرف گھبراہٹ واقع ہوگی دوسرے نفخہ پر لوگ بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے اور مرجائیں گے۔ اور تیسرے نفخہ پر سب انسان جی اٹھیں گے اور اپنی قبروں سے نکل کر اپنے پروردگار کے حضور چل کھڑے ہوں گے۔ الزمر
69 [٨٧] یعنی آج تو زمین سورج کی روشنی سے منور ہوتی ہے مگر میدان محشر کے لئے جو زمین تیار کی جائے گی۔ وہ براہ راست اپنے پروردگار کے نور سے جگ مگ جگمگ کر رہی ہوگی۔ [٨٨] قیامت کو گواہی کس کس کی ہوگی؟:۔ شہداء سے مرادسرفہرست انبیاء ہیں اور ان کا ذکر اس آیت میں پہلے ہی الگ طور پر آگیا ہے پھر ان سے وہ لوگ مراد ہیں جن کے ذریعہ انہیں اللہ کا پیغام پہنچا تھا پھر وہ فرشتے بھی جو ان کے اعمال قلم بند کرتے رہے اور اگر وہ مجرم پھر بھی اپنے گناہوں کا اعتراف نہ کریں گے تو ان کے اپنے اعضاء اور اس ماحول کے درودیوار اور شجر و حجر سب مجرموں کے خلاف گواہی دیں گے۔ الزمر
70 [٨٩] کیا قاضی اپنے ذاتی علم کی بنا پر فیصلہ دے سکتا ہے ؟:۔ اگرچہ اللہ ان کے اعمال سے پوری طرح واقف ہے۔ پھر بھی ان پر گواہیاں قائم کی جائیں گی۔ حتیٰ کہ یا تو مجرم خود اپنے گناہ کا اقرار کرلے یا پھر اس کے خلاف گواہیوں کی بنا پر الزام پوری طرح ثابت ہوجائے اور ان کی سزا کے لئے اتمام حجت ہوجائے۔ اس آیت سے نیز اسی آیت کی تائید میں بعض احادیث سے شریعت کا ایک نہایت اہم مسئلہ مستنبط ہوتا ہے کہ قاضی محض اپنے علم کی بنا پر کسی مقدمہ کا فیصلہ نہیں کرسکتا۔ فیصلہ کا انحصار گواہیوں پر ہونا ضروری ہے۔ یہی عدل و انصاف کا تقاضا ہے۔ اور اسی عدل و انصاف کے تقاضا کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ گواہیاں قائم کریں گے۔ بعض علماء نے اس مسئلہ میں اتنی لچک ضرور رکھی ہے کہ اس اصول کا اطلاق حدود و تعزیرات یعنی فوجداری مقدمات پر ہوتا ہے لین دین کے معاملات یا دیوانی مقدمات میں قاضی اپنے علم کی بنا پر فیصلہ دے سکتا ہے لیکن بعض آثار سے اس گنجائش کی بھی نفی ہوجاتی ہے۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ مالی مقدمات میں بھی قاضی اپنے علم کو فیصلہ تو دور کی بات ہے، ایک شہادت کے طور پر بھی استعمال میں نہ لائے۔ الزمر
71 [٩٠] اس لئے کہ کفر کی بھی بیسیوں اقسام ہیں۔ اور اسی لحاظ سے ان کافروں کی قیامت کے دن گروہ بندی ہوگی۔ اور ان کی گروہ بندی کرنے کے بعد انہیں جہنم کی طرف لے جایا جائے گا۔ جیسے ان مجرموں کو، جو عدالت کے فیصلہ کے بعد واقعی مجرم ثابت ہوجاتے ہیں، پابہ زنجیر کرکے جیل خانہ کی طرف لے جایا جاتا ہے اور جس طرح ان مجرموں کے جیل خانہ پہنچنے پر جیل کا پھاٹک کھول دیا جاتا ہے۔ اسی طرح کافروں کے گروہوں کے جہنم کے پاس پہنچنے پر جہنم کے دروازے کھول دیئے جائیں گے۔ [٩١] جہنم کے داروغے اور ان کا سوال :۔ جب یہ گروہ جہنم پر پہنچ جائیں گے تو جہنم کے داروغے یا سپرنٹنڈنٹ ملامت کے طور پر انہیں پوچھیں گے، ارے کم بختو! تمہارے پاس اللہ کے رسول تمہیں آج کے حالات سے خبردار کرنے یا ڈرانے کے لئے نہیں پہنچے تھے؟ مجرم جواب دیں گے : آئے تو تھے مگر ہماری بدبختی اور نالائقی کہ ہم نے انہیں سچا نہ سمجھا جس کے نتیجہ میں آج ہم یہاں پہنچ گئے ہیں۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اعمال کی سزا ہمیں مل کر ہی رہے گی۔ الزمر
72 [٩٢] انکار حق کی سب سے بڑی وجہ تکبر :۔ اس جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قبول حق کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تکبر یا اپنا پندار نفس ہوتا ہے۔ حق کو قبول نہ کرنے کی دوسری وجوہ بھی اسی ذیل میں آتی ہیں۔ جیسا کہ ابلیس کا بھی اصل جرم تکبر ہی تھا۔ اگرچہ اس نے بھی اپنے موقف کی حمایت میں کئی دلائل پیش کئے تھے۔ اسی طرح کافر قبول حق سے انکار کی خواہ کئی وجوہ بتائیں۔ اللہ کی آیات کا تمسخر اڑائیں۔ اللہ کے عذاب کو چیلنج کریں ان سب کی تہ میں یہی تکبر یا پندار نفس ہی کام کر رہا ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ سب جرموں سے بڑا جرم ہوا۔ اسی لئے تمام گروہوں کے الگ الگ جرائم کا نام لینے کے لئے صرف اس جرم کا نام لے لیا گیا ہے جو سب گروہوں میں بطور قدر مشترک پایا جاتا ہے۔ الزمر
73 [٩٣] جنت کے درجات :۔ جس طرح کفر کے بہت سے درجات اور اقسام ہیں اسی طرح ایمان اور تقویٰ کے بھی بہت سے درجات ہیں۔ اور ایک حدیث کے مطابق جنت کے سو درجات ہیں جس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ایمان و تقویٰ کے بھی اتنے ہی درجات ہیں۔ ان متقین کی بھی درجوں کے لحاظ سے گروہ بندی کی جائے گی۔ انہیں بڑی عزت و تکریم کے ساتھ جنت کی طرف لے جایا جائے گا۔ جب یہ گروہ جنت کے پاس پہنچیں گے۔ تو ان کے پہنچنے سے پہلے ہی جنت کے دروازے کھول دیئے جائیں گے۔ جنت کے محافظ فرشتے ان کے استقبال کو آگے بڑھ کر ان پر سلام پیش کریں گے۔ انہیں داخلہ کی بشارت اور مبارک باد دیں گے اور اعلان عام ہوگا کہ اب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے داخل ہوجاؤ۔ الزمر
74 [٩٤] جنت کے بطور وراثت دائمی اور مالکانہ حقوق اہل جنت کو وہاں مالکانہ حقوق حاصل ہوں گے کہ وہ اپنی اپنی وسیع و عریض الاٹ شدہ جنت میں جس جگہ کو اپنے حالات کے موافق سمجھیں وہاں رہیں۔ کیونکہ تَبَوَّاَ کا لفظ ایسی جگہ پر رہائش کے لئے آتا ہے جہاں کی آب و ہوا اور ماحول رہنے والے کی طبیعت کے موافق اور ساز گار ہو۔ [٩٥] اس جملہ کی نسبت متقین کی طرف بھی ہوسکتی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے یہ بات کہیں گے۔ فرشتوں کی طرف بھی اور اللہ تعالیٰ کی طرف بھی۔ الزمر
75 [٩٦] دربار برخواست ہونے پر الحمدللہ رب العالمین کی صدائیں :۔ یعنی جس دن اللہ تعالیٰ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے میدان محشر میں نزول اجلال فرمائے گا اس وقت فرشتے اللہ تعالیٰ کے عرش کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہوں گے۔ اور جب اللہ تعالیٰ لوگوں کے درمیان علی رؤس الاشہاد مبنی برانصاف فیصلہ فرماچکے گا تو ہر طرف سے جوش و خروش کے ساتھ ﴿ألْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾کا نعرہ بلند ہوگا۔ اسی نعرہ تحسین پر اللہ تعالیٰ کا دربار برخاست ہوگا۔ پھر تمام لوگوں کو ان کے فیصلہ کے مطابق ان کے ٹھکانوں پر بھیج دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ یہ دن موجودہ دن رات کے حساب سے پچاس ہزار برس کا ہوگا۔ الزمر
0 غافر
1 غافر
2 غافر
3 [١] قرآن کو نازل کرنے والے کی چند جامع صفات :۔ آیت نمبر ٢ اور ٣ اس سورۃ کی تمہید ہیں۔ جن میں مکہ کے حالات حاضرہ اور حق و باطل کے جھگڑوں کا ذکر بھی آگیا ہے اور اس کتاب کے نازل کرنے والے کی چند متعلقہ صفات اس انداز سے بیان کی گئی ہیں کہ دریا کو کوزہ میں بند کردیا گیا ہے۔ کفار کا بنیادی اعتراض یہ تھا کہ یہ کلام اللہ کی طرف سے نازل شدہ نہیں بلکہ تمہاری اپنی اختراع ہے۔ آغاز ہی میں فرما دیا کہ یہ کتاب کسی کمزور ہستی کی طرف سے نہیں بلکہ اس اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے جو کائنات کی ہر چیز پر غالب ہے اور تمہاری معاندانہ کوششوں اور سازشوں کے علی الرغم اپنے کلمہ کو سربلند اور نافذ کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ اس کی دوسری صفت یہ ہے کہ وہ ہر چیز کا براہ راست اور پورا پورا علم رکھتا ہے۔ لہٰذا اس کتاب میں اے کفار مکہ! جو خبریں بھی دی گئی ہیں سب درست اور یقینی ہیں تیسری صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ اپنے فرمانبردار بندوں کے بہت سے گناہ از خود ہی بخشتا رہتا ہے۔ چوتھی صفت یہ ہے کہ کافر توبہ کرکے حلقہ اسلام میں داخل ہوجائیں ان کی توبہ قبول کرکے ان کے سابقہ گناہوں کو معاف کردینے والا ہے اور اس صفت کا تعلق صرف نو مسلموں سے نہیں بلکہ جو بندہ بھی اپنے گناہوں پر نادم ہو کر اس کی طرف رجوع کرکے اپنے گناہوں کی معافی مانگے اس کے گناہ بھی معاف کردیتا ہے۔ پانچویں صفت یہ ہے کہ وہ اپنے باغیوں کو سخت سزا دے کر ان کی اکڑی ہوئی گردنیں توڑ سکتا ہے۔ خواہ وہ یہ عذاب دنیا میں دے یا آخرت میں اور اس کی چھٹی صفت یہ ہے کہ وہ کشادہ دست ہے۔ ہر وقت انعامات کی بارش کرتا رہتا ہے۔ اور اس سے اپنے نافرمانوں کو بھی محروم نہیں فرماتا۔ اتنی صفات بیان کرنے کے بعد ان دو بنیادی جھگڑوں کی حقیقت بیان فرما دی۔ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کفار مکہ کے درمیان چل رہے تھے۔ ان میں پہلا یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ باقی تمام معبود جھوٹے، باطل اور بے کار ہیں اور دوسرا یہ کہ روز آخرت کا قیام یقینی ہے اور تم سب کو یقیناً اللہ کے حضور پیش ہونا ہوگا۔ غافر
4 [٢] یہاں سے حالات حاضرہ پر تبصرہ شروع کیا جارہا ہے کہ کفار مکہ جو اللہ کی آیات کا کبھی مذاق اڑاتے ہیں کبھی ان میں اعتراضات کرکے شکوک پیدا کرتے ہیں کبھی اسلام کی راہ روکنے کے لئے مسلمانوں کو اذیتیں دیتے ہیں اور کبھی سازشیں تیار کرتے ہیں۔ اور ساتھ ہی یہ بھی کہے جاتے ہیں کہ ہم اگر جھوٹے ہوتے تو اب تک ہم پر اللہ کا عذاب آجانا چاہئے تھا تو ان لوگوں کا تاحال صحیح و سلامت بچے رہنا اور زمین میں دندناتے پھرنا تم لوگوں کو اس وہم اور دھوکہ میں نہ ڈال دے کہ شاید یہ اللہ کی گرفت سے بچ جائیں گے۔ غافر
5 [٣] حزب کا مفہوم : احزاب، حزب کی جمع ہے اور ان سے مرادایسی جماعتیں، گروہ یا پارٹیاں ہیں جن میں سختی اور شدت پائی جائے۔ وہ آپس میں ہم خیال ہوں اور ان کا مقصد اقتدار میں عمل دخل حاصل کرنا ہو۔ یا اس سے چمٹے رہنا ہو اور اس سے مرادوہ اقوام سابقہ ہیں جن پر رسولوں کی دعوت کو جھٹلانے کی بنا پر اللہ کا عذاب آیا تھا۔ [٤] انبیاء کی مخالفت کرنے والی قوموں کا انجام تاریخی شواہد کی روشنی میں :۔ یہ کفار مکہ اس لئے اللہ کی گرفت سے بچ نہیں سکتے کہ ان سے پہلے کئی قومیں ان جیسی گزر چکی ہیں۔ مثلاً قوم نوح اور اس کے بعد قوم عاد، قوم ثمود، قوم ابراہیم، اور قوم لوط اور آل فرعون وغیرہ۔ یہ سب لوگ اللہ کو چھوڑ کر بتوں کی پوجا کیا کرتے تھے اور آخرت کے دن کے منکر تھے۔ پھر جب ہمارے رسول ان کے پاس آئے تو انہوں نے صرف انہیں جھٹلانے پر اکتفا نہ کیا بلکہ ان کے درپے آزار ہوگئے۔ انہیں قتل اور رجم کی دھمکیاں دینے لگے اور ان کے خلاف سازشیں تیار کرنے لگے۔ غرضیکہ انہوں نے ہر وہ حربہ استعمال کیا جس کے ذریعہ وہ اللہ کے دین کو سرنگوں کرسکیں اور انبیاء کی دعوت کو اور ان کے متبعین کو کچل دیں (اور یہی سب دھندے یہ کفار مکہ کر رہے تھے) پھر جب ان پر میرا عذاب آیا تو دیکھ لو ان کا کیا حشر ہوا۔ کیا ان قوموں کا کوئی نام و نشان نظر آتا ہے۔ آج وہ کہیں دندناتے دکھائی دے رہے ہیں؟ اور ان مشرکین مکہ نے بھی اسی ڈگر پر چلنا شروع کردیا ہے تو پھریہ میری گرفت سے کیونکر بچ سکتے ہیں۔ گویا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کو تاریخی شواہد کی روشنی میں ان کے انجام سے خبردار کیا ہے۔ غافر
6 [٥] ایسے منکرین حق کے معاملہ میں ایک تو یہ بات حق ثابت ہو کے رہتی ہے کہ اللہ انہیں ایسا کچل کے رکھ دیتا ہے کہ ان کا زمین میں دندنانا یکسر موقوف ہوجاتا ہے۔ اور یہ سزا تو انہیں دنیا میں ملتی ہے اور دوسری یہ بات حق ثابت ہوتی ہے کہ آخرت میں انہیں جہنم کے عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ غافر
7 [٦] حاملین عرش فرشتوں کی مومنوں کے حق میں دعا :۔ ان دندنانے والے کفار مکہ کے مقابلہ میں دوسری طرف مسلمان تھے جن پر کافروں نے عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا اور اسی وجہ سے کچھ مسلمان مکہ کو خیر باد کہہ کر حبشہ کی طرف ہجرت کرکے چلے گئے تھے۔ ان کی تسلی اور دلجوئی کی خاطر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم پریشان کیوں ہوتے ہو۔ تمہارے حق میں تو عرش کو اٹھانے والے فرشتے اور ان کے آس پاس رہنے والے سب کے سب دست بددعا رہتے ہیں۔ اور اللہ کی حمد و ثنا جو ان کا وظیفہ اور روحانی خوراک ہے کے ساتھ ہی تمہارے لئے دعائیں کرتے ہیں اور چونکہ فرشتے وہی کچھ کرتے ہیں جو اللہ کی طرف سے انہیں حکم ملتا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے انہیں یہ حکم دیا ہے کہ وہ مومنوں کے حق میں دعا و استغفار کرتے رہا کریں۔ [٧] ان کا اللہ پر ایمان اس لحاظ سے مضبوط ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے قریب رہتے ہیں۔ ان عرشیوں کی سب ہمدردیاں زمین والے مومنوں کے ساتھ ہیں جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ایمان کا رشتہ نہ صرف یہ کہ جغرافیائی حدود کا پابند نہیں بلکہ عرشیوں اور فرشیوں سب کو ایک رشتہ میں منسلک کردیتا ہے۔ [٨] یعنی تیرا علم اتنا وسیع ہے کہ تو اپنے بندوں کے سارے حالات ان کے گناہوں اور ان کے دلوں میں پیدا ہونے والے خیالات تک سے واقف ہے تو تیری رحمت اس سے بڑھ کر وسیع ہے۔ لہٰذا جو لوگ توبہ کرچکے اور تیری راہ پر گامزن ہوچکے ہیں تو ان کے گناہ معاف کرکے انہیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔ غافر
8 [٩] جہنم کے عذاب سے بچ جانا بھی بڑی کامیابی ہے :۔ اگرچہ دوزخ کے عذاب سے بچ جانا بھی بہت بڑی کامیابی ہے اور یہ خالصتاً اللہ کی مہربانی اور اس کے فضل سے ہوگا۔ تاہم اگر اللہ تعالیٰ دوزخ سے بچا کر اپنی جنت میں بھی داخل کردے تو یہ اللہ تعالیٰ کا دوسرا بڑا انعام اور اس کی مہربانی ہوگی۔ واضح رہے کہ دوزخ کے عذاب سے بچ جانے کا یہ لازمی نتیجہ نہیں کہ اسے جنت میں داخلہ بھی مل جائے۔ اصحاب اعراف دوزخ کے عذاب سے تو بچا لئے جائیں گے۔ لیکن وہ جنت اور دوزخ کے ایک درمیانی مقام اعراف میں ہوں گے اور وہ اس بات کے منتظر بیٹھے ہوں گے کہ کب ان پر اللہ کی مہربانی ہوتی ہے اور انہیں جنت میں داخلہ کی اجازت ملتی ہے۔ [١٠] کم درجہ والی اولاد کو بھی اللہ والدین سے ملادے گا :۔ آخرت میں ہر شخص کو بس اپنی ہی فکر لاحق ہوگی نہ باپ بیٹے کی طرف توجہ دے سکے گا نہ بیٹا باپ کی طرف۔ کوئی رشتہ دار کسی دوسرے کے کام نہ آسکے گا۔ پھر جب فیصلہ کے بعد نیک لوگوں کو جنت میں داخل کردیا جائے گا اور ان کے بھی کئی درجات ہوں گے۔ تو اس وقت بعض لوگوں کو اپنی بیویوں اور اپنی اولاد کی یاد آنے لگے گی۔ ان کی بیویاں اور بیٹے بھی اگرچہ اہل جنت میں سے ہی ہوں گے لیکن ان کے درجات نچلے ہوں گے یعنی وہ اپنے والدین کے درجہ کے برابر صالح نہ ہوں گے تو اللہ تعالیٰ اپنی خاص مہربانی سے یا ان فرشتوں کی دعا کی وجہ سے جو اس نے خود ہی فرشتوں کو سکھائی ہوگی، ان کم درجہ والی اولاد کو اونچا درجہ عطا کرکے ان کے والدین سے ملا دے گا۔ اسی طرح بیویوں کو بھی ان کے شوہروں سے ملا دے گا اور سارا کنبہ ایک جگہ اکٹھا ہوجائے گا۔ غافر
9 [١١] سیئات کے تین معنی :۔ السَّیِّأت کے تین معنی ہیں۔ ایک غلط عقائد، بگڑے ہوئے اخلاق اور برے اعمال، دوسرے، گمراہی اور اعمال بد کا وبال، تیسرے آفات و مصائب اور تکلیفیں خواہ وہ دنیا کی ہوں، عالم برزخ کی ہوں یا عالم قیامت کی ہوں۔ یہاں تینوں قسم کی برائیاں مراد ہیں۔ [١٢] روز محشر کی برائیوں سے مراداس دن کی ہولناکیاں، انتہائی تپش اور شدت پیاس، اپنا محاسبہ کا خوف، مجرمین کی برسرعام رسوائی وغیرہ ہیں۔ غافر
10 [١٣] یعنی جب دیکھیں گے کہ جن چیزوں کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے وہ تو ایک حقیقت بن کر سامنے آگئی ہے اور جس طرح بے راہ روی کی زندگی انہوں نے گزاری ہوگی اور مومنوں پر ظلم و ستم ڈھانے کے لئے انہوں نے جو جو ہتھکنڈے استعمال کئے تھے۔ ان سب چیزوں کا ایک ایک کرکے انہیں بدلہ دیا جانے والا ہے۔ تو وہ اپنے ہاتھ اپنے دانتوں میں چبائیں گے اور انہیں اپنے آپ پر غصہ آئے گا کہ ہم نے کیوں ایسی سرکشی کی راہ اختیار کی تھی۔ اس وقت انہیں فرشتے پکار کر کہیں گے کہ آج جس قدر تمہیں اپنے آپ پر غصہ آرہا ہے اللہ تعالیٰ کو تم پر اس وقت اس سے بھی زیادہ غصہ آتا تھا جب رسول تمہیں اللہ کی طرف دعوت دیتے اور اس کی آیات پڑھ کر سناتے تھے لیکن تم پہلے تو سنتے ہی نہ تھے اور اگر سنتے تھے تو مانتے نہیں تھے اور ان کا مذاق اڑانے لگتے تھے۔ غافر
11 [١٤] زندگی اور موت کے چار مراحل :۔ موت و حیات کے یہ وہی چار مراحل ہیں جن کا ذکر سورۃ بقرہ کے آغاز میں آچکا ہے۔ یعنی وہ مردہ تھے اللہ نے انہیں زندگی بخشی اور وہ اپنے والدین کے گھر پیدا ہوئے پھر اس زندگی کے بعد موت کے بعد چوتھا مرحلہ دوبارہ قیامت کو جی اٹھنا۔ ان میں سے پہلے تین مراحل کو سب لوگ ہی جانتے ہیں کیونکہ وہ ہر ایک کے مشاہدہ میں آتے رہتے ہیں۔ انکار صرف بعث بعد الموت کا ہوتا ہے جو کسی کے مشاہدہ میں نہیں آیا۔ اور یہ بات ہمیں وحی کے ذریعہ معلوم ہوئی پھر بہت سے عقلی دلائل بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔ یوم آخرت کو دیکھ کر کافر کہیں گے کہ آج ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ رسولوں کا کہنا برحق تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آج ہمیں جو اپنا برا انجام نظر آرہا ہے اس سے بچنے کی بھی کوئی راہ ہے؟ غافر
12 [١٥] مشرک کی پکی علامت توحید خالص سے بدکنا :۔ اللہ تعالیٰ کی ایک عاجز مخلوق ہونے کے باوجود تمہارا اپنے پروردگار سے یہ سلوک تھا کہ تمہیں جب کہا جاتا تھا کہ عبادت کے لائق صرف اللہ ہی ہے تو فوراً ناگواری کے آثار تمہارے چہروں پر نمایاں ہوجاتے تھے۔ تمہاری سب نیاز مندیاں اور محبت غیروں کے ساتھ تھیں۔ جب اللہ کے شریکوں کا ذکر ہوتا تو تمہاری باچھیں کھل جاتی تھیں۔ اور آج جو تم التجا کر رہے ہو اس کا فیصلہ اس اللہ کے ہاتھ میں ہے جو تمہاری طرح عاجز مخلوق نہیں۔ بلکہ سب کا خالق اور بڑی بلند شان والا ہے۔ اب تم خود ہی سوچ سکتے ہو کہ اس کا رویہ تمہارے حق میں کیا ہونا چاہئے؟ غافر
13 [١٦] بارش کے نظام میں اللہ کی نشانیاں :۔ یعنی آسمان سے بارش نازل فرماتا ہے جو زمینی پیداوار اور تمہارے رزق کا ذریعہ بنتی ہے۔ اس پورے نظام پر اگر غور کیا جائے کہ اس کائنات میں کون سی قوتیں سرگرم عمل ہوتی ہیں جن کے نتیجے میں بارش برستی ہے پھر اس بارش سے رزق حاصل ہونے تک کون کون سی کائناتی اور زمینی قوتیں کام میں لگی رہتی ہیں۔ کس طرح سورج کی حرارت سے سطح سمندر پر سے آبی بخارات اوپر اٹھتے ہیں، پھر کس طرح ہوائیں انہیں اپنے دوش پر اٹھائے پھرتی ہیں اور جس طرف اللہ کا حکم ہوتا ہے، لے جاتی ہیں۔ پھر یہی آبی بخارات کیونکر پھر سے بارش کے قطروں میں منتقل ہوتے ہیں۔ پھر جب کسی خطہ زمین پر بارش برستی ہے تو زمین کی تاریکیوں میں بیج کی پرورش کون کرتا ہے اور کس طرح پودے کی نہایت نرم و نازک کونپل سطح زمین کو چیرتی ہوئی باہر نکل آتی ہے۔ غرضیکہ اس نظام میں بے شمار عجائبات قدرت ہیں۔ پھر ان قوتوں کے باہمی تعاون سے جو مثبت قسم کے نتائج برآمد ہوتے ہیں اس سے از خود معلوم ہوجاتا ہے کہ ان تمام قوتوں پر کنٹرول کرنے والی صرف ایک ہی ہستی ہوسکتی ہے۔ اگر ہواؤں کا دیوتا الگ ہوتا، سورج کا الگ، بارش کا الگ اور زمین کا کوئی الگ ہوتا تو ان میں ایسا باہمی ارتباط ناممکن تھا کہ ان قوتوں سے ہمیشہ مثبت نتائج ہی حاصل ہوسکیں۔ لیکن یہ باتیں تو صرف وہ لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں جو اللہ کی ان نشانیوں میں کچھ غور و فکر بھی کرتے ہوں۔ غافر
14 [١٧] کائنات کی تمام قوتیں ایک ہی حاکم اعلیٰ کے حکم کے تحت سرگرم عمل ہیں ان آیات الٰہی میں غور کرنے سے یہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ کائنات کی تمام قوتیں ایک ہی حاکم اعلیٰ کے زبردست کنٹرول کے تحت سرگرم عمل ہیں۔ لہٰذا تمہیں بھی خالصتاً اسی کی حاکمیت تسلیم کرکے باقی ساری کائنات کے ہم آہنگ ہوجانا چاہئے۔ رہے وہ لوگ جو اللہ کی ان قدرتوں میں غور و فکر گوارا ہی نہیں کرتے تو اس کی وجہ محض یہ ہے کہ ان کی آنکھوں پر غفلت، تعصب اور تقلید آباء کی پٹی بندھی ہوئی ہے۔ اور انہی باتوں میں مگن رہنے میں ہی وہ خوشی محسوس کرتے ہیں اور انگر انہیں حقائق کی طرف توجہ دلائی جائے تو ان کا تسلیم کرنا تو درکنار، انہیں اس طرف توجہ دلانا بھی ناگوار محسوس ہوتا ہے۔ غافر
15 [١٨] یعنی وہ اتنے بلند درجات کا مالک ہے کہ مخلوق کا اس کے قریب ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ چہ جائیکہ اللہ کی صفات اور ان کے اختیارات میں کسی دوسری مخلوق کے شریک ہونے کا تصور کیا جاسکے۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے مخلص اور فرمانبرداروں کے درجات کو بلند کرنے والا ہے جس حد تک کوئی شخص اللہ کا فرمانبردار بنتا جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے درجات بلند کرتا جاتا ہے اور قیامت کے دن انہیں درجات کے لحاظ سے اہل جنت کو جنت میں مقام عطا کیا جائے گا۔ [١٩] (روح کے مختلف معانی کے لئے دیکھئے سورۃ النحل کی آیت نمبر ٢ کا حاشیہ نمبر ٣) مطلب یہ ہے کہ اللہ کو اپنے کسی بندے پر وحی بھیجنے کے سلسلہ میں تمہارے کسی مشورہ کی ضرورت نہیں ہے۔ نہ ہی تم وحی کے ٹھیکیدار ہو کہ تمہاری مرضی کے خلاف اللہ تعالیٰ کسی کی طرف وحی نہ بھیج سکے۔ وہ خالصتاً اپنی مرضی اور اپنی صوابدید کے مطابق جس پر چاہتا ہے اپنی وحی نازل فرماتا ہے۔ [٢٠] ملاقات سے مراد بندے کی اپنے پروردگار سے ملاقات بھی ہوسکتی ہے۔ اور جنوں، انسانوں اور شیطانوں کی ایک دوسرے سے بھی۔ قیامت کے دن سب کی ایک دوسرے سے ملاقات ہوجائے گی۔ غافر
16 [٢١] قیامت کے دن اللہ تبارک وتعالیٰ کا دنیا کے بادشاہوں سے خطاب :۔ قیامت کے دن ایک وقت ایسا آئے گا جب ہر ایک کو اپنی اپنی ہی پڑی ہوگی۔ سب قیامت کی ہولناکیوں سے دہشت زدہ ہوں گے کسی کو کلام کرنے کی نہ فرصت ہوگی اور نہ جرأت۔ ہر طرف مکمل سکوت اور سناٹا چھایا ہوگا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ سب کو مخاطب کرکے پوچھے گا۔ آج دنیا کے بادشاہ کہاں ہیں؟ جابر کہاں ہیں اور متکبرین کہاں ہیں؟ بولو! آج کے دن بادشاہی کس کی ہے؟ اس سوال کا کوئی جواب نہ دے گا۔ حتیٰ کہ چالیس برس ایسے ہی سناٹے میں گزر جائیں گے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ خود ہی اس سوال کا جواب دیں گے کہ آج بادشاہی صرف اکیلے اللہ کی ہے۔ جو ہر چیز کو دبا کے رکھے ہوئے ہے۔ غافر
17 [٢٢] ظلم کی ممکنہ صورتیں :۔ ظلم کی کئی صورتیں ممکن ہیں۔ مثلاً پہلی یہ کہ کسی نے ظلم نہ کیا ہو لیکن اسے خواہ مخواہ سزا دے دی جائے۔ دوسری یہ کہ جرم تو تھوڑا ہو مگر اسے سزا زیادہ دے دی جائے۔ تیسری یہ کہ آدمی مستحق تو اجر کا ہوگا مگر اسے سزا دے دی جائے۔ چوتھی یہ کہ جرم تو زید نے کیا ہو مگر اس کی سزا بکر کو دے دی جائے پانچویں یہ کہ آدمی جتنے اجر کا مستحق ہو اسے اس سے کم دیا جائے۔ چھٹی یہ کہ آدمی سزا کا مستحق ہو مگر اسے سزا نہ دی جائے اور مظلوم منہ دیکھتا رہ جائے۔ غرضیکہ ظلم کی جتنی بھی صورتیں ممکن ہیں ان میں کسی بھی صورت کا ظلم اللہ کی عدالت میں ہونے نہ پائے گا۔ [٢٣] فیصلہ میں دیر لگنے کی وجہ :۔ اللہ تعالیٰ کو ساری مخلوق کا حساب چکانے اور فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگے گی۔ اس لئے کہ دیر لگنے کی دو ہی صورتیں ممکن ہیں ایک یہ کہ انصاف کے تقاضے پورے نہ ہورہے ہوں جیسے یہاں دنیا کی عدالتوں میں ہوتا ہے کہ کبھی مدعی حاضر نہیں ہوتا اور کبھی مدعا علیہ، کبھی گواہ غیر حاضر ہوتے ہیں اور بار بار کے نوٹسوں کے باوجود عدالت میں حاضر ہی نہیں ہوتے اور اس طرح انصاف کے تقاضے پورے کرتے کرتے ہی سالہا سال لگ جاتے ہیں۔ اللہ کی عدالت میں یہ بات نہ ہوگی۔ وہاں مدعی، مدعا علیہ اور گواہ سب موجود اور اللہ کے علم میں ہونگے اور جس کی ضرورت ہوگی وہ فوراً حاضر ہوجائے گا یا حاضر کرلیا جائے گا۔ دیر کی دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ دنیا میں قاضی ایک وقت میں ایک ہی مقدمہ کی سماعت کرسکتا ہے لیکن اللہ کے ہاں یہ معاملہ نہیں۔ وہ جس طرح بیک وقت ہر ایک کو دیکھتا، ہر ایک کی سنتا، ہر ایک کی داد رسی کرتا اور ہر ایک کو رزق دے رہا ہے۔ اسی طرح وہ بیک وقت اپنی تمام مخلوق کے مقدمات کی سماعت بھی کرسکتا ہے اور ان کے فیصلے بھی کرسکتا ہے۔ غافر
18 [٢٤] اَزِفَ کا لغوی مفہوم : اٰزِفَہ۔ اَزِفَ میں وقت کی تنگی کا مفہوم پایا جاتا ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ گاڑی یا جہاز کے روانہ ہونے میں وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ لہٰذا جلدی کرو۔ اسی طرح قیامت کا دن جو یقینی طور پر آنے والا ہے اسے بس آیا ہی سمجھو اور اس کے لئے جو کچھ سامان کرنا ہے جلدی جلدی کرلو۔ [٢٥] کَظَم کا لغوی مفہوم :۔ کَاظِمِیْنَ۔ کظم سانس کی نالی کو کہتے ہیں اور کظم السقاء بمعنی مشک کو پانی سے لبالب بھر کر اس کا منہ بند کردینا ہے اور کا ظم، کظیم اور مکظوم اس شخص کو کہتے ہیں جو غم و غصہ سے سانس کی نالی تک بھرا ہوا ہو مگر اسکا اظہار نہ کرے اور اسے دبا جائے۔ یعنی مجرموں کو اپنی دنیا کی زندگی کی کرتوتوں پر اس قدر غم ہوگا جس کی گھبراہٹ کی وجہ سے ان کے کلیجے منہ کو آرہے ہوں گے۔ [٢٦] سفارش کا عوامی عقیدہ :۔ شفاعت کے متعلق مشرکوں نے جو غلط سلط عقیدے گھڑ رکھے ہیں، بالکل بے کار ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مثلاً فلاں حضرت کا دامن پکڑ لیا جائے اور اس کی بیعت کرلی جائے تو بس بیڑا پارا ہے۔ وہ اللہ کے حضور سفارش کرکے ہمیں چھڑا لیں گے۔ حالانکہ قرآن کی صراحت کے مطابق یہ معلوم کرنا بھی مشکل ہے کہ جن حضرات کو وہ شفیع سمجھ رہے ہیں وہ خود کس حال میں ہوں گے۔ نیز انہیں شفاعت کی اجازت بھی ملے گی یا نہیں اور اگر بفرض محال یہ تسلیم کرلیا جائے کہ انہیں اجازت مل جائے گی تو پھر بھی یہ کب لازم آتا ہے کہ اس کی بات مان بھی لی جائے گی۔ لہٰذا کسی کی شفاعت پر انحصار کرنا بالکل عبث ہے۔ غافر
19 [٢٧] آنکھوں کی حرکات کی اقسام :۔ آنکھوں کی بے شمار حرکات ہوتی ہیں۔ جن میں اکثر مذموم اور خَائِنَۃَ الاَعْیُنِ کے ضمن میں آتی ہیں۔ مثلاً بطور طعن و تشنیع آنکھیں مارنا پھر استہزاء کی نظر اور طرح ہوتی ہے پھر آنکھوں آنکھوں میں باتیں بھی ہوتی ہیں۔ دوسروں سے آنکھیں بچا کر غیر محرم عورتوں کو بدنظری سے چوری چھپے دیکھا بھی جاتا ہے۔ اللہ آنکھوں کے ان سب قسم کے اشاروں کو بھی جانتا ہے اور دلوں میں پیدا ہونے والے جن خیالات کے نتیجہ میں آنکھیں ایسے اشارے اور حرکات کرتی ہیں وہ ان خیالات تک سے بھی واقف ہے۔ غافر
20 [٢٧] آنکھوں کی حرکات کی اقسام :۔ آنکھوں کی بے شمار حرکات ہوتی ہیں۔ جن میں اکثر مذموم اور خَائِنَۃَ الاَعْیُن ِکے ضمن میں آتی ہیں۔ مثلاً بطور طعن و تشنیع آنکھیں مارنا پھر استہزاء کی نظر اور طرح ہوتی ہے پھر آنکھوں آنکھوں میں باتیں بھی ہوتی ہیں۔ دوسروں سے آنکھیں بچا کر غیر محرم عورتوں کو بدنظری سے چوری چھپے دیکھا بھی جاتا ہے۔ اللہ آنکھوں کے ان سب قسم کے اشاروں کو بھی جانتا ہے اور دلوں میں پیدا ہونے والے جن خیالات کے نتیجہ میں آنکھیں ایسے اشارے اور حرکات کرتی ہیں وہ ان خیالات تک سے بھی واقف ہے۔ غافر
21 [٢٩] اپنی یادگار چھوڑنے کا شوق :۔ اپنی یادگار چھوڑنے کا شوق اس آدمی کو ہوتا ہے جو اپنے آپ کو کوئی بڑی چیز سمجھتا ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ اس معاملہ میں بھی ہر شخص کا ذوق الگ الگ ہے۔ ان لوگوں نے ایسی یادگاریں چھوڑیں جو ان کی شان وشوکت پر دلالت کرتی تھیں۔ پھر جب اللہ کا عذاب آیا تو نہ شان و شوکت ان کے کسی کام آئی اور نہ چھوڑی ہوئی یادگاریں۔ پھر جب دنیا میں انہیں کوئی چیز اللہ کے عذاب سے بچا نہ سکی تو آخرت میں انہیں کون بچا سکے گا۔ غافر
22 [٣٠] بینات کے مختلف معانی :۔ بَیِّنَاتٌ (بینۃ) کی جمع دراصل ایسی دلیل کو کہتے ہیں جس کے سامنے فریق ثانی لاجواب ہوجائے۔ پھر اس لفظ کا اطلاق معجزات انبیاء پر بھی ہوسکتا ہے اور قرآن کی آیات پر بھی کیونکہ بار بار کے چیلنج کے باوجود کافر قرآن کی مثل پیش نہ کرسکے تھے۔ اور ایسے عقلی دلائل پر بھی جو فریقین میں مسلم ہوں۔ اور ایسی واضح ہدایات پر بھی جنہیں دیکھ کر ہر معقول آدمی یہ سمجھ سکے کہ ایسی تعلیم کوئی جھوٹا خود غرض آدمی نہیں دے سکتا۔ غافر
23 [٣١] سلطان کا مطلب :۔ سلطان کا معنی ایسی دلیل ہے جو سند یا دستاویز کی حیثیت رکھتی ہو اور جس سے واضح طور پر یہ معلوم ہوتا ہو کہ یہ شخص جو کچھ کر رہا ہے وہ صرف اپنی ہی نہیں کسی دوسری قوت کے بل بوتے پر کر رہا ہے۔ اور ایسے حالات و واقعات موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں بارہا پیش آئے تھے۔ پہلی بات تو یہی تھی کہ موسیٰ علیہ السلام فرعون کی حکومت کے مفرور مجرم تھے۔ اس کے باوجود آپ خود ہی سیدھے اس کے دربار میں پہنچ گئے اور اسے اللہ کا پیغام سنا کر اپنی اطاعت کی دعوت دی اور یہ بھی کہا کہ بنی اسرائیل کو آزاد کرکے میرے ہمراہ روانہ کردے۔ اور یہ دونوں باتیں ایسی تھیں جن سے وہ جل بھن گیا تھا۔ مگر اس کے باوجود آپ پر ہاتھ اٹھانے یا آپ کو کوئی تکلیف پہنچانے کی جرأت نہ کرسکا اور کہا تو بس یہی کہا کہ اگر تم واقعی اللہ کے رسول ہو تو کوئی معجزہ ہے تو وہ پیش کرو۔ پھر جب بھی مصر پر کوئی عذاب نازل ہوتا تو فرعون سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے التجا کرتا ہے اگر یہ مصیبت دور ہوجائے تو میں ایمان لے آؤں گا۔ پھر جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام دعا کرتے تو وہ مصیبت ٹل بھی جاتی تھی۔ ایسی تمام باتوں سے صاف واضح ہوتا تھا کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی پشت پر کوئی غیبی طاقت موجود ہے۔ جس سے فرعون اور اس کے سب درباری خائف تھے اور یہی سلطان مبین کا مطلب ہے۔ غافر
24 [٣٢] ان کے یہ الزام محض زبانی اور دوسرے لوگوں کو مطمئن رکھنے کی غرض سے تھے آپ نے جو لاٹھی کے سانپ بن جانے اور یدبیضاء کے معجزات پیش کئے تھے اس لحاظ سے وہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو جادوگر کہہ دیتے تھے۔ اور آپ کے دعوائے رسالت کے لحاظ سے آپ کو جھوٹا کہتے تھے۔ مگر خود وہ اچھی طرح سمجھ چکے تھے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نہ جادوگر ہیں اور نہ اپنے دعویٰ میں جھوٹے ہیں۔ کیونکہ جادوگر تو فرعون کے ملک میں بے شمار تھے۔ مگر کسی جادوگر سے یہ تو نہ ہوسکا کہ وہ اپنے جادو کے زور سے ملک بھر میں قحط مسلط کردے اور جب اس سے اس قحط کو دور کرنے کی درخواست کی جائے تو وہ اپنے جادو کے زور سے بارشیں برسا کر قحط ختم کردے۔ بلکہ جادوگروں نے ہی تو بھرے میدان میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لاکر فرعون کی مکارانہ سازشوں کی قلعی کھول دی تھی۔ غافر
25 [٣٣] بنی اسرائیل کے استیصال کے لئے فرعون کا اقدام :۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے والوں کے لئے یہ سزا فرعون نے اس لئے مقرر کی تھی کہ اس طرح وہ لوگوں کو دہشت زدہ کرکے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا ساتھ دینے سے روک دے وہ چاہتا یہ تھا کہ اس طریقہ سے بنی اسرائیل کی قوم کا ہی استیصال کردیا جائے مگر اس کی ان دھمکیوں اور سزاؤں کے باوجود سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے والوں کی تعداد بڑھتی ہی گئی۔ غافر
26 [٣٤] فرعون کی گیدڑ بھبکی :۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے والوں میں کمی ہونے کے بجائے ان کی تعداد بڑھتی ہی گئی تو فرعون نے سوچا کہ اب اس مصیبت کا ایک ہی حل ہے اور وہ یہ ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام ہی کو قتل کردیا جائے۔ لیکن اس کے درباریوں نے جو صحیح صورت حال سے واقف ہوچکے تھے اسے اس کام سے منع کردیا کہ کہیں ملک میں کوئی بڑی بغاوت نہ اٹھ کھڑی ہو، تو ان درباریوں کو فرعون نے یہ جواب دیا ہو کہ اب یہ کام کرنے کے بغیر کوئی چارہ نہیں رہا۔ لہٰذا مجھے یہ کام کرنے سے مت روکو۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اسے کسی نے بھی روکا نہ ہو مگر وہ محض اپنی بہادری جتلانے کے لئے یہ بات کہہ رہا ہو۔ مگر چونکہ وہ خود بھی دل میں ڈرا اور سہما ہوا تھا اس لئے وہ اس طرح بات کر رہا تھا۔ ورنہ اگر وہ خود خائف نہ ہوتا اور اس کام کا ارادہ کرلیتا تو اسے کون روکنے والا تھا۔؟ [٣٥] دین سے مراد تمدن اور ملکی نظام ہے :۔ یہاں دین سے مرادصرف سورج دیوتا یا ہبل کی پوجا ہی نہیں بلکہ پورے کا پورا نظام سلطنت اور نظام تمدن ہے۔ یعنی فرعون کو اصل خطرہ تو یہ تھا کہ کہیں اس ملک کی فرمانروائی اس سے چھن نہ جائے۔ مگر اس نے اس بات کو مکار سیاسی لیڈروں کے انداز میں پیش کیا کہ تمہارا دین، جس سے تمہیں محبت ہے۔ وہی نہ بدل ڈالے، جیسے ہمارے ہاں سیاسی لیڈر ایسے بیان دیتے رہتے ہیں کہ عوام یہ چاہتے ہیں کہ جلد از جلد نئے انتخابات کرائے جائیں۔ حالانکہ عوام بیچارے آئے دن کے انتخابات سے پہلے ہی بیزار بیٹھے ہوتے ہیں۔ [٣٦] یعنی اگر وہ اس نظام کو بدل نہ سکے تب بھی یہ خطرہ ضرور ہے کہ ملک میں خانہ جنگی شروع ہوجائے گی۔ لہٰذا تحفظ امن عامہ کی خاطر ضروری ہے کہ جیسے بھی بن پڑے موسیٰ کو قتل کرکے ان آنے والی پریشانیوں کا خاتمہ کردیا جائے۔ غافر
27 [٣٧] متکبر اور ظالم وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو آخرت کے منکر ہوں :۔ فرعون نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کی بات خواہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی موجودگی میں کی ہو یا انہیں کسی واسطہ سے فرعون کی اس دھمکی کا علم ہوا ہو۔ بہرحال جب انہوں نے یہ بات سنی تو اپنی قوم سے کہنے لگے : مجھے فرعون کی ایسی دھمکیوں کی کچھ بھی پروا نہیں۔ فرعون اکیلا تو کیا دنیا بھر کے متکبر اور جبار جمع ہوجائیں تب بھی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے کیونکہ میں اپنے آپ کو اپنے پروردگار کی پناہ میں دے چکا ہوں اور وہ مجھے ان کے شر سے بچانے کے لئے کافی ہے۔ ضمناً اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ متکبر، جابر اور ظالم صرف وہ لوگ ہی ہوسکتے ہیں جو روز آخرت پر ایمان نہ رکھتے ہوں۔ غافر
28 [٣٨] اپنے ایمان کو چھپانے والا مرد مومن کہتے ہیں کہ یہ شخص فرعون کا چچا زاد بھائی تھا۔ یا کوئی اور بھی ہو تو کم از کم فرعون کے درباریوں اور قریبی لوگوں میں سے تھا۔ اور وہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لاچکا تھا۔ بعض مفسرین یہ کہتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام سے جب ایک قبطی مارا گیا تھا تو اسی شخص نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو اطلاع دی تھی کہ تمہارے قتل کے منصوبے ہو رہے ہیں لہٰذا جلد از جلد یہاں سے بھاگ جاؤ۔ اس وقت اگرچہ موسیٰ علیہ السلام نبی نہیں تھے اور اس وقت آپ پر ایمان کا سوال بھی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ تاہم وہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے اخلاق و عادات سے متاثر تھا اور اسی لئے آپ کا ہمدرد بھی تھا اس جملہ سے ایک تو یہ بات معلوم ہوئی کہ فرعون کی سختیوں کے باوجود سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی دعوت اندر ہی اندر پھیل گئی تھی۔ حتیٰ کہ فرعون کے ایوانوں تک پہنچ گئی تھی۔ اور دوسری یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اگر کوئی ایماندار شخص کافر معاشرہ کے دباؤ کی وجہ سے اپنے ایمان کو ظاہر نہ کرے تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں۔ [٣٩] فرعون اور مرد مومن کا مکالمہ :۔ جب فرعون نے بھرے دربار میں یہ بات کہی تو اس مرد مومن سے ضبط نہ ہوسکا اور فوراً بول اٹھا کہ جس شخص کو تم قتل کرنے کے درپے ہو آخر اس کا جرم کیا ہے۔ جس کی بنا پر تم اسے قتل کرتے ہو؟ کیا اس کا یہی جرم نہیں کہ وہ تمہیں پروردگار کی طرف بلاتا ہے۔ پھر اس کے پاس واضح دلائل موجود ہیں، جنہیں تم بھی جانتے ہو، کہ وہ اپنے قول میں سچا ہے۔ کیا یہ ایسا ہی جرم ہے کہ اسے مستوجب قتل قرار دیا جائے؟ [٤٠] اس مرد مومن نے اپنا سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس کی دعوت کے متعلق دو ہی صورتیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اپنے قول میں جھوٹا ہو۔ اس صورت میں تم اتنی فکر کیوں کرتے ہو؟ جھوٹ کے پاؤں کہاں ہوتے ہیں وہ جلد یا بدیر اپنی موت آپ ہی مرجائے گا۔ اور اگر وہ سچا ہوا اور تم نے اسے قتل کردیا تو پھر سمجھ لو کہ تمہاری خیر نہیں۔ پھر تو جس عذاب کی وہ تمہیں دھمکی دیتا ہے وہ لازماً تم پر نازل ہو کے رہے گا۔ لہٰذا میرا مشورہ یہ ہے کہ تم اسے اس کے حال پر چھوڑ دو۔ تمہاری بھلائی اسی میں ہے۔ [٤١] یہ جملہ جو اس مرد مومن نے بولا یہ جیسے سیدنا موسیٰ پر فٹ آتا تھا ایسے ہی فرعون پر آتا تھا۔ یعنی اگر موسیٰ علیہ السلام نعوذ باللہ جھوٹ سے کام لے رہے ہیں کہ اس کام میں اس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ تم سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہو تو یاد رکھو اللہ ایسے شخص کو کبھی سیدھی راہ نہیں دکھاتا اور وہ سچا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جھوٹے تم ہو اور جھوٹا ہونے کے باوجود اس حد تک آگے بڑھے جارہے ہو کہ اسے قتل کرنا چاہتے ہو تو پھر تمہارا بیڑا غرق ہو کے رہے گا۔ عقبہ بن ابی معیط کا آپ کا گلا گھونٹنا :۔ بالکل ایسا ہی ایک واقعہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں پیش آیا۔ ایک بدبخت مشرک عقبہ بن ابی معیط نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہلاک کرنے کی کوشش کی۔ اتفاق سے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ موقعہ پر پہنچ گئے تو انہوں نے بھی اس موقعہ پر یہی آیت پڑھی تھی۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمرو بن عاص سے پوچھا : ’’مجھے بتاؤ کہ مشرکین مکہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ جو تکلیف دی وہ کیا تھی؟‘‘ وہ کہنے لگے کہ : ’’ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے صحن میں نماز پڑھ رہے تھے۔ عقبہ بن ابی معیط آگے بڑھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مونڈھے کو پکڑا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن میں کپڑا ڈال کر مروڑا دیا اور اتنی زور سے گلا گھونٹا (جیسے مار ہی ڈالے گا) اتنے میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آگئے، انہوں نے عقبہ کا مونڈھا تھاما اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کو پرے دھکیل دیا اور فرمایا : ’’کیا تم اس شخص کو صرف اس لئے مار ڈالنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے، حالانکہ وہ تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے واضح نشانیاں بھی لے کر آیا ہے‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) غافر
29 [٤٢] کیا تم اس کے قتل کی بات محض اس لئے کرتے ہو کہ آج تمہارے ہاتھ میں حکومت ہے اور اگر تم ایساکر بھی لو گے تو تمہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ لیکن اگر وہ سچا ہوا اور تم پر اللہ کی طرف سے عذاب آگیا تو اس وقت تمہاری یہ حکومت کسی کام نہ آئے گی۔ اور سب تباہ ہوجائیں گے۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک بھی اس نے اپنا ایمان ظاہر نہ کیا تھا۔ اور فرعون اور اس کے درباریوں سے غیر جانبدار رہ کر ناصحانہ قسم کی باتیں کر رہا تھا۔ [٤٣] فرعون کے اس جملہ سے بھی معلوم ہو رہا ہے کہ فرعون اسے تاحال اپنا مخالف یا مومن نہیں سمجھتا تھا بلکہ اسے اپنا ناصح ہی سمجھ رہا تھا۔ اسی لئے اس نے اس مرد مومن کو یہ جواب دیا کہ مجھے تو اسی بات میں بھلائی نظر آتی ہے کہ اس شخص کو قتل کردینا ہی بہتر ہے اور میں اپنی سمجھ اور بصیرت کے مطابق جو حالات سامنے دیکھ رہا ہوں وہی تمہیں بتا رہا ہوں اور اسی میں تمہاری بھلائی سمجھتا ہوں۔ غافر
30 غافر
31 [٤٤] فرعون کے جواب سے اس مرد مومن کو یہ معلوم ہوگیا تھا کہ فرعون نے اس کی نصیحت کا خاک بھی اثر قبول نہیں کیا۔ اور اس کے خیالات میں کوئی تبدیلی پیدا نہ ہوئی تو اس نے مزید وضاحت سے سمجھانا شروع کیا اور کہا کہ تم سے پہلے بہت سی ایسی قومیں گزر چکی ہیں جو شان و شوکت میں تم سے بھی بڑھ کر تھیں۔ جیسے قوم نوح، عاد اور ثمود وغیرہ، ان لوگوں نے بھی اپنے اپنے رسولوں کو جھٹلایا تھا اور ان کے درپے آزار ہوگئے تھے جس کے نتیجہ میں ان پر عذاب آیا جس نے انہیں تباہ کرکے رکھ دیا تھا اور مجھے یہ خدشہ ہے کہ ہم پر بھی کہیں ایسا ہی عذاب نازل نہ ہوجائے۔ [٤٥] پیغمبر اللہ کے سفیر ہوتے ہیں :۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں پر ظلم کرنے یا ان پر عذاب نازل کرنے کا شوق ہرگز نہیں۔ بلکہ یہ بندوں کے اپنے ہی اعمال ہوتے ہیں جو سزا کا موجب بن جاتے ہیں جیسے دنیا کی کوئی حکومت بھی یہ گوارا نہیں کرتی کہ اس کے سفیر کو رسوا کیا جائے یا اسے قتل ہی کردیا جائے۔ بلکہ فوراً انتقام لینے پر آمادہ ہوجاتی ہے۔ تو بھلا اللہ تعالیٰ جو سب پر غالب ہے اور انتقام لینے کی قدرت بھی رکھتا ہے۔ وہ اپنے رسولوں کو رسوا ہوتا دیکھ کر ان کی مدد نہ کرے گا اور رسوا کرنے والوں سے انتقام نہ لے گا ؟ غافر
32 [٤٦] یوم التناد کے مختلف مفہوم :۔ اکثر مفسرین نے﴿یَوْمَ التَّنَادِ﴾ سے مراد قیامت کا دن لیا ہے جس دن تابعداری کرنے والے اپنے بڑوں (مطاع حضرات) کے متعلق فریاد کررہے ہوں گے۔ مظلوم ظالم کو پکڑے ہوئے فریاد کر رہا ہوگا۔ عابد اپنے معبودوں سے نالاں ہوں گے وغیرہ یا اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اہل جنت اہل دوزخ سے، اہل اعراف اہل دوزخ سے، دوزخی آپس میں جنتی آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہوں گے لیکن جن مفسرین نے ﴿یوم التناد﴾ سے مراد عذاب الٰہی کے نازل ہونے کا دن مرادلیا ہے۔ وہ ربط مضمون کے لحاظ سے زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ یعنی عذاب الٰہی کے وقت وہ سب آہ وفغاں کرتے ہوں گے اور اسی حال میں ان کا خاتمہ ہوجائے گا۔ غافر
33 [٤٧] اس سے مراد قیامت کا دن بھی ہوسکتا ہے اور کسی قوم پر عذاب کا دن بھی۔ لیکن اس وقت اگر کوئی پیٹھ پھیر کر بھاگنا بھی چاہے تو وہ اللہ کی گرفت سے کبھی بچ نہیں سکتا۔ غافر
34 [٤٨] یوسف علیہ السلام کے متعلق افراط وتفریط کی انتہا :۔ یہ بھی اس مرد مومن کی تقریر کا حصہ ہے۔ اس نے درباریوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک مصر میں یوسف علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے۔ جن کی حسن تدبیر سے یہ ملک سات سالہ قحط کے دور میں امن کے ساتھ گزر بسر کرتا رہا اور آس پاس کے ملکوں کو بھی غلہ مہیا کرتا رہا جن کے پاکیزہ سیرت و اخلاق سے بادشاہ مصر اس قدر متاثر ہوا تھا کہ اس نے حکومت ہی سیدنا یوسف علیہ السلام کے حوالہ کردی تھی اور جن کا دور حکومت عدل و انصاف کے لحاظ سے تم بہترین دور تسلیم کرتے ہو لیکن ان سب باتوں کے باوجود ان کے جیتے جی تم شک و شبہ میں ہی پڑے رہے اور ان پر ایمان نہ لائے۔ یہ تمہاری ایک انتہا تھی۔ پھر جب وہ فوت ہوگئے تو تم نے ان کی شان یوں بڑھا چڑھا کر بیان کرنا شروع کی کہ یوں کہنے لگے کہ اب سیدنا یوسف علیہ السلام جیسا رسول کہاں آئے گا ؟ اور یہ خیال کرکے باقی جو انبیاء آئے انہیں جھٹلانا شروع کردیا۔ یہ تمہاری دوسری انتہا تھی۔ اور آج تم سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی نبوت و رسالت کا بھی انکار کر رہے ہو۔ وہ بھی تمہاری غلط روش تھی اور یہ موجودہ روش بھی غلط ہے۔ وہ بھی حق کا انکار تھا، یہ بھی حق کا انکار ہے۔ اس وقت بھی تم شک میں پڑے رہے اور انب بھی شک میں پڑے ہوئے ہو۔ ایسے ہی لوگوں کے حق میں گمراہی لکھی ہوتی ہے۔ غافر
35 [٤٩] گمراہ ہونے والوں کی صفات :۔ گمراہ ہونے والوں کی دو صفات تو اوپر مذکور ہوچکیں۔ ایک یہ کہ حق سے انکار کرتے اور اپنی بداخلاقی اور فسق و فجور میں بہت آگے نکل جاتے ہیں۔ دوسرے انبیاء علیہم السلام کی تعلیم جس کا اکثر حصہ توحید اور آخرت کے متعلق ہوتا ہے، سے ہمیشہ شک و شبہ میں مبتلا رہے ہیں اور ان کی تیسری صفت یہ ہوتی ہے کہ وہ اللہ کی آیات کا مذاق اڑاتے اور ان میں اس طرح کج بحثی کرتے ہیں جس کی بنیاد نہ کسی عقلی دلیل پر ہوتی ہے اور نہ نقلی دلیل پر۔ اور اس کی وجہ محض ان کی ضد، ہٹ دھرمی اور تکبر یا پندار نفس ہوتا ہے۔ ان کی یہ صورت حال اللہ اور مومنوں کے نزدیک انتہائی نفرت انگیز ہوتی ہے اور جو انسان اس حالت کو پہنچ جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے دل پر ٹھپہ لگا دیتا ہے جس کے بعد ان کے دلوں میں ہدایت اور بھلائی کی بات داخل ہو ہی نہیں سکتی۔ غافر
36 اس آیت کی تفسیر اگلی آیت کے ساتھ ملاحظہ کیجئے۔ غافر
37 [٥٠] ہامان کو بلند عمارت بنانے کے لئے کہنا :۔ فرعون نے اس مرد مومن کی باتوں کا کچھ اثر نہ لیا اور نہایت متکبرانہ شان سے اپنے وزیر ہامان سے کہنے لگا : ہامان! ایک بلند عمارت تعمیر کراؤ۔ تاکہ میں یہ تو دیکھوں کہ جس الٰہ کی موسیٰ علیہ السلام بات کرتا ہے وہ ہے کہاں اور کتنی بلندی پر رہتا ہے۔ (مزید تفصیل کے لئے سورۃ قصص کی آیت نمبر ٣٨ کا حاشیہ نمبر ٥٠ دیکھئے) [٥١] یعنی فرعون جو بھی بنی اسرائیل پر ظلم ڈھا رہا تھا اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی مخالفت میں جو بھی ہتھکنڈے استعمال کر رہا تھا وہ سب اسے اچھے ہی لگتے تھے اور وہ انہیں اپنی حسن تدبیر پر محمول کرتا تھا۔ برے کام کرتے کرتے اس کی کچھ ایسی مت ماری گئی تھی اور ایسی مضحکہ خیز حرکتیں کرنے لگا تھا جس کے بعد اس کے راہ راست پر آنے کی کوئی صورت باقی نہیں رہ گئی تھی۔ [٥٢] فرعون کی وہ مکارانہ چالیں جن میں وہ خود گھر گیا :۔ فرعون دل سے یہ سمجھ چکا تھا کہ موسیٰ علیہ السلام فی الواقع اللہ کے رسول ہیں اور یہ اسے پہلے دن ہی یقین ہوگیا تھا۔ مگر وہ اپنے اقتدار اور اپنی سلطنت کو بچانے کے لئے ہمیشہ مکارانہ چالیں ہی چلتا رہا اس کی پہلی چالاکی یہ تھی کہ اس نے لوگوں کو یہ تاثر دینا چاہا کہ موسیٰ علیہ السلام کے معجزات بس جادو کے کرشمے ہی ہیں۔ اور اپنی اس چال کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جادوگروں سے مقابلہ کا ڈھونگ رچایا۔ پھر جب جادوگروں نے یہ تسلیم کرلیا کہ موسیٰ علیہ السلام جو کچھ لائے ہیں وہ جادو نہیں بلکہ فی الواقع اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاکردہ معجزات ہیں اور انہوں نے بھرے مجمع میں اپنے ایمان کا اعلان بھی کردیا تو لوگوں کو ان اثرات سے بچانے کے لئے جادوگروں پر یہ الزام لگا دیا کہ تم تو خود اندر سے موسیٰ علیہ السلام سے ملے ہوئے ہو وہ تمہارا گرو ہے اور تم اس کے چیلے ہو اور میں تمہیں ایسی اور ایسی سزائیں دوں گا۔ لیکن فرعون کی اس دھمکی کا بھی کچھ اثر نہ ہوا۔ اور لوگ چوری چھپے سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لاتے رہے پھر اس نے اعلان کروایا کہ جو لوگ موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائیں گے میں ان کے بچوں کو قتل کردوں گا۔ پھر اس قضیہ سے نجات حاصل کرنے کے لئے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے قتل کے منصوبے بنانے لگا۔ انہی ایام میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو ہجرت کا حکم ہوگیا۔ اب اگر وہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا تعاقب نہ کرتا تو زیادہ سے زیادہ یہی ہوتا کہ بنی اسرائیل اس کے ہاتھ سے نکل جاتے۔ وہ خود تو نہ غرق ہوتا اور نہ اس کی سلطنت ہاتھ سے جاتی مگر اس کی تدبیر اسے اس کی تباہی کی طرف ہی دھکیلتی رہی۔ غافر
38 اس آیت کی تفسیر اگلی آیت کے ساتھ ملاحظہ کیجئے۔ غافر
39 [٥٣] اب وہ مرد مومن کھل کر سامنے آتا ہے۔ فرعون نے کہا تھا کہ میں اپنی بصیرت کے مطابق جو راہ بھلائی کی دیکھتا ہوں وہی تمہیں بتا رہا ہوں۔ اس مرد مومن نے فرعون کی اس بات کے جواب میں کہا کہ بھلائی کی راہ وہ نہیں جو تم کہتے ہو کہ موسیٰ کو قتل کردیا جائے بلکہ بھلائی کی راہ چاہتے ہو تو میری بات مانو۔ میں تمہیں بھلائی کی راہ بتاتا ہوں اور وہ راہ یہ ہے کہ یہ دنیا چند روزہ ہے عیش و آرام سے گزر جائے تو بھی کوئی بات نہیں اور تنگی ترشی میں گزرے تو بھی گزر ہی جائے گی فکر تو اخروی زندگی کی کرنی چاہئے جو دائمی اور لازوال ہے۔ یہ دنیا تو صرف دارالامتحان ہے۔ پھر اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے فرمانبرداروں کے لئے بہت مراعات ملحوظ رکھی ہیں۔ مثلاً اگر کوئی برا کام کرے گا تو اسے اتنا ہی بدلہ دیا جائے گا اور کوئی اچھے کام کرے گا تو اس کا بہت ہی زیادہ اجر دیا جائے گا لہٰذا دنیا کی اس چند روزہ زندگی کو غنیمت سمجھو اور زیادہ سے زیادہ اچھے کام کرکے اجر عظیم کے مستحق بن جاؤ۔ غافر
40 غافر
41 [٥٤] مرد مومن کی تقریر :۔ یہ ہے تمہاری بھلائی، خیر خواہی اور نجات کا راستہ کہ اللہ کے رسول پر ایمان لے آؤ اور نیک اعمال بجا لاؤ وہ بھلائی کی راہ نہیں کہ رسول کی دعوت کا نہ صرف یہ کہ انکار ہی کردیا جائے بلکہ اسے قتل کرنے کے ارادے کئے جانے لگیں۔ یہ بھلائی کی راہ نہیں یہ تو جہنم کی راہ ہے۔ غافر
42 [٥٥] تم یہ چاہتے ہوں کہ میں بھی تمہاری طرح سورج دیوتا کے آگے سر جھکاؤں اور گؤ ماتا کی پوجا کروں میری معلومات کی حد تک ایسی چیزوں کی پرستش کے لئے تم کوئی عقلی دلیل پیش نہیں کرسکتے اور نہ ہی کسی الہامی کتاب سے یہ ثابت کرسکتے ہو یہ چیزیں بھی عبادت کے لائق ہیں۔ یہ تو بس باپ دادا کی تقلید کی اندھی روش ہے پھر تم یہ بھی چاہتے ہو کہ میں ایسے نظام حکومت کا کل پرزہ بن کر رہوں جو رسولوں کی مخالفت پر اتر آئی ہے۔ اور طبقاتی تقسیم کو ہوا دے کر بنی اسرائیل پر بے پناہ مظالم ڈھا رہی ہے۔ میں ان باتوں سے سخت بیزار ہوں۔ اس کے بجائے میں تمہیں اس پروردگار کی عبادت اور اطاعت کی طرف دعوت دیتا ہوں جس نے کائنات کی ہر چیز کو صرف پیدا ہی نہیں کیا بلکہ ان پر پوری طرح کنٹرول بھی رکھے ہوئے ہے۔ اور جو شخص اس کی طرف رجوع کرے اس کے گناہ بھی معاف فرما دیتا ہے۔ غافر
43 [٥٦] اس جملہ کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں۔ پہلا تو وہی مطلب ہے جو ترجمہ سے واضح ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں کو نہ دنیا میں یہ حق پہنچتا ہے نہ آخرت میں کہ ان کی خدائی تسلیم کرنے کے لئے لوگوں کو دعوت دی جائے۔ تیسرا یہ کہ انہیں تو لوگوں نے زبردستی خدا بنا رکھا ہے ورنہ وہ خود نہ اس دنیا میں خدائی کے مدعی ہیں، نہ آخرت میں یہ دعویٰ لے کر اٹھیں گے کہ ہم بھی تو خدا تھے ہمیں کیوں نہ مانا گیا۔ [٥٧] اگرچہ ہر کام میں حد اعتدال سے آگے نکل جانے کو اسراف کہہ سکتے ہیں مگر یہاں مُسْرِفِیْنَ سے مرادوہ لوگ ہیں جو عاجز مخلوق کو اللہ تعالیٰ کے اختیارات و تصرفات میں شریک بنا لیتے ہیں۔ ایسے مسرفین ہی وہ دوزخی ہیں جنہیں کبھی معاف نہیں کیا جائے گا۔ غافر
44 [٥٨] مرد مومن کی تقریر کا فرعون پر رد عمل :۔ اس مرد مومن کی تقریر کا یہ آخری حصہ ہے اور اس سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ اس نے یہ تقریر اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کی تھی۔ اور یہ کہ اب فرعون اسے کسی قیمت پر زندہ نہیں رہنے دے گا۔ دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ مرد مومن کسی معمولی عہدے پر فائز نہ تھا بلکہ کسی انتہائی نازک اور ذمہ دارانہ منصب اس کے سپرد تھا۔ جسے فرعون فوری طور پر گرفتار کرنے کی جرأت نہ کرسکا۔ فرعون کو یہ تو معلوم ہوچکا تھا کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی دعوت اس کی انتہائی پابندیوں اور سختیوں کے باوجود ایوان بالا تک سرایت کرچکی ہے۔ لہٰذا اب یہ معاملہ صرف اکیلے اس مرد مومن کا یا موسی علیہ السلام ٰ ہی کے قتل کا نہ رہا تھا بلکہ اب وہ یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ دعوت اسلامی کے اثرات اس کے اپنے دربار اور اس کی اپنی آل میں کہاں تک نفوذ کرچکے ہیں اس لئے سردست اس نے ان دونوں کو التواء میں ڈال دیا کہ مبادا ان دونوں میں سے کسی ایک یا دونوں کو قتل کرنے سے کوئی ایسا ہنگامہ نہ اٹھ کھڑا ہو جس پر بعد میں قابو نہ پایا جاسکے۔ اور تیسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ جو کچھ اس مرد مومن کے دل میں تھا وہ اس نے پوری جرأت کے ساتھ برملا کہہ ڈالا۔ اور اپنی سچائی کی مزید توثیق کے لئے ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ عنقریب تم لوگ میری باتوں کو یاد کرو گے کہ جو کچھ اس آدمی نے باتیں کہی تھیں وہ فی الواقع درست تھیں۔ عنقریب سے مرادروز آخرت بھی ہوسکتا ہے اور وہ دن بھی جبکہ آل فرعون پر عذاب آیا تھا اور وہ بحیرہ قلزم میں غرق کردیئے گئے تھے۔ غافر
45 [٥٩] معلوم ایسا ہوتا ہے کہ فرعون اس مرد مومن کو فوری طور پر قتل نہیں کرنا چاہتا تھا بلکہ اس کو گرفتار کرکے اسے جسمانی تعذیب دینا چاہتا تھا تاکہ اس سے وہ سب باتیں اگلوا لے جن باتوں کی اسے ضرورت تھی۔ ان لوگوں نے اس مرد مومن کے خلاف کیا چالیں چلی تھیں۔ ان کی وضاحت معلوم نہیں ہوسکی۔ بہرحال اس واقعہ کے بعد جلد ہی سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو ہجرت کا حکم مل گیا اور یہ مرد مومن بھی مہاجرین میں شامل تھا۔ اس طرح اسے فرعون کی چالوں سے نجات مل گئی۔ اور جب فرعون اور آل فرعون نے ان مہاجرین کا تعاقب کیا تو خود ہی اپنی اس چال میں پھنس گئے۔ غافر
46 [٦٠] فرعون اور آل فرعون کا انجام اور عذاب قبر کا ثبوت :۔ ان غرق ہو کر مرنے والوں میں سے صرف فرعون کی لاش کو اللہ نے بچا لیا۔ باقی سب لوگوں کی لاشیں سمندر میں آبی جانوروں کی خوراک بن گئیں یا سمندر کی تہہ میں چلی گئیں۔ فرعون کی لاش کو سمندر کی موجوں نے اللہ کے حکم سے کنارے پر پھینک دیا۔ تاکہ عامۃ الناس اس خدائی کا دعویٰ کرنے والے شہنشاہ کا حشر دیکھ کر عبرت حاصل کریں۔ اور یہ مدتوں ساحل سمندر پر پڑی رہی۔ اور گلی سڑی نہیں بلکہ جوں کی توں قائم رہی۔ کہتے ہیں کہ اس کے مردہ جسم پر سمندر کے نمک کی دبیز تہہ چڑھ گئی تھی جس کی وجہ سے اس کا جسم گلنے سڑنے سے محفوظ رہا۔ اب ان غرق ہونے والوں کی لاشیں خواہ سمندر کی تہہ میں ہوں یا آبی جانوروں کے پیٹ میں یا فرعون کی لاش قاہرہ کے عجائب گھر میں پڑی ہو ان سب کی ارواح غرق ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں چلی گئی تھیں۔ غرق ہونے کے دن سے لے کر قیامت تک ان ارواح کو ہر روز صبح و شام اس دوزخ پر لاکھڑا کیا جاتا ہے جس میں وہ قیامت کے دن اپنے جسموں سمیت داخل ہونے والے ہیں۔ ان کی موت سے لے کر قیامت تک کے عرصہ میں، جسے اصطلاحی زبان میں عالم برزخ کہا جاتا ہے، صرف آگ پر پیشی ہوتی ہے اور صرف ارواح کی ہوتی ہے لیکن قیامت کے دن وہ آگ میں داخل ہوں گے اور جسموں سمیت داخل ہوں گے۔ اس لحاظ سے عالم برزخ کا عذاب قیامت کے عذاب کی نسبت بہت ہلکا اور قیامت کا عذاب عالم برزخ کے مقابلہ میں شدید تر عذاب ہے۔ اس آیت میں عالم برزخ کے عذاب یا عذاب قبر کی ٹھیک ٹھیک صراحت موجود ہے لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کے ایک فرقہ نے عذاب قبر سے انکار کردیا ہے اور ان حضرات کا تعاقب میں نے اپنی تصنیف ''آئینہ پرویزیت'' میں پیش کردیا ہے۔ یہاں اس کی تفصیل کی گنجائش نہیں۔ یہاں سردست صرف بخاری سے چند احادیث درج کر رہا ہوں جن سے واضح طور پر عذاب قبر کا ثبوت ملتا ہے : ١۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’آدمی جب اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور دفن کرنے والے واپس لوٹتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی چاپ سنتا ہے پھر اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جو اسے بٹھا دیتے ہیں پھر اس سے پوچھتے ہیں کہ تو ان صاحب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا اعتقاد رکھتا تھا ؟ اس سوال کے جواب میں مومن یہ کہے گا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے کہ جنت میں اپنا ٹھکانا دیکھ لے۔ اللہ نے اس کے بدلہ تجھ کو جنت میں ٹھکانا دیا۔ پھر اس کی قبر کشادہ کردی جاتی ہے۔ لیکن کافر یا منافق سے جب بھی سوال کیا جاتا ہے کہ تو اس شخص کے بارے میں کیا رائے رکھتا ہے؟ تو وہ کہے گا۔ میں کچھ نہیں جانتا، جو کچھ لوگ کہتے تھے میں بھی وہی کچھ کہہ دیتا تھا ‘‘ پھر اس سے کہا جائے گا کہ نہ تو تو خود سمجھا اور نہ سمجھانے والے کی رائے پر چلا۔ پھر اسے لوہے کے ہتھوڑے سے اتنی مار پڑتی ہے کہ وہ چلا اٹھتا اور جن اور انسان کے سوا سب اس کے آس پاس والے اس کی چیخ و پکار کو سنتے ہیں۔ (بخاری۔ کتاب الجنائز۔ باب ماجاء فی عذاب القبر) ٢۔ سیدنا ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ سورج غروب ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے باہر گئے وہاں ایک آواز سنی تو فرمایا : ’’یہ یہودیوں کو ان کی قبروں میں عذاب ہو رہا ہے‘‘ (بخاری۔ کتاب الجنائز۔ باب التعوذ من عذاب القبر) ٣۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں پر سے گزرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے اور کسی بڑی بات میں عذاب نہیں ہورہا۔ ان میں سے ایک تو چغلی کھاتا پھرتا تھا اور دوسرا اپنے پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا۔ پھر آپ نے ایک ہری ٹہنی لی۔ اس کے دو ٹکڑے کئے اور ہر قبر پر ایک ایک ٹکڑا گاڑ دیا۔ پھر فرمایا : ’’امید ہے کہ جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہوں ان پر عذاب ہلکا رہے‘‘ (بخاری۔ کتاب الجنائز۔ باب عذاب القبر من الغیبۃ والبول) ٤۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوں دعا مانگا کرتے تھے : ’’اے اللہ! میں قبر کے عذاب سے، دوزخ کے عذاب سے، زندگی اور موت کی بلاؤں سے اور کانے دجال کے فتنہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں‘‘ (بخاری۔ کتاب الجنائز۔ باب التعوذ من عذاب القبر) غافر
47 [٦١] مطیع اور مطاع کا مکالمہ :۔ بڑا بننے والوں سے مرادہر وہ شخص ہے جس کا اپنا حلقہ اثر ہو اور اس حلقہ میں اس کی بات تسلیم کی جاتی ہو۔ یہ گاؤں کے چودھری بھی ہوسکتے ہیں۔ حکمران بھی اور سرکاری درباری حضرات اور حکومت کے افسر بھی، سیاسی لیڈر بھی اور علمائے کرام اور مشائخ عظام بھی۔ جب ایسے بڑے حضرات بھی جہنم پر جا پہنچیں گے تو ان کے تابعدار ان سے کہیں گے کہ دنیا میں ہم تمہاری اطاعت کرتے رہے۔ آج جو ہمیں عذاب ہو رہا ہے اس کا کچھ حصہ تو اپنے ذمہ لو اور ہمارا بوجھ بٹاؤ اور وہ یہ بات انہیں اس لئے نہیں کہیں گے کہ وہ فی الواقع کچھ بوجھ بٹا سکتے ہیں۔ اس بات کی انہیں خوب سمجھ آچکی ہوگی کہ آج بے بسی میں دونوں فریق ایک جیسے ہیں بلکہ وہ یہ بات انہیں ذلیل کرنے کی خاطر کہیں گے اور اس لئے بھی کہ وہ اپنے اندر کی جلن کو کچھ ہلکا کرسکیں اور دل کے پھپھولے پھوڑ سکیں۔ غافر
48 [٦٢] بڑے حضرات جواب دیں گے کہ اب تو جو کچھ ہونا تھا ہوچکا۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کے حق میں جتنی سزا کا فیصلہ کرچکا ہے اس میں کمی بیشی نہیں ہوسکتی۔ غافر
49 [٦٣] یعنی جب کمزور اور تابعداری کرنے والوں اور بڑا بننے والوں میں یہ مکالمہ ہوچکے گا تو سب مل کر دوزخ کے فرشتوں سے التجا کریں گے کہ اب تم اپنے پروردگار سے ہمارے حق میں سفارش کرو کہ وہ کسی ایک دن تو ہمارے عذاب میں کچھ تخفیف کردے۔ اسے ہی ہم اپنے لئے تعطیل یا چھٹی کا دن سمجھ لیں گے۔ غافر
50 [٦٤] وہ کہیں گے کہ سفارش بھی آخر کسی عذر کی بنا پر ہی ہوسکتی ہے۔ لیکن تم نے معذرت کی کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی تو سفارش میں ہم کیا کہیں۔ یا تو تم یہ کہو کہ ہمارے پاس نہ رسول آئے تھے نہ ہمیں اللہ کا پیغام پہنچا تھا۔ اور جب تمہارے پاس اللہ کے رسول واضح دلائل لے کر گئے تھے اور تمہیں ہر طرح کے انجام سے مطلع کردیا تھا تو پھر سفارش کس بنیاد پر کی جاسکتی ہے؟ [٦٥] یہ فرشتوں کا دوسرا جواب ہے۔ کہ ہمارا کام سفارش کرنا نہیں اور جو ہمارا کام ہے وہ ہم کر ہی رہے ہیں سفارش کرنا رسولوں کا کام ہے اور ان کی مخالفت کرکے تم نے انہیں پہلے ہی ناراض کر رکھا ہے۔ لہٰذا اب خود ہی دعا کرکے دیکھ لو۔ [٦٦] یعنی بے اثر، بے نتیجہ اور بے کار ثابت ہوتی ہے۔ کافروں کی پکار اللہ تعالیٰ تک پہنچتی ہی نہیں۔ راستے میں ہی گم ہوجاتی ہے۔ غافر
51 [٦٧] اللہ کی امداد کی صورتیں :۔ دنیا میں رسولوں اور مومنوں کی مدد کی کئی صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ ان کے دشمنوں کو تباہ کردیا جائے اور انہیں ظالموں کے پنجہ استبداد سے نجات دلا دی جائے۔ دوسری یہ کہ انہیں سیاسی تفوق بھی حاصل ہوجائے۔ اور تیسری یہ کہ دنیا میں انہیں کا بول بولا ہو یعنی جس مقصد کے لئے وہ کھڑے ہوتے ہیں اللہ کی مدد ان کے شامل حال رہتی ہے۔ اور حق پرستوں کی قربانیاں کسی بھی حال میں ضائع نہیں جاتیں۔ ان تینوں صورتوں میں سے کسی نبی کو صرف ایک قسم کی مدد حاصل ہوئی، کسی کو دو قسم کی اور کسی کو تینوں قسم کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہمااللہ کی طرف سے تینوں طرح کی مدد سے فیض یاب ہوئے۔ [٦٨] یعنی قیامت کے دن جب ہر نبی سے اس کی امت کے متعلق گواہی لی جائے گی۔ علاوہ ازیں ان نیک بندوں کی بھی جن کی معرفت لوگوں کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا گیا۔ اس دن میدان محشر میں جمع شدہ تمام لوگوں کو معلوم ہوجائے گا کہ انبیاء اور صلحاء کا مقام عام لوگوں سے کس قدر بلند ہے۔ نیز وہ یہ بھی دیکھ لیں گے کہ اس دن جب کوئی کسی کی مدد نہ کرسکے گا۔ اللہ اپنے نبیوں اور ایمانداروں کی کس طرح مدد اور حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ غافر
52 غافر
53 [٦٩] یعنی سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو فرعون جیسے جابر اور ظالم حکمران کے پاس بھیجا۔ تو ساتھ ہی ساتھ ان کی رہنمائی بھی کرتے رہے کہ اب آگے انہیں کون سا قدم اٹھانا چاہئے تاآنکہ انہیں اور ان کی مظلوم قوم کو فرعون کی چیرہ دستیوں سے نجات دلا کر انہیں کامیابی سے ہمکنار کریں۔ [٧٠] کتاب کے وارثوں کی ذمہ داریاں :۔ فرعون کی غرقابی کے بعد موسیٰ علیہ السلام کو جو کتاب تورات عطا فرمائی اس میں اہل عقل و خرد کے لئے سبق حاصل کرنے کے لئے بھی بہت کچھ سامان موجود تھا اور دنیا میں زندگی گزارنے کے لئے بھی وہ زندگی کے ہر پہلو میں رہنمائی مہیا کرتی تھی۔ ہم نے اس عظیم الشان کتاب کا بنی اسرائیل کو وارث بنایا تاکہ وہ دنیا میں ہدایت کے علمبردار بن کر اٹھیں۔ ان آیات میں دراصل مسلمانوں کو تسلی بھی دی گئی ہے اور خوشخبری بھی۔ مسلمان اس وقت ایسے ہی حالات سے دوچار تھے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ کہ وہ اپنے نبی اور مسلمانوں کو اسی حال میں نہیں چھوڑے گا بلکہ قدم قدم پر ان کی رہنمائی بھی فرمائے گا۔ تاآنکہ وہ کامیابی سے ہمکنار ہوجائیں پھر انہیں جو کتاب (قرآن) دی جارہی ہے مسلمانوں کو ہی اس کا وارث بنایا جائے گا تاکہ وہ اسے دنیا کے کونے کونے تک پہنچائیں اور تمام لوگوں کی ہدایت کا فریضہ سرانجام دیں۔ غافر
54 غافر
55 [٧١] انبیاء کے گناہوں سے مراد معمو لی قسم کی اجتہادی لغزشیں ہیں :۔ انبیاء سے عمداً کسی گناہ کا سرزد ہو ناممکنات سے ہے۔ ان کے گناہ سے مراد ان کی چھوٹی چھوٹی اجتہادی لغزشیں ہی ہوسکتی ہیں جو بھول چوک کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہیں اور یہ بشریت کا خاصہ ہے۔ یہاں ان لغزشوں کا تعلق یقیناً صبر سے ہے۔ جیسے آپ کو کبھی کبھی یہ خیال آجاتا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ کفار مکہ کے مطالبہ کے مطابق کوئی معجزہ عطا فرما دے تو اس سے اسلام کو کافی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ یا جب کفار آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سمجھوتہ کی راہیں ہموار کرنا چاہتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا خیال آنے لگا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے ایسے خیال سے بھی سختی سے روک دیا تھا۔ اس بنا پر یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے صبر کی تلقین کی گئی ہے۔ [٧٢] آیت کے اس ٹکڑا میں اجمالاً پانچوں نمازوں کا ذکر آگیا ہے۔ ایک پہلے حصہ دن کی اور چار پچھلے حصہ دن کی۔ یہ دراصل ان پانچ نمازوں اور ان کے اوقات کا تمہیدی حکم تھا جو بعد میں فرض کی گئیں۔ قرآن کریم میں کئی مقامات پر مشکل پڑنے پر صبر اور نماز کا اکٹھا ذکر آیا ہے۔ کیونکہ اللہ کی یاد میں جس قدر طبیعت مصروف ہو اس قدر دوسری پریشانیاں خود بخود کم ہوجاتی ہیں۔ غافر
56 [٧٣] اللہ کی آیات سے مراد :۔ آیات الٰہی سے مرادیہاں دلائل توحید اور دلائل بعث بعد الموت ہیں۔ کیونکہ انہی دو باتوں میں کفار مکہ زیادہ تر تکرار کرتے تھے اور فضول قسم کی بحث اور استہزاء کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کے پاس کوئی عقلی دلیل تو ہے نہیں جس کی بنیاد پر وہ مدلل بحث کرسکیں بلکہ ان کے جھگڑا کی اصل وجہ ان کا تکبر ہے۔ وہ یہ سوچتے ہیں کہ اگر ہم نے رسول کی بات مان لی تو پھر ہمیں اس کا مطیع بن کر رہنا پڑے گا۔ اور یہی پندار نفس ان کے ایمان لانے میں آڑے آرہا ہے۔ مگر جس بڑا بنے رہنے کی انہیں فکر دامنگیر ہے وہ بڑائی ان کے پاس رہ نہیں سکتی۔ کیونکہ عزت اور ذلت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والا کبھی عزت نہیں پاسکتا۔ جس بلند مقام پر وہ آپنے آپ کو کھڑا سمجھ رہے ہیں لازماً انہیں اس مقام سے نیچے اترنا اور ذلیل ہونا پڑے گا۔ [٧٤] یعنی ان جھگڑا کرنے والے متکبرین کے شر سے بچنے کے لئے اللہ سے پناہ مانگتے رہیے۔ جو ان کی ہر ایک سازش اور ہر ایک شرارت کو دیکھ بھی رہا ہے اور ان کی باتوں کو سن بھی رہا ہے۔ پھر انہیں سزا دینے اور ان کے شر سے آپ کو بچانے کی پوری قدرت بھی رکھتا ہے۔ غافر
57 [٧٥] یہاں سے ان آیات کا آغاز ہوتا ہے جن میں یہ لوگ جھگڑا کیا کرتے تھے ان میں پہلے بعث بعد الموت کو لیا گیا ہے۔ اور سوال اس بنیاد پر کیا گیا ہے کہ کفار مکہ اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ اور سوال یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اس قدر عظیم الجثہ مخلوق کو پیدا کرسکتا ہے تو کیا انسان کو ہی دوبارہ پیدا نہ کرسکے گا ؟ یہ گویا عقلی دلیل ہوئی کہ ایسا ہونا یقیناً ممکن ہے۔ غافر
58 [٧٦] ایک دنیا دار اور متقی کے کردار کا موازنہ :۔ یہ بعث بعد الموت پر دوسری دلیل ہے۔ یعنی ایک شخص اپنا تمام طرز زندگی وحی الٰہی کی روشنی میں استوار کرتا ہے۔ اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے کے لئے ہر طرح کے مصائب برداشت کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے۔ پھر اپنی زندگی اور اپنی خواہشات پر کئی طرح کی پابندیاں عائد کرتا ہے جو حکم الٰہی کے مطابق ضروری تھیں۔ ہمیشہ راست بازی اور دیانتداری سے کام لیتا ہے۔ کسی کو نہ فریب دیتا ہے نہ کسی پر زیادتی کرتا ہے اور ایک شریف انسان کی طرح اللہ سے ڈرتے ہوئے محتاط زندگی گزار رہا ہے۔ دوسرا وہ شخص ہے جس کے پاس تقلید آباء اور جہالت کی تاریکیوں کے سوا کچھ نہیں۔ اپنے نفس کی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے وہ لوگوں کے حقوق پر ڈاکے ڈالتا ہے۔ اس کی زندگی کا اصول مفاد پرستی ہوتا ہے۔ جس کی خاطر وہ ہر طرح کی زیادتی کرنے پر ہر وقت آمادہ رہتا ہے۔ پھر اس کے سامنے اللہ کے حضور جواب دہی کا تصور ہوتا ہی نہیں۔ اس کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ جس طرح سے بھی اور جتنی بھی دنیا اکٹھی کرلی جائے اور عیش و عشرت کرلی جائے بس وہی غنیمت ہے۔ تو بتاؤ کہ کیا ان دونوں کا انجام ایک جیسا ہی ہونا چاہئے۔ کہ دونوں مر کر مٹی ہوجائیں۔ نہ نیک انسانوں کو ان کے اچھے اعمال کا صلہ ملے اور نہ بدکردار لوگوں کو ان کی کرتوتوں کی سزا ملے؟ اور اگر تمہارے خیال میں یہ دونوں شخص ایک جیسے نہیں اور دونوں کا انجام ایک جیسا نہ ہونا چاہئے تو پھر ضروری ہے کہ انسان کو دوسری زندگی دی جائے جس میں اسے اس کے اعمال کا اچھا یا برا بدلہ دیا جاسکے۔ گویا اصل دلیل کا ماحصل یہ تھا کہ ایسا ہوسکتا ہے اور دوسری دلیل کا ماحصل یہ ہے کہ ایسا ہونا چاہئے۔ غافر
59 [٧٧] جہاں عقل کی حد ختم ہوجائے وہاں سے وحی کا آغاز ہوتا ہے اور وحی کی بنیاد یقینی علم پر ہے :۔ اس آیت میں بڑے زور دار الفاظ میں انسان کو اللہ تعالیٰ متنبہ فرما رہے ہیں کہ قیامت کے آنے میں شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ وہ آکے رہے گی کسی کے روکنے یا نہ چاہنے سے رک نہیں سکتی۔ عقلی دلائل کا ماحصل تو یہی ہوسکتا تھا کہ فلاں چیز کا ہونا ممکن ہے یا ہونا چاہئے لیکن عقل یہ حکم نہیں لگا سکتی کہ فلاں چیز یقیناً واقع ہو کے رہے گی۔ یہ بس وحی الٰہی کا کام ہے جو کائنات کے خالق اور اس کے آغاز اور انجام سے پوری طرح واقف ہے۔ ضمناً اس سے یہ بات بھی معلوم ہوجاتی ہے کہ دین کی بنیاد محض قیاس و استدلال پر نہیں رکھی گئی بلکہ اس کی بنیاد وحی الٰہی یا یقینی علم پر رکھی گئی ہے۔ غافر
60 [٧٨] دعا اور عبادت ایک ہی چیز ہے بلکہ دعا عبادت کا مغز ہے۔ اس آیت سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ دعا یا کسی کو حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لئے پکارنا اور عبادت ہم معنی الفاظ ہیں۔ اس آیت کے پہلے جملہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مجھے پکارا کرو میں تمہاری پکار کو قبول کرتا ہوں اور دوسرے جملہ میں فرمایا کہ جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں۔ جو اس آیت پر واضح دلیل ہے کہ دعا اور عبادت ایک ہی چیز ہے پھر اس مفہوم کی تائید احادیث صحیحہ سے بھی ہوجاتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ﴿الدُّعَاءُ ھُوَالْعِبَادَۃُ﴾ (یعنی پکارنا ہی اصل عبادت ہے) اور ایک مرتبہ یوں فرمایا : (الدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃ) (یعنی دعا ہی عبادت کا مغز یا اصل عبادت ہے) (ترمذی، ابو اب التفسیر زیر آیت ہذا) دعا عبادت کیسے ہے؟ اب ہم یہ دیکھیں گے کہ دعا عبادت کیسے ہے؟ دعا کرنے والا دعا اس وقت کرتا ہے جب کسی چیز کے حصول یا کسی مصیبت کے دفعیہ کے ظاہری اسباب مفقود ہوں۔ اور جس کو پکارتا ہے وہ یہ سمجھ کر پکارتا ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی ہے میری پکار کو سن رہا ہے۔ اور ساتھ ہی یہ عقیدہ بھی رکھتا ہے کہ اس کا باطنی اسباب پر اتنا تصرف ضرور ہے کہ وہ میری تکلیف کو رفع کرسکتا ہے یا میری حاجت پوری کرسکتا ہے۔ گویا پکاری جانے والی ہستی کا ایک تو عالم الغیب نیز سمیع و بصیر ہونا ضروری ہوا۔ اور یہ صفت اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی نہیں ہوسکتی۔ دوسرے جب تک اسباب کائنات میں اس کا تصرف تسلیم نہ کیا جائے اس سے دعا کرنا ایک فعل عبث قرار پاتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کی مخصوص صفات کو کسی دوسری ہستی میں تسلیم کرنا اسے اللہ کا ہمسر یا شریک سمجھنا ہے اور یہی چیز عین شرک ہے۔ اور جس شخص نے اللہ کے علاوہ کسی دوسری ہستی کو الوہیت کا یہ مقام دے دیا تو وہ اس کے مقابلہ میں از خود بندگی کے مقام پر اتر آیا گویا پکاری جانے والی ہستی اس کی معبود بن گئی اور یہ پکارنے والا عبادت گزار اور اس کی پکار عین عبادت ہوئی۔ اللہ مانگنے سے خوش اور نہ مانگنے سے ناراض ہوتا ہے اور یہی عبادت کا خاصہ ہے : واضح رہے کہ انسان اللہ سے دعا کرتا ہے اور وہ کبھی قبول ہوتی ہے کبھی نہیں ہوتی، کبھی بہت مدت بعد جا کر ہوتی ہے تو اس کے کچھ آداب ہیں اور کچھ اسباب ہیں اور کچھ موانع ہیں۔ جن کی تفصیل احادیث میں مذکور ہے۔ یہاں صرف یہ بات ذہن نشین کرانا مطلوب ہے کہ دعا قبول نہ بھی ہو تو بھی اس کا بہت فائدہ ہے۔ کیونکہ دعا بذات خود عبادت ہے۔ اور جتنی دیر اس نے دعا مانگنے میں لگائی وہ مدت گویا اس نے عبادت ہی میں گزار دی۔ لہٰذا ہمیں یہی حکم ہے کہ ہم اللہ سے دعا مانگتے رہیں۔ مانگتے رہیں۔ اس کا قبول کرنا نہ کرنا، یا بدیر قبول کرنا سب کچھ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے تابع ہے۔ دوسری بات جو اس آیت سے معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ سے مانگنا اور مانگتے رہنا عین تقاضائے بندگی ہے۔ اور جو شخص اللہ سے نہیں مانگتا تو یہ بات عبادت سے انکار یا تکبر کی علامت ہے۔ بالفاظ دیگر اللہ تعالیٰ مانگنے سے خوش اور نہ مانگنے سے ناراض ہوتا ہے اور یہ سب مفہوم عبادت کے لفظ میں شامل ہیں۔ [٧٩] یہ ان کے تکبر کی سزا ہوگی۔ قیامت کے دن خوب جوتے کھائیں گے اور ذلت اور رسوائی کے ساتھ جہنم میں پھینک دیئے جائیں گے۔ غافر
61 [٨٠] ہر جاندار میں کام اور آرام کا خود کار نظام :۔ رات کو نہ سورج کی گرمی ستاتی ہے اور نہ ہی سورج جیسی تیز روشنی ہوتی ہے۔ تاریکی اور مناسب حد تک ٹھنڈک یہ دونوں باتیں نیند اور آرام کرنے کے لئے ساز گار ہیں۔ اور دن کو کام کاج کے لئے روشن بنایا کہ اس میں کسی مصنوعی روشنی کے بغیر ہی کام چل سکتا ہے۔ رات اور دن کو اللہ تعالیٰ نے دلیل توحید کے طور پر پیش فرمایا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دن اور رات سورج کے اور زمین کے درمیان ایک انتہائی باقاعدہ نظام کی نشان دہی کرتے ہیں۔ جس سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ سورج اور اس زمین کا خالق، مالک اور ان پر کنٹرول کرنے والی ہستی ایک ہی ہوسکتی ہے۔ اگر ان سیاروں کے مالک الگ الگ دیوتا ہوتے جیسا کہ مشرکوں کا خیال ہے تو یہ دن رات کا نظام کبھی باقاعدگی کے ساتھ چل نہیں سکتا تھا۔ پھر اسی رات اور دن کے نظام میں اور رات کو آرام کرنے اور دن کو کام کرنے میں اللہ تعالیٰ کے حیران کن عجائبات ہیں۔ دن کو کام کرتے وقت انسان کے بے شمار خلیے ضائع اور تباہ ہوتے رہتے ہیں۔ رات کو جب انسان آرام کرتا ہے تو نیند کی حالت میں ان ضائع شدہ خلیوں کی جگہ دوسرے نئے خلیے پیدا ہوجاتے ہیں۔ اور جب یہ کام ٹھیک طور پر مکمل ہوچکتا ہے تو انسان جاگ اٹھتا ہے۔ گویا اس کا آرام کا وقت پورا ہوگیا۔ پھر وہ نئے سرے سے تازہ دم ہو کر صبح کو پھر سے کام کاج کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا یہ نظام خود کار ہے۔ اگر انسان کام کرنے کے بعد آرام نہ کرے تو نیند اسے جہاں بھی ہو دبا لیتی ہے اور اسے اضطراراً آرام کرنا پڑتا ہے۔ اگر پھر بھی انسان اپنے اس فطری تقاضے کو پورا نہ کرے یا پورا کرنے میں کوتاہی کرے تو انسان کی صحت تباہ ہوجاتی ہے۔ [٨١] یعنی اللہ تعالیٰ کی تو انسان پر اس قدر عنایات ہیں۔ مگر انسان ایسا ناشکرا اور نمک حرام واقع ہوا ہے کہ اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے اس کے شریک ٹھہرانے لگتا ہے۔ غافر
62 [٨٢] یعنی ایک عام اور معمولی عقل رکھنے والے انسان کو بھی ایسے سادہ اور عام فہم دلائل کی سمجھ آسکتی ہے مگر اسے بہکانے والے کوئی اور حضرات ہیں جن کے شرکیہ رسوم کے ساتھ اپنے ذاتی مفادات وابستہ ہیں۔ ایسے ہی لوگوں نے عام الناس کو اپنے جال میں اس طرح پھنسا رکھا ہے کہ انہیں یہ سمجھ ہی نہیں آنے دیتے کہ کس خوبصورتی کے ساتھ انہیں اصل راہ سے پھیر دیا گیا ہے۔ غافر
63 اس آیت کی تفسیر اگلی آیت کے ساتھ ملاحظہ کیجئے۔ غافر
64 [٨٣] زمین کے جائے قرار ہونے کے مختلف پہلو :۔ زمین کے جائے قرار ہونے کے بھی کئی پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ جب اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا کیا تو وہ ہچکولے کھاتی تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ایسے توازن و تناسب سے اس میں پہاڑ رکھ دیئے کہ وہ انسانوں اور تمام جانداروں کے لئے جائے قرار بن گئی۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ انسان اسی زمین پر پیدا ہوتا ہے اسی پر زندگی گزارتا ہے اسی میں مرنے کے بعد دفن ہوتا ہے اور تیسرا پہلو یہ ہے کہ انسان کے کھانے، پینے، لباس اور دوسری تمام ضروریات اسی زمین سے وابستہ ہیں۔ اور اگر اللہ تعالیٰ زمین میں ایسی خصوصیات نہ رکھ دیتا تو نہ یہاں کوئی جاندار زندہ رہ سکتا اور نہ ہی زمین جائے قرار بن سکتی تھی۔ [٨٤] آسمان ایک محفوظ چھت کیسے؟ اس مقام پر آسمان کو چھت قرار دیا گیا ہے جبکہ سورۃ انبیاء کی آیت نمبر ٣٢ میں اسے ﴿سَقْفًا مَّحْفُوْظًا﴾یعنی محفوظ چھت قرار دیا گیا ہے۔ اور چھت کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ آفات سماوی سے محفوظ رکھتا ہے یہی فائدہ آسمان دنیا کا ہے۔ اس وسیع کائنات میں لاتعداد سیارے، دمدار ستارے اور ٹوٹنے والے ستارے انتہائی تیز رفتاری سے تیرتے پھرتے ہیں۔ یہ آپس میں بعض دفعہ ٹکرا کر پاش پاش بھی ہوجاتے ہیں۔ مگر اللہ نے ہمارے اوپر یہ محفوظ چھت بنا دی ہے۔ ورنہ عالم بالا کی آفات زمین پر بارش کی طرح برس کر زمین والوں کو تہس نہس کر دیتیں۔ اس آسمان سے گزر کر کوئی تباہ کن چیز ہم تک نہیں پہنچ سکتی۔ حتیٰ کہ آفاق کی مہلک شعاعیں بھی ہم تک نہیں پہنچ پاتیں۔ اسی وجہ سے ہم اس زمین پر امن و چین سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ [٨٥] جسمانی اعتبار سے انسان دوسرے جانوروں سے کن باتوں میں ممتاز ہے ؟:۔ تمہاری شکل و صورت تمام جانداروں سے اعلیٰ قسم کی بنائی۔ دوسرے جانداروں سے انسان کی نمایاں جسمانی خصوصیات یہ ہیں کہ تمام جاندار اپنے منہ سے غذا کھاتے ہیں جبکہ انسان اپنے ہاتھ سے خوراک منہ تک لے جاتا ہے اکثر جاندار زمین پر ہی رینگتے یا چار پیروں پر چلتے ہیں۔ جبکہ انسان دو پاؤں پر چلتا ہے اور اپنا جسم سیدھا رکھ کر چلتا ہے۔ انسان کے ہاتھ اور پاؤں کثیرالمقاصد ہیں جتنا کام انسان اپنے ہاتھ پاؤں سے لے سکتا ہے۔ دوسرا کوئی جاندار نہیں لے سکتا اس کے بے نظیر جسم اور جسمانی صلاحیتوں کے علاوہ جتنی ذہنی صلاحیتیں اللہ تعالیٰ نے انسان کو بخشی ہیں وہ کسی دوسرے جاندار کو نہیں دی گئیں۔ اور یہ صلاحیتیں عطا کرنا محض اللہ کا فضل و کرم ہے جس میں کسی دیوتا، کسی نبی اور ولی اور بزرگ کا کچھ دخل نہیں ہوتا۔ [٨٦] زمین کی پیداوارکا بہترین حصہ انسان کے لئے ہے زمینی پیداوار سے انسان کا بیشمار اشیاء بناکر کا لطف اٹھانا :۔ جتنی بھی پیداوار زمین سے اگتی ہے اس کا بہترین حصہ انسان کی خوراک کے کام آتا ہے کسی جاندار کو اتنی عمدہ اور لذیذ چیزیں کھانے کو میسر نہیں آسکتیں۔ جتنی انسان کو یہ میسر آتی ہیں۔ یہ ٹھنڈا میٹھا اور نتھرا ہوا صاف شفاف پانی، یہ غلے، یہ پھل، یہ ترکاریاں، یہ دودھ، یہ شہد، یہ گوشت، یہ نمک مرچ اور مسالے انسان کی صرف غذا کا ہی کام نہیں دیتے بلکہ انسان ان سے اور پھر ان سے دوسری بہت چیزیں تیار کرکے زندگی کا لطف اٹھاتا ہے۔ پھر انسان خوشبودار پھولوں اور ان سے عطریات تیار کرکے جو لطف اٹھاتا ہے وہ دوسرے کسی جاندار کے حصہ میں نہیں آتے۔ یہ سب چیزیں آخر کس نے اتنی فراوانی کے ساتھ زمین پر پیدا کی ہیں اور کس نے یہ انتظام کیا ہے کہ غذا کے یہ بے حساب خزانے زمین سے پے در پے نکلتے چلے آتے ہیں اور ان میں کبھی انقطاع واقع نہیں ہوتا اگر اللہ تعالیٰ تمہارے پاکیزہ رزق کا یہ انتظام نہ فرماتا تو تم خود سوچ لو کہ تمہاری زندگی کیسی بے کیف ہوتی۔ کیا یہ بات اس امرکا صریح ثبوت نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ محض خالق ہی نہیں بلکہ وہ حکیم اور رحیم بھی ہے۔ غافر
65 [٨٧] اللہ کی صفات ازلی اور انبدی ہیں :۔ وہی ایک ذات ایسی ہے کہ ازل سے زندہ ہے اور ابدا لآباد تک زندہ رہے گی۔ باقی سب چیزیں حادث ہیں اور وہ کسی نہ کسی وقت فنا سے دوچار ہوجائیں گی خواہ وہ جاندار ہیں یا بے جان۔ باقی تمام جانداروں کی زندگی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہے جب کہ اس کی زندگی ذاتی ہے۔ لہٰذا اصل میں زندہ کہلانے کا وہی مستحق ہے پھر جس طرح اس کی زندگی ازلی اور انبدی ہے اسی طرح اس کی دوسری تمام صفات بھی ازلی ابدی ہیں۔ اور معبود برحق صرف وہی ذات ہوسکتی ہے جس کی حیات اور دوسری صفات مستقل اور دائمی ہوں۔ دوسرے کسی الٰہ میں یہ صفات موجود نہیں ہیں۔ [٨٨] اس کی تشریح کے لئے سورۃ زمر کی آیت نمبر ٢ اور ٣ کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیے۔ غافر
66 [٨٩] دعا اور عبادت ہم معنی ہیں :۔ اس آیت میں بھی دعا اور عبادت کو ایک دوسرے کا ہم معنی قرار دیا گیا ہے۔ نیز اس آیت میں ان کافروں کو دو ٹوک اور کھرا کھرا جواب دے دیا گیا ہے جو کچھ لینے اور کچھ دینے یعنی مدا ہنت کے اصول پر سمجھوتہ کی راہ ہموار کرنا چاہتے تھے۔ غافر
67 [٩٠] انسان کی تخلیق اور زندگی کے مختلف مراحل سے بعث بعد الموت پر دلیل :۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین کے بے جان ذروں سے تمہارے لئے خوراک پیدا کی۔ اسی بے جان خوراک سے کئی مراحل طے کرنے کے بعد تمہارے اندر منی پیدا ہوئی اور اطباء کے قول کے مطابق منی چوتھے ہضم کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔ پھر اسی منی کا قطرہ جب ماں کے رحم میں داخل ہوتا ہے اور اسے رحم مادر قبول کرلیتا ہے تو اس پر کئی ادوار آتے ہیں بعد میں اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ اور ایک مقررہ مدت کے بعد خوبصورت شکل اور محیرالعقول صلاحیتیں لے کر رحم مادر سے باہر آجاتا ہے۔ اس وقت وہ نہ چل سکتا ہے نہ بول سکتا ہے نہ کچھ سمجھ سکتا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ اس میں وہ قوتیں نشوونما پانے لگتی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت میں رکھ دی ہیں۔ انسان کے بڑھنے کے ساتھ اس کی عقل، اس کا فہم، اس کی جسمانی قوت، اس کا قد وقامت غرض ہر چیز بڑھتی چلی جاتی ہے۔ پھر اس پر بڑھاپے کا وقت آتا ہے تو پہلے جیسی غذائیں کھانے کے باوجود قد بڑھنا رک جاتا ہے اور دوسری قوتوں میں کمی واقع ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ اور آخری مرحلہ موت ہے۔ جو کبھی تو بچپن میں ہی آجاتی ہے، کبھی اسقاط ہوجاتا ہے کبھی جوانی میں انسان مرتا ہے اور کبھی بوڑھا کھوسٹ ہونے کے باوجود بستر مرگ پر ایڑیاں رگڑتا رہتا ہے مگر اسے موت نہیں آتی۔ ذرا سوچو! ان مراحل میں سے کوئی مرحلہ بھی تمہارے اپنے اختیار میں ہے۔ پھر اگر بعث بعد الموت کا ایک اور مرحلہ تم پر گزر جائے تو تم اسے کیسے محال سمجھتے ہو؟ موت سے متعلق چند اٹل حقائق :۔ پھر موت ایک ایسا اضطراری امر اور اٹل حقیقت ہے جو اپنے اندر کئی تلخ حقائق سمیٹے ہوئے ہے۔ کوئی فقیر، کوئی امیر، کوئی بادشاہ اس کی گرفت سے نہ آج تک بچ سکا ہے نہ آئندہ بچ سکے گا۔ پھر اس کا جو وقت مقرر ہے وہ بھی آگے پیچھے نہیں ہوسکتا۔ بعض دفعہ انسان بے شمار حوادث سے بچ نکلتا ہے اور موت کے منہ سے بچا رہتا ہے۔ اور بعض دفعہ ایک معمولی سا حادثہ اس کا جان لیوا ثابت ہوجاتا ہے۔ کوئی بادشاہ کسی اعلیٰ سے اعلیٰ ہسپتال سے داخل ہو کر اور ماہر ڈاکٹروں کی خدمات حاصل کرنے کے باوجود موت کے وقت کو آگے پیچھے نہیں کرسکتا۔ اور اس میں جو ایک مرد مومن اور صاحب عقل کے لئے سبق ہے وہ یہ ہے کہ دشمن اسلام طاقتیں جتنا بھی زور لگا لیں، جتنی بھی سازشیں تیار کرلیں کسی کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتیں جب تک کہ اس کی موت کا وقت نہ آئے۔ سیدنا خالد بن ولید تقریباً ایک سو جہاد کے معرکوں میں شریک ہوئے لیکن موت آئی تو بستر مرگ پر گھر میں ہی آئی۔ یہ عقیدہ ایک مجاہد میں بے پناہ جرأت پیدا کردیتا ہے۔ پھر اس کا ایک اور پہلو بھی قابل غور ہے ایک خطہ زمین جس میں ایک ہی قسم کا بیج ڈالا جائے۔ سیراب ایک ہی طرح کے پانی سے ہو، موسم اور آب و ہوا ایک جیسی ہو۔ نگہداشت ایک جیسی ہو اس خطہ زمین کے سارے پودے تقریباً ایک ہی جیسی پرورش اور زندگی پاتے ہیں۔ مگر ایک ہی والدین کے چھ بچے جن کی خوراک ایک، آب و ہوا ایک، گھر ایک ماں باپ ایک، لیکن عمریں سب کی جدا جدا ہوتی ہیں کوئی بچپن میں مرتا ہے، کوئی جوانی میں اور کوئی اتنا بوڑھا اور ذلیل ہوجاتا ہے کہ وہ خود چاہتا ہے کہ اللہ اسے دنیا سے اٹھا لے مگر اسے موت نہیں آتی۔ کیا یہ سب باتیں اس حقیقت کی نشاندہی نہیں کرتیں کہ کوئی قادر مطلق ہستی ہماری موت و حیات پر حکمران ہے۔ کسی دیوتا، کسی پیر، پیغمبر، کسی ستارے اور آستانے والے کا اس میں کچھ دخل نہیں یا کم از کم حکیم اور ڈاکٹر خود تو نہ مرتے۔ ہر کسی کی بے بسی ایک جیسی ہے تو ایسے بے بسوں کو عبادت کا مستحق کیسے قرار دیا جاسکتا ہے اور کتنے نادان ہیں وہ لوگ جو اللہ کے سوا دوسروں کی خدائی تسلیم کرلیتے ہیں۔ غافر
68 [٩١] ﴿کُنْ فَیَکُوْنُ﴾ کی تشریح کے لئے دیکھئے سورۃ یٰسین کی آیت نمبر ٨٤ کا حاشیہ نمبر ٧٤ غافر
69 [٩٢] قرآن کی آیات سے اپنے نظریات کشید کرنا اور ان میں جھگڑا اور فرقہ بازی :۔ اللہ کی آیات سے مراد آیات آفاق و انفس بھی ہوسکتی ہے جن کا قرآن نے بے شمار مقامات پر اور یہاں بھی توحید کے دلائل کے طور پر ذکر کیا ہے۔ پھر بھی مشرک لوگ ان میں جھگڑا کرتے اور اللہ کے پیاروں کو اللہ کے اختیارات میں شریک بنا لیتے ہیں اور اگر ان آیات سے مراداللہ کے احکام وارشادات لئے جائیں تو اس سے مرادوہ لوگ ہیں جو کسی ایک پہلو کی انتہا کو پہنچ کر ایک نظریہ قائم کرلیتے ہیں پھر جو آیات اپنے اس قائم کردہ نظریہ کے خلاف نظر آئیں ان کی تاویل کرلیتے ہیں۔ مثلاً کچھ لوگوں نے جب موت و حیات اور رزق وغیرہ کے معاملہ میں انسان کی بے بسی دیکھی تو یہ نظریہ قائم کرلیا کہ انسان مجبور محض اور قدرت کے ہاتھوں میں محض ایک کھلونے کی حیثیت رکھتا ہے پھر جن آیات سے انسان کا اختیار ثابت ہوتا تھا ان کی تاویل کر ڈالی۔ ایسے لوگوں کے مقابلہ میں کچھ دوسرے لوگ اٹھے جنہوں نے قرآن ہی کی آیات سے یہ نظریہ قائم کرلیا کہ انسان مختار مطلق ہے اور جو کام بھی وہ کرنا چاہے کرسکتا ہے۔ اور ایسی آیات جن سے انسان کی بے بسی ثابت ہوتی تھی ان کی تاویل کر ڈالی۔ اس طرح اللہ کی آیات میں بحث و جدال اور ایک ہی طرف انتہا کو پہنچنے اور دوسرے پہلو سے صرف نظر کرنے کی بنا پر آغاز اسلام میں دو فرقے جبریہ اور قدریہ ایک دوسرے کے مدمقابل کے طور پر سامنے آگئے۔ وہی مسئلہ تقدیر جس پر بحث کرنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے روک دیا تھا۔ اسی مسئلہ پر بحث و جدال کے نتیجہ میں یہ دو فرقے پیدا ہوئے اور اپنے اپنے نظریہ کی حمایت میں قرآن کی آیات میں بحث و جدال اور انہی سے استدلال کرنے لگے۔۔ حالانکہ اس مسئلہ میں راہ صواب اور راہ اعتدال یہ ہے کہ انسان بعض معاملات میں مجبور ہے اور بعض میں مختار۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مشیت ہے اب اللہ تعالیٰ کا عدل یہ ہے کہ جس کام میں انسان مجبور ہے وہاں اس پر کوئی مؤاخذہ نہ ہوگا۔ مؤاخذہ یا باز پرس صرف اس کام کے متعلق ہوگی جس میں وہ مختار ہے۔ یا جس حد تک مختار ہے۔۔ بعد ازاں جتنے بھی بدعی فرقے پیدا ہوئے ہر ایک نے اپنی بنائے استدلال قرآن ہی پر رکھی اور من مانی تاویل حتیٰ کہ اپنی بات کی اپچ میں آکر معنوی اور لفظی تحریف تک سے باز نہ آئے اور ایسی چند تاویلات ہم اپنے حواشی میں پیش کرچکے ہیں۔ غافر
70 [٩٣] کیونکہ سابقہ کتب سماوی کی بنیادی تعلیم وہی کچھ ہے جو قرآن کریم کی ہے اور ان لوگوں کا قرآن یا پہلی کتابوں کو جھٹلانا یہ ہے کہ وہ قرآن سے ہدایت لینے کے خواہشمند نہیں ہوتے بلکہ قرآن میں اپنے قائم کردہ نظریات کو داخل کرنا چاہتے ہیں۔ غافر
71 [٩٤] یعنی ایسے اہل دوزخ مشرکوں کو جب پیاس لگے گی تو فرشتے ان کو گھسیٹتے ہوئے ایسے مقام پر لے جائیں گے جہاں گرم پانی کے چشمے ابل رہے ہوں گے۔ انہیں وہاں سے گرم پانی پلانے کے بعد پھر اپنے اصل مقام پر لاکر دوزخ میں جھونک دیا جائے گا۔ غافر
72 غافر
73 غافر
74 [٩٥] اس جملہ کے دو مطلب ہوسکتے ہیں اور وہ دونوں ہی درست ہیں۔ ایک جو ترجمہ سے واضح ہے کہ مشرک لوگ سب کچھ بھول بھلا کر اپنے شرک سے ہی یکسر انکار کردیں گے۔ اور دوسرا یہ کہ جن چیزوں کو ہم دنیا میں پکارتے رہے فی الواقع ان کے اختیار میں کچھ بھی نہ تھا اور وہ لاشی محض تھے۔ یہ ہماری ہی غلطی تھی کہ ہم انہیں ''کوئی چیز'' سمجھتے رہے۔ [٩٦] مشرکین کی بدحواسی۔ ایک ہی سوال کے متضاد جوابات :۔ اس جملہ میں مشرکوں کی بدحواسی کا ذکر کیا گیا ہے کہ ایک ہی سوال کے مختلف اور متضاد جواب دیتے جائیں گے۔ سوال یہ تھا کہ آج وہ تمہارے شریک کہاں ہیں جنہیں تم اللہ کے شریک بنایا کرتے تھے اس کا ایک جواب وہ تو یہ دیں گے کہ ہمیں تو کچھ یاد نہیں پڑتا کہ ہم اللہ کے سوا کسی کو پکارا کرتے تھے اور اگر کوئی ایسی بات تھی بھی تو وہ ہمیں آج دکھائی نہیں دے رہے۔ یا ہماری یاد سے محو ہوچکے ہیں۔ دوسرا جواب یہ کہ وہ صاف مکر جائیں گے کہ ہم کب اللہ کے سوا کسی کو پکارا کرتے تھے۔ اور تیسرا جواب وہ ہے جو الگ کئی مقامات پر مذکور ہے کہ عبادت کرنے والے اپنے معبودوں پر الزام لگائیں گے کہ یا اللہ ! ان بڑے بزرگوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا لہٰذا انہیں دگنا عذاب دے۔ اس جواب میں وہ اپنے جرم کا پورا اعتراف کر رہے ہوں گے۔ یعنی سوال ایک ہے مگر جواب میں کیسی گومگو کی حالت ہے کبھی انکار ہے اور کبھی اعتراف۔ انہیں یہ سمجھ نہیں آرہی ہوگی کہ ہم کون سا جواب دے کر اس پر ڈٹ جائیں جس کی وجہ یہ ہے کہ باطل کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہوتی۔ غافر
75 غافر
76 [٩٧] تکبر کی تعریف اور متکبرین کا انجام :۔ ان دو آیات سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں ایک یہ کہ قبول حق سے انکار کی سب سے بڑی وجہ تکبر ہوتی ہے۔ اور دوسری یہ کہ دوزخ میں سب سے زیادہ بھرتی متکبرین کی ہوگی۔ اور انہی باتوں کی مزید تفاصیل احادیث میں بھی ملتی ہے : ١۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جس کے دل میں رائی بھر بھی تکبر ہو‘‘ ایک شخص کہنے لگا : ہر انسان اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو، اس کی جوتی اچھی ہو۔ (کیا یہ تکبر ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ خوب صورت ہے، خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ تکبر تو یہ ہے کہ تو حق کو ٹھکرا دے اور لوگوں کو حقیر سمجھے‘‘ (مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب تحریم الکبر وبیانہ) ٢۔ حارثہ بن وہب خزاعی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا میں تمہیں اہل جنت کی خبر نہ دوں؟ وہ ایسے کمزور اور گمنام لوگ ہیں کہ اگر اللہ کے بھروسے پر قسم کھا بیٹھیں تو اللہ ان کی قسم پوری کردے۔ اور کیا میں تمہیں اہل دوزخ کے متعلق نہ بتاؤں۔ ہر اکھڑ مزاج، بدخلق اور متکبر دوزخی ہوتا ہے۔ (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب الکبر) ٣۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جس شخص کے دل میں رائی برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ (مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب تحریم الکبر و بیانہ) غافر
77 [٩٨] کفار مکہ پر عذاب کی تین صورتیں :۔ یعنی یہ کفار مکہ جو آپ کو ستا رہے ہیں اور اسلام کی راہ روکنا چاہتے ہیں ان کے متعلق اللہ کے عذاب کا وعدہ پورا ہونا ہی ہے۔ اور اس کی تین صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ آپ کے جیتے جی ان پر عذاب آئے۔ جیسا کہ جنگ بدر، جنگ احزاب اور فتح مکہ کے وقت کافروں کی رسوائی ہوئی۔ دوسری صورت یہ کہ اس عذاب کا کچھ حصہ آپ کی زندگی کے بعد ان پر آئے۔۔ اور اس سے مرادوہ جنگیں ہیں جو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مرتدین، ملحدین اور کافروں سے لڑیں اور اسلام کا پوری طرح بول بالا ہوا اور کافروں اور کفر کو رسوائی نصیب ہوئی۔ اور تیسری اور حتمی صورت یہ ہے کہ آخر مرنے کے بعد انہوں نے ہمارے ہی پاس آنا ہے۔ اس وقت ہم ان کے سب کس بل نکال دیں گے اور انہیں ان کے جرائم کا پورا پورا بدلہ دیں گے۔ غافر
78 [٩٩] حِسی معجزہ اور اس کے تقاضے :۔ کیونکہ معجزہ نبی کا فعل نہیں ہوتا بلکہ براہ راست اللہ کا فعل ہوتا ہے البتہ اس کا صدور نبی کے ہاتھوں ہوتا ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ معجزہ محض کھیل تماشا کے طور پر عطا نہیں ہوتا بلکہ اس سے مقصود کسی اہم دینی یا دنیوی غرض کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ بعض انبیاء کو کچھ معجزات ان کے طلب کرنے کے بغیر کافروں پر دلیل نبوت اور اتمام حجت کے طور پر عطا کئے گئے اور اگر کوئی پیغمبر کوئی حسی معجزہ پیش نہ کرے اور قوم اس سے حسی معجزہ کا مطالبہ کرے پھر اللہ تعالیٰ قوم کے مطالبہ پر ایسا معجزہ نبی کو دے دے لیکن کافر قوم پھر بھی ایمان نہ لائے تو اس پر یقیناً عذاب الیم نازل ہوتا ہے۔ جیسے قوم ثمود نے صالح علیہ السلام سے اونٹنی کا معجزہ طلب کیا تھا۔ لیکن ان کے اس معجزہ ملنے کے بعد بھی جب وہ ایمان نہ لائے تو انہیں تباہ کردیا گیا۔ اسی طرح کچھ لوگوں نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے آسمان سے پکا پکایا اور تیار دستر خوان اترنے کا مطالبہ کیا۔ تو بعض روایات کے مطابق ان کا یہ مطالبہ تو پورا کردیا گیا۔ مگر پھر بھی وہ لوگ ایمان نہ لائے تو انہیں بندر و سور بنا دیا گیا تھا۔ کفار مکہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی طرح کے حسی معجزات کا مطالبہ کرتے تھے جن کا ذکر سورۃ بنی اسرائیل میں تفصیل سے گزر چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کافروں کے یہ منہ مانگے معجزات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی وجہ سے عطا نہیں فرمائے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ منظور نہ تھا کہ قوم قریش کو کچل کے رکھ دیا جائے کیونکہ بعد میں انہیں لوگوں میں سے بہت لوگوں نے اسلام لا کر بیش بہا خدمات سرانجام دیں۔ [١٠٠] ''اللہ کے حکم'' سے یہاں مراداللہ کے عذاب کا حکم ہے اور اس کا اطلاق کسی قوم پر دنیا میں عذاب کے دن پر بھی ہوسکتا ہے اور آخرت کے دن پر بھی۔ جو بھی صورت ہو اللہ تعالیٰ رسولوں اور ان کے مخالفوں کے درمیان منصفانہ فیصلہ کردیتا ہے اس وقت رسول سرخرو اور کامیاب ہوتے ہیں اور باطل پرستوں کے حصہ میں ذلت و خسران کے سوا کچھ نہیں آتا۔ غافر
79 غافر
80 غافر
81 [١٠١] مویشیوں میں انسان کے لئے خوئے غلامی کس نے پیدا کی، مویشیوں سے انسان کو حاصل ہونے والے فوائد :۔ کفار مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے طرح طرح کے حسی معجزات کا مطالبہ کیا کرتے تھے۔ جس کا ایک جواب تو سابقہ آیت میں دیا گیا ہے کہ ایسا معجزہ پیش کرنا کسی رسول کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ ان آیات میں کفار کے اسی مطالبہ کا دوسرا جواب دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں تو تمہیں اپنے دائیں بائیں، اوپر نیچے اندر باہر ہر طرف ہی مل سکتی ہیں۔ اگر تم سوچو تو تمہارے راہ راست کو قبول کرنے کے لئے رہنمائی ان میں بھی موجود ہے۔ مثلاً جو مویشی تم پالتے ہو ان پر بھی نظر ڈال کر دیکھ لو۔ ان کی ساخت اور ان کی فطرت ہی ہم نے ایسی بنادی ہے کہ وہ فوراً تمہارے تابع بن جاتے ہیں۔ پھر ان سے تم ہزاروں قسم کے فوائد حاصل کرتے ہو۔ ان کے دودھ سے بالائی، مکھن، پنیر، گھی اور لسی بناتے ہو۔ اور یہ چیزیں تمہارے جسم کا انتہائی اہم جزو ہیں۔ پھر ان پر سواری کرتے ہو۔ تمہارے بوجھل سامان کو یہ اٹھاتے ہیں۔ تمہاری کھیتی میں ہل یہ چلاتے ہیں۔ کنوئیں سے پانی یہ کھینچتے ہیں۔ مشقت کے سب کام تم ان سے لیتے ہو۔ پھر انہیں ذبح کرکے ان کا گوشت بھی کھاتے ہو۔ ان کے بالوں سے اپنی پوشاک تیار کرتے ہو۔ اور مرنے کے بعد ان کی ہڈیوں، دانتوں اور کھالوں تک کو اپنے کام میں لاتے ہو۔ ان مویشیوں میں انسان کے لئے یہ خوئے غلامی کس نے پیدا کی؟ تمہاری پیدائش سے بھی بہت پہلے تمہاری ضروریات کا اس قدر خیال رکھنے والا کون ہے؟ اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرنے والوں کا کیوں محاسبہ نہ کیا جائے :۔ اب دوسری طرف نظر ڈالو۔ زمین کے تین چوتھائی حصہ پر پانی یا سمندر پھیلے ہوئے ہیں۔ خشکی صرف چوتھا حصہ ہے جس پر تم اور تمہارے مویشی سب رہتے ہیں۔ اتنے سے خشکی کے حصہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے اتنا بڑا پانی کا ذخیرہ کیوں پیدا کردیا ؟ کیا کبھی تم نے اللہ کی اس نشانی پر غور کیا ؟ پھر پانی اور ہواؤں کو ایسے طبعی قوانین کا پابند بنادیا کہ تم دریاؤں اور سمندروں میں کشتی بانی اور جہاز رانی کے قابل بن گئے۔ اگر اللہ تعالیٰ ان کے لئے طبعی قوانین ہی بدل ڈالے اور وہ ہر چیز کا خالق ہے اور اس میں جیسے چاہے تصرف کرسکتا ہے تو کیا تم جہاز رانی کرسکتے تھے؟ یا اس زمین پر زندہ رہ سکتے تھے؟ پھر یہ بھی سوچو کہ جس حکمتوں والے پروردگار نے اپنی اتنی بے شمار چیزیں تمہارے تصرف میں دے رکھی ہیں کیا وہ انسان کو اتنے اختیارات دے کر اس کو یونہی چھوڑ دے گا اور اس سے اپنی ان نعمتوں کا کبھی حساب نہ لے گا ؟ اور یہ نہ پوچھے گا کہ جس رحیم پروردگار نے تمہاری جملہ ضروریات کا اس قدر خیال رکھا۔ پھر ساتھ کے ساتھ اپنی رحمتیں بھی نازل فرماتا رہا تو کیا انسان نے اللہ کی ان نعمتوں کی قدر کی؟ اس کا شکریہ ادا کیا ؟ یا وہ نمک حرام اور ناشکرا ثابت ہوا اور اپنی نیاز مندیاں اللہ کے بجائے دوسرے کے سامنے نچھاور کرنے لگا ؟ غافر
82 [١٠٢] اقوام سابقہ کی شان وشوکت :۔ سابقہ اقوام اپنے قد و قامت، جسمانی قوت، فن تعمیر اور فن زراعت پر کام میں ان کفار مکہ سے بہت آگے تھے۔ اور یہ لوگ تو ان کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں مگر جب انہوں نے اللہ کے رسولوں کو جھٹلایا اور اللہ کا احسان ماننے کی بجائے بغاوت پر اتر آئے۔ پھر جب ان پر اللہ کا عذاب آیا تو ان کی یہ ساری خوبیاں اور شان و شوکت دھرے کے دھرے رہ گئے۔ پھر آخر تم ان سے کمزور اور کمتر ہو کر کیوں ایسی اکڑ دکھا رہے ہو؟ اور تم اپنی کرتوتوں کے انجام سے کیونکر بچ سکو گے؟ غافر
83 [١٠٣] وحی کے علاوہ لوگوں کے پاس اپنے علوم کون سے تھے؟ وہ علم ان کے پاس کیا تھا ؟ یہی دیومالائی علم (Mythology) جس کی رو سے انہوں نے ہزاروں دیوتاؤں اور دیویوں کو اللہ کے اختیارات میں شریک بنا رکھا تھا۔ پھر ان کا آپس میں بھی اور اللہ سے نسبی رشتہ قائم کر رکھا تھا۔ علاوہ ازیں علم سے مرادہر قوم کے اختراعی مذہبی فلسفے اور سائنس اور اپنے ضابطہ حیات سے متعلق قوانین وغیرہ ہیں۔ جب انبیاء ان کے پاس آئے اور انہیں وحی الٰہی کے علم کی دعوت دی تو انہوں نے اپنے ہاں مروجہ علوم کے مقابلہ میں وحی الٰہی کے علم کوہی، ہیچ سمجھا اور اس طرف توجہ ہی نہ دی۔ کہتے ہیں کہ ارسطو حکیم کو، جو خود اپنے فلسفہ الہٰیات کا موجد تھا جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے دین کی طرف دعوت دی گئی تو وہ کہنے لگا کہ میں سوچ کر بتاؤں گا۔ بعد میں اس نے یہ جواب دیا کہ ہم خود ہی راہ پائے ہوئے ہیں۔ دوسروں کو ہمیں راہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ غافر
84 [١٠٤] ایمان کی شرط اول ایمان بالغیب ہے اور عذاب دیکھ لینے یا موت کے وقت تو سب حقیقت مشاہدہ میں آجاتی ہے، غیب رہتی ہی نہیں اور مشاہدہ پر تو سب ہی لوگ یقین رکھتے ہیں خواہ کافر ہوں یا دہریے ہوں یا مشرک ہوں۔ لہٰذا عذاب دیکھنے یا موت کے آثار شروع ہوجانے کے بعد ایمان لانا بے سود ہے۔ بلکہ اس طرح مشاہدے پر لفظ ایمان کا اطلاق بھی درست معلوم نہیں ہوتا۔ غافر
85 غافر
0 فصلت
1 [١] سرداران قریش دعوت اسلام کو نیچا دکھانے کے لیے کئی طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر رہے تھے۔ انہیں میں سے ایک یہ بھی تھا کہ کسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین مکہ میں بالفاظ دیگر حق و باطل میں سمجھوتہ ہوجائے۔ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حرم کے ایک گوشہ میں اور چند سرداران قریش دوسرے گوشہ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ عتبہ بن ربیعہ ایک معزز قریشی سردار، نہایت بہادر اور فطرتاً نیک دل انسان تھا۔ وہ اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا کہ میں ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر کچھ باتیں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ امید ہے وہ ان میں سے ایک نہ ایک ضرور مان لے گا اور اگر اس نے قبول کرلی تو ہم اس مصیبت سے نجات حاصل کرسکیں گے۔‘‘ اس کے ساتھیوں نے کہا : ابو الولید! آپ ضرور یہ کام کیجئے۔ چنانچہ عتبہ وہاں سے اٹھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آبیٹھا اور کہنے لگا : ’’بھتیجے! ہماری قوم میں جو تفرقہ پڑچکا ہے اسے آپ جانتے ہیں۔ اب میں چند باتیں پیش کرتا ہوں ان میں سے جو بھی چاہو پسند کرلو۔ مکہ کی ریاست چاہتے ہو یا کسی بڑے گھرانے میں شادی یا مال و دولت؟ اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی جن بھوت آتا ہے تو اس کے علاج کی بھی ذمہ داری ہم قبول کرتے ہیں۔ ہم یہ سب کچھ مہیا کرسکتے ہیں اور اس پر بھی راضی ہیں کہ مکہ تمہارا زیر فرمان ہو مگر تم ان باتوں سے باز آجاؤ‘‘ عتبہ بن ربیعہ کی آپ کو پیش کش اور آپ کا جواب (حق وباطل میں سمجھوتہ کی کوشش) :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عتبہ کی باتیں خاموشی سے سنتے رہے۔ جب عتبہ خاموش ہوگیا۔ تو آپ نے عتبہ سے کہا کہ جو کچھ کہنا تھا کہہ چکے۔ اب میرا جواب سن لو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب باتوں کے جواب میں اسی سورۃ کی چند ابتدائی آیات پڑھیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت پر پہنچے ﴿فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُکُمْ صٰعِقَۃً مِّثْلَ صٰعِقَۃِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ ﴾ تو عتبہ کے آنسو بہنے لگے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ اسے یہ خطرہ محسوس ہونے لگا تھا کہ کہیں ایسا عذاب اسی وقت نہ آن پڑے۔ پھر وہ چپ چاپ وہاں سے اٹھ کر چلا آیا۔ مگر اب وہ پہلا عتبہ نہ رہا تھا۔ جاکر اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا : ’’محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کلام پیش کرتا ہے وہ شاعری نہیں کچھ اور ہی چیز ہے۔ تم اسے اس کے حال پر چھوڑ دو۔ اگر وہ عرب پر غالب آگیا تو اس میں تمہاری ہی عزت ہے اور اگر وہ خود ہی ختم ہوگیا تو یہی کچھ تم لوگ چاہتے ہو‘‘ اس کے ساتھیوں نے کہا : ابو الولید! معلوم ہوتا ہے کہ تم پر بھی اس کا جادو چل گیا۔ (تفسیر ابن کثیر ج ٦ ص ١٥٩ تا ١٦١) فصلت
2 فصلت
3 فصلت
4 [٢] قرآن کی چار صفات کا ذکر :۔ یہ تمہیدی آیات ہیں جن میں قرآن کی چند صفات بیان کرکے اسے متعارف کرایا جارہا ہے اس کی پہلی صفت یہ ہے کہ یہ نہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنا کلام ہے نہ ہی کسی دوسرے آدمی کا ہے بلکہ یہ اس ہستی کی طرف سے نازل شدہ ہے جو رحمان و رحیم ہے۔ اپنی مخلوق پر بے انتہا مہربان ہے اور یہ اس کی رحمت ہی کا تقاضا ہے کہ اس نے اپنے بندوں کی فلاح و سعادت کے لیے قرآن جیسی عظیم نعمت نازل فرمائی ہے اور اگر کوئی شخص اس نعمت سے فائدہ نہیں اٹھاتا تو وہ انتہائی ناشکرا اور ناقدر شناس ہے۔ اس کتاب کی دوسری صفت یہ ہے کہ اس کی آیات کو کھول کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ نئے سے نئے پیرائے میں بار بار بیان کیا گیا ہے تاکہ سمجھنے میں کوئی ابہام، کوئی پیچیدگی اور گنجلک باقی نہ رہے۔ نیز اس میں سینکڑوں قسم کے مضامین ایک دوسرے سے بالکل الگ الگ کرکے پیش کئے گئے ہیں۔ اس کی تیسری صفت یہ ہے کہ یہ قرآن عربی زبان میں ہے۔ تاکہ اس کے پڑھنے پڑھانے اور سمجھنے سمجھانے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے اور قوم کے لیے نافہمی کا کوئی عذر باقی نہ رہے۔ تاہم اس سے فائدہ وہی لوگ اٹھا سکتے ہیں جو اہل علم و دانش ہیں۔ جہالت کی بنا پر اڑ جانے والے اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ اس کی چوتھی صفت یہ ہے کہ یہ کتاب نہ کوئی افسانوی تخیل ہے اور نہ ہی انشا پردازی کا نمونہ ہے بلکہ یہ تمام دنیا کو خبردار کر رہی ہے کہ اس کی تعلیم کو مان لینے کے نتائج شاندار اور نہ ماننے کے نتائج نہایت ہولناک ہیں۔ فصلت
5 [٣] قرآن کی ان گونا گوں خوبیوں کے باوجود زیادہ تر لوگ اس کی مخالفت پر اتر آئے ہیں وہ اس کی آیات کو تسلیم کرنا تو درکنار سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔ پھر اپنی اس خصلت پر فخر بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کی تعلیم ہمارے دلوں پر مطلقاً اثر انداز نہیں ہوسکتی۔ ہمارے دل ایسے اثرات قبول کرنے سے کلیتاً محفوظ ہیں۔ بلکہ ہمیں تو ان آیات کا سننا بھی گوارا نہیں۔ ایسی باتیں سن سن کر ہمارے کان پک گئے ہیں۔ لہٰذا وہ سننے کی بھی زحمت گوارا نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ( !) تمہاری اس دعوت سے ہمارے اور تمہارے درمیان عداوت کی ایک دیوار حائل ہوچکی ہے اور اس دعوت نے ہمارے اور تمہارے درمیان جدائی ڈال دی ہے۔ لہٰذا ہم تمہاری اس دعوت کو کسی قیمت پر قبول کرنے کو تیار نہیں۔ [٤] اس جملہ کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ ہمیں تم سے اور تمہیں ہم سے اب کوئی سروکار نہیں اور ہم دونوں کبھی مل کر بیٹھ نہیں سکتے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم اپنی دعوت سے باز نہیں آتے تو اپنا کام کئے جاؤ۔ ہم بھی تمہاری مخالفت سے کبھی باز نہ آئیں گے۔ اس جملہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مخالفوں کی ایذا رسانیوں اور معاندانہ سرگرمیوں کے باوجود اسلام کی دعوت میں اتنی پیش رفت ہوچکی تھی کہ مخالفین مساویانہ سطح پر گفتگو کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ فصلت
6 [٥] اس لیے میں نہ تو تمہارے دلوں کے پردوں کو ہٹا سکتا ہوں، نہ تمہاری ثقل سماعت کو دور کرسکتا ہوں اور جو عداوت و مخالفت کی دیوار تم نے حائل کر رکھی ہے میں اسے بھی گرا دینے کی طاقت نہیں رکھتا۔ کیونکہ میں بھی تمہاری طرح ایک انسان ہی ہوں اور یہ کام ایک انسان کی بساط سے باہر ہیں۔ ہاں تمہارے جیسا انسان ہونے کے باوجود میں یہ ضرور دعویٰ رکھتا ہوں کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل کی جاتی ہے۔ جس کا بنیادی مضمون یہی ہے کہ تمہارا الٰہ صرف ایک ہی الٰہ ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ہے۔ یہ بات میں کوئی وہم و گمان اور قیاس کی بنا پر نہیں کہتا بلکہ وحی جیسے یقینی علم کی بنا پر کہتا ہوں۔ اور وحی کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کے سوا دوسروں میں خدائی اختیارات و تصرفات کو تسلیم کرنا چھوڑ دو۔ اور اپنے ذہن کو ایسے مشرکانہ عقائد سے پاک صاف کرکے اپنی سب امیدیں ایک اللہ کے ساتھ وابستہ کردو۔ فریاد کے لیے پکارو تو اسی کو پکارو۔ اور پہلے جو غلط روش تم نے اختیار کر رکھی تھی اس کے لیے پروردگار سے معافی مانگو۔ ورنہ اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی پکارنے والوں کا انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ فصلت
7 [٦] زکوٰۃ کے دو معنی :۔ اس جملہ کے دو مطلب ہیں۔ ایک لغوی اعتبار سے زکٰی کے معنی بالیدگی، نشوونما پانا اور عمدہ ہونا اور زکی اور زکیّٰ کے معنی نفس کو روحانی آلائشوں، عقائد کی خرابیوں، بیماریوں اور اخلاق رذیلہ سے پاک کرکے اوصاف حمیدہ پیدا کرنا ہے۔ اس لحاظ سے اس جملہ کا مطلب یہ ہوا کہ ان مشرکوں کے لیے ہلاکت ہے جو اپنے مشرکانہ عقائد سے اپنے آپ کو پاک صاف نہیں بناتے اور دوسرا مطلب شرعی اصطلاح کے اعتبار سے یہ ایسے مشرک جو شرک کرکے اللہ کے حقوق تلف کرتے ہیں اور زکٰوۃ کی عدم ادائیگی سے لوگوں کے حقوق تلف کرتے ہیں۔ اور ان دونوں کی اصل وجہ یہ ہے کہ آخرت میں جوابدہی کے منکر ہیں۔ فصلت
8 [٧] مَنَّ کا لغوی مفہوم :غیْرَ مَمْنُوْنٍ کے بھی دو معنی ہیں۔ مَنَّ کا معنی کسی چیز کا آہستہ آہستہ کم ہو کر ختم ہوجانا اور اس کا سلسلہ منقطع ہوجانا بھی ہے اور اس کا دوسرا معنی احسان کرنا اور احسان جتلانا بھی ہے۔ پہلا معنی تو ترجمہ سے واضح ہیں۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ اہل جنت کو جو نعمتیں بھی میسر ہوں گی ان کا کبھی احسان نہیں جتلایا جائے گا۔ فصلت
9 فصلت
10 [٨] زمین کی اشیاء سے انتفاع کا یکساں حق اور حق ملکیت :۔ بعض علماء نے﴿سَوَاءً لِّلسَّایِٕلِیْنَ ﴾کا یہ ترجمہ کیا ہے ’’برابر ہے واسطے پوچھنے والوں کے‘‘ (شاہ رفیع الدین) ’’ٹھیک جواب پوچھنے والوں کو‘‘ (احمد رضا خان) انسانی تاریخ کا ایک بنیادی اور اہم سوال یہ بھی رہا ہے کہ اس کائنات کی تخلیق کیونکر ہوئی؟ ان آیات میں اسی بنیادی سوال کا جواب دے کر فرمایا کہ ایسا سوال کرنے والوں کے اطمینان کے لیے اتنا جواب کافی ہے۔ اور اس جملہ کا دوسرا ترجمہ جو اوپر درج کیا گیا ہے، بہت سے علماء اور مفسرین اس ترجمہ کے بھی موّید ہیں۔ اور اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ زمین کی پیداوار سے انتفاع کا حق سب ضرورت مندوں کے لیے یکساں ہے۔ خواہ یہ ضرورت مند انسان ہوں یا حیوانات ہوں یا چرند پرند ہوں۔ اور انتفاع کے حق کی یکسانی کی مثال یوں سمجھئے۔ جیسے جنگل میں ایندھن پڑا ہو۔ اب جو شخص اسے اٹھا کر اپنے قبضہ میں کرلے گا۔ تو اب اس ایندھن پر اس کا حق ثابت ہوگیا۔ اور جب تک وہ جنگل میں پڑا تھا اسے وہاں سے اٹھانے کا ہر شخص یکساں حق رکھتا تھا۔ اس کی دوسری مثال چشمہ کا یا دریا کا پانی ہے۔ ہر شخص وہاں سے پانی لانے کا یکساں حق رکھتا ہے۔ لیکن جب کوئی شخص وہاں سے پانی لے کر اس پر اپنا قبضہ کرلے گا تو اب یہ پانی اسی کا ہوگیا۔ اس میں دوسروں کا حق نہ رہا۔ اسی طرح بنجر زمین آباد کرنے کا حق اور اس سے فائدہ اٹھانے کا حق سب کے لیے یکساں ہے مگر جب کوئی شخص محنت کرکے اس کو آباد کرلے تو اس کا حق ثابت اور دوسروں کا حق ختم ہوگیا یہ ہے حق ملکیت کا اسلامی اصول اور اسی لحاظ سے ہم نے یہ ترجمہ اختیار کیا ہے۔ مگر جب سے روس میں اشتراکی نظام قائم ہوا ہے (جو کہ اب ناکام بھی ہوچکا ہے) اور اس نے دوسرے ملکوں میں اس نظام کے بپا کرنے کے لیے فضا کو سازگار بنانے کے لیے اپنے ایجنٹ بھی چھوڑ رکھے ہیں اور چونکہ یہ نظام زمین اور اسی طرح دوسری اشیاء پر انفرادی حق ملکیت کو تسلیم نہیں کرتا۔ لہٰذا ان لوگوں نے قرآن سے حق ملکیت زمین کے عدم جواز کا کھوج لگانا شروع کردیا۔ حالانکہ یہ مسئلہ انسان کی معاش سے تعلق رکھتا اور بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ کو زمین کی ذاتی ملکیت کو ناجائز یا حرام قرار دینا مقصود ہوتا تو قرآن میں ایسے واضح احکام نازل کیے جاتے جن سے سابقہ مروجہ حق ملکیت کی تردید کی جاتی۔ لیکن قرآن میں کوئی ایسا حکم موجود نہیں۔ چند دوسری متشابہ آیات کی طرح اس آیت سے بھی ان لوگوں نے اپنا یہ نظریہ کشید کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ اور ہم نے وہی ترجمہ درج کیا ہے جو ان حضرات کا پسندیدہ ہے۔ وہ اس آیت کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ زمین کی پیداوار پر سب انسانوں کا ایک جیسا اور برابر کا حق ہے۔ جس کی صورت یہ ہے کہ حکومت زمین کو اپنی تحویل میں لے لے پھر اس کی پیداوار لوگوں میں تقسیم کرے۔ حق ملکیت کے متعلق اشتراکیوں کی دلیل اور اس کا جواب :۔ ان لوگوں کی اس تاویل پر پہلا اعتراض تو یہ ہے کہ ضرورتمند، طلبگار یا حاجتمند صرف انسان ہی نہیں بلکہ حیوانات، چرند پرند، کیڑے مکوڑے سب ہی خوراک کے محتاج ہیں اور سب کے لیے یہ خوراک زمین ہی سے حاصل ہوتی ہے تو کیا یہ ساری مخلوق زمین یا زمین کی پیداوار میں برابر کی حصہ دار ہوگی؟ اگر زمین کو انفرادی ملکیت سے نکال کر اس کی پیداوار کو صرف انسانوں میں برابر تقسیم کیا جائے تو دوسری مخلوق کو ﴿سَوَاءً لِّلسَّایِٕلِیْنَ ﴾کے زمرہ سے نکالنے کی کیا دلیل ہے؟ اور دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا زمین سب مخلوقات میں برابر برابر تقسیم ہوگی یا اس کی پیداوار؟ اور تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا عملاً ایسا ممکن بھی ہے؟ اگر حکومت زمین کو انفرادی ملکیت سے نکال کر اپنی تحویل میں لے لے تو یہ ﴿سَوَاءً لِّلسَّایِٕلِیْنَ ﴾کیسے ہوئی۔ اور اگر حکومت زمین کی پیداوار کو اپنی مرضی سے افراد کو دیتی یا ان میں تقسیم کرتی ہے تو بھی عملی طور پر ﴿سَوَاءً لِّلسَّایِٕلِیْنَ ﴾کے تقاضے پورا کرنا ناممکن ہے۔ لہٰذا ان حضرات کی یہ تاویل باطل ہی نہیں ناممکن العمل بھی ہے۔ اور اس کا اصل مطلب یہی ہے کہ زمین کی پیداوار سے اللہ کی ساری مخلوق کو انتفاع کا حق ایک جیسا ہے۔ جیسا کہ پہلے ایک دو مثالوں سے واضح کیا جاچکا ہے۔ اور انسانوں کے علاوہ دوسری جاندار مخلوق بھی زمین کی اشیاء سے فیض یاب ہو رہی ہے اور اس بات کا حق بھی رکھتی ہے۔ فصلت
11 [٩] زمین و آسمان کا ملا جلا ملغوبہ :۔ اس آیت میں ثم کا لفظ زمانی ترتیب کے لحاظ سے نہیں ہے بلکہ زمین و آسمان کی تخلیق کے ایک پہلو سے ہے۔ بالفاظ دیگر یہ زمین کی تخلیق کے بعد کا واقعہ نہیں ہے بلکہ پہلے کا ہے۔ جسے بعد میں بیان کیا گیا ہے اور اس کی واضح دلیل یہ آیت ہے۔﴿اَوَلَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰہُمَا ﴾یعنی زمین و آسمان پہلے ملے جلے اور گڈ مڈتھے؟ تو ہم نے انہیں جدا جدا بنا دیا۔ اور یہاں یہ بیان کیا جارہا ہے کہ اس وقت فضائے بسیط میں صرف دھواں ہی دھواں یا مرکب قسم کی گیسیں تھیں۔ یعنی کائنات کا ابتدائی ہیولیٰ بھی گیسوں کا مجموعہ تھا۔ اس گیس کے مجموعے سے ہی اللہ تعالیٰ نے زمین، آسمان، سورج، چاند، ستارے سب کچھ بنا دیئے۔ کائنات کے جس نقشہ کا اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا تھا کہ زمین فلاں مقام پر اور اتنی جسامت کی ہونی چاہئے۔ آسمان ایسے ہونا چاہئیں سورج فلاں مقام پر اور زمین سے اتنے فاصلہ پر اور اتنی جسامت کا ہونا چاہئے۔ ستارے اور کہکشائیں چاند اور ستارے ایسے اور ایسے ہونے چاہئیں۔ غرض اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے مطابق گیسوں کے اس ہیولیٰ سے یہ سب چیزیں بنتی چلی گئیں اور اس طرح کائنات کی تخلیق پر چھ یوم (ادوار) صرف ہوئے۔ فصلت
12 [١٠] زمین و آسمان کی تخلیق، ترتیب اور زمانہ تخلیق :۔ قرآن میں متعدد مقامات پر مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان یعنی کائنات کو چھ ایام (یا ادوار) میں بنایا۔ پھر بعض روایات میں بھی یہ مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہفتہ میں فلاں کام کیا تھا اور اتوار کو فلاں اور پیر کو فلاں اسی طرح چھ دنوں کے الگ الگ کام بھی مذکور ہیں۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ ایسی سب روایات ناقابل احتجاج اور اسرائیلیات سے ماخوذ ہیں۔ لہٰذا ان کا کچھ اعتبار نہیں البتہ کسی مقام پر تو یہ مذکور ہے کہ زمین آسمانوں سے پہلے پیدا کی گئی اور کسی مقام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ زمین بعد میں پیدا ہوئی اور کبھی یہ اشتباہ پیدا ہونے لگتا ہے کہ کائنات کی پیدائش میں چھ کے بجائے آٹھ دن لگے تھے۔ ایسے شبہات و اختلافات کا بہترین جواب وہ ہے جو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک سائل کو دیا تھا۔ اور یہ جواب سورۃ نساء کی آیت نمبر ٨٢ کے حاشیہ میں ملاحظہ کرلیا جائے۔ [١١] آسمان زمین سے لاکھوں گنا زیادہ جسامت رکھتے ہیں۔ اور زمین میں جب ہزاروں قسم کی مخلوق آباد ہے اور لاکھوں قسم کے کارخانے ہیں تو آسمان کیسے خالی رہ سکتا ہیں۔ آسمانوں میں فرشتوں کی موجودگی کا ذکر تو قرآن میں صراحت سے موجود ہے اور واقعہ معراج سے پتہ چلتا ہے کہ ہر آسمان میں طرح طرح کی مخلوق آباد ہے۔ اگرچہ اس کی تفصیلات معلوم کرنا ہمارے بس سے باہر ہے۔ [١٢] تشریح کے لیے دیکھئے سورۃ والصافات کا حاشیہ نمبر ٤ [١٣] تشریح کے لیے دیکھئے سورۃ والصافات کا حاشیہ نمبر ٥ [١٤] اشیاء کائنات کا کثیر المقاصد ہونے کے ساتھ حسین اور مربوط ہونا :۔ اس کائنات کی ہر چیز جہاں کئی کئی مقاصد پورے کر رہی ہے وہاں ذوق جمال کے لحاظ سے بھی راحت بخش ہے۔ یہ ممکن تھا کہ ایک چیز سے فائدے تو کئی حاصل ہوں مگر وہ کریہہ المنظر ہو مگر کائنات میں ایسی کوئی بات نہیں ہے پھر ان تمام اشیاء میں باہمی ربط بھی ہے اور تعاون بھی۔ جس سے دو باتوں کا پتہ چلتا ہے۔ ایک یہ کہ اس کائنات کا خالق صرف ایک ہی ہوسکتا ہے اور اتنا زورآور ہے کہ ہر چیز سے اپنی مرضی کے موافق کام لے رہا ہے اور لے سکتا ہے۔ اور دوسرے یہ کہ خالق کائنات کی ایک ایک چیز کی کیفیت اور ماہیت دونوں چیزوں کا مکمل علم رکھتا ہے۔ فصلت
13 [١٥] یعنی اس قرآن کی صفات اور اس قرآن کو نازل کرنے والی ہستی کی عظیم الشان آیات قدرت سننے کے بعد بھی اگر کفار مکہ نصیحت قبول کرنے اور توحید اور اسلام کی راہ اختیار کرنے سے اعراض کرتے ہیں تو پھر ان پر بھی ایسی بجلیاں گر سکتی ہیں جیسے عاد و ثمود پر گری تھیں۔ فصلت
14 [١٦] اس آیت کے کئی مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ ان کے پاس رسول آتے رہے۔ دوسرا یہ کہ ان کے پاس جو رسول آئے انہوں نے ان لوگوں کو ہر پہلو سے سمجھانے کی کوشش کی اور تیسرا یہ کہ ان کے اپنے علاقہ میں بھی رسول آئے اور ان کے گردوپیش کے علاقہ میں بھی اور ان کی تعلیم بھی ان تک پہنچ چکی تھی۔ [١٧] یعنی تم تو بشر ہو۔ تمہیں ہم کیسے اللہ کا رسول مان سکتے ہیں۔ کوئی فرشتہ ہمارے پاس رسول بن کر آتا تب بھی کوئی بات تھی۔ ہر منکر حق قوم کو یہ اعتراض رہا ہے اور اس اعتراض کی حقیقت ''خوئے بدرا بہانہ بسیار'' سے زیادہ کچھ نہیں۔ اور اس اعتراض کے جواب بھی قرآن میں جا بجا مذکور ہیں۔ فصلت
15 [١٨] حق کو قبول کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ تکبر ہی ہوا کرتا ہے۔ رسولوں کی بات مان لینے سے ان کی اپنی اپنی سرداریوں اور چودھراہٹوں پر زد پڑتی ہے۔ لہٰذا یہ چودھری ٹائپ لوگ سینہ تان کر رسولوں کی مخالفت پر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اپنے حلقہ اثر کے لوگوں کو اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں اور یہ قوم عاد تو تھے بھی بڑے قدوقامت والے اور بڑے زور آور گھمنڈ میں آگئے۔ اور رسولوں سے کہنے لگے کہ ہم تمہیں کیا سمجھتے ہیں؟ اس وقت انہیں اتنا خیال نہ آیا کہ رسول تو ان سے طاقت میں کمزور ہوسکتا ہے لیکن جس ہستی نے انہیں اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے وہ تو ان سے کمزور نہیں۔ فصلت
16 [١٩] کوئی دن بذات خود نحس نہیں ہوتا (ذکر قوم عاد) :۔ یعنی وہ دن قوم عاد کے لیے منحوس تھے، ورنہ کوئی دن بذات خود نہ سعد ہوتا ہے اور نہ نحس جیسا کہ جوتشیوں اور انسانی زندگی پر سیاروں کے اثرات تسلیم کرنے والوں کا نظریہ ہوتا ہے۔ وہی دن جو قوم عاد کے لیے منحوس تھے۔ سیدنا صالح علیہ السلام اور مومنوں کے لیے مبارک تھے۔ جس دن فرعون اور اس کے ساتھی بحیرہ قلزم میں غرق ہوئے۔ فرعون اور آل فرعون کے لیے منحوس تھا۔ مگر موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے لیے مبارک تھا۔ علاوہ ازیں اگر یہ دن بذاتہ منحوس ہوتے تو عذاب صرف قوم عاد کے مجرموں پر ہی نہ آتا بلکہ ساری دنیا پر آتا۔ [٢٠] قوم عاد پر ٹھنڈی اور تیز ہوا کا عذاب :۔ ان لوگوں کو اپنی طاقت اور قدوقامت پر غرور تھا۔ اللہ نے ان کا غرور توڑنے کے لیے ایک کمزور سی مخلوق ہوا کو، جس کی روانی اور جھونکوں کے لیے سب لوگ ترستے ہیں۔ ان پر مسلط کردیا۔ ٹھنڈی ہوا انسان کو بہت خوشگوار لگتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس ہوا کو لگاتار چلنے کا حکم دیا اور اس کی ٹھنڈک بڑھا دی۔ یہی ہوا سخت ٹھنڈی آندھی کی شکل اختیار کرگئی۔ جو ان کے پتھر کے بنے ہوئے مکانوں اور ایوانوں میں گھس گئی۔ اس کی تیزی کا یہ حال تھا کہ اس نے نہ کوئی درخت صحیح و سالم چھوڑا نہ مکان، نہ مواشی اور انسان۔ سب ایک دوسرے پر گرے پڑے تھے۔ گر گر کر مر جاتے تھے اور مر مر کر گرتے جاتے تھے۔ آٹھ دن اور سات راتیں آندھی نے اسی طرح اپنا زور دکھایا۔ اور مغرور قوم کے صرف غرور کو ہی نہ توڑا بلکہ پوری قوم کے افراد کا ستیاناس کرکے رکھ دیا۔ یہ تو تھا ان کے لیے دنیا کا عذاب اور اخروی عذاب جو ان کی کرتوتوں کا اصل بدلہ ہوگا وہ تو اور بھی زیادہ رسوا کرنے والا ہوگا۔ دنیا میں بھی انہیں اللہ کے عذاب سے کوئی چیز نہ بچا سکی تو آخرت میں تو ان کی کسی جانب سے مدد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ فصلت
17 [٢١] قوم ثمود پرزلزلہ اور چیخ کا عذاب :۔ جسے عاد ثانیہ کہا جاتا ہے اور جن کی طرف سیدنا صالح علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے۔ انہوں نے سیدنا صالح علیہ السلام سے اونٹنی کے پہاڑ سے برآمد ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔ جسے اللہ تعالیٰ نے پورا کردیا تھا۔ جس سے انہیں یقین بھی ہوچکا تھا کہ سیدنا صالح علیہ السلام کی پشت پر کوئی مافوق الفطرت ہستی موجود ہے۔ اور وہ فی الواقع اللہ کا رسول ہے۔ لیکن ان باتوں کے باوجود انہوں نے سیدنا صالح علیہ السلام کی لائی ہوئی ہدایت کو قبول نہ کیا اور اپنے جاہلانہ اور مشرکانہ رسم و رواج کو چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ یہ لوگ بھی قدوقامت، ڈیل ڈول اور قوت میں اپنی پیشرو قوم عاد سے کسی طرح کم نہ تھے۔ فن تعمیر سنگ تراشی کے بہترین ماہر تھے۔ پہاڑوں کے اندر پتھر تراش تراش کر صرف مکان ہی نہیں بناتے تھے بلکہ راستے بھی بنا کر پہاڑوں کے اندر ہی بستیاں آباد کر رکھی تھی۔ ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے جب ان کے دن گنے جاچکے تو ان پر دوہرا عذاب نیچے سے زلزلہ جس سے ان کے پہاڑوں کے اندر واقع مکانوں میں دراڑیں اور شگاف پڑگئے اور اوپر سے کڑک اتنی شدید تھی جس سے ان کے جگر پھٹ گئے۔ فصلت
18 [٢٢] یعنی سیدنا صالح علیہ السلام کو عذاب نازل ہونے سے پہلے ہجرت کا حکم دے دیا گیا تھا۔ چنانچہ آپ ایمانداروں کے ہمراہ جن کی تعداد ایک سو بیس کے لگ بھگ تھی، بحکم الٰہی ہجرت کرکے فلسطین کی طرف چلے گئے اور رملہ کے قریب جاکر آباد ہوئے۔ اسی مقام پر سیدنا صالح علیہ السلام نے وفات پائی۔ فصلت
19 [٢٣] روکنے کی دو صورتیں یا وجوہ ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ مجرموں کی الگ الگ جرائم کے مطابق گروہ بندی کی جائے۔ دوسری یہ کہ پہلی نسل کو بعد میں آنے والی نسلوں کے آنے تک روک دیا جائے۔ تاکہ پہلی نسلوں نے جو شرکیہ عقائد اور رسوم چھوڑے اور انہیں بعد والی نسلوں نے تقلید آباء کے طور پر قبول کیا۔ تو ان بعد والی نسلوں کے گناہوں کی سزا کا کچھ حصہ ان پہلی نسلوں پر بھی ڈالا جائے گا۔ جنہوں نے ان شرکیہ عقائد و رسوم کو رواج دیا تھا یا کسی دوسرے برے کام کی طرح ڈالی تھی۔ فصلت
20 [٢٤] اعضاء اور جوارح پر اعمال کے اثرات اور ان کی گواہی :۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اس دنیا میں جو بھی اچھے یا برے اعمال بجا لاتا ہے۔ یہی نہیں کہ کراماً کاتبین اس کے اعمال نامہ میں اس کے سب اعمال و اقوال درج کرتے جاتے ہیں بلکہ ان اعمال و افعال کے اثرات ان اعضاء پر بھی ثبت ہوتے جاتے ہیں جن کو اس کام کے دوران استعمال کیا گیا ہے۔ جو مجرم اپنے گناہوں کا اور پھر خارجی گواہیوں کا بھی انکار کردیں گے ان پر انہیں کے اعضاء کو گواہ بنا کر لایا جائے گا۔ اور دوسری بات اس سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ جن ذرات سے ہمارا جسم مرکب ہے۔ انہی ذرات سے ہمارا وہ جسم بھی مرکب ہوگا جو قیامت کے دن ہماری روح کو ملے گا۔ فصلت
21 [٢٥] گویائی کے اعضاء اور ان کی ساخت :۔ زبان بھی ویسے ہی گوشت اور پٹھوں کا ایک ٹکڑا ہے جیسے دوسرے اعضاء ہیں۔ اور قوت گویائی میں صرف زبان ہی کام نہیں کرتی۔ بلکہ گلے کی رگیں، جن کی وجہ سے کسی کی آواز سریلی ہوتی ہے کسی کی کرخت، پھر ہونٹ اور تالو وغیرہ سب استعمال میں آتے ہیں۔ تب جاکر انسان بولتا ہے۔ جسم کے اعضاء کا مواد ایک جیسا ہے صرف ساخت کا فرق ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان اعضاء کی ایسی ساخت بنائی ہے جس سے کوئی جاکر بولنے کے قابل ہوجاتا ہے تو جو ہستی ان اعضاء کی ساخت اور بالخصوص پہلی بار کی ساخت پر قادر ہے اس کے لیے بوقت ضرورت کسی دوسرے عضو کی ساخت میں ایسی تبدیلی کردینا کیا مشکل ہے جس سے وہ بولنے لگے۔ اس طرح جب مجرموں کے دوران جرم مستعمل اعضاء ہی ان کے خلاف گواہی دے دیں گے تو پھر ان کے لیے انکار کی کوئی گنجائش باقی نہ رہ جائے گی۔ اس طرح علی رؤس الاشہاد ان کا فیصلہ کرکے انہیں سزا دی جائے گی۔ فصلت
22 [٢٦] یعنی یہ بات تمہارے حاشیہ خیال میں بھی نہ آسکتی تھی کہ ہمارے خلاف گواہی دینے والے ہمارے اپنے اعضاء بھی ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا ان سے بھی بچنے کی ضرورت ہے۔ اگر تم یہ سوچ لیتے تو تم سے گناہ کا سرزد ہونا ہی ناممکن تھا۔ کیونکہ نہ تم خود اپنے اعضاء سے چھپ سکتے تھے اور نہ ان سے گناہ کو چھپا سکتے تھے۔ نہ ان کے بغیر گناہ کا کام کرسکتے تھے۔ [٢٧] اللہ کی صفات سمیع وبصیر ہونے میں شک کا نتیجہ۔ بداعمالیاں :۔ بات صرف اتنی نہ تھی کہ تمہیں یہ علم نہ تھا کہ ہمارے اعضاء ہمارے خلاف گواہی دے سکتے ہیں۔ بلکہ تم اللہ تعالیٰ کے علم کے بھی منکر تھے اگر تمہیں یہ یقین ہوتا کہ ہم جو کچھ کرتے ہیں اللہ اسے دیکھ رہا ہے یا ہماری باتیں سن رہا ہے یا ہمارے حالات سے پوری طرح باخبر رہتا ہے تو بھی تم سے گناہ سرزد ہونے کا امکان نہ تھا۔ تمہارا اللہ کے متعلق بھی ایسا یقین انتہائی کمزور تھا کہ وہ تمہارے تمام حالات سے پوری طرح باخبر ہے۔ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حرم کعبہ میں تین آدمی بیٹھے آپس میں گفتگو کر رہے تھے۔ ان تینوں میں سے دو تو قریشی تھے اور ایک ان کا برادر نسبتی تھا۔ جو ثقفی تھا۔ یہ تینوں خوب موٹے تازے تھے توندیں نکلی ہوئی تھیں مگر عقل کے سب ہی پورے تھے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے پوچھا : تمہارا کیا خیال ہے کہ اللہ ہماری باتیں سن سکتا ہے؟ دوسرا بولا : ہاں! اونچی آواز سے بات کریں تب تو سن لیتا ہے۔ اور اگر آہستہ آہستہ آواز سے چپکے چپکے بات کریں تو پھر نہیں سنتا۔ تیسرا کہنے لگا : اگر وہ اونچی آواز کو سن لیتا ہے تو آہستہ آواز والی بات بھی سن سکتا ہے۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ حٰم السجدۃ) فصلت
23 [٢٨] اللہ کے متعلق جیسا بندہ گمان رکھے گا ویسا ہی اللہ اس سے معاملہ کرے گا :۔ تمہارا اللہ کے متعلق علم اس قدر کمزور اور مشکوک قسم کا گمان رہا۔ اس لیے تم نے گناہوں سے بچنے کی کبھی کوشش ہی نہ کی تھی اور اس سے بڑھ کر یہ بات تھی کہ تم نہ روز آخرت کے قائل تھے اور نہ اللہ کے حضور جواب دہی کے تصور سے خائف تھے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تم گناہوں پر دلیر ہوتے گئے اور ساری زندگی ہی گناہوں میں گزار دی۔ اپنے پروردگار سے تمہاری یہی بےیقینی تمہاری ہلاکت کا باعث بن گئی۔ اس سے واضح طور پر یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ انسان جس قسم کی معرفت اپنے پروردگار کی نسبت رکھتا ہے اس طرز اور اسی سانچے میں اس کی پوری زندگی ڈھل جاتی ہے۔ اگر اللہ کی معرفت درست ہوگی تو اس کا طرز عمل پورے کا پورا درست رہے گا اور اس کے نتائج بھی درست نکلیں گے اور اگر معرفت ہی مشکوک یا غلط ہوگی تو اس کے دنیوی یا اخروی نتائج بھی ویسے ہی نکلیں گے۔ چنانچہ درج ذیل حدیث قدسی اسی حقیقت کی وضاحت کرتی ہے : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ( أنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ) (بخاری۔ کتاب التوحید۔ باب قولہ تعالیٰ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّبَدِّلُوْا کَلٰمَ اللّٰہِ ) یعنی میرا بندہ میرے متعلق جیسا گمان رکھتا ہے ویسا ہی اس کا میرے بارے میں معاملہ ہوگا اور اسی کے گمان کے مطابق میں اس سے سلوک کروں گا۔ اس کی مزید وضاحت درج ذیل حدیث سے ہوتی ہے : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے زندگی میں کوئی نیکی کا کام نہ کیا تھا۔ اس نے مرتے وقت یہ وصیت کی کہ میری لاش کو جلا کر آدھی راکھ دریا میں پھینک دینا اور آدھی ہوا میں بکھیر دینا۔ اللہ کی قسم! اگر اس نے مجھے پکڑ لیا تو مجھے ایسی سزا دے گا جو سارے جہانوں میں کسی دوسرے کو نہ دی گئی ہو۔ اللہ نے دریا اور ہوا کو حکم دیا اور اس کے تمام اجزاء اکٹھے کرلیے۔ پھر اسے اپنے پاس حاضر کرکے پوچھا : تم نے ایسا کام کیوں کیا تھا ؟ اس نے جواب دیا : ’’اے اللہ تو جانتا ہی ہے کہ میں نے یہ کام تیرے ڈر کی وجہ سے کیا تھا‘‘ پھر اللہ نے اسے بخش دیا۔ (بخاری۔ کتاب التوحید۔ باب قولہ تعالیٰ (یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّبَدِّلُوْا کَلٰمَ اللّٰہِ) فصلت
24 [٢٩] یعنی دنیا میں صبر کا پھل ہمیشہ میٹھا ہوتا ہے۔ لیکن وہاں صبر کا بھی کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ وہ صبر کریں یا نہ کریں عذاب سے نجات نہ مل سکے گی۔ [٣٠] استعتب کے مختلف مفہوم :۔ (یَسْتَعْتِبُوْا) کا مادہ عتب ہے اور عتب کے یا عتاب کے معنی ناراضگی دور کرنے کے لیے میٹھے انداز میں خفگی کا اظہار کرنا ہے یعنی ایسی میٹھی میٹھی سرزنش اور ملامت جس کا مقصد بالآخر رضامند ہونا اور مان جانا ہو اور إسْتَعْتَبَ کے معنی کسی روٹھے ہوئے کو منا لینا اور اعتب کے معنی سبب ناراضگی کو دور کرنا ہے۔ اس لحاظ سے اس جملہ کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں ان میں سے ایک تو وہی ہے جو ترجمہ سے ظاہر ہے۔ دوسرا یہ کہ اگر وہ دوبارہ دنیا میں آنے کی خواہش کریں تو ان کی یہ خواہش تسلیم نہیں کی جائے گی اور تیسرا یہ کہ اگر وہ خوشامد یا منت سماجت کرکے منانا چاہیں جیسا کہ دنیا میں اس طرح بھی کام چل جاتا ہے تو ان کی اس خوشامد یا منت سماجت کا بھی کچھ اثر نہ ہوگا۔ فصلت
25 [٣١] قرین کا مفہوم نیزآدمی کا کردار اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے :۔ قُرَنَاء قرین کی جمع ہے۔ جس کا معنی ہم عمر ساتھی ہے جو بہادری، قوت اور دیگر اوصاف میں اس کا ہمسر ہو، ہمجولی اور اس لفظ کا استعمال برے معنوں میں ہوتا ہے یعنی جو لوگ اللہ کو بھول کر بداعمالیوں میں لگے رہتے ہیں تو ان کے ہمجولی بھی انہی کی قسم کے شیطان سیرت ہوتے ہیں۔ جو اس کے ہر برے عمل پر اسے شاباش اور داد تحسین ہی دیئے جاتے ہیں۔ مثلاً چوروں یا ڈاکوؤں کے گروہ میں سے اگر ایک شخص اپنی چوری یا ڈاکہ کی داستان سنائے گا تو دوسرے ساتھی اس کے اس کارنامہ کو بہادری پر محمول کرکے فخریہ انداز میں اس کی داستان سنیں سنائیں گے۔ ان میں سے کسی کو یہ خیال نہ آئے گا کہ وہ لوگوں کے اموال غصب کرکے کتنے بڑے کبیرہ گناہوں کے مرتکب ہو رہے ہیں اور اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ برے اور بدکردار آدمیوں کو ان جیسے ہی دوست اچھے لگتے ہیں اور کسی بدکردار آدمی کی کسی نیک فطرت آدمی سے دوستی ہو بھی جائے تو وہ زیادہ دیر چل نہیں سکے گی۔ اسی طرح نیک لوگوں کے دوست بھی ہمیشہ نیک لوگ ہی ہوا کرتے ہیں اور ہوسکتے ہیں۔ نیک سیرت انسان سے کسی بدکردار کی دوستی کبھی نبھ نہیں سکتی۔ لہٰذا بعض آدمیوں کا یہ کہنا کہ فلاں آدمی خود تو اچھا تھا مگر اسے ساتھی برے مل گئے یہ بات حقیقت کے خلاف ہے۔ کیونکہ اگر وہ فی الواقع اچھا تھا تو دو ہی صورتیں ممکن ہیں یا تو وہ دوسروں کو بھی اچھا بنا لیتا اور یا پھر ان سے الگ ہوجاتا۔ اور اگر اس نے یہ دونوں کام نہیں کیے تو پھر وہ اچھا کیسے ہوا ؟ [٣٢] یعنی جو لوگ اپنے برے ساتھیوں کی باتوں پر لگ جاتے ہیں۔ اور ان کے بھرے میں آجاتے ہیں وہ سمجھ لیں کہ وہ خود ہی اپنی تباہی کا سامان کر رہے ہیں۔ فصلت
26 [٣٣] ابن دغنہ کا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو پناہ دینابشرطیکہ قرآن بلند آواز سے نہ پڑھیں :۔ جو شخص بھی قرآن سنتا تھا تو قرآن کی بات اس کے دل میں اتر جاتی تھی اور یہی بلاکی تاثیر قرآن کا اعجاز تھا جس سے قریش مکہ سخت خائف رہتے تھے۔ اور قرآن سے متعلق انہوں نے تین طرح کے اقدام کئے تھے تاکہ اس کی آواز کو دبایا جاسکے۔ ان میں سے پہلا اقدام تو مسلمانوں پر پابندی تھی کہ وہ قرآن کو اونچی آواز سے نہ پڑھا کریں کیونکہ اس طرح ان کی عورتیں اور بچے متاثر ہوتے ہیں۔ اسی جرم کی پاداش میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کئی بار حملے ہوئے اور مسلمانوں کی بھی پٹائی ہوئی۔ اسی جرم کی پاداش میں سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا اور آپ ہجرت کی غرض سے نکل کھڑے ہوئے۔ برک غماد کے مقام پر پہنچے تھے کہ قبیلہ قارہ کا سردار ابن دغنہ انہیں اپنی پناہ میں لے کر واپس مکہ لے آیا۔ سرداران قریش نے اس پناہ کو صرف اس شرط پر منظور کیا کہ آپ قرآن بلند آواز سے نہ پڑھا کریں گے۔ مگر سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ زیادہ دیر اس شرط پر قائم نہ رہ سکے تو قریشی سرداروں نے ابن دغنہ کے پاس جاکر شکایت کی۔ ابن دغنہ نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آکر انہیں اپنا عہد یاد دلایا اور کہا کہ اگر تم برسرعام قرآن بلند آواز سے پڑھنا نہ چھوڑو گے تو میں تمہاری پناہ سے دستبردار ہوتا ہوں۔ اس کے جواب میں سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’تم اپنی پناہ اپنے پاس رکھو اور میرا معاملہ اللہ کے سپرد ہے‘‘ (بخاری۔ کتاب الانبیاء۔ باب ہجرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ) ابو جہل کا قرآن سے متاثر ہونا :۔ ان کا دوسرا اقدام یہ تھا کہ ان سرداروں نے آپس میں بھی پابندی لگا رکھی تھی کہ وہ عمداً قرآن نہیں سنا کریں گے۔ اور یہ ایسی پابندی تھی جسے یہ پابندی لگانے والے سردار خود بھی نباہ نہ سکے۔ کیونکہ ان کے کان اور ان کے دل قرآن کی بلاکی تاثیر سے لطف اندوز ہوئے بغیر نہ رہتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو کعبہ میں کھڑے ہو کر بلند آواز سے قرآن پڑھ رہے تھے اور تین قریشی سردار ایک دوسرے سے چھپتے چھپاتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن سن رہے تھے۔ بعد میں یہ راز فاش ہوگیا تو ان میں سے ایک سردار نے ابو جہل سے پوچھا کہ جو قرآن تم نے سنا ہے اس کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟ اس سوال کا صحیح جواب دینے کی بجائے ابو جہل نے بات کا رخ دوسری طرف موڑتے ہوئے کہا کہ ہم (یعنی بنو مخزوم) اور بنو عبدمناف سب باتوں میں ہمسر تھے۔ اب ہم ان کے نبی کو تسلیم کرکے ان کی برتری کیسے تسلیم کرسکتے ہیں؟ گویا اس کا صحیح جواب کو گول کر جانا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ قرآن کی تاثیر سے متاثر ہوچکا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت تسلیم کرنے میں محض قبائلی رقابت اور تکبر اس کے آڑے آرہا تھا۔ قرآن کی آواز کو دبانے کا جدید طریقہ : لاؤڈ سپیکر :۔ اور ان کا تیسرا اقدام یہ تھا کہ جہاں قرآن پڑھا جارہا ہو وہاں خوب شور مچاؤ، تالیاں بجاؤ اور اتنا غل غپاڑہ کرو کہ قرآن کی آواز اس شور میں دب جائے اور کسی کے کان میں نہ پڑنے پائے۔ آج بھی جاہلوں کو ایسی ہی تدبیریں سوجھا کرتی ہیں۔ اور مکہ کے کافروں کو تو شور مچانے کی زحمت برداشت کرنا پڑتی تھی آج یہ زحمت بھی گوارا نہیں کرنا پڑتی۔ بس لاؤد سپیکر کے طاقتور اور زیادہ ہارن لگا دینے سے ہی یہ مقصد حاصل کرلیا جاتا ہے۔ فصلت
27 [٣٤] ان کے برے سے برے کام یہی تھے کہ ایک تو وہ خود اللہ کی آیات کا انکار کردیتے تھے۔ دوسرے ان کی ہر ممکن کوشش ہوتی تھی کہ کوئی دوسرا بھی اسلام کی دعوت کو قبول نہ کرنے پائے۔ اور اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے مندرجہ بالا پابندیوں کے علاوہ اور بھی بہت سے مذموم طریقے اختیار کر رکھے تھے اور نئی سے نئی سازشیں تیار کرتے رہتے تھے۔ فصلت
28 [٣٥] ایسے لوگ صرف منکر حق ہی نہیں ہوتے بلکہ اللہ کے، اللہ کے رسول کے، اللہ کے دین کے، سب کے پکے دشمن ہوتے ہیں۔ پھر اللہ انہیں سزا دینے میں کیوں کمی کرے گا ؟ فصلت
29 [٣٦] گمراہوں کی اپنے لیڈروں کو پاؤں تلے روندنے کی آرزو :۔ یہاں جنوں سے مراد شیطان ہیں یعنی بدکردار جن جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ اندازی کرتے ہیں۔ قیامت کے دن کافر جب اپنا انجام دیکھیں گے تو انہیں اپنے وہ قائد، وہ سیاسی لیڈر وہ مذہبی پیشوا یاد آئیں گے جن کے پیچھے لگ کر یہ گمراہ ہوئے تھے۔ وہ اللہ سے التجا کریں گے کہ آج وہ قائد ہمیں دکھادے تاکہ ہم انہیں اپنے پاؤں کے نیچے مسل کر کچھ تو انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرلیں۔ فصلت
30 [٣٧] دین کی تفہیم مختصر ترین الفاظ میں :۔ یہ ایک ایسا جامع جملہ ہے جس میں شریعت کی ساری تعلیم سمٹ کر آگئی ہے۔ چنانچہ سفیان بن عبداللہ ثقفی کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ : ’’مجھے اسلام کے متعلق ایک ہی ایسی بات بتا دیجئے جس کے بعد مجھے کسی دوسرے سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ پڑے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’کہو! میں اللہ پر ایمان لایا، پھر اس پر ڈٹ جاؤ‘‘ (مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب جامع اوصاف الاسلام) یعنی جن لوگوں نے دل و جان سے توحید باری تعالیٰ کا اقرار کیا۔ پھر تازیست اپنے اس قول و قرار کو پوری دیانتداری اور راست بازی سے نبھایا۔ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت والوہیت میں کسی کو شریک نہیں کیا۔ نہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے رہے جو کچھ زبان سے کہا تھا اس کے تقاضوں کو اعتقاداً اور عملاً پورا کیا۔ جو عمل کیا خالص اس کی خوشنودی اور شکرگزاری کے لیے کیا۔ اپنے رب کے مقرر کردہ حقوق و فرائض کو سمجھا اور ادا کیا۔ ایسے لوگوں پر اللہ کی طرف سے جنت کی خوشخبری دینے والے فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ [٣٨] فرشتوں کے نزدل کا مفہوم :۔ جس طرح ہر افاک اور اثیم پر شیطان نازل ہوتے ہیں جو ان کے دلوں میں القاء کرتے اور وسوسے ڈالتے ہیں۔ اسی طرح اللہ کے دین پر ڈٹ جانے والوں اور مشکلات کے دور میں صبرواستقامت اختیار کرنے والوں پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے۔ جس سے ان کے دلوں کو اطمینان اور سکون نصیب ہوتا ہے۔ فرشتوں کے نزول کے لیے ضروری نہیں کہ وہ مرئی اور محسوس طور پر ہو۔ فرشتے میدان بدر میں نازل ہوئے تھے اور ان کے نزول کا مقصد بھی یہی مذکور ہے۔ کہ ان کے نزول سے مسلمانوں کے دلوں کو ڈھارس بندھائی جائے مگر وہ سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی کو نظر نہیں آتے تھے اور جب تک یہ مادی زندگی ختم نہیں ہوجاتی اور مادیت کے پردے چاک نہیں ہوجاتے تب تک فرشتوں کا نزول اسی صورت میں ہوتا ہے۔ الا ماشاء اللہ۔ البتہ مرنے کے ساتھ ہی جب یہ پردے اور حجاب اٹھ جائیں گے تو موت کے وقت پھر قبر میں پھر قیامت میں ہر جگہ فرشتے انسانوں کو یقیناً نظر آئیں گے۔ [٣٩] فرشتوں کے نزول کا مقصد :۔ یعنی فرشتے جب ایمان پر ڈٹ جانے والوں پر نازل ہوتے ہیں تو انہیں یہ تلقین کرتے ہیں یا ان کے دل میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ باطل کی طاقتیں خواہ کتنی ہی چیرہ دست ہوں ان سے خوف زدہ ہونے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں اور حق پرستی کی وجہ سے جو مظالم تم پر ڈھائے جارہے ہیں ان پر رنج نہ کرو کیونکہ اللہ نے تمہارے لیے ایسی جنت تیار کر رکھی ہے جس کے مقابلہ میں دنیا کی سب نعمتیں ہیچ ہیں۔ اور موت کے وقت بھی فرشتے ہر مومن سے یہی کلمات کہتے ہیں۔ اس وقت وہ فرشتوں کو دیکھتا بھی ہے اور ان کی بات بھی سمجھتا ہے تو اس وقت ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آگے جس منزل کی طرف تم جارہے ہو اس سے خوفزدہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ جنت تمہاری منتظر ہے اور دنیا میں جنہیں تم چھوڑ کر جارہے ہو ان کے لیے بھی رنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم تمہارے ولی اور رفیق ہیں۔ فصلت
31 [٤٠] اس آیت میں یہ دونوں احتمال ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ یہ بھی ان فرشتوں کا ہی کلام ہو جو ایمان پر ڈٹ جانے والوں پر نازل ہوتے ہیں اور دوسرا یہ کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہو۔ فرشتوں کی دنیا میں ولایت کا ذکر کرچکا، آخرت میں یوں ہوگی کہ وہ ہر ہر مقام پر ان کا استقبال کریں گے۔ انہیں سلامتی کی دعائیں اور جنت کی بشارت دیں گے۔ فصلت
32 فصلت
33 [٤١] اصلاح نفس کے ساتھ ساتھ دوسروں کو تبلیغ :۔ پچھلی آیات میں ان لوگوں کا ذکر ہوا جو اللہ پر ایمان لانے کے بعد ساری زندگی اپنے اس قول و قرار پر پہرہ بھی دیتے ہیں۔ اس آیت میں ان سے بھی اگلے درجہ کے ایمانداروں کا ذکر ہے۔ یعنی وہ لوگ جو صرف خود ہی احکام الٰہی کی بجاآوری پر جمے نہیں رہتے بلکہ دوسروں کو اسی بات کی طرف دعوت دیتے ہیں وہ سب سے پہلے خود عمل پیرا ہو کر اللہ کی فرمانبرداری کا عملی نمونہ پیش کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف دوسروں کو بلاتے ہیں۔ ان لوگوں کا پہلے خود عمل پیرا ہونا پھر اس کے بعد اللہ کے دین کی طرف بلانا انتہائی بہترین عمل ہے۔ فصلت
34 [٤٢] بدی کا جواب بدی سے دینے سے دعوت کو نقصان پہنچتا ہے اور بھلائی سے دینے سے دشمن بھی دوست بن جاتا ہے۔ اس آیت میں دعوت الیٰ اللہ کا ایک زریں اصول بیان کیا گیا ہے۔ پہلے تو یہ بتایا گیا ہے کہ نیکی اور بدی کبھی ایک جیسے نہیں ہوسکتے۔ اور یہ اس لیے بتایا گیا ہے کہ کفار مکہ دعوت اسلام کو کچلنے کے لیے بدترین ہتھکنڈوں پر اتر آئے تھے۔ مسلمانوں کو یہ سمجھایا جارہا ہے کہ بدی کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوسکتا۔ بدی بالآخر بدی کرنے والے کا ہی بھٹہ بٹھا دیتی ہے۔ لہٰذا داعی الیٰ اللہ کو بدی کا جواب کبھی بدی سے نہ دینا چاہئے۔ بلکہ اسے برداشت کرنا چاہئے اسے کوئی فوری جواب نہ دینا چاہئے اور اس سے اگلا اقدام یہ ہونا چاہئے کہ اس کی بدی کا جواب بھلائی سے دیا جائے۔ اس طرح دشمن خود نگوسار اور شرمندہ ہوگا اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجائے گا کہ میں نے کیا سلوک کیا تھا۔ اور فریق مخالف کا میرے حق میں سلوک کیا ہے؟ وہ آپ کے خلوص اور آپ کی خیرخواہی اور راست بازی کا معتقد ہوجائے گا حتیٰ کہ آپ کی مخالفت چھوڑ کر آپ کے ساتھ آملے گا اور آپ کا جگری دوست بن جائے گا۔ اور اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ کی دعوت الی اللہ کی منزل کھوٹی نہیں ہوگی۔ بلکہ اس میں مزید پیش رفت ہوجائے گی۔ اور اگر آپ برائی کا جواب برائی سے دیں گے تو پھر ادھر سے مزید برائی اٹھے گی اس طرح ایک تو مخالفت پہلے سے بھی بڑھ جائے گی۔ دوسرے تمہارا اصل مقصد فوت ہوجائے گا اور دعوت الی اللہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ جائے گا۔ فصلت
35 [٤٣] بدلہ لینے کے لحاظ سے لوگوں کی تین قسمیں :۔ دنیا میں لوگ تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو برائی کا بدلہ برائی سے اور نیکی کا بدلہ نیکی سے دیتے ہیں۔ اور عام لوگوں کی اکثریت ایسی ہی ہوتی ہے۔ دوسرے وہ جو نیکی کا بدلہ بھی برائی سے دیتے ہیں۔ یہ بدترین لوگ ہوتے ہیں جو بچھو کی سرشت رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ بالآخر آپ ہی اپنا نقصان کرتے ہیں۔ ان کی اس بدفطری کی وجہ سے لوگ ان سے نفرت کرتے اور ان سے پرے ہی رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور تیسرے وہ جو برائی ہونے پر بھڑک نہیں اٹھتے بلکہ اسے برداشت کر جاتے ہیں۔ بعد میں برائی کرنے والے سے خیرخواہی اور بھلائی کا سلوک کرتے ہیں۔ اور یہ کام کوئی بچوں کا کھیل نہیں بلکہ بڑے حوصلہ اور دل گردہ کا کام ہے۔ اور ایسے کام کی اسی سے توقع کی جاسکتی ہے جو بڑا صاحب عزم اور عالی حوصلہ شخص ہو۔ ایسے لوگ سب سے بہتر ہوتے ہیں۔ اور یہ لوگ بالآخر اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے ہیں۔ فصلت
36 [٤٤] برائی پر غصہ سے بھڑک اٹھنا شیطانی انگیخت ہے :۔ یعنی جب کوئی شخص برائی کرے اور انسان غصہ سے بھڑک اٹھے اور بدلہ لینے پر تیار ہوجائے تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ یہ شیطانی انگیخت ہے۔ شیطان اسے یہ پٹی پڑھاتا ہے کہ اس قسم کی بے عزتی کو ہرگز برداشت نہ کرنا چاہئے۔ پھر وہ اسے انتقام لینے پر آمادہ کردیتا ہے۔ ایسی صورت حال پیش آئے تو فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیجئے اور شیطان مردود سے، جو اس بات کا محرک بنا تھا، اللہ کی پناہ میں آجائیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کی حرکات و سکنات کو بھی دیکھ رہا ہے اور تمہارے احوال سے بھی خوب واقف ہے لہٰذا وہ خود ہی تمہاری چارا جوئی فرمائے گا۔ [٤٥] غصہ کا علاج :۔ سیدنا سلیمان بن صُرَد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ دو آدمیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گالی گلوچ کی اور ایک کو اتنا غصہ آیا کہ اس کا چہرہ پھول گیا۔ اور رنگ بدل گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’مجھے ایک ایساکلمہ معلوم ہے۔ اگر غصہ کرنے والا شخص وہ کلمہ کہے تو اس کا غصہ جاتا رہتا ہے۔‘‘ ایک دوسرا شخص اس کے پاس گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا تھا اسے اس کی خبر دی اور کہا : ’’شیطان سے اللہ کی پناہ مانگ‘‘ وہ کہنے لگا کیا تم نے مجھے دیوانہ سمجھ لیا ہے یا مجھے کوئی روگ ہوگیا ہے؟ (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب ما ینہی من السباب واللعن) حالانکہ اس کا یہ جواب ہی دیوانگی کی علامت ہے۔ غصہ میں انسان کی عقل پر جذبات غالب آجاتے ہیں۔ اور عقل جاتی رہتی ہے اور دیوانہ بھی اسے کہتے ہیں جس میں عقل نہ ہو۔ رہا یہ سوال کہ وہ کلمہ کون سا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ اللہ سے پناہ مانگے یا ﴿أعُوْذُ باللّٰہِ مِنَ الشَّیطْنِ الرَّجِیْمِ﴾کہے۔ فصلت
37 [٤٦] پیکر محسوس اور غیر اللہ کی پوجا :۔ مشرکین اور بعض صاحبان طریقت یا وحدت الوجود کے قائلین، رہبان اور پیر و فقیر قسم کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سورج اور چاند وغیرہ اللہ تعالیٰ کے مظاہر ہیں۔ لہٰذا ہم جو سورج اور چاند کی پرستش کرتے ہیں تو فی الحقیقت انہیں اللہ کا پیکر محسوس سمجھ کر اللہ ہی کی عبادت کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ اللہ کے مظاہر یا پیکر محسوس نہیں بلکہ اللہ کی یہ نشانیاں ہیں اور اس کے غلام ہیں۔ ان کا تعلق دن اور رات سے ہے۔ دن کو سورج نکلتا ہے تو چاند روپوش ہوتا ہے اور رات کو چاند ہوتا تو سورج روپوش ہوتا ہے۔ اس سے ایک تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس قدر پابندی سے اپنا کام سرانجام دینے والی چیزیں الٰہ نہیں ہوسکتیں۔ اور دوسرا یہ کہ جو چیزیں عروج و زوال سے دوچار ہوں وہ الٰہ نہیں ہوسکتیں۔ لہٰذا اگر تم فی الواقع اللہ کی عبادت کرنا چاہتے ہو تو براہ راست اللہ کی عبادت کرو جو ان چیزوں کا خالق اور مالک ہے اور ان درمیانی وسائط کو درمیان سے نکال دو۔ کوئی چیز بھی اللہ کا مظہر نہیں یہ تو اس کی نشانیاں ہیں تاکہ ان سے تم اس کی معرفت حاصل کرو۔ فصلت
38 [٤٧] اللہ کی تسبیح میں ہمہ وقت مشغول رہنے والے فرشتے :۔ اپنے شرک اور اپنی جہالت پر ڈٹے رہیں اور آپ کی بات تسلیم کرنے میں اپنی توہین سمجھیں تو اپنی ہی تباہی کا سامان کر رہے ہیں کیونکہ اللہ ان کی نافرمانی یا فرمانبرداری سے بے نیاز ہے اور اس کے پاس فرشتوں کی ایک عظیم جمعیت موجود ہے جو اس کے حکم سے تدبیر امور کائنات کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔ انہیں اللہ کے حکم سے سرتابی کی مجال نہیں۔ وہ وہی کچھ کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے علاوہ ازیں وہ اس کی تسبیح و تحمید میں بھی ہر وقت مشغول رہتے ہیں یہی ان کی غذا اور یہی ان کا وظیفہ حیات ہے۔ وہ اپنے قول اور فعل سے اس بات کی شہادت دے رہے ہیں کہ کائنات کی ایک ایک چیز کا خالق و مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ پھر اگر یہ لوگ ان حقائق کے علی الرغم اللہ کے شریک بنانے پر ہی تلے بیٹھے ہیں تو ان کی اس جہالت سے حقائق تو نہیں بدل سکتے۔ فصلت
39 [٤٨] زمین کی روئیدگی سے معاد پر دلیل :۔ اس قدر خشک ہوچکی تھی کہ اس کی اوپر کی سطح خشکی کی وجہ سے پتھر کی طرح بن چکی تھی۔ اوپر سے پانی برسا تو وہ پھولنے لگی۔ بارش کے پانی کی اس مٹی میں آمیزش سے اس میں روئیدگی کے آثار پیدا ہوگئے۔ اور وہ بیج جو کبھی کے زیر زمین پڑے ہوئے تھے۔ ان میں زندگی کے آثار پیدا ہوئے تو اس پھولی ہوئی زمین سے ان بیجوں کے پودوں کی کونپلیں زمین سے باہر نکل آئیں۔ حتیٰ کہ زمین نباتات سے لہلہا اٹھی اور اس پر جوبن آگیا پھر اس بارش سے کئی جانور مینڈک، پپی ہے اور حشرات الارض بھی پیدا ہوگئے۔ بالکل ایسی ہی صورت قیامت کے قریب واقع ہوگی آسمان سے ایک خاص قسم کی بارش برسے گی جس سے تمام مردوں میں زندگی کی لہر دوڑ جائے گی۔ پھر نفخہ صور ثانی کے وقت تمام مرے ہوئے انسان اپنی قبروں سے اس طرح نکل آئیں گے جیسے کونپل زمین سے نکل آتی ہے پھر وہ میدان محشر کی طرف چل کھڑے ہوں گے۔ فصلت
40 [٤٩] الحاد کے معنی :۔ ﴿یُلْحِدُوْنَ﴾ کا مادہ لحد ہے اور لحد بمعنی قبر اور اس کا بغلی حصہ اور الحد بمعنی راہ راست سے کسی ایک طرف ہوجانا اور الحد السھم کے معنی تیر کا نشانہ کے کسی ایک پہلو میں لگنا اور الحد عن الدین کے معنی دین میں طعن کرنا۔ (مفردات القرآن) اور اس الحاد کا تعلق عقائد سے ہوتا ہے (فق۔ ل ١٨٩) جیسے اللہ کی ذات و صفات میں شک کرنا یا اس کے غلط معنی لینا یا معجزات سے انکار کرنا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا : ﴿وَذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْٓ اَسْمَاۗیِٕہٖ ﴾یعنی جو لوگ اللہ کے ناموں (صفات) میں کجی اختیار کرتے ہیں۔ الحاد کا تعلق اللہ کی صفات سے۔ ملحدین کو کون کون سے فرقے ہیں؟:۔ اس لحاظ سے اس مقام پر اللہ کی آیات سے مراد اللہ کی صفات بیان کرنے والی آیات ہوگا اس کی مثال جیسے اللہ کی تقدیر سے تعلق رکھنے والی آیات میں الحاد کی بنا پر قدریہ اور جبریہ دو فرقے وجود میں آگئے۔ خوارج نے بھی اللہ کے حکم ہونے سے مراد یہ لی کہ اللہ کے علاوہ نہ اللہ کا قرآن حکم بن سکتا ہے اور نہ ہی انسان حکم بن سکتا ہے۔ معتزلہ نے اللہ کی صفات کو اللہ کی ذات سے جدا کرکے اللہ کی صفات کو حادث قرار دیا اور مسئلہ خلق قرآن کا فتنہ اٹھا کھڑا کیا۔ علاوہ ازیں جتنے بھی گمراہ فرقے ہیں سب ہی اللہ کی صفات میں الحاد کرکے اس سے اپنا مفید مطلب مفہوم کشید کرلیتے ہیں۔ ایسے ملحدین جو خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کی گمراہی کا سبب بنتے ہیں سب اللہ کی نظر میں ہیں۔ اور وہ اس سے بچ کر کہیں جا نہیں سکتے۔ [٥٠] انداز بیان میں سخت دھمکی پائی جاتی ہے اور اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی حاکم کسی مجرم کو کہے کہ جو کچھ تم کر رہے ہو میں سب کچھ دیکھ رہا ہوں اور یہ خطاب ان لوگوں سے ہے جو اللہ کی آیات میں الحاد کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ فصلت
41 [٥١] یعنی قرآن کریم زبردست کتاب ہے۔ زیردست نہیں۔ اس کے بیان کردہ دلائل اور حقائق کو نہ جھٹلایا جاسکتا ہے اور نہ نیچا دکھایا جاسکتا ہے۔ یہ کتاب نیچا رہنے کے لیے نازل نہیں کی گئی۔ بلکہ زبردست رہنے کے لیے نازل کی گئی ہے۔ لہٰذا جو لوگ اس کتاب کا انکار کرتے ہیں ان کا انجام زیردستی اور ذلت کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا۔ فصلت
42 [٥٢] قرآن میں باطل کی عدم مداخلت کے مختلف پہلو :۔ یہ آیت کتاب اللہ کے زبردست ہونے کی وجہ یہ بتا رہی ہے کہ اس میں نہ آگے سے، نہ پیچھے سے، نہ اوپر سے، نہ نیچے سے غرض کسی طرف سے بھی باطل داخل نہیں ہوسکتا اور اس جملہ کے بھی کئی مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ کا کلام ہے جسے اللہ نے جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر نازل کیا۔ جبرئیل فرشتہ ایسا ہے جو امین بھی ہے اور قوی بھی۔ یعنی نہ تو وہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں خود کوئی کمی بیشی کرتا ہے اور نہ کوئی جن یا شیطان یا کوئی دوسری طاقت اس سے کسی کلام کا کچھ حصہ چھین سکتی یا اس میں آمیزش کرسکتی ہے۔ پھر جب جبرئیل نے آپ کے دل پر اتار دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت و دیانت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن بھی شاہد تھے اور آپ نے وہ کلام جوں کا توں امت تک پہنچا دیا تو اب بتاؤ کہ اس کلام میں باطل کی آمیزش کے لیے کہیں کوئی رخنہ نظر آتا ہے؟ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب سے قرآن نازل ہوا ہے۔ اسی وقت سے مسلمانوں کے سینوں کے اندر محفوظ ہو کر نسلاً بعد نسل تواتر کے ساتھ منتقل ہوتا چلا آرہا ہے۔ اور ہر زمانہ میں لاکھوں کی تعداد میں اس کے حافظ موجود رہے ہیں اور آج بھی موجود ہیں اور یہ شرف کسی دوسری کتاب کو حاصل نہیں۔ دوسری طرف اس کے نزول کے ساتھ ہی اس کی کتابت شروع ہوگئی تھی اس دور سے لے کر آج تک مسلسل اور متواتر اس کی اشاعت ہو رہی ہے اور کروڑوں اور اربوں تک اس کے نسخے لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ چکے ہیں۔ یہ شرف بھی اسی کتاب کو حاصل ہے کہ یہ دنیا بھر کی سب سے زیادہ کثیر الاشاعت کتاب ہے۔ اب ایک طرف یہ کتاب سامنے رکھئے دوسری طرف ایک چھوٹے سے حافظ بچے کو سنانے کے لیے کہہ دیجئے۔ آپ پر اس قرآن کا اعجاز ثابت ہوجائے گا۔ قرآن کے شائقین نے اس کی آیات، اس کے الفاظ، اس کے حروف، اس کے نقاط اور اس کے اعراب (زیر، زبر، پیش) غرضیکہ ایک ایک چیز کو گن کر ریکارڈ کر رکھا ہے۔ اب بتائیے کہ اس کتاب میں کسی ایک لفظ بلکہ حرف کی بھی کمی بیشی ہوسکتی ہے۔؟ اور باطل اس میں کسی طرح راہ پاسکتا ہے؟ اور اس کا تیسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن نے جو حقائق بیان کئے ہیں، کوئی علم ایسا وجود میں نہیں آسکتا جو فی الواقع علم ہو اور قرآن کے بیان کردہ علم کی تردید کرتا ہو، کوئی تجربہ کوئی مشاہدہ ایسا نہیں ہوسکتا جو یہ ثابت کرے کہ قرآن نے عقائد، اخلاق، قانون، تہذیب و تمدن، معیشت و معاشرت اور سیاست کے باب میں انسان کی جو رہنمائی دی ہے وہ غلط ہے۔ باطل خواہ سامنے سے آکر حملہ آور ہو یا ادھر ادھر کے راستوں سے ہو کر چھاپے مارے وہ کسی طرح بھی اس حقیقت کو شکست نہیں دے سکتا جو قرآن نے پیش کی ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ کسی چیز کے متعلق انسان کا علم خواہ کتنا ہی ترقی کر جائے وہ محدود ہی ہوگا اور اس کے بعد بھی اس چیز کے متعلق مزید انکشافات ہوتے رہیں گے جبکہ اللہ تعالیٰ کا علم لامحدود ہے۔ علاوہ ازیں وہ ہر چیز کا خالق ہے اور خالق اپنی بنائی ہوئی چیز کے متعلق جتنی معلومات رکھتا ہے دوسرا کوئی نہیں جان سکتا۔ فصلت
43 [٥٣] رسولوں کو قوم سے کیا کچھ سننا پڑا ؟ :۔ اس طرح کی آیات کا نزول وقتاً فوقتاً ہوا اور بارہا ہوا اور ہونا چاہئے بھی تھا۔ کیونکہ تیرہ سالہ دور نبوت سارے کا سارا ہی کفار کے ہاتھوں ایذا رسانیوں میں گزرا۔ جن کی ایک قسم استہزاء اور اعتراضات بھی تھے۔ استہزاء اللہ کی آیات سے ہوتا تھا۔ اللہ کے رسول سے بھی اور مسلمانوں سے بھی۔ مثلاً یہی کہ کیا یہی شخص اللہ کو رسالت کے لیے ملا تھا ؟ یہ تو جادوگر ہے، کاہن، شاعر ہے مجنون ہے۔ اسی طرح یہ کہ اگر تم اپنے اس کام سے باز نہ آئے تو ہم تمہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے یا مار ہی ڈالیں گے۔ یا یہ کہ تمہارے پیروکار کچھ کمینے اور رذیل سے آدمی معلوم ہوتے ہیں۔ ہم تو ان کی موجودگی میں تمہارے پاس بیٹھنا بھی گوارا نہیں کرتے چہ جائیکہ تمہاری باتیں سنیں۔ ایسی باتیں جو آپ کفار سے سنتے رہتے ہیں۔ پہلے رسولوں کو بھی یہ سب باتیں سننا پڑی تھیں۔ [٥٤] یہ اللہ تعالیٰ کی صفت حلم اور عفو ہی ہے کہ وہ اپنے دین کی اور اپنے فرمانبردار بندوں کی اس طرح توہین ہوتے دیکھ کر بھی ان سے درگزر کئے جاتا اور انہیں مہلت دیئے جاتا ہے۔ ورنہ اس کے صاحب انتقام ہونے کا تو یہی تقاضا تھا کہ انہیں فوراً کسی دردناک عذاب سے تباہ کر ڈالتا۔ مگر وہ اس عذاب کو مؤخر کئے جارہا ہے اور یہ سب کچھ اس کی مشیئت کے تحت ہو رہا ہے۔ فصلت
44 [٥٥] اگر قرآن عجمی زبان میں نازل ہوتا تو کفار کے اعتراض کی صرف نوعیت ہی بدلتی :۔ یہ ضد اور ہٹ دھرمی کافروں کی خوئے بد کی ایک اور مثال ہے۔ اعتراض کرتے وقت وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ ان کے اس اعتراض میں کچھ معقولیت ہے بھی یا نہیں؟ ان کا اعتراض یہ تھا کہ یہ رسول عربی ہے اور عربی زبان میں ہی کلام سناتا ہے۔ تو اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ کلام اس کا اپنا تصنیف کردہ ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ یہ کلام کسی دوسری زبان مثلاً فارسی یا رومی زبان میں ہوتا اور یہ فرفر ہمیں سناتا۔ اور ہم سمجھتے کہ یہ زبان تو یہ جانتا ہی نہ تھا۔ لہٰذا ممکن ہے کہ اللہ کا رسول ہو اور فرشتہ ہی اس کو ایسا کلام پڑھاتا ہو۔ اسی اعتراض کا اس آیت میں جواب یہ دیا گیا ہے کہ اگر ہم قرآن غیر عربی زبان میں نازل کرتے تو ان کے اعتراض کی شکل یہ ہوتی کہ : واہ! یہ بھی عجب معاملہ ہے۔ یہ نبی کلام ایسی زبان میں پیش کرتا ہے جسے ہم سمجھ بھی نہیں سکتے تو اس پر ایمان کیا لائیں؟ مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں نے بہرحال اعتراض ہی کرنا ہے جو بھی صورت ہو اور یہی کام یہ لوگ کر رہے ہیں۔ [٥٦] آپ ایسے اعتراض کرنے والوں سے کہئے کہ جن لوگوں کی عقل سلیم ہے وہ اسی قرآن سے راہ ہدایت بھی حاصل کر رہے ہیں اور اپنی روحانی بیماریوں سے شفا بھی پا رہے ہیں۔ اگر تم خود سننا، دیکھنا اور ہدایت حاصل ہی نہ کرنا چاہو تو اس میں اللہ کی کتاب کا کیا قصور ہے جو اسے موردِالزام ٹھہراتے ہو؟ [٥٧] کافروں پر قرآن کے دلائل دھندلائے ہی رہتے ہیں :۔ ایک پرندہ ہے چمگاڈر جس کی آنکھیں سورج کی روشنی میں چندھیا جاتی ہیں اور وہ دن کی روشنی میں اپنی آنکھیں بند ہی رکھتا ہے۔ حالانکہ سورج سب کے لیے ایک عظیم نعمت ہے لیکن چمگاڈر کو بھلا نہیں لگتا۔ یہی حال ان کافروں کا ہے کہ آفتاب ہدایت نکلا تو ان کو بھلا نہیں لگتا۔ اس میں چشمہ آفتاب یا آفتاب ہدایت کا کیا قصور ہے۔ یہ اگر کچھ کلام اللہ سنتے بھی ہیں تو کانوں کے اندر پہنچنے ہی نہیں دیتے اور قرآن کے مضامین ہدایت اور دلائل توحید و معاد ان پر واضح ہوتے ہی نہیں بلکہ دھند لائے ہی رہتے ہیں۔ [٥٨] دور سے پکارنے والے کی آواز کانوں میں پڑ تو جاتی ہے۔ مگر یہ سمجھ نہیں آسکتی کہ کہنے والا کہہ کیا رہا ہے؟ یہی حال ان کافروں کا ہے کہ اگر قرآن کی آواز ان کے کانوں میں پڑ بھی جائے تو چونکہ ان کی خواہش ہی نہیں ہوتی کہ اس سے کچھ ہدایت حاصل کریں۔ لہٰذا قرآنی آیات کے مفاہیم و مطالب ان پر دھند لائے ہی رہتے ہیں۔ فصلت
45 [٥٩] یعنی جو کتاب تورات موسیٰ علیہ السلام کو دی گئی تھی اس میں بھی جامع ہدایات موجود تھیں۔ اور لوگوں نے اس میں اختلاف کیا تھا۔ کچھ ایمان لائے تھے اور بہت سے لوگوں نے اس کی مخالفت شروع کردی تھی۔ بالکل ایسی ہی صورت حال اب قرآن کے معاملہ میں پیش آرہی ہے اور اگر اللہ کی مشیئت میں یہ بات نہ ہوتی کہ یہ دنیا دار الامتحان ہے تو ابھی ان لوگوں کے درمیان فیصلہ چکا دیا جاتا جو اپنے بعض مفادات اور سرداریوں کی بقا کی خاطر دعوت حق کو بہرحال جھٹلانے پر تلے بیٹھے ہیں۔ اور پوری سرگرمیاں اس دعوت کو مٹانے پر صرف کر رہے ہیں۔ جبکہ اصل صورت حال یہ ہے کہ ان کے دل دعوت کو درست تسلیم کرتے ہیں اور انہیں اندر ہی اندر یہ خدشہ کھائے جارہا ہے کہ اگر اسلام کو غلبہ حاصل ہوگیا تو پھر ہماری خیر نہیں۔ فصلت
46 [٦٠] یعنی آپ کے پروردگار کو اپنے بندوں کو خواہ مخواہ سزا دینے کا کوئی شوق نہیں۔ نہ وہ یہ ظلم کرسکتا ہے کہ نیکی کرنے والوں کو کچھ بدلہ نہ دے اور نہ یہ کہ بدی کرنے والوں کو ان کی بدی کی کوئی سزا نہ دے۔ فصلت
47 [٦١] جواب کا رخ اس طرف موڑ دینا جس کا تعلق عملی زندگی سے ہو :۔ اللہ تعالیٰ کی وسعت علم کا یہ حال ہے کہ شگوفہ کے اندر اس کے پھل کے نکلنے تک جو کیفیات گزرتی ہیں اور رحم مادر میں جنین پر جو جو مرحلے پیش آتے ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں۔ ایسی ہی علیم ہستی جب یہ خبر دے رہی ہے کہ قیامت یقینی طور پر آنے والی ہے تو تمہیں اس بات پر یقین کرلینا چاہئے۔ رہی یہ بات کہ وہ کب آئے گی تو اس کا علم بھی صرف اللہ کو ہے اور یہ بات بتانا مشیئت الٰہی کے خلاف ہے۔ کیونکہ اس طرح تخلیق انسانی کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ کافروں کا یہ مشغلہ سا بن گیا تھا کہ وہ بار بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سوال کرتے رہتے تھے تو اس کے جواب میں مختلف مقامات پر مختلف جوابات دیئے گئے ہیں اور ان میں وہ پہلو اختیار کیا گیا ہے جس کا تعلق عملی زندگی سے ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی دستور تھا۔ چنانچہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں کہیں تشریف لے جارہے تھے۔ راستہ میں کسی شخص نے زور سے پکارا : یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! قیامت کب آئے گی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا : ’’تجھ پر افسوس! کیا تو نے اس کے لیے کچھ تیاری کرلی ہے‘‘ (مسلم۔ کتاب البرو الصلۃ والادب۔ باب المرء مع من احب) [٦٢] ﴿ اٰذنّٰکَ﴾ کے معنی ہیں ہم آپ کے گوش گزار کر تو چکے ہیں یعنی قیامت کے دن مشرک لوگ شرک کا انجام دیکھیں گے تو اپنے شرک کا اقرار کرنے کی بجائے صاف مکر جائیں گے۔ بعض علماء نے یہاں شہید سے شاہد مراد لیا ہے۔ یعنی آج ہمیں اپنے معبودوں میں سے کوئی بھی یہاں نظر نہیں آرہا۔ فصلت
48 [٦٣] یعنی قیامت کی ہولناکیوں سے اس قدر گھبرائے ہوئے اور حواس باختہ ہوں گے کہ انہیں سمجھ ہی نہ آئے گی کہ اللہ تعالیٰ کے اس سوال کا کیا جواب دیں اور دنیا میں وہ اپنے معبودوں کے متعلق جو تصورات جمائے بیٹھے تھے کہ وہ اللہ سے سفارش کرکے ہمیں بچا لیں گے، سب کچھ بھول جائیں گے کیونکہ انہیں صاف نظر آرہا ہوگا کہ آج کوئی کسی کے کام نہیں آسکتا، نہ ہی عذاب سے بچنے کی کوئی صورت یا کوئی جگہ نظر آتی ہے۔ فصلت
49 [٦٤] انسان کی حرص کی انتہا :۔ یعنی ایک عام اور دنیا دار انسان کی فطرت یہ ہے کہ وہ مال و دولت سے کبھی سیر نہیں ہوتا۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ ہر طرح کی بھلائیاں میرے ہی لیے ہوں۔ رزق بھی کشادہ اور وافر ملے، خوشحالی اور عیش و عشرت نصیب ہو، تندرستی بھی ہو اور اولاد بھی اچھی ہو۔ غرض بھلائی کی جو قسم ہوسکتی ہے وہ چاہتا ہے کہ سب کچھ اسے مہیا ہو اور اگر یہ سب چیزیں مہیا ہو بھی جائیں تو پھر یہ چاہتا ہے کہ ان میں ہر آن اضافہ بھی ہوتا رہے اور اس کی یہ حرص کبھی ختم ہونے کو نہیں آتی۔ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اگر آدمی کو ایک وادی بھر سونا مل جائے جب بھی (قناعت نہیں کرنے کا) دوسری وادی چاہے گا اور اگر دوسری مل جائے تو تیسری چاہے گا۔ بات یہ ہے کہ آدمی کا پیٹ مٹی ہی بھرتی ہے‘‘ (بخاری۔ کتاب الرقاق۔ باب ما یتقی من فتنۃ المال) [٦٥] تکلیف میں مایوس اور شاکی :۔ اور اس کی طبیعت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب اسے کوئی تنگی، فاقہ یا بیماری یا اسی قسم کا کوئی دوسرا دکھ پہنچتا ہے اور اسے اس تکلیف کے دور ہونے کے ظاہری اسباب نظر نہیں آتے تو اللہ کی رحمت سے مایوس ہو کر ناشکری کی باتیں کرنے لگتا ہے۔ وہ یہ نہیں سمجھتا کہ ان ظاہری اسباب کے علاوہ بے شمار باطنی اسباب بھی موجود ہیں جو اسے نظر نہیں آسکتے اور اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہوتے ہیں۔ اگر وہ اللہ پر بھروسہ کرنا سیکھ جائے تو یقیناً اس کی یہ حالت نہ ہو۔ فصلت
50 [٦٦] آسائش میں اپنی تدبیر پر ناز :۔ اور تیسرا پہلو یہ ہے کہ اگر ہم اس کی تنگی، فاقہ یا بیماری کو دور کردیں اور اس پر بھلے دن آجائیں تو پھر بھی اللہ کی طرف نہیں ہوتا، نہ اس ذات کا شکر ادا کرتا ہے جس نے اس کی تکلیف کو دور کردیا جس سے وہ قطعاً مایوس ہوچکا تھا۔ بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ سب کچھ بس اس کی حسن تدبیر اور محنت کا نتیجہ تھا اور اگر میرے دن پھر گئے ہیں تو میں فی الواقع اس بات کا مستحق تھا۔ [٦٧] مالدار اور دنیا دار لوگوں کا نظریہ کہ اگر اللہ آج مجھ پر خوش ہے تو قیامت کو کیوں نہ ہوگا :۔ ایسا شخص اگر اللہ کی ہستی کو مانتا بھی ہے تو اس کی معرفت انتہائی ناقص ہوتی ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ سب کچھ بس میں ہی ہوں۔ میرے اوپر کوئی ایسی ہستی نہیں جو کلیتاً میرے نفع و نقصان کی مالک ہو اور میری زندگی کی باگ ڈور اسی کے ہاتھوں میں ہو۔ اسی طرح روز آخرت اور اعمال کی جزا و سزا پر بھی اس کا ایمان انتہائی ناقص ہوتا ہے اور لوگوں کے کہنے پر وہ یہ فرض کرلیتا ہے کہ اگر مجھے اپنے پروردگار کے سامنے جانا بھی پڑا تو کیا وجہ ہے کہ وہ مجھے عذاب دے۔ میری موجودہ خوشحالی ہی اس بات کی دلیل ہے کہ اگر کوئی خدا ہے تو وہ یقیناً مجھ سے خوش ہے۔ پھر اس دن آخر کیوں خوش نہ ہوگا۔ گویا ایسے لوگوں کے نزدیک دنیا کی خوشحالی ہی ان کے پروردگار کی خوشنودی کی دلیل ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ جس شخص کا اپنے پروردگار اور آخرت کے بارے میں ایسا غلط اور کمزور قسم کا ایمان ہو۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ کافر بھی ہوتا ہے اور مشرک بھی۔ جیسا کہ سورۃ کہف کے پانچویں رکوع میں بالکل ایسے ہی شخص کا قصہ گزر چکا ہے۔ اور ایسے شخص کی صحیح ذہنیت درج ذیل حدیث سے بھی معلوم ہوتی ہے : سیدنا خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مکہ میں لوہار کا پیشہ کرتا تھا۔ میں نے عاص بن وائل سہمی کے لیے ایک تلوار بنائی۔ اس کی مزدوری کے تقاضا کے لیے میں عاص کے پاس گیا اس نے کہا : میں تجھے یہ مزدوری اس وقت تک نہیں دوں گا جب تک تو محمدصلی اللہ علیہ وسلم (کے دین) سے پھر نہ جائے۔ میں نے کہا۔ میں تو اس وقت تک بھی اس دین سے نہیں پھر سکتا جب کہ تو مر کر دوبارہ جی اٹھے گا۔ اس نے کہا : کیا میں مرنے کے بعد پھر جیوں گا ؟ میں نے کہا، ''بیشک'' وہ کہنے لگا : اچھا پھر جب میرے مرنے کے بعد اللہ مجھ کو زندہ کرے گا تو آخر مال اور اولاد بھی دے گا۔ اس وقت میں تیرا قرضہ ادا کردوں گا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ سورۃ مریم۔ باب قولہ اطلع الغیب) [٦٨] غلیظ کے معنی موٹا۔ دبیز، گاڑھا، سخت اور گندہ سب کچھ آتا ہے۔ اور یہاں یہ لفظ سخت اور گندہ دونوں معنوں میں استعمال ہو رہا ہے۔ غلاظت مشہور لفظ ہے۔ اور یہ عذاب گندہ اس لحاظ سے ہوگا کہ ایسے لوگوں کو پینے کے لیے پیپ، کچ لہو، زخموں کا دھوون، انتہائی متعفن بدبودار اور شدید ٹھنڈا پانی، ایسی ہی چیزیں پینے کو ملیں گی جن سے انسان کو گھن آتی ہے۔ اور اس کے سخت ہونے میں تو کوئی شک ہی نہیں۔ فصلت
51 [٦٩] خوشحالی میں اکثر انسانوں کا اللہ کو بھول جانا :۔ یعنی جب انسان پر خوشحالی اور آسودگی کا دور آتا ہے تو پھولا نہیں سماتا اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتا۔ اس وقت دراصل وہ خود خدا بنا بیٹھا ہوتا ہے۔ اور اگر اسے اللہ کی آیات سنائی جائیں اور یہ بتایا جائے کہ یہ سب انعام اللہ ہی نے کیا لہٰذا تمہیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ اس کے حقوق ادا کرنے چاہیں اور اپنے برے انجام سے ڈرنا چاہئے تو اسے ایسی باتیں ناگوار اور تلخ محسوس ہوتی ہیں جنہیں وہ سننا بھی گوارا نہیں کرتا اور اٹھ کر چلا جاتا ہے۔ لیکن جب پھر کسی بلا میں پھنس جاتا ہے تو اس وقت اسے اپنا وہ پروردگار یاد آنے لگتا ہے جس کی آیات سننے سے بھی بدکتا تھا۔ دل میں تو مایوس ہوتا ہے کیونکہ اسے اس مصیبت سے نجات کے ظاہری اسباب نظر نہیں آتے۔ مگر جب تکلیف اسے پریشان کردیتی ہے تو بے اختیار اس کے ہاتھ اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھ جاتے ہیں۔ اور پھر وہ اللہ سے لمبی چوڑی دعائیں بھی کرتا ہے اور وعدے وعید بھی کرنے لگتا ہے۔ اور یہ حالت چونکہ اس کی اضطراری کیفیت ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر اللہ اسے اس مصیبت سے نجات دے بھی دے تو بعد میں پھر وہ وہی کچھ بن جاتا ہے جو پہلے تھا۔ اِلا ماشاء اللہ تھوڑے ہی لوگ ہوتے ہیں جو بعد میں اللہ سے کئے ہوئے اس قول و قرار کو یاد رکھتے اور حقیقتاً اس کے فرمانبردار بن جاتے ہیں۔ اکثریت ایسی ہی ہوتی ہے جو خوشحالی کے دور میں اپنے پروردگار کو یکسر بھول ہی جاتی ہے۔ فصلت
52 [٧٠] آخرت کے منکر کیسے خسارہ میں رہتے ہیں؟:۔ اس قرآن میں جو بعث بعدالموت اور اللہ کے حضور پیشی کا عقیدہ پیش کیا گیا ہے وہ ایک ٹھوس حقیقت ہو تو بتاؤ تمہارا کیا حال ہوگا ؟ فرض کرو کہ تمہارے زعم کے مطابق سب انسان مر کر مٹی میں مل جائیں گے اور یہی انسان کا انجام ہو تو جو شخص روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کا کیا بگڑے گا ؟ اور اگر قرآن کی بات سچی ہوئی اور تمہیں اپنے پروردگار کے حضور حاضر ہونا پڑا تو بتاؤ تمہاری گمراہی کا کوئی ٹھکانا ہے جس کے نتیجہ میں لازماً تمہیں جہنم کا عذاب بھگتنا پڑے گا ؟ فصلت
53 [٧١] آفاق وانفس کے دو مفہوم :۔ اس آیت کے دو مطلب ہیں اور وہ دونوں ہی درست ہیں۔ ایک یہ کہ آفاق سے مراد عرب کے قرب و جوار کے ممالک مراد لیے جائیں اور انفس سے عرب قوم اور بالخصوص قریش قوم مراد لی جائے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نسبی تعلق رکھتے تھے اس لحاظ سے اس آیت کا جو مطلب ہے وہ تاریخ کے اوراق پر ثبت ہے۔ چند ہی سالوں میں قریشی سرداروں کو ذلت سے دوچار ہونا پڑا اور کفر و شرک کی کمر ٹوٹ گئی۔ آپ کی زندگی ہی میں کفر و شرک کو عرب کی سرزمین سے دیس نکالا مل گیا اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں پے در پے فتوحات کے نتیجہ میں عرب کے ارد گرد کے ملکوں میں اسلام کا جو بول بالا ہوا وہ ہر ایک نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ یہ اللہ کی نشانیاں صرف ان معنوں میں نہ تھیں کہ مسلمان ملکوں پر ملک فتح کرتے چلے گئے اور وہ مفتوح قوموں کے جان و مال کے مالک بن گئے جیسا کہ اس دنیا میں عموماً ہوتا ہے بلکہ یہ ان معنوں میں اللہ کی نشانیاں تھیں کہ یہ فتوحات اپنے جلو میں ایک عظیم الشان مذہبی، اخلاقی، ذہنی و فکری، تہذیبی و سیاسی اور تمدنی و معاشی انقلاب بھی لا رہی تھی اور ان فتوحات کے اثرات جہاں جہاں بھی پہنچے انسان کے بہترین جوہر کھلتے اور بدترین اوصاف مٹتے چلے گئے۔ اور دوسرا یہ کہ آفاقی آیات سے مراد کائنات میں ہر سو بکھرے ہوئے اللہ کے عجائبات مراد لیے جائیں اور آیات انفس سے مراد انسان کے اندر کی دنیا لی جائے۔ جنہیں بالترتیب عالم اکبر اور عالم اصغر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوتا کہ اس کائنات میں اور انسان کے اندر اللہ تعالیٰ کی لاتعداد نشانیاں موجود ہیں۔ اور ان سب کا نہ انسان آج تک احاطہ کرسکا ہے اور نہ آئندہ کبھی کرسکے گا۔ جبکہ ہر دور میں کوئی نہ کوئی نئی سے نئی نشانی انسان کے علم میں آجاتی ہے اور آئندہ بھی آتی رہے گی۔ جو قرآن کے بیان کی صداقت پر گواہی دیتی رہے گی۔ نئے سے نئے عجائبات قدرت انسان کے علم میں آتے رہیں گے۔ خواہ ان کا تعلق انسان سے باہر کی دنیا سے ہو یا اس کے اندر کی دنیا سے۔ انسان کو کائنات اصغر کہنے کی بھی کئی وجوہ ہیں۔ جن میں ایک یہ ہے کہ کائنات میں موجود چیزوں کی خصوصیات اس میں موجود ہیں۔ مثلاً زمین پر جو اشیاء پائی جاتی ہیں وہ یا جمادات سے تعلق رکھتی ہیں یا نباتات سے اور یا حیوانات سے۔ جسامت کے لحاظ سے انسان جمادی ہے۔ پھر یہ بڑھتا بھی ہے۔ اس لحاظ سے اس کا نفس نباتی ہوا۔ پھر یہ حرکت بھی کرتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ نفس حیوانی ہوا۔ پھر اس سے بھی زیادہ کامل ہوا تو اسے نفس انسانی ملا۔ جس طرح کسی عرق کو ایک آتشہ، پھر دو آتشہ، پھر سہ آتشہ کرکے اسے انتہائی لطیف اور سریع التاثیر بنایا جاتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مشت خاک کو کمال دیتے دیتے انسان بنا دیا۔ اور اسے ایسی قوائے انسانیہ عطا کی گئیں جن سے وہ امور کلی دریافت کرنے کے قابل بن گیا۔ اب انسان کے اندر جس جس قسم کی قوتیں اور قدرتیں رکھ دی گئی ہیں ان کا احاطہ کرنا انسان کے بس سے باہر ہے۔ حالانکہ وہ اس کے اندر ہر وقت موجود ہیں اور موجود رہتی ہیں۔ پھر انسان کے اندر نصب شدہ مشینری کو دریافت کرکے انسان کئی طرح کی ایجادات معرض وجود میں لانے کے قابل ہوگیا۔ پھر اس کے نفس انسانی کا تعلق عالم ملکوت سے بھی ہے۔ اس طرح انسان کے اندر کی دنیا میں اللہ تعالیٰ کی لا انتہا قدرتیں اور عجائبات موجود ہیں جن کا اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے۔ [٧٢] اس جملہ کے تین مطلب ہوسکتے ہیں۔ ربط مضمون کے لحاظ سے یہ مطلب ہوگا کہ اگر یہ لوگ قرآن کی حقانیت کو تسلیم نہیں کرتے تو نہ کریں۔ اس کی حقانیت پر کیا تمہارے پروردگار کی گواہی کافی نہیں جو ہر جگہ موجود اور ہر چیز کو بچشم خود دیکھ رہا ہے؟ دوسرا مطلب یہ ہے کہ کیا ان لوگوں کو اپنے کرتوتوں سے رک جانے کے لیے یہ بات کافی نہیں کہ آپ کا پروردگار ان کی ہر ہر حرکت کو دیکھ رہا ہے؟ اور تیسرا مطلب یہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ کافر آپ کو کن کن طریقوں سے ستا رہے ہیں پھر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اطمینان کے لیے یہ بات کافی نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر خود گواہ ہے اور وہ انہیں ان کی کرتوتوں کی سزا دیئے بغیر چھوڑے گا نہیں؟ فصلت
54 [٧٣] یعنی کافروں کی فتنہ انگیزیوں اور شرارتوں کی اصل وجہ یہ ہے کہ انہیں نہ روزآخرت پر ایمان ہے اور نہ اللہ کے حضور جواب دہی کے تصور پر۔ اگر انہیں یہ یقین ہوتا تو کبھی ایسی حرکتیں نہ کرتے۔ لیکن انہیں یہ سمجھ نہیں آرہی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احاطہ اختیار میں کس طرح گھرے ہوئے اور مجبور محض ہیں اور اس کی گرفت سے بچ کر کہیں جا نہیں سکتے۔ فصلت
0 الشورى
1 الشورى
2 الشورى
3 [١] نام لئے بغیر مابہ النزاع مسائل کے جوابات :۔ مکی دور میں حق و باطل کے درمیان اختلافی مسئلے بنیادی طور پر دو ہی تھے۔ ایک یہ کہ مشرکوں کے بتوں کا کائنات میں کچھ تصرف ہے یا نہیں؟ اور دوسرا یہ کہ کیا انسان کا مر کر جی اٹھنا پھر اپنے پروردگار کے حضور جواب دہی کے لیے پیش ہونا درست ہے یا نہیں؟ یہی دو مسائل تھے جن کا اکثر مجلسوں اور نجی گفتگو میں ہر وقت چرچا رہتا تھا۔ پھر ان میں ایک تیسرا مسئلہ از خود شامل ہوجاتا تھا کہ آیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم فی الواقع اللہ کا رسول ہے یا نہیں؟ جو کچھ وہ کلام پیش کرتا ہے۔ فی الواقع اللہ کا کلام ہے؟ اور قرآن کا انداز خطاب یہ ہے کہ اکثر سورتوں میں تمہید کے طور پر کافروں کے اعتراضات کا ذکر کیے بغیر انہیں سوالوں میں سے کسی سوال کے جواب سے اس سورۃ کا افتتاح کرتا ہے۔ اس سورۃ کی تیسری آیت میں دراصل ان تینوں اعتراضات کا اجمالی جواب پیش کردیا گیا ہے۔ جو یہ ہے کہ جو کچھ توحید اور معاد کے متعلق اس قرآن میں مذکور ہے۔ یہ کوئی نیا نظریہ نہیں بلکہ پہلے تمام انبیاء کو بھی یہی باتیں وحی کی جاتی رہی ہیں۔ اور تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ قرآن فی الواقع اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ اور اس کی آیات حکمت سے لبریز ہیں کیونکہ وہ خود حکیم ہے۔ علاوہ ازیں وہ سب پر غالب اور زبردست بھی ہے۔ وہ مخالفین کی مخالفت کے باوجود اپنے کلمہ کا بول بالا کرنے کی قوت اور قدرت بھی رکھتا ہے۔ الشورى
4 [٢] مملوک الٰہ نہیں ہوسکتا :۔ اس آیت میں بتوں یا ماسوا اللہ کی خدائی کا عقلی دلیل سے رد پیش کیا گیا ہے کہ خالق ارض و سماء تو اللہ کی ذات ہے۔ وہ ان سب چیزوں کا مالک اور وہ چیزیں اس کی مخلوق اور اس کی ملکیت ہیں اور وہ اس تمام کائنات سے بلند تر اور بزرگ تر ہے۔ پھر بھلا اس کی مخلوق کو، اس کی مملوکہ چیز کو اس کے مقابلہ میں حقیر ترین مخلوق کو اس کا شریک کیسے بنایا جاسکتا ہے۔ اور اس کے اختیارات و تصرفات میں ان چیزوں کو کیسے حصہ دار سمجھا جاسکتا ہے؟ الشورى
5 [٣] اگر کوئی اور الٰہ ہوتا تو آسمان پھٹ پڑتا اور نظام تباہ ہوجاتا : مشرکین مکہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ اس طرح وہ اللہ کی دوہری توہین کے مرتکب ہوتے تھے ایک اولاد قرار دینا یا نسبی رشتہ قائم کرنا اور دوسرے اللہ کے لیے بیٹوں کے بجائے بیٹیاں تجویز کرنا۔ اور بیٹا مملوک نہیں بلکہ ہمسر ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کائنات کا خالق اگر ایک کی بجائے دو بھی ہوتے تو یہ نظام کائنات درہم برہم ہوجاتا پھر ان لوگوں نے تو اللہ کے کئی نسبی رشتہ دار بنا ڈالے تھے۔ ان کے کہنے کے مطابق تو آسمانوں کو کب کا پھٹ پڑنا چاہئے تھا۔ لیکن تدبیر امور کائنات پر مامور فرشتے ایسی باتوں سے اللہ کی ہر وقت پاکیزگی بیان کرتے اور اس کی حمد و ثنا میں مشغول رہتے ہیں۔ پھر وہ اہل زمین کے ایسے گندے خیالات پر ان کے لیے بخشش کی دعا بھی کرتے رہتے ہیں۔ پھر اللہ ان کی دعا قبول کرتا اور ایسے مجرموں سے درگزر کئے جاتا ہے۔ ورنہ ان کے اعمال تو ایسے ہیں کہ ان پر آسمان کے ٹکڑے گرا کر انہیں فوراً ہلاک کردیا جاتا۔ الشورى
6 [٤] ولی کے مختلف مفہوم :۔ ولی کا لفظ بہت جامع ہے اور بڑا وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ مثلاً کارساز دوست، حمایتی، مددگار اور سرپرست سب اس کے مفہوم میں شامل ہیں۔ اور اس کا عام مفہوم وہ شخص ہے جو کسی کی موت، مصیبت اور سخت پریشانی کے وقت اس کی مدد کو پہنچے یا اس کی وراثت کا اولین حقدار ہو۔ اور یہ باپ اور بیٹے کے علاوہ کوئی اور شخص بھی ہوسکتا ہے جب کہ مشرکین اپنے بتوں اور معبودوں کو ایسا سمجھتے تھے اور سمجھتے ہیں کہ وہ ہر مصیبت میں ان کے کام آتے اور ان کی حاجات کو پورا کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور نیز قیامت کے دن ہم ان کی سفارش سے اللہ کے عذاب سے بچ سکتے ہیں۔ اللہ ایسے مشرکوں کو مہلت تو دیتا ہے مگر یہ نہ سمجھو کہ وہ ہمیشہ بچے رہیں گے۔ یہ سب لوگ اللہ کی نظر میں ہیں۔ لہٰذا آپ اس فکر میں نہ پڑیں کہ یہ مانتے کیوں نہیں یا نہ ماننے کی صورت میں تباہ کیوں نہیں کردیئے جاتے۔ یہ باتیں آپ کے ذمہ نہیں۔ وقت آنے پر اللہ خود ان سے نمٹ لے گا۔ الشورى
7 [٥] قرآن ساری دنیا کی ہدایت کے لئے :۔ اُمُّ الْقُرَیٰ سے مراد مرکزی بستی یا بڑا شہر اور اس سے مراد مکہ معظمہ ہے۔ جہاں اللہ کا گھر موجود ہے۔ اور تمام دنیا کے لوگوں کے جمع ہونے کے لیے مرکز بنا دیا گیا ہے۔ اور اس کے گرد سے مراد صرف آس پاس کے علاقے یا ملک نہیں بلکہ پوری روئے زمین ہی مراد ہے۔ کیونکہ یہ پوری روئے زمین کا مرکز بنایا گیا ہے۔ گویا اس آیت میں چند بنیادی باتوں کا نہایت اختصار کے ساتھ ذکر کردیا گیا ہے۔ ایک یہ کہ قرآن اہل عرب کی اپنی ہی زبان میں نازل کیا گیا ہے۔ تاکہ اس کے سمجھنے سمجھانے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے اور لوگ مخصوص قسم کے علماء کے محتاج ہو کر نہ رہ جائیں بلکہ تمام اہل عرب اس سے براہ راست استفادہ کرسکیں، دوسری یہ کہ آپ کی دعوت صرف اہل مکہ کے لیے نہیں بلکہ تمام دنیا کے لیے ہے اور تیسری یہ کہ آپ کی بعثت کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ آپ دنیا بھر کے لوگوں کو قیامت کے دن واقع ہونے والے واقعات اور ان کے اعمال کی جزا وسزا سے پوری طرح خبردار کردیں۔ [٦] یعنی جتنے بھی انسان اور جنّ پیدا ہوئے ہیں ان سب کو اس دن اکٹھا کرلیا جائے گا۔ دنیا میں تو کئی مذاہب ہیں پھر ہر مذہب کے بیسیوں فرقے ہیں۔ مگر اس دن ساری مخلوق صرف دو گروہوں میں تقسیم ہوگی۔ ایک اہل جنت، دوسرے اہل دوزخ۔ ایک تیسرے فریق اعراف والوں کا ذکر بھی سورۃ اعراف میں آیا ہے لیکن وہ فریق کوئی مستقل فریق نہ ہوگا بلکہ جلد یا بدیر اہل جنت سے مل جائے گا۔ الشورى
8 [٧] انسان کو اختیار دینے کا نتیجہ اختلاف اور گروہ بندی :۔ اس کی بڑی آسان صورت یہ تھی کہ اللہ انسانوں کو قوت ارادہ و اختیار نہ بخشتا۔ پھر جس طرح کائنات کی باقی سب چیزیں اللہ کی مطیع فرمان ہیں اور ان کی یہ اطاعت اضطراری ہے انسان بھی اسی طرح اللہ کا مطیع فرمان ہوتا۔ اور اختلاف یا فرقوں میں بٹنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا۔ مگر اللہ کی مشیئت تو یہ تھی کہ ایک ایسی مخلوق پیدا کی جائے جس کو اختیار دیا جائے اور پھر دیکھا جائے کہ کون اپنے اختیار سے اس کی اطاعت کرتا ہے اور کون نافرمانی کرتا ہے۔ اور یہ اختیار ہی وہ چیز ہے جو اختلاف کا سبب بنتا ہے۔ پھر جو لوگ اپنے اختیار سے اللہ کے فرمانبردار بن جاتے ہیں۔ اللہ انہیں رحمت میں داخل کرلیتا ہے۔ دنیا میں بھی مہربان اور آخرت میں بھی۔ لیکن جو نافرمانی اختیار کرتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ دنیا کی زندگی میں ان کا محاسبہ کیا جائے۔ بلکہ آخرت میں ان کا ضرور محاسبہ کیا جائے گا۔ پھر اس دن ان کا کوئی ایسا سرپرست یا مددگار نہ ہوگا جو انہیں ان کے اعمال کی سزا سے بچا سکے۔ الشورى
9 [٨] آستانوں کے کارساز اصل میں مریدان باصفا ہی ہوتے ہیں :۔ آپ کسی کافر کے یا مشرک کے بت خانے یا آستانے پر تشریف لے جائیے اور دیکھئے کہ کارساز یا کام بنانے والے کون ہیں؟ کارساز تو وہ ہیں جو نذرانے دیتے اور نیازیں چڑھاتے ہیں انہیں کارسازوں یا مریدوں کے ذریعہ تو آستانوں کا کاروبار چمکتا ہے۔ اور آستانوں کے مجاوروں اور خادموں کی چاندی بنی ہوئی ہے۔ دنیا میں تو عبادت گزار مریدان باصفا ہی ان کے کارساز ہوتے ہیں۔ رہی آخرت کی بات جس کی وجہ سے یہ ان کے کارساز بنے ہوئے ہیں تو یہ بات آج نہیں آخرت کو انہیں ٹھیک طرح معلوم ہوجائے گی۔ کہ یہ اولیاء بھی انہی کی طرح عاجز مخلوق اور اللہ کے دربار میں بالکل بے بس ہیں۔ کارساز تو وہ ہوسکتا ہے جو تصرف کے وسیع اختیارات رکھتا ہو اور وہ اللہ کی ذات ہی ہوسکتی ہے جو مردوں تک کو زندہ کرسکتی ہے اور ہر آن کرتی رہتی ہے۔ لہٰذا اگر کارساز بنانا ہے تو ایسی ذات کو بناؤ جو دنیا اور آخرت دونوں جگہ تمہارے کام بھی آسکے۔ الشورى
10 [٩] اختلافات کا فیصلہ کیسے ہوسکتا ہے؟:۔ اصل دین چونکہ اللہ نے ہی بذریعہ وحی اپنے رسول اور بندوں کی طرف بھیجا تھا لہٰذا اگر بندے اس دین میں اختلاف کریں تو ان میں فیصلہ کا حق بھی اللہ ہی کو ہے کہ وہ لوگوں کو بتائے کہ میں نے جو دین بھیجا تھا وہ تو یہ تھا اور تم نے فلاں فلاں مقام پر غلط تاویلات کرکے باہم اختلاف کرلیا تھا۔ ہوتا یہ ہے کہ ہر صاحب شریعت نبی ایمان لانے والوں کو ایک امت بناتا ہے۔ بعد میں لوگ اس میں اختلاف پیدا کرکے کئی فرقوں میں بٹ جاتے ہیں۔ پھر جو بعد میں نبی آتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر وحی کرکے لوگوں کو اصل دین سے مطلع کردیتا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ دنیا میں لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کردیتا ہے اور آخرت میں اللہ تعالیٰ اختلافات کا جو فیصلہ فرمائے گا وہ کھلی عدالت میں فرمائے گا۔ اختلاف کرنے والے لوگوں کی باقاعدہ پیشی ہوگی۔ پھر ان پر شہادتیں قائم ہوں گی اور انہیں بتایا جائے گا کہ اصل دین کیا تھا اور تم نے کیا کچھ حیلے اور مکاریاں کرکے اصل دین کا حلیہ بگاڑا تھا۔ خود گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا تھا۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اپنے تمام اختلافی مسائل میں اللہ کے کلام یعنی قرآن کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ پھر چونکہ قرآن رسول کی اطاعت کو واجب اور اپنی ہی اطاعت قرار دیتا ہے۔ لہٰذا کتاب اللہ اور سنت رسول دونوں کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ تفرقہ بازی اور اختلافات سے بچنے کی صرف یہی ایک صورت ہے کہ انسان کتاب و سنت کے سامنے کھلے دل سے سر تسلیم خم کردے اور اس مطلب کی تائید سورۃ نساء کی آیت نمبر ٥٩ اور ٦٤ سے بھی ہوجاتی ہے۔ [١٠] یعنی میں ہمیشہ کے لیے اللہ پر توکل کرنے کا فیصلہ کرچکا ہوں۔ پھر جب بھی مجھے کوئی مشکل پیش آتی ہے تو میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ الشورى
11 [١١] میرے اللہ پر توکل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ بہت بڑی قوت اور قدرت کا مالک ہے جس نے اس پوری کائنات کو وجود بخشا ہے اور اس زمین کو اس نے بڑے محیرالعقول طریقوں سے انسانوں اور دوسرے جانوروں کے جوڑے بنا کر اور ان سے نسلیں پھیلا کر اس زمین کو آباد کر رکھا ہے۔ [١٢] اللہ پر توکل کیوں کرنا چاہئے؟ اس کی مختلف وجوہ :۔ یہ اللہ پر توکل کرنے کی دوسری وجہ ہے۔ یعنی وہ ایسی ذات ہے جس کے مثل کائنات کی کوئی چیز نہیں۔ ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَئیٌ﴾ کا لفظی معنی یہ بنتا ہے کہ ’’کوئی چیز اس کے مثل کی مانند نہیں‘‘ اور اس انداز بیان میں مزید مبالغہ پایا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مثلاً اس کے ہاتھ تو ہیں۔ مگر ایسے نہیں جیسے ہمارے ہیں یا کسی دوسرے جاندار کے ہیں۔ اور حدیث میں ہے کہ اللہ کے دونوں ہی ہاتھ داہنے ہیں جو مخلوق کو روزی پہنچانے کے لیے ہر وقت کھلے رہتے ہیں۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ہاتھ ہماری طرح نہیں اور نہ ہی ہماری طرح اس کا جسم ہے۔ وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ جبکہ انسان بھی سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ اس میں فرق یہ ہے کہ انسان ایک وقت میں صرف ایک کی بات سن سکتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ ایک ہی وقت میں اپنی ساری مخلوق کی بھی پکار اور دعائیں سنتا ہے۔ یہی صورت اس کے دیکھنے کی ہے۔ یہ کیسے ہوتا ہے یہ سمجھنا ہماری بساط سے باہر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایسی ذات ہی بھروسہ کے قابل ہوسکتی ہے جو ہر وقت ہر ایک کی پکار اور فریاد سن سکتی ہو اور وہ ہر چیز کو بچشم خود دیکھ بھی رہی ہو۔ الشورى
12 [١٣] یہ اللہ پر توکل کرنے کی تیسری وجہ ہے کہ آسمان و زمین کے تمام تر خزانوں کی چابیاں اسی کے پاس ہیں۔ وہ ایسا داتا ہے جو ہر آن اپنی مخلوق پر بے انداز خرچ کرتا ہے اور رزق مہیا کر رہا ہے۔ البتہ بعض مصلحتوں کے پیش نظر اس نے رزق کی تقسیم تمام لوگوں میں یکساں نہیں رکھی۔ اور اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ رزق کے اس تفاوت کی وجہ سے ہی دنیا کا یہ نظام چل رہا ہے۔ اور سب لوگوں کی آزمائش ہو رہی ہے۔ اب اگر وہ کسی کو زیادہ رزق دیتا ہے یا کسی کو کم دیتا ہے تو یقیناً اس میں کوئی نہ کوئی حکمت کارفرما ہوتی ہے۔ جسے وہ خود ہی سب سے زیادہ جانتا ہے۔ الشورى
13 [١٤] دین اور شریعت میں فرق اور متبدل احکام کی مثالیں :۔ اس آیت میں ایک شرع کا لفظ آیا ہے اور شریعت کا لفظ اسی سے مشتق ہے۔ اور دوسرا دین کا۔ اور ﴿ مِنَ الدِّیْنِ﴾سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شریعت بھی دین کا حصہ ہی ہوتی ہے۔ اس فرق کو ہم یہاں ذرا وضاحت سے پیش کرتے ہیں : دین کا لفظ بہت وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ مختصراً یہ چار معانی میں استعمال ہوتا ہے (١) اللہ کی کامل اور مکمل سیاسی اور قانونی حاکمیت، (٢) انسان کی مکمل عبودیت اور بندگی، (٣) قانون جزا و سزا یا تعزیرات ملکی، (٤) قانون جزا و سزا کے نفاذ کی قدرت، پھر یہ لفظ کبھی ایک معنی میں استعمال ہوتا ہے اور کبھی ایک سے زیادہ معنوں میں۔ اب دین کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کو کچھ باتوں کا حکم دے، کچھ کاموں سے منع کرے اور جو شخص ان احکام کے مطابق عمل کرے انہیں اچھا بدلہ دے اور جو حکم عدولی کرے اسے سزا بھی دے۔ چنانچہ ایسے احکام جو سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر غیر متبدل رہے ہیں یہی اصل دین ہے مثلاً شرک کی حرمت، آخرت اور اس کا محاسبہ، نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم، قتل ناحق، چوری، زنا اور فواحش سے اجتناب وغیرہ۔ اور شرع کا لغوی معنی واضح راستہ متعین کرنا ہے۔ (مفردات القرآن) اور شریعت سے مراد وہ احکام ہیں جو زمانہ کی ضرورتوں اور احوال و ظروف کے مطابق بدلتے رہتے ہیں۔ مثلاً سیدنا آدم علیہ السلام کی اولاد میں بہن بھائی کا نکاح جائز تھا اور یہ ایک اضطراری امر تھا۔ جو بعد کی شریعتوں میں حرام قرار دیا گیا۔ سیدنا یعقوب علیہ السلام کی زوجیت میں دو حقیقی بہنیں تھیں جو بعد کی شریعتوں میں حرام قرار دی گئیں۔ اسی طرح اس دور میں سجدہ تعظیمی جائز تھا۔ جو بعد میں حرام کردیا گیا۔ سابقہ شریعتوں میں اموال غنیمت سے استفادہ ناجائز تھا جو امت مسلمہ کے لیے حلال قرار دیا گیا۔ سابقہ شریعتوں میں نمازوں کی تعداد اور ان کی ادائیگی کا طریقہ، زکوٰۃ کی شرح اور روزوں کی تعداد ہماری موجودہ شریعت سے بالکل مختلف تھی۔ غرضیکہ ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ دین اور شریعت کے اس فرق کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں واضح فرمایا کہ : ’’ تمام انبیاء علاتی (سوتیلے) بھائی ہیں۔ ان کی مائیں (شریعتیں) تو الگ الگ ہیں مگر ان کا باپ (دین) ایک ہی ہے‘‘ (بخاری۔ کتاب الانبیاء ۔ باب واذکر فی الکتاب مریم۔۔) گویا اصول اور بنیادی احکام کا نام دین ہے اور دین کا یہ حصہ غیر متبدل ہے۔ دوسرا حصہ وہ ہے جس میں ان اصولی احکام کی جزئیات میں تبدیلی واقع ہوتی رہی ہے۔ اسی متبدل حصہ کا نام شریعت ہے۔ یہاں یہ بات ملحوظ رکھنی چاہئے اور خوب ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ صاحب شریعت نبی کی شریعت اگرچہ مختلف رہی ہے مگر وہ اس مخصوص نبی کے دین کا حصہ ہی ہوتی ہے اور دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ آپ چونکہ آخری نبی ہیں۔ لہٰذا آپ کو جو شریعت ملی ہے وہ بھی اب غیر متبدل ہے اور زمانہ کے بدلتے ہوئے تقاضوں کا حل اب پوری شریعت اسلامیہ سے بذریعہ اجتہاد معلوم کیا جائے گا۔ [١٥] اس آیت میں پانچ اولوالعزم انبیاء کا ذکر ہوا ہے۔ سب سے پہلے صاحب شریعت نبی نوح علیہ اسلام تھے پہلے ان کا ذکر ہوا اور سب سے آخری محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے پھر ان کا ذکر ہوا پھر اس درمیانی عرصہ کے تین صاحب شریعت انبیاء سیدنا ابراہیم، سیدنا موسیٰ اور سیدنا عیسیٰ علیہم السلام کا ذکر ہوا اور بتایا یہ گیا ہے کہ جس طرح ہم نے سابقہ انبیاء کے لیے دین کے ساتھ شریعت بھی وضاحت کے ساتھ وحی کردی تھی۔ اسی طرح آپ کے لیے ایسے ہی طریقہ پر وحی کی جارہی ہے۔ یعنی دین کا غیر متبدل حصہ بھی اور متبدل حصہ یا شریعت بھی۔ پھر بعض دفعہ دین کے صرف غیر متبدل حصہ پر بھی لفظ دین کا اطلاق ہوتا ہے۔ جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث سے واضح ہے۔ [١٦] یعنی سب انبیاء کو دین اور شریعت دے کر یہ تاکید کی گئی تھی کہ اس دین کو قائم رکھو، قائم رکھنے سے مراد ہے کہ پہلے اس کے احکام خود بجا لاؤ۔ پھر ایمان لانے والوں میں ان احکام کو نافذ کرو۔ اور دین کے جو غیر متبدل اصول ہیں۔ یعنی توحید اور معاد وغیرہ جو اوپر مذکور ہوئے ان میں اختلاف نہ ڈالو۔ اس جملہ کے مخاطب اگرچہ بظاہر انبیاء معلوم ہوتے ہیں تاہم اس کے مخاطب ان انبیاء کے متبعین ہیں اور یہ انداز تاکید مزید کے لیے ہے کیونکہ انبیاء کا تو مشن ہی یہ ہوتا ہے کہ سابقہ اختلاف کو ختم کریں چہ جائیکہ نئے اختلافات ڈالیں۔ [١٧] یعنی وہی توحید اور روز آخرت کا محاسبہ جو تمام سابقہ انبیاء کے دین کا غیر متبدل حصہ رہا ہے اور جس میں کسی اختلاف کی گنجائش نہیں ہوسکتی تھی۔ اسی بات کی جب ان مشرکین مکہ کو دعوت دی جاتی ہے تو ان پر گراں گزرتی ہے۔ سیدنا آدم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا نوح صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر آج تک جو چیز معقول اور سب انبیاء کی متفق علیہ تعلیم تھی وہی انہیں بھاری معلوم ہونے لگی۔ اور اسی بنیادی تعلیم سے ہی اختلاف کرکے یہ اس کے مخالف بن گئے ہیں گویا ان کی جہالت اور بدبختی کی حد ہوچکی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس سادہ اور صاف ستھری تعلیم سے استفادہ وہی شخص کرسکتا ہے جو خود بھی ہدایت کا طالب ہو اور اللہ کی طرف رجوع کرنے والا ہو۔ جس قدر زیادہ وہ اللہ کی طرف رجوع کرنے والا ہوگا اتنا ہی زیادہ اللہ کی ہدایت سے فیض یاب ہوگا۔ الشورى
14 [١٨] فرقہ بازی کے اسباب :۔ لوگوں میں اختلاف اور تفرقہ بازی اس وجہ سے نہیں ہوتی کہ اللہ کی کتاب میں کوئی بات مبہم اور مختلف فیہ ہوتی ہے۔ جس کی لوگوں کو پوری طرح سمجھ نہیں آتی بلکہ اس کی اصل وجہ اپنا اپنا جھنڈا بلند کرنے کی خواہش، باہمی ضد، اپنی نرالی اپچ دکھانے کی خواہش، ایک دوسرے کو زک دینے کی کوشش یا مال و جاہ کی طلب ہوتی ہے۔ یہی وہ اسباب تھے جو نئے نئے عقائد اور فلسفے، نئے نئے طرز عبادت اور مذہبی مراسم اور نئے نئے نظام حیات ایجاد کرنے کا محرک بنے اور خلق خدا کے ایک بڑے حصے کو دین کی سیدھی اور کشادہ راہ سے ہٹا کر مختلف راہوں میں پراگندہ کردیا اور امت کے ٹکڑے کر ڈالے۔ [١٩] پہلے سے طے شدہ بات یہ ہے کہ انسان کو اختیار دے کر اس دنیا میں اس کا امتحان کیا جائے۔ اور اگر ایسی کرتوتوں کے بدلہ میں ان پر فوراً عذاب نازل کردیا جائے تو امتحان کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ لہٰذا انہیں مہلت دی جاتی ہے۔ اور اس امتحان کا آخری وقت ان کی موت ہے۔ [٢٠] پہلی الہامی کتابیں مشکوک کیسے ہوئیں؟ ان وارثوں کے اپنی الہامی کتابوں کے بارے میں شک میں پڑنے کی کئی وجوہ تھیں جن میں سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کتابوں کی اصل زبان اور اصل عبارت کو محفوظ رکھ کر آنے والی نسلوں تک نہ پہنچایا گیا۔ اور صرف تراجم سے کام لیا جانے لگا۔ اور ان تراجم کو ہی الہامی کتاب سمجھا جانے لگا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ بزرگوں کے اقوال اور الحاقی مضامین ان میں شامل کردیئے گئے۔ حتیٰ کہ ان دونوں قسم کی عبارتوں میں تمیز کرنا مشکل ہوگیا اور تیسری وجہ یہ تھی کہ ان کی تاریخی سند بھی ضائع کردی گئی۔ ان سب باتوں کا اثر یہ ہوا کہ بعد میں آنے والے علماء خود اس کتاب سے شک میں پڑگئے کہ اس کا کون سا حصہ درست اور الہامی ہے اور کون سی عبارت بزرگوں کے اقوال وغیرہ ہیں۔ اور کسی بات کا صحیح فیصلہ کرنے میں یہی شک و شبہ انہیں اضطراب میں ڈالے رکھتا تھا۔ الشورى
15 [٢١] یعنی آپ پر اب جو وحی کی جارہی ہے یہ بالکل پاک صاف اور ستھرا دین ہے جو ہر قسم کی آمیزشوں اور آلائشوں سے مبرا ہے۔ لہٰذا آپ اہل کتاب کی سب باتوں سے بے نیاز ہو کر اسی دین پر ڈٹ جائیے اور اس میں کسی قسم کا رد و بدل اور کمی بیشی گوارا نہ کیجئے۔ نہ ان لوگوں سے کسی قسم کا کوئی مذاکرہ یا سمجھوتہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ ان کے عزائم خطرناک ہیں۔ ایسے لوگوں کو دو ٹوک فیصلہ سنا دیجئے کہ میں تو صرف وہی بات تسلیم کروں گا جو اللہ نے مجھ پر نازل کی ہے۔ [٢٢] یعنی تمہارے فرقوں میں سے کسی کا جانبدار نہ بنوں بلکہ انصاف پسندی سے کام لیتے ہوئے صرف حق بات کہوں اور حق کا ہی ساتھ دوں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ میں اس دنیا میں عدل قائم کرنے پر مامور ہوں اور اگر تمہارا کوئی جھگڑا میرے پاس آئے تو محھے یہی حکم ہے کہ میں انصاف کے ساتھ اس کا فیصلہ کروں۔ [٢٣] یعنی تمہارے اعمال کے نہ ہم ذمہ دار ہیں اور نہ ہمیں ان کا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اگر برے کام کرو گے تو اس کی سزا ہم نہیں بلکہ تم ہی بھگتو گے اور اگر اچھے کام کرو گے تو اس کا اجر بھی تمہیں ہی ملے گا۔ ہمیں نہیں مل جائے گا۔ یہی صورت حال ہمارے اعمال کی ہے۔ ہمارے برے اعمال کے جواب دہ تم نہیں ہوگے۔ نہ ہی ہمارے اچھے اعمال کے تم مستحق بن سکتے ہو۔ [٢٤] کج بحثی سے اجتناب کا حکم :۔ یعنی جہاں تک معقول دلائل پیش کرنے کا تعلق تھا وہ ہم کرچکے۔ اور اگر تم کج بحثی کرنا چاہو تو اس کے لیے ہم تیار نہیں۔ ہمارا تمہارا اختلاف اور جھگڑا اللہ کے سپرد۔ قیامت کے دن وہ ہمیں اور تمہیں سب کو جمع کرے گا۔ وہاں اللہ تعالیٰ خود ہی انصاف کے ساتھ سب جھگڑوں کا فیصلہ کر دے گا۔ الشورى
16 [٢٥] دحض کا لغوی مفہوم :۔ اس آیت میں حُجَّۃٌ کے بجائے دَاحِضَۃٌ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور دحض کے مفہوم میں تین باتیں پائی جاتی ہیں۔ (١) پھسلنا، (٢) کمزور ہونا اور (٣) زائل ہوجانا، اور یہ دحض الرجل سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کہ پاؤں نے ٹھوکر کھائی اور اپنی جگہ سے پھسل گیا اور داحِضَۃٌ کے معنی میں ایسی دلیل ہے جو حق کے مقابلہ میں اپنے پاؤں پر قائم نہ رہ سکے، پھسل کر کمزور اور زائل ہوجائے، یعنی زائل ہوجانے والی اور بودی دلیل۔ مکہ میں اگر کوئی شخص مسلمان ہوجاتا تو اس کے مشرک دوست اور لواحقین ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑجاتے اور اس سے بحثیں اور لڑائی جھگڑے کر کر کے اسے زچ کردیتے اور اس بات پر مجبور کردیتے کہ وہ پھر سے اسلام چھوڑ کر ان کے آبائی دین میں شامل ہوجائے۔ یہ تو انفرادی صورت تھی اور اجتماعی صورت یہ تھی کہ کفار کی مخالفت اور اذیت کے باوجود بھی اسلام پھیل رہا تھا اور مسلمانوں کی تعداد میں دم بدم اضافہ ہو رہا تھا۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے کافر متحد ہو کر میدان میں اتر آئے تھے اور اس دعوت کو روکنے کے لیے کبھی دھمکی، کبھی لالچ، کبھی سمجھوتہ اور کبھی مکمل بائیکاٹ اور کبھی مذاق و استہزاء اور کبھی فضول قسم کے اعتراضات اور بحثوں کے راستے کھولے جارہے تھے۔ اس صورت حال کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب سنجیدہ اور عقل مند طبقہ اسلام کے دلائل سے متاثر ہو کر اس کی حقانیت پر ایمان لاچکا ہے اور اللہ کی توحید کو علی وجہ البصیرت تسلیم کیا جاچکا ہے تو اب کافروں کے یہ جھگڑے عبث اور بے کار ہیں۔ یہ جو کچھ بھی چاہیں کرلیں اللہ ان کی سازشوں کو کبھی کامیاب نہ ہونے دے گا اور حق سربلند ہو کے رہے گا۔ البتہ حق کو دبانے کے لیے جتنا زور یہ صرف کر رہے ہیں اتنا ہی اللہ کا غضب ان پر بھڑکتا ہے اور اتنی ہی شدید سزا انہیں دی جائے گی۔ الشورى
17 [٢٦] اللہ کے میزان اتارنے کے مختلف مفہوم :۔ یعنی اللہ نے صرف حق ہی نازل نہیں فرمایا بلکہ حق معلوم کرنے کا معیار بھی نازل فرمایا اور یہ معیار میزان ہے۔ اللہ نے مادی میزان یا ترازو بھی اتاری جس میں اجسام تلتے ہیں اور علمی ترازو بھی جسے عقل سلیم کہتے ہیں۔ عقل سلیم سرسری نظر میں ہی معلوم کرلیتی ہے کہ حق کس طرف ہے اور باطل کس طرف یا کسی چیز میں حق کا کتنا حصہ ہے اور باطل کا کتنا ؟ علاوہ ازیں اخلاقی ترازو بھی ہے یعنی عدل و انصاف کی ترازو۔ اور سب سے بڑی ترازو کتاب و سنت ہے۔ جو خالق و مخلوق کے حقوق و فرائض کا ٹھیک ٹھیک تصفیہ کرتی ہے جس میں بات پوری تلتی ہے نہ کم نہ زیادہ۔ [٢٧] یعنی شریعت کے ترازو میں رکھ کر اپنے اعمال کا خود ہی محاسبہ کرلو۔ کیا معلوم کہ قیامت کی گھڑی قریب ہی آلگی ہو۔ پھر کچھ نہ ہوسکے گا۔ لہٰذا اچھے اعمال بجا لانے میں جلدی کرلو۔ الشورى
18 [٢٨] یعنی جو لوگ عذاب آخرت اور قیامت کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اور بار بار پوچھتے ہیں کہ وہ کب آئے گی اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ روز آخرت اور اعمال کی باز پرس پر یقین نہیں رکھتے۔ اگر انہیں اس بات کا یقین ہوتا تو کبھی عذاب کے لیے جلدی نہ مچاتے۔ اور جو لوگ روز آخرت پر اور اعمال کی جواب دہی پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ تو اپنے محاسبہ سے ڈرتے رہتے ہیں۔ اور یقین نہ رکھنے والوں کو چونکہ اپنے اعمال کے محاسبہ کا کچھ خوف نہیں ہوتا اس لیے وہ گناہ کے کاموں پر دلیر ہوتے ہیں اور حق اور عدل و انصاف کی راہ سے ہٹ کر اپنی سرکشی اور گمراہی میں بہت آگے نکل جاتے ہیں۔ الشورى
19 [٢٩] لطیف کا مفہوم :۔ لطیف کا معنی عموماً مہربان کرلیا جاتا ہے۔ لیکن اس کا معنی اردو میں کسی ایک لفظ سے ادا نہیں ہوسکتا۔ اس کے مادہ لطف کے بنیادی معنی میں دو باتیں پائی جاتی ہیں (١) دقّت نظر، (٢) نرمی، (مقاییس اللغہ) اور لطیف کے معنی میں کبھی صرف ایک ہی بات یعنی دقت نظر یا باریک بینی یا راز یا چھوٹی چھوٹی جزئیات تک سے آگاہی کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ جیسے ﴿ لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ وَہُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ ﴾(۱۰۴:۶) میں ہے۔ اور کبھی دونوں باتیں پائی جاتی ہیں۔ جیسے اس مقام پر دونوں چیزیں موجود ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی چھوٹی چھوٹی اور رتی رتی تکالیف کا علم اور اس کی خبر بھی رکھتا ہے پھر از راہ مہربانی ان کا ازالہ بھی کردیتا ہے۔ اسی طرح وہ اپنے بندوں کی چھوٹی چھوٹی حاجات اور ضروریات کا خیال رکھتا ہے پھر از راہ مہربانی انہیں پورا بھی کرتا رہتا ہے۔ [٣٠] یعنی اللہ تعالیٰ کا لطف تو عام ہے جو بندوں کو یکساں پہنچ رہا ہے۔ لیکن رزق میں معاملہ اس سے الگ ہے۔ وہ ہر ایک کو یکساں نہیں ملتا۔ بلکہ اپنی حکمت کے پیش نظر کسی کو زیادہ دے دیتا ہے اور کسی کو کم یہ اس کی مشیئت پر منحصر ہے۔ البتہ ہر ایک کو دیتا ضرور ہے۔ جتنا رزق اس نے کسی کے مقدر میں لکھ دیا ہے۔ کوئی طاقت یا کوئی ہستی اس کی مقدار کو نہ بڑھا سکتی ہے اور نہ اس کا رزق کم کرسکتی یا روک سکتی ہے۔ کیونکہ وہ خود سب سے بڑھ کر طاقتور اور زبردست ہے۔ الشورى
20 [٣١] ایک دنیا دار اور دیندار کے انجام کا موازنہ :۔ اس آیت میں دو آدمیوں کے طرز زندگی کا تقابل پیش کیا گیا ہے۔ جن میں سے ایک تو روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور دوسرا اس سے منکر ہے اور سب کچھ اسی دنیا کو ہی سمجھتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ آخرت پر ایمان رکھنے والا شخص جو کام بھی کرے گا آخرت کے لیے کرے گا اور آخرت کے مفاد کو دنیا کے مفاد پر ترجیح دے گا۔ ایسا شخص جو کچھ بھی اس دنیا کی کھیتی میں آخرت کے دن پھل کاٹنے کے لیے بوئے گا اللہ تعالیٰ اس میں بہت زیادہ اضافہ کر دے گا۔ جیسا کہ اس دنیا میں غلہ کا ایک دانہ بیجنے سے بعض دفعہ سات سو سے بھی زیادہ دانے حاصل ہوجاتے ہیں۔ یہ تو اس کی آخرت کا معاملہ تھا۔ اور دنیا میں جتنا رزق یا جتنی بھلائی اس کے مقدر میں ہے وہ بھی اسے مل کے رہے گی۔ اس کے مقابلہ میں جو شخص روزآخرت کا منکر ہے اور بس دنیا ہی دنیا کا مال اور بھلائی چاہتا ہے۔ وہ خواہ کتنی ہی کوشش کر دیکھے اسے اتنی ہی دنیا میں ملے گی جتنی اس کے مقدر میں ہے اس سے زیادہ نہیں۔ رہا اس کی آخرت کا معاملہ تو اگر اس نے دنیا میں کچھ نیک کام کئے بھی ہوں گے تو ان کا اسے کچھ بدلہ نہ ملے گا کیونکہ وہ کام اس نے اس نیت سے کیے ہی نہیں تھے کہ ان کا آخرت میں اسے کچھ بدلہ ملے، نہ ہی اس کا آخرت پر کچھ یقین تھا۔ الشورى
21 [٣٢] اللہ کے مقابلہ میں کن کن لوگوں کا حکم چلتا ہے؟:۔ ظاہر ہے کہ یہاں شریک سے مراد پتھر کے بت نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ وہ نہ سن سکتے ہیں نہ بول سکتے ہیں وہ کسی کو کوئی قانون یا ضابطہ کیا دیں گے؟ لامحالہ اس سے مراد، انسان یا انسانوں کی جماعت ہی ہوسکتی ہے۔ جنہوں نے اللہ کی شریعت کے مقابلہ میں اپنی شریعت چلا رکھی ہو۔ حرام و حلال کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے رکھے ہوں یا لوگوں کے لیے وہ ضابطہ حیات، فلسفے یا نظام پیش کرتے ہوں جو اللہ کی شریعت کے خلاف ہوں اور پھر انہیں لوگوں میں رائج اور نافذ بھی کرتے ہوں۔ اور ایسے لوگ پارلیمنٹ یا ایوانوں کے ممبر بھی ہوسکتے ہیں۔ خود سر حکمران بھی، آستانوں اور مزاروں کے متولی اور مجاور بھی اور گمراہ قسم کے فلاسفر اور مصنف بھی۔ انہیں ہی طاغوت کہا جاتا ہے۔ [٣٣] یعنی اللہ ایسے باغیوں کے بارے میں عفو و درگزر سے کام لیے جاتا ہے اور انہیں فوراً تباہ نہیں کردیتا۔ جس کی وجہ واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو دیئے ہوئے اختیار کو اضطرار میں تبدیل نہیں کرنا چاہتا۔ وہ ہر انسان کو اختیار دے کر ہی اس دنیا میں آزمانا چاہتا ہے۔ البتہ جب یہ اختیار کا عرصہ ختم ہوجائے گا اور وہ اس دنیا سے رخصت ہوجائیں گے تو پھر ایسے ظالموں کو ان کی ساری کرتوتوں کی دردناک سزا دی جائے گی۔ الشورى
22 الشورى
23 [٣٤] الا المودّۃ فی القربیٰ کے مختلف مفہوم :۔ اس جملہ کی کئی تفسیریں بیان کی گئی ہیں مگر بہترین تفسیر وہی ہے جو صحیحین میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے اور وہ یہ ہے : سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کسی نے پوچھا کہ ﴿ا ِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی ﴾ کا کیا مطلب ہے؟ سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے (جھٹ) کہہ دیا کہ اس سے آپ کی آل مراد ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہنے لگے : تم جلد بازی کرتے ہو۔ بات یہ ہے کہ قریش کا کوئی قبیلہ ایسا نہ تھا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ نہ کچھ قرابت نہ ہو تو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر سے فرمایا کہ انہیں کہیے کہ اگر تم اور کچھ نہیں کرتے (مسلمان نہیں ہوتے) تو کم از کم قرابت ہی کا لحاظ رکھو۔ (اور مجھے ایذائیں دینا چھوڑ دو) (بخاری۔ کتاب التفسیر) اس کی دوسری تفسیر یہ بیان کی جاتی ہے کہ یہاں قُرْبٰی سے مراد قرب یا تقرب ہے۔ اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ میں تم سے اس کام پر اس بات کے سوا کوئی اجر نہیں چاہتا کہ تمہارے اندر اللہ کے قرب کی محبت پیدا ہوجائے۔ یعنی تم ٹھیک ہوجاؤ اور اللہ سے محبت کرنے لگو۔ بس یہی میرا اجر ہے۔ تیسرا گروہ اس آیت میں قُرْبٰی سے مراد اقارب لیتا ہے۔ پھر ایک فریق تو اس محبت کو بنی عبدالمطلب سے محبت مراد لیتا ہے۔ اور دوسرا سیدنا فاطمۃ الزھرا رضی اللہ عنہا سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد سے۔ یہ تفسیر درج ذیل وجوہ کی بنا پر غلط ہے۔ مودّۃ فی القربیٰ سے شیعہ حضرات کا استدلال اور اس کا جواب :۔ ١۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رشتہ داری صرف بنو عبدالمطلب سے ہی نہیں تھی۔ بلکہ تقریباً قریش کے سب قبیلوں سے تھی اور بنی عبدالمطلب میں سے کچھ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں تھے اور کچھ سخت دشمن بھی تھے۔ اور ابو لہب کی آپ سے دشمنی تو سب ہی جانتے ہیں۔ یہی حال قریش کے باقی قبیلوں کا تھا۔ لہٰذا اس تخصیص کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی۔ ٢۔ قُرْبٰی سے مراد سیدہ فاطمہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد لینا اس لحاظ سے غلط ہے کہ یہ سورۃ مکی ہے۔ اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح ہی مدینہ جانے کے بعد ہوا تھا۔ ٣۔ اور اس تفسیر کے غلط ہونے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ لوگوں سے ایسا مطالبہ کرنا کہ میں تم سے اس تبلیغ کے کام کا اس کے سوا کوئی اجر نہیں مانگتا کہ تم میرے اقارب سے محبت کرو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان رفیع کے مقابلہ میں یہ مطالبہ انتہائی گھٹیا اور فروتر ہے۔ بالخصوص اس صورت میں کہ وہ مطالبہ بھی کافروں سے ہو۔ کافروں سے بھلا اجرت کے مطالبہ کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے۔ اجرت تو اس سے طلب کی جاسکتی ہے جسے وہ کام پسند آئے اور کافر تو اس تبلیغ کے کام کی وجہ سے آپ کی جان کے لاگوبنے ہوئے تھے۔ ان سے بھلا کوئی ایسا مطالبہ کیا جاسکتا تھا ؟ البتہ یہ واضح رہے کہ آپ کے اہل بیت ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن آپ کی بیٹیوں اور دوسرے تمام اقارب سے محبت رکھنا جن میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد بھی شامل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و تعظیم اور حقوق شناسی کے لحاظ سے اہل ایمان کے لیے ضروری ہے اور ان سے درجہ بدرجہ محبت رکھنا حقیقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہی کا تقاضا ہے۔ اور ایسی محبت کا تقاضا مسلمانوں سے تو کیا جاسکتا ہے، کافروں سے نہیں جبکہ اس آیت میں روئے سخن کافروں سے ہے۔ [٣٥] یعنی جو نیک بننا چاہتا ہے اللہ اسے اور زیادہ نیک بنا دیتا ہے۔ اس کے کام میں اگر کچھ کو تاہیاں رہ گئی ہوں تو انہیں معاف کردیتا ہے اور جو کچھ بھی وہ نیک اعمال بجا لاتے ہیں ان کی قدر شناسی اور حوصلہ افزائی کرتا ہے اور انہیں زیادہ اجر فرماتا ہے۔ الشورى
24 [٣٦] ایک عام آدمی پر بھی ایسا الزام لگانا شدید جرم ہے مگر یہ لوگ اس قدر بے باک ہوگئے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی الزام لگانے سے نہیں چوکتے اور کہتے ہیں کہ یہ قرآن اس نے خود ہی تصنیف کر ڈالا ہے۔ یہ بدبخت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنے ہی جیسا سمجھتے ہیں اور اللہ ایسے ہی بدبختوں کے دلوں پر مہر لگا دیا کرتا ہے۔ اور اگر ان کا الزام درست ہوتا تو اللہ آپ کے دل پر بھی مہر لگا دیتا۔ آپ کے دل پر مہر نہ لگنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ یہی بدبخت جھوٹے اور الزام تراش ہیں۔ [٣٧] یعنی اللہ تعالیٰ باطل کو کبھی پائیداری نصیب نہیں کرتا اور وہ سرنگوں ہوکے رہتا ہے۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حق از خود ثابت اور برقرار ہوجاتا ہے۔ لہٰذا آپ ان کے اس الزام کی مطلق پروا نہ کریں عنقریب ان کا یہ الزام اور جھوٹ واضح ہوجائے گا اور حق نتھر کر سامنے آجائے گا۔ اللہ کا ہمیشہ سے یہی دستور رہا ہے۔ [٣٨] یعنی آپ کو جھٹلانے اور آپ پر اس طرح کے گھناؤنے الزام لگانے کی تہہ میں جو ان کے ذاتی مفادات مضمر ہیں اور جن کی وجہ سے یہ ایسے کام کرتے ہیں اللہ انہیں خوب جانتا ہے۔ الشورى
25 [٣٩] توبہ کی شرائط :۔ یہ خطاب صرف ایمانداروں سے نہیں بلکہ ان کافروں کو بھی شامل ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر الزام تراشیاں کرتے تھے۔ اس آیت میں انہیں اپنی انہی بداعمالیوں سے توبہ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ کافروں کی توبہ اسلام لانا ہے۔ اسلام لانے سے ہی ان کے سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اور اگر اس کا خطاب ایمانداروں سے ہو تو توبہ کی شرائط اپنے گناہ پر نادم ہونا، پھر اللہ کی طرف رجوع اور توبہ استغفار کرنا اور آئندہ اس کام کو مطلقاً چھوڑ دینے کا عہد کرنا ہے۔ توبہ کی سب سے اہم شرط یہی ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے یہ کام چھوڑا جائے۔ اور کوئی شخص کسی دوسری وجہ سے کوئی گناہ کا کام چھوڑ دے تو اس پر توبہ کا اطلاق نہیں ہوگا۔ مثلاً کسی شخص کو معلوم ہوجائے کہ شراب اس کی صحت تباہ کر رہی ہے اور وہ اپنے کئے پرنادم بھی ہوتا اور آئندہ کے لیے شراب نوشی ترک کر دے تو اس پر توبہ کا اطلاق نہیں ہوگا۔ اس طرح کوئی زانی اپنے اس فعل پر نادم ہو اور یہ فعل آئندہ اس لیے ترک کردینے کا عہد کرے کہ اب وہ بوڑھا ہوچکا ہے اور زنا کے قابل ہی نہیں رہا۔ تو یہ اس کی توبہ نہ ہوگی۔ اور اللہ کو تو معلوم ہے کہ کوئی کس نیت سے توبہ کر رہا ہے۔ الشورى
26 [٤٠] دعا کی قبولیت کے لئے نیک اعمال کی شرط :۔ دعا کی قبولیت کے لیے نیک اعمال کی شرط لگائی۔ ان نیک اعمال میں کسب حلال بہت بڑا نیک عمل ہے۔ کیونکہ اگر انسان کی کمائی حلال نہ ہوگی تو اس کی دعا قبول نہ ہوگی جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ایک شخص دور سے آتا ہے پریشان حال اور پراگندہ بال ہے، اور اگر کعبہ کا غلاف پکڑ کر کہتا ہے کہ یارب، یارب میری دعا قبول فرما۔ مگر اس کی دعا کیسے قبول ہوسکتی ہے جبکہ اس کا کھانا حرام پیناد حرام اور گوشت پوست بھی حرام کمائی سے بنا ہو‘‘ (مسلم۔ کتاب الزکٰوۃ، باب بیان ان اسم الصدقۃ یقع علی کل نوع من المعروف) الشورى
27 [٤١] رزق کی کمی بیشی میں اللہ کی حکمتیں :۔ پنجابی زبان کی ایک مختصر سی مثال اس آیت کے مفہوم کو پوری طرح واضح کردیتی ہے۔ مثال یہ ہے ''رج آؤن تے کد آؤن'' یعنی ایک عام دنیادار انسان کی عادت یہ ہے کہ اگر اللہ اسے خوشحالی سے ہمکنار کرے تو وہ کسی کو بھی حتیٰ کہ اللہ کو بھی خاطر میں نہیں لاتا اور سرکشی کی راہ اختیار کرتا ہے۔ یہی صورت حال سرداران قریش کی تھی جو دیہاتی قبائل عرب کی نسبت خوشحال تھے اور اسی خوشحالی نے ان کے دماغوں کو خراب کر رکھا تھا اور اس آیت میں بتایا یہ گیا ہے کہ اگر اللہ سارے ہی لوگوں کو وافر رزق عطا کردے تو اس سے اس کے خزانوں میں تو کچھ کمی نہ آئے گی۔ لیکن لوگ دولت کی مستی میں ہر جگہ اودھم مچا دیں گے۔ اور ایک دوسرے کا جینا بھی حرام کردیں گے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اپنے اندازے اور اپنی حکمت کے مطابق رزق مہیا کرتا ہے۔ تاکہ لوگ اپنے آپے سے باہر نہ ہوں اور دنیا کا نظام بھی ٹھیک طور پر چلتا رہے۔ امیر کام لینے کے لیے غریبوں کے محتاج رہیں اور غریب امیروں کے۔ الشورى
28 [٤٢] بارش اور مصنوعی آبپاشی کا تقابل :۔ زمین کو سیراب کرنے کا کام اگرچہ مصنوعی طریقوں سے یعنی کنوئیں، چشمے، نہر یا ٹیوب ویل کے پانی سے بھی چلا لیا جاتا ہے مگر ایک تو اس پر محنت اور خرچ بہت اٹھتا ہے دوسرے اس کے خوشگوار اثرات بارش کی نسبت بہت کمتر ہوتے ہیں۔ مصنوعی طریق آبپاشی کو اللہ کی رحمت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اللہ کی رحمت بارش ہے اور یہ ایک نہیں بے شمار نعمتوں جیسی نعمت ہے۔ پہلے راحت بخش اور ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں۔ جو انسان کو فطری سرور بخشتی ہیں اور اس کی مایوسی کو دور کرتی ہیں۔ بارش ہوتی ہے تو اس سے موسم میں خوشگوار تغیر آجاتا ہے۔ درختوں پر سے گردوغبار دھل جاتا ہے۔ مصنوعی آبپاشی کی طرح بارش کسی مخصوص قطعہ زمین میں نہیں ہوتی بلکہ وسیع رقبہ میں ہوتی ہے۔ جس سے صرف انسان ہی نہیں اللہ کی ساری مخلوق فیض یاب ہوتی ہے۔ پھر اس پر نہ کچھ لاگت آتی ہے نہ محنت صرف ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں مصنوعی آبپاشی کی صورت میں بھی پانی کے سب ذخیرے بارش ہی کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں۔ لہٰذا دراصل بارش ہی وہ اصل نعمت ہے جس سے اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کی حاجات پوری کرتا ہے۔ اور ولی کا لفظ یہاں یہی معنی دے رہا ہے۔ اور حمید اس لحاظ سے کہ تمام مخلوق اس کی رحمت سے فیض یاب ہو کر اس کے گن گانے لگتی ہے۔ الشورى
29 [٤٣] اس جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمانوں میں اللہ کی بے شمار مخلوق موجود ہے۔ جن میں فرشتے سرفہرست ہیں اور درمیانی فضا میں بھی۔ اور اگر آسمانوں اور زمین سے مراد پوری کائنات لی جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جاندار مخلوق صرف زمین پر ہی موجود نہیں بلکہ اور بھی کئی اجرام میں موجود ہے۔ جس کا انسان کو تاحال علم نہیں ہوسکا۔ [٤٤] یعنی اگر وہ اپنی مخلوق مثلاً انسان کو تمام روئے زمین پر بکھیر سکتا ہے تو پھر انہیں اکٹھا بھی کرسکتا ہے اور اکٹھا کرکے اپنے حضور حاضر بھی کرسکتا ہے۔ الشورى
30 [٤٥] مصائب کی قسمیں اور مختلف اسباب :۔ یہاں ایک عام اصول بیان کردیا گیا ہے کہ اکثر عذاب مثلاً قحط، وبائیں، زلزلے اور سیلاب وغیرہ لوگوں کے اپنے ہی شامت اعمال کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ایک قحط کا عذاب اہل مکہ پر بھی نازل ہوا تھا۔ جو سات سال تک مسلط رہا۔ بارشیں بھی بند ہوگئیں اور باہر سے غلہ آنا بھی بند ہوگیا تھا۔ اس عرصہ میں لوگوں کا یہ حال ہوگیا کہ جانوروں کے چمڑے اور ہڈیاں کھانے تک مجبور ہوگئے۔ شدت بھوک کی وجہ سے یہ حال ہو رہا تھا کہ آسمان کی طرف دیکھتے تو دھواں ہی دھواں نظر آتا تھا۔ اور یہ قحط کفار مکہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی وجہ سے نازل ہوا تھا۔ آخر ابو سفیان نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر قرابت کا واسطہ دیا اور بارش کے لئے دعا کرنے کی درخواست کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے یہ مصیبت دور ہوئی۔ گویا جب اکثر لوگوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے عذاب آتا ہے توہ سب مخلوق کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ انسان کو اکثر بیماریاں غذا میں بد پرہیزی کی وجہ سے لاحق ہوتی ہیں اور دودھ پیتے بچوں کو ماں کی بدپرہیزی کی وجہ سے۔ تاہم اس اصول میں بھی چند مستثنیات موجود ہیں۔ مثلاً ایماندار بندوں پر جو تکلیفیں آتی ہیں وہ ان کی شامت اعمال کا نتیجہ نہیں بلکہ ان کے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہیں۔ حتیٰ کہ مومن کو اگر ایک کانٹا بھی چبھے تو وہ بھی کسی خطا کا کفارہ بن جاتا ہے۔ پھر مصیبتوں اور تکلیفوں کی ایک قسم وہ ہے جو اللہ کے پیغمبروں اور مخلص بندوں کو حق کے راستے میں پیش آتی ہیں۔ ان کے متعلق گناہوں کے کفارہ کا تصور ہی غلط ہے۔ ان کے ذریعہ تو اللہ تعالیٰ ان بزرگ ہستیوں کے درجات بلند کرتا ہے اور ایسے مصائب سب سے زیادہ اللہ کے نبیوں کو پھر درجہ بدرجہ دوسرے مخلص بندوں کو پیش آتے ہیں۔ [٤٦] یعنی اگر اللہ بندوں کے سب برے اعمال کے بدلے ان پر مصائب نازل کرتا تو وہ چند دن بھی جی نہ سکتے تھے۔ یہ تو اللہ کی رحمت ہے کہ وہ اکثر گناہوں پر مؤاخذہ ہی نہیں کرتا ورنہ یہ زمین بھی انسانوں سے بے آباد ہوجاتی۔ الشورى
31 الشورى
32 الشورى
33 [٤٧] قرآن میں اکثر مقامات پر کشتیوں کی روانی کو اللہ کی آیات میں شمار کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ قریش مکہ کو تجارتی سلسلہ میں افریقہ کے ساحلی علاقہ سے تجارت کے لیے بحیرہ احمر کا سفر درپیش رہتا تھا۔ اس دور میں بادبانی کشتیاں ہوتی تھیں جن کی روانی اور رفتار کا انحصار باد موافق پر اور اس کی رفتار پر ہوتا تھا۔ انہیں بتایا یہ جارہا ہے کہ تمہاری بے بسی کا یہ عالم ہے کہ جب تمہاری کشتی وسط سمندر میں پہنچ جائے اور اللہ تعالیٰ ہوا کو ساکن کردے تو بتاؤ اس وقت تم کیا کرسکتے ہو؟ [٤٨] صبار اور شکور دونوں مبالغہ کے صیغے ہیں اور یہ دو ایسے الفاظ ہیں جن میں مومن کی ساری زندگی کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا گیا ہے۔ یعنی مومن پر جب بھی کوئی مصیبت یا تکلیف آتی ہے تو وہ صبر اور برداشت سے کام لیتا ہے۔ اور جب بھی اللہ کی کوئی نعمت ملتی ہے یا اسے بھلائی پہنچتی ہے تو وہ اللہ کا احسان مند ہوتا اور اس کا شکر ادا کرنے لگ جاتا ہے۔ اس کے برعکس ایک کافر اور دنیادار انسان کا یہ وطیرہ ہوتا ہے کہ مصیبت پڑنے پر جزع فزع کرتا، اللہ کی رحمت سے مایوس ہو کر اسے کو سنے لگتا ہے۔ اور جب اسے کوئی بھلائی نصیب ہوتی یا خوشحالی کا دور آتا ہے تو پھر وہ اللہ کو بھول ہی جاتا ہے۔ گویا ایک مومن کو سمندر کے سفر میں صبر اور شکر کا اکثر موقع ملتا رہتا ہے۔ وہ سازگار حالات میں اللہ کا شکر کرتا ہے اور اگر ہوا بند ہوجائے تو اس کی نظر اللہ ہی پر رہتی ہے اور صبر کا مظاہرہ کرتا ہے۔ الشورى
34 [٤٩] یعنی ہوا کو ایک دو دن کے لیے ساکن اور بند ہی رہنے دے یا باد مخالف چلا دے یا کشی کو بھنور میں پھنسا دے یا سمندر کی تلاطم خیز موجوں سے دو چار کر دے اور کشتی کو ڈبو کو تباہ کر دے تو اس کا سبب کشتی پر سوار لوگوں کی بداعمالیاں ہی ہوتی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ ان کی بہت بد اعمالیوں سے تو درگزر ہی کرجاتا ہے۔ الشورى
35 [٥٠] یعنی اللہ کی آیات میں جھگڑا کرنے والے منکرین کو اس دنیا میں بھی ایسا حادثہ پیش آسکتا ہے کہ کوئی جائے پناہ کہیں نہ مل سکے جیسے مثلاً سمندری سفر میں۔ آخرت میں تو یہ لوگ اور بھی زیادہ بے بس اور لاچار ہوں گے۔ الشورى
36 [٥١] یعنی دنیا میں جتنا بھی مال و دولت اور سامان عیش و عشرت کسی کو مل جائے۔ اس سے وہ زیادہ سے زیادہ اپنی موت تک فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ بالآخر اسے بالکل خالی ہاتھ اس دنیا سے رخصت ہونا ہوگا۔ اس کے مقابلہ میں ایمانداروں کو جو آخرت میں سامان عیش و عشرت ملے گا۔ وہ سامان بھی لافانی اور لازوال ہوگا اور ایماندار لوگ ان اشیاء سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ انہیں کبھی موت نہیں آئے گی۔ لہٰذا عقلمند انسان وہ ہے جو ناپائیدار اور فنا ہونے والے سامان کے بجائے دائمی اور پائیدار زندگی اور اس کے سامان کی فکر کرے۔ [٥٢] توکل کا معنی اور یہ مومن کی اہم صفت ہے :۔ یعنی جب ظاہری اسباب مفقود نظر آرہے ہوں، حالات مایوس کن ہوں۔ اس حال میں بھی وہ مایوس اور شکستہ دل نہیں ہوجاتے بلکہ اس حال میں بھی ان کی آنکھ اللہ کی طرف لگی رہتی ہے اور وہ اللہ کے وعدہ پر پورا یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ضرور اس مشکل سے نکالنے کی کوئی راہ پیدا کردے گا اور اسی کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اگر ان کے پاس ظاہری سامان موجود بھی ہو تو وہ اس پر بھروسا نہیں کرتے بلکہ ان کا بھروسا اللہ کی ذات پر ہی ہوتا ہے۔ گویا ظاہری اسباب موجود ہوں یا مفقود، تھوڑے ہوں یا زیادہ، مومن آدمی ان اسباب کو فراہم کرنے کی کوشش ضرور کرتا ہے مگر اس کا ان اسباب پر تکیہ نہیں ہوتا۔ تکیہ اللہ کی ذات پر ہی ہوتا ہے گویا اللہ پر توکل ایک مومن کی نہایت اہم صفت ہے جسے اللہ نے سب سے پہلے بیان فرمایا۔ اسی طرح اللہ پر عدم توکل ایک مسلمان کی بہت بڑی کمزوری ہے۔ جنگ حنین کے موقعہ پر ہر مسلمان ظاہری اسباب اور اپنی کثرت تعداد پر نازاں ہوئے تو اللہ نے انہیں عارضی طور پر شکست سے دوچار کرکے فوراً انہیں اس کمزوری پر متنبہ کردیا۔ توکل کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ بس انسان اللہ پر توکل کرکے بیٹھ جائے۔ اور ظاہری اسباب کی فکر ہی چھوڑ دے۔ بلکہ حکم یہ ہے کہ حتی الامکان ظاہری اسباب مہیا کرے اور اپنی مقدور بھر کوشش بھی کرے پھر اس کے انجام کو اللہ کے سپرد کر دے۔ چنانچہ آپ نے توکل کی تعریف یوں فرمائی کہ پہلے اپنے اونٹ کا گھٹنا باندھ پھر توکل کر۔ (طبرانی۔ بروایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بحوالہ الموافقات للشاطبی، ج ١ ص ٢٩٠) اور کسی شاعر نے اس مفہوم کو یوں ادا کیا ہے : توکل کے یہ معنی ہیں کہ خنجر تیز رکھ اپنا پھر انجام اس کی تیزی کا مقدر کے حوالے کر الشورى
37 [٥٣] بڑے بڑے گناہوں کی تفصیل کے لیے سورۃ نساء کی آیت نمبر ٣١ کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیے : [٥٤] فحاشی اور اس کا دائرہ :۔ فحاشی سے مراد ہر وہ کام ہے جو انسان کی قوت شہوانیہ سے تعلق رکھتا ہو۔ اسلام نے جنسی چھیڑ چھاڑ اور حاجت پوری کرنے کے لیے شرعی نکاح کی راہ کھول دی ہے۔ اس کے علاوہ جو بھی طریقے ممکن ہیں ان سب پر پابندی لگا دی ہے۔ مثلاً زنا، اغلام، لواطت، مشت زنی، عورتوں کی عورتوں سے ہمبستری۔ جانوروں سے بدفعلی وغیرہ۔ سب حرام اور بدترین جرم ہیں۔ اور ان سب کو ﴿فَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ ﴾ کہا جاتا ہے اور جو باتیں زنا سے قریب لے جانے والی ہیں وہ سب فواحش میں داخل ہیں۔ مثلاً بدنظری یا غیر محرم کی طرف دیکھنا، عورتوں کا اپنی زینت اور حسن کے مقامات کی کھلے بندوں نمائش کرنا۔ آزادانہ اختلاط مرد و زن، فحش گالی گلوچ، غیر مرد اور غیر عورت کی خلوت، یا عورتوں کا بغیر محرم کے سفر کرنا وغیرہ وغیرہ۔ علاوہ ازیں فحش قسم کی خبروں کو پھیلانا بھی فحاشی میں داخل ہے آج کل فحاشی کی اشاعت کی اور بھی بہت سی صورتیں پیدا ہوچکی ہیں۔ مثلاً تھیٹر، سنیما گھر، کلب ہاؤس، ہوٹل، ریڈیو پر زہد شکن گانے، ٹی وی پر شہوت انگیز پروگرام، فحاشی پھیلانے والا لٹریچر، ناول، افسانے اور ڈرامے وغیرہ۔ اخبارات و اشتہارات وغیرہ میں عورتوں کی عریاں تصاویر۔ غرضیکہ فحاشی کی اشاعت کا دائرہ آج کل بہت وسیع ہوچکا ہے۔ ایمانداروں کا کام یہ ہے کہ ایسے فحاشی کے سب کاموں سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بچنے کی تلقین کریں۔ [٥٥] غصہ اور اس کا جائز استعمال :۔ اس جملہ میں قوت غضبیہ پر کنٹرول رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ غصہ میں عموماً آدمی کی عقل پر جذبات غالب آجاتے ہیں اور بعض دفعہ وہ ایسی غلط حرکتیں کر بیٹھتا ہے جن پر اسے بعد میں سخت ندامت ہوتی ہے۔ مومن کی سرشت انتقامی نہیں ہوتی وہ اپنی ذات سے متعلق انتقام کے معاملہ میں اللہ سے ڈر کر درگزر اور چشم پوشی سے کام لیتے ہیں اور اگر کسی بات پر غصہ آجائے تو اسے پی جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ غصہ اتنی بری چیز نہیں کہ انسان کو کسی وقت بھی نہ آئے بلکہ جہاں دین کی تضحیک ہو رہی ہو اللہ کی آیات کا مذاق اڑایا جارہا یا خلاف شرع کام ہو رہا ہو وہاں انسان کو غصہ آنا ہی چاہئے۔ غصہ اگر کلیتاً بری ہی چیز ہوتی تو اللہ اسے پیدا ہی نہ کرتا۔ اسے ہم دوسرے الفاظ میں دینی حمیت یا غیرت بھی کہہ سکتے ہیں اور ایسے مقام پر غصہ بعض دفعہ بڑے بڑے اٹھتے ہوئے فتنوں کو دبا دیتا ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ ایسا ہی تھا۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ’’اللہ کی قسم! آپ نے اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام نہیں لیا جب وہ آپ کے سامنے لایا گیا۔ البتہ اگر کسی نے اللہ کی قابل احترام باتوں کی توہین کی تو آپ نے اللہ کے لیے اس سے بدلہ لیا‘‘ (بخاری۔ کتاب الحدود۔ باب اقامۃ الحدود والانتقام لحرمات اللہ) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب غصہ آیا تو آپ کا چہرہ سرخ ہوجاتا جیسے کسی نے چہرہ پر انار نچوڑ دیا جو مثلاً فاطمہ مخزومی قریشی کی چوری کا مقدمہ پیش ہوا تو قریشیوں نے سیدنا اسامہ بن زید کو سفارش کے لیے کہا۔ سیدنا اسامہ نے سفارش کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ غصہ سے سرخ ہوگیا اور فرمایا :’’اسامہ! تم اللہ کی حدود میں سفارش کرتے ہو؟‘‘ (بخاری۔ کتاب الحدود۔ باب کراھیۃ الشفاعۃ فی الحد۔۔) اسی طرح ایک دفعہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے عشا کی نماز میں سورۃ بقرۃ شروع کردی ایک دیہاتی نے نماز توڑ کر اپنی الگ نماز پڑھ لی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ بات پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا معاذ پر سخت ناراض ہوئے اور تین بار فرمایا : ''افتّان انت یا معاذ؟" ’’معاذ کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالتے ہو؟‘‘ (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب من لم یر اکفار من قال ذلک متاوّلا او جاھلا) اور ایسی اور بھی مثالیں بہت ہیں۔ غصہ کو ضبط کرنے کا حکم :۔ رہا ذاتی انتقام کا مسئلہ تو اس کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ پہلوان وہ نہیں ہے جو کسی کو کشتی میں پچھاڑ دے بلکہ وہ ہے جو غصہ کی حالت میں اپنے آپ کو ضبط میں رکھے‘‘ (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب الحذر من الغضب) نیز سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ : مجھے کچھ نصیحت فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’غصہ مت کیا کر۔ اس نے دوبارہ، سہ بارہ یہی بات پوچھی تو آپ ہر بار یہی کہتے رہے کہ غصہ مت کیا کر‘‘ (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب الحذر من الغضب) الشورى
38 [ ] ٥٦] مشورہ اور اس کے متعلقات :۔ مشورہ سے متعلق قابل ذکر امور یہ ہیں : (١) مشورہ انفرادی امور میں کیا جاسکتا ہے جیسا کہ آپ نے واقعہ افک کے دوران کئی صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ لیا اور اجتماعی امور میں بھی جیسا کہ اس آیت سے واضح ہے۔ (٢) مشورہ صرف اسی سے لینا چاہئے جو مشورہ دینے کی اہلیت رکھتا ہوں۔ ہر کس و ناکس سے نہ مشورہ لینے کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ کوئی لیتا ہے۔ اجتماعی امور میں مومنوں کا امیر مجلس شوریٰ منتخب کرتا ہے اور اس سے مشورہ لیتا ہے۔ (٣) مشورہ صرف ایسے امور میں کیا جاسکتا ہے۔ جہاں کتاب و سنت میں کوئی صریح حکم موجود نہ ہو۔ اور اس کا تعلق بالعموم تدبیری امور سے ہوتا ہے۔ جیسا کہ آپ نے اسارٰی بدر کے معاملہ میں صحابہ سے مشورہ کیا تھا کہ انہیں قتل کردیا جائے یا فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے یا جنگ احد کے متعلق یہ مشورہ کیا تھا کہ یہ جنگ مدینہ میں رہ کر لڑی جائے یعنی صرف مدافعت کی جائے یا کھلے میدان میں لڑی جائے۔ (٤) مشورہ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ زیر بحث مسئلہ کے سب پہلو سامنے آجائیں۔ اور جو پہلو اقرب الی الحق ہو اسے اختیار کیا جائے۔ مختصر لفظوں میں اس کا مقصد دلیل کی تلاش ہوتا ہے۔ (٥) اس مقصد کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ ہر صاحب مشورہ کو اپنی رائے کے اظہار کی پوری آزادی دی جائے۔ (٦) یہ تشخیص کرنا کہ اقرب الی الحق کون سا پہلو ہے؟ میر مجلس کا کام ہے۔ اس کا انحصار آراء کی کثرت اور قلت پر نہیں۔ بلکہ اگر ایک دو شخصوں کی رائے بھی اقرب الی الحق ہو تو اسے ہی اختیار کیا جائے گا۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اساریٰ بدر کے موقعہ پر فرمایا تھا کہ اگر سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ دونوں ایک رائے پر متفق ہوجاتے تو میں اسی کے مطابق عمل کرتا۔ یا جنگ احد کے متعلق آپ کو یہ مشورہ دینے والے کہ جنگ کھلے میدان میں لڑی جائے چند جوشیلے نوجوان مسلمان تھے لیکن آپ نے ان کی قلت کے باوجود انہی کی رائے کو اختیار کیا۔ (٧) آخری فیصلہ کا اختیار میر مجلس کو ہوتا ہے۔ جیسے فرمایا : ﴿فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ﴾(۱۵۹:۳)جب کسی فریق کے پاس کوئی دلیل موجود نہ ہو یا دونوں طرف دلائل یکساں ہوں تو اس وقت کثرت رائے کے مطابق فیصلہ کیا جاسکتا ہے اور ایسی صورت میں کثرت ہی بذات خود ایک دلیل بن جاتی ہے۔ اس طرح قطع نزاع تو ہوجاتا ہے مگر اس صورت میں وضوح حق ضروری نہیں۔ اور اس کی مثال بالکل قرعہ اندازی کی سی ہوتی ہے۔ اسلام میں خلیفہ کا انتخاب :۔ رہی یہ بات کہ آیا امیر کا انتخاب بھی مشورہ سے ہوگا یا یہ معاملہ مشورہ سے باہر ہے۔ تو اکثر علماء کا خیال ہے یہ معاملہ مشورہ سے باہر ہے۔ اس پر پہلی دلیل یہ ہے کہ یہ سورۃ مکی ہے جبکہ مسلمانوں کی ریاست کا تصور تک نہ تھا اور دوسری دلیل یہ ہے کہ مسلمانوں کا اولین امیر خود نبی ہوتا ہے اور اس کے انتخاب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تیسری دلیل یہ ہے کہ خلفائے راشدین کا انتخاب کسی ایک مخصوص طریق پر نہیں ہوا۔ پہلے خلیفہ کا انتخاب صرف مدینہ میں بعض صحابہ کے اجتماع میں ہوا۔ سیدنا عمر نے نام پیش کرکے بیعت کی۔ پھر سب نے بیعت کرلی۔ دوسرے خلیفہ سیدنا عمررضی اللہ عنہ کو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نامزد کیا۔ تیسرے خلیفہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو ایک چھ رکنی کمیٹی نے منتخب کیا اور چوتھے خلیفہ کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں نے زبردستی نامزد کیا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے۔ خلیفہ یا امیر المؤمنین کا سب مسلمانوں کے مشورہ کے تحت منتخب ہونا ضروری نہیں۔ مسلمانوں کا امیر جس راستے سے آئے اگر ان کو کتاب و سنت کے مطابق چلاتا ہے تو وہ ان کا فی الواقع امیر ہے، ورنہ نہیں۔ (مزید تفصیلات کے لیے میری تصنیف خلافت و جمہوریت ملاحظہ فرمائیے) الشورى
39 [٥٧] ظلم کے مقابلہ میں ڈٹ جانا اور ظالم سے بدلہ لینا :۔ یعنی متکبر اور جابر قسم کے لوگ ان پر زیادتی کرتے ہیں تو وہ ان کے آگے دبتے نہیں بلکہ ان کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں۔ کمزوری نہیں دکھاتے جیسا کہ مکہ میں مسلمانوں نے کافروں کے مصائب برداشت کئے مگر ان کے آگے جھکے نہیں۔ اور اگر ان میں بدلہ لینے کی ہمت ہو تو بدلہ لے کے چھوڑتے ہیں۔ ان کی شان یہ ہوتی ہے کہ جب غالب ہوں تو اگر چاہیں تو مغلوب کو معاف بھی کردیں اور چاہیں تو اتنا ہی بدلہ لے لیں جتنی ان پر زیادتی ہوئی ہو اور معاف کرنا ہی بہتر سمجھتے ہیں۔ لیکن جب کوئی طاقتور اپنی طاقت کے زعم میں ان پر دست درازی کرے تو اس کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوجاتے ہیں کسی ظالم یا متکبر کے سامنے جھکتے یا دبتے نہیں۔ الشورى
40 [٥٨] یعنی اگر کوئی برائی اور زیادتی کا بدلہ لینا ہی چاہے تو اتنا ہی لے جتنی اس پر زیادتی ہوئی ہے۔ اور اگر اس کے معاف کردینے سے آپس میں صلح ہوسکتی ہو یا بگڑے ہوئے حالات سنور سکتے ہوں اور حالات کے بہتر ہوجانے کی بنا پر معاف کرے تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہوگا۔ [٥٩] یعنی اگر وہ بدلہ لینے میں زیادتی کرے گا تو وہ مظلوم ہونے کے بجائے خود ظالم بن جائے گا اور اللہ ظالموں کو کبھی پسند نہیں کرتا۔ الشورى
41 الشورى
42 [٦٠] زیادتی کا بدلہ لینے کے اصول :۔ یعنی جو لوگ بدلہ لینا ہی چاہیں مگر بدلہ لینے میں زیادتی نہ کریں وہ مورد الزام نہیں۔ مورد الزام وہ لوگ ہیں جو ظلم کی ابتدا کرتے ہیں اور بلاوجہ کرتے ہیں۔ پھر اگر بدلہ لیں تو بدلہ لینے میں بھی حد سے بڑھ جاتے اور مزید ظلم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ دراصل فسادی ہیں جن کا بدلہ دردناک عذاب ہے۔ الشورى
43 [٦١] یعنی زیادتی کو برداشت کر جانا بذات خود بڑی ہمت اور حوصلہ کا کام ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پہلوان وہ نہیں جو کشتی میں دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ کو کنٹرول اور ضبط میں رکھے۔ پھر اگر وہ صرف برداشت ہی نہ کرے بلکہ زیادتی کرنے والے کو معاف بھی کردے تو پھر اس کے کیا ہی کہنے ہیں؟ مگر یہ بڑے ہی دل گردہ کا کام ہے اور صرف ان لوگوں کو نصیب ہوتا ہے جنہیں اللہ کی توفیق حاصل ہو۔ الشورى
44 [٦٢] یعنی ان لوگوں کو کتاب وہ دی گئی جو ہدایت انسانی کے لیے بہترین کتاب ہے اور رسول وہ بھیجا گیا جس کی سیرت و کردار کی بلندی میں ان کو بھی کوئی شک نہیں۔ پھر بھی اگر یہ لوگ ہدایت قبول نہیں کرتے تو اللہ ایسے لوگوں کو کبھی ہدایت نہیں دیا کرتا۔ [٦٣] یعنی آج دنیا میں یہ اپنی سرکشی کی حالت کو چمٹ تو سکتے ہیں مگر پلٹتے نہیں اور اس دن اپنی حالت کو پلٹنے کی کوئی گنجائش نہ ہوگی تو اس دن پلٹنے کی راہ پوچھیں گے اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ پوچھیں گے کیا ہمارے دوبارہ واپس دنیا میں جانے کی کوئی صورت ہے تاکہ ہم بھی نیک عمل کرسکیں۔ الشورى
45 [٦٤] جیسے کبوتر بلی کو دیکھ کر اپنی موت کے ڈر سے آنکھیں بند کرلیتا ہے ویسے ہی جب وہ جہنم کے عذاب کو دیکھیں گے تو ڈر اور ذلت کی وجہ سے آنکھیں بند کریں گے۔ پھر جب مزید گھبراہٹ پیدا ہوگی تو کن اکھیوں سے جہنم کی طرف دیکھیں گے جس میں عنقریب وہ ڈالے جانے والے ہوں گے۔ [٦٥] یعنی یہ بدبخت صرف خود ہی گمراہ نہ ہوئے بلکہ اپنے ساتھ اپنے متعلقین اور گھر والوں کو بھی لے ڈوبے سبھی کو تباہ و برباد کرکے چھوڑا۔ الشورى
46 الشورى
47 [٦٦] یعنی دنیا میں ان سے عذاب ٹلتا رہا اور انہیں مہلت دی جاتی رہی۔ مگر اس دن ایسی کوئی صورت نہ ہوگی اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ جو عذاب اللہ نے ان کے لیے مقرر کردیا ہے کسی میں ہمت نہ ہوگی کہ وہ اسے ان سے ٹال سکے۔ [٦٧] نکیر کے مختلف مفہوم :۔ نکیر کا مادہ نکر ہے اور اس میں بنیادی طور پر دو باتیں پائی جاتی ہیں۔ (١) اجنبیت، (٢) ناگواری (نکرہ کی ضد معرفہ ہے) نکر بمعنی ناگوار۔ نازیبا اور نامعقول چیز اور نکیر کے معنی ناگوار، نازیبا، نامعقول چیز بھی اور ایسی چیز کو دیکھ کر ناک بھوں چڑھانا یا ناراضگی کا اظہار کرنا بھی اور نکر کے معنی کسی چیز کو بگاڑ دینا اور اس کی شکل بدل دینا بھی ہے۔ اس لحاظ سے اس جملہ کے کئی معنی بن سکتے ہیں۔ ایک تو ترجمہ سے واضح ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ تم اجنبی نہیں ہوگے سب تمہیں جانتے پہچانتے ہوں گے۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ بھیس بدل کر چھپ نہ سکو گے۔ چوتھا مطلب یہ ہے کہ اس دن تم جیسی بھی حالت میں ہوگے اس میں کوئی تبدیلی نہ لاسکو گے۔ الشورى
48 [٦٨] ] یعنی ہم نے آپ پر یہ ذمہ داری نہیں ڈالی کہ انہیں راہ راست پر لاکے چھوڑو۔ نہ ہی آپ سے ایسی باز پرس ہوگی۔ [٦٩] ایک دنیا دار انسان کسی حال میں بھی اللہ کی طرف رجوع نہیں کرتا :۔ دراصل ایسی آیات کے مخاطب قریش مکہ ہی تھے۔ لیکن قرآن کا انداز بیان یہ ہے کہ وہ مخاطب کی کمزوریوں کا ذکر کرتے ہوئے براہ راست انہیں مخاطب نہیں کرتا تاکہ وہ اپنی اصلاح کرنے کے بجائے اور نہ چڑ جائیں۔ اسی لحاظ سے اس آیت میں ایک عام دنیادار انسان کی فطرت بیان کی گئی ہے کہ جب اس پر بھلے دن آتے ہیں تو اترانے لگتا ہے اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتا۔ اور جب برے دن آتے ہیں اور یہ برے دن بھی ان کی اپنی شامت اعمال سے آتے ہیں تو اس وقت وہ اپنے پروردگار کو کو سنے لگتا ہے اور اللہ کے ان سارے انعامات کو بھول جاتا ہے جو اس نے اسے خوشحالی کے دور میں عطا کئے ہوئے تھے اس طرح نہ خوشحالی اس کی اصلاح میں مددگار ثابت ہوتی ہے اور نہ ہی بدحالی اسے راہ راست پر لا سکتی ہے کسی حال میں بھی ان کی طبیعت اللہ کی طرف رجوع کرنے پر آمادہ نہیں ہوتی۔ الشورى
49 الشورى
50 [٧٠] اولاد کے بارے میں انسان کی بے بسی :۔ اس سے پہلی آیت کا آغاز یوں فرمایا کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے۔ بالفاظ دیگر اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کائنات میں جملہ تصرفات صرف اللہ اکیلے کے ہاتھ میں ہیں۔ پھر ان تصرفات کے صرف ایک پہلو کو دلیل کے طور پر پیش فرمایا ہے کہ دیکھ لو انسان اولاد کے بارے میں کس قدر بے بس ہے۔ انسان کی فطری خواہش یہ ہوتی ہے کہ اس کے ہاں اولاد ہو۔ مگر اللہ جسے بانجھ بنا دے یا اولاد نہ دینا چاہے وہ خواہ کتنے ہی جتن کر دیکھے اس کے ہاں اولاد نہیں ہوتی۔ اس کی دوسری خواہش یہ ہوتی ہے کہ اس کے ہاں بیٹے ہوں بیٹیاں نہ ہوں۔ لیکن اللہ بعض لوگوں کو بیٹیاں ہی دیئے جاتا ہے اور اس طرح بعض دفعہ بڑے بڑے متکبروں کی اکڑ توڑ کے رکھ دیتا ہے اور وہ کچھ بھی مداوا نہیں کرسکتے۔ اور کسی کو ایک آدھ لڑکی کی خواہش کے باوجود صرف لڑکے ہی لڑکے دے دیتا ہے کبھی کسی کے ہاں جڑواں بچے پیدا ہوجاتے ہیں اور کسی کے ہاں بیک وقت تین، چار، پانچ بچے بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ بالخصوص جب سے دنیا میں خاندانی منصوبہ بندی کا چرچا شروع ہوا ہے۔ ایسے واقعات بکثرت سامنے آنے لگے ہیں۔ یہ گویا قدرت کی طرف سے خلاف فطرت کام کرنے والوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ الغرض انسان اولاد کی تمنا رکھنے کے باوجود اس مسئلہ میں اس قدر بے بس ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی دوسری ہستی کوئی بت کوئی آستانہ اور کوئی پیر پیغمبر اس کی کچھ مدد نہیں کرسکتے۔ بلکہ پیغمبر اس سلسلہ میں خود بھی ایسے ہی بے بس ہیں جیسے عام انسان مثلاً سیدنا لوط (علیہ السلام) اور سیدنا شعیب (علیہ السلام) کی بیٹیاں ہی بیٹیاں تھیں۔ بیٹا کوئی نہ تھا۔ الشورى
51 [٧١] وحی کے مختلف طریقے :۔ اس آیت میں لفظ وحیا اپنے لغوی معنی (سریع اور تیز اشارہ۔ یعنی القاء و الہام) کے معنوں میں آیا ہے اور لفظ یوحی اپنے اصطلاحی معنوں میں (یعنی اللہ کا اپنے نبی کو فرشتہ کے ذریعہ پیغام بھیجنا) استعمال ہوا ہے۔ گویا اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے کسی انسان سے کلام کرنے کے تین طریقے مذکور ہیں : (١) القاء یا الہام۔ اس قسم کی وحی غیر نبی کو بھی ہوسکتی ہے۔ جیسے ام موسیٰ کو ہوئی تھی۔ (٢٨: ٧) بلکہ غیر انسان کی طرف بھی ہوسکتی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی (١٦: ٦٨) اور ایسی وحی انبیاء کو خواب میں بھی ہوسکتی ہے۔ جیسے سیدنا ابراہیم کو یہ خواب آیا تھا کہ میں اپنے بیٹے کو ذبح کر رہا ہوں۔ (٣٧: ١٠٢) (٢) دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پردے کے پیچھے سے بات کرے اور پردہ کا مطلب ہے کہ انسان اللہ کا کلام سن تو سکتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو دیکھ نہیں سکتا۔ انسان کے اس مادی جسم اور ان ظاہری حواس سے اللہ تعالیٰ کا دیدار ناممکن ہے۔ ایسی بات چیت اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے کوہ طور کے دامن میں کی تھی۔ مگر آپ دیدارِ الٰہی کی تمنا اور سوال کے باوجود اللہ تعالیٰ کو دیکھ نہیں سکے تھے۔ (٣) فرشتہ بھیجنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ جبرئیل علیہ السلام نبی کے دل پر نازل ہو اور اسے اللہ کا پیغام پہنچائے۔ تمام کتب سماویہ کا نزول اسی طرح ہوا ہے۔ اور دوسری یہ کہ فرشتہ انسانی شکل میں سامنے آکر کلام کرے۔ جیسے فرشتے سیدنا ابراہیم اور سیدنا لوط علیہ السلام کے پاس آئے تھے۔ اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے اسحق علیہ السلام کی خوشخبری دی تھی۔ اور سیدنا لوط علیہ السلام کو ان کی قوم پر عذاب آنے کی خبر دی تھی اور ایسی وحی غیر نبی کی طرف بھی ہوسکتی ہے جیسے سیدنا جبرئیل علیہ السلام نے سیدہ مریم کے سامنے آکر بیٹے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت دی تھی۔ الشورى
52 [٧٢] آپ کو وحی کی تمام صورتوں میں وحی ہوئی :۔ اسی طرح سے مراد یہ ہے کہ ہم نے ان تمام قسموں کی وحی آپ کی طرف بھی کی ہے۔ القاء والہام سے متعلق سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ پہلے جو وحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوئی وہ سچا خواب تھا جو کچھ آپ نیند کی حالت میں دیکھتے وہ (بیداری میں) صبح کی روشنی کی طرح ظاہر ہوتا۔ (بخاری۔ باب کیف کان بدء الوحی) ایسا ہی خواب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صلح حدیبیہ سے پیشتر آیا تھا کہ مسلمان امن و اطمینان سے کعبہ کا طواف اور عمرہ کر رہے ہیں جس کا ذکر سورۃ فتح کی آیت نمبر ٢٧ میں موجود ہے۔ جس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کا خواب بھی وحی ہوتا ہے۔ دوسری صورت اللہ تعالیٰ کا پردہ کے پیچھے سے بات کرنا ہے۔ وحی کی یہ صورت آپ کو واقعہ معراج کے دوران پیش آئی جبکہ نمازیں فرض ہوئی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے کئی بار ہم کلام ہوئے تھے اور اس کا ذکر سورۃ نجم کی آیات نمبر ٩ اور ١٠ میں موجود ہے۔ تیسری صورت جبرئیل علیہ السلام کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر نازل ہونے کی ہے۔ اور قرآن سارے کا سارا اسی صورت میں نازل ہوا ہے۔ یہ صورت آپ کے لیے سخت تکلیف دہ ہوتی تھی۔ پہلے آپ گھنٹیاں بجنے جیسی آوازیں سنتے تھے۔ یہ گویا ایک قسم کا انتباہ ہوتا تھا۔ جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رشتہ اس مادی دنیا سے کٹ کر عالم بالا سے جڑ جاتا تھا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حواس ظاہری کام نہیں کرتے تھے۔ اور تمام تر توجہ وحی کی طرف مبذول ہوجاتی تھی۔ اس شدت تکلیف سے آپ کو بعض دفعہ سخت سردی کے موسم میں بھی پسینہ آجاتا تھا۔ نیز اس وقت آپ پر شدید بوجھ پڑتا تھا۔ چنانچہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ مجھ سے وحی لکھوا رہے تھے۔ آپ کی ران میری ران پر تھی۔ وحی آنے سے آپ کی ران اتنی بھاری ہوگئی کہ میں ڈرا کہ کہیں میری ران (بوجھ سے) ٹوٹ نہ جائے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ سورۃ النساء۔ باب﴿لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ ﴾ اگر آپ اونٹنی پر سوار ہوتے اور وحی آنا شروع ہوتی تو اونٹنی بوجھ کے مارے بیٹھ جاتی تھی۔ اور چوتھی صورت سیدنا جبرئیل کے انسانی شکل میں آپ کے سامنے آکربات کرنے کی ہے۔ حدیث جبرئیل کے مطابق سیدنا جبرئیل علیہ السلام اس وقت ایک اجنبی انسان کی شکل میں آئے تھے۔ اور بسا اوقات جبرئیل علیہ السلام دحیہ کلبی کی شکل میں آپ کے پاس آتے تھے۔ [٧٣] روح سے یہاں مراد صرف قرآن نہیں بلکہ ہر طرح کی وحی ہے جس کا تفصیلی ذکر سابقہ حاشیہ میں کیا گیا ہے۔ [٧٤] یعنی نبوت ملنے سے پہلے آپ کو اس بات کا خواب و خیال تک نہ تھا کہ آپ کو نبوت یا کتاب الٰہی ملنے والی ہے یا ملنی چاہئے۔ اسی طرح آپ ایمان کی تفصیلات سے واقف نہ تھے۔ صرف اتنا ہی جانتے تھے کہ اس کائنات کا خالق و مالک صرف اللہ ہی اکیلا ہے اس کے سوا کوئی دوسرا اس کے اختیارات میں شریک اور اس کا ہمسر نہیں۔ لیکن آپ یہ نہیں جانتے تھے کہ اس ایمان کے تقاضے کیا ہیں! نیز یہ بھی معلوم نہ تھا کہ اللہ کی کتابوں، نبیوں، فرشتوں اور روز آخرت پر بھی ایمان لانا ضروری ہے۔ [٧٥] یعنی اس کتاب قرآن کو روشنی بنا دیا ہے اور اس روشنی میں ہدایت کی راہ صاف صاف نظر آنے لگتی ہے۔ اور جو لوگ قرآن کی اس روشنی سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، ہم انہیں سعادت و فلاح کے راستہ پر لے چلتے ہیں۔ [٧٦] ہدایت کے سرچشمے کون کون سے ہیں؟ ان دو آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہدایت کے ذرائع تین ہیں اور اقسام دو ہیں۔ پہلی قسم کی ہدایت یہ ہے کہ کوئی شخص کفر و شرک کو چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوجائے۔ اور ایسی ہدایت خالصتاً اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ ورنہ قرآن جیسی دل نشین اور پر تاثیر کتاب ہو اور اس کے مبلغ افضل الانبیاء ہوں تو چاہئے تو یہ تھا کہ سب قریش مکہ ایمان لے آتے مگر آپ کی انتہائی تمنا اور سعی کے باوجود ایسا نہ ہوسکا۔ ہدایت کی دوسری قسم یہ ہے کہ جو لوگ اسلام لے آئے ہیں ان کی سیدھی راہ کے لیے رہنمائی کی جائے۔ اور یہ کام قرآن کے ذریعہ سے ہوتا ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے بھی۔ اور آپ کے بعد صحابہ اور علماء کرام کے ذریعہ سے۔ الشورى
53 [٧٧] یعنی جو رستہ یہ قرآن دکھاتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی رہنمائی کرتے ہیں وہی اس اللہ کا راستہ ہے جو فرمانروائے کائنات ہے۔ اسی راہ پر چل کر انسان اللہ تعالیٰ تک پہنچتا ہے اور جو اس راہ سے بھٹکا تو وہ اللہ کی راہ نہیں، سب شیطان کی راہیں ہیں۔ [٧٨] یعنی صرف انسان ہی نہیں، ان کے اعمال و افعال اور دوسرے سب امور کا انجام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ لہٰذا انسان کو اس دنیا میں بقائمی ہوش و حواس وہ راہ اختیار کرنا چاہئے جو سیدھی اللہ کی بارگاہ تک پہنچتی ہو۔ الشورى
0 الزخرف
1 الزخرف
2 [١] واضح کتاب کا لفظ بڑا وسیع مفہوم اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ کیونکہ یہ کتاب بہت سی باتوں کی وضاحت کرتی ہے۔ مثلاً یہ کتاب شرک کی جملہ اقسام کی وضاحت کرتی ہے۔ دین حق اور شریعت کے امور کی وضاحت کرتی ہے۔ احوال آخرت اور جنت و دوزخ کی وضاحت کرتی ہے۔ الغرض حق اور باطل کی ایک ایک چیز کو پوری وضاحت سے پیش کر رہی ہے۔ الزخرف
3 [٢] اس کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ تمہیں اس کے مضامین و مطالب سمجھنے میں آسانی ہو۔ تم عربی زبان بولتے ہو اور قرآن عربی زبان میں اس لیے اتارا گیا کہ تمہیں سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر تم تھوڑی سی بھی عقل و فکر سے کام لو اس کے شیریں انداز بیان، اس کی فصاحت و بلاغت، اس کی تاثیر، اس کے احکام کی حکمت میں غور کرو تو تمہیں از خود معلوم ہوجائے گا کہ یہ کلام کسی انسان کا کلام نہیں ہوسکتا۔ الزخرف
4 [٣] یعنی اس کے مضامین اور اصول دین چونکہ ایک ہی جیسے رہے ہیں۔ اور پہلی آسمانی کتابوں سے ملتے جلتے ہیں۔ اس لیے یہ سب کچھ پہلے سے ہی ہمارے پاس اصل کتاب میں لکھا ہوا موجود ہے۔ جسے ہم مختلف ادوار میں، مختلف انبیاء پر انہی کی اپنی اپنی زبانوں میں نازل کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح ہم نے قرآن کو لوح محفوظ سے عربی زبان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا ہے۔ [٤] قرآن کے مخلوق ہونے سے متعلق معتزلہ کا استدلال اور اس کا جواب :۔ اس سے مراد ام الکتاب بھی ہوسکتی ہے۔ اور قرآن کریم بھی۔ یعنی تم لوگ اگر اس کی قدرو منزلت نہیں کرتے تو اس سے حقیقت میں کچھ فرق نہیں پڑ سکتا۔ واضح رہے کہ عقل پرست فرقہ معتزلہ نے قرآن کے متعلق إنَّا جَعَلْنَاہ سے یہ استدلال کیا کہ قرآن مخلوق ہے۔ یہ استدلال غلط اور باطل ہے کیونکہ جَعَلَ کا لفظ صرف ایجاد اور تخلیق کے معنوں میں نہیں آتا بلکہ اور بھی کئی معنی دیتا ہے مثلاً درج ذیل مثالیں ملاحظہ فرمائیے : ﴿وَجَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا السُّفْلٰی ﴾(۴۰:۹)’’اور اللہ تعالیٰ نے کافروں کی بات کو نیچا کردیا‘‘ ﴿جَعَلَ السِّقَایَۃَ فِیْ رَحْلِ اَخِیْہِ ﴾(۷۰:۱۲)’’اور (یوسف علیہ السلام نے) پیالہ اپنے بھائی کے سامان میں رکھ دیا‘‘ ﴿وَجَعَلَ لَہُمْ اَجَلًا لَّا رَیْبَ فِیْہِ ﴾ (۹۹:۱۷)’’اور ان کے لیے ایک مدت مقرر کی جس میں کوئی شک نہیں‘‘ اہل سنت کا مذہب یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ قدیم ہے۔ اس کی صفات بھی قدیم ہیں۔ اور قرآن اللہ کا کلام ہے اور یہ اس کی صفت ہے۔ اس کے مقابلہ میں معتزلہ کا استدلال یہ ہے کہ اگر اللہ کے ساتھ اللہ کی صفات کو بھی قدیم مانا جائے تو تعدد قدماء لازم آتا ہے اور یہ شرک ہے اسی لیے وہ اپنے آپ کو اہل العدل و التوحید کہتے تھے اور دوسرے سب مسلمانوں کو مشرک سمجھتے تھے۔ مگر انہوں نے اس طرف غور نہ کیا کہ جو چیز مخلوق یا حادث ہو وہ کسی وقت فنا بھی ضرور ہوگی تو کیا نعوذ باللہ اللہ کی صفات یا مثلاً یہی قرآن کسی وقت فنا بھی ہوسکتا ہے؟ چونکہ کچھ عباسی خلیفے بھی اس اعتزال سے متاثر تھے اور مامون الرشید پکا معتزلی تھا۔ لہٰذا قرآن کے مخلوق ہونے کی بحث یا مناسب الفاظ میں اس فتنہ نے پوری ایک صدی طوفان کھڑا کئے رکھا۔ بعد میں خلیفوں کو ہی اللہ نے سیدھی راہ دکھا دی تو یہ اپنی موت آپ مر گیا۔ سیدنا امام احمد بن حنبل نے اسی فتنہ کے خلاف بڑی مدت تک قید و بند اور مار پیٹ کی مصیبتیں جھیلی تھیں اور ایسی ہی باتیں اللہ کی صفات میں الحاد کے ضمن میں آتی ہیں۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھئے میری تصنیف آئینہ پرویزیت۔ معتزلہ سے طلوع اسلام تک) اور اہل سنت کا مذہب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر زبان میں کلام کرسکتا ہے۔ رہی یہ بات کہ ام الکتاب یا لوح محفوظ کس زبان میں ہے تو یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ہم اسے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ جیسا کہ اس کی دوسری صفت کی کیفیت اور ماہیت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ الزخرف
5 [٥] یعنی اے کفار مکہ! اگر تم اپنی شرارتوں سے باز نہیں آتے۔ قرآن کی آیات کا مذاق اڑاتے ہو، کبھی اسے پہلوں کی کہانیاں قرار دیتے ہو، کبھی اسے بندوں کا کلام کہتے ہو۔ تو کیا ہم تمہاری ایسی شرارتوں کی وجہ سے خلقت کی رہنمائی کا کام چھوڑ دیں گے اور قرآن کو نازل کرنا بند کردیں گے؟ اس کے نزول کے دو فائدے تو بہرحال ہو ہی رہے ہیں ایک یہ کہ بہت سی سعید روحیں اس سے مستفید ہو رہی ہیں۔ اور دوسرے یہ کہ تم لوگوں پر حجت پوری ہو رہی ہے۔ الزخرف
6 الزخرف
7 [٦] جس طرح تم اس کتاب کو پہلے لوگوں کی کہانیاں قرار دے رہے ہو اس کی مثال بالکل وہی ہے جیسے پہلی قوموں کے پاس اللہ کے نبی اللہ کی کتاب لے کر گئے تو انہوں نے اللہ کی کتاب کا اور اپنے نبی کا مذاق اڑایا تھا۔ تم بھی انہی لوگوں کی ڈگر پر چل کر اس کتاب کا مذاق اڑانے لگے ہو اور اپنے نبی کو استہزاء اور دوسری شرارتوں سے تنگ کر رہے ہو۔ الزخرف
8 [٧] پہلی قومیں قدو قامت، ڈیل ڈول، طاقت و قوت غرض ہر لحاظ سے تم سے آگے تھیں۔ جب انہوں نے ہماری آیات اور ہمارے رسولوں کو جھٹلایا تو ہم نے انہیں تباہ کرکے رکھ دیا تھا اور اب تم بھی وہی کام کر رہے ہو لہٰذا سمجھ لو کہ اب تمہاری تباہی کی باری آچکی ہے۔ الزخرف
9 الزخرف
10 [٨] زمین گہوارہ کیسے ہے ؟ گہوارہ میں بچہ بڑے آرام سے جھولے لیتا ہے، آرام کرتا اور سوتا ہے۔ اس لیے کہ جھولے کی رفتار میں یکسانیت ہوتی ہے۔ بالکل یہی صورت زمین کی ہے جو ایک بہت بڑا عظیم الجثہ کرہ ہے۔ اور فضائے بسیط میں معلق ہزارہا میل فی منٹ کی تیز رفتاری سے محو گردش ہے۔ مگر اس کی اس تیز رفتاری میں بھی یکسانیت ہے۔ جس کی وجہ سے تمہیں اس کی یہ حرکت محسوس تک نہیں ہوتی اگر اس کے اندر سے کوئی آتش فشاں پہاڑ یا آتش گیر مادہ پھٹ پڑے اور اس میں زلزلہ پیدا ہوجائے تو اسی وقت تمہاری جان پر بن جاتی ہے۔ اور پروردگار یاد آنے لگتا ہے اور اگر خدانخواستہ اس کی رفتار میں بے ترتیبی واقع ہوجائے تو تمہاری تباہی یقینی ہے۔ یہ اللہ ہی کی ذات ہے جس نے اس مہیب کرہ کو اپنے کنٹرول میں رکھ کر اسے تمہارے حق میں گہوارے کی طرح آرام دہ بنادیا ہے۔ تم اس پر بڑے سکون و اطمینان سے چلتے پھرتے اور رہتے سہتے ہو۔ [٩] راستوں سے راہ پانے کے دو مفہوم :۔ اللہ تعالیٰ نے زمین بنائی تو ایک جیسی نہیں بنائی۔ کہیں نشیب ہیں کہیں فراز، کہیں پہاڑ ہیں اور کہیں ریت کے تودے، پھر ان پہاڑوں کی بلندی بھی یکساں نہیں بنائی۔ کہیں کٹاؤ ہیں کہیں درے ہیں۔ جنہیں پار کرکے انسان ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ یا دوسرے علاقہ کی طرف جاسکتا ہے۔ پھر ان پہاڑوں میں وادیاں بنائیں جو پانی کی گزر گاہیں ہیں۔ انہیں گزر گاہوں پر چلنے کے راستے بن گئے۔ پھر زمین پر بے شمار امتیازی نشانات بنا دیئے۔ ان سب باتوں کا فائدہ یہ ہوا کہ انسان انہیں نشانات اور راہوں کی مدد سے دنیا کے ایک حصہ سے دوسرے حصہ تک سفر کرسکتا ہے اور بھولتا نہیں۔ اگر ایسے نشانات نہ ہوتے اور ساری زمین ایک جیسی ہوتی تو انسان نہ سفر کرنے کے قابل ہوسکتا اور نہ ہی راستے بن سکتے تھے۔ راستے اگرچہ انسان ہی بناتا ہے لیکن چونکہ راستوں کے ذرائع اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ ہیں اس لیے انہیں براہ راست اپنی طرف منسوب کیا۔ اس آیت کے بھی دو مطلب ہیں۔ ایک تو ترجمہ سے واضح ہے اور دوسرا یہ کہ ان امتیازی نشانات میں غور کرکے ہدایت کی راہ پاسکو اور اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرسکو۔ الزخرف
11 [١٠] دنیا میں نازل ہونے والی بارش کی مجموعی مقدار یکساں رہتی ہے :۔ اس کے بھی دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ سمندر، جس سے آبی بخارات بن کر اوپر اٹھتے ہیں، کا رقبہ خشکی کے رقبہ سے تین گناہ زیادہ ہے۔ یہ بھی ممکن تھا کہ اس کا ایک کثیر حصہ آبی بخارات میں تبدیل ہوجاتا، پھر بارش کی صورت اختیار کرلیتا جس سے زمین کا کثیر حصہ زیرآب آجاتا اور مخلوق تباہ ہوجاتی۔ لیکن اللہ تعالیٰ ایسا نہیں ہونے دیتا اور آبی بخارات اتنے ہی بنتے ہیں یا اتنی ہی بارش ہوتی ہے جو مخلوق کے لیے فائدہ بخش ہو۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ زمین کے ہر علاقہ میں بارش کی سالانہ اوسط مقدار دوسرے علاقوں سے الگ ہوتی ہے۔ پھر اس اوسط مقدار میں کمی بیشی بھی ہوتی رہتی ہے۔ کہیں سیلاب آجاتا ہے اور کہیں خشک سالی ہوتی ہے۔ ان باتوں کے باوجود اللہ تعالیٰ پانی کی مجموعی مقدار اتنی ہی نازل فرماتا ہے جو ساری زمین کی مخلوق کی ضروریات کو پورا کرسکے۔ [١١] نباتات سے بعث بعد الموت پر دلیل :۔ اللہ تعالیٰ کے لیے نباتات کو زمین سے نکالنا یا اگانا اور تمہیں زمین سے نکالنا یا اگانا ایک ہی بات ہے اور اس میں کچھ فرق نہیں اور اس کی وضاحت سورۃ نوح میں یوں بیان فرمائی۔ ﴿ وَاللّٰہُ اَنْبَتَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًا  ثُمَّ يُعِيدُكُمْ فِيهَا وَيُخْرِجُكُمْ إِخْرَاجًا  ﴾(اور اللہ نے تمہیں زمین سے نباتات کی طرح اگایا پھر اسی زمین میں تمہیں لوٹا دے گا۔ پھر تمہیں اسی زمین سے (قیامت کے دن) نکال بھی لے گا) یعنی زمین سے غلے پھل اور غذائیں اگتی ہیں۔ انہی سے انسان کا گوشت پوست ، خون اور نطفہ بنتا ہے۔ جو انسان کی پیدائش کا ذریعہ بنتا ہے۔ اسی لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کو براہ راست زمین سے اگانے سے منسوب کردیا ہے۔ گویا جس طرح آج نباتات کو اور پھر تمہیں زمین سے اگا رہا ہے۔ اسی طرح قیامت کے دن بھی تمہیں زمین سے نکال کر اٹھا کھڑا کرے گا۔ الزخرف
12 اس آیت کی تفسیر اگلی آیت کےساتھ ملاحظہ کیجئے۔ الزخرف
13 [١٢] سواری پر سوار ہونے کے وقت کی دعا :۔ مثلاً ایک انسان اونٹ پر سواری کرتا ہے جو اس سے طاقت اور قد و قامت میں بیسیوں گُنا زیادہ ہوتا ہے۔ اور اگر وہ بگڑ جائے تو آن کی آن میں کئی انسانوں کو ہلاک بھی کرسکتا ہے۔ اب یہ انسان پر اللہ کا خاص فضل ہے جس نے انسان کو اتنی عقل بخشی کہ وہ بڑے بڑے جانوروں سے سواری لیتا ہے اور وہ اس کی خادم بن جاتی ہیں۔ کیا آپ نے کبھی ایسا بھی دیکھا کہ ایک بکری کسی اونٹ یا گائے پر سواری کر رہی ہو۔ اور اپنی مرضی سے اسے جہاں چاہے لے جاسکے؟ جبکہ انسان کا ایک چھوٹا سا بچہ اونٹوں کی قطار کو جہاں چاہے لیے پھرتا ہے۔ علاوہ ازیں پہلے انسان صرف جانوروں پر سوار ہوتا تھا مگر آج بھاپ اور پٹرول کی گاڑیوں پر سوار ہوتا اور اس سے ہزاروں کام لیتا ہے۔ اگر ان کی ایک کل بگڑ جائے تو سینکڑوں انسان موت کے گھاٹ اتر سکتے ہیں۔ اللہ نے انسان کو اتنی عقل دی ہے کہ وہ ان چیزوں کو کنٹرول میں رکھ سکتا اور ان پر سواری کرتا ہے۔ پھر بھی انسان اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سواری پر سوار ہوتے تو یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ ﴿سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّــرَ لَنَا ھٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِیْنَ وَاِنَّآ اِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ﴾اور ہمیں بھی ایسا ہی حکم ہے۔ الزخرف
14 [١٣] یعنی اس دنیا میں ہماری ساری زندگی ہی مسافرانہ ہے اور ہماری منزل آخرت ہے۔ اب سوچئے اگر کوئی شخص سفر پر روانہ ہوتے وقت یا سواری پر بیٹھ کر سوچ سمجھ کر یہ دعا پڑھے تو کیا وہ کسی گناہ کے کام کے لیے سفر کرسکتا ہے؟ الزخرف
15 [١٤] یہ تو تھے اللہ کے بندوں پر احسانات، چاہئے تو یہ تھا کہ انسان اللہ کے ان احسانات اور انعامات کے بدلے اس کا ممنون احسان ہوتا اور اس کا شکر ادا کرتا۔ مگر اس نے نہ صرف یہ کہ اللہ کی ناقدر شناسی کی، بلکہ مزید ستم یہ ڈھایا کہ اس کی ذات اور صفات کے حصے بخرے کر ڈالے اور کئی چیزوں کو اس کی ذات و صفات میں اس کا حصہ دار اور ہمسر بنا ڈالا۔ اس نے اللہ کی اولاد قرار دی۔ حالانکہ اللہ ہر چیز کا خالق اور مالک ہے۔ جبکہ اولاد نہ مخلوق ہوتی ہے اور نہ مملوک۔ اولاد تو اسی کی جنس سے اور اس کا حصہ ہوتی ہے۔ اس طرح انہوں نے اللہ سبحانہ کی ذات کو کئی حصوں میں بانٹ ڈالا۔ الزخرف
16 الزخرف
17 [١٥] بیٹی کی خبر پر اہل مکہ کے تیور بگڑنا :۔ یہ ستم ہی کیا کم تھا کہ اللہ کی اولاد قرار دی جائے۔ اس پر مزید پر ستم ڈھایا کہ اولاد میں سے بھی صرف لڑکیاں اللہ کے لیے تجویز کیں۔ جنہیں وہ اپنے لیے سخت ناپسند کرتا ہے۔ اور انگر اسے بتایا جائے کہ اس کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی ہے تو اس کے تیور ہی بدل جاتے ہیں۔ شرم اور ندامت سے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اور اندر ہی اندر اسے اس بات کا غم کھائے جاتا ہے۔ اور جب کوئی بس نہیں چلتا تو اسے زندہ درگور کردیتا ہے۔ واضح رہے کہ اہل عرب فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ عورتوں کی شکل کے ان کے خیالی مجسمے بناتے اور پھر ان کی پوجا کرتے تھے۔ عزیٰ اور لات و منات ان کی ایسی ہی دیویاں تھیں۔ الزخرف
18 [١٦] یعنی جس کا فطری لگاؤ ہی چوڑیوں، زیورات، آرائش و زیبائش اور نمائش سے ہوتا ہے۔ جسمانی قوت کے لحاظ سے کمزور ہوتی ہے۔ ایسی کمزور جنس کو اللہ کی اولاد تجویز کرتے ہیں۔ اور لڑکے جو صاحب عزم و ہمت اور مرد میدان ہوتے ہیں۔ اپنے لیے وہ پسند کرتے ہیں۔ [١٧] خصم ایسے فریقین مقدمہ کو کہتے ہیں جن کے درمیان اپنے اپنے حقوق کا جھگڑا ہو اور خصام ایسے ہی مقدمہ یا جھگڑا کو کہتے ہیں۔ یعنی عورتیں شوروغل سے ہنگامہ تو خوب پیدا کرسکتی ہیں۔ آپس میں لڑ بھی خوب سکتی ہیں۔ لیکن بحث و جدال کے وقت انہیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ کون سی بات اس کے موقف کی حمایت میں جاتی ہے اور کون سی مخالفت میں۔ نیز وہ غیر متعلقہ باتوں سے تو طوفان اٹھا سکتی ہیں مگر کام کی بات To The Point کم ہی کہتی ہیں۔ نہ وہ یہ بات پوری طرح سمجھ سکتی ہیں۔ الزخرف
19 [١٨] اس جملہ کے دو مطلب ہیں۔ ایک تو ترجمہ سے واضح ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ کیا انہوں نے فرشتوں کی جسمانی ساخت کو اچھی طرح دیکھا ہے جس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ فرشتے مذکر نہیں بلکہ مؤنث ہوتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ فرشتوں میں تذکیر و تانیث یا توالد و تناسل کا سلسلہ سرے سے ہے ہی نہیں۔ وہ خالصتاً اللہ کے بندے ہیں اور اس کے حکم کے پابند۔ اپنے اختیار سے وہ کچھ کر ہی نہیں سکتے۔ [١٩] یعنی وہ پھر بھی اپنی ہٹ سے باز نہیں آتے اور اپنی اس بیان بازی پر مصر ہیں۔ کہ فرشتے واقعی عورتیں ہیں۔ اللہ کی بیٹیاں ہیں اور قابل پرستش دیویاں ہیں۔ تو ان کا یہ بیان ریکارڈ ہوجائے گا پھر ان سے پوچھا جائے گا کہ کس بنیاد پر تم خود بھی گمراہ ہوئے اور بہت سی خلقت کو گمراہ کیا تھا۔ الزخرف
20 [٢٠] گناہوں پر مشیت کی دلیل باطل ہے :۔ جاہلوں کا ہمیشہ سے یہ دستور رہا ہے کہ وہ اپنے مذموم عقائد اور معصیت کے کاموں کے لیے مشیئت الٰہی کا سہارا لیتے ہیں۔ اور اس کی وجہ ان کی یہ جہالت ہے کہ وہ اللہ کی مشیئت اور اللہ کی رضا کے فرق کو نہیں سمجھتے، تبھی ایسی دلیل دیتے ہیں۔ اس لحاظ سے تو ایک ظالم اور ڈاکو انسان بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ جو کچھ میں کر رہا ہوں اس پر اللہ راضی ہے تبھی تو مجھے ایسے کام کرنے کے مواقع دیئے جاتا ہے۔ اور اس لحاظ سے دنیا میں کوئی کام شر رہتا ہی نہیں بلکہ سب کچھ خیر ہی خیر ہونا چاہئے۔ حالانکہ اس بات کو کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا۔ دنیا میں کفر و شرک اور فتنہ و فساد عام ہے۔ حالانکہ اللہ ان باتوں کو قطعاً پسند نہیں کرتا۔ لہٰذا جو کچھ بھی دنیا کے اندر ہو رہا ہے یہ تو فی الواقع مشیت الٰہی کے تحت ہورہا ہے۔ لیکن جو کچھ ہونا چاہئے یا جو کچھ اللہ کی رضا ہے وہ اللہ کی کتاب میں مذکور ہے۔ الزخرف
21 الزخرف
22 [٢١] محض تقلید آباء سب سے بڑی گمراہی ہے :۔ یعنی ملائکہ پرستی کے لیے ان کے پاس کوئی نقلی دلیل موجود نہیں۔ کسی آسمانی کتاب میں انہیں یہ لکھا ہوا نہیں ملے گا کہ فرشتے واقعی اللہ کی بیٹیاں ہیں اور اللہ کی الوہیت میں حصہ دار ہیں۔ لہٰذا تمہیں ان کی بھی عبادت اور پوجاپاٹ کرنا چاہئے اور اپنی مشکل کشائی اور حاجت روائی کے وقت انہیں پکارنا چاہئے۔ لے دے کے ان کے پاس یہی جواب ہوتا ہے۔ کہ یہ رسوم ہمارے اسلاف سے چلی آرہی ہیں جو ہم سے زیادہ نیک اور پارسا تھے۔ لہٰذا ہم ان کے دین کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں؟ تقلید آباء یا اسلاف کا مرض صرف اس دور کے مشرکوں میں ہی نہیں پایا جاتا تھا۔ بلکہ آج کے مسلمانوں میں بھی پایا جاتا ہے اور اس کی ایک شکل اپنے اپنے اماموں یا کسی مخصوص شخصیت کی تقلید بھی ہے۔ ایسے لوگوں کا بھی یہی جواب ہوتا ہے کہ فلاں حضرت ہم سے زیادہ نیک، پارسا اور دین کا علم رکھنے والے تھے۔ لہٰذا ہم ان کے قول کو چھوڑ نہیں سکتے۔ حالانکہ اللہ کا دین صرف وہ ہے جو کتاب و سنت میں مذکور ہے۔ کتاب و سنت کے مقابلہ میں کسی بھی بزرگ سے بزرگ ہستی کا قول تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ الزخرف
23 [٢٢] تقلید آباء کے مؤید مترفین کا طبقہ ہوتا ہے :۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ تقلید آباء کے سب سے زیادہ مؤید اور اس پر اصرار کرنے والے کھاتے پیتے لوگ ہوتے ہیں یعنی جو آسودہ حال اور چودھری قسم کے لوگ ہوتے ہیں اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اگر وہ رسول کی بات مان لیں تو انہیں اپنی اس چودھراہٹ کے منصب سے نیچے اتر کر عام لوگوں کی صف میں شامل ہونا اور رسول کا مطیع بن کر رہنا پڑتا ہے۔ اور اس کی دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ رسول ان کے کسب معاش کے طریقوں پر بھی کئی طرح کی پابندیاں لگاتا ہے۔ مال و دولت کے کمانے پر بھی اور اس کے خرچ کرنے پر بھی۔ اگر یہ پابندیاں گوارا کرلیں تو ان کی آسودہ حالی ہی خطرہ میں پڑجاتی ہے۔ لہٰذاوہ اپنی عاقبت اسی میں سمجھتے ہیں کہ تقلید آباء پر ڈٹ جائیں اور عوام کو اپنے ساتھ ملائے رکھیں۔ الزخرف
24 [٢٣] زیادہ صحیح اس لحاظ سے کہ اس کی نقلی دلیل موجود ہے سب آسمانی کتابوں میں یہی تعلیم دی گئی ہے کہ اللہ اکیلا ہی معبود برحق ہے۔ کوئی دوسرا اس کی ذات اور صفات میں اس کا شریک یا اس کا ہمسر نہیں ہوسکتا۔ علاوہ ازیں عقل سلیم بھی اسی بات کا تقاضا کرتی ہے۔ الزخرف
25 الزخرف
26 [٢٤] سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور تقلید آباء کے دو پہلو :۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ذکر یہاں اسی نسبت سے آیا ہے۔ کہ کفار مکہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اپنا پیشوا اور نبی مانتے تھے۔ لہٰذا انہیں سمجھایا جارہا ہے کہ اگر اسلاف کی تقلید ہی کرنا چاہتے ہو تو اپنے اس پیشوا کی کرو جو اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کی بندگی سے سخت بیزار تھے۔ ان اسلاف کی کیوں پیروی کرتے ہو جنہوں نے خود سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی تقلید کو چھوڑ دیا تھا۔ اور گمراہی کے راستوں پر چل کھڑے ہوئے تھے۔ بالفاظ نبی کی تقلید کرنا درست ہے لیکن شرعی اصطلاح میں اس کا نام تقلید نہیں بلکہ اتباع رسول ہے۔ الزخرف
27 [٢٥] سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا اپنا یہ حال تھا کہ جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے آباء و اجداد اور ان کی قوم سب کے سب اللہ کو چھوڑ کر بتوں کی پوجا کرنے لگ گئے ہیں تو انہوں نے یہ نہیں کہا تھا کہ میں اپنے باپ دادا کے دین کو کیسے چھوڑوں۔ بلکہ انہوں نے برملا کہہ دیا تھا کہ مجھے ان بتوں کی بندگی سے سخت نفرت ہے۔ اور ساتھ ہی یہ دلیل بھی پیش کردی کہ میں تو صرف اسی ذات کی بندگی کرسکتا ہوں جس نے مجھے پیدا بھی کیا ہے اور ہدایت کی راہ بھی دکھاتا ہے اور جن چیزوں کا نہ میری پیدائش میں دخل ہے اور نہ ہی ہدایت دے سکتے ہیں بلکہ خود بے جان مخلوق ہیں اور سنتے بولتے بھی نہیں ہیں آخر ایسی بے کار چیزوں کی بندگی میں کیوں کروں؟ الزخرف
28 [٢٦] سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کو بھی یہی تعلیم دی تھی اور ساتھ ہی یہ تاکید بھی کردی تھی کہ اگر تم میں کوئی اختلاف واقع ہوجائے تو اسی کلمہ توحید کی طرف رجوع کرنا اور میری اس تعلیم کو کبھی نہ بھولنا۔ اور وہ تعلیم یہی تھی کہ اللہ کے سوا کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو پرستش کے قابل ہو۔ الزخرف
29 [٢٧] بات یہ نہیں جو تم کہہ رہے ہو بلکہ اس کے برعکس معاملہ یہ ہے کہ تم نے جان بوجھ کر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی تعلیم کو بھلا رکھا ہے اور ان کی وصیت کی کوئی پروا نہیں کی۔ اللہ نے تمہیں اور تمہارے آباء واجداد کو جو سامان زیست اور نعمتیں عطا کی تھیں ان کے مزوں میں پڑ کر اللہ کی طرف سے بالکل غافل ہوگئے۔ یہ شرکیہ رسوم تمہارے سامان عیش و عشرت کا سہارا بنی ہوئی تھیں۔ جنہیں اب تم چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ [٢٨] ﴿رَسُوْلٌ مُّبِیْنٌ﴾ کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ یہ رسول تمہیں شرک اور توحید کی راہیں صاف صاف اور کھول کھول کر سمجھانے والا ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ایسا رسول آیا جس کا رسول ہونا بالکل واضح تھا۔ الزخرف
30 [٢٩] وہ جادو اس لحاظ سے کہتے تھے کہ قرآن کی تعلیم اور اس کی قراءت دل میں اترنے اور تاثیر کے لحاظ سے جادو کا سا اثر رکھتی تھی۔ اور اس بات سے کفار سخت خطرہ محسوس کر رہے تھے اور اس کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ جو شخص قرآن کی اس دعوت کو قبول کرلیتا تھا۔ وہ اپنے سب رشتہ داروں کو چھوڑنا تو گوارا کرلیتا تھا مگر ایمان سے پیچھے ہٹنا کبھی گوارا نہ کرتا تھا اور کافر اسے اس لیے جادو کہتے تھے کہ یہ تعلیم ایسی ہے جو باپ بیٹے، بہن بھائی غرضیکہ ہر ایک کو دوسرے سے جدا کردیتی ہے۔ الزخرف
31 [٣٠] قریش کے آپ کی ذات پر اعتراضات :۔ قریش مکہ کا پہلا اعتراض تو یہ تھا کہ ہم جیسا ایک بشر کیسے رسول ہوسکتا ہے پھر جب انہیں دلائل کے ساتھ سمجھایا گیا کہ انسانوں کی ہدایت کے لئے انسان ہی رسول ہوسکتا ہے اور تم لوگوں کی ہدایت کے لیے تمہاری زبان جاننے والا ہی رسول ہوسکتا ہے اور اس کے بغیر کوئی چارہ ہی نہ تھا۔ تو اب تیسرا اعتراض یہ جڑ دیا کہ مکہ اور طائف دو مرکزی شہر ہیں۔ مکہ کا رئیس ولید بن مغیرہ تھا اور طائف کا عروہ بن مسعود ثقفی ہے۔ ان شہروں کا کوئی بڑا آدمی رسول بن جاتا تو بھی کوئی بات تھی۔ بھلا اللہ تعالیٰ کو رسول بنانے کے لیے ایسا ہی آدمی ملا تھا جو یتیم پیدا ہوا تھا اور جس کے پاس نہ دولت ہے اور نہ کسی قبیلے یا خاندان کی سربراہی۔ اگلی آیت میں ان کے اسی اعتراض کے دو جواب دیئے جارہے ہیں۔ الزخرف
32 [٣١] یہ لوگ کس غلط فہمی میں پڑے ہوئے ہیں کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت عطا کرنے سے پہلے اللہ میاں کو ان سے مشورہ کرلینا چاہئے تھا۔ کہ نبوت و رسالت کا مستحق کون ہوسکتا ہے؟ نبوت تو خیر بہت بڑی چیز ہے۔ دوسرے انعامات بھی اللہ تعالیٰ نے جس جس کو دیئے ہیں ان میں بھی ان کا کچھ عمل دخل نہیں۔ اللہ نے کسی کو عقل زیادہ دی ہے کسی کو علم دیا ہے۔ کسی کو دولت زیادہ دی ہے اور کسی کو اولاد زیادہ اور کسی کو کم اور کسی کو بالکل نہیں دی۔ کسی کو قوت کار زیادہ دی ہے کسی کو جسمانی قوت زیادہ دی ہے، کسی کو حسن دیا ہے، کسی کو کوئی خوبی دی ہے، تو کسی کو کوئی دوسری خوبی دے دی ہے۔ اب یہ کیا چاہتے ہیں کہ ایک ہی شخص کو ساری خوبیاں دے دی جائیں یا کسی شخص کو کوئی بھی خوبی نہ دی جائے؟ حالانکہ جو کچھ اللہ نے تقسیم کردی ہے۔ اسی سے دنیا کا نظام قائم ہے۔ امیر کو غریب کی ضرورت ہے کہ وہ اس کے کام کاج کرے اور غریب کو امیر کی ضرورت ہے کہ اس کا کام کاج کرکے اپنے لیے روزی کمائے۔ اسی طرح شاگرد کو استاد کی اور استاد کو شاگردوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ غرضیکہ اسی اختلاف صفات کی بنا پر ہر شخص دوسرے کا محتاج ہے اور ان صفات کی تقسیم میں وہ خود بھی بے بس ہیں چہ جائیکہ دوسروں کے متعلق اور بالخصوص نبوت جیسی اعلیٰ درجہ کی نعمت کے متعلق دخل در معقولات کرنے لگیں۔ [٣٢] نبوت اللہ کی خاص نعمت اور رحمت ہے :۔ یہاں رحمت سے مراد رحمت خاص یا نبوت ہے۔ یعنی نبوت و رسالت کا شرف اس مال و دولت، ساز و سامان اور چودھراہٹوں سے بہت ارفع و اعلیٰ ہے جن کے پیچھے تم پڑے ہوئے ہو۔ جب اللہ نے دنیا کی روزی اور دوسرا ساز و سامان بھی ان کی تجویز پر تقسیم نہیں کیا تو کیا نبوت ان کی تجویز اور رائے کے مطابق کسی کو دے گا ؟ اللہ تعالیٰ ٹھیک جانتا ہے کہ اس رحمت خاص کا اصل مستحق کون ہے اور کسے اس رحمت سے نوازنا چاہئے؟ [٣٣] کیونکہ دنیا کا مال فنا ہوجانے والا ہے اور اس کا کوئی بھروسا نہیں اور اللہ تعالیٰ کی یہ رحمت خاص یعنی نبوت تو دونوں جہانوں میں نہایت اعلیٰ درجہ کی چیز ہے۔ الزخرف
33 الزخرف
34 الزخرف
35 [٣٤] یعنی دنیا کا مال و دولت، سازو سامان اور سیم و زر، جس کو یہ لوگ کسی انسان کی عظمت کا معیار قرار دے رہے ہیں۔ اللہ کی نگاہ میں اتنی حقیر چیز ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام کافروں کے گھر، ان کے دروازے، مکانوں کی چھتیں، ان کے تخت اور چارپائیاں، ان کی سیڑھیاں غرضیکہ ان کی ایک ایک چیز سونے، چاندی کا بنا دیتا۔ لیکن اس میں یہ خطرہ ضرور تھا کہ تمام انسان ہی کفر کا راستہ اختیار کرلیتے، کیونکہ انسان فطرتاً مال و دولت کے لیے بہت حریص واقع ہوا ہے۔ جبکہ اللہ کی مشیئت یہ ہے کہ کسی کو مال و دولت زیادہ دے کر اور کسی کو کم دے کر ہر طرح سے لوگوں کی آزمائش کرے۔ نیز دنیا میں رزق کی اس کمی بیشی سے ہی اس دنیا کا نظام چل رہا ہے ورنہ مال و دولت تو ایسی حقیر چیز ہے جو حرام خوروں اور خبیث ترین قسم کے انسانوں کے پاس عام لوگوں سے زیادہ پائی جاتی ہے۔ اس مال و دولت کو تم نے بڑائی کا معیار سمجھ رکھا ہے۔ اور کہتے ہو کہ نبوت بھی اس طرح کے کسی بڑے رئیس کے حصہ میں آنا چاہئے تھی؟ [٣٥] یعنی آخرت کی تمام تر نعمتیں صرف متقی لوگوں کے لیے مخصوص ہیں اور دنیا میں بھی انہیں اتنا حصہ مل ہی جاتا ہے جتنا ان کے مقدر میں ہے اور یہ حصہ زیادہ بھی ہوسکتا ہے۔ مگر کافروں کا آخرت میں تو کوئی حصہ نہیں اگر دنیا میں انہیں کچھ زیادہ مال و دولت مل بھی جائے تو پھر بھی بہرحال خسارے میں کافر ہی رہتے ہیں۔ الزخرف
36 [٣٦] یعش (مادہ عشو) عشا کے بنیادی معنی اندھیرے کی وجہ سے چیزوں کا واضح نظر نہ آنا اور کبھی یہ لفظ محض اندھیرے کے وقت کے لیے آجاتا ہے۔ اور بمعنی رات کو نظر نہ آنا، رتوندا ہونا، شب کو ری اور یہاں یعش سے مراد عمداً کسی چیز کو دیکھنے کی کوشش نہ کرنا اور آنکھیں بند کرلینا ہے۔ یعنی جو شخص اللہ کی یاد سے یا اس کی طرف سے آئی ہوئی نصیحت سے یا قرآن سے عمداً بے نیاز رہنا چاہتا ہے اس پر ایک شیطان خصوصی طور پر مسلط کردیا جاتا ہے جو ہر وقت اس کے ساتھ رہتا، اس کے دل میں وسوسے ڈالتا اور اللہ کی یاد سے غافل کئے رکھتا ہے حتیٰ کہ اسے دوزخ تک پہنچا کے چھوڑتا ہے۔ الزخرف
37 [٣٧] یہ شیطان جو ہر وقت اس کے ساتھ لگا رہتا ہے کوئی جن بھی ہوسکتا ہے اور انسان بھی۔ اور یہ اسے کسی وقت نیکی کی طرف یا اللہ کے راستہ کی طرف نہیں آنے دیتا پھر لطف کی بات یہ ہے کہ اس کی ایسی مت ماری جاتی ہے کہ اس میں نیکی اور بدی کی تمیز ہی باقی نہیں رہتی۔ وہ اپنے برے کاموں کو ہی اچھا سمجھنے لگتا ہے۔ اور اسے اپنی یہ بدروی اور گمراہی ہی صحیح راہ معلوم ہونے لگتی ہے۔ الزخرف
38 [٣٨] یعنی آج تو اپنے اس برے ساتھی کو اپنا حقیقی خیر خواہ سمجھ رہا ہے مگر قیامت کو جب ہمارے پاس حاضر ہوگا تب جاکر اسے معلوم ہوگا کہ وہ اس کا کیسا برا ساتھی تھا۔ پھر وہ حسرت اور غصہ سے اسے کہے گا : کاش! میرے اور تیرے درمیان زمین و آسمان کا فاصلہ ہوتا اور میں ایک لمحہ بھی تیری صحبت میں نہ گزارتا۔ آج تو کم از کم میری آنکھوں سے دور ہوجا۔ تو تو بہت ہی برا ساتھی ہے۔ الزخرف
39 [٣٩] یعنی آج اس برے ساتھی سے بیزار ہونے کا کیا فائدہ؟ اس نے جو کام کرنا تھا وہ کرچکا اور تمہیں جہنم تک پہنچا چکا۔ آج تو جیسے وہ مجرم ہے ویسے ہی تم بھی مجرم ہو۔ نہ اس کے عذاب میں کچھ کمی کی جائے گی اور نہ تمہارے عذاب میں۔ اس عذاب میں دونوں برابر کے شریک ہو۔ دنیا میں تو قاعدہ ہے کہ جس مصیبت میں سب چھوٹے بڑے شریک ہوں وہ کچھ ہلکی معلوم ہونے لگتی ہے۔ مثل مشہور ہے۔ ’’مرگ انبوہ جتنے دارو‘‘ مگر دوزخ میں یہ صورت بھی نہ ہوگی اور سب کا عذاب میں شریک ہونا کسی کو کچھ فائدہ نہ دے گا۔ الزخرف
40 [٤٠] یعنی آپ اپنی تمام تر توجہ ان لوگوں کی طرف مبذول کیجئے جو ہدایت کے خواہشمند ہیں یا جو اسلام لاچکے ہیں۔ رہے وہ لوگ جو اللہ کا کلام سننا ہی نہیں چاہتے اور اندھے بہرے بنے ہوئے ہیں۔ انہیں راہ راست پر لانا یا نہ لانا آپ کا کام نہیں۔ آپ ان کی فکر چھوڑ دیجئے جو اپنے آپ کو اللہ کے عذاب کا مستحق بنا رہے ہیں۔ الزخرف
41 الزخرف
42 [٤١] مشرکین مکہ کا یہ خیال تھا کہ ان کی ساری پریشانیوں اور مصیبتوں کا باعث رسول اللہ کی ذات ہے۔ یہ کانٹا اگر درمیان سے نکل جائے تو سارا معاملہ درست ہوسکتا ہے۔ اسی وجہ سے وہ آپ کی جان کے لاگو بنے ہوئے تھے۔ اس آیت میں اگرچہ روئے سخن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے لیکن یہ وعید دراصل مشرکین مکہ کو سنائی جارہی ہے۔ کہ رسول زندہ رہے یا نہ رہے۔ تمہیں تمہارے گناہوں کی سزا بہرحال مل کے رہے گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایسا عذاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی تمہیں پہنچ جائے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کی وفات کے بعدآئے۔ لہٰذا جو کچھ تم رسول کے متعلق سوچ رہے ہو اس سے تمہاری پریشانیوں اور مصیبتوں میں اضافہ تو ہوسکتا ہے، کمی نہیں ہوسکتی۔ الزخرف
43 [٤٢] اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ فکر چھوڑ دیجئے کہ ان مشرکوں پر اللہ کا عذاب کب نازل ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ ہماری حکمت اور صوابدید پر منحصر ہے۔ نہ آپ یہ فکر کریں کہ اسلام کو کب غلبہ نصیب ہوگا۔ آپ کے اطمینان کے لیے یہی بات کافی ہے کہ آپ ٹھیک راہ پر جارہے ہیں۔ بس اتنا کیجئے کہ آپ کو اللہ کی طرف سے ساتھ کے ساتھ جو ہدایات مل رہی ہیں ٹھیک اس کے مطابق عمل کرتے جائیے اور یہ بات اللہ پر چھوڑ دیجئے کہ وہ کب باطل کا سر کچلتا ہے اور حق کو غلبہ نصیب فرماتا ہے۔ الزخرف
44 [٤٣] یعنی یہ کتاب قرآن کریم ایک بہت بڑی نعمت ہے جو آپ کو اور آپ کی قوم کو دی جارہی ہے۔ تمہاری اور تمہاری قوم کی اس سے زیادہ خوش نصیبی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ ہم آپ کی طرف وہ کتاب نازل کر رہے ہیں جو تاقیام قیامت ساری دنیا کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنے گی اور دوسری قوموں کو چھوڑ کر آپ کی قوم اس پیغام الٰہی کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچانے کا ذریعہ بنے گی۔ لہٰذا اس وقت جو لوگ اس عظیم نعمت کا مذاق اڑاتے ہیں یا اسے سننا بھی گوارا نہیں کرتے ان سے یقیناً باز پرس ہونے والی ہے۔ اور اے مسلمانو! تم سے بھی پوچھا جائے گا کہ کیا تم نے اللہ کا یہ پیغام دنیا والوں کو پہنچا دیا تھا ؟ الزخرف
45 [٤٤] بعد از موت انبیاء کی زندگی کے قائلین اور ان کا رد :۔ اس آیت میں واسْئَلْ کا مطلب اکثر مفسرین نے دو طرح سے بیان کیا ہے ایک یہ کہ ان انبیاء کے وارث علماء یا علمائے بنی اسرائیل سے پوچھ لیجئے۔ اور دوسرا مطلب یہ کہ ان رسولوں کی کتابوں میں تلاش کرکے دیکھو کہ ان میں کہیں یہ لکھا ہے کہ ہم نے اپنے علاوہ کچھ اور بھی الٰہ بنا دیئے ہیں جن کی عبادت کی جایا کرے۔ لیکن کچھ حضرات ایسے بھی ہیں جو انبیاء و اولیائے کرام کی عرصہ برزخ میں مکمل زندگی ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ یعنی وہ لوگوں کی پکار سنتے بھی ہیں اور ان کا جواب بھی دیتے ہیں۔ بلکہ اس سے بھی آگے ان کے تصرف کا یہ حال ہے۔ وہ پکارنے والے کی مشکل کشائی اور حاجت روائی بھی کرتے ہیں۔ چنانچہ ایسے ہی ایک صاحب اس آیت کا ترجمہ کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ ’’اگر انبیاء کرام میں حیات نہ ہوتی۔ وہ خطاب و ندا کو نہ سمجھتے ہوتے اور جواب دینے کی قدرت ان میں نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو انبیاء و رسل سے دریافت کرنے کا حکم نہ فرماتا‘‘ ایسے حضرات چونکہ عموماً بریلوی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ لہٰذا ہم یہاں ترجمہ احمد رضا خان بریلوی (کنزالایمان) پر حاشیہ نمبر ٤٥ از نعیم الدین مراد آبادی درج کرتے ہیں : ’’رسولوں سے سوال کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ان کے ادیان و ملل کی تلاش کرو۔ کہیں بھی کسی نبی کی امت میں بت پرستی روا رکھی گئی ہے؟ اور اکثر مفسرین نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ مومنین اہل کتاب سے دریافت کرو۔ کیا کسی نبی نے غیر اللہ کی عبادت کی اجازت دی؟ تاکہ مشرکین پر ثابت ہوجائے کہ مخلوق پرستی نہ کسی رسول نے بتائی نہ کسی کتاب میں آئی۔ یہ بھی ایک روایت ہے کہ شب معراج سید عالم نے بیت المقدس میں تمام انبیاء کی امامت فرمائی۔ جب حضور نماز سے فارغ ہوئے جبرئیل نے عرض کیا کہ اے سرور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم! اپنے سے پہلے انبیاء سے دریافت فرما لیجئے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے اپنے سوا کسی اور کی عبادت کی اجازت دی ؟ حضور نے فرمایا کہ اس سوال کی کچھ حاجت نہیں یعنی اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ تمام انبیاء توحید کی دعوت دیتے آئے۔ سب نے مخلوق پرستی کی ممانعت فرمائی‘‘ (سورہ زخرف کا حاشیہ نمبر ٤٥ از نعیم الدین مراد آبادی) اب دیکھئے اس حاشیہ میں جس روایت کا ذکر ہے وہ غلط معلوم ہوتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ سورۃ زخرف کی یہ آیت واقعہ معراج سے کافی عرصہ بعد نازل ہوئی ہے۔ سورۃ بنی اسرائیل جس میں واقعہ اسراء کا ذکر ہے، کا ترتیب نزول کے حساب سے نمبر ٥٠ ہے۔ جبکہ سورۃ زخرف کا ترتیب نزول کے حساب سے نمبر ٦٣ ہے۔ معراج کا واقعہ ہجرت سے ڈیڑھ دو سال پہلے کا ہے۔ جبکہ سورۃ ہذا اس وقت نازل ہوئی جبکہ کفار آپ کی جان کے درپے تھے۔ جیسا کہ اس سورۃ کی آیت نمبر ٧٩۔ ٨٠ سے واضح ہے۔ لہٰذا قبل از نزول آیت مذکورہ جبرئیل کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہنا کہ ان رسولوں سے پوچھ لیجئے اور پھر پوری آیت پڑھ جانا کیسے ممکن ہے؟ الزخرف
46 [٤٥] یہاں موسیٰ علیہ السلام کا ذکر اس نسبت سے آیا ہے کہ فرعون بھی اپنے مقابلہ میں موسیٰ علیہ السلام کو حقیر سمجھتا تھا۔ جس طرح کہ قریش مکہ اپنے سرداروں کے مقابلہ میں رسول اللہ کو حقیر سمجھ رہے تھے اور انہیں بتایا یہ جارہا ہے کہ بالآخر فرعون اللہ کے عذاب سے تباہ ہوا اور موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے نجات اور کامیابی عطا فرمائی۔ تم اگر سمجھو تو تمہارا بھی ایسا ہی حشر ہونے والا ہے۔ الزخرف
47 [٤٦] یعنی سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی لاٹھی کے سانپ بن جانے کو اور یدبیضاء کو اللہ کی طرف سے عطا کردہ نشانیاں سمجھنے کی بجائے اسے جادو کے کرشمے قرار دینے اور باتیں بنانے لگے اور ہنسی مذاق اڑانے لگے۔ الزخرف
48 [٤٧] ان نشانیوں سے مراد وہ پے در پے عذاب ہیں جن کا ذکر سورۃ اعراف کی آیت نمبر ١٣٣ میں گزر چکا ہے۔ وہی حاشیہ ملاحظہ فرما لیا جائے۔ یہ ہلکے ہلکے عذاب دراصل تنبیہات تھیں جن سے غرض یہ تھی کہ شاید وہ ڈر کر اپنی حرکتوں سے باز آجائیں۔ الزخرف
49 [٤٨] سیدنا موسیٰ کو قوم کی طرف سے ایذا دہی :۔ اس آیت سے کئی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ مثلاً (١) فرعون اور آل فرعون کو یہ پوری طرح معلوم ہوچکا تھا کہ آپ جادوگر نہیں بلکہ فی الواقع اللہ کے رسول ہیں۔ اور اللہ ان کی دعا سنتا ہے اور اسے قبول بھی کرتا ہے۔ اسی لیے وہ عذاب اور مصیبت کے وقت آپ کی طرف رجوع کرتے اور دعا کی درخواست کرتے تھے۔ (٢) ان کی اکڑ کا یہ عالم تھا کہ التجا کے وقت بھی وہ آپ کو''ساحر'' ہی کہتے تھے۔ جیسا کہ تمام انبیاء کو اس لقب سے نوازا جاتا رہا ہے۔ اور اس لیے بھی کہ انہوں نے اپنی قوم کو مطمئن رکھنے اور الو بنانے کے لیے ''ساحر'' کے طور پر ہی مشہور کر رکھا تھا۔ یہی وہ باتیں تھیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو موسیٰ کو دکھ پہنچاتے رہے‘‘ (٣٣: ٦٩) (٣) جس طرح دوسرے انبیاء کو یہ حکم تھا کہ وہ کافروں کی باتوں کو صبر و تحمل سے برداشت کریں۔ اسی طرح موسیٰ علیہ السلام کو بھی یہی حکم تھا اور یہ پے در پے عذاب چونکہ اللہ کی طرف سے تنبیہات تھیں لہٰذا سیدنا موسیٰ علیہ السلام اپنی اس توہین کو بھی برداشت کرتے۔ پھر اللہ کے حکم کے تحت ان کے لیے عذاب کے دور ہونے کی دعا بھی کرتے تھے۔ الزخرف
50 [٤٩] یعنی وہ ہر بار عہد شکنی کرکے اپنے سرکشی کے جرم کو سخت سے سخت تر بناتے چلے گئے۔ اسی سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ انہیں اپنے جرائم کی مناسبت سے کس قدر سخت سزا ملنے والی تھی۔ الزخرف
51 [٥٠] یہاں ''اپنی قوم میں'' سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس نے اپنے درباریوں سے پکار پکار کر یہ باتیں کی ہوں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس نے اپنی ان باتوں کا اتنا پرزور پروپیگنڈا کیا ہو کہ اس کی قوم کے ہر فرد کے کانوں تک فرعون کی یہ آواز پہنچ گئی ہو۔ الزخرف
52 [٥١] فرعون کا اپنی قوم میں پروپیگنڈہ :۔ فرعون کے اس اعلان سے واضح طور پر یہ معلوم ہو رہا ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کی جڑیں اندر ہی اندر کافی مضبوط ہوچکی تھیں۔ اور وہ اس دعوت سے خائف تھا مگر اپنی رعایا میں اپنا بھرم قائم رکھنا چاہتا تھا۔ اور اپنی قوم سے اسی طرح کا استصواب چاہتا تھا۔ جیسے الیکشن کے دنوں میں امیدوار اپنی خوبیاں اور اپنے حریف کے نقائص بیان کیا کرتے ہیں۔ اس نے اپنا اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا تقابل پیش کرتے ہوئے کہا۔ دیکھو! یہ ملک مصر میں میری حکومت کس قدر مضبوط ہے۔ آبپاشی کا نظام بہت عمدہ ہے۔ جس پر تمہاری معیشت کا دارومدار ہے۔ ہم لوگوں نے دریائے نیل سے کئی نہریں ملک بھر میں جابجا بچھا دی ہیں۔ یہ سب کچھ تو میرے نظام کے تحت ہو رہا ہے۔ پھر تم ایک ایسے شخص کے پیچھے کیوں لگے جارہے ہو جو میرے مقابلہ میں نہایت کمتر درجہ کا آدمی ہے۔ نہ اس کے پاس مال و دولت ہے اور نہ حکومت اور وہ کھل کر صاف صاف باتیں بھی نہیں کرسکتا۔ تمہیں کچھ تو سوچ و بچار سے کام لینا چاہئے۔ الزخرف
53 [٥٢] فرعون کا قوم کے سامنے اپنا اور سیدنا موسیٰ کا تقابل پیش کرنا :۔ پرانے زمانے میں یہ رواج عام تھا کہ بادشاہ، نواب اور راجے مہاراجے سونے اور جواہرات کے کنگن پہنا کرتے اور اپنے جس درباری پر خوش ہوتے تو اسے بھی انعام و اکرام کے طور پر کنگن پہناتے اور جب کبھی سیر و سفر کو نکلتے تو ان کے آگے پیچھے فوجوں کے محافظ دستے ہوتے تھے اور یہ رواج آج کل بھی عام ہے۔ فرعون نے اپنے اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے تقابل میں ایک تو دولت اور حکومت کا ذکر کیا۔ دوسرے موسیٰ علیہ السلام کی رسالت پر یہ اعتراض کیا کہ اگر وہ فی الواقع اللہ کا زمین پر نائب ہے۔ تو کم از کم نشانی کے طور پر اسے سونے کے کنگن تو پہنائے گئے ہوتے یا کم از کم اس کی حفاظت کے لیے اس کے آگے پیچھے فرشتوں کے محافظ دستے ہی اس کی حفاظت پر مامور ہوتے۔ اگر ان میں سے کوئی بھی چیز نہیں پھر وہ اللہ کا نائب کیسے ہوا ؟ تمہاری عقل پر کیا پتھر پڑگئے ہیں کہ تم میرے مقابلہ میں اس کی باتیں تسلیم کرنے لگے ہو؟ الزخرف
54 [٥٣] ایسی ہی باتیں کہہ کر فرعون نے اپنی قوم کو الو بنایا اور وہ الو بن گئے۔ اس لیے کہ وہ فاسق لوگ تھے۔ جن کو اپنے دنیوی مفادات کے علاوہ اور کسی بات سے غرض ہی نہ تھی۔ اور وہ انہیں فرعون کا غلام بنا رہنے میں ہی نظر آرہے تھے۔ فرعون پر اگرچہ حقیقت واضح ہوچکی تھی مگر وہ یہ سارے پاپڑ اس لیے بیل رہا تھا کہ اس کی حکومت میں کمزوری اور تزلزل واقع نہ ہو۔ وہ عام لوگوں کی ذہنیت کو بھی خوب جانتا تھا کہ ایسے بے ضمیر، بے اصول اور بے عقل لوگوں سے کیسے کام نکالا اور انہیں اپنی باتوں پر لگایا جاسکتا ہے؟ الزخرف
55 الزخرف
56 [٥٤] یعنی انہیں صفحہ ہستی سے ایسا مٹا دیا کہ کوئی ان کا ذکر خیر کرنے والا باقی نہ رہ گیا۔ البتہ وہ پچھلے لوگوں کے لیے ایک نمونہ عبرت ضرور بن گئے کہ اللہ کے باغیوں اور نافرمانوں کا کیا انجام ہوتا ہے کیونکہ فرعون اور آل فرعون دراصل اللہ کے باغیوں کے پیش رو تھے۔ الزخرف
57 [٥٥] معبودوں کا جہنم میں داخلہ اور سیدنا عیسیٰ کا معاملہ :۔ جب سورۃ انبیاء کی یہ آیت ﴿ اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ﴾ (۹۸:۲۱)’’یعنی تم بھی اور اللہ کے سوا تم جن چیزوں کو پوجتے ہو، وہ سب جہنم کا ایندھن بنیں گے‘‘ نازل ہوئی تو مشرکین مکہ نے یہ اعتراض اٹھایا کہ عبادت تو عیسیٰ علیہ السلام کی بھی کی جاتی ہے۔ تو کیا وہ بھی جہنم کا ایندھن بنیں گے؟ پھر اس اعتراض کا خوب پروپیگنڈا شروع کردیا۔ عبداللہ بن الزِبعریٰ نے یہی سوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ خاموش رہے کیونکہ آپ خود کوئی جواب دینے کی بہ نسبت یہ بات زیادہ پسند فرماتے تھے کہ مشرکوں کے ایسے اعتراضات کے جو جواب بذریعہ وحی نازل ہوں وہی ان کو جواب دیا جائے۔ آپ کی خاموشی پر مشرکین قہقہے لگانے اور کھل کھلا کر ہنسنے لگے جس کا مطلب یہ تھا کہ ہماری اس دلیل نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو چپ کرا دیا۔ بالفاظ دیگر ایسی مسکت دلیل پیش کرکے میدان مار لیا ہے۔ الزخرف
58 [٥٦] مشرکین مکہ نے غل یہ مچایا تھا کہ اللہ کے سوا سارے ہی معبود جہنم کا ایندھن بنیں گے تو پھر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ہمارے معبودوں سے اچھے کیسے ہوئے اور ہمارے معبود ان سے کمتر کیسے ہوئے؟ پھر تو ہم اپنے ہی معبودوں کو اچھا کہیں گے۔ [٥٧] یعنی مشرکین ایسی بحث اس لیے نہیں چھیڑتے کہ اگر انہیں معقول جواب مل جائے تو اسے تسلیم کرلیں گے۔ بلکہ اس لیے کرتے ہیں کہ ایسی کج بحثی ان کی فطرت میں داخل ہوچکی ہے۔ اور وہ حق بات کو کج بحثیوں میں الجھا کر لوگوں کو حق کے قریب آنے سے روکنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ الزخرف
59 [٥٨] مشرکوں کو ان کی اس مسکت دلیل کا جواب :۔ اس آیت میں مشرکوں کے اعتراض کا جواب دیا گیا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام معبود نہیں تھے نہ انہوں نے کبھی اپنے معبود ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ بلکہ وہ تو اللہ کے انتہائی مخلص بندے تھے۔ ہم نے ان پر کئی قسم کے انعامات بھی کئے تھے۔ ان کی بن باپ پیدائش اللہ کی قدرت کاملہ کا ایک نمونہ تھی۔ پھر انہیں ایسے معجزات بھی دیئے تھے جو نہ پہلے کسی نبی کو دیئے گئے تھے اور نہ بعد میں۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ مقام عبودیت سے بلند ہو کر معبود کے مقام پر جاپہنچے تھے۔ بلکہ وہ اللہ کے بندے ہی رہے اور تادم زیست وہ اپنے آپ کو اللہ کا بندہ ہی کہتے رہے۔ اور بنی اسرائیل کی اتباع کے لیے ایک نمونہ تھے۔ الزخرف
60 [٥٩] قریش مکہ کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ اللہ کا رسول کوئی فرشتہ ہونا چاہئے تھا۔ اس اعتراض کے مختلف مقامات پر مختلف جواب مذکور ہیں۔ یہاں یہ جواب دیا جارہا ہے کہ اگر ہم چاہتے تو ہمیں یہ قدرت حاصل ہے کہ تم میں سے ہی فرشتے بنا دیتے۔ پھر جو فرشتہ رسول بن کر آتا سب اس کو دیکھ سکتے۔ اسکی بات سن سکتے اور سمجھ سکتے۔ مگر فرشتوں کی فطرت میں ''اختیار'' نہیں رکھا گیا۔ وہ تو حکم کے بندے ہوتے ہیں اور ان کی اطاعت اضطراری ہوتی ہے اختیاری نہیں ہوتی۔ اور یہ بات ہماری مشیئت کے خلاف ہے۔ الزخرف
61 [٦٠] یعنی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش اور پہلی مرتبہ دنیا میں آنا تو خاص بنی اسرائیل کے لیے ایک نشان تھا اور دوبارہ آنا قیامت کا نشان ہوگا۔ ان کے نزول سے لوگ معلوم کرلیں گے کہ اب قیامت بالکل نزدیک آلگی ہے۔ اکثر مفسرین نے اس آیت کا یہی مطلب لیا ہے۔ اور بے شمار احادیث صحیحہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے نزول کی تائید بھی کرتی ہیں جو بالکل قیامت کے قریب ہوگا۔ تاہم اس سے یہ مطلب بھی لیا جاسکتا ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی بن باپ پیدائش اور آپ کو عطا کردہ معجزات بذات خود قیامت کی علامت بن سکتے ہیں۔ یعنی جو ہستی عام عادی طریقے سے ہٹ کر کسی کو بغیر باپ کے پیدا کرسکتی ہے اور اسے محیر العقول معجزات عطا کرسکتی ہے وہ قیامت کو قائم کرنے کی بھی یقیناً قدرت رکھتی ہے۔ یہ مطلب صرف اس لحاظ سے درست معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں کوئی ایسا قرینہ نہیں پایا جاتا جو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ آمد یا نزول مسیح پر دلالت کرتا ہو۔ الزخرف
62 [٦١] یعنی جو شخص بھی قیامت کے آنے میں شک کرتا ہے وہ سمجھ لے کہ وہ شیطان کے ہتھے چڑھ چکا ہے۔ اور یہ بھی سمجھ لے کہ شیطان کی سب سے بڑی دشمنی اور سب سے بڑی گمراہی یہی ہے کہ کوئی شخص قیامت کے بارے میں شک کرنے لگ جائے۔ اور شیطان سے بچنے کا طریقہ صرف یہ ہے کہ انسان اللہ کی دی ہوئی ہدایات پر ناک کی سیدھ چلتا جائے۔ ادھر ادھر بالکل نہ مڑے۔ الزخرف
63 [٦٢] بنی اسرائیل کی فرقہ بندی اور اختلافات کی وجوہ اور سیدنا عیسیٰ کی بعثت کا مقصد :۔ حکمت سے مراد شرعی احکام کی بصیرت اور ان کے مصالح کا علم بھی ہے، شرعی احکام پر عمل پیرا ہونے کا طریق کار بھی اور انہیں عملی طور پر معاشرہ میں نافذ کرنے کا طریقہ بھی۔ [٦٣] یعنی میری بعثت کا ایک مقصد تو یہ ہے کہ تمہیں شرعی احکام کے متعلق تمام حکمت کی باتیں بتاؤں اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ جن جن باتوں میں تم اختلاف کر رہے ہو۔ اس کی حقیقت تم پر واضح کر دوں۔ واضح رہے کہ یہود یا بنی اسرائیل بہت سے فرقوں میں بٹ گئے تھے۔ کچھ اختلاف تو ان کے قیامت سے تعلق رکھتے تھے۔ یعنی قیامت کے متعلق انہوں نے ایسے عقائد گھڑ لیے تھے جو عنداللہ مسؤلیت کے مقصد کو ہی ختم کردیتے تھے۔ مثلاً یہ کہ وہ اللہ کے بیٹے اور چہیتے ہیں۔ یا وہ چونکہ انبیاء کی اولاد ہیں۔ لہٰذا جنت صرف انہی کا حق ہے۔ نیز یہ کہ انہیں دوزخ کی آگ چھو ہی نہیں سکتی مگر صرف چند دن کے لیے اور کچھ اختلاف ان کے حلت و حرمت سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے خود ہی اپنے آپ پر بعض چیزوں کو حرام کرلیا تھا جنہیں اللہ نے حرام نہیں کیا تھا۔ پھر بعد میں اللہ نے سزا کے طور پر واقعی ان چیزوں کو ان پر حرام کردیا تھا۔ جیسا کہ عیسیٰ علیہ السلام نے انہیں فرمایا : ﴿وَلِاُحِلَّ لَکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ عَلَیْکُمْ ﴾(۵۰:۳) ’’اور میں اس لیے آیا ہوں کہ بعض چیزیں جو (تمہاری سرکشی کی وجہ سے) تم پر حرام کردی گئی تھیں ان کو (اللہ کے حکم سے) تم پر حلال کردوں‘‘ لہٰذا اللہ سے ڈر کر ایسے اختلاف چھوڑ دو اور کچھ اختلافات اس وجہ سے پیدا ہوگئے تھے کہ ان کی کتاب تورات اپنی اصلی زبان اور عبارت و الفاظ کے لحاظ سے محفوظ نہ رہی تھی۔ اس میں بزرگوں کے اقوال اور مضامین کچھ اس طرح گڈ مڈ ہوگئے تھے کہ انہیں خود بھی یہ معلوم نہ ہوسکتا تھا کہ اس میں الہامی الفاظ اور عبارت کون سی ہے اور الحاقی کون سی؟ الزخرف
64 الزخرف
65 [٦٤] سیدنا عیسیٰ سے متعلق بنی اسرائیل کے اختلافات :۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے ارشاد کے باوجود بنی اسرائیل اپنے اختلاف اور فرقہ بازی سے باز نہ آئے۔ مزید ستم یہ ڈھایا کہ سیدنا عیسیٰ کی ذات میں بھی اختلاف پیدا کرکے ان اختلافات کو اور بھی زیادہ کردیا۔ بنی اسرائیل کے ایک فرقہ نے سیدہ مریم پر تہمت لگائی اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے ایسے دشمن بنے کہ حکومت وقت کے تعاون سے بزعم خویش انہیں سولی پر چڑھا کے دم لیا۔ اور جو لوگ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے وہ دوسری انتہا کو جا پہنچے۔ کسی نے انہیں اللہ کا بیٹا، کسی نے تین خداؤں میں سے ایک خدا اور کسی نے انہیں اللہ ہی قرار دے دیا۔ پھر اپنے اپنے موقف کی حمایت میں ایسی ضد اور ہٹ دھرمی سے کام لیا کہ بے شمار فرقے وجود میں آکر ایک دوسرے سے لڑنے جھگڑنے لگے۔ الزخرف
66 الزخرف
67 [٦٥] قیامت کو دینی دوستی کے علاوہ سب قسم کے دوست باہم دشمن بن جائیں گے :۔ قیامت کے دن صرف وہ دوستی برقرار رہے گی جس کی بنیاد تقویٰ پر ہوگی اور جنہوں نے صرف اللہ کی خاطر اور اللہ کے دین کی خاطر ایک دوسرے سے دنیا میں دوستی رکھی ہوگی باقی سب قسم کی دوستیاں دشمنی میں تبدیل ہوجائیں گی۔ اور ایسی دوستیاں بھی کئی قسم کی ہوتی ہیں۔ مثلاً مشرکوں کی اپنے بتوں سے محبت اور آپس میں دوستی۔ اسلام کے خلاف متحدہ محاذ بنانے میں ہر قسم کے کافروں سے دوستی۔ مجرموں کی مجرموں سے جیسے ڈاکوؤں کی ڈاکوؤں سے دوستی، دنیوی مفادات کی خاطر دوستی۔ ایسی سب دوستیاں اور رشتے نہ صرف یہ کہ منقطع ہوجائیں گے بلکہ یہ سب ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے اور سب ایک دوسرے پر یہ الزام دھریں گے کہ فلاں میری گمراہی کا باعث بنا اور فلاں اپنے ساتھ مجھے بھی لے ڈوبا۔ الزخرف
68 [٦٦] یعنی وہ لوگ جنہوں نے تقویٰ کی بنا پر دوستی رکھی ہوگی۔ نیکی کے کاموں پر ایک دوسرے سے تعاون کیا ہوگا۔ اللہ کے دین کے قیام کی خاطر آپس میں مشترکہ کوششیں کی ہوں گی۔ دین کے رشتہ کو سب رشتوں اور محبتوں سے مقدم سمجھا ہوگا۔ ایسے بندوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان عام ہوگا۔ کہ آج قیامت کے دن تمہیں کسی پریشانی کا خوف نہیں رکھنا چاہئے اور انہیں اپنی سابقہ زندگی پر کچھ ملال بھی نہ ہوگا۔ اس لیے کہ انہوں نے دنیا میں اپنی زندگی اللہ کی فرمانبرداری میں گزاری تھی۔ الزخرف
69 الزخرف
70 [٦٧] ازواج کا ایک مطلب تو ترجمہ سے واضح ہے اور اس کا دوسرا مطلب تمہاری ہی طرح کے تمہارے دوسرے ساتھی اور دوست، جن کی دنیا میں دوستی کی بنیاد محض تقویٰ پر تھی۔ الزخرف
71 [٦٨] اگرچہ جنت کی ساری نعمتیں ہی ایک دوسری سے بڑھ چڑھ کر ہوں گی مگر جو لذت و سرور اہل جنت کو دیدار الٰہی سے حاصل ہوگا۔ اتنا اور کسی نعمت سے نہ ہوگا اور یہ نعمت بھی اہل جنت کو وہاں حاصل ہوگی۔ الزخرف
72 [٦٩] یعنی اب تم اس جنت کے ہمیشہ کے لیے مالک بن چکے۔ دنیا کی طرح عارضی ملکیت نہ ہوگی جو مرنے کے بعد دوسرے ورثاء کو از خود منتقل ہوجاتی ہے۔ وہاں نہ موت ہے اور نہ اس قسم کا کوئی خطرہ ہے۔ الزخرف
73 الزخرف
74 الزخرف
75 [٧٠] یُفَتَّرُ فتربمعنی کسی چیز کی قوت یا رفتار میں بتدریج کمی واقع ہوتے جانا۔ قوت کے بعد کمزوری، تیز رفتاری کے بعد آہستہ آہستہ رفتار سست ہوتے جانا اور فتور کے معنی تیزی کے بعد سستی یا ٹھہراؤ۔ گویا اہل دوزخ کو جو عذاب دیا جائے گا اس میں نہ تو کمی واقع ہوگی اور نہ ہی کبھی کوئی وقفہ پڑے گا۔ مدت ہائے مدید جب ان پر ایسا سخت عذاب ہی ہوتا رہے گا اور اس میں کوئی کمی یا وقفہ نہ آئے گا تو ایسی کمی یا وقفہ سے وہ بالآخر مایوس ہوجائیں گے۔ الزخرف
76 [٧١] یعنی ہم نے انہیں ایسے عذاب سے بچاؤ کے لیے پوری طرح بروقت خبردار کردیا تھا۔ اور اس میں کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی۔ سمجھنے کو انہیں عقل بھی دی تھی۔ رسول بھی بھیجے تھے اور کتاب ہدایت بھی۔ اس طرح ہم نے ہر طرح سے ان پر حجت تمام کردی تھی۔ پھر بھی انہوں نے اگر عذاب سے بچنے کی کوشش نہیں کی تو اس میں ہمارا کیا قصور؟ قصور تو ان کا اپنا ہی ہے۔ الزخرف
77 [٧٢] اہل دوزخ عذاب کی شدت میں کمی یا وقفہ سے سخت مایوس ہو کر دوزخ کے فرشتہ کو، جس کا نام مالک ہوگا، پکار کر کہیں گے، مالک! نہ ہمارے عذاب میں کمی واقعی ہوتی ہے نہ کبھی وقفہ پڑتا ہے تو اپنے پروردگار سے کہہ کہ ہمیں ایک ہی دفعہ مار ڈالے۔ اور یہ عذاب کا قصہ ختم ہو۔ مالک کہے گا۔ تمہارے جرائم کی سزا کے لیے بہت طویل مدت درکار ہے۔ لہٰذا مرجانے کا تصور ذہن سے نکال دو۔ تمہیں زندہ رکھ کر ہی سزا دی جاسکتی ہے۔ لہٰذا تمہیں یہیں رہنا ہوگا اور زندہ ہی رکھا جائے گا۔ الزخرف
78 [٧٣] یہ کلام دوزخ کے فرشتہ مالک کا بھی ہوسکتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کا نائب ہونے کی حیثیت سے بات کر رہا ہو۔ اور خود اللہ تعالیٰ کا بھی۔ یعنی ایسی سخت سزا تمہیں اس لیے دی جارہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی سچی باتیں تم سننا بھی گوارا نہ کرتے تھے تمہاری اسی اکڑ کا یہ علاج کیا جارہا ہے۔ الزخرف
79 [٧٤] کفار مکہ کا اقدام یہ تھا کہ اسلام کی دعوت کو کبھی پروان نہ چڑھنے دیں گے۔ اس دعوت کو روکنے کے لیے کبھی وہ قرآن اونچی آواز سے پڑھنے پر مسلمانوں پر پابندی لگاتے اور کبھی اپنے آپ پر اور کہتے کہ یہ ہماری ہی غفلت اور سستی کا نتیجہ ہے کہ اسلام کی دعوت پھیلتی جارہی ہے۔ کبھی باہر سے مکہ آنے والوں سے ملاقاتیں کرتے اور کہتے اس شخص کے قریب نہ جانا جو اپنے آپ کو نبی کہتا ہے کیونکہ یہ رشتہ داروں میں پھوٹ ڈال دیتا ہے۔ اور کبھی پیغمبر اسلام کو مار ڈالنے کی تدبیریں کرتے غرض اس جملہ میں کفار مکہ کی سب معاندانہ سرگرمیوں کا ذکر ہے۔ اور جو بھی تدبیر وہ سوچتے تھے اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر ان کے کئے کرائے پر پانی پھیر دیتی تھی۔ تاآنکہ ان کی سب تدبیریں ناکام ہوگئیں۔ ان کے سینے جلتے رہے اور اسلام غالب ہوتا چلا گیا۔ الزخرف
80 [٧٥] ان کی خفیہ تدبیروں کی ناکامی کی اصل وجہ یہ تھی کہ جنہیں وہ اپنی خفیہ تدبیریں سمجھتے تھے وہ خفیہ نہیں ہوتی تھیں۔ ہم ان کے سب خفیہ مشورے، ان کی باہمی گفتگو ان کی سازشیں سب کچھ دیکھ اور سن رہے ہوتے ہیں۔ پھر ہمارے فرشتے یہ سب کچھ ریکارڈ بھی کرتے جاتے ہیں۔ جو قیامت کے دن ہم ان کے سامنے لا رکھیں گے۔ الزخرف
81 [٧٦] یعنی تم کہتے ہو کہ اللہ کی اولاد ہے۔ اگر مجھے تمہاری یہ بات دل لگتی اور مجھے ایسا یقین حاصل ہوجاتا تو میں یقیناً سب سے پہلے اس کی عبادت کرنے والا ہوتا۔ لیکن یہ بات میری عقل اور سمجھ سے باہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد ہو۔ اور کائنات کے تصرف میں اس کا بھی کچھ اختیار ہو۔ وجہ یہ ہے کہ اگر ایسی صورت ہوتی تو کائنات کے پورے کے پورے نظام میں جو ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ ایک سے زیادہ خداؤں کی صورت میں یہ کبھی برقرار نہیں رہ سکتی تھی۔ الزخرف
82 الزخرف
83 الزخرف
84 [٧٧] مشرکوں کے کچھ خدا آسمان میں اور کچھ زمین میں :۔ مشرکوں نے کچھ خدا تو آسمان میں بنا رکھے ہیں۔ جیسے فرشتے، شمس و قمر اور کئی دوسرے سیارے اور کچھ زمین میں جیسے بت، آستانے، شجر و حجر اور بزرگوں کے مزارات۔ پھر وہ سمجھتے بھی نہیں اور اپنی بات پر اکڑ گئے ہیں۔ اور فضول قسم کی کج بحثیوں پر اتر آئے ہیں۔ لہٰذا انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیجئے۔ قیامت کے دن ان کو خود بخود معلوم ہوجائے گا کہ معبود برحق صرف ایک ہی ذات ہوسکتی ہے۔ اور پوری کائنات کا وہی خالق و مالک ہے۔ صرف اسی کی حکومت ہے اس کا تصرف اور اختیار کارفرما ہے۔ باقی سب چیزیں اس کی مخلوق اور مملوک ہیں جو دوسروں کے نفع و نقصان تو کجا اپنی ذات کے لیے بھی کسی طرح کے نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتیں۔ الزخرف
85 الزخرف
86 [٧٨] سفارش کی اجازت کیسے لوگوں کو ہوگی اور کن کے حق میں ہوگی؟:۔ یعنی ایسے معبود جن کو لوگوں نے معبود قرار دے لیا تھا حالانکہ وہ علیٰ وجہ البصیرت حق کے گواہ اور اس کے علمبردار تھے، وہ سفارش کرسکیں گے۔ جیسے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام یا سیدنا عزیر علیہ السلام یا فرشتے یا وہ بزرگ جنہیں لوگوں نے الوہیت کا مقام دے رکھا تھا مگر وہ خود ساری عمر شرک سے منع کرتے رہے اور کلمہ حق یعنی توحید کے علمبردار بنے رہے ایسے لوگوں کو اللہ سفارش کرنے کی اجازت دے گا مگر ان لوگوں کی نہیں جنہوں نے انہیں معبود بنا رکھا تھا بلکہ صرف ان گنہگاروں کے حق میں سفارش کرسکیں گے جنہوں نے کلمہ حق یعنی توحید کی علم و یقین کے ساتھ شہادت دی ہوگی اور ان سے کچھ گناہ بھی سرزد ہوگئے ہوں گے۔ ضمناً اس سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ گواہی وہی معتبر ہوسکتی ہے جس کی بنیاد علم و یقین پر ہو۔ اور مشرک جو اپنے معبودوں کے معبود ہونے پر گواہی دیتے ہیں۔ چونکہ اس گواہی کی بنیاد نہ علم (یعنی نقلی دلیل) پر ہے اور نہ یقین پر ہے بلکہ وہم و قیاس پر ہے۔ لہٰذا ان کے معبودوں کے حق میں ان کی گواہی مردود ہے مقبول نہیں۔ دنیا میں تو وہ ایسی گواہی دے رہے ہیں مگر آخرت میں ایسی گواہی نہیں چلے گی۔ الزخرف
87 [٧٩] یعنی مقدمہ کا اقرار کرتے ہیں مگر اس کے منطقی نتیجہ کا انکار کردیتے ہیں۔ اصل میں یہ سوال یوں بنتا ہے کہ تمہارے بتوں نے نہ تو تمہیں پیدا کیا ہے۔ نہ تمہارے نفع و نقصان کے مالک ہیں پھر وہ تمہاری عبادت کے حقدار کیسے بن گئے؟ یہ دھوکا تمہیں کہاں سے لگ جاتا ہے کہ تمہیں پیدا کرنے والا اور تمہاری حاجات پوری کرنے والا تو اللہ ہو اور پرستش تم اللہ کی بجائے دوسروں کی کرنے لگ جاؤ؟ الزخرف
88 [٨٠] ایسا وقت غالباً سب پیغمبروں پر آتا ہے۔ جب وہ اپنی قوم کو سمجھانے میں اپنی جان تک کھپا دیتے ہیں۔ پھر بھی اکثر لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں تو پیغمبروں کی بات سمجھنے کی بجائے ان کی جان کے دشمن بن جاتے ہیں۔ تو اس وقت پیغمبر ایسی قوم کے ایمان لانے سے سخت مایوس ہوجاتے ہیں اور ان کی زبان سے بے ساختہ ایسے الفاظ نکل جاتے ہیں۔ سیدنا نوح علیہ السلام نے بھی اسی طرح مایوس ہو کر دعا کی تھی کہ : ’’یا اللہ! اب ان کافروں میں سے کسی ایک کو زندہ نہ چھوڑ۔ کیونکہ ان بدبختوں کے ہاں جو اولاد ہوگی مجھے ان سے بھی ایمان لانے کی توقع نہیں رہی۔ ان کی اولاد بھی فاسق اور کافر ہی پیدا ہوگی‘‘ (٧١: ٢٧) کچھ ایسی صورت حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مخلصانہ التجا اور درد بھری آواز کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کو خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ بہرحال نہ ماننے کا تہیہ کئے بیٹھے ہیں۔ لہٰذا اللہ اپنے رسول کی ضرور مدد کرے گا اور اپنی رحمت سے ان کو غالب اور اپنے کلمہ کو سربلند کرے گا۔ الزخرف
89 [٨١] یہ سلام دراصل ترک ملاقات کا سلام ہے جو کسی کی شرارتوں اور حرکتوں سے تنگ آکر کہا جاتا ہے کہ تم اپنے حال میں مگن رہو اور مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔ یعنی آپ ان کافروں سے اور ان کی کج بحثیوں سے درگزر کیجئے۔ وہ وقت بس آنے ہی والا ہے جب ساری حقیقت کھل کر ان کے سامنے آجائے گی۔ چنانچہ اس حقیقت کا بہت حد تک تو ان مشرکوں کو دنیا میں ہی پتا چل گیا۔ اور پورا پتا آخرت کو لگ جائے گا۔ الزخرف
0 الدخان
1 الدخان
2 الدخان
3 [١] لیلۃ القدر اور شب برات ایک ہی رات ہے :۔ یعنی جس رات قرآن نازل ہوا وہ بڑی خیر و برکت والی رات تھی۔ کیونکہ اس رات کو تمام دنیا کی ہدایت کا اہتمام کیا جارہا تھا۔ اس مقام پر اس رات کو ﴿لَیْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ﴾ کہا گیا اور سورۃ القدر میں ﴿لَیْلَۃُ الْقَدْرِ﴾ یعنی بڑی قدر و منزلت والی رات یا وہ رات جس میں بڑے اہم امور کے فیصلے کئے جاتے ہیں۔ جیسا کہ اس سے اگلی آیت میں اس کی وضاحت موجود ہے۔ مطلب دونوں کا ایک ہی ہے بالفاظ دیگر ایک ہی رات کو یہاں ﴿لَیْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ﴾ کہا گیا ہے اور سورۃ القدر میں ﴿لَیْلَۃُ الْقَدْرِ﴾ اور سورۃ بقرہ میں یہ صراحت بھی موجود ہے ہے کہ یہ رات ماہ رمضان المبارک کی رات تھی۔ (٢: ١٨٥) اور احادیث صحیحہ میں یہ صراحت بھی موجود ہے کہ یہ رات ماہ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے کوئی رات ہوتی ہے۔ اور اکثر اقوال کے مطابق یہ رمضان کی ستائیسیویں رات ہوتی ہے۔ مگر بعض ناقابل احتجاج روایات کی بنا پر بعض لوگوں نے اس رات کو دو الگ الگ راتیں قرار دے لیا یعنی ﴿لَیْلَۃُ الْقَدْرِ﴾ کو تو رمضان کے آخری عشرہ میں ہی سمجھا اور ﴿لَیْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ﴾ کو ماہ شعبان کی پندرہ تاریخ قرار دے دیا۔ اور اس کا نام شب قدر یا شب برات رکھ لیا۔ حالانکہ شب کا لفظ لیلۃ کا فارسی ترجمہ ہے اور برات کا لفظ قدر کا۔ گویا ﴿لَیْلَۃُ الْقَدْرِ﴾ کا ہی فارسی زبان میں ترجمہ کرکے ایک دوسری رات بنا کر اس کا تہوار منانے لگے اور اس میں پٹاخے اور آتش بازی چلانے لگے۔ گویا جو کام ہندو اپنے دسہرہ کے موقع پر کرتے تھے۔ وہ مسلمانوں نے شب برات سے متعلق کرکے اپنے تہوار منانے کے شوق کو پورا کرلیا۔ رہی یہ بات کہ کیا سارے کا سارا قرآن اسی رات اترا تھا جیسا کہ بظاہر اس سورت اور سورۃ القدر سے معلوم ہوتا ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ سارے کا سارا قرآن ہی لوح محفوظ سے نقل کرکے فرشتوں اور بالخصوص جبرئیل علیہ السلا م کے حوالہ کردیا گیا تھا۔ یا یہ سارا قرآن آسمان دنیا پر اتار دیا گیا تھا۔ پھر یہ وہاں سے حسب موقع و ضرورت تئیس سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتا رہا۔ البتہ سورۃ علق کی پہلی پانچ آیات اسی رات رسول اللہ پر غار حرا میں نازل ہوئی تھیں۔ [٢] یعنی قرآن کریم کے نازل کرنے سے ہمارا مقصود یہ تھا کہ اس سے تمام اہل عالم کو ان کے انجام سے خبردار کیا جائے اور ان کی گمراہی اور برے اعمال کی سزا سے انہیں ڈرایا جائے۔ الدخان
4 [٣] لیلۃ القدر کو کس قسم کے فیصلے ہوتے ہیں؟:۔ یعنی جس رات قرآن کا نزول ہوا اس رات آئندہ سال میں دنیا پر واقع ہونے والے اہم امور کے نہایت ٹھوس اور پائیدار فیصلے کرکے فرشتوں کے حوالہ کردیئے جاتے ہیں۔ اور یہ فیصلے سراسر حکمت پر مبنی ہوتے ہیں اور اسی مضمون کو سورۃ القدر میں یوں بیان فرمایا کہ ’’اس رات ملائکہ اور جبرئیل اپنے پروردگار کے اذن سے ہر طرح کا حکم لے کر اترتے ہیں‘‘ (٩٧: ٤) اس آیت سے معلوم ہوا کہ کائنات کے نظم و نسق کے بارے میں یہ ایک ایسی رات ہے جس میں اللہ تعالیٰ افراد، اقوام اور ملکوں کی قسمتوں کے فیصلے کرکے اپنے فرشتوں کے حوالہ کردیتا ہے۔ پھر وہ انہی فیصلوں کے مطابق عملدرآمد کرتے رہتے ہیں۔ یعنی افراد یا اقوام کی زندگی اور موت، فتح و شکست، عروج و زوال، قحط اور ارزانی اور رزق وغیرہ سے متعلق فیصلے اسی رات میں کردیئے جاتے ہیں۔ الدخان
5 الدخان
6 [٤] آپ رحمۃ للعالمین تھے :۔ یعنی تمام اہل عالم کے لئے ایک خبردار کرنے والا رسول بھیجنا صرف ہماری حکمت کا ہی تقاضا نہ تھا بلکہ یہ اہل عالم پر ہماری رحمت کا بھی تقاضا تھا۔ وہ لوگوں کی پکار اور فریاد بھی سنتا ہے اور ان کے حالات کو جانتا بھی ہے۔ اسی لیے اس نے عین ضرورت کے مطابق خاتم النبییّن صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن دے کر اور تمام اہل عالم کے لیے رحمت کبریٰ بناکر مبعوث فرمایا۔ تاکہ کفر و شرک کی گمراہیوں میں پھنسی اور ظلم و جور میں ڈوبی ہوئی انسانیت کو سیدھی راہ دکھا دی جائے کہ کس طرح وہ اپنی باہمی نہ ختم ہونے والی لڑائیوں، لوٹ مار اور قتل و غارت سے نجات حاصل کرکے دنیا میں امن و چین کے ساتھ زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ الدخان
7 [٥] یعنی اگر تمہیں اس بات کا یقین ہے کہ کائنات میں موجود ساری مخلوق کی ربوبیت عامہ کی ذمہ داری صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے تو پھر تمہیں یہ بھی یقین کرلینا چاہئے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الواقع اللہ تعالیٰ نے ہی تمہاری ہدایت کے لیے بھیجا ہے۔ کیونکہ وہ صرف تمہاری جسمانی تربیت کا ہی ذمہ دار نہیں بلکہ تمہاری روحانی تربیت اور تمہیں ہدایت کی راہ بتانا بھی اس کے ذمہ ہے۔ الدخان
8 [٦] یعنی تم ہی نہیں بلکہ تمہارے آباء و اجداد بھی اس غلطی اور گمراہی میں مبتلا تھے۔ ان کا پروردگار بھی وہی معبود برحق ہے جو زندہ کرسکتا اور مار سکتا ہے۔ لہٰذا انہیں بھی اسی معبود کی عبادت کرنا چاہئے تھی۔ اب تم اپنے آباء کی اس غلطی اور گمراہی کو ہی سند بناکر اپنے لیے غیر اللہ کی عبادت کا جواز پیش کرنا چاہتے ہو؟۔ الدخان
9 [٧] اس شک کے بھی دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اس معاملہ کے مقدمہ میں بھی شک میں مبتلا ہیں۔ محض باپ دادا کی تقلید میں یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ زمین و آسمان اللہ تعالیٰ نے ہی بنائے ہیں۔ انہیں اس بات کا بھی پورا یقین نہیں ہے۔ لہٰذا اس مقدمہ کا نتیجہ بھی ان کے نزدیک مشکوک ہوگیا ہے اور وہ ان سب باتوں کو محض کھیل تماشا ہی سمجھتے ہیں۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ خواہ وہ بڑے زور شور سے اس بات کے مدعی ہیں کہ قیامت اور آخرت وغیرہ کوئی چیز نہیں اور نہ ہی ہمیں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا ہے۔ مگر ان کے دلوں کے اندر یہ شک موجود رہتا ہے کہ اگر قیامت کا عقیدہ درست ہوا تو ہماری شامت آجائے گی۔ لہٰذا وہ دونوں طرف سے شک و شبہ میں پڑے ہوتے ہیں۔ انہیں کسی چیز کا بھی یقین نہیں ہوتا۔ اور جو قیامت کے متعلق باتیں بناتے اور مذاق اڑاتے ہیں یہ سب کچھ شغل اور کھیل تماشے کے طور پر کرتے ہیں۔ الدخان
10 [٨] قریش پر قحط کا عذاب :۔ آیت نمبر ١٠ سے نمبر ١٦ تک تفسیر میں مفسرین میں اختلاف ہے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بڑے زور شور اور یقین کے ساتھ ان آیات کی تفسیر درج ذیل الفاظ میں پیش کرتے ہیں : عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہ مانی اور شرارتوں پر کمر باندھی تو آپ نے یوں بددعا فرمائی اے اللہ! ان پر سیدنا یوسف علیہ السلام کے زمانہ کی طرح سات سال کا قحط بھیج کر میری مدد فرما۔ آخر ان پر ایسا سخت قحط نازل ہوا کہ وہ ہڈیاں اور مردار تک کھانے لگے اور نوبت بایں جا رسید کہ ان میں سے اگر کوئی شخص بھوک کی شدت میں آسمان کی طرف دیکھتا تو ایک دھواں سا دکھائی دیتا۔ اس وقت ابو سفیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہنے لگا : محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! تمہاری قوم ہلاک ہو رہی ہے، دعا کرو اللہ یہ قحط ختم کر دے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی۔ اور مشرک بھی کہنے لگے : پروردگار ! ہم پر یہ عذاب دور کردے۔ ہم ایمان لاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا۔ دیکھو جب یہ عذاب موقوف ہوا تو یہ لوگ پھر شرک کرنے لگیں گے۔ خیر آپ کی دعا کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ عذاب اٹھا لیا تو وہ پھر کفر شرک کرنے لگے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔ ﴿یَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَۃَ الْکُبْرٰی اِنَّا مُنْتَقِمُوْنَ ﴾ میں بطشۃ سے مراد بدر کی سزا ہے۔ رہا آخرت کا عذاب تو وہ ان سے کبھی موقوف نہ ہوگا۔ ابن مسعود کہتے ہیں کہ پانچ چیزیں ہیں جو گزر چکیں۔ لزام (بدر میں قیدیوں کی گرفتاری) روم کا دوبارہ غلبہ' بطشۃ' (بدر کی ذلت آمیز شکست) چاند (کا پھٹنا) اور دخان (دھوئیں کا عذاب) (بخاری۔ کتاب التفسیر) دخان مبین سے کون سا دھواں مراد ہے؟:۔ اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت نمبر ١٠ میں مذکور دھوئیں سے مراد وہ دھواں لیتے ہیں جو قیامت کے قریب چھا جائے گا اور وہ قیامت کی ایک علامت ہوگا روایات کے مطابق یہ دھواں چالیس دن زمین کو محیط رہے گا۔ نیک آدمی پر اس کا اثر خفیف ہوگا جس سے انہیں زکام سا ہوجائے گا اور کافر و منافق کے لیے یہ دھواں سخت تکلیف دہ ثابت ہوگا۔ یہ دھواں شاید وہ ہی سماوات کا مادہ ہو جس کا ذکر ﴿ثُمَّ اسْتَوٰٓی اِلَی السَّمَاءِ وَہِیَ دُخَانٌ ﴾ میں ہوا ہے اور وہ ﴿یَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَۃَ الْکُبْرٰی اِنَّا مُنْتَقِمُوْنَ ﴾ سے مراد قیامت کا عذاب لیتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب، تاہم ان آیات میں مذکور واقعات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لیے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہی کی تفسیر زیادہ راجح معلوم ہوتی ہے۔ الدخان
11 الدخان
12 الدخان
13 الدخان
14 [٩] یعنی کبھی تو کہتے تھے کہ کوئی عجمی اسے قرآن سکھا جاتا ہے پھر وہ سے اپنی طرف سے ہم پر پیش کرکے کہتا ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے جو مجھ پرنازل ہوا ہے۔ اور جب آپ یہ دعویٰ کرتے تھے کہ اگر تم لوگ اللہ کی دعوت پر ایمان لے آؤ تو تم عرب و عجم کے مالک بن جاؤ گے۔ تو آپ کو دیوانہ کہنے لگتے تھے۔ گویا یہ دونوں الگ الگ مواقع پر کافروں کے الزامات ہیں۔ جو یہاں اکٹھے کردیئے گئے ہیں۔ الدخان
15 [١٠] یعنی اگر ہم ان پر سے یہ قحط کا عذاب کچھ مدت کے لیے ہٹا بھی دیں تو پھر وہی حرکتیں کرنے لگیں گے جو پہلے کرتے رہے اور اس قحط کے طبعی اسباب تلاش کرنے لگیں گے۔ پھر بھی انہیں یہ خیال نہیں آئے گا کہ ہمیں ہماری شرارتوں کی سزا اس صورت میں ملی تھی۔ الدخان
16 الدخان
17 [١١] فرعونیوں کی باربار کی عہد شکنی :۔ یعنی وہ بھی انتہائی ہٹ دھرم اور عہد شکن لوگ تھے۔ جب ان پر کوئی عذاب آتا تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے التجا کرتے کہ اللہ سے دعا کرو ہم پر سے یہ عذاب ہٹا دے تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ پھر جب سیدناموسیٰ علیہ السلام کی دعا سے وہ عذاب دور ہوجاتا تو وہ پھر اکڑ جاتے۔ اور انہوں نے بار بار ایسی عہد شکنی کی تھی۔ یہ کفار مکہ بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں۔ [١٢] یعنی ایسا رسول جو نہایت اعلیٰ اور بلند سیرت و کردار کا مالک تھا۔ مراد سیدنا موسیٰ علیہ السلام ہیں۔ الدخان
18 [١٣] سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا فرعون سے مطالبہ :۔ اس آیت کے دو مطلب یہ ہیں۔ ایک تو ترجمہ سے واضح ہے اور قرآن میں متعدد مقامات پر مذکور ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کا فرعون سے پہلا مطالبہ یہ تھا کہ میں اللہ کا رسول ہوں لہٰذا مجھ پر ایمان لاؤ اور دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ قوم بنی اسرائیل کو اپنی غلامی سے آزاد کرکے میرے ہمراہ روانہ کردو۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ’’اے اللہ کے بندو! میرا حق مجھے ادا کرو‘‘ یعنی میری بات مانو اور مجھ پر ایمان لاؤ۔ یہ اللہ کی طرف سے تم پر میرا حق ہے۔ اور مابعد کا جملہ کہ ’’میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں‘‘ اس دوسرے مطلب سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ الدخان
19 [١٤] یعنی جب میں اللہ کی طرف سے تمہارے سامنے صریح سند یا ایسے معجزات پیش کر رہا ہوں جو اس کی طرف سے میرے رسول ہونے پر واضح ثبوت ہیں تو پھر جو کچھ دعوت میں پیش کر رہا ہوں وہ اللہ ہی کی دعوت ہے۔ اگر تم میری مخالفت کرو گے اور سرکشی پر اتر آؤ گے تو یہ دراصل اللہ ہی کی سرکشی اور بغاوت کے مترادف ہے۔ اب خود سوچ لو کہ اللہ سے سرکشی کرنے کے بعد تم اس کی گرفت سے بچ سکتے ہو؟ الدخان
20 [١٥] فرعون کا سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کا ارادہ :۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب اندر ہی اندر سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی دعوت پھیل رہی تھی۔ بنی اسرائیل کے علاوہ قوم فرعون کے بھی بہت سے آدمی درپردہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لاچکے تھے اور فرعون کو اپنی سلطنت کے چھن جانے کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا اور اس نے اپنے درباریوں سے اور قوم کے لوگوں سے کہا تھا کہ ’’مجھے چھوڑو میں موسیٰ کو قتل کئے دیتا ہوں ورنہ وہ تمہارا دین بھی تباہ کر دے گا اور ملک میں سخت بدامنی پھیلا دے گا‘‘ اس کے جواب میں موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں اپنے پروردگار کی پناہ میں آچکا ہوں۔ لہٰذا تم میرا بال بھی بیکا نہ کرسکو گے۔ مجھے رجم کرنا تو دور کی بات ہے۔ الدخان
21 [١٦] یعنی اگر تم میری دعوت قبول نہیں کرتے تو مجھے میرے حال پر چھوڑ دو اور مجھے ایذا نہ پہنچاؤ۔ ورنہ تم کبھی اللہ کی گرفت سے بچ نہ سکو گے۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر تم مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو نہ لاؤ۔ مگر میری راہ نہ روکو اور بنی اسرائیل کو میرے ہمراہ جانے دو۔ الدخان
22 [١٧] سیدناموسیٰ علیہ السلام کی اپنے اللہ سے فریاد :۔ موسیٰ علیہ السلام کی یہ فریاد ویسی ہی فریاد ہے جو انبیائے کرام اپنی قوم کو سمجھانے اور ان کی طرف سے پوری طرح مایوس ہوجانے کے بعد کیا کرتے ہیں۔ گویا اس فریاد کا زمانہ ٹھیک وہی زمانہ ہے۔ جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل اور ایمانداروں کے ہمراہ ہجرت کرنے کا حکم ملا تھا۔ الدخان
23 [١٨] سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو ہجرت کا حکم اور تعاقب کی خبر :۔ بنی اسرائیل تو سب کے سب ہی آپ پر ایمان لاچکے تھے۔ گو ان میں سے اکثر اپنے ایمان کو فرعون کی ایذارسانی کے خوف سے ظاہر نہیں کر رہے تھے۔ ان کے علاوہ کچھ لوگ قوم فرعون کے بھی آپ پر ایمان لاچکے تھے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو حکم ہوا کہ ان سب ایمانداروں کو ساتھ لے کر خفیہ طریقے سے مصر سے ہجرت کر جائیں۔ یہ لوگ ایک لاکھ سے زائد نفوس تھے۔ چنانچہ آپ نے خفیہ طریقہ سے سب کو ہجرت کا پیغام پہنچایا اور وقت اور جگہ بھی مقرر کردی گئی جہاں وہ سب اکٹھے ہو کر ہجرت کے لیے روانہ ہوں گے۔ ساتھ ہی سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو یہ اطلاع بھی دے دی گئی کہ فرعون اور آل فرعون تمہارا تعاقب کریں گے۔ لہٰذا یہ ہجرت کا سفر چاک و چوبند رہ کر اور ہر احتیاط کو ملحوظ رکھتے ہوئے کرنا ہوگا۔ الدخان
24 [١٩] سمندرکو کھڑے کا کھڑا چھوڑنے کی ہدایت اور فرعون کی غرقابی :۔ اس مقام پر جستہ جستہ واقعات کی طرف اشارے ہی کئے گئے ہیں۔ جب سیدناموسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی سمندر سے پار اتر چکے تو انہوں نے دیکھا کہ فرعون اور اس کا عظیم لشکر ان کے تعاقب میں سمندر کے دوسرے ساحل پر پہنچ گئے ہیں۔ اس وقت سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو خیال آیا کہ سمندر کے پانی پر پھر اپنا عصا ماریں تاکہ سمندر کا پانی پھر سے رواں ہوجائے۔ اور فرعون اور اس کا لشکر سمندر کے دوسرے ساحل پر ہی کھڑے کے کھڑے رہ جائیں اور سمندر میں بنے ہوئے خشک راستے سے موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کا تعاقب نہ کرسکیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر وحی کی کہ ایسا مت کرو۔ قوم اور اس کے لشکر کو دریا میں داخل ہونے دو۔ اسی سمندر میں ہی تو ہم نے ان لوگوں کو غرق کرنا ہے۔ الدخان
25 الدخان
26 الدخان
27 الدخان
28 [٢٠] یہ دوسری قوم کون تھی جو فرعون اور اٰل فرعون کے محلات، باغات، چشموں اور کھیتوں کی وارث بنی تھی؟ اس کے متعلق بھی اختلاف ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بنی اسرائیل ہی کے کچھ لوگ مصر میں باقی رہے گئے تھے۔ جو فرعون اور آل فرعون کے اقتدار کے خاتمہ کے بعد ان چیزوں کے وارث بن گئے تھے۔ اور بعض کا خیال ہے کہ یہ بنی اسرائیل کے علاوہ کوئی اور لوگ تھے۔ قرآن کریم سے دو باتوں کی تائید ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ یہاں بھی ﴿قَوْمًا اٰخَرِیْنَ﴾ کے الفاظ دوسری صورت کی تائید کرتے ہیں۔ نیز تاریخ سے بھی فرعون کی غرقابی کے بعد مصر میں بنی اسرائیل کی حکومت ثابت نہیں ہوتی۔ الدخان
29 [٢١] زمین اور آسمان کے رونے کے مختلف مفہوم :۔ زمین اور آسمان کے نہ رونے سے مراد یہ ہے کہ ان پر نہ زمین کی مخلوق کو رونا آیا یا افسوس لگا اور نہ آسمان میں بسنے والی مخلوق کو۔ بلکہ زمین والے تو ایسے ظالموں کے مرنے پر خوشی مناتے ہیں کہ ان کے ظلم و تشدد سے جان چھوٹی اور ''خس کم جہاں پاک'' کے مصداق اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں وہ بھلا روئیں گے کیوں؟ یہی حال آسمانوں کی مخلوق کا ہے۔ ایسے لوگوں کی روح کو جب مرنے کے بعد اوپر لے جایا جاتا ہے تو ان کے لیے آسمان کا دروازہ کھلتاہی نہیں وہ ایسی ارواح پر پھٹکار بھیجتے ہیں وہ ان کی موت پر کیسے رو سکتے یا افسوس کرسکتے ہیں۔ تاہم اگر ان الفاظ کو ان کے ظاہری مفہوم پر ہی محمول کیا جائے تو بھی اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے اعمال کے اثرات ہمارے اعضاء و جوارح پر اور خود زمین پر ثبت ہو رہے ہیں تو پھر ہمیں آسمان و زمین کے رونے یا افسوس کرنے پر بھی تعجب نہ کرنا چاہئے۔ اور بعض روایات سے ایسی باتیں ثابت بھی ہیں۔ علاوہ ازیں ہر زبان میں ایسے الفاظ مح اور تاً بھی استعمال ہوتے ہیں۔ جن پر نہ کسی نے کبھی تعجب کیا ہے اور نہ اعتراض۔ الدخان
30 الدخان
31 [٢٢] یعنی فرعون کی ذات ہی بنی اسرائیل کے حق میں مجسم عذاب بنی ہوئی تھی جس کا ہر وقت کام یہ سوچنا ہوتا تھا کہ وہ بنی اسرائیل کو زیادہ سے زیادہ رسوا کن سزائیں کیسے دے سکتا ہے؟ [٢٣] یعنی حد سے بڑھنے والے تو اور بھی بہت سے لوگ تھے۔ ایسے لوگوں میں بھی فرعون کا سر سب سے اونچا تھا۔ جس کی حکومت اپنے دور میں سب سے بڑی اور مستحکم تھی۔ جس کا خاندان اپنے آپ کو سورج بنسی خاندان سے منسوب کرتا تھا اور جو اپنی رعایا کا قانونی اور سیاسی خدا بنا ہوا تھا اور ایسی خدائی کا دھڑلے سے دعویٰ بھی رکھتا تھا۔ اس نے جب اللہ کے رسول کو جھٹلایا اور اس کی مخالفت پر اتر آیا تو اے کفار مکہ! تم نے اس کا حشر دیکھ لیا اور تم تو اس کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں اپنی چھوٹی چھوٹی قبائلی سرداریوں پر اتراتے پھرتے ہو۔ تم اگر وہی فرعون والی سرکشی کی راہ اختیار کرو گے تو اپنا انجام خود سوچ لو۔ الدخان
32 [٢٤] یعنی یہ بات عرب جانتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں کئی قسم کی خامیاں موجود ہیں۔ تاہم دوسری قوموں کی نسبت پھر بھی بہتر ہیں۔ لہٰذا ہم نے اہل عالم کی دینی قیادت انہیں کے سپرد کردی۔ الدخان
33 [٢٥] بلاء کا لغوی مفہوم'قوم موسیٰ پر اللہ تعالیٰ کے احسانات :۔ بلاء کا بنیادی معنی ایسی آزمائش ہے جو ایسے حادثات اور واقعات سے تعلق رکھتی ہو جسے دوسرے لوگ بھی دیکھ سکتے ہوں۔ اور یہ آزمائش خیر اور شر دونوں صورتوں میں ہوسکتی ہے۔ یعنی احسانات سے نواز کر بھی اور تنگی یا تکلیف پہنچا کر بھی اس مقام پر یہ آزمائش خیر کی صورت میں ہوئی۔ اسی لیے بعض مترجمین نے اس لفظ کا ترجمہ احسان سے کیا ہے بعض نے مدد سے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے فرعون کی غرقابی کے بعد بنی اسرائیل پر ایسے احسانات کیے جن میں ان کی مدد بھی تھی اور آزمائش بھی اور اس سے مراد اللہ کے وہ احسانات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے میدان تیہ میں بنی اسرائیل پر کئے تھے جن کے بغیر ان کا زندہ رہنا بھی محال تھا اور یہ سب احسانات معجزات کی قسم سے تعلق رکھتے تھے۔ جیسے من و سلویٰ کا نزول۔ بارہ چشموں کا پھوٹنا اور بادل کا ان پر سایہ کئے رہنا وغیرہ وغیرہ۔ الدخان
34 الدخان
35 الدخان
36 [٢٦] کفارکایہ اعتراض کہ ہمارے آباء کو زندہ کرکے دکھاؤ:۔ کفار کا یہ مطالبہ تین وجوہ کی بنا پر غلط ہے۔ ایک یہ کہ رسول کی ذمہ داری صرف اللہ کا پیغام پہنچا دینا ہے۔ خدائی اختیارات کا نہ وہ کبھی دعویٰ کرتا ہے اور نہ اس کے ہاتھ میں ہوتے ہیں کہ جب کوئی کافر ایسا مطالبہ کرے تو اس کا کوئی بڑا بزرگ اسے دوبارہ زندہ کرکے دکھا دے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کسی نبی نے کبھی یہ نہیں کہا کہ تمہیں دوبارہ زندہ کرکے اسی دنیا میں بھیجا جائے گا بلکہ وہ جہاں ہی دوسرا ہوگا جس میں مردے زندہ کرکے اٹھائے جائیں گے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ نبی یہ خبر دیتا ہے کہ تمہاری دوبارہ زندگی قیامت کے دن ہوگی تو کیا یہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ قیامت سے پہلے ہی ایک اور قیامت آجائے۔ حالانکہ قیامت کا وقت مقرر ہے اور وہ اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ پھر جب ان کے باپ دادا یا یہ خود زندہ ہوں گے تو انہیں اپنے اس مطالبہ کی ہوش بھی رہے گی بلکہ دوسرے کئی قسم کے فکر دامن گیر ہوجائیں گے۔ الدخان
37 [٢٧] قوم تبع کا ذکر :۔ تُبع شاہان یمن کا لقب ہے۔ جو حمیری قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ جیسے ایران کے بادشاہوں کا لقب کسریٰ، روم کے بادشاہوں کا لقب قیصر اور حبشہ کے بادشاہوں کا لقب نجاشی تھا۔ تبع' قوم تبع کے جدامجد کا نام تھا۔ یہ بذات خود ایک ایماندار آدمی تھا اور اپنے وقت میں اس کا ڈنکا بجتا تھا۔ اس نے بہت سے علاقے بھی فتح کرلیے تھے۔ مگر اس کے بعد میں آنے والے لوگ کفر و شرک میں مبتلا ہوگئے اور اللہ سے سرکشی کی راہ اختیار کرلی تھی۔ ان بادشاہوں کا زمانہ ١١٥ ق م سے ٣٠٠ ء تک ہے۔ عرب میں صدیوں تک ان کی عظمت کے افسانے زبان زد خلائق رہے۔ [٢٨] کفار کے اعتراض کا پہلاجواب تاریخ سے متعلق :۔ پہلے کے لوگوں سے مراد قوم عاد، قوم ثمود، قوم ابراہیم نیز نمرود، شداد اور فراعنہ مصر وغیرہ ہیں۔ اپنے اپنے دور میں ان سب قوموں کی عظمت کا ڈنکا بجتا تھا۔ اور یہ سب لوگ اللہ کے نافرمان اور آخرت کے منکر تھے اور یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ جس قوم نے بھی آخرت کا انکار کیا وہ اخلاقی انحطاط فتنہ و فساد اور ظلم و جور میں مبتلا ہوگئی اور بالآخر اسے تباہ کردیا گیا۔ کفار مکہ سے پوچھا یہ جارہا ہے کہ ان قوموں نے جب آخرت کا انکار کیا اور سرکشی کی راہ اختیار کی تو ان کو ہلاک کر ڈالا گیا تھا۔ حالانکہ وہ تم سے ہر لحاظ سے بہتر تھے تو پھر تم کس کھیت کی مولی ہو کہ تم اپنے انجام سے بچ جاؤ گے۔ یہ گویا کفار مکہ کی اس کٹ حجتی ’’ کہ اگر تم سچے ہو تو ہمارے آباء واجداد کو لاکے دکھا دو‘‘ کا پہلا جواب ہے جو تاریخ سے تعلق رکھتا ہے۔ الدخان
38 الدخان
39 [٢٩] دوسرا عقلی جواب : یہ کائنات بیکار پیدا نہیں کی گئی :۔ یہ کفار مکہ کی اس کٹ حجتی کا عقلی جواب ہے۔ یعنی جو شخص روز آخرت اور اپنے اعمال کی جزا و سزا کا منکر ہے وہ دراصل یہ سمجھتا ہے کہ یہ کارخانہ کائنات بس ایک کھیل تماشا ہی ہے۔ اور اس دنیا میں کوئی شخص جو چاہتا ہے کرتا رہے۔ وہ مر کر مٹی ہوجائے گا اور اسے کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے۔ اور خالق کائنات نے بس یونہی ایک شغل اور کھیل تماشے کے طور پر پیدا کردیا ہے۔ حالانکہ اس کائنات کی ایک ایک چیز میں باہمی ربط، نظم و نسق، انضباط باقاعدگی اور ہر چیز کا کثیر المقاصد اور اسی نسبت سے افادیت سے معمور ہونا اس بات پر کھلی شہادت ہے کہ اس کائنات کا خالق انتہا درجہ کی دانا اور مدبر ہستی ہی ہوسکتی ہے۔ اور کوئی دانا بے کار اور عبث کام نہیں کیا کرتا۔ لامحالہ یہ کائنات کسی نتیجہ پر منتج ہونی چاہئے۔ اور اسی نتیجہ کا نام دوسرا جہان یا روز آخرت ہے۔ قرآن میں بہت سے دوسرے مقامات پر روز آخرت پر ایک دوسری عقلی دلیل پیش کی گئی ہے جو یہ ہے کہ جو شخص روز آخرت کا منکر ہے وہ دراصل سمجھتا ہے کہ نیک اور بد ( یا نیکی یا بدی) سب برابر ہیں۔ دونوں کا انجام یہی ہے مر کر مٹی میں مل کر مٹی بن جائیں۔ حالانکہ اس بات کو کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا کہ نیک اور بد ایک جیسے ہوتے ہیں یا ان دونوں کا انجام ایک ہی جیسا ہونا چاہئے گویا روز آخرت سے انکار اللہ تعالیٰ کی صفات حکمت اور عدل دونوں کی نفی کردیتا ہے۔ الدخان
40 [٣٠] تیسرا جواب : دوبارہ زندگی کا اصل وقت :۔ یہ بھی کافروں کے مطالبہ کا جواب ہے۔ یعنی اس دن صرف تمہارے باپ دادا ہی زندہ نہیں ہوں گے تمہیں بھی ان کے ساتھ زندہ کیا جائے گا۔ اس وقت مقررہ پر تم سب کو اکٹھا کردیا جائے گا۔ کوئی بھی باقی نہ رہے گا اور تم سب ایک دوسرے کو پہچانتے ہوگے۔ مگر سب اپنی اپنی مصیبت میں گرفتار ہونگے۔ اس دن تمہیں ایسی سب کٹ حجتیاں بھول جائیں گی اور کوئی ایک دوسرے کی مدد کرنے کے قابل ہی نہ رہے گا۔ الدخان
41 الدخان
42 [٣١] یعنی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کسی کے حق میں جو فیصلہ کردے گا وہ نافذ ہو کے رہے گا اور اس کی کہیں اپیل بھی نہ ہوسکے گی کیونکہ وہی سب پر غالب ہے۔ [٣٢] یعنی وہ فیصلہ کرتے وقت کسی پر رحم تو کرسکتا ہے۔ مگر کسی پر ظلم اور زیادتی نہیں کرسکتا کیونکہ یہ بات اس کی صفت عدل کے خلاف ہے۔ وہ یہ تو کرسکتا کہ ایک قصوروار کو معاف کردے یا اس کے جرم سے کم سزا دے یا اس کے عمل سے بہت زیادہ بدلہ دے دے اور بیشتر مقدمات میں وہ اپنی اسی صفت رحیمیت کا ہی مظاہرہ کرے گا۔ سزا صرف ان لوگوں کو دے گا جنہوں نے شرک کیا ہو۔ یا از راہ تکبر دعوت حق کو ٹھکرا دیا ہو اور پھر معاندانہ سرگرمیوں میں ہی لگے رہے ہوں۔ الدخان
43 اس آیت کی تفسیر اگلی آیت کے ساتھ ملاحظہ کیجئے۔ الدخان
44 [٣٣] اہل جہنم کی خوراک :۔ یعنی جب اہل دوزخ بھوک کی شدت سے بے تاب ہوجائیں گے اور کچھ کھانے کی چیز کا مطالبہ کریں گے تو انہیں ہانک کر جہنم کے اس خطہ کی طرف لے جایا جائے گا جہاں تھوہر کا درخت کثیر مقدار میں اگا ہوا ہوگا۔ یہی چیز انہیں کھانے کو ملے گی اور وہ مجبوراً اسے کھائیں گے۔ خار دار ہونے کی وجہ سے پہلے تو وہ حلق سے نیچے اترے گا ہی نہیں بمشکل پیٹ میں پہنچے گا تو اس کا کڑوا کسیلا اور زہریلا مادہ اپنی حدت کی وجہ سے یوں جوش مارے گا جیسے پانی کھول رہا ہو۔ جب وہ اس قسم کے کھانے سے فارغ ہوجائیں گے تو فرشتوں کو حکم ہوگا کہ ان بدبختوں کو پھر جہنم میں دھکیل دو تاآنکہ وہ جہنم کے عین وسط میں پہنچ جائیں۔ الدخان
45 الدخان
46 الدخان
47 الدخان
48 الدخان
49 [٣٤] جب اہل دوزخ کی یہ گت بنائی جارہی ہوگی تو اس وقت دوزخ کا فرشتہ ان سے مخاطب ہو کر کہے گا۔ ارے تم تو دنیا میں بڑے معزز اور شریف بنے پھرتے تھے۔ رسولوں کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ اللہ کے احکام کے مقابلہ میں اکڑ بیٹھے تھے اور سرکشی اور شرارتیں کیا کرتے تھے۔ اور جب تمہیں اس برے انجام سے ڈرایا جاتا تھا تو رسولوں کا اور اس دن کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ کیا آج بھی تمہیں اس معاملہ میں کچھ شک باقی رہ گیا ہے؟ اس آیت کا روئے سخن دراصل ان معزز سرداران قریش کی طرف ہے جنہیں نبی کے مقابلہ میں معزز سمجھا جاتا تھا جو مظلوم مسلمانوں کو ایک کمتر درجہ کی مخلوق سمجھ کر ان کے ساتھ بیٹھنا بھی گوارا نہ کرتے تھے۔ الدخان
50 الدخان
51 الدخان
52 الدخان
53 [٣٥] تکبر کرنے والوں کا انجام :۔ یعنی اہل دوزخ تو اپنے رشتہ داروں اور دوستوں سے ندامت کی وجہ سے چھپتے پھریں گے۔ اس کے مقابلہ میں اہل جنت ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے آرام و اطمینان سے محو گفتگو ہوں گے۔ ایک دوسرے سے پیار و محبت اور سلام و دعا کی باتیں کریں گے۔ دنیا میں گزشتہ ایام کی یادیں تازہ کریں گے اور اللہ کا شکر بجا لائیں گے۔ الدخان
54 [٣٦] حور حوراء کی جمع ہے اور حوراء بمعنی گورے رنگ کی عورت اور عین عیناء کی جمع ہے۔ بمعنی عورت جس کی آنکھیں موٹی ہوں۔ آنکھ کی پتلی خوب سیاہ ہو اور سفیدی خوب سفید ہو۔ اور ایسی عورت انتہائی خوب صورت ہوتی ہے۔ اہل جنت کو ایک تو ایسی عورتیں ملیں گی دوسرے وہ جو دنیا میں ان کی بیویاں تھیں اور مومن تھیں۔ الدخان
55 الدخان
56 [٣٧] اخروی زندگی میں موت نہیں :۔ سیدنا ابو سعید خدری اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ دونوں سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :’’ایک پکارنے والا جنت کے لوگوں کو پکارے گا اور کہے گا : آئندہ تم ہمیشہ تندرست رہو گے کبھی بیمار نہ ہوگے، تم ہمیشہ زندہ رہو گے، کبھی مرو گے نہیں، تم ہمیشہ جوان رہو گے کبھی بوڑھے نہ ہو گے، اور تم ہمیشہ امن اور چین میں رہو گے کبھی کوئی رنج نہ ہوگا‘‘ (مسلم۔ کتاب الجنۃ و صفۃ نعیمھاو اھلھا) الدخان
57 [٣٨] جنت میں داخلہ صرف اللہ کے فضل سے ہوگا اور اس کی وجہ :۔ یعنی اصل کامیابی یہی ہے کہ انسان دوزخ کے عذاب سے بچ جائے اور اگر اللہ تعالیٰ دوزخ کے عذاب سے بچا کر جنت میں بھی داخل کردے تو یہ اللہ کا خاص فضل ہوتا ہے۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے :’’کسی شخص کو اس کے عمل بہشت میں نہیں لے جائیں گے‘‘ لوگوں نے عرض کیا :’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال بھی؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ہاں! میں بھی اپنے اعمال کے سبب بہشت میں نہیں جاؤں گا۔ اِلایہ کہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت مجھے ڈھانپ لے‘‘ (بخاری۔ کتاب المرضیٰ۔ باب تمنی المریض الموت)علماء کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی خواہ کتنی ہی عبادت اور فرمانبرداری کرے اس سے تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ احسانات کا بھی بدلہ نہیں چکایا جاسکتا۔ چہ جائیکہ اسے بہشت بھی عطا کی جائے۔ اور اگر کسی کو جنت میں داخلہ ملتا ہے تو یہ محض اس کا فضل ہوا۔ نیز حدیث میں ہے کہ مومن کو قبر میں اس کا جنت میں ٹھکانا دکھایا جاتا ہے اور دوزخ میں بھی اور کہا جاتا ہے کہ اگر تم اللہ کی فرمانبرداری نہ کرتے تو تمہارا یہ ٹھکانا تھا اور دوزخ میں ٹھکانہ اس لیے دکھایا جاتا ہے کہ جب تک انسان اللہ کی کسی نعمت کے مقابلہ میں اس کے برعکس کوئی تکلیف دیکھ نہ لے وہ اللہ کی نعمت کا صحیح اندازہ کر ہی نہیں سکتا۔ انسان کو اپنی صحت کی قدر بھی اسی وقت معلوم ہوتی ہے جب وہ بیمار پڑتا ہے۔ الدخان
58 [٣٩] کیا قرآن آسان ہے یا مشکل ترین ؟ اللہ نے تو واقعی قرآن کو آسان ہی بنایا تھا لیکن ہمارے فرقہ باز علماء نے اسے مشکل ترین کتاب بنا دیا ہے اور یہی کچھ عوام کو ذہن نشین کرایا جاتا ہے کہ اس کی دلیل درس نظامی کا وہ نصاب ہے جو دینی مدارس میں چھ، سات، آٹھ حتیٰ کہ نو سال میں پڑھایا جاتا ہے۔ اس نصاب میں قرآن کے ترجمہ اور تفسیر کی باری عموماً آخری سال میں آتی ہے۔ پہلے چند سال تو صرف و نحو میں صرف کئے جاتے ہیں۔ ان علوم کو خادم قرآن علوم کہا جاتا ہے۔ ان علوم کی افادیت مسلم لیکن جس طالب علم کو فرصت ہی دو چار سال کے لیے ملے اسے کیا قرآن سے بے بہرہ ہی رکھنا چاہئے؟ پھر اس کے بعد فقہ پڑھائی جاتی ہے۔ تاکہ قرآن اور حدیث کو بھی فقہ کی مخصوص عینک سے ہی دیکھا جاسکے۔ تقلید شخصی کے فوائد بھی بیان کئے جاتے ہیں۔ جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ جس فرقہ کے مدرسہ میں طالب علم داخل ہوتا ہے۔ ٹھیک اسی سانچہ میں ڈھل کر نکلتا ہے۔ اسی طرح فرقہ بازی کی گرفت کو تو واقعی مضبوط بنا دیا جاتا ہے۔ مگر حقیقتاً ان طالب علموں کو قرآن کریم کی بنیادی تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے۔ اور کہا یہ جاتا ہے کہ جب تک ان ابتدائی علوم کو پڑھا نہ جائے اس وقت تک قرآن کی سمجھ آہی نہیں سکتی۔ اور اس طرح عملاً اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی تردید کی جاتی ہے کہ ہم نے قرآن کو آسان بنا دیا ہے، تاکہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں۔ قرآن کریم شرک کا سخت دشمن ہے۔ کوئی سورت اور کوئی صفحہ ایسا نہ ہوگا جس میں شرک کی تردید یا توحید کے اثبات میں کچھ نہ کچھ مذکور نہ ہو۔ مگر ہمارے طریقہ تعلیم کا یہ اثر ہے کہ شرک کی کئی اقسام مسلمانوں میں رواج پا گئی ہیں اور انہیں عین دین حق اور درست قرار دیا جاتا ہے۔ بلکہ شرک سے روکنے والوں کو کافر کہہ کر ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا جاتا ہے۔ لہٰذا ہمارا مشورہ یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنی اولین فرصت میں قرآن کریم کا ترجمہ خود مطالعہ کرنا چاہئے اور سیکھنا چاہئے اور اس کے لیے کسی ایسے عالم کے ترجمہ کا انتخاب کرنا چاہئے۔ جو متعصب نہ ہو اور کسی خاص فرقہ سے تعلق نہ رکھتا ہو۔ یا ایسے عالم کا جس کی دیانت پر سب کا اتفاق ہو اور یہ ترجمہ بالکل خالی الذہن ہو کر دیکھنا چاہئے۔ قرآن سے خود ہدایت لینا چاہئے۔ اپنے سابقہ یا کسی کے نظریات کو قرآن میں داخل نہ کرنا چاہئے۔ نہ اس سے اپنے نظریات کھینچ تان کر اور تاویلیں کرکے کشید کرنا چاہئیں۔ یہی طریقہ ہے جس سے قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ الدخان
59 [٤٠] یعنی آپ تو اس بات کے منتظر ہیں کہ کب ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے ان کی شامت آتی ہے۔ اور وہ اس بات کے منتظر ہیں کہ آپ پر کب کوئی ناگہانی افتاد پڑتی ہے۔ جو آپ کو اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کر دے اور کام تو وہی ہوگا جو اللہ کو منظور ہے اور اسی وقت ہوگا جب اللہ کو منظور ہوگا۔ الدخان
0 الجاثية
1 الجاثية
2 [١] بطور تمہید سب سے پہلے یہ بتایا گیا ہے کہ یہ کتاب کسی انسان کی تالیف یا اختراع نہیں ہے بلکہ اس اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے جو سب پر غالب ہے۔ اور اپنے فیصلوں کو نافذ کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہے کوئی اس کے فیصلوں میں نہ دخل دے سکتا ہے اور نہ روک سکتا ہے۔ نیز وہ حکیم بھی ہے۔ اس کے فیصلوں اور احکام میں کسی جھول اور غلطی کا امکان نہیں ہوتا۔ اس کے تمام فیصلے اور احکام بنی نوع انسان کے مصالح پر مبنی ہوتے ہیں۔ الجاثية
3 [٢] توحید کے دلائل :۔ تمہید کے بعد توحید کے اثبات اور شرک کے ابطال پر دلائل کا آغاز ہوا ہے۔ توحید کی پہلی نشانی' کائنات کا نظم ونسق :۔ پہلی دلیل یہ کائنات اور اس کا نظام ہے اسی کے ایک پہلو پر ہی اگر غور کرلیا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ اس میں الگ الگ خداؤں کی خدائی چلنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ ناممکن ہے کہ بادلوں کا دیوتا کوئی اور ہو، ہواؤں کا کوئی دوسرا ہو، بارشوں کا کوئی تیسرا ہو، سورج کا کوئی اور ہو۔ اگر ایسی بات ہوتی تو اس کائنات کے نظام میں کبھی باقاعدگی اور ہم آہنگی برقرار نہیں رہ سکتی تھی۔ مگر اس کائنات میں ایسی نشانیاں تو اس شخص کے لیے ہی سود مند ہوسکتی ہیں جو خود ہدایت کا طالب ہو اور اللہ کی معرفت حاصل کرنا چاہتا ہو۔ لیکن جو اللہ کی ہستی اور اس کی قدرت پر ایمان ہی نہ لانا چاہتا ہو۔ اس کے لیے اس میں کوئی نشانی نہیں۔ الجاثية
4 [٣] توحید کی دوسری نشانی' انسان کی تخلیق اندرونی اور بیرونی ساخت :۔ یعنی اگر انسان خود اپنے جسم کی اندرونی ساخت پر غور کرے تو اسے بہت کچھ حاصل ہوسکتا ہے اس کے اعضاء کی بیرونی ساخت اور اس کا کثیر المقاصد فوائد کا حامل ہونا اس کے اندر بے شمار خود کار مشینوں کا کام کرنا، تکلیف کی صورت میں خود طبیعت کا مقابلہ کرنا۔ پھر انسان کے اندر جو جو قوتیں اور جو جو جذبات رکھ دیئے گئے ہیں ان میں کسی ایک بات پر بھی غور کرنے سے انسان کو اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کا اعتراف کئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ [٤] تیسری نشانی' توالد وتناسل اور بعث بعد الموت :۔ یعنی تمہاری اور جانوروں کی پیدائش کا طبعی پہلو ایک جیسا ہے۔ دونوں ہی زمین سے پیدا شدہ پیداوار سے اپنی غذا حاصل کرتے ہیں۔ اور یہ غذائیں بالکل بے جان ہوتی ہیں جن میں زندگی کی رمق تک موجود نہیں ہوتی۔ انہیں غذاؤں سے جانداروں کی جسمانی ضروریات پوری ہوتی ہیں جسم بڑھتا ہے، خون بنتا ہے۔ پھر خون سے منی بنتی ہے پھر توالد و تناسل کا سلسلہ چلتا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ ہر وقت مردہ اور بے جان غذاؤں کو کئی مراحل سے گزار کر جاندار چیزیں پیدا کرتا رہتا ہے۔ چوتھی نشانی' زمین کو انسانوں اور جانوروں سے آباد کرنا :۔ پھر زمین اور سمندروں میں راستے بنا کر اس نے ان جانداروں کو تمام روئے زمین پر پھیلا دیا ہے اس طرح زمین کا کثیر حصہ بھی آباد کردیا اور مخلوق کی روزی کا بھی مناسب انتظام کردیا۔ ان باتوں میں غور کرنے سے بھی اللہ کی معرفت حاصل ہوسکتی ہے مگر صرف اسے جو اللہ کی ذات اور اس کی قدرتوں پر یقین رکھتا ہو اور اسے یہ یقین حاصل ہوجاتا ہے کہ ان امور میں اللہ کے سوا کسی دوسری ہستی کا کچھ عمل دخل نہیں ہے۔ الجاثية
5 [٥] پانچویں نشانی گردش لیل ونہار :۔ رات آتی ہے تو بتدریج آتی ہے یکدم گھٹا ٹوپ اندھیرا نہیں چھا جاتا، نہ ہی سورج یک دم پوری آب و تاب کے ساتھ نکل آتا ہے۔ بلکہ وہ بھی بتدریج آتا ہے۔ راتیں لمبی ہونا شروع ہوتی ہیں تو ان میں تدریج کا قانون کام کرتا ہے۔ پھر موسم بدلتے ہیں تو بھی ان میں تدریج پائی جاتی ہے۔ پھر اس تدریج کے لیے بھی ایک قانون ہے ایک ضابطہ ہے جس میں نہ کمی بیشی ہوتی ہے اور نہ بے ضابطگی۔ نیز تبدیلیاں بھی اس انداز سے ہوتی ہیں جس سے بنی نوع کی کئی مصلحتیں متعلق ہوتی ہیں۔ جن عظیم الجثہ اور مہیب کروں کو کنٹرول میں رکھ کر اللہ نے یہ دن رات اور موسموں میں نظام بنایا ہے اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کائنات کا پورا تصرف صرف ایک ہی ہستی کے اختیار میں ہے۔ [٦] چھٹی نشانی' بارش کا نزول اور مخلوق کے لئے پیدائش رزق :۔ یہاں رزق سے مراد بارش ہے جو تمام جاندار مخلوق کے رزق کا ذریعہ بنتی ہے۔ بارش کے برسنے، پھر اس بارش کے پانی سے زمین کی پیداوار اگنے میں بہت سے عوامل کام کرتے ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین کے آگے بالکل بے بس ہیں۔ یہ سارے عوامل اپنی اپنی مقررہ ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں۔ تب جاکر انسانوں اور جانداروں کو رزق حاصل ہوتا ہے۔ عوامل سب ایک جیسے نباتات ہزاروں اقسام کی :۔ اس میں ایک نشانی تو یہ ہے کہ ان عوامل پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا کچھ بھی اختیار نہیں تو پھر ان کی خدائی کہاں سے آگئی اور دوسری نشانی یہ ہے کہ زمین ایک، پانی ایک، آب و ہوا ایک اور موسم ایک لیکن نباتات مختلف انواع کی اور مختلف رنگوں کی اگ آتی ہے اور تیسری نشانی یہ ہے کہ آسمان سے رزق کا انتظام تو سب کے لیے مشترکہ ہوتا ہے اور ہر کوئی انتفاع کا برابر کا حق رکھتا ہے۔ مگر رزق ہر ایک کا جدا جدا ہے۔ کسی کو کم ملتا ہے کسی کو زیادہ۔ اور جتنا رزق کسی کے مقدر ہوچکا وہ کتنی ہی کوشش کر دیکھے اس کا رزق بڑھ نہیں سکتا۔ نہ ہی کوئی شخص دوسرے کے رزق میں کمی کرسکتا ہے جو اسے ملنا ہوتا ہے مل کے رہتا ہے۔ [٧] ہواؤں کی گردش اور اقسام :۔ ہوائیں بارش سے بھرے ہوئے بوجھل بادلوں کو بلاتکلف اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتی ہیں۔ کچھ لوگوں پر رحمت کا پیغام لاتی ہیں اور کچھ لوگوں پر عذاب الٰہی بن کر چلتی ہیں۔ پھر یہ موسم میں تبدیلی لانے میں بھی موثر کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ ہوائیں بھی اس فضا میں آزادانہ گردش نہیں کر رہیں۔ بلکہ جس طرف اللہ کا حکم ہوتا ہے ادھر ہی چلتی ہیں۔ اگرچہ ہواؤں کی گردش کے لیے بھی اللہ نے قوانین مقرر کردیئے ہیں۔ تاہم اللہ تعالیٰ اپنے ہی بنائے ہوئے طبعی قوانین کے سامنے مجبور و بے بس نہیں ہے۔ بلکہ جب وہ چاہے اور جس طرح چاہے اپنی مخلوق کی ہر چیز سے اپنی مرضی کے مطابق کام لے سکتا ہے۔ الجاثية
6 [٨] یعنی اللہ کی آیات تو وہ ہیں جو اوپر مذکور ہوئیں۔ یہ نظام کائنات، یہ بے جان چیزوں سے جانداروں کی تخلیق، یہ گردش لیل و نہار، یہ آسمان سے تمام مخلوق کی روزی کا نزول یہ ہواؤں کے رخ اور ان میں تبدیلی۔ یہ سب تو اللہ اکیلے ہی کی نشانیاں ہیں اب اگر تم ان پر ایمان نہیں لاتے تو ان کے علاوہ کسی دوسری ہستی کی بھی کچھ نشانیاں ہیں جو ان سے بڑھ کر ہوں اور تم اللہ کو چھوڑ کو اس کی نشانیوں اور اس کی باتوں پر ایمان لانا چاہتے ہو؟ اگر تمہارے خیال میں کوئی ایسی ہستی ہے تو اس کی نشاندہی کیوں نہیں کرتے؟ الجاثية
7 اس آیت کی تفسیر اگلی آیت کےساتھ ملاحظہ کیجئے۔ الجاثية
8 [٩] ایسے لوگ جو زبانی طور پر تو اللہ کی مذکورہ بالا آیات کو تسلیم کرتے ہیں مگر عملاً ان چیزوں پر تصرف اور اختیار دوسروں کا تسلیم کرتے ہیں یہ درحقیقت اللہ پر بہتان لگانے والے ہوتے ہیں جو اللہ کے تصرفات میں دوسروں کو شریک کرلیتے یا پورے کا پورا اختیار انہیں کو سونپ دیتے ہیں۔ ان کی دوسری صفت یہ ہوتی ہے کہ ایسے لوگ مجرم ضمیر ہوتے ہیں انہیں ایسی کوئی تعلیم یا ہدایت راس نہیں آتی جو ان پر اخلاقی پابندیاں عائد کرتی ہو اگر وہ کسی کی بات مان لیں تو ان کی انا مجروح ہوتی ہے۔ اور ان کی تیسری صفت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے غرور اور گھمنڈ کی وجہ سے اپنے آپ کو بہت اونچی چیز سمجھتے ہیں اور اللہ کی آیات اس لیے سننا گوارا نہیں کرتے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں یہ سب باتیں پہلے ہی معلوم ہیں۔ ہمیں کوئی کیا سکھائے گا؟ الجاثية
9 [١٠] مشرکین کن آیات کا تمسخر اڑاتے ہیں :۔ قریشی سردار نصیحت حاصل کرنے کے لیے تو قرآن کی ایک بھی آیت سننا گوارا نہیں کرتے تھے۔ مگر ایسی آیات کی ٹوہ ضرور لگائے رکھتے تھے جن میں انہیں کوئی ایسا نکتہ ہاتھ آجائے کہ وہ آیات الٰہی کا مذاق اڑا سکیں۔ ان کا نشانہ تضحیک پہلے نمبر پر تو وہ آیات تھیں جن میں دوبارہ جی اٹھنے اور روز آخرت اور حشر و نشر کا ذکر ہوتا۔ سیدنا خباب بن ارت نے عاص بن وائل سہمی سے اپنی کچھ مزدوری لینا تھی۔ انہوں نے مزدوری کا مطالبہ کیا تو کہنے لگا : محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دین چھوڑ دو تو مزدوری مل جائے گی۔ سیدنا خباب رضی اللہ عنہ کہنے لگے : ’’وہ تو میں تمہارے دوبارہ جی اٹھنے کے دن تک بھی نہیں چھوڑ سکتا‘‘ عاص کہنے لگا : اچھا پھر جب میں دوبارہ جی اٹھوں گا تو تمہارا حساب بیباق کردوں گا‘‘ پھر جب یہ آیت نازل ہوئی کہ ’’اللہ نے ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی‘‘ تو کفار نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور کہنے لگے بتاؤ اب اس کی دیوانگی میں کیا کسر رہ گئی۔ اور جب یہ آیت نازل ہوئی کہ اہل دوزخ کا کھانا زقوم کا درخت ہوگا تو بھی کفار نے مذاق اڑانا شروع کردیا۔ اور جب یہ آیت نازل ہوئی کہ جہنم پر انیس داروغے مقرر ہیں۔ تو ایک پہلوان صاحب اپنے ساتھیوں سے کہنے لگے کہ’’اٹھارہ کو تو میں اکیلا سنبھال لوں گا، تم سب مل کر ایک کو بھی نہ سنبھال سکو گے‘‘ اور جب یہ آیت نازل ہوئی کہ مشرک اور ان کے معبود سب دوزخ میں ڈالے جائیں گے تو عبداللہ بن الزِبعریٰ کہنے لگا : ’’پھر تو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام بھی جہنم میں جائیں گے۔ ان سے تو پھر ہمارے معبود ہی اچھے ہوئے‘‘ اور ایسی آیات اور بھی بہت ہیں اور کفار مکہ ایسی ہی آیات معلوم کرنے کے درپے رہتے تھے جن کا مذاق اڑایا جاسکے۔ الجاثية
10 [١١] وراء کا لغوی مفہوم :۔ ورآء کا معنی آگے بھی اور پیچھے بھی، ادھر بھی اور ادھر بھی۔ اس لحاظ سے اس کے دو مطلب ہوئے۔ ایک یہ کہ ایسے لوگوں کو دنیا میں ذلت کا عذاب ہوگا پھر اس کے بعد ان کے لیے عذاب جہنم بھی تیار ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ انہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ اس ذلت کے عذاب کے بعد جہنم بھی ان کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ [١٢] یعنی مال و دولت کام آئے گی اور نہ آل اولاد اور نہ ان کے اچھے اعمال۔ کیونکہ دنیا میں اگر انہوں نے کچھ اچھے عمل کئے بھی ہوں گے وہ برباد ہوجائیں گے اور ان کے کسی کام نہ آئیں گے۔ وجہ یہ ہے کہ انہوں نے وہ کام اس نیت سے کئے ہی نہ تھے کہ وہ آخرت میں ان کے کام آئیں گے بلکہ ان کا آخرت پر یقین ہی نہیں تھا۔ [١٣] کارسازوں کی اقسام :۔ یہ اولیاء بھی دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ ہستیاں جن کی سفارش پر اعتماد کرکے لوگ بےدھڑک گناہ کے کام کرتے رہتے ہیں اور سمجھتے یہ ہیں کہ ہم فلاں حضرت کی بیعت ہیں وہ ہمیں سفارش کرکے اللہ کی گرفت اور عذاب سے بچا لیں گے۔ دوسرے وہ چودھری قسم کے لوگ یا حکمران یا سیاسی لیڈر جن کی اللہ کے احکام کے مقابلہ میں اس لیے اطاعت کی جاتی ہے کہ اطاعت کرنے والوں کے دنیوی مفادات ان سے وابستہ ہوتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی کارساز وہاں کام نہ آئے گا۔ الجاثية
11 [١٤] جو بروقت تمہیں خبردار کر رہا ہے کہ قیامت کے دن تمہارا کوئی کارساز تمہارے کام نہ آسکے گا۔ نیز یہ قرآن تمہیں دنیا میں زندگی گزارنے کا بھی نہایت مناسب اور متوازن راستہ بتاتا ہے۔ نیز وہ راہ بھی جس سے تمہیں اخروی عذاب سے نجات حاصل ہو۔ الجاثية
12 [١٥] سمندر کو مسخر کرنا :۔ پانی کے لیے اللہ نے یہ قانون بنایا ہے کہ وہ ہر چیز کو اوپر اپنی سطح کی طرف اچھالتا ہے۔ لہٰذا جو چیزیں اپنے مساوی الحجم پانی سے ہلکی ہوتی ہیں وہ پانی کی سطح پر آکر تیرنے لگتی ہیں۔ جیسے لکڑی، کاغذ، تنکے، گتا وغیرہ اور جو بھاری ہوتی ہیں، وہ پانی میں ڈوب جاتی ہیں۔ جیسے پتھر اور دھاتیں، تاہم پانی میں اچھالنے کی قوت کی وجہ سے ان کا وزن کم ہوجاتا ہے اور اتنا ہی کم ہوتا ہے جتنا اس کے مساوی الحجم پانی کا وزن ہوتا ہے پھر اگر کسی چیز کی شکل ہی کشتی یا پیالہ یا گلاس کی بنا دی جائے تو بھاری چیزیں مثلاً لو ہا وغیرہ کی طرح کی چیزیں پانی میں تیرنے اور بہت سا بوجھ اٹھا کر پانی میں تیرنے کے قابل بن جاتی ہیں۔ بس یہی وہ قانون ہے جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انسان دریاؤں اور سمندروں میں کشتیوں اور لوہے کے دیو ہیکل جہازوں کے ذریعے سفر کرنے کے قابل ہوگیا ہے اور اسی بات کو اللہ نے ان الفاظ میں ذکر فرمایا ہے کہ ہم نے سمندر کو انسان کے تابع بنا دیا۔ [١٦] سمندروں سے انسان کئی طرح کے فوائد حاصل کرتا ہے۔ ان سے موتی اور جواہرات نکالتا ہے۔ آبی جانوروں کا شکار کرکے گوشت حاصل کرتا ہے۔ تجارتی سفر کرکے روزی کماتا ہے اور خشکی کے ایک حصہ سے منتقل ہو کر زمین کے کسی دوسرے حصہ میں میں جا آباد ہوتا ہے اور یہ سب کچھ اس لیے ممکن ہوا کہ اللہ نے سمندروں جیسی خوفناک چیز کو بھی انسان کے بس میں کردیا ہے۔ الجاثية
13 [١٧] تمام اشیائے کائنات سے انسان کا استفادہ :۔ یعنی کائنات کی تمام چیزیں انسان کے زندہ رہنے کے لیے ضروری ہیں اور ہر چیز کا انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچ رہا ہے۔ مثلاً پانی، ہوا، زمین کی پیداوار اور اس میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند، ستارے غرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ ان کا اپنا کچھ بھی فائدہ نہیں ہے۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اگر چیزوں میں سے ایک بھی نہ ہو تو انسان زندہ نہیں رہ سکتا یا اس کی زندگی مشکلات میں پڑجاتی ہے اور وہ کئی طرح کے فوائد سے محروم ہوجاتا ہے۔ پھر انسان میں یہ صلاحیت بھی رکھ دی گئی ہے کہ وہ اشیائے کائنات کے خواص معلوم کرکے نئے سے نئے فوائد حاصل کرتا چلا جاتا ہے۔ انسان کو تو ان اشیاء کا فائدہ ہی فائدہ ہے اور انسان انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا اور یہ سب اللہ کا انسان پر فضل و کرم ہے کہ اس نے اپنی مہربانی سے تمام اشیائے کائنات کو انسان کے کام پر لگا دیا ہے تو کیا اللہ کے ان احسانات کا یہی بدلہ ہوسکتا ہے کہ انسان اپنے محسن پروردگار کا شکر بھی ادا نہ کرے؟ یا اس کی عبادت اور بندگی کرنے کی بجائے اس کے سامنے اکڑنا شروع کر دے؟ الجاثية
14 [١٨] ایام اللہ کا مفہوم اور تذکیر بایام اللہ :۔ ایام اللہ کا لفظی اور لغوی معنی صرف ’’اللہ کے دن‘‘ ہے۔ مگر اس سے مراد عموماً وہ دن لیے جاتے ہیں جو کسی قوم کے تاریخی یادگار دن ہوں۔ اور یہ اچھے بھی ہوسکتے ہیں اور برے بھی۔ بلکہ بسا اوقات وہی دن ایک کے لیے برے اور دوسرے کے لیے اچھے ہوتے ہیں۔ مثلاً جس دن فرعون اور آل فرعون غرق ہوئے تو یہ دن ان کے لیے سب سے برا دن تھا لیکن وہی دن بنی اسرائیل کے لیے سب سے اچھا دن تھا کہ انہیں فرعون جیسے ظالم اور جابر حکمران سے نجات نصیب ہوئی۔ اور عرفاً ایام اللہ سے مراد عموماً برے ہی دن لیے جاتے ہیں۔ ''تذکیر بایام اللہ'' ایک شرعی اصطلاح ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جن جن قوموں پر اللہ کا عذاب آیا تھا اس کی وجوہ تلاش کرکے انسان ان واقعات سے عبرت اور سبق حاصل کرے۔ اور یہ قرآن کا ایک نہایت اہم موضوع ہے۔ اور بار بار اس کا ذکر ہوا ہے۔ [١٩] اس سے مراد کفار مکہ ہیں۔ جو نہ اللہ کا عذاب آنے پر یقین رکھتے ہیں، نہ آخرت پر، بلکہ اللہ کے عذاب کے وعدوں کا مذاق اڑاتے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے کہ جس عذاب کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو وہ لے کیوں نہیں آتے؟ ایسے ہی لوگوں کے متعلق مومنوں کو ہدایت دی جارہی ہے کہ وہ ان کی باتوں کا برا نہ منائیں۔ ان سے الجھیں نہیں۔ بلکہ درگزر سے کام لیں۔ اللہ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ وہ خود ان سے نمٹ لے گا اور ان کے اعمال کی انہیں پوری پوری سزا دے گا۔ اس آخری جملہ کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر مومن صبر اور برداشت سے کام لیتے ہوئے ان کافروں سے درگزر کریں گے تو اللہ انہیں اس کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ الجاثية
15 [٢٠] یعنی اگر کوئی شخص اچھا کام کرتا ہے تو اس سے اللہ کی نہ کوئی ضرورت پوری ہوتی ہے اور نہ اسے کچھ فائدہ ہوتا ہے بلکہ اس کا فائدہ اچھا کام کرنے والے کی ذات ہی کو پہنچتا ہے اور وہ اس دنیا میں بھی پہنچتا ہے اور آخرت میں بھی پہنچے گا۔ یہ خطاب ربط مضمون کے لحاظ سے ان مسلمانوں سے ہے جو کفار مکہ کی سختیاں برداشت کر رہے تھے اور انہیں درگزر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور برے کام کرنے والے یعنی اسلام کی راہ روکنے، مسلمانوں پر سختیاں کرنے اور مذاق اڑانے والے اللہ کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ اس کا وبال انہیں پر پڑے گا اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اور آخرت میں جب تم سب کو اللہ تعالیٰ اپنے ہاں حاضر کرے گا تو تم سب لوگ ایک دوسرے کا انجام دیکھ لو گے۔ الجاثية
16 [٢١] حکم کے مختلف مفہوم :۔ حَکَم کا ایک معنی تو حکومت ہے جیسا کہ ترجمہ سے ظاہر ہے، اس کا دوسرا معنی حکمت ہے۔ اور حکمت کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ جس سے دینی معاملات اور احکام کی سمجھ اور فہم بھی شامل ہے۔ احکام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے علمی ذرائع بھی اور عملی تدابیر اور طریق کار کا علم بھی۔ اور حکم کا تیسرا معنی فیصلہ اور قوت فیصلہ ہے۔ یعنی فریقین مقدمہ کا بیان لینے کے بعد ان کے درمیان صحیح اور مبنی بر عدل فیصلہ کرنے کا ملکہ۔ بنی اسرائیل پر اللہ کے احسانات :۔ یعنی ہم نے بنی اسرائیل کو تمام دینی اور دنیوی نعمتوں سے نوازا تھا۔ ان میں ہزاروں کی تعداد میں پیغمبر مبعوث کئے گئے۔ ان میں سے کئی بادشاہ بھی تھے۔ انہیں بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے کتاب تورات بھی دی تھی۔ اور کھانے پینے کو بہت وافر اور پاکیزہ رزق عطا کیا تھا۔ گویا اپنے دور میں بنی اسرائیل کو بقایا تمام اقوام پر ترجیح دے کر انہیں ہم ہی نے اپنے خصوصی انعامات سے نوازا تھا۔ الجاثية
17 [٢٢] یہاں امر سے مراد اقامت دین ہے۔ کہ اللہ کے دین کو دنیا میں قائم اور نافذ کرنے کے لیے انہیں تمام ہدایات دے دی گئی تھیں اور یہ ہدایت بالکل واضح تھیں۔ [٢٣] فرقہ بازی کی اصل وجوہ نفسانی خواہشات :۔ یعنی اختلافات یا تفرقہ بازی کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ کسی اختلاف کا فیصلہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح ہدایات موجود نہیں ہوتیں اور معاملہ اختلافی بن جاتا ہے۔ بلکہ ان اختلافات اور تفرقہ بازی کی وجوہ کچھ اور ہی ہوتی ہیں۔ ان وجوہ کو پوری طرح سمجھنے کے لیے مسلمانوں کے موجودہ فرقوں پر ہی نظر ڈال لیجئے۔ کتاب و سنت ایک ہی ہے۔ اور وہ سب فرقوں کے پاس موجود ہے اور ہر فرقہ کتاب و سنت سے ہی استدلال کرکے اپنے فرقہ کے مخصوص عقائد و اعمال کو برحق ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پھر کوئی تو کتاب اللہ کی غلط سلط تاویل کرکے اسے اپنے نظریہ کے مطابق بنا لیتا ہے۔ کوئی کتاب و سنت کو اپنے اماموں کے اقوال کے تحت رکھ کر ان سے وہی مفہوم اخذ کرتا ہے جو اس کے امام کے قول کے مطابق ہو۔ پھر اس میں اپنے اپنے ذاتی مفادات یعنی طلب مال اور جاہ کا حصول بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ ہر ایک کو اپنا اپنا جھنڈا بلند رکھنے کی فکر ہوتی ہے۔ پھر فرقوں کی آپس میں باہمی کھینچا تانی اور ضدم ضدی سے ان میں اختلافات کی خلیج مزید وسیع ہوتی جاتی ہے۔ پھر کچھ اختلافات مذہبی قسم کے ہوتے ہیں اور کچھ سیاسی قسم کے۔ نتیجہ یہ ہے کہ کتاب و سنت ایک ہونے کے باوجود امت مسلمہ بیسیوں فرقوں میں بٹ گئی ہے۔ یہی حال بنی اسرائیل کا تھا۔ [٢٤] کوئی بھی تعصب چھوڑنا گوارا نہیں کرتا :۔ یہ فرقے اپنے اپنے مخصوص نظریات و عقائد میں اس قدر متشدد ہوجاتے ہیں اور اس قدر تعصب ان میں پیدا ہوجاتا ہے کہ ان کے لیے اختلاف کو ختم کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ اس دنیا میں تو وہ کبھی ان اختلافات کو چھوڑنا تو درکنار، یہ سننے کے لیے بھی آمادہ نہیں ہوتے کہ ان کا فلاں عقیدہ یا فلاں مسئلہ کتاب وسنت کی رو سے غلط ہے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان پر خوب واضح کر دے گا کہ میں نے تو یہ حکم اس طرح دیا تھا اور تم نے اس حکم کے الفاظ کو غلط جامہ پہنچا کر اپنا الو سیدھا کرلیا تھا یا تمہارے اختلاف کی اصل وجہ دین کی اشاعت نہ تھی بلکہ اصل وجہ یہ تھی۔ پھر اس وقت وہ اللہ کے فیصلہ کے سامنے چوں و چرا تک نہ کرسکیں گے۔ الجاثية
18 [٢٥] بنی اسرائیل سے امت محمدیہ کو اقامت دین کی پیشوائی :۔ اس آیت میں امر سے مراد اقامت دین ہے۔ یعنی اے نبی! ہم نے پہلے اہل عالم کی رہنمائی کے لیے بنی اسرائیل کو اقامت دین کا علمبردار بنایا تھا۔ وہ آپس میں ہی کئی فرقوں میں بٹ کر آپس میں لڑنے جھگڑنے لگے۔ اس حال میں وہ اقامت دین کا فریضہ کیا سرانجام دے سکتے تھے۔ بلکہ اس قابل ہی نہ رہ گئے تھے۔ اب ہم نے آپ کو اقامت دین کی پیشوائی کے منصب پر سرفراز فرمایا ہے۔ اور جو تمہیں شریعت دی جارہی ہے اس میں اقامت دین کے لیے مکمل اور واضح ہدایات موجود ہیں۔ آپ بس ان احکام و ہدایات کے مطابق عمل کرتے جائیے۔ بنی اسرائیل کا ہر فرقہ آپ سے یہ توقع رکھے گا کہ آپ اس کے موقف کی حمایت کریں۔ آپ ان میں سے کسی کی بات نہ مانئے کیونکہ ان لوگوں نے یہ فرقے علم کی بنا پر نہیں بلکہ اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کی وجہ سے بنائے تھے۔ الجاثية
19 [٢٦] اگر آپ ان میں سے کسی فرقہ کے موقف کی حمایت کردیں گے تو اس دنیا میں تو شاید وہ آپ کا حامی بن جائے گا لیکن قیامت کے دن وہ آپ کے کسی کام نہ آسکیں گے وہ تو خود اپنی گمراہیوں کے عذاب میں ماخوذ ہوں گے، دوسروں کے کیا کام آئیں گے؟۔ [٢٧] یعنی حق کے مقابلہ میں سب بے انصاف اور ظالم لوگ مل بیٹھتے ہیں اور آپس میں اتحاد کرلیتے ہیں۔ اگرچہ ان میں خاصے باہمی اختلافات موجود ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں اللہ کے فرمانبرداروں اور اس سے ڈرنے والوں کا حامی و ناصر صرف اللہ ہوتا ہے جو ان کے سب کام سیدھے کئے جاتا ہے اور اس کی یہ کارسازی دائمی اور پائیدار ہے جو اس دنیا سے آگے آخرت میں بھی برقرار رہے گی۔ الجاثية
20 [٢٨] قرآن سب لوگوں کے لئے رحمت کیسے ہے ؟ یعنی اس قرآن میں بصیرت افروز دلائل تو سب لوگوں کے لیے موجود ہیں۔ لیکن ان دلائل سے فائدہ صرف وہ لوگ اٹھا سکتے ہیں جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ پھر جو لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں انہیں یہ کتاب دنیا میں زندگی گزارنے کے طریقہ کی مکمل رہنمائی کرتی ہے۔ اس طریقہ زندگی پر عمل کرنے سے انسان کی آخرت بھی سنور جاتی ہے۔ یہ تو اللہ کی رحمت کا ایک پہلو ہوا کہ اس نے اس دنیا میں ہی اخروی زندگی کی فلاح و نجات کا طریقہ بتا دیا۔ اور اللہ کی رحمت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ قرآن زندگی گزارنے اور اس دنیا میں پرامن رہنے کے لیے سب انسانوں کے لیے ایسے متناسب اور متوازن اصول پیش کرتا ہے۔ جن سے سب لوگوں کے حقوق کی ٹھیک تعیین ہوجاتی ہے اور کسی کی حق تلفی نہیں ہوتی۔ انسان کی عقل اگر ہزاروں سال بھی تجربے کرتی اور ٹھوکریں کھاتی پھرتی تب بھی ایسے متوازن اور متناسب اصول دریافت نہ کرسکتی تھی۔ اللہ کی لوگوں پر خاص رحمت ہے کہ اس نے اس قرآن کے ذریعہ لوگوں کو ایسی ہدایات مفت میں دے دی ہیں۔ الجاثية
21 [٢٩] آخرت پر عدل کے تقاضا سے دلیل :۔ یہ ان لوگوں کا حال ہے جو روز آخرت پر یقین نہیں رکھتے۔ روز آخرت پر یقین نہ رکھنے کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی اخلاقی پابندی کا پابند نہیں رہ سکتا۔ وہ بے لگام ہو کر اور بلاخوف و خطر دوسروں کے حقوق پامال کرنے لگتا ہے اور صرف اپنے ہی مفادات سوچنے کے درپے ہوجاتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں سے یہ سوال کیا جارہا ہے کہ تمہارا کیا خیال ہے کہ بدکرداروں اور نیک عمل کرنے والوں کا انجام ایک ہی جیسا ہونا چاہئے کہ سب مر کر مٹی میں مل کر مٹی بن جائیں اور کسی سے اس کے اعمال کی بازپرس نہ ہو نہ ہی انہیں ان کے اعمال کا اچھا یا برا بدلہ دیا جائے؟ کیا تم پروردگار عالم سے یہی توقع رکھتے ہو کہ وہ ایسی بے انصافی کو گوارا کرے گا ؟ اگر فی الواقع تمہارا یہی گمان ہے تو اللہ کے متعلق تمہارا یہ گمان بہت برا ہے۔ [٣٠] بدکردار اور نیکوکار کی، دنیوی زندگی کا تقابل :۔ ان کا جینا کبھی ایک جیسا نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ کے فرمانبرداروں کو حیات طیبہ نصیب ہوتی ہے۔ لوگ ان کی عزت کرتے اور ان کی راستبازی پر اعتماد کرتے ہیں۔ انہیں دنیا کی زندگی میں سکھ اور چین نصیب ہوتا ہے۔ دل مطمئن رہتا ہے۔ اس کے برعکس فریب کاروں، چوروں، ڈاکوؤں، زانیوں اور شراب خوروں کو کبھی حقیقی مسرت حاصل نہیں ہوتی۔ لوگوں میں بدنام ہوتے ہیں، ضمیر ملامت کرتا ہے۔ کوئی شخص دل سے کبھی ان کی عزت نہیں کرتا۔ مقدمات اور حکومت کا ڈر الگ رہتا ہے۔ غرض کہ بدکاروں کی دنیوی زندگی بھی تلخیوں اور بے چینیوں میں گزرتی ہے۔ موت کا وقت مقرر ہے اس سے پہلے کیسے مرجاتے ہیں۔ پھر ان دونوں کی زندگی ایک جیسی کیسے ہوئی؟ [٣١] اگر ان کی زندگی ایک جیسی نہیں تو یقین جانو کہ مرنا بھی ایک جیسا نہیں ہوسکتا۔ دنیوی مقدمات کا نتیجہ نکل کے رہے گا۔ یہ ناممکن ہے کہ دونوں طرح کے انسان مر کر مٹی میں مل کر مٹی بن جائیں۔ کسی سے کوئی باز پرس نہ ہو۔ نہ نیک لوگوں کو ان کے اچھے اعمال کا بدلہ دیا جائے نہ بدکاروں کو سزا دی جائے اور یہ معاد پر پہلی عقلی دلیل ہے جو اللہ کی صفت عدل کے تقاضا کے مطابق ہے۔ الجاثية
22 [٣٢] آخرت پر دوسری عقلی دلیل' اللہ کی حکمتیں اور ان کا تقاضا ' کوئی چیز عبث پیدا نہیں کی گئی :۔ یہ معاد یا عالم آخرت کے قیام پر دوسری دلیل ہے اور یہ اللہ کی صفت حکیم ہونے کے تقاضا کے مطابق ہے۔ یعنی اللہ کا کوئی کام بھی حکمت اور مصلحت سے خالی نہیں ہوتا۔ پھر کیا یہ سارا کارخانہ کائنات حکمت سے خالی ہوسکتا ہے۔ جس کی ایک ایک چیز انسان کے لیے پیدا کی گئی ہے اور انسان ہر چیز سے فائدہ بھی اٹھا رہا ہے۔ اب اگر انسان اچھے یا برے اعمال، جیسے بھی اس سے بن پڑیں اس دنیا میں کرکے مر جاتا ہے اور اس سے کچھ بھی مؤاخذہ نہیں کیا جاتا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کائنات کو پیدا کرنا، پھر اس کائنات کی چیزوں سے انسان کو فائدہ اٹھانے کا موقعہ دینا سب کچھ بے سود، عبث اور ایک بے نتیجہ کھیل تھا۔ اور ایسا کام کرنا اللہ کی حکمت کے سراسر منافی ہے۔ لہٰذا لازمی ہے کہ اس دنیا کا نتیجہ ایک دوسرے عالم کی صورت میں نکلے جس میں ہر طرح کے انسانوں کا پورا پورامحاسبہ کیا جائے۔ الجاثية
23 [٣٣] اپنی خواہشات کو معبود بنانا :۔ یہ بھی وہی شخص ہوسکتا ہے جسے اللہ کے سامنے حاضر ہونے اور اپنے اعمال کی جوابدہی کا یقین نہ ہو۔ ایسے شخص کی زندگی کا مقصد بس یہی رہ جاتا ہے کہ اپنے نفس کی خواہشات کو پورا کرتا جائے۔ کوئی اخلاقی پابندی یا شریعت کی عائد کردہ پابندیوں کو قبول نہ کرے۔ ایسا شخص نہ اللہ تعالیٰ کے اوامر کی تعمیل کرنا گوارا کرسکتا ہے اور نہ نواہی سے اجتناب کرسکتا ہے وہ تو ظلم و عصیان میں شتر بے مہار کی طرح آگے ہی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ [٣٤] علم گمراہی کا سبب کیسے بنتا ہے :۔ ﴿أضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلْمٍ﴾ کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ کے ازلی علم میں یہ بات طے شدہ تھی کہ وہ گمراہ ہوگا۔ تو اللہ نے اسے اسی گمراہی کے راستہ پر چلا دیا جس پر وہ چل رہا تھا۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص خیروشر کی پوری تمیز اور اس کا علم رکھتا تھا۔ لیکن جب وہ اپنی خواہشات کے پیچھے پڑگیا تو اللہ نے اسے اس کے علم کے باوجود گمراہ کردیا۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ آخرت کے منکرین اور دہریوں کا بھی ایک فلسفہ ہوتا ہے جو انہیں گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔ اور اللہ بھی ایسے لوگوں کو گمراہ کردیتا ہے۔ اور چوتھا یہ کہ سب مذہبی فرقوں کے بانی عموماً عالم اور ذہین لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔ جو اپنی خواہشات کے پیچھے لگ کر کتاب و سنت میں تاویل کرکے اپنا نظریہ کشید کرلیتے ہیں۔ الجاثية
24 [٣٥] فلسفہ دہریت اور اس کا رد :۔ ان لوگوں کا فلسفہ یہ ہے کہ یہ کائنات ایک اتھاہ سمندر ہے۔ جس میں ہر وقت لہریں اٹھتی ہیں پھر اسی سمندر میں مدغم ہوجاتی ہیں۔ حباب اٹھتے ہیں تو وہ پھر اسی میں جذب ہوجاتے ہیں۔ یہی صورت حال اس دنیا میں واقعات و حوادث کی ہے اور ہماری مثال بس ایک حباب یا بلبلہ کی ہے جو پیدا ہوتا پھر اسی سمندر میں گم ہوجاتا ہے۔ ہم پیدا ہوتے ہیں پھر مر کر اسی میں مل جاتے ہیں۔ یہ زمانے کے حوادث ہیں کہ ہم پیدا ہوتے اور مرتے رہتے ہیں۔ کائنات اسی طرح چل رہی ہے اور چلتی رہے گی۔ جس میں کسی کے مر کر دوبارہ جینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ [٣٦] آخرت سے انکار کی بنیاد محض وہم وقیاس ہے جس پر کوئی علمی دلیل پیش نہیں کی جا سکتی :۔ اس فلسفہ سے نتیجہ اخذ کرنے میں غلطی آپ سے آپ ظاہر ہے۔ سمندر میں ایک موج اٹھی پھر اسی میں گم ہوگئی پھر اسی سمندر سے موج اٹھی گویا اگر سمندر سے دوبارہ بھی موج اٹھ سکتی ہے تو مٹی سے پیدا ہو کر انسان مٹی میں مل جانے کے بعد دوبارہ اسی مٹی سے کیوں پیدا نہیں ہوسکتا ؟ نیز مرنے کے بعد کے حالات سے متعلق اگر کچھ انسانی علم کی بنا پر کہا جاسکتا ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ ’’ہم نہیں جانتے کہ مرنے کے بعد دوسری زندگی ہے یا نہیں‘‘ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ’’مرنے کے بعد دوسری زندگی نہیں ہے‘‘ انسان کے پاس تحقیق کا کوئی ذریعہ ایسا نہیں جس سے وہ دعویٰ کے طور پر کہہ سکے کہ ’’مرنے کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں‘‘ پھر یہاں ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ مرنے کے بعد روح کہاں جاتی ہے؟ ظاہر ہے کہ وہ تو نہیں مرتی کیونکہ روح کے متعلق سب لوگوں کا ایسا ہی عقیدہ رہا ہے۔ انسان کی موت کوئی ایسا حادثہ تو نہیں جیسے ایک گھڑی چلتے چلتے رک جائے۔ ان سب باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ظن غالب بھی دوبارہ زندہ ہونے کی طرف ہی ہے۔ مر کر بالکل فنا ہوجانے کی طرف نہیں۔ اور یہ لوگ جو دوبارہ زندگی کا انکار کرتے ہیں تو یہ بات کسی علم کی بنا پر نہیں کہتے بلکہ ان کا دل یہ نہیں چاہتا کہ مرنے کے بعد کوئی زندگی ہو۔ جس میں ان سے ان کے برے اعمال کی باز پرس ہو لہٰذا وہ اس کا سرے سے انکار کردینے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔ اور یہ محض ان کا وہم و گمان ہی ہوتا ہے۔ کوئی علمی دلیل اس پر وہ کبھی پیش نہیں کرسکتے۔ دہریوں کی فریب خوردگی' دہر تو اللہ ہے :۔ دہریہ لوگ دراصل فریب خوردگی میں مبتلا ہوتے ہیں اور اسی میں مبتلا رہنا چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ہمیں زمانہ ہی ہلاک کرتا ہے۔‘‘ حالانکہ زمانہ تو گردش لیل و نہار کا ہی دوسرا نام ہے۔ جس میں نہ حس ہے نہ شعور، نہ تصرف نہ اختیار پھر وہ ہمیں ہلاک کیسے کرتا ہے؟ لامحالہ ان کے ذہن میں کوئی اور چیز ہوتی ہے جو حس شعور، تصرف اور اختیار رکھتی ہو مگر وہ اس کا نام نہیں لینا چاہتے اور اس کے بجائے زمانہ کا نام لے لیتے ہیں اور جس چیز کا وہ نام نہیں لینا چاہتے وہ اللہ ہے۔ جس کا وجود اور علی الاطلاق تصرف واضح دلائل سے ثابت ہے اور زمانہ کا الٹ پھیر اور گردش لیل ونہار بھی اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ : ’’ابن آدم مجھے دکھ پہنچاتا ہے جب وہ دہر (زمانہ) کو گالی دیتا ہے۔ حالانکہ دہر میں خود ہوں۔ تمام معاملات میرے ہی ہاتھ میں ہیں۔ میں ہی رات اور دن پھیر کر لاتا ہوں‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ الجاثیہ۔ زیر آیت مذکورہ) الجاثية
25 [٣٧] منکرین آخرت کا اعتراض' کوئی مردہ زندہ کرکے دکھاؤ :۔ لے دے کے ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ اچھا اگر مرنے کے بعد زندگی یقینی ہے تو ہمیں ہمارا کوئی بڑا بزرگ زندہ کرکے دکھا دو۔ حالانکہ پیغمبروں کا دعویٰ یہ ہوتا ہی نہیں کہ جب کوئی انکار کرے تو قبر سے مردہ زندہ کرکے اسے دکھا سکتے ہیں تاکہ اسے پوری طرح یقین آجائے بلکہ ان کا دعویٰ صرف یہ ہوتا ہے کہ قیامت کے بعد اللہ تعالیٰ بیک وقت تمام انسانوں کو از سر نو زندہ کرے گا۔ یہ نہیں کہ قیامت سے پہلے بھی وقتاً فوقتاً مردے زندہ کئے جاتے رہیں گے۔ پھر جب وہ تمہارے آباء و اجداد کو زندہ کرے گا اس وقت تمہیں بھی زندہ کرے گا اور ساری حقیقت تم سب کے سامنے آجائے گی۔ الجاثية
26 [٣٨] اعتراض کا جواب :۔ یعنی تم نہ اتفاقی طور پر پیدا ہوتے ہو اور نہ اپنے اختیار سے پیدا ہوتے ہو۔ اسی طرح تمہاری موت نہ اتفاقی طور پر آتی ہے۔ اور نہ تمہارے اپنے اختیار سے آتی ہے بلکہ تمہاری زندگی اور تمہاری موت کی باگ ڈور مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ وہی تمہیں زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ اور جب چاہے گا تمہیں دوبارہ بھی زندہ اٹھا کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ اس میں تمہارا اپنا عملی دخل یا اختیار کچھ بھی نہیں ہوگا۔ [٣٩] یعنی تمہیں متفرق طور پر زندہ نہیں کرے گا کہ کچھ لوگوں کو ایک وقت زندہ کیا۔ دوسروں کو کسی اور وقت اور باقی کو کسی تیسرے وقت جیسا کہ اس دنیا میں ہوتا ہے بلکہ سب اگلوں پچھلوں کو ایک ہی وقت زندہ کرکے جمع کردے گا اور وہ وقوع قیامت کے بعد ہوگا۔ اس سے پہلے نہیں۔ الجاثية
27 [٤٠] باطل پرستوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو آخرت کے منکر ہوں۔ خواہ وہ دہریے ہوں، نیچری یا صرف آخرت کے منکر ہوں۔ ان لوگوں کو چونکہ اپنے اعمال کی بازپرس کا خیال تک نہ ہوگا۔ لہٰذا ایسے لوگوں نے اس خیال سے کوئی بھی نیک عمل نہ کیا ہوگا۔ اس دن انہیں پتا چلے گا کہ وہ کس قدر دھوکے میں پڑے ہوئے تھے اور اپنا کس قدر نقصان کرچکے ہیں۔ الجاثية
28 [٤١] یعنی پہلے ہر قسم کے مجرموں کے الگ الگ گروہ بنائے جائیں گے۔ اور قیامت کے مناظر کی دہشت اس قدر زیادہ ہوگی کہ وہ کھڑے نہ رہ سکیں گے اور گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوئے اور سہمے ہوئے اس انتظار میں ہوں گے کہ ان کے حق میں کیا فیصلہ صادر ہوتا ہے اس وقت متکبروں کی سب اکڑ ختم ہوجائے گی۔ الجاثية
29 [٤٢] انفرادی اور اجتماعی اعمال نامے 'اعمال ناموں کی حقیقت :۔ لکھنے اور لکھوانے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ کسی کاغذ پر قلم اور روشنائی کے ساتھ کچھ تحریر کیا جائے۔ انسان خود ایسی ایجادات کرچکا ہے جس سے کسی کے اعمال، حرکات و سکنات، گفتگو اور لب و لہجہ سب کچھ دوسروں کے سامنے آجاتا ہے اور دوسرے اسے دیکھ اور سن سکتے ہیں اور ابھی جو کچھ مزید انسان ایجادات کرے گا وہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہ لکھوایا ہوا ریکارڈ صرف حرکات و سکنات اور اقوال ہی پیش نہیں کرے گا، بلکہ دلوں میں پیداشدہ خیالات اور وساوس تک کو سامنے لا رکھے گا۔ پھر یہ ریکارڈ ہر شخص کا انفرادی بھی موجود ہوگا اور ایک ہی قسم کے لوگوں کا اجتماعی بھی اور ان کی اجتماعی کوششوں کا بھی۔ اور یہ اعمال نامے انفرادی طور پر بھی ہر ایک کے حوالہ کئے جائیں اور اجتماعی بھی۔ ایسے ہی الگ الگ فرقوں کے گروہوں کو اپنے اپنے اعمال نامے دیکھنے کے لیے بلایا جائے گا۔ الجاثية
30 [٤٣] سب کامیابیوں کا اصل اللہ کی رحمت میں داخل ہونا ہے :۔ اللہ جسے اپنی رحمت میں داخل کرلے تو اس کی واضح کامیابی کے کئی پہلو ہیں۔ ایک تو عذاب سے نجات مل جائے گی اور دوسرے قیامت کی ہولناکیوں سے امن میں رہے گا۔ تیسرے حساب کتاب بالکل سرسری اور آسان سا ہوگا۔ چوتھے جنت میں داخلہ مل جائے گا۔ پھر مزید انعامات بھی ہوتے رہیں گے۔ گویا اللہ کی رحمت میں داخل ہونا اتنی بڑی کامیابی ہے کہ باقی ہر طرح کی کامیا بیاں از خود اس میں شامل ہوجاتی ہیں۔ الجاثية
31 [٤٤] یعنی کبرونخوت تم میں اس قدر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا کہ اللہ کی آیات سننا بھی تم اپنی شان سے فروتر سمجھتے تھے۔ الجاثية
32 [٤٥] ایمان کے کسی جزو میں بھی شک کرنے والے کافر ہیں :۔ اس آیت سے ایک اہم حقیقت سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ قیامت کے منکر اور قیامت میں شک رکھنے والے کے درمیان کوئی فرق نہیں، دونوں ہی ایک جیسے مجرم اور کافر ہیں۔ اور اس سے آگے یہ بھی نتیجہ نکلتا ہے کہ جن جن چیزوں پر ایمان لانا ضروری ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات پر، اس کے فرشتوں پر اس کے رسولوں پر، اس کی کتابوں پر، روز آخرت پر اور خیر و شر کے اللہ کی طرف سے مقدر ہونے پر۔ ان میں سے کسی بھی ایک چیز کا انکار کردینا یا اسے مشکوک سمجھنا ایک ہی بات ہے اور ایسا شک کرنے والا مومن نہیں بلکہ کافر ہی ہوتا ہے۔ رہی یہ بات کہ آخرت میں شک کرنے والے مجرم کیوں ہوتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کو احکام الٰہی کا پابند بنانے اور بنائے رکھنے والی چیز صرف اللہ کے سامنے اپنے اعمال کی جواب دہی کا تصور ہے۔ اب اگر کوئی شخص آخرت کا منکر ہو یا اس میں شک رکھتا ہو، دونوں صورتوں میں نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے۔ یعنی انسان بلاخوف گناہوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ الجاثية
33 [٤٦] یعنی جن چیزوں کو انہوں نے دنیا میں اپنی کامیابی کا معیار سمجھ رکھا تھا اور اس کامیابی کے لیے دنیا میں وہ جو کچھ پاپڑ بیلتے رہے تھے۔ ایسے سب اعمال کے نتائج صرف ان کے سامنے ہی نہیں آئیں گے بلکہ ان کے گلے پڑجائیں گے۔ اس وقت انہیں معلوم ہوجائے گا کہ اپنے آپ کو اللہ کے سامنے غیرجواب وہ سمجھ رکھا تھا وہ ایک ایسی بنیادی غلطی تھی جس کی وجہ سے ان کا پورا کارنامہ حیات غلط ہو کر رہ گیا۔ الجاثية
34 [٤٧] اس کا یہ مطلب نہیں کہ حساب کتاب کے وقت انہیں بھلا دیا جائے گا۔ بلکہ حساب کتاب یا سزا کے فیصلہ اور جہنم میں پھینک دیئے جانے کے بعد انہیں وہیں پڑا رہنے دیا جائے گا۔ وہ خواہ چیخیں پکاریں، فریاد کریں۔ ان کی کوئی بات سنی ہی نہ جائے گی۔ اور جو حال بھی ان پر گزرے ان کی خبر تک نہ لی جائے گی۔ الجاثية
35 [٤٨] استَعْتَبَ کا معنی :۔ عَتَبَ کے معنی سرزنش کرنا، خفگی کرنا اور عاتب کے معنی ملامت کرنا اور غصہ کرنا بھی ہے اور ناز سے خطاب کرنا بھی (گویا یہ لفظ لغت اضداد سے ہے) اور أعتب کے معنی ناراضگی کو دور کرنا اورإستعتب کے معنی کسی کو راضی کرلینا اور روٹھے ہوئے کو منا لینا ہے۔ گویا ان دوزخ میں پڑے ہوئے لوگوں کو کوئی ایسا موقع نہ دیا جائے گا کہ معذرت اور منت سماجت کرکے یا توبہ کرکے اپنے پروردگار کو راضی کرلیں۔ الجاثية
36 الجاثية
37 [٤٩] ١۔ تکبر کی مذمت۔ ٢۔ کبریائی صرف اللہ کو لائق ہے :۔ تکبر اور غرور ایسا جرم ہے جس کی سزا دنیا میں بھی مل کے رہتی ہے۔ مثل مشہور ہے کہ غرور کا سر نیچا ہوتا ہے۔ یہ ایسی حقیقت ہے کہ جس کا ہر شخص دنیا میں ہی مشاہدہ کرلیتا ہے۔ اور آخرت میں تو متکبرین کا یہ انجام ہوگا کہ کوئی ایسا متکبر نہیں ہوگا جسے جہنم میں ذلیل و رسوا کرکے داخل نہ کیا جائے۔ بہت سی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ جہنم میں زیادہ تر متکبر قسم کے لوگ ہی ہوں گے۔ نیز سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ دونوں سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عزت پروردگار کی ازار ہے اور بزرگی اس کی چادر ہے۔ (پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) جو کوئی اسے مجھ سے کھینچنے کی کوشش کرے گا میں اسے ضرور عذاب دوں گا‘‘ (مسلم۔ کتاب البر والصلۃ والادب۔ باب تحریم الکبر) نیز ایک حدیث قدسی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کبریائی میری چادر اور عظمت میرا ازار بند ہے۔ لہٰذا جو شخص ان دونوں میں سے کسی چیز کو مجھ سے کھینچنے کی کوشش کرے گا۔ میں اسے اٹھا کر آگ میں پھینک دوں گا۔ (حوالہ ایضاً) گویا کبریائی اور تکبر ایسی صفت ہے جو صرف اللہ اکیلے کو سزاوار ہے اور ایک مومن کبھی متکبر نہیں ہوسکتا۔ تکبر اور ایمان ایک دوسرے کی ضد ہیں جو کسی ایک انسان میں جمع نہیں ہوسکتے۔ الجاثية
0 الأحقاف
1 الأحقاف
2 [١] تمہیدی کلمات ہیں جن میں قرآن کا تعارف کرایا گیا ہے کہ وہ کسی انسان کا کلام نہیں۔ اور اس آیت کی تفسیر پہلے کئی مقامات پر گزر چکی ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے سورۃ الزمر۔ المومن وحم السجدۃ۔ حاشیہ نمبر ١ الأحقاف
3 [٢] اللہ کی حکمت سے معاد پر دلیل :۔ اس کارخانہ کائنات کے نتیجہ کے طور پر قیامت کے قائم ہونے پر عقلی دلیل جس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی حکمت سے ہے۔ اور اس کی تفسیر بھی پہلے کئی مقامات پر گزر چکی ہے۔ [٣] اللہ کی صفت عدل سے معاد پر دلیل :۔ قیامت کے قیام پر دوسری عقلی دلیل جس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی صفت عدل سے ہے۔ یعنی انسان کو اس دنیا میں ایسے نہیں پیدا کیا گیا کہ جو کچھ وہ چاہے کرتا رہے اور اس سے کچھ بھی محاسبہ نہ ہو۔ اور جب انہیں یہ بات سمجھائی جاتی ہے تو اسے سننا بھی گوارا نہیں کرتے اور منہ موڑ کر چل دیتے ہیں۔ اور اس کی وجہ محض ان کا تکبر ہے۔ وہ اپنی ذات پر اللہ تعالیٰ کی عائد کردہ پابندیاں گوارا نہیں کرتے اور اس بات کو اپنی شان سے فروتر سمجھتے ہیں۔ الأحقاف
4 [٤] مشرکین سے شرک پر عقلی دلیل کا مطالبہ : سابقہ آیات میں مشرکین مکہ کے انکار آخرت کا رد پیش کیا گیا ہے۔ اس آیت اور اس سے مابعد کی آیات میں ان کے شرک پر تنقید کی جارہی ہے۔ ان سے پوچھا یہ جارہا ہے کہ اللہ کے سوا جن کی تم پوجا کرتے ہو اس کی کوئی وجہ تو بتاؤ۔ عبادت کے لائق تو وہی ہستی ہوسکتی ہے جس کا کائنات کی پیدائش میں کچھ عمل دخل ہو۔ بتاؤ اس کائنات کی کون سی چیز انہوں نے پیدا کی ہے۔ یا زمین یا آسمانوں کا کون سا حصہ انہوں نے بنایا تھا ؟ اور اگر انہوں نے کوئی چیز پیدا ہی نہیں کی تو پھر وہ اس کی ملکیت کیسے بن گئی جس میں تصرف کے اختیارات انہیں حاصل ہوں۔ [٥] کتاب اللہ یا آثار سے نقلی دلیل کا مطالبہ :۔ ایک طرف تو تم یہ تسلیم کرتے ہو کہ کائنات کی تخلیق میں تمہارے معبودوں کا کوئی حصہ نہیں، کوئی شراکت نہیں۔ دوسری طرف یہ بھی رٹ لگائے جاتے ہو کہ ان کو کائنات میں تصرف کے اختیار حاصل ہیں۔ یہ ہماری بگڑی بنا بھی سکتے ہیں اور اگر ان کی گستاخی کی جائے تو یہ انتقام بھی لے سکتے ہیں۔ تو یہ بات عقلی لحاظ سے غلط ہے۔ پھر اگر عقلی دلیل پیش نہیں کرسکتے تو کوئی نقلی دلیل ہی پیش کردو۔ کہیں بھی اللہ کی کتاب میں کوئی ایسی بات لکھی ہوئی دکھا دو کہ اللہ کے سوا کائنات میں دوسروں کو بھی کچھ اختیارات حاصل ہیں۔ یا اللہ کے فلاں قسم کے اختیارات مثلاً رزق دینے کے فلاں بت یا دیوتا یا بزرگ کو تفویض کر رکھے ہیں اور فلاں قسم کے مثلاً زندگی بخشنے کے اختیارات فلاں کو سپرد کردیئے ہیں اور اگر کتاب الٰہی میں ایسی تحریر موجود نہ ہو تو کسی علمی اثر میں ہی دکھادو۔ آثار سے کیا مراد ہے؟ علمی اثر سے مراد کتاب اللہ کی وہ تفاسیر و شروح ہیں جو مستند ہوں۔ (جیسے ہمارے پاس کتاب اللہ تو قرآن کریم ہے اور عملی اثر احادیث ہیں۔ جن میں سلسلہ اسناد بھی درج ہوتا ہے جس سے یہ تحقیق کی جاسکتی ہے کہ فلاں حدیث کس درجہ کی ہے اور آیا وہ مقبول ہے یا مردود) اور اگر تمہارے پاس نہ کوئی عقلی دلیل موجود ہو اور نہ نقلی تو پھر سمجھ لو کہ تمہارے عقائد محض ظن اور اوہام پر مبنی ہیں۔ الأحقاف
5 [٦] استجاب کے دو معنی اور مشرکوں کا رد :۔ یہاں استجاب کا لفظ دو قسم کے معنی دے رہا ہے اور دونوں ہی اس لفظ کے مفہوم میں شامل ہیں۔ پہلا یہ ہے کہ جو سن ہی نہیں سکتا وہ جواب کیا دے گا ؟ جیسے کسی پتھر یا درخت سے یہ پوچھا جائے کہ مثلاً لاہور کس طرف ہے؟ تو جب وہ سنتا ہی نہیں تو جواب کیا دے سکتا ہے۔ اور اس لفظ کا دوسرا معنی کسی کی دعا یا پکار کو سن کر اس کو قبول کرنا اور اس پر عمل درآمد کرنا ہے۔ مثلاً میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اس بیماری سے شفا دے اور اللہ تعالیٰ واقعی میری پکار کو شرف قبولیت بخشتا ہے اور میری بیماری دور کردیتا ہے تو میں کہوں گا میری دعا مستجاب ہوگئی۔ اس سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ یہاں معبودوں سے مراد بے جان قسم کے معبود بھی ہیں۔ جو سن ہی نہیں سکتے اور جاندار بھی مثلاً فرشتے، جن اور زندہ بزرگ وغیرہ جو سن تو سکتے ہیں مگر اس دعا یا درخواست پر عمل درآمد کا کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ اور مشرکوں کی گمراہی اور انتہائی گمراہی یہ ہے کہ وہ اپنی درخواست اس چیز یا ہستی کے سامنے پیش کرتے ہیں جن پر عملدرآمد اس کے دائرہ اختیار میں ہے ہی نہیں۔ اس کی معمولی سی مثال یہ سمجھئے کہ ایک شخص اپنے گھر میں ٹیلیفون لگوانا چاہتا ہے لیکن وہ اپنی درخواست محکمہ پولیس کو بھیج دیتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس بے وقوف کی درخواست پر کبھی عملدرآمد نہ ہوسکے گا۔ بالکل یہ مثال ان مشرکوں کی ہے جو اللہ کے علاوہ دوسروں کو پکارتے ہیں۔ الأحقاف
6 [٧] من دون اللہ سے مراد یہاں بت نہیں بلکہ فوت شدہ بزرگ ہیں :۔ آیت نمبر ٥ اور ٦ سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بے جان قسم کے معبود مراد نہیں ہیں۔ کیونکہ بے جان معبود ہی ایسے ہوسکتے ہیں جن کا دشمنی اور دوستی سے کچھ تعلق نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی وہ عبادت سے انکار کرسکتے ہیں۔ لامحالہ یہاں جاندار معبود ہی مراد ہوسکتے ہیں۔ پھر جانداروں میں سے بھی فرشتے خارج از بحث ہیں۔ کیونکہ ان کا حشر نہیں ہوگا۔ باقی صرف جن، نبی، پیر، اولیاء وغیرہ ہی رہ جاتے ہیں۔ جن پر حسد، دشمنی اور عبادت سے انکار سب باتیں چسپاں ہوسکتی ہیں۔ پھر ایسے معبودوں کی بھی دو قسمیں ہیں۔ ایک پیغمبر اور صحیح العقیدہ اولیاء کرام یہ اپنے عابدوں سے کہیں گے کہ کم بختو! ہم تو ساری زندگی خود بھی اللہ سے ہی دعا کرتے رہے اور تمہیں بھی یہی تلقین کرتے رہے۔ پھر تم نے کیا الٹی گنگا بہادی کہ ہم کو ہی پکارنا شروع کردیا۔ ان لوگوں کا اپنے عابدوں کا دشمن ہونا صاف واضح ہے۔ دوسرے ایسے معبود ہیں جو خود بھی یہی چاہتے تھے کہ لوگ ان میں خدائی اختیارات تسلیم کریں اور انہیں پکارا کریں۔ ایسے لوگ جب قیامت کے ہولناک مناظر اور شرک کا انجام دیکھیں گے تو صاف مکر جائیں گے اور کہیں گے کہ ہم نے کب کہا تھا کہ تم ہماری عبادت کرنا۔ اور یہ بات عابدوں کو سخت ناگوار گزرے گی۔ لہٰذا وہ بھی ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے۔ سماع موتی کی حقیقت :۔ یہاں ایک اور مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا فوت شدہ حضرات دنیا والوں کی پکار سنتے ہیں یا نہیں؟ جسے عرف عام سماع موتی کا مسئلہ کہا جاتا ہے۔ سو اس آیت میں اس بات کی مکمل نفی ہے۔ کہ وہ قیامت تک بھی دنیاوالوں کی پکار نہیں سن سکتے۔ تاہم بعض آیات سے اتنا اور معلوم ہوتا ہے کہ اللہ جسے چاہے سنا سکتا ہے۔ نیز صحیح احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو امت کا سلام فرشتوں کے ذریعہ پہنچایا جاتا ہے۔ اور یہ بھی قرآن میں صراحت سے مذکور ہے۔ کہ مرنے کے بعد نیک لوگوں کی ارواح علیین میں اور بدکاروں کی ارواح سجین میں ہوتی ہیں۔ اور وہاں وہ دنیا والوں کی کوئی آواز براہ راست اور بلاواسطہ سن نہیں سکتے کیونکہ وہ عالم بھی دوسرا ہے۔ اللہ کا فوت شدہ لوگوں کو سنانے کا ضابطہ :۔ اب سنانے کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ کا ضابطہ یہ ہے کہ نیک لوگوں کو صرف وہی خبر پہنچائی جاتی ہے جس سے ان کی راحت میں اضافہ ہو۔ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو امت کا سلام پہنچایا جاتا ہے۔ یا نیک اولاد کی دعائیں ان کے والدین کو پہنچا دیں جاتی ہیں۔ انہیں کوئی ایسی خبر نہیں پہنچائی جاتی جو ان کے لیے پریشانی کا باعث بنے۔ اور بدکاروں کو کوئی راحت انگیز خبر نہیں سنائی جاتی۔ انہیں صرف ایسی خبریں سنائی جاتی ہیں جو ان کے لیے مزید سوہان روح بن جاتی ہیں۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے کنوئیں میں پھینکے ہوئے مقتول کافروں سے ان کی سرزنش اور زجر و توبیخ کے طور پر خطاب کیا تھا اور اللہ نے وہ بات ان تک پہنچا دی تھی۔ اور صحابہ کے استفسار پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ جواب دیا تھا کہ وہ تم سے کچھ کم نہیں سن رہے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھئے میری تصنیف روح، عذاب قبر اور سماع موتی ) الأحقاف
7 [٨] کافر قرآن کو جادو کیوں کہتے تھے؟:۔ کفار مکہ کے قرآن کو صریح جادو کہنے کی دو وجوہ تھیں ایک یہ کہ اس کلام میں بلاکی تاثیر تھی جو بھی یہ کلام سنتا اس کے دل میں اتر جاتا تھا۔ کافر خود بھی قرآن کی اس تاثیر کے معترف اور اس سے متاثر ہوجاتے تھے۔ مگر چونکہ وہ خود اس کو نہ ماننے کا تہیہ کرچکے تھے اس لیے قرآن کی اس خوبی کو بھی برے انداز میں پیش کرتے اور کہہ دیتے کہ یہ صریح جادو یا جادو کا کرشمہ یا جادو کا سا اثر رکھتا ہے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ جادوگروں کا عموماً یہ کام ہوتا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان پھوٹ ڈال دیں یا رشتہ داروں کو آپس میں لڑا دیں۔ ادھر صورت حال یہ تھی کہ جو شخص اسلام لے آتا تھا۔ وہ اس کے مقابلہ میں اپنے کسی رشتہ دار کی پروا نہیں کرتا تھا۔ اس لحاط سے بھی کافر قرآن کو جادو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جادو گر کہہ دیتے تھے۔ الأحقاف
8 [٩] خود ساختہ کلام یا جادو؟ یعنی اپنے سابقہ بیان کی خود ہی تردید کردیتے تھے۔ کیونکہ یہ دونوں باتیں متضاد ہیں۔ اگر یہ قرآن جادو ہے تو آپ کا کلام نہیں اور آپ کا اپنا بنایا ہوا کلام ہے تو پھر وہ جادو نہیں ہوسکتا۔ [١٠] یعنی اگر میں نے خود ہی کلام تالیف کرکے اللہ کی طرف منسوب کردیا ہے اور اللہ پر جھوٹ باندھا ہے۔ تو یقیناً اللہ مجھے اس افتراء کی سزا دے گا۔ تم مجھے اس سے چھڑا تو نہیں لو گے۔ نہ ہی تم میں یہ قدرت ہے۔ البتہ جن کاموں میں تم لگے ہوئے ہو وہ ضرور اس قابل ہیں کہ اللہ تمہیں ان کاموں کی سزا دے اور وہ تمہارے سب کاموں کو دیکھ بھی رہا ہے۔ لہٰذا تم اپنے کاموں اور ان کے انجام کی فکر کرو۔ [١١] یہاں اس جملہ کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ ہم سب کے اعمال دیکھ رہا ہے لیکن سزا نہیں دیتا، ورنہ اگر وہ بے رحم بادشاہوں کی طرح ہوتا تو کب سے لوگوں کا قصہ پاک ہوچکا ہوتا۔ یہ اس کی مہربانی ہے کہ ایسی سب باتوں کو برداشت کرکے درگزر کئے جاتا ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر اب بھی تم اپنی ہٹ دھرمی سے باز آجاؤ تو اللہ تعالیٰ از راہ کرم تمہارے گناہ معاف فرما دے گا۔ الأحقاف
9 [١٢] یعنی رسالت کا سلسلہ کچھ مجھ سے ہی شروع نہیں ہوا مجھ سے پہلے ہزاروں پیغمبر اور سینکڑوں رسول گزر چکے ہیں۔ سب کی تعلیم یہی تھی جو میں تمہیں بتا رہا ہوں۔ میں کوئی نئی اور نرالی بات تم سے نہیں کہتا۔ جسے تم صریح جادو یا بناوٹی باتیں کہہ رہے ہو۔ [١٣] کسی کے انجام کی یقینی خبرصرف اللہ کو ہے :۔ اس جملہ کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ جو کچھ میں کر رہا ہوں اور تمہارے خیال کے مطابق اللہ پر جھوٹ باندھ رہا ہو اور جو کچھ تم کر رہے ہو۔ اس کا نتیجہ میرے حق میں کیا نکلنے والا ہے اور تمہارے حق میں کیا ہوسکتا ہے۔ یہ مجھے نہیں معلوم نہ ہی کوئی بات میرے اختیار میں ہے۔ میرے اختیار میں تو صرف یہ بات ہے کہ جو کچھ میری طرف وحی کی جارہی ہے اس کی پیروی کرتا جاؤں اور جو پیغام مجھے اللہ کی طرف سے ملا ہے وہ تمہیں پہنچا دوں اور تمہیں تمہارے انجام سے مطلع کر دوں اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ قیامت کے دن مجھ سے یا تم سے کیا سلوک ہونے والا ہے۔ یہ میں نہیں جانتا میں صرف تمہیں یہ بتائے دیتا ہوں کہ برے اعمال کا انجام اچھا نہ ہوگا۔ اور اس پہلو کی تائید درج ذیل حدیث سے بھی واضح ہوتی ہے۔ خارجہ بن زید انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ام علاء انصار کی ایک عورت تھی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی اس نے کہا کہ جب انصار نے مہاجرین کی آباد کاری کے لیے قرعہ ڈالا تو عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا قرعہ ہمارے نام نکلا۔ وہ ہمارے پاس رہنے لگے۔ وہ بیمار ہوگئے ہم نے ان کی تیمار داری کی۔ آخر ان کا انتقال ہوگیا۔ ہم نے انہیں کفن پہنایا تو رسول اللہ ہمارے ہاں تشریف لائے۔ اس وقت میں نے کہا :’’ابوالسائب ! (یہ عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی کنیت تھی) اللہ تم پر رحم کرے۔ میں اس بات کی گواہی دیتی ہوں کہ اللہ نے تمہیں عزت دی‘‘ رسول اللہ نے مجھ سے پوچھا :’’تجھے کیسے معلوم ہوا کہ اللہ نے اسے عزت دی؟‘‘ میں نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان مجھے معلوم نہیں‘‘ تب آپ نے فرمایا۔ عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی موت واقع ہوگئی اور مجھے اس کی بھلائی کی امید ہے۔ (لیکن یقین کے ساتھ میں بھی کچھ نہیں کہہ سکتا) اللہ کی قسم! میں اللہ کا رسول ہوں لیکن میں بھی نہیں جانتا کہ اس سے کیا سلوک کیا جانے والا ہے۔ ام علاء کہتی ہیں : اللہ کی قسم! اس کے بعد میں نے کبھی کسی کی ایسی تعریف نہیں کی۔ (بخاری۔ کتاب الشہادات۔ باب القرعۃ فی المشکلات) الأحقاف
10 الأحقاف
11 [١٥] یہود کی اپنے متعلق غلط فہمی :۔ بایں ہمہ وہ یہ بھی سمجھے بیٹھے ہیں کہ کسی چیز کے حق ہونے کا معیار ہماری ذات والا صفات ہے۔ حق وہی ہوسکتا ہے جسے ہم حق قرار دے دیں۔ پھر جب ہم ہی اسے حق نہیں سمجھتے تو چند کمزور درجہ کے لوگوں کے اس کو حق سمجھنے سے وہ چیز حق کیسے بن سکتی ہے۔ اگر یہ دین کوئی اچھی چیز ہوتی تو ہم جیسے عقلمند اور معزز لوگ ان لونڈی غلاموں سے پیچھے کیسے رہ جاتے؟ [١٦] جھوٹ تو وہ اس لیے کہتے تھے کہ وہ اپنی ذات کو ہی حق کا معیار سمجھتے تھے اور قرآن ان کے معیار کے خلاف تھا۔ اور پرانا اس لیے کہتے تھے کہ سابقہ انبیائے کرام کی تعلیم بھی بعینہٖ وہی کچھ تھی جو اس نبی آخرالزمان کی تھی۔ وہ اسے نیا جھوٹ کہہ ہی نہیں سکتے تھے اور نہ انہیں یہ کہنا گوارا تھا کہ یہ پرانا سچ ہے۔ کیونکہ ابتدا سے انبیائے کرام یہی سچی تعلیم دیتے رہے ہیں۔ الأحقاف
12 [١٧] نبی آخرالزمان کی بعثت سے ہزاروں برس پہلے تورات نے جو اصولی تعلیم دی تھی۔ انبیاء و اولیاء کی ایک کثیر تعداد اسی تعلیم سے رہنمائی حاصل کرتی رہی۔ اس کتاب نے بعد میں آنے والی نسلوں کے لیے راستی اور ہدایت کی راہ ڈال دی اور یہ لوگوں پر اللہ کی بہت بڑی رحمت تھی۔ اور یہ موجودہ کتاب قرآن بھی تورات کو سچا ثابت کرتا ہے۔ گویا یہ دونوں کتابیں ایک دوسرے کی تصدیق کرتی ہیں۔ اور ان دونوں کتابوں میں مجرموں کے لیے وعید اور نیک لوگوں کے لیے جنت کی بشارت موجود ہے۔ الأحقاف
13 [١٨] اس آیت کی تفسیر کے لیے سورۃ حٰم السجدۃ کی آیت نمبر ٣٠ کے حواشی ملاحظہ فرمایئے۔ الأحقاف
14 الأحقاف
15 [١٩] والدین سے بہتر سلوک کے سلسلہ میں سورۃ ئبنی اسرائیل کی آیت نمبر ٢٣ اور ٢٤ کے حواشی ملاحظہ فرمائیے۔ [٢٠] والدہ حسن سلوک کی والد سے زیادہ حقدار ہے :۔ اس آیت میں پہلے ایک دفعہ ماں اور باپ دونوں سے بہتر سلوک کا حکم دیا۔ پھر تین بار صرف ماں کی خصوصی خدمات کا ذکر فرمایا۔ اور اس آیت کی بہترین تفسیر وہ حدیث ہے جو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : میرے بہتر سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تیری ماں، اس نے دوبارہ پوچھا، پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ''تیری ماں'' تیسری بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی جواب دیا۔ پھر چوتھی بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا’’تیرا باپ‘‘ (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب من احق الناس بحسن الصحبۃ) [٢١] رضاعت کی مدت شمار اور اس کے نتائج :۔ سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٢٣٣ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ رضاعت کی پوری مدت دو سال ہے۔ البتہ اگر والدین کسی ضرورت کے تحت اس مدت میں کمی کرنا چاہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح سورۃ لقمان کی آیت نمبر ١٣ میں فرمایا کہ ماں کو دودھ چھڑانے میں دو سال لگ گئے۔ اور اس مقام پر فرمایا کہ حمل اور رضاعت کی مدت تیس ماہ ہے۔ ان سب آیات کو سامنے رکھنے سے درج ذیل مسائل کا پتا چلتا ہے۔ (١) رضاعت کی زیادہ سے زیادہ مدت دو سال ہے۔ اس میں کمی ہوسکتی ہے۔ زیادتی نہیں۔ لہٰذا اگر کسی نے دو سال سے زیادہ عمر میں کسی عورت کا دودھ پی لیا ہو تو اس پر احکام رضاعت کا اطلاق نہ ہوگا یعنی وہ احکام جن کا نکاح سے تعلق ہے۔ (٢) حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہے۔ چھ ماہ سے پہلے بچہ پیدا ہوجائے تو وہ موجودہ خاوند کا نہیں بلکہ کسی اور مرد کا بچہ ہوگا۔ زیادہ واضح الفاظ میں وہ لڑکا ولدالزنا ہوگا۔ اور اس کا وراثت سے بھی کچھ تعلق نہ ہوگا اور بچے کی ماں کو زنا کی حد پڑ سکتی ہے۔ واضح رہے کہ موجودہ طبی تحقیقات کے مطابق حمل کی کم از کم مدت ٢٨ ہفتے قرار دی گئی ہے۔ اگر یہ تحقیق صحیح ہو تو بھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شریعت نے اس مسئلہ کے ہر دو پہلوؤں سے نزاکت اور اہمیت کے پیش نظر اس مدت میں انتہائی احتیاط سے کام لیتے ہوئے چھ ماہ کی مدت قرار دی ہے۔ چھ ماہ کے بعد بچہ پیدا ہو تو والد یا عورت کا خاوند اس کے نسب سے انکار کرنے کا مجاز نہ ہوگا۔ (٣) رضاعت کی مدت کی بہتر صورت یہ ہے کہ اگر بچہ چھ ماہ بعد پیدا ہو تو رضاعت کی مدت پورے دو سال یا چوبیس ماہ قرار دی جائے۔ اگر سات ماہ بعد پیدا ہو تو ٢٣ ماہ، آٹھ ماہ بعد بعد پیدا ہو تو ٢٢ ماہ اور نو ماہ بعد پیدا ہو تو ٢١ ماہ قرار دی جائے۔ (٤) مدت کا شمار قمری مہینوں کے حساب سے ہوگا شمسی مہینوں سے نہیں۔ [٢٢] پختگی کی عمر کتنی ہے؟:۔ اگرچہ انسان کی جسمانی قوت اور طاقت چالیس سال سے پہلے ہی اپنے نقطہ عروج کو پہنچ جاتی ہے۔ تاہم اس میں عقل کی پختگی چالیس سال تک ہی آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کو نبوت چالیس سال کی عمر میں یا اس کے بعد عطا کی جاتی رہی۔ البتہ عیسیٰ علیہ السلام اس قاعدہ سے مستثنیٰ ہیں۔ جیسے آپ کی اور بھی کئی باتیں اعجازی حیثیت رکھتی ہیں۔ ویسے ہی نبوت بھی آپ کو تیس سال کی عمر میں عطا ہوئی اور ٣٣ سال کی عمر میں آپ آسمان پر اٹھا لیے گئے۔ [٢٣] یہ انسان کی عقل کی پختگی کی دلیل ہے کہ اسے اپنے پروردگار کے اور اپنے والدین کے احسانات کا احساس ہونے لگتا ہے۔ جس پر وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور شکر کے لیے اللہ سے توفیق بھی طلب کرتا ہے۔ اور عملی طور پر اللہ کا شکر یوں ادا کرتا ہے اور اس کی توفیق چاہتا ہے جو اللہ کو پسند ہو۔ واضح رہے اللہ تعالیٰ کو وہی اعمال پسند ہیں جو خالصتاً اس کی رضا مندی کے لیے کئے جائیں۔ شریعت کی پابندیوں یعنی اسوہ رسول کے مطابق ہوں۔ ان میں ریا کا شائبہ تک نہ ہو۔ اور بعد میں کوئی ایسا فعل نہ کیا جائے جو اس عمل کو برباد کرنے کا سبب بن جائے۔ [٢٤] سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پر خصوصی احسان :۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں صرف سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی ایسے خوش قسمت تھے جو خود بھی مسلمان، ان کے والدین بھی مسلمان اور اولاد بھی مسلمان تھی اور ان سب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت کا شرف حاصل ہوا۔ صحابہ میں یہ خصوصیت اور کسی کو حاصل نہیں ہوئی۔ الأحقاف
16 [٢٥] یعنی ان کے اچھے اعمال میں سے جو بہترین ہوں گے، ان کی مناسبت سے ہی ہم ان کے سارے اچھے اعمال کا بدلہ دے دیں گے۔ اگرچہ وہ بہترین اعمال کے پایہ کے نہ ہوں گے۔ اور ان کی خطاؤں اور کوتاہیوں کو بالکل ہی نظر انداز کردیں گے۔ الأحقاف
17 [٢٦] یہ کوئی مخصوص کردار نہیں ہے۔ بلکہ مکہ میں ایسی مثالیں بھی موجود تھیں۔ بعض لوگ خود مشرک تھے اور ان کی اولاد مسلمان ہوگئی تھی اور بعض بڑے بوڑھے خود مسلمان تھے مگر ان کی نوجوان اور متکبر اولاد مشرک اور عقیدہ آخرت سے منکر تھی۔ اس آیت میں ''گفتہ آید در حدیث دیگراں'' کے مصداق ایسے ہی ایک گھرانے کا مکالمہ پیش کیا جارہا ہے۔ مشرک بیٹے کی وہی پرانی اور گھسی پٹی دلیل ہے جو کہ آخرت کے منکر عموماً جواب میں کہا کرتے ہیں کہ ہزارسال سے لوگ مرتے رہے ہیں کوئی زندہ ہو کر واپس تو آیا نہیں۔ پھر تم مجھے یہ کیسی دھمکی دیتے ہو۔ اس سوال کا جواب یہاں چھوڑ دیا گیا ہے۔ کیونکہ اکثر مقامات پر قرآن میں اس کا جواب دیا جاچکا ہے۔ [٢٧] اگر عقیدہ آخرت پرانا ہے تو اس کا جواب بھی تو اتنا ہی پرانا افسانہ ہے :۔ پہلے لوگ بھی کچھ ایسی باتیں کرتے رہے ہیں مگر آج تک چونکہ کوئی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو کر واپس نہیں آیا تو پھر ہم ان کی یہ بات کیسے درست تسلیم کرلیں۔ یہ تو محض پرانے افسانے ہی ہیں۔ مگر اسے یہ بات یاد نہیں رہتی کہ اگر یہ پرانے افسانے ہیں تو اس کا جواب بھی تو ویسا ہی پرانا افسانہ ہے جو آخرت کے منکر دیتے رہے ہیں۔ الأحقاف
18 [٢٨] یعنی ایسے ضدی لوگ جو نہ غور و فکر سے کام لیتے ہیں اور نہ عقلی دلائل کو تسلیم کرتے ہیں ان پر اللہ کا یہ قول فٹ آتا ہے کہ میں جنوں اور انسانوں کی ایک کثیر تعداد سے جہنم کو بھردوں گا۔ اور یہ قول بھی دراصل ابلیس کی اس بات کے جواب میں ہے۔ جو اس نے اللہ تعالیٰ سے کہی تھی کہ میں تیری ساری مخلوق کو گمراہ کرکے چھوڑوں گا۔ کوئی چند تیرے مخلص بندے میرے داؤ سے بچ جائیں تو الگ بات ہے۔ یہ آخرت کا منکر بیٹا بھی انہی جہنم میں داخل ہونے والوں یابالفاظ دیگر ابلیس کے ہتھے چڑھنے والوں میں سے ہے۔ [٢٩] آخرت کے منکر دنیا اور آخرت دونوں جگہ خسارے میں :۔ آخرت کے منکر کو دنیا میں تو یہ خسارہ ہوتا ہے کہ وہ گناہوں پر دلیر ہو کر ایمان و سعادت کا وہ بیج بھی ضائع کردیتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ہر آدمی کے دل میں فطری طور پر ڈال رکھا تھا۔ پھر جب وہ گناہوں پر ملامت کرنے والے ضمیر کا ہی گلا گھونٹ دیتا ہے تو اسے راہ راست پر لانے والی کوئی چیز باقی نہیں رہتی اور آخرت میں اس کا خسارہ یہ ہے کہ اگر اس نے زندگی میں کوئی اچھے کام کئے بھی تھے تو ان کا اسے کوئی صلہ نہ ملے گا۔ اس لیے کہ اس نے آخرت میں اجر ملنے کی نیت سے وہ کام کئے ہی نہ تھے۔ اس طرح اس کے گناہ ہی گناہ باقی رہ جائیں گے۔ الأحقاف
19 [٣٠] نیک لوگوں پر ظلم کی صورتیں یہ ہیں کہ انہیں ان کے اعمال کا بدلہ نہ دیا جائے یا کم دیا جائے۔ اور مجرموں پر ظلم کی صورتیں یہ ہیں کہ انہیں جرم سے زیادہ سزا دے ڈالی جائے یا مجرموں کو سزا دیئے بغیر چھوڑ دیا جائے غرضیکہ ظلم کی کوئی بھی صورت وہاں ممکن نہ ہوگی۔ الأحقاف
20 [٣١] کافروں کو ان کے اچھے اعمال کا بدلہ دنیا میں ہی دے دیا جاتا ہے :۔ کافروں اور آخرت کے منکروں کو ان کے اچھے اعمال کا بدلہ دنیا میں ہی دے دیا جاتا ہے۔ مثلاً ایک شخص رفاہ عامہ کے لیے کوئی ہسپتال یا اس کا کوئی کمرہ بنواتا ہے۔ تو اس سے اس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ اس کی سخاوت کی شہرت ہو اور لوگ اس کو اچھے لفظوں میں یاد کریں۔ تو یہ بدلہ اسے دنیا میں مل جاتا ہے۔ اس کے نام کا کتبہ ہسپتال کے کمرہ کے باہر لگا دیا جاتا ہے۔ اور بعض دفعہ کسی دوسرے کی طرف سے اخبارات و رسائل میں اشتہار یا خبر بھی شائع کرا دی جاتی ہے اس طرح اسے وہ مقصد حاصل ہوجاتا ہے جس کے لیے اس نے یہ اچھا کام کیا تھا۔ غرضیکہ ایسے کافروں کو ان کے اچھے اعمال کا بدلہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مال و اولاد، حکومت، تندرستی، عزت و شہرت وغیرہ کی شکل میں دے دیا جاتا ہے۔ رہا آخرت میں اجر کا معاملہ تو یہ نہ ان کا مطلوب تھا اور نہ ہی اسے یہ مل سکے گا اور انہیں واضح طور یہ بتادیا جائے گا کہ تم اپنے اچھے کاموں کا بدلہ دنیا میں لے چکے ہو اور ان سے فائدہ اٹھا چکے ہو۔ لہٰذا آج تمہارے لیے کچھ نہیں۔ دنیا میں مال و دولت کی فراوانی، اولاد، عزت اور تندرستی وغیرہ نعمتیں کافروں کو ہی نہیں ملتیں۔ اللہ کے نیک بندوں کو بھی ملتی ہیں اور مل سکتی ہیں۔ مگر ان کا انداز فکر اور ان نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کا طریق کافروں اور آخرت کے منکروں سے بالکل جداگانہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : مومنوں کا انداز فکر :۔ سیدناعبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے بیٹے ابراہیم کہتے ہیں کہ ایک دن عبدالرحمن بن عوف (ان کے والد) نے روزہ رکھا ہوا تھا۔ شام کے وقت روزہ افطار کرنے کے لیے جب ان کے سامنے کھانا رکھا گیا تو (کھانے کی نعمتیں دیکھ کر) کہنے لگے۔ مصعب بن عمیررضی اللہ عنہ (احد کے دن) شہید ہوئے۔ وہ مجھ سے اچھے تھے۔ ایک ایسی چادر میں ان کو کفن دیا گیا کہ اگر سر ڈھانپتے تو پاؤں ننگے رہ جاتے اور اگر پاؤں ڈھانپتے تو سر ننگا رہ جاتا تھا اور حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ بھی اسی دن شہید ہوئے وہ بھی مجھ سے اچھے تھے۔ پھر اس کے بعد ہم لوگوں کو آسودگی اور فراوانی دی گئی اور ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں ہماری نیکیوں کا ثواب جلدی سے ہمیں دنیا میں نہ مل گیا ہو۔ پھر اس کے بعد رونے لگے اور اتنا روئے کہ کھانا بھی نہ کھایا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوہ احد) [٣٢] یعنی بلاوجہ تم دنیا میں اکڑتے تھے۔ احکام الٰہی کو تسلیم کرنے میں اپنی توہین سمجھتے تھے اور ایماندار لوگوں کو ذلیل سمجھتے تھے۔ لہٰذا آج تمہاری اکڑ توڑ دی جائے گی اور نافرمانی کے بدلے تمہیں جہنم میں ڈالا جائے گا۔ اور دوسروں کو ذلیل سمجھنے کے بدلے تمہیں رسوا کن عذاب دیا جائے گا تاکہ جہنمی بھی تمہیں ذلیل مخلوق سمجھیں۔ الأحقاف
21 [٣٣] یہاں قوم عاد کا ذکر اس مناسبت سے کیا گیا ہے کہ یہ لوگ قریشی سرداروں سے بھی زیادہ مغرور، متکبر اور سرکش تھے۔ یہ قوم کفار مکہ کی نسبت قدوقامت، ڈیل ڈول اور جسمانی قوت کے لحاظ سے بھی بہت بڑھ کر تھی۔ [٣٤] احقاف قوم عاد کا مسکن :۔ احقاف، حقف کی جمع ہے۔ بمعنی ریت کے بڑے بڑے میلوں میں پھیلے ہوئے ٹیلے۔ یہی علاقہ قوم عاد کا مسکن تھا۔ جو کسی زمانہ میں سرسبز اور شاداب علاقہ تھا۔ قوم عاد نے اسی جگہ زمین دوز مکان بنا رکھے تھے۔ یہ علاقہ جنوبی عرب میں حضرموت کے شمال میں واقع ہے۔ اور آج کل وہاں ریت ہی ریت کے ٹیلے ہیں جو سینکڑوں میل تک پھیلتے چلے گئے ہیں۔ اس علاقہ کو آج کل ربع خالی بھی کہتے ہیں۔ کوئی شخص اس صحرا میں داخل ہونے کی جرأت نہیں کرتا۔ اور جو چیز اس ریت میں گر پڑے وہ بھی ریت میں دھنس کر ریت ہی بن جاتی ہے۔ جیسے کوئی چیز نمک کی کان میں گر پڑے تو وہ بھی نمک ہی بن جاتی ہے۔ [٣٥] اس علاقہ میں ہود علیہ السلام سے پہلے بھی کئی نبی آئے تھے اور بعد میں آتے رہے۔ ان سب کی تعلیم یہی تھی کہ اللہ ہی کائنات کا اور تمہارا خالق اور مالک ہے۔ لہٰذا وہی ہستی عبادت کے لائق ہے۔ صرف اسی کی عبادت کرو۔ کیونکہ اور کسی کے اختیار میں کچھ بھی نہیں ہے۔ اور اگر تم نے اللہ کا حکم نہ مانا، شرک اور اپنی سرکشی سے باز نہ آئے تو تم پر سخت عذاب نازل ہوگا۔ الأحقاف
22 الأحقاف
23 [٣٦] کسی بات کا نتیجہ غلط نکالنا بھی جہالت ہے اور قوم ہود کی جہالت :۔ ان کی نادانی اور جہالت یہ تھی کہ جو بات انہیں ہود علیہ السلام سمجھانا چاہتے تھے انہوں نے اس کے برعکس نتیجہ نکالا۔ سیدنا ہود علیہ السلام نے انہیں یہ سمجھایا تھا کہ اس کائنات میں اللہ کے سوا کسی کو کسی بھی طرح کے تصرف کا اختیار حاصل نہیں۔ حتیٰ کہ خود مجھے بھی نہیں۔ میں بھی محض اللہ کا پیغام پہنچانے والا اور تمہیں تمہارے برے انجام سے ڈرانے والا ہوں۔ لیکن انہوں نے جواب میں یہ کہہ دیا کہ جس عذاب کی دھمکی دیتے ہو وہ لے آؤ۔ حالانکہ ہود علیہ السلام کا یہ دعویٰ تھا ہی نہیں کہ اگر تم انکار کرو گے تو میں تم پر عذاب بھی لاسکتا ہوں اور مجھے ایسے تصرف کے اختیار حاصل ہیں۔ اور ان کی دوسری نادانی یہ تھی کہ اچھی بات کو تو قبول نہیں کرتے تھے اور عذاب کے لیے جلدی مچاتے تھے۔ الأحقاف
24 [٣٧] قوم عاد پر عذاب بادل کی شکل میں نمودار ہوا تھا :۔ یہ لوگ بڑی مدت سے بارش کو ترس رہے تھے۔ قحط سالی کا دور دورہ تھا۔ ایک کالی گھٹا اٹھتی اور اپنے علاقہ کی طرف آگے بڑھتی دیکھی تو خوشی سے جھوم اٹھے کئی طرح کی امنگیں انگڑائیاں لینے لگیں۔ بارش کے بعد سیرابی اور خوشحالی کی توقعات باندھنے لگے۔ انہیں کیا خبر تھی کہ یہ گھٹا باران رحمت کی گھٹا تھی یا ان کو نیست و نابود کرنے کے لیے اللہ کا عذاب کالی گھٹا اور آندھی کی صورت میں ان کے سروں پر پہنچنے والا تھا۔ یہ آندھی انتہائی تیز رفتار، سخت ٹھنڈی تھی جو آٹھ دن اور سات راتیں مسلسل ان پر چلتی رہی۔ اس واقعہ سے جو سبق ہمیں ملتا ہے کہ کسی چیز کی ظاہری شکل و صورت پر ہی تکیہ نہ کرلینا چاہئے۔ بلکہ ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہنا چاہئے۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی ابر یا آندھی دیکھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر فکر معلوم ہوتی۔ میں نے پوچھا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگ تو جب بادل دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں کہ اب بارش ہوگی۔ لیکن میں دیکھتی ہوں کہ جب بادل آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ پر ناگواری معلوم ہوتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’عائشہ! مجھے یہ خطرہ لاحق ہوجاتا ہے کہ کہیں اس میں عذاب نہ ہو۔ ایک قوم (عاد) پر آندھی کا عذاب آیا۔ جب انہوں نے بادل دیکھا تو کہنے لگے کہ یہ تو بادل ہے جو ہم پر برسنے والا ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) الأحقاف
25 [٣٨] عاد پر عذاب کی نوعیت :۔ اس عذاب کا ذکر قرآن میں متعدد مقامات پر گزر چکا ہے۔ اس آندھی کی تیزی کا یہ عالم تھا کہ وہ درختوں اور پودوں کو بیخ و بن سے اکھاڑ کر پرے پھینک دیتی تھی یہی آندھی ان کے زمین دوز مکانوں کے اندر گھس گئی۔ اس دوران وہ اپنے گھروں سے نکل بھی نہیں سکتے تھے۔ سردی کی شدت سے وہیں ٹھٹھر ٹھٹھر کر مرگئے۔ لے دے کے اگر کوئی چیز وہاں نظر آتی تھی تو وہ ان کے مکان ہی تھے جن میں دراڑیں پڑگئیں تھیں۔ الأحقاف
26 [٣٩] یعنی سننے کے لیے کان، دیکھنے کے لیے آنکھیں اور سوچ بچار کے لیے دل دیئے تھے۔ مگر وہ ان سے اتنا ہی کام لیتے تھے جو ایک جانور لیتا ہے۔ یعنی اتنا ہی جو دنیا کے مال و متاع کے حصول کے لیے مفید ہو۔ دنیا کے کام میں عقلمند تھے لیکن وہ عقل نہ آئی جس سے آخرت درست ہو، آیات الٰہی سنتے وقت ان کے کان بہرے ہوجاتے تھے اور آیات الٰہی دیکھنے کے لیے ان کی آنکھیں بند ہی رہتی تھیں۔ پھر جب ان پر عذاب الٰہی آیا تو ان کی عقلمندی ان کے کسی کام نہ آسکی۔ الأحقاف
27 الأحقاف
28 [٤٠] اہل مکہ کے ارد گرد کسی زمانہ میں ایسی بے شمار بستیاں آباد تھیں۔ جو اب تباہ و برباد ہوچکی تھیں۔ انہیں وہ بچشم خود ملاحظہ کرسکتے تھے اور اگر چاہتے تو ان سے عبرت بھی حاصل کرسکتے تھے۔ ان قوموں کا سب سے بڑا اور مشترکہ جرم یہ تھا کہ انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر کئی ایسے الٰہ بنا رکھے تھے جن کے متعلق ان کا یہ گمان تھا کہ وہ مصیبت کے وقت ہمارے کام آتے ہیں۔ اللہ کے ہاں ہماری سفارش کرتے ہیں اور یہ اللہ کے ہاں ہماری فریادیں پہنچانے اور ہمیں اللہ کے قریب کردینے کا ذریعہ ہیں۔ پھر چاہئے تو یہ تھا کہ جب اسی جرم کی پاداش میں ان پر عذاب آیا کہ اس مصیبت میں وہ ان کی مدد کو پہنچتے۔ مگر کوئی ان کی مدد کو نہ پہنچا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ جب اللہ کا عذاب آیا تو ان معبودوں کے شیدائی پرستاروں کو یہ یاد ہی نہ رہا کہ یہی تو اپنے معبودوں کو پکارنے کا وقت ہے۔ اس سے زیادہ مشکل اور کون سا وقت ہوگا۔ اس سے از خود یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ جو افسانے ان لوگوں نے اپنے معبودوں کی دھاک بٹھانے کے لیے تراش رکھے تھے سب جھوٹ ہی جھوٹ تھے۔ الأحقاف
29 [٤١] انسان سے پہلے زمین پر جنوں کی آبادی :۔ اللہ تعالیٰ کی ساری مخلوق میں سے دو نوع ایسی ہیں جو شریعت الٰہی کی مکلف ہیں۔ ایک جن، دوسرے انسان۔ پھر انسانوں کی پیدائش سے پہلے جن ہی اس زمین پر آباد تھے۔ اور ان کی طرف بھی پیغمبر مبعوث ہوتے تھے۔ اور جس طرح انسانوں کی اکثریت اللہ تعالیٰ کی نافرمان ہی رہی ہے۔ اسی طرح جنوں کی اکثریت بھی نافرمان ہی تھی اور اب بھی ہے۔ بعد میں نبوت صرف انسانوں میں :۔ جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا تو اسے بھی اشرف المخلوقات بنایا اور جنوں کی حیثیت انسان کے بالتبع بن جانے کی ہوگئی۔ نبوت کا سلسلہ جنوں کی طرف سے بند ہو کر انسانوں کی طرف منتقل ہوگیا۔ اب جو پیغمبر انسانوں کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ بھیجتے رہے وہی جنوں کے لیے بھی پیغمبر ہوتے تھے گویا ہمارے نبی آخرالزمان جس طرح ہمارے لیے اللہ کے پیغمبر تھے، جنوں کے لئے بھی تھے۔ جنوں کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سننے کا ذکر ایک تو اس مقام پر آیا ہے اور دوسرا سورۃ جن میں۔ لیکن روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مکی دور میں تقریباً چھ دفعہ ایسا موقع آیا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنوں نے قرآن سنا تھا۔ ان میں سے ہم چند روایات درج کرتے ہیں۔ ان میں جو کچھ اختلاف معلوم ہوتا ہے۔ وہ صرف الگ الگ موقع کی وجہ سے ہے۔: ١۔ جنوں کا آپ کی زبان سے قرآن سننا :۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں، ایک دفعہ آپ اپنے چند صحابہ کے ہمراہ عکاظ کے بازار جانے کے ارادہ سے روانہ ہوئے۔ ان دنوں شیطانوں کو آسمانوں کی خبر ملنا بند ہوگئی اور ان پرانگارے پھینکے جاتے تھے۔ وہ (زمین کی طرف) لوٹے اور (آپس میں) کہنے لگے۔ یہ کیا ہوگیا۔ ہمیں آسمان کی خبر ملنابند ہوگئی اور ہم پر انگارے پھینکے جاتے ہیں۔ ضرور کوئی بات واقع ہوئی ہے جس کی وجہ سے ہمیں آسمان کی خبر ملنا بند ہوگئی ہے اب یوں کرو کہ ساری زمین کے مشرق و مغرب میں پھر کر دیکھو کہ وہ کیا نئی بات واقع ہوئی ہے ان میں سے کچھ شیطان تہامہ (حجاز) کی طرف بھی آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نخلہ میں تھے اور عکاظ کے بازار جانے کا قصد رکھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو نماز فجر پڑھا رہے تھے جب ان جنوں نے قرآن سنا تو ادھر کان لگا دیا۔ پھر کہنے لگے : یہ وہی چیز ہے جس کی وجہ سے ہم پر آسمان کی خبر بند کردی گئی۔ پھر اسی وقت وہ اپنی قوم کی طرف لوٹے اور کہنے لگے ﴿ اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا۔۔۔احدا ﴾ تک اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سورۃ جن نازل فرمائی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جنوں کی گفتگو آپ کو وحی کے ذریعہ معلوم ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ سورۃ الجن) ٢۔ جنوں کی خوراک :۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ آپ یک دم ہم سے غائب ہوگئے۔ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہاڑ کی وادیوں اور گھاٹیوں میں تلاش کیا، مگر آپ نہیں ملے۔ ہم سمجھے کہ آپ کو جن اڑا لے گئے یا کسی نے چپکے سے مار ڈالا اور رات ہم نے بڑی پریشانی میں بسر کی جب صبح ہوئی تو دیکھا کہ آپ حرا کی طرف سے آرہے ہیں۔ ہم نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو آپ ہم سے غائب ہوگئے ہم نے آپ کو تلاش کیا مگر آپ نہ ملے تو رات ہم نے بڑی پریشانی میں گزاری۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے جنوں کی طرف سے ایک بلانے والا آیا، میں اس کے ساتھ گیا اور جنوں کو قرآن سنایا۔ پھر وہ ہم کو اپنے ساتھ لے گئے اور ان کی نشانیاں اور ان کی آگ کے نشان ہمیں بتائے۔ پھر جنوں نے آپ سے توشہ کا مطالبہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس جانور کی ہر ہڈی جو اللہ کے نام پر کاٹا جائے، تمہاری خوراک ہے۔ تمہارے ہاتھ میں پڑتے ہی وہ گوشت سے پر ہوجائے گی اور ہر اونٹ کی مینگنی تمہارے جانوروں کی خوراک ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہڈی اور مینگنی سے استنجا مت کرو۔ کیونکہ وہ تمہارے بھائی جنوں اور ان کے جانوروں کی خوراک ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ’’میں لیلۃ الجن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہ تھا لیکن مجھے آرزو رہی کاش میں آپ کے ساتھ ہوتا‘‘ نیز ایک دوسری روایت میں ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنوں کے آنے کی خبر ایک درخت نے دی تھی۔ (مسلم۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب الجھر بالقرآۃ فی الصبح والقراءۃ علی الجن) [٤٢] جو روایات حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مختلف کتب احادیث میں مذکور ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جنوں کی پہلی حاضری کا یہ واقعہ جس کا اس آیت میں ذکر ہے وادی نخلہ میں پیش آیا تھا۔ اور ایک دوسری روایت کے مطابق یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب آپ اہل طائف سے مایوس ہو کر مکہ معظمہ کی طرف واپس آرہے تھے۔ راستہ میں آپ نے وادی نخلہ میں قیام فرمایا وہاں عشاء یا فجر یا تہجد کی نماز میں آپ قرآن کی تلاوت فرما رہے تھے کہ جنوں کے ایک گروہ کا ادھر سے گزر ہوا اور وہ آپ کی قراءت سننے کے لیے وہاں ٹھہر گیا۔ اس موقعہ پر جن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نہیں آئے تھے۔ نہ آپ نے ان کی آمد کو محسوس کیا تھا بلکہ بعد میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو بذریعہ وحی ان کے آنے اور قرآن سننے کی خبر دی جیسا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت یا مذکورہ حدیث نمبر ١ سے معلوم ہوتا ہے۔ [٤٣] سننے والے جنوں کی تبلیغ سے بہت سے جنوں کا ایمان لے آنا :۔ جنوں کے اس گروہ نے قرآن سنا تو اس سے بہت متاثر ہوئے اور فوراً رسول اللہ کی رسالت پر اور قرآن کے منزل من اللہ ہونے پر ایمان لے آئے۔ (یہ واقعہ ان کفار مکہ کو سنایا جارہا ہے جو دل سے قرآن کی عظمت کو تسلیم کرنے کے باوجود اسے بہرحال نہ ماننے پر ادھار کھائے بیٹھے تھے) یہ جن صرف خود ہی ایمان نہیں لائے بلکہ اپنی قوم میں جاکر انہیں قرآن کا پیغام سنایا۔ جنوں نے قرآن کی کون سی آیات سنی تھیں؟ اس کی صراحت کہیں مذکور نہیں البتہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کچھ ایسی ہی آیات تھیں جن میں اللہ کے نافرمانوں اور مشرکوں کو ان کے برے انجام سے ڈرایا گیا ہو۔ چنانچہ جنوں کی اپنی قوم کو تبلیغ کے نتیجہ میں ایک کثیر تعداد میں جن مسلمان ہوگئے۔ جو بعد میں کئی بار وفود کی شکل میں آپ کے پاس حاضر ہوتے رہے۔ الأحقاف
30 [٤٤] یہ جن پہلے تورات پر ایمان لا چکے تھے :۔ جنوں نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر نازل شدہ کتاب تورات کا نام لیا انجیل کا نام نہیں لیا۔ اس لیے سابقہ آسمانی کتابوں میں سے کوئی کتاب احکام و شرائع کے لحاظ سے تورات جیسی جامع اور اس کے ہم پلہ نہیں تھی۔ اسی پر علمائے بنی اسرائیل کا عمل رہا۔ خود سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے بھی یہی فرمایا تھا کہ میں تورات کو بدلنے نہیں آیا بلکہ اس کی تکمیل کرنے آیا ہوں۔ اور سیدنا سلیمان کے وقت سے جنوں میں تورات ہی مشہور چلی آتی تھی۔ نیز خود تورات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے متعلق جو پیشین گوئی مذکور ہے اس کے الفاظ یہ ہیں کہ (اے موسیٰ) میں تیری مانند ایک نبی بھیجوں گا'' اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ جن پہلے تورات اور کتب سماویہ پر ایمان لائے ہوئے تھے۔ جب قرآن سنا تو انہیں فوراً معلوم ہوگیا کہ یہ وہی تعلیم ہے جو سابقہ انبیاء دیتے چلے آ رہے ہیں۔ لہٰذا وہ فوراً ایمان لے آئے۔ الأحقاف
31 الأحقاف
32 [٤٥] کیونکہ جن اب اوپر آسمان کی طرف تو جا نہیں سکتے اور اگر جائیں تو فرشتے انہیں مار بھگاتے ہیں۔ لہٰذا اب زمین ہی ان کی پناہ گاہ ہے۔ اب زمین سے بھاگ کر جائیں تو کہاں جائیں؟ الأحقاف
33 [٤٦] یہود کا اللہ پر تھک جانے کا الزام اللہ کی ذات کے متعلق تھکنے، آرام کرنے، سونے اور اونگھنے کا تصور ہی یکسر باطل ہے۔ اور ایسا خیال وہی لوگ کرسکتے ہیں جو اللہ کو بھی اپنے جیسی عاجز اور محتاج مخلوق سمجھتے ہیں حالانکہ کسی بھی چیز سے اللہ کی مثال نہیں دی جاسکتی۔ ان الفاظ سے یہود کے اس عقیدہ کا رد ہوا جو کہتے تھے کہ اللہ نے چھ دنوں میں زمین و آسمان پیدا کئے پھر ساتویں دن آرام کیا۔ الأحقاف
34 [٤٧] کافر اور آخرت کے منکر آخرت کا انکار اس لیے کرتے ہیں کہ اگر وہ اس کا اقرار کرلیں تو اس سے ان کی آزادی میں خلل آتا ہے۔ اور اس کی مثال بالکل وہی ہے جیسے بلی کو دیکھ کر کبوتر آنکھیں بند کرلیتا ہے۔ حالانکہ کبوتر کے آنکھیں بند کرلینے کے باوجود بھی بلی وہاں موجود ہی رہتی ہے اور حقیقت میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ اسی طرح منکروں کے آخرت کے انکار کردینے سے حقیقت میں کچھ فرق نہیں پڑتا اور قیامت کے دن انہیں کہا جائے گا کہ اب ذرا آنکھیں کھول کر دیکھو کیا عذاب ایک ٹھوس حقیقت ہے یا نہیں جس سے تم آنکھیں بند کرکے اس کا انکار کردیا کرتے تھے؟ اور اس دن انہیں اقرار کرنے کے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہوگا۔ الأحقاف
35 [٤٨] اولوا العزم انبیاء کون کون سے ہیں :۔ ویسے تو سب انبیاء ہی اولوالعزم ہوتے ہیں تاہم عرف عام میں پانچ ہیں، سیدنا نوح، سیدنا ابراہیم، سیدنا موسیٰ، سیدنا عیسیٰ علیہم السلام اور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم آپ یہ چاہتے تھے کہ یا تو کفار مکہ ایمان لے آئیں یا پھر اللہ ان پر عذاب نازل کر دے۔ جس کا یہ ہر وقت مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا کہ دیکھ لو اولوالعزم انبیاء نے کتنی مدت اپنے مخالفوں کی ایذا رسانیوں پر صبر کیا تھا۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس معاملہ میں جلدی نہ کرنا چاہئے اور صبر و برداشت سے کام لینا چاہئے۔ [٤٩] یعنی آج تو عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں کہ آتا کیوں نہیں، جب قیامت کو عذاب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے تو کہیں گے اتنی جلدی عذاب کیوں آگیا۔ ہم تو دنیا میں بس ایک گھڑی ہی ٹھہرے تھے کہ عذاب آگیا ہے۔ ویسے بھی انسان کی فطرت ہے کہ اسے مصیبت کی گھڑیاں تو بڑی طویل محسوس ہوتی ہیں لیکن عیش و آرام میں گزرے ہوئے سال ہاسال بھی چند گھڑیاں معلوم ہوتے ہیں۔ قیامت کا دن کس قدر سخت ہوگا۔ اس کا اندازہ کچھ ان کے جواب سے بھی ہوجاتا ہے۔ [٥٠] یعنی اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اللہ کے عذاب سے تباہ صرف اس کے نافرمان ہی کئے جاتے ہیں۔ جو اللہ کے عذاب کی تنبیہ کو مذاق میں اڑا دیتے ہیں۔ الأحقاف
0 [١] سورۃ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم )کے نزول کا پس منظر :۔ سورۃ محمد ان ابتدائی سورتوں میں سے ہے جو ہجرت کے بعد مدینہ میں نازل ہوئیں۔ مکہ میں اسلام اور پیغمبر اسلام کے دشمن صرف قریش تھے۔ لیکن مدینہ جانے کے بعد جب مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی ریاست بھی قائم ہوگئی تو مسلمانوں کے دشمنوں میں اضافہ ہوگیا۔ قریش مکہ نے بھی اپنی دشمنی ترک نہیں کی۔ یہود سے اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ جاتے ہی ایک دفاعی سمجھوتہ کرلیا تھا لیکن یہود ایک عہد شکن قوم ہے۔ ان کی ساز باز قریش مکہ کے ساتھ رہتی تھی اور قریش مکہ بھی اس دفاعی سمجھوتہ کے باوجود انہیں اپنا ہی حلیف سمجھتے تھے۔ منافقین بھی مسلمانوں کے لیے مارآستین بنے ہوئے تھے اور درپردہ ان کی سب ہمدردیاں یہود کے ساتھ تھیں اور یہ اس لحاظ سے بھی خطرناک تھے کہ مسلمانوں کے راز اور تدبیروں سے یہود اور دوسرے دشمنوں کو باخبر رکھتے تھے۔ علاوہ ازیں ارد گرد کے مشرک قبائل عرب بھی اس چھوٹی سی نئی مسلم ریاست کا وجود برداشت کرنے کو تیار نہ تھے۔ مدینہ پہنچنے کے بعد پیدا ہونے والے شدید مسائل اور صرف دو ہی راستے :۔ مدینہ پہنچ کر مسلمانوں کو یہ فائدہ تو ہوگیا کہ اب وہ آزادی کے ساتھ قرآن پڑھ سکتے، ارکان اسلام بجا لاتے اور علی الاعلان تبلیغ کرسکتے تھے۔ مگر یہاں آکر وہ اندر اور باہر کے چاروں طرف کے دشمنوں کے نرغہ میں گھرے ہوئے تھے۔ مہاجرین کی آباد کاری اور معاشی پریشانیوں کا مسئلہ الگ تھا۔ ان حالات میں مسلمانوں کے لیے بس دو ہی راستے تھے ایک یہ کہ ان مشکلات سے گھبرا کر کفر کے آگے گھٹنے ٹیک دیں اور دوسرا یہ کہ سر دھڑ کی بازی لگا کر کفر کے مقابلہ میں ڈٹ جائیں اور اللہ پر توکل کریں۔ اسی پس منظر میں یہ سورۃ نازل ہوئی، مسلمانوں کو تسلی بھی دی گئی۔ اور اللہ پر توکل رکھتے ہوئے قتال فی سبیل اللہ کی ترغیب دی گئی ہے۔ محمد
1 [٢] صدّ کا لغوی مفہوم :۔ صَدَّ کا لفظ لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ اس کا معنی اعراض کرنا اور خودرک جانا بھی ہے۔ اور دوسروں کو روکنا بھی۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے کفر کیا۔ پھر کفر کی حمایت میں دوسروں کو اسلام لانے سے روکتے رہے۔ مسلمانوں کو ایذائیں اور دکھ پہنچانے اور اسلام کی اشاعت کو روکنے کے لیے خفیہ تدبیریں اور سازشیں تیار کرتے رہے اور معاندانہ سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے۔ ان کی یہ سرگرمیاں یہاں بے نتیجہ اور بے اثر ثابت ہوں گی۔ اور وہ اپنی ان کوششوں میں ناکام رہیں گے۔ اللہ ان کی کوششوں کو برباد کر دے گا اور کبھی بار آور نہ ہونے دے گا۔ محمد
2 [٢۔ الف] آپ کی بعثت کے بعد سب کو آپ کی نبوت پر ایمان لانا ضروری ہے :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور قرآن پر ایمان لانے کا خصوصی طور پر ذکر فرمایا۔ وجہ یہ ہے کہ مدینہ میں کچھ ایسے یہود موجود تھے جو ایمان بالغیب کی جملہ جزئیات پر ایمان رکھتے تھے اور نیک اعمال بھی بجا لاتے تھے۔ انہیں متنبہ کیا گیا ہے کہ اب سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر اور تورات پر ایمان لانا سود مند نہ ہوگا۔ وجہ یہ ہے کہ سابقہ تمام انبیاء کی شریعت علاقائی یا قومی بھی تھی اور عارضی بھی۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سارے جہاں کے لیے اور تاقیام قیامت رسول ہیں۔ اسی طرح قرآن بھی جملہ اہل عالم کے لیے ایک تاقیام قیامت ہدایت کا ذریعہ ہے۔ لہٰذا اب ایسے یہود کو بھی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پر ایمان لانا ہوگا۔ سیدنا عمر کا تورات کے اوراق پڑھنا :۔ اس مفہوم کی وضاحت اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ ایک دفعہ سیدنا عمررضی اللہ عنہ تورات کے چند اوراق لائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ کر پڑھنے لگے جوں جوں سیدنا عمر پڑھتے جاتے آپ کا چہرہ متغیر ہوتا جاتا تھا۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمررضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا : تمہیں گم کرنے والیاں گم پائیں کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ کو نہیں دیکھتے؟ سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے جب آپ کے چہرہ کی طرف دیکھا تو کہنے لگے کہ ’’میں اللہ سے اور اس کے رسول کے غضب سے پناہ پکڑتا ہوں۔ ہم اللہ کے پروردگار ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہیں‘‘ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے۔ اگر آج خود موسیٰ علیہ السلام ظاہر ہوجائیں اور تم مجھ کو چھوڑ کر اس کی پیروی کرو تو سیدھی راہ سے گمراہ ہوجاؤ گے اور اگر سیدنا موسیٰ علیہ السلام آج زندہ ہوتے اور میری نبوت کا زمانہ پاتے تو انہیں میری اتباع کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہوتا‘‘ (دارمی بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب الاعتصام بالکتاب والسنتہ۔ فصل ثالث) [٣] یعنی کافروں اور ان کی معاندانہ سرگرمیوں کے مقابلہ میں اللہ پر، سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور قرآن پر ایمان لائے۔ اور نیک اعمال بجا لاتے رہے۔ کافروں کا ظلم و ستم سہتے رہے، صبر اور برداشت سے کام لیتے رہے۔ اللہ ان کی سابقہ کو تاہیاں اور قصور معاف فرمادے گا اور جن مشکلات سے اس وہ وقت دوچار ہیں ان سے انہیں نکال کر ان کے حالات کو بہتر بنا دے گا اور ان کی کوششیں بار آور ثابت ہوں گی۔ محمد
3 [٤] کفار کی نیکیاں برباد گناہ لازم جبکہ مومنوں کی حالت ان کے بالکل برعکس ہے :۔ اللہ تعالیٰ حق کی پیروی کرنے والوں اور باطل کی پیروی کرنے والوں کی ٹھیک ٹھاک مثالیں بیان کرتا ہے۔ حق کی پیروی کرنے والوں کی صورت حال یہ ہوگی کہ ان کی نیکیاں برقرار رہیں گی اور گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔ اور باطل کی پیروی کرنے والوں کی صورت حال یہ ہوگی کہ ان کی نیکیاں برباد اور گناہ لازم و برقرار رہیں گے۔ کیونکہ ایمان کے بغیر کوئی نیک عمل قبول نہیں ہوتا۔ محمد
4 [٥] دو سابقہ تمہیدی آیات کے بعد اب مسلمانوں کو جنگ سے متعلق ہدایات دی جارہی ہیں اور ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سورۃ کے نزول سے بیشتر مسلمانوں کو جنگ کرنے کی اجازت تو مل چکی تھی مگر تاحال کوئی معرکہ پیش نہیں آیا تھا۔ مسلمانوں کو جنگ کی اجازت کے سلسلہ میں جو پہلی آیت نازل ہوئی وہ سورۃ الحج کی آیت نمبر ٣٩ ہے پھر اس سلسلہ میں سورۃ البقرۃ کی آیات نمبر ١٩٠ تا ١٩٣ ہیں۔ اور یہ ہدایات حسب ذیل ہیں۔ ١۔ جب معرکہ کارزار پیش آئے تو پورے جوش و خروش اور جرأت ایمانی سے ڈٹ کر کافروں کا مقابلہ کرو اور رسول اللہ نے فرمایا : لوگو! دشمن سے بھڑنے کی آرزو مت کرو اور اللہ سے عافیت مانگو لیکن اگر بھڑ جاؤ تو پھر ثابت قدم رہو اور جان لو کہ بہشت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ (بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب لاتتمنّوا لقاء العدو) ٢۔ جنگ کے متعلق عام ہدایات :۔ تمہارا اصل ہدف یہ ہونا چاہئے کہ دشمن کی جنگی طاقت اور کفر کی کمر توڑ دی جائے۔ اس لیے زیادہ سے زیادہ توجہ کافروں کے قتل کی طرف رکھو۔ ہاں جب لڑائی کا زور ٹوٹ جائے اور دشمن ہتھیار رکھ دے تو اس وقت ان کے بچے کھچے آدمیوں کو قید کرو۔ اس سے پہلے قید نہ کرنے لگ جاؤ۔ ٣۔ جنگی قیدیوں کے متعلق ہدایات :۔ جو قیدی تمہارے ہاتھ لگ جائیں ان سے متعلق دو صورتوں میں سے کوئی ایک صوت اختیار کی جائے یا تو انہیں احسان رکھ کر چھوڑ دیا جائے یا ان کا فدیہ لے لیا جائے اس سے معلوم ہوا کہ قیدیوں کو قتل کرنا عام قاعدہ نہیں۔ تاہم قتل کی ممانعت بھی نہیں کی گئی۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ائمہ کفر کے قیدیوں کو قتل بھی کیا جاسکتا ہے۔ جن کا جرم صرف یہی نہیں ہوتا کہ وہ جنگ میں شامل ہوئے تھے۔ بلکہ ان کے اور بھی کئی سخت قسم کے جرائم ہوتے ہیں جن کی وجہ سے وہ قتل کے مستحق ہوتے ہیں۔ چنانچہ فتح مکہ کے بعد قیدیوں کے عفو عام کے باوجود چار شخصوں کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ انہیں قتل کردیا جائے۔ جنگ بنو قریظہ کے بعد محصور یہود نے سیدنا سعد بن معاذ کو ثالث تسلیم کرتے ہوئے ہتھیار ڈالے۔ تو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے ان کے حق میں یہ فیصلہ دیا کہ ان کے نوجوانوں کو قتل کردیا جائے۔ بچوں اور عورتوں کو لونڈی غلام بنا لیا جائے۔ اور ان کے اموال کو مجاہدین میں تقسیم کردیا جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سعد کے اس فیصلہ کو بالکل درست قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ان کا یہ فیصلہ آسمانوں والے پروردگار کے فیصلہ کے مطابق ہے چنانچہ انہیں قتل کردیا گیا ان کا جرم صرف یہ نہ تھا کہ وہ جنگی قیدی تھے بلکہ اصل جرائم یہ تھے وہ کئی بار سمجھوتہ کے معاہدہ کی عہد شکنی کرچکے تھے اور جنگ احزاب میں عین جنگ کے درمیان دشمن کی اتحادی فوجوں سے مل کر مسلمانوں کو سخت مشکل حالات سے دوچار کردیا تھا۔ اسارٰی بدر کے متعلق مشورہ اور فدیہ :۔ اسارٰی بدر کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مشورہ کیا۔ سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے یہ مشورہ دیا کہ یہ قیدی چونکہ صنادید کفر ہیں۔ لہٰذا انہیں قتل کردینا ضروری ہے۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کے عام قاعدہ اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق فدیہ لے کر چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا اس پر مسلمانوں پر عتاب نازل ہوا۔ اللہ تعالیٰ کی منشا سیدنا عمر کے فیصلہ کے مطابق تھی۔ اس لیے کہ بدر کے قیدی محض جنگی قیدی نہ تھے۔ بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے بدترین دشمن اور مسلمانوں اور پیغمبر اسلام کے خلاف بہت سی معاندانہ سرگرمیوں میں مصروف رہتے تھے۔ ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ امام وقت کو اس عام قاعدہ کے استثناء کا اس وقت حق حاصل ہوتا ہے جبکہ جنگی قیدی اور بھی کئی جرائم میں ملوث ہوں اور امام وقت کو انہیں نہ احسان رکھ کر چھوڑنا چاہئے نہ فدیہ لے کر بلکہ انہیں قتل کردینا چاہئے کیونکہ قتال فی سبیل اللہ کا سب سے اہم مقصد کفر کی کمر توڑنا ہے۔ قیدیوں پر احسان کی مختلف صورتیں :۔ پھر احسان رکھ کر چھوڑنے کی کئی صورتیں ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ ان سے کسی طرح کی کوئی خدمت نہ لی جائے اور اگر حالات اجازت دیں تو محض اللہ کی رضا اور اسلام کی اخلاقی برتری قائم کرنے کے لیے انہیں چھوڑ دیا جائے۔ جیسا کہ فتح مکہ کے دن آپ نے عفو عام کا اعلان کردیا تھا۔ یا جنگ حنین کے بعد جنگی قیدیوں کی تقسیم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل ہوازن کی ایما پر انہیں آزاد کردیا تھا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ان کی جان بخشی اس صورت میں کی جائے کہ انہیں مسلمانوں میں تقسیم کردیا جائے اور مسلمانوں کو تلقین کی جائے کہ ان سے بہتر سے بہتر سلوک کیا جائے۔ جیسا کہ جنگ حنین کے بعد پہلے آپ نے ایسے قیدیوں کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا تھا۔ علاوہ ازیں اور بھی کئی مواقع پر آپ نے جنگی قیدیوں کو مجاہدین میں تقسیم فرمایا تھا۔ تیسری یہ کہ اگر انہیں قید کرنا ہی پڑے تو ان سے بہتر سلوک کیا جائے اور یہ قید دائمی اور مستقل نہ ہونی چاہئے۔ اور چوتھی یہ کہ ان سے جزیہ لے کر ذمی بنا لیا جائے اور انہیں اسلامی مملکت میں آزادانہ رہنے کا حق دیا جائے۔ جیسا کہ اہل نجران سے معاملہ کیا گیا تھا۔ فدیہ کی مختلف صورتیں :۔ اور فدیہ کی بھی کئی صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ ان سے زر فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔ جیسا کہ اساری بدر سے لیا گیا تھا اور یہ زر فدیہ ہر شخص سے اس کی حیثیت کے مطابق لیا جائے گا۔ دوسری یہ کہ ان قیدیوں سے پیسہ کی بجائے کوئی اور خدمت لے کر انہیں چھوڑ دیا جائے جیسا کہ اسی اساری بدر کے موقعہ پر جن لوگوں کے پاس زر فدیہ کی رقم نہیں تھی۔ ان سے یہ خدمت لی گئی کہ ایسا ہر قیدی مسلمانوں کے دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دے اور تیسری یہ کہ جنگی قیدیوں کا آپس میں تبادلہ کرلیا۔ اس کے لیے یہ ضروری نہیں کہ ایک مسلمان کے بدلے ایک کافر چھوڑا جائے بلکہ ایک دفعہ آپ نے دو مسلمانوں کے بدلہ میں ایک کافر چھوڑا تھا۔ یہ ہیں وہ مختلف صورتیں جو اس آیت کے اس مختصر سے جملہ میں داخل ہیں۔ ان تمام صورتوں میں سے جو صورت بھی حالات کے مطابق اور مسلمانوں اور اسلام کے حق میں بہتر ہو، امام وقت وہی صورت اختیار کرسکتا ہے۔ [٦] یعنی اللہ تعالیٰ یہ کرسکتا تھا کہ باطل پرستوں اور اسلام دشمنوں پر بجلی کی کڑک یا زلزلہ بھیج کر یا سیلاب کا پانی چھوڑ کر انہیں تباہ و برباد کر دے۔ جیسا کہ وہ پہلی سرکش اقوام پر ایسے عذاب بھیج چکا ہے اور اس طرح وہ ان سے تمہارا بدلہ لے لے۔ لیکن جب تک معرکہ حق و باطل قائم نہ ہو اور میدان کارزار گرم نہ ہو تب تک بندوں کا امتحان نہیں ہوسکتا کہ کون کس درجہ میں اسلام سے مخلص اور جرأت ایمانی رکھتا ہے۔ نیز کافروں میں سے کتنے لوگ ان تنبیہی کاروائیوں سے سبق حاصل کرتے ہیں اور اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہیں جو اللہ نے انہیں دے رکھی ہے۔ محمد
5 محمد
6 [٧] یعنی جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید ہوجاتے ہیں اس کا صرف یہی فائدہ نہیں کہ وہ قومی زندگی کا سبب بنتے ہیں۔ بلکہ خود ان کی ذات کو بھی کئی فائدے پہنچتے ہیں۔ خواہ وہ دنیوی لحاظ سے بظاہر کامیاب نظر نہ آتے ہوں۔ مثلاً یہ کہ اللہ ان کی صحیح راستے کی طرف رہنمائی فرماتا ہے اور ان کی سرگرمیوں کو ضائع نہیں ہونے دیتا۔ دوسرے یہ کہ ان کے دلوں سے ہر قسم کی کدورت دور کرکے اور ان کی حالت کو درست کر دے گا۔ پھر انہیں جنت میں داخل کرے گا۔ [٨] عرف کے مختلف مفہوم :۔ اس جملہ کے تین مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ایسے باغوں میں داخل ہوں گے جن کا انہیں کتاب و سنت کے ذریعہ تعارف کرایا جاچکا ہے اور اس کی صفات کو سب جنت میں داخل ہونے والے جانتے ہوں گے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہر جنتی جنت میں اپنے مکان اور مسکن کو پہچانتا ہوگا۔ چنانچہ صحیح بخاری کتاب بدأ الخلق میں مذکور ہے کہ جنتی اپنے مکانوں اور رہائش گاہوں کو اس سے زیادہ پہنچانتے ہونگے جتنا وہ دنیا میں اپنے گھروں کو پہچانتے ہیں۔ یعنی انہیں اپنی رہائش گاہ پہچاننے میں نہ کوئی الجھن پیش آئے گی اور نہ راستہ بھولیں گے اور تیسرا مطلب یہ ہے کہ جس طرح عَرَفَ کے معنی پہچاننا اور عَرَّفَ کے معنی پہچان کرانا ہے اسی طرح عَرَفَ کے معنی خوشبو لگانا اور عَرَّفَ کے معنی معطر کرنا اور خوشبو چھوڑ دینا بھی ہے۔ (مفردات القرآن) اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کے لیے جنت کو خوشبو سے بسا دیا ہے۔ محمد
7 [٩] اللہ کی مدد کرنے سے مراد اللہ کے دین کی مدد کرنا ہے۔ یعنی جو لوگ اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ یقیناً جہاد میں ان کی مدد فرمائے گا اور ان کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آنے دے گا۔ بندہ کا کام صرف یہ ہے کہ وہ اقامت دین کے لیے کمر بستہ رہے۔ اللہ تعالیٰ اسے کامیابی سے ہمکنار کرے گا۔ محمد
8 [١٠] تعسا کا لغوی مفہوم :۔ تعسًا کے معنی ٹھوکر کھا کر گرنا اور پھر اٹھ نہ سکنا ہے یا کسی گڑھے میں گر کر ہلاک ہوجانا ہے (مفردات) گویا اللہ کے دین کی مدد کرنے والوں کے تو اللہ تعالیٰ پاؤں جما دیتا ہے اس کے برعکس منکروں کو منہ کے بل گرا کر ہلاک کردیا جاتا ہے اور مومنوں کی تو مدد کی جاتی ہے جبکہ کافروں کے سب کئے کرائے پر پانی پھیر دیا جاتا ہے۔ محمد
9 محمد
10 [١١] اس آیت کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ پہلی قوموں نے سرکشی کی راہ اختیار کی تو اللہ نے مختلف قسم کے عذاب بھیج کر انہیں تباہ و برباد کردیا تھا۔ اسی طرح کے عذاب بھیج کر ان موجودہ کافروں کو بھی تباہ کرسکتا ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے جس طرح کافروں کو دنیا میں طرح طرح کی سزائیں دی ہیں۔ اسی طرح کئی طرح کی سزائیں آخرت میں بھی دے گا۔ محمد
11 [١٢] غزوہ احد کے اختتام پر ابو سفیان کی نعرہ بازی اور اس کا جواب :۔ یعنی کافر یہ سمجھتے ضرور ہیں کہ ان کی دیویاں اور دیوتا ان کی مدد کو پہنچتے ہیں حالانکہ یہ محض ان کا وہم ہوتا ہے۔ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق و باطل کے معرکوں میں صرف غزوہ احد ہی وہ جنگ ہے جس میں ابتداء ً مسلمانوں کو ان کی اپنی ہی غلطی سے عارضی طور پر شکست سے دو چار ہونا پڑا اور آخر میں میدان برابر رہا۔ ابو سفیان نے اپنی اتنی سی کامیابی کو بھی غنیمت سمجھ کر اپنے سب سے بڑے دیوتا اور بت ہبل کا نعرہ لگاتے ہوئے کہا کہ اَعْلَی الھُبَل (ہبل سربلند ہوا) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے کہا اسے یہ جواب دو! اَللّٰہُ اَعْلٰی وَاَجَلّ (سر بلند تو صرف اللہ ہے اور وہی بزرگ و برتر ہے) پھر ابو سفیان نے کہا : لنا عُزّٰی ولا عُزّٰی لکم (ہمارے لیے تو عزت دینے والی دیوی عزیٰ ہے اور تمہارے لیے کوئی عزیٰ نہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے فرمایا : ( اَللُّہُ مولٰنَا وَلَا مَولٰی لَکُم) (ہمارا تو اللہ حامی و ناصر ہے لیکن تمہارا کوئی حامی و ناصر نہیں) آپ کا جواب اسی آیت کی تفسیر تھا۔ چنانچہ ہوا بھی ایسا ہی۔ ابو سفیان جب احد کے میدان کو چھوڑ کر کئی میل مکہ کی طرف جاچکا تو اسے خیال آیا کہ اس جنگ کا فیصلہ تو کچھ بھی نہ ہوا لہٰذا واپس جاکر مسلمانوں پر دوبارہ حملہ کرکے اسے نتیجہ خیز بنانا چاہئے۔ لیکن اللہ نے مسلمانوں کی نصرت کا یہ سبب پیدا کردیا کہ مسلمان خود اس سے پہلے ہی ابو سفیان کے لشکر کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے۔ جب ابو سفیان کو یہ صورت حال معلوم ہوئی تو اللہ نے کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور انہوں نے مکہ کی راہ لی۔ محمد
12 [١٣] کافروں کا کھانا پینا حیوانوں کی طرح ہے :۔ اس جملہ کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ جس طرح چوپایوں کو یہ تمیز نہیں کہ ان کا کھانا حلال ذرائع سے آیا ہے یا حرام ذرائع سے اسی طرح کافروں کو بھی یہ تمیز گوارا نہیں ہوتی۔ چوپائے جہاں سے بھی ملے کھا لیتے ہیں انہیں اپنے بیگانے کی تمیز نہیں نیز کمزور جانور کو مار دھاڑ کر طاقتور جانور کمزوروں کا کھانا بھی خود کھا جاتے ہیں۔ یہی حال کافروں کا ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ جانوروں یا چوپایوں کا کھانا کھانے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ وہ اپنی بھوک دور کریں اور اپنی زندگی کو باقی رکھیں۔ کافروں کا بھی کھانے سے اتنا ہی مقصد ہوتا ہے۔ اس سے آگے وہ یہ نہیں سوچتے کہ اللہ نے ہمیں جو عقل اور تمیز چوپایوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ دی ہے آخر یہ کیوں دی گئی ہے؟ محمد
13 [١٤] ہجرت کے وقت آپ کے الوداعی کلمات :۔ بظاہر کافروں نے آپ کو مکہ سے نکالا تھا۔ بلکہ انہوں نے تو سو اونٹ انعام بھی مقرر کیا تھا کہ جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑ کرلے آئے اسے سو اونٹ انعام دیا جائے گا۔ لیکن چونکہ ان کافروں نے آپ کو ایذائیں اور دکھ پہنچا پہنچا کر وہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور کردیا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے نکالنے کے اصل سبب کی طرف نسبت فرمائی۔ جیسا کہ خود بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سے نکلنے لگے تو نہایت حسرت سے مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے یہ الفاظ کہے :’’مکہ تو اللہ کے نزدیک بڑی عزت والا اور محبوب ہے اور مجھے بھی بہت محبوب ہے اگر تیرے باشندے مجھے یہاں سے نکل جانے پر مجبور نہ کردیتے تو میں تجھے کبھی نہ چھوڑتا‘‘ (ترمذی۔ ابو اب المناقب۔ باب فی فضل مکۃ) محمد
14 [١٥] واضح دلیل سے مراد وہ صاف ستھرا راستہ ہے جو وحی الٰہی کی روشنی میں پوری طرح نظر آرہا ہو۔ یعنی ایک شخص تو پورے علم اور یقین کے ساتھ روشنی میں اپنی زندگی کا سفر طے کررہا ہے۔ دوسرے کے پاس وہم و گمان کی تاریکیاں ہی تاریکیاں ہیں۔ وہ اپنے نفس کی خواہش کا پیروکار ہوتا ہے۔ اور دنیا کا زیادہ سے زیادہ مال کمانا ہی اس کی زندگی کا مقصد ہوتا ہے۔ اور اس مقصد کے حصول کے لیے جو بھی وہ جائز اور ناجائز ذرائع استعمال کرتا ہے سب اسے اچھے ہی نظر آتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ان دونوں آدمیوں کا طرز زندگی ایک جیسا ہوسکتا ہے؟ یا ان دونوں کا انجام ایک ہی جیسا ہونا چاہئے؟ محمد
15 [١٦] جنت کے چار مشروبات کی صفات :۔ اس آیت میں جنت کے حالات بیان کرتے ہوئے پہلے چار مشروبات اور ان کی صفات کا ذکر فرمایا۔ پہلے نمبر پر پانی کی صفت یہ بیان فرمائی کہ غَیْرَ آمیِنْ ہوگا۔ یعنی نہ وہ متعفن ہوگا نہ اس کا رنگ بدلا ہوگا اور نہ ذائقہ۔ دنیا میں پانی کے کھڑے ذخیروں کا عموماً رنگ ذائقہ اور بو تینوں چیزیں بدل جاتی ہیں اور بارش کے پانی میں گردوغبار مل جاتا ہے۔ اور دریاؤں کا پانی مٹی کی آمیزش سے گدلا ہوجاتا ہے۔ جنت میں پانی کے چشموں سے جو پانی جاری ہوگا وہ نہایت صاف ستھرا، نتھرا ہوا، بے رنگ، بے بو ہوگا۔ اس کا ذائقہ بھی میٹھا ہوگا بدلا ہوا نہ ہوگا۔ دوسرے نمبر پر دودھ کا ذکر فرمایا۔ دنیا میں جو دودھ جانوروں کے تھنوں سے نکلتا ہے۔ اس میں کچھ تو تھنوں کی آلائش کی آمیزش ہوجاتی ہے پھر اگر دودھ کچھ دیر پڑا رہے تو پھٹ جاتا ہے۔ اور اس کا ذائقہ ترش اور بدمزہ ہوجاتا ہے۔ جنت میں دودھ بھی پانی کی طرح چشموں سے رواں ہوگا اور اپنی اصلی حالت میں بدستور قائم رہے گا۔ اس کے ذائقہ میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ تیسرے نمبر پر شراب کا ذکر فرمایا۔ دنیا کی شراب کا ذائقہ تلخ، بوناگوار ہوتی ہے۔ حواس کو مختل کردیتی ہے اور بعض دفعہ سر چکرانے لگتا ہے۔ جنت میں شراب بھی چشموں کی صورت میں رواں ہوگی۔ وہ مذکورہ تمام عیوب سے پاک اور مزیدار ہوگی۔ چوتھے نمبر پر شہد کا ذکر فرمایا۔ جو شہد کی مکھی کے پیٹ سے نکلتا ہے۔ شہد کے چھتے میں موم اور ستھے کی آمیزش ہوتی ہے اور اوپر جھاگ ہوتا ہے۔ جنت میں شہد بھی چشموں سے نکل کر رواں ہوگا۔ نہایت صاف ستھرا اور ایسے عیوب سے پاک ہوگا۔ [١٧] مشروبات کے بعد پھر مختصراً ماکولات کا ذکر فرمایا کہ کھانے کے لیے انہیں ہر طرح کے بہترین اور مزیدار پھل مہیا کئے جائیں گے۔ اور اللہ کی سب سے بڑی نعمت یہ ہوگی کہ ان کی دنیا کی زندگی کی تمام کوتاہیوں پر پردہ ڈال دیا جائے گا۔ جو کسی کے ذہن میں نہ آسکیں گی۔ اور ایسی کوتاہیوں کو اپنی طرف سے اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا۔ [١٨] یعنی ایک طرف تو وہ شخص ہے جو جنت کی متذکرہ بالا نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ اور دوسری طرف ایسا شخص ہے جو ہمیشہ کے لیے دوزخ کی آگ میں جل رہا ہے۔ کھانے کو اسے خاردار اور زہریلا تھوہر کا درخت ملے گا اور پینے کو سخت گرم کھولتا ہوا پانی۔ کیا ان دونوں کا انجام ایک جیسا ہے۔؟ محمد
16 [١٩] یعنی منافقین آپ کی مجلس میں آتے تو آپ کی باتوں کو اس لیے کان لگا کر سنتے تھے کہ کوئی ایسا نکتہ ہاتھ آجائے جس سے نبی کی اس تعلیم کو مشکوک بنایا جاسکے۔ پھر وہ یہی باتیں جاکر بعض علمائے یہود یا بعض مسلمانوں سے پوچھتے تھے کہ ابھی اس نبی نے کیا بات کہی تھی اور اس سے ان کا مقصد یہ ہرگز نہ ہوتا تھا کہ وہ اس سے ہدایت حاصل کریں بلکہ یہ کہ دوسروں کو بھی شک و شبہ میں ڈال دیں۔ یا خود آپ کے ارشادات کا وہ مفہوم لیتے تھے جو آپ کا مقصود نہیں ہوتا تھا۔ اور اس کی وجہ صرف یہ ہوتی تھی کہ وہ اپنی مرضی کے کاموں پر کسی طرح کی پابندی قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔ جب کسی کی یہ حالت ہوجائے تو یہی وہ وقت ہوتا ہے جبکہ اللہ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے اور کوئی بھی ہدایت کی بات اس کے لیے کارگر ثابت نہیں ہوتی۔ محمد
17 [٢٠] یعنی وہی باتیں اور ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم جو ان منافقوں کے لیے ایک معمہ بن جاتے تھے وہی اہل ایمان کے لیے ہدایت میں اضافہ کا ذریعہ ہوتے تھے۔ اور ان میں مزید تقویٰ پیدا ہوجاتا تھا۔ محمد
18 [٢١] علامات قیامت :۔ قیامت کی سب سے بڑی نشانی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہے کیونکہ آپ خاتم النبیین ہیں۔ علاوہ ازیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی قیامت کی نزدیکی پر دلالت کرتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شہادت کی انگلی اور وسطی انگلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ''بعثت انا والساعۃ کھا تین'' (بخاری۔ کتاب الرقاق۔ عنوان باب) اس حدیث کے بھی دو مطلب ہیں ایک یہ کہ جیسے ان دو انگلیوں کے درمیان تیسری کوئی انگلی یا کوئی چیز نہیں اسی طرح میرے اور قیامت کے درمیان کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اور اس مطلب کی طرف لفظ بعثت سے واضح اشارہ ملتا ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ وسطی انگلی جتنی شہادت کی انگلی سے آگے نکل ہوئی ہے۔ اتنی ہی دنیا کی عمر باقی رہ گئی ہے۔ پھر قیامت آجائے گی۔ علاوہ ازیں قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی چاند کا پھٹنا بھی تھا جو دور نبوی میں واقع ہوچکا۔ نیز آپ نے اپنے بہت سے ارشادات میں قیامت کی نشانیاں بیان فرمائیں جن میں سے چند احادیث درج ذیل ہیں : سیدنا حذیفہ بن اسید کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم آپس میں مذاکرہ کر رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف جھانکا اور پوچھا : ’’کس چیز کا ذکر کر رہے ہو‘‘ ہم نے کہا :’’قیامت کا‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک کہ اس سے پہلے تم دس نشانیاں نہ دیکھ لو۔ دخان، دجال، دابۃ الارض، سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، عیسیٰ بن مریم کا نزول، یاجوج ماجوج اور تین (جگہ) زمین کا دھنس جانا۔ مشرق میں، مغرب میں اور جزیرۃ العرب اور آخری نشانی آگ ہے جو یمن سے نکلے گی اور لوگوں کو ہنکا کر ان کے جمع ہونے کی جگہ پر لے جائے گی۔ (مسلم۔ کتاب الفتن۔ باب فی الآیات تکون قبل الساعۃ) سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ’’قیامت کی کچھ نشانیاں یہ ہیں۔ علم گھٹ جائے گا، جہالت پھیل جائے گی، شراب کثرت سے پی جائے گی، زنا عام ہوگا 'عورتیں زیادہ ہوں گی اور مرد کم حتی کہ پچاس عورتوں کا کفیل ایک مرد ہوگا‘‘ (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب رفع العلم وظھور الجھل) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’دین کا علم اٹھ جائے گا۔ جہالت اور فتنے پھیل جائیں گے اور حرج بکثرت ہوگا۔‘‘ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ’’حرج کیا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کو ترچھا ہلا کر بتایا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل مراد لیا۔ (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب الفتیا باشارۃ الید والراس) اور یہ بھی قرآنی تصریحات سے ثابت ہے کہ جب موت کا وقت آجائے یا ایسی واضح علامت جو قیامت کا پیش خیمہ ہوں جیسے سورج کا مغرب سے طلوع ہونا یا قیامت کے آنے پر کسی شخص کا ایمان لانا اسے کچھ فائدہ نہیں دے سکتا۔ محمد
19 [٢٢] کوئی مومن جس درجے کا بھی وہ مومن ہو اسے اللہ کے حضور اپنے عجزو قصور کا اعتراف کرتے رہنا چاہئے۔ قصور کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی جس قدر عبادت اور اطاعت کا ہم پر حق تھا وہ ہم پوری طرح نبھا نہیں سکے۔ اور ایسا اعتراف تمام انبیاء بھی کرتے آئے ہیں۔ حالانکہ انبیاء سے گناہ کا اور بالخصوص دیدہ دانستہ گناہ کا سرزد ہونا محالات سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسی ارشاد کے مطابق آپ ایک دن میں سو سے زیادہ مرتبہ استغفار فرمایا کرتے تھے۔ اور تمام مسلمان بھی اپنی نمازوں کے دوران اور نمازوں کے بعد بہ تکرار استغفار کرتے رہتے ہیں۔ اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اور تمام مومن مردوں اور عورتوں کے لیے استغفار کرنے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ آپ کی دعا اللہ کی بارگاہ میں دوسروں کی نسبت بہت زیادہ مستجاب ہے۔ [٢٣] یعنی اللہ تعالیٰ تم سے ہر ایک شخص کی، خواہ وہ مومن ہے یا کافر، نقل و حرکت کو اور اس کی سرگرمیوں کو خوب جانتا ہے کہ وہ کس راہ میں صرف ہو رہی ہیں۔ پھر وہ یہ بھی جانتا ہے کہ وہ کس جگہ مر کر دفن ہوگا اور مَثْوٰکُمْ کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم میں سے ہر شخص کو مرنے کے بعد جنت یا دوزخ میں جو ٹھکانا ملے گا۔ اللہ اسے بھی خوب جانتا ہے۔ محمد
20 [٢٤] جہاد کے حکم پر منافقوں کی حا لت زار :۔ مکہ میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا ہوچکی تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہی حکم تھا کہ سب کچھ صبر کے ساتھ برداشت کرتے جاؤ۔ اور اپنی تمام تر توجہ نمازوں کے قیام، زکوٰۃ کی ادائیگی اور اس کے ذکر کی طرف مبذول کئے رہو۔ اس وقت کئی جرأت مند مسلمان یہ آرزو کیا کرتے تھے کہ کاش انہیں کافروں سے لڑنے کی اجازت مل جائے۔ اور ہم بھی ان سے ان کے مظالم کا بدلہ لے سکیں۔ مدینہ میں پہنچنے کے ایک سال بعد مسلمانوں کو جنگ کی اجازت تو مل گئی۔ لیکن ابھی کوئی صریح حکم نازل نہیں ہوا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ جہاد کے متعلق صریح احکام و ہدایات نازل ہوں پھر جب ایسی ہدایات بھی نازل ہوگئیں تو اس وقت بہت سے منافق بھی مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہوچکے تھے علاوہ ازیں کچھ ضعیف الاعتقاد اور کمزور مسلمان بھی تھے۔ جب جہاد کے احکام نازل ہوئے تو یک لخت ان پر موت کا خوف طاری ہوگیا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یوں دیکھنے لگے جیسے موت انہیں سامنے کھڑی نظر آرہی ہے۔ منافقوں کو تو بس ٹھنڈا ٹھنڈا اسلام قبول تھا۔ وہ مسلمانوں کے ساتھ نمازیں پڑھ لیتے تھے اور روزے بھی رکھ لیتے تھے مگر جب جان کی بازی لگانے کا وقت آیا تو فوراً ہمت ہار بیٹھے۔ اور ہر شخص کو یہ معلوم ہوگیا کہ کون شخص ایمان کے حق میں کس قدر مخلص ہے؟ محمد
21 [٢٥] حالانکہ انہیں چاہئے یہ تھا کہ جب اسلام کا اقرار کرکے مسلمانوں میں شامل ہوچکے تھے تو اجتماعی کاموں میں دل و جان سے ان کا ساتھ دیتے۔ اور اللہ اور اس کے رسول سے اطاعت کا جو انہوں نے پختہ عہد کیا تھا۔ اسے سچ کر دکھاتے، اور اسی میں ان کی بہتری تھی تاکہ وہ دنیا میں بھی مسلمانوں کی نظروں میں ذلیل و رسوا نہ ہوتے اور اخروی عذاب سے بھی بچ جاتے۔ محمد
22 [٢٦] منافقوں سے کسی بھلائی کی توقع محال ہے :۔ منافقوں کو جہاد صرف اس لیے ناگوار تھا کہ وہ اسلام اور اس کے مفادات کے مقابلہ میں اپنی جان اور مال کو عزیز تر سمجھتے تھے۔ یعنی ان کا اولین مقصد مال کا حصول اور اپنی جان کو بچانا تھا۔ ایسے لوگوں سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر انہیں دنیا میں حکومت مل بھی جائے تو ان سے کسی بھلائی کی توقع نہیں جاسکتی یہ اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے ملک میں فتنہ و فساد ہی برپا کریں گے۔ اور اس سلسلہ میں اپنے رشتہ داروں کے گلوں پر چھری پھیرنے سے باز نہیں آئیں گے۔ اور اگر تَوَلَیْتُمْ کا معنی پھر جانا اور اعراض کرنا لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر تم جہاد سے بدک کر اسلام سے پھر جاؤ تو تمہارے متعلق یہی توقع کی جاسکتی ہے کہ تم پر پھر اسلام سے ماقبل کی حالت عود کر آئے۔ انہی پہلی سی قبائلی جنگوں میں تم پڑجاؤ جن سے نکلنے کی تمہیں کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی تم وہی پہلی سی لوٹ مار، قتل و غارت اور فتنہ و فساد کرنے لگو گے۔ قطع رحمی' ام ولد کی خرید وفروخت کی ممانعت :۔ اس آیت نیز قرآن کی بعض دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ قطع رحمی بہت بڑا گناہ کبیرہ ہے۔ اسی آیت کے حکم کو مدنظر رکھ کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی مجلس شوریٰ کے مشورہ سے ام الولد کی خرید و فروخت کو حرام قرار دیا تھا۔ چنانچہ سیدنا بریدہ کہتے ہیں کہ وہ ایک دن سیدنا عمررضی اللہ عنہ کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ محلہ میں یکایک ایک شور مچ گیا۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ایک لونڈی فروخت کی جارہی ہے جبکہ اس لونڈی کی لڑکی کھڑی رو رہی ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسی وقت یہ مسئلہ اپنی شوریٰ میں پیش کردیا تاکہ دیکھیں پوری شریعت میں ایسی قطع رحمی کا کوئی جواز نظر آتا ہے؟ سب نے نفی میں جواب دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے بڑی قطع رحمی کی بات کیا ہوسکتی ہے کہ ایک ماں کو اس کی بیٹی سے جدا کردیا جائے؟ اس وقت آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔ صحابہ نے عرض کیا کہ اس مسئلہ کی روک تھام کے لیے آپ جو مناسب سمجھیں اختیار فرمائیں۔ چنانچہ آپ نے سارے بلاد اسلامیہ میں یہ فرمان جاری کردیا کہ جس لونڈی سے مالک کی اولاد پیدا ہوجائے وہ اسے فروخت نہیں کرسکتا۔ اس روایت کو اگرچہ بعض مفسرین نے درج کیا ہے مگر اس کا حوالہ مذکور نہیں۔ علاوہ ازیں یہ روایت ویسے بھی درست معلوم نہیں ہوتی۔ کیونکہ ام الولد کی فروخت کی تحریم سنت نبوی سے ثابت ہے۔ اس سلسلہ میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :۔ ١۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جس شخص نے اپنی لونڈی سے مباشرت کی۔ پھر اس سے اس کا بچہ پیدا ہوگیا تو وہ لونڈی اس کے مرنے کے بعد آزاد ہوگی‘‘ (احمد۔ ابن ماجہ۔ بحوالہ نیل الاوطار ج ٦ ص ٢٣١) ٢۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کے پاس ام ابراہیم (ماریہ قبطیہ) کا ذکر کیا۔ تو آپ نے فرمایا : ’’اس کا بچہ اس کی آزادی کا سبب بن گیا‘‘ (ابن ماجہ، دارقطنی بحوالہ ایضاً) ٣۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی نے اولاد والی لونڈیوں کو بیچنے سے منع فرمایا اور کہا کہ وہ نہ بیچی جاسکتی ہیں نہ ہبہ کی جاسکتی ہیں اور نہ ترکہ میں شمار ہوسکتی ہیں۔ جب تک ایسی لونڈی کا مالک زندہ ہے وہ اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور جب وہ مر جائے تو وہ لونڈی آزاد ہے۔ (موطا امام مالک، دارقطنی بحوالہ ایضاً) ان احادیث میں موطا امام مالک اول درجہ کی کتب میں شمار ہوتی ہے۔ ابن ماجہ درجہ دوم اور دارقطنی درجہ سوم میں۔ تاہم یہ سب احادیث ایک دوسرے کی تائید کر رہی ہیں اور مرفوع ہیں۔ اور اس مسئلہ کے جملہ پہلوؤں پر روشنی ڈال رہی ہیں یعنی ایسی لونڈی کا مالک خود بھی اپنی زندگی میں اسے نہ فروخت کرسکتا ہے اور نہ ہبہ کرسکتا ہے۔ محمد
23 [٢٧] جہاد کی برکات :۔ یعنی انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ جہاد بھی ان کے لیے سراسر خیر وبرکت ہے۔ جب تک جہادنہ کیا جائے گا۔ کبھی کفر اسلام کو جینے اور پھلنے پھولنے نہیں دے گا بلکہ اس کی تو یہ کوشش ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینک دیا جائے۔ جہاد سے ہی مسلمانوں کی پریشانیوں اور مصائب کا دور ختم ہوگا۔ فتنہ و فساد کا قلع قمع ہوگا۔ اللہ کا دین سربلند ہوگا۔ توحید پھیلے گی، شرک کا خاتمہ ہوگا اور یہ ملک امن و چین کا گہوارہ بن جائے گا۔ محمد
24 [٢٨] یعنی قرآن کے احکام اور ان احکام کی مصلحتوں میں غور کرنے کی زحمت بھی نہیں کرتے یا اگر غور کریں بھی تو ایسے بدھو اور عقل کے کورے واقع ہوئے ہیں کہ انہیں یہ سمجھ ہی نہیں آتی کہ جہاد کا حکم انہیں کن کن مصلحتوں کے تحت دیا جارہا ہے۔ محمد
25 [٢٩] یعنی شیطان نے انہیں یہ پٹی پڑھائی ہے کہ اگر تم نے جہاد میں شمولیت کی تو یہ اپنی موت کو خود دعوت دینے کے مترادف ہے۔ علاوہ ازیں مال کا بھی نقصان ہوگا۔ پھر اگر مسلمانوں کو فتح ہو بھی جائے تو موت کی صورت میں انہیں کیا فائدہ ہوگا ؟ لہٰذا مالی نقصان سے بچنے، اپنی جان سلامت رکھنے اور تادیر زندہ رہنے کا نسخہ کیمیا یہی ہے کہ جہاد سے گریز کی راہ اختیار کی جائے۔ محمد
26 [٣٠] منافقین کا یہود سے درپردہ معاہدہ :۔ شیطان کی انہیں ایسی پٹی پڑھانے کی ایک وجہ یہ بھی بن گئی کہ ان بدبخت منافقوں نے اندر ہی اندر یہود سے ساز باز کر رکھی تھی اور ان منافقوں نے یہود سے ان کے مطالبہ پر کچھ ایسے دعوے بھی کر رکھے تھے کہ وہ انہیں مسلمانوں کی نقل و حرکت اور ان کی جنگی سرگرمیوں سے مطلع کرتے رہیں گے۔ اور اگر جنگ ہوئی تو ہم تم سے لڑیں گے نہیں بلکہ مسلمانوں کو چکمہ ہی دیتے رہیں گے۔ اور جنگ کے دوران منافقوں نے ایسا ہی کردار ادا کیا تھا اور اس کے عوض یہود نے بھی ان سے کچھ وعدے کر رکھے تھے۔ گویا منافق یہودیوں کے لیے تو گھر کا بھیدی اور مسلمانوں کے حق میں مار آستین بنے ہوئے تھے۔ مگر اللہ تو ہر شخص کے دلوں کے بھید تک جانتا ہے۔ وہ مسلمانوں کو ان منافقوں کی کرتوتوں سے وقتاً فوقتاً مطلع کردیتا تھا تو یہ ذلیل اور ننگے ہوجاتے تھے۔ محمد
27 [٣١] موت سے فرار ناممکن ہے اور عذاب قبر کا ثبوت :۔ یعنی آج تو جہاد سے گریز کی راہ اختیار کرکے اپنی جانوں کو بچانے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں مگر اس دن اپنے آپ کو کیسے بچا سکیں گے جب فرشتے ان کی جان نکالنے کے لیے آئیں گے اور لوہے کے گرزوں سے انہیں خوب مار رہے ہوں گے۔ یہ آیت بھی منجملہ ان آیات کے ہیں جن سے عذاب قبر یا عذاب برزخ ثابت ہوتا ہے۔ نیز یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ عذاب قیامت کے دن کے عذاب سے پہلے ہوگا۔ قیامت کے عذاب کی نسبت سے ہلکا ہوگا اور مرنے کے ساتھ ہی شروع ہوجائے گا۔ محمد
28 [٣٢] حق وباطل کی جنگ میں جس شخص کی ہمدردیاں کافروں سے ہوں وہ مسلمان نہیں رہتا :۔ اللہ کی رضا یہ تھی کہ مسلمانوں کا ساتھ دیتے، یہودیوں کا نہ دیتے۔ لیکن انہوں نے اللہ کی رضا کے بجائے نفاق کی راہ اختیار کی اور یہودیوں کی رضا کو پسند کیا۔ لہٰذا جو نیک اعمال انہوں نے زبانی طور پر اسلام لانے کے بعد کئے ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ نمازیں ادا کی ہیں، روزے رکھے ہیں یا اللہ کی راہ میں مال خرچ کیا ہے۔ اللہ ان کے ایسے سب اعمال ضائع کر دے گا اس سے ایک نہایت اہم بات معلوم ہوئی ہے جو یہ ہے کہ اگر مسلمانوں اور کافروں کی جنگ میں کسی مسلمان کی ہمدردیاں کافروں کے ساتھ ہوں تو وہ مسلمان نہیں رہتا اور اس کے نیک اعمال اگر کچھ ہوں تو وہ بھی اکارت جاتے ہیں۔ محمد
29 [٣٣] یعنی جو کچھ بھی وہ اندر ہی اندر کافروں سے گٹھ جوڑ کر رہے ہیں اور انہیں اپنی ہمدردیاں جتا رہے ہیں اور اسلام کے خلاف اپنی وفاداریاں انہیں پیش کر رہے ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو کینہ وہ رکھتے اور زہر اگلتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی ایسی سب باتوں سے مسلمانوں کو خبردار کر دے گا۔ محمد
30 [٣٤] منافقوں کو برسرعام ننگا کرنا اللہ کی حکمت کے خلاف ہے :۔ یعنی ایسے منافقوں کو برسرعام ننگا کردینا بھی اللہ کی حکمت کے خلاف ہے۔ ورنہ ہم آپ کو سب کچھ بتا دیتے۔ جس سے دوسرے مسلمانوں کو بھی ٹھیک ٹھیک پتا چل جاتا کہ ہم میں فلاں فلاں منافق گھسا ہوا ہے۔ نور فراست سے منافق پہچانے جا سکتے ہیں :۔ تاہم آپ کو ہم نے اتنا نور فراست ضرور دے دیا ہے کہ آپ ان کے لب و لہجہ اور انداز گفتگو سے ہی یہ معلوم کرسکیں گے کہ فلاں شخص منافق ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک سیدھے سادے اور صاف دل پکے مومن کی گفتگو میں ایسی پختگی اور سنجیدگی پائی جاتی ہے جو دل میں کھوٹ رکھنے والے شخص کے انداز گفتگو میں پائی ہی نہیں جاسکتی۔ چنانچہ آپ اسی نور فراست سے اپنی زندگی کے آخری حصہ میں تمام منافقوں کو نام بہ نام جانتے تھے۔ سیدنا حذیفہ بن یمان رازدان رسول :۔ جب غزوہ تبوک سے واپسی پر منافقوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک گھاٹی کی راہ پر ڈال کر ہلاک کرنے کی کوشش کی تھی تو اس وقت سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے پر ان منافقوں کی سواریوں کے چہروں پر اپنی ڈھال سے پے در پے وار کر رہے تھے۔ بعد میں یہی منافق اہل عقبہ کے نام سے مشہور ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چودہ یا پندرہ منافقوں کے نام اور ان کے باپوں تک کے نام بھی بتا دیئے تھے۔ تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کو یہ تاکید بھی کردی تھی کہ ان ناموں کو دوسروں پر ہرگز ظاہر نہ کرنا۔ اسی لیے سیدنا حذیفہ بن یمان کو راز دان رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی کہا جاتا ہے۔ اس واقعہ کا مجملاً ذکر مسلم۔ کتاب صفات المنافقین میں موجود ہے۔ محمد
31 [٣٥] بدا یعنی اللہ کے حدوث علم کا گمراہ کا کن عقیدہ :۔ لِنَعْلَمَ کے لفظ سے بعض لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے حدوث علم کا شبہ ظاہر کیا۔ یعنی اللہ کو بھی کوئی واقعہ ہوچکنے کے بعد علم ہوتا ہے پہلے نہیں ہوتا۔ حالانکہ بے شمار آیات اللہ تعالیٰ کے ازلی اور کلی علم کی صراحت پیش کرتی ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے الفاظ صرف اس وقت استعمال فرماتے ہیں کہ جبکہ اس علم کا تعلق اللہ کے رسول اور مسلمانوں کے دیکھنے سے ہو۔ یعنی جہاد کے بغیر بھی اللہ تعالیٰ کفر کا سر توڑ کر مسلمانوں کی مدد کرسکتا تھا۔ لیکن اس طرح کسی کے صبر و استقلال اور ایمان کی آزمائش نہیں ہوسکتی تھی۔ اور نہ ہی مختلف لوگوں کی مختلف طرح کی سرگرمیوں کا پتا لگ سکتا تھا۔ محمد
32 [٣٦] یعنی مسلمانوں سے غداری کرکے نہ وہ اللہ کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ اللہ کے رسول اور مسلمانوں کا۔ بلکہ وہ وہ سراسر اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں وہ اس طرح کہ اللہ ان کے سارے منصوبے خاک میں ملا دیتا ہے علاوہ ازیں ان کے کچھ اچھے اعمال بھی برباد ہوجاتے ہیں۔ محمد
33 [٣٧] اعمال کو برباد کرنے والے کام :۔ یعنی تم جو کام بھی کرو وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے جذبہ سے اور اس کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق ہونے چاہئے۔ مثلاً جہاد سے اصل مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور اس کے کلمہ کی سربلندی ہے۔ اگر کوئی شخص کسی اور جذبہ کے تحت مثلاً شہرت اور ناموری کی غرض سے یا قبائلی عصبیت کی وجہ سے یا مال غنیمت کے حصول کی بنا پر جہاد کرے گا تو اس کا ایسا نیک عمل بھی مقبول نہ ہوگا۔ پھر اسے یہ بھی چاہئے کہ اپنے نیک عمل کی حفاظت کرے اور کوئی ایسا کام نہ کر بیٹھے جس سے اس کے عمل کے برباد ہونے کا خطرہ ہو۔ مثلاً ارتداد، شرک، اپنے کئے ہوئے کام پر فخر کرنا یا صدقہ کی صورت میں احسان جتلانا ایسے کام ہیں جو نیک اعمال کو برباد کردیتے ہیں۔ محمد
34 [٣٨] یعنی ان کا جرم صرف یہی نہیں کہ انہوں نے خود اسلام کی دعوت قبول کرنے سے انکار کردیا۔ بلکہ ان کے اصل جرائم تو ان کے وہ اعمال ہیں جو وہ اسلام کی راہ روکنے، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے اور انہیں ایذائیں اور دکھ پہنچانے کے لیے سرانجام دیتے رہے۔ کفر و شرک جس پر وہ تادم مرگ اڑے رہے بذات خود ایسا جرم ہے جس کی معافی نہیں ہوسکتی۔ اور ان کے جرائم کی فہرست تو بڑی طویل ہے پھر ان کی معافی کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟ بعض علماء کی رائے کے مطابق اس سے مراد وہ کافر ہیں جو بدر کے میدان میں قتل ہوئے اور بدر کے کنوئیں میں پھینکے گئے۔ تاہم اس آیت کے عموم کو صرف انہیں کافروں سے مختص نہیں کیا جاسکتا۔ ہر دور میں ایسی صفات رکھنے والے کافر موجود رہے ہیں اور آئندہ بھی موجود رہیں گے۔ وہ سب اس عموم میں داخل ہیں۔ محمد
35 [٣٩] دشمن سے صلح یا سمجھوتہ کی درخواست نہ کی جائے :۔ یعنی جب تم دشمن سے بھڑ جاؤ تو پھر سستی کا ہرگز مظاہرہ نہ کرو بلکہ سر دھڑ کی بازی لگادو۔ اور نہ ہی کافروں سے صلح اور سمجھوتہ کی درخواست کرو جس سے تمہاری کمزوری ان پر عیاں ہوجائے اور وہ تو تمہیں مزید دباتے چلے جائیں گے۔ واضح رہے کہ یہ آیات اس وقت نازل ہوئیں۔ جب مدینہ کی ریاست نئی نئی وجود میں آئی تھی۔ ایک سو کے لگ بھگ مہاجر اور کچھ انصار تھے اور ان کے جنگی جوانوں کی تعداد ایک ہزار تک بھی بمشکل پہنچی تھی۔ سامان جنگ کی فراوانی تو درکنار ان کی معاشی حالت بھی کچھ اچھی نہ تھی۔ دوسری طرف صرف قریش مکہ ہی نہیں سارا عرب ہی مسلمانوں کی مخالفت پر اتر آیا تھا اور اس ریاست کو اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کردینا چاہتا تھا۔ ان حالات میں یہ ہدایت دی گئی کہ میدان جنگ میں نہ اپنی کمزوری دکھاؤ اور نہ ہی اپنے آپ کو کمزور سمجھتے ہوئے دشمن سے صلح کی درخواست کرو۔ ہاں اگر دشمن سے اپنی طاقت کا لوہا منوا لو تو وہ خود مسلمانوں سے صلح کی درخواست کریں تو اس صورت میں آپ ان کی صلح کی درخواست کو قبول فرما لیجئے۔ جیسا کہ سورۃ انفال کی آیت نمبر ٦١ میں اس کی صراحت موجود ہے۔ [٤٠] غلبہ سے مراد سیاسی غلبہ ہی نہیں بلکہ دلیل وحجت کا غلبہ بھی ہے :۔ اگر تم سستی نہ دکھاؤ گے اور پامردی اور استقلال سے جہاد کرو گے تو یقیناً تم ہی غالب رہو گے کیونکہ اس صورت میں اللہ تمہاری مدد پر موجود ہے۔ تم نے جہاد کے سلسلہ میں جو خرچ کیا ہوگا یا جو محنت و مشقت اٹھائی ہوگی اللہ اس کا تمہیں پورا پورا اجر عطا کر دے گا۔ اور یہ جو فرمایا کہ تم ہی غالب رہو گے اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم ہر جنگ میں اور ہر حال میں غالب ہی رہو گے۔ جیسا کہ مسلمانوں کو جنگ احد میں اور جنگ حنین میں ان کی اپنی ہی غلطی کی وجہ سے عارضی طور پر شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بالآخر تم ہی غالب رہو گے۔ چنانچہ اللہ نے مسلمانوں سے اپنا یہ وعدہ پورا کردیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی سارے عرب میں کفر و شرک کا زور ختم ہوگیا اور مسلمان اور اسلام ہی غالب آئے اور بعض علماء کہتے ہیں کہ غلبہ سے مراد ضروری نہیں کہ سیاسی غلبہ ہی لیا جائے۔ علمی غلبہ بھی مراد لیا جاسکتا ہے۔ یعنی دلیل و حجت کے لحاظ سے کفر کے تمام مذاہب پر غالب رہو گے اور مسلمان اللہ کے فضل سے آج تک دلیل و حجت کے میدان میں کسی دوسرے مذہب والے سے مغلوب نہیں ہوئے۔ تاہم پہلا مطلب ہی ربط مضمون سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ محمد
36 [٤١] دنیا دار کے لئے دنیوی زندگی کھیل تماشا ہے :۔ یعنی یہ دنیا بس دلفریبیوں کا مجموعہ ہے۔ جس میں انسان زیادہ سے زیادہ مال و دولت اکٹھی کرنے کی ہوس رکھتا ہے اور مرتے دم ہی سب کچھ یہیں چھوڑ جاتا ہے۔ لہٰذا تمہیں آخرت کی کمائی کی فکر کرنی چاہئے جو دائمی اور پائیدار ہے۔ اور اس کے مقصد کے حصول کے لئے وہ تم سے تمہارے سارے اموال کا مطالبہ نہیں کرتا۔ وہ تو خود غنی ہے اور ساری مخلوق پر خرچ کرتا ہے اسے تمہارے اموال کی کیا پروا یا ضرورت ہے۔ اگر کچھ تھوڑا سا مال تمہیں جہاد کی خاطر خرچ کرنے کو کہتا ہے تو اس میں تمہارا اپنا ہی فائدہ ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کو تھوڑے ہی دن اپنی گرہ سے پیسہ خرچ کرنا پڑا۔ اللہ تعالیٰ نے کئی ملک فتح کرادیئے۔ اور جتنا مسلمانوں نے خرچ کیا تھا اس سے سو سو گناہ زیادہ اموال غنیمت کی صورت میں ہاتھ لگ گیا۔ اموال غنیمت نے مسلمانوں کی معاشی تنگدستی کو آسودگی میں تبدیل کردیا۔ چنانچہ فتح خیبر کے بعد مہاجرین نے انصار کو کھجوروں کے وہ درخت واپس کردیئے جو انہوں نے مدینہ آنے پر شراکت کے طور پر انصار سے لئے تھے۔ پھر اس کے بعد مسلمانوں کی معاشی آسودگی بڑھتی ہی گئی۔ محمد
37 [٤٢] یَحْفِکُمْ: حفا کا لغوی معنی کسی چیز کی طلب میں مبالغہ اور اصرار ہے پھر اسی مبالغہ اور اصرار سے بعض دفعہ تنگ کرنے کے معنی بھی پیدا ہوجاتے ہیں اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ تم سے سارے ہی مال کا مطالبہ کرلیتا کیونکہ یہ مال اسی کا دیا ہوا تھا تو کتنے لوگ ایسے ہوسکتے ہیں جو فراخ دلی اور خندہ پیشانی سے اس حکم پر لبیک کہیں گے۔ اکثر ایسے ہی لوگ ہوں گے جو بخل اور تنگ دلی کا ثبوت دیں گے اور مال خرچ کرتے وقت ان کے دل کی کبیدگی اور گھٹن از خود ظاہر ہوجائے گی۔ محمد
38 [٤٣] دوسروں سے مراد اہل فارس ہیں :۔ اللہ اگر تمہیں جہاد میں یا دوسرے نیکی کے کاموں پر خرچ کرنے کو کہتا ہے تو اس میں تمہارا فائدہ یہ ہے کہ دنیا میں بھی وہ تمہیں اس کا نعم البدل عطا فرمائے گا اور آخرت میں تو ایک ایک کا ہزار ہزار ملے گا اور اگر تم بخل کرو گے اور جہاد کی ضرورتوں پر خرچ نہ کرو گے تو اس کا سخت نقصان اٹھاؤ گے۔ اور کافروں کے سامنے تمہیں ذلیل و رسوا ہونا پڑے گا۔ اللہ کے نافرمان الگ بنو گے۔ اللہ کو اپنے لئے تمہارے پیسے کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ تو بے نیاز ہے اور محتاج تم ہی ہو۔ اور اگر تم جان و مال کے خرچ کرنے میں بخل کرنے سے کام لو گے تو اللہ تمہاری جگہ دوسرے لوگ لے آئے گا جو جان اور مال خرچ کرنے کے سلسلہ میں بخیل نہ ہوں گے۔ اللہ کو تو بہرحال اپنے دین کو سربلند کرنا ہے وہ اگر تمہارے ہاتھوں ہوجائے تو اسے اپنے لئے غنیمت سمجھو۔ اور دوسرے لوگوں سے مراد اہل فارس ہیں چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کون لوگ ہیں۔ آپ نے کچھ جواب نہ دیا۔ میں نے تین بار یہی سوال کیا۔ اس وقت ہم لوگوں میں سلمان فارسی بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ ان پر رکھ کر فرمایا : اگر ایمان ثریا پر ہوتا تب بھی ان لوگوں میں سے کئی وہاں تک پہنچ جاتے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ سورۃ جمعہ) اہل فارس کی شاندار دینی خدمات :۔ الحمدللہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جہاد کے سلسلہ میں ایسی بے نظیر قربانیاں پیش کیں کہ ان کی جگہ کسی دوسری قوم کو لانے کی نوبت نہ آئی۔ تاہم اہل فارس نے اسلام میں داخل ہو کر علم و ایمان کا وہ شاندار مظاہرہ کیا اور ایسی لاجواب دینی خدمات سرانجام دیں جنہیں دیکھ کر ہر شخص یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے عین مطابق یہی لوگ تھے۔ جو بوقت ضرورت عرب کی جگہ پُر کرسکتے تھے۔ نامور محدثین اور ائمہ فقہا کی اکثریت اسی علاقہ سے تعلق رکھتی ہے۔ محمد
0 الفتح
1 [١] آپ کو بیت اللہ کے طواف کا خوب میں آنا :۔ جنگ احزاب کے بعد قریش کی مسلمانوں پر بالا دستی کا تصور ختم ہوچکا تھا تاہم ابھی تک بیت اللہ پر قریش کا ہی قبضہ تھا۔ مسلمان جب سے ہجرت کرکے مدینہ گئے تھے ان میں سے کسی نے حج، عمرہ یا طواف کعبہ نہیں کیا تھا جس کے لئے ان کے دل ترستے رہتے تھے۔ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب آیا کہ آپ بہت سے مسلمانوں کی معیت میں بیت اللہ کا طواف کر رہے ہیں۔ نبی کا خواب چونکہ وحی ہوتا ہے۔ ١٤٠٠ صحابہ کے ساتھ مکہ کو روانگی :۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کا اعلان فرما دیا۔ چونکہ اس سفر سے جنگی مقاصد یا غنائم کا کوئی تعلق نہ تھا۔ لہٰذا آپ کی معیت صرف ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ہی اختیار کی جو محض رضائے الٰہی کے لئے عمرہ کی نیت رکھتے تھے۔ جو صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جانے پر تیار ہوئے ان کی تعداد چودہ سو کے لگ بھگ تھی۔ کافروں کا روکنا اور آمادہ جنگ ہونا : اہل مکہ کو پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی اطلاع ہوچکی تھی اور ان کی یہ انتہائی کوشش تھی کہ مسلمانوں کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ کیونکہ اس میں وہ اپنی توہین سمجھتے تھے۔ دستور کے مطابق اہل مکہ کسی بھی طواف اور عمرہ کرنے والے کو نہیں روک سکتے تھے۔ پھر یہ مہینہ بھی ذیقعد کا تھا جن میں اہل عرب کے دستور کے مطابق لڑائی منع تھی۔ ان دونوں باتوں کے باوجود قریش مکہ مسلمانوں کا مکہ میں داخلہ روکنے کے لئے لڑائی پر آمادہ ہوگئے۔ چنانچہ خالد بن ولید ایک فوجی دستہ لے کر مقابلہ کے لئے نکل آئے۔ حدیبیہ کے مقام پر فروکشی :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ صورت حال معلوم ہوئی تو آپ سیدھی راہ میں تھوڑی سی تبدیلی کرکے مکہ کے زیریں علاقہ حدیبیہ میں فروکش ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ کو بہتیرا سمجھایا کہ ہم لڑنے کی غرض سے نہیں آئے فقط عمرہ کرنا چاہتے ہیں۔ اور قربانی کے جانور بھی دکھائے لیکن انہیں مسلمانوں کا مکہ میں داخل ہونا بھی گوارا نہ تھا۔ لہٰذا انہوں نے مسلمانوں کو واپس چلے جانے پر ہی اصرار کیا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی افواہ اور بیعت رضوان :۔ اسی دوران فریقین کی طرف سے کئی سفارتیں بھی آئیں اور گئیں۔ مسلمانوں کی طرف سے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو سفیر بنا کر بھیجا گیا تو انہیں وہیں روک لیا گیا۔ اور افواہ یہ مشہور ہوگئی کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ شہید کردیئے گئے۔ چنانچہ قصاص عثمان کے سلسلہ میں آپ نے ایک کیکر کے درخت کے نیچے سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے خون پر بیعت لی۔ جو بیعت رضوان کے نام سے مشہور ہے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت :۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک اہل مکہ کے لئے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے کوئی زیادہ کوئی قابل احترام ہوتا تو آپ سفارت کے لئے اسے بھیجتے یہ بیعت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی غیر موجودگی میں ہوئی۔ لہٰذا آپ نے یوں کیا کہ اپنے دائیں ہاتھ سے اشارہ کیا اور فرمایا یہ عثمان کا ہاتھ ہے اور اس کو بائیں ہاتھ پر مار کر فرمایا کہ یہ عثمان کی بیعت ہے۔ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب مناقب عثمان بن عفان۔۔) بعد میں معلوم ہوا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر غلط تھی۔ سفارتوں کے تبادلے اور صلح حدیبیہ :۔ دو تین دفعہ سفارتوں کے تبادلہ کے بعد با لآخر صلح کی شرائط پر سمجھوتہ ہوگیا۔ یہ شرائط بظاہر مسلمانوں کے لئے توہین آمیز تھیں اور بیعت رضوان کے بعد بالخصوص ایسی شرائط پر رضا مند بھی نہیں ہوسکتے تھے۔ اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان شرائط کو منظور فرما لیا اور بعد میں اللہ تعالیٰ نے اس صلح کو فتح مبین قرار دیا۔ صلح کی شرائط یہ تھیں۔ ١۔ آئندہ دس سال تک مسلمان اور قریش ایک دوسرے پر چڑھائی نہ کریں گے اور صلح و آشتی سے رہیں گے۔ ٢۔ قبائل کو عام اجازت ہے کہ وہ جس فریق کے حلیف بننا چاہیں بن سکتے ہیں۔ ٣۔ اگر مکہ سے کوئی مسلمان اپنے ولی کی اجازت کے بغیر مدینہ پہنچ جائے تو مسلمان اسے واپس کردیں گے لیکن اگر کوئی مسلمان مکہ آجائے تو وہ واپس نہ کیا جائے گا۔ ٤۔ مسلمان اس دفعہ عمرہ کئے بغیر واپس چلے جائیں۔ آئندہ سال وہ تلواریں نیام میں کئے ہوئے آئیں۔ تین دن تک ان کے لئے شہر خالی کردیا جائے گا اور انہیں مکہ میں رہنے اور عمرہ کرنے کی اجازت ہوگی۔ شرائط قبول کرنے کی وجوہ :۔ مسلمانوں کو جب یہ سورۃ سنائی گئی تو وہ خود حیران ہو کر ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ ایسی توہین آمیز صلح فتح مبین کیسے ہوسکتی ہے؟ یہ بحث بڑی تفصیل طلب ہے جس کا یہاں موقع نہیں۔ ہم یہاں ایسی وجوہ بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں جن کی بنا پر آپ نے ایسی شرائط کو مسلمانوں سے مشورہ کئے بغیر بلکہ ان کی مرضی کے علی الرغم منظور فرما لیا تھا۔ البتہ یہ بات ملحوظ رکھنا چاہئے کہ یہ سب وحی الٰہی اور اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے مطابق ہوا تھا۔ وہ وجوہ یہ ہیں : ١۔ جب سے آپ مدینہ گئے تھے آپ کے دشمنوں میں کئی گناہ اضافہ ہوگیا تھا اور مسلسل چھ سال سے ہنگامی حالات میں زندگی گزار رہے تھے۔ ان دشمنوں میں سب سے بڑے دشمن یہی قریش تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ ان کی طرف سے اطمینان نصیب ہو تاکہ دوسرے دشمنوں سے بطریق احسن نمٹا جاسکے۔ چنانچہ آپ نے یہاں سے واپسی پر سب سے پہلے بنونضیر کی سرکوبی کی اور خیبر فتح ہوا۔ ٢۔ انہی ہنگامی حالات کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے تبلیغی پروگرام مؤخر ہوتے جارہے تھے۔ چنانچہ اس صلح کے بعد آپ نے آس پاس کے بادشاہوں کے نام تبلیغی خطوط ارسال فرمائے۔ ٣۔ اس صلح نے تمام عرب پر یہ بات ثابت کردی کہ مسلمان فی الحقیقت امن پسند قوم ہے جو جنگ سے حتی الامکان گریز کرتی ہے اور مقابلہ کی قدرت رکھنے کے باوجود صلح و آشتی کو ترجیح دیتی ہے۔ اسی تاثر کے نتیجہ میں اس صلح کے بعد بعض بڑے بڑے سردار از خود اسلام لے آئے مثلاً خالد بن ولید سیف اللہ اور عمرو بن عاص فاتح مصر وغیرہم۔ ٤۔ جنگ کی صورت میں مکہ میں موجود مسلمانوں کی تباہی یقینی تھی۔ قرآن کریم نے یہ ایک ایسی وجہ بیان فرمائی جس کا مسلمانوں کو خیال تک نہ آیا تھا۔ جانوروں کی قربانی :۔ اس معاہدہ صلح کی تحریر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اپنی اپنی قربانیاں ذبح کرنے کا حکم دیا۔ لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو اس توہین آمیز صلح کا کچھ ایسا غم لاحق ہوگیا تھا کہ آپ کے اس حکم پر کوئی بھی اپنی جگہ سے نہ اٹھا۔ (شاید وہ اسی انتظار میں ہوں کہ ابھی اللہ کی طرف سے کوئی اور حکم آجائے گا) اس سفر میں سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے جب یہ صورت حال بیان کی تو انہوں نے یہ مشورہ دیا کہ آپ اپنی قربانی ذبح کردیں پھر صحابہ اپنی قربانیاں خود بخود ذبح کردیں گے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قربانی ذبح کی۔ بال منڈائے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کی اتباع میں قربانیاں کیں۔ بال منڈائے اور احرام کھول کر واپس مدینہ آگئے۔ (بخاری۔ کتاب الشروط۔ باب الشروط فی الجہاد والمصالحۃ) عمرہ قضا :۔ پھر اگلے سال انہیں مسلمانوں نے عمرہ قضا ادا کیا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب عمرۃ القضاء) اب ہم یہاں چند احادیث درج کرتے ہیں جن سے اس سورۃ کا شان نزول اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بالخصوص سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اضطراب کا منظر سامنے آتا ہے : ١۔ سیدنا انس فرماتے ہیں کہ ﴿ اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا ﴾ سے مراد صلح حدیبیہ ہے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) ٢۔ شرائط صلح پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی بے قراری :۔ زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر (حدیبیہ) میں تھے اور سیدنا عمررضی اللہ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ رات کا وقت تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ سے کچھ پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہ دیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پھر پوچھا تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہ دیا۔ پھر (تیسری بار) پوچھا تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہ دیا۔ آخر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنے تئیں کہنے لگے : ’’تیری ماں تجھ پر روئے تو نے تین بار عاجزی کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار بھی جواب نہ دیا‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔ پھر میں نے اپنے اونٹ کو ایڑ لگائی اور لوگوں سے آگے نکل گیا۔ مجھے خطرہ تھا کہ اب میرے بارے میں قرآن نازل ہوگا۔ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ میں نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی جو مجھے ہی بلا رہا تھا۔ میں ڈر گیا کہ شاید میرے بارے میں قرآن اترا ہے۔ پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’آج رات مجھ پر ایک سورت اتری ہے جو مجھے ان تمام چیزوں سے زیادہ پسند ہے جن تک سورج کی روشنی پہنچتی ہے‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سورت پڑھی۔ (حوالہ ایضاً) ٣۔ سیدنا سہل بن حنیف کہتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھے۔ جب آپ نے مشرکین مکہ سے صلح کی۔ اگر ہم لڑنا مناسب سمجھتے تو لڑ سکتے تھے۔ سیدنا عمررضی اللہ عنہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : کیا ہم حق پر اور یہ (مشرک) باطل پر نہیں؟ کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول دوزخ میں نہ ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’کیوں نہیں‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے : تو پھر ہم اپنے دین کو کیوں ذلیل کریں؟ اور ایسے ہی مدینہ کو چلے جائیں۔ جب تک کہ اللہ ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ نہ کردے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’خطاب کے بیٹے! رسول میں ہوں (تم نہیں) اللہ مجھے کبھی ضائع نہ کرے گا‘‘ چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ غصے کی حالت میں لوٹ گئے۔ مگر قرار نہ آیا تو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آکر کہنے لگے۔ ’’کیا ہم حق پر اور یہ مشرک باطل پر نہیں؟‘‘ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’خطاب کے بیٹے! اللہ کے رسول وہ ہیں (تم نہیں) اور اللہ انہیں کبھی ضائع نہیں کرے گا‘‘ اس وقت سورۃ فتح نازل ہوئی۔ (حوالہ ایضاً) ٤۔ سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جس دن مکہ فتح ہوا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سورت دہرا دہرا کر خوش الحانی سے پڑھ رہے تھے۔ (حوالہ ایضاً) صلح حدیبیہ کی توہین آمیز شرائط سے خیر کے پہلو کیسے پیدا ہوئے اور ابو جندل کی حالت زار اور فریاد :۔ صلح حدیبیہ کی انہی توہین آمیز شرائط سے اللہ تعالیٰ نے خیر کے بہت سے پہلو پیدا کردیئے۔ مکہ میں رکھے جانے والے مسلمانوں نے جب مکہ میں تبلیغ شروع کردی اور بعض لوگ اسلام بھی لے آئے تو یہی بات قریش مکہ کے لئے سوہان روح بن گئی، اور مسلمانوں کے ہاں مدینہ سے واپس کئے جانے والے مسلمانوں نے تجارتی شاہراہ پر اپنی الگ بستی بسا کر قریش کے تحارتی قافلوں کا ناک میں دم کردیا۔ ان میں ایک ابو جندل رضی اللہ عنہ تھے۔ قریش مکہ کے تیسرے اور آخری سفیر سہیل بن عمرو کے بیٹے تھے اور مسلمان ہوچکے تھے جب شرائط صلح طے پارہی تھیں لیکن تاہنوز ضبط تحریر میں نہ آئی تھیں اس وقت یہ اہل مکہ کی قید سے بھاگ کر حدیبیہ میں مسلمانوں کے پاس پہنچ گئے اور انہیں اپنے زخم دکھا دکھا کر التجا کی کہ اب انہیں کفار کے حوالہ نہ کیا جائے۔ مسلمان ابو جندل رضی اللہ عنہ کو پناہ دینے کے حق میں تھے کیونکہ شرائط تاحال ضبط تحریر میں نہ آئی تھیں مگر ابو جندل کا باپ سہیل اس بات پر اڑ گیا کہ اگر ابو جندل کو واپس نہ کیا گیا تو صلح نہیں ہوسکتی آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو جندل کو صبر کی تلقین فرمائی اور اسے واپس کردیا۔ اسی طرح سیدنا ابو بصیر اسلام لاکر مدینہ پہنچے تو کفار نے دو آدمی مدینہ بھیج دیئے کہ وہ انہیں واپس مکہ لائیں۔ آپ نے ابو بصیر کو ان کے ہمراہ کردیا۔ ابو بصیررضی اللہ عنہ نے راہ میں موقع پر ایک کو قتل کردیا اور دوسرا فرار ہو کر مدینہ آگیا اور رسول اللہ کو یہ ماجرا سنایا اتنے میں پیچھے پیچھے ابو بصیر بھی مدینہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا اور عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے مجھے ان کے ہمراہ بھیج کر اپنا ذمہ پورا کردیا۔ اب تو اللہ نے مجھے ان سے نجات دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جنگ کی آگ نہ بھڑکاؤ‘‘ سیدنا ابو بصیر کو جب معلوم ہوا کہ آپ انہیں مدینہ نہیں رہنے دیں گے تو وہاں سے چل کر سمندر کے کنارے پر آکر مقیم ہوگئے۔ بعد ازاں ابو جندل بھی یہاں پہنچ گئے اور دوسرے نومسلم بھی مدینہ کے بجائے ادھر کا رخ کرنے لگے۔ ان لوگوں نے قریش کو اس قدر تنگ کیا کہ انہوں نے مجبور ہو کر اس شرط کو کالعدم کردیا اور اجازت دے دی کہ جو شخص مسلمان ہو کر مدینہ جانا چاہے وہ جاسکتا ہے۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ کفار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ابو بصیر کو ان کاموں سے منع کریں اور جو شخص مسلمان ہو کر مدینہ جانا چاہے وہ جاسکتا ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بصیر کو لوٹ مار کرنے سے منع فرما دیا۔ (کتاب الشروط نیز کتاب المغازی وغیرہ) الفتح
2 [٢] ذَنْبٌ ہر اس فعل کو کہتے ہیں جس کا انجام برا ہو (مفردات القرآن) اور بمعنی ہر وہ کام جس کے نتیجہ میں مذمت ہو (فقہ اللغۃ اور اس لفظ کا اطلاق اس قدر عام ہے کہ چھوٹی چھوٹی لغزشوں سے لے کر بڑے بڑے گناہوں پر بھی ہوسکتا ہے۔ سب سے بڑا گناہ قتل ناحق ہوتا ہے۔ اس کے لئے بھی یہی لفظ آیا ہے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے فرماتے ہیں : ﴿ وَلَہُمْ عَلَیَّ ذَنْبٌ فَاَخَافُ اَنْ یَّقْتُلُوْنِ ﴾(۱۴:۲۶)اور میرے اوپر ان کا ایک گناہ (خون ناحق) ہے اور مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے مار ہی نہ ڈالیں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ﴿عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ لِمَ اَذِنْتَ لَہُمْ ﴾(۴۳:۹)اللہ آپ کو معاف فرمائے آپ نے ان منافقوں کو کیوں (جہاد سے رخصت کی) اجازت دی؟۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ معافی کسی گناہ یا غلطی کے کام پر ہی ہوتی ہے۔ اور اس آیت میں ذنب سے مراد تدبیری امور میں بعض اجتہادی غلطیاں ہیں جو بشریت کا خاصہ ہیں۔ اور اگلے پچھلے گناہ معاف کردینے کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ کو معلوم تھا کہ آپ دیدہ دانستہ کوئی گناہ کر ہی نہیں سکتے۔ اس آیت کی آپ کو جو خوشی ہوئی اور اس کا آپ نے جو تاثر قبول کیا وہ مندرجہ ذیل احادیث میں ملاحظہ فرمائیے : ١۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیات اس وقت نازل ہوئیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ سے واپس مدینہ جارہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھ پر ایک آیت ﴿لِیَغْفِرَلَکَ﴾ ایسی اتری ہے جو مجھے زمین کی ساری دولت سے پیاری ہے۔ صحابہ کہنے لگے : یارسول اللہ مبارک ہو، مبارک ہو! اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تو وضاحت فرمادی مگر ہمارے ساتھ کیا معاملہ ہوگا ؟ تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ ﴿ لِّیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ فَوْزًا عَظِیْمًا ﴾ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) ٢۔ صلح حدیبیہ کے بعد آپ کی عبادت میں اضافہ :۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب صحابہ کو کوئی حکم دیتے تو ایسے کاموں کا دیتے جنہیں وہ (بآسانی) کرسکتے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم عرض کرتے، ہم آپ جیسے نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تو اللہ نے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کردیئے ہیں۔ اس بات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ میں آجاتے اور غصہ کے آثار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ پر نمودار ہوجاتے اور فرماتے : ’’(سن لو) تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور اسے جاننے والا میں ہوں‘‘ (بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب قول النبی انا اعلمکم باللّٰہ) ٣۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو (تہجد کی نماز میں) اتنا زیادہ قیام فرماتے کہ آپ کے پاؤں تڑخ جاتے (اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں سوج جاتے) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا :’’یارسول اللہ ! آپ اتنی محنت کیوں کرتے ہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تو اللہ تعالیٰ نے سب اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دیئے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : ’’کیا میں اللہ کا شکرگزار بندہ نہ بنوں؟‘‘ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم (آخر عمر میں) فربہ ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ نماز بیٹھ کر پڑھا کرتے۔ جب رکوع کا وقت آتا تو کھڑے ہو کر کچھ قرأت فرماتے۔ پھر رکوع کرتے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) الفتح
3 [٣] صلح حدیبیہ میں اللہ کے چار احسانات :۔ اس فتح مبین کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو چار چیزیں عطا فرمائیں۔ (١) سابقہ اور آئندہ لغزشوں کی معافی، (٢) اتمام نعمت، اتمام نعمت سے مراد یہ ہے کہ آئندہ اب مسلمانوں پر ہنگامی فضا مسلط نہ رہ سکے گی اور وہ اپنی جگہ ہر طرح کے خوف اور بیرونی مداخلت سے محفوظ و مامون رہ کر پوری طرح اسلامی تہذیب وتمدن اور اسلامی قوانین و احکام کے مطابق آزادانہ زندگی بسر کرسکیں گے اور اعلائے کلمۃ اللہ کا فریضہ بجا لاسکیں گے، (٣) اس مقام پر آپ کو سیدھا راستہ دکھانے کا مطلب آپ کو فتح و کامرانی کی راہ دکھانا ہے۔ یعنی اس فتح مبین کے نتیجہ میں اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وہ راہ ہموار کردی جس سے تمام اسلام دشمن طاقتیں مغلوب ہوتی جائیں اور (٤) ﴿نَصْرًا عَزِیْزًا﴾ سے مراد ایسی مدد ہے جو بظاہر دشمن کو اپنی فتح نظر آرہی ہے مگر حقیقت میں وہی اس کی جڑ کاٹ دینے والی اور مغلوب کرنے والی ہے۔ حدیبیہ میں پانی کی قلت اور آپ کے معجزات :۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر کچھ اور بھی احسان فرمائے۔ اسلامی لشکر یہاں بیس دن سے بھی زیادہ قیام پذیر رہا۔ اس دوران پانی کی شدید قلت واقع ہوگئی۔ چنانچہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ سخت پیاسے ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چھاگل تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے وضو کیا۔ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پوچھا : کیا ماجرا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس نہ وضو کے لئے پانی ہے اور نہ پینے کے لئے۔ بس یہی پانی ہے جو آپ کی چھاگل میں ہے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس چھاگل میں رکھ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں سے پانی چشموں کی طرح بہنے لگا۔ چنانچہ ہم سب لوگوں نے پانی پیا اور وضو بھی کیا سالم (راوی) نے جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا : اس دن تم کتنے آدمی تھے؟ جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر لاکھ بھی ہوتے تو بھی وہ پانی ہمیں کفایت کرجاتا ہم تو صرف پندرہ سو آدمی تھے۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوۃ الحدیبیۃ) دوسرا واقعہ سیدنا براء رضی اللہ عنہ بن عازب بیان کرتے ہیں کہ حدیبیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ چودہ سو یا زیادہ آدمی تھے۔ ایک کنوئیں پر اترے اور اس کا سارا پانی کھینچ ڈالا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر عرض کیا کہ پانی نہیں رہا۔ اب کیا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کنوئیں پر تشریف لا کر اس کی منڈیر پر بیٹھے اور فرمایا اس کے پانی کا ایک ڈول لاؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لب اس میں ڈال دیا اور اللہ سے دعا کی۔ پھر فرمایا : ساعت بھر اس سے پانی نہ نکالنا۔ اس کے بعد اس کنوئیں کے پانی سے آدمیوں نے اپنے آپ کو اور سب جانوروں کو سیراب کرلیا۔ پھر وہاں سے چل کھڑے ہوئے۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوۃ الحدیبیۃ) بارش کو سیاروں سے منسوب کرنے والا کافر ہے :۔ اس کے بعد اللہ کی رحمت سے بارش ہوگئی اور مسلمانوں نے پانی ذخیرہ بھی کرلیا۔ چنانچہ زید بن خالد جہنی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ میں ہمیں صبح کی نماز پڑھائی اور رات کو بارش ہوچکی تھی۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : تم جانتے ہو کہ تمہارا پروردگار اللہ عزوجل کیا فرماتا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا : اللہ اور اس کا رسول ہی خوب جانتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آج صبح میرے کچھ بندے مومن ہوئے اور کچھ کافر۔ جس نے یہ کہا کہ یہ بارش اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہوئی۔ وہ میرا مومن ہے اور ستاروں کا منکر اور جس نے کہا کہ یہ بارش فلاں ستارے کے فلاں نچھتر میں داخل ہونے سے ہوئی اس نے میرے ساتھ کفر کیا اور ستاروں کا مومن ہے۔ (بخاری۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب یستقبل الامام الناس اذاسلم) الفتح
4 [٤] صلح حدیبیہ میں مسلمانوں کے جذبات کی دو انتہائیں :۔ حدیبیہ کے مقام پر مسلمانوں میں دو متضاد کیفیتیں پیدا ہوئیں اور دونوں ہی اپنی انتہا کو پہنچیں اور دونوں ہی اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کا نتیجہ تھیں۔ پہلے خون پر بیعت لی گئی جس سے مسلمانوں میں جنگ کے لئے اس قدر اشتعال پیدا ہوگیا کہ وہ کافروں کے مقابلہ میں سردھڑ کی بازی لگانے کے لئے تیار ہوگئے۔ اس کے بعد مسلمان دراصل صلح کے حق میں ہی نہ تھے چہ جائیکہ نہایت توہین آمیز شرائط پر صلح کے لئے آمادہ ہوں۔ ان باتوں پر سیدنا ابو جندل رضی اللہ عنہ کا واقعہ مزید اشتعال دلانے والا تھا جس سے سب مسلمانوں کے دل بھر آئے تھے اور اگر ان کے اختیار میں ہوتا تو وہ تو یہ چاہتے تھے کہ اسی وقت کافروں کی تکا بوٹی کردیں۔ اور اس وقت انہیں یہ قدرت بھی حاصل تھی۔ مگر جب انہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹھنڈا کیا۔ تو یکدم ان کے جذبات ٹھنڈے ہوگئے۔ ہر مسلمان جب دوسرے سے یہ پوچھتا کہ آج ایسی توہین آمیز شرائط پر صلح کیوں کی جارہی ہے تو ہر ایک یہی جواب دے دیتا اللہ و رسولہ اعلم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طبیعت کفار کے حق میں سب سے زیادہ جوشیلی تھی۔ انہوں نے کچھ اضطراب کا مظاہرہ ضرور کیا جیسا کہ مذکور دو احادیث سے واضح ہے۔ مگر وہ بھی نافرمانی کی حد کو نہ پہنچا اور سیدنا عمر کو اس بات کا عمر بھر افسوس بھی رہا۔ اللہ تعالیٰ یہ فرماتے ہیں کہ اس وقت مسلمانوں کے جوش کو ٹھنڈا کرنے کے لئے سکون نازل کیا گیا وہ اللہ کی طرف سے تھا۔ ورنہ عین ممکن تھا کہ حالات کچھ اور رخ اختیار کر جاتے۔ اگر کافروں کو کچلنا ہی مقصود ہوتا تو اللہ کے پاس مدد کے اور بھی کئی طریقے اور اسباب موجود تھے۔ البتہ ان دونوں انتہاؤں میں مسلمانوں کی آزمائش ہوگئی کہ وہ کس حد تک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے تابع رہتے ہیں۔ پھر جب وہ اس آزمائش میں پورے اترے تو یہی بات ان کے ایمان میں مزید اضافہ کا سبب بن گئی اور اللہ نے اپنے رسول پر بھی احسان فرمایا اور مسلمانوں پر بھی۔ الفتح
5 [٥] جذبات میں سکون اللہ کی طرف سے :۔ اس آیت کے شان نزول کے سلسلہ میں آیت نمبر ٢ کے تحت درج شدہ حدیث ملاحظہ فرما لیجئے۔ یعنی حدیبیہ کے مقام پر مسلمانوں نے جو کمال صبر اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بے چون و چرا اطاعت کا مظاہرہ کیا۔ اس کا مسلمانوں کو بھی بہت اجر ملے گا اور ان مسلمان عورتوں کو بھی جنہوں نے کسی نہ کسی صورت میں اس غزوہ میں حصہ لیا تھا۔ کیونکہ مجاہدین کو بہ طیب خاطر روانہ کرنے، بعد میں گھر کے انتظام و انصرام کی ذمہ داری میں عورتوں کا جتنا حصہ ہوتا ہے وہ سب کو معلوم ہے۔ بالخصوص ان حالات میں کہ رسول الل صلی اللہ علیہ وسلم ہ صحابہ کی ایک کثیر تعداد کو ساتھ لے جارہے ہوں اور مدینہ کے ارد گرد دشمن ہی دشمن موجود ہوں۔ الفتح
6 [٦] منافقوں کا گمان کہ اب مسلمان کبھی واپس نہ آسکیں گے :۔ غزوہ حدیبیہ میں کوئی منافق شریک نہ ہوا تھا۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ اس غزوہ میں اموال غنیمت کا کوئی قصہ ہی نہ تھا۔ اور مسلمان محض رضائے الٰہی کے لئے عمرہ کرنے جارہے تھے تو کافروں نے مسلمانوں کو حدیبیہ کے مقام پر روک دیا اور حالات کشیدہ ہوتے گئے تو یہ خبریں مدینہ میں پہنچ رہی تھیں۔ چنانچہ منافقوں نے خوب بغلیں بجانا شروع کردیں کہ پہلے تو قریش مکہ یہاں اپنے وطن سے بہت دور آکر لڑائی کرتے تھے لیکن اب مسلمان خود ان کے گھر پہنچ گئے ہیں۔ اب یہ وہاں سے بچ کر کبھی نہ آسکیں گے۔ اس صلح سے اور مسلمانوں کے بخیر و عافیت واپس مدینہ پہنچ جانے سے منافقوں کی دل کی جلن میں مزید اضافہ ہوگیا اور ان کے درپردہ کئی منصوبوں پر پانی پھر گیا یہی ان کے لئے کافی سزا تھی۔ دوسری طرف مشرکین مکہ اس بات پر بغلیں بجا رہے تھے کہ وہ مسلمانوں سے اپنی من مانی شرائط ان تسلیم کروانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ حالانکہ بعد میں یہی شرائط ان کی جڑ کاٹ دینے والی ثابت ہوئیں۔ سب سے توہین آمیز شرط یہ تھی کہ اگر مکہ سے کوئی مسلمان اپنے ولی کی اجازت کے بغیر مدینہ چلا جائے تو مسلمان اسے واپس کردیں گے۔ لیکن اگر کوئی مسلمان مکہ آجائے تو قریش مکہ اسے مسلمانوں کو واپس نہیں کریں گے۔ اس شرط کا جو نتیجہ نکلا اس کا حال ہم ابتدا میں لکھ چکے ہیں۔ دوسری شرط یہ تھی کہ قبائل عرب میں سے جو کوئی فریقین میں سے کسی کا حلیف بننا چاہے بن سکتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں بنو خزاعہ مسلمانوں کے حلیف بن گئے اور بنو بکر قریش مکہ کے۔ بنو خزاعہ اور بنوبکر میں جھگڑا ہوگیا تو قریش مکہ نے صلح نامہ حدیبیہ کے علی الرغم بدعہدی کرکے اپنے حلیف بنو بکر کی مدد کی اور بنو خزاغہ پر زیادتی کی۔ چنانچہ مشرکین مکہ کی یہی بدعہدی فتح مکہ، ان پر وبال اور ان کے زوال کا سبب بن گئی۔ تیسری شرط یہ تھی کہ فریقین دس سال تک جنگ نہیں کریں گے۔ اس شرط کا حشر یہ ہوا کہ جب بنو خزاعہ نے جا کر مدینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فریاد کی اور قریش مکہ کی زیادتی اور بدعہدی کا ذکر کیا تو اس معاہدہ کو برقرار رکھنے کے لئے خود ابو سفیان کو مدینہ جاکر منتیں کرنا پڑیں۔ پھر بھی وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوا۔ اور چوتھی شرط یہ تھی کہ مسلمان اگلے سال آکر عمرہ کریں گے اور تین دن کے لئے مشرکین مکہ اس شہر کو خالی کردیں گے۔ اس شرط پر ٹھیک طور پر عمل درآمد ہوا۔ اور یہ مسلمانوں کی انتہائی دیانتداری اور شرافت تھی کہ وہ اپنے عہد کو ملحوظ رکھتے ہوئے عمرہ کرکے تین دن کے بعد واپس چلے گئے۔ مسلمانوں کے بجائے کوئی اور ہوتا تو جس طرح شہر خالی پڑا تھا فوراً اس پر قبضہ کرلیتا۔ اور یہ خطرہ مشرکین مکہ کو بھی محسوس ہونے لگا تھا۔ الغرض اللہ تعالیٰ نے منافقوں اور مشرکوں کی آرزوؤں اور تدبیروں کو نہ صرف ناکام بنایا بلکہ ان کی تدبیریں انہی پر الٹ پڑیں۔ بعد میں انہیں جو عذاب دنیا میں دیکھنے پڑے یا آخرت میں ان سے دو چار ہونا پڑے گا۔ وہ مستزاد ہیں۔ الفتح
7 [٧] یہ لشکر فرشتے ہوں یا ہوائیں ہوں غرضیکہ جتنے بھی باطنی اسباب ہیں۔ سب اللہ کے قبضہ میں ہیں وہ ان سے یہ کام بھی لے سکتا ہے کہ میدان جنگ میں ان سے مسلمانوں کی مدد کرے اور کافروں کو پٹوا دے اور یہ کام بھی لے سکتا ہے کہ بدکردار لوگوں کے مکر و فریب کی چالوں کو انہی پر الٹ دے اور حالات ہی ایسے پیدا کردے کہ وہ خود ہی اپنے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس جائیں۔ اور یہ سب کچھ اس کی اپنی حکمت اور صوابدید پر منحصر ہے۔ الفتح
8 [٨] اس آیت کی تشریح کے لئے سورۃ احزاب کی آیت نمبر ٤٥ کے حواشی ملاحظہ فرما لیجئے۔ الفتح
9 [٩] اس آیت میں ﴿تُسَبِّحُوْہُ﴾ میں ''ہ'' کی ضمیر کا مرجع تو یقیناً اللہ تعالیٰ ہی ہوسکتا ہے۔ رہیں ﴿تُعَزِّرُوْہُ﴾ اور﴿َتُوَقِّرُوْہُ﴾ میں ''ہ'' کی ضمیریں تو ان کا مرجع بھی اللہ تعالیٰ کی طرف ہی ہونا چاہئے۔ بالخصوص اس صورت میں کہ وہ بالکل ساتھ ساتھ ہیں اور پہلی دو ضمیروں کا مرجع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہونے کے لئے کوئی قرینہ بھی موجود نہیں ہے۔ اور مطلب یہ ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شاہد اور مبشر اور نذیر بنا کر اس لئے بھیجا گیا ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ۔ اللہ کے دین کی بھرپور مدد کرو۔ اور اللہ کے احکام اور اس کی حرمت والی چیزوں کا پورا ادب اور تعظیم کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح و تحمید بیان کرو۔ تاہم بعض علماء نے ﴿تُعَزِّرُوْہ﴾ اور ﴿ وَتُؤَقِّرُوْہ﴾ میں ضمائر کا مرجع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو قرار دیا ہے اس صورت میں بھی کوئی اشکال نہیں کیونکہ قرآن کی بعض دوسری آیات میں آپ کی غیر مشروط اطاعت' ہر حال میں مدد اور آپ کا ادب و احترام کا حکم صراحت سے مذکور ہے۔ الفتح
10 [١٠] بیعت رضوان خون پر بیعت تھی :۔ یہ بیعت اس شرط پر لی جارہی تھی کہ اگر شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کی خبر درست ہو تو مسلمان ان کا قصاص لینے کے لئے جانیں لڑا دیں گے اور جب تک یہ مقصد پورا نہ ہوجائے ان میں کوئی زندہ واپس نہ جائے گا۔ اس کی بیعت کی صورت یہ تھی کہ بیعت کرنے والا نیچے ہاتھ رکھتا تھا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ہاتھ کے اوپر ہاتھ رکھ کر عہد لیتے تھے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت کی صورت :۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر چونکہ یقینی نہ تھی بس افواہ ہی تھی اور ان کے زندہ سلامت ہونے کا امکان موجود تھا۔ لہٰذا آپ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے بھی خود ہی بیعت کی۔ اپنا ہی ایک ہاتھ نیچے رکھا اور دوسرا اوپر رکھ کر بیعت مکمل کی۔ گویا آپ کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر اتنا اعتماد تھا کہ اگر وہ زندہ ہیں تو یقیناً ایسی بیعت سے کبھی پیچھے نہیں رہ سکتے۔ یہ بیعت دراصل اللہ ہی سے عہد تھا :۔ نیز اللہ تعالیٰ نے بیعت کرنے والوں سے فرمایا کہ یہ نہ سمجھو کہ تمہارے ہاتھ کے اوپر دوسرا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کا ہاتھ ہے جس سے تم عہد کر رہے ہو۔ بلکہ یہ اللہ کے نائب رسول کا ہاتھ ہے۔ جو اس وقت اپنی ذات کی طرف سے نہیں بلکہ اللہ کے نائب ہونے کی حیثیت سے تم سے بیعت لے رہا ہے۔ بیعت کی مختلف صورتیں :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں کئی بار بیعت لی ہے۔ سب سے پہلی بیعت بیعت عقبہ تھی جس میں اہل مدینہ نے یہ اقرار کیا تھا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف لائیں تو وہ ہر تنگی ترشی میں ان کی مدد کرینگے اور ان کی جان کی حفاظت کریں گے۔ یہاں جہاد یا خون پر بیعت کا ذکر ہے اور بعض مقامات پر بھلائی کے کاموں کے کرنے اور برے کاموں سے اجتناب کا ذکر بھی قرآن میں موجود ہے اور ایسی بیعت آپ مردوں سے بھی لیتے تھے اور عورتوں سے بھی۔ امیر کی سمع واطاعت کی بیعت لازم ہے خواہ یہ بالواسطہ ہو :۔ یہاں ایک عام سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بیعت ہر شخص کے لئے ضروری ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہر ایک کے لئے ضروری صرف وہ بیعت ہے جو امیرالمومنین سے سمع و طاعت کے اصول پر کی جاتی ہے اور یہ بالواسطہ بھی ہوسکتی ہے۔ اور اس سے مقصود صرف مسلمانوں کی جمعیت اور سیاسی قوت کو مضبوط بنانا اور مشترکہ طور پر اللہ کے دین کو سر بلند کرنا اور رکھنا ہوتا ہے۔ پیروں فقیروں کی بیعت ؟:۔ رہی وہ بیعت جو پیرو مشائخ نے لازمی بنا رکھی ہے۔ تو یہ ہرگز واجب نہیں البتہ مشروع ضرور ہے وہ بھی اس شرط کے ساتھ پیر یا شیخ خود پوری طرح شریعت کا پابند ہو۔ اور اگر پیر صاحب خود ہی شریعت کے پابند نہ ہوں تو ان کی بیعت جائز نہ ہوگی بلکہ عذاب کا باعث بن جائے گی۔ الفتح
11 [١١] منافق کن وجوہ کی بناء پر صلح حدیبیہ کے سفر میں ساتھ نہیں گئے تھے :۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کا ارادہ کیا تو مدینہ اور آس پاس کی بستیوں میں اس کا باقاعدہ اعلان کرایا گیا تھا کہ جو شخص عمرہ کرنے کے لئے آپ کے ہمراہ جانا چاہتا ہو وہ مدینہ پہنچ جائے۔ مگر آس پاس کی بستیوں کے کچھ قبائل مثلاً غفار، مزنیہ، جہینہ، اسلم اور اشجع کے لوگوں نے آپ کے ہمراہ جانے سے گریز کیا یہ لوگ دراصل منافق تھے اور اپنے خیال میں کسی بھلے وقت کے منتظر رہنے والوں میں سے تھے، وہ سمجھتے تھے کہ قریش مکہ تو مکہ سے یہاں آکر مسلمانوں کے بہت سے افراد کو میدان احد میں قتل کر گئے تھے اب یہ مختصر سی جمعیت جو خود اپنے جانی دشمنوں کے گھر پہنچ رہی ہے وہ لوگ بھلا انہیں زندہ واپس آنے دیں گے۔ اسی خیال سے انہوں نے اس غزوہ سے عدم شمولیت میں ہی اپنی عافیت سمجھی تھی۔ [١٢] جب آپ حدیبیہ سے واپس مدینہ تشریف لا رہے تھے تو اس وقت یہ سورۃ نازل ہوئی اور اللہ نے آپ کو منافقوں کے خبث باطن اور آئندہ کردار سے بھی مطلع کردیا کہ یہ لوگ طرح طرح کے بہانے اور عذر پیش کریں گے کہ ہم فلاں مجبوری کی وجہ سے آپ کے ساتھ نہ جاسکے۔ لہٰذا آپ اللہ سے ہمارے لئے دعا فرمائیے کہ وہ ہمارا یہ قصور معاف فرمائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان کا آپ کو استغفار کے لئے کہنا بھی ایک فریب ہے اور وہ آپ کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ انہیں آپ کے ساتھ نہ جانے کا واقعی بہت افسوس ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نہ وہ اپنی اس حرکت کو اپنا قصور سمجھتے ہیں، نہ انہیں کچھ افسوس ہے اور نہ ہی وہ اپنے لئے دعائے استغفار کی ضرورت سمجھتے ہیں۔ یہ سب کچھ ان کا زبانی جمع خرچ ہے جس سے وہ آپ کو مطمئن رکھنا چاہتے ہیں۔ [١٣] یعنی اے منافقو! تم نے اس غزوہ سے عدم شمولیت میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ پھر اگر اللہ تعالیٰ تمہیں تمہارے گھروں میں موت سے دو چار کر دے یا اور کوئی مصیبت تم پر ڈال دے تو اس سے تمہیں کوئی بچا سکتا ہے یا تم خود اسے روک سکتے تھے؟ یا مثلاً تم اس سفر پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے جاتے اور اللہ تمہارے اہل و عیال کو کوئی فائدہ پہنچانا چاہے یا اس سفر میں بھی فائدہ پہنچا دے تو کیا اسے کوئی روک سکتا ہے؟ الفتح
12 [١٤] منافقوں کا گمان کہ مسلمان بچ کر نہ لوٹ سکیں گے :۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ نہ تمہارا اللہ پر اعتماد ہے اور نہ اس کے وعدوں پر۔ تمہارا بس یہ گمان تھا کہ یہ مٹھی بھر لوگ بچ کر واپس نہ آسکیں گے۔ اور تمہارا یہ گمان ہی نہ تھا تمہاری آرزو بھی یہی تھی۔ تمہیں اس بات پر مطلق شرم نہ آئی کہ تم اللہ، اس کے رسول اور مومنوں کے معاملہ میں کس قدر بدباطنی سے ایسی سوچ سوچ رہے تھے۔ پھر دوسرا جرم یہ کر رہے ہو کہ طرح طرح کے جھوٹے بہانے بنا کر اور اللہ کے رسول سے استغفار کی التجا کرکے اپنی بدباطنی پر پردہ ڈالنا چاہتے ہو۔ تمہارا یہ خبث باطن اور جھوٹ آخر تمہیں تباہ کرکے رہے گا۔ الفتح
13 [١٥] اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ جو شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بدظنی رکھے یا مسلمان ہونے کے باوجود اس کی ہمدردیاں اسلام دشمن گروہ کے ساتھ ہوں وہ ایماندار نہیں رہتا بلکہ غیر مومن ہوتا ہے۔ اور دوسرے یہ کہ اسی آیت کا اگلا حصہ یہ وضاحت کر رہا ہے کہ وہ کافر ہوجاتا ہے اور اسے آخرت میں کافروں جیسا ہی عذاب ہوگا۔ اگرچہ اس دنیا میں ایمانداروں میں ہی ملا جلا رہے۔ الفتح
14 [١٦] یعنی وہ جسے چاہے فائدہ پہنچا سکتا ہے خواہ حالات اس کے برعکس نظر آرہے ہوں۔ اسی طرح وہ جسے چاہے ذلیل و رسوا کرسکتا ہے اس لئے یہ کائنات ساری کی ساری اس کی مملوک ہے اور ظاہری اور باطنی اسباب اسی کے قبضہ قدرت ہیں۔ جن میں وہ ہر طرح سے تصرف کرسکتا ہے۔ ہاں اگر تم اپنی کرتوتوں اور بدباطنی سے باز آجاؤ تو وہ تمہیں معاف بھی کردے گا۔ کیونکہ حقیقتاً وہ اپنے بندوں پر مہربانی کا سلوک کرنے سے ہی خوش ہوتا ہے۔ الفتح
15 [١٧] منافقوں کی غزوہ خیبر میں شمولیت کی خواہش کیوں تھی؟ فتح خیبر کا واقعہ غزوہ حدیبیہ کے تین ماہ بعد محرم ٧ ھ میں پیش آیا۔ جلاوطن شدہ یہود یہیں اکٹھے ہو کر مسلمانوں کے خلاف سرگرمیوں میں مصروف تھے۔ بنونضیر بھی مدینہ سے جلاوطن ہو کر یہیں مقیم ہوگئے تھے۔ انہی کے سردار حیی بن اخطب نے بنو قریظہ کے سردار کعب بن اسد کو ورغلا کر جنگ احزاب میں مسلمانوں کے خلاف عہد شکنی پر مجبور کردیا تھا۔ اور وہ اتحادی کافروں سے مل گئے تھے۔ حدیبیہ کی صلح کے بعد ان لوگوں کی سرکوبی ضروری تھی۔ یہ سفر نسبتاً آسان بھی تھا اور یہاں سے اموال غنیمت کی بھی بہت توقع تھی۔ غزوہ حدیبیہ میں پیچھے رہ جانے والے منافقوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے تین ماہ پہلے ہی بتا دیا کہ جب تم اس سفر پر جانے لگو گے تو پھر یہ لوگ تمہارے ساتھ جانے کے لئے فوراً تیار ہوجائیں گے کیونکہ وہاں جان و مال کے ضیاع کا خطرہ کم اور بہت زیادہ اموال غنیمت مل جانے کی توقع ہوگی۔ [١٨] اللہ کا حکم یا فیصلہ یہ ہے کہ جو لوگ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں مخلص ہیں۔ اللہ انہیں فتح و نصرت سے ہمکنار کرے اور مالی فائدے بھی پہنچائے۔ مگر یہ منافق یہ چاہتے ہیں کہ جان و مال کے ضیاع کا خطرہ ہو تو یہ بہانے بنا کر اپنی جانیں اور مال بچا لیں اور مخلص مسلمان ہی ایسے مشکل اوقات میں آگے بڑھیں اور جب جان و مال کا کوئی خوف نہ ہو اور مال ملنے کی امید ہو تو یہ بھی ان میں شامل ہوجائیں۔ ان کی اس آرزو سے اللہ کے حکم میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ [١٩] غزوہ خیبر میں صرف ان مسلمانوں کو ساتھ لیا گیا جو بیعت رضوان میں شامل تھے :۔ لہٰذا جب خیبر پر چڑھائی کا وقت آئے اور یہ مسلمانوں کے ہمراہ جانے کی آرزو کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دو ٹوک لفظوں میں بتا دیجئے کہ ہم تمہیں اپنے ہمراہ نہیں لے جاسکتے۔ کیونکہ اللہ ہمیں اس بات سے منع کرچکا ہے۔ چنانچہ عملاً یہی کچھ ہوا 'آپ صرف انہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو غزوہ خیبر میں اپنے ساتھ لے گئے جنہوں نے حدیبیہ کے مقام پر آپ کے ہاتھ پر خون پر بیعت کی تھی۔ [٢٠] منافقوں کا جواب بھی ناانصافی پر مبنی ہے : یعنی جب تم بہانہ ساز منافقوں سے یہ کہو گے کہ تم غزوہ خیبر کے مجاہدین میں شامل نہیں ہوسکتے تو وہ فوراً تم لوگوں پر مزید یہ الزام لگا دیں گے۔ تم یہ چاہتے ہی نہیں کہ ہمیں بھی اموال غنیمت سے کچھ حصہ مل جائے اور تم ہمارا حسد کرتے ہو کہ کہیں ہم لوگ بھی آسودہ حال نہ بن جائیں۔ یعنی اس وقت تک بھی ان کا خیال اپنے قصور کی طرف نہیں جائے گا کہ جب ہم کوئی جانی و مالی خطرہ مول لینے کو تیار نہیں تو ہمیں آسانی سے ہاتھ آنے والے مال غنیمت میں کیسے حصہ دار بنایا جاسکتا ہے۔ اس وقت بھی مسلمانوں کو ہی مورد الزام ٹھہرائیں گے۔ یہ ان کے خبث باطن کی ایک اور دلیل ہے۔ الفتح
16 [٢١] جنگجو قوم کونسی تھی؟ ثقیف 'ہوازن اور بنو حنیفہ :۔ ﴿یُسْلِمُوْنَ﴾ کے دو مطلب ہیں ایک وہ جو ترجمہ سے واضح ہو رہا ہے کہ وہ جنگ کرنے کے بغیر ہی آپ کی اطاعت قبول کرلیں گے اور جزیہ ادا کریں گے نیز اسلام کی راہ میں مزاحمت کرنا چھوڑ دیں گے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ مسلمان ہوجائیں گے۔ گویا حسد کا طعنہ دینے والے منافقوں کو سمجھایا یہ جارہا ہے کہ جب تک تم اپنے اموال اور اپنی جانوں کی قربانی سے یہ ثابت نہ کر دو کہ تم اسلام اور مسلمانوں کے حق میں مخلص ہو تو اموال غنیمت میں حصہ دار کیسے بن سکتے ہو؟ اب اس کی یہ صورت ہوسکتی ہے کہ آئندہ بھی کئی مواقع پر جنگجو قوموں سے سابقہ پڑنے والا ہے۔ اس وقت تمہیں جہاد میں باقاعدہ شمولیت کی دعوت دی جائے گی اور تمہارے ایمان کی آزمائش کی جائے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ ان سے جنگ کرنا پڑتی ہے یا وہ لڑے بھڑے بغیر ہی مطیع فرمان بن جاتے ہیں۔ بہرحال تمہارے روانہ ہونے سے ہی تمہارا امتحان ہوجائے گا۔ پھر اگر تو تم اپنے دعوے میں سچے اور اپنے ایمان میں مخلص ہوئے تو تم ایسی جنگجو قوم سے لڑنے اور سردھڑ کی بازی لگانے پر تیار ہوجاؤ گے تو تمہیں اموال غنیمت میں سے بھی حصہ ملے گا اور اللہ سے بھی بڑا اچھا بدلہ ملے گا۔ لیکن اگر تم نے پھر وہی کام کیا جو غزوہ حدیبیہ کے موقع پر کیا تھا اور حیلے بہانے تراشنے لگے تو پھر تمہاری اور بھی زیادہ ذلت اور رسوائی ہوگی اور آخرت میں بھی دردناک سزا ملے گی۔ واضح رہے کہ اس آیت میں جنگجو قوم سے مراد جنگ حنین میں حصہ لینے والے قبیلے ثقیف اور ہوازن بھی ہوسکتے ہیں اور مسیلمہ کذاب کی جنگ یمامہ میں حصہ لینے والے بنو حنیفہ بھی۔ علاوہ ازیں خلافت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ و عمررضی اللہ عنہ کے دور میں بھی کئی معرکے پیش آتے رہے۔ صلح حدییبہ میں مسلمانوں کی مرضی کے علی الرغم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بظاہر توہین آمیز شرائط پر صلح کے لئے اصرار فرمایا تھا تو اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تھے ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا تھا کہ جنگ کا خطرہ سر پر سوار نہ ہو اور جب بھی جنگ کا موقعہ آتا تو قریش، یہود، منافقین اور مشرک قبائل سب مسلمانوں کے خلاف اتحاد قائم کرلیتے تھے۔ آپ یہ چاہتے تھے کہ کم از کم قریش مکہ سے صلح کرکے دوسرے دشمنوں کی سرکوبی کی جائے۔ جنگ احزاب میں بنونضیر کا سردار حیی بن اخطب بھی قتل کردیا گیا۔ جو خیبر کے یہود کا سردار تھا تو یہودی اور بھی سیخ پا ہوگئے تھے اور مدینہ پر پرزور حملہ کرکے ان کا استیصال کرنے کے لئے تیاریاں کر رہے تھے۔ اور یہ خبریں دم بدم مدینہ بھی پہنچ رہی تھیں۔ صلح حدیبیہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان پر لشکر کشی کا ارادہ کرلیا۔ اس لشکر کا بیشتر حصہ وہی مسلمان تھے جنہوں نے صلح حدیبیہ یا بیعت رضوان میں حصہ لیا تھا۔ خیبر پر حملہ کا آغاز :۔ خیبر میں یہودیوں کے نو مشہور قلعے تھے جن میں بیس ہزار آزمودہ کار سپاہی موجود تھے۔ اسلامی لشکر رات کے وقت خیبر کے پہلے قلعہ ناعم پر پہنچ گیا۔ اس وقت قلعہ والے اسلامی لشکر کی یورش سے بالکل بے خبر محو خواب تھے۔ شب خون مار کر قلعہ کو فتح کرنے کا یہ بہترین موقعہ تھا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم شب خون مارنے کے خلاف تھے۔ اور مسلمانوں کو بھی شب خون مارنے کی ممانعت کردی تھی۔ لہٰذا آپ نے لشکر کو صبح ہونے تک توقف کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ جب کسی قوم پر جہاد کرتے تو ان پر صبح تک حملہ نہ کرتے، صبح اگر ان لوگوں میں اذان کی آواز سنتے تو حملہ نہ کرتے اور اگر آذان کی آواز نہ آتی تب حملہ کرتے تھے۔جب صبح ہوئی تو یہودی پھاوڑے ٹوکریاں لے کر نکلے۔ کیونکہ وہ زراعت پیشہ تھے۔ جب انہوں نے آپ کو دیکھا تو چیخ اٹھے اور کہنے لگے : اللہ کی قسم! یہ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو لشکر سمیت آن پہنچے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھ کر نعرہ لگایا۔ اللہ اکبر خربت خیبر (اللہ اکبر! خیبر کی شامت آگئی) پھر فرمایا : ہم جب بھی کسی قوم کے آنگن میں اترے تو جن لوگوں کو ڈرایا گیا ان کی صبح منحوس ہی ہوتی ہے۔ (بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب دعاء النبی الی الاسلام والنبوۃ۔۔) چنانچہ یہ یہودی خوف زدہ ہو کر شہر کی طرف بھاگے اور قلعہ ناعم میں جا پناہ لی۔ ناعم میں یہود کا صرف سامان رسد وغیرہ تھا کوئی بڑی فوجی قوت نہ تھی۔ لہٰذا مسلمانوں نے اسے آسانی سے فتح کرلیا۔ اس کے بعد دوسرے چھوٹے قلعے بھی آسانی کے ساتھ تسخیر ہوگئے۔ لیکن سب سے مضبوط اور سب سے اہم سلام بن ابی الحقیق کا قلعہ قموص تھا جس میں یہود کا سردار اور مشہور جری پہلوان مرحب بھی موجود تھا۔ قموص پر ہر روز حملے ہوتے رہے لیکن یہ سر ہونے میں نہ آتا تھا۔ اسی طرح بیس دن گزر گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کل میں جھنڈا ایسے شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ خیبر فتح کرا دے گا۔ اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے محبت رکھتے ہیں اور وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہے۔ آپ کا سیدناعلی کو جھنڈا عطا کرنا :۔ لوگ رات بھر اسی سوچ میں رہے کہ دیکھئے کل کس کو جھنڈا ملتا ہے۔ صبح سب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے پوچھا علی ابن ابی طالب کہاں ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تو آنکھیں دکھ رہی ہیں۔ آپ نے فرمایا : کسی کو اسے بلانے کے لئے بھیج دو۔ جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا تھوک ان کی آنکھوں پر لگایا اور دعا فرمائی۔ وہ ایسے اچھے ہوگئے جیسے انہیں کچھ تکلیف ہی نہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈا ان کے حوالے کیا۔ انہوں نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں ان سے اس وقت تک لڑتا رہوں جب تک وہ ہماری طرح (مسلمان) نہ ہوجائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’آرام سے جاؤ جب ان کے مقام پر پہنچ جاؤ تو انہیں اسلام کی دعوت دو اور ان پر اللہ کا جو فرض ہے وہ انہیں بتاؤ۔ اللہ کی قسم اگر تیرے ذریعہ اللہ ایک شخص کو بھی ہدایت دے دے تو وہ تیرے حق میں سرخ اونٹوں سے بہتر ہے‘‘ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب مناقب علی ابن ابی طالب) اور ایک روایت میں ہے کہ سیدنا عمررضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے کبھی کسی منصب یا عہدے کی آرزو پیدا نہیں ہوئی۔ لیکن اس رات میرے دل میں بھی یہ خواہش مچل رہی تھی کہ کاش صبح میرا نام پکارا جائے۔ (مسلم۔ کتاب الفضائل۔ باب فضائل علی ابن ابی طالب) سیدنا علی اور مرحب کا مقابلہ :۔ چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فوج لے کر قلعہ پر حملہ آور ہوئے تو آپ کے مقابلہ کے لئے یہودی سالار مرحب مقابلہ کو نکلا اور میدان میں اتر کر تین مصرعوں کا شعر پڑھا : قد علمتْ خیبر انی مرحَب۔۔ شَاک السَّلاحِ بَطَلٌ مجرَّبٌ۔۔ اِذَا الحُروبُ اَقْبَلَتْ تَلَھَّبُ ’’سارا خیبر جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں۔ ہتھیار بند ہوں اور اس وقت آزمودہ کار پہلوان ثابت ہوتا ہوں۔ جب لڑائیاں شعلے اڑانے لگتی ہیں‘‘ اس کے جواب میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بھی تین مصرعے کا شعر پڑھا : انا الذی سمَّتُنِی اُمّی حیدرَہ،۔۔ کَلَیْثِ غاباتٍ کریہ المَنْظَرَہ۔۔ اُو فیھِم بالصَّاع کیل السُّنْدَرَہ، ’’میں وہ ہوں جس کا میری ماں نے شیر نام رکھا تھا۔ میں جنگلوں کے شیر کی طرح جس کو دیکھوں سب ڈر جاتے ہیں۔ اور میں اینٹ کا جواب پتھر سے دیا کرتا ہوں‘‘ پھر سیدنا علی نے مرحب کے سر پر ایک ایسی کاری ضرب لگائی جس سے اس کا کام تمام ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر فتح دی۔ (مسلم۔ کتاب الجہاد والسیر۔ باب غزوۃ ذی قرد وخیبر) مرحب کے بعد اس کا بھائی یاسر میدان میں اترا تو سیدنا زبیر نے اسے ڈھیر کردیا۔ اس پر یہودیوں کی ہمت ٹوٹ گئی اور قلعہ فتح ہوگیا۔ اس معرکہ خیبر میں ترانوے یہودی کام آئے اور بیس مجاہدین شہید ہوئے۔ یہودیوں کی جان بخشی کی شرائط :۔ اس شکست فاش کے بعد یہودیوں نے آپ سے جان بخشی کی درخواست کی جسے آپ نے اس شرط پر منظور کیا کہ یہود اپنی تمام جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ یعنی ہتھیار، نقدی اور مویشی نیز زمین اور باغات وغیرہ سب کچھ مسلمانوں کے حوالہ کردیں گے اور اگر انہوں نے جائیداد کا اتا پتا بتانے میں پس و پیش کیا تو یہ معاہدہ ختم اور مسلمانوں کو انہیں قتل کردینے یا جلا وطن کرنے کا حق حاصل ہوگا۔ اس معاہدہ کی رو سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود بنونضیر سے ان کے مال و دولت کی بابت دریافت فرمایا۔ جو وہ مدینہ سے لے کر نکلے تھے تو حیی بن اخطب کے داماد کنانہ بن ربیع نے اس کے بتانے میں پس و پیش کیا۔ لیکن ایک دوسرے یہودی کی نشاندہی پر مطلوبہ مال جنگل میں مدفون مل گیا۔ اس عہد شکنی کی بنا پر کنانہ بن ربیع کو تہ تیغ کردیا گیا اور اس کے خاندان کی عورتیں اور بچے غلام بنا لئے گئے۔ حیی بن اخطب کی بیٹی صفیہ اسیر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حاضر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی عزت کو ملحوظ خاطر رکھ کر نیز دشمنوں پر اپنے اخلاق کا اثر ڈالنے کے لئے اسے آزاد کردیا اور دوسری مہربانی یہ فرمائی کہ اسے اپنے عقد میں لے لیا۔ چنانچہ یہود پر اس کا بہت اچھا اثر ہوا۔ نصف پیداوار کی شرط پر یہود سے مصالحت :۔ اب یہود نے دوسری درخواست یہ کی کہ ان کی زمینیں اور باغات انہیں کے پاس رہنے دیئے جائیں اس شرط پر کہ وہ ساری پیداوار کا نصف مسلمانوں کو ادا کردیا کریں گے۔ آپ نے کمال مہربانی سے ان کی یہ درخواست بھی منظور فرمالی۔ اور ساتھ ہی فرما دیا کہ اگر وہ مسلمانوں سے بد عہدی یا کوئی اور شرارت کریں گے تو یہ معاہدہ ختم کردیا جائے گا۔ چنانچہ جب فصل تیار ہوچکتی تو آپ عبداللہ بن رواحہ کو بھیجتے جو پیداوار کو دو حصوں میں تقسیم کردیتے پھر یہود کو اختیار دے دیتے کہ جونسا حصہ تم چاہو لے لو۔ یہودیوں پر اس فیاضانہ عدل کا یہ اثر ہوا کہ وہ کہتے تھے کہ زمین و آسمان ایسے ہی عدل پر قائم ہیں۔ زہریلی بکری سے آپ کو ختم کرنے کی سازش :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فیاضانہ سلوک کے باوجود یہود کا خبث باطن ختم نہ ہوا۔ خیبر میں قیام کے دوران سلام بن مشکم یہودی کی بیوی زینب بنت حارث نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت کی درخواست کی جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرما لیا۔ یہ دراصل سب یہود کی ملی بھگت سے ایک سازش تیار کی گئی تھی کہ آپ کو کھانے میں زہر ملا کر ہلاک کردیا جائے۔ چنانچہ زینب نے آپ سے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کونسا گوشت پسند فرماتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دستی کا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چند صحابہ کے ساتھ دعوت پر آئے۔ لیکن پہلا لقمہ ابھی حلق سے اترا ہی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوگیا کہ اس میں زہر ملایا گیا ہے۔ آپ کھانے سے رک گئے لیکن ایک صحابی بشیر بن براء دو چار لقمے کھاچکے تھے وہ جانبر نہ ہوسکے۔ اس موقعہ پر اگر کوئی اور فاتح ہوتا تو سب یہودیوں کو تہ تیغ کرا دیتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب سے پوچھا تو اس نے اعتراف جرم کرلیا اور بتایا کہ اس سازش میں سب یہود ملوث ہیں۔ آپ نے یہود کو بلاکر پوچھا تو انہوں نے بھی اعتراف کرلیا۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں کیا تو کہنے لگے کہ اس لئے کیا کہ اگر آپ سچے نبی ہیں تو زہر آپ پر اثر نہیں کرے گا اور جھوٹے ہیں تو آپ سے ہماری جان چھوٹ جائے گی۔ آپ مجسمہ رحمت تھے۔ لہٰذا آپ نے ان سب کا یہ قصور بھی معاف کردیا۔ فقط بشیر بن براء کے قصاص میں زینب بنت حارث کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ (بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب اذا غدر المشرکون بالمسلمین) فتح خیبر کے اثرات :۔ خیبر کے معاملات سے فارغ ہو کر صفر ٧ ھ میں آپ نے فدک کی طرف توجہ فرمائی۔ کیونکہ یہ لوگ بھی جنگ پر تلے بیٹھے تھے۔ یہاں صرف ایک دن جنگ ہوئی دوسرے دن صبح ہی مجاہدین اسلام نے ان پر فتح پالی اور ان سے اہل خیبر کی شرائط پر مصالحت کرلی۔ تیماء کے یہود کو ان فتوحات کی خبر ملی تو انہوں نے خود ہی جزیہ کی شرط پر صلح کرلی۔ خیبر وغیرہ کی فتح سے یہود کا دم خم بالکل ختم ہوگیا۔ جب قریش مکہ کو یہ خبر ملی تو انہیں سخت صدمہ ہوا کیونکہ ان کا ایک مضبوط بازو کٹ گیا اور اب وہ مسلمانوں کے مقابلہ میں تنہا رہ گئے۔ خیبر کے اموال غنائم اور اموال فئے: غزؤہ خیبر میں کچھ لڑائی کے ذریعہ اموال غنیمت حاصل ہوئے اور کچھ بے لڑے بھڑے بھی حاصل ہوگئے اور مال کثیر اور باغات مسلمانوں کے ہاتھ لگے حتیٰ کہ مسلمانوں کی معاشی حالت بہت بہتر ہوگئی اور مہاجرین نے انصار کو وہ باغات وغیرہ واپس کردیئے جو سلسلہ مواخات کے نتیجہ میں مہاجرین نے بطور شراکت انصار سے لے رکھے تھے اس غزوہ خیبر میں انہیں مجاہدین کو شریک کیا گیا جو غزوہ حدیبیہ میں آپ کے ہمراہ تھے اور خون پر بیعت کی تھی۔ انہیں میں یہ اموال غنیمت تقسیم کئے گئے۔ ان اموال میں حبشہ کے مہاجرین کا حصہ : البتہ ان اموال میں حبشہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچنے والے مہاجرین کو شریک کرلیا گیا تھا جو عین اموال غنیمت کی تقسیم کے موقعہ پر پہنچے تھے۔ بعض علماء نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین حبشہ کو جو مال دیا تھا وہ مجاہدین کے حصہ سے نہیں بلکہ اپنے حصہ خمس سے دیا تھا۔ جس کی تقسیم کلیتاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صوابدید پر منحصر تھی۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے یمن میں سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کرکے چلے گئے۔ تو میں اور میرے دو چھوٹے بھائی ابو بردہ اور ابو رہم بھی مدینہ کو ہجرت کی غرض سے نکلے۔ ہماری قوم کے کل باون یا ترپن آدمی تھے جو کشتی پر سوار ہوئے۔ وہ کشتی حبش کی طرف چلی گئی جہاں کا بادشاہ نجاشی تھا۔ وہاں ہم کو جعفر بن ابی طالب اور ان کے ساتھی ملے۔ جعفر نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو یہاں بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ یہیں ٹھہرو۔ تو تم بھی ہمارے ساتھ ٹھہرو۔ ہم کچھ عرصہ وہاں رہے۔ پھر سب لوگ مل کر مدینہ آئے۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر فتح کیا تھا۔ آپ نے اموال غنائم میں سے ہمارا حصہ لگایا یا کہا کہ اس سے ہمیں عطا کیا۔ لیکن ہمارے سوا صرف اسے ہی آپ نے دیا جو فتح خیبر میں حاضر تھا، کسی غیر حاضر کو کچھ نہیں دیا۔ سو ہم کشتی والوں کے جو جعفر اور ان کے اصحاب کے ساتھ تھے۔ آپ نے ان کا حصہ لگایا۔ بعض لوگ کہنے لگے کہ ہم تو تم سے پہلے ہجرت کرچکے تھے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور سیدہ اسماء بنت عمیس میں تکرار بھی ہوئی۔ سیدنا عمررضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ ہم تم سے پہلے ہجرت کرکے مدینہ پہنچے ہیں لہٰذا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف زیادہ حق رکھتے ہیں۔ اسماء بنت عمیس کو اس بات پر غصہ آگیا کہ تم تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے وہ تمہارا ہر طرح سے خیال رکھتے تھے اور ہم دیار غیر میں تھے اور ہجرت بھی دو دفعہ کی ہے اور کہنے لگیں میں ضرور یہ بات رسول اللہ سے پوچھوں گی۔ چنانچہ اسماء نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ تم سے زیادہ حق نہیں رکھتے۔ کیونکہ ان کی ایک ہجرت ہے اور تمہاری دو بار ہجرت ہے۔ اسماء کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات سے کشتی والوں کو انتہائی خوشی ہوئی۔ اور وہ مجھے باربار اس حدیث کو دہرانے کو کہتے تھے۔ (مسلم۔ کتاب الفضائل۔ باب فضائل جعفر و اسماء بنت عمیس و اھل سفینتھم۔۔ ملخصاً) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حبشہ سے آنے والے مہاجرین کو یہ حصہ دو ہجرتوں کی وجہ سے ملا تھا۔ الفتح
17 [٢٢] جہاد فرض عین نہیں :۔ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ منافق تو محض حیلے بہانے کرتے ہیں۔ اصل معذور لوگ جنہیں جہاد سے رخصت ہے وہ ہیں جو جسمانی طور پر تندرست نہ ہوں۔ مثلاً اندھے، لنگڑے، اپاہج، بیمار، نابالغ، بچے اور ضعیف و ناتواں بوڑھے بزرگ مجنون اور فاتر العقل قسم کے لوگ۔ علاوہ ازیں کچھ اور عذر بھی شریعت کی نگاہ میں مقبول ہیں۔ مثلاً غلام یا ایسا تندرست جو تنگدستی کی وجہ سے سامان جنگ بھی مہیا نہ کرسکتا ہو۔ یا مثلاً ایسا شخص جس کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بوڑھا ہو اور وہ اپنے بیٹے کی خدمت کا محتاج ہو۔ واضح رہے کہ اگر والدین مسلمان ہوں تو کوئی شخص ان کی اجازت کے بغیر جہاد میں شامل نہیں ہوسکتا۔ لیکن اگر والدین کافر ہوں تو پھر ان سے اجازت کی ضرورت نہیں۔ [٢٣] اگرچہ یہ آیت اور اس کا حکم اللہ اور اس کے رسول کے سب فرمانبرداروں کو شامل ہے۔ تاہم ربط مضمون کے لحاظ سے یہ مطلب بھی لیا جاسکتا ہے کہ معذور لوگ بھی اگر ہمت کرکے کسی طرح جہاد میں شرکت کرسکیں تو ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے۔ اور جو شخص امام وقت کے اعلان شمولیت اور کسی شرعی عذر کے نہ ہونے کے باوجود جہاد میں حصہ نہیں لیتا اسے اللہ تعالیٰ سخت سزا دے گا۔ الفتح
18 [٢٤] صحابہ کرام پر طعن کرنے والے؟ اس آیت کا آغاز ﴿ لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ﴾ سے ہوا ہے۔ اسی وجہ سے اس بیعت کا نام بیعت رضوان پڑگیا یعنی ایسی مخلصانہ اور سرفروشانہ بیعت جس پر اللہ نے ان لوگوں کو اپنی خوشنودی کا سرٹیفیکیٹ دے دیا۔ اور بعض احادیث میں صراحت سے یہ مذکور ہے کہ اس بیعت میں حصہ لینے والے سب جنتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بعض لوگ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایمان میں بھی شک کرتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ بلاشبہ یہ لوگ بیعت رضوان کے وقت تو اسلام کے وفادار اور اس کے لئے مخلص تھے مگر بعد میں بے وفاثابت ہوئے۔ گویا ان لوگوں نے پہلا الزام تو ان عظیم المرتبت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر لگایا تھا۔ دوسرا اللہ تعالیٰ پر لگایا جسے اپنی رضامندی کا سرٹیفکیٹ دیتے وقت اتنا بھی پتا نہ چل سکا کہ جن لوگوں کو میں یہ سند دے رہا ہوں وہ تو بعد میں بے وفا نکلیں گے۔ گویا یہ نظریہ ممتاز صحابہ کرام کی توہین ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب پر بھی زبردست چوٹ ہے۔ ایسے لوگوں کو اپنے ایمان کی خیرمنانا چاہئے۔ درخت جس کے نیچے بیعت کی گئی تھی :۔ جس درخت کے نیچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت لی تھی اس کے متعلق دو طرح کی روایات ملتی ہیں۔ طبری کی روایت کے مطابق مسلمان اس درخت کی زیارت کو جانے لگے۔ وہ وہاں جاکر نمازیں اور نوافل وغیرہ ادا کرتے تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے اسے اپنے دور خلافت میں کٹوا دیا۔ اس کے مقابلہ میں صحیح اور معتبر روایات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اگلے ہی سال خود بیعت رضوان میں شامل ہونے والے بعض صحابہ وہاں گئے تو وہ خود بھی اس درخت کو پہچان نہ سکے جس کے نیچے بیعت لی گئی تھی۔ اس سلسلہ میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حدیبیہ کے دن ہم ایک ہزار چار سو آدمی تھے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) طارق بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں حج کی نیت سے روانہ ہوا۔ راستے میں کچھ لوگوں کو نماز ادا کرتے دیکھا تو پوچھا کہ’’یہ مسجد کیسی ہے؟‘‘ کہنے لگے : یہاں وہ درخت تھا جس کے نیچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے بیعت رضوان لی تھی۔ یہ سن کر میں سعید بن مسیب کے پاس آیا۔ تو انہوں نے کہا کہ میرے والد (مسیب بن حزم) ان لوگوں سے تھے جنہوں نے درخت کے تلے بیعت کی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ ’’جب میں دوسرے سال وہاں گیا تو اس درخت کو پہچان نہ سکا‘‘ سعید کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب تو اس درخت کو پہچان نہ سکے۔ اور تم لوگ ان سے زیادہ علم رکھتے ہو۔ (کہ اسے پہچان کر وہاں مسجد بنا ڈالی) (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوۃ الحدیبیۃ) [٢٥] اس دن جنگ کو روکنا اللہ کا احسان تھا :۔ یعنی بیعت کرنے والوں کی نسبت یہ معلوم ہوگیا کہ ان میں اسلام کی خاطر کس قدر جان نثاری اور سرفروشی کا جذبہ موجود ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو اس بات پر جما دیا کہ نتائج خواہ کیسے برآمد ہوں ہمیں ضرور جنگ لڑنا چاہئے۔ بظاہر جو نتیجہ نظر آرہا تھا وہ تو یہی تھا ایک طرف صرف چودہ سو نہتے اور پردیسی مسلمان تھے۔ دوسری طرف ان کا طاقتور جانی دشمن تھا جو سازوسامان کے لحاظ سے، تعداد کے لحاظ سے، رسد کے لحاظ سے غرضیکہ ہر لحاظ سے ان سے بڑھ کر تھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ اپنے گھر پر تھا اور اس کے حریف اس مسلمان کے گھر آگئے تھے۔ اس صورت حال میں اللہ کا مسلمانوں کے دلوں کو جنگ پر جما دینا اور اسے اطمینان مہیا کردینا واقعی اللہ کی بہت بڑی نعمت تھی۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جنگ کی طرف اس قدر پیش رفت کے بعد اللہ نے کافروں سے بہرحال صلح کرلینے کی خاطر ان کے جذبات کو ٹھنڈا کرکے انہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پر مطمئن کردیا۔ [٢٦] قریبی فتح سے مراد فتح خیبر ہے جو صلح نامہ حدیبیہ کے صرف تین ماہ بعد وقوع پذیر ہوئی تھی۔ الفتح
19 [٢٧] یعنی حدیبیہ کے مقام پر جنگ نہ ہونے میں اور بہرحال صلح ہوجانے میں اللہ کی بے شمار حکمتیں تھیں لہٰذا اس نے وہی کام ہونے دیا جو اسے منظور تھا۔ رہا بیعت کرنے والوں کی جانثاری کا صلہ تو وہ غنائم خیبر کی صورت میں انہیں مل جائے گا۔ اور اللہ کے ہاں ان کے لئے جو صلہ ہے وہ تو بہت زیادہ ہے۔ الفتح
20 [٢٨] اس سے مراد فتح مکہ، حنین کے اموال غنائم ہیں۔ بلکہ صلح حدیبیہ کے بعد وہ کثیر مقدار میں اموال غنیمت بھی جو پے در پے فتوحات کے نتیجہ میں مسلمانوں کو حاصل ہوتے رہے۔ [٢٩] حدیبیہ کے مقام پرجنگ نہ ہونے کی حکمتیں :۔ اللہ تعالیٰ یہ بات بطور احسان مسلمانوں سے فرما رہے ہیں اور اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ تمہاری پوزیشن اتنی مضبوط نہ تھی کہ کفر کے سب سے بڑے مرکز میں تم دشمن کی تاب لاسکتے۔ لہٰذا اللہ نے جنگ کی صورت پیدا ہی نہ ہونے دی۔ اور یہ بھی ایک طرح سے اللہ کی مدد تھی۔ دوسرے یہ کہ تم مدینہ کا مرکز چھوڑ کر بہت دور نکل آئے تھے۔ جنگ کی صورت میں یہ بھی ممکن تھا کہ تمہارے دوسرے دشمن تمہاری غیر حاضری میں مدینہ پر چڑھ آتے۔ اللہ نے انہیں بھی تم سے روک دیا۔ [٣٠] یہاں آیت سے مراد معجزہ ہے۔ یعنی صلح حدیبیہ جسے بظاہر مسلمان اپنی شکست اور توہین سمجھ رہے تھے وہ درحقیقت ان کی معجزانہ فتح تھی جس کی کفار تو درکنار، مسلمانوں کو بھی سمجھ نہیں آرہی تھی۔ جوں جوں اس کے نتائج سامنے آتے گئے مسلمانوں کو یقین ہوتا چلا گیا کہ دراصل یہ صلح اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھی۔ [٣١] یہ سیدھی راہ ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہے۔ اگر وہ کٹ مرنے کو کہیں تو اس کے لئے تیار ہوجاؤ اور اگر وہ اپنے جذبات کو ٹھنڈا کرنے اور دب جانے کو کہیں تو اس وقت دب جاؤ۔ جوش و خروش کا مظاہرہ نہ کرو۔ یہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتا ہے کہ اسلام کی سربلندی کے لئے فلاں وقت کون سا اقدام بہتر ہے۔ الفتح
21 [٣٢] صلح حدیبیہ کیسے فتح مکہ کا پیش خیمہ بنی؟ اس سے مراد فتح مکہ ہے۔ جس کا پیش خیمہ یہ صلح حدیبیہ ہی بن گئی تھی۔ اور اللہ کو ٹھیک معلوم تھا کہ یہ صلح کس طرح فتح مکہ کا پیش خیمہ بننے والی ہے۔ صلح نامہ کی دوسری شرط کی رو سے بنو خزاعہ مسلمانوں کے اور بنو بکر قریش کے حلیف بن گئے تھے۔ صلح کے ڈیڑھ سال بعد بنوخزاعہ اور بنوبکر کی آپس میں لڑائی ہوگئی جس میں قریش نے کھلم کھلا بنوبکر کی مدد کی اور جب بنوخزاعہ نے حرم میں پناہ لی تو انہیں وہاں بھی نہ چھوڑا۔ بعد ازاں بنو خزاعہ کے چالیس شتر سوار فریاد کے لئے مدینہ پہنچے۔ آپ کو قریش کی اس بدعہدی پر سخت صدمہ ہوا۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے لئے تین شرطیں پیش کیں کہ ان میں سے کوئی ایک تسلیم کرلی جائے۔ (١) بنوخزاعہ کے مقتولین کا خون بہا دیا جائے۔ (٢) قریش بنوبکر کی حمایت سے دستبردار ہوجائیں۔ (٣) اعلان کیا جائے کہ حدیبیہ کا معاہدہ ختم ہوگیا۔ قاصد نے جب یہ شرائط قریش کے سامنے پیش کیں تو ان کا نوجوان طبقہ بھڑک اٹھا۔ ان میں سے ایک شخص فرط بن عمر نے قریش کی طرف سے اعلان کردیا کہ صرف تیسری شرط منظور ہے۔ قاصد واپس چلا گیا تو ان لوگوں کا جوش ٹھنڈا ہو کر ہوش و حواس درست ہوئے اور انہیں سخت فکر دامن گیر ہوئی۔ چنانچہ ابو سفیان کو تجدید معاہدہ کے لئے بھیجا گیا۔ اس نے مدینہ پہنچ کر رسول اللہ سے تجدید معاہدہ کی درخواست کی۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہ دیا۔ پھر اس نے علی الترتیب سیدنا ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ حتیٰ کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا تک سے سفارش کی درخواست کی۔ لیکن جب سب نے جواب دے دیا تو اس نے خود ہی مسجد نبوی میں کھڑے ہو کر یکطرفہ اعلان کردیا کہ میں نے معاہدہ حدیبیہ کی تجدید کردی۔ قریش کی یہ بدعہدی، پھر اس کے بعد صرف تیسری شرط منظور کرنے کا جواب دراصل اعلان جنگ کے مترادف تھا۔ چنانچہ آپ نے فتح مکہ کی مہم کا آغاز کردیا اور جب ابو سفیان وہاں پہنچا تو اس وقت تجدید معاہدہ کا وقت گزر چکا تھا۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے کسی قسم کا جواب دینے کی پوزیشن میں نہ تھے۔ الفتح
22 [٣٣] یعنی اگر کافر میدان حدیبیہ میں مسلمانوں سے بھڑ جاتے تو بھی اللہ اس بات پر قادر تھا کہ کافروں کو مار بھگاتا اور مسلمانوں کو فتح عطا کردیتا۔ مگر جنگ ہونے کے بجائے صلح ہوجانے میں دوسری کئی مصلحتیں کار فرماتھیں۔ جن کی وجہ سے اللہ نے جنگ نہ ہونے دی۔ الفتح
23 الفتح
24 [٣٤] صلح حدیبیہ کی مزید تفصیلات کے لئے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صبح کی نماز کے قریب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ تنعیم کے پہاڑ سے اترے۔ کافر لوگ یہ چاہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مار ڈالیں مگر سب کے سب پکڑے گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو آزاد کردیا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) ٢۔ حدیبیہ کے مقام پر آپ کا معجزہ اور پانی کی مشکل کا حل :۔ مسور بن مخرمہ اور مروان دونوں روایت کرتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ مکہ سے نکلے۔ ابھی راہ میں ہی تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’خالد بن ولید دو سو سواروں کا ہر اول دستہ لئے غمیم تک آچکا ہے۔ لہٰذا تم داہنی طرف کا رستہ لو‘‘ خالد کو مسلمانوں کی آمد کی اس وقت خبر ہوئی جب اس نے سواروں کی گرد اڑتی دیکھی تو وہ قریش کو ڈرانے کے لئے دوڑا۔ جب آپ اس گھاٹی پر پہنچے جہاں سے مکہ کو اترتے ہیں تو آپ کی اونٹنی قصواء اَڑ گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قصواء کو اسی اللہ نے روکا ہے جس نے اصحاب الفیل کو روکا تھا۔ اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر اہل مکہ مجھ سے کوئی ایسی بات چاہیں جس میں اللہ کے حرم کی تعظیم ہو تو میں اسے مان لوں گا۔ چنانچہ آپ وہاں سے مڑ کر گئے اور حدیبیہ کے پرلے کنارے پر ڈیرے ڈال دیئے۔ وہاں ایک گڑھا تھا جس میں پانی بہت کم تھا۔ لوگوں نے آپ سے پیاس کا شکوہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ترکش سے ایک تیر نکال کر صحابہ سے کہا کہ اسے گڑھے میں گاڑ دو تیر گاڑتے ہی پانی جوش مارنے لگا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہاں سے واپسی تک کسی کو پانی کی کمی کی شکایت نہیں ہوئی۔ صلح کی تفصیل :۔ اس دوران بدیل بن ورقاء خزاعی اپنے کئی آدمیوں سمیت وہاں پہنچا۔ وہ تہامہ والوں میں سے آپ کا خیرخواہ اور محرم راز تھا۔ وہ کہنے لگا کہ ’’کعب بن لوئی اور عامربن لوئی نے حدیبیہ پہنچ کر زیادہ پانی والے چشموں پر ڈیرہ ڈال دیا ہے اور وہ آپ سے لڑنا اور آپ کو مکہ جانے سے روکنا چاہتے ہیں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ہم لڑنے نہیں آئے صرف عمرہ کی نیت سے آئے ہیں۔ قریش بھی لڑتے لڑتے تھک چکے ہیں۔ اگر وہ چاہیں تو میں ایک مقررہ مدت تک ان سے صلح کرنے کو تیار ہوں بشرطیکہ وہ دوسروں کے معاملہ میں دخل نہ دیں۔ اگر دوسرے لوگ مجھ پر غالب آجائیں تو ان کی مراد برآئی۔ اور اگر میں غالب ہوا پھر اگر وہ چاہیں تو اسلام لے آئیں ورنہ اللہ کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں ان سے دین کے معاملہ میں لڑوں گا۔ یہاں تک میری جان چلی جائے اور اللہ ضرور اپنے دین کو پورا کرکے رہے گا‘‘ بدیل نے کہا :’’ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پیغام قریش کو پہنچا دیتا ہوں‘‘ بدیل بن ورقاء کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچانا اور اس کا جواب :۔ چنانچہ بدیل قریش کے پاس آئے اور کہنے لگے :’’محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )نے ایک بات کہی ہے‘‘ اتنی بات کہنے پر ہی کچھ جلد باز بے وقوف کہنے لگے۔ ہمیں کوئی بات سننے کی ضرورت نہیں۔ مگر جو عقل والے تھے وہ کہنے لگے کہ بتاؤ تو سہی وہ کیا کہتے ہیں۔ چنانچہ بدیل نے وہ سب کچھ بیان کردیا جو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا۔ قریش کے پہلے سفیر عروہ بن مسعود کی رپورٹ :۔ یہ سن کر عروہ بن مسعود ثقفی قریش سے کہنے لگے۔ اگر مجھ پر اعتماد کرتے ہو تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانے دو۔ قریش نے کہا۔ اچھا جاؤ۔ عروہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی وہی بات کہی جو بدیل کو کہی تھی۔ عروہ کہنے لگا :’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم اگر تم نے اپنی قوم کو تباہ کردیا تو یہ اچھی بات نہ ہوگی اور قریش غالب آگئے تو تمہارے یہ ساتھی تمہیں چھوڑ کر چلتے بنیں گے‘‘ اس بات پر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ غصہ میں آگئے اور عروہ کو کہا : ’’جا جاکر لات کی شرمگاہ چوس۔ کیا ہم آپ کو چھوڑ جائیں گے؟‘‘ عروہ نے پوچھا : یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا :’’ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ‘‘ عروہ نے کہا ’’اگر تمہارا مجھ پر احسان نہ ہوتا تو میں تمہیں اس کا جواب دیتا‘‘ پھر عروہ باتیں کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی تھام لیتا اور مغیرہ بن شعبہ تلوار کے دستے سے اس کا ہاتھ پیچھے ہٹا دیتے۔ پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو بغور ملاحظہ کرنے لگا۔ پھر اپنے ساتھیوں کے پاس جاکر کہنے لگا : ’’میں بادشاہوں کے پاس کئی بار جا چکا ہوں۔ روم، ایران اور حبش کے بادشاہوں کے ہاں گیا۔ اللہ کی قسم! میں نے نہیں دیکھا کہ کسی بادشاہ کے لوگ اس کی ایسی تعظیم کرتے ہوں جیسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم ان کے اصحاب کرتے ہیں۔ اگر انہوں نے تھوکا تو کوئی اپنے ہاتھ میں لیتا اور اپنے منہ اور بدن پر مل لیتا ہے۔ وہ کوئی حکم دیتا ہے تو لپک کر اس کا حکم بجا لاتے ہیں۔ وہ وضو کریں تو وضو کا پانی حاصل کرنے کے لئے قریب ہوتے تھے کہ لڑ مریں گے وہ بات کریں تو اپنی آواز پست کرلیتے ہیں اور از راہ ادب انہیں نظر بھر کر دیکھتے بھی نہیں۔ لہٰذا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات کی ہے وہ تمہارے فائدے کی ہے۔ اس کو مان لو‘‘ دوسرے سفیر کی رپورٹ :۔ اب بنی کنانہ کا ایک شخص بولا ’’مجھے ان کے پاس جانے دو‘‘ لوگوں نے کہا : ’’اچھا جاؤ‘‘ جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اب جو شخص آرہا ہے۔ یہ بیت اللہ کی قربانی کی عظمت کرنے والوں سے ہے۔ لہٰذا قربانی کے جانور اس کے آگے کردو‘‘ چنانچہ وہ جانور اس کے سامنے لائے گئے اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے لبیک پکارتے ہوئے اس کا استقبال کیا۔ یہ صورت حال دیکھ کر وہ کہہ اٹھا ’’سبحان اللہ ایسے لوگوں کو کعبے سے روکنا مناسب نہیں‘‘ وہ واپس چلا گیا اور جاکر کہا :’’ میں نے اونٹوں کے گلے میں ہار اور ان کے کوہان چرے خود دیکھے ہیں۔ میں تو انہیں بیت اللہ سے روکنا درست نہیں سمجھتا‘‘ تیسرا سفیر سہیل بن عمرو' اس کے اعتراضات اور صلح کی شرائط :۔ اس کے بعد قریش کی طرف سے سہیل بن عمرو (سفیر بن کر) آیا۔ اسے دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اب تمہارا کام سہل ہوگیا‘‘ سہیل کہنے لگا : اچھا لائیے، ہمارے اور تمہارے درمیان ایک صلح نامہ لکھا جائے۔ آپ نے منشی (سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور فرمایا : ’’لکھو بسم اللہ الرحمن الرحیم سہیل کہنے لگا : عرب کے دستور کے موافق '' باسمک اللّٰھم'' لکھوائیے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کاتب سے فرمایا : اچھا ''باسمک اللّٰھم'' ہی لکھ دو۔ پھر آپ نے لکھوایا: ''محمد اللہ کے رسول۔۔'' اس پر سہیل نے فوراً اعتراض کردیا اور کہا ’’محمد بن عبداللہ لکھوایا جائے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اچھا محمد بن عبداللہ ہی لکھ دو۔ اور لکھو محمد بن عبداللہ نے اس شرط پر صلح کی کہ تم لوگ انہیں بیت اللہ جانے دو گے ہم وہاں طواف کریں گے‘‘ سہیل نے کہا۔’’اگر ہم ابھی تمہیں جانے دیں تو سارے عرب میں چرچا ہوجائے گا کہ ہم دب گئے۔ لہٰذا تم آئندہ سال آؤ۔ (دوسری شرط) سہیل نے یہ لکھوائی۔ اگر ہم میں سے کوئی شخص خواہ وہ مسلمان ہوگیا ہو تمہارے پاس (مدینہ) چلا جائے تو تم اس کو ہمارے پاس لوٹادو گے‘‘ صحابہ کہنے لگے :’’سبحان اللہ! یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ کہ وہ مسلمان ہو کر آئے اور اسے مشرکوں کے حوالے کردیا جائے؟‘‘ ابو جندل کا قصہ :۔ یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ اتنے میں سہیل بن عمرو کا اپنا بیٹا ابو جندل (جو مسلمان ہوچکا تھا) پابہ زنجیر مکہ سے فرار ہو کر مسلمانوں کے پاس جاپہنچا۔ سہیل کہنے لگا : محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ پہلا شخص ہے جو شرط کے موافق واپس کرنا چاہئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابھی تو صلح نامہ پورا لکھا بھی نہیں گیا’’سہیل کہنے لگا : اچھا تو پھر میں صلح ہی نہیں کرتا‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اچھا خاص ابو جندل کی پروانگی دے دو‘‘ سہیل کہنے لگا : ’’میں کبھی نہ دوں گا‘‘ آخر ابو جندل کہنے لگے : ’’میں مسلمان ہو کر آیا ہوں اور کافروں کے حوالہ کیا جارہا ہوں۔ دیکھو مجھ پر کیا کیا سختیاں ہوئی ہیں‘‘ سیدنا عمر کی دینی غیرت :۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ صورت حال دیکھ کر میں آپ کے کے پاس آیا اور کہا آپ اللہ کے سچے پیغمبر ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،’’کیوں نہیں‘‘ میں نے کہا، ’’کیا ہم حق پر اور دشمن ناحق پر نہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’کیوں نہیں‘‘ میں نے کہا :’’تو پھر ہم اپنے دین کو ذلیل کیوں کریں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’میں اللہ کا رسول اور اس کی نافرمانی نہیں کرتا وہ میری مدد کرے گا‘‘ میں نے کہا : ’’آپ نے تو کہا تھا کہ ہم کعبہ کے پاس پہنچ کر طواف کریں گے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’مگر میں نے یہ کب کہا تھا کہ یہ اسی سال ہوگا‘‘ اس کے بعد میں نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس جاکر وہی سوال کئے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کئے تھے اور انہوں نے بھی بالکل وہی جواب دیئے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیئے تھے۔ اس موقعہ پر مجھ سے جو بے ادبی کی گفتگو ہوئی اس گناہ کو دور کرنے کے لئے میں نے کئی نیک عمل کئے۔ صحابہ پر مایوسی کا عالم اور قربانی کرنے سے گریز جب صلح نامہ پورا ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا : ’’اٹھو اور اونٹوں کو نحر کرو اور سر منڈاؤ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمات تین بار کہے مگر صحابہ (اتنے افسردہ دل تھے کہ کسی نے اس پر عمل نہ کیا) یہ صورت حال دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاکر ساری صورت حال بیان کی تو انہوں نے کہا :’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کسی سے کچھ نہ کہئے۔ بلکہ اپنے اونٹ نحر کیجئے اور حجامت بنوالیجئے‘‘ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر سب صحابہ نے بھی اپنے اونٹ نحر کئے اور ایک دوسرے کے سر مونڈنے لگے۔ ابو بصیر اور ابو جندل کا قصہ آپ واپس مدینہ پہنچ گئے تو مکہ سے ایک شخص ابو بصیر مسلمان ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگیا۔ قریش نے اسے واپس لانے کے لئے دو آدمی مدینہ بھیجے اور کہا کہ ’’معاہدہ کی رو سے ابو بصیر کو واپس کیجئے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بصیر کو ان کے حوالے کردیا۔ ابو بصیر نے راستہ میں ایک شخص کو تو قتل کردیا اور دوسرا بھاگ نکلا اور بھاگ کر مدینہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا اور کہنے لگا : ’’اللہ کی قسم! میرا ساتھی مارا گیا اور میں بھی نہ بچوں گا‘‘ اتنے میں ابو بصیر بھی وہاں پہنچ گئے اور کہا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا عہد پورا کرتے ہوئے مجھے واپس کردیا تھا۔ اب اللہ نے مجھے اس سے نجات دلائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تیری ماں کی خرابی ہو اگر کوئی تیرا ساتھ دے تو تو لڑائی کو بھڑکانا چاہتا ہے‘‘ یہ سن کر ابو بصیر سمجھ گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر اسے لوٹا دیں گے چنانچہ وہ سیدھا نکل کر سمندر کے کنارے پہنچا اور ابو جندل بن سہیل بھی مکہ سے بھاگ کر ابو بصیر کے ساتھ آملا۔ اب قریش کا جو آدمی مسلمان ہو کر مکہ سے نکلتا وہ ابو بصیر کے پاس چلا جاتا یہاں تک ان کی ایک جماعت بن گئی اور قریش کا جو قافلہ شام کو جاتا اسے روک لیتے اور لوٹ مار کرتے۔ آخر قریش نے تنگ آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ اور رشتہ ناطہ کی قسمیں دے کر کہلا بھیجا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابو بصیر کو اپنے ہاں بلالیں اور آئندہ جو مسلمان آپ کے پاس آئے وہ ہمیں واپس نہ کریں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بصیر کو اپنے پاس بلالیا۔ (بخاری۔ کتاب الشروط۔ باب الشروط فی الجہاد والمصالحۃ۔۔) الفتح
25 [٣٥] یہ کل ستر اونٹ تھے جو صحابہ اپنے ہمراہ لائے تھے۔ جب قریشی اس بات پر اڑ گئے کہ کسی قیمت پر مسلمانوں کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیں گے تو معاہدہ صلح کے بعد انہیں وہیں حدیبیہ کے مقام پر ذبح کردیا گیا۔ [٣٦] حدیبیہ میں جنگ نہ لڑنے کا ایک بہت اہم پہلو :۔ مکہ میں کچھ ایسے مسلمان موجود تھے جو قریش مکہ کے مظالم کی وجہ سے اپنا اسلام چھپائے رکھتے تھے۔ اور ان کے پاس ایسے ذرائع بھی موجود نہ تھے کہ وہ ہجرت کرکے مدینہ چلے جاتے۔ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی نظروں میں بھی فی الواقع معذور تھے۔ چنانچہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں اور میری ماں ایسے ہی لوگوں میں سے تھے۔ جنگ کی صورت میں ایسے معذور مسلمانوں کو بھی مجبوراً کافروں کی صفوں میں شامل ہونا پڑتا اور حملہ کی صورت میں انہیں یقیناً نقصان پہنچ سکتا تھا جس کی تمہیں خبر تک نہ ہوتی۔ پھر خبر لگ جانے پر تمہیں الگ افسوس ہوتا کہ کافر الگ انہیں طعنے دینے لگتے کہ تمہارے مسلمان بھائیوں نے تمہارا بھی خیال تک نہ کیا۔ [٣٧] صلح حدیبیہ کا اہل عرب پر تاثر :۔ جنگ روکنے اور بہرحال صلح کرنے کا دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ قبائل عرب میں یہ تاثر عام پھیل گیا کہ مسلمان ایک امن پسند قوم ہیں۔ اسی بات سے متاثر ہو کو صلح حدیبیہ کے بعد بے شمار لوگ علی وجہ البصیرت اسلام کو حق سمجھ کر اسلام لے آئے۔ ان میں دو نامور شخصیتیں بالخصوص قابل ذکر ہیں۔ ایک سیدنا خالد رضی اللہ عنہ بن ولید سیف اللہ اور دوسرے سیدنا عمرو بن عاص جنہوں نے بعد میں مصر کو فتح کیا۔ [٣٨] البتہ اگر مکہ میں معذور مسلمان موجود نہ ہوتے یا انہیں الگ کرلینے کی کوئی صورت نکل آتی تو پھر یقیناً صلح کے بجائے جنگ ہی بہتر تھی۔ اس صورت میں ہم کافروں کو تمہارے ہاتھوں بری طرح پٹوا دیتے۔ الفتح
26 [٣٩] قریش کی جاہلانہ حمیت :۔ قریش کی اس عصبیت کے بھی دو پہلو تھے ایک یہ کہ جن مسلمانوں نے جنگ بدر میں ہمارے عزیز و اقارب کو مار ڈالا ہے، ہم انہیں مکہ میں اپنے ہاں داخل ہونے کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں اور دوسرا پہلو یہ تھا کہ اگر ہم نے مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہوجانے دیا تو عرب بھر میں یہ بات مشہور ہوجائے گی کہ قریش مکہ مسلمانوں سے دب گئے ہیں۔ یہ تھی جاہلی حمیّت جس کی پچ میں انہوں نے ایک ایسے دستور کی خلاف ورزی کر ڈالی جو ان میں معروف تھا اور وہ یہ تھا کہ کسی بھی حج، عمرہ اور طواف کرنے والے کو ان کاموں سے روکا نہیں جاسکتا۔ علاوہ ازیں وہ حرمت والے مہینہ میں بھی لڑائی کرنے پر آمادہ تھے۔ [٤٠] وہ تقویٰ کی بات یہ تھی کہ مسلمان تنگی ترشی، جوش، غضب، غرضیکہ ہر طرح کے حالات میں اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا پابند بنائے رکھیں گے۔ یہ اللہ کی خاص مہربانی تھی کہ اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشتعل جذبات کو سکون بخش کر انہیں صلح کے سمجھوتہ پر مائل کردیا۔ الفتح
27 [٤١] عمرہ کے خواب کی حقیقت :۔ کافر یا منافقین تو درکنار خود بعض مسلمانوں کو بھی اس بات میں تردد تھا کہ نبی کا خواب تو وحی ہوتا ہے۔ پھر یہ کیا معاملہ ہے کہ ہمیں عمرہ سے روک دیا گیا ہے۔ اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس شرط کو منظور فرما رہے ہیں۔ اس کا ایک جواب تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمررضی اللہ عنہ کو دے دیا تھا کہ : ’’میں نے یہ کب کہا تھا کہ یہ عمرہ اسی سال ہوگا‘‘ (یعنی خواب میں وقت کی تعیین نہیں کی گئی تھی) اور دوسرا جواب خود اللہ تعالیٰ نے دے دیا کہ پیغمبر کا خواب فی الواقع سچا تھا اور ہم نے ہی دکھایا تھا وہ ضرور پورا ہوگا۔ تم یقیناً امن و امان کے ساتھ حرم میں داخل ہو کر عمرہ ادا کرو گے۔ تم سر منڈاؤ گے اور بال کتراؤ گے۔ یہاں پہلے سر منڈانے کا ذکر فرمایا جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سر منڈانا، بال کتروانے سے افضل ہے۔ چنانچہ صلح حدیبیہ سے اگلے سال مسلمانوں نے عمرہ قضا ادا کیا اور یہ سب باتیں پوری ہوئیں۔ ایفائے عہد کی مثال :۔ از روئے معاہدہ حدیبیہ طے یہ ہوا تھا کہ مسلمان اگلے سال عمرہ کے لئے آئیں اور تین دن کے اندر اندر عمرہ کرکے واپس اپنے وطن چلے جائیں۔ اور جب مسلمان آگئے تو قریش مکہ یہ برداشت نہ کرسکے کہ مسلمان ان کی نظروں کے سامنے بلاتکلف کعبہ میں داخل ہو کر عمرہ کے ارکان آزادی سے بجا لاسکیں۔ لہٰذا انہوں نے صرف حرم کعبہ کو خالی کرنے کے بجائے اس شہر کو ہی خالی کردیا اور خود آس پاس پہاڑیوں پر تین دن کے لئے جامقیم ہوئے۔ اس دوران اگر مسلمان چاہتے تو بڑی آسانی سے مکہ پر قبضہ کرسکتے تھے۔ مگر مسلمان ایفائے عہد میں اس قسم کی موقع شناسی کو بدترین جرم تصور کرتے تھے۔ لہٰذا کسی کو بھی ایسا خیال تک نہ آیا اور تین دن کی طے شدہ مدت کے بعد مسلمان عمرہ کرکے واپس چلے گئے۔ عمرہ قضا کو کس لحاظ سے عمرہ قضا کہا جاتا ہے؟ :۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حدیبیہ میں چونکہ مسلمانوں کو عمرہ کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ لہٰذا اس عمرہ کی قضا لازم تھی۔ جو انہوں نے اگلے سال ادا کی۔ اور مغالطہ غالباً لفظ قضا سے ہوا۔ حالانکہ یہاں قضا اپنے لغوی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی وہ عمرہ جس کے متعلق معاہدہ حدیبیہ میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ مسلمان اس سال نہیں بلکہ اگلے سال آکر کریں گے جس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگلے سال کوئی ایسا اعلان نہیں فرمایا کہ جو لوگ پچھلے سال عمرہ سے روک دیئے گئے تھے وہ عمرہ کے لئے تیار ہوجائیں اور مسلمان بھی جو حدیبیہ میں حاضر ہوئے تھے اس معاملہ میں آزاد تھے۔ جو آسکتے تھے وہ آگئے اور جو نہ آسکے وہ نہیں آئے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث میں بھی اس کی وضاحت موجود ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ قضا اس پر لازم ہے جو عورت سے صحبت کرکے حج توڑے، اور جسے کوئی عذر لاحق ہوجائے، دشمن روک دے یا اور کچھ بیماری وغیرہ کا عذر ہو تو وہ اپنا احرام کھول دے اور قضا نہ دے۔ اور اگر اس کے ساتھ قربانی ہو اور اسے حرم میں نہ بھیج سکے تو وہیں ذبح کردے اور اگر حرم تک بھیج سکتا ہے تو جب تک قربانی وہاں نہ پہنچ جائے، وہ احرام نہیں کھول سکتا اور امام مالک وغیرہ نے کہا کہ جب وہ رک جائے تو جہاں کہیں چاہے وہیں قربانی ذبح کر دے اور سر منڈا لے اور اس پر قضا لازم نہیں۔ کیونکہ رسول اللہ اور آپ کے اصحاب نے حدیبیہ میں قربانیاں ذبح کیں اور سر منڈائے اس سے پہلے کہ وہ طواف کریں اور قربانی بیت اللہ کو پہنچے۔ پھر کسی روایت میں اس کا ذکر نہیں کہ آپ نے ان میں سے کسی کو قضا کا حکم دیا ہو یا دہرانے کو کہا ہو۔ اور حدیبیہ حرم کی حد سے باہر ہے۔ (بخاری۔ کتاب المناسک۔ ابو اب المحصر۔ باب من قال لیس علی المحصر بدل۔۔) [٤٢] یعنی یہ کہ یہ عمرہ اگلے سال ہوگا۔ اس سال نہیں ہوگا۔ [٤٣] یعنی یہ فتح خیبر تمہاری حدیبیہ کے مقام پر پیش آنے والی پریشانیوں پر صبر و برداشت اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے صلہ کے طور پر تمہیں دی جارہی ہے۔ الفتح
28 [٤٤] اس آیت کی تشریح کے لئے سورۃ توبہ کی آیت نمبر ٣٣ کا حاشیہ نمبر ٣٣ ملاحظہ فرمائیے۔ الفتح
29 [٤٥] تحریر صلح پر اعتراضات :۔ جب صلح نامہ حدیبیہ لکھا جارہا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں لکھوانا شروع کیا : ’’محمد اللہ کے رسول کی جانب سے‘‘ تو اس پر کفار کے سفیر سہیل بن عمرو نے یہ اعتراض جڑ دیا کہ یہی بات تو سارے تنازعہ کی بنیاد ہے۔ ہم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تسلیم کرلیں تو باقی جھگڑا ہی کیا رہ جاتا ہے؟ اس کے بجائے، محمد بن عبداللہ لکھو۔ اور آپ چونکہ ہر صورت صلح کرنا چاہتے تھے۔ اس لئے آپ نے محمد رسول اللہ کے بجائے محمد بن عبداللہ لکھنے کو کہا۔ اس آیت میں ان کافروں سے یہ کہا جارہا ہے کہ اللہ ہی نے آپ کو رسول بنا کر اور ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا ہے۔ اگر تم تسلیم نہیں کرتے تو نہ کرو۔ کسی وقت تمہیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا۔ کیونکہ اس رسول کی بعثت کا مقصد ہی یہ ہے کہ اسے تمام ادیان پر غالب کردے۔ اور یہ کام ہو کر رہے گا۔ لہٰذا اس کے اللہ کا رسول ہونے پر اللہ کی گواہی ہی کافی ہے۔ [٤٦] صحابہ کے خصائل' کافروں کے سامنے شان وشوکت کا مظاہرہ درست ہے :۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مسلمان کافروں سے تند مزاجی اور سخت کلامی سے پیش آتے ہیں۔ یا انہیں پیش آنا چاہئے۔ بلکہ یہ ہے کہ وہ کافروں سے کسی صورت دب کر نہیں رہتے، اصول دین کے معاملہ میں نہ وہ ان سے سمجھوتہ کرسکتے ہیں، نہ بک سکتے ہیں، نہ نرم رویہ اختیار کرتے ہیں نہ ان کی دھمکیوں اور سازشوں سے مرعوب ہوتے ہیں بلکہ اس کے بجائے خود انہیں مرعوب رکھتے ہیں اور دور نبوی میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ جنگ احد میں ابو دجانہ کا کردار :۔ جنگ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا : آج میری تلوار کا حق کون ادا کرے گا ؟ سیدنا ابو دجانہ جو پہلوان تھے آگے بڑھ کر کہنے لگے : ’’میں کروں گا‘‘ چنانچہ آپ نے انہیں اپنی تلوار دے دی۔ انہوں نے ایک سرخ پٹی اپنے سر پر باندھ رکھی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا کردہ تلوار لے کر بڑی شان اور فخر کے ساتھ کافروں کی طرف بڑھے اور بہت سے کافروں کو موت کے گھاٹ اتارتے جارہے تھے۔ انہیں دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’اللہ کو یہ چال ہرگز پسند نہیں، مگر آج ابو دجانہ کی یہ چال اللہ کو بہت پسند ہے‘‘ جب آپ خود چودہ سو صحابہ کے ہمراہ عمرہ قضا کے لئے آئے۔ تو صحابہ کو طواف میں رمل کا حکم دیا۔ کیونکہ کافروں میں یہ بات مشہور ہوچکی تھی کہ مدینہ کی آب و ہوا نے مسلمانوں کو کمزور بنا دیا ہے۔ اس لئے آپ نے طواف میں نوجوانوں کی طرح اکڑ کر آدھی دوڑ کی چال یعنی رمل کا حکم دیا۔ نیز آپ نے فتح مکہ کے موقعہ پر اپنی فوجی قوت اور شان و شوکت کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ جس سے کفار مکہ اس قدر مرعوب ہوئے کہ مقابلہ کی ہمت ہی نہ کرسکے۔ [٤٧] صحابہ کی دوسری صفت :۔ صحابہ کرام کی اللہ تعالیٰ نے دوسری صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ آپس میں رحم دل اور نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ ان کی آپس میں ہمدردی اور غمگساری، تواضع اور خاطر و مدارت سے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے وہ آپس میں حقیقی بھائی ہیں۔ بھلا جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے خود اپنی مہربانی سے آپس میں بھائی بنادیا ہو ان کی اخوت اور ایثار و مروت میں کیا شک ہوسکتا ہے؟ وہی قتل و غارت اور لوٹ مار کے رسیا لوگ جب اسلام لائے تو اسلام نے ان کی ایسی اخلاقی تربیت کی کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں جہاں گرم ہونے کی ضرورت ہوتی فوراً گرم ہوجاتے اور جہاں نرم ہونے کی ضرورت ہوتی نرم پڑجاتے تھے۔ ان کی باہمی محبت اور ایثار کے واقعات اتنے زیادہ ہیں کہ یہاں یہ بحث چھیڑنا ممکن نہیں۔ [٤٨] تیسری صفت شب بیداری اور عبادت گزاری :۔ اس سے مراد یہ گٹہ کا نشان نہیں جو بعض نمازیوں کی پیشانیوں پر پڑجاتا ہے۔ بلکہ یہ ہے کہ ان کے چہرے کو دیکھ کر ایک عام انسان بھی یہ سمجھ جاتا ہے کہ کس قدر اللہ سے ڈرنے والے کریم النفس اور راست باز انسان ہیں۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو عبداللہ بن سلام نے جو اس وقت یہود کے بہت بڑے عالم تھے، آپ کا چہرہ دیکھ کر یہ کہہ دیا تھا کہ ’’ایسا چہرہ کسی جھوٹے انسان کا نہیں ہوسکتا۔‘‘ غرضیکہ چہرہ دراصل انسان کا آئینہ ہوتا ہے اور تجربہ بھی یہی بتاتا ہے کہ اکثر عقل مند اور جہاں دیدہ لوگ کسی کا چہرہ دیکھ کر ہی یہ اندازہ لگا لیتے ہیں کہ فلاں آدمی کس قبیل کا آدمی ہوسکتا ہے۔ صحابہ کے چہروں کو دیکھ کر ہی یہ معلوم ہوجاتا تھا کہ یہ لوگ شب بیدار، عبادت گزار اور اللہ سے ڈرنے والے لوگ ہیں اور تورات اور انجیل میں رسول اللہ اور آپ کے ساتھیوں کی جو صفات مذکور ہیں، وہ بھی ایسی ہی ہیں۔ [٤٩] چوتھی صفت ناگوار حالات میں اسلام کے پودے کو پروان چڑھانے والی جماعت :۔ یعنی مسلمان پہلے صرف ایک تھا اور وہ تھی رسول اللہ کی ذات اقدس جو اپنی نبوت پر سب سے پہلے خود ایمان لائے۔ پھر ایک سے دو ہوئے، دو سے تین، تین سے سات۔ اسی طرح رفتہ رفتہ اسلام کا پودا زمین سے باہر نکل آیا۔ باہر نکل آنے کے بعد اس پر باد مخالف کی ہوائیں چلنا شروع ہوگئیں۔ جو آہستہ آہستہ مظالم کی تیز آندھیوں میں تبدیل ہوگئیں۔ مگر یہ پودا مخالف ہواؤں کے باوجود اپنی جگہ پر بر قرار رہا۔ پھلتا پھولتا اور بڑھتا رہا۔ مخالف ہوائیں جتنی تند و تیز ہوتیں اتنا ہی یہ پودا مضبوط جڑیں پکڑتا اور بلند ہوتا گیا حتیٰ کہ فتح مکہ کے دن یہ پودا ایک مضبوط اور تناور درخت کی شکل اختیار کر گیا۔ جوں جوں یہ پودا بڑھ رہا تھا۔ مخالف قوتیں اسے دیکھ کر جل بھن جاتی تھیں۔ مگر اس پودے کو لگانے والے، اس کی آبیاری اور نگہداشت کرنے والے اسے دیکھ کر اتنا ہی خوش ہوجاتے تھے اور پھولے نہ سماتے تھے اور جب یہ مضبوط درخت بن کر اپنی جڑوں پر استوار ہوگیا۔ اس وقت مخالف طاقتوں کو پوری طرح معلوم ہوگیا کہ اب وہ اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتیں۔ بلکہ اس کے سایہ تلے پناہ لینے کے بغیر اور کوئی چارہ باقی نہیں رہ گیا۔ اس درخت کی آبیاری اور نگہداشت کرنے والی صحابہ کرام کی وہ مقدس جماعت تھی جو نبی اخر الزمان پر ایمان لائے تھے پھر عمر بھر دل و جان سے اس کی اطاعت کرتے اور اس کے اشاروں پر چلتے رہے۔ ایسے لوگوں کا اللہ کے ہاں اجر بھی بہت زیادہ ہے جو ان کی چھوٹی چھوٹی لغزشوں کو معاف کرکے انہیں جنت کے بلند درجات عطا فرمائے گا۔ اس آیت سے بعض علماء نے یہ استنباط کیا ہے کہ صحابہ کرام (رض) سے جلنے والا اور ان کے متعلق بغض اور کینہ رکھنے والا شخص کبھی مسلمان نہیں ہوسکتا۔ الفتح
0 الحجرات
1 [١] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب واحترام :۔ یعنی اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو بلکہ ان کے پیچھے پیچھے چلو۔ اگر ابھی تک اللہ اور اس کے رسول نے کسی امر کا فیصلہ نہیں کیا تو اپنی رائے سے کوئی فیصلہ نہ کرو۔ اور اگر فیصلہ کردیا ہے تو اسی کی اطاعت کرو۔ اس کے علاوہ دوسری راہیں نہ سوچو۔ اجتہاد صرف اس وقت جائز ہے جب نص نہ ہو :۔ اس آیت سے علماء نے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ جب کسی بات کے متعلق کتاب و سنت میں کوئی حکم مل جائے تو اس کے بعد اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ اجتہاد صرف انہی امور میں ہوسکتا ہے کہ جب کتاب و سنت میں کوئی واضح حکم موجود نہ ہو۔ الحجرات
2 [٢] یعنی جب تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے ہو تو ان کا ادب و احترام ملحوظ رکھو۔ اس آیت کا شان نزول درج ذیل حدیث میں ملاحظہ فرمائیے : ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آوازیں بلند کرنے کی بنا پر دو نیک ترین آدمی تباہ ہونے کو تھے یعنی سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جبکہ بنی تمیم کا ایک وفد (٩ ھ میں) آپ کے پاس آیا (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ ان کا کوئی سردار مقرر فرما دیں) ان دونوں میں سے ایک نے اقرع بن حابس کی (سرداری) کا مشورہ دیا جو بنی مجاشع (بنو تمیم کی ایک شاخ) میں سے تھا اور دوسرے نے کسی دوسرے (قعقاع بن معبد) کے متعلق مشورہ دیا۔ نافع بن عمر کہتے ہیں کہ مجھے اس کا نام یاد نہیں رہا۔ اس پر سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے کہ: ’’آپ تو مجھ سے اختلاف ہی کرنا چاہتے ہیں‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’میں آپ سے اختلاف نہیں کرنا چاہتا‘‘ (بلکہ یہ مصلحت کا تقاضا ہے) اس معاملہ میں دونوں کی آوازیں بلند ہوگئیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر کہتے ہیں کہ جب سے یہ آیت نازل ہوئی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اتنی آہستہ بات کرتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے پوچھنے کی ضرورت پیش آتی۔ لیکن انہوں نے یہ بات اپنے نانا (سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے متعلق نقل نہیں کی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) یہ ادب اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کے لئے سکھلایا گیا اور اس کے مخاطب صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین یا وہ لوگ تھے جو آپ کے زمانہ میں موجود تھے اور یہ ادب اس لئے سکھایا گیا تھا کہ لوگ آپ کو ایک عام اور معمولی آدمی نہ سمجھیں بلکہ وہ یہ سمجھیں کہ وہ اللہ کے رسول کی مجلس میں بیٹھے ہیں۔ تاہم اس حکم کا اطلاق ایسے مواقع پر بھی ہوتا ہے۔ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہو رہا ہو، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی حکم سنایا جائے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بیان کی جائیں۔ [٣] آواز مقابلتاً پست ہونی چاہئے :۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر نبی سے بات کرنا ہو تو بھی نبی کی آواز سے تمہاری آواز بلند نہ ہونا چاہئے۔ نیز مسجد نبوی میں کوئی بات عام آواز سے زیادہ اونچی آواز سے نہ کی جائے۔ اس بے ادبی کی تمہیں یہ سزا مل سکتی ہے کہ تمہارے نیک اعمال برباد کردیئے جائیں۔ اس آیت کا جو اثر صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین پر ہوا وہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے : سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس (بن شماس) کو (کئی روز تک اپنی صحبت میں) نہ دیکھا۔ ایک شخص (سعدبن معاذ) کہنے لگے : گگیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اس کا حال معلوم کرکے آپ کو بتاؤں گا‘‘ چنانچہ وہ گئے تو ثابت رضی اللہ عنہ کو اپنے گھر سر جھکائے دیکھا اور پوچھا : ’’کیا صورت حال ہے؟‘‘ ثابت رضی اللہ عنہ کہنے لگے : ’’برا حال ہے میری تو آواز ہی نبی سے بلند ہوتی تھی میرے تو اعمال اکارت گئے اور اہل دوزخ سے ہوا‘‘ سعدرضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور بتایا کہ ’’وہ تو یہ کچھ بتاتا ہے‘‘ موسیٰ بن انس کہتے ہیں۔ پھر ایسا ہوا کہ سعد رضی اللہ عنہ بن معاذ ایک بڑی بشارت لے کر دوسری بار ثابت بن قیس کے ہاں گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود سعدرضی اللہ عنہ کو ثابت کے ہاں بھیجا اور کہا کہ اسے کہہ دو کہ : تم اہل دوزخ سے نہیں بلکہ اہل جنت سے ہو۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) یہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ خطیب انصار تھے۔ جب مسیلمہ کذاب مدینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کے تحت سمجھوتہ کرنے کی غرض سے آیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی ثابت بن قیس کو اس سے گفتگو کے لئے مامور فرمایا تھا۔ ان کی آواز قدرتی طور پر بھاری اور بلند تھی۔ اس لئے آپ اس حکم سے ڈر گئے۔ آپ نے انہیں اس لئے اس حکم سے مستثنیٰ قرار دیا کہ وہ بے ادبی یا عدم احترام کی وجہ سے آواز بلند نہیں کرتے تھے۔ بلکہ قدرتی طور پر ہی ان کی آواز بلند تھی۔ الحجرات
3 [٤] اس آیت کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ نبی کا ادب و احترام وہی لوگ کرسکتے ہیں جو پہلے تقویٰ کی بنا پر اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کا امتحان دے چکے ہیں اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ نبی کا ادب و احترام کرنا ہی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ان لوگوں کے دلوں میں تقویٰ موجود ہے اور ان کے اس عمل سے اللہ ان کے تقویٰ کو مزید بڑھاتا چلا جائے گا۔ اس آیت اور مذکور بالا حدیث سے صحابہ کی کمال فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ الحجرات
4 الحجرات
5 [٥] گھر سے بلانے میں ادب کے تقاضے ' نبی سے انداز گفتگو شائستہ ہونا چاہئے :۔ بنو تمیم کے کچھ لوگ عین دوپہر کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرما رہے تھے۔ اور زور سے چلانے لگے : ’’یامحمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) !) باہر ہمارے پاس آئیے۔ ہماری بڑی اچھی شہرت ہے اور ہماری بڑائی بڑی ہے۔‘‘ ان کے پکارنے کے انداز سے ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ بدو ' غیر مہذب اور اجڈ قسم کے جنگلی لوگ تھے۔ جنہیں نہ گھر سے بلانے کا سیلقہ آتا تھا اور نہ گفتگو کرنے کا وہ دوسروں کے مقابلے میں اپنے آپ کو ہی بہت کچھ سمجھتے تھے۔ غالباً یہ لوگ مسلمان ہوچکے تھے اور اپنے قبیلے کے لئے ایک سردار کی تقرری کی درخواست لے کر آئے تھے۔ جیسا کہ اسی سورۃ کے حاشیہ نمبر ٢ میں درج شدہ حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ پھر یہ بات صرف انہی لوگوں پر ہی موقوف نہ تھی۔ اکثر بدو لوگ اسی بھونڈے انداز میں آپ کو گھر سے بلاتے اور گفتگو کرتے تھے اور آپ اپنی طبعی شرم و حیا کی وجہ سے انہیں کچھ نہیں کہتے تھے۔ ایسے ناشائستہ، ان گھڑ اور بے وقوف قسم کے انسانوں کو اس آیت کے ذریعہ تنبیہ کی گئی ہے کہ جب وہ رسول سے مخاطب ہوں تو اس بات کو ملحوظ رکھیں کہ جس سے وہ بات کرنا چاہتے ہیں وہ ایک عام آدمی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا رسول اور اس کا نمائندہ ہے۔ جس کی شان دنیا کے افسروں اور بادشاہوں سے بہت ارفع و اعلیٰ ہے اور یہ عین ممکن ہے کہ اگر تم اس کی شان میں بے ادبی یا گستاخی کرو تو تمہیں اپنے ایمان ہی کی خیر منانی پڑے۔ لہٰذا تم لوگوں کے لئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گھر سے بلانے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ حجرہ کے باہر کھڑے ہو کر اندر اطلاع بھجواؤ یا مہذب طریقے سے آواز دو۔ پھر کچھ انتظار کرو۔ ممکن ہے کہ وہ کسی دوسرے کام میں مصروف ہوں۔ پھر جب وہ باہر آئیں تو جو کہنا ہو مہذب طریقہ سے بات کرو۔ [٦] یعنی اگر تم آئندہ ان آداب کو ملحوظ رکھو گے تو اللہ تمہاری سابقہ خطائیں معاف فرما دے گا۔ الحجرات
6 [٧] خبرکی تحقیق کی ضرورت اس صورت میں ہے جب خبردینے والے کا کردار پوری طرح معلوم نہ ہو :۔ بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ قبیلہ بنی مصطلق جب مسلمان ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کو ان سے زکوٰۃ لینے کے لئے بھیجا۔ ولید بن عقبہ کے قبیلہ اور بنی مصطلق میں پہلے سے دشمنی چلی آرہی تھی۔ جب ولید بن عقبہ ان کے ہاں گئے تو کسی وجہ سے ڈر گئے اور واپس آکر آپ سے کہہ دیا کہ وہ زکوٰۃ دینے سے انکاری ہیں۔ بلکہ وہ تو مجھے بھی قتل کردینا چاہتے تھے۔ بعض لوگوں نے یہ رائے دی کہ ان لوگوں کی سرکوبی کے لئے ان پر چڑھائی کرنا چاہئے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس معاملہ میں متأمل تھے۔ اسی دوران بنی مصطلق کا سردار حارث بن ضرار (ام المومنین سیدنا جویریہ کا والد) اتفاق سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آئے۔ تو انہوں نے بتایا کہ ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ تو ہمارے ہاں گئے ہی نہیں تو ان کے قتل کا سوال کیسے پیدا ہوسکتا ہے؟ ہم مسلمان ہیں اور زکوٰۃ دینے کو تیار ہیں۔ اسی سلسلہ میں یہ آیت نازل ہوئی۔ ہمیں یہ روایت درست تسلیم کرنے میں تأمل ہے۔ کیونکہ آیت میں فاسق کا لفظ آیا ہے تو کیا ولید بن عقبہ فاسق (جس کا اگر نرم سے نرم زبان میں بھی ترجمہ کیا جائے تو ناقابل اعتماد آدمی ہی ہوسکتا ہے) تھے؟ اور اگر ایسی ہی بات تھی تو آپ انہیں زکوٰۃ کا محصل بنا کر کیسے بھیج سکتے تھے؟ لہٰذا اگر اس آیت اور اس واقعہ میں نسبت قائم نہ کی جائے تو بہتر ہے۔ نیز اس واقعہ کے بغیر بھی اس آیت کا مفہوم صاف سمجھ میں آرہا ہے۔ کیونکہ اکثر تنازعات اور لڑائی جھگڑوں کی ابتدا جھوٹی خبروں اور بے بنیاد افواہوں سے ہوتی ہے۔ اور جو لوگ جھوٹی خبر دیں، یا ان کی بلا تحقیق تشہیر کریں وہ فاسق ہیں۔ سچے مومن ایسے کام نہیں کرسکتے۔ لہٰذا جس شخص کی ذات پر اس کے سچا اور راست باز ہونے کا پورا اعتماد ہو اس کی خبر کو قبول کیا جاسکتا ہے۔ لیکن جو لوگ ناواقف ہوں اور ان پر اعتماد کرنے کے ذرائع موجود نہ ہوں۔ ان کی خبر کو تحقیق کے بغیر تسلیم نہیں کرنا چاہئے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو بعض دفعہ انسان ایسے فتنوں میں پڑجاتا ہے۔ جن پر بعد میں پچھتانا بھی پڑتا ہے۔ اور نقصان بھی بہت ہوجاتا ہے اپنا بھی اور دوسروں کا بھی۔ الحجرات
7 [٨] اپنی خواہش کو حق کے پیچھے چلانے کی ادا سیکھو :۔ یعنی تم لوگوں کے درمیان اللہ کا رسول موجود ہے۔ ایسی خبریں تم ان تک پہنچا دو اور خود رائے زنی نہ کرنے لگ جاؤ۔ بلکہ ان کے پیچھے پیچھے چلو جو وہ کہیں اسے تسلیم کرو۔ اگر وہ تمہارا مشورہ قبول نہیں کرتے تو اس کا برا نہ مانو۔ اگر وہ تم سب کے مشورے اور آراء قبول کرنے لگیں تو تمہاری بھی آراء آپس میں مختلف اور متضاد ہوتی ہیں۔ اس صورت میں تو تم پر اور کئی مصیبتیں پڑجائیں گی۔ لہٰذا حق کو اپنی خواہشات کے پیچھے نہ چلاؤ۔ بلکہ اپنی خواہشات اور آراء کو حق کے تابع کردینے کی ادا سیکھو۔ [٩] تم پر یہ اللہ کی خاص مہربانی ہے کہ تمہیں کفر اور اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کے کاموں سے نفرت ہوچکی ہے۔ اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں تم راحت اور خوشی محسوس کرتے ہو۔ لہٰذا معاشرتی آداب کے سلسلہ میں ان ہدایات کو بھی ملحوظ خاطر رکھا کرو جو تمہیں اب دی جارہی ہیں۔ اسی صورت میں تم ہدایت یافتہ ہوسکتے ہو۔ الحجرات
8 الحجرات
9 [١٠] آپس میں لڑائی کرنا مومنوں کا کام نہیں :۔ اس جملہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ لڑنا مومنوں کا کام نہیں۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے۔ (١) سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے : ’’جب دو مسلمان اپنی تلواریں لے کر لڑ پڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہیں‘‘ میں نے پوچھا : ’’یہ تو رہا قاتل مگر مقتول کا کیا قصور؟‘‘ فرمایا :’’وہ بھی تو اپنے ساتھی کے قتل پر حریص تھا‘‘ (بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب وان طائفتان۔۔ مسلم۔ کتاب الفتن۔ باب اذا توجہ المسلمان بسیفہما) (٢) احنف بن قیس کہتے ہیں کہ میں اس شخص کی مدد کرنے چلا۔ (راستہ میں) مجھے ابو بکرہ رضی اللہ عنہ ملے اور پوچھا : ’’کہاں جاتے ہو؟‘‘ میں نے کہا :’’اس شخص کی مدد کرنے‘‘ ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے : ’’واپس چلے جاؤ۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا ہے کہ جب دو مسلمان اپنی تلواریں لے کر لڑ پڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہیں‘‘ میں نے پوچھا :’’یارسول اللہ یہ تو ہوا قاتل مگر مقتول کا کیا قصور؟‘‘ فرمایا : ’’وہ بھی تو اپنے ساتھی کے قتل پر حریص تھا‘‘ (بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب المعاصی من امرالجاہلیۃ) (مسلم۔ کتاب الفتن۔ باب اذا توجہ المسلمان بسیفہما) [١١] طائفہ کا لغوی مفہوم :۔ یعنی ان پیش بندیوں کے باوجود اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں لڑ پڑیں تو پوری کوشش کرو کہ ان کا اختلاف رفع ہوجائے اور ان میں صلح ہوجائے۔ واضح رہے کہ یہاں طائفہ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اور طائفہ عموماً چھوٹی جماعت کو کہتے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض مفسرین کے خیال کے مطابق اس لفظ کا اطلاق ایک فرد پر بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی اگر دو مسلمانوں میں لڑائی ہو۔ تب بھی یہی حکم ہے اور یہ تو واضح ہے کہ صلح کرنے والا کوئی غیر جانبدار ہی ہوسکتا ہے۔ خواہ یہ ایک آدمی ہو یا کوئی جماعت ہو۔ پھر صلح کرانے والے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ فریقین پر اثر انداز ہوسکتا ہو۔ [١٢] مسلمانوں میں صلح کرنا اور عدل کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے :۔ یعنی اگر کوئی شخص اکیلا فریقین پر اثر انداز ہونے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ تو باہم ملکر بھی تمہیں یہ کام کرنا چاہئے' بیٹھ نہ رہنا چاہئے سب سے پہلے حالات اور اختلاف کا جائزہ لو اور دیکھو کہ کونسا فریق حق پر ہے اور کونسا زیادتی کر رہا ہے۔ اب یہ تو واضح ہے کہ تالی ایک ہاتھ سے کبھی نہیں بجتی۔ زیادتی کرنے والے کے پاس بھی کچھ تھوڑا بہت حق موجود ہوتا ہے اور جو حق پر ہے اس سے بھی کوئی نہ کوئی غلطی ضرور ہوئی ہے۔ لہٰذا پہلے یہ تشخیص کرنا ہوگی کہ زیادہ حق کس طرف ہے اور زیادتی کا مرتکب کون ہے؟ پھر صلح کرانے والی جماعت کو زیادہ حق والے کا ساتھ دینا ہوگا اور اس طرح فریقین پر صلح کے لئے دباؤ ڈالنا ہوگا۔ اور زیادتی کرنے والے پر اتنا دباؤ ڈالنا ہوگا کہ وہ اپنی زیادتی کا اعتراف کرے اور اس سے رجوع کرکے حق بات تسلیم کرے۔ جب یہ مرحلہ طے ہوجائے تو پھر یہ نہ کرنا چاہئے کہ حق والے فریق میں یک طرفہ فیصلہ دے کر زیادتی کرنے والے فریق کو پوری طرح دبانے کی کوشش کی جائے۔ بلکہ عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے اور زیادتی کرنے والے کے پاس بھی کچھ تھوڑا بہت حق تھا تو فیصلہ کے وقت ان باتوں کو ملحوظ رکھ کر فیصلہ کیا جائے۔ کیونکہ یہی بات اقرب الی الحق اور اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ شماس بن قیس یہودی کا اوس وخزرج کو لڑانا :۔ واضح رہے کہ بسا اوقات دونوں ہی فریق حق پر ہوتے ہیں اور ان کی لڑائی کا سبب کوئی بیرونی دشمن یا بیرونی مداخلت ہوتی ہے۔ عہد نبوی میں اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب جنگ بدر میں مسلمانوں کو شاندار فتح نصیب ہوئی تو یہود مدینہ کو اس بات سے سخت صدمہ پہنچا۔ ایک بڈھے یہودی شماس بن قیس نے اس مصیبت کا یہ حل سوچا کہ اوس و خزرج میں از سر نو جنگ بپا کردی جائے۔ اس مقصد کے لئے اس نے ایک نوجوان یہودی کو تیار کیا کہ انصار کی مجالس میں جاکر جنگ بعاث کا ذکر چھیڑ دے اور اس سلسلہ میں اوس و خزرج کی طرف سے جو اشعار کہے گئے تھے انہیں پڑھ پڑھ کر سنائے اور جاہلی عصبیت کو ہوا دے۔ جب اس یہودی نے یہ اشعار پڑھے تو فوراً اوس اور خزرج کے جاہلی دور کے معاندانہ جذبات بھڑک اٹھے تو تو، میں میں شروع ہوگئی اور نوبت بایں جا رسید کہ ایک فریق دوسرے سے کہنے لگا : اگر تم چاہو تو ہم پھر اس جنگ کو جوان کرکے نمٹادیں۔ پھر ہتھیار کی آوازیں آنے لگیں اور قریب تھا کہ ایک خوفناک جنگ چھڑ جاتی۔ آپ کا ان میں صلح کرانا :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر دی گئی تو آپ چند مہاجرین کو ساتھ لے کر فوراً موقعہ پر پہنچ گئے اور فرمایا : مسلمانو! میری موجودگی میں جاہلیت کی یہ پکار! اللہ تعالیٰ نے تمہیں اسلام کی طرف ہدایت دی اور تمہارے دلوں کو جوڑ دیا۔ پھر اب یہ کیا ماجرا ہے؟ اس وقت ان لوگوں کو معلوم ہوا کہ وہ کس طرح شیطانی جال میں پھنس چکے تھے۔ ان کی آنکھیں کھل گئیں پھر اوس و خزرج کے لوگ آپس میں گلے ملنے اور رونے لگے۔ غزوہ بنی مصطلق میں عبداللہ بن ابی کا انصار ومہاجرین کو لڑانا :۔ اس کی دوسری مثال وہ فتنہ ہے جو غزوہ بنی مصطلق سے واپسی سفر کے درمیان عبداللہ بن ابی منافق نے مہاجرین اور انصار کے درمیان کھڑا کرکے ان کو باہم لڑ مرنے پر آمادہ کردیا تھا۔ اس واقعہ کی تفصیل سورۃ منافقون میں آئے گی۔ اس موقعہ پر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً موقع پر پہنچ کر معاملہ رفع دفع کرا کر صلح کرا دی تھی۔ اگر صلح نہ کر اسکے تو غیر جانبدار رہے :۔ اور اس آیت کا سب سے بڑا مصداق سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا امیرمعاویہ کے درمیان جنگیں تھیں۔ اور ان جنگوں کا باعث ایک باغی فرقہ تھا۔ چونکہ یہ دونوں فریق سیاسی لحاظ سے بڑے طاقتور تھے۔ لہٰذا کوئی ایسی جماعت پیدا نہ ہوسکی جو ان میں صلح کرا سکتی۔ اس لئے بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین ایسے بھی تھے جو ان جنگوں میں غیر جانبدار رہنا ہی غنیمت سمجھتے تھے۔ جیسا کہ مندرجہ بالا دوسری حدیث سے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اشارہ انہی جنگوں کی طرف معلوم ہوتا ہے۔ اور ان جنگوں میں بہت سے صحابہ غیر جانبدار رہے اور لڑائی میں حصہ نہیں لیا۔ الحجرات
10 [١٣] لڑائی کی روک تھام :۔ یعنی جب تم صلح کرانے لگو تو اس بات کو ملحوظ رکھوکہ تم دو بھائیوں کے درمیان صلح کرا رہے ہو۔ لہٰذا پورے عدل و انصاف کو ملحوظ رکھ کر اور اللہ سے ڈرتے ہوئے یہ کام اس طرح سرانجام دو کہ نہ کسی فریق کی حق تلفی ہو اور نہ ہی کسی پر زیادتی ہو۔ اگر تم ان کے درمیان عدل و انصاف سے صلح کرا دو گے تو یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر مہربانی فرمائے گا۔ اور یہ مہربانی انفرادی طور پر صلح کرانے والی جماعت پر بھی ہوسکتی ہے۔ اور اجتماعی طور پر بھی یعنی اللہ تمہاری جماعت کو اس کا شیرازہ بکھرنے سے بچالے گا اس کی ساکھ بحال اور قوت برقرار رہے گی۔ یہ آیت دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک عالمگیر برادری میں منسلک کردیتی ہے۔ مسلمان خواہ دنیا کے کسی کونے میں ہو دوسرے سب مسلمان اسے اپنا بھائی سمجھتے ہیں۔ اسلام کے علاوہ ایسا رشتہ اخوت اور کسی دین یا مذہب میں نہیں پایا جاتا۔ الحجرات
11 [١٤] مذاق اڑانے سے پرہیز :۔ اس آیت میں ایسے معاشرتی آداب سکھائے جارہے ہیں ہیں جو عموماً لڑائی جھگڑے کا سبب بنتے ہیں۔ مذاق اڑانے کی دو ہی وجہیں ہوسکتی ہیں۔ ایک مذہبی یا نظریاتی اختلاف کا ہونا دوسرے مخاطب کو اپنے سے کمتر اور حقیر سمجھنا۔ خواہ کوئی بھی صورت ہو مذاق اڑانے سے چونکہ لڑائی جھگڑے کا امکان ہے۔ لہٰذا لڑائی جھگڑے کے ان ابتدائی لوازمات سے بھی روک دیا گیا۔ [١٥] اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مرد، مردوں کا مذاق نہ اڑائیں اور نہ عورتیں عورتوں کا، یہ نہیں فرمایا مرد عورت کا مذاق نہ اڑائے یا عورت کسی مرد کا مذاق نہ اڑائے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں مخلوط سوسائٹی یا آزادانہ اختلاط مرد و زن کا تصور ہی مفقود ہے۔ [١٦] طنز اور طعنہ سے اجتناب :۔ لَمَزَ بمعنی کسی شخص کے کسی فعل یا حرکت میں عیب جوئی کرنا۔ جیسے پھبتیاں کسنا، کسی کی نقلیں اتارنا، اشارے کرنا، یا زیر لب کسی کو نشانہ ملامت بنانا یا طنزیہ بات اور چوٹیں کرنا سب کچھ اس لفظ کے معنی میں داخل ہے۔ اس قسم کی حرکتیں چونکہ معاشرتی تعلقات کو بگاڑ دیتی ہیں۔ لہٰذا ان کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ [١٧] لقب کا مفہوم اور قسمیں :۔ لقب دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جو پسند ہوتے ہیں اور ان کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ انسان خود اپنے لئے کوئی پسندیدہ سا لقب اختیار کرلیتا ہے اور دوسری صورت یہ کہ کوئی دوسرا ایسا لقب رکھ دیتا ہے۔ جیسے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا لقب صدیق یا سیدنا عمر کا لقب فاروق تھا۔ دوسرے وہ جو مذموم ہوتے ہیں اور ایسے لقب عموماً حریف یا فریق مخالف یا دشمن رکھ دیتے ہیں اور یہ صرف اس کی تحقیر یا اس کو چڑانے کے لئے رکھے جاتے ہیں۔ اس آیت میں ایسے القاب سے پکارنے سے منع کیا گیا ہے۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ بطور گالی یا تمسخر کسی کو فاسق یا یہودی کہا جائے یا اس کے ایسے جرم سے منسوب کیا جائے جسے وہ چھوڑ چکا ہو جیسے کسی کو ایمان لانے اور توبہ کرلینے کے بعد زانی، چور یا ڈاکو وغیرہ کہا جائے۔ ایسی سب باتیں فتنہ فساد اور لڑائی کا موجب بن جاتی ہیں۔ اسی لئے ان سے منع کردیا گیا ہے اور ایسے کام کرنا گناہ کبیرہ ہے۔ چنانچہ سیدنا ابوذر غفاری فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ :’’جو شخص کسی مسلمان کو فاسق یا کافر کہے اور درحقیقت وہ کافر یا فاسق نہ ہو تو خود کہنے والا شخص فاسق یا کافر ہوجائے گا‘‘ (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب ما ینہی من السباب واللعن) برے نام رکھنے یا بلانے کی ممانعت :۔ اور بعض دفعہ کسی شخص کا ایسا لقب رکھ دیا جاتا ہے جس میں نہ اس کی تحقیر ہوتی ہے اور نہ وہ خود اسے برا سمجھتا ہے بلکہ وہ محض تعارف کے طور پر ہوتا ہے۔ جیسے دور نبوی میں ایک صحابی کا اس کے لمبے ہاتھوں کے وجہ سے نام ہی ذوالیدین پڑگیا تھا۔ ایسے ہی عبداللہ طویل یا نابینا حکیم وغیرہ کہنے میں کچھ حرج نہیں۔ (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب مایجوز من ذکر الناس۔۔) [١٨] یعنی مندرجہ بالا سب کام فسق کے کام ہیں۔ کسی مومن کا یہ کام نہیں کہ وہ ایمان لانے کے بعد بھی ایسے کام کرتا رہے۔ اور اگر کوئی ایسی باتوں میں نامور اور مشہور بھی ہوجائے تو یہ تو بہت ہی بری بات ہے۔ الحجرات
12 [١٩] سوئے ظن سے پرہیز :۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ گمان کرنے سے بچو بلکہ یوں فرمایا کہ زیادہ گمان کرنے سے بچو۔ کیونکہ گمان تو ہر انسان کو کسی نہ کسی وقت کرنا ہی پڑتا ہے۔ اور اگر ظن و گمان کو عادت بنا لیا جائے تو یہ بہت بری بات ہے کیونکہ اکثر ظن بدظنی پر مشتمل ہوتے ہیں اور کسی سے سوئے ظن رکھنا بذات خود گناہ کبیرہ ہے۔ اس کے برعکس اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہر شخص سے حسن ظنی رکھی جائے تاآنکہ اس سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہوجائے جو حسن ظن کو بدظنی میں تبدیل کر دے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے متعلق کوئی برا خیال پیدا ہوجائے تو جب تک زبان سے اس کا اظہار نہ کرے وہ قابل مواخذہ نہیں ہے۔ اس آیت میں دراصل اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جس شخص سے ان کا کوئی اختلاف یا جھگڑا ہو اس کی اچھی باتوں میں سے بھی کوئی برا پہلو نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً اگر کسی معاملہ میں چار پہلو حسن ظنی کے ہوں اور ایک پہلو بدظنی پر محمول کیا جاسکتا ہو تو ان کی نظر ہمیشہ بدظنی کے پہلو کی طرف اٹھے گی۔ ایسے لوگ عموماً عام لوگوں کے متعلق حسن ظن کے بجائے کوئی بری بات ہی سوچنے کے عادی ہوتے ہیں۔ [٢٠] کسی کی ٹوہ لگانے سے پرہیز :۔ تجسس کا تعلق عموماً ایسے افعال سے ہوتا ہے جو یا تو کبھی سرزد ہی نہ ہوئے ہوں اور یا ظاہر نہ ہوئے ہوں۔ مثلاً کسی کی ٹوہ لگائے رکھنا یا کسی کے گھر میں جھانکنا، چوری چھپے کسی کی باتیں سننا، کسی کے خطوط دیکھنا یا درمیان میں ٹیلی فون کی گفتگو سننا وغیرہ۔ سب اسی ذیل میں آتے ہیں۔ جبکہ ایسے کاموں کا مقصد کوئی ایسی بات معلوم کرنا ہو جس سے اسے بدنام اور بے عزت کیا جاسکے۔ ایسی جاسوسی سے ممانعت کا حکم صرف اشخاص کے لئے ہی نہیں اسلامی حکومت کے لئے بھی ہے۔ اسلامی حکومت کا یہ کام نہیں کہ وہ لوگوں کی برائیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر منظر عام پر لائے اور پھر انہیں سزا دے۔ بلکہ اس کا کام صرف یہ ہے کہ جو برائیاں ظاہر ہوجائیں، طاقت کے ذریعہ ان کا استیصال کرے۔ البتہ وہ کسی مجرم کی تحقیق کے سلسلہ میں ایسے کام کرسکتی ہے۔ اور جو برائیاں ظاہر نہ ہوں بلکہ مخفی یا گھروں کے اندر ہوں تو ان کا علاج جاسوسی نہیں بلکہ ان کی اصلاح تعلیم، وعظ و تلقین، عوام کی اجتماعی تربیت اور ایک پاکیزہ معاشرتی ماحول پیدا کرنے سے کی جائے گی۔ [٢١] غیبت سے اجتناب :۔ غیبت کی تعریف جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بیان فرمائی وہ یہ ہے کہ تو اپنے بھائی کا ذکر اس طرح کرے جو اسے ناگوار ہو۔ صحابہ نے عرض کیا کہ اگر میرے بھائی میں وہ بات پائی جاتی ہو جو میں کہہ رہا ہوں تو پھر؟ آپ نے فرمایا : ’’اگر اس میں وہ بات پائی جائے تو تو نے اس کی غیبت کی اور اگر اس میں وہ بات موجود نہ ہو تو تو نے اس پر بہتان لگایا‘‘ (مسلم۔ کتاب البر والصلۃ والادب۔ باب تحریم الغیبۃ) اور یہ تو واضح بات ہے کہ بہتان غیبت سے بھی بڑا جرم ہے اور غیبت خواہ کسی زندہ انسان کی، اس کی پیٹھ پیچھے کی جائے یا کسی فوت شدہ انسان کی، جرم کی نوعیت کے لحاظ سے اس میں کوئی فرق نہیں۔ غیبت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا۔ کیونکہ غیبت کرنے والا اس کی عزت پر حملہ آور ہوتا ہے۔ جیسے اسے کاٹ کاٹ کر کھا رہا ہو اور مردہ اس لئے فرمایا کہ جس کی غیبت کی جا رہی ہے وہ پاس موجود نہیں ہوتا۔ غیبت کی حرمت سے استثناء کی صورتیں :۔ البتہ بعض اہم ضرورتوں کے پیش نظر شریعت نے چند صورتوں کو اس حرمت سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ مثلاً:۔ ١۔ مظلوم حاکم کے سامنے ظالم کی غیبت بیان کرکے ظلم کی فریاد کرسکتا ہے۔ اور اس کی بنیاد سورۃ النساء کی آیت نمبر ١٤٨ ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر عدالت کا نظام چل ہی نہیں سکتا۔ مظلوم کو عام لوگوں کے سامنے بلاضرورت اور تحقیر کی خاطر بھی ظالم کی غیبت کرنا یا اپنے ظلم کی داستان بیان کرنا جائز نہیں۔ پھر جس طرح ایک مظلوم عدالت کے سامنے ظالم کی غیبت بیان کرسکتا ہے۔ اسی طرح استفتاء کی صورت میں مفتی کے سامنے بھی بیان کرسکتا ہے۔ ٢۔ کسی شخص کے شر سے بچنے کے لئے اپنے مومن بھائی کو اس کے عیب و ثواب سے مطلع کردینا تاکہ وہ اس کے شر یا اپنے نقصان سے بچ سکے۔ مثلاً کوئی شخص رشتہ کرنا چاہتا ہو، یا کسی سے کاروباری اشتراک کرنا چاہتا ہو یا کسی کے ہمسایہ میں مکان خریدنا چاہتا ہو یا اسے قرضہ دینا یا امانت سونپنا چاہتا ہو اور وہ اپنے کسی دوسرے بھائی سے مشورہ لے۔ تو مشورہ دینے والے کو نہایت دیانتداری سے متعلقہ شخص کے عیب و ثواب بیان کردینے چاہئیں تاکہ وہ کسی دھوکہ میں نہ رہے اور اس کی بنیاد یہ حدیث ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہنے لگا کہ میں نے انصار کی ایک عورت سے عقد کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ’’تم نے اس کو دیکھا بھی ہے؟‘‘ اس نے کہا، نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’جا اور اسے دیکھ لے اس لئے کہ انصار کی عورتوں کی آنکھوں میں کچھ (عیب) ہوتا ہے‘‘ (مسلم۔ کتاب النکاح۔ باب ندب من اراد نکاح امراۃً) ٣۔ محدثین کا قانون جرح و تعدیل۔ جس پر تمام ذخیرہ حدیث کی جانچ پرکھ کا انحصار ہے اور جس کے ذریعہ عامۃ المسلمین کو عام گمراہی سے بچانا مقصود ہے۔ اس صورت میں راویوں کے عیب و ثواب بیان کرنا جائز ہی نہیں بلکہ بالاتفاق واجب ہے۔ اور اس کی بنیاد بھی وہی حدیث ہے جو اوپر بیان ہوئی نیز اس سورۃ کی آیت نمبر ٦ بھی۔ یعنی فاسق کی خبر کی تحقیق ضروری ہے۔ ٤۔ ایسے لوگوں کے خلاف علی الاعلان آواز بلند کرنا اور ان کی برائیوں پر تنقید کرنا جو فسق و فجور پھیلا رہے ہیں یا بدعات اور گمراہیوں کی اشاعت کر رہے ہوں۔ یا خلق خدا کو بےدینی اور ظلم و جور کے فتنوں میں مبتلا کر رہے ہوں۔ الحجرات
13 [٢٢] اقوام کی لڑائی جھگڑوں کی بنیاد اور ان کا سد باب :۔ موجودہ دور میں قوم، وطن، نسل، رنگ اور زبان یہ پانچ خدا یا معبود بنا لئے گئے ہیں۔ انہی میں سے کسی کو بنیاد قرار دے کر پوری انسانیت کو کئی گروہوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ جو آپس میں ہر وقت متحارب اور ایک دوسرے سے لڑتے مرتے رہتے ہیں۔ کسی کو قومیت پر ناز ہے کہ وہ مثلاً جرمن یا انگریز قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ کوئی سفید رنگ کی نسل ہونے پر فخر کرتا ہے۔ کوئی سید اور فاروقی یا صدیقی ہونے پر ناز کرتا ہے۔ گویا ان چیزوں کو تفاخر و تنافر کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ حالانکہ سب انسان ہی آدم و حوا کی اولاد ہیں۔ یہ آیت ایسے معبودوں یا بالفاظ دیگر فتنہ و فساد اور لامتناہی جنگوں کی بنیاد کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتی ہے۔ برتری کی بنیاد صرف تقویٰ ہے :۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے تو تمہارے قبیلے اور قومیں اس لئے بنائے تھے کہ تم ایک دوسرے سے الگ الگ پہنچانے جاسکو، مثلاً دو شخصوں کا نام زید ہے اور دونوں کے باپ کا نام بکر ہے۔ تو الگ الگ قبیلہ یا برادری سے متعلق ہونے کی وجہ سے ان میں امتیاز ہوجائے، لیکن تم نے یہ کیا ظلم ڈھایا کہ ان چیزوں کو تفاخر و تنافر کا ذریعہ بنالیا۔ کوئی نسل کی بنیاد پر شریف اور اعلیٰ درجہ کا انسان بن بیٹھا اور دوسروں کو حقیر، کمینہ اور ذلیل سمجھنے لگا تو کوئی قوم اور وطن یا رنگ اور زبان کی بنیاد پر بڑا بن بیٹھا ہے۔ ان سب چیزوں کے بجائے اللہ تعالیٰ نے عزوشرف کا معیار تقویٰ قرار دیا۔ یعنی جتنا کوئی شخص گناہوں سے بچنے والا اور اللہ سے ڈرنے والا ہوگا۔ اتنا ہی وہ اللہ کے نزدیک معزز و محترم ہوگا۔ اسی مضمون کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ حجۃ الوداع میں، جو نہایت اہم دستوری دفعات پر مشتمل تھا، یوں بیان فرمایا کہ کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر، کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں۔ فضیلت کی بنیاد صرف تقویٰ ہے۔ کیونکہ تم سبھی آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کئے گئے تھے۔ الحجرات
14 [٢٣] بدوی منافق قبائل کا اسلام کیسا تھا ؟ یہ بدوی وہی لوگ تھے جو قبیلہ غفار، مزنیہ، جہینہ، اسلم اور اشجع سے تعلق رکھتے تھے اور اپنے نفاق کی وجہ سے غزوہ حدیبیہ میں شریک نہیں ہوئے۔ تھے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس غزوہ سے واپس آئے تو حیلے بہانے تراش کر اپنے لئے استغفار کی التجا کر رہے تھے۔ ان کا ذکر سورۃ احزاب کی آیت نمبر ١١ تا ١٦ میں گزر چکا ہے۔ یہ لوگ کلمہ شہادتین پڑھ کر مسلمان تو ہوگئے تھے اور ارکان اسلام بھی بجا لاتے تھے۔ مگر ایمان ان کے دلوں میں راسخ نہیں ہوا تھا۔ انہیں آسان اور میٹھا میٹھا اسلام تو گوارا تھا لیکن وہ اس کے لئے کوئی مالی یا جانی قربانی پیش کرنے یا مشکلات برداشت کرنے کو تیار نہ تھے۔ اسلام اور ایمان میں فرق :۔ اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اور چیز ہے اور اسلام اور چیز ہے۔ حدیث جبریل سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے۔ جب جبریل علیہ السلام نے آپ سے پوچھا کہ ایمان کیا چیز ہے؟ تو آپ نے جواب دیا کہ ’’ایمان یہ ہے کہ تو اللہ کا، اس کے فرشتوں کا، اس کی کتابوں اور رسولوں کا یقین رکھے اور اس بات کا بھی کہ مر کر دوبارہ زندہ ہوناہے‘‘ اور جب جبریل نے پوچھا کہ اسلام کیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تو صرف اللہ کی عبادت کرے اور اس کا شریک نہ بنائے، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ ادا کرے اور رمضان کے روزے رکھے‘‘ (بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب سؤال جبریل النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان کا تعلق دل کے افعال سے ہے اور اسلام کا ظاہری اعمال سے۔ یہ ان میں فرق کا پہلو ہے اور مماثلت کا پہلو یہ ہے کہ اگر ارکان اسلام کو باقاعدہ اور خلوص نیت سے ادا کیا جائے تو اس سے ایمان میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور ایمان میں اضافہ سے ظاہری اعمال میں حسن پیدا ہوتا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے ایمان اور اسلام ایک دوسرے کے مؤید اور لازم و ملزوم بن جاتے ہیں۔ منافقوں میں کمی یہ ہوتی ہے کہ ان کے اعمال میں نہ خلوص ہوتا ہے اور نہ حسن عمل لہٰذا ان کا ایمان شہادتین کے اقرار سے آگے بڑھتا ہی نہیں یعنی ایمان یا یقین ان کے دلوں میں راسخ نہیں ہوتا۔ اسی بات کو اللہ نے ایمان نہ لانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ [٢٤] یعنی اب بھی اگر تم اپنا رویہ درست کرلو اور دل و جان سے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے لگو تو اللہ تمہارے سابقہ اعمال کا اجر تمہیں دے دے گا۔ اس میں کچھ کمی نہ کرے گا۔ اور تمہاری سابقہ خطائیں بھی معاف فرما دے گا۔ الحجرات
15 [٢٥] اس آیت میں مومنوں اور منافقوں کا تقابل پیش کرکے بتایا گیا ہے کہ حقیقی مومن اللہ، اس کے وعدوں اور اس کے رسول پر پوری طرح یقین رکھتے ہیں۔ وہ مفاد پرست نہیں ہوتے لہٰذا جو کچھ اللہ اور اس کا رسول کہے فوراً اس کی اطاعت کرتے اور بوقت ضرورت جان و مال کی قربانیاں بھی پیش کردیتے ہیں۔ اور منافقوں کی طرح حیلوں بہانوں سے فرار کی راہ اختیار نہیں کرتے۔ ایسے ہی لوگ راستباز ہوتے ہیں۔ الحجرات
16 [٢٦] ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہا یہ تھا کہ ہم اسلام لے آئے اور ان کا یہ اسلام لانا چڑھتے سورج کو سلام کرنے کے مترادف تھا۔ وہ اسلام لاکر اپنے جان و مال کی حفاظت اور اموال غنائم سے اپنا حصہ طلب کرنا چاہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ جیسا تم اسلام لا رہے ہو۔ اللہ کو اس کا ٹھیک پتا ہے اور جن اغراض کے تحت لا رہے ہو وہ بھی معلوم ہے۔ الحجرات
17 ٢٧] بدوی قبائل کن اغراض کے تحت اسلام لائے تھے؟ ایسے بدو دراصل اسلام لا کر احسان یہ جتلاتے تھے کہ ہم از خود ہی مطیع بن کر اور اسلام لاکر آپ کے پاس حاضر ہوگئے ہیں اور آپ کو ہمارے خلاف لشکر کشی نہیں کرنا پڑی۔ اور اس سے ان کا مقصود یہ تھا کہ اب ہماری طرف توجہ فرمائیے اور اموال غنائم میں سے ہمیں بھی کچھ مال دیجئے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے کہا کہ انہیں کہہ دیجئے۔ کہ اگر اسلام لائے ہو تو اپنی ہی ذاتی اغراض کے لئے لائے ہو، ورنہ تمہارا بھی وہی حشر ہوتا جو دوسرے کافروں کا ہو رہا ہے۔ اس اسلام لانے کا مجھ پر کیا احسان دھرتے ہو؟ بلکہ یہ تو اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں اسلام لانے کی توفیق دی اور مسلمانوں کے ہاتھوں سے تمہارے جان و مال محفوظ ہوگئے اور پٹائی نہیں ہوئی۔ یہ تم کیا الٹی گنگا بہا رہے ہو؟ اور دیکھو اگر تم فی الواقع سچے ایماندار ہوتے تو تمہیں یہ بات کہتے بھی شرم آنی چاہئے تھی۔ جیسے ایک بادشاہ اگر کسی کو ملازم رکھ لے تو یہ بادشاہ کا ملازم پر احسان تو ضرور ہوتا ہے مگر ملازم اسے کسی صورت یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں تمہاری خدمت کرکے تم پر احسان کر رہا ہوں۔ الحجرات
18 الحجرات
0 ق
1 [١] قرآن کی شان :۔ شان والا اس لحاظ سے ہے کہ دنیا میں کوئی کتاب اس کے مقابلہ میں پیش نہیں کی جاسکتی، نہ مضامین کے لحاظ سے، نہ اسرار و رموز کے لحاظ سے اور نہ کثیر الاشاعت ہونے کے لحاظ سے۔ پھر اس کی شان کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں جتنا بھی غور کیا جائے، نئے سے نئے اسرار کھلتے جاتے ہیں اور ہر انسان خواہ وہ علمی لحاظ سے کس درجہ کا آدمی ہو اس سے ہدایت حاصل کرسکتا ہے۔ نہ اس سے مبتدی بے نیاز ہوسکتا ہے اور نہ ہی کوئی علامہ دہر۔ ق
2 [٢] ایسے شان والے قرآن کی جس بات یا جن باتوں پر قسم کھائی جارہی ہے وہ عبارت یہاں محذوف ہے۔ اور اسے مخاطبین یعنی کفار مکہ کے فہم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ کفار مکہ کا سارا جھگڑا دو باتوں پر تھا۔ ایک وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے منکر تھے۔ دوسرے آخرت کے منکر تھے۔ اور قسم اس بات پر کھائی گئی ہے کہ قرآن کے دلائل اور اس کی داخلی شہادتیں اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ دونوں باتیں درست ہیں۔ [٣] کفار کا پہلا اعتراض رسول انہیں میں سے کیوں ہے ؟ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے صرف عرب ہی نہیں ساری دنیا میں فتنہ و فساد پھیلا ہوا تھا۔ اب تعجب کی بات تو یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ ان حالات میں انسانوں کی ہدایت کے لئے کوئی نبی یا ڈرانے والا نہ بھیجتا۔ جبکہ یہ لوگ اس بات پر متعجب ہیں کہ اللہ نے ڈرانے والا کیوں بھیج دیا ؟ دوسرا تعجب انہیں اس بات پر ہے کہ ڈرانے والا اگر آیا ہے تو کوئی غیر انسان یا فرشتہ کیوں نہیں آیا ؟۔ اور تیسرا تعجب انہیں اس بات پر تھا کہ اگر ڈرانے والا انسان ہی آنا تھا تو انہی کے قبیلہ اور قوم میں سے اور عربی زبان جاننے والا کیوں آیا ہے کوئی چینی یا جاپانی یا انگریز کیوں نہیں آیا ؟ حالانکہ تعجب تو ایسی غیر معقول باتوں پر آنا چاہئے۔ جو کفار مکہ کر رہے ہیں۔ ق
3 [٤] بعث بعد الموت :۔ یہ کفار مکہ کا دوسرا اعتراض یا انکار ہے جو بعث بعد الموت سے تعلق رکھتا ہے کہ جب انسان مر کر مٹی میں مل جائے گا اور مٹی ہی بن جائے گا تو اس کے دوبارہ جی اٹھنے کا معاملہ عقل سے بھی بعید ہے، قیاس کے بھی اور عادت کے بھی خلاف ہے۔ لہٰذا ہم اسے تسلیم نہیں کرسکتے۔ ق
4 [٥] دوسرے اعتراض کا جواب :۔ حالانکہ ان کا یہ اعتراض محض ان کی کم عقلی اور عدم معرفت الٰہی کی بنا پر ہے۔ وہ اللہ کے علم اور اس کی قدرت کی وسعت کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ پہلی چیز تو یہ ہے کہ ان کی ہر چیز مٹی میں نہیں چلی جاتی بلکہ ان کی روح اللہ کے قبضہ میں چلی جاتی ہے۔ دوسری چیز یہ کہ ان کے جسم کے ذرات اگر مٹی میں مل بھی جائیں تو بھی وہ سب ذرات اللہ کے علم میں ہوتے ہیں۔ اور وہ جب چاہے ان ذرات کو اکٹھا کرکے پھر سے انسان کی شکل دے کر اور اس میں اس کی روح ڈال کر پھر سے زندہ کرسکتا ہے۔ تیسری چیز یہ ہے کہ ان کے ذرات کا اللہ کو علم ہی نہیں بلکہ اس کے پاس ہر چیز پہلے سے لکھی ہوئی بھی موجود اور محفوظ ہے۔ پھر جو چیز علم میں بھی ہو اور ضبط تحریر میں بھی آچکی ہو، اس کے یقینی ہونے میں کیا شک باقی رہ جاتا ہے؟ ق
5 [٦] پہلے اعتراض کے متعلق کفار کی بدحواسی :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سے انکار اور قرآن کے منزل من اللہ نہ ہونے کی حد تک تو سب کفار مکہ متفق تھے۔ مگر اب انہیں یہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ پیغمبر اسلام اور قرآن کو کہیں تو کیا کہیں؟ کیونکہ نہ پیغمبر اسلام کوئی عام آدمی تھے اور نہ قرآن کوئی معمولی اور عام کتاب تھی اور یہ باتیں سب کفار کو نظر آرہی تھیں۔ کبھی تو وہ کہتے کہ یہ نبی شاعر ہے اور یہ کتاب شاعری ہے، کبھی کہتے یہ نبی کاہن ہے اور یہ کتاب کہانت ہے، کبھی کہتے یہ نبی جادوگر ہے اور یہ کتاب جادو ہے، کبھی یہ کہتے کہ یہ قرآن تو پرانی کہانیاں ہی ہیں جنہیں یہ نبی خود ہی تالیف کرکے ہمارے سامنے پیش کر رہا ہے۔ یہ متضاد اور مختلف باتیں خود اس کا ثبوت ہیں کہ یہ لوگ اپنے موقف میں بالکل الجھ کر رہ گئے ہیں۔ ق
6 [٧] اثبات توحید اور بعث بعد الموت کے دلائل :۔ اس آیت سے توحید کے دلائل اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے بیان کا آغاز ہوتا ہے۔ آسمان سے مراد وہ نیلگوں چھت ہے جوہر انسان کو برہنہ آنکھ سے دیکھنے پر کروی شکل میں اپنے سر پر چھائی ہوئی نظر آتی ہے اور سورج، چاند اور خوبصورت اور ننھے منے تارے اسی میں چمکتے دمکتے اور نگینوں کی طرح سجائے ہوئے نظر آتے ہیں اور کسی طاقتور دوربین کی مدد سے اوپر آسمان کی طرف نظر ڈالی جائے تو انسان حیرت کی اتھاہ گہرائیوں میں جا پڑتا ہے۔ اسے یہ سمجھ نہیں آسکتی کہ اس کائنات کا آغاز کہاں سے ہو رہا ہے اور اس کی انتہا کہاں تک ہے اور جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز پورے نظم و ضبط کے ساتھ اپنی مقررہ منزل کی جانب رواں دواں ہے۔ جس میں کہیں کوئی وقفہ، کوئی خلا، کوئی شگاف وغیرہ نظر نہیں آتا اور اس سے دلیل اس بات پر لائی گئی ہے کہ جو ذات اتنے بڑے عظیم الجثہ کروں کو اور اس پوری کائنات کو اتنے نظم و ضبط کے ساتھ چلا رہی ہے وہ بھلا اس بات پر بھی قادر نہیں کہ وہ تمہارے زمین میں ملے ہوئے جسم کے ذرات کو اکٹھا کرکے تمہارا جسم بنا دے۔ پھر اس میں تمہاری روح ڈال کر تمہیں دوبارہ زندہ کھڑا کر دے؟ ق
7 [٨] زمین کی تخلیق اور فوائد :۔ یہ دوسری دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو اتنا وسیع بنا دیا اور پھیلا دیا کہ وہ قیامت تک پیدا ہونے والے جانوروں اور انسانوں کے لئے مسکن اور مستقر کا کام دے سکے اور وہ اتنی پیداوار اگا سکے جس سے تمام جانداروں اور انسانوں کو تاقیامت رزق مہیا ہوتا رہے۔ نیز ان جانوروں اور انسانوں کے مرنے کے بعد ان کے مدفن کا کام بھی دے سکے۔ [٩] پہاڑوں کی تخلیق اور فوائد :۔ اس آیت اور کئی دیگر آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین کی پیدائش الگ چیز ہے اور پہاڑوں کی پیدائش الگ چیز ہے۔ پہاڑ زمین کے ساتھ ہی نہیں بلکہ بعد میں پیدا کئے گئے اور پہاڑوں کی پیدائش کا سب سے بڑا فائدہ یہ بتایا گیا ہے کہ زمین جب پیدا کی گئی تو اپنی تیز رفتار کی وجہ سے ہلتی، ہچکولے کھاتی اور ڈولتی تھی۔ اور یہ اس قابل نہ تھی کہ اس پر انسان یا جانور زندہ رہ سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کے ایسے ایسے مقامات پر پہاڑوں کا سلسلہ بنایا اور اس توازن و تناسب کے ساتھ بنایا جس سے زمین کا ادھر ادھر جھکنا اور ہچکولے کھانا موقوف ہوگیا اور وہ جانداروں کی رہائش اور مستقر کے قابل بن گئی۔ یہ تو پہاڑوں کا بنیادی فائدہ ہے اس کے علاوہ پہاڑوں کے ضمنی فائدے بھی قرآن میں جابجا مذکور ہیں۔ یہ بات بھی اللہ کی قدرت کاملہ پر دلالت کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ قدرت تو کافر بھی تسلیم کرتے ہیں۔ مگر اس قدرت سے انکار کرتے ہیں کہ وہ انسان کو دوبارہ پیدا کرسکے؟ فیا للعجب! [١٠] آب وہوا ایک جیسی' نباتات مختلف :۔ یعنی قطعہ زمین ایک ہی ہوتا ہے۔ پانی بھی ایک جیسا، آب و ہوا اور موسم بھی ایک ہی لیکن کہیں پودے اگ رہے ہیں جن میں سے کسی کا پھل میٹھا، کسی کا کڑوا اور کسی کا کسیلا ہوتا ہے۔ کہیں غلے اور فصلیں اگ رہی ہیں۔ کہیں درخت اگ رہے ہیں۔ جن میں بعض پھل دار ہیں اور بعض خار دار۔ اور کہیں رنگ برنگ کے خوشنما اور خوشبودار پھول اگ رہے ہیں۔ جب یہ چیزیں اپنے جوبن پر آتی ہیں تو عجب منظر اور عجب بہار پیش کرتی ہیں۔ کیا یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کی حیران کن قدرت کاملہ کا ثبوت پیش نہیں کرتیں؟ تو پھر کیا اللہ تعالیٰ میں اتنی قدرت بھی تسلیم نہیں کی جاسکتی کہ زمین سے تمہارے بکھرے ہوئے ذرات کو اکٹھا کرکے تمہیں دوبارہ زندہ کر دے۔ ق
8 ق
9 [١١] بارش سے نباتات کی روئیدگی اور بعث بعد الموت :۔ جس زمین پر بارش ہوئی وہ بذات خود مٹی اور مردہ ہے اور جو پانی برسا وہ بھی بے جان تھا۔ تاہم برکت والا اس لحاظ سے تھا کہ اس نے زمین میں مل کر زمین کو مردہ سے زندہ بنا دیا اور وہ اس قابل ہوگئی کہ وہ زندہ چیزیں اگائے۔ اس میں جو فصلیں اور غلے پیدا ہوئے وہ بھی زندہ تھے کیونکہ وہ بڑھتے اور پھلتے پھولتے تھے اور یہی زندگی کی علامت ہے۔ پھر کئی طرح کے درخت اور باغات اور بالخصوص کھجوروں کے اونچے اونچے بلند و بالا درخت پیدا کئے ان میں زندگی موجود تھی۔ پھر اس فصل اور ان باغات سے غلے اور میوے اور پھل حاصل ہوئے۔ اور یہ چیزیں بے جان تھیں۔ گویا اللہ نے مردہ چیز سے زندہ چیز کو اور زندہ چیز سے مردہ کو پھر پیدا کر دکھایا اور یہ عمل ہر وقت اور ہر آن جاری رہتا ہے۔ ق
10 ق
11 [١٢] قدرت کاملہ کے اس مظاہرہ سے ایک تو مرنے کے بعد کی زندگی کی دلیل ملتی ہے۔ دوسرے ان فصلوں کے غلہ اور ان درختوں کے پھلوں سے جو رزق حاصل ہوتا ہے وہ تمام انسانوں اور جانداروں کی زندگی کی بقا کا سبب بنتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی دوسری دلیل ہے کہ کس طرح وہ اپنی تمام مخلوقات کے لئے فراہمی رزق کا انتظام فرما رہا ہے۔ [١٣] نباتات کی روئیدگی سے بعث بعد الموت پر دلیل :۔ عرب کے اور بالخصوص مکہ اور اس کے ارد گرد کے پہاڑ سخت خشک قسم کے پہاڑ ہیں جہاں کوئی ہریالی نظر نہیں آتی۔ شدید گرمی پڑتی ہے اور وہاں کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جہاں کئی کئی سال بارش نہیں ہوتی۔ لیکن جب بارش ہوتی ہے تو وہاں بھی کچھ نہ کچھ سبزہ اگ آتا ہے۔ گھاس اگ آتی ہے اور حشرات الارض بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ میدانی علاقوں میں تو یہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ شاید وہاں پچھلے سال کی گھاس کی جڑیں کچھ نہ کچھ باقی رہ گئی ہوں گی یا کوئی نہ کوئی زمینی کیڑا ہی کسی پناہ گاہ میں پناہ لے کر بچ گیا ہوگا اور بارش میں اس کی نسل پھلنے پھولنے لگی ہوگی یا کسی درخت کا بیج ہی زمین میں پڑا ہوگا اور اس میں ابھی زندگی کی رمق باقی ہوگی اور بارش ہونے پر وہ اگ آیا ہوگا۔ لیکن ایسے علاقے جو سخت گرم اور پتھریلے ہیں۔ وہاں تو کسی بیج یا زمینی کیڑے کے اگلی بارش کے موسم تک زندہ رہ جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور جو سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ آخر ایسے علاقوں میں حشرات الارض یا نباتات کہاں سے پیدا ہوجاتے ہیں۔ پھر اگر اللہ تعالیٰ نباتات اور حشرات الارض کے بیج کے بغیر بھی یہ چیزیں زمین سے برآمد کرسکتا ہے۔ تو یقیناً ہزارہا برس کے مرے ہوئے اور زمین میں ملے ہوئے انسانوں کو بھی زندہ کرکے زمین سے نکال سکتا ہے۔ ق
12 ق
13 ق
14 [١٤] ان سب اقوام کے قصے پہلے سورۃ اعراف، یونس، ہود، حجر، فرقان اور دخان میں گزر چکے ہیں اور حواشی میں تفصیلات آچکی ہیں۔ وہاں ملاحظہ کر لئے جائیں۔ [١٥] اس کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ ان اقوام میں سے ہر قوم نے اپنے اپنے رسول کو جھٹلایا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہر قوم نے سارے رسولوں کو جھٹلایا اس لئے کہ وہ نفس رسالت کے ہی منکر تھے۔ یعنی ان کے خیال کے مطابق کوئی انسان رسول بن کر آ ہی نہیں سکتا تھا۔ اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اپنے رسول کو جھٹلانے کو تمام رسولوں کی تکذیب کے مترادف قرار دیا گیا ہو۔ کیونکہ سب رسولوں کی بنیادی تعلیم ایک جیسی ہے۔ اور رسولوں کو جھٹلانے سے مراد رسول کی تعلیم کو جھٹلانا ہے۔ [١٦] آخرت کی منکر اقوام کا انجام :۔ تمام رسولوں کی بنیادی تعلیم کا ایک اہم جز عقیدہ آخرت پر ایمان رہا ہے۔ اور جن اقوام کا اوپر ذکر ہوا ہے۔ یہ سب عقیدہ آخرت یا مر کر دوبارہ جی اٹھنے اور اللہ کے حضور پیش ہونے اور اپنے جواب ہی کے عقیدہ کی منکر تھیں۔ عقیدہ آخرت سے انکار کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ افراد اور اقوام دونوں کی زندگی کو فتنہ و فساد کی راہوں پر ڈال دیتا ہے۔ اس لئے کہ ایسے انسانوں کو اپنے محاسبہ کا کچھ خوف نہیں رہتا۔ پھر رسول آکر انہیں ان کے برے انجام سے متنبہ کرتے ہیں تو وہ اس قدر سرکش اور گناہوں پر دلیر ہوچکے ہوتے ہیں کہ وہاں سے راہ راست پر واپس آنا کسی صورت گوارا نہیں کرتے۔ الٹا رسولوں کی تکذیب اور انہیں دکھ دینا شروع کردیتے ہیں اور سرکشی اور معصیت میں آگے ہی بڑھتے چلے جاتے ہیں تاآنکہ انہیں ان کے کرتوتوں کی پاداش میں دھر لیا جاتا ہے اور صفحہ ہستی سے ان کا نام و نشان تک ختم کردیا جاتا ہے۔ ق
15 [١٧] اللہ تعالیٰ کو کسی انسان یا کسی جاندار مخلوق کی مثل قرار دینا ہی بنیادی غلطی ہے جس سے کئی طرح کی گمراہیوں کی راہیں کھلتی ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح ہم کام کرتے کرتے تھک جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بھی اتنی بڑی کائنات پیدا کرنے کے بعد تھک چکا ہے۔ لہٰذا وہ آئندہ دوسری بار کیسے اس کائنات کو پیدا کرے گا۔ اس کا ایک جواب تو قرآن میں مختلف مقامات پر یہ دیا گیا ہے کہ تمہارے نزدیک بھی ایک چیز کو دوسری بار بنانا پہلی بار سے آسان تر ہوتا ہے تو پھر اللہ کے لئے دوسری بار پیدا کرنا کیسے مشکل ہوگا ؟ اور یہاں یہ جواب دیا گیا ہے کہ اصل بات یہ نہیں۔ وہ ہمیں تھکا ماندہ اور عاجز نہیں سمجھتے بلکہ ان کی عقل یہ بات قبول نہیں کرتی کہ انہیں دوبارہ پیدا کیا جاسکتا ہے۔ وہ اس سلسلہ میں مشکوک ہی رہتے ہیں۔ ان کے ذہن میں دونوں احتمال موجود رہتے ہیں۔ مگر چونکہ ان کی نفسانی خواہش یہی تقاضا کرتی ہے کہ محاسبہ نہ ہونا چاہئے لہٰذا وہ اس پر جم جاتے ہیں۔ ق
16 [١٨] شیطان کا انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑنا :۔ چونکہ ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا ہے اس لئے اس کی فطرت کو سب سے زیادہ جاننے والا ہمارے علاوہ اور کون ہوسکتا ہے ہم تو اس کے دل کے خیال اور اس میں پیدا ہونے والے برے خیالوں یا وساوس تک کو بھی جانتے ہیں۔ ویسے یہ وساوس کیونکر پیدا ہوتے ہیں۔ یہ درج ذیل حدیث میں ملاحظہ فرمائیے : ام المومنین سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ وہ مسجد نبوی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے آئی جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھے ہوئے تھے جب میں واپس آنے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے۔ (تاکہ مجھے گھر تک پہنچا آئیں) جب ہم ام سلمہ رضی اللہ عنہاکے دروازہ کے قریب پہنچے تو دو انصاری مرد (اسید بن حضیر اور عمار بن بشر رضی اللہ عنہ) ملے۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور آگے نکل گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا : ’’ذرا ٹھہر جاؤ، (یہ عورت میری بیوی ہے)‘‘ انہوں نے کہا : سبحان اللہ! یا رسول اللہ اور آپ کا یہ وضاحت فرمانا ان پر شاق گزرا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’شیطان خون کی طرح آدمی کے بدن کی ہر رگ میں پہنچتا ہے۔ میں ڈرا کہ کہیں تمہارے دل میں کوئی وسوسہ نہ ڈال دے‘‘ (بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب بیوت ازواج النبی ) [١٩] اللہ کا رگ جان سے زیادہ نزدیک ہونا :۔ اللہ تعالیٰ کی یہ قربت اس کے علم اور اس کی قدرت کے لحاظ سے ہے نہ کہ اس کی ذات کے لحاظ سے کیونکہ اس کی ذات تو ساری کائنات سے اوپر عرش پر ہے اور انسان کی جان یا نفس یا روح کا مسکن انسان کا دل ہے۔ تو جب اللہ اپنے علم کے لحاظ سے انسان کے دل اور اس میں پیدا ہونے والے خیالات تک کو جانتا ہے تو رگ جان یا رگ گردن، جو گلے کے سامنے کی طرف ہوتی ہے وہ تو دل سے کافی دور ہے۔ اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ اس کی رگ جان سے بھی زیادہ اس کے قریب ہوا۔ ق
17 [٢٠] کراماً کاتبین کا ریکارڈ رکھنا :۔ ان میں سے ایک نیکی اور بھلائی کے اقوال و افعال ریکارڈ کر رہا ہے اور دوسرا جو بائیں طرف ہے وہ بدی کو ریکارڈ کر رہا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ یہ فرشتے قلم اور دوات لے کر ہر بات کو قلمبند کر رہے ہوں۔ بلکہ اس کے اور بھی کئی طریقے ممکن ہیں۔ آج کا انسان ویڈیو کیسٹ تیار کرچکا ہے۔ جس کے ذریعہ انسان کے اقوال و افعال حرکات و سکنات، تصویر، لب و لہجہ غرض ہر چیز ایسی ریکارڈ ہوتی ہے کہ اصل اور نقل میں ذرہ بھر فرق نہیں رہتا اور اللہ کے فرشتوں کے وسائل تو انسان کے وسائل سے بہت زیادہ ہیں۔ عین ممکن ہے کہ انسان کے اپنے بدن پر، اس کے اعضاء پر، قرب و جوار کے مقامات پر اور فضا کے ذرات پر انسان کا ریکارڈ ضبط ہو رہا ہو۔ جسے ویڈیو کیسٹ کی طرح کسی بھی وقت پیش کیا جاسکتا اور متعلقہ انسان کو دکھایا جاسکتا ہو۔ پہلی آیت میں یہ مذکور تھا کہ تمہاری تمام حرکات و سکنات حتیٰ کہ تمہارے دلوں کے راز تک اللہ جانتا ہے۔ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ سب چیزیں شہادت کے لئے ریکارڈ کی جارہی ہیں۔ ق
18 [٢١] یعنی انسان کا کوئی قول، کوئی فعل، کوئی حرکت، کوئی اشارہ ایسا نہیں ہوتا جسے ریکارڈ میں لانے والا فرشتہ ہر وقت اس کے پاس موجود نہ رہتا ہو۔ ق
19 [٢٢] موت پر سب حقائق کا انکشاف :۔ اس کے دو مطلب ہیں یعنی موت، اس کی بے ہوشیاں اور سختیاں تو وہ ان سب حقیقتوں کو ساتھ ہی لے آئیں جن کی انبیائے کرام علیہم السلام اطلاع دیتے رہے۔ موت کے ساتھ ہی اسے معلوم ہوجائے گا کہ جس محاسبہ اور برے انجام سے وہ ڈرایا کرتے تھے اس کا آغاز ہوگیا ہے۔ موت کا فرشتہ، دیکھتے ہی اس پر سب پیش آنے والی حقیقتیں ظاہر ہونے لگیں گی۔ [٢٣] حاد بمعنی سیدھے راستے سے پہلو تہی کرنا، کنی کترانا، سمت بدل لینا اور دور بھاگنا ہے۔ سیدھا راستہ پیغمبروں نے یہ بتایا تھا کہ تمہیں مر کر دوبارہ جی اٹھنا ہے اور تمہارا محاسبہ ہونے والا ہے۔ تو اس بارے میں مشکوک ضرور تھا۔ تیرے نزدیک دونوں احتمال موجود تھے۔ لیکن تیرا نفس یہی چاہتا تھا کہ تیرا محاسبہ نہ ہونا چاہئے لہٰذا تو طرح طرح کے اعتراض کرکے اپنے آپ کو مطمئن کرلیتا تھا اور سیدھے راستہ سے بہرحال بچنا چاہتا تھا۔ ق
20 [٢٤] نفخہ صور ثانی :۔ اس سے مراد وہ نفخہ صور ہے۔ جب سب مردہ انسان اپنی اپنی قبروں سے اٹھا کھڑے کئے جائیں گے یعنی قیامت کے دن جب سب انسانوں کی اللہ کے حضور پیشی ہوگی اور فیصلہ کے دن مجرموں کو عذاب میں مبتلا کردیا جائے گا۔ ق
21 [٢٥] اس سے مراد غالباً وہی دو فرشتے ہیں جو اس کا ریکارڈ ثبت کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک تو اسے پیچھے سے ہانک کر اللہ کے سامنے پیش کردے گا اور کہے گا کہ مجرم حاضر ہے۔ دوسرا اس کا پوری زندگی کا ریکارڈ سامنے لاحاضر کرے گا۔ یعنی مجرم بھی حاضر اور گواہی بھی حاضر۔ ق
22 [٢٦] یعنی دنیا کی دلفریبیوں میں مست اور مگن رہا۔ محاسبہ کے دن کا تیرے سامنے ذکر ہوتا تو فوراً اس کا انکار کردیتا اور اس پر غور کرنا تو درکنار ایسی بات سننا بھی گوارا نہ کرتا تھا۔ آج ہم نے تیری آنکھوں کے سامنے سے غیب کے پردے اٹھا دیئے ہیں۔ اور آج تمہیں وہ سب باتیں ٹھیک نظر آرہی ہیں جن سے تو جان بوجھ کر غافل بنا رہا۔ ق
23 [٢٧] اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک تو ترجمہ سے واضح ہے کہ گواہ فرشتہ مجرم کو پیش کرکے کہے گا کہ مجرم بھی حاضر ہے اور گواہی بھی حاضر ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہانکنے والا فرشتہ اللہ کے دربار میں حاضر ہو کر کہے گا کہ جو مجرم میری سپردگی میں تھا۔ پیشی کے لئے حاضر ہے۔ ق
24 [٢٨] یعنی وہ خود ہی کفر کے جرم کا مرتکب نہ تھا۔ بلکہ رسولوں کی تعلیم سے عناد بھی رکھتا تھا۔ اور اسلام کی راہ روکنے کے لئے معاندانہ سرگرمیوں میں بھی مصروف رہتا تھا۔ ق
25 [٢٩] خیر کے معنی مال و دولت بھی ہے اور بھلائی بھی۔ پہلے معنی کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے میں بخل سے کام لیتا تھا نہ اللہ کے حقوق ادا کرتا تھا اور نہ اس کے بندوں کے۔ بس ہر جائز و ناجائز طریقے سے مال جمع کرنے میں ہی مصروف رہتا تھا۔ اور دوسرے معنی کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ نہ صرف خود ہی بھلائی کے کاموں سے رکا رہتا تھا بلکہ دوسروں کو بھی روکتا رہتا تھا۔ اس کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ دنیا میں بھلائی کہیں پھیلنے نہ پائے۔ [٣٠] یعنی اپنی ذاتی اغراض اور خواہشات کی خاطر تمام اخلاقی اور قانونی حدود کو توڑنے والا تھا۔ لوگوں کے حقوق پر دست درازیاں کرتا، جائز و ناجائز طریقوں سے مال سمیٹتا اور اچھے کام کرنے والوں کو ستاتا تھا۔ [٣١] شک کا لفظ یقین اور ایمان کے مقابلہ میں آیا ہے۔ یعنی جن باتوں پر ایمان لانا ضروری ہے ان سب باتوں میں شک میں پڑا ہوا تھا۔ پھر اس شک کے جراثیم دوسروں میں بھی پھیلا رہا تھا۔ جس شخص سے اسے سابقہ پڑتا اس کے دل میں کوئی نہ کوئی شک اور وسوسہ ڈال دیتا تھا۔ ق
26 [٣٢] یہ الٰہ انسان کا اپنا نفس اور خواہشات نفس بھی ہوسکتی ہیں۔ اور جن برائیوں کا اوپر ذکر ہوا ہے ان میں اکثر ایسی ہیں جو خواہش نفس کے پیچھے لگنے والوں میں پائی جاتی ہیں۔ اور ان میں سے ہر برائی ایسی ہے جو انسان کو جہنم کا مستحق بنا دیتی ہے۔ بالخصوص یہ آخری برائی تو ایسی ہے جس کے متعلق صراحت سے مذکور ہے کہ اللہ دوسرے گناہ تو جسے چاہے بخش دے گا مگر مشرک کے لئے کبھی مغفرت نہیں ہوسکتی اور نہ ہی اسے جہنم سے کبھی نجات حاصل ہوگی۔ ق
27 [٣٣] اس ساتھی سے مراد غالباً اس کا وہ شیطان ساتھی ہے جو دنیا میں اس کے ساتھ رہتا تھا یا اس پر مسلط کردیا گیا تھا۔ وہ بارگاہ الٰہی میں اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے عرض کرے گا کہ مجھ میں ایسی کوئی طاقت نہ تھی کہ میں اسے تیری اور تیرے رسول کی اطاعت سے سرکش بناسکتا۔ ہوا صرف یہ تھا کہ میں نے اس کے دل میں وسوسہ ڈالا تو یہ پہلے ہی مجرم ضمیر تھا۔ اس نے فوراً میری آواز پر لبیک کہی۔ میرا وسوسہ گویا اس کے اپنے دل کی آواز تھی۔ لہٰذا وہ گمراہی کے کاموں میں خود ہی آگے بڑھتا چلا گیا۔ ق
28 ق
29 [٣٤] قیامت کے دن مطیع اور مطاع کا جھگڑا :۔ یعنی مجرم اور اس کا شیطان ساتھی اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے اپنے جرم کو کم سے کم ثابت کرنے کے لئے جھگڑا کریں گے۔ مجرم یہ کہے گا کہ میری گمراہی کا اصل باعث تو یہ میرا شیطان ساتھی تھا۔ اور شیطان کہے گا کہ میرا اس پر بھلا کون سا زور چلتا تھا۔ یہ خود سیدھی راہ سے متنفر اور مجرم ضمیر تھا۔ میں نے تو فقط اس کے دل میں وسوسہ ڈالا تھا جسے ماننے کے لئے یہ پہلے ہی تیار بیٹھا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اب میرے یہاں جھگڑے اور تکرار کا کوئی فائدہ نہیں۔ کیونکہ میں اپنا فیصلہ تمہیں سنا چکا ہوں کہ جیسے بہکنے والا مجرم اور جہنمی ہے ویسے ہی بہکانے والا بھی مجرم اور جہنمی ہے۔ اور یہ میرا ایسا فیصلہ ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی اور چونکہ میں اپنے اس فیصلہ سے تمہیں پہلے ہی متنبہ کرچکا ہوں۔ لہٰذا میری بات نہ مان کر تم نے خود اپنے آپ پر ظلم کیا ہے میں اپنے بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتا۔ ق
30 [٣٥] قیامت کو جہنم کا کلام کرنا :۔ جہنم اگر زبان حال کی بجائے زبان قال سے بھی اللہ تعالیٰ کے سوال کا جواب دے تو اس میں بھی حیرت کی کوئی بات نہیں۔ اللہ جس چیز کو چاہے قوت گویائی عطا کرسکتا ہے۔ جہنم کے اس جواب سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ جہنم اس قدر بڑی اور وسیع ہوگی کہ تمام مستحقین جہنم کے جہنم میں داخل ہونے کے بعد بھی اس میں جگہ بچ رہے گی خواہ یہ دوزخی انسانوں سے تعلق رکھتے ہوں یا جنوں اور شیطانوں سے۔ اور یہی بات درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتی ہے : سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’دوزخی دوزخ میں ڈالے جائیں گے تو دوزخ یہی کہتی رہے گی کہ کچھ اور بھی ہے تاآنکہ اللہ تعالیٰ اپنا قدم اس پر رکھ دے گا اس وقت وہ کہے گی، بس بس (میں بھر گئی)‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) اور دوسرے یہ کہ جہنم اس دن اس قدر غیظ و غضب میں بھڑک رہی ہوگی کہ ’’اللہ تعالیٰ کے اس سوال پر وہ جواب دے گی کہ جتنے مجھ میں داخل ہونے کے مستحق ہیں سب کو لے آؤ میں آج کسی کو چھوڑوں گی نہیں‘‘ ق
31 [٣٦] جنت اور دوزخ کا باہمی مکالمہ :۔ جن پرہیزگاروں کے حق میں جنت کا فیصلہ ہوجائے گا وہ جنت میں داخل ہونے سے پہلے جنت کو زینت اور گونا گوں نعمتوں سے آراستہ و پیراستہ دیکھ لیں گے اور اس کی خوشگوار خوشبوئیں محسوس کرنے لگیں گے اگر فاصلہ زیادہ بھی ہوگا تو اسے سمٹا کر جنت کو ان کے قریب کردیا جائے گا۔ جنت میں کیسے لوگ داخل ہوں گے اور دوزخ میں کیسے؟ یہ مندرجہ ذیل حدیث میں ملاحظہ فرمائیے : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جنت اور دوزخ آپس میں تکرار کرنے لگیں۔ دوزخ نے کہا کہ مجھ میں وہ لوگ آئیں گے جو متکبر اور جابر ہیں اور جنت کہے گی کہ مجھ میں تو کمزور اور ناتواں قسم کے لوگ داخل ہوں گے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے جنت سے فرمایا :’’تو میری رحمت ہے، میں تیری وجہ سے اپنے جن بندوں پر چاہوں گا رحمت کروں گا‘‘ اور دوزخ سے فرمایا :’’تو میرا عذاب ہے، میں تیری وجہ سے اپنے جن بندوں کو چاہوں گا عذاب دوں گا‘‘ اور ان میں سے ہر ایک کو بھر دیا جائے گا۔ دوزخ تو کسی طرح نہیں بھرے گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا پاؤں اس پر رکھ دے گا۔ تب وہ کہے گی کہ بس بس، اور بھر کر سمٹ جائے گی اور اللہ تعالیٰ اپنی کسی مخلوق پر ظلم نہیں کرے گا۔ رہی جنت تو اسے پر کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ اور خلقت پیدا کر دے گا‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) ق
32 [٣٧] یعنی ایسا شخص جس کا معمول ہی یہ بن گیا ہو کہ اپنے ہر قسم کے حالات میں اللہ ہی کی طرف رجوع کرے اور اللہ کی رضا کے مطابق ہی عمل کرے۔ [٣٨] اس میں ہر قسم کی حفاظت اور محافظت شامل ہے۔ یعنی اپنے عہد و پیمان کی محافظت کرنے والا خواہ یہ عہد اللہ سے ہو یا لوگوں سے۔ نیز اپنی نمازوں کی نگہداشت کرنے والا ہو۔ حدود اللہ کا دھیان رکھنے والا ہو۔ ق
33 [٣٩] اگرچہ اس کی صفت رحمٰن ہے پھر بھی اس کی عظمت و جلال کی وجہ سے وہ اس سے ڈرتا رہا۔ اس خیال سے کہ شاید اس کا عمل اللہ کی بارگاہ میں شرف قبولیت حاصل کرتا ہے یا نہیں۔ [٤٠] منیب۔ اناب کے معنی گناہ کے کاموں سے لوٹنا یا باز آنا۔ گناہ کا اعتراف اور آئندہ نہ کرنے کا عزم کرنا۔ یعنی اس کا دل ہی ایسا تھا جسے گناہ کے کاموں سے نفرت تھی اور اگر اتفاق سے کوئی گناہ سرزد ہوجاتا تو فوراً اللہ کی طرف رجوع کرتا تھا۔ ق
34 ق
35 [٤١] جنت کی سب سے بڑی نعمت' اللہ کی رضامندی :۔ یعنی وہ کچھ تو ملے گا ہی جس کی وہ خواہش کریں گے علاوہ ازیں کچھ ایسی نعمتیں بھی انہیں ملیں گی جو ان کے تصور میں بھی نہ ہوں گی۔ چنانچہ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اہل جنت سے فرمائے گا ’’اے اہل جنت!‘‘ وہ کہیں گے : ’’ہمارے پروردگار! ہم حاضر اور تیری خدمت کے لئے مستعد ہیں۔ بھلائی تیرے ہی دونوں ہاتھوں میں ہے‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا :’’اب تم خوش ہو؟‘‘ وہ جواب دیں گے: ’’پروردگار! ہم کیوں خوش نہ ہوں گے۔ تو نے ہمیں وہ کچھ عطا فرما دیا ہے جو اپنی مخلوق میں سے اور کسی کو عطا نہیں فرمایا‘‘ اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ’’کیا میں تمہیں ایسی نعمت عطا نہ کروں جو ان سب نعمتوں سے بڑھ کر ہے؟‘‘ جنتی پوچھیں گے : ’’پروردگار! ان نعمتوں سے بڑھ کر اور کیا نعمت ہوسکتی ہے؟‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ’’میں تم پر اپنی رضا مندی اتارتا ہوں۔ اس کے بعد میں کبھی تم سے ناراض نہ ہوں گا‘‘ (بخاری۔ کتاب التوحید۔ باب کلام الرب مع اہل الجنۃ) ق
36 [٤٢] اس کا ایک مطلب تو ترجمہ سے واضح ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ یہ قومیں اتنی طاقتور اور جنگجو تھیں کہ انہوں نے اپنے ملک پر ہی اکتفا نہیں کیا تھا۔ بلکہ اردگرد کے بھی کئی ملکوں کو تاخت وتاراج کیا تھا۔ پھر جب ہمارا عذاب آیا تو انہیں کہیں بھی پناہ کی جگہ نہ مل سکی۔ ق
37 [٤٣] یعنی ہدایت اور نصیحت کے حصول کے لئے دو باتوں میں سے ایک کا ہونا ضروری ہے یا تو وہ خود اتنی عقل اور سمجھ رکھتا ہو کہ اقوام سابقہ کے حالات سن کر ان سے کوئی صحیح نتیجہ اخذ کرسکے یا اگر کوئی دوسرا اسے سمجھائے تو پوری توجہ سے سننے کے لئے تیار ہو۔ اور جس شخص میں یہ دونوں باتیں نہ ہوں اس کا کسی واقعہ سے سبق حاصل کرنا محال ہے۔ ق
38 [٤٤] یہود ونصاریٰ کا اللہ تعالیٰ پر الزام' ساتویں دن آرام کیا :۔ یہ یہود و نصاریٰ کا اللہ تعالیٰ پر من گھڑت الزام ہے کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا اور ساتویں دن آرام کیا۔ اور بائیبل میں اب بھی کتاب پیدائش (٢: ٢) میں ایسی عبارت موجود ہے۔ ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو اپنے ہی جیسا سمجھ لیا کہ جیسے ہم کام کرتے کرتے تھک جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بھی تھک گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کو اپنی یا کسی اور چیز کی مثل قرار دینا ہی سب سے بڑی گمراہی ہے۔ اس آیت میں ان کے اسی الزام کی تردید کی گئی ہے۔ ق
39 [٤٥] جب کوئی مسلمان اپنے اعداء کی شماتت، تمسخر، تضحیک، ایذا رسانیوں سے تنگ آجائے یا کسی اور وجہ سے مشکلات میں گھر جائے تو اسے صبر و برداشت سے کام لینا چاہئے اور اپنے پروردگار سے لو لگانا چاہئے اسی کو اپنا سہارا سمجھنا چاہئے۔ اسی کی تسبیح و تہلیل اور یاد میں مشغول رہنا چاہئے اس سے اس کی ذہنی کوفت بہت حد تک دور اور ہلکی ہوجائے گی یہی وہ نسخہ کیمیا ہے جس کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تلقین کی جارہی ہے اور سب مسلمانوں کو بھی متعدد مقامات پر ایسی ہی تلقین کی گئی ہے۔ ق
40 [٤٦] پانچ نمازوں کے اوقات :۔ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے پروردگار کی حمد سے مراد فرض نمازیں ہیں۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : جنت میں دیدار الہٰی :۔ سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بجلی کہتے ہیں کہ ایک رات ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کو دیکھا جو چودھویں رات کا تھا۔ عنقریب تم (جنت میں) اپنے پروردگار کو یوں بے تکلف دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو اور تمہیں کوئی تکلیف محسوس نہ ہوگی۔ پھر اگر تم ایسا کرسکو کہ تم سے طلوع آفتاب سے پہلے کی نماز (فجر) اور غروب آفتاب سے پہلے کی نماز (عصر) قضانہ ہونے پائے تو ایسا ضرور کرو۔ اس کے بعد آپ نے یہی آیت پڑھی۔ ﴿فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ ﴾(بخاری۔ کتاب التفسیر) اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ پانچ نمازوں کی فرضیت سے پہلے تین ہی نمازیں تھیں۔ فجر کی نماز، عصر کی نماز اور تہجد کی نماز اور بعض علماء اس آیت سے پانچوں نمازیں ثابت کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک طلوع آفتاب سے پہلے سے مراد فجر کی نماز ہے اور غروب آفتاب سے پہلے سے مراد ظہر اور عصر کی نمازیں اور رات کی نمازوں سے مراد مغرب اور عشا کی نمازیں ہیں۔ [٤٧] نمازوں کے بعد نوافل اور ذکر واذکار :۔ اس کے بھی دو مطلب ہیں ایک یہ کہ ہر نماز کے بعد کچھ سنت اور نوافل ادا کئے جائیں۔ واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نماز بطور نفل ادا کی وہی ہمارے لئے سنت ہے اور ہمارے ہاں جو رکعات بطور نوافل ادا کی جاتی ہیں وہ ان نوافل سے زائد ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کئے اور جسے ہم سنت نماز کہتے ہیں۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہر نماز کے بعد کچھ ذکر اذکار اور تسبیح و تہلیل بھی کیا کیجئے۔ جیسا کہ مجاہد کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھے حکم دیا کہ ہر (فرض) نماز کے بعد تسبیح پڑھا کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ﴿ وَاَدْبَار السُّجُوْدِ ﴾کا یہی مطلب ہے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) ایسے بہت سے اذکار صحیح احادیث سے ثابت ہیں جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ یہاں صرف ایک اہم ذکر درج کیا جاتا ہے جس کی بہت فضیلت آئی ہے : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کچھ محتاج لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے : ’’مالدار لوگ بلند درجات لے گئے اور ہمارا چین لوٹ لیا۔ ہماری طرح وہ بھی نمازیں ادا کرتے اور روزے رکھ لیتے ہیں۔ پھر ان کے پاس پیسہ ہم سے زائد چیز ہے جس سے وہ حج، عمرہ، جہاد اور صدقہ و خیرات بھی کرلیتے ہیں جو ہم محتاج ہونے کی وجہ سے نہیں کرسکتے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں جو تم کرو تو آگے بڑھنے والوں کو پکڑ لو اور تم کو کوئی نہ پاسکے جو تمہارے پیچھے ہے اور تم اپنے زمانہ والوں میں سے سب اچھے بن جاؤ الا یہ کہ وہ بھی یہ کام کرنے لگیں۔ تم ہر نماز کے بعد تینتیس تینتیس بار سبحان اللہ، الحمدللہ اور اللہ اکبر کہہ لیا کرو‘‘ اور بعض روایات کے مطابق سبحان اللہ ٣٣ بار، الحمدللہ ٣٣ بار اور اللہ اکبر ٣٤ بار کہنا چاہئے (تاکہ سو (١٠٠) پورا ہوجائے)‘‘ (بخاری۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب الذکر بعد الصلٰوۃ) اور بعض روایات میں ہے کہ جب مالدار لوگ بھی یہ ذکر پڑھنے لگے تو محتاج لوگ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہنے لگے کہ یہ ذکر تو مالدار لوگ بھی کرنے لگے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ اللہ کا فضل ہے، جتنا جسے چاہے دے دے۔ اس سلسلہ میں یہ بات بھی ملحوظ رکھنا چاہئے کہ ایسے ذکر کا کچھ فائدہ نہ ہوگا کہ زبان تو چل رہی ہو اور دل اور باتوں میں مشغول ہو۔ ق
41 [٤٨] یہ نفخہ صور ثانی کا وقت ہوگا اور پکارنے والا فرشتہ یہ بات کہے گا کہ ’’اے مرے ہوئے لوگو! سب اپنی اپنی قبروں سے اللہ کے حکم سے زندہ ہو کر نکل آؤ اور اللہ کے سامنے جوابدہی کے لئے پیش ہوجاؤ‘‘ قبروں میں پڑا ہوا ہر شخص یوں محسوس کرے گا کہ کہیں قریب سے ہی یہ آواز آرہی ہے۔ موجودہ سائنسی ایجادات نے اس چیز کو بہت قریب الفہم بنا دیا ہے۔ ق
42 [٤٩] بالحق کے دو مطلب ہیں ایک تو ترجمہ سے واضح ہے کہ فرشتہ کی اس ندا کو ہر شخص پوری طرح سمجھ رہا ہوگا اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس زور دار آواز سے ہی ہر شخص کو معلوم ہوجائے گا کہ جو کچھ دنیا میں پیغمبر کہتے رہے، اور جنہیں وہ جھٹلاتے رہے تھے وہ ایک ٹھوس اور اٹل حقیقت تھے جو اب ظہور میں آنے لگے ہیں۔ ق
43 ق
44 [٥٠] جس طرح زمین پھٹ جاتی ہے اور پودے کی کونپل زمین کو چیر کر اور پھاڑ کر زمین سے باہر نکل آتی ہے۔ اسی طرح اس دن زمین پھٹ جائے گی اور پودوں کی طرح انسان زمین سے اگتے اور باہر نکلتے چلے آئیں گے۔ ان کی فوراً نشوونما ہوتی چلی جائے گی پھر وہ اضطراراً اللہ کے دربار کی طرف دوڑ پڑیں گے جس میں ان کی اپنی مرضی کو کچھ دخل نہ ہوگا۔ [٥١] نباتات اور انسان کی پیدائش میں مماثلت کے پہلو :۔ اللہ تعالیٰ نے بے شمار مقامات پر نباتات کے زمین سے نکلنے اور مردہ انسانوں کے زمین سے نکلنے کو ایک دوسرے کے مشابہ قرار دیا ہے۔ اور جہاں تک میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ نباتات کے اگنے کی نسبت انسان کا زمین سے اگ آنا یا نکل آنا زیادہ آسان ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ نباتات کا اگنا ہر وقت ہمارے مشاہدہ میں آتا رہتا ہے۔ لہٰذا ہم اس میں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے اور مردوں کا اگنا چونکہ ہمارے مشاہدہ میں نہیں آیا لہٰذا کافر اس کا انکار کردیتے ہیں اور غور و فکر کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ گویا دونوں مقامات پر اصل کمی غور و فکر کی ہے۔ اب میں اس بات کو ایک مثال سے سمجھاؤں گا۔ فرض کیجئے ایک باغ میں یا ایک ہی قطعہ زمین میں چند میٹھے پھلوں مثلاً انار، آم، سیب کے درخت یا انگور کی بیلیں ہیں اور اسی قطعہ زمین میں چند کڑوے درخت یا بیلیں مثلاً نیم کا درخت یا کریلے کی بیل یا تھوہر کا پودا ہے۔ اب بارش اور مناسب آب و ہوا ملنے پر ہر درخت اور پودا اپنے بیج سے تعلق رکھنے والے اجزاء ہی زمین سے کھینچے گا اور زمین ویسے ہی اجزاء اسے مہیا کرے گی دوسرے نہیں۔ مثلاً یہ نہیں ہوسکتا کہ انار کے درخت میں انگور کے اجزاء اور شیرینی مل جائے، یا انار کے درخت میں کریلے کی کڑواہٹ کا بھی کوئی جز شامل ہوجائے۔ نہ ہی یہ ہوسکتا ہے کہ انگور کی بیل میں کچھ تھوڑے سے کریلے کے اجزاء اور کرواہٹ بھی شامل ہوجائے۔ یہی صورت انسان کی دوبارہ پیدائش یا زمین سے اگ آنے یا نکل آنے کی ہے۔ اس کا اصل بیج یعنی روح تو اللہ کے پاس پہلے ہی موجود ہے۔ اور مادی بیج بھی زمین میں محفوظ رہتا ہے اسے زمین کھا نہیں سکتی اور وہ عجب الذنب کا حصہ وہ ہے جو انسان کا مادی بیج ہے اور یہ بات احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ اب ہر انسان کا بیج زمین سے وہی اجزاء اپنی طرف کھینچے گا اور زمین اسے وہی اجزاء مہیا کرے گی جو اس کے بیج سے تعلق رکھتے ہیں زید کے جسم کے اجزاء بکر کے جسم میں داخل نہیں ہوسکتے اور نہ بکر کے اجزاء عمر کے جسم میں جاسکتے ہیں۔ اور انسانوں کا زمین سے اگنا نباتات سے بھی آسان اس لحاظ سے ہے کہ نباتات کی تقریباً پندرہ لاکھ انواع آج تک دریافت ہوچکی ہیں لیکن قیامت کو صرف دو انواع جن اور انسان زمین سے اگیں گی۔ اِلا یہ کہ کوئی اور چیز بھی اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہو۔ ق
45 [٥٢] اس جملہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تسلی بھی ہے اور کفار مکہ کے لئے وعید اور دھمکی بھی۔ [٥٣] یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ذمہ داری نہیں کہ زور اور زبردستی سے کسی کو ایمان لانے پر مجبور کردیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام اتنا ہی ہے کہ لوگوں کو یہ قرآن سنا سنا کر نصیحت کیا کیجئے پھر جس کے دل میں ذرا بھی اللہ کا خوف ہوگا وہ تو یقیناً اس نصیحت کو قبول کرلے گا اور جو لوگ قرآن سننا بھی گوارا نہ کریں تو ان کا معاملہ اللہ کے سپرد اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی ذمہ داری نہیں۔ ق
0 الذاريات
1 [١] بارش سے تعلق رکھنے والی ہوائیں اور ان کی قسم :۔ ان ابتدائی چار آیات میں مختلف قسم کی ہواؤں کا ذکر ہے جو بارش کے نظام پر دلالت کرتی ہیں۔ پہلے کچھ گردو غبار اڑنا شروع ہوجاتا ہے۔ پھر آسمان کے کسی کونے سے لاکھوں اور کروڑوں ٹن پانی کا بوجھ اٹھانے والی گھٹائیں نمودار ہوجاتی ہیں۔ پھر ٹھنڈی اور نرم ہوائیں چلتی ہیں جو بارش کی خوشخبری لاتی اور دلوں کو راحت و سرور بخشتی ہیں۔ پھر یہی ہوائیں بادلوں کو ان علاقوں کی طرف لے جاتی ہیں جہاں جہاں اللہ تعالیٰ کو بارش برسانا منظور ہوتا ہے اور جس قدر بارش برسانا منظور ہوتا ہے بعض مفسرین نے ﴿فَالْجٰرِیٰتِ یُسْرًا ﴾ سے مراد کشتیاں لی ہیں جو دھیرے دھیرے چلتی ہیں اور بعض نے سیارے جو سبک رفتاری سے محو گردش رہتے ہیں۔ اسی طرح ﴿ فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا ﴾سے بعض مفسرین نے وہ فرشتے مراد لیے ہیں جو رزق کی تقسیم پر مامور ہیں۔ ان کے نزدیک جن چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے ان کی ترتیب نیچے سے اوپر کو ہے۔ یعنی گردوغبار اڑانے والی ہوائیں تو سطح زمین پر چلتی ہیں۔ بادل اٹھانے والی ہوائیں سطح زمین سے کافی بلندی پر ہوتی ہیں۔ ستارے زمین سے بہت دور اور بلندی پر ہیں۔ اور فرشتے ان سے بھی زیادہ بلندی پر ہیں۔ ان دونوں تفسیروں میں اکثر مفسرین نے پہلی تفسیر کو ہی ترجیح دی ہے۔ الذاريات
2 الذاريات
3 [٢] آخرت دراصل انسان کے امتحان کے نتیجہ کا دن ہے جس پر جزا و سزا مرتب ہوگی :۔ زمین پر بارش کے نظام پر ہی زمین پر بسنے والی تمام مخلوق کے رزق اور زندگی کا انحصار ہے اسی وجہ سے اس پورے نظام کو بطور شہادت پیش کرکے یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ جو تم سے وعدہ کیا جارہا ہے وہ بالکل حقیقت پر مبنی ہے۔ وعدہ سے مراد آخرت کا وعدہ بھی ہوسکتا ہے۔ جنت کا بھی، دوزخ کا بھی اور عذاب کا وعدہ بھی خواہ یہ دنیا کا عذاب ہو یا آخرت کا، اور بارش کا یہ نظام آخرت کے وعدہ پر دلیل اس لحاظ سے ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اور بالخصوص یہ بارش کا نظام چل رہا ہے ان میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو عبث ہو اور کوئی مفید نتیجہ پیدا نہ کرتی ہو۔ پھر اللہ نے انسان کو جو عقل اور تمیز دی ہے اور اسے کائنات کی بے شمار چیزوں پر تصرف بخشا ہے۔ اگر اس نے دنیا میں فائدہ اٹھا کر اور بعد میں مر کر مٹی میں ہی مل جانا ہے تو اس کی پیدائش اور اس کو اتنے انعامات عطا کرنے کا نتیجہ کیا نکلا ؟ پھر جب کائنات کی کوئی بھی چیز بے کار پیدا نہیں کی گئی تو کیا انسان کو ہی بے کار پیدا کیا گیا ہے جو اشرف المخلوقات ہے؟ انسان کی پیدائش کا مفید نتیجہ جو اللہ کی مشیئت میں ہے اسی کا نام آخرت ہے اور یہ نتیجہ لازماً نکل کے رہے گا۔ لوگوں سے ان کے اعمال کی باز پرس ضرور ہوگی اور انہیں ان کے اعمال کا بدلہ مل کے رہے گا۔ الذاريات
4 الذاريات
5 الذاريات
6 الذاريات
7 [٣] حَبَکَ کا لغوی معنی :۔ حبک (الثوب) بمعنی کپڑا بننا اور حباک بمعنی جولاہا اور حبک حابک الثوب بمعنی جولاہے کا کپڑے کو کاریگری سے بننا۔ عمدہ بننا ہے (المنجد) اور کپڑا بنتے وقت ایک دھاگا طول کی طرف جاتا ہے اور دوسرا عرض کی طرف۔ پھر حبک کا معنی راستہ بھی ہے۔ (مفردات القرآن۔ منجد) اور اس کی جمع حُبُک ہے۔ گویا اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اس آسمان کی قسم جس کے طول و عرض دونوں اطراف میں بے شمار راہیں ہیں جو ایک دوسرے کو کر اس کرتی اور چوک بناتی چلی جاتی ہیں۔ اسی لحاظ سے اس کا ترجمہ بعض مترجمین نے جال دار یا جالی دار آسمان بھی کیا ہے۔ یعنی اس آسمان کی قسم جو سیاروں اور فرشتوں کی لا تعداد گزر گاہوں اور راستوں کی وجہ سے جالی دار بن گیا ہے۔ الذاريات
8 الذاريات
9 [٤] آسمان کے نظم ونسق سے معاد پر دلیل :۔ یعنی ایسے جال دار راستوں والے آسمان کی قسم کہ تم لوگ جو قیامت اور آخرت کے بارے میں بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہو تو بہت سے لوگ اس قیامت اور آخرت پر ایمان لے آئیں گے اور اس عقیدہ سے انکار صرف وہی شخص کرے گا جس نے خیر و سعادت کی تمام راہیں اپنے آپ پر بند کردی ہوں۔ ایسا ہی شخص ان باتوں کو تسلیم کرنے سے باز رہ سکتا ہے۔ ورنہ اگر وہ آسمان کے نظم و نسق میں ہی غور کرے تو اسے یقین ہوجائے کہ اس مسئلہ میں جھگڑنا محض حماقت ہے۔ الذاريات
10 [٥] آخرت سے انکار بلادلیل ہے اور محض وہم وقیاس ہے :۔ یعنی جو لوگ عقیدہ آخرت کے منکر ہیں ان کے پاس کوئی علمی بنیاد نہیں۔ آخرت کا علم نہ انسان کو مشاہدہ سے حاصل ہوسکتا ہے اور نہ محسوسات اور ادراکات سے۔ اس کے متعلق علمی بات جو کہی جاسکتی ہے وہ یہی ہے کہ اس کے ہونے اور نہ ہونے کے یعنی دونوں طرح کے امکانات موجود ہیں۔ آخرت کے قائم ہونے کے متعلق تو بہت سے دلائل بھی موجود ہیں۔ سب پیغمبروں اور آسمانی کتابوں کی یہی تعلیم رہی ہے پھر کائنات کا نظام بھی اس پر قوی دلیل ہے تو کیوں نہ اس احتمال کو تسلیم کیا جائے جس کی تائید میں بے شمار دلائل مل جاتے ہیں۔ اور اس کے نہ ہونے کے لیے اگر کوئی دلیل موجود نہیں تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ یہ محض ان کا وہم و گمان ہے۔ الذاريات
11 الذاريات
12 [٦] یعنی دنیا کی دلچسپیوں اور اس کے دھندوں میں مست اور سرشار ہیں اور آخرت سے بالکل بے فکر اور بے نیاز بنے ہوئے ہیں اور از راہ تمسخر یہ سوال کرتے ہیں کہ اجی حضرت جس قیامت سے ہمیں ڈراتے ہو وہ کب آرہی ہے؟ الذاريات
13 الذاريات
14 [٧] فتنہ کا لغوی مفہوم :۔ فَتَنَ کے لغوی معنی سونا یا چاندی کو کٹھالی میں ڈال کر تپانا، گلانا اور کھوٹ معلوم کرنا ہے۔ سابقہ آیت میں یہ لفظ انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اور فتنۃ کا لفظ دراصل آزمائش کے معنی میں آتا ہے جس میں سختی بھی پائی جائے اور اکثر برے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کے معنی آزمائش، دکھ، رنج، رسوائی، شرارت، عبرت، عذاب، مرض ہے اور فتّان بمعنی شر انگیز انسان اور شیطان ہے (منجد) اس لحاظ سے اس لفظ کا ایک وہی مطلب ہے جو ترجمہ سے واضح ہے اور دوسرا معنی عذاب لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اپنی شرارتوں کا بدلہ یا عذاب چکھو۔ [٨] عذاب کے لئے جلدی مچانا اپنے آپ سے دشمنی ہے :۔ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کے بتانے سے انسان کو پوری سمجھ آہی نہیں سکتی۔ مثلاً جس شخص نے آم نہ کھایا ہو اسے اس کا مزہ پوری طرح ذہن نشین نہیں کرایا جاسکتا۔ ہاں اسے آم کھلا کر کہا جاسکتا ہے کہ یہ ہے آم اور یہ ہے اس کا مزا۔ ان کافروں پر کوئی اللہ کا عذاب نہیں آیا تھا اور اگر آبھی جاتا تو ہلاک ہونے والوں کو بعد میں کیا بتایا جاسکتا ہے۔ آخرت میں چونکہ موت نہیں ہوگی۔ لہٰذا اس دن ان کو عذاب دے کر بتایا جائے گا کہ یہ ہے اللہ کا عذاب۔ اب اس کا مزا چکھ لو۔ یہی وہ عذاب ہے جس کے لیے تم جلدی مچاتے اور مذاق اڑاتے تھے۔ یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ اس نے اسی وقت تمہیں یہ مزا نہ چکھا دیا اور مہلت دیتا رہا مگر تم تو خود اپنے دشمن تھے جو جلدی عذاب کا مطالبہ کرتے تھے۔ الذاريات
15 الذاريات
16 [٩] یعنی اللہ تعالیٰ انہیں جو بھی نعمتیں عطا فرمائے گا بخوشی انہیں قبول کرتے جائیں گے اور یہ ان کے ان نیک اعمال کا بدلہ ہوگا جو وہ دنیا میں بجا لاتے رہے۔ ان اعمال کا ذکر آئندہ آیات میں آرہا ہے۔ الذاريات
17 [١٠] محسنین کی صفات :۔ رات کو جاگنا یعنی وہ رات کا اکثر حصہ جاگ کر اللہ کی عبادت اور ذکر کیا کرتے تھے۔ اور سورۃ مزمل میں اس کی تشریح یوں ہے کہ اگر راتیں اور دن برابر ہوں تو رات کا آدھا حصہ۔ راتیں چھوٹی ہوں تو آدھی رات سے کچھ زیادہ اور لمبی ہوں تو آدھی رات سے کچھ کم۔ اور بعض علماء نے اس کا یہ مطلب بھی لیا ہے کہ رات کے پہلے حصہ میں یا درمیانی حصہ میں یا آخری حصہ میں اللہ کی عبادت کی جائے۔ اور مکی دور میں یہی صورت ہوتی تھی۔ بعد میں سورۃ بنی اسرائیل میں تہجد کی تعیین ہوگئی۔ ھجع کے لغوی معنی:۔ ھجع کے معنی دراصل غفلت کی نیند سونا یا گھوڑے بیچ کر سونا یا دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر سونا۔ اور تہجد (ھجود) کے معنی رات کو سونا بھی اور جاگنا بھی۔ کبھی سونا کبھی جاگنا۔ (لغت اضداد) اور بظاہر اس آیت سے جو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ رات کا تھوڑا ہی حصہ سوتے تھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کی یاد سے غافل اور گھوڑے بیچ کر نہیں سوتے۔ بلکہ سوتے جاگتے انہیں اللہ کی یاد رہتی ہے۔ الذاريات
18 [١١] استغفار کرنا : اس آیت میں وقت کی بھی تعیین ہوگئی۔ یعنی وہ رات کو اللہ کی عبادت میں مشغول رہ کر اپنے اس نیک کام پر پھول نہیں جاتے۔ بلکہ پھر بھی اللہ سے بخشش طلب کرتے ہیں۔ کیونکہ انسان فطری طور پر خطا کار ہے۔ اس سے نادانستہ بھی کئی غلطیاں ہوجاتی ہیں اور اللہ غفور رحیم ہے اور اس سے ہر حال میں بخشش طلب کرتے رہنا چاہئے۔ الذاريات
19 [١٢] مال میں سائل اور محروم کا حق :۔ اس سے مراد محض اموال زکوٰۃ نہیں، کیونکہ زکوٰۃ تو اس وقت فرض بھی نہ ہوئی تھی۔ نیز ترمذی میں واضح طور پر یہ صراحت موجود ہے۔ کہ ان فی المال حقاً سوی الزکوٰۃ کہ مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق ہوتا ہے اور اس حق میں مانگنے والے بھی شامل ہیں اور نہ مانگنے والے بھی۔ یعنی نیک لوگ خود ان لوگوں کی تلاش میں ہوتے ہیں جو محتاج ہوں۔ بیوہ عورتیں ہوں، مریض یا معذور ہوں اور کما نہ سکتے ہوں یا عیالدار ہوں مگر مانگنے سے ہچکچاتے ہوں۔ اور ان کو جو کچھ دیتے ہیں وہ ان کا حق سمجھ کر انہیں ادا کرتے ہیں۔ صدقہ و خیرات کے طور پر نہیں دیتے کہ ان سے کسی شکریہ یا بدلہ کے طالب ہوں یا بعد میں انہیں احسان جتلاتے پھریں۔ یعنی جس طرح قرض ادا کرنا ایک حق اور ضروری امر ہے۔ اور قرضہ ادا کرکے کوئی احسان نہیں جتلاتا کہ میں نے تمہارا قرضہ ادا کردیا۔ اسی طرح مالدار لوگوں کے اموال میں سائل اور محروم کا حق ہوتا ہے۔ اگر وہ ادا نہ کرے گا تو اس کے اپنے سر پر بوجھ رہے گا۔ الذاريات
20 [١٣] زمین میں مختلف قسم کی قدرت کی نشانیاں :۔ اس سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو کائنات میں ہر سو بکھری ہوئی ہیں اور قرآن میں بار بار ان میں غور و فکر کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ یہ گردش لیل و نہار، یہ موسموں کی تبدیلی اور ان میں تدریج کا دستور، یہ بارش کا پورا نظام۔ اس سے مردہ زمین کا زندہ ہونا۔ مختلف قسم کی نباتات، غلے اور پھل اگانا اور اسی پیداوار سے ساری مخلوق کے رزق کی فراہمی، زمین کے اندر مدفون خزانے، سمندروں اور پہاڑوں بلکہ کائنات کی اکثر چیزوں اور چوپایوں پر انسان بے بنیان کا تصرف اور حکمرانی۔ غرض ایسی نشانیاں ان گنت اور لاتعداد ہیں۔ ان سب میں قدر مشترک کے طور پر جو چیز پائی جاتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ یہ سب چیزیں انسان کے فائدے کے لیے بنائی گئی ہیں۔ اور ان سب میں ایک ایسا نظم و نسق پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ انسان کے لیے مفید ثابت ہوتی ہے۔ اگر ان میں ایسا مربوط نظم و نسق نہ پایا جاتا تو ایک ایک چیز انسان کو فنا کرنے کے لیے کافی تھی۔ یہی بات اس چیز پر دلالت کرتی ہے کہ ان سب کا خالق صرف ایک ہی ہستی ہوسکتی ہے اور دوسرے اس بات پر کہ کائنات کے اس مربوط نظم و نسق کا کوئی مفید نتیجہ بھی برآمد ہونا چاہئے اور وہ نتیجہ آخرت ہے۔ الذاريات
21 [١٤] انسان کے اپنے وجود میں نشانیاں :۔ انسان کا اپنا وجود اور اس کے اندر کی مشینری کائنات اصغر ہے اور اس میں جو نشانیاں ہیں وہ کائنات اکبر کی نشانیوں سے کسی طرح کم نہیں۔ انسان کا معدہ ایک چکی کی طرح دن رات کام میں لگا رہتا ہے۔ جو غذا کو پیس کر ایک ملغوبہ تیار کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ جب یہ فارغ ہوجائے تو اور غذا طلب کرتا ہے جسے ہم بھوک کہتے ہیں اس ملغوبہ کی تیاری میں اگر پانی کی کمی ہو تو ہمیں پیاس لگ جاتی ہے اور ہم کھانے پینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ پھر اس کے اندر چھلنی بھی ہے جس سے چھن کر یہ ملغوبہ جگر میں چلا جاتا ہے جہاں اچھالنے والی، دفع کرنے والی، صاف کرنے والی، کھینچنے والی مشینیں اور قوتیں کام کر رہی ہیں۔ یہیں دوسری اخلاط بنتی ہیں۔ فالتو پانی کو گردے پیشاب کے راستے سے خارج کردیتے ہیں۔ قوت دافعہ فالتو مواد یا فضلہ کو خارج کرنے کا کام کرتی ہے۔ اور جس طرح انسان کھانے پینے پر مجبور ہوجاتا ہے اسی طرح رفع حاجت پر بھی مجبور ہوجاتا ہے اور اگر روکے تو بیمار پڑجاتا ہے۔ پھر انسان کے جسم میں اتنی باریک نالیاں ہیں جن کا سوراخ خوردبین کے بغیر نظر ہی نہیں آسکتا۔ انہیں کے ذریعے انسان کے جسم کے حصے کو خون پہنچتا ہے۔ اس سلسلہ میں انسان کا دل پمپ کا کام کرتا ہے جو ایک منٹ بھی ٹھہر جائے تو موت واقع ہوجاتی ہے۔ پھر انسان کا سانس لینا بھی ایک الگ پورا نظام ہے۔ سب سے زیادہ باریک آنکھ کے طبقے اور جھلیاں ہیں جو ایسی لطافت کے ساتھ بنائی گئی ہیں کہ اگر ذرا سا بھی فتور آجائے تو بینائی جواب دے جاتی ہے۔ انسان کا جسم ابتدا سے ہی حکیموں اور ڈاکٹروں کی تحقیق کا مرکز بنا ہوا ہے۔ مگر اس کے بیشتر اسرار آج تک پردہ راز میں ہی ہیں۔ ان جسم کی نشانیوں میں بھی غور کرنے سے وہی دو نتائج حاصل ہوتے ہیں جو کائنات کے نظام میں غور کرنے سے حاصل ہوتے ہیں اور جن کا سابقہ حاشیہ میں ذکر کردیا گیا ہے۔ الذاريات
22 [١٥] انسان بلکہ سب جاندار مخلوق کے رزق کا ذریعہ بارش ہے جو آسمان سے نازل ہوتی ہے۔ آسمان سے مراد بادل بھی ہوسکتا ہے اور نفس آسمان بھی۔ کیونکہ ہر علاقے میں جتنی بارش ہونا مقدر ہو اس کا حکم آسمان سے نازل ہوتا ہے اور ہر ایک کو اس کے مقدر کی روزی مل کے رہتی ہے کسی کے روکنے سے رک نہیں سکتی اور اتنی ہی ملتی ہے جتنی اس کے مقدر میں ہے اس سے زیادہ نہیں مل سکتی۔ [١٦] رزق انسان کو زندہ رہنے اور کام کرنے کے لیے دیا جاتا ہے لیکن وہ دنیا میں کتنا عرصہ کام کرے گا اور کب اور کہاں مرے گا۔ یہ فیصلہ آسمانوں سے نازل ہوتا ہے۔ نیز یہاں وعدہ سے مراد وعدہ قیامت، حشر و نشر، محاسبہ وباز پرس، جزا و سزا اور جنت و دوزخ بھی ہے۔ جن کے رونما ہونے کا وعدہ تمام آسمانی کتابوں میں دیا گیا ہے۔ قیامت اور اس سے متعلقہ امور کے سب فیصلے عالم بالا ہی میں ہوتے ہیں۔ الذاريات
23 [١٧] یعنی جس طرح تمہیں اپنے بولنے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہوتا ویسے ہی اس کلام میں بھی کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ قیامت ضرور قائم ہوگی۔ آخرت آکے رہے گی۔ تمہارے اعمال کا ضرور محاسبہ کیا جائے گا۔ پھر تمہیں قرار واقعی سزا بھی دی جائے گی۔ الذاريات
24 [١٨] سیدنا ابراہیم کے ہاں فرشتوں کا سیدنا اسحٰق کی خوشخبری دینے کا ذکر پہلے سورۃ ہود کی آیت ٦٩ تا ٧٦، سورۃ حجر آیت ٥١ تا ٦٠ اور سورۃ عنکبوت کی آیت نمبر ٣١، ٣٢ میں گزر چکا ہے وہ حواشی بھی دیکھ لیے جائیں۔ [١٩] سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے ہاں فرشتوں کی آمد :۔ یہ معزز مہمان فرشتے تھے اور بعض مفسرین کے نزدیک یہ تین فرشتے تھے۔ سیدنا جبرائیل، سیدنا میکائیل اور سیدنا اسرافیل جو انسانی شکلوں میں آئے تھے۔ الذاريات
25 [٢٠] اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ نے فرشتوں سے کہا ہو کہ آپ غالباً اس علاقہ میں نئے نئے تشریف لائے ہیں۔ پہلے آپ سے ملاقات نہیں ہوسکی اور دوسرا یہ کہ آپ نے اپنے دل میں ایسا کہا ہو یا ضیافت کے وقت اندر جاتے ہوئے گھر والوں سے کہا ہو۔ الذاريات
26 [٢١] یعنی فرشتوں سے یہ نہیں پوچھا کہ آپ کھانا کھائیں گے؟ کیونکہ مہمان عموماً اس کے جواب میں یہی کہہ دیتے ہیں کہ تکلیف کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ چپکے سے اندر آگئے اور ایک موٹا تازہ بچھڑا ذبح کرکے اسے گھی میں تل کر یا بھون کر مہمانوں کی ضیافت کے لیے لے آئے۔ الذاريات
27 الذاريات
28 [٢٢] سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے خوف کی دو وجہیں ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ عرب میں قبائلی دستور یہ تھا کہ اگر مہمان کھانا نہ کھائے تو یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہ کسی بری نیت سے آیا ہے۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ عین ممکن ہے کہ مہمانوں کے کھانا نہ کھانے سے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو معلوم ہوگیا ہو کہ انسان نہیں بلکہ فرشتے ہیں۔ اس صورت سے ڈرنے کی وجہ یہ تھی کہ فرشتے غیر معمولی حالات کے سوا انسانی شکل میں نہیں آیا کرتے لہٰذا آپ کو خوف لاحق ہوا کہ غالباً کوئی خوفناک معاملہ در پیش ہے۔ الذاريات
29 [٢٣] سیدنا ابراہیم کو اسحاق کی خوشخبری :۔ جب فرشتوں نے سیدنا اسحٰق کی خوشخبری دی تو ان کا خوف جاتا رہا۔ البتہ ان کی بیوی آگے بڑھی اور تعجب سے اپنا ہاتھ اپنی پیشانی پر مارتے ہوئے کہا یہ کیسے ہوگا ؟ میں تو بانجھ ہوں، جوانی میں بھی اولاد نہ ہوئی اور اب تو بوڑھی بھی ہوچکی ہوں۔ اب یہ کیسے ہوگی؟ الذاريات
30 [٢٤] فرشتوں نے کہا ہم یہ نہیں جانتے کہ کیسے ہوگا ؟ ہم تو یہ جانتے ہیں کہ چونکہ تیرے پروردگار نے ایسا کہا ہے لہٰذا ایسا ضرور ہوگا اور وہ اپنے کام کی حکمتوں کو خود ہی خوب جانتا ہے کہ وہ سیدنا ابراہیم پر کیسی کیسی نوازشات کرنا چاہتا ہے۔ الذاريات
31 [٢٥] خَطْب کا لغوی مفہوم :۔ خَطْب بمعنی حال، معاملہ، مقصد خواہ چھوٹا ہو یا بڑا اور یہ لفظ عام طور پر کسی ناپسندیدہ معاملہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یعنی جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو یہ معلوم ہوچکا تھا کہ یہ فرشتے ہیں اور فرشتے انسانی شکل میں غیر معمولی حالات میں ہی آیا کرتے ہیں۔ بیٹے کی بشارت سے ان کا اپنا ڈر تو دور ہوگیا تاہم ابھی اصل حیرت کا معاملہ باقی تھا۔ لہٰذا آپ نے فرشتوں سے پوچھا کہ آپ کس مہم پر تشریف لائے ہیں اور کیا مقصد ہے؟ الذاريات
32 [٢٦] ذکر قوم لوط :۔ یہ مجرم قوم، قوم لوط تھی جس کے تعارف کے لیے مجرم قوم ہی کہہ دینا کافی ہے۔ کیونکہ وہ مجسم مجرم تھی۔ اللہ کے ساتھ شرک کرتی تھی۔ لواطت کی بانی اور موجد تھی۔ مسافروں سے لواطت کرکے ان کا مال اسباب چھین کر اپنی بستی سے چلتا کردیتی تھی۔ آخرت کی اور رسولوں کی منکر تھی اور اپنے نبی کو اپنی بستی سے نکال دینے کی دھمکیاں دیتی تھی۔ غرضیکہ وہ ہر طرح کے کفر و شرک اور فسق و فجور میں مبتلا قوم تھی۔ الذاريات
33 [٢٧] یعنی ایسے نوکیلے اور چبھ جانے والے کنکر جو ابھی پوری طرح پتھر نہ بنے ہوں اور ان کا کچھ حصہ مٹی سے پتھر بن رہا ہو۔ الذاريات
34 [٢٨] یہ لوگ طبعی حدود بھی پھاند گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے تو جنسی خواہش کی تکمیل کے لیے عورت کو پیدا کیا تھا۔ مگر انہوں نے عورت کو چھوڑ کر مردوں سے ہی یہ خواہش پوری کرنا شروع کردی تھی۔ علاوہ ازیں سب اخلاقی اور قانونی حدود بھی پھاند گئے تھے۔ اسی وجہ سے ان کا مجرم قوم کے طور پر تعارف کرایا گیا۔ [٢٩] اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ یہ پتھر صرف مجرم قوم کے افراد ہی کو ہلاک کریں گے۔ اگر کسی دوسرے کو لگ بھی جائیں تو اسے ہلاک نہیں کریں گے۔ اور دوسرے یہ کہ ہر پتھر پر نشان کردیا گیا تھا کہ وہ فلاں شخص کو ہلاک کرے گا۔ الذاريات
35 الذاريات
36 [٣٠] قوم لوط میں مسلمانوں کا صرف ایک گھرانہ تھا :۔ یہ سیدنا لوط علیہ السلام کا گھرانہ تھا۔ مفسرین کہتے ہیں کہ یہ کل تیرہ افراد تھے جو اس تباہ کن عذاب سے بچے تھے۔ ان کی بیوی بھی تباہ ہوجانے والوں میں شامل تھی۔ ممکن ہے آپ پر ایمان لانے والوں نے بھی آپ کے ہی گھر میں پناہ لے رکھی ہو۔ واضح رہے کہ سیدنا لوط علیہ السلام پر ایمان لانے والوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے مسلمان ہی کے لقب سے نوازا ہے جس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے نزدیک دین حق صرف اسلام ہی ہے اور سب نبیوں پر ایمان لانے والے مسلمان ہی ہوتے تھے۔ اور ابتداءً مسلمان ہی کہلاتے تھے۔ بعد میں ہر نبی کی امت نے اپنے لیے علیحدہ علیحدہ نام رکھ لیے تھے۔ پھر وہ انہیں ناموں سے متعارف ہونے لگے۔ الذاريات
37 [٣١] لوگوں کے لئے نشانی بحیرہ مردار :۔ وہ نشانی یہ تھی کہ جب فرشتوں نے اس پورے خطہ زمین کو اٹھا کر اور بلندی پر لے جاکر پھر اس کو الٹا کر زمین پر دے مارا تو یہ پورا خطہ زمین کے اندر دھنس گیا اور سطح سمندر سے چار سو کلومیٹر نیچے چلا گیا اور اس کے اوپر کالا پانی چڑھ آیا۔ جو ایک سمندر کی شکل اختیار کرگیا۔ پانی کے اس ذخیرہ کو بحر میت یابحیرۂ مردار یا غرقاب لوطی کہا جاتا ہے۔ اس بحیرہ مردار (Dead Sea) کا جنوبی علاقہ آج بھی عظیم الشان تباہی کے آثار پیش کر رہا ہے۔ الذاريات
38 [٣٢] یعنی ایسے معجزات جن سے واضح طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام فی الواقع اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہیں۔ اور یہ معجزے عصائے موسیٰ اور یدبیضا تھے۔ الذاريات
39 [٣٣] فرعون سیدنا موسیٰ کو جادوگر یا دیوانہ کیوں کہتا تھا ؟ یعنی اپنی حکومت سے تعلق رکھنے والے تمام افراد اور ملازموں کو ساتھ ملا کر مشترکہ طور پر موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کی مخالفت اور اللہ کے حکم سے سرتابی کی پھر اپنے تمام ذرائع ابلاغ کو کام میں لاکر ملک بھر میں مشہور کردیا کہ موسیٰ یا تو جادو گر ہے یادیوانہ ہے۔ وہ جادوگر اس لیے کہتا تھا کہ اپنی قوم کو وہ یقین دلانا چاہتا تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کے معجزے بس جادو کے کرشمے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں اور دیوانہ اس لیے کہتا تھا کہ آپ نے فرعون جیسے جابر اور قاہر فرمانروا سے کھلے الفاظ میں یہ مطالبہ کردیا تھا کہ بنی اسرائیل کو آزاد کرکے میرے ہمراہ روانہ کردو۔ وہ کبر و نخوت کا پتلا یہ سمجھتا تھا کہ اگر موسیٰ جیسا کمتر آدمی جو ہمارا قتل کا مفرور مجرم بھی ہے، مجھ سے ایسا مطالبہ کرے تو یہ اس کی دیوانگی نہیں تو اور کیا ہے؟ الذاريات
40 [٣٤] یعنی جب یہ ظالم و جابر حکمران اپنے لشکروں سمیت غرق ہوگیا تو کسی نے ان کی تباہی پر آنسو نہ بہائے۔ ہر کوئی انہیں ملامت کرتا اور برے لفظوں سے یاد کرتا تھا کہ اللہ کا شکر ہے کہ اس ملعون سے جان چھوٹی۔ الذاريات
41 [٣٥] قوم عاد پر تباہ کُن ہوا :۔ ﴿رِیْحَ الْعَقِیْمِ﴾لفظی معنی بانجھ ہوا۔ یعنی ایسی ہوا جو ہر طرح کی خیرو برکت سے خالی ہو۔ اور اس میں سراسر نقصان ہی نقصان ہو۔ بعض ہوائیں راحت پہنچانے والی، بعض خوشبو سے دماغ کو معطر کردینے والی، بعض بارش کی خوشخبری لانے والی، بعض بادل اٹھانے والی اور بعض نر درختوں کا تخم اٹھانے والی ہوتی ہیں۔ ان سب میں کوئی نہ کوئی خیر و برکت کا پہلو ہوتا ہے مگر جو ہوا قوم عام پر چھوڑی گئی وہ ہر طرح کی خیر وبرکت سے خالی اور بانجھ تھی۔ الذاريات
42 [٣٦] یہ بانجھ ہوا باد صرصر تھی اولوں کی طرح ٹھنڈی یخ اور آندھی سے بھی زیادہ تیز۔ جو بے قابو ہوئی جارہی تھی۔ یہ طوفانی ہوا ان پر مسلسل سات راتیں اور آٹھ دن چلی۔ ان کے مکانوں کے اندر داخل ہو کر ہر چیز کو فنا کر رہی تھی۔ اس کا ذکر قرآن میں متعدد مقامات پر پہلے بھی گزر چکا ہے اور بعد میں بھی آئے گا۔ الذاريات
43 [٣٧] ذکر قوم ثمود :۔ قوم ثمود کی طرف صالح علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے۔ انہوں نے قوم کو اللہ کا پیغام پہنچایا لیکن وہ مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے۔ اس وقت صالح علیہ السلام نے کہا کہ اگر تم اس دعوت کو قبول نہ کرو گے تو تم پر عذاب الٰہی آکے رہے گا۔ اس عذاب سے پیشتر ہی تم دنیا کے مال و متاع سے فائدہ اٹھا سکتے ہو۔ یا ممکن ہے یہاں حین سے مراد عذاب کے وقت کے بجائے ان کی موت کا وقت ہو۔ الذاريات
44 [٣٨] گرنے والی بجلی کا عذاب :۔ صاعقۃ آسمان سے گرنے والی بجلی کو کہتے ہیں اور وہ جس چیز پر گرتی ہے اسے جلا کر خاکستر بنا دیتی ہے۔ قوم ثمود کا قصہ بھی پہلے بہت سے مقامات پر گزر چکا ہے۔ ان پر جو عذاب نازل ہوا اس کے لیے کہیں صیحة (زبردست چیخ، کڑک، دھماکہ) کا لفظ آیا ہے اور کہیں رجفۃ (زلزلہ) کا۔ گویا ان پر زمین سے عذاب آیا تھا اور آسمان سے بھی اور ہر مقام پر کسی ایک پہلو کا ذکر کردیا گیا ہے۔ الذاريات
45 [٣٩] انتصر کے دو مفہوم :۔ یعنی عذاب سے دہشت کا یہ عالم تھا کہ جو بیٹھا تھا اس کو اٹھ کر کھڑا ہونے کی بھی ہمت نہیں پڑتی تھی۔ کہیں جاکر عذاب سے پناہ لینا تو دور کی بات ہے۔ انتصار کا لفظ دو معنوں میں آتا ہے۔ ایک یہ کہ اگر کوئی حملہ کرے تو اس سے اپنا بچاؤ کرنا اور دوسرا یہ کہ جو حملہ کرے اس سے بدلہ لے لینا۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ یہ قوم بڑے مضبوط جسم والی بڑے ڈیل ڈول والی، اپنی طاقت اور قوت پر فخر و ناز کرنے والی تھی اور ڈھینگیں مارنے والی تھی۔ پھر جب ان پر ہمارا عذاب نازل ہوا تو یہ بدلہ تو نہ لے سکی۔ الذاريات
46 [٤٠] ذکر قوم نوح :۔ سیدنا نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کا ذکر نہایت اختصار کے ساتھ صرف ایک آیت میں پیش کردیا گیا ہے۔ اس میں اس قوم کے جرم اور اس کی سزا دونوں کا ذکر آیا ہے۔ سابقہ آیات میں چند تاریخی شواہد پیش کرکے یہ ثابت کیا جارہا ہے کہ مکافات عمل کا قانون اس کائنات میں جاری و ساری ہے۔ سب قوموں کے ایک جیسے جرم اور انجام سے سبق :۔ جس قوم نے بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے سرتابی کی اور اکڑ دکھائی اس کا انجام یہی ہوا کہ وہ تباہ و برباد ہوکے رہی۔ اور یہ عذاب محض ان کی گرفتاری کے حکم کا درجہ رکھتا تھا تاکہ وہ مزید جرائم نہ کرسکیں اور دوسرے لوگ ان کے مظالم سے بچ جائیں۔ رہی ان کے جرائم کی اصل سزا تو وہ قیامت کے دن مقدمہ، شہادتوں اور ثبوت جرم کے بعد دی جائے گی۔ اور یہ تاریخی واقعات، ان کا سبب اور ان کا نتیجہ سب کچھ کفار کو سنائے جارہے ہیں تاکہ وہ خود ہی سمجھ جائیں کہ اگر وہ لوگ بھی حق کی مخالفت سے باز نہ آئے تو ان کا بھی ایسا ہی انجام ہوسکتا ہے۔ الذاريات
47 [٤١] کائنات کی وسعت :۔ کائنات میں بے شمار چیزیں ایسی ہیں جن میں آج تک تخلیق اور توسیع کا عمل جاری ہے۔ اور آئندہ بھی جاری رہے گا۔ سب سے پہلے انسان ہی کو لیجئے۔ اس کی نسل بڑھ رہی ہے۔ تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہی کائنات کا شاہکار ہے۔ پھر زمین کی پیداوار بھی اللہ تعالیٰ اسی نسبت سے بڑھاتے جا رہے ہیں۔ اس آیت میں بالخصوص آسمان کا ذکر ہے۔ آسمان کی پیدائش کا بھی یہی حال ہے یہاں آسمان سے مراد پہلا آسمان یا کوئی خاص آسمان نہیں بلکہ یہاں سماء سے مراد فضائے بسیط ہے جب کہ اس آیت ﴿ثُمَّ اسْتَوٰٓی اِلَی السَّمَاۗءِ فَسَوّٰیھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ ﴾(۲۹:۲) میں بھی سماء سے مراد فضائے بسیط ہے۔ جس میں لاتعداد مجمع النجوم اور کہکشائیں ہیئت دانوں کو ورطہ حیرت میں ڈال کر ان کے علم کو ہر آن چیلنج کر رہی ہیں۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ ہیئت دان جوں جوں پہلے سے زیادہ طاقتور اور جدید قسم کی دوربینیں ایجاد کر رہے ہیں توں توں اس بات کا بھی انکشاف ہو رہا ہے کہ کائنات میں ہر آن مزید وسعت پیدا ہو رہی ہے۔ سیاروں کے درمیانی فاصلے بھی بڑھ رہے ہیں اور نئے نئے اجرام بھی مشاہدہ میں آرہے ہیں۔ الذاريات
48 [٤٢] زمین گہوارہ کیسے ہے؟ یعنی سطح زمین کو ہموار بنا دیا تاکہ لوگ اور دوسرے جانور آسانی سے اس پر چل پھر سکیں۔ پھر سطح زمین پر ایک زرخیز چھلکا چڑھا دیا جس میں روئیدگی کی قوت رکھ دی تاکہ زمین پر رہنے والوں کو غذا مہیا ہوسکے۔ زمین کو سورج سے اتنی دور رکھا کہ زمین پر بسنے والے جاندار اس کی گرمی سے جل کر تباہ نہ ہوجائیں۔ اور نہ ہی اتنا زیادہ دور کردیا کہ وہ سردی سے ٹھٹھر کر مرجائیں۔ نیز انسان کی جملہ ضروریات خوردونوش، لباس، مسکن اور مدفن سب چیزوں کو زمین سے وابستہ کردیا۔ اس طرح انسان اس قابل ہوگیا کہ کائنات کی اکثر چیزوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زندگی کے ہر میدان میں ترقی کی منزلیں طے کرسکے اور قیامت تک اس زمین پر آباد رہ سکے۔ الذاريات
49 [٤٣] ہر چیز کے جوڑے اور زوج کے مختلف مفہوم :۔ زوج کا لفظ عربی میں تین معنوں میں آتا ہے۔ (١) متضاد اشیاء جیسے دن اور رات، دھوپ اور سایہ، روشنی اور تاریکی، سیاہی اور سفیدی، خوشی اور رنج، خوشحالی اور تنگدستی وغیرہ۔ (٢) ہم مثل اشیاء کے لیے جیسے پاؤں کے دونوں جوتے ایک دوسرے کا زوج ہیں۔ اسی طرح ہر دور کے مشرک ایک دوسرے کا زوج ہیں۔ ایک ہی نوعیت کے مجرم ایک دوسرے کا زوج ہیں۔ (٣) نر و مادہ کے لیے مثلاً خاوند بیوی کا زوج ہے، بیوی خاوند کی زوج ہے۔ ہر نر مادہ کا زوج ہے اور ہر مادہ نر کا زوج ہے۔ اور اس آیت میں غالباً اسی قسم کے زوج مراد ہیں۔ جانداروں میں ایک دوسرے کا زوج تو سب کے مشاہدہ میں آچکا ہے۔ نباتات میں بھی یہ سلسلہ قائم ہے۔ باربردار ہوائیں نر درختوں کا تخم مادہ درختوں پر ڈال دیتی ہیں تو تب ہی ان میں پھل لگتا اور پکتا ہے اور جدید تحقیق کے مطابق یہ سلسلہ جمادات میں بھی پایا جاتا ہے۔ بجلی کا مثبت اور منفی ہونا یا ایک حقیر سے ذرہ میں الیکٹرون اور پروٹون کا مثبت اور منفی ہونا انسان کے علم میں آچکا ہے۔ مقناطیس میں بھی مثبت اور منفی سرے ہوتے ہیں۔ اور جمادات تو کیا ہر چیز ذرات ہی کا مجموعہ ہوتی ہے۔ اس نرو مادہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ سلسلہ چلایا کہ ان دونوں کے ملاپ سے ایک تیسری چیز وجود میں آتی ہے جس میں بعض دفعہ تو اصل نر اور مادہ کے کچھ کچھ خواص موجود ہوتے ہیں اور بعض دفعہ یہ تیسری چیز ایسی چیز پیدا ہوتی ہے جس کے خواص پہلی دونوں چیزوں سے بالکل جداگانہ ہوتے ہیں اور اسی چیز کا نام کیمیا یا کیمسٹری ہے۔ انسان کا علم جس حد تک پہنچ چکا ہے وہ بہرحال محدود ہے۔ جبکہ وحی الٰہی پورا علم ہے جس میں یہ خبر دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے جوڑے پیدا کئے ہیں اور ان میں غور کرنے سے انسان کو اللہ کی قدرت کاملہ سے متعلق بہت سبق ملتے اور اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ الذاريات
50 الذاريات
51 [٤٤] انہی مذکورہ اشیاء کا ذکر کرکے انسان کو دعوت دی جارہی ہے کہ یہ سب کچھ معلوم کرلینے کے بعد تمہیں چاہیے کہ فوراً ان اشیاء کے خالق کی طرف رجوع کرو۔ اور صرف اسی کی طرف رجوع کرو۔ کیونکہ تخلیق، ملکیت اور تصرف سب کچھ اسی کا ہے۔ دوسرا کوئی اس میں حصہ دار نہیں۔ الذاريات
52 [٤٥] ہر نبی کو ساحر اور دیوانہ کہا جاتا رہا ہے :۔ یعنی یہ ساحر اور دیوانہ کا جو لقب کفار مکہ کی طرف سے آپ کو دیا گیا ہے۔ تو آپ اس لقب میں منفرد نہیں بلکہ پہلی قوموں نے اپنے اپنے رسولوں کو انہی القاب سے نوازا تھا۔ کفار رسولوں کو ساحر تو اس لحاظ سے کہتے تھے کہ بعض کفار کے مطالبہ پر اور بعض دفعہ مطالبہ کے بغیر ان پیغمبروں سے ایسے واقعات کا ظہور یا صدور ہوتا تھا جو خرق عادت ہوتے تھے۔ جنہیں معجزات بھی کہا جاتا ہے اور مجنوں اس لحاظ سے کہتے تھے کہ پیغمبر جو دعوت پیش کرتا ہے وہ ساری قوم کے مزاج اور اعتقاد کے خلاف ہوتی تھی اور رسول یہ دعوت پیش کرکے ساری قوم کی مخالفت مول لے لیتا تھا۔ اور یہی بات ان لوگوں کی نگاہ میں دیوانگی تھی۔ الذاريات
53 [٤٦] سب کافروں میں قدر مشترک :۔ ان کے اس کردار کے تسلسل سے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر قوم اپنے بعد میں آنے والی قوم کو یہ وصیت کرکے مرتی رہی کہ اگر تمہارے پاس کوئی رسول آئے تو تم بھی اسے ساحر اور مجنون ہی کہنا۔ بات یوں نہیں کہ ان قوموں کے درمیان کافی بعد زمانی یا مکانی پایا جاتا ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ایسے سب کافروں میں چند باتیں قدر مشترک کے طور پر پائی جاتی ہیں اور وہ ہیں آبائی دین سے محبت ' عصبیت ' ہٹ دھرمی، اکڑ اور شریعت کی پابندیوں سے آزادی کی خواہش۔ جو انہیں اس بات پر مجبور کردیتی ہیں کہ پیغمبروں کو ان القاب یا ان جیسے ملتے جلتے القابات سے پکار کر ان کا مذاق اڑائیں۔ اس سے ایک اور اہم بات کا پتہ چلتا ہے کہ نیکی اور بدی، عدل اور ظلم سے متعلق جو محرکات نفس انسان میں بالطبع پائے جاتے ہیں وہ ہر دور میں ایک جیسے رہے ہیں، تبدیلی صرف واقعات میں ہوئی ہے۔ مثلاً جو رقابت سیدنا یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کو سیدنا یوسف سے تھی وہ آج بھی بھائیوں میں ویسے ہی پائی جاتی ہے اگرچہ حالات اور واقعات مختلف ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہر دور کے کافروں کا اپنے انبیاء سے مذاق و تمسخر اور القابات ایک ہی جیسے رہے ہیں۔ اگرچہ ان کے حالات و واقعات مختلف قسم کے تھے۔ الذاريات
54 الذاريات
55 [٤٧] سعید روحوں کا نصیحت کی انتظار :۔ یعنی پیغمبر یا داعی حق کے کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ وہ اللہ کا پیغام مسلسل پہنچاتے رہیں۔ خواہ ان کے سامنے مخالف یا ناقدر شناس ہی بیٹھے ہوں۔ اس لیے کہ انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ انسانی معاشرے کے لاکھوں کروڑوں افراد میں وہ سعید روحیں کہاں ہیں جو اس دعوت کو ماننے کے لئے تیار بیٹھی ہیں اور فقط دعوت کے پہنچنے کا انتظار کر رہی ہیں۔ یہی لوگ اس کی اصل دولت اور سرمایہ ہیں۔ انہی کی تلاش اس کا اصل کام ہے۔ ایسے ہی لوگ اس کا دست راست بننے اور اس کے ساتھ مصائب جھیلنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔ الذاريات
56 [٤٨] عبادت کا وسیع مفہوم :۔ ساری کائنات میں جن اور انسان ہی تکالیف شرعیہ کی مکلف مخلوق ہے۔ ان کو میں نے دوسروں کی بندگی کے لیے نہیں بلکہ اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے۔ اس لیے کہ میں ہی ان کا خالق ہوں۔ اب اگر یہ مجھے اپنا خالق تسلیم کرنے کے باوجود بندگی دوسروں کی کرنے لگیں تو ان کی حماقت کی کوئی حد ہے؟ اور دوسرے جب وہ خالق ہی نہیں تو انہیں کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ بندگی کے مستحق یا معبود بن بیٹھیں۔ واضح رہے کہ عبادت کا مفہوم محض ارکان اسلام کی بجا آوری نہیں ہے جیسا کہ عوام میں مشہور ہوچکا ہے۔ بلکہ غلام ہر وقت اپنے مالک کا غلام ہے۔ اگر مالک نے کچھ کاموں پر اس کی ڈیوٹی لگا دی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ مالک اسے کوئی دوسرا کام کرنے کو کہہ نہیں سکتا۔ یا ملازم ڈیوٹی کے طے شدہ کام کے علاوہ دوسرے کام سے انکار کا حق رکھتا ہے۔ لہٰذا بندہ ہر وقت اور ہر حال میں اللہ کا بندہ ہے اور اسے ہر وقت اور ہر حال میں اللہ کی اطاعت اور عبادت میں مصروف رہنا چاہئے۔ الذاريات
57 [٤٩] اہل عرب غلاموں کی کمائی کھاتے تھے اور اللہ اپنے بندوں کو کھلاتا ہے :۔ دور نبوی کے عرب معاشرہ میں غلام رکھنے کا رواج تھا اور مالک ان سے اپنی خدمت ہی نہیں لیتے تھے بلکہ انہیں کمائی کے لیے بھیجتے اور ان کی کمائی کھاتے تھے۔ گویا غلام ہی ان کا سرمایہ تھے۔ جس کے پاس جتنے زیادہ غلام ہوتے اتنا ہی وہ زیادہ مالدار سمجھا جاتا تھا۔ موجودہ دور میں اس کی مثال فیکٹری سے دی جاسکتی ہے۔ ایک فیکٹری میں اگر دس ملازم ہیں اور دوسری میں سو ہیں تو سو ملازموں کی فیکٹری کا مالک یقیناً زیادہ سرمایہ دار اور مالدار سمجھا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تمام انسان اور جن میرے بندے اور غلام ہیں۔ لیکن میں ان کی کمائی نہیں کھاتا نہ ہی مجھے اس کی حاجت ہے، بلکہ رزق تو میں خود سب کو دے رہا ہوں میں لے کیسے سکتا ہوں؟ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے ایک اہم نکتہ معلوم ہوتا ہے جو یہ ہے کہ معبود حقیقی کی شان یہ ہے کہ وہ رزق دیتا ہے لیتا نہیں۔ جبکہ دوسرے معبود اپنے عبادت گزاروں سے رزق اور پیسے لیتے ہیں۔ اگر عبادت گزار اور مرید حضرات اپنے نذرانے اور نیازیں دینا بند کردیں تو ان کی خدائی ایک دن بھی نہ چل سکے۔ یہی دلیل ان کے باطل ہونے کے لیے کافی ہے۔ رہی یہ بات کہ اللہ تعالیٰ نے اگر دوسروں کو عبادت سے منع کیا ہے تو اپنی عبادت کا کیوں حکم دیا ہے؟ کیا اسے اس کی احتیاج ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسے کوئی احتیاج نہیں کیونکہ وہ بے نیاز ہے۔ کسی کے عبادت کرنے یا نہ کرنے سے نہ اس کا کچھ بگڑتا ہے اور نہ سنورتا ہے۔ بلکہ اللہ کی عبادت کرنے اور خالق و مالک کا حق پہچاننے میں ان کا اپنا ہی بھلا ہے جیسا کہ بے شمار آیات و احادیث سے واضح ہے۔ الذاريات
58 [٥٠] متین کا لغوی مفہوم :۔ متین : متن کے معنی کسی چیز کا اپنی ذات میں مضبوط ہونا اور اس میں صلابت کا پھیل جانا اور حبل متین بمعنی مضبوط رسی، اور اللہ تعالیٰ کے متین ہونے کا یہ مطلب ہے کہ وہ مضبوط اور غیر متزلزل ہے جسے کوئی ہستی یا کوئی قوت اس کے مقام یا اس کے ارادہ سے ہلا نہیں سکتی۔ الذاريات
59 [٥١] کنوئیں وغیرہ سے پانی نکالنے والا ڈول یا بالٹی اگر خالی ہو تو اسے دلو کہتے ہیں اور اگر بھرا ہوا ہو تو اسے ذنوب کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ دعوت حق کی مخالفت کے لحاظ سے یہ مکہ کے ظالم لوگ بھی اسی پستی تک پہنچ چکے ہیں۔ اور ان کی بقا کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے جیسے ان جیسے اور ان سے پہلے کے ظالموں کا ہوا تھا۔ اور اب ان پر اللہ کا عذاب آنے والا ہے (اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورۃ مکی زندگی کے آخری دور میں نازل ہوئی تھی) لہٰذا انہیں جلدی مچانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اب ان کے گناہوں سے بھرا ہوا ڈول ڈوب کے ہی رہے گا۔ الذاريات
60 [٥٢] یہ وعدہ کا دن قیامت کا دن بھی ہوسکتا ہے، ان کی موت کا بھی اور بدر کا دن بھی، جو دن بھی ہو ان کی تباہی بہرحال یقینی ہے۔ پھر معلوم نہیں یہ کس خوشی میں جلدی مچا رہے ہیں؟ الذاريات
0 الطور
1 [١] کوہ طور کے مختلف نام اور محل وقوع :۔ طور کو طور سیناء اور طور سینین بھی کہا گیا ہے۔ سیناء اور سینین دونوں ایک ہی پہاڑ کے نام ہیں۔ جس کی سطح سمندر سے بلندی ٧٢٦٠ فٹ ہے اور مدین سے مصر یا مصر سے مدین جاتے ہوئے (شام کے ملک میں) راستے میں پڑتا ہے۔ اسی مقام پر موسیٰ علیہ السلام کو دو دفعہ اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی کا شرف حاصل ہوا۔ اسی پہاڑ کی ایک چوٹی کا نام طور ہے اور اسی پہاڑ کے دامن میں واقع وادی کا نام طویٰ ہے جسے قرآن میں وادی مقدس اور بقعۃ المبارکۃ بھی کہا گیا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام جب بنی اسرائیل کو مصر سے نکال کر لائے تو اسی راستے سے گزرے تھے۔ کوہ طور کو اسی نسبت سے طور سینین کہا جاتا ہے۔ الطور
2 الطور
3 [٢] رق کا لغوی مفہوم :۔ رَقِّ بمعنی پتلا اور نرم ہونا اور رق ہر وہ چیز ہے جو پتلی اور نرم ہو۔ مثلاً درختوں کے پتے جھلی، پتلا چمڑہ اور کاغذ وغیرہ (مفردات) اور کتب سماویہ عموماً جھلی اور پتلے چمڑے پر لکھے جاتی تھیں۔ تاکہ امتداد زمانہ کا ساتھ دے سکیں اور خراب نہ ہوں۔ اور نشر کے معنی کھولنا بھی ہے اور پھیلانا بھی۔ پہلے معنی کے لحاظ سے اس کا مطلب ہوگا وہ کتاب جس کے صفحات کھلے ہوئے ہیں، کہتے ہیں نَشَرْتُ الْکِتَابَ ثُمَّ طَوَیْتُہ، میں نے کتاب کھولی پھر بند کردی اور اس سے مراد کوئی بھی آسمانی کتاب ہوسکتی ہے بلکہ لوح محفوظ بھی اور ربط مضمون یا طور کے ذکر کے لحاظ سے تورات کی تختیاں بھی۔ اور دوسرے معنی کے لحاظ سے اس سے مراد اہل کتاب کی کتابوں کا وہ مجموعہ ہے جو دور نبوی میں بھی دستیاب تھا، نایاب نہیں تھا اور لوگوں میں معروف و مشہور تھا۔ الطور
4 [٣] بیت المعمور کونسا گھر ہے؟ یعنی ہر وقت آباد رہنے والا گھر۔ اس سے مراد خانہ کعبہ ہے۔ جو ہر وقت حج و عمرہ اور طواف اور عبادت کرنے والوں سے بھرا رہتا ہے اور کبھی خالی نہیں ہوتا۔ نیز اس سے مراد ساتویں آسمان پر فرشتوں کی وہ عبادت گاہ بھی ہے جو خانہ کعبہ کے عین سیدھ میں واقع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شب معراج میں جب آسمانوں کی سیر کرائی گئی تو آپ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اسی گھر کی دیوار سے ٹیک لگائے دیکھا تھا۔ الطور
5 [٤] اس سے مراد وہ نیلگوں آسمان ہے جو ہمیں اپنے سروں پر قبہ کی طرح چھایا ہوا نظر آتا ہے نیز اس سے پورے کا پورا عالم بالا بھی مراد لیا جاسکتا ہے۔ الطور
6 [٥] مسجور۔ سجر میں کسی چیز کے بھرے ہوئے ہونے اور اس میں مخالطت یا تلاطم کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ (مقائیس اللغۃ( اور اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اس سمندر کی قسم جو لبالب بھرا ہوا بھی ہے اور اس کے تلاطم میں اتنا جوش ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے ابل رہا ہو۔ الطور
7 [٦] پانچ قسموں کی تفصیل :۔ مذکورہ بالا پانچ چیزوں کی قسم کھاتے ہوئے یا انہیں بطور شہادت پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ قیامت اور اس کا عذاب واقع ہو کے رہے گا جس کا مطلب یہ ہے کہ پانچوں چیزیں کسی اہم مفید اور قدرت کاملہ پر دلالت کرتی ہیں۔ پھر اسی قدرت کاملہ سے انسان کو یہ یقین حاصل ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فی الواقع قیامت بپا کرنے پر قادر ہے۔ (١) طور وہ مقام ہے جہاں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو نبوت عطا ہوئی اور اسی رات اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ صادر کردیا تھا کہ بنی اسرائیل کو فرعون جیسے جابر بادشاہ کی غلامی سے آزاد کیا جائے گا۔ چنانچہ یہ آزادی انہیں نصیب ہوئی اور ان کا دشمن غرق ہوا۔ (٢) تمام کتب سماویہ جو اہل کتاب کے ہاں موجود تھیں سب میں صراحت کے ساتھ آخرت کے یقینی ہونے کا ذکر موجود تھا (٣) کعبہ کی رونق اور آبادی، کعبہ کی ابرہہ یا اصحاب الفیل سے حفاظت، کعبہ کی تولیت کی بنا پر قریش مکہ کا عرب بھر میں عزت و احترام اور سیاسی برتری سب چیزیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اس کی پشت پر کوئی زبردست قوت موجود ہے (٤) اسی اونچی چھت کو دوسرے مقام پر محفوظ چھت بھی کہا گیا ہے یعنی فضائے بسیط میں لاتعداد شہاب ہر وقت ٹوٹتے اور گرتے رہتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ ایسا انتظام کردیا ہے کہ زمین پر گرنے سے پہلے ہی ختم ہوجاتے ہیں اور انسان ایسی بلاؤں سے محفوظ رہتے ہیں، (٥) اس بھرے ہوئے سمندر کو اللہ نے کس طرح روک اور باندھ رکھا ہے۔ یہ ممکن تھا کہ سمندر کا سارا پانی زمین میں جذب ہوجاتا پھر نہ بخارات بنتے نہ بارش ہوتی اور نہ پیداوار۔ اس طرح تمام جاندار مخلوق کو کھانا تو درکنار پانی بھی پینے کو نہ ملتا۔ نیز اللہ تعالیٰ نے سمندر کو اس بات سے بھی روک رکھا ہے کہ وہ جوش میں آکر روئے زمین پر پھیل جائے اور سطح زمین کو غرقاب کردے۔ ان سب چیزوں کو شہادت کے طور پر پیش کرکے فرمایا کہ وہ عذاب واقع ہو کر رہے گا۔ الطور
8 الطور
9 [٧] مور کا لغوی مفہوم :۔ تمور۔ مار میں بنیادی تصور حرکت اور تیز رفتاری ہے النَّاقَۃ تَمُوْرُ فِی سَیْرِھَا بمعنی اونٹنی کا تیز رفتاری کی وجہ سے غبار اڑاتے چلے جانا (مفردات) اور مور بمعنی غبار بن کر ہوا میں اڑنا (فقہ اللغۃ) اور مارَالشَّی بمعنی کسی چیز کا تیز رفتاری کی وجہ سے آگے پیچھے ہلنا، لرزنا اور توازن کھو دینا (منجد) گویا اس دن آسمان کے انجر پنجر ہل جائیں گے وہ کانپنے، لرزنے، ہچکولے کھانے، ڈگمگانے اور با لآخر ذرات کی شکل میں تبدیل ہو کر اڑنے لگے گا۔ الطور
10 [٨] یعنی وہ پہاڑ جو زمین کی ڈگمگاہٹ اور ہچکولوں کو بند کرنے کے لیے زمین پر پھیلائے گئے تھے ان کی زمین میں اپنی گرفت ڈھیلی پڑجائے گی اور وہ خود تیزی سے اڑتے پھریں گے اور ایسا معلوم ہوگا جیسے وہ دھنکی ہوئی روئی کے گالے ہیں جو اڑ رہے ہیں۔ اس طرح زمین و آسمان کا سارا نظام ہی درہم برہم ہوجائے گا۔ الطور
11 [٩] ایسا ہوگا وہ دن جس کے لیے کفار جلدی مچا رہے ہیں جو آتے ہی کافروں کی تباہی لائے گا، ان کافروں کی جو آج دنیا کی دلفریبیوں میں مست ہو کر اس دن کا مذاق اڑاتے اور مذاق اڑا کر خوش ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ اس دن سے پہلے ایمانداروں کو دنیا سے اٹھا لیا جائے گا۔ اور یہ دن صرف کافروں پر ہی واقع ہوگا جیسا کہ صحیح حدیث میں مذکور ہے کہ ”لَا تَقُوْمَ السَّاعَۃُ اِلَّا عَلٰی شَرَار النَّاسِ“یعنی قیامت بدترین لوگوں پر قائم ہوگی۔ الطور
12 الطور
13 [١٠] دعَّ بمعنی دھکے مار کر نکال دینا۔ سختی سے رفع کرنا (فقہ اللغۃ) یعنی کافر جہنم کی طرف جانے کو تیار نہ ہوں گے تو انہیں دھکے مار مار کر جہنم کی طرف لے جایا جائے گا۔ الطور
14 الطور
15 [١١] یعنی دنیا میں جب تمہیں تمہارے برے انجام سے ڈرایا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ تم مر کر زندہ کیے جاؤ گے پھر تمہاری باز پرس اور محاسبہ ہوگا پھر تمہیں تمہارے برے اعمال کی سزا ملے گی تو تم کہہ دیتے تھے کہ یہ تو بس جادوگری ہے۔ اب بتاؤ کیا یہ جادو ہے یا حقیقت؟ یا جیسے تمہیں دنیا میں کوئی حقیقت نظر نہ آتی تھی آج بھی یہ بات نظر نہیں آرہی کہ یہ تمہارے ہی اعمال کا بدلہ ہے۔ الطور
16 [١٢] تم نے دنیا میں یہ طے کرلیا تھا کہ جو کچھ بھی ہو ہم کبھی اس دعوت حق کو قبول نہیں کریں گے اور پھر اپنی اس ہٹ دھرمی پر ڈٹ گئے تھے۔ اسی طرح تمہارے عذاب میں کمی نہیں کی جائے گی تم چیخو چلاؤ یا صبر کرکے عذاب برداشت کرتے جاؤ۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ الطور
17 [١٣] یعنی جو لوگ اللہ کے فرمانبردار بن کے رہے تاکہ اس کے عذاب سے بچ جائیں۔ ان کو صرف عذاب سے بچایا ہی نہیں جائے گا بلکہ پربہار باغات میں داخل کیا جائے گا۔ الطور
18 [١٤] جنت میں داخلہ محض اللہ کی مہربانی سے ہوگا :۔ جنت میں پرہیزگاروں کے داخلہ کے بعد اللہ تعالیٰ کے اس فرمان، کہ انہیں دوزخ کے عذاب سے بچا لیا جائے گا، سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں داخلہ اللہ تعالیٰ کی الگ نعمت ہے۔ اور دوزخ کے عذاب سے بچا لینا الگ نعمت ہے۔ اور بعض مقامات پر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح طور پر فرمایا کہ دوزخ کے عذاب سے بچ جانا ہی بہت بڑی کامیابی ہے۔ گویا کامیابی کا اصل معیار دوزخ کے عذاب سے بچنا ہے۔ رہا جنت میں داخلہ تو یہ محض اللہ کے فضل اور مہربانی سے ہوگا۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ کو یہ فرماتے سنا کہ’’ کسی شخص کو اس کا عمل جنت میں نہیں لے جائے گا‘‘ صحابہ رضوان اللہ اجمعین نے عرض کیا : ’’یارسول اللہ! کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال بھی؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’میرے اعمال بھی مجھ کو جنت میں نہیں لے جائیں گے الا یہ کہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی مجھے ڈھانپ لے‘‘ (بخاری، کتاب المرضیٰ۔ باب تمنی المریض الموت) الطور
19 الطور
20 الطور
21 [١٥] کم درجہ والی اولاد کو والدین سے ملادینا :۔ یعنی والدین نیک اور پرہیزگار تھے۔ اولاد نے اپنے والدین کی پیروی کی کوشش تو کی مگر نیکی اور پرہیزگاری میں اس درجہ تک نہ پہنچے جو والدین کا درجہ تھا تو اللہ تعالیٰ اولاد پر یہ مہربانی فرمائیں گے کہ ان کو بھی ان کے والدین کے درجہ تک پہنچا کر جنت میں ان کے والدین کے ساتھ ملا دیں گے تاکہ والدین اور اولاد جیسے دنیا میں اکٹھے رہے تھے جنت میں بھی اکٹھے رہ سکیں اور والدین اور اولاد دونوں کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں۔ اس سلسلہ میں یہ نہ ہوگا کہ کچھ والدین کا کچھ درجہ کم کردیا اور کچھ اولاد کا کچھ بڑھا دیا اور دونوں کو ایک درمیانی درجہ کے مقام میں جنت میں ملا دیا بلکہ اولاد کا درجہ ہی بڑھایا جائے گا والدین کا کم نہیں کیا جائے گا۔ [١٦] ہر شخص کے اللہ کے ہاں گروی ہونے کا مفہوم :۔ یعنی ہر شخص پر اللہ تعالیٰ کے احسانات اور نعمتیں قرض ہیں اور اس کے بدلے انسان کا نفس اللہ تعالیٰ کے پاس بطور رہن یا مرہونہ چیز ہے۔ قرض کی ادائیگی کی صورت یہ ہے کہ انسان اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرے۔ اس کے احکام کی تعمیل کرے اور اس کے ساتھ کسی قسم کا شرک نہ کرے۔ جس شخص نے یہ قرض ادا کردیا اس کا نفس عذاب جہنم سے آزاد ہوگیا۔ وہ کامیاب ہوگیا' اور بچ نکلا اور جس نے یہ قرض ادا نہ کیا اس کا نفس پہلے ہی اللہ کے پاس رہن رکھا ہوا ہے۔ اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ جنت محض اللہ کے فضل سے ملے گی۔ دوسرے یہ کہ ایک شخص کی نیکی دوسرے کے نفس کو نہ رہا کرا سکے گی اور نہ عذاب جہنم سے بچا سکے گی۔ الطور
22 [١٧] صرف پھل اور گوشت ہی نہیں بلکہ جنت کی تمام نعمتیں ختم نہ ہونے والی اور لازوال ہوں گی۔ الطور
23 [١٨] اہل جنت جام شراب کے لیے ایک دوسرے سے چھینا جھپٹی اس لیے نہیں کریں گے کہ انہیں شراب کے ذخیرہ میں کمی واقع ہوجانے کا خطرہ ہوگا بلکہ محض خوش طبعی کے طور پر وہ یہ شغل لگائیں گے۔ [١٩] جنت میں شراب کے دور :۔ دنیا کی شراب میں کئی قباحتیں ہوتی ہیں۔ مثلاً اس کا مزہ تلخ ہوتا ہے اور بو ناخوشگوار، اس کا نشہ سر کو چڑھ جاتا ہے جس سے سر چکرانے لگتا ہے اور بعض دفعہ درد بھی کرنے لگتا ہے۔ اس کا نشہ عقل پر چھا کر اس میں فتور پیدا کردیتا ہے۔ پھر اسی نشہ کی حالت میں انسان بعض دفعہ بکواس بکنے لگتا ہے بعض دفعہ کسی کی بے عزتی کر بیٹھتا ہے یا کوئی اور گناہ کا کام کر بیٹھتا ہے اور اس کا فائدہ صرف یہ ہوتا ہے کہ عارضی طور پر کچھ سرور حاصل ہوتا ہے اور دوران اس کے غم غلط ہوجاتے ہیں حالانکہ یہ بھی دراصل فتور عقل کا ہی نتیجہ ہوتا ہے۔ جنت کی شراب میں اس کا فائدہ یعنی لذت وسرور تو ضرور حاصل ہوگا مگر وہ ہر طرح کے نقصانات سے پاک ہوگی۔ الطور
24 [٢٠] نوخیز لڑکے :۔ یہ نوخیز لڑکے بے ریش ہوں گے اور ہمیشہ نوخیز ہی رہیں گے۔ ان کی خوبصورتی، صفائی اور پاکیزگی کا یہ عالم ہوگا جیسے موتی ابھی اپنی صدف میں ہی محفوظ ہوں یا کسی جواہرات والی ڈبیہ میں چھپا دیئے گئے ہوں تاکہ ان پر گردوغبار کا کوئی ذرہ نہ پڑجائے۔ بالفاظ دیگر وہ اتنے خوبصورت اور صاف ستھرے ہوں گے کہ ہاتھ لگنے سے بھی میلے معلوم ہوں گے۔ الطور
25 الطور
26 [٢١] یعنی دنیا میں بیتے ہوئے ایام کی یاد تازہ کرنا چاہیں گے اور کہیں گے ہمیں تو ہر وقت یہی دھڑکا لگا رہتا تھا کہ ہم سے کوئی ایسا فعل سرنہ زد ہوجائے جس کی پاداش میں اللہ کے حضور ہماری جواب طلبی اور گرفت ہوجائے۔ اور گھر والوں کا ذکر اس لیے کریں گے کہ انسان دنیا میں بہت سے گناہ کے کام محض اہل و عیال کی خاطر کرتا ہے۔ مال و دولت کی ہوس کی وجہ سے اسے مال کمانے میں حرام و حلال کی تمیز نہیں رہتی۔ الطور
27 الطور
28 [٢٢] یعنی ہم دنیا میں اللہ سے ڈرتے بھی رہتے تھے اور ساتھ ہی اللہ سے دعائیں بھی مانگا کرتے تھے کہ اے پروردگار! ہمیں جہنم کے عذاب سے بچائے رکھنا۔ سو اللہ نے ہماری دعا کو شرف قبولیت بخشا اور ہمیں اس عذاب سے بچا لیا اور یہ جنت اور اس کی نعمتیں جو عطا فرمائی ہیں تو یہ اس کا خاص احسان اور اس کی مہربانی ہے کہ ہمیں ہمارے اعمال اور دعاؤں سے بڑھ کر ثواب عطا کیا۔ الطور
29 [٢٣] کفار کا آپ کو کاہن دیوانہ اور شاعر کے القابات سے نوازنا :۔ یہاں سے پھر کفار مکہ کے آپ پر تبصروں اور القابات کی طرف رخ مڑ گیا ہے۔ ان آیات میں اگرچہ روئے سخن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے مگر حقیقت میں یہ خطاب کفار مکہ کی طرف ہے۔ یعنی اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ دشمن بغض و عناد کی بنا پر آپ کو کاہن یا مجنوں کہتے ہیں تو ان کی اس بکواس سے آپ کاہن یا مجنوں بن نہیں جائیں گے۔ انہیں ایسی بکواس کرتے رہنے دیجئے اور آپ اپنے کام میں مصروف رہیے اور لوگوں کو قرآن سنا سنا کر نصیحت کرتے جائیے۔ الطور
30 الطور
31 [٢٤] وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح شاعر لوگ وقتی طور پر اپنے سامعین کو متاثر کرلیتے ہیں لیکن ان کا کوئی قابل ذکر کارنامہ باقی نہیں رہتا۔ ان کے مرنے کے ساتھ ہی ان کی شخصیت بھی دنیا سے ختم ہوجاتی ہے۔ اسی صورت حال کی توقع وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی رکھتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے منتظر بیٹھے ہیں کہ کب آپ کو موت آلیتی ہے اور ان کی اس مصیبت سے جان چھوٹتی ہے۔ آپ ان سے کہیے کہ تم میرے متعلق گردش ایام کا انتظار کرو اور میں اس انتظار میں ہوں کہ تمہیں تمہاری ان کرتوتوں کی سزا کب اور کس طرح ملتی ہے؟ الطور
32 [٢٥] قریش مکہ کا حقیقت حال سے پوری طرح واقف ہونا :۔ آپ کی زندگی بھر کی پاکیزہ سیرت اور کردار ان کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ لہٰذا وہ جو کچھ الزامات آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر لگا رہے ہیں خود ان کی عقلیں ان چیزوں کو تسلیم کرنے سے ابا کرتی ہیں۔ چنانچہ سرداران قریش اپنی نجی محفلوں میں متعدد بار اس بات کا اعتراف کرچکے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ شاعر ہیں نہ کاہن ہیں، نہ جادوگر ہیں اور نہ دیوانہ ہیں۔ وہ دل سے یہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واقعی اللہ کے رسول اور قرآن واقعی اللہ کا کلام ہے لیکن اگر وہ اس بات کا اعتراف کرلیتے تو خود مرتے تھے۔ ان کی سرداریاں ختم ہوتی تھیں اور انہیں رسول کا تابع فرمان بن کر رہنا پڑتا تھا اور یہ باتیں انہیں کسی قیمت پر گوارا نہ تھیں۔ لہٰذا خوئے بدرا بہانہ بسیار، کے مصداق آپ پر طرح طرح کی الزام تراشیاں کرتے اور ایسے غیر معقول القابات سے پکارتے تھے۔ پھر یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ انہوں نے کبھی کسی شاعر، کسی کاہن، کسی جادوگر یا کسی مجنوں کی اس طرح مخالفت نہیں کی۔ جس طرح آپ کی کر رہے ہیں؟ نہ کسی شاعر، کسی کاہن، کسی جادوگر یا مجنوں کا کلام سننے پر ایسی پابندی لگائی ہے جس طرح کی پابندی یہ قرآن سنانے، سننے اور بلند آواز سے پڑھنے پر لگا رہے ہیں؟ انہیں کسی شاعر، کسی کاہن، کسی جادوگر یا کسی مجنوں سے ایسا خطرہ کیوں لاحق نہیں ہوتا جیسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے انہیں لاحق ہے؟ یہ سب باتیں اس بات کا قطعی ثبوت ہیں کہ وہ دل سے یہ جان چکے ہیں کہ آپ واقعی اللہ کے رسول اور قرآن اللہ کا کلام ہے۔ ان کی عقلیں صحیح حکم لگاتی ہیں لیکن ان کی سرکش طبیعتیں انہیں راہ حق کی طرف آنے میں مزاحم ہورہی ہیں۔ الطور
33 [٢٦] قرآن سے متعلق قریش کے آپ پر الزامات :۔ ان کے منجملہ الزامات سے ایک یہ بھی تھا کہ قرآن اس نے خود تصنیف کر ڈالا ہے اور پھر اسے اللہ کی طرف منسوب کردیتا ہے۔ اور کبھی یہ کہہ دیتے کہ قرآن کسی عجمی عالم سے سیکھ کر ہمیں سنا دیتا ہے اور کہہ دیتا ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ انہیں یہ الزام لگاتے وقت اتنی بھی شرم نہ آئی کہ جس شخص نے زندگی بھر کسی سے جھوٹ نہ بولا ہو۔ کسی پر الزام نہ لگایا ہو، کسی سے فریب نہ کیا ہو، کیا وہ اللہ پر ایسا الزام لگا سکتا ہے؟ پھر انہوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ اس کا کلام تو ہم نبوت سے پہلے بھی سنتے رہے ہیں اور نبوت کے بعد وہ صرف اللہ کا کلام ہی نہیں سناتا اور بھی بہت سی باتیں کرتا ہے۔ تو کیا اس کے کلام میں اور اللہ کے کلام میں انہیں کچھ بھی فرق محسوس نہیں ہوتا، اصل معاملہ یہ ہے کہ ان کی عقلیں تو ٹھیک کام کرتی ہیں مگر ان کی نیتوں میں فتور ہے جس کی وجہ سے انہوں نے یہ تہیہ کر رکھا ہے کہ وہ کسی قیمت پر ایمان نہیں لائیں گے۔ الطور
34 [٢٧] اس کی تشریح کے لیے دیکھیے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٢٩ کا حاشیہ الطور
35 [٢٨] دہریت ونیچریت کا رد : یعنی اتفاقات کے نتیجہ میں پیدا ہوگئے ہیں جیسا کہ دہری اور نیچری حضرات کا خیال ہے اور ان کا پیدا کرنے والا کوئی نہیں؟ یہ خیال اس لیے باطل ہے کہ یہ ایک ایسے بدیہی امر کے خلاف ہے جس کی دلیل یا ثبوت کی ضرورت کوئی بھی نہیں سمجھتا اور وہ بدیہی امر یہ ہے کہ ہر بنی ہوئی چیز کا کوئی بنانے والا ضرور ہوتا ہے از خود نہیں بن جاتی۔ [٢٩] یعنی وہ خود ہی اپنے خالق ہیں۔ سابقہ آیت سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ ان کی پیدائش میں ان کا اپنا کچھ عمل دخل نہیں تھا۔ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ یہ اپنے ہی عمل دخل اور ارادہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ اور یہ خیال بھی ایک بدیہی امر کے خلاف ہے جو یہ ہے کہ کوئی چیز بیک وقت خالق اور مخلوق نہیں ہوسکتی۔ یعنی خود ہی بننے والی ہوا اور خود ہی بنانے والی ہو، پھر جب یہ دونوں باتیں نہیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ان کو بنانے والا یا پیدا کرنے والا کوئی اور ہے۔ اور بنانے والے کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ جیسے وہ چاہے بنائے اور جس مقصد کے لیے چاہے بنائے۔ بنی ہوئی چیز اپنے بنانے والے کے ہاتھوں بے بس ہوتی ہے وہ اس کے سامنے اکڑ نہیں سکتی، پھر لوگ کیسے اپنے خالق کے حکم سے سرتابی کے مجاز ہوگئے؟ الطور
36 [٣٠] یعنی اگر اس کائنات کے خالق یہ ہیں تو پھر اس میں ان کا تصرف بھی چلنا چاہئے۔ اور آزادانہ زندگی بسر کرنے کے بھی مجاز ہوسکتے تھے۔ لیکن جب خود انہیں اس بات کا اعتراف ہے کہ کائنات کا خالق اللہ ہے تو پھر یہ اس کے آگے کیوں اکڑنے لگے ہیں؟ اصل معاملہ یہ ہے کہ یہ لوگ زبانی تو اعتراف کرلیتے ہیں کہ ہر چیز کا خالق اللہ ہے۔ لیکن اس اعتراف کے تقاضوں کو اس لیے پورا نہیں کرتے کہ اپنے اس اعتراف پر خود بھی پورا یقین نہیں رکھتے۔ الطور
37 [٣١] یہ کافروں کے ایک اعتراض کا جواب ہے۔ وہ کہتے تھے کہ اگر اللہ نے کسی بشر کو رسول بنانا تھا تو کیا اسے یہی شخص اس کام کے لیے پسند آیا تھا۔ مکہ اور طائف کے سردار مرگئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ کیا اللہ کی رحمت کے خزانوں کے مالک یہ ہیں؟ یا اللہ نے اپنے خزانوں کی تقسیم کا اختیار ان کو دے رکھا ہے کہ جونسی نعمت جسے چاہیں دے دیں؟ الطور
38 [٣٢] یعنی عالم بالا سے کوئی ایسی بات سن آئے ہیں کہ مکہ میں جو نبی پیدا ہوا ہے اسے ہم نے تو نہیں بھیجا تھا۔ اس نے از خود ہی کچھ کلام تالیف کرکے لوگوں سے کہہ رکھا ہے کہ یہ کلام مجھ پر اللہ کی طرف سے نازل ہوتا ہے؟ اگر کوئی ایسی بات ہے تو اس کا ثبوت پیش کریں۔ پھر جب رسالت کی تردید کے لیے ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں تو وہ اس قدر ہٹ دھرمی اور سختی سے اس کا انکار کیسے کر رہے ہیں؟ الطور
39 [٣٣] پھر جب انہیں عالم بالا تک رسائی بھی حاصل نہیں تو پھر انہیں کیسے معلوم ہوگیا کہ اللہ کو نظام کائنات چلانے کے لیے اولاد کی ضرورت ہے؟ پھر ان بدبختوں نے اللہ کے لیے اولاد بنا ڈالی اور وہ بھی بیٹے نہیں بلکہ بیٹیاں جنہیں یہ خود سخت ناپسند کرتے ہیں۔ الطور
40 [٣٤] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے معاوضہ اور نذریں نیازیں طلب کرتے۔ جیسے عموماً مذہب کے ٹھیکیدار حضرات اپنے معتقدین اور مریدوں سے وصول کرتے اور اپنی دکانیں خوب چمکا لیتے ہیں۔ یہاں یہ معاملہ بھی نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے نذرانے طلب کریں اور وہ اسے بوجھ سمجھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پرے ہٹ جائیں۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ مذہبی ٹھیکیداروں کے بالکل برعکس تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ذاتی سرمایا دین کے کاموں میں صرف کر ڈالا تھا۔ دین کی تبلیغ کی وجہ سے آپ کا کاروبار ٹھپ ہوچکا تھا۔ پھر آپ اس تبلیغ کے کام کا کسی صورت میں معاوضہ بھی نہیں لیتے تھے۔ بلکہ بالکل بے لوث اور بے غرض ہو کر انسانیت کی خدمت کر رہے تھے۔ الطور
41 [٣٥] جس کی بنا پر انہیں یقین ہوچکا ہے کہ آپ اپنے دعوائے رسالت میں جھوٹے ہیں اور اللہ پر جھوٹ باندھ رہے ہیں۔ الطور
42 [٣٦] اگر یہ سب باتیں نہیں تو لامحالہ یہ ان کی فریب کا رانہ چالیں ہیں کہ آپ پر طرح طرح کے الزامات لگا کر لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بدظن کردیں اور آپ کی ہمت توڑ دیں۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ عنقریب یہ اپنی چالبازیوں، شاطرانہ چالوں اور سازشوں کے جال میں خود پھنس جائیں گے۔ واضح رہے کہ کافروں کے حق میں یہ پیشین گوئی مکی زندگی کے اس دور میں کی گئی جب بیچارے مسلمان کافروں کے ظلم و جور کی چکی میں بری طرح پس رہے تھے اور کسی کو یہ خیال تک بھی نہ آسکتا تھا کہ یہ سارا معاملہ الٹ بھی سکتا ہے۔ الطور
43 الطور
44 [٣٧] کافروں کی ہٹ دھرمی کی انتہا :۔ بعض دفعہ مسلمانوں کو حتیٰ کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ خیال آجاتا تھا کہ کافر جس حسی معجزہ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کوئی ایسا معجزہ دکھا دے تو ممکن ہے یہ لوگ ایمان لے آئیں جس سے اسلام کی قوت میں اضافہ ہوجائے اور مسلمانوں پر مصائب کم ہوجائیں۔ اس آیت میں مسلمانوں کو بتایا جارہا ہے کہ یہ لوگ کبھی ایمان نہ لائیں گے کیونکہ یہ اس قدر ضدی اور ہٹ دھرم واقع ہوئے ہیں کہ اگر ان کے مطالبہ کے مطابق آسمان سے کوئی ٹکڑا گرا بھی دیا جائے تو پھر بھی یہ اس کی طبعی توجیہیں تلاش کرنے لگیں گے اور کہہ دیں گے کہ آسمان کا ٹکڑا کب ہے؟ یہ تو بادل کا ٹکڑا ہے جو تہہ بہ تہہ ہو کر موٹا ' غلیظ اور بوجھل ہونے کی وجہ سے زمین پر گر پڑا ہے۔ الطور
45 [٣٨] اس سے مراد نفخہ صور اول ہے۔ یعنی ان لوگوں یا ان جیسے ہٹ دھرم لوگوں کی بدبختی کا یہ عالم ہے کہ اگر انہیں قیامت تک زندگی مل جائے تو بھی ایمان نہیں لائیں گے۔ انہیں ان باتوں کا یقین تب ہی آئے گا جب عذاب خود ان پر واقع ہوجائے گا۔ لہٰذا آپ ایسے لوگوں کے پیچھے نہ پڑیں۔ بس اپنا کام کرتے جائیے۔ الطور
46 الطور
47 [٣٩] دنیا میں جو جو چھوٹے موٹے عذاب آتے ہیں وہ لوگوں کو خبردار کرنے کے لیے آتے ہیں کہ ان کے اوپر کوئی بالا تر ہستی موجود ہے۔ لہٰذا وہ سنبھل جائیں۔ مگر لوگوں کی اکثریت ایسی ہے جو ایسے عذاب کو نہ عذاب سمجھتی ہے نہ تنبیہ بلکہ وہ اس عذاب کا کوئی طبعی سبب اور اپنے کفر پر جمے رہنے کا کوئی بہانہ ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ الطور
48 [٤٠] اس کا ایک مطلب تو ترجمہ سے واضح ہے کہ ان نامساعد حالات سے نجات کے لیے جب تک اللہ کا حکم آنہیں جاتا۔ آپ صبر کیجئے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ پروردگار کے جو احکام اب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مل چکے ہیں ان کی تعمیل اور بجاآوری میں صبر و استقامت سے ڈٹے رہیے۔ [٤١] ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بےیارو مددگار نہیں چھوڑیں گے اور جب ہماری حکمت کا تقاضا ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نجات کی راہ بتا دیں گے اور ان کافروں کی تمام سازشوں اور تدبیروں کو ناکام بنادیں گے۔ [٤٢] اس جملہ کے کئی مطلب ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ جب آپ نیند سے بیدار ہوں تو اللہ کی حمد و تسبیح بیان کی جائے۔ دوسرا یہ کہ جب آپ نماز کے لیے کھڑے ہوں تو حمد و تسبیح بیان کیجئے۔ تیسرا یہ کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبلیغ اور خطاب کے لیے کھڑے ہوں تو اس کا افتتاح حمد و تسبیح سے کیا کیجئے اور چوتھا یہ کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مجلس سے اٹھنے لگیں تو اس وقت اللہ کی حمد و تسبیح بیان کیجئے اور ایسے تمام مواقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حمد و تسبیح بیان فرمایا کرتے تھے۔ الطور
49 [٤٣] رات سے مراد مغرب، عشا اور تہجد کی نمازیں بھی ہوسکتی ہیں اور ان کے علاوہ ذکر الٰہی بھی۔ اور ستاروں کے غروب ہونے سے سپیدہ صبح کے ظہور کا وقت ہے۔ جب سب ستاروں کی روشنی ماند پڑنے لگتی ہے پھر غائب ہوجاتے ہیں اور اس سے مراد نماز فجر ہے۔ الطور
0 النجم
1 [١] بعض علماء نے ﴿ألْنَّجْمُ﴾ سے مراد زہرہ لیا ہے بعض نے ثریا اور بعض نے اس سے مراد ستاروں کی جنس لی ہے۔ یعنی اس وقت کی قسم جب ستارے غائب ہوجاتے ہیں اور دن کی روشنی پھیل جاتی ہے۔ یا ان ستاروں کی قسم جو اپنی مقررہ راہ ہی پر چلتے رہتے ہیں کبھی ادھر ادھر نہیں ہٹتے۔ النجم
2 [٢] روئے سخن کفار مکہ کی طرف ہے اور رفیق سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جن کی سیرت و کردار سے کفار مکہ بچپن سے واقف تھے۔ انہیں قسم دے کر بتایا جارہا ہے کہ تمہارے یہ رفیق تاریکی میں نہیں بلکہ دن کی روشنی میں ٹھیک صراط مستقیم پر چل رہے ہیں نہ وہ راستہ بھولے ہیں کہ ادھر ادھر پھرتے رہیں اور نہ ہی راستہ سے بہکے ہوئے ہیں۔ النجم
3 النجم
4 [٣] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال کی شرعی حیثیت اور منکرین حدیث :۔ ان آیات کے اولین مخاطب تو کفار مکہ ہیں۔ مگر یہ آیتیں چونکہ آپ کے اقوال کو وحی اور واجب الاتباع قرار دیتی ہیں لہٰذا منکرین حدیث ان کو مقید بھی کرتے ہیں اور ان کا مذاق بھی اڑاتے ہیں۔ مثلاً ایک صاحب نے یوں کہا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے گھر جاکر اپنی کسی زوجہ سے یہ کہتے کہ ’’میرا جوتا لاؤ‘‘ تو کیا یہ بھی وحی ہوتی تھی؟ اور اکثر منکرین اس کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف جو کچھ وحی کی جاتی رہی وہ سب قرآن میں آگئی ہے۔ اسی پر کفار کو اعتراض اور اسی پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کا تکرار اور جھگڑا رہتا تھا۔ اور آپ کی قرآن کے علاوہ دوسری باتیں جو بحیثیت انسان کے ہیں وہ قابل اتباع نہیں ہیں۔ اس طرح یہ حضرات چونکہ تمام ذخیرہ حدیث کو اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو دین سے خارج اور ناقابل اتباع بلکہ واضح الفاظ میں بے کار ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا ہم اس پر ذرا تفصیل سے بات کریں گے۔ ان لوگوں کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے اقوال کو صرف دو حصوں تقسیم میں کردیا۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کا رسول ہونے کی حیثیت سے کتاب اللہ کے معلم، مفسر اور شارح بھی تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن کی جو تعلیم، تفسیر اور تشریح فرمائی وہ بھی دین ہی سے متعلق تھی۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال دو کے بجائے تین حصوں میں تقسیم ہوئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف بولتے ہی نہ تھے، کچھ کرتے بھی تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے افعال بھی اسی طرح واجب الاتباع تھے جیسے اقوال۔ اس طرح تین کے بجائے اور بھی زیادہ حصے ہوگئے۔ مختصراً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے درج ذیل پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں جن سے معلوم ہوجائے گا کہ دین میں سنت کی کیا ضرورت اور کیا مقام ہے : ١۔ تشریعی امور : قرآن میں نماز کا حکم تو تقریباً سات سو بار آیا ہے مگر اس کی تفصیل کہیں بھی نہیں کہ اسے کیسے ادا کیا جائے۔ کتنی نمازیں ہوں۔ ان کے صحیح اوقات کیا ہیں۔ ہر نماز میں رکعات کی تعداد کتنی ہے اور اس کی ترکیب کیا ہے؟ اسی طرح حج کیسے ادا کیا جائے، زکوٰۃ کتنی وصول کی جائے؟ قضایا کا فیصلہ کیونکر کیا جائے۔ ہر قضیہ کے لیے شہادتوں کا نصاب اور طریق کار کیا ہے۔ یا نکاح میں عورت کی رضامندی کا حق اور اس کی اہمیت، خلع کا حق، صلح و جنگ کے قواعد کی تفصیلات وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام امور ایسے ہیں کہ انسان سنت یا آپ کے اقوال و افعال سے بے نیاز ہو کر انہیں بجا لا ہی نہیں سکتا۔ گویا قرآن کو ماننے اور جاننے کا واحد ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے۔ پھر یہ تمام مندرجہ امور ایسے ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ سے کبھی مشورہ نہیں کیا حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مشورہ کا تاکیدی حکم تھا کیونکہ یہ امور انسانی بصیرت سے تعلق نہیں رکھتے۔ عام انسان تو کیا ایک نبی بھی ایسے امور کا فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں ہوتا۔ ایسے تمام امور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بذریعہ وحی بتائے اور سکھائے جاتے تھے خواہ یہ وحی بذریعہ القاء ہو یا جبرئیل کے بصورت انسان سامنے آکر بتانے کی شکل میں ہو۔ گویا ایسے تمام امور بھی بذریعہ وحی طے پاتے تھے جسے عرف عام میں وحی خفی کہا جاتا ہے اور یہ تو ظاہر ہے کہ ایسی تمام تفصیلات قرآن میں مذکور نہیں۔ ٢۔ تدبیری امور : ایسے امور میں آپ کو صحابہ سے مشورہ لینے کا حکم دیا گیا تھا۔ مثلاً جنگ کے لیے کون سا مقام مناسب رہے گا، قیدیوں سے کیا سلوک کیا جائے؟ نظام حکومت کو کیسے چلایا جائے گویا ایسے امور ہیں جن کا تعلق انسانی بصیرت سے بھی ہے اور تجربہ سے بھی۔ ایسے امور میں وحی کی ضرورت نہیں ہوتی الا یہ کہ مشورہ کے بعد فیصلہ میں کوئی غلطی رہ جائے۔ ایسی صورت میں اس فیصلہ کی اصلاح بذریعہ وحی کردی جاتی تھی۔ جیسے جنگ بدر کے قیدیوں کے متعلق مشورہ کے بعد فیصلہ کے متعلق وحی قرآن میں نازل ہوئی۔ ٣۔ اجتہادی امور : سے مراد ایسے دینی امور ہیں جن میں کسی پیش آمدہ مسئلہ کا حل سابقہ وحی کی روشنی میں تلاش کیا جائے۔ گویہ معاملہ ہر ماہر علوم دین کی ذاتی بصیرت سے یکساں تعلق رکھتا ہے تاہم آپ اس کے سب سے زیادہ حقدار تھے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر مسئلہ پوچھا کہ میرے باپ پر حج فرض تھا اور مر گیا ہے۔ کیا میں اب اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’بھلا دیکھو! اگر اس کے ذمہ قرض ہوتا تو تم اسے ادا نہ کرتیں؟‘‘ اس عورت نے کہا: ’’ضرور کرتی‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’تو پھر اللہ اس ادائیگی کا زیادہ حق دار ہے‘‘ آپ کے ایسے اجتہادات اور استنباطات کی فہرست بھی طویل ہے تاہم اس سلسلہ میں بھی جب کبھی کوئی لغزش ہوئی تو اس کی بذریعہ وحی جلی یا خفی اصلاح کردی گئی۔ اس کی مثال وہ حدیث ہے جسے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یوں روایت کیا کہ ایک آدمی نے پوچھا : یارسول اللہ! بتائیے اگر میں اللہ کی راہ میں مارا جاؤں۔ درآنحالیکہ میں صبر کرنے والا، ثواب کی نیت رکھنے والا، آگے بڑھنے والا، پیٹھ نہ پھیرنے والا ہوں۔ تو کیا اللہ میرے سب گناہ معاف کردے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’ہاں‘‘ وہ شخص چلا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے پھر آواز دے کر بلایا اور فرمایا ’’مگر قرضہ معاف نہ ہوگا۔ جبریل نے ابھی مجھے اس طرح بتایا ہے۔‘‘ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب ماوعدہ اللہ تعالیٰ للمجاہد فی الجنۃ) یعنی سائل کے سوال پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو جنت کی بشارت دے دی۔ کیونکہ شہادت ایسا افضل عمل ہے کہ خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی شہید جنت کا حقدار بن جاتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اسی وقت وحی بھیج کر اس میں ترمیم فرما دی۔ ٤۔ طبعی امور : جس میں انسان کی روز مرہ کی بول چال، خوراک، پوشاک اور دوسرے معاملات آجاتے ہیں اور ان امور کا تعلق تمام لوگوں سے یکساں ہے۔ ایسے امور میں انسان اور ایسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی نسبتاً وحی سے آزاد تھے۔ لیکن وہ کون سا پہلو ہے جس میں وحی نے ایسے معاملات پر پابندی نہ لگائی ہو۔ مثلاً انسان اس بات میں تو آزاد ہے کہ وہ چاہے تو گوشت کھائے چاہے تو سبزی کھائے اور چاہے تو دال کھائے لیکن وہ صرف حلال اور پاکیزہ چیزیں ہی کھا سکتا ہے۔ پھر اسے یہ بھی ہدایت ہے کہ کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھے، اپنے دائیں ہاتھ سے کھائے، اپنے آگے سے کھائے، برتن کو صاف کرے اور بعد میں دعا پڑھے۔ اسی طرح وہ اپنے لباس کے انتخاب کی حد تک تو آزاد ہے لیکن لباس کا ساتر ہونا اور ستر ڈھانکنا ضروری ہے اور عورتوں کے لیے پردہ بھی۔ عورت مردوں جیسا لباس نہ پہنے، نہ مرد عورتوں جیسا لباس پہنیں۔ وہ اپنے اہل خانہ سے گفتگو میں آزاد ہے لیکن اپنی بیوی سے حسن سلوک اور حسن معاشرت کا وہ پابند ہے وہ اپنا کاروبار اختیار کرنے میں آزاد ہے لیکن حرام کاروبار نہیں کرسکتا نہ جائز کاروبار میں ناجائز طریقوں سے مال کما سکتا ہے۔ ناپ تول میں کمی بیشی نہیں کرسکتا۔ کسی دوسرے سے فریب سے مال نہیں بٹور سکتا۔ نہ ہی سود اور اس کے مختلف طریقوں سے مال اکٹھا کرسکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ آخر وہ کون سا پہلو ہے جس میں وہ وحی سے بے نیاز ہے۔ ان تصریحات سے واضح ہوتا ہے کہ تشریعی امور کا انحصار کلیتاً وحی پر ہے اور قرآن میں احکام چونکہ مجملاً مذکور ہوئے ہیں اور ان کا تعلق انسانی بصیرت سے بھی نہیں لہٰذا یہ احکام سنت کے بغیر انجام پا ہی نہیں سکتے۔ باقی تینوں قسم کے امور میں انسان نسبتاً آزاد ہے مگر ان تینوں پہلوؤں پر بھی وحی نے پابندیاں لگائی ہیں اور ہدایات بھی دی ہیں جن میں اکثر کا ذکر قرآن میں نہیں تو پھر آخر سنت نبوی سے انکار کیسے ممکن ہے اور کیسے کہا جاسکتا ہے کہ ﴿وَمَا یَنْطِقُ﴾کا تعلق صرف قرآن ہی سے ہے؟ اور اس نظریہ کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو شخص سنت کا منکر ہو وہ قرآن کا بھی منکر ہوتا ہے۔ النجم
5 النجم
6 النجم
7 النجم
8 [٤] آپ کا سیدنا جبرئیل کو پہلی بار اصل شکل میں دیکھنا :۔ ان آیات میں سیدنا جبرئیل علیہ السلام کا ذکر ہے جو بڑی قوتوں کے مالک ہیں۔ قوی قوۃ کی جمع ہے اور ذومرۃ کا لفظ بڑے وسیع مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کا معنی زور آور، طاقتور، صاحب حکمت اور خوش شکل بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی میں سیدنا جبرئیل علیہ السلام کو دو بار اپنی اصل شکل میں دیکھا تھا۔ ان آیات میں اس واقعہ کا ذکر ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلی بار دیکھا تھا۔ سیدنا جبرئیل مشرقی افق پر نمودار ہوئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسے معلوم ہوا کہ زمین و آسمان کا درمیانی فاصلہ انہیں سے پر ہوگیا ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے : سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا۔ آپ وحی بند رہنے کا تذکرہ کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ایک بار میں نے (رستہ میں) چلتے چلتے آسمان سے ایک آواز سنی۔ نگاہ اٹھائی تو آسمان کی طرف اسی فرشتے کو دیکھا جو حرا میں میرے پاس آیا تھا۔ وہ زمین و آسمان کے درمیان ایک کرسی پر (معلق) تھا۔ میں اتنا ڈر گیا کہ ڈر کے مارے زمین پر گرگیا ۔ پھر میں اپنے گھر آیا اور گھر والوں سے کہا :’’مجھے کمبل اڑھا دو، کمبل اڑھا دو‘‘ چنانچہ انہوں نے مجھے کمبل اڑھا دیا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ ﴿یٰاَیُّھَا الْمُدَّثِرْ﴾سے ﴿فَاھْجُرْ﴾ تک۔ اس کے بعد وحی گرم ہوگئی، برابر لگاتار آنے لگی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ ئمدثر) کفار مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر الزام لگاتے تھے کہ کوئی عجمی شخص اسے قرآن کی باتیں سکھا جاتا ہے۔ پھر یہ ہم کو سنا کر کہتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہیں۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عجمی شخص نہیں بلکہ اسے کئی قوتوں اور خوبیوں کا مالک فرشتہ یہ قرآن سکھاتا ہے۔ النجم
9 [٥] قَابَ (الارض) بمعنی زمین کو گول کھودنا اور قاب بمعنی مقدار، اندازہ، کمان کے کونے سے قبضہ تک کا فاصلہ۔ محاورہ ہے ھو علٰی قاب قوسین بمعنی وہ نہایت قریب ہے (منجد) اور مجاہد کہتے ہیں قاب قوسین کی عبارت میں قلب ہوا ہے یعنی اصل لفظ قابَی قَوْسٍ ہے یعنی کمان کے دو کنارے (بخاری۔ کتاب التفسیر) پہلے معنی کے لحاظ سے یہ فاصلہ کمان کی تانت کا نصف اور دوسرے معنی کے لحاظ سے کمان کی تانت کے برابر فاصلہ ہے اور آیت مذکورہ میں (أوْاَدْنٰی) سے معلوم ہوا کہ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جبرئیل کا درمیانی فاصلہ کمان کے دونوں کناروں سے بہرحال کم تھا۔ زیادہ نہیں تھا۔ النجم
10 [٦] آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سیدنا جبرئیل کو اپنی اصلی شکل میں دیکھنے کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے : سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ﴿ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ ﴾ سے یہ مراد ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبرئیل کو (ان کی اصلی شکل میں) دیکھا ان کے چھ سو بازو (پر) تھے۔ (بخاری، کتاب التفسیر) اور یہ وحی غالباً سورۃ مدثر کی وہی آیات ہیں جن کا اوپر ذکر ہوا۔ یہ وحی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے پر جبرئیل کے واسطہ سے کی تھی۔ النجم
11 [٧] جو کچھ آنکھ نے دیکھا وہ یہ تھا کہ اس نے جبریل کو اپنی اصلی شکل میں دیکھا۔ دن کی روشنی میں دیکھا، تاریکی میں نہیں دیکھا، نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عالم بیداری میں دیکھا، نیند یا نیم خوابی یا اونگھ کی حالت میں نہیں دیکھا۔ لہٰذا دل نے پورے وثوق سے اس بات کی تائید کردی کہ واقعی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس جبریل فرشتہ کو ہی دیکھا تھا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی لاتا ہے اور اس مسئلہ میں کوئی شک و شبہ نہ رہا تھا۔ النجم
12 [٨] اس کے مخاطب قریش مکہ ہیں اور انہیں کہا یہ جارہا ہے کہ تم اپنے رفیق ( محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خود سچا اور راست باز انسان تسلیم کرتے ہو۔ اور وہ اپنے ذاتی اور عینی مشاہدہ کی بنا پر تم سے ایک بات کہتا ہے جو اسے دن کی روشنی میں اور عالم بیداری میں پیش آئی۔ پھر تم اس کی بات کا انکار کرتے۔ اور اس سے جھگڑا کرتے ہو تو آخر تمہارے پاس اس کو جھٹلانے اور اس پر جھگڑا کرنے کے لیے کیا دلیل ہے؟ واضح رہے کہ اس بارے میں صحابہ میں بھی اختلاف تھا کہ آیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت جبریل کو دیکھا تھا یا اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا تو اس کے متعلق صحابہ کی اکثریت کا یہ قول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبریل کو دیکھا تھا۔ لے دے کے ایک سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا مگر وہ بھی اس بات کی پابندی لگاتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو ان ظاہری آنکھوں سے نہیں بلکہ دل یا دل کی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے۔ ١۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل کو دیکھا تھا یا اللہ کو؟ مسروق کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا : ’’امی! کیا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پروردگار کو دیکھا تھا ؟‘‘ انہوں نے جواب دیا : ’’تیری اس بات پر تو میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ تین باتیں کیا تو سمجھ نہیں سکتا جو شخص تجھ سے وہ بیان کرے وہ جھوٹا ہے۔ جو شخص تجھ سے یہ کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پروردگار کو دیکھا تھا اس نے جھوٹ بولا پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی۔﴿ لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ وَہُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّـهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ﴾ اور جو شخص تجھ سے یہ کہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کل کو ہونے والی بات جانتے تھے اس نے بھی جھوٹ بولا۔ پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی۔ ﴿وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ ﴾ اور جو شخص تجھ سے یہ کہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وحی سے کچھ چھپا رکھا وہ بھی جھوٹا ہے۔ پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی ﴿یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ﴾ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبریل کو ان کی اصلی صورت میں دو بار دیکھا تھا۔ (بخاری، کتاب التفسیر) ٢۔ شعبی کہتے ہیں کہ عرفات میں کعب کی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ملاقات ہوئی اور ان سے کوئی بات پوچھی۔ پھر کعب نے اتنے زور سے اللہ اکبر کہا کہ پہاڑ گونج اٹھے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا :’’ہم بنو ہاشم ہیں (یعنی ہم پر اتنا غصہ نہ کیجئے)‘‘ کعب رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے اپنے دیدار اور کلام کو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور موسیٰ علیہ السلام میں تقسیم کیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے دو بار کلام کیا اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو بار اللہ کو دیکھا‘‘ مسروق کہتے ہیں کہ پھر میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاکر پوچھا کہ: ’’کیا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تھا ؟‘‘ انہوں نے جواب دیا کہ : ’’تم نے ایسی بات کہی جس سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے‘‘ میں نے کہا :’’ذرا سوچ لیجئے‘‘ پھر میں نے یہ آیت پڑھی۔ ﴿ لَقَد' رَایٰ مِنْ آیَاتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی﴾ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا مجھے کہنے لگیں : تیری عقل کہاں گئی وہ تو جبریل تھے جو شخص تجھے یہ بتائے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا یا کچھ حصہ چھپایا جس کا انہیں حکم دیا گیا تھا یا وہ پانچ باتیں جانتے تھے جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت ﴿ اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ ﴾ (۳۴:۳۱)میں بتائیں۔ اس نے اللہ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبریل کو اس کی اصل صورت میں دو مرتبہ دیکھا۔ ایک دفعہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس اور ایک دفعہ (مکہ کے محلہ) جیاد میں، اس کے چھ سو پر تھے اور اس نے آسمان کے کناروں کو ڈھانپ لیا تھا۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ آیت پڑھی ﴿ مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی ﴾ اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو اپنے دل (کی آنکھ) سے دیکھا تھا۔ (حوالہ ایضاً) ٣۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا : ’’کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا : ’’وہ تو نور ہے میں اسے کہاں سے دیکھ سکتا ہوں‘‘ (حوالہ ایضاً) اور میرے خیال کے مطابق سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس پابندی کے بعد وجہ اختلاف از خود ختم ہوجاتی ہے۔ کیونکہ قرآن میں جس بات کی صراحت ہے وہ یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو اس دنیا میں ان ظاہری آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا۔ اور عالم آخرت میں اہل جنت کا اللہ تعالیٰ کو دیکھنا صراحت کے ساتھ احادیث صحیحہ میں مذکور ہے۔ النجم
13 النجم
14 النجم
15 [٩] سدرۃ المنتہیٰ کا محل وقوع اور اہمیت :۔ ﴿ سِدْرَۃُ﴾ بمعنی بیری کا درخت جس پر بیر کا پھل لگتا ہے۔ اور منتہیٰ بمعنی انتہائی سرحد۔ یعنی انتہائی سرحد پر واقع بیری کا درخت جو ساتویں آسمان پر واقع ہے۔ جہاں عالم سفلی کے معلومات ختم ہوجاتے ہیں اور عالم علوی کے افاضات بھی وہیں سے نیچے نازل ہوتے ہیں۔ فرشتے بھی اس مقام سے آگے نہیں جاسکتے۔ اسی مقام پر معراج کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا جبریل کو اپنی اصلی شکل میں دیکھا تھا (م۔ ق) اور بمعنی عرشِ الٰہی کی داہنی جانب بیری کا درخت جو ملائکہ وغیرہ کی پہنچ کی آخری حد ہے (منجد) نیز وہ مقام جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فیوضات الٰہیہ اور بھاری انعامات سے نوازا گیا تھا۔ (مفردات) اسی آیت سے بعض علماء نے استنباط کیا ہے کہ متقین کو آخرت میں جو جنت ملے گی وہ آسمانوں پر ہے۔ النجم
16 النجم
17 [١٠] بیری کے اس درخت پر اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات پڑ کر انتہائی خوشنما منظر پیش کر رہے تھے جس سے آنکھیں چکا چوند ہوتی جاتی تھیں لیکن اتنے انوار و تجلیات کے باوجود جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبریل کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھیں چندھیائیں اور نہ ہی نگاہ ایک طرف ہٹ کر، یعنی اس نظارہ کے مقابلہ کی تاب نہ لاتے ہوئے ادھر ادھر چلی گئی۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ٹھیک طرح سے جبریل کو دیکھا تھا اور اللہ تعالیٰ کو جو کچھ دکھانا منظور تھا، وہی کچھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا تھا۔ اسی پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظریں جمی رہیں ادھر ادھر نہیں گئیں۔ النجم
18 [١١] جبرئیل علیہ السلام بھی اللہ کی بڑی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہیں :۔ اس آیت سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پروردگار کو نہیں دیکھا تھا بلکہ اس کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے ایک نشانی کو دیکھا تھا۔ کیونکہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فی الواقع اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہوتا تو یہ اتنی اہم اور فضیلت والی بات تھی کہ اس کا ذکر صراحت کے ساتھ ہونا ضروری تھا کیونکہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو بھی لَنْ تَرََانِیْ کا جواب ملا تھا۔ یہ بڑی بڑی نشانیاں کیا تھیں؟ اس کی تفصیل اللہ ہی جانتا ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے ﴿مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضِ﴾دکھائی تھیں۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ ایسے مواقع پر انبیاء علیہم السلام کی آنکھوں سے غیب کے کچھ پردے ہٹا دیئے جاتے ہیں جیسے آپ کو جنت اور دوزخ کے بعض مناظر دکھادیئے گئے تھے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ النجم
19 النجم
20 [١٢] مشرکین مکہ کی کئی دیویاں لات' عزیٰ اور منات :۔ اب ایسے لا محدود عظمت و جلال والے پروردگار کے مقابلہ میں ذرا ان دیویوں کا ذکر بھی سن لو جن کی اہل عرب پوجا کرتے ہیں۔ لات (الٰہ کا مؤنث) کا استھان یا آستانہ طائف میں تھا اور بنی ثقیف اس کے معتقد تھے۔ عزیٰ (عزیز سے مونث) بمعنی عزت والی یا عزت عطا کرنے والی۔ یہ قریش کی خاص دیوی تھی اور اس کا استھان یا آستانہ مکہ اور طائف کے درمیان وادی نخلہ میں حراص کے مقام پر واقع تھا۔ منات کا استھان یا آستانہ مکہ اور مدینہ کے درمیان بحراحمر کے کنارے قدید کے مقام پر واقع تھا۔ بنو خزاعہ، اوس اور خزرج اس کے معتقد تھے۔ اس کا باقاعدہ حج اور طواف کیا جاتا۔ زمانہ حج میں جب حجاج طواف بیت اللہ اور عرفات اور منیٰ سے فارغ ہوجاتے تو وہیں سے منات کی زیارت کے لیے لبیک لبیک کی صدائیں بلند کردی جاتیں اور جو لوگ اس دوسرے ''حج'' کی نیت کرلیتے وہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہ کرتے تھے۔ النجم
21 النجم
22 [١٣] گویا مشرکین عرب دوہرا ظلم ڈھاتے تھے۔ ایک تو اللہ کی اولاد قرار دیتے تھے اور انہیں اللہ کا شریک سمجھتے تھے۔ دوسرے شریک بھی ایسے جنہیں اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے جبکہ اپنے لیے وہ بیٹیوں کو قطعاً پسند نہ کرتے۔ بلکہ انہیں زندہ درگور کردیتے تھے۔ النجم
23 [١٤] یعنی تمہارے یہ پتھر کے بت بس پتھر ہی ہیں۔ نہ یہ خدا یا دیوتا یا دیویاں ہیں۔ نہ ہی انہیں کچھ تصرف اور اختیار حاصل ہے۔ تم نے اپنے طور پر ایک عقیدہ بنا لیا۔ پھر اس پر جم گئے اور تمہارے وہم و قیاس کے علاوہ ان کی خدائی کی کوئی بنیاد نہیں۔ اللہ نے اپنی کسی کتاب میں ان کو اپنا یا اپنے اختیارات میں شریک قرار نہیں دیا اور تمہارے اس وہم و قیاس کی اصل وجہ ہی یہی کچھ ہے کہ تمہارا دل یہی چاہتا ہے جو پیکر محسوس کی شکل میں تمہارے سامنے ہوں اور تم ان پر نذریں نیازیں چڑھا کر یہ یقین کرلو کہ تمہارے سارے کام انہیں نذروں نیازوں اور انہیں دیوی دیوتاؤں کے طفیل سیدھے ہورہے ہیں۔ علاوہ ازیں اللہ کے ہاں یہ تمہاری سفارش بھی کرنے والی ہیں۔ تمہیں ایسا معبود گوارا نہیں جو تم پر حلال و حرام کی پابندیاں لگائے اور تمہیں اپنے اوامر و نواہی کے شکنجے میں کس کر تمہارا امتحان بھی کرے۔ [١٥] یعنی ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آکر تمہیں واضح الفاظ میں سیدھا راستہ بتا دیا ہے کہ اس کائنات میں تمہاری عبادت کا اصل حقدار کون ہوسکتا ہے اور اس کے عقلی اور نقلی دلائل کیا ہیں؟۔ النجم
24 [١٦] مشرکین مکہ کی آرزو معبود ایسا ہو جو کسی قسم کی بھی پابندیاں نہ لگائے :۔ یعنی تمہاری آرزو یہ ہے کہ تمہارے معبود ایسے ہونے چاہییں جو تم پر کسی قسم کی پابندی نہ لگائیں تو کیا تمہاری یہ آرزو پوری کی جاسکتی ہے؟ یا کیا تمہیں یہ حق حاصل ہے کہ جسے چاہو اپنا معبود بنا لو؟ یا اگر تم نے اپنے معبودوں سے سفارش کی توقع وابستہ کر رکھی ہے تو کیا تمہارے خیال میں یہ پوری کردی جائے گی؟ جبکہ دنیا اور آخرت دونوں جگہ کلی اختیارات صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہیں؟ النجم
25 النجم
26 [١٧] سفارش کا ضابطہ :۔ تمہارے ان معبودوں کی تو حیثیت ہی کچھ نہیں اگر آسمان کے سارے فرشتے مل کر بھی تمہاری سفارش کریں تو وہ تمہارے کسی کام نہ آسکے گی۔ وجہ یہ ہے کہ سفارش اسی کے حق میں مقبول ہو سکے گی جس کے حق میں اللہ چاہے گا اور اللہ مشرکوں کے حق میں فیصلہ کرچکا ہے کہ انہیں کبھی نہیں بخشے گا تو وہ تمہارے حق میں سفارش کیسے کرسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں سفارش تو وہ کرسکے گا جسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سفارش کرنے کی اجازت ہوگی خواہ یہ انسان ہوں یا فرشتے۔ تمہارے ان پتھر کے معبودوں کی سفارش کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جنہیں تم فرشتے اور اللہ کی بیٹیاں قرار دے رہے ہو۔ لہٰذا تمہاری یہ آرزوئیں کبھی پوری نہیں ہوسکتیں۔ النجم
27 [١٨] اپنی دیویوں سے متعلق مشرکین مکہ کے عقائد :۔ فرشتے اللہ کی ایسی مخلوق ہے جو اللہ کے حکم سے سرتابی کرنے کا اختیار ہی نہیں رکھتے۔ ان کی اطاعت اضطراری اور اجباری ہے اختیاری نہیں۔ پھر وہ اللہ کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش بھی نہیں کرسکتے۔ لیکن ان مشرکوں نے ان فرشتوں کو خدائی اختیارات سونپ کر ان کی پوجا شروع کردی۔ دوسرا ستم یہ ڈھایا کہ انہیں اللہ کی اولاد قرار دے دیا اور تیسرا یہ کہ فرشتوں کو مونث سمجھ لیا اور ان سب باتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں جو ہماری حاجت روائی اور مشکل کشائی کرسکتی ہیں اور اگر قیامت فی الواقع ہوئی تھی ہماری سفارش کرکے ہمیں بچا لیں گی۔ پھر انہوں نے ان کے خیالی پتھر کے مجسمے تراش کر انہی کی پوجا شروع کردی۔ اس کی وجہ محض یہ ہے کہ ان کا آخرت پر یقین نہیں۔ اور اس دنیا کی زندگی میں ایک کافر و مشرک اور ایک موحد میں کوئی مابہ الامتیاز فرق نہیں ہوتا۔ بیمار مشرک بھی ہوتے ہیں اور موحد بھی۔ خوشحال مشرک بھی ہوتے ہیں اور موحد بھی۔ مصائب و مشکلات مشرکوں پر بھی پڑتی ہیں اور موحدین پر بھی۔ بلکہ موحدین کی دنیا کی زندگی کافر اور مشرکوں کی زندگی سے زیادہ کٹھن ہوتی ہے کیونکہ انہیں حلال و حرام کی اور اللہ تعالیٰ کے دوسرے احکام کی بھی پابندی کرنی پڑتی ہے۔ اس لیے مشرکوں کے نزدیک یہ کوئی بڑا اہم اور سنجیدہ مسئلہ نہیں کہ آدمی کسی کو معبود مانے یا نہ مانے یا جتنے اور جس قسم کے چاہے معبود بنا لے۔ اس کے نزدیک حق و باطل کا فیصلہ بس اسی دنیا میں ہوتا ہے اور اس دنیا میں ظاہر ہونے والے نتائج قطعاً یہ فیصلہ نہیں دیتے کہ موحد حق پر ہیں اور مشرک باطل پر۔ لہٰذا یہ بات مشرکوں کی خواہش اور مرضی پر ہی منحصر ہوتی ہے کہ جس چیز کو چاہے معبود بنا لیں اور جتنے چاہیں بنا ڈالیں اور جب چاہیں ایک کو چھوڑ کر دوسری چیز کو اپنا معبود بنا ڈالیں۔ اور جو کچھ یہ کرتے ہیں محض اپنے وہم اور قیاس سے کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے شرک و کفر اور توحید کے نتائج کے لیے عالم آخرت بنایا ہے، عالم دنیا نہیں۔ اور یہی عالم آخرت کی اہم ضرورت ہے۔ اگر اللہ اس دنیا میں ہی موحد اور مشرک کے درمیان واضح اور قطعی نتائج دکھا دیتا تو اس طرح دنیا میں کسی کا امتحان ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ البتہ جو لوگ آخرت پر پورا پورا ایمان رکھتے ہیں وہ شرک کر ہی نہیں سکتے۔ النجم
28 النجم
29 [١٩] ذکر سے مراد قرآن کریم بھی ہوسکتا ہے اور معبود ان باطل کے مقابلہ میں خالص اللہ تعالیٰ کا ذکر بھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے دعوت حق اور وعظ و نصیحت بھی یعنی جو شخص میرا ذکر سننا گوارا ہی نہیں کرتا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے سمجھانے پر اپنا وقت ضائع نہ کیجئے۔ ایسے لوگوں کا منتہائے مقصود صرف دنیوی مفادات ہی ہوتے ہیں جبکہ یہ تعلیم اخروی فلاح کی طرف بلاتی ہے۔ جس پر نہ ان کا ایمان ہے اور نہ انہیں اس کی ضرورت ہے۔ لہٰذا وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتوں کی طرف کیوں توجہ دیں گے؟۔ النجم
30 [٢٠] مشرکین مکہ کا مبلغ علم کیا تھا ؟ یعنی وہ اپنے دنیا کے مفادات سے آگے کچھ سوچ ہی نہیں سکتے۔ ان کا تمام تر علم اسی مقصد میں صرف ہوتا ہے کہ دنیا میں وہ زیادہ مال و دولت کیسے کماسکتے ہیں۔ پھر بھی اگر وہ سمجھیں کہ وہی راہ حق پر ہیں تو یہ فیصلہ نہ ان کے اختیار میں ہے اور نہ ان کی صواب دید پر منحصر ہے بلکہ یہ فیصلہ کرنا اللہ کا کام ہے کیونکہ کائنات کی ہر چیز کو اس نے پیدا کیا ہے اور وہی اپنی مخلوق کے حالات کو سب سے بہتر جان سکتا ہے لہٰذا آپ کو ان سے بحث و تکرار میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں، نہ ہی انہیں راہ راست پر لاکر چھوڑنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ النجم
31 [٢١] اس آیت میں واضح طور پر آخرت، اس کی اہمیت اور اس کی حکمت بیان کی گئی ہے یعنی دنیا میں مشرک و موحد، نیک اور بد، متقی اور ظالم کے اعمال کا نتیجہ کبھی اتنا واضح طور پر نہیں نکلا کرتا جس سے انسان بھلائی کی راہ قبول کرنے پر مجبور ہوجائے۔ یہ دنیا صرف دارالعمل ہے دارالجزا اخروی زندگی ہے۔ وہاں برے اور بھلے مشرک اور موحد کا فرق اتنا واضح ہوگا جس کو ہر شخص دیکھ بھی لے گا اور عذاب و ثواب اس پر واقع ہوگا۔ النجم
32 [٢٢] اس فقرہ کی تشریح و تفسیر کے لیے سورۃ نساء کی آیت نمبر ٣١ کا حاشیہ ٥١، ٥٣ ملاحظہ فرمائیے۔ [٢٣] یعنی یہ اس کی مغفرت کی وسعت ہی کا نتیجہ ہے کہ اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے بچتے رہے تو وہ ان گناہوں سے متعلق تمہارے خیالات، ابتدائی اقدامات تمہاری لغزشیں اور آلودگیاں سب کچھ معاف فرما دے گا۔ حالانکہ ان کی تعداد بڑے گناہوں کی نسبت سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔ [٢٤] اپنے منہ میاں مٹھو بننا کیوں غلط ہے؟۔ یعنی کسی بھی شخص کو اپنے تقویٰ اور نیک اعمال پر ناز اور فخر نہیں کرنا چاہئے اور اپنے آپ کو دوسروں سے برتر اور بزرگ نہ سمجھنا چاہئے بلکہ اسے ابتدائ ً اپنی پیدائش پر نظر رکھنی چاہئے کہ وہ کن کن حالتوں سے گزر کر اس مقام تک آیا ہے اور کیا وہ حالتیں اس قابل ہیں کہ ان پر فخر کیا جاسکے۔ مٹی کے بعد اس کی پیدائش پانی کے ایک غلیظ اور حقیر قطرہ سے ہوئی پھر وہ ایک مدت اپنی ماں کے پیٹ کی غلاظتوں میں پرورش پاتا رہا۔ اور اب اگر وہ ایمان لے آیا ہے یا کچھ نیک عمل بجا لاچکا ہے تو اسے اپنے منہ میاں مٹھو بننا کیونکر زیب دیتا ہے۔ پھر اسے یہ بھی معلوم نہیں اور نہ ہی یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ ہے کہ وہ آئندہ زندگی میں کس قسم کے اعمال کرکے مرنے والا ہے کیونکہ زیادہ تر اعتبار تو انہی اعمال کا ہوسکتا ہے جو اس نے اپنی آخری زندگی میں انجام دیئے ہوں اور اس کے ایسے ہی اعمال پر اس کی اخروی جزا و سزا یا فلاح کا انحصار ہوگا جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے : ١۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اور آپ سچے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو وعدہ کیا گیا وہ بھی سچا تھا : ’’ تم میں سے ہر ایک کا مادہ (نطفہ) اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس روز جمع کیا جاتا ہے۔ پھر چالیس دن تک وہ خون کی پھٹکی رہتا ہے۔ پھر چالیس دن تک گوشت کا لوتھڑا رہتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو بھیجتا ہے اور اسے چار باتیں لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ اس کے اعمال کیسے ہوں گے؟ رزق کتنا ہوگا ؟ عمر کتنی ہوگی؟ اور آیا وہ نیک بخت ہوگا یا بدبخت؟ پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ پھر (دنیا میں آنے کے بعد) تم میں سے کوئی ایسا ہوتا ہے جو زندگی بھر نیک کام کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ بہشت اس سے ایک ہاتھ کے فاصلہ پر رہ جاتی ہے۔ پھر تقدیر کا لکھا اس پر غالب آتا ہے تو وہ کوئی دوزخیوں کا سا کام کر بیٹھتا ہے اور کوئی بندہ زندگی بھر برے کام کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ دوزخ اس سے ایک ہاتھ کے فاصلہ پر رہ جاتی ہے پھر تقدیر کا لکھا غالب آتا ہے اور وہ بہشتیوں کا سا کام کرتا ہے‘‘ (اور وہ بہشت میں چلا جاتا ہے۔) (بخاری، کتاب بدء الخلق۔ باب ذکر الملائکۃ) ٢۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم جنگ خیبر میں موجود تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک ساتھی (قزمان) کے حق میں فرمایا جو اسلام کا دعویٰ کرتا تھا (لیکن حقیقتاً منافق تھا) کہ ’’یہ شخص دوزخی ہے‘‘ یہ شخص خوب جم کر لڑا اور زخمی ہوا حتیٰ کہ بعض لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد مبارک سے متعلق شک پیدا ہونے لگا۔ پھر لوگوں نے اسے اس حال میں دیکھا کہ جب اسے زخموں سے زیادہ تکلیف ہوئی تو اس نے اپنی ترکش میں ہاتھ ڈال کر ایک تیر نکالا اور اس سے اپنی گردن کو زخمی کرکے خودکشی کرلی۔ یہ صورت حال دیکھ کر کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کے پاس دوڑتے ہوئے آئے اور عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات سچی کی۔ اس شخص نے خود کشی سے اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا : اٹھ اور لوگوں میں منادی کر دے کہ ’’بہشت میں وہی جائے گا جو مومن ہوگا اور اللہ کی قدرت یہ ہے کہ وہ بدکار آدمی سے بھی اپنے دین کی مدد کرا دیتا ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب المغازی۔ باب غزوۃ خیبر) النجم
33 النجم
34 [٢٥] روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو آیات ولید بن مغیرہ کے متعلق نازل ہوئیں۔ ابو جہل سے پہلے ولید بن مغیرہ ہی سرداران قریش کا رئیس تھا اور اس کے سمجھ دار ہونے میں کچھ شک نہیں تھا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت سے کافی حد تک متاثر ہوچکا تھا اور قریب تھا کہ ایمان لے آئے۔ اس کے ایک مشرک دوست کو جب اس صورت حال کا پتہ چلا تو اسے کہنے لگا : جس آخرت سے تم ڈرتے ہو اس کا میں ذمہ لیتا ہوں کہ اگر تمہیں عذاب ہوا تو تمہاری سزا میں اپنے سر لے لوں گا بشرطیکہ تم مجھے اتنا اتنا مال دے دو۔ چنانچہ ولید بن مغیرہ اس کے چکمے میں آگیا۔ اس کی بات کو قبول کرتے ہوئے طے شدہ مال کی ایک قسط اسے ادا بھی کردی لیکن بعد میں اس نے کسی نامعلوم وجہ کی بنا پر مزید مال دینے سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ النجم
35 [٢٦] اس سے مراد ولید بن مغیرہ بھی ہوسکتا ہے اور اس کا مشرک ساتھی بھی۔ آخرت کے متعلق ان دونوں کا علم نہایت ناقص اور ظن و قیاس پر مبنی تھا۔ لیکن دونوں نے معاہدہ اس انداز سے کرلیا جیسا وہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور آخرت کے احوال سے پوری طرح واقف ہوچکے ہیں۔ ولید بن مغیرہ کا علم تو اس لحاظ سے ناقص تھا کہ اس نے یہ سمجھا کہ جیسے دنیا میں مال وغیرہ دے کر کسی مصیبت سے انسان بچ سکتا ہے اور مال لینے والا دینے والے کی مصیبت اپنے سر مول لے لیتا ہے ویسے آخرت کا معاملہ بھی ہوگا اور اس کا مشرک ساتھی اس کی بلا اپنے سر لے لے گا اور مشرک ساتھی نے اس بنا پر وعدہ کیا تھا کہ وہ آخرت کا قطعی طور پر منکر تھا اسے اگر یقین تھا تو صرف اس بات کا تھا کہ ہونا ہوانا تو کچھ ہے نہیں جو مال ملتا ہے اسے کیوں چھوڑیں۔ یا ممکن ہے وہ بھی آخرت کے بارے میں مشکوک ہو اور جزا و سزا کے معاملہ میں ایسا ہی گمان رکھتا ہو جیسے ولید بن مغیرہ کا تھا۔ النجم
36 النجم
37 [٢٧] سیدنا ابراہیم اور موسیٰ علیہما السلام کے صحائف کی تعلیم :۔ یعنی اگر آخرت اور اس کی جزا و سزا کے متعلق یقین نہیں یا صحیح علم نہیں اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر بھی ایمان لانے کو تیار نہیں۔ تو اہل کتاب سے تو ملتے ہی رہتے ہیں اور انہیں پڑھے لکھے اور عالم بھی سمجھتے ہیں۔ ان سے کیا انہیں اتنا بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے صحیفوں میں آخرت کی جزا و سزا کے مطابق کیا ضابطہ نازل فرمایا تھا۔ واضح رہے کہ تورات کے نزول سے پیشتر سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر بھی صحائف ہی نازل ہوتے رہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر بھی کوئی جامع کتاب نہیں بلکہ صحیفے ہی نازل ہوئے تھے۔ سیدنا ابراہیم اور سیدنا موسیٰ علیہما السلام پر نازل ہونے والے صحائف کا ذکر سورۃ اعلیٰ کے آخر میں بھی آیا ہے تاہم یہ صحیفے آج کسی زبان میں بھی متداول نہیں ہیں۔ ان کے متعلق قرآن سے ہی کچھ تھوڑی سی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ البتہ ان کے مضامین قرآن میں آگئے ہیں۔ النجم
38 النجم
39 [٢٨] قانون جزا وسزا کی دفعات :۔ ان صحیفوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنی جزا و سزا کا قانون پوری طرح بتا دیا تھا جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے مشرکوں سے پوچھا کہ کیا تمہیں اس قانون کی خبر نہیں پہنچی۔ اور اس قانون کی دفعات یہ تھیں جو ان دو آیات میں مذکور ہیں (١) جزا و سزا کا قانون ناقابل انتقال ہے۔ نہ تو یہ ممکن ہے زید بکر کے گناہ اپنے ذمہ لے لے اور اس طرح بکر چھوٹ جائے جیسا کہ مشرکوں نے معاہدہ کیا تھا۔ بلکہ ہر ایک کو اپنے اپنے جرائم کی سزا بھگتنا ہوگی اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ خود زید کی سزا بکر کو دے ڈالے اور زید بچ جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ سے ظلم کی کوئی شکل ممکن نہیں اور (٢) ہر شخص کو اپنے کیے کی جزا و سزا ضرور ملے گی اور اتنی ہی ملے گی جتنا اس نے خود عمل کیا۔ اس سے زیادہ نہیں۔ تاہم کتاب و سنت سے یہ بھی ثابت ہے کہ انسان کے سارے اعمال کا تعلق اس کی زندگی تک محدود نہیں رہتا۔ بلکہ کچھ اعمال ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے اثرات انسان کی زندگی کے بعد بھی باقی رہتے ہیں اور ان کی سزا یا جزا اسے بعد میں ملتی رہتی ہے۔ اور اس کے اعمال نامہ میں اس کا اجر و ثواب لکھا جاتا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے۔ ١۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل موقوف ہوجاتا ہے مگر تین چیزوں کا ثواب جاری رہتا ہے ایک صدقہ جاریہ کا' دوسرے علم کا جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور تیسرے نیک بخت اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی رہے۔‘‘ (مسلم، کتاب الوصیۃ، باب ما یلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ) ٢۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جو آدمی ظلم سے ناحق مارا جاتا ہے اس کے گناہ کا ایک حصہ سیدنا آدم کے بیٹے (پہلے قاتل، قابیل) پر ڈالا جاتا ہے‘‘ اور دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں : ’’اس کے خون کے گناہ کا ایک حصہ۔ کیونکہ روئے زمین پر ناحق خون کی رسم اس نے قائم کی‘‘ (بخاری، کتاب الاعتصام، باب اثم من دعا الی۔۔ سن سنۃ سیئۃ) ٣۔ منذر بن جریر کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس نے اسلام میں کوئی نیک طرح ڈالی اس کے لیے اپنے عمل کا بھی ثواب ہے اور جو لوگ اس کے بعد عمل کریں ان کا بھی ثواب ہے بغیر اس کے کہ ان لوگوں کا ثواب کچھ کم ہو اور جس نے اسلام میں کوئی بری طرح ڈالی اس پر اس کے اپنے عمل کا بھی بار ہے اور ان لوگوں کا بھی جو اس کے بعد اس پر عمل کریں بغیر اس کے کہ ان لوگوں کا بوجھ کچھ کم ہو‘‘ (مسلم، کتاب الزکوٰۃ، باب الحث علی الصدقۃ) ٤۔ جن اعمال کا بدلہ موت کے بعد ملتا رہتا ہے :۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میت پر اس کے گھر والوں کے نوحہ کرنے اور رونے پیٹنے سے عذاب ہوتا ہے۔ اور امام بخاری نے عنوان باب میں یہ صراحت کردی کہ ’’جب نوحہ کرنا میت کے خاندان کی رسم ہو‘‘ (بخاری، کتاب الجنائز۔ باب قول النبی یعذب المیت ببعض بکاء اھلہ علیہ اذا کان النوح من سنتہٖ) یعنی جب نوحہ کرنا میت کے خاندان کی رسم ہو اور اس نے اس سے منع نہ کیا ہو تو وہ عذاب کا مستحق ہوگیا۔ مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ انسان کے کچھ اچھے یا برے عمل ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے اثرات اس کے مرنے کے بعد بھی قائم رہتے ہیں اور ان کا اسے ثواب یا عذاب ملتا رہتا ہے۔ اب درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ٥ـ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے دوران قبیلہ خثعم کی ایک عورت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی : ’’اللہ نے اپنے بندوں پر حج فرض کیا ہے تو ایسے وقت جب کہ میرا باپ بہت بوڑھا ہوچکا ہے۔ وہ اونٹنی پر جم کر بیٹھ بھی نہیں سکتا۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’ہاں‘‘ (بخاری، کتاب المناسک، باب وجوب الحج) ٦۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت آپ کے پاس آئی اور کہنے لگی : میری ماں نے حج کرنے کی منت مانی تھی لیکن وہ حج کرنے سے پہلے مرگئی۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟ آپ نے فرمایا : ’’ہاں کرسکتی ہو۔ بھلا دیکھو اگر تمہاری ماں پر قرضہ ہوتا تو تم اسے ادا نہ کرتی اور اللہ تو ادائیگی کا زیادہ حق دار ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب المناسک ابو اب العمرۃ باب الحج و النذور عن المیت) ٧۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر عرض کیا کہ ’’میری ماں ناگہاں مر گئی اور میں سمجھتا ہوں اگر وہ بات کرسکتی تو ضرور صدقہ دیتی۔ اب اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو اسے ثواب ملے گا ؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ''ہاں'' اور دوسری روایت میں ہے کہ اس شخص نے یہ پوچھا تھا کہ اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو مجھے ثواب ملے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ''ہاں'' (مسلم، کتاب الوصیۃ، باب وصول ثواب الصدقات الی المیت) ٨ ۔ایصال ثواب کا مسئلہ :۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ ’’میرا باپ مرگیا اور مال چھوڑ گیا اور اس نے وصیت نہیں کی۔ اگر میں اس کی طرف سے صدقہ دوں تو اس کے گناہ بخشے جائیں گے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ''ہاں'' (مسلم، کتاب الوصیۃ، باب وصول ثواب الصدقات الی المیت) مذکورہ بالا چار احادیث میں ایسے اعمال کا ذکر ہے جن سے میت کا کوئی تعلق نہیں، بلکہ اس کے لواحقین نے سرانجام دیئے ہیں۔ انہی احادیث سے مشہور و معروف مسئلہ ایصال ثواب مستنبط کیا جاتا ہے جیسا کہ امام مسلم کے عنوان باب سے بھی واضح ہوتا ہے۔ ان احادیث سے درج ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں : ١۔ یہ چاروں احادیث مال و دولت سے تعلق رکھتی ہیں : ٢۔ جن معاملات کا تعلق فرض یا واجب سے ہو ان کو ادا کرنا میت کے لواحقین پر واجب ہے مثلاً میت کے قرض کی ادائیگی، حج اس پر فرض ہو اور وہ نہ کرسکا ہو تو اس کی ادائیگی، اگر کوئی منت مانی ہو تو اس کی ادائیگی اور روزوں کے یا دوسرے کفارے وغیرہ اور وہ دوسرے کے کرنے سے ادا ہوجاتے ہیں۔ ٣۔ اور اگر ان معاملات کا تعلق محض نفلی صدقات سے ہو تو میت کی طرف سے صدقہ کرنا مستحب ہے واجب نہیں اور اس کا ثواب میت کو پہنچ جاتا ہے جیسے میت کو ثواب پہنچانے کے لیے اس کی طرف سے صدقہ و خیرات کرنا وغیرہ۔ ٤۔ ایسے نفلی صدقات کا ثواب میت کو بھی پہنچتا ہے اور صدقہ کرنے والے کو بھی یعنی دونوں کو ملتا ہے۔ بدعت کی تعریف :۔ واضح رہے کہ علماء کی اکثریت اس بات کی قائل ہے کہ ایصال ثواب صرف مالی اور واجب عبادت میں ہی ہوسکتا ہے۔ بدنی اور نفلی عبادات میں نہیں۔ کیونکہ نیابت صرف مالی معاملات میں ہی ہوسکتی ہے بدنی میں نہیں۔ وہ اس کی مثال یوں دیتے ہیں کہ مثلاً ''الف'' نے ''ب'' کا کچھ قرضہ دینا ہے اور ''الف'' کی جگہ اگر کوئی دوسرا شخص مثلاً ''ج'' ''ب'' کو ''الف'' کا قرض ادا کردیتا ہے تو اس کا قرض ادا ہوگیا لیکن اگر ''الف'' کو مثلاً بھوک لگی ہے تو اس کی یہ بھوک تب ہی دور ہوسکتی ہے جب وہ خود کھانا کھائے کسی دوسرے کے کھانا کھانے سے ''الف'' کی بھوک کبھی دور نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا ایصال ثواب کا تعلق بھی انہی معاملات سے ہوسکتا ہے جن میں نیابت ہوسکتی ہے۔ اور بعض علماء کے نزدیک روزوں کی قضا بھی دی جاسکتی ہے اور کفارہ بھی ادا کیا جاسکتا ہے۔ گویا یہ بھی حج کی طرح مالی عبادت بھی ہے اور بدنی بھی۔ البتہ نمازوں کی نہ قضا دی جاسکتی ہے نہ ہی ان کا کوئی کفارہ ہے۔ اور یہ ہے بھی خالص بدنی عبادت، رہا ایصال ثواب کا مسئلہ تو اس کا تعلق مالی عبادت یعنی صدقہ اور قربانی وغیرہ تک محدود ہے۔ نمازوں یا نفلی روزوں یا نفلی حج و عمرہ سے ایصال ثواب کا تصور درست نہیں۔ اسی طرح قرآن خوانی کی رسم یا رسم قل یا تیجہ یا پانچواں یا دسواں یا چالیسواں یہ سب رسوم باطل اور بدعت ہیں۔ ان کے جواز میں عموماً یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ یہ سب بھلائی کے کام ہیں۔ ان میں یا قرآن خوانی ہوتی ہے یا میت کی طرف سے کچھ صدقہ کیا جاتا ہے۔ لہٰذا ان کا بھی ثواب میت کو پہنچنا چاہئے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بدعت کے سارے کام ہی بھلائی کے کام سمجھ کر شروع کیے جاتے ہیں۔ آج تک کسی نے کوئی کام برا سمجھ کر بدعت نہیں نکالی۔ دیکھنا صرف یہ چاہئے کہ دور نبوی یا دور صحابہ میں وہ کام ہوا ہے یا نہیں؟ نیز یہ کہ کیا اس دور میں یہ کام کرنے میں کوئی رکاوٹ موجود تھی؟ پھر جب اس دور میں کوئی رکاوٹ بھی موجود نہ ہو اور اس کے باوجود صحابہ نے وہ کام نہ کیا ہو اس کو اگر کار ثواب یا دین کا حصہ بنا لیا جائے تو وہ یقیناً بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی اور اس کا انجام جہنم ہے۔ بدعت کی اقسام :۔ پھر بعض لوگوں نے تو اس بدعت کی بھی وہی پانچ قسمیں بنا ڈالی ہیں جو تکالیف شرعیہ کی ہیں۔ یعنی کچھ بدعتیں واجب ہیں، کچھ مستحب، کچھ مباح کچھ مکروہ اور کچھ حرام اور بعض لوگوں نے صرف دو قسمیں بنائی ہیں۔ بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بدعت کی کوئی تقسیم بیان نہیں فرمائی اور علی الاطلاق فرمایا کہ ہر طرح کی بدعت گمراہی ہے۔ یہ حضرات بدعت حسنہ یا واجب بدعت کی مثال یہ دیتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن کو جمع نہیں کیا تھا بعد میں سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جمع کیا اور بدعت مستحب کی مثال تراویح کی نماز باجماعت ہے۔ جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے شروع کرائی تھی اور تراویح کی جماعت دیکھ کر فرمایا تھا کہ نعم البدعۃ ھذہٖ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جو کام دور صحابہ میں اجماع سے طے پا گیا اس پر بدعت کا اطلاق ہوتا ہی نہیں اور اس کی تفصیل یہ ہے قرآن کو جمع کرنا گمراہی کو روکنے کے لیے کیا گیا تھا جیسے کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے اور ایسی ضرورت کو استصلاح کہتے ہیں بدعت حسنہ یا بدعت واجبہ کا نام نہیں دیا جاسکتا اور تراویح کی جماعت کی اصل دور نبوی میں ثابت ہے۔ نماز تراویح بھی اور اس کی جماعت بھی آپ نے تین دن کرائی تھی۔ اور سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے اسے بدعت کا نام دیا تو یہ لغوی معنی کے لحاظ سے تھا شرعی اصطلاح کے لحاظ سے نہ تھا۔ بدعت کی شرعی تعریف یہ ہے۔ ''مَنْ اَحْدَثَ فِی اَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہ، فَھُوَرَدّ'' (مسلم، کتاب الاقضیہ۔ باب نقض الاحکام الباطلۃ ورد محدثات الامور) (یعنی جس کسی نے ہمارے اس دین کے کام میں کوئی نئی بات نکالی جس کی اصل اس میں موجود نہ تھی وہ مردود ہے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس ارشاد مبارک میں اپنے ساتھ اپنے صحابہ کو بھی شریک کیا۔ لہٰذا بدعت کا اطلاق اس کام پر ہوگا جس کا وجود دور صحابہ میں نہ ملتا ہو اور اس کام کے کرنے میں کوئی رکاوٹ بھی نہ ہو اور اسے دین اور ثواب کا کام سمجھ کر کیا جائے۔ بعض اہل بدعت یہ مغالطہ بھی دیتے ہیں کہ دو رنبوی یا دور صحابہ میں مسجدوں میں نہ کلاک لگائے جاتے تھے نہ قالین یا میٹ یا بلب یا ٹیوبیں یا صفیں بچھائی جاتی تھیں اور یہ کام دین کا اور ثواب کا کام سمجھ کر کیے جاتے ہیں تو کیا یہ بدعت ہوں گے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان چیزوں کا تعلق ایجادات سے ہے شریعت سے نہیں اور یہ چیزیں اس دور میں موجود ہی نہ تھیں۔ اور بدعت کی تعریف یہ ہے کہ جو چیز اس دور میں ہوسکتی ہو مگر اس کے باوجود آپ نے یا صحابہ نے نہ کی ہو وہ بدعت ہے۔ النجم
40 [٢٩] معذور لوگوں کے متعلق اشتراکی نظریہ :۔ یعنی جو کام اس نے خود دنیوی زندگی میں سرانجام دیئے اور جن کاموں کے اثرات چھوڑے سب اس کی سعی میں داخل ہیں اور ان سب کو اعمال کی ترازو میں رکھ کر دیکھا جائے گا۔ بعض کمیونسٹ ذہن کے لوگ ﴿وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی ﴾ اس مادی دنیا پر منطبق کرکے اس کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ بوڑھے اور معذور قسم کے لوگ جو کوئی محنت کر ہی نہیں سکتے ان کو مار کر ختم کردینا چاہئے تاکہ وہ معاشرہ پر معاشی بوجھ نہ بنیں۔ جب وہ کما ہی نہیں سکتے تو انہیں کچھ ملنا بھی نہیں چاہیے۔ ظاہر ہے یہ مطلب سیاق و سباق سے قطع نظر کرکے لیا گیا ہے۔ نیز یہ نظریہ اسلام کے نظام صدقات و زکوٰۃ کے بالکل برعکس ہے۔ اسلام ایسے معذور اور نادار لوگوں کی بھرپور امداد کرکے انہیں زندہ رہنے کا حق دیتا ہے۔ لہٰذا اشتراکیوں کا یہ نظریہ اسلامی نکتہ نگاہ سے باطل ' لغو اور فساد فی الارض کے مترادف ہے۔ النجم
41 النجم
42 [٣٠] یعنی ہر شخص کو بھی اللہ تعالیٰ کے حضور میں حاضر ہونا ہے اور ہر شخص کے اچھے اور برے اعمال کا منتہیٰ بھی وہی ذات ہے۔ لہٰذا وہ ہر شخص کو اس کے اعمال کا بھی اور اثرات کا بھی پورا پورا بدلہ دے دے گا۔ النجم
43 [٣١] یعنی ہر شخص کا رنج و راحت، مسرت اور غم وغیرہ دونوں طرح کے ظاہری اور باطنی اسباب اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ وہ ہر شخص کی قسمت کو اتفاقاً بھی اور تدریجاً بھی بدل دینے کی قدرت رکھتا ہے۔ النجم
44 النجم
45 [٣٢] یعنی میاں اور بیوی میں سے ہر ایک کا مادہ منویہ تو ایک ہی جیسا ہوتا ہے۔ مگر کبھی ان کے ملاپ سے اللہ بیٹا بنا دیتا ہے اور کبھی بیٹی۔ یعنی حمل قرار پانے کے بعد رحم مادر میں جنین کی ساخت جسمانی میں ایسی تبدیلی پیدا کرنا جس سے کوئی جنین نر بن جائے اور کوئی مادہ۔ یہ اللہ ہی کی قدرت ہے۔ اور جو ذات رحم مادر میں ایسی تبدیلی لاسکتی ہے وہ تمہیں دوبارہ بھی پیدا کرسکتی ہے۔ اور تمہارا دوبارہ پیدا کرنا اس کے ذمہ ہے اور یہی پہلی بار کی پیدائش کا نتیجہ ہے کیونکہ اس کا کوئی کام بلامقصد اور بے نتیجہ نہیں ہوا کرتا۔ النجم
46 النجم
47 النجم
48 [٣٣] اقنٰی کا لغوی مفہوم :۔ اقنی بمعنی غنی کرنا اور راضی کرنا (مفردات) یعنی اتنا مال و دولت دینا کہ اس کی احتیاج پوری کرنے کے علاوہ وہ خوش بھی ہوجائے اور بعض اہل لغت کے نزدیک اقنٰی اغنیٰ کی ضد ہے بمعنی مفلس بنا دینا۔ گویا اقنی لغت اضداد سے ہے۔ ان آیات میں چونکہ متقابل چیز کا ذکر ہو رہا ہے۔ لہٰذا یہاں دوسرا معنی ہی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ فلہٰذا ترجمہ میں یہی دوسرا معنی اختیار کیا گیا ہے۔ النجم
49 [٣٤] شعری ستارہ اور اس کے پجاری :۔ مشرکین عرب تین مشہور دیویوں لات، منات اور عزیٰ کے علاوہ آسمان کے دیوتاؤں میں سے شعریٰ سیارہ کی بھی پرستش کرتے تھے۔ یہ سیارہ سورج سے ٢٣ گنا زیادہ روشن ہے اور اس کا زمین سے فاصلہ ٨ نوری سال سے بھی زیادہ ہے۔ (واضح رہے کہ سورج ہم سے ٩ کروڑ ٣٠ لاکھ میل دور ہے اور اس کی روشنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے ٨ منٹ میں ہم تک پہنچتی ہے۔ گویا ہماری زمین اور سورج کا فاصلہ ٨ نوری منٹ ہے۔ اسی سے ٨ نوری سال کا حساب لگا لیجئے) لہٰذا یہ سورج سے بہت چھوٹا اور کم روشن نظر آتا ہے۔ اہل مصر اس کی پرستش کرتے تھے کہ اسی سیارہ کے طلوع کے زمانہ میں نیل کا فیضان شروع ہوتا تھا۔ اور اہل مصر یہ سمجھتے تھے کہ اسی سیارہ کے طلوع ہونے کا فیضان ہے۔ اہل عرب میں سے خصوصاً قریش اور خزاعہ اس کی پرستش کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس عقیدہ باطلہ کی تردید کی اور فرمایا تمہاری قسمتوں کا مالک شعریٰ نہیں بلکہ وہ اللہ ہے جو شعریٰ کا بھی مالک ہے۔ النجم
50 النجم
51 النجم
52 [٣٥] عاد اولیٰ جن کی طرف سیدنا ہود مبعوث ہوئے اور عاد ثانیہ یا قوم ثمود جن کی طرف سیدنا صالح علیہ السلام مبعوث ہوئے۔ اور قوم فرعون یہ سب لوگ آخرت کے منکر، اکڑ باز اپنے رسولوں کو ایذائیں اور دکھ پہنچانے والے اللہ کے باغی اور شرارتیں کرنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کو تباہ کر ڈالا۔ النجم
53 النجم
54 [٣٦] سیدنا لوط علیہ السلام کا مرکز تبلیغ سدوم اور اس کے ارد گرد کی بستیاں جنہیں زمین میں دھنسا دیا گیا اور ان کے اوپر سیاہ رنگ کا متعفن پانی چھا گیا جسے بحیرہ مردار (Dead Sea) یا بحر میت یا بحر لوطی کہتے ہیں۔ النجم
55 [٣٧] ظالم قوموں کی تباہی بھی بنی نوع انسان کے لئے نعمت ہے :۔ اللہ کی بنی نوع انسان پر سب بڑی نعمت یہ ہے کہ وہ ظالم اور سرکش قوموں کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کر دے۔ تاکہ باقی لوگوں کو ان کے ظلم و ستم سے نجات ملے اور وہ بھی دنیا میں چین سے زندگی بسر کرسکیں۔ گویا سب ظالم قوموں کی تباہی بھی اللہ کی نعمتیں تھیں اور انسانیت پر احسانات تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس نعمت کا ذکر ایک دوسرے مقام پر بڑے واشگاف الفاظ میں یوں بیان فرمایا : ﴿وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ﴾ (۲۵۱:۲) [٣٨] تَتَمَارٰی کے معنی شک کرنا بھی ہے اور جھگڑا کرنا بھی۔ یعنی تاریخ سے اتنی مثالیں پیش کرنے کے بعد بھی تجھے اس بات میں کچھ شک رہ جاتا ہے کہ جس قوم نے بھی اللہ تعالیٰ کے احکام کے سامنے اکڑ دکھائی اسے آخر تباہی سے دو چار ہونا پڑا ؟ اور دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ جیسے وہ لوگ اپنے نبیوں سے جھگڑا کرتے رہے کیا تو بھی انہیں باتوں میں جھگڑا کرے گا۔ النجم
56 [٣٩] یعنی کوئی نئی بات نہیں کہتا۔ تمہیں اپنے برے انجام سے بچ جانے کی طرف بلاتا ہے۔ سابقہ تمام انبیاء بھی اپنی قوموں کو یہی کچھ کہتے رہے ہیں۔ النجم
57 [٤٠] ازفۃ قیامت کا ہی صفاتی نام ہے اور ازف میں وقت کی تنگی کا مفہوم پایا جاتا ہے یعنی یہ نہ سمجھو کہ قیامت یا موت کی گھڑی ابھی بہت دور ہے اور سوچنے سمجھنے کے لیے ابھی بہت وقت پڑا ہے۔ انسان کو تو ایک پل کی بھی خبر نہیں اور جس کو موت آگئی بس اس کی قیامت تو اسی وقت قائم ہوگئی۔ النجم
58 [٤١] یعنی جب قیامت یا موت آگئی تو نہ تم اسے روک سکو گے اور نہ تمہارے معبود۔ اللہ اسے روک تو سکتا ہے مگر وہی تو لانے والا ہے ہٹائے گا کیوں؟ النجم
59 [٤٢] یعنی تم تعجب تو ایسے کرتے ہو جیسے دوبارہ مر کر جی اٹھنے کی بات آج پہلی بار سنی ہے۔ حالانکہ تمام انبیاء یہی بات کہتے آئے ہیں۔ اب چاہئے تو یہ تھا کہ تم اپنے انجام سے ڈر جاتے اور اللہ کے خوف سے رونے لگتے۔ مگر تم اس کے برعکس ان باتوں کا مذاق اڑاتے ہو اور انجام سے غافل رہ کر کھیل کود میں وقت گزار رہے ہو۔ النجم
60 النجم
61 النجم
62 [٤٣] مسلمانوں کے ساتھ کافروں کا بھی سجدہ ریز ہونا :۔ یہ سورت ابتدائی مکی سورتوں سے ہے اور یہ پہلی سورت ہے جس میں آیت سجدہ نازل ہوئی نیز یہی وہ پہلی سورت ہے جسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجمع عام میں اور بعض روایات کے مطابق حرم میں کافروں اور مسلمانوں کے مشترکہ مجمع میں سنایا۔ قرآن کی اثر آفرینی کا یہ عالم تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ﴿ فَاسْجُدُوْا لِلّٰہِ وَاعْبُدُوْا﴾پڑھا تو مسلمانوں کے ساتھ کافر بھی بے اختیار سجدہ ریز ہوگئے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے جو سجدہ والی سورت نازل ہوئی وہ سورۃ النجم تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سورۃ میں سجدہ کیا اور آپ کے پیچھے جتنے لوگ بیٹھے تھے (خواہ مسلمان تھے یا مشرک) سب نے سجدہ کیا بجز ایک شخص امیہ بن خلف کے، اس نے مٹھی بھر مٹی لی (منہ سے قریب کی) پھر اس پر سجدہ کیا۔ میں نے دیکھا کہ اس کے بعد یہ شخص کفر کی حالت میں (بدر کے دن) مارا گیا۔ (بخاری، کتاب التفسیر) اسی موقعہ سے متعلق مشہور ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیات پڑھیں ﴿ اَفَرَءَیْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰی وَمَنٰوۃَ الثَّالِثَۃَ الْاُخْرٰی﴾ تو شیطان نے آپ کی آواز جیسی آواز میں آگے یہ الفاظ پڑھ دئیے۔ ﴿تِلْکَ الغَرَانِیْقُ العُلٰی وَإنَّ شَفَاعَتُھُنَّ لَتُرْجٰی﴾ (یہ تینوں بلند مرتبہ دیویاں ہیں اور ان کی شفاعت متوقع ہے) اور بعض کے نزدیک یہ واقعہ یوں ہوا کہ جب قریشیوں نے بھی مسلمان کے ساتھ مل کر سجدہ کرلیا تو بعد میں انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ ہم سے یہ کیا حماقت سرزد ہوگئی تب انہوں نے یہ الفاظ اپنی طرف سے گھڑے اور کہہ دیا کہ ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے یہ الفاظ سنے تھے اور سمجھے کہ اب وہ بھی ہمارے دین کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ اس لیے ہم نے ان کے ساتھ مل کر سجدہ کیا تھا۔ یہ واقعہ جو کچھ بھی تھا، یہ خبر یا افواہ اتنی مشہور ہوئی کہ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والوں نے، جنہوں نے رجب ٥ نبوی میں ہجرت کی تھی۔ جب ایسی صلح یا سمجھوتے کی خبر سنی تو شوال ٥ نبوی میں مکہ واپس آگئے۔ مگر مکہ آکر انہیں معلوم ہوا کہ یہ تو سب کچھ ایک افسانہ تھا۔ چنانچہ وہ دوبارہ ہجرت کرکے حبشہ کی طرف واپس چلے گئے۔ النجم
0 القمر
1 [١] ایک دفعہ رسول للہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منیٰ میں تشریف فرما تھے کفار مکہ بھی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی نشانی کا مطالبہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آسمان کی طرف دیکھو، اچانک چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے : ١۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا۔ ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر رہا اور دوسرا نیچے آگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (ان لوگوں سے جو اس وقت موجود تھے) فرمایا : ’’دیکھو گواہ رہنا‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) ٢۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں چاند پھٹا تھا۔ (حوالہ ایضاً) ٣۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مکہ کے کافروں نے آپ سے کہا کہ کوئی نشانی دکھاؤ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں چاند کا پھٹنا دکھادیا۔ (حوالہ ایضاً) آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قیامت اور انشقاق قمر کا باہمی تعلق یہ ہے کہ انشقاق قمر قرب قیامت کی ایک نشانی ہے جو واقع ہوچکی لہٰذا اسے بس اب قریب ہی سمجھو۔ جب کفار نے اپنی آنکھوں سے یہ معجزہ دیکھ لیا تو کہنے لگے کہ یا تو چاند پر جادو کردیا گیا ہے یا ہماری نظروں پر جو ہمیں ایسا نظر آنے لگا ہے۔ اس حیرانی میں ایک شخص نے کہا کہ اگر ہماری نظر بندی کردی گئی ہے تو آس پاس کے لوگوں سے پوچھ لو۔ چنانچہ آس پاس کے لوگوں نے اس کی تصدیق کردی مگر یہ کافر اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہ آئے۔ اس آیت پر منکرین معجزات کئی طرح کے اعتراضات کرتے ہیں۔ پہلا اعتراض معنی کی تاویل سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں صیغہ ماضی کا معنی استقبال میں لیا جائے گا اور معنی یہ ہوگا کہ ’’جب قیامت قریب آجائے گی اور چاند پھٹ جائے گا‘‘ جیسا کہ ﴿اِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ ﴾ اور اس جیسی دوسری آیات کا ترجمہ کیا جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ تاویل اور دلیل اس لیے غلط ہے کہ جہاں قیامت کے حوادث کا ذکر آیا ہے۔ مثلاً آسمان پھٹ جائے گا۔ ستارے بے نور ہوجائیں گے اور جھڑنے لگیں گے۔ زمین پر سخت زلزلے آئیں گے۔ پہاڑ اڑتے پھریں گے وغیرہ کا ذکر ہے وہاں ان باتوں کو کفار کے سحر کہنے کا کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی قرآن میں ایسی آیات کے ساتھ سحر کا ذکر آیا ہے۔ کافروں کا چاند کے پھٹنے کو جادو کہنا اور اس پر کفار کی تکرار ہی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ ایک حسی معجزہ تھا جو وقوع پذیر ہوچکا ہے۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اگر یہ واقعہ فی الواقع ظہور میں آچکا ہے تو لوگوں کی ایک کثیر تعداد کو اس کا علم ہونا چاہئے تھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ واقعہ رات کا ہے دن کا نہیں جب کہ اکثر لوگ سوئے ہوئے ہوتے ہیں۔ پھر اس وقت آدھی دنیا میں تو ویسے سورج نکلا ہوا تھا۔ جہاں یہ واقعہ نظر نہ آسکتا تھا اور باقی آدھی دنیا میں سے بھی صرف ان مقامات پر نظر آسکتا تھا جو منیٰ کے مشرق میں واقع تھے۔ پھر اس واقعہ کا کوئی اعلان بھی نہیں ہوا تھا جیسے آج کل جنتریوں اور اخباروں سے معلوم ہوجاتا ہے یا رصدگاہوں کی طرف سے اعلان کیا جاتا ہے لہٰذا لوگ کوئی اس بات کے منتظر بھی نہیں بیٹھے تھے کہ چاند پھٹے تو ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ علاوہ ازیں ہم دیکھتے ہیں کہ چاند گرہن کئی گھنٹوں تک لگا رہتا ہے۔ لوگوں کو پہلے خبر بھی دی جاچکی ہوتی ہے لیکن لوگوں کی اکثریت چاند گرہن لگنے سے غافل ہوتی ہے اور یہ انشقاق قمر تو صرف ایک لمحہ کے لیے واقع ہوا تھا۔ اسے کون دیکھتا ؟ اور آس پاس کے لوگوں نے شہادت دے ہی دی تھی۔ تیسرا اعتراض یہ ہے کہ ایسے اہم واقعہ کا تاریخ میں بھی ذکر ہونا چاہئے تھا۔ اس اعتراض کے کئی جواب ہیں۔ پہلا یہ کہ سب سے زیادہ مستند تاریخ حدیث کی کتابوں سے ہی دستیاب ہو سکتی ہے اور ان میں یہ واقعہ موجود ہے۔ دوسرا یہ کہ اس دور میں جیسی اور جتنی توجہ تاریخ نویسی پر دی جاتی تھی وہ سب کو معلوم ہے۔ تیسرا یہ کہ جب دنیا کے لوگوں کی اکثریت اور ایسے ہی تاریخ نویسوں نے اسے دیکھا ہی نہ تو ہو لکھیں کیا ؟ اور چوتھا یہ کہ تاریخ بھی اس واقعہ کے اندراج سے یکسر خالی نہیں۔ تاریخ فرشتہ میں مذکور ہے کہ مالی بار کے مہاراجہ نے یہ واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور بالآخر یہ واقعہ اس کے اسلام لانے کا سبب بنا تھا۔ چاند کے پھٹنے پر اعتراضات اور ان کے جواب :۔ چوتھا اعتراض یہ ہے کہ ہیئت دانوں اور منجمین نے بھی اس واقعہ کا کہیں ذکر نہیں کیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر چاند پھٹنے سے اس کی رفتار میں فرق آتا، یا وہ اپنا مدار بدل لیتا یا مدار سے ہٹ کر چلنے لگتا تو یہ باتیں اس قابل تھیں کہ ہیئت دان ان کا ذکر کرتے۔ لیکن جب ان میں سے کوئی چیز بھی واقع نہ ہوئی تو وہ کیا ذکر کریں؟ اور پانچواں اعتراض یہ ہے کہ یہ واقعہ خرق عادت ہے اور ان کا دراصل سب سے اہم یہی اعتراض ہے جو انہیں تسلیم کرنے سے روکتا ہے اور وہ ادھر ادھر ہاتھ مارتے اور مختلف قسم کے اعتراض اور شکوک پیدا کرتے ہیں اور حقیقتاً ان کا یہ انکار اللہ کی قدرت کاملہ کا انکار ہے۔ بہرحال یہ بات بھی آج بعید از عقل نہیں رہی۔ ہر سیارے کے پیٹ میں آتشیں مادے یا پگھلتی اور کھولتی ہوئی دھاتیں موجود ہیں جن کا درجہ حرارت ہزارہا درجہ سنٹی گریڈ ہوتا ہے۔ یہ مہیب لاوے ان عظیم الجثہ کروں کو کسی وقت بھی دو لخت کرسکتے ہیں۔ پھر ان کے مرکز کی مقناطیسی قوت جسے آج کی زبان میں قوت ثقل کہتے ہیں اور ان جدا شدہ ٹکڑوں کو ملا کر جوڑ بھی دیتی ہے اور ایسا عمل فضائے بسیط میں ہوتا رہتا ہے۔ یہ کہکشائیں اسی طرح وجود میں آئی ہیں اور آج بھی یہ عمل بند نہیں بلکہ بدستور جاری ہے۔ علاوہ ازیں شہاب ثاقب کسی سیارے کے اس طرح سے جدا شدہ ٹکڑے کا نام ہے۔ جو کبھی علیحدہ ہو کر پھر جڑ جاتا ہے۔ کبھی فضا میں ہی گر کر گم ہوجاتا ہے اور کبھی کبھار زمین پر بھی آگرتا ہے۔ فضائے بسیط میں جو کچھ ہو رہا ہے اگر انسان کو اس کا صحیح طور پر علم ہوجائے تو وہ ان انشقاق قمر کے واقعہ پر کبھی تعجب نہ کرے۔ انسان کو کیا معلوم کہ اللہ کی قدرتوں کا دائرہ کتنا وسیع ہے اور وہ کس قدر حکمت بالغہ سے اس نظام کائنات کو چلا رہا ہے۔ القمر
2 [٢] یعنی پہلے انبیاء بھی ایسے جادو کے کرشمے دکھاتے رہے ان کا جادو بھی چل بسا اور وہ خود بھی چل بسے۔ اسی طرح یہ نبی اور اس کے کرشمے بھی عنقریب ختم ہوجائیں گے۔ القمر
3 [٣] یعنی نبیوں اور ان کے معجزات سے انکار کی اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ نبی کی لائی ہوئی شریعت کی پابندیوں سے آزاد رہنا چاہتے ہیں۔ [٤] یعنی ہر عمل کا کوئی نہ کوئی انجام یا نتیجہ ضرور نکلتا ہے اور اس وقت تمہارے اور اللہ کے رسول کے درمیان جو کشمکش جاری ہے۔ اس کا بھی نتیجہ نکل کے رہے گا اور ایسا وقت لازماً آنے والا ہے جب تم پر واضح ہوجائے گا کہ یہ نبی حق پر تھا اور جس بات پر تم اڑے ہوئے تھے وہ غلط تھی۔ القمر
4 القمر
5 [٥] یعنی قرآن میں اقوام سابقہ کی سرگزشت کو اس لیے بار بار دہرایا گیا ہے کہ لوگ ان اقوام کے انجام اور عذاب سے عبرت حاصل کریں اور ان واقعات کا ذکر ان کے لیے تازیانہ کا کام دے۔ (جسے شرعی اصطلاح میں تذکیر با یام اللہ کہا جاتا ہے) ان واقعات میں لوگوں کے عبرت اور سبق حاصل کرنے کے لیے مواد تو بہت موجود ہے لیکن اگر کوئی شخص ادھر توجہ ہی نہ کرے تو یہ تنبیہات اس کے کس کام آسکتی ہیں؟۔ القمر
6 [٦] یعنی انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیجئے اور ایسے ضدی انسانوں کی ہدایت کے لالچ میں اپنا وقت ضائع نہ کیجئے۔ یہ لوگ اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک عذاب کو دیکھ نہ لیں۔ [٧] نکر کا ایک معنی ناگوار ہے جو ترجمہ میں اختیار کیا گیا ہے اور اس کا دوسرا معنی انجانی اور اجنبی چیز ہے یعنی جب وہ حساب کتاب کے لیے بلائے جائیں گے تو یہ بات ان کے لیے بالکل انوکھی ہوگی جس کا انہیں خواب و خیال تک نہ تھا کہ اس طرح انہیں زندہ کرکے حساب کتاب کے لیے پیش ہونا پڑے گا۔ القمر
7 [٨] قبروں سے مراد صرف وہ قبریں نہیں جہاں انہیں دفن کیا گیا تھا۔ ان قبروں کے تو نام و نشان تک باقی نہ رہ جائیں گے۔ بلکہ یہاں قبروں سے مراد وہ مقام ہیں۔ جہاں کسی انسان کے جسم کے ذرات خاک میں ملے ہوئے ہوں گے۔ اور قبروں سے نکلنے کے بعد ان کی نگاہیں سہمی ہونے کی دو وجوہ ہوسکتی ہیں ایک قیامت کے ہولناک مناظر دوسرے ان کی دنیا کی زندگی کی کرتوتیں۔ اسی سہمی ہوئی حالت میں وہ ٹڈی دل کی طرح اس طرف دوڑنا شروع کردیں گے جدھر سے انہیں پکارا جارہا ہوگا۔ القمر
8 [٩] قیامت کی ہولناکیوں اور دہشت ناک مناظر دیکھ کر انہیں یہی فکر لاحق ہوگی کہ دیکھئے آج ان پر کیا گزرتی ہے۔ القمر
9 [١٠] سیدنا نوح اور ان کی قوم کا ذکر :۔ وہ دیوانہ تو اس لیے کہتے تھے کہ آپ قوم کی اکثریت کے آبائی عقائد کے خلاف صرف تعلیم ہی نہیں دیتے تھے بلکہ اٹھ بھی کھڑے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور آپ کے چند ساتھیوں کا اس ساری قوم کے خلاف ہونا ہی ان کے نزدیک دیوانگی تھا۔ وہ لوگ کبھی آپ کو سنگسار کرنے کی دھمکی دیتے کبھی قتل کی اور کبھی صرف اس بات پر ڈانٹ پلا دیتے تھے کہ تم اس کام سے باز کیوں نہیں آتے؟ القمر
10 [١١] سینکڑوں برس اپنی قوم پر مغز کھپانے اور ان کی طرف سے ایذائیں اور جھڑکیاں برداشت کرنے کے بعد آپ نے اس وقت دعا کی کہ جب کسی شخص کے مزید ایمان لانے سے آپ قطعاً مایوس ہوگئے تھے۔ اور دعا یہ کی تھی کہ ہم پر جو ظلم و ستم یہ لوگ ڈھا چکے ہیں ہماری مدد فرما کر ان سے بدلہ لے۔ القمر
11 اس آیت کی تفسیر اگلی آیت کے ساتھ ملاحظہ کیجئے۔ القمر
12 [١٢] طوفان نوح کا منظر :۔ اوپر آسمان سے موسلا دھار، متواتر اور لگاتار بارش ہونے لگی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آسمان نے اپنے دہانے کھول دیئے ہیں۔ نیچے زمین سے پہلے تنور سے پانی نکلنا شروع ہوا۔ پھر بے شمار چشمے پھوٹ پڑے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ساری زمین چشمے ہی چشمے بن گئی ہے۔ جدھر دیکھو پانی کے چشمے پھوٹ رہے تھے۔ یہ عمل متواتر چھ ماہ جاری رہا اور پانی کی سطح اس قدر بلند ہوگئی کہ چھوٹے موٹے پہاڑ تک پانی میں ڈوب گئے اور پانی اس سطح تک پہنچ گیا جتنا اللہ تعالیٰ نے مقدر کر رکھا تھا۔ القمر
13 [١٣] کشتی نوح اور قوم کا تمسخر :۔ طوفان سے پیشتر نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے مطابق لکڑی کے تختوں اور لوہے کے کیلوں کی مدد سے ایک بہت بڑی کشتی تیار کی تھی جسے دیکھ کر آپ کی قوم یوں مذاق اڑاتی تھی کہ ہم تو پینے کے پانی کو ترس رہے ہیں تم اس جہاز کو چلاؤ گے کہاں؟ یہاں نہ تو نزدیک کوئی دریا ہے اور نہ سمندر ہے؟ القمر
14 [١٤] طوفان میں کشتی کا منظر :۔ جوں جوں پانی کی سطح بلند ہوتی جاتی تھی یہ کشتی خود بخود اوپر اٹھتی جاتی تھی۔ حتیٰ کہ پہاڑ تک پانی میں غرق ہوگئے۔ اس وقت سیدنا نوح علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں میں سے کسی کو بھی معلوم نہ تھا کہ ہم نے کس طرف کشتی کا رخ موڑنا ہے اور ہماری منزل کون سی ہے وہ بھی اللہ کے سہارے اس کشتی میں جانیں محفوظ کیے بیٹھے تھے اس کے علاوہ انہیں کچھ علم نہ تھا اور نیچے پانی کا سمندر بن گیا تھا۔ اللہ ہی اس کشتی کی حفاظت اور نگرانی فرما رہا تھا اور اس کے حکم سے یہ کشتی اپنا رخ بدلتی تھی۔ [١٥] اس سے مراد نوح علیہ السلام ہیں۔ اس کا ایک مطلب تو ترجمہ سے واضح ہے اور اگر کفر کا معنی کفران نعمت یا قدر ناشناسی لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ نوح علیہ السلام کی ذات ان کے درمیان اللہ کی ایک نعمت تھی جن کی وجہ سے عذاب رکا ہوا تھا اور نبی کی ناقدر شناسی کی وجہ سے ہی ان پر یہ عذاب آیا تھا۔ القمر
15 [١٦] کشتی نوح نشانی کے طور پر :۔ یہ کشتی با لآخر جودی پہاڑ پر ٹک گئی۔ آسمان سے بارش بند ہوگئی۔ نیچے سے زمین نے پانی جذب کیا۔ کچھ ہواؤں اور سورج نے پانی خشک کیا۔ چنانچہ چالیس دن بعد کشتی پر سوار لوگ اس قابل ہوگئے کہ کشتی سے اتر آئیں۔ مگر کشتی وہیں رہ گئی۔ اس سے جو کام لیا جانا منظور تھا وہ لیا جاچکا تھا۔ یہ مدت ہائے دراز تک وہیں پڑی رہی اور آنے والی نسلوں کے لیے نشان عبرت بنی رہی۔ القمر
16 القمر
17 [١٧] قرآن کی خوبیاں اور آسان زبان :۔ یہ اللہ کا بڑا فضل اور احسان ہے کہ اس نے اپنے کلام کو آسان اور سہل بنا دیا ہے۔ اس میں دی گئی مثالیں تشبیہات مناظر قدرت، دلائل اور انداز بیان سادہ اور عام فہم ہیں اس لیے کہ اس کے اولین مخاطب امی لوگ تھے۔ لکھے پڑھے عالم فاضل لوگ نہیں تھے۔ یہ کسی فلسفے یا منطق کی کتاب بھی نہیں جس کی عبارت پیچیدہ اور مغلق ہو۔ اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر بتا دیا کہ ہم نے اس کتاب میں کوئی پیچیدگی نہیں رکھی۔ (٨: ١١) نیز اس میں محض خیالی فلسفے نہیں بلکہ ایسی ہدایات دی گئی ہیں جن سے انسان کی عملی زندگی کا تعلق ہوتا ہے اور ہر شخص اسے سمجھ سکتا ہے اور ہدایت حاصل کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔ علاوہ ازیں شعر نہ ہونے کے باوجود اس میں موزونیت اور تاثیر شعر سے زیادہ ہے اسی وجہ سے اس کو حفظ کرنا آسان ہے اور ہر چھوٹا بڑا عربی عجمی اسے تھوڑی سی محنت سے حفظ کرلیتا ہے۔ اسی وجہ سے قرآن کے حافظ ہر دور میں لاکھوں کی تعداد میں رہے ہیں۔ پھر اس کی ایک اور حیثیت یہ ہے کہ اس کے اولین مخاطب تو امی ہیں۔ لیکن خطاب کرنے والی وہ ہستی ہے جو سب سے بڑھ کر علیم و حکیم ہے جس سے اس میں دو گونہ خوبیاں پیدا ہوگئیں ایک یہ کہ مبتدی اور منتہی دونوں اس کلام سے ایک جیسے مستفید ہوتے ہیں اور اپنی اپنی علمی سطح کے مطابق اس سے استفادہ اور ہدایت حاصل کرسکتے ہیں اور دوسری یہ کہ اللہ تعالیٰ کے آسان انداز بیان اختیار کرنے کے باوجود اس کلام میں لاتعداد اسرار اور حکمتیں پوشیدہ ہیں جو باربار پڑھنے اور غور کرنے سے منکشف ہوتی چلی جاتی ہیں۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود لا تنقضی عجائبہ کہہ کر ان باتوں کی طرف اشارہ فرما دیا : یعنی قرآن ایسی کتاب ہے جس کے عجائب ختم ہونے میں آہی نہیں سکتے۔ القمر
18 القمر
19 [١٨] کیا کوئی دن بذات خود نحس یا سعد ہوتا ہے؟:۔ کہتے ہیں کہ یہ دن ماہ شوال کا آخری بدھ تھا جس سے بعض ضعیف الاعتقاد لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ ہر مہینہ کا آخری بدھ منحوس دن ہوتا ہے پھر بعض ضعیف اور موضوع روایات کی بنا پر اس عقیدہ پر کئی حاشیے چڑھائے گئے کہ اس دن سفر نہ کرنا چاہئے۔ کاروبار نہ کرنا چاہئے وغیرہ وغیرہ۔ ایسی سب باتیں خرافات ہیں اور اس کی وجوہ درج ذیل ہیں۔ ١۔ اس مقام پر ﴿فِیْ یَوْمِ نَحْسٍ﴾کا لفظ استعمال ہوا ہے جبکہ سورۃ حٰم السجدہ کی آیت نمبر ١٦ میں ﴿فِیْٓ اَیَّامٍ نَّحِسَاتٍ ﴾کے الفاظ مذکور ہیں۔ اور سورۃ الحاقہ میں یہ صراحت ہے کہ یہ عذاب ان پر مسلسل آٹھ دن اور سات راتیں رہا تھا۔ یعنی بدھ سے عذاب شروع ہوا اور اگلے بدھ تک رہا۔ اس لحاظ سے ہفتہ کے سب ایام ہی نحس ہوئے اور سعد ایک بھی نہ رہا۔ اور اس بات کو کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا۔ ٢۔ ایک ہی دن ایک قوم کے حق میں منحوس ہوتا ہے اور وہی دن دوسری قوم کے حق میں سعد ہوتا ہے۔ مثلاً یہی دن سیدنا ہود علیہ السلام اور آپ کے پیروکاروں کے حق میں سعد تھا۔ جنہیں اللہ نے اس مصیبت سے بچا لیا تھا یا مثلاً دس محرم کا دن فرعون اور آل فرعون کے لیے منحوس تھا مگر یہ دن سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے لیے سعد اور انتہائی خوشی کا دن تھا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے کوئی بھی دن ایسا پیدا نہیں کیا جو سب کے لیے نحس ہو یا سعد ہو۔ یہ نجومی اور سیاروں کے انسانی زندگی پر اثرات تسلیم کرنے والوں کی تقسیم ہے کہ فلاں دن نحس ہے اور فلاں سعد۔ شریعت ایسی تقسیم کو شرک قرار دیتی ہے۔ القمر
20 [١٩] قوم عاد اور اس کا انجام :۔ یہ عذاب انتہائی تیز رفتار آندھی کی شکل میں تھا اور یہ ہوا نہایت ٹھنڈی تھی جو ان کے گھروں میں گھس جاتی تھی۔ درختوں کو بھی جڑ سے اکھاڑ کر پھینک رہی تھی اور قوم کے قدو قامت، ڈیل ڈول اور مضبوط اور طاقتور جسم والے لوگوں کو بھی پاؤں سے اکھاڑ کر زمین پر پٹخ دیتی تھی۔ جس سے ان کی گردنیں ٹوٹ جاتی تھیں اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ بھی کھجوروں کے جڑ سے اکھڑے ہوئے درخت ہی ہیں۔ القمر
21 القمر
22 القمر
23 القمر
24 القمر
25 [٢٠] قوم ثمود کے سیدنا صالح کو جھٹلانے کی تین وجوہ :۔ یعنی قوم ثمود نے تین وجوہ کی بنا پر سیدنا صالح علیہ السلام کو جھٹلایا تھا ایک یہ کہ وہ ہم ہی جیسا ایک انسان ہے۔ کھاتا ہے، پیتا ہے، بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ کوئی مافوق الفطرت بات اس میں ہم نہیں دیکھتے۔ دوسری یہ کہ وہ اکیلا ہے اس کے ساتھ نہ کوئی جتھا ہے نہ فوج نہ یارو مددگار اور نہ جاہ و حشم، پھر آخر ہم کس بنا پر اس کی اطاعت کرسکتے ہیں۔ اور اگر ہم اس کی اطاعت کرنے لگیں تو ہم جیسا احمق اور پاگل کون ہوگا۔ اور تیسری وجہ یہ کہ اگر اللہ کو اپنا کوئی رسول بنانا ہی تھا تو کیا اسے یہی شخص پسند آیا تھا ؟ جس کے پاس نہ مال و دولت ہے اور نہ جاہ و حشم، پھر آخرت ہم کس بنا پر اس کی اطاعت کرسکتے ہیں۔ اور اگر ہم اس کی اطاعت کرنے لگیں تو ہم جیسا احمق اور پاگل کون ہوگا۔ بلکہ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ اس نے اللہ کی طرف سے رسالت کا محض ایک ڈھونگ رچا رکھا ہے۔ اور حقیقتاً یہ کوئی بڑا آدمی یا لیڈر بننا چاہتا ہے۔ اور یہ بالکل اسی قسم کے اعتراضات تھے جو قریش مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کر رہے تھے۔ القمر
26 [٢١] کل سے مراد ان پر عذاب کا دن بھی ہوسکتا ہے اور قیامت کا دن بھی اور بہت جلد بھی یعنی یہ حقیقت جلد ہی واضح ہوجائے گی کہ اصل میں جھوٹا اور بڑیں مارنے والا کون تھا۔ صالح علیہ السلام یا انہیں جھٹلانے والے؟ القمر
27 القمر
28 [٢٢] ناقۃ اللہ کی صفات اور قوم کی آزمائش :۔ یہ دیو ہیکل اونٹنی قوم ثمود کے مطالبہ پر انہیں بطور معجزہ دی گئی تھی۔ اسی لیے اسے ناقۃ اللہ یا اللہ کی اونٹنی کے نام سے موسوم کیا گیا۔ یہ جہاں بھی جاتی تھی دوسرے جانور ڈر کے مارے بھاگ جاتے تھے۔ لہٰذا اس اونٹنی کا احترام اس قوم کے لیے ایک آزمائش بن گیا تھا۔ با لآخر وحی الٰہی کے مطابق یہ طے ہوا کہ ایک دن بستی کے کنوئیں سے یہ اونٹنی پانی پئے گی اور دوسرے دن قوم کے دوسرے جانور، ساتھ ہی قوم کو آگاہ کردیا گیا اگر تم اس فیصلہ میں رد و بدل کرو گے یا اس اونٹنی کو کوئی دکھ پہنچاؤ گے تو پھر تمہاری خیر نہیں۔ القمر
29 [٢٣] قوم کا ناقۃ اللہ کو زخمی کردینا :۔ اس اونٹنی کا احترام قوم کے لیے وبال جان بن گیا کیونکہ ان کے اپنے جانوروں کو ایک دن چھوڑ کر کھانے کو چارہ اور پینے کو پانی ملتا تھا۔ مگر وہ اسے ہاتھ لگانے سے ڈرتے تھے۔ انہیں خوب معلوم تھا کہ صالح علیہ السلام اگرچہ اکیلے ہیں اور صرف چند کمزور سے آدمی ان کے ساتھ ہیں تاہم کوئی غیبی طاقت ان کی پشت پر موجود ہے لیکن وہ زیادہ دیر صبر نہ کرسکے اور اندر ہی اندر اس اونٹنی کو مار دینے کے مشورے ہوتے رہے۔ با لآخر ایک بدکار عورت نے اپنے آشنا کو اس بات پر آمادہ کر ہی لیا کہ وہ اس اونٹنی کو ہلاک کردے۔ یہ قوم کا ایک کڑیل مضبوط نوجوان مگر اخلاقی لحاظ سے سب سے زیادہ بدکردار اور بدبخت انسان تھا۔ اس نے اونٹنی کے پاؤں کی رگوں کو کاٹ ڈالا۔ اونٹنی نے ایک چیخ ماری اور دوڑ کر اسی پہاڑ میں غائب ہوگئی جس سے نکلی تھی۔ القمر
30 القمر
31 [٢٤] چیخ کا عذاب :۔ یہ لوگ چیخ یا گرج دار آواز سے ہلاک کیے گئے۔ فرشتے نے ایک چیخ ماری جس سے ان کے کلیجے پھٹ گئے۔ اور مر کر ایک دوسرے پر گرنے لگے اور اس طرح ایک دوسرے سے روندے جانے لگے جیسے کسی کھیت کے گرد لگی ہوئی باڑ چند روز میں پامال ہو کر چورا چورا بن جاتی ہے۔ یہی ان لوگوں کا حال ہوا۔ القمر
32 القمر
33 القمر
34 [٢٥] قوم لوط پر عذاب :۔ سیدنا لوط علیہ السلام کو پہلے مطلع کردیا گیا تھا کہ صبح کے وقت تمہاری قوم پر خوفناک عذاب آنے والا ہے۔ لہٰذا راتوں رات ہی تم اپنے پیروکاروں کو ساتھ لے کر اس بستی سے نکل جاؤ تمہاری بیوی تمہارے ساتھ نہیں جائے گی۔ پیچھے ہی رہے گی اور سزا پانے والوں میں شامل ہوگی۔ اور جب تم نکلو تو خود سب سے پیچھے رہنا۔ اور تم میں سے کوئی پلٹ کر نہ دیکھے۔ ایسا نہ ہو کہ کسی کے دل میں یہ خیال آجائے کہ دیکھوں تو سہی کہ اس قوم پر کیسا عذاب آتا ہے۔ ورنہ وہ بھی عذاب کی لپیٹ میں آجائے گا۔ القمر
35 القمر
36 [٢٦] سیدنا لوط کو قوم کی دھمکیاں :۔ سیدنا لوط علیہ السلام نے قوم کو ڈرایا تو تھا مگر یہ بدبخت قوم بھلا ان کی نصیحت کو بلکہ خود ان کو بھی کیا سمجھتی تھی۔ وہ الٹا لوط علیہ السلام کو دھمکیاں دینے لگی۔ اگر تم اتنے ہی پاکباز ہو تو ہماری اس گندی بستی سے نکل جاؤ۔ ورنہ ہم خود تمہیں یہاں سے نکال دیں گے۔ نیز انہوں نے سیدنا لوط علیہ السلام پر یہ پابندی بھی لگا رکھی تھی کہ باہر سے آنے والے مسافروں اور مہمانوں کو اپنے ہاں پناہ نہ دیا کرو۔ ورنہ اس کے نتائج کے ذمہ دار تم خود ہوگے۔ اور جو بات لوط علیہ السلام انہیں سمجھانا چاہتے تھے اور انہیں ان کے انجام سے مطلع کرکے انہیں اللہ کے حضور جوابدہی سے ڈرانا چاہتے تھے اس کو بھلا یہ لاتوں کے بھوت کب ماننے والے تھے بس الٹی سیدھی باتیں بنا کر جھگڑے کی راہ پیدا کرلیتے تھے۔ القمر
37 [٢٧] عذاب کی نوعیت :۔ ان پر عذاب ڈھانے کے لیے تین فرشتے نہایت خوبصورت نوجوان بے ریش لڑکوں کی شکل میں آئے تھے۔ انہیں دیکھ کر سیدنا لوط علیہ السلام سخت پریشان ہوگئے اور ڈر گئے کہ اس بدکار قوم سے ان مہمانوں کی آبرو کو کیسے بچا سکیں۔ اتنے میں بیوی صاحبہ نے آس پاس کے مشٹنڈوں کو مخبری کردی کہ بہت اچھا مال گھر میں آیا ہے۔ وہ لوگ اوپر سے ہی آپ کے گھر میں گھس آئے۔ سیدنا لوط علیہ السلام نے ان بدبختوں کی بہت منت سماجت کی کہ وہ اپنے برے ارادہ سے باز آجائیں کہ مجھے مہمانوں کے سامنے رسوا نہ کریں۔ جب فرشتوں نے یہ صورت حال دیکھی تو سیدنا لوط علیہ السلام کو علیحدہ لے جا کر صورت حال بتا دی کہ تمہیں ڈرنے اور منت سماجت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہم انسان نہیں بلکہ فرشتے ہیں جو اس قوم پر عذاب نازل کرنے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ پھر جب یہ اوباش اپنی خواہش جنسی پوری کرنے کے لیے ان لڑکوں کی طرف بڑھے تو ان میں سے ایک فرشتے نے ان کی آنکھوں پر ہاتھ پھیر دیا۔ جس سے ان کی بینائی جاتی رہی اور وہ چیخیں مار کر واپس دوڑنے لگے اور نظر نہ آنے کی وجہ سے دروازہ کی طرف بڑھتے ہوئے ایک دوسرے پر گرنے لگے۔ یہ ان پر پہلا اور ہلکا عذاب تھا۔ القمر
38 [٢٨] پھر دوسرے دن صبح کے وقت ان پر جو بڑا عذاب آیا اس کی تفصیل پہلے کئی مقامات پر گزر چکی ہے۔ پہلے اس پورے خطہ زمین کو جبریل علیہ السلام نے اپنے پروں پر اٹھایا اور بلندی پر لے جاکر پھر الٹا کر زمین پر دے مارا۔ جس سے یہ خطہ زمین میں دھنس گیا۔ اوپر سے پتھروں کی بارش ہوئی۔ پھر اس دھنسے ہوئے خطہ زمین پر سمندر کا پانی چڑھ آیا جو متعفن اور بدبودار ہوگیا۔ اس طرح اس قوم کے نام و نشان کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا۔ القمر
39 القمر
40 القمر
41 القمر
42 [٢٩] فرعون کی خدائی اور فرعونیوں کا حشر :۔ فرعون بھی اپنے ملک میں خدا بنا بیٹھا تھا۔ سیدنا موسیٰ اور سیدنا ہارون علیہما السلام اس کے پاس ایسے واضح معجزات لے کر آئے تھے جن سے انہیں یقین ہوگیا تھا کہ یہ واقعی اللہ کے پیغمبر ہیں۔ مگر وہ اپنی فرمانروائی اور خدائی سے دستبردار ہونے کو قطعاً تیار نہ تھا لہٰذا پیغمبروں کو جھٹلا دیا اور ان پر ایمان لانے کی بجائے ظلم و ستم ڈھانے لگا اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو قتل کردینے کے منصوبے سوچنے لگا۔ اس وقت ہم نے اسے ایسی سزادی جس سے بچ نکلنے کے لیے اس کے پاس کوئی راہ نہ تھی۔ ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو عین سمندر کے درمیان لاکر سمندر کے پانی کو روانی کا حکم دیا۔ اس طرح اسے اس کے لشکروں سمیت سمندر میں غرق کردیا۔ اس وقت نہ اس کی خدائی کام آئی اور نہ اس کے لشکر۔ القمر
43 [٣٠] اے مکہ کے کافرو! اب تم بتاؤ کیا تم ان لوگوں سے زیادہ طاقتور ہو یا شان و شوکت رکھتے ہو؟ پھر اگر وہ لوگ ہمارے عذاب سے نہیں بچ سکے تو تم کیسے بچ جاؤ گے؟ یا ہم نے کسی آسمانی کتاب میں یا صحیفہ میں تمہارے حق میں یہ لکھ دیا ہے کہ تم دنیا میں جو چاہو کرتے پھرو ہم تم سے تعرض نہیں کریں گے۔ نہ ہی تمہیں کوئی سزا دیں گے اگر کوئی ایسی بات ہے تو دکھا دو۔ القمر
44 القمر
45 [٣١] ہجرت حبشہ :۔ قیاس یہ ہے کہ یہ سورت سورۃ نجم سے ڈیڑھ دو سال بعد نازل ہوئی۔ نزولی ترتیب کے لحاظ سے سورۃ نجم کا نمبر ٢٣ ہے اور اس کا نمبر ٣٧ ہے۔ اور سورۃ نجم رجب ٥ نبوی اور شوال ٥ نبوی کے درمیانی عرصہ میں نازل ہوئی۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورۃ ٧ نبوی میں نازل ہوئی ہوگی۔ اس وقت صورت حال یہ تھی کہ کافروں کے ظلم و ستم سے مجبور ہو کر ٨٣ مسلمان مرد اور عورتیں حبشہ کی طرف چلے گئے تھے۔ باقی شعب ابی طالب میں محصور ہوگئے تھے۔ ان کا معاشرتی بائیکاٹ بھی کردیا گیا تھا اور معاشی بھی۔ باہر سے ان محصورین تک سخت پابندی بھی لگا دی گئی تھی اور مسلمان بھوک اور افلاس کا شکار ہو رہے تھے۔ بعض دفعہ درختوں کے پتے کھانے تک نوبت آجاتی اور یہ سب ظلم و ستم ڈھانے والے یہی سرداران قریش تھے جنہیں اپنی جمعیت پر ناز تھا کہ اسلام لانے کے جرم کا مسلمانوں سے پوری طرح انتقام لے سکتے ہیں۔ اس سورۃ کی آیت نمبر ٤٤ میں اسی بات کی طرف اشارہ ہے۔ اور آیت نمبر ٤٥ میں ایسی پیشین گوئی کی گئی ہے۔ جس کا اس دور میں تصور بھی ناممکن نظر آتا تھا۔ لیکن اللہ کی تدبیر کے مقابلہ میں دوسروں کی تدبیریں کیسے کارگر ہوسکتی ہیں۔ اس سورۃ کے نزول کے سات ہی سال بعد حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ وہ پیشینگوئی جو ناممکن نظر آرہی تھی جنگ بدر میں ایک ٹھوس حقیقت بن کر سامنے آگئی۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے بھی واضح ہے۔ یہ پیش گوئی اس وقت کی گئی جب مسلمان شعب ابی طالب میں محصور تھے اور بدر کے دن پوری ہوئی :۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ بدر کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک خیمہ میں مقیم تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں دعا فرمائی : ’’یا اللہ! میں تجھے تیرے عہد اور وعدہ کی قسم دیتا ہوں، یا اللہ! اگر تو چاہے تو (ان تھوڑے سے مسلمانوں کو ہلاک کردے) تو پھر آج کے بعد کوئی تیری پرستش کرنے والا نہ رہے گا۔‘‘ پھر سیدنا ابو بکررضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ تھام لیا اور کہا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب بس کیجئے، آپ نے اپنے پروردگار سے التجا کرنے میں حد کردی۔ آپ اس دن زرہ پہنے ہوئے چل پھر رہے تھے۔ آپ خیمہ سے باہر نکلے تو یہ آیت پڑھ رہے تھے۔ ﴿ سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ ﴾ (بخاری، کتاب التفسیر) اس جنگ کا نتیجہ یہ نکلا کہ انتقام لینے والے خود اللہ کے انتقام کا شکار ہوگئے۔ ستر بڑے بڑے کافر موت کے گھاٹ اترے اور اتنے ہی بھاگتے بھاگتے گرفتار ہوگئے۔ القمر
46 [٣٢] مسلمانوں سے انتقام لینے والی جماعت کو یہ سزا تو دنیا میں ملی اور اصل سزا تو قیامت کو ملنے والی ہے جو اس سزا سے دہشت ناک بھی زیادہ ہوگی اور دردناک بھی زیادہ ہوگی۔ القمر
47 [٣٣] سعر کالغوی مفہوم :۔ سُعُر۔ سعر بمعنی آگ کا بھڑکنا اور شعلے نکلنا۔ پھر یہ لفظ مجازاً اشتعال دلانے اور مشتعل ہونے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور سعر سے مراد ایسی دیوانگی ہے کہ کسی بات پر انسان فوراً مشتعل ہو کر غلط کام کرنے لگے اور اس کی عقل صحیح کام نہ کرے۔ یعنی ان مجرموں کی یہ کیفیت ہوگئی ہے کہ ہدایت کی کسی بات پر غور کرنے سے پہلے ہی سیخ پا ہوجاتے ہیں۔ القمر
48 القمر
49 [٣٤] اللہ کا ہر چیز کو اندازے سے پیدا کرنا :۔ یہ آیت اتنا وسیع مفہوم رکھتی ہے جس کی تشریح غالباً انسان سے ناممکن ہے۔ کیونکہ اس میں ایک تو ہر شے کا ذکر آگیا۔ دوسرے قدر یا مقدار یا اندازے کا۔ پھر اس اندازے کے بھی کئی پہلو ہیں۔ تو انسان بیچارہ اس کی کیا تشریح کرسکتا ہے۔ سمجھانے کی خاطر محض ایک دو مثالوں پر ہی اکتفا کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً ایک انسان کے قد کے متعلق اللہ تعالیٰ کا اندازہ یہ ہے کہ عصر حاضر میں اس کا قد چھ فٹ ہو۔ اب اس میں چند انچوں کی کمی بیشی تو ہوسکتی ہے۔ مگر کوئی انسان دگنی خوراک کھا کر چھ فٹ کے بجائے بارہ فٹ کا نہیں ہوسکتا۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ زمین کو اللہ تعالیٰ نے اس اندازے کے مطابق بنایا ہے کہ قیامت تک پیدا ہونے والی مخلوق اس پر بسیرا کرسکے۔ ہر طرح کی مخلوق کی جائے پیدائش، مستقر، مسکن اور مدفن یہی زمین ہو اور ان امور خصوصاً رزق کے لیے کافی ثابت ہو۔ تیسرا پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے دن ہی سے روئے زمین پر اتنا پانی پیدا کردیا پھر اس سے آبی بخارات، بادلوں اور بارشوں کا سلسلہ چلا دیا جو قیامت تک پیدا ہونے والی مخلوق کے لیے کافی ثابت ہو۔ چوتھا پہلو یہ ہے کہ ہر طرح کی مخلوق کو زندہ رہنے کے لیے گرمی کی جس مقدار کی ضرورت ہے اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے سورج پیدا کیا اور اس کو اتنے فاصلہ پر رکھا جو زندگی کی بقا کے لیے مناسب ہو۔ اب اگر سورج میں گرمی زیادہ ہوجائے یا فاصلہ کم ہوجائے تو سب جاندار گرمی سے مرجائیں اور اگر سورج میں گرمی کم ہوجائے یا فاصلہ زیادہ ہوجائے تو سب جاندار سردی سے ٹھٹھر کر مر جائیں۔ اور پانچواں پہلو یہ ہے کہ ہر کام کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ وہ اس سے پہلے نہیں ہوسکتا۔ مثلاً پانی سو درجہ سنٹی گریڈ پر کھولتا ہے۔ جب پانی کو اتنی حرارت ملے گی تب ہی کھولے گا پہلے نہیں۔ غرضیکہ اس آیت کے اتنے زیادہ پہلو ہیں جن کا شمار بھی ممکن نہیں۔ تشریح تو دور کی بات ہے۔ القمر
50 [٣٥] یعنی جس طرح جنین کی رحم مادر میں پرورش پانے کی مدت اللہ کے ہاں مقرر ہے، اگرچہ اس میں کمی بیشی بھی ہوسکتی ہے تاہم ہر ایک جنین کی مدت الگ الگ اللہ کے ہاں مقرر ہے۔ اسی طرح ہر ایک کی موت کی مدت بھی مقرر ہے اور قیامت کے قائم ہونے کی بھی۔ اگرچہ اللہ کے سوا کوئی بھی انہیں جان نہیں سکتا۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ جب وہ مدت پوری ہوچکتی ہے تو اللہ کے حکم کے مطابق وہ فوراً ظہور پذیر ہوجاتی ہے اور اس میں ایک لمحہ کی بھی تقدیم و تاخیر نہیں ہوسکتی۔ قیامت کا بھی یہی حال ہے جب اللہ کا حکم ہوگا پلک جھپکنے سے بھی پہلے وہ واقع ہوجائے گی۔ القمر
51 [٣٦] اشیاع کا لغوی مفہوم :۔ اشیاع شیعہ کی جمع ہے اور شیعہ کے معنی پارٹی، دھڑا، سیاسی فرقہ ہے یعنی وہ لوگ جن سے انسان قوت حاصل کرتا ہے اور وہ اس کے ارد گرد پھیلے رہتے ہیں۔ یعنی کسی شخص کے پیروکار اور مددگار۔ ایسی پارٹی یا دھڑے کی بنیاد عموماً عقیدہ کا اختلاف ہوتا ہے۔ اور شیعہ کی جمع شیعا بھی آتی ہے اور وہ انہی معنوں میں آتی ہے اور اشیاع بھی آتی ہے اور اس سے مراد ایک ہی جیسی عادات و اطوار رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ خواہ وہ پہلے گزر چکے ہوں یا موجود ہوں۔ ہم جنس لوگ۔ اس آیت میں یہ لفظ انہیں معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ القمر
52 القمر
53 [٣٧] اس سے مراد فرشتوں کے تیار کردہ ہر انسان کے اعمال نامے ہیں جن میں ہر انسان کے اقوال و افعال، حرکات و سکنات، لب و لہجہ اور طرز بیان سب کچھ ساتھ ساتھ ہی ثبت ہو رہا ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ انسان کی کوئی چھوٹی سے چھوٹی بات بھی اس میں درج ہونے سے رہ جائے۔ القمر
54 القمر
55 [٣٨] یعنی اللہ ذوالجلال اور قادر مطلق کے ہاں جن پرہیزگاروں کی مجلس ہوگی وہ سب کے سب سچے اور راست باز لوگ ہوں گے۔ انہیں اپنی سچائی کی بدولت اور اللہ اور اس کے رسول کے سچے وعدوں کے مطابق یہ مقام حاصل ہوگا۔ القمر
0 الرحمن
1 الرحمن
2 [١] یعنی یہ اللہ کی رحمت اور مہربانی ہی کا نتیجہ ہے کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن جیسی عظیم الشان اور بلند پایہ کتاب سکھا دی جو پوری نوع انسانی کی ہدایت کا ذریعہ ہے اور اسی کی ہدایت پر عمل کرنے سے انسان کی دنیا بھی سنور سکتی ہے اور آخرت بھی۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے آپ کو قرآن سکھایا ہے کسی اور نے نہیں سکھایا جیسا کہ کفار مکہ کا قرآن کے متعلق ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ اسے کوئی عجمی سکھاتا ہے۔ پھر یہ شخص اسے اللہ کی طرف منسوب کرکے ہمیں سنا دیتا ہے۔ الرحمن
3 [٢] ہر مالک کا اپنے مملوک کو بتانا ضروری ہے کہ وہ اس سے کتنا کام لینا چاہتا ہے لہٰذا قرآن اتارا گیا :۔ اللہ ہی نے انسان کو پیدا کیا تو انسان کی ہدایت بھی اللہ کے ذمہ تھی۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے یہ قرآن نازل فرما کر اس ذمہ داری کو پورا کردیا۔ قرآن کا اتارنا اس کی رحمت کا بھی تقاضا تھا اور اس کی خا لقیت کا بھی۔ پھر وہ خالق ہونے کے ساتھ ساتھ مالک بھی ہے اور ہر چیز بشمول انسان اس کی مملوک ہے۔ اور ہر مالک کا اپنے مملوک کو یہ بتانا ضروری ہوتا ہے کہ اس سے وہ کیا کام لینا چاہتا ہے اور کس مقصد کے لیے اسے بنایا گیا ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کو بھی انسانوں کو یہ بتانا ضروری تھا کہ ان کا مقصد حیات کیا ہے؟ اور یہ ضرورت قرآن اتار کر پوری کردی گئی۔ الرحمن
4 [٣] اللہ تعالیٰ کا انسان پر مزید احسان یہ ہے کہ اسے قوت گویائی عطا کی جس سے وہ اپنے مافی الضمیر کا پوری طرح اظہار کرسکتا ہے۔ پھر اس قوت گویائی یا قوت بیان کا انحصار اور بہت سی قوتوں پر ہے مثلاً بینائی، سماعت، عقل و فہم، قوت تمیز اور ارادہ و اختیار۔ ان میں سے ہر ایک قوت ایک عظیم نعمت ہے اور اظہار بیان کے لیے یہ سب قوتیں یا ان میں سے اکثر ناگزیر ہیں۔ الرحمن
5 [٤] چاند اور سورج میں نظم کی بنا پر انسانوں کو پہنچنے والے فائدے :۔ سورج اور چاند کا ایک مقررہ رفتار کے مطابق چلنا۔ پھر اس میں ایک لحظہ کی بھی تاخیر نہ ہونا انسان کے لیے ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ سورج سے دن رات ادل بدل کر آتے رہتے ہیں اور موسموں میں بتدریج تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ نمازوں کے اوقات کا تعلق بھی سورج سے ہے۔ فصلوں کے پکنے کا انحصار بھی سورج سے ہے۔ چاند سے ہمیں رات کو روشنی حاصل ہوتی ہے۔ ہم مہینوں اور سالوں کا حساب رکھ سکتے ہیں اور یہی حقیقی اور فطری تقویم ہے۔ اسی لیے رمضان کے روزے، حج، عیدیں اور دوسری قابل شمار مدتوں مثلاً مدت حمل، مدت رضاعت و عدت وغیرہ کا تعلق چاند سے ہوتا ہے۔ پھر سورج اور زمین کے درمیان ایسا مناسب فاصلہ رکھا گیا ہے۔ کہ اس میں کمی بیشی سے اس زمین پر انسان اور دوسرے سب جانداروں کی زندگی ہی ناممکن ہے۔ اور سب فائدے اسی صورت میں حاصل ہورہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان عظیم الجثہ کروں کو ایسے طبعی قوانین میں جکڑ رکھا ہے جس سے وہ ادھر ادھر ہو ہی نہیں سکتے اور اپنے مقرر مداروں پر مقررہ رفتار سے ہمہ وقت محو گردش رہتے ہیں۔ الرحمن
6 [٥] نجم کے معنی ستارا بھی ہے اور بے تنا درخت بھی جس میں جھاڑ جھنکار، جڑی بوٹیاں، بیلیں اور بے تنہ پودے سب شامل ہیں اور یہاں یہ دوسرا معنی ہی زیادہ مناسبت رکھتا ہے اور سجدہ ریز ہونے سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے جو طبعی قوانین ان کے لیے مقرر کردیئے ہیں ان سے سرتابی نہیں کرتے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ فی الواقع اللہ کو سجدہ کر رہے ہوں۔ لیکن انسان اس کیفیت اور ماہیت کو سمجھنے سے قاصر ہو۔ نیز انسان ان سے جو بھی فائدہ اٹھانا چاہے وہ اس میں رکاوٹ نہیں بنتے۔ الرحمن
7 [٦] میزان کا مفہوم :۔ اس آیت میں میزان سے اکثر مفسرین نے میزان عدل مراد لی ہے۔ جس کے سہارے یہ زمین و آسمان قائم ہیں جیسا کہ احادیث میں بھی مذکور ہے۔ اس صورت میں ان کے عدل سے مراد وہ توازن و تناسب ہے۔ جو ہر سیارے میں قوت جاذبہ یعنی کشش ثقل اور مرکز گریز قوت کے درمیان رکھ دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں ہر سیارے کا درمیانی فاصلہ، ان کی رفتار اور ان میں باہمی تعلق بھی شامل ہے اور یہ اتنا لطیف اور خفیف تعلق ہے جو انسان کی سمجھ سے باہر ہے اور اس توازن و تناسب کو میزان کے لفظ سے اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ انسان کو سمجھانے کے لیے اس لفظ کے مفہوم کے قریب تر کوئی لفظ نہ تھا۔ الرحمن
8 الرحمن
9 [٧] یعنی اللہ نے نظام کائنات میں جس طرح عدل و انصاف سے کام لیا ہے تم اپنے باہمی لین دین میں اسے ملحوظ رکھو۔ اور اس کام کے لیے ہم نے میزان بنا دی ہے۔ میزان کا معنی وزن کرنے کا آلہ بھی اور مقدار وزن بھی۔ علاوہ ازیں جس طرح میزان میں کمی بیشی کرنا گناہ کبیرہ ہے اسی طرح ناپ کے پیمانوں میں بھی کمی بیشی کرنا ویسا ہی جرم ہے۔ اور اس کمی بیشی کی وجہ صرف دوسرے کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا ہوتا ہے۔ الرحمن
10 [٨] انام کا لغوی مفہوم :۔ انام سے مراد ہر وہ جاندار مخلوق ہے جو روئے زمین پر پائی جاتی ہے۔ خواہ وہ چرند ہوں، یا پرند، مویشی ہوں یا درندے، انسان ہوں یا جن، اور انام سے مراد انسان اور جن لینا اس لحاظ سے زیادہ مناسب ہے کہ آگے انہیں دو انواع کا ذکر آرہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ زمین پر بسنے والی تمام مخلوق کا رزق ہم نے زمین سے ہی وابستہ کردیا ہے۔ یہی ان کی جائے پیدائش، یہی ان کا مسکن اور یہی ان کا مدفن ہے۔ اشتراکی نظریہ کا رد :۔ اس آیت سے اشتراکیت پسند حضرات نے اپنا نظریہ کشید کرنے کی کوشش فرمائی ہے کہ زمین حکومت کو اپنی تحویل میں لے لینی چاہئے۔ پھر وہ تمام افراد کو رزق مہیا کرے۔ اس کے نظریے کے ابطال کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ انام کے معنی صرف انسان نہیں بلکہ سب جاندار مخلوق ہے۔ پھر اس پر کئی اعتراض بھی پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ کیا زمین کی تمام پیداوار تقسیم ہوگی یا مصنوعات؟ اور کیا ہر فرد ریاست میں برابر تقسیم ممکن بھی ہے۔ یا نہیں؟ اور آج تو ان لوگوں کا نظریہ عملاً بھی باطل قرار پاچکا ہے۔ الرحمن
11 [٩] پھلوں کے ساتھ کھجور کا الگ بھی ذکر فرمایا ہے اس لیے کہ کھجور میں دوسرے پھلوں کی نسبت زیادہ غذائی اجزاء پائے جاتے ہیں۔ اور کھجور اور پانی دو چیزیں مل کر مکمل غذا بن جاتی ہے جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ بعض دفعہ ہمارے گھر میں دو دو ماہ تک چولہا نہیں جلتا تھا اور ہمارا گزارا صرف دو کالی چیزوں (کھجور اور مٹکے کا پانی) پر ہوتا تھا (بخاری۔ کتاب الہبۃ و فضلہا) الرحمن
12 [١٠] یعنی اناج یا دانے تو انسان کی خوراک بنتے ہیں اور بھوسی جانوروں کی۔ ان کے علاوہ ایسی چیزیں بھی پیدا ہوتی ہیں جو کھانے کے کام نہیں آتیں تاہم ان کی خوشبو وغیرہ سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ الرحمن
13 [١١] آلاء کا لغوی مفہوم :۔ آلاَءِ (اِلٰی کی جمع بمعنی نعمت بھی اور قدرت یا نشان عظمت بھی) اور آلاء سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو انسان کی ضرورت مہیا کرتی ہیں اور پے در پے آتی رہتی ہیں اور اسے زندگی بسر کرنے کے لیے کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہوتی۔ (فقہ اللغۃ) اور یہ لفظ بالعموم جمع ہی استعمال ہوتا ہے۔ کیونکہ ایسی نعمت ایک تو ہے نہیں لہٰذا ہمیشہ آلاء آتا ہے۔ اور یہ آیت اس سورۃ میں اکتیس مرتبہ دہرائی گئی ہے۔ کہیں آلاء کا لفظ عظیم الشان نعمتوں کے معنوں میں اور کہیں قدرت کی نشانیوں کے معنوں میں اور کہیں بیک وقت دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ حدیث میں ہے کہ آپ نے ایک دفعہ صحابہ سے فرمایا کہ تم سے تو جن ہی اچھے ہوئے کہ جب میں ﴿فَبِاَیِّ اٰلَاءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ ﴾ پڑھتا تو وہ اس کے جواب میں یوں کہتے ہیں ﴿لاَ بِشَیْئٍ مِنْ نِعَمِکَ رَبَّنَا نُکَذِّبُ فَلَکَ الْحَمْدُ﴾ (اے ہمارے پروردگار! ہم تیری کسی نعمت کو نہیں جھٹلاتے۔ سب حمد و ثنا تیرے ہی لیے ہے) لہٰذا جب کوئی شخص یہ آیت پڑھے تو اس کا یہی جواب دینا چاہئے۔ علاوہ ازیں اس آیت اور اس کے بعد کی آیات میں دونوں طرح کی مکلف مخلوق یعنی جنوں اور انسانوں کو مشترکہ طور پر خطاب کیا گیا ہے۔ الرحمن
14 [١٢] سیدنا آدم کے پہلے کی تخلیق کے مراحل :۔ یہ سیدنا آدم کے پتلے کی تخلیق کا ساتواں اور آخری مرحلہ ہے اور ان سات مراحل کی ترتیب یوں ہے۔ (١) تراب بمعنی خشک مٹی سے، (المومن : ٦٧) (١) ارض بمعنی عام مٹی یا زمین، (نوح : ١٧) (٣) طین بمعنی گیلی مٹی یا گارا، (الانعام : ٢) (٤) طِیْنٍ لاَّزِبٍ بمعنی لیسدار اور چپکدار مٹی، (الصافات : ١١) (٥) حَمَإٍ مَّسْنُوْنٍ بمعنی بدبودار کیچڑ،۔ (الحجر : ٢٦) (٦) صَلَصَالٍ ٹھیکرا یا حرارت سے پکائی ہوئی مٹی، (ایضاً) (٧) صَلْصَالٍ کَاْلفَخَّارٍ بمعنی ٹن سے بجنے والی ٹھیکری، (الرحمن : ١٤) پھر جب اللہ تعالیٰ نے اس میں اپنی روح سے پھونکا تو یہ بشر بن گیا۔ اس کو مسجود ملائک بنایا گیا۔ پھر اسی سے اس کا زوج پیدا کیا گیا (٤: ١) پھر اس کے بعد حقیر پانی کے ست سے اس کی نسل چلائی گئی جس کے لیے دوسرے مقامات پر نطفہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ الرحمن
15 [١٣] جنوں کی تخلیق اور نسل :۔ مَارِجٍ بمعنی شعلہ کا اوپر کا گرم ترین حصہ جو دھوئیں سے یکسر پاک ہوتا ہے۔ (فقہ اللغۃ) یعنی آگ کی لپٹ۔ جس سے مٹی کو کئی مراحل سے گزار کر اسے لطیف سے لطیف تر بنا کر اس سے انسان بنایا گیا۔ اسی طرح جنوں کو بھی لکڑی اور کوئلے سے پیدا ہونے والی عام آگ سے نہیں بلکہ اس گرم تر لطیف تر حصہ سے بنایا گیا۔ انسانوں سے پہلے یہی آتشیں مخلوق زمین پر آباد تھی۔ ان میں بھی نبوت کا سلسلہ جاری تھا۔ انسان کی تخلیق کے بعد نبوت کا سلسلہ انسانوں میں منتقل ہوگیا۔ کیونکہ اشرف المخلوقات انسان ہے نہ کہ جن۔ جو نبی انسانوں کی طرف مبعوث ہوتا وہی جنوں کے لیے بھی ہوتا تھا۔ نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم جیسے ہمارے نبی ہیں ویسے ہی جنوں کے لیے بھی ہیں۔ جنوں میں کافر، مشرک، مومن، نیک اور بدغرض انسانوں کی طرح ہر طبقہ کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ان کی بھی اولاد ہوتی ہے اور توالد و تناسل کا سلسلہ جاری ہے۔ الرحمن
16 الرحمن
17 [١٤] یہاں دو مشرقوں اور دو مغربوں کا ذکر فرمایا اس لیے کہ اس سورۃ میں مسلسل دو دو چیزوں کا ذکر چل رہا ہے جبکہ سورۃ معارج کی آیت نمبر ٤٠ میں فرمایا کہ وہ بہت سے مشرقوں اور مغربوں کا مالک ہے۔ دو مشرقوں سے مراد ایک تو وہ مقام ہے جب سورج موسم گرما کے سب سے بڑے دن طلوع ہوتا ہے۔ اور دوسرا وہ مقام ہے جہاں سے سورج، موسم کے سب سے چھوٹے دن طلوع ہوتا ہے۔ اور ان دونوں مقاموں کے درمیان سب مشرق ہی مشرق ہیں۔ ہر روز طلوع آفتاب کے مقام کا ایک نیا زاویہ ہوتا ہے اور یہی حال مغربوں کا ہے۔ اسی تبدیلی سے موسم پیدا ہوتے ہیں اور مختلف موسموں میں مختلف فصلیں اور پھل پیدا ہوتے ہیں اور ان مشرقوں اور مغربوں کے پیچھے ایک بڑا حیرت انگیز اور پیچیدہ نظام قائم ہے جس کی بنا پر یہ تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں اور ان کا ذکر پہلے کئی مقامات پر کیا جاچکا ہے۔ الرحمن
18 الرحمن
19 الرحمن
20 [١٥] اس کی تشریح کے لیے سورۃ فرقان کی آیت نمبر ٥٣ کا حاشیہ ملاحظہ فرمایئے۔ الرحمن
21 الرحمن
22 [١٦] مرجان برزخی مخلوق :۔ مرجان دراصل جمادات اور نباتات کے درمیان برزخی پیدائش ہے جس طرح سب موتی پتھروں ہی کی قسم ہوتے ہیں۔ مرجان بھی پتھر ہی کی قسم ہے لیکن یہ نباتات کی طرح بڑھتا ہے جمادات کی طرح جامد نہیں۔ مرجان کا ایک چھوٹا سا پودا ہوتا ہے جس کی شاخیں بھی ہوتی ہیں۔ موتی اور مرجان عموماً کھاری پانی کی پیداوار ہیں۔ مگر اسی کھاری پانی کے نیچے اللہ کی قدرت سے میٹھے پانی کے چشمے بھی ابل رہے ہوتے ہیں۔ یا ساتھ ساتھ دریا رواں ہوتے ہیں۔ اسی لیے منھما کا لفظ ارشاد فرمایا یعنی یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کے حیرت انگیز تخلیقی کارناموں کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں جن سے انسان فائدہ اٹھا رہا ہے۔ الرحمن
23 الرحمن
24 [١٧] یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو اتنی عقل عطا فرمائی کہ اس نے بڑے اونچے اونچے جہاز تیار کرلیے جو مہیب سمندر کی تلاطم خیز موجوں کو چیرتے چلے جاتے ہیں لہٰذا انسان کے اس فعل کی نسبت اللہ تعالیٰ نے براہ راست اپنی طرف کی ہے کہ یہ جہاز دراصل انسان کی ملکیت نہیں ہماری ہی ملکیت ہیں۔ الرحمن
25 الرحمن
26 الرحمن
27 [١٨] ہر چیز فنا ہونے والی ہے استثناء صرف اللہ کے لئے ہے :۔ یعنی جو چیز بھی مخلوق ہے وہ حادث ہے اور قدیم صرف اللہ کی ذات ہے جو چیز بنی ہے خواہ وہ بے جان ہو ایک نہ ایک دن ضرور اپنا کام چھوڑ دے گی۔ خراب ہوجائے گی، برباد اور فنا ہوگی اور جو جاندار ہے وہ بھی ضرور موت سے دو چار ہوگی۔ صرف اللہ کی ذات اور صفات قدیم اور ازلی ابدی ہیں۔ لہٰذا ان کے سوا کوئی چیز باقی نہ رہے گی۔ اللہ کی صفات سے مراد مثلاً کلام اللہ یا قرآن یا لوح محفوظ اور اعمالنامے وغیرہ ہیں۔ رہے فرشتے بالخصوص حاملان عرش تو ان کے متعلق اللہ ہی بہتر جانتا ہے کیونکہ قرآن میں کئی مقامات پر فرشتے اپنے کلام کو اللہ کی طرف منسوب کردیتے ہیں۔ جیسے جبریل نے سیدہ مریم کے سامنے آکر کہا تھا ﴿لِاَہَبَ لَکِ غُلٰمًا زَکِیًّا ﴾(۲۲:۱۹) حالانکہ لڑکا یا اولاد عطا کرنا اللہ کی صفت اور اس کا کام ہے فرشتوں کا نہیں۔ الرحمن
28 الرحمن
29 [١٩] اللہ تعالیٰ کے نت نئے کام :۔ بے نیاز فقط اللہ کی ذات ہے باقی تمام مخلوق اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے اللہ کی محتاج ہے۔ کوئی اس سے کھانے کو مانگ رہا ہے کوئی پینے کو، کوئی تندرستی کے لیے دعا کرتا ہے اور کوئی اولاد کے لیے۔ کوئی گناہوں سے مغفرت اور ترقی درجات کے لیے اور وہ سب مخلوق کی فریاد سنتا اور ان کی فریاد رسی کر رہا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ہر وقت اور ہر آن یہ کام کر رہا ہے۔ علاوہ ازیں ہر وقت نئی سے نئی مخلوق کو وجود میں لا رہا ہے جس طرح انسانوں کی پیدائش بڑھ رہی ہے اسی طرح ہر ذی حیات کی نسل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پھر وہ کائنات میں نئے سے نئے سیارے اور کہکشائیں بھی وجود میں لا رہا ہے۔ غرض ہر روز اس کی ایک نئی آن اور نئی شان ہوتی ہے۔ الرحمن
30 الرحمن
31 [٢٠] ثَقَلاَنِ: ثقل بمعنی بوجھ، وزن، گرانباری اور ثقیل اور ثقال بمعنی بوجھل اور وزنی چیز اور ثقلان بمعنی زمین پر آباد جاندار مخلوق میں سے دو بھاری اور کثیر التعداد جماعتیں۔ دو بڑی انواع جن اور انسان جو مکلف ہیں۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جنوں اور انسانوں کی اکثریت چونکہ مجرم، اللہ کی نافرمان اور اللہ کی زمین پر بوجھ ہی بنی رہی ہے اس لیے ان جماعتوں کو ثَقَلاَنِ کہا گیا ہے۔ [٢١] اللہ تعالیٰ کا لوگوں سے حساب لینا بھی نعمت ہے :۔ یعنی تمہارا حساب لینے کے لیے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس وقت ہم اتنے مشغول ہیں کہ تمہارا حساب کتاب لینے کی ہمیں فرصت نہیں۔ بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ ابھی تمہارے حساب کتاب کا وقت نہیں آیا۔ تاہم وہ وقت بھی قریب آرہا ہے جب اس کائنات کا دوسرا دور شروع ہوگا اور وہ دور بھی بس آیا ہی چاہتا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ جیسے کسی شخص نے اپنا نظام الاوقات یا ٹائم ٹیبل پہلے سے بنا رکھا ہو اور وہ کہہ دے کہ ابھی فلاں کام کے لیے ہمارے پاس فراغت نہیں اس کی باری ایک گھنٹہ بعد آنے والی ہے اور ان جماعتوں سے حساب لینا پھر انہیں اس کے موافق جزا و سزا دینا بھی اللہ کی بہت بڑی نعمت اور اس کے عدل کا تقاضا ہے۔ الرحمن
32 الرحمن
33 [٢٢] نفذ کا لغوی مفہوم نفذ بمعنی آر پار نکل جانا۔ جیسے لوہے کی سلاخ کے ایک سرے کو آگ پر گرم کیا جائے تو تھوڑی دیر بعد حرارت دوسرے سرے تک از خود جا پہنچتی ہے۔ اور نفاذ بمعنی قوت سے کسی چیز کا اجراء ہونا، جیسے کہتے ہیں کہ اس ملک میں کل سے فلاں فلاں قانون نافذ ہوچکا ہے اور بمعنی چیز کا بسرعت داخل ہونا اور آر پار ہوجانا۔ جیسے برقی رو آر پار نکل جاتی ہے۔ [٢٣] سُلْطٰنٍ بمعنی غلبہ اور شدید قوت بھی اور اتھارٹی لیٹر یا پروانۂ راہداری بھی۔ اب اگر اس آیت کا اطلاق اس مادی دنیا پر کیا جائے، تو مطلب یہ ہوگا کہ زمین و آسمان کے کناروں تک پہنچنے کے لیے انتہائی قوت کی ضرورت ہے، جیسے انسان چاند پر، جو زمین کا سب سے قریبی سیارچہ ہے، پہنچنے میں کامیاب ہوا ہے اور اس کے لیے انتہائی قوت اور بل بوتے کی ضرورت ہے۔ اور اتنا بل بوتا تم میں کبھی نہیں آسکتا کہ تم ﴿ اَقْـطَار السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ﴾کو پھاند سکو۔ اور اگر تم چاہو تو زور لگا کے دیکھ سکتے ہو۔ اور اگر اس آیت کا ربط سابقہ آیت یعنی حساب کتاب سے ملایا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ حساب کتاب اور اللہ کی گرفت سے تم میں سے کوئی شخص بھی ادھر ادھر بھاگ کر بچ نہیں سکتا الا یہ کہ کسی کو جنت کا پروانہ مل جائے۔ اس صورت میں اسے بھاگنے کی ضرورت ہی نہ رہے گی۔ الرحمن
34 الرحمن
35 [٢٤] شواظ بمعنی خالص آگ کا شعلہ جس میں دھوئیں کی آمیزش نہ ہو اور اگر آمیزش ہو تو اسے نحاس کہتے ہیں۔ مگر اس کی بھی صورت یہ ہونی چاہئے کہ آگ زیادہ اور دھواں کم ہو۔ ایسی آگ کی رنگت تانبے جیسی ہوجاتی ہے اور نحاس تانبے کو بھی کہتے ہیں۔ [٢٥] انتصار کے معنی کسی ظلم و زیادتی کا بدلہ لینا بھی۔ اور کسی زیادتی سے اپنا دفاع کرنا بھی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص حساب کتاب یا اللہ کی گرفت سے بھاگ کھڑا ہونے کی کوشش کرے گا تو وہ اس میں کبھی کامیاب نہ ہوسکے گا۔ اس پر آگ کے اور دھواں ملی آگ کے شعلے چھوڑے جائیں گے اور مجبوراً اسے اس جگہ کھڑا رہنا پڑے گا جہاں کھڑا رہنے کے لیے اسے حکم ہوگا اور وہ ایسا مجبور اور بے بس ہوگا کہ وہ نہ اپنا بچاؤ کرسکے گا نہ فرشتوں سے بدلہ لے سکے گا۔ الرحمن
36 [٢٦] یہاں آلاء کا لفظ نعمتوں کے معنوں میں بھی استعمال ہوسکتا ہے، یعنی مجرموں کو دنیا اور آخرت میں سزا دینا بھی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اس طرح جہاں عام لوگ ظالموں کے ظلم سے نجات پاتے ہیں وہاں نیک لوگوں کی حوصلہ افزائی اور قدر شناسی بھی ہوتی ہے۔ الرحمن
37 [٢٧] پہلے وردۃ کا لفظ استعمال فرمایا۔ وردبمعنی گلاب کا پھول اور وَرْدَۃً بمعنی گلابی رنگ دِھَانٌ بمعنی تیل کی سرخی مائل تلچھٹ یعنی جس دن آسمان پھٹے گا اس دن تمام سیاروں کا نظام درہم برہم ہوجائے گا اور جو شخص آسمان کی طرف نظر دوڑائے گا اسے یوں معلوم ہوگا کہ عالم بالا میں ہر طرف ایک آگ سی لگی ہوئی ہے۔ الرحمن
38 الرحمن
39 [٢٨] قیامت کے دن مختلف مواقع پر مجرموں سے مختلف قسم کا سلوک ہوگا۔ ایک موقع پر ان سے ٹھیک طرح باز پرس ہوگی جیسے فرمایا : ﴿فَوَرَبِّکَ لَنَسْــَٔـلَنَّہُمْ اَجْمَعِیْنَ ﴾(۹۲:۱۵) اور ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب مجرم اپنے گناہوں سے مکر جائیں گے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ مجرموں سے نہیں پوچھے گا۔ بلکہ ان کی زبانوں پر مہر لگا دے گا اور ان کے ہاتھ پاؤں اور جلدوں کو بولنے کا حکم دے گا۔ وہ ان اثرات کو بیان کریں گے جو اس جرم کے دوران ان پر مرتب ہوئے تھے۔ اس طرح ان کے خلاف شہادت قائم ہوجائے گی۔ الرحمن
40 الرحمن
41 [٢٩] ان کی خوف زدہ آنکھیں، گبھرائے ہوئے اور اترے ہوئے چہرے، دبی ہوئی آوازیں اور انہیں چھوٹتے ہوئے پسینے اس بات کی پہچان کے لیے کافی ہوں گے کہ یہ مجرم ہیں خواہ وہ جن ہوں یا انسان۔ ہر شخص ان کے چہرے پر مایوسی کے آثار اور چھائی ہوئی مردنی سے انہیں شناخت کرلے گا فرشتے ان کی پیشانی کے بالوں اور پاؤں سے پکڑ کر انہیں گھسیٹتے ہوئے جہنم میں جا پھینکیں گے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فرشتے ان کی پیشانی اور قدموں کو اس طرح چلا دیں گے کہ ان کی ہڈی پسلی چور چور ہوجائے گی۔ الرحمن
42 الرحمن
43 الرحمن
44 [٣٠] شدت حرارت کی وجہ سے اہل دوزخ کو بار بار پیاس لگے گی اور وہ گرم پانی کے چشموں کی طرف دوڑیں گے جو گرمی کی وجہ سے کھول رہے ہیں۔ انہیں کھولتا پانی پلا کر واپس لایا جائے گا۔ تو پھر جلدی ہی انہیں پیاس پھر ستانے لگے گی۔ پھر وہ انہیں چشموں کی طرف دوڑیں گے اور یہ عمل لگا تار جاری رہے گا۔ الرحمن
45 الرحمن
46 [٣١] اس سورۃ کی اکثر آیات میں دو دو چیزوں کا ذکر آرہا ہے لہٰذا یہاں بھی دو باغات کا ذکر فرمایا : حالانکہ ہر جنتی کو کئی باغات ملیں گے۔ جیسا کہ بعض دوسری آیات سے واضح ہے۔ پھر تمام اہل جنت کے سارے باغوں کے مجموعہ کا نام بھی الجنۃ ہے۔ یعنی باغات کا مخصوص مقام۔ بہشت۔ الرحمن
47 الرحمن
48 [٣٢] افنان۔ فن کی جمع ہے یعنی بہت بڑا اور لمبا ٹہنا یعنی ان دو باغوں کے جتنے درخت ہوں گے ان سب کے دو بڑے بڑے ٹہنے ہوں گے۔ پھر ان ٹہنوں کی چھوٹی چھوٹی ٹہنیاں نکلیں گی۔ اس آیت میں اللہ کی اس قدرت کا اظہار ہے کہ ان باغوں کے درختوں کی نشوونما میں ایک دوسرے سے پوری طرح یکسانیت اور ہم آہنگی ہوگی۔ الرحمن
49 الرحمن
50 [٣٣] ایک چشمے کا نام تسنیم ہوگا اور دوسرے کا سلسبیل، اور یہ دونوں چشمے ہمیشہ جاری رہیں گے، کبھی خشک نہ ہوں گے۔ الرحمن
51 الرحمن
52 [٣٤] اس کے کئی مطلب لیے جاسکتے ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ ایک باغ کے پھلوں کا رنگ، ذائقہ اور خوشبو دوسرے باغ کے پھلوں سے بالکل جداگانہ ہوگی اور دوسرا یہ کہ شکل و صورت اور رنگ و بو ایک جیسا ہونے کے باوجود ان کے ذائقے الگ الگ ہوں گے اور تیسرا یہ کہ ایک باغ کے پھلوں سے تو اہل جنت متعارف ہوں گے اور دوسرے باغ کے پھل ان کے وہم و گمان میں بھی نہ آئے ہوں گے۔ الرحمن
53 الرحمن
54 [٣٥] ان آیات میں اہل جنت پر اللہ کے انعامات کا ذکر ہے یعنی جن بچھونوں پر وہ تکیہ لگا کر بیٹھا کریں گے ان کا استر تو موٹے ریشم کا ہوگا اور ابرہ تو بہرحال اس سے بھی بہتر ہی کوئی کپڑا ہوگا جس کا وجود غالباً اس دنیا میں نہیں پایا جاتا۔ یہ بچھونے انہیں باغوں میں ہوں گے جو ان کی اپنی ذاتی قیام گاہیں ہوں گی اور ان باغوں کے پھل اتنے جھکے ہوئے ہوں گے کہ جب چاہیں اور جونسا پھل چاہیں اسی وقت ہاتھ سے پکڑ کر توڑ کر کھا سکیں۔ الرحمن
55 الرحمن
56 [٣٦] ان جنت کی عورتوں کی اولین اور اہم صفت یہ ہوگی کہ وہ شرمیلی اور حیادار ہوں گی اپنے شوہروں کے سوا کسی دوسرے کو دیکھنے کی کوشش نہ کریں گی۔ انتہائی خوبصورت ہونے کے باوجود دنیا کی عورتوں کی طرح اپنے چاہنے والوں سے آنکھیں ہی آنکھوں میں اشارے کرنے والے نہیں ہوں گی۔ اور ان کی دوسری صفت یہ ہوگی کہ وہ باکرہ یا کنواری ہوں گی۔ اہل جنت کو حوروں کے علاوہ جو عورتیں ملیں گی وہ وہی ہوں گی جو اس دنیا میں ان کی بیویاں تھیں۔ اگر وہ اس دنیا میں صاحب اولاد تھیں یا بوڑھی ہوچکی تھیں۔ تب بھی انہیں نوخیز اور کنواری بنا کر جنت میں داخل کیا جائے گا۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جنوں میں بھی توالد و تناسل کا سلسلہ موجود ہے۔ اور مومن جن جو جنت میں داخل ہوں گے ان کو بھی نوخیز اور کنواری بنا کر ہی ان کی دنیا کی بیویاں عطا کی جائیں گی۔ الرحمن
57 الرحمن
58 [٣٧] یہ ان عورتوں کی تیسری صفت ہے جو کئی صفات کا مجموعہ ہے مثلاً وہ اتنی خوبصورت اور دلکش ہوں گی جیسے یاقوت اور مرجان یا وہ اتنی آب و تاب والی اور صاف شفاف ہوں گی جیسے یاقوت اور مرجان یا وہ اتنی صاف ستھری ہوں گی کہ ہاتھ لگانے سے بھی میلی ہو رہی ہوں گی۔ الرحمن
59 الرحمن
60 الرحمن
61 [٣٨] پہلے احسان سے مراد اہل جنت کے وہ نیک اعمال ہیں جو وہ دنیا میں سرانجام دیتے رہے۔ اور دوسرے احسان سے مراد جنت کی وہ نعمتیں ہیں جن کا ذکر ہو رہا ہے۔ اس آیت کا ترجمہ سوالیہ فقرہ کی شکل میں لکھا گیا ہے۔ اس کا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے۔ نہیں بدلہ احسان کا مگر احسان۔ یعنی احسان کا بدلہ احسان ہی ہوسکتا ہے۔ الرحمن
62 [٣٩] اس کی بھی دو صورتیں بیان کی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ اہل جنت بھی دو طرح کے ہوں گے۔ ایک السابقون یا مقربین، دوسرے اصحاب الیمین یعنی عام اہل جنت جیسا کہ سورۃ واقعہ میں یہ تفصیل موجود ہے۔ مقربین کو جو دو باغ ملیں گے وہ ان باغوں سے اعلیٰ قسم کے ہوں گے جو عام اہل جنت کو ملیں گے اور دوسری صورت یہ کہ ہر جنتی کو دو باغ تو اعلیٰ قسم کے ملیں گے اور دو اس سے کم درجہ کے۔ الرحمن
63 الرحمن
64 [٤٠] مُدْھَامَّتٰنِ: دَھَمٌ بمعنی کسی چیز کا تاریکی میں ڈھک جانا۔ کہتے ہیں دَھَمَتِ النَّارُ الْقَدَرَ یعنی آگ نے ہنڈیا کو سیاہ کردیا۔ اس آیت میں مفہوم یہ ہے کہ ان دونوں باغوں کے درختوں کے پتے اتنے گہرے سبز ہوں گے جیسے سیاہ ہو رہے ہوں۔ الرحمن
65 الرحمن
66 [٤١] نَضَخَ کا معنی پانی کا چشمہ سے زور سے پھوٹنا۔ مگر نَضَخٌ میں جوش مارنے کی وجہ کثرت آب اور دباؤ ہوتی ہے نہ کہ حرارت' اور نضاخ موسلادھار بارش کو بھی کہتے ہیں۔ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ چشموں کے سوراخ تنگ اور پانی کی کثرت روانی کی تیزی کی وجہ سے وہ چشمے جوش مار رہے ہوں گے۔ الرحمن
67 الرحمن
68 [٤٢] فَکِہَ بمعنی خوشی طبعی، خوش مزاجی اور ہنسنے ہنسانے والا ہونا اور فکہ کے معنی کسی کو میوہ کھلانا بھی اور اپنے شیریں کلام سے کسی کو خوش کرنا اور فواکہ سے مراد ایسے پھل ہیں جن کے کھانے کا اصل مقصد لذت و سرور اور لطف حاصل کرنا ہو نہ کہ غذائیت حاصل کرنا۔ پھر اس کے بعد کھجور کا ذکر فرمایا جو پانی کے ساتھ مل کر مکمل غذا بن جاتا ہے۔ پھر اگر پانی کے بجائے کھجور کے ساتھ انار کا پانی مل جائے تو سب مقصد حاصل ہوجاتے ہیں۔ کھانے کا بھی، پینے کا بھی اور لطف و سرور بھی۔ الرحمن
69 الرحمن
70 [٤٣] یہ اہل جنت کی دنیا میں بیویوں کے علاوہ دوسری قسم کی عورتیں ہوں گی یعنی جنت کی حوریں انتہائی پاکیزہ کردار والی اور بہت خوب صورت جن کا ذکر اگلی آیت میں آرہا ہے۔ الرحمن
71 الرحمن
72 [٤٤] اس آیت میں دراصل سابقہ آیت کی کچھ تفصیل ہے۔ خوب صورتی میں آنکھوں کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ آنکھ کی پتلی جتنی زیادہ سیاہ اور سفیدی جتنی زیادہ سفید ہو آنکھ اتنی ہی خوبصورت معلوم ہوتی ہے تو یہ ان کی صورت کی خوبی ہوئی اور سیرت کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے خیموں سے باہر نکلیں گی ہی نہیں۔ اور خیموں سے مراد اہل ثروت کے وہ خیمے ہیں جو وہ سیر و تفریح کی غرض سے سفر میں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ الرحمن
73 الرحمن
74 [٤٥] اہل جنت کو ملنے والی حوروں کی تیسری صفت یعنی وہ باکرہ یا کنواری ہوں گی۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو پرہیزگار جنّ جنت میں داخل ہوں گے ان کو بھی حوریں ملیں گی۔ واضح رہے کہ طمث کے معنی حیض کا خون بھی ہے۔ اور طمث کا معنی عورت کا حیض والا ہونا بھی اور مرد کا عورت کے پردہ بکارت کو زائل کرنا بھی۔ گویا یہ لفظ مجامعت کے معنوں میں پہلی بار کی مجامعت سے مخصوص ہے۔ الرحمن
75 الرحمن
76 [٤٦] عبقری کا مفہوم :۔ عَبْقَرِیٍّ عرب کے دور جاہلیت کے انسانوں میں جنوں کے دارالسلطنت کا نام عبقر تھا جہاں صرف جن اور پریاں ہی رہتے تھے جسے ہم اردو میں پرستان بھی کہتے ہیں یعنی پریوں کے رہنے کی جگہ۔ پھر لفظ عبقری کا اطلاق ہر نفیس اور نادر چیز پرہونے لگا تو یا وہ پرستان کی چیز ہے جس کا مقابلہ دنیا کی عام چیزیں نہیں کرسکتیں۔ پھر اس لفظ کا اطلاق ایسے آدمی پر بھی ہونے لگا جو غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک ہو۔ اسی لیے اہل عرب کو جنت کے سروسامان کی غیر معمولی نفاست اور خوبی کا تصور دلانے کے لیے یہاں عبقری کا لفظ آیا ہے۔ الرحمن
77 الرحمن
78 ٤٧] پروردگار کا ذاتی نام اللہ ہے اور رحمٰن ذاتی بھی ہے اور صفاتی بھی۔ باقی اللہ کے سب نام صفاتی ہیں۔ ان میں سے ذوالجلال والاکرام بڑا بابرکت صفاتی نام ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ خود بھی بڑی بزرگی اور عزت والا ہے اور دوسروں کو عزت عطا کرنے والا اور ان پر لطف و احسان کرنے والا ہے۔ جیسا کہ اہل جنت پر اس کے لطف و احسان کا ذکر ان آیات میں آیا ہے، پھر جب اس کا نام ہی بڑا بابرکت ہے تو اس کی ذات مقدس کس قدر بابرکت ہوگی اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ہر نماز سے سلام پھیرنے کے بعد پہلے اللہ اکبر پھر تین بار استغفر اللہ کہتے۔ پھر اس کے بعد یہ ذکر فرماتے : ﴿اللّٰھُمَّ أنْتَ السَّلاَمُ وَمِنْکَ السَّلاَمُ تَبَارَکْتَ یَا ذَالْجَلاَلِ وَالاِکْرَام﴾(مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلوٰۃ، باب استحباب الذکر بعد الصلوۃ و بیان صفتہ) الرحمن
0 الواقعة
1 الواقعة
2 [١] اس آیت کے دو مطلب ہیں۔ ایک تو ترجمہ سے واضح ہے۔ دوسرا یہ کہ کوئی قیامت کے واقع ہونے کو روک نہیں سکتا۔ اور اس کے واقع ہونے کو غیر واقع نہیں بنا سکتا۔ الواقعة
3 [٢] اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جب قیامت قائم ہوگی تو نظام کائنات درہم برہم ہوجائے گا۔ ستارے جھڑ جائیں گے۔ پہاڑ اڑنے لگیں گے اور اس عالم کی تمام اشیاء زیر و زبر ہوجائیں گی۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ متکبر، سرکش اور ظالم لوگوں کے سرنگوں کردے گی اور وہ ذلیل اور رسوا ہوجائیں گے۔ جس بلند مقام پر اپنے آپ کو وہ سمجھے بیٹھے تھے وہاں سے نیچے پٹخ دیئے جائیں گے اور جو لوگ متواضع، منکسرالمزاج اور پاکیزہ سیرت کے مالک ہوں گے جنہیں متکبرین دنیا میں حقیر اور رذیل مخلوق سمجھتے تھے انہیں ہی سربلندی عطا ہوگی اور وہ بلند درجات کے مالک اور اونچے مقام پر فائز ہوں گے۔ الواقعة
4 الواقعة
5 [٣] یعنی زمین پر زلزلہ کسی مقامی سطح پر نہیں آئے گا۔ بلکہ ساری کی ساری زمین ہی لرزنے کپکپانے اور ہچکولے کھانے لگے گی۔ پہاڑوں کی گرفت زمین پر سے ڈھیلی پڑجائے گی۔ اور ایک پتھر دوسرے پر گر کر ریت کی طرح ریزہ ریزہ ہوجائے گا۔ پھر تیز ہوا ان پہاڑوں کے ذرات کو پراگندہ کرکے اڑاتی پھرے گی۔ سوچ لو کیا اس وقت تمہارا زمین پر زندہ رہنا ممکن رہ جائے گا ؟ الواقعة
6 الواقعة
7 [٤] سابقہ آیات میں قیامت کے برپا ہونے یا نفخہ صور اول کا منظر پیش کیا گیا ہے اور اس آیت میں نفحہ صور ثانی یا مردوں کے قبروں سے زندہ ہو کر اٹھنے اور میدان محشر میں اکٹھا ہوجانے کے مابعد کا۔ اس وقت تمام لوگ تین گروہوں میں بٹ جائیں گے۔ ایک اہل دوزخ، دوسرے اہل جنت۔ اہل جنت کی پھر دو قسمیں ہوں گی۔ ایک مقربین کا گروہ، دوسرا عام صالحین کا۔ اس طرح کل تین قسم کے گروہ بن جائیں گے۔ جیسا کہ آگے ان کی تفصیل آرہی ہے۔ الواقعة
8 [٥] یمین بمعنی دایاں ہاتھ بھی اور دائیں جانب بھی۔ اس لحاظ سے اس کے معنی یہ ہوئے کہ جن لوگوں کو ان کا اعمال نامہ ان کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اور قیامت کے دن انہیں اللہ تعالیٰ کے دائیں جانب جگہ ملے گی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شب معراج میں آسمانوں کی سیر کرائی گئی تو آپ نے پہلے آسمان پر سیدنا آدم علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ جب اپنی دائیں طرف دیکھتے ہیں تو ہنس دیتے ہیں اور بائیں طرف دیکھتے ہیں تو رو دیتے ہیں۔ سیدنا جبریل نے آپ کو بتایا کہ سیدنا آدم کی دائیں جانب وہ لوگ تھے جو جنت میں داخل ہونے والے ہیں اور بائیں طرف وہ لوگ تھے جو جہنم میں داخل ہوں گے، اس سے بھی اصحاب الیمین سے مراد اہل جنت ہوئے۔ اور اگر یمین کو یمن سے مشتق سمجھا جائے جو برکت اور خوش بختی کے معنوں میں آتا ہے تو اس سے مراد خوش بخت اور خیر و برکت والے اصحاب ہیں اور مطلب دونوں معنوں کے لحاظ سے ایک ہی ہے۔ الواقعة
9 [٦] شمال بمعنی بایاں ہاتھ بھی، بائیں جانب بھی اور بدبخت بھی۔ یعنی وہ لوگ جنہیں ان کا اعمال نامہ بائیں ہاتھ میں ملے گا انہیں اللہ کی بائیں جانب کھڑا کیا جائے گا۔ اور یہ بدبخت اہل دوزخ ہوں گے۔ جیسا کہ حدیث مذکورہ بالا سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ الواقعة
10 الواقعة
11 [٧] یعنی پیغمبروں پر ایمان لانے میں، ان کے ساتھ حق و باطل کے معرکہ میں، مصائب کے برداشت کرنے میں اور ہر خیر اور بھلائی کے کام میں دوسروں سے سبقت کرنے والے اور آگے نکل جانے والوں کا درجہ عام مومنین صالحین سے بہرحال زیادہ ہوتا ہے۔ لہٰذا یہی لوگ اللہ کے مقربین میں سے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کے دربار میں اللہ تعالیٰ کے سامنے سب سے آگے یہی لوگ ہوں گے پھر ان کے بعد دائیں جانب صالحین مومنین اور بائیں جانب کافر و مشرک، سرکش اور خود سر یعنی اہل دوزخ ہوں گے۔ الواقعة
12 الواقعة
13 الواقعة
14 [٨] سابقون اوّلون سے مراد؟ ان دو آیات میں اولین اور آخرین کی تعیین میں اختلاف کی بنا پر ان آیات کے تین مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اولین سے مراد سابقہ امتوں کے لوگ لیے جائیں اور آخرین سے مراد اس امت کے۔ اس لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ سابقہ انبیاء پر ایمان لانے والوں، حق کے معرکہ میں دوسروں سے آگے نکل جانے والوں اور خیر و بھلائی کے کاموں میں سبقت کرنے والوں کی تعداد اس امت کے سابقین کی تعداد سے بہت زیادہ ہوگی۔ دوسرے یہ کہ اولین اور آخرین سے مراد ہماری ہی امت مسلمہ کے لوگ ہوں۔ اس لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ اس کے اولین یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تابعین، تبع تابعین۔ میں سے سابقین کی تعداد آخرین سے بہت زیادہ ہوگی۔ تیسرے یہ کہ اولین اور آخرین سے مراد ہر نبی کی امت کے اولین اور آخرین لیے جائیں۔ اس لحاظ سے یہ ایک اصل بن جائے گا۔ یعنی ہر نبی کی امت کے اولین میں سے سابقین کی تعداد آخرین میں سابقین کی تعداد سے زیادہ ہوا کرتی ہے۔ الواقعة
15 [٩] مَوْضُوْنَۃٍ۔ وَضَنٌ کے اصل معنی زرہ بافی کے ہیں اور استعارۃً کسی چیز کو مضبوطی کے ساتھ بننے پر بولا جاتا ہے اور مَوْضُوْنٌ یا مَوْضُوْنَۃٌ یعنی باریک بنی ہوئی یا سونے کے تاروں سے بنی ہوئی چیز۔ الواقعة
16 الواقعة
17 الواقعة
18 الواقعة
19 [١٠] شراب کے نقصانات اور فائدے :۔ دنیا کی شراب میں خرابیاں یہ ہوتی ہے کہ اس کا مزہ تلخ محسوس ہوتا ہے۔ بو ناگوار ہوتی ہے، پینے سے سر چکرانے لگتا ہے اور بعض دفعہ سر درد بھی شروع ہوجاتا ہے۔ عقل میں فتور آجاتا ہے اور شراب پینے والا اول فول بکنے لگتا ہے اور بعض دفعہ ناشائستہ حرکات اور گناہ کے کام بھی کر بیٹھتا ہے اور ان سب قباحتوں کے عوض اسے فائدہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ کچھ وقت کے لیے اسے سرور حاصل ہوتا ہے اور غم غلط ہوجاتا ہے۔ جنت کی شراب میں یہ فائدہ تو بدرجہ اتم موجود ہوگا لیکن قباحت کی سب باتوں سے یکسر پاک ہوگی۔ الواقعة
20 الواقعة
21 [١١] پرندوں کا گوشت لذت، غذائیت اور قوت تینوں اعتبار سے چوپایوں کے گوشت سے اعلیٰ اور عمدہ ہوتا ہے۔ لہٰذا بالخصوص پرندوں کے گوشت کا ذکر کیا گیا۔ الواقعة
22 الواقعة
23 [١٢] تاکہ گردوغبار سے ان کی آب و تاب ماند نہ پڑجائے۔ جنت کی حوریں بھی اپنے حسن، دلکشی اور آب و تاب کے لحاظ سے قیمتی موتیوں سے کسی صورت کم نہ ہونگی لہٰذا ان کی حفاظت بھی ایسے ہی کی جائے گی جیسے زر و جواہر اور موتیوں کی۔ الواقعة
24 الواقعة
25 [١٣] یعنی وہاں نہ کوئی دوسرے کی غیبت کرے گا، نہ چغلی کھائے گا، نہ بہتان لگائے گا، نہ جھوٹ بولے گا نہ مکروفریب اور ہیرا پھیری کی باتیں کرے گا، نہ گالی گلوچ ہوگا اور نہ طنز اور ایک دوسرے کو تمسخر اور تضحیک گویا کوئی شخص ایسی بات نہ کرے گا جس سے دوسرے کو تکلیف پہنچ سکتی ہو اور نہ اہل جنت وہاں بے ہودہ اور بے کار باتیں کریں گے جس کا نتیجہ کچھ نہ ہو۔ الواقعة
26 [١٤] اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اہل جنت بھی ایک دوسرے کو سلام کہا کریں گے۔ فرشتے بھی ان کے حق میں سلامتی کی دعا کریں گے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی ان پر سلامتی نازل ہوگی اور سلام بھیجا جائے گا اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ جنتی آپس میں جو بات بھی کریں گے وہ ایک دوسرے کی خیر خواہی اور سلامتی پر مشتمل ہوگی۔ اس کی گفتگو بامعنی، نتیجہ خیز اور معلوماتی ہوگی۔ بڑے پاکیزہ موضوع ان کے زیر بحث آتے رہا کریں گے۔ ان کی مجالس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر اور تسبیح و تہلیل بکثرت ہوا کرے گی اور ان کی ہر گفتگو کسی نہ کسی بھلائی اور ایک دوسرے کی سلامتی کا پہلو لیے ہوئے ہوگی۔ الواقعة
27 الواقعة
28 [١٥] مَخْضُوْدٍ۔ خَضَدَ لشجر) کسی خاردار درخت کے کانٹے توڑ کر یا کاٹ کر اسے بے خار بنا دینا۔ صاف کردینا۔ کہتے ہیں کہ بیری کے درخت کے کانٹے جتنے کم ہوں اتنا ہی اس کا پھل اچھا اور مزے دار ہوتا ہے اور جنت کی بیریاں بالکل بے خار ہوں گی۔ یعنی ان بیریوں کا پھل دنیا کی بیریوں جیسا نہیں بلکہ بہت لذیذ ہوگا۔ الواقعة
29 الواقعة
30 [١٦] اس کی تفسیر کے لیے درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جنت میں ایک اتنا بڑا درخت (طوبیٰ) ہے جس کے سایہ میں اگر سوار سو برس تک چلتا رہے تب بھی اس کا سایہ ختم نہ ہو۔ تم چاہو تو آیت پڑھ لو ﴿وًظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ﴾ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ نیز کتاب بدء الخلق باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ) الواقعة
31 [١٧] مسکوب۔ سکب کے معنی (پانی وغیرہ کا) گرنا اور بہانا ہے۔ السکب لگاتار بارش کو یا موٹے موٹے قطروں والی بارش کو کہتے ہیں جس کا پانی بہہ نکلے اور الاُسکوب بمعنی لگاتار جھڑی۔ گویا سکب میں پانی وغیرہ کے گرنے یا بہنے کے ساتھ تسلسل اور دوام کا تصور بھی پایا جاتا ہے۔ اور ﴿مَاءٍ مَّسْکُوْبٍ﴾کا معنی مسلسل گرنے والی آبشار اور اس کا بہتا ہوا پانی ہوگا۔ الواقعة
32 الواقعة
33 [١٨] یعنی نہ تو جنت کے پھلوں کی سپلائی کسی وقت بند ہوگی جس طرح دنیا میں پھل اپنے موسم میں ہی مل سکتے ہیں۔ آگے پیچھے نہیں ملتے۔ اور نہ ہی ان کو حاصل کرنے، توڑنے یا کھانے میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ پیش آئے گی۔ الواقعة
34 الواقعة
35 الواقعة
36 [١٩] أنْشَاْنَاھُنَّ میں ھُنَّ کا مرجع ان کی دنیا میں ساتھ دینے والی بیویاں بھی ہوسکتی ہیں۔ اور جنت میں ملنے والی حوریں بھی۔ ان دونوں قسم کی عورتوں کو اللہ تعالیٰ نوجوان اور نوخیز بنا دیں گے اور وہ کنواری بھی ہوں گی۔ وہ ہمیشہ خوبصورت اور جوان ہی رہیں گی جن کی باتوں اور طرز و ادا پر بے ساختہ پیار آجائے گا۔ شمائل ترمذی میں روایت ہے کہ ایک بڑھیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میرے حق میں جنت کی دعا فرمایئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جنت میں کوئی بڑھیا داخل نہ ہوگی۔ وہ روتی ہوئی واپس چلی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا : اسے بتاؤ کہ وہ بڑھاپے کی حالت میں جنت میں داخل نہ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم انہیں خاص طور پر نئے سرے سے پیدا کریں گے اور انہیں باکرہ بنا دیں گے۔ الواقعة
37 [٢٠] عرباً اتراباً کا لغوی مفہوم :۔ عُرُبًا عُرُوْبٌ کی جمع ہے اور عروب کے معنی ہیں اپنے خاوند سے محبت کرنے والی عورت اور بمعنی بہت ہنسنے ہنسانے والی اور خوش ذوق اور ناز و ادا سے اپنے خاوند کو لبھانے والی عورت۔ [٢١] أتْرَابٌ۔ تُرَابٌ بمعنی مٹی اور تارَب ایک ساتھ مٹی میں کھیلنا۔ ہم عمر ہونا۔ دوست ہونا۔ اور ترب بمعنی ہم عصر، ہم عمر ساتھی اور ترب کی مونث تربۃ ہے اور ترب اور تربة دونوں کی جمع اتراب آتی ہے۔ لیکن اتراب کا لفظ عموماً عورتوں کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے۔ گویا اتراب سے مراد ایسی دوست اور ہم عمر عورتیں ہیں جن کے مزاج میں بھی پوری ہم آہنگی پائی جاتی ہو۔ یہ عورتیں آپس میں بھی ہم عمر ہوں گی اور نوجوان ہی رہیں گی اور اپنے خاوندوں سے بھی عمر کا تناسب برابر قائم رہے گا۔ الواقعة
38 الواقعة
39 الواقعة
40 [٢٢] یعنی مقربین تو اولین میں زیادہ ہوں گے اور آخرین میں کم جبکہ اصحاب الیمین اولین میں سے بھی بہت ہوں گے اور آخرین میں سے بھی۔ چنانچہ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ تم لوگ سارے اہل جنت کا چوتھائی حصہ ہوگے (اور تین چوتھائی میں باقی سب امتوں کے لوگ شامل ہوں گے) یہ سن کر ہم نے اللہ اکبر کہا (اللہ کا شکریہ ادا کیا) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نہیں تم تہائی حصہ ہوگے۔ ہم نے پھر تکبیر کہی۔ پھر آپ نے فرمایا : نہیں بلکہ تم آدھا حصہ ہوگے۔ ہم نے پھر تکبیر کہی۔ (بخاری، کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ حج۔ وتری الناس سکٰرٰی) الواقعة
41 الواقعة
42 الواقعة
43 [٢٣] یَحْمُوْمٍ۔ حَمَّ کے بنیادی معنوں میں سے ایک معنی سیاہ ہونا بھی ہے اور حُمَّۃ بمعنی کوئلہ، راکھ اور آگ میں جلی ہوئی ہر شے اور یحموم ایسے دھوئیں کو کہتے ہیں جو گرم بھی ہو، سیاہ بھی اور غلیظ بھی، یعنی دوزخ کی آگ سے جو سیاہ دھواں اٹھے گا وہ اس کے سایہ میں پناہ لینے جائیں گے۔ وہ دنیا کی زندگی میں خوشحالی کا وقت گزار چکے تھے اور تکبر میں آکر اللہ اور اس کے رسول سے ضد باندھ رکھی تھی۔ آج انہیں ایسے گرم دھوئیں کی تپش میں بھون کر اتنا ہی ذلیل و خوار کیا جائے گا۔ الواقعة
44 الواقعة
45 الواقعة
46 [٢٤] حنث عظیم کا مفہوم :۔ حنث سے مراد ایسا گناہ ہے جس کا تعلق عہد و پیمان یا قسم توڑنے سے ہو۔ اور ایسے گناہ سب کے سب کبیرہ یا عظیم ہی ہوتے ہیں۔ ان میں سرفہرست کفر و شرک ہے اور یہ عہد ﴿اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ﴾ کی خلاف ورزی ہے۔ دوسری عہد شکنی انبیاء کی تکذیب ہے کیونکہ سب انبیاء اپنی اولاد اور اپنی امت کو یہ وصیت کرتے رہے کہ اگر میرے بعد کوئی رسول آئے جو سابقہ کتب سماویہ اور انبیاء کی اور ان کی تعلیم کی تصدیق کرتا ہو تو تمہیں اس پر ایمان لانا ہوگا۔ تیسرا گناہ عظیم آخرت سے انکار ہے جس کے متعلق کفار مکہ پختہ قسمیں کھا کر کہا کرتے تھے کہ جو مرگیا اللہ اسے کبھی زندہ کرکے اٹھائے گا نہیں۔ (١٦: ٣٨) الواقعة
47 الواقعة
48 الواقعة
49 الواقعة
50 الواقعة
51 الواقعة
52 [٢٥] زَقُّوْمٍ بمعنی تھوہر کا درخت جس کے پتے چوڑے، موٹے ' بڑے بڑے اور خار دار ہوتے ہیں۔ ذائقہ میں نہایت کڑوا اور اس کا لعاب زہریلا ہوتا ہے۔ بدن کے کسی حصہ سے لگ جائے تو پھوڑے پھنسیاں نکل آتی ہیں۔ مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۃ صافات کی آیت نمبر ٦٤ کا حاشیہ۔ الواقعة
53 الواقعة
54 الواقعة
55 [٢٦] ھیم۔ ھَیَامٌ بمعنی شدید قسم کی پیاس اور ھام بمعنی سخت پیاسا ہونا۔ اور ھیام اونٹ کی اس بیماری کو بھی کہتے ہیں جس میں اونٹ سخت پیاسا رہتا ہے۔ وہ پانی پیتا جاتا ہے لیکن پیاس بجھنے میں نہیں آتی۔ جیسے انسانوں کو استسقاء کی بیماری لاحق ہوجاتی ہے اور ھیم ایسے اونٹ کو کہتے ہیں جسے نہ بجھنے والی پیاس کی بیماری لگی ہو۔ گویا اہل دوزخ کو تھوہر بطور خوراک کھانے کے بعد کھولتا ہوا پانی پینے کو ملے گا۔ وہ اس کھولتے ہوئے پانی کو پیتے جائیں گے مگر ان کی پیاس ختم نہ ہوگی۔ الواقعة
56 الواقعة
57 الواقعة
58 الواقعة
59 [٢٧] رحم مادر میں انسانی تخلیق کا نقطہ آغاز :۔ پہلی قابل غور بات یہ ہے کہ انسان کا نطفہ بذات خود کیا چیز ہے؟ وہ کن چیزوں سے بنتا ہے؟ جن چیزوں سے نطفہ بنتا ہے وہ زندہ تھیں یا مردہ؟ اور اس نطفہ کے بننے میں یا بنانے میں تمہارا بھی کچھ عمل دخل یا اختیار تھا ؟ پھر اس نطفہ کو رحم مادر میں ٹپکانے کی حد تک تو اختیار انسان کو ہے۔ اس کے بعد پھر اس کا اختیار کلی طور پر ختم ہوجاتا ہے۔ نطفہ کا ایک قطرہ لاکھوں جراثیم یا کیڑوں پر مشتمل ہوتا ہے جو صرف طاقتور خوردبین سے نظر آسکتے ہیں۔ اسی طرح رحم مادر میں نسوانی بیضہ کا وجود بھی خورد بین کے بغیر نظر نہیں آسکتا۔ نطفہ کا ایک جرثومہ جب نسوانی بیضہ میں داخل ہوتا ہے۔ پھر ان دونوں کے ملنے سے ایک چھوٹا سا زندہ خلیہ (Cell) بن جاتا ہے۔ یہی انسانی زندگی کا نقطہ آغاز ہے اور اسی کا نام استقرار حمل ہے۔ نطفہ ٹپکانے کی حد تک تو مرد کو اختیار ہے۔ مگر یہ طاقت نہ مرد میں ہے نہ عورت میں اور نہ دنیا کی کسی اور طاقت میں کہ وہ نطفہ سے حمل کا استقرار کرا دے۔ پھر اس نقطہ آغاز سے ماں کے پیٹ میں بچے کی درجہ بدرجہ پرورش۔ ہر بچے کی الگ الگ صورت گری۔ ہر بچے کے اندر مختلف ذہنی و جسمانی قوتوں کو ایک خاص تناسب کے ساتھ رکھنا جس سے وہ ایک امتیازی انسان بن کر اٹھے۔ کیا یہ ایک خالق کے سوا کسی اور کا کام ہوسکتا ہے؟ یا اس میں ذرہ برابر بھی کسی دوسرے کا کوئی دخل ہے؟ پھر یہ فیصلہ کرنا بھی اللہ کے اختیار میں ہے کہ بچہ لڑکی ہو یا لڑکا۔ خوش شکل ہو یا بدشکل، اس کے نقوش تیکھے ہوں یا بھدے؟ طاقور اور قد کاٹھ والا ہو یا کمزور نحیف اور تھوڑے وزن والا، تندرست ہو یا اندھا، بہرا، لنگڑا، ذہین ہو یا کند ذہن۔ یہ سب ایسی باتیں ہیں جو خالصتاً اللہ تعالیٰ خالق کائنات کے اختیار میں ہیں۔ کیا ان سب باتوں کو سمجھ لینے کے بعد بھی انسان یہ تصدیق نہیں کرسکتا کہ اسے پیدا کرنے والا اللہ رب العالمین ہی ہوسکتا ہے۔ اور جو مردہ غذاؤں سے ہر روز لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں انسان اور دوسرے جاندار پیدا کر رہا ہے وہ مردہ انسانوں کے بے جان ذرات سے پھر انہیں دوبارہ زندگی نہیں بخش سکتا ؟ الواقعة
60 [٢٨] انسان جو نطفہ رحم مادر میں ٹپکاتا ہے۔ اس کا ایک ایک قطرہ لاکھوں خوردبینی جراثیم پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان میں سے صرف ایک جرثومہ نسوانی بیضہ سے مل کر حمل کے استقرار کا سبب بنتا ہے باقی سب متحرک جرثومے رحم مادر سے خارج ہوتے ہی مر جاتے ہیں۔ استقرار حمل کے بعد بسا اوقات عورت کو خون جاری ہوجاتا ہے اور حمل ضائع ہوجاتا ہے۔ بعض دفعہ اسقاط ہوجاتا ہے اور بعض دفعہ بچہ پیٹ میں ہی مرجاتا ہے اور کبھی پیدا ہوتے ہی مرجاتا ہے اور جو زندہ پیدا ہوجاتے ہیں۔ ان کے سر پر بھی موت کی تلوار لٹکتی رہتی ہے معلوم نہیں کہ کس وقت رگ جان کو کاٹ ڈالے۔ کوئی بچپن میں ہی مرجاتا ہے کوئی جوانی میں اور کوئی بڑھاپے میں، اور کوئی سالہا سال بڑھاپے میں بستر مرگ پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتا ہے۔ گویا موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ اور اس کا وقت بھی پہلے سے طے شدہ ہے۔ نہ اس لمحہ سے پہلے آسکتی ہے اور نہ اس کے وقت میں تاخیر ہوسکتی ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت نہ موت کو ٹال سکتی ہے نہ اس کا وقت بدل سکتی ہے۔ اب بتاؤ تمہاری زندگی اور تمہاری موت کے بارے میں اللہ کے سوا تمہارا اپنا یا کسی دوسرے کا کچھ اختیار ہے؟ پھر بھی تمہیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ اللہ رب العالمین جو چاہے کرتا ہے اور کرسکتا ہے۔ الواقعة
61 [٢٩] دوسری تخلیق زمین کے پیٹ میں اور اس کے لئے طبعی قوانین بالکل جداگانہ ہوں گے :۔ یعنی تمہارے طریقہ تخلیق کو ہی یکسر بدل ڈالے اور وہ اس بات پر بھی قادر ہے۔ پہلے تمہاری تخلیق ماں کے پیٹ میں ہوئی تھی۔ دوبارہ تمہاری تخلیق زمین کے پیٹ میں ہو۔ ماں کے پیٹ میں تمہارے تخلیقی مراحل اور قسم کے تھے۔ زمین کے پیٹ میں تمہارے تخلیقی مراحل ان مراحل سے بالکل جداگانہ ہوں؟ پہلے تم بچے کی صورت میں پیدا ہوئے تھے اور دوبارہ تم اس حالت میں پیدا ہو جس حالت میں مرے تھے۔ اور اسی قدوقامت کے ساتھ پیدا ہو، پھر رحم مادر کی تخلیق کے بعد جو طبعی قوانین تمہارے لیے مقرر تھے۔ دوسری بار کی پیدائش کے لیے طبعی قوانین بھی جداگانہ نہ ہوں۔ اس دنیا میں موت تمہارے لیے مقدر تھی اور موت سے فرار ممکن نہ تھا۔ آخرت میں زندگی مقدر ہو اور موت کبھی نہ آئے۔ اس دنیا میں تمہاری آنکھوں کے سامنے غیب کے پردے حائل تھے۔ اس دنیا میں سب حقائق واشگاف نظر آنے لگیں۔ حتیٰ کہ انسان اللہ کے دیدار سے بھی مشرف ہوسکے۔ اگر تم اپنی پہلی تخلیق کا بہ نظر غائر مطالعہ کرلو گے تو تمہیں دوسری تخلیق میں کوئی بات ناممکن نظر نہیں آئے گی۔ الواقعة
62 الواقعة
63 الواقعة
64 [٣٠] زمین کے پیٹ میں بیج کے تخلیقی مراحل یعنی تمہارا کام صرف زمین میں بیج ڈالنا ہے پھر اس کے بعد زمین کی تاریکیوں میں اس بیج پر جو تخلیقی مراحل آتے ہیں یا جو تغیرات واقع ہوتے ہیں ان کا نہ تمہیں علم ہے اور نہ ان میں کچھ تمہارا عمل دخل ہے۔ دانہ سے نازک سی کونپل کیسے بنتی ہے؟ پھر اس نازک سی کونپل میں اتنا زور کہاں سے آتا ہے کہ وہ زمین کو پھاڑ کر باہر نکل آتی ہے بیج بے جان اور مردہ تھا۔ اس سے جاندار نباتات پیدا ہوگئی جو پھلتی پھولتی اور بڑھتی ہے اور تمہارے لیے رزق کا سامان مہیا کرتی ہے اب دیکھئے لاکھوں کی تعداد میں مردہ بیج زمین کے پیٹ میں دفن کیے جاتے ہیں۔ پھر اسی زمین کے قبرستان سے وہی مردہ بیج نئی زندگی اور نئی آن بان سے تمہارے سامنے پیدا ہو رہے ہیں پھر بھی تمہیں اس بات میں شک ہے کہ تم زمین میں دفن ہونے کے بعد دوبارہ پیدا کیے اور زمین سے نکالنے نہیں جاسکتے؟ الواقعة
65 [٣١] بیج پر ممکنہ آفات :۔ اس کی بھی کئی صورتیں ہیں۔ مثلاً جس زمین میں بیج ڈالا گیا اس میں اللہ شور پیدا کردے اور نسل کمزور اور زرد پیدا ہو اور پوری طرح بار آور نہ ہو یا فصل اگنے کے بعد اسے کیڑا لگ جائے یا کسی ارضی یا سماوی آفت مثلاً کہر، شدید بارش وغیرہ سے فصل کی نشوونما رک جائے اور لہلہاتے کھیت زرد پڑجائیں۔ تو کیا تم میں سے کسی کو یہ اختیار ہے کہ فصل کو ان مصیبتوں سے بچا سکے؟ اور اگر تم خود بھی اللہ تعالیٰ کی ہی مہربانی سے پیدا ہوگئے اور اللہ تعالیٰ ہی کی مہربانی سے تمہیں کھانے کو ملتا ہے تو پھر اس کے سامنے تمہاری اکڑ اور سرتابی کا مطلب؟ اس صورت میں تم باتیں ہی بناتے رہ جاتے ہو کہ ہمارا تو بیج بھی ضائع ہوگیا اور محنت بھی ضائع ہوئی اور آئندہ کھانے کو بھی کچھ نہ ملا تو ہم تو مارے گئے۔ یہ بات تمہیں پھر بھی نصیب نہیں ہوتی کہ تم اللہ کی طرف رجوع کرو اور اسے اللہ کی طرف سے ایک تنبیہ سمجھو۔ الواقعة
66 الواقعة
67 الواقعة
68 الواقعة
69 الواقعة
70 [٣٢] آبی بخارات تو کھاری پانی کے ہوں اور بارش کا پانی خوشگوار :۔ یہ ایک اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ہے۔ سطح سمندر سے سورج کی حرارت کی وجہ سے آبی بخارات اٹھتے ہیں۔ یہی بخارات بعد میں بادلوں کی شکل اختیار کرکے بارش کی صورت میں برستے ہیں۔ سمندر کا پانی جس سے بخارات اٹھتے ہیں سخت کھاری اور چھاتی جلانے والا ہوتا ہے۔ مگر جو بارش برستی ہے اس میں کھاری پن نام کو نہیں ہوتا۔ حالانکہ جن جڑی بوٹیوں یا دواؤں کا ہم اسی طرح عرق کشید کرتے ہیں۔ ان میں ذائقہ بھی منتقل ہوجاتا ہے۔ اور بو بھی۔ مثلاً سونف یا اجوائن یا گاؤ زبان یا گلاب کے عرق میں ان اشیاء کا ذائقہ بھی منتقل ہوجاتا ہے اور بو بھی۔ لیکن سمندر کا کھاری پن آبی بخارات میں منتقل نہیں ہوتا اور یہ اللہ کی خاص رحمت ہے ورنہ اس زمین کا کوئی جاندار ایسا پانی پی کر زندہ ہی نہ رہ سکتا تھا۔ نہ ہی ایسے پانی سے پیداوار اگ سکتی ہے جو پانی کے بعد جانداروں کی زندگی کا دوسرا بڑا سہارا ہے۔ الواقعة
71 [٣٣] درختوں کا سب سے بڑا فائدہ آگ کا حصول :۔ تیسری نعمت اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی کہ تم آگ جلاتے ہو۔ آگ جلانا اور اس سے استفادہ کرنا صرف انسان کا کام ہے۔ دوسری کوئی جاندار مخلوق یہ کام نہیں کرسکتی۔ جانور نباتات وغیرہ اسی حال میں کھاتے ہیں جس حال میں یہ زمین سے نکلتی یا دستیاب ہوتی ہے جبکہ انسان تمام سبزیاں، غلے اور گوشت وغیرہ آگ پر پکا کر کھاتے ہیں۔ پھر آگ سے ہی انسان نے کئی قسم کی دھاتیں ڈھال کر اپنے استعمال میں لانا شروع کیں۔ پھر مشینریاں اور کلیں بنائیں۔ اگرچہ آج کل آگ تیل، پٹرول اور گیس وغیرہ سے بھی حاصل کی جارہی ہے۔ مگر آج سے صرف دو صدی پیشتر تک آگ حاصل کرنے کا ذریعہ صرف درخت اور ایندھن تھا۔ بعض درخت ایسے ہیں جن کو ایک دوسرے پر رگڑنے سے آگ حاصل ہوجاتی ہے اور بعض درختوں کا تیل ایندھن کا کام دیتا ہے اور ہر قسم کے درخت اور پودے، گھاس وغیرہ خشک ہو کر آگ حاصل کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ درختوں سے ہی کوئلہ اور پھر معدنی یا پتھری کوئلہ بھی بنتا ہے۔ گویا آج کے دور میں بھی آگ کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ یہ درخت وغیرہ ہی ہیں۔ اور درختوں کو پیدا کرنے اور نشوونما دینے والی صرف اللہ کی ذات ہے۔ جس میں دوسرے کسی کام کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ اگر انسان سمجھے تو درختوں کی پیدائش بھی فی الحقیقت اس پر اللہ کا بہت بڑا احسان ہے۔ الواقعة
72 الواقعة
73 [٣٤] مقوین کا لغوی مفہوم :۔ مُقْوِیْنٌ۔ القوٰی بمعنی بھوک اور باتَ الْقَوٰی بمعنی بھوکا رہ کر رات گزاری اور القاویۃ بمعنی کم بارش کا سال اور تقاوٰی بمعنی بارش کی قلت یا افراط جس سے فصل تباہ ہوجائے اور قحط نمودار ہوجائے۔ اور تقاوی قرضے وہ ہوتے ہیں جو ایسے قحط کے سال میں حکومت زمینداروں کو بالا قساط ادائیگی کی شرط پر دیتی ہے اور تقاوی بمعنی بھوکے رات بسر کرنا اور قوت لایموت بمعنی خوراک کی اتنی کم مقدار جس سے انسان بس زندہ رہ سکے اور مقوین بمعنی قوت کی احتیاج میں سفر کرتے پھرتے لوگ۔ خانہ بدوش لوگ جو رزق کی تلاش میں ادھرادھر منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ درختوں کی لکڑیوں سے عارضی مکان بھی کھڑے کرسکتے ہیں۔ ایندھن بیچ کر اپنی دوسری ضروریات بھی پوری کرسکتے ہیں۔ الواقعة
74 الواقعة
75 [٣٥] مَوَاقِعُ النُّجُوْمِ کا معنی ستاروں کے گرنے کی جگہ بھی ہوسکتا ہے۔ فضائے بسیط میں بے شمار سیارے ایسے ہیں جو ہر وقت ٹوٹتے اور گرتے رہتے ہیں اور اس کا دوسرا معنی ستاروں کے ڈوبنے کی جگہ بھی اور وقت بھی۔ یعنی افق مغرب جہاں ہمیں ستارے ڈوبتے نظر آتے ہیں یا صبح کی روشنی کے نمودار ہونے کا وقت، جب ستارے غائب ہوجاتے ہیں۔ جو معنی بھی لیے جائیں اس سے مراد ستاروں کی گردش اور اپنے اپنے مدارات میں سفر کرنے کا وہ پیچیدہ اور حیران کن مربوط اور منظم نظام ہے جس میں غور و فکر کرنے سے انسان اس قادر مطلق ہستی کی حکمت اور وسعت علم تسلیم کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے جو اس کائنات پر کنٹرول کر رہی ہے۔ الواقعة
76 الواقعة
77 [٣٦] اتنی بڑی قسم اللہ تعالیٰ نے اس بات پر اٹھائی کہ اس کتاب کے مضامین و مطالب نہایت بلندپایہ ہیں۔ یہ نہ کسی ساحر کی ساحری ہے، نہ کسی کاہن کی کہانت اور نہ کسی شاعر کے تخیلات ہیں بلکہ یہ بلند پایہ بزرگ و برتر ہستی کی طرف سے نازل شدہ بلند پایہ کتاب ہے جو اس نے تمام بنی نوع انسان کی ہدایت اور فلاح و بہبود کے لیے نازل فرمائی ہے اور اللہ تعالیٰ کی وسعت علم کی بنا پر اس کے سب مضامین لوح محفوظ میں پہلے ہی مندرج ہیں۔ الواقعة
78 الواقعة
79 [٣٧] مطہرون سے مراد کون؟ اس کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ پاکیزہ لوگوں سے مراد فرشتے ہیں۔ یعنی یہ کتاب قرآن کریم لوح محفوظ میں ثبت ہے اور وہاں سے پاکیزہ فرشتے ہی اسے لا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے ہیں۔ کسی شیطان کی وہاں تک دسترس نہیں ہوسکتی جو اسے لا کر کسی کاہن کے دل پر نازل کر دے۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے مضامین و مطالب تک رسائی صرف ان لوگوں کی ہوسکتی ہے جن کے خیالات پاکیزہ ہوں۔ کفر و شرک کے تعصبات سے پاک ہوں۔ عقل صحیح اور قلب سلیم رکھتے ہوں۔ جن لوگوں کے خیالات ہی گندے ہوں۔ قرآن کے بلند پایہ مضامین و مطالب تک ان کی رسائی ہو ہی نہیں سکتی۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کو صرف پاکیزہ لوگ ہی چھو سکتے ہیں یا چھونا چاہئے۔ مشرک اور ناپاک لوگوں کو ہاتھ نہ لگانا چاہئے۔ اسی آیت سے بعض علماء نے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ بے وضو لوگوں کو قرآن کو ہاتھ نہ لگانا چاہیے۔ لیکن راجح تر بات یہی ہے کہ بے وضو بھی قرآن کو چھو سکتا اور اس سے تلاوت کرسکتا ہے۔ صرف جنبی اور حیض و نفاس والی عورت قرآن کو چھو نہیں سکتے۔ جب تک پاک نہ ہوں۔ البتہ حیض و نفاس والی عورت زبانی قرآن پڑھ بھی سکتی ہے اور پڑھا بھی سکتی ہے۔ الواقعة
80 الواقعة
81 [٣٨] مُدْھِنُوْنَ۔ دُھْنٌ بمعنی روغن، تیل، چکنائی اور اَدْھَنَ بمعنی کسی چیز کو تیل لگا کر نرم کرنا مداھنت کے کئی معنی ہیں۔ مثلاً کسی بات میں لچک پیدا کرلینا۔ ڈھیلا پڑنا۔ منافقت کا رویہ اختیار کرنا۔ کسی چیز کو اپنی سنجیدہ توجہ کے قابل ہی نہ سمجھنا۔ یعنی اے کفار مکہ! قرآن جیسی بلند پایہ کتاب کے بارے میں تمہارا رویہ یہ ہے کہ تم اسے کچھ اہمیت ہی نہیں دیتے۔ الواقعة
82 [٣٩] اس آیت کے بھی کئی مطالب ہیں۔ ایک یہ کہ جس طرح روزانہ کھانا کھاناتمہارا معمول ہے اسی طرح قرآن کو جھٹلانا بھی تم نے روز مرہ کا معمول بنا رکھا ہے۔ دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی بجائے اس کی کوئی اور توجیہ تلاش کرکے اللہ کی اس نعمت کو بھی جھٹلا دینا تمہارا معمول بن گیا ہے۔ چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے رزق کا شکر یوں ادا کرتے ہو کہ اللہ کو جھٹلاتے ہو اور کہتے ہو کہ مینہ ہم پر فلاں نچھتر اور فلاں ستارے کے سبب سے برسا ہے۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) اور یہ قرآن بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے روحانی بارش اور بہت بڑی نعمت ہے اور تم اس نعمت کی شکرگزاری یوں کرتے ہو کہ اسے جھٹلا دیتے ہو۔ اور تیسرا مطلب یہ ہے کہ تم یہ سمجھتے ہو کہ قرآن کو مان لینے سے تمہارا رزق بند ہوجائے گا۔ کعبہ کی سرپرستی اور تولیت چھن جائے گی۔ نذریں نیازیں بند ہوجائیں گی اور کعبہ کی وجہ سے عرب بھر میں جو تمہارا عزت و وقار بنا ہوا ہے سب ختم ہوجائے گا۔ لہٰذا تم اپنے رزق اور عز وجاہ کا ثبات اسی بات میں دیکھتے ہو کہ تم قرآن کو جھٹلاتے رہو۔ الواقعة
83 الواقعة
84 الواقعة
85 الواقعة
86 [٤٠] موت کا منظر اور انسان کی بے بسی :۔ غَیْرَ مَدِیْنِیْنَ۔ دین کا ایک معنی قانون جزا و سزا بھی ہے اور اس قانون کے مطابق اچھے اور برے اعمال کی جزا اور سزا دینا بھی۔ ان چند آیات میں مرنے والے اور اس کے عزیز و اقارب سب کی انتہائی بے بسی کا منظر پیش کیا گیا ہے۔ ایک طرف مرنے والا ہے جسے اپنی جان بچانا سب باتوں سے زیادہ عزیز ہے۔ پھر اس کے ساتھ اس کے عزیز و اقارب ہیں جنہوں نے اس کے علاج معالجہ میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی اور چاہتے ہیں کہ اس کی جان بچ جائے۔ دوسری طرف اللہ یا اس کے فرشتے ہوتے ہیں جو اس کی روح قبض کرنے آتے ہیں۔ پھر دیکھ لو غالب کون رہتا ہے اور مغلوب کون؟ اللہ تعالیٰ کا ان منکرین آخرت سے سوال یہ ہے کہ آخرت کی چوکھٹ یا نقطہ آغاز موت ہے۔ اگر تم اپنے آپ کو کسی بالائی قانون کی گرفت سے آزاد سمجھتے ہو تو میت کی جان کو لوٹا کیوں نہیں لیتے پھر جب تم ہمارے فرشتوں سے پہلے قدم پر ہی مات کھا گئے تو آگے کیسے بچ سکو گے؟ الواقعة
87 [٤١] سورت کے آخر میں یاددہانی کے طور پر انہیں تین گروہوں کا اجمالاً انجام ذکر کیا جارہا ہے جن کا بیان ابتدا میں تفصیل سے گزر چکا ہے۔ یعنی مُقَّرَبِیْنَ، أصْحَابُ الْیَمِیْنِ اور أصْحَاب الشِّمَالِ۔ الواقعة
88 الواقعة
89 الواقعة
90 الواقعة
91 [٤٢] اس آیت کے بھی دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ اگر مخاطب دائیں ہاتھ والا سمجھا جائے تو اس کا مطلب وہی ہے جو ترجمہ سے ظاہر ہے اور اگر مخاطب عام لوگ ہوں تو مطلب یہ ہوگا کہ اصحاب الیمین کی طرف سے تم لوگ مطمئن رہو اور خاطر جمع رکھو۔ وہ یقیناً محفوظ و مامون رہیں گے۔ الواقعة
92 الواقعة
93 الواقعة
94 الواقعة
95 [٤٣] یعنی جس طرح موت ایک اٹل حقیقت ہے اور تم اس حقیقت کو غیر حقیقت بنانے پر قادر نہیں ہوسکتے۔ اسی طرح مُقَّرَبِیْنَ، أصْحَابُ الْیَمِیْنِ اور أصْحَاب الشِّمَالِ۔ کا بتایا ہوا انجام بھی ایک ٹھوس حقیقت ہے۔ اگر تم اسے جھٹلاتے بھی ہو تو اس طرح نہ وہ ٹل سکتی ہے نہ بدل سکتی ہے۔ لہٰذا خواہ مخواہ شبہات پیدا کرکے اپنے آپ کو دھوکا نہ دو۔ بلکہ آنے والے وقت کی تیاری کرو۔ الواقعة
96 [٤٤] تسبیح وتحمید کی فضیلت اور فوائد :۔ تسبیح و تحمید میں مشغول رہنا ہی آخرت کی سب سے بڑی تیاری ہے۔ اس نیک مشغلہ سے جھٹلانے والوں کی دل آزار بیہودگی سے بھی یکسوئی رہتی ہے اور ان کے باطل خیالات کا رد بھی ہوتا ہے اور سیدنا عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس کو تم لوگ اپنے رکوع میں رکھو یعنی ﴿سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ﴾پڑھا کرو اور جب سبح اسم ربک الاعلٰی نازل ہوئی تو آپ نے فرمایا اسے اپنے سجدے میں رکھو یعنی ﴿سُبْحَانَ رَبِّیَ الاَعْلٰی﴾ کہا کرو۔ (مسند احمد، ابو داؤد) گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا جو طریقہ مقرر فرمایا اس کے چھوٹے چھوٹے اجزاء بھی قرآن کریم کے اشاروں سے ماخوذ ہیں۔ تسبیح و تحمید کی فضیلت میں وہ حدیث نہایت جامع ہے جو امام بخاری نے اپنی کتاب کے آخر میں درج فرمائی ہے جو یہ ہے۔ سیدنا ابوہریرہ ر ضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو کلمے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہیں۔ زبان سے ادائیگی کے لحاظ سے ہلکے پھلکے مگر میزان اعمال میں بہت وزنی ہیں اور وہ ہیں﴿سُبْحَان اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ سُبْحَان اللّٰہِ الْعَظِیْمِ﴾(بخاری۔ کتاب التوحید باب قولہ تعالیٰ وَنَضَعُ الْمَوَازِ یْنَ الْقِسْطَ) الواقعة
0 الحديد
1 [١] ہر چیز کی تسبیح کا مفہوم :۔ اللہ تعالیٰ کی تسبیح زبان حال سے بھی ہوسکتی ہے اور قال سے بھی۔ زبان حال سے اللہ تعالیٰ کی تسبیح یہ ہے کہ کائنات کی ایک ایک چیز خواہ وہ جمادات سے تعلق رکھتی ہو یا نباتات سے یا حیوانات سے اپنی تخلیق اور طریق کار سے واضح طور پر یہ ثبوت فراہم کر رہی ہے کہ اس کا خالق ہر قسم کے عیوب و نقائص سے پاک ہے اور اس نے جو چیز بھی پیدا کی اور بنائی کمال حکمت سے بنائی اور جس مقصد کے لیے بنائی گئی وہ اپنا مقصد پورا کر رہی ہے اور جو تسبیح یہ چیزیں زبان قال سے کر رہی ہیں وہ ہم سمجھ نہیں سکتے۔ (١٧: ٤٤) [٢] چونکہ وہ ہر چیز کا خالق ہے۔ لہٰذا اس پر پورا پورا تصرف اور اختیار بھی رکھتا ہے اور ہر چیز کو جس مقصد کے لیے اس نے بنایا ہے اس سے وہ کام لے رہا ہے۔ اس قدر بے پناہ اور ہمہ گیر قوت اور غلبہ کے باوجود اس نے کبھی اس قوت کا غلط استعمال نہیں کیا بلکہ جو چیز بھی بنائی اس میں کئی حکمتیں مضمر ہوتی ہیں۔ خواہ وہ انسان کے علم میں آچکی ہوں یا نہ آئی ہوں اور وہ ہمیشہ اپنی تخلیق کا مقصد پورا کرتی اور مثبت نتائج پیدا کرتی ہے اور یہی بات اللہ تعالیٰ کی کمال حکمت پر دلیل ہے۔ الحديد
2 [٣] موت سے زندگی اور زندگی سے موت دینا اس کا ہر وقت کا کرشمہ ہے اور یہ طریقہ کار صرف حیوانات میں ہی نہیں نباتات میں بھی ہر آن جاری و ساری ہے جیسا کہ پہلے بہت سے مقامات پر اس کی تشریح گزر چکی ہے۔ الحديد
3 [٤] یعنی جب کائنات کی کوئی چیز موجود نہ تھی اس وقت بھی اللہ موجود تھا اور جب کائنات کی کوئی چیز باقی نہ رہے گی سب فنا ہوجائیں گی اس وقت بھی وہ موجود رہے گا اور وہ ظاہر اس لحاظ سے ہے کہ ہر چیز کا وجود اور ظہور اس کے وجود سے ہے۔ کائنات اکبر کے نظام میں غور کریں یا کائنات اصغر یا انسان کے جسم کے نظام میں غور کریں تو اس کی قدرت اور اس کے وجود پر بہت سے دلائل مل جاتے ہیں۔ کائنات کی کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو اپنے خالق پر رہنمائی نہ کرتی ہو۔ اور وہ باطن اس لحاظ سے ہے کہ حواس خمسہ سے اس کا ادراک تو درکنار ہم عقل سے اس کی ذات یا صفات کے متعلق کوئی صحیح تصور بھی قائم نہیں کرسکتے۔ اس مادی دنیا میں ہمارے سامنے اس قدر غیب کے پردے حائل ہیں کہ ہم ان آنکھوں سے اسے کبھی نہیں دیکھ سکتے۔ الحديد
4 [٥] ﴿اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ ﴾ کی تشریح کے لیے دیکھئے سورۃ اعراف کی آیت نمبر ٥٤ کا حاشیہ نمبر ٥٤ اور زمین و آسمان کی چھ دن میں پیدائش کے لیے دیکھئے سورۃ ہود کی آیت ٧ کا حاشیہ نمبر ١١ [٦] زمین میں داخل ہونے والی اشیاء میں سب سے اہم بارش کا پانی اور ہر قسم کی نباتات، غلوں اور درختوں کے بیج ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایک ایک دانہ اور ایک ایک بیج کے متعلق واقف ہے کہ وہ کہاں ڈالا گیا اور اسے کتنے عرصے کے بعد زمین سے باہر نکالنا ہے۔ علاوہ ازیں وہ ان مردہ اجسام کو بھی جانتا ہے جو زمین میں دفن کیے جاتے ہیں اور زمین سے نکلنے والی اشیاء میں سے بھی سب سے اہم اشیاء غلے اور میوہ دار درخت ہیں۔ جن پر تمام جاندار مخلوق کی زندگی کی بقا کا انحصار ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس وقت کتنی روزی کھانے والی مخلوق روئے زمین پر بس رہی ہے اور اس کے لیے کس کس قسم کا اور کتنی مقدار میں رزق درکار ہے۔ علاوہ ازیں زمین سے نکلنے والی اشیاء میں مختلف معدنیات، مدفون خزانے، تیل اور پٹرول وغیرہ کے چشمے، پانی کے چشمے اور بہنے والی گیسیں سب چیزیں شامل ہیں۔ زمین پر اترنے والی اشیاء میں بارش، ملائکہ اور وحی الٰہی ہیں نیز شیاطین بھی جو اپنے ساتھیوں پر اترتے ہیں اور چڑھنے والی اشیاء میں آبی بخارات، ملائکہ، مردوں کی ارواح اور لوگوں کے اعمال شامل ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ تمام روئے زمین پر جس جس قسم کے بھی حوادث واقع ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے معمولی سے معمولی حالات تک سے واقف ہے۔ [٧] اللہ کی معیت کیسے؟ یعنی اللہ تعالیٰ کی یہ ہمہ گیر نگرانی صرف روئے زمین سے متعلق نہیں۔ بلکہ تم میں سے ہر فرد کے ساتھ وہ ہمہ وقت موجود ہوتا ہے اور تمہاری تمام حرکات و سکنات اور اقوال و افعال اس کے علم میں ہوتی ہیں۔ تم نہ خود اللہ سے چھپ سکتے ہو اور نہ ہی اپنے افعال اور حرکات و سکنات کو اس سے چھپا سکتے ہو۔ اور اللہ تعالیٰ کی یہ معیت اس کی ذات کے لحاظ سے نہیں بلکہ اس کی قدرت اور اس کے علم کے لحاظ سے ہوتی ہے۔ الحديد
5 [٨] یعنی کائنات کی ہر چیز پر اللہ تعالیٰ کی فرمانروائی ہے۔ ہر چیز سے وہ جو کام چاہتا ہے لے رہا ہے۔ اور جب چاہے گا اس نظام کو درہم برہم کرکے ایک دوسرا عالم قائم کردے گا۔ تم اس کی قلمرو سے بھاگ کر نہ اب کہیں جاسکتے ہو نہ آخرت کے دن کہیں جاسکو گے اور تمہارے اعمال کا ریکارڈ پہلے ہی اس کے پاس موجود ہے۔ اور ہر معاملہ کا اور ہر کام کا انجام بھی اسی کی طرف ہے اور فیصلہ بھی وہیں سے صادر ہوگا۔ الحديد
6 الحديد
7 [٩] ترتیب نزولی اور اس مضمون سے ایسا مترشح ہوتا ہے کہ یہ سورت جنگ احزاب کے بعد نازل ہوئی ہے۔ اس وقت تک قریش مکہ ہی مسلمانوں پر چڑھ چڑھ کر آتے رہے اور حملہ آور ہوتے رہے۔ جنگ احزاب کے خاتمہ اور کافروں کے فرار کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گویا فرما دیا تھا کہ آج کے بعد کفار ہم پر حملہ آور نہ ہوں گے تاہم ابھی مسلمانوں کا غلبہ بہت دور کی بات تھی۔ ایسے مذبذب حالات میں بھی کچھ مسلمان اور مہاجرین ایسے تھے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدوں پر پختہ یقین رکھتے تھے اور تنگ دستی کے باوجود اس حق و باطل کے معرکہ میں جو کچھ بھی انہیں میسر آتا بےدریغ خرچ کر رہے تھے۔ لیکن کئی نو مسلم ایسے بھی تھے جو گومگو کی حالت میں تھے۔ نہ حق و باطل کے اس معرکہ میں مخلص بن کر کوشش کرتے تھے اور نہ ہی جہاد کی خاطر اپنے اموال خرچ کرنے کو تیار تھے۔ ان آیات میں ایسے ہی لوگوں کو خطاب کیا جارہا ہے۔ جو اسلام لانے کے باوجود اسلام کے لیے جانی یا مالی یا بدنی قربانیاں پیش کرنے کو تیار نہ تھے اور اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے سے مراد یہ ہے کہ خلوص نیت کے ساتھ ایمان لاکر اللہ کے رسول کا ساتھ دو اور ان کے کیے ہوئے وعدوں کو یقینی سمجھو۔ [١٠] یعنی جن اموال سے اللہ کی راہ میں یا جہاد کی خاطر خرچ کرنے سے تم گریز کر رہے ہو ان اموال کے تم حقیقی مالک نہیں ہو۔ ان کا حقیقی مالک تو اللہ ہے۔ تمہاری حیثیت صرف ایک نائب اور امین کی ہے۔ یہ اموال موت کے وقت تو یقیناً تمہاری ملکیت سے نکل جائیں گے اور اس سے پہلے بھی نکل سکتے ہیں۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ پہلے یہی اموال اور لوگوں کے قبضے میں تھے آج تم ان کے جانشین ہونے کی بنا پر ان پر قابض ہو۔ لہٰذا ان اموال کو اپنی ملکیت نہ سمجھ بیٹھو اور اللہ کی ہدایات اور رضا کے مطابق اسے خرچ کردو۔ ایسا خرچ کیا ہوا مال ہی تمہارے لیے بہت بڑے اجر کا سبب بنے گا۔ اور تیسرا مطلب یہ ہے کہ جتنا مال تم خرچ کرو گے اتنا یا اس سے زیادہ مال اور دے دے گا۔ الحديد
8 [١١] یہاں ایمان لانے سے مراد اللہ اور اس کے رسول کے ان وعدوں کو یقینی اور سچا سمجھنا ہے جو اسلام کے غلبہ سے متعلق انہوں نے مسلمانوں سے کر رکھے ہیں۔ یہ وعدے بھی کہ جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ اس سے بہت زیادہ تمہیں غنائم وغیرہ کی صورت میں لوٹا دے گا اور یہ وعدے بھی کہ اللہ آخرت میں تمہیں ایسے صدقات کا بہت زیادہ اجر دے گا۔ [١٢] اس اقرار سے مراد عہد ﴿اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ﴾ بھی ہوسکتا ہے جس کی رو سے ہر شخص نے یہ اقرار کیا تھا کہ وہ اللہ کا فرمانبردار بن کر زندگی گزارے گا اور اسلام لانا بھی ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اسلام میں داخل ہونا بذات خود اس بات کا پختہ اقرار ہوتا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کا فرمانبردار بن کر رہے گا۔ الحديد
9 [١٣] آیات بینات سے مراد قرآن کی آیات بھی ہوسکتی ہیں اور صداقت کے نشانات بھی۔ یعنی کیسے کیسے نازک مرحلوں پر اللہ تعالیٰ نے غیبی اسباب و وسائل سے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد فرمائی جن سے واضح طور پر معلوم ہوسکتا ہے کہ اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر کوئی مافوق الفطرت زبردست طاقت موجود ہے اور یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ تمہیں جہالت اور کفر و شرک کی تاریکیوں سے نکال کر علم و عرفان کی روشنی میں لے آئے۔ اگر تم سمجھو تو تم پر اللہ کی بہت بڑی مہربانی اور احسان ہے۔ الحديد
10 [١٤] اللہ کی میراث ہونے کے مختلف پہلو :۔ یعنی جو مال اس وقت تمہارے پاس موجود ہے۔ تمہارے مرنے کے بعد تمہارے وارثوں کی طرف منتقل ہوجائے گا اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔ حتیٰ کہ یہ سب کچھ اللہ کی میراث میں چلا جائے گا۔ اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب تم دنیا میں آئے تھے تو خالی ہاتھ آئے تھے اور جب یہاں سے رخصت ہوگے تو بھی خالی ہاتھ ہی جاؤ گے تو پھر یہ تمہاری ملکیت کیسے ہوئی؟ تم اس سے صرف عارضی طور پر انتفاع کرسکتے ہو۔ اور اس کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ جیسے آج تمہارے پاس یہ مال آگیا ہے۔ ویسے ہی تمہاری زندگی میں تم سے نکل بھی سکتا ہے۔ یہ مال و دولت تو ڈھلتی چھاؤں ہے۔ کبھی ادھر کبھی ادھر۔ لہٰذا جب تک یہ مال تمہاری تحویل میں ہے اسے حقیقی مالک کی مرضی کے مطابق خرچ کرکے اس سے حقیقی فوائد کیوں نہیں حاصل کرتے؟ [١٥] بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ دو آیات فتح مکہ کے بعد اور بقول بعض غزوہ تبوک کے وقت نازل ہوئیں جو مضمون کی مناسبت کے لحاظ سے یہاں رکھی گئیں۔ اور فتح سے مراد بعض علماء نے صلح حدیبیہ لی ہے کیونکہ اللہ نے اسے بھی فتح مبین قرار دیا ہے۔ لیکن اکثریت کے نزدیک اس سے مراد فتح مکہ ہے۔ کیونکہ فتح مکہ کے بعد ہی اسلام کو واضح طور پر کفر پر غلبہ حاصل ہوا تھا۔ تمام عرب قبائل مکہ کے معرکہ پر دیر سے نظریں جمائے بیٹھے تھے کہ اس معرکہ میں قریش مکہ غالب آتے ہیں یا مسلمان؟ اور جو فریق غالب آئے وہ اس کا ساتھ دینے کو منتظر بیٹھے تھے اس فیصلہ کن معرکہ میں جب اسلام کو غلبہ حاصل ہوگیا تو عرب قبائل جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے۔ اب تو یہ واضح بات ہے کہ جن مسلمانوں نے فتح مکہ سے قبل مالی قربانیاں پیش کی تھیں اس کی بنیاد صرف ان کا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدوں پر غیر متزلزل ایمان ہی ہوسکتا ہے ورنہ حالات ان کے حق میں کچھ حوصلہ افزا نہ تھے۔ بلکہ بعض اوقات انتہائی حوصلہ شکن ہوتے تھے۔ ان کے مقابلہ میں جن لوگوں نے فتح مکہ کے بعد مالی قربانیاں دیں ان کے لیے حالات حوصلہ افزا اور امید افزا ہوتے تھے کیونکہ وہ ایک غالب گروہ کا ساتھ دے رہے تھے۔ پھر انہیں غنائم کی صورت میں خرچ کردہ مال سے بہت زیادہ مال واپس مل جانے کی توقع ہوتی تھی اور اکثر اوقات ان کی توقع پوری بھی ہوجاتی تھی۔ لہٰذا ان دونوں کا اجر یکساں نہیں ہوسکتا۔ تاہم فتح مکہ کے بعد خرچ کرنے والوں کو بھی اللہ اچھا ہی اجر عطا فرمائے گا۔ اور جس نیت سے کسی نے خرچ کیا ہو اللہ اس سے خوب واقف ہے۔ لہٰذا جس قدر خلوص نیت اور ایمان کی پختگی کے ساتھ کوئی شخص خرچ کرے گا اللہ تعالیٰ اسی نسبت سے اس کا اجر بڑھاتا جائے گا۔ الحديد
11 [١٦] قرض حسنہ کے سلسلہ میں دس ہدایات :۔ قرض حسنہ سے مراد ہر وہ مال ہے جو محض اللہ کی رضا کے لیے اس کی ہدایات و احکام کے مطابق خرچ کیا جائے۔ خواہ وہ فرضی صدقہ یا زکوٰۃ ہو یا واجبی صدقات ہوں یا نفلی ہوں اور خواہ وہ فی سبیل اللہ جہاد میں خرچ کیا جائے یا کسی محتاج کی احتیاج کو دور کرنے کے لیے اسے دیا جائے۔ قرض حسنہ کے سلسلہ میں مندرجہ ذیل دس امور کا لحاظ رکھنا اسے افضل صدقہ بنا دیں گے۔ (١) حلال کمائی سے خرچ کیا جائے کیونکہ حرام کمائی سے صدقہ قبول نہیں، (٢) صدقہ میں ناقص مال نہ دے، (٣) اس وقت صدقہ کرے جبکہ خود بھی اسے احتیاج ہو، (٤) اپنی احتیاج پر دوسرے کی احتیاج کو مقدم رکھے، (٥) صدقہ چھپا کردینا زیادہ بہتر ہے۔ (٦) صدقہ دینے کے بعد احسان نہ جتلائے اور نہ ہی کسی دوسری صورت میں اس کا معاوضہ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ یہ باتیں صدقہ کو برباد کردیتی ہیں، (٧) صدقہ میں نمودو نمائش یعنی ریا کا شائبہ تک نہ ہو۔ یہ بات بھی صدقہ کو برباد کردیتی ہے، (٨) اپنے دیئے ہوئے صدقہ کو حقیر جانے۔ صدقہ دے کر اس کا نفس اس نیکی پر پھول نہ جائے، (٩) اگر صدقہ میں اپنا بہترین اور پسندیدہ مال دے تو یہ اس کے اپنے حق میں بہت بہتر ہے۔ (١٠) محتاج کو صدقہ دینے کے بعد یہ نہ سمجھے کہ میں نے اس پر احسان کیا ہے بلکہ یہ سمجھے کہ میرے مال میں اس کا یہ حق تھا اور میں نے اس کا حق ادا کیا ہے اور مستحق کو حق دے کر اپنے سر سے بوجھ ہلکا کیا ہے۔ [١٧] قرضہ حسنہ کے دو فائدے :۔ قرضہ حسنہ دینے والوں سے اللہ تعالیٰ نے دو وعدے فرمائے ایک یہ کہ اللہ اسے کئی گناہ زیادہ کرکے واپس کرے گا۔ دنیا میں بھی ایسے خرچ کیے ہوئے مال کی واپسی کا اللہ نے وعدہ کر رکھا ہے۔ (٣٤: ٣٩) اور آخرت میں تو سات سو گنا یا اس سے بڑھ کر بھی اضافہ ہوسکتا ہے یعنی قرضہ حسنہ کی مندرجہ بالا شرائط کو جتنا زیادہ ملحوظ رکھا جائے گا۔ اسی تناسب سے اس کے اجر میں اضافہ ہوگا۔ اور دوسرا وعدہ یہ کہ انہیں عمدہ اجر عطا کرے گا۔ یہ فقرہ اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے ہی عطا کردہ مال میں سے انسان اس مال کا کچھ حصہ اللہ تعالیٰ کے کہنے کے مطابق خرچ کردے تو انسان کو بدلہ ملنے کا حق کہاں ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود اللہ ایسے قرض حسنہ دینے والوں کو بہت عمدہ اجر عطا فرمائے گا۔ واضح رہے کہ اللہ کا بندے کو اصل سے دوگنا یا زیادہ دینے کا معاملہ کوئی سود بیاج کا معاملہ نہیں ہے۔ اس لیے یہ معاملہ آقا اور اس کے غلام کے درمیان ہے۔ اور غلام کی خدمات کا مالک جتنا بھی صلہ دے دے، برابر برابر دے دوگنا دے، دس بیس گنا دے وہ سود بیاج نہیں کہلا سکتا۔ البتہ یہ اندازہ ضرور کیا جاسکتا ہے کہ آقا اپنے غلام کی خدمات کا کس قدر قدر شناس اور کریم النفس ہے۔ الحديد
12 [١٨] نور ایمانی کا انحصار ایمان کی کمی بیشی پر :۔ اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ اس وقت پیش آئے گا جب میدان محشر میں فیصلہ کے بعد مومن مردوں اور عورتوں کو جنت کا پروانہ راہداری مل جائے گا۔ پھر یہ بھی معلوم ہے کہ جنت کو جو راستہ جاتا ہے وہ جہنم سے ہو کرجاتا ہے اور ہر جنتی کو لازماً جہنم پر وارد ہونا ہوگا۔ (١٩: ٧١) اور پل صراط سے گزرنا ہوگا اور اس راستہ میں سخت تاریکی ہوگی۔ وہاں مومنوں کے اعمال صالحہ کا نور ہی کام آئے گا۔ جس قدر کسی کا ایمان پختہ اور نیک اعمال زیادہ ہوں گے اتنا ہی اس کا نور یا روشنی بھی زیادہ ہوگی۔ بعض روایات میں ہے کہ کچھ مومنوں کی روشنی اتنی دور تک پہنچے گی جیسے مدینہ اور عدن کا درمیانی فاصلہ ہے۔ بعض کا نور مدینہ سے صنعاء تک کے فاصلہ تک پہنچ رہا ہوگا اور بعض ایسے بھی ہوں گے جن کی روشنی ان کے اپنے قدموں سے آگے نہیں بڑھے گی اس روشنی کی کمی بیشی کی ایک توجیہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جس شخص کی کوششوں سے اسلام جتنی دور تک پھیلا ہوگا اور لوگوں کو ہدایت حاصل ہوئی ہوگی اس نسبت سے اس کے نور میں کمی بیشی ہوگی۔ [١٩] نیک اعمال اور دائیں جانب کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ اہل جنت کو اعمال نامہ بھی دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ اس کی مثال یوں سمجھئے جیسے ایک شخص اندھیرے میں روشنی کا کوئی آلہ مثلاً لالٹین، لیمپ یا ٹارچ عموماً اپنے دائیں ہاتھ میں لے کر چلتا ہے۔ اس کی روشنی سامنے اور دائیں ہاتھ تو خوب پڑتی ہے۔ مگر بائیں ہاتھ یا پیچھے بھی روشنی پڑتی تو ہے مگر بہت کم۔ یہی صورت حال اس دن ہوگی اور آگے جو روشنی پڑے گی اس کا تعلق دل سے ہے جس قدر کسی کا دل ایمان کی پختگی اور اس کے نور سے منور ہوگا اتنی ہی زیادہ اس کے آگے روشنی ہوگی اور دائیں طرف کی روشنی کا تعلق اس کے اعمال صالحہ سے ہوگا۔ الحديد
13 [٢٠] میدان محشر میں منافقوں کی مسلمانوں کے ساتھ رہنے اور ساتھ جانے کی التجا اور سوال وجواب :۔ منافق بھی چونکہ دنیا میں ایماندار لوگوں کے ساتھ ملے جلے رہتے تھے۔ وہاں بھی وہ یہ کوشش کرینگے کہ وہ بھی ایمانداروں کے ساتھ رہیں اور اس دن انہیں ایمان اور اعمال صالحہ کا فائدہ خوب معلوم ہوچکا ہوگا۔ لیکن ان کا اپنا نور تو کچھ ہوگا نہیں۔ اس لیے وہ مومنوں سے درخواست کریں گے کہ ذرا ہمارا بھی انتظار کرلو تاکہ تمہاری روشنی سے فائدہ اٹھا کر ہم بھی کچھ آگے بڑھ سکیں اور تمہارے ساتھ چل سکیں۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ذرا مڑ کر ہماری طرف دیکھو کہ تمہارے ہمارے طرف دیکھنے سے تمہاری روشنی ہمارا راستہ بھی منور کر دے اور ہم اس روشنی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آگے بڑھ کر تمہارے ساتھ شامل ہوسکیں۔ [٢١] اس فقرے کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ یہ روشنی ہمیں ایمان اور اعمال صالحہ کی بدولت حاصل ہوئی ہے اور ایمان اور اعمال صالحہ کمانے کا اصل مقام دنیا ہے جو تم پیچھے چھوڑ آئے ہو۔ اب اگر تم روشنی چاہتے ہو تو یہ تمہیں دنیا سے ہی مل سکتی ہے۔ اگر تم واپس دنیا میں جاسکتے ہو تو جاؤ اور وہاں یہ روشنی تلاش کرو اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ایمانداروں کو ایمان اور اعمال صالحہ کی روشنی عملاً اس وقت عطا کی جائے جب انہیں تاریکی میں آگے بڑھنے کی ضرورت پیش آئے گی۔ اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ واپس اس مقام پر چلے جاؤ جہاں یہ نور تقسیم ہوا تھا اور وہاں جاکر اپنے لیے روشنی کی تلاش کرو۔ [٢٢] مومنوں اور منافقوں کے درمیان گفتگو کا یہ سلسلہ جاری ہوگا کہ ان کے درمیان ایک دیوار کھینچ دی جائے گی جو جنت اور جہنم کے درمیان حد فاصل کا کام دے گی۔ مومنوں کی سمت جنت کی خوشبوؤں کی لپٹیں آنے لگیں گی اور منافقوں کی سمت جہنم کے اثرات پڑنے شروع ہوجائیں گے۔ الحديد
14 [٢٣] اس دیوار میں ایک دروازہ ہوگا اب یہاں سے منافق مومنوں کو پکار پکار کر کہیں گے کہ دنیا میں تو ہم نے تمہارا ساتھ دیا تھا۔ اور آج تم لوگ ہمیں یہاں چھوڑ کر اکیلے ہی جنت کی طرف جارہے ہو۔ تمہیں ہم سے ایسی بے وفائی تو نہ کرنی چاہیے تھی۔ [٢٤] مومن اس بات کا یہ جواب دیں گے کہ تم جھوٹ بکتے ہو جو یہ کہتے ہو کہ ہم نے تمہارا ساتھ دیا تھا۔ اس کے بجائے اصل بات یہ تھی کہ تم لوگ موقع پرست اور مفاد پرست تھے اور اس موقع کی تلاش میں رہتے تھے کہ مومنوں اور کافروں میں سے جس کا پلڑا بھاری رہے اس کے ساتھ مل کر اپنے دنیوی مفاد حاصل کریں۔ [٢٥] یعنی تمہارا نہ اللہ پر ایمان پختہ تھا نہ اس کے رسول پر، نہ اللہ اور اس کے رسول کے وعدوں پر اور نہ آخرت پر۔ جب تم دیکھتے تھے کہ حالات مسلمانوں کے حق میں ناسازگار ہیں اور کافروں کی کثرت تعداد، معاش اور سامان جنگ کی طرف دیکھتے تھے تو تمہارا ایمان متزلزل ہوجاتا تھا۔ تمہارا اللہ اور اس کے رسول کے وعدوں پر اعتماد اٹھ جاتا تھا۔ پھر تم یہ بھی سوچنے لگتے تھے کہ شاید یہ آخرت اور اپنے اعمال کی جزا و سزا والا معاملہ بھی یقینی ہے یا نہیں۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ ایسی روش اختیار کی جائے کہ کسی فریق سے ملنا ہمارے لیے مشکل نہ ہو۔ لہٰذا تم صرف ظاہری طور پر ہمارے ساتھ لگے رہے۔ لیکن تمہاری ساری ہمدردیاں اور دلچسپیاں کافروں کے ساتھ رہیں۔ [٢٦] اللہ کے حکم سے مراد اسلام کا مکمل غلبہ بھی ہوسکتا ہے اور موت بھی۔ یعنی جہاں تک تمہارا بس چلتا رہا تم نے اپنے اس رویہ میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ تم یہ سمجھتے رہے کہ ہمارا مسلمانوں کو اندھیرے میں رکھ کر اور انہیں دھوکا دے کر اپنے مفادات حاصل کرلینا ہی بہت بڑی کامیابی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ تم خود شیطان کے ہتھے چڑھے ہوئے تھے اور مرتے دم تک اس نے تمہیں اسی دھوکہ میں مبتلا رکھا کہ اب کوئی دن میں مسلمان تباہ ہوتے ہیں اور اسلام مٹ جاتا ہے۔ الحديد
15 [٢٧] جو اللہ کو سرپرست نہ بنائے اس کی سرپرست جہنم ہے :۔ یہ غالباً مومنوں کی منافقوں سے گفتگو کا آخری حصہ ہے کہ جس مال و متاع کی خاطر دنیا میں تم نے منافقت کا رویہ اختیار کیا تھا۔ آج اگر وہ مال و متاع تمہیں مل بھی جائے تو وہ تمہارے کسی کام نہیں آسکتا۔ وہ مال و دولت سارے کا سارا دے کر بھی تم عذاب جہنم سے بچ نہیں سکتے۔ نہ ہم تمہیں اپنے ساتھ لے جاسکتے ہیں۔ ضمناً اس آیت سے دو اور باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ بدترین انجام کے لحاظ سے منافق اور کافر میں کوئی فرق نہیں۔ منافق بھی حقیقتاً کافر ہی ہوتے ہیں۔ اور دوسری یہ کہ جو شخص اللہ کو سرپرست نہ بنائے جہنم از خود اس کی سرپرست بن جاتی ہے۔ الحديد
16 [٢٨] پہلے بتایا جاچکا ہے کہ اس سورۃ کا زمانہ نزول غالباً جنگ احزاب سے بعد اور صلح حدیبیہ سے پہلے کا ہے۔ اس وقت تک اسلام کے غلبہ کے کئی آثار لوگوں کے سامنے آچکے تھے۔ جنگ بدر میں کافر شکست فاش سے دو چار ہوچکے تھے۔ جنگ احد میں بھی بالآخر میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا تھا اور جنگ احزاب میں اللہ تعالیٰ نے غیبی اسباب سے مسلمانوں کی مدد فرماکر کافروں کو فرار کی راہ اختیار کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ ان واقعات سے عام لوگ اور غیر جانبدار قبائل یہ تاثر لے رہے تھے کہ اسلام اور کفر دونوں برابر کی چوٹ ہیں اور سب اس بات کے منتظر تھے کہ دیکھیے اب اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ ایسے حالات میں منافقوں کو اس آیت سے یہ تنبیہ کی جارہی ہے کہ اسلام کی نصرت و تائید میں اتنی واضح نشانیاں دیکھنے کے بعد تمہیں یہ یقین نہیں آرہا کہ جو وحی اور دعوت اللہ کی طرف سے نازل ہورہی ہے وہ برحق اور درست ہے۔ نیز یہ کہ کافروں کا اور ان کے ساتھ ہی منافقوں کا جو انجام عنقریب سامنے آنے والا ہے کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اس سے مسلمانوں کے دل دہل جائیں اور اللہ کے ذکر اور اس کے ڈر سے ان کے دل نرم پڑجائیں۔ [٢٩] قرآن کی وہ آیت جس نے فضیل بن عیاض کی زندگی کا رخ بدل دیا :۔ ہوتا یہ ہے کہ جب تک نبی اپنی امت میں موجود رہتا ہے۔ ایمانداروں کے دل نبی کی صحبت اور اللہ کے ذکر اور اس سے تقویٰ کی وجہ سے نرم پڑجاتے ہیں اور ان لوگوں کے دل اور طبیعتیں نیکی میں سبقت کی طرف مائل رہتی ہیں لیکن جب نبی اس دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے تو آہستہ آہستہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی طبیعتیں اللہ کی یاد سے غافل رہنے لگتی ہیں۔ ان میں تقویٰ کی بجائے فسق اور اللہ کی نافرمانی اور اس سے بغاوت کے جراثیم جنم لینے لگتے ہیں۔ یہود اور نصاریٰ دونوں پر یہ کیفیت گزر چکی تھی۔ اس آیت میں بالعموم مسلمانوں کو اور بالخصوص منافقوں کو یہ تنبیہ کی جارہی ہے کہ اللہ کی یاد سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہوجاتے ہیں اور ان میں فسق و فجور داخل ہونے لگتے ہیں لہٰذا تم پر لازم ہے کہ اللہ کو ہر دم یاد رکھو اسی سے تم میں تقویٰ پیدا ہوگا اور تمہارے دل نرم رہ سکتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ دور تابعین میں فضیل بن عیاض ایک ڈاکو تھے۔ ایک دفعہ وہ اپنے اسی شغل یعنی ڈاکہ زنی اور لوٹ مار میں مشغول تھے کہ کسی نے بلند آواز سے یہی آیت ﴿ اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُہُمْ لِذِکْرِ اللّٰہِ ﴾ پڑھ دی۔ اس آیت اور اس کے شیریں انداز بیان کا ان پر ایسا اثر ہوا کہ لرز گئے اسی وقت توبہ کی اور اپنا ڈاکہ زنی کا پیشہ ترک کرکے اللہ کے ذکر میں مشغول ہوگئے۔ پھر تقویٰ اختیار کرکے وہ مقام حاصل کیا کہ اس دور کے صالحین میں ان کا نام سرفہرست آتا ہے۔ الحديد
17 [٣٠] مومن اور منافق پر وحی کے اثر کا تقابل :۔ زمین پر بارش ہو تو وہ گلزار بن جاتی ہے اور کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں۔ مگر بنجر زمین اس بارش کا بھی الٹا اثر لیتی ہے۔ وہاں شور پیدا ہوجاتا ہے یا خاردار جھاڑیاں اور فضول قسم کی نباتات اگ آتی ہے۔ یہی حال منافقوں کا ہے۔ انسان کا دل زمین ہے اور وحی الٰہی باران رحمت۔ اس سے سلیم الطبع لوگوں کے ایمان کی کھیتیاں تو لہلہانے لگتی ہیں مگر منافقوں کے دلوں میں یہی آیات الٰہی مزید شکوک و شبہات کا باعث بن جاتی ہیں اور وہ اپنی ناپاک سازشوں میں پہلے سے زیادہ سرگرم ہوجاتے ہیں۔ الحديد
18 [٣١] اس آیت میں انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب میں تاکید مزید کے طور پر اسی سورۃ کی آیت نمبر ١١ کے مضمون کو دہرایا گیا ہے۔ تشریح آیت مذکورہ کے تحت دیکھ لی جائے۔ الحديد
19 [٣٢] صدیق کے دو مفہوم :۔ یعنی جو لوگ سچے دل اور خلوص نیت سے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ صدیق بن جاتے ہیں اور اللہ کے ہاں صدیق ہی شمار ہوتے ہیں۔ صدیق کے معنی و مفہوم میں بڑی وسعت ہے۔ اس کا ایک معنی تو یہ ہے کہ جو کچھ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہتا ہے بلاتامل اس کی تصدیق کردیتے ہیں دوسرا معنی یہ ہے کہ وہ اپنے قول اور وعدوں کے پابند اور اپنے اعمال و افعال میں راست رو اور راست باز ہوتے ہیں۔ جھوٹ، ہیرا پھیری، مکروفریب، جانبداری، بدعہدی اور ایسی ہی دوسری چیزوں سے انہیں نفرت پیدا ہوجاتی ہے۔ [٣٣] صدیق کی گواہی کے دو مفہوم :۔ ایسے ہی صدیق لوگ قیامت کے دن دوسرے لوگوں پر گواہ بنیں گے۔ پھر اس کے بھی دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ انہوں نے اپنے قول اور عمل سے نمونہ بن کر سب لوگوں پر واضح کردیا کہ اللہ اور اس کے رسول پر صحیح طور پر ایمان لانے کے یہ اثرات انسان پر مرتب ہوتے ہیں اور دوسرا یہ کہ وہ قیامت کے دن اللہ کے دربار میں یہ گواہی دیں گے کہ ہم نے فلاں فلاں شخص کو دعوت حق دی تھی اور اس کے رد عمل کے طور پر انہوں نے ایسے ایسے جواب دیئے تھے اور ہمارے خلاف فلاں فلاں مظالم ڈھائے تھے۔ بعض مفسرین اس آیت میں واؤ عاطفہ قرار نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک یہ دو الگ الگ اور مستقل جملے ہیں۔ پہلا جملہ صِدِّیْقُوْنَ پر ختم ہوجاتا ہے اور والشُّھَدَاءُ سے دوسرا جملہ شروع ہوتا ہے۔ اس صورت میں وہ شہداء سے مراد راہ حق میں شہید ہوجانے والے لیتے ہیں۔ میرے خیال میں پہلا مفہوم ربط مضمون سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔ [٣٤] نور سے مراد وہی اعمال صالحہ کی روشنی ہے جس کی تشریح اسی سورۃ کی آیت نمبر ١٢ کے تحت کردی گئی ہے۔ الحديد
20 [٣٥] انسانی اور نباتاتی زندگی کا تقابل :۔ اس آیت میں انسان کی دنیاوی زندگی کا نباتات کی زندگی سے تقابل پیش کیا گیا ہے اور بعض مفسرین نے اس زندگی کو چار مراحل میں تقسیم کرکے ان دونوں قسم کی زندگی کا تقابل بتایا ہے۔ مثلاً یہ کہ انسان اپنا بچپن کھیل کود میں گزار دیتا ہے۔ پھر جب اس پر جوانی آتی ہے تو اس کا محبوب مشغلہ اپنے آپ کو بن سنور کر پیش کرنا ہوتا ہے تاکہ اگر وہ مرد ہے تو وہ عورتوں کی توجہ کا مرکز بنے اور عورت ہے تو مردوں کے لیے دلکشی کا باعث ہو۔ پھر جب اس عمر سے گزرتا ہے تو اس کو ''ہمچو ما دیگرے نیست'' قسم کی چیز بننے کی خواہش لاحق ہوتی ہے اور آخری عمر میں اس کی ہوس میں ترقی ہوتی جاتی ہے۔ وہ اپنی ذات کی خوش حالی پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اپنی اولاد کے لیے جان کھپانا شروع کردیتا ہے حتیٰ کہ اسے موت آلیتی ہے۔ نباتات کا بھی یہی حال ہے۔ پیدا ہوتی ہے اپنے کسانوں یا مالکوں کو خوش کرتی ہے اور ان کی کئی توقعات اس سے وابستہ ہوتی ہیں۔ پھر اس پر جوانی کا دور آتا ہے تو ہر ایک کا دل موہ لیتی ہے پھر تھوڑی ہی دیر بعد اس پر بڑھاپا آجاتا ہے اور وہ زرد پڑنے لگتی ہے۔ اور انجام یہ ہوتا ہے کہ اس کا کچھ حصہ جانوروں کی خوراک بنتا ہے باقی پاؤں تلے روندا جاتا ہے اور اس مثال سے سمجھانا یہ مقصود ہے کہ جیسے نباتات کی بہار بھی عارضی چیز ہے اور خزاں بھی۔ اسی طرح انسان کی زندگی کی خوشحالیاں بھی عارضی چیزیں ہیں اور تنگدستی اور مصائب بھی۔ اس کے مقابلہ میں جنت کی بہار اور اس کی تمام تر نعمتیں بھی دائمی اور مستقل ہیں اور اس کی خزاں یعنی جہنم اور اس کا عذاب مصیبتیں بھی دائمی اور مستقل ہیں۔ لہٰذا انسان کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ عارضی اور ناپائیدار چیزوں کے حصول کے بجائے دائمی اور مستقل چیزوں کو اپنا مطمح نظر بنائے اور انہیں کے لیے تمام تر تگ ودو کرے۔ اور جو شخص دنیا کی دلکشیوں میں کھو گیا اور اس کی بہار پر مست ہوگیا وہ بہت بڑے دھوکے میں پڑگیا۔ اصل دانشمندی یہ ہے کہ انسان اس دنیا کی زندگی کو محض کھیل کود سمجھنے کی بجائے اس کا ایک ایک لمحہ قیمتی سمجھے اور اپنی عاقبت کو سنوارنے کی کوشش کرے۔ الحديد
21 [٣٦] جنت کی وسعت :۔ یہاں یہ فرمایا کہ جنت کا عرض آسمان اور زمین کے عرض کے برابر ہے اور سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ١٣٣ میں فرمایا کہ جنت کا عرض تمام آسمانوں اور زمین کے عرض کے برابر ہے۔ حالانکہ ہر آسمان سے دوسرے آسمان تک بھی لاکھوں میل کا فاصلہ ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہاں جنت کا رقبہ بتانا مقصود نہیں ہے بلکہ یہ الفاظ محاور تاً استعمال ہوئے ہیں اور اس سے مقصود صرف جنت کی وسعت کا تصور دلانا ہے۔ جو یہ ہے کہ زمین و آسمان کو تو تم دیکھ ہی رہے ہو جنت ان سب آسمانوں اور زمین سے بھی بہت بڑی ہوگی۔ لہٰذا تم دنیا کے بجائے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ اور اگر تم سچے دل سے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو گے تو تمہارے گناہ اور لغزشیں بھی اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا اور اتنی وسیع و عریض جنت بھی عطا فرمائے گا۔ رہی یہ بات ہے کہ جس جنت کی وسعت یہاں بیان ہو رہی ہے یہ سب اہل جنت کا حق ہوگا، یا ہر جنتی کو اتنی وسیع و عریض جنت ملے گی؟ تو استقصاء سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہر جنتی کی ایک مخصوص رہائش گاہ ہوگی جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات کو جنت میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا محل دیکھا تھا۔ البتہ سیروتفریح کے لحاظ سے ہر جنتی اتنی وسیع و عریض جنت میں جہاں چاہے گا جاسکے گا۔ اور اس آمدورفت میں اسے کوئی مشکل حائل نہ ہوگی نہ ہی اسے گاڑیوں یا جہازوں کی ضرورت پیش آئے گی۔ [٣٧] جنت صرف اللہ کی مہربانی سے ملے گی :۔ یہ مضمون پہلے بھی متعدد مقامات پر گزر چکا ہے کہ جنت کسی شخص کو اس کے اعمال کے بدلہ کے طور پر نہیں بلکہ محض اللہ کے فضل و کرم سے ملے گی۔ اعمال صالحہ کا بدلہ زیادہ سے زیادہ یہی ہوسکتا ہے کہ اسے دوزخ کے عذاب سے بچا لیا جائے اور یہ بھی کوئی معمولی بات نہیں بلکہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کسی شخص کو اس کا عمل بہشت میں نہیں لے جاسکتا ؟‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم )! کیا آپ کے اعمال بھی آپ کو بہشت میں نہیں لے جا سکیں گے؟‘‘ فرمایا : ’’ہاں میرے اعمال بھی مجھے بہشت میں نہیں لے جاسکیں گے الا یہ کہ اللہ اپنے فضل اور اپنی رحمت سے مجھے ڈھانپ لے‘‘ (بخاری۔ کتاب المرضیٰ۔ باب تمنی المریض الموت) الحديد
22 [٣٨] جن حالات میں یہ سورت نازل ہوئی وہ مخلص مسلمانوں کے لیے بڑے صبر آزما تھے۔ چار قسم کے دشمن مسلمانوں کی نوزائیدہ ریاست کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کرنے پر تلے بیٹھے تھے ایک قریش مکہ، دوسرے مدینہ کے اردگرد کے مشرک قبائل۔ تیسرے یہود مدینہ اور چوتھے منافقین جو ہر دشمن اسلام قوت سے اندرونی ساز باز رکھتے تھے اور مسلمانوں کے لیے مار آستین بنے ہوئے تھے ان حالات میں جو ذہنی اور ظاہری پریشانیاں مسلمانوں کو لاحق ہوسکتی تھیں۔ ان کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ تم یہ نہ سمجھو کہ ہم تمہاری ان مشکلات و مصائب سے بے خبر ہیں۔ بلکہ زمین میں جو بھی حادثہ پیش آتا ہے یا تمہیں کسی قسم کی تکلیف پہنچتی ہے اسے ہم اس کے وقوع سے پہلے سے ہی جانتے ہیں کیونکہ نوشتہ تقدیر میں یہ سب کچھ لکھا ہوا موجود ہے۔ اور تمہیں ایسے حالات سے گزارنا اس لیے ضروری تھا کہ مومنوں اور منافقوں کا امتیاز کھل کر سامنے آجائے۔ عنقریب اسلام کو غلبہ حاصل ہونے والا ہے۔ اور تمہاری امت کو تمام دنیا کی قیادت کے لیے منتخب کیا جارہا ہے۔ لہٰذا منافقوں کو چھانٹ کر الگ کردینا ضروری تھا کہ وہ بھی اپنے آپ کو اس قیادت کے حقدار اور حصہ دار نہ سمجھ بیٹھیں اور ان کی صحیح قدر و قیمت انہیں خود بھی اور دوسروں کو بھی معلوم ہوجائے۔ [٣٩] اس آیت کی تشریح کے لیے سورۃ اعراف کی آیت نمبر ٢٤ کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیے۔ الحديد
23 [٤٠] مسئلہ تقدیر کی مصلحت :۔ تقدیر کے اس مسئلے سے تمہیں اس لیے مطلع کرنا ضروری ہے کہ تمہیں جو بھی دکھ پہنچتا ہے وہ اللہ کے علم میں ہوتا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی۔ لہٰذا ایسے حالات میں تمہیں صبر و تحمل سے کام لینا چاہئے اور اگر نقصان ہوجائے تو اس کا غم نہ کرنا چاہئے۔ اور جب کوئی بھلائی پہنچے تو بھی تمہیں یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ تمہاری اپنی حسن تدبیر یا تمہارے فعل کا نتیجہ نہ تھی بلکہ اللہ نے اسے تمہارے لئے مقدر کر رکھا تھا۔ لہٰذا تمہیں اس پر اترانے، پھولنے یا شیخیاں بگھارنے کے بجائے اللہ کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ واضح رہے کہ بعض لوگ اپنی غلطیوں اور کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کے لیے تقدیر کا بہانہ بناتے اور اس کا مفہوم اس مصلحت کے بالکل برعکس بیان کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے۔ اور اپنے آپ کو تقدیر کے سامنے مجبور محض ظاہر کرکے بہانہ جوئی سے کام لیتے ہیں۔ ان کی اس بہانہ جوئی کا جواب پہلے کئی مقامات پر گزر چکا ہے۔ [٤١] مال کے فتنہ ہونے کے مختلف پہلو :۔ کسی دنیادار انسان کو مال و دولت مل جائے تو مال کی کثرت اس میں دو خاصیتیں پیدا کردیتی ہے۔ ایک یہ کہ اسے دولت کا نشہ چڑھ جاتا ہے، اس کا دماغ ٹھکانے نہیں رہتا اور وہ اپنے آپ کو کوئی بلند تر چیز اور دوسروں کو حقیر سمجھنے لگتا ہے اور دوسری یہ کہ مال جوں جوں زیادہ ہوتا ہے تو مزید مال جمع کرنے کی ہوس اس میں اور بڑھتی چلی جاتی ہے اور وہ ننانوے کے چکر میں پڑجاتا ہے اور بالخصوص اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے اس کی جان نکل جاتی ہے۔ ہاں نام و نمود کی بات ہو تو ایسے لوگ خرچ بھی کرتے ہیں اور شیخیاں بھی بگھارتے ہیں اور اپنے اس عمل کو خوب تر سمجھتے اور دوسروں کو یہی کچھ سکھاتے اور کرنے کو کہتے ہیں۔ منافقوں میں جو لوگ مالدار تھے وہ انہیں دونوں امراض میں مبتلا تھے۔ مال کے نشہ میں مست اور جہاد کے لیے خرچ کرنے کو اپنے مال کا ضیاع تصور کرتے تھے۔ انہیں بتایا جارہا ہے کہ اگر تم ان باتوں سے باز نہ آئے تو اس کا نقصان تمہیں کو ہوگا تمہارے مال خرچ کرنے سے اللہ کو تو کچھ فائدہ نہیں پہنچتا اور نہ تمہارے بخل کرنے سے اس کا کچھ نقصان ہوجاتا ہے۔ البتہ تمہاری بہتری اسی بات میں ہے کہ تم ایسی باتوں سے باز آجاؤ۔ الحديد
24 الحديد
25 [٤٢] فتنہ وفساد کی روک تھام' دین کے غلبہ اور نظام عدل کے قیام کے لئے تین چیزوں کی ضرورت قوانین الٰہیہ' میزان اور قوت نافذہ :۔ دنیا میں فتنہ و فساد کو روکنے کے لیے تین باتوں کی ضرورت ہوتی ہے جو اس آیت میں بیان کردی گئی ہیں۔ واضح نشانیوں سے مراد ایسے دلائل ہیں جن سے یہ ثابت ہوجائے کہ واقعی یہ رسول برحق اور اس پر نازل شدہ کتاب واقعی اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے اور واضح نشانات بھی اسی کتاب میں مذکور وموجود ہیں۔ یعنی اس کتاب میں پرامن زندگی، فتنہ و فساد کی روک تھام اور اللہ کے دین کے غلبہ کے لیے قوانین بیان کیے ہیں۔ میزان سے مراد ناپ تول کے پیمانے بھی ہیں۔ تاکہ لوگوں کو ان کے حقوق پورے پورے ادا کیے جاسکیں اور نظام عدل کو قائم کرنے کے تقاضے اور ہدایات بھی جو کتاب و سنت میں تفصیل سے مذکور ہیں۔ اور لوہا سے مراد ڈنڈا یا طاقت اور قوت نافذہ بھی ہے جو عدالتوں کو حاصل ہوتی ہے کیونکہ جو لوگ لاتوں کے بھوت ہوں وہ باتوں سے کبھی نہیں مانتے اور جنگی یا سیاسی قوت اور سامان جنگ بھی جو بالعموم لوہے سے ہی تیار کیا جاتا ہے جیسے توپ و تفنگ، تیر، تلوار، میزائل، بندوقیں، رائفلیں، اور کلاشنکوفیں وغیرہ۔ تاکہ ان رکاوٹوں کو دور کیا جاسکے جو اسلام کے نفاذ کی راہ میں حائل ہوں۔ ربط مضمون کے لحاظ سے لوہا سے مراد اسلحہ اور جنگی قوت لینا ہی زیادہ مناسب ہے۔ یہ تینوں چیزیں ہر رسول کو عطا کی گئیں جو کہ نظام عدل کے قیام اور اللہ کے دین کے نفاذ اور فتنہ و فساد کے قلع قمع کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ [٤٣] لوہا اگرچہ زمین کے اندر کانوں سے نکلتا ہے۔ تاہم اسے نازل کرنے سے تعبیر کیا جیسا کہ میزان کو نازل کرنے سے تعبیر کیا۔ اس سے مراد ان چیزوں کو پیدا کرنا اور وجود میں لانا اور اجمالاً تمام اشیاء ہی اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہیں۔ اور لوہے یا جنگی قوت کے استعمال کا ایک فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ اس سے فتنہ و فساد کو روکا جاسکتا ہے۔ اور ضمنی فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ انہیں چیزوں کے حصول اور استعمال سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ کون اللہ کے دین کے نفاذ کی خاطر پیش قدمی کرتا ہے اور کون اس سے پہلو تہی کرتا ہے۔ ورنہ اللہ تو اتنا طاقتور اور غالب ہے کہ وہ اور بھی کئی طریقوں سے اپنا دین نافذ کرسکتا ہے۔ مگر جہاد سے اصل مقصود تو لوگوں کا امتحان ہے۔ الحديد
26 [٤٤] نبوت کا ضابطہ :۔ نبوت کا ضابطہ یہ ہے کہ انسان کی پیدائش سے پیشتر یہ جنوں میں جاری تھی۔ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ لہٰذا آدم کی پیدائش پر یہ انسانوں میں منتقل ہوگئی اور پہلے نبی خود سیدنا آدم علیہ السلام تھے۔ بعد میں یہ سلسلہ صرف نوح ؑکی اولاد میں محدود کردیا گیا۔ اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بعد انہی کی اولاد سے مختص ہوگیا۔ بعد میں جتنے بھی انبیاء علیہم السلام مبعوث ہوئے سب سیدنا ابراہیم ہی کی اولاد سے تھے۔ تمام انبیاء اپنی اولاد اور اپنی امت کو کفر و شرک اور افتراق و انتشار سے بچنے کی تاکید کرتے رہے مگر تھوڑے ہی لوگ ایسے تھے جنہوں نے انبیاء کی وصیت اور نصیحت کو قبول کیا۔ ورنہ لوگوں کی اکثریت کفر و شرک میں ہی مبتلا ہوگئی اور امت واحدہ کے ٹکڑے ٹکڑے بھی کردیے۔ الحديد
27 [٤٥] رأفۃ کا لغوی مفہوم :۔ رأفۃ کا معنی ہے کسی کو تکلیف میں دیکھ کر دل پسیج جانا، دل بھر آنا۔ رقیق القلب ہونا، رقت طاری ہوجانا اور رحمت کے معنی اس تکلیف کو دور کرنے میں مدد کرنا۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام چونکہ خود رقیق القلب اور نرم دل تھے۔ ساری عمر نرم برتاؤ اور ایک دوسرے سے پیار و محبت سے رہنے کا سبق دیتے رہے لہٰذا آپ کی امت یعنی نصاریٰ میں بھی دو صفات سرایت کرگئی تھیں۔ [٤٦] رھبانیت کا مفہوم :۔ رَھْبَانِیّۃَ۔ راھب ایسے خوف کو کہتے ہیں جس میں اضطراب اور احتیاط بھی شامل ہو۔ (ضد رغب) اور یہ خوف وقتی اور عارضی قسم کا نہ ہو بلکہ طویل اور مسلسل ہو۔ اور رہبانیت یا رہبانیت بمعنی مسلک خوف زدگی۔ یعنی کسی طویل اور مسلسل بے چینی رکھنے والے خوف کی وجہ سے لذات دنیا کو چھوڑ کر گوشہ نشینی اختیار کرلینا۔ آبادی سے باہر کسی جنگل وغیرہ میں کٹیا یا جھونپڑی ڈال کر عبادت الہٰی یا گیان دھیان میں مصروف ہوجانا۔ اور راہب بمعنی گوشہ نشین، درویش، بھکشو، جمع رہبان۔ اب سوال یہ ہے کہ ان نصاریٰ نے کس بات کے خوف سے ڈر کر یہ مسلک اختیار کیا تھا ؟ بعض مفسرین یہ کہتے ہیں کہ بےدین بادشاہوں سے ڈر کر ان لوگوں نے اپنے ایمان کو محفوظ رکھنے کے لیے یہ راہ نکالی تھی۔ اور بعض کہتے ہیں کہ جب عقیدہ تثلیث سرکاری مذہب بن گیا اور اس عقیدہ کو تسلیم نہ کرنے والوں پر سختیاں ہونے لگیں تو یہ لوگ چونکہ موحد تھے اس لیے انہوں نے یہ راستہ اختیار کرلیا تاکہ لوگوں کے مظالم سے بچ سکیں۔ ممکن ہے یہ باتیں بھی کسی حد تک درست ہوں تاہم اس رہبانیت کے کچھ دوسرے اسباب بھی ہیں۔ اس لیے اگر مفسرین کے ان اقوال کو درست تسلیم کرلیا جائے تو رہبانیت کا وجود صرف نصاریٰ تک ہی محدود رہنا چاہئے تھا۔ حالانکہ یہ مسلک نصاریٰ کے علاوہ یہود، مسلمان، ہندؤوں اور سکھوں وغیرہ سب میں پایا جاتا ہے اور اسے ایک آفاقی مذہب سمجھا جاتا ہے اور مسلمانوں میں یہ مذہب دین طریقت کے نام سے موسوم ہے۔ [٤٧] رھبانیت ایک بدعت ہے :۔ اس جملہ سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ نصاریٰ نے یہ ایک بدعت ایجاد کرلی تھی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسا مسلک اختیار کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ اور دوسری یہ کہ چونکہ تمام انبیاء علیہم السلام کی بنیادی تعلیم ایک ہی جیسی رہی ہے۔ لہٰذا رہبانیت کی کسی دین میں بھی گنجائش نہیں۔ اور یہ بدعت ہی شمار ہوگی۔ ضمناً اس سے بدعت کی تعریف بھی معلوم ہوگئی۔ یعنی بدعت ہر وہ کام ہے جسے دینی اور ثواب کا کام سمجھ کر دین میں شامل کرلیا جائے جبکہ شریعت میں اس کی کوئی اصل موجود نہ ہو۔ [٤٨] بدعت ہمیشہ نیکی کا کام سمجھ کی شروع کی جاتی ہے :۔ اس جملہ کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ ہم نے ان پر ایسے کام فرض کیے تھے جن سے اللہ کی خوشنودی حاصل ہو اور یہ کام ایسا نہ تھا جو انہوں نے شروع کردیا اور دوسرا یہ کہ انہوں نے یہ مسلک بھی اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر ہی ایجاد کرلیا تھا۔ واضح رہے کہ جتنے بھی بدعی کام شروع کیے جاتے رہے ہیں وہ ہمیشہ نیک آرزوؤں اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کی خاطر ہی شروع کئے جاتے رہے ہیں اور یہی شیطان کا فریب ہوتا ہے جسے اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔ [٤٩] دین طریقت اور چہار ترک :۔ جس مسلک کے اختیار کرنے والوں نے اپنے لیے جو ضابطے مقرر کیے تھے اور جو پابندیاں اپنے آپ پر لگائی تھیں انہیں وہ خود بھی نبھا نہ سکے۔ کیونکہ وہ پابندیاں انسان کی فطرت کے خلاف تھیں۔ ان پابندیوں کو وہ مختصر الفاظ میں چہار ترک (چارقسم کی چیزوں کو چھوڑ دینا) کا نام دیتے ہیں۔ (١) ترک دنیا یعنی دنیا کی تمام تر لذات کو چھوڑ دینا، (٢) ترک عقبیٰ یعنی آخرت کی جزاء و سزا سے بے نیاز ہوجانا، (٣) ترک اکل و نوم۔ یعنی کھانا، پینا چھوڑ دینا یا کم سے کم سے کھانا اسی طرح نیند یا آرام کرنا بھی چھوڑ دینا، اور (٤) ترک خواہش نفس۔ یعنی جو کچھ انسان کا جی چاہے اس کے برعکس کام کرنا۔ مختلف طریقوں سے جسم کی تعذیب :۔ ان لوگوں کا نظریہ تھا کہ روحانیت کے راستے میں حائل سنگ گراں ہمارا مادی جسم ہے۔ لہٰذا اس جسم کو مضمحل اور کمزور بنانے کے لیے طرح طرح کے عذاب دیئے جانے لگے۔ کم سے کم کھانا پینا جس سے صرف روح اور جسم کا تعلق باقی رہ سکے۔ کم سے کم سونا۔ دنیوی لذات جن سے فائدہ اٹھانے کا اللہ تعالیٰ نے انہیں حق دیا تھا، اس سے کنارہ کشی کرنا، شدید سردی میں ننگے بدن باہر رات گزارنا، کہیں شدید گرمی میں کسی ایک ہی جگہ کھڑے رہنا، چپ کا روزہ رکھنا، کیچڑ میں پڑے رہنا اور اس طرح کی کئی دوسری صورتیں انہوں نے ایجاد کرلی تھی۔ گویا اپنی جان سے دشمنی ان کا پہلا اصول تھا۔ لہٰذا جسم کی تعذیب اور ان کے تقاضوں کی تکذیب کے ذریعہ وہ اپنے جسم کو تحلیل کرنے میں مصروف ہوگئے۔ اقرباء سے پرہیز :۔ ان کا دوسرا اقدام دنیا والوں سے قطع تعلق تھا۔ ان کے خیال کے مطابق ان کے رشتہ دار اور دوسرے معاشرتی تعلقات رکھنے والے دوست احباب بھی اس راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ تھے۔ دنیوی علائق میں سے ان کو سب سے زیادہ دشمنی عورت سے تھی۔ تاریخ میں ہمیں ایسے دلدوز واقعات بھی ملتے ہیں کہ کوئی مامتا ماری ماں اپنے ایسے ہی بیٹوں کو جنگل میں دیکھنے گئی لیکن ان راہبوں نے اپنی ماں سے ملاقات کرنے سے انکار کردیا۔ وہ انہیں صرف ایک نظر دیکھنے اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کے لیے ترستی اور التجائیں کرتی رہی لیکن ان سنگ دل راہبوں نے اس کی التجا کو ذرہ بھر وقعت نہ دی اور اسے ناکام واپس آنا پڑا۔ واقعہ جریج :۔ ایسے ہی ایک راہب ابن جریج کا واقعہ بخاری اور مسلم میں مذکور ہے۔ ابن جریج نے جنگل میں کٹیا بنا رکھی تھی۔ مامتا ماری ماں اسے ملنے آئی اور اسے پکارا۔ وہ عبادت میں مصروف تھا۔ ماں کی آواز سن کر اور اسے پہچان کر بھی وہ اپنی عبادت میں مصروف رہا اور ماں کی پکار کو کوئی اہمیت نہ دی۔ دوسرے دن پھر اس کی ماں آئی۔ پھر اس نے کوئی توجہ نہ دی۔ تیسرے دن پھر ایسا ہی واقعہ ہوا تو ماں کو اس بات کا اتنا صدمہ ہوا کہ اس کے منہ سے اپنے اس درویش بیٹے کے حق میں بے اختیار یہ بددعا نکل گئی کہ الٰہی جب تک میرا یہ بیٹا کسی فاحشہ عورت کا منہ نہ دیکھ لے اسے موت نہ آئے۔ دکھیاری ماں کے منہ سے نکلی ہوئی بددعا بھلا رائیگاں کب جاسکتی تھی؟ ابن جریج اپنی عبادت اور خدا ترسی میں اتنا مشہور تھا کہ بنی اسرائیل کے اکثر لوگ اس سے حسد کرنے لگے تھے اور چاہتے تھے کہ ابن جریج پر کوئی ایسا الزام لگے جس سے اس کا یہ بلند مقام چھن جائے۔ اور اسی مقصد سے خفیہ مشورے بھی ہونے لگے۔ ایک بدنام زمانہ فاحشہ عورت نے، جو حسن و جمال میں اپنی نظیر نہیں رکھتی تھی، اس خدمت کو سرانجام دینے کا ذمہ لیا اور اسی غرض سے اپنے آپ کو ابن جریج پر پیش کردیا۔ جسے ابن جریج نے رد کردیا۔ اس پر یہ اپنے حسن و جمال پر ناز کرنے والی عورت سیخ پا ہوگئی اور اس بے اعتنائی اور ہتک کا انتقام لینے پر اتر آئی۔ اس نے اپنے آپ کو ایک چرواہے پر پیش کیا جس سے اسے حمل ہوگیا۔ جب بچہ پیدا ہوا تو اس نے یہ مشہور کردیا کہ یہ حمل ابن جریج راہب سے ہوا تھا۔ بس پھر کیا تھا۔ لوگ دوڑے آئے اور بلا تامل ابن جریج کو مارنا پیٹنا شروع کردیا اور اس کی کٹیا کو منہدم کردیا ابن جریج نے وجہ پوچھی تو لوگوں نے سارا ماجرا بتا دیا ابن جریج کہنے لگے۔ تھوڑی دیر ٹھہرو۔ لوگ رک گئے تو اس نے وضو کیا اور عبادت میں مشغول ہوا اور اللہ سے بصد گریہ و زاری اپنی بریت کی دعا کی۔ ماں کی بددعا تو قبول ہو ہی چکی تھی۔ اب اللہ نے اس پر رحم فرما کر اس کی بھی دعا قبول فرما لی۔ پھر جب وہ لوگوں کے پاس آیا تو وہ فاحشہ عورت بمعہ بچہ وہاں کھڑی تماشا دیکھ رہی تھی۔ ابن جریج نے اس بچہ کے پیٹ میں کچو کا دے کر پوچھا کہ بتا تیرا باپ کون ہے؟ بچہ قدرت الٰہی سے بول اٹھا :''فلاں چرواہا'' تب جاکر لوگوں نے ابن جریج کا پیچھا چھوڑا۔ ان میں سے بعض اس سے معافی مانگنے لگے اور کہنے لگے : اگر کہو تو تمہیں سونے کی کٹیابنا دیں۔ لیکن ابن جریج نے کہا : بس مجھے ویسی ہی مٹی کی کٹیا بنا دو (مسلم۔ کتاب البروالصلۃ، باب تقدیم برالوالدین) ماں کی گود میں کلام کرنے والے بچے :۔ اس طویل حدیث میں ان تین بچوں کا ذکر ہے جنہوں نے ماں کی گود میں کلام کیا۔ ایک سیدنا عیسیٰ علیہ السلام، دوسرے یہی ابن جریج سے منسوب بچہ اور اسی طرح ایک تیسرے بچے کا ذکر ہے۔ امام مسلم نے اس حدیث کو ’’والدین سے حسن سلوک‘‘ کے باب میں ذکر کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ شرعی احکام کے مقابلہ میں ایسی رہبانیت گناہ کبیرہ ہے حدیث میں اس مذکورہ واقعہ سے اس دور کے طریق رہبانیت پر پوری روشنی پڑتی ہے۔ نکاح سے پرہیز :۔ بیوی کا معاملہ اس سے بھی زیادہ نازک تھا کیونکہ نکاح اور اولاد سے انسان پر بہت سی معاشی اور معاشرتی ذمہ داریاں آپڑتی ہیں۔ لہٰذا یہ لوگ متاہل زندگی سے سخت نفرت کرتے تھے۔ گو اللہ نے انہیں ایسی رہبانیت کا حکم نہیں دیا تھا، تاہم انہیں اس کے جواز کے کچھ اشارے ضرور مل گئے۔ مثلاً سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی ٣٣ سالہ زندگی تبلیغ کے سلسلہ میں گھوم پھر کر ہی گزار دی اور نکاح نہیں کیا۔ عورتوں کا کنوارا رہنا اور بدکاری کو فروغ :۔ پھر عیسائیوں میں نکاح ثانی کی بھی گنجائش نہ تھی۔ پھر جس طرح ان راہبوں نے یہ مسلک اختیار کیا تھا کئی عورتوں نے بھی یہ سلسلہ اختیار کرلیا تھا اور ان کی الگ خانقاہیں قائم ہوگئیں اور انہوں نے ساری عمر کنواری رہنے کا عہد کر رکھا تھا مگر چونکہ یہ سب کام شریعت الٰہی کے خلاف اور فطرت کے خلاف تھے لہٰذا جلد ہی ایسی خانقاہیں بدکاری کے اڈوں میں تبدیل ہوگئیں۔ کئی حرامی بچے پیدا ہوتے ہی مار دیئے جاتے اور جو بچ جاتے انہیں کسی گرجا کی نذر کردیا جاتا تھا رہبانیت کی خرابی کا یہ صرف ایک پہلو ہے اور جو خرابیاں اس مسلک سے عام معاشرہ میں پیدا ہوئیں وہ یہ ہیں۔ ١۔ معاشرہ میں جو خدا ترس لوگ تھے وہ اپنی اس غلط روش کی بنا پر معاشرتی ذمہ داریوں اور دوسرے انسانی تعلقات سے ایک طرف ہوگئے جس سے اخلاق و تمدن، سیاست اور اجتماعیت کی جڑیں تک ہل گئیں۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت عیار اور ناخدا ترس لوگوں نے سنبھال لی۔ دنیا میں ''فساد فی الارض'' کا دور دورہ ہوگیا اور اللہ کے بھیجے ہوئے پیغام ہدایت اور ضابطہ حیات کی انہی بزرگان دین کے ہاتھوں بیخ کنی ہوئی۔ رہبانیت کے معاشرہ پر ناخوشگوار اثرات :۔ ٢۔ راہبوں کی اس روش کا دوسرا نتیجہ یہ نکلا کہ عام لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ دین اور دنیا دو الگ چیزیں ہیں۔ دین یا مذہب تو محض پوجا پاٹ اور گیان دھیان کا نام ہے اور مذہب کا تعلق بس اسی حد تک ہے۔ رہا دنیا کا کاروبار تو اس میں ہر شخص آزاد ہے۔ معاشرتی تعلقات یا ضابطہ اخلاق کی اگر کچھ اہمیت ہوتی تو یہ خدا رسیدہ لوگ اس سے کیوں منہ موڑ لیتے۔ پھر چونکہ ان راہبوں کی روش شریعت الٰہیہ کے برعکس تھی لہٰذا نتیجتاً مذہب کا شیرازہ پارہ پارہ ہوگیا۔ ٣۔ اللہ کے حضور عبادت، عاجزی، تذلل اور زہد و تقویٰ صفات محمودہ ہیں لیکن ان راہبوں نے ان صفات میں اس قدر غلو کیا اور انکار ذات اور خود شکنی اتنے جوش سے کی کہ خود نگری اور خود شناسی جو قومی زندگی کے لیے روح رواں ہے ایک جرم سمجھا جانے لگا۔ انسان کو اپنی انسانیت سے شرم آنے لگی اور وہ اپنی ترقی انسانیت میں نہیں بلکہ ترک انسانیت میں سمجھنے لگا۔ اللہ تعالیٰ نے تو اسے اشرف المخلوقات بنا کر باقی کائنات اس کے لیے مسخر کردی تھی مگر وہ خود اس قدر بے اعتماد، افسردہ اور شکستہ دل ہوگیا کہ حیوانات بلکہ جمادات کو اپنے آپ پر ترجیح دینے لگا۔ ٤۔ چوتھا اثر یہ ہوا کہ معاشرہ میں باقی لوگ جن میں دینداری اور تقویٰ کے کچھ بھی اثرات پائے جاتے تھے، انہوں نے بھی ان راہبوں اور پیروں فقیروں کے آستانوں کا رخ کرلیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ کے لیے مخصوص عبادت گاہیں اور مسجدیں تو آہستہ آہستہ ویران ہونے لگیں اور خانقاہوں، مزاروں اور آستانوں کی رونق بڑھنے لگی۔ انہی گونا گوں مفاسد کے پیش نظر شریعت نے رہبانیت کو مذموم قرار دیا ہے اس سلسلہ میں درج ذیل احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ملاحظہ فرمائیے :۔ ١۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم نے فرمایا اپنی جانوں پر سختی مت کرو کیونکہ ایک قوم نے اپنی جانوں پر سختی کی تو پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر سختی کی (یعنی ان کا ایجاد کردہ معیار ہی ان کی جانچ کے لیے مقرر کردیا) اس قوم کا بقایا گر جوں اور خانقاہوں میں ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت پڑھی۔ (ابوداؤد، کتاب الادب، باب الحسد) شرعی لحاظ سے رہبانیت مذموم ہے :۔ ٢۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’بلاشبہ دین آسان ہے کوئی شخص دین میں (اپنے آپ پر) سختی نہ کرے کہ وہ عمل اسے عاجز کردے۔ اس پر عمل ٹھیک طرح بجا لاؤ اور میانہ روی اختیار کرو اور خوش ہوجاؤ اور صبح و شام اور آخری رات کے کچھ حصہ میں اللہ سے مدد طلب کرتے رہو‘‘ (مشکوۃ، کتاب الصلوٰۃ۔ باب القصد فی العمل) ٣۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو کے باپ نے ان کی بڑے شوق اور چاؤ سے شادی کی۔ لیکن انہوں نے اپنی بیوی سے کوئی دلچسپی نہ رکھی۔ رات عبادت میں گزار دیتے اور دن روزہ رکھ کر۔ ان کے اس رویہ سے ان کی بیوی بھی ملول تھی اور باپ بھی۔ آخر باپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس صورت حال سے مطلع کیا۔ عبداللہ بن عمرو خود بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلا کر فرمایا : ’’مجھے خبر پہنچی ہے کہ تو روزے رکھے جاتا ہے اور افطار نہیں کرتا اور نماز پڑھے جاتا ہے ایسا کر کہ روزہ بھی رکھ اور افطار بھی کر، قیام بھی کر اور سو بھی۔ کیونکہ تیری آنکھوں کا تجھ پر حق ہے، تیری جان کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیری بیوی اور بال بچوں کا بھی تجھ پر حق ہے‘‘ میں نے عرض کیا : ’’مجھ میں اس سے زیادہ کی طاقت ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اچھا پھر داؤد جیسا روزہ رکھ‘‘ میں نے پوچھا : ''وہ کیا ہے؟ فرمایا : ’’وہ ایک دن روز رکھتے اور ایک دن چھوڑ دیتے تھے اور دشمن کے مقابلہ میں بھاگتے نہیں تھے‘‘ پھر آپ نے دوبارہ فرمایا :’’جس نے ہمیشہ روزہ رکھا، اس نے روزہ نہیں رکھا‘‘ (بخاری، کتاب الصوم، باب حق الاہل فی الصوم) یہ حدیث بخاری میں مختلف مقامات پر کئی طرح سے مذکور ہے۔ ایک روایت میں ہے۔ ’’تیرے بدن اور تیرے مہمان کا بھی تجھ پر حق ہے‘‘ (باب حق الضیف) کے الفاظ زیادہ ہیں، اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عمرو کو دائمی روزہ رکھنے سے منع فرمایا تو انہوں نے کہا، مجھ میں اس سے زیادہ کی طاقت ہے، تو پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا تم مہینہ میں تین روزے رکھ لیا کرو۔ اللہ تعالیٰ دس گنا اجر دے گا تو یہ تمہارے پورے مہینہ کے روزے ہوجائیں گے۔ سیدنا عبداللہ نے کہا کہ ’’مجھ میں اس سے زیادہ طاقت ہے‘‘ تب آپ نے فرمایا : ’’اچھا ایک دن روزہ رکھو اور دوسرے دن چھوڑ دو۔‘‘ بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جو دائمی روزہ رکھے اس کا کوئی روزہ نہیں‘‘ رہبانیت سے متعلق چند احادیث اور ان سے حاصل ہونے والے نتائج :۔ اس حدیث سے معلوم ہوا (١) کہ مسلسل روزے رکھنا انسان کو اتنا نحیف بنا دیتا ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ کے قابل نہیں رہتا، (٢) اس حدیث سے رہبانیت یا تصوف کے کئی نظریات پر زد پڑتی ہے، ایک نفس کشی یا بدن کو نحیف و نزار بنانے پر اور دوسرے صوفیا کے اس نظریہ پر کہ نفس سے جہاد، جہاد فی سبیل اللہ سے افضل ہے، (٣) ہر وہ عمل جو سنت کے خلاف ہو خواہ کتنا ہی بہتر معلوم ہوتا ہو، مردود ہے۔ ٤۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تین آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے گھر آئے (سیدنا علی، عبداللہ بن عمرو اور عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہم) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے بارے میں پوچھا۔ جب انہیں بتایا گیا تو انہوں نے گویا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی عبادت کو) کم سمجھا اور کہنے لگے، کہاں ہم اور کہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جن کے پہلے اور پچھلے سب گناہ معاف کئے جاچکے ہیں (یعنی ہمیں ان سے زیادہ عبادت کرنی چاہیے) پھر ایک نے کہا :’’میں ہمیشہ رات بھر نماز پڑھوں گا۔‘‘ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا اور کبھی روزہ نہ چھوڑوں گا اور تیسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ عورتوں سے کنارہ کش رہوں گا اور کبھی شادی نہ کروں گا۔ اتنے میں آپ تشریف لے آئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں واپس بلا کر پوچھا کہ ’’کیا تم لوگوں نے یہ اور یہ باتیں کی ہیں؟ اللہ کی قسم! میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور پرہیزگار ہوں۔ اس کے باوجود میں روزہ رکھتا بھی ہوں اور چھوڑتا بھی ہوں' رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، تو جو کوئی میری سنت کو ناپسند کرے اس کا مجھ سے کوئی واسطہ نہیں‘‘ (بخاری، کتاب النکاح، باب الترغیب فی النکاح) اس حدیث میں مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوئیں۔ (١) مجرد زندگی گزارنا، معاشرتی زندگی سے گریز تاکہ یکسوئی سے عبادت کی جاسکے، بدن کو فاقوں مار کر تزکیہ نفس کرنا اور عبادت میں خواہ کیسی ہی افضل نہ ہو، سنت نبوی سے آگے بڑھنا۔ یہ سب باتیں سنت مطہرہ کے خلاف ہیں۔ اگر صرف یہی چیزیں رہبانیت سے نکال دی جائیں تو رہبانیت کی عمارت از خود زمین بوس ہوجاتی ہے۔ (٢) آپ نے سنت کی آخری حد سے مطلع فرما دیا۔ اب جو شخص زہد، تقویٰ اور عبادت کے میدان میں آپ کی مقررہ حدود سے آگے نکلے گا تو وہ بدعت، ضلالت اور کفر ہی ہوگا اور یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ بدعت ہمیشہ نیک ارادوں اور ثواب کی نیت سے ہی شروع کی جاتی ہے۔ (٣) سنت کا تارک گنہگار ہوتا ہے لیکن سنت سے زیادہ عمل کرنے والا جو شریعت کی حدود کو کم سمجھ کر اس میں اضافہ کر رہا ہے۔ وہ بدعتی، گمراہ اور گمراہ کنندہ ہے۔ بعد میں جو لوگ اس بدعت پر عمل پیرا ہوں گے حصہ رسدی اس کا گناہ بدعت جاری کرنے والے کو بھی پہنچتا رہے گا۔ [٥٠] ان رہبانیت اختیار کرنے والوں میں سے بہت سے لوگ گناہ کی آ لودگیوں میں ملوث ہوگئے۔ تھوڑے ہی تھے جو خالصتاً اللہ کی عبادت میں مشغول رہے ان کو ان کے نیک عمل کا اجر مل جائے گا۔ الحديد
28 [٥١] دوہرا اجر صرف ایمان والے اہل کتاب کے لئے ہی مختص نہیں :۔ کتاب و سنت میں صراحت سے مذکور ہے کہ اہل کتاب میں سے جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں گے۔ انہیں دوہرا اجر ملے گا۔ ایک اجر اپنے نبی پر ایمان لانے کا اور دوسرا نبی آخرالزمان پر ایمان لانے کا۔ اب اہل کتاب میں سے جو لوگ ایمان لائے تھے۔ وہ دوسرے مسلمانوں پر فخر کرنے لگے کہ ہمارے لئے دو اجر ہیں اور تمہارے لئے صرف ایک جس سے عام مسلمانوں میں کچھ احساس کمتری پیدا ہونے لگا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم سچے دل سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانبردار بن جاؤ گے تو تمہیں بھی دوہرا اجر ملے گا۔ اللہ کے ہاں اجر کی کوئی کمی نہیں۔ [٥٢] نور سے مراد ایک تو وحی الہٰی اور علم شریعت کی روشنی ہے۔ ایماندار اسی رو شنی میں اپنا طرز زندگی متعین کرتے اور اعمال صالحہ بجا لاتے ہیں اور دوسرے وہ نور مراد ہے جو اعمال صالحہ کی بدولت مومنوں کو قیامت کے دن حاصل ہوگا جس کا ذکر اسی سورۃ کی آیت نمبر ١٢ میں گزر چکا ہے۔ الحديد
29 [٥٣] ﴿ لِئَلاَّ﴾ کا لفظ یہاں لکی لا کا معنی دے رہا ہے۔ یعنی ایمان لانے والے اہل کتاب یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ دوہرا اجر فقط انہیں کے لئے مخصوص ہو کر رہ گیا ہے۔ اللہ بڑا صاحب فضل ہے وہ چاہے تو دوسرے مسلمانوں کو بھی دوہرا اجر دے سکتا ہے اور وہ صاحب اختیار بھی ہے وہ اپنا فضل تقسیم کرنے میں کسی دوسرے کی خواہش کا پابند نہیں۔ الحديد
0 المجادلة
1 [١] ظہار کے احکام کا پس منظر :۔ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ جب میاں بیوی میں لڑائی ہوجاتی تو خاوند غصہ کی حالت میں اپنی بیوی کو یوں کہہ دیتا کہ (أنْتِ عَلَیَّ کَظَھْرِ أمِّی) یعنی تو مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے۔ تو اسے دائمی طلاق سمجھا جاتا تھا۔ یہ صرف معمولی طلاق ہی نہ تھی بلکہ شدید قسم کی طلاق سمجھی جاتی تھی۔ جس کے بعد ان دونوں میاں بیوی کے مل بیٹھنے کی کوئی صورت باقی نہ رہتی تھی۔ اس بے ہودہ رسم کے متعلق پہلے سورۃ احزاب کی آیت نمبر ٤ میں مسلمانوں کو یہ تو بتایا جاچکا تھا کہ کسی کے ظہار کرنے یعنی اپنی بیوی کو ماں کی پیٹھ کی طرح کہہ دینے سے وہ اس کی ماں نہیں بن جاتی اور نہ ہی اللہ نے کوئی ایسا قانون بنایا ہے۔ مگر اس شرعی حکم کی کچھ تفصیل نہیں دی گئی تھی۔ اب یہ واقعہ پیش آیا کہ ایک انصاری اوس بن صامت اور اس کی بیوی خولہ بنت ثعلبہ میں لڑائی جھگڑا ہوا تو اوس بن صامت نے غصہ میں آکر یہی ظہار کے الفاظ کہہ دیئے۔ جس کا فریقین میں معروف مفہوم ابدی طلاق تھا۔ بعد میں زوجین کو سخت ندامت بھی ہوئی اور چونکہ اولاد بھی تھی لہٰذا اس اولاد کے مستقبل نے کئی خطرات سامنے لاکھڑے کئے۔ خولہ بنت ثعلبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئی اور اس کا حکم پوچھا۔ لیکن چونکہ تاحال ظہار کا کوئی واضح حکم نازل نہ ہوا تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ تو اس پر حرام ہوگئی۔ اس پر خولہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگی : یارسول اللہ ! میرے خاوند نے طلاق کا لفظ تو نہیں بولا تھا۔ میں نے جوانی تو اس کے ہاں گزار دی۔ اب بڑھاپا کس کے پاس گزاروں گی۔ نیز میری اوس سے اولاد بھی ہے۔ اگر میں اس سے دستبردار ہوجاؤں تو اولاد بے توجہی کی نذر ہوجائے گی اور اگر اپنے پاس رکھوں تو ان کے اخراجات کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ وہ ساتھ ہی ساتھ روتی بھی جاتی تھی اور یہ کہتی بھی جاتی تھی کہ مجھے کوئی بہتر صورت بتائیے۔ اور یہ بھی کہ اللہ میرے حق میں کوئی بہتر فیصلہ نازل فرمائے۔ اللہ نے اس کی فریاد سن لی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی یہ ابتدائی آیات نازل فرمائیں۔ یہ اسی خستہ حالی میں واپس جارہی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس بلا کر یہ آیات سنا دیں۔ جن میں صرف اسی کے مسئلہ کا حل موجود نہ تھا۔ بلکہ اس عورت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آئندہ کے لیے اس بد رسم کو مٹا کر تمام بنی نوع انسان پر رحمت فرما دی۔ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دل میں اس عورت کی بہت قدر و منزلت ہوگئی۔ ایک دفعہ سیدنا عمر اپنے دور خلافت میں کہیں جارہے تھے کہ خولہ مذکورہ نے راستہ ہی میں آپ کو بلایا اور کچھ بات کہنے لگی۔ سیدنا عمررضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر بڑی توجہ سے سننے لگے۔ کسی نے پوچھا کیا بات ہے آپ اس بڑھیا کی بات بڑی توجہ سے سن کر اسے اتنی اہمیت دے رہے ہیں؟ سیدنا عمر نے فرمایا :’’یہ وہ عورت ہے جس کی بات اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کے اوپر سن لی تھی۔ عمر کی کیا مجال ہے کہ اس کی بات کی طرف توجہ نہ دے۔‘‘ المجادلة
2 [٢] ظہار سے نہ طلاق واقع ہوتی ہے اور نہ بیوی ماں بن سکتی ہے :۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف منہ سے کہنے پر بیوی ماں نہیں بن جاتی بلکہ بیوی ہی رہتی ہے۔ اس لیے کہ مائیں تو صرف وہ ہیں جنہوں نے تمہیں جنا ہے۔ اب جو تم انہیں ماں کہہ کر واقعی ماں سمجھ بیٹھتے ہو تو یہ ایک خلاف واقعہ، خلاف حقیقت اور جھوٹی بات ہے۔ جس کا حقیقت سے کچھ تعلق نہیں۔ اللہ نے تم پر بہت رحم فرما کر اس رسم کو ختم کردیا ہے۔ اور آئندہ جو شخص ایسی باتوں سے باز رہے گا تو اس کے سابقہ گناہوں کو معاف بھی کردینے والا ہے۔ المجادلة
3 المجادلة
4 [٣] ظہار کرنا گناہ کبیرہ ہے :۔ آیت نمبر ٣ اور ٤ میں ظھار کا کفارہ یا ایسے معاملات کا حل شرعی بتایا جارہا ہے۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ظہار سے اگرچہ طلاق واقع نہیں ہوجاتی تاہم یہ ایک گناہ کبیرہ ہے۔ پھر کفارہ کے طور پر اس گناہ کی تین سزائیں بتا دیں۔ کہ ان میں سے جو سزا کسی کے حالات کے مطابق ہو وہ اسے دی جائے۔ ان کی ترتیب یہ ہے۔ ظہار کا کفارہ :۔ (١) ایک غلام آزاد کرنا، (٢) مسلسل دو ماہ کے روزے رکھنا یا (٣) ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا۔ ان آیات میں درج ذیل امور قابل ذکر ہیں۔ ظہار سے متعلق احکام : ١۔ لڑائی جھگڑا زوجین کے درمیان ہوتا ہے لیکن ظہار کے لفظ خاوند بولتا ہے۔ اس لیے سزا صرف خاوند کے لئے ہے۔ بیوی کے لیے کوئی کفارہ یا سزا نہیں۔ ٢۔ ان تمام سزاؤں کی نوعیت عبادات کی ہے۔ غلام آزاد کرنا اور مسکینوں کو کھانا کھلانا یہ مالی نفلی عبادتیں ہیں۔ اور روزے رکھنا بدنی عبادت، گویا کفارہ بھی عبادات کی شکل میں تجویز ہوا ہے۔ تاکہ انسان کے نفس میں پاکیزگی اور تقویٰ پیدا ہو۔ کفارہ میں حدی جرائم کی طرح کوئی بدنی سزا نہیں ہوتی۔ ٣۔ یہ کفارہ اس شخص کے لیے ہے جو اپنے قول سے رجوع کرنا چاہے اور زوجین مل بیٹھنا چاہیں اور مرد رجوع نہ کرنا چاہے تو پھر سیدھی طرح طلاق دے دے۔ جو شرعی ہدایات کے مطابق ہو۔ ظہار تو بالکل بے ہودہ اور ہیرا پھیری کی بات ہے۔ اس سے توبہ کرے اور طلاق دے دے۔ ٤۔ آج کل غلامی کا رواج ختم ہوچکا ہے۔ لہٰذا آج اگر کوئی ظہار کرے تو کفارہ کی دوسری یا تیسری صورت سے کسی ایک کو اختیار کرنا ہوگا۔ ٥۔ یہ اختیار ظہار کرنے والے کے حالات کے مطابق ہوگا۔ مثلاً ایک امیر شخص نے ظہار کیا تو اس کے لیے دو ماہ مسلسل روزے رکھنے کی سزا تجویز کی جائے گی۔ کیونکہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا اس کے لیے کوئی سزا نہیں۔ اسی طرح غریب کے لیے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا مشکل ہے۔ اور روزے رکھنے میں وہ کوئی سزا محسوس نہیں کرے گا۔ ٦۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ اگر کسی عذر شرعی مثلاً مرض یا ضروری سفر وغیرہ کی بنا پر روزوں کے تسلسل میں انقطاع واقع ہوجائے تو وہ انقطاع شمار نہ ہوگا۔ انقطاع اسی وقت شمار ہوگا جب وہ دیدہ دانستہ بغیر کسی عذر شرعی کے روزہ چھوڑ دے۔ ٧۔ مسکینوں کو کھانا کھلانے سے مراد دو وقت کا پیٹ بھر کر کھانا کھلانا یا اس کا ہم قیمت غلہ ہے۔ جو غلہ کی صورت میں بھی دیا جاسکتا ہے۔ اور اس کی نقد قیمت کی صورت میں بھی۔ بعض علماء کے نزدیک ایک ہی مسکین کو ساٹھ دنوں کا غلہ یا اس کی قیمت ادا کرنے سے بھی کفارہ ادا ہوجاتا ہے۔ بہرحال اس معاملہ میں شریعت نے کفارہ ادا کرنے والے کی سہولت کو ملحوظ رکھا ہے۔ ٨۔ صحبت سے پہلے کفارہ کی ادائیگی لازمی ہے۔ ادائیگی سے قبل بیوی مرد پر حلال نہ ہوگی۔ کفارہ دینے والے کے حالات ملحوظ رکھنا ضروری ہے :۔ اب خولہ بنت ثعلبہ کا قصہ یہ ہے کہ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو آپ نے اسے پڑھ کر سنائیں اور فرمایا کہ اپنے خاوند سے کہو کہ ایک غلام آزاد کرے۔ خولہ نے جواب دیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ تو نادار ہے۔ آپ نے فرمایا : اچھا : اس سے کہو : دو مہینے کے مسلسل روزے رکھے۔ خولہ نے کہا : وہ تو بوڑھاو ناتواں ہے۔ اسے یہ طاقت بھی نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اچھا پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دے۔ خولہ کہنے لگی۔ اسے تو اتنا بھی مقدور نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں ایک عرق (ایک پیمانہ) کھجوریں دے کر اس کی مدد کروں گا۔ اس پر خولہ نے کہا۔ میں بھی ایک وسق کھجور دے کر اس کی مدد کروں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ بہت بہتر ہے۔ جا اپنے چچا کے بیٹے کے ساتھ سلوک کر۔ چنانچہ خولہ نے ایسا ہی کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ تیسری صورت میں، نادار کفارہ دینے والے کی صدقہ وغیرہ کی صورت میں مدد بھی کی جاسکتی ہے اور کرنا چاہیے۔ [٤] ظہار کی آیات کن کن چیزوں پر ثبوت فراہم کرتی ہیں؟۔ یعنی اللہ کی حدود یا ضابطے یہ ہیں کہ ظہار سے طلاق واقع نہیں ہوتی، دوسرا یہ کہ ظہار کرنا کوئی ایسی معمولی بات نہیں جس پر کچھ بھی مواخذہ نہ ہو۔ بلکہ فی الواقع یہ ایک گناہ کا کام ہے۔ تیسرا یہ کہ اس گناہ کا ازالہ صرف کفارہ ادا کرنے سے ہوسکتا ہے۔ اور انکار سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص کفارہ ادا کئے بغیر ہی اپنی بیوی سے صحبت شروع کردے یا اللہ تعالیٰ کی اس وضاحت کے باوجود بھی اپنی بیوی سے صحبت کرنا حرام ہی سمجھتا رہے۔ واضح رہے کہ ان آیات سے مندرجہ ذیل باتوں کا ثبوت فراہم ہوتا ہے (١) اللہ تعالیٰ کے وجود پر اور اس کے بندوں کے حالات سے ہر وقت مطلع ہونے پر، (٢) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ کا رسول ہونے پر، (٣) قرآن کریم کے منزل من اللہ ہونے پر اور (٤) اس بات پر کہ تمام تر احکام الٰہی بندوں کے مصالح پر مبنی ہوتے ہیں۔ اس قانون نے جہاں ایک طرف جاہلیت کے دستور کے مطابق جدائی سے پیدا ہونے والی خرابیوں کو دور کردیا، وہاں اس رواج کو ایسا بے لگام بھی نہیں چھوڑا کہ جو چاہے ظہار کرتا پھرے اور اس پر کوئی پابندی نہ ہو۔ بلکہ اعتدال کی راہ اختیار کرکے ہر حال میں بندوں کے مصالح کو ملحوظ رکھا۔ المجادلة
5 [٥] حاد کا لغوی مفہوم :۔ ﴿یُحَادُّوْنَ﴾ حد النظر بمعنی تیز نظر سے گھورنا اور حادَّ سے مراد ایسی مخالفت اور دشمنی ہے جس سے انسان غضب ناک ہو کر مقابلہ اور انتقام پر تل آئے۔ مخالفت کی ابتدائی شکل تو یہ ہے کہ انسان اللہ کا حکم تسلیم نہ کرے۔ دوسرا اقدام یہ ہے کہ انسان اللہ کے احکام کا مذاق اڑانا شروع کردے اور تیسرا اقدام یہ ہے کہ اللہ کے قانون یا سزا یا تعزیر کے بجائے کوئی دوسری سزا یا تعزیر مقرر کرلے اور اللہ کے احکام کو نظر انداز کر دے۔ یا اس کی مخالفت میں آکر شرعی احکام کو مصلحت پر مبنی ہونے کے بجائے اسے معاشرہ کے لیے نقصان دہ یا غیر مہذب ثابت کرنے کی کوشش کرے۔ یہ سب صورتیں حادَ کے ضمن میں آتی ہیں۔ [٦] کَبَتَ کے معنی کسی کو غصہ کی حالت میں ذلیل و رسوا کرنا اور دھکے مار کرباہر نکال دینا اور ہلاک کرنا سب معنوں میں آتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو قومیں اللہ کے احکام کی مخالفت پر اتر آئی تھیں۔ اللہ نے انہیں ذلیل و رسوا کردیا تھا۔ اور اگر اب تم وہی کام کرو گے تو تمہارا بھی ویسا ہی انجام ہوگا۔ دنیا میں تو ذلیل و رسوا ہوگے اور آخرت میں جو عذاب دیا جائے گا وہ بھی ذلیل و رسوا کرنے والا ہوگا۔ المجادلة
6 [٧] دنیا میں انسان بے شمار ایسے گناہ کے کام کرتا ہے جنہیں وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ لہٰذا وہ اسے یاد ہی نہیں رہتے۔ لیکن اللہ اور اس کے فرشتے ہر انسان کا ایسا مکمل ریکارڈ تیار کر رہے ہیں۔ جس میں انسان کی کوئی چھوٹی سے چھوٹی کرتوت بھی درج ہونے سے رہ نہیں سکتی۔ قیامت کے دن اس کا یہی کچا چٹھا اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ تب اسے اپنی وہ سب کرتوتیں یاد آنے لگیں گی۔ جو اس کے دل و دماغ سے یکسر فراموش ہوچکی تھیں۔ المجادلة
7 [٨] مشورہ اور مشیروں کی تعداد اور جمہوریت پسند :۔ اس آیت سے دراصل سمجھانا یہ مقصود ہے کہ انسان کسی وقت اور کسی حال میں بھی اللہ سے چھپ نہیں سکتا۔ اور اگر وہ کوئی بات کرے تو وہ اسے بھی سن رہا ہوتا ہے۔ لہٰذا انسان کو گناہ کے کاموں اور گناہ کی باتوں سے ہر حال میں پرہیز کرنا چاہیے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تین اور پانچ یعنی طاق اعداد کا ذکر کیا ہے۔ دو اور چار وغیرہ جفت اعداد کا ذکر نہیں کیا۔ اس سے بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ مشورہ طاق لوگوں سے لینا چاہیے۔ ایک سے تو مشورہ کیا یا لیا نہیں جاسکتا اور دو مشورہ کرنے والوں میں اگر اختلاف ہوجائے تو کچھ فیصلہ نہ ہوسکے گا۔ اور اگر تین ہوں اور دو کی رائے ایک طرف ہو تو ان کی رائے ایک سے زیادہ معتبر ہوگی اور اس سے آگے انہوں نے کثرت رائے کے مطابق فیصلہ کے اصول کو درست ثابت کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ یہ دلیل کئی لحاظ سے غلط ہے۔ ایک یہ کہ نَجْوٰی کا معنی کانا پھوسی، سرگوشی اور راز کی باتیں ایک دوسرے کو کہنا یا بتانا ہوتا ہے۔ اور یہ لفظ اکثر برے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ الا یہ کہ کوئی قرینہ موجود ہو اور یہ کانا پھوسی دو آدمیوں میں بھی ہوسکتی ہے۔ تین میں بھی اور چار میں بھی۔ دوسرے یہ کہ آیت کے الفاظ ﴿وَلَآ اَدْنٰی مِنْ ذٰلِکَ وَلَآ اَکْثَرَ ﴾ ان لوگوں کی اس دلیل کو باطل کردیتے ہیں۔ تین سے ادنیٰ دو ہے اور اکثر چار۔ پانچ سے ادنیٰ چار ہے اور اکثر چھ۔ علی ہذا القیاس تیسرے یہ کہ صرف طاق اعداد کا ذکر اہل عرب کے رواج اور حسن کلام سے تعلق رکھتا ہے اس کا مشیروں کی تعداد سے کچھ تعلق نہیں ہوتا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جہاں اصحاب کہف کی تعداد کا ذکر فرمایا تو وہاں بھی تین، پانچ یا سات کا ہی ذکر فرمایا۔ حالانکہ وہاں کوئی ایسا معاملہ نہیں جو مشورہ سے تعلق رکھتا ہو۔ المجادلة
8 [٩] منافقوں کی سرگوشیاں :۔ ان لوگوں سے مراد مدینہ کے منافق ہیں۔ جو اپنے بعض معاملات کی خاطر مسلمان تو ہوگئے تھے۔ مگر ان کی سب ہمدردیاں کافروں کے ساتھ تھیں چاہے وہ یہود مدینہ ہوں یا قریش مکہ ہوں یا دوسرے عرب قبائل ہوں جو مشرک اور اسلام کے دشمن تھے۔ ان کی کئی قسم کی حرکات قابل گرفت تھیں جن سے مسلمانوں کو سخت کوفت ہوتی تھی۔ ایک یہ کہ وہ اسلام دشمن طاقتوں سے خفیہ روابط رکھتے تھے اور مسلمانوں کی نقل و حرکت یا ارادوں سے انہیں باخبر رکھتے تھے۔ دوسرے مسلمانوں کے خلاف اور اسلام کی قوت کو کمزور کرنے کے لیے آپس میں خفیہ مجلسیں کرتے تھے۔ اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا کہ جہاں چند مسلمانوں کو دیکھا تو آپس میں کھسر پھسر اور کانا پھوسی ان کے سامنے ہی شروع کردی۔ اور اس کا مقصد محض مسلمانوں کو ذہنی کوفت پہنچانا ہوتا تھا۔ اور تیسرا کام وہ یہ کرتے تھے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو کسی مشورہ یا کام کے لیے بلاتے اور ایسی مجالس میں مسلمان کہلانے کے ناطے سے منافقوں کو بھی بادل ناخواستہ آنا پڑتا تھا۔ اسوقت وہ آپ کو زیرلب وہی سلام کہتے جو انہوں نے یہودیوں سے سیکھا تھا یعنی السلام علیک کے بجائے السام علیک کہا کرتے (یعنی تم پر موت آئے) جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ یہود اور منافقین کا آپ کو السام علیک کہنا :۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جب یہودی تمہیں سلام کہتے ہیں تو سلام کے بجائے سام (یعنی موت) کہتے ہیں۔ تو ان کے جواب میں تم فقط وعلیک کہہ دیا کرو (اور تم پر بھی)‘‘ (بخاری، کتاب الاستیذان، باب کیف یرد علٰی اھل الذمۃ السلام) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ چند یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا السام علیک۔ میں سمجھ گئی اور کہا علیکم السام واللعنۃ (یعنی تم پر موت بھی آئے اور لعنت بھی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’عائشہ! ذرا ٹھہرو! اللہ ہر کام میں نرمی کو پسند فرماتا ہے‘‘ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے سنا نہیں وہ کیا کہہ رہے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میں نے سن کر ہی انہیں وعلیکم کہا تھا۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الاستیذان۔ باب ایضاً) پھر دل میں یہ بھی سوچتے یا آپس میں تبادلہ خیالات کرتے کہ اگر یہ واقعی اللہ کا رسول ہوتا تو اس کے حق میں ہماری اس بددعا کی پاداش میں ہم پر تباہی آچکی ہوتی۔ مگر چونکہ ہماری بددعا کے باوجود ہمارا آج تک کچھ بھی نہیں بگڑا تو ہم یہ کیسے سمجھیں کہ یہ واقعی سچا رسول ہے۔ اللہ نے منافقوں کی ان سب کارروائیوں سے مسلمانوں کو مطلع کردیا اور ان کی مذمت بھی بیان فرمائی۔ لیکن تباہی نازل نہیں کی۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جبری اور اضطراری ایمان کے لیے پیدا نہیں کیا۔ البتہ انہیں مرنے کے بعد ان کے برے انجام سے مطلع فرمایا۔ المجادلة
9 [١٠] سرگوشی کی تین صورتیں اور ان کا مقام :۔ اس آیت میں عام مسلمانوں سے خطاب ہے جن میں منافقین بھی شامل ہیں۔ سرگوشی، کاناپھوسی اور کھسر پھسر سب ہم معنی الفاظ ہیں۔ اور ان کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ یہ سرگوشی، بدنیتی، برے ارادوں یا کسی ناپاک سازش پر محمول ہو۔ جیسے منافق لوگ مسلمانوں کے خلاف سرگوشیاں کیا کرتے تھے۔ یہ شیطان کی انگیخت ہوتی ہے جیسا کہ اگلی آیت میں صراحت سے مذکور ہے۔ اور یہ بالاتفاق حرام ہے۔ دوسرے یہ کہ سرگوشی بھلائی اور نیکی پر محمول ہو مثلاً دو لڑنے والوں کے درمیان سمجھوتہ کے لیے سرگوشی کی جائے یا جیسے سیدنا یوسف علیہ السلام نے جب اپنے بھائی بن یمین کو اپنے ہاں روک لیا تھا تو باقی بھائیوں نے لوگوں سے الگ تھلگ ہو کر بات چیت کی تھی۔ ایسی سرگوشی جائز ہی نہیں مستحسن ہے۔ بلکہ بعض اوقات واجب بھی ہوسکتی ہے۔ تیسرے ایسی سرگوشی جس کا تعلق صرف دو سرگوشی کرنے والوں سے ہی ہو دوسرے لوگوں سے نہ ہو۔ جیسے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے پیشتر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کی تھی۔ جس سے ایک بار تو وہ رونے لگیں اور دوسری دفعہ ہنس دیں۔ (بخاری۔ کتاب الاستیذان۔ باب من ناجی بین الناس۔۔) ایسی سرگوشی جائز ہے اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ البتہ سرگوشی کرنے کے بعد کچھ آداب ہیں جو درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتے ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب کہیں تم صرف تین آدمی ہوں تو دو آدمی تیسرے کو چھوڑ کر کانا پھوسی نہ کریں۔ اس سے اس کو رنج ہوگا۔ البتہ اگر اور بھی آدمی موجود ہوں تو پھر کوئی مضائقہ نہیں۔ (بخاری۔ کتاب الاستیذان۔ باب اذا کانوا اکثر من ثلثۃ۔۔) اور ان آداب کا اصل مدعا یہ ہے کہ کسی شخص کو رنج نہ پہنچے یا وہ کسی بدظنی میں مبتلا نہ ہوجائے۔ یعنی : ١۔ اگر صرف تین آدمی ہیں۔ تو دو آدمی تیسرے کو چھوڑ کر سرگوشی نہ کریں۔ ہاں اگر تیسرے سے اجازت لے لیں تو پھر وہ سرگوشی کرسکتے ہیں۔ اس طرح اس کی بدظنی کا امکان ختم ہوجائے گا۔ ٢۔ اگر آدمی تین سے زیادہ ہوں تو دو آدمی کانا پھوسی کرسکتے ہیں۔ مگر ایسا نہ ہو کہ آدمی چار ہوں اور تین آدمی ایک کو چھوڑ کر کاناپھوسی میں مشغول ہوجائیں۔ وقس علی ہذا ٣۔ اگر آدمی زیادہ ہوں اور دو آدمی کاناپھوسی کرنے لگیں تو ان میں سے کوئی شخص مجلس میں بیٹھے ہوئے کسی خاص شخص کی طرف اشارہ نہ کرے اور نہ اسے دیکھے۔ جس سے مشار الیہ کے دل میں خواہ مخواہ بدظنی پیدا ہوجائے۔ سرگوشی سے منافقوں کا مقصد :۔ غرض بدظنی پیدا کرنے اور رنج پہنچانے والی جتنی بھی صورتیں ممکن ہیں اس آیت کی رو سے سب حرام ہیں اور منافقوں کا تو کام ہی یہ ہوتا تھا کہ جہاں کہیں مسلمانوں کے ساتھ اکٹھ ہوتا تو ناپاک قسم کی کھسر پھسر شروع کردیتے تھے۔ مثلاً جہاد پر روانگی کے وقت یہ کھسر پھسر شروع کردیتے کہ ’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب جہاد پر روانہ والے ان مسلمانوں میں کوئی بھی بچ کر واپس نہ آئے گا۔ معلوم نہیں یہ لوگ کون سے سنہرے خواب دیکھ رہے ہیں‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ المجادلة
10 [ ا ١] منافقوں کی ان سرگوشیوں سے غرض ہی یہ ہوتی تھی کہ مسلمان رنجیدہ اور دلگیر ہوں اور گھبرا جائیں۔ اور یہ کام ان سے شیطان کرا رہا تھا۔ مگر مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ شیطان ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا اور نہ ہی اس کے یہ چیلے کچھ بگاڑ سکتے ہیں۔ نفع و نقصان تو صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے لہٰذا انہیں صرف اللہ پر اعتماد رکھنا چاہیے اور منافقوں کی ان ناپاک سرگوشیوں کی پروا تک نہ کرنی چاہیے۔ یہ اعتماد ان کے دل میں ایسی قوت پیدا کر دے گا کہ بہت سے فضول خطروں اور خیالی اندیشوں سے نجات مل جائے گی۔ انہیں چاہیے کہ منافقوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ غلط کار لوگوں کے مقابلے میں آپے سے باہر نہ ہوں اور اطمینان و سکون کے ساتھ اپنے کام میں لگے رہیں۔ المجادلة
11 [١٢] آداب مجلس :۔ کسی مجلس یا اجتماع میں دو یا چند آدمیوں کا الگ ہو کر کانا پھوسی کرنا بھی آداب مجلس کے خلاف ہے۔ اسی نسبت سے اس آیت میں چند مزید آداب مجلس کا خیال رکھنے کا مسلمانوں کو حکم دیا جارہا ہے اس سلسلہ میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے۔ ١۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’کوئی شخص دوسرے کو اٹھا کر وہاں خود نہ بیٹھے۔ نیز فرمایا کہ (جب جگہ تنگ ہو تو) کھل کر نہ بیٹھو اور آنے والوں کو جگہ دو۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الاستیذان۔ باب اذا قیل لکم تفسحوا فی المجالس) ٢۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو جمعہ کے دن اس کی جگہ سے اٹھا کر خود وہاں نہ بیٹھے بلکہ یوں کہے کہ پھیل جاؤ۔ (مسلم۔ کتاب السلام۔ باب من اتٰی مجلسا فوجد فرجۃ فیجلس۔۔) ٣۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم میں سے کوئی شخص جب (کسی ضرورت کے لیے) اپنی جگہ سے اٹھے پھر واپس آئے تو وہ اس جگہ کا زیادہ حقدار ہے‘‘ (مسلم۔ کتاب السلام۔ باب اذاقام من مجلسہ ثم عاد الیہ فھواحق بہ) [١٣] یعنی اللہ تمہاری دل کی تنگیوں اور مادی تنگیوں کو دور کردے گا اور اپنی رحمت کے دروازے کشادہ کردے گا۔ [١٤] اس آیت، مذکورہ بالا احادیث اور بعض دیگر نصوص سے جو آداب مجلس مسلمانوں کو سکھائے گئے ہیں وہ درج ذیل ہیں :۔ ١۔ مجلس میں پہنچ کر اہل مجلس کو سلام کہا جائے۔ ٢۔ پھر جہاں جگہ ملے وہیں بیٹھ جانا چاہیے۔ دوسروں کو تنگ نہ کرنا چاہیے۔ نہ اس بات میں اپنی ہتک محسوس کرنا چاہیے۔ ٣۔ اہل مجلس جب دیکھیں کہ جگہ تنگ ہو رہی ہے اور نئے آنے والوں کو جگہ نہیں مل رہی تو انہیں مجلس کا حلقہ وسیع کرلینا چاہیے۔ یا اگر جمعہ وغیرہ کا اجتماع ہو تو سکڑ کر اور سمٹ کر بیٹھ جانا چاہیے۔ تاکہ آنے والوں کے لیے جگہ بن جائے۔ ٤۔ ہر مسلمان کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ مجلس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہو کر بیٹھے یا جیسے خطبہ جمعہ میں اکثر لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ امام کے قریب ہو کر بیٹھیں۔ تو ایسی صورت میں کسی کے لئے، خواہ وہ عزت اور مرتبہ میں بڑا ہو، یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ خود بیٹھ جائے۔ ٥۔ حفظ مراتب کا بھی ایک مقام ہے۔ اگر کوئی چھوٹا کسی بڑے کو آتے دیکھ کر از راہ تواضع اور آنے والے کا احترام کرتے ہوئے اپنی جگہ اس کے لیے چھوڑ کر خود پیچھے ہٹ جائے تو یہ چیز چھوٹے کی عزت اور درجات کی بلندی کا سبب بن جائے گی۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں اکثر ایسا ہوتا تھا۔ ٦۔ اگر کوئی شخص مثلاً خطبہ جمعہ میں وضو ٹوٹ جانے یا کسی اور وجہ سے اپنی جگہ سے اٹھ جاتا ہے اور وضو کرکے واپس آتا ہے تو کوئی دوسرا اس کی جگہ پر قبضہ نہ جمالے۔ بلکہ پہلا شخص ہی اس جگہ کا زیادہ حقدار ہے۔ ٧۔ اگر میر مجلس' مجلس کو برخاست کرنے اور چلنے جانے کا حکم دے یا کسی ایک شخص کو کسی مصلحت کی بنا پر چلے جانے کو کہے تو اسے اس حکم میں نہ عار محسوس کرنی چاہیے اور نہ اسے اس کی تعمیل میں اپنی توہین یا ہتک محسوس کرنا چاہیے۔ ٨۔ اگر کھانا کھانے کی مجلس ہو تو کھانے سے فراغت کے بعد باتوں میں مشغول ہو کر میزبان کو پریشان اور تنگ نہ کرنا چاہیے بلکہ فراغت کے بعد جلد اجازت لے کر رخصت ہوجانا چاہیے۔ [١٥] مجالس میں نظم وضبط :۔ یہ نہ سمجھو کہ مجلس میں دوسروں کو جگہ دینے کی خاطر اگر تم میر مجلس سے کچھ دور جا بیٹھے تو تمہارا درجہ گرگیا یا اگر تمہیں اٹھ کر چلے جانے کے لیے کہا گیا تو اس میں تمہاری توہین ہوگئی۔ رفع درجات کا اصل مقصد ایمان اور علم ہے نہ یہ کہ کون میر مجلس کے قریب بیٹھا ہے اور کون اس سے دور ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ احکام یا آداب مجلس صرف دور نبوی کی مجالس سے ہی مختص نہیں بلکہ آج بھی ان پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔ تاکہ نظم و ضبط قائم رہے اور ہر ایک کو درجہ بدرجہ استفادہ کا موقع ملے۔ اسلام ابتری کے بجائے انتہائی نظم اور شائستگی سکھاتا ہے۔ پھر جب عام مجالس کے متعلق نظم و ضبط کے ایسے احکام ہیں تو میدان جہاد اور صفوف جنگ میں تو اس سے بڑھ کر نظم و ضبط اور امیر کی اطاعت ضروری ہوتی ہے۔ المجادلة
12 [١٦] آپ سے سرگوشی کرنے پر صدقہ کی عارضی پابندی اور اس کے فوائد :۔ بعض منافقوں کی یہ عادت تھی کہ محض اپنی شخصیت کو نمایاں کرنے اور بڑائی جتانے کی خاطر آپ سے سرگوشی شروع کردیتے اور بے کار باتوں میں آپ کا اتنا وقت ضائع کردیتے تھے جس سے دوسروں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفادہ کا وقت نہ ملتا تھا۔ یا کسی وقت آپ خلوت چاہتے تو آپ کو ایسا موقع میسر نہ آتا تھا۔ پھر منافقوں کی دیکھا دیکھی کچھ مسلمان بھی ایسا کرنے لگے تھے اور آپ ہر ایک کی بات سننے کو تیار ہوجاتے اور مروت اور اخلاق کی وجہ سے کسی کو منع نہ فرماتے اس سے کئی قسم کے نقصان ہو رہے تھے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے خود ایسی آزادی پر پابندی لگا دی اور فرمایا کہ جو شخص آپ سے سرگوشی کرنا چاہے وہ کچھ نہ کچھ پہلے صدقہ کرے۔ تب اسے سرگوشی کی اجازت ہوگی اور اس حکم میں بہت سے فائدے تھے۔ مثلاً محتاجوں کی خدمت، صدقہ کرنے والے کے نفس کا تزکیہ، کسی کو بدظنی پیدا نہ ہونا، مخلص اور منافق کی تمیز اور سرگوشی کرنے والوں کی تعداد میں کمی واقع ہونا۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس حکم میں استثناء صرف یہ تھا کہ اگر فی الواقع کوئی شخص انتہائی نادار ہو اور اسے سرگوشی کی ضرورت بھی حقیقی ہو تو وہ صدقہ دیئے بغیر آپ سے سرگوشی کرسکتا ہے اس حکم سے منافقوں نے اپنے طبعی بخل کی وجہ سے یہ عادت چھوڑ دی۔ اور مسلمان بھی سمجھ گئے کہ زیادہ سرگوشی کرنا اللہ کو پسند نہیں اور اس کے کیا کچھ نقصانات ہیں۔ المجادلة
13 [١٧] آپ سے سرگوشی کی عام اجازت کے نقصانات :۔ اس حکم سے بہت جلد وہ مقاصد حاصل ہوگئے۔ جن کی بنا پر یہ حکم دیا گیا تھا۔ یہ حکم اس وقت نازل ہوا جب عرب بھر کے کفار مسلمانوں کی دشمنی پر اتر آئے تھے۔ اگر کوئی شخص آپ سے سرگوشی کرتا۔ تو فوراً منافق یہ مشہور کردیتے کہ یہ شخص فلاں قبیلے کے مدینہ پر حملہ کی تیاریوں کی خبر لایا تھا۔ پھر ایسی افواہیں بہت جلد مدینہ میں گشت کرنے لگتیں اور ایک ہراس سا پھیل جاتا۔ اس کا دوسرا نقصان یہ تھا کہ خواہ مخواہ بدظنی کے احتمال پیدا ہوجاتے تھے اور تیسرا اور سب سے بڑا نقصان یہ تھا کہ لوگ معمولی اور بے کار قسم کی باتوں میں آپ کا قیمتی وقت ضائع کرتے رہتے تھے۔ سرگوشیاں کرنے والے اکثر چوہدری ٹائپ کے مالدار منافق ہی ہوا کرتے تھے۔ صدقہ کے حکم کے بعد منافقین تو بخل کی وجہ سے رک گئے اور مسلمان ویسے ہی سنبھل گئے۔ یہ حکم زیادہ سے زیادہ دس دن تک بحال رہا اور اس پر صرف سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک بار عمل کیا۔ صدقہ کی پابندی کا خاتمہ :۔ جب مندرجہ بالا مقاصد حاصل ہوگئے تو اللہ نے اس حکم کو منسوخ فرما دیا۔ اور ساتھ ہی مسلمانوں کو تاکید کی گئی کہ نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا پورا پورا خیال رکھیں اور اللہ اور اس کے رسول کی سچے دل سے اطاعت بجالائیں اور ایسا کوئی کام نہ کریں جو ان کی منشا کے خلاف ہو۔ المجادلة
14 [١٨] منافقوں کی یہود سے ملی بھگت :۔''ان لوگوں سے'' سے مراد مدینہ کے منافق ہیں اور مغضوب علیہ قوم سے مراد مدینہ کے یہودی ہیں۔ منافقوں کی اصل دوستی اور ہمدردی یہودیوں سے تھی۔ کیونکہ اندر سے منافق بھی مسلمانوں کے ایسے ہی دشمن تھے جیسے یہودی۔ اسی اسلام دشمنی کی مشترک قدر نے ان دونوں کو دوستی کے رشتہ میں منسلک کردیا تھا۔ ان دونوں میں بدتر حالت منافقوں کی تھی جن کے زبانی دعویٰ ایمان پر مسلمانوں کا اعتبار اٹھ چکا تھا۔ چونکہ یہ لوگ اسلام کے دعویٰ کی وجہ سے مسلمانوں سے کئی قسم کے مفادات حاصل کر رہے تھے۔ لہٰذا مسلمانوں میں انہیں اپنا اعتماد بحال رکھنے کے لیے جھوٹی قسمیں بھی کھانا پڑتی تھیں۔ مگر ان کی کرتوتیں چونکہ ان کے دعویٰ اور قسموں کی تکذیب کردیتی تھیں۔ اس لیے ان پر نہ مسلمان اعتماد کرتے تھے اور نہ یہودی۔ ان کی حالت دھوبی کے کتے جیسی ہوگئی تھی جو نہ گھر کا شمار ہوتا ہے اور نہ گھاٹ کا۔ [١٩] یہودیوں کے سامنے یہ قسمیں کھاتے ہیں کہ ہم دل و جان سے تمہارے ساتھ ہیں اور تمہارے دکھ درد میں شریک ہیں اور مسلمانوں کو تو ہم نے محض اُلّو بنا رکھا ہے۔ اور مسلمانوں کے سامنے وہ یہ قسمیں کھاتے ہیں کہ ہم سچے دل سے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاچکے ہیں اور ان کے اطاعت گزار اور فرمانبردار ہیں۔ المجادلة
15 المجادلة
16 [٢٠] یعنی ایک طرف تو منافق مسلمانوں کے سامنے اپنے مسلمان ہونے کی قسمیں کھا کر ان کی گرفت سے محفوظ رہتے ہیں اور ان کے جان اور مال محفوظ ہوجاتے ہیں اور دوسری طرف وہ اسلام، اہل اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف ہر طرح کے شکوک و شبہات اور وسوسے لوگوں کے دلوں میں پیدا کرتے رہتے ہیں تاکہ لوگ یہ سمجھ کر اسلام قبول کرنے سے باز رہیں کہ جب گھر کے بھیدی ایسی خبریں دے رہے ہیں تو ضرور دال میں کچھ کالا ہوگا۔ المجادلة
17 المجادلة
18 [٢١] منافقوں کی قسمیں کھانے کی پختہ عادت :۔ قسمیں اٹھانے کی عادت صرف اس شخص کی ہوتی ہے جو ہر وقت جھوٹ بولتا ہو اور لوگوں میں اپنا اعتماد کھو چکا ہو۔ سچے اور راست باز انسان کو کبھی قسم اٹھانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ لوگ اس کی بات پر ویسے ہی اعتماد کرلیتے ہیں اور ان منافقوں کی یہ حالت اور قسمیں کھانے کی عادت اس قدر پختہ ہوچکی ہے کہ مرنے کے بعد اللہ کے حضور پیش ہو کر بھی قسمیں کھانا شروع کردیں گے اور یہ بھی نہ سوچیں گے کہ جب مسلمانوں کو بھی ان کی قسموں پر اعتماد نہ تھا تو اللہ کیسے اعتماد کرلے گا جو دلوں کے راز تک جانتا ہے۔ المجادلة
19 [٢٢] استحوذ کا لغوی مفہوم :۔ إسْتَحْوَذَ۔ حَاذ بمعنی سختی کے ساتھ ہانکنا اور حاذ الدَّابَۃُ بمعنی جانور کو تیزی سے چلانا اور اِسْتَحْوَذَ کے معنی کسی پر مسلط ہو کر اسے سختی سے ہانکنا ہے۔ کہتے ہیں استحوذ العیر علی الاتان یعنی گدھے کا گدھی کی پشت پر چڑھ کر اسے دونوں جانب سے دبا لینا ہے (مفردات) یعنی شیطان نے ان منافقوں پر مسلط ہو کر انہیں کچھ اس طرح سے جکڑ رکھا ہے کہ انہیں اللہ کبھی بھولے سے بھی یاد نہیں آتا اور وہ اسی کے آلہ کار بن کر رہ گئے ہیں۔ [٢٣] اسلامی نقطہ نظر سے سیاسی پارٹیاں صرف دو ہو سکتی ہے ایک حزب اللہ دوسری حزب الشیطان :۔ حِزْبٌ بمعنی پارٹی، گروہ جتھا، جن کے خیالات میں ہم آہنگی نیز سختی اور شدت پائی جائے۔ گویا حزب کا لفظ سیاسی پارٹی، فوج اور لشکر کے معنوں میں آسکتا ہے۔ جس کا مقصد مملکت میں عمل دخل حاصل کرنا ہو۔ غزوہ احزاب میں ایسی ہی پارٹیاں اسلام کے خلاف متحد ہوگئی تھیں۔ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ منافق شیطان کی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ شرعی نقطہ نگاہ سے صرف دو ہی سیاسی پارٹیاں ہوسکتی ہیں۔ ایک اللہ کے فرمانبرداروں کی پارٹی جسے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے حزب اللہ کے نام سے موسوم فرمایا۔ اور دوسرے شیطان کی پارٹی جیسا کہ اس آیت میں مذکور ہے۔ اسلام دشمن جتنی بھی طاقتیں ہیں۔ وہ سب حزب الشیطان یعنی شیطان کی پارٹی میں شامل ہیں اور اسی پارٹی کے افراد کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مثلاً جنگ احزاب میں مشرکین مکہ، یہود مدینہ، منافقین اور عرب کے دیگر مشرک قبائل سب شامل تھے۔ ان میں سے ایک ایک گروہ بھی شیطان کی پارٹی ہے اور سب مل کر بھی شیطان کی بڑی پارٹی بن جاتی ہے۔ [٢٤] جنگ احزاب میں شامل تمام پارٹیوں میں قدر مشترک صرف اسلام دشمنی اور اللہ کے رسول کی مخالفت تھی۔ اگرچہ ان سب کی سرگرمیاں اور طریق کار الگ الگ نوعیت کے تھے۔ یہ لوگ چونکہ حق اور اللہ کی پارٹی کے مقابلہ میں سامنے آئے تھے تو ضروری تھا کہ اللہ بھی اپنی پارٹی کی مدد اور حمایت کرتا۔ چنانچہ اللہ نے اس انداز سے اپنی پارٹی کی مدد فرمائی کہ شیطان کی پارٹی ہر لحاظ سے خسارہ میں رہی ان کا مال بھی ضائع ہوا۔ محنت' مشقت سفر بھی اور بالآخر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور فرار کے سوا انہیں اپنی عافیت کی کوئی صورت نظر نہ آئی۔ یہ تو انجام دنیا میں ہوا اور آخرت میں اس سے بھی زیادہ خسارہ اور برے انجام سے دو چار ہوں گے۔ واضح رہے کہ دنیا میں شیطان کی پارٹی کا یہ انجام فقط غزوہ احزاب یا دوسرے غزوات تک ہی مختص نہیں بلکہ حق کے مقابلہ پر آنے والی ہر پارٹی کا یہی حشر ہوتا ہے۔ بشرطیکہ مقابلہ میں لوگ صحیح معنوں میں مسلمان ہوں۔ المجادلة
20 المجادلة
21 [٢٥] اہل حق کا غلبہ کن کن معنوں میں ہوتا ہے؟ :۔ غالب رہنے سے مراد صرف سیاسی غلبہ نہیں بلکہ یہ صرف اس غلبہ کا ایک پہلو ہے اور یہ بھی بسا اوقات اللہ کی پارٹی کو حاصل ہوجاتا ہے اور کبھی نہیں بھی ہوتا۔ اور جو یقینی غلبہ ہے اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ کی پارٹی کا اخلاقی تفوق بہرحال ایک مسلمہ امر ہے۔ راست بازی اور مکروفریب سے اجتناب اس پارٹی کے زریں اصول ہیں۔ جنہیں ہر قسم کے لوگ دل سے پسند کرتے ہیں۔ دوسرا پہلو نظریات کا استقلال اور غلبہ ہے۔ باطل نظریات ہر دور میں نئے نئے بنتے بگڑتے اور آپ ہی اپنی موت مرتے رہتے ہیں۔ جبکہ اللہ کی پارٹی کے نظریات و عقائد سیدنا آدم سے لے کر آج تک بدستور قائم اور برقرار رہے ہیں اور آئندہ بھی تاقیامت برقرار رہیں گے۔ المجادلة
22 [٢٦] کافروں سے دوستی رکھنا بھی کفر ہے :۔ یعنی اللہ اور آخرت پر ایمان کا دعویٰ اور اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت دو متضاد باتیں ہیں جو ایک دل میں کبھی جمع نہیں ہوسکتیں جیسے دن اور رات یا روشنی اور تاریکی ایک ہی وقت میں جمع نہیں ہوسکتے۔ لیکن منافقوں کی فریب کاری یہ ہے کہ وہ دونوں کام بیک وقت کر رہے ہیں۔ ان دونوں میں سے ایک ہی بات درست ہوسکتی ہے۔ اگر وہ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں تو وہ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے دوستی رکھ ہی نہیں سکتے۔ اور اگر دوستی رکھتے ہیں تو کبھی ایماندار نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ اصول یہ ہے کہ دشمن کا دوست بھی دشمن ہی ہوتا ہے۔ پھر اللہ کے دشمنوں سے ایک ایماندار کیسے دوستی رکھ سکتا ہے؟ [٢٧] جنگ کے دوران کافر اقرباء سے مسلمانوں کا سلوک :۔ یہ آیت ان صحابہ کی شان میں نازل ہوئی جنہوں نے اللہ کے اس ارشاد پر عمل کرکے دنیا کے سامنے اس کا عملی نمونہ پیش کیا تھا۔ غزوہ احد میں سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ نے اپنے بھائی عبید بن عمیر کو قتل کیا۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ 'سیدنا حمزہ اور عبیدہ بن الحارث نے علی الترتیب عتبہ، شیبہ اور ولید بن عتبہ کو قتل کیا۔ ایک دفعہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبدالرحمن رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے کہنے لگے کہ ابا جان! آپ جنگ میں عین میری تلوار کی زد میں تھے مگر میں نے باپ سمجھ کر چھوڑ دیا تھا۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : بیٹا اگر تم میری تلوار کی زد میں آجاتے تو میں تمہیں کبھی نہ چھوڑتا۔ غزوہ احد کے قیدیوں کے متعلق مشورہ ہوا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ مشورہ دیا کہ ہر آدمی اپنے قریبی رشتہ دار کو قتل کرکے موت کے گھاٹ اتار دے۔ غزوہ بنی مصطلق سے واپسی پر عبداللہ بن ابی منافق نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ناجائز کلمات کہے تو ان کے بیٹے جن کا نام بھی عبداللہ ہی تھا اور سچے مومن تھے، آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے۔ اگر آپ حکم فرمائیں تو میں اپنے باپ کا سر کاٹ کر آپ کے قدموں میں لا رکھوں۔ لیکن آپ نے اپنی طبعی رحم دلی کی بنا پر عبداللہ کو ایسا کرنے سے منع فرما دیا۔ غرضیکہ سچے ایمانداروں کی تو شان ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے مقابلہ میں کسی قریبی سے قریبی رشتہ دار حتیٰ کہ اپنی جان تک کی پروا نہیں کرتے۔ [٢٨] یعنی ایسے لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے روح پھونک کر ان کی قوت ایمانی کو کئی گنا زیادہ طاقتور بنا دیا ہے۔ نیز روح سے مراد روح القدس یا جبریل علیہ السلام بھی ہوسکتے ہیں جو صرف جنگ کے دوران ہی نازل ہو کر مسلمانوں کی قوت ایمانی کو نہیں بڑھاتے بلکہ کوئی بھی اہم معاملہ ہو تو مومنوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی تائید حاصل ہوجاتی ہے۔ کفار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی تو سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اس ہجو کا جواب دیا۔ سیدنا حسان رضی اللہ عنہ کے یہ اشعار سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مشرکوں کی ہجو کر' جبریل علیہ السلام تیرے ساتھ ہیں۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب مرجع النبی من الاحزاب۔۔) اور مسلم کے الفاظ یہ ہیں :’’یا اللہ! حسان کی روح القدس سے مدد فرما‘‘ (مسلم۔ کتاب الفضائل۔ باب فضائل حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ) [٢٩] صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد قرآن میں بعض دیگر مقامات پر بھی مذکور ہے۔ جس سے ان کی انتہائی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ اس کے باوجود جو لوگ ان کے ایمان میں شک کرتے ہیں یا انکار کرتے ہیں۔ انہیں اپنے ایمان کی خیر منانی چاہیے۔ المجادلة
0 الحشر
1 الحشر
2 [١] مدینہ کے تینوں یہودی قبائل کا تعارف :۔ ان آیات میں غزوہ بنو نضیر کا مجملاً ذکر آیا ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ جس وقت آپ مدینہ تشریف لائے اس وقت یہود کے تین قبائل مدینہ میں آباد تھے۔ بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ۔ بنو قینقاع مدینہ کے اندر آباد تھے۔ زرگری یا سنار کا کام کرتے تھے۔ قبیلہ خزرج کے حلیف تھے۔ اور نسبتاً زیادہ مالدار تھے۔ اور بنو نضیر اور بنو قریظہ انصار کے قبیلہ اوس کے حلیف تھے۔ ان کا کام یہ تھا کہ اوس و خزرج کو ہمیشہ برسرپیکار رکھتے اور اس طرح پورے مدینہ پر اپنا سیاسی تفوق برقرار رکھتے تھے اور چونکہ یہ سب قبائل مالدار اور سود خور بھی تھے لہٰذا معاشی لحاظ سے بھی انہیں کافی اہمیت حاصل تھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو پہلے مسلمانوں کے داخلی مسائل حل فرمائے۔ سب سے پہلا مسئلہ مسجد نبوی کی تعمیر کا تھا اور دوسرا مہاجرین کو آباد کرنا اور معاش کا مسئلہ جسے آپ نے مواخات کے ذریعہ حل فرمایا۔ تیسرا مسئلہ مسلمانوں کے باہمی حقوق و فرائض کی تعیین کا تھا۔ ان مسائل سے فراغت کے بعد یہود کے ساتھ جو مسلمانوں کے سب قریبی ہمسائے تھے' معاہدہ کی باری آئی تاکہ مدینہ میں امن و امان کی فضا کو برقرار رکھا جاسکے۔ یہ معاہدہ بنیادی اہمیت کا حامل تھا اور اس کی دفعات یہ تھیں : میثاق مدینہ کی دفعات :۔ ١۔ یہود مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایک ہی امت ہوں گے۔ یہود اپنے دین پر عمل پیرا ہوں گے اور مسلمان اپنے دین پر 'کوئی ایک دوسرے سے مزاحم نہ ہوگا۔ ٢۔ اس معاہدہ کے شرکاء کے باہمی تعلقات خیرخواہی اور فائدہ رسانی کی بنیاد پر ہوں گے نہ کہ گناہ پر۔ ٣۔ اگر کوئی بیرونی طاقت مدینہ پر حملہ آور ہو تو سب مل کر اس کا دفاع کریں گے۔ ٤۔ جب تک جنگ برپا رہے گی یہود بھی مسلمانوں کے ساتھ خرچ برداشت کریں گے اور ہر فریق اپنے اپنے اطراف کا دفاع کرے گا۔ ٥۔ قریش اور ان کے مددگاروں کو پناہ نہیں دی جائے گی۔ ٦۔ مظلوم کی مدد کی جائے گی۔ یہ معاہدہ کسی ظالم یا مجرم کے لیے آڑ نہیں بنے گا۔ ٧۔ کوئی آدمی اپنے حلیف کی وجہ سے مجرم نہ ٹھہرے گا۔ ٨۔ اس معاہدے کے سارے شرکاء پر مدینہ میں ہنگامہ آرائی اور کشت و خون حرام ہوگا۔ ٩۔ اس معاہدہ کے فریقوں میں اگر کوئی جھگڑا ہوجائے تو اس کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کریں گے۔ یہی معاہدہ مدینہ میں ایک آزاد اسلامی ریاست کی بنیاد ثابت ہوا جس کی رو سے مدینہ اور اس کے اطراف ایک وفاقی حکومت بن گئے۔ جس کا سربراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلیم کرلیا گیا تھا۔ یہاں ایک نہایت اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہود تو اسلام اور پیغمبر اسلام کے دشمن تھے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بالادستی کو کیوں اور کیسے تسلیم کرلیا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مدینہ کی اکثر آبادی یہود کی مکاریوں اور چیرہ دستیوں سے سخت نالاں تھی۔ مگر انہیں کوئی ایسا بااثر آدمی نظر نہیں آرہا تھا جو ان کی باہمی عداوتوں کو ختم کرکے شیروشکر کردے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں مدینہ والوں کو اپنی منزل مقصود نظر آئی لہٰذا وہ اسلام لاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مل گئے اور یہود ایک کمزور اقلیت کی حیثیت سے ثانوی سطح پر آگئے۔ اس کی دوسری وجہ یہ تھی کہ یہود خود تین قبائل میں بٹے ہوئے تھے۔ انہوں نے بیک وقت اس معاہدہ کو قبول نہیں کیا بلکہ یکے بعد دیگرے جوں جوں حالات کے سامنے مجبور ہوتے گئے یہ معاہدہ تسلیم کرتے گئے۔ اس معاہدہ میں چونکہ ہر شخص کو مذہبی آزادی اور ہر ایک کے بنیادی حقوق کو انصاف کے ساتھ تسلیم کیا گیا تھا لہٰذا یہود کے لیے یہ معاہدہ تسلیم کرلینے کے علاوہ کوئی چارہ کار بھی نہ رہا تھا۔ یہودی قبائل سے امن کے معاہدے :۔ مگر یہودی قبائل نے اس معاہدہ کو دل سے کبھی تسلیم نہ کیا۔ ہر وقت مسلمانوں سے چھیڑ چھاڑ اور خباثتیں کرتے رہتے تھے۔ منافقوں اور یہودیوں کی آپس میں مسلمانوں کے خلاف سازباز رہتی تھی۔ جب جنگ بدر میں اللہ نے مسلمانوں کوشاندار فتح عطا کی تو یہ دونوں فریق جل بھن گئے۔ یہود میں سے بنو قینقاع شرارتوں میں پیش پیش تھے۔ جنگ بدر کے بعد آپ نے ان کو بازار قینقاع میں جمع کیا اور فرمایا کہ ’’شرارتیں چھوڑ دو اور اس سے پیشتر کہ تمہیں ویسی ہی مار پڑے جیسی قریش کو پڑچکی ہے۔ اسلام قبول کر لو‘‘ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! تمہارا سابقہ قریش کے اناڑی لوگوں سے پڑا اور تم نے میدان مار لیا۔ لہٰذا کسی خوش فہمی میں مبتلا نہ ہوجانا ہم سے سابقہ پڑا تو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوجائے گا۔ یہودیوں کا یہ جواب دراصل اعلان جنگ کے مترادف تھا پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر ہی کیا۔ بنوقینقاع کی شرارت' بلوہ اور محاصرہ :۔ مگر چند ہی دن بعد ایک سنار یہودی نے ایک مسلمان عورت سے چھیڑ چھاڑ کی اور اسے ننگا کردیا۔ عورت نے چیخ و پکار کی تو ایک مسلمان نے اس یہودی کو مار ڈالا پھر یہودیوں نے اس مسلمان پر حملہ کرکے اسے مار ڈالا۔ اب مقتول مسلمان کے گھر والوں نے یہود کے خلاف مسلمانوں سے فریاد کی۔ نتیجتاً مسلمانوں اور بنو قینقاع میں بلوہ ہوگیا۔ بنوقینقاع کی جلاوطنی :۔ یہ صورت حال دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال ٢ ہجری میں ایک لشکر تیار کیا اور بنوقینقاع کے ہاں جا پہنچے۔ شیخیاں بگھارنے والے یہود کو سامنے آکر لڑنے کی جرأت ہی نہ ہوئی اور فوراً قلعہ بند ہوگئے۔ پندرہ دن تک محاصرہ جاری رہا۔ اور وہ ایسے مرعوب ہوئے کہ یہ کہہ کر ہتھیار ڈال دیئے کہ ہمارے جان و مال اور اولاد کے متعلق جو فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے وہ ہمیں منظور ہوگا۔ آپ نے انہیں قید کرنے کا حکم دیا۔ بعد میں منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی، جو اندر سے یہود کا بڑا ہمدرد اور حلیف تھا، کی پر زور سفارش کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر رحم کیا۔ انہیں صرف جلاوطن کیا گیا۔ یہ قبیلہ شام کی طرف چلا گیا یہ کل سات سو اشخاص تھے جن میں سے تین سو زرہ پوش تھے۔ یہ قبیلہ سب سے زیادہ مالدار تھا۔ مدینہ کے اندر آباد تھا۔ سب سے پہلے اسے جلا وطن کیا گیا۔ ان کی جلاوطنی کا ذکر قرآن میں نہیں ہے۔ آپ کا بنو نضیر سے دیت میں حصہ کا مطالبہ کرنا :۔ بنوقینقاع کے اخراج کے بعد یہودی کچھ عرصہ کے لیے دبک گئے تھے۔ جنگ احد میں مسلمانوں کو جو نقصان پہنچا اس سے انہیں از حد مسرت ہوئی پھر واقعہ رجیع اور بئرمعونہ نے یہود کو سرکشی کی حد تک دلیر بنا دیا۔ انہی دنوں ایک واقعہ پیش آیا۔ سیدنا عمرو بن امیہ ضمری نے جو بئر معونہ کے حادثہ میں بچ نکلے تھے، دوران سفر بنو کلاب کے دو آدمیوں کو دشمن سمجھ کر قتل کردیا۔ حالانکہ وہ معاہد لوگ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس واقعہ کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اب ہمیں لازماً ان دونوں کی دیت ادا کرنا پڑے گی۔ ابتدائی معاہدہ کی رو سے یہود بھی اس دیت کی رقم کی ادائیگی میں برابر کے حصہ دار تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چند صحابہ کے ہمراہ بنونضیر کے ہاں گئے اور مصارف کا مطالبہ کیا۔ آپ کے قتل کی یہودی سازش :۔ یہود نے رقم اکٹھی کرنے کے بہانے آپ کو ایک علیحدہ مکان میں بٹھایا پھر علیحدہ ہو کر آپ کو ایک گھناؤنی سازش کے ذریعہ مار ڈالنے کا منصوبہ بنایا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ یہود میں سے ایک شخص نے کہا : کون ہے جو چھت پر چڑھ کر اوپر سے چکی کا پاٹ گرا کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کچل دے۔ ایک بدبخت یہودی عمروبن جحاش بولا ’’میں یہ کام کروں گا‘‘ یہود کے ایک عالم سلام بن مشکم نے کہا : ایسا نہ کرو۔ واللہ اسے وحی کے ذریعہ تمہارے ارادہ کا علم ہوجائے گا۔ علاوہ ازیں معاہدہ کی رو سے بھی ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ لیکن شریر یہودیوں نے سلام بن مشکم کی بات کو چنداں اہمیت نہ دی اور اپنی اس ناپاک سازش کی تکمیل پر اور زیادہ مصر ہوگئے۔ آپ کو اس سازش کا وحی سے علم ہونا :۔ عین اسی وقت اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی یہود کے اس ارادہ کی خبر دے دی۔ آپ تیزی سے اٹھے اور مدینہ کی طرف چل دیئے۔ بعد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اٹھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو صحیح صورت حال سے مطلع کردیا۔ یہود کی یہی غداری بنونضیر کی تباہی کا سبب بن گئی۔ جس کا ذکر ان آیات میں کیا جارہا ہے۔ [٢] یہود کی جلاوطنی کا حکم :۔ واپس مدینہ پہنچتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کی زبانی بنونضیر کو پیغام بھیج دیا کہ ’’اب تم ہمارے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ لہٰذا دس دن کے اندر اندر یہاں سے نکل جاؤ۔ جو سامان تم اپنے ساتھ لے جاسکو تمہیں اس کی اجازت ہے۔ دس دن کے بعد جو شخص یہاں نظر آیا اسے قتل کردیا جائے گا۔‘‘ یہ بدعہد اور شرارتی قوم اس قدر بزدل نکلی کہ آپ کے اس پیغام سے دہشت زدہ ہوگئی اور اپنے گھر بار چھوڑ کر وہاں سے نکل جانے کی تیاریاں کرنے لگی۔ حالانکہ مسلمانوں کو یہ خیال تک نہ تھا کہ یہ مسلح اور جنگجو کہلانے والی قوم صرف ایک پیغام پر ہی ہتھیار ڈال دے گی اور جلاوطنی پر آمادہ ہوجائے گی۔ [٣] عبداللہ بن ابی کی شہ پر رک جانا :۔ جب یہود جانے کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے تو ان کے ہمراز اور ہمدرد عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین نے انہیں پیغام بھیجا کہ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں اپنی جگہ پر برقرار رہو اور ڈٹ جاؤ۔ میرے پاس دو ہزار مسلح آدمی ہیں۔ جو آپ کے قلعوں میں داخل ہو کر تمہاری حفاظت میں اپنی جانیں دے دیں گے۔ علاوہ ازیں بنو قریظہ اور بنو غطفان بھی تمہارے حلیف ہیں۔ وہ بھی تمہاری مدد کریں گے۔ اور اگر تمہیں نکالا بھی گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ نکل جائیں گے۔ رئیس المنافقین کے اس جانفزا پیغام سے یہود کی جان میں جان آگئی۔ ان کے موقعہ شناس سردار حیی بن اخطب کی آنکھیں چمک اٹھیں اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام بھیج دیا کہ ہم یہاں سے نہیں نکلیں گے تم سے جو بن پڑتا ہے کرلو۔ اگرچہ مسلمان ان دنوں سخت زخم خوردہ تھے۔ جنگ احد میں ستر مردان کار شہید ہوچکے تھے۔ پھر واقعہ رجیع اور بئرمعونہ کے صدمے بھی برداشت کرنا پڑے۔ یہودیوں کے قتل کی سازش اور عبداللہ بن ابی کی ان سے پوری طرح گٹھ جوڑ، گھر کے اندر اور باہر ہر طرف دشمن ہی دشمن' حالات چنداں سازگار نہ تھے۔ مگر اب یہودیوں کا چیلنج قبول کرنے کے بغیر کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ بنو نضیر کا محاصرہ :۔ اللہ کا نام لے کر نکل کھڑے ہوئے اور جاکر بنونضیر کا محاصرہ کرلیا۔ اس بدعہد اور بزدل قوم کو سامنے آکر لڑنے کی جرأت نہ ہوئی اور انہوں نے اپنا بچاؤ اسی بات میں سمجھا کہ اپنے مضبوط قلعوں میں بند ہوجائیں۔ بنو نضیر کی مدد کو کوئی بھی نہ پہنچا۔ عبداللہ بن ابی کی وعدہ خلافی :۔ نہ رئیس المنافقین نہ اس کے دو ہزار جنگجو، نہ بنو قریظہ اور نہ بنو غطفان۔ صرف بنو نضیر اکیلے ہی مسلمانوں سے نمٹنے کے لیے رہ گئے۔ رئیس المنافقین کی اس بدعہدی نے یہودیوں کے حوصلے پست کردیئے۔ ان کی اپنی افرادی قوت، اسلحہ کی فراوانی، سامان رسد کی بہتات اور اطراف سے امداد اور ہمدردی کے وعدے' غرض ان کے سب سہارے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ یہود کا ہتھیار ڈالنا اور جلاوطنی :۔ اب ان کے حواس ٹھکانے آنے لگے۔ اللہ نے مسلمانوں کا رعب کچھ اس طرح ان کے دلوں میں ڈال دیا کہ قلعوں سے باہر نکلنے کی ہمت ہی نہیں پڑتی تھی۔ چنانچہ محاصرہ کو ابھی دو ہفتے بھی نہ گزرنے پائے تھے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام بھیج دیا کہ ہم آپ کی شرط کے مطابق مدینہ سے جلاوطن ہونے کو تیار ہیں۔ آپ نے ان کی بات منظور فرما کر محاصرہ اٹھا لیا۔ یہ قوم اپنے مکانوں کی چھتیں اکھاڑ اکھاڑ کر ان کی لکڑیاں اپنے اونٹوں پر لادنے لگی۔ وہ خود ہی اپنے گھروں کو مسمار کر رہے تھے اور مسلمان بھی اپنی ضرورت کے مطابق ان کے گھروں کو مسمار کر رہے تھے۔ ان کے سردار حیی بن اخطب اور سلام بن ابی الحقیق نے مدینہ سے نکل کر خیبر کا رخ کیا اور کچھ شام کی طرف چلے گئے۔ الحشر
3 الحشر
4 الحشر
5 [٤] محاصرہ کے وقت مسلمانوں کا درخت کاٹنا اور مخالفین کا شورو غوغا :۔ مدینہ کے گرد بنو نضیر کا ایک نہایت خوبصورت باغ تھا۔ جسے بویرہ کہتے تھے اس میں بہت سے کھجوروں کے درخت تھے۔ جب مسلمانوں نے بنونضیر کا محاصرہ کرنا چاہا تو یہ درخت کام میں آڑے آرہے تھے۔ چنانچہ جو جو درخت رکاوٹ بن سکتے تھے مسلمانوں نے ان کو کاٹ کر اور جہاں زیادہ گنجان تھے وہاں انہیں آگ لگا کر محاصرہ کرنے کے لیے اپنی راہ صاف کرلی۔ جب آگ کے شعلوں نے اس باغ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس وقت سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے یہ شعر پڑھا۔ وَھَانَ عَلٰی سَرَاۃِ بَنِی لُؤیٍّ۔۔ حَرِیْقٌ بالْبُوَیْرَۃِ مُسْتَطِیْرٌ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب حدیث بنی نضیر) یعنی بنی لؤی (قریش) کے سردار یہ بات معمولی سمجھ کر برداشت کر رہے تھے کہ بویرہ کا باغ پوری طرح آگ کی لپیٹ میں آکر جل رہا ہے۔ جب راستہ صاف کرنے کی خاطر مسلمانوں نے یہ درخت کاٹے تو اس پر مخالفین نے ایک شور بپا کردیا کہ دیکھو مسلمان درختوں کو کاٹ کر فساد فی الارض کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ حالانکہ یہ اصلاح فی الارض کے دعویدار بنے پھرتے ہیں۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ تم نے جو بھی کھجوروں کا درخت کاٹا یا اسے اپنی جڑوں پر برقرار رہنے دیا تو یہ سب کچھ اللہ کے حکم سے تھا اور واقعہ بھی یہی تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو جنگ کے موقعوں پر درخت کاٹنے سے منع کیا تھا اور اسے فساد فی الارض قرار دیا تھا۔ مگر بنو نضیر کی مسلسل بدعہدیوں کی وجہ سے ان کا استیصال ضروری ہوگیا۔ لہٰذا اس خاص موقعہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت دی تھی۔ اور چونکہ اس اجازت کا ذکر قرآن میں کہیں مذکور نہیں جس سے ضمناً یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کے علاوہ بھی وحی ہوتی تھی۔ جسے عموماً وحی خفی یا وحی غیر متلو کہا جاتا ہے اور دوسرا مسئلہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے جو تخریبی کاروائی جنگی ضروریات کے لیے ناگزیر ہو وہ فساد فی الارض کی تعریف میں نہیں آتی۔ [٥] بنو نضیر کا اخراج :۔ بنوقینقاع کی جلاوطنی کے بعد بنو نضیر بھی مدینہ سے جلاوطن اور رسوا کرکے نکال دیئے گئے۔ رہے بنو قریظہ، تو ان کا جو حشر ہوا اس کی تفصیل سورۃ احزاب کی آیت نمبر ٢٦ کے حاشیہ میں گزر چکی ہے۔ نیز درج ذیل حدیث میں بھی اجمالاً ان کا ذکر آگیا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ بنونضیر اور بنو قریظہ نے جنگ کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنونضیر کو تو جلا وطن کیا اور بنوقریظہ کو وہیں رہنے دیا اور ان پر احسان کیا تاآنکہ بنوقریظہ نے جنگ کی (جنگ احزاب کے بعد) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مردوں کو قتل کردیا اور ان کی عورتوں، بچوں اور اموال کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا۔ ماسوائے ان لوگوں کے جو پہلے ہی آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مل گئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں امن دیا اور وہ مسلمان ہوگئے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام یہود کو جلاوطن کیا۔ ان میں عبداللہ بن سلام کے قبیلہ بنوقینقاع کے یہود بھی شامل تھے اور بنو حارثہ بھی۔ غرض مدینہ کے سب یہودیوں کو جلا وطن کردیا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب حدیث بنی نضیر۔ مسلم۔ کتاب الجہاد۔ باب اجلاء الیہود من الحجاز) الحشر
6 [٦] اموال فے میں مجاہدین کا حصہ کچھ نہیں :۔ اموال غنیمت میں سے پانچواں حصہ خالصتاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مختص ہوتا تھا جسے آپ اپنی ذات، اپنے گھر والوں رشتہ داروں اور دوسروں میں اپنی صوابدید کے مطابق خرچ کرتے تھے۔ لیکن جو اموال جنگ کئے بغیر ہی دستیاب ہوجائیں جنہیں اموال فے کہا جاتا ہے، وہ سارے کے سارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحویل میں دیئے جاتے تھے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بنی نضیر کے مال ان اموال میں سے تھے جو اللہ نے لڑائی کے بغیر اپنے پیغمبر کو دلا دیئے۔ مسلمانوں نے ان پر گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے تھے۔ اس قسم کے مال خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گنے جاتے تھے۔ ایسے اموال سے آپ اپنے گھر والوں کا سال بھر کا خرچ نکال لیتے تھے اور باقی مال جہاد کے سامان کی تیاری اور گھوڑوں (وغیرہ) میں خرچ کرتے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) واضح رہے کہ اس آیت میں افاء کا لفظ آیا ہے۔ فَاءَ (مادہ فئی) کا لغوی معنی بہتری یا اچھی حالت کی طرف لوٹنا یا واپس آنا ہے۔ اور افاء کے معنی لوٹا دینا ہے۔ اور اس میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ اللہ کے باغی اور نافرمان اپنے اموال کے حقدار نہیں ہوتے اور اللہ نے یہ اموال اپنے نافرمانوں سے چھین کر اپنے فرمانبرداروں کو پلٹا دیئے ہیں۔ الحشر
7 [٧] اموال فے بیت المال کی ملکیت ہوتے ہیں :۔ سابقہ آیت میں حکم صرف بنو نضیر کی متروکہ جائیداد سے متعلق تھا۔ اس آیت میں ایک عام اصول بیان کیا گیا ہے کہ جو اموال بھی جنگی کارروائیوں کے بغیر مسلمانوں کے ہاتھ لگ جائیں وہ بیت المال کی ملکیت متصور ہوں گے۔ اس میں مجاہدین کو کچھ نہیں ملے گا۔ کیونکہ یہ ان کی محنت کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ اس اجتماعی قوت کا نتیجہ ہے جو اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کی امت اور اس کے قائم کردہ نظام کو عطا فرمائی ہے۔ لہٰذا یہ اموال، اموال غنیمت سے بالکل جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں۔ اور ان اموال پر مسلمانوں کے امیر کا تصرف حاکمانہ ہوتا ہے۔ اور اموال فے کا اطلاق منقولہ اور غیر منقولہ دونوں قسم کے اموال پر ہوگا۔ اموال فے میں وہ جزیہ و خراج کی آمدنی بھی شامل ہے۔ جو ایک اسلامی ریاست کو غیر مسلموں سے حاصل ہوتی ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اموال فے کے مصارف کی مدات بھی بیان فرما دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بعد آپ کے قرابتداروں پر خرچ کرنے کی مد باقی ہے یا ختم ہوگئی؟ اس میں اختلاف ہے بعض علماء کہتے ہیں کہ چونکہ بنو ہاشم اور بنومطلب پر اموال زکوٰۃ حرام ہیں اس لیے ایسے اموال سے ان کے محتاجوں کی خدمت کی جائے گی۔ [٨] اسلام کے معاشی نظام کے چند سنہری اصول :۔ اس مختصر سے جملہ میں اسلام کے معاشی نظام کو یوں بیان کیا گیا ہے جیسے سمندر کو کوزہ میں بند کردیا گیا ہو۔ ربط مضمون کے لحاظ سے تو اس کا مطلب اتنا ہی ہے کہ اموال فے کو مجاہدین پر تقسیم نہ کیا جائے۔ جن میں سے اکثر پہلے ہی غنی ہوچکے ہیں محتاج اور مسکین نہیں رہے۔ اور دولت انہی میں تقسیم نہ کردی جائے بلکہ نادار لوگوں تک پہنچائی جائے تاہم اس میں ایک عام اصول بیان کردیا گیا ہے کہ ایک اسلامی مملکت میں دولت کا بہاؤ امیروں سے غریبوں کی طرف ہونا چاہئے نہ کہ غریبوں سے امیروں کی طرف۔ غریبوں سے امیروں کی طرف دولت کے بہاؤ کا سب سے بڑا ذریعہ سود ہے۔ جس کی تمام تر شکلوں کو مکمل طور پر حرام کردیا گیا ہے۔ اور زکوٰۃ یعنی فرضی صدقہ، واجبی صدقات اور نفلی صدقات جن کا قرآن میں جگہ جگہ حکم اور ان کی ترغیب دی گئی ہے ان سب کا مقصد یہ ہے کہ دولت کا بہاؤ امیر سے غریب کی طرف ہو۔ سرمایہ داری اور ارتکاز دولت پر اسلام کا قانون میراث کاری ضرب لگاتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی کے پاس کروڑوں اور اربوں کی مالیت بھی ہو تو وہ چند ہی نسلوں میں منتشر ہو کر سینکڑوں افراد میں تقسیم ہوجاتی ہے۔ یہاں چند امور کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ دولت اگر چند سرمایہ داروں کے پاس جمع ہوجائے تو اس سے طبقاتی تقسیم بڑھتی جاتی ہے امیر دن بدن امیر تر اور غریب دن بدن غریب ہوتے چلے جاتے ہیں۔ آپس میں ان طبقوں میں منافرت اور دشمنی پیدا ہوجاتی ہے جو اور بڑے بڑے فتنوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ دوسرے یہ کہ دولت جس قدر تیزی سے گردش کرے گی اسی قدر قومی معیشت میں خوشحالی واقع ہوگی۔ تیسرے یہ کہ دولت کی گردش کی رفتار صرف اس وقت تیز ہوتی ہے جبکہ غریبوں کی امداد کرکے ان میں قوت خرید پیدا کی جائے اور اگر دولت امیروں کے پاس جمع ہوتی رہے تو گردش کی رفتار حیرت انگیز حد تک کم ہوجاتی ہے۔ ان امور کی تشریح ان حواشی میں بہت مشکل ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے میرا مضمون اسلامی معیشت اور سود مطبوعہ سہ ماہی مجلہ'' منہاج اسلامی معیشت نمبر ''جنوری، اپریل ١٩٩٢ئ [٩] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یقینی شرعی حجت اور واجب الاتباع ہے :۔ یہ جملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو قابل حجت تسلیم کرنے پر قطعی دلیل مہیا کرتا ہے۔ لیکن مشہور منکر حدیث حافظ اسلم صاحب جیرا جپوری نے اس پر یہ اعتراض کیا ہے کہ یہ جملہ تو اموال فے کی تقسیم کے بارے میں ہے۔ حدیث کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ یہاں آتیٰ کا لفظ جو نہی کے بالمقابل استعمال ہوا ہے لوگوں نے غلط فہمی سے اسے امر یا قال کے معنی میں سمجھ لیا۔ حالانکہ یہ لفظ قرآن میں سینکڑوں جگہ آیا ہے اور کہیں ان معنوں میں مستعمل نہیں ہوا ہے۔ بلکہ ہر جگہ اس کے معنی اعطاء یعنی دینے کے ہی ہیں۔ لہٰذا یہ استدلال صحیح نہیں ہے۔ (مقام حدیث ص ١٢٦) اب دیکھیے کہ اتیٰ بمعنی اِعْطَاء ُکی ضد منع ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ لفظ استعمال نہیں فرمایا۔ اور نھیٰ کی ضد امر ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے نھیٰ کے مقابلہ میں امر کا لفظ استعمال نہیں فرمایا۔ گویا حافظ صاحب صرف اپنے نظریہ کی تائید کے لیے قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت پر اعتراض فرما رہے ہیں کہ نھیٰ کے معنی ''نہ دینا'' کبھی نہیں ہوتا۔ پھر اگر قرآن کریم میں فی الواقع اتٰکُمْ کے مقابلہ نَھٰکُمْ کا لفظ ہی استعمال ہوتا تو بھی اسے اس خاص واقعہ یعنی مال فے کی تقسیم سے متعلق ہی قرار نہیں دیا جاسکتا تھا۔ کیونکہ یہ ایک عام اصول ہے کہ کسی خاص واقعہ میں کوئی حکم آجائے تو یہ حکم عام ہوتا ہے۔ چہ جائیکہ اللہ تعالیٰ نے اٰتٰکُم، کے مقابلہ میں نَھٰکُمْ کا لفظ استعمال کرکے اس شائبہ کو بالکل ہی ختم کردیا ہے کہ اس حکم کا تعلق اس خاص واقعہ یا اسی جیسے بعد میں آنے والے دوسرے واقعات سے ہوسکتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے اٰتٰکُمْ کے مقابلہ میں نَھَاکُمْ کا لفظ لا کر ایک طرف تو اس پیش آمدہ مسئلہ کا حل پیش کردیا اور دوسری طرف اس حکم میں ایسی عمومیت پیدا کردی جس سے صرف وہی لوگ لذت آشنا ہوسکتے ہیں جو عربی زبان کا کچھ ذوق رکھتے ہیں۔ اب رہی یہ بات کہ اصل میں غلط فہمی کا شکار کون ہے تو اس کے لیے پہلے درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے۔ منکرین حدیث کا ایک اعتراض اور اس کا جواب' عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی وضاحت :۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گودنے والی، گدوانے والی، خوبصورتی کے لیے چہرے کے بال اکھاڑنے والی اور دانتوں کو جدا کرنے والی عورتوں پر لعنت کی ہے جو اللہ کی خلقت کو بدلتی ہیں۔ یہ حدیث بنی اسد کی ایک عورت کو پہنچی جس کی کنیت ام یعقوب تھی۔ وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آکر کہنے لگی :’’مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ آپ نے ایسی ایسی عورتوں پر لعنت کی ہے‘‘ انہوں نے کہا :’’میں تو اس پر ضرور لعنت کروں گا جس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے اور اللہ کی کتاب میں اس پر لعنت آئی ہے‘‘ اس عورت نے کہا: ’’میں نے تو سارا قرآن، جو دو تختیوں کے درمیان ہے، پڑھ ڈالا ہے، اس میں تو کہیں ان عورتوں پر لعنت نہیں آئی‘‘ آپ نے کہا :’’اگر تو نے (اچھی طرح) قرآن پڑھا ہوتا تو ضرور یہ مسئلہ پالیتی۔ کیا تو نے قرآن میں یہ نہیں پڑھا کہ پیغمبر جس بات کا تمہیں حکم دے اس پر عمل کرو اور جس بات سے منع کرے اس سے باز رہو؟‘‘ اس عورت نے کہا :’’ہاں! یہ آیت تو قرآن میں موجود ہے‘‘ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے۔ ’’بس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان باتوں سے منع کیا ہے‘‘ وہ کہنے لگی: ’’تمہاری بیوی بھی تو یہ کام کرتی ہے‘‘ انہوں نے کہا : ’’جاکر دیکھو تو‘‘ جب وہ گئی تو وہاں کوئی بات نہ پائی۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے : اگر میری بیوی ایسے کام کرتی تو بھلا وہ میرے ساتھ رہ سکتی تھی؟ (بخاری۔ کتاب التفسیر) اب سوال یہ ہے کہ اس آیت کا صحیح مفہوم سمجھنے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم تھے یا قبلہ حافظ صاحب؟ پھر ام یعقوب نے جو اگر صحابیہ نہیں تو تابعیہ تو ضرور ہوگی۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ استدلال سن کر یہ نہیں کہا کہ یہ حکم تو مال فے کی تقسیم سے متعلق ہے اور اٰتٰی کے معنی اعطاء ہوتا ہے بلکہ اس نے ’’میں سمجھ گئی‘‘ کا اقرار کرکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سمجھے ہوئے مفہوم کی تائید کردی۔ صحابہ میں یہ فہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منتقل ہوا۔ پھر صحابہ سے تابعین میں، ان سے تبع تابعین میں پھر محدثین میں، آخر وہ کون سا دور ہے جس میں اس مفہوم کو درست نہ سمجھا گیا ہو۔ جسے حافظ صاحب لوگوں کی غلط فہمی قرار دے رہے ہیں۔ اور وہ مفہوم یہ ہے کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی شریعت کا حصہ ہے نیز یہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایسے احکام کو کتاب اللہ میں ہی شمار کرتے تھے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: عنقریب تم میں ایک پیٹ بھرا شخص اپنے پلنگ پر تکیہ لگائے میری حدیثیں سن کر یہ کہے گا کہ ہمارے تمہارے درمیان قرآن (کافی) ہے اس کے حلال کیے ہوئے کو حلال اور حرام کیے ہوئے کو حرام سمجھو۔ یاد رکھو! مجھے قرآن دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اس کے مثل اور بھی (ترمذی۔ ابو داؤد۔ ابن ماجہ۔ مسند احمد۔ بیہقی دارمی بحوالہ مشکٰوۃ) واضح رہے آپ کی سنت پر عمل پیرا ہونا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کے بغیر قرآن کے احکام بھی کسی صورت بجا نہیں لائے جاسکتے۔ لہٰذا جو شخص سنت یا حدیث کی حجیت کا قائل نہ ہو وہ حقیقتاً قرآن کا بھی منکر ہوتا ہے۔ بلکہ اسے بننا پڑتا ہے۔ الحشر
8 [١٠] اموال فے میں محتاجوں اور مہاجرین کا حصہ :۔ مال فے کی تقسیم میں پہلے محتاجوں کا عمومی ذکر فرمایا۔ اس کے بعد بالخصوص ان مہاجر محتاجوں کا ذکر فرمایا۔ جنہوں نے محض اسلام اور اللہ کی رضا کی خاطر اپنا گھر بار مال و دولت اور جائیدادیں سب کچھ چھوڑ کر مدینہ آگئے۔ جبکہ یہاں ان کی آباد کاری اور معاش کے مسئلہ کا کوئی حل نظر نہیں آرہا تھا۔ انہوں نے ایمان کا دعویٰ کیا تو عملی طور پر اسے سچ کر دکھایا۔ اور ہر وقت ہی اللہ کے دین کی مدد کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ ایسے محتاج عام محتاجوں کی نسبت اموال فے کے زیادہ حقدار ہیں۔ الحشر
9 [١١] انصار کا مہاجرین کے لیے ایثار اور فے میں ان کا حصہ :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کی کمال فضیلت بیان فرمائی جو مسلمانوں کے ہجرت کرکے مدینہ آنے سے پیشتر بیعت عقبہ کی رو سے ایمان لاچکے تھے اور انہوں نے مہاجر مسلمانوں کو آتے ہی اپنے گلے سے لگا لیا تھا۔ اور مہاجرین کی آباد کاری کے سلسلہ میں وہ مثال قائم کی جس کی مثال پیش کرنے سے پوری دنیا کی تاریخ قاصر ہے۔ ان اولین انصار نے مہاجرین کو اپنی جائیداد، گھر بار اور نخلستانوں میں شریک کرلیا۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس وقت انصار مدینہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : ہم میں اور ہمارے مہاجر بھائیوں میں کھجور کے درخت تقسیم کر دیجئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایسا نہیں ہوسکتا (جائیداد تمہاری ہی رہے گی) تب انصار مہاجرین سے کہنے لگے۔ اچھا ایسا کرو۔ درختوں کی خدمت تم کرو۔ ہم پیداوار میں تمہیں شریک بنا لیتے ہیں۔ تب مہاجر کہنے لگے بہت خوب! ہم نے سنا اور مان لیا۔ (بخاری۔ کتاب الشروط۔ باب الشروط فی المعاملۃ) اس سے اگلا ایثار یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مہاجرین تو کھیتی باڑی نہیں جانتے۔ تو انصار نے اس معاملہ میں بھی اپنے مہاجر بھائیوں کی مدد کی۔ تاہم نصف پیداوار انہیں دینا قبول کرلیا۔ اور اب جب بنونضیر کے اموال فے تقسیم کرنے کی باری آئی تو انصار نے از خود یہ کہہ دیا کہ یہ اموال مہاجرین میں تقسیم کردیجئے۔ اور ہمارے پہلے نخلستان ہی ہمارے پاس رہنے دیجئے۔ (یعنی اب ان میں مہاجرین شریک نہ ہوں گے) بلکہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مناسب سمجھیں تو ہم ان میں سے بھی دینے کو تیار ہیں۔ یہ تھا وہ ایثار جس کی بنا پر ان کا درجہ بہت بلند ہوگیا تھا۔ اور اللہ نے بطور خاص ان انصار کی تعریف فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے بطور حق یہ ارشاد فرمایا کہ ایسے ایثار کرنے والے انصار کا بھی اموال فئے میں خاص طور پر خیال رکھا جائے۔ لیکن وہ از راہ ایثار اپنے اس حق سے اپنے مہاجر بھائیوں کے حق میں دستبردار ہوگئے اس ایثار نے مہاجرین کے دل میں جو مقام حاصل کیا تھا وہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے (مرتے وقت) وصیت کی کہ : میرے بعد جو خلیفہ ہو وہ مہاجرین کا حق پہچانے اور انصار کا بھی حق پہچانے۔ جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے مدینہ میں جگہ پکڑی اور ایمان کو سنبھالا۔ خلیفہ کو لازم ہے کہ ان میں سے جو نیک ہوں اس کی قدر کرے اور برے کی برائی سے درگزر کرے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) اور مہاجرین کی آمد پر جس قدر خوشی انصار کو ہوتی تھی وہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتی ہے : مہاجرین کی آمد پر انصار کی خوشی :۔ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (مدینہ میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے سب سے پہلے مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن ام مکتوم ہمارے پاس آئے۔ وہ دونوں ہمیں قرآن پڑھاتے رہے۔ پھر عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ ، بلال رضی اللہ عنہ اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ آئے پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بیس آدمی اپنے ساتھ لیے ہوئے آئے۔ پھر ان کے بعد آپ تشریف لائے۔ مدینہ والے اتنے خوش کبھی بھی نہ ہوئے تھے جتنے خوش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے ہوئے۔ بچے بچیاں تک یوں کہہ رہے تھے۔ دیکھو! یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں۔ میں آپ کی آمد سے پہلے ہی سورۃ اعلیٰ اور اس جیسی کئی سورتیں پڑھ چکا تھا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ سورۃ الاعلیٰ) انہیں دنوں ایک انفرادی واقعہ بھی پیش آیا : جس میں ایک انصاری نے کمال ایثار کا ثبوت دیا تھا۔ محدثین اس واقعہ کو بھی اس آیت کی تفسیر میں لائے ہیں۔ اور وہ حدیث یوں ہے : انصار کے ایثار کا ایک منفرد قصہ :۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص ( ابوہریرہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !’’میں بہت بھوکا ہوں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کے ہاں سے پتہ کرایا لیکن وہاں کچھ نہ نکلا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو کہا :’’کوئی ہے جو اس رات اس شخص کی مہمانی کرے۔ اللہ اس پر رحم کرے‘‘ ایک انصاری (ابوطلحہ ) نے کہا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اس کی مہمانی کروں گا اور اس شخص ( ابوہریرہ )کو اپنے گھر لے گیا اور اپنی بیوی (ام سلیم) سے کہا :’’یہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا (بھیجا ہوا) مہمان ہے لہٰذا جو چیز بھی موجود ہو اسے کھلاؤ‘‘ وہ کہنے لگی : ’’اللہ کی قسم! میرے پاس تو بمشکل بچوں کا کھانا ہے‘‘ ابو طلحہ نے کہا : ’’اچھا یوں کرو۔ بچے جب کھانا مانگنے لگیں تو انہیں سلا دو۔ اور جب ہم دونوں (میں اور مہمان) کھانا کھانے لگیں تو چراغ گل کردینا۔ اس طرح ہم دونوں آج رات کچھ نہیں کھائیں گے‘‘ (اور مہمان کھا لے گا) چنانچہ ام سلیم نے ایسا ہی کیا۔ صبح جب ابو طلحہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فلاں مرد (ابوطلحہ) اور فلاں عورت (ام سلیم) پر اللہ عزوجل بہت خوش ہوا اور اسے ہنسی آگئی۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔ ﴿وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ ﴾ (بخاری۔ کتاب التفسیر) [١٢] لفظ شح کے لغوی معنیٰ:۔ شُحَّ میں دو باتیں پائی جاتی ہیں۔ ایک مال و دولت جمع کرنے میں حریص ہونا، دوسرے مال و دولت خرچ کرنے میں انتہائی بخیل ہونا اور جس شخص میں یہ دونوں قباحتیں جمع ہوجائیں اسے شحیح اور شحاح کہتے ہیں۔ اب ایسے شخص میں تنگ نظری، تنگ ظرفی، سنگدلی، بے مروتی وغیرہ جیسی صفات پیدا ہوسکتی ہیں اور ان کا ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے۔ اگرچہ مال و دولت سے محبت ہر انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ لیکن اس طرح دولت کے پیچھے اندھے ہوجانا اور دولت کا پجاری بن جانا انتہائی قبیح خصلت ہے۔ جس سے اللہ ہی بچا سکتا ہے۔ اسلام اس بدخصلت کے علاج کے لیے انفاق فی سبیل اللہ، صدقات اور ایثار کی راہ دکھاتا ہے جس سے سماحت، وسعت نظر، ہمدردی، مروت اور اخوت کے جذبات فروغ پاتے ہیں۔ گویا شح سے نجات پاجانا ہی بہت بڑی کامیابی ہے اور جنت میں لے جانے کا سبب بنتی ہے۔ الحشر
10 [١٣] اموال فے میں بعد میں آنے والے مسلمانوں کا حصہ :۔ یعنی اموال فے کے حقداروں میں جن لوگوں کا اللہ نے بطور خاص ذکر فرمایا۔ ان میں پہلے محتاج مہاجرین کا بھی کا ذکر کیا۔ پھر ایثار کرنے والے مہاجرین کا، اور تیسرے نمبر پر بعد میں آنے والوں کا۔ کیونکہ اموال فے میں جائیداد غیرمنقولہ، زمینیں اور ان کے علاوہ وہ جزیہ و خراج کی رقوم بھی شامل ہیں جو سرکاری سطح پر وصول کی جاتی ہیں۔ چنانچہ جب دور فاروقی میں مسلمانوں نے عراق اور شام کو فتح کرلیا اور ان زمینوں پر قبضہ ہوگیا تو امرائے فوج نے اصرار کیا کہ مفتوحات انہیں بطور جاگیر عنایت کئے جائیں اور باشندوں کو ان کی غلامی میں دیا جائے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا سعد بن ابی وقاص کو وہاں کی مردم شماری کے لیے بھیجا۔ کل باشندوں اور اہل فوج کی تعداد کا موازنہ کیا تو ایک ایک فوجی کے حصے میں تین تین آدمی آتے تھے۔ یہ دیکھ کر سیدنا عمررضی اللہ عنہ کی رائے یہ قائم ہوگئی کہ زمین قومی تحویل میں لے لی جائے اور ان کے مالکوں کو بطور کاشتکار وہیں رہنے دیا جائے اور انہیں غلام نہ بنایا جائے۔ اکابر صحابہ میں سیدنا عبدالرحمن بن عوف اہل فوج کے ہم زبان تھے۔ اموال غنیمت کے علاوہ زمینوں اور قیدیوں کی تقسیم پر بھی مصر تھے اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے تو اس قدر جرح کی کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے زچ ہو کر فرمایا : اللھم اکفنی بلالا (اے اللہ! میری طرف سے بلال کو خود سنبھال) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ یہ استدلال پیش کرتے تھے کہ اگر مفتوحہ علاقے فوج میں تقسیم کردیئے جائیں تو آئندہ افواج کی تیاری، بیرونی حملوں کی مدافعت، ملک میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے مصارف کہاں سے آئیں گے اور یہ مصلحت بھی آپ کے پیش نظر تھی کہ اگر زمین افواج میں تقسیم کردی گئی تو وہ جہاد کی طرف سے غافل اور جاگیرداری میں مشغول ہوجائیں گے۔ لہٰذا اموال غنیمت تو فوج میں تقسیم کردینے چاہئیں۔ اور زمین بیت المال کی ملکیت قرار دی جانی چاہیے کیونکہ اتنی کثیر مقدار میں اموال اور زمین اس کے بعد مسلمانوں کے ہاتھ لگنے کی توقع کم ہی نظر آرہی تھی۔ چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’اگر مجھے پچھلے مسلمانوں کا خیال نہ ہوتا تو میں جو بستی فتح کرتا اسے فتح کرنے والوں میں بانٹ دیتا۔ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کو بانٹ دیا تھا‘‘ (بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب الغنیمۃ لمن شھدالوقعۃ) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا عراق کی زمینوں کو قومی تحویل میں لینا :۔ جہاں تک اسلامی مملکت کے استحکام اور جملہ مسلمانوں کی خیر خواہی کا تعلق تھا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اپنی رائے کی اصابت کا مکمل یقین تھا۔ مگر مشکل یہ تھی کہ وہ کوئی ایسی نص قطعی پیش نہ کرسکتے تھے جس سے وہ مجاہدین، سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو قائل کرسکیں۔ چونکہ دلائل دونوں طرف موجود تھے۔ لہٰذا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فیصلہ کے لیے دس افراد پر مشتمل مجلس مشاورت طلب کی۔ اس مجلس میں پانچ قدماء مہاجرین اور پانچ انصار (اوس و خزرج) شریک ہوئے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی رائے سے اتفاق کیا۔ کئی دن بحث چلتی رہی مگر کچھ فیصلہ نہ ہوسکا۔ سیدنا عمر اس سلسلہ میں خاصے پریشان رہتے تھے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے سیدنا عمررضی اللہ عنہ کو یہی الفاظ ﴿وَالَّذِیْنَ جَاؤُوْا مِنْ بَعْدِھِمْ﴾ سجھا دیئے جو اس بحث کو طے کرنے کے لیے نص قطعی کا درجہ رکھتے تھے اور یہ ایسی دلیل تھی جس کے سامنے سب کو سر تسلیم خم کرنا پڑا۔ سیدنا عمر نے ایک اجتماع عام بلا کر اس میں اسی جملہ کے حوالہ سے پرزور تقریر فرمائی جس پر سب لوگوں نے یک زبان ہو کر اعتراف کیا کہ آپ کی رائے درست ہے۔ یہاں یہ مسئلہ بھی سامنے آتا ہے کہ یہ الفاظ تو مدتوں پہلے نازل ہوچکے تھے۔ جنہیں سیدنا عمر سمیت سب صحابہ سینکڑوں مرتبہ پڑھ چکے تھے۔ لیکن ان کے اطلاق (Implication) کا معاملہ ابھی تک سامنے آیا ہی نہ تھا۔ اور جب معاملہ سامنے آگیا تو اللہ تعالیٰ نے آیات الٰہی میں غور کرنے پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ان الفاظ کا مفہوم اور اس کی وسعت بھی سجھا دی۔ قرآن کا یہی وہ اعجاز ہے جس کے متعلق رسول اللہ نے فرمایا تھا کہ اس کتاب کے عجائب لامتناہی ہیں جو کبھی ختم نہیں ہوسکتے۔ اس واقعہ سے ضمناً درج ذیل امور پر بھی روشنی پڑتی ہے :۔ نزاع کے وقت امیر کے اختیارات کی تعیین :۔ ١۔ امیر فیصلہ کرتے وقت کثرت رائے کا پابند نہیں ہوتا۔ فیصلہ کی اصل بنیاد اس کا اپنا دلی اطمینان یا انشراح صدر ہے۔ کیونکہ اس معاملہ میں اکثریت کی رائے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کے خلاف تھی۔ ٢۔ امیر اپنی مرضی یا رائے عوام پر ٹھونسنے کا حق نہیں رکھتا۔ بلکہ انہیں شرعی دلیل سے قائل کرنا اور انہیں اپنے اعتماد میں لینا ضروری ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر اسلام کا نظام حکومت استبدادی نہیں بلکہ شورائی ہے اور مشورہ میں مقصود دلیل کی تلاش ہے۔ خواہ وہ ایک آدمی سے مل جائے۔ یہاں کثرت رائے فیصلہ کی بنیاد نہیں ہوتی۔ ٣۔ آخری فیصلہ کا اختیار میر مجلس کو ہوتا ہے۔ [١٤] صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے دشمنی رکھنے والوں کو تنبیہ :۔ اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے خواہ وہ مہاجرین ہوں یا انصار۔ بغض عداوت، کینہ یا بیر رکھے اسے سب سے پہلے اپنے ایمان کی سلامتی کی دعا کرنا چاہئے۔ پھر یہ دعا کرنا چاہئے کہ یا اللہ ہمارا یہ گناہ معاف فرما دے اور ہمارے ان بھائیوں کو معاف فرما جو ایمان لانے میں ہم سے سبقت لے چکے ہیں اور اگر ہمارے دلوں میں ان کے متعلق کچھ کینہ رہ گیا ہے تو اسے بھی نکال دے۔ سچا مسلمان وہی ہوسکتا ہے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اس پاکباز جماعت سے محبت رکھے اور انہیں اپنا قائدتسلیم کرے اور امام مالک رحمہ اللہ نے اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص صحابہ سے بغض رکھے اور ان کی بدگوئی کرے، مال فے میں اس کے لیے کچھ حصہ نہیں۔ الحشر
11 [١٥] اس سے مراد عبداللہ بن ابی ّرئیس المنافقین کی طرف سے بنونضیر کے نام وہ پیغام ہے۔ جس نے یہود کو مزید سرکش بنا دیا تھا۔ اور یہی لوگ منافقوں کے حقیقتاً بھائی تھے۔ اور جس کی تفصیل پہلے اسی سورۃ کی آیت نمبر ٢ کے حواشی میں گزر چکی ہے۔ اس پیغام کا آخری حصہ یہ تھا کہ یہ ہمارا اٹل اور قطعی فیصلہ ہے۔ کہ ہم ضرور تمہاری مدد کو پہنچیں گے۔ تمہارے معاملہ میں ہم اس کے خلاف کسی مسلمان کی بات نہیں مانیں گے نہ اس کی کچھ پروا سمجھیں گے۔ [١٦] یعنی جو پیغام انہوں نے یہودیوں کو بھیجا ہے۔ وہ بھی سرا سر جھوٹ ہے۔ جس سے وہ یہودیوں کو مسلمانوں کے خلاف اکسا رہے ہیں کہ وہ دلیر ہو کر جنگ لڑیں تو ہمارا کام از خود ہی بن جائے گا اور مسلمانوں سے نجات مل جائے گی۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ یہ منافق نہ لڑائی میں ان کا ساتھ دینے کی نیت رکھتے ہیں اور نہ جلاوطنی میں۔ اور اگر وہ لڑائی میں حصہ لیں بھی تو دم دبا کر بھاگ نکلیں گے۔ کیونکہ مکار اور دغاباز لوگ ہمیشہ بزدل اور بھگوڑے ہوا کرتے ہیں۔ الحشر
12 الحشر
13 [١٧] یعنی منافقوں کا بنونضیر سے اپنے کئے ہوئے وعدوں کو پورا نہ کرنے کی وجہ یہ نہیں کہ وہ اللہ سے ڈر گئے ہیں۔ یا انہیں اپنے دعویٰ اسلام کا کچھ پاس ہونے لگا ہے۔ یا انہیں یہ خطرہ ہے کہ قیامت کے دن انہیں کافروں کی حمایت کے جرم کی پاداش میں سزا ملے گی۔ بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ تمہارے جیسے سچے مسلمانوں کے آپس میں باہمی اتفاق اور اللہ کی راہ میں سردھڑ کی بازی لگادینے سے وہ کچھ اس طرح مرعوب ہوچکے ہیں کہ انہیں یہ یقین ہوچکا ہے کہ اگر وہ یہودیوں کی حمایت میں لڑنے کو نکلے تو یہودیوں کے ساتھ یہ خود بھی پس جائیں گے۔ [١٨] اصل سوجھ بوجھ یہ ہے کہ صرف اللہ سے ڈرا جائے اللہ کے مقابلے میں اور کسی سے نہ ڈرا جائے۔ مگر یہ لوگ بس ایک اللہ سے نہیں ڈرتے۔ باقی سب طرح کے خطرات ان کے سروں پر منڈلاتے رہتے ہیں۔ لہٰذا جس طرف انہیں اپنے بچاؤ کی صورت نظر آتی ہے۔ اپنے تمام وعدوں کو بالائے طاق رکھ کر ادھر ہی اپنا رخ موڑ لیتے ہیں۔ الحشر
14 [١٩] یہود اور منافقین میں جرأت کا فقدان اس آیت کے مخاطب یہود بھی ہیں اور منافقین بھی۔ دونوں ایک جیسے مکار، دغاباز، وعدے کے جھوٹے اور مفاد پرست ہیں۔ ایسے لوگ بزدل ہوتے ہیں کبھی کھلے میدان میں لڑنے کی جرأت نہیں کرسکتے۔ ہاں ایسی جگہ بیٹھ کر لڑ سکتے ہیں جہاں ان کی جان کو کچھ خطرہ نہ ہو۔ مورچوں میں یا قلعہ بند ہو کر تو یہ تیر و تفنگ کا کھیل کھیل سکتے ہیں مگر سامنے آکر دست بدست جنگ کرنا ان کے بس کا روگ نہیں۔ بھلا جسے ہر وقت اپنی جان بچانے کا دھڑکا لگا رہتا ہو تو وہ مقابلہ کیا کرسکتا ہے؟ کیا یہود کیا منافق اور کیا ان کی ذیلی شاخیں۔ ان کے اتحاد کی بنیادمحض اسلام دشمنی ہے :۔ ان سب کے اتحاد کی بنیاد صرف اسلام دشمنی ہے۔ رہے ان کے اندرونی اختلافات اور باہمی عداوتیں تو وہ شدید ہیں۔ لہٰذا ان کا یہ عارضی اور غیر مستقل اتحاد بھی سخت ناپائیدار ہے۔ جو دوران جنگ عین اتحاد کے موقع پر بھی پارہ پارہ ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ جنگ احزاب کے آخر میں قریشیوں اور یہودیوں کا یہ اختلاف ہی ان کی شکست کا ایک اہم سبب بن گیا تھا۔ [٢٠] یعنی انہیں یہ سمجھ نہیں آرہی کہ اتحاد بھی صرف وہ کام آتا ہے جس کی جڑیں مضبوط ہوں اور خیالات و نظریات میں ہم آہنگی ہو۔ جب تک وہ اس بات کو نہ سمجھیں گے عارضی طور پر اتحاد کرلینے کے باوجود بھی حق کے مقابلہ میں مار ہی کھاتے رہیں گے۔ الحشر
15 [٢١] تھوڑی مدت پہلے یہود کے قبیلہ بنو قینقاع کو جس قدر ذلت و خواری سے نکالا گیا وہ یہ یہود بنی نضیر اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں اور اس کی تفصیل پہلے اسی سورۃ کی آیت ٢ کے حواشی میں گزر چکی ہے اور کافر تھوڑی مدت پہلے جنگ بدر میں اپنی کرتوتوں کی سزا پاچکے ہیں۔ یہ تو انہیں دنیا میں سزا ملی اور آخرت میں دردناک عذاب تو جوں کا توں باقی ہے۔ الحشر
16 [٢٢] شیطان کا طریقہ واردات :۔ شیطان کا طریقہ واردات یہ ہے کہ وہ انسان کو کئی طرح کے سبزباغ دکھا کر اسے اپنے دام تزویر میں پھنسا لیتا ہے۔ پھر جب انسان شیطانی جال میں پھنس کر اس کا آلہ کار اور ایجنٹ بن جاتا ہے تو شیطان نیا شکار تلاش کرنے لگتا ہے۔ اور پہلے کی طرف سے مطمئن اور بے نیاز ہوجاتا ہے۔ اس کی دوسری توجیہ یہ ہے کہ شیطان قیامت کے دن اپنے پیروکاروں کے سامنے ایسی ہی تقریر کرکے خود صاف طور پر بری الذمہ ہونے کی کوشش کرے گا۔ اور اس کی عملی شکل میدان بدر میں پیش آئی۔ جب شیطان میدان بدر میں بنوکنانہ کے رئیس سراقہ بن مالک کی شکل دھار کر نمودار ہوا اور کافروں کو اکسانے اور فتح کی یقین دہانی کرانے لگا۔ پھر جب اس نے اس میدان میں فرشتوں کو مسلمانوں کی مدد کے لیے اترتے دیکھا تو چپکے سے وہاں سے کھسکنے لگا۔ اور اس کی تفصیل سورۃ انفال کی آیت نمبر ٤٨ کے تحت گزر چکی ہے۔ جنگ بدر میں شیطان کی آمد اور فرار :۔ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ منافقوں نے بھی یہود بنونضیر سے شیطان کا سا ہاتھ کھیلا۔ انہیں جھوٹے وعدے اور امداد کی جھوٹی تسلیاں دیتے رہے۔ پھر جب بنونضیر نے منافقوں کے ان وعدوں اور انگیخت پر سرکشی اختیار کی اور ان کا محاصرہ ہوگیا تو منافق بڑے اطمینان سے اپنے وعدوں سے دامن جھاڑ کر ان کا تماشہ دیکھتے رہے۔ الحشر
17 [٢٣] یعنی گمراہ ہونے والے کو خود عقل و ہوش سے کام لینا چاہئے اور گمراہ کرنے والے سے بچنا چاہیے۔ پھر جب وہ گمراہ ہوگیا تو دونوں ایک جیسے ہوگئے اور ایک دوسرے کے ساتھی بن گئے۔ لہٰذا دونوں کو ایک جیسی سزا ملے گی۔ دونوں ہی ہمیشہ کے لیے دوزخ کا ایندھن بنیں گے۔ الحشر
18 [٢٤] ہر شخص کو آخرت کا دھیان رکھنا چاہئے :۔ کل سے مراد قیامت کا دن یا اخروی زندگی ہے۔ اور اس کے مقابلہ میں اس کی دنیا کی پوری زندگی ''آج'' ہے۔ دنیا دارالعمل ہے جس کا پھل اسے عقبیٰ میں یا آخرت میں ملے گا، جو کچھ بوئے گا، وہی کچھ کاٹے گا اور جتنا بوئے گا اتنا ہی کاٹے گا۔ ان اصولوں کے تحت ہر انسان کو خود اپنا محتسب بنایا گیا ہے کہ وہ ہر وقت اپنے اعمال پر خود نظر رکھے۔ اسے سیدھے اور غلط راستے، نیکی اور بدی، اچھے اور برے کی تمیز بھی عطا کردی گئی ہے اور پوری وضاحت کے ساتھ سب کچھ بتا بھی دیا گیا ہے۔ اب یہ اس کا اپنا کام ہے کہ خود دیکھتا رہے کہ وہ کون سی راہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ جس راہ پر وہ گامزن ہے۔ وہ اسے جہنم کی طرف لے جارہی ہو؟ اور سورۃ قیامۃ میں فرمایا کہ انسان کو اتنی سمجھ دے دی گئی ہے کہ وہ اپنے اعمال کا خود ہی محاسبہ کرسکے۔ اگر وہ اپنے حق میں مصالحت اور بہانہ تراشیاں چھوڑ دے تو وہ اپنے اعمال کا وزن کرسکتا ہے۔ اور اسے ہر وقت اللہ سے ڈرتے رہنا چاہئے' اس لیے کہ اگر وہ ہر وقت اللہ سے ڈرتا رہے گا تو سیدھے راستے سے چوکے گا نہیں۔ اور نہ ہی اللہ کی نافرمانی کے کام کرے گا۔ دوسری بات جو اسے ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے یہ ہے کہ اس کا مال و دولت، اس کی تندرستی، اس کی استعداد اور اس کی سرگرمیاں آیا دنیا کے حصول تک ہی ختم ہو کر رہ جاتی ہیں یا وہ آخرت کے لیے کچھ سامان مہیا کر رہا ہے۔ یہ احتساب خود اسے ایسی باتوں پر آمادہ کر دے گا جو آخرت میں اس کے لیے سود مند ہوں۔ الحشر
19 [٢٥] اللہ کو بھولنے کا لازمی نتیجہ خود فراموشی ہوتا ہے :۔ یعنی اللہ کو بھول جانے یا بھلائے رکھنے کا لازمی نتیجہ خود فراموشی ہے۔ بالفاظ دیگر اللہ کی معرفت سے ہی انسان کو اپنی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ جو انسان اس بات پر غور نہیں کرتا کہ اس کائنات میں اللہ کی کیا حقیقت ہے اور اس کی اپنی کیا حیثیت ہے۔ وہ ہمیشہ غلط راستوں پر پڑ کر اپنی عاقبت برباد کرلیتا ہے۔ اس کو ہر وقت یہ ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ اس کائنات کا بھی اور خود اس کا بھی خالق اللہ تعالیٰ ہے۔ وہی سب چیزوں کا خالق، مالک اور پروردگار ہے اور انسان اس کی مخلوق، مملوک اور محتاج ہے۔ لہٰذا انسان کی ہر طرح کی عبادتوں اور نیازمندیوں کا وہی مستحق ہے۔ وہی اس کا حاجت روا اور مشکل کشا ہے۔ دوسرا کوئی نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ باقی سب چیزیں بھی اسی طرح اللہ کی مخلوق، مملوک اور محتاج ہیں۔ اس لحاظ سے وہ انسان کے برابر ہوئیں۔ لیکن چونکہ وہ اشرف المخلوقات پیدا کیا گیا ہے اس لحاظ سے وہ باقی تمام مخلوق سے برتر ہوا۔ اب اگر ایک برتر مخلوق اپنے جیسی یا اپنے سے بھی کم تر مخلوق کی عبادت کرے یا اسکی حاکمیت کو تسلیم کرے یا اس کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھے تو گویا اس نے انسانیت کے مرتبہ کی تذلیل اور توہین کی۔ یہی خالق و مخلوق کے درمیان باہمی رشتہ ہے۔ اس کو ملحوظ رکھے گا تو کبھی اللہ کا نافرمان نہیں ہوگا۔ اور اس رشتہ کو فراموش کر دے گا تو اس کی زندگی غلط راستوں پر پڑ کر فسق و فجور میں گزرے گی۔ اور وہ اپنے اخروی انجام سے بھی بے خبر اور غافل ہی رہے گا۔ لہٰذا صحیح راستے پر ثابت قدم رہنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے ہر وقت اپنا پروردگار یاد رہے اس سے غافل ہوتے ہی وہ اپنے آپ اور اپنے انجام کو بھول کر فسق و فجور میں مبتلا ہوجائے گا۔ الحشر
20 الحشر
21 [٢٦] قرآن کی عظمت اور انسان کی غفلت :۔ یعنی اگر پہاڑوں جیسی عظیم الجثہ مخلوق کو اللہ تعالیٰ وہ سمجھ، اختیار اور عقل و شعور عطا کردیتا، جو انسان کو عطا کی گئی ہے پھر انہیں یہ بتایا جاتا کہ تمہیں اللہ کا فرمانبردار بن کر رہنا ہوگا اور پھر تمہارے اعمال کی تم سے باز پرس بھی ہوگی تو وہ بھی اس تصور سے کانپ اٹھتے لیکن انسان کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ اس بار امانت کو اٹھا لینے کے بعد بھی اس پر نہ خوف طاری ہوتا ہے اور نہ ہی اسے یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ اگر اس نے اپنی زندگی غفلت اور خدا فراموشی میں گزار دی تو آخرت میں اپنے پروردگار کے سامنے کیا جواب دے گا اور اس کی گرفت سے کیسے بچ سکے گا۔ بلکہ وہ قرآن سن کر اور تمام حقائق پر مطلع ہونے کے بعد بھی ایسے غیر متاثر رہتا ہے جیسے کوئی بے جان اور بے شعور پتھر ہو۔ جسے ان بے جان چیزوں کے علاوہ کوئی انسانی قوتیں دی ہی نہیں گئیں۔ الحشر
22 [٢٧] غیب اور شہادت سے کیا مراد ہے؟ شہادت سے مراد وہ تمام اشیاء، واقعات اور علوم ہیں جو انسان کے علم میں آچکے ہیں یا جنہیں وہ مشاہدہ اور تجربہ سے حاصل کرچکا ہے اور غیب سے مراد وہ تمام اشیاء واقعات اور علوم ہیں جن تک تاحال انسان کی رسائی نہیں ہوسکی۔ خواہ یہ اشیاء عالم اکبر یا کائنات سے متعلق ہوں یا عالم اصغر یا انسان کے جسم کی اندرونی کائنات سے متعلق ہوں۔ اور اللہ کے لیے سرے سے کوئی چیز غائب ہے ہی نہیں۔ اس کے لیے سب کچھ شہادت ہی شہادت ہے۔ اور قرآن میں جہاں یہ غیب اور شہادت کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں تو صرف انسان کو سمجھانے کی غرض سے استعمال ہوئے ہیں۔ اور اللہ کے لیے کوئی چیز غائب اس لیے نہیں ہوتی کہ ہر چیز کو اور ہر واقعہ اور حادثہ کو وجود میں لانے والا تو وہ خود ہے۔ لہٰذا اس سے کوئی چیز مخفی یا غائب کیسے رہ سکتی ہے؟ [٢٨] رحمٰن اور رحیم میں فرق :۔ وہ رحمٰن اور رحیم اس لحاظ سے ہے کہ ہر چیز کے وجود، اس کی زندگی اور زندگی کے بقا کے لیے جو جو اشیاء ضروری اور لازمی تھیں وہ اس نے اس کی پیدائش سے پہلے ہی مہیا فرما دی ہیں اور یہ اس کی کمال مہربانی ہے۔ کائنات میں کوئی دوسرا اس غیر محدود رحمت کا حامل نہیں ہے۔ دوسرے جانداروں میں اگر رحم کی صفت پائی بھی جاتی ہے۔ تو ایک تو وہ جزوی اور محدود ہوتی ہے دوسری یہ کہ وہ اس کی ذاتی صفت نہیں ہوتی۔ بلکہ اللہ ہی کی عطا کردہ ہوتی ہے اور اسے اس لیے عطا کی گئی ہے کہ وہ دوسری مخلوق کی پرورش اور خوشحالی کا ذریعہ بنے۔ جیسے والدین اپنی اولاد کے حق میں رحیم ہوتے ہیں اور یہ چیز بذات خود اس کی رحمت بے پایاں کی دلیل ہے۔ واضح رہے کہ رحمٰن صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے اور اس میں بہت زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے۔ اور اس کا تعلق ان رحمتوں اور انعامات سے ہے جو زندگی اور اس کی بقاء کے لیے ضروری ہیں مثلاً انسان کی پیدائش سے پہلے سورج، چاند، ہوا، بارش اور زمین میں قوت روئیدگی کا انتظام کرنا۔ یا حمل قرار پاتے ہی ماں کے پستانوں کی مشینری کا متحرک ہونا، خون کو دودھ میں تبدیل کرنے کا عمل اور بچہ کی پیدائش پر ماں کے پستانوں میں دودھ اتر آنا اور بچے کو دودھ کی طرف لپکنے اور دودھ چوسنے کا طریقہ سکھانا۔ جبکہ رحیم اللہ کے علاوہ دوسری مخلوق بھی ہوسکتی ہے۔ الحشر
23 [٢٩] آیت نمبر ٢٢ سے ٢٤ تک، تین آیات میں اللہ تعالیٰ کی بہت سی جامع صفات بیان کردی گئی ہیں۔ تاکہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی پوری معرفت حاصل ہو اور وہ خود فراموشی یا غفلت سے بچا رہے۔ چند نام تو آیت ٢٢ میں گزر چکے ہیں۔ مزید جو بیان ہوئے وہ یہ ہیں : [٣٠] الملک یعنی علی الاطلاق بادشاہ، کسی مخصوص علاقے، ملک یا پوری زمین کا ہی نہیں، بلکہ پوری کائنات کا بادشاہ، اور بادشاہ کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ اپنی مملکت میں جو قانون چاہے رائج کرے اور اس کو نافذ کرے اور اس کی رعایا یا مملوک اس قانون کو تسلیم کرنے اور اس پر عمل کرنے کی پابند ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ پوری کائنات میں قانونی حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ وہی مقتدراعلیٰ (Sovereign) ہے۔ اسی کی حاکمیت اور اسی کا قانون سب سے بالاتر ہے۔ [٣١] القُدُّوْسُ۔ قَدُسَ کے معنی پاک و صاف ہونا ہے اور قدوس سے مراد وہ ذات ہے جو اضداد اور انداد (جمع ند بمعنی شریک) سے پاک ہو۔ (مقائیس اللغۃ) اور صاحب منجد کے نزدیک وہ ذات جو ہر بری بات اور نقص سے پاک ہو اور بابرکت بھی ہو۔ [٣٢] السَّلاَمُ۔ سلم یعنی بے گزند اور درست۔ صحیح و سالم اور بمعنی ظاہری اور باطنی آفات سے پاک اور محفوظ رہنا اور سلم ایسی چیز جو اپنی ذات میں درست بھی ہو اور اس پر کسی دوسرے کا کوئی حق نہ ہو۔ اور السلام کے معنی سراسر سلامتی ہی سلامتی۔ اس میں از خود مبالغہ پیدا ہوجاتا ہے جیسے کسی حسین کو یہ کہہ دیا جائے کہ وہ سراپا حسن ہے۔ سلام کا ایک مطلب تو مندرجہ معنی سے واضح ہے اور دوسرا مطلب یہ کہ وہ دوسروں کو بھی سلامتی عطا کرنے والا ہے۔ [٣٣] المؤمن۔ اَمَنَ بمعنی خوف و خطر سے محفوظ ہونا اور مؤمن کے معنی دوسروں کو امان دینے والا۔ امن عطا کرنے والا۔ یعنی ایسا قانون دینے والا جس سے فساد فی الارض کے بجائے امن و امان قائم ہو نیز مخلوق اللہ کی طرف سے کسی قسم کی حق تلفی، زیادتی یا ظلم کے خوف سے مکمل طور پر امن میں رہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک اس کے معنی مصدق کے ہیں۔ یعنی اپنی اور اپنے رسولوں کی قولاً اور فعلاً تصدیق کرنے والا یا مومنوں کے ایمان پر مہر تصدیق ثبت کرنے والا ہے۔ [٣٤] اسمائے حسنیٰ کی لغوی تشریح :۔ المُھَیْمِنُ کہتے ہیں ھَیْمَنَ الطائرُ علٰی فَراخِہٖ یعنی پرندے نے اپنے پر اپنے بچے پر بچھا دیئے۔ جیسے مرغی خطرہ کے وقت اپنے چوزوں کو اپنے پروں کے نیچے چھپا لیتی ہے۔ لہٰذا مہیمن وہ ذات ہے جو (١) کسی کو خوف سے امن دے، (٢) ہر وقت نگہبانی رکھے اور (٣) کسی کا کوئی حق ضائع نہ ہونے دے (منتہی الارب) [٣٥] العزیز بمعنی بالا دست (ضد ذلیل بمعنی زیردست) جیسے دیہات میں ایک طبقہ کمین لوگوں کا ہوتا ہے جو زیردست ہوتا ہے اور دوسرا زمینداروں کا جو بالا دست ہوتا ہے۔ اور العزیز سے مراد وہ بالا دست ہستی ہے جس کے مقابلہ میں کوئی سر نہ اٹھا سکتا ہو۔ جس کی مزاحمت کرنا کسی کے بس میں نہ ہو۔ جس کے آگے سب بے بس ' بے زور اور کمزور ہوں۔ [٣٦] الجَبَّارُ۔ جبر میں دو باتیں بنیادی طور پر پائی جاتی ہیں۔ (١) زبردستی کرنا (٢) اصلاح۔ یعنی زبردستی اور دباؤ سے کسی چیز کی اصلاح کردینا۔ اور جَبَرَ العَظْم بمعنی ٹوٹی ہوئی ہڈی کو درست کرنا۔ نیز کبھی یہ لفظ محض زبردستی کرنے کے معنوں میں بھی آجاتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ جبار اس لحاظ سے ہے، کائنات کے نظام کو بزور درست رکھنے والا ہے اور اپنے ارادوں کو جو سراسر حکمت پر مبنی ہوتے ہیں پوری قوت سے نافذ کرنے والا ہے۔ [٣٧] المُتَکَبِّرُ کے دو مفہوم ہیں۔ ایک یہ کہ کوئی شخص فی الحقیقت بڑا نہ ہو مگر بڑا بننے کی کوشش کرے۔ خواہ وہ کوئی جن ہو یا انسان اور یہ صفت انتہائی مذموم ہے۔ دوسرا وہ جو فی الحقیقت بڑا ہو اور بڑا ہی ہو کر رہے۔ اور یہ صفت صرف اللہ ہی کے لیے سزاوار ہے۔ اور اس کے حق میں یہ ایک خوبی ہے جو دوسری کسی مخلوق میں نہیں پائی جاتی۔ کائنات کی باقی تمام چیزیں خواہ جاندار ہوں یا بے جان اس کے مقابلہ میں چھوٹی یا حقیر ہیں۔ [٣٨] یعنی جو لوگ اللہ کی ذات یا صفات میں دوسروں کو بھی شریک بنالیتے ہیں وہ اللہ پر بہتان باندھتے ہیں۔ کیونکہ اللہ ایسی تمام باتوں سے پاک ہے۔ اس کے اختیارات و تصرفات میں کسی کو ذرہ بھر بھی دخل نہیں۔ الحشر
24 ٣٩] الخَالِق۔ خلق کا لفظ تین معنوں میں آتا ہے۔ (١) کسی چیز کو بنانے کے لیے اس کا اندازہ لگانا یا خاکہ تیار کرنا۔ گویا تخلیق کا کام ذہنی بھی ہوسکتا ہے اور اس کی نسبت غیر اللہ کی طرف بھی ہوسکتی ہے۔ (٢) کبھی یہ لفظ ابداع کے معنوں میں بھی آجاتا ہے۔ یعنی پہلی بار بنانا اور کسی نمونہ کے یا کسی تقلید کے بغیر بنانا۔ انوکھی چیز بنانا' قرآن کریم میں جیسے اللہ تعالیٰ کے لیے ﴿خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضَ﴾ ہے ویسے ہی ﴿بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضِ﴾ بھی آتا ہے۔ اس صورت میں اس کی نسبت غیر اللہ کی طرف نہیں ہوسکتی، (٣) اور خلق کا عام مفہوم یہ ہے کہ ایک چیز سے دوسری چیز بنائی جائے۔ پہلے مادہ موجود ہو تو اس سے کوئی دوسری چیز بنائی جائے۔ اس صورت میں بھی اس کی نسبت غیر اللہ کی طرف ہوسکتی ہے۔ اور اس لحاظ سے اللہ خالق ہی نہیں بلکہ احسن الخالقین ہے۔ [٤٠] البَارِیُ۔ برأ بمعنی کسی چیز کو عدم سے وجود میں لانا، جامہ خلقت پہنانا، کسی چیز کا مادہ بھی وجود میں لانا پھر اس سے تخلیق کرنا یا بغیر مادہ کے تخلیق کرنا اور یہ صفت صرف اللہ کی ہے۔ دوسرا کوئی باری نہیں ہوسکتا۔ [٤١] المُصَوِّرُ بمعنی صورت بنانے والا۔ تصویر بنانے والا۔ اس کے کئی پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ وہ رحم مادر میں نطفہ اور مضغہ پر نقش و نگار بناتا ہے کسی کے نقوش تیکھے، کسی کے بھدے، کسی کی آنکھیں موٹی، کسی کی چھوٹی، کسی کا قد چھوٹا کسی کا بڑا۔ دوسرا پہلو یہ کہ ہر جاندار کی شکل و صورت الگ الگ ہے۔ انسان کی صورت الگ ہے، گھوڑے کی الگ، شیر کی الگ، بکری کی الگ، وغیرہ وغیرہ، تیسرا پہلو نباتات اور مختلف قسم کے پھولوں کی شکل و صورت ہے۔ غرضیکہ ہر چیز کو اللہ نے ایک صورت عطا فرمائی اور وہ بڑی اچھی صورت بنانے والا ہے۔ [٤٢] اللہ کے ماسوائے اللہ تعالیٰ کے باقی سب نام صفاتی ہیں۔ اور چونکہ اللہ کی سب صفات بہترین ہیں۔ لہٰذا اس کے سب نام بھی اچھے ہیں۔ جو اعلیٰ درجہ کی خوبیوں اور کمالات پر دلالت کرتے ہیں۔ عیب اور نقص والی کوئی صفت اس میں ہے ہی نہیں۔ احادیث صحیحہ کے مطابق ان ناموں کی تعداد ننانوے ہے۔ ان کو حفظ کرنا اور صبح و شام ان کو پڑھنا باعث خیروبرکت ہے۔ الحشر
0 الممتحنة
1 [١] غزوہ مکہ کا فوری سبب :۔ معاہدہ حدیبیہ، جسے اللہ نے فتح مبین قرار دیا ہے، کی دوسری شرط کے مطابق بنو خزاعہ مسلمانوں کے اور بنوبکر قریش کے حلیف بن چکے تھے۔ اس صلح کے ڈیڑھ سال بعد بنوخزاعہ اور بنوبکر کی آپس میں لڑائی ہوگئی تو قریش مکہ نے معاہدہ کے برخلاف کھلم کھلا بنوبکر کی بھرپور مدد کی اور جب بنوخزاعہ نے حرم میں پناہ لی تو انہیں وہاں بھی نہ چھوڑا۔ اس واقعہ کے بعد بنوخزاعہ کے چالیس شتر سوار فریاد کے لیے مدینہ پہنچے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کی اس بدعہدی پر سخت افسوس اور صدمہ ہوا۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے لیے مندرجہ ذیل تین شرطیں پیش کیں : ١۔ بنوخزاعہ کے مقتولین کا خون بہا ادا کیا جائے، (٢) قریش بنوبکر کی حمایت سے دستبردار ہوجائیں، (٣) اعلان کیا جائے کہ حدیبیہ کا معاہدہ ختم ہوگیا۔ قاصد نے جب یہ شرائط قریش کے سامنے پیش کیں تو ان کا نوجوان طبقہ بھڑک اٹھا اور ان میں سے ایک جوشیلے نوجوان فرط بن عمر نے قریش کی طرف سے اعلان کردیا کہ ’’صرف تیسری شرط منظور ہے‘‘ جب قاصد واپس چلا گیا تو ان لوگوں کا جوش ٹھنڈا ہو کر ہوش و حواس درست ہوئے اور سخت فکر دامنگیر ہوگئی۔ چنانچہ ابو سفیان کو تجدید معاہدہ کے لیے مدینہ بھیجا گیا۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تجدید معاہدہ کی درخواست کی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہ دیا۔ پھر اس نے علی الترتیب سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ ' سیدنا عمر رضی اللہ عنہ حتیٰ کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا تک سے سفارش کے لیے التجا کی لیکن سب نے یہی جواب دیا کہ ہم اس معاملہ میں دخل نہیں دے سکتے۔ لاچار اس نے مسجد نبوی میں کھڑے ہو کر یکطرفہ ہی اعلان کردیا کہ میں نے معاہدہ حدیبیہ کی تجدید کردی۔ غزوہ مکہ کی مہم میں رازداری :۔ قریش کی بدعہدی ہی حقیقتاً اعلان جنگ کے مترادف تھی۔ پھر ان کے صرف تیسری شرط منظور کرنے سے مزید تاخیر کی گنجائش بھی ختم ہوچکی تھی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت رازداری سے مکہ پر چڑھائی کی مہم کا آغاز کیا۔ حلیف قبائل کو جو پیغامات بھیجے گئے ان میں بھی یہ راز داری ملحوظ رکھی گئی تھی اور جس وقت ابو سفیان مدینہ پہنچا اس وقت آپ اس مہم کا آغاز فرما چکے تھے۔ لہٰذا اب تجدید معاہدہ کا وقت گزر چکا تھا۔ اسی لیے آپ نے اسے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ جس قدر رازداری سے آپ نے اس موقع پر کام لیا۔ پہلے کبھی نہ لیا تھا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ مکہ حرم تھا اور وہاں لڑائی کرنا مکہ کے احترام کے خلاف تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ چاہتے تھے کہ کفار مکہ کو خبر تک نہ ہو اور آپ ایک عظیم لشکر لے کر وہاں پہنچ جائیں۔ جس سے کفار مرعوب ہو کر مقابلہ کی جرأت ہی نہ کرسکیں۔ گویا آپ اس راز داری سے دو فائدے حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ایک یہ کہ مکہ فتح ہوجائے دوسرا یہ کہ وہاں کشت و خون بھی نہ ہو۔ حاطب بن ابی بلتعہ کا کفار مکہ کو خط بھیجنا اور راز فاش ہونے کا خطرہ :۔ انہی دنوں ایک نہایت سچے مسلمان حاطب ابن ابی بلتعہ سے ایک فاش غلطی ہوگئی۔ ان کے بال بچے مکہ میں تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ قریش مکہ کو اس راز سے مطلع کرکے ان پر ایک احسان کردیں تاکہ وہ اس دوران اس احسان کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کے بال بچوں کو گزند نہ پہنچائیں۔ مکہ سے سارہ نامی ایک عورت مدینہ آئی ہوئی تھی۔ حاطب رضی اللہ عنہ نے اس عورت کی خدمات حاصل کیں۔ ایک خط لکھ کر اس کے حوالہ کیا جو سرداران قریش کے نام تھا۔ اور اسے یہ تاکید کی کہ نہایت راز سے یہ خط کسی قریشی سردار کے حوالے کردے اور اس عورت کی اس خدمت کے عوض اسے دس دینار بھی دے دیئے۔ اس طرح اس عورت کی حیثیت سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کے قاصد کی بن گئی تھی۔ سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کا یہ خط چونکہ بنے بنائے سارے کھیل پر پانی پھیر دینے کے مترادف تھا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی مدینہ سے روانگی کے فوراً بعد آپ کو بذریعہ وحی اس معاملہ سے مطلع فرما دیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو اقدام کیا وہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : آپ کا خط واپس لانے کے لئے وفد بھیجنا :۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے، زبیر رضی اللہ عنہ اور مقداد تین آدمیوں کو (ایک مہم پر) روانہ کیا۔ فرمایا (مکہ کے رستہ پر) روضہ خاخ (ایک مقام کا نام) تک جاؤ۔ وہاں تمہیں ایک عورت (سارہ) ملے گی جو اونٹ پر سوار ہوگی۔ اس کے پاس ایک خط ہے وہ لے آؤ۔ چنانچہ ہم تینوں گھوڑے دوڑاتے روضہ خاخ پہنچ گئے تو فی الواقع وہاں ایک شتر سوار عورت ملی۔ ہم نے اسے کہا :’’جو تمہارے پاس خط ہے وہ نکال دو‘‘ وہ کہنے لگی :’’میرے پاس تو کوئی خط نہیں‘‘ ہم نے کہا: ’’نکال دو تو خیر ورنہ ہم تمہارے کپڑے اتار دیں گے‘‘ چنانچہ اس نے اپنے جوڑے میں سے وہ خط نکال کر ہمیں دے دیا اور ہم وہ خط آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے۔ اس خط کا مضمون یہ تھا : ’’حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے چند مشرکین مکہ کے نام۔ اور اس میں انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملہ (مکہ پر چڑھائی) کی خبر دی گئی تھی۔ حاطب بن بلتعہ سے باز پرس :۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حاطب رضی اللہ عنہ سے پوچھا : حاطب ! یہ کیا بات ہے؟ (تم نے جنگی راز کیوں فاش کردیا ؟) حاطب نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے معاملہ میں جلدی نہ کیجئے۔ (اور میری بات سن لیجئے) میں ایک ایسا آدمی ہوں جو اصل قریشی نہیں۔ آپ کے ساتھ جو دوسرے مہاجر ہیں (وہ اصل قریشی ہیں) ان کے رشتہ دار قریش کے کافروں میں موجود ہیں جن کی وجہ سے ان کے گھر بار اور مال و اسباب محفوظ رہتے ہیں۔ میں نے یہ چاہا کہ میرا ان سے کوئی نسبی رشتہ تو ہے نہیں میں ان پر کچھ احسان کرکے اپنا حق قائم کروں تاکہ وہ میرے رشتہ داروں کی حمایت کریں۔ آپ کا سیدنا حاطب کی معذرت قبول کرنا :۔ میں نے یہ کام کفر یا اپنے دین سے پھر جانے کی بنا پر نہیں کیا۔یہ سن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مسلمانوں سے) کہا :’’حاطب نے تم سے سچ سچ بات کہہ دی‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے : ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس کی گردن اڑا دوں‘‘ آپ نے فرمایا : دیکھو! یہ جنگ بدر میں شریک تھا اور تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ نے اہل بدر پر (عرش معلی سے) جھانکا پھر فرمایا :’’(ماسوائے شرک کے) تم جو بھی عمل کرو میں نے تمہیں بخش دیا‘‘ عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ یہ آیت اسی باب میں نازل ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) [٢] یعنی کفار مکہ کا تم سے یہ سلوک تھا کہ انہوں نے تمہاری زندگی اس قدر اجیرن بنا رکھی تھی کہ تم ترک وطن پر مجبور ہوگئے تھے اور تمہارا ان سے یہ سلوک ہو کہ تم ان کے لیے جنگی راز تک فاش کر ڈالتے ہو۔ تاکہ وہ اپنی ٹھیک ٹھاک مدافعت کا انتظام کرسکیں۔ اور اس معاملہ میں تم مسلمانوں کے اجتماعی مفادات کو بھی نظرانداز کر رہے ہو؟ علاوہ ازیں ان لوگوں نے تمہیں ہجرت پر مجبور کردیا۔ حالانکہ تم نے ان کا کچھ بھی نہ بگاڑا تھا۔ ان کی نظروں میں اگر تمہارا کچھ جرم تھا تو صرف یہ کہ تم اللہ پر ایمان لے آئے تھے؟ [٣] اب اگر تم محض میری رضا کی خاطر اس مہم میں شریک ہو رہے ہو تو کیا یہ کام تم نے میری رضا کے مطابق کیا ہے یا اس کے خلاف؟ اللہ تعالیٰ کے اس عتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا عمر کو جو سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ پر غصہ آیا تھا اور رسول اللہ سے سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کی اجازت مانگی تھی۔ تو وہ بھی بہت حد تک حق بجانب تھے کیونکہ سیدنا عمررضی اللہ عنہ جنگی اسرارورموز اور ان کے نتائج سے پوری طرح واقف تھے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حاطب کو اس لیے معاف فرما دیا کہ ان کی نیت میں کوئی فتور نہ تھا۔ نیز سیدنا حاطبص ایسے راز کے فاش کردینے کے نتائج سے پوری طرح واقف نہ تھے۔ لہٰذا آپ نے اپنی نرمی طبع کی بنا پر خیر کے پہلو کو ترجیح دیتے ہوئے سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کو معاف فرما دیا۔ بالخصوص اس صورت میں کہ اللہ نے مسلمانوں کو سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کے اس فعل کے برے نتائج سے بچا لیا تھا۔ [٤] ان آیات سے کن کن چیزوں پر ثبوت مہیا ہوتا ہے؟ تم کیا سمجھتے ہو کہ اگر تم نے نہایت رازداری سے کوئی خط قریش مکہ کو بھیجا ہے تو اللہ کو بھی اس کا علم نہ ہوگا ؟ اور تمہاری اتنی فاش غلطی کو بھی وہ چھپا ہی رہنے دے گا ؟ یہ آیات بھی منجملہ ان آیات کے ہے جن سے اللہ تعالیٰ کی ہستی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے، قرآن کے منزل من اللہ ہونے اور اللہ تعالیٰ کے عالم الغیب و الشہادۃ ہونے کے صریح ثبوت مہیا ہوتے ہیں۔ [٥] اگر کوئی مسلمان دانستہ راز فاش کردے تو وہ قابل گردن زدنی ہے :۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی سچا مسلمان غلطی سے یا نتائج سے اپنی نافہمی کی بنا پر کوئی جنگی راز فاش کر دے تو وہ کافر نہیں ہوجاتا۔ مسلمان ہی رہتا ہے۔ البتہ اس کا یہ جرم قابل مواخذہ ضرور ہے۔ لیکن اگر کوئی مسلمان دانستہ طور پر اور جان بوجھ کر ایسا کام کرے تو وہ منافق بھی ہے کافر بھی ہوجاتا ہے اور گردن زدنی بھی اس کا یہ جرم معاف نہیں کیا جاسکتا۔ الممتحنة
2 [٦] اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ جس خوش فہمی کی بنا پر سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ نے یہ کام کیا تھا۔ وہ توقع بھی عبث اور لاحاصل تھی۔ ان کافروں کے دلوں میں تمہارے لیے اس قدر بغض و عناد ہے کہ وہ تمہیں زندہ دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے۔ کسر صرف اتنی ہے کہ ان کا بس نہیں چل رہا۔ اور اگر کسی وقت تم پر ان کا بس چل جائے تو پھر وہ وہی کچھ کریں گے جو پہلے کرچکے ہیں۔ ان کی چیرہ دستیوں سے بچنے کے لیے صرف ایک صورت ہے اور وہ یہ کہ تم بھی انہی کی طرح پھر سے کافر بن جاؤ اور ان کی جمعیت میں شامل ہوجاؤ۔ بتاؤ کیا تم یہ پسند کرو گے؟ الممتحنة
3 [٧] تم نے یہ کام صرف اس لیے کیا کہ مکہ میں تمہارے بال بچے کافروں کی ایذا رسانی سے محفوظ رہیں۔ تم نے اپنے بال بچوں کے مفاد کو اسلام کے اجتماعی مفاد کے مقابلہ میں ترجیح دی۔ حالانکہ قیامت کے دن تمہارے یہ بال بچے تمہارے کسی کام نہ آسکیں گے۔ بال بچوں کی خاطر جس خطرناک غلطی کا تم نے ارتکاب کیا ہے۔ اگر اللہ تمہیں اس کی پاداش میں پکڑے تو کیا یہ بال بچے تمہیں اللہ سے بچا سکیں گے؟ الممتحنة
4 [٨] سیدنا ابراہیم اور ان کے ساتھیوں کا اپنی قوم کو دو ٹوک جواب تمہارے لئے نمونہ ہے :۔ تم سے پہلے تمہارے لیے ایک اچھی مثال موجود ہے اور وہ تمہارے لیے قابل تقلید ہے۔ جس طرح تم اللہ کے رسول پر ایمان لائے ہو، اسی طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر بھی کچھ لوگ ایمان لائے تھے۔ جوں جوں وہ ایمان لاکر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ملتے گئے۔ اپنی قوم اور اپنے گھر والوں سے بیزار ہوتے گئے اور انہوں نے واضح طور پر اپنی قوم اور اپنے تعلق داروں سے کہہ دیا تھا کہ ہمارے اور تمہارے درمیان اب کوئی تعلق نہیں رہا، نہ رشتہ داری کا نہ دوستی کا۔ بلکہ اس کے بجائے ہم تمہارے دشمن ہیں۔ اور ہماری یہ دشمنی تم سے اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک تم شرک سے دستبردار ہو کر اللہ اکیلے پر ایمان نہ لے آؤ۔ عبادت کرو تو صرف اسی کی کرو۔ دعا کرو تو اسی سے کرو۔ اپنی حاجت روائیوں اور مشکل کشائیوں کے لیے اسی کو پکارو اور اپنے بتوں سے کچھ توقع نہ رکھو۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کے پیروکاروں نے تو برملا یہ کہہ دیا تھا اور تم لوگ مشرکوں کو خفیہ خط لکھ کر ان سے دوستی گانٹھتے ہو؟ [٩] باپ کے حق میں دعائے مغفرت پھر رجوع :۔ آپ لوگوں کے لیے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سب باتیں قابل تقلید ہیں مگر یہ بات قابل تقلید نہیں جو انہوں نے اپنے مشرک باپ کے حق میں اللہ سے مغفرت کی دعا کی تھی۔ ہوا یہ تھا کہ جب باپ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اپنے گھر سے نکال دیا تھا تو اس وقت سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ سے دعائے مغفرت کا وعدہ کیا تھا۔ (١٦: ١٤٧) اسی وعدہ کو پورا کرنے کی غرض سے آپ نے دو بار اپنے باپ کے حق میں دعائے مغفرت کی بھی تھی۔ پہلی بار کی دعا کا ذکر سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر ٤١ میں ہے اور دوسری بار کی دعا کا ذکر سورۃ الشعراء کی آیت نمبر ٨٦ میں ہے۔ پھر جب آپ کو پوری طرح معلوم ہوگیا کہ باپ شرک سے دستبردار ہونے کو قطعاً تیار نہیں۔ اور مشرک کی معافی کی اللہ کے ہاں کوئی صورت نہیں تو آپ نے اپنے اس قول اور وعدہ سے رجوع کرلیا اور اس کے حق میں دعائے مغفرت کرنا چھوڑ دی۔ ضمناً اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ انبیاء کا آخری عمل قابل تقلید ہوتا ہے :۔ ایک یہ کہ انبیاء کا کوئی عمل جو ان کی زندگی میں مختلف رہا ہو، قابل تقلید وہ صورت ہوتی ہے جو ان کی آخری زندگی میں ہو۔ اور پہلی صورت سے انہوں نے خود رجوع کرلیا ہو یا بذریعہ وحی اس کی اصلاح کردی گئی ہو اور شریعت میں اس کی ممانعت وارد ہوچکی ہو۔ مشرک کے لئے دعائے مغفرت بھی جائز نہیں :۔ اور دوسری یہ کہ اہل ایمان کا مشرکوں سے اتنا تعلق بھی نہ ہونا چاہئے کہ وہ ان کے حق میں دعائے مغفرت ہی کردیں۔ خواہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ [١٠] یعنی میں تیرے لیے صرف دعائے مغفرت ہی کرسکتا ہوں۔ آگے اللہ تمہیں بخشے یا نہ بخشے یہ اللہ کے اختیار میں ہے۔ میرے اختیار میں کچھ نہیں۔ [١١] یہ ہے وہ دعا اور عمل جس پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھی عمل پیرا ہوئے تھے۔ اور اس کی تمہیں تقلید کرنا چاہیے۔ الممتحنة
5 [١٢] یہاں فتنہ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جو بڑا وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ فتنہ کے معنی آزمائش، دکھ، رنج، رسوائی، دیوانگی، عبرت، عذاب، مرض سب کچھ آسکتا ہے اور یہ لفظ عموماً برے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے اس جملہ یا دعا کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک تو ترجمہ سے واضح ہے۔ دوسرا یہ کہ اگر خدانخواستہ کافر ہم پر غالب آگئے تو ہمیں ہمارے دین پر قائم نہ رہنے دیں گے۔ اور پھر سے کفر و شرک میں مبتلا کرنے کا باعث بن جائیں گے۔ نیز وہ یہ سمجھیں گے کہ ہم ہی سچے دین پر ہیں۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ایسے اخلاق فاضلہ اور اعمال صالحہ کی توفیق دے کہ کافر لوگ ہماری طرف انگشت نمائی نہ کرسکیں اور طعنے نہ دے سکیں۔ الممتحنة
6 [١٣] سیدنا ابراہیم کے ساتھیوں کے تین اوصاف :۔ یعنی سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کے پیروکاروں کے یہاں اللہ تعالیٰ نے تین اوصاف بیان فرمائے۔ ایک یہ کہ انہوں نے مشرکوں سے مکمل طور پر قطع تعلق کرلیا تھا اور یہ قطع تعلق دائمی تھا، تاآنکہ مشرک شرک سے باز آجائے۔ دوسرے وہ صرف اللہ پر توکل رکھتے تھے، تیسرے وہ اپنے حق میں اخلاق فاضلہ اور اعمال صالحہ کی توفیق کی دعائیں بھی کرتے رہتے تھے اور بجا بھی لاتے ہیں۔ یہ صفات بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ اگر تم لوگ فی الواقع اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے اور اس سے جزائے اعمال کی امید رکھتے ہو تو تمہیں بھی ان جیسے کام کرنے چاہئیں۔ [١٤] تَوَلَّ کا ایک معنی تو وہی ہے جو ترجمہ میں مذکور ہے۔ اس کا دوسرا معنی دوست بنانا، دوستی گانٹھنا ہے۔ یعنی جو شخص سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کے قابل تقلید نمونہ کے باوجود اللہ اور آخرت پر ایمان لانے اور توقع رکھنے کے باوجود مشرکوں سے دوستی گانٹھتا ہے تو اللہ کو اس کے ایسے ایمان کی کوئی پروا نہیں۔ کیونکہ وہ تو بے نیاز ہے۔ اور یہ مطلب اصل مضمون سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ [١٥] یہ صورت نہیں کہ اگر کوئی اللہ کی حمد و ثنا بیان کرے تو تب ہی وہ محمود ہے۔ وہ کسی کے حمد و ثنا بیان کرنے کا محتاج نہیں۔ کیونکہ وہ اپنی ذات میں آپ محمود ہے۔ اس کی حمدو ثنا بیان کرنے سے حمد کرنے والے کو ہی فائدہ پہنچتا ہے۔ اللہ کا اس سے کچھ نہیں سنورتا اور حمد و ثنا نہ کرنے سے اس کا بگڑتا بھی کچھ نہیں۔ الممتحنة
7 [١٦] فتح مکہ سے پیشتر کفار مکہ کے ایمان لانے کی خوشخبری :۔ اس آیت میں مسلمانوں کو فتح مکہ سے پہلے ہی فتح مکہ کی خوشخبری دے دی گئی ہے۔ اور ابتداء میں عسیٰ کا لفظ محض شاہانہ انداز بیان کی رعایت سے آیا ہے۔ جیسے کوئی بادشاہ اپنے کسی ملازم کو کہے کہ ہوسکتا ہے کہ تمہیں ترقی دے دی جائے۔ تو اس کا مطلب ایک یقینی خبر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صرف فتح مکہ کی خبر ہی نہیں دی۔ بلکہ یہ بھی بتلا دیا کہ مکہ کے کافر جو آج تمہارے سخت دشمن ہیں۔ اسلام قبول کرلیں گے اور تم لوگ پھر آپس میں شیروشکر بن جاؤ گے۔ [١٧] یعنی اللہ کو یہ قدرت حاصل ہے کہ حالات کا رخ اس طرح موڑ دے کہ مکہ بھی فتح ہوجائے۔ کشت و خون بھی نہ ہو اور کافروں کی اکثریت بھی مسلمان ہو کر تمہارے ساتھ مل جائے۔ رہی وہ غلطی جو اس سلسلہ میں تم نے کی ہے۔ تو اللہ اس غلطی کو بھی اور اسی طرح تمہاری دوسری غلطیوں اور لغزشوں کو بھی ازراہ کرم معاف کردینے والا ہے۔ الممتحنة
8 [١٨] لڑنے کا حکم صرف ان کافروں سے ہے جو دکھ پہنچاتے اور معاندانہ سرگرمیوں میں مشغول ہوں۔ عام کافروں سے نہیں 'محض کفر لڑائی کا سبب نہیں بن سکتا :۔ اس آیت کی رو سے اللہ تعالیٰ نے کافروں کو دو گروہوں میں تقسیم فرمایا ہے۔ ایک وہ جو معاند تھے۔ مسلمانوں کو ایذائیں پہنچاتے، اسلام کی راہ روکتے اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے میں سرگرم تھے۔ دوسرے مسالم جو کافر تو تھے مگر روادار تھے۔ غیر جانبدار بن کر رہے۔ مسلمانوں کو نہ کوئی دکھ پہنچایا نہ ان کے خلاف کسی کارروائی میں حصہ لیا۔ اور یہ دونوں قسم کے لوگ مکہ میں بھی رہتے تھے اور ارد گرد بھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے لیے الگ الگ احکام بیان فرمائے۔ پہلی قسم کے لوگوں سے سلوک کا بیان ابتدائے سورۃ سے چلا آرہا ہے۔ رہے دوسری قسم کے بے ضرر قسم کے کافر تو ان کے ساتھ رواداری کا حکم فرمایا۔ یعنی ان سے تم کو بھی عداوت نہ رکھنی چاہئے۔ اور رشتہ داری کے حقوق کا بھی خیال رکھنا چاہئے اور ان سے بہتر سلوک کرنا چاہئے۔ کیونکہ انصاف کا یہی تقاضا ہے کہ ان دونوں سے سلوک میں فرق رکھا جائے۔ اس سے دو اہم باتوں کا پتہ چلتا ہے ایک یہ کہ مسلمانوں کی عداوت کی بنیاد محض کفر نہیں بلکہ اسلام کے خلاف معاندانہ سرگرمیاں ہیں۔ اسی وجہ سے اسلام نے دوران جنگ بچوں، بوڑھوں، عورتوں، عبادت گزار اور درویش قسم کے لوگوں اور جنگ میں شریک نہ ہونے والے کافروں کو قتل کرنے سے منع فرما دیا ہے۔ اور دوسری یہ کہ اسلام ایک حق پسند، انصاف پسند اور امن پسند دین ہے۔ جو صرف ان لوگوں سے تعرض کرتا ہے۔ جو اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں یا اس کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ الممتحنة
9 [١٩] معاند قسم کے کافر ہی اسلام، پیغمبر اسلام، اہل اسلام اور اللہ کے دشمن ہیں۔ اور ایسے لوگوں سے دوستی دراصل اسلام اور اہل اسلام سے دشمنی کے مترادف ہے۔ لہٰذا اس قسم کے کافروں کو دوست بنانا یا ان سے راز و نیاز کی باتیں کہنا یا بتانا بڑے ظلم کی بات ہے۔ الممتحنة
10 [٢٠] ہجرت کرنے والوں کی تین قسمیں :۔ آیت نمبر دس اور گیارہ میں ایک نہایت اہم معاشرتی مسئلہ کا حل پیش کیا گیا ہے جو آغاز ہجرت سے ہی کئی طرح کی الجھنوں کا باعث بنا ہوا تھا۔ مکہ میں بہت سے ایسے لوگ تھے جو خود تو مسلمان ہوچکے تھے مگر ان کی بیویاں کافر تھیں یا بیویاں مسلمان ہوچکی تھیں تو شوہر کافر تھے۔ ہجرت کرنے سے یہ مسئلہ مزید سنگین بن گیا تھا۔ ہجرت کرنے والوں کی تین قسمیں تھیں۔ (١) میاں بیوی دونوں مسلمان اور ہجرت کرکے مدینہ آگئے :۔ ایک وہ جو دونوں میاں بیوی مسلمان ہوں اور دونوں نے ہجرت کی ہو۔ جیسے سیدنا عثمان اور ان کی اہلیہ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی۔ ایسے لوگوں کا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ اور عموماً ایسے جوڑے آگے پیچھے یا ایک ساتھ مدینہ پہنچ ہی جاتے تھے۔ (٢) میاں مسلمان مدینہ میں بیوی کافر مکہ میں :۔ دوسرے وہ جو خاوند مسلمان تھے مگر بیوی یا بیویاں کافر جیسے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خود تو ہجرت کرکے مدینہ آگئے لیکن ان کی دو کافر بیویاں مکہ ہی میں رہ گئیں۔ (٣) بیوی مسلمان مدینہ میں میاں کافر مکہ میں :۔ تیسرے وہ جو بیوی مسلمان ہوچکی ہو اور خاوند کافر مکہ میں رہ جائے۔ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی صاحبزادی سیدہ زینب تو مدینہ میں پہنچ گئیں مگر ان کا کافر خاوند عمرو بن عاص مکہ میں ہی رہ گیا۔ مردوں کے لیے یہ مسئلہ اس لحاظ سے زیادہ سنگین نہ تھا کہ وہ دوسرا نکاح کرسکتے تھے اور کرلیتے تھے۔ مگر عورتوں کے لیے اتنی مدت تک رشتہ ازدواج میں منسلک رہنا بڑا سنگین مسئلہ تھا۔ پھر جب صلح حدیبیہ ہوئی تو اس کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ جو مسلمان مکہ سے مدینہ آئے گا۔ مسلمان اسے واپس مکہ کافروں کے ہاں لوٹانے کے پابند ہوں گے۔ اور اس شرط کے تحت مسلمانوں نے کافروں کے مطالبہ پر کچھ لوگ لوٹا بھی دیئے۔ اسی دوران جب ام کلثوم بنت عقبہ ہجرت کرکے مدینہ آگئیں تو کافروں نے ان کی واپسی کا بھی مطالبہ کردیا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں کے اس مطالبہ کو درست تسلیم نہیں کیا۔ وجہ یہ تھی کہ یہ شرط کافروں کے تیسرے اور آخری سفیر سہیل بن عمرو نے ان الفاظ میں لکھوائی تھی (علی ان لا یاتیک منا رجل فان کان علٰی دینک الا رددتہ الینا) (بخاری۔ کتاب الشروط۔ باب الشروط فی الجھاد والمصالحۃ اھل الحرب) ترجمہ : (ور یہ کہ اگر ہم میں سے کوئی مرد، خواہ وہ تمہارے دین پر ہی کیوں نہ ہو، تمہارے پاس آئے تو تمہیں اسے ہمارے طرف واپس کرنا ہوگا) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف کہہ دیا کہ اس شرط کے الفاظ کی رو سے عورتیں از خود مستثنیٰ ہیں۔ اس وقت جاکر قریشیوں کی یہ غلط فہمی دور ہوئی۔ ورنہ وہ یہی سمجھے بیٹھے تھے کہ ہم عورتیں بھی واپس لا سکتے ہیں۔ ان آیات میں ایسی ہی مہاجر عورتوں کے ازدواجی مسائل کا حل بتایا گیا ہے۔ [٢١] ہجرت کرکے آنے والی عورتوں کے امتحان :۔ یعنی ان ہجرت کرنے والی عورتوں کے ایمان یا دلوں کا حال تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن تم ظاہری طور پر ان کا امتحان لے لیا کرو کہ آیا وہ واقعی مسلمان ہیں اور محض اسلام کی خاطر وطن چھوڑ کر آئی ہیں؟ کوئی دنیوی یا نفسانی غرض تو اس ہجرت کا سبب نہیں تھی؟ یا کہیں خاوندوں سے لڑ کر یا خانگی جھگڑوں سے بیزار ہو کر یا محض سیر و سیاحت یا کسی دوسری غرض سے تو یہاں نہیں آئیں؟ اس حکم کے مخاطب چونکہ مومن ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہیں۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غرض کے لیے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا انتخاب کیا تھا اور وہی مدینہ پہنچنے والی عورتوں کا امتحان لیتے تھے۔ [٢٢] ایسی عورتوں کے متعلق جو امتحان میں کامیاب ثابت ہوں پہلا حکم یہ ہوا کہ انہیں کسی صورت کافروں کی طرف واپس نہیں کیا جائے گا اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ اس حکم کے بعد وہ اپنے کافر خاوندوں کے لیے حلال نہیں رہیں۔ اس سے دو مسئلے مستنبط کئے گئے ہیں ایک یہ کہ اختلاف دین سے نکاح از خود ختم ہوجاتا ہے۔ کافر اور مومنہ عورت کا یا مومن مرد اور کافر عورت کا رشتہ نکاح از خود ٹوٹ جاتا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ اختلاف دارین سے بھی نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔ مثلاً ایک زوج دارالاسلام میں ہو اور دوسرا دارالحرب میں تو نکاح ازخود ختم ہوجائے گا کیونکہ ان کے درمیان یہ رشتہ قائم رکھنا محال ہے۔ اس حکم کے بعد تمام مہاجر عورتوں کو نکاح کرنے کی اجازت مل گئی۔ [٢٣] کافر عورتوں کے نکاح کی تنسیخ اور حق مہر کی ادائیگی کے طریقے :۔ اب رہا حق مہر کا مسئلہ، جو مسلمان عورتیں ہجرت کرکے مدینہ آگئی تھیں ان کے متعلق یہ حکم ہوا کہ جو مسلمان ان سے نکاح کرے۔ وہ اس عورت کا سابقہ حق مہر اس کافر کو بھی ادا کرے گا۔ جس کے نکاح میں وہ پہلے تھی۔ اور اس نئے نکاح میں جو حق مہر طے ہو وہ بھی ادا کرے گا اور مسلمانوں کی جو عورتیں کافر تھیں اور کافروں کے پاس مکہ میں ہی رہ گئی تھیں ان کے متعلق یہ حکم ہوا کہ جن کافروں کے قبضہ میں یا نکاح میں وہ ہیں۔ وہ مسلمانوں کو یا اس خاص مسلمان کو حق مہر ادا کردیں یا لوٹا دیں جس کے نکاح میں وہ پہلے تھی۔ اور مسلمانوں کو اس رقم کا کافروں سے مطالبہ کرنا چاہیے۔ یعنی اس سلسلہ میں کافر مسلمانوں سے اور مسلمان کافروں سے اپنی سابقہ بیویوں کے حق مہر کی رقم کا مطالبہ کرسکتے ہیں اور یہ حکم اس لیے نازل ہوا کہ ان دنوں معاہدہ حدیبیہ کی رو سے صلح تھی۔ کافروں اور مسلمانوں میں ایسے لین دین کا معاملہ یا تبادلہ ہوسکتا تھا۔ الممتحنة
11 [٢٤] اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ فریقین کے حق میں نہایت منصفانہ اور حکیمانہ تھا۔ جو مسلمانوں کے لیے تو بہرحال واجب الاطاعت تھا لیکن کافروں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ وہ ان کافر عورتوں کا سابقہ حق مہر ان مسلمانوں کو دینے کے لیے تیار نہ ہوئے جن کے نکاح میں وہ پہلے تھیں۔ اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے دو طریقے بتائے۔ جن سے مسلمانوں کو اس رقم کی ادائیگی ہوسکتی تھی جو انہوں نے اپنی کافر بیویوں کو دی تھی اور یہ دونوں طریقے لفظ عاقَبْتُمْ سے ماخوذ ہیں۔ اس لفظ کا ایک مفہوم تو ترجمہ میں واضح کردیا گیا ہے۔ کہ ایسے مسلمانوں کو ان کا حق اموال غنائم سے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو بیت المال سے ادا کردیا گیا ہے۔ اور عاقَبْتُمْ کے معنی ’’جب تمہاری باری آئے‘‘ یا ’’تمہارا داؤ لگے‘‘ بھی کیے گئے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جمع تفریق کے ذریعہ حساب برابر کرلو۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ مثلاً ''الف'' اور ''ب'' دو مسلمان ہیں۔ جنہوں نے کافروں کی مدینہ پہنچ جانے والی مومن عورتوں سے نکاح کرنا ہے اور ان کا سابقہ حق مہر جو کافروں سے طے ہوا تھا، دو دو سو درہم ہے۔ دوسری طرف ''ج'' اور ''د'' دو کافر ہیں جو مکہ میں مسلمانوں کی کافر بیویوں پر قابض ہیں اور ان کا سابقہ حق مہر مثلاً ڈیڑھ ڈیڑھ سو درہم تھا۔ اب مسلمانوں نے کافروں کو ادا تو چار سو درہم کرنا ہے اور کافروں سے لینا تین سو درہم ہے۔ تو مسلمان کافروں کو اب صرف ایک سو درہم دے کر حساب بیباق کردیں گے۔ اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو مسلمانوں کو دینے کے بجائے کچھ لینا آتا ہو اور کافر دینے کو تیار نہ ہوں یا پورے کا پورا ہی نہ دے رہے ہوں تو اس کی صورت وہی ہوگی جو پہلے مذکور ہوچکی۔ یعنی انہیں اس وقت ادائیگی ہوگی جب کافروں سے مال غنیمت ہاتھ لگ جائے یا پھر یہ رقم بیت المال سے بھی ادا کی جاسکتی ہے۔ الممتحنة
12 [٢٥] عورتوں کی بیعت کن باتوں پر :۔ یعنی امتحان کے بعد ان مہاجر عورتوں کو نیز عام مسلمان عورتوں کو بیعت کا حکم ہوا۔ اور یہ بیعت صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیں گے۔ کیونکہ اس آیت کے مخاطب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔ اور جن گناہوں سے اجتناب پر بیعت لی جائے گی وہ سب کبیرہ گناہ ہیں۔ ان میں سب سے بڑا گناہ تو شرک ہے جو بالخصوص اللہ کے حق سے تعلق رکھتا ہے۔ دوسرے سب گناہ حدی جرائم ہیں۔ اور حقوق العباد سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان پانچ گناہوں میں سے شرک کے علاوہ باقی چار گناہ ایسے ہیں جن پر حد لگتی ہے۔ یہ تو وہ گناہ ہیں جن کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ کئی ایسے گناہ کے کاموں سے اجتناب پر بیعت لیتے تھے جن کا ذکر احادیث میں مذکور ہے۔ اور یہ سب ایسے جرائم ہیں جن کا عرب میں عام رواج تھا۔ [٢٦] جیسا کہ جاہلیت میں رواج تھا کہ رسمی ننگ و عار کی وجہ سے لڑکیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے۔ یا فقر و فاقہ کے خوف کی وجہ سے لڑکیوں کے علاوہ لڑکوں کو بھی مار ڈالتے تھے۔ نیز اس میں اسقاط حمل بھی شامل ہے۔ خواہ یہ جائز حمل کا اسقاط ہو یا ناجائز حمل کا۔ [٢٧] بہتان کی قسمیں :۔ اس بہتان کی بھی کئی صورتیں ہیں۔ ایک تو معروف و مشہور ہے یعنی کوئی عورت دوسری عورت پر کسی غیر مرد سے آشنائی کا الزام لگا دے جسے عموماً تہمت کہا جاتا ہے۔ دوسری یہ کہ خود زانیہ ہو، بچہ تو کسی دوسرے کا جنے اور شوہر کو یہ یقین دلائے کہ یہ تیرا ہی ہے۔ تیسری یہ کہ کسی دوسری عورت کی اولاد لے کر مکروفریب سے اپنی طرف منسوب کرلے۔ [٢٨] بیعت کا سلسلہ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ امت کا امیر اور دوسرے بزرگ حضرات بھی بیعت لے سکتے ہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اطاعت کے ساتھ معروف کی شرط بھی لگا دی۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ناممکن تھا کہ آپ کسی غیر معروف یا معصیت کے کام پر بیعت لیں اس سلسلہ میں آپ نے ایک واضح قانون ان الفاظ میں ارشاد فرمایا کہ (لا طاعۃ فی معصیۃ انما الطاعۃ فی المعروف) (متفق علیہ) یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا کام ہو تو کسی کی بھی اطاعت ضروری نہیں۔ اطاعت صرف بھلائی کے کاموں میں ہوتی ہے۔ اس آیت سے دوسری بات جو مستنبط ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ کی ہر بات واجب الاتباع ہے خواہ اس کا ذکر قرآن میں موجود ہو یا نہ ہو۔ [٢٩] عورتوں سے بیعت کا طریقہ :۔ آپ جب مردوں سے بیعت لیتے تو بیعت کرنے والا ہاتھ میں ہاتھ دے کر عہد کرتا تھا۔ لیکن عورتوں کے لیے یہ طریقہ نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا، کبھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں سے عہد لے کر کہہ دیتے کہ بس تمہاری بیعت ہوگئی۔ اور کبھی ایک چادر کا ایک سرا آپ پکڑے دوسرا بیعت کرنے والی عورت پکڑ کر عہد کرتی اور کبھی آپ پانی کے کسی پیالہ وغیرہ میں ہاتھ ڈالتے۔ پھر بیعت کرنے والی عورت دوسرے سرے سے ڈال دیتی اور جن باتوں پر آپ عورتوں سے یا مردوں سے بیعت لیتے رہے اس کی تفصیل کے لیے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : بیعت سے متعلق چند احادیث :۔ ١۔ سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ جو عورتیں ہجرت کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کے مطابق ان کا امتحان لیتے۔ پھر جو عورت ان شرطوں کو قبول کرتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم زبان سے ہی فرما دیتے کہ میں نے تجھ سے بیعت کی۔ اللہ کی قسم! بیعت لیتے وقت آپ کے ہاتھ نے کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) ٢۔ میت پر نوحہ کی مخالفت :۔ سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بیعت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت سنائی۔ پھر ہم کو مردے پر نوحہ کرنے سے منع فرمایا تو ایک عورت (یہ خود ام عطیہ ہی تھی) نے اپنا ہاتھ روکے رکھا اور کہنے لگی : فلاں عورت نے نوحہ کرنے میں میری مدد کی تھی میں اس کا بدلہ اتار لوں۔ یہ سن کر آپ خاموش رہے۔ وہ چلی گئی۔ پھر (نوحہ کرکے) واپس آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بیعت لے لی۔ (حوالہ ایضاً) ٣۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ میں نے عید کی نماز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابو بکر رضی اللہ عنہ ، عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ سب کے ساتھ پڑھی۔ آپ خطبہ سے پہلے نماز پڑھاتے پھر اس کے بعد خطبہ سناتے تھے۔ خطبہ کے بعد آپ منبر سے اترے گویا میں آپ کو دیکھ رہا ہوں جبکہ آپ ہاتھ کے اشارے سے لوگوں کو بٹھا رہے تھے۔ پھر ان کی صفیں چیرتے ہوئے آگے بڑھے عورتوں کے پاس آئے۔ بلال رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے۔ اور ان کے سامنے یہ (بیعت والی) پوری آیت پڑھی۔ اس سے فراغت کے بعد عورتوں سے پوچھا : ’’کیا ان شرطوں پر قائم ہوتی ہو؟‘‘ ایک عورت کے سوا کسی نے کوئی جواب نہ دیا (شرما گئیں) اس عورت (اسما بنت یزید) نے کہا : ہاں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بعد آپ نے ان سے کہا کہ وہ صدقہ کریں۔ بلال رضی اللہ عنہ نے اپنا کپڑا بچھا دیا۔ اور وہ چھلے اور انگوٹھیاں بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں ڈالنے لگیں۔ (حوالہ ایضاً) ٤۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (لیلۃ العقبہ) میں ہم سے فرمایا : تم مجھ سے ان باتوں پر بیعت کرتے ہو۔ ( أنْ لاَ تُشْرِکُوْا باللّٰہِ شَیْئًا وَلاَ تَزْنُوْا وَلاََ تَسْرِقُوْا) پھر جو ان شرطوں کو پورا کرے اس کا ثواب اللہ پر ہے اور جو کوئی کام کر بیٹھے پھر اس پر حد لگ جائے تو وہ اس کے گناہ کا کفارہ ہوجائے گا اور اگر کوئی گناہ کر بیٹھے اور اللہ اس کا گناہ چھپا دے تو پھر قیامت کے دن اللہ اگر چاہے تو اسے سزادے اور چاہے تو معاف کردے۔ (حوالہ ایضاً) بیعت کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد ہوا کہ آپ ان بیعت کرنے والیوں کے حق میں دعائے مغفرت بھی کیا کریں۔ کہ ان امور میں ان سے جو کو تاہیاں پہلے ہوچکی ہیں۔ یا آئندہ اس عہد کی تعمیل میں کچھ تقصیر رہ جائے تو اللہ انہیں معاف فرما دے۔ الممتحنة
13 [٣٠] سورۃ کے آخر میں ایک دفعہ پھر تاکید مزید کے طور پر اسی بات کو دہرایا گیا ہے کہ معاند قسم کے کافر کبھی تمہارے خیر خواہ نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا ان سے دوستی کی پینگیں مت بڑھاؤ۔ نہ ہی ان پر اعتماد کرو۔ جن پر اللہ ناراض ہے۔ اللہ کے دوستوں کو ان سے ناراض ہی رہنا چاہئے۔ [٣١] اصحاب قبور سے کافروں کی مایوسی کی مختلف توجہیات :۔ اس جملہ کے دو مختلف مطلب صحابہ سے منقول ہیں۔ ایک یہ کہ کافروں کا نہ آخرت پر ایمان ہے، نہ ہی قبروں سے مردوں کے دوبارہ جی اٹھنے پر۔ وہ آخرت میں جزاء و سزائے اعمال کی ویسے ہی توقع نہیں رکھتے جیسے مردوں کے قبروں سے جی اٹھنے کی توقع نہیں رکھتے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جو کافر قبروں میں پہنچ چکے ہیں حقیقت حال ان کے سامنے کھل کر آچکی ہے اور آخرت میں اللہ کی رحمت اور مہربانی سے ایسے ہی مایوس ہوچکے ہیں۔ جیسے کہ یہ کافر آخرت کے قیام سے ہی مایوس ہیں۔ یہ دونوں مطلب درست ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ بعض لوگوں نے، جو قبروں میں پڑے ہوئے اولیاء اللہ کے تصرفات کے قائل ہیں، ایک تیسرا مطلب بھی کشید کرلیا ہے جو یہ ہے کہ اہل قبور کے تصرفات سے جو لوگ مایوس ہیں اور اس بات کا یقین نہیں رکھتے وہ کافر ہیں۔ گویا اہل قبور کے تصرفات کو تسلیم نہ کرنا کافروں کا کام ہے۔ (نعوذ باللہ من شرور انفسا) الممتحنة
0 الصف
1 [١] یہ اس سورۃ کے افتتاحی کلمات ہیں جن کی تشریح پہلے بہت سے مقامات پر گزر چکی ہے۔ الصف
2 [٢] قول وفعل کا تضاد بہت بری خصلت ہے :۔ دوسری اور تیسری آیت کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ انسان دوسروں کو ایسی باتوں کی نصیحت کرے جن پر وہ خود عمل نہ کرتا ہو۔ مثلاً دوسروں کو اور بالخصوص اپنی اولاد کو یہ نصیحت کرے کہ سچ بولنا بہت اچھی عادت ہے لہٰذا ہمیشہ سچ بولا کرو۔ لیکن خود ان سے ایسی باتیں کہے جن سے اس کا جھوٹ واضح ہوجائے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ایسی لاف زنی مت کرو یا ایسی شیخیاں مت بگھارو جن پر تم عمل پیرا ہو ہی نہیں سکتے، انسان کے قول اور فعل کا تضاد بہت بری خصلت ہے۔ جس سے انسان لوگوں کی نظروں میں گر جاتا ہے اور اللہ تو ایسی بات کو سخت ناپسند کرتا ہے۔ زبان سے ایک بات کہہ دینا آسان ہے لیکن اس کو نباہنا آسان نہیں ہوتا لہٰذا جو بات کرو سوچ سمجھ کر کرو۔ الصف
3 الصف
4 [٣] جہاد کے سلسلہ میں تین ہدایات :۔ یہ ارشاد الٰہی تو ایک عام حکم کا درجہ رکھتا ہے کہ قول و فعل کا تضاد اللہ کے ہاں سخت ناپسندیدہ چیز ہے اور اس کا خصوصی پہلو یہ ہے کہ مکی زندگی کے دوران جبکہ مسلمانوں کو صرف صبر اور برداشت کا حکم تھا کئی مسلمان یہ آرزو کرتے تھے کہ انہیں کافروں سے لڑائی کی اجازت ملنی چاہیے اور اگر ہمیں یہ اجازت مل جائے تو ہم کافروں کو تہس نہس کردیں۔ مگر جب اجازت مل گئی تو بعض لوگ یوں کہنے لگے کہ پروردگار! ہم پر قتال کو فرض کرنے کی اتنی بھی کیا جلدی پڑی تھی (٤: ٧٧) اور کچھ لوگوں کے تو یہ حکم سن کر رنگ ہی اڑ گئے۔ انہیں یوں محسوس ہونے لگا تھا کہ بس ابھی موت آئی کہ آئی (٤٧: ٢٠) قول و فعل میں اس قدر تضاد اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ اور جو بات اللہ کو پسند ہے وہ یہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں جہاد کرو۔ جہاد کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں تین شرطیں بیان فرمائیں۔ ایک یہ کہ یہ جہاد محض اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے ہو، کوئی دوسری غرض اس سے وابستہ نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ دشمن کے سامنے اس طرح صف بندی کی جائے کہ اس میں کوئی رخنہ باقی نہ رہنے پائے۔ تیسرے یہ کہ تمہارے پائے ثبات میں کسی طرح کی لغزش یا تزلزل نہ آنے پائے۔ اور اپنی جگہ پر اس قدر جم کر مضبوطی سے کھڑے ہو کہ یوں معلوم ہو، جیسے وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے۔ الصف
5 [٤] بنی اسرائیل کا اپنے نبی سیدنا موسیٰ کو تکلیفیں پہنچانا :۔ تمام انبیاء کو اپنے مخالفین اور دشمنوں سے دکھ اور مصائب پہنچتے ہی رہے ہیں اور اس سے بھی زیادہ قابل افسوس بات یہ ہوتی ہے کہ اپنے ہی لوگ دکھ پہنچانے لگیں۔ اس سلسلہ میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو جس قدر پریشان کیا اور دکھ پہنچایا تھا۔ شاید ہی کسی دوسری قوم نے پہنچایا ہو۔ حالانکہ انہیں خوب معلوم تھا بلکہ یقین تھا کہ وہ اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے رسول ہیں۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے انہیں اللہ کے حکم کے مطابق ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تو طرح طرح کی کٹ حجتیاں اور سوال کر کرکے آپ کو پریشان کردیا۔ فرعون سے نجات پاکر آگے روانہ ہوئے ہی تھے کہ ایک قوم کو بت پوجتے دیکھ کر کہنے لگے : موسیٰ ! ہمیں بھی اس طرح کا ایک بت بنا دو۔ جس کی ہم پوجا کیا کریں۔ میدان تیہ میں ان کو بلا مشقت من و سلویٰ مل رہا تھا تو کہنے لگے: موسیٰ! ہم تو یہ غذا کھا کر تنگ آگئے ہیں اور جی بھر گیا ہے۔ لہٰذا اب سبزیاں اور دالیں کھانا چاہتے ہیں۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام طور پرتورات لینے گئے تو بعد میں ایک بچھڑا بنا کر اس کی پوجا شروع کردی اور کہنے لگے کہ موسیٰ علیہ السلام تو بھول کر طور پر چلے گئے۔ ہمارا اور اس کا معبود تو یہ ہے وہ وہاں کیا لینے چلے گئے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کتاب تورات لے کر آئے تو کہنے لگے۔ ہمیں کیسے معلوم ہو کہ یہ واقعی اللہ کی طرف سے ہی نازل شدہ کتاب ہے۔ ہم تو جب تک واضح طور پر اللہ کو دیکھ نہ لیں یہ کتاب ماننے کو تیار نہیں۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے انہیں ارض شام میں جہاد کرنے کو کہا تو کہنے لگے موسیٰ ! وہاں تو بڑے طاقتور لوگ رہتے ہیں ہم ان سے کیسے لڑ سکتے ہیں۔ اگر جہاد اتنا ہی ضروری ہے تو تم اور تمہارا رب دونوں جا کر ان سے جہاد کرو۔ ہم تو یہیں بیٹھیں گے۔ اپنی قوم کی ایسی ہی باتوں سے تنگ آکر سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے دعا کی تھی۔ ’’پروردگار! میرا اختیار تو صرف اپنی ذات پر اور اپنے بھائی پر ہے لہٰذا اس نافرمان قوم سے ہمارا ساتھ چھڑا دے‘‘ (٥: ٢٥) انبیاء اپنی دشمن قوم کے لیے تو ایسی دعا مانگتے ہی رہے ہیں۔ مگر کسی نبی نے غالباً اپنی قوم کے حق میں ایسی دعا کبھی نہیں مانگی۔ [٥] اپنے نبی کی شان میں گستاخیاں کرتے کرتے اور دکھ پہنچاتے پہنچاتے ان کی فطرت ہی کچھ ایسی ٹیڑھی بن چکی تھی کہ کسی حکم کو بھی وہ سچے ایمانداروں کی طرح تسلیم کرلینے کو تیار نہ ہوتے تھے۔ بلکہ اس میں مین میخ نکال کر اس کا کچھ الٹا ہی مطلب نکال لیتے تھے۔ پھر جب انہوں نے کجروی کی راہ اختیار کی تو اللہ نے بھی انہیں اسی راہ پر ڈال دیا۔ کیونکہ اللہ کا یہ دستور نہیں کہ وہ ٹیڑھی راہ اختیار کرنے والوں کو زبردستی سیدھی راہ پر ڈال دے۔ اس لیے کہ ایسا کرنے سے اس دنیا میں انسان کی آزمائش کا مقصد ہی ختم ہوجاتا ہے۔ الصف
6 [٦] ﴿مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰیۃِ ﴾ کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ سیدنا عیسیٰ ابن مریم اپنے سے پہلے کی نازل شدہ کتاب کی تصدیق کرنے والے تھے وہ شریعت موسوی یعنی تورات کی تعلیم کے ہی پیرو تھے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میرا وجود تورات کی باتوں کی تصدیق کرتا ہے کیونکہ میں ان چیزوں کا مصداق بن کر آیا ہوں جن کی خبر میرے متعلق تورات میں دی گئی تھی۔ [٧] تورات اور انجیل دونوں کے صرف تراجم ہی ملتے ہیں۔ اصل نسخے کہیں بھی موجود نہیں :۔ احمد کے دو معنی ہیں ایک اپنے پروردگار کی بہت زیادہ حمد بیان کرنے والا۔ دوسرے وہ جس کی بندوں میں سب سے زیادہ تعریف کی گئی ہو۔ اور یہ دونوں صفات آپ کی ذات اقدس میں پائی جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی فرمایا ہے کہ میرے کئی نام ہیں۔ میں محمد ہوں، میں احمد ہوں۔ میں ماحی ہوں، اللہ میری وجہ سے کفر کو مٹائے گا، میں حاشر ہوں۔ یعنی لوگ میری پیروی پر حشر کئے جائیں گے اور میں عاقب (تمام پیغمبروں کے بعد آنے والا) بھی ہوں۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ الصف) رہی یہ بات کہ آیا یہ نام موجودہ بائیبل میں موجود ہے یا نہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ تورات اور انجیل دونوں میں تحریف ہونے کے باوجود آپ کی ایسی واضح صفات اب بھی مذکور ہیں۔ جن کو دیکھ کر آپ کو پہچانا جاسکتا تھا۔ یہود مدینہ نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے منتظر تھے۔ اور ان میں سے بعض منصف مزاج لوگ انہی مذکورہ صفات کی بنا پر ایمان بھی لے آئے تھے۔ انجیل سیدنا عیسیٰ کے بہت بعد تالیف ہوئی :۔ رہی موجودہ انجیل تو یہ منزل من اللہ کتاب تو ہے نہیں۔ مختلف لوگوں کے تالیف کردہ نسخے ہیں۔ جو آپ کی زندگی کے بڑی مدت بعد تالیف کئے گئے۔ آج کل جو چار اناجیل بائیبل ہمیں ملتی ہیں۔ ان کے مؤلفین میں سے کوئی بھی سیدنا عیسیٰ کا صحابی یا حواری نہ تھا۔ البتہ انجیل برناباس کے مولف کا دعویٰ ہے کہ وہ آپ کا صحابی ہے۔ لیکن اس انجیل کی اشاعت اور طباعت پر کلیسا کی طرف سے پابندی لگادی گئی۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ انجیل برناباس توحید باری تعالیٰ کو واضح طور پر بیان کرتی تھی۔ جبکہ چوتھی صدی مسیح میں عیسائیوں میں عقیدہ تثلیث سرکاری طور پر رائج ہوچکا تھا۔ لہٰذا کلیسا نے اس انجیل پر پابندی لگا دینے میں ہی عافیت سمجھی۔ اس انجیل کے شاذ و نادر نسخے آج بھی مختلف لائبریوں میں مل جاتے ہیں۔ تحریف کے باوجود ان کتابوں میں آپ کی ایسی علامات موجود ہیں جن کی بنا پر عبداللہ بن سلام اور نجاشی نے تصدیق کی :۔ تحریف کے علاوہ دوسری مشکل یہ ہے کہ تورات ہو یا انجیل کوئی بھی الہامی کتاب اپنی اصلی زبان میں محفوظ نہیں ہے۔ صرف مختلف زبانوں میں ترجمے ہی ملتے ہیں۔ ان کی اصلی زبان سریانی تھی۔ اور تراجم یونانی، لاطینی، انگریزی اور اردو وغیرہ میں ہیں۔ لہٰذا پوری تحقیق کرنا نہایت مشکل کام ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود جب نجاشی شاہ حبشہ نے مہاجرین حبشہ کو اپنے دربار میں بلایا اور سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ بن ابی طالب سے آپ کی تعلیمات سنیں تو اس نے کہا :’’مرحبا تم کو اور اس ہستی کو جس کے ہاں سے تم آئے ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور وہی ہیں جن کا ذکر ہم انجیل میں پاتے ہیں اور وہی ہیں جن کی بشارت سیدنا عیسیٰ بن مریم نے دی تھی‘‘ (مسند احمد بروایت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ ونہ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک بھی انجیل میں آپ کی ایسی واضح علامات موجود تھیں جن کی وجہ سے نجاشی کو یہ رائے قائم کرنے میں ذرہ بھر تامل نہ ہوا۔ [٨] جَاءَ ھُمْ میں جاءَ کی ضمیر کے مرجع عیسیٰ علیہ السلام بھی ہوسکتے ہیں اور احمد بھی۔ پہلی صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ جب عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے پاس آئے جو اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کردیتے تھے۔ مٹی کے پرندے بنا کر ان میں پھونک مارتے تو وہ اڑنے لگتے تھے یا کوڑھی اور پھلبہری والے پر ہاتھ پھیرتے تو وہ تندرست ہوجاتا تھا تو ایسی باتیں دیکھ کر بنی اسرائیل نے ان معجزات کو صریح جادو کہہ دیا۔ اور دوسری صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت اور بتائی ہوئی صفات کے مطابق جب آپ مبعوث ہوگئے تو انہیں بنی اسرائیل نے آپ کی تعلیمات کو فریب کاری اور شعبدہ بازی پر محمول کیا۔ اور ایمان نہ لانے کی خاطر طرح طرح کے الزام عائد کرنے لگے۔ الصف
7 [٩] نصاریٰ نے اللہ پر کیا کیا بہتان باندھے؟ اس سے مراد عیسائیوں کے وہ مختلف قسم کے بہتان ہیں جو انہوں نے اللہ پر لگا رکھے تھے۔ کبھی کہتے کہ عیسیٰ ابن مریم اللہ کا بیٹا ہے۔ کبھی کہتے کہ یہ تین خداؤں میں کا تیسرا ہے اور کبھی کہتے کہ عیسیٰ ہی اللہ ہے۔ اور اللہ عیسیٰ کے جسم میں حلول کر آیا ہے۔ ان کے علاوہ ان کی بہتان بازیاں یہ تھیں کہ اناجیل کی عبارتوں میں خود ہی اپنی حسب پسند اضافے بھی کرلیتے تھے اور جو چیزیں موجود تھیں ان کی تاویل یا انکار بھی کردیتے تھے۔ اور ان سب باتوں سے بڑھ کر ظلم یہ کیا کہ جب نبی آخرالزمان نے انہیں اسلام لانے کی دعوت دی تو اپنے اختراع کردہ بہتانوں کو حقیقی بنیادبنا کر بنائے فاسد علی الفاسد کے مصداق اس نبی کو جھٹلا دیا۔ جو لوگ اللہ پر افترا کرنے میں بھی اتنے جری اور دلیر ہوگئے ہوں انہیں ہدایت کیسے نصیب ہوسکتی ہے؟ اللہ کا یہ دستور نہیں کہ ایسے ظالموں کو زبردستی راہ ہدایت پر لے آئے۔ الصف
8 [١٠] اسلام کو نیست ونابود کرنے کے لیے دشمن اقوام کے منصوبے :۔ اس آیت کی مخاطب ساری ہی دشمن اسلام قومیں ہیں۔ خواہ وہ عیسائی ہوں یا یہودی یا مشرکین ہوں یا منافقین۔ فتح مکہ سے پہلے تک یہ سب طاقتیں یہی سمجھ رہی تھیں کہ اسلام بس ایک ٹمٹماتا چراغ ہے۔ جو ہوا کے ایک ہی جھونکے سے بجھ سکتا ہے اور بجھ جائے گا۔ بلکہ فتح مکہ کے بعد یہ تاثر پوری طرح زائل نہ ہوا۔ فتح مکہ کے بعد قبیلہ ثقیف اور ہوازن نے اسی ارادہ سے جنگ کی کہ اسلام کو ملیا میٹ کردیں۔ پھر اس کے بعد ایک عامر نامی عیسائی راہب نے منافقین مدینہ سے ساز باز کی اور قیصر روم کو مسلمانوں پر چڑھا لانے کے لیے روانہ ہوگیا۔ جس کے نتیجہ میں غزوہ تبوک بپا ہوا۔ روایات کے مطابق اس موقع پر عیسائیوں کے دو لاکھ افراد پر مشتمل لشکر کا آنا متوقع تھا۔ لیکن اللہ نے انہیں میدان مقابلہ میں آنے کی توفیق ہی نہ دی۔ سب اسلام دشمن طاقتیں آغاز اسلام سے لے کر جلتی بھنتی اور کڑھتی ہی رہیں اور انجام کار یہ ہوا کہ اسلام کی روشنی سارے عرب پھر اس کے بعد ساری دنیا میں پھیل گئی۔ واضح رہے کہ یہ آیات اس دور میں نازل ہوئیں جبکہ اسلام کا مستقبل بالکل مبہم تھا اور بعض غیر جانبدار قسم کے قبائل اس انتظار میں بیٹھے تھے کہ دیکھیے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟ الصف
9 [١١] اس آیت کی تشریح کے لیے سورۃ توبہ کی آیت نمبر ٣٣ پر حاشیہ نمبر ٣٣ ملاحظہ فرمائیے۔ [١٢] مشرکوں کو خالص توحید ناگوار گزرتی ہے :۔ یعنی مشرک تو یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کی بندگی کے ساتھ دوسروں کی بندگیاں بھی چلاتے رہیں۔ بڑے خدا کے ساتھ چھوٹے خداؤں یا اس کے اپنے پیاروں کو کائنات کے تصرف میں، حاجت روائیوں اور مشکل کشائیوں میں شامل اور شریک کرتے رہیں۔ اللہ کے دین میں دوسرے دینوں کی اور غیر اسلامی فلسفوں اور نظریات کی آمیزش کرتے رہیں۔ مگر اللہ کو ایسی شراکت اور ایسے سمجھوتے قطعاً منظور نہیں۔ وہ ہر قسم کے شرک سے پاک سچے اور ستھرے دین کو ہر دین پر غالب کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اسے پورا کرکے رہے گا اگر مشرکوں کو یہ بات ناگوار ہے تو وہ اپنا ایڑی چوٹی کا زور لگا دیکھیں۔ الصف
10 [١٣] یعنی تمام دنیا میں اسلام کا نور پھیلانے والی اور دین اسلام کو تمام ادیان باطلہ پر غالب کرنے والی اللہ کی ذات ہے تاہم اللہ تعالیٰ نے اس کا ذریعہ اہل ایمان کو بنایا ہے۔ اس کا کام یہ ہے کہ جو وہ ارادہ کرچکا ہے وہ پورا کرکے رہے گا اور یہ کام تمہارے ہاتھوں ہوگا۔ تم سچے دل سے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ۔ اللہ کے وعدوں پر مکمل اعتماد کرو اللہ کے رسول کی پوری طرح اطاعت کرو۔ پھر اپنا مال، اپنا وقت، اپنی قابلیت حتیٰ کہ اپنی جانیں بھی اللہ کی راہ میں جہاد کرنے میں لڑا دو۔ اور یہ تمہارے لیے ایسی پُر منفعت تجارت اور نفع کا سودا ہے جس میں کبھی خسارے کا احتمال نہیں ہوسکتا۔ اس کے عوض آخرت میں تمہیں دو فائدے یقینی طور پر حاصل ہوں گے ایک یہ کہ تمہیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے گا اور دوزخ کے عذاب سے بچ جانا بھی بذات خود بڑی کامیابی ہے۔ دوسرا یہ کہ تمہارے گناہ اور خطائیں معاف کرکے نعمتوں والے باغات میں داخل کرے گا۔ جہاں تم ہمیشہ کے لیے جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے رہو گے اور یہ بھی بہت بڑی کامیابی ہے۔ (اسی سے ملتا جلتا مضمون پہلے سورۃ توبہ کی آیت نمبر ١١١ کے تحت حاشیہ نمبر ١٢٤ میں گزر چکا ہے۔ وہ بھی ملاحظہ فرما لیا جائے) الصف
11 الصف
12 الصف
13 [١٤] اللہ تعالیٰ نے پہلے اخروی نعمتوں کا ذکر فرمایا جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اصل اور پائیدار نعمتیں وہی ہیں ان کے علاوہ ایک اور تیسری نعمت جو اس دنیا سے متعلق ہے۔ اس کا بعد میں ذکر فرمایا۔ اور یہ پسندیدہ اس لحاظ سے ہے کہ انسان طبعاً نقد چیز کو زیادہ پسند کرتا ہے۔ اور وہ نعمت ہے اللہ کی مدد سے مکہ کی فتح جو عنقریب حاصل ہوگی۔ گویا اللہ سے ایمانداروں کا یہ سودا ہر لحاظ سے منفعت بخش اور بارآور ہے۔ دنیا میں فتح حاصل ہوتی ہے اور اموال غنیمت وغیرہ بھی ملتے ہیں۔ عزت حاصل ہوتی ہے اسلام کی فتح سے روحانی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ اور آخرت میں جو فائدے حاصل ہوں گے وہ ان سب سے بڑھ کر ہیں۔ [١٥] یعنی اس مدد اور قریبی فتح کی بشارت بذات خود ایک مستقل انعام ہے۔ الصف
14 [١٦] بعض مفسرین کے نزدیک یہ دھوبی تھے۔ گو تعداد میں کم تھے مگر انتہائی مخلص ایماندار تھے۔ انجیل کی تعلیم کی اشاعت میں ان لوگوں نے سردھڑ کی بازی لگا دی تھی۔ (مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ٥٢ اور سورۃ المائدہ کی آیت نمبر ١١١، ١١٢ کے حواشی) [١٧] سیدنا عیسیٰ کا انکار کرنے والے تو یہود ہیں۔ اور ان پر ایمان لانے والے عیسائی ہیں جو سیدنا عیسیٰ کے بعد آپس میں دست و گریبان رہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے اس بحث و مناظرہ اور خانہ جنگیوں میں ایمان لانے والوں کو یہودیوں پر غالب کیا پھر ان نصاریٰ میں شرک کی عام گمراہی پھیل گئی۔ ان میں سے جو بچے کھچے افراد توحید پر قائم رہ گئے تھے انہیں اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزمان کے ذریعہ غلبہ عنایت فرمایا۔ حجت و برہان کے لحاظ سے بھی وہی غالب رہے اور سیاسی طور پر بھی انہیں ہی غلبہ حاصل ہوا۔ الصف
0 الجمعة
1 [١] یہ تسبیح زبان قال سے بھی ہوتی ہے مگر ہم اسے سمجھ نہیں سکتے اور زبان حال سے بھی۔ یعنی کائنات کی ایک ایک چیز اس بات پر شاہد ہے کہ اس کا بنانے والا ہر طرح کے عیوب و نقائص سے پاک ہے۔ [٢] ان صفات کی تشریح کے لیے سورۃ حشر کی آیت نمبر ٢٣ ملاحظہ فرمائیے۔ الجمعة
2 [٣] یہود امی کا لفظ حقارت اور طنز کے طور پر بولتے تھے :۔ لفظ اُمِّیْ کی تشریح سورۃ اعراف کی آیت نمبر ١٥٥ (حاشیہ ١٥٤) کے تحت گزر چکی ہے۔ لیکن اس سورۃ میں آگے چونکہ یہود کو خطاب ہو رہا ہے۔ لہٰذا یہاں وہی مفہوم مراد ہوگا جو یہودی اس لفظ سے لیا کرتے تھے۔ یہودی خود تو اپنے آپ کو بہت پڑھے لکھے اور عالم فاضل سمجھتے تھے اور اپنے سوا سب غیر یہودیوں کو حقیر سمجھ کر امی کہتے تھے۔ یعنی ان کے سوا سب لوگ ان پڑھ اور بدھو ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لانے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ نبی آخرالزمان ہم جیسے عالم فاضل لوگوں میں سے ہوگا۔ گویا انہوں نے اس بات میں اپنی توہین سمجھی کہ وہ ایک ان پڑھ یا غیر یہود قوم میں مبعوث ہونے والے نبی پر ایمان لائیں۔ [٤] اس نبی امی یا نبی آخرالزمان کی چار ذمہ داریاں تھیں۔ ان ذمہ داریوں کی تفصیل پہلے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ١٢٩ کے حواشی میں گزر چکی ہے۔ وہ ملاحظہ کرلی جائے۔ [٥] دور جاہلیت میں عرب معاشرہ کی حالت :۔ کَانُوْا سے مراد یہود قوم بھی ہوسکتی ہے۔ مشرکین عرب بھی اور پورا عرب معاشرہ بھی۔ قوم یہود جن اخلاقی بیماریوں میں مبتلا تھی اور ان میں جس قدر اخلاقی انحطاط رونما ہوچکا تھا اس کی داستان بڑی طویل ہے اور قرآن میں جا بجا مذکور ہے۔ رہا عرب معاشرہ جس میں یہود بھی شامل تھے۔ ایسی نہ ختم ہونے والی قبائلی لڑائیوں میں مبتلا ہوچکا تھا۔ جس سے گھروں کے گھر برباد ہوگئے تھے۔ لیکن اس بیماری کا کوئی علاج انہیں نظر نہیں آتا تھا۔ شرک عام تھا ہر قبیلے کے الگ الگ بت بھی ہوتے تھے اور کچھ بڑے بت مشترکہ بھی ہوتے تھے۔ لوٹ مار' قتل وغارت' فحاشی ' زنا کاری اور شراب نوشی یہ سب باتیں ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ اگرچہ سودی لین دین کا بھی رواج تھا تاہم اس کام میں یہودی قوم سب سے پیش پیش تھی۔ اور اس بات کے باوجود کہ سود ان کی شریعت میں حرام تھا۔ انہوں نے غیر یہود سے سود وصول کرلینا صرف جائز ہی نہیں بنا رکھا تھا۔ بلکہ اسے ایک مستحسن فعل سمجھتے تھے۔ انہی بیماریوں کی وجہ سے اہل عرب کی زندگی انتہائی تلخ صورت اختیار کرچکی تھی۔ الجمعة
3 [٦] آپ تمام لوگوں کے لئے تاقیام قیامت رسول ہیں :۔ نبی آخرالزمان صرف ان امی اہل عرب ہی کی طرف مبعوث نہیں کیے گئے تھے بلکہ بعد میں قیامت تک آنے والے لوگوں کے بھی نبی ہیں گویا آپ کی نبوت اور رسالت صرف اہل عرب کے لیے اور صرف اس دور کے لیے ہی نہیں تھی بلکہ اس دور کے اور بعد میں تاقیامت آنے والے سب انسانوں کے لیے یکساں ہے۔ اس سلسلہ میں درج ذیل حدیث بھی ملاحظہ فرمائیے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : جب سورۃ جمعہ نازل ہوئی تو ہم آپ کے پاس بیٹھے تھے۔ میں نے آپ سے پوچھا کہ ﴿ وَّاٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِہِمْ ﴾ سے کون لوگ مراد ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہ دیا۔ میں نے تین بار یہی سوال کیا۔ اس وقت ہم لوگوں میں سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے ان پر اپنا ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ :’’اگر ایمان ثریا پر بھی ہوتا تو ان لوگوں (فارس والوں) سے کئی لوگ وہاں تک پہنچ جاتے‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) اہل فارس کی خدمت اسلام :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے دو بار اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اس لیے کہ اس سے مراد کوئی خاص لوگ نہیں تھے۔ بلکہ اس سے مراد عامۃ الناس تھے۔ پھر جب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے تیسری بار بھی یہی سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل فارس کا نام لیا کہ یہ لوگ دوسروں سے بڑھ چڑھ کر دین اسلام کی خدمت کریں گے۔ چنانچہ عملاً ہوا بھی ایسا ہی، صحابہ کرام کے دور کے بعد اسلام کی نشرواشاعت کا جتنا کام اہل فارس نے سرانجام دیا۔ دوسروں کے حصہ میں یہ سعادت نہ آسکی۔ بڑے بڑے محدثین اور فقہاء کی اکثریت اسی علاقہ سے تعلق رکھتی ہے۔ [٧] اللہ تعالیٰ کے زبردست اور حکمت والا ہونے کی اس سے بڑھ کر کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ اس نے اپنا رسول بھیج کر بائیس تئیس سال کی مختصر مدت میں عرب بھر کی کایا پلٹ کے رکھ دی۔ شرک کی جڑ کٹ گئی۔ اور خالصتاً اللہ کے پرستار پیدا ہوگئے۔ پہلے سب ایک دوسرے کے دشمن تھے اب بھائی بھائی بن کر شیروشکر ہوگئے۔ پہلے بہت سے گناہوں اور اخلاقی امراض میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اب اخلاق فاضلہ کے بلند مقام پر فائز ہوگئے۔ الجمعة
4 [٨] یہود اگر جلتے ہیں تو جلتے رہیں۔ وہ کوئی اللہ کے فضل کے ٹھیکیدار نہیں ہیں کہ رسول اگر آنا تھا تو انہی کی قوم میں سے آنا چاہیے تھا۔ اور یہ فضل بھی کیا کم ہے کہ تاقیامت تمام روئے زمین کی قیادت پیغمبر اسلام اور آپ کی امت کے سپرد کردی گئی۔ الجمعة
5 [٩] پڑھے لکھے یہود کا اخلاقی انحطاط :۔ اس آیت اور اس سے آگے کی آیات میں براہ راست یہود کو خطاب کیا گیا ہے۔ جو اپنے آپ کو بڑا عالم فاضل سمجھتے تھے۔ انہوں نے تورات کی کئی شرحیں بھی لکھ رکھی تھیں۔ جنہیں تلمود کہتے تھے۔ ان میں سے اکثر لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ اور بہت سے تورات کے عالم بھی تھے۔ عرب بھر میں ان کے علم و فضل کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ اسی لیے وہ دوسرے سب لوگوں کو امی، ان پڑھ، بدھو کہتے تھے اور انہیں حقیر سمجھتے تھے لیکن ان کی عملی زندگی کا یہ حال تھا کہ وہ بے عمل بھی تھے اور بدعمل بھی۔ دنیا کے لالچ میں پھنس کر اللہ کو بھول چکے تھے۔ اللہ کے صرف ان احکام پر عمل کرتے تھے جو ان کی طبیعت اور مزاج کے موافق ہوں۔ عالم بے عمل کی گدھے سے تشبیہ :۔ حرام خوری اور علی الاعلان جھوٹ بولنا۔ بدعہدی۔ دغا بازی۔ کتاب اللہ میں اپنی مرضی کے موافق تحریف کرلینا۔ سود کھانا اور غیر یہود کے مال کو ناجائز طور پر حاصل کرکے اسے اپنے لیے حلال و طیب سمجھنا ان کی طبیعت ثانیہ بن چکی تھی۔ اسی لیے اللہ نے ان کی مثال ایسے گدھے سے دی ہے جس کی پیٹھ پر کتابیں لاد دی گئی ہوں۔ وہ نہیں جانتا کہ اس کی پیٹھ پر علم و حکمت کے خزانے لادے ہیں یا پتھر ہیں۔ بالفاظ دیگر اللہ نے ان لوگوں کو گدھا قرار دیا جو علم و فضل کے دعویدار تھے۔ اس سے از خود یہ اصول مستنبط ہوتا ہے کہ جو عالم بے عمل یا بدعمل ہو وہ عالم نہیں بلکہ گدھا ہوتا ہے۔ جو مفت میں اپنی پیٹھ پر کتابوں کا اور علم کا بوجھ اٹھائے پھرتا ہے۔ [١٠] یہاں اللہ کی آیات سے مراد وہ بشارتیں اور نبی آخرالزمان کی صفات ہیں جو تورات میں موجود تھیں اور اس نبی آخرالزمان کو جھٹلا دینا ہی گویا اللہ کی آیات کو جھٹلا دینے کے مترادف تھا۔ الجمعة
6 [١١] ان سب قباحتوں کے باوجود یہ سمجھتے تھے کہ ہم چونکہ انبیاء کی اولاد ہیں لہٰذا ہم ہی تمام دنیا میں اس کے چہیتے اور پیارے ہیں۔ مرنے کے بعد صرف ہم ہی جنت میں جائیں گے۔ باقی سب لوگ دوزخ میں جائیں گے۔ نیز یہ کہ مرتے ہی ہم سیدھے جنت میں پہنچ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس نظریہ کو مردود قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم اپنے اس دعویٰ میں سچے ہو تو پھر تو تمہیں جلد از جلد مرنے کی آرزو کرنا چاہیے تاکہ اس دنیا کے جھنجھٹوں اور جنجالوں سے تمہیں نجات مل جائے۔ الجمعة
7 [١٢] یہودی موت کی آرزو کیوں نہیں کرتے؟ مگر حقیقت حال اس کے بالکل برعکس تھی۔ اس آیت کے نزول کے بعد محض اپنے دعوے کو سچا قرار دینے کی خاطر انہوں نے جھوٹ موٹ یا زبانی طور پر موت کی آرزو نہیں کی۔ اس لیے کہ انہیں اپنی بداطواریوں کا پوری طرح علم ہے اور انہیں دل سے یہ یقین ہے کہ مرنے کے ساتھ ہی جنت کی بجائے سیدھے جہنم رسید ہوں گے۔ لہٰذا نہ صرف یہ کہ مرنے کی آرزو نہیں کرتے بلکہ زیادہ سے زیادہ مدت زندہ رہنے پر انتہائی حریص واقع ہوئے ہیں۔ الجمعة
8 [١٣] یہود کا دنیا کی ذلت کی زندگی سے پیار اور سب یہودی قبائل کا لڑنے کی بجائے قلعہ بند ہونا :۔ ان کی دنیا کی زندگی سے محبت اور موت سے فرار کا یہ حال ہے کہ ذلیل سے ذلیل تر زندگی کو بھی موت پر ترجیح دیتے ہیں۔ اسی زندگی کی حرص نے انہیں مال و دولت، سازو سامان، اسلحہ اور سامان رسد کی فراوانی کے باوجود ایک بزدل قوم بنا دیا تھا۔ شیخیاں بگھارنے میں بڑے ہوشیار اور تیز طرار، مگر مقابلے میں انتہائی ڈرپوک، اسی وجہ سے یہودیوں کے تینوں قبیلوں میں سے کسی نے بھی مسلمانوں سے میدان میں آکر جنگ نہیں کی۔ بنو قینقاع بھی قلعہ بند ہوئے۔ بنونضیر بھی اور بنو قریظہ بھی۔ کیونکہ یہود موت سے ڈرتے تھے جبکہ مسلمان موت سے بہت محبت رکھتے تھے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس موت سے تم بہرصورت بچنا چاہتے ہو وہ تو تمہیں آکے رہے گی۔ اور تمہیں اللہ کے حضور پیش بھی ہونا ہی پڑے گا۔ پھر وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم اللہ کے چہیتے اور لاڈلے تھے یا اس کی لعنت اور اس کے غصہ میں گرفتار تھے۔ الجمعة
9 [١٤] سنت کے واجب الاتباع ہونے پر دلیل :۔ انداز بیان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات کے نزول سے پیشتر اذان اور جمعہ دونوں چیزوں سے خوب متعارف تھے۔ انہیں ہدایت صرف یہ دی جارہی ہے کہ جب جمعہ کے لیے اذان ہوجائے تو خرید و فروخت اور دوسرے دنیوی مشاغل سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر فوراً جمعہ کا خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کے لیے مسجد میں پہنچ جاؤ۔ حالانکہ قرآن میں نہ کہیں اذان کے کلمات کا ذکر ہے اور نہ نماز جمعہ کی ترکیب کا۔ یہ باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی ہیں۔ جن کی قرآن سے توثیق کردی گئی ہے۔ اس سے صاف واضح ہے کہ جس طرح قرآن کے احکام واجب الاتباع ہیں اسی طرح رسول اللہ کے احکام بھی واجب الاتباع ہیں اور جو شخص صرف قرآن کو واجب الاتباع سمجھتا ہے وہ دراصل قرآن کا بھی منکر ہے۔ اذان کی ابتدا کیسے ہوئی؟ اس کے کلمات اور مسائل و فضائل کیا ہیں؟ اس کے لیے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :۔ اذان سے متعلق احادیث اور مسائل :۔ ١۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مسلمان جب مدینہ آئے تو نماز کے لیے یوں ہی جمع ہوجایا کرتے۔ ایک وقت ٹھیرا لیتے نماز کے لیے اذان نہیں ہوتی تھی۔ ایک دن انہوں نے اس بارے میں گفتگو کی تو بعض کہنے لگے نصاریٰ کی طرح ایک گھڑیال بنا لو اور بعض کہنے لگے یہود کی طرح ایک بگل بنالو۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : ایک آدمی کیوں نہیں مقرر کرلیتے جو نماز کے لیے ندا کردیا کرے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اسی رائے کو پسند کرتے ہوئے) بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا : بلال اٹھو اور نماز کے لیے اذان کہو۔ (بخاری۔ کتاب الاذان۔ باب بدء الاذان) ٢۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بلال رضی اللہ عنہ کو یہ حکم دیا گیا کہ اذان کے الفاظ دو دو بار اور تکبیر کے الفاظ ایک ایک بار کہیں۔ بجز قد قامت الصلوۃ کے۔ (بخاری۔ کتاب الاذان۔ باب الاذان مثنیٰ مثنیٰ) ٣۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کرتے۔ آپ صبح ہونے تک ہمیں چڑھائی کرنے سے روکے رکھتے۔ پھر اگر وہاں (صبح کی) اذان سن لیتے تو ان پر حملہ نہ کرتے اور اگر اذان کی آواز نہ آتی تو پھر حملہ کرتے۔ (بخاری۔ کتاب الاذان۔ باب ما یحقن بالاذان من الدماء ) ٤ـ۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جب تم اذان سنو تو جو کچھ مؤذن کہے وہی کچھ تم بھی کہتے جاؤ‘‘ (بخاری۔ کتاب الاذان۔ باب مایقول اذاسمع المنادی) البتہ جب وہ حی علی الصلٰوۃ کہے تو لاحول ولا قوۃ الا باللّٰه کہے۔ ٥۔ جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اذان سننے کے بعد جو شخص یہ دعا کرے : ''اللٰہم ربَّ ھذہ الدعوۃِ التامۃ والصلٰوۃ القائمۃ اٰتِ محمد نالوسیلۃَ والفضیلۃَ وابعثہ مقامًا محمودَ نِ الذی وعدتَہ'' قیامت کے دن میری شفاعت کا مستحق ہوگا۔ (بخاری۔ کتاب الاذان۔ باب الدعاء عندالنداء) ٦۔ عبداللہ بن حارث بصری کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عباس نے ہم کو (جمعہ کا) خطبہ سنایا۔ اس دن کیچڑ تھی۔ جب مؤذن حی علیٰ الصلوۃ کہنے کو تھا تو انہوں نے اسے حکم دیا کہ یوں پکارے الصلوٰۃ فی الرحال (اپنے اپنے ٹھکانوں پر ہی نماز پڑھ لو) یہ سن کو لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا : یہ کام تو اس ہستی نے کیا جو مجھ سے بہتر تھے اور اس میں شک نہیں کہ جمعہ واجب ہے۔ (بخاری۔ کتاب الاذان۔ باب الکلام فی الاذان) ٧۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’بلال رضی اللہ عنہ تو رات رہے سے (سحری کی) اذان دیتا ہے اور جب تک ام مکتوم کا بیٹا اذان نہ دے۔ تم لوگ کھاتے پیتے رہو‘‘ اور ام مکتوم کے بیٹے (عبداللہ) اندھے تھے۔ وہ اس وقت تک اذان نہ دیتے جب تک لوگ یہ نہ کہتے کہ صبح ہوگئی، صبح ہوگئی۔ (بخاری۔ کتاب الاذان۔ باب اذان الاعمٰی۔۔) ٨۔ ابو جحیفہ کہتے ہیں کہ میں نے بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دیتے دیکھا اور میں بھی (ان کی طرح) اذان میں ادھر ادھر منہ پھیرنے لگا۔ (بخاری۔ کتاب الاذان۔ باب ھل یتبع الموذن فاہ) نماز جمعہ سے متعلق احادیث اور مسائل :۔ آپ جب ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو نماز جمعہ کا آغاز کردیا گیا تھا۔ اب جمعہ کے متعلق درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جمعہ کے دن ہر جوان پر غسل واجب ہے اور مسواک کرنا اور اگر میسر ہو تو خوشبو بھی لگانا۔ (بخاری۔ کتاب الجمعہ۔ باب الطیب للجمعۃ) ٢۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب کوئی تم میں سے جمعہ کی نماز کے لیے آئے تو غسل کرے۔ (بخاری۔ کتاب الجمعہ۔ باب فضل الغسل یوم الجمعۃ) ان دو احادیث سے معلوم ہوا کہ : ١۔ جمعہ فرض کفایہ ہے فرض عین نہیں۔ نہ یہ بچوں پر فرض ہے نہ بوڑھوں پر، نہ عورتوں پر نہ مسافروں یا مریضوں پر نیز بارش کے دن کسی پر بھی فرض نہیں جیسا کہ اذان سے متعلق حدیث نمبر ٦ سے بھی واضح ہوتا ہے۔ ٢۔ جمعہ کے دن غسل کرنا ہر اس شخص پر واجب ہے جس پر جمعہ واجب ہے وہ غسل کرکے نماز کے لیے جائے جیسا کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث سے واضح ہے۔ تاہم بعض علماء نے یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو وجوب کے لیے نہیں استحباب کے معنوں میں لیا ہے اور ان کی دلیل سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی وہ حدیث ہے جس میں مذکور ہے کہ لوگ دور دور سے اور بلند مقامات سے آتے۔ انہوں نے اون کی عبائیں پہنی ہوتیں اور گردوغبار اور پسینہ کی وجہ سے ان سے بو آتی تھی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نہا کر آنے کا حکم دیا تھا۔ (مسلم۔ کتاب الجمعہ) اور جب ایسی صورت نہ ہو تو نہا کر آنا واجب نہیں۔ البتہ مستحب ضرور ہے۔ ٣۔ مسواک کرنا اور خوشبو لگانا سنت اور مستحب ہے واجب نہیں۔ ٤۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ جمعہ کی نماز اس وقت پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا۔ (بخاری۔ کتاب الجمعہ۔ باب وقت الجمعۃ۔۔) ٥۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جمعہ کی اذان ہوتے ہی خرید وفروخت حرام ہوجاتی ہے اور عطاء بن ابی رباح نے کہا کہ ہر پیشہ (اور شغل) حرام ہوجاتا ہے۔ (بخاری۔ کتاب الجمعہ۔ باب المشی الی الجمعۃ) ٦۔ سیدنا سائب بن یزید کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جمعہ کے دن ایک ہی اذان ہوا کرتی۔ جب امام منبر پر بیٹھ جاتا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب مدینہ کی آبادی بہت بڑھ گئی تو انہوں نے زوراء (مدینہ کے بازار میں ایک مقام کا نام) پر تیسری اذان (یعنی اقامت سمیت) بڑھائی۔ (بخاری۔ کتاب الجمعہ۔ باب الاذان یوم الجمعۃ) ٧۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (جمعہ کے دن) دو خطبے پڑھتے اور ان کے درمیان بیٹھتے۔ (بخاری۔ کتاب الجمعہ۔ باب القعدۃ بین الخطبتین یوم الجمعۃ) ٨۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص جمعہ کے دن اس وقت آیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا : تو نے (تحیۃ المسجد کی) نماز پڑھی؟ اس نے کہا : نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اٹھ دو رکعتیں (ہلکی پھلکی) پڑھ لے۔ (بخاری۔ کتاب الجمعہ۔ باب من جاء والامام یخطب صلٰٰی رکعتین خفیفتین) ٩۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے بعد مسجد میں کچھ نہ پڑھتے۔ جب اپنے گھر لوٹ کر آتے تو دو رکعتیں پڑھتے۔ (بخاری۔ کتاب الجمعہ۔ باب الصلٰٰوۃ بعد الجمعۃ و قبلہا) ١٠۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تو اپنے ساتھی سے جمعہ کے دن یوں کہے : ''چپ رہ'' اور امام خطبہ دے رہا ہو تو تو نے لغو حرکت کی۔ (بخاری۔ کتاب الجمعۃ۔ باب الانصات یوم الجمعۃ۔۔) ١١۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مسجد نبوی کے بعد پہلا جمعہ جو ہوا وہ عبدالقیس کی مسجد میں ہوا جو بحرین میں جواثیٰ (جگہ کا نام) میں تھی۔ (بخاری۔ کتاب الجمعہ۔ باب الجمعۃ فی القریٰ والمدن) اس سے معلوم ہوا کہ جمعہ ہر گاؤں میں ادا کرنا چاہیے۔ شہر ہونا کوئی شرط نہیں۔ ١٢۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جمعہ کے دن فرشتے جامع مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو کر آنے والوں کے باری باری نام لکھتے ہیں۔ جو پہلے آتا ہے اس کی مثال ایسے شخص کی ہے جو اونٹ کی قربانی کرے پھر دوسرے کی جیسے گائے کی قربانی کرے پھر تیسرے کی جو مینڈھا، پھر چوتھے کی جو مرغی، پھر پانچویں کی جو انڈا قربانی دے۔ پھر جب امام (خطبہ کے لئے) نکلتا ہے تو فرشتے اپنے دفتر لپیٹ لیتے ہیں اور خطبہ سننے لگ جاتے ہیں۔ (بخاری۔ کتاب الجمعہ۔ باب الاستماع الی الخطبۃ) ١٣۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :’’جن دنوں میں سورج طلوع ہوتا ہے ان میں سے سب سے بہتر دن جمعہ کا دن ہے۔ اسی جمعہ کے دن سیدنا آدم علیہ السلام پیدا ہوئے۔ اسی دن جنت میں داخل کیے گئے اور اسی دن نکالے گئے۔ اور قیامت بھی اسی دن قائم ہوگی‘‘ (مسلم۔ کتاب الجمعہ) خلاف سنت امور :۔ اب ہم چند ایسی خلاف سنت باتوں کا ذکر کرتے ہیں جو آج کل ہم اپنے معاشرہ میں اور بالخصوص ہمارے علماء میں پائی جاتی ہیں : ١۔ ان میں پہلی چیز جمعہ کے وقت میں تاخیر ہے۔ چنانچہ ایاس بن سلمہ بن اکوع اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب ہم جمعہ کی نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادا کرکے واپس لوٹتے تھے تو ہم دیواروں کا سایہ نہ پاتے تھے جس کی آڑ میں آئیں۔ اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے مطابق زوال آفتاب شروع ہوتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز جمعہ ادا کرلیا کرتے تھے۔ (مسلم۔ کتاب الجمعہ) نماز جمعہ کی ادائیگی میں تاخیر :۔ ان دونوں احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ زوال آفتاب تک دے کر فارغ ہوجایا کرتے تھے مگر ہمارے ہاں یہ رواج بڑھ چکا ہے کہ جمعہ کا خطبہ بھی زوال آفتاب سے کافی دیر بعد شروع ہوتا ہے اور بعض مساجد کا تو یہ حال ہے کہ ان کے جمعہ ختم ہونے تک عصر کا اول وقت آجاتا ہے۔ سنتوں کے لئے وقفہ :۔ ٢۔ بعض مساجد بالخصوص احناف کی مساجد میں پہلے خطبہ کے بعد نماز جمعہ کی سنتوں کے لیے وقفہ دیا جاتا ہے۔ یہ بات واضح طور پر سنت کے خلاف ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے دیر سے آنے والے کو خطبہ کے دوران ہی دو ہلکی رکعات ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔ لہٰذا خطبہ کے بعد سنتوں کے لیے وقفہ دینے کا کوئی جواز نہیں۔ خطبہ کو لمبا اور نماز کو مختصر کرنا :۔ ٣۔ تیسری خلاف سنت بات خطبہ کو لمبا کرنا اور نماز کو مختصر کرنا ہے۔ چنانچہ واصل بن حیان کہتے ہیں کہ ابو وائل نے کہا کہ ہمیں عمار رضی اللہ عنہ نے نہایت جامع اور بلیغ خطبہ دیا۔ پھر جب وہ منبر سے اترے تو ہم نے کہا : اے ابو الیقظان! اگر آپ ذرا اس خطبہ کو لمبا کرتے تو بہت بہتر ہوتا۔ تب عمار رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ آدمی کا نماز کو لمبا کرنا اور خطبہ کو مختصر کرنا اس کے سمجھدار ہونے کی نشانی ہے۔ سو تم نماز کو لمبا کیا کرو اور خطبہ کو چھوٹا۔ اور بعض بیان تو جادو ہوتا ہے‘‘ (یعنی جامع اور مختصر بیان جادو کا سا اثر رکھتا ہے) (مسلم۔ کتاب الجمعہ) اور جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز بھی درمیانہ تھی اور خطبہ بھی درمیانہ (مسلم۔ کتاب الجمعہ) اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جمعہ کی نماز کتنی لمبی ہوتی تھی تو اس کے متعلق ابن ابی رافع کہتے ہیں کہ مروان نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں خلیفہ مقرر کیا اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جمعہ کی نماز پڑھائی تو آپ نے پہلی رکعت میں سورۃ جمعہ اور دوسری میں المنافقون پڑھی۔ پھر میں ان سے ملا اور کہا کہ آپ نے وہی سورتیں پڑھیں جو سیدنا علی کوفہ میں پڑھتے تھے۔ اس پر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ ’’میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جمعہ کے دن یہی سورتیں پڑھتے سنا ہے‘‘ (یعنی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی تقلید میں نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں، میں نے یہ سورتیں پڑھی ہیں) (مسلم۔ کتاب الجمعہ) اور سیدنا لقمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدوں اور جمعہ میں سبح اسم ربک الاعلیٰ اور ھل اتاک حدیث الغاشیۃ پڑھا کرتے تھے اور جب جمعہ اور عید دونوں ایک دن میں ہوتیں تب بھی انہیں دونوں سورتوں کو دونوں نمازوں میں پڑھتے تھے۔ (مسلم۔ کتاب الجمعہ) یہ تو آپ کی درمیانہ درجہ کی نماز کا حال تھا اور آپ کے خطبات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی بھی خطبہ بیس منٹ سے زیادہ لمبا کبھی نہیں ہوا۔ گویا سنت طریقہ یہ ہے کہ خطبہ پر زیادہ سے زیادہ بیس منٹ اور دو رکعت نماز پر کم از کم دس منٹ صرف ہوں۔ اب اس کے مقابلہ میں موجودہ صورت حال پر غور فرما لیجیے اہلحدیثوں کی مساجد میں، جو ہر ہر بات میں کتاب و سنت کے متبع ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں، کوئی ہی مسجد ایسی ہوگی جہاں خطبہ کا وقت نصف گھنٹہ ہو۔ ورنہ پون گھنٹہ بلکہ اکثر مساجد میں ایک گھنٹہ خطبہ کے لیے وقت مقرر کیا جاتا ہے اور احناف اور بالخصوص بریلوی علماء تو ڈیڑھ گھنٹہ بلکہ اس سے بھی زیادہ وقت خطبہ میں صرف کردیتے ہیں۔ یہ بات صریحاً خلاف سنت ہے۔ علماء حضرات اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ہمیں عربی کے علاوہ مقامی زبان یا اردو میں بھی اس کی تشریح کرنا پڑتی ہے اگر اس کا لحاظ رکھا جائے تو بھی آدھ گھنٹہ اور زیادہ سے زیادہ پون گھنٹہ بہت کافی ہے۔ کیونکہ تجربہ شاہد ہے کہ مختصر وقت میں بھی بہت سی کام کی باتیں کہی جاسکتی ہیں۔ پھر جب خطیب حضرات خطبہ میں کافی دیر لگا دیتے ہیں تو اس کی کسر جمعہ میں چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھنے سے نکالتے ہیں۔ حتیٰ کہ میں نے خود ایک ایسے ہی خطیب کو نماز جمعہ کی پہلی رکعت میں سورۃ الفیل اور دوسری میں سورۃ القریش پڑھتے سنا ہے۔ گویا خطبہ اور نماز دونوں ہی خلاف سنت ہوئے۔ خطبہ انتہائی لمبا اور نماز انتہائی مختصر۔ اب اس تطویل خطبہ کا رد عمل یہ ہوتا ہے کہ اکثر لوگ آتے ہی اس وقت ہیں جب نماز جمعہ کا وقت قریب ہو۔ پھر خطیب حضرات ان دیر سے آنے والوں کو وہ حدیث سنانے لگتے ہیں کہ جو شخص خطبہ جمعہ سننے کے لیے خطبہ شروع ہونے سے پیشتر سب سے پہلے آئے اس کو ایک اونٹ کی قربانی کا ثواب ملتا ہے اور دوسرے نمبر پر آنے والے کو۔۔ الحدیث۔ گویا انہیں اپنے خلاف سنت کام کا تو احساس تک نہیں ہوگا۔ اور اس کے نتیجہ میں دیر سے پہنچنے والوں کو حدیث سنا کر کو سنے لگتے ہیں۔ اس تطویل خطبہ کی وجہ جو میں سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ خطیب حضرات کی اصل آرزو یہ ہوتی ہے کہ ان کی تقریر کو زیادہ سے زیادہ لوگ سنیں اور اسے سراہا اور پسند کیا جائے۔ لہٰذا وہ مزید لوگوں کی انتظار میں دیر کرتے جاتے ہیں۔ اور جمعہ پڑھنے والوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ ابھی مولوی خطبہ میں بہت دیر لگائے گا۔ لہٰذا نماز سے ذرا پہلے چلے جائیں گے۔ اس دوہرے عمل سے خطبہ تو خوب لمبا ہوجاتا ہے۔ پھر اس کی کسر نماز سے نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ انداز خطاب اور موضوع خطاب :۔ ٤۔ چوتھی خلاف سنت بات انداز خطاب اور موضوع خطاب ہے۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ جب خطبہ پڑھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں سرخ ہوجاتیں اور آواز بلند ہوجاتی اور غصہ زیادہ ہوجاتا۔ گویا وہ ایک ایسے لشکر سے ڈرانے والے تھے جو بس صبح و شام ہی تم پر پہنچنے والا ہے اور فرماتے کہ میں اس وقت بھیجا گیا ہوں کہ میں اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح ہیں پھر آپ اپنی شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کو ملا دیتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی حمد کے بعد فرماتے کہ ’’ہر بات سے بہتر اللہ کی کتاب ہے اور ہر طریقہ سے بہتر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریق ہے اور نئے نئے کام نکالنا سب سے برا کام ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ پھر فرماتے میں ہر مومن کا اس کی اپنی جان سے بھی زیادہ خیرخواہ ہوں۔ جو شخص مال چھوڑ جائے وہ تو اس کے گھر والوں کا ہے اور جو قرض یا چھوٹے بچے چھوڑ جائے تو اس قرض کی ادائیگی یا بچوں کی پرورش میرے ذمہ ہے‘‘ (مسلم۔ کتاب الجمعہ) نیز ام ہشام بنت حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ ہمارا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تنور ایک ہی تھا۔ دو برس یا ایک برس اور کچھ ماہ تک (یعنی اتنی مدت ہم ان کی ہمسائیگی میں رہے) اس دوران میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی زبان سے سورۃ ق سیکھی تھی۔ آپ اس کو ہر جمعہ میں منبر پر پڑھتے تھے جب لوگوں کو خطبہ سناتے۔ (مسلم۔ کتاب الجمعہ) ان دو احادیث سے مندرجہ ذیل امور پر روشنی پڑتی ہے : ١۔ آپ کا خطاب یا تقریر جوشیلی ہوتی تھی۔ راگ اور سرتال والی نہیں ہوتی تھی جبکہ آج کل خطیب حضرات اپنی پوری کوشش سے راگ اور سر والا لہجہ سیکھتے ہیں۔ وہ قرآنی آیات کے علاوہ اپنی باتوں کو بھی اس طرح سریلی آواز میں پیش کرتے ہیں سامعین جھومنے اور سبحان اللہ، سبحان اللہ کے نعرے لگانے لگیں۔ اور جتنے زیادہ ایسے نعرے لگیں اتنے ہی خطیب حضرات اسے اپنی تقریر کی پذیرائی سمجھ کر پھولے نہیں سماتے۔ اور ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کی تقریر کے دوران ایسے نعرے لگتے رہیں۔ ٢۔ خطاب کے دوران آپ کا موضوع ایک نہیں بلکہ متفرق ہوتے تھے۔ گویا آپ کا انداز خطاب تقریر کا نہیں بلکہ وعظ و نصیحت کا ہوتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کتاب اللہ اور سنت رسول سے تمسک کی تاکید فرماتے اور بدعات سے اجتناب کا حکم دیتے اور اس کے انجام سے ڈراتے تھے اور سب سے پہلے اللہ کی حمدوثنا بیان فرماتے تھے اور یہی خطبہ مسنونہ کے موضوع ہیں۔ خطبہ جمعہ کا موضوع دراصل ''ذکر اللّٰہ'' ہے جیسے اس سورۃ میں فرمایا : ﴿فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ ﴾ اور ذکر اللہ سے مراد سارا قرآن ہے۔ تاہم حدیث نمبر ٢ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ خطبہ میں سورۃ ق پڑھنا زیادہ پسند فرماتے تھے۔ آپ سورۃ ق کو مدنظر رکھیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے بعث الموت پر دلائل پیش کئے ہیں۔ آخرت کا انکار کرنے والی چند اقوام کا مختصراً انجام بتایا ہے۔ اور انسان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اس کے اعمال کا ریکارڈ ساتھ ساتھ تیار کیا جارہا ہے اور اس کے مطابق اس کا مؤاخذہ ہونے والا ہے۔ پھر کچھ جنت اور دوزخ کا ذکر ہے اور سورت کے آخر میں خلاصہ کے طور پر فرمایا کہ : ﴿فَذَکِّرْ بالْقُرْاٰنِ مَنْ یَّخَافُ وَعِیْدِ ﴾ اور حدیث نمبر ١ سے بھی واضح ہوتا ہے کہ آپ کا اصل موضوع لوگوں کو ان کے اخروی انجام سے ڈرانا ہوتا تھا اور یہ بات آپ بڑے جوش و خروش سے بتایا کرتے تھے۔ اب دیکھئے ہمارے ہاں خطبات جمعہ میں وعظ و نصیحت اور انذار و تبشیر کا بیان تقریباً مفقود ہے۔ ہمارے ہاں عمومی رواج ایک موضوع پر تقریر کرنے کا ہے یہ بھی اس صورت میں تو درست ہے کہ جو کچھ بیان کیا جائے کتاب و سنت سے ہی اور اس کی حدود میں رہ کر بیان کیا جائے۔ مگر ہمارے ہاں تو خطبہ مسنونہ اور قرآن کی ایک آدھ آیت محض برکت کے لیے پڑھ لی جاتی ہے جسے عامۃ الناس سمجھتے ہی نہیں بعد میں اولیاء اللہ کی حکایات، ان کے تصرفات اور ان کی کرامات اس انداز سے بیان کی جاتی ہیں کہ اگر وہ خدا نہیں تو کم از کم اس سے کم درجہ کے بھی نہیں ہوتے مثلاً مولانا روم کا یہ شعر آپ نے خطبات جمعہ میں اکثر سنا ہوگا۔ اولیاء را ہست قدرت از الٰہ۔۔ تیر جستہ باز گرد انند زراہ یعنی اولیاء کو اللہ کی طرف سے اس قدر قدرت حاصل ہوتی ہے کہ وہ چھوڑے ہوئے تیر کو راستہ سے ہی واپس لاسکتے ہیں۔ یہ واضح رہے کہ مشرکین مکہ بھی اپنے بتوں کے متعلق یہی عقیدہ رکھتے تھے کہ ان کو جو تصرفات حاصل ہیں وہ اللہ کے عطا کردہ ہیں۔ (مسلم۔ کتاب الحج۔ تلبیۃ المشرکین) پھر ان کی محیرالعقول اور مہیب قسم کی کرامات بیان کی جاتی ہیں جن پر عوام کی طرف سے سبحان اللہ کے نعرے لگنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اور اگر کسی کو زیادہ جوش آجائے تو اجتماعی نعرے شروع ہوجاتے ہیں۔ پہلے نعرہ تکبیر، نعرہ رسالت اور پھر نعرہ حیدری۔ اب سوال یہ ہے کہ صدر اول میں مساجد میں ایسے نعرے بازی ہوتی تھی؟ اور کیا یہ خالص بدعت نہیں؟ ہمارے پسندیدہ موضوع :۔ ہمارے خطیب حضرات کا دوسرا پسندیدہ موضوع اپنے اختلافی عقائد کی نشرواشاعت اور ان کو فروغ بخشنا ہے۔ پھر ان عقائد کو سنجیدہ طریق پر پیش نہیں کیا جاتا بلکہ فریق مخالف کو طنزو مزاح، تضحیک اور طعن و ملامت کا ہدف بنا کر فرقہ وارانہ فسادات کی راہ ہموار کی جاتی ہے۔ اور خطیب مخالف فریق پر جتنا زیادہ کیچڑ اچھالنا اور انہیں طعن و ملامت کرنا جانتا ہو اتنا ہی وہ اپنے لوگوں میں ہر دلعزیز اور کامیاب خطیب متصور ہوتا ہے۔ جس خطیب کو یہ فن آگیا۔ بس اس کے وارے نیارے ہوگئے اسے جلسوں جلوسوں میں مدعو کیا جاتا اور گرانقدر نذرانے پیش کئے جاتے ہیں۔ عوام کا ذوق بھی کچھ ایسا بن جاتا ہے کہ وہ ایسے خطیب کو پسند کرتے ہیں۔ جو ایک تو گیت کے انداز میں سریلی آواز سے تقریر کرسکتا ہو دوسرے طعن و تشنیع میں اتنا فن کار ہو کہ فریق مخالف کے بخیے ادھیڑ کے رکھ دے۔ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا تھا کہ ﴿اِدْفَعْ بالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ السَّیِّئَۃَ ﴾مگر یہ بات نہ ہمارے خطیب حضرات کو اچھی لگتی ہے اور نہ ہمارے عوام کو۔ کیا یہی چیز اللہ کا ذکر ہے جس کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ ﴿فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ ﴾ علاوہ ازیں فرقہ بازی اور بدعات کے فروغ میں لاؤڈ سپیکر نہایت کارگر ہتھیار ثابت ہوا ہے۔ جب لاؤڈ سپیکر کی ایجاد معرض وجود میں آئی تو اس وقت علماء نے کہا تھا کہ اس میں سے شیطان بولتا ہے لہٰذا اس کے استعمال کو ممنوع قرار دیا گیا مگر آج یہ صورت حال ہے کہ جونئی مسجد تعمیر ہوتی ہے اس کی چھت پڑنے سے پیشتر یہی لاؤڈ سپیکر کا اہتمام ضروری سمجھا جاتا ہے اور ہر فریق اس کا فائدہ یہی بتاتا ہے کہ اس سے کتاب و سنت کا پیغام لوگوں کے گھروں تک پہنچایا جائے گا۔ مگر عملاً اس سے دوسرے فریق پر سنگ باری مقصود ہوتی ہے۔ اگر مخالف فریق کے لاؤڈ سپیکر کے ہارن دو ہوں تو یہ فریق چار ہارن لگوائے گا۔ اور اس کے چار ہارن ہو تو یہ چھ لگوائے گا۔ حالانکہ مسجد میں جمع ہونے والے لوگوں کے لیے سرے سے لاؤڈ سپیکر کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ پھر ہمارے خطیب اور علماء حضرات کا بھی مزاج کچھ ایسا بن چکا ہے کہ وہ لاؤڈ سپیکر کے بغیر تقریر کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ چنانچہ عام طور پر مشاہدہ میں آیا ہے کہ صرف گنتی کے چند نمازی سامنے بیٹھے ہیں اور خطیب صاحب لاؤڈ سپیکر کھول کر درس یا خطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں لاؤڈ سپیکر کی قطعاً ضرورت نہیں ہوتی مگر اس بات کا کیا علاج کہ مولانا لاؤڈ سپیکر کے بغیر درس یا خطبہ ارشاد فرمانا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں اور اس کا فائدہ یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کی یہ آواز لوگوں کے گھروں تک پہنچ رہی ہے۔ اور عملاً یہ ہوتا ہے کہ جب ہر طرف سے اور ہر مسجد سے لوگوں کے گھروں تک یہ آوازیں پہنچنا شروع ہوجاتی ہیں۔ تو لوگ ایسے شوروغل اور سمع خراشی سے بیزار اور متنفر ہوجاتے ہیں اور بعض لوگ تو محض اسی وجہ سے کسی مسجد کے قرب و جوار میں مکان بنانا پسند نہیں کرتے۔ پھر معاشرہ میں کچھ لوگ مریض بھی ہوتے ہیں جنہیں اس قسم کے شوروغل سے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ لاؤڈ سپیکر کے نقصانات :۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ لاؤڈ سپیکر بدعات اور بدعی عقائد و اعمال کے فروغ کے لیے ایک نہایت کامیاب ہتھیار ہے۔ مثلاً اذان سے پہلے درودشریف پڑھنے کی بدعت کو لاؤڈ سپیکر ہی کی وجہ سے فروغ حاصل ہوا ہے۔ اگر لاؤڈ سپیکر کو قانوناً بند کردیا جائے تو یہ بدعت تھوڑی ہی مدت بعد از خود دم توڑ دے گی۔ کیونکہ اس کی اصل بنیاد ہے ہی نہیں جس پر یہ قائم رہ سکے۔ یہی حال دوسری بدعات کا ہے اور یہ بات بھی مشاہدہ میں آچکی ہے کہ جہاں فرقہ وارانہ تقریروں کی وجہ سے فسادات ہو رہے ہوں وہاں حکومت لاؤڈ سپیکر کے استعمال پر پابندی لگا دیتی ہے۔ تو اس کے نتائج نہایت مفید برآمد ہوتے ہیں۔ اور وہاں فرقہ وارانہ فضا ماند پڑجاتی ہے۔ گویا آج کے دور میں بدعات اور بدعی عقائد کا سب سے بڑا سہارا یہی لاؤڈ سپیکر ہے۔ اور ہمیں یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ علماء نے لاؤڈ سپیکر سے متعلق ابتدائ ً جو رائے قائم کی تھی کہ : ’’اس میں شیطان بولتا ہے‘‘ وہ بہت حد تک درست تھی۔ رہے وہ عقائد و اعمال جو کتاب و سنت سے ثابت ہیں تو ان کے لیے لاؤڈ سپیکر کی قطعاً ضرورت نہیں۔ وہ اس کے بغیر بھی ہر دور میں زندہ و ثابت رہ سکتے ہیں کیونکہ وہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہیں۔ جمعہ کی غرض وغایت :۔ اب ذرا موضوع خطاب سے متعلقہ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی پہلی حدیث کا آخری حصہ سامنے لائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ : ’’میں ہر مومن کا اس کی اپنی جان سے بھی زیادہ خیر خواہ ہوں‘‘ جس سے معلوم ہوا کہ جمعہ کی ایک اہم غرض مسلمانوں کی خیرخواہی اور ان کی باہمی صلاح و فلاح ہے نہ کہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا، سنگ باری کرنا اور فرقہ وارانہ فسادات کو پھیلا کر عوام الناس کو سرے سے اسلام ہی سے متنفر بنا دینا۔ اس کے بعد فرمایا کہ : ’’جو شخص مال چھوڑ جائے وہ تو اس کے وارثوں کا ہے اور جو قرض یا چھوٹے بچے چھوڑ جائے تو اس قرض کی ادائیگی یا بچوں کی پرورش میرے ذمہ ہے‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ جمعہ کے دن مسلمانوں کے اس اجتماع کی ایک اہم غرض ان کی معاشی حالات کا جائزہ لینا اور محتاج اور ناتواں افراد کی کفالت اور مقروضوں کے قرض کی ادائیگی کا اہتمام کرنا بھی ہے۔ گویا جمعہ فرض تو اس غرض کے لیے کیا گیا تھا کہ مسلمان زیادہ سے زیادہ تعداد میں اکٹھے ہو کر اللہ کا ذکر سنیں اس کی حمد و ثنا بیان کریں۔ ایک دوسرے کی خیر خواہی اور باہمی اصلاح و فلاح کے امور پر غور کریں۔ اپنے معاشی حالات کا جائزہ لیں۔ محتاج اور یتیموں، بیواؤں اور ناداروں کی کفالت کا اہتمام کریں تاکہ ان میں محبت، مروت، ہمدردی، ایثار اور اخوت جیسے بلند پایہ اخلاق فروغ پائیں۔ لیکن ہمارے سامنے جمعہ کی ادائیگی کے اغراض ان سے یکسر مختلف ہوتے ہیں جنہیں ہم غیر شعوری طور پر اور عادتاً بجا لاتے ہیں۔ الجمعة
10 [١٥] یہ اجازت ہے حکم نہیں یعنی اگر تم نماز جمعہ کے بعد مسجد میں ہی بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرتے رہو تو بھی اچھا ہے، جانا چاہو تو بھی اجازت ہے۔ اور اگر جمعہ کی نماز کے بعد کاروبار یا کام کاج کرنا چاہو تو بھی مکمل اجازت ہے ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ جو بھی کام کاج کرو دل میں ہر وقت اللہ کی یاد ضرور رہنی چاہیے اور اگر ہوسکے تو زبانی بھی اللہ کا ذکر کرو۔ یہ یاد تمہیں معاصی میں پڑنے سے روکے گی۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ جمعہ کے دن بھی سارا دن ہمیں کام کاج سے چھٹی منانے کی ضرورت نہیں۔ ضروری یہ ہے کہ جمعہ کے دن جس پر جمعہ واجب ہے وہ بر وقت غسل کرے، مسواک کرے۔ صاف ستھرے کپڑے پہنے، تیل اور خوشبو لگائے پھر خطبہ جمعہ شروع ہونے سے پہلے پہلے بلکہ خطبہ کی اذان سے پہلے مسجد پہنچ جائے۔ اور خطبہ بڑے غور سے سنے ہاں اگر ہفتہ میں ایک دن کاروبار سے چھٹی کرنا ہی ہے تو مسلمانوں کو جمعہ کے دن ہی کرنا چاہئے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ہم سب امتوں کے بعد دنیا میں آئے لیکن قیامت کے دن سب سے آگے ہوں گے۔ بات صرف اتنی ہے کہ یہود و نصاریٰ کو ہم سے پہلے اللہ کی کتاب ملی۔ ان کے لیے بھی جمعہ کا دن ہی (عبادت کے لئے) مقرر ہوا تھا لیکن انہوں نے اس میں اختلاف کیا اور ہم کو اللہ نے اسی دن کی ہدایت فرمائی۔ پھر سب لوگ ہمارے پیچھے ہوگئے۔ یہود کا دن کل (ہفتہ کا دن) ہے اور نصاریٰ کا پرسوں (اتوار) کا دن۔ (بخاری۔ کتاب الجمعہ۔ باب فرض الجمعۃ) الجمعة
11 [١٦] مدنی دور کی ابتدائی زندگی معاشی لحاظ سے بھی مسلمانوں کے لیے سخت پریشان کن تھی۔ مہاجرین کی آباد کاری کے علاوہ کفار مکہ نے بھی اہل مدینہ کی معاشی ناکہ بندی کر رکھی تھی۔ جس کی وجہ سے غلہ کم یاب بھی تھا اور گرانی بھی بہت تھی۔ انہی ایام میں ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ کہ ایک غلہ کا تجارتی قافلہ مدینہ آن پہنچا اور انہوں نے اپنی آمد کی اطلاع کے طور پر طبلے بجانا شروع کردیئے۔ یہ خبر مژدہ جانفزا سے کم نہ تھی۔ چنانچہ خطبہ سننے والے مسلمان بھی، محض اس خیال سے کہ اگر دیر سے گئے تو سارا غلہ بک ہی نہ جائے، خطبہ چھوڑ کر ادھر چلے گئے اور آپ کے پاس صرف بارہ آدمیوں کے سوا کوئی نہ رہا۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب الجمعہ۔ باب اذا نفرالناس عن الامام۔۔) جس میں مسلمانوں پر میٹھی زبان میں عتاب نازل ہوا کہ یہ قافلہ والے کوئی تمہارے رازق تو نہ تھے۔ رزق کے اسباب مہیا کرنے والا تو اللہ ہے۔ لہٰذا آئندہ تمہیں ایسی باتوں سے اجتناب کرنا چاہئے۔ ضمناً اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ امام کو خطبہ کھڑے ہو کردینا چاہیے اور یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا۔ اس سلسلہ میں دو احادیث ملاحظہ فرمائیں :۔ ١۔ جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ کھڑے ہو کردیتے۔ پھر بیٹھ جاتے۔ پھر کھڑے ہو کر خطبہ دیتے۔ جو تمہیں یہ بتائے کہ آپ نے خطبہ بیٹھ کردیا اس نے جھوٹ بولا۔ (مسلم) ٢۔ کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ مسجد میں تشریف لائے اور عبدالرحمٰن بن ام الحکم بیٹھ کر خطبہ دے رہے تھے۔ کعب نے فرمایا۔ اس خبیث کو دیکھو۔ یہ بیٹھ کر خطبہ دیتا ہے اور قرآن مجید میں ﴿وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَہْوَا انْفَضُّوْٓا اِلَیْہَا وَتَرَکُوْکَ قَایِٕمًا ﴾ جب انہوں نے خرید وفروخت یا کھیل کے مشغلہ کو دیکھا تو اس طرف بھاگ نکلے اور تمہیں کھڑا ہوا چھوڑ گئے۔ (مسلم) الجمعة
0 المنافقون
1 [١] یعنی منافق بھی یہ شہادت دیتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور اللہ نے بھی یہی شہادت دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ اس کے باوجود اللہ یہ بھی شہادت دیتا ہے کہ منافق جھوٹے ہیں۔ کیونکہ یہ شہادت وہ دل کے یقین سے نہیں بلکہ محض فریب کاری کی غرض سے زبانی طور پر دیتے تھے۔ علاوہ ازیں ان کے اعمال ان کے اس زبانی دعویٰ کی تائید نہیں کرتے تھے۔ اور قول و فعل میں دیدہ دانستہ تضاد منافقت کی دلیل ہے۔ ایمان کی نہیں۔ المنافقون
2 [٢] یعنی قسموں سے وہ کام لیتے ہیں وہ جو ڈھال سے لیا جاتا ہے۔ وہ قسموں کے ذریعہ مسلمانوں کو اپنے ایمان کا یقین دلا کر اپنا جان و مال محفوظ کرلیتے تھے۔ نیز جب ان کی کوئی ناشائستہ حرکت یا سازش پکڑی جاتی ہے۔ تو جھوٹی قسمیں کھا کر مسلمانوں کی گرفت سے بچ جاتے ہیں۔ کیونکہ اسلام کا قانون یہ ہے کہ وہ صرف ظاہری افعال پر ہی گرفت کرتا ہے۔ [٣] صَدَّ کا لفظ لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے خود تو ان منافقوں کا اسلام سے رکنا واضح ہے جو لوگ اسلام لانا چاہیں ان کے دلوں میں کئی طرح کے شکوک و شبہات پیدا کرکے ان کے اسلام لانے میں سدّراہ بن جاتے ہیں اور وہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جب یہ پہلے سے اسلام میں داخل ہونے والے لوگ بھی مطمئن نہیں تو ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔ المنافقون
3 [٤] یعنی اسلام تو لے آئے اور ایمان کا دعویٰ بھی کیا۔ مگر دل سے یہ کافر کے کافر ہی رہے۔ ان کی ہمدردیاں اور سرگوشیاں اور رازداریاں سب کافروں سے ہی وابستہ رہیں اور یہ عادت ان میں اس قدر پختہ ہوگئی کہ اب مسلمانوں کی کوئی بھلائی انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ لہٰذا اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی کیونکہ اللہ کسی کو جبراً اور کان پکڑ کر راہ ہدایت کی طرف نہیں لایا کرتا۔ اور وہ بے وقوف ایسے ہیں کہ انہیں یہ سمجھ بھی نہیں آرہی کہ جو کام وہ کر رہے ہیں وہ ان کے لیے مفید رہیں گے یا الٹا انہیں پکڑوا دیں گے اور ان کی ذلت و رسوائی کا باعث بن جائیں گے۔ المنافقون
4 [٥] منافقوں کی عادات اور خصائل :۔ منافقوں کا رئیس عبداللہ بن ابی بن سلول معاشی لحاظ سے بھی رئیس تھا دیکھنے میں بڑا خوبصورت اور لمبے قدوقامت والا جوان تھا۔ جنگ بدر کے قیدیوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا سیدنا عباس ننگے تھے تو اسی کی قمیص ان کو پوری آسکتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی سے مانگی تو اس نے دے دی تھی۔ اسی بات کا معاوضہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت دیا تھا جب عبداللہ بن ابی مرا تھا۔ اور اس کے بیٹے عبداللہ نے جو سچا مسلمان تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ التجا کی تھی کہ آپ اگر اپنی قمیص دے دیں تو میں یہ اپنے باپ کو پہنا دوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دے دی تھی۔ لسان بھی تھا۔ باتیں کرنے کا اور باتوں سے خوش اور مطمئن کرنے کا اسے ڈھنگ آتا تھا۔ باتیں کرتا تو جی چاہتا تھا کہ اس کی باتیں سنتے ہی رہیں۔ اس کے کچھ خاص مصاحب بھی ایسی ہی صفات کے مالک تھے۔ [٦] یہ لوگ جب آپ کی مجلس میں آتے تو کسی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ جاتے۔ دراصل وہ یہ کام اپنی برتری اور شان بے نیازی جتلانے کے لیے کرتے تھے۔ اور اللہ نے ان کو لکڑیوں سے تشبیہ اس لحاظ سے دی کہ لکڑیوں میں سننے، سوچنے سمجھنے کی اہلیت نہیں ہوتی۔ اسی طرح یہ لوگ بس دکھاوے کی خاطر آ تو جاتے ہیں۔ مگر نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو دھیان سے سنتے ہیں اور کچھ سن بھی پائیں تو اسے سمجھنے اور سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے اور جیسے آئے تھے ویسے ہی دامن جھاڑ کر چلے جاتے ہیں۔ ہدایت کی کوئی بات قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ [٧] بزدل اور ڈرپوک ایسے ہیں کہ ادھر کوئی پتا کھٹکا ادھر ان کا دل دہل گیا۔ ایک عادی مجرم کی طرح انہیں ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں ہمارا فلاں راز فاش تو نہیں ہو چلا، یا فلاں حرکت پر گرفت تو نہیں ہونے لگی۔ [٨] کیونکہ یہ لوگ گھر کے بھیدی اور آستین کے سانپ ہیں۔ تمہاری سب باتیں دشمنوں تک پہنچاتے اور ہر کام سے انہیں باخبر رکھتے ہیں۔ یہ لوگ تمہارے ظاہری دشمنوں یعنی یہود' کفار مکہ اور مشرکین سب سے زیادہ خطرناک ہیں۔ لہٰذا ان سے سخت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ المنافقون
5 [٩] ویسے تو سب منافقوں کا یہی حال تھا۔ مگر ان کا سردار عبداللہ بن ابی اس بات میں بھی ان کا سردار تھا۔ جب بھی ان کی کوئی سازش یا ناشائستہ حرکت یا راز کی بات پکڑی جاتی تو مسلمان ان سے کہتے کہ : چلو، چل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معافی مانگ لو۔ وہ آپ کو خود بھی معاف کردیں گے اور اللہ سے بھی تمہاری مغفرت کی دعا کریں گے۔ ایسے ہی ایک موقعہ پر عبداللہ بن ابی نے مسلمانوں کو یہ جواب دیا کہ ’’تم نے مجھے ایمان لانے کو کہا تو میں ایمان لے آیا۔ تم نے نمازیں ادا کرنے کو کہا تو وہ بھی میں نے ادا کیں۔ تم نے مال کی زکوٰۃ ادا کرنے کو کہا تو وہ بھی میں نے ادا کی۔ اب کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کروں؟‘‘ اس کا کبرونخوت سے بھرا ہوا یہ جواب سن کر آپ کیا سمجھتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا ہوگا ؟ یا مسلمانوں نے اسے آگے کچھ کہا ہوگا ؟ اس کی اسی متکبرانہ کیفیت کا نقشہ اللہ نے اس آیت میں کھینچا ہے۔ المنافقون
6 [١٠] اس کی تشریح کے لیے سورۃ توبہ کی آیات نمبر ٨٠ اور ٨٤ کے حواشی دیکھ لیے جائیں جو اس موقعہ پر نازل ہوئی تھیں۔ جب عبداللہ بن ابی کی وفات واقع ہوئی تھی۔ [١١] اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں کہ ایک یہ کہ دعائے مغفرت بھی صرف ان لوگوں کے لئے ہی قبول اور مفید ہوسکتی ہے جو خود بھی ہدایت کے راستے پر چلنا چاہتے ہوں یا چل رہے ہوں، خواہ دعائے مغفرت کرنے والے خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کیوں نہ ہوں۔ دوسری یہ کہ جو لوگ اللہ کی نافرمانی کی روش اختیار کئے ہوئے ہوں انہیں اللہ زبردستی ہدایت کی راہ پر نہیں لایا کرتا۔ المنافقون
7 [١٢] ہجرت سے پہلے مدینہ میں عبداللہ بن ابی کی حیثیت :۔ آیت نمبر ٧ اور ٨ کا صحیح مفہوم سمجھنے کے لئے ان کا تاریخی پس منظر سمجھنا ضروری ہے جو یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو ان کی آمد سے پہلے مدینہ کے دونوں قبیلے اوس اور خزرج اسے اپنا بادشاہ تسلیم کرنے پر تیار ہوچکے تھے اور اس کے لیے سنہری تاج بھی تیار کرالیا گیا تھا۔ وہ خود قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتا تھا۔ اوس اور خزرج اپنی باہمی جنگوں سے بہت تنگ آئے ہوئے تھے اور غالباً عبداللہ بن ابی ہی وہ پہلا شخص تھا جس کی سربراہی کو دونوں قبائل نے تسلیم کرلیا تھا۔ اس کی رسم تاجپوشی ادا ہونے ہی والی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے آئے اور جب تمام لوگ آپ کی طرف متوجہ ہوگئے تو عبداللہ بن ابی کا سارا بنا بنایا کھیل بگڑ گیا اور جو لوگ عبداللہ بن ابی کی بادشاہت کے دوران بڑے بڑے مناصب کی آس لگائے بیٹھے تھے۔ عبداللہ بن ابی کے اور ان کے اسلام لانے کے بعد بھی وہ لوگ اس کے دمساز و ہمراز رہے۔ یہ لوگ بظاہر اسلام تو لے آئے مگر بادشاہت اور مناصب کے چھن جانے کی وجہ سے عداوت کی چنگاری ان کے دلوں میں برقرار رہی۔ عبداللہ بن ابی کے اسلام لانے کی وجوہ :۔ عبداللہ بن ابی کے ان حالات میں اسلام لانے کی مجبوریاں تین تھیں ایک یہ کہ بدر کی فتح نے عرب بھر میں مسلمانوں کی دھاک بٹھا دی تھی۔ عبداللہ بن ابی بھی ایسے موقع شناس لوگوں میں سے تھا۔ جو چڑھتے سورج کو سلام کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ مدینہ میں اگرچہ یہود و مشرکین بھی آباد تھے مگر بااثر مسلمان ہی تھے تیسرے یہ کہ عبداللہ بن ابی کا اپنا بیٹا، اس کا نام بھی عبداللہ ہی تھا، مسلمان ہوچکا تھا اور وہ سچا مسلمان تھا۔ اسلام لانے کے باوجود ان لوگوں کے دلوں میں عداوت کی چنگاری انہیں ہر موقع پر اسلام کے خلاف مشتعل کرتی رہی۔ جنگ بدر سے پیشتر مشرکین مکہ نے عبداللہ بن ابی کو ہی اپنا ساتھی سمجھ کر یہ پیغام بھیجا تھا کہ ’’تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو پناہ دے رکھی ہے۔ واللہ! یا تو تم اس سے لڑائی کرو اور اسے نکال باہر کرو، ورنہ ہم پوری جمعیت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری عورتوں کی حرمت پامال کر ڈالیں گے‘‘ (ابوداؤد۔ کتاب الجہاد۔ باب خبر النضیر) یہ خط دراصل عبداللہ بن ابی کے دل کی آواز تھا۔ اس خط سے اسے بڑا سہارا مل گیا اور اس نے اپنے رفقاء کو اپنے پاس اکٹھا کرنا شروع کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب ان حالات کی اطلاع ہوئی تو آپ اس کے ہاں خود تشریف لائے اور فرمایا کیا تم اپنے بیٹوں اور بھائیوں سے خود ہی لڑو گے؟ عبداللہ کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ اس کے اپنے بہت سے قریبی رشتہ دار مسلمان ہیں لہٰذا اس کی کامیابی ناممکن ہے لہٰذا وہ لہو کے گھونٹ پی کے رہ گیا اور اس کے ساتھی بھی بکھر گئے۔ جنگ بدر کے دوران یہود اور عبداللہ بن ابی کی پارٹی نے مسلمانوں کی شکست کی غلط سلط خبریں پھیلا کر مدینہ کی فضا کو خاصا سنسنی خیز بنا دیا تھا۔ پھر جب مسلمانوں کی شاندار فتح کی خبر آگئی۔ تو ان لوگوں کے قلب و جگر چھلنی ہوگئے۔ جنگ احد میں عین وقت پر جس طرح عبداللہ بن ابی نے غداری کی اس کا حال پہلے سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ١٢١ کے حواشی میں گزر چکا ہے۔ اسلام لانے کے بعد عبداللہ بن ابی کا مسلمانوں سے منافقانہ رویہ :۔ جب یہود بنو قینقاع کو قید کرلیا گیا۔ تو عبداللہ بن ابی نے پرزور سفارش کرکے انہیں آزادی دلائی اور وہ جلا وطن کئے گئے۔ جنگ بنونضیر میں اس نے جس طرح یہودیوں کے حوصلے بڑھائے اس کا حال سورۃ حشر میں گزر چکا ہے اور جنگ احزاب میں منافقوں نے جس عدم تعاون کا مظاہرہ کیا اور جس طرح مسلمانوں کو ہی طعنے دینے شروع کئے تھے اس کا حال سورۃ احزاب میں گزر چکا ہے۔ گویا عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی ہر وقت ایسے موقع کی تلاش میں رہتے اور اپنی منافقانہ سرگرمیاں دکھاتے تھے جن سے اسلام و مسلمانوں کو زک پہنچے۔ مسلمان مدینہ سے نکل جائیں یا ان کا اثر و رسوخ ختم ہوجائے تاکہ عبداللہ بن ابی کو اپنی کھوئی ہوئی بادشاہت پھر سے نصیب ہوجائے۔ غزوہ بنی مصطلق میں مہاجرین و انصار میں لڑائی اور عبداللہ بن ابی کا انصارکو بھڑکانا :۔ غزوہ بنی مصطلق جنگی لحاظ سے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا۔ تاہم اس غزوہ میں دو واقعات ایسے پیش آئے۔ جنہوں نے اس غزوہ کو مشہور بنا دیا ہے۔ اور یہ دونوں واقعات منافقوں اور بالخصوص عبداللہ بن ابی سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ دونوں واقعات نہیں بلکہ فتنے تھے۔ جنہیں برپا کرنے والا یہی عبداللہ تھا۔ ایک تو واقعہ افک ہے۔ جو واپسی کے دوران پیش آیا تھا اور اس کا تفصیلی ذکر سورۃ نور میں گزر چکا ہے۔ دوسرا واقعہ اسی مقام پر ہوا جہاں مسلمانوں نے اس مشرک قبیلے کو شکست دی تھی۔ اور شکست دینے کے بعد چند دن آرام کے لیے رک گئے تھے۔ وہاں ایک کنوئیں پر پانی لینے کے سلسلہ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے خادم جہجاہ بن قیس اور ایک انصاری کے درمیان کچھ تو تو، میں میں ہونے لگی۔ یہ واقعہ بخاری میں ان الفاظ میں مذکور ہے : سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری فرماتے ہیں کہ ہم ایک لڑائی پر گئے ہوئے تھے۔ وہاں ایک مہاجر (جہجاہ بن قیس) نے ایک انصاری (سنان بن وبرہ جہنی) کو ایک لات جمائی (جو اس کے سرین پر لگی) انصاری نے فریاد کی : اے انصار! دوڑو۔ اور مہاجر نے فریاد کی : اے مہاجرین دوڑو۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آوازیں سنیں تو وہاں پہنچ کر فرمایا : ’’یہ کیا دور جاہلیت کی سی باتیں کرنے لگے ہو؟‘‘ وہ کہنے لگے : ’’یارسول اللہ! ایک مہاجر نے ایک انصاری کے لات ماری تھی‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ایسی باتیں چھوڑ دو۔ یہ گندی باتیں ہیں‘‘ (بخاری۔ کتاب بدء الخلق۔ باب ماینھی من دعوۃ الجاھلیۃ۔ مسلم۔ کتاب البروالصلۃ۔ باب نصر الاخ ظالما او مظلوما) جب عبداللہ بن ابی نے یہ بات سنی تو (انصار سے) کہنے لگا : ’’یہ سب کچھ تمہارا ہی کیا دھرا ہے۔ اللہ کی قسم! جب ہم مدینہ واپس جائیں گے تو عزت والا سردار ذلت والے کو وہاں سے باہر نکال دے گا‘‘ جب یہ خبر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو سیدنا عمررضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر کہنے لگے : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اس منافق کی گردن اڑانے کی اجازت دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ایسا نہ کرو۔ لوگ کہیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرنے لگے ہیں‘‘ مہاجر لوگ جب ہجرت کرکے مدینہ آئے اس وقت تھوڑے سے تھے اور انصار بہت تھے۔ مگر بعد میں مہاجرین بھی بہت ہوگئے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) عبداللہ بن ابی کی بکواس اور بعد میں قسم اٹھا کر انکار کرنا :۔ سیدنا زید بن ارقم فرماتے ہیں کہ میں نے ایک لڑائی (غزوہ تبوک) میں عبداللہ بن ابی کو یہ کہتے سنا : اے انصار! پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو لوگ (مہاجرین) ہیں ان کو خرچ کے لیے کچھ نہ دو۔ وہ خود ہی پیغمبر کو چھوڑ کر تتر بتر ہوجائیں گے۔ اور اگر ہم اس لڑائی سے لوٹ کر مدینہ پہنچے تو عزت والا (یعنی وہ خود) ذلت والے (یعنی پیغمبر) کو نکال باہر کرے گا۔ میں نے عبداللہ بن ابی کی یہ گفتگو اپنے چچا (سعد بن عبادہ) یا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کی اور انہوں نے آپ کو یہ بات بتا دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی منافق اور اس کے ساتھیوں کو بلوایا تو وہ قسمیں کھانے لگے کہ ہم نے ایسا نہیں کہا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جھوٹا سمجھا اور اسے سچا سمجھا۔ مجھے اس بات کا اتنا دکھ ہوا جتنا کبھی کسی اور بات سے نہ ہوا تھا۔ میں گھر میں بیٹھ رہا۔ مجھے میرے چچا نے کہا : ارے تو نے یہ کیا کیا۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھے جھوٹا سمجھا اور تجھ سے ناراض ہوئے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔ ﴿اِذَا جَاءَکَ الْمُنٰفِقُوْنَ ﴾ تا آخر۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلا بھیجا۔ سورۃ منافقون پڑھ کر سنائی اور فرمایا : ’’زید! تجھے اللہ نے سچا کیا‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) اس موقعہ پر عبداللہ بن ابی نے انصار کو خوب اشتعال دلایا۔ کہنے لگا کہ : ’’یہ مہاجر لوگ ہمارے علاقہ میں آکر ہمارے ہی حریف بن گئے ہیں۔ ان پر تو یہ مثال صادق آتی ہے کہ کتے کو پال کر موٹا تازہ کرو تاکہ وہ تمہیں ہی پھاڑ کھائے۔ بخدا مدینہ واپس جاکر ہم میں معزز ترین آدمی (یعنی عبداللہ بن ابی) وہاں کے ذلیل ترین آدمی (یعنی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ) کو نکال باہر کرے گا۔‘‘ پھر کہنے لگا کہ یہ مصیبت تمہاری اپنی ہی پیدا کردہ ہے۔ تم نے انہیں اپنے شہر میں اتارا، اپنے اموال بانٹ دیئے اور یہ دلیر ہوگئے۔ اب بھی اس کا یہی علاج ہے کہ ان لوگوں کو دینا بند کردو۔ یہ خود ہی یہاں سے چلتے بنیں گے۔ المنافقون
8 [١٣] عبداللہ بن ابی کو جھوٹ بولنے کی کیا سزا ملی؟ جھوٹی قسمیں کھا کر اپنے جرائم سے انکار کرنے کی سزا اس منافق کو ایک تو یہ ملی کہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اس کے نفاق اور کذب کا بھانڈا پھوڑ دیا اور اسے رسوا کیا۔ اور دوسری سزا یہ ملی کہ خود اس کا بیٹا عبداللہ جو سچا مومن تھا۔ مدینہ کے دروازہ پر تلوار سونت کر کھڑا ہوگیا۔ اور اپنے باپ کی راہ روک کر کہنے لگا کہ جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت نہ دیں تم مدینہ میں داخل نہیں ہوسکتے کیونکہ معزز ترین تو اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور ذلیل ترین تم ہو۔ کچھ دیر بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پہنچے جہاں بیٹا باپ کا راستہ روکے کھڑا تھا، آپ نے از راہ کرم عبداللہ بن ابی کو مدینہ میں داخل ہونے کی اجازت دے دی۔ تب جاکر بیٹے نے باپ کا راستہ چھوڑا۔ اس وقت اس منافق کو یہ بات معلوم ہوئی جسے وہ نہیں جانتا تھا کہ تمام تر عزت تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کے لیے ہے اور ان کے مقابلہ میں وہی ذلیل ترین آدمی ہے۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن ابی کے قتل کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کی اجازت نہ دی اور اس کی وجہ محض شماتت اعداء تھی۔ ورنہ اس کے جرائم اس قابل تھے کہ اسے قتل کرکے اس مجسم فتنہ سے زمین کو پاک کردیا جاتا اور صحابہ میں ایسی چہ میگوئیاں ہونے بھی لگیں تو عبداللہ بن ابی کے بیٹے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ میرے باپ کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں تو مجھے حکم فرمائیے میں اس کا سر آپ کی خدمت میں پیش کردوں گا۔ اگر اسے کسی اور نے قتل کیا تو مبادا میری رگ حمیت بھڑک اٹھے‘‘ (ابن ہشام، ١٢: ٢٩٠ تا ٢٩٢) المنافقون
9 [١٤] مال اور اولاد کا نام اس لیے لیا گیا کہ ہر انسان کی زیادہ تر دلچسپی انہیں سے ہوتی ہے ورنہ اس میں ہر وہ کاروبار یا شغل شامل کیا جاسکتا ہے جو اللہ کی یاد سے غافل کر دے۔ اور اللہ کی یاد سے غفلت کا نتیجہ فسق و فجور کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ کسب حلال کی تمیز اٹھ جاتی ہے اور انسان زندگی کے ہر میدان میں بے راہ رو ہوجاتا ہے۔ المنافقون
10 [١٥] افضل ترین صدقہ وہ ہے جو اپنی ضروریات کے علی الرغم کیا جائے :۔ بخل یا شحّ اور ایمان دو متضاد چیزیں ہیں۔ جو ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتیں۔ بخل دراصل نفاق کی علامت ہے ایمان کی نہیں۔ بخیل آدمی ساری عمر پیسہ جوڑنے میں گزار دیتا ہے۔ کسی وقت بھی مال کی محبت اس کے دل سے جدا نہیں ہوتی بلکہ بڑھاپے میں اور زیادہ بڑھنے لگتی ہے۔ پھر جب موت سر پر کھڑی ہوتی ہے اور اسے یہ یقین ہوجاتا ہے کہ اب مجھے یہ مال و دولت چھوڑ چھاڑ کر خالی ہاتھ جانا پڑے گا اس وقت البتہ اس کا جی چاہتا ہے کہ صدقہ کرکے اپنے مال سے جتنا زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکے اٹھا لوں۔ اس وقت بھی اس کا اصل مقصد کسی محتاج کی احتیاج دور کرنا نہیں ہوتا۔ بلکہ ’’بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی‘‘ کے مصداق وہ جبراً جدا ہونے والے مال سے صدقہ کرکے ثواب حاصل کرنا چاہتا ہے۔ حالانکہ اس وقت صدقہ کرنے کا کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اجر کے لحاظ سے کون سا صدقہ بڑا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جو تو تندرستی کی حالت میں کرے، حرص رکھتا ہو، فقر سے ڈرتا ہو اور دولت کی امید رکھتا ہو لہٰذا صدقہ کرنے میں جلدی کر۔ ایسا نہ ہو کہ جان لبوں پر آجائے تو کہنے لگے کہ اتنا مال فلاں کو دے دو۔ اور اتنا فلاں کو۔ حالانکہ اس وقت یہ مال اس کا نہیں بلکہ اس کے وارثوں کا ہوتا ہے‘‘ (مسلم۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب ان افضل الصدقۃ۔۔) ضمناً اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اعمال صالحہ میں صدقات کو خصوصی اہمیت ہے۔ المنافقون
11 [١٦] یعنی اللہ اس بات کو خوب جانتا ہے کہ اگر بالفرض تمہیں کچھ مہلت بھی دے دی جائے تو تم پھر بھی بخل ہی کرو گے۔ صدقہ نہیں کروگے کیونکہ جو عادتیں زندگی بھر پختہ ہوتی رہتی ہیں، تھوڑی سی مہلت ملنے پر بدل نہیں جاتیں۔ المنافقون
0 [١] اس بات میں مفسرین میں خاصا اختلاف ہے۔ اکثر اسے مدنی سورت قرار دیتے ہیں۔ اور بعض مکی کہتے ہیں۔ اس سورۃ کے ابتدائی مضامین مکی سورتوں سے پوری مشابہت رکھتے ہیں۔ اس اختلاف میں بہتر صورت یہی معلوم ہوتی ہے کہ آیت نمبر ١٤ سے ١٨ تک کی پانچ آخری آیات تو مدنی ہیں اور ابتدائی ١٣ آیات مکی ہیں۔ التغابن
1 [٢] یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو پیدا کیا تو پھر اس سے بے تعلق نہیں ہوگیا۔ جیسا کہ قدیم فلاسفہ کا نظریہ تھا۔ بلکہ ہر آن اس پر حکومت بھی کر رہا ہے۔ اور جس چیز کی تخلیق سے جو مقصد درکار تھا اسے اس کام پر لگا دیا ہے اور اس سے مطلوبہ مقصد حاصل کرنے کی وہ پوری قدرت رکھتا ہے۔ التغابن
2 [٣] اس آیت کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ پیدا تو تمہیں اللہ نے کیا ہے پھر کوئی تو یہ بات تسلیم کرلیتا ہے کہ واقعی ہمارا خالق اللہ ہے اور کوئی یہ بات بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ وہ سرے سے اللہ کی ہستی کا انکار کردیتا ہے کہ ہم تو زمانہ کی گردش کے تحت پیدا ہوتے اور مرتے رہتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اللہ نے انسان کو فطرت سلیمہ پر پیدا کیا تھا۔ کہ وہ بھی اللہ کی باقی تمام مخلوق کی طرح اس کا مطیع و منقاد بن کر رہے۔ لیکن کچھ لوگ تو اس فطرت سلیمہ پر قائم رہتے ہیں اور کچھ ماحول سے متاثر ہو کر کفر کی راہیں اختیار کرلیتے ہیں اور اس مطلب کی توثیق اس ارشاد نبوی سے ہوجاتی ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ : ’’(انسان کا) ہر بچہ فطرت (سلیمہ) پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی (وغیرہ) بنا دیتے ہیں‘‘ (بخاری۔ کتاب القدر۔ باب جف القلم علیٰ علم اللّٰہ۔۔) اور تیسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو قوت ارادہ و اختیار اور عقل و تمیز دے کر پیدا کیا تھا۔ اب جو شخص ان اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا غلط استعمال کرتا ہے۔ وہ کفر کی راہ پر جا پڑتا ہے اور جو صحیح استعمال کرتا ہے۔ وہی مومن ہوتا ہے۔ [٤] صرف دیکھتا ہی نہیں بلکہ اس کی تمہیں جزا یا سزا بھی دے گا۔ وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ اگر کسی مومن نے کوئی نیک کام کیا تھا تو اس میں خلوص نیت کا کتنا حصہ تھا۔ اسی کے مطابق وہ اس کی جزا میں کمی یا اضافہ بھی کرے گا۔ التغابن
3 [٥] وہ حقیقی مصلحت یہ تھی کہ انسان کی پیدائش سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے ایسی تمام چیزیں پیدا کردیں جو انسان کی زندگی اور زندگی کی بقا کے لئے ضروری تھیں۔ تمام اشیاء کو انسان کا خادم بنادیا اور وہ تمام چیزیں انسان ہی کی خدمت پر مامور ہیں۔ [٦] انسان میں دوسری مخلوق سے کیا کیا صفات زائد ہیں؟ : یعنی انسان کو سیدھا کھڑا ہو کر دو پاؤں پر چلنے والی مخلوق بنایا۔ اسے بولنے ' ایک دوسرے کی بات کو سمجھنے اور جواب دینے کی قوتیں عطا فرمائیں۔ پھر اس کو یہ عقل و شعور بھی بخشا کہ وہ تمام مخلوق سے اپنے حسب ضرورت کام لے سکے، انہیں اپنا مطیع و منقاد بنا سکے اور ان پر حکومت کرسکے۔ اور یہ صفات انسان کے علاوہ اور کسی مخلوق کو عطا نہیں کی گئیں۔ اس کے اعضاء کی ساخت بھی ایسی بنائی کہ ایک ایک عضو سے وہ کئی کئی کام لے سکتا ہے۔ اور اپنی عقل اور اعضاء سے کام لے کر ایک طرف تو کائنات کی تسخیر کیے چلا جاتا ہے۔ دوسری طرف نت نئی ایجادات کو وجود میں لاتا رہتا ہے۔ [٧] یعنی انسان کا ڈیزائن بھی عمدہ بنایا پھر اس کی صورت بھی بہت خوب بنائی۔ یہ نہیں کیا کہ کسی انسان کی ایک آنکھ بڑی ہو اور دوسری چھوٹی یا ایک آنکھ کالی ہو دوسری نیلی یا ایک نتھنا بڑا ہو اور دوسرا چھوٹا یا ایک ہاتھ لمبا ہو اور دوسرا چھوٹا۔ جس سے انسان بدصورت ہی نہیں بلکہ خوفناک اور ڈراؤنا بھی معلوم ہونے لگے۔ پھر اتنی ہمہ گیر یکسانیت کے باوجود ہر ایک کی شکل اور نقش و نگار الگ الگ بنائے۔ اگر اللہ تعالیٰ انسان کی ناک یا اس کی آنکھیں پیچھے گردن پر یا پیٹھ کو لگا دیتا تو اندازہ کرلیجئے کہ انسان کتنی بدصورت مخلوق ہوتا۔ [٨] اللہ کا اس کائنات کو بنانا۔ اس کا مربوط انتظام کرنا۔ اس کے بعد انسان جیسی اشرف المخلوقات اور احسن تقویم والی مخلوق کو پیدا کرنا پھر اس میں لگاتار زندگی اور موت کا سلسلہ جاری کرنا۔ یہ سب کام تو تم دیکھ ہی رہے ہو۔ پھر کیا مرنے کے بعد اسے تمہیں اپنے پاس حاضر کرلینا ہی مشکل بن جائے گا ؟ التغابن
4 [٩] یعنی جو باتیں تم دل میں چھپاتے یا چھپائے رکھتے ہو انہیں بھی جانتا ہے اور جو کچھ زبان سے کہہ دیتے ہو اسے بھی۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ جو اعمال تم لوگوں سے چھپ چھپا کر کرتے ہو۔ اللہ انہیں جانتا ہے اور جو لوگوں کے سامنے کرتے ہو انہیں بھی۔ اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ جو کام تم نے کیا ہے وہ کس نیت اور کس ارادہ سے کیا ہے پھر اسی کے مطابق تمہیں بدلہ دیا جائے گا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی عدل صرف اللہ تعالیٰ ہی کرسکتا ہے۔ کیونکہ اس دنیا میں صرف ظاہری اعمال اور ان کی ظاہری صورت پر ہی انحصار کیا جاسکتا ہے۔ التغابن
5 [١٠] ''ان لوگوں'' سے مراد وہ سابقہ اقوام ہیں جن پر اللہ کی نافرمانیوں کی وجہ سے عذاب آیا تھا۔ اور یہ سزا نہ تو ان کی اصل سزا تھی اور نہ پوری سزا تھی۔ یہ عذاب تو انہیں محض اس لئے چکھایا گیا تھا کہ آئندہ جرائم سے باز آجائیں اور مظلوم ان کے مظالم سے نجات پاجائیں۔ اس لحاظ سے دنیا کا یہ عذاب محض ایک مجرم کی گرفتاری کی حیثیت رکھتا ہے۔ رہی اصل اور پوری سزا تو وہ انہیں آخرت میں ملے گی۔ التغابن
6 [١١] یعنی ایسے دلائل جن سے یہ یقین حاصل ہوسکتا تھا کہ یہ رسول فی الواقع اللہ کے فرستادہ ہیں۔ اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اپنی تعلیمات کے لئے وہ جو دلائل پیش کرتے تھے وہ نہایت معقول اور واضح ہوتے تھے۔ ان میں کسی قسم کا ابہام یا پیچیدگی نہیں ہوتی تھی۔ اور حق و باطل کی پوری پوری وضاحت ہوجاتی تھی۔ [١٢] انہیں اپنے رسول پر بنیادی اعتراض یہ ہوتا تھا کہ یہ تو ہم جیسا ہی ایک بشر ہے اسے ہم اپنا رہنما کیسے مان لیں؟ کوئی فرشتہ ہماری رہنمائی کے لئے نازل ہوتا تب بھی کوئی بات تھی۔ گویا ان کے نزدیک بشریت اور رسالت میں منافات تھی۔ اسی بنا پر انہوں نے رسولوں کی بات ماننے سے انکار کردیا اور کفر کا راستہ اختیار کرلیا۔ کافروں کے اس اعتراض کا جواب قرآن میں بے شمار جگہ پر دیا گیا ہے کہ انسانوں کے لئے ہدایت کی صرف یہی صورت ہے کہ رسول بشر ہو اور بشر بھی وہ ہو جو ان کی قوم سے ہو اور انہی کی زبان میں بات کرتا ہو۔ اس کے علی الرغم ہمیں تو ان دوستوں کی داد دینا پڑتی ہے جو اسی آیت کا یہ مطلب لیتے ہیں کہ رسول کو بشر کہنے والا کافر ہے۔ کیونکہ کافر ہی رسولوں کو بشر کہتے تھے۔ اور رسولوں کو بشر کہنا کافروں کا شیوہ ہے۔ اقبال (رح) نے کیا خوب کہا تھا : زمن بر صوفی و ملا سلامے۔۔ کہ پیغام خدا گفتند مارا۔۔ ولے تاویل شان در حیرت انداخت۔۔ خدا و جبرئیل و مصطفٰے را ترجمہ : (میری طرف سے صوفی اور ملا پر سلام ہو کہ انہوں نے ہمیں اللہ کا پیغام پہنچایا۔ لیکن ان کی تاویل نے اللہ کو جبرئیل کو اور اللہ کے رسول سب کو حیرت میں ڈال دیا (کہ ہم نے کہا کیا تھا اور ان لوگوں نے اس سے کیا مطلب نکال لیا) ہر رسول بشر ہوتا ہے :۔ مزید برآں یہی نہیں کہ کافر ہی رسولوں کو بشر کہتے تھے۔ بلکہ اللہ نے بھی رسولوں کو بشر ہی کہا ہے اور رسول خود بھی اپنے آپ کو بشر ہی کہتے تھے خواہ مخاطب کافر ہوں یا مسلمان ہوں۔ (تشریح کے لئے دیکھئے سورۃ کہف کی آیت نمبر ١١٠ کا حاشیہ) [١٣] یعنی اللہ نے تو انہیں کی بھلائی اور رہنمائی کے لئے رسول بھیجے تھے اب اگر یہ گڑھے میں ہی گرنا چاہتے ہیں تو گرا کریں۔ اللہ کو ان کی کیا پروا ہے اگر یہ اللہ اور اس کے رسول کو نہیں مانتے تو اس سے اللہ کی حکومت اس سے چھن تو نہیں جائے گی نہ اس میں کچھ کمی واقع ہوگی۔ التغابن
7 [١٤] معاد کے انکار پر کوئی دلیل نہیں لائی جا سکتی :۔ حالانکہ ان کے پاس کوئی ایسا ذریعہ علم نہیں ہے۔ جس کی بنیاد پر وہ یقینی طور پر کہہ سکیں کہ دوبارہ زندگی نہیں ہوسکتی۔ انسان کے پاس ایسا ذریعہ علم نہ کبھی آج سے پہلے تھا، نہ آج ہے اور نہ ہی آئندہ کبھی ہوسکے گا۔ پھر اس دعویٰ کو اس زور شور سے پیش کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ انسان زیادہ سے زیادہ یہی کچھ کہہ سکتا ہے کہ مرنے کے بعد جی اٹھنے اور نہ اٹھنے کے دونوں احتمال موجود ہیں۔ لیکن وہ جی اٹھنے کی تردید میں کوئی دلیل پیش نہیں کرسکتا۔ [١٥] تمہارے اس دعویٰ کے مقابلہ میں، میں اللہ کی طرف سے وحی کے علم کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ تم لوگ میری صداقت کے معترف رہے ہو اور میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تمہیں ضرور زندہ کیا جائے گا اور اس لئے زندہ کیا جائے گا کہ آج جو کچھ تم کر رہے ہو اس کا تم سے مؤاخذہ کیا جائے۔ ظالم کو اس کے ظلم کی سزا دی جائے اور مظلوم کی دادرسی کی جائے۔ کائنات کا یہ نظام ہی اس بات پر شہادت دے رہا ہے کہ یہ کوئی اندھیر نگری نہیں ہے۔ کہ تم جو کچھ چاہو کرتے رہو، کرکے مر جاؤ اور تمہیں کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ التغابن
8 [١٦] یعنی قرآن ایسی کتاب ہے جس کی روشنی میں تم اقوام سابقہ کے حالات سے باخبر ہوتے ہو جن کو ٹھیک طور پر معلوم کرنے کا تمہارے پاس کوئی ذریعہ نہ تھا۔ پھر وہ تمہارے موجودہ حالات میں تمہاری پوری رہنمائی کرتا ہے اور زندگی کے ہر شعبہ کے لئے تمہیں ایسی ہدایات دیتا ہے، جس سے تم فتنہ و فساد اور بدامنی کی پریشان کن زندگی سے بچ کر امن و امان کی اور اطمینان کی زندگی گزار سکو، پھر وہ تمہیں تمہارے مرنے کے بعد کے حالات سے بھی پوری طرح خبردار کر رہا ہے۔ حالانکہ ان باتوں پر اطلاع پانے کے لئے کوئی ذریعہ علم نہ تھا اور نہ ہی عقل انسانی کی ایسے حالات معلوم کرنے تک رسائی ہوسکتی ہے۔ لہٰذا اس روشنی کی قدر کرو اور اسے غنیمت سمجھو اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پوری طرح فرمانبردار بن جاؤ۔ التغابن
9 [١٧] تغابن کی لغوی تشریح اور مفہوم :۔ تغابن۔ غبن معروف لفظ ہے بمعنی چوری چھپے کسی دوسرے کا حق مار لینا، اور تغابن بمعنی چوری چھپے ایک دوسرے کے حقوق، خواہ ان کا تعلق مال و دولت سے ہو یا دوسرے حقوق سے' مارنے کی کوشش کرنا۔ لیکن دنیا میں جو تغابن ہوتا ہے اور ہر وقت ہوتا رہتا ہے۔ یہ حقیقی نہیں بلکہ اس کے نتائج اس کے برعکس ہوتے ہیں۔ مثلاً زید نے بکر کا حق غصب کیا تو یہاں دنیا میں اس کی ظاہری صورت یہ ہے کہ زید فائدہ میں رہا اور بکر خسارے میں رہا۔ لیکن قیامت کے دن جب زید سے بکر کا غبن کیا ہوا حق زید کو واپس دلایا جائے گا تو بکر فائدے میں رہے گا اور زید خسارے میں رہے گا۔ گویا آخرت میں فائدے اور خسارے کے نتائج دنیا کے نتائج کے برعکس ہوں گے۔ اس لحاظ سے زید ہار گیا اور بکر جیت گیا۔ اس مطلب کی تائید اس حدیث سے بھی ہوجاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے پوچھا : جانتے ہو مفلس کون ہوتا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا! مفلس وہ ہے جس کے پاس کوئی روپیہ پیسہ نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : حقیقتاً مفلس وہ ہے کہ قیامت کے دن بہت سی نیکیاں لے کر آئے گا تو اس سے حق وصول کرنے والے اللہ کے دربار میں اپنے اپنے حق کا مطالبہ کرنے لگیں گے تو اس کی نیکیاں حقداروں کو دے دی جائیں گی حتیٰ کہ اس کے پاس کوئی نیکی نہ رہے گی۔ (مسلم۔ کتاب البر والصلۃ والادب۔ باب تحریم الظلم) اب انفرادیت سے آگے اجتماعیت کی طرف آئیے۔ ایک فریق وہ ہے جس نے مسلمانوں پر مظالم ڈھا کر ان کا جینا دو بھر کر رکھا ہے۔ اور وہ سمجھتا یہ ہے کہ ہم ہی غالب اور کامیاب ہیں۔ ان لوگوں نے اپنی تمام تر صلاحیتیں اور قابلیتیں، وقت اور مال و دولت اس کام پر لگا رکھے ہیں کہ اسلام کو صفحہ ہستی سے نابود کردیں۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو ان ظالموں کے مظالم کی چکی میں پس رہا ہے اور بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہی لوگ مغلوب و مقہور ہیں۔ جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ جب قیامت کو ان سب لوگوں کے اعمال کے نتائج سامنے آئیں گے تو معلوم ہوجائے گا کہ کون خسارے میں رہا اور کون فائدے میں اور کون ہارا اور کون جیتا ؟ التغابن
10 التغابن
11 [١٨] اس آیت میں ان دنیادار لوگوں کے اس نظریہ کی تردید کی گئی ہے جو یہ سمجھتے تھے کہ اگر مسلمان حق پر ہوتے تو اس قدر مصائب میں کیوں گھرے ہوتے اور مسلمانوں کو یہ تسلی دی جارہی ہے کہ کوئی مصیبت کسی کے لانے سے نہیں آتی۔ بلکہ اللہ کے علم میں ہوتی ہے اور اسی کے اذن سے آتی ہے۔ اور اس میں اللہ تعالیٰ کی کئی حکمتیں ہوتی ہیں۔ مصیبتوں کے ذریعہ آزمائش سے مقصود تمہارے ایمان کا امتحان ہوتا ہے۔ تاکہ منافقین کھل کر سامنے آجائیں۔ اور تم ان سے محتاط رہنے لگو۔ ان کے علاوہ کئی حکمتیں قرآن میں جابجا مذکور ہیں۔ مصائب کی تین قسمیں :۔ واضح رہے کہ مصائب تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو لوگوں کے اپنے اعمال کے نتیجہ یا شامت اعمال کے طور پر آتے ہیں۔ جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿ظَھَرَ الْفَسَادُ فِیْ البَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أیْدِیْ النَّاسِ﴾دوسرے وہ مصائب جن میں سے ایمانداروں کو آزمائش اور تربیت کے لئے گزارا جاتا ہے۔ جیسے فرمایا :﴿وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ﴾ تیسرے وہ جن کا تعلق مندرجہ بالا دونوں اقسام سے نہیں ہوتا اور وہ محض اتفاقی قسم کے حوادث ہوتے ہیں۔ ایسے مصائب مومنوں کے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ بموجب ارشاد نبوی کسی مسلمان کو کوئی کانٹا بھی چبھے تو وہ اس کے کسی نہ کسی گناہ کا کفارہ بن جاتا ہے بشرطیکہ مسلمان اس مصیبت پر صبر کرے۔ [١٩] یعنی جو شخص ان مصائب میں ثابت قدم رہے تو اس کا اللہ پر ایمان مزید بڑھ جاتا ہے اور اسی نسبت سے اسے اللہ مزید ہدایت بخشتا ہے اور یاد رکھو کہ اللہ کو تمہارے ان مصائب کا پورا پورا علم ہے۔ وہ اپنے بندوں کو خواہ مخواہ مصائب میں مبتلا نہیں کرتا۔ بلکہ کسی عظیم مقصد کے لئے تمہیں تیار کرنا چاہتا ہے۔ التغابن
12 التغابن
13 [٢٠] توکل اللہ پر ہی کیوں؟ اس کائنات میں تصرفات کا اختیار صرف اللہ کو ہے اور پورے کا پورا اختیار اسی کو ہے۔ دوسرا کوئی اس اختیار میں اللہ تعالیٰ کا شریک نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کا ایک لازمی نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ صرف اس اللہ پر بھروسہ کیا جائے جس کے قبضہ قدرت میں جملہ اختیارات ہیں۔ ہر طرح کے ظاہری اور باطنی اسباب پر اسی کا کنٹرول ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی اس صفت پر دل سے یقین رکھتا ہے اس کے لئے یہ ممکن ہی نہیں رہتا کہ وہ اس کا در چھوڑ کر کسی دوسرے کے دروازے پر جائے۔ التغابن
14 [٢١] بیوی اور اولاد کس صورت میں انسان کی دشمن ہوتی ہے :۔ یعنی ساری بیویاں یا ساری اولاد تمہاری دشمن نہیں بلکہ بعض بیویاں اور بعض اولاد تمہاری دشمن ہے۔ اور یہی وہ رشتے ہیں جو انسان کے بہت قریبی اور اسے بہت عزیز ہوتے ہیں۔ یہ اگر اللہ کے فرمانبردار ہوں گے تو تمہارے دوست اور نافرمان ہوں گے تو تمہارے دشمن ہیں۔ گویا ان سے بھی تمہاری محبت اور دوستی کی اصل بنیاد اللہ کی فرمانبرداری ہونی چاہئے۔ انہیں کی وجہ سے لوگ کسب حرام اور دوسرے گناہوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ انہی کی وجہ سے بعض مسلمان مدینہ کی طرف ہجرت کی جرأت نہیں کر رہے تھے۔ انہیں کی ہمدردیاں اگر کفار کے ساتھ ہوں تو تمہارے لئے کئی طرح کی مصیبتوں اور پریشانیوں کا سبب بھی بن سکتے ہیں اور تمہاری عاقبت بھی خراب کرسکتے ہیں۔ لہٰذا ان کے معاملہ میں تمہیں بالخصوص محتاط رہنا چاہئے۔ [٢٢] یعنی اگر تم ان میں کچھ غلط رجحانات دیکھو تو ایسا نہ کرو کہ ان پر اندھا دھند سختی شروع کردو۔ بیویوں کو طلاق دے دو یا بچوں کو گھر سے نکال دو۔ بلکہ ایسا کرو گے تو معاشرتی نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ ایسے حالات میں بہتر صورت یہ ہے کہ ان کی اصلاح کی کوشش کرو اور درگزر سے کام لو۔ اور نرمی اور حسن سلوک سے کام لے کر انہیں اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرو۔ یہ طریق کار اس لحاظ سے بہتر ہے کہ اللہ تعالیٰ خود بھی از راہ کرم لوگوں کی خطائیں معاف کرتا رہتا ہے۔ التغابن
15 [٢٣] مال اور اولاد ہر انسان کی آزمائش ہے :۔ یہاں آزمائش کے لئے فتنۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ فتنۃ میں عام طور پر ایسی چیزوں سے آزمائش ہوتی ہے جن سے انسان محبت کرتا ہے اور ان سے اس کا دلی لگاؤ ہوتا ہے اور یہ آزمائش اس طرح آہستہ آہستہ ہوتی ہے کہ دوسرے تو کیا بسا اوقات خودمفتون کو بھی پتہ نہیں چلتا کہ وہ کسی آزمائش میں پڑچکا ہے۔ یہاں بتایا یہ گیا ہے کہ بیویوں اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں۔ لیکن مال اور اولاد ایسی چیزیں ہیں جو ساری کی ساری اور سب انسانوں کے لئے آزمائش کا سبب بن جاتی ہیں۔ اور ان چیزوں سے اللہ آزمائش اس طرح کرتا ہے کہ کون ان فانی اور زائل ہونے والی چیزوں میں پھنس کر آخرت کی دائمی نعمتوں کو فراموش کردیتا ہے اور کون انہی چیزوں کو اپنے لئے آخرت میں ذخیرہ کا ذریعہ بناتا ہے اور وہاں کے اجر عظیم کو دنیا کی دلفریبیوں پر ترجیح دیتا ہے۔ التغابن
16 [٢٤] مؤاخذہ صرف اس حد تک ہوگا جہاں تک انسان کا اختیار ہے :۔ اس جملہ سے معلوم ہوا کہ انسان گناہوں سے اجتناب اور اوامر کی تکمیل میں اسی حد تک مکلف ہے جس قدر اس کی استطاعت ہے اسی مضمون کو سورۃ بقرہ میں یوں بیان فرمایا۔﴿لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا﴾ (۲۸۲:۲)یعنی جس مقام پر انسان مجبور ہوجائے وہاں اس پر کوئی مواخذہ نہیں۔ مواخذہ صرف اس صورت میں ہے کہ جہاں انسان استطاعت رکھنے کے باوجود اللہ کی اطاعت نہ کرے۔ رہی یہ بات کہ انسان اپنے متعلق کوئی غلط اندازہ قائم کرلے۔ مثلاً وہ یہ فرض کرلے کہ فلاں کلام میری استطاعت سے باہر ہے۔ حالانکہ وہ اسکی استطاعت میں ہو۔ تو ایسی بات پر اس کا ضرور مواخذہ ہوگا۔ کیونکہ اللہ کو ہر بات کا علم ہے۔ [٢٥] اس کی تشریح کے لیے دیکھئے سورۃ حشر کی آیت نمبر ٩ کا حاشیہ۔ التغابن
17 [٢٦] تشریح کے لئے سورۃ الحدید کی آیت نمبر ١١ کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیے۔ [٢٧] قدردانی کی بات یہ ہے کہ اس کے دیئے ہوئے مال میں سے ہی کچھ مال اس کی راہ میں خرچ کرنے پر بھی ثواب عطا فرماتا ہے اور تھوڑے سے عمل پر بہت زیادہ ثواب دیتا ہے اور اس کا تحمل یہ ہے کہ نافرمانی کرنے پر فوراً سزا نہیں دے ڈالتا۔ پھر بہت سے مجرموں کو معاف بھی کردیتا ہے اور بہت سے لوگوں کی سزا میں تخفیف بھی کردیتا ہے۔ التغابن
18 التغابن
0 الطلاق
1 [١] عورتوں کی عدت کی کمی بیشی کی مختلف صورتیں :۔ طلاق اور عدت کے بہت سے احکام سورۃ بقرہ میں گزر چکے ہیں۔ اور کچھ سورۃ احزاب میں بھی مذکور ہیں۔ اور ان کی تکمیل سورۃ طلاق میں مذکور احکام سے ہوئی۔ لہٰذا سابقہ احکام پر بھی ایک نظر ڈالنا ضروری ہے۔ چونکہ طلاق کی صورت میں عورتوں کی حالت مختلف اور ان کی عدت بھی مختلف ہوتی ہے۔ لہٰذا پہلے عدت کی وضاحت کی جاتی ہے : ١۔ بیوہ غیرحاملہ کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔ (٢: ٢٣٩) ٢۔ بیوہ حاملہ کی عدت وضع حمل تک ہے۔ (٦٥: ٤) جیسا کہ درج ذیل حدیث سے ظاہر ہے : ابو سلمہ کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس ایک شخص آیا۔ اس وقت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی ان کے پاس بیٹھے تھے۔ وہ شخص کہنے لگا :’’ایک عورت کے ہاں اس کا خاوند مرنے کے چالیس دن بعد بچہ پیدا ہوا ؟ اس کی عدت کے بارے میں آپ کیا فتویٰ دیتے ہیں۔‘‘ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ’’وہ لمبی عدت (چار ماہ دس دن) پوری کرے‘‘ ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے : پھر اس آیت کا کیا مطلب ہوا کہ : ’’حاملہ عورتوں کی عدت ان کے وضع حمل تک ہے‘‘ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے : ’’میں تو اپنے بھتیجے ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی رائے سے متفق ہوں‘‘ آخر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے غلام کریب کو ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس یہ مسئلہ پوچھنے کے لئے بھیجا۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : ’’سبیعہ اسلمیہ کا خاوند (سعد بن خولہ) اس وقت فوت ہوا جبکہ اس کی بیوی حاملہ تھی۔ خاوند کے چالیس دن بعد اس کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو اسے نکاح کے پیغام آنے لگے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نکاح کی اجازت دے دی۔ ان پیغام دینے والوں میں سے ایک ابو السنابل بھی تھا‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) ٣۔ غیر مدخولہ عورت خواہ وہ بیوہ ہو یا مطلقہ اس کی کوئی عدت نہیں۔ (٣٢: ٤٩) ٤۔ بے حیض عورت، اسے خواہ ابھی حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو یعنی نابالغہ ہو یا بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے آنا بند ہوچکا ہو، کی عدت تین ماہ قمری ہے۔ (٦٥: ٤) یعنی اس صورت کی آیت نمبر ٤ ٥۔ مطلقہ حاملہ کی عدت وضع حمل تک ہے۔ (٦٥: ٤) یعنی اسی سورۃ کی آیت نمبر ٤ ٦۔ حیض والی غیر حاملہ کی عدت تین قروء ہے (٢: ٢٢٨) قرء کا معنی حیض بھی ہے اور حالت طہر بھی۔ احناف اس سے تین حیض مراد لیتے ہیں جبکہ شافعی اور مالکی تین طہر مراد لیتے ہیں۔ اس فرق کو درج ذیل مثال سے سمجھئے۔ طلاق دینے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ عورت جب حیض سے فارغ ہو تو اسے طہر کے شروع میں ہی بغیر مقاربت کے طلاق دے دی جائے اور پوری عدت گزر جانے دی جائے عدت کے بعد عورت بائن ہوجائے گی۔ اب فرض کیجئے ایک عورت ہندہ نامی کو ہر قمری مہینہ کے ابتدائی تین دن ماہواری آتی ہے۔ اس کے خاوند نے اسے حیض سے فراغت کے بعد ٤ محرم کو طلاق دے دی۔ اب احناف کے نزدیک اس کی عدت تین حیض پورے یعنی ٣ ربیع الثانی کی شام کو جب وہ حیض سے غسل کرے گی۔ اس کی عدت ختم ہوجائے گی۔ جبکہ شوافع اور موالک کے نزدیک تیسرا حیض شروع ہونے تک اس کے تین طہر پورے ہوچکے ہوں گے یعنی یکم ربیع الثانی کی صبح کو حیض شروع ہونے پر اس کی عدت ختم ہوجائے گی یعنی تین دن کا فرق پڑجائے گا۔ عدت کی اہمیت :۔ اس کے بعد اب ارشادربانی کی طرف آئیے۔ فرمایا : ’’عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے لیے طلاق دو‘‘ جس سے معلوم ہوا کہ عدت کا ٹھیک ٹھیک شمار نہایت اہم چیز ہے۔ لہٰذا اس کی طرف پوری پوری توجہ دیا کرو۔ اس کی اہمیت کی وجوہ درج ذیل ہیں : ١۔ عدت کا مقصد تحفظ نسب اور وراثت کے تنازعات کو ختم کرنا ہے۔ عدت کے اندر اندر یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ حاملہ ہے یا نہیں۔ اگر حاملہ ہے تو اس کی عدت وضع حمل تک ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ جس عورت کو صحبت سے پہلے ہی طلاق دے دی جائے اس پر کوئی عدت نہیں (٣٣: ٤٩) کیونکہ اس صورت میں نہ نسب کے اختلاط کا کوئی امکان ہے اور نہ وراثت کے تنازعہ کا۔ ٢۔ عدت کے دوران مطلقہ عورت اپنے خاوند کی بیوی ہی رہتی ہے۔ اور اس دوران خاوند کے حقوق کی نگہداشت کو ملحوظ رکھا گیا ہے جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر فرمایا : ﴿فَمَا لَکُمْ عَلَیْہِنَّ مِنْ عِدَّۃٍ ﴾ (۴۹:۳۳)یعنی خاوند کے ہاں عدت گزارنا مطلقہ عورت کی ذمہ داری ہے اور مرد کا یہ حق ہے کہ عورت اسی کے ہاں عدت گزارے اس دوران مرد اس سے صحبت کرنے کا پورا پورا حق رکھتا ہے۔ اور وہ عورت کی رضا مندی کے بغیر بھی اپنا یہ حق استعمال کرسکتا ہے۔ ٣۔ عدت کے دوران کسی دوسرے کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس عورت سے نکاح تو دور کی بات ہے منگنی کے لیے پیغام تک بھی دے سکے۔ اور اگر خاوند نے عورت کو اس حالت میں طلاق دی کہ وہ گھر پر موجود ہی نہ تھی یا اپنے میکے گئی ہوئی تھی یا اسے اس کے میکے پیغام بھیج دیا گیا تھا اور عورت عدت کے دوران نکاح کرلے تو وہ نکاح باطل ہوگا۔ [٢] عدت کا عرصہ خاوند کے ہاں گزارنے کا حکم اور مصلحت۔ خاوند کے گھر کے علاوہ کسی دوسری جگہ عدت گزارنا غیر شرعی اور گناہ کا کام ہے :۔ ہمارے ہاں عموماً ایسا ہوتا ہے کہ میاں بیوی میں لڑائی ہوئی تو بیوی روٹھ کر میکے چلی گئی یا خود میاں نے اسے میکے روانہ کردیا۔ بعد میں کسی وقت بیک وقت تین طلاق لکھ کر بھیج دیں۔ یا خاوند بیوی کو طلاق دے کر گھر سے نکال دیتا ہے یا بیوی خود ہی اپنے میکے چلی جاتی ہے۔ ان سب صورتوں میں عورت کی عدت اس کے میکے میں ہی گزرتی ہے۔ یہ سب باتیں خلاف شرع اور گناہ کے کام ہیں۔ کیونکہ اللہ کا یہ حکم ہے کہ عورت عدت اپنے طلاق دینے والے خاوند کے ہاں گزارے گی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے عدت کے دوران سکنیٰ اور نفقہ کی ذمہ داری مرد کے سر پر ڈال دی ہے۔ اور بیوہ کے اخراجات کی ذمہ داری میت کے لواحقین پر جو ترکہ کے وراث ہوں گے۔ اور اس حکم میں کئی مصلحتیں ہیں۔ سب سے بڑی مصلحت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ جس مرد اور عورت کے درمیان رشتہ ازدواج قائم ہوچکا ہے۔ اسے زوجین کو اپنی اپنی امکانی حد تک نبھانا ہی چاہئے۔ طلاق کی اجازت صرف ناگزیر حالات کی بنا پر دی گئی ہے۔ جبکہ حالات کنٹرول سے باہر ہوجائیں۔ چنانچہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ ''ان ابغض الحلال الی اللہ الطلاق ''(ابوداؤد۔ کتاب الطلاق“ یعنی طلاق جائز اور حلال تو ہے مگر یہ اللہ کے ہاں سخت ناگوار چیز ہے۔ اب عورت اگر اپنے خاوند کے گھر میں رہے گی تو ان کے ملاپ، صلح صفائی، رضا مندی اور رجوع کی کئی صورتیں پیش آسکتی ہیں۔ جو عدت باہر گزارنے کی حالت میں ناممکن ہوجاتی ہیں۔ [٣] صریح برائی کے مختلف پہلو :۔ یعنی صریح برائی کی مرتکب ہوں تو انہیں گھر سے نکال دینے کی اجازت ہے۔ صریح برائی سے مراد زنا بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ قرآن میں زنا کے لئے یہ الفاظ متعدد مقامات پر استعمال ہوئے ہیں۔ اور نشوز بھی یعنی عورت کا ہر بات میں ضد اور کھینچا تانی کا رویہ اختیار کرنا اور مرد کی رائے کی بہرحال مخالفت پر آمادہ رہنا یا بدزبانی کرنا اور کرتے رہنا یعنی ایسے حالات پیدا کردینے سے مصالحت کے بجائے مزید بگاڑ اور تناؤ کی فضا بن جائے۔ اور یہ بدزبانی یا کھینچا تانی مرد سے بھی ہوسکتی ہے اور اس کے قریبی رشتہ داروں مثلاً اس کے والدین وغیرہ سے بھی اور اس سے چوتھی مراد بذات خود ایسی عورتوں کا گھر سے نکل جانا بھی ہے۔ یعنی عدت کے دوران عورتوں کے از خود مرد کے گھر سے نکل جانے کو ہی ﴿فَاحِشَۃً مُّبَیِّنَۃً﴾ قرار دیا گیا ہے۔ ایسی صورت میں بھی انہیں واپس گھر لے جانے کی ضرورت نہیں۔ [٤] اللہ کی حدوں کا صحیح مفہوم سمجھنے کے لیے پہلے درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے : سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی (آمنہ بنت غفار) کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس بات کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات پر غصہ آگیا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ’’ابن عمر (رضی اللہ عنہما) کو حکم دو کہ رجوع کرلے اور اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھے تاآنکہ وہ پاک ہو۔ پھر اسے حیض آئے۔ پھر وہ اس سے پاک ہو۔ پھر اگر طلاق ہی دینا چاہے تو دے دے لیکن طہر کی حالت میں دے اور اس دوران صحبت نہ کرے۔ یہ ہے وہ عدت جس کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ اور ﴿طَلِّقُوْھُنَّ لِعِدَّتِھِنَّ﴾ سے یہی مراد ہے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) طلاق دینے کا صحیح اور مسنون طریقہ :۔ اس حدیث میں طلاق دینے کا اور عدت کو ٹھیک طور پر شمار کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہے اور اس سے درج ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں : ١۔ حالت حیض میں طلاق دینا اتنا گناہ کا کام اور اللہ کی حد یا قانون کی خلاف ورزی ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آگیا۔ کیونکہ حیض کی حالت میں طلاق دینے سے تین قروء کا شمار درست طور پر نہیں سکتا خواہ قرء کو حیض کے معنی میں لیا جائے یا طہر کے معنی میں۔ طہر کے معنی میں لیا جائے تو طلاق کے بعد حیض کے بقایا ایام عدت سے زائد شمار ہوجاتے ہیں اور اگر حیض کے معنی میں لیا جائے تو سوال پیدا ہوگا کہ آیا اس حیض کو جس میں طلاق دی گئی ہے، شمار کیا جائے یا چھوڑ دیا جائے؟ جو صورت بھی اختیار کی جائے وہ اللہ کے قانون کی خلاف ورزی ہی ہوگی۔ ٢۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ’’اسے حکم دو کہ رجوع کر لے‘‘ سے معلوم ہوا کہ اگرچہ حیض کی حالت میں طلاق دینا خلاف سنت اور گناہ کا کام ہے۔ تاہم قانونی لحاظ سے وہ ایک طلاق شمار ہوجائے گی ورنہ رجوع کرنے کا کچھ مطلب ہی نہیں نکلتا۔ اسی بات پر قیاس کرتے ہوئے فقہاء کہتے ہیں کہ اگرچہ ایک ہی مجلس میں تین طلاق دیناخلاف سنت اور حرام ہے تاہم تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ قیاس کی حد تک تو ان کی یہ بات درست معلوم ہوتی ہے۔ مگر اس نص کی موجودگی میں کہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ، دورصدیقی صلی اللہ علیہ وسلم اور دور فاروقی صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی دو سال تک ایک ہی مجلس میں دی ہوئی تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھی۔ (مسلم۔ کتاب الطلاق۔ باب طلاق الثلاث) اس قیاس کی چنداں وقعت باقی نہیں رہتی۔ کیونکہ نص کی موجودگی میں قیاس کرنا ناجائز ہے۔ ٤۔ طلاق طہر کی حالت میں دینا چاہیے جس میں صحبت نہ کی گئی ہو، اور بہتر صورت یہی ہے طہر کے ابتدا میں طلاق دی جائے۔ البتہ غیر مدخولہ عورت کو طہر اور حیض دونوں صورتوں میں طلاق دی جاسکتی ہے۔ کیونکہ اس سے نہ نسب کے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور نہ وراثت کے۔ اسی طرح بے حیض عورت یا حاملہ عورت کو مباشرت کے بعد بھی طلاق دی جاسکتی ہے۔ کیونکہ ان صورتوں میں عدت کا کوئی مقصد مجروح یا مشکوک نہیں ہوتا۔ ٥۔ طلاق کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ جس طہر میں مرد طلاق دینا چاہے اس میں صحبت نہ کرے۔ پھر ایک ہی بار کی طلاق کو کافی سمجھے اور پوری عدت گزر جانے دے۔ اس طرح عورت پر طلاق بائن واقع ہوجائے گی اور اس کے دو فائدے ہیں۔ ایک یہ کہ عدت کے آخری وقت تک مرد کو رجوع کا حق باقی رہتا ہے اور دوسرا یہ کہ طلاق واقع ہوجانے کے بعد بھی اگر فریقین رضامند ہوں تو تجدید نکاح کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ طلاق کی تین قسمیں :۔ احناف کے ہاں طلاق کی تین اقسام ہیں۔ (١) احسن، (٢) حسن، (٣) بدعی (ہدایہ اولین۔ کتاب الطلاق۔ باب طلاق السنۃ) احسن تو یہی صورت ہے جو مندرجہ بالا حدیث میں مذکور ہے۔ اسے طلاق السنۃ بھی کہتے ہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسی طریق کو پسند فرماتے تھے اور طلاق حسن یہ ہے کہ ہر طہر میں مقاربت کیے بغیر ایک طلاق دے۔ یعنی ایک طہر میں پہلی، دوسرے طہر میں دوسری، اور تیسرے طہر میں تیسری۔ اس صورت میں تیسری طلاق دیتے ہی مرد کا حق رجوع ختم ہوجاتا ہے۔ جبکہ عدت ابھی باقی ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں فریقین تجدید نکاح بھی نہیں کرسکتے۔ تاآنکہ عورت کسی دوسرے سے غیر مشروط نکاح کرے۔ پھر وہ نیا خاوند اپنی رضا مندی سے کسی وقت اسے طلاق دے دے یا مر جائے تو بعد میں عورت اپنے پہلے خاوند سے نکاح کرسکتی ہے۔ اس طریقہ طلاق کو عموماً شرعی طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن میری معلومات کی حد تک یہ طریقہ کسی مرفوع حدیث سے ثابت نہیں۔ اس کا ماخذ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی وہ رائے ہے جو مسند احمد ج ١ ص ٢٦٥ پر حدیث رکانہ کے آخر میں بایں الفاظ مذکور ہے۔ فکان ابن عباس یری انما الطلاق عندکل طھر یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہما کی رائے یہ تھی کہ تین طلاقیں ایک ساتھ نہیں بلکہ ہر طہر میں الگ الگ ہونی چاہئیں۔ اور امام شافعی اس طرح کی طلاق کو بھی خلاف سنت کہتے ہیں۔ بدعی طلاق کی صورتیں :۔ اور بدعی طلاق یہ ہے کہ کوئی شخص (١) بیک وقت تین طلاق دے دے، (٢) ایک طہر میں ہی الگ الگ موقعہ پرتین طلاقیں دے دے، (٣) حالت حیض میں طلاق دے اور (٤) ایسے طہر میں طلاق دے جس میں اس سے صحبت کی ہو۔ ان میں جو فعل بھی کرے گا، گنہگار ہوگا۔ واضح رہے کہ بدعی طریقہ طلاق کو سب فقہاء حرام سمجھتے ہیں۔ [٥] غیر شرعی طلاق کے نقصانات :۔ یعنی جو شخص بھی ان قوانین کی پابندی نہیں کرے گا اس کا کچھ نہ کچھ نقصان اسے دنیا میں پہنچ کے رہے گا۔ صحیح طور پر سنت کے مطابق طلاق نہ دینے سے عدت کی گنتی میں اختلاف بھی پیدا ہوگا۔ اور مشکل بھی پھر نسب اور وراثت کے مسائل بھی اٹھ کھڑے ہوں گے، حق رجوع کی عدت یا اس کا کچھ حصہ ساقط ہوجائے گا اور تجدید نکاح کی بھی بغیر تحلیل کے کوئی صورت باقی نہ رہے گی۔ اس آیت سے بھی بعض علماء نے یہ دلیل لی ہے کہ بیک وقت تین طلاق دینے سے تین ہی واقع ہوجاتی ہیں۔ ورنہ اگر اسے ایک ہی رجعی طلاق شمار کیا جائے اور اس کا حق رجوع باقی رہنے دیا جائے تو اس کو کیا نقصان پہنچا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دلیل بھی بہرحال ایک قیاس ہے۔ اور نص کے مقابلہ میں قیاس کی کچھ حقیقت نہیں ہوتی۔ بیک وقت تین طلاق دینا گناہ کبیرہ اور حرام ہے :۔ رہی اس کے نقصان کی بات تو کیا یہ تھوڑا نقصان ہے کہ وہ ایک حرام کام اور گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا ہے اور اس بات پر سب فقہاء کا اتفاق ہے اور یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک شخص نے بیک وقت تین طلاقیں دیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر غصہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ میری موجودگی میں کتاب اللہ سے اس طرح کا تلاعب اور مذاق؟ یہاں تک کہ ایک شخص کھڑا ہو کر کہنے لگا : ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اسے قتل نہ کردوں‘‘ (نسائی۔ کتاب الطلاق۔ باب الطلاق الثلاث المجموعۃ ومافیہ من التغلیظ) علاوہ ازیں یہ انداز فکر ہی درست نہیں کہ جسے کسی گناہ کبیرہ کے ارتکاب پر دنیا میں کوئی سزا نہ ملے یا اس کا کوئی نقصان نہ ہو وہ اپنے نفس پر کچھ ظلم نہیں کرتا۔ بلکہ اصل نقصان تو آخرت کا نقصان ہے۔ الطلاق
2 [٦] نئی صورت سے مراد مصالحت، رضا مندی اور رجوع کی وہ راہیں ہیں جو طلاق کے بعد فریقین کو ہوش میں آنے اور طلاق کے نقصانات پر غور کرنے کے بعد درست نظر آنے لگتی ہیں۔ [٧] دور جاہلیت میں طلاق کے سلسلہ میں عورتوں کی حالت زار :۔ یعنی تمہارے ہی گھر میں تمہاری مطلقہ بیوی کی عدت ختم ہونے کو آئے، تو تمہارے سامنے دو راستے ہیں ایک یہ کہ بہرحال تم انہیں چھوڑنا ہی چاہتے ہو ایسی صورت میں ان کے سب حقوق انہیں ادا کرو اور علاوہ ازیں ان سے فیاضانہ سلوک کرتے ہوئے کچھ مزید بھی اپنی استطاعت کے مطابق دے دو۔ جاتے جاتے اس پر کوئی الزام تراشی نہ کرو نہ اسے کسی طرح کا دکھ پہنچاؤ۔ بلکہ اپنی زندگی کے ساتھی کو شکر رنجیوں کے باوجود بھلے مانسوں اور شریفوں کی طرح رخصت کرو۔ اور اگر تم انہیں اپنے گھر میں ہی آباد رکھنا چاہتے ہو تو رجوع کرلو۔ اور اس معاملہ میں تمہاری نیت بخیر اور اس عورت کو فی الواقع آباد رکھنے کی ہونی چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ اپنی بیوی کو مزید سزائیں دینے کی خاطر اس سے رجوع کرکے اپنے ہاں روکے رکھو۔ یہ حکم دے کر اللہ تعالیٰ نے عورتوں پر ان بے پناہ مظالم کا خاتمہ کردیا جو دور جاہلیت میں ان پر ڈھائے جاتے تھے۔ عورتوں کی اس دردناک کیفیت کو امام ترمذی نے یوں بیان فرمایا : سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرد جتنی بھی طلاقیں چاہتا اپنی بیویوں کو دیئے جاتا اور عدت کے اندر پھر رجوع کرلیتا۔ اگرچہ وہ مرد سو بار یا اس سے بھی زیادہ طلاقیں دیتا جائے۔ یہاں تک کہ ایک (انصاری) مرد نے اپنی بیوی سے کہا : اللہ کی قسم! میں نہ تو تجھے طلاق دوں گا کہ تو مجھ سے جدا ہوسکے اور نہ ہی میں بساؤں گا۔ اس عورت نے پوچھا وہ کیسے؟ کہنے لگا :’’میں تجھے طلاق دونگا اور جب تیری عدت گزرنے کے قریب ہوگی تو رجوع کرلوں گا‘‘ یہ سن کر وہ عورت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئی اور اپنا یہ دکھڑا سنایا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا خاموش رہیں تاآنکہ رسول اللہ تشریف لائے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو یہ ماجرا سنایا تو آپ بھی خاموش رہے تاآنکہ قرآن (کی یہ آیت) نازل ہوئی۔ ’’طلاق صرف دو بار ہے پھر یا تو ان عورتوں کو بھلے مانسوں کی طرح اپنے پاس رکھو یا پھر اچھی طرح سے رخصت کردو‘‘ (ترمذی۔ ابو اب الطلاق واللعان۔ باب بلا عنوان) [٨] رجوع وطلاق پر گواہ بنانے کا فائدہ :۔ یعنی اگر رجوع کرکے اسے اپنے پاس رکھ لیا ہے تو بھی دو معتبر گواہ بنا لے تاکہ بعد میں زوجین متہم نہ ہوں۔ اور اگر رخصت کرنا ہے تو بھی گواہ بنا لو۔ واضح رہے کہ یہ گواہی رجوع اور طلاق کے لیے شرط نہیں کہ اگر گواہ نہ بنائے جائیں تو رجوع اور طلاق غیر موثر ہوتے ہیں اور واقع نہیں ہوتے۔ بلکہ یہ حکم اس احتیاط کے لیے دیا گیا ہے کہ بعد میں کوئی فریق کسی واقعہ کا انکار نہ کردے اور نزاع پیدا ہونے کی صورت میں بآسانی فیصلہ ہوسکے اور شکوک و شبہات کا دروازہ بھی بند ہوجائے۔ [٩] یعنی اگر رخصتی یا رجوع کے بعد فریقین میں کسی بات میں نزاع پیدا ہوجائے تو گواہ جانبداری سے ہرگز کام نہ لیں نہ گول مول بات کریں نہ ہیرا پھیری سے کام لیں بلکہ صاف اور سیدھی سچی گواہی دیں۔ [١٠] طلاق سے متعلق اخلاقی ہدایات :۔ یعنی یہ ہدایات تمہاری ہی خیرخواہی کے لئے ہیں اور بطور پندونصیحت ہیں۔ ان کی حیثیت قانونی نہیں ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص اپنی عورت کو حالت حیض میں یا اس طہر میں جس میں اس نے صحبت کی ہو طلاق دے دے گا تو اگرچہ اس نے خلاف سنت اور گناہ کا کام کیا تاہم طلاق واقع ہوجائے گی اسی طرح اگر اس نے ستانے کی خاطر ہی رجوع کیا ہو تو یہ بھی رجوع قانوناً تسلیم کیا جائے گا۔ یا عورت کو رخصت کرتے وقت حسن سلوک کے بجائے دھکے مار کر نکال دیا ہو تب بھی طلاق کے واقع ہونے میں کوئی شک نہ رہے گا۔ یہ ہدایات تو اس شخص کے لئے ہیں جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا اور اللہ سے ڈرتا ہو۔ وہ ان پر اس لئے عمل کرے گا کہ یہ اس کے ایمان کا تقاضا ہے۔ اور اس لئے بھی کہ ان احکام کی نافرمانی کرنے پر آخرت میں اس سے باز پرس بھی ہوگی اور گرفت بھی۔ [١١] گھریلو مسائل اور بالخصوص میاں بیوی کے تعلقات بعض دفعہ ایسی پیچیدہ صورت اختیار کر جاتے ہیں کہ انسان انہیں جس قدر حل کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ اور زیادہ پیچیدہ ہوتے جاتے ہیں اور الجھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ ایسے پریشان کن حالات میں انسان کا طرز عمل یہ ہونا چاہئے کہ جو کام بھی کرے اللہ سے ڈر کر کرے۔ اگر واضح احکام موجود ہیں تو ان پر عمل کرے اور اگر واضح احکام نہیں ملتے تو بھی اللہ کے ڈر کو ہی مشعل راہ بنائے اور اللہ کی منشا معلوم کرنے کی کوشش کرنے کے بعد اس پر عمل کرے اور انجام اللہ کے سپرد کر دے۔ آگے ان پیچیدہ حالات سے نکالنا اور ان سے نجات دینا اللہ کا کام ہے۔ وہ خود کوئی راہ اسے سمجھا دے گا یا نئی راہ پیدا کر دے گا۔ الطلاق
3 [١٢] اس مقام پر رزق کا ذکر اس لئے کیا گیا کہ انسان دوران عدت مطلقہ عورت پر خرچ کرنے اور اس کو بھلے طریقے سے رخصت کرنے میں بخل سے کام نہ لے بلکہ اس سے جتنا بہتر سلوک کرسکتا ہے، کرے۔ نیز بعض دفعہ صورت حال یہ ہوتی ہے کہ میاں بیوی کی آپس میں ٹھنی رہتی ہے۔ مگر عورت صاحب جائیداد ہوتی ہے یا اچھا کما سکتی ہے۔ تو خاوند اس کو چھوڑنے پر ہی آمادہ نہیں ہوتا۔ مگر اس سے اچھا سلوک کرنے میں بھی ناکام ثابت ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ عورت کو اپنے ہاں لٹکائے رکھتا ہے۔ ایسی سب صورتوں میں اللہ سے ڈرتے ہوئے وہی کام کرنا چاہئے جو اللہ کا حکم ہو۔ تنگدستی سے نہیں ڈرنا چاہئے۔ کیونکہ اللہ کا وعدہ ہے کہ جو شخص اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اور اس سے ڈر کر اسی کے حکم کے مطابق چلے گا تو اس کی تنگدستی کو دور کرنا اللہ کے ذمہ ہے۔ وہ اس کو ایسی جگہ سے رزق پہنچانے کا انتظام فرما دے گا جو پہلے اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔ [١٣] اس لیے کہ ہر قسم کے ظاہری اور باطنی اسباب اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ جبکہ انسان کی نظر صرف چند ظاہری اسباب تک محدود ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ اللہ سے ڈرنے والے کے لیے پریشانیوں سے نجات کی راہ بھی پیدا کرسکتا ہے۔ اور تنگدستی کو دور کرنے کے لیے نئے اسباب بھی پیدا کرسکتا ہے۔ نیز یہ کہ اللہ کی قدرت اسباب کی پابند نہیں۔ بلکہ اسباب بھی اس کی مشیت کے تابع ہیں۔ وہ ظاہری اسباب سے ایسے نتائج حاصل کرنے کی قدرت رکھتا ہے جو انسانی عقل کے برعکس ہوں۔ جیسے اللہ کی مشیت نہ ہو تو مجرب دوائی بھی الٹا اثر دکھا دیتی ہے۔ یا ایک مضر دوائی سے بعض دفعہ انسان صحت یاب ہوجاتا ہے۔ [١٤] یعنی اگر کسی الجھنوں میں گرفتار شخص کو اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرنے پر نجات کی راہ نہیں مل سکی یا کسی شخص نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر اپنی مطلقہ بیوی سے فیاضانہ سلوک کیا مگر اس کی تنگدستی فوراً دور نہیں ہوئی تو اس سے اسے گھبرانا نہیں چاہیے کیونکہ اس کے ہاں ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقرر ہے اسی کے مطابق وہ ظہور پذیر ہوتی ہے۔ الطلاق
4 [١٥] نکاح نابالغاں :۔ یعنی جو عورتیں اتنی بوڑھی ہوچکی ہوں کہ انہیں حیض آنا بند ہوچکا ہو یا وہ نابالغ لڑکیاں جنہیں ابھی حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو۔ اور بعض عورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ انہیں عمر کی نسبت سے بڑی دیر کے بعد حیض آتا ہے اور ایسا بھی ممکن ہے کہ کسی عورت کو عمر بھر حیض نہ آئے۔ ایسی سب عورتوں کی عدت تین ماہ ہے اور یہ اس دن سے شروع ہوجائے گا جس دن سے اسے طلاق دی گئی اور تین ماہ قمری شمار ہوں گے، شمسی نہیں۔ ضمناً اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ نابالغ بچیوں کی شادی بھی جائز ہے اور ان سے صحبت کرنا بھی جائز ہے۔ اسی طرح جن بڑی عورتوں کو بھی حیض نہ آیا ہو یا اتنی بوڑھی ہوچکی ہوں کہ ان کا حیض بند ہوچکا ہو ان سے بھی صحبت کرنا جائز ہے۔ اس آیت میں ﴿ارْتَبْتُمْ ﴾ کے الفاظ بڑے ذومعنی ہیں۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اگر تمہیں ایسی عورتوں کی عدت معلوم کرنے میں تشویش ہو اور تم ان کی عدت معلوم کرنا چاہتے ہو تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کی عدت تین ماہ ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ بے حیض عورت کے ہاں عموماً اولاد پیدا نہیں ہوتی۔ تاہم ایسی عورتوں کے ہاں اولاد کا پیدا ہوجانا اللہ کی قدرت سے کچھ بعید بھی نہیں۔ اور اس کی مثالیں بھی اس دنیا میں پائی جاتی ہیں اگرچہ ایسی مثالیں شاذ ہیں۔ تاہم ناممکن اور مفقود بھی نہیں۔ اسی لئے ایسی عورتوں کی عدت مقرر کردی گئی۔ [١٦] عورت مطلقہ ہو یا بیوہ ہو یعنی اس کا خاوند فوت ہوجائے اس کی عدت وضع حمل تک ہوگی۔ جیسا کہ اسی سورۃ کی پہلی آیت کے حاشیہ نمبر ١ میں اس کی وضاحت پیش کی جاچکی ہے۔ [١٧] اس سورت میں بار بار اللہ سے ڈرتے رہنے کی تاکید کی گئی ہے وجہ یہ ہے کہ ازدواجی زندگی کے مسائل بھی کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ جب تک انسان ہر وقت اللہ سے ڈرتا نہ رہے وہ اپنی بیوی کے معاملہ میں بے راہ رو ہوجاتا ہے اور اسی لیے کتاب و سنت میں اپنی بیویوں سے حسن سلوک کی بار بار تاکید آئی ہے۔ الطلاق
5 الطلاق
6 [١٨] عدت کے دوران رہائش اور نان ونقہ خاوند کے ذمہ ہے مطلقہ عورت کی عدت کے دوران اس کی رہائش اور اس کی خوراک و پوشاک کا سارا خرچ طلاق دینے والے مرد کے ذمہ ہے۔ اس قطعی اصل سے استثناء کی ایک مثال دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ملتی ہے۔ وہ قصہ یہ تھا کہ فاطمہ بنت قیس کے خاوند عمرو بن حفص نے جب اپنی بیوی کو تیسری طلاق دی تو اس وقت وہ خود شام کے علاقے میں تھے۔ فاطمہ بنت قیس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور انہیں یہ معاملہ بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ وہ اپنی عدت ام شریک کے گھر میں گزارے، پھر فرمایا : یہ عورت (ام شریک) ایسی ہے جس کے ہاں میرے صحابہ اکثر آتے جاتے ہیں لہٰذا تم ابن ام مکتوم کے ہاں عدت گزارو۔ کیونکہ وہ اندھا آدمی ہے تو اس کے ہاں کپڑے تک اتار سکتی ہے اور ایک روایت میں ہے کہ تو اپنے چچا ابن ام مکتوم کے ہاں چلی جا۔ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ’’فاطمہ بنت قیس اللہ سے نہیں ڈرتی جو کہتی ہے کہ جس عورت پر طلاق بائن پڑے اس کے لئے نہ رہائش ہے اور نہ نفقہ (خوراک و پوشاک)‘‘ (بخاری۔ کتاب الطلاق۔ باب قصۃ فاطمۃ بنت قیس) فاطمہ بنت قیس کا استثنائی قصہ :۔ فاطمہ بنت قیس کا قصہ تقریباً سب کتب احادیث میں مذکور ہے۔ لیکن ان کی عدت گزارنے اور نفقہ کا قصہ بالکل اضطراری نوعیت کا تھا۔ یہ ایک درشت مزاج اور زبان دراز خاتون تھیں جب طلاق مغلظہ واقع ہوئی اس وقت ان کا خاوند شام میں تھا۔ تیسری طلاق کے بعد چونکہ خاوند کا حق رجوع ختم ہوجاتا ہے اور وہ اس کی بیوی نہیں رہتی۔ لہٰذا یہ مسئلہ بذات خود مختلف فیہ ہے۔ کہ طلاق مغلظہ کے بعد سکنیٰ اور نفقہ واجب بھی ہے یا نہیں۔ تاہم جمہور علماء کی یہی رائے ہے کہ پوری عدت کے دوران سکنیٰ اور نان و نفقہ واجب ہے۔ فاطمہ بنت قیس کا گھر جنگل میں تھا جہاں آس پاس مکانات نہیں تھے لہٰذا وہاں مال اور ناموس دونوں باتوں کا خطرہ تھا علاوہ ازیں اس کے خاوند نے جو کچھ سَرَاحًا جَمِیْلاً کے طور پر بھیجا تھا اسے فاطمہ بنت قیس نے حقیر سمجھ کر ٹھکرا دیا تھا۔ یہ تھے وہ خصوصی حالات جن کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ کے حق میں یہ فیصلہ دیا تھا اور یہ انہی کے لئے خاص تھا۔ اسی لئے سیدنا عمر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور دوسرے صحابہ فاطمہ کے اس قول کو کہ : ’’طلاق بائن والی عورت کے لئے سکنیٰ اور نفقہ نہیں ہے‘‘ کا انکار کرتے اور اس کے ذاتی واقعہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی اجازت سمجھتے تھے جو کسی دوسرے کے لیے جائز نہیں۔ [١٩] یعنی واجبی خرچ نہ دے کر یا دوسرے طریقوں سے اس طرح تنگ نہ کر ڈالو کہ وہ از خود نکلنے اور تمہارا گھر چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں اور تم یہ سمجھنے لگو کہ جب وہ خود ہی چلی گئی ہے تو تم پر اس کا کچھ الزام نہیں۔ [٢٠] بیوہ کانان ونفقہ واجب نہیں :۔ حاملہ خواہ مطلقہ ہو یا بیوہ اس کی عدت تا وضع حمل ہے۔ خواہ یہ چند دن بعد ہی وضع حمل ہو یا چھ سات ماہ تک لمبی ہوجائے۔ اس دوران اگر مطلقہ ہے تو اس کے سکنیٰ اور نفقہ کا ذمہ دار اس کا خاوند ہوگا۔ اور اگر بیوہ ہے تو اس کا سکنیٰ تو مرد کے لواحقین کے ذمہ ہوگا اور وہ عدت اپنے خاوند کے گھر میں گزارے گی۔ لیکن نفقہ کی حقدار نہ رہے گی کیونکہ اب وہ وراثت کی حقدار بن گئی ہے وہ اپنے حصہ میں سے اپنی ذات پر خرچ کرے گی۔ یہ نہیں ہوگا کہ پہلے خاوند کے مشترکہ ورثہ سے اس کا نفقہ بھی اسے دیا جائے اور پھر وراثت کا حصہ بھی۔ [٢١] طلاق کے بعد بچہ کو دودھ پلانے سے متعلقہ مسائل :۔ اس آیت اور اگلی آیت سے مندرجہ ذیل باتیں مستفاد ہوتی ہیں: ١۔ عورت اپنے دودھ کی خود مالک ہے اور وہ طلاق دینے والے خاوند سے بھی اسی طرح اجرت لے سکتی ہے جس طرح دوسروں سے۔ ٢۔ قانونی طور پر بچہ باپ کا ہوتا ہے، ماں کا نہیں ہوگا۔ اگر بچہ ماں کا ہو تو اجرت لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ٣۔ اگر ماں بھی وہی اجرت مانگے جو دوسری عورتیں مانگتی ہیں تو ماں دودھ پلانے کی زیادہ حقدار ہے۔ ٤۔ اگر ماں کسی بیماری یا کمزوری کی وجہ سے دودھ پلانے سے انکار کر دے یا اجرت اتنی زیادہ مانگے جو اس کے خاوند کی استطاعت یا معروف رواج سے زیادہ ہو تو باپ کسی دوسری عورت سے بھی دودھ پلوانے کی خدمت لے سکتا ہے۔ ٥۔ طلاق کے بعد اگر فریقین میں شکررنجی باقی رہ گئی ہو تب بھی بچہ کی تربیت کے سلسلہ میں ماں اور باپ کو بچہ کی اور ایک دوسرے کی بھلائی ہی سوچنا چاہئے۔ باپ محض ماں کو ستانے، تنگ کرنے اور اس کی نظروں سے بچہ غائب رکھنے کی خاطر کسی دوسری عورت سے دودھ نہ پلائے یا ماں کو اس کا بہت کم معاوضہ دے یا سرے سے کچھ دینے پر آمادہ ہی نہ ہو۔ اور نہ ہی ماں اتنا خرچ طلب کرے یا ایسے حالات پیدا کردے کہ باپ کسی دوسری عورت سے دودھ پلانے پر مجبور ہوجائے۔ ٦۔ ہمارے ہاں یہ دستور بن چکا ہے کہ مطلقہ عورت اور طلاق دینے والا مرد بعد میں تازیست نہ ایک دوسرے کے سامنے ہوں اور نہ کلام کریں اور اسے غیرت کا مسئلہ بنا لیا گیا ہے۔ بلکہ بسا اوقات مرد اور عورت کے خاندان میں بغض اور عداوت چل جاتی ہے۔ شرعاً ان باتوں کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں بالخصوص ﴿وَاْتَمِرُوْا بَیْنَکُمْ بِمَعْرُوْفٍ ﴾ کے الفاظ قابل توجہ ہیں۔ نیز جب سیدنا زید بن حارثہ نے سیدہ زینب کو طلاق دے دی تو اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ زینب کو اپنے لیے نکاح کا پیغام سیدنا زید کی زبانی ہی بھیجا تھا۔ الطلاق
7 [٢٢] اس آیت میں دوبارہ اس سلسلہ میں فیاضی سے کام لینے کی ترغیب دی گئی ہے کہ ہر باپ اپنی مقدور کے مطابق ماں کو دودھ پلانے کی اجرت ادا کرے۔ خواہ وہ مالدار ہے یا تنگدست اور اگر تنگدست ہے تو بھی اپنی حیثیت کے مطابق خرچ دینے میں بخل سے کام نہ لے۔ اگر وہ بخل سے کام نہ لے گا تو اللہ اس کی تنگی کو دور فرما دے گا۔ اور اس کے لیے رزق کی راہیں کھول دے گا۔ الطلاق
8 [٢٣] عائلی زندگی سے متعلق احکام بیان کرنے اور ہر ہر مقام پر اللہ سے ڈرتے رہنے کی تاکید کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر فرمایا جنہوں نے اللہ کے احکام کے مقابلہ میں اکڑ دکھائی اور سرتابی کی راہ اختیار کی تھی۔ ان کا سب سے بڑا جرم یہی تھا کہ وہ اللہ کے احکام کی کچھ پروا نہیں کرتے تھے۔ تو ہم نے انہیں ان کی کرتوتوں کی ٹھیک ٹھیک سزا دے ڈالی۔ ان کا سختی سے مواخذہ کیا اور کسی کو بھی معاف نہیں کیا اور انہیں ایسی آفت میں پھنسایا جس سے وہ نکل نہ سکے۔ الطلاق
9 الطلاق
10 [٢٤] ذکر کے مختلف مفہوم :۔ آیت نمبر ١٠ میں ذکر سے مراد قرآن کریم ہے اور یہ لفظ ان معنوں میں قرآن کریم میں متعدد بار استعمال ہوا۔ مثلاً ارشاد باری ہے : ﴿ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ ﴾ یعنی ہم ہی نے یہ قرآن نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ واضح رہے کہ ذکر کا لغوی معنی یاددہانی اور نصیحت ہے۔ یعنی یہ قرآن انسان کو عہد الست کی بھی یاددہانی کراتا ہے۔ اور سابقہ رسولوں کی تعلیمات کی بھی۔ اور ذکر کو اگر اس کے وسیع معنوں میں لیا جائے تو اس سے مراد وہ تمام وحی ہے جو آپ پر نازل ہوئی۔ اور جو قرآن کی ہی تفسیر و تعبیر پیش کرتی ہے۔ یعنی اللہ نے صرف قرآن کے الفاظ کی حفاظت کی ذمہ داری نہیں لی بلکہ اس کی صحیح تفسیر و تعبیر کی حفاظت کی بھی ذمہ داری لے رکھی ہے۔ جس سے ہر باطل پرست کے نظریہ کو پرکھا جاسکتا ہے۔ الطلاق
11 [٢٥] یعنی صرف قرآن ہی نازل نہیں کیا بلکہ ایک رسول یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مبعوث فرمایا جو اس کی واضح آیات پڑھ کر بھی سناتا ہے پھر اس کے احکام و ارشادات پر عمل کرنے کا طریقہ بھی سکھاتا ہے۔ [٢٦] شرعی عائلی قوانین کی خوبیاں :۔ تاریکیوں سے مراد جہالت کی تاریکیاں ہیں۔ اور یہ تاریکیاں ایک نہیں بلکہ لاتعداد ہوتی ہیں۔ انسان اپنے مسائل کے حل کے لیے جتنے بھی قوانین بناتا ہے وہ ناقص ہی ہوتے ہیں۔ کیونکہ اس کی محدود عقلی فکر معاشرہ کے جملہ پہلوؤں کا احاطہ کرنے سے قاصر ہوتی ہے۔ اسی لیے ان قوانین میں آئے دن ترمیم و تنسیخ کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے۔ اس کے مقابلہ میں روشنی سے مراد علم وحی کی روشنی ہے۔ جو ایک ہی رہی ہے اور ناقابل ترمیم و تنسیخ اور انسان کی دست برد سے پاک ہوتی ہے۔ اس مقام پر اس ارشاد کی پوری اہمیت اس وقت سمجھ میں آتی ہے جب ہم قدیم و جدید دنیا کے عائلی قوانین پر غور کرتے ہیں اس تقابلی مطالعہ سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ بار بار کی تبدیلیوں اور نت نئی قانون سازیوں کے باوجود معاشرے کے لئے آج تک کسی قوم کو ایسا معقول ' فطری اور مفید قانون میسر نہیں آسکا ہے جیسا کہ اس کتاب اور اس کے لانے والے رسول نے ڈیڑھ ہزار سال پہلے ہم کو دیا تھا۔ الطلاق
12 [٢٧] سات زمینوں کے مختلف مفہوم :۔ اس جملہ کے کئی مفہوم ہوسکتے ہیں۔ لغوی مفہوم یہ ہے کہ سماء اور ارض دونوں اسمائے نسبیہ سے ہیں۔ سماء یعنی بلندی ہے اور ارض بمعنی پستی۔ اس لحاظ سے ہم ہر بلندی کے مقابلہ میں پستی کو ارض کہہ سکتے ہیں اور ہر پستی کے مقابلہ میں بلندی کو سماء کہہ سکتے ہیں۔ گویا ہماری زمین پہلے آسمان کے مقابلہ ارض ہے۔ اور پہلا آسمان دوسرے آسمان کے مقابلہ میں ارض ہے۔ علیٰ ہذا القیاس چھٹا آسمان ساتویں آسمان کے مقابلہ میں ارض ہے۔ اس طرح سات آسمانوں کی طرح زمینیں بھی سات بن جاتی ہیں۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اس سے ہماری زمین کے ہی سات طبقات یا سات پرت مراد ہوں۔ جنہیں طبقات الارض کہا جاتا ہے۔ اور ان میں سے ہر طبقہ ارض ہے یا اپنے سے اوپر والے طبقہ کے مقابلہ میں ارض ہے اور اس مفہوم کی تائید اس حدیث سے بھی ہوجاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :’’جو شخص کسی دوسرے کی تھوڑی سی بھی زمین ناحق لے لے تو وہ قیامت کے دن سات زمینوں تک دھنستا چلا جائے گا‘‘ (بخاری۔ کتاب المظالم۔ باب اثم من ظلم شیأا من الارض) اور تیسرا مفہوم یہ ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ ہماری ہی زمین جیسی ہی چھ اور زمینیں اس کائنات میں موجود ہوں اور وہاں کسی جاندار مخلوق کی آبادی بھی ہو۔ انسان آج تک کائنات کی وسعت کا اندازہ نہیں کرسکا اور نہ آئندہ کبھی کرسکے گا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان جس قدر جدید اور طاقتور قسم کی دوربینیں ایجاد کر رہا ہے اور رصدگاہیں تیار کر رہا ہے۔ اسے کائنات کے نئے سے نئے گوشے نظر آنے لگے ہیں اور وہ یہ سمجھنے لگا کہ کائنات میں ہر آن وسعت پیدا ہوتی جارہی ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے: ﴿وَالسَّمَاءَ بَنَیْنٰہَا بِاَیْیدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ﴾ یعنی ہم نے آسمان (یہاں آسمان سے مراد فضائے بسیط ہے) کو اپنے دست قدرت سے پیدا کیا اور ہم اس میں ہر آن توسیع کر رہے ہیں اور اس مفہوم کی تائید میں چند احادیث مل جاتی ہیں۔ اگرچہ وہ ضعیف قسم کی ہیں۔ [٢٨] یعنی عالم کے انتظام و تدبیر کے لئے اللہ کے احکام تکوینیہ اور شرعیہ ان آسمانوں اور زمینوں میں نازل ہوتے رہتے ہیں۔ الطلاق
0 التحريم
1 [١] آپ کا شہد نہ پینے پر قسم کھانا اور رازداری کی تلقین کرنا :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روز مرہ کا معمول تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عصر کے بعد اپنے سب گھروں میں اپنی بیویوں کے ہاں چکر لگایا کرتے تھے۔ تاکہ گھریلو حالات سے پوری طرح باخبر رہیں اور خیروعافیت کی صورت معلوم ہوتی رہے۔ ایک دفعہ جب آپ سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہد کا شربت پلایا۔ اس طرح آپ کو وہاں کچھ دیر لگ گئی۔ دوسرے دن بھی آپ کو سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نے شربت پلایا اور چونکہ آپ کو شہد اور اس کا شربت بہت پسند تھا۔ لہٰذا یہ بھی ایک طرح سے روزمرہ کا معمول بن گیا کہ سیدنا زینب رضی اللہ عنہا کے ہاں آپ کو کچھ دیر لگ جاتی تھی۔ یہ بات دوسری بیویوں اور بالخصوص سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو ناگوار گزری۔ کیونکہ آپ کی بیویوں میں سے ہر ایک یہی چاہتی تھی کہ وہی زیادہ تر آپ کی توجہات کا مرکز بنے۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے آپ کی اس عادت ' یعنی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے ہاں شہد کا شربت پینے کی عادت کو چھڑانے کی یہ ترکیب سوچی۔ کہ آپ سے کہا جائے کہ آپ کے منہ سے تو مغافیر (ایک قسم کا گوند جس کی بو ناگوار ہوتی ہے) کی بو آتی ہے پھر جب ایک بیوی نے بھی یہی بات کہی اور دوسری نے بھی ایسی بات کہی تو آپ کو وہم ہونے لگا کہ شاید ایسی بدبو واقعی آرہی ہو اور آپ کو بدبودار چیزوں سے سخت نفرت بھی تھی۔ اور ان بیویوں کی دلجوئی بھی مقصود تھی۔ لہٰذا آپ نے قسم کھالی کہ میں آئندہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے ہاں سے شہد نہیں پیا کروں گا۔ امام بخاری نے مختصراً اس واقعہ کو یوں روایت کیا ہے : سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے ہاں ٹھہرے رہتے اور شہد پیا کرتے تھے۔ میں اور حفصہ رضی اللہ عنہا نے آپس میں طے کیا کہ ہم سے جس کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں، وہ یوں کہے : ’’کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغافیر کھایا ہے۔ مجھے تو آپ سے مغافیر کی بو آرہی ہے‘‘ (پھر ایسا ہی کیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’نہیں! بلکہ میں نے زینب بنت جحش (رضی اللہ عنہا) کے ہاں سے شہد پیا ہے۔ اب میں قسم کھاتا ہوں کہ آئندہ کبھی شہد نہ پیوں گا۔ اور تم یہ بات کسی کو مت بتانا‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ تحریم) حلال وحرام کا اختیار صرف اللہ کو ہے :۔ ضمناً اس آیت سے کئی اہم امور پر روشنی پڑتی ہے۔ مثلاً: ١۔ کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دینے کا اختیار صرف اللہ کو ہے۔ کسی نبی حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ اختیار نہ تھا کہ اپنی مرضی سے کسی چیز کو حلال یا حرام یا کسی حلال چیز کو حرام یا کسی حرام چیز کو حلال قرار دے دیں۔ ٢۔ رسول کی حیثیت عام لوگوں سے علیحدہ ہوتی ہے :۔ کسی انسان کا کسی مصلحت کی خاطر کسی حلال چیز کو اپنے لئے حرام قرار دے لینا، یا اسے کچھ عرصہ کے لئے ترک کردینا یا اسے چھوڑنے کی قسم کھا لینا بذات خود کوئی بڑا جرم نہیں ہے۔ جیسے بعض لوگوں کو بڑا گوشت نقصان پہنچاتا ہے تو اسے کھانا چھوڑ دیں یا نہ کھانے کی قسم اٹھا لیں تو یہ جرم نہ ہوگا۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ ذاتی نوعیت کا حامل نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کی اصل اور بنیادی حیثیت رسول کی ہوتی ہے جس کا ہر کام امت کے لیے نمونہ اور واجب الاتباع ہوتا ہے۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل پر اللہ کی طرف سے گرفت ہوئی کہ مبادا آپ کی امت بھی شہد کو حرام یا کم از کم مکروہ ہی نہ سمجھنے لگے۔ بالفاظ دیگر نبی کا جو کام اللہ کی رضا اور منشا کے مطابق نہ ہو، خواہ وہ ترک اولیٰ قسم کا ہی ہو، اس کی فوراً بذریعہ وحی جلی اصلاح کردی جاتی ہے۔ ٣۔ وحی خفی کی اقسام :۔ جس طرح سنت کی تین اقسام ہیں۔ قولی، وہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے معلوم ہو یا ثابت ہو، فعلی، وہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے معلوم ہو یا ثابت ہو اور تحریری سنت وہ ہوتی ہے کہ کوئی فعل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے واقع ہو اور آپ نے اس پر گرفت نہ فرمائی ہو یا سکوت اختیار فرمایا ہو اور ایسی سنت بھی قابل حجت ہوتی ہے۔ اسی طرح وحی خفی (قرآن کے علاوہ دوسری قسم کی وحی) کی بھی تین اقسام ہیں۔ قولی وحی وہ اقوال ہیں جو جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ آپ پر نازل ہوئے جیسے ادعیہ مسنونہ اور تشہدوغیرہ۔ فعلی وحی وہ کام ہے جس کے کرنے کا طریق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جبرئیل علیہ السلام نے سکھایا ہو مثلاً نماز ادا کرنے کا طریقہ اور تقریری وحی وہ ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی اجتہاد، قول یا فعل پر اللہ نے از راہ صواب سکوت اختیار فرمایا ہو۔ اور آپ کی زندگی کے بہت سے اقوال و افعال ایسے ہی ہیں۔ اور اگر آپ کے کسی قول یا فعل میں کوئی بات اللہ کی منشا کے خلاف ہو تو اس پر فوراً تنبیہ کرکے اس کی اصلاح کردی جاتی ہے۔ عصمت انبیا کا مفہوم :۔ کسی بڑے سے بڑے برگزیدہ انسان حتیٰ کہ انبیاء سے بھی غلطی کا صدور ممکن ہے فرق صرف یہ ہے کہ انبیا کی غلطی کی فوراً بذریعہ وحی اصلاح کردی جاتی ہے جس سے ان کی زندگی بالکل بےداغ (جسے ہم اصطلاحی زبان میں عصمت انبیاء کہتے ہیں) ایک قابل تقلید نمونہ اور امت کے لیے واجب الاتباع بن جاتی ہے اور یہ مقام انبیاء کے علاوہ کسی دوسرے کو حاصل نہیں ہوتا۔ التحريم
2 [٢] قسم کے کفارہ کا تفصیلی ذکر سورۃ مائدہ کی آیت نمبر ٨٩ کے تحت گزر چکا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آپ قسم کا کفارہ ادا کرکے اس عہد اور قسم کو توڑ دیں جو آپ نے ایک حلال چیز کو اپنے آپ پر حرام کرلینے سے متعلق کیا ہے۔ [٣] یعنی اللہ تمہارے تمام معاملات کا نگران اور محافظ ہے اس نے جو چیزیں حلال کی ہیں وہ بھی اپنے علم و حکمت کی بنا پر کی ہیں۔ اور جو حرام کی ہیں وہ بھی علم و حکمت کی بنا پر ہی حرام کی ہیں۔ تمہارا کام بس یہ ہے کہ تمہیں کسی حکم کی حکمت سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ اس کے احکام کی اطاعت کرتے جاؤ۔ التحريم
3 [٤] افشائے راز کی آپ کو بذریعہ وحی خبر ملنا : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے بات کی کہ میں آئندہ زینب رضی اللہ عنہا کے گھر سے کبھی شہد نہ پیوں گا اور ساتھ ہی یہ تاکید بھی کردی کہ آگے میری بات کسی کو نہ بتانا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ اگر میری بات سیدہ زینب رضی اللہ عنہا تک پہنچ گئی تو ان کا دل رنجیدہ ہوگا۔ لیکن سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے اس رازداری کے عہد کو پورا نہ کیا۔ انہوں نے یہ بات سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو تو نہ بتائی البتہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتادی اور راز کی بات جب ایک سے دوسرے تک چلی جائے تو آگے بھی پھیلتی جاتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اپنے نبی کو اس راز کے فاش ہونے کی اطلاع دے دی۔ [٥] سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے آپ کا مکالمہ :۔ اس جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے صرف یہی راز کی بات نہیں کہی تھی بلکہ اس کے علاوہ کوئی اور بات بھی کہی تھی۔ جب آپ کو وحی کے ذریعہ معلوم ہوگیا کہ یہ راز افشا ہوچکا ہے تو آپ نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے ان باتوں میں سے ایک بات کے متعلق کہا کہ کیا یہ بات تم نے افشا کردی ہے؟ اور دوسری بات کا ذکر نہ کیا۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ دوسری بات یہ تھی کہ میرے بعد عائشہ رضی اللہ عنہا کا باپ خلیفہ ہوگا اور اس کے بعد تیرا باپ اور یہ بات آپ راز میں رکھنا چاہتے تھے تاکہ بلاضرورت چرچا نہ ہو اور کچھ لوگ برا نہ مانیں۔ واللہ اعلم بالصواب چونکہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے اس افشائے راز میں بھی راز داری سے کام لیا تھا، اس لیے حیران ہو کر پوچھنے لگیں کہ آپ کو کیسے پتہ چل گیا ؟ آپ کو کس نے بتایا ؟ آپ نے جواب میں فرمایا : مجھے اسی ذات نے خبر دی ہے، جو تمام باتوں کو جانتا ہے اور ہر بات سے پوری طرح باخبر ہے۔ التحريم
4 [٦] سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور حفصہ رضی اللہ عنہا کی خطا۔ ١۔ نبی کے لیے حلال و حرام بنانے پر ایکا' ٢۔ افشائے راز :۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا : امیرالمومنین! یہ دو عورتیں کون کون تھیں، جنہوں نے رسول اللہ کو ستانے کے لیے ایکا کیا تھا ؟ ابھی میں نے بات پوری بھی نہیں کی تھی کہ انہوں نے کہہ دیا : ’’وہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور حفصہ رضی اللہ عنہا تھیں‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ تحریم) ان پر اللہ کی طرف سے جو گرفت ہوئی اور کہا گیا کہ تم راہ راست سے ہٹ چکی ہو تو اس کی وجوہ دو تھیں کہ انہوں نے آپس میں باہمی رقابت کی بنا پر رسول اللہ کو ایک ایسی بات پر مجبور کردیا جو ان کے شایان شان نہ تھی اور اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عتاب بھی نازل ہوا اور اس کا سبب یہی دونوں بنی تھیں اور دوسری یہ کہ انہوں نے نبی کی راز کی بات کو افشا کرکے غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے۔ کیونکہ وہ کسی عام آدمی کی بیویاں نہ تھیں بلکہ اس ہستی کی بیویاں تھیں جسے اللہ تعالیٰ نے انتہائی اہم ذمہ داری کے منصب پر مامور فرمایا تھا اور جسے ہر وقت کفار و مشرکین اور منافقین کے ساتھ ایک مسلسل جہاد سے سابقہ درپیش تھا۔ آپ کے ہاں بے شمار ایسی راز کی باتیں ممکن تھیں کہ اگر وقت سے پہلے افشا ہوجاتیں تو اس کار عظیم کے مقصد کو شدید نقصان پہنچ سکتا تھا جو آپ کے ذمہ ڈالا گیا تھا۔ اور اس غلطی پر انہیں ٹوکا اس لیے گیا تھا کہ ازواج مطہرات، بلکہ معاشرہ کے تمام ذمہ دار افراد کی بیویوں کو رازوں کی حفاظت کی تربیت دی جائے۔ التحريم
5 [٧] سیدہ عائشہ اور حفصہ پر عتاب :۔ ان دونوں ازواج مطہرات کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ اگر توبہ کرلو تو یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اور نبی کو ستانا چھوڑ دو۔ زوجین کے خانگی معاملات بعض دفعہ ابتدائ ً بالکل معمولی سے معلوم ہوتے ہیں لیکن اگر ذرا باگ ڈھیلی چھوڑ دی جائے تو نہایت خطرناک اور تباہ کن صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ خصوصاً عورت اگر کسی اونچے گھرانے سے تعلق رکھتی ہو تو اس کو طبعاً اپنے باپ، بھائی اور خاندان پر ناز ہوتا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ عورت کی اس فطرت کو خوب سمجھتے تھے۔ چنانچہ انہی دنوں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنی بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور کہنے لگے : بیٹی! کیا بات ہے تو رسول اللہ سے سوال و جواب کرتی رہتی ہے حتیٰ کہ وہ سارا دن غصہ میں رہتے ہیں۔ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہا : واللہ! ہم تو سوال و جواب کرتی رہتی ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : خوب سمجھ لے اور میں تجھے اللہ کی سزا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے غصے سے ڈراتا ہوں۔ بیٹی! تو اس عورت کی وجہ سے دھوکا مت کھانا جو اپنے حسن و جمال اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر نازاں ہے اور اس سے ان کی مراد سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تھی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ تحریم) اسی لئے ان دونوں کو اللہ تعالیٰ نے متنبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر ایکا کرکے اسی طرح کی کارروائیاں اور مظاہرے کرتی رہیں تو اس سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کچھ بھی نہیں بگڑے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ خود، اس کے فرشتے جبرئیل علیہ السلام اور نیک بخت ایماندار سب درجہ بدرجہ اس کے مددگار ہیں اور ان کے سامنے تمہاری کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوسکتی۔ [٨] آپ کی ازواج کا خرچ کے سلسلہ میں آپ کو پریشان کرنا :۔ پہلے دو بیویوں (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کی بات چل رہی تھی، اس آیت میں سب بیویوں کو خطاب کرکے ان پر عتاب کیا جارہا ہے۔ ایک حلال چیز کو حرام قراردینے کے معاملہ میں تو واقعی صرف سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا تعلق تھا۔ لیکن ایک اور معاملہ بھی تھا۔ جس کا سب بیویوں سے تعلق تھا۔ وہ یہ تھا کہ فتوحات خیبر اور اموال غنائم سے مسلمانوں کی معاشی حالت آسودہ ہوگئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب ازواج مطہرات نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گھر کا خرچ زیادہ لینے کا مطالبہ کردیا۔ اور اگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں نہ ہوتیں بلکہ عام عورتیں ہوتیں تو ایسے مطالبہ میں ان کا کچھ قصور بھی نہ تھا اور اگر آپ چاہتے تو انہیں اموال غنائم سے اپنے گھروں میں زیادہ دے بھی سکتے تھے اور اللہ نے آپ کو ایسا اختیار دے بھی رکھا تھا۔ مگر چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو طبعاً فقر پسند تھا۔ لہٰذا بیویوں کا یہ مطالبہ آپ پر گراں گزرا۔ پھر بیویوں نے بھی اس بات کو صرف مطالبہ کی حد تک نہ رکھا بلکہ ایکا کرکے آپ سے بحث اور جھگڑا بھی کیا کرتی تھیں۔ اور بسا اوقات ایسی باہمی شکر رنجی میں پورا پورا دن گزر جاتا تھا۔ اسی کیفیت کا حال معلوم ہونے پر سیدنا عمررضی اللہ عنہ اپنی بیٹی کے ہاں گئے۔ اور انہیں سمجھایا اور کہا دیکھو تم اللہ کے رسول سے جھگڑنا چھوڑ دو۔ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر اپنے آپ کو گمان کرکے اس کی ریس نہ کرو اور نہ اس معاملہ میں دوسروں کا ساتھ دو۔ اور اگر کوئی چیز خرچہ وغیرہ مطلوب ہو تو اس کا مطالبہ مجھ سے کرلو۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گئے اور انہیں بھی یہی بات سمجھائی کیونکہ وہ بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی رشتہ دار تھیں تو انہوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ٹکا سا جواب دیا اور کہنے لگیں تم کون ہوتے ہو ہمارے معاملات میں دخل دینے والے؟ پھر جب عمر رضی اللہ عنہ نے یہی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی تو آپ مسکرا دیئے۔ انہیں ایام میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حالات کا جائزہ لے کر اس خیال کا اظہار کیا تھا جو درج ذیل حدیث میں مذکور ہے۔ اور یہی اس آیت کا شان نزول ہے : سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اکٹھی مل کر آپ سے لڑنے جھگڑنے لگیں تو میں نے انہیں کہا : ’’کچھ بعید نہیں کہ پیغمبرتم سب کو طلاق دے دے اور اس کا رب تم سے بہتر بیویاں بدل دے‘‘ اس وقت (جیسا میں نے کہا تھا ویسے ہی) یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) لیکن اس کے باوجود بھی جب ازواج مطہرات اپنے مطالبہ سے دستبردار نہ ہوئیں تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس قدر شاق گزرا کہ آپ ایک ماہ کے لیے اپنی سب بیویوں سے الگ ہوگئے اور ایک بالا خانے میں جاکر مقیم ہوگئے۔ یہی واقعہ، واقعہ ایلاء کہلاتا ہے۔ جو سورۃ احزاب کی آیت نمبر ٢٨ اور ٢٩ کے حواشی میں تفصیل سے گزر چکا ہے۔ [٩] قَانِتَاتٌ۔ قنوت ایسی اطاعت کو کہتے ہیں جو پورے خشوع و خضوع یکسر توجہ اور دل کی رضا مندی سے بجا لائی جائے۔ اور یہ اطاعت اللہ کی بھی ہوسکتی ہے۔ اس کے رسول کی بھی (٣٣: ٣١) اور عورتوں کے لیے اپنے خاوندوں کی بھی (٤: ٣٤) اور اس آیت میں تینوں کی ہی اطاعت مراد ہے۔ [١٠] سائح اور صائم میں فرق :۔ سَائِحَاتٌ۔ ساح الماء بمعنی پانی کا آوارہ پھرنا اور ساحۃ بمعنی فراخ جگہ اور ساحۃ الدار بمعنی گھر کا آنگن اور ساح بمعنی سیروسیاحت کرنا یا کرتے پھرنا خواہ اس کا مقصد تفریح ہو یا کوئی اور ہو اور ان معنوں میں بھی قرآن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ (٩: ٢) اس لحاظ سے سائح کے معنی محض سیروسفر کرنے والا ہے۔ لیکن بعد میں یہ لفظ ایسے درویشوں کے لئے استعمال ہونے لگا جو چلتے پھرتے تھے۔ روزہ بھی رکھتے تھے اور جملہ حکمی پابندیوں کو بھی ملحوظ رکھتے تھے پھر یہ الفاظ ایسے روزہ داروں کے لیے بھی استعمال ہونے لگا جو کھانے پینے کی بندش کے علاوہ اپنے جوارح یعنی آنکھ، کان اور زبان وغیرہ کو معاصی سے بچائے رکھنے کی کوشش کرتے تھے اور صاحب منجد کے نزدیک ایسے روزہ دار کو کہتے ہیں جو زیادہ تر مسجد میں رہے۔ جبکہ صائم ہر روزہ دار کو کہہ سکتے ہیں۔ [١١] یعنی ازواج مطہرات کو مخاطب کرکے کہا جارہا ہے کہ کہیں اس زعم میں مبتلا نہ ہوجانا کہ آخر مرد کو بیویوں کی ضرورت تو ہوتی ہی ہے اور ہم سے بہتر عورتیں کہاں ہیں اس لیے ہم اگر دباؤ ڈالیں گی تو سب باتیں منظور کرلی جائیں گی۔ یادرکھو کہ اگر اللہ چاہے تو تم سے بہتر بیویاں اپنے نبی کو مہیا کر دے اور تمہیں رخصت کردیا جائے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ازواج مطہرات میں مذکورہ صفات موجود نہ تھیں۔ بلکہ یہ ہے کہ نبی کی بیویوں میں یہ صفات بدرجہ اتم ہونا چاہئیں اور ازواج مطہرات کا یہ مطالبہ صفت قانتات میں تقصیر ہونے کی وجہ سے تھا۔ التحريم
6 [١٢] یعنی مسلمانوں کو محض اپنی ذات کی اصلاح پر ہی اکتفا نہ کرلینا چاہیے بلکہ اہل و عیال پر بھی اتنی ہی توجہ دینا چاہیے اور اپنے ساتھ اپنے گھر والوں کو بھی دین کی راہ پر چلانا چاہیے اور اس کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کرنا چاہئے۔ ڈرا کر سمجھا کر، پیار سے، دھمکی سے، مار سے جس طرح بھی بن پڑے۔ انہیں اس راہ پر لانے کی کوشش کرے۔ اس کی بہترین تفسیر وہ حدیث ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے ہر شخص راعی (نگہبان) ہے اور اس سے اس کی رعیت کے متعلق باز پرس ہوگی (کہ اس نے ان کی اصلاح کیوں نہ کی تھی) امام بھی راعی ہے، اسے اپنی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا۔ مرد اپنے گھر والوں کا راعی ہے، اسے اپنی رعیت سے متعلق پوچھا جائے گا، عورت اپنے خاوند کے گھر کی راعی ہے، اسے اس کے متعلق پوچھا جائے گا (بخاری۔ کتاب الوصایا۔ باب قولہ تعالیٰ من بعد وصیۃ۔۔) اس لحاظ سے ہر مسلمان پر یہ ذمہ داری ڈال دی گئی ہے کہ وہ اپنے ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی اصلاح کرے ورنہ اس سے باز پرس ہوگی۔ [١٣] پتھر سے مراد وہ پتھروں کے بت بھی ہیں جن کی مشرک دنیا میں پوجا کرتے رہے ہیں۔ تاکہ مشرکوں کی حسرت و یاس میں مزید اضافہ ہو اور پتھری کوئلہ بھی جس میں آگ کی حرارت کی شدت عام کوئلہ سے بدرجہا زیادہ ہوتی ہے اور گندھک اور گندھک ملے دوسرے تمام جمادات اور پتھروں کی قسم کے شعلہ گیر مادے بھی۔ جو آگ کی حرارت میں شدت پیدا کردیتے ہیں۔ [١٤] جہنم پر مقرر کردہ فرشتوں کی تین صفات مذکور ہوئیں ایک یہ کہ وہ سخت دل ہیں، انہیں کسی پر رحم نہیں آئے گا۔ دوسرے سخت گیر ہیں، جو عذاب دیں گے، پوری سختی اور قوت کے ساتھ دیں گے۔ تیسرے وہ دوزخیوں کی چیخ و پکار اور التجاؤں کا کوئی اثر قبول نہ کریں گے، بلکہ وہی کچھ کریں گے جو اللہ کی طرف سے انہیں حکم ملا ہوگا۔ التحريم
7 [١٥] یعنی آج نہ تمہاری بہانہ سازی کام آئے گی اور نہ کسی قسم کی معذرت قبول کی جائے گی۔ اس لئے کہ اللہ تو تمہارے دلوں کے خیالات تک سے واقف ہے۔ لہٰذا آج تمہارے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ جو کچھ تم کرتے رہے آج اس کی سزا بھگتو۔ التحريم
8 [١٦] توبہ کی شرائط :۔ نَصُوْحًا۔ نصح بمعنی کسی کی خیر خواہی کرنا خواہ یہ قول سے ہو یا فعل سے اور نَصُوْحًاسے مراد ایسی سچی توبہ ہے جس سے اپنے نفس کی خیرخواہی مطلوب ہو۔ اور ایسی توبہ کی چند شرائط ہیں۔ ایک یہ کہ اپنے کیے پر نادم ہو۔ دوسرے یہ کہ اللہ کے حضور مغفرت طلب کرے اور آئندہ وہ کام نہ کرنے کا عہد کرے۔ تیسرے یہ کہ یہ عہد محض زبانی یا ریا کاری کی بنا پر نہ ہو بلکہ آئندہ اس عہد کو حتی الامکان نباہنے کی کوشش کرے اور چوتھے یہ کہ اگر اس نے اس گناہ کے کام میں کسی شخص کا حق تلف کیا ہے تو اسے اس کی ادائیگی کرے یا اس سے معاف کرالے۔ اگر وہ حق مال سے تعلق رکھتا ہے تو اصل مظلوم مر چکا ہے تو اس کے وارثوں کو ادا کردے یا صدقہ کر دے۔ اور اگر وہ حق تلفی قول سے تعلق رکھتی ہے جیسے غیبت یا چغلی وغیرہ تو اس کے حق میں دعائے مغفرت کرتا رہے۔ وغیرذلک۔ [١٧] رسوائی سے مراد عذاب جہنم سے بچا لینا ہے۔ کیونکہ اس دن یہی سب سے بڑی رسوائی ہوگی۔ اس کے بجائے اللہ ایسے لوگوں کو فضل و شرف کے بلند مقامات پر سرفراز فرمائے گا۔ [١٨] اس نور کی تفصیل پہلے سورۃ حدید کی آیت نمبر ١٣ کے تحت گزر چکی ہے۔ [١٩] قیامت کے دن منافقوں کی مومنوں سے التجا کہ ہمیں ساتھ لے چلو :۔ یہ نور اہل ایمان کو اس وقت عطا کیا جائے گا جب میدان محشر میں لوگوں کے اعمال کا فیصلہ ہوچکا ہوگا اور انہیں جنت میں داخلہ کا ٹکٹ یا پروانہ مل چکا ہوگا۔ میدان محشر سے جنت کی راہ میں سخت تاریکی ہوگی، پھر پل صراط کو بھی عبور کرنا ہوگا۔ اہل ایمان اپنے اس عطا کردہ نور کی روشنی میں آگے بڑھتے جائیں گے۔ منافق بھی اس کے ساتھ چل پڑیں گے لیکن ان کا اپنا نور تو ہوگا نہیں یا اگر تھوڑا بہت ہوگا بھی تو بہت جلد بجھ جائے گا۔ انہیں دیکھ کر اہل ایمان کو یہ اندیشہ لاحق ہوگا کہ کہیں ان کا نور بھی راہ میں ہی نہ بجھ جائے۔ لہٰذا وہ اللہ سے دعا کریں گے کہ اے پروردگار! جنت میں پہنچنے تک ہمارا یہ نور برقرار اور بحال رکھنا۔ اور ہم سے جو گناہ یا تقصیرات سرزد ہوئی ہیں وہ معاف فرما دے۔ التحريم
9 [٢٠] اس آیت کے پورے پورے الفاظ سورۃ توبہ کی آیت نمبر ٧٣، جیسے ہی ہیں۔ لہٰذا اس کی تشریح سورۃ توبہ کے حاشیہ نمبر ٨٨ کے تحت ملاحظہ کی جائے۔ التحريم
10 [٢١] یہ خیانت نہ مال کی خیانت تھی اور نہ عصمت کی کیونکہ حدیث میں یہ صراحت موجود ہے کہ کسی نبی کی کوئی بیوی کبھی بدکاری کی مرتکب نہیں ہوئی۔ بلکہ یہ ایمان اور اس کے تقاضوں کی خیانت تھی۔ نبیوں کی راہ اور تھی اور ان بیویوں کی راہ دوسری تھی۔ سیدنا نوح کی بیوی بھی کافر تھی اور اپنے خاوند یعنی سیدنا نوح کو دیوانہ سمجھتی اور کہتی تھی۔ سیدنا لوط کی بیوی کی بھی ساری ہمدردیاں اپنے خاوند کے بجائے کافروں کے ساتھ تھیں۔ کیونکہ وہ انہی کی قوم سے تھی۔ جب کوئی مہمان گھر میں آتا تو وہ اپنے ہمسایوں کو مخبری کردیتی تھی۔ [٢٢] یعنی نہ تو ان عورتوں کو پیغمبروں کی بیوی ہونا یا پیغمبروں کی صحبت میں رہنا کچھ فائدہ دے سکا۔ اور نہ ہی پیغمبر انہیں اللہ کے عذاب سے بچا سکے۔ سیدنا نوح کی بیوی بھی غرق ہونے والوں کے ساتھ ڈوب کر مرگئی اور سیدنا لوط کی بیوی بھی قوم کے ساتھ عذاب میں مبتلا ہوئی۔ یہ تو ان کا دنیا میں انجام ہوا۔ آخرت میں بھی یہ پیغمبر اپنی بیویوں کو اللہ کے عذاب سے بچا نہیں سکیں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر صحیح ایمان نہ ہو تو قریبی سے قریبی رشتے بھی نہ دنیا میں کام آسکتے ہیں اور نہ آخرت میں۔ نبوت زادگی یا سید زادگی کوئی ایسا شرف نہیں جس پر تکیہ یا ناز کیا جاسکے۔ اور یہ مرض اہل کتاب میں عام تھا اور مسلمانوں میں بھی موجود ہے۔ التحريم
11 [٢٣] سیدہ مریم اور سیدہ آسیہ زوجہ فرعون کی فضیلت :۔ یہ فرعون کی وہی بیوی آسیہ تھی جس نے فرعون کو کہا تھا کہ دیکھو یہ (سیدنا موسیٰ) کتنا پیارا بچہ ہے۔ کیوں نہ ہم اس کی تربیت کریں اور اسے اپنا بچہ بنا لیں۔ پھر اس کی تربیت بھی کی تھی۔ وہ سیدنا موسیٰ پر ایمان لاچکی تھی۔ جب فرعون پر اس کے ایمان کا حال کھلا تو اسے طرح طرح کی ایذائیں پہنچانے لگا۔ پھر جب آسیہ اپنے ایمان پر قائم رہی تو اس نے اپنی عافیت اسی میں سمجھی کہ اسے مروا ڈالے۔ اس وقت اس نے پروردگار سے دعا کی کہ مجھے اب ان ظالموں سے نجات عطا فرما۔ اور مجھے اپنے ہاں بلا لے اور جنت میں میرے رہنے کو ایک گھر بنادے۔ اس کی یہ دعا قبول ہوگئی اور موت آنے سے پہلے ہی سکرات موت میں اللہ نے اسے جنت میں اس کا محل دکھا دیا۔ اور سیدنا ابو موسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ’’مردوں میں تو بہت سے لوگ کامل گزرے ہیں مگر عورتوں میں مریم بنت عمران اور آسیہ فرعون کی بیوی کے سوا کوئی کامل نہیں ہوئی۔ اور عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی فضیلت دوسری عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید کی فضیلت دوسرے کھانوں پر‘‘ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب فضل عائشۃ رضی اللہ عنہا) التحريم
12 [٢٤] یعنی ان کا کوئی شوہر بھی نہیں تھا۔ گویا سیدہ مریم نے حلال اور حرام دونوں صورتوں سے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا اور پاکدامن رہیں۔ [٢٥] یعنی فرشتہ کے ذریعہ ایک روح پھونک دی۔ سیدنا جبرئیل علیہ السلام نے آپ کے گریبان میں پھونک ماری جس کا نتیجہ استقرار حمل ہوا۔ اسی حمل سے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے۔ سورۃ مریم کے دوسرے رکوع میں یہ قصہ بڑی تفصیل سے گزر چکا ہے۔ [٢٦] اس سے مراد وہ کلمات ہیں، جو فرشتوں نے سیدہ مریم سے کہے تھے۔ فرشتوں اور سیدہ مریم میں ہم کلامی کی یہ تفصیل پہلے سورۃ آل عمران کے پانچویں رکوع میں گزر چکی ہے۔ گویا اللہ نے انہیں جس کڑی آزمائش میں ڈالنے کا فیصلہ کرلیا تھا اس کے آگے انہوں نے سرتسلیم خم کردیا۔ اور اسی وجہ سے انہیں یہ عظیم مرتبہ ملا تھا۔ اور اللہ کی کتابوں سے مراد تورات بھی ہوسکتی ہے اور انجیل بھی اور سابقہ صحیفے بھی۔ گویا سیدہ مریم نے ان سب کتابوں کی تصدیق کی تھی۔ [٢٧] اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ سیدہ مریم اللہ کی اطاعت و عبادت پورے خشوع و خضوع، کامل توجہ اور دل کی رضامندی کے ساتھ بجا لاتی تھیں اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان کا سارا خاندان ہی ایسا تھا جس سے وہ تعلق رکھتی تھیں۔ التحريم
0 [١] سورۃ الملک کی فضیلت :۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن میں ایک تیس آیتوں والی سورت ہے۔ اس سورت نے ایک آدمی کی شفاعت کی تاآنکہ اسے بخش دیا گیا اور وہ سورت﴿ تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ  ﴾(الملک) ہے۔ (ترمذی۔ ابو اب فضائل القرآن۔ باب ماجاء فی سورۃ الملک) سیدنا جابررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ  اس وقت تک سوتے نہ تھے جب تک سورۃ المّ تَنْزِیْلَ اور ﴿ تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ  ﴾پڑھ نہ لیتے۔ (ترمذی۔ ایضاً) الملك
1 [٢] تبارک کا لغوی مفہوم :۔ تَبَارَکَ برکت کے معنی کسی چیز میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر کا ثابت ہونا ہے (مفردات) یعنی جو کام کیا جائے اس میں متوقع زیادہ سے زیادہ فائدہ ہونے کا نام برکت ہے۔ بشرطیکہ یہ کام خیر کا پہلو رکھتا ہو اور جس چیز میں یہ خیر کا پہلو بارآور ثابت ہو وہ مبارک ہے۔ اور تبرک کا لفظ اللہ تعالیٰ سے مختص ہے اور صرف ان خیر کے کاموں کے لیے آتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ سے مخصوص ہیں۔ اس آیت میں اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی ہر ایک چیز کو جس بہتر مقصد کے لیے پیدا فرمایا تھا وہ چونکہ بدرجہ اتم وہ مقصد پورا کر رہی ہے لہٰذا اللہ کی ذات تبارک یعنی بابرکت ہوئی۔ [٣] الْمُلْکُ یعنی کائنات کی ہر چیز پر مکمل بادشاہت، حکومت اور اختیار۔ اور ایسی قدرت کہ کوئی چیزبھی اللہ کے حکم کے سامنے دم نہیں مار سکتی۔ الملك
2 [٤] موت ایک ایجابی چیز ہے جسے اللہ نے پہلے پیدا کیا تھا :۔ اللہ تعالیٰ نے موت کا نام زندگی سے پہلے لیا کہ اس نے موت کو بھی پیدا کیا۔ جس سے معلوم ہوا کہ موت محض ایک سلبی چیز نہیں بلکہ ایجابی چیز ہے۔ اور اس سے معتزلہ کے اس قول کی تردید ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ زندگی نہ ہونے کا نام ہی موت ہے۔ جبکہ اصل حقیقت یہ ہے موت روح اور جسم کے انفصال کا نام ہے اور زندگی ان دونوں کے اتصال کا۔ دنیوی زندگی سے پہلے موت سے مراد وہ دور ہے جب اللہ تعالیٰ نے سیدنا آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے کے بعد ان تمام روحوں کو بھی پیدا فرمایا جو ان کی پشت سے تاقیامت پیدا ہونے والی تھیں۔ عہد الست اسی دور سے متعلق ہے۔ (٧: ١٧٢) اور یہ دور روح کی پیدائش سے لے کر اس کے شکم مادر میں جنین کے جسم میں داخل ہونے تک پھیلا ہوا ہے۔ [٥] دنیا میں امتحان اور آخرت میں نتائج :۔ گویا اللہ نے کائنات کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ انسان کی تخلیق سے پہلے ہی انسان کی بنیادی ضروریات زندگی کا سامان مہیا کردیا جائے۔ پھر انسان کو پیدا کیا اور اس کی موت و حیات کا سلسلہ قائم کیا اسے قوت ارادہ و اختیار اور عقل و تمیز عطا کی کہ دیکھا جائے کہ کون کائنات کی دوسری اشیاء کی طرح اللہ کے حکم کے سامنے سرِتسلیم خم کرتا ہے اور کون نہیں کرتا۔ اگر سرتسلیم خم کرلے تو یہی اس کے لیے بہتر روش ہے اور اس کے اعمال اچھے ہوں گے اور انکار کی صورت میں اس کے اعمال بھی برے اور بدلہ بھی برا ملے گا۔ گویا یہ دنیا ہر انسان کے لیے دارالامتحان ہے اور اس امتحان کا وقت انسان کی موت تک ہے۔ موت سے لے کر بعث بعدالموت تک کا عرصہ امتحان کے نتائج کے انتظار کا عرصہ ہے۔ تاہم ہر ایک کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس امتحان میں فیل ہونے والا ہے یا پاس اور اسی کے مطابق اسے اس عرصہ میں کوفت یا راحت بھی پہنچتی رہتی ہے اور قیامت کو اس امتحان کے نتائج کا باقاعدہ اعلان ہوگا۔ نمبر نہایت انصاف کے ساتھ دیئے جائیں گے۔ پھر ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق جزا و سزا بھی ملے گی۔ الملك
3 [٦] سات آسمان اور ان کی کیفیت :۔ موجودہ ہیئت دانوں کے نظریہ کے مطابق آسمان کوئی چیز نہیں۔ فقط حد نگاہ کا نام ہے اور یہ جو نیلگوں چھت ہمارے سروں پر سایہ کئے ہوئے اور جھکی ہوئی نظر آتی ہے۔ تو اس کی یہ رنگت محض فضا کا رنگ ہے جو ہمارے چاروں طرف محیط ہے۔ جبکہ کتاب و سنت سے ہمیں یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ آسمان ٹھوس حقیقت کا نام ہے۔ ان کی تعداد سات ہے اور ان میں دروازے بھی ہیں۔ پھر یہ ایک دوسرے کے اوپر ہیں۔ ایک کے اوپر دوسرا، دوسرے کے اوپر تیسرا علی ہذا القیاس۔ یہ تہ بہ تہ بھی ہیں اور پوری مطابقت بھی رکھتے ہیں۔ جیسے طبقات الارض یا پیاز کے چھلکے ایک دوسرے کے اوپر تہ بہ تہ ہوتے ہیں اور مطابقت بھی رکھتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ طبقات الارض یا پیاز کے چھلکوں کے درمیان فاصلہ نہیں ہوتا جبکہ ہر آسمان سے دوسرے آسمان کے درمیان طول طویل فاصلہ بھی ہے۔ ایک آسمان تو وہ ہے جس پر ہم کھلی آنکھ سے بغیر دوربین کے ہر روز رات کو ستارے جگمگاتے دیکھتے ہیں۔ یہی آسمان ہم سے قریب ہے۔ یہ پہلا آسمان ہے اور اسے ہی قرآن میں دنیا کہا گیا ہے۔ اس کے آگے وہ آسمان ہے جس کے سیارے دوربین کی مدد سے ملاحظہ کیے جاتے ہیں۔ اور اس کے آگے پانچ آسمان ایسے ہیں جن تک دوربینوں کے ذریعہ سے بھی انسان کی رسائی نہیں ہوسکتی۔ اور ہیئت دانوں کے عجز کا یہ حال ہے جوں جوں وہ جدید قسم کی اور طاقتور دوربینیں ایجاد کر رہے ہیں تاکہ اس کائنات کی پنہائی اور وسعت کا کچھ اندازہ کرسکیں، کائنات اسی قدر مزید وسیع نظر آنے لگتی ہے۔ کائنات میں بھی وسعت پیدا ہوتی جارہی ہے۔ اکثر سیاروں کے درمیانی فاصلے بھی بڑھ رہے ہیں۔ یہ صورت حال دیکھ کر ہیئت دان ورطہ حیرت میں گم ہوجاتے ہیں۔ دراصل آسمانوں یا پوری کائنات کا احاطہ کرنا انسان کے بس کا روگ ہی نہیں۔ ان آسمانوں تک اگر موجودہ دنیا میں سے کسی کی رسائی ہوئی تو وہ فقط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی قدرت کاملہ کی وجہ سے ہوئی تھی۔ [٧] تفاوت کا لغوی معنی :۔ تفاوت۔ فات بمعنی کسی چیز کا انسان کی دسترس سے اتنا دور ہوجانا کہ اس کا حاصل کرلینا اس کے لئے دشوار ہو اور تفاوت بمعنی دو چیزوں کے اوصاف اس طرح مختلف ہونا کہ ان میں سے ہر ایک کا وصف دوسری چیز کے وصف کو فوت کر رہا ہو۔ یعنی دو چیزوں کا آپس میں بے ربط، بے جوڑ ہونا، آپس میں لگا نہ کھانا اور ان میں عدم تناسب ہونا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ نے اس کائنات میں جو چیز بھی پیدا کی ہے کسی کا مقصد دوسرے سے نہ ٹکراتا ہے اور نہ بے جوڑ اور بے ربط ہے۔ کائنات کا مربوط اور منظم نظام :۔ بلکہ ہر چیز اپنے مقصد میں دوسری چیزوں سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ تعاون کر رہی ہے اور مربوط و منظم ہے۔ اگر یہ صورت نہ ہوتی تو اس کائنات کا نظام چل ہی نہ سکتا تھا۔ جاندار مخلوق کا اس زمین پر زندہ رہنا تو دور کی بات ہے۔ اسی ہم آہنگی اور عدم تفاوت سے لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس کائنات کا خالق ایک ہی ہوسکتا ہے۔ پھر اس میں تصرف بھی صرف اسی اکیلے کا چل رہا ہے اور ایسی ذات کا علیم و حکیم ہونا بھی انتہائی ضروری ہے۔ الملك
4 [٨] یعنی انسان کو بار بار اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اگر تم اللہ کی ہستی، اس کے تصرف اور اس کے علیم و حکیم ہونے میں کچھ شک رکھتے ہو تو بتاؤ کہ اس کائنات کے نظام میں فلاں نقص باقی رہ گیا ہے۔ بار بار آسمانوں کی طرف نظر دوڑاؤ اور غور و فکر کرکے اس نظام میں کوئی عیب تلاش کرنے کی کوشش کرو تم دیکھ دیکھ کر اور غور و فکر کر کرکے عاجز رہ جاؤ گے مگر تمہیں ایسا کوئی عیب یا نقص نظر نہیں آئے گا۔ الملك
5 [٩] اس کی تشریح کے لئے دیکھئے سورۃ حجر کی آیت نمبر ١٧ پر حاشیہ نمبر ٩ الملك
6 [١٠] یعنی جہنم کا عذاب ان شیطانوں کے لئے بھی ہے جو ملاء اعلیٰ کی باتیں چوری چھپے سننے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر وہاں پہنچنے سے پہلے شہاب ثاقب کی زد میں آجاتے ہیں اور ان کافروں کے لئے بھی جو اللہ کی آیات سے اور ان کی تعمیل سے انکار کردیتے ہیں۔ الملك
7 [١١] شَھِیْقًا۔ زفیر اور شھیق گدھے کے ہینگنے کے وقت اس آواز کی ابتدائی اور آخری حالت کا نام ہے۔ زفر بمعنی لمبا سانس باہر نکالنا اور زفیر گدھے کے ہینگنے کی ابتدائی آواز جو آہستہ سے اونچی ہونا شروع ہوجاتی ہے اور جب گدھا ہینگنے کے عمل کو ختم کرنے لگے تو وہ آواز جو اونچی آواز سے پست ہونا شروع ہوتی ہے اسے شَھِیْقٌ کہتے ہیں۔ پھر یہ گدھے کی آواز قرآن کی تصریح کے مطابق سب سے زیادہ مکروہ اور کانوں کو ناگوار محسوس ہونے والی ہوتی ہے۔ ایسی ہی مکروہ آواز دوزخ کی پیدا ہو رہی ہوگی۔ پھر اس کی بھی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ ایسی آواز جہنم کے جوش مارنے سے پیدا ہوگی۔ دوسرے یہ کہ دوزخ میں جو لوگ پہلے پڑے ہوں گے۔ وہ اس قسم کی مکروہ آوازیں نکالیں گے۔ [١٢] تفور کا لغوی مفہوم :۔ تَفُوْرُ۔ فار الماء بمعنی پانی کا جوش مارنا اور ابلنا۔ اور اس جوش مارنے یا ابلنے کی وجہ حرارت کی شدت نہیں ہوتی بلکہ پانی کا دباؤ ہوتا ہے۔ نیچے سے پانی کا دباؤ زیادہ ہو اور سوراخ تنگ ہو تو پانی بڑے جوش سے اوپر کو اچھلتا ہے۔ لفظ فوارہ اسی سے مشتق ہے۔ الملك
8 الملك
9 [١٣] یہ بڑی گمراہی کیا تھی؟ یہی بعث بعد الموت کا عقیدہ۔ کافر اسے ہی سب سے بڑی گمراہی سمجھتے تھے۔ کہ آج تک تو کوئی شخص مر کر واپس آیا نہیں۔ پھر ہم اس بات کو کیونکر تسلیم کرسکتے ہیں؟ الملك
10 الملك
11 [١٤] یہاں گناہ کا لفظ واحد استعمال ہوا ہے۔ حالانکہ ان کی ساری کی ساری زندگی گناہوں سے لبریز تھی۔ اس لیے کہ اللہ کی آیات سے انکار اور جھٹلانا یہ ایک گناہ باقی سارے گناہوں کی جڑ ہے۔ باقی سب گناہ اسی ایک بڑے گناہ کی شاخیں ہیں۔ الملك
12 [١٥] ایمان بالغیب کے علاوہ کوئی بنیاد انسان کو گناہوں سے باز رکھ سکتی ہے نہ اخلاق فاضلہ پیدا کرسکتی ہے :۔ اللہ سے بن دیکھے ڈرنا ہی وہ بنیاد ہے جس پر انسان کے اخلاق فاضلہ کی تعمیر اٹھتی ہے اور اخلاقی لحاظ سے اس کی زندگی سنورتی ہے۔ اس بنیاد کے علاوہ جتنی بھی بنیادیں ہیں وہ سب کمزور اور ناپائیدار ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ وہ خود کسی برائی کو برائی سمجھتا ہو۔ دوسری یہ کہ لوگ اس کام کو برا سمجھتے ہوں۔ تیسری یہ کہ اس کام کے معاشرہ کے دوسرے افراد پر برے اثرات پڑتے ہوں اور چوتھے یہ کہ وہ کام حکومت کے قانون کے مطابق قابل مواخذہ برائی ہو۔ ان میں سے کوئی بھی بنیاد ایسی نہیں جو ایک انسان کو شریف اور بااخلاق بناسکتی ہو۔ نہ لوگ اسے ہر وقت دیکھ رہے ہوتے ہیں اور نہ حکومت۔ لہٰذا جب اس کے ذاتی مفاد کا مسئلہ ہو تو انسان لوگوں کی یا قانون کی گرفت سے بچنے کی ہزاروں راہیں تلاش کرلیتا ہے۔ انسان کو اگر کوئی چیز گناہوں سے باز رکھ سکتی ہے تو وہ یہی عقیدہ ہے کہ اللہ اسے ہر حال میں دیکھ رہا ہے۔ وہ اس کے دل کے خیالات تک سے واقف ہے۔ پھر وہ اس سے بازپرس کرنے اور سزا دینے کی پوری قدرت بھی رکھتا ہے۔ ایسے لوگوں کی زندگی خود بخود سنورنے لگتی ہے۔ چھوٹے موٹے گناہ اللہ ویسے ہی معاف کردے گا پھر اس کے لئے ایسے لوگوں کو جنت بھی عطا فرمائے گا۔ الملك
13 الملك
14 [١٦] یہ ایک حقیقت ہے کہ جو شخص کسی چیز کو پیدا کرتا یا بناتا یا وجود میں لاتا ہے۔ جتنا وہ اس چیز سے واقف ہوتا ہے۔ دوسرا کوئی نہیں ہوسکتا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان کو پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ پھر وہ انسان کے افعال و اعمال حتیٰ کہ اس کے دل کے ارادہ سے ناواقف اور بے خبر کیسے رہ سکتا ہے۔ اس کا دوسرا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کیا اللہ کو یہ بھی علم نہیں کہ اس نے کون کون سی چیزیں پیدا کی ہیں؟ [١٧] لطیف کا لغوی مفہوم :۔ لَطِیْفٌ۔ لطف کے معنی میں دو باتیں بنیادی طور پر پائی جاتی ہیں، (١) رقت نظر اور (٢) نرمی۔ اور لطیف کے معنی میں کبھی صرف ایک ہی بات یعنی رقت نظر یا باریک بینی یا راز اور چھوٹی چھوٹی باتوں سے آگاہی پائی جاتی ہے۔ اور کبھی دونوں باتیں پائی جاتی ہیں یعنی مخلوق کی چھوٹی چھوٹی تکالیف کا علم رکھنا اور پھر ازراہ مہربانی ان کا ازالہ کرتے رہنا۔ الملك
15 [١٨] ذَلُوْلٌ۔ ذل بمعنی کمزور اور زبردست ہونا اور ذلول بمعنی کسی چیز کا طوعاً اپنی سرکشی کو چھوڑ کر مطیع ومنقاد ہوجانا ہے اور یہ لفظ انسان کا اپنی محنت سے کسی چیز کو اپنا تابع فرمان بنانے اور اس چیز کے تابع فرمان بن جانے کے پہلو کو ظاہر کرتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تم زمین میں محنت کرکے جیسے فائدے اس سے حاصل کرنا چاہتے ہو کرسکتے ہو۔ اس میں کھیتی باڑی کرسکتے ہو۔ اس سے معدنیات اور دوسرے زمین میں مدفون خزانے نکال سکتے ہو اس میں سفر کرکے تجارتی فوائد حاصل کرسکتے ہو۔ [١٩] اللہ تعالیٰ کی قدرت کے دلائل یعنی زمین سے تم جتنے فائدے اٹھا سکتے ہو اٹھاؤ۔ لیکن یہ بات تمہیں ہر وقت ملحوظ رکھنی چاہئے کہ تم مرنے کے بعد اللہ کے حضور پیش ہونے والے ہو لہٰذا زمین سے فائدے اٹھاتے ہوئے تمہیں دوسروں کی حق تلفی نہ کرنا چاہیے۔ الملك
16 الملك
17 [٢٠] آسمان میں کون ہے؟ اللہ تعالیٰ کی ذات۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین کو تمہارے تابع فرمان بنا دیا ہے اس میں محنت کرو اور جو جو فائدے اس سے اٹھا سکتے ہو اٹھاؤ مگر اس ذات سے بے خوف نہ ہوجانا جو تمہاری اور ان سب اشیاء کی خالق و مالک ہے۔ اسے ہر دم یاد رکھنا۔ یہ عین ممکن ہے کہ تم کسی جگہ زمین کھود رہے ہو یا کان کنی میں مصروف ہو تو اس میں دھنستے ہی چلے جاؤ۔ یا زمین میں زلزلہ آجائے۔ زمین پھٹ جائے اور تم اس میں غرق ہوجاؤ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم پر ایسی سخت آندھی بھیج دے جس میں پتھر کنکر ہوں۔ اور وہ تمہارا ستیاناس کردیں۔ لہٰذا زمین سے اللہ کی نعمتیں حاصل کرو تو اس کا شکر بھی بجا لایا کرو اور اگر تم ناشکری کرو گے اور اکڑ دکھاؤ گے تو تمہارا بھی وہ انجام ہوسکتا ہے جس سے سابقہ قومیں دوچار ہوئی تھیں۔ الملك
18 الملك
19 [٢١] صفت۔ صف یعنی صف بنانا، سیدھی قطار بنانا اور صف بمعنی ہر شے کی سیدھی قطار اور صف الطیر بمعنی پرندوں نے اپنی اڑان میں اپنے پروں کو قطار کی طرح سیدھا کردیا۔ نیز اس کا معنی پرندوں کا اپنے پروں کو ہوا میں پھیلا دینا اور بالکل بے حرکت بنا دینا بھی ہے۔ جبکہ سب ایک ہی حالت میں ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ پرندے ہوا میں اڑتے ہوئے کبھی اپنے پر پھیلا بھی دیتے ہیں اور کبھی سکیڑ بھی لیتے ہیں۔ حالانکہ یہ ہوا سے وزنی اجسام ہیں لیکن پھر بھی زمین پر گر نہیں پڑتے۔ نہ ہی زمین کی کشش ثقل انہیں اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ ہوا جو ایک کاغذ کا بھی بوجھ برداشت نہیں کرتی اور وہ بھی آہستہ آہستہ زمین پر آگرتا ہے۔ تو پرندوں کے وزنی اجسام کو ہوا میں کون تھامے رکھتا ہے اور زمین پر گرنے نہیں دیتا۔ آخر ان کو ہوا میں تیرتے پھرنے کا یہ طریقہ کس نے سکھایا ہے؟، وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس نے پرندوں کے جسم کی ساخت ہی ایسی بنا دی ہے کہ وہ بے تکلف ہوا میں اڑ بھی سکتے ہیں اور ٹھہر بھی سکتے ہیں۔ پر کھول کر بھی اور پر بند کرکے بھی۔ پھر انسان نے یہی اصول دریافت کرکے ہوائی جہاز ایجاد کیا جس کی شکل تک پرندوں سے ملتی جلتی ہے۔ اور وہ اپنے پر کھول بھی لیتے ہیں اور بند بھی کرلیتے ہیں۔ الملك
20 [٢٢] کافر جو بڑھ بڑھ کر باتیں بناتے ہیں کہ اگر ہمیں جہنم کے عذاب سے دوچار ہونا بھی پڑا تو ہم دوزخ کے فرشتوں سے نمٹ لیں گے۔ یہ باتیں وہ محض اس لیے کرتے ہیں کہ نہ انہیں مر کر جی اٹھنے کا یقین ہے اور نہ جہنم کے عذاب کا۔ وہ بڑے سخت دھوکے میں مبتلا ہوچکے ہیں اور موت سے پہلے ان کو لگا ہوا یہ دھوکا ان کے ذہن سے نکل نہیں سکتا۔ الملك
21 [٢٣] رزق حاصل ہونے کا سب سے بڑا ذریعہ آسمان سے نازل ہونے والی بارش ہے۔ بارش پڑنے سے ہی زمین سے نباتات اگتی ہے جو تمام جاندار مخلوق کے رزق کا ذریعہ بنتی ہے۔ اب دیکھئے کہ اس بارش کے جملہ اسباب اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ طویل مدت تک بارش نہ برسائے تو اللہ کے علاوہ اور کون ہستی ہے جو بارش برسا سکے۔ اللہ کی قدرتوں کو سمجھنے کے لیے نشانیاں تو بہت ہیں مگر ان کافروں نے اگر نہ ماننے پر اور سرکشی کی راہ اختیار کرنے پر ہی کمر باندھ رکھی ہو تو یہ ان باتوں سے کیسے عبرت حاصل کرسکتے ہیں؟ [٢٤] لجَّ بمعنی ضد سے جھگڑنا۔ دشمنی میں مداو مت کرنا اور لُجّۃ بمعنی پانی کی گہرائی۔ پانی کا گہرا حصہ جہاں پانی سب سے زیادہ گہرا ہو۔ گویا اس لفظ کا معنی ضد کی وجہ سے کسی بات پر اڑ جانا بھی ہے اور کسی برے کام میں دور دراز تک چلے جانا بھی ہے۔ الملك
22 [٢٥] یعنی کوئی شخص کامیابی اور مقصد کے حصول کی راہ اسی صورت میں طے کرسکتا ہے جب وہ سیدھے راستے پر چلے اور سیدھا ہو کر چلے۔ اس کے برعکس اگر کوئی شخص کسی ناہموار اور ٹیڑھے میڑھے راستہ پر چلنا شروع کر دے اور وہ بھی منہ کے بل یا چوپایوں کی طرح منہ ڈالے ہوئے تو اس کے منزل مقصود تک پہنچنے کی کیا توقع کی جاسکتی ہے؟ اس آیت میں یہ دراصل ایک موحد اور ایک مشرک کی مثال بیان کی گئی ہے۔ موحد کی راہ سیدھی اور صاف ہوتی ہے اور اس پر چلنے کے لئے اس کے پاس واضح ہدایات اور علم کی روشنی میں موجود ہوتی ہے۔ اس کے برعکس مشرک کی ایک نہیں کئی راہیں ہوتی ہیں اور وہ سب راہیں تاریکی اور ضلالت کی ہی ہوسکتی ہیں۔ پھر اس کے پاس علم کی روشنی کے بجائے محض اوہام و قیاسات ہوتے ہیں۔ محشر میں بھی دونوں کی چال میں ایسا ہی فرق ہوگا۔ الملك
23 [٢٦] آنکھیں، کان اور دل ان میں سے ایک ایک نعمت ایسی ہے جو ہزار نعمتوں کے برابر ہے۔ ان میں سے کوئی بھی چھن جائے تو تمہیں ان کی قدروقیمت کا احساس ہو۔ مگر اللہ تعالیٰ کی ان عظیم نعمتوں کا تم کم ہی شکر ادا کرتے ہو اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے تمہیں آنکھیں، کان اور دل محض اس لیے نہیں دیئے تھے کہ تم ان سے اتنا ہی کام لو۔ جتنا جانور لیتے ہیں۔ بلکہ اس لیے دیئے تھے کہ آنکھوں سے تم اللہ کی آیات کا مشاہدہ کرو، کانوں سے اللہ کی آیات و احکام سنو، پھر دل سے ان میں غور کرو۔ مگر کافروں کا یہ حال ہے کہ ان نعمتوں پر شکر تو کیا کرتے، الٹا ان نعمتوں کو اللہ کی راہ کی مخالفت میں استعمال کر رہے ہیں۔ الملك
24 [٢٧] یعنی اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کرکے ایک جگہ سے تمام روئے زمین پر پھیلا دیا ہے۔ اگر اس میں یہ قدرت ہے تو وہ تمہیں ایک جگہ پر پھر سے اکٹھا بھی کرسکتا ہے۔ اور یہ کام وہ عالم آخرت میں کرے گا۔ الملك
25 [٢٨] کافر جب بھی یہ بات پوچھتے ہیں از راہ تمسخر اور مذاق ہی پوچھتے تھے۔ اور اس سوال سے ان کا اصل مقصد اللہ کی کتاب، اللہ کے رسول اور قیامت سب کی تکذیب ہوتی تھی۔ الملك
26 [٢٩] یعنی یہ مجھے نہیں معلوم کہ قیامت کب آئے گی اور تمہیں اس کی کوئی معین تاریخ معلوم کرنے کی ضرورت بھی نہیں۔ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ تم اپنے انجام سے ڈر جاؤ جو تمہیں قیامت کو پیش آنے والا ہے۔ اور تمہارے اطمینان کے لیے صرف اتنی ہی بات کافی ہے کہ قیامت کا آنا یقینی ہے۔ اور اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے موت کا آنا یقینی ہے۔ لیکن اس کا معین وقت کسی کو معلوم نہیں ہوتا۔ تاہم ہر شخص کو یہ فکر ضرور لاحق ہوتی ہے کہ میں مرنے سے پیشتر فلاں فلاں کام کر جاؤں۔ قیامت کی بھی یہی صورت ہے۔ الملك
27 [٣٠] یعنی اس وقت تو تم قیامت اور بعث بعد الموت کا مذاق اڑاتے اور طنزیں کرتے ہو مگر جب اسے واقع ہوتے دیکھ لو گے تو تمہاری کیفیت وہی ہوگی جو ایک پھانسی کے مجرم کو تختہ دار دیکھنے سے طاری ہوجاتی ہے۔ چہرے کا حلیہ بگڑ جائے گا اور ہوائیاں اڑنے لگیں گی۔ اس وقت فرشتے تمہیں مخاطب کرکے کہیں گے یہ ہے قیامت کا دن جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے کیا اب بھی تمہیں یقین آیا ہے یا نہیں؟ الملك
28 [٣١] کفار مکہ اور دوسرے قبائل اس انتظار میں رہتے تھے کہ اسلام اور مسلمانوں پر کوئی ایسی ناگہانی بلا نازل ہو، جس سے ان کا خاتمہ ہوجائے اور ہماری جان چھوٹے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کی اسی آرزو کا جواب دیا ہے۔ اور فرمایا کہ ان سے کہیے۔ کہ ہمارے حق میں دونوں صورتیں ممکن ہیں ایک یہ کہ تمہاری خواہش کے مطابق ہم پر کوئی بلا نازل ہو جو ہمیں ہلاک کردے۔ اور دوسری یہ کہ اللہ ہم پر رحم فرمائے اور کسی طرح کا ہمیں گزند نہ پہنچے۔ لیکن تم اپنی خیر مناؤ کہ آخرت میں تمہیں یقیناً دردناک عذاب پہنچنے والا ہے۔ اس وقت تمہیں کوئی اس عذاب سے بچا سکتا ہے؟ اور ہماری تو یہ صورت ہے کہ آخرت میں یقیناً ہمیں اللہ سے مغفرت اور جنت کی امید ہے۔ الملك
29 [٣٢] ہماری عاقبت بخیر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہم رحمٰن پر صرف ایمان ہی نہیں لائے بلکہ اپنے تمام تر امور کا انجام اسی کے سپرد کر رکھا ہے اور اسی پر ہی ہمارا بھروسہ ہے پھر وہ آخر کیوں ہمیں اپنی نعمتوں سے سرفراز نہ کرے گا۔ اور تمہیں جلد ہی اس بات کا پتہ چل جائے گا کہ گمراہی کے راستہ پر ہم پڑے ہوئے ہیں یا تم ہو۔ یہاں ''جلد'' سے مراد کافروں پر کوئی دنیوی عذاب بھی ہوسکتا ہے۔ ان کی موت کا وقت بھی اور قیامت کا دن بھی۔ الملك
30 ٣٣] زیر زمین پانی کے ذخیرے :۔ آسمان سے جو بارش برستی ہے اس کا کا ایک حصہ تو ندی، نالوں اور دریاؤں سے ہوتا ہوا سمندر میں جا گرتا ہے۔ اور ایک حصہ زمین میں جذب ہوجاتا ہے پھر کئی مقامات ایسے ہیں جہاں بارشیں بہت زیادہ ہوتی ہیں اور کئی مقامات پر بہت کم۔ علاوہ ازیں اگر زمین نرم ہو تو بہت زیادہ پانی چوس لیتی ہے اور اگر سخت یا پتھریلی ہو تو بہت کم پانی جذب کرتی ہے۔ ان باتوں کا نتیجہ یہ ہے کہ زمین کے نیچے پانی کے ذخیرے بھی موجود ہیں اور نیچے ہی نیچے اس پانی کے دریا بھی بہہ رہے ہیں۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ اگر علاقہ زیادہ بارشوں والا ہو اور زمین نرم ہو تو زمین کھودنے سے بیس پچاس فٹ کی گہرائی پر پانی مل جاتا ہے اور اگر علاقہ کم بارش والا اور زمین پتھریلی ہو تو ممکن ہے سینکڑوں فٹ کی گہرائی پر پانی نہ مل سکے۔ پھر ان زمین دوز پانی کے ذخیروں کے خواص بھی الگ الگ ہوتے ہیں کہیں گدلا، کھاری اور لیسدار پانی برآمد ہوتا ہے اور کہیں ٹھنڈا اور میٹھا پانی۔ بارش نہ ہونے کی صورت میں انسان بسا اوقات اپنی پانی پینے کی ضرورت اور کھیتوں کو آبپاشی کی ضرورت کو انہیں ذخیروں سے پورا کرلیتا ہے۔ نیز پانی کی گہرائی کا انحصار بعض دفعہ زمین میں موجود پتھریلی زمین کے بڑے بڑے قطعوں پر بھی ہوتا ہے اور یہ سب عوامل جن کا اوپر ذکر ہوا ہے صرف اللہ تعالیٰ کے قبضہ ئقدرت میں ہیں وہ خوب جانتا ہے کہ فلاں علاقے کے لوگوں کے لیے پانی کی ضروریات کس قسم کی ہیں۔ اسی بات کو ملحوظ رکھ کر اللہ تعالیٰ ہر مقام پر پانی کی گہرائی کا اہتمام فرماتا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ کافروں اور ناشکروں کے سامنے یہ سوال رکھتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ پانی کے ان ذخیروں کو اتنی گہرائی تک لے جائے جہاں سے پانی نکالنا تمہاری دسترس سے باہر ہو یا ان ذخیروں کو کھاری اور لیسدار بنا دے تو بتاؤ کیا تم ایک دن بھی زندہ رہ سکتے ہو؟ اللہ کے سوا تمہارے پاس کوئی اور ہستی ہے جو تمہیں ٹھنڈا اور میٹھا پانی مہیا کردے؟ واضح رہے کہ لغوی لحاظ سے غور یا غار کا معنی نشیبی زمین کی طرف نیچے اور غار بمعنی کھوہ، معروف لفظ ہے اور غور بمعنی نشیبی زمین بھی اور زیر زمین گہرائی بھی۔ گویا اس میں گہرائی کے ساتھ مکان کا تصور بھی پایا جاتا ہے۔ نیز معین کا ایک معنی تو اوپر مذکور ہوا اس کا دوسرا معنی پانی کا سطح زمین پر نرم رفتار سے بہنا ہے۔ یعنی سیلاب کی طرح تندی اور تیزی سے نہیں بلکہ نرمی اور سہولت سے جاری ہونے والا پانی۔ یعنی جب زمینی گہرائی سے پانی کنوؤں، نلکوں یا مشینوں سے نکالا جاتا ہے اور آبپاشی کے لیے استعمال ہوتا ہے تو اس پانی کی رفتار سیلاب کی طرح تند و تیز نہیں ہوتی بلکہ نرم اور دھیمی ہوتی ہے۔ روایات میں آیا ہے کہ جب کوئی شخص یہ آیت پڑھے تو اسے یوں کہنا چاہیے۔ اللّٰہُ یَاتِیْنَا بِہٖ وَھُوَ رَبُّنَا وَ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ الملك
0 القلم
1 [١] بعض لوگوں کے نزدیک ''ن'' سے مراد دوات ہے اور اس قیاس کی بنیاد یہ ہے کہ قلم اور دوات کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ [٢] اس کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں ایک تو وہی ہے جو درج ذیل حدیث میں مذکور ہے : ولید بن عبادہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا ہے کہ : اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اور اسے کہا ''لکھ'' چنانچہ قلم نے وہ سب کچھ لکھ دیا جو ابد تک ہونے والا تھا۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) اس حدیث کے مطابق لکھنے والی قلم خود ہی ہے۔ یا ممکن ہے کہ اس قلم سے لکھنے والے اللہ کے فرشتے ہوں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ قلم اور ان فرشتوں کی قسم جو لوح محفوظ سے قرآن نقل کرتے ہیں۔ تیسرا مطلب یہ ہے جو نزول قرآن کے بعد ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی قسم جو قرآن کی وحی کو قلم سے لکھتے ہیں اور چوتھا مطلب یہ ہے کہ ان مورخین کی قسم جو قلم کے ساتھ بڑے بڑے مصلحین کی داستان حیات تاریخ کے اوراق میں ثبت کرتے ہیں۔ القلم
2 [٣] قریش کا آپ کو دیوانہ کہنا کن وجوہ کی بنا پر غلط ہے؟ یہ سب صورتیں اس بات پر کھلی کھلی شہادت ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے فضل سے دیوانہ نہیں ہیں اور قریش مکہ جو آپ کو اس لقب سے پکارتے ہیں تو یہ جھوٹے ہیں اور بکواس کرتے ہیں۔ کیونکہ دیوانے کے سامنے اپنی زندگی کا کوئی مقصد متعین نہیں ہوتا۔ جبکہ آپ برملا اللہ کی راہ کی طرف بلاتے ہیں۔ علاوہ ازیں دیوانے کے قول اور فعل میں کبھی مطابقت نہیں پائی جاتی۔ اس لئے کہ اسے اتنا ہوش نہیں ہوتا کہ وہ کہہ کیا چکا ہے اور کر کیا رہا ہے۔ تیسری یہ بات کہ دیوانہ ہمیشہ بے سروپا اور بہکی بہکی باتیں کرتا ہے۔ جبکہ آپ کو یہ لوگ صادق اور امین ہونے کا سرٹیفیکیٹ دے چکے ہیں۔ لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کے الزام کو درست سمجھا جائے۔ وہ تو محض بغض و عناد اور اپنی حسرت مٹانے کے لیے آپ کو دیوانہ کہہ دیتے ہیں۔ القلم
3 [٤] یعنی اگر یہ لوگ آپ کو دیوانہ کہتے ہیں تو اس سے آپ غمگین اور ملول نہ ہوں۔ اللہ اس کے عوض آپ کو اتنا اجر عطا فرماوے گا جو لامتناہی، غیر محدود اور غیر منقطع ہے اور اس کے تسلسل میں کبھی فرق نہ آئے گا۔ اس اجر سے مراد دنیا کی زندگی میں بھی ایسا اجر ہوسکتا ہے جو فی الواقع آپ کو عطا کردیا گیا تھا اور اخروی اجر تو بہرحال یقینی ہے۔ غور فرمائیے کہ کسی دیوانے یا پاگل کا مستقبل بھی ایسا شاندار ہوسکتا ہے۔ پھر جس کا رتبہ اللہ کے ہاں اتنا بڑا ہو اسے چند احمقوں کے دیوانہ کہنے کی پروا نہ کرنا چاہیے۔ القلم
4 [٥] آپ کا خلق عظیم :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی بلندی یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم طعن و تشنیع کرنے والوں، تمسخر اڑانے والوں، ایذا پہنچانے والوں حتیٰ کہ پتھر مارنے والوں کے حق میں دعائے خیر ہی کرتے رہے۔ پھر ایسے ہی لوگوں کی ہدایت پر آپ اتنے حریص واقع ہوئے تھے کہ اپنی جان تک اس کام میں ہلکان کر رہے تھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی سے اپنی ذات کی خاطر انتقام نہیں لیا۔ پھر جب مکہ فتح ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب جانی دشمن آپ کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں وہ بھی جنہوں نے آپ کو گھر بار چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا اور آپ کی جان کی قیمت لگا دی تھی، پھر کئی بار چڑھ کر مدینہ آتے رہے تاکہ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کردیں۔ اور اس وقت آپ ان سے بدلہ لینے کی قدرت و قوت بھی رکھتے تھے۔ لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ دشمن آپ کو ملتجیانہ نظروں سے دیکھنے لگے تو آپ نے ایک ہی جملہ لاَ تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ۔ اذْھَبُوْا أنْتُمُ الطُّلَقَاء کہہ کر سب کو معاف فرما دیا۔ یعنی آج تم پر کوئی مؤاخذہ نہیں۔ جاؤ تم سب کے سب آزاد ہو۔ یہ بلند اخلاقی تو آپ کی دشمنوں کے ساتھ تھی۔ آپ کا عام اخلاق یہ تھا کہ ایک بڑھیا آپ کی راہ روک کر آپ کو اپنی بات سنا لیتی تھی اور آپ برا نہ مانتے تھے۔ اس طرح آپ کے صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق کے بے شمار پہلو ہیں۔ جن سے کتب احادیث بھری پڑی ہیں۔ یہاں ان کا ذکر ناممکن ہے۔ چنانچہ ایک دفعہ کسی نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق کیا تھا ؟ تو آپ نے نہایت مختصر اور جامع جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ سارا قرآن ہی آپ کا اخلاق تھا۔ القلم
5 القلم
6 [٦] یعنی یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کا نتیجہ جلد از جلد سامنے نہ آئے۔ ایک شخص جو حکم دیتا ہے وہ نیکی اور بھلائی پر مبنی ہوتا ہے پھر وہ خود سب سے پہلے اس حکم پر عمل کرکے دکھاتا ہے۔ ہر برے کام سے اسے طبعاً نفرت ہے۔ وہ انتقام کی صورت میں بھی کوئی بری بات اپنانے کو تیار نہیں۔ فیاضی اور سماحت اس کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اس کے مقابلہ میں جو لوگ ہیں انہیں طعن و تشنیع، ایذارسانی اور انتقامی کارروائیوں کے سوا کچھ سوجھتا ہی نہیں، جو بات وہ سوچتے ہیں بغض و عناد اور دوسروں کی جڑ کاٹ دینے کے لیے سوچتے ہیں۔ لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ جلد از جلد ان دونوں کا انجام ایک دوسرے کے سامنے نہ آجائے۔ اس وقت ہر ایک کو معلوم ہوجائے گا کہ دیوانگی اور پاگل پن کی حرکتیں کون کر رہا تھا ؟ القلم
7 القلم
8 القلم
9 [٧] کافروں کی حق وباطل میں سمجھوتہ کی کوشش :۔ کافروں کا مطالبہ یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے بتوں کو برا کہنا چھوڑ دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم معاذ اللہ ان کے بتوں کو کوئی گالیاں تو نہیں دیتے تھے بلکہ صرف یہ کہتے تھے کہ یہ بت نہ کسی کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ سنوار سکتے ہیں۔ ان کے تصرف و اختیار میں کچھ بھی نہیں۔ پھر چونکہ مدتوں سے ان کافروں میں اعتقاد چلا آرہا تھا۔ کہ ہمارے یہ معبود ہمارا بگاڑ بھی سکتے ہیں اور سنوار بھی سکتے ہیں۔ لہٰذا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تعلیم کو اپنی بھی توہین سمجھتے تھے اپنے آباؤ اجداد کی بھی اور اپنے ان بتوں کی بھی۔ ان کا مطالبہ صرف یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے معبودوں کو کچھ نہ کہیں۔ ان کی شان میں کوئی توہین یا گستاخی کی بات نہ کریں۔ ہم آپ کے معبود کے حق میں کوئی ایسی بات نہ کریں گے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حق و باطل میں کبھی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ پھر اگر آپ بفرض محال ان کی کوئی بات تسلیم کر بھی لیں تو بھی ایسے سمجھوتہ اور ایسی مصالحت کا کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ کیونکہ یہ جھوٹے لوگ ہیں۔ اپنی کسی بات پر قائم رہنے والے نہیں۔ ان کا اصل مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانا ہے۔ القلم
10 [٨] زیادہ قسمیں کھانے والا انسان ذلیل ہوتا ہے :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک مسلمہ اصول بیان فرمایا کہ جو شخص بات بات پر قسمیں کھاتا ہے۔ یا اسے قسمیں اٹھانے کی ضرورت پیش آتی ہے تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اسے اپنی کسی بات پر نہ خود اعتماد ہوتا ہے اور نہ دوسروں کو اعتماد ہوتا ہے۔ وہ اپنی نظروں میں بھی ذلیل اور دوسروں کی نظروں میں بھی ذلیل ہوتا ہے۔ لہٰذا ایسے شخص کی بات ماننے کا کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ القلم
11 [٩] آیت نمبر ١٠ سے ١٣ تک چار آیات میں کافروں کے ایک رئیس کی اخلاقی حالت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں پیش کیا گیا ہے اور اس کا نام لینے کی ضرورت اس لئے پیش نہیں آئی کہ ان صفات والا کردار صرف ایک ہی تھا۔ اور اس کی یہ صفات پڑھ کر ہر ایک کو معلوم ہوجاتا تھا کہ ان آیات کا روئے سخن کس طرف ہے اور یہ قرآن کی انتہائی حکمت کی دلیل ہے کہ کسی برے شخص کا نام لیے بغیر محض صفات سے ہی اس کی نشاندہی کردی جائے اور ہر ایک کو معلوم ہوجائے کہ جس شخص میں یہ اور یہ صفات پائی جاتی ہوں وہ ایسے اخلاق کا مالک ہوتا ہے۔ القلم
12 [١٠] خیر کے معنی مال و دولت بھی ہے اور ہر بھلائی کا کام بھی۔ پہلی صورت میں معنی یہ ہوتا کہ وہ خود بھی کنجوس اور بخیل ہے اور دوسروں کو بھی ایسا ہی سبق دیتا ہے اور دوسرے معنی کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ ہر بھلائی کے کام سے خود بھی رکتا ہے دوسروں کو بھی روکتا رہتا ہے۔ القلم
13 [١١] زنیم کا معنی ایسا شخص ہے جس کا نسب مشکوک ہو وہ خود کو کسی دوسرے قبیلے سے ملا رہا ہو، اسی لحاظ سے اس لفظ کا معنی بدذات بھی کیا جاتا ہے۔ بدنام بھی اور ولدالزنا بھی۔ عام مفسرین کا خیال ہے کہ یہ شخص ولید بن مغیرہ تھا۔ جو ابو جہل سے پہلے قریش مکہ کا رئیس تھا اور اس کے نسب کا اٹھارہ سال بعد پتہ چلا تھا۔ واللہ اعلم بالصواب القلم
14 [١٢] یعنی ان تمام تر قباحتوں کے باوجود کیا صرف اس لئے اس کی بات مان لی جائے کہ وہ خاصا مال دار اور صاحب اولاد ہے۔ صاحب مال اور اولاد ہونا کوئی ایسی صفات نہیں کہ ایسے شخص کی اطاعت کی جائے۔ القلم
15 القلم
16 [١٣] ممکن ہے کہ اس کی ناک بڑی اور لمبوتری ہوتاہم عمومی محاورہ یہ ہے کہ جو لوگ صاحب مال اور اولاد ہوں ان کی ناک بھی بڑی ہوتی ہے اور یہ لوگ اپنی ناک کی خاطر کئی ایسے جتن کرتے رہتے ہیں کہ ان کی ناک کو کوئی آنچ نہ پہنچے۔ اس آیت میں بتایا گیا کہ ہم اس شخص کی اس بڑی ناک کو پوری طرح ذلیل کرکے چھوڑیں گے۔ القلم
17 [١٤] یعنی ان قریش مکہ کو بھی اسی طرح آزمائش میں ڈال رکھا ہے جیسے ہم نے باغ والوں کو آزمائش میں ڈالا تھا۔ القلم
18 [١٥] باغ والوں کا قصہ :۔ یہ واقعہ آیت نمبر ١٧ سے آیت نمبر ٣٣ تک پھیلا ہوا ہے۔ جسے ہم تسلسل کے ساتھ اپنے الفاظ میں بیان کریں گے کسی شخص کا ایک باغ تھا جو بھرپور فصل دیتا تھا۔ اس شخص کا زندگی بھر یہ دستور رہاکہ جب بھی پھل کی فصل اٹھاتا تو اس کے تین حصے کرتا۔ ایک حصہ تو خود اپنے گھر کی ضروریات کے لیے رکھ لیتا۔ دوسرا حصہ اپنے قریبی رشتہ داروں اور ہمسایوں میں تقسیم کردیتا اور تیسرا حصہ فقراء و مساکین میں بانٹ دیتا۔ اس کی اس سخاوت کی وجہ سے اس کا باغ سب سے زیادہ فصل دیتا۔ کٹائی کے دن فقراء و مساکین موقع پر پہنچ جاتے اور اپنا اپنا حصہ وصول کرلیتے۔ جب یہ شخص انتقال کر گیا تو اس کے بیٹوں کو خیال آیا کہ ہمارا باپ تو ساری عمر اس باغ کی فصل کو ادھر ادھر تقسیم کرکے اپنی کمائی یوں ہی لٹاتا رہا اور زندگی بھر مفلس ہی رہا۔ اب کے یہ ریت ختم کردینا چاہیے۔ باغ ہمارا ہے اور اس پر ہمارا ہی حق ہے چنانچہ انہوں نے آپس میں یہ طے کرلیا کہ جب کٹائی کا موقع آئے تو راتوں رات ہی کرلی جائے۔ تاکہ نہ غریب مسکین آئیں، نہ ہمیں تنگ کریں اور نہ ہم برے بنیں۔ انہوں نے اس بات پر قسمیں کھائیں کہ ایسا ہی کریں گے اور انہیں اپنی اسکیم پر اس قدر وثوق تھا کہ انہوں نے انشاء اللہ کہنے کی بھی ضرورت نہ سمجھی۔ جب کٹائی کا وقت آگیا تو وہ راتوں رات، خوشی خوشی، اچھلتے کودتے اپنے باغ کی طرف روانہ ہوئے ادھر اللہ کا کرنا یوں ہوا کہ اسی رات سخت آندھی کا طوفان آیا۔ جس میں آگ تھی۔ آندھی کے ذریعہ وہ آگ باغ کے درختوں تک پہنچ گئی اور تھوڑے ہی عرصہ میں انہیں جلا کر راکھ کرگئی۔ آن کی آن میں سارا باغ جل کر راکھ کا ڈھیر بن گیا۔ جب یہ عقل مند بیٹے وہاں پہنچے تو وہاں نقشہ ہی بدلا ہوا تھا۔ انہیں وہاں باغ نام کی کوئی چیز نظر نہ آئی۔ سوچنے لگے کہ ہم شائد رات کے اندھیرے میں کسی غلط جگہ پر پہنچ گئے۔ پھر جب کچھ حواس درست ہوئے تو حقیقت ان پر آشکار ہوگئی کہ ان کی نیت کا فتور آندھی کا عذاب بن کر ان کے باغ کو بھسم کر گیا ہے۔ اب وہ ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے۔ ان کے منجھلے بھائی نے کہا کیا میں نے تمہیں کہا نہ تھا کہ اللہ کی تسبیح بیان کرو۔ اسے ہر وقت یاد رکھو اور اسی سے خیر مانگو۔ مگر ان بھائیوں میں سے کسی نے بھی منجھلے بھائی کی طرف توجہ نہ دی تو ناچار اسے بھی ان کا ساتھ دینا پڑا۔ اور وہ ملامت بھی اس طرح کرتے تھے کہ ایک دوسرے کو کہتا کہ تم ہی نے یہ ترغیب دی تھی دوسرا کہتا کہ یہ مشورہ تو تمہارا تھا مگر اب پچھتانے سے کچھ بن نہ سکتا تھا۔ جو کچھ ہونا تھا وہ ہوچکا تھا۔ باپ کو اس کی سخاوت اور دوسروں سے ہمدردی کا یہ صلہ ملتا رہا کہ اسی کا باغ سب سے زیادہ پھل لاتا تھا اور جتنا کچھ وہ دوسروں پر خرچ کرتا۔ اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ اسے مہیا فرماتا۔ مگر جب بیٹوں پر بخل اور حرص غالب آئی تو اس کا ثمرہ یوں ملا کہ نیت کے فتور نے مجسم طوفان کا روپ دھار کر سارا باغ ملیا میٹ کردیا۔ اس وقت نہ زمین کی زرخیزی کام آئی، نہ ان کی کوئی تدبیر، اس واقعہ سے یہ بات از خود واضح ہوجاتی ہے کہ دوسروں سے ہمدردی اور اچھے سلوک کی بنا پر اگر اللہ تعالیٰ نادیدنی وسائل کے ذریعہ رزق فراہم کرسکتا ہے تو نیت میں فتور آنے پر ایسے ہی نادیدنی وسائل سے دیئے ہوئے رزق کو چھین بھی سکتا ہے۔ آخر سب مل کر کہنے لگے کہ واقعی ہماری سب کی زیادتی تھی کہ ہم نے فقیروں اور محتاجوں کا حق مارنا چاہا اور حرص و طمع میں آکر اصل بھی کھو بیٹھے۔ یہ جو کچھ خرابی آئی اس میں ہم ہی قصور وار ہیں۔ مگر اب بھی ہم اپنے پروردگار سے ناامید نہیں کیا عجیب ہے کہ وہ اپنی رحمت سے پہلے باغ سے بہتر باغ ہم کو عطا کردے۔ القلم
19 القلم
20 القلم
21 القلم
22 القلم
23 القلم
24 القلم
25 القلم
26 القلم
27 القلم
28 القلم
29 القلم
30 القلم
31 القلم
32 القلم
33 [١٦] یعنی یہ عذاب تو باغ والوں کو اس دنیا میں ملا۔ اور جو آخرت میں اس طرح کے بخل سے عذاب ہوگا وہ اس سے بہت بڑا ہوگا۔ القلم
34 القلم
35 [١٧] خوشحال لوگوں کی ایک عام غلط فہمی :۔ قریشی سردار یہ سمجھتے تھے کہ انہیں جو آسودگی اور خوشحالی حاصل ہے تو یہ ان کے مشرکانہ مذہب کی سچائی پر دلیل ہے۔ پھر یہ معاملہ اتنا ہی نہ تھا بلکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر موت کے بعد ہمیں اٹھایا بھی گیا اور دوسری زندگی حاصل ہوئی تو اللہ وہاں بھی ہم پر مہربانیاں کرے گا۔ جو پروردگار ہم پر آج مہربان ہے کیا وجہ ہے کہ وہ اس اخروی زندگی میں ہم پر مہربان نہ ہو۔ اس آیت میں ان کے اسی قول کا جواب دیا جارہا ہے کہ یہ کیسی خلاف عقل بات ہے کہ اللہ قیامت کے دن اپنے فرمانبرداروں اور اپنے باغیوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرے؟ القلم
36 القلم
37 [١٨] غلط فہمی کی تین طرح سے تردید :۔ آیت نمبر ٣٧ تا ٤١ میں تین مختلف صورتیں بیان کی گئی ہیں۔ جو ان کے اس باطل نظریہ کی تردید میں نقلی دلائل کی حیثیت رکھتی ہیں اور وہ یہ ہیں : ١۔ کیا کسی الہامی کتاب میں یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ آخرت میں بھی تمہیں آسودگی اور خوشحالی کی زندگی میسر ہوگی جیسا کہ تمہاری یہ خواہش ہے۔ ٢۔ یا تم نے ہم سے کچھ ایسے حلف نامے لے رکھے ہیں کہ تمہیں قیامت کے دن وہی کچھ ملے گا جو تم چاہتے ہو اور اپنے حق میں ایسا ہی فیصلہ چاہتے ہو۔ اگر ایسی بات ہے تو بتاؤ کہ ان حلف ناموں کو ہم سے پورا کراکے دینے کے لیے تم سے کون ذمہ دار اور ضامن ہے ؟ ٣۔ تیسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ ان کے کچھ معبود اللہ کے کارناموں میں اس کے شریک ہیں۔ اگر ایسی بات ہے تو شریکوں کی بھی کائنات میں شراکت اور امور کائنات میں ان کے تصرف کو ثابت کرکے دکھائیں۔ پھر جب ان میں سے کوئی بات بھی نہیں ہے تو پھر آخر یہ کس برتے پر آس لگائے بیٹھے ہیں کہ انہیں اخروی زندگی میں آسودگی اور خوشحالی میسر ہوگی۔ القلم
38 القلم
39 القلم
40 القلم
41 القلم
42 [١٩] اللہ کی پنڈلی کا ذکر :۔ آیت نمبر ٤٢ اور ٤٣ کی تفسیر کے لئے درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے : سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’قیامت کے دن پروردگار اپنی پنڈلی کھولے گا تو ہر مومن مرد اور مومن عورت سجدہ میں گر پڑیں گے۔ صرف وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جو لوگوں کو دکھلانے یا سنانے کے لئے سجدہ کیا کرتے تھے۔ وہ سجدہ تو کرنا چاہیں گے لیکن ان کی پشت اکڑ کر ایک تختہ کی طرح ہوجائے گی‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) بعض علماء نے﴿یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ ﴾ کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ : ’’جس دن حقائق سے پردہ اٹھا دیا جائے گا‘‘ اگر یہ اہل عرب کا محاورہ ہو تب بھی ہم ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں ایسے محاورہ کو ترجیح نہیں دے سکتے۔ رہی یہ بات کہ اللہ تعالیٰ کی پنڈلی کیسی ہے کیا یہ انسانوں کی پنڈلی کی طرح ہے یا اس کی کوئی اور صورت ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم یہ بات نہ جان سکتے ہیں اور نہ جاننے کے مکلف ہیں۔ ہمارا کام یہ ہے کہ اگر اللہ نے اپنی پنڈلی کا ذکر کیا ہے تو ہم اتنی ہی بات مانتے ہیں، اس کے آگے کچھ نہیں۔ القلم
43 القلم
44 [٢٠] ﴿سَنَسْـتَدْرِجُہُمْ ﴾استدراج کے لغوی معنی میں دو باتیں بنیادی طور پر پائی جاتی ہیں۔ ایک تدریج، دوسرے آہستگی، یعنی یہ قریشی سردار جو اللہ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں۔ پھر وہ یہ بھی سمجھے بیٹھے ہیں کہ چونکہ وہ خوشحال اور آسودہ ہیں۔ لہٰذا ان کا پروردگار ان پر مہربان ہے۔ حالانکہ اللہ انہیں آہستہ آہستہ ہلاکت اور تباہی کی طرف لیے جارہا ہے۔ اور جن چیزوں کو وہ اللہ کے انعامات سمجھ رہے ہیں وہ دراصل ان کی ہلاکت کا سامان ہے۔ القلم
45 [٢١] کید کاد بمعنی کسی کام کو سرانجام دینے کے لئے خفیہ تدبیر کرنا۔ داؤ یا چال چلنا اور کَیْدَ سَاحِرٍ کے معنی جادوگر کے ہتھکنڈے۔ ایسی تدبیر کا مقصد اگر درست اور نیک ہو تو یہ جائز ہے اور اگر برا ہو تو یہ مذموم ہے۔ رہی یہ بات کہ اللہ کی وہ تدبیر کیا تھی جس کا ان کے پاس کوئی توڑ نہیں تھا۔ یہ تدبیر وہی استدراج ہے جس کا ذکر اس سے پہلی آیت میں گزر چکا ہے یعنی ہم انہیں مہلت بھی دیئے جاتے ہیں۔ اور نعمتیں بھی۔ جوں جوں وہ اللہ کی آیات کا تمسخر اڑاتے ہیں۔ بجائے عذاب کے ہم ان پر نعمتیں برساتے جارہے ہیں۔ اور انہیں یہ محسوس تک نہیں ہو رہا کہ وہ اپنی ہلاکت کے کون سے مقام تک پہنچ چکے ہیں۔ ان کے گناہوں کا پیمانہ لبریز ہوتے ہی ہم انہیں دھر لیں گے۔ القلم
46 [٢٢] آپ تو سب لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دیتے اور اس کا پیغام پہنچاتے ہیں اور جو کچھ کر رہے ہیں بے لوث اور بے غرض ہو کر کر رہے ہیں۔ اب اگر یہ قریشی سردار اس دعوت کو قبول کرتے ہیں تو کریں، نہیں کرتے تو نہ کریں، پھر اگر دوسرے لوگ اس دعوت کو قبول کرتے ہیں تو یہ کیوں سیخ پا ہوجاتے ہیں؟ القلم
47 [٢٣] یعنی انہوں نے غیب کے پردہ کو ہٹا کر دیکھ لیا ہے کہ یہ اللہ کا بھیجا ہوا رسول نہیں ہے۔ یا ان کی طرف اللہ کے ہاں سے وحی آتی ہے کہ جو کچھ ان کا دین ہے وہی درست اور برحق ہے۔ آخر ان کی اس شدید مخالفت کی کوئی تو معقول وجہ ہونی چاہئے۔ القلم
48 [٢٤] یعنی جس طرح سیدنا یونس علیہ السلام نے اپنی قوم کی مخالفت سے تنگ آکر بے صبری کا مظاہرہ کیا تھا۔ انہیں وحی الٰہی کا انتظار کیے بغیر خود ہی عذاب کی دھمکی دے دی تھی اور پھر وہاں سے چل دیئے تھے۔ آپ کو ایسا نہ کرنا چاہیے بلکہ قوم کی ایذاؤں، مذاق و تمسخر اور مخالفت کو صبر کے ساتھ برداشت کیجئے۔ اور اس وقت تک صبر کیجئے جب تک کہ آپ کو یہاں سے ہجرت کا حکم نہ مل جائے۔ [٢٥] سیدنا یونس کو کون کون سی پریشانیاں لاحق تھیں جن سے وہ گلے تک بھرے ہوئے تھے :۔ مَکْظُوْمٍ۔ کظم سانس کی نالی کو کہتے ہیں اور کظم السقاء بمعنی مشک کو پانی سے لبالب بھر کر اس کا منہ بند کردینا۔ اور کظیم اور مکظوم اس شخص کو کہتے ہیں جو غم یا غصہ سے سانس کی نالی تک بھرا ہوا ہو مگر اس کا اظہار نہ کرے اور اسے دبا جائے۔ مچھلی کے پیٹ میں وظیفہ :۔ اس آیت میں سیدنا یونس علیہ السلام کی وہ کیفیت بیان کی گئی ہے جب وہ مچھلی کے پیٹ میں چلے گئے تھے۔ اس وقت آپ کئی قسم کے غموں کا مجموعہ بنے ہوئے تھے۔ مثلاً قوم کے ایمان نہ لانے کا غم۔ آپ کے بتاتے ہوئے وعدہ عذاب پر عذاب نہ آنے کا غم، اللہ تعالیٰ کے واضح حکم کے بغیر قوم کو چھوڑ کر چلے آنے کا غم، پھر مچھلی کے پیٹ میں چلے جانے کا غم، ان تمام پریشانیوں اور غموں سے نجات کی واحد صورت آپ کو یہی نظر آئی کہ اللہ کی تسبیح و تہلیل کریں اور اپنے گناہوں کی اللہ سے معافی طلب کریں۔ چنانچہ آپ جب تک مچھلی کے پیٹ میں رہے ﴿لَّآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ﴾پڑھتے رہے۔ تاآنکہ اللہ نے آپ کو اس مصیبت سے نجات دے دی۔ القلم
49 [٢٦] مچھلی نے آپ کو اپنی غذا نہیں بنایا۔ بلکہ بالکل صحیح وسالم برلب ساحل ایک چٹیل میدان میں اگل دیا۔ یہ نتیجہ تھا آپ کی اس دعا کا جو وہ مچھلی کے پیٹ میں کرتے رہے۔ گویا آپ کی وہ دعا مستجاب ہوگئی اور آپ کو دوبارہ زندگی مل گئی۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے اسباب بھی مہیا فرما دیئے کہ چند ہی دنوں میں آپ کی کمزوری دور ہوگئی اور صحت بحال ہوگئی۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی مزید مہربانی اور اس کا فضل تھا۔ القلم
50 [٢٧] یعنی ان کی نبوت کو بھی بحال کردیا گیا اور انہیں اسی قوم کی طرف دوبارہ بھیجا گیا جہاں سے وہ بھاگ کر چلے گئے تھے۔ آپ کا قصہ پہلے سورۃ یونس کی آیت نمبر ٩٨، سورۃ انبیاء کی آیت نمبر ٨٧، ٨٨ اور سورۃ صافات کی آیت نمبر ١٤٣ کے تحت گزر چکا ہے۔ وہ حواشی ملاحظہ کرلیے جائیں۔ القلم
51 [٢٨] یعنی جب آپ لوگوں کو قرآن پڑھ کر سناتے ہیں تو وہ آپ کو یوں گھورنے لگتے ہیں اور آپ پر اپنی نظریں گاڑ کر ایسا مقناطیسی اثر ڈالنا چاہتے ہیں۔ جس سے آپ مرعوب ہو کر یہ کام چھوڑ دیں۔ پھر بڑی حقارت کے ساتھ دوسروں کو بتاتے ہیں کہ یہ تو دیوانہ آدمی ہے۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیوانہ اس لیے کہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عقل اور ان کے عقیدہ کے خلاف باتیں کرتے تھے۔ پھر صرف آپ کی قوم نے ہی آپ کو مجنون نہیں کہا بلکہ ہر رسول کو دیوانہ کہا جاتا رہا ہے۔ اور یہ دراصل قوم کے اپنے رسولوں کے خلاف معاندانہ رویہ کے اظہار کی وجہ سے ہوتا ہے۔ کیونکہ ایک نبی اور ایک مجنون میں بنیادی فرق یہ ہے کہ نبی کی دعوت گو معاشرہ کی عقل اور دستور کے خلاف ہوتی ہے۔ تاہم وہ ہمیشہ اپنی ذات پر قائم رہتا، اس پر عمل کرکے دکھاتا اور اپنی پاکیزہ سیرت و کردار سے اپنی بات پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔ جبکہ مجنون ان تینوں باتوں سے عاری ہوتا ہے۔ القلم
52 [٢٩] یعنی جو قرآن تم انہیں پڑھ کر سنا رہے ہو نہ اس میں کوئی دیوانگی کی بات ہے اور نہ آپ میں ہے۔ بلکہ یہ کتاب تو تمام اہل عالم کی ہدایت کے لیے نازل کی جارہی ہے۔ اس سے بنی نوع انسان کی کایا پلٹ اصلاح ہوگی۔ عنقریب یہ کتاب معاشرہ میں انقلاب بپا کردے گی۔ اس وقت سب کو معلوم ہوجائے گا کہ اصل دیوانے کون تھے؟ القلم
0 الحاقة
1 الحاقة
2 الحاقة
3 [١] انداز کلام کو اس قدر موکد اس لیے بنایا گیا ہے کہ قرآن کے مخاطب قریشی لوگ قیامت کے کٹر منکر تھے۔ اور اس میں بتایا یہ گیا ہے کہ آپ بھی بس اتنا ہی جان سکتے ہیں۔ کہ قیامت یقیناً آنے والی ہے۔ یہ نہیں جان سکتے کہ کب آئے گی یا اس وقت کیا کیفیت ہوگی۔ چنانچہ اسی سورۃ میں قیامت کی بعض کیفیات بیان کردی گئی ہیں۔ الحاقة
4 [٢] قَارِعۃٌ: قَرَعَ بمعنی ایک چیز کو دوسری پر اس طرح مارنا کہ اس سے آواز پیدا ہو۔ اور قرع الباب بمعنی اس نے دروازہ کھٹکھٹایا اور قارِعَۃٌ کے معنی کھڑکھڑانے والی، اور ابن الفارس کے نزدیک قارِعَۃٌ ہر وہ چیز ہے جو انسان پر شدت کے ساتھ نازل ہو۔ نیز قارِعَۃٌ قیامت کا صفاتی نام ہے۔ یعنی اس دن کائنات کی چیزیں ایک دوسرے سے ٹکرا ٹکرا کر کئی طرح کی آوازیں پیدا کریں گی۔ [٣] یعنی قیامت یا آخرت کا معاملہ اتنا ہی نہیں کہ کوئی مانتا ہے تو مان لے نہیں مانتا تو نہ مانے۔ قیامت آئے گی تو پتہ چل جائے گا کہ آتی ہے یا نہیں آتی۔ بلکہ اس کا فوری اثر اس دنیا میں ہی ظاہر ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے اعمال کی جوابدہی کا تصور ہی ایسا موثر ذریعہ ہے کہ جو انسان کو، افراد کو اور اقوام کو اخلاقی پستیوں میں گرنے سے بچا سکتا ہے۔ جن قوموں نے بھی آخرت کا انکار کیا' ان کے اخلاق بگڑ گئے وہ ظلم و جور میں مبتلا ہوگئیں۔ بالآخر اللہ کا عذاب آیا جس نے انہیں نیست و نابود کردیا۔ الحاقة
5 [٤] قوم ثمود پر کس قسم کا عذاب آیا تھا ؟ ثمود کو کون سے عذاب سے ہلاک کیا گیا تھا ؟ اس کے لیے مختلف مقامات پر مختلف الفاظ آئے ہیں۔ سورۃ اعراف آیت ٨٧ میں اس کو الرَّجْفَۃُ (زبردست زلزلہ) کہا گیا ہے۔ سورۃ ہود کی آیت نمبر ٦٧ میں الصَّیْحَۃُ (زبردست دھماکہ یا ہیبت ناک چیخ) کا لفظ آیا ہے اور سورۃ حم السجدہ کی آیت نمبر ١٧ میں ﴿صَاعِقَۃُ الْعَذَابِ﴾ (یعنی گرنے والی بجلی کا عذاب) کا لفظ آیا ہے اور یہاں الطَّاغِیَۃَ کا لفظ آیا ہے۔ جس سے عذاب میں سخت سرکشی کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ یہ ایک ہی واقعہ کی مختلف کیفیتوں کا بیان ہے۔ اور وہ عذاب یہ تھا کہ ارضی اور سماوی دونوں قسم کے عذاب قوم ثمود پر یک دم آتے تھے۔ الحاقة
6 [٥] عاتیۃٍ قوم عاد پر جو عقاب آیا وہ سخت آندھی کا عذاب تھا۔ ہوا نہایت سرد اور یخ بستہ تھی اور یہ ہوا اتنی سرکش تھی جس پر کسی مخلوق کا زورنہ چلتا تھا حتی کہ فرشتے جو ہوا کے انتظام پر مامور ہیں ان کے ہاتھوں سے نکلی جاتی تھی۔ الحاقة
7 [٦] یہ لوگ بڑے مضبوط جسم والے، طاقتور اور طویل القامت تھے۔ جب ان کو ہود علیہ السلام نے اللہ کے عذاب سے ڈرایا تو کہنے لگے : (مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّۃً )(ہم سے زیادہ طاقتور کون ہے؟) لیکن جب ہم نے ان پر ہوا کو چھوڑ دیا تو یہ لوگ اس کا بھی مقابلہ نہ کرسکے۔ تندو تیز ہوا نے ان کو یوں چاروں شانے چت گرا دیا کہ طویل القامت ہونے کی وجہ سے ان کے سر گرتے ہی تن سے جدا ہوجاتے تھے۔ اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ کھجوروں کے بے جان اور کھوکھلے تنے پڑے ہوئے ہیں۔ الحاقة
8 الحاقة
9 [٧] قوم عاد نے تو یہ نعرہ لگایا تھا کہ مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّۃً اور فرعون وہ تھا جس نے﴿ اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی ﴾کا نعرہ لگایا تھا۔ فرعون اور آل فرعون کو اللہ نے سمندر میں ڈبو دیا تو اس وقت اسے معلوم ہوگیا تھا کہ وہ اپنے خدائی کے دعوے میں کس حد تک سچا تھا اور آج کس قدر مجبور ہے۔ فرعون کی قوم کے علاوہ بھی کئی قوموں نے آخرت کے عقیدہ سے انکا رکیا۔ پھر سرکشی کی راہ اختیار کی تو نتیجتاً انہیں بھی تباہ و برباد کردیا گیا۔ ان سب قوموں میں سے کوئی ایک شخص بھی زندہ نہ بچا۔ سب کے سب ہلاک کردیئے گئے۔ اور ان سب کا سب سے بڑا گناہ جو ان میں قدر مشترک کے طور پر پایا جاتا تھا، یہ تھا کہ انہوں نے سرے سے رسولوں کو اور اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا تھا۔ الحاقة
10 الحاقة
11 [٨] اس آیت میں طوفان سے مراد طوفان نوح ہے۔ اور ''تمہیں'' سے مراد وہ تمام بنی نوع انسان ہیں۔ جو دنیا میں اس وقت آباد تھے اور یہ ان لوگوں کی ہی اولاد ہیں جنہیں طوفان نوح کے وقت کشتی میں سوار کرلیا گیا تھا۔ الحاقة
12 [٩] طوفان نوح اور کشتی :۔ یعنی طوفان کا یہ حال تھا کہ پانی کی اتنی کثیر مقدار جمع ہوگئی تھی کہ پہاڑ تک اس طوفان میں ڈوب گئے تھے۔ اتنے مہیب طوفان کے مقابلہ میں ایک کشتی کی بھلا حقیقت ہی کیا تھی جو اس طوفان کے تھپیڑوں کا مقابلہ کرسکتی۔ خصوصاً جب کہ اس میں سوار لوگوں کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ ان کی منزل مقصود کس سمت کو ہے؟ ظاہری اسباب پر انحصار کیا جائے تو ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ نہ اس کشتی کے بچنے کی کوئی صورت تھی اور نہ اس میں سوار انسانوں کی۔ یہ ہماری قدرت اور ہمارا احسان ہی تھا کہ اس کشتی کے ذریعہ ہم نے اپنے فرمانبرداروں کو بچا لیا اور لوگوں کو اپنی قدرت و حکمت کا ایسا کرشمہ دکھا دیا کہ رہتی دنیا تک لوگ اس واقعہ کو یاد رکھیں۔ [١٠] یعنی وہ لوگ جو کوئی بات سن کر سنی ان سنی نہیں کردیتے۔ بلکہ اس میں غور کرتے، اس سے عبرت حاصل کرتے، پھر اسے یاد بھی رکھتے ہیں۔ الحاقة
13 الحاقة
14 [١١] آغاز قیامت کے حوادث :۔ یہاں سے اب قیامت کی ان چند کیفیات کا ذکر شروع ہو رہا ہے، جن کا اس سورۃ کی آیت نمبر ٣ میں اشارہ کیا گیا تھا۔ یعنی قیامت کا آغاز نفخہ صور اول سے ہوگا۔ اس نفخہ کا فوری اثر یہ ہوگا کہ سب جاندار مخلوق پر موت طاری ہوجائے گی۔ نظام کائنات درہم برہم ہوجائے گا۔ زمین میں پھنسائے ہوئے لمبے چوڑے پہاڑوں کے سلسلے نفخہ صور کی دہشت سے اس طرح ہوجائیں گے جیسے انہیں کوٹ کوٹ کر ریزہ ریزہ بنا دیا گیا ہو۔ الحاقة
15 [١٢] یہی قیامت کا دن ہوگا پھر اس کے اثرات زمین تک ہی محدود نہیں رہیں گے بلکہ آسمان بھی ایک بوسیدہ کپڑے کی طرح پھٹنا شروع ہوجائے گا اس میں کئی شگاف اور دراڑیں پڑجائیں گی اور فرشتے جو آسمانوں کے درمیان تدبیر امور پر مامور ہیں سب آسمان کے کناروں کی طرف چلے جائیں گے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آسمانوں کا سارا نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ الحاقة
16 الحاقة
17 [١٣] یعنی اس وقت اللہ تعالیٰ کے عرش کو اٹھانے والے فرشتوں کی تعداد چار ہے۔ اس دن آٹھ فرشتے اس عرش کو اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ یہ عرش کتنا بڑا ہے اس کے متعلق عام خیال یہ ہے کہ زمین کو پہلا آسمان محیط ہے۔ دوسرا آسمان پہلے سے بڑا اور اس کو محیط ہے۔ علی ہذا القیاس ساتواں آسمان چھٹے کو محیط ہے۔ پھر اس کے اوپر آٹھواں آسمان ہے جسے کرسی بھی کہتے ہیں اور فلک افلاک بھی۔ پھر اس کے اوپر اللہ کا عرش ہے جیسے محیط ہونے کے لحاظ سے نواں آسمان کہہ لیجئے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ اتنی بڑائی کے باوجود اللہ کا عرش اللہ سے بہرحال چھوٹا ہے اور اکبر اللہ ہی ہے۔ رہی یہ بات کہ فرشتے اللہ کے عرش کو آج کیسے اٹھائے ہوئے ہیں اور اس دن ان کی تعداد دوگنی کیوں کردی جائے گی؟ تو ان باتوں کے لئے ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہم صرف اتنی بات پر ایمان لاتے ہیں جو اللہ نے واضح طور پر خود بتلا دی ہے۔ نہ اس میں کچھ کمی کرنے کی ضرورت ہے اور نہ اضافہ کی اور نہ کسی قسم کی تاویل کرنے کی۔ اور یہ سب کچھ نفخۂ صور ثانی کے بعد ہوگا۔ جب تمام لوگ اپنی قبروں سے زندہ اٹھ کھڑے ہوں گے اور میدان محشر میں محاسبہ کے لئے جمع ہوں گے اس وقت اللہ تعالیٰ نزول اجلال فرمائیں گے۔ الحاقة
18 [١٤] یہی وہ دن ہوگا جب تم اللہ کے سامنے پیش کئے جاؤ گے اس پیشی میں تمہارے ارادہ کو کچھ دخل نہ ہوگا بلکہ اضطراراً تمہیں پیش کیا جائے گا اور تمہیں پیش ہونا پڑے گا۔ کوئی شخص اس دن پیشی سے چھپا نہیں رہ سکتا۔ نہ ہی اللہ کے سامنے کوئی بات چھپانا ممکن ہوگی۔ الحاقة
19 [١٥] دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ ملنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی عدالت میں اس کا شمار اللہ کے فرمانبرداروں اور صالحین میں سے ہوگا۔ اور اس بات کی طرف واضح اشارات موت سے ہی ملنا شروع ہوجاتے ہیں۔ پھر جب اسے اس کے حساب کتاب کا رجسٹر دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا یا خود وہ دائیں ہاتھ سے وصول کرے گا تو اسے اس بات سے اتنی خوشی ہوگی کہ وہ پھولا نہ سمائے گا اور وہ دوسروں کو دعوت دے گا کہ ذرا میرا یہ اعمال نامہ تو دیکھو۔ مجھے اس امتحان میں کتنے اچھے نمبر ملے ہیں۔ الحاقة
20 [١٦] داہنے ہاتھ میں اعمال نامہ ملنے والے کی خوشی کا منظر :۔ چونکہ مجھے یہ یقین تھا کہ مجھ سے میرے اعمال کی بازپرس ہونے والی ہے۔ لہٰذا میں نے دنیا میں محتاط زندگی گزاری تھی۔ اور ہر ممکن کوشش کی تھی کہ مجھ سے اللہ کی کوئی نافرمانی نہ ہونے پائے۔ ایسے شخص کو فیصلہ کے بعد بلند وبالا باغات میں رہائش کے لیے جگہ ملے گی، کھانے کو لذیذ، مزیدار اور وافر اشیاء اور باغوں کے درختوں کے پھل ان کے سامنے جھک رہے ہونگے۔ تاکہ انہیں اپنے حسب پسند پھل توڑنے کے لیے معمولی سی زحمت بھی گوارا نہ کرنی پڑے۔ یہ سب کچھ پیش کرنے کے بعد انہیں کہا جائے گا کہ خوب مزے اڑاؤ۔ جہاں سے جی چاہے کھاؤ اور جتنا جی چاہے بلاتکلف کھاؤ۔ دنیا میں تم نے اللہ کے احکام کی وجہ سے اپنے آپ پر کئی قسم کی پابندیاں لگا رکھی تھیں۔ آج اتنی ہی تمہیں آزادی دی جاتی ہے۔ یہ نعمتیں اور یہ آزادی تمہارے ان اعمال کی وجہ سے ہے کہ تم دنیا میں پابندیاں برداشت کرتے رہے۔ الحاقة
21 الحاقة
22 الحاقة
23 الحاقة
24 الحاقة
25 الحاقة
26 [١٧] بائیں ہاتھ میں اعمال نامہ ملنے والے کی حسرت ویاس :۔ جس طرح مومن کو مرنے کے ساتھ ہی ایسے واضح اشارات ملنے لگتے ہیں کہ اس کا انجام کیسا ہونے والا ہے اسی طرح اللہ کے منکروں کو بھی موت کے ساتھ ہی اپنا انجام معلوم ہونے لگتا ہے۔ جب اسے اس کا اعمال نامہ اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ نہایت حسرت و یاس سے کہے گا کہ کاش مجھے میرے عملوں کی سزا اعمال نامہ دیئے بغیر ہی دے دی جاتی۔ اور اس طرح سب لوگوں کے سامنے میری رسوائی نہ ہوتی۔ اور حقیقت یہ ہے کہ مجھے یہ یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ میرا نامہ اعمال اس قدر احتیاط کے ساتھ محفوظ کیا جارہا ہے کیا اچھا تھا کہ مرنے کے ساتھ ہی میرا سارا قصہ پاک ہوجاتا نہ دوبارہ زندگی ملتی نہ یہ دن دیکھنا نصیب ہوتا۔ آج میرے لیے یہ بھی ممکن نہیں کہ میں اپنا دنیا میں چھوڑا ہوا مال بطور فدیہ دے کر اپنی گلو خلاصی کراسکوں۔ الحاقة
27 الحاقة
28 الحاقة
29 [١٨] سلطانیۃ سلطان کا لفظ بادشاہی اور اقتدار کے معنی میں بھی آتا ہے۔ اس صورت میں اس سے مراد وہ علاقہ ہے جو کسی شخص یا ادارہ یا سلطان کے زیرنگین ہو اور اس پر اس کا تسلط ہو۔ سلطان کا دوسرا معنی حجت، دلیل اور برہان ہے۔ اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جتنی دلیلیں آخرت کے انکار پر دیا کرتا تھا۔ آج ان میں سے کوئی دلیل بھی مجھے یاد نہیں آرہی۔ الحاقة
30 الحاقة
31 الحاقة
32 [١٩] اس کافر کی اس قسم کی سوچ بچار اور اس کے متعلق الٰہی فیصلہ کے اعلان کے درمیان کتنی مدت ہوگی؟ یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ تاہم یہ اعلان اس کے متعلق عدالت الٰہی سے باقاعدہ شہادتوں کی بنا پر کیے ہوئے فیصلہ کے بعد فرشتوں کو یہ حکم دیا جائے گا کہ اس بدبخت کو پکڑ لو اور اس کو طوق پہنا کر جہنم میں پھینک دو۔ پھر ستر ہاتھ لمبی زنجیر میں اس کو پرو دو تاکہ جہنم کے عذاب کے درمیان یہ حرکت تک بھی نہ کرسکے۔ الحاقة
33 الحاقة
34 [٢٠] دو بنیادی گناہ ہیں جن سے باقی گناہ پھوٹتے ہیں :۔ اس کے اعمال نامہ یا فرد جرم میں دونوں بڑی قسموں کے جرائم پائے جاتے تھے۔ نہ وہ اللہ پر ایمان لایا اور نہ اس کے اوامرونواہی کی پروا کی۔ واضح رہے کہ اگر کوئی شخص زبانی طور پر اللہ کی ہستی کا قائل تو ہو مگر آخرت پر اور اس کے سامنے باز پرس پر ایمان نہ رکھتا ہو۔ تو اس کا زبانی اللہ کی ہستی کا اقرار کچھ فائدہ نہیں دے سکتا۔ کفار مکہ اللہ کی ہستی کے قائل تھے مگر آخرت کے قائل نہ تھے تو اللہ نے انہیں کافر ہی قرار دیا ہے اور یہ جرم عذاب جہنم کے مستحق ہونے کے لئے کافی ہے۔ دوسری نوعیت کے جرائم وہ ہیں جن کا بظاہر حقوق العباد سے تعلق ہوتا ہے۔ اگرچہ ان میں بھی اللہ کے حقوق موجود ہوتے ہیں۔ ان کی عام قسم یہ ہے کہ انسان ایک دوسرے سے ہمدردی کرے۔ تنگی ترشی میں ایک دوسرے کے کام آئے اور مالی مدد کرے اور یہ شخص اتنا بخیل واقع ہوا تھا کہ کسی کی مدد تو کیا کرتا دوسروں کو محتاجوں کی مدد کی تلقین یا انہیں کھانا کھلانے کی ترغیب بھی نہیں دیتا تھا۔ الحاقة
35 الحاقة
36 الحاقة
37 [٢١] اس نے دنیا میں خود غرضی کا رویہ اختیار کیا، نہ کسی کی مدد کی، نہ ہمدردی کی، نہ ہی کبھی اسے ایسا خیال تک آیا تھا۔ لہٰذا آج اسے بھی غم خوار اور ہمدرد میسر نہ آئے گا۔ اور جب وہ بھوک سے بے تاب ہوجائے گا تو اسے اپنے جیسے دوزخیوں کے زخموں کا دھوون دیا جائے گا یہی اس کی خوراک ہوگی اور یہی اس کا مشروب ہوگا۔ اور یہ بات تو واضح ہے کہ زخموں کا دھوون نہ کوئی خوراک ہے اور نہ مشروب ہے۔ مگر ایسے مجرموں کو یہی کچھ کھانا پڑے گا۔ کوئی اور چیز انہیں مہیا نہیں کی جائے گی۔ پھر مجرموں کی بھی کئی اقسام ہیں کچھ دوزخی ایسے ہوں گے جنہیں کھانے کو تھوہر دیا جائے گا اور پینے کو کھولتا ہوا پانی۔ الحاقة
38 الحاقة
39 [٢٢] وہ چیزیں جو کافروں کو نظر آتی تھیں اور وہ جو نظر نہیں آتی تھیں وہ کیا ہیں؟ تم یہ دیکھ رہے ہو، تمہارا یہ صاحب (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) ایک پاکیزہ سیرت انسان ہے۔ اور اس بات کے تم گواہ ہو کہ اس نے زندگی بھر کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ وہ ایک راست باز اور امین آدمی ہے۔ وہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتا۔ اس کا کوئی استاد بھی نہیں۔ پھر چالیس سال کی عمر میں یک لخت ایسا معجزہ نما کلام پیش کرنے لگا ہے جس نے تم سب کو چونکا دیا ہے۔ اس نے کہا کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ اور اللہ نے ایک فرشتہ جبریل کے ذریعہ مجھ پر اتارا ہے اور میں اس کا رسول ہوں۔ تم نے انکار کیا تو اس نے تمہیں چیلنج کردیا کہ اگر یہ اللہ کا کلام نہیں تو تم اس جیسا کلام بنا لاؤ اور اپنے سب ادیبوں اور شاعروں اور علماء کو اپنی مدد کے لیے بلا لو۔ مگر تم اس کا جواب دینے سے عاجز رہے پھر تم یہ بھی دیکھ رہے ہو کہ جو کلام پیش کرتا ہے سب سے پہلے خود ان پر عمل پیرا ہوتا ہے پھر اس کے ساتھی بھی ان احکام کی تعمیل کرتے ہیں جن سے ان کے اخلاق سدھر رہے ہیں۔ تمہاری طعن و تشنیع کو 'دشنام طرازیوں اور تمہاری ایذارسانیوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کر رہے ہیں اور تمہاری کارروائیوں کا زبان سے بھی جواب نہیں دیتے۔ یہ چیزیں تو وہ ہیں جو تم دیکھ رہے ہو اور جو نہیں دیکھ رہے وہ یہ ہیں کہ نہ تمہیں اللہ نظر آتا ہے نہ اس کے فرشتے جن کا تمام تر ظاہری اور باطنی اسباب پر کنٹرول ہے۔ اور نہ وہ فرشتہ جبریل جو قرآن لے کر تمہارے صاحب کے دل پر نازل ہوتا ہے۔ نہ تمہیں یہ نظر آسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ غیب سے مسلمانوں کی کیسے امداد کر رہا ہے اور نہ تمہیں یہ نظر آسکتا ہے کہ کون سے اسباب کے ذریعہ تمہاری جڑ کٹ جانے والی ہے؟ الحاقة
40 [٢٣] قرآن چونکہ اللہ کا کلام ہے جو جبریل کی زبان سے ادا ہوتا ہے۔ لہٰذا یہاں معزز رسول سے جبریل علیہ السلام بھی مراد لیے جاسکتے ہیں۔ اور اس لحاظ سے کہ بعینہ وہی الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ادا ہوتے ہیں۔ معزز رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی ذات بھی مراد لی جاسکتی ہے۔ الحاقة
41 الحاقة
42 الحاقة
43 [٢٤] رسول اور شاعر کا فرق اور آپ کے شاعر نہ ہونے کی وجوہ :۔ یعنی جو باتیں تم دیکھتے ہو اور جو تم نہیں دیکھتے۔ میں ان سب کو اس بات پر شاہد بنا کر کہتا ہوں کہ یہ قرآن اللہ رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یا کسی دوسرے کا تصنیف کردہ نہیں ہے۔ جیسا کہ تم الزام دیتے رہتے ہو۔ اور جو چیزیں تم دیکھتے ہو کم از کم انہی کی بنا پر اگر تم تھوڑا سا غور کرلو تو تمہیں از خود معلوم ہوجائے کہ یہ قرآن نہ کسی شاعر کا قول ہوسکتا ہے اور نہ کسی کاہن کا، شاعر کے تخیل کی پرواز میں میدان زندگی کا ہر اچھا یا برا پہلو ہوسکتا ہے۔ ماحول کا تاثر اس کی طبیعت پر غالب رہتا ہے اور معاشرہ کی اکثریت چونکہ گمراہ ہوتی ہے۔ لہٰذا اس کا تخیل بھی انہی راستوں پر پرواز کرتا ہے۔ جبکہ قرآن صرف بھلائی ہی بھلائی کا راستہ دکھاتا ہے۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ شاعر کے افکار و نظریات میں اور بندش کلام میں عمرو عقل کی پختگی، تجربہ اور ممارست کی وجہ سے تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ لیکن کلام اللہ ایسی تبدیلی اور قباحت سے یکسر پاک ہے اس نے جو بات پہلے دن پیش کی۔ پھر اس کے بعد جو کچھ پیش کیا۔ پہلے نظریہ کی تائید میں ہی پیش کیا۔ اور اس کی فصاحت و بلاغت، الفاظ کی بندش، طرز بیان میں کبھی فرق نہیں آیا۔ علاوہ ازیں شاعر جو کچھ ڈینگیں مارتا ہے اور لاف زنی کرکے لوگوں کے جذبات میں وقتی طور پر ایک ہیجان سا پیدا کردیتا ہے۔ مگر وہ اپنی اس لاف زنی پر نہ کبھی عمل پیرا ہوتا ہے نہ ہوسکتا ہے۔ جبکہ قرآن کو پیش کرنے والا رسول جو کچھ پیش کرتا ہے اس پر عمل بھی کرتا ہے۔ پھر تم کیسے کہتے ہو کہ یہ قرآن شاعری اور اس کی طرف دعوت دینے والا رسول شاعر ہے۔ آپ کے کاہن نہ ہونے کی وجوہ :۔ یہ قرآن کسی کاہن کا کلام اس لئے بھی نہیں کہ کہانت کا ماخذ جنات اور خبیث روحیں ہیں جو ملاء اعلیٰ سے کوئی نہ کوئی بات سن لیتیں اور جھوٹ سچ ملا کر کاہنوں تک پہنچاتی ہیں۔ لہٰذا ان کی بتائی ہوئی غیب کی خبریں اکثر غلط ہوتی ہیں اور کبھی کبھار کوئی خبر صحیح بھی نکل آتی ہے۔ جبکہ قرآن کی خبروں کا ماخذ وحی الٰہی ہے جن کا جھوٹ ثابت ہونا ناممکنات سے ہے۔ ایسی بہت سی پیشگوئیاں قرآن میں مذکور ہیں۔ اور بہت سی احادیث میں بھی ہیں جن میں سے کئی باتیں اپنے وقت پر تمہاری آنکھوں کے سامنے پوری ہو رہی ہیں۔ کاہن اور نبی میں دوسرا فرق یہ ہے کہ کاہن صرف غیب کی خبریں دیتا ہے خواہ وہ سچی ہوں یا غلط، جبکہ قرآن اور رسول کی بعثت کا مقصد زندگی کے جملہ پہلوؤں میں انسان کی رہنمائی ہے۔ پھر تم کیسے کہتے ہو کہ یہ کاہن کا کلام ہے۔ اگر تم خود ہی تھوڑا سا غور کرلو تو تمہیں از خود معلوم ہوجائے کہ قرآن نہ کسی شاعر کا کلام ہوسکتا ہے اور نہ کاہن کا۔ مگر افسوس تو یہ ہے کہ تم غور کرتے ہی نہیں۔ بس تمہیں صرف کچھ نہ کچھ الزام لگانے کی ہی پڑی رہتی ہے۔ الحاقة
44 الحاقة
45 الحاقة
46 الحاقة
47 [٢٥] قادیانیوں کا مرزا قادیانی کی نبوت پر استدلال اور اس کا جواب :۔ ذرا سوچو اگر کسی بادشاہ کا کوئی سفیر یا نائب بادشاہ کا پیغام پہنچانے کی بجائے اپنی طرف سے ہی پیغام دینا شروع کردے اور یہ کہے کہ یہ بادشاہ کی طرف سے پیغام ہے تو بادشاہ اپنے ایسے غدار سفیر یا نائب سے کیا سلوک کرے گا۔ اسے جلاد کے حوالے کرنے کی بجائے یہ چاہے گا کہ خود اپنے ہاتھ سے اس کی گردن اڑا دے۔ پھر کیا اگر اللہ کا یہ رسول اپنی طرف سے باتیں بناکر انہیں اللہ کی طرف منسوب کردے تو کیا اللہ اسے معاف کر دے گا ؟ وہ تو اللہ کی نظروں میں سب سے بڑا مجرم ہوگا۔ جس نے اللہ کے کلام میں اپنا کلام شامل کرکے اس سارے کلام کو ہی مشکوک اور بے اعتبار بنا دیا۔ واضح رہے ان آیات سے نبوت کے جھوٹے مدعیوں نے دلیل پکڑی ہے کہ ہم سچے نبی ہیں اگر ہم جھوٹے ہوتے تو ہمیں فوراً ہلاک کردیا جاتا۔ یہ استدلال انتہائی غلط ہے۔ اس لیے کہ یہ وعید تو اس نبی کے لیے ہے جس کا نبی ہونا پہلے دلائل و براہین سے ثابت ہوچکا ہے۔ یہ وعید اس کے لیے نہیں جس کا نبی ہونا ہی ثابت نہ ہو۔ مثلاً حکومت کا ایک اعلیٰ افسر حکومت کے احکام کی بجائے اپنے احکام چلانے لگے تو حکومت اسے سخت سزا دے گی۔ لیکن اگر کوئی موچی یا سڑک کوٹنے والا یا بھنگی لوگوں سے یہ کہنا شروع کردے کہ میرے واسطہ سے تم کو گورنمنٹ کے یہ احکام دیئے جاتے ہیں۔ ایسے شخص کی باتوں پر کوئی بھی اعتبار نہیں کرے گا۔ نہ ہی حکومت ایسے لوگوں کی بکواس کو درخور اعتنا سمجھتی ہے کہ ایسے لوگوں کو تلاش کرکے انہیں سزا دیا کرے۔ لوگوں نے تو نبوت کے بجائے خدائی کے بھی دعوے کئے۔ کئی لوگوں نے ان کی خدائی کو تسلیم بھی کیا۔ پھر بھی اللہ نے ایسے خداؤں کو فوراً کوئی سزا نہیں دی۔ اس لئے کہ یہ سراسر باطل ہے اور لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ بھی۔ کئی بہروپئے اپنے آپ کو اعلیٰ افسر ظاہر کرتے ہیں اور بعض لوگ ان سے دھوکا بھی کھا جاتے ہیں۔ مگر حکومت ایسے جعلی بہروپیوں کو کوئی سزا نہیں دیتی۔ علاوہ ازیں ان آیات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر استدلال ہے ہی نہیں بلکہ استدلال اس بات پر ہے کہ یہ قرآن کریم خالص اللہ کا کلام ہے۔ جس میں نبی کے کلام کی آمیزش بھی قطعاً ناقابل برداشت ہے۔ خواہ وہ کلام اللہ کی تفسیر ہی کیوں نہ ہو۔ الحاقة
48 الحاقة
49 [٢٦] یعنی جو لوگ غلط روی اور اس کے برے نتائج سے بچنا چاہتے ہیں وہ تو یقیناً اس قرآن سے نصیحت حاصل کریں گے۔ اور جن لوگوں کو اپنی اصلاح کی فکر ہی نہیں یا وہ اس کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے وہ قرآن کو نہ اللہ کا کلام سمجھتے ہیں اور نہ اس سے نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ لیکن ایک وقت آنے والا ہے جب وہ اپنے رویہ پر سخت نادم ہوں گے اور ان کا قرآن کو جھٹلانا ان کے لئے سخت حسرت و پشیمانی کا موجب ہوگا۔ لیکن اس وقت پچھتانے کا کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ الحاقة
50 الحاقة
51 [٢٧] حق الیقین، یقین کا آخری درجہ جو بار بار کے تجربوں کے بعد حاصل ہو۔ جیسے ہر جاندار کو بالآخر موت سے دوچار ہونا پڑے گا۔ یا کوئی جاندار کھانے پینے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ یا آگ کا کام جلانا ہے اور ایسی بے شمار حقیقتیں ہیں جن کے یقینی ہونے میں ذرہ بھر شبہ نہیں ہوتا۔ قرآن بھی ایسی ہی ایک ٹھوس حقیقت ہے اس کے مضامین سراپا سچ ہیں جو عقل اور تجربہ کی کسوٹی پر بھی پورے اترتے ہیں اور ہر طرح کے شک و شبہ سے بھی بالاتر ہیں۔ لہٰذا ہر شخص کو چاہیے کہ اس پر ایمان لا کر اس کے نازل کرنے والے کی تسبیح و تحمید میں مشغول رہے جس نے انہیں یہ گرانقدر نعمت عطا فرمائی ہے۔ الحاقة
52 الحاقة
0 المعارج
1 المعارج
2 [١] کافر ایسا عذاب طلب کرتے ہی رہتے تھے۔ اللہ سے بھی اپنے حق میں ایسی دعا کیا کرتے تھے جیسا کہ سورۃ انفال کی آیت نمبر ٣٢ میں مذکور ہے کہ کافر کہتے تھے کہ ’’اے اللہ! اگر یہ قرآن واقعی تیری طرف سے نازل ہوا ہے تو ہم پر پتھروں کی بارش برسا یا ہم پر عذاب بھیج دے۔‘‘ روایات میں ایسی بددعا کرنے والوں کے دو نام مذکور ہیں ایک ابو جہل بن ہشام اور دوسرا نضر بن حارث، اس بددعا سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ قرآن کو اللہ کی طرف سے نازل شدہ تسلیم کرنے کو قطعاً تیار نہیں تھے۔ نہ ہی انہیں قرآن کی وعید کا کچھ اعتبار تھا۔ یہ تو ان لوگوں کا دنیوی عذاب سے متعلق مطالبہ تھا۔ اخروی عذاب کا مطالبہ کرنے والے تو بہت تھے جو از راہ تمسخر و استہزاء آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کرتے کہ جس عذاب سے دھمکاتے ہو وہ لے کیوں نہیں آتے یا یوں کہتے کہ جس عذاب سے ہمیں ڈراتے رہتے ہو وہ آئے گا کب؟ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ وہ عذاب آئے گا بھی ضرور اور جب بھی آیا تو پھر تمہاری خیر نہیں' تمہیں کوئی اس سے بچا نہ سکے گا۔ المعارج
3 [٢] معارج کی لغوی تشریح :۔ معارج ( مِعْرَجْ اور معراج کی جمع) عَرَجَ میں دو باتیں بنیادی طور پر پائی جاتی ہیں۔ جھکاؤ اور بلندی اور عَرَجَ فِیْ السِّلْمِ بمعنی سیڑھی یا زینہ پر چڑھنا۔ سیڑھی پر چڑھنے کے لیے آگے کی طرف جھکنا بھی پڑتا ہے اور بلندی کی طرف چڑھنا عام چلنے کی نسبت دشوار بھی ہوتا ہے۔ نیز عرج کے معنی لنگڑا کر چلنا اور أعْرَجَ بمعنی لنگڑا۔ کیونکہ لنگڑا کر چلنے میں بھی یہ دو باتیں پائی جاتی ہیں آگے کو جھکاؤ بھی اور بلندی پر چڑھنے جیسی دشواری بھی۔ اور معراج کے معنی بلندی پر چڑھنے کا ذریعہ بھی یعنی سیڑھی یا زینہ وغیرہ اور وہ بلند جگہ بھی جہاں پہنچنا مقصود ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معراج ہوا تھا تو معراج سے مراد بلند مقام ہے'جہاں تک اللہ تعالیٰ آپ کو لے جانا چاہتا تھا۔ اور ﴿ذِی الْمَعَارِجِ﴾ کا معنی وہ بلند و بالا ذات جس کے سامنے سب بلندیاں ہیچ ہوں۔ بلند سے بلند مقامات کا مالک۔ گویا کافروں پر یہ ٹلنے والا عذاب ایسی بلند ذات کی طرف سے آئے گا۔ المعارج
4 [٣] لفظ یوم کی مختلف مدتیں :۔ یوم یعنی دن۔ یعنی غروب آفتاب سے لے کر اگلے دن کے غروب آفتاب تک کا وقت۔ لیل اور نہار کے وقت کا مجموعہ یا ٢٤ گھنٹے کی مدت۔ اور یوم کی یہ مدت ہم اہل زمین کے لئے ہے۔ چاند پر یہ یوم ہمارے حساب سے تقریباً ایک ماہ کا ہے۔ عطارد (Mercury) پر یہ دن ہمارے ٨٨ دنوں کے برابر ہے۔ قطب شمالی اور جنوبی پر تقریباً ایک سال کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو چھ دنوں میں پیدا کیا تو یہاں دن سے مراد مدت کا ایک طویل دور ہے جو ہمارے حساب سے لاکھوں سال کا بھی ہوسکتا ہے۔ قرآن میں ایک مقام پر یوم کی مقدار ایک ہزار سال بتائی گئی ہے۔ (٢٢: ٤٧) اس مقام پر مجرم قوموں پر دنیا میں عذاب آنے کا ذکر ہے۔ اور اس مقام پر یوم کی مقدار پچاس ہزا رسال بتائی گئی ہے۔ رہی یہ بات کہ جبریل امین یا دوسرے فرشتے یا نیک لوگوں کی ارواح اس بلندیوں کے مالک تک پچاس ہزار سال میں چڑھتے ہیں۔ تو یہ بات ہماری سمجھ سے باہر ہے کیونکہ یہ بات خالصتاً صفات الٰہی سے تعلق رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کون سی اسکیم یا منصوبہ کی تکمیل کے بعد فرشتے اور جبریل امین اس کی طرف اتنی مدت میں چڑھتے ہیں؟ اس کی جو بھی صورت پیش کریں گے وہ ناقص ہی ہوگی۔ اس کا ٹھیک مطلب اللہ ہی جانتا ہے۔ البتہ احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قیامت کے دن کی مدت پچاس ہزار سال ہوگی۔ یہی وہ دن ہوگا جس میں کافروں کو یقیناً عذاب دیا جائے گا۔ یہ عذاب بلندیوں کے مالک کی طرف سے ہوگا اور کوئی طاقت کافروں کو اس عذاب سے بچا نہ سکے گی۔ المعارج
5 [٤] صبر جمیل کا مفہوم اور فائدہ :۔ صبر جمیل یہ ہے کہ کسی کے طعن و تشنیع، مذاق و تمسخر اور ایذا رسانی کو ٹھنڈے دل سے برداشت کرلیا جائے۔ خود تکلیف سہہ لی جائے مگر تکلیف پہنچانے والے کو زبان سے بھی برا بھلا نہ کہا جائے۔ نہ ہی دوسروں سے اس کی شکایت اور شکوہ کیا جائے اور یہ تجربہ شدہ بات ہے کہ صبر جمیل جس قدر تلخ اور ناگوار ہوتا ہے اس کا پھل اتنا ہی میٹھا ہوتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ خود صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ مکی دور میں مسلمانوں کو اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صبر جمیل ہی کی تلقین کی جاتی رہی وجہ یہ تھی کہ اگر مسلمان اس دور میں محاذ آرائی پر اتر آتے، خواہ یہ صرف زبانی تلخ کلامی تک ہی محدود ہوتی تو اس سے اسلام کی دعوت کے مقصد کو شدید نقصان پہنچ سکتا تھا۔ اسلام کی منزل مقصود یہ تھی کہ اللہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے۔ جو تیئس سال کے قلیل عرصہ میں حاصل ہوگئی اور اگر مسلمان اسی دور میں محاذ آرائی شروع کردیتے تو نہ معلوم اس مقصد کے حصول میں کتنی لمبی مدت کی تاخیر واقع ہوجاتی۔ المعارج
6 [٥] یعنی قیامت کو اور اس کے عذاب کو بعید از قیاس یا ناممکن سمجھ رہے ہیں۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ عنقریب واقع ہونے والا ہے۔ المعارج
7 المعارج
8 [٦] مُھْل کے معنی پگھلا ہوا تانبا بھی اور تیل کی تلچھٹ بھی۔ اور ان دونوں چیزوں کی رنگت سرخی مائل ہوتی ہے۔ یعنی آج تو ہمیں آسمان نیلگوں نظر آتا ہے اس دن یہ اپنا رنگ بدلنا شروع کردے گا حتیٰ کہ نیلگوں ہونے کی بجائے سرخی مائل ہوجائے گا۔ المعارج
9 [٧] پہاڑوں کے پتھر بھی کئی رنگوں کے ہوتے ہیں مثلاً سرخ، سفید، کالے، دھاری دار' اسی طرح اون کے عموماً یہی رنگ ہوتے ہیں۔ پہاڑ اس دن ریزہ ریزہ ہو کر ہوا میں اڑنے لگیں گے تو ایسا معلوم ہوگا کہ رنگ برنگی دھنکی ہوئی روئی کے گالے اڑے رہے ہیں۔ المعارج
10 المعارج
11 [٨] دکھائے اس لیے جائیں گے کہ بھلا آج بھی وہ ایک دوسرے کو اپنی ہمدردیاں جتاتے ہیں یا نہیں؟ جیسا کہ دنیا میں جتایا کرتے تھے۔ مگر اس دن یہ دوست ایک دوسرے سے بات تک کرنے کے روا دار نہ ہونگے۔ ہر ایک کو اپنی ہی فکر دامنگیر ہوگی۔ المعارج
12 المعارج
13 المعارج
14 [٩] اس دنیا میں یہ کیفیت دیکھی جاسکتی ہے کہ بسا اوقات باپ بیٹے پر، بیٹا باپ پر، خاوند بیوی پر، بیوی خاوند پر، ماں بیٹے پر، بیٹا ماں پر، دوست دوست پر فدا ہوجاتا ہے۔ اگرچہ ایسی مثالیں کم ہیں تاہم مل ضرور جاتی ہیں۔ مگر اس دن یہ حال ہوگا کہ مجرم یہ سوچے گا کہ ماں، باپ اور اولاد تو درکنار میری طرف سے ساری دنیا جہنم میں جاتی ہے تو جائے میری بلا سے بس ایک میں جہنم کے عذاب سے بچ جاؤں۔ لیکن اس کی یہ آرزو کبھی پوری نہ ہوسکے گی۔ المعارج
15 المعارج
16 [١٠] شویٰ بمعنی جسم کے اطراف۔ ہاتھ پاؤں اور وہ اعضاء جن پر زخم لگنے سے موت واقع نہ ہو۔ کہتے ہیں رَمَاہَ فَاَشْوَاہ، یعنی اس نے اسے تیر مارا تو اس کے اطراف پر لگا۔ یعنی کسی ایسے عضو پر نہیں لگا جس پر زخم لگنے سے موت واقع ہوتی۔ یعنی جہنم کی آگ ان کی کھالوں کو کھینچ لے گی۔ کھالیں گل جائیں گی جسم ننگے بے کھال ہوجائیں گے مگر یہ آگ مجرموں کی جان ختم نہیں کرسکے گی۔ المعارج
17 [١١] آیت نمبر ١٧ اور نمبر ١٨ میں انہیں دو بنیادی جرائم کا ذکر کیا گیا ہے۔ جو انسان کو جہنم کا مستحق بنا دیتے ہیں۔ اور ان جرائم کا ذکر سورۃ الحاقۃ کی آیت نمبر ٣٣ اور ٣٤ کے حاشیہ میں تفصیل سے گزر چکا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کو جہنم اپنے ہاں بلا لے گی۔ اور ایک روایت کے مطابق جہنم سے ایک گردن نکلے گی جو جہنم کے مستحق لوگوں کو یوں چن چن کر اٹھا لے گی جیسے کوئی پرندہ زمین سے پڑا ہوا دانہ اٹھا لیتا ہے۔ المعارج
18 المعارج
19 [١٢] ھلوعا کا لغوی مفہوم :۔ ھَلُوْعًا بمعنی بے قرار، بے ثبات، ایک حالت پر قائم نہ رہنے والا۔ حالات کی تبدیلی کا فوراً اثر قبول کرلینے والا۔ یعنی انسان فطری طور پر ایسا ہی پیدا ہوا ہے۔ یہ کیفیت ایک عام دنیا دار انسان یا انسانوں کی اکثریت کی ہے۔ اور جو لوگ ایمان لا کر اپنی اصلاح کرلیتے ہیں ان کے دل کی یہ کیفیت نہیں رہتی ان کے دل میں صبر و سکون اور ٹھہراؤ پیدا ہوجاتا ہے۔ المعارج
20 المعارج
21 [١٣] یعنی انسان کی عمومی سرشت یہی ہے کہ اسے جب کوئی تکلیف پہنچے۔ کوئی بیماری آلگے یا معاشی تنگی میں مبتلا ہو تو صبر کے ساتھ وہ وقت گزارنے کے بجائے جزع و فزع شروع کردیتا ہے۔ کبھی تقدیر کو کو سنے لگتا ہے اور کبھی اپنے نصیبوں کو اور جب اللہ اس سے اس کی تکلیف کو دور کردیتا ہے تو پھر بھی اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا۔ بلکہ مال و دولت کو گلے سے ایسے لگا لیتا ہے جیسے خزانے پر سانپ بیٹھا ہو۔ پھر وہ ایسا ننانوے کے چکر میں پڑجاتا ہے کہ کسی غریب محتاج کی مدد کرنا اور اس کی کسی ضرورت کو پورا کرنا تو درکنار، اپنے اہل و عیال بلکہ اپنی ذات پر خرچ کرنا گوارا نہیں کرتا۔ اس کی بس ایک ہی ہوس ہوتی ہے کہ اس کی دولت میں روزافزوں اضافہ ہوتا رہے۔ المعارج
22 [١٤] یہ دونوں حالتیں، یعنی تنگ دستی میں صبر کے بجائے شکوہ و شکایت اور خوشحالی میں اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے بخل اور پیسہ سے والہانہ محبت ایسی چیزیں ہیں جو انسان کو جہنم میں لے جانے والی ہیں۔ البتہ جن لوگوں میں اور بالخصوص جن ایمانداروں میں مندرجہ ذیل آٹھ صفات، جو آگے آیت نمبر ٢٢ سے ٣٤ تک مذکور ہیں، پائی جائیں وہ عذاب جہنم سے محفوظ رہیں گے۔ اور ان میں مذکورہ بالا قباحتیں بھی ختم ہوجائیں گی۔ المعارج
23 [١٥] دائمون کے دو مفہوم :۔ سب سے پہلی اور اہم صفت یہ ہے کہ وہ نماز ادا کرتے ہیں۔ بروقت ادا کرتے ہیں۔ باجماعت ادا کرتے ہیں۔ ٹھیک طرح سے خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ اور ہمیشہ ادا کرتے ہیں اور باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں۔ اس آیت میں دَائِمُوْنَ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ دوام کا ایک معنی تو ہمیشگی ہے اور دام الشَیْیُ بمعنی کسی چیز کا عرصہ دراز تک بلا تغیر ایک ہی حالت میں رہنا، ترجمہ میں یہی معنی اختیار کیا گیا ہے اس کا دوسرا معنی سکون اور ٹھہراؤ ہے اور ماء الدَّائِمِ بمعنی کھڑا پانی جس میں کچھ حرکت نہ ہو۔ اس لحاظ سے معنی یہ ہوگا کہ وہ لوگ اپنی نماز کو نہایت سکون، ٹھہراؤ، اطمینان قلب اور خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ وہ نہ یہ کرتے ہیں کہ منافقوں کی طرح جلدی جلدی چند ٹھونگیں ماریں اور فٹا فٹ نماز سے فارغ ہوئے۔ اور نہ یہ کرتے ہیں کہ بس ایک اللہ کی یاد کو دل و دماغ میں نہ لائیں باقی ادھر ادھر کی ساری باتیں نماز میں سوچتے رہیں۔ المعارج
24 [١٦] سوال کرنا صرف تین طرح کے لوگوں کو جائز ہے :۔ سائل سے مراد پیشہ ور گداگر نہیں۔ ایسی گداگری کا اسلام میں کوئی جواز نہیں سائل سے مراد وہ شخص ہے۔ جو فی الواقع مانگنے پر مجبور ہو۔ چنانچہ سیدنا قبیصہ بن مخارق کہتے ہیں کہ میں ایک شخص کا ضامن ہوا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور اس بارے میں سوال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہاں ٹھہرو تاآنکہ ہمارے پاس صدقہ آئے پھر ہم تیرے لیے کچھ حکم کریں گے۔ پھر مجھے مخاطب کرکے فرمایا : ’’قبیصہ! تین شخصوں کے سوا کسی کو سوال کرنا جائز نہیں۔ ایک وہ جو ضامن ہو اور ضمانت اس پر پڑجائے جس کا وہ اہل نہ ہو۔ وہ اپنی ضمانت کی حد تک مانگ سکتا ہے۔ پھر رک جائے دوسرے وہ جسے ایسی آفت پہنچے جو اس کا سارا مال تباہ کردے۔ وہ اس حد تک مانگ سکتا ہے کہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل ہوجائے اور تیسرے وہ شخص جس کو فاقہ کی نوبت آگئی ہو اور اس کے قبیلہ کے تین معتبر شخص گواہی دیں کہ فلاں کو فاقہ پہنچا ہے۔ اسے سوال کرناجائز ہے تاآنکہ اس کی محتاجی دور ہوجائے‘‘ پھر فرمایا : ’’اے قبیصہ ان تین قسم کے آدمیوں کے سوا کسی اور کو سوال کرنا حرام ہے اور ان کے سوا جو شخص سوال کرکے کھاتا ہے وہ حرام کھا رہا ہے۔‘‘ (مسلم۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب من تحل لہ المسئلۃ) نیز سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’جو شخص اپنا مال بڑھانے کے لیے لوگوں سے سوال کرتا ہے۔ وہ دراصل آگ کے انگارے طلب کر رہا ہے اب وہ چاہے تو کم کرے یا زیادہ اکٹھے کر لے‘‘ (بخاری۔ کتاب الوصایا۔ باب تاویل قولہ تعالیٰ من بعد وصیۃ توصون بہا اودین) اور محروم سے مراد وہ شخص ہے جو سوال کرنے کا مستحق ہونے کے باوجود سوال کرنے سے ہچکچاتا ہو۔ جسے ہماری زبان میں سفید پوش کہتے ہیں۔ علاوہ ازیں محروم سے مراد وہ شخص بھی ہے جو روزگار کی تلاش میں ہو اور روزگار اسے میسر نہ آرہا ہو یا جتنی روزی کما رہا ہے اس سے اس کی ضروریات پوری نہ ہوتی ہوں یا روزی کمانے کے قابل ہی نہ ہو۔ جیسے بوڑھا، بیمار، اندھا، لنگڑا، اپاہج وغیرہ۔ المعارج
25 المعارج
26 المعارج
27 [١٧] روز جزا و سزا کی تصدیق کرنے سے مراد یہ ہے کہ وہ اللہ کے حضور اپنے اعمال کی جوابدہی پر پورا پورا یقین رکھتے ہیں۔ پھر اسی تصدیق کے نتیجہ میں وہ ہر اس کام سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں جس پر اللہ کے عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔ اور انہیں ہر وقت یہ خطرہ لاحق رہتا ہے کہ کہیں ہماری کو تاہیاں ہماری نیکیوں سے بڑھ نہ جائیں۔ جو ہمیں اللہ کے عذاب کا مستحق بنا دیں۔ المعارج
28 المعارج
29 المعارج
30 المعارج
31 [١٨] آیت نمبر ٢٩، ٣٠ اور ٣١ کی تشریح کے لیے دیکھئے سورۃ مومنون کی آیت نمبر ٥، ٦، ٧ کے حواشی اس کے علاوہ النور آیت نمبر ٣٠ اور الاحزاب آیت نمبر : ٣٥ بھی ملاحظہ فرمائیں۔ المعارج
32 [١٩] اس آیت کی تشریح کے لیے دیکھئے سورۃ مومنون کی آیت نمبر ٨ کا حاشیہ المعارج
33 [٢٠] شہادت کا مفہوم ' اہمیت اور شہادت پر قائم رہنے کی تاکید :۔ شہادت اس بیان کو کہتے ہیں جو ایک گواہ، خواہ وہ عینی گواہ ہو یا بعض حقائق کو علم کی حد تک جانتا ہو جسے قلبی شہادت کہتے ہیں، عدالت میں حاضر ہو کر قاضی کے سامنے دیتا ہے۔ اور قاضی اور عدالت سے مراد ہر وہ فرد یا ادارہ ہے جو فیصلہ کرنے کے بعد اپنے فیصلہ کو نافذ کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہو۔ عدالتوں کے ہاں یہ قوت نافذہ پولیس ہوتی ہے۔ اسی طرح کسی فیصلہ کرنے والی پنچائت یا کونسل کو بھی عدالت کہہ سکتے ہیں اور کوئی گواہ کسی بے تعلق آدمی کے سامنے وہی بیان دے جو وہ عدالت میں دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ تو ایسے بیان دینے کو شہادت نہیں کہیں گے۔ چونکہ شریعت نے فیصلہ کا انحصار شہادتوں پر رکھا ہے۔ اور قاضی شہادتوں سے باہر ہو کر فیصلہ نہیں دے سکتا حتیٰ کہ فوجداری مقدمات میں اپنے ذاتی علم کی بنا پر بھی فیصلہ نہیں دے سکتا۔ اس لئے ایک گواہ کی شہادت بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ اسی لئے قرآن میں بے شمار مقامات پر شہادت صاف صاف دینے اور اس پر قائم رہنے کی بڑی تاکید آئی ہے۔ اس کے مقابلہ میں شہادت الزور کو کبیرہ گناہ قرار دیا گیا ہے۔ شہادت کا کچھ حصہ چھپا جانا، یا عند الضرورت شہادت سے انکار کردینا یا خاموش رہنا اور کچھ بھی بیان نہ دینا یا بیان کو گول مول کر جانا یا اس بیان کو اس طرح توڑ موڑ کر یا ہیر پھیر کر بیان کرنا جس سے مجرم بچ جائے یا کسی بھی فریق کی حق تلفی ہو رہی ہو یا جانبداری سے کام لے کر اس کے جرم سے زیادہ سزا دلوانے کی کوشش کی جائے یہ سب صورتیں حرام، گناہ کبیرہ اور شہادۃ الزور کے ضمن میں آتی ہیں۔ گویا ایمانداروں کی ایک نہایت اعلیٰ صفت یہ بھی ہے کہ وہ صاف سیدھی شہادت پر قائم رہتے ہیں۔ المعارج
34 [٢١] سورۃ مومنون کی ابتدا میں فلاح پانے والے ایمانداروں کی صفات بیان کی گئی ہیں۔ جو بہت حد تک انہی صفات سے ملتی جلتی ہیں جو یہاں بیان کی جارہی ہیں سورۃ مومنون میں ان صفات کی ابتدا بھی نماز سے ہوئی تھی اور انتہا بھی نماز پر ہی ہوئی۔ اور اس مقام پر بھی بعینہ وہی صورت ہے جس سے دین میں نماز کی اہمیت کا ٹھیک طور پر اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ المعارج
35 المعارج
36 المعارج
37 [٢٢] جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو قرآن سنانے، وعظ و نصیحت کرنے اور احوال قیامت بیان کرنے کے لیے کھڑے ہوتے اور اس مقصد کے لیے آپ عموماً کعبہ اور اس کے آس پاس ہی کھڑے ہوتے تھے۔ کافر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز سن کر چاروں طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف دوڑے چلے آتے تھے۔ آکر کبھی شور مچانا شروع کردیتے، کبھی تالیاں بجاتے، کبھی مذاق اڑاتے تھے اور ان کی ان کرتوتوں سے ان کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ اول تو کوئی شخص قرآن سننے ہی نہ پائے اور اگر کسی کے کان میں کچھ پڑ بھی جائے تو اس کا اثر قبول نہ کرے۔ المعارج
38 [٢٣] بایں ہمہ ان کافروں کا یہ خیال بھی تھا کہ اگر مسلمانوں کے کہنے کے مطابق دوسری زندگی اور جنت اور دوزخ ہوئی بھی تو ہم ان مسلمانوں سے پہلے جنت میں جائیں گے۔ اپنے اسی نظریہ کو کبھی وہ ان الفاظ میں ادا کرتے تھے کہ جو پروردگار آج ہم پر مہربان ہے۔ اگر دوسری زندگی ہوئی تو آخر کیا وجہ ہے کہ اس دنیا میں ہم پر ناراض ہو وہ وہاں بھی ہم پر مہربان ہی رہے گا۔ المعارج
39 [٢٤] یعنی ان کی کرتوتیں یہ ہیں کہ اللہ کے کلام کو جھٹلاتے اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانوں کی مخالفت میں سردھڑ کی بازی لگا رکھی ہے۔ انہیں تکلیفیں پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اسلام کی راہ روکنے کی سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ اس پر امیدیں یہ لگائے بیٹھے ہیں کہ نعمتوں والی جنت بھی ہمارے لئے ہے۔ ان کی یہ توقع بالکل بے ہودہ اور باطل ہے۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ جس خالق نے انہیں پانی کے حقیر و ذلیل قطرہ سے پیدا کرکے اس منزل پر پہنچایا ہے وہ انہیں ویسی ہی حقیر اور ذلیل حالت کی طرف لوٹا بھی سکتا ہے۔ المعارج
40 [٢٥] مشرق عموماً سورج کے طلوع ہونے کی جگہ اور مغرب سورج کے غروب ہونے کی جگہ کو کہتے ہیں۔ سورۃ مزمل میں ایک مشرق اور ایک مغرب کا ذکر ہے۔ سورۃ الرحمٰن میں دو مشرقوں اور دو مغربوں کا ذکر ہے۔ اور اس مقام پر بہت سے مشرقوں اور مغربوں کا ذکر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ موسم سرما کے سب سے چھوٹے دن یعنی ٢٢ دسمبر کو سورج مشرق کی طرف سے نکلنے کے باوجود جنوب کی طرف بہت زیادہ مائل ہوتا ہے۔ اسی طرح اس دن سورج کا مغرب بھی جنوب کی طرف بہت زیادہ مائل ہوتا ہے۔ اسی طرح موسم گرما میں سب سے بڑے دن یعنی ٢٢ جون کو سورج مشرق کی سمت سے نکلنے کے باوجود شمال کی طرف بہت زیادہ مائل ہوتا ہے اسی طرح اس دن جب مغرب میں غروب ہوتا ہے تو شمال کی طرف بہت زیادہ مائل ہوتا ہے اور جب دن رات برابر ہونے کے دن یعنی ٢٢ مارچ اور ٢٢ ستمبر کو سورج عین مشرق سے طلوع ہو کر عین مغرب میں غروب ہوجاتا ہے جیسا کہ سامنے کے نقشے سے واضح ہے : نقشہ کے لیے اصل کتاب ملاحظہ کیجئے۔ اس نقشہ میں مقام ''الف'' اور ''ب'' مشرقین ہیں اور مقام ''ج'' اور ''د'' مغربین ہیں۔ پھر ان مشرقین اور مغربین کے درمیان ٣٦٥ مشرق ہیں اور اتنے ہی مغرب کیونکہ سورج ہر روز ایک نئے زاویہ سے طلوع ہوتا ہے۔ یہ صورت تو صرف ایک سیارے سورج کی ہے۔ جبکہ بہت سے سیارے مشرق سے طلوع ہو کر مغرب میں جا ڈوبتے ہیں۔ اس طرح مشرقوں اور مغربوں کی تعداد بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ المعارج
41 [٢٦] یعنی جو پروردگار اتنے زیادہ مشرقوں اور مغربوں کو وجود میں لاسکتا اور ان پر مکمل کنٹرول رکھ سکتا ہے کہ ان کے زاویوں میں ذرہ بھر بھی فرق نہ آنے پائے وہ یہ نہیں کرسکتا کہ تم سے تمہاری یہ چھوٹی چھوٹی سرداریاں، جن پر تم اس قدر پھولے پھرتے ہو، تم سے چھین کر تمہیں ذلیل و رسوا کرکے پیچھے ہٹا دے اور تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان متکبر قریشیوں کو پیچھے ہٹایا اور ان مسلمانوں کو آگے کردیا جن کے ساتھ یہ بیٹھنا بھی اپنی توہین سمجھتے تھے۔ فتح مکہ کے بعد معاملہ یکسر الٹ گیا۔ مسلمان فتح یاب اور حاکم اور یہ قریشی مقہور و مغلوب ہوگئے اور بعد میں ان کافروں میں سے عزت صرف اسے ملی جس نے اسلام کی آغوش میں پناہ لے لی۔ المعارج
42 المعارج
43 [٢٧] نصب کا لغوی مفہوم :۔ نُصُبٍ: نصب الشئی بمعنی کسی چیز کو سیدھے رخ کھڑا کردینا اور زمین میں گاڑ دینا اور نصیب اس پتھر کو بھی کہتے ہیں جو بطور نشان راہ گاڑا جاتا ہے نیز نصیب پتھر یا لوہے کے اس مجسمے کو بھی کہتے ہیں جو کسی جگہ بغرض عبادت نصب کردیا گیا ہو۔ یہ مجسمے عموماً نبیوں، ولیوں اور پیروں یا بادشاہوں کے ہوتے ہیں۔ اور ایسے مقامات جہاں یہ مجسمے نصب ہوں انہیں بھی نصیب یا تھان یا استھان یا آستانے کہا جات ہے اور نصیب کی جمع نصب یا انصاب آتی ہے۔ گویا نصب کے تین معنی ہوئے (١) نشان راہ کے پتھر، (٢) نصب شدہ مجسمے، (٣) وہ مقام جہاں مجسمے یا بت نصب ہوں۔ اس آیت میں تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں۔ پہلا معنی اس لحاظ سے کہ ان کا یہ دوڑنا اللہ کے حکم کے تحت اور اضطراری امر ہوگا اور باقی دونوں معنی اس لحاظ سے کہ دنیا میں وہ ایسے بتوں کے مجسموں اور تھانوں کی طرف تیزی سے دوڑ کر جایا کرتے تھے۔ قیامت کے دن بھی وہ اسی طرح تیزی سے دوڑے جارہے ہوں گے اور اللہ نے ان کے لئے وہی کیفیت بیان فرمائی جس کو وہ خوب جانتے اور اس دنیا میں اس کے عادی تھے۔ المعارج
44 المعارج
0 نوح
1 [١] سیدنا نوح علیہ السلام کا ذکر :۔ سیدنا نوح علیہ السلام کا ذکر قرآن میں پہلے بہت سے مقامات پر گزر چکا ہے۔ یہ سورت پوری کی پوری آپ کے ذکر پر مشتمل ہے۔ اس سورت میں آپ کی زندگی کے پورے واقعات مذکور نہیں ہیں۔ بلکہ اس کا اکثر حصہ سیدنا نوح کی اپنے پروردگار سے فریاد اور دعاؤں پر مشتمل ہے۔ آپ کی شبانہ روز کی تبلیغ اور پورے ساڑھے نو سو سال کی تبلیغ کے نتیجہ میں قوم نے آپ کی تبلیغ سے جیسا اثر قبول کیا، اسی کا شکوہ سیدنا نوح علیہ السلام اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرکے بیان فرماتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مرکز تبلیغ عراق میں دجلہ و فرات کا درمیانی علاقہ تھا۔ سیدنا آدم علیہ السلام اور سیدنا نوح علیہ السلام کے درمیان پانچ ہزار سال کا طویل عرصہ حائل ہے اور اس طویل درمیانی عرصہ میں صرف ایک ہی قابل ذکر نبی سیدنا ادریس علیہ السلام کا ذکر ہمیں قرآن میں ملتا ہے۔ لیکن وہ بھی صاحب شریعت نبی نہیں تھے۔ جب سیدنا نوح علیہ السلام مبعوث ہوئے تو اس وقت ان کی قوم میں شرک کا مرض ایک وبا کی طرح پھیل چکا تھا۔ چنانچہ ان ابتدائی آیات میں ہی سیدنا نوح علیہ السلام کو ہدایت کی گئی ہے کہ آپ اپنی قوم کو شرک کے برے انجام سے وارننگ دے دیجئے اور اگر وہ باز نہ آئے تو یقیناً انہیں دردناک سزا سے دوچار ہونا پڑے گا۔ نوح
2 نوح
3 [٢] نوح کی دعوت کے نکات :۔ جب کوئی نبی مبعوث کیا جاتا ہے تو سب سے پہلے وہ خود اپنی نبوت پر ایمان لاتا ہے۔ بعد ازاں وہ اپنی قوم کے سامنے اپنی نبوت کا اعلان کرتا ہے۔ اپنے اس تعارف کے بعد وہ لوگوں کو اللہ کا پیغام سناتا ہے۔ نوح علیہ السلام نے بھی اپنی نبوت کا اعلان ان الفاظ میں فرمایا۔ ﴿اِنِّیْ لَکُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ ﴾ پھر اس کے بعد تین باتیں ارشاد فرمائیں۔ (١) صرف ایک اللہ کی عبادت کرو اور بتوں کی عبادت چھوڑ دو، (٢) ڈرو تو صرف اللہ سے ڈرو، بتوں سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ تمہارا یہ کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے۔ اللہ سے ڈرتے ہوئے اس کے احکام بجا لاؤ، (٣) اور اللہ کے احکام بجا لانے کی صورت یہ ہے کہ میری اطاعت کرو۔ اگر تم یہ تینوں کام سرانجام دو گے تو اللہ تمہارے سابقہ گناہ معاف فرما دے گا اور تمہیں تمہاری طبعی عمر تک زندہ رہنے دے گا تاکہ تم نیک اعمال بجا لاکر اخروی عذاب سے بچ جاؤ۔ اور اگر یہ باتیں نہ مانو گے تو پھر تمہاری طبعی موت سے پہلے ہی تم پر عذاب نازل کرے گا پھر اس وقت نہ تمہارا ایمان لانا کچھ فائدہ دے گا اور نہ ہی تمہیں کچھ مزید مہلت مل سکے گی۔ لہٰذا اس وقت جو تمہیں مہلت ملی ہوئی ہے اس میں اپنا نفع و نقصان خوب سوچ سمجھ لو اور سنبھل جاؤ۔ قوم کے مختلف جوابات :۔ یہ تھی وہ دعوت جو سیدنا نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کے سامنے پیش کی۔ اور اس قسم کی دعوت ہی حق و باطل کے درمیان محاذ آرائی کا نقطہ آغاز ہوتا ہے۔ چنانچہ قوم کے چودھری سینہ تان کر سیدنا نوح علیہ السلام کی مخالفت پر اتر آئے۔ کبھی کہتے : ارے! ہم میں اور تم میں فرق کیا ہے؟ تم بھی ہمارے جیسے ہی محتاج انسان ہو، تمہیں بھی ویسے ہی کھانے پینے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ جیسے ہم کھاتے پیتے ہیں۔ پھر ہم تمہاری اطاعت آخر کیوں کریں؟ کبھی کہتے کہ یہ تم سارے جہان سے نرالی اور ان ہونی بات کہتے ہو کہ ہم اپنے بتوں کی عبادت چھوڑ دیں۔ ایسی دیوانگی کی باتیں چھوڑ دو۔ کبھی کہتے کہ اگر تم ہمارے معبودوں کی توہین سے باز نہ آئے تو وہ تمہیں ایسی بری مار ماریں گے کہ پھر اٹھ نہ سکو گے، اور کبھی کہتے کہ جس عذاب کی تم دھمکی دے رہے ہو وہ لے کیوں نہیں آتے، اور کبھی کہتے : نوح )علیہ السلام ( ! یہ چند بدھو قسم کے لوگ تم نے اپنے ساتھ لگا لیے ہیں یہ تو ہمارے کمینے اور رذیل لوگ ہیں۔ ان کے بل بوتے پر تم ہم سے مطالبہ کرتے ہو کہ ہم بھی تمہاری اطاعت کریں؟ غرض سیدنا نوح اور ان کی قوم کے درمیان اس قسم کے مذاکرات آٹھ نو سو سالوں پر محیط ہیں جن کو اس مقام پر نظرانداز کردیا گیا ہے۔ اس طویل مدت کی تبلیغ کا جو نتیجہ سیدنا نوح علیہ السلام کی سمجھ میں آیا وہ ان الفاظ میں اپنے پروردگار کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ نوح
4 نوح
5 نوح
6 [٣] یعنی میں نے اپنی امکانی حد تک لوگوں کو تیرا پیغام پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ حتیٰ کہ دن رات ایک کردیا۔ مگر یہ قوم کچھ اس قدر ضدی واقع ہوئی ہے کہ ہر سیدھی بات کا الٹا ہی مطلب لیتی ہے۔ میں نے جتنی بھی کوشش کی کہ انہیں اپنے قریب لاسکوں اتنا ہی یہ مجھ سے دور رہنے اور بھاگنے کی کوشش کرتی ہے۔ نوح
7 [٤] یعنی اگر وہ اللہ پر ایمان لے آئیں اور اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کریں تو اللہ یقیناً ان کے گناہ معاف کردے گا۔ لیکن ان بدبختوں نے میری بات سننا بھی گوارا نہ کیا۔ بلکہ اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور دوسرا کام وہ یہ کرتے ہیں کہ جہاں کہیں مجھے دیکھتے ہیں اپنا منہ ڈھانپ لیتے ہیں کہ میں انہیں دیکھ کر بلا نہ لوں یا پھر انہیں مجھ سے اتنی نفرت ہے کہ وہ میری شکل دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے اور اپنے منہ پر کپڑا ڈال لیتے ہیں۔ یہ ہے ان کی ضد اور نفرت کی انتہا انہوں نے تو تیرے احکام کے سامنے اکڑ جانے میں حد کردی۔ نوح
8 نوح
9 [٥] استغفار سے حاصل ہونے والے دنیوی فوائد :۔ اور جہاں تک میرے سمجھانے کا تعلق ہے تو میں ان کی مجلسوں میں بھی جاتا ہوں اور ان کے گھروں میں بھی۔ ان سے نجی محفلیں بھی کرتا ہوں۔ انہیں برملا بھی سمجھاتا ہوں اور خیرخواہی کے لہجہ میں انفرادی ملاقاتوں میں انہیں یہ بات سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ اس وقت جو تم پر قحط مسلط ہے، بارشیں نہیں ہو رہیں، اگر تم اللہ کی طرف رجوع کرلو۔ اور اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ لو تو تم پر سے یہ قحط دور ہوجائے گا۔ اللہ کی مہربانی سے خوب بارشیں ہوں گی۔ اور تمہارے اموال اور اولاد میں اللہ تعالیٰ خوب برکت عطا فرمائے گا۔ واضح رہے کہ استغفار کے دنیا میں حاصل ہونے والے ایسے فوائد کا ذکر قرآن میں اور بھی کئی مقامات پر آیا ہے۔ مثلاً سورۃ مائدہ میں فرمایا : اور اگر اہل کتاب تورات، انجیل اور جو کچھ ان کے پروردگار کی طرف سے ان پر نازل کیا گیا تھا، پر عمل پیرا رہتے تو ان کے اوپر سے بھی رزق برستا اور نیچے سے بھی نکلتا (٥: ٦٦) اور سورۃ اعراف میں فرمایا :’’اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے‘‘ (٧: ٩٦) ان آیات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ استغفار کا دنیا میں بھی یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اس سے تنگدستی اور کئی دوسری پریشانیاں دور ہوجاتی ہیں۔ چنانچہ حسن بصری رحمہ اللہ سے ایک شخص نے قحط کا شکوہ کیا، دوسرے نے محتاجی کا اور تیسرے نے اولاد نہ ہونے کا تو آپ نے ان تینوں کو استغفار کا حکم دیا۔ کسی نے کہا کہ ان کے شکوے تو الگ الگ ہیں لیکن آپ ہر ایک کو استغفار کا ہی حکم دے رہے ہیں؟ اس کے جواب میں آپ نے یہی آیات ( نمبر ١٠ تا ١٢) پڑھ کر اسے مطمئن کردیا۔ بلکہ بعض علماء تو کہتے ہیں کہ ہر مقصد کے حصول کے لئے اللہ کے حضور استغفار کرنا چاہئے۔ چنانچہ ایک دفعہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بارش کی دعا کرنے کے لئے باہر نکلے اور صرف استغفار پر اکتفا فرمایا۔ کسی نے عرض کیا : امیر المومنین! آپ نے بارش کے لئے دعا تو کی ہی نہیں؟ فرمایا : میں نے آسمان کے ان دروازوں کو کھٹکھٹا دیا ہے جہاں سے بارش نازل ہوتی ہے پھر آپ نے سورۃ نوح کی یہی آیات لوگوں کو پڑھ کر سنا دیں۔ نوح
10 نوح
11 نوح
12 نوح
13 [٦] یعنی جب تم اپنے چھوٹے چھوٹے چودہریوں اور سرداروں کے ہاں جاتے ہو تو بڑے اہتمام کے ساتھ جاتے ہو۔ اور وہاں جاکر بھی یہ خیال رکھتے ہو کہ خلاف ادب کوئی حرکت سرزد نہ ہوجائے لیکن اللہ کو تم نے ایسا ہی بے وقار سمجھ رکھا ہے کہ اس کے خلاف بغاوت کرتے ہو۔ اس کی نافرمانیاں کرتے ہو اس کی خدائی میں دوسروں کو شریک بناتے ہو اور تمہیں ذرہ بھر شرم نہیں آتی۔ نہ ہی تمہیں یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ وہ ہر وقت ہمیں ان گناہوں کی سزا دینے کی قدرت رکھتا ہے۔ نوح
14 [٧] اطوار کا معنی : آدم اور بنی آدم پر گزرنے والے اطوار :۔ اَطْوَارًا۔ طَوْر کسی چیز کی ایسی حالت کو کہتے ہیں جو اندازہ کے مطابق کچھ مدت بعد تدریجی تبدیلی چاہتی ہو۔ اور تَطَوُّرٍ بمعنی ایک حالت سے دوسری یا اگلی حالت میں تبدیل ہونا۔ سوچا جائے تو انسان اطوار ہی کا مجموعہ اور مظہر ہے۔ اللہ نے اسے مٹی سے پیدا کیا۔ تو سات اطوار سے گزارا (١) خشک مٹی، (٢) پھر اسے گیلی مٹی یا گارا بنایا گیا، (٣) پھر لیس دار یا چپک دار یا چیکنی مٹی بنایا گیا، (٤) پھر اس کا خمیر اٹھایا گیا حتیٰ کہ اس میں بدبو پیدا ہوگئی، (٥) پھر اسے خشک کیا گیا، (٦) پھر اسے حرارت سے پکایا گیا (٧) حتیٰ کہ وہ ٹن سے بجنے والی مٹی بن گئی۔ اس مٹی سے آدم کا پتلا بنایا گیا پھر اللہ نے اس میں روح پھونکی تو یہ صرف ایک جاندار مخلوق ہی نہیں بلکہ عقل و تمیز اور ارادہ واختیار رکھنے والی مخلوق بن گیا۔ پھر آگے اس کی نسل نطفہ سے چلائی گئی۔ زمین سے پیدا ہونے والی بے جان اشیاء انسان کی غذا بنیں۔ انہیں غذاؤں سے نطفہ بنا۔ یہی نطفہ جب رحم مادر میں حمل کی صورت میں قرار پا گیا تو وضع حمل تک اس پر سات اطوار آئے۔ تاآنکہ وہ ایک جیتا جاگتا باشعور انسان بن کر رحم مادر سے باہر آگیا۔ پھر اس پر ہر نیا دن ایک نیا طور ہے اور ان تمام اطوار پر ہمہ وقتی اور ہمہ گیر تصرف صرف اللہ کو حاصل ہے۔ ان سب باتوں کو جاننے کے باوجود تم نے جو اللہ کو بے وقار سمجھ رکھا ہے تو یہ کس قدر ظلم کی بات ہے۔؟ نوح
15 [٨] اس کی تشریح کے لیے دیکھیے سورۃ ملک کا حاشیہ نمبر ٦۔ نوح
16 [٩] یہ آسمانوں میں جگمگانے والے چاند اور سورج ہمارے لئے محض روشنی کا ذریعہ نہیں ہیں بلکہ انسان کی زندگی کا بہت حد تک انہی پر انحصار ہے۔ سورج کی وجہ سے ہماری زمین پر رات اور دن وجود میں آتے ہیں۔ موسموں میں تبدیلی آتی ہے۔ فصلیں پکتی ہیں، پھلوں میں رس پڑتا ہے اور انہی چیزوں سے انسان اور دوسری جاندار مخلوق کو غذا مہیا ہوتی ہے تم پر اللہ کے یہ کیا کم احسان ہیں پھر بھی تم اللہ کے ناقدر شناس اور نمک حرام بنتے ہو؟ نوح
17 نوح
18 [١٠] چاند اور سورج کے بعد اب زمین کی طرف آؤ۔ تو زمین کا تمہاری موت و حیات سے گہرا تعلق ہے۔ زمین ہی سے تم پیدا ہوئے۔ ابتدائی خلقت کے لحاظ سے بھی اور توالد و تناسل کے بعد بھی۔ پھر مرنے کے بعد بھی یہی زمین تمہارا مستقر بنتی ہے۔ زندگی میں تم زمین کی سطح پر رہتے تھے۔ مرنے کے بعد اسکے اندر چلے جاتے ہو اور دوبارہ زندگی ملنے پر پھر زمین کے اندر سے نکل کر باہر سطح زمین پر آجاؤ گے۔ نوح
19 [١١] پھر اس زمین میں تمہارے لیے اور بھی بہت سے فائدے ہیں۔ تم اس پر مکان بناؤ۔ باغات لگاؤ، چلو پھرو، لیٹو، بیٹھو، ہر طرف کشادہ راہیں ہیں۔ اگر ایک شخص کے پاس وسائل ہوں تو ساری دنیا کے گرد گھوم سکتا ہے۔ نوح
20 نوح
21 [١٢] یہ تھے سیدنا نوح علیہ السلام کی تبلیغ کے چند موٹے موٹے نکات یا توحید پر مبنی دلائل جو وہ مدت مدید تک اپنی قوم کو سمجھاتے رہے۔ لیکن جب قوم کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے تو اللہ کی بارگاہ میں عرض کی کہ یا اللہ ! یہ لوگ تو بس دنیا کے ہی پجاری ہیں۔ یہ صرف ان سرداروں کی ہی بات مانتے ہیں جنہیں تو نے کثرت سے مال اور اولاد دے رکھی ہے۔ میری بات سننے کو کوئی بھی تیار نہیں ہوتا۔ نوح
22 [١٣] ان سرداروں نے اپنے پیروکاروں میں نوح علیہ السلام کی شخصیت کو ہمیشہ برے انداز میں ہی پیش کیا اور انہیں یہی باور کراتے رہے کہ یہ شخص تو محض اپنی بڑائی قائم کرنے کی خاطر یہ سارے پاپڑ بیل رہا ہے۔ اور وہ بات ہی ایسی انہونی کہتا ہے جو کم از کم ہماری عقل باور نہیں کرسکتی۔ یہ بھلا کیسے ممکن ہے کہ ایک اکیلا خدا ہی کائنات کا سارا انتظام چلا رہا ہو۔ ہر ایک کی براہ راست فریاد سنتا ہو، پھر فریاد رسی بھی کرتا ہو۔ ہر بادشاہ کو اپنا انتظام سلطنت چلانے کے لیے بے شمار امیروں، وزیروں، ماتحتوں اور کارندوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور انہی کی وساطت سے بادشاہ تک فریاد پہنچائی جاسکتی ہے۔ پھر ہم اپنے معبودوں کا کیسے اس کے کہنے پر انکار کردیں۔ اس کی بات میں کچھ بھی وزن ہوتا تو اہل عقل اور شریف لوگ اس کے ساتھی ہوتے۔ اس کے بجائے اس کے جو چند ساتھی ہیں بھی تو وہ بدھو اور ذلیل قسم کے لوگ ہیں۔ اور ان باتوں کا انہوں نے اس طرح اجتماعی طور پر پروپیگنڈا کیا اور پوری قوم اس پروپیگنڈے سے اس قدر متاثر ہوچکی تھی کہ جو کوئی مرنے لگتا تو اولاد کو بڑی تاکید سے یہ وصیت کرجاتا کہ اس بڈھے نوح کے جال میں نہ پھنس جانا۔ یہ تو دیوانہ ہے جو چاہتا ہے کہ ہم اپنے آبائی دین کو خیرباد کہہ دیں۔ نوح
23 [١٤] نوح کی قوم کے بت عرب میں کیسے رائج ہوگئے :۔ اس آیت کی تفسیر کے لیے درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے : سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: جو بت نوح علیہ السلام کی قوم میں پوجے جاتے تھے، وہی بعد میں عرب میں آگئے، ودّ کلب قبیلے کا بت تھا جو دومۃ الجندل میں تھا۔ سواع ہذیل قبیلے کا بت تھا، یغوث پہلے مرار قبیلے کا بت تھا پھر بنی غُطَیْفْ کا اور یہ سبا شہر کے پاس جوف میں تھا، یعوق ہمدان قبیلے کا تھا اور نسر حمیَر قبیلے کا، جوذی الکلاع (بادشاہ) کی اولاد تھے۔ یہ نوح علیہ السلام کی قوم میں سے چند نیک لوگوں کے نام تھے۔ جب وہ مرگئے تو شیطان نے انہیں یہ پٹی پڑھائی کہ جہاں یہ لوگ بیٹھا کرتے تھے وہاں ان کے مجسمے بنا کر (یادگار کے طور پر) نصب کردو اور ان کے وہی نام رکھو جو ان بزرگوں کے تھے۔ اس وقت ان کی عبادت نہیں کی جاتی تھی۔ لیکن جب وہ لوگ گزر گئے تو بعد والوں کو یہ شعور نہ رہا اور وہ ان کی پرستش کرنے لگے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان بتوں کے پجاری یا نوح علیہ السلام کی قوم کے سب مشرک تو طوفان نوح میں غرق کردیئے گئے تھے جو باقی بچے تھے وہ سب مومن اور موحد تھے پھر بعد میں انہی بتوں کی پوجا کیسے شروع ہوگئی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح شیطان نے بچے ہوئے موحدین کے آباء و اجداد کو چکمہ دے کر ان سے ان صالحین کی آہستہ آہستہ پرستش شروع کرادی تھی۔ شیطان کی وہی چال بعد میں کامیاب رہی۔ موحدین نے اپنی اولاد کو طوفان نوح کا قصہ اور اس کی وجہ بیان کی۔ چند پشتیں گزرنے کے بعد انہی بتوں سے لوگوں میں عقیدت پیدا ہوگئی جن کی وجہ سے قوم نوح پر عذاب آیا تھا۔ نوح
24 نوح
25 [١٥] عذاب قبر کا ثبوت :۔ طوفان نوح کا ذکر سورۃ اعراف کے حاشیہ ٦٨ اور سورۃ یونس کے حاشیہ ٨٣ کے تحت تفصیل سے گزر چکا ہے۔ جب یہ طوفان آیا تو اس قوم کے معبود ان کے کسی کام نہ آسکے بلکہ وہ بھی ان کے ساتھ غرق ہوگئے اور غرق ہونے کے ساتھ ہی انہیں جہنم میں داخل کردیا گیا۔ یہ آیت بھی منجملہ ان آیات کے ہے جن سے برزخ یا عذاب قبر کا ثبوت قرآن سے مہیا ہوتا ہے۔ نوح
26 [١٦] بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نوح علیہ السلام نے یہ دعا قوم کے رویہ سے تنگ آکر غصہ کی حالت میں اور بے صبری کی بنا پر کی ہوگی۔ جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہے آپ نے یہ دعا بے صبری کی بنا پر نہیں بلکہ ساری عمر یعنی ساڑھے نو سو سال کی تبلیغ کے بعد تجربہ کی بنا پر اور نہایت مایوسی کے عالم میں کی تھی۔ اور آپ کی دعا اللہ کی مشیئت کے عین مطابق تھی۔ اگر آپ ایسی دعا نہ بھی کرتے تو بھی ان پر عذاب کا مقرر وقت آچکا تھا اور اس کی دلیل سورۃ ہود کی آیت ٣٦ ہے جو اس طرح ہے : اور نوح علیہ السلام کی طرف وحی کی گئی کہ تیری قوم میں سے جو لوگ ایمان لاچکے ہیں ان کے سوا اب اور کوئی ایمان لانے والا نہیں ہے لہٰذا اب ان کی کرتوتوں پر غم کھانا چھوڑ دو۔ نوح
27 نوح
28 [١٧] کافروں کے حق میں سیدنا نوح کی بددعا : سیدنا نوح علیہ السلام کی دعا کا پہلا حصہ تو کافروں کے متعلق تھا جن کے متعلق آپ نے اپنے تجربہ کی بنا پر یہ کہا تھا کہ ایسے بدکردار لوگ ہیں کہ ان کے نطفہ سے بھی بے حیا، بدکردار اللہ کے نافرمان اور ناشکرے ہی پیدا ہوں گے۔ وہ خود تو کیا ایمان لائیں گے، دوسروں کو بھی گمراہ ہی کرنے کی کوشش کریں گے۔ اپنے اور مومنوں کے حق میں دعائے خیر :۔ اسی دعا کا دوسرا حصہ جو اپنے لیے اور جملہ مومنین کے لیے ہے اس میں خاصی نرمی و لچک اور وسعت قلبی پائی جاتی ہے۔ یعنی سب سے پہلے تو آپ نے اپنے حق میں اپنی تقصیرات سے بخشش کی دعا فرمائی پھر اپنے والدین کے لیے پھر ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاکر آپ کے گھر یا مسجد یا کشتی میں داخل ہوجائیں۔ پھر ان مومن مردوں اور عورتوں کے لیے بھی جو اس دعا کے بعد یا آپ کے بعد ایمان لائیں گے۔ اس دعا کے بعد پھر ایک بار تاکیداً فرمایا کہ اس ظالم قوم کی ہلاکت میں کوئی رو رعایت نہ کرنا۔ نوح
0 الجن
1 [١] اس سلسلہ میں درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے : سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے چند اصحاب کے ساتھ عکاظ کے بازار جانے کے ارادہ سے روانہ ہوئے۔ ان دنوں شیطانوں کو آسمان کی خبر ملنا بند ہوگئی تھی اور ان پر انگارے پھینکے جاتے تھے۔ وہ (زمین کی طرف) لوٹے اور (آپس میں) کہنے لگے۔ یہ کیا ہوگیا ؟ ہمیں آسمان کی خبر ملنا بند ہوگئی اور ہم پر انگارے پھینکے جاتے ہیں۔ ضرور کوئی نئی بات واقع ہوئی ہے جس کی وجہ سے ہمیں آسمان کی خبر ملنا بند ہوئی ہے۔ اب یوں کرو کہ ساری زمین کے مشرق و مغرب میں پھر کر دیکھو کہ وہ کیا نئی بات واقع ہوئی ہے۔ ان میں سے کچھ شیطان تہامہ (حجاز) کی طرف بھی آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچ گئے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نخلہ میں تھے اور عکاظ کے بازار جانے کا قصد رکھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اصحاب کو نماز فجر پڑھا رہے تھے جب ان جنوں نے قرآن سنا تو ادھر کان لگا دیا پھر کہنے لگے : یہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے آسمان کی خبر ہم پر بند کردی گئی۔ پھر اس وقت وہ اپنی قوم کی طرف لوٹے اور انہیں کہنے لگے ﴿یَا قَوْمَنَا انَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا۔۔ اَحَدًا﴾ اور اللہ تعالیٰ نے آپ پر یہ سورت نازل فرمائی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جنوں کی یہ گفتگو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وحی کے ذریعہ معلوم ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) جنوں کا مختلف موقعوں پر قرآن سننا :۔ اس سے پیشتر سورۃ احقاف کی آیات ٢٩ تا ٣٢ میں بھی جنوں کے قرآن سننے کا ذکر گزر چکا ہے۔ لیکن قرآن کے ہی مضامین سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو الگ واقعات ہیں۔ سورۃ احقاف میں بیان شدہ واقعہ کے مطابق سننے والے جن مشرک نہیں تھے بلکہ وہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر اور تورات پر ایمان رکھتے تھے پھر قرآن سننے کے بعد وہ جن قرآن پر اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت پر ایمان لے آئے تھے۔ جبکہ اس سورت میں جن جنوں کا ذکر آیا ہے یہ مشرک تھے۔ جنوں کے متعلق جو حقائق قرآن میں جا بجا مذکور ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے۔ (١) انسان کے علاوہ جن ہی ایسی مخلوق ہے جو شریعت کی مکلف ہے، (٢) جن ناری مخلوق ہے، جو تیز شعلہ یا آگ کی لپٹ سے پیدا کیے گئے ہیں جبکہ انسان خاکی مخلوق ہے، (٣) انسان کی پیدائش سے پہلے جن ہی اس زمین پر آباد تھے اور ان میں بھی نبوت کا سلسلہ جاری تھا۔ لیکن انسان کی تخلیق کے بعد نبوت کا سلسلہ سیدنا آدم علیہ السلام اور اس کی اولاد میں منتقل ہوگیا۔ اب جو نبی انسانوں کے لئے مبعوث ہوتا ہے وہی جنوں کے لئے بھی ہوتا ہے۔ جنوں کی صفات :۔ (٤) جن تو انسانوں کو دیکھ سکتے ہیں، لیکن انسان جنوں کو نہیں دیکھ سکتے۔ اس سورۃ میں بھی جن جنوں کا ذکر آیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں دیکھا نہیں تھا بلکہ بعد میں وحی کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے قرآن سننے اور متاثر ہو کر ایمان لانے کی خبر دی گئی، (٥) جن بھی انسانوں کی ہی علاقائی زبانیں بولتے اور سمجھتے ہیں یہی وجہ تھی کہ جن قرآن سننے کے ساتھ ہی فوراً اسے سمجھ گئے اور ایمان لے آئے، (٦) انسان کی طرح ان میں بھی بعض نیک ہوتے ہیں، بعض بدکردار اور نافرمان۔ نیز جس قسم کے عقائد، اچھے ہوں یا برے، انسانوں میں پائے جاتے ہیں جنوں میں بھی پائے جاتے ہیں، (٧) بدکردار جنوں کو شیطان کہا جاتا ہے اور قرآن میں یہ الفاظ ان معنوں میں مترادف کے طور پر استعمال ہوتے ہیں، (٨) انسانوں کی طرح ان میں بھی توالد و تناسل کا سلسلہ جاری ہے۔ الجن
2 الجن
3 [٢] قرآن سننے والے جنوں کی اپنی قوم کو تبلیغ :۔ آیت نمبر ٢ اور ٣ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقعہ پر قرآن سننے والے جن مشرک تھے اور ان میں کچھ ایسے بھی تھے جو عیسائیوں کے عقیدہ تثلیث سے بھی متاثر تھے۔ قرآن کا بیان سن کر انہیں معلوم ہوا کہ اللہ کی ذات بیوی بیٹوں کی احتیاج سے پاک ہے۔ اور اس کے متعلق ایسا تصور رکھنا سخت گمراہ کن عقیدہ ہے۔ لہٰذا ہم ایسے عقیدہ و خیالات سے توبہ کرکے اللہ اکیلے پر ایمان لاتے ہیں۔ الجن
4 [٣] سَفِیْھُنَا میں سفیہ سے مراد ایک فرد بھی ہوسکتا ہے اور اس صورت میں وہ ابلیس ہے۔ جس نے جن و انسان کو گمراہ کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے اور سفیہ سے مراد نادانوں کا گروہ بھی ہوسکتا ہے اور جھوٹی باتوں سے مراد تمام شرکیہ عقائد ہیں۔ بالخصوص یہ کہ اللہ کی بیوی بھی ہے اور اولاد بھی یا یہ کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں یا یہ کہ کائنات میں کئی دیوی، دیوتا اور اللہ کے پیارے ایسے ہیں جنہیں اللہ نے کائنات میں تصرف امور کے بعض اختیارات سونپ رکھے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ الجن
5 [٤] یعنی جنوں اور انسانوں کی عظیم اکثریت اگر یہ باتیں کہتی ہے کہ اللہ کی بیوی اور اولاد ہے یا فرشتے اس کی بیٹیاں ہیں یا اللہ نے اپنے پیاروں کو بھی کئی قسم کے اختیارات تفویض کر رکھے ہیں تو وہ جھوٹ کیسے ہوسکتا ہے۔ اتنی عظیم اکثریت جھوٹی بات پر کیسے اتفاق کرسکتی ہے۔ لہٰذا ہم نے بھی ان باتوں کو درست تسلیم کرلیا۔ الجن
6 [٥] انسانوں کا جنوں سے پناہ مانگنا :۔ عہد جاہلیت میں اکثر لوگوں کا یہ عقیدہ بن چکا تھا کہ ہر غیر آباد جگہ جنوں کا مسکن ہوتا ہے۔ اور ان میں بھی انسانوں کی طرح بعض جن دوسروں کے سردار اور بادشاہ ہوتے ہیں۔ جو وہاں حکومت کرتے ہیں اور اگر کسی انسان کا ایسے علاقہ میں گزر ہو اور اس جن کی پناہ مانگے بغیراس جگہ میں رہائش پذیر ہوجائے جس کے قبضہ میں یہ غیر آباد جگہ ہے تو وہ حاکم جن ایسے انسان یا انسانوں کو علاقہ غیر میں داخل ہونے کی بنا پر سزا دینے اور تکلیف پہنچانے کا حق رکھتا ہے خواہ وہ خود ایسی سزا دے دے یا اپنے ماتحت جنوں سے دلوا دے چنانچہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جاہلیت کے زمانہ میں عرب جب کسی سنسان وادی میں رات گزارتے تو پکار کر کہتے کہ ہم اس وادی کے مالک جن کی پناہ مانگتے ہیں، گویا انسان کی اوہام پرستی کا یہ عالم تھی کہ اللہ نے تو اسے اشرف المخلوقات اور جنوں سے بھی افضل پیدا کیا تھا لیکن اس زمین کے خلیفہ انسان نے الٹا جنوں سے ڈرنا اور ان سے پناہ مانگنا شروع کردیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جنوں کا دماغ اور زیادہ خراب ہوگیا اور وہ واقعی اپنے آپ کو انسان سے افضل سمجھنے لگے۔ الجن
7 [٦] یہ ذومعنی فقرہ ہے اس کا ایک مطلب تو وہی ہے جو ترجمہ میں مذکور ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ کسی کو رسول بنا کر نہیں بھیجے گا۔ گویا جس طرح انسانوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو رسالت اور آخرت دونوں کے منکر ہیں اسی طرح جنوں میں بھی ایسے لوگ موجود تھے۔ جب جنوں نے قرآن سن کر معلوم کیا کہ ان کے یہ دونوں عقیدے غلط تھے۔ چنانچہ ان عقائد سے دستبردار ہو کر وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر ایمان لے آئے۔ الجن
8 الجن
9 [٧] ایام جاہلیت میں کہانت کا کاروبار :۔ دور نبوی میں کہانت کا کاروبار خاصا چلتا تھا۔ اس کاروبار کی بنیاد یہ تھی کہ ان کاہنوں کا تعلق شیطانوں سے ہوتا تھا۔ چنانچہ ایک دفعہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ کاہنوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا فرماتے ہیں۔ فرمایا : ان کی باتیں محض لغو ہیں۔ صحابہ نے کہا : کبھی تو ان کی بات سچ بھی نکل آتی ہے۔ فرمایا : یہ وہ بات ہوتی ہے جو کاہن کو شیطان کے ذریعہ معلوم ہوتی ہے اور شیطان یہ خبر ملاء اعلیٰ سے اڑا لیتا ہے، پھر کاہن اس خبر میں سو جھوٹ ملالیتا ہے۔ (بخاری۔ باب الکہانۃ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد آسمان کے پہرے سخت کردیئے گئے۔ تاکہ کوئی شیطان آسمان کے قریب بھی نہ پھٹکنے پائے اور اس نظام کو سخت تر بنانے کی وجہ یہ تھی کہ وحی جو نبی آخر الزماں پر نازل ہونے والی اور ہو رہی ہے۔ اس کا کچھ بھی حصہ شیطان نہ سن پائے۔ اور اس سے ایک دوسرا مقصد از خود حاصل ہوگیا یعنی کاہنوں کو شیطانوں کے ذریعہ جو خبریں ملتی تھیں وہ بھی بند ہوگئیں۔ اسی کیفیت کو جن اپنی زبان میں بیان کر رہے ہیں۔ الجن
10 [٨] یعنی یہ تو ہمیں معلوم ہوگیا کہ آسمان پر اس قدر ناکہ بندیوں کی غرض و غایت کیا ہے۔ رہی یہ بات کہ لوگ اس قرآن پر ایمان لاکر اللہ تعالیٰ کے انعامات و اکرامات کے مستحق بنتے ہیں یا اس کا انکار کرکے اللہ کے عذاب کے مستحق بنتے ہیں۔ یہ معلوم کرنے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ اب باقی نہیں رہ گیا۔ الجن
11 الجن
12 [٩] یعنی اب ہماری بھلائی اسی بات میں ہے کہ ہم بلا چوں و چرا قرآن پر ایمان لے آئیں۔ اگر ہم نے قرآن کو نہ مانا تو اللہ کی سزا سے بچ نہیں سکتے نہ زمین میں کسی جگہ چھپ کر، نہ ادھر ادھر بھاگ کر اور نہ ہوا میں اڑ کر۔ الجن
13 [١٠] یعنی قرآن کو سن لینے کے بعد ہمارے لئے ممکن نہ رہا کہ ہم اپنے ساتھ غلط عقائد پر جمے رہیں۔ لہٰذا ہم نے اپنی قوم میں سب سے پہلے ایمان لانے میں سبقت کی ہے۔ [١١] یہ سب وہ اہم نکات ہیں جو جنوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قرآن سن کر اخذ کئے تھے۔ پھر ایمان لانے کے بعد اپنی قوم کے پاس جاکر انہیں بتائے تھے۔ انہی میں سے یہ نکتہ جزا و سزا کے قانون سے تعلق رکھتا ہے۔ حق تلفی سے مراد یہ ہے کہ جتنے اجر کا وہ مستحق ہو اسے اس سے کم دیا جائے اور زبردستی سے مراد یہ ہے کہ اسے نیکی کا کوئی اجر نہ دیا جائے۔ یا بلاقصور ہی کسی کو سزا دے ڈالی جائے۔ یا قصور تو کم ہو مگر سزا زیادہ دے ڈالی جائے۔ کسی ایمان لانے والے کے لیے اللہ کے ہاں ایسی کوئی صورت نہ ہوگی۔ الجن
14 [١٢] تَحَرَّوْا۔ اَحرٰی بمعنی لائق تر اور تَحَرَّی بمعنی زیادہ مناسب اور لائق تر چیز کو طلب کرنا۔ دو چیزوں میں سے زیادہ بہتر کو طلب کرنا۔ یعنی ایمان لانے والے جن اپنی قوم میں واپس آکر انہیں سمجھا رہے ہیں کہ بلا شبہ ہم میں سے کچھ فرمانبردار ہیں اور کچھ نافرمان اور بے راہ رو بھی ہیں۔ اور حق بات یہی ہے کہ جو لوگ اسلام لے آئے انہوں نے عقلمندی کی۔ ہدایت کی راہ کو پسند کرلینا ہی ان کے بہتر انتخاب کی دلیل ہے۔ کیونکہ جو لوگ اس سیدھی راہ کے علاوہ کوئی اور راہیں اختیار کریں گے وہ گھاٹے میں ہی رہیں گے اور جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ اس مقام پر جنوں کی وہ تقریر یا وعظ و نصیحت ختم ہوجاتی ہے جو انہوں نے ایمان لانے کے بعد واپس آکر اپنے بھائی بندوں کو کی۔ چنانچہ بہت سے جن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لے آئے پھر اس واقعہ کے بعد متعدد بار جن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ الجن
15 الجن
16 [١٣] اللہ کی فرمانبرداری اور رزق کی فراوانی :۔ یعنی جن اور انسان اللہ کے فرمانبردار بن کر رہتے تو ہم ان پر بکثرت بارشیں برساتے اور رزق کی فراوانی کردیتے۔ اور یہ وہی مضمون ہے جو پہلے سورۃ نوح کی آیت نمبر ١١، ١٢ کے تحت گزر چکا ہے تفصیل کے لئے دیکھئے سورۃ نوح کا حاشیہ نمبر ٥ الجن
17 [١٤] نعمتوں سے آزمائش کی صورت یہ ہوتی ہے کہ آیا وہ ان نعمتوں سے فائدہ اٹھا کر اللہ کا شکر بجا لانے اور اس کی اطاعت میں مزید ترقی کرتے ہیں یا اللہ کو بالکل ہی بھول جاتے ہیں یا ناشکری کرکے اصل سرمایہ بھی کھو بیٹھتے ہیں۔ [١٥] یعنی اس کی زندگی میں اس کی پریشانیاں بڑھتی ہی جائیں گی کسی کل چین نصیب نہ ہوگا اور آخرت میں یہ حال ہوگا کہ ہر آن اس کے عذاب میں اضافہ ہی کیا جاتا رہے گا۔ الجن
18 [١٦] یعنی ویسے تو کسی جگہ اور کسی حال میں بھی اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو پکارنا نہیں چاہیے مگر مساجد میں تو ایسا کام کرنے سے یہ شرک کا گناہ کئی گنا زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ کیونکہ مسجدیں تو خالصتاً اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے بنائی جاتی ہیں اور بعض علماء کہتے ہیں کہ امت مسلمہ کے لیے تو ساری زمین ہی مسجد بنا دی گئی ہے۔ لہٰذا کسی جگہ بھی اللہ کے ساتھ دوسروں کو پکارنا جائز نہیں۔ اور بعض علماء کے نزدیک مساجد سے مراد وہ اعضاء ہیں جن پر سجدہ کیا جاتا ہے۔ یہ اعضاء تو اللہ کی عبادت اور بندگی کے لئے بنائے گئے ہیں۔ لہٰذا اللہ کے ساتھ دوسروں کو پکار کر ان کا غلط استعمال کرنا جائز نہیں۔ الجن
19 [١٧] کافروں کے قرآن سننے کی وجوہ :۔ یعنی جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو قرآن سنانے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو مسلمان بھی آپ کی طرف دوڑے آتے ہیں اور کافر بھی۔ اگرچہ دونوں کے آنے اور ہجوم کرنے کا مقصد الگ الگ اور ایک دوسرے کے برعکس ہوتا ہے۔ مسلمان ہدایت کے طالب ہیں اس لیے وہ فوراً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف چل پڑتے ہیں اور کافر یہ چاہتے ہیں کہ وہاں شور شرابا کرکے قرآن کی آواز لوگوں کے کانوں میں نہ پڑنے دیں یا اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نظریں جما کر اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گھور گھار کراتنا مرعوب کردیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن سنانا بند کردیں یا پھر اس لیے سننے آجاتے ہیں کہ کوئی ایسا نکتہ ہاتھ آجائے جس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جھوٹا کیا جاسکے یا مذاق اڑایا جاسکے۔ الجن
20 [١٨] یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان ہجوم کرنے والے کافروں سے کہیے کہ میں کوئی قابل اعتراض باتیں تو نہیں کہہ رہا میں تو صرف یہی کہتا ہوں کہ مشکل کے اوقات میں یا کسی حاجت کے موقع پر صرف اپنے پروردگار کو پکارتا ہوں اور صرف اسی کو پکارتا ہوں۔ اس لیے کہ میں صرف اسی کو اپنے نفع و نقصان کا مالک سمجھتا ہوں اس میں لڑنے جھگڑنے کی کیا بات ہے؟ الجن
21 [١٩] میرے اختیار میں صرف اتنی ہی بات ہے کہ اللہ کی طرف سے مجھ پر جو وحی آتی ہے وہ میں تم لوگوں تک پہنچا دوں۔ اگر اسے تسلیم کرلو گے تو اس میں یقیناً تمہارا فائدہ ہے۔ مگر یہ میرے اختیار میں نہیں کہ تم کو بھی راہ راست پرلے آؤں یا اگر نہ آؤ تو تمہیں کچھ نقصان پہنچا سکوں۔ ہر طرح کا فائدہ اور نقصان اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ الجن
22 [٢٠] یعنی میرے تصرف اور اختیار کا تو یہ حال ہے کہ تم کو نفع یا نقصان پہنچانا تو دور کی بات ہے مجھے اپنے بھی نفع و نقصان کا اختیار نہیں۔ فرض کرو جو ڈیوٹی اللہ نے میرے ذمہ لگا رکھی ہے میں اس میں کچھ کوتاہی کرتا ہوں تو میں بھی اللہ کی گرفت میں آسکتا ہوں مجھ میں یہ سکت نہیں کہ اپنے آپ کو اللہ کی گرفت سے بچا سکوں یا کہیں بھاگ کر ہی اس کی گرفت سے بچاؤ حاصل کرسکوں۔ الجن
23 [٢١] یاد رہے کہ ان آیات کے اصل مخاطب مشرکین مکہ ہیں۔ جو شرک سے کسی قیمت پر باز نہیں آتے تھے اور یہی ان کی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی تھی۔ ایسے مشرکوں کی سزا واقعی ابدی جہنم ہے۔ لیکن مسلمان جو کم از کم شرک سے پاک ہوں۔ ان سے اگر اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کا کوئی کام سرزد ہوجائے تو ان کی سزا ابدی جہنم نہیں ہے۔ بلکہ اللہ انہیں مناسب سزا دینے کے بعد جہنم سے نکال لے گا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اگر وہ مناسب سمجھے تو معاف ہی فرما دے۔ الجن
24 [٢٢] یہ ہجوم کرنے والے مشرک آج تو یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان مسلمانوں کی بھلا حیثیت ہی کیا ہے۔ ہم ان پر ہجوم کرکے ہی انہیں مرعوب کرسکتے ہیں۔ لیکن عنقریب ایک وقت آنے والا ہے جب انہیں معلوم ہوجائے گا کہ کون سے فریق کی تعداد تھوڑی ہے اور اس کے مددگار کم ہیں اور یہ وقت فتح مکہ کا دن بھی ہوسکتا ہے اور قیامت کا دن تو بہرحال یقینی ہے۔ الجن
25 [٢٣] اس آیت میں سوال دہرائے بغیر کفار کے ایک بار بار کے گھسے پٹے سوال کا جواب دیا جارہا ہے جو یہ کہ قیامت کے دن کی معین تاریخ کا مجھے کچھ علم نہیں اس لیے کہ میں عالم الغیب نہیں ہوں نہ ہی میں نے کبھی اس بات کا دعویٰ کیا ہے۔ عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ وہی جانتا ہے کہ وہ جلد آئے گی یا بدیر؟ ہاں اتنی بات میں بھی جانتا ہوں کہ وہ آئے گی ضرور خواہ کب آئے۔ الجن
26 الجن
27 [٢٤] علم غیب سے متعلق اللہ کا دستور یہ ہے کہ وہ یہ علم کسی کو نہیں بتاتا کہ قیامت کب آئے گی۔ ہاں غیب کی کچھ باتیں کسی رسول کو بتا بھی دیتا ہے اور یہ باتیں وہ ہوتی ہیں جن کا بتانا دین کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ مثلاً یہ کہ قیامت ضرور آئے گی۔ ایک وقت آئے گا جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا۔ یا یہ کہ قیامت صرف بدترین لوگوں پر قائم ہوگی یا یہ کہ روز محشر میں اللہ کا لوگوں سے حساب لینا اور جنت اور دوزخ کے حالات۔ یہ سب چیزیں غیب سے تعلق رکھتی ہیں جو اللہ نے وحی کے ذریعہ رسول کو بتادیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت تک پہنچا دیں۔ اس کا بھی ضابطہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ جبریل کے ذریعہ ایسی وحی بھیجتا ہے تو اس کے آگے پیچھے نگران اور محافظ بھی بھیجتا ہے تاکہ یہ وحی بحفاظت تمام و کمال اور بلا کسی آمیزش کے رسول تک پہنچ جائے۔ الجن
28 [٢٥] وحی الٰہی کی حفاظت کا اہتمام :۔ اس جملہ کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں مثلاً ایک یہ کہ رسول کو علم ہوجائے کہ فرشتوں نے اپنے پروردگار کے پیغام ٹھیک ٹھیک پہنچا دیئے۔ دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ کو علم ہوجائے کہ فرشتوں نے رسول کو پیغامات پہنچا دیئے اور تیسرا یہ کہ اللہ کو علم ہوجائے کہ رسولوں نے اس کے پیغام ٹھیک ٹھیک لوگوں تک پہنچا دیئے۔ گویا ان پہرے داروں کی اس وقت تک ڈیوٹی ختم نہیں ہوتی جب تک کہ اللہ کے پیغامات فرشتوں کے ذریعہ رسولوں تک اور رسولوں کے ذریعہ عام لوگوں تک پہنچا نہیں دیئے جاتے۔ [٢٦] یعنی ان انتظامات کے علاوہ ان سب سے اوپر اللہ تعالیٰ کی اپنی نگرانی اور کنٹرول ہے۔ یعنی رسول پر بھی اور فرشتوں پر بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت اسی طرح محیط ہے اگر وہ بال برابر بھی اس کی مرضی کے خلاف جنبش کریں تو فوراً گرفت میں آجائیں۔ نہ فرشتوں کی یہ مجال ہے کہ وہ وحی الٰہی میں سے ایک لفظ تک کی کمی بیشی کرسکیں اور نہ رسولوں کی۔ کیونکہ اللہ جو وحی بھیجتا ہے اس کا ایک ایک لفظ گنتی میں آچکا ہوتا ہے۔ الجن
0 [١] اس سورت کے دو رکوع ہیں۔ پہلا رکوع بالاتفاق مکہ میں اور ابتدائی دور میں نازل ہوا تھا۔ جبکہ دوسرا رکوع مدنی دور میں نازل شدہ معلوم ہوتا ہے۔ اس میں قتال فی سبیل اللہ کا بھی ذکر ہے اور فرضی صدقہ یعنی زکوٰۃ کا بھی اور یہ دونوں باتیں مدنی دور میں فرض ہوئی تھیں۔ مکی دور میں قتال فی سبیل اللہ کی تو اجازت ہی نہیں دی گئی تھی اسی طرح مکی دور میں انفاق فی سبیل اللہ کا حکم تو موجود تھا، لیکن زکوٰۃ کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے۔ المزمل
1 [٢] انداز خطاب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیات اس وقت نازل ہوئی تھیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کو سونے کے لیے بستر پر چادر اوڑھ کر لیٹ چکے تھے۔ اور اس لطیف انداز خطاب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ ہدایت دی جارہی ہے کہ اب پاؤں پھیلا کر اور بے فکر ہو کر سونے کے دن بیت چکے، اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذمہ داریاں کچھ اور قسم کی ہیں۔ المزمل
2 [٣] عظیم ذمہ داریوں کے لیے ریاضت شب بیداری :۔ ان ذمہ داریوں کو نبھانے کے لئے جس قسم کی ریاضت کی ضرورت ہے اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ رات کو سوتے رہنے کی بجائے رات کا زیادہ حصہ اللہ کی عبادت میں مصروف رہا کیجیے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ بہت کم سویا کیجیے یا سویا ہی نہ کیجیے۔ بلکہ یہ ہے کہ عبادت میں گزارا ہوا وقت اگر آدھا بھی ہو تو وہ بھی بہرحال زیادہ ہے۔ پھر اس حصہ کی وضاحت بھی اللہ تعالیٰ نے خود ہی فرما دی۔ کہ رات کا جتنا حصہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عبادت میں گزارنا چاہیے وہ نصف رات ہونا چاہیے۔ یا نصف رات سے کچھ کم یا کچھ زیادہ۔ یعنی اگر دن رات برابر ہوں۔ تو آدھی رات جاگنا کافی ہے اگر راتیں چھوٹی اور دن بڑے ہوں تو آدھی رات سے زیادہ یا دو تہائی رات عبادت میں گزارئیے اور اگر راتیں لمبی اور دن چھوٹے ہوں تو آدھی رات سے کم یا تہائی رات تک عبادت کرنا بھی کافی ہوگا۔ المزمل
3 المزمل
4 [٤] ترتیل میں کون کون سی باتیں شامل ہیں :۔ رَتِّلْ: رتل کسی چیز کی خوبی، آرائش اور بھلائی کو کہتے ہیں اور رتل کے معنی سہولت اور حسن تناسب کے ساتھ کسی کلمہ کو ادا کرنا ہے۔ نیز اس کا معنی خوش آوازی سے پڑھنا یا پڑھنے میں خوش الحانی اور حسن ادائیگی میں حروف کا لحاظ رکھنا اور ہر لفظ کو ٹھہر ٹھہر کر اور الگ الگ کرکے پڑھنا ہے اور اس طرح پڑھنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہر لفظ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ انسان اس کے معانی پر غور کرسکتا ہے اور یہ معانی ساتھ کے ساتھ دل میں اترتے چلے جاتے ہیں۔ چنانچہ ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کو نماز پڑھتے پھر اس قدر سوجاتے جتنی دیر نماز پڑھی تھی۔ پھر اتنی دیر نماز پڑھتے جتنی دیر سوئے تھے پھر اس کے بعد اتنی دیر سو جاتے جتنی دیر نماز پڑھی تھی یہاں تک کہ صبح ہوجاتی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قراءت کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قراءت جدا جدا تھی حرف حرف کرکے، (ترمذی۔ ابو اب فضائل القرآن۔ باب کیف کانت قراۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نیز انہی سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی قراءت کو الگ الگ کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾پڑھتے پھر ٹھہر جاتے پھر ﴿الرحمٰنِ الرّحِیْم﴾ پڑھتے پھر ٹھہر جاتے پھر﴿مَالک یوم الدِّیْن﴾ پڑھتے) (ترمذی۔ ابو اب القراء ات عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) المزمل
5 [٥] عظیم ذمہ داری کیا ہے :؟ بھاری کلام سے مراد وہ احکام ہیں جو معاشرہ میں انقلاب کے سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیئے جانے والے تھے۔ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود ان احکام پر عمل پیرا ہو کر دوسروں کے سامنے عملی نمونہ پیش کرنا تھا پھر اس دعوت کو ساری دنیا کے سامنے پیش کرنا اور ان کے مقابلہ میں اٹھنا تھا۔ مشرکانہ عقائد کے خلاف اور جاہلی تہذیب و تمدن کے خلاف جہاد کرنا تھا۔ صدیوں سے ایک دوسرے کے دشمن معاشرہ میں محبت و موانست اور بھائی بندی کی فضا پیدا کرنا تھی۔ پھر انہی کو متحد کرکے پوری دنیائے کفر سے ٹکر لینا تھی اور اللہ کی مہربانی اور مدد کے ساتھ دین اسلام کو تمام ادیان باطلہ کے مقابلہ میں غالب کرنا تھا۔ یہ تھیں وہ عظیم ذمہ داریاں جن کی آپ کو ﴿ سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَـقِیْلًا ﴾ کے ذریعہ اطلاع دی گئی اور اسی فریضہ کی تربیت کے سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رات کا ایک حصہ اللہ کی عبادت میں گزارنے کا حکم دیا گیا۔ المزمل
6 [٦] تہجد کا لغوی مفہوم :۔ پانچ نمازوں کی فرضیت تو معراج کو ہوئی تھی۔ اس سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی یہی رات کی نماز ہی پڑھا کرتے تھے۔ نماز باجماعت کا بھی کوئی اہتمام یا حکم نہیں تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے اپنے گھروں میں یہ نماز اپنے اپنے طور پر ادا کرلیا کرتے تھے۔ جب معراج میں پانچ وقت نمازیں فرض ہوئیں تو یہ نماز صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے فرض رہ گئی باقی مسلمانوں سے اس کی فرضیت ساقط کردی گئی۔ البتہ اس کے ادا کرنے کی ترغیب ضرور دی گئی۔ اب اس نماز کی حیثیت عام مسلمانوں کے لیے سنت موکدہ کی ہے۔ اس کے اوقات بھی مختلف تھے۔ کئی مسلمان اسے رات کے ابتدائی حصہ میں ادا کرلیا کرتے تھے۔ بعض دوسرے پچھلے حصہ میں یہ نماز ادا کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قیام اللیل کی ایک صورت وہ تھی جو اوپر سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں مذکور ہے۔ اور لغوی لحاظ سے لفظ تہجد یا ھجود کا یہی معنی ہے۔ یعنی رات بھر میں کئی بار سونا بھی اور جاگنا بھی۔ پھر جب پانچ نمازیں فرض ہوگئیں تو بھی یہ نماز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے فرض ہی رہی اور اس کا وقت نصف شب سے لے کر طلوع فجر تک قرار پالیا۔ یعنی اس عرصہ کے درمیان کسی بھی وقت یہ نماز ادا کی جاسکتی ہے۔ ان آیات سے ضمناً یہ بھی معلوم ہوا کہ سورۃ مزمل کے نزول سے پہلے قرآن کا اتنا حصہ نازل ہوچکا تھا جسے اس لمبی نماز میں ترتیل کے ساتھ پڑھا جاسکتا تھا۔ [٧] وَطَأ بمعنی روندنا، پامال کرنا، سب کس بل نکال دینا۔ یعنی رات کو جاگ کر اپنے نفس کو اللہ کی عبادت پر آمادہ کرنا نفس کی سرکشی کو دور کرنے اور اس کے کس بل نکالنے کے لیے بہت موثر علاج ہے۔ البتہ اس سے نفس کو کوفت بہت ہوتی ہے۔ اور﴿وَطَأ عَلَی الاَمْرِ﴾ کا دوسرا معنی کسی کام کو اپنی مرضی کے موافق آسان بنالینا بھی ہے۔ گویا شب بیداری اگرچہ نفس پر بہت گرانبار ہے تاہم یہ نفس کی اصلاح کے لیے اور جس کام کے لیے ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت کرنا چاہتے ہیں، نہایت مناسب اور مفید رہے گی۔ [٨] ﴿ أقْوَمُ قِیْلاً﴾ یعنی بات کو زیادہ درست بنانے والا۔ یعنی شب بیداری کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس وقت دل و دماغ تازہ ہوتے ہیں۔ شوروغل نہیں ہوتا۔ لہٰذا اس وقت جو قرآن پڑھا جائے گا۔ طبیعت پوری توجہ سے اس میں غور و فکر کرے گی۔ گویا قرآن کے مطالب سمجھنے اور اس سے اثر پذیری کے لیے یہ وقت موزوں ہے۔ المزمل
7 المزمل
8 [٩] تبتل کا لغوی مفہوم :۔ تَبَتُّلْ: کے معنی کسی شے کو کاٹ کر کسی شے سے جدا کرنا اور بتل اور تبتل کے معنی ہر قسم کے دھندوں اور جھمیلوں سے توجہ ہٹا کر اور فراغت پاکر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا اور خلوص نیت کے ساتھ عبادت الٰہی میں مشغول ہونا ہے۔ گویا یہ مقصد بھی دن کے کام کاج، ہنگاموں اور شور و شغب میں حاصل نہیں ہوسکتا۔ اس کے لئے بھی رات کو اٹھنا ہی مناسب وقت ہے۔ المزمل
9 [١٠] وکیل کا لفظ ہماری زبان میں بھی ٹھیک اسی مفہوم میں استعمال ہوتا ہے جس میں عربی زبان میں مستعمل ہے۔ ہم جب مقدمہ کی پیروی کے لئے کسی کو اپنا وکیل بنا لیتے ہیں تو سب ذمہ داری اس کے سپرد کرکے خود مطمئن ہوجاتے ہیں۔ یہی بات اللہ تعالیٰ اپنے پیارے پیغمبر سے فرما رہے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود تو پوری یکسوئی کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع ہوجائیے اور اپنے سب معاملات اپنے پروردگار کے سپرد کردیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باقی سب معاملات وہ درست کر دے گا۔ المزمل
10 [١١] اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان سے قطع تعلق کر لیجیے۔ بلکہ یہ ہے کہ جہاں تک ان کے طعن و تشنیع، طنزوتمسخر اور تلخ کلامی کا تعلق ہے۔ تو ان کی یہ باتیں برداشت کیجئے اور انہیں کچھ جواب نہ دیجئے اور جہاں تک ان کی ہدایت اور خیر خواہی کا تعلق ہے تو ایسا کوئی موقع آپ کو فروگذاشت نہ کرنا چاہیے۔ بلکہ ایسے موقع کی جستجو میں رہنا چاہئے اور ہر وقت ان کا بھلا ہی سوچنا چاہیے۔ اور انہیں اللہ کی طرف دعوت دیتے رہنا چاہیے۔ المزمل
11 [١٢] مترفین کا کردار :۔ معلوم ہوا کہ انبیاء کی دعوت کو جھٹلانے والے عموماً یہی کھاتے پیتے اور خوشحال لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔ انہیں ہی قرآن نے بعض دوسرے مقامات پر مترفین کے لفظ سے ذکر کیا ہے ان لوگوں کا چونکہ معاشرہ میں اپنا ایک حلقہ اثر اور مخصوص مقام ہوتا ہے اور نبی کی دعوت قبول کرنے سے انہیں یہ مقام چھن جانے کا خطرہ ہوتا ہے لہٰذا یہی لوگ انبیاء کی دعوت کی مخالفت میں سب سے پیش پیش ہوتے ہیں۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے لوگوں کی مخالفت کی پروا نہ کیجئے۔ ان سے میں نمٹ لوں گا۔ مگر ابھی کچھ وقت انہیں مخالفت کرنے کا موقع دیا جائے گا جس میں کئی طرح کی مصلحتیں پوشیدہ ہیں۔ المزمل
12 [١٣] یہ آسودہ حال لوگ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عداوت اور مخالفت میں پیش پیش ہیں۔ انہیں سزا دینے کے لئے ہمارے پاس بہت کچھ ہے۔ وزنی بیڑیاں بھی جن کے بوجھ کی وجہ سے ہل تک نہ سکیں گے۔ انہیں بھڑکتی ہوئی آگ میں پھینکا جائے گا کھانے کو تھوہر کا درخت ہوگا جو بھوک کی مجبوری کی وجہ سے کھانے کی کوشش کریں گے مگر اس سے گلے میں پھندا لگ جائے گا اور بڑی مشکل سے نیچے اترے گا۔ اس کے علاوہ دردناک سزا بھی ملے گی۔ المزمل
13 المزمل
14 [١٤] یعنی آج تو پہاڑوں کی جڑیں زمین کے اندر دور نیچے تک مضبوط جمی ہوئی ہیں۔ مگر قیامت کے دن پہاڑوں کی یہ گرفت ڈھیلی پڑجائے گی۔ زمین میں بھی بھونچال آئیں گے اور پہاڑ بھی لرزنے لگیں گے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ پہاڑوں کے پتھر ایک دوسرے کے اوپر ہی گر گر کر ریزہ ریزہ ہوجائیں گے اور ریت کے ایسے نرم تودے بن جائیں گے کہ پاؤں ان کے اندر دھنسنے لگیں گے اور اگر تھوڑی سی ریت اٹھا کر ان کے اوپر رکھی جائے تو وہ سب پھسل پھسل کر نیچے آرہے۔ واضح رہے کہ کَثِیْبًا میں ''ک'' حرف تشبیہ نہیں ہے بلکہ یہ کثیب کے مادہ ''ک ث ب'' میں شامل ہے اور کثیب بمعنی ریت کا لمبا چوڑا ٹیلہ ہے۔ المزمل
15 [١٥] اس سے پہلی آیات میں مخاطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے۔ اب خطاب کا رخ کفار مکہ کی طرف مڑ گیا ہے اور انہیں بتایا یہ جارہا ہے کہ اس رسول کی مخالفت پر تم کمر بستہ ہوگئے ہو۔ تو یہی رسول تمہاری ایک ایک حرکت کی قیامت کے دن تم پر گواہی دینے والا ہے۔ لہٰذا جو قدم اٹھانا ہے سنبھل کر اٹھاؤ۔ اس سے پہلے ہم نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو رسول بنا کر بھیجا تھا۔ فرعون تم سے بہت زیادہ طاقتور، جابر اور ایک وسیع خطہ زمین پر حکمران تھا۔ لیکن اس نے بھی اللہ اور اس کے رسول کی بات نہ مانی اور اکڑ گیا تو ہم نے اسے دریا میں ڈبو کر اس کا اور اس کی آل کا صفحۂ ہستی سے نام و نشان تک مٹا دیا تھا اور تم تو اس کے مقابلہ میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ لہٰذا تمہاری بھلائی اسی میں ہے کہ اس رسول کی مخالفت سے باز آجاؤ۔ المزمل
16 المزمل
17 المزمل
18 [١٦] اس دنیا میں بھی تم پر فرعون اور آل فرعون کی طرح اللہ کا عذاب آکے رہے گا اگر بالفرض اس دنیا میں عذاب نہ بھی آئے تو اس دن کے عذاب سے تم کیونکر بچ سکتے ہو جس دن آسمان پھٹ جائے گا، یہ نظام کائنات درہم برہم ہوجائے گا۔ اس دن کی دہشت اور ہولناکی کا یہ عالم ہوگا کہ عذاب سے پہلے ہی بچے دہشت کے مارے بوڑھے نظر آنے لگیں گے، چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی ہوں گی۔ لوگ ان دہشت ناک مناظر سے پناہ کی کوئی جگہ تلاش کرنا چاہیں گے تو وہ بھی کہیں نہ مل سکے گی۔ اس کے بعد اس دن کافروں کو یقینی طور پر جو عذاب ہونے والا ہے اس سے بچنے کی تمہارے پاس کوئی صورت ہے؟ المزمل
19 [١٧] لہٰذا تمہارے لیے بہترین طرز عمل یہی ہے کہ اس قرآن کی نصیحت پر عمل کرو۔ اور اللہ کی نافرمانی کے بجائے فرمانبرداری کا رویہ اپنا کر اس دن کے عذاب سے بچ جاؤ۔ المزمل
20 [١٨] سورۃ مزمل کی یہ آیت پورے رکوع پر مشتمل ہے۔ اس کا نزول ایک روایت کے مطابق ہجرت سے ٨ ماہ بعد، دوسری کے مطابق ایک سال بعد اور تیسری روایت کے مطابق دس سال بعد ہوا۔ ہمارے خیال میں یہ تیسری روایت ہی قابل ترجیح ہے کیونکہ اس رکوع میں قتال فی سبیل اللہ کا بھی ذکر ہے اور زکوٰۃ کا بھی۔ اور یہ دونوں چیزیں مدنی زندگی میں فرض ہوئی تھیں۔ پہلے حکم کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متابعت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی کم از کم تہائی رات کا قیام ضروری تھا۔ لیکن اس زمانہ میں گھڑیاں تو موجود نہ تھیں لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بعض دفعہ رات کا اکثر حصہ قیام فرماتے محض اس احتیاط کی وجہ سے کہ کہیں وقت تہائی رات سے کم نہ ہو اور اس طرح بسا اوقات کھڑے کھڑے ان کے پاؤں متورم ہوجاتے تھے بعد میں اس حکم کے ذریعہ سابقہ حکم میں کافی تخفیف فرما دی۔ [١٩] اس آیت سے از خود معلوم ہوجاتا ہے کہ اس حکم کے بعد قیام اللیل فرض نہیں رہا۔ نہ اس میں قرآن کی کوئی مقررہ مقدار پڑھنے کی قید ہے۔ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نماز تہجد فرض تھی وہ بھی اس آیت کی رو سے نہیں بلکہ سورۃ بنی اسرائیل کی آیت ﴿ وَمِنَ الَّیْلِ فَتَہَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ ﴾ (۷۹:۱۷)کی رو سے تھی۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کسب حلال کی خاطر سفر کرنے کو بھی ایک معقول عذر اور قتال فی سبیل اللہ کے برابر قرار دیا۔ جس سے کسب حلال کی انتہائی فضیلت معلوم ہوئی۔ [٢٠] نماز باجماعت میں لمبی قرا ءت سے پرہیز :۔ نماز باجماعت کے سلسلہ میں یہ بات ملحوظ رکھنا چاہیے کہ اس میں قرائت زیادہ لمبی نہ کی جائے جیسا کہ درج حدیث سے واضح ہے : سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ فرض نماز ادا کرتے۔ پھر جاکر اپنی قوم کو امامت کراتے، ایک دن انہوں نے عشاء کی نماز پڑھائی تو سورۃ بقرہ شروع کردی۔ ایک شخص (پانی ڈھونے والا) نماز توڑ کر چلا گیا۔ معاذ اسے برا بھلا کہنے لگے : یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی (اس شخص نے جاکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معاذ کی شکایت کی) تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا معاذ کو تین بار فتاّن یا فاتن (فتنہ ڈالنے والا) کہا پھر معاذ کو حکم دیا کہ ’’اوساط مفصل میں سے کوئی دو سورتیں پڑھایا کرے‘‘ اسی واقعہ کے ایک دوسرے راوی ابو مسعود کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کبھی وعظ اور نصیحت میں اس دن سے زیادہ غصے میں نہیں دیکھا، فرمایا : ’’تم میں سے کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ لوگوں کو متنفر کردیں۔ دیکھو! تم میں سے جو لوگوں کو نماز پڑھائے وہ ہلکی نماز پڑھائے۔ کیونکہ لوگوں میں کوئی ناتواں ہوتا ہے، کوئی بوڑھا اور کوئی کام کاج والا۔ ہاں جب اکیلا ہو تو جتنی چاہے لمبی کرے‘‘ (بخاری۔ کتاب الاذان۔ باب اذا طوّل الامام۔۔) البتہ جب کوئی شخص اکیلا نماز پڑھ رہا ہو تو جتنی چاہے قراءت لمبی کرسکتا ہے۔ [٢١] قرض حسن زکوٰۃ سے الگ چیز ہے :۔ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کا الگ ذکر فرمایا اور قرضہ حسنہ کا الگ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو فرضی صدقہ یعنی زکوٰۃ کے علاوہ دوسرے نفلی صدقات بھی ادا کرتے رہنا چاہیے۔ قرضہ حسنہ کی تفصیل اور اس کے احکام کے لیے دیکھئے سورۃ حدید کی آیت نمبر ١١ کا حاشیہ۔ [٢٢] انسان کے کام آنے والا وہی مال ہے جو اس نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا۔ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ انسان کہتا ہے کہ یہ میرا مال ہے، یہ میرا مال ہے۔ حالانکہ اس کا مال وہی ہے جو اس نے کھا کر یا پہن کر استعمال کرلیا یا اللہ کی راہ میں خرچ کیا۔ اور جو مال وہ چھوڑ مراتو اس کا مال نہیں ہے وہ تو وارثوں کا ہے۔ اس ارشاد مبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھائے اور پہنے ہوئے مال کو بھی اپنا مال قرار دیا وہ اپنا ضرور ہے۔ اور شائد اس کے متعلق اللہ کے ہاں باز پرس بھی نہ ہو۔ مگر انسان کے کام صرف وہی مال آئے گا جسے اس نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا یا حاجت مندوں کی احتیاج کو دور کیا، یہی وہ مال ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے بہت زیادہ اجر عطا کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ [٢٣] استغفار سے صرف یہی فائدہ حاصل نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ ازراہ کرم استغفار کرنے والے کے گناہ معاف فرما دیتا ہے بلکہ اس سے کئی طرح کے دنیوی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھئے سورۃ نوح کا حاشیہ نمبر ٥۔ المزمل
0 المدثر
1 [١] وحی کی گرانیاری :۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سب سے پہلی جو وحی غار حرا میں نازل ہوئی وہ سورۃ العلق کی ابتدائی پانچ آیات تھیں۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنا تعارف کرایا کہ وہ خالق کائنات ہے۔ اسی نے آپ کو بھی پیدا کیا ہے اور اسی نے یہ فرشتہ نازل کیا ہے۔ ان آیات میں آپ کو تبلیغ وغیرہ کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پڑنے والی ذمہ داریوں کے لئے تیار کرنا مقصود تھا۔ فرشتہ جبریل کے ذریعہ نبی کے دل پر جو وحی نازل ہوتی ہے۔ نبی کے لئے سخت تکلیف دہ اور گرانبار ہوتی ہے۔ اس دوران پہلے گھنٹی کی سی آوازیں آنے لگتی ہیں۔ پھر نبی کا اس عالم سے رشتہ کٹ کر عالم بالا سے جڑ جاتا ہے اور اس وحی کا اتنا بار ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بعض اوقات سردیوں میں وحی کے وقت پسینہ آجاتا تھا۔ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی ران پر ران رکھے ہوئے تھے کہ وحی کا نزول شروع ہوا۔ سیدنا زید کہتے ہیں کہ میں نے اس کا اتنا بوجھ محسوس کیا کہ مجھے ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ نیچے سے میری ران ٹوٹ جائے گی۔ اور ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اونٹنی پر سوار تھے۔ وحی نازل ہونا شروع ہوئی تو اس کے بوجھ اور دباؤ سے اونٹنی نیچے بیٹھ گئی تھی۔ چنانچہ پہلی دفعہ غار حرا میں جب وحی نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود ارشاد فرماتے ہیں کہ اس تکلیف اور بوجھ سے مجھے اپنی جان کا خطرہ لاحق ہوگیا تھا۔ خیر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی حالت میں گھبرائے ہوئے گھر آئے تو سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے آپ کو بہت تسلی دی۔ اس کے بعد کچھ عرصہ وحی کا سلسلہ بند ہوگیا۔ وحی کی تکلیف اور بوجھ کے باوجود اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک عجیب طرح کی لذت بھی محسوس ہوئی تھی۔ اسی لذت کی وجہ سے آپ وحی کے منتظر بھی رہتے تھے۔ بعد ازاں ایک دن درج ذیل واقعہ پیش آیا : سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وحی بند رہنے کا تذکرہ فرما رہے تھے۔ فرمایا : ایک دفعہ چلتے چلتے میں نے آسمان سے ایک آواز سنی تو آسمان کی طرف اسی فرشتے کو دیکھا جو حرا میں میرے پاس آیا تھا۔ وہ آسمان اور زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا تھا۔ اسے دیکھ کر میں اتنا ڈرا کہ ڈر کے مارے زمین پر گر پڑا۔ پھر اپنے گھر آیا تو گھر والوں سے کہا : ’’مجھے کمبل اڑھا دو۔ مجھے کمبل اڑھا دو‘‘ چنانچہ انہوں نے مجھے کمبل اڑھا دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ ﴿یَایُّھَا الْمُدَّثِّرْ۔۔ فَاھْجُرْ﴾ تک۔ ابو سلمہ نے کہا رجز سے بت مراد ہیں۔ اس کے بعد وحی گرم ہوگئی، برابر لگاتار آنے لگی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) المدثر
2 [٢] اس سورۃ کی ابتدا میں ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذمہ داری سے آگاہ کیا جارہا ہے۔ کہ اب سونے کا وقت نہیں بلکہ جو لوگ اللہ کو بھول کر خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں انہیں بتائیے کہ انہیں اپنے اعمال کی جواب دہی کے لیے اپنے پروردگار کے حضور پیش ہونا ہے۔ لہٰذا اپنے برے انجام سے بچنے کی خاطر اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی اطاعت بجا لاؤ۔ المدثر
3 [٣] پہلا سبق اللہ کی کبریائی :۔ یعنی دنیا میں جتنے لوگ بڑے بنے بیٹھے ہیں۔ ان سب کی بڑائیاں اللہ کی بڑائی کے سامنے ہیچ ہیں۔ نیز بڑے بڑے حکمران اور ان کی حکومتیں بھی اللہ تعالیٰ کی بڑائی کے سامنے کوئی چیز نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو اللہ کی کبریائی، بزرگی اور بڑائی سے پوری طرح روشناس کرائیے۔ اور زبان سے بھی اللہ کی بڑائی بیان کرتے رہا کیجئے۔ اسی حکم کی وجہ سے اسلام میں تکبیر یا کلمہ اللہ اکبر کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ ہر اذان میں چھ بار یہ کلمہ دہرایا جاتا ہے۔ اور ہر نماز کا افتتاح بھی اسی تکبیر سے ہوتا ہے۔ پھر رکوع جاتے وقت، سجدہ کے وقت، سجدہ سے اٹھتے وقت غرض نماز کی ہر رکعت میں متعدد بار اللہ اکبر کہا جاتا ہے۔ پھر نماز کے بعد تکبیر و تہلیل کی بہت فضیلت آئی ہے۔ یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ ایک مسلمان کے سامنے ہر وقت اللہ کی کبریائی کا تصور موجود رہے۔ المدثر
4 [٤] دوسرا سبق : جسم اور لباس کی صفائی اور راہبانہ تصور :۔ یعنی اپنے کپڑے میل کچیل سے بھی اور نجاست سے بھی پاک صاف رکھیے۔ اور صاف ستھرا لباس استعمال کیا کیجئے اور جسم کو پاک صاف رکھیے۔ کیونکہ روح کی پاکیزگی کے لیے جسم اور لباس کی صفائی بھی انتہائی ضروری ہے۔ اس آیت میں ان راہبانہ تصورات کا پورا رد موجود ہے۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ انسان جتنا گندہ اور میلا کچیلا رہے اتنا ہی وہ اللہ کے ہاں محبوب اور مقدس ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اسلام میں جسم اور لباس کی صفائی کی جو اہمیت ہے اس ابتدائی حکم سے اس پر پوری روشنی پڑتی ہے۔ المدثر
5 [٥] باطنی صفائی :۔ رُجْزٌ سے مراد ظاہری میل کچیل، گندگی اور نجاست بھی ہے۔ اور باطنی یعنی دل کی نجاست یا گندگی بھی۔ اس لفظ کا اطلاق ان تمام شیطانی وساوس پر ہوتا ہے جو دل میں موجود ہوں۔ خواہ یہ غیر اللہ کی عبادت سے متعلق ہوں یا برے خیالات سے۔ اور یہ باطنی صفائی ظاہری صفائی سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ المدثر
6 [٦] بے لوث خدمت اور اللہ کے لیے صبر :۔ کسی شخص کی بے لوث خدمت کرنا بڑا حوصلہ مندی کا کام ہے۔ انسان تو یہ چاہتا ہے کہ اگر وہ کسی پر کوئی دنیوی یا دینی بھلائی کرے تو کسی نہ کسی رنگ میں اس کو اس کا بدلہ ضرور ملنا چاہیے۔ بلکہ بسا اوقات انسان کی طبیعت یہ چاہتی ہے کہ کسی پر اس نے جو احسان کیا ہے اس کا بدلہ اسے اس سے بڑھ کر ملنا چاہیے۔ یہ نظریہ خالصتاً خود غرضانہ اور مادی نظریہ ہے۔ لہٰذا جس عظیم مقصد کے لیے آپ کو تیار کیا جارہا تھا اور جس طرح آپ کو پوری بنی نوع انسان کی ہدایت کی خدمت سپرد کی جانے والی تھی اس کے لیے ابتدا میں ہی آپ کو یہ ہدایت کی گئی کہ کسی طرح کے فائدہ، لالچ، غرض اور معاوضہ کا طمع رکھے بغیر لوگوں پر دینی اور دنیوی دونوں طرح کی بھلائیاں کرنا ہوں گی اور اس راہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جتنے بھی مصائب پیش آئیں انہیں خندہ پیشانی سے اللہ کی رضا کی خاطر برداشت کرنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ان باتوں کا بہت زیادہ اجر عطا فرمائے گا۔ المدثر
7 المدثر
8 المدثر
9 المدثر
10 [٧] عقیدہ قیامت اور اس کا تصور :۔ اس آیت میں وضاحت یہ ہے کہ جس دن صور پھونکا جائے گا یعنی قیامت آجائے گی تو یہ دن کافروں کے لئے بڑا سخت ہوگا۔ جس کا واضح نتیجہ یہ ہوا کہ وہ دن مومنوں کے لیے سخت نہیں ہوگا اور مومنوں کا غالباً یہاں اس لیے ذکر نہیں کیا گیا کہ اس دن کے آنے سے پہلے ہی مومنوں کو دنیا سے اٹھا لیا جائے گا۔ جیسا کہ حدیث میں اس بات کی صراحت ہے کہ ''لا تقوم الساعۃ الاعلیٰ شرار الخلق ''یعنی قیامت صرف بدترین لوگوں پر قائم ہوگی۔ (مسلم۔ کتاب الامارۃ۔ باب لاتزال طائفۃ من امتی) المدثر
11 [٨] اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ جب وہ پیدا ہوا تو بالکل خالی ہاتھ پیدا ہوا تھا۔ اس کے پاس کوئی مال و دولت، عزوجاہ یا لاؤ لشکر کچھ بھی نہ تھا۔ یہ تو اسے بعد میں اس دنیا میں ملا ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے باپ کا اکلوتا بیٹا ہے۔ اس شخص کی مخالفت کی آپ مطلق پروا نہ کیجیے اور اس کا معاملہ مجھ پر چھوڑ دیجیے۔ المدثر
12 المدثر
13 [٩] قصہ ولید بن مغیرہ :۔ ان آیات میں بھی اگرچہ اللہ تعالیٰ نے کسی خاص شخص کا نام نہیں لیا تاہم جو صفات بیان کی گئی ہیں اس سے ہر ایک کو واضح طور پر معلوم ہوجاتا تھا کہ ان آیات کا روئے سخن کس طرف ہے؟ یہ شخص باتفاق مفسرین ولید بن مغیرہ تھا۔ حرب بن امیہ کی وفات کے بعد قریش کی سیادت اسی کے ہاتھ آئی تھی اور یہ ابو جہل مخزومی کا چچا تھا۔ بڑا صاحب مال تھا۔ دس یا بارہ جوان بیٹے اس کے پاس موجود رہتے تھے۔ جنہیں کسب معاش کی چنداں فکر نہیں تھی۔ اس کام کے لیے اس کے نوکر چاکر بہت تھے۔ بس ان بیٹوں کا کام یہی تھا کہ اپنے باپ کی مجلس میں حاضر رہ کر اس کی شان و شوکت بڑھائیں۔ انہیں بیٹوں میں سے ایک سیدنا خالدبن ولید بھی تھے۔ جس نے اسلام لاکر اسلام کی بیش بہا خدمات سرانجام دیں تھیں۔ المدثر
14 المدثر
15 [١٠] اس شخص کو اللہ تعالیٰ نے مال و دولت بھی کافی عطا کیا تھا، جوان بیٹے بھی اور ریاست بھی دی تھی۔ لیکن کبھی حرف شکر زبان سے نہ نکلا ہمیشہ اور زیادہ مال جمع کرنے کی حرص میں منہمک رہتا اور اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے سامنے جنت کی نعمتوں کا ذکر فرماتے تو کہتا تھا کہ اگر یہ شخص اپنے بیان میں سچا ہے تو مجھے یقین ہے کہ وہاں کی نعمتیں بھی مجھے ضرور ملیں گی۔ المدثر
16 المدثر
17 [١٠۔ ا لف] اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ میں اس کو اس کی زندگی میں سخت مشکلات سے دو چار کردوں گا اور دوسرا مطلب اخروی عذاب سے تعلق رکھتا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ ابو سعید کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : صعود دوزخ میں ایک پہاڑ ہے جس پر دوزخی کو چڑھایا جائے گا۔ پھر اسے وہاں سے نیچے گرایا جائے گا اسے ہمیشہ یہی عذاب ہوتا رہے گا۔ (ترمذی ابو اب التفسیر) المدثر
18 المدثر
19 [١١] اسلام لانے میں اس کی سرداری رکاوٹ بن گئی :۔ ولید بن مغیرہ خود بڑا سمجھدار اور عربی کلام کے نشیب و فراز سے خوب واقف تھا۔ وہ خود قرآن سے کافی حد تک متاثر ہوچکا تھا۔ اب قریشی سرداروں کو یہ فکر دامنگیر ہوئی کہ اگر ان کا رئیس مسلمان ہوگیا تو پھر تو ان کا کہیں بھی ٹھکانہ نہ رہے گا۔ اس کو اپنے سابقہ دین پر برقرار رکھنے کا بیڑا ابو جہل نے اٹھایا۔ (ولید بن مغیرہ کے بعد قریش کی سیادت ابو جہل کے ہاتھ آئی تھی) جب ابو جہل نے اسے سمجھایا کہ اگر وہ مسلمان ہوگیا تو اس کی سب عزت و جاہ خاک میں مل جائے گی اور اسے قریش کی سیادت سے بھی دستبردار ہونا پڑے گا۔ تو وہ اسلام لانے سے رک گیا۔ اب ایک اور اہم مسئلہ درپیش تھا کہ حج کا موسم قریب آچکا تھا اور قریشی سرداروں کو یہ فکر دامنگیر ہوئی کہ جو لوگ حج کے موقعہ پر باہر سے مکہ آتے ہیں انہیں اسلام کی دعوت سے کیونکر روکا جاسکتا ہے اور وہ پیغمبر اسلام کو کیا کہہ کر لوگوں کو ان سے متنفر کرسکتے ہیں؟ ولید بن مغیرہ کے ہاں مشرکین مکہ کا مشورہ :۔ چنانچہ اس غرض کے لیے قریشی سردار ولید بن مغیرہ کے ہاں جمع ہوئے۔ ولید بن مغیرہ نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا : اچھا تم لوگ اپنی اپنی تجاویز پیش کرو۔ ان میں سے ایک بول اٹھا : ’’ہم کہیں گے کہ یہ شخص کاہن ہے‘‘ ولید کہنے لگا : ’’واللہ! وہ کاہن نہیں، اس کے کلام میں نہ کاہنوں جیسی گنگناہٹ ہے، نہ قافیہ گوئی اور نہ تک بندی۔ پھر وہ کاہن کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘ دوسرے نے کہا ہم کہیں گے :’’وہ پاگل ہے‘‘ ولید نے کہا : ’’واللہ! وہ پاگل بھی نہیں، ہم نے پاگلوں کو دیکھا ہے۔ اس کے اندر نہ پاگلوں جیسی دم گھٹنے کی کیفیت ہے، نہ الٹی سیدھی حرکتیں ہیں اور نہ ان جیسی بہکی بہکی باتیں ہیں‘‘ تیسرے نے کہا : ’’ہم کہیں گے، وہ شاعر ہے‘‘ ولید کہنے لگا : ’’وہ شاعر بھی نہیں، ہمیں رجز، حجز، قریض مقبوض، مبسوط سارے ہی اصناف سخن معلوم ہیں۔ اس کی بات بہرحال شعر نہیں ہے۔‘‘ تب لوگوں نے کہا : ہم کہیں گے : ’’وہ جادو گر ہے‘‘ ولید نے کہا ’’وہ جادوگر بھی نہیں۔ یہ شخص نہ ان کی طرح جھاڑ پھونک کرتا ہے اور نہ گرہ لگاتا ہے‘‘ آخر لوگوں نے جھنجھلا کر کہا : پھر تم ہی اپنی بےداغ رائے پیش کرو۔ ولید کہنے لگا۔ مجھے ذرا سوچ لینے دو۔ پھر اس نے اپنے ساتھیوں پر ایک فاخرانہ نگاہ ڈالی۔ پھر از راہ تکبر پیشانی کو سکیڑا جیسے قرآن سے اسے بہت کراہت اور انقباض ہے۔ اس کے ساتھی چلے گئے، وہ سوچتا رہا، سوچتا رہا۔ بالآخر اس نے اپنی بےداغ رائے یہ پیش کی کہ تم لوگ باہر سے آنے والوں سے یوں کہہ سکتے ہو کہ یہ شخص ایسا کلام پیش کرتا ہے جو ایسا جادو ہے جس سے بھائی بھائی سے، باپ بیٹے سے، شوہر بیوی سے جدا ہوجاتا ہے اور کنبے قبیلے میں پھوٹ پڑجاتی ہے۔ چنانچہ اس تجویز پر متفق ہو کر سب لوگ رخصت ہوگئے۔ اس مکالمہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ولید بن مغیرہ پر قرآن کی حقیقت پوری طرح واضح ہوچکی تھی۔ اب وہ جو کچھ پینترے بدل رہا تھا محض اپنے اقتدار اور جاہ کو محفوظ رکھنے کی خاطر کر رہا تھا۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس کی اسی ہٹ دھرمی اور کج فکری کا نقشہ پیش کیا ہے۔ المدثر
20 المدثر
21 المدثر
22 المدثر
23 المدثر
24 المدثر
25 المدثر
26 المدثر
27 المدثر
28 [١٢] یعنی جہنم کی آگ دوزخیوں کو مسلسل جلاتی بھی رہے گی لیکن اس عذاب سے کسی کی موت واقع نہ ہوگی۔ آگ سے ان کی کھالیں جل جائیں گی بلکہ گل جائیں گی تو انہیں دوسری نئی کھالیں مہیا کردی جائیں گی تاکہ وہ مسلسل اور دائمی عذاب میں مبتلا رہ سکیں۔ المدثر
29 المدثر
30 [١٣] فرشتوں کا طریق :۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ جہنم میں مجرموں کو عذاب دینے کے لئے انیس قسم کے فرائض ہیں جن میں سے ہر فرض کی انجام دہی ایک ایک فرشتہ کی سر کردگی میں ہوگی۔ فرشتوں کی قوت کا اندازہ لگانا ہمارے لئے بہت مشکل ہے۔ ایک فرشتہ وہ کام کرسکتا ہے جو لاکھوں آدمی بھی مل کر نہیں کرسکتے۔ لیکن یہ بات ملحوظ خاطر رہنی چاہئے کہ ایک فرشتہ اسی محدود دائرہ میں کام کرسکتا ہے جس میں کام کرنے پر وہ مامور ہے۔ مثلاً ملک الموت لاکھوں آدمیوں کی جان ایک آن میں نکال سکتا ہے مگر عورت کے پیٹ میں ایک بچہ کے اندر جان نہیں ڈال سکتا۔ اسی طرح سیدنا جبرئیل علیہ السلام چشم زدن میں آسمانوں سے وحی تو لا سکتے ہیں مگر بارش برسانا ان کا کام نہیں۔ جس طرح کان دیکھ نہیں سکتا اور آنکھ سن نہیں سکتی۔ بلکہ یہ اعضاء وہی کام کرسکتے ہیں جن کے لیے وہ پیدا کیے گئے ہیں اسی طرح جس فرشتے کو اللہ نے جس قسم کا عذاب کرنے پر مامور کیا ہے وہ اسی قسم کا عذاب دے سکے گا۔ المدثر
31 [١٤] انیس فرشتوں پر کافروں کا استہزا :۔ دوزخ پر انیس فرشتوں کے تقرر کی بات سن کر مشرکین ٹھٹھا کرنے لگے کہ ہم تو ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ پھر اگر ہمارے لیے جہنم کے عذاب کی بات درست ہوئی بھی تو یہ انیس ہمارا کیا بگاڑ لیں گے۔ ہم دس دس مل کر بھی ایک فرشتے کا مقابلہ نہ کرسکیں گے؟ ان میں سے ایک پہلوان ٹائپ آدمی کہنے لگا کہ ان میں سے سترہ کو تو میں سنبھال لوں گا۔ باقی دو سے تم نمٹ لینا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ یہ تمہاری سوچ بالکل غلط ہے وہ داروغے ہیں تو انیس مگر وہ آدمی نہیں بلکہ فرشتے ہیں اور تم کیا سمجھو کہ ایک فرشتہ کتنی قوت کا مالک ہوتا ہے؟ [١٥] یعنی اہل کتاب اور مومن لوگ فرشتوں پر بن دیکھے ایمان لانے والے ہیں اور ان فرشتوں کی قوت اور قدرت کا بھی انہیں علم ہے۔ لہٰذا وہ کبھی ایسا استہزا نہیں کرسکتے بلکہ ایسی آیات سنکر ان کے دل دہل جاتے ہیں اور ان کے ایمان میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ [١٦] اس آیت میں مرض سے مراد شک کی بیماری ہے۔ یعنی منافق اور کافر دونوں ہی ہدایت کی باتوں سے محروم رہتے ہیں۔ یعنی ایک ہی بات یا ایک ہی مثال سے بد بخت آدمی گمراہ ہوجاتا ہے۔ جبکہ سلیم الطبع آدمی اسی مثال سے ہدایت حاصل کرلیتا ہے۔ جس نے بہرحال نہ ماننے کا تہیہ کر رکھا ہو وہ ہر کام کی بات کو بھی ہنسی مذاق میں اڑا دیتا ہے اور جس کے دل میں اللہ کا خوف اور ہدایت کی طلب ہو اسی بات سے اس کے ایمان و یقین میں ترقی ہوتی جاتی ہے۔ [١٧] اللہ کے لشکر :۔ فرشتے بھی اور فرشتوں کے علاوہ جتنی بھی اللہ کی مخلوق ہے۔ اللہ اپنی ہر مخلوق سے لشکروں کا کام لے سکتا ہے۔ وہ ابابیلوں سے اصحاب الفیل کو پٹوا بھی سکتا ہے اور مروا بھی سکتا ہے۔ وہ ہواؤں کو حکم دے کر عاد جیسی قد آور، طاقتور اور سرکش قوم کا سرتوڑ سکتا ہے۔ بلکہ جس قدر بھی باطنی اسباب ہیں وہ سب اللہ کے کنٹرول میں ہیں اور وہ اللہ کے لشکر ہیں جن سے وہ جس قسم کا کام لینا چاہے لے سکتا ہے۔ کافروں سے جہنم کے فرشتوں کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ ان کے علاوہ دوسرے سب لوگوں کو بھی عبرت حاصل ہو۔ المدثر
32 المدثر
33 المدثر
34 المدثر
35 [١٨] چاند کی شکلیں، ان کا گھٹنا بڑھنا، رات اور دن کا وجود اور ان کا باری باری آنا، رات کی تاریکی کے بعد سپیدہ سحر کا نمودار ہونا۔ اللہ کی یہ نشانیاں بھی کچھ کم حیرت انگیز نہیں ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ چیزیں چونکہ ہر روز انسان کے مشاہدہ میں آتی رہتی ہیں اس لیے وہ ان میں غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا اور جب دوزخ کا ذکر آتا ہے تو وہ فوراً اس کا انکار کردیتا ہے۔ صرف اس لیے کہ اس نے تاحال دوزخ دیکھی نہیں۔ ورنہ ان اشیاء کی قسم جنہیں انسان دیکھ رہا ہے۔ جہنم کا وجود ناممکن نہیں ہے۔ اور وہ انسان کے لیے ڈر جانے کی چیز ہے۔ مذاق اڑانے کی نہیں۔ المدثر
36 المدثر
37 [١٩] حقیقت تو وہی کچھ ہے جو تمہیں بتادی گئی ہے۔ اب یہ بات ہر شخص کی پسند اور ارادہ و اختیار پر منحصر ہے کہ ہدایت کی طرف آگے بڑھتا ہے۔ یا گمراہی کی دلدلوں میں ہی پھنسا رہنا چاہتا ہے۔ المدثر
38 المدثر
39 [٢٠] اصحاب الیمین یعنی دائیں جانب یا دائیں ہاتھ والے۔ یہ ان لوگوں کا لقب ہے جن کو جنت کا پروانہ ملنے والا ہوگا۔ اور اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ ان لوگوں کی پوری تفصیل پہلے سورۃ واقعہ میں گزر چکی ہے۔ المدثر
40 المدثر
41 المدثر
42 [٢١] جنت اور دوزخ میں طویل مسافت کے باوجود جب اہل جنت اہل دوزخ میں سے اپنے کسی دنیا کے ساتھی کو دیکھنا چاہیں گے یا اس سے کلام کرنا چاہیں گے تو کرسکیں گے۔ کیونکہ اس دنیا میں لوگوں کو جو قوتیں سمع و بصر وغیرہ عطا کی جائیں گی۔ وہ اس دنیا میں عطا کردہ قوتوں سے بدرجہا زیادہ ہوں گی۔ مثلاً اس دنیا میں کوئی انسان اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتا لیکن آخرت میں مومن لوگ بلاتکلف اللہ تعالیٰ کا دیدار کرسکیں گے۔ بالکل اسی طرح جیسے ہم اس دنیا میں چاند کی طرف دیکھ سکتے ہیں اور ہمیں سرور بھی حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح اہل جنت جب چاہیں گے۔ جہنم میں اپنے دنیا کے ساتھیوں کی طرف جھانک بھی سکیں گے اور ان سے بلاتکلف گفتگو بھی کرسکیں گے۔ چنانچہ اہل جنت ان سے ایک اہم سوال کریں گے کہ :’’وہ کیا اسباب تھے جن کی وجہ سے تمہیں دوزخ میں جانا پڑا ؟‘‘ المدثر
43 المدثر
44 المدثر
45 المدثر
46 [٢٢] دوزخ میں لے جانے والے چار بڑے گناہ :۔ اہل دوزخ نے اہل جنت کے سوال کے جواب میں چار باتیں بتائیں گے جو انہیں دوزخ میں لے جانے کا باعث بنیں۔ پہلی یہ کہ ہم نماز ادا نہیں کرتے تھے۔ کیونکہ نماز کی باقاعدگی صرف وہ شخص کرسکتا ہے جو اللہ پر بھی ایمان رکھتا ہو اور روز آخرت کے محاسبہ پر بھی۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص باقاعدہ نماز ادا کرتا ہے تم اس کے ایماندار ہونے کی گواہی دو۔ جس کا دوسرا مطلب یہ نکلتا ہے کہ جو شخص نماز ادا نہیں کرتا، نہ اس کا اللہ پر ایمان ہوتا ہے نہ روزآخرت پر، دوسرا جرم وہ یہ بتائیں گے کہ وہ مسکین کو کھانا نہیں کھلایا کرتے تھے۔ پہلا جرم اللہ کے حق سے متعلق تھا۔ یہ دوسرا جرم بندوں کے حقوق سے تعلق رکھتا ہے۔ بھوکے کو کھانا کھلانے کے سلسلہ میں یہ ضروری نہیں کہ بھوکا مسلمان ہو۔ بلکہ کوئی بھی ہو کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو اگر بھوکا ہے تو انسان ہونے کے ناطے سے یہ اس کا حق ہے کہ اسے کھانا کھلایا جائے۔ اگر ننگا ہے تو اسے کپڑا دیا جائے یا اگر بیمار ہے تو اس کا علاج کیا جائے۔ اور اگر وہ مسلمان ہے یا کوئی قرابتدار بھی ہے تو اس کا حق بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ تیسرا جرم وہ بتائیں گے کہ جو لوگ اللہ کی آیات کا تمسخر اڑایا کرتے تھے۔ یا اللہ کی آیات میں شکوک و شبہات پیدا کرتے رہتے تھے ہم بھی ان کے ساتھ مل جایا کرتے تھے اور یہ سب باتیں اس وجہ سے تھیں کہ ہمارا آخرت کے دن پر یقین نہیں تھا۔ گویا ہمارا اصل اور سب سے بڑا جرم یہی تھا کہ ہمیں آخرت کے دن اللہ کے سامنے اپنے اعمال کے لیے جواب دہی پر ایمان نہیں تھا اور ہم برملا اسے جھٹلا دیا کرتے تھے۔ ایسے ہی وقت گزرتا رہا تاآنکہ ہمیں موت آگئی۔ جس نے سب حقائق ہم پر منکشف کردیئے۔ المدثر
47 المدثر
48 المدثر
49 المدثر
50 [٢٣] آخرت میں تو سب حالات ان کے سامنے آجائیں گے اور وہ اپنے جرائم کا اعتراف بھی کرلیں گے مگر آج ان کی یہ صورت حال ہے کہ اگر کوئی نصیحت کی بات کہی جائے تو اسے سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔ اور وہاں سے یوں منہ موڑ کر بھاگ اٹھتے ہیں۔ جیسے جنگلی گدھے کسی شیر کی دھاڑ سن کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ پھر پیچھے مڑ کر دیکھنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ المدثر
51 المدثر
52 [٢٤] قریشی سرداروں کا مطالبہ کہ کھلی چٹھی ہمارے نام آئے :۔ ان قریشی سرداروں میں سے ہر ایک کی آرزو یہ ہے کہ اللہ میاں کی طرف سے ایک کھلی چٹھی ان میں سے ہر ایک کے نام آئے۔ جس میں یہ مذکور ہو کہ تمہارے اس صاحب (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو میں نے ہی اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے۔ لہٰذا تم اس پر ایمان لے آؤ۔ اس صورت میں ہی یہ ایمان لاسکتے ہیں۔ المدثر
53 [٢٥] اگر ہم ایسے کھلے خط ان کے نام بھیج بھی دیں تو بھی یہ لوگ کبھی ایمان نہ لائیں گے اور اسے بھی جادو کا کرشمہ قرار دے دیں گے۔ وجہ یہ ہے کہ نہ ان کا آخرت پر ایمان ہے اور نہ یہ اپنے مواخذہ سے ڈرتے ہیں۔ کچھ سوچ سمجھ کر جواب تو وہی آدمی دیتا ہے جسے مواخذہ کا ڈر ہو۔ اور جو مواخذہ کا خطرہ ہی نہ سمجھتا ہو وہ جو چاہے بک دے۔ اس کا کیا بگڑتا ہے؟ المدثر
54 المدثر
55 المدثر
56 [٢٦] مگر اللہ بھی صرف اسے ہدایت کی توفیق دیتا ہے جو خود بھی ہدایت کا طالب ہو۔ اور جو خود ہدایت سے کو سوں دور رہنا چاہتا ہو، اللہ ایسے لوگوں کو زبردستی ہدایت نہیں دیا کرتا۔ [٢٧] آیت کے اس جملہ کی بہترین تفسیر درج ذیل حدیث سے واضح ہے : سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں اس بات کا اہل ہوں کہ لوگ مجھ سے ڈریں اور جو شخص مجھ سے ڈر گیا اور میرے ساتھ کسی دوسرے کو شریک نہ بنایا تو مجھے لائق ہے کہ میں اسے بخش دوں۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر۔ سورۃ المدثر) المدثر
0 القيامة
1 [١] قسم کھانے سے مقصد بعض دفعہ تو اپنی بات کو مؤکد بنانا ہوتا ہے۔ اور بعض دفعہ قسم بطور شہادت یا شہادت کو مزید مؤکد بنانے کے لیے کھائی جاتی ہے۔ اور ایسی چیز کی کھائی جاتی ہے جسے انسان بہرحال اپنی ذات سے بالاتر سمجھتا ہو۔ اور چونکہ انسان خود اشرف المخلوقات پیدا کیا گیا ہے۔ لہٰذا ہم انسانوں کو یہی حکم ہے کہ اگر قسم کھانے کی ضرورت پیش آئے تو صرف اللہ کی ذات کی یا اس کی صفات کی کھائی جائے۔ اس کے علاوہ غیر اللہ کی قسم کھانا شرک اور حرام ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے جس چیز کو اہم سمجھتے ہوئے قسم اٹھانا چاہے بطور شہادت اور دلیل پیش کرکے قسم اٹھا سکتا ہے۔ مثلاً یہی قیامت کا دن جسے برپا کرنا اللہ کے انتہائی مہتم بالشان کارناموں سے ایک کارنامہ ہوگا اور یہ ایسی چیز تھی جس کا کفار مکہ یکسر انکار کر رہے تھے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کی یقین دہانی کی خاطر قیامت کے دن کی قسم اٹھا کر فرمایا کہ وہ یقیناً واقع ہو کے رہے گی۔ القيامة
2 [٢] نفس انسانی کی تین حالتیں :۔ نفس انسانی کی تین مختلف قسمیں یا حالتیں ہیں اور یہ سب قرآن کی مختلف آیات سے ثابت ہیں۔ نفس کی ابتدائی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ عموماً بری باتوں کا ہی انسان کو حکم دیتا ہے۔ اس کا مطمح نظر صرف ذاتی مفادات کا حصول، اپنی بڑائی اور اپنی کبریائی کا اظہار ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ دوسروں کے حقوق و مفادات کی پروا کیے بغیر خواہشات پیدا کرتا اور ان کو پورا کرنے کے لیے انسان کو اکساتا رہتا ہے۔ نفس کی ایسی حالت کو نفس امارۃ کہا گیا ہے (١٢: ٥٣) پھر جب اس نفس کی کسی حد تک اصلاح ہوجاتی ہے تو اسے کوئی برا کام کرلینے کے بعد ایک طرح کی ندامت اور خفت کا احساس ہونے لگتا ہے تو نفس کی اس حالت کو ہی اس آیت میں نفس لوامہ یا ملامت کرنے والا نفس کہا گیا ہے اور اسے ہی ہم آج کی زبان میں ضمیر کہتے ہیں۔ پھر جب نفس کی پوری طرح اصلاح ہوجاتی ہے اور وہ اللہ کا فرمانبردار بن جاتا ہے تو اسے برے کاموں سے نفرت اور چڑ سی ہوجاتی ہے۔ اور بھلائی کے کاموں میں ہی اس کا دل لگتا ہے۔ انہی میں وہ اپنی خوشی اور اطمینان محسوس کرتا ہے۔ ایسے نفس کو نفس مطمئنہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ (٨٩: ٢٧) اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے نفس لوامہ کی قسم کھائی۔ کیونکہ انسان کے نفس میں برے اور بھلے کی پوری تمیز موجود ہے۔ پھر اسی تمیز کا نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے۔ برے کام کا نتیجہ برا اور بھلے کام کا نتیجہ بھلا ہونا چاہیے۔ اور یہی قیامت اور آخرت کا اصل مقصد ہے۔ بالفاظ دیگر تمہارا نفس لوامہ بھی اس بات پر دلیل ہے کہ قیامت ضرور واقع ہونی چاہیے۔ القيامة
3 القيامة
4 [٣] یعنی انسان کی سوچ یہ ہے کہ ہم اس کے مرنے کے بعد اس کی گلی سڑی ہڈیوں کو کیونکر اکٹھا کرسکیں گے اور کیسے اسے دوبارہ زندہ کرکے اٹھا کھڑا کیا جائے گا ؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان کی بڑی بڑی ہڈیاں تو دور کی بات ہے۔ ہم تو اس کی انگلیوں کے ایک ایک پور کو مکمل کرکے اسے اٹھا کھڑا کریں گے۔ پس اسے تھوڑا سا غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ اپنی پہلی پیدائش پر جو رحم مادر میں ہوئی، غور کرلے تو بات اسے پوری طرح سمجھ میں آسکتی ہے۔ القيامة
5 [٤] اصل مسئلہ یہ نہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کو اس بات پر قادر نہیں سمجھتا کہ وہ اسے دوبارہ پیدا کرسکتا ہے۔ بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس بات کو تسلیم کرکے اپنی آزادانہ زندگی پر پابندیاں عائد نہیں کرنا چاہتا۔ اسے خوب معلوم ہے کہ اگر اس نے عقیدہ آخرت کو تسلیم کرلیا تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنا اور نہایت پابند اور محتاط زندگی گزارنا پڑے گی۔ اس کا آسان حل اس نے یہ سوچا کہ قیامت کا ہی انکار کردے۔ اور اس کی یہ کیفیت بالکل ویسی ہی ہے جیسے کبوتر بلی کو دیکھ کر اپنی آنکھیں بند کرلیتا ہے اور اپنے نفس کو اس فریب میں مبتلا کرلیتا ہے کہ بس اب خطرہ دور ہوگیا۔ القيامة
6 [٥] یعنی انسان کی ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ حقیقت کو سمجھنے کے باوجود یہ سوال کیے جاتا ہے کہ وہ دن آخر آئے گا کب؟ القيامة
7 [٦] یعنی جب نظام کائنات درہم برہم ہوگا تو کئی طرح کے دھماکے ہوں گے، گرج بھی پیدا ہوگی اور بجلی بھی جس سے انسان کی آنکھیں خیرہ ہوجائیں گی۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان دہشت انگیز نظاروں کو دیکھ کر انسان کی نگاہیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ القيامة
8 [٧] چاند آج کل بھی عارضی طور پر گہناتا اور بے نور ہوتا رہتا ہے لیکن یہ محض چند ساعت کا کھیل ہوتا ہے۔ جب گردش کرتے کرتے سورج اور چاند کے درمیان زمین آجاتی ہے تو یہ طبعی طور پر گہنا جاتا ہے لیکن قیامت کو چاند مستقل طور پر بے نور ہوجائے گا۔ اس لیے کہ اس وقت یہ موجودہ نظام ہی درہم برہم ہوجائے گا۔ القيامة
9 [٨] اس کی صحیح صورت تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے تاہم معلوم ایسا ہوتا ہے کہ جب زمین لرزنے اور کپکپانے لگے گی تو اس کی کشش ثقل بھی ختم یا بے قاعدہ قسم کی بن جائے گی اور چاند پر سورج کی کشش ثقل اثر انداز ہو کر چاند کو اپنی طرف کھینچ لے گی اور وہ دونوں باہم ٹکرا جائیں گے۔ القيامة
10 القيامة
11 [٩] یعنی آج تو انسان یہ پوچھتا ہے کہ قیامت آئے گی کب؟ لیکن جب قیامت فی الواقع آجائے گی تو اس وقت اس سے بچ جانے کی اور بھاگ کھڑا ہونے کی صورت سوچے گا اور دوسروں سے پوچھے گا مگر اس میں اسے سخت ناکامی ہوگی۔ نہ کوئی فرار کا راستہ ملے گا اور نہ پناہ کی جگہ اور انسان اس بات پر مجبور ہوگا کہ سیدھا اپنے پروردگار کے حضور پیش ہوجائے۔ اس کے علاوہ اس کے لیے کوئی چارہ کار نہ ہوگا۔ القيامة
12 القيامة
13 [١٠] مرنے کے بعد اعمالنامہ میں درج ہونے والے اعمال :۔ اس دن ہر انسان کا اعمال نامہ اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ اس سے اسے از خود یہ معلوم ہوجائے گا کہ دنیا میں کون کون سے اچھے یا برے اعمال کما کر اپنے ساتھ لایا ہے اور کون کون سے اچھے یا برے اعمال دنیا میں اپنے پیچھے چھوڑ آیا تھا۔ جن کا اچھا یا برا بدلہ اس کے مرنے کے بعد بھی اس کے اعمال نامہ میں درج ہوتا رہا۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ :’’جس شخص نے اسلام میں کوئی نیک بات جاری کی اس کے لیے اس کے اپنے عمل کا بھی ثواب ہے اور جو لوگ اس کے بعد اس بات پر عمل کریں ان کا بھی ثواب ہے بغیر اس کے کہ ان لوگوں کا ثواب کچھ کم ہو اور جس نے اسلام میں کوئی بری طرح ڈالی اس پر اس کے اپنے عمل کا بھی بار ہے اور ان لوگوں کا بھی جو اس کے بعد عمل کریں بغیر اس کے کہ ان لوگوں کا بار کچھ کم ہو‘‘ (مسلم۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب الحث علی الصدقۃ۔۔) نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ :’’جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل موقوف ہوجاتا ہے مگر تین چیزوں کا ثواب اسے ملتا رہتا ہے ایک صدقہ جاریہ کا جیسے کوئی شخص کوئی چیز رفاہ عامہ کے لیے بنا جائے یا وقف کر جائے۔ دوسرے علم کا جیسے کوئی دینی مدرسہ قائم کر جائے جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے رہیں۔ تیسرے ایسی نیک اولاد چھوڑ جائے تو اس کے حق میں دعا کرتی رہے‘‘ (مسلم۔ کتاب الوصیۃ۔ باب ما یلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہٖ) القيامة
14 القيامة
15 [١١] یعنی یہ تحریری اعمال نامہ تو انسان کے سامنے صرف اس لیے رکھا جائے گا کہ انصاف کے تقاضے پورے کیے جاسکیں۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ انسان کو اپنے اچھے یا برے کیے ہوئے اعمال کا پورا پتا ہوتا ہے۔ اور وہ جو حیلے بہانے تراشتا ہے تو محض اس لیے کہ انسان اپنا قصور ماننے کو قطعاً تیار نہیں ہوتا۔ یہ بیسیوں باتیں بنا سکتا ہے۔ حیلے بہانے بنا سکتا ہے۔ مگر اپنا قصور ماننے سے اس کی انا مجروح ہوتی ہے اور وہ اسے موت کے مترادف سمجھتا ہے۔ دنیا میں بھی اس کا یہی حال ہے اور آخرت میں بھی بعض عادی مجرم ایسی باتیں بنانے کی کوشش کریں گے۔ القيامة
16 القيامة
17 [١٢] آیت نمبر ١٦ سے لے کر ١٩ تک چار آیات درمیان میں جملہ معترضہ کے طور پر آئی ہیں ان کی تفسیر کے لیے درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے : سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب سیدنا جبرئیل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی لے کر آتے تو آپ زبان اور لب ہلاتے رہتے (کہ کہیں بھول نہ جائے) اس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بہت سختی ہوجاتی جو دوسروں کو بھی معلوم ہوجاتی تھی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں یعنی وحی کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل میں جما دینا (یاد کرا دینا) ہمارے ذمہ ہے اور اس کا پڑھا دینا بھی۔ تو جب ہم پڑھ چکیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اسی طرح پڑھیں جیسے ہم نے پڑھا تھا اور جب تک وحی اترتی رہے۔ خاموش سنتے رہیں۔ پھر وحی کے الفاظ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان پر رواں کردینا بھی ہمارے ہی ذمہ ہے۔ چنانچہ ان آیات کے نزول کے بعد جب جبریل آتے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہتے اور جب چلے جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طرح پڑھ کر سنا دیتے جس طرح اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنایا ہوتا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر، نیز باب کیف کان بدء الوحی الٰی رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن کا بیان کیا چیز ہے؟ ان آیات سے کئی اہم امور پر روشنی پڑتی ہے۔ مثلاً یہ کہ اللہ نے صرف قرآن ہی نازل نہیں فرمایا بلکہ قرآن کا بیان بھی نازل فرمایا ہے۔ دوسرے یہ کہ جس طرح اللہ نے قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری لے رکھی ہے۔ اس کے بیان کی حفاظت کی بھی ذمہ داری لے رکھی ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کا بیان ہے کیا چیز؟ تو واضح رہے کہ محض قرآن کے الفاظ کو دہرا دینے کا نام بیان نہیں بلکہ بیان میں ان قرآنی الفاظ کا مفہوم بتانا، اس کی شرح و تفسیر، اس کی حکمت عملی اور طریق بتانا سب کچھ شامل ہے۔ قرآن کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے نازل کرنے والے یعنی اللہ تعالیٰ اور جس پر نازل ہوا ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں کے نزدیک قرآن کے الفاظ کا مفہوم متعین ہو اور وہ ایک ہی ہو۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ زید (متکلم) بکر (مخاطب) سے کہتا ہے کہ :’’ پانی لاؤ‘‘ تو بکر زید کے حکم کی تعمیل اسی صورت میں کرسکے گا کہ متکلم اور مخاطب دونوں کے ذہن میں ''پانی'' اور ''لاؤ'' دونوں الفاظ کا مفہوم متعین ہو اور وہ ایک ہی ہو۔ ورنہ بکر زید کے حکم کی تعمیل کرنے سے قاصر رہے گا۔ مثلاً اگر زید کوئی ذومعنی لفظ بولے گا تو جب تک اس کی مزید وضاحت نہ کرے گا یا اگر زید کا مخاطب کوئی ایسا شخص ہوگا جو اردو سمجھتا ہی نہیں تو بکر زید کے حکم کی بجا آوری کی خواہش رکھنے کے باوجود اس پر عمل نہ کرسکے گا اور سوالیہ نشان بن کر رہ جائے گا، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف قرآن کے الفاظ ہی نازل نہیں فرمائے بلکہ ان الفاظ کا مفہوم (بیان) بھی مخاطب (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذہن میں القاء کردیا۔ یہ بیان بھی امت کو بتلانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذمہ داری تھی۔ (٤٤: ١٦) اب اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمودہ بیان یعنی سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آزاد ہو کر محض لغت کی رو سے قرآن کے الفاظ کا مفہوم متعین کرنے کی کوشش کرے گا تو اس کو مندرجہ ذیل چار وجوہ کی بنا پر ناکامی ہوگی : سنت سے بے نیاز ہو کر قرآن پر عمل کرنے کی کوشش کرنے والوں کی ناکامی کی چار وجوہ :۔ اولاً: بعض الفاظ کا مفہوم متعین کرنا اس لیے مشکل ہوتا ہے کہ لغت میں ایک لفظ کے بہت سے معنی درج ہوتے ہیں۔ مثلاً لفظ صلوٰۃ کے معنی نماز، برکت، رحمت اور نماز، نماز جنازہ تو ایسے ہیں جن کی آیات سے بھی تائید ہوتی ہے۔ مگر نماز کی ادائیگی کرنے کے لیے، وضو، تیمم، مساجد، قبلہ رخ ہونا، رکوع، سجود وغیرہ کا ذکر بھی آیا۔ لہٰذا مندرجہ بالا معنی میں سے کوئی بھی اس کا صحیح مفہوم ادا نہیں کرتا۔ پھر لغت میں مصلی کے معنی وہ گھوڑا بھی ہے جو گھڑ دوڑ میں اول نمبر آنے والے گھوڑے کے پیچھے پیچھے دوسرے نمبر پر آیا ہو۔ علاوہ ازیں صلوٰۃ کے معنی ''کولھے ہلانا'' بھی ہے۔ چنانچہ بعض منچلوں نے صلٰوۃ کی ادائیگی سے ''پریڈ'' کرنا مفہوم لیا اور بعض دوسروں نے رقص و سرود کی مجالس منعقد کرنا۔ اب ظاہر ہے کہ یہ سب مفہوم شریعت کی رو سے غلط ہیں۔ اور اس کی وجوہ وہی ہیں جو اوپر بیان ہوئیں۔ ثانیاً: ہر زبان میں بعض الفاظ بطور اصطلاح مروج ہوتے ہیں جنہیں اہل زبان خوب جانتے ہیں۔ مثلاً لفظ ''اخبار'' کا لغوی معنی محض ''خبریں'' ہے مگر اس کا اصطلاحی مفہوم وہ پرچہ (Newspaper) جس میں خبروں کے علاوہ اور بھی بہت کچھ درج ہوتا ہے۔ اسی طرح کچھ اصطلاحیں فنی اور تکنیکی ہوتی ہیں۔ جنہیں صرف اہل علم و فن ہی جانتے ہیں۔ لغت چونکہ ''زبان'' کے الفاظ کے معنی بیان کرتی ہے لہٰذا ایسی اصطلاحات کا مفہوم بیان کرنا اس کے دائرہ سے خارج ہوتا ہے اور ایسی اصطلاحات کے لئے الگ کتابیں لکھی جاتی ہیں۔ مثلاً خبر واحد، طول بلد، سرایت حرارت، کشش ثقل وغیرہ وغیرہ ایسی اصطلاحات ہیں جن کے مفہوم کو عام اہل زبان نہیں جانتے۔ قرآن چونکہ علوم شرعیہ کا منبع ہے لہٰذا اس میں بے شمار ایسی اصطلاحات مثلاً دین، الٰہ، عبادت، صلوٰۃ، زکوٰۃ، معروف، منکر، حج، عمرہ، آخرت وغیرہ استعمال ہوئی ہیں۔ ایسی اصطلاحات کا مفہوم متعین کرنا بھی اللہ اور اس کے رسول کا کام ہے۔ شرعی اصطلاحات کا جو مفہوم اللہ اور اس کے رسول نے بیان کیا ہو وہی قرآن کا بیان کہلاتا ہے اور یہی بیان امت کے لیے قابل قبول ہوسکتا ہے۔ قرآن کے بیان کی حفاظت کے بغیر صرف قرآن کے الفاظ کی حفاظت بے معنی ہے :۔ ثالثاً محاورات مقامی طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ جو یا تو اہل زبان سے سیکھنا پڑتے ہیں یا کسی محاورات کی کتاب سے دیکھنا ہوں گے۔ لکھنؤ میں ایک ڈاکٹر صاحب کو اس کا دوست ملنے گیا جو اس علاقہ سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔ ڈاکٹر کے کلینک میں ایک مریض آیا اور کہنے لگا : میں نے آج رات تین بار زمین دیکھی ہے۔ ڈاکٹر نے مریض کی شکایت سن کر دوا دے دی اور وہ چلا گیا بعد میں وہ دوست ڈاکٹر سے کہنے لگا، میں نہیں سمجھ سکا کہ مریض نے کیا تکلیف بیان کی تھی جس کی آپ نے دوا دی۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ زمین دیکھنا سے یہاں ''قے کرنا'' مراد لیا جاتا ہے اور میں نے اس مرض کی دوا دی تھی۔ سنت کا منکر قرآن کا بھی منکر ہے :۔ رابعاً: بعض دفعہ ایک لفظ کسی خاص معنی میں مشہور ہوجاتا ہے جبکہ لغوی لحاظ سے اس میں اختلاف کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ اندریں صورت صرف عرف کا لحاظ رکھا جائے گا۔ مثلاً ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مراد عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ہی ہوں گے حالانکہ لغوی لحاظ سے ان کے دوسرے بیٹے فضیل کو بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما کہنا درست ہے۔ اسی طرح مسجد اقصیٰ سے مراد صرف بیت المقدس ہی لیا جائے گا نہ کہ دور کی کوئی مسجد جیسا کہ منکرین معجزات واقعہ اسراء کی تاویل میں مسجد اقصیٰ سے مراد بیت المقدس نہیں لیتے بلکہ کوئی بھی دور کی مسجد مراد لے لینا ان کے نزدیک درست ہے۔ مندرجہ بالا تصریحات سے تین نتائج سامنے آتے ہیں : ١۔ اللہ نے صرف قرآن کے الفاظ کی ہی حفاظت کا ذمہ نہیں لے رکھا بلکہ قرآن کے بیان کی حفاظت کی بھی ذمہ داری لے رکھی ہے۔ کیونکہ اگر قرآن کے بیان کی حفاظت نہ کی جائے تو الفاظ کی حفاظت کوئی معنی نہیں رکھتی اور قرآن بچوں کا کھیل بن جاتا ہے۔ ٢۔ واجب الاتباع ہونے کے لحاظ سے قرآن اور قرآن کے بیان یعنی سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کوئی فرق نہیں اور ٣۔ قرآن کا بیان یا تشریح و تفسیر وہی قابل اعتماد ہوسکتی ہے جو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمائی ہو۔ القيامة
18 القيامة
19 القيامة
20 القيامة
21 [١٣] اس جملہ معترضہ کے بعد اب پھر اصل مضمون کا تسلسل شروع ہو رہا ہے۔ کافروں کے انکار آخرت کی ایک وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ وہ آخرت کا اقرار کرکے اپنے آپ پر پابندی لگا لینا گوارا نہیں کرتے۔ ان دو آیات میں آخرت کے انکار کی دوسری وجہ بیان کی گئی ہے کہ تم لوگ صرف نقد بہ نقد سودا کے گاہک ہو، تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ ایسا کام کرو جس کا عوض اسی دنیا میں مل جائے اور جن کاموں کا اجر آخرت میں ملنے کی توقع ہو ان کاموں کو تم نظر انداز کردیتے ہو۔ عوضانہ ادھار بھی ہو اور تمہارے خیال کے مطابق غیر یقینی بھی ہو تو پھر تم آخرت کو دنیا پر کیونکر ترجیح دے سکتے ہو؟ القيامة
22 القيامة
23 [١٤] دیدار الہٰی میں لذت وسرور :۔ بے شمار احادیث سے بھی ثابت ہے کہ ایمانداروں کو آخرت میں اللہ اپنے دیدار سے مشرف فرمائے گا۔ وہ اس کو اسی طرح بے تکلف دیکھ سکیں گے جس طرح چاند کی طرف دیکھتے ہیں۔ البتہ کافر اور فاجر لوگ اللہ کے دیدار سے محروم رکھے جائیں گے۔ (٨٣: ١٥) دیدار الہٰی سب سے بڑی نعمت ہے :۔ کتاب و سنت میں یہ بھی صراحت سے مذکور ہے کہ اللہ کا دیدار جنت کی تمام نعمتوں سے بڑھ کر اور بڑی نعمت ہوگا اور اس دیدار میں کچھ ایسا کیف و سرور حاصل ہوگا کہ جب تک اللہ تعالیٰ اہل جنت کو اپنے دیدار سے مشرف فرمائے گا جنتی اور کسی نعمت کی طرف دیکھیں گے بھی نہیں۔ بلکہ ٹکٹکی باندھے اللہ تعالیٰ ہی کی طرف دیکھتے رہیں گے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کلام کیا تو اس کلام میں بھی اتنی لذت تھی کہ موسیٰ علیہ السلام چاہتے تھے کہ یہ گفتگو کے لمحات جس قدر ممکن ہو طویل سے طویل تر ہوسکیں۔ اور دیدار میں تو بہرحال سماعت سے بہت زیادہ لذت ہونا یقینی ہے۔ عقل پرستوں کی تاویلات :۔ بعض عقل پرستوں نے دیدار الٰہی سے متعلقہ آیات کی بھی تاویل کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ صرف اس لیے کہ اس طرح اللہ کے لئے ایک مخصوص جہت متعین کرنا پڑتی ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کی ذات جہات اور مکان کی حدود سے ماوریٰ ہے۔ ہم ان دوستوں سے یہی عرض کریں گے کہ آپ کو کس نے اس بات کا پابند بنایا ہے کہ تمام آیات اور صفات الٰہی کو اپنی عقل کے مطابق کرکے چھوڑیں۔ جو بات آپ کے بس کا روگ نہیں۔ اس میں آپ کیوں مداخلت بے جا کرتے ہیں۔ راہ صواب یہی ہے کہ جو بات اللہ اور اس کے رسول نے کہی ہے اسے جوں کا توں تسلیم کرلیا جائے۔ صفات الٰہی میں عقل انسانی کی مداخلت سے گمراہی کے سوا اور کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ رہی یہ بات کہ مومنوں کے چہرے کس وجہ سے تروتازہ ہوں گے تو اس کی ایک معقول وجہ تو یہی دیدارِ الٰہی کی نعمت ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ قیامت کے دن کے تمام تر حالات ان کی توقعات کے مطابق واقع ہوں گے۔ اس پر وہ اتنے خوش ہوں گے کہ ان کے چہرے ہشاش بشاش نظر آئیں گے۔ القيامة
24 القيامة
25 [١٥] اور یہی آخرت کے واقعات جن لوگوں کی توقعات کے برعکس نکلیں گے تو ان کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگیں گی اور انہیں یہ خوب معلوم ہوجائے گا کہ ان کی شامت آئی کہ آئی۔ اس تصور سے ہی وہ یوں شکستہ خاطر ہوجائیں گے جیسے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی گئی ہے۔ القيامة
26 [١٦] یعنی خوب سمجھ لو کہ قیامت کا دن کچھ دور نہیں بلکہ اس کا منہ تم اس دنیا میں ہی دیکھ لو گے۔ جب تم مرنے کے قریب ہوتے ہو اور تمہاری جان ہنسلی تک پہنچ جاتی ہے تو سمجھ لو کہ تمہارا سفر آخرت شروع ہوگیا۔ القيامة
27 [١٧] اس کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ ﴿مَنْ رَ ا قٍ﴾ کو فرشتوں کا کلام سمجھا جائے اور راق کو رقی بمعنی اوپر چڑھنے سے مشتق قرار دیا جائے اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ فرشتے ایک دوسرے سے پوچھیں گے کہ اس شخص کی روح کو جنت کے فرشتے لے کر اوپر چڑھیں گے یا دوزخ کے؟ اور دوسرا مطلب یہ ہے راق کو رقیۃ بمعنی دم جھاڑ سے مشتق قرار دیا جائے۔ اس صورت میں یہ مطلب ہوگا کہ جب میت کے لواحقین اس کے علاج سے عاجز آجاتے ہیں تو پھر ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ کوئی دم جھاڑ کرنے والا ہے؟ اور یہ میت کے علاج یا اسے موت کے منہ سے سے بچانے کے لئے آخری حربہ کے طور پر اختیار کیا جاتا ہے۔ واضح رہے علاج کروانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے۔ اور دم جھاڑ کی اجازت ہے بشرطیکہ اس میں شرکیہ کلمات نہ ہوں۔ تاہم اللہ پر توکل کرنے والوں اور ہر حال میں اللہ کی رضا پر راضی رہنے والوں کا درجہ علاج کرانے والوں سے بہت بلند ہے۔ چنانچہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں سے ستر ہزار آدمی بے حساب جنت میں جائیں گے یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اندر چلے گئے اور یہ نہیں بتایا کہ وہ ستر ہزار کون لوگ ہوں گے؟ بلاحساب جنت میں جانے والے متوکلین :۔ اب صحابہ قیاس دوڑانے لگے اور کہنے لگے یہ ستر ہزار ہم لوگ ہوں گے جو اللہ پر ایمان لائے اور اس کے پیغمبر کی پیروی کی یا ہماری اولاد ہوگی جو اسلام کے دین پر ہی پیدا ہوئی۔ کیونکہ ہم لوگ تو جاہلیت اور کفر کے دور میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کو یہ خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر نکلے اور فرمایا : ’’یہ ستر ہزار وہ لوگ ہیں جو نہ منتر کرتے ہیں نہ برا شگون لیتے ہیں، نہ داغ لگواتے ہیں بلکہ اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں‘‘ یہ سن کر ایک صحابی عکاشہ بن محصن کھڑے ہوئے اور کہنے لگے : ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا میں ان لوگوں سے ہوں گا ؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :''ہاں'' پھر ایک اور صحابی (سعد بن عبادہ) کھڑے ہو کر کہنے لگے :’’کیا میں بھی ان سے ہوں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’تم سے پہلے عکاشہ ان لوگوں میں ہوچکا‘‘ (بخاری۔ کتاب الطب والمرضیٰ۔ باب من لم یرق) دوا سے علاج کرانے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ یہ علاج حرام اشیاء سے نہ کیا جائے لیکن دم جھاڑ کرنا کوئی مستحسن فعل نہیں۔ البتہ بعض شرائط کے تحت اس کی اجازت دی گئی ہے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے معلوم ہوتا ہے : ١۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرا ماموں بچھو کا منتر کیا کرتا تھا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منتروں سے منع کردیا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منتروں کو منع کردیا اور میں بچھو کا منتر کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’تم میں سے جو کوئی اپنے بھائی کو فائدہ پہنچا سکے اسے پہنچانا چاہیے‘‘ (مسلم۔ کتاب السلام۔ باب استحباب رقیۃ المریض) ٢۔ سیدنا عوف بن مالک اشجعی فرماتے ہیں کہ ہم جاہلیت کے زمانہ میں منتر کیا کرتے تھے۔ ہم نے کہا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنے منتروں کو میرے سامنے پیش کرو۔ اگر اس میں شرک کا مضمون نہ ہو تو کچھ قباحت نہیں‘‘ (مسلم۔ ایضاً) ٣۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب کوئی گھر میں بیمار ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر معوذات (سورۃ العلق اور سورۃ الناس) پڑھ کر پھونکتے۔ پھر جب آپ مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پھونکتی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پھیرتی۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں میرے ہاتھ سے زیادہ برکت تھی۔ (مسلم۔ ایضاً) ٤۔ عثمان بن ابی العاص ثقفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شکوہ کیا کہ جب سے میں اسلام لایا ہوں میرے بدن میں کچھ درد سا رہتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنا ہاتھ درد کی جگہ پر رکھو اور تین بار بسم اللہ کہو پھر سات بار یہ کہو : اعوذ باللّٰہ وقدرتہ من شرما اجد واحاذر (یعنی میں اللہ سے اس برائی سے پناہ مانگتا ہوں جسے میں پاتا ہوں اور جس سے ڈرتا ہوں) (مسلم۔ ایضاً) ٥۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم میں سے جب کوئی بیمار ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر اپنا داہنا ہاتھ پھیرتے پھر فرماتے ”اَذْھِبِ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ وَاشْفِ اَنْتَ الشَّافِیْ لاَ شِفَاء الاَّشِفَاءُ کَ شِفَائً لاَّ یُغَادِرُ سَقَمًا “ ( اے لوگوں کے پروردگار! یہ بیماری دور کر دے۔ تو ہی شفا دینے والا ہے۔ شفا تیری ہی شفا ہے۔ ایسی شفا دے کہ بیماری بالکل نہ رہے) (مسلم۔ ایضاً) ٦۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کسی مریض پر دم جھاڑ کرتے تو فرماتے '”بِسْمِ اللّٰہِ تُرْبَۃُ اَرْضِنَا بِرِیْقَۃِ بَعْضِنَا یَشْفِیْ سَقِیْمَنَا باذْنِ رَبِّنَا “ (یعنی اللہ کے نام سے ہماری زمین (مدینہ) کی مٹی ہم میں سے کسی کے تھوک سے کرے ہمارے مالک کے حکم سے مریض کو تندرست کر دے گی) (بخاری۔ کتاب الطب۔ باب رقیۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ٧۔ سورۃ فاتحہ سے بچھو کے کاٹے کا دم :۔ سیدنا ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کئی اصحاب عرب کے ایک قبیلہ پر پہنچے۔ لیکن انہوں نے صحابہ کی ضیافت نہ کی۔ اسی دوران ان کے سردار کو بچھو نے کاٹا۔ وہ صحابہ کے پاس آئے اور کہنے لگے : تمہارے پاس بچھو کے کاٹے کی کوئی دوا یا منتر ہے؟ انہوں نے کہا : ہے تو سہی لیکن چونکہ تم نے ہماری ضیافت نہیں کی لہٰذا ہم معاوضہ کے بغیر منتر نہیں کریں گے۔ آخر انہوں نے کچھ بکریاں (٣٠ بکریاں) دینا قبول کیں۔ تب ایک صحابی (خود ابو سعید خدری) نے سورۃ فاتحہ پڑھنا شروع کی۔ وہ سورۃ فاتحہ پڑھتے اور تھوک منہ میں اکٹھا کرکے زخم پر تھوک دیتے۔ وہ سردار اچھا ہوگیا۔ قبیلہ کے لوگ بکریاں لے کر آئے تو صحابہ کو تردد ہوا کہ جب تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھ نہ لیا جائے ان بکریوں کو قبول کیا جائے یا نہ کیا جائے؟ چنانچہ جب صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا تو آپ ہنس دیئے اور فرمایا : ارے تجھے یہ کیسے معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ منتر بھی ہے۔ بکریاں لے لو اور میرا حصہ بھی لگاؤ'' (بخاری۔ کتاب الطب۔ باب الرقی بفاتحۃ الکتاب) ٨۔ تعویذ گنڈوں کی ممانعت :۔ ابو بشیر انصاری فرماتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں اپنے آرام کے ٹھکانے میں تھے۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص (زید بن حارثہ) کے ہاتھ یہ پیغام کہلا بھیجا کہ کسی اونٹ کی گردن میں تانت یا گنڈا ہو وہ کاٹ ڈالا جائے (بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب ماقیل فی الجرس و نحوہ فی اعناق الابل) ٩۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک وفد بیعت کے لیے حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان میں سے نو کی بیعت لی مگر ایک سے نہ لی۔ وجہ دریافت کرنے پر فرمایا کہ اس نے تعویذ پہنا ہوا ہے پھر ہاتھ ڈال کر اس کا تعویذ کاٹ ڈالا اور بیعت لے لی اور فرمایا : ”مَنْ عَلَّقَ تَمِیْمَۃً فَقَدْ اَشْرَک“ (مسند احمد ج ٤ ص ٧٥) مطبوعہ احیاء السنہ ان احادیث سے درج ذیل نتائج سامنے آتے ہیں : ١۔ دم جھاڑ کا مسنون طریقہ صرف یہ ہے کہ مریض پر قرآن کی آیات یا مسنون دعائیں پڑھ کر دم کردیا جائے۔ البتہ اگر دم جھاڑ کے الفاظ کے معنی کی پوری طرح سمجھ آجائے اور اس میں شرک کی کوئی بات نہ ہو تو ایسا دم کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ ٢۔ اس کے علاوہ جتنی بھی صورتیں مروج ہیں مثلاً تعویذ لکھ کر پانی میں گھول کر پلانا، گلے میں لٹکانا یا ران یا کلائی پر باندھنا، کپڑے پہننا، موتی وغیرہ لٹکانا سب کے سب ناجائز اور خلاف سنت اور بدعت ہیں۔ ٣۔ دم جھاڑ کو پیشہ نہیں بنایا جاسکتا۔ اس کی پیشگی اجرت طے کرنا ممنوع ہے۔ البتہ بعد میں اگر کوئی اپنی خوشی سے ہدیہ دے دے تو اس کے لینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ ٤۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے جو ٣٠ بکریاں پیشگی طے کرکے لیں تو یہ ایک استثنائی واقعہ ہے اور اس کی وجہ حدیث میں مذکور ہے۔ ایک تو وہ کافر تھے۔ دوسرے انہوں نے اہل عرب کے معروف دستور کے خلاف مسلمانوں کی مہمان نوازی سے انکار کردیا تھا۔ لہٰذا یہ بکریاں ان سے سزا کے طور پر لی گئی تھیں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اس بات کی اجازت تھی کہ اگر لوگ مہمان نوازی کا حق ادا نہ کریں تو ان سے جبراً بھی وصول کیا جاسکتا ہے۔ (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب اکرام الضیف وخدمتہ ایاہ بنفسہ) القيامة
28 القيامة
29 [١٨] یعنی سب سے پہلے پاؤں کی طرف سے جان نکلنا شروع ہوتی ہے۔ جب پنڈلیوں سے جان نکل چکتی ہے تو انسان میں یہ سکت نہیں رہتی کہ وہ ایک پنڈلی کو دوسری سے اٹھا کر الگ کرسکے۔ جب یہ کیفیت طاری ہوجائے تو سمجھ لو کہ سفر آخرت شروع ہوگیا اور میت کا اپنے پروردگار سے ملاقات کا وقت آگیا۔ بس یہی وقت ہے جس کے لئے کافر باربار پوچھتے اور اس کی جلدی کا تقاضا کرتے ہیں۔ جس شخص کو موت آگئی تو گویا پوری قیامت کے احوال اس پر منکشف ہونے لگ جاتے ہیں۔ القيامة
30 القيامة
31 القيامة
32 القيامة
33 القيامة
34 القيامة
35 [١٩] ابو جہل کا شیخی بگھارنا اور متکبرانہ چال آیت نمبر ٣١ سے ٣٥ تک کافروں کے ایک اور سردار کا کردار بغیر نام لیے پیش کیا گیا ہے یہ کردار ابو جہل تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے یہ آیات پڑھ کر سنائیں تو بدبخت کہنے لگا : محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) !) مجھ کو کیا ڈراتے ہو، میرا نہ تم کچھ بگاڑ سکتے ہو اور نہ تمہارا پروردگار کچھ بگاڑ سکتا ہے۔ بخدا اس وادی میں میری عزت سب سے زیادہ ہے اور میری محفل سب سے بڑی ہے۔ واضح رہے کہ ولید بن مغیرہ کے بعد یہی ابو جہل قریشیوں کا بڑا سردار اور سپہ سالار مقرر ہوا تھا۔ قرآن کی آیات سن کر انہیں جھٹلا دیا پھر متکبرانہ انداز سے منہ موڑ کر اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ ضمناً آیت ٣١ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی آیات کو سچا سمجھنے کی سب سے پہلی اور اہم علامت نماز کی ادائیگی ہے۔ القيامة
36 [٢٠] یعنی اللہ نے انسان کو بے شمار ایسی قوتیں عطا فرمائی ہیں جو دوسرے جانداروں کو عطا نہیں کی گئیں۔ لہٰذا جو انسان یہ سمجھتا ہے کہ جس طرح دوسرے جاندار پیدا ہوتے اور مر جاتے ہیں اور ان پر کسی طرح کی کچھ ذمہ داری نہیں اسی طرح انسان کا بھی حال ہے۔ اس کی یہ سوچ نہایت احمقانہ اور غیر دانشمندانہ ہے۔ اسے دوسرے جانداروں سے ممتاز کرنے کی آخر اللہ میاں کو کیا ضرورت تھی؟ بلکہ اس سے اگلا سوال یہ ہے کہ اگر انسان کی زندگی بھی ویسی ہی غیر ذمہ دارانہ سمجھی جائے جیسے دوسرے جانداروں کی ہے تو انسان کو پیدا کرنے کی ہی کیا ضرورت تھی؟ القيامة
37 القيامة
38 القيامة
39 [٢١] لڑکے اور لڑکیوں کی پیدائش میں تناسب اور دہریت کا رد :۔ بعض دہریے اور نیچری حضرات رحم مادر میں انسان کی تخلیق کو اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا کارنامہ نہیں سمجھتے۔ بلکہ وہ اسے ایک طبعی امر اور اتفاقات کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اتفاقات کا نتیجہ تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نوع انسانی کے کسی دور میں صرف لڑکے ہی لڑکے پیدا ہوتے جائیں اور لڑکیاں پیدا نہ ہوں اور اس کے برعکس یہ بھی ممکن ہے کہ کسی دور میں صرف لڑکیاں ہی لڑکیاں پیدا ہوتی جائیں اور لڑکے پیدا نہ ہوں۔ اور اس طرح نسل انسانی کا سلسلہ ہی منقطع ہوجائے؟ کیا یہ بھی اتفاقات کا ہی نتیجہ قرار دیا جائے گا کہ ہر دور میں لڑکے اور لڑکیاں اللہ تعالیٰ اس نسبت سے پیدا فرما رہا ہے کہ نسل انسانی میں انقطاع واقع نہیں ہوتا ؟ القيامة
40 [٢٢] یعنی رحم مادر میں نطفہ سے انسان کی تخلیق تک کے اطوار پھر ان کی زوجین میں مناسب تقسیم سے انسان بخوبی اس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے کہ جو پروردگار اتنی قدرتوں کا مالک ہے وہ انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ بھی پیدا کرسکتا ہے۔ ان دلائل کے بعد بھی جو انسان دوبارہ زندگی کا انکار کرتا ہے تو اس کا یہ انکار ہٹ دھرمی اور حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ نیز حدیث میں ہے کہ جب آپ یہ آیت تلاوت فرماتے تو بعد میں سبحانک اللھم بلٰی فرماتے۔ القيامة
0 الإنسان
1 [١] دہر کا لغوی مفہوم 'دہر اللہ کی ذات ہے :۔ دھر بمعنی زمانہ کائنات، مدت عالم، جب سے کائنات شروع ہوئی اس وقت سے لے کر اس کے اختتام تک کا وقت (مفردات) اور ابن الفارس کہتے ہیں کہ دھر میں غلبہ اور قہر کا مفہوم پایا جاتا ہے اور دہر کا یہ عالم اس لیے ہے کہ وہ ہر چیز پر اضطراراً گزرتا اور اس پر غالب آتا ہے۔ (مقائیس اللغۃ) اور دہر کا تعلق مشیئت الٰہی سے ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ”لا تسبوا الدھر فان اللہ ھوالدھر “یعنی دہر کو برا بھلا نہ کہہ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی دہر ہے۔ (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب لا تسبوا الدھر) اور دہری وہ شخص ہے جو کائنات کی تخلیق کا قائل نہیں بلکہ اسے ابدالاباد سے شمار کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کائنات کا کوئی صانع نہیں بس یہ آپ سے آپ اتفاقات کے نتیجہ میں وجود میں آگئی تھی۔ اس آیت میں یہ بتایا جارہا ہے کہ انسان پر ایسا وقت بھی گزر چکا ہے جبکہ بنی نوع انسان کی ابھی تخلیق ہی نہ ہوئی تھی۔ اور اس کا نام و نشان تک صفحہ ہستی پر موجود نہ تھا۔ پھر کتنے ہی دور اور طور طے کرنے کے بعد یہ نطفہ کی شکل میں آیا۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب انسان نطفہ کی حالت میں تھا تو اس کی موجودہ شرافت و کرامت کے مقابلہ میں اس کی وہ حالت اس قابل ہی نہیں تھی کہ اسے زبان پر لایا جائے۔ الإنسان
2 [٢] یعنی باپ کا نطفہ الگ تھا، ماں کا الگ، ان دونوں نطفوں کے ملاپ سے ماں کے رحم میں حمل قرار پایا۔ پھر ہم نے اس مخلوط نطفہ کو ایک ہی حالت میں پڑا نہیں رہنے دیا۔ ورنہ وہ وہیں گل سڑ جاتا۔ بلکہ ہم اس کو الٹتے پلٹتے رہے اور رحم مادر میں اس نطفہ کو کئی اطوار سے گزار کر اسے ایک جیتا جاگتا انسان بنا دیا۔ [٣] انسان کی دوسرے جانداروں پر کیا فضیلت ہے؟:۔ انسان کے علاوہ جتنی بھی جاندار مخلوق ہے۔ تقریباً سب ہی سنتے بھی ہیں اور دیکھتے بھی ہیں۔ لیکن سمیع اور بصیر نہیں ہیں۔ سمیع اور بصیر صرف انسان ہے۔ اور یہی چیزیں انسان کے لئے علم کے حصول کے سب سے بڑے ذرائع ہیں۔ انسان اشیاء کو دیکھ کر اور بعض آوازیں سن کر ان پر غور کرتا، ان میں قیاس اور استنباط کرتا پھر ان سے نتائج اخذ کرتا ہے۔ جبکہ دوسرے جاندار دیکھنے اور سننے کے باوجود ان میں سے کوئی کام بھی نہیں کرسکتے۔ الإنسان
3 [٤] انسان کی ہدایت کے لیے کون کون سے ذرائع اللہ نے بنائے ہیں؟:۔] راہ دکھانے کی بے شمار صورتیں ہیں۔ مثلاً: ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو فطرت سلیمہ پر پیدا کیا ہے۔ جس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک کا حق پہچانے۔ اسی چیز کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں عہدالست سے تعبیر فرمایا ہے۔ ٢۔ ہر انسان میں برے اور بھلے کی تمیز رکھ دی گئی ہے یہی وجہ ہے کہ جب انسان کوئی برا کام کرتا ہے تو اس کا ضمیر اسے ملامت کرنے لگتا ہے۔ ٣۔ انسان جب مصائب میں گھر جاتا ہے تو غیر شعوری اور اضطراری طور پر اس کی نگاہیں اپنے خالق کی طرف اٹھ جاتی ہیں اور وہ فریاد کے لیے اسے پکارنے لگتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مشکلات میں اپنے خالق یا کسی ان دیکھی بالاتر قوت پر تکیہ کرنا انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ ٤۔ کائنات میں اللہ تعالیٰ کی ہر سو بکھری ہوئی آیات پر غور کرنے سے بھی انسان کو ایک ایسی عظیم، مقتدر اور بالاتر ہستی کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ جو اس کائنات کا نہایت مربوط نظم و نسق چلا رہی ہے اور انسان کو یہ یقین کرنا پڑتا ہے کہ خود اس ہستی کے دائرہ اقتدار سے کسی صورت باہر نہیں نکل سکتا۔ لہٰذا اس کی اطاعت کے بغیر اس کے لیے کوئی دوسرا چارہ کار نہیں۔ ٥۔ وہ کائنات میں یہ منظر بھی دیکھتا ہے کہ بعض ظالم زندگی بھر ظلم و جور کے طوفان اٹھانے کے بعد اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں اور انہیں کوئی سزا نہیں ملتی۔ اسی طرح بعض انسان ساری زندگی انسانیت کی خدمت میں گزار کر اور مصیبتیں سہہ سہہ کر دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں اور انہیں کوئی صلہ نہیں ملتا۔ حالانکہ یہ نظام کائنات انتہائی عدل اور توازن و تناسب پر قائم ہے جس سے وہ اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ انسان کو یقیناً ایک دوسری زندگی بھی مہیا کی جانی چاہیے جس میں عدل و انصاف کے تقاضے پورے کئے جاسکیں اور ٦۔ ان سب ذرائع سے بڑھ کر اللہ نے انسان کی ہدایت کا یہ اہتمام فرمایا کہ انبیاء اور کتابیں ہر دور میں بھیج کر انسانوں پر اتمام حجت کردی۔ ان سب باتوں کے بعد انسان کو اس کے حال پر چھوڑ دیا کہ اب وہ اپنے اختیار کا صحیح استعمال کرکے اس کا فرمانبردار اور شکرگزار بندہ بننا چاہتا ہے یا دنیا کی دلکشی میں مست ہو کر اللہ کو بھول جاتا یا اس کی سرکشی کی راہ اختیار کرکے نمک حرام بن جاتا ہے۔ [٥] یہ دنیا نہ دارا لجزاء ہے نہ دارالعیش بلکہ دارالعمل ہے :۔ اس دنیا میں انسان کی تخلیق کا ٹھیک مقصد یہ ہے کہ یہ دنیا اس کے لیے دارالامتحان ہے۔ جہاں اس کی یہ آزمائش مقصود ہے کہ وہ اچھے یا برے کیسے اعمال بجا لاتا ہے؟۔ یہ دنیا دارالجزاء نہیں ہے کہ ہر ظالم کو یہاں فوراً سزا مل جائے یا نیک آدمی کو اس کی نیکی کا فوری طور پر بدلہ مل جائے۔ یہ دارالعذاب بھی نہیں ہے۔ رُہبان' اہل تناسخ اور اشتراکی نظریات کی تردید :۔ جیسا کہ اہل طریقت، رہبان اور درویش قسم کے لوگوں کا خیال ہے کہ جسم کو عذاب دے دے کر روح کی ترقی کی منزلیں تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ نیز یہ دنیا اہل تناسخ کے نظریہ کے مطابق دارالجزاء بھی نہیں ہے کہ انسان اگر اپنی پہلی جون (زندگی) میں گناہ کرتا رہا ہے تو اب اس کی روح کسی ناپاک جسم مثلاً کتے یا سور میں ڈال دی جائے گی یا اگر وہ پچھلی جون میں نیک اعمال بجا لاتا رہا ہے تو اس کی روح کسی مہاتما کے جسم میں ڈال دی جائے گی۔ نیز یہ دنیا دہریوں، آخرت کے منکروں اور دنیا داروں کے نظریہ کے مطابق دارالعیش یا تفریح گاہ بھی نہیں ہے کہ انسان یہاں جیسے جی چاہے زندگی گزار کر چلتا بنے اور اس کے اعمال پر اس سے کوئی بازپرس کرنے والا نہ ہو۔ نیز یہ دنیا جدلیاتی کشمکش کا میدان بھی نہیں ہے جیسا کہ ڈارون اور کارل مارکس کے پیروکار سمجھتے ہیں۔ بلکہ یہ دنیا انسان کے لیے دارالامتحان ہے۔ جہاں وہ جیسا بوئے گا آخرت میں ویسا ہی کاٹے گا۔ الإنسان
4 [٦] امتحان کا وقت ہر انسان کی موت تک ہے یا جو لوگ اس امتحان میں فیل ہوجائیں گے ان کی اخروی زندگی انتہائی تلخ ہوگی اور یہ دنیا کی زندگی جس قدر آزادانہ اور عیش و آرام میں گزار کر مریں گے اسی نسبت سے انہیں عذاب بھی دیئے جائیں گے۔ پابند زنجیر و سلاسل کرکے اور گلے میں طوق ڈال کر انہیں جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ الإنسان
5 [٧] ان کے مقابلہ میں اس دارالامتحان میں کامیاب ہونے والوں یا اللہ کے فرمانبرداروں اور نیک اعمال بجا لانے والوں کو سب سے پہلی نعمت تو یہ ملے گی کہ ان کے پینے کو ٹھنڈا، میٹھا، سفید رنگ کا خوشبودار اور مفرح قلب مشروب ملے گا۔ اور یہ مشروب اس افراط سے مہیا کیا جائے گا کہ جہاں کوئی موجود ہوگا اس مشروب کی نالیاں وہیں تک پہنچا دی جائیں گی وہ خود بھی جب ایسی خواہش کریں گے تو اس مشروب کی نالیاں وہاں پہنچ جائیں گی اس مشروب کی رنگت، ٹھنڈک اور خوشبو ایسی ہوگی جیسے اس میں کافور ملا دیا گیا ہے۔ الإنسان
6 الإنسان
7 [٨] اہل جنت کی چند صفات :۔ اب ان کامیاب ہونے والے نیک لوگوں کی چند صفات بیان کی جارہی ہیں۔ پہلی صفت یہ ہے کہ وہ اپنی نذریں پوری کرتے ہیں۔ نذر ایسے عہد کو کہا جاتا ہے جو انسان خود اپنے اوپر واجب قرار دے لیتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جو شخص اپنے واجب کردہ عہد کو پورا کرنے کا اس قدر خیال رکھتا ہے وہ اللہ کے عہد کو پورا کرنے کا بدرجہ اولیٰ خیال رکھے گا۔ [٩] مُسْتَطِیْرٌ (مادہ ط ی ر) بمعنی چارسو پھیلی ہوئی آفت۔ پوری کی پوری فضا کو متاثر کرنے والی تکلیف اور مصیبت۔ جب سورج بالکل زمین کے قریب لے آیا جائے گا اور حرارت اور گھبراہٹ کے مارے لوگوں کا برا حال ہوگا۔ اس دن کے شر سے وہی لوگ محفوظ رہیں گے جو پہلے ہی اس دن کے شر سے ڈر کر اللہ کے فرمانبردار بن کر رہے ہوں گے۔ الإنسان
8 [١٠] علی حبہ میں ''ہ'' کی ضمیر کا مرجع طعام بھی ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت بھی یعنی وہ ایسے کام اللہ کی محبت کے جوش میں کرتے ہیں۔ [١١] جنگی قیدیوں سے بہتر سلوک اگرچہ وہ کافر ہوتے ہیں :۔ اسیر کا لفظ جنگی قیدی کے لیے مخصوص ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ایسے لوگ کافر ہی ہوسکتے ہیں۔ مسلمان نہیں ہوسکتے۔ ان کے کافر ہونے کے باوجود انہیں کھانا کھلانا اور ان سے حسن سلوک بڑی نیکی کا کام ہے۔ بدر کے قیدیوں کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ جس شخص کے پاس کوئی قیدی رہے وہ اس سے اچھا سلوک کرے۔ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس حکم کی تعمیل میں قیدیوں کو اپنے سے بہتر کھانا کھلاتے تھے اور مسلمان بھائیوں کا حق تو ان سے بھی زیادہ ہے۔ الإنسان
9 [١٢] محسن اور ممنون کے لئے الگ الگ احکام :۔ اسلام کی انتہائی اعلیٰ و ارفع تعلیمات میں سے ایک یہ حکم ہے یعنی احسان کرنے والوں کو اسلام نے یہ تعلیم دی کہ وہ اس سے جس پر احسان کیا گیا ہے کسی طرح کے معاوضہ، بدلہ حتیٰ کہ شکریہ تک کی بھی توقع نہ رکھیں۔ اور جس پر احسان کیا جائے اس کو یہ تعلیم دی کہ وہ احسان کرنے والے کا ضرور شکریہ ادا کریں۔ حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ: ”مَنْ لاَ یَشْکُرُ النَّاسَ لاَ یَشْکُرُ اللّٰہَ“(یعنی جو شخص لوگوں کا شکریہ ادا کرنا نہیں جانتا وہ اللہ کا کیا شکر ادا کرے گا ؟) حالانکہ حق اور عدل و انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ احسان کرنے والے کا شکریہ ادا کیا جائے۔ اب احسان کرنے والے کو یہ سبق دیا کہ وہ احسان کے شکریہ تک کی بھی توقع نہ رکھے اور جس پر احسان ہوا اسے یہ سبق دیا کہ اول تو اس کا بدلہ ادا کرنے کی کوشش کرے ورنہ شکریہ ضرور ادا کرے۔ اس طرح معاشرہ میں ایسی فضا قائم کردی جس سے معاشرہ کے محتاج و اغنیاء کے درمیان محبت اور مؤانست کو فروغ حاصل ہو۔ الإنسان
10 [١٣] یعنی احسان کرنے والے نیکی کرنے اور شکریہ تک کی توقع نہ رکھنے کے باوجود اس بات سے ڈرتے رہتے ہیں کہ ان کے عمل میں کوئی تقصیر باقی نہ رہ جائے۔ اور اس دن ہم سے باز پرس نہ ہو جس کے نظارہ سے ہی سب کے چہرے بگڑ جائیں گے اور ہیبت اور دہشت طاری ہوجائے گی۔ الإنسان
11 [١٤] یعنی اللہ ان کے اس نیک عمل کا بدلہ یہ دے گا کہ ان کے چہرے بگڑنے کے بجائے خوب ترو تازہ اور ہشاش بشاش ہوں گے اور دلوں میں گھبراہٹ واقع ہونے کے بجائے ان کو دل کا اطمینان اور سرور عطا فرمائے گا۔ الإنسان
12 [١٥] دنیا میں ان لوگوں نے اللہ کی رضا کی خاطر بے شمار پابندیاں برداشت کی تھیں۔ اسلام کی راہ میں آنے والی مشکلات کو بھی خندہ پیشانی سے برداشت کرتے رہے تھے۔ اس مستقل صبر کے عوض آج انہیں جنت بھی عطا کی جائے گی اور فاخرانہ ریشمی لباس بھی پہنائے جائیں گے اور وہ جنت میں پورے شاہانہ ٹھاٹھ کے ساتھ تکیہ لگائے بیٹھا کریں گے۔ الإنسان
13 [١٦] شمس سے مراد دھوپ کی حرارت اور شدت ہے جو بدن کو ناگوار محسوس ہو۔ اور زمھریر سے مراد سخت سردی ہے اور ایسا طبقہ بھی جہاں کڑاکے کی سردی ہو۔ یعنی جنت کا موسم گرمی اور سردی کی ان دونوں انتہاؤں سے پاک اور معتدل قسم کا ہوگا۔ جیسے ہمارے ہاں موسم بہار ہوتا ہے۔ الإنسان
14 [١٧] جنت میں روشنی کس قسم کی اور کس چیز سے ہوگی یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ بہرحال ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی سائے ہوں گے اور وہ سائے خوشگوار بھی ہوں گے اور درختوں کے پھلوں کے گچھے اہل جنت کے اتنے قریب کردیئے جائیں کہ جب وہ چاہیں انہیں اپنے استعمال میں لاسکیں۔ الإنسان
15 الإنسان
16 [١٨] دنیا میں کئی قسم کے شیشے ایجاد ہوچکے ہیں۔ اور ایسی اشیاء بھی جو شیشے کے علاوہ ہونے کے باوجود شیشے کی طرح صاف شفاف بھی ہیں جیسے پلاسٹک کی اشیاء لیکن یہ چیزیں آتش گیر ہوتی ہیں جنت میں چاندی اور اس کے برتنوں کو شیشے کی طرح صاف شفاف بنا دیا جائے گا اور یہ صنعت دنیا میں آج تک ایجاد نہیں ہوسکی اور شاید آئندہ بھی نہ ہوسکے۔ [١٩] اس کا ایک مطلب تو ترجمہ سے واضح ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان چاندی کے شیشہ نما برتنوں کو اتنی مخصوص مقدار میں ہی بھرا جائے گا۔ جتنی پینے والے کی طلب ہوگی، نہ انہیں اور مانگنے کی ضرورت پیش آئے گی اور نہ ہی یہ صورت ہوگی کہ برتن میں کچھ مشروب بچ جائے۔ الإنسان
17 [٢٠] پہلے کافور کی آمیزش والے مشروب کا ذکر کیا گیا جو اپنی تاثیر کے لحاظ سے ٹھنڈا اور مفرح ہوتا ہے۔ اب زنجبیل یا سونٹھ کی آمیزش والے مشروب کا ذکر کیا گیا۔ زنجبیل کی تاثیر گرم ہوتی ہے۔ اہل عرب کے شوق کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کا ذکر کیا ہے۔ یہ ایک قدرتی چشمہ ہوگا جس کے مشروب میں سونٹھ کی خوشبو تو ہوگی مگر اسکی تلخی نہیں ہوگی۔ الإنسان
18 الإنسان
19 [٢١] ﴿ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ﴾ کا ایک مطلب تو ترجمہ سے واضح ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ لڑکے اہل جنت کے پاس ہمیشہ موجود رہیں گے۔ کبھی غیر حاضر نہ ہوں گے۔ [٢٢] یعنی ان لڑکوں کا حسن و جمال، ان کی پاکیزگی اور نظافت، ان کی آب و تاب اور ان کے ہمہ وقت ادھر ادھر پھرنے سے یوں معلوم ہوگا کہ یہ خوبصورت موتی ہیں جو ادھر ادھر بکھیر دیئے گئے ہیں۔ الإنسان
20 [٢٣] یعنی ایک ادنیٰ درجہ کے جنتی کو بھی جو رہائش کے لیے جنت میں جگہ ملے گی وہ بھی یوں معلوم ہوگی جیسے کسی بڑے بادشاہ کی سلطنت ہے جس میں ہر طرف اعلیٰ سے اعلیٰ نعمتیں موجود ہوں گی۔ الإنسان
21 [٢٤] سورۃ کہف کی آیت نمبر ٣١ میں مذکور ہے کہ اہل جنت کو سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے۔ اور یہاں چاندی کے کنگنوں کا ذکر ہے۔ اور یہ بات اہل جنت کی مرضی پر منحصر ہوگی کہ جیسے کنگن وہ پہننا چاہیں انہیں پہنائے جائیں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں قسم کے پہنائے جائیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ کبھی سونے کے پہنائے جائیں اور کبھی چاندی کے۔ یا مردوں کو چاندی کے پہنائے جائیں اور عورتوں کو سونے کے۔ [٢٥] یہ کافور اور زنجبیل کے امتزاج والے مشروبات کے علاوہ ایک تیسرے مشروب کا ذکر ہے۔ جسے شراباً طہوراً کا نام دیا گیا ہے۔ طہور سے مراد وہ چیز ہوتی ہے جو خود بھی صاف ستھری ہو اور دوسری چیزوں کو بھی صاف ستھرا کرنے والی ہو۔ یعنی وہ مشروب ایک تو بذات خود انتہائی صاف شفاف ہوگا۔ دوسرے اہل جنت کے دلوں سے ایک دوسرے کے خلاف ہر قسم کی رنجش اور کدورتیں دور کر دے گا۔ الإنسان
22 [٢٦] یعنی یہ نعمتیں عطا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اہل جنت سے فرمائے گا کہ دنیا میں میری خاطر جو تم نے مصیبتیں برداشت کیں اور میرے احکام کی پابندیوں کا خیال رکھا۔ تمہاری ان محنتوں کی آج پوری قدر کی جاتی ہے اور ان کا تمہیں بیش بہا بدلہ دیا جاتا ہے۔ الإنسان
23 [٢٧] کفار مکہ کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک یہ اعتراض بھی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساتھ کے ساتھ قرآن تصنیف کرتے رہتے ہیں۔ پھر ہمیں سنا دیتے ہیں۔ اگر یہ قرآن اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہوتا تو ایک ہی بار نازل ہوجاتا۔ اس اعتراض کو نقل کیے بغیر اس کا جواب دیا جارہا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تاکید اور تاکید مزید کے طور پر جمع متکلم کی تین ضمیریں استعمال فرمائیں ایک انا میں دوسرے نحن میں اور تیسرے نَزَّلْنَا میں۔ اتنی تاکید کے ساتھ فرمایا کہ یہ قرآن رسول کا تصنیف کردہ نہیں بلکہ ہم ہی نے اسے نازل کیا ہے اور تدریجاً نازل کیا ہے جس میں کئی مصلحتیں ہیں۔ جن کا ذکر قرآن میں متعدد مقامات پر گزر چکا ہے۔ الإنسان
24 [٢٨] کچھ کافر تو وہ تھے جو قرآن پر اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر مختلف قسم کے اعتراضات جڑ رہے تھے اور کچھ وہ تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لالچ دے کر مداہنت اور سمجھوتہ کی راہ ہموار کرنا چاہتے تھے۔ ان میں عتبہ بن ربیعہ کا نام بالخصوص قابل ذکر ہے۔ جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ کی ریاست چاہتے ہیں یا مال و دولت یا کسی حسین لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر بات منظور ہوگی بشرطیکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کام سے باز آجائیں۔ جس کی وجہ سے قریبی رشتہ داروں میں پھوٹ پڑگئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے رسول کو سمجھایا کہ ان میں سے کسی کی بات کو بھی تسلیم نہ کیجیے۔ نہ ان سے بحث میں الجھیے۔ صبر کیجیے اور صبر کے ساتھ اپنا کام کرتے جائیے۔ اپنی منزل کھوٹی نہ کیجیے۔ الإنسان
25 [٢٩] نمازوں کے اوقات :۔ اس صبر اور برداشت کے لیے جو قوت درکار ہے۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کے ذکر اور اس پر توکل کرنے سے حاصل ہوگی۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر وقت اللہ کو یاد کیا کیجیے۔ واضح رہے کہ اگرچہ پنج وقتہ نماز شب معراج میں فرض ہوئی تھی اور ہر نماز میں رکعات کی تعداد اور نماز کی دوسری جزئیات بتائی گئی تھیں۔ تاہم اس سے پہلے بھی نمازوں کے اوقات تقریباً وہی تھے مثلاً اس آیت میں ﴿بُکْرَۃً وَّاَصِیْلًا ﴾ کے الفاظ آئے ہیں۔ بکرہ سے مراد پہلے پہر یا صبح کی نماز ہے اور اصیلا زوال آفتاب سے غروب آفتاب کے وقت کو کہتے ہیں یہ ظہر اور عصر کی نمازیں ہوئیں۔ اور اس سے اگلی آیت میں رات سے مراد شام اور عشاء کی نمازیں ہیں۔ اور لَیْلاً طَوِیْلاً سے مراد تہجد کی نماز ہے۔ جو آپ پر فرض تھی۔ الإنسان
26 الإنسان
27 [٣٠] یہ لوگ آخرت کے اس لیے منکر نہیں کہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی، بلکہ اس لیے منکر ہیں کہ یہ صرف نقد کے گاہک ہیں۔ دنیا کی دلفریبیوں، دلکشیوں اور اس کے مال و دولت سے انہیں گہری محبت ہے۔ اور اسے اپنے پاس سمیٹ سمیٹ کر رکھنا چاہتے ہیں۔ جبکہ آخرت پر ایمان لانے کی صورت میں مال اکٹھا کرنے کی بجائے انہیں اللہ کی راہ میں خرچ کرنا پڑتا ہے۔ پھر اخروی زندگی پر ان کا کچھ یقین بھی نہیں۔ لہٰذا یہ اپنا فائدہ اسی میں دیکھتے ہیں کہ آخرت کا انکار کردیں۔ الإنسان
28 [٣١] ہم نے رحم مادر سے ایک خوردبینی کیڑے کی نشوونما کرکے انہیں اس طرح پیدا کیا کہ ان کا بند بند اور پور پور درست کرکے انہیں ایک صاحب عقل و شعور انسان بنا کر پیدا کردیا تھا تو ہم میں یہ بھی قدرت ہے کہ تمہیں پرے ہٹا کر دوسری مخلوق تمہاری جگہ لے آئیں جو تمہاری طرح نافرمان اور سرکش نہ ہو۔ اور یہ بھی قدرت ہے کہ تمہیں اس صفحہ ہستی سے مٹا کر دوبارہ تمہیں پیدا کرکے تمہارا پوری طرح محاسبہ کریں۔ الإنسان
29 [٣٢] یہ قرآن تمہیں تمہاری فطرت کی یاددہانی کرانے کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ اور تمہیں یہ اختیار دیا گیا ہے کہ چاہے تو اس کی نصیحت کو قبول کرلو اور چاہے تو رد کردو۔ نہ قرآن تمہیں کسی بات پر مجبور بنانے کے لیے نازل کیا گیا ہے اور نہ حامل قرآن میں یہ قدرت ہے کہ تمہیں زبردستی راہ راست پر لے آئے۔ الإنسان
30 [٣٣] یعنی تمہارا ارادہ اور تمہارا چاہنا وہی ہوتا ہے جس کا اللہ کو پہلے ہی سے علم ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا یہ علم انسان کو اس بات پر مجبور نہیں بناتا کہ وہ وہی کام کرے جو پہلے سے اللہ کے علم میں ہے اس کی وضاحت کے لیے دیکھیے سورۃ اعراف کی آیت نمبر ٢٤ کا حاشیہ نمبر ٢١ الإنسان
31 [٣٤] یعنی جو انسان اس دنیا میں اپنے اختیار کا صحیح استعمال کرے گا اور کائنات کی دوسری اشیاء کی طرح اپنے آپ کو اللہ کا تابع فرمان رکھے گا۔ اسے تو اللہ اپنی رحمت سے جنت میں داخل کرے گا اور جو اس اختیار کا غلط استعمال کرے گا اور اللہ کا سرکش اور نافرمان بن کر زندگی گزارے گا اسے مرنے کے ساتھ ہی دکھ دینے والے عذاب سے دوچار کر دے گا۔ الإنسان
0 المرسلات
1 المرسلات
2 المرسلات
3 المرسلات
4 [١] ہواؤں کی اقسام اور صفات :۔ کرہ زمین کی سطح پر اللہ تعالیٰ نے ہوا کا ایک کرہ بنا دیا۔ جو ہر خشکی کے جاندار کے لیے پانی سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ پانی کے بغیر تو انسان ایک آدھ دن زندہ رہ سکتا ہے۔ مگر ہوا کے بغیر دو چار منٹ بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ پھر جس طرح پانی کی بہت سی اقسام ہیں۔ کوئی پانی میٹھا ہوتا ہے، کوئی کھاری، کوئی نمکین، کوئی گدلا، کوئی صاف و شفاف، کوئی ہلکا پانی، کوئی بھاری اور کوئی متعفن اور بدبودار اسی طرح ہواؤں کی بھی بہت سی اقسام ہیں۔ باد نسیم اور باد صبا کا انسان کی طبیعت پر بڑا اچھا اثر پڑتا ہے۔ جبکہ باد صرصر اور باد سموم سخت نقصان دہ ہیں۔ کچھ ہوائیں مشرق سے مغرب کو چلتی ہیں اور کچھ مغرب سے مشرق کو پھر کچھ ہوائیں نرم رفتار سے دھیرے دھیرے چلتی ہیں۔ کبھی یک دم حبس ہوجاتا ہے، ہوا چلنے سے رک جاتی ہے تو انسان کا دم گھٹنے لگتا ہے کبھی یہ ہوائیں آندھی اور جھکڑ کی صورت اختیار کرکے درختوں اور مکانات کو تہس نہس کر ڈالتی ہیں، کچھ ہوائیں خوشبو اڑا کر لاتی اور معطر ہوتی ہیں۔ اور کچھ ہوائیں بدبودار اور بیمار کردینے والا ہوتی ہیں۔ غرض ہواؤں کا ایک الگ عالم ہے جن میں ان مختلف اقسام کی موجودگی کے باوجود ایک نظم و ضبط ہے۔ یہی ہوائیں گرمی، سردی اور موسم کی تبدیلی میں موثر کردار ادا کرتی ہیں۔ کچھ ہوائیں بادلوں کو اکٹھا کرتی اور جوڑ دیتی ہیں اور کچھ دوسری جڑے ہوئے بادلوں کو یک دم پھاڑ دیتی ہیں۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے چار قسم کی ہواؤں کی قسم اٹھائی اور اپنی قدرت کاملہ کی طرف انسان کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ المرسلات
5 [٢] بعض مفسرین نے ﴿ فَالْمُلْقِیٰتِ ذِکْرًا﴾سے بھی ہوائیں ہی مراد لی ہیں۔ کیونکہ آواز بھی ہوا کے ذریعہ ہی لوگوں کے کانوں تک پہنچتی ہے اگر ہوا نہ ہوتی تو وحی کی آواز نہ لوگوں کے کانوں میں پڑ سکتی تھی اور نہ ہی اس سے وہ کچھ نصیحت حاصل کرسکتے تھے اور بعض مفسرین نے اس سے مراد فرشتے لیے ہیں جو وحی کو پیغمبروں کے دلوں میں ڈالتے ہیں۔ یا دوسرے لوگوں کے دلوں میں القاء و الہام کا سبب بنتے ہیں۔ المرسلات
6 [٣] ﴿ عُذْرًا اَوْ نُذْرًا ﴾ کا تعلق صرف سابقہ آیت سے ہے۔ یعنی پیغمبر کے دل میں وحی یا لوگوں کے دل میں القاء و الہام کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ ان کے لیے اللہ کے ہاں اپنی گمراہی کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہے اور ان پر اتمام حجت ہوجائے اور وہ عذاب کے وقت یہ نہ کہہ سکیں کہ انہیں پہلے سے خبر نہ تھی اور دوسرا فائدہ صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو اللہ سے اسے دیکھے بغیر ڈر جاتے ہیں اور اپنے برے انجام سے ڈر کر اللہ کے اطاعت گزار بن جاتے ہیں۔ المرسلات
7 [٤] ان پانچ چیزوں کی قسم اٹھا کر اور انہیں بطور شہادت پیش کرنے کے بعد فرمایا کہ جو پروردگار تمہاری انتہائی اہم ضرورت کی چیز سے ایسے کام لے سکتا ہے تو وہ تمہاری تباہی کا سبب بھی بن سکتے ہیں وہ تمہیں صرف ایک ہوا کے ذریعہ راحت سے بھی دوچار کرسکتا ہے اور رنج سے بھی۔ کیا وہ اس بات پر قادر نہیں کہ جس جزا و سزا کا تم سے وعدہ کیا جارہا ہے اسے وجود میں لے آئے اور واقع کرکے دکھا دے۔ المرسلات
8 المرسلات
9 المرسلات
10 [٥] ان تین آیات میں قیامت کے واقع ہونے کے دن کی تین علامات بتائیں۔ ایک یہ کہ ستارے جو تمہیں آسمان پر جگ مگ کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کا نور سلب کرلیا جائے گا۔ یہ دھندلا جائیں گے اور گدلے گدلے سے داغ نظر آئیں گے اور ایک دوسرے مقامات پر فرمایا کہ وہ جھڑ پڑیں گے ایسے جیسے کسی نے جھٹک کر پرے پھینک دیا ہو۔ دوسری علامت یہ ہے کہ یہ آسمان کی نیلگوں چھت جو تمہیں اپنے سروں پر نظر آرہی ہے۔ اور اس کی ہمواری اور یکسانی میں کوئی فرق نظر نہیں آتا، اس نیلی چھت میں دراڑیں اور شگاف پڑجائیں گے۔ ستاروں اور سیاروں کی باہمی کشش جس سے یہ کائناتی نظام قائم ہے ختم ہوجائے گی۔ یہ دو علامتیں تو آسمان پر ضرور ہوں گی اور تیسری علامت زمین پر یہ نظر آئے گی کہ پہاڑوں جیسی عظیم الجثہ اور سخت مخلوق کی جڑیں زمین میں ڈھیلی پڑجائیں گی۔ ان کا ایک حصہ دوسرے پر گر گر کر پہاڑوں کے طویل سلسلے ریزہ ریزہ ہوجائیں گے پھر اسی پر ہی معاملہ ختم نہ ہوگا بلکہ پہاڑوں کے ان ریزہ ریزہ شدہ ذرات کو ہوا اڑاتی پھرے گی۔ المرسلات
11 [٦] اس طرح موجودہ ارضی و سماوی نظام درہم برہم ہونے کے ساتھ ہی قیامت قائم ہوجائے گی۔ تمام مرے ہوئے لوگوں کو زندہ کرکے زمین سے نکال لایا جائے گا۔ اور سب سے پہلے رسولوں سے اپنی اپنی امت کے متعلق شہادت طلب کی جائے گی کہ جب تم نے لوگوں کو میرا پیغام پہنچایا تھا تو انہوں نے کیسا ردعمل اختیار کیا تھا ؟ المرسلات
12 [٧] کافر لوگ عذاب کے لیے اور قیامت کے لیے جلدی مچاتے ہی رہے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے مطالبہ کی کچھ پروا نہ کرتے ہوئے اس دن کے وقوع میں اتنی تاخیر کردی جتنی اس کے اپنے اندازے کے مطابق پہلے سے طے شدہ تھی۔ اور جب وہ طے شدہ وقت یا دن آپہنچا تو پھر اس میں مزید تاخیر ناممکن تھی۔ المرسلات
13 [٨] یہ تاخیر اس لیے کی جاتی رہی کہ جتنی مدت اللہ کے ہاں دارالامتحان کے لیے مقرر تھی وہ پوری ہوجائے۔ اور تمام لوگوں کے امتحان کا نتیجہ بولنے کا وقت آجائے۔ یوم الفصل کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ تمام لوگوں کو ان کے امتحان کا نتیجہ اور فیصلہ سنا دیا جائے کہ کون جنت کا مستحق قرار پاتا ہے اور کون دوزخ کا۔ اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس دن اللہ کے فرمانبرداروں اور اللہ کے نافرمانوں کے درمیان جدائی ڈال دی جائے گی۔ کیونکہ وہ دونوں الگ الگ انجام سے دوچار ہونے والے ہیں۔ المرسلات
14 المرسلات
15 [٩] تباہی اس لیے کہ اللہ کی آیات کو جھٹلانے والوں کے لیے یہ ایک ناگہانی آفت ہوگی۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ قیامت فی الواقع آجائے گی اور جب آجائے گی تو انہیں اپنی ہلاکت کے سوا کوئی راہ دکھائی نہ دے گی۔ واضح رہے کہ اس سورت میں یہ آیت متعدد بار ذکر کی گئی ہے اور ہر مقام پر اس کی مناسبت کی وجہ الگ الگ ہے۔ المرسلات
16 [١٠] یعنی ہمارا دستور یہ ہے کہ ہم اپنے نافرمانوں اور سرکشوں کو ایسا تباہ و برباد کردیتے ہیں کہ ان قوموں کی تہذیب و تمدن کا نام و نشان تک صفحہ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے۔ ہم نے پہلی قوموں سے بھی یہی سلوک کیا تھا اور بعد میں ایسی کرتوتیں کرنے والوں کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کریں گے۔ المرسلات
17 المرسلات
18 المرسلات
19 [١١] یعنی ہمارا یہ دستور اسی بات پر ختم نہیں ہوجاتا کہ آخرت کے منکروں کو تباہ و برباد کرکے صفحۂ ہستی سے مٹا دیں۔ بلکہ اس کی حیثیت تو محض ایک مجرم کی گرفتاری کی ہے۔ کہ باقی لوگ ان کے مظالم سے نجات پائیں اور محفوظ رہیں۔ اصل تباہی تو ان کی قیامت کے دن ہوگی۔ جس دن انہیں ان کے جرائم کی قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ المرسلات
20 المرسلات
21 [١٢] یعنی تین پردوں کے اندر نطفہ کو اس قدر محفوظ کردیا اور اتنا سختی سے جما دیا کہ کسی شدید حادثہ سے دوچار ہوئے بغیر حمل کا اسقاط نہیں ہوتا۔ اور اگر کوئی خود حمل کو ساقط کرنا چاہے تو حاملہ یا ماں کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ المرسلات
22 [١٣] یہ معین وقت اگرچہ عموماً نو ماہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اس میں کمی و بیشی بھی ممکن ہے۔ یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ عورت اور مرد کے نطفہ میں کس قدر قوت یا کمزوری ہے۔ یا ان دونوں میں سے کسی ایک میں ہے تو اسی نسبت سے اس مدت میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے اور بچہ کی نشوونما جب رحم مادر میں مکمل ہوجاتی ہے تو وضع حمل کا وقت آجاتا ہے۔ المرسلات
23 [١٤] اندازہ یہ ہے کہ جب تک بچہ کی پوری قوتیں اور اس کے اعضاء مکمل نہیں ہوجاتے۔ بچہ رحم مادر میں ہی رہتا ہے اور جب ہر قسم کی نشوونما مکمل ہوجاتی ہے تو اس کے بعد ایک دن بھی بچہ رحم مادر میں نہیں رہ سکتا۔ ماں کو دردیں شروع ہوجاتی ہیں۔ اور اس وقت تک یہ دردیں ختم نہیں ہوتیں جب تک بچہ وضع ہو کر اس کے رحم سے باہر نہ نکل آئے۔ المرسلات
24 [١٥] یعنی انسان کا نطفہ بے جان غذاؤں سے بنا تھا۔ اللہ نے اس کی نشوونما کی اس میں جان ڈالی اور اسے ایک جیتا جاگتا انسان بنا کھڑا کیا۔ اس کے باوجود جو لوگ موت کے بعد دوبارہ زندگی کے منکر ہیں ان کی عقلوں پر افسوس ہے اور ان کا انجام تباہی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے؟ المرسلات
25 المرسلات
26 [١٦] کفاتا کا لغوی مفہوم :۔ کِفَاتًا : کَفَتَ بمعنی کسی چیز کو جمع کرکے اسے اپنے قبضہ میں لے لینا، سنبھال لینا، سمیٹ لینا اور کَفِیْت بمعنی توشہ دان جس میں خوراک اور سامان خوراک سنبھال کر رکھتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ انسان کی زندگی اور موت اور پھر دوبارہ زندگی زمین ہی سے وابستہ ہے۔ انسان زمین یا مٹی سے پیدا کیا گیا اور یہ بے جان چیز ہے۔ پھر انسان نے زمین سے پیدا ہونے والی بے جان اشیاء کھائیں جو اس کی زندگی کی بقاء کا ذریعہ بنیں۔ پھر انہی بے جان غذاؤں سے اس کا نطفہ بنا جس میں زندگی کے آثار تھے۔ پھر اسی نطفہ سے انسان کو بنایا گیا پھر مرنے کے بعد انسان مٹی میں چلا جاتا ہے۔ اور مرنے والے خواہ لاکھوں کی تعداد میں ہوں زمین ان کو اپنے اندر محفوظ کرلیتی ہے۔ گویا یہی زمین زندہ انسانوں کو بھی سنبھالے ہوئے ہے اور مردوں کو بھی اپنے اندر سے خارج نہیں کردیتی بلکہ سنبھالے رکھتی ہے۔ پھر جب اللہ چاہے گا تو انہیں مردہ انسانوں کو نکال باہر کرے گی۔ بالکل اسی طرح جس طرح اس کے اندر سے نباتات اگ کر باہر نکل آتی ہے۔ المرسلات
27 [١٧] زمین سے انسان کا دائمی تعلق :۔ پھر اسی زمین میں بلند و بالا پہاڑ پیدا کردیئے جو سمندروں سے اٹھنے والے آبی بخارات کو ٹھنڈا کردینے اور بارش کے قطرے بن جانے میں مدد دیتے ہیں۔ اور ان آبی بخارات کا رخ بدل دیتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں پہاڑوں پر برف بھی جمتی ہے اور بارشیں بھی خوب ہوتی ہیں۔ یہی پانی کچھ تو ندی، نالوں، نہروں اور دریاؤں کی صورت میں بہتا ہے اور انسانوں اور کھیتیوں کو سیراب کرتا ہے اور اسی بارش کے پانی کا کثیر حصہ زمین میں جذب ہوجاتا ہے۔ تو سطح زمین کے نیچے خاصی گہرائی میں پانی کی نہریں اور دریا رواں ہوجاتے ہیں۔ پانی کے یہ محفوظ ذخیرے اس وقت کام آتے ہیں جب بارش برسنے میں دیر ہوجائے۔ تاکہ انسان مصنوعی آبپاشی کے ذریعہ اپنے کھیتوں کو اور اپنے آپ کو سیراب کرسکے۔ علاوہ ازیں پہاڑوں سے معدنیات نکل رہی ہیں۔ زمین سے کئی طرح کے سیال اور گیس کے خزانے برآمد ہو رہے ہیں۔ جوں جوں انسان کی آبادی بڑھتی جارہی ہے زمین بھی اپنے نت نئے خزانے اگل رہی ہے۔ گویا یہی زمین زندوں کی زندگی کی بقاء کے لیے بھی بہت کافی ہے اور دنیا جہاں کے مردوں کو سنبھالنے کے لیے بھی۔ المرسلات
28 [١٨] اسی طرح یہی زمین یا اس کے متبادل کوئی اللہ کی نئی پیدا کردہ زمین اپنے اندر مدفون تمام امانتوں اور بالخصوص انسانی مدوں کو اگل دے گی۔ پھر ان کو سنبھال کر بھی رکھے گی۔ آج جن لوگوں کو اس بات کی سمجھ نہیں آرہی اس دن ان کے لیے حسرت، ندامت اور تباہی ہی تباہی ہوگی۔ المرسلات
29 المرسلات
30 [١٩] اس دن دوزخ سے گرم بخارات اٹھیں گے جو دوزخیوں کے اوپر سایہ کردیں گے یہ نام کو سایہ ہوگا مگر شدید گرم جو ان کو سایہ، ٹھنڈک یا سکون پہنچانے کے بجائے اپنی حرارت کی وجہ سے ان میں مزید گھبراہٹ اور اضطراب پیدا کردے گا۔ یہ سایہ اوپر اٹھ کر تین بڑی شاخوں میں منقسم ہوجائے گا اور ان کے آگے سے، پیچھے سے اور اوپر سے غرض ہر طرف سے انہیں گھیرے میں لے لے گا اس دن اللہ کے فرمانبردار بندے عرش کے سایہ تلے ہوں گے اور نافرمانوں کو اگر سایہ مہیا کیا بھی جائے گا تو وہ ان کے عذاب میں اضافہ ہی کرے گا۔ المرسلات
31 المرسلات
32 المرسلات
33 [٢٠] جہنم سے اٹھنے والے چنگارے اور شرارے اتنے بڑے ہوں گے۔ جیسے بلند و بالا عمارتیں ہوں پھر جب وہ ٹوٹ کر اور بکھر کر نیچے جہنم کی طرف گریں گے تو ایسا معلوم ہوگا جیسے زرد رنگ کے اونٹ اچھل کود رہے ہیں۔ المرسلات
34 [٢١] یہ ہولناک منظر دیکھ کر جھٹلانے والوں کو پوری طرح یقین ہوجائے گا کہ ہم ہی اس دوزخ کا ایندھن بننے والے ہیں۔ اور انہوں نے قیامت کے دن کا انکار کرکے جو حماقت کی تھی اس کا نتیجہ ہماری تباہی ہی تباہی ہے۔ المرسلات
35 المرسلات
36 [٢٢] یہ وہ وقت ہوگا جب اللہ تعالیٰ کی عدالت میں لوگوں کے مقدمات کا فیصلہ ہوچکے گا۔ اور ظالم لوگوں کے اعضاء و جوارح ان کے خلاف شہادت دے کر انہیں جھوٹا قرار دے چکے ہوں گے۔ انصاف کے تمام تر تقاضوں کے مکمل ہونے کے بعد مجرموں کو یہ اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ اپنی بریت کے لیے مزید کچھ کہہ سکیں نہ ہی اس وقت عذر پیش کرنے کا کوئی موقع باقی رہ جائے گا۔ المرسلات
37 المرسلات
38 المرسلات
39 [٢٣] یعنی دنیا میں تم لوگ میری راہ روکنے کے لیے ہزاروں قسم کی چالیں چلتے تھے۔ لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کرتے تھے۔ میرے پیروکاروں کو ایذائیں اور دکھ پہنچاتے تھے اور انہیں اس طرح گھور کر دیکھتے تھے جیسے انہیں کچا ہی چبا جاؤ گے۔ ان کی تحقیر کرتے، تمسخر اڑاتے اور ان کے زندہ رہنے کا حق بھی ان سے سلب کرتے تھے۔ آج بھی کوئی تدبیر میرے خلاف کر دیکھو۔ اس وقت تم سب کے سب اگلے اور پچھلے اس میدان میں جمع ہو۔ سب مل کر اپنی قوت کا مظاہرہ کر دیکھو یا کوئی سوچ سمجھ کر سازش ہی تیار کرلو اور دیکھو کہ تمہاری کوئی تدبیر آج کے دن کی تباہی سے تمہیں بچا سکتی ہے۔ المرسلات
40 المرسلات
41 [٢٤] یہاں متقین کا لفظ مکذبین کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی وہ لوگ جو اللہ کی آیات کی اور قیامت کے دن کی تصدیق کرتے تھے۔ اللہ سے اور قیامت کے دن کی سختیوں سے ڈرتے تھے۔ اللہ کے حضور اپنے اعمال کی جوابدہی سے ڈر کر ممکن حد تک اللہ کی فرمانبرداری کرتے رہے تھے۔ ایسے لوگوں کا انجام یہ ہوگا کہ وہ جنت کے ٹھنڈے اور پرسکون سایوں میں ہوں گے۔ ٹھنڈے اور میٹھے پانی کے چشمے وہاں وافر تعداد میں ہوں گے۔ کھانے کو اعلیٰ سے اعلیٰ اور حسب پسند پھل ملیں گے۔ وہ جتنا کچھ بھی کھا پی لیں گے اس سے انہیں کسی قسم کی کچھ تکلیف نہ ہوگی۔ اور ساتھ ہی انہیں یہ کہا جائے گا کہ یہ تمہارے ان اعمال کا بدلہ ہے جو تم دنیا میں بجا لاتے رہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد محض ان کی قدردانی اور حوصلہ افزائی کے لیے ہوگا ورنہ حقیقت وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمائی کہ کوئی شخص بھی اپنے اعمال کی وجہ سے جنت نہیں جا سکتا بلکہ محض اللہ کے فضل اور اس کی مہربانی کی بنا پر جنت میں جائے گا۔ المرسلات
42 المرسلات
43 المرسلات
44 المرسلات
45 [٢٥] یعنی مجرموں اور آخرت کے منکروں کو ایک تو اپنے انجام سے گھبراہٹ اور پریشانی ہوگی۔ دوسرے وہ لوگ ان کے سامنے جنت میں جارہے ہوں گے جنہیں وہ حقیر سمجھتے تھے اور ان کے مقابلہ میں اپنے آپ کو کوئی بالاتر مخلوق قرار دیتے تھے۔ اس طرح ان کی تکلیف میں کئی گنا اضافہ ہوجائے گا۔ المرسلات
46 [٢٦] یہ خطاب دنیا بھر کے کافروں اور آخرت کے منکروں کو ہے کہ ان کی موت تک ان کے پاس وقت ہے اس عرصہ میں وہ آزادانہ زندگی بسر کرلیں مزے اڑالیں، مال و دولت جیسے بھی ہاتھ لگتا ہے سمیٹ لیں۔ اور اللہ کی آیات کے مقابلہ میں جتنی باتیں بنا سکتے ہیں انہیں کھلی چھٹی ہے۔ مرنے کے ساتھ ہی وہ اپنی ہلاکت اور تباہی کے گڑھے میں گرنے والے ہیں۔ المرسلات
47 المرسلات
48 [٢٧] اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جب انہیں اللہ کی آیات اور اس کے احکام کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کو کہا جاتا تو وہ تسلیم کرنے کے بجائے اکڑ بیٹھتے تھے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب انہیں نماز کے لیے کہا جاتا تو انکار کردیتے تھے۔ کہتے ہیں کہ یہ آیت قبیلہ بنو ثقیف کے حق میں نازل ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں نماز ادا کرنے کا حکم دیا تو کہنے لگے کہ نماز میں تو جھکنا پڑتا ہے اور جھکنے میں ہمیں شرم محسوس ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے اس دن تباہی ہی تباہی ہے۔ ایسے لوگ قیامت کے دن اللہ کے حضور سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن کر نہ سکیں گے۔ ان کی پشتوں کے پٹھے اکڑ جائیں گے جیسا کہ سورۃ القلم کی آیت نمبر ٤٢ اور ٤٣ میں پہلے گزر چکا ہے۔ المرسلات
49 المرسلات
50 [٢٨] یعنی حق و باطل میں امتیاز کے لحاظ سے پندو نصیحت کے لحاظ سے، انسان کو نیک و بد سمجھانے کے لحاظ سے اور اسے اس اخروی انجام سے آگاہ کرنے کے لحاظ سے قرآن سے بہتر کوئی کتاب نہیں ہوسکتی۔ پھر اگر یہ لوگ اس پر بھی ایمان لانے کو تیار نہیں تو کیا اس کے بعد کوئی اور کتاب آسمان سے اترنے والی ہے جس پر یہ ایمان لائیں گے۔ حدیث میں ہے کہ جب کوئی شخص اس آیت پر پہنچے تو یوں کہے :''امنا باللّٰہ" (مستدرک حاکم) المرسلات
0 النبأ
1 [١] کفار مکہ کے نزدیک قیامت کا تصور اور نظریہ ایک عجوبہ چیز تھی۔ جب قرآن نے ببانگ دہل یہ اعلان کیا کہ قیامت فی الواقع آنے والی ہے اور تمہیں تمہارے مٹی میں گل سڑ جانے کے بعد دوبارہ زندہ کرکے تمہارے اعمال کی باز پرس کی جائے گی تو اس کا مذاق اڑانے لگے۔ وہ مسلمانوں اور پیغمبر اسلام کے سامنے آپس میں ہی گفتگو کرتے کہ بھئی یہ قیامت کیا بلا ہے؟ ہم مٹی میں مل جانے کے بعد کیونکر زندہ ہوسکتے ہیں؟۔ آج تک تو کوئی مرا ہوا زندہ ہوا نہیں۔ پھر یہ کیسی انہونی بات ہے اور یہ آئے گی کب؟ یہی وہ سوالات تھے جو ان کی دلچسپی کا موضوع بنے ہوئے تھے۔ وہ مسلمانوں سے بھی، نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اور آپس میں بھی ایسے سوالات کرتے رہتے تھے اور اس بات سے ان کا مقصد مسلمانوں کو چڑانا ہوتا تھا۔ النبأ
2 النبأ
3 [٢] دور نبوی میں عقیدہ آخرت کے متعلق کئی طرح کے اختلاف پائے جاتے تھے۔ کچھ لوگ تو دہریے تھے جو سرے سے اللہ کی ہستی کے ہی قائل نہ تھے۔ ان کے لیے عقیدہ آخرت خارج از بحث تھا۔ مشرکین مکہ اللہ کی ہستی کے تو قائل تھے مگر آخرت کے منکر تھے۔ عیسائی آخرت کے تو قائل تھے مگر ان میں سے اکثریت کا عقیدہ یہ تھا کہ اخروی عذاب و ثواب صرف روح پر وارد ہوگا۔ بدن جو گل سڑ چکا ہے اسے دوبارہ زندہ کرکے نہیں اٹھایا جائے گا اور کچھ لوگ نظریہ لا ادریت کے قائل تھے یعنی وہ شک و شبہ میں مبتلا تھے۔ ان کے خیال میں یہ دونوں صورتیں ممکنات سے تھیں یعنی یہ بھی ممکن ہے کہ قیامت قائم ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ مرنے کے ساتھ ہی انسان کا قصہ پاک ہوجائے۔ اور قیامت کا نظریہ محض ایک قیاسی اور وہمی نظریہ ہو۔ ان سب اختلافات کے باوجود یہ لوگ عملاً اور نتیجہ کے لحاظ سے آخرت کے منکر تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو آخرت کے منکر ہونے کی وجہ سے کافر ہی قرار دیا ہے۔ النبأ
4 النبأ
5 [٣] یعنی اسی دنیا میں ان کی موت کے وقت آخرت سے متعلق سب حقائق پوری طرح کھل کر ان کے سامنے آجائیں گے۔ النبأ
6 [٤] کیا کائنات کے چودھری حضرت انسان کی زندگی کا کچھ مقصد نہ ہونا چاہیے :۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کائنات سے چند ایسے آثار و شواہد پیش فرمائے ہیں جن سے ہر انسان کو سابقہ پڑتا ہے اور وہ ان سے متمتع ہو رہا ہے۔ انسان کو بتانا یہ مقصود ہے کہ کائنات میں یہ اشیاء کسی خاص مقصد کے لیے اور بڑی حکمت کے ساتھ پیدا کی گئی ہیں اور ان میں سے ہر چیز اپنے مقاصد کو پورا کر رہی ہے۔ اب رہا انسان جسے عقل و شعور اور ارادہ و اختیار دے کر اور اس کائنات میں چودھری بنا کر بھیجا گیا ہے کہ وہ ان تمام اشیاء سے حسب ضرورت فائدے اٹھائے تو کیا اس کی زندگی کا کچھ بھی مقصد نہ ہونا چاہیے؟ کیا عقل اسے باور کرتی ہے کہ انسان فائدے تو ہر طرح سے اٹھائے۔ دنیا میں جو جی میں آئے کرتا پھرے۔ پھر جب مر جائے تو اس کا قصہ پاک ہوجائے اور اس سے کوئی مؤاخذہ کرنے والا نہ ہو؟ کیا کائنات کی باقی سب اشیاء کے علی الرغم انسان کو ہی ایسا بے کار پیدا کیا گیا ہے۔ کہ اس کی زندگی کا کوئی مقصد نہ ہو؟ انسان کی زندگی کا مقصد یہ آزمائش ہے کہ وہ اللہ کی عطا کردہ قوتوں کا استعمال درست کرتا ہے یا غلط؟ اسے اس امتحان کے لیے اس کی موت تک کا وقت دیا گیا ہے۔ اللہ کی نشانیاں زمین کا گہوارہ ہونا :۔ اس دوران وہ پرچہ امتحان کو جس طرح چاہے حل کرسکتا ہے۔ موت کے وقت اسے اس کے امتحان کے نتیجہ سے آگاہ کردیا جائے گا۔ اور دوسری دنیا یعنی عالم آخرت میں اسے اس کے کیے ہوئے اعمال کی جزا و سزا بھی دی جائے گی۔ آگے ان چند آثار و شواہد کا ذکر کیا جارہا ہے۔ سرفہرست یہ ہے کہ زمین اس کے لیے گہوارہ بنا دی گئی ہے۔ جس میں ہم نے اس کی رہائش، اس کے چلنے پھرنے اور اس کے کھانے پینے اور نشوونما کے جملہ انتظامات کردیئے ہیں۔ النبأ
7 [٥] پہاڑوں کی تنصیب :۔ زمین جب پیدا کی گئی تو ابتداً لرزتی رہتی تھی، ڈولتی تھی، جھولتی تھی اور ادھر ادھر ہچکولے کھاتی تھی۔ ایسی صورت میں انسان کا اس پر زندہ رہنا ممکن نہ تھا۔ ہم نے اس کی پشت پر جابجا پہاڑوں کے طویل سلسلے میخوں کی طرح گاڑ دیئے اور انہیں اس تناسب سے جا بجا مقامات پر پیدا کیا جس سے زمین میں لرزش اور جھول بند ہوگئی اور وہ اس قابل بنا دی گئی کہ انسان اس پر اطمینان سے چل پھر سکے۔ اس پر مکانات وغیرہ تعمیر کرسکے اور سکون سے پوری زندگی بسر کرسکے۔ النبأ
8 [٦] مرد وزن کی تخلیق :۔ بقائے نوع کے لیے ہم نے انسان کی دو بڑی انواع مرد اور عورت پیدا کیں۔ ان انواع میں سے ہر ایک دوسرے کے لیے فطری کشش رکھتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے راحت و سکون کا باعث بنتے ہیں۔ ان میں محبت اور مودت پیدا ہوتی ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کی لابدی ضرورت ہیں اور ایک دوسرے کے بغیر ان کا زندگی گزارنا مشکل ہے۔ بقائے نوع انسانی کا مقصد کچھ کم اہم نہ تھا۔ ان دونوں میں کشش، سکون اور محبت پیدا کرکے اللہ تعالیٰ نے انسان کی زندگی کو بڑا پر لطف بنا دیا۔ النبأ
9 [٧] نیند کی حقیقت اور مقصد :۔ نیند بھی اللہ تعالیٰ کے معجزہ نما عجائب میں سے ہے۔ نیند کیا چیز ہے؟ اس کی حقیقت آج تک انسان کے لیے ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔ ہم صرف اتنا ہی جانتے ہیں کہ جب انسان کام کرتے کرتے تھک جاتا ہے تو اسے آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن محض کام چھوڑ دینے سے تھکاوٹ دور نہیں ہوتی جب تک نیند نہ آئے۔ نیند ایک اضطراری امر ہے جو تھکے ہوئے انسان کو لیٹنے پر مجبور کردیتی ہے پھر اس پر چھا جاتی ہے۔ کام کرتے کرتے انسان کے جسم سے جو خلیے جل کر تباہ ہوجاتے ہیں۔ نیند کی حالت میں ان کی جگہ نئے خلیے پیدا ہوتے ہیں۔ اور انسان کی نیند اس وقت تک پوری نہیں ہوتی جب تک تلافی مافات ہو نہ جائے۔ پھر جب انسان کے جسم کی تعمیر و مرمت پوری ہوجاتی ہے تو انسان کی نیند کا وقت ختم ہوجاتا ہے اور وہ تازہ دم ہو کر از خود جاگ اٹھتا ہے۔ النبأ
10 [٨] آرام کے لیے رات :۔ رات دن کی نسبت ٹھنڈی بھی ہوتی ہے اور تاریک بھی اور یہ دونوں باتیں نیند کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ دن کو بھی جب کسی وقت انسان کو سونے کی حاجت محسوس ہوتی ہے تو وہ کوئی تاریک گوشہ تلاش کرتا ہے۔ آنکھوں پر کپڑا رکھ لیتا ہے اور بسا اوقات رات کو بھی اسی غرض سے کپڑا اوڑھ لیتا ہے کہ اسے گہری نیند کا لطف میسر ہو۔ النبأ
11 [٩] کام کرنے کے لیے دن :۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ فطری ذرائع یہ ہیں کہ انسان دن کو کام کرے جبکہ اسے قدرتی روشنی آسانی سے میسر آتی ہے۔ اور رات کو آرام کرے اور نیند لے کیونکہ نیند کے لیے جس تاریکی کی ضرورت ہے وہ اسے رات کو آسانی سے قدرتی ذرائع سے مہیا ہوجاتی ہے اس کے برعکس اگر کوئی شخص رات کو کام کرتا رہے اور دن کو سویا کرے تو وہ نہ گہری نیند کا لطف حاصل کرسکتا ہے اور نہ اس کے پورے فوائد حاصل کرسکتا ہے۔ بلکہ کچھ عرصہ بعد اس کی صحت خراب ہوجاتی ہے۔ النبأ
12 النبأ
13 [١٠] سورج کی دوری اور فوائد :۔ وَھَّاجاً: الوھج بمعنی سورج یا آگ کی بھڑک جس میں تپش بھی ہو اور چمک بھی۔ یعنی سورج ایک بھڑکتا ہوا گولا ہے جو انسانوں اور اہل زمین کو حرارت بھی مہیا کرتا ہے اور روشنی بھی۔ یہ سورج زمین سے ٩ کروڑ تیس لاکھ میل کے فاصلہ پر رکھا گیا ہے۔ اگر یہ فاصلہ اس سے کم رکھا جاتا تو انسان سورج کی تپش سے جل بھن کر مرجاتا اور اگر یہ فاصلہ زیادہ کردیا جاتا تو انسان سردی سے ٹھٹھر کر مر جاتا۔ سورج کو زمین سے اتنے مناسب فاصلہ پر رکھنا اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت کا کرشمہ ہے۔ النبأ
14 النبأ
15 النبأ
16 [١١] بارش کا نزول اور روئیدگی :۔ پھر اسی سورج کی حرات سے سطح سمندر سے آبی بخارات اٹھتے ہیں جو کسی سرد طبقہ میں پہنچ کر پانی کے قطرے بن کر برسنے لگتے ہیں۔ یہی بارش زمین سے نباتات اور درختوں کی روئیدگی کا سبب بنتی ہے اور یہی نباتات روئے زمین پر بسنے والی تمام جاندار مخلوق کے رزق کا ذریعہ اور زندگی کی بقا کا سبب بنتی ہے۔ النبأ
17 [١٢] ان سب باتوں پر غور کرنے سے انسان اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں کوئی چیز بھی بے مقصد پیدا نہیں کی۔ پھر کیا انسان کو ہی اس نے اتنی معجز نما قوتیں عطا کر کے بے کار پیدا کردیا ہوگا ؟ وہ جو چاہے کرتا پھرے اور اس سے کوئی مؤاخذہ نہ ہو؟ یہ سب باتیں حیات بعد الممات پر قوی دلائل ہیں اور ایک وقت یقیناً آنے والا ہے جب اس کائنات کی بساط لپیٹ دی جائے گی اور سب انسانوں کو دوبارہ پیدا کرکے ان سے محاسبہ کیا جائے گا یہ کام کب ہوگا ؟ اللہ کے ہاں اس کے لیے بھی ایک ٹھیک وقت مقرر ہے۔ النبأ
18 [١٣] یہ دراصل نفخہ صور ثانی کے وقت ہوگا کہ لوگ اپنے جرائم کی بنا پر مختلف گروپوں میں بٹ جائیں گے اور اللہ کے حضور پیش ہوجائیں گے۔ فیصلہ کے دن کی مناسبت سے اس صورت حال کا ذکر پہلے کردیا گیا ہے۔ النبأ
19 [١٤] آج ہمیں آسمان ایک نیلگوں اور صحیح و سالم چھت نظر آتی ہے جس میں کہیں کوئی رخنہ، دراڑ یا شگاف نظر نہیں آتا۔ لیکن جب قیامت کا پہلا صور پھونکا جائے گا تو اس آسمان میں اتنی دراڑیں یا شگاف پڑجائیں گے کہ یوں معلوم ہوگا کہ سارا آسمان بس دروازے ہی دروازے بن گیا ہے۔ اس وقت یہ ایک محفوظ چھت نہیں رہے گا بے شمار ستارے آپس میں ٹکرا کر زمین پر گر پڑیں گے۔ کئی ٹوٹنے والے ستارے اور دوسری بلائیں بھی زمین کا رخ کرلیں گی۔ النبأ
20 [١٥] پہاڑوں کی زمین میں گرفت ڈھیلی پڑجائے گی۔ ان کے مقامات میں تبدیلی واقع ہوجائے گی پھر ان کے پتھر ایک دوسرے سے ٹکرا ٹکرا کر بالآخر چمکتی ریت کے تودے بن جائیں گے جن پر ایک خاص زاویہ سے دیکھنے سے معلوم ہوگا کہ یہ گویا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے۔ پھر ان کی یہ کیفیت بھی نہ رہے گی بلکہ ہوا ان ریت کے تودوں کو ادھر سے ادھر اڑاتی پھرے گی۔ النبأ
21 النبأ
22 [١٦] مِرْصَاد بمعنی گھات یا تاک لگا کر بیٹھنے کی جگہ جہاں شکاری غافل شکار کو پھانسنے کے لیے بیٹھتا ہے۔ پھر جب شکار اس کی زد میں آجاتا ہے تو یکدم اسے قابو کرلیتا ہے۔ آخرت کے منکر بھی جہنم کے غافل شکار ہیں جو انجام سے بے خبر اور لاپروا ہو کر زمین میں آزادانہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کے مرنے کی دیر ہے کہ جہنم فوراً انھیں اپنے قبضہ میں لے لے گی۔ وہ تو پہلے ہی اس انتظار میں ہے کہ اسے کب کوئی شکار مہیا ہوتا ہے؟ النبأ
23 [١٧] اَحْقَابًا۔ حُقْبَہ کی جمع ہے اور حقبہ بمعنی اسّی سال کا عرصہ یا اس سے زائد مدت، طویل اور غیر معینہ مدت (مفردات) اور اس کی جمع حقب بھی آتی ہے اور احقاب بھی یعنی اہل دوزخ پر جب ایک حقبہ گزر جائے گا تو دوسرا حقبہ شروع ہوجائے گا۔ پھر تیسرا گویا وہ لامتناہی مدت تک دوزخ میں ہی پڑے رہیں گے۔ النبأ
24 النبأ
25 النبأ
26 [١٨] یعنی انہیں اتنی ہی سزا دی جائے گی جس قدر اس کے برے اعمال تھے۔ اس سے زیادہ سزا نہیں دی جائے گی۔ اور ان کے جرائم کی بنیاد یہ بات تھی کہ انہیں اس بات کا یقین ہی نہیں آتا تھا کہ ان کا محاسبہ کیا جانے والا ہے۔ اسی بنا پر انہوں نے آیات کا انکار کیا تھا اور پوری زندگی شتر بے مہار کی طرح آزادانہ گزار دی تھی۔ النبأ
27 النبأ
28 النبأ
29 النبأ
30 [١٩] بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اہل دوزخ کو جب دوزخ کے عذاب سہتے سہتے ایک طویل مدت گزر جائے گی تو پھر ان کی طبیعتیں ہی اس طرح کی ہوجائیں گی کہ وہ عذاب کو عذاب محسوس نہ کریں گے جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے : رنج کا خوگر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے رنج مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہوگئیں اس آیت سے ان کے اس نظریہ کی تردید ہوگئی کیونکہ اہل دوزخ کو جو عذاب دیا جائے گا وہ ایک حالت پر نہ رہے گا کہ اہل دوزخ کی طبیعتیں اس کی عادی اور خوگر بن جائیں بلکہ اس عذاب میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے گا۔ نیز بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ طویل زمانہ گزرنے کے بعد جہنم پر بھی ایک وقت ایسا آئے گا جب اس کی آگ ماند پڑجائے گی بلکہ بجھ جائے گی۔ خواہ اہل دوزخ اس میں ابھی موجود ہوں۔ اس آیت سے ان لوگوں کے نظریہ کی بھی تردید ہوجاتی ہے۔ النبأ
31 [٢٠] مَفَازًا کا لغوی مفہوم :۔ مَفَازًا : فاز بمعنی نجات حاصل کرنا اور مصیبتوں سے نجات حاصل کرکے خیر و عافیت کے ساتھ سلامتی کی جگہ پہنچنا ہے۔ اسی لیے فاز الرجل اور فَوْزَ الرجل کے معنی مرنا اور ہلاک ہونا بھی آتا ہے اور اس میں تصور یہ ہے کہ انسان مر کر دنیا کی پریشانیوں اور مصیبتوں سے نجات حاصل کرلیتا ہے۔ گویا پرہیزگاروں کے لیے سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ انہیں قیامت کے دن کے مصائب و آلام اور دوزخ کے عذاب سے نجات مل جائے اور وہ ایسے محفوظ اور سلامتی والے مقام پر پہنچا دیئے جائیں جہاں جہنم کے عذاب کی لو تک بھی نہ پہنچ سکے۔ رہا اس کے بعد جنت میں داخلہ اور جنت کی نعمتوں کا حصول تو وہ اللہ کے فضل اور مہربانی سے زائد انعام ہوگا۔ اور اس مضمون پر پہلے متعدد مقامات پر بحث گزر چکی ہے۔ النبأ
32 [٢١] پرہیزگاروں کو نجات کے بعد زائد انعام جنت یا جنت کی نعمتوں کی صورت میں ملے گا ان میں سے چند ایک کا یہاں ذکر کیا جارہا ہو۔ ان میں پہلی چیز تو حدائق ہیں اور حدائق حدیقہ کی جمع ہے اور حدیقہ ایسے باغ کو کہتے ہیں جس کے گرد حفاظت کی خاطر چار دیواری کی گئی ہے۔ ایسے باغات میں بالخصوص انگوروں کا ذکر فرمایا۔ کیونکہ یہی ایک ایسا پھل ہے جو پورے کا پورا کھایا جاسکتا ہے نہ اس کا چھلکا اتارنا پڑتا ہے اور نہ اس میں گٹھلی یا بیج ہوتے ہیں اور اگر بیج ہوتے ہیں تو صرف بڑے سائز کے انگور میں جس سے منقیٰ بنتا ہے۔ یہ بیج بھی اگر کوئی شخص کھالے تو کچھ حرج نہیں۔ اور نرم اتنا کہ منہ میں ڈالتے ہی گھل جاتا ہے۔ شیریں بھی ہوتا ہے اور مزیدار بھی۔ النبأ
33 [٢٢] کو اعب کا لغوی مفہوم :۔ کَوَاعِبَ۔ کعب بمعنی ٹخنہ، پھر جو کوئی ابھار ٹخنہ کی مانند ہو اس پر بھی کعب کا اطلاق ہوتا ہے۔ کعبت الجاریہ بمعنی لڑکی کے پستان ابھر آئے اور بڑے ہوئے اور کعب بمعنی عورت کے ابھرے ہوئے پستان اور کا عب اور کا عبہ اس نوجوان عورت کو کہتے ہیں جس کے پستان ابھر آئے ہوں اور اس کی جمع کو اعب آتی ہے۔ یعنی اہل جنت کو باغات اور انگوروں کے علاوہ نوخیز عورتیں بھی ملیں گی جو ہم عمر ہوں گی۔ ہم عمر کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ وہ آپس میں ہم عمر ہوں گی اور دوسرا یہ کہ وہ اپنے جنت کے خاوندوں کی بھی ہم عمر ہوں گی۔ یعنی ان کے خاوندوں کو بھی جوان بنا کر جنت میں داخل کیا جائے گا۔ النبأ
34 النبأ
35 [٢٣] اگر کسی سے پوچھا جائے کہ آیا تم نے جھوٹ بولا تھا تو وہ اس کا جواب یہ دیتا ہے کہ مجھے جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی؟ گویا انسان جب جھوٹ بولتا ہے تو کسی ضرورت کے تحت بولتا ہے۔ یہ ضرورت خواہ کسی فائدہ کا حصول ہو یا کسی مصیبت یا تکلیف سے بچنا مقصود ہو۔ انہیں دو باتوں کے لیے وہ جھوٹ بولتا، ایک دوسرے سے الجھتا، لڑائی جھگڑا کرتا اور بیہودہ باتیں کرتا ہے۔ لیکن جنت میں نہ تو کوئی تکلیف پہنچنے کا امکان ہوگا نہ کسی فائدہ کا حصول مطلوب ہوگا کیونکہ ہر طرح کی نعمتیں تو انہیں پہلے ہی سے میسر ہوں گی۔ لہٰذا جنت میں جھوٹ، چغلی، غیبت اور دوسری بیہودہ باتوں کی کبھی ضرورت ہی پیش نہ آئے گی۔ النبأ
36 النبأ
37 [٢٤] یعنی اللہ تعالیٰ کی اہل جنت کو جود و عطا کا تو وہ حال ہے جو اوپر مذکور ہوا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے جلال، رعب اور دبدبے کا یہ حال ہوگا کہ جب تمام مخلوق قیامت کی ہولناکیوں سے گھبراہٹ میں مبتلا ہوگی تو کسی کو یہ ہمت نہیں پڑے گی کہ وہ مخلوق خدا پر اللہ تعالیٰ سے رحم کے لیے سفارش کرسکے اور ہر شخص نفسی نفسی پکار رہا ہوگا۔ حتیٰ کہ انبیاء بھی رب سلّم وسلّم پکار رہے ہوں گے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ کے سامنے سفارش کے لیے قرعہ فال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر پڑے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے حضور سب کے لیے سفارش کریں گے۔ اس مضمون کی طویل اور مفصل حدیث سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٢٥٥ کے تحت گزر چکی ہے۔ النبأ
38 [٢٥] وقال صوابا کے دو مفہوم ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ سفارش کرنے والا ایسے شخص کے حق میں ہی سفارش کرسکے گا جس نے دنیا میں درست بات کہی ہوگی اور درست بات سے مراد کلمہ توحید یعنی لا الہ الا اللہ ہے۔ یعنی سفارش ایسے گنہگار کے حق میں تو کی جاسکے گی جو توحید پر قائم اور اللہ کا فرمانبردار رہا ہو۔ مگر کسی مشرک یا اللہ کے باغی کے حق میں سفارش نہ کی جاسکے گی اور دوسرے مطلب کے لحاظ سے یہ دونوں صفات سفارش کرنے والے کی ہیں۔ یعنی سفارش وہی شخص کرسکے گا جسے اللہ کی طرف سے اجازت ملے گی اور سفارش کرتے وقت وہ درست بات ہی کرے گا جو اللہ کی رضا کے مطابق ہوگی یعنی اللہ تعالیٰ اس گنہگار کے جس جرم کے متعلق سفارش قبول کرنا چاہے گا، سفارش کرنے والا صرف وہی سفارش کرے گا۔ النبأ
39 [٢٦] یعنی مرنے کے بعد اور قیامت کے دن جو جو حالات پیش آنے والے ہیں وہ کھول کر بیان کیے جارہے ہیں ان کی رو سے دو راہیں انسان کے سامنے آتی ہیں۔ ایک یہ کہ انسان جوابدہی کے تصور سے محتاط اور ذمہ دارانہ زندگی اختیار کرے۔ دوسری یہ کہ وہ آنے والے حالات سے آنکھیں بند کرکے دنیا کی زندگی ہی پر مست و شیدا رہے۔ اب انسان کو اختیار ہے کہ جونسی راہ وہ پسند کرتا ہے اختیار کرے۔ النبأ
40 [٢٧] اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ میں پیدا ہی نہ کیا جاتا۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ مرنے کے بعد مٹی میں مل کر مٹی ہی بنا رہتا۔ مجھے دوبارہ زندگی نہ عطا کی جاتی اور نہ یہ سختی کا دن دیکھنا پڑتا۔ تیسرا مطلب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے ماخوذ ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن جانور، چرند اور پرند سب کا حشر ہوگا حتیٰ کہ سینگ والی بکری کا بدلہ بے سینگ بکری سے لیا جائے گا جس نے دنیا میں اسے مارا ہوگا۔ (مسلم کتاب، البرو الصلہ ( باب تحریم الظلم) پھر ان سے کہا جائے گا کہ اب تم خاک بن جاؤ۔ اس وقت کافر آرزو کرے گا کہ کاش میں بھی ان جانوروں کی طرح خاک بن جاتا۔ النبأ
0 النازعات
1 [١] یعنی ان فرشتوں کی قسم جو موت کے وقت میت کے ایک ایک رگ و ریشہ میں ڈوب کر وہاں سے اس کی روح کو کھینچ لاتے ہیں۔ واضح رہے کہ نزع کا لغوی معنی کسی چیز کو اس کی قرارگاہ سے کھینچنا ہے۔ النازعات
2 [٢] نشط کا لغوی مفہوم :۔ نشط لغت اضداد سے ہے نشط الحبل بمعنی رسی کو گرہ لگائی۔ اور نَشَطَ الْعُقْدَۃُ بمعنی گرہ کو مضبوط کیا اور النَّشُوْطُ بمعنی آسانی سے کھل جانے والی گرہ۔ گویا نشط کا معنی گرہ لگانا بھی ہے اور گرہ کھولنا بھی۔ یعنی اللہ نے جب انسان کو بنایا یا پیدا کیا تو ایک ایک جوڑ اور بند کو مضبوط کیا تھا۔ موت کے وقت فرشتے انہیں جوڑوں کے بند کھول کر انہیں ڈھیلا کردیں گے۔ النازعات
3 [٣] سَبَحَ بمعنی کسی چیز کا پانی یا ہوا میں تیرنا اور تیز رفتاری سے گزر جانا۔ اور سباّح بمعنی ماہر تیراک۔ یعنی وہ فرشتہ جو روح کو نکال کر زمین سے آسمان کی طرف اس قدر سرعت و سہولت سے چلتے ہیں گویا بے روک ٹوک ہوا میں تیرتے جارہے ہیں۔ النازعات
4 [٤] پھر ان ارواح کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے جیسا حکم صادر ہوتا ہے اس کی بجاآوری کے لیے ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ النازعات
5 [٥] پھر ارواح کے متعلق فرشتوں کو جو حکم ملتا ہے خواہ وہ حکم ثواب کا ہو یا عذاب کا۔ اس پر فوراً عمل درآمد کی تدبیر کرتے ہیں۔ اور اگر الفاظ کی عمومیت کا لحاظ رکھا جائے تو ان سے مراد وہ تمام فرشتے ہیں جو تدبیر امور کائنات پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہیں۔ النازعات
6 [٦] مذکورہ بالا پانچ قسم کے فرشتوں اور ان کے کارناموں کا ذکر کرکے اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ پر روز آخرت کے قیام پر حجت قائم فرمائی کہ جو فرشتے تمہاری رگ رگ سے روح نکال کر تمہیں موت سے دوچار کرتے ہیں اور تمہاری روح کو اپنے قبضہ میں لے لیتے ہیں وہ کسی وقت یہی روح تمہارے جسم میں داخل بھی کرسکتے ہیں۔ واضح رہے کہ کفار مکہ فرشتوں کی ہستی اور ان کے کارناموں کے قائل تھے۔ ان کی بنیادی غلطی یہ تھی کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں سمجھتے تھے۔ فلہٰذا انہیں بھی تدبیر امور کائنات میں اللہ کا شریک سمجھتے تھے۔ اگرچہ مختار کل اللہ ہی کو سمجھتے تھے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے فرشتے نہ اللہ کی بیٹیاں ہیں اور نہ اللہ کے شریک، بلکہ وہ اللہ کی مخلوق اور اس کے فرمانبردار بندے ہیں اور وہ اللہ کے حکم سے سرتابی کر ہی نہیں سکتے۔ تدبیر امور میں ان کے لیے اپنے اختیار کو ذرہ بھر بھی عمل دخل نہیں۔ النازعات
7 [٧] آیت نمبر ٦ اور نمبر ٧ کے دو مطلب بیان کیے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ نفخہ صور اول کے وقت زمین کانپنے لگے گی۔ پھر اسے لگاتار زلزلہ کے مزید جھٹکے پڑنے لگیں گے۔ دوسرا یہ کہ رادفہ سے زلزلہ کے بجائے نفخہ صور مراد لیا جائے۔ یعنی پہلے نفخہ صور کے نتیجہ میں زمین کانپنے لگے گی پھر اس کے بعد جب دوسری بار صور پھونکا جائے گا تو تمام مرے ہوئے لوگ زندہ ہو کر قبروں سے باہر نکل آئیں گے۔ النازعات
8 النازعات
9 النازعات
10 [٨] حافرة کا لغوی معنی :۔ الحَافِرَۃَ: حفر بمعنی گڑھا کھودنا اور حفرۃ بمعنی گڑھا بھی اور قبر بھی۔ اور حافرۃ بمعنی کھودی ہوئی زمین بھی اور ابتدائی حالت بھی اور ردّ فی الحافرۃ بطور محاورہ استعمال ہوتا ہے۔ یعنی جہاں سے چلا تھا وہیں واپس جانے والا۔ بقول شاعر : پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا، یعنی کفار مکہ یہ کہتے تھے کہ ہم قبر کے گڑھے میں پہنچ کر کیا پھر الٹے پاؤں زندگی کی طرف واپس کیے جائیں گے؟ ہماری گلی سڑی ہڈیوں میں دوبارہ جان پڑجائے، یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔ النازعات
11 النازعات
12 [٩] قرآن میں متعدد مقامات پر مذکور ہے کہ جو لوگ قیامت پر یقین نہیں رکھتے وہ اس دن بڑے خسارے میں رہیں گے۔ کافر ایسی ہی آیات کا مذاق اڑاتے تھے اور کہتے تھے اگر واقعی ہمیں دوبارہ زندہ کیا گیا تو پھر تو ہم مارے گئے اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر ہمیں دوبارہ زندہ کرکے اس دنیا میں بھیجا گیا تو ہماری زمین اور مکانوں کے تو کئی وارث بن چکے ہوں گے۔ ایک ایک جائداد کے کئی مدعی ہوں گے اور جھگڑے ہی پڑے رہیں گے اس لحاظ سے تو یہ بڑے گھاٹے کا سودا ہوگا۔ النازعات
13 النازعات
14 [١٠] یعنی جس کام کو یہ کافر خلاف عقل اور ناممکن العمل سمجھ رہے ہیں۔ اس کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ جب دوسری مرتبہ صور پھونکا یا ڈانٹ پلائی جائے گی تو اس وقت سب اگلے پچھلے لوگ بلا توقف میدان حشر کی طرف اکٹھے ہونا شروع ہوجائیں گے۔ النازعات
15 [١١] قصہ موسیٰ وفرعون :۔ قیامت کے ذکر میں فرعون کا ذکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینے کے خاطر لایا گیا ہے۔ یعنی یہ مکہ کے کافر تو فرعون کے مقابلہ میں کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتے۔ وہ مصر کے بہت سے علاقہ کا واحد حکمران انتہائی مغرور اور سرکش بادشاہ تھا۔ اس نے بھی جب ہمارے بھیجے ہوئے پیغمبروں کو جھٹلایا۔ ان کی دعوت کو تسلیم کرنے کی بجائے اکڑ بیٹھا تو ہم نے اسے اور اس کی آل کو سمندر میں غرق کردیا تھا۔ اور اب یہ کفار بھی اگر فرعون جیسا ہی کردار ادا کریں گے تو یہ اللہ کی گرفت سے کیونکر بچ سکیں گے؟ النازعات
16 [١٢] نبوت سے سرفرازی :۔ یہ مقدس وادی، جس کا نام طویٰ ہے، کوہ طور کے دامن میں واقع ہے۔ مدین سے مصر یا مصر سے مدین جاتے ہوئے راستہ میں پڑتی ہے۔ اسی مقام پر سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی کا دو دفعہ شرف حاصل ہوا تھا۔ پہلی دفعہ جب وہ اپنے اہل و عیال سمیت مصر جارہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے حالات ہی ایسے پیدا کردیئے کہ آپ اس وادی میں آگ دیکھ کر وہاں پہنچ گئے اسی مقام پر اور اسی موقع پر آپ کو منصب نبوت سے نوازا گیا تھا۔ اور دوسری دفعہ جب تورات لینے کی غرض سے وہاں گئے تھے۔ النازعات
17 [١٣] فرعون کے پاس جانے کا حکم :۔ نبوت عطا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر جو ذمہ داری لگائی وہ آپ کے لیے بڑی کڑی آزمائش تھی۔ آپ کے ہاتھ سے اتفاقاً ایک قبطی کی موت واقع ہوگئی تھی ایک خیر خواہ کی اطلاع پر کہ آپ کے قتل کے مشورے فرعونی پارلیمنٹ میں ہو رہے ہیں آپ عارضی طور پر مدین کی جانب چلے گئے اس وجہ سے فرعون کی حکومت آپ کو مجرم سمجھتی تھی۔ آپ کا نام ریکارڈ پر موجود تھا۔ علاوہ ازیں فرعون ایک انتہائی مغرور اور سرکش حکمران تھا جسے اس قسم کا پیغام پہنچانا بذات خود جان جوکھوں کا کام تھا۔ ان خطرات کا موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کے دوران اظہار بھی کیا تھا اور یہ ایک طویل قصہ ہے جس کا ذکر پہلے متعدد مقامات پر گزر چکا ہے۔ یہاں ایسی سب باتوں کو حذف کردیا گیا ہے۔ النازعات
18 النازعات
19 [١٤] فرعون کو اللہ کا پیغام پہنچانا :۔ موسیٰ علیہ السلام نے اسی مقام پر ایک استدعا یہ بھی کی تھی کہ میرے بھائی ہارون کو بھی نبوت عطا کرکے میرے ہمراہ روانہ کیا جائے تاکہ کم از کم میرا ایک ساتھی تو میرا مددگار ہو۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی یہ استدعا قبول فرمائی اور سیدنا ہارون کو نبی بنا کر آپ کے ہمراہ کردیا مگر ساتھ ہی یہ تاکید کردی کہ فرعون چونکہ متکبر اور بددماغ ہے لہٰذا اس سے جو بات کہنی ہو نہایت نرم لہجے میں کہنا۔ اسی طرح ممکن ہے کہ وہ آپ کی بات سننے پر آمادہ ہوجائے ورنہ وہ جوش غضب میں بھڑک اٹھے گا۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے نہایت نرم اور دل نشین انداز میں اسے سمجھایا کہ کیا تمہارے لیے یہ ممکن ہے کہ تم اس تکبر اور سرکشی کے رویہ سے باز آکر اللہ کے فرمانبردار بن جاؤ۔ اس طرح تمہاری یہ دنیا کی زندگی بھی سنور جائے گی اور آخرت بھی سنور جائے گی اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ میری رسالت کو تسلیم کرلو۔ میں تمہیں تمہارے پروردگار کی سیدھی راہ بتادوں گا۔ اگر تمہیں اپنے پروردگار کی صحیح معرفت حاصل ہوگئی تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ تم میں اللہ کی خشیت اور خوف پیدا ہوجائے گا اور جو کام بھی کرو گے اللہ سے ڈرتے ہوئے کرو گے اور یہ چیز تمہاری زندگی کو سنوارنے کا بہترین ذریعہ ہوگا۔ النازعات
20 [١٥] فرعون کا معجزہ کا مطالبہ :۔ اس انتہائی نرم گفتگو کے باوجود اور بات کو سمجھ جانے کے باوجود فرعون اپنے اقتدار اور متکبرانہ روش سے دستبردار ہونے کے لیے قطعاً تیار نہ ہوا اور پوچھنے لگا کہ تم اپنے اس دعویٰ رسالت کی تائید میں اللہ کی طرف سے کوئی نشانی بھی پیش کرسکتے ہو؟ موسیٰ علیہ السلام نے اس سوال کا اثبات میں جواب دیا اور بھرے دربار میں اپنا عصا جو زمین پر پھینکا تو وہ ایک اژدھا بن گیا جس سے فرعون اور سب درباری سخت مرعوب اور دہشت زدہ ہوگئے۔ بالآخر فرعون نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے التجا کی کہ وہ جلد از جلد اس اژدھا کو سنبھال لیں۔ چنانچہ آپ نے آگے بڑھ کر اسے پکڑ لیا تو وہ پھر سے وہی پہلے والاعصا بن گیا۔ النازعات
21 النازعات
22 [١٦] فرعون کی سرکشی :۔ فرعون اور درباریوں کو یہ معجزہ دیکھ کر یقین تو آچکا تھا کہ موسیٰ علیہ السلام واقعی اللہ کا رسول ہے۔ مگر مشکل یہ تھی کہ یہ بات تسلیم کرلینے سے ان سب کو اپنے اپنے اقتدار اور مناصب سے دستبردار ہو کر سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا مطیع فرمان بننا پڑتا تھا اور یہ بات ان کے لیے موت تھی۔ لہٰذا انہوں نے عوام الناس کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ یہ اللہ کی طرف سے عطا کردہ معجزہ نہیں بلکہ جادو کا کرشمہ ہے۔ اپنے اس جھوٹ کو سچا بنانے کے لیے انہوں نے یہ چال چلی کہ ملک بھر کے ماہر جادوگروں کا برسر عام موسیٰ علیہ السلام سے مقابلہ کروا دیا جائے۔ فرعون نے جادوگروں کو لالچ بھی بہت دیا۔ مگر جب جادوگروں نے میدان مقابلہ میں ہار کر بھرے مجمع میں یہ اعلان کردیا کہ یہ جادو کا کرشمہ نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاکردہ معجزہ ہے اور ہم موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کے رب پر ایمان لاتے ہیں تو اس سے فرعون اور اس کے درباریوں کی بھرے مجمع میں خوب رسوائی ہوئی۔ النازعات
23 النازعات
24 [١٧] فرعون کا رعایا میں پروپیگنڈا :۔ میدان مقابلہ میں مات کھانے کے بعد بہت سے لوگ درپردہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے لگے تو فرعون بہت سیخ پا ہوگیا۔ اس نے ایک دوسرا پینترا بدلا اور لوگوں سے کہنے لگا تم لوگ میرے مقابلہ میں اس شخص کی پیروی کرنے لگے ہو جو میرے مقابلہ میں ایک کمزور اور حقیر انسان ہے جبکہ میں تمہارا سب سے بڑا حکمران ہوں۔ تمہارے تمام وسائل معاش بھی میرے ہاتھ میں ہیں۔ فرعون نے اپنے آپ کو ان معنوں میں رب الاعلیٰ نہیں کہا تھا کہ وہ اپنے آپ کو خالق کائنات سمجھتا تھا بلکہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کو کائنات کا خالق و مالک سمجھتا تھا۔ وہ اپنے آپ کو لوگوں کا معبود بھی نہیں کہتا تھا بلکہ وہ تو خود سورج دیوتا کی پرستش کرتا تھا۔ وہ اپنے آپ کو ملک میں سب سے بڑا سیاسی اقتدار کا مالک اور حکمران سمجھتا تھا۔ وہ یہ کہتا تھا کہ اس ملک میں سب سے بڑا سیاسی مقتدر اعلیٰ میں ہوں۔ میرے بغیر یہاں کسی دوسرے کا قانون یا حکم نہیں چل سکتا۔ النازعات
25 النازعات
26 [١٨] یعنی جس طرح فرعون نے سرکشی کی راہ اختیار کی تھی۔ وہی کچھ تم کر رہے ہو۔ اس کا انجام دیکھ لو۔ اور اس واقعہ سے عبرت حاصل کرو کہ تمہیں بھی کہیں ایسے ہی انجام سے دو چار نہ ہونا پڑے۔ النازعات
27 [١٩] مختصر طور پر قصہ فرعون بیان کرنے کے بعد اب پھر اصل مضمون یعنی عقیدہ آخرت کی طرف رجوع کرتے ہوئے کافروں سے سوال کیا جارہا ہے کہ کیا اس کائنات کو وجود میں لانا زیادہ مشکل کام ہے یا تمہیں پہلی بار یا دوسری بار پیدا کرنا ؟ یہاں لفظ سماء استعمال ہوا ہے جس سے مراد آسمان بھی ہوسکتا ہے اور تمام عالم بالا بھی۔ النازعات
28 [٢٠] آسمانوں کی تخلیق اور انہیں ہموار کرنا :۔ سَمَکَ : سَمَکَ بمعنی بلند کرنا، موٹا اور دبیز کرنا اور بمعنی چھت یا چھت کی موٹائی نیز ہر اونچی اور موٹی چیز کا قدوقامت، اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آسمان محض حد نگاہ کا نام نہیں جیسا کہ موجودہ ہیئت دانوں کا خیال ہے۔ بلکہ آسمان ایک ٹھوس اور موٹی یا دبیز چیز ہے جس میں دروازے بھی ہیں اور آسمان کی اونچائی زمین کے ہر مقام سے یکساں ہے۔ کیونکہ اس کی نچلی اور اوپر کی دونوں سطحوں کو ہموار بنا دیا گیا ہے۔ النازعات
29 [٢١] لیل ونہار :۔ یعنی اس آسمان میں سورج پیدا کیا ہے۔ جب تک وہ اہل زمین کے سامنے رہتا ہے تو یہ ان کے لیے دھوپ کا وقت اور دن ہوتا ہے اور جب وہ غروب ہوجاتا ہے اور چھپا رہتا ہے تو یہ ان کے لیے رات کا وقت ہوتا ہے۔ النازعات
30 [٢٢] دَحٰی کا معنی اور زمین کا گول ہونا :۔ دحیٰ اور طحٰی دونوں ہم معنی بلکہ ایک ہی لفظ ہے۔ صرف مختلف علاقوں کے الگ الگ تلفظ کی وجہ سے یہ دو لفظ بن گئے ہیں۔ قرآن میں یہ دونوں الفاظ صرف ایک ایک بار ہی استعمال ہوئے ہیں اور ایک ہی معنی میں آئے ہیں۔ کہتے ہیں دحی المطر الحصی یعنی بارش کنکریوں کو دور دور تک بہا کرلے گئی۔ گویا ان دونوں الفاظ کا معنی دور دور تک بچھا دینا یا پھیلادینا ہے نیز دحیٰ کے مفہوم میں گولائی کا تصور پایا جاتا ہے۔ دحوۃ شتر مرغ کے انڈہ کو کہتے ہیں۔ اس سے بعض لوگوں نے زمین کے گول ہونے پر استدلال کیا ہے۔ النازعات
31 النازعات
32 النازعات
33 [٢٣] پہاڑوں کے فوائد کا ذکر قرآن میں بہت سے مقامات پر مذکور ہوا ہے۔ یہاں سورج اور پہاڑوں کا ذکر اس مناسبت سے ہے کہ بارش کے نزول میں یہ دونوں چیزیں اسباب ہیں۔ سورج کی حرارت سے سطح سمندر کے آبی بخارات اٹھتے ہیں جو پہاڑوں سے ٹکرا کر اور ٹھنڈے ہو کر برسنے لگتے ہیں۔ اسی بارش سے نباتات اور چارہ اور غلے پیدا ہوتے ہیں۔ غلے انسانوں کی غذا کے کام آتے ہیں اور گھاس اور چارہ ہمارے مویشیوں کی غذا کا کام دیتا ہے۔ النازعات
34 [٢٤] الطّامۃ: الطَّمُّ بمعنی پانی سے بھرا ہوا اور ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اور الطامہ ایسی آفت جو دوسری تمام مصیبتوں پر حاوی ہوجائے۔ اور الکبریٰ کا لفظ اس بڑی آفت کو مزید نمایاں کرنے کے لیے تاکید کے طور پر آیا ہے اور اس سے مراد قیامت کا دن ہے۔ النازعات
35 [٢٥] اس بڑی مصیبت کا اصل مقصد سب کو معلوم ہوگا کہ آج کا دن لوگوں کے حساب کتاب کا دن ہے۔ اور ہر انسان کو اپنا اعمال نامہ دیکھنے سے پہلے ہی وہ تمام کام یاد آنے لگیں گے جو اس نے اپنی دنیا کی زندگی میں سرانجام دیئے تھے، خواہ وہ کام اچھے تھے یا برے تھے۔ النازعات
36 [٢٦] بُرّزَت : بَرَزَ بمعنی کسی چیز کا نکل کر کھلے میدان میں آجانا۔ سامنے آنا۔ گم نامی اور پوشیدگی کے بعد ظاہر ہونا۔ اور برز کے معنی فضا اور کھلا میدان اور دعوت مبارزت بمعنی کسی شخص کا میدان جنگ میں آگے بڑھ کر دشمن کے کسی آدمی کو مقابلہ کے لیے للکارنا ہے اور برز بمعنی کسی چھپی ہوئی چیز کو نکال کر سامنے کھلے میدان میں لے آنا۔ یعنی اس دن جہنم کو سب لوگوں کے سامنے لے آیا جائے گا خواہ وہ نیک لوگ ہوں یا بدکردار۔ اسی مضمون کو ایک دوسرے مقام پر یوں بیان فرمایا : ﴿ وَاِنْ مِّنْکُمْ اِلَّا وَارِدُہَا ﴾یعنی تم میں سے ہر شخص جہنم پر پہنچنے والا ہے۔ النازعات
37 النازعات
38 النازعات
39 النازعات
40 النازعات
41 [٢٧] یعنی اس دن ساری مخلوق دو گروہوں میں بٹ جائے گی۔ ایک وہ جو آخرت کے منکر تھے انہیں اللہ کے سامنے پیش ہونے اور اپنے اعمال کی جوابدہی کا نہ کوئی تصور تھا اور نہ خطرہ تھا۔ لہٰذا وہ دنیا کی زندگی کو ہی سب کچھ سمجھ کر اس پر فریفتہ رہے اور آخرت سے بالکل بے فکر بنے رہے ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ وہ جب جہنم پر پہنچیں گے تو فوراً اس میں داخل کردیئے جائیں گے۔ دوسرے وہ جنہیں آخرت میں اپنے اعمال کی جوابدہی کا ہر وقت خطرہ لا حق رہتا تھا۔ لہٰذا انہوں نے اپنے اخروی مفاد کی خاطر ہر وقت اپنے نفس کی خواہشات کو دبائے رکھا اور اللہ سے ڈرتے ہوئے نہایت محتاط اور ذمہ دارانہ زندگی گزاری ہوگی۔ ایسے ہی لوگ جنت کے حق دار قرار پائیں گے اور انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت میں داخل کیا جائے گا۔ النازعات
42 النازعات
43 النازعات
44 [٢٨] ان کافروں نے بھی عجیب مذاق بنا رکھا ہے کہ اکثر آپ سے یہی سوال پوچھتے رہتے ہیں کہ قیامت کب آنے والی ہے۔ حالانکہ یہ بات آپ کے احاطہ علم سے باہر ہے۔ یہ لوگ جتنا بھی اس سوال کے پیچھے پڑیں اور اس سلسلہ میں آپ کو پریشان کریں بالآخر اس کا یہی جواب سامنے آئے گا کہ اس بات کا علم صرف اللہ کو ہے اور اس بات کا جاننا عملی لحاظ سے کچھ مفید بھی نہیں۔ مثلاً ہر شخص کا یہ تصور ہوتا ہے کہ مرنے سے پہلے مجھے فلاں کام کر جانا چاہیے۔ حالانکہ اپنی موت کا علم اللہ کے سوا کسی کو بھی نہیں ہوتا۔ لہٰذا قیامت کے عقیدہ کا عملی پہلو یہی ہے کہ انسان اس دنیا کی زندگی میں جو دارالامتحان ہے ایسے کام کر جائے جو اس کے لیے مفید ثابت ہوں۔ النازعات
45 النازعات
46 [٢٩] گزشتہ واقعات کے متعلق انسان کا تصور یہ ہوتا ہے کہ بیسیوں سال پہلے گزرے ہوئے واقعہ کے متعلق وہ کہتا ہے کہ یہ کل کی بات ہے۔ یہ اس عالم دنیا کا حال ہے جس میں لیل و نہار کی گردش اسے نظر آتی ہے اور ماہ و سال کا وہ حساب لگا سکتا ہے لیکن عالم برزخ میں تو یہ دن رات بھی نہیں ہوں گے جیسے اصحاب کہف پر تین سو سال گزرنے کے بعد وہ یہ فیصلہ نہ کرسکے تھے کہ وہ اس غار میں پورا دن سوئے رہے ہیں یا دن کا کچھ حصہ۔ بالکل یہی صورت حال قیامت کے دن لوگوں کو پیش آئے گی اور کافر قیامت کا دن دیکھ کر یہی سمجھیں گے کہ ان کی دنیا کی زندگی تو پورا ایک دن بھی نہ تھی۔ کاش یہ تھوڑی سی مدت ہم اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں ہی گزار کر یہاں آتے۔ النازعات
0 عبس
1 [١] ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں چند قریشی سردار بیٹھے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اسلام کی دعوت دے رہے تھے۔ روایات میں ان کے نام عتبہ، شیبہ، ابو جہل، امیہ بن خلف اور ابی بن خلف ملتے ہیں۔ یہ لوگ بعد میں اسلام اور پیغمبر اسلام کے بدترین دشمن ثابت ہوئے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت اس زمانے میں نازل ہوئی تھی۔ جب قریشی سردار اسلام دشمنی کی حد تک نہیں پہنچے تھے۔ اسی دوران سیدنا عبداللہ بن ام مکتوم آپ کے پاس تشریف لائے۔ یہ عبداللہ بن ام مکتوم نابینا تھے۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پھوپھی زاد بھائی تھے اور ابتدائی اسلام لانے والوں میں سے تھے۔ انہوں نے آتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی آیت کا مطلب پوچھا۔ اور جو لوگ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے تھے انہیں آپ دیکھ نہیں سکتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناگوار محسوس ہوا۔ اور اس ناگواری کے اثرات آپ کے چہرہ پر بھی نمودار ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور انہیں خاموش کرا دیا۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے مطمئن تھے کہ وہ خالص مومن ہیں انہیں بعد میں سمجھا لیں گے سردست اگر ان سرداروں میں سے کوئی ایک بھی اسلام کے قریب آگیا تو اس سے اسلام کو خاصی تقویت پہنچ سکتی ہے اسی وجہ سے آپ قریشی سرداروں سے ہی محو گفتگو رہے۔ اس وقت یہ سورت نازل ہوئی جسے امام ترمذی نے مختصراً یوں ذکر کیا ہے : عبداللہ بن ام مکتوم اور راہ ہدایت کی جستجو' طلب صادق :۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس سورت کی ابتدائی آیات عبداللہ بن ام مکتوم کے بارے میں نازل ہوئیں۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور یہ کہتے رہے کہ یارسول اللہ مجھے دین کی راہ بتائیے۔ اس وقت آپ کے پاس مشرکوں میں سے کوئی بڑا آدمی بیٹھا تھا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے (یعنی عبداللہ) سے اعراض کرتے تھے اور دوسرے (مشرک) کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔ اور عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے کیا میری بات میں کوئی برائی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے تھے۔ نہیں۔ اس بارے میں یہ سورت نازل ہوئی۔ (ترمذی، ابو اب التفسیر) اس سورت کے انداز خطاب سے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عتاب کا رخ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے حالانکہ اس عتاب کے بیشتر حصہ کا روئے سخن قریشی سرداروں کی طرف ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کچھ عتاب نازل ہوا اس کا انداز بھی عجیب ہے۔ پہلی آیت میں صیغہ واحد مذکر غائب استعمال کیا گیا ہے۔ پھر تیسری آیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو براہ راست مخاطب کیا گیا ہے جس سے ایک تو کلام میں حسن پیدا ہوگیا اور دوسرے عتاب کے انداز کو انتہائی نرم کردیا گیا ہے۔ اس عتاب میں آپ کے دعوت حق کی تبلیغ کے طریق کار پر تنقید کی گئی ہے کہ اصولاً اس دعوت کے لیے توجہ کا اولین مستحق وہ ہوتا ہے۔ جو خود بھی ہدایت کا طالب ہو۔ اس واقعہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عبداللہ بن ام مکتوم سے بہت تعظیم و تکریم سے پیش آتے اور فرمایا کرتے ''مَرحَبَا بِمَنْ عَاتَبَنِی فِیْہِ رَبِّی'' (خوش آمدید اس شخص کو جس کے بارے میں اللہ نے مجھ پر عتاب فرمایا) نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کئی بار آپ کو مدینہ میں اپنا نائب اور حاکم بنایا جب آپ جہاد وغیرہ کے سلسلہ میں مدینہ سے باہر جاتے تھے۔ آپ نابینا ہونے کے باوجود جہاد میں عملاً حصہ لیا کرتے تھے۔ آپ دور فاروقی میں جنگ قادسیہ میں جہاد کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ عبس
2 [٢] یعنی پیغمبر نے ایک اندھے کے آنے پر چیں بجبیں ہو کر منہ پھیر لیا۔ حالانکہ آپ کو اندھے کی معذوری، شکستہ حالی اور طلب صادق کا زیادہ لحاظ رکھنا چاہیے تھا۔ عبس
3 عبس
4 [٣] یعنی یہ عین ممکن تھا کہ وہ نابینا آپ کی توجہ سے بہت زیادہ مستفید ہوجاتا کیونکہ وہ طلب صادق لے کر آیا تھا۔ پھر آپ کی نصیحت پر عمل کرکے وہ اپنے نفس کو پاکیزہ بنا لیتا۔ عبس
5 عبس
6 عبس
7 [٤] یعنی اس نابینا کو نظر انداز کرکے جن لوگوں سے ہدایت کا طمع رکھتے ہیں۔ وہ ایسے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات بھی یوں سنتے ہیں جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت بڑا احسان کر رہے ہیں۔ اس بات کو قبول کرنا تو دور کی بات ہے۔ ایسے لوگوں کو راہ راست پر لانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی ذمہ داری نہیں۔ آپ کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ آپ ان لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچا دیں۔ عبس
8 عبس
9 [٥] یعنی اندھا ہونے کے باوجود کوشش کرکے محض اسلام کی باتیں سمجھنے کے لیے آپ تک پہنچا ہے۔ اس کا کوئی ہاتھ پکڑنے والا بھی نہیں تھا۔ اسے یہ بھی اندیشہ تھا کہ کہیں کسی گڑھے میں نہ گر جائے یا کسی چیز سے ٹکرا کر گر پڑے۔ یا راہ میں اسلام دشمن لوگ اسے ستائیں تو وہ کیا کرے گا محض وہ طلب حق کی خاطر اور اللہ سے ڈرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا ہے تو آپ کو اس کی اس محنت اور طلب صادق کی قدر کرنا چاہیے تھی اور اس کی طرف پہلے متوجہ ہونا چاہیے تھا۔ عبس
10 عبس
11 [٦] یعنی قرآن کی عزت و وقعت کا انحصار ایسے مغرور اور سر پھروں کے ماننے پر نہیں ہے۔ اگر یہ لوگ قرآن کی نصیحت پر عمل نہیں کرتے تو اپنا ہی نقصان کریں گے۔ قرآن کو ان کی کیا پروا ہوسکتی ہے اور نہ ہی آپ کو ایسے لوگوں کے پیچھے پڑنے کی ضرورت ہے۔ عبس
12 [٧] ذَکَرَہ، کا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو چاہے اس سے نصیحت حاصل کرے اور یہ بھی کہ جو شخص چاہے قرآن کی نصیحت کی باتوں کا بار بار تذکرہ کرتا رہے اور یہ بھی کہ قرآن کو زبانی یاد کرلے۔ غرض قرآن کو پڑھنا، اس کی نصیحت پر عمل کرنا اور اسے زبانی یاد کرنا سب بڑے اجر و ثواب کے کام ہیں۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص قرآن پڑھتا ہے اور وہ اس کا حافظ ہے وہ (قیامت کے دن) لکھنے والے معزز فرشتوں کے ساتھ ہوگا۔ اور جو قرآن کو اٹک اٹک کر پڑھتا ہے اور پڑھنا اسے مشکل ہوتا ہے اس کے لیے دہرا اجر ہے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) عبس
13 عبس
14 [٨] یعنی قرآن کی عظمت شان کا یہ عالم ہے کہ اس کی آیات لوح محفوظ میں سات آسمانوں کے اوپر نہایت معزز، بلند مرتبہ اور صاف ستھرے صحیفوں میں مندرج ہیں اور زمین پر مخلص اور ایماندار لوگ اس کے اوراق کو نہایت عزت و احترام اور تقدیس و تطہیر کے ساتھ اونچی جگہ پر رکھتے ہیں۔ عبس
15 [٩] سَفَرَۃٍ : سافِر کی جمع ہے اور السِّفر اس کتاب کو کہتے ہیں جو حقائق کو بے نقاب کرتی ہو اور اسفار بمعنی تورات کی شرح و تفاسیر اور سافر وہ شخص ہے جو ایسی تحریر کرتا یا لکھتا ہو اور اس لفظ کا اطلاق الہامی تحریر لکھنے والے فرشتوں اور انسانوں پر ہوتا ہے۔ نیز نامہ اعمال لکھنے والے فرشتوں پر بھی۔ مطلب یہ ہے کہ قرآن کو لکھنے والے نہایت معزز اور بزرگ فرشتے ہیں۔ اسی کے موافق وحی نازل ہوتی ہے اور یہاں بھی اوراق میں لکھنے اور جمع کرنے والے دنیا کے بزرگ ترین، پاکباز، نیکو کار اور فرشتہ سیرت انسان ہیں۔ جنہوں نے اس قرآن کو ہر قسم کی کمی بیشی یا تحریف و تبدیل سے پاک رکھا ہے۔ گویا قرآن جیسی عظیم الشان کتاب اس بات سے بدرجہا بلند ہے کہ اسے متکبر کافروں کے سامنے پیش کرکے ان سے یہ خواہش کی جائے کہ اسے شرف قبولیت عطاکرو کیونکہ قرآن ان کا محتاج نہیں وہ اس کے محتاج ہیں۔ عبس
16 عبس
17 [١٠] اس آیت میں اگرچہ مخاطب تمام نوع انسان کو کیا گیا ہے۔ تاہم اس سے مراد انسانوں کی اکثریت یا قرآن کو جھٹلانے والے کافر ہیں۔ اور یہ قرآن کا مخصوص اور مہذبانہ انداز خطاب ہے۔ تاکہ منکرین حق ضد میں آکر مزید چڑ نہ جائیں بلکہ اصل حقائق پر غور و فکر کریں۔ [١١] اس کا ایک معنی تو وہی ہے جو ترجمہ سے واضح ہے یعنی وہ کس قدر زیادہ حق کا انکار کرنے والا واقع ہوا ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ کیا چیز ہے جس نے اسے کفر پر آمادہ کیا ؟ آخر وہ کس بل بوتے پر اللہ کی آیات سے انکار کرتا اور اس کی ناشکری کرتا ہے؟ عبس
18 عبس
19 [١٢] وہ اگر یہ سوچتا کہ وہ کس چیز سے پیدا ہوا۔ کس جگہ وہ پرورش پاکر نطفہ سے بچہ بنا پھر کس بے بسی کی حالت میں ماں کے پیٹ سے باہر نکلا تو اسے ہرگز یہ جرأت نہ ہوتی کہ وہ اپنے خالق کے منہ کو آئے اور اس کا کلام سن کر اس کا انکار کردے؟ پھر جب وہ ماں کے پیٹ میں نشوونما پا رہا تھا تو اس کی تقدیر طے کردی گئی۔ اس کی عمر کتنی ہوگی؟ وہ کہاں مرے گا اور کہاں دفن ہوگا ؟ وہ تنگدست رہے گا یا خوشحال ہوگا۔ اسے ایمان میسر آئے گا یا نہیں؟ وہ کفر کی حالت میں مرے گا یا ایمان کی حالت میں۔ یہ سب تفصیلات تو رحم مادر میں ہی طے کردی تھیں اور اس مقررہ تقدیر کے آگے وہ بالکل بے بس ہے لیکن ان باتوں کے باوجود وہ اللہ کے مقابلہ میں اکڑتا اور کفر کرتا ہے۔ عبس
20 [١٣] اس آیت کے کئی مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ ماں کے پیٹ سے باہر آنا اس کے لیے آسان بنادیا۔ جب رحم مادر میں بچے کی نشوونما پوری ہوچکتی ہے تو ماں اس کو اپنے پیٹ سے باہر نکالنے کے لیے بے قرار ہوجاتی ہے اور جب تک اسے جن نہ لے اسے قرار نہیں آتا۔ راستہ تنگ ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ وضع حمل کے وقت اس راستہ میں اتنی لچک پیدا کردیتا ہے کہ ماں کے لئے اس کا جننا آسان ہوجاتا ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو تمام ایسی قوتیں عطا کردیں اور استعداد مہیا کردی کہ وہ دنیا میں موجود وسائل و اسباب سے کام لے کر اپنی زندگی گزار سکے اور تیسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اسے خیر و شر کے دونوں راستے سمجھا دیے۔ اس کی فطرت میں یہ تمیز رکھ دی۔ پھر انبیاء و رسل اور کتابوں کے ذریعے بھی سب کچھ سمجھا دیا، اور اسے اختیار دے دیا کہ جونسی راہ وہ چاہے اختیار کرلے۔ پھر جو راہ بھی اختیار کرے اللہ تعالیٰ اسی راستے کو اس کے لئے آسان بنا دیتا ہے اور اس کی توفیق عطا فرماتا جاتا ہے۔ عبس
21 [١٤] انسان کو موت دینا اور قبر مہیا کرنا بھی اللہ کا احسان ہے :۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا انسان کو موت دینا بھی اس کا احسان ہے اور اسے قبر مہیا کرنا بھی۔ موت کے احسان ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب ایک بیمار بستر مرگ پر پڑا ایڑیاں رگڑ رہا ہوتا ہے۔ تکلیف سے سخت بے تاب ہوتا ہے مگر اسے موت نہیں آتی۔ گھر والے اس کی مرض کی طوالت کی وجہ سے الگ پریشان ہوتے ہیں۔ بیماری پر بے بہا مصارف اٹھتے ہیں اور وہ کوئی دوسرا کام کرنے کے قابل بھی نہیں رہتے۔ اس وقت دل سے بھی دعا مانگتے ہیں کہ مرنے والے کو موت آجائے تاکہ اسے بھی تکلیف سے نجات حاصل ہو اور اس کے گھر والے بھی پریشانیوں سے نجات پاجائیں۔ نیز اگر انسان کو موت نہ آتی تو یہ زمین بنی نوع انسان کے لیے تنگ ہوجاتی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا انسان کو قبر مہیا کرنا یا روئے زمین سے اس کے وجود کو غائب کردینا بھی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ ورنہ جہاں یہ بات میت کے لواحقین کے لیے ناقابل فراموش صدمہ ہوتا وہ مرنے کے بعد میت کے جسم میں ہونے والے تغیرات کو دیکھنا برداشت نہ کرسکتے۔ زندوں کے سامنے لاش کی بے حرمتی ان کے لیے مزید صدمہ جانکاہ بن جاتا۔ واضح رہے قبر سے مراد صرف زمینی گڑھا ہی نہیں بلکہ سمندر کی گہرائی، آگ کا الاؤ، درندوں کا پیٹ سب قبر کے حکم میں داخل ہیں۔ عبس
22 [١٥] یعنی جس طرح انسان اپنے پیدا ہونے اور مرنے کے معاملہ میں بے بس تھا اسی طرح وہ دوبارہ پیدائش کے معاملہ میں بھی اللہ کے حکم کے سامنے بے بس ہوگا اسے نہ پیدا ہونے کے وقت یہ پوچھا گیا تھا اگر تم پیدا ہونا چاہتے ہو تو تمہیں پیدا کردیں ورنہ نہ کریں۔ اور نہ موت کے وقت پوچھا گیا تھا کہ اگر تم چاہو تو تمہیں موت دے دیں ورنہ زندہ رہنے دیں۔ اسی طرح دوبارہ پیدا کرنے کے وقت بھی اس سے کچھ نہیں پوچھا جائے گا۔ اللہ جب چاہے گا اسے زندہ کرکے کھڑا کر دے گا۔ عبس
23 [١٦] اسے حکم تو یہ دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کا فرمانبردار بن کر رہے۔ یہ حکم اس کی فطرت میں بھی ودیعت کیا گیا تھا پھر اسے پیغمبروں اور کتابوں کے ذریعہ بھی اللہ تعالیٰ نے ایسا حکم دیا تھا۔ اگر وہ اپنے مندرجہ بالا حالات پر غور کرتا تو اس کے لیے اللہ کا فرمانبردار بن کر رہنے کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا۔ مگر اس نے ان تقاضوں کو مطلقاً پورا نہیں کیا۔ بعض مفسرین نے اس آیت کو ایک الگ مستقل آیت سمجھنے کے بجائے سابقہ آیت سے مربوط کیا ہے۔ اور اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اللہ جب چاہے گا زندہ کرکے اٹھائے گا لیکن ابھی ایسا نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ابھی تک اس دنیا کی آبادی اور کائنات کی تکمیل سے متعلق اس کا جو طے شدہ حکم ہے وہ ابھی تک اس نے پورا نہیں کیا۔ عبس
24 عبس
25 عبس
26 [١٧] بارش کا زمین پر اثر : یعنی انسان اگر اپنے کھانے کی چیزوں میں ہی غور کرلیتا تو اسے اپنے پروردگار کی ناشکری کی کبھی جرأت نہ ہوسکتی تھی۔ انسان کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ زمین میں سطح زمین سے تھوڑا سا نیچے بیج اتار دے۔ بس اس کے بعد اس کا کام ختم ہوجاتا ہے۔ خواہ انسان یہ کام زمین میں ہل چلا کر کرے یا کسی دوسرے ذریعہ سے کرے۔ زمین پر بارش برسانا اللہ کا کام ہے۔ یہی بارش کا پانی کبھی ندی نالوں، دریاؤں اور نہروں سے حاصل ہوتا ہے اور کبھی چشموں اور کنووں سے۔ بہرحال وہ بارش ہی کا جمع شدہ پانی ہوتا ہے۔ زمین میں بالیدگی :۔ پانی اور زمین کی اوپر کی سطح جب مل جاتے ہیں تو ایسی مٹی میں اللہ تعالیٰ نے یہ خاصیت رکھی ہے کہ وہ بیج کو کھول دیتی ہے۔ اس مردہ اور بے جان بیج میں زندگی کی رمق پیدا ہوجاتی ہے اور وہ کونپل کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ بیج میں درخت کی خصوصیات :۔ پھر اس نرم و نازک کونپل میں، جو ہوا کے ایک معمولی سے جھونکے کو بھی برداشت نہیں کرسکتی۔ اللہ تعالیٰ نے بالیدگی کی اتنی قوت بھر دی ہے کہ وہ کونپل دو تین دن بعد اوپر سے ملی ہوئی زمین کو پھاڑ کر زمین کے اندر سے یوں باہر نکل آتی ہے جیسے بچہ ماں کے پیٹ سے باہر نکل آتا ہے۔ پھر یہی بیج آہستہ آہستہ مکمل پودا یا تناور درخت بن جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ زمین میں بالیدگی کی استعداد نہ رکھتا یا بیج میں وہ تمام خصوصیات نہ رکھتا جو اس کے پودے یا درخت میں تھیں، یا بارش ہی نہ برساتا تو کیا انسان کے پاس کوئی ایسا ذریعہ ہے جس سے وہ اپنی خوراک حاصل کرسکتا ؟ عبس
27 عبس
28 عبس
29 عبس
30 عبس
31 عبس
32 [١٨] ہر طرح کی نباتات اور پھل :۔ پھر ہم نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا کہ انسان کے لیے حیات بخش اشیاء اگا دیں بلکہ اس پر مزید احسان یہ کیا کہ ایسی اشیاء پیدا کیں جو حیات بخش ہونے کے ساتھ ساتھ خوشگوار لذیذ اور مزیدار بھی تھیں تاکہ انسان ایک ہی طرح کی خوراک سے اکتا نہ جائے۔ اس کے لیے طرح طرح کی سبزیاں اور ترکاریاں اگائیں۔ پھر ایسے پودے بھی اگائے جن سے انسان روغن حاصل کرسکے اور ایسے انواع و اقسام کے پھل بھی جن کے کھانے سے اسے لذت و سرور بھی حاصل ہو۔ پھر اس کے لیے مویشی پیدا کیے جن سے وہ گوشت، دودھ اور کئی دوسرے فوائد حاصل کرتا ہے۔ پھر ہر پودے اور درخت سے حاصل ہونے والی غذا کا بہترین حصہ تو انسان کی خوراک بنا اور جو حصہ اس کے حساب سے ناکارہ تھا وہ اس کے مویشیوں کی خوراک کے کام آیا۔ اب دیکھیے غلوں اور درختوں کے پھلوں کے پکنے میں زمین، سمندر، سورج، ہوائیں، چاند کی چاندنی اور کئی دوسری اشیاء اپنا اپنا فریضہ ادا کرتی ہیں تو تب جاکر انسان کو کھانے کو خوراک ملتی ہے۔ اور یہ سب چیزیں اللہ کی پیدا کردہ اور اسی کے حکم کے مطابق اپنے اپنے فرائض بجا لا رہی ہیں۔ پھر بھی انسان ایسا ناشکرا واقع ہوا ہے کہ اپنے پروردگار کے منہ کو آنے لگتا ہے اور انسان اس روزی کے سلسلے میں اللہ کا اس قدر محتاج ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کچھ عرصہ کے لیے بارش برسانا ہی روک لے تو انسان اور اس کے علاوہ زمین پر بسنے والی تمام جاندار مخلوق کا عرصہ حیات تنگ ہوجائے۔ عبس
33 [١٩] الصَّاخَّۃُ، صخّ ایسی آواز کو کہتے ہیں جو کانوں کو بہرہ کردے۔ ایسی سخت اور کرخت آواز جس سے کانوں کے پردے پھٹ جائیں اور الصاخہ سے مراد قیامت ہے اور یہ کیفیت پہلے نفخہ صور کے وقت ہوگی۔ عبس
34 عبس
35 عبس
36 [٢٠] انسان کا اپنے عزیز واقارب سے بھاگنا :۔ اس دن انسان کے اپنے عزیزو اقارب سے بھاگنے کی دو وجوہ ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ ہر انسان سخت مصیبت میں مبتلا ہوگا وہ چاہے گا کہ اپنی امداد کے لیے اپنے عزیز و اقارب کو پکارے لیکن وہ بھی اپنی اپنی مصیبت میں گرفتار ہوں گے۔ انہیں یہ خطرہ ہوگا کہ ہم تو خود مصیبت میں پڑے ہیں کہیں یہ بھی ہمیں مدد کے لیے بلا نہ لے اس لیے ہر ایک دوسرے سے دور بھاگنے کی کوشش کرے گا اور دوسری وجہ بالخصوص مجرموں سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ اپنے عزیز و اقارب سے اس لیے دور بھاگیں گے کہ دنیا میں تو وہ گناہ کے کاموں میں ایک دوسرے کے مددگار بنے ہوئے تھے۔ آج ایک مجرم دوسرے کو یہ الزام نہ دینے لگے کہ میری گمراہی کا سبب تو تم ہی بنے تھے۔ اس لیے ہر قریبی اپنے دوسرے قریبی سے دور دور ہی رہنے کی کوشش کرے گا۔ عبس
37 [٢١] ننگے بدن حشر :۔ اس آیت کی بہترین تفسیر درج ذیل حدیث پیش کرتی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : لوگ میدان حشر میں ننگے سر، ننگے بدن اور بے ختنہ اکٹھے کیے جائیں گے۔ ایک عورت (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا) نے پوچھا : کیا پھر وہ ایک دوسرے کے ستر نہ دیکھیں گے؟ آپ نے فرمایا : اے فلاں (عورت) اس دن ہر شخص کو اپنی اپنی پڑی ہوگی جو اسے (دوسروں سے) غافل کر دے گی۔ (ترمذی۔ کتاب التفسیر) عبس
38 عبس
39 عبس
40 عبس
41 [٢٢] میدان محشر میں لوگ دو گروہوں میں بٹے ہوں گے اور ان کی علامات ان کے چہروں سے نمایاں ہوں گی۔ اللہ کے فرمانبرداروں کے چہرے ہشاش بشاش کھلکھلاتے اور مسکراتے ہوئے ہوں گے۔ دل میں بھی مسرت کی لہر دوڑ رہی ہوگی اور کچھ لوگوں کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی ہوں گی۔ رنگ فق اور چہرے بگڑے ہوئے اور بے رونق ہوں گے اور یہ اللہ کے نافرمان اور بدکردار لوگ ہوں گے۔ گویا لوگ گروہوں میں بٹنے سے پہلے ہی پہچانے جاسکیں گے کہ کون شخص کس گروہ سے تعلق رکھتا ہے۔ عبس
42 عبس
0 [١] سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص کو یہ پسند ہو کہ وہ قیامت کو آنکھوں سے دیکھ لے تو اسے چاہیے کہ سورۃ التکویر، الانفطار اور الانشقاق پڑھ لے۔ (ترمذی، ابو اب التفسیر) التكوير
1 [٢] کوّر بمعنی کسی چیز کو عمامہ یا پگڑی کی طرح لپیٹنا اور اوپر تلے گھمانا۔ اور اس میں گولائی اور تجمع کے دونوں تصور موجود ہوتے ہیں یعنی کسی چیز کو گولائی میں لپیٹنا اور جماتے جانا۔ مطلب یہ ہے کہ سورج کی شعاعیں، اس کی روشنی اور اس کی حرارت سب کچھ سمیٹ لیا جائے گا اور وہ بس ایک بے نور جسم رہ جائے گا۔ التكوير
2 [٣] اِنْکَدَرَ: کدر بمعنی گدلاپن (ضد صفاء ) اور انکدر کا معنی کسی چیز کا خود گدلا ہونا۔ رنگ میلا اور ہلکا پڑجانا یا ماند پڑجانا، یعنی ستاروں اور چاند کو جو روشنی حاصل ہے وہ انعکاس نور کے نتیجہ میں سورج یا ایسے کسی دوسرے ستارے سے حاصل ہوتی ہے۔ پھر جب ان ستاروں کا باہمی ربط ختم ہوجائے گا تو ان میں چمک اور آب و تاب بھی نہ رہے گی۔ التكوير
3 [٤] یعنی زمین کی کشش ثقل ختم ہوجائے گی تو پہاڑوں کی زمین میں جڑیں بھی ڈھیلی پڑجائیں گی۔ پہلے تو پہاڑ ٹوٹ ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوجائیں گے۔ بعد ازاں ان کی بھر بھری ریت کو ہوا ادھر سے ادھر اڑاتی پھرے گی۔ التكوير
4 [٥] اہل عرب کے نزدیک اونٹ ایک قیمتی متاع سمجھا جاتا تھا اور دس ماہ کی حاملہ اونٹنی تو ان کے ہاں نہایت عزیز متاع تھی اس لیے کہ وہ ایک دو ماہ بعد بچہ بھی جنے گی اور دودھ بھی دیا کرے گی۔ اس آیت میں بتایا یہ جارہا ہے کہ قیامت کی دہشت اتنی زیادہ ہوگی کہ انسان کو اپنی قیمتی متاع سنبھالنے کا بھی ہوش نہ رہے گا۔ التكوير
5 [٦] یہ بھی قیامت کی دہشت کا اثر ہوگا اور اس دہشت کا اثر جانوروں پر یہ ہوگا کہ مثلاً سانپ کو ڈسنے کا ہوش نہ رہے گا اور شیر کو پھاڑ کھانے کا۔ یہ سب وحشی جانور انسانوں کی آبادیوں اور شہروں کی طرف نکل آئیں گے اور اپنے بل اور کچھار وغیرہ چھوڑ دیں گے۔ ایسا منظر سیلاب کے دنوں میں دیکھنے میں آیا ہے کہ لکڑیوں کے سیلاب کے پانی پر تیرتے ہوئے ایک گٹھے پر انسان بھی پناہ لیے بیٹھے ہیں اور سانپ بھی۔ سانپ انسانوں کو کچھ نہیں کہتے اور انسان سانپوں کو بس ہر ایک کو اپنی اپنی پڑی ہوتی ہے۔ قیامت کے وقت بھی یہی حال ہوگا کہ کیا درندے کیا مویشی اور دوسرے جانور اور کیا انسان سب اپنے گھروں سے نکل کر میدانوں میں آ اکٹھے ہونگے اور اس آیت کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے جو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن جانوروں کے ایک دوسرے پر ظلم کا قصاص دلایا جائے گا حتیٰ کہ ایک سینگ والی بکری نے بے سینگ بکری کو مارا ہوگا تو اس کا بھی قصاص دلایا جائے۔ (مسلم۔ کتاب البر والصلۃ والادب۔ باب تحریم الظلم) پھر قصاص کے بعد ان جانوروں کو خاک بنا دیا جائے گا۔ التكوير
6 [٧] قیامت کو سمندروں کا انجام :۔ سُجِّرَتْ: سجر میں کسی چیز کے بھرے ہوئے ہونے اور اس میں مخالطت یا تلاطم کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ البحر المسجور سے مراد وہ سمندر ہے جو بھرا ہوا بھی ہو اور جوش تلاطم سے ابل بھی رہا ہو۔ اور سجّرالتنّور کے معنی تنور کو ایندھن سے بھر کر گرم کرنا تاکہ آگ پوری شدت سے بھڑک سکے اور سجور اس ایندھن کو کہتے ہیں جس سے تنور گرم کیا جائے۔ گویا ہر وہ چیز جو آگ میں شدت پیدا کرنے کے لیے تنور میں جھونک دی جائے وہ سجور ہے۔ اب دیکھیے کہ پانی دو گیسوں آکسیجن اور ہائیڈروجن کا مجموعہ ہے۔ ہائیڈروجن خود آتش گیر گیس ہے جو آگ دکھانے سے ہی فوراً بھڑک اٹھتی ہے اور آکسیجن آگ کو بھڑکنے میں مدد دیتی ہے۔ یہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ یہی دو گیسیں جب کیمیائی طریقہ سے ملائی جاتی ہیں تو جو پانی حاصل ہوتا ہے وہ ان گیسوں سے بالکل برعکس خاصیت رکھتا ہے اور آگ کو فوراً بجھا دیتا ہے۔ قیامت کے دن سمندروں کے پانی کو پھر سے انہی دو گیسوں میں تبدیل کردیا جائے گا۔ پھر ان میں آگ لگ جائے گی اور بالآخر وہ خشک ہوجائیں گے۔ التكوير
7 [٨] زوج کا لفظ بڑا وسیع المعنی ہے اور اس لحاظ سے اس آیت کے مطلب بھی متعدد ہو سکتے ہیں۔ مثلاً ایک یہ ہے کہ قیامت کے دن مردوں کے جسم کو ان کی قبروں سے اٹھا کر ان کے ارواح کو ان جسموں میں ملایا جائے گا اور یہی دوبارہ زندگی کا مفہوم ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جرائم کے لحاظ سے ان کے گروہ بنا دیئے جائیں گے۔ مثلاً مشرکوں کا گروہ الگ ہوگا، منافقون کا الگ، کافروں کا الگ، مومنوں کا الگ یا جیسے زانیوں کا الگ، قاتلوں کا الگ وغیرہ وغیرہ۔ التكوير
8 [٩] زندہ درگور کرنے کی وجوہ اور اس رسم کا سد باب :۔ ایک قراءت میں سُئِلَتْ کے بجائے سَئَلَتْ بھی آیا ہے یعنی زندہ درگور کردہ لڑکی خود اپنے پروردگار سے فریاد کرے گی کہ مجھے کس جرم کی پاداش میں زمین میں گاڑا گیا تھا ؟ لیکن سُئِلَت کی قرائت سَئَلَت سے زیادہ ابلغ ہے جس کا مطلب یہ ہے اللہ تعالیٰ ایسے بے رحم اور سنگدل ظالموں کی طرف نہ دیکھنا پسند کرے گا اور نہ ان سے بات کرنا پسند کرے گا بلکہ ان کے بجائے مظلوم لڑکی کی طرف متوجہ ہو کر اس سے پوچھا جائے گا کہ اسے کس جرم کی پاداش میں قتل کیا گیا تھا ؟ اور یہ انداز خطاب اللہ تعالیٰ کا مجرموں پر انتہائی غضب ناک ہونے پر دلیل ہے۔ رہی یہ بات کہ اہل عرب اتنے سنگدل کیوں واقع ہوئے تھے جو اپنی بیٹیوں کو اس قدر حقیر جنس تصور کرتے تھے کہ انہیں زندہ گاڑ دیتے تھے؟ تو اس کا بیان پہلے متعدد مقامات پر گزر چکا ہے۔ مختصراً اس کی تین وجوہ تھیں (١) وہ تنگدست اور مفلس ہوجانے کے خطرہ سے اولاد کو مار ڈالتے تھے اور اس وجہ کے لحاظ سے لڑکوں اور لڑکیوں میں کوئی فرق نہ تھا۔ (٢) وہ کسی کو اپنا داماد بنانا اپنے لیے باعث ننگ و عار سمجھتے تھے۔ (٣) اور تیسری اور سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ اہل عرب ہر وقت قبائلی جنگوں میں مشغول رہتے تھے اور ایسی جنگوں میں نرینہ اولاد تو ان کی جانشین یا مددگار بنتی تھی۔ مگر لڑکیوں کا معاملہ لڑکوں سے بالکل الگ تھا۔ وہ جس قبیلہ میں بیاہی جاتیں انہیں اسی کا ساتھ دینا پڑتا تھا اور لڑکی کے والدین کے قبیلہ کو اس کے آگے سرنگوں ہونا پڑتا تھا۔ اور غالباً یہی وجہ تھی کہ اہل عرب نے لڑکیوں کو وراثت سے محروم کر رکھا تھا۔ اسلام نے اس نظریہ کو ختم کرنے کے لیے دو طرفہ اقدام کیے۔ ایک تو قتل اولاد اور لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کو عام قتل سے بھی زیادہ شدید جرم قرار دیا اور لوگوں کے اس خیال کی پرزور تردید کی کہ وہ اپنی اولاد کو مار ڈالنے کا حق رکھتے ہیں۔ اور دوسرے لڑکیوں کی تربیت اور پرورش کو بہت بڑا نیک عمل قرار دے کر اس کی ترغیب دی۔ چنانچہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ نے فرمایا : جو شخص ان لڑکیوں کی پیدائش سے آزمائش میں ڈالا جائے۔ پھر وہ ان سے نیک سلوک کرے تو یہ لڑکیاں اس کے لیے جہنم کے عذاب سے بچاؤ کا ذریعہ بنیں گی۔ (ترمذی۔ ابو اب البروالصلۃ۔ باب ماجاء فی النفقات علی البنات) التكوير
9 التكوير
10 [١٠] نُشِرَتْ: نَشَرَ کے معنی کسی چیز کو کھولنا، کھول کر پھیلا دینا اور کوئی خبر مشہور کرنا ہے۔ اور اس کی ضد طوٰی بمعنی لپیٹنا ہے۔ کہتے ہیں نَشَرْتُ الْکِتَابَ ثُمَّ طَوَیْتُہ، یعنی میں نے کتاب کھولی پھر بند کردی۔ یعنی اس دن لوگوں کے اعمال نامے کھول کر ان کے ہاتھوں میں تھما دیئے جائیں گے۔ التكوير
11 [١١] کَشَطَ کا لغوی مفہوم :۔ کُشِطَتْ: کَشَطَ البعیر بمعنی اونٹ کی کھال اتارنا اور کشاط بمعنی اتری ہوئی کھال اور کشاط بمعنی کھال اتارنے والا قصائی یا قصاب، اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آسمان محض ایک ٹھوس جسم ہی نہیں بلکہ اس کے جسم پر کھال کا پردہ بھی ہے اور جس طرح کھال اتارنے کے بعد جسم کے اندرونی اعضاء نظر آنے لگتے ہیں۔ اسی طرح آسمان کی کھال اتارنے کے بعد عالم بالا کی وہ چیزیں نظر آنے لگیں گی جو آج نظر نہیں آتیں۔ التكوير
12 التكوير
13 [١٢] یہ وقت وہ ہوگا جب لوگوں کا حساب کتاب لیا جارہا ہوگا اور اللہ کے فرمانبردار جہنم کو دیکھ کر یہ سمجھ لیں گے کہ اگر وہ اللہ کی فرمانبرداری نہ کرتے تو یہ بھڑکتی ہوئی جہنم ان کا ٹھکانا ہوتا۔ اس پر وہ اللہ کا مزید شکر بجا لائیں گے۔ جس نے دنیا میں انہیں راہ راست پر رکھا۔ اور مجرم لوگ جب جنت کی نعمتوں کو دیکھیں گے پھر یہ خیال کریں گے کہ ان کا اصلی ٹھکانا دوزخ ہے تو ان کی حسرت و یاس میں مزید اضافہ ہوگا۔ التكوير
14 [١٣] اس علم کے ذریعے دو ہوں گے۔ ایک تو ہر انسان اپنے اعمال کا ٹھیک ٹھیک محاسب ہوتا ہے بشرطیکہ وہ حیلے بہانوں یا اپنے نفس کی طرفداری سے کام نہ لے۔ دوسرے ہر شخص کے اعمال نامے بھی کھول کر انہیں دے دیئے جائیں گے۔ ان دو چیزوں سے ہر انسان اللہ تعالیٰ کی عدالت سے فیصلہ سے پہلے ہی یہ سمجھ لے گا کہ آیا وہ جنت کا مستحق قرار پائے گا یا جہنم کا ؟ التكوير
15 [١٤] بطلیموسی نظریہ ہیئت اور خمسہ متحیرہ :۔ مندرجہ بالا آیات میں بارہ واقعات کا ذکر کیا گیا۔ ان میں سے پہلی چھ آیات یا چھ واقعات قیامت کی ابتدا یا نفخہ ئصور اول سے متعلق ہیں اور دوسرے چھ نفخہ صور ثانی یا میدان محشر سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب اسی دنیا کے چند اہم امور کی اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے۔ بطلیموسی نظریہ ہیئت ٤٠٠ قبل مسیح سے لے کر سترہویں صدی تک یعنی دو ہزار سال سے زیادہ عرصہ اتنا مقبول رہا کہ دنیا کے تمام مدارس اور یونیورسٹیوں میں اسی کی تعلیم دی جاتی رہی۔ اس نظریہ کے مطابق زمین کو ساکن اور سورج کو متحرک قرار دیا گیا۔ سات آسمان اور افلاک تسلیم کیے گئے اور ان پر سات سیارے۔ یعنی ہر فلک میں ایک سیارہ محو گردش ہے۔ اور اس نظریہ کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ آج بھی ہندو پاکستان میں جنتریاں اسی نظریہ کے مطابق تیار کی جاتی ہیں۔ اس نظریہ کے مطابق پہلے آسمان پر چاند، دوسرے پر زہرہ، تیسرے پر عطارد چوتھے پر سورج پانچویں پر مشتری، چھٹے پر مریخ اور ساتویں پر زحل گردش کرتے ہیں۔ چاند اور سورج کی گردش ہمیشہ سیدھی آگے کو رہتی ہے۔ جیسے فرمایا ﴿ وَسَخَّــرَ لَکُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَایِٕـبَیْنِ وَسَخَّرَ لَکُمُ الَّیْلَ ﴾ مگر باقی پانچ سیارے سیدھے آگے چلتے چلتے یکدم پیچھے ہٹنا شروع ہوجاتے ہیں یعنی الٹی چال چلنے لگتے ہیں۔ پھر آگے کو بڑھنے لگتے ہیں اور پھر کسی وقت غائب بھی ہوجاتے ہیں۔ ان سیاروں کو خمسہ متحیرہ کہتے ہیں۔ ان دو آیات میں غالباً انہی سیاروں کی قسم کھائی گئی ہے۔ التكوير
16 التكوير
17 [١٥] عَسْعَسَ بمعنی دھندلکا، خواہ یہ شام کا دھندلکا ہو جیسے سورج غروب ہونے کے بعد رات کا اندھیرا چھانے لگتا ہے اور خواہ یہ صبح کا دھندلکا ہو۔ یعنی رات کی تاریکی غائب اور صبح کی روشنی اس پر غالب ہونے لگے۔ اس لحاظ سے اس آیت کا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے۔ ’’اور رات کی جب جانے لگے‘‘ التكوير
18 [١٦] یعنی جب طلوع آفتاب سے قبل اس کی روشنی پھیلنے لگے۔ بعض اس سے وقت مراد لیتے ہیں۔ جب موسم بہار میں نسیم سحر چلنے لگتی ہے۔ التكوير
19 [١٧] جبریل کی صفات ان تین چیزوں کی اللہ تعالیٰ نے دو باتوں پر قسم اٹھائی یا بطور شہادت یہ باتیں پیش کیں۔ ان میں سے پہل بات یہ ہے کہ یہ قرآن نہ کسی کاہن کا قول ہے نہ شاعر کا، نہ آپ کا تالیف کردہ ہے بلکہ یہ معزز رسول کا قول ہے۔ یہ رسول جبریل ہے جو اللہ کا فرستادہ اور اس کا کلام پیش کر رہا ہے لیکن چونکہ جبریل کی زبان سے ہو رہا ہے اس لیے قول کی نسبت جبریل کی طرف کی گئی ہے۔ یہ جبریل بڑا زور آور اور طاقتور ہے۔ سورۃ النجم میں جبریل کے لیے﴿شدید القوی﴾ اور ﴿ذومرۃ﴾ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ فرشتہ اللہ کے ہاں بڑا مقرب ہے۔ وہ ایک افسر ہے جس کی سب فرشتے اطاعت کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ امین بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے جو پیغام دے کر بھیجتا ہے وہ من و عن انسان رسول کے دل پر القاء کردیتا ہے۔ اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کرتا۔ التكوير
20 التكوير
21 التكوير
22 التكوير
23 [١٨] آپ کا جبرئیل کو پہلی بار دیکھنا :۔ اور دوسری چیز جس پر یہ تین قسمیں کھائی گئیں یہ ہے کہ اے کفار مکہ! تمہارے یہ ساتھی (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) دیوانے نہیں ہیں بلکہ دیوانے تم ہو رہے ہو جو یہ اقرار کرنے کے بعد کہ ہمیں اپنے اس ساتھی کے بارے میں جھوٹ یا فریب کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ اب اس کو حواس باختہ اور دیوانہ کہنے لگے ہو۔ اس نے رسول کریم یعنی جبرئیل امین کو اس وقت دیکھا تھا جب سپیدہ سحر کھل کر نمودار ہوچکا تھا اور ہر چیز صاف صاف نظر آنے لگی تھی۔ تاریکی کی بنا پر کسی شک و شبہ کا امکان باقی نہ رہا تھا۔ اس نے جبریل کو افق مبین، جسے سورۃ نجم میں افق اعلیٰ کہا گیا ہے، پر دیکھا تھا۔ جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ نے جبریل امین کو اس حال میں دیکھا تھا کہ پوری فضا میں ایک سبز فرش نظر آرہا تھا اور اس نے آسمان کا کنارہ ڈھانپ لیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل کو ان کی اصلی شکل میں دیکھا تھا۔ ان کے چھ سو پر تھے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر سورۃ النجم) التكوير
24 [١٩] یعنی غیب کی خبریں جو اسے بذریعہ وحی معلوم ہوتی ہیں۔ خواہ زمانہ ماضی سے متعلق ہوں یا مستقبل سے یا مابعد الطبیعات سے، تمام لوگوں کو بلاکم و کاست بتاتا اور پہنچا دیتا ہے۔ وہ کاہنوں کی طرح نہ کسی سے نذرانے یا مٹھائی وصول کرتا ہے اور نہ ہی کسی طرح کے معاوضہ یا اجر کی تم لوگوں سے توقع رکھتا ہے۔ پیغمبر کی سیرت کو بھلا کاہنوں سے کیا نسبت ہوسکتی ہے۔ التكوير
25 [٢٠] کفار مکہ آپ کو کاہن کیوں کہتے تھے؟:۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی چونکہ غیب کی خبریں دیتے تھے اس لیے کفار مکہ یہی سمجھتے تھے کہ آپ کو بھی کوئی جن یا شیطان ایسی خبریں مہیا کرتا ہے۔ چنانچہ ایک دفعہ آپ بیمار ہوگئے اور دو تین راتیں نماز تہجد کے لیے اٹھ نہ سکے تو ابو لہب کی بیوی (عوراء بنت حرب۔ ابو سفیان کی بہن) آپ کے پاس آئی اور کہنے لگی : محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)! میں سمجھتی ہوں تیرے شیطان نے تجھ کو چھوڑ دیا۔ دو تین راتوں سے تیرے پاس نہیں آیا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ والضحی۔۔ ماقلیٰ تک (بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ والضحیٰ) اور کافروں کو بتایا یہ جارہا ہے کہ تمہارا یہ خیال غلط ہے۔ بھلا شیطان سے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ انسان کو شرک، بت پرستی اور دہریت و الحاد سے ہٹا کر اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت اور توحید کی تعلیم دے؟ اللہ کے حضور ذمہ داری اور جوابدہی کا احساس دلائے؟ پاکیزہ زندگی، عدل اور تقویٰ اور اخلاق فاضلہ کی طرف رہنمائی کرے؟ التكوير
26 [٢١] یعنی یہ قرآن لانے والا جبریل امین اور لوگوں تک پہچانے والا رسول امین۔ ان دو امین ہستیوں کی وجہ سے اس قرآن سے جھوٹ، باطل کی آمیزش، رشک و شبہ، تو ہم اور دیوانگی کے سب امکانات ختم ہوئے۔ نیز کاہن یا شیطان کا کلام بھی نہیں ہوسکتا۔ تو ان باتوں کے بعد سوائے سچائی اور حق کے باقی کیا رہ جاتا ہے؟ پھر اس صاف اور روشن راستے کو چھوڑ کر اور کدھر بہکے جارہے ہو؟ التكوير
27 التكوير
28 [٢٢] یعنی یہ قرآن ہے تو سب اہل عالم کے لیے نصیحت، مگر اس نصیحت سے فائدہ اسے ہی پہنچ سکتا ہے جو خود بھی سیدھی راہ پر چلنا چاہے بغض اور کجروی کی راہ اختیار نہ کرے۔ التكوير
29 [٢٣] یعنی تمہارا ارادہ اور تمہارا چاہنا وہی ہوتا ہے جس کا اللہ کو پہلے سے ہی علم ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہ علم تمہیں اس بات پر مجبور نہیں کرتا ہے کہ تم وہی کام کرو جو پہلے سے اللہ کے علم میں ہے۔ مزید وضاحت کے لیے دیکھئے، سورۃ اعراف کی آیت نمبر ٢٤ کا حاشیہ ٢١۔ التكوير
0 [١] یہاں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی وہ حدیث مدنظر رکھنی چاہیے جس میں آپ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کو یہ پسند ہے کہ قیامت کو اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ وہ التکویر، الانفطار اور الانشقاق پڑھ لے۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) الإنفطار
1 [٢] اِنْفَطَرَتْ: فطر کے معنی کسی چیز کو لمبائی میں یوں پھاڑنا کہ اس میں شگاف پڑجائے اور فطور شگاف کے معنی میں آتا ہے۔ اس لحاظ سے انفطر کا معنی چِر جانا بھی درست ہے اور پھٹ جانا بھی۔ جو صورت بھی ہو اس سے آسمان میں شگاف پڑجائیں گے۔ الإنفطار
2 [٣] انتثر کا لغوی مفہوم :۔ اِنْتَثرَتْ: نثر ہراس چیز کو کہتے ہیں جو کسی چیز سے جھڑ کر پراگندہ ہوجائے۔ اور انتثار ناک جھاڑنے کو کہتے ہیں۔ یعنی جس طرح ناک کی رطوبت کے اجزا نہایت بے ترتیبی سے جھڑ کر زمین پر ادھر ادھر جا پڑتے ہیں بس یہی اس لفظ کا معنی ہے۔ نیز واضح رہے کہ یہ لفظ صرف غیر جاندار چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ستاروں کی آپس میں باہمی کشش ختم ہوجانے کی وجہ سے وہ نہایت بے ترتیبی سے ادھر ادھر گرپڑیں گے۔ الإنفطار
3 [٤] فُجِّرَتْ: فجر بمعنی کسی چیز کو وسیع پیمانے پر پھاڑنا اور فجر کو فجر اس لیے کہتے ہیں کہ وہ سارے افق پر نمودار ہوتی ہے اور فجر کے معنی پانی وغیرہ کو پھاڑ کر وسیع علاقے تک چلانا یا جاری کرنا۔ گویا سمندروں کو پھاڑ کر اس کے پانی کو دور دور علاقوں پر زمین میں بہا دیا جائے گا۔ پیچھے سورت التکویر میں سمندروں کے لیے سُجّرَتْ کا لفظ آیا ہے۔ یعنی ان میں تلاطم بپا ہوجائے گا اور پانی باہر دور دور تک پھیل جائے گا۔ پھر یہی پانی گیسوں میں تبدیل ہو کر جلنے لگے گا۔ واللہ اعلم بالصواب۔ بہرحال یہ مختلف اوقات کی مختلف حالتیں مذکور ہوئی ہیں۔ الإنفطار
4 [٥] بعثر کالغوی مفہوم بُعْثِرَتْ۔ بعثر دراصل دو لفظوں کا مرکب ہے۔ بعث اور عثر کا۔ بعث کا ایک معنی (زمین وغیرہ کا) کھودنا اور ڈھونڈنا یا ڈھونڈھ نکالنا بھی ہے۔ اور عثر کے معنی کسی دوسری چیز کے دوران کسی اور چیز کا خود بخود ظاہر ہوجانا، کھل جانا یا سامنے آجانا۔ مطلب یہ ہے کہ جب قبروں کو الٹ پلٹ کیا اور کھودا جائے گا تو مردے خود بخود زمین سے باہر نکل پڑیں گے۔ الإنفطار
5 [٦] اس آیت کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ دنیا میں اس نے پہلی عمر میں کون کون سے کام کیے تھے۔ اور بعد میں کون کون سے اور اعمال ناموں میں یہ سب باتیں ترتیب وار درج ہوں گی۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ انسان کے وہ کون کون سے کام تھے جو اس نے اپنی زندگی میں سرانجام دیئے تھے۔ یہ ماقدّمت ہے اور ایسے کون کون سے کام تھے جن کا ثواب یا عذاب اس کی موت کے بعد بھی اس کے اعمال نامہ میں درج ہوتا رہا۔ یہ ما اخّرت ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے اسلام میں کسی نیک کام کی طرح ڈالی اس کے لیے اس کے اپنے عمل کا بھی ثواب ہے اور جو لوگ اس کے بعد اس پر عمل کریں ان کا بھی ثواب ہے بغیر اس کے کہ ان لوگوں کا ثواب کچھ کم ہو اور جس نے اسلام میں کوئی بری طرح ڈالی۔ اس پر اس کے اپنے عمل کا بھی بار ہے اور ان لوگوں کا بھی جو اس کے بعد عمل کریں بغیر اس کے کہ ان لوگوں کا بار کچھ کم ہو۔ (مسلم، کتاب الزکوٰۃ باب الحث علی الصدقۃ۔۔) الإنفطار
6 [٧] یعنی تجھ پر مہربانیاں کرنے والے پروردگار کی مہربانیوں کا تقاضا یہ تھا کہ تو اس کا احسان مند ہوتا اور اس کا فرمانبردار بن کر رہتا مگر تو اس دھوکے میں پڑگیا کہ تو جو کچھ بنا ہے از خود ہی بن گیا ہے۔ علاوہ ازیں یہ بھی تیرے رب کا کرم ہے کہ تو جو کچھ چاہے کرتا رہتا ہے اور وہ فوری طور پر تم پر کوئی عذاب نازل نہیں کردیتا۔ گویا تو نے اپنے رب کی مہربانیوں کو کمزوری پر محمول کیا اور اسی دھوکے میں پڑگیا کہ تیرے رب کی مملکت میں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ حالانکہ وہ صرف کریم ہی نہیں بلکہ وہ عادل بھی ہے اور قہار اور جبار بھی ہے وہ پکڑتا دیر سے ہے مگر اس کی گرفت اتنی ہی شدید ہوتی ہے۔ الإنفطار
7 الإنفطار
8 [٨] یعنی اس نے رحم مادر میں تجھے پیدا کیا تو یہ نہیں کیا کہ تمہاری ایک ٹانگ چھوٹی ہو اور دوسری بڑی۔ یا ناک کا ایک نتھنا لمبوترا ہو اور دوسرا چپٹا ہو۔ بلکہ تیرے سب اعضاء متوازن بنائے۔ اسی ایک بات سے ان لوگوں کے نظریہ کی تردید ہوجاتی ہے جو کہتے ہیں کہ انسان از خود بنا ہے اور یہ سب فطرت کے اتفاقات کا نتیجہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اندھی فطرت یا اتفاقات میں اتنا شعور ہے کہ انسان کے اعضاء کی تخلیق میں اس قدر یکسانیت اور موزونیت کا لحاظ رکھ سکے؟ پھر اس نے اعضاء کی تخلیق کے بعد تم میں وہ قوتیں اور استعدادیں پیدا کیں جو تمہاری زندگی کے لیے ضروری تھیں۔ پھر ہر انسان کو الگ الگ شکل و صورت عطا کی اور وہ شکل دی اور نقش بنائے جو اللہ خود چاہتا تھا۔ اس طرح ظاہری اور باطنی قوتوں میں حسین امتزاج پیدا کرنے کے بعد تجھے ماں کے پیٹ سے باہر نکالا۔ الإنفطار
9 [٩] یعنی تمہارے اللہ تعالیٰ کی مہربانیوں سے انکار کی وجہ یہ نہیں کہ تمہیں بات کی سمجھ نہیں آتی۔ بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ تم جزا و سزا کے قانون الٰہی کے منکر ہو۔ تمہاری خواہش یہ ہے کہ تم جیسے بھی دنیا میں زندگی بسر کرتے رہو تم سے مرنے کے بعد کوئی محاسبہ نہ ہو اور یہ کس قدر ظلم اور بے انصافی کی بات ہے کہ تمہیں قوتیں اور تصرف و اختیار تو تمام مخلوق پر دیا جائے لیکن تم پر ذمہ داری کچھ بھی نہ ہو؟ یہ دھوکا تمہیں کیسے لگ جاتا ہے؟ الإنفطار
10 الإنفطار
11 الإنفطار
12 [١٠] اعمال لکھنے والے فرشتے :۔ حالانکہ ہم نے تم پر نگران چھوڑ رکھے ہیں جو ہر وقت تمہارے ساتھ لگے رہتے ہیں وہ تمہاری ایک ایک حرکت، ایک ایک قول اور ایک ایک فعل کو ساتھ ساتھ ریکارڈ کرتے جارہے ہیں اور تمہیں خبر بھی نہیں ہوتی۔ یہ لکھنے والے نہایت معزز فرشتے ہیں۔ لکھنے میں کوئی کمی بیشی نہیں کرسکتے۔ یہ ناممکن ہے کہ وہ تمہاری کسی حرکت کو ریکارڈ نہ کریں یا تم نے کوئی کام نہ کیا ہو اور وہ تمہارے اعمال میں درج کردیں۔ پھر وہ تمہاری اس نیت سے بھی واقف ہیں جس کے تحت تم نے کوئی فعل سرانجام دیا تھا۔ لہٰذا ان کے اندراج میں کسی غلطی کا ہونا ناممکن ہے۔ الإنفطار
13 الإنفطار
14 الإنفطار
15 الإنفطار
16 [١١] یعنی نہ اس سے بھاگ کر کسی اور جگہ پناہ لے سکیں گے اور نہ جہنم میں داخل ہونے کے بعد وہاں سے نکل سکیں گے۔ الإنفطار
17 [١٢] یعنی آپ خواہ کتنا ہی سوچیں اور غور کریں اس ہولناک دن کی پوری کیفیت کبھی سمجھ میں نہیں آسکتی۔ مختصراً یہ سمجھ لو کہ اس دن جتنے رشتے ناطے ہیں سب ختم ہوجائیں گے۔ ہر ایک کو بس اپنی ہی پڑی ہوگی۔ کوئی کسی کے کام نہ آسکے گا۔ نہ ہی اللہ کے اذن کے بغیر کوئی کسی کی سفارش کرسکے گا۔ الإنفطار
18 الإنفطار
19 [١٣] دنیا میں کئی طرح کے لوگوں کا دوسروں پر حکم چلتا ہے۔ مثلاً بادشاہوں کا اپنی رعیت پر، افسروں کا اپنے ماتحتوں پر، ماں باپ کا اپنی اولاد پر، مالک کا اپنے نوکر یا غلام پر مگر اس دن یہ سب حکم ختم ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے کسی کو دم مارنے کی جرأت نہ ہوگی۔ بلاشرکت غیرے صرف اسی اکیلے کا اس دن حکم چلے گا جسے سب تسلیم کرنے پر مجبور ہوں گے۔ الإنفطار
0 المطففين
1 [١] تطفیف کا لغوی مفہوم :۔ مُطَفِّفِیْنَ۔ طفیف بمعنی معمولی اور حقیر چیز اور طفّف بمعنی ناپ کا پیمانہ بھرتے وقت تھوڑا سا کم بھرنا یا پیمانہ ہی تھوڑا سا چھوٹا رکھنا تاکہ غلہ لینے والے کو یہ معلوم نہ ہوسکے کہ اسے اس کا حق تھوڑا سا کم دیا جارہا ہے۔ عرب میں زیادہ تر اشیاء کو ناپ کردینے کا رواج تھا۔ تول کردینے کا کم تھا۔ تاہم تھا ضرور۔ ہمارے ہاں زیادہ تر تول کردینے کا رواج ہے۔ تول کر کم دینے کے لیے ہمارے ہاں ڈنڈی مارنے کا محاورہ عام ہے۔ اسی لیے اس کا ترجمہ ڈنڈی مارنے سے کیا گیا ہے پھر ڈنڈی مارنا اس لحاظ سے زیادہ ابلغ ہے کہ دیتے وقت ڈنڈی مار کر چیز کم دی جاسکتی ہے اور لیتے وقت ڈنڈی مار کر چیز تھوڑی سی زیادہ لی جاسکتی ہے۔ نیت کا بگاڑ ہونے کے لحاظ سے کسی کو حق سے کم دینا اور خود لیتے وقت حق سے زیادہ لینا دونوں ہی ایک جیسے جرم یعنی کبیرہ گناہ ہیں۔ المطففين
2 [٢] ڈنڈی مارنے کی مختلف صورتیں :۔ ناپ کر اپنا حق پورا لینا کوئی جرم کی بات نہیں۔ یہ جرم صرف اس وقت بنتا ہے جب اپنا حق تو پورا لیا جائے اور دوسروں کو کم دیا جائے۔ پھر اس جرم میں کمی بیشی کی کئی صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی اپنا حق بھی کم لے اور دوسروں کو بھی کم دے۔ بالفاظ دیگر اس کا پیمانہ یا باٹ ہی چھوٹاہو اسی سے وہ لاتا بھی ہو اور دیتا بھی ہو اور ڈنڈی بھی نہ مارتا ہو۔ اس صورت میں بھی یہ جرم ہے مگر جرم کی شدت کم ہوجاتی ہے۔ دوسری یہ کہ آدمی لیتے وقت پورا یا زیادہ لے اور دیتے وقت کم دے۔ اس صورت میں جرم دگنا بلکہ تگنا ہوجاتا ہے۔ لین دین کی اصل بنیاد عدل ہے یعنی پورا پورا دو۔ اور قرآن کریم میں بے شمار مقامات پر اس کی سخت تاکید آئی ہے کہ جب تولو تو سیدھی ڈنڈی سے تولو اور اور کسی کو اس کا حق کم نہ دو۔ پورا یا زیادہ لینا اور دوسروں کو کم دینا اتنا بڑا جرم ہے جس کی وجہ سے سیدنا شعیب علیہ السلام کی قوم پر عذاب نازل ہوا تھا۔ اسلام نے مسلمانوں کو عدل سے بھی اگلے درجہ یعنی احسان یا ایثار کی ہدایت فرمائی ہے اور وہ یہ ہے کہ آدمی اپنا حق لیتے وقت تھوڑے سے کم پر اکتفا کرلے اور دیتے وقت تھوڑا سا زیادہ دے دے۔ چنانچہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی منڈی میں تشریف لے گئے۔ ایک تولا غلہ تول رہا تھا اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی کہ ”زِن وارجح“ (نسائی، کتاب البیوع) یعنی تول اور تھوڑا سا جھکتا تول۔ غور فرمائیے جس معاشرہ میں ایسا دستور رواج پا جائے اس میں کوئی لین دین کا تنازعہ پیدا ہوسکتا ہے؟ جھکتا تولنے کی ہدایت :۔ اور جو شخص جھکتا تول کر دے رہا ہے اسے جب اس کا حق ملے گا تو وہ بھی جھکتا ہی ملے گا۔ اور اسے بھی کوئی کسر نہ رہے گی پھر ایسے معاشرہ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکتوں کا جو نزول ہوگا اس کا اندازہ تجربہ سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ المطففين
3 [٣] یعنی دوسروں کو ان کا حق کم دینے یا خود اپنے حق سے زیادہ وصول کرنے کے جرم میں مبتلا ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کا نہ روز آخرت پر ایمان ہوتا ہے اور نہ اللہ کے حضور پیش ہو کر اپنے اعمال کی جوابدہی پر۔ اگر ان کا اس محاسبہ پر ایمان ہوتا تو کبھی ایسی بدنیتی اور مفاد پرستی کے کام نہ کرتے۔ المطففين
4 المطففين
5 [٤] وہ بڑا دن اس لحاظ سے ہے کہ قیامت تک پیدا ہونے والے تمام جن و انس کا اس دن حساب لیا جائے گا۔ اور علی رؤس الشہادات ان کا فیصلہ کیا جائے گا۔ المطففين
6 المطففين
7 [٥] یعنی تمہارا یہ خیال باطل ہے کہ نہ قیامت آنی ہے اور نہ تمہارا محاسبہ ہونا ہے۔ بلکہ تمہارا محاسبہ ہوگا اور ضرور ہوگا۔ [٦] سجین۔ سجن بمعنی قید خانہ، جیل اور سجن بمعنی عدالت کا ثبوت جرم کے بعد بطور سزا کسی کو قید میں ڈال دینا۔ اور سجین سے مراد وہ مقام یا دفتر ہے جہاں بدکردار لوگوں کے اعمال نامے بھی محفوظ کرلیے جاتے ہیں اور ایسے لوگوں کی ارواح بھی تاقیام قیامت اسی مقام پر قید رکھی جاتی ہیں۔ بعض اسلاف کے نزدیک یہ مقام سات زمینوں کے نیچے ہے۔ المطففين
8 المطففين
9 المطففين
10 المطففين
11 المطففين
12 [٧] یعنی روز جزا کا منکر صرف وہی شخص ہوسکتا ہے جسے نہ اللہ کی قدرت کاملہ پر ایمان ہو نہ اس کی صفت عدل پر اور نہ اس کی حکمت پر، جو شخص اللہ کی ان صفات پر یقین رکھتا ہو وہ قیامت کے دن کا انکار کر ہی نہیں سکتا۔ اور جب اسے روز جزا کا یقین نہیں رہتا تو پھر وہ ہر طرح کے گناہوں پر دلیر ہوجاتا ہے۔ المطففين
13 [٨] بالآخر اس کا یہ حال ہوجاتا ہے کہ جب اسے اخروی عذاب و ثواب سے متعلق اللہ کی آیات سنائی جاتی ہیں تو کہہ دیتا ہے اجی چھوڑو ان باتوں کو۔ یہ تو وہی پرانی باتیں ہیں جنہیں سن سن کر ہمارے کان بھی پک گئے ہیں۔ المطففين
14 [٩] گناہ کرنے سے دل پر سیاہ نقطہ پڑنا :۔ اصل بات یہ نہیں کہ ہماری آیات میں کوئی شک و شبہ ہے یا ان میں تاثیر کی قوت نہیں بلکہ اصل معاملہ یہ ہے کہ گناہ کر کرکے ان کے دل مسخ اور زنگ آلود ہوچکے ہیں۔ ان میں حق و باطل کو پرکھنے کی تمیز ہی باقی نہیں رہ گئی۔ اس آیت کی تفسیر حدیث میں اس طرح ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ پڑجاتا ہے۔ پھر اگر وہ گناہ چھوڑ دے ' استغفار کرے اور توبہ کرلے تو اس کا دل صاف کردیا جاتا ہے اور اگر وہ دوبارہ گناہ کرے تو نقطہ بڑھ جاتا ہے حتیٰ کہ دل پر چھا جاتا ہے۔ اور یہی وہ زنگ ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر کیا ہے۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) المطففين
15 [١٠] اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہونے کی نعمت صرف اہل جنت کو حاصل ہوگی اور لذت و سرور کے لحاظ سے یہ نعمت جنت کی دوسری تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہوگی اور جب اللہ اپنے دیدار سے مشرف فرمائے گا تو جنتی لوگ بس ادھر ہی دیکھتے رہ جائیں گے۔ جو لوگ روز آخرت کے منکر تھے انہیں یہ نعمت کبھی میسر نہ ہوسکے گی۔ المطففين
16 المطففين
17 [١١] یعنی جہنم میں داخل کرنے کے بعد ان سے سوال کیا جائے گا کہ بتاؤ یہ جہنم کا عذاب پرانے لوگوں کی داستان ہے یا ایک ٹھوس حقیقت؟ آج تو تمہارا یہ مغالطہ دور ہو ہی چکا ہوگا۔ المطففين
18 [١٢] فاجر اور ابرار کا لغوی مفہوم :۔ یہاں فجار کے مقابلہ میں ابرار کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ فَجَرَ کے معنی کسی چیز کو وسیع طور پر پھاڑنا اور فجر کو فجر اس لیے کہتے ہیں کہ وہ سارے آسمان پر نمودار ہوجاتی ہے۔ اور فاجر وہ شخص ہے جو وسیع پیمانے پر دین کی نافرمانی کرنے والا ہو اور ہر وقت گناہوں میں منہمک رہتا ہو اور گناہوں سے تائب نہ ہو۔ اس کے مقابلہ میں ابرار ہے۔ برّ کے معنی نیکی، نیکی کے کام اور بر کے معنی وسیع خشک قطعہ زمین ہے گویا بر کے لفظ میں نیکی کے علاوہ وسعت کا تصور بھی پایا جاتا ہے۔ اور بر دراصل نیکی کو نہیں بلکہ ہر دم نیکی پر مائل رہنے والی خصلت کو کہتے ہیں کہ جب کسی نیکی کا موقع آئے اسے فوراً سرانجام دے دیا جائے اور بارّ وہ شخص ہے جو ایسی خصلت رکھتا ہو اور اسی کی جمع ابرار ہے۔ [١٣] یعنی جس طرح سجین بدکردار لوگوں کی ارواح کا قید خانہ اور ان کے اعمالناموں کے جمع ہونے کا دفتر ہے۔ اسی طرح علیین ابرار کی ارواح کا مستقر ہے اور ان کے اعمالنامے اسی مقام پر محفوظ رکھے جاتے ہیں۔ بعض اسلاف کے قول کے مطابق یہ مقام سات آسمانوں کے اوپر ہے۔ واللہ اعلم بالصواب المطففين
19 المطففين
20 المطففين
21 [١٤] یعنی علیین ایسا بلند مرتبہ مقام ہے کہ وہاں ہر وقت اللہ کے مقرب فرشتے موجود رہتے ہیں یا اللہ کے مقرب بندوں کی ارواح وہاں موجود رہتی ہیں۔ یا مقرب فرشتے وہاں ابرار کے اعمالناموں کو دیکھتے اور پڑھ کر خوش ہوتے ہیں اور قیامت کے دن ان کے حق میں گواہی دیں گے۔ المطففين
22 المطففين
23 المطففين
24 [١٥] یعنی جنت کی تمام نعمتوں سے مزے اڑائیں گے۔ شہنشاہوں کی طرح اونچی مسندوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے۔ ان کے پررونق چہرے ہی یہ بتا رہے ہوں گے کہ وہ جنت کی نعمتوں میں بڑی خوشحالی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کی نگاہیں بڑی تیز ہوں گی۔ وہ وہاں بیٹھے بیٹھے ہی دوسرے اہل جنت کے اعمال دیکھ لیا کریں گے۔ اسی طرح اگر انہیں دنیا کا کوئی ایسا ساتھی یاد آئے گا جو دوزخ میں پڑا ہوگا۔ وہ اس کے حالات سے باخبر ہونا چاہیں گے تو اس کا بھی نظارہ کرسکیں گے۔ المطففين
25 المطففين
26 [١٦] جنت کی شراب کے خواص :۔ دنیا کی شراب بدبودار ہوتی ہے اور ذائقہ تلخ، پینے سے اس کی سڑانڈ فوراً دماغ تک جاپہنچتی ہے جس سے انسان کے حواس مختل ہوجاتے ہیں۔ اس کے برعکس جنت میں شراب کی یہ خاص قسم رحیق کی خوشبو ایسی ہوگی جیسے کستوری کی۔ اس کی مہر میں لاکھ یا مٹی یا موم کے بجائے کستوری لگائی گئی ہوگی اور اس میں دنیا کی شراب والی کوئی قباحت نہیں ہوگی۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا کی ناپاک شراب اس قابل نہیں کہ بھلے آدمی اس کی طرف رغبت کریں۔ ہاں یہ رحیق یقیناً ایسی نعمت ہے جس پر لوگوں کو ٹوٹ پڑنا چاہیے اور اس کے حصول کے لیے نیک اعمال میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ المطففين
27 المطففين
28 [١٧] یعنی ابرار کے لیے تو ﴿رحیق مختوم﴾ ہوگی اور مقربین کے لیے بھی یہی شراب ہوگی لیکن اس میں تسنیم کی آمیزش بھی ہوگی۔ تسنیم جنت میں ایک چشمہ کا نام ہے شاید اس چشمہ کے پانی کی ملاوٹ سے وہ شراب مزید خوشگوار بن جاتی ہوگی۔ المطففين
29 المطففين
30 المطففين
31 المطففين
32 [١٨] ان چار آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کی چار حرکتوں کا ذکر فرمایا۔ اور یہ سب مسلمانوں کا تمسخر اڑانے اور ان پر پھبتیاں کسنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ مسلمانوں کو گمراہ تو اس لحاظ سے کہتے تھے کہ مسلمان زہد و ریاضت میں اپنی جانیں کھپاتے اور دنیا کی لذتوں پر اخروی لذتوں کو ترجیح دیتے تھے۔ کافر یہ کہتے تھے کہ کیا یہ کھلی گمراہی نہیں کہ سب گھر بار اور عیش و آرام کو چھوڑ کر ایک شخص کے پیچھے لگ گئے ہیں اور اپنے آبائی دین کو ترک کر بیٹھے ہیں۔ محض اس خیال سے کہ آخرت میں انہیں جنت ملے گی۔ بھلا ان بے وقوفوں کو یہ کیسا فاسد خیال دامن گیر ہوا ہے کہ دنیا کی یقینی لذتوں کو چھوڑ کر آخرت کی تصوراتی لذتوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ یہی وہ باتیں تھیں جنہیں دہرادہرا کردہ خود بھی خوش ہوتے رہتے تھے اور مسلمانوں کی طرف اشارے بھی کرتے اور ان کا مذاق بھی اڑاتے رہتے تھے۔ المطففين
33 [١٩] یعنی اللہ نے انہیں مسلمانوں پر نگران بنا کر تو نہیں بھیجا تھا کہ ان کی نظروں میں مسلمانوں میں جو جو غلطیاں پائی جاتی ہیں ان کی وہ نشاندہی کیا کریں۔ یعنی اے کفار مکہ! اگر مسلمان تمہارے خیال کے مطابق غلط رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں پھر بھی تمہیں تو کچھ نہیں کہتے۔ پھر کیا اللہ نے تمہیں ان پر فوجدار بنا کر تو نہیں بھیجا کہ اگر تمہیں نہیں ستاتے یا نہیں چھیڑتے تب بھی تمہیں یہ حق ہے کہ ان کو تنگ کرو۔ ان کا مذاق اڑاؤ اور ان پر پھبتیاں کسو۔ المطففين
34 المطففين
35 المطففين
36 [٢٠] کفار مکہ مسلمانوں سے ایسی بدسلوکی اپنے دین کی حمایت میں ایک اچھا کام یعنی کار ثواب سمجھ کر کرتے تھے۔ قیامت کے دن ان کافروں کو ان کے اس کار ثواب کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا جب یہی خستہ حال مومن جنت میں اونچی مسندوں پر براجمان ہوں گے اور وہیں سے ان کافروں کا نظارہ کر رہے ہوں گے۔ ان کا مضحکہ اڑائیں گے اور ان سے پوچھیں گے کہ بتاؤ احمق دیوانے اور گمراہ تم تھے یا ہم؟ المطففين
0 الانشقاق
1 الانشقاق
2 [١] اَذنَ لَہ، کے معنی کسی کے حکم یا بات پر کان لگانا یا توجہ سے سننا تاکہ فوراً اس کے حکم کی تعمیل کی جائے۔ واضح رہے کہ جن و انس کے سوا کائنات کی جملہ اشیاء اللہ تعالیٰ کے حکم تکوینی کی تعمیل کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی ہیں۔ انہیں یہ اختیار ہی نہیں دیا گیا کہ وہ حکم کی سرتابی کرسکیں بالفاظ دیگر ان اشیاء کی اطاعت اضطراری ہوتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب آسمان کو پھٹ جانے کا حکم دیا جائے گا تو وہ بلا چون و چرا پھٹ جائے گا۔ الانشقاق
3 [٢] زمین کو کھینچ کر لمبا کرنے کا مفہوم :۔ مُدَّتْ۔ مَدَّ بمعنی کسی چیز کو لمبائی میں کھینچ کر پھیلانا اور اسے لمبا کردینا۔ جیسے اللہ تعالیٰ سایوں کو یا بادلوں کو لمبا کرتا اور پھیلا دیتا ہے واضح رہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ زمین کو کھینچ کر چپٹی بنادے گا۔ زمین کو اللہ نے پہلے ہی پھیلا دیا اور لمبا کردیا ہے۔ اس دن صرف یہ ہوگا کہ سارے سمندر خشک کرکے زمین میں شامل کردیے جائیں گے جس سے زمین کا رقبہ چار گنا ہوجائے گا پھر پہاڑوں کو زمین بوس کردیا جائے گا اس کی اونچی اور نیچی سب جگہیں برابر کردی جائیں گی۔ اس طرح اسی زمین کا رقبہ اتنا زیادہ ہوجائے گا کہ اسی زمین پر سیدنا آدم (علیہ السلام) سے لے کے قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں اور قیامت تک جنوں کی تمام نسل کو یکجا اکٹھا کردیا جائے گا۔ یہی زمین میدان محشر بن جائے گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ میدان محشر کے لیے اللہ اس زمین کے علاوہ کوئی دوسری زمین پیدا کردے۔ جیسا کہ ایک دوسری آیت ﴿ یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ ﴾ سے معلوم ہوتا ہے۔ الانشقاق
4 [٣] جتنے مردے اس میں مدفون ہیں یا مردوں کے ذرات اس میں مل جل گئے ہیں وہ سب نکال کر باہر کردے گی اور سطح زمین پر لے آئے گی۔ اسی طرح اس میں جو معدنیات، تیل کے چشمے اور جلنے والی گیسوں کے خزانے موجود ہیں سب باہر اگل دے گی۔ اسی طرح لوگوں کے اعمال کی جو شہادتیں اس کے اندر موجود ہوں گی جنہیں موقعہ کی شہادت یاقرائن شہادت کہتے ہیں۔ وہ سب بھی پوری کی پوری باہر آجائیں گی اور کوئی چیز اس میں چھپی ہوئی اور دبی ہوئی نہ رہ جائے گی۔ الانشقاق
5 الانشقاق
6 [٤] کَدْحا کا لغوی مفہوم :۔ کَدْحاً۔ کَدَحَ بمعنی کام میں بہت محنت کرنا۔ تکلیفیں سہہ سہہ کر کام کرنا۔ بمشقت کوئی کام کرتے جانا اور اس کی صورت یہ ہوتی کہ انسان کے دل میں ایک خواہش پیدا ہوتی ہے جسے پورا کرنے کے وہ درپے ہوجاتا ہے اور وہ کام ابھی پورا بھی نہیں ہوچکتا کہ کوئی اور خواہش یا خواہشیں انسان کے دل میں پیدا ہوجاتی ہیں۔ پھر وہ پہلی خواہش کی تکمیل کے بعد، بعد والی خواہش کی تکمیل کے لیے کمر ہمت باندھ لیتا ہے اور اسی طرح اس کی تمام زندگی بیت جاتی ہے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ خواہش کرنے والا انسان ایک دنیادار ہے اور اس کی تمام تر خواہشات کا محور دنیوی مفادات کا حصول ہے۔ یا وہ ایک دیندار اور اللہ کا فرمانبردار انسان ہے اور جو کچھ وہ کرتا ہے اپنے اخروی مفادات کے حصول کے لیے کرتا ہے۔ محنت مشقت کرنے اور تکلیفیں سہہ سہہ کر کام کرتے رہنے کے لحاظ سے دونوں کا طریقہ کار یکساں ہوتا ہے تاآنکہ اسے موت آلیتی ہے اور وہ خود بخود اللہ کے حضور پہنچ جاتا ہے۔ اب اگر کوئی شخص اپنی تگ و دو کے متعلق یہی سمجھتا رہے کہ یہ صرف دنیا کی زندگی تک ہی محدود ہے تو اس کی اس غلط سوچ سے حقیقت میں کچھ فرق نہیں پڑجائے گا اور وہ اپنے پروردگار کے پاس پہنچ کر ہی دم لے گا۔ الانشقاق
7 الانشقاق
8 [٥] آسان حساب کیا ہے؟ آسان حساب یہ ہے کہ جس کی نیکیوں کا پلڑا بھاری نکلا اس سے اس کی برائیوں کے متعلق یہ سوال نہیں کیا جائے گا کہ تم نے فلاں برا کام کیوں کیا تھا ؟ کیا تمہارے پاس اس کے لیے کوئی عذر ہے؟ بلکہ اس کی خطاؤں سے درگزر کیا جائے گا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’قیامت کے دن جس شخص سے حساب لیا گیا وہ تباہ ہوا‘‘ میں نے کہا : ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ جس کو اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا اس سے جلد ہی آسان سا حساب لیا جائے گا‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’یہ محض پیشی ہوگی۔ انہیں ان کے اعمال بتا دیئے جائیں گے اور جس کے حساب کی تحقیق شروع ہوگئی وہ تباہ ہوا۔‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) نیز کتاب العلم۔ باب من سمع شیئا فلم یفہمہ۔۔) الانشقاق
9 [٦] اہل سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا اس سے پہلے اسی طرح کا آسان سا حساب لیا جاچکا ہوگا اور انہیں جنت کا پروانہ مل چکا ہوگا اور اگر اس کے اپنے اہل و عیال فی الواقع ایسے ہی لوگوں میں سے ہوں گے تو یہ اس کے لیے اور زیادہ خوشی کی بات ہوگی۔ الانشقاق
10 [٧] سورۃ الحاقہ میں فرمایا کہ اس کا اعمال نامہ اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اور یہاں یہ فرمایا کہ پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائے گا۔ یہ دونوں باتیں درست ہیں اور ان میں تطبیق کی صورت یہ ہوگی کہ بدبختوں کو یہ تو پہلے ہی معلوم ہوگا کہ انہیں ان کا اعمال نامہ بائیں ہاتھ میں دیا جانے والا ہے اس لیے کہ انہیں اپنے کرتوتوں کا پورا علم ہوگا لہٰذا وہ اپنا بایاں ہاتھ پیٹھ کے پیچھے کرلیں گے۔ تاکہ اعمال نامہ پکڑتے وقت کم از کم سامنے والے لوگوں کے سامنے ان کی رسوائی نہ ہو۔ الانشقاق
11 الانشقاق
12 [٨] بائیں ہاتھ میں اعمال نامہ پکڑنے کے بعد اسے اپنا سارا انجام نظر آنے لگے گا لہٰذا وہ موت کو پکارے گا اور مرنے کی کوشش کرے گا مگر اسے موت کہاں میسر ہوگی۔ انسان اس دنیا میں مرنے پر مجبور ہے اس دنیا میں جینے پر مجبور ہوگا۔ وہ انہی خیالوں میں پڑا ہوگا کہ جہنم اسے اپنے قبضے میں لے لے گی اور وہ اس میں از خود گر پڑے گا۔ الانشقاق
13 [٩] یہ شخص اپنے گھر میں گلچھرے اڑاتا تھا۔ حرام اور حلال جو بھی طریقہ اسے بن پڑتا وہ دنیا کا مال اکٹھا کرتا تھا۔ خود بھی عیش کرتا تھا اور گھر والوں کو بھی عیش کراتا تھا۔ اس کی زندگی اللہ سے ڈرنے والوں سے بالکل مختلف تھی جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے گھر والوں کی محبت ہی کہیں ہمارے لیے فتنہ اور آزمائش کا سبب نہ بن جائے۔ الانشقاق
14 [١٠] حار کا لغوی مفہوم یَحُوْر : حار بمعنی گھوم پھر کراسی جگہ واپس آجانا جہاں سے چلا تھا۔ گویا اس لفظ کے معنی میں دو باتیں بنیادی طور پر پائی جاتی ہیں۔ (١) گھومنا (٢) رجوع' کہتے ہیں۔ حار الماء فی الغدیر یعنی پانی حوض میں گھومنے لگا اور محور اس ڈنڈے کو کہتے ہیں جس کے گرد چرخی گھومتی ہے۔ یعنی اسے یہ خیال تک نہیں تھا کہ دنیا کے ان مختلف اقسام کے دھندوں کے بعد بالآخر مجھے اپنے پروردگار کے پاس ہی پہنچنا ہے۔ الانشقاق
15 [١١] یعنی اس کی پیدائش سے لے کر اس کی موت تک کے کارناموں پر اللہ کی نظر تھی کہ اس کی روح کہاں سے آئی، بدن کس کس چیز سے بنا، پھر پیدا ہو کر وہ کیسے اعمال بجا لاتا رہا۔ مرنے کے بعد اس کی روح کہاں ہے اور بدن کے اجزاء بکھر کر کہاں کہاں پہنچے۔ یہ سب باتیں اللہ کی نگاہ میں تھیں۔ اور یہ بات اللہ کی حکمت اور اس کے انصاف کے خلاف تھی کہ جیسے اعمال وہ کر رہا تھا اس کو نظر انداز کردیتا اور اس سے کوئی مؤاخذہ نہ کرتا۔ الانشقاق
16 الانشقاق
17 [١٢] وَسَقَ کا لغوی مفہوم سورج کے طلوع ہونے کے بعد سب انسان تلاش معاش کی خاطر اور دوسرے چرند پرند اپنی پیٹ پروری کی خاطر اپنے اپنے گھروں سے باہر چلے جاتے ہیں اور جب رات آتی ہے تو سب آرام کے لیے اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹ آتے ہیں اور یہی وسق کا مفہوم ہے یعنی کسی چیز کا اپنے منتشر اجزاء کو اکٹھا کرنا اور سمیٹ لینا۔ الانشقاق
18 [١٣] اِتَّسَقَ کا بھی مادہ وَسَقَ ہی ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ اس چیز کے سب اجزاء مجتمع ہوگئے اور وہ مکمل ہوگئی یعنی چاند ہلال سے بڑھتا بڑھتا بدر کامل بن گیا۔ الانشقاق
19 [١٤] اس مقام پر تین باتوں کی قسم کھائی گئی ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات میں حرکت ہی حرکت ہے، سکون اور ٹھہراؤ نہیں۔ پھر یہ حرکت بھی یکدم واقع نہیں ہوجاتی بلکہ اس میں تدریج کا اصول کام کر رہا ہے۔ سورج غروب ہوتا ہے تو یک دم تاریکی نہیں چھا جاتی بلکہ کچھ دیر تک اس کے اثرات باقی رہتے ہیں۔ رات بھی بتدریج اپنے مکینوں کو اپنی اپنی قرار گاہ کی طرف کھینچ لاتی ہے۔ چاند بھی مکمل ہوتا ہے تو آہستہ آہستہ ہوتا ہے۔ اس میں کئی دن لگ جاتے ہیں۔ تاہم مکمل ضرور ہوتا ہے۔ اسی طرح تم بھی بتدریج منزل بہ منزل اپنی آخری منزل کی طرف بڑھے چلے جارہے ہو اور تمہیں وہاں جاکر دم لینا ہے۔ پہلے انسان نطفہ تھا۔ رحم مادر میں ہی اس کی سات حالتیں بدلیں۔ پھر بچپن، بچپن سے جوانی، جوانی سے بڑھاپا اور بڑھاپے سے موت۔ یہ ایسی منزلیں ہیں جنہیں طے کرنے میں انسان بالکل بے بس اور مجبور ہے۔ ان میں سے کوئی منزل حذف کرنا چاہے تو وہ قطعاً ایسا نہیں کرسکتا۔ رہی یہ بات کہ انسان کی آخری منزل کیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ جنت یا دوزخ ہے۔ گویا انسان مرنے کے بعد بھی کئی منازل طے کرنے پر مجبور ہوگا۔ اسے عذاب و ثواب قبر سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اسے مرنے کے بعد دوبارہ جی کر اٹھنا ہوگا۔ اسے قیامت کی سختیاں سہنا ہوں گی۔ اسے اللہ کی عدالت میں پیش ہونا پڑے گا۔ دنیا میں بھی اللہ کا ایسا ہی قانون کار فرما ہے۔ آخرت میں بھی یہ سب واقعات پیش آکے رہیں گے اور اس میں انسان کے اپنے ارادہ و اختیار کو کچھ دخل نہ ہوگا۔ الانشقاق
20 [١٥] یعنی کئی طرح کے تغیرات خود ان کی ذات پر وارد ہو رہے ہیں۔ اور کئی طرح کے تغیرات وہ کائنات میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں پھر بھی انہیں اس بات کا یقین نہیں آتا کہ اللہ کے سامنے بالکل مجبور و بے بس ہیں۔ وہ کچھ ہوگا جو اللہ چاہے گا۔ ان کے چاہنے نہ چاہنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ انہیں بہرحال اللہ کے فیصلہ کے مطابق اللہ کے حضور پیش ہونا پڑے گا اور اس سے یقیناً محاسبہ کیا جائے گا۔ الانشقاق
21 [١٦] اس آیت کی تلاوت کے بعد سجدہ کرنا چاہیے جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے۔ ابو رافع کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے عشاء کی نماز پڑھی۔ انہوں نے یہی سورت پڑھی اور (یسجدون) پر سجدہ کیا۔ میں نے کہا۔ یہ کیا ؟ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی۔ انہوں نے یہی سورت پڑھی تو سجدہ کیا اور میں تو ہمیشہ اس میں سجدہ کرتا رہوں گا۔ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے دوسری روایت یوں ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سورۃ ﴿ اذا السماء انشقت﴾ اور سورۃ اقرأ میں سجدہ کیا۔ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب سجود القرآن) الانشقاق
22 [١٧] یعنی قرآن کو سن کر بھی ان کے دل میں اللہ کا خوف پیدا نہیں ہوتا نہ مسلمانوں کی طرح اس کے آگے جھکتے یا سجدہ کرتے ہیں۔ بلکہ الٹا قرآن کو ہی جھٹلانے لگتے ہیں اور جو کچھ قرآن پیش کرتا ہے سب باتیں جھوٹی ہی سمجھتے ہیں۔ الانشقاق
23 [١٨] وعی کا لغوی مفہوم :۔ یُوْعُوْنَ۔ وعی کا معنی کسی چیز کو تھیلی میں رکھ کر اوپر سے اس کا منہ بند کردینا ہے اس لحاظ سے وعی کا معنی بخل کرنا بھی ہوسکتا ہے۔ حفاظت کرنا بھی اور چھپا کر رکھنا بھی اور کسی چیز کو یاد رکھنا بھی۔ یہاں یہ لفظ تیسرے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی کافر لوگ جو بغض و عناد اور کینہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ الانشقاق
24 الانشقاق
25 [١٩] مَنَّ کا لغوی مفہوم :۔ مَمْنُوْن۔ منّ کا لفظ تین معنوں میں آتا ہے (١) احسان کرنا (٢) احسان جتلانا (٣) کاٹنا اور کٹنا۔ یعنی قطع و انقطاع۔ یہاں یہ لفظ تیسرے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اور اس معنی میں لازم و متعدی دونوں طرح آتا ہے۔ من میں انقطاع یک دم نہیں ہوتا بلکہ کسی چیز کے آہستہ آہستہ کم ہو کر ختم ہوجانے اور اس طرح سلسلہ منقطع ہوجانے کے معنوں میں آتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اہل جنت کو جو اجر ملے گا اس میں نہ کبھی کمی واقع ہوگی اور نہ ہی اس میں انقطاع واقع ہوگا۔ الانشقاق
0 البروج
1 [١] آسمان اور اسکے برج :۔ بطلیموسی نظریہ ہیئت کے مطابق فلک ہشتم کو بارہ برجوں میں تقسیم کیا گیا ہے جو دراصل ستاروں کے جھرمٹ یا مجمع النجوم (Constellations) ہیں۔ جنہیں دیکھنے سے ایک مخصوص تصور یا شکل ذہن میں آجاتی ہے۔ ان برجوں کے ناموں سے ہی ان کی شکلوں کا کچھ نہ کچھ تصور ذہن میں آ جاتا ہے۔ ان کے نام درج ذیل شعر میں منظوم کیے گئے ہیں۔ حمل و ثور و جوزا، سرطان و اسد سنبلہ، میزان، عقرب، قوس، جدی دلو و حوت انہیں بروج کے متعلق اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحجر کی آیت نمبر ١٠ میں فرمایا : ’’اور ہم نے آسمان میں برج بنائے اور اس آسمان کو دیکھنے والوں کے لیے سجا دیا‘‘ اب اگر ایک عام قاری اس آیت میں بروج کے لفظ سے وہی بارہ برج مراد لیتا ہے جو اہل ہیئت نے فلک ہشتم پر بنا رکھے ہیں تو یہ اس کی مرضی ہے ورنہ آیت کا سیاق و سباق اس بات کی تائید نہیں کرتا کیونکہ ان برجوں میں سے اکثر برجوں کی اشکال کا زینت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ بھلا سرطان، بچھو، ترازو اور ڈول کیا خوبصورتی پیدا کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر علماء نے یہاں بروج سے ستارے اور سیارے مراد لیے ہیں۔ جو رات کے وقت آسمان کو زینت بخشتے ہیں۔ لغوی لحاظ سے ہم ہر نمایاں طور پر ظاہر ہونے والی چیز کو برج کہہ سکتے ہیں۔ البروج
2 البروج
3 [٢] آیت نمبر ٢ میں ﴿الیوم الموعود﴾سے مراد تو قیامت کا دن ہے مگر آیت نمبر ٣ میں شاہد اور مشہود کی تعبیر میں بہت اختلاف واقع ہوا ہے۔ کسی نے کہا کہ شاہد سے مراد جمعہ کا دن ہے جو ہر قریہ اور ہر شہر میں ہر جگہ حاضر ہوتا ہے۔ اور مشہود سے مراد عرفہ کا دن ہے۔ جب کہ دنیا کے گوشے گوشے سے لوگ وہاں حاضر ہوتے ہیں کسی نے کہا شاہد سے مراد یوم النحر اور مشہود سے مراد یوم عرفہ ہے وغیرہ وغیرہ لیکن ربط مضمون کے لحاظ سے یہی تعبیر بہتر معلوم ہوتی ہے کہ مشہود سے مراد بھی قیامت کا دن ہو اور شاہد سے مراد قیامت کے دن اکٹھا کی جانے والی خلقت سے ہر فرد مراد ہو جو قیامت اور اس کی ہولناکیوں کو بچشم خود ملاحظہ کر رہا ہو۔ اور چوتھا مفہوم یہ ہے کہ شاہد سے مراد انبیاء اور صلحاء لیے جائیں اور مشہود سے مراد ان کی قومیں جن پر وہ گواہی دے کر ان پر حجت قائم کریں گے۔ البروج
4 [٣] اُخدود۔ الخدّ والاخدود۔ اخدود کا لفظ صاحب منجد کے نزدیک واحد ہے جبکہ بعض دوسرے اسے خدّ کی جمع بتاتے ہیں۔ بمعنی ایک لمبا اور گہرا گڑھا جو خود کھودا گیا ہو بمعنی خندق اور جمع کی صورت میں اس کا معنی خندقیں ہوگا۔ البروج
5 البروج
6 البروج
7 [٤] اصحاب الاخدود کا قصہ اور ذونواس یہودی بادشاہ :۔ اس ضمن میں درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے :۔ صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ : ایک بادشاہ کا ایک کاہن تھا جو اسے غیب کی خبریں دیا کرتا تھا۔ کاہن نے بادشاہ سے کہا کہ ایک ذہین و فطین لڑکا تجویز کرو جسے میں یہ علم سکھا دوں، مجھے خطرہ ہے کہ مرجاؤں تو یہ علم ہی نہ اٹھ جائے اور تم میں اس کا کوئی استاد نہ رہے۔ چنانچہ لوگوں نے ایسا لڑکا تجویز کیا اور اسے حکم دیا کہ وہ ہر روز اس کے پاس حاضر ہوا کرے۔ چنانچہ وہ لڑکا اس کاہن کے ہاں آنے جانے لگا۔ اس لڑکے کے راستہ میں ایک گرجا میں ایک راہب رہتا تھا۔ معمر راوی کہتا ہے کہ میرے خیال میں ان دنوں ایسے عبادت خانوں کے لوگ ہی مسلمان تھے۔ وہ لڑکا جب اس راہب کے پاس سے گزرتا تو اس سے دین کی باتیں پوچھتا تاآنکہ راہب نے اسے بتایا۔ میں تو صرف اللہ کی عبادت کرتا ہوں۔ اب لڑکا راہب کے پاس زیادہ دیر رہنے لگا اور کاہن کے ہاں دیر سے پہنچتا۔ کاہن نے اس کے گھر والوں کو کہلا بھیجاکہ لڑکا میرے پاس کم ہی آتا ہے۔ لڑکے نے راہب کو یہ بات بتائی تو راہب نے اسے کہا۔ جب کاہن تم سے پوچھے کہ کہاں رہے تو کہہ دینا کہ میں اپنے گھر والوں کے پاس تھا اور اگر گھر والے پوچھیں تو کہہ دینا کہ میں کاہن کے پاس تھا۔ کچھ وقت اسی طرح گزرا۔ پھر ایک دفعہ یوں ہوا کہ کسی جانور نے بہت سے لوگوں کی راہ روک دی۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ جانور شیر تھا۔ لڑکے نے ایک پتھر اٹھایا اور کہنے لگا۔ یا اللہ! جو کچھ یہ راہب کہتا ہے اگر یہ سچ ہے تو میں تجھ سے سوال کرتاہوں کہ تو (اس پتھر سے) اس (جانور) کو ہلاک کردے۔ پھر اس نے پتھر جو پھینکا تو جانور مر گیا۔ لوگ پوچھنے لگے۔ ’’اس جانور کو کس نے مارا ہے؟‘‘ کسی نے کہا، ’’ اس لڑکے نے‘‘ اب لوگ گھبرائے اور کہنے لگے کہ اس لڑکے نے تو ایسا علم سیکھا ہے جو کوئی بھی نہیں جانتا۔ یہ بات ایک اندھے نے سنی تو لڑکے سے کہا : ’’اگر تو میری آنکھیں لوٹادے تو میں تمہیں بہت مال و دولت دوں گا‘‘ لڑکے نے کہا :’’مجھے مال و دولت کی ضرورت نہیں البتہ اگر تیری بینائی لوٹ آئے تو کیا تو اس ذات پر ایمان لائے گا جس نے بینائی کو لوٹایا ؟‘‘ اندھا کہنے لگا ''ہاں'' چنانچہ لڑکے نے اللہ سے دعا کی تو اس کی بینائی لوٹ آئی۔ پھر اندھا بھی ایمان لے آیا۔ جب بادشاہ کو یہ خبر پہنچی تو اس نے سب کو بلایا اور کہا کہ میں تم کو الگ الگ طریقے سے مار ڈالوں گا چنانچہ راہب کو تو آرے سے چروا ڈالا اور اندھے کو کسی اور طرح سے مروا ڈالا۔ پھر اس لڑکے کے لیے حکم دیا کہ اسے فلاں پہاڑ پر لے جاؤ اور چوٹی پر جاکر اسے نیچے گرا دو۔ چنانچہ جب وہ اس چوٹی پر پہنچے جہاں سے لڑکے کو گرانا چاہتے تھے تو وہ خود گرنے لگے اور لڑکے کے سوا چوٹی پر کوئی نہ رہا۔ وہ لڑکا بادشاہ کے پاس آگیا تو اب اس نے حکم دیا کہ اب اسے دریا میں لے جاکر (کشتی سے گرا کر) ڈبو دو۔ اب بھی اللہ نے ان لوگوں کو غرق کردیا اور لڑکے کو بچا لیا۔ اب لڑکا بادشاہ کے پاس آکر کہنے لگا کہ : اگر تم مجھے مارنا ہی چاہتے ہو تو اس کی صرف یہی صورت ہے کہ مجھے سولی پر لٹکا کر تیر مارو اور تیر مارتے وقت یوں کہو۔ ’’اللہ کے نام سے جو اس لڑکے کا پروردگار ہے‘‘ چنانچہ اس نے ایسا ہی حکم دیا۔ پھر لڑکا سولی چڑھایا گیا پھر اس نے یہ کہہ کر تیر مارا۔ ’’اللہ کے نام سے جو اس لڑکے کا پروردگار ہے‘‘ چنانچہ جب لڑکے کو تیر لگا تو اس نے اپنا ہاتھ اپنی کنپٹی پر رکھا اور مرگیا۔ اب لوگ کہنے لگے۔’’یہ لڑکا تو وہ علم جانتا تھا جو کسی کو بھی معلوم نہیں۔ ہم اس لڑکے کے پروردگار پر ایمان لاتے ہیں‘‘ لوگوں نے بادشاہ سے کہا: ’’تم تو تین آدمیوں کی مخالفت سے گھبرا گئے تھے۔ اب یہ سارے لوگ تمہارے مخالف ہوگئے ہیں‘‘ پھر بادشاہ نے بڑی بڑی خندقیں کھدوائیں اور اس میں لکڑیاں ڈال کر آگ لگا دی۔ پھر لوگوں کو اکٹھا کرکے کہنے لگا : ’’ جو شخص اپنے (نئے) دین سے باز آتا ہے اسے تو ہم چھوڑ دیں گے اور جو نہ پھرے اسے ہم آگ میں ڈال دیں گے‘‘ پھر وہ مومنوں کو ان خندقوں میں ڈالنے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسی بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ہلاک ہوئے خندقوں والے۔ وہ آگ تھی بہت ایندھن والی تاآنکہ آپ نے عزیز الحمید تک پڑھا۔ پھر فرمایا ’’اور وہ لڑکا جو تھا وہ دفن کیا گیا‘‘ راوی کہتا ہے کہ اس لڑکے کی نعش سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں نکالی گئی اور وہ انگلی اپنی کنپٹی پر رکھے ہوئے تھا جیسے اس نے قتل کے وقت رکھی تھی۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) البروج
8 [٥] یمن میں حمیری خاندان کا ایک بادشاہ ذونواس بڑا متعصب یہودی تھا۔ چھٹی صدی عیسوی میں یہ بادشاہ بنا اور متعصب یہودی ہونے کی بنا پر عیسائیوں کا سخت دشمن تھا۔ اس دور تک اگرچہ عیسائی مذہب میں بہت سے مشرکانہ عقائد راہ پاگئے تھے۔ تاہم بہت سے ایسے لوگ موجود تھے جو بالکل صحیح عیسائی مذہب پر قائم تھے۔ اور وہ مشرکانہ عقائد کے سخت مخالف اور توحید پرست تھے جس راہب کا مندرجہ بالا حدیث میں ذکر ہے وہ اسی قسم کے صحیح العقیدہ عیسائیوں سے تعلق رکھتا تھا اور ایسے سچے مسلمانوں کو ایذائیں پہنچانے اور خندق میں ڈالنے والے بھی ذونواس اور اس کے کرتا دھرتا درباری لوگ تھے جو عیسائیت کو ہر جائز و ناجائز حربہ سے ختم کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ ایمان لانے والوں کے مکمل استیصال کے لیے انہوں نے یہ آگ میں جلا ڈالنے کا حربہ اختیار کیا تھا۔ البروج
9 البروج
10 [٦] اگرچہ احادیث میں ان اصحاب الاخدود کے انجام کے متعلق کچھ صراحت مذکور نہیں تاہم مفسرین لکھتے ہیں کہ یہی آگ ان آگ میں جلانے والوں کے کنٹرول سے باہر ہوگئی اور ان کے گھروں تک پہنچ کر ان کے گھروں کو خاکستر کر ڈالا اور یہ بھی ممکن ہے کہ ﴿وَلَہُمْ عَذَابُ الْحَرِیْقِ ﴾ کا جملہ عذاب جہنم ہی کی صفت کے طور پر مذکور ہوا ہو۔ علاوہ ازیں یہ آیت صرف اصحاب الاخدود سے ہی تعلق نہیں رکھتی بلکہ عام ہے اور اس میں کفار مکہ کو انتباہ کیا گیا ہے کہ جو لوگ بھی مومن مردوں اور عورتوں کو صرف اس لیے ایذائیں پہنچاتے ہیں کہ وہ ایک اللہ پر ایمان لائے ہیں۔ ان کا بھی یہی انجام ہوگا۔ البروج
11 [٧] ساتھ ہی مومن مردوں اور عورتوں کو تسلی دی گئی کہ وہ کفار کی ایذا رسانیوں سے گھبرائیں نہیں۔ ان سے پہلے بھی مومنوں پر بڑے بڑے مصائب ڈھائے جاچکے ہیں۔ ان مصائب کو برداشت کرنے کے عوض انہیں اللہ کے ہاں سے جو باغات اور نعمتیں ملنے والی ہیں۔ جن کے مقابلہ میں اس دنیا کی سب تکلیفیں اور مصیبتیں ہیچ ہیں۔ البروج
12 [٨] ایسے مجرموں کو یہ بات خوب ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ جب اللہ تعالیٰ گرفت کرنے پر آتا ہے تو یہ گرفت اتنی شدید ہوتی ہے کہ ایسے مجرموں کا صفحہ ہستی سے نام و نشان تک مٹا دیتی ہے۔ علاوہ ازیں یہ گرفت آتی ضرور ہے خواہ جلد آئے یا بدیر۔ اور اگر کوئی شخص اس دنیا میں ایسی گرفت سے بچ بھی جائے تو آخرت میں کبھی بچ نہیں سکے گا۔ البروج
13 البروج
14 [٩] یعنی ایسے مجرموں میں سے بھی اگر کوئی شخص اپنے گناہوں سے توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ اسے بخش دینے والا ہے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوق سے بے حد محبت ہے۔ وہ کسی کو خواہ مخواہ مبتلائے عذاب نہیں کرتا۔ وہ سزا صرف اس وقت دیتا ہے جب کوئی شخص بار بار سمجھانے کے باوجود اللہ سے سرکشی اور بغاوت سے باز نہیں آتا۔ البروج
15 [١٠] عرش کا مالک ہونے سے مراد پوری کائنات کا مالک ہونا ہے اس لیے کہ اس کا عرش پوری کائنات کو محیط ہے اور مجید بمعنی شان و شوکت میں بڑا کہہ کر انسان کو اس بات پر متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ ایسی ہستی کے مقابلہ میں گستاخانہ رویہ چھوڑ دے ورنہ اسے اس کا بہت برا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ البروج
16 [١١] یعنی پوری کائنات میں کسی کی بھی یہ طاقت نہیں کہ اللہ جس کام کا ارادہ کرلے اس میں وہ مانع یا مزاحم ہوسکے۔ البروج
17 البروج
18 [١٢] فرعون کو بھی اپنی سلطنت، حکومت اور لاؤ لشکر پر بڑا گھمنڈ تھا اور قوم ثمود بھی اپنے آپ کو بہت طاقتور سمجھے بیٹھے تھے جنہوں نے اپنے مکانات تک پہاڑوں کے اندر بنا رکھے تھے بلکہ شہروں کے شہر پہاڑوں کے اندر آباد کر رکھے تھے۔ اور کہتے تھے کہ قوت میں ہم سے بڑھ کر اور کون ہوسکتا ہے؟ مگر جب ان لوگوں نے گھمنڈ میں آکر اللہ کے مقابلے میں سرکشی کی راہ اختیار کی تو اللہ نے انہیں تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ البروج
19 [١٣] یعنی ان کفار مکہ کا شغل اور وطیرہ ہی یہ بن گیا ہے کہ اللہ کی طرف سے جو آیات نازل ہوتی ہیں یہ انہیں جھٹلانے پر کمر بستہ ہوجاتے ہیں۔ فرعون اور ثمود کے لشکر بھی یہی کچھ کیا کرتے تھے اور یہ قریش مکہ تو قوت اور جمعیت کے لحاظ سے ان کا دسواں حصہ بھی نہیں۔ پھر یہ بیچارے آخر کس کھیت کی مولی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ہر طرف سے اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے اور کسی وقت بھی انہیں برے انجام سے دوچار کرسکتا ہے۔ البروج
20 البروج
21 البروج
22 [١٤] یہ لوگ جس قرآن کو جھٹلانے کے درپے ہو رہے ہیں وہ بڑی بلند شان والا ہے۔ جس کو جھٹلا دینا ان کے بس کا روگ نہیں۔ البتہ اپنی اس حرکت کی پاداش میں یہ خود تباہ ہوسکتے ہیں۔ قرآن کا لکھا ہوا اٹل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ایسی لوح محفوظ میں ثبت کر رکھا ہے جہاں تک کسی کی رسائی نہیں ہوسکتی اور ہر طرح کی دستبرد سے، رد و بدل اور ترمیم و تنسیخ سے پاک ہے۔ البروج
0 الطارق
1 الطارق
2 [١] الطارق : طریق کا معنی راستہ اور طارق بمعنی راستہ پر چلنے والا۔ مگر عرف عام میں طارق بالخصوص اس مسافر کو کہتے ہیں جو صرف رات کو آئے۔ اور ستارے کو طارق اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ رات کو ہی ظاہر ہوتا ہے۔ اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے خود ہی صراحت فرما دی کہ یہاں طارق سے مراد عام ستارے بھی نہیں بلکہ شہاب ثاقب ہے۔ الطارق
3 [٢] شہاب ثاقت کی حقیقت :۔ اس مقام پر ﴿النجم الثاقب﴾ کا لفظ آیا ہے۔ دوسرے مقام پر ﴿ شہاب ثاقب﴾ اور تیسرے پر ﴿شہاب مبین﴾ کا اور مراد سب سے ایک ہی ہے۔ شہاب ایسے انگارہ کو کہتے ہیں جس میں چمک اور شعلہ دو چیزیں موجود ہوں خواہ یہ آگ کا انگارہ ہو یا آسمان یا فضا میں پایا جائے اور ثاقب میں تیزی سے آر پار ہوجانے اور آگ کی طرح کی سرخ روشنی کا تصور پایا جاتا ہے۔ جبکہ عام ستاروں کی روشنی چاند کی روشنی کی طرح سفید ہوتی ہے۔ گویا ﴿النجم الثاقب﴾ میں تین چیزیں جمع ہوگئیں۔ ایک وہ تیزی سے فضا میں سفر کر رہا ہو۔ دوسرے اس میں چمک موجود ہو اور تیسرے وہ چمک آگ کی طرح سرخی کا رنگ لیے ہوئے ہو۔ ہم اسے اپنی زبان میں ٹوٹنے والا تارہ کہتے ہیں علاوہ ازیں یہاں واحد کا صیغہ استعمال کرکے اس سے جنس مراد لی گئی ہے۔ اور ایسے ستارے سینکڑوں کی تعداد میں فضا میں ٹوٹتے اور پھر ہماری نظروں سے غائب ہوجاتے ہیں۔ نہ وہ دوسرے ستاروں سے ٹکرا کر نظام کائنات کو درہم برہم کرتے ہیں اور نہ زمین پر گر کر زمین پر قیامت برپا کیے رکھتے ہیں۔ البتہ مدتوں بعد کوئی ایسا ستارہ زمین پر گر کر زمین میں گہرے کھڈ ڈال بھی دیتا ہے لیکن یہ بھی ایک عذاب الٰہی کی شکل اور خرق عادت امر ہوتا ہے۔ ایسے ٹوٹنے والے ستاروں کے متعلق شرعی نقطۂ نظر یہ ہے کہ جب کوئی جن یا شیطان اوپر ملاء اعلیٰ کی باتیں سننے کے لیے جاتا ہے تو اس پر ایسا شعلہ دار ستارہ پھینک کر اسے وہاں سے مار بھگایا جاتا ہے۔ الطارق
4 [٣] ہر جاندار کی حفاظت کرنے والی ہستی :۔ ان تین آیات میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی قسم اٹھائی گئی ہے جو اہل زمین کو ﴿شہاب ثاقب﴾ جیسی بلاؤں سے محفوظ رکھتا ہے اور اس بات پر قسم اٹھائی گئی ہے کہ ہر انسان پر ایک نگہبان مقرر ہے جو اس کی ہر طرح سے حفاظت کرتا ہے۔ یہ نگہبان کون ہے؟ یہ خود اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو زمین و آسمان کی ہر چھوٹی بڑی مخلوق کی دیکھ بھال کر رہی ہے۔ جس کے سنبھالنے سے ہر شے اپنی جگہ سنبھلی ہوئی ہے۔ اور جس نے ہر جاندار کو اس کی ضروریات بہم پہنچانے اور اس کی موت کے مقررہ وقت تک آفات ارضی و سماوی سے بچانے کا ذمہ لے رکھا ہے۔ یہ حفاظت اکثر اوقات ایسے غیر شعوری طریقوں سے ہوتی ہے کہ انسان کو اس کا علم تک نہیں ہوتا اور جب کبھی علم ہوجاتا ہے تو انسان کی زبان سے بے ساختہ ایسے الفاظ نکل جاتے ہیں کہ ’’اس موقعہ پر اللہ نے مجھے ہاتھ دے کر بچا لیا ورنہ میرے بچے رہنے کی کوئی توقع نہ تھی‘‘ اور ایسے واقعات تقریباً ہر انسان کو اپنی زندگی میں پیش آتے ہی رہتے ہیں۔ اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ رعد میں فرمایا : کہ ہر انسان کے آگے پیچھے ہم نے فرشتے مقرر کردیئے ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے رہتے ہیں (١٣: ١١) واضح رہے کہ حفاظت کی نسبت براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف ہو یا اس کے فرشتوں کی طرف اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ الطارق
5 [٤] عالم بالا کی طرف توجہ دلانے کے بعد اب انسان کو دعوت دی جارہی ہے کہ وہ ذرا اپنی پیدائش پر بھی غور کرلے کہ ماں کے پیٹ میں کون اس کی پرورش کرتا رہا اور کس نے اس کے حمل کو رحم مادر میں جمائے رکھا اور اتنا سخت جمایا کہ بغیر کسی شدید حادثہ کے حمل ضائع نہیں ہوسکتا تھا۔ پھر جب وہ ماں کے پیٹ سے باہر آیا تو اتنازیادہ ناتواں اور کمزور تھا جتنا کمزور بچہ دوسری کسی جاندار مخلوق کا نہیں ہوتا۔ پھر دوسری تمام مخلوق سے بڑھ کر اس کی نشوونما کے انتظامات فرمائے۔ پھر پیدائش سے لے کر موت تک اس کی مسلسل نگرانی کرتا رہتا ہے۔ اسے بیماریوں سے، حادثات سے اور طرح طرح کی آفات سے بچاتا رہتا ہے۔ اس کی زندگی اور زندگی کی بقا کے اتنے ذرائع بہم پہنچاتا ہے جنہیں انسان شمار بھی نہیں کرسکتا بلکہ اسے ان کا شعور تک نہیں ہوتا۔ کجا وہ خود فراہم کرنے پر قادر ہو۔ تاآنکہ وہ اپنی اس مدت موت کو پہنچ جاتا ہے جو اللہ نے اس کے لیے مقرر کر رکھی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ اللہ کی تدبیر اور اس کی نگرانی کے بغیر ہونا ممکن ہے؟۔ الطارق
6 الطارق
7 [٥] مادہ منویہ کہاں اور کیسے پیدا ہوتا ہے؟:۔ صُلْبْ۔ صَلَبَ الْعَظْمِ بمعنی ہڈی سے مغز یا گودا نکالنا اور صلب بمعنی ریڑھ کی ہڈی کا گودا۔ اور چونکہ یہ ہڈی انسان کی پشت کے درمیان ہوتی ہے۔ لہٰذا اس ریڑھ کی ہڈی کو اور پشت کو بھی صلب ہی کہہ دیا جاتا ہے۔ اور ترائب۔ تریبۃ کی جمع ہے بمعنی سینہ کی ہڈیاں اور پسلیاں۔ اس آیت کے الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ یہ نطفہ ان اعضاء سے نکلتا ہے جو صلب اور سینہ کی پسلیوں کے درمیان ہیں۔ اس سے بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ مرد کا نطفہ تو صلب سے نکلتا ہے اور عورت کا سینہ کی پسلیوں سے۔ لیکن یہ خیال کچھ درست معلوم نہیں ہوتا۔ اطباء کا یہ خیال ہے کہ منی خواہ مرد کی ہو یا عورت کی، عمل انہضام کے چوتھے مرحلہ پر پیدا ہوتی ہے۔ اور اس کی تخلیق میں اعضائے رئیسہ یعنی دل' جگر اور دماغ کا خاصا عمل دخل ہوتا ہے۔ اور یہ انہضام چونکہ انسان کے دھڑ کے اندرونی حصے میں واقع ہوتا ہے۔ لہٰذا اسے صلب اور ترائب کے مابین سے ذکر کردیا گیا ہے۔ رہی یہ بات کہ انسان کا دماغ تو دھڑ میں نہیں ہوتا تو غالباً اسی نسبت سے یہاں صلب کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ریڑھ کی ہڈیوں کے درمیان جو مغز یا گودا ہوتا ہے یہ دماغ ہی کا حصہ ہوتا ہے۔ الطارق
8 [٦] اللہ تعالیٰ نے ایک شہادت عالم بالا سے پیش فرمائی، دوسری انسان کی تخلیق سے اور یہ دونوں اس بات پر قوی دلیل ہیں جو ہستی ایسے عظیم الشان کارنامے سرانجام دے رہی ہے وہ یقیناً انسان کو دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قدرت رکھتی ہے اور اگر انسان سوچے تو یہ کارنامے انسان کی دوبارہ زندگی سے زیادہ حیرت انگیز اور معجز نما ہیں۔ اب جو شخص ان کارناموں کو محض اتفاقات کا نتیجہ قرار دیتا ہے وہ آخر یہ کیوں نہیں کہتا کہ دنیا میں انسان کے ہاتھوں بنائے ہوئے جتنے کارخانے چل رہے ہیں یہ بھی بس اتفاقی حادثات کے نتیجہ میں سامنے آگئے اور کام کرنے لگے ہیں یا دنیا میں جو شہر آباد ہیں، سڑکیں ہیں اور دریا اور نہریں رواں ہیں یہ بھی سب اتفاقات ہی کا نتیجہ ہیں۔ ایسے سر پھروں کو اپنے دماغ کا علاج کرانا چاہیے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ایسے ہٹ دھرم لوگوں کا علاج صرف ڈنڈا ہے۔ الطارق
9 [٧] اسرار کی جانچ کے مختلف پہلو :۔ پوشیدہ اسرار سے مراد ہر انسان کے وہ اعمال بھی ہیں جن کا تعلق نیت اور ارادہ سے تھا اور وہ پورے نہ ہوسکے اور بس ایک راز ہی بن کر رہ گئے۔ نیز وہ اعمال بھی جو دنیا کے سامنے تو آئے مگر جس غرض کے تحت وہ سرانجام دیئے گئے تھے اور جو اغراض اور خواہشات ان کی محرک بنی تھیں ان کا کسی کو علم نہ ہوسکا اور وہ اعمال بھی جن کو کرنے والا تو کرکے مر گیا مگر ان کے اثرات مدتوں نوع انسانی پر پڑتے رہے ایسے سب اسرار اس دن کھل کر سامنے آجائیں گے۔ الطارق
10 [٨] یعنی اس دن کسی انسان کو بھی اتنی قوت حاصل نہ ہوگی کہ وہ اس دن پیش آنے والے مصائب کی مدافعت کرسکے۔ نہ ہی کوئی اس کی مدد کرنے کو وہاں موجود ہوگا۔ الطارق
11 [٩] ذات الرجع رجوع کے معنی اپنی اصل کی طرف لوٹنا ہے مگر مجازاً رجع کا لفظ بارش کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے اور آسمان کو ذات الرجع کہنے کی ایک وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ سمندر سے آبی بخارات اٹھتے ہیں وہ جب آسمان کی بلندیوں پر پہنچتے ہیں تو ان بلندیوں کی ٹھنڈک ان آبی بخارات کو پھر سے پانی میں تبدیل کردیتی ہے اور بارش شروع ہوتی ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ بارش برسنے کا عمل فقط ایک بار ہی نہیں ہوتا بلکہ بار بار اور وقتاً فوقتاً ہوتا ہی رہتا ہے۔ الطارق
12 [١٠] ذَات الصَّدْعِ۔ صدع کے معنی کسی چیز کا اس طرح پھٹنا ہے کہ ٹکڑا جدا نہ ہو اور بقول امام راغب ٹھوس اجسام جیسے لوہا، شیشہ، زمین وغیرہ میں شگاف یا سوراخ ہوجاتا ہے اور زمین کو اس لیے ذات الصدع کہا گیا ہے کہ وہ پودوں اور درختوں کی نرم و نازک کونپلوں کو پھٹ کر زمین سے باہر نکلنے کا راستہ دے دیتی ہے۔ علاوہ ازیں اس سے پانی کے چشمے بھی پھوٹ نکلتے ہیں۔ حالانکہ زمین ٹھوس اور سخت چیز ہے اور پانی سیال اور زمین کے مقابلہ میں بہت نرم اور کمزور۔ اس کے باوجود زمین پھٹ کر پانی کو باہر نکلنے کا راستہ دے دیتی ہے۔ الطارق
13 الطارق
14 [١١] یعنی بارش کے بار بار نزول اور زمین سے نباتات کے اگنے کا پیہم عمل یہ ایک مربوط نظام ہے۔ کوئی ہنسی مذاق کی بات نہیں بلکہ ایک ٹھوس حقیقت اور تمہارے مشاہدہ کی بات ہے۔ اسی طرح قرآن بھی جو حقائق پیش کر رہا ہے اور جسے دو ٹوک فیصلے بتا رہا ہے وہ بھی ٹھوس حقائق پر مبنی ہیں۔ یہ کوئی ہنسی مذاق کی باتیں نہیں ہیں بلکہ انہیں پورا ہو کے رہنا ہے۔ الطارق
15 الطارق
16 [١٢] کفار یہ چاہتے ہیں کہ ایسی چالیں چلیں، ایسی سازشیں تیار کریں، ایسے کارنامے سرانجام دیں جس سے قرآن کی دعوت کو شکست دی جاسکے۔ وہ اپنی پھونکوں سے اسلام کی شمع کو گل کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے برعکس اللہ بھی ان کے مقابلہ میں ایک چال چل رہا ہے کہ وہ اس روشنی کو مکمل کرکے رہے گا اور کافروں کی کسی چال کو کامیاب نہیں ہونے دے گا۔ واضح رہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے کافروں کی چال یا خفیہ تدبیر کو لفظ کید سے تعبیر فرمایا پھر اس کے رد عمل کو اپنی طرف منسوب فرما کر اس کے لیے بھی کید کا لفظ استعمال فرمایا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کو کسی چال یا خفیہ تدبیر کی ضرورت نہیں ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اہل عرب کا محاورہ ہے کہ وہ کسی بھی کام کے ردعمل کو اسی لفظ سے تعبیر کردیتے ہیں خواہ وہ اچھا ہو یا برا۔ اسے مشاکلہ کہتے ہیں اور اس کی وضاحت پہلے بھی کئی مقامات پر کی جاچکی ہے۔ الطارق
17 ١٣] یعنی آپ تھوڑی مدت مزید صبر سے کام لیجیے۔ کچھ زیادہ مدت نہ نہ گزرنے پائے گی کہ ان لوگوں کی کرتوتوں کا انجام سب کے سامنے آجائے گا۔ الطارق
0 الأعلى
1 [١] سبحان کا لغوی مفہوم : سَبَّحَ: ابن الفارس کے نزدیک لفظ سَبَّحَ کے بنیادی معنی دوہیں (١) عبادت کی قسم، اور (٢) دوڑنے کی قسم، اور امام راغب کے نزیک سبح کا معنی کسی چیز کا پانی، ہوا میں تیرنا یا تیزی سے گزر جانا اور سَبَّاح یعنی تیراک ہے اور سبحان سبح سے مصدر ہے جیسے غفر سے غُفْرَان۔ فضا میں لاکھوں کروڑوں سیارے نہایت تیزی سے گردش کر رہے ہیں جن میں نہ کبھی لرزش پیدا ہوتی ہے نہ جھول اور نہ تصادم یا ٹکراؤ۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ ان پر کنٹرول کرنے والی ہستی اپنی تقدیر و تدبیر اور انتظام میں نہایت محکم اور ہر قسم کی بے تدبیری، عیب یا نقص سے پاک ہستی ہی ہوسکتی ہے۔ پھر یہ بھی ضروری ہے کہ ایسی مدبر ہستی جو اپنی تدبیر محکم سے کائنات کا انتظام چلا رہی ہے وہ اس انتظام و انصرام میں بلاشرکت غیرے مختار کل ہو۔ کیونکہ کسی بھی دوسرے کا عمل دخل اس کائنات کے انتظام میں خلل انداز ہو کر اس میں گڑ بڑ پیدا کرسکتا ہے لہٰذا سُبْحَانَ سے مراد وہ ہستی ہوسکتی ہے جو ١۔ ہر طرح کے عیب و نقص سے پاک ہو۔ ٢۔ وہ بلاشرکت غیرے مختار کل بھی ہو اور ٣۔ کائنات کی تمام اشیاء پر پورا پورا کنٹرول بھی رکھتی ہو۔ اور تسبیح کرنے سے مراد ایسی ہستی کو ان صفات کے ساتھ یاد کرنا اور یاد رکھنا ہے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو نماز کا حصہ بنادیا اور فرمایا کہ اجعلوھا فی سجودکم (یعنی اس کو اپنے سجدوں میں رکھو) پھر ہدایت فرمائی کہ سجدہ کی حالت میں سبحان ربی الاعلیٰ کہا کرو۔ عقبہ بن عامر جہنی کہتے ہیں کہ آپ نے اس آیت کے مطابق سجدے میں (سبحان ربی الاعلی) اور سورۃ واقعہ کی آخری آیت فَسَبِّحْ باسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ کے مطابق رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم پڑھنے کا حکم دیا۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ، مسند احمد وغیرہ) الأعلى
2 [٢] یعنی اللہ تعالیٰ نے کائنات کی سب اشیاء کو پیدا ہی نہیں کیا بلکہ اس چیز سے جو کام لینا مقصود تھا اس کے مطابق اس کی شکل و صورت بنائی اور شکل وصورت کو اس طرح ٹھیک ٹھاک اور درست کیا کہ اس کے لیے اس سے بہتر شکل و صورت ممکن ہی نہ تھی۔ مثلاً ناک کا ایک کام یہ ہے کہ اس سے دماغ کے فضلات خارج ہوتے رہیں اور یہ مقصد ناک کو سر کے پیچھے بنانے سے بھی حاصل ہوسکتا تھا۔ مگر اس کے تصور سے ہی انسان کو گھن آنے لگتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ناک کو چہرہ پر سامنے بنایا تاکہ چہرے کی خوبصورتی میں اضافہ ہو، نیز انسان کی ناک بہتی ہی نہ رہے بلکہ انسان بوقت ضرورت اپنے ہاتھ سے جھاڑ سکے اور صاف کرسکے۔ یہی صورت حال ایک ایک عضو بلکہ کائنات کی ایک ایک چیز کے متعلق مشاہدہ کی جاسکتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف خالق ہی نہیں بلکہ انتہا درجہ کا حکیم اور مدبر بھی ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اعضاء کی تخلیق محض اتفاقات کا نتیجہ قطعاً نہیں ہے ورنہ مقاصد کے ساتھ ساتھ حسن و جمال کے امتزاج کا تصور بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ الأعلى
3 [٣] تقدیر بمعنی اندازہ کرنا۔ بنانے سے پہلے کسی چیز کا مکمل نقشہ، اس کی شکل و صورت، اس کے مقاصد اور غرض و غایت کے متعلق پوری سکیم تیار کرنا۔ پھر اس کے متعلق یہ طے کرنا کہ اس چیز کے لیے کس قسم کا مواد درکار ہے۔ کتنی مقدار میں درکار ہے۔ اس چیز میں کیا کیا خصوصیات درکار ہیں۔ تاکہ جس مقصد کے لیے وہ بنائی گئی ہے اسے بطریق احسن انجام دے سکے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق سے پیشتر اس کی تقدیر بنائی ہے۔ کائنات میں آج تک جو اشیا وجود میں آچکی ہیں اور جو کچھ بعد میں پیدا ہوں گی سب کچھ اللہ کی اس تقدیر یا اندازے یا اسکیم کے مطابق ہو رہا ہے جو اس نے پہلے سے طے کر رکھا ہے۔ [٤] یعنی جس چیز کو جس مقصد کے لیے بنایا، اس چیز کی فطرت میں وہ کام کرنے کا طریقہ بھی ودیعت کردیا۔ مثلاً ہر دودھ پلانے والے جاندار کا بچہ پیدا ہوتا ہے تو پیدا ہوتے ہی وہ ماں کی چھاتیوں کی طرف لپکتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس بچے کو دودھ چوسنے کا طریقہ فطرتاً سکھا دیا۔ اسی طرح کائنات کی ایک ایک چیز کو وہ راہ سجھا دی جس کے لیے وہ پیدا کی گئی ہے۔ مثلاً اللہ نے دل کو اس لیے پیدا کیا کہ وہ سارے جسم میں خون کو پہنچائے تو دل کی ساخت بھی ایسی ہی بنائی اور اسے یہ طریقہ بھی بتلا دیا کہ وہ کس طرح خون کو پمپ کرے گا۔ کسی جاندار کے ارادہ اور خواہش کے بغیر دل از خود ہی یہ کام کیے جاتا ہے۔ حتیٰ کہ کسی کو یہ محسوس بھی نہیں ہوتا کہ اس کے اندر کیا کیا چیزیں ہیں اور وہ کیا کیا کام سرانجام دے رہی ہیں۔ انسان چونکہ دوسری تمام مخلوق سے ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے اس کو دو قسم کی ہدایت دی گئی ہے۔ ایک اضطراری جو اس کی طبعی زندگی سے تعلق رکھتی ہے۔ اور اس لحاظ سے وہ دوسرے جاندار سے مختلف نہیں اور دوسری ہدایت اختیاری ہے جو اس کے عقل و شعور اور اخلاقیات سے تعلق رکھتی ہے۔ اسی دوسری قسم کی ہدایت کو اجاگر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء بھیجے اور کتابیں نازل فرمائیں۔ الأعلى
4 الأعلى
5 [٥] مَرعٰی کا لغوی معنی چارہ ہے۔ یعنی جانوروں کی خوراک جو تازہ ہو یعنی گھاس وغیرہ تاہم اس کے وسیع معنوں میں تمام نباتات بھی شامل ہے۔ یعنی اللہ ہی ہے جو زمین پر بہار اور موسم بہار لاتا ہے۔ پھر موسم خزاں بھی لاتا ہے۔ اور اس تازہ نباتات کے فالتو اجزا خس و خاشاک بن کر پاؤں کے نیچے مسلے جاتے ہیں۔ لہٰذا تم لوگوں کو اس دنیا کی بہار پر ہی فریفتہ نہ ہوجانا چاہئے اس پر خزاں بھی آسکتی ہے۔ الأعلى
6 الأعلى
7 [٦] جب وحی کا سلسلہ شروع ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہ تکلف وحی کے الفاظ یاد رکھنے پر زیاد توجہ دیتے تھے اور زبان سے ان الفاظ کی ادائیگی کی کوشش بھی کرتے تھے جس سے آپ کی توجہ بٹ جاتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کی ذمہ داری لی اور فرمایا کہ آپ صرف توجہ سے سنا کریں۔ بعد میں بعینہٖ وحی کے الفاظ کو آپ کی زبان سے ادا کروا دینا ہمارا کام ہے۔ نیز یہ وحی کے الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل میں محفوظ رہیں گے۔ آپ انہیں بھولیں گے نہیں۔ ہاں اگر اللہ چاہے تو آپ بھول بھی سکتے ہیں۔ اب اس کو بھولنے کی بھی دو صورتیں ہیں۔ ایک صورت یہ ہے کہ آپ ایک دفعہ صبح کی نماز پڑھا رہے تھے اور قراءت کے دوران ایک آیت چھوڑ گئے۔ نماز کے بعد سیدنا ابی بن کعب نے پوچھا : کیا یہ آیت منسوخ ہوچکی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں میں بھول گیا تھا۔ (ابوداؤد، کتاب الصلوٰۃ۔ باب فی فتح علی الامام فی الصلوٰۃ) اور دوسری صورت وہی ہے جس کا اس حدیث میں بھی ذکر موجود ہے۔ یعنی کوئی آیت ہی منسوخ کردی جائے۔ یہاں بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جو آیات اللہ نے نازل کردیں پھر ان کو منسوخ کرنے اور بھلا دینے کے کیا معنی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن میں بعض آیات اور احکام ایک مخصوص مدت کے لیے نازل ہوئے۔ بعد میں ان کا باقی رکھنا ضروری نہ رہا۔ جیسے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی قرائت کے مطابق فما استمتعتم بہ منھن کے آگے الیٰ اجل مسمیٰ کے الفاظ بھی موجود تھے۔ پھر جب متعہ کو مکمل طور پر حرام کردیا گیا تو اس قرات کے یہ الفاظ بھی منسوخ کردیے گئے۔ اور اس قسم کی منسوخی کے متعلق قرآن میں بے شمار آیات ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے۔ سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ١٠٦، سورۃ رعد کی آیات نمبر ٣٩۔ ٤٠، سورۃ النحل کی آیت نمبر ١٠١، مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حکمتوں کا احاطہ کرنا اسی کی شان ہے۔ وہ نازل شدہ وحی میں سے اگر یہ مناسب سمجھے کہ اب اس آیت کی ضرورت نہیں رہی تو وہ اسے منسوخ بھی کرسکتا ہے اور اس منسوخی کی آسان شکل یہ تھی کہ جب آپ جبریل سے دور کرتے تو وہ آیت یا اس کے کچھ الفاظ آپ کو بھلا دیئے جاتے تھے۔ الأعلى
8 [٧] اس آیت کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ آپ کو بلاتکلیف سہولت کے ساتھ قرآن یاد رہے گا۔ دوسرا یہ کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آسان اور سہل شریعت پر چلائیں گے۔ تیسرا یہ کہ شریعت کے احکام پر عمل پیرا ہونا ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے آسان بنادیں گے۔ چوتھا یہ کہ اسلام کے راستہ سے ہم تمام رکاوٹوں کو دور کردیں گے اور کامیابی کی راہ پر گامزن ہونا آپ کے لیے آسان بنا دیں گے۔ پانچواں یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذمہ داری بس اتنی ہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دیں۔ اس سے آگے کسی مشکل میں پڑنا یا بہ جبر لوگوں کو اسلام کی طرف لانا آپ کی ذمہ داری نہیں۔ الأعلى
9 [٨] یعنی جب آپ دیکھیں کہ آپ کی نصیحت سے لوگوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے تو ایسے لوگوں کو بار بار وغط و نصیحت کرتے رہیے۔ اور جو لوگ وعظ و نصیحت سے الٹا اثر لیں، مذاق اڑانے لگیں، یا مخالفت پر اتر آئیں تو ایسے لوگوں کو وعظ و نصیحت سے اجتناب کیجیے۔ واضح رہے کہ دعوت و تبلیغ اور چیز ہے اور وعظ و نصیحت اور چیز۔ نبی کی ذمہ داری یہ ہے کہ اللہ کا پیغام سب لوگوں تک پہنچا دے خواہ وہ اسے قبول کریں یا برا مانیں۔ لیکن وعظ و نصیحت صرف ان کے لیے ہے جو وعظ و نصیحت سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہوں، سب کے لیے نہیں ہے۔ بلکہ صرف اس کے لیے جس کے دل میں کچھ اللہ کا ڈر ہو اور جو ڈرتا ہی نہیں اس کے لیے وعظ و نصیحت کچھ معنی نہیں رکھتے۔ الأعلى
10 الأعلى
11 الأعلى
12 الأعلى
13 [٩] یعنی اخروی زندگی میں مر تو سکے گا نہیں اور جو زندگی ہوگی وہ عذاب کی وجہ سے موت سے بدتر ہوگی۔ ایسی زندگی پر وہ خود بھی موت کو ترجیح دینگے مگر موت نام کی وہاں کوئی چیز نہ ہوگی۔ الأعلى
14 [١٠] یعنی جس نے اپنے آپ کو کفر و شرک ' عقائد فاسدہ سے اور اخلاقی رذیلہ سے پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگیا۔ یہاں بعض لوگوں نے تزکی ٰسے مراد زکوٰۃ اور بالخصوص صدقہ فطر اور ﴿وذکر اسم ربہ﴾سے مراد تکبیرات عیدین اور فصلی سے مراد نماز عید لی ہے۔ اور اگر اس آیت کو اس کے عام مفہوم میں لیا جائے تو زیادہ مناسب ہے۔ یعنی جو شخص اپنے نفس کو پاکیزہ بنا لے پھر اللہ کو زبان سے بھی یاد کرتا رہے اور دل میں بھی یاد رکھے۔ پھر اسی کی تائید کے طور پر باقاعدگی سے نمازیں ادا کرتا رہے تو سمجھ لو کہ اس کی زندگی سنور گئی اور کامیاب ہوگیا۔ یہاں کامیابی سے مراد اخروی کامیابی تو یقینی ہے اور اس دنیا میں اس کی کامیاب زندگی کا انحصار اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے کیونکہ دارالجزا آخرت ہے یہ دنیا نہیں۔ الأعلى
15 الأعلى
16 الأعلى
17 [١١] یعنی تمہارا اصل مرض یہ ہے کہ تم آخرت کے مقابلہ میں دنیا کو پسند کرتے ہو حالانکہ آخرت دو وجہ سے دنیا سے بہتر ہے۔ ایک تو وہاں کی نعمتیں اس دنیا کی نعمتوں سے بدرجہا بہتر ہیں۔ اور دوسرے وہاں کی نعمتیں نہ ختم ہونے والی اور لازوال ہیں جبکہ دنیا کی نعمتیں فانی ہیں۔ الأعلى
18 [١٢] یعنی جو صحائف سیدنا ابراہیم کو عطا ہوئے اور سیدنا موسی علیہ السلام کو تورات سے پہلے عطا ہوئے (جو کہ بعض اقوال کے مطابق دس دس تھے) ان میں یہ مضمون قد افلح سے خیر وابقی تک مذکور تھا۔ یہ مضمون نہ کبھی منسوخ ہوا اور نہ بدلا گیا۔ الأعلى
19 الأعلى
0 الغاشية
1 [١] غَاشِیَۃً: غَشَی بمعنی ایک چیز پر دوسری چیز کا چھا کر اسے ڈھانپ لینا اور غشی ایسی حالت کو کہتے ہیں جبکہ انسان کے ہوش و حواس زائل ہوجائیں اور غاشیہ بمعنی وہ چیز جس کی ہیبت ہر شخص پر چھا جائے گی۔ ہوش و حواس گم کردینے والی اور اس سے مراد قیامت کا دن ہے۔ الغاشية
2 [٢] اس دن تمام مخلوق دو گروہوں میں بٹ جائے گی۔ ایک وہ جو اس دنیا میں اللہ کے فرمانبردار بن کر رہے۔ اور دوسرے وہ جو نافرمان اور باغی ہوں گے۔ نافرمان لوگوں کا پہلے ذکر فرمایا چونکہ ان لوگوں کو اپنی کرتوتوں کا علم ہوگا۔ لہٰذا اعمال نامے دیئے جانے اور حساب کتاب اور فیصلہ سے پہلے ہی ان کے چہرے اترے ہوئے اور خوفزدہ ہوں گے کیونکہ انہیں اپنا انجام نظر آ رہا ہوگا۔ الغاشية
3 [٣] بعض مفسرین نے اس آیت کو آخرت سے متعلق کیا ہے اور مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ایسے لوگوں کے گلوں میں طوق اور پاؤں میں بیڑیاں ہوں گی۔ اسی حال میں کبھی انہیں کسی بلندی پر چڑھنے کا حکم دیا جائے گا اور کبھی اترنے کا۔ اسی محنت و مشقت کی وجہ سے وہ تھک کر چور ہوجائیں گے۔ اور بعض نے اسے دنیا سے متعلق کیا ہے اور مطلب یہ بیان کیا ہے کہ وہ دنیا میں محنت اور ریاضت کرکے تھک چکے ہوں گے لیکن ان کے نیک اعمال بھی شرک یا کسی دوسری وجہ سے برباد ہوجائیں گے تو ایسے لوگ بھی اپنے انجام سے سخت خوفزدہ ہوں گے۔ الغاشية
4 الغاشية
5 الغاشية
6 [٤] دوزخیوں کی مختلف غذائیں :۔ ضَرِیْعٌ ایک خار دار گھاس جس کا ذائقہ انتہائی تلخ اور بوناگوار ہوتی ہے اور جب سوکھ جاتی ہے تو زہر بن جاتی ہے۔ عربی میں اسے شبرق بھی کہتے ہیں۔ اہل دوزخ کی یہی غذا ہوگی۔ واضح رہے کہ قرآن میں بعض مقامات پر اہل دوزخ کی خوراک تھوہر کا درخت ذکر ہوئی ہے اور بعض مقامات پر غسلین بھی زخموں کا دھوون اور اس مقام پر ضریع بتائی گئی ہے۔ اس کی وجہ ایک تو یہ ہوسکتی ہے کہ مختلف قسم کے مجرموں کی خوراک مختلف ہو، دوسری وجہ اختلاف زمانہ ہے یعنی کسی دور میں ایک قسم کی خوراک دی جائے گی اور دوسرے دور میں دوسری قسم کی اور اس کی تیسری وجہ تنوع بھی ہوسکتی ہے۔ یعنی کبھی ایک خوراک دی جائے اور کبھی دوسری اور کبھی تیسری۔ الغاشية
7 [٥] غذا کے تین فائدے :۔ یعنی کوئی چیز کھانے کے تین ہی سبب ہوتے ہیں۔ ایک لذت حاصل کرنے کے لیے کھایا جائے۔ دوسرے بھوک دور کرنے کے لیے اور تیسرے غذائیت اور جسم کی تقویت کے لیے۔ ضریع سے لذت کے بجائے اس سے نفرت ہوگی کیونکہ وہ خاردار، بدبودار، تلخ اور زہریلا ہوگا۔ باقی دو اغراض کی قرآن نے صراحت سے نفی کردی۔ گویا اس کے کھانے سے تکلیف ہی بڑھے گی اور فائدہ کچھ حاصل نہ ہوگا۔ الغاشية
8 الغاشية
9 [٦] اب دوسرے گروہ کا حال سنیے۔ ان لوگوں نے دنیا میں اسلام کی خاطر جو سختیاں برداشت کی تھیں آج وہ اپنے زندگی کے کارناموں پر بہت خوش ہوں گے۔ اس لیے کہ انہیں ان کا بہترین بدلہ ملنے کی توقع ہوگی۔ اسی لیے ان کے چہرے پررونق، امید افزا اور ہشاش بشاش ہوں گے۔ الغاشية
10 الغاشية
11 [٧] وہاں نہ کسی قسم کا غل غپاڑہ ہوگا نہ شور شرابا، نہ جھوٹ اور چغلی، نہ گالی گلوچ اور نہ بیہودہ مذاق۔ سب کے دل ایک دوسرے سے صاف ہوں گے۔ کسی کا دوسرے سے کوئی تنازعہ نہ ہوگا سب محبت و اخوت سے رہیں گے اور ایک دوسرے کے لیے سلامتی کی دعائیں کرتے رہیں گے اور یہ جنت کی ایسی نعمت ہوگی جسے اللہ تعالیٰ نے جنت کی بڑی بڑی نعمتوں میں شمار کیا ہے۔ الغاشية
12 الغاشية
13 الغاشية
14 الغاشية
15 الغاشية
16 الغاشية
17 [٨] اللہ تعالیٰ نے عرب کے بدو اور خانہ بدوشوں کو سب سے پہلے اونٹ کی طرف توجہ دلائی جو ان کے نزدیک ایک قیمتی متاع اور صحرائی سفر میں ان کا مستقل رفیق تھا جو دس دس دن پانی پینے کے بغیر گزارہ ہی نہیں کرسکتا بلکہ بے تکلف سفر بھی جاری رکھ سکتا ہے۔ خار دار جھاڑیاں اور خشک گھاس اور پتے کھا کر شکم پروری کرلیتا ہے۔ ریت میں اس کے پاؤں نہیں دھنستے اور بے تکلف سفر کرتا چلا جاتا ہے۔ ریت کی وجہ سے تھک نہیں جاتا اور سب سے بڑھ کر یہ سب باربردار جانوروں سے زیادہ بوجھ اٹھاتا ہے۔ گویا یہ جانور ان لوگوں کی روح رواں تھا۔ عظیم الجثہ اور عجیب الخلقت۔ مثل مشہور ہے۔ اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی۔ اور اہل عرب کی بالخصوص توجہ اس جانور کی طرف اس لیے دلائی گئی کہ انہیں صحرائی زندگی کے لیے اونٹ کے علاوہ کوئی دوسرا جانور کام ہی نہ دے سکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے حسب حال انہیں ایسا کارآمد جانور مہیا فرما دیا۔ اور اسی کی پیدائش میں غور کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ الغاشية
18 الغاشية
19 الغاشية
20 [٩] خانہ بدوشوں کی کل کائنات کیا تھی؟ اور اللہ کی نشانیاں :۔ ان خانہ بدوش بدوؤں کی زندگی کے مشاہدات کیا تھے؟ بس یہی کہ ادھر ادھر منتقل ہونے کے لیے اونٹ جو ان کی سواری اور بار برداری کا کام دیتا تھا۔ اوپر آسمان تھا، نیچے زمین اور اردگرد پھیلے ہوئے طویل سلسلہ ہائے کوہ۔ یہی چیزیں ان کی کل کائنات تھی۔ ان میں ایک ایک چیز کی طرف ان کی توجہ مبذول کرائی گئی۔ آسمان کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ اس میں لاکھوں اور کروڑوں سیارے محو گردش ہیں۔ زمین کی یہ کیفیت ہے کہ گول ہونے کے باوجود جتنا بھی اس پر سفر کرتے جاؤ ہموارہی نظر آتی ہے۔ اور یہ بھی زمین کی وسعت کی دلیل ہے۔ پہاڑ زمین پر اس طرح گاڑ دیئے گئے ہیں کہ خود تو اپنی جگہ سے ذرا بھر نہیں ہلتے البتہ زمین کے ہلنے اور ڈگمگانے کو ختم کردیا ہے۔ ان لوگوں سے پوچھا یہ جارہا ہے کہ کیا ان لوگوں نے کبھی یہ سوچا کہ اونٹ کیسے بن گئے؟ اتنا بڑا آسمان بنانے والا کون ہے؟ یہ پہاڑ زمین میں کیسے نصب ہوگئے۔ اور یہ زمین کیسے بچھ گئی۔ یہ ساری چیزیں اگر اللہ تعالیٰ بنا سکتا ہے تو آخر دوسرا عالم کیوں نہیں بناسکتا اور قیامت کیوں قائم نہیں کرسکتا ؟ کیا انسان کے لیے یہ جائز ہے کہ ان ساری چیزوں کو اس لیے مان لے کہ انہیں وہ دیکھ رہا ہے اور قیامت اور جنت و دوزخ کا صرف اس بنا پر انکار کردے کہ ان چیزوں کو اس نے دیکھا نہیں یا اس کے تجربہ میں نہیں آئیں؟ آخر اسے عقل و شعور کس بنا پر عطا کیا گیا ہے؟ کیا اس لیے کہ جو چیزیں اسے نظر نہیں آتیں بلاسوچے سمجھے ان کا انکار کردے؟ الغاشية
21 الغاشية
22 [١٠] آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ اللہ کا پیغام سب کو پہنچا دیں۔ پھر جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتوں پر کان دھریں انہیں نصیحت کرتے رہیں اور جو اللہ کی آیات کا مذاق اڑائیں ان کے پیچھے نہ پڑیں کیونکہ انہیں زبردستی راہ راست پر لانا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ الغاشية
23 الغاشية
24 الغاشية
25 [١١] ایاب کی ضد ذھاب اور ذھاب و ایاب یہ ہے کہ مثلاً ایک شخص لاہور سے اسلام آبادجاتا ہے تو وہ ذھاب ہے اور جب وہاں سے واپس لاہور آتا ہے تو یہ ایاب ہے۔ اور یہ لفظ صرف جانداروں کے لیے آتا ہے اور اس میں یہ بھی ضروری نہیں ہوتا کہ اس میں واپس لوٹنے والے کے ارادہ کا بھی کچھ عمل دخل ہے۔ گویا اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ انہیں بہرحال ہمارے پاس واپس آنا پڑے گا۔ اس وقت ہم ان سے یقیناً حساب لے لیں گے اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم انہیں حساب لیے بغیر نہ چھوڑیں۔ الغاشية
26 الغاشية
0 الفجر
1 [١] فجر یا سپیدۂ سحر کے نمودار ہونے کے وقت کی اہمیت یہ ہے کہ اس وقت غفلت سے سوئی ہوئی ساری دنیا کو بیداری کا پیغام ملتا ہے۔ رات کو انسان تھکن سے چور ہو کر سوتا ہے اور صبح جب بیدار ہوتا ہے تو یہ بالکل تازہ دم ہوتا ہے۔ الفجر
2 [٢] دس راتوں سے مراد بعض مفسرین نے رمضان کا آخری عشرہ لیا ہے۔ جن میں لیلۃ القدر ہوتی ہے اور بعض مفسرین نے فجر سے عام فجر نہیں بلکہ یوم النحر یا عید الاضحیٰ کی فجر مراد لی ہے اور دس راتوں سے مراد یکم ذی الحجہ سے دس ذی الحجہ تک کی راتیں ہیں اور یہ دونوں قسم کی دس دس راتیں بڑی فضیلت والی اور اپنی اپنی جگہ اہم ہیں۔ الفجر
3 [٣] شفع اور وتر کا لغوی مفہوم :۔ شَفْعَ: لفظ شَفْعِ کا اطلاق ان اشیاء پر ہوتا ہے جن میں نر و مادہ کی تمیز نہیں اور شفع کے معنی ایک چیز کو اسی جیسی دوسری چیز سے ملا دینا اور اس طرح کرکے دو دو ملی ہوئی چیزوں کو شفع کہتے ہیں۔ اور جس کے ساتھ اس جیسی چیز نہ ہو اسے وتر کہتے ہیں۔ وتر کی بہترین مثال خود اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اور نمازوں میں اس کی مثال نماز مغرب کے فرض ہیں اور عشاء کے آخر میں وتر کی نماز اور وتر کی نماز کو وتر اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ جتنے بھی پڑھے جائیں۔ مثلاً ایک، تین، پانچ، سات، نو، گیارہ وہ وتر ہی رہیں گے۔ اور وتر حقیقتاً ایک ہی رکعت ہے اب اس کے ساتھ جتنے بھی جفت نفل پڑھے جائیں۔ ایک وتر سب کو وتر بنا دے گا۔ اور اعداد میں ہر وہ ہندسہ جو دو پر تقسیم ہوجائے وہ شفع یا جفت ہے۔ جیسے دو، چار، چھ، آٹھ وغیرہ اور جو دو پر پورا تقسیم نہ ہو وہ وتر یا طاق ہے۔ جیسے ایک، تین، پانچ، سات وغیرہ۔ مثلاً سات کے وتر ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ چھ کے تو تین جوڑے جوڑے بن گئے اور ساتویں وتر نے مل کر سب کو وتر بنا دیا۔ کائنات میں اکثر اشیاء میں تو نر و مادہ کی تقسیم پائی جاتی ہے اور جن میں نہیں پائی جاتی ان میں بھی زوج ہوتا ہے۔ جیسے جوتی کا ایک پاؤں دوسرے پاؤں کا زوج ہے اور جب یہ دونوں اکٹھے ہوگئے تو یہ شفع یا جفت ہوگیا۔ اور بعض ایسی چیزیں ہیں جن کی مثل کوئی اور چیز نہیں ہوتی۔ یہی اشیاء وتر ہیں اور ایسی اشیاء کی موجودگی اور استقلال اپنی جگہ ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ الفجر
4 [٤] یَسَرْ: سرٰی۔ یسری کا لفظ رات کو چلنے کے لیے مخصوص ہے، رات کو سفر کرنا اور ساریہ رات کو سفر کرنے والی چھوٹی سی جماعت کو کہتے ہیں۔ اور اسری کے معنی کسی دوسرے کو رات کے وقت سیر کرانا، لے چلنا، سفر کرانا (١٧: ١) اس لحاظ سے اس کا ایک معنی تو یہ ہوگا کہ اس رات کی قسم جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معراج کا سفر کیا اور دوسرا معنی یہ ہے کہ رات کی قسم جب وہ خود جانے لگے یا رخصت ہونے لگے۔ اس لحاظ سے ان آیات میں ایک ہی وقت دو طرح کے انداز بیان سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یعنی رات کے رخصت ہونے کا وہی وقت ہوتا ہے جب پو پھوٹتی یا سپیدہ سحر نمودار ہوتا ہے۔ الفجر
5 [٥] حِجر بمعنی پتھر اور ہر ٹھوس اور سخت چیز جو آڑ کا کام دے سکے۔ اور عقل کو بھی حجر کہتے ہیں وہ اس لحاظ سے کہ وہ بھی ہر اس چیز کو جو نقصان دہ ہو روک دیتی ہے۔ اور ذی حجر یعنی صاحب عقل یا عقلمند۔ اور اس آیت کا دوسرا ترجمہ یوں بھی ہوسکتا ہے : کیا یہ (مذکور چار چیزیں) عقلمندوں کے نزدیک قسم کھانے کے لائق نہیں؟ مطلب دونوں صورتوں میں ایک ہی نکلتا ہے یعنی مذکورہ اشیاء اس نظام کائنات کے نہایت اہم اجزا اور اپنے اپنے مقام پر بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ پھر کیا وہ ہستی جو ایسا نظام کائنات چلا رہی ہے عالم آخرت کو وجود میں نہ لاسکے گی۔ الفجر
6 الفجر
7 [٦] ذکر قوم عاد :۔ ان شہادتوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قوم عاد کا ذکر کیا۔ قوم عاد کو عاد اولیٰ بھی کہا جاتا ہے اور عاد ارم بھی۔ عاد ارم وہ اس لحاظ سے ہیں کہ ارم بن سام بن نوح کی اولاد تھے اور ذات العماد کی کئی توجیہیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ خود بہت بلند و بالا قد و قامت رکھتے تھے۔ دوسری یہ کہ بلند و بالا عمارتیں بنانے کا آغاز انہوں نے ہی کیا تھا۔ تیسری یہ کہ جب وہ سفر کرتے تھے تو اپنے خیمے نصب کرنے کے لیے بہت اونچی اور مضبوط لکڑیاں استعمال کرتے تھے جیسے وہ ستون ہیں۔ الفجر
8 [٧] یعنی اتنی بلند قامت، زور آور اور مضبوط قوم روئے زمین پر اور کہیں موجود نہ تھی۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس دور میں ساری دنیا میں انہیں کا ڈنکا بجتا تھا، کوئی دوسری قوم ان کی ٹکر کی موجود نہ تھی۔ یہ لوگ بھی آخرت کے منکر فلہٰذا بدکردار اور اللہ کے باغی تھے۔ ان پر سخت ٹھنڈی اور تیز آندھی کا عذاب آیا جس نے انہیں تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ الفجر
9 [٨] ذکر قوم ثمود :۔ دوسری قوم ثمود تھی جسے عاد ثانی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ماہر سنگ تراش تھی۔ پہاڑوں کے اندر اپنے مکان تو کجا شہروں کے شہر پتھروں کو تراش تراش کر بنا رکھے تھے ان لوگوں کا مسکن وادی القریٰ تھا جو مدینہ اور تبوک کے راستہ پر پڑتا ہے۔ یہ بھی آخرت کے منکر فلہٰذا اللہ کے باغی تھے۔ اللہ نے انہیں زلزلے اور چیخ کے عذاب سے تباہ کردیا۔ زلزلہ اتنا شدید تھا کہ ان کے پتھروں کے مکانوں میں دراڑیں اور شگاف پڑگئے۔ پھر ان میں سے بہت سے مکان پہاڑ کے بوجھ کی وجہ سے کھنڈر بن گئے اور وہ خود زلزلہ اور چیخ کی تاب نہ لاکر مرگئے۔ الفجر
10 [٩] فرعون اور قوم فرعون :۔ تیسری سرکش قوم فرعون اور اس کی قوم تھی۔ اور فرعون کو ''میخوں والا'' کہنے کی بھی کئی توجیہات بیان کی گئی ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ میخوں والے سے مراد اس کی سلطنت کی مضبوطی ہے جیسے اس سلطنت کی جڑیں میخوں کی طرح زمین میں ٹھونک دی گئی ہوں۔ دوسری یہ کہ میخوں سے مراد اس کی افواج اور لاؤ لشکر ہیں جن کے بل بوتے پر وہ اللہ کا باغی اور مدمقابل بن بیٹھا تھا۔ تیسری یہ کہ جب اس کے لشکر نقل و حرکت کرتے تو خیموں کو نصب کرنے کے لیے بڑی بڑی میخیں استعمال کرتے تھے۔ اور چوتھی یہ کہ جب اس نے کسی کو سولی چڑھانا ہوتا تو اسے تختہ دار پر رسیوں سے کسنے کے بجائے اس کے ہاتھوں اور پاؤں میں میخیں ٹھونک دیا کرتا تھا اور یہ سب باتیں اس کی قوت، اس کی نخوت، غرور اور سنگدلی پر دلالت کرتی ہیں۔ فرعون اور اس کی قوم بھی آخرت کی منکر اور اللہ کی نافرمان تھی۔ ان لوگوں کو اللہ نے بحر قلزم میں غرق کرکے دنیا کو ان کے وجود سے پاک کردیا۔ الفجر
11 الفجر
12 الفجر
13 [١٠] ان تینوں تاریخی واقعات میں قدر مشترک یہ ہے کہ یہ سب اقوام آخرت کی منکر تھیں۔ اور جو فرد یا قوم آخرت پر ایمان نہ رکھتی ہو۔ وہ اپنی زندگی بے باکانہ اور شتر بے مہار کی طرح گزارتی اور فسق و فجور میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ اور جب وہ ایک مخصوص حد سے آگے بڑھ جاتی ہے تو اس کے گناہوں کا ڈول بھر جاتا ہے اور عذاب الٰہی کی گرفت میں آجاتی ہے۔ ان واقعات سے استدلال یہ پیش کیا گیا ہے کہ آخرت کا عقیدہ محض تصوراتی نظر یہ نہیں بلکہ ایک ٹھوس حقیقت ہے۔ اور جس طرح انسان کسی ٹھوس حقیقت کے مقابلہ پر اتر آنے اور ٹکرانے سے پاش پاش ہوجاتا ہے۔ آخرت کے منکروں کا بھی یہی حال ہوتا رہا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔ الفجر
14 [١١] تاک یا گھات ایسی جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی شخص کسی کی انتظار میں اس لیے چھپا بیٹھا ہوتا ہے کہ جب وہ چیز اس کی زد میں آئے تو اس کے جال میں پھنس جائے۔ گزرنے والا اپنے انجام سے غافل اور بے فکری سے جارہا ہوتا ہے کہ اچانک شکار ہوجاتا ہے۔ یہی صورت حال اللہ کے مقابلہ میں ان ظالموں کی ہے جنہیں یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ کوئی ہستی انہیں دیکھ رہی ہے۔ وہ بڑی دیدہ دلیری سے گناہوں میں آگے ہی بڑھتے چلے جاتے ہیں تاآنکہ وہ حد آجاتی ہے جس سے آگے اللہ انہیں بڑھنے نہیں دینا چاہتا، اس وقت اچانک ان پر اللہ کے عذاب کا کوڑا برس جاتا ہے۔ اور اگر کسی فرد یا قوم پر دنیا میں ایسا وقت نہ بھی آئے تو ہر شخص کی موت اس کا یقینی وقت ہے۔ جیسا کہ مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ لبالمرصاد کا معنی الیہ المصیر یعنی سب کو اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) الفجر
15 الفجر
16 [١٢] رزق کی کمی بیشی' دونوں میں انسان کی آزمائش :۔ اللہ تعالیٰ انسان کی دونوں طرح سے آزمائش کرتا ہے۔ نعمتوں اور مال و دولت کی فراوانی سے بھی کہ آیا انسان اللہ کی نعمتوں کا شکر بجا لاتا ہے؟ اور رزق کی تنگی سے بھی کہ آیا انسان ایسے اوقات میں صبر سے کام لیتا ہے اور اللہ کی رضا پر راضی و مطمئن رہتا ہے؟ مگر مال و دولت کے معاملہ میں انسان کی قدریں ہی عجیب اور غلط قسم کی ہیں۔ جب اس پر انعامات کی بارش ہو رہی ہوتی ہے تو وہ یہ نہیں سمجھتا کہ میں آزمائش میں پڑا ہوا ہوں بلکہ یہ سمجھتا ہے کہ اللہ آج کل مجھ پر بڑا مہربان ہے اور جب تنگی کا دور آتا ہے۔ اس وقت بھی وہ یہ نہیں سمجھتا کہ میری آزمائش کی جارہی ہے بلکہ یہ سمجھتا ہے کہ اللہ نے تو میری توہین کر ڈالی ہے۔ گویا اس کی نظروں میں عزت اور ذلت کا معیار صرف مال و دولت کی کمی بیشی ہے۔ مال و دولت زیادہ ہو تو ایسا آدمی معزز ہے اور اگر تنگ دست ہو تو وہ ذلیل ہے۔ الفجر
17 الفجر
18 الفجر
19 الفجر
20 [١٣] یعنی کسی کی عزت و ذلت کو ماپنے والی تمہاری قدر ہی سراسرا غلط ہے۔ عزت و ذلت کا اصل معیار پیسہ اور مال و دولت نہیں بلکہ اس کا اعلیٰ اخلاق اور بلند کردار ہوتا ہے۔ مگر تمہارا یہ حال ہے کہ مال و دولت کو ہی اپنا معبود سمجھے بیٹھے ہو اور اسی پر مر مٹتے ہو۔ یتیموں اور بیواؤں کی عزت کرنا تو درکنار ان کے پاس اگر کوئی چیز موجود ہو تو اسے بھی اڑا لینے کی کوشش کرتے ہو۔ تمہاری پیسہ سے محبت اور بخل کا یہ حال ہے کہ کسی مسکین کی احتیاج دور کرنے کے لیے اسے کچھ دینا یا کھانا کھلانا تو درکنار دوسروں کو ترغیب بھی نہیں دیتے۔ میت کی وراثت سے بیوہ کو لڑکیوں کو اور بچوں سب کو محروم کردیتے ہو۔ اور جس کا زور چلتا ہے وہ ہی ساری میراث ہڑپ کرجاتا ہے تمہیں تو بس پیسہ ہی چاہیے اور اس کے حصول کے لیے ہر جائز اور ناجائز ذریعہ اختیار کرنے پر پہلے سے ہی تیار بیٹھے ہوتے ہو۔ تمہارے لچھن یہ ہوں تو اللہ کے نزدیک تمہاری عزت کیوں ہو؟۔ الفجر
21 [١٤] یعنی ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ تمہاری ایسی کرتوتوں کی تم سے باز پرس نہ کی جائے اور ایسا وقت یقیناً آنے والا ہے۔ [١٥] یعنی زمین پر متواتر زلزلوں اور ضربوں سے اس کے پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے اور سب نشیب و فراز برابر کردیے جائیں گے اور زمین ایک چٹیل میدان بنا دی جائے گی۔ الفجر
22 [١٦] یہ آیت بھی عقل پرستوں کے لیے آزمائش ہے اور وہ طرح طرح سے اس کی تاویل کرتے ہیں۔ انہیں مشکل یہ پیش آتی ہے کہ اللہ تو ہر جگہ موجود ہے وہ آئے گا کہاں سے؟ حالانکہ آیت کے الفاظ اتنے واضح ہیں کہ ان میں تاویل کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔ ہمارا کام صرف یہ ہونا چاہیے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ فرمائے اسے من و عن تسلیم کرلینا چاہیے۔ یہ بھی ہمیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات سات آسمانوں کے اوپر عرش پر ہے۔ وہاں سے وہ کیسے آئے گا یہ جاننے کے ہم مکلف نہیں جیسے اس کی شان ہے ویسے ہی آئے گا۔ اور اس حال میں آئے گا کہ فرشتے صفیں باندھے قطار در قطار اس کے ساتھ ہوں گے۔ یہی وہ دن ہوگا جب تم لوگوں سے تمارے اعمال کی باز پرس ہوگی۔ الفجر
23 [١٧] یعنی جب آخرت اور جنت و دوزخ کے منکرین جہنم کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ لیں گے تو کہیں گے کہ آج ہمیں جو بھی نصیحت کی جائے اور حکم دیا جائے ہم اسے ماننے کو تیار ہیں۔ مگر اس وقت چونکہ ان کی فرمانبرداری اختیاری نہیں اضطراری ہوگی۔ ان کا ایمان لانا بالغیب نہیں بلکہ بالشہادت ہوگا لہٰذا اس کی کچھ قدر و قیمت نہ ہوگی۔ کسی چیز کو دیکھ کر تو ہر کوئی یقین کر ہی لیتا ہے۔ اس دن ایسے لوگ بڑی حسرت سے کہیں گے کہ کاش ہم نے دنیا میں یہ نصیحت قبول کرلی ہوتی۔ اور آج کے دن کے لیے ہم نے بھی کچھ اچھے کام کیے ہوتے۔ الفجر
24 الفجر
25 الفجر
26 [١٨] ایسے لوگوں کو اس اس دن ایسی سخت مار پڑے گی اور سزا ملے گی جیسی کوئی دوسرا دے ہی نہیں سکتا۔ فرشتے ان کے گلوں میں طوق اور پاؤں میں زنجیریں ڈال کر جہنم میں پھینک دیں گے پھر اوپر سے جہنم کو بند کردیا جائے گا۔ اس میں سانپ اور بچھوؤں کے ڈسنے کا عذاب الگ ہوگا اور فرشتوں کے مارنے اور ڈانٹنے کا الگ۔ پھر ذہنی عذاب یہ ہوگا کہ اس عذاب سے نجات کی انہیں کوئی صورت نظر نہ آئے گی۔ علاوہ ازیں یہ عذاب وقتی اور عارضی نہیں بلکہ مستقل اور دائمی ہوگا۔ یہ فکر ان کے جسمانی عذاب کو کئی گنا زیادہ بنا دے گی۔ الفجر
27 [١٩] نفس مطمئنہ کیا ہے؟ اس کی وضاحت کے لیے سورۃ القیامۃ کی آیت نمبر ٢ کا حاشیہ نمبر ٢ ملاحظہ فرمائیے۔ الفجر
28 الفجر
29 [٢٠] یہ بات اسے موت کے وقت بھی کہی جائے گی۔ میدان محشر میں قبروں سے اٹھنے اور میدان محشر کی طرف چلتے وقت بھی کہی جائے گی۔ اور عدالت الٰہی میں فیصلہ کے بعد بھی کہی جائے گی۔ گویا ہر مرحلے پر اسے یہ اطمینان دلایا جائے گا کہ وہ اللہ کے فرمانبردار بندوں میں شامل ہے اور جنت کا مستحق ہے۔ الفجر
30 الفجر
0 البلد
1 [١] مسلمانوں کے علاوہ کفار مکہ کے ہاں بھی مکہ کی اہمیت و عظمت مسلّم تھی۔ بلکہ کفار مکہ تو اس شہر کی برکت کی وجہ سے کئی طرح کے دنیوی، تجارتی اور سیاسی مفادات بھی حاصل کر رہے تھے۔ عرب بھر میں ان کی عزت و وقار اور دولت و شہرت کا سبب یہی شہر اور اس میں کعبہ کی موجودگی تھی۔ البلد
2 [٢] حل کا لغوی مفہوم :۔ حِلَّ: حَلَّ کا بنیادی معنی ''گرہ کھولنا'' اور اس کی ضد عَقَدَ یعنی گرہ لگانا ہے۔ ارباب حل و عقد، ارباب بست و کشاد مشہور الفاظ ہیں۔ اور سامان باندھنے اور کھولنے کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ مسافر سامان باندھ کر سفر پر جاتا ہے اور جہاں فروکش ہوتا ہے تو سامان کھول دیتا ہے۔ لہٰذا حل کا لفظ کسی جگہ اترنے، فروکش ہونے اور قیام پذیر ہونے کے لیے بھی استعمال ہونے لگا۔ علاوہ ازیں حلال کا لفظ حرام کے مقابلہ میں بھی آجاتا ہے۔ حرام ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے سختی سے منع کیا جائے یعنی اس پر گرہ لگا دی جائے اور حلال اس گرہ کے کھولنے کو کہتے ہیں۔ اور حِلٌّ، حَلَّ سے اسم فاعل ہے۔ اسی وجہ سے حل کے یہاں کئی معنی کیے جاتے ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ مکہ وہ شہر ہے جہاں آپ کسی وقت فاتحانہ حیثیت سے فروکش ہوں گے۔ دوسرا یہ کہ اس شہر میں مسلمانوں پر اور آپ پر ہر طرح کے ظلم و ستم کو حلال سمجھ لیا گیا ہے۔ اور تیسرا یہ کہ ایک وقت آنے والا ہے جبکہ آپ اس شہر میں فاتحانہ حیثیت میں داخل ہو کر اس کی سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے لے کر آج تک قائم شدہ حرمت کو توڑ دیں گے اور حلال بنا دیں گے گو یہ کام صرف ایک ساعت کے لیے ہی ہوگا۔ ہمارے خیال میں یہی تیسرا مفہوم راجح ہے کیونکہ درج ذیل احادیث اسی مفہوم کی تائید کرتی ہیں : مکہ کی حرمت :۔ ١۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال قبیلہ خزاعہ نے قبیلہ بنو لیث کا ایک آدمی مار ڈالا۔ کیونکہ بنولیث نے خزاعہ کا ایک آدمی پہلے مارا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر ہوئی تو آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور خطبہ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اصحاب الفیل کو روک کر مکہ سے قتل کو روک دیا۔ اور اب اللہ، اس کا رسول اور مسلمان (مکہ کے کافروں پر) غالب ہیں۔ سن رکھو! مکہ نہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال ہوا ہے نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہوگا اور میرے لیے بھی دن کی ایک ساعت کے لیے حلال ہوا۔ سن رکھو! مکہ اس وقت بھی حرام ہے یہاں کے نہ کانٹے توڑے جائیں، نہ درخت کاٹے جائیں' نہ یہاں سے کوئی گری پڑی چیز اٹھائی جائے۔ الا یہ کہ اٹھانے والا اسے مالک تک پہنچا دینے کا ارادہ رکھتا ہو۔ اگر یہاں کوئی مارا جائے تو اس کے وارث کو دو میں سے ایک بات کا اختیار ہے۔ یا تو دیت لے لے اور یا قصاص (قاتل اس کے حوالہ کردیا جائے) اتنے میں اہل یمن کے ایک شخص (ابوشاہ) نے آکر عرض کی ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو باتیں فرمائی ہیں۔ مجھے لکھ دیجیے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ سے کہا : ’’اسے لکھ دو‘‘ پھر ایک قریشی (سیدنا عباس رضی اللہ عنہ ) نے عرض کی : ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اذخر (گھاس کاٹنے) کی اجازت دے دیجیے۔ ہم اسے اپنے گھروں اور اپنی قبروں میں بچھاتے ہیں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’اچھا اذخر (کاٹنے) کی اجازت ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب العلم۔ باب کتابۃ العلم) ٢۔ ابو شریح نے عمرو بن سعید (جو یزید کی طرف سے حاکم مدینہ تھا) سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ سے دوسرے دن خطبہ ارشاد فرمایا۔ پہلے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا : اللہ نے مکہ کو حرام کیا ہے لوگوں نے نہیں کیا تو جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے یہاں نہ خون بہانا درست ہے اور نہ کوئی درخت کاٹنا اور اگر کوئی شخص یہ دلیل لے کہ اللہ کے رسول یہاں لڑے تو تم اسے کہو : اللہ تعالیٰ نے تو اپنے رسول کو (فتح مکہ کے دن) خاص اجازت دی تھی جو تمہیں نہیں دی۔ اور مجھے بھی صرف دن کی ایک گھڑی اجازت دی گئی۔ اس کے بعد اس کی وہی حرمت ہے جو کل تھی۔ اور جو شخص یہاں موجود ہے وہ اس کو یہ باتیں بتا دے جو یہاں موجود نہیں'' لوگوں نے ابو شریح سے پوچھا : ''تو پھر عمرو بن سعید نے اس کا کیا جواب دیا ؟ ابو شریح کہنے لگے : عمرو نے یہ جواب دیا کہ : میں تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ مکہ گنہگار کو پناہ نہیں دیتا اور نہ اس کو جو خون یا چوری کرکے بھاگے۔ (بخاری، کتاب العلم۔ باب لیبلغ العلم الشاہد الغائب) اس آیت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تسلی بھی دی گئی ہے اور ایک بہت بڑی پیشین گوئی بھی ہے جو اس وقت کی گئی جب مسلمان کافروں کے ظلم و جور کی چکی میں پس رہے تھے اور اس وقت کسی کے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات نہ آسکتی تھی۔ مگر اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ یہ پیشین گوئی ٨ ھ میں سو فیصد پوری ہوئی۔ البلد
3 [٣] فی کبد کا مفہوم :۔ تیسری قسم آدم اور تمام اولاد آدم یعنی تمام نوع انسان کی زندگی کو شاہد بنا کر اٹھائی گئی ہے۔ اور تینوں قسمیں اس بات پر اٹھائی گئیں کہ انسان کی تخلیق ہی اس انداز پر ہوئی ہے کہ وہ ساری عمر سختیاں جھیلتا رہے۔ دکھ اور رنج سہتا رہے۔ یہ رنج اور مصیبتیں خواہ قدرتی ہوں یا دوسروں نے اسے پہنچائی ہوں یا اپنی ہی وجہ سے اسے پہنچ رہی ہوں۔ کبد کا معنی جگر ہے جو مشہور عضو انسانی ہے۔ اور اس لفظ میں سختی اور قوت کا مفہوم پایا جاتا ہے اور فی کبد محاورۃً استعمال ہوتا ہے اور یہ انسانی فطرت کا اظہار کرتا ہے۔ انسان کے دل میں ایک خواہش پیدا ہوتی ہے۔ جسے پورا کرنے کے لیے کئی طرح کے رنج و الم سہتا ہے اور وہ ابھی پوری نہیں ہو پاتی کہ اتنے میں چند اور خواہشیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ اب وہ انہیں پورا کرنے اور رنج و محن سہنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اس کی تمام عمر بیت جاتی ہے۔ پھر قدرتی تکلیفیں اور دوسروں کے ہاتھوں پہنچنے والی تکلیفیں اور ان کی مدافعت کا سلسلہ مستزاد ہوتا ہے۔ البلد
4 البلد
5 [٤] انسان جن تکلیفوں میں زندگی گزارتا ہے ان میں بیشتر ایسی ہوتی ہیں جو اس کے اپنے ہاتھوں کی لائی ہوئی، اپنے نفس کی خواہشات کی تکمیل کی وجہ سے ہوتی ہیں جن میں سے اکثر غلط اور ناجائز قسم کی ہوتی ہیں جنہیں وہ پورا کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیتا ہے۔ وہ دوسروں پر کئی طرح کی زیادتیاں بھی کرجاتا ہے اور اس بات سے غافل اور بے نیاز ہوتا ہے کہ کوئی ہستی اسے دیکھ بھی رہی ہے اور اس پر گرفت بھی کرسکتی ہے۔ البلد
6 [٥] ایسی ہی ناجائز خواہشات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ محض نمود و نمائش اور تعلی کی خاطر اپنا مال خرچ کرتا ہے اور جتنا خرچ کرتا ہے اس سے کئی گنا بڑھا چڑھ کر بتاتا ہے کہ میں نے اتنا اور اتنا مال اپنے بیٹے کی شادی پر خرچ کیا تھا یا فلاں رسم کو پورا کرنے پر خرچ کیا تھا۔ البلد
7 [٦] یعنی اس نے یہ مال کن ذرائع سے کما یا تھا اور کیسے ناجائز ذرائع میں خرچ کر رہا ہے اور کیسی فاسدنیت سے خرچ کر رہا ہے۔ البلد
8 البلد
9 [٧] قرآن میں اکثر مقامات پر انسان کو متنبہ کرنے کے لیے اس کی آنکھوں اور اس کے کانوں یا بصارت اور سماعت کا ذکر آیا ہے۔ جبکہ یہاں آنکھوں کے ساتھ کانوں کے بجائے انسان کے اعضائے قوت گویائی کا ذکر کیا گیا ہے جن سے وہ اپنے مافی الضمیر کا اظہار کرتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسان کو جو آنکھیں، کان، کان یا زبان دی گئی ہے تو یہ گائے بھینسوں کی آنکھ، کان یا زبان جیسی نہیں ہے کہ وہ انہیں صرف اپنے دنیوی مفادات کے لیے استعمال میں لائے۔ بلکہ اسے جانوروں سے زائد قوت تمیز، عقل وشعور بھی دی گئی ہے تاکہ وہ انہیں اعضاء کو کام میں لاکر اپنے مالک حقیقی کو پہچانے۔ البلد
10 [٨] اس آیت کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ ہم نے انسان کے پیدا ہوتے ہی اس کی ماں کی چھاتیوں کی طرف رہنمائی کردی تاکہ وہ نشوونما پاسکے۔ اعضائے انسانی کے ذکر کے لحاظ سے یہ مطلب بھی درست ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اسے بھلائی اور برائی کے دونوں راستے بتا دیے۔ اسی کا نام قوت تمیز اور عقل ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انبیاء بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر ان راہوں کی پوری وضاحت بھی کردی۔ البلد
11 [٩] اس آیت میں دو الفاظ قابل وضاحت ہیں ایک اقتحام دوسرا عقبة۔ قحم (فی الامر) بمعنی بلا سوچے کسی معاملہ میں داخل ہوجانا اور اِقْتَحَمَ (الامر) بمعنی اپنے آپ کو مشقت کے ساتھ کسی معاملہ میں پھنسا دینا یا کسی مشکل کام میں جاگھسنا۔ اور عقبہ بمعنی کسی پہاڑ یا گھاٹی پر چڑھنے کا دشوار گزار راستہ جو پہاڑوں کے درمیان سے گزرتا ہو اور اس لفظ سے صرف اوپر چڑھنے کا راستہ ہی مراد لیا جاتا ہے، نیچے اترنے کا نہیں۔ البلد
12 [١٠] یہ گھاٹی دراصل اخلاقی بلندیاں ہیں اور ان پر چڑھنے کا راستہ دشوار گزار اس لحاظ سے ہے کہ ایسے راستے عموماً انسان کی خواہش کے خلاف اور طبیعت کے لئے ناگوار اور گرانبار ہوتے ہیں۔ البلد
13 البلد
14 البلد
15 البلد
16 [١١] دشوار گزار گھاٹی پر چڑھنے کے اوصاف :۔ اس گھاٹی پر چڑھنے کے چار کام یہاں بیان کیے گئے ہیں اور ان چاروں کا تعلق اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے سے ہے۔ جو انسان کو طبعاً ناگوار ہے۔ اوپر ایسے شخص کا ذکر آیا ہے جو اپنے نام و نمود اور شہرت اور شیخی بگھارنے کے لیے مال خرچ کرتا پھر لوگوں میں بڑ ہانکتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے اتنا اور اتنا مال فلاں فلاں کاموں میں خرچ کردیا ہے۔ اب یہ بتایا جارہا ہے کہ اگر مال خرچ کرنا ہے تو اس کے بہترین مصرف یہ ہیں کہ مال خرچ کرکے کسی غلام کو آزادی دلادی جائے۔ اس کی مکاتبت میں اس کی مدد کی جائے۔ قحط کے دنوں میں لوگوں کو غلہ مہیا کیا جائے یا انہیں کھانا کھلایا جائے۔ یتیموں کی پرورش کی جائے۔ اور اگر وہ یتیم قرابتدار بھی ہو تو وہ اور بھی زیادہ پرورش اور امداد کا مستحق ہے۔ یتیموں کے علاوہ دوسرے ضرورت مندوں کی ضروریات کو پورا کیا جائے جن کو رہنے کو کٹیا اور سونے کو بستر، پہننے کو لباس اور کھانے کو غذا بھی میسر نہیں۔ یہی وہ کام ہیں جو ایک انسان کو بلند مرتبہ تک پہنچانے والے ہیں۔ اور یہ سب کام ایسے ہیں جن کی کتاب و سنت میں جا بجا ترغیب دی گئی ہے اور ان کا بڑا ثواب بیان کیا گیا ہے۔ البلد
17 [١٢] اصحاب الیمین کے لئے کونسی صفات ضروری ہیں :۔ اس آیت سے بہت سی باتیں معلوم ہوتی ہیں ایک یہ کہ انسان کتنے ہی اچھے اعمال بجا لائے جب تک ایماندار نہ ہو، اللہ اور روز آخرت پر ایمان نہ رکھتا ہو، اس کے اعمال آخرت میں کسی کام نہیں آئیں گے بلکہ برباد ہوجائیں گے۔ دوسری یہ کہ صرف ایمان لانا ہی کافی نہیں بلکہ باقی ایمانداروں کا ساتھ دینا بھی ضروری ہے تاکہ اسلام کو غالب کرنے اور غالب رکھنے کے راستہ میں جو مشکلات پیش آتی ہیں۔ ان کی اجتماعی طور پر مدافعت کی جائے۔ تیسری یہ کہ اسلام کی نظر میں اجتماعی زندگی ہی پسندیدہ ہے۔ تاکہ اسلامی معاشرے کے سب افراد ایک دوسرے کے دکھ درد اور رنج و راحت میں شریک ہو سکیں۔ اس سلسلے میں چند احادیث ملاحظہ فرمائیے۔ ١۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے ایک عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط بنائے رکھتا ہے۔‘‘ پھر آپ نے اپنی انگلیوں کو قینچی کرلیا۔ (بخاری کتاب الادب باب تعاون المومنین بعضھم بعضاً) ٢۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’آپس میں بغض حسد نہ کرو۔ ترک ملاقات نہ کرو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن کر رہو اور کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ ترک ملاقات کرے۔‘‘ بخاری کتاب الادب باب ما ینتہی عن التحاسد) چوتھی یہ کہ مسلمان صرف خود ہی صبر نہیں کرتے بلکہ سب ایک دوسرے کو بھی صبر کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ اور صبر کا مفہوم بڑا وسیع ہے۔ ایک مسلمان کی پوری زندگی صبر ہی صبر ہے۔ اسلام کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا بھی صبر ہے اور احکام شریعت پر ثابت قدم اور ان کا پابند رہنا بھی صبر ہے۔ پانچویں یہ کہ وہ ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو ایک دوسرے پر رحم کرنے کی تاکید بھی کرتے رہتے ہیں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ١۔ جو شخص دوسروں پر رحم نہیں کرتا اس پر (اللہ کی طرف سے) بھی رحم نہیں کیا جائے گا۔ (بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الناس والبہائم) اور ایک دوسری روایت کے الفاظ یوں ہیں۔ ’’تم اس مخلوق پر رحم کرو جو زمین میں ہے تم پر وہ ذات رحم کرے گی جو آسمانوں میں ہے۔‘‘ ٢۔ مسلمان ایک دوسرے پر رحم کرنے' دوستی رکھنے اور مہربانی برتنے میں ایک جسم کی طرح ہیں' جب ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو سب اعضاء بے چین ہوجاتے ہیں' نیند نہیں آتی اور بخار چڑھ جاتا ہے۔ (حوالہ ایضاً) ٣۔ ایک دفعہ ایک آدمی سفر کر رہا تھا اسے سخت پیاس لگی۔ پھر ایک کنواں ملاتو اس میں اترا اور پانی پیا۔ باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک کتا پیاس کے مارے کیچڑ چاٹ رہا ہے۔ اس نے سوچا کہ کتے کو پیاس کی وجہ سے ایسی ہی تکلیف ہوگی جیسے مجھے ہوتی ہے۔ وہ پھر کنویں میں اترا اور اپنے موزے میں پانی بھر کر اور اسے منہ میں تھام کر اوپر چڑھا پھر کتے کو پانی پلایا۔ اللہ نے اس کے کام کی قدر کی اور اس کو بخش دیا۔ لوگوں نے عرض کیا ’’اے اللہ کے رسول! کیا ہمیں جانوروں پر رحم کرنے میں بھی ثواب ملے گا‘‘؟ فرمایا ’’ہر تازہ کلیجے والے پر ثواب ملے گا۔‘‘ (حوالہ ایضاً) ٤۔ آپ ایک دفعہ اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھا رہے تھے کہ ایک اعرابی (گنوار) نماز میں ہی کہنے لگا : ’’اے اللہ مجھ پر اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر رحم کر اور ہمارے علاوہ اور کسی پر نہ کر‘‘ آپ نے جب نماز سے سلام پھیرا تو اس بدو سے فرمایا’’ارے تم نے تو کشادہ کے آگے بند لگادیا‘‘ اور کشادہ سے آپ کی مراد اللہ کی رحمت تھی۔ (حوالہ ایضاً) البلد
18 [١٣] یعنی جن ایمان داروں میں مندرجہ بالا صفات پائی جائیں تو ایسے ہی لوگ وہ خوش نصیب ہیں جنہیں عرش عظیم کے دائیں طرف جگہ ملے گی۔ اور اعمال نامہ ان کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ البلد
19 البلد
20 [١٤] اور جو لوگ اللہ کے، آخرت کے اور اللہ کی آیات کے منکر ہیں یہی لوگ اپنی شامت اعمال کے نتیجہ میں ماخوذ ہوں گے۔ انہیں اعمال نامہ بھی پیٹھ کے پیچھے سے بائیں ہاتھ میں تھمایا جائے گا اور انہیں پابند زنجیر و سلاسل جہنم میں پھینک کر جہنم کے سب دروازے بند کردیئے جائیں گے۔ البلد
0 الشمس
1 [١] ضُحٰی کے معنی چاشت کا وقت بھی ہے جب سورج خاصا بلند ہوجاتا ہے اور اس وقت کی دھوپ بھی جبکہ روشنی کے علاوہ سورج کی گرمی بھی اہل زمین کو متاثر کرنا شروع کردیتی ہے۔ الشمس
2 [٢] تلیٰ بمعنی کسی چیز کا کسی دوسری چیز کے پیچھے آنا اور بار بار آتے رہنا۔ یعنی مہینہ کے اکثر ایام ایسے ہوتے ہیں کہ سورج ڈوبنے کے بعد چاند نکل آتا ہے۔ الشمس
3 [٣] یعنی جب دن کے وقت سورج پوری روشنی کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے اور تمام اشیاء کو نمایاں کردیتا ہے۔ الشمس
4 [٤] یعنی جب رات کی تاریکی چھا جائے اور سورج کی روشنی کانشان تک باقی نہ رہ جائے۔ الشمس
5 [٥] اس کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ مَا کو مَن کے معنی میں لیا جائے اور اس کی مثالیں بھی قرآن میں موجود ہیں۔ اس لحاظ سے اس کا ترجمہ وہی ہوگا جو اوپر مذکور ہے۔ اور دوسرا یہ کہ ما کو ما کے معنی میں ہی سمجھا جائے اس صورت میں معنی یہ ہوگا۔ اور آسمان کی قسم جیسا کہ اسے شان و عظمت والا بنایا ہے۔ الشمس
6 [٦] یعنی زمین کو اس طرح پھیلا دیا کہ وہ مخلوق کی بودو باش کے قابل بن جائے۔ انہیں کھانے کو رزق بھی فراہم ہوتا رہے اور رہائش بھی۔ آیت نمبر ٥ کی طرح اس کے بھی دونوں مطلب ہوسکتے ہیں۔ الشمس
7 [٧] انسان فطرتاً نیک اور موحد پیدا کیا گیا :۔ یعنی نفس کو پیدا کرنے کے بعد اس میں وہ تمام ظاہری اور باطنی قوتیں رکھ دیں جن سے کام لے کر وہ ایسے سب کام سرانجام دے سکے جن کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے۔ سَوّٰھَا کے مفہوم میں یہ بات شامل ہے کہ انسان پیدائشی طور پر نہ گنہگار پیدا ہوا ہے جیسا کہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے اور اسی غرض سے انہوں نے کفارہ مسیح کا عقیدہ اختراع کیا اور نہ ہی انسان شرپسند پیدا ہوا ہے جیسا کہ بعض گمراہ فرقوں کا خیال ہے۔ بلکہ انسان کی فطرت میں راستی اور سچائی ودیعت کی گئی ہے۔ جھوٹ بولنا وہ بعد میں سیکھتا ہے۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ خیر خواہی کے جذبہ سے مل جل کر رہنا چاہتا ہے، دوسروں کی بدخواہی اور ایذا پہنچانا وہ بعد میں سیکھتا ہے۔ اس کی فطرت میں توحید ہے، شرک کرنا وہ بعد میں سیکھتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہر بچہ اسلام کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) (مزید تفصیل کے لیے سورۃ بقرہ آیت نمبر ٢١٣ پر حاشیہ نمبر ٢٨١ ملاحظہ فرمائیے) الشمس
8 [٨] الہام اور وحی کا فرق :۔ فَاَلْھَمَھَا : الہام کے معنی وہ بات ہے جو اللہ تعالیٰ یا ملاء اعلیٰ کی جانب سے بغیر کسی واسطہ کے دل میں ڈال دی جائے اور بمعنی سمجھ اور بصیرت عطا فرمانا۔ توفیق دینا، الہام شیطان کی طرف سے بھی ہوسکتا ہے جبکہ وہ نصوص شرعیہ کے خلاف ہو۔ وحی اور الہام میں بنیادی فرق یہ ہے کہ الہام کا اطلاق صرف ذوی العقول پر ہوتا ہے جبکہ وحی عام ہے۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ الہام کا تعلق کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے سے ہوتا ہے۔ جبکہ وحی میں بہت زیادہ وسعت ہوتی ہے۔ الہام کی تین صورتیں :۔ الہام کی کئی صورتیں ہیں۔ ایک صورت تو وہ ہے جسے ہم فطری وحی کہہ سکتے ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے ایک پرندے کے چوزے کو پیدا ہوتے ہی ہوا میں اڑنا سکھا دیا ہے یا مچھلی کو پانی میں تیرنا یا شہد کی مکھی کو چھتہ جیسا حیرت انگیز گھر بنانا سکھا دیا یا انسان کے بچہ کو ماں کی چھاتیوں کی طرف لپکنا اور دودھ چوسنا سکھا دیا۔ اگر اللہ تعالیٰ فطرت میں یہ باتیں نہ رکھتا تو پیدا ہونے والے نادان بچے کو ایسی باتیں سکھانے کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ الہام کی دوسری صورت کسی ایسی بات کا یکدم سوجھ جانا ہے جو انسان کی ذہنی کاوش کا نتیجہ نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ سائنس کے جتنے اکتشافات اور ایجادات ہوئی ہیں۔ وہ انسانوں کی ذہنی کاوش کے نتیجہ میں نہیں بلکہ ایسے ہی الہام کے نتیجہ میں وجود میں آئی ہیں۔ الہام کی تیسری صورت کا تعلق صرف اخلاقیات سے ہے اور یہی اس آیت میں مذکور ہے یعنی ہر انسان کی فطرت میں خیر و شر کی تمیز رکھ دی گئی ہے۔ پھر انسان کا ضمیر انسان کو ہر وقت متنبہ بھی کرتا رہتا ہے جس کی وجہ سے بسا اوقات اسے برا کام کرنے پر سخت ندامت محسوس ہوتی ہے اور کسی سے بھلائی کرکے انسان خوش ہوتا ہے۔ یہ احساس و امتیاز ایک عالمگیر حقیقت ہے جس کی بنا پر دنیا میں کبھی کوئی انسانی معاشرہ خیر و شر کے تصور سے خالی نہیں رہا ہے۔ الشمس
9 الشمس
10 [٩] آیت نمبر ٩ اور نمبر ١٠ جواب قسم ہے۔ یعنی ابتدا سورۃ سے آیت نمبر ٨ تک جتنی باہم متضاد اشیاء کی قسمیں کھائی گئی ہیں وہ اس حقیقت پر کھائی گئی ہیں کہ جس نے اپنے نفس کو کفر و شرک سے، فاسد عقائد سے اور اخلاق رذیلہ سے پاک کرلیا۔ وہ کامیاب ہوگیا اور جس شخص نے اپنے ضمیر کی آواز کو جو اسے خیر و شر پر متنبہ کرتی رہتی ہے، خاک میں دبا دیا وہ نامراد ہوگیا۔ یعنی جس طرح سورج اور چاند ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ دن اور رات مختلف اور متضاد ہیں۔ زمین اور آسمان ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ فجور اور تقویٰ یا خیر اور شر ایک دوسرے کی ضد ہے۔ اسی طرح خیر و شر کی بنیاد پر اٹھنے والے اعمال کے نتائج بھی یقیناً ایک دوسرے سے متضاد اور مختلف ہونے چاہییں۔ وہ ایک جیسے کبھی نہیں ہوسکتے۔ تقویٰ کی بنیاد پر کیے ہوئے اعمال کا نتیجہ اخروی فلاح و کامیابی ہے جبکہ فجور کی بنیاد پر کیے ہوئے اعمال کا نتیجہ اخروی ناکامی اور نامرادی ہے۔ الشمس
11 [١٠] اسی حقیقت کو ایک تاریخی نظیر سے سمجھایا گیا ہے اور اس نظیر کے لیے قوم ثمود کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے کہ ان کا مسکن مکہ کے قریب تھا اور اہل مکہ میں ان کی داستانیں زبان زد عام تھیں۔ یعنی قوم ثمود نے بھی سرکشی کی راہ اختیار کرتے ہوئے اس حقیقت کی پروا نہ کی اور اللہ کی آیات اور اس کے رسول کی تکذیب کی تھی۔ الشمس
12 [١١] یہ قوم کا سب سے زیادہ بدبخت شخص کون تھا ؟ اس کی وضاحت کے لیے درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیں۔ عبداللہ بن زمعہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خطبہ میں صالح پیغمبر کی اونٹنی اور اس شخص کا ذکر کیا جس نے اس اونٹنی کو زخمی کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو بدبخت اس کام کے لیے تیار ہوا وہ ایک جری، شریر اور مضبوط شخص (قدار بن سالف) تھا جو اپنی قوم میں ابو زمعہ کی طرح تھا (بخاری۔ کتاب التفسیر) الشمس
13 [١٢] ذکر قوم ثمود :۔ انہیں اللہ کے رسول یعنی صالح علیہ السلام نے پہلے ہی تاکید کردی تھی کہ اللہ کی اس اونٹنی کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچانا۔ اور اسے اللہ کی اونٹنی اس لیے کہا کہ یہ ان کا منہ مانگا معجزہ تھا اور قدآور اور عظیم الجثہ اونٹنی ایک پہاڑ کے اندر سے ان کے مطالبہ پر نمودار ہوئی تھی۔ چونکہ یہ اونٹنی ان لوگوں کے مویشیوں جتنا پانی اکیلی ہی پی جاتی تھی اور پانی کی وہاں قلت بھی تھی۔ لہٰذا صالح علیہ السلام نے باری مقرر کردی تھی۔ اور ساتھ ہی یہ بھی تاکید کردی تھی کہ اس کے پانی پینے اور اور باری کے معاملہ میں کسی طرح کی گڑ بڑ نہ کرنا ورنہ تم پر اللہ کا عذاب نازل ہوگا اور یہ قصہ پہلے متعدد مقامات پر تفصیل سے گزر چکا ہے۔ الشمس
14 [١٣] یعنی ان لوگوں نے سیدنا صالح علیہ السلام کی تنبیہ کو چنداں اہمیت نہ دی اور اس تنبیہ کو جھوٹ ہی سمجھا۔ [١٤] اونٹنی کو ہلاک کرنے والا صرف ایک شخص قدار بن سالف تھا جو خود بھی زانی اور ایک زانیہ عورت کا عاشق تھا۔ اسی زانیہ عورت کی انگیخت پر اس نے اس کام کا بیڑا اٹھایا تھا۔ پھر ساری قوم کے لوگوں سے خفیہ مشورے کرکے ان کو ہمنوا بنا لیا تھا۔ اسی لیے اونٹنی کو ہلاک کرنے کی نسبت پوری قوم کی طرف کی گئی ہے اور عذاب بھی صرف اونٹنی کو ہلاک کرنے والے پر نہیں بلکہ ساری قوم پر آیا تھا۔ الشمس
15 [١٥] یعنی دنیا دار بادشاہ جب کسی دوسری قوم یا ملک پر حملہ کرتے یا ان سے اپنا بدلہ لینا چاہتے ہیں تو اپنی اس کارروائی کے نتائج وعواقب پر نظر رکھتے ہیں کہ مثلاً اس حملہ کا رد عمل کیا ہوگا ؟ کہیں ہماری اپنی ہی رعیت تو اس کے خلاف نہ اٹھ کھڑی ہوگی؟ یا مخالف قوت ہمارے حملہ کے رد عمل کے طور پر کیا کچھ کارروائی کرنے کی اہلیت رکھتی ہے غرض بیسیوں قسم کے خیالات ان کے ذہن میں آتے ہیں جن کا توڑ وہ پہلے سوچ لیتے ہیں لیکن اللہ جب کسی قوم کو تباہ و برباد کرنا چاہتا ہے تو اسے کسی بات کو سوچنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ الشمس
0 الليل
1 الليل
2 الليل
3 الليل
4 [١] سورۃ الشمس کی طرح اس سورت کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے چند متضاد اشیاء مثلاً رات اور دن کی' نر اور مادہ کی قسم کھا کر فرمایا کہ جس طرح دن اور رات کی اور نر اور مادہ کی خصوصیات آپس میں متضاد اور مختلف ہیں۔ اسی طرح اے بنی نوع انسان! تم جو کچھ اس دنیا میں اعمال بجا لا رہے ہو وہ بھی ایک دوسرے سے متضاد اور مختلف ہیں۔ لہٰذا تمہاری اس سعی عمل کے نتائج مختلف ہیں اور ہونے چاہئیں۔ وہ یکساں کبھی نہیں ہوسکتے۔ الليل
5 الليل
6 [٢] یعنی لوگوں کے اعمال اور ان کے نتائج جو ایک دوسرے سے متضاد اور مختلف ہیں۔ ان میں سے ایک گروہ کے اعمال یہ ہیں کہ : ١۔ وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتا رہا۔ ٢۔ اس نے اپنی ساری زندگی اللہ سے ڈرتے ہوئے اور اس کی فرمانبرداری میں گزار دی اور ٣۔ ہر بھلی بات کی تصدیق کی۔ بھلی بات سے مراد ایمان بالغیب بھی ہے۔ اللہ کی آیات بھی ہیں۔ اللہ کی توحید بھی، رسول کی تصدیق بھی اور اخلاق فاضلہ کی بجا آوری بھی۔ گویا ان تین مختصر سے الفاظ میں پوری شریعت کا خلاصہ پیش فرما دیا کہ جو شخص یہ اور یہ کام کرے گا اللہ اس کے لیے احکام شریعت پر چلنا' اور جنت میں داخلہ کا مستحق ہونا آسان بنا دیتا ہے۔ اسے نیکی کے کاموں کی توفیق دیتا ہے حتیٰ کہ بدی کی راہ پر چلنا اس کے لیے دشوار ہوجاتا ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسی راہ کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ البلد کی آیت نمبر ١١ میں گھاٹی کی دشوار گزار راہ قرار دیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ راہ چونکہ خواہشات نفسانی کے مخالف ہے۔ اس لیے ابتدائ ً یہ فی الواقع انسان کی طبیعت پر بوجھ اور دشوار گزار راستہ معلوم ہوتا ہے لیکن جب عزم صمیم کے ساتھ اس راستہ پر گامزن ہوجاتا ہے تو یہی راستہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے آسان بنا دیتا ہے بلکہ اسے یہی راہ آسان معلوم ہونے لگتی ہے جس کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس کے لیے رزق حلال اور کسب حلال کے دروازے کھلتے جاتے ہیں اور حرام کی کمائی کا حصول اسے سخت ناگوار محسوس ہونے لگتا ہے۔ یہ ایک فریق کا حال ہے۔ الليل
7 الليل
8 الليل
9 الليل
10 [٣] ایک نیک بخت اور ایک بدبخت کے اعمال اور نتائج کا تقابل :۔ دوسرے فریق کی صفات اور عادات پہلے فریق سے بالکل مختلف اور متضاد ہیں یعنی وہ اللہ کی راہ میں ہرگز مال خرچ کرنے کو تیار نہیں ہوتا اور اگر خرچ کرتا ہے تو اپنی ہی ذات پر خرچ کرتا ہے یا ایسے کاموں میں خرچ کرتا ہے جن سے اس کی شہرت یا اس کی فیاضی کا چرچا ہو۔ اپنی زندگی ایسے بسر کرتا ہے جیسے اس کا خالق و مالک اس کے سر پر ہے ہی نہیں اور اگر زبانی اقرار کرتا بھی ہے تو اپنی عملی زندگی میں اس کے احکام سے بالکل بے نیاز رہتا ہے اور ہر بھلائی کی بات کو جھٹلا دیتا ہے (بھلائی کی وضاحت سابقہ حاشیہ میں کی جاچکی ہے) ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ جہنم کا راستہ آسان اور نیکی اور بھلائی کی راہیں بہت مشکل بنا دیتا ہے۔ ان کی زندگی گناہ اور حرام کاموں میں گزرتی ہے۔ وہ کسب حرام اور رزق حرام سے ایسے مانوس ہوتے ہیں کہ رزق حلال کی انہیں کوئی راہ نہ پسند آتی ہے اور نہ ان کے لیے آسان ہوتی ہے۔ اب اس سلسلہ میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے۔ ١۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ﴿ وَکَذَّبَ بالْحُسْنٰی ﴾ کا معنی یہ ہے کہ اس کو یہ یقین نہیں کہ اللہ کی راہ میں جو خرچ کرے گا، اللہ اسے اس کا بدلہ دے گا۔ ٢۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر صبح دو فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہتا ہے : ’’اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اس کے عوض اور مال دے‘‘ اور دوسرا کہتا ہے : ’’اے اللہ! بخل کرنے والے کے مال کو تلف کردے‘‘ (بخاری۔ کتاب الزکوۃ۔ باب فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی ) ٣۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم بقیع میں ایک جنازے میں شریک تھے۔ اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھ گئے تو ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارد گرد بیٹھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سر جھکا کر چھڑی سے زمین کرید رہے تھے۔ (جیسے کسی گہری سوچ میں ہیں) پھر فرمایا : ’’تم میں سے جو شخص بھی پیدا ہوا ہے اس کا ٹھکانا لکھ دیا گیا ہے جنت میں یا دوزخ میں اور یہ بھی لکھا جاچکا ہے کہ وہ نیک بخت ہے یابدبخت“ اس پر ایک شخص بولا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر ہم اپنی قسمت کے لکھے پر بھروسا کرتے ہوئے عمل کرنا چھوڑ نہ دیں؟ کیونکہ جو نیک بختوں میں لکھا گیا ہے وہ بالآخر نیک بختوں میں شامل ہوگا اور جو بدبخت لکھا گیا ہے وہ بالاخر بدبختوں میں شامل ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (نہیں، بلکہ عمل کیے جاؤ) کیونکہ نیک بخت لکھے گئے ہیں انہیں نیک اعمال کی توفیق دی جاتی ہے اور جو بدبخت لکھے گئے ہیں انہیں ویسی ہی توفیق دی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیات پڑھیں (بخاری۔ کتاب التفسیر) رہا کسی شخص کے انجام سے متعلق اللہ تعالیٰ کے پیشگی علم کا مسئلہ تو یہ بات پہلے بھی واضح کی جاچکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ علم کسی شخص کو اس بات پر مجبور نہیں کرتا کہ وہ وہی کام کرے جو اللہ نے اس کے متعلق فیصلہ کر رکھا ہے۔ اس کی تفصیل کے لیے سورۃ اعراف کی آیت نمبر ٢٤ کا حاشیہ دیکھیے۔ الليل
11 [٤] تردّی۔ ردی بمعنی کسی چیز کو بلندی سے زمین پردے مارنا یا زمین سے کسی گڑھے میں پھینک دینا تاکہ وہ ہلاک ہوجائے اور تردی کے معنی خود کنوئیں یا گڑھے میں گرنا اور ہلاکت کو پہنچنا ہے اور یہاں گڑھے سے مراد جہنم کا گڑھا ہے۔ یعنی یہ دوسری قسم کا آدمی جہنم کے گڑھے میں گر پڑے گا تو اس وقت اس کا مال جسے وہ اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتا تھا کسی کام نہ آسکے گا کیونکہ وہ مال تو دنیا میں ہی رہ گیا ہوگا۔ وہاں کیسے کام آسکتا ہے؟ الليل
12 [٥] یعنی ہم نے خیرو شر کی تمیز کو انسان کی فطرت میں داخل کردینے پر ہی اکتفا نہیں کیا۔ بلکہ اس کی پوری رہنمائی کرنا بھی ہمارے ذمے ہے اور یہ ذمہ داری ہم نے رسول بھیج کر اور کتابیں نازل کرکے پوری کردی ہے۔ الليل
13 [٦] یعنی آخرت کے مالک بھی ہم ہیں اور دنیا کے بھی۔ اب جو شخص ہم سے دنیا ہی طلب کرتا ہے اسے ہم دنیا ہی دیتے ہیں وہ بھی اتنی جتنی ہم چاہتے ہیں اور جو ہم سے آخرت کا طلبگار ہوتا ہے اسے آخرت تو ضرور دیتے ہیں اور دنیا بھی اتنی ضرور دے دیتے ہیں جتنی اس کے مقدر ہے۔ الليل
14 الليل
15 الليل
16 [٧] جہنم میں گناہگار مسلمانوں کا داخلہ اور فرقہ مرجیہ کا رد :۔ اس آیت سے فرقہ مرجیہ نے استدلال کیا ہے کہ جہنم میں صرف کافر ہی داخل کیے جائیں گے گناہگار مومن داخل نہیں کیے جائیں گے۔ ان کا یہ نظریہ اس لیے غلط ہے کہ انہوں نے قرآن کی بے شمار دوسری آیات اور اسی طرح احادیث کو نظر انداز کردیا ہے جن میں بصراحت مذکور ہے کہ مومن گنہگاروں کو بھی دوزخ میں داخل کیا جائے گا اور جب ان کے گناہوں کی سزا پوری ہوچکے گی تو انہیں دوزخ سے نکال لیا جائے گا اور شفاعت کی نہایت ثقہ اور متواتر حدیثوں میں مذکور ہے کہ گنہگار مسلمانوں کا ایک گروہ دوزخ میں چلا جائے گا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سفارش سے دوزخ سے نکالا جائے گا۔ لہٰذا اس آیت کا مطلب صرف یہ ہے کہ دوزخ کے اس خاص مقام میں جو اللہ نے تیار ہی کافروں اور مشرکوں کے لیے کیا ہے۔ اس میں اسی بدبخت کو داخل کیا جائے گا جس نے حق بات کو ٹھکرا دیا اور اس سے اعراض ہی کرتا رہا۔ الليل
17 [٨] یعنی جو لوگ اپنی ساری زندگی اللہ سے ڈرتے ہوئے گزارتے ہیں ان کو جہنم کی ہوا تک نہیں لگے گی۔ اس لیے کہ انہیں جہنم سے دور رکھ کر صاف بچا لیا جائے گا۔ الليل
18 [٩] یعنی جو مال اس نے خرچ کیا اس سے شہرت یا نمود و نمائش مقصود نہیں تھی بلکہ مقصود یہ تھا کہ اس کا دل بخل کے مرض سے پاک ہوجائے۔ الليل
19 الليل
20 الليل
21 الليل
0 الضحى
1 الضحى
2 [١] سَجٰی کا لغوی مفہوم :۔ ﴿سَجٰی﴾ یعنی رات کا سنسان اور خاموش ہونا، نیز اس لفظ میں دوسری چیزوں کو چھپا لینے کا تصور بھی پایا جاتا ہے۔ خواہ یہ تصور ظاہری طور پر ہو جیسے سَجَی الْمَیّت بمعنی میت پر چادر ڈال کر اسے چھپا دینا یا معنوی طور پر ہو جیسے سَج معائب اخیک بمعنی اپنے بھائی کے عیبوں کو چھپاؤ۔ گویا اس لفظ میں پرسکون ہونے اور چھپانے کے دونوں معنی پائے جاتے ہیں۔ یعنی رات کا اتنا حصہ گزر چکا ہو کہ سب لوگ سو چکے ہوں اور تاریکی بھی پوری طرح چھا چکی ہو۔ پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے چاشت کے وقت کی قسم کھائی ہے۔ جب سورج بلند ہوچکا ہوتا ہے اور لوگ اپنے اپنے کام کاج میں مشعول ہوجاتے ہیں۔ اور یہ وقت اس کے بالکل برعکس اور متضاد ہے۔ اور ان دونوں متضاد حالتوں کی قسم کھا کر فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروردگار نے نہ آپ کو چھوڑا ہے اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ناراض ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ چاشت کا وقت تو اللہ کی رحمت کا وقت ہے اور گئی رات کا وقت اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا وقت ہے۔ اس لیے کہ دونوں اوقات کے اپنے اپنے فوائد ہیں۔ اگر ہمیشہ دن ہی رہتا تو یہ بھی لوگوں اور جانداروں کے لیے سخت اذیت کا باعث بن جاتا اور اگر ہمیشہ رات رہتی تو بھی یہی بات تھی۔ اسی طرح وحی کے آنے کے وقت کو اللہ کی رحمت کا وقت اور نہ آنے کے وقت کو اللہ کی ناراضگی کا وقت نہیں قرار دیا جا سکتا۔ وحی کی حالت میں اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لذت و سرور حاصل ہوتا تھا لیکن یہ وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اتنا اعصاب شکن اور تکلیف دہ ہوتا تھا کہ سردیوں میں بھی آپ کو پسینہ چھوٹ جاتا تھا لہٰذا ضروری تھا کہ وحی کے بعد آپ کو آرام کا وقفہ دیا جائے اور یہ وقفہ ابتداًء زیادہ تھا۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعت آہستہ آہستہ اس بار وحی کو برداشت کرنے کے قابل ہوتی گئی تو یہ وقفہ بھی کم ہوتا گیا۔ الضحى
3 [٢] اس سورت کے نزول کا پس منظر یہ ہے کہ پہلی وحی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر غار حرا میں نازل ہوئی جو سورۃ العلق کی ابتدائی پانچ آیات تھیں۔ اس بار وحی کی کوفت کا تو یہ حال تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گھر آکرسیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو یہ واقعہ سنایا تو بتایا کہ''انی خشیت علٰی نفسی'' کہ مجھے تو اپنی جان کے لالے پڑگئے تھے اور لذت و سرور کا یہ حال تھا کہ آپ اس واقعہ کے بعد ہر وقت جبرائیل کی آمد کے منتظر رہتے تھے لیکن وحی کچھ عرصہ کے لیے بند ہوگئی یہ عرصہ کتنا تھا ؟ اس کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔ کم سے کم تین دن اور زیادہ سے زیادہ چھ ماہ۔ واللہ اعلم بالصواب۔ اسی وقفہ کو فترۃ الوحی کہتے ہیں۔ اس دوران آپ کو خود بھی بعض دفعہ یہ خیال آنے لگتا کہ کہیں میرا پروردگار مجھ سے ناراض تو نہیں ہوگیا ؟ اور کافر تو بہرحال ایسے موقع کی تلاش میں رہتے تھے جس سے وہ اپنے اندر کا ابال نکال سکیں جیسا کہ درج ذیل حدیث سے ظاہر ہے : جندب بن سفیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مزاج ناساز ہوا اور دو تین راتیں (نماز تہجد کے لیے) اٹھ نہ سکے۔ ایک عورت (عوراء بنت حرب، ابو سفیان کی بہن اور ابو لہب کی بیوی) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی : محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سمجھتی ہوں کہ ’’تیرے شیطان نے تجھے چھوڑ دیا ہے میں نے دو تین راتوں سے اسے تیرے پاس نہیں دیکھا‘‘ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) الضحى
4 [٣] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک عظیم الشان خوشخبری دی اور اس وقت دی جبکہ اس کے پورا ہونے کے آثار دور دور تک کہیں نظر نہ آتے تھے۔ نیز اس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تسلی بھی دی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کفار مکہ کی ایذا دہی اور ظلم و جور سے نہ گھبرائیں۔ کیونکہ آپ کی زندگی کا ہر آنے والا دور اپنے پہلے دور سے بہتر ہوگا۔ بالفاظ دیگر رفتہ رفتہ آپ کے عز و شرف میں لگاتار ترقی ہوتی رہے گی۔ پھر یہ وعدہ صرف دنیا کی زندگی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ آخرت میں آپ کو جو بلند مقام عطا ہوگا وہ کائنات میں کسی دوسرے کو عطا نہیں ہوگا۔ الضحى
5 [٤] آپ پر اللہ کے انعامات :۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے کیا کچھ دیا تھا ؟ اس بات کا احاطہ ہم نہیں کرسکتے بلکہ ہم تو یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ وہ کونسی عزوشرف کی بات تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے عطا نہ کی ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایسی جماعت عطا کی جن میں سے ایک ایک فرد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنی جان تک فدا کرنے پر فخر محسوس کرتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا غیر مشروط مطاع بنایا۔ ان کا معلم اور مزکی بنایا۔ اپنی کتاب کا مفسر بنایا۔ پورے عرب سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوششوں سے کفر و شرک کا مکمل طور پر استیصال ہوگیا۔ پورے جزیرہ عرب میں اسلام کا غلبہ ہوگیا۔ آپ ٢٣ سال کے قلیل عرصہ میں ایک وحشی ' اجڈ اور ایک دوسرے کے خون کی پیاسی قوم کو دنیا بھر کی تہذیب و تمدن کی علمبردار قوم بنا دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے بعد آپ کی یہ تحریک پوری دنیا پر چھا گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک قلیل عرصہ میں ایسا تمدنی، اخلاقی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی انقلاب بپا کیا جس کی نظیر پوری دنیا کی تاریخ ڈھونڈھنے سے کہیں نہیں ملتی۔ یہ سب کچھ کیا تھا ؟ یہ اللہ کی رحمت اور عطا تھی جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اتنا کچھ عطا کریں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوش ہوجائیں گے۔ الضحى
6 [٥] یتیم ہونے پر آپ کو بہترین سرپرست ملتے رہے :۔ آپ کی پیدائش سے دو ماہ پیشتر ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد ماجد کا انتقال ہوگیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا ہوئے تو آپ کی سرپرستی کا ذمہ آپ کے دادا عبدالمطلب نے لیا جو اپنی صلبی اولاد سے بڑھ کر آپ پر شفقت اور پیار کرتے تھے۔ ابھی چھ ہی سال کے تھے کہ والدہ ماجدہ بھی انتقال کرگئیں اور آپ دونوں طرف سے یتیم ہوگئے۔ آٹھ سال کے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مہربان دادا عبدالمطلب کی بھی وفات ہوگئی۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سرپرستی کی ذمہ داری آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک چھوٹے چچا ابو طالب نے سنبھالی۔ جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی اولاد سے بڑھ کر پیار دیا۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت ملی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برادری کے لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن ہوگئے تو ابو طالب نے اسلام نہ لانے کے باوجود ہر تنگی ترشی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ دیا۔ برادری کی دشمنی اور عداوت کا سارا بار اپنے سر مول لیا اور ہر طرح کے خطرات سے بے نیاز ہو کر نبوت کے آغاز سے دس سال بعد تک آپ کی سرپرستی اور حفاظت کی ذمہ داری کو بڑے احسن طریقے سے نباہا۔ حتیٰ کہ شعب ابی طالب کے تین سال بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ محصور رہے۔ ١٠ نبوی میں یہ سہارا بھی ختم ہوگیا یعنی ابو طالب کی وفات ہوگئی۔ اس کے تھوڑی ہی مدت بعد اللہ تعالیٰ نے انصار مدینہ (اوس اور خزرج) کو اسلام کی نعمت عطا فرمائی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیعت عقبہ کے بعد مدینہ تشریف لے گئے۔ انصار مدینہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کا جو ذمہ لیا تھا اسے جس جراتمندانہ طریق سے انہوں نے پورا کیا وہ تاریخ کے اوراق پر ثبت ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ احسان بتایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یتیم ہونے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سرپرست ایسے عطا کیے جاتے رہے جو اپنی جان سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عزیز رکھتے تھے۔ الضحى
7 [٦] آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بچپن ہی سے کفر و شرک سے بیزار تھے۔ جھوٹ، بددیانتی اور اخلاق رذیلہ سے آپ کو طبعاً نفرت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مالک و خالق حقیقی کو ٹھیک طرح پہنچانتے تھے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ گمراہی میں پڑے ہوئے معاشرہ کی اصلاح کیسے ممکن ہے؟ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ جاہلیت کے اس تاریک دور میں پانچ چھ آدمی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہم خیال اور ہمنوا تھے جن میں سرفہرست سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام آتا ہے۔ یہ لوگ بھی شرک اور دوسری معاشرتی برائیوں سے سخت متنفر تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس معاملہ میں سب سے زیادہ متفکر رہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تن تنہا پہاڑوں کی غاروں میں چلے جاتے۔ وہاں جاکر مالک حقیقی سے لو لگاتے اور سوچتے رہتے کہ وہ کون سا طریق کار اختیار کیا جاسکتا ہے جس سے مخلوق خدا کو کفر و شرک کی گمراہیوں سے بچایا جاسکتا ہے؟ چنانچہ آپ اسی غرض سے غار حرا میں مقیم تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پہلی بار جبریل امین کا نزول ہوا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس دیرینہ تڑپ کو پورا کرنے کی راہ ہموار کردی جو ایک عرصہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینہ میں موجزن تھی۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اس احسان اور نعمت کا ذکر فرمایا ہے۔ واضح رہے کہ اس آیت میں ضالاً کا لفظ استعمال ہوا اور ضَلَّ کا لفظ عربی زبان میں مندرجہ ذیل چھ معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ضلّ کا مفہوم :۔ ١۔ ضَلَ ّکا بنیادی معنی راستہ کھو دینا یا گم کردینا ہے۔ مثلاً ایک شخص کسی ایسے مقام تک جا پہنچا ہے جہاں آگے یا تو کئی راستے ہوجاتے ہیں یا کسی ایک راستہ کا بھی نشان گم ہوجاتا ہے اور وہ وہاں یہ سوچنے لگتا ہے کہ اب کیا کرے؟ وہیں کھڑے کا کھڑا رہ جائے؟ یا اگر کوئی راستہ اختیار کرے تو کون سی راہ اختیار کرے؟ کسی شخص کے اس طرح راہ گم کردینے کو لفظ ضَلَّ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس آیت میں ضالا کایہی مفہوم ہے۔ آپ ضالّ کن معنوں میں تھے؟۔ ٢۔ پھر کبھی انسان اسی حیرانگی کے عالم میں کسی غلط راستے پر بھی جا پڑتا ہے۔ اب اگر یہ غلط راستے پر پڑنا غیر ارادی طور پر اور سہواً ہو تو ضَلَّ کے معنی بھولنا ہوں گے۔ جیسے فرمایا : ﴿اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰیھُمَا فَتُذَکِّرَ اِحْدٰیہُمَا الْاُخْرٰی ﴾ (۲۸۲:۲)یعنی اگر ان دونوں عورتوں میں سے ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے۔ ٣۔ اور اگر غلط راستے پر پڑنا اور راہ راست سے ہٹ جانا ارادہ کے ساتھ یعنی عمداً ہو تو یہ گناہ ہے جیسے فرمایا : ﴿غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّالِیْنَ﴾(١: ٧) یعنی نہ تو ان لوگوں کی راہ دکھانا جن پر تیرا غضب نازل ہوا اور نہ گمراہوں گی۔ اور احادیث میں یہ صراحت ملتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عدی بن حاتم کو فرمایا تھا کہ ﴿مَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ﴾ الفاتحہ سے مراد یہود اور ﴿ضَالِّیْنَ﴾ سے مراد نصاریٰ ہیں جو عقیدہ تثلیث کے موجد اور قائل تھے۔ ٤۔ اور کبھی یہ لفظ کسی چیز کے اپنے وجود کو کھو کر دوسری چیز کے مل جانے کے معنوں میں آتا ہے جیسے کافر کہتے ہیں کہ ﴿ وَقَالُوْٓا ءَاِذَا ضَلَلْنَا فِی الْاَرْضِ ءَاِنَّا لَفِیْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ ڛ بَلْ ہُمْ بِلِقَاۗیِٔ رَبِّہِمْ کٰفِرُوْنَ﴾ یعنی جب ہم زمین میں مل کر زمین ہی بن جائیں گے تو کیا از سر نو پیدا ہوں گے؟ ٥۔ اور کبھی یہ لفظ ایسے کام کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو رہا ہو یعنی جس غرض کے لیے کوئی کام کیا جائے وہ پوری نہ ہو۔ جیسے فرمایا : ﴿اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَہُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا ﴾(۱۰۴:۱۸) یعنی وہ لوگ جن کی سعی دنیا میں برباد ہوگئی اور وہ یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ وہ اچھے کام کر رہے ہیں۔ ٦۔ اور کبھی یہ لفظ کسی کی محبت میں فریفتہ ہونے پر بھی استعمال ہوتا ہے جیسے یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنے باپ سے کہا : ﴿ تَاللّٰہِ اِنَّکَ لَفِیْ ضَلٰلِکَ الْقَدِیْمِ ﴾ یعنی اللہ کی قسم! تم تو یوسف کی اسی پرانی محبت میں (ابھی تک) مبتلا ہو۔ اس آیت میں پہلا اور چھٹا دونوں معنی استعمال ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ یہ دونوں معنی آپ کی نبوت سے پہلی زندگی سے مطابقت رکھتے ہیں اور ترجمہ میں پہلا معنی اس لیے اختیار کیا گیا ہے کہ اس لفظ کا بنیادی معنی وہی ہے۔ الضحى
8 [٧] آپ کا بچپن :۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد ماجد نے میراث میں صرف ایک اونٹنی اور ایک لونڈی چھوڑی تھی۔ آپ کی رضاعت کا مسئلہ سامنے آیا تو سب دائیوں نے آپ کی رضاعت سے اس بنا پر انکار کردیا کہ آپ یتیم ہیں۔ والد موجود نہیں گھرانہ بھی اتنا مالدار نہیں تو یہاں سے کیا ملے گا۔ آخر یہ سعادت حلیمہ سعدیہ کے ہاتھ آئی اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضاعت کو اس لیے قبول کرلیا کہ کسی امیر گھرانے کا بچہ انہیں ملا ہی نہیں تھا اور انہوں نے یہ سمجھ کر رضاعت قبول کی کہ کچھ ہونا بہرحال نہ ہونے سے بہتر ہے۔ آٹھ سال کی عمر کو پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا عبدالمطلب فوت ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے چچا ابو طالب کی کفالت میں آگئے۔ ابو طالب خود عیالدار اور مفلس تھے۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند قیراط کی مزدوری پر مکہ والوں کی بکریاں بھی چرائی تھیں اور جو معاوضہ ملتا وہ ابو طالب کے حوالہ کردیتے۔ ذرا بڑے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شام کے تجارتی سفروں میں حصہ لینے لگے۔ حسن معاملت کی بنا پر انہی ایام میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت، امانت اور دیانت کا چرچا ہوگیا۔ اس پر مکہ کی ایک بیوہ اور مالدار خاتون نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مضاربت کی بنا پر اچھی خاصی رقم دے دی۔ واپس آئے تو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے غلام زید بن حارثہ نے، جو شریک سفر تھے آپ کی امانت، دیانت کی انتہائی تعریف کی۔ جس سے متاثر ہو کر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے خود نکاح کی پیش کش کی۔ یہ خاتون مالدار بھی تھیں، حسین بھی تھیں۔ لہٰذا معززین مکہ کی طرف سے ان کو کئی بار نکاح کے پیغام آئے لیکن آپ سب کو رد کرتی رہیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انہوں نے خود نکاح کا پیغام بھیج دیا جسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبول کرلیا اور ٢٥ سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک چالیس سالہ بیوہ خاتون سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ شادی ہوگئی۔ نکاح کے بعد سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنا سارا مال و دولت اور غلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تحویل میں دے دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند دنوں تو تجارت کی مگر جلدی ہی یہ سارا مال اللہ کی راہ میں محتاجوں، بیواؤں، بے روزگاروں اور ضرورتمندوں کو دے دیا کیونکہ آپ طبعاً امیری کی بجائے فقر کو پسند کرتے تھے اور یہی غنا کی سب سے بہترین قسم ہے کہ مالدار ہونے کے باوجود انسان فقر کو ترجیح دے۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے اموال غنائم میں پانچواں حصہ مقرر کردیا اور اموال فے سارے کے سارے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تحویل میں دے دیے۔ مگر اتنے مال و دولت اور حکومت کے باوجود آپ سارا مال و دولت تقسیم کردیتے تھے۔ بقدر کفاف اپنی گھریلو ضرورتوں کے لیے رکھ لیتے تھے اور ساری زندگی دولت پر فقر کو ترجیح دی۔ اس آیت میں آپ کی ابتدائی مفلسی اور اس کے بعد آپ کے اسی قسم کے غنا کا ذکر ہے۔ الضحى
9 [٨] یتیم کی کفالت :۔ یعنی جس طرح ہم نے تمہاری یتیمی کے دوران ہر مرحلہ پر تمہارا خیال رکھا اسی طرح تم بھی یتیموں سے بہترین سلوک کرو۔ نہ انہیں دباؤ نہ ان پر سختی کرو، نہ انہیں بےیارومدد گار چھوڑ دو بلکہ ان کی ضرورتوں کا پورا پورا خیال رکھا کرو۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسرے مسلمانوں کو بھی یتیموں کی کفالت اور ان سے حسن سلوک کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا کہ : میں اور یتیم کا کفیل جنت میں اس طرح (اکٹھے) ہوں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی شہادت کی اور وسطی انگلی کی طرف اشارہ کیا اور انہیں تھوڑا سا کھول دیا (بخاری، کتاب الادب۔ باب فضل من یعول یتیما) الضحى
10 [٩] سائل سے نرم برتاؤ:۔ سائل کا معنی کوئی چیز مانگنے والا بھی ہے اور کوئی بات پوچھنے والا بھی۔ پہلے معنی کے لحاظ سے یہ مطلب ہے کہ اگر تم سے کوئی چیز مانگنے والا آئے تو اسے کچھ نہ کچھ ضرور دے دو اور دینے کو کچھ نہ ہو تو نرمی سے معذرت کر دو۔ یعنی سائل کو جھڑک دینا جائز نہیں۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔ ١۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جب کوئی سائل آتا یا کوئی شخص اپنی حاجت بیان کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ سے فرماتے کہ تم بھی سفارش کرو۔ تمہیں اجر ملے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کی زبان سے جو چاہے گا حکم دے گا۔ (بخاری۔ کتاب الزکوۃ۔ باب التحریض علی الصدقۃ والشفاعۃ فیھا) ٢۔ عبدالرحمٰن بن بجید اپنی دادی سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ ’’بعض دفعہ کوئی سائل میرے دروازے پر آن کھڑا ہوتا ہے جسے میرے پاس دینے کو کچھ نہیں ہوتا تو میں کیا کروں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اگر تم فقیر کو دینے کے لیے بکری کے ایک جلے ہوئے کھر کے سوا کچھ نہ پاؤ تو وہی اس کے ہاتھ میں رکھ دو‘‘ (ترمذی۔ ابو اب الزکوٰۃ، باب ماجاء فی حق السائل) ٣۔ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’کیا میں تمہیں ایسے آدمی کی خبر نہ دوں جو سب سے بدتر ہے؟‘‘ صحابہ نے عرض کیا : ’’ہاں بتائیے‘‘ فرمایا : ’’وہ شخص جس سے اللہ کے نام پر مانگا جائے اور وہ کچھ نہ دے‘‘ (نسائی۔ کتاب الزکٰوۃ، عمن یسئل باللٰہ عزوجل ولایعطی بہ) عادی سائل کو جھڑکنے میں مضائقہ نہیں :۔ البتہ اگر مانگنے والا عادی سائل ہو اور چمٹ کر سوال کرنے والا ہو تو اسے جھڑکنے میں کوئی حرج نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے سائلوں کو بھی اس آیت کی رو سے کچھ نہ کچھ دے ہی دیتے تھے۔ مگر یہ دینا آپ کو سخت ناگوار ہوتا تھا۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے : ١۔ سیدنا معاویہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’مجھ سے چمٹ کر سوال نہ کیا کرو۔ جو شخص بھی تم میں سے مجھ سے کوئی سوال کرتا ہے تو میں اسے کچھ نہ کچھ دے دیتا ہوں۔ حالانکہ میں اس کو مکروہ سمجھتا ہوں۔ اس طرح اس چیز میں برکت نہیں رہتی جو میں اسے دیتا ہوں۔‘‘ (مسلم، کتاب الزکوٰۃ باب النہی عن المسئلۃ) ٢۔ سیدنا عمر فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ کا کچھ مال تقسیم فرمایا تو میں نے عرض کی۔ ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اللہ کی قسم اس کے مستحق تو اور لوگ تھے۔‘‘ اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’ان لوگوں نے دو باتوں میں سے مجھے کسی ایک بات پر مجبور کردیا یا تو بے حیائی اور ڈھٹائی سے مجھ سے مانگیں یا میں ان کے آگے بخیل ٹھہروں اور میں بخل کرنے والا نہیں ہوں‘‘ (مسلم، کتاب الزکوۃ۔ باب اعطاء المؤلفۃ۔۔) ایسی ہی احادیث سے علماء نے استنباط کیا ہے کہ غیر مستحق 'عادی قسم کے اور چمٹ کر سوال کرنے والوں کو جھڑکنے میں کچھ حرج نہیں۔ اور اگر سائل کے معنی کوئی بات یا مسئلہ پوچھنے والا لیا جائے تو اس کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ سوال کرنے والا غیر مہذب، اجڈ قسم کا انسان ہو۔ ایسے شخص کو جھڑکنا نہیں چاہیے بلکہ لاعلمی کو جہالت پر محمول کرتے ہوئے مسئلہ بتا دینا اور پوری طرح سمجھا دینا چاہیے۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ علم رکھنے والا خود اپنے علم کا زعم اور غرور رکھتا ہو اور اپنے آپ کو کوئی بڑی چیز سمجھتا ہو اور اپنی اسی بدمزاجی پر عام لوگوں کو کوئی سوال کرنے یا مسئلہ پوچھنے پر جواب دینا پسند ہی نہ کرے اور انہیں جھڑک دے۔ یہ بڑے گناہ کی بات ہے اور اس آیت میں اسی چیز سے منع کیا گیا ہے۔ الضحى
11 [١٠] تحدیث نعمت کا مطلب :۔ کچھ نعمتوں کا ذکر تو اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں کردیا۔ ان کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ کے بے شمار احسانات تھے۔ اللہ کی نعمتوں کے ذکر اور اظہار کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ تہہ دل سے اللہ کا شکر ادا کیا جائے۔ اور قطعاً یہ نہ سمجھا جائے کہ مجھ میں کوئی خاص اہلیت اور قابلیت تھی جس کی وجہ سے مجھ پر اللہ نے یہ احسان کیے۔ بلکہ انہیں محض اللہ کے فضل و کرم پر محمول کیا جائے اور ان نعمتوں کا اسی جذبہ کے تحت دوسرے لوگوں کے سامنے بھی اقرار و اعتراف کیا جائے مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ اس اقرار و اعتراف میں فخر و مباہات کا شائبہ تک نہ ہو۔ الضحى
0 الشرح
1 [١] شرح صدر کے دو مفہوم :۔ شرح صدر کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ کسی بات، نظریہ، عقیدہ یا معاملہ کی انسان کو پوری طرح سمجھ آجائے۔ اس میں کوئی شک و شبہ یا ابہام باقی نہ رہے اور انسان کو جو کچھ سمجھ میں آئے اس پر اسے یقین اور اطمینان حاصل ہوجائے جیسے فرمایا : ﴿فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یَّہدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ ﴾(۱۲۶:۲)’’یعنی جس شخص کو اللہ ہدایت دینے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے‘‘ یعنی اسے یہ یقین واطمینان حاصل ہوجاتا ہے کہ اسلام کے پیش کردہ عقائد ہی درست ہیں۔ اور اس لفظ کا دوسرا معنی یہ ہے کہ جس کام کو انسان ایک بہت بڑا مشکل کام سمجھ رہا ہو اور اس کام کو سرانجام دینا اسے گرانبار محسوس ہو رہا ہو اس کام کے کر گزرنے اور اس بوجھ کو اٹھانے کے لیے اس کی طبیعت آمادہ ہوجائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے جب سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت دے کر حکم دیا کہ اب فرعون کے ہاں جاکر اسے میرا پیغام دو۔ تو اس وقت آپ نے دعا فرمائی۔ ﴿ قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ﴾ (۲۰:۲۵۔۲۶)’’یعنی اے میرے پروردگار میرا سینہ کھول دے اور میرے لیے میرا یہ (مشکل) کام آسان بنا دے‘‘ اس آیت میں سوالیہ انداز بیان اختیار کیا گیا ہے کہ جس سے اس کے پس منظر پر روشنی پڑتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام کی دعوت کا کام شروع کیا تو وہی قوم جو آپ کے گن گاتے تھکتی نہ تھی اور آپ ساری قوم کے محبوب فرد تھے، آپ کی دشمن بن گئی۔ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے تکلیف دہ بھی تھی اور حیران کن بھی لیکن ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اسلام اور اسلام لانے والے مسلمانوں کو اتنا عظیم حوصلہ عطا فرما دیا کہ وہ کفار مکہ کے مظالم سہنے کے باوجود ان کے آگے نہ جھکتے تھے اور نہ دبتے تھے۔ اور سب سے بڑھ کر حوصلہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کیا گیا کیونکہ کفار کا اصل ہدف آپ ہی کی ذات مبارکہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا، آپ کی رسالت کا، اللہ کی آیات کا اور آپ کے کلام کا مذاق و استہزاء کفار کا دلچسپ مشغلہ تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جسمانی ایذاؤں کی انتہا اس سے زیادہ کیا ہوسکتی ہے کہ مکی دور میں کافروں نے آپ پر سات مرتبہ قاتلانہ حملے کیے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے سورۃ مائدہ آیت ٦٧ کا حاشیہ) علاوہ ازیں جب بھی کسی مسلمان پر ظلم و ستم ہوتا تو اس دکھ میں بھی آپ برابر کے شریک ہوتے تھے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ احسان یاد دلایا ہے کہ کیا تمہیں ہم نے ان مصائب کو برداشت کرنے کے لیے چٹان جیسا حوصلہ نہیں عطا فرما دیا ؟ مزید تفصیل کے لیے میری کتاب محمدصلی اللہ علیہ وسلم ۔۔ پیکر صبرو ثبات“ ملاحظہ کیجیے۔ الشرح
2 الشرح
3 [٢] وزر کے دو مفہوم :۔ وِزْرَ کا لفظ بھاری بوجھ کے لیے آتا ہے اور اس کی جمع اوزار ہے لیکن اس کا اکثر استعمال معنوی بوجھ کے لیے ہوتا ہے بالخصوص بار گناہ اور کسی طرح کے بھی ذہنی بوجھ کے لیے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ یہاں وزر سے مراد وہ ذہنی بوجھ ہے جو نبوت سے پہلے ہی آپ کو لاحق تھا۔ جب آپ اپنی قوم کو کفر و شرک کی گمراہیوں اور طرح طرح کی معاشرتی برائیوں میں مبتلا دیکھتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پورے معاشرے کی اس حالت پر سخت دل گرفتہ رہتے تھے کہ کس طرح اس بگڑے ہوئے معاشرے کی اصلاح ممکن ہے۔ مگر اس کی کوئی صورت، کوئی طریقہ اور کوئی راہ نظر نہیں آتی تھی۔ بالآخر آپ پر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ٹھیک طرح سے معلوم ہوگیا کہ اس سارے بگاڑ کا علاج توحید، عقیدہ آخرت اور رسالت پر ایمان میں مضمر ہے۔ چنانچہ آپ کا سارا ذہنی بار ہلکا ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یقین حاصل ہوگیا کہ اس طرح نہ صرف اپنی قوم بلکہ ساری دنیا کو ان خرابیوں اور برائیوں سے نکالا جاسکتا ہے جن میں اس وقت عرب کے علاوہ باقی ساری دنیا بھی مبتلا تھی۔ علاوہ ازیں وزر کا دوسرا مفہوم رسالت کی ذمہ داریاں بھی ہوسکتا ہے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا﴿ اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَـقِیْلًا﴾(۷۳:۵) یہ بوجھ بھی ابتداء نہایت گرانبار تھا جبکہ آغاز دعوت پر مخالفتوں کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہاڑ جیسا حوصلہ عطا کرکے اس کمر توڑ بوجھ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذہن سے اتار دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذمہ داریاں نباہنے کے لیے دل و جان سے مستعد ہوگئے۔ الشرح
4 [٣] آپ کا ذکر بلند ہونے کے مختلف ذرائع' پہلا ذریعہ خود کفار مکہ تھے :۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر خیر کی بلندی کا آغاز ابتدائے نبوت ہی سے شروع ہوگیا تھا اور لطف کی بات یہ ہے کہ یہ کام اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ ہی سے لیا۔ مثل مشہور ہے۔ عدو شرے برانگیزد کہ خیر مادراں باشد (یعنی بعض دفعہ دشمن بھی ایسی شرارتیں کرنے لگتا ہے جس میں ہماری بھلائی ہوتی ہے) کفار مکہ نے اسلام کو زک پہنچانے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کے سدباب کے طور پر جو ذریعے اختیار کیے تھے ان میں ایک یہ بھی تھا کہ حج کے موقعہ پر تمام عرب قبائل حج کی غرض سے مکہ آتے تھے تو کفار نے آپس میں یہ طے کیا کہ ان وفود کو مل کر انہیں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت سے متنفر کیا جائے اور کہا جائے کہ کہیں فلاں شخص کے دام فریب میں نہ آجانا۔ اس کے پاس ایسا جادو ہے جو بھائی کو بھائی سے، باپ کو بیٹے سے اور بیوی کو شوہر سے جدا کردیتا ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں کافروں کے وفود حاجیوں کے ایک ایک ڈیرے پر جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف مہم چلاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بدنام کرتے تھے لیکن باہر سے آنے والے لوگ بھی آخر اتنے بدھو تو نہیں ہوتے تھے جو فوراً کافروں کی بات کا یقین کرلیتے۔ لہٰذا ان کی اس مخالفانہ مہم کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دو فائدے پہنچے۔ ایک یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر خیر عرب کے کونے کونے میں ہونے لگا۔ دوسرے لوگوں کے ذہنوں میں یہ جستجو پیدا ہوئی کہ جس شخص کے خلاف یہ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے اس کی اصل حقیقت تو معلوم کرنی چاہیے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت سے پیشتر عرب کا کوئی قبیلہ ایسا نہیں رہا تھا جس میں کوئی نہ کوئی مسلمان موجود نہ ہو اور وہاں آپ کا ذکر خیر نہ کیا جاتا ہو۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ اسلام میں داخل ہونے کے لیے جس طرح لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا اقرار ضروری تھا۔ اسی طرح مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کا اقرار بھی ضروری تھا۔ علاوہ ازیں مکہ میں تو آپ کے دشمن صرف قریش مکہ تھے مگر مدینہ پہنچنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخالف گروہ ایک کے بجائے چار بن گئے۔ ایک قریش مکہ، دوسرے یہود مدینہ، تیسرے مدینہ اور عرب بھر کے مشرک قبائل اور چوتھے منافقین جو مدینہ کے علاوہ دوسری بستیوں میں بھی موجود تھے۔ اور ان کی ہمدردیاں ہر دشمن اسلام گروہ سے وابستہ ہوتی تھیں۔ انہوں نے اسلام کی راہ روکنے کے لیے قریش مکہ کی روش اور اس سے ملتے جلتے طریقے اختیار کیے اور یہ سب لوگ آپ کو بدنام کرنے میں سرگرم تھے۔ لیکن ان کے نتائج بھی ان کی توقعات کے برعکس برآمد ہوئے اور دس سال کے قلیل عرصہ میں سارا عرب مسلمان ہو کر دن میں کئی کئی بار لا الٰہ الا اللہ کے ساتھ محمد رسول اللّٰہ کی صدائیں بلند کرنے لگا۔ اذان میں، اقامت (تکبیر تحریمہ) میں، درود میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر خیر لازمی تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد اسلامی تحریک عرب سے باہر نکل کر ساری دنیا میں پھیل گئی۔ پھر یہ حالت ہوگئی کہ دنیا کے مختلف علاقوں میں مختلف اوقات اذان و نماز کی وجہ سے غالباً دن میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرتا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کا آوازہ بلند نہ کیا جارہا ہو اور یہ سلسلہ تاقیامت بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہ پیشینگوئی اللہ تعالیٰ نے اس وقت کی تھی جب مکہ کے لوگوں کے علاوہ آپ کو کوئی جانتا تک نہ تھا۔ اور وہ بھی آپ کے دشمن اور آپ کی ہستی کو دنیا سے ختم کردینے پر تلے ہوئے تھے۔ قرآن کی یہ پیشینگوئی خود قرآن کی صداقت پر کھلا ہوا ثبوت ہے۔ اس وقت کون یہ اندازہ کرسکتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر خیر اس شان کے ساتھ اور اتنے وسیع پیمانے پر ہوگا۔ الشرح
5 [٤] ان دو آیات میں بہ تکرار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ اگر اس وقت آپ مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں تو عنقریب مصائب کے یہ بادل چھٹ جائیں گے اور اتنی ہی آپ کو سہولتیں اور آسانیاں میسر آئیں گی۔ اس آیت میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ تنگی کے بعد آسانی ہے بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ بہت جلد یہ صورت حال بدل جانے والی ہے۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اور مسلمانوں کو تسلی بھی دے دی گئی کہ وہ یہ مشکل وقت حوصلہ اور صبر کے ساتھ برداشت کریں بس تھوڑی ہی دیر بعد کایا پلٹ جانے والی ہے۔ الشرح
6 الشرح
7 الشرح
8 [٥] یعنی جب آپ کو تبلیغ کے کاموں سے گھریلو مشاغل سے اور اسلام لانے والوں کی تعلیم وتربیت سے فراغت حاصل ہو تو اپنے پروردگار سے لو لگایئے۔ اور یکسو ہو کر اس سلسلہ میں ریاضت کیجئے۔ کیونکہ مشکلات کے دوران اللہ کی عبادت اس کا ذکر اور اس پر توکل ہی انسان کو ایسا حوصلہ عطا کرتا ہے جس سے مصائب کو برداشت کرنے کے قابل بن جاتا ہے۔ الشرح
0 التين
1 [١] تین بمعنی انجیر کا درخت بھی اور اس کا پھل بھی اور اس کا واحد تینۃ ہے۔ بمعنی انجیر کا ایک دانہ۔ یہ ایک خوش ذائقہ معروف پھل ہے جس میں غذائیت بہت ہوتی ہے اور بہت سی بیماریوں کا علاج بھی ہے۔ اور تیانۃ بمعنی انجیر فروش اور متانۃ انجیر کے باغ کو کہتے ہیں یا ایسی جگہ کو جہاں انجیر کے درخت بکثرت پائے جائیں۔ [٢] زیتون ایک درخت ہے جس سے زیتون کا تیل نکالا جاتا ہے اور اس کے پھل کو زیتونۃ کہتے ہیں اور تیل کو زیت پھر زیت کا اطلاق ہر قسم کے تیل پر ہونے لگا، خواہ وہ کسی چیز سے نکالا جائے اور زیات بمعنی تیلی، تیل نکالنے والا یا بیچنے والا۔ لیکن اس آیت میں انجیر یا اس کے درخت اور زیتون کے درخت کی قسم نہیں کھائی گئی بلکہ اس سرزمین کی قسم کھائی گئی ہے جس میں یہ درخت بکثرت پیدا ہوتے ہیں۔ اور وہ علاقہ شام و فلسطین کا علاقہ ہے۔ اہل عرب کا جس طرح یہ قاعدہ ہے کہ وہ کسی چیز کا جزو اشرف بول کر اس سے مراد اصل چیز لے لیتے ہیں۔ اسی طرح ان میں یہ بھی دستور ہے کہ وہ کسی علاقہ کی مشہور پیداوار کا نام لے کر اس سے وہ علاقہ مراد لے لیتے ہیں اور اس بات کی تائید اس سورت کی اگلی دو آیات سے بھی ہوجاتی ہے یعنی طور سینین اور شہر مکہ سے کہ یہ سب مقامات انبیاء کے مولد و مسکن رہے ہیں۔ التين
2 [٣] طور سینین کو سورۃ المومنون کی آیت نمبر ٢٠ میں طور سیناء کہا گیا ہے۔ اور آج کل بھی سیناء کا نام سیناء ہی ہے۔ یہ ایک بلند پہاڑ ہے جو مصر سے مدین یا مدین سے مصر جاتے ہوئے راستہ میں پڑتا ہے۔ اسی پہاڑ کی ایک چوٹی کا نام طور ہے۔ اور اسی پہاڑ کے دامن میں وادی کا نام طویٰ ہے جسے قرآن میں وادی مقدس اور البقعۃ المبارکة بھی کہا گیا ہے۔ اسی مقام پر موسیٰ علیہ السلام کو نبوت عطا کی گئی اور دو دفعہ اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا۔ التين
3 [٤] البلد الامین یعنی شہر مکہ معظمہ جہاں طوفان نوح کے بعد حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل علیہما السلام نے مل کر دوبارہ کعبہ تعمیر کیا تھا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنی ساری زندگی یہیں بسر کی تھی اور جہاں افضل الانبیاء نبی آخرالزمان پیدا ہوئے۔ یہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت عطا ہوئی اور نبوت کے بعد تیرہ سال یہیں گزارے۔ اسی مقام کے لیے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ اس شہر کو محترم اور امن والا بنا دے۔ اور اڑھائی ہزار سال گزرنے کے بعد اس شہر کا احترام بدستور قائم رہا۔ عرب بھر میں ہر جگہ لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم رہتا تھا۔ بس یہی ایک جگہ تھی جہاں لوگوں کو امن میسر آتا تھا اور مکہ کی یہ حرمت آج تک قائم ہے اور آئندہ بھی قائم رہے گی۔ التين
4 [٥] انسان کی دوسرے جانداروں پر فضیلت کن باتوں میں ؟ اولوالعزم انبیاء کے مساکن کی قسم اللہ تعالیٰ نے اس بات پر کھائی ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے بہترین ساخت پر پیدا فرمایا ہے۔ اسے جسم سیدھا اور استوار دیا گیا ہے جو اور کسی مخلوق کو نہیں دیا گیا۔ پھر اسے فکر و فہم، علم و عقل، قیاس و استنباط اور علت و معلول سے نتائج اخذ کرنے کی جو قوتیں اور صلاحیتیں دی گئی ہیں وہ اور کسی مخلوق کو نہیں دی گئیں۔ آدم کو مسجود ملائکہ بنایا گیا۔ زمین اور اس میں موجود اشیاء کو اس کے لیے مسخر کردیا گیا۔ انبیاء اسی نوع سے مبعوث ہوئے جو اللہ کے ہاں افضل الخلائق ہیں۔ التين
5 [٦] انسان تمام مخلوق سے پست کیسے؟ یعنی اگر انسان اپنی ان خداداد ذہنی صلاحیتوں اور جسمانی قوتوں کو برائی کے راستے میں استعمال کرے اور اللہ کی نافرمانی اور بغاوت پر اتر آئے تو انسان حیوانوں کی سطح سے بھی نیچے گر جاتا ہے وہ اس طرح کہ حیوانوں کو اللہ تعالیٰ نے خیر و شر کی تمیز نہیں بخشی اور انسان اگر اس تمیز کے ہوتے ہوئے بھی اسے استعمال نہ کرے تو جانوروں سے بدتر ٹھہرا۔ لیکن انسان تو اخلاقی لحاظ سے اتنی پستی میں جاگرتا ہے جس کا حیوانوں میں تصور بھی محال ہے۔ انسانی معاشرے میں حرص، طمع، خودغرضی، شہوت پرستی، نشہ بازی، کمینہ پن، ظلم و بربریت، لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت جیسی برائیاں پائی جاتی ہیں۔ یہ حیوانوں میں کہاں دیکھنے میں آتی ہیں۔ اس لحاظ سے انسان فی الواقع تمام مخلوق سے پست اور کہتر بن جاتا ہے۔ التين
6 [٧] یعنی بنی نوع انسان کی اکثریت ایسی ہی تھی جو احسن تقویم پر برقرار رہنے کے بجائے اسفل السافلین کی پستی تک جا پہنچی۔ پھر انہی قوموں پر اللہ کے عذاب آتے رہے اور وہ تباہ و برباد ہوتی رہیں۔ نبی ہمیشہ اس وقت مبعوث کیے جاتے ہیں جب کوئی قوم اسفل السافلین کی پستیوں میں جاگرتی ہے پھر ان انبیاء پر بھی تھوڑے ہی لوگ ایمان لانے والے ہوتے ہیں۔ پھر ان ایمان لانے والوں اور اعمال صالح بجا لانے والوں کی نسلیں بھی بعد میں انتشار، شرکیہ عقائد یا ایسے عقائد و اعمال میں مبتلا ہوجاتی ہے جو ایمان بالآخرت کو عملاً باطل بنا دیتے ہیں اور صرف وہی لوگ محفوظ رہتے ہیں جو انبیاء پر صحیح طور پر ایمان لاتے، صحیح عقائد پر قائم رہتے اور انہیں عقائد کے مطابق نیک اعمال بجا لاتے ہیں۔ یہی لوگ اس صفت احسن تقویم کا حق ادا کرتے ہیں۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا کیا تھا اور انہی لوگوں کے لیے اخروی نجات اور غیر منقطع اجر ہوگا۔ التين
7 [٨] یعنی یہ بات تو ہر ایک کے مشاہدہ میں آرہی ہے کہ بنی نوع انسان دو گروہوں میں بٹی ہوئی ہے اس کی اکثریت اسفل السافلین کی پستیوں میں گری ہے اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے احسن تقویم پر ہونے کے تقاضے پورے کیے۔ کیا یہ دونوں گروہ ایک جیسے ہوسکتے ہیں یا ان کے اعمال کے نتائج ایک ہی جیسے ہوسکتے ہیں؟ پھر کیا اس بات سے انکار کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ اچھے عمل کرنے والوں کو اچھا بدلہ دیا جانا چاہیے یا بدکردار لوگوں کو ان کے اعمال کی پوری پوری سزا دی جانی چاہیے؟ اور یہی چیز نظریہ آخرت ہے۔ التين
8 [٩] یعنی دنیا کے بادشاہوں میں بھی عدل کا یہ قانون رائج ہے کہ مجرموں کو سزا دیتے ہیں اور اچھے اور نمایاں کام کرنے والوں کو انعام دیتے ہیں۔ تو اللہ جو سب بادشاہوں کا بادشاہ ہے اس کے ہاں ہی یہ قانون رائج نہ ہوگا ؟ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ یہ دنیا چونکہ دارالعمل ہے اس لیے ان گروہوں کا حساب اسی دنیا میں فوراً نہیں چکا دیا جاتا بلکہ اس جزا و سزا کو آخرت پر مؤخر کردیا گیا ہے جو دارالجزاء ہے۔ البتہ اگر کسی فرد یا کسی قوم کا ظلم حد سے تجاوز کر جائے تو اللہ باقی لوگوں کو اس کے ظلم سے بچانے کی خاطر اس دنیا میں بھی اسے عذاب سے دو چار کرکے اور تباہ کرکے دوسروں کو اس سے بچا لیتا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ سورت پڑھے تو جب ﴿ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنَ ﴾ پر پہنچے تو اس کے بعد کہے ﴿بَلٰی وَاَنَاعَلٰی ذٰلِکَ مِنَ الشَّاھِدِیْنَ﴾ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) التين
0 [١] اس سورت کی ابتدائی ٥ آیات غار حرا میں نازل ہوئیں اور انہی آیات سے آپ کی نبوت کا اور وحی کا آغاز ہوا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت یوں شروع ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خواب سچے ہونے لگے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کچھ خواب میں دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح سامنے آجاتا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تنہائی بھلی لگنے لگی۔ آپ غار حرا میں جاکر عبادت کیا کرتے اور کئی کئی راتیں وہاں رہتے، گھر نہ آتے اور توشہ ساتھ لے جاتے پھر اپنے گھر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آتے اور اتنا ہی توشہ اور لے جاتے۔ یہاں تک کہ غارحرا میں آپ پر وحی نازل ہوئی۔ وحی کا آغاز کیسے ہوا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس فرشتہ (جبریل علیہ السلام) آیا اور کہنے لگا : ''پڑھیے'' تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’میں ان پڑھ ہوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہتے تھے کہ پھر فرشتہ نے مجھے بڑے زور سے بھینچا۔ پھر چھوڑا اور کہا : ''پڑھیے'' میں نے کہا : میں ان پڑھ ہوں۔ پھر دوبارہ اس نے مجھے زور سے بھینچا۔ چھوڑا اور کہا ''پڑھیے'' میں نے کہا :’’میں پڑھا لکھا نہیں‘‘ فرشتہ نے پھر تیسری بار زور سے بھینچا۔ پھر چھوڑا اور کہا : (اقرأ باسم۔۔۔ لویعلم) پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے گھر کو لوٹے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھے اور گردن کا گوشت (ڈر کے مارے) پھڑک رہا تھا۔ آکر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا : ’’مجھے کپڑا اوڑھا دو، کپڑا اوڑھادو۔‘‘ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ڈر جاتارہا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدیجہ رضی اللہ عنہا سے کہا : ’’خدیجہ! پتا نہیں مجھے کیا ہوا۔ مجھے تو اپنی جان کا خطرہ لاحق ہوگیا تھا‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں سارا واقعہ سنایا۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں۔ ’’ہرگز ایسا نہ ہوگا۔ بلکہ آپ خوش ہوجائیے۔ اللہ کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کبھی ضائع نہ کرے گا۔‘‘ نبوت سے پہلے آپ کا کردار :۔ کیونکہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرابتداروں سے اچھا سلوک کرتے ہیں۔ ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔ ناتوانوں کے بوجھ اٹھاتے ہیں۔ محروم لوگوں کو (ضرورت کی) اشیاء مہیا کرتے ہیں۔ مہمان کی ضیافت کرتے ہیں اور مصائب میں حق کی پاسداری کرتے ہیں‘‘ پھر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساتھ لے کر ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں جو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہاکے چچا زادہ بھائی تھے۔ یعنی ان کا باپ اور ورقہ کا باپ بھائی بھائی تھے۔ دور جاہلیت میں وہ عیسائی ہوگئے تھے (کیونکہ اس وقت یہی دین حق تھا) وہ عربی لکھنا خوب جانتے تھے اور انجیل کا عربی زبان میں ترجمہ لکھا کرتے تھے جتنی کہ اللہ کو منظور ہوتا۔ وہ بہت بوڑھے تھے اور اندھے ہوگئے تھے۔ ورقہ بن نوفل کا آپ کو تسلی دینا :۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا :’’ بھائی ذرا اپنے بھتیجے کی بات تو سنو‘‘ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو کچھ دیکھا تھا بیان کردیا۔ وہ کہنے لگے :’’یہ تو وہی ناموس (فرشتہ) ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) پر اترتا تھا۔ کاش میں اس وقت جوان ہوتا۔ کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب تمہاری قوم تمہیں (مکہ سے) نکال دے گی۔‘‘ ہجرت کی بات پر آپ کا تعجب؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا :’’کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟‘‘ ورقہ کہنے لگے ’’ہاں! کیونکہ جو چیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لائے ہیں وہ جو بھی لایا اسے تکلیف ہی دی گئی اور اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو تمہاری بھر پور مدد کروں گا‘‘ پھر اس واقعہ سے تھوڑی ہی مدت بعد ورقہ فوت ہوگئے۔ اور وحی کا آنا بھی موقوف رہا جس کی وجہ سے آپ غمگین رہا کرتے تھے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) آیت نمبر ٦ سے آخر تک کی چودہ آیات اس وقت نازل ہوئیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دار ارقم سے نکل کر بیت اللہ شریف میں نماز ادا کرنا شروع کی تھی۔ ان آیات میں بھی مخاطب کا نام نہیں لیا گیا مگر جو صفات بیان کی گئیں ان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات کا روئے سخن ابو جہل کی طرف ہے جو آپ کو خانہ کعبہ میں نماز پڑھنے سے روکا کرتا تھا۔ اور ایسا واقعہ کوئی ایک دفعہ نہیں کئی دفعہ پیش آیا تھا۔ العلق
1 [٢] آغاز وحی میں ہی تین اہم سوالوں کا جواب :۔ ان الفاظ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جبرئیل نے غارحرا میں جو وحی آپ پر پیش کی۔ وہ مکتوب شکل میں تھی۔ ورنہ آپ کو جواب میں ما انا بقاری (میں پڑھا ہوا نہیں ہوں) کہنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ اگر کوئی استاد کسی بچہ کو یا شاگرد کو زبانی پڑھائے تو اسے ایسا فقرہ جواب میں کہنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ وحی کا آغاز اللہ تعالیٰ کی معرفت سے کیا گیا۔ کائنات کی تخلیق کس نے کی؟ کیسے ہوئی؟ انسان کا اس کائنات میں کیا مقام ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو ابتدائے نوع انسانی سے ہی صاحب فکر انسانوں کی توجہ کا مرکز بنے رہے ہیں۔ اسی سوال کا جواب سب سے پہلے دیا گیا اور بتایا گیا کہ کائنات از خود ہی مادہ سے پیدا نہیں ہوگئی۔ نہ یہ حسن اتفاقات کا نتیجہ ہے۔ بلکہ کائنات کی ایک ایک چیز کا خالق اللہ تعالیٰ ہے۔ اسی کے نام سے یعنی بسم اللہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ وحی پڑھنا شروع کیجیے۔ العلق
2 [٣] یہ اس سوال کا جواب ہے کہ اس کائنات میں انسان کا کیا مقام ہے؟ اور جواب یہ ہے کہ جیسے کائنات کی ہر چیز اللہ کی مخلوق ہے، ویسے ہی انسان بھی اللہ کی مخلوق ہے۔ مخلوق کو یہ کسی طرح جائز نہیں کہ وہ اپنے ہی جیسی مخلوق کے آگے سرجھکائے۔ دوسری بات یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک معجز نما طریق سے پیدا کیا۔ استقرار حمل کے بعد وہ ایک بے جان لوتھڑا تھا جس پر اللہ تعالیٰ نے کئی مراحل گزارے۔ اس لوتھڑے پر اس کے اعضاء کے نقش و نگار بنائے۔ جسم کے اندرونی اعضاء پیدا کیے پھر اس میں کئی طرح کی ظاہری اور باطنی قوتیں پیدا کرکے اسے ماں کے پیٹ سے باہر نکالا۔ العلق
3 [٤] اللہ اکرم کس لحاظ سے ہے ؟ جس نے انسان کی پیدائش سے پہلے ہی اس کی زندگی کی بقا کے وہ تمام اسباب مہیا کردیئے جو اس غرض کی تکمیل کے لیے ضروری تھے۔ پھر انسان کو ان اسباب سے کام لینے اور انہیں استعمال کرنے کا طریقہ بھی اس کی فطرت میں رکھ دیا۔ اسی پروردگار کا نام لے کر آپ پڑھیے۔ العلق
4 [٥] انسان کی بہت بڑی فضیلت یہ ہے کہ وہ صاحب علم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر یہ مہربانی فرمائی کہ اسے قلم کے استعمال کا طریقہ سکھایا۔ جس سے علم کی وسیع پیمانے پر اشاعت ہوسکتی ہے اور لکھی ہوئی چیز کسی عالم کی موت کے بعد بھی برقرار رہتی ہے۔ اور اگلی نسلوں میں منتقل ہوتی چلی جاتی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ انسان کو علم اور کتابت کے فن کا طریقہ الہام نہ کرتا تو انسان کی علمی قابلیتیں سمٹ کر انتہائی محدود رہ جاتیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا عام دستور ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ جو علم انبیاء کو بذریعہ وحی عطا فرماتا ہے وہ انسانی علوم سے بلند تر اور ہر قسم کی غلطیوں سے پاک ہوتا ہے۔ یہ استثنائی صورت ہے اور بالخصوص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے قلم کے ذریعہ علم نہیں سکھایا جس میں کفار کے کئی اعتراضات کے جواب اور کئی دیگر مصلحتیں تھیں جن کا قرآن نے جابجا ذکر کردیا ہے۔ العلق
5 [٦] انسان جب ماں کے پیٹ سے باہر آتا ہے اس وقت وہ کچھ بھی نہیں جانتا۔ اللہ تعالیٰ اسے قلم کے استعمال سے پہلے ہی بہت سی باتیں سکھا دیتا ہے۔ یہ پہلی وحی کی آخری آیت ہے جس میں یہ اشارہ بھی موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہ علم دیا جارہا ہے جو جاننے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرصہ سے بے تاب تھے اور اس نے آپ کو اپنا نبی بنا لیا ہے۔ العلق
6 العلق
7 [٧] آیت نمبر ٦ اور آیت نمبر ٧ میں انسانوں کی اکثریت یا خدا فراموش انسان کی ایک عام خصلت بیان کی گئی ہے کہ جب کسی کو سیر ہو کر کھانے کو ملنے لگتا ہے اور اس پر خوش حالی کا دور آتا ہے تو وہ اپنے جیسے انسانوں کو درکنارا اپنے خالق و مالک کو بھی خاطر میں نہیں لاتا اور اس کی سرکشی اور بغاوت پر اتر آتا ہے۔ العلق
8 [٨] رُجْعٰی بمعنی لوٹ کر واپس جانے کا مقام، یعنی انسان دنیا میں خواہ کتنی ہی سرکشی اختیار کرلے۔ بالآخر اسے اپنے پروردگار کے پاس جانا پڑے گا۔ اس وقت اسے معلوم ہوجائے گا کہ اس کی اس متکبرانہ روش کا انجام کیسا ہوتا ہے؟ العلق
9 [٩] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیت اللہ میں نماز پڑھنے پرابوجہل کا سیخ پا ہونا اور متعدد بار حملے کرنا :۔ ایک دفعہ ابو جہل نے قریشی سرداروں سے کہا : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم لوگوں کے سامنے اپنا چہرہ خاک آلود کرتا ہے۔ (یعنی بیت اللہ میں نماز ادا کرنے کے دوران سجدہ کرتا ہے) لوگوں نے کہا :''ہاں'' کہنے لگا : لات و عزیٰ کی قسم! اگر میں نے اسے اب اس حال میں دیکھ لیا تو اس کی گردن روند ڈالوں گا اور اس کا چہرہ مٹی پر رگڑ دوں گا۔ اس کے بعد جب اس نے آپ کو کعبہ میں نماز پڑھتے دیکھا تو اس برے ارادے سے آپ کی طرف بڑھا۔ پھر اچانک پیچھے ہٹنے لگا۔ سرداران قریش نے جب اپنے رئیس کو اس حال میں دیکھا تو حیرانی سے پوچھا :’’ابوالحکم کیا ہوا ؟‘‘ وہ گھبرایا ہوا کہنے لگا : کہ ’’میرے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان ایک خوفناک آگ حائل ہوگئی تھی‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو بتایا کہ ’’اگر وہ میرے قریب آتا تو فرشتے اس کا ایک ایک عضو اچک لیتے‘‘ (بخاری، کتاب التفسیر۔ تفسیر لئن لم ینتہ، نیز مسلم کتاب صفۃ القیامۃ والجنہ والنار) نیز ایک دفعہ ابو جہل اپنے اہل مجلس سے کہنے لگا کہ :’’محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے معبودوں کی تذلیل اور بزرگوں کی توہین کرکے ہمارا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ اب میں نے اللہ سے عہد کیا ہے کہ جب اسے نماز میں دیکھوں گا۔ اس کا سر ایک بھاری پتھر سے کچل دوں گا۔ پھر تم خواہ بنو عبدمناف سے میری حفاظت کرو یا مجھے بےیارو مددگار چھوڑو‘‘ اس کے ساتھیوں نے کہا :’’ہم تجھے بےیارو مددگار نہ چھوڑیں گے۔ تم جو کچھ کرنا چاہتے ہو کر گزرو‘‘ چنانچہ جب صبح ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسب ِ دستور نماز ادا کرنے لگے تو وہ اپنے پروگرام کے مطابق ایک بھاری پتھر اٹھا کر آگے بڑھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سجدہ میں جانے کا انتظار کرنے لگا۔ قریب پہنچا ہی تھا کہ پھر پیچھے ہٹنے لگا۔ اس کا رنگ اڑ گیا اور وہ بدحواسی کی وجہ سے اپنے ہاتھ سے پتھر بھی نیچے نہ پھینک سکا۔ اس کے دوستوں نے پوچھا : ’’ابوالحکم! یہ کیا ماجرا ہے؟‘‘ اس کے حواس ٹھکانے آئے تو کہنے لگا :’’ کیا بتاؤں۔ ایک کریہہ المنظر اونٹ آڑے آگیا تھا۔ اس اونٹ جیسی کھوپڑی، اس جیسی گردن اور اس اونٹ کے دانتوں جیسے دانت میں نے آج تک نہیں دیکھے یہ اونٹ مجھے نگل جانا چاہتا تھا‘‘ (ابن ہشام ١: ٢٩٨، ٢٩٩) ایذا پہنچانے والے کافروں کے حق میں آپ کی بد دعا :۔ ایک دفعہ آپ خانہ کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے۔ ابو جہل اور اس کے ساتھی بھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ ابو جہل اپنے ساتھیوں کو مخاطب کرکے کہنے لگا : تم میں سے کون ہے جو فلاں شخص کے ہاں ذبح شدہ اونٹنی کا بچہ دان اٹھا لائے۔ اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سجدہ میں جائے تو اس کی پیٹھ پر رکھ دے؟ عقبہ بن ابی معیط جھٹ بول اٹھا کہ ’’یہ کام میں کروں گا‘‘ چنانچہ وہ گیا اور بچہ دان اٹھا لایا۔ پھر جب آپ سجدہ میں گئے تو اسے آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان رکھ دیا۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ’’میں ان کے مقابلہ میں اپنی کمزوری کی وجہ سے کچھ بھی نہ کرسکتا تھا۔ کاش! میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کچھ مدد کرسکتا‘‘ یہ منظر دیکھ کر ابو جہل اور اس کے ساتھی ہنستے ہنستے ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اتنے بوجھ کی وجہ سے اپنا سر اٹھا بھی نہ سکتے تھے۔ اتنے میں کسی نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہاکو خبر کردی۔ وہ آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردن سے بچہ دانی کو اٹھا کر پرے پھینک دیا اور انہیں برا بھلا کہنے لگیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سجدہ سے سر اٹھایا پھر تین بار فرمایا :''اللھم علیک بقریش'' (اے اللہ ان قریشیوں سے تو خود نمٹ لے) یہ کلمات سن کر وہ لوگ سہم گئے۔ کیونکہ انہیں اس بات کا خطرہ لاحق ہوگیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بددعا رنگ لاکے رہے گی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مجمع کے چھ آدمیوں کے نام لے کر انہیں بددعا دی اور فرمایا :’’یا اللہ! ابو جہل سے نمٹ لے، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن امیہ، امیہ بن خلف اور عتبہ بن ابی معیط سے نمٹ لے۔‘‘سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’اس اللہ کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ یہ سب لوگ بدر کی لڑائی میں مارے گئے اور بدر کے کنوئیں میں پھینکے گئے تھے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الجہاد والسیر۔ باب دعاء النبی علی المشرکین) العلق
10 العلق
11 العلق
12 العلق
13 العلق
14 [١٠] یعنی ایک طرف تو اللہ کا ایک بندہ اللہ کی عبادت میں مصروف ہے، وہ خود بھی اللہ سے ڈرتا ہے۔ دوسروں کو بھی اللہ سے ڈر کر زندگی بسر کرنے کا حکم دیتا ہے۔ دوسری طرف اللہ کا باغی ہے دعوت حق کو ٹھکراتا ہے اور از راہ تکبر منہ پھیر کر چل دیتا ہے پھر وہ اپنے آپ کو حق پر بھی سمجھتا ہے۔ ذرا سوچو! اس اللہ کے باغی کی عقل پر پتھر نہیں پڑگئے۔ اسے یہ بھی خیال نہیں آتا کہ کسی کے اعمال خواہ اسے ناپسند ہوں بہرحال اسے اللہ کی عبادت سے کبھی نہ روکنا چاہیے۔ پھر وہ یہ بھی نہیں سوچتا کہ اللہ اس کو بھی دیکھ رہا ہے اور اس اللہ کے باغی کو بھی۔ ان میں سے جو شخص جس سلوک کا مستحق ہوگا اللہ اس سے ویسا ہی سلوک کرے گا۔ العلق
15 العلق
16 [١١] یعنی اس کی پیشانی یا دماغ میں تکبر کا جو خناس سمایا ہوا ہے۔ اگر وہ اپنی ایسی حرکتوں سے باز نہ آیا تو ہم اس کی بدکردار اور بد طینت پیشانی کو ذلیل مجرموں کی طرح پیشانی کے بالوں سے گھسیٹ کر جہنم رسید کردیں گے۔ العلق
17 العلق
18 [١٢] اس آیت کا سبب نزول درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کعبہ میں) نماز پڑھا کرتے تھے۔ ابو جہل آیا اور کہنے لگا : کیا میں تمہیں اس کام سے منع نہیں کرچکا۔ تین بار اس نے یہ الفاظ دہرائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوئے تو اسے سخت سست کہا۔ ابو جہل کہنے لگا : یہ تو تم جانتے ہو کہ کسی کے ہم نشین مجھ سے زیادہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ وہ اپنے ہم نشین بلا لے، ہم دوزخ کے فرشتے بلاتے ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! اگر وہ اپنے ہم نشین بلاتا تو اللہ کے فرشتے اسے پکڑ لیتے (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) زبانیہ کا لغوی مفہوم :۔ الزبانیۃ۔ زبانیہ سے مراد بالاتفاق دوزخ کے عذاب دینے والے فرشتے ہیں۔ زبانی العقرب بمعنی بچھو کا ڈنگ۔ اس لحاظ سے ایسے فرشتے مراد ہیں جو سخت دکھ دینے والے اور بے رحم ہونگے۔ نیز زبانیۃ سے مراد پولیس بھی ہے اور یہ قتادۃ کا قول ہے اور زبن کے معنی دھکے دے کر نکال دینا بھی ہے۔ جیسے بادشاہوں اور بڑے لوگوں کے ہاں چوبدار ہوتے ہیں جو اس غرض سے رکھے جاتے ہیں کہ جس سے سرکار ناراض ہو اسے دھکے مار کر نکال دیں۔ مراد یہ ہے کہ ابو جہل اپنی مجلس کے لوگوں کو جس پر اسے بڑا ناز ہے بلاکر دیکھ لے ہم عذاب دینے والے فرشتوں سے ان کی بری طرح گت بنا دیں گے۔ العلق
19 [١٣] سجدہ کی فضیلت :۔ یعنی اس بدکردار شخص کی بات مان کر کعبہ میں نماز کی ادائیگی سے رکنے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ اسی طرح نماز ادا کرتے رہو۔ جیسے پہلے ادا کرتے رہے ہو۔ واضح رہے کہ یہاں سجدہ سے مراد صرف سجدہ نہیں بلکہ نماز ہے اور عربوں کا قاعدہ ہے کہ وہ کسی چیز کا جزء اشرف بول کر اس سے کل یا اصل چیز مراد لیتے ہیں اور بتایا یہ جارہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس قدر نمازیں ادا کریں گے اتنا ہی زیادہ اللہ کا قرب حاصل ہوگا۔ لہٰذا نمازیں بکثرت ادا کیا کیجیے۔ سجدہ کی فضیلت سے متعلق درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ ربیعہ بن کعب اسلمی فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسل کے ہاں ہی رات کو رہا کرتا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاجت اور وضو کے لیے پانی لایا کرتا۔ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مانگ کیا مانگتا ہے۔ میں نے عرض کیا ’’جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفاقت چاہتا ہوں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا :’’کچھ اور بھی؟‘‘ میں نے عرض کیا : ’’بس یہی کچھ چاہتا ہوں‘‘ آپ نے فرمایا :’’اچھا تو کثرت سجود کو اپنے اوپر لازم کرلو اور اس طرح اس سلسلہ میں میری مدد کرو‘‘ (مسلم۔ کتاب الصلوٰۃ باب فضل السجود والحث علیہ) ٢۔ اس سورۃ کے اختتام پر بھی سجدہ تلاوت کرنا چاہیے۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سورت ﴿ اِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ ﴾اور سورۃ اقراء میں سجدہ کیا۔ العلق
0 القدر
1 [١] لیلۃ القدر اور شب قدر یا لیلہ مبارکہ ایک ہی رات کے نام ہیں :۔ اس سورت میں قرآن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے اسے لیلۃ القدر میں نازل کیا۔ اور سورۃ الدخان کی آیت نمبر ٣ میں فرمایا کہ ہم نے اس قرآن کو لیلۃ مبارکہ میں نازل کیا جس سے معلوم ہوا کہ لیلۃ القدر اور لیلۃ مبارکہ ایک ہی رات کی دو صفات یا دو نام ہیں۔ یہ الگ الگ راتیں نہیں ہیں اور لیلۃ القدر ہی کا ترجمہ فارسی میں ''شب قدر'' یا ''شب برات'' ہے۔ گویا شب قدر یا شب برات، لیلۃ القدر سے علیحدہ کوئی رات نہیں۔ جیسا کہ ہمارے یہاں ١٥ شعبان کو شب برات سمجھی بلکہ آتش بازی سے منائی جاتی ہے اور اس نظریہ کا ماخذ چند انتہائی ضعیف روایات ہیں۔ پھر قرآن ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ رات رمضان میں ہے۔ جیسا کہ سورۃ بقرہ میں فرمایا ﴿شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ﴾ اور معتبر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ رات رمضان کے آخری عشرہ میں آتی ہے اور بعض روایات کے مطابق وہ ستائیسویں شب رمضان ہوتی ہے۔ اس سلسلہ میں درج ذیل دو احادیث ملاحظہ فرمائیے : لیلۃ القدرکونسی رات ہے؟:۔ ١۔ عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے حجرہ سے نکلے۔ آپ لوگوں کو لیلۃ القدر بتانا چاہتے تھے۔ اتنے میں دو مسلمان لڑ پڑے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’میں اس لیے نکلا تھا کہ تمہیں لیلۃ القدر بتاؤں مگر فلاں فلاں لڑ پڑے تو وہ بات (میرے دل سے) اٹھا لی گئی۔ اور اسی میں شاید تمہاری بہتری تھی۔ اب تم اسے (آخری عشرہ) کی ساتویں، نانویں اور پانچویں رات میں تلاش کرو‘‘ (بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب خوف المومن ان یحبط عملہ) ٢۔ زر بن حبیش کہتے ہیں کہ میں نے ابی بن کعب سے کہا کہ : ’’تمہارے بھائی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جو شخص سال بھر قیام کرے وہ اس رات کو پا لے گا‘‘ ابی بن کعب کہنے لگے: ’’اللہ تعالیٰ ابو عبدالرحمٰن ( عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی کنیت) کو بخشے وہ خوب جانتے ہیں کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرہ میں ہے۔ اور وہ ستائیسویں رات ہے۔ مگر وہ چاہتے ہیں کہ لوگ اسی پر بھروسہ نہ کر بیٹھیں‘‘ پھر ابی نے بغیر استثناء کے قسم کھائی کہ وہ ستائیسویں رات ہے۔ میں نے پوچھا : ’’ابوالمنذر! (ابی بن کعب کی کنیت) تم کیسے یہ بات کہتے ہو‘‘ انہوں نے کہا : ’’اس نشانی کی بنا پر جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں بتائی اور وہ علامت یہ ہے کہ اس کی صبح کو جب سورج نکلتا ہے تو اس میں شعاع نہیں ہوتی۔‘‘ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن تو بتدریج تیئس سال کے عرصہ میں نازل ہوا تھا۔ مگر یہاں سارا قرآن ایک ہی رات میں نازل ہونے کا ذکر ہے تو اس کا جواب مفسرین دو طرح سے دیتے ہیں ایک یہ کہ اس رات کو سارا قرآن لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل کردیا گیا تھا۔ وہاں سے حسب موقع و ضرورت بتدریج تئیس سال میں نازل کیا جاتا رہا اور دوسرا یہ کہ سارا قرآن اس رات کو حاملان وحی فرشتوں کے حوالے کردیا گیا تھا پھر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق بتدریج نازل کیا جاتا رہا۔ القدر
2 القدر
3 [٢] ہزار مہینے سے بہتر ہونے کے مختلف مفہوم :۔ یہاں ہزار مہینوں سے مراد ہزار مہینے کی معینہ مدت نہیں جس کے تراسی سال اور چار مہینے بنتے ہیں۔ اہل عرب کا قاعدہ تھا کہ جب انہیں بہت زیادہ مقدار یا مدت کا اظہار کرنا مقصود ہوتا تو ہزار یعنی الف کا لفظ استعمال کرتے تھے۔ کیونکہ وہ حساب نہیں جانتے تھے۔ اور ان کے ہاں گنتی کا سب سے بڑا عدد الف یعنی ہزار ہی تھا۔ بلکہ اس سے مراد ایک طویل زمانہ ہے۔ اس وضاحت کے بعد اس آیت کے دو مطلب بیان کیے جاتے ہیں ایک یہ کہ بنی نوع انسان کی خیر و بھلائی کا کام جتنا اس ایک رات میں ہوا (یعنی قرآن نازل ہوا) اتنا کام کسی طویل دور انسانی میں بھی نہیں ہوا تھا اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس ایک رات کی عبادت ایک طویل مدت کی عبادت سے بہتر ہے اور اس مطلب کی تائید درج ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص لیلۃ القدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے قیام کرے اس کے سابقہ گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ (بخاری، کتاب الایمان۔ باب قیام لیلۃ القدر من الایمان) علاوہ ازیں بعض حضرات ہزار مہینے سے مراد ہزار مہینے (یعنی ٨٣ سال اور ٤ ماہ) ہی لیتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس ایک رات کی عبادت تراسی سالوں کی عبادت سے بہتر ہے جن میں شب قدر کو شمار نہ کیا جائے۔ لیلۃ القدرسے متعلق ایک سوال کا جواب :۔ یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جس رات مثلاً مکہ معظمہ میں شب قدر ہوگی تو اس وقت زمین کے آدھے حصے پر تو دن ہوگا اور سورج چمک رہا ہوگا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ کے ہاں اصل چیز رات ہے۔ قرآن میں جب کہیں بھی اللہ تعالیٰ نے دن اور رات کا اکٹھا ذکر فرمایا تو رات کا پہلے ذکر فرمایا۔ نیز بعض مقامات پر اللہ نے صرف لیلۃ کا ذکر کرکے اس سے مراد رات اور دن کا عرصہ (یعنی پورے چوبیس گھنٹے) لی ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے تیس راتوں کا وعدہ (تورات دینے کے لئے) کیا تھا۔ تو ان تیس راتوں سے مراد تیس راتیں اور ان کے دن بھی تھے۔ اس لحاظ سے ہر مقام پر رمضان کی وہی مخصوص رات ہی لیلۃ القدر سمجھی جائے گی اور اس رات کا تعین اس خاص مقام پر چاند دیکھنے سے متعلق ہوگا۔ القدر
4 [٣] روح سے مراد جبریل امین ہیں جن کی قدر و منزلت کی وجہ سے ان کا علیحدہ ذکر کیا گیا اور اتنی کثیر تعداد میں فرشتے نازل ہوتے ہیں جن سے ساری زمین بھر جاتی ہے اور ہر ''حکم'' سے مراد انسانوں کی تقدیریں ہیں جو اس دن طے کی جاتی ہیں۔ جیسا کہ سورۃ الدخان کی آیت ﴿فِیْہَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ ﴾ کے تحت اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔ القدر
5 [٤] اس آیت کے بھی دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ جو فرشتے نازل ہوتے ہیں وہ ساری رات اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں کے لیے امن و سلامتی کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس میں جتنے بھی فیصلے کیے جاتے ہیں وہ سب خیر و سلامتی پر ہی مبنی ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ اگر کسی فرد کی ہلاکت یا کسی قوم کی تباہی کے متعلق فیصلہ کیا جائے تو وہ بھی اہل زمین کی خیر و سلامتی پر مبنی ہوگا۔ القدر
0 [١] سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابی بن کعب (جو نہایت خوش الحان قاری تھے) سے فرمایا کہ :’’اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں ﴿لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا ﴾ کی سورت پڑھ کر سناؤں‘‘ ابی بن کعب کہنے لگے :’’کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام لے کر فرمایا ؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :''ہاں'' پھر ابی بن کعب رضی اللہ نے کہا:’’کیا اللہ تعالیٰ کے سامنے جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے، میرا ذکر آیا ؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’ہاں ‘‘یہ سن کر ابی کی آنکھوں سے (خوشی کے) آنسو بہنے لگے۔ قتادہ کہتے ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں یہ سورت سنائی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) البينة
1 [٢] اہل کتاب اور مشرکین میں فرق اور اس کے چند پہلو :۔ اس آیت میں کافروں کو دو بڑے گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک اہل کتاب اور دوسرے مشرکین۔ اہل کتاب سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں جن کے پاس اللہ کی کتاب موجود تھی۔ اگرچہ ان کی کتابوں میں تحریف بھی ہوچکی تھی اور انسانی اضافے بھی تھے اور مشرکین سے مراد عرب کے بت پرست اور ایران کے آتش پرست تھے جن کے پاس سرے سے کوئی الہامی کتاب موجود ہی نہ تھی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ نصاریٰ بھی مشرک تھے۔ وہ اللہ تعالیٰ کو تین خداؤں میں کا ایک خدا قرار دیتے تھے۔ ان میں سے بعض حضرات عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا سمجھتے تھے اور بعض انہیں اللہ ہی قرار دیتے تھے۔ بعض لوگ الوہیت میں سیدہ مریم کو بھی شریک بناتے تھے۔ اسی طرح یہود بھی عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہتے تھے مگر ان کے ایسے واضح شرک کے باوجود انہیں مشرک نہیں کہا بلکہ اہل کتاب کے نام سے ہی پکارا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل کتاب کے دین کی اصل بنیاد توحید ہی تھی اور وہ توحید ہی کے قائل تھے مگر شیطانی اغوا اور بیرونی فلسفیانہ افکار و نظریات نے انہیں بعض شرکیہ عقائد میں ملوث کردیا تھا جبکہ مشرکوں کے دین کی اصل بنیاد ہی شرک تھا اور توحید انہیں سخت ناگوار تھی جیسا کہ کفار مکہ کی اسلام کے خلاف معاندانہ سرگرمیوں سے صاف معلوم ہوتا ہے۔ پھر اسلام نے اہل کتاب اور مشرکین کے اس فرق کو بعض شرعی احکام میں پوری طرح ملحوظ رکھا ہے۔ مثلاً اہل کتاب کا ذبیحہ کھانا جائز ہے اور مشرکوں کا ذبیحہ کھانا جائز نہیں۔ اسی طرح کتابیہ عورت سے نکاح جائز ہے مگر مشرکہ عورت سے نکاح جائز نہیں۔ اہل کتاب سے جزیہ لے کر ایک اسلامی ریاست کا فرد تسلیم کیا جاسکتا ہے مگر مشرکوں کے لیے ایک اسلامی ریاست میں ایسی گنجائش نہیں۔ کافروں کی قسمیں :۔ علاوہ ازیں کفر و شرک کے بھی کئی درجے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو سرے سے اللہ کی ہستی کے ہی منکر ہیں۔ کچھ دوسرے اللہ کو تو مانتے ہیں مگر اس کے ساتھ دوسروں کو بھی اللہ کا شریک بنا ڈالتے ہیں۔ کچھ اللہ کو مانتے ہیں مگر اس کے رسولوں کے یا بعض رسولوں کے منکر ہیں۔ کچھ لوگ آخرت پر یقین ہی نہیں رکھتے اور کچھ لوگ آخرت پر یقین تو رکھتے ہیں مگر ساتھ ساتھ ایسے عقیدے بھی وضع کر رکھے ہیں کہ قانون جزا و سزا کو بے کار بنا دیتے ہیں۔ کچھ عقائد میں درست ہوں تو ان کے اعمال ایمان کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے ایسے سب لوگ درجہ بدرجہ کفار و مشرکین ہی کے گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ [٣] یعنی یہ اہل کتاب و مشرکین اور ان کے ذیلی فرقے، خواہ وہ کتنی ہی تعداد میں ہوں، سب کے سب اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہیں اور اپنے عقائد و نظریات انہیں اس قدر پسندیدہ اور مرغوب ہیں وہ ان سے اس طرح چمٹے ہوئے ہیں جن سے ان کا جدا ہونا ناممکن تھا۔ ان میں سے کوئی اپنا دین چھوڑنے پر تیار نہ تھا۔ اس کی صرف ایک ہی صورت تھی کہ اللہ کی طرف سے کوئی ایسی روشن اور واضح دلیل آجائے جو ان پر ان کی غلط فہمیاں اور گمراہیاں منکشف کردے۔ البينة
2 [٤] آپ کی رسالت کے دلائل :۔ وہ روشن اور واضح دلیل اللہ تعالیٰ کا جلیل القدر رسول ہے۔ جو اپنی رسالت پر خود دلیل ہے۔ اس کے لیے کسی دوسری دلیل کی ضرورت نہیں۔ اس کی پوری زندگی، اس کی صداقت اور دیانت ہی اس بات کی دلیل ہے کہ اگر وہ کہتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں تو فی الواقع وہ اللہ کا رسول ہے۔ نیز جو قرآن وہ ان اہل کتاب اور مشرکین کو پڑھ کر سناتا ہے اور امی ہونے کے باوجود سناتا اور ایسا معجز نما کلام پیش کرتا ہے۔ تو ایسے قرآن کی آیات پڑھ کر سنانا ہی اس کی رسالت کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ ایک امی ہونے کے باوجود وہ ایسا کلام پیش کر رہا ہے جس کی مثال پیش کرنے سے عرب کے فصحاء اور بلغاء سب عاجز آگئے تھے۔ ﴿صُحُفًا مُّطَھَّرۃً﴾کے دو مطلب ہیں اور دونوں ہی درست ہیں۔ ایک یہ کہ جو قرآن وہ پیش کرتا ہے۔ وہ ہر طرح کی تحریف، اضافہ یا ترمیم اور حذف سے پاک ہے۔ نیز وہ ہر قسم کی انسانی دستبرد سے پاک ہے۔ جبکہ اہل کتاب کی کتابوں میں تحریف بھی موجود ہے۔ انسانوں کے اضافے بھی اور حذف بھی۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی تعلیم نہایت پاکیزہ ہے وہ کسی نبی کی سیرت و کردار کو داغدار نہیں بناتا جبکہ اہل کتاب نے بعض انبیاء کی سیرت پر گھناؤنے الزامات لگائے انہیں ان سے پاک کرتا ہے۔ البينة
3 [٥] اس آیت کے دو مطلب ہیں اور وہ دونوں ہی درست ہیں۔ ایک یہ کہ قرآن کی ہر سورت ایک مستقل کتاب ہے اور یہ قرآن ایسی ہی ١١٤ مستقل کتابوں کا مجموعہ ہے۔ اس کی ایک ایک سورت اپنے موضوع و مضمون کے لحاظ سے مکمل ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس میں سابقہ تمام کتب سماویہ کا خلاصہ یا جو باتیں دین کی اصل بنیاد رہی ہیں سب ذکر کردی گئی ہیں۔ البينة
4 [٦] فرقہ بندی کی اصل وجہ :۔ اس آیت کے بھی دو مطلب ہیں ایک یہ کہ ان اہل کتاب کے پاس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسے جلیل القدر پیغمبر اور قرآن جیسی روشن کتاب آنے کے بعد ان میں تفرقہ پیدا ہوگیا۔ کچھ تھوڑے بہت لوگ ایمان لے آئے باقی کافر کے کافر ہی رہے حالانکہ ان کے پاس واضح دلائل آچکے ہیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ انبیاء کے بعد ان کی امت جو فرقوں میں بٹنا شروع ہوجاتی ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ ان کے پاس روشن دلائل موجود نہیں ہوتے یا ان پر حق بات مبہم رہ جاتی ہے۔ بلکہ وہ اپنی اپنی اغراض، مفادات اور جاہ طلبی کی ہوس میں فرقہ در فرقہ بٹتے چلے جاتے ہیں۔ البينة
5 [٧] دین قیم کے تین اہم ارکان :۔ دین قیم بمعنی ایسا مستحکم اور قائم دین جو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی آخر الزمان تک ایک ہی رہا ہے۔ اس دین کے اہم اجزاء تین باتیں ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ اکیلے ہی کو خالق و مالک سمجھا جائے۔ اس کے ساتھ کسی بھی نوعیت کا شرک نہ کیا جائے۔ اس کے حکم اور قانون کو سب سے بالاتر سمجھا جائے اور اس کے قانون اور حکم کے مقابلہ میں کسی دوسرے کے حکم یا قانون کی پروا نہ کی جائے۔ اکیلے اسی کی عبادت کی جائے اور یکسو ہو کر کی جائے۔ دوسری یہ کہ نماز کو ٹھیک طریقے سے باقاعدگی کے ساتھ ہمیشہ ادا کیا جائے اور تیسری یہ کہ اپنے اموال میں سے زکوٰۃ ادا کی جائے۔ واضح رہے کہ نماز اور زکوٰۃ کو ٹھیک طور پر اور باقاعدگی کے ساتھ وہی ادا کرسکتے ہیں جو عقیدہ آخرت پر ایمان رکھتے ہوں۔ دوسرے نہیں کرسکتے۔ منافق لوگ بھی نماز اور زکوٰۃ ادا کیا کرتے تھے۔ مگر نمود و نمائش اور دکھلاوے کے لیے اور اپنی طبیعت پر بوجھ سمجھ کر۔ یہی تینوں باتیں اسلام کے تین اہم ابتدائی ارکان ہیں۔ روزہ اور حج بھی سابقہ امتوں پر فرض تھے مگر اختصار کی وجہ سے اکثر مقامات پر ان کا ذکر نہیں کیا جاتا۔ جیسے سورۃ بقرہ کی ابتدا میں متقین کی تعریف میں بھی انہیں تین اہم ارکان کا ذکر ہے۔ روزہ اور حج کا نہیں ہے۔ اور یہی تین باتیں کسی کو ایک اسلامی مملکت میں شہریت کے حقوق عطا کرتی ہیں۔ جیسے سورۃ توبہ کی آیت نمبر ١١ میں فرمایا :’’پھر اگر یہ مشرک شرک سے توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو تمہارے دینی بھائی ہیں‘‘ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں فرمایا : ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیں۔ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ اگر وہ یہ شرائط تسلیم کرلیں تو ان کی جانیں مجھ سے محفوظ ہوجائیں گی۔ الا یہ کہ وہ اسلام کے کسی حق کے تحت اس حفاظت سے محروم کردیئے جائیں۔ رہا ان کے باطن کا معاملہ تو وہ اللہ کے ذمہ ہے۔‘‘ (مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب الامربقتال الناس) البينة
6 [٨] کفر کے درجے :۔ کفر کے سو درجے ہیں اور ہر درجہ ایک دوسرے سے کم و بیش ہوتا ہے۔ مثلاً اللہ کی ذات کا سرے سے انکار کردینا بھی کفر ہے۔ نماز کو عمداً چھوڑ دینا بھی۔ اب ظاہر ہے کہ یہ دونوں قسم کے کفر ایک جیسے تو نہیں ہوسکتے۔ یہود اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں حتیٰ کہ آخرت پر بھی پورا پورا ایمان رکھتے تھے۔ مگر ساتھ یہ بھی کہتے تھے کہ ہم اللہ کے چہیتے اور پیارے ہیں اور ہمیں بس چند دن ہی آگ چھوئے گی۔ تو اللہ نے ان کے اس عقیدہ کو بھی کفر سے تعبیر کیا۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ ان کا کفر مشرکوں کے کفر سے کم تر درجہ کا ہے جو سرے سے انسان کی دوبارہ زندگی کے ہی قائل نہ تھے۔ اس آیت میں کفر کی سب قسمیں مراد ہیں۔ البينة
7 [٩] بریۃ کا لغوی مفہوم :۔ بریۃ: برء سے مشتق ہے یعنی کسی چیز کو عدم سے وجود میں لانا، لہٰذا ہر وہ چیز جو وجود رکھتی ہے۔ بریة میں شامل ہے۔ یعنی پوری مخلوق۔ ساری کائنات، زمین و آسمان اور دیگر سیارے سب اس میں شامل ہیں۔ ان دو آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ کافر تمام مخلوق سے بدتر مخلوق ہیں کیونکہ انہوں نے عقل و تمیز ہونے کے باوجود اپنے خالق و مالک کے حق کو نہیں پہچانا۔ اور مومن جو نیک اعمال بجالاتے رہے تمام مخلوق سے بہتر ہیں۔ حتیٰ کہ فرشتوں سے بھی بہتر ہیں۔ اس لیے کہ فرشتوں کو خیر وشر کا اختیار ہی نہیں دیا گیا۔ ان کی اطاعت الٰہی اضطراری ہے اختیاری نہیں۔ جبکہ مومنوں کی اطاعت اختیاری ہوتی ہے۔ علماء کہتے ہیں کہ عام مومن عام فرشتوں سے اور مقرب مومن مقرب فرشتوں سے افضل ہیں اور افضل الخلائق ہیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام مخلوق سے، جن میں سب فرشتے بھی شامل ہیں، افضل ہیں۔ البينة
8 [١٠] یعنی ایمان اور عمل صالح کی توفیق اسی صورت میں ملتی ہے جبکہ انسان اللہ سے ڈرتے ہوئے اور ہر بات میں اس کے احکام کی پابندی کرتے ہوئے زندگی گزارے۔ اللہ ایسے ہی لوگوں سے خوش ہوتا ہے اور وہ بھی اللہ کی مشیئت پر ہر وقت خوش رہتے ہیں اور جب انہیں آخرت میں اللہ تعالیٰ جنت اور بیش بہا نعمتیں عطا فرمائے گا تو وہ اللہ سے اور بھی زیادہ راضی ہوجائیں گے۔ البينة
0 الزلزلة
1 [١] یعنی زمین پر لگاتار زلزلے آئیں گے اور یہ علاقائی قسم کے نہیں ہوں گے۔ بلکہ پوری زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ ان مسلسل اور متواتر زلزلوں کی وجہ سے زمین میں کوئی نشیب و فراز باقی نہیں رہے گا۔ اور ایسے زلزلے نفخہ صور ثانی کے وقت آئیں گے نفخہ صور اول کے وقت جو زلزلہ آئے گا اس سے قیامت برپا ہوگی اور سب جاندار مخلوق مر جائے گی۔ نفخہ صور ثانی کے وقت شدید زلزلوں سے زمین کے نشیب و فراز ختم کرکے اسے ہموار اور چٹیل میدان بنا دیا جائے گا۔ دریاؤں، پہاڑوں، سمندروں غرضیکہ ہر چیز کو ختم کردیا جائے گا جس سے اس زمین کی ہیئت ہی بدل جائے گی پھر اس پر میدان محشر قائم ہوگا۔ الزلزلة
2 [٢] زمین میں تین قسم کے بوجھ جنہیں وہ باہر نکال پھینکے گی :۔ یہ زمین کے اندر بوجھ تین قسم کے ہونگے۔ (١) زمین کی معدنیات، زر و جواہر کے مدفون خزانے، اسی طرح سیال چیزوں اور گیسوں کے خزانے جن کے حصول کے لیے انسان دنیا میں مارا مارا پھرتا تھا۔ ناجائز اور حرام ذرائع استعمال کرتا تھا۔ ایک دوسرے سے لڑتا جھگڑتا تھا۔ ایک ملک دوسرے ملک سے جنگ و جدال کرتا تھا۔ اس دن زمین ایسے سب خزانے باہر نکال پھینکے گی لیکن اس دن انسان کو ان سے کچھ غرض نہ ہوگی۔ وہ نہ اس کے کسی کام آسکیں گے۔ (٢) دفن شدہ مردوں کے بوجھ یعنی سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر تاقیام قیامت جتنے انسان زمین کے اندر مدفون ہوں گے اور ان میں سے اکثر مٹی میں مل کر مٹی بن چکے ہوں گے۔ زمین ان کے تمام اجزاء کو نکال باہر پھینکے گی۔ یہی اجزاء اللہ کے حکم سے مل جائیں گے اور ہر انسان کو جسم عطا کیا جائے گا۔ (٣) زمین کے وہ اجزاء جن پر کسی انسان نے کوئی اچھا یا برا کارنامہ سرانجام دیا ہوگا جسے عام زبان میں موقع کی شہادت یا قرینہ کی شہادت کہتے ہیں۔ زمین کے یہی حصے اللہ کی عدالت میں مجرموں کے خلاف گواہی کے لیے پیش کیے جائیں گے اور وہ شہادت دیں گے۔ الزلزلة
3 [٣] اس آیت میں اگر انسان سے مراد عام انسان لیا جائے تو بھی درست ہے۔ ہر انسان جب نیند سے بیدار ہوتا یا کسی اتفاقی حادثہ سے بے ہوش ہوجانے کے بعد ہوش میں آتا ہے اور اجنبی صورت حال دیکھتا ہے تو سب سے پہلا سوال یہی کرتا ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور میں اس وقت کہاں ہوں؟ پھر جب ذرا ہوش ٹھکانے آجائیں گے تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ یہ میدان محشر کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ اور اگر انسان سے مراد ایسا انسان لیا جائے جو آخرت کا منکر تھا۔ وہ تو دیوانگی اور حیرانی کے عالم میں پوچھے گا کہ اس زمین کو کیا ہوگیا ہے پھر تھوڑی ہی دیر کے بعد اس کی یہ حیرانی حسرت و یاس میں تبدیل ہونے لگے گی اور اسے یقین ہوجائے گا کہ جن باتوں کا وہ ساری زندگی منکر رہا ہے۔ آج وہ واقع ہونے لگی ہیں۔ الزلزلة
4 [٤] قیامت کے دن زمین کی گواہی :۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت پڑھی تو صحابہ رضی اللہ عنہم سے پوچھا : ’’جانتے ہو اس کی خبریں کیا ہیں؟‘‘ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : ’’اللہ اور اس کا رسول ہی خوب جانتے ہیں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اس کی خبریں یہ ہیں کہ وہ ہر بندے اور بندی پر گواہی دے گی کہ اس نے میری پشت پر کیا کچھ کام کیے۔ وہ کہے گی کہ اس نے فلاں دن یہ یہ کام کیے۔ یہی اس کی خبریں ہیں‘‘ (ترمذی، ابو اب التفسیر) قدیم زمانے کے انسان تو شاید زمین کے اس طرح خبریں بیان کرنے پر متعجب ہوں مگر آج کے زمانہ کا انسان تو یہاں دنیا میں ہی یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ ویڈیو فلم کی ایجاد کے بعد یہ بات انسان کے لئے قطعاً حیران کن نہیں رہ گئی۔ جس میں جائے وقوع کی پوری تصویریں بھی سامنے آجاتی ہیں اور ہر انسان کی گفتگو کو بھی منضبط کرکے اس طرح واقعات کو مربوط کردیا جاتا ہے کہ دیکھنے والے کو یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ وہ اصل واقعہ کے بجائے اس کی فلم دیکھ رہا ہے۔ انسان اس دنیا میں جو اعمال بجا لا رہا ہے۔ ان سب کی فلمیں تیار ہو رہی ہیں۔ اسی طرح ہر انسان کی آوازیں فضا میں محفوظ ہیں اور اس کے اعمال کے اثرات جو زمین پر ثبت ہو رہے ہیں یہی چیزیں اس دن زمین پیش بھی کردے گی اور بیان بھی کردے گی۔ الزلزلة
5 الزلزلة
6 [٥] اس آیت کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ سب انسان متفرق اور الگ ہوجائیں گے اور ہر ایک سے انفرادی طور پر اللہ کے ہاں باز پرس ہوگی۔ اور دوسرا یہ کہ جرائم کی نوعیت کے لحاظ سے ان کے الگ الگ گروہ بن جائیں گے۔ شرابیوں کا گروہ الگ ہوگا، زانیوں کا الگ، چوروں کا الگ، ڈاکوؤں اور لٹیروں کا الگ، غرض ہر انسان اپنے اپنے ہم جنسوں سے مل جائے گا۔ [٦] یہاں صرف اعمال کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یعنی سب قسم کے لوگوں کو ان کے اعمال دکھا دیئے جائیں گے اور اس کی صورت وہی ہوگی جو اوپر مذکور ہوئی۔ یعنی ان کے اعمال کی فلمیں ہر ایک کو دکھا دی جائیں گی۔ تاکہ کسی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہ رہے اور اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہر شخص کا اعمال نامہ اس کے حوالہ کردیا جائے گا کہ وہ خود اپنے اعمال کو ٹھیک طرح پڑھ لے اور دیکھ بھال کرلے۔ الزلزلة
7 الزلزلة
8 [٧] ان دونوں صورتوں میں جو بھی صورت ہو یہ ممکن نہ ہوگا کہ کسی شخص نے کوئی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کی ہو لیکن وہ اعمال میں درج ہونے یا ریکارڈ ہونے سے رہ جائے۔ اسی طرح جس شخص نے کوئی چھوٹے سے چھوٹا برائی کا کام کیا ہوگا وہ اسے اپنے اعمال نامہ یا ریکارڈ میں دیکھ لے گا۔ الزلزلة
0 العاديات
1 [١] عَادِیَاتٌ کا لغوی مفہوم :۔ عَادِیَاتٌ: عادیۃ کی جمع ہے جو عادی کا مونث ہے اور عادی بمعنی وہ جماعت جو قتل و قتال کے لیے تیار ہوا اور تَعَادَالْقَوْمُ بمعنی لوگوں نے دوڑ میں مقابلہ کیا اور عَدَاالْفَرْسِ بمعنی گھوڑے نے دوڑ لگائی اور عادِیَاتٌ سے مراد وہ جنگ پر جانے والے (گھوڑے) ہیں جو مقابلہ کی دوڑ میں حصہ لیتے رہے ہوں۔ واضح رہے کہ عادیات کے معنی میں گھوڑوں کا مفہوم شامل نہیں ہے۔ بلکہ ضَبْحًا کا لفظ عادیات کو گھوڑوں سے مخصوص کردیتا ہے۔ کیونکہ ضبح صرف اس آواز کو کہتے ہیں جو سرپٹ دوڑنے کی وجہ سے گھوڑوں کے منہ سے نکلتی ہے۔ یعنی گھوڑوں کا ہانپنا۔ العاديات
2 [٢] اس آیت میں گھوڑوں کے رات کو دوڑنے کا مفہوم از خود شامل ہے کیونکہ ان کے سموں کی پتھروں پر ضرب سے جو چنگاریاں نکلتی ہیں وہ زیادہ تر رات کو نظر آتی ہیں۔ العاديات
3 [٣] اہل عرب ہر وقت قبائلی لڑائیوں اور لوٹ مار میں مشغول رہتے تھے۔ ان کی عادت یہ تھی کہ حملہ کے لیے رات کے وقت سفر کرتے تاکہ دشمن کو حملہ کی خبر نہ ہوسکے۔ رات کو وہ شب خون مارنا اپنی کسر شان اور اپنی شجاعت کے خلاف سمجھتے تھے۔ رات کو سفر کرنے کے بعد صبح دم حملہ کردینے میں انہیں تین فائدے حاصل ہوتے تھے۔ ایک یہ کہ دشمن کو سنبھلنے کا موقع نہیں ملتا تھا۔ دوسرے اس وقت انہیں ہر چیز واضح طور پر نظر آنے لگتی تھی۔ تیسرے شب خون مارنے کی بدنامی سے بھی بچ جاتے تھے۔ العاديات
4 [٤] نَقْعًا بمعنی گرد راہ، وہ گردو غبار جو کوئی تیز رفتار سواری اپنے پیچھے چھوڑتی چلی جاتی ہے۔ یہ خاکی ذرات بوجھل ہونے کی وجہ سے پھر آہستہ آہستہ زمین پر بیٹھ جاتے ہیں۔ اس آیت میں دراصل گھوڑوں کی تیز رفتاری کی تعریف ہے جو رات کو زمین ٹھنڈی اور شبنم آلود ہونے کے باوجود اس سے گرد و غبار اٹھاتے ہیں۔ العاديات
5 [٥] اس بات میں اختلاف ہے کہ اس میں جَمْعًا سے مراد کون سی جمعیت یا لشکر ہے؟ بعض علماء کا خیال ہے کہ یہاں جَمْعًا سے مراد وہ قبیلہ ہے جس پر انتقام یا لوٹ مار کی غرض سے حملہ کیا جاتا ہے۔ اور گھوڑوں سے مراد وہی گھوڑے ہیں جو عرب قبائل ایسے موقعوں پر استعمال کیا کرتے تھے۔ اپنے اس موقف کے حق میں ان کی دلیل یہ ہے کہ آگے چل کر اللہ تعالیٰ نے جواب قسم کے دوران فرمایا کہ :’’انسان مال کی محبت میں بری طرح مبتلا ہے‘‘ اور چونکہ عرب قبائل مال کی محبت کی وجہ سے ہی ایسے حملے کرتے تھے لہٰذا یہاں جن گھوڑوں کی قسم کھائی گئی ہے وہ وہی لوٹ مار کرنے والے گھوڑے ہیں اور بعض علماء کا یہ خیال ہے کہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے گھوڑوں کی نہیں بلکہ گھوڑوں کے رسالہ اور ان پر سوار مجاہدین کی قسم کھائی ہے جو کافروں کے لشکر پر جا پڑتے ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی منزل پر پہنچ جاتے تو صبح کا انتظار کرتے رہتے۔ اگر بستی سے اذان کی آواز آجاتی تو پھر حملہ نہیں کرتے تھے اور اگر نہ آتی تو حملہ کردیتے۔ (مسلم، کتاب الصلوۃ۔ باب الامساک عن الاغارۃ علٰی قوم فی دارالکفر اذا سمع فیھم الاذان) اور درج ذیل حدیث اگرچہ اس بات کی صراحت نہیں کرتی کہ اللہ تعالیٰ نے عام گھوڑوں کی قسم کھائی ہے یا مجاہدین اور ان کے گھوڑوں کی۔ تاہم اس میں جہاد کے لیے تیار کیے ہوئے گھوڑوں کی بہت فضیلت بیان ہوتی ہے۔ جہاد کے لیے گھوڑا رکھنے کی فضیلت :۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’گھوڑوں کا حال تین طرح پر ہے۔ کسی کے لیے تو وہ باعث ثواب ہیں، کسی کے لیے معاف اور کسی کے لیے عذاب۔ ثواب تو اس کے لیے جو انہیں جہاد کی نیت سے باندھے اور چراگاہ یا باغ میں ان کی رسی کھلی چھوڑ دے وہ جہاں سے اور جہاں تک چریں گے اس کے لیے نیکیاں ہوں گی اور اگر انہوں نے رسی تڑا لی اور قدم دو قدم آگے چلے گئے تو ان کے پاؤں کے نشانات اور ان کی لید سب کچھ اس کے لیے نیکیاں ہوں گی اور اگر وہ کسی نہر پر جاکر پانی پی لیں۔ خواہ مالک کا انہیں پانی پلانے کا ارادہ نہ ہو تو بھی مالک کو نیکیاں ملیں گی۔ ایسے گھوڑے تو مالک کے لیے باعث ثواب ہیں۔ اور جس نے اپنی ضرورت پوری کرنے اور دوسرے سے سوال کرنے سے بچنے کے لیے گھوڑا رکھا اور اللہ کا جو حق گھوڑے کی گردن اور پشت پر ہے اور اسے نہ بھولا۔ تو ایسے شخص کے لیے گھوڑا رکھنا معاف ہے۔ اور جس نے گھوڑا فخر، ریا اور مسلمانوں کو ستانے کے لیے رکھا تو وہ اس کے لیے عذاب ہے‘‘ پھر کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گدھوں کے متعلق پوچھا : ’’کہ کیا ان کا بھی یہی حکم ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کوئی خاص حکم نازل نہیں کیا مگر یہ اکیلی جامع آیت (جو گدھوں کو بھی شامل ہے) ﴿ فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ ﴾‘‘(بخاری۔ کتاب التفسیر) ان علماء کے خیال کے مطابق اللہ کے ہاں مجاہدین اور ان کے گھوڑے ہی ایسی قدر و منزلت رکھتے ہیں کہ ان کی قسم کھائی جائے۔ عام گھوڑے یہ اہمیت نہیں رکھتے۔ العاديات
6 [٦] کنود کا لغوی مفہوم :۔ جواب قسم میں اللہ تعالیٰ نے تین باتیں بیان فرمائیں بالفاظ دیگر ایسے گھوڑوں کی تین باتوں پر قسم کھائی ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ انسانوں کی اکثریت یا اللہ سے غافل اور اکثر ناشکرے ہوتے ہیں۔ کنود ایسے ناشکرے کو کہتے ہیں جو مصائب و مشکلات کا تو ہر دم ذکر کرتا رہے مگر اللہ کے احسانات کا کبھی نام تک نہ لے یعنی وہ اللہ کا احسان ناشناس ہونے کے علاوہ ہر وقت اللہ اور اس کی تقدیر یا اپنی قسمت کا شاکی بھی رہتا ہے۔ ایسے شخص کے لیے نرم سے نرم لفظ نمک حرام ہی ہوسکتا ہے۔ العاديات
7 [٧] دوسری بات جس پر اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی یہ ہے کہ انسان اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے کہ گھوڑا اپنے مالک کا اتنا وفادار ہوتا ہے کہ وہ اس کی خاطر لڑائی کے میدان میں جا گھستا ہے۔ جہاں ہر طرف قتل و غارت ہو رہی ہوتی ہے۔ اور بسا اوقات وہ اپنے مالک کی جان بچانے کی خاطر اپنی جان خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ مگر انسان ایسا نمک حرام واقع ہوا ہے کہ اپنے مالک اور رازق کے لیے جان و مال کی قربانی تو درکنار، وہ اپنے پروردگار کا شکر تک ادا نہیں کرتا بلکہ الٹا اس کے شکوے شکایت کرتا رہتا ہے۔ العاديات
8 [٨] مال ودولت سے انسان کی بے پناہ محبت :۔ تیسری بات جس پر قسم کھائی گئی ہے یہ ہے کہ انسان مال کی محبت میں بری طرح پھنسا ہوا ہے۔ پیسہ ہی اس کا دین و ایمان ہے۔ مال و دولت کے حصول کی خاطر ہی وہ حلال و حرام میں تمیز نہیں کرتا۔ لوگوں سے فریب اور جھگڑے کرتا اور اللہ کی نافرمانی پر اتر آتا ہے اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے میں انتہائی بخیل واقع ہوا ہے۔ مال و دولت سے جس قدر انسان کو محبت ہوتی ہے وہ ہر انسان بذات خود مشاہدہ کرسکتا ہے۔ نیز درج ذیل حدیث بھی اسی بات کی وضاحت کر رہی ہے : سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بحرین (بصرے اور عمان کے درمیان ایک شہر) سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بہت سی رقم آئی۔ اور یہ رقم ان سب رقوم سے زیادہ تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس سے پیشتر آئی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسے مسجد میں ڈال دو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لیے تشریف لائے اور اس رقم کو دیکھا تک نہیں۔ نماز سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس رقم کے پاس آبیٹھے۔ پھر جس کسی پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر پڑی اسے دینا شروع کیا۔ اتنے میں سیدنا عباس آئے اور کہنے لگے : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! مجھے بھی عطا کیجیے۔ میں نے اپنا بھی فدیہ ادا کیا تھا اور عقیل کا بھی (جنگ بدر میں اور اب زیر بار ہوں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (جتنا چاہو) لے لو۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ لپیں بھر بھر کر اپنے کپڑے میں ڈالنے لگے۔ پھر اسے اٹھانے لگے تو اٹھا نہ سکے۔ کہنے لگے، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کسی کو حکم دیجیے کہ مجھے اٹھوا دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں (یہ نہیں ہوسکتا) پھر سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کہنے لگے :’’اچھا پھر ذرا خود ہی اٹھوا دیجیے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’ نہیں (یہ بھی نہ ہوگا)‘‘ آخر انہوں نے کچھ درہم نکال دیے۔ پھر اٹھانے لگے تو بھی نہ اٹھا سکے اور کہا : ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کسی کو حکم دیجیے کہ مجھے اٹھوا دے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’یہ نہیں ہوسکتا‘‘ پھر سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ذرا آسرا کیجیے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’نہیں‘‘ پھر انہوں نے مجبوراً اور درہم نکال دیئے اور اپنے کندھے پر لاد کرچل دیے۔ آپ انہیں اس وقت تک دیکھتے رہے جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہ ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا عباس کی حرص پر بہت تعجب کیا۔ غرض آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں سے اس وقت اٹھے جبکہ ایک درہم بھی باقی نہ رہا۔ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب القسمۃ فی المسجد) العاديات
9 [٩] قبروں سے مراد قبرستان میں موجود قبریں ہی نہیں بلکہ ہر انسان کا مدفن ہے خواہ یہ سمندر کی تہ میں چلا جائے یا کسی درندہ کے پیٹ میں چلا جائے یا آگ میں جل کر راکھ بن جائے جو بھی صورت ہو بالآخر وہ زمین کے ذرات میں مل جائے گا اور اللہ کے ان ذرات کو جمع کرنے اور زمین سے باہر نکال لانے کی پوری قدرت رکھتا ہے۔ العاديات
10 [١٠] اس کی تشریح سورۃ الطارق کی آیت ﴿ یَوْمَ تُبْلَی السَّرَایِٕرُ ﴾ کے تحت حاشیہ نمبر ٧ میں گزر چکی ہے۔ العاديات
11 [١١] اللہ تو آج بھی، پہلے بھی اور اس وقت بھی یعنی ہر وقت بندوں کے اعمال سے پوری طرح واقف ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دن تمام لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہوجائے گا کہ اللہ دنیا کی زندگی میں بھی ان کے احوال سے پوری طرح باخبر تھا اور آج بھی پوری طرح باخبر ہے۔ لہٰذا کسی شخص کو انکار کی گنجائش نہ رہے گی۔ العاديات
0 القارعة
1 [١] الْقَارِعَۃُ۔ قرع بمعنی ایک چیز کو دوسری چیز پر اس طرح مارنا کہ آواز پیدا ہو اور قَرَعَ الْبَاب بمعنی اس نے دروازہ کھٹکھٹایا اور قارِعَۃٌ بمعنی کھڑکھڑانے والی اور ابن الفارس کے نزدیک ہر وہ چیز جو انسان پر شدت کے ساتھ نازل ہو وہ قارِعَۃٌ ہے (مقاییس اللغۃ) یعنی کوئی عظیم حادثہ یا بھاری آفت جو انسان کو گھبراہٹ میں ڈال دے اور اس سے مراد قیامت ہے۔ القارعة
2 القارعة
3 [٢] یعنی آپ اس دن کی پوری کیفیت کو پوری طرح سمجھ ہی نہیں سکتے۔ پس اس کے کچھ آثار ہی بتائے جاسکتے ہیں جن سے اس دن کی شدت کا قدرے اندازہ ہوسکتا ہے۔ القارعة
4 [٣] یہ کیفیت نفخہ صور اول کے وقت ہوگی۔ یعنی اس دن لوگ اس قدر بدحواس اور گھبراہٹ کا شکار ہوجائیں گے کہ نہایت بدنظمی کے ساتھ ایک دوسرے کے اوپر گر رہے ہوں گے۔ جیسے پروانے اپنی کثرت، ضعف اور بدنظمی کی وجہ سے شمع تک پہنچنے سے پہلے ہی ایک دوسرے پر گرے پڑتے ہیں۔ ان کا ہدف شمع ہوتی ہے جو گرمی کی وجہ سے انہیں بھون ڈالتی ہے۔ مگر وہ یہ نہیں سمجھتے کہ وہ موت کے منہ میں جارہے ہیں۔ القارعة
5 [٤] یعنی زمین میں پہاڑوں کی گرفت ڈھیلی پڑجائے گی۔ پھر وہ زمین بوس ہوں گے۔ اس دن گرد و غبار بن کر اڑتے پھریں گے۔ پہاڑوں کے بھی چونکہ مختلف رنگ ہوتے ہیں کوئی لال، کوئی کہیں سے سفید، کوئی کالا اور اسی طرح اون کے بھی مختلف رنگ ہوتے ہیں۔ اس لیے جب پہاڑ ہوا میں اڑیں گے تو ایسا معلوم ہوگا جیسے دھنکی ہوئی اور رنگی ہوئی اون کے گالے اڑ رہے ہیں۔ القارعة
6 [٥] موازین کے مختلف معنی اور میزان الاعمال کی صورتیں : اس آیت میں نفخۂ صور ثانی کے بعد میدان محشر کا ایک منظر پیش کیا جارہا ہے۔ جبکہ لوگوں کے اعمال کا وزن کیا جارہا ہوگا۔ مَوَازِیْنُ کا واحد موزون بھی ہے اور میزان بھی۔ اور ان دونوں کی جمع موازین آتی ہے۔ اس لحاظ سے اس آیت کے دو مطلب ہوئے۔ ایک یہ کہ صرف موزون یا کچھ وزن رکھنے والی باتوں کو ہی تولا جائے گا۔ اور اللہ کے نزدیک وزن دار یا قابل قدر باتیں صرف نیک اعمال ہیں اور ان کے ساتھ ایمان ہونا بھی شرط اول ہے۔ کیونکہ کافروں کے نیک اعمال کا بھی وزن نہیں کیا جائے گا۔ جیسا کہ سورۃ کہف کی آیت نمبر ١٠٥ میں فرمایا کہ ﴿فَلَا نُقِیْمُ لَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَزْنًا ﴾ یعنی ہم ان کے اعمال کو سرے سے تولیں گے ہی نہیں۔ دوسرا یہ کہ میزان کا معنی ترازو بھی ہے۔ اور وہ بوجھ یا وزن بھی جو ترازو کے کسی پلڑے میں تلنے کے لیے رکھا جائے اور ترازو کے دونوں پلڑوں میں سے ہر ایک پلڑا بھی۔ اس لحاظ سے یہ مطلب ہوگا کہ جس شخص کی نیکیوں کا پلڑا وزن دار یا بھاری ہوگیا تو ایسے لوگ ہی کامیاب سمجھے جائیں گے اور وہ اس روز خاطر خواہ عیش و آرام میں رہیں گے۔ واضح رہے کہ اعمال کے اوزان پر دو باتیں نہایت گہرا اثر ڈالتی ہیں۔ ایک یہ کہ کسی شخص نے یہ عمل کس نیت سے کیا تھا ؟ اور دوسرے یہ کہ اس میں خلوص اور محض رضائے الٰہی کا حصہ کتنا ہے۔ مثلاً نماز ہی کو لیجیے۔ نماز منافق بھی ادا کرتا ہے اور مومن بھی۔ لیکن ان کے ایک ہی جیسے عمل کے وزن میں زمین و آسمان جتنا بھی فرق ہوسکتا ہے۔ یا مثلاً ایک شخص محض رضائے الٰہی کی خاطر خلوص نیت کے ساتھ ایک مسکین کو کھانا کھلاتا ہے۔ دوسرا بھی یہی کام کرتا ہے لیکن مسکین سے کوئی بیگار لینا چاہتا ہے یا اس لیے کرتا ہے کہ لوگوں میں اس کی مسکین پروری کا چرچا ہو تو ان دونوں کے اس ایک جیسے عمل کے وزن میں بہت فرق ہوگا۔ اللہ چونکہ لوگوں کی نیتوں اور دل کی سب باتوں سے واقف ہے۔ لہٰذا اعمال کا وزن نہایت انصاف پر مبنی ہوگا۔ القارعة
7 القارعة
8 القارعة
9 [٦] ھاویۃ: ھوی یھوی بمعنی بلندی سے زمین پر گرنا۔ اُھویۃ گہرے کنوئیں کو بھی کہتے ہیں اور گہرے گڑھے کو بھی اور ھاویۃ سے مراد جہنم کی گہرائی یا گہری جہنم بھی ہوسکتا ہے۔ اور دوزخ میں ایک گہرے گڑھے کا نام بھی۔ مطلب یہ ہے کہ جس شخص کی نیکیوں کا پلڑا اوپر اٹھ گیا، اسے جہنم کی گہرائی میں یا جہنم کے گہرے گڑھے میں پھینک دیا جائے گا اور اُمّ کا لغوی معنی ماں یعنی جس طرح بچہ کا ملجا و ماویٰ ماں اور اس کی گود ہی ہوتی ہے اسی طرح ایسے شخص کا ملجا و ماویٰ یہی ھاویہ ہی ہوگا۔ اس کے علاوہ اسے کوئی اور ٹھکانہ میسر نہ آئے گا۔ القارعة
10 القارعة
11 [٧] یعنی وہ محض ایک گہرا گڑھا ہی نہ ہوگا بلکہ اس کی آگ جہنم کی دوسری آگ کے مقابلہ میں زیادہ گرم اور تیز ہوگی۔ القارعة
0 التکاثر
1 [١] لہو کا لغوی مفہوم :۔ الْھٰکُم : لھو کا معنی عموماً کھیل تماشا لیا جاتا ہے۔ لیکن اصل میں لہو ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو انسان کو اصل مقصد سے یا کسی اہم تر چیز سے ہٹائے رکھے اور اَلْھٰی کے معنی میں کسی گھٹیا کام میں مشغول رہ کر اس سے اہم تر کام سے خیال ہٹا دینا گویا الْھٰی میں توجہ ہٹا دینے کا سبب غفلت یا بھول نہیں ہوتی بلکہ دوسرے فضول کام ہوتے ہیں۔ تکاثر کی مختلف صورتیں :۔ تَکَاثُر کا لفظ تین معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ (١) آدمی کوئی چیز زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ (٢) لوگ کسی چیز کے حصول میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کریں (٣) وہ ایک دوسرے پر فخر جتلائیں کہ دوسرے کے مقابلہ میں انہیں فلاں چیز کثرت سے حاصل ہے۔ رہی یہ بات کہ یہ کثرت کس چیز میں ہو؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو انسان کے نفس کو مرغوب ہو وہ اسے زیادہ سے زیادہ تعداد یا مقدار میں حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یہ چیزیں مال و دولت، اولاد اور بلند وبالا اور عالیشان رہائش گاہیں، منصب و اقتدار، کسی قبیلے کے افراد کی کثرت سب کچھ ہوسکتا ہے۔ التکاثر
2 [٢] انہیں چیزوں کے حصول میں انسان اپنی پوری زندگی کھپا دیتا ہے اور ان چیزوں سے اہم تر چیزوں سے اس کی توجہ ہٹی رہتی ہے اور وہ اہم تر چیزیں یہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی یاد، اخلاقی حدود و قیود کی پابندی، حقداروں کے حقوق کی ادائیگی اور اپنی عاقبت کی فکر۔ ایسی باتوں سے غافل رہ کر وہ مرغوبات نفس کے حصول میں ہی پڑا رہتا ہے تاآنکہ اسے موت آجاتی ہے۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ ایک دفعہ دو قبیلے اپنے اپنے جتھے کی کثرت تعداد پر فخر کر رہے تھے۔ جب گننے پر ایک قبیلہ کے آدمی دوسرے سے کم نکلے تو شکست خوردہ قبیلہ کہنے لگا کہ ہمارے اتنے آدمی فلاں لڑائی میں مارے جاچکے ہیں۔ بیشک چل کر قبریں شمار کرلو۔ وہاں پتہ لگے گا کہ ہماری جمعیت تم سے کتنی زیادہ ہے اور ہم میں کیسے کیسے نامور گزر چکے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ قبریں شمار کرنے لگے۔ ان کی اس جہالت پر متنبہ کرنے کے لیے یہ سورت نازل ہوئی۔ اس روایت کی صحت کے متعلق تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے تاہم یہ ایک پہلو سے اس مضمون کی خوب وضاحت کرتی ہے۔ البتہ اس سلسلہ میں درج ذیل حدیث صحیح اور قابل احتجاج ہے : عبداللہ بن شخیر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور وہ یہ سورت پڑھ رہے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ابن آدم کہتا ہے کہ یہ میرا مال ہے۔ یہ میرا مال ہے۔ حالانکہ تیرا مال صرف وہی ہے جو تو نے صدقہ کردیا اور جاری کیا، یا کھالیا اور فنا کردیا یا پہن لیا اور پرانا کردیا۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) التکاثر
3 [٣] یعنی تمہاری کثرت کے حصول کی خواہشات اور انہیں باتوں پر فخر و مباہات کی باتیں سراسر لغو اور باطل ہیں اور مرنے کے ساتھ ہی تمہیں خوب معلوم ہوجائے گا کہ تمہاری یہ زندگی بھر کی کوششیں فضول اور بے کار تھیں۔ اور ان میں کوئی کوشش اور کوئی چیز ایسی نہ تھی جو مرنے کے بعد تمہارے کام آسکے۔ التکاثر
4 التکاثر
5 التکاثر
6 [٤] دوبارہ اور سہ بارہ تاکیداً فرمایا گیا کہ تمہارے ایسے خیالات قطعاً درست نہیں ہیں۔ اور اگر تم اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے دلائل میں کچھ تھوڑا بہت بھی غور و فکر کرلیتے تو تمہیں یقیناً یہ بات معلوم ہوجاتی کہ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کے سب سامان ہیچ ہیں اور اس طرح غفلت میں نہ پڑے رہتے۔ تمہیں یہ بھی معلوم ہوجاتا کہ حقیقتاً اچھے کام کون سے ہیں؟ اور آخرت سے توجہ ہٹانے اور غافل کردینے والے کون سے؟ نیز یہ کہ کثرت کے حصول کے چکر میں پڑ کر زندگی گزارنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہیں یقیناً جہنم کو دیکھنا ہوگا اور اس کے کچھ آثار تمہیں مرنے کے فوراً بعد عالم برزخ میں ہی نظرآنے لگیں گے۔ التکاثر
7 [٥] دوزخ کے آثار تو تم مرنے کے فوراً بعد دیکھ لو گے۔ پھر جب قیامت کے دن تم میدان محشر میں اکٹھے کیے جاؤ گے تو پھر اسے اپنی آنکھوں سے یوں دیکھ لو گے کہ تمہیں اس کے یقینی ہونے میں کوئی شک و شبہ باقی نہ رہ جائے گا۔ التکاثر
8 [٦] انسان پر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں تو لاتعداد ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی فرمایا کہ ﴿وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْہَا﴾ (١٤: ٣٤، ١٦: ١٨) یعنی تم پر اللہ کی نعمتیں اتنی زیادہ ہیں کہ اگر تم انہیں شمار کرنا چاہو تو شمار بھی نہیں کرسکتے۔ تاہم ان نعمتوں کی دو بڑی قسمیں ہیں۔ ایک وہ جو خداداد ہیں مثلاً جوانی اور صحت جو اکیلے ہی ہزار نعمتوں سے بڑھ کر ہے۔ ایسی نعمتوں کے متعلق یہ سوال ہوگا کہ ان کو تم نے کس قسم کی کوششوں میں صرف کیا تھا۔ اور دوسری وہ نعمتیں ہیں جن میں انسان کے اپنے کسب کو بھی دخل ہے۔ جیسے مال و دولت اور ہر قسم کی جائیداد۔ ایسی نعمتوں کے متعلق دو طرح کے سوال ہونگے۔ ایک یہ کہ ان چیزوں کو کن اور کیسے ذرائع سے حاصل کیا اور دوسرا یہ کہ ان کو خرچ کون سے کاموں میں کیا۔ یعنی ان کا مصرف جائز تھا یا ناجائز؟ اس کی مزید تفصیل درج ذیل احادیث میں ملاحظہ فرمائیے : ١۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا : ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کون سی نعمت کا ہم سے سوال ہوگا (ہماری خوراک) یہی دو کالی چیزیں (کھجور اور پانی) ہے دشمن سر پر ہے اور تلواریں ہمارے کندھوں پر رہتی ہیں (پھر باز پرس کس چیز کی ہوگی؟) ‘‘ آپ نے فرمایا : ’’تاہم یہ ضرور ہوگا۔‘‘ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) ٢۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تروتازہ کھجوریں کھلائیں اور ٹھنڈا پانی پلایا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ : یہ ان نعمتوں میں سے ہیں جن کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ (مسلم۔ کتاب الاشربہ۔ باب جواز استتباعہ غیرہ) التکاثر
0 العصر
1 [١] عصر کے دو معنی :۔ عصر کا لفظ بنیادی طور پر دو معنوں میں آتا ہے (١) عصر کا وقت جو انتہائی مصروفیات کا وقت ہوتا ہے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے بطور خاص اس وقت کی نماز کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا : ﴿حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی﴾( ٢٣٨:۲) اور احادیث میں یہ صراحت مذکور ہے۔ کہ صلوٰۃ وسطیٰ سے مراد عصر کی نماز ہے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کی عصر کی نماز ضائع ہوگئی۔ وہ سمجھ لے کہ اس کا گھر بار اور مال لٹ گیا۔ (ترمذی، ابو اب الصلوۃ۔ باب ماجاء فی السہو عن وقت صلوۃ العصر) اور عصر کا دوسرا معنی ''زمانہ'' اور اس سے وہی زمانہ یا عرصہ مراد لیا جاسکتا ہے۔ جو بنی نوع انسان کی پیدائش سے لے کر قیامت تک کا وقت ہے۔ بنی نوع انسان کی پیدائش سے پہلے کا نہیں۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ عصر کو بنی نوع انسان پر بطور شاہد بیان فرماتے ہیں اور جب انسان کا وجود ہی نہ تھا تو شہادت کیسی؟ العصر
2 [٢] اس آیت کے مختلف مفہوم :۔ خُسْرٍ بمعنی راس المال میں کمی واقع ہونا۔ کسی سودے میں نفع کی بجائے الٹا نقصان ہوجانا، ٹوٹا، گھاٹا اور اس کی ضد رِبْحٌ ہے بمعنی کسی سودے میں نفع ہوجانا۔ اب اگر زمانہ سے مراد گزرا ہوا زمانہ لیا جائے تو اس آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ گزرے ہوئے زمانہ کی پوری تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ انسان انفرادی طور پر بھی اور بحیثیت مجموعی بھی ہمیشہ گھاٹے میں ہی رہا مگر اس گھاٹے سے صرف وہ لوگ بچ سکے ہیں جن میں وہ چار صفات پائی جائیں جو آگے مذکور ہیں اور اگر عصر سے مراد گزرنے والا زمانہ لیا جائے جو بڑی تیزی سے گزرتا جارہا ہے تو اس سے مراد ہر انسان کی مدت عمر ہوگی جو اسے اس دنیا میں بطور امتحان عمل کے لیے دی گئی ہے اور بڑی تیزی سے گزر رہی ہے۔ یہ مدت بھی اس بات پر شاہد ہے کہ جو شخص اس مدت سے صحیح فائدہ نہیں اٹھا رہا' وہ اعمال سرانجام نہیں دے رہا جو آگے مذکور ہیں۔ وہ سراسر گھاٹے میں جارہا ہے اور اس کا سرمایہ حیات دم بہ دم لٹ رہا ہے۔ ایک بزرگ کہتے ہیں کہ میں نے اس سورۃ العصر کا مطلب ایک برف فروش سے سمجھا جو یہ صدا لگا رہا تھا۔ ’’اس شخص پر رحم کرو جس کا سرمایہ دم بدم پگھل کر ضائع ہوتا جارہا ہے‘‘ اور امام شافعی کہتے ہیں کہ یہ سورت اپنے مضامین کے لحاظ سے اتنی جامع ہے کہ انسانی ہدایت کے لیے صرف یہی ایک سورت بھی کافی تھی اور طبرانی کی ایک روایت کے مطابق جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک دوسرے سے جدا ہونے لگتے تو یہ سورت ایک دوسرے کو پڑھ کر سناتے پھر سلام کہہ کر ایک دوسرے سے جدا ہوتے تھے۔ واضح رہے کہ اس آیت میں خسارہ سے مراد اخروی نقصان ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ان چار صفات کے حامل انسان دنیا میں خسارہ میں ہی رہتے ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ دنیا میں بھی ایسے لوگ خسارہ کے بجائے فائدہ میں رہ سکتے ہیں لیکن یہ بات یقینی نہیں۔ ممکن ہے انہیں دنیا میں خسارہ ہی رہے تاہم یہ بات یقینی ہے کہ آخرت میں بہرحال یہی لوگ خسارہ سے محفوظ رہیں گے اور اخروی نجات ان کے لیے یقینی ہوگی۔ العصر
3 [٣] مومنوں کی چار لازمی صفات :۔ اس آیت میں وہ چار صفات مذکور ہیں جن پر عمل پیرا ہونے سے انسان اخروی خسارہ سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ پہلی صفت ایمان بالغیب ہے۔ جس کے چھ اجزاء ہیں اور وہ سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٣ کے تحت تفصیل سے ذکر کیے جاچکے ہیں۔ دوسری صفت اعمال صالحہ کی بجاآوری ہے۔ اعمال صالحہ کا لفظ اس قدر وسیع مفہوم رکھتا ہے کہ خیر اور بھلائی کا کوئی کام اس سے باہر نہیں رہتا۔ البتہ اس کی دو اہم شرائط ہیں۔ ایک ایمان بالغیب جس کا پہلے ذکر ہوچکا۔ ایمان کے بغیر اعمال صالحہ کا کوئی تصور ہی نہیں اور دوسری یہ کہ وہ کام شریعت کی ہدایات کے مطابق سرانجام دیا جائے۔ تیسری صفت یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کو حق کی تاکید کرتے رہتے ہیں۔ حق کی ضد باطل ہے۔ حق کا لفظ عموماً دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ (١) سچ اور سچائی۔ حقیقت، درست یعنی ہر وہ بات یا چیز جو تجربہ اور مشاہدہ کے بعد درست ثابت ہو۔ اور (٢) وہ حق جس کا ادا کرنا انسان پر واجب ہو، خواہ وہ اللہ کا حق ہو یا بندوں کا حق ہو یا خود اس کے اپنے نفس کا حق ہو۔ مطلب یہ ہے کہ وہ خود ہی راستباز رہنے یا حقوق ادا کرنے پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے کو حق اختیار کرنے اور حق پر قائم رہنے اور حقوق ادا کرنے کی تاکید بھی کرتے ہیں۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلام اجتماعی زندگی کو خاص اہمیت دیتا ہے اور ان لوگوں کے کرنے کا کام یہ ہوتا ہے کہ جب کبھی اور جہاں کہیں باطل یا برائی سر اٹھانے لگتی ہے تو سب اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اور حق کو غالب کرنے اور رکھنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ بالفاظ دیگر تو اصوبالحق کا مفہوم امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کی ادائیگی ہے جس کی اہمیت کتاب و سنت میں بے شمار مقامات پر مذکور ہے۔ چوتھی صفت یہ ہے کہ اسلام یا حق کو غالب کرنے یا رکھنے کے راستہ میں جتنی مشکلات حائل ہوتی ہیں یا مصائب سے دو چار ہونا پڑتا ہے تو وہ صرف خود ہی صبر اور برداشت سے کام نہیں لیتے بلکہ ایک دوسرے کو اس کی تلقین بھی کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں صبر کا ایک مفہوم احکام شریعت پر ثابت قدمی سے پابند رہنا بھی ہے۔ ایسی باتوں کے لیے بھی وہ ایک دوسرے کو تلقین کرتے رہتے ہیں۔ جس معاشرہ میں اور اس کے افراد میں یہ چاروں صفات پائی جائیں ان کے متعلق یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کے لمحات سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور آخرت میں وہ خسارہ سے محفوظ رہیں گے۔ العصر
0 الهمزة
1 [١] ھَمَزَ کا لغوی مفہوم :۔ ھُمَزَۃٌ : ھَمَزَ بمعنی کسی شخص کی کسی حرکت، کام یا بات پر طعن و تشنیع کرنا، خواہ وہ کام طعن و تشنیع کے قابل ہو یا نہ ہو۔ نیز یہ طعن و تشنیع زبان سے کی جائے یا آنکھوں کے اشارے سے ہی کام چلا لیا جائے اور لَمَزَ بمعنی کسی کے عیب تلاش کرتے رہنا اور اس ٹوہ میں رہنا کہ اس کا کوئی کمزور پہلو ہاتھ آجائے۔ عیب جوئی یا عیب چینی کرنا پھر دوسرے سے ایسی باتوں کی غیبت کرنا۔ اس آیت میں دراصل ان معززین قریش کو متنبہ کیا جارہا ہے جو ہر وقت مسلمانوں اور پیغمبر اسلام کا مذاق اڑاتے، ایک دوسرے کو آنکھیں مارتے، جو غلطیاں ان کی نظر میں معلوم ہوتیں ان پر طعن و تشنیع کرتے اور جو باتیں معلوم نہ ہوتیں ان کی ٹوہ میں لگے رہتے تھے۔ انہیں بتایا گیا ہے کہ تمہاری ایسی حرکتوں کا انجام تمہاری اپنی تباہی اور ہلاکت ہے۔ الهمزة
2 [٢] ان کا ایسی حرکتیں کرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ مالدار تھے اور اپنی دولت کے نشہ میں مسلمانوں کو حقیر اور ذلیل سمجھ کر ایسی حرکتیں کرتے تھے۔ مالدار ہونے کے ساتھ ساتھ وہ بخیل بھی انتہا درجے کے تھے۔ روپے پیسے کو محفوظ رکھنے اور اسے گن گن کر رکھنے میں انہیں خاص لطف آتا تھا۔ واضح رہے کہ اگرچہ ان آیات کا روئے سخن رؤسائے قریش کی طرف ہے۔ لیکن الفاظ عام ہیں اور ان کا اطلاق ایسے تمام مالداروں پر ہوتا ہے جو ان صفات کے حامل ہوں اور یہ تو عام مشاہدہ کی بات ہے کہ مالداروں اور زرپرستوں کو مال جمع کرنے اور اسے گن گن کر رکھنے میں ایک خاص فرحت محسوس ہوتی ہے۔ الهمزة
3 [٣] اس آیت کے دو مطلب ہیں اور دونوں ہی درست ہیں۔ ایک یہ کہ وہ مال کے جمع کرنے میں اس قدر منہمک ہے جیسے اسے کبھی موت آئے گی ہی نہیں۔ اور اس کا مال علاج وغیرہ کے ذریعہ اس کو موت کے منہ سے بچانے کا سبب بن جائے گا اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ اس کا یہ مال و دولت ہمیشہ اس کے پاس ہی رہے گا۔ حالانکہ دولت ایک ڈھلتی چھاؤں اور آنی جانی چیز ہے۔ الهمزة
4 [٤] لَیُنْبَذَنَّ: نَبَذَ بمعنی کسی چیز کو ردی اور بے کار سمجھتے ہوئے پھینک دینا یا کسی چیز کی پروا نہ کرتے ہوئے اسے پس پشت ڈال دینا اور حُطَمَۃَ سے مراد دوزخ ہے۔ حُطَمَ یعنی توڑنا مروڑنا اور حُطَام توڑی مڑوری ہوئی یا ریزہ ریزہ شدہ چیز کو کہتے ہیں اور یہ لفظ کسی کو روند کر ریزہ ریزہ کرنے کے لیے آتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان دولت کے نشہ میں بدمست لوگوں کو نہایت حقیر اور ذلیل سمجھ کر دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ الهمزة
5 الهمزة
6 [٥] سارے قرآن میں غالباً یہی ایک مقام ہے جہاں دوزخ کی آگ کی نسبت اللہ کی طرف کی گئی ہے کہ اللہ نے اس آگ کو بھڑکایا ہے۔ اسی سے اس آگ کی شدت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے اور اس لحاظ سے بھی کہ اللہ متکبرین کو سب سے زیادہ رسوا کن عذاب دیتا ہے۔ الهمزة
7 [٦] فوأد کا لغوی مفہوم :۔ أفْئِدَۃَ: فوأد کی جمع ہے جو فأد سے مشتق ہے اور فَأدَ اللَحْمَ بمعنی گوشت کو بھوننا اور لَحْمٌ فَئِیْدیعنی بھونا ہوا گوشت، ابن الفارس کے نزدیک یہ لفظ گرمی اور شدید حرارت پر دلالت کرتا ہے۔ اور فُوَادُ سے مراد دل کا وہ حصہ ہے جو انسان کے جذبات، جذبات کی شدت اور تاثیر سے تعلق رکھتا ہے، مطلب یہ ہے کہ یہ اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ دل کے اس حصے پر پہنچے گی جو جذبات کا مرکز ہے۔ جس میں زرپرستی کا جذبہ ہے اور جو دوسرے لوگوں کو حقیر اور ذلیل سمجھنے اور اپنے آپ کو بہت بڑی چیز سمجھنے کے جذبات سے معمور ہے۔ یہ آگ اس کے جذبات کو اور دل کے اس حصے کو بھون کر رکھ دے گی۔ الهمزة
8 [٧] یعنی ایسے لوگوں کو نہایت ذلت کے ساتھ بے کار چیز سمجھ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا پھر اوپر سے منہ بند کردیا جائے گا اور اس میں دروازے یا کھڑکی تو درکنار کوئی سوراخ تک نہ رہنے دیا جائے گا۔ الهمزة
9 [٨] اس آیت کے کئی مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ یہ آگ ہی لمبے لمبے ستونوں کی طرح بلند ہوگی۔ جس میں یہ بند کیے جائیں گے۔ دوسرا یہ کہ آگ کے لمبے لمبے ستونوں کے ساتھ جکڑ کر اوپر سے منہ بند کردیا جائے گا اور تیسرا یہ کہ دوزخ کا منہ بند کرنے کے بعد اس کے اوپر لمبے لمبے ستون کھڑے کردیئے جائیں گے۔ الهمزة
0 الفیل
1 [١] یمن میں ابرہہ کا عالی شان گرجا تعمیر کرنا :۔ اس آیت میں اگرچہ بظاہر خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہے۔ تاہم اس کے مخاطب تمام اہل عرب ہیں۔ قرآن میں ان ہاتھی والوں کی کوئی تفصیل مذکور نہیں کہ یہ لوگ کون تھے؟ کہاں سے آئے تھے اور کس غرض سے آئے تھے۔ اس لیے کہ یہ واقعہ بالکل قریبی زمانہ میں پیش آیا تھا اور عرب کا بچہ بچہ اس کی تفصیلات سے واقف تھا اور بہت سے شعراء نے اس واقعہ کو اپنے اپنے قصائد اور منظوم کلام میں قلمبند کردیا تھا۔ واقعہ مختصراً یہ تھا کہ یمن میں اہل حبشہ کی عیسائی حکومت قائم تھی اور ابرہہ نامی ایک شخص حکومت حبشہ کا نائب السلطنت مقرر تھا۔ وہ بیت اللہ کے اثر و رسوخ اور عزت و عظمت سے بہت حسد کرتا تھا۔ وہ چاہتا یہ تھا کہ عرب بھر میں یمن کے دارالخلافہ صنعاء کو وہی حیثیت حاصل ہوجائے جو مکہ کو حاصل ہے۔ اور قریش مکہ کعبہ کی وجہ سے جو سیاسی، تمدنی، تجارتی اور معاشی فوائد حاصل کر رہے ہیں وہ ہماری حکومت کو حاصل ہونا چاہئیں۔ اسی غرض سے اس نے صنعاء میں ایک عالی شان کلیسا تعمیر کرایا۔ کعبہ پر حملہ کا ارادہ :۔ کلیسا کی عمارت کعبہ کے مقابلہ میں بڑی پر شکوہ اور عالی شان تھی۔ اس کے باوجود لوگ ادھر متوجہ نہ ہوئے۔ بلکہ جب عرب قبائل کو اس کلیسا کی تعمیر کی غرض و غایت معلوم ہوئی تو کسی نے خفیہ طور پر اس کلیسا میں پاخانہ کردیا۔ اور ایک دوسری روایت کے مطابق کسی نے اسے آگ لگا دی۔ جس سے ابرہہ کو کعبہ پر چڑھائی کرنے اور اسے تباہ و برباد کرنے کا بہانہ ہاتھ آگیا۔ اور یہ ممکن ہے کہ اس نے خود ہی کعبہ پر چڑھائی کرنے کی کوئی معقول وجہ پیدا کرنے کے لیے خود ہی اس کلیسا کو آگ لگوائی ہو یا اس کی بے حرمتی کروائی ہو۔ بہرحال ابرہہ نے کعبہ پر چڑھائی کے لیے ساٹھ ہزار افراد پر مشتمل ایک لشکر جرار تیار کیا۔ اس لشکر میں تیرہ ہاتھی بھی تھے اور وہ خود بھی ایک اعلیٰ درجہ کے محمود نامی ہاتھی پر سوار تھا۔ یہ لشکر مکہ کی طرف روانہ ہوا تو راستہ میں اکثر عرب قبائل مزاحم ہوئے لیکن ابرہہ کے اتنے بڑے لشکر کے مقابلہ میں ان کی کیا حیثیت تھی۔ وہ شکست کھاتے اور گرفتار ہوتے گئے۔ بالآخر ابرہہ منیٰ اور مزدلفہ کے درمیان ایک مقام محسر تک پہنچ گیا۔ اس نے وہاں ڈیرے ڈال دیے۔ کچھ لوٹ مار بھی کی۔ عبدالمطلب جو ان دنوں کعبہ کے متولی اعظم اور قریشیوں کے سردار تھے، کے دو سو اونٹ بھی اپنے قبضہ میں کرلیے۔ پھر اہل مکہ کو پیغام بھیجا کہ میں صرف کعبے کو ڈھانے آیا ہوں۔ آپ لوگوں سے لڑنے نہیں آیا۔ لہٰذا اگر تم لوگ تعرض نہ کرو گے تو تمہارے جان و مال محفوظ رہیں گے اور میں اس سلسلہ میں گفت وشنید کے لیے تیار ہوں۔ ابرہہ اور عبدالمطلب کا مکالمہ :۔ اس پیغام پر عبدالمطلب اس سے گفتگو کرنے کے لیے اس کے ہاں چلے گئے۔ قریش مکہ کو اس بات کا یقین ہوچکا تھا کہ وہ کسی طرح بھی ابرہہ کے لشکر کے مقابلہ کی تاب نہیں لاسکتے۔ لہٰذا عبدالمطلب نے روانگی سے قبل ہی لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ وہ اپنی حفاظت خود کریں اور اپنے اموال سمیت پہاڑوں میں چھپ جائیں۔ پھر ان لوگوں نے کعبہ میں جاکر خالصتاً اللہ تعالیٰ سے نہایت خلوص نیت کے ساتھ دعائیں کی تھیں کہ وہ اپنے گھر کی خود حفاظت کرے۔ کیونکہ ہم میں اتنی سکت نہیں۔ اس وقت بھی کعبہ میں تین سو ساٹھ بت موجود تھے مگر اس آڑے وقت میں وہ اپنے سب معبودوں کو بھول گئے اور اکیلے اللہ سے دعائیں کرتے رہے جو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمالیں۔ جب عبدالمطلب ابرہہ کے پاس پہنچے تو وہ ان کی وجاہت سے بہت متاثر ہوا اور خود آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا۔ پھر پوچھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ عبدالمطلب نے بڑی سادگی سے جواب دیا :''اپنے اونٹوں کی واپسی'' اس جواب پر ابرہہ سخت حیران ہوا جیسے آپ کی قدر و منزلت اس کی نظروں سے گر گئی ہو، پھر کہنے لگا : میرا تو خیال تھا کہ آپ کعبہ کے متعلق کوئی بات کرینگے؟ عبدالمطلب نے پھر سادگی سے جواب دیا کہ : اونٹوں کا مالک میں ہوں اس لیے ان کا مطالبہ کردیا۔ کعبہ کا مالک میں نہیں۔ اس کا جو مالک ہے وہ خود اس کی حفاظت کرے گا۔ آپ جانیں اور وہ جانے۔ اس جواب پر وہ اور بھی حیران ہوا تاہم اس نے عبدالمطلب کے اونٹ واپس کردیے۔ عبدالمطلب واپس چلے آئے اور آکر لوگوں کو پھر اپنی حفاظت کی تاکید کردی۔ اور ابرہہ نے کعبہ کی طرف پیش قدمی کی تیاری شروع کردی۔ سب سے پہلا کام تو یہ ہوا کہ اس کے اپنے ہاتھی محمود نے کعبہ کی طرف پیش قدمی کرنے سے انکار کردیا۔ اسے بہتیرے تیر لگائے گئے اور آنکس مارے گئے مگر وہ آگے بڑھنے کا نام نہیں لیتا تھا اور جب اس کا رخ کعبہ کے علاوہ کسی دوسری طرف کیا جاتا تو فوراً دوڑنے لگتا تھا۔ یہ لوگ اسی کشمکش میں مبتلا تھے کہ اللہ تعالیٰ نے سمندر کی جانب سے ہزاروں کی تعداد میں پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ یا بالفاظ دیگر اپنے لشکر بھیج دیے۔ ابابیلوں کی کنکر باری :۔ ان پرندوں میں سے ہر ایک کی چونچ میں ایک ایک کنکر تھا اور دو کنکر دونوں پنچوں میں تھے۔ ان پرندوں نے وہی کنکر اس لشکر پر پھینک کر کنکروں کی بارش کردی۔ یہ کنکر ایسی تیزی سے لگتے تھے جیسے بندوق کی گولی لگتی ہو۔ جہاں کنکر لگتا زخم ڈال دیتا تھا اور کبھی آر پار بھی گزر جاتا تھا۔ چنانچہ اس لشکر کے بیشتر افراد تو وہیں مر گئے۔ باقی جو بچے وہ واپس مڑے لیکن وہ راستہ میں مرگئے۔ ابرہہ خود بھی راستے میں ہی مرا تھا۔ اور اصحاب الفیل کی تباہی کا واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت سے صرف ٥٠ دن پہلے محرم میں پیش آیا تھا۔ الفیل
2 [٢] ابرہہ کے مقاصد کیا تھے؟ کَیْدَ بمعنی چال یا خفیہ تدبیر۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ تو علی الاعلان دن دہاڑے کعبہ پر حملہ کرنے آیا تھا اور برملا کہتا تھا کہ میں کعبہ پر حملہ کرنے آیا ہوں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عربوں نے ہمارے کلیسا کی توہین کی ہے تو اس میں اس کی چال یا خفیہ تدبیر کیا تھی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی خفیہ تدبیر یہ تھی کہ کعبہ کی تخریب کے بعد اہل عرب کی توجہ اپنے کلیسا کی طرف مبذول کرے۔ اور اس سے اس کا مقصد مذہبی فوائد کا حصول نہیں تھا بلکہ وہ تمام تر تجارتی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی فوائد حاصل کرنا چاہتا تھا جو کعبہ کی وجہ سے قریش مکہ کو حاصل تھے۔ [٣] تَضْلِیْلٍ۔ ضَلّ کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ جس غرض کے لیے کوئی کام کیا جائے وہ مقصد حاصل نہ ہو اور وہ کام بالکل بے نتیجہ اور بے کار ثابت ہو۔ اس کی مزید تشریح سورۃ والضحیٰ کی آیت ﴿ وَوَجَدَکَ ضَالًّا فَہَدٰی ﴾ کے حاشیہ میں دیکھیے۔ الفیل
3 الفیل
4 [٤] سجیل فارسی کے لفظ سنگ گل (بمعنی مٹی کا پتھر) سے معرب ہے۔ یعنی وہ نوکدار کنکریاں جن میں مٹی کی بھی آمیزش ہوتی ہے اور مٹی سے کنکریاں بن رہی ہوتی ہیں۔ [٥] تَرْمِیْھِمْ رمی بمعنی کسی چیز کو نشانہ بناکر دور سے پتھر کنکر وغیرہ پھینکنا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ پرندے ان پر کنکر گراتے تھے۔ بلکہ فرمایا نشانہ بناکر پھینک رہے تھے۔ واضح رہے کہ تیر اندازی کے لیے بھی رمی کا لفظ ہی استعمال ہوتا ہے۔ گویا وہ پرندے یا اللہ کے لشکر باقاعدہ ان پر حملہ آور ہوئے تھے۔ الفیل
5 [٦] عَصْفٌ بمعنی غلہ کے دانہ کے اوپر کے پردے اور چھلکے نیز توڑی اور بھوسہ وغیرہ جو مویشیوں کے لیے چارہ کا کام دیتا ہے۔ اور عَصْفٍ مَاکُولٍ سے مراد یا تو چارے کا وہ حصہ یا ڈنٹھل ہیں جو جانور چرنے کے بعد آخری حصہ چھوڑ دیتے ہیں۔ یا چارے کا وہ حصہ ہے جو جانور کھاتے وقت یا جگالی کرتے وقت منہ سے نیچے گرا دیتے ہیں۔ گویا اس عذاب کے بعد ہاتھی والوں کی لاشوں کی حالت بھی سخت بگڑ گئی تھی۔ جو لوگ قرآن میں مذکور معجزات کی مادی تاویل کرنے پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں وہ اس معجزہ کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔ چنانچہ دور حاضر میں پرویز صاحب نے اپنی تفسیر مفہوم القرآن میں اس کی آخری تین آیات کا ترجمہ یا مفہوم یوں بیان فرمایا ہے : (انہوں (یعنی اصحاب الفیل) نے پہاڑ کے دوسری طرف ایک غیر مانوس خفیہ راستہ اختیار کیا تھا تاکہ وہ تم پر اچانک حملہ کردیں لیکن چیلوں اور گدھوں کے جھنڈ (جو عام طور پر لشکر کے ساتھ ساتھ اڑتے چلے جاتے ہیں، کیونکہ انہیں فطری طور پر معلوم ہوتا ہے کہ انہیں بہت سی لاشیں کھانے کو ملیں گی) ان کے سروں پر منڈلاتے ہوئے آگئے اور اس طرح تم نے دور سے بھانپ لیا کہ پہاڑ کے پیچھے کوئی لشکر آرہا ہے (یوں ان کی خفیہ تدبیر طشت ازبام ہوگئی) چنانچہ تم نے ان پر پتھراؤ کیا۔ اور اس طرح اس لشکر کو کھائے ہوئے بھس کی طرح کردیا۔ (یعنی ان کا کچومر نکال دیا۔) (مفہوم القرآن ص ١٤٨٤) پرویزی تاویل اور اس کا جواب :۔ اب دیکھیے پرویز صاحب کا بیان کردہ مفہوم درج ذیل وجوہ کی بنا پر باطل ہے۔ ١۔ آپ کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ ’’چیلوں اور گدھوں کے جھنڈ عام طو پر لشکر کے ساتھ ساتھ اڑتے چلے جاتے ہیں تاکہ انہیں بہت سی لاشیں کھانے کو ملیں‘‘ دور نبوی میں بے شمار جنگیں ہوئیں تو کیا کسی اور موقع پر بھی چیلوں اور گدھوں کے لشکر کے اوپر منڈلائے تھے؟ دور نبوی کے علاوہ اور کسی بھی جنگ کے موقعہ پر کہیں اوپر چیلیں اور گدھ کبھی نہیں منڈلائے۔ لہٰذا یہ پرویز صاحب کی گپ ہے۔ ٢۔ سجیل کا معنی پہاڑوں کے پتھر نہیں۔ بلکہ مٹی ملے کنکر ہیں اور یہ فارسی لفظ سنگ گل سے معرب ہے۔ ٣۔ ایسے کنکر یا کنکریاں پہاڑوں کے اوپر نہیں ہوتیں۔ نہ ہی ایسی کنکریوں سے کسی ایسے لشکر جرار کو ہلاک کیا جاسکتا ہے جس میں ہاتھی بھی ہوں۔ ٤۔ تَرْمِیْ واحد مونث غائب کا صیغہ پرندوں کی جماعت کے لیے استعمال ہوا ہے لیکن آپ نے اس کا ترجمہ ’’تم نے ان پر پتھراؤ کیا‘‘ بیان فرمایا۔ یہ تَرْمُوْنَ کا ترجمہ ہے۔ ترمی کا نہیں ہو سکتا۔ ٥۔ علاوہ ازیں تاریخ سے بھی ایسی کوئی شہادت نہیں مل سکتی کہ اہل مکہ اصحاب الفیل کے مقابلے کے لیے نکلے ہوں۔ الفیل
0 قریش
1 [١] ایلاف کے دو پہلو :۔ اِیْلاَفٌ کا مادہ الف ہے اور اس سے الفت مشہور و معروف لفظ ہے۔ الفت کا معنی ایسی محبت ہے جو خیالات میں ہم آہنگی کی وجہ سے ہو (مفردات) اور الف کے معنی کسی چیز کے منتشر اجزاء کو اکٹھا کرکے انہیں ترتیب کے ساتھ جوڑ دینا۔ کسی کتاب کی تالیف کا بھی یہی مفہوم ہے۔ گویا ایلاف کے مفہوم میں الفت، موانست اور قریش کے منتشر افراد کی اجتماعیت کے سب مفہوم پائے جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے ایلاف کے دو مختلف پہلو ہیں۔ ایک کا پس منظر یہ ہے کہ قبیلہ قریش حجاز میں متفرق مقامات پر بکھرا ہوا تھا۔ سب سے پہلے قصی ّبن کلاب (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جد اعلیٰ) کو یہ خیال آیا کہ اپنے قبیلہ کو ایک جگہ اکٹھا کیا جائے۔ چنانچہ اس نے اپنے سارے قبیلہ کو مکہ میں اکٹھا کردیا۔ اسی بنا پر قصی ّکو مُجَمّع کا لقب دیا گیا۔ اس طرح کعبہ کی تولیت اس قبیلہ کے ہاتھ آگئی۔ اور ایلاف کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہاشم کے بیٹوں کو خیال آیا کہ اس بین الاقوامی تجارت میں حصہ لینا چاہیے جو ان قافلوں کے ذریعے ہوتی تھی جو یمن سے شام و فلسطین تک جاتے تھے۔ یمن میں بلاد مشرق سے تجارت ہوتی تھی اور شام میں افریقہ و مصر سے۔ چنانچہ ہاشم کے بیٹوں نے آس پاس کے علاقوں سے تجارتی روابط قائم کیے اور عملاً تجارت میں حصہ لینا شروع کیا۔ جس سے مکہ ایک بین الاقوامی منڈی بن گیا۔ قریش کے قافلے سال بھر میں دو تجارتی سفر کرتے تھے۔ گرمیوں میں وہ شام و فلسطین کی طرف جاتے تھے۔ کیونکہ یہ علاقہ مکہ کی نسبت بہت ٹھنڈا تھا اور سردیوں میں ان کا قافلہ یمن کی طرف جاتا تھا کیونکہ یہ علاقہ مکہ کی نسبت گرم تھا۔ سال میں ان دو تجارتی سفروں سے اتنی آمدنی ہوجاتی تھی کہ سال کا باقی حصہ آرام سے گھر بیٹھ کر کھاتے تھے پھر بھی ان کے پاس بہت کچھ بچ جاتا تھا۔ اس طرح وہ آسودہ حال اور خاصے مالدار بن گئے۔ یہ دونوں موسموں کے تجارتی سفر ہی ان کی تمام تر دلچسپیوں کے مرکز و محور بن گئے تھے۔ قریش
2 قریش
3 [٢] لاِ یْلاَفِ میں ابتدائی لام تعلیل کے لیے آیا ہے یعنی چونکہ اللہ نے قریش کے منتشر افراد کو مکہ میں ایک مقام پر اکٹھا کردیا تھا ان میں الفت پیدا کردی تھی اور وہ ایک دوسرے سے مانوس تھے۔ پھر کعبہ کی تولیت بھی ان کے سپرد کردی تھی۔ مزید برآں انہیں گرمی اور سردی کے تجارتی سفروں سے مانوس کردیا تھا لہٰذا انہیں چاہیے کہ وہ اس گھر یعنی کعبہ کے مالک ہی کی عبادت کریں۔ کیونکہ قریش معاشرتی، سیاسی، تمدنی اور تجارتی جو فوائد بھی حاصل کر رہے تھے وہ اس کعبہ کی بدولت ہی حاصل کر رہے تھے۔ لہٰذا انہیں صرف ایک ہی رب کی عبادت کرنی چاہیے جو اس گھر کا مالک ہے۔ دوسرے معبودوں یا ان تین سو ساٹھ بتوں کی نہیں کرنی چاہیے۔ قریش
4 [٣] قریش مکہ پر اللہ کے احسانات :۔ مکہ اور اس کے آس پاس کا تمام علاقہ یا پہاڑی ہے یا ریگستانی۔ جہاں کوئی پیداوار نہیں ہوتی تھی بلکہ پورے علاقہ حجاز کا یہی حال تھا۔ لوگوں کا عام پیشہ بھیڑ بکریاں اور اونٹ پالنا تھا۔ یا پھر لوٹ مار اور ڈاکہ زنی۔ عرب قبائل تجارتی قافلوں کو بھی لوٹ لیتے تھے اور ایک دوسرے کو بھی۔ اس بدامنی اور رہزنی سے صرف قریش بچے ہوئے تھے اور اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ کعبہ کے متولی ہونے کی وجہ سے انہیں عرب بھر میں عزت و احترام سے دیکھا جاتا تھا۔ رہزن قبیلے ان کے تجارتی قافلہ سے تعرض نہیں کرتے تھے، بلکہ جس قافلے کو قریش پروانہ راہداری دے دیتے وہ بھی محفوظ سفر کرسکتے تھے۔ اور قریش کا وطن مکہ تو ویسے ہی امن والا شہر تھا اور لوگ یہیں آکر پناہ لیتے تھے۔ قریش کے قافلوں سے راستہ میں جگاٹیکس بھی وصول نہیں کیا جاتا تھا۔ قریش کے بدامنی سے محفوظ ہونے کا یہ حال تھا کہ اگر کوئی شخص کبھی نادانستہ کسی قریش پر حملہ آور ہوتا اور وہ صرف اتنا کہہ دیتا کہ انا حرمی تو حملہ آور کے اٹھے ہوئے ہاتھ وہیں رک جاتے تھے۔ قریش مکہ کو دوسرے قبائل عرب پر جو سیاسی اور معاشی تفوق حاصل تھا اس کی وجہ محض کعبہ کی تولیت تھی۔ جسے تمام قبائل عرب اللہ کا گھر سمجھتے تھے۔ اس اللہ کے گھر میں ٣٦٠ بت رکھے ہوئے تھے۔ جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ کے دن توڑا تھا۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ یہ سارے بت صرف قریش کے نہیں تھے بلکہ تمام قبائل عرب اپنے اپنے بت کا ایک مثنیٰ بیت اللہ میں بھی لا کر رکھ دیتے تھے اور یہ قریش کی مہربانی تھی کہ کسی قبیلہ کو اپنا بت بیت اللہ میں رکھنے دیں یا نہ رکھنے دیں۔ کیونکہ بیت اللہ کے متولی یہی لوگ تھے۔ پھر اگر کوئی قبیلہ قریش مکہ سے کوئی ناروا سلوک کرتا تو قریش اس قبیلہ کے بت کی گردن مروڑ سکتے تھے۔ اسے توڑ پھوڑ بھی سکتے تھے اور کعبہ سے باہر بھی پھینک سکتے تھے۔ بالفاظ دیگر قبائل عرب کعبہ میں اپنے بت اس لیے رکھتے تھے کہ ان کا اور ان کے خدا کا نام بلند ہو اور قریش اس لیے رکھ لیتے تھے کہ ان قبائل کے خدا ہمارے پاس بطور یرغمال رہیں گے۔ یہ تھی وہ اصل وجہ جس کی بنا پر دوسرے قبائل قریشیوں کا احترام کرنے پر مجبور تھے۔ اور کسی کو ان کے تجارتی قافلوں کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی دیکھنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔ اور اسی بت پرستانہ نظام کی بدولت قریش مکہ کئی طرح کے فائدے اٹھا رہے تھے۔ چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان بتوں اور اس بت پرستانہ نظام کے خلاف صدا بلند کی تو قریش نے اس کا یہ جواب دیا تھا کہ اگر ہم تمہاری بات مان لیں تو پھر تو ہم زمین سے اچک لیے جائیں گے۔ ہمارے تجارتی قافلے بھی لوٹ مار کی زد میں آجائیں گے۔ قبائل عرب میں جو ہمارا احترام اور عزت کی جاتی ہے وہ سب کچھ خاک میں مل جائے گا اور ہمارے سیاسی تفوق کا بھی جنازہ نکل جائے گا۔ ان حالات میں ہم تمہاری باتوں کو کیونکر قبول کرسکتے ہیں؟ تو قریش کے اس اعتراض کے اللہ تعالیٰ نے پانچ جواب دیئے تھے۔ (تفصیل کے لئے دیکھیے سورۃ ق کے حواشی ٧٨ تا ٨٥) علاوہ ازیں تھوڑی مدت پہلے ابرہہ نے کعبہ پر چڑھائی کی تو اللہ نے اس کے لشکر کو برباد کردیا تھا۔ اس واقعہ سے اہل عرب کے دلوں میں قریش کا عزت و احترام اور بھی بڑھ گیا تھا۔ اسی عزت و احترام کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ ان کے تجارتی قافلے ہر طرح کی لوٹ مار اور جگا ٹیکس سے محفوظ سفر کرتے تھے جس کی وجہ سے انہیں کثیر منافع حاصل ہوجاتا تھا۔ اتنا زیادہ جتنا کسی دوسرے تجارتی قافلے کو ہونا ناممکن تھا۔ جس کا نتیجہ یہ تھا کہ دوسرے عرب قبائل تو بھوکوں مر رہے تھے جبکہ قریش نہایت آسودہ حالی اور امن و چین کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قریش پر اپنے انہیں احسانات کا ذکر کرکے فرمایا کہ ان احسانات کا نتیجہ تو یہی ہونا چاہیے کہ تم صرف اکیلے پروردگار کی جو اس کعبہ کا مالک ہے عبادت کرتے۔ مگر تم ایسے احسان فراموش ثابت ہوئے ہو کہ اس کے ساتھ اپنے دوسرے معبودوں کو بھی شریک بنالیتے ہو۔ قریش
0 الماعون
1 [١] دین کے چار معنی :۔ دین کا لفظ چار معنوں میں آتا ہے۔ (١) اللہ تعالیٰ کی کامل اور مکمل حاکمیت (٢) انسان کی مکمل عبودیت اور بندگی (٣) قانون جزا و سزا (٤) قانون جزا و سزا کے نفاذ کی قدرت۔ کفار مکہ ان چاروں باتوں کے منکر تھے۔ وہ صرف ایک اللہ ہی کو الٰہ نہیں مانتے تھے بلکہ اپنی عبادت میں دوسرے معبودوں کو بھی شریک کرتے تھے۔ اللہ کے قانون جزا و سزا کے بھی منکر تھے اور آخرت کے بھی۔ اس آیت میں اگرچہ بظاہر خطاب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہے لیکن تبصرہ کفار مکہ پر ہے کہ انکار آخرت نے ان میں کون سی معاشرتی اور اخلاقی برائیاں پیدا کردی تھیں۔ الماعون
2 [٢] اہل عرب عورتوں اور بچوں کو میراث سے محروم کردیتے تھے۔ حالانکہ حقیقتاً میراث کے وہ ضرور حقدار ہونا چاہئیں۔ لیکن اہل عرب کا دستور تھا کہ جو شخص میت کے وارثوں سے زیادہ بااثر اور زور آور ہوتا وہی ساری میراث پر قبضہ جما لیتا تھا اور یتیموں کو دھتکار دیتا تھا۔ یہ ان کی زرپرستی اور انکار آخرت کا نتیجہ تھا۔ نیز اگر کوئی یتیم ان سے مدد مانگنے آتا تو اس سے برا سلوک کرتے تھے۔ اور اس کے اصرار پر دھکے مار کر دفع کردیتے تھے اور اگر کوئی کسی یتیم کی پرورش کا ذمہ لیتا بھی تھا تو اسے ڈانٹ ڈپٹ ہی کرتا رہتا تھا۔ الماعون
3 [٣] یتیموں کی پرورش سے غفلت برتنا یا محتاجوں کے کھانے تک کی فکر نہ کرنا، انہیں خود کھلانا تو درکنار کسی کو اس کی ترغیب تک نہ دینا ایسی اخلاقی اور معاشرتی برائیاں ہیں جو ہر مذہب میں مذموم سمجھی جاتی ہیں اور سمجھی جاتی رہی ہیں۔ مگر جب انسان کو مال و دولت جوڑنے اور اسے سنبھال سنبھال کر رکھنے کی فکر لاحق ہوجائے تو وہ اتنا بخیل بن جاتا ہے کہ اسے اور ضرورت مندوں اور محتاجوں کی حالت زار دیکھنے پر قطعاً رحم نہیں آتا اور ان کی اس سنگدلی کی اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ انہیں روز آخرت کی جوابدہی کا یقین ہی نہیں ہوتا۔ الماعون
4 الماعون
5 [٤] اس سورت کی آیت نمبر ٤ اور ٥ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت مدنی ہے۔ کیونکہ ان میں منافقوں کی نماز کی صفات بیان کی گئی ہیں۔ اور منافقوں کا مکی دور میں کوئی وجود نہ تھا۔ یہ فرقہ مدنی دور میں ہی وجود میں آیا تھا جب مسلمانوں کی ریاست قائم ہوچکی تھی۔ نماز سے غافل رہنے سے مراد یہ ہے کہ کبھی پڑھ لی، کبھی نہ پڑھی، کبھی بے وقت پڑھ لی جب وقت تنگ ہوچکا ہو۔ جلدی جلدی چند ٹھونگیں مار لیں۔ نماز کو بس ایک عادت اور ورزش کے طور پر پڑھ لیا۔ مگر اللہ کی یاد ایک لمحہ کے لیے بھی نہ آئی۔ بس دنیوی خیالات میں مستغرق رہے۔ غرض نماز سے غفلت کی بے شمار صورتیں ہیں جو اسی ضمن میں آتی ہیں۔ الماعون
6 [٥] اگر اس آیت کو سابقہ آیت سے متعلق قرار دیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسی بھی وہ نماز پڑھتے ہیں وہ بھی اللہ کے حکم یا آخرت کے ڈر کی وجہ سے نہیں بلکہ لوگوں کو دکھانے کی خاطر پڑھتے ہیں۔ پھر اس ریا کی بھی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ منافق نماز اس لیے پڑھتے ہیں کہ دوسرے مسلمان انہیں دیکھ لیں اور ان کا شمار مسلمانوں میں ہوجائے۔ دوسری یہ کہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص انہیں نماز پڑھتے دیکھ رہا ہے تو اس وقت وہ نماز بنا سنوار کر اور لمبی کرکے پڑھنے لگتے ہیں۔ ایسی نمازیں ان کو فائدہ پہنچانے کی بجائے ان کی ہلاکت کا سبب بن جائیں گی اور حقیقتاً ایسے لوگ بھی آخرت کے منکر ہی ہوتے ہیں۔ الماعون
7 [٦] مَاعُوْن ہر اس برتنے والی چیز کو کہتے ہیں جو معمولی قسم کی ہو اور عام لوگوں کے استعمال میں آنے والی ہو۔ برتنے کی اشیاء گھریلو استعمال کی چھوٹی موٹی چیزیں مثلاً کلہاڑی، ہنڈیا، کھانے کے برتن، ماچس وغیرہ۔ مطلب یہ ہے کہ زر پرستی کی ہوس اور آخرت سے انکار نے ان لوگوں میں اتنا بخل پیدا کردیا ہے کہ یتیموں کو ان کا حق ادا کرنا اور محتاجوں کی ضروریات کا خیال رکھنا تو درکنار، وہ معمولی معمولی عام برتنے کی چیزیں عاریتاً مانگنے پر بھی دینے سے انکار کردیتے ہیں۔ رہی یہ بات کہ بعض لوگ مانگ کر کوئی برتنے کی چیز لے لیتے ہیں پھر واپس ہی نہیں کرتے یا اس چیز کا نقصان کردیتے ہیں تو ایسی صورت میں شریعت نے جو احکام دیئے ہیں وہ درج ذیل احادیث میں ملاحظہ فرمائیے : عاریتاً مانگی ہوئی چیز کے متعلق احکام :۔ ١۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی کسی بیوی کے ہاں قیام پذیر تھے۔ کسی دوسری بیوی نے کھانے کی رکابی بھیجی تو اس بیوی نے جس کے ہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ٹھہرے ہوئے تھے (از راہ رقابت) خادم کے ہاتھ کو جھٹکا دیا۔ رکابی گر گئی اور ٹوٹ گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکابی کے ٹکڑے اور جو کھانا اس میں تھا اسے جمع کرنے لگے اور فرمایا : ’’تمہاری ماں کو غیرت آگئی‘‘ پھر خادم کو ٹھہرایا اور اس بیوی سے ایک سالم رکابی لے کر اس بیوی کے ہاں بھجوا دی جس نے بھیجی تھی اور یہ ٹوٹی ہوئی رکابی اسی گھر میں رکھ لی، جہاں ٹوٹی تھی۔ (بخاری، کتاب المظالم، باب اذاکسر قصعۃ اوشیأا لغیرہ) ٢۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’مانگی ہوئی چیز واپس کرنا، ضامن کو تاوان بھرنا، اور قرضہ کی ادائیگی لازم ہے۔‘‘ (ترمذی۔ ابو اب البیوع، باب ان العاریۃ مؤادۃ) ٣۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’جس ہاتھ نے جو کچھ لیا ہو اسی پر اس کا ادا کرنا واجب ہے۔‘‘ (خواہ نقد رقم ہو یا کوئی اور چیز) (ابوداؤد۔ کتاب البیوع۔ باب فی تضمین العاریہ ) الماعون
0 الكوثر
1 [١] کو ثرکے مختلف مفہوم اور مختلف پہلو :۔ کَوْثَر۔ کَثُرَ سے مشتق ہے جس میں بہت مبالغہ پایا جاتا ہے۔ اور اہل لغت نے اس کا معنی خیر کثیر لکھا ہے اور بہت سی احادیث سے ثابت ہے کہ کوثر بہشت میں ایک نہر کا نام ہے جو آپ کو عطا کی گئی۔ چنانچہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ کو اونگھ آگئی۔ اٹھے تو تبسم فرمایا۔ اور تبسم کی وجہ یہ بتائی کہ ابھی ابھی مجھ پر ایک سورت نازل ہوئی۔ پھر یہی سورت کوثر پڑھی اور فرمایا جانتے ہو کہ کوثر کیا چیز ہے؟ صحابہ نے عرض کیا :’’اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں‘‘ فرمایا : وہ ایک نہر ہے جو اللہ نے مجھے بہشت میں دی ہے۔ نیز اس سلسلے میں درج ذیل احادیث بھی ملاحظہ فرمائیے۔ ١۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معراج کے قصہ میں فرمایا : میں ایک نہر پر پہنچا جس کے دونوں کناروں پر خولدار موتیوں کے ڈیرے لگے تھے۔ میں نے جبریل سے پوچھا : یہ نہر کیسی ہے؟ اس نے جواب دیا : ’’یہ کوثر ہے‘‘ (جو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کی) (بخاری۔ کتاب التفسیر) ٢۔ سیدنا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاسے پوچھا کہ’’ کوثر سے کیا مراد ہے؟‘‘ انہوں نے کہا : کوثر ایک نہر ہے جو تمہارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ملی ہے۔ اس کے دونوں کناروں پر خولدار موتیوں کے ڈیرے ہیں وہاں ستاروں کی تعداد جتنے آبخورے رکھے ہیں۔ (حوالہ ایضاً) ٣۔ سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : کوثر سے ہر وہ بھلائی مراد ہے جو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کی۔ ابو بشیر کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ :’’لوگ تو کہتے ہیں کہ کوثر جنت میں ایک نہر کا نام ہے‘‘ سعید نے جواب دیا کہ : ’’جنت والی نہر بھی اس بھلائی میں داخل ہے جو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عنایت فرمائی۔‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) علاوہ ازیں کوثر سے مراد حوض کوثر بھی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قیامت کے دن میدان محشر میں عطا کیا جائے گا۔ جس دن سب لوگ پیاس سے انتہائی بے تاب ہوں گے اور ہر شخص العطش العطش پکار رہا ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حوض پر بیٹھ کر اہل ایمان کو پانی پلائیں گے اور جس خوش قسمت کو اس حوض کوثر کا پانی میسر آجائے گا اسے قیامت کا سارا دن پھر پیاس نہیں لگے گی اور اس سلسلے میں اتنی احادیث صحیحہ وارد ہیں جو تواتر کو پہنچتی ہیں۔ اوپر جو کچھ ذکر ہوا اس خیر کثیر کا تعلق تو اخروی زندگی سے ہے۔ دنیا میں بھی آپ کو خیر کثیر سے نوازا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت دی گئی اور قرآن جیسی عظیم نعمت دی گئی جس نے ایک وحشی اور اجڈ قوم کی ٢٣ سال کے مختصر عرصہ میں کایا پلٹ کے رکھ دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر بلند کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مشن کو اپنے جیتے جی پوری طرح کامیاب ہوتے دیکھ لیا۔ عرب میں کفر و شرک کا کلی طور پر استیصال ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک ایسی جماعت چھوڑی جو تھوڑے ہی عرصہ میں تمام دنیا پر چھاگئی۔ الكوثر
2 [٢] یعنی ان نعمتوں اور احسانات کے شکریہ کے طور پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے پروردگار کے لیے نماز بھی ادا کیجیے اور قربانی بھی دیجیے۔ بدنی عبادتوں میں سے نماز بہت اہمیت رکھتی ہے اور مالی عبادتوں میں سے قربانی۔ جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر فرمایا:﴿قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ﴾یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہہ دیجیے کہ میری نماز اور میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب کچھ اس پروردگار کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ گویا ان آیات میں مشرکین مکہ پر تعریض ہے جو عبادت بھی بتوں کی کرتے تھے اور قربانی بھی بتوں کے نام پر اور ان کے لیے کرتے تھے۔ مسلمانوں کو یہ کام خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لیے کرنا چاہیے۔ واضح رہے بعض علماء نے نحر سے مراد عید الاضحیٰ کے دن کی قربانی لی ہے۔ اور نماز سے مراد اسی دن کی نماز عید جو قربانی سے پہلے پڑھی جاتی ہے۔ الكوثر
3 [٣] کفار مکہ کے اخلاف :۔ شانئ۔ شَنأ۔ شناء سے مصدر شَنَاٰنُ اور اسم فاعل شانیئ ہے اور اس سے مراد ایسا دشمن ہے جو بدخواہ بھی ہو اور کینہ پرور بھی۔ یعنی عداوت بھی رکھتا ہو اور بغض بھی اور یہ دشمنی کا تیسرا اور انتہائی درجہ ہے قریش مکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایسے ہی دشمن تھے۔ بالخصوص ان کے سردار اور معتبر لوگ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دوسرا بیٹا (جسے طیب بھی کہتے ہیں اور طاہر بھی) بھی فوت ہوگیا تو یہ سب لوگ بہت خوش ہوئے اور تالیاں بجانے لگے اور ایک دوسرے کو مبارک کے طور پر کہنے لگے۔ بتر محمد اور بتر کا لفظ کسی جانور کے دم کاٹنے سے مخصوص ہے اور معنوی لحاظ سے مقطوع یا لاولد کو کہتے ہیں یا جس کا ذکر خیر کرنے والا کوئی باقی نہ رہے۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی نرینہ اولاد تو رہی نہیں۔ اس کا معاملہ بس اس کی اپنی زندگی تک ہی محدود ہے۔ اس کے بعد اس کا کوئی نام لیوا نہ رہے گا۔ اسی کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اَبْتَرْ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں بلکہ آپ کے دشمن ہیں۔ ان دشمنوں میں سے اکثر تو جنگ بدر میں مارے گئے اور اگر ان کی نسل کہیں بچی بھی ہے تو ان کی اولاد میں کوئی بھی اپنے ایسے اسلاف کا نام لینا اور اپنے آپ کو ان کی طرف منسوب کرنا گوارا تک نہیں کرتا۔ ان کا ذکر خیر کرنا تو بڑی دور کی بات ہے۔ سب لوگ ان پر لعنت ہی بھیجتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو شان و عظمت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر خیر کو جو بقا بخشی ہے وہ لازوال ہے۔ دنیا کے اربوں مسلمان ہر روز کئی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل پر درود بھیجتے ہیں۔ اذانوں اور نمازوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ تاقیامت بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ پھر میدان محشر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو درجات عطا کیے جائیں گے اور مقام محمود عطا کیا جائے گا ان کے ذکر سے قرآن اور حدیث کی کتب بھری پڑی ہیں۔ الكوثر
0 الكافرون
1 الكافرون
2 [١] کفار مکہ کی ایک خطرناک چال' حق وباطل میں سمجھوتہ :۔ اس سورت میں ان کافروں سے خطاب ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿وَلَیَزِیْدَنَّ کَثِیْرًا مِّنْہُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ طُغْیَانًا وَّکُفْرًا ﴾ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ سورۃ الکافرون) جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت سے مکہ میں کچھ لوگ مسلمان ہوگئے تو کفار مکہ کو ابتدائ ً اسلام اور کفر میں سمجھوتے کی سوجھی اور اس کے لیے کئی راہیں اختیار کی گئیں۔ کبھی لالچ کا راستہ اور کبھی دھمکی اور دھونس کا راستہ۔ حتیٰ کہ ایک دفعہ کفار نے یہاں تک پیش کش کردی کہ آپ چاہو تو ہم آپ کے قدموں میں مال و دولت کے انبار لگا دیتے ہیں۔ حکومت چاہو تو وہ بھی حاضر ہے۔ کسی مالدار اور حسین لڑکی سے شادی چاہتے ہو تو وہ بھی حاضر ہے مگر ہمارے معبودوں کی توہین نہ کیا کرو۔ منجملہ ایسی تدابیر کے ایک تدبیر یا تجویز یہ بھی تھی کہ کافروں نے آپ سے کہا کہ ایک سال ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معبود کی عبادت کیا کریں گے بشرطیکہ اگلے سال تم ہمارے معبودوں کی عبادت کرو۔ کفار کی یہ تدبیر کسی روا داری کی بنا پر نہیں تھی بلکہ ایک انتہائی خطرناک چال تھی۔ جس سے وہ دھوکا دے کر پیغمبر اسلام کو ان کے قدموں سے اکھیڑنا چاہتے تھے۔ اس لیے کہ وہ تو اللہ تعالیٰ کو پہلے ہی معبود برحق بلکہ سب سے بڑا معبود تسلیم کرتے تھے۔ ان کا جرم تو صرف یہ تھا کہ وہ اللہ کے ساتھ دوسرے معبودوں کی بھی عبادت کیا کرتے تھے۔ اس لیے اس شرط سے نہ ان کے عقیدہ میں کچھ فرق آتا تھا اور نہ ہی طرز زندگی میں، جبکہ اللہ کے رسول کو وہ شرک کی نجاست میں مبتلا کرنا چاہتے تھے جسے مٹانے کے لیے ہی آپ کو مبعوث فرمایا گیا تھا۔ اس میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ باطل کبھی اکیلا چل نہیں سکتا۔ جب تک اس میں کچھ نہ کچھ حق کی آمیزش نہ کی جائے۔ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ وہ اکیلا چل نہیں سکتا جب تک اس میں سچ کی آمیزش نہ ہو اور یہی ان کافروں کا مذہب تھا۔ جبکہ حق باطل کی ادنیٰ سی آمیزش بھی گوارا نہیں کرتا۔ اس لیے کہ حق میں باطل کی ادنیٰ سی آمیزش سے حق باطل بن جاتا ہے۔ جیسے ایک من دودھ میں اگر ایک پاؤ بھر پیشاب ملا دیا جائے تو سارے کا سارا نجس، پلید اور ناقابل استعمال ہوجاتا ہے۔ اسی مضمون کو کسی شاعر نے ایک شعر میں یوں بیان کیا ہے۔ ؎ باطل دوئی پرست ہے، حق لاشریک ہے شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول کافروں کی اسی سمجھوتے کی تجویز کا جواب اس سورت میں دیا گیا ہے۔ الكافرون
3 [٢] قرآن نے کافروں کی اس تجویز کا دو ٹوک فیصلہ کردیا اور اپنے نبی سے فرما دیا کہ سب کافروں کے سامنے یہ اعلان کردو کہ اس شرط پر ہمارے تمہارے درمیان کبھی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ میں کسی قیمت پر تمہارے معبودوں کی عبادت نہیں کرسکتا۔ جس کا نتیجہ یہی ہوسکتا ہے کہ تم بھی ایک اکیلے اللہ کی عبادت کرنا گوارا نہ کرو گے اور اپنے دوسرے معبودوں کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہوگے۔ الكافرون
4 الكافرون
5 [٣] بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آیت نمبر ٤ اور ٥ میں آیت ٢ اور ٣ کے مضمون کا ہی تکرار ہے اور اگر اسے تکرار ہی تسلیم کیا جائے تو بھی یہ تاکید کا فائدہ دیتا ہے۔ تاہم یہ محض تکرار نہیں بلکہ ان میں دو قسم کا فرق ہے۔ ایک یہ کہ پہلی دو آیات میں ''ما'' کو موصولہ اور پچھلی دو آیات میں ''ما'' کو مصدریہ قرار دیا جائے۔ اس صورت میں پچھلی آیات کا معنی یہ ہوگا کہ جو طریق عبادت میں نے اختیار کیا ہے۔ اسے تم قبول نہیں کرسکتے اور جو تم نے اختیار کر رکھا ہے اسے میں نہیں کرسکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریق عبادت یہ تھا کہ آپ نماز میں اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوجاتے تھے اور اس طریق عبادت سے کافروں کو خاصی چڑ تھی اور اس سے منع بھی کرتے تھے جیسا کہ سورت علق میں ابو جہل اور عتبہ بن ابی معیط سے متعلق کئی واقعات درج کیے جاچکے ہیں۔ اور کافروں کا طریق عبادت یہ تھا کہ گاتے، سیٹیاں اور تالیاں بجاتے، کعبہ کا ننگے ہو کر طواف کرتے تھے۔ آپ بھلا ان کا یہ طریق عبادت اختیار کرسکتے تھے۔؟ اور اگر بعد کی آیات میں بھی ''ما'' کو موصولہ ہی سمجھا جائے تو بھی دو فرق واضح ہیں۔ ایک یہ کہ پہلی آیت میں لاَاعْبُدُ آیا ہے اور بعد کی آیات میں لاَاَنَا عَابٍدٌ اور ظاہر ہے کہ جو تاکید لاَاَنَا عَابِدٌ (یعنی میں کسی قیمت پر عبادت کرنے والا نہیں) میں پائی جاتی ہے وہ لاَاَعْبُدُ میں نہیں پائی جاتی اور دوسرا فرق یہ ہے کہ پہلی آیات میں ماتَعْبُدُوْنَ (یعنی جنہیں تم آج کل پوجتے ہو) ہے۔ اور بعد والی آیات میں ماعَبَدْتُمْ صیغہ ماضی میں ہے یعنی جنہیں تم پہلے پوجتے رہے یا تمہارے آباء واجداد پوجا کرتے تھے۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ مشرک اپنی حسب پسند اپنے معبودوں میں تبدیلی کرلیا کرتے تھے۔ جو چیز فائدہ مند نظر آئی یا جو خوبصورت سا پتھر نظر آیا اسے اٹھا کر معبود بنا لیا اور پہلے کو رخصت کیا۔ الكافرون
6 [٤] شرک سے متعلق کسی قسم کی لچک اور رواداری کی کوئی گنجائش نہیں :۔ یہ ہے وہ دوٹوک فیصلہ جو صرف مکہ کے کافروں کو نہیں، دنیا بھر کے کافروں کو بھی نہیں بلکہ مسلمانوں کو بھی واضح الفاظ میں بتایا گیا کہ مشرکوں کو ان کے معبود مبارک رہیں۔ مگر مسلمان اسے کسی قیمت پر گوارا نہیں کرسکتے۔ شرک کے معاملہ میں اسلام نے کسی قسم کی لچک اور روا داری برداشت نہیں کی۔ خواہ یہ مشرک کافر ہوں یا اپنے آپ کو مسلمان ہی کہلاتے ہوں۔ کیونکہ اللہ پر ایمان لانے کے باوجود لوگوں کی اکثریت مشرک ہی ہوتی ہے جیسا کہ سورت یوسف کی آیت نمبر ١٠٦ میں فرمایا : ﴿ وَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُہُمْ باللّٰہِ اِلَّا وَہُمْ مُّشْرِکُوْنَ ﴾ الكافرون
0 النصر
1 [١] فتح مکہ۔ مکہ پر چڑھائی کا سبب اور کیفیت :۔ فتح سے مراد کسی عام معرکہ کی فتح نہیں بلکہ اس سے مراد مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن قریش کا مرکز شہر مکہ ہے۔ تمام قبائل عرب اس بات کے منتظر تھے کہ آیا مسلمان مکہ کو فتح کرسکیں گے یا نہیں؟ اگر کرلیں تو اسلام سچا مذہب ہے ورنہ نہیں۔ ان لوگوں نے اپنے اسلام لانے کو بھی فتح مکہ سے مشروط اور فتح مکہ تک موخر کر رکھا تھا۔ گویا فتح مکہ اسلام اور کفر کے درمیان ایک فیصلہ کن فتح تھی۔ اور خالصتاً اللہ کی مدد سے اور معجزانہ انداز سے واقع ہوئی تھی۔ جس میں مسلمانوں کو معمولی سے معرکہ کی بھی ضرورت پیش نہ آئی۔ مکہ پر چڑھائی کا فوری سبب قریش مکہ کی عہد شکنی تھی جو انہوں نے صلح حدیبیہ کی شرائط کو پس پشت ڈال کر اور اپنے حلیف قبیلہ بنو بکر کی علی الاعلان مدد کرکے کی تھی۔ اور جب بنوخزاعہ کی فریاد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریش کے سامنے کچھ شرائط پیش کیں تو قریشی نوجوانوں نے انہیں ٹھکرا دیا تھا۔ اسی دوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انتہائی خفیہ طریق سے مکہ پر چڑھائی کی تیاری شروع کردی اور اپنے حلیف قبائل کو بھی خفیہ طور پر پیغام بھیج دیا تھا۔ ابوسفیان کی گرفتاری :۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ سے روانہ ہوئے تو لشکر کی تعداد چار ہزار تھی۔ راستہ میں حلیف قبائل ملتے گئے اور مکہ پہنچنے تک دس ہزار کا جرار لشکر آپ کے ہمرکاب تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ کے قریب مرالظہران میں پڑاؤ ڈالا تو اس لشکر کو میلوں میں پھیلا دیا اور حکم دیا کہ آگ کے بڑے بڑے الاؤ روشن کیے جائیں۔ دشمن یہ منظر دیکھ کر اس قدر مرعوب ہوگیا کہ اس میں مقابلہ کی سکت ہی نہ رہی۔ ابو سفیان اپنے دو ساتھیوں سمیت حالات کا جائزہ لینے نکلا ہی تھی کہ گرفتار ہوگیا۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے گھوڑے کے پیچھے بٹھایا تاکہ بلاتاخیر اس کے لیے دربار نبوی سے امان کا پروانہ حاصل کرلیا جائے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو خبر ہوئی تو وہ بھی فوراً دربار نبوی کو روانہ ہوئے تاکہ ابو سفیان کو دربار نبوی میں پہنچنے سے پہلے اور امان ملنے سے پیشتر ہی قتل کردیا جائے۔ اتفاق کی بات کہ سیدنا عباس پہلے پہنچ گئے اور ابو سفیان کی جان بچ گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے معاف کردیا اور سیدنا عباس سے کہا کہ اسے اپنے خیمہ میں لے جائیں۔ آپ کا مسلمانوں کو کفار کے سامنے شان وشوکت کا مظاہرہ کرنے کا حکم :۔ دوسرے دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابو سفیان کو پہاڑی کے ایک بلند مقام پر کھڑا کیا اور اسلامی لشکر، جو قبائل کے لحاظ سے مختلف فوجی دستوں میں بٹا ہوا تھا، کو حکم دیا کہ ابو سفیان کے سامنے پوری شان و شوکت کے ساتھ گزرتے جائیں۔ اس نظارہ نے صرف ابو سفیان پر ہی نہیں، تمام کفار کے دلوں پر اسلام کی ایسی دھاک بٹھا دی کہ مقابلہ کا کسی کو خیال تک نہ آیا اور اس طرح عرب کا یہ مرکزی شہر بلامقابلہ اور بغیر کسی خون خرابہ کے فتح ہوگیا۔ معافی کا اعلان :۔ فتح کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ان جانی دشمنوں کو بڑی فراخدلی کے ساتھ معاف کردیا۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ نہ صرف ابو سفیان اور اس کے اہل خانہ مسلمان ہوگئے بلکہ اہل مکہ کی اکثریت نے اسلام قبول کرلیا۔ کافروں کے دلوں میں اس طرح رعب ڈال دینا اور مکہ کا اس طرح بلامقابلہ فتح ہوجانا بلاشبہ اللہ کی مدد کے بغیر ممکن نہ تھا۔ النصر
2 [٢] فتح مکہ اور مشرک قبائل کا جوق درجوق اسلام میں داخل ہونا :۔ عرب قبائل تو پہلے ہی اس بات کے انتظار میں تھے کہ دیکھیے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ جب مکہ فتح ہوگیا تو یہ قبیلے دھڑا دھڑ اسلام میں داخل ہونا شروع ہوگئے۔ مکہ رمضان ٨ ھ میں فتح ہوا تھا۔ ٩ ھ میں اس قدر وفود اسلام لانے کے لیے مدینہ حاضر ہوئے کہ اس سال کا نام ہی عام الوفود پڑگیا۔ ہر قبیلے کے چند معتبر لوگ مدینہ جاتے، اسلام کی تعلیم حاصل کرتے پھر واپس آکر اپنے لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے لگے۔ ٩ ھ میں حج کے موقع پر اعلان برات کیا گیا جس کا تفصیلی ذکر سورۃ توبہ کی ابتدا میں گزر چکا ہے۔ اس اعلان کی رو سے اب مشرکین عرب کے لیے دو ہی راستے رہ گئے تھے یا تو وہ اسلام میں داخل ہوجائیں یا پھر جزیرہ عرب سے باہر نکل جائیں۔ چنانچہ مشرکین عرب نے بھی پہلی ہی بات قبول کی اور اسلام لے آئے۔ اس طرح ١٠ ھ میں سر زمین عرب کفر و شرک سے پاک ہوگئی۔ النصر
3 [٣] آپ کی وفات کی طرف اشارہ :۔ یہ سورت سب سے آخری نازل ہونے والی مکمل سورت ہے۔ (مسلم، کتاب التفسیر) اور یہ ١٠ ھ میں حجۃ الوداع کے موقع پر منیٰ میں نازل ہوئی۔ اس کے بعد چند متفرق آیات نازل ہوئیں جیسے ﴿الْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ﴾ (۳:۵) وغیرہ مگر مکمل کوئی سورت نازل نہیں ہوئی اور یہ آیت بھی اسی موقع پر نازل ہوئی تھی۔ اس سورت سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سمجھ لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا مقصد پورا ہوچکا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عنقریب اس دنیا سے رخصت ہونے والے ہیں۔ چنانچہ اسی سال حجۃ الوداع کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو عظیم الشان خطبہ ارشاد فرمایا اس میں یہ کہہ کر کہ :’’شاید آئندہ سال تم میں موجود نہ ہوں گا‘‘ اس بات کی طرف واضح اشارہ کردیا تھا، اور سمجھدار صحابہ بھی اس سورت سے یہی کچھ سمجھتے تھے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مجھے (اپنی مجلس مشاورت میں) بزرگ بدری صحابہ کے ساتھ بلالیا کرتے تھے۔ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کو یہ بات ناگوار گزری اور کہنے لگے :’’آپ اسے ہمارے ساتھ بلالیتے ہیں جبکہ ہمارے بیٹے اس جیسے ہیں‘‘ سیدنا عمر نے جواب دیا : ’’اس کی وجہ تم جانتے ہو‘‘ چنانچہ ایک دن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے بھی بزرگ صحابہ کے ساتھ بلا لیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس دن آپ نے مجھے صرف اس لیے بلایا کہ انہیں کچھ دکھائیں۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ :’’اللہ تعالیٰ کے قول ﴿اِذَا جَاءَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ﴾سے تم کیا سمجھتے ہو؟‘‘ بعض لوگوں نے کہا : ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہمیں فتح حاصل ہو تو ہمیں چاہیے کہ اللہ کی تعریف کریں اور اس سے بخشش چاہیں‘‘ اور بعض خاموش رہے اور کچھ جواب نہ دیا۔ پھر مجھے پوچھا گیا : ’’کیا تمہارا بھی یہی خیال ہے؟‘‘ میں نے کہا: ''نہیں'' کہنے لگے :’’پھر تم کیا کہتے ہو؟‘‘ میں نے کہا : اس سورت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کی طرف اشارہ ہے جس سے اللہ نے اپنے رسول کو آگاہ کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جب اللہ کی مدد آپہنچی اور مکہ فتح ہوگیا اور یہی تمہاری وفات کی علامت ہے۔ سو اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کی تعریف کیجیے، اس سے بخشش مانگیے وہ بڑا بخشنے والا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے :’’میں بھی اس سے وہی کچھ سمجھاہوں جو تم کہہ رہے ہو‘‘ (بخاری، کتاب التفسیر) اس آیت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہدایت کی گئی ہے کہ اپنے پروردگار کے اتنے بڑے احسانات کے شکریہ کے طور پر اب پہلے سے زیادہ اللہ کی تسبیح و تحمید کیا کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی بھر کی کاوشوں میں جو کوئی لغزش رہ گئی ہو تو اس کے لیے اللہ سے استغفار کریں۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب سورت نصر نازل ہوئی تو اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکوع اور سجدہ میں اکثر یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ ''سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَ بِحَمْدِکَ اللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ'' (بخاری، کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ النصر) النصر
0 الہب
1 [١] ابو لہب کا تعارف :۔ ابو لہب کا اصل نام عبدالعزیٰ تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سب سے بڑا حقیقی چچا تھا۔ نہایت ہی حسین و جمیل تھا۔ رنگ سیب کی طرح دمکتا تھا۔ اسی وجہ سے اس کی کنیت ابو لہب ہوئی۔ مالدار تھا مگر طبعاً بخیل تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خبر اسے اس کی لونڈی ثویبہ نے دی تو اس خوشی میں اس نے ثویبہ کو آزاد کردیا۔ (بخاری۔ کتاب النکاح۔ باب امھاتکم الٰتی ارضعنکم) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سے پیشتر ہی وفات پاچکے تھے۔ بڑا چچا ہونے کی حیثیت سے اپنے آپ کو باپ کا قائم مقام سمجھ کر اس نے اپنی طبیعت کے خلاف اس خوشی کا اظہار کیا تھا یا اسے کرنا پڑا تھا۔ یہ اس کے بخل ہی کا نتیجہ تھا کہ جب آپ کے دادا عبدالمطلب فوت ہونے لگے تو انہوں نے آپ کی کفالت (اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر آٹھ برس تھی) ابو لہب کے بجائے ابو طالب کے سپرد کی جو مالی لحاظ سے ابو لہب کی نسبت بہت کمزور تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد تین سال تک اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا کام نہایت خفیہ طور پر ہوتا رہا۔ پھر جب یہ حکم نازل ہوا۔ ﴿ وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ ﴾ اپنے قریبی کنبہ والوں کو (اللہ کے عذاب سے) ڈراؤ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم کی تعمیل میں بنوہاشم اور بنو عبدالمطلب کو اپنے ہاں کھانے پر بلایا۔ کل ٤٥ آدمی جمع ہوئے۔ ابولہب کی مخالفت :۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے سامنے لا الٰہ الا اللّٰہ کی دعوت پیش کی تو ابو لہب جھٹ سے بول اٹھا : دیکھو! یہ سب حضرات تمہارے چچا یا چچازاد بھائی ہیں۔ نادانی چھوڑ دو اور یہ سمجھ لو کہ تمہارا خاندان سارے عرب کے مقابلہ کی تاب نہیں رکھتا۔ اور میں سب سے زیادہ حقدار ہوں کہ تمہیں پکڑ لوں۔ بس تمہارے لیے تمہارے باپ کا خانوادہ ہی کافی ہے۔ اور اگر تم اپنی بات پر اڑے رہے اور عرب کے سارے قبائل تم پر ٹوٹ پڑے تو ایسی صورت میں تم سے زیادہ اور کون شخص اپنے خاندان کے لیے شر اور تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ ابو لہب کی یہ تلخ اور ترش باتیں سننے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خاموشی اختیار کرلی اور دوسرے لوگ بھی اٹھ کر اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ ابوطالب کی حمایت :۔ چند دن بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ اپنے قرابتداروں کو مدعو کرکے اپنی دعوت ذرا کھل کر پیش کی۔ جس کے نتیجہ میں آپ کے چھوٹے چچا ابوطالب نے کھل کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حمایت کا اعلان کردیا مگر ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ میں ذاتی طور پر عبدالمطلب کا دین چھوڑنے کو تیار نہیں۔ ابو طالب کی اس حمیت کے جواب میں ابو لہب کہنے لگا:’’خدا کی قسم! یہ (یعنی دعوت توحید) برائی ہے۔ لہٰذا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ دوسروں سے پہلے تم خود ہی پکڑ لو‘‘ اس کے جواب میں ابو طالب نے کہا: ’’اللہ کی قسم! جب تک جان میں جان ہے ہم اس کی حفاظت کرتے رہیں گے‘‘ اس دوسری دعوت کا اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یقین ہوگیا کہ معززین بنوہاشم میں کم از کم ایک آدمی (یعنی ابو طالب) ایسا ہے جس کی حمایت پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ کوہ صفا پر دشمنوں کا اعتراف :۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک تیسرا جرأت مندانہ قدم اٹھایا۔ ایک دن آپ کوہ صفا پر چڑھ گئے اور ایک فریادی کی طرح وا صباحاہ کی آواز لگائی اور قریش کے ایک ایک قبیلے کا نام لے کر پکارا اور کہا اے بنی فہر، اے بنی عدی، اے بنی کعب وغیرہ وغیرہ۔ حتیٰ کہ سب قبائل کے قابل ذکر اشخاص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اکٹھے ہوگئے اور جو نہ پہنچ سکا اس نے اپنا نمائندہ بھیج دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک اونچی جگہ پر کھڑے ہوگئے اور لوگوں سے پوچھا : اگر میں تم سے یہ کہوں کہ اس پہاڑی کے اس پار ایک لشکر جمع ہو رہا ہے جو تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری بات مان لو گے؟ سب نے یک زبان ہو کر کہا : ''ہاں''! اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق ہمارا ہمیشہ سچ ہی کا تجربہ رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اچھا تو سن لو کہ میں تمہیں ایک سخت عذاب سے خبردار کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں لہٰذا تم اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ۔ میں تمہیں اللہ سے بچانے کا کچھ اختیار نہیں رکھتا۔ ابولہب کی برہمی :۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابھی اتنا ہی کہہ پائے تھے کہ ابو لہب یکدم بھڑک اٹھا اور کہنے لگا تَبًّا لَکَ سَائِرَ الْیَوْمِ اَلِھٰذَا جَمَعْتَنَا (سارا دن تم پر ہلاکت ہو کیا اس بات کے لیے تو نے ہمیں جمع کیا تھا) (بخاری۔ کتاب التفسیر) اگرچہ ابو لہب کی اس بدتمیزی کی وجہ سے یہ اجتماع کچھ نتیجہ خیز ثابت نہ ہوا تاہم اس کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسب ِ ارشاد باری اپنے پورے قبیلے کو اپنی دعوت سے آگاہ کردیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ پکار مکہ کے ایک ایک فرد تک پہنچ گئی اور ابو لہب کی بدخلقی اور گستاخی کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔ ابولہب کا ہی قرآن نے کیوں نام لیا ؟ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ کے دشمن تو اور بھی بہت تھے، بلکہ ابو لہب سے بھی زیادہ تھے۔ تو ان تمام دشمنوں میں صرف ابو لہب کا ہی قرآن میں کیوں نام لے کر ذکر کیا گیا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ درج ذیل دو وجوہ کی بنا پر ابو لہب کا جرم واقعی اتنا شدید جرم تھا کہ قرآن میں اس کا نام لے کر اس کی مذمت کی گئی۔ پہلی وجہ یہ تھی کہ عرب میں کوئی باقاعدہ حکومت تو تھی نہیں، جہاں فریاد کی جاسکے۔ لے دے کر ایک قبائلی حمیت ہی وہ چیز تھی جو ایسے اوقات میں کام آتی تھی۔ مظلوم شخص فوراً اپنے قبیلے کو دادرسی کے لیے پکارتا اور پورا قبیلہ اس کی حمایت میں اٹھ کھڑا ہوتا۔ اس لیے ان کو اضطراراً بھی صلہ رحمی کا لحاظ رکھنا پڑتا تھا۔ ابو لہب ہی وہ واحد بدبخت شخص ہے جس نے اس دور کے واجب الاحترام قانون کو توڑ کر اپنے قبیلہ کے علی الرغم ڈٹ کر آپ کی مخالفت کی۔ علاوہ ازیں جب بنوہاشم اور بنو مطلب کو معاشرتی بائیکاٹ کی وجہ سے شعب ابی طالب میں محصور ہونا پڑا تھا تو اس وقت بھی ابو لہب نے اپنے قبیلے کا ساتھ نہیں دیا تھا اور یہ تو واضح ہے کہ شعب ابی طالب کے محصورین میں بہت سے ایسے لوگ بھی شامل تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان نہیں لائے تھے تاہم قبائلی حمیت کی بنا پر انہوں نے سب کچھ گوارا کیا تھا اور اس قانون کے احترام کا حق ادا کیا۔ حد یہ ہے کہ آپ کے چھوٹے چچا ابو طالب نے آپ کی حفاظت کے لیے زندگی بھر قریش مکہ کی مخالفت مول لی۔ حالانکہ آخری دم تک وہ ایمان نہیں لائے تھے۔ (بخاری، کتاب التفسیر زیر آیت﴿ اِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ ﴾) اور دوسری وجہ یہ تھی کہ اس قبائلی معاشرہ میں چچا کو بھی باپ کا درجہ حاصل تھا۔ بالخصوص اس صورت میں کہ حقیقی والد فوت ہوچکا ہو۔ اس لحاظ سے بھی ابو لہب کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کا فریضہ بطریق احسن بجا لانا چاہئے تھا خواہ وہ ایمان لاتا یا نہ لاتا۔ مگر وہ آپ کی حفاظت کی بجائے بغض و عناد میں اتنا آگے نکل گیا کہ اس کا شمار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صف اول کے دشمنوں میں ہوتا ہے۔ اس نے کوہ صفا پر جس بدخلقی اور گستاخی کا مظاہرہ کیا اس پر آپ کے خاموش رہنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ معاشرتی سطح پر ابو لہب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باپ کے مقام پر تھا اور باپ ہونے کے ادب کا تقاضا یہی تھا کہ آپ خاموش رہتے۔ لہٰذا اس کی اس بدتمیزی کا جواب خود اللہ تعالیٰ نے اس کا نام لے کر دے دیا۔ واضح رہے کہ ﴿تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَھبٍ﴾ سے یہ مراد نہیں کہ جسمانی لحاظ سے ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں بلکہ یہ بددعا کی قسم کے کلمات ہیں جو ناراضگی اور خفگی کے موقع پر بولے جاتے ہیں۔ اور ایسے الفاظ صرف عربی میں نہیں۔ ہر زبان میں پائے جاتے ہیں۔ الہب
2 [٢] ابو لہب کا جنگ بدر میں شامل نہ ہونے کا منصوبہ :۔ مال کی ہوس اور بخل مل کر ایک تیسری صفت پیدا کرتے ہیں اور وہ ہے بزدلی۔ جب جنگ بدر کے لیے بھرتی کا اعلان عام ہوا تو ابو لہب اس سے فرار کی راہیں سوچنے لگا۔ ایک شخص سے اس نے چار ہزار درہم قرضہ لینا تھا جس کے ملنے کی اسے کوئی توقع نہ تھی۔ کیونکہ وہ شخص مفلس تھا۔ ابو لہب نے اس سے سودابازی کی کہ اگر وہ اس کی جگہ جنگ بدر میں شریک ہوجائے تو وہ اس سے اپنے قرض کا مطالبہ نہیں کرے گا۔ اس طرح ابو لہب نے ایک تیر سے دو شکار کیے۔ ڈوبے ہوئے قرضہ کی وصولی بھی ہوگئی اور جنگ سے بچاؤ کا مقصد بھی حاصل ہوگیا۔ جنگ بدر میں قریشیوں کی شکست فاش کی خبر سن کر اسے اتنا صدمہ ہوا کہ بیمار پڑگیا۔ ذلت کی موت :۔ ساتویں دن یہ بیماری چیچک کی شکل اختیار کرگئی تو اسے اپنی ساری عمر کی کمائی برباد ہوتی نظر آنے لگی کیونکہ اب اسے اپنی موت کا یقین ہوچکا تھا۔ چھوت کی وجہ سے اس کے بیٹوں نے اس کے ساتھ کھانا پینا بھی چھوڑ دیا۔ بالآخر وہ نہایت بے کسی کی موت مرا۔ مرنے کے بعد بھی اس کا کوئی بیٹا اس کے قریب نہ گیا۔ تین دن تک اس کی لاش بے گوروکفن گلتی سڑتی رہی۔ پھر جب لوگوں نے اس کے بیٹوں کو طعنے دینے شروع کیے تو انہوں نے ایک حبشی کو کچھ معاوضہ دیا کہ وہ ایک گڑھا کھود کر اس میں لاش کو دھکیل دے اور اوپر سے مٹی ڈال دے۔ یا پتھر وغیرہ دور سے پھینک کر لاش کو چھپا دے۔ واضح رہے کہ اس آیت میں ماکَسَبَ سے مراد اس کی اولاد ہے جیسا کہ احادیث صریحہ سے ثابت ہے۔ اس طرح اللہ کا یہ قول پورا ہوا کہ نہ اس کا مال کام آیا نہ اولاد۔ الہب
3 [٣] ابو لہب کنیت ہونے کی دنیا میں مناسبت یہ تھی کہ اس کا رنگ سیب کی طرح لال تھا اور آخرت میں مناسبت یہ ہوگی کہ شعلوں والی آگ میں پھینکا جائے گا۔ الہب
4 [٤] ابو لہب کی بیوی کا تعارف :۔ ابو لہب کی بیوی کا نام ارویٰ اور کنیت ام جمیل تھی۔ ابو سفیان بن حرب بن امیہ کی بہن تھی۔ جو ابو جہل کی موت کے بعد رئیس قریش اور سپہ سالار افواج بنا تھا۔ رسول دشمنی میں یہ عورت بھی اپنے خاوند سے کسی صورت کم نہ تھی۔ جنگل سے خار دار جھاڑ جھنکار اٹھا لاتی اور رات کے اندھیرے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کے آگے ڈال دیتی تاکہ جب آپ صبح بیت اللہ کو جائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں میں کانٹے چبھ جائیں۔ نیز آپ کے بال بچے بھی زخمی ہوں۔ خاصی بدزبان اور مفسدہ پرداز عورت تھی۔ جب سورۃ لہب نازل ہوئی تو یہ مٹھی بھر کنکریاں لے کر بیت اللہ کو چل کھڑی ہوئی۔ تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہجو کی صورت میں سورۃ لہب کا جواب دے اور کنکریاں مار کر اپنے انتقام کی آگ ٹھنڈی کرے۔ اتفاق کی بات کہ اسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نظر ہی نہ آئے۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہنے لگی :’’تمہارا ساتھی کدھر ہے؟ سنا ہے وہ میری ہجو کرتا ہے۔‘‘ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ’’اس نے تو کوئی ہجو نہیں کی۔ (یعنی اگر ہجو کی ہے تو وہ اللہ نے کی ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کی) یہ جواب سن کر وہ واپس چلی آئی۔ الہب
5 [٥] ابو لہب کی بیوی کی موت :۔ جِیْد بمعنی لمبی اور خوبصورت گردن، ہرن کی طرح پتلی اور لمبی گردن۔ اس گردن میں وہ ایک سونے کا ہار پہنا کرتی تھی اور کہتی تھی کہ میں یہ ہار بیچ کر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کے کاموں میں لگاؤں گی۔ اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ جس مونج کی چبھنے والی موٹی رسی سے وہ جھاڑ جھنکار باندھا کرتی وہی اس کی گردن میں اٹک گئی اور ایسی پھنسی کہ بالآخر اس کی موت کا سبب بن گئی۔ الہب
0 الاخلاص
1 [١] اللہ کے اکیلے اور وحدہ لاشریک ہونے پر کفار کا تعجب اور سوالات :۔ آیت کے انداز سے ہی معلوم ہو رہا ہے کہ یہ کسی سوال کا جواب دیا جارہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکیلے اللہ کی دعوت دے رہے تھے جبکہ دور نبوی کی ساری دنیا طرح طرح کے شرک میں مبتلا تھی۔ لہٰذا اللہ کی ذات کے متعلق آپ سے کئی بار سوال ہوا اور کئی قسم کے فرقوں کی طرف سے ہوا۔ سب سے پہلے یہ سوال مشرکین مکہ نے اٹھایا تھا۔ جو ہر خوبصورت پتھر کو معبود بنالیتے تھے اور فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ اس سوال کی نوعیت درج ذیل حدیث سے واضح ہوتی ہے۔ سیدنا ابی بن کعب فرماتے ہیں کہ مشرکوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ اپنے رب کا ہم سے نسب بیان کرو۔ تو اللہ نے یہ سورت اتار دی کہ آپ انہیں کہہ دیں کہ ’’وہ اکیلا ہے۔ اللہ صمد ہے اور صمد وہ ہوتا ہے جو نہ کسی سے پیدا ہوا ہو اور نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہو۔ اس لیے کہ جو کسی سے پیدا ہوگا ضرور مرے گا اور جو مرے گا اس کا کوئی وارث بھی ہوگا۔ اور اللہ نہ مرے گا اور نہ اس کا کوئی وارث ہوگا اور نہ اس کا کوئی کفو ہے۔‘‘ راوی کہتا ہے کہ کفو کی معنی یہ ہے کہ نہ کوئی اس کے مشابہ ہے اور نہ برابر ہے اور اس کی مثال کوئی چیز نہیں۔ (ترمذی۔ کتاب التفسیر) مشرکوں کے بعد جس نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اللہ کے بارے میں کوئی سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سورت پڑھ کر سنا دیتے تھے۔ [٢] مختلف قوموں کے خداؤں کی تعداد :۔ اَحَدٌ بمعنی لاثانی، بے نظیر، یکتا، اس لحاظ سے اس لفظ کا اطلاق صرف ذات باری تعالیٰ پر ہوتا ہے۔ غیر اللہ کے لیے واحد کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ گنتی میں ایک، دو، تین کے لیے واحد، اثنین، ثلٰثۃ آتا ہے۔ واحد کے بجائے احد نہیں بولا جاتا۔ البتہ دو موقعوں پر احد کا لفظ واحد کا مترادف ہو کر آتا ہے۔ (١) اسمائے اعداد کی ترکیب میں جیسے احد عشر (گیارہ) احدھما (دونوں میں سے کوئی ایک۔) احَدٌمِّنْکُمْ (تم میں سے کوئی ایک) اَحَدُکُمْ (تمہارا کوئی ایک) یوم الاحد (اتوار) وغیرہ (٢) نفی کی صورت میں صرف ذوی العقول کے لیے آتا ہے جیسے لَیْسَ فِی الدَّارِ اَحَدٌ (گھر میں کوئی بھی نہیں ہے) جبکہ واحد کا لفظ عام ہے جو ماسوا اللہ کے لیے تو عام مستعمل ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے صرف اس صورت میں کہ اللہ کی کوئی صفت بھی مذکور ہو جیسے ھُوَ اللّٰہ الْوَاحِدُ الْقَھَّار (١٣: ١٦) یعنی اللہ وہ ہے جو اکیلا ہے سب کو دبا کر رکھنے والا)۔ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ صرف ایک ہی ہے۔ دو نہیں۔ جیسا کا مجوسیوں کا عقیدہ ہے کہ نیکی کا خدا یزدان ہے اور بدی کا خدا اہرمن ہے۔ تین بھی نہیں جیسا کہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ باپ، بیٹا اور روح القدس تینوں خدا ہیں اور تینوں مل کر بھی ایک ہی خدا بنتا ہے۔ یا ہند وؤں کا عقیدہ ہے کہ خدا، مادہ اور روح تینوں ہی ازلی ابدی ہیں۔ وہ تینتیس کروڑ بھی نہیں جیسا کہ ہندو اپنے دیوی دیوتاؤں کی تعداد شمار کرتے ہیں بلکہ وہ ایک اور صرف ایک ہے۔ الاخلاص
2 [٣] صمد کا مفہوم اور صمد اور غنی میں فرق :۔ صَمَدٌ میں دو باتیں بنیادی طور پر پائی جاتی ہیں (١) کسی چیز کا ٹھوس اور مضبوط ہونا (٢) لوگ ہر طرف سے اس کی طرف قصد کریں۔ اور الصَّمَدُ ایسی ذات ہے جو خود تو مستقل اور قائم بالذات ہو۔ وہ خود کسی کی محتاج نہ ہو مگر دوسری سب مخلوق اس کی محتاج ہو۔ بے نیاز کے لیے عربی زبان میں غنی کا لفظ بھی آتا ہے اور اس کی ضد فقیر ہے۔ اور غنی وہ ہے جسے کسی دوسرے کی احتیاج نہ ہو مگر یہ لفظ صرف مال و دولت کے معاملہ میں بے نیاز ہونے کے لیے استعمال ہوتا ہے اور غنی دولت مند کو کہتے ہیں۔ یعنی کم از کم اتنا مالدار ضرور ہو کہ اسے معاش کے سلسلے میں دوسروں کی احتیاج نہ ہو جبکہ صمد کا لفظ جملہ پہلوؤں میں بے نیاز ہونے کے معنوں میں آتا ہے اور دوسرے لوگ بھی جملہ پہلوؤں میں اس کے محتاج ہوتے ہیں۔ مثلاً اللہ کھانے پینے سے بھی بے نیاز ہے اور سونے اور آرام کرنے سے بھی۔ وہ اپنی زندگی اور بقا کے لیے بھی کسی کا محتاج نہیں ہے۔ مگر باقی سب مخلوق ایک ایک چیز رزق، صحت، زندگی، شفائ، اولاد حتیٰ کہ اپنی بقا تک کے لیے بھی اللہ کی محتاج ہے۔ کوئی بھلائی کی بات ایسی نہیں جس کے لیے مخلوق اپنے خالق کی محتاج نہ ہو۔ الاخلاص
3 [٤] اللہ کی اولاد قرار دینے والے فرقے :۔ انسان نے جب بھی اپنے طور پر اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق سوچا ہے تو اسے انسانی سطح پر لا کر ہی سوچا ہے اور چونکہ انسان اولاد کا خواہشمند ہوتا ہے۔ اس لیے انسان نے اللہ کی بھی اولاد قرار دے دی۔ حالانکہ جو چیز پیدا ہوتی ہے اس کا مرنا اور فنا ہونا بھی ضروری ہے۔ اور جو چیز مرنے والی یا فنا ہونے والی ہو وہ کبھی خدا نہیں ہوسکتی۔ نیز انسان کو اولاد کی خواہش اور ضرورت اس لیے ہوتی ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کی قائم مقام بنے اور اس کی میراث سنبھالے جبکہ اللہ کو ایسی باتوں کی کوئی احتیاج نہیں۔ وہ حی لایموت ہے، اسی خیال سے عیسائیوں نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو اور یہود نے سیدنا عزیر کو اللہ کا بیٹا بنا دیا۔ مشرکین عرب فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ اور یونانی، مصری اور ہندی تہذیبوں نے کروڑوں کی تعداد میں دیوی اور دیوتا بنا ڈالے۔ کوئی دیوی ایسی نہ تھی جس کا انہوں نے کوئی دیوتا شوہر نہ تجویز کیا ہو۔ اور کوئی دیوتا ایسا نہ تھا جس کے لیے انہوں نے کوئی دیوی بیوی کے طور پر تجویز نہ کی ہو۔ پھر ان میں توالد و تناسل کا سلسلہ چلا کر کروڑوں خدا بناڈالے۔ یہ بھی غنیمت ہی سمجھئے کہ کسی قوم نے کسی کو اللہ کا باپ نہیں بنا ڈالا۔ ورنہ ایسے مشرکوں سے کیا بعید تھا کہ وہ ایسی بکواس بھی کر ڈالتے۔ اس آیت سے ایسے توہمات کی تردید ہوجاتی ہے۔ اللہ کی اولاد قرار دینا اتنا شدید جرم ہے کہ قرآن میں متعدد مقامات پر اس کی شدید مذمت وارد ہوئی ہے۔ نیز درج ذیل حدیث بھی اس جرم پر پوری روشنی ڈالتی ہے۔ اللہ کی اولاد قرار دینا اسے گالی دینے کے مترادف ہے :۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : بنی آدم نے مجھے جھٹلایا اور یہ اسے مناسب نہ تھا اور مجھے گالی دی اور یہ اسے مناسب نہ تھا۔ اس کا مجھے جھٹلانے کا مطلب یہ ہے کہ جو وہ یہ کہتا ہے کہ میں اسے دوبارہ ہرگز پیدا نہ کروں گا حالانکہ دوبارہ پیدا کرنا پہلی بار پیدا کرنے سے زیادہ مشکل نہیں ہے اور اس کا مجھے گالی دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اولاد ہے حالانکہ میں اکیلا ہوں، بے نیاز ہوں، نہ میری کوئی اولاد ہے اور نہ میں کسی کی اولاد ہوں اور میرے جوڑ کا تو کوئی دوسرا ہے ہی نہیں۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) الاخلاص
4 [٥] کفو کا لغوی مفہوم :۔ کُفُوًا : کفاء کپڑے کے اس ٹکڑے کو کہتے ہیں جو اس جیسے دوسرے ٹکڑے سے ملا کر خیمہ کی پچھلی طرف ڈال دیا جاتا ہے اور کفو اور کُفٰی بمعنی ہم پایہ، ہم پلہ، مرتبہ و منزلت میں ایک دوسرے کے برابر ہونا۔ اس کے مقابلہ اور جوڑ یا ٹکر کا ہونا۔ کفو کا لفظ عموماً میدان جنگ میں دعوت مبارزت کے وقت یا نکاح اور رشتہ کے وقت بولا جاتا ہے۔ فلان کفولفلان یعنی فلاں شخص فلاں کے جوڑ کا یا مدمقابل یا ہمسر ہے۔ رشتہ کے وقت بھی فریقین یہ دیکھتے ہیں کہ دوسرے فریق کی معاشی، معاشرتی اور تمدنی حالت اس جیسی ہے یا نہیں؟ بس یہی کفو کا مفہوم ہے۔ اور اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی ذات کے متعلق طرح طرح کے سوال کرتے ہیں ان سے کہہ دیجیے کہ اس کائنات میں کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو اس کے جوڑ کی ہو اور تمہیں سمجھایا جاسکے کہ اللہ فلاں چیز کی مانند ہے۔ اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر یوں بیان فرمایا : ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ ﴾ سورہ اخلاص تہائی قرآن کے برابر ہے :۔ واضح رہے کہ چونکہ اس سورت میں توحید کے جملہ پہلوؤں پر مکمل روشنی ڈال دی گئی ہے۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سورت کو تہائی قرآن کے برابر قرار دیا ہے اور یہ چیز بیشمار احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن میں بنیادی طور پر تین عقائد پر ہی زور دیا گیا ہے۔ اور وہ ہیں توحید، رسالت اور آخرت۔ اس سورت میں توحید کا چونکہ جامع بیان ہے اس لیے اسے قرآن کی تہائی کے برابر قرار دیا گیا۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے : ١۔ سیدنا ابو الدرداء سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا : کیا تم ہر رات کو ایک تہائی قرآن پڑھنے سے عاجز ہو؟ صحابہ نے عرض کیا : کوئی شخص تہائی قرآن کیسے پڑھ سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ﴿قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ﴾ ’’تہائی قرآن کے برابر ہے‘‘ (مسلم۔ کتاب فضائل القرآن۔ باب فضل قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ۔) ٢۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم لوگ جمع ہوجاؤ تاکہ میں تمہارے سامنے قرآن کا تیسرا حصہ پڑھوں ہم جمع ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نکلے۔ اور سورت ﴿قُلْ ھُوَاللّٰہُ أحْدٌ﴾ پڑھی۔ پھر اندر چلے گئے۔ ہم ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ شاید آسمان سے کوئی خبر آئی ہے جس کے لیے آپ اندر چلے گئے۔ پھر آپ باہر نکلے تو فرمایا : ’’میں نے تم سے کہا تھا کہ تمہارے سامنے تہائی قرآن پڑھوں گا۔ سو یہ سورت تہائی قرآن کے برابر ہے۔‘‘ (حوالہ ایضاً) ٣۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو ایک فوج پر سردار مقرر کرکے بھیجا۔ وہ اپنی فوج کی نماز میں قرآن پڑھتے اور قراءت کو ﴿قُلْ ھُوَاللّٰہُ أحْدٌ﴾ پر ختم کرتے تھے۔ جب فوج لوٹ کر آئی تو لوگوں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کہ اس سے پوچھو وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟ پوچھا تو اس نے کہا کہ یہ رحمٰن کی صفت ہے اور میں اسے دوست رکھتا ہوں کہ اسے پڑھا کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’کہ اسے کہہ دو کہ اللہ تمہیں دوست رکھتا ہے‘‘ (حوالہ ایضاً) الاخلاص
0 الفلق
1 [١] فلق کا لغوی مفہوم :۔ فَلَقٌ کے معنی پھٹنا اور الگ ہونا بھی ہے۔ اور پھاڑنا بھی۔ ﴿فَالِقُ الْاِصْبَاحِ ﴾(۹۲:۶) بمعنی صبح کو پھاڑنے اور ظلمت سے الگ کرنے والا۔ اور اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو رات کی تاریکی سے صبح کی روشنی کو ظاہر کرتا ہے۔ اور حقیقت میں دیکھا جائے تو جو چیز بھی ظہور میں آتی ہے۔ وہ تاریکی اور پردہ غیب سے ہی ظہور میں آتی ہے۔ جیسے اس سے پہلی آیت میں فرمایا : ﴿فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰی ﴾(۹۵:۶)یعنی وہ ذات جو زمین کو پھاڑ کر اس سے دانہ اور گٹھلی کی کونپل نکالنے والا۔ اسی طرح انڈے کا چھلکا توڑ کر چوزے کو باہر نکالنے والا۔ یا رحم مادر سے بچہ کو باہر لانے والا۔ زمین یا پتھر کو پھاڑ کر اس سے چشمے جاری کرنے والا۔ حتیٰ کہ اللہ نے ایک ملے جلے مادے کو ہی پھاڑ کر اس سے آسمان و زمین کو الگ الگ کیا اور انہیں وجود میں لایا تھا۔ اس لحاظ سے فالق اور خالِقٌ تقریباً ہم معنی ہیں۔ [٢] اللہ کے علاوہ دوسرے سے پناہ مانگنا شرک ہے :۔ پناہ اس وقت مانگی جاتی ہے جب انسان کو کوئی ایسا خطرہ درپیش ہو جس کی مدافعت کرنے کی وہ اپنے آپ میں ہمت نہ پاتا ہو۔ اور اس ہستی سے پناہ مانگی جاتی ہے جو نہ صرف یہ کہ پناہ مانگنے والے سے زیادہ طاقتور ہو بلکہ اس چیز سے بھی طاقتور ہو جس سے حملہ یا تکلیف کا خطرہ درپیش ہے۔ اور سب سے زیادہ طاقتور اور ظاہری اسباب کے علاوہ باطنی اسباب پر حکمران اللہ کی ذات ہے۔ لہٰذا پناہ صرف اسی سے مانگنی چاہیے۔ بالخصوص اس صورت میں جبکہ ظاہری اسباب مفقود ہوں۔ ایسی صورت میں اللہ کے علاوہ کسی دوسرے سے پناہ مانگنا شرک ہے جیسا کہ دور جاہلیت میں لوگ جب کسی جنگل میں مقیم ہوتے تو اپنے مزعومہ عقائد کے مطابق وہاں کے جنوں کے بادشاہ سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ ہاں اگر ظاہری اسباب کی بنا پر کسی سے پناہ مانگی جائے تو یہ جائز ہے۔ تاہم بھروسہ صرف اللہ کی ذات پر ہی کرنا چاہیے۔ واضح رہے کہ سورۃ الفلق اور سورۃ الناس دونوں میں مختلف اشیاء سے اللہ کی پناہ مانگنے کا ذکر ہے۔ اور دونوں کا مضمون باہم ملتا جلتا ہے۔ لہٰذا ان دونوں سورتوں کو معوذتین کہا جاتا ہے یعنی وہ سورتیں جنہیں پڑھ کر اپنے پروردگار سے پناہ مانگی جاتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان دونوں سورتوں کو پڑھکر پہلے اپنے ہاتھوں پر پھونکتے پھر ہاتھوں کو جسم کے ہر اس حصے پر پھیرتے تھے جہاں تک ہاتھ پہنچ سکتے تھے۔ الفلق
2 [٣] جو کچھ کائنات میں موجود ہے وہ سب کچھ اللہ ہی نے پیدا کیا خواہ وہ چیزیں جاندار ہوں یا بے جان۔ اور ہر چیز خواہ کتنی ہی فائدے مند ہو اس کا کچھ نہ کچھ نقصان بھی ہوتا ہے۔ اس آیت میں ہر چیز کے برے یا نقصان دہ پہلو سے اللہ کی پناہ طلب کرنے کی ہدایت کی گئی ہے خواہ وہ شر وجود میں آچکا ہو یا اس سے کسی شر کے پیدا ہونے کا خطرہ ہو۔ اس آیت میں تو ہر چیز کے شر سے پناہ مانگنے کا عمومیت کے ساتھ ذکر ہے۔ البتہ اگلی تین آیات میں ان چند مخصوص چیزوں کا ذکر ہے جن کا شر بہت واضح ہے۔ الفلق
3 [٤] جرائم زیادہ تر رات کی تاریکی میں کیے جاتے ہیں :۔ غَاسِقٍ۔ غسق بمعنی شفق غائب ہوجانے کے بعد کا اندھیرا۔ اس لحاظ سے غاسق اس ابتدائی رات کو کہتے ہیں کہ جب وہ تاریک ہونے لگتی ہے اور وقب کسی چٹان وغیرہ میں گڑھے کو کہتے ہیں اور وَقَبَ بمعنی گڑھے میں داخل ہو کر غائب ہوجانا اور وَقَبَ الظَّلاَمُ بمعنی اتنی تاریکی چھانا جس کے اندر اشیاء غائب ہوجائیں اور تاریک رات کے شر سے پناہ مانگنے کی وجہ یہ ہے کہ اکثر گناہ کے کام رات کی تاریکیوں میں کیے جاتے ہیں۔ چوری، ڈاکہ، لوٹ مار، زنا وغیرہ کے مجرم عموماً رات کی تاریکیوں میں ہی ایسے کام کرتے ہیں۔ اور عرب قبائل میں تو دستور ہی یہ تھا کہ جب کسی قبیلے پر لوٹ مار کرنا ہوتی تو رات میں سارا سفر ختم کرلیتے اور صبح کی روشنی نمودار ہوتے ہی لوٹ مار کا بازار گرم کردیتے تھے۔ الفلق
4 [٥] آپ پر جادو :۔ گرہ میں پھونکیں مارنے کا کام عموماً جادوگر کیا کرتے ہیں اور جو لوگ بھی موم کے پتلے بنا کر اس میں سوئیاں چبھوتے ہیں اور کسی کے بال حاصل کرکے ان میں گرہیں لگاتے اور پھونکیں مارتے جاتے ہیں سب جادوگروں کے حکم میں داخل ہیں۔ اور ہمارے ہاں ایسے لوگوں کو جادوگر نہیں عامل کہا جاتا ہے۔ اور جادو کرنا صریحاً کفر کا کام ہے۔ جیسے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ١٠٢ میں یہ صراحت موجود ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جادو چونکہ کفر کا کام ہے۔ اس لیے جادو کا اثر کسی ایماندار یا مومن پر نہیں ہوسکتا۔ اور چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھی جادو کیا گیا تھا اور اس جادو کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعت پر اثر بھی ہوگیا تھا۔ اور یہ بات اتنی احادیث صحیحہ میں مذکور ہے جو حد تواتر کو پہنچتی ہیں لہٰذا یہ حضرات اپنے اس نظریہ کے مطابق ایسی تمام احادیث کا انکار کردیتے ہیں۔ لہٰذا ہم پہلے یہاں بخاری سے ایک حدیث درج کرتے ہیں پھر ان کے اعتراضات کا جائزہ پیش کریں گے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلح حدیبیہ سے واپس لوٹے تو آپ پر جادو کیا گیا جس کا اثر یہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک کام کر رہے ہیں حالانکہ وہ کر نہیں رہے ہوتے تھے۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک روز دعا کی (کہ اللہ اس جادو کا اثر زائل کردے) پھر فرمانے لگے : عائشہ رضی اللہ عنہا ! تجھے معلوم ہوا کہ اللہ نے مجھے وہ تدبیر بتا دی جس سے مجھے اس تکلیف سے شفا ہوجائے۔ ہوا یہ کہ (خواب میں) دو آدمی میرے پاس آئے۔ ایک میرے سرہانے بیٹھ گیا اور دوسرا پائنتی کی طرف۔ ایک شخص نے دوسرے سے پوچھا :’’اس شخص کو کیا تکلیف ہے؟‘‘ دوسرے نے کہا ’’اس پر جادو کیا گیا ہے‘‘ پہلے نے پوچھا :’’کس نے جادو کیا ہے؟‘‘ دوسرے نے جواب دیا :’’لبید بن اعصم (یہودی) نے‘‘ پہلے نے پوچھا : ’’کس چیز میں جادو کیا؟‘‘ دوسرے نے جواب دیا۔ ’’کنگھی اور آپ کے بالوں اور نر کھجور کے خوشے کے پوست میں‘‘ پہلے نے پوچھا : ’’یہ کہاں رکھا ہے؟‘‘ دوسرے نے جواب دیا :’’ذروان کے کنوئیں میں‘‘ غرض آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کنوئیں پر تشریف لے گئے جب وہاں سے پلٹے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاسے فرمایا : ’’اس کنوئیں کے درخت ایسے ڈراؤنے ہوگئے تھے جیسے ناگوں کے پھن ہوں‘‘ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے عرض کیا :’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ نے اس کو (یعنی جادو کے سامان کو) نکالا کیوں نہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’مجھے اللہ نے اچھا کردیا۔ اب میں نے یہ مناسب نہ سمجھا کہ لوگوں میں ایک جھگڑا کھڑا کر دوں‘‘ پھر وہ کنواں مٹی ڈال کر بھر دیا گیا۔ (بخاری۔ کتاب بدء الخلق باب صفۃ ابلیس وجنودہ) اور بخاری کی دوسری روایت جو کتاب الادب میں مذکور ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکیلے نہیں بلکہ چند صحابہ کے ساتھ اس کنوئیں پر گئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ جادو کی اشیاء کنوئیں سے نکلوائی تھیں نیز یہ کہ اس کنوئیں کا پانی جادو کے اثر سے مہندی کے رنگ جیسا سرخ ہوگیا تھا۔ (بخاری۔ کتاب الادب، باب ان اللہ یامر بالعدل والا حسان) اور بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ (١) لبید بن اعصم ایک ماہر جادو گر تھا۔ ٢۔ لبید کی دو لڑکیاں بھی جادوگری کے فن میں ماہر تھیں۔ ان لڑکیوں نے ہی کسی طریقہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر کے بال حاصل کرکے ان میں گرہیں لگائی تھیں۔ ٣۔ ذروان کنوئیں سے جو اشیاء برآمد کی گئیں۔ ان میں کنگھی اور بالوں میں ایک تانت کے اندر گیارہ گرہیں پڑی ہوئی تھیں۔ اور ایک موم کا پتلا تھا جس میں سوئیاں چبھوئی ہوئی تھیں۔ جبریل نے آکر بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معوذتین پڑھیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ایک آیت پڑھتے جاتے اور اس کے ساتھ ایک ایک گرہ کھولی جاتی اور پتلے میں سے ایک ایک سوئی نکالی جاتی رہی۔ خاتمہ تک پہنچتے ہی ساری گرہیں کھل گئیں کیونکہ ان دونوں سورتوں کی گیارہ ہی آیات ہیں۔ اور ساری سوئیاں نکل گئیں اور آپ جادو کے اثر سے نکل کر یوں آزاد ہوگئے جیسے کوئی بندھا ہوا شخص کھل گیا ہو۔ ٤۔ لبید بن اعصم کو پوچھا گیا تو اس نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے چھوڑ دیا۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا۔ ان احادیث پر پہلا اعتراض یہ ہے کہ نبی پر جادو نہیں ہوسکتا یعنی اگر کوئی کرے بھی تو اس کا اثر نہیں ہوتا۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ نبی پر جادو کا اثر ہونا قرآن سے ثابت ہے۔ فرعون کے جادوگروں نے جب ہزارہا لوگوں کے مجمع میں اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینکیں اور وہ سانپ بن کر دوڑنے لگیں تو اس دہشت کا اثر موسیٰ علیہ السلام کے دل پر ہوگیا تھا۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔﴿ فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً مُّوسَىٰ قُلْنَا لَا تَخَفْ إِنَّكَ أَنتَ الْأَعْلیٰ ﴾ موسیٰ علیہ السلام اپنے دل میں ڈر گئے تو ہم نے (بذریعہ وحی) کہا : موسیٰ ڈرو نہیں، تم ہی غالب رہو گے۔ چند اعتراضات اور ان کے جواب :۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اگر نبی پر جادو کا اثر تسلیم کرلیا جائے تو شریعت ساری کی ساری ناقابل اعتماد ٹھہرتی ہے۔ کیا معلوم کہ نبی کا فلاں کام وحی کے تحت ہوا تھا یا جادو کے زیر اثر؟ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ یہ واقعہ ٧ ھ میں (جنگ خیبر اور صلح حدیبیہ کے بعد) پیش آیا۔ جبکہ یہودی ہر میدان میں پٹ چکے تھے۔ پہلے خیبر کے یہودی ایک سال جادو کرتے رہے جس کا خاک اثر نہ ہوا۔ پھر وہ مدینہ میں لبید بن اعصم کے پاس آئے جو سب سے بڑا جادوگر تھا اور اس کی بیٹیاں اس سے بھی دو ہاتھ آگے تھیں۔ انہوں نے بڑا سخت قسم کا جادو کیا۔ اس کا بھی چھ ماہ تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کچھ اثر نہ ہوا۔ بعد میں اس کے اثرات نمایاں ہونے شروع ہوئے۔ تاہم اس کا اثر محض آپ کے ذاتی افعال تک محدود تھا۔ یعنی آپ یہ سوچتے کہ میں فلاں کام کرچکا ہوں جبکہ کیا نہیں ہوتا تھا۔ یہ ذہنی کوفت آپ کو چالیس دن تک رہی۔ بعد میں اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حقیقت حال سے آگاہ کردیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شفایاب ہوگئے۔ اب دیکھیے یہ بات واضح ہے کہ اس وقت تک قرآن نصف سے زیادہ نازل ہوچکا تھا۔ اہل عرب اس وقت دو گروہوں میں بٹ چکے تھے۔ ایک مسلمان اور ان کے حلیف، دوسرے مسلمانوں کے مخالفین، اگر اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جادو کا اثر شریعت میں اثر انداز ہوتا، یعنی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ہی نہ پڑھاتے۔ یا ایک کے بجائے دو بار پڑھا دیتے یا قرآن کی آیات خلط ملط کرکے یا غلط سلط پڑھ دیتے یا کوئی اور کام منزل من اللہ شریعت کے خلاف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سرزد ہوجاتا تو دوست و دشمن سب میں یعنی پورے عرب میں اس کی دھوم مچ جاتی۔ جبکہ واقعہ یہ ہے کہ ہمیں ایک بھی ایسی روایت نہیں ملتی جس میں یہ اشارہ تک بھی پایا جاتا ہو کہ اس اثر سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شرعی اعمال و افعال میں کبھی حرج واقع ہوا ہو۔ تیسرا اعتراض یہ ہے کہ کفار کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ انبیاء کو یا تو جادو گر کہتے تھے اور یا جادو زدہ (مسحور) اب اگر ہم خود ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جادو اور اس کی اثر پذیری تسلیم کرلیں تو گویا ہم بھی کفار کے ہم نوا بن گئے۔ یہ اعتراض اس لیے غلط ہے کہ کفار کا الزام یہ ہوتا تھا کہ نبی نے اپنی نبوت کے دعویٰ کا آغاز ہی جادو کے اثر کے تحت کیا ہے اور جو کچھ یہ قیامت، آخرت، حشرو نشر اور جنت و دوزخ کے افسانے سناتا ہے۔ یہ سب کچھ جادو کا اثر یا پاگل پن کی باتیں ہیں۔ گویا وہ نبوت اور شریعت کی تمام تر عمارت کی بنیاد جادو قرار دیتے تھے لیکن یہاں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ یہ واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کے بیس سال بعد پیش آتا ہے جبکہ آدھا عرب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت اور احکام شریعت کے منزل من اللہ ہونے پر ایمان رکھتا تھا۔ پھر یہ واقعہ احکام شریعت پر چنداں اثر انداز بھی نہیں ہوا البتہ اس واقعہ سے اس کے برعکس یہ نتیجہ ضرور نکلتا ہے۔ کہ آپ ہرگز جادوگر نہ تھے۔ کیونکہ جادوگر پر جادو کا اثر نہیں ہوتا۔ الفلق
5 [٦] حَسَد کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص کو اللہ تعالیٰ نے کوئی نعمت، فضیلت، عزوشرف عطا کیا ہو تو اس پر کوئی دوسرا شخص اس سے جلے اور یہ چاہے کہ اس سے یہ نعمت چھن کرحاسد کو مل جائے یا کم از کم اس سے ضرور چھن جائے۔ البتہ اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ اس جیسی نعمت مجھے بھی اللہ عطا کردے تو یہ حسد نہیں بلکہ رشک ہے جسے عربی زبان میں (غِبطة) کہتے ہیں اور یہ جائز ہے۔ حاسد سے پناہ اس صورت میں مانگی گئی ہے جب وہ حسد کرے اور حسد کی بنا پر کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش کرے۔ اس سے پہلے وہ محسود کے لیے ایسا شر نہیں بنتا کہ اس سے پناہ مانگی جائے۔ وہ اپنے طور پر اندر ہی اندر جلتا ہے تو جلتا رہے۔ اسے اپنے اس عمل کی یہی سزا کافی ہے۔ الفلق
0 الناس
1 الناس
2 الناس
3 [١] شیطان کے شرسے پناہ دینے والے کی صفات :۔ اس سورت کی ابتدائی تین آیات میں اللہ تعالیٰ کی تین صفات بیان کرکے اس سے پناہ طلب کی گئی ہے۔ ایک یہ کہ وہ تمام لوگوں کا پرورش کرنے والا ہے۔ اسے یہ خوب معلوم ہے کہ فلاں شخص کے فلاں شر سے فلاں انسان کو کیا تکلیف پہنچ سکتی ہے؟ دوسرے یہ کہ تمام انسانوں کا بادشاہ بھی ہے۔ یعنی وہ انسانوں پر پورا اقتدار اور اختیار بھی رکھتا ہے اور ظاہری اسباب پر بھی اس کا پورا کنٹرول ہے۔ تیسرے یہ کہ وہ الٰہ بھی ہے۔ اور الٰہ کے مفہوم میں یہ بات از خود شامل ہے کہ وہ ہر ایک کی فریاد سنتا اور اس کی داد رسی بھی کرسکتا ہے اور تمام باطنی اسباب پر بھی اس کا کنٹرول ہے۔ اور حقیقت میں ایسی ہی ہستی اس بات کی سزاوار ہوسکتی ہے کہ لوگ اس سے دوسروں کے شر سے پناہ طلب کریں۔ وہ پناہ دے بھی سکتا ہے اور دوسروں کے شر سے محفوظ بھی رکھ سکتا ہے۔ الناس
4 [٢] خناس کا لغوی مفہوم :۔ وَسْوَاس طبی ّ نقطہ نگاہ سے یہ ایک مرض ہے جسے وہم بھی کہتے ہیں۔ یہ مرض غلبہ سودا کی وجہ سے ذہن کو ماؤف کردیتا ہے اور انسان ایسی فضول باتیں کرنے لگتا ہے جو پہلے اس کے ذہن میں نہیں ہوتیں۔ دل میں آنے والی برائی اور بے نفع بات اور شرعی نقطہ نگاہ سے اس کا معنی شیطان کا کسی برے کام کی طرف راغب کرنا اور برے خیال دل میں ڈالتے رہنا اور اس کی نسبت صرف شیطان کی طرف ہوتی ہے۔ جس کی ایک صفت خَنَّاس ہے اور خَنَّاس شیطان ہی کا صفاتی نام ہے۔ خَنَّاس بمعنی ظاہر ہو کر چھپ جانے والا یا سامنے آکر پھر پیچھے ہٹ جانے والا۔ شیطان کا یہ عمل صرف ایک بار ہی نہیں ہوتا بلکہ بار بار ہوتا ہے۔ وَسوَس کے لفظ میں تکرار لفظی ہے جو تکرار معنوی پر بھی دلالت کرتا ہے۔ شیطان ایک بار وسوسہ ڈال کر چھپ جاتا ہے۔ پھر دوبارہ حملہ آور ہوتا ہے پھر چھپ جاتا ہے تاآنکہ وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ الناس
5 الناس
6 [٣] شیطان کا انسان نفس بھی ہوسکتا ہے جو وسوسے ڈالتا ہے :۔ اَلجِنَّۃُ: انسان کے علاوہ دوسری مکلف مخلوق جن ّ ہے۔ جنوں میں سے کچھ نیک اور صالح بھی ہوتے ہیں اور کچھ خبیث، موذی اور بدکردار بھی۔ اس دوسری قسم کو شیطان کہتے ہیں۔ پھر شیطان کے لفظ کا اطلاق ہر موذی چیز، سرکش اور نافرمان پر بھی ہونے لگا خواہ انسان ہو یا جن یا کوئی جانور۔ مثلاً سانپ کو اس کی ایذا دہی کی وجہ سے شیطان اور جن ّاور جانّ (٢٧: ١٠) کہتے ہیں۔ پھر یہ شیطان یا خناس صرف جن اور انسان ہی نہیں ہوتے بلکہ انسان کا اپنا نفس بھی وسوسہ اندازی کرتا رہتا ہے۔ جیسے فرمایا : ﴿وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ ﴾ (٥٠: ١٦) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دفعہ مسجد نبوی میں اعتکاف بیٹھے تھے کہ رات کو آپ کی زوجہ محترمہ صفیہ بنت حیی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ملنے کے لیے آئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں الوداع کرنے کے لیے ساتھ گئے۔ رستہ میں دو انصاری آدمی ملے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بلایا اور فرمایا کہ یہ میری بیوی صفیہ بنت حیی ہے۔ وہ کہنے لگے۔ ''سبحان اللہ'' (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کون شک کرسکتا ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ”انَّ الشَّیْطَانَ یِجْرِیْ مِنْ ابْنِ اٰدَمَ مَجْرَی الدَّمِ“ (بخاری، کتاب الاحکام۔ باب الشھادۃ تکون عند الحاکم۔۔) یعنی شیطان ہر انسان میں خون کی طرح دوڑتا پھرتا ہے۔ اس حدیث کی رو سے بھی انسان کے اپنے نفس کو بھی شیطان کہا گیا ہے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطبہ مسنونہ کے یہ مشہور و معروف الفاظ ہیں۔ ''وَنَعُوْذُ باللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ أنْفُسِنَا" یعنی ہم اپنے نفوس کی شرارتوں اور وسوسوں سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ معوذات سے دم جھاڑ کرنا مسنون ہے :۔ پہلے لکھا جاچکا ہے کہ سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کو معوذتین کہتے ہیں اور اگر ان کے ساتھ سورۃ اخلاص کو بھی ملا لیا جائے تو انہیں معوذات کہتے ہیں۔ اور آپ کا معمول تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر یہ سورتیں پڑھ کر پہلے اپنے ہاتھوں پر پھونکتے پھر ہاتھوں کو چہرہ اور جسم پر پھیرا کرتے تھے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے بھی واضح ہوتا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی مرض الموت میں معوذات پڑھ کر اپنے اوپر پھونکتے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیماری میں شدت ہوئی تو میں معوذات پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پھونکتی اور اپنے ہاتھ کے بجائے برکت کی خاطر آپ ہی کا ہاتھ آپ کے جسم پر پھراتی۔ معمر نے کہا : میں نے زہری سے پوچھا (یہ دونوں اس حدیث کی سند کے راوی ہیں) کہ کیونکر پھونکتے تھے۔ انہوں نے کہا : دونوں ہاتھوں پر دم کرکے ان کو منہ پر پھیرتے (بخاری۔ کتاب الطب و المرضیٰ۔ باب الرقی بالقرآن والمعوذات) تعویذ لکھ کر پلانا یا لٹکانا سب ناجائز اور بدعت ہے :۔ واضح رہے کہ دم جھاڑ کے سلسلے میں مسنون طریقہ یہی ہے کہ قرآن کی کوئی آیت یا آیات یا مسنون دعائیں پڑھ کر مریض پر دم کردیا جائے۔ اس کے علاوہ جتنے طریقے آج کل رائج ہیں۔ مثلاً کچھ عبارت لکھ کر یا خانے بناکر اس میں ہندسے لکھ کر اس کا تعویذ بنا کر گلے میں لٹکانا۔ یا گھول کر پانی پلانا یا بازو یا ران پر باندھنا سب ناجائز ہیں۔ بلکہ اگر قرآنی آیات یا مسنون دعائیں بھی لکھی جائیں جن میں شرک کا شائبہ تک نہ ہو تب بھی یہ خلاف سنت، بدعت اور ناجائز ہیں۔ اور ہم انہیں بدعت اور ناجائز اس لیے کہتے ہیں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طرح تعویذ لکھنے لکھوانے کو اچھا سمجھتے تو اس دور میں بھی لکھوا سکتے تھے اور اس میں کوئی امر مانع نہ تھا۔ لہٰذا ایسے سب طریقے ناجائز اور خلاف سنت ہیں اور بدعت کی تعریف میں آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے چوتھی جلد تمام ہوئی اور قرآن مجید کی یہ تفسیر ’’ تسیر القرآن‘‘مکمل ہوئی الناس
Flag Counter